میں خاص بچہ ہوں
ام ایمان
برآمدے میں ایک طرف بہت سے گملے رکھے ہیں، مما کا شوق ہے۔ طرح طرح کے پودے، بیلیں۔ کتنی خوش ہوتی ہیں مما ان کو دیکھ کر، ایک ایک پتے کو پانی سے صاف کرتی ہیں جیسے ماں اپنے شریر بچوں کے مٹی سے بھرے چہرے دھلاتی ہے، جب وہ کھیل کر آتا ہے۔ ہاں کھیل کر باہر سے اندر آتا ہے۔ خود سے چل کر اپنی ٹانگوں سے۔ میں نے پودوں کو دیکھتے دیکھتے کیا سوچ لیا۔ اپنی ازلی و ابدی خواہش کے بارے میں۔۔۔ میری تمنا ۔۔۔ میری آرزو۔
اوہ ہو! میں اپنا تعارف کرانا تو بھول گیا۔ میں یحیٰ ہوں۔ اپنی امی کا پیارا اور لاڈلا بیٹا۔۔۔ ۔ یوں تو سب ہی بیٹے ماؤں کے لاڈلے ہوتے ہیں لیکن میں کچھ خاص ہوں۔۔۔ ۔ ہاں کچھ خاص۔۔۔ خاص بچہ، دنیا مجھے اس طرح خاص بچہ سمجھتی ہے لوگوں نے میرا نام ہی یہ رکھ دیا ہے۔ یہ جو سامنے سڑک پر بچے کھیل رہے ہیں کسی سے پوچھ لیں۔ سب مجھے اسی نام سے پکاریں گے کسی کو بھی یہ نام یحیٰ پتہ نہیں ہو گا۔ ہاں! انہیں یاد رکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ میں ان کا دوست تو نہیں۔ میں تو کسی کا دوست بھی نہیں ہوں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ میرا کوئی دوست نہیں تو زیادہ درست ہو گا۔ برآمدے میں ریلنگ کے ساتھ یہ جگہ میری پسندیدہ ہے۔ دن کا زیادہ حصہ میرا یہیں گزرتا ہے۔ یہاں میں دور دور تک دیکھ سکتا ہوں۔ سڑک پر کرکٹ کھیلتے بچے، سبزی کا ٹھیلا لیے اور کباڑی کی آواز لگاتے آدمی اور ننھے بچے جو کہ کندھوں پر برا سا میلا کچیلا تھیلا لیے گھومتے رہتے ہیں۔ وقفہ وقفہ سے گزرنے والی گاڑیاں۔۔۔ ۔ کیونکہ یہ سڑک زیادہ مصروف نہیں ہے۔ ذرا اندر کی طرف ہے نا اس لیے۔۔۔ ورنہ تھوڑا آگے جو بڑی سڑک ہے وہاں تو خوب ٹریفک ہوتا ہے۔ زن زن چھوٹی بڑی گاڑیاں، بسیں اور موٹر سائیکلیں تیزی سے چلتی رہتی ہیں۔ میں نے دو چار دفعہ ہی اس سڑک کو دیکھا ہے۔ پہلے پہل تو میں نے سوچا تھا کہ اگر یہ بڑی سڑک ہمارے گھر کے سامنے ہوتی تو میں کتنا انجوائے کرتا ہر طرف خوب چہل پہل ہوتی۔ لیکن ایک دفعہ جب وہاں میں نے ایکسیڈنٹ دیکھا جس میں ایک میرے برابر کا بچہ زخمی ہوا تھا۔ شاید اس کی ٹانگوں میں چوٹ آئی تھی تو میں نے شکر ادا کیا کہ یہ بڑی سڑک ہمارے گھر کے پاس نہیں ہے۔ ورنہ میں برآمدے میں بیٹھ ہی نہیں سکتا تھا۔ بھلا بتائیے تو کون ایسے ایکسیڈنٹ کے نظارے کرنا پسند کرے گا، سب لوگوں کو بھلا اس قدر جلدی کیوں ہوتی ہے؟؟ ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے جلدی جلدی اور جلدی۔۔ خواہ اس جلدی میں کوئی ہمیشہ کے لیے پیچھے رہ جائے یا بچھڑ جائے۔
اچھا تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ برآمدے میں اس جگہ بیٹھ کر میں بہت مگن ہو جاتا ہوں۔۔ امی بھی اپنے کاموں میں لگ جاتی ہیں لیکن کبھی کبھی میرا دل بیتاب ہو جاتا ہے۔ سامنے کھیلتے لڑکوں کے ساتھ ان کی طرح بھاگنے دوڑنے کے لیے۔۔۔ ۔۔ ان سے باتیں کرنے کے لیے۔۔۔ ۔ ان کو اپنے قصے کہانیاں سنانے کے لیے۔۔۔ سوال جواب کرنے مذاق کرنے ہنستے قہقہے لگاتے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ملانے اور اور اور پتہ نہیں کیا کیا کرنے کے لیے۔
سلیم نے زوردار ہٹ ماری بال اڑتی ہوئی نیچے جھاڑیوں میں اٹک گئی۔۔ مجھے تو صاف نظر آ رہی تھی وہ لوگ اِدھر اُدھر جھانکتے پھر رہے تھے۔
میں نے ریلنگ پر جھک کر ہاتھ سے اشارہ کیا۔
ادھر ادھراتے اپل۔۔۔ ۔۔(اس کے اوپر)
جوش کے ساتھ میں نے ان لوگوں سے کہا۔۔ لیکن وہ سب کے سب میرا مذاق اڑانے لگے۔ "اتے او پل اتے او پل”
سب ہی چیخ رہے تھے اور زور زور سے ہنس رہے تھے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میرا دل چاہا کہ میں جلدی سے یہاں سے اندر چلا جاؤں لیکن کیسے؟؟
امی تو اندر اپنے کام میں مصروف تھیں۔ ان کے بغیر میں کیسے یہاں سے اٹھ کر اندر جا سکتا ہوں۔ نہ میرے پاس واکر ہے نہ وہیل چیئر۔ امی کہہ رہی تھیں کہ ابھی تو تم چھوٹے ہو ذرا اور بڑے ہو گے تو تمہارے لیے یہ خرید لیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہی تھیں تم کوشش تو کرو میرا سہارا لے کر تو تم چلتے ہو نا تم چاہو تو بغیر سہارے کے بھی چل سکتے ہو۔۔۔ پتہ نہیں مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ امی کا ہاتھ چھوڑا تو میں ضرور گر پڑوں گا اور میرے چوٹ لگ جائے گی۔ پرسوں کی بات ہے امی مجھے غسل خانے میں چھوڑ گئیں تو میں دیوار میں لگے کنڈے کو پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ آہستہ آہستہ باہر آ رہا تھا کہ دھڑام سے پھسل گیا۔ امی دوڑی دوڑی آئیں مجھے اٹھایا بستر پر لٹایا۔ میرے پاؤں کے انگوٹھے میں چوٹ لگی تھی۔ وہ تو شکر ہے زیادہ زور سے نہیں لگی تھی۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ ابھی تو میں پانچ سال کا ہوں دبلا پتلا بھی ہوں۔ امی مجھے اٹھا سکتی ہیں لیکن جب میں اور بڑا ہو جاؤں گا تو پھر امی مجھے کیسے اٹھا پائیں گی۔ لہذا مجھے کچھ کوشش کرنی چاہیے۔
قہقہے لگاتے بچے خاموش ہو گئے تھے۔ کیونکہ ان کو بال مل گئی تھی وہ پھر کھیل میں مگن ہو گئے تھے۔ میں نے شکر ادا کیا اور ریلنگ پکڑ کا کھڑا ہو گیا۔ دونوں پاؤں زمین پر رکھ کر میں نے ریلنگ کو زور سے تھاما۔ میرے منہ سے رال نکل کر بہنے لگی۔ ڈر کے مارے میں اپنی قمیض سے صاف بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ ایک ہاتھ چھوڑنے سے میں گر پڑوں گا۔ اس سے پہلے کہ کسی بچے کی نظر مجھ پر پڑتی میں جلدی سے کرسی پر بیٹھ گیا اور قمیض سے منہ صاف کیا۔
برآمدے میں کمرے کا جو روشن دان کھل رہا تھا۔ اس میں چڑیا کئی ہفتوں سے تنکے جمع کر رہی تھی۔ میرا ایک مشغلہ اس کو دیکھنا بھی تھا۔ چڑیا اور چڑا دونوں نے کئی ہفتوں کی محنت کے بعد اپنا گھونسلہ بنا لیا تھا اور انڈے بھی دے دئیے تھے۔ کیونکہ آج کل چڑیا مستقل گھونسلے میں رہتی تھی۔ چڑے صاحب منہ میں کچھ نہ کچھ دبا کر لے آتے تھے اس کے لیے۔
چوں چوں چوں۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بچے کھیل ختم کر کے گھروں کو چلے گئے تھے۔ لہذا خاموشی چھا گئی اس خاموشی میں ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی چوں چوں چوں۔۔۔ ۔۔۔
ضرور چڑیا کے بچے نکل آئے ہیں۔ یہ اطلاع سب سے پہلے میں نے امی کو دی۔ امی نے بھی چوں چوں کی آواز سن کر کہا ہاں چڑیا کے بچے نکل آئے ہیں۔
کتنے ہیں؟ میں نے امی سے پوچھا۔
امی نے کہا یہ تو پتا نہیں اندازاً تین چار تو ہوں گے ہی ۔۔۔ ۔ منی کے رونے کی آواز پر امی نے مجھے اندر چلنے کے لیے کہا اور میں امی کا ہاتھ پکڑ کر اندر آ گیا۔
اگلے دن جب میں صبح کو برآمدے میں اپنی کرسی پر بیٹھا تو گھونسلے سے چوں چوں کی آوازیں صاف آ رہی تھیں۔ سڑک پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس وقت کوئی بچہ نہیں تھا لہذا شور بھی نہیں ہو رہا تھا۔ میں ٹھوڑی ریلنگ پر رکھے چپ چاپ چڑیا کے بچوں کی آوازیں سن رہا تھا۔
چوں چوں چوں۔۔۔ ۔
ارے چڑیا کو کیا ہوا؟ چڑیا اور چڑا دونوں گھونسلے سے نکل کر شور مچا رہے تھے۔ چوں چوں چوں۔۔۔ ان کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔ پھر، پھر کبھی چڑیا اڑ کر اِدھر جاتی کبھی اُدھر، چڑا بھی ایک پریشانی کے عالم میں تھا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ ایک کالا سیاہ کوا بڑی سی بھدی مگر تیز چونچ کے ساتھ روشن دان کے قریب سے گزرنے والے تار پر بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں وہ گھونسلے کے اندر دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
ادھر چڑیا اور چڑے دونوں کا برا حال تھا۔ چوں چوں کر کے انہوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا لیکن کوا مزے سے تار پر بیٹھا تھا جیسے ان کے شور و غل سے لطف اندوز ہو رہا ہو یہ موٹا کوا ضرور چڑیا کے بچوں کو کھانے آیا ہے۔ میں نے سوچا چڑیا کے بچوں کو بچانا ہے لیکن کیسے؟؟ یہ گملوں کے پاس پڑی ڈنڈی سے میں اسے ڈراؤں تو یہ موٹا کوا ضرور بھاگ جائے گا۔ میں جوش میں کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ ریلنگ پکڑ کر آگے بڑھا لیکن ڈنڈی اٹھانے کے لیے ریلنگ چھوڑنا لازم تھا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے توازن قائم کرتے ہوئے ریلنگ چھوڑ دی اور ایک قدم آگے بڑھ کر ڈنڈی کو اٹھایا۔ ہاں میں نے بغیر کسی سہارے کے یہ سارا کام کر لیا پھر ڈنڈی سے تار پر بیٹھے کوے کو دھمکایا۔ کوا کائیں کائیں کرتا اڑ گیا۔
چڑیا اور چڑے نے سکون کا سانس لیا۔ روشن دان پر بیٹھ کر انہوں نے مجھے دیکھا جیسے شکریہ ادا کر رہے ہوں۔ لیکن شکریہ تو مجھے ادا کرنا چاہیے کہ بغیر سہارے کے میں نے کئی قدم اٹھائے اور ابھی بھی میں بغیر کسی سہارے کھڑا تھا۔ برآمدے کے دروازے پر امی کھڑی تھیں۔ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ لیکن آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ شاید ان کی آنکھوں میں کچھ چلا گیا ہے۔ میں نے سوچا۔ امی نے بازو پھیلائے میں نے لکڑی ایک طرف ڈال کر اعتماد سے قدم بڑھائے اور امی کے پاس پہنچ گیا۔ امی نے سینے سے لگا کر پیار کیا اور بولیں۔ "دیکھا تم چاہو تو سب کچھ کر سکتے ہو بس ذرا محنت اور حوصلہ چاہیے۔”
میں نے سوچا، واقعی میں ان شاء اللہ سب کچھ کر سکتا ہوں، بس ذرا محنت اور حوصلہ درکار ہے۔
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس
پروف ریڈنگ: اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید