

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
نم
رشید سندیلوی
حیرت، معمول، معکوس، انا کے دستانے
اور نم (اضافہ) کے اشعار سے انتخاب
انتخاب: منیب شہزاد
کتابیں
حیرت 2023
معمول 2024
معکوس 2024
انا کے دستانے 2025
نم (اضافہ)
حیرت
تیری باتیں اچھی لگتی تھیں
ٹھنڈی راتیں اچھی لگتی تھیں
اپنی آنکھوں سے تجھے کیسے مکمل دیکھیں
کتنے عاجز ہیں یہ تصویر بنانے والے
آستینوں میں سانپ پلتے ہیں
سائے اہرام سے نکلتے ہیں
اپنا زادِ سفر اٹھا لینا
وقتِ رخصت یہیں ملوں گا میں
ہم جنہیں جھک کے ملا کرتے تھے
ان کو اپنی ہی انا نے مارا
سورج بجھا تو یار سبھی گھر کو چل دیے
ایسے میں اک چراغ جلانا پڑا مجھے
دن تو کاموں میں کسی طور گزر جاتا ہے
رات ڈھلتی ہے تو اک خوف سا آتا ہے میاں
اب کوئی معجزہ نہیں ہو گا
دستِ عیسیٰ عطا نہیں ہو گا
چمکتے چاند کا امشب نظارہ کر لیا میں نے
کسی کے عشق میں دل پارہ پارہ کر لیا میں نے
اٹھے جو نیند سے تو سب کچھ بدل گیا
کچھ لوگ سو رہے تھے صدیوں سے غار میں
ہو نے لگتی ہے سب تھکن کافور
عاشقی ایسا شامیانہ ہے
تُو تو اترا ہی نہیں ذات کی پنہائی میں
تجھ کو اندازہ نہیں جھیل کی گہرائی کا
دوست آتے ہیں تو رونق بھی چلی آتی ہے
ورنہ میں درد کی حالت میں پڑا رہتا ہوں
وقت زنجیر ڈال دیتا ہے
کوئی بھی بے وفا نہیں ہوتا
حالتِ وجد ہی میں رہنے دو
اک یہی التماس ہے مرشد
میں نے جانا ہے سوئے کرب و بلا
اور کمزور سی سواری ہے
وہ میرا شہر کہ جس میں وفا شعاری تھی
بڑے قرینے سے کوفہ بنا دیا اس نے
آپ بھی پاس آ نہیں سکتے
اور گاؤں بھی دور ہے جاناں
میں کسی پیڑ میں پوشیدہ پیمبر تو نہیں
پھر مرے جسم پہ چلتے ہیں یہ آرے کیسے
روشن اگر چراغ نہ میری لحد پہ تھا
اس کا مکان بھی تو اندھیرے کی زد پہ تھا
کسی بھی بات پہ میں نے زباں نہیں کھولی
اسی سکوت سے پھیلیں گے میرے افسانے
جب بھی تاریخ پر نظر ڈالوں
آتش و خون کی جھلک دیکھوں
جوشِ جنوں بلند تھا میرا بھی عشق میں
پھر رفتہ رفتہ میری بھی آواز مر گئی
ایسے لکھا گیا ہوں پیچیدہ
میں خلاصہ نہیں ہونے والا
بوئے گل سے کیا مطلب
اس کی باس کافی ہے
اپنے آنگن میں اندھیرا نہیں ہونے دیتے
میرے بچے مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے
اپنی قسمت سے لڑ نہیں سکتا
ہونے والا ہے جو بھی ہونے دو
میرا ہمزاد اب قدم بہ قدم
اپنی ایڑی اٹھا کے چلتا ہے
اہلِ مرداں کا یہ تصوف ہے
زخم کھا کر علی علی کہنا
ظلمتِ شب ہے یہ چٹان نہیں
شمع کوئی جلا بھی سکتا ہے
میری حاجت کو کوئی کب سمجھا
جو ملا اپنی ضرورت سے ملا
یوں تو دیکھے تھے بڑے ہم نے یہاں شعلہ نوا
تیری گفتار کا اک اور ہی عالم دیکھا
گھر کی دیوار پر لگی مورت
چوکھٹے سے نکل بھی آتی ہے
اپنے ساحل پہ پہنچ جاؤں گا
راہ آسان گرانی کم ہے
کون کہتا ہے کہ مٹ جاتے ہیں زخموں کے نقوش
آگ بجھتی ہے تو شعلوں کو ہوا دیتے ہیں لوگ
کیا بتاؤں میں شامِ تنہائی
غم کی رسی سے جھولنا میرا
کسی کے سرخ لبوں کا طلسم ہے شاید
گزر گئی ہے صبا پُر بہار کر کے مجھے
درسِ ہستی تو عاجزانہ تھا
پر وہ انداز تاجرانہ تھا
اپنے احباب تم بلا لینا
میں پرندوں کو ڈھونڈ لاؤں گا
ترے وصال پہ سیف الملوک پڑھتے تھے
ترے فراق میں اب ہیر گنگناتے ہیں
کچھ سمے اور جی ہی لیتے ہم
گھر کی حالت نے مار ڈالا ہے
آنے والا ہے فیصلہ کوئی
اپنی گردن جھکا کے بیٹھا ہوں
اب تو جلتے ہی نہیں آگ سے ہم اور کبھی
حسن اور ناز سے اک آگ سی لگ جاتی تھی
اک سانحہ ہونے والا ہے
کوئی ذات ڈبونے والا ہے
مجھ کو ہی کم دکھائی دیتا ہے
اس کے منہ پر کوئی نقاب نہیں
مشعلِ آس بجھ گئی آخر
روشنی اختتام کو پہنچی
میرے احباب مری راکھ کو نت چھانتے ہیں
میں نے شعروں میں سمویا ہے خلاصہ اپنا
بے زبانوں کو قید کر کے وہ
لب کشائی کی باتیں کرتے ہیں
غالبِ خستہ کی تلاش میں تھا
رابطہ میر سے نکل آیا
مجھ سے مل کر تجھے ملے گا کیا
میں فقط آئینہ دکھاؤں گا
مجھ کو کعبہ نظر نہیں آیا
عمر بھر میں طواف کرتا رہا
بہت ہی تیز ہوا تھی خراب رستہ تھا
ہمارے گرد قضا تھی خراب رستہ تھا
امن پر ہی یقین تھا میرا
مجھ کو خنجر بدست اس نے کیا
رت جگے خواب مرے قاتل ہیں
میرے ارباب مرے قاتل ہیں
گل کو بادِ صبا میسر ہے
آدمی کو خدا میسر ہے
پنا پیغام ہی محبت ہے
ہم کو یارا نہیں سیاست سے
میرے تنکے سنبھالنے والے
کون دیکھے گا میرا شیرازہ
لاکھ ہوں قربتیں مگر پھر بھی
واہمے مختصر نہیں ہوتے
کچھ ستارے ٹوٹ کر ہیں گر بھی جاتے
چاند کی گاڑی بھی پھٹ جاتی ہے اکثر
میری تمام زیست محبت میں کٹ گئی
اب لوگ بولتے ہیں میں زندہ نہیں رہا
میں یہاں چھپ کے تو نہیں بیٹھا
سارے احباب جانتے ہیں مجھے
یک پردے پہ بنا آیا ہوں چہرہ اس کا
شہر کا شہر نمائش میں امڈ آیا ہے
ر کوئی بروٹس تھا
یہ حقیقت اب سمجھا
سات رنگوں کا توازن دیکھو
حسنِ فطرت میں غزل ہوتی ہے
نگ اور نقش نگاری کے کسی جادو سے
دامنِ آب پہ تصویر بناتے جانا
جنوں کے دشت سے نکلا ہوں ایک لمحے میں
غبارِ غم کو خط رہگزار کرتا ہوا
وہ جگہ بتکدہ سمجھتا ہوں
جہاں اللہ ہو نہیں ہوتا
لب ہلائے نہ استخارہ کیا
اولیں عشق پر گزارہ کیا
ہر تعلق کو یہاں توڑ کے جا سکتے ہیں
راہ میں دوست مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہیں
ذات کے بیکراں خطے میں
مل رہے ہیں خدا اور میں
اپنی اوقات میں خوش رہتا ہوں
میں مضافات میں خوش رہتا ہوں
تمہارے حسن کا میں اعتراف کرتا ہوں
جو گرد شیشے پہ ہے اس کو صاف کرتا ہوں
تیرا ملنا ہی بڑی نعمت تھی
میں نے جنت میں قدم رکھا تھا
شام کا وقت تھا بچھڑنے کا
پھر سے امکاں نہیں تھا ملنے کا
وہ کوئی خواب تھا یا وہم کا تسلسل تھا
عجیب سائے ہمیں رات بھر بلاتے رہے
آنکھ میں کوئی سلامت نہ رہا نقش و نگار
کچھ شبیہیں ہیں کہ بہتر نظر آتی ہیں مجھے
تیری الفت میں ڈوبنے والے
اور کوئی آرزو نہیں کرتے
رے ہی قتل میں ملوث ہیں
جن کے ہاتھوں کو چومتا ہوں میں
ڈر کے اترا نہیں تھا پانی میں
پھر بھی مجھ کو ڈبویا پانی میں
ڈوب جائے نہ مسافر کوئی
بوجھ کشتی سے اتارا میں نے
پھر وہی کرب و بلا ہے درپیش
ہم کو کوفے کی ہوا ہے درپیش
قہقہے اضطراب دیتے ہیں
چین ملتا ہے اشک باری سے
شب ہائے زمستاں ہو یا پت جھڑ کا موسم ہو
ترے ذکر سے جشنِ بہاراں کر لیتا ہوں میں
مر کے بھی میں روشنی پھیلاؤں گا
اپنے مرقد کا دیا ہونے کو ہوں
دائرے میں ہی گھومنا ہے سدا
کیا کہیں پر مماس ہے مرشد
دونوں عالم نظر آتے ہیں مجھے
جب بھی وحشت میں غزل ہوتی ہے
دل کے داغوں کو بھی رکھتے ہیں چھپا کے ہر دم
اپنے زخموں کا تماشا نہیں ہونے دیتے
مجھ کو جھکنے کا سبق دیتا تھا
اپنے ہمزاد کو مارا میں نے
ہم اک ریل پہ گاؤں جاتے تھے
اور ملاقاتیں اچھی لگتی تھیں
ہو گئے خاک نشیں خاک اڑانے والے
خود ہی مٹنے لگے آثار مٹانے والے
اب سرِ رہ نہیں ملوں گا میں
لا مکاں میں کہیں ملوں گا میں
تیغِ دشمن سے جو بچ نکلے تھے
ان کو اپنوں کی جفا نے مارا
وئی بھی راستے میں مرا ہمسفر نہ تھا
جنگل کے بیچ رستہ بنانا پڑا مجھے
دن نکلتا ہی نہیں شب کے پری خانوں میں
اپنے چہرے کو جو زلفوں میں چھپاتا ہے میاں
مار ڈالیں گے وسوسے ہم کو
دل اگر آئینہ نہیں ہو گا
جھے جب ملنے آتا تھا کسی کے ساتھ آتا تھا
سو رفتہ رفتہ دشمن کو گوارہ کر لیا میں نے
تیرے سفر کے بارے میں جانتا نہیں
چکر لگا رہا ہوں اپنے مدار میں
جس کا شہرہ تھا بہت دل کی مسیحائی کا
اس نے دیکھا نہیں عالم مری تنہائی کا
آئینہ توڑ کے حیرت میں پڑا رہتا ہوں
عکس چننے کی جسارت میں پڑا رہتا ہوں
دو پرندوں کی یہ کہانی ہے
عشق میں تیسرا نہیں ہوتا
معمول
قد سے اونچی تھیں دیواریں
زنداں میں کیا ہو سکتا تھا
.
جب ترے عشق میں مشغول نہیں ہوتا تھا
اس قدر درد کا معمول نہیں ہوتا تھا
.
اپنی تلوار پھینک بیٹھا ہوں
مجھ کو قیدی بنا کے لے جاؤ
.
وہ ایسا شہر تھا جس میں نہیں تھے ہمسائے
میں ایک دشت کے اندر کھنڈر میں رہتا تھا
میرا شیرازہ کسی وقت بکھر سکتا ہے
میں ترے پاس تو جانے کے لئے آیا ہوں
ہماری حسرتِ تعمیر پر نہ نام رکھو
کہ کم سواد بھی اپنا چمن تراشتے ہیں
.
میں بھی تھا زندہ بشر جنگ سے پہلے پہلے
پھر کوئی لوتھڑا میدان میں رکھا گیا تھا
.
حوصلہ جب کسی سالار کا مر جاتا ہے
لشکری ہاتھ سے تلوار گرا دیتے ہیں
.
شجر کی شاخ پہ کوئی بھی آج پھول نہیں
خزاں کی رت میں عبث ہم نے باغبانی کی
اس غرفے کی جالی میں جب چاند ہویدا ہو
اک بجلی چمک جائے جب ذکر ترا آئے
.
کچھ بھی حاصل نہیں مدقوق تجسس کے سوا
کھل اٹھا خاک سے امسال گزشتہ موسم
.
پوچھتا ہوں میں شجر کاروں سے
یہ نمو کتنے برس باقی ہے
.
رابطے کھو گئے اور لوگ خفا ہو بیٹھے
جن سے بھی ہاتھ ملایا وہ خدا ہو بیٹھے
.
پھر بھی بڑے وقار و متانت سے بات کی
ہر چند انہدام تھا اپنا محاذ پر
.
ہم نے سیکھا ہے یہ شہیدوں سے
اپنی ہستی مٹا کے جیتے ہیں
اگر کلام کو میرے قبولِ عام ملا
اداس لوگوں کے غم پر بھی نوحہ لکھوں گا
.
جہاں غبار میں تم مجھ کو چھوڑ آئے تھے
اسی غبار میں میری لحد تلاش کرو
.
میں نے پوچھا کہ یہ فنا کیا ہے
زرد پتے زمیں پہ گرنے لگے
.
ایسے لگتا ہے کہ کچھ کھو سا گیا ہے میرا
جب تری یاد مرے ساتھ نہیں ہوتی ہے
.
زخم یہ اچھے ہو جائیں تو
سینہ کوبی تب ممکن ہے
.
کوئی بھی عکس مجھے یاد نہیں
صرف شیشے کی طرح زندہ ہوں
جنگ میدان میں جذبے سے لڑی جاتی ہے
گر چکی ہے مری تلوار اٹھا لوں کیسے
وہ کسی نیند سے نہیں پایا
جو سکوں رَتجگے کے اندر تھا
.
اس طرح اختتام ہو میرا
عشق میں انہدام ہو میرا
.
زندوں کو میں روتا ہوں کہ قبروں پہ کھڑا ہوں
اس شہر میں سنگینیِ حالات بہت ہے
.
ان کی نفرت کو بھی اندازِ محبت سمجھا
میرے یاروں نے مجھے مالِ غنیمت سمجھا
.
کتنا سادہ تھا عقیدت کے صنم خانے میں
اپنے قاتل کو بھی میں پیرِ طریقت سمجھا
رات پڑتی ہے تو گر پڑتا ہوں سونے کے لئے
اب تو فرصت بھی میسر نہیں رونے کے لئے
جو سوز ہم نے تری گفتگو میں دیکھا ہے
کسی ندی نہ کسی زمزمے کے اندر تھا
.
تم نے خنجر اٹھا کے دیکھ لیا
تم پہ خنجر نہیں اٹھاؤں گا میں
.
جانے کیا سوچ کے بندوق اٹھا لی میں نے
لوگ تو اور بھی لاچار نظر آتے ہیں
.
غم نہ کر خواب کے بکھرنے کا
پھر نئے خواب بُن رہا ہوں میں
.
بجلی تھی کہ تھا تھرکتا پارہ
جو وقتِ دھمال میں نے دیکھا
.
آپ بھی درد کا چارہ نہیں کرنے والے
ہم بھی اظہار دوبارہ نہیں کرنے والے
ایسے مل لیتے ہیں ہم کیفے میں
جیسے دو آبے بہم ملتے ہیں
.
سخت پہرہ ہے ان فصیلوں پر
پھر بھی خوف و ہراس رہتا ہے
.
حوصلہ باقی نہیں ہے میرا
پھر مجھے لڑنے کی طاقت دے دے
.
اس نے بھی اپنے نیزے کی نوک تیز کی
مرہم لگا دیا ہے میں نے بھی گھاؤ پر
.
بارش تھی اک ہوا تھی وہ موسم بہار تھا
لیکن میں ایک اور ہی منظر میں گم ہوا
. وقت ڈھلتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں
شہر کے ساتھ مضافات بدل جاتے ہیں
اپنی اپنی انا کی دنیا ہے
آگ پانی ہوا کی دنیا ہے
.
دفن ہیں جس میں ہماری لاشیں
ایسا تابوت اٹھا کے لایا ہوں
.
قوسِ قزح کا رنگ بھی پھیکا سا پڑ گیا
حسن و جمالِ یار کا ہمسر نہیں رہا
.
علم کی معتبر دلیلوں سے
مجھ کو میرے خلاف اس نے کیا
.
یہ اور بات ترا انتظار کرتے تھے
تمام رات ستارے شمار کرتے تھے
.
تو نے دیکھا ہے کوئی شام کا رنگیں منظر
میں نے تو خون میں ڈوبے ہوئے چہرے دیکھے
یہ ملاقات غنیمت ہی تو ہے
پھر ملاقات نہیں ہو سکتی
.
غموں کی تیز نکیلی چٹانیں ڈھو ڈھو کر
بدن کے ساتھ پھٹے ہیں انا کے دستانے
.
اس سمے ہی خزاں نے دستک دی
جب شجر برگ و بار میں گم تھا
.
اس سے محوِ کلام ہوں میں
جس طرح موسیٰ بولتا ہے
.
پوچھتا ہوں میں اہلِ بینش سے
دکھ سے کیسے نجات ملتی ہے
گفتگو پر یقین ہے میرا
اور تلوار بھی ضروری ہے
مجھ کو منصور نے ہے سمجھایا
تختۂ دار بھی ضروری ہے
.
کفر کا فتویٰ لگایا ہے مرے یاروں نے
میں نے سمجھا تھا مقدس تری پیشانی کو
.
یہ حقیقت ہے کہ مر جاؤں گا
گہرے پانی میں اتر جاؤں گا
.
غم بٹانے کئی غم خوار بھی چل پڑتے ہیں
عشق سچا ہو تو اشجار بھی چل پڑتے ہیں
.
عجب اک بے قراری ہے غزالاں تم تو واقف ہو
فضائے مرگ طاری ہے غزالاں تم تو واقف ہو
وہ بچھڑ جانے کا عالم نہیں دیکھا جاتا
ہم سے ہر روز کا ماتم نہیں دیکھا جاتا
.
اسی غبار سے رخ کا جمال چمکے گا
نئے سفر کے اشاروں کی آمد آمد ہے
.
جب بھی ڈھلتا ہے شام کا سورج
سایہ قد سے بڑا ہو جاتا ہے
.
رزق کی میرے گھر میں فراوانی ہے
ہر گھڑی رونے کی مجھ کو آسانی ہے
.
دل کا صحرا ہرا ہو گیا
یہ بھی اک معجزہ ہو گیا
.
ایسا تھا مرا جرم کہ معتوب ہوا میں
عیسیٰ کی طرح ہی سے تو مصلوب ہوا میں
در ہی کھلتا ہے نہ دیوار کبھی گرتی ہے
عمر بھر رو کے چلا جاتا ہے رونے والا
.
کیا مداوا دلِ مضطر کا کرے گا کوئی
جس نے آنا تھا وہ ہرگز نہیں آنے والا
.
وہ بھی دن تھے کہ چمکتا تھا ستاروں جیسا
ان دنوں پاؤں کی میں دھول نہیں ہوتا تھا
.
تخت پر پاس بٹھایا تھا مجھے یوسف نے
کوئی برتن مرے سامان میں رکھا گیا تھا
.
جس نے تاریخ سے کچھ سیکھا نہیں ہوتا ہے
ایسی ہر قوم کو مٹی میں ملا دیتے ہیں
.
شہر کا شہر زمیں بوس ہوا
ایک پیتل کا کلس باقی ہے
دبا ہی دوں گا میں تشکیک کے بھی سب عنصر
خدا کے بارے میں اتنا نہیں مَیں سوچوں گا
.
ناحق لہو بہانا بھی ظلمِ عظیم ہے
مارو نہ اپنے بھائی کو نیزہ محاذ پر
.
کسی بھی طور مجھے بھولنا نہیں ممکن
نہ میرا قتل کرو اور نہ رد تلاش کرو
.
دیکھتا ہوں میں سرِ طور تجلی کوئی
بات کرتا ہوں تو پھر بات نہیں ہوتی ہے
.
اک دوست تشنگی کی رفاقت کو چھوڑ کر
پھولوں کے بیچ آبِ معطر میں گم ہوا
.
شبنم کا معتقد ہوں نہ آتش پرست ہوں
میں خواب بُن رہا ہوں کہ خواہش پرست ہوں
کٹ گئے جنگ میں لڑتے ہوئے بازو میرے
شدتِ درد سے نکلے نہیں آنسو میرے
.
ڈوبنے والے کو دریا سے نکالا نہ گیا
کوئی سکہ بھی مداری سے اچھالا نہ گیا
.
کیسے روکوں گا میں بڑھتی ہوئی حیرانی کو
میں نے جلتے ہوئے دیکھا ہے کہیں پانی کو
.
حاصل نہ ہوئے ہم کو اشجار کے سائے
بھاگے ہیں بہت ہم سے دیوار کے سائے
.
رات بھی بیت چلی کوئی نہیں آئے گا
سنساں پڑی ہے گلی کوئی نہیں آئے گا
.
خواب و خیال ہو گئے نذرِ زوال ہو گئے
سارے کمال چھن گئے بے خد و خال ہو گئے
سر اٹھاؤں تو سب دکھائی دے گا
ذرے ذرے میں رب دکھائی دے گا
ایک شیشہ تھا اس کو توڑ گئے
میرے احباب مجھ کو چھوڑ گئے
دیکھنے والے کو اچھا دکھائی دیتا ہے
آپ کے شہر میں سبزہ دکھائی دیتا ہے
ہم ترا انتظار کھینچتے ہیں
ایسے لیل و نہار کھینچتے ہیں
سبز پتوں کو پاؤں تلے باندھا تھا
میں نے گھوڑے کو چھاؤں تلے باندھا تھا
تجھ کو سوچوں تو غزل ہوتی ہے
تجھ کو دیکھوں تو غزل ہوتی ہے
مرے زخموں کا ازالہ نہیں ہونے والا
اب چراغوں سے اجالا نہیں ہونے والا
کان میں ایسے سخن پڑتا ہے
جیسے گھمسان کا رن پڑتا ہے
آئینہ توڑ کے ہم لوگ نہیں جا سکتے
آپ کو چھوڑ کے ہم لوگ نہیں جا سکتے
کوئی آرزو نہیں ہے تجھے دیکھنے کے بعد
بڑی زندگی حسیں ہے تجھے دیکھنے کے بعد
شاخ سے اک آشیاں گرنے کو ہے
اس زمیں پر آسماں گرنے کو ہے
.
کوئی رہزنوں سے گلا نہیں مجھے رہنما نے دغا دیا
کبھی جس پہ مجھ کو غرور تھا اسی آشنا نے دغا دیا
گھر سے شہرِ بے اماں جانا پڑا
ہم کو سوئے دشمناں جانا پڑا
ترے غم کے حصار میں رہوں گا میں
اسی لیل و نہار میں رہوں گا میں
دلِ ناکام سے ڈر لگتا ہے
اپنے انجام سے ڈر لگتا ہے
دشت میں سر پہ کڑا سورج ہے
اپنی قامت سے بڑا سورج ہے
بات کرنے کی آرزو ہے ابھی
اس سے ملنے کی جستجو ہے ابھی
اک عجب صورتِ حالات نظر آتی ہے
دور تک گہری سیہ رات نظر آتی ہے
دکھائی دیتا تو ہے دور سے آتا ہوا سایا
مگر واضح نہیں آنکھوں میں لہراتا ہوا سایا
معکوس
جب کبھی گاؤں کی طرف جاتے تھے
دھوپ میں چھاؤں کی طرف جاتے تھے
یہ کیسا خواب دکھایا گیا تواتر سے
مجھے ہوا میں اڑایا گیا تواتر سے
پھر کبھی لوٹ کر نہ آؤں گا
یہ مرا آخری تماشا ہے
یہ اور بات کی ہے عدو سے مبارزت
مقتول تو ضرور ہوں قاتل نہیں ہوں میں
میرے اشعار کا مفہوم نہیں کھلتا ہے
جیسے کم بخت کا مقسوم نہیں کھلتا ہے
ایک مدت سے دل کے حجرے میں
نازک اندام سی اداسی تھی
اتنی اونچائی پہ بنیادِ ستم گاری ہے
کیسے ممکن ہے کہ دیوار گرا دے کوئی
قیصر و کسریٰ بھی باقی نہ رہے
قابضِ دجلہ بھی باقی نہ رہے
رشید کوئی نہ آئے گا آپ سے ملنے
ہوائے سرد مگر در کو کھٹکھٹائے گی
وسوسوں کے لگے ہیں جالے سے
دل کے زنگار کو شیشہ کر دے
زندگانی ہے یا عقوبت گاہ
میرے بھائی بڑی اذیت ہے
ہے وہی تو بھی اور وہی سپنے
اور وہی ہے جمود میرا بھی
لب پہ لاتے نہیں کوئی بھی شکایت لیکن
باتوں باتوں میں تری بات بھی آ جاتی ہے
یاد آتا ہے مجھے جب بھی بچھڑنا تیرا
روک سکتا نہیں آنکھوں میں نمی شام کے بعد
جب فراغت کا وقت ہوتا ہے
اپنے بارے میں سوچتا ہوں میں
امن کے مندروں میں جھک جاؤ
تم نے جنگوں کا حال دیکھ لیا
مجھ کو یقین ہے یہ اپنے گمان پر
میرا خدا بھی رہتا ہے آسمان پر
جو کھو چکا ہو چاہتوں کی روشنی
اس اندھے کو کہاں دکھائی دیتا ہے
وقت تو بچوں کے سنگ بھی کٹ جاتا ہے
لیکن دن جو گزرے تھے ماں باپ کے ساتھ
سردیوں کی راتوں میں ہجر مار دیتا ہے
گیلی شاخ جلنے میں تھوڑی دیر لگتی ہے
تم بھی دیکھو نہ دیکھنا اپنا
ہم بھی جلوے خدا کے دیکھتے ہیں
شام کو بارشوں کے موسم میں
دیر تک بھیگنے کی خواہش ہے
میری آنکھیں بجھنے کو ہیں
کیسے تیرا رستہ دیکھوں
ہم نے تو نبھانے ہیں اس زیست کے رشتے
اس شخص کے جانے سے مر تو نہیں جانا
اڑا جا رہا ہوں مداروں کی سمت
کشش ہے عجب چاند تاروں کی سمت
چپکے چپکے تارے رخصت ہو گئے
کیسے کیسے پیارے رخصت ہو گئے
وقت تو ساعتوں میں ڈھلتا تھا
ہم جسے ماہ و سال کہتے تھے
چائے خانے پہ ملاقات تری کافی ہے
میں تری ذات کو محبوس نہیں کر سکتا
پہلے پہل تو اس نے محبت سے بات کی
پھر یوں ہوا کہ زہر سے مارا گیا مجھے
آسودگی کے میں نے بھی دیکھے تھے چند خواب
اُس نے مگر حیات کو پیچاک کر دیا
اپنی مٹی سے پیار کرتے ہیں
جان بھی اپنی نثار کرتے ہیں
کچھ بھی پنہاں نہیں خوابوں کے علاوہ اس میں
میرے پہلو میں جو زنبیل پڑی ہے میری
میں نے اک پیڑ لگانا ہے کہ بس یاد رہے
ورنہ اس پیڑ کی چھاؤں سے بھی کیا لینا ہے
سارا منظر سرے سے ہے معکوس
باغ میں دشت کا نظارہ ہے
غیر ممکن ہے جان بر ہونا
درد ابکے شدید لگتا ہے
بہت اداس تھا سورج غروب ہوتا ہوا
قریب میں بھی کھڑا تھا وہیں پہ روتا ہوا
میں نے ڈالی ہیں کمندیں خود پر
اپنی ضربوں ہی سے مضروب ہوا
جس پہ سائنس ناز کرتی ہے
وہ حوالہ ہی نا مکمل ہے
احباب نے ہر چند محلات بنائے
سو میں نے بھی اشعار کی جاگیر بنائی
یہ تخت بھیک میں لینا مرا اصول نہیں
ہما کا سایہ بھی ہرگز مجھے قبول نہیں
وہی ہے نور جو اترا تھا شہرِ مکہ میں
کوئی چراغ یا سورج مرا رسول نہیں
جس حسنِ جہاں تاب پہ لکھتا ہوں میں غزلیں
صد حیف اسی ذات نے مارا ہے مجھی کو
گلاب ہے مری نظروں میں زندگی ورنہ
زمیں پر بہتا ہوا میں نے خوں بھی دیکھا ہے
خوش پھرے کیوں نہ وہ زمانے میں
جس کا بیٹا کمانے والا تھا
مرے زخموں کو نہ تولو مجھے گھر جانے دو
میری زنجیر کو کھولو مجھے گھر جانے دو
تمہارے شہر میں بہبود و باش کرتا رہا
تمام عمر محبت تلاش کرتا رہا
تجھ کو پا کر بھی مصیبت میں پڑا رہتا ہوں
کیسا ملنا ہے کہ فرقت میں پڑا رہتا ہوں
میں نے بیچے ہیں سبھی خواب جزیرے اپنے
تیرے گلشن ترے اشجار نہیں بیچے ہیں
اِسی لئے ہے یہ اندھیرا سا گلی کوچوں میں
آپ نے روشنی کو عام نہیں ہونے دیا
جسم مفلوج سر مقفل ہے
کچھ دنوں سے یہ گھر مقفل ہے
میرے عدو نے آن کے گھیرے میں لے لیا
سب دوست خیمہ زن رہے پیچھے پہاڑ کے
چلتی ہے ہوا معکوس
وقت ہے سدا معکوس
ذرا سی بات پہ تلوار کھینچ لیتے ہیں
عجیب لوگ ہیں دیوار کھینچ لیتے ہیں
ہمیں کب آتے تھے آداب بات کرنے کے
مکالمہ تو تری گفتگو سے سیکھا ہے
سارے عاشق بڑے حیران بنے بیٹھے ہیں
آپ کیوں جنگ کا میدان بنے بیٹھے ہیں
مسند کو بچایا نہ ہی تلوار سنبھالی
ہم نے تو فقط رونقِ بازار سنبھالی
ہر شخص یہاں آئینہ بردار ہے پھر بھی
دیکھا نہ کسی نے دلِ بیمار کا عالم
زخم خوردہ کوئی دلگیر پڑا ہوتا ہے
جیسے فتراک میں نخچیر پڑا ہوتا ہے
عرصے سے گفتگو کا دریچہ ہی بند تھا
اس نے کیا کلام غزل لکھ رہا ہوں میں
دھوپ کی شدت میں سارے ہی منظر مدھم ہو جاتے ہیں
حسن بھی کملا جاتا ہے اور گیسو برہم ہو جاتے ہیں
غم کا چارہ بھی نہیں ہونے کا
اب گزارہ بھی نہیں ہونے کا
کوئی پیتا ہے سامنے سب کے
کوئی زیرِ نقاب پیتا ہے
پھر یوں ہوا کہ تاج مرے سر پہ رکھ دیا
پہلے تو پھانسی گھاٹ پہ لایا گیا مجھے
کئی پردے مری آنکھوں پہ گرا دیتے ہیں
جب بھی ملتے ہیں کرامات دکھا دیتے ہیں
کشتی کے ڈوبنے کا بھی منظر عجیب تھا
ساحل پہ اپنے ہاتھ بھی ملتے رہے ہیں ہم
مجھ کو ملنا ہے مری جان تو جلدی مل لے
میں زیادہ نہیں ٹھہروں گا چلا جاؤں گا
دل کہاں اتنا سخت ہے میرا
صرف لہجہ کرخت ہے میرا
گھنی سیاہ رات ہے اور آخری تماشہ ہے
ترا حسین ساتھ ہے اور آخری تماشہ ہے
یہ کس خمیر میں مدغم کیا گیا ہے مجھے
بڑے کمال سے مبہم کیا گیا ہے مجھے
میرے اندر کا یہ انسان نہیں بدلا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ ہمزاد بدل جاتے ہیں
اس واسطے کچھ خون وریدوں میں بچایا
"شاید ترا ناخن کبھی محتاجِ حنا ہو”
حبس بڑھتا ہے تو ہمزاد مرا
مرے کمرے سے نکل جاتا ہے
حسن ڈھل جاتا ہے یہ آخر کار
چند روزہ یہ حکومت کیا ہے
میرے حالات ہی کچھ ایسے تھے
اس کی زلفوں کو سنوارا نہ گیا
جھے بھنور سے نکلنے کی سعی کرنی ہے
غریق ہوکے کنارا نہیں ملے گا مجھے
موت سے وہ فنا نہیں ہوتا
جو نظر سے شہید ہوتا ہے
ایسی حمام کی سہولت ہے
سبھی کردار ناچ سکتے ہیں
مرے نقوش مرے عکس ہو گئے معکوس
کسی نے الٹا دکھایا ہے آئینہ پھر سے
میں جہاں مکین تھا برسوں سے
وہ مرا مکان تھا ہی نہیں
آج بھی کاسہ لئے پھرتے ہیں افلاس زدہ
کجکلاہی وہی تلوار لئے پھرتی ہے
کیسے دفناؤں میں اوہام کی شکلیں دل میں
اس سمندر میں تو تکفین نہیں ہوتی ہے
پھونک دیتا ہے وہ سب ہی خاشاک
عشق آسان نہیں ہوتا ہے
پسِ دیوار ہوں میں افسردہ
وہ بھی بیزار ہے پسِ دیوار
ابہام سے دور ہی رہا ہوں
سادہ سی ہے شاعری ہماری
الجھی ہیں مری سوچیں دھاگوں کی طرح پیہم
جنگل میں بھٹک جائیں تو رستہ نہیں ہوتا
وحشت لئے پھرے ہے یہاں سے وہاں مجھے
حیرت سے اب تو دیکھتا ہے آسماں مجھے
اتنا آساں نہیں غزل کہنا
اور پھر دلنشیں غزل کہنا
سینے میں جو چھپی ہے مرے عمر ہو گئی
کمرے میں ٹانک دوں گا وہ مورت نکال کے
ایسے بھی خوش نصیب کہ جو غرقِ غم نہیں
ایسے بھی بد نصیب جنہیں غم نہیں ملا
کئی ناسور ہیں افلاس کے ناسور کے ساتھ
ایک نکتے پہ مسلسل نہیں سوچا جاتا
وہ قحط پڑ گیا تھا جہاں میں جمال کا
جنگل میں کوئی مور بھی اب ناچتا نہ تھا
ہر طرح کے اسرار قرینے سے سجے ہیں
یہ دل ہے مرا یا ہے کوئی جادو کی زنبیل
اپنی حاجات کو پانے کے لئے
ہم نے شاہوں سے گزارش نہیں کی
کب ہمیشہ شباب رہتا ہے
دو گھڑی آفتاب رہتا ہے
خیال آتا ہے مجھ کو اپنی برہنگی کا
لباس اپنے لئے نیا جب کوئی بنائے
سارا شہر گرایا گیا تھا
شاہی حکم سنا کے اچانک
مبہم عکس نمود سے لوگو
سب کو ایک دکھایا گیا تھا
ہم پر تیر چلائے گئے تھے
نا حق خون بہایا گیا تھا
میری تخت نشینی سے پہلے
دھوبی گھاٹ پہ لایا گیا تھا
رخصت کرنے کوئی نہیں آیا
جب کشتی میں بٹھایا گیا تھا
انا کے دستانے
ورنہ میں ڈوب کے ہی مر جاتا
اس کی چیخوں نے ابھارا ہے مجھے
کسی بھی بت کو نہ توڑوں گا میں بنامِ انا
کسی یقین کو غارت نہیں کروں گا میں
گھر کی ویرانی سے پہچان مرتب نہ کرو
پھول کھلنے پہ میں گلدان بھی ہو سکتا ہوں
اپنے عیبوں کو دیکھنے کے لیے
آئینہ رو برو ضروری ہے
کسی یوسف کی طرح سوت کی اٹی کے لیے
میں بھی بکتا ہوا بازار تلک آ پہنچا
سبھی حیران ہیں ماتم کی صدا کیسی ہے
شور بڑھتا ہوا دربار تلک آ پہنچا
موت کا زرد پیل گوں چہرہ
خوش نما زندگی کے پیچھے تھا
مجھ کو آتا نہیں منصور کی باتوں پہ یقیں
ایسی باتوں کی تو تصدیق نہیں ہوتی ہے
میں نے لفظوں سے تراشے ہیں جو پیکر تیرے
کیا مرے شعر سے توثیق نہیں ہوتی ہے
پہلے ہم ڈوب کے آنکھوں سے نکل آتے تھے
اس قدر جھیل کی گہرائی نہیں ہوتی تھی
پہلے گریہ پہ بھی پابندی تھی
اب تو ماتم کی سہولت ہے مجھے
سن رہا ہوں میں اَن سنے نغمے
شورِ شیریں لباں معطل ہے
میں جہاں تھا مکین برسوں سے
وہ تو میرا مکان تھا ہی نہیں
جس کی قربت کے لئے ہم نے سبھی کو چھوڑا
اس نے دل کے کبھی نزدیک نہیں سمجھا تھا
ہر طرف آہ و فغاں ہے اور میں خاموش ہوں
آگ سے بڑھ کر دھواں ہے اور میں خاموش ہوں
کان میں پڑتی نہیں کوئی بھی ماتم کی صدا
اس قدر شورِ سگاں ہے اور میں خاموش ہوں
ڈوبنے والے کو دریا سے نکالا نہ گیا
کوئی سکہ بھی مداری سے اچھالا نہ گیا
اس لئے دیکھ کے چپ چاپ چلا آیا ہوں
تم نہ سمجھو گے مرے دل کی پریشانی کو
پہلے میں شوق سے بوتا ہوں زمیں میں پودے
پھر مجھے نخلِ ثمر بار سے ڈر لگتا ہے
حضرتِ خضر سے ملنے کی تمنا ہے رشیدؔ
مجھ کو ٹوٹی ہوئی دیوار سے ڈر لگتا ہے
جب مرے دل نے کوئی پختہ یقیں باندھا تھا
تب ہی گھوڑا ترے خیمے کے قریں باندھا تھا
نا سمجھ میر کو غالب سے بڑھا دیتے ہیں
شہر پنڈی کبھی کشمیر نہیں ہو سکتا
گو بڑے قصے سناتا ہوں مسیحائی کے
سچ تو یہ ہے کہ کرامات نہیں کر سکتا
سیکھنی پڑتی ہے نخشب کی طرح جادو گری
صرف خواہش سے تو مہتاب نہیں آتا ہے
شیریں کے لئے اشک بہاؤں گا سرِ عام
مر جائے گا فرہاد تو ماتم بھی کروں گا
اپنی دھن ہی میں سدا چلتا رہا
مڑ کے دیکھا نہیں پیچھے کی طرف
کوئی بھی شخص مخیر نہیں تیرے جیسا
جب بھی جاتا ہوں وہ دروازہ کھلا ہوتا ہے
ہر غلط اس کا بھی اب ٹھیک نظر آتا ہے
یہ وہ نکتہ ہے کہ تاویل نہیں ہو سکتی
ہم پرندوں کی تو پرواز فقط اتنی ہے
اڑتے اڑتے تری زنجیر میں آ جاتے ہیں
پھر جگنو کی مانند کبھی اڑ نہ سکا میں
بس ایک ملاقات نے زنجیر سے باندھا
میرے کسی جذبات کو دیکھا نہ کسی نے
جس شخص نے دیکھا مری تقصیر کو دیکھا
نم
(اضافہ)
کسی کے ہجر میں آنکھوں کو نم کیا جائے
بھڑکتی آگ کو تھوڑا سا کم کیا جائے
میں تو عزیزِ مصر کا کمسن غلام تھا
پھر ایک دن زلیخا کی مجھ پر نظر پڑی
جب بھی مظلوم کا مٹی پہ لہو گرتا ہے
کربلا ذہن کے پردے پہ اتر آتی ہے
خواب و خیال ہو گئے نذرِ زوال ہو گئے
سارے کمال چھن گئے بے خد و خال ہو گئے
اپنے سوئے ہوئے لوگوں کو کسی طور رشید
اپنی چیخوں سے میں بے دار نہیں کر سکتا
ساری دنیا کو میں نے کیا کرنا
اس کو مانگا تھا میں نے قدرت سے
کام باقی کیا تھا لہروں نے
کھینچ کر خود کو لایا پانی میں
٭٭٭
تشکر: رشید سندیلوی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں