فہرست مضامین
میں اور مولوی عبدالحق
عبد اللہ جاوید
جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید
ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، عبد اللہ جاوید نمبر، شمارہ ۲۷، مدیر: ارشد خالد
ڈاؤن لوڈ کریں
۱
6 دسمبر 1949 ء کو بذریعہ سمندری جہاز میں کراچی کے ساحل پر اترا۔ اس کے بعد جس دن پہلا سکون کا سانس مِلا مولوی عبدالحق صاحب سے ملنے چلا گیا۔ دن، تاریخ اور وقت میں نے ڈائری پر لکھ رکھا تھا، افسوس وہ ڈائری گم ہو چکی ہے۔ وقت شاید پانچ بجے شام ہو گا۔ میں جب وہاں پہنچا اچھے خاصے لوگ جمع تھے۔ ایک صاحب نے مجھے پیش کیا۔ حیدر آباد سے آئے ہیں کسی خاتون کا لفافہ لے کر۔ میں نے معمول سے زیادہ جھک کر آ داب کیا۔ آس پاس کے لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا۔
’ ’ سب کچھ ڈبو کر آئے ہیں ‘‘ میں کھسیانا سا ہو گیا۔ ڈاکٹر قطب النساء ہاشمی کا دیا ہوا لفافہ مولوی صاحب کی خدمت میں گزران کر ادب سے بیٹھ گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میری آنکھیں کھلی تھیں۔ میں پورے ہوش و حواس میں تھا لیکن وہاں بیٹھے لوگ مجھے قطعی نظر نہیں آ رہے تھے۔ مولوی صاحب نے لفافہ کھولا اور پڑھا۔ بولے
’ ’ یہ کوئی دیوانی معلوم ہوتی ہے۔ اس کو بتا دو میں اپنے بارے میں بات کرنا یا لکھنا پسند نہیں کرتا۔ انجمن کی بات کرتا ہوں یا اردو کی اور کسی موضوع سے مجھے دلچسپی نہیں۔ ‘‘
’ ’ پھر بھی ‘‘۔۔ میں نے بات آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ کی کی ایک جنبش سے میری اس کوشش کو لگام دے دی۔ اور فرمایا۔
’ ’ میری ذات کے بارے میں اِدھر اُدھر بہت کچھ مل جائے گا لیکن سب وقت کی ضیاع ہو گا۔ کہیں اور کچھ نہ ملے تو اسے لکھو ’ ’ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں دیکھ لے۔ ‘‘ مولوی صاحب کے لہجے میں قطعیت تھی۔ میں نے خاموش بیٹھ جانے میں عافیت سمجھی۔ اس پہلی ملاقات کے بعد دوسری ملاقات کُل وقتی بنیاد پر ہوئی۔ مولوی صاحب کسی موسم میں صبح ۸ تا ۴ اور کسی میں ۹ تا ۴ کام کیا کرتے تھے۔ مجھے یہ اجازت مل گئی کہ ہر چھٹی کے دن میں مولوی صاحب کی تحریروں کو مکرر لکھوں گا، ان کی ہدایات کے بموجب۔ مجھ پر مولوی صاحب نے یہ واضح کر دیا کہ متذکرہ اوقات کے اندر کہیں باہر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ دوپہر کے کھانے کا وقفہ نہیں ملے گا۔ چار بجے شام چائے ملے گی۔ ملاقاتیوں کو بھی شام چار بجے کے بعد ہی کا وقت دیا جاتا تھا۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے مجھے دنیا کی دولت مل گئی ہو۔ عرصۂ دراز سے شاید لڑکپن ہی سے مجھے صبح کی چائے کے علاوہ صبح گیارہ بجے چائے پینے کی عادت رہی ہے۔ مولوی صاحب کے ساتھ کام کرنے کی خوشی میں میں نے اپنی اس عادت کو نظر انداز کر دیا۔ اس دوران مولوی صاحب کو اتنا ضرور سمجھ چکا تھا کہ ان کے سامنے صبح گیارہ بجے کی چائے کا مسئلہ پیش کرنا گویا جو کچھ حاصل ہوا گنوا دینا تھا۔
مولوی صاحب کے ساتھ پہلا دن غیر معمولی اچھا گزرا۔ سب سے پہلے تھوڑا بہت لکھنے کا کام ملا۔ اس کے بعد کوئی کام نہیں دیا گیا۔ ہدایات میں یہ بھی شامل تھا کہ مجھے آگے بڑھ کر کوئی بات نہیں کرنی ہو گی۔ نیا کام نہ ملنے کی صورت میں۔ میں نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ ایک جانب ایک چوکور چوبی میز پر ایک بڑی سی کتاب رکھی تھی۔ جب میں نے اس کو کھولا تو دیکھا کہ وہ نباتات ’ ’Botany ‘‘ کی لغت تھی۔ غیر مطبوعہ تھی یا وہ تھی جس کو لوگ ’ ’ ڈمی ‘‘ یا ’وہائٹ پرنٹ‘ کہتے ہیں۔ اتفاق کی بات کہ ’نباتات ‘ میرا پسندیدہ اور انٹر میڈیٹ میں اس پسندیدگی کو بڑھاوا دینے والے تھے میرے استاد جناب حسن ظہیر ( سجاد ظہیر کے چھوٹے بھائی )۔ میں اس لغت پر جُٹ گیا اور یہ بھی بھول گیا کہ کہاں بیٹھا تھا۔ خاصا وقت اس طرح گزر گیا۔ مولوی صاحب کے قریب آنے کا بھی پتہ نہ چلا۔ اس وقت چونک کر پلٹا جب وہ بولے ’ ’ پسند آئی لغت۔ ؟ ‘‘
’ ’ بالکل نہیں ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ( ان دنوں اٹھارہ برس کا تھا )۔ میرا جواب سن کر مولوی صاحب کے چہرے کا رنگ بدلا ضرور لیکن وہ غصے میں نہیں تھے۔
’ ’ اس عمر میں ناول، افسانے اور شاعری پسند آتی ہے۔ لغت کیوں پسند آئے گی۔ ‘‘ مولوی صاحب نے شاید طنزاً فرمایا۔
میں نے مولوی صاحب کی جانب دیکھا کیونکہ مجھ پر از خود گفتگو کرنے کی پابندی تھی اور ابھی چار بجنے میں ایک عمر پڑی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے وضاحت کے بھی طالب ہیں۔ میں نے بولنے کی ہمت پیدا کر لی اور عرض کیا۔
’ ’ جناب عالی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس لغت میں نباتات کی علمی اور سائنسی اصطلاحات کو اردوا کر ایک مفید اور لائق تعریف کارنامہ انجام دیا ہے لیکن ترجمہ کرتے وقت اس اہم ضرورت کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ اصطلاح وہی اچھی ہوتی ہے جو مفہوم ادا کرے، ممکنہ طور پر مختصر ہو اور زبان پر آسانی سے چڑھ سکے ورنہ طالبعلم اس کو اختیار نہیں کریں گے۔ اور مروجہ لاطینی یا انگریزی اصطلاح کو اپنائیں گے ‘‘۔ مولوی صاحب نے میری یہ چھوٹی سی تقریر بڑے تحمل سے سنی۔ اس کے بعد فرمایا۔ ’ ’ اس کا مطلب تم نباتات کی اصطلاحوں کے ترجمے سے مطمئن نہیں ہو ‘‘ مولوی صاحب نے دو ٹوک انداز میں سوال کہا۔
میں نے چند اصطلاحات کی طرف مولوی صاحب کو متوجہ کیا۔ میں نے کہا کہ ایک آدھ پر میری طرح آپ بھی ہنس پڑیں گے۔ مضحکہ انگریزی کی حد تک اَدَق۔ اس کے علاوہ ایک دو اصطلاحوں کی مولوی صاحب کے کہنے پر اصلاح بھی کی جو مولوی صاحب نے پسند فرمائیں۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے انجمن کے بعض کاموں کو موخر کر کے بڑی دیر تک میرا انٹر ویو لیا۔ سائنس اور ترجمہ کے موضوع پر مجھے اچھی طرح کھنگالا۔ اسی دوران مجھے مولوی کے صاحب کے تبّحر علمی کا اندازہ ہوا۔ وہ مجسم انسائیکلو پیڈیا تھے۔ یہ اور بات کہ وہ عالموں کے رنگ ڈھنگ نہیں رکھتے تھے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا عام آدمیوں جیسا تھا۔ اس دن مجھے یہ کام تفویض کیا گیا کہ پنسل سے جہاں ضروری سمجھوں تبدیلی کروں۔ میں نے غیر ممالک کے ان کتب خانوں میں جانا شروع کر دیا جو شام میں طالب علموں اور دفتروں میں کام کرنے والے طالبانِ علم کی خاطر دو تین گھنٹے کھلے رکھے جاتے تھے۔ سرکاری کتب خانے بشمول لیاقت نیشنل لائبریری دفتری اوقات سے آدھا گھنٹے بعد کھلتے اور آدھا گھنٹہ پہلے بند ہو جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اس نظام اوقات کے خلاف اخبارات میں آواز اٹھائی تھی اور اس وقت لائبریریزایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمود حسین کو خط بھی لکھا۔ مذکورہ لغت میں پنسل سے خاصی تبدیلیاں کیں۔ جہاں جہاں ذرہ برابر بھی الجھن دیکھتا اس کو خاصا وقت دیتا۔ مولوی صاحب قریباً ہر روز میرا کام دیکھتے، ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک پیدا ہوتی اور میری محنت کا پھل مجھے مل جاتا۔ اردو میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی فراہمی مولوی صاحب کا سب سے حسین خواب تھا۔ آپ نے دیکھا ہو تو دیکھا ہو لیکن میں نے مولوی عبدالحق جیسا یک مقصد کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینے والا آدمی نہیں دیکھا۔ اس مشہور بات کو پہلے فکشن خیال کرتا تھا کہ انہوں نے والد صاحب کے حکم کی تعمیل کے طور پر شادی کے لیے حامی بھری لیکن نکاح کے فوراً بعد ہی دلہن کو رخصتی سے پہلے طلاق دے دی۔ اور والد کے برہم ہونے پر یہ کہہ کر انہیں خاموش کر دیا کہ نکاح سے قبل انہوں نے والد کا حکم مانا۔ نکاح کے بعد وہ طلاق اس لئے دے رہے ہیں کہ شوہر کے طور پر ان کا حق بنتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اردو سے شادی کر لی تھی یا اردو نے ان سے نکاح پڑھوا لیا تھا۔ ( اہل تحقیق کو اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے )
مولوی صاحب اردو زبان کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے تھے لیکن دوسری زبانوں اور خاص طور پر علاقائی زبانوں کے لئے ان کے دل میں جگہ تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی اور زبان کو اردو کی جگہ لینے کی حد تک گوارا کرتے۔ اس زمانے کی بات ہے جب غیر منقسم ہندوستان میں آواز اٹھائی جا رہی تھی کہ مسلمانوں کو اردو کی جگہ عربی زبان کو اپنانا بہتر ہو گا۔ ایک جھوٹا سچا واقعہ مشہور ہوا کہ مولوی صاحب نے ایسے ہی ایک مشورے کے ردِ عمل کے طور پر مولانا ابو الکلام آزاد کو ’ ’ خذ ما صفا‘‘ والی عربی بول کر دکھائی تھی۔ در اصل مولوی صاحب اردو زبان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اردو رسم الخط کے معاملے میں ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا تھا اور جو ہونا طے تھا شاید اسی کے پیشِ نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر حسین اور ان کے رفقاء نے سمجھا منا کر مولوی صاحب کو پاکستان بھجوا دیا۔ اس وقت کسی کو یہ گمان بھی نہ گزرا ہو گا کہ پاکستان میں اردو کے ساتھ یہ سب ہو گا جو ہوا اور ہو رہا ہے۔
مولوی صاحب کے ساتھ میں نے بہت ہی کم وقت گزارا لیکن اس دوران بہت کچھ ہوا۔ ان ہی دنوں کرنل آفتاب آئے۔ ملاقاتیوں کا وقت شروع نہیں ہوا تھا۔ وہ آئے، ان کے ہاتھ میں ایک پوسٹ کارڈ تھا۔ کہنے لگے۔
’ ’ جیسے ہی آپ کا پوسٹ کارڈ ملا میں نے بستر لپیٹا اور نکل پڑا۔ ‘‘٭٭٭
۲
آج بھی میرے خیالات وہی ہیں جو اُن دنوں تھے، جب بابائے اردو کو سرکاردربار میں اردو کا مقدمہ لڑنے سے روکا جا رہا تھا اور وہ جھولی پھیلا کر عوام سے اردو کے لیے بھیک مانگ رہے تھے۔ حکومت ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی جو انگریزی زبان کو ملک کی اعلیٰ اور مقتدر طبقے کی زبان کے طور پر مروّج اور مسلط کرنا چاہتے تھے۔ ان قوتوں کا مقصود ( ٹارگٹ) اردو اور دیگر مقامی زبانوں کو کمزور کرنا تھا۔ اردو اور مقامی زبانوں کو ان کی اس صفت کی وجہ سے سزا دی جا رہی تھی کہ یہ عوامی زبانیں تھیں اور اردو تو سارے ملک کے عوام کی آپسی رابطے کی زبان تھی۔ اردو اور مقامی زبانوں کو فوقیت اور ترجیح دینا گویا ملک کے عوام کو فوقیت اور ترجیح دینا ہوتا اور یہ پاکستان کے طبقۂ خواص کو کس طرح گوارا ہوتا۔ قائد اعظم کے بعد پاکستان کا معاشرہ دو طبقاتی ہو گیا تھا۔ ( طبقۂ خواص اور طبقۂ عوام )۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے جھولی پھیلا کر عوام کی جانب جو پیش رفت کی اس سے کالے انگریز اور طبقۂ خواص کے مقتدر افراد مزید چوکنا ہو گئے اور اردو کے خلاف ان کی مہم میں تیزی آ گئی۔
اصل دشمنوں سے بے خبر بابائے اردو اور ان کے رفیقوں نے عوامی رابطہ بڑھایا اور ملک کے اور خاص طور پر سندھ کے چھوٹے شہروں میں جلسے کروائے۔ اردو، سندھی مشاعرے اور مذاکرے عام ہوئے۔ کامیاب بھی ہوئے۔ ان دنوں کی یاد آتی ہے توسب کچھ خواب لگتا ہے۔ مولوی صاحب ( بابائے اردو ) کے مزاج میں خوش گوار تبدیلی واقع ہو گئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں وہ زیادہ عوامی ہونے کے ساتھ، زیادہ چاق و چوبند بھی ہو گئے تھے۔ میں جو صرف آنکھ تھا زبان نہ تھا، میں جو احساس تھا، اظہار نہ تھا، میں جو مشاہدہ تھا، مظاہرہ نہ تھا میں جو سماعت تھا، اشاعت نہ تھا ان دنوں بھی حالات سے مطمئن نہ تھا۔ ایسا بھی نہ تھا کہ مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ کبھی کبھی چار بجے کی چائے کے دوران کوئی ملاقاتی نہ ہوتا۔ مولوی صاحب کے ساتھ صرف میں ہوتا۔ ۵۵۵ سگریٹ کے قدیمی ڈبوں سے مولوی صاحب خاص میرے لیے کچھ زیادہ بادام اور پستے طشتریوں میں ڈالتے تو گویا ایک طرح کا اشارہ ہوتا کہ مجھے بولنا ہے۔ پھر بھی میں چپ رہتا۔ ( الفاظ میرے ہیں )
’ ’ دنیا میں کچھ کرنا ہے یا کھانا پینا اور مرنا ہے ؟ ‘‘
’ ’ کچھ کرنا ہے۔ ‘‘ میں مختصر جواب دیتا اور ایک دو پستے منھ میں ڈال لیتا۔ مولوی صاحب کی آنکھیں مسکرانے لگتیں۔
’ ’ کیا کرنا ہے ‘‘ مولوی صاحب سوال کرتے۔
’ ’ لکھنا ہے ‘‘۔ میں جواب دیتا۔
’ ’ افسانے، ناول، شاعری اور تنقید ‘‘ کچھ وقفے کے بعد خود ہی اپنے جواب کو آگے بڑھاتا۔
’ ’ کچھ لکھا۔۔ ؟ ‘‘
’ ’ جی ‘‘
’ ’ چھپا۔ ؟ ‘‘
’ ’ افسانے، شاعری اور دو ایک ایکانکی ڈرامے ‘‘
’ ’ پڑھتے ہو۔ ؟ ‘‘
’ ’ جی پڑھتا ہی پڑھتا ہوں۔ لکھتا کم ہوں۔ ‘‘
’ ’ فارسی پڑھی۔ ْ۔ ‘‘
’ ’ جی تھوڑی بہت۔ ‘‘
’ ’ یہی گلستان، بوستان۔ سعدیؔ کا کوئی شعر سناؤ۔ تمہاری اپنی پسند ‘‘
’ ’ پیش کرتا ہوں۔ ؎
دلِ کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است
ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است
مولوی صاحب نے یہ شعر دوبارہ پڑھوایا۔ کرسی سے اٹھے۔ مجھ کو بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا۔ پورے کمرے کا ایک چکر لگایا۔ دوبارہ کرسی پر تشریف فرما ہوئے بولے۔ ’ ’ فارسی کا کون شاعر زیادہ پسند ہے۔ ؟ ‘‘
’ ’ تین شاعروں کا نام لینے کی اجازت چاہوں گا۔ فردوسی، حافظ اور ابن یمیں خریومدی۔‘‘
’ ’ تم نے ابن یمیں کو بھی پڑھا۔ تعجب ہے۔ تم تو پڑھے لکھے آدمی نکلے۔۔ بہرحال میاں کچھ کام وام کرو۔ تخلیقی قوت تو خود ہی رنگ لاتی ہے۔ لیکن کام کرنے کے لئے جبر کرنا پڑتا ہے۔ اردو کے لیے کچھ مزدوری، وزدوری کرو۔۔ میں سوچوں گا۔ میں سوچوں گا ‘
مولوی صاحب یوں بھی اپنی بات ختم کرنے کا اشارہ کر چکے تھے اور مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ مہمانوں کی آمد کے بعد مجھے اختیار تھا کہ وہاں رکوں یا ہٹ جاؤں۔ باہر جانے کی بھی اجازت تھی۔
میرے اور مولوی صاحب کے درمیان بڑی قربتیں تھیں، بڑے فاصلے تھے۔ احترام کی ایک بلند و بالا دیوار میں نے خود بھی اپنے اور مولوی صاحب کے مابین کھڑی کی ہوئی تھی۔ یہی یا اس سے ملتی جلتی صورتِ حال ابنِ انشاءؔ اور مولوی صاحب کے درمیان نظر آتی تھی۔ انشاء جی سے مولوی صاحب خاصے بے تکلف تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ مولوی صاحب ان سے مشورہ کرنے کے عادی معلوم ہوتے تھے۔ اس تعلقِ خاص کے باوجود ابنِ انشاء کو کبھی حدِ ادب سے گزرتے نہیں دیکھا۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ انشاء جی مولوی صاحب سے خلوص کا رشتہ رکھتے تھے۔
میرا اپنا یہ خیال تھا کہ مجھے بھی بابائے اردو مولوی عبدالحق سے بہت خلوص تھا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ان کی بہت فکر رہتی تھی۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ انہیں اندر ہی اندر کوئی صدمہ گھلائے جا رہا ہے۔ ان کی بیرونی شخصیت استقامت سے عبارت تھی لیکن اندر جیسے بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ وہ جن کے ساتھ انجمن سے جوڑ کر، اک عمر کی رفاقت سمجھے بیٹھے تھے، اُن سے اور انجمن سے کٹ گئے تھے۔ ہر رفاقت ’ انا‘ کی بھینٹ مانگتی ہے۔ مولوی صاحب نے اردو اور انجمن ترقیِ اردو پر ’ انا ‘ کی بَلی چڑھا دی تھی۔ اپنی ذات کو قربان کر دیا تھا۔ وہ اپنے خاص خاص رفیقوں سے بھی یہی چاہتے تھے۔ ان کو دنیا کے دوسرے بڑے آدمیوں کی مانند اس حقیقت کا ادراک نہ ہو سکا کہ دوسرے ان کی طرح نہیں تھے۔ دوسرے اپنی اپنی اناؤں کے حصاروں کے اندر ہی کچھ کر سکتے ہیں اور اکثر لوگوں کے یہ حصار بہت ہی چھوٹے، بہت ہی تنگ ہوتے۔ بڑا آدمی اگر کسی کو بڑا آدمی سمجھنے کی بھول نہیں بھی کرتا ہے تو ہر کسی سے تھوڑی بہت بڑائی کی توقع ضرور باندھ لیتا ہے۔ ایسی توقعات اکثر اوقات پوری نہیں ہوتیں۔ ہر بڑا آدمی توقع شکنی کے چھوٹے بڑے صدموں سے دوچار ہو کر دکھ اُٹھاتا ہے۔ مجھے احساس تھا کہ وہ ان دنوں تیزی سے اس طرح کے صدموں سے دوچار ہو رہے تھے۔ میں ان صدموں کا بوجھ ان کی شخصیت پر پڑتا دیکھتا تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے ان کو منافقوں کے گھیرے میں بھی دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ سازشوں کے حصار میں گرفتار دکھائی پڑتے تھے۔ ان کے بھروسے اور اعتماد کو چکنا چور کیا جا رہا تھا لیکن وہ بیشتر ایسے عوامل سے بے خبر تھے۔ ہر بڑے آدمی کو کچھ لوگ اس کے بڑے ہونے کی سزا دینے پر تل جاتے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بھی ان کی سزا کی طرف پہنچایا جا رہا تھا۔ جن دنوں کا میں تذکرہ کر رہا ہوں ان دنوں بظاہر بابائے اردو کا ہر طرف طوطی بول رہا تھا۔ وہ عوامی شخصیت بن گئے تھے۔ وہ زندگی میں کبھی اتنے زیادہ ایکسپوز ( کھُلے ) نہیں ہوئے تھے۔ اتنے زیادہ مقبول عوام کبھی نہیں ہوئے تھے۔ میں نے ان کو اس روپ میں دیکھا۔ بظاہر اس روپ میں خوش تھے لیکن مجھ کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ یہ ان کی اصل شخصیت ہر گز نہیں تھی۔ ایک بیرونی لبادہ سا انہیں پہنا دیا گیا تھا اور ان کے چہرے پر کوئی مصنوعی چہرہ چڑھا دیا گیا تھا۔ یہ سب انہوں نے محض اردو اور انجمن کی خاطر گوارا کر لیا تھا۔ سیاسی لیڈر، اعلیٰ افسر، اداکار اور شوبز کے لوگ تو آسانی کے ساتھ اپنی ایک سے زائد شخصیات میں پوری پوری زندگیاں گزار لیتے ہیں لیکن عمر کے آخری حصے میں اپنی شخصیت میں بدلاؤ لانا، بابائے اردو پر بھاری پڑا ہو گا۔
اِدھر میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بارے میں سوچ رہا تھا اُدھر بابا میرے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اکثر و بیشتر ان کی چمکدار آنکھوں کو اپنی جانب نگران پاتا اور کرسی پر پہلو بدلنے پر مجبور ہو جاتا۔ ایک مرتبہ سہ پہر کی چائے کے دوران مولوی صاحب اُٹھے اور ابنِ انشاء کا ہاتھ پکڑ کر ایک جانب لے گئے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ انشاء جی سے میرے بارے میں مشورہ لے رہے ہیں۔
پھر وہ وقت آیا کہ مولوی صاحب چائے سے چند منٹ پہلے ہی اپنی کرسی چھوڑ کر میرے پاس آئے۔ میں ان ہی کی کسی تحریر کو صاف خط لکھ رہا تھا۔ مجھے کچھ دیر سر سے پیر تک دیکھا۔ ان کا چہرہ کہہ رہا تھا کہ جو کچھ وہ کہنے والے تھے وہ کوئی غیر معمولی بات ہو گی اور میرے متعلق ہو گی۔ اس خیال کے ساتھ ہی میرا اندرونی وجود کانپنے لگا۔ مولوی صاحب نے میرے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرا، پھر بولے کل سے پندرہ دن تک میری چھٹی ہے۔ پندرہ دن بعد تھوڑے سے ضروری سامان کے ساتھ آنا ہے۔ کالج ہوسٹل میں ٹھہرنا ہے۔ دستاویزات سفر کے مہیا ہوتے ہی انگلستان روانہ ہونا ہے۔ وہاں سائنس کی ڈگری لینی ہے اچھی طرح پڑھنا ہے۔ سائنس کی تدریس سیکھنی ہے اور لوٹ کر اردو سائنس کالج قائم کرنا ہے یا بصورتِ دیگر۔۔ ۔ ملنے کی کوشش بھی نہیں کرنا ہے۔ میں اس کے بعد بابائے اردو سے ملاقات کی اجازت نہ حاصل کر سکا۔
٭٭٭
۳
جن صاحب کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ نام نہاد کرنل نہیں میجر آفتاب حسن تھے۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران یہ دیکھنے میں آیا تھا کہ انگریزوں نے محکمہ تعلیم سے زیادہ اور دوسرے محکموں سے قدرے کم چھوٹے بڑے افسروں اور باہر سے ادیبوں اور شاعروں کو فوج میں لیا تاکہ جنگ کو پروپیگنڈے سے قومی جد و جہد اور جہاد کا روپ دیا جا سکے۔ میجر آفتاب حسن نظام دکن کے محکمۂ تعلیم سے لئے گئے۔ انہی دنوں فیض احمد فیض اور شاید ن۔ م۔ راشد بھی فوجیائے گئے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ جرمنی کے روس پر حملے کے ساتھ ہی ہمارے ادیبوں اور شاعروں کی نظروں میں جنگ عظیم دوم جو استعماری قوتوں کا عالمی ٹکراؤتھی جنگِ آزادی میں بدل چکی تھی۔
بقول مخدوم محی الدین ؎
یہ جنگ ہے جنگِ آزادی
آزادی کے پرچم کے تلے
ہم ہند کے رہنے والوں کی
محکوموں کی، مجبوروں کی
یہ جنگ ہے جنگِ آزادی
سارا سنسار ہمارا ہے
پورب، پچھم، اُتر، دکھن
ہم امریکی، ہم افرنگی
ہم چینی، جانباز وطن
ہم سرخ سپاہی ظلم شکن
آہن پیکر، فولاد بدن
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
جنگ عظیم کے خاتمے، ہیرو شیما اور ناگا ساکی، پر جوہری بم کی تباہ کاریوں کے بعد ادیبوں اور شاعروں نے اپنے اپنے ناموں کے ساتھ، کرنل، میجر اور کیپٹن کے یہ دُم چھلے ہٹا دئے لیکن میجر آفتاب حسن تا حیات ’ میجر ‘ رہے۔ اردو کالج ان دنوں انتظامی بحران میں مبتلا تھا۔ اس وقت کے پرنسپل محی الدین صاحب کے بارے میں یہ خیال عام تھا، وہ سیدھے سادے شریف شخص تھے۔ ان میں اور اوصاف تھے، کالج میں باجماعت نماز کا اہتمام کرواتے تھے لیکن منتظمانہ صلاحیتوں کا فقدان تھا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہوا میجر آفتاب حسن کے ذمّے یہ معاملہ سپرد کیا گیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک دن نہایت دکھ بھرے لہجے میں مولوی صاحب نے یہ اطلاع دی کہ آفتاب حسن صاحب نے طا لب علموں کی ایک ٹولی کے ساتھ اس کا راستہ روکا جب وہ صبح معمول کی گشت کے دوران کالجکا چکر لگانے جا رہے تھے۔ لڑکوں نے ہاتھوں میں پتھر اٹھائے ہوئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔
’ ’ مولوی عبد الحق ملحد ہے۔ اس کو پتھر مارو۔ واپس جاؤ عبد الحق۔ کالج کی طرف آنا آج سے بند۔ واپس جاؤ ملحد۔ اسلام زندہ باد۔۔ ۔۔ ‘‘ ان بے ہودگیوں کا ذکر کیا۔ کچھ دیر تک غور و فکر کرتے رہے اور روز کے انجمن کے کاموں میں مشغول ہو گئے۔ وہ جس کرسی پر بیٹھ کر سارا دن لکھتے پڑھتے رہتے وہ دیکھنے کی چیز تھی۔ برسوں بعد وہ کرسی آج بھی میری نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔ اگر اس کرسی کا مقابلہ دنیا بھر کی کرسیوں سے کیا جائے تو اس کو دنیا کی
’ ’ سب سے بے آرام کرسی‘‘ قرار دیا جائے گا۔ وہ انتہائی معمولی لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ نشست گاہ بھی لکڑی کی تھی۔ اس پر گدّی بھی نہیں تھی۔ اس میں ایک ہی خوبی تھی کہ وہ قدرے چوڑی تھی۔ میز بھی معمولی لکڑی کی تھی۔ جن چیزوں سے وہ میز سجی ہوتی ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ مولوی صاحب جب وہ اپنی بے آرام کرسی پر تشریف فرما ہوتے ( جب بھی مولوی صاحب بیٹھتے تو لگا تار کئی گھنٹے بیٹھ جاتے ) ان کی بائیں کہنی کی طرف فائلیں ہوتیں جن میں انجمن ترقیِ اردو کی دنیا بھر کی شاخوں سے آئی ہوئی ڈاک ہوتی، ان کے علاوہ ایک دو متفرقات سے متعلق ہوتیں۔ ایک خالی کمپاس بکس ہوتا جس میں مولوی صاحب قلم، پنسل، پنسل تراش اور چھوٹا سا ربڑ رکھا کرتے۔ میز پر ایک جانب کسی گوشے پر ایک قدیمی پِن کشن ہوتا۔ میں جب اس کی میز پر جھکے ہوئے لکھتا پڑھتا دیکھتا تو وہ مجھے کسی تحتانوی درس گاہ کے طالبعلم نظر آتے۔ کاش انجمن کے دفتر میں وقت ٹھہرا رہتا اور مولوی صاحب مذکورہ میز کرسی کے ساتھ یونہی کام کرتے رہتے۔ پتہ نہیں اس میز کرسی کا کیا بنا۔ کاش کسی نے ان کو قومی یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا ہو۔۔ ! کاش !!
مولوی صاحب کی میز کرسی کی دائیں جانب ایک چھوٹی سی مہمان گاہ تھی۔ اس کا فرنیچر بہت زیادہ قیمتی تو نہ تھا لیکن تھا نفیس اور آرام دہ۔ آمنے سامنے صوفے پڑے تھے جن پر بہ یک وقت آٹھ دس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ ایک روز میں نے مولوی صاحب کو اس مہمان گاہ کے قریب کھڑے ہوئے پایا۔ موقع مناسب پا کر میں نے مولوی صاحب سے کہا۔
’ ’ مولوی صاحب کبھی ان صوفوں کی عزت بھی بڑھائیے ‘‘ مولوی صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور اپنی میز کرسی کی طرف بڑھتے ہوئے بولے۔ ’ ’ یہ انجمن کے مہمانوں کے لئے ہے میری ذات کے لئے نہیں۔ ‘‘
اس دوران میں جان چکا تھا کہ مولوی صاحب جب انجمن کے کسی کام پر باہر جاتے تو ایک ’ ڈھنگ ‘ کی گاڑی میں جاتے اور جب کسی ذاتی کام پر باہر جاتے تو ایک پرانی کھٹارا گاڑی میں جاتے جو گاڑی صرف اس سبب سے پکاری جاتی تھی کہ چلتی تھی۔ گاڑیوں کے انتخاب کے معاملے میں بھی وہی اصول کار فرما تھے جو فر نیچر کے معاملے میں بیان کر چکا ہوں۔ وہ تو ٹھیک ہی ہوا کہ مولوی صاحب نے اپنی دلہن کو رخصتی سے قبل ہی رخصت کر دیا ورنہ ان کو دو عورتیں ایک ساتھ کرنا پڑتیں ایک انجمن والی، دوسری نجی۔ انجمن والی سجی بنی دلہن ہوتی اور نجی والی بیگم سے ہر طرح کم۔ میں تو آج بھی اس سوچ میں مبتلا ہوں ’ ’ کہیں ایسا تو نہیں مولوی صاحب نے اپنی شخصیت کو بھی دو الگ شخصیتوں میں بانٹ رکھا ہو۔
مولوی صاحب اپنی ذات پر بہت کم بولتے تھے وہ بھی بر سبیل تذکرہ، جیسے کسی مخاطب نے مولوی صاحب کے کوئٹہ کے سفر کے بارے میں کچھ پوچھا تو وہاں کی صحت افزا آب و ہوا۔۔ ۔ اونچے اونچے درختوں کے ذکر کے ساتھ یہ بھی کہہ جاتے ’ ’ میں وہاں آدھی روٹی کی جگہ پوری روٹی کھانے لگا تھا۔ ‘‘ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا کہ مولوی صاحب سے لوگ نہایت غیر اہم اور معمولی سوالات کرتے۔ زیادہ سوالات ایسے ہوتے جن کا جواب کسی معمولی لغت میں مل سکتا تھا۔ مولوی صاحب مخاطب کی بات کو غور سے سنا کرتے تھے خواہ وہ چھوٹا سا بچہ کیوں نہ ہو۔ مولوی صاحب کسی بھی فرد کے بارے میں دوسرے کی رائے بھی غور سے سنا کرتے۔ میرا قیاس یہی تھا کہ وہ کسی فرد کے بارے میں خود جو رائے قائم کرتے اس فرد کے بارے میں دوسروں کی رائے کا اپنی رائے سے موازنہ کرتے۔ میں نے خود اپنے بارے میں یہ محسوس کر لیا تھا۔ ’ ’ میں زیر مطالعہ تھا ‘‘ مجھے یہ محسوس کر کے قطعی بُرا نہیں لگا۔ اس کے بر خلاف مجھے حیرانی اور خوشی ہوئی۔
ان ہی دنوں انجمن کے چند بڑوں نے مولوی صاحب کو خواجہ ناظم الدین ( اس وقت کے وزیر اعظم) سے ملاقات کرنے پر مجبور کر دیا۔ ملاقات کے وقت سے مولوی صاحب مطمئن نہیں تھے۔ ملاقات دورانِ ظہرانہ طے پائی تھی۔ مولوی صاحب ظہرانہ تناول نہیں کرتے تھے۔ انجمن والوں کا فرض تھا کہ ملاقات کے وقت میں تبدیلی کرواتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ عرصۂ دراز سے انجمن کے لئے منظور شدہ زرِ تعاون ( گرانٹ) کی ادائیگی رکی ہوئی تھی شاید اسی سبب سے اس نہایت ہی نا مناسب وقت پر اتفاق کر لیا گیا تھا۔ مولوی صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی شیروانی زیب تن فرما کر انجمن کی کار میں بیٹھ کر وزیر اعظم پاکستان سے ملنے چلے گئے۔ خوا جہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان اپنے اوصاف حمیدہ کے باوجود سادہ لوحی کی حد تک سادہ مزاج تھے۔ لیاقت علی خان مرحوم قائدِ ملت کہلاتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین قائدِ قلت کہلائے جا رہے تھے۔ ( اسمگلروں نے پاکستان میں غذائی اشیاء کی قلت پیدا کر دی تھی۔ )
مولوی صاحب وزیر اعظم پاکستان کے ظہرانے سے لوٹے تو غصّے میں بھرے ہوئے۔
’ ’ ملک میں غذا کی قلت اور بد بخت ایک کی جگہ دونوں ہاتھوں سے ٹھونسے جا رہے تھے ‘‘
مجھ سمیت جتنے آدمی موجود تھے۔ خاموش رہے۔ کچھ وقفے کے بعد جب مولوی صاحب کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو مولوی صاحب نے بتاہا کہ مولوی صاحب کی لتاڑ کسی بھی شریک ظہرانہ‘ کو پسند نہیں آئی، وہ لتاڑ کو ہضم نہ کر سکے۔ اور زرِ تعاون کی ادائیگی پر جو حکومتی سرخ فیتا لگا تھا اس کا رنگ سرخ سے سرخ تر ہو گیا۔
اسی وقت یہ بھی طے پایا کہ ارباب حکومت کی جانب رجوع ہونے کا خیال ترک کر کے جھولی پھیلا کر عوام کی طرف بڑھا جائے۔ یہ بھی فیصلہ لیا گیا کہ مولوی عبدالحق ( بابائے اردو) پاکستان اسمبلی بلڈنگ کے سامنے جھولی پھیلا کر اس مہم کا آغاز فرمائیں گے۔
٭٭٭
۴
اس سال اگست کا مہینہ آیا۔ جاپان کے دو بڑے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر انسانی تاریخ کے پہلے دو ایٹمی ( جوہری) حملوں کی برسیاں منائی جائیں گی۔ اور مولوی صاحب کی بھی برسی بہت ممکن ہے کہیں کہیں منائی جائے۔ میڈیا نے اسے کلی طور پر تو نہیں البتہ جزوی طور پر یاد رکھا۔ چلئے یہ بھی غنیمت ہوا۔ ایک فرض جزوی طور پر ادا کر کے کُلی بے حسی کے داغ سے اپنے چہرے کو بچا لیا۔
مولوی عبدالحق نے اپنی پوری زندگی اردو زبان کو دی۔ اردو زبان کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف رکھا۔ بقول فیض احمد فیضؔ۔
؎ اس کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
اس کو چاہا تو اور چاہ نہ رہی
( فیض سے معذرت اور شکریے کے ساتھ )
جب بزرگوں نے اس کی شادی کر دی تو رخصتی سے قبل دلہن کو طلاق دی اور سبب یہ بتایا کہ انہوں نے اردو زبان سے شادی کر لی تھی اور اس رشتے سے وفاداری استوار رکھی۔ ان کا ہر عمل اور ان کی ہر سوچ اردو زبان کی ترقی و ترویج سے جڑی ہوتی تھی۔ ایسی خود سپردگی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ زندگی بھر اردو زبان ہی ان کی پہلی ترجیح رہی۔ وہ قاعدے کے آدمی تھے اصول و ضوابط کے پابند تھے۔ جو ضابطہ بناتے اس پر سختی سے عمل در آمد کرتے۔ نہ اپنے ساتھ نرمی روا رکھتے اور نہ ہی دوسروں کے ساتھ خواہ وہ کتنے ہی بلند مرتبہ یا طاقتور ہوں۔
جب وہ پاکستان آئے تو اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا ہوا تھا لیکن حکومت کا سارا کاروبار اردو زبان کی بجائے انگریزی میں چلتا تھا۔ مولوی صاحب جب ریاست حیدر آباد دکن میں حکومتی کام اردو میں چلتا ہوا چھوڑ کر آئے تھے اور جامعہ عثمانیہ کے تحت سائنس، میڈیکل، انجینئرنگ اور فنون کے جملہ مضامین میں تحتانوی سے اعلیٰ ترین تعلیم اردو میں دی جاتی ہوئی دیکھ کر آئے تھے۔ دنیا بھر کی اعلیٰ ترین علمی، اکیڈیمی اور فنی کتابوں کو اردو میں منتقل ہوتے دیکھا تھا۔ سچی بات یہ تھی کہ ان سب حیران کن کارناموں کے عقب میں وہ اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔ یہ لسانی انقلاب ان ہی کی شب و روز کی مساعی کا مرہونِ منت تھا، ظاہر ہے کہ مقتدر طبقے کا یہ فیصلہ کہ انگریزی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر رائج رکھا جائے، مولوی عبدالحق اور ان کے مخلص ساتھیوں کے لئے ناقابلِ فہم تھا۔ مقتدر طبقے کا رویہ یہ رہا کہ ان مسائل سے انجمن ترقیِ اردو کو دور رکھا جائے۔ حکومتی منصو بوں کو ان مخلص سیاسی لیڈروں سے بھی دور رکھا جا رہا تھا جو نظریۂ پاکستان سے مخلص تھے۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے اس علاقے کے مقتدر طبقے کو ایک ملک حاصل ہو گیا تھا جو مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں ہندوستان کی ہندو اکثریت کی کھلی اور واضح برتری سے محفوظ و مامون تھا۔ اس طبقے کو ان علاقوں میں، تاریخ میں پہلی مرتبہ کھل کرکھیلنے کا موقع ملا تھا۔ اردو زبان ان علاقوں، خاص طور پر مغربی بازو کے علاقوں میں اپنی پیدائش سے لے کر آج تک کبھی اجنبی زبان نہیں رہی تھی۔ پنجاب میں اردو زبان میں، پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ جرائد اور اخبارات شائع ہوتے تھے۔ سندھی زبان کے بیشتر بڑے ادیب و شاعر اردو میں تخلیقی کام انجام دیتے تھے اور ان کا معیار میرؔ اور سوداؔ سے لگا کھاتا تھا۔ سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مغربی پاکستان کی زبانوں کی اسکرپٹ اردو اسکرپٹ کے جیسی تھی۔ دکھنی اردو کی اسکرپٹ اور سندھی اسکرپٹ میں اتنی زیادہ مشابہت ملتی ہے کہ آدمی حیران رہ جائے۔ سرکاری کام اگر انگریزی کی جگہ اردو میں کیا جاتا تو کم از کم مغربی پاکستان میں عوام کو بڑی سہولت حاصل ہو جاتی۔ تعجب کی بات ہے کہ عوام میں تعلیم کے زبردست فقدان کے باوجود اس وقت کے مقتدر طبقے نے انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج رکھا۔ عوام کے استحصال کا آسان ترین ذریعہ انگریزی زبان ہی ہو سکتی تھی۔ پاکستان اور پاکستانیت کو وجود میں آنے سے روکنے کا ذریعہ بھی انگریزی زبان بن سکتی تھی۔ آج بھی مقتدر قوتیں پاکستان اور پاکستانی قومیت کی راہ میں حائل ہیں۔ امریکہ کا ایک کلچر ہو سکتا ہے اور اس کو امریکی کلچر کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تو پاکستان کا ایک کلچر یعنی پاکستانی کلچر کیوں نہیں ہو سکتا ؟۔ اس سے قبل بھی یوم پاکستان ( ۱۴ اگست ) منایا گیا۔ سوال یہ ہے ان تقاریب میں چار مختلف کلچروں کے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ یا ایک پاکستانی کلچر کے۔ ؟۔۔ ۔
مولوی عبدالحق نے پاکستان آ کر سارے ملک میں اور اپنے حلقۂ کار کے اندر سازشوں کا ایک جال یا چھوٹے بڑے جالوں کا ایک سلسلہ (Net work ٌ ) دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ مقتدر اصحاب کی زبان، قول و فعل میں واضح تضاد ہے۔ منافقت کا رویہ عام ہے۔ ان ہی مقتدر قوتوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے۔ یہ مقتدر قوتیں یا تو پسِ پردہ ہیں یا جو کچھ وہ کرتی ہیں پردے کے پیچھے سے کرتی ہیں۔ اس ماحول میں مولوی صاحب انجمن ترقیِ اردو اور اردو زبان کے لئے کام کرنے میں تن من دھن سے مصروف ہو گئے۔ پاکستان کے دونوں بازوؤں میں انجمن کی شاخوں کا جال پھیلا یا۔ پاکستان کے دیگر زبانوں بشمول بنگالی کے اہل علم وا دب سے رابطے کئے اور ہمہ وقت ان کے ذہنوں سے ان خدشات کو رفع کرنے کی کوشش کی، جو مقتدر طبقے کے سازشیوں نے اردو زبان کے خلاف پیدا کئے تھے۔ انہوں نے انجمن کا یہ مقصد واضح کرنے کی کوشش کی کہ اردو اور علاقائی زبانوں کو شانہ بشانہ چلنا ہے۔ علاقائی زبانوں کی جڑیں عوام میں ہیں اور عوام کے ذہنوں اور دلوں میں جانے کا راستہ علاقائی زبانوں سے ہو کرجاتا ہے۔ اردو کو بطور رابطہ کی زبان، چھوٹی بڑی تمام زبانوں سے رشتہ جوڑنا، ان کے ساتھ چلنا اور ان کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ مولوی عبدالحق دنیا کی دوسری زبانوں، خاص طور پر جدید ٹیکنالو جی اور سائنس سے مالا مال زبانوں سے علم و حکمت کے خزینے اردو اور اردو کی وساطت سے علاقائی زبانوں میں منتقل ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ذاتی منفعت سے بالا تر ہو کر سوچتے تھے۔ میرا ان کا ساتھ بے حد مختصر لیکن صبح سے چار بجے شام تک میں، بیشتر لب بستہ ان کے ساتھ رہتا تھا۔ ان اوقات میں وہ شاذ ہی کسی سے ملتے تھے۔ اس وقت بھی میری نظروں کے سامنے بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھنے پڑھنے میں مصروف ہیں۔ وہ لکڑی کی سادہ سی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ ایسی کرسی جو کسی طرح کی گدّی سے خالی ہے۔ ان کی میز پر کوئی میز پوش یا شیشہ نہیں ہے۔ ایک پرانے کمپاس بکس میں ایک دو چھوٹی بڑی پنسلیں ہیں۔ ربڑ کا ایک ٹکڑا ہے، ایک پنسل تراش ہے۔ قریب ہی لکڑی کا ایک رولر ہے۔ ایک معمولی سا پن بکس میں ہے اور دوسرا معمولی سا پن مولوی صاحب کے ہاتھوں میں۔ چار بجے سے پہلے وہ کام ترک نہیں کریں گے اور نہ ہی مجھے ترک کرنے دیں گے۔۔ ۔۔ ۔ آہ مولوی صاحب۔ !!
میں جب ان کا خیال کرتا ہوں تو آنکھیں آپ ہی آپ نم ہو جاتی ہیں۔ وہ ذہنی اور جذباتی طور پر اس لائق نہیں تھے کہ اپنے آس پاس کیا کچھ ہو رہا ہے اس کا ادراک کر سکیں۔ وہ پاکستان کے ماحول میں کسی طور بھی ایڈجسٹ ( Adjust ) نہ ہو سکے۔ وہ پاکستان میں اپنی دوڑ دھوپ اور مساعی میں اس طرح لگے رہے کہ تا دمِ مرگ صرف اور صرف اردو اور علاقائی زبانوں کی بقا اور ترقی ان کا مقصد اوّلین رہا۔ پاکستان کو اہل سیاست جس راستے پر لے جا رہے تھے وہ دو طبقاتی نظامِ زندگی کا راستہ تھا ایک مقتدر طبقہ تو دوسرا غریب عوام کا طبقہ۔ مقتدر طبقے کے لئے یہی مناسب تھا کہ نچلا طبقہ اور ان کے اہل و عیال نہ صرف افلاس بلکہ جہالت میں پھنسے رہیں۔ مقتدر طبقہ اور ان کے اہل و عیال انگریزی پڑھیں۔ انگریزی لکھیں اور انگریزی بولیں۔ ان کی تعلیم کے لئے ملک میں انتہائی مہنگے انگریزی میڈیم سکول، کالج اور درسگاہیں کھولی گئیں۔ مولوی عبدالحق جو اردو اور علاقائی زبانوں کی ترویج اور ترقی چاہتے تھے پاکستان میں اپنی آخری سانسوں تک نا پسندیدہ اجنبی رہے۔۔ ۔۔ ۔ آہ مولوی عبدالحق مرحوم۔
٭٭٭
تشکر: ارشد خالد جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں