فہرست مضامین
مجرم کون؟
احسان حسین
مشمولہ ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق
کردار
پہلا منظر
ڈرائنگ روم
راحیل
برکت بی
حاذق الحق
گھامڑ
طمطراق
دوسرا اور تیسرا منظر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمرۂ عدالت
جج
وکیل سرکار(مس سیما)
وکیل صفائی(مسٹر رانا)
انسپکٹر کھنہ
ڈاکٹر لتا چٹرجی
پرنسپل کوثر جہاں بیگم
وکیل سرکار کے مددگار
وکیل صفائی کے مددگار
کلرک
چپراسی
پہلا منظر
ڈرائنگ روم
(ایک نوجوان (راحیل) داخل ہوتا ہے۔ غصہ سے، اپنے ساتھ لائی ہوئی فائل پھینک دیتا ہے۔ )
راحیل :کیا سمجھتے ہیں آخر مجھے یہ!!!اف!میری زندگی کے پچیس سال۔ ہاں ہاں قیمتی پچیس سال جوان کے تجربات کی نذر ہو گئے۔ آج میرے پاس کیا ہے، بی اے کی ایک ڈگری، بے حقیقت بیکار۔ اف!! میرے سینہ میں نفرت و بغاوت کی آگ دہک رہی ہے انتقام!انتقام!!
(برکت بی داخل ہوتی ہے۔ )
برکت بی ۔ :کیا ہے راحیل بھیا، تمیں تو آسماناں سر پو اٹھا لئیں۔ ذرا اڑوس پڑوس کا تو خیال کرو، اتی زور زور سے چلائے تو لوگاں کیا بولیں گے ؟
راحیل :کون سے پڑوسی، کہاں کا سماج؟یہ سب اجالے کے ساتھی ہیں۔ یہ پڑوسی اور سماج ہوتا ہی اس لیے ہے کہ غریبی کا مذاق اڑائیں، لوگوں پر انگلیاں اٹھائیں۔
برکت بی :میاں !!تم کو دیوانہ کتا کاٹ لیا کیا۔ ایسی بہکی بہکی باتاں کائے کو کر رئیں ؟دیکھو اگر سچی بی کاٹا ہوئیں گا تو انجی شن لے لیؤ۔
راحیل :ہاں یوں سمجھو دیوانہ کتا ہی کاٹ کھایا ہے اور برکت دیوانے کتے کے کاٹنے کا علاج توہے لیکن کیا میرا بھی علاج ممکن ہے جس کو اس ناگ نے بار بار ڈسا ہے جس سے ہم سب ہی ڈرتے ہیں اور اب تو اس کا زہر میری رگ رگ میں سرائیت کر گیا ہے۔ اب میں دیوانے کتے کی طرح بھونکوں گا نہیں بلکہ دنیا کے لئے خود ایک سانپ بن جاؤں گا۔
برکت بی :ارے باپ رے !کتابی کاٹا اور سانپ بی ڈس لیا کیا میاں ؟ٹھہرو میں ڈاکٹر کو دیکھ تیؤں۔
(برکت باہر چلی جاتی ہے۔ )
راحیل :بے وقوف ٹھہر جا، اس زہر کا علاج کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس نہیں۔ اس کا علاج تو مجھے خود کرنا ہو گا۔ تہس نہس کر دوں گا، ملیامیٹ کر دوں گا۔ میری زندگی کی محنت کا صلہ مجھے کیا ملا؟یونیورسٹی نے بی اے کی ایک ڈگری، کاغذ کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ میں تھما کر یہ سمجھ لیا کہ بس اپنا فرض ادا کر دیا۔ آہ!! کس قدر خوشی کا دن تھا میرے لئے، ساری کائنات میرے قدموں تلے آ گئی ہو، مجھے میری زندگی مل گئی ہو۔ مگر !دو سال سے بھٹک رہا ہوں۔ در در کی ٹھوکریں کھائیں، کہیں No Vacancy کا بورڈ منہ چڑاتا ہے تو کسی انٹرویو میں ناکارہ اور نکما قرار دیا جاتا ہوں۔ یہ سب جھوٹے دھندے ہیں۔ یہ انٹرویو محض دنیا کا دکھاوا ہے۔ یہاں چلتی ہے تگڑی سفارش، اقرباء پروری یا مٹھی بھر روپیہ۔ اے سماج کے ٹھیکیدارو۔ ۔ ۔ میں تمہیں تباہ کر دوں گا، برباد کر دوں گا۔ ۔ ۔ ملیامیٹ۔ ۔ ۔
(برکت بی، حکیم حاذق الحق کو لئے داخل ہوتی ہے۔ )
برکت بی :حکیم صاحب جلدی کرو۔ ۔ ۔ خدا رسول کے واسطے جلدی کرو۔ ۔ ۔
حاذق الحق :آ رہے ہیں۔ ہلو ہلو آ رہے ہیں۔
راحیل :یہ کس چڑی مار کو پکڑ لائیں ؟
برکت بی :میاں !جلدی میں بس یئچ مل سکے۔
حاذق الحق :کیا کہا!جلدی میں، ارے ہم افضل الحکماء، رئیس الاطباء، حکیم حاذق الحق، یعنی کہ ہم گھوڑا گاڑی بغیر کہیں نہیں جاتے تمہارے واسطے دوڑے دوڑے آئے ہیں۔ لاؤ میاں ! تمہاری نبض کی رفتار دیکھیں ؟
راحیل :آپ اس وقت یہاں سے چلے جائیں تو بہتر ہے۔
برکت بی :ایو میاں !! ماں، باوا آئیں گے توہم کو، ٹوکیں گے نا، نامراد میرے جان جوان بیٹے کو کھپا کو بیٹھیں۔ ابی حکیم صاحب کی تریاق کھا لیؤ بعد میں کوئی تو بی اچھے ڈاکٹر کو بتائیں گے۔
حاذق الحق :یعنی کہ ہم کوئی ٹٹ پونجئے ہیں۔ فرزند! ہم حکیم الحکماء اغلیمون کی اولاد سے ہیں۔ ہمارے نسخہ اور مجربات، یعنی کہ ہمارے خاندان کی وراثت ہیں، ہم نے اچھے اچھوں کو۔ ۔ ۔
راحیل :ٹھکانے لگا دیا، قبرستان آباد کر دئیے اولاد اغلیمون سچ سچ بتا تو نے۔ ۔ ۔
(راحیل کا دوست گھامڑ دروازے پر نظر آ رہا ہے۔ )
گھامڑ :اجازت ہو تو اندر آ سکیں ہم۔
حاذق الحق :کام کے وقت کیوں ؟
گھامڑ :
اجازت ہو تو اندر آ سکیں ہم
تمہاری بزم کو چمکا سکیں ہم
حاذق الحق :سبحان اللہ، ماشاء اللہ ایک بار اور ہو جائے۔
گھامڑ :اجازت ہو تو۔ ۔ ۔
راحیل :گھامڑ!آؤ آؤ تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔
گھامڑ :انتظار۔ ۔ ۔ انتظار۔ ۔ ۔ (داخل ہوتا ہے) انتظار یار کے تم نے مزے لوٹے ہیں خوب۔ ۔ ۔ کیا بتاؤں۔ ۔ ۔ کیا بتاؤں۔ ۔ ۔
برکت بی :کیا بتاتا رے ماٹی ملے، تیرا ڈولا ڈگمگاؤ۔ ۔ ۔ تیرا مرکل کٹ کٹاؤ۔ ۔ ۔ تو قبر میں بڑبڑاؤ۔ ۔ ۔ پھر آ گیا میاں کی مٹی پلید کرنے۔ ۔ ۔ مردے!!!
حاذق الحق : (راحیل سے) میاں۔ ۔ ۔ او میاں !شریفوں کے ساتھ اٹھو بیٹھو، خدا تمہیں صحبت بد سے بچائے۔
گھامڑ :
اے چرخ ہم سے جو ٹکراتا ہے
اس کی دنیا میں تموج ہی نظر آتا ہے
کاش!کوئی ہمیں بتا دے یہ صورت حرام، لرزہ بر اندام آخر ہے کون؟
راحیل :انھیں برکت بی پکڑ لائی ہے۔ اپنا نام حاذق الہدہد بتاتے ہیں۔
حاذق الحق :شرارت حد سے گزر جائے تو بدتمیزی کہلاتی ہے۔ ہم نے ہمارا نام حاذق الحق بتایا تھا اور ہمارے دادا کے دادا یعنی کہ سولہویں دادا متنتد الحکمۃ اغلیمون ہیں۔
برکت بی :ایو حکیم صاب!ہلو سے ایک بڑھا دے رئیں کیا؟ پندرہویں بولو نا۔
حاذق الحق :مگر دادا تمہارے ہیں یا میرے ؟ اور پھر اس عمر میں بھی ہمارا حساب۔ ۔ ۔
راحیل :بہت تیز ہے، اسی لیے ایک زیادہ گن گئے۔
حاذق الحق :گستاخ!ہماری انا کو نہ للکار۔ چل میرے ساتھ چل، تجھے اپنے آبائی قبرستان میں ابھی سولہ قبریں گنوا سکتا ہوں۔
برکت بی :اب اتا بی نکو روٹھو حکیم صاب، دل ٹھنڈا رکھو۔ سولہویں قبر تو تمارچ ہے۔
گھامڑ :راحیل ہوشیار۔ ۔ ۔ خبردار۔ ۔ ۔
اپنا ساتھی تمہیں بنائے گا
سولہویں قبر کا جنازہ ہے
برکت بی ۔ :ہائیں ہائیں !ارے تم کو کون دخل دیو بولا جی، گھامڑ گھونچوں۔ ۔ ۔ تمہیں کائے کو پھڑپھڑ۔ ۔ ۔ پھڑپھڑ۔ ۔ ۔ پھڑپھڑائیں ؟
راحیل :برکت!اچھا یہی ہو گا، تم اس کباڑی کو دروازے تک چھوڑ آؤ۔ مجھے گھامڑ صاحب سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔
برکت بی :خدایا!آپن یہ لپن چھپن میں دیکھو بھولیچ گئے، تم کو دیوانہ کتا بھنبھوڑا، سانپ کاٹا، حکیم صاب۔ ۔ ۔ (غصہ سے) حکیم صاب!بس اب مشاعرہ ختم اور علاج چالو۔
گھامڑ :
حال درد ہم کو بتاؤ تو کوئی بات بنے
پھر دوا ہم سے ہی پاؤ تو کوئی بات بنے
برکت بی :دئیچ بات ہوئی نا، عید پیچھے ٹر۔ اجاڑ صورت مشاعرہ ختم بولے بعد بی دھڑادھڑ، دھڑادھڑ شعراں بولیچ جا را کیا۔
حاذق الحق :کیا زمانہ آ گیا ہے، یعنی کہ یہ علاج معالجہ اٹھائی گیروں کا تماشہ ہو گیا ہے۔ ہم یعنی کہ طبیب مستند، نباض اعظم کسی کھیت کی مولی ہو گئے۔ چل لا، ہاتھ لا تری نبض پکڑ کر بس دوہی منٹ میں تشخیص کر دوں گا۔
برکت بی :ابا!! نبض دیکھنا اتائیچ ضروری ہے کیا؟حکیم صاحب!آپ اس کی فکر نکو کرو کیا لوگاں ہے بھئی، وہ توکیسا بی ہلو ہلو۔ ۔ ۔ ہلو ہلو چل رئیچ ہوں گے۔ گھڑیاں میں آدھا گھنٹہ ادر کی آدھا گھنٹہ اور ۔
حاذق الحق :واہ واہ۔ ۔ ۔ واہ واہ۔
برکت بی :بس اللہ کا نام لیکو اپنی ڈھوپٹی کھولو۔
حاذق الحق :ڈھوپٹی۔ ۔ ۔ یعنی کہ تمہارا مطلب ہے ہمارا مطب۔ ۔ ۔
(اپنی تھیلی سے دوائیں نکال رہا ہے۔ )
گھامڑ :
عمر عیار کی زنبیل نہ دیکھی تھی کبھی
اے کھڑوس آج تری شان بتا دی تو نے
برکت بی :جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔ دیکھو بھونپو اگر تمارا پونگا بند نئیں ہوا نا، تو ہمارے حکیم صاحب تم کو جو دوا مفت میں دے رئے تھے نئیں ملیں گی۔
گھامڑ :مفت۔ ۔ ۔ ارے وہ مفت(حکیم کے قدموں میں بیٹھ جاتا ہے۔ )
اطبا کے شہنشاہ حاذق الحق شاد رہے
دعا گھامڑ کی ہے روزی تیری آباد رہے
واقعی حکیم صاحب اگر آپ نے میرے دل، گردے، پھیپھڑے، معدے وغیرہ کا، کامل علاج کر دیا تو قسم ہے آپ کی ایک پھڑکتا ہوا قصیدہ آپ کی نذر کروں گا۔
راحیل :تا کہ فریم کروا کر اپنے پھٹیچر مطب میں لگا سکو، جو سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔
حاذق الحق :خیر خیر!ہمارا دل بہت وسیع ہے۔ یعنی کہ ہم ایسی ویسی باتوں کا برا نہیں مانتے (ایک شیشی لے کر) ہوالشافی ہوالکافی یہ ہے جوارش مشتری۔ (انگلی بتا کر) صبح شام چاٹ لینا۔
برکت بی :مٹھی ہوئیں گی حکیم صاب؟چاٹ لیؤں۔
حاذق الحق :ارے ارے نامعقول۔ ۔ ۔ رکھ۔ ۔ ۔ رکھ۔ ۔ ۔ بول کتا گورا تھا یا کالا؟
برکت بی :کالا تھا حکیم صاب۔
حاذق الحق :کالا۔ ۔ ۔ خطرناک!! لیکن فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم زندہ ہیں۔ تو لو یہ ہے حب ازرومین، جب جی چاہے کھا لینا۔ برکت ادھر آؤ۔ ۔ ۔ ذرا قریب۔
برکت بی :ایو ماں !اب یہ نزدیک دور کی کیا مصیبت ہے کی۔ حکیم صاب!آپ شروع کرو نا۔ رتی برابر بی فرق پڑے کانیں۔ آپ جیسا بولیں گے ویسئیچ ہوئیں گا۔
حاذق الحق :ماشاء اللہ۔ مریض ملے تو ایسا ہی سمجھدار، با شعور۔
برکت بی :حکیم صاب۔ آپ کی دوئیاں کتے دن میں اثر کریں گی؟
حاذق الحق :اب یہ کوئی انگریزی سوئی توہے نہیں، دیسی جڑی بوٹی ہے، فائدہ ہوتے ہوتے ہو گا۔
برکت بی : اور اگر اس سے پیلیئچ ہمارے میاں اللہ کو پیارے ہو گئے تو؟
حاذق الحق :یعنی کے اب تم لوگوں نے خدا کی مرضی میں بھی دخل دینا شروع کر دیا ہے۔
گھامڑ :او، بڑے میاں !تم اپنا بوریا بستر گول کرتے ہویا۔ ۔ ۔
برکت بی :ابے او خربوزے !تو اپنی زبان کو لگام دے گا یا نہیں۔ راحیل بھیا! دیکھو نا ہمارے حکیم صاب آپ میں کتی دلچسپی لے رئیں۔ کتی بھاری بھار بھاری دوئیاں دے رئیں۔
حاذق الحق :راحیل میاں !یہ ہے سفوف تسکین۔ اعصاب و عضلات سے لے کر نظام ہضم، نظام تنفس اور کیا کہتے ہیں۔ ۔ ۔ یعنی کہ جسم و جان کو منٹوں میں ہمیشہ کا سکون عطا کر دے گا۔ بس چٹکی بھر لینا نہ بھولنا۔
راحیل :اگر مٹھی بھر کھا لوں۔ ۔ ۔
برکت بی :کتے اوکالی، ہے جی میاں تمیں۔
حاذق الحق :حدسے زیادہ سکون موت کی علامت ہے۔
راحیل :کیا میں زندہ ہوں۔ ۔ ۔ ؟
برکت بی :یہ سوال اپن کوئی بڑے ڈاکٹر سے پوچھیں گے۔ بچارے حکیم صاب کو کائے کو پریشان کر رئیں۔
حاذق الحق :ہم بھی نامی گرامی معالج ہیں۔ شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹر ہمارے مریض ہیں۔
برکت بی :آپ بگڑو نکو صاب۔ آپ سمجھ رئیں میرے کو معلوم نئیں کیا؟اپن ذرا مذاق کرے کی لوگوں کے کپے پھول جاتیں۔
حاذق الحق :یعنی کہ ہم بھی مذاق ہی کر رہے تھے۔ میاں ہماری کیمیا گر ی کا کمال دیکھنا ہو تو یہ دوائیں صرف تین دن استعمال کرو۔ بس تین ہی دنوں میں یوں سمجھو شفائے کلی۔
گھامڑ :خدا آپ کا بھلا کرے۔ بہت بہت شکریہ حکیم صاحب۔
حاذق الحق :کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔ کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔ بس تین دن کی دوا کے۔ ۔ ۔ صرف پچیس روپئے بنتے ہیں۔
راحیل :کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔ کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔ پیسہ یوں سمجھو ادھار رہے گا۔ جب دوں گا لے لینا۔
حاذق الحق : (غصہ سے) ادھار۔ ۔ ۔ جب دوں گا۔ ۔ ۔ نکالو۔ ۔ ۔ نکالو۔ ۔ ۔ میری آمد فیس پانچ روپیہ نکالو(اسٹیج پر بھگڈر مچ جاتی ہے) میرے پانچ روپیہ نکالو، ورنہ ازالۂ حیثیت عرفی۔ ۔ ۔ عزت ہتک کا دعویٰ کر دوں گا۔ میں تم سب کو عدالت میں کھینچوں گا۔
گھامڑ :جاؤ۔ ۔ ۔ اور جلدی سے دعوے کی تیاری کرو۔
حاذق الحق :چھوڑوں گا نہیں۔ ایک ایک کو دیکھ لوں گا(عینک درست کرتا ہے) کئی پڑھے لکھے وکیل مجھ سے طبی مشورے لیتے ہیں۔ (ایک جانب جاتا ہے اور وہاں سے چلا کر) برکت۔ ۔ ۔ ابے او برکت۔ ۔ ۔ کہاں مر گئی۔
برکت بی : (چلا کر) کیا ہے ؟
حاذق الحق :مجھے پوچھ رہی ہے، کیا ہے ؟ابے باہر جانے کا دروازہ کدھر ہے ؟
برکت بی :الٹا گھومے تو ناک کی سیدھ میں۔
حاذق الحق :پہلے نہیں بولنا۔ میں باورچی خانہ میں گھس گیا تھا نا۔ اندھی کہیں کی۔
(چلا جاتا ہے۔ )
گھامڑ :یہ بلا یہاں کیوں نازل ہوئی تھی؟کیا ہوا ہے تمہیں ؟
راحیل :آج بھی وہی ہوا!جو گذشتہ دو سال سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔
گھامڑ :یعنی آج پھر کسی انٹرویو سے ناکام و نامراد لوٹے ہو؟
راحیل :ہاں ! اور جب گھر پہنچا، پتہ نہیں میری باتوں سے برکت کیا سمجھ بیٹھی، اسے پکڑ لائی۔
برکت بی :اب سمجھی۔ ۔ ۔ میاں کو آج پھر تین دو پانچ ہو گئی کیا۔ ۔ ۔ راحیل بھیا! تمہیں دیکھنے کوتو اتے بانکے سجیلے ہے کہ پوچھویئچ نکو۔ اللہ۔ ۔ ۔ بالوں کے اسٹائل پو تو تین بار تمارا سر صدقے۔ جب دیکھ تیؤ کڑک اسٹری، اپٹوڈیٹ۔ کمال ہے پھر بی لوگاں پسندیئچ کرتئیں۔ کیا ہوئیں گا تو ہو۔ ۔ ۔
گھامڑ :واقعی راحیل، تم جیسا اسمارٹ آدمی نوکریوں کے لئے خاک چھانتا پھرے۔ ۔ ۔ یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ تم ایسا کرو، میرے ساتھ بمبئی چلو۔
راحیل :بومبے کو آخر کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں۔
گھامڑ :تم چلو تو۔ ۔ ۔ کسی پہچان والے ڈائریکٹر سے کہہ کر تمہیں فرسٹ کلاس ہیرو کا چانس دلوا دوں گا۔ تمہاری فلم کے لئے گانے لکھوں گا۔
راحیل :آئیڈیا برا نہیں۔
گھامڑ :یقین کرو اب میں گھامڑ سے بھکڑ ہو چکا ہوں۔ میری روٹی اور روزی بھی چل جائے گی۔
برکت بی :پھکڑ بھئی۔ ۔ ۔ ایک کڑوا کسیلا مشورہ قبول کرتئیں ؟
گھامڑ :زہے عز و شرف۔ ۔ ۔ سر آنکھوں پر، تین مرتبہ قبول۔
برکت بی :میری بات مانو۔ ۔ ۔ کچھ کام کاج کرو۔ کائے کو دوسروں کے پھٹے میں پیر اڑاتے پھرتئیں۔ یہ کچھ اچھے کاماں نئیں کیا؟
گھامڑ :یہاں ٹھیرنا بیکا رہے۔ چلو راحیل باہر گھوم آئیں۔
راحیل :مجھے ایک صاحب کا انتظار ہے۔ میں جب انٹرویو دے کر واپس لوٹ رہا تھا، میرا اداس چہرہ دیکھ کر ایک فرشتہ کو رحم آ گیا۔ وہ آتا ہی ہو گا۔
برکت بی :بھیا!تمیں دودھوں نہاؤ۔ ۔ ۔ پوتوں پھلوں۔ ۔ ۔ تم پوکڑوی نظراں ڈالنے والے کے دیدے پھوٹو۔ تم پوخوشیوں کے ڈونگرے برسو۔
(دستک ہوتی ہے۔ )
برکت بی : (چلا کر) کون ہے جی؟
آواز :روحیل صاب ادر رہتا ہے کیا؟
راحیل :جی ہاں، جی ہاں، آئیے۔
(اٹھ کر دروازے تک جاتا ہے۔ برکت مکان کے اندرونی حصہ میں چلی جاتی ہے۔ )
طمطراق :بچہ!ہم کو سب لوگ طمطراق کے نام سے پیچھانتا ہے۔ ہم کس کا تکلیف دیکھ نئیں سکتا اس کا واسطے ادر آنے کا تکلیف کیا۔
گھا مڑ :تشریف رکھئے۔
طمطراق :روحیل صاب، ہمارا سامنے یہ کون مگز ماری کرتا۔
(گھامڑ کو دھکا دے کر گرٍا دیتا ہے۔ )
راحیل :ارے ارے، یہ میرے دوست ہیں۔ گھامڑ صاحب بڑے اچھے اور برجستہ اشعار کہتے ہیں۔
گھامڑ : (کھنکار کر) عرض کیا ہے (تسلیم کرتا ہے) واہ!کیا موقع کاشعر آیا ہے۔ (سناٹا)ارشاد!!!
طمطراق :او، چنا بٹاٹا، ادر ہم بھیڑ، بکری، کتا، بلی سبھی دیکھا، یہ شیر کدر سے آئیلا ہے۔
گھامڑ : (قہقہہ) یہ ادبی دنیا کا شیر ہے۔ اس کی گھن گرج سے بڑی بڑی محفلیں دہل جاتی ہیں۔ یہ جب آتے ہیں۔ ۔ ۔
راحیل :ہول سیل میں آتے ہیں۔ ان کی مرغوب غذا دماغ ہے۔
طمطراق :ہم سمجھا!پن تمارا دھندا چلر کا ہے یا ٹھوک بزنس کرتا؟
راحیل : (مذاقیہ) ابھی ان کا کاروبار چھوٹا سا ہے۔
طمطراق :بیڈ، ویری ویری بیڈ، اسمال ا سکیل کا دھندہ بولے تو مندا۔ بڑا بزنس کرنا منگتا؟بلیک مارکٹنگ نے سب سالا ایماندار لوگ کا کچرا کر دیا۔
راحیل :گھامڑ صاحب کے کلام کا مجموعہ تیار ہو رہا ہے۔ آپ کو ایک عدد ضرور بھیجیں گے۔
طمطراق :اپنا برتھ ڈے یہ دوست لوگ مجموعہ عطر دیا۔ ۔ ۔ باٹلی کھولا تو ایک دم بھنکس۔ اومن اپن ابی سے سمجھٍا دیتا ڈپلیکٹ مال بھیجا تو تمارے منہ پہ پھیک کے مارے گا۔ ۔ ۔ تم مال کا کھپت کا واسطے ترکیب سوچا؟
گھامڑ :اپنا نام ہر جگہ ڈنکے پر ہے۔
راحیل :پرسوں گھامڑ صاحب نے پورا مشاعرہ لوٹ لیا۔
طمطراق :ویری گڈ۔ ۔ ۔ اکھا مارکیٹ میں لوٹ ما رہے جس کا ہاتھ جو آ گیا وہ سمجھو اس کے باپ کا۔
راحیل :آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ گھامڑ صاحب نے اپنی ایک غزل تصحیح کی غرض سے ایک نامی گرامی شاعر کو بھیجی۔ اس نے وہ غزل اپنے نام سے اخبار میں شائع کروا دی۔
طمطراق :فرسٹ کلاس۔ ۔ ۔ گلتی گھامڑ کا ہے۔ اپنا نکسان کر لیا۔
گھامڑ :کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ وہ غزل دوسرے شاعر کی تھی۔ میں نے ندی کی جگہ دریا، چٹان کی جگہ پہاڑ، پودے کی جگہ درخت وغیرہ وغیرہ کر کے اسے نئی شکل دے دی تھی۔
راحیل :پودا بڑا ہو کر درخت ہی بنتا ہے نا۔
طمطراق :چھوٹا موٹا چوری کر کے تم لوگ سالا اپنا ویلیو کھراب کرتا، سال چھ مہینا میں ایک ہی بار بڑا ڈاکہ ڈالنا منگتا۔
گھامڑ :طمطراق بھائی۔ ۔ ۔ یار تم باتیں بڑی کام کی کرتے ہو۔
طمطراق :کس کا بھلائی کا واسطے اپنا جان بی چلا گیا تو اپن پچھو نئیں ہٹیں گا۔
گھامڑ :تم میری مدد کرو، میں تم پر ایک آزاد نظم جوڑوں گا بالکل فٹ۔
طمطراق :اپنا بھارت دیش کو جب سے آزادی ملا اپن دیکھتا۔ ۔ ۔ سالا سب لوگ کو اپنا کام کاج کا آزادی مل گیا۔ بڑا بڑا لوگ تو پھٹاپھٹ اپنا اپنا الو سیدھا کرتا۔
راحیل :آپ ان سے ایک نظم سنئے۔ بڑا اچھا گاتے ہیں۔
(گھامڑ نظم شروع کرنا چاہتا ہے۔ )
طمطراق :یہ شاعر لوگ آج تک اپنا سمج سے باہر ہے۔ پھوکٹ اتنا بڑا بڑا شیر پیدا کرتا ہے کھالی پیلی چنگھاڑتا ہے۔ ایک پن گلی ایسا بتاؤ جہاں تمارا برادری کا لوگ نئیں رہتا۔ کائے کومین۔ ۔ ۔ یہ سب کائے کو؟
گھامڑ :آپ ترنم سے صرف ایک بار سن لیجئے آپ کی طبیعت خوش ہو جائے گی۔
طمطراق :اس کا ایڈریس دے دیو۔ اپن جا کر ترنم سے جرور سنے گا اور اگر کھوش ہوا تو جان کھسم تم کو بی کھوش کر دے گا؟
گھامڑ :میرا مطلب تھا آپ صرف ایک بار مجھ سے سن لیں۔ پلیز صرف ایک بار۔
طمطراق :کاہ کو بوم پٹارا کرتا مین۔ اپن کو کام کا بات کرنے دو۔ ادر سے جاؤ اور بلبل پر نظم لکھو۔
گھامڑ :کوئی نہ چاہے تب بھی ہم زبردستی سناتے ہیں۔
طمطراق : (گھامڑ کو گھسیٹ کر دروازے تک لے جاتا ہے) اپن بول دیا چلے جاؤ۔ نئیں تو تمارا کھوپڑی پلپلا کر دے گا۔ شاعر کا بچا تمارا بھرتہ بنا دے گا۔
گھامڑ : (ترنم سے)طمطراق۔ ۔ ۔ او بھائی طمطراق۔ ۔ ۔ طمطراق۔ ۔ ۔
(چلا جاتا ہے۔ )
راحیل :واہ!یہ کیا بات ہوئی، گھر میرا اور دھاندلی آپ کی۔
طمطراق :بچہ!یہ تمارا واسطے ایک فری سمپل بتایا ہے۔ ہمارا مافک بنو۔ اپنا بازو پر بھروسہ کرو۔
راحیل :یعنی تمہاری طرح غنڈہ گردی کروں۔
طمطراق :اتاتیزی مت دکھاؤبچہ۔ اپن تمارا۔ ۔ ۔ فائدے کابات بولتا۔ تمارا اداس فیس دیکھ کر اپن کو تم سے ہمدردی ہو گیا ہے۔
راحیل :جھوٹی ہمدردیاں جتانے سے کوئی فائدہ نہیں۔
طمطراق :خوچے !جب تم انٹرویو کا کوچہ سے مردار باہر نکل رہا تھا۔ ہم سے دیکھا نئیں گیا۔ تم جس کا بولے گا ہم کھسم کھائے گا، اپنا دل بھر آیا۔ اپنا ریکارڈ ہے جندگی میں کبھی نئیں رویا۔ پن ماں کھسم آج تمارا حالت دیکھ کر ہمارا ایک آنکھ سے آنسو گر پڑا۔
راحیل :یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے یا تم واقعی میرے لئے کسی نوکری کا انتظام کر سکتے ہو؟
طمطراق :اپنا بات مانو اور یہ سروس کا چکر چھوڑ دیو اور پھر اپن تم کو کاں سے کاں پہنچا دیتا۔
راحیل :صرف وعدوں پر میں زندہ نہیں رہ سکتا۔
طمطراق :ہم زبان کا پکا اور بات کا دھنی ہے۔ اپنا گینگ تمارا واسطے پسینہ کا جگہ کھون بہا دے گا۔
راحیل :لیکن یہ سب کیوں ؟
طمطراق :خوچہ!اپناممبئی میں بی، ب۔ ۔ ۔ چ۔ ۔ ۔ اسی مافک ہے۔ سالا آدمی لوگ کا کھدرنئیں اپن تم میں بہت گن دیکھتا۔ اپناساتھ مل کرکام کرے گا۔ تمارا کسمت کا چاندی ہو گا۔
راحیل :آخر مجھے کیا کرنا ہو گا؟
طمطراق :اپنا کھوت سے اس ظالم سماج کا مکابلہ کرنا ہو گا۔ کانون کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنا کام نکالنا ہو گا۔
راحیل : اور اس کے بعد جیل کی ہوا کھانی ہو گی۔
طمطراق :تم سالا بہت کچا دل کا ہے۔ کال کوٹھری سے ڈرتا ہے۔ اپن فرسٹ ٹائم ہمت کر کے اندر ہو اماں کھسم، یار لوگ اپنا ایسا گریٹ ویل کم کیا۔ ۔ ۔ ایسا گریٹ ویلکم کیا کہ اپن باہر کا رستہ بھول گیا اور اس کا مبعد سے ہر چکر میں وستاد لوگ اپن کو نیا نیا گرفری سکھائیلا۔
راحیل :مجھے تمہاری باتوں سے خوف ہو رہا ہے۔
طمطراق :بچہ!اناڑی کو تیرنا سکھانے والا، اس کو دھکا دے کرپانی میں نہیں دھکیل دیتا۔ جب اس کا ڈر نکل جاوے اسے ڈبکیاں کھانے میں بہت مزہ آتا ہے۔
راحیل :میں دو سال سے سروس کے چکر میں بھٹک رہا ہوں۔ کوئی مجھے منہ نہیں لگاتا۔ آج تمہاری باتوں سے مجھے ایک نیا راستہ سجھائی دے رہا ہے۔
طمطراق :تم اکھا جندگی میں آج پہلی بار کام کا بات بولا۔ ہپی ویل کم۔ خوچہ! اس بے ایمانی کے دھندے میں ایمانداری بہت جروری ہے۔ اپن لوگ کا بھی کچھ اصول ہے۔
راحیل :مجھے کیا کرنا ہو گا؟
طمطراق :اپنا کوت سے اس جالم سماج کا مکابلہ کرنا ہو گا۔ (اڈریس دیتا ہے) کل اس پتہ پر آ جاؤ۔ اپنا آدمی تم کو اپنا پاس پہنچا دے گا۔ چند دن میں کئی ہجار کا فائدہ۔
راحیل :ٹھیک ہے۔ میں کل تک فیصلہ کر لوں گا۔
طمطراق :فیصلہ جرا جلدی کرنا۔ ورنہ یہ جالم سماج تم کو اپنی چکی میں پیس ڈالے گا۔ ماں کھسم، یہ جالم سماج تم کو اپنی چکی میں پیس ڈالے گا۔
(برکت بی بیلن لئے آتی ہے۔ )
برکت بی :فیصلہ گیا بھاڑ میں۔ ارے مشٹنڈے، چل تو جلدی سے نو دو گیارہ ہوتا کے نئیں۔
طمطراق :روحل صاب فیصلہ جرا جلدی کرن اور نہ یہ جالم سماج تم کو اپنی چکی میں پیس ڈالے گا۔ (جاتے جاتے) چکی۔ ۔ ۔ چکی۔ ۔ ۔
(چلا جاتا ہے۔ )
راحیل :برکت!تم جاؤ۔
(برکت بی چلی جاتی ہے۔ راحیل بے چینی کے عالم میں ہے۔ پس منظر سے آواز۔ جیسے راحیل کارواں رواں بول رہا ہے۔ راحیل انتہائی کرب اور اذیت کی حالت میں ٹہل رہا ہے۔ خوف، غم، غصہ اور طیش کی ملی جلی کیفیات اس پر طاری ہیں۔ )
پس منظر : (ہلکی ہنسی، سناٹا، قہقہہ) چکی، چکی(چکی کی آواز۔ ۔ ۔ )تمہیں پیش ڈالے گی۔ راحیل!تمہیں پیس ڈالے گی۔ (ڈراؤنی آوازیں) سماج ظالم ہے۔ ۔ ۔ ظالم ہے۔ ۔ ۔ تمہیں پیش ڈالے گا۔ (قہقہہ) ناقص تعلیم۔ ۔ ۔ ناقص تربیت۔ ۔ ۔ سب، تمہیں دھتکار رہے ہیں۔ ۔ ۔ وقت ہے، اب بھی وقت ہے۔ ۔ ۔ سنبھل جاؤ۔ ۔ ۔ چکی، چکی(چکی کی آواز) انٹرویو، نوکری(قہقہہ) رشتہ دار، دوست احباب، معاشرہ (قہقہہ) انتقام۔ ۔ ۔ (قہقہہ) انتقام۔
راحیل : (قہقہہ)۔ ۔ ۔ (قہقہہ)۔ ۔ ۔ ظالم ہے۔ ۔ ۔ سماج ظالم ہے۔ ۔ ۔ مجھے پیس ڈالے گی۔ ۔ ۔ سماج کی ظالم چکی مجھے پیس ڈالے گی۔ (جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے) اے سماج کے گتہ دارو(قہقہہ)۔ ۔ ۔ (برکت بی دروازے پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی ہے) میری تعلیم۔ ۔ ۔ میری تربیت۔ ۔ ۔ ناقص۔ ۔ ۔ ناقص۔ ۔ ۔ تعلیم، بی اے کی ڈگری (قہقہہ اور پاگل پن کی علامات کا اظہار) ڈگری۔
(بی اے کی ڈگری ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ )
برکت بی : (اندر آتی ہے) اللہ میاں، راحیل بھیا پاگل ہو گئے۔ دیوانے ہو گئے۔ رحم کر، یا اللہ رحم کر۔
راحیل :کون ہے تو۔ ۔ ۔ بتا!کون ہے تو(چلاتا ہے) فضلو، عبدو، قمرو۔ ۔ ۔ ارے کہاں مر گئے سب۔ ۔ ۔ مفت کی روٹیاں توڑتے ہو۔ نکالو اسے نکالو۔ تو غریب ہے۔ تجھے نوکری چاہئے۔ روپیہ چاہئے۔ روٹی چاہئے۔ ۔ ۔ نہیں دوں گا۔ ۔ ۔ ایک پیسہ نہیں دوں گا۔ تو پوچھے گی کیوں ؟ اس لئے کہ جب میں مانگتا تھا مجھے دنیا کچھ نہیں دیتی تھی(قہقہہ)آج میرے پاس موٹر ہے، بنگلہ ہے، نوکر چاکر ہیں، خوب دولت ہے۔ ۔ ۔ نہیں دوں گا۔ ۔ ۔ ہاں !تجھے پھوٹی کوڑی نہیں دوں گا۔ انتقام۔ ۔ ۔ انتقام۔
(گلدان اٹھا کر برکت بی پر پھینک دیتا ہے۔ گلدان ٹوٹ جاتا ہے۔ پھول فرش پر بکھر جاتے ہیں۔ )
برکت بی : (غمناک آواز میں) بھیا!میں ابھی شمشاد بھیا کو بلا کر لاتیؤں۔ فکر نکو کرو باہر سے دروازہ لگا دے ریئیوں۔
(برکت بی چلی جاتی ہے۔ )
راحیل : (قہقہہ۔ ۔ ۔ قہقہہ)گئی۔ ۔ ۔ چلی گئی۔ ۔ ۔ بھکاری کتیا۔ سب میرا ہے۔ سب میرا ہے۔ کسی کو کچھ نہیں دوں گا۔ ۔ ۔ انتقام۔ ۔ ۔ بدلہ۔ ۔ ۔ (توڑ پھوڑ شروع کر دیتا ہے، سامان بکھر جاتا ہے) شرفو، شیخو، شمشو!! توڑو۔ ۔ ۔ جلدی کرو۔ ۔ ۔ سب ختم کر دو۔ ۔ ۔ (دواؤں کی الماری سے دوائیں نکال کر پھینکتا ہے۔ وینیلا ایسنس اور ٹک 20 کی دو بوتلیں ہاتھ آ جاتی ہے)آہا، آہاہا!!(ناچتا ہے) لال پری، سبز پری، ہاہا!لال پری، سبزپری۔ اچھی پری، میری پری، لال پری، سبز پری(دونوں بوتلیں کھول دیتا ہے۔ سونگھتا ہے) اوہو!گلاب، اوہو چنبیلی، گلاب چنبیلی، گلاب چنبیلی، چنبیلی گلاب، گلاب چنبیلی(ٹک 20 پی لیتا ہے وینیلا ایسنس کی کھلی شیشی فرش پر گر جاتی ہے) آب حیات۔ ۔ ۔ اوغ۔ ۔ ۔ اوغ۔ ۔ ۔ آب۔ ۔ ۔ (حلق سے مختلف آوازیں نکالتا ہے۔ تشنج کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سینہ میں تکلیف اور قئے کی کیفیت) بدلہ۔ ۔ ۔ ب۔ ۔ ۔ د۔ ۔ ۔ لہ۔
(گر جاتا ہے۔ )
(پردہ)
دوسرا منظر
کمرۂ عدالت
چپراسی:ہوشیار!
(جج صاحب تشریف لاتے ہیں۔ )
جج :عدالت کی کاروائی شروع کی جاتی ہے۔ ملزم راحیل ابن صدر الدین کو حاضر کیا جائے۔ ۔ ۔ (ملزم راحیل ابن صدر الدین آ کر ملزم کے کٹہرہ میں کھڑا ہو جاتا ہے)ملزم راحیل ابن صدر الدین کی چارج شیٹ سنائی جائے۔
کلرک :اجازت ہے، یور آنر!
جج :اجازت ہے۔
کلرک :یور آنر!عدالت کے سامنے موجود ملزم راحیل ابن صدر الدین عمر پچیس سال پر الزام ہے کہ ملزم نے مورخہ یکم فروری ۷۷ء صبح تقریباً گیارہ بجے اپنے مکان واقع چوراہا اپنے پورے ہوش و حواس میں خودکشی کی ایک ناکام کوشش کی۔ مفتش کی تفتیش سے ظاہر ہے کہ ملزم نے آج سے دو سال قبل بی اے مکمل کیا ہے۔ ملزم راحیل ایک تندرست و توانا اور خوش پوش نوجوان ہے۔ ملزم کے خاندان کی مالی حالت اطمینان بخش ہے۔ موجودہ میڈیکل رپورٹ سے یہ واضح طور پر ثابت ہے کہ ملزم کا توازن دماغی نارمل ہے۔ یور آنر!ملزم نے اقدام خودکشی کا عمل اپنے پورے ہوش و حواس میں اور جان بوجھ کر کیا ہے۔ دیٹس آل یور آنر!
جج :راحیل ابن صدر الدین!آپ نے فرد الزام سن لیا؟
راحیل :جی ہاں۔
جج :آپ کو اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے ؟
راحیل :یور آنر!میں کچھ نہیں جانتا۔ مجھے کچھ بھی علم نہیں۔
وکیل سرکار :یور آنر!ملزم راحیل سب کچھ جانتے ہیں۔ میں عدالت سے درخواست کروں گی کہ ملزم راحیل ابن صدر الدین کو اس اقدام خودکشی کے جرم پر کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ یور آنر!یہ ایک مجرم ہے۔ انتہائی خطرناک مجرم۔ اگر آج اسے سخت ترین سزا نہ ملی تو آئندہ یہ کسی دوسرے کے خون کے جرم میں عدالت میں لایا جا سکتا ہے۔ یور آنر!۔ ۔ ۔
وکیل صفائی :Objection یور آنر!میرے موکل پر الزام ثابت نہیں ہوا اور وکیل سرکار انھیں مجرم کہہ رہی ہیں۔ مس سیما!قانون کے دائرے سے تجاوز کر رہی ہیں۔ دوسری اہم بات سر!میرے موکل نے نہ تو کسی کا خون کیا ہے، اور نہ ہی ان کا کوئی ایسا ارادہ ہے۔
یور آنر!یہ صرف وکیل عدالت کے ذہن کی اپج ہے۔ خیالات اور قیاسات کی بنیاد پر مقدمہ قائم نہیں کیاجا سکتا۔ اس لئے میں عدالت سے مؤدبانہ درخواست کروں گا کہ ان جملوں کو روداد سے خارج کیا جائے، اور میری فاضل دوست کو پابند کیا جائے کہ وہ سوچ سمجھ کر الفاظ کا استعمال کریں۔
جج :گواہ پیش کئے جائیں اور وکیل سرکار احتیاط برتیں۔
وکیل سرکار :یور آنر!عدالت کے پہلے گواہ ہیں، انسپکٹر کھنہ۔
چپراسی: (آواز) انسپکٹر کھنہ حاضر ہے۔ ۔ ۔ انسپکٹر کھنہ حاضر ہے۔
(انسپکٹر کھنہ گواہ کے کٹہرے میں آتا ہے۔ )
انسپکٹر کھنہ :پرمیشور کی قسم، میں جھوٹ نہیں کہوں گا۔
وکیل سرکار :مسٹر کھنہ!ملزم راحیل کی خودکشی کی رپورٹ مختصراً سنائیے۔
انسپکٹر کھنہ :پہلی فروری ۷۷ء صبح تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سول ہاسپٹل سے ڈاکٹر لتا چٹرجی کا فون آیا کہ ایک زہر خورانی کا کیس ہاسپٹل پہنچا ہے۔ میں فوراً وہاں پہنچا۔ دوا خانہ میں ڈاکٹر لتا چٹرجی، مسٹر راحیل کے علاج میں مصروف تھیں، جو بے ہوش تھے۔
وکیل سرکار :ڈاکٹر لتا چٹرجی کے علاوہ ملزم کے قریب اور کون کون موجود تھا؟
انسپکٹر کھنہ :دوا خانہ کے اسٹاف کے کچھ لوگ، راحیل کی نوکرانی برکت بی اور راحیل کے قریبی دوست مسٹر شمشاد۔
وکیل سرکار :ملزم راحیل تو اس وقت بے ہوش تھے۔ اس زہر خورانی کے تعلق سے آپ نے صحیح معلومات کس طرح حاصل کیں ؟
انسپکٹر :میں نے مسٹر شمشاد اور برکت بی سے اس تعلق سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان دونوں نے وکیل کے مشورے کے بغیر میرے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے صاف انکار کر دیا۔
وکیل سرکار :تب آپ کی تفتیش نے کون سا رخ اختیار کیا؟
انسپکٹر :میں برکت بی اور مسٹر شمشاد کے ساتھ ملزم راحیل کے مکان پر پہنچا۔
وکیل سرکار :اس کے بعد۔
انسپکٹر :ملزم راحیل کے ڈرائنگ روم میں Tick 20 کی خالی بوتل فرش پر نظر آئی۔ فرش پر موجود قئے کا کچھ حصہ تجزیہ کے لئے حاصل کیا گیا۔
وکیل سرکار :مسٹر کھنہ!Tick 20 کی بوتل پر موجود نشانات انگشت کے تعلق سے آپ کیا جانتے ہیں ؟
انسپکٹر :ماہرین فنگر پرنٹس کی رپورٹ کے مطابق Tick 20 کی باٹل پر ملزم راحیل کے فنگر پرنٹس پائے گئے ہیں۔
وکیل سرکار :زہر خورانی کا اور کوئی ثبوت؟
انسپکٹر :ملزم راحیل کے ڈرائنگ روم سے حاصل کی گئی قئے کے تجزیہ سے زہر خورانی ثابت ہے۔
وکیل سرکار :ملزم راحیل نے آپ کوکب اور کیا بیان دیا؟
انسپکٹر :ہوش میں آنے کے بعد وقفہ وقفہ س میں نے ملزم کا بیان لینے کی کوشش کی۔ لیکن تقریباً ۲۴ گھنٹوں تک وہ میرے ہر سوال کے جواب میں مجھے صرف گھور کر دیکھ رہے تھے۔ بالآخر بڑی مشکل سے انھوں نے صرف اتنا کہا:’’میں کچھ نہیں جانتا مجھے کچھ بھی علم نہیں۔ ‘‘
وکیل سرکار :دیٹس آل، یور آنر!
جج : (وکیل صفائی سے) یور ٹرن۔
وکیل صفائی :مسٹر کھنہ جب آپ یکم فروری ۱۹۷۷ء میرے موکل کے مکان پہنچے، اس وقت موقعۂ واردات پر آپ نے کیا دیکھا؟
انسپکٹر :ڈرائنگ روم کی چیزیں الٹ پلٹ تھیں۔ فرش پر Tick 20 کی باٹل کھلی پڑی تھی۔
وکیل صفائی :Tick 20 کی بوتل کے علاوہ آپ نے فرش پر اور کیا کیا دیکھا؟
انسپکٹر :فرش پر کچھ کاغذات بکھرے پڑے تھے، لیکن پھٹی ہوئی حالت میں۔
وکیل صفائی :یہ کاغذات کس نوعیت کے تھے ؟
انسپکٹر :کاغذات مسٹر راحیل سے متعلق تھے، بی اے کی ڈگری وغیرہ۔
وکیل صفائی : (گواہ کے قریب پہنچ کر) انسپکٹر صاحب!ان کاغذات کو ملاحظہ فرمائیے۔
انسپکٹر ۔ :جی ہاں۔ یہی کاغذات ہیں۔
وکیل صفائی :میں عدالت سے درخواست کروں گا کہ میرے موکل کے ان اہم کاغذات کو بطور Exhibits قبول کیا جائے۔
جج : (کاغذات دیکھ کر کلرک کے حوالہ کر دیتا ہے) ٹھیک ہے، ان کاغذات کو شامل مقدمہ کیا جائے۔
وکیل صفائی :کھنہ صاحب! ان کاغذات کے علاوہ اگر آپ نے کچھ اور دیکھا ہو تو بتائیے ؟
انسپکٹر :میں نے اس قبل عدالت کو بتایا ہے کہ سامان بکھرا پڑا تھا۔ گلدان ٹوٹا ہوا تھا۔ گلدان کے پھول فرش پر بکھر چکے تھے۔
وکیل صفائی :یاد کیجئے مسٹر کھنہ، کچھ اور ۔ ۔ ۔
انسپکٹر :ایک وینیلا ایسنس کی شیشی فرش پر کھلی پڑی تھی۔ شیشی سے پورا ایسنس فرش پر بہہ چکا تھا۔
وکیل صفائی : (گواہ کے قریب پہنچ کر) یقیناً وہ یہی شیشی ہو گی؟
انسپکٹر :اس جیسی ہی تھی۔
وکیل صفائی :اس جیسی ہی کیوں ؟۔ ۔ ۔ آپ نے یہی شیشی دیکھی تھی۔
انسپکٹر :وہ بھی ایک وینیلا ایسنس کی شیشی تھی۔ ممکن ہے یہی ہو۔
وکیل صفائی :یقیناً یہی ہے (جج سے مخاطب ہو کر) یور آنر!میں عدالت سے درخواست کروں گا کہ اس شیشی کو بطور Exhibit قبول کیا جائے۔
وکیل سرکار :Objection یور آنر!اس شیشی کا زہر خورانی سے کوئی تعلق نہیں۔
وکیل صفائی :زہر خورانی سے نہ سہی، اس مقدمہ سے ہے۔ یور آنر!موقعۂ واردات پر موجود ہر چیز کا اس مقدمہ سے گہرا تعلق ہے۔
جج : (شیشی کلرک کے حوالہ کرتے ہوئے)۔ ۔ ۔ اس شیشی کو بطور شہادت قبول کیا جائے۔
وکیل صفائی :دیٹس آل یور آنر!
جج : (وکیل سرکار سے) Any Question
وکیل سرکار :نو، یور آنر!
جج :مسٹر کھنہ آپ جا سکتے ہیں۔
وکیل سرکار :یور آنر!عدالت کی دوسری گواہ ہیں ڈاکٹر لتا چٹرجیMBBS, FRCS جو یہاں کے سول ہاسپٹل کی میڈیکل آفیسر ہیں۔
جج :اجازت ہے۔
چپراسی:ڈاکٹر لتا چٹرجی۔ ۔ ۔ حاضر ہیں۔ ۔ ۔ ڈاکٹر لتا چٹرجی۔ ۔ ۔
لتا چٹرجی :میں جو کچھ کہوں گی جھوٹ نہیں کہوں گی۔
وکیل سرکار :ڈاکٹر لتا چٹرجی!آپ اس پیشہ سے کب سے وابستہ ہیں ؟
لتاچٹرجی:میں گذشتہ دس سال سے میڈیکل آفیسر کے فرائض انجام دے رہی ہوں۔
وکیل سرکار :اس دس سال کے عرصہ میں زہر خورانی کا یہ Case کہیں آپ کا پہلا تجربہ تو نہیں۔
لتا چٹرجی :میں اس قسم کے کئی Cases اٹینڈ کر چکی ہوں۔
وکیل سرکار :ملزم کی رپورٹ کے اہم پوائنٹس عدالت پر واضح کیجئے۔
لتا چٹرجی :پہلی فروری ۱۹۷۷ء صبح تقریباً ساڑھے گیارہ بجے مسٹر شمشاد اور برکت بی، مسٹر راحیل کولے کر دوا خانے پہنچے۔ اس وقت مریض پر تشنج کی کیفیت طاری تھی۔ مریض کے منہ سے زہر کی بو آ رہی تھی۔ مسٹر شمشاد اور برکت بی انتہائی گھبرائے ہوئے تھے، انھوں نے مجھ سے کہا کہ مریض کے معدے میں زہر داخل ہو چکا ہے خدا کے لیے انہیں بچا لیجئے۔
وکیل سرکار :تب آپ نے کیا کیا؟
لتا چٹرجی :جو ایک ڈاکٹر کا فرض ہوتا ہے۔ میں نے مریض کو فوراً طبی امداد پہنچائی۔
وکیل سرکار :ہاں !تو۔ ۔ ۔ راحیل کی خودکشی کے بارے میں آپ اور کیا جانتی ہیں ؟
وکیل صفائی :Objection یور آنر!میرے موکل پر خودکشی کا جرم ثابت نہیں ہوا، اور مس سیما اپنی جانب سے غیر ضروری فیصلہ صادر کر رہی ہیں۔ یور آنر یہ ایک Leading Question ہے۔
جج :Objection sustained سرکاری وکیل کوئی دوسرا سوال کریں۔
وکیل سرکار :ڈاکٹر چٹرجی!آپ نے بتایا کہ ملزم کے منہ سے زہر کی بو آ رہی تھی۔ زہر خورانی کا کوئی اور ثبوت؟
لتا چٹرجی :Chemical Analyser سے قئے کی رپورٹ طلب کی گئی جس سے واضح طور پر ثابت ہے کہ مسٹر راحیل نے Tick 20 پی کر خودکشی کی ناکام کوشش کی تھی۔
وکیل صفائی :آئی ایم سوری یور آنر!Chemical Analyser کی رپورٹ مقدمہ کی مثل میں موجود ہے، جو صرف یہ ظاہر کرتی ہے کہ میرے موکل کے معدہ سے جو مادہ برآمد ہوا اس میں زہر موجود تھا۔ لیکن اس رپورٹ سے کہیں بھی اقدام خودکشی ثابت نہیں ہوتا۔
جج :ڈاکٹر لتا چٹرجی!سرکاری وکیل کے سوال کا جواب رپورٹ کے مطابق دیجئے۔
وکیل سرکار :ڈاکٹر لتا!آپ نے بتایا کہ سامنے کٹہرہ میں موجود شخص کے منہ سے زہر کی بو آ رہی تھی زہر خورانی کا اور کوئی ثبوت؟
لتا چٹرجی :۔ ۔ ۔ کیمیائی تجزئیے کی رپورٹ میں مسٹر راحیل کے معدہ سے برآمد ہونے والے مادہ کی تفصیل موجود ہے۔ جس سے واضح طور پر ثابت ہے کہ اس مادہ میں زہر موجود تھا۔
وکیل سرکار :ملزم کی دماغی حالت کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کیجئے ؟
لتاچٹرجی :میرے موجودہ Check Up کے مطابق ملزم نارمل ہے۔
وکیل سرکار :دیٹس آل، یور آنر!
جج :یور ٹرن۔
(وکیل دفاع سے)
وکیل صفائی :ڈاکٹر لتا جی!زہر خورانی کے کتنی دیر بعد میرے موکل کو زہر کے اثرات سے چھٹکارا ملا۔
ڈاکٹرلتا:زہر خورانی کے چوبیس گھنٹہ بعد کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ان کے جسم سے زہر کے اثرات زائل ہو چکے تھے۔
وکیل صفائی :آپ کی رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے دماغ پربھی زہر کا کوئی اثر موجود نہ تھا۔
ڈاکٹر لتا :جی ہاں آپ درست کہہ رہے ہیں۔
وکیل صفائی :راحیل کی دماغی حالت کے بارے میں آپ کیا جانتی ہیں ؟
ڈاکٹر لتا:اس سے قبل سرکاری وکیل صاحبہ کے اسی سوال کے جواب میں، میں عدالت کو بتا چکی ہوں کہ اس وقت ان کی دماغی حالت نارمل ہے۔
وکیل صفائی :معافی چاہتا ہوں، میں بھول گیا تھا، تو آپ طبی معائنہ کے بعد پورے اعتماد سے کہہ سکتی ہیں کہ اس وقت میرے موکل کی دماغی کیفیت بالکل نارمل ہے۔ لتا جی!میں آپ کا جس قدر شکریہ ادا کروں کم ہے۔ آپ نے راحیل کو بروقت اور بہترین طبی امداد پہنچائی آپ جیسی فرض شناس ڈاکٹر۔ ۔ ۔
جج :مسٹر رانا!آپ مقدمہ کی اصل روداد سے ہٹ رہے ہیں۔
وکیل صفائی :یور آنر!میں نے ایک اخلاقی فریضہ ادا کیا ہے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر لتا!پھر ایک مرتبہ آپ کی بات دہراتا چلوں کہ اس وقت راحیل کی دماغی نوعیت نارمل ہے۔ لیکن۔ ۔ ۔ کیا آپ عدالت کو بتائیں گی کہ یکم فروری ۱۹۷۷ء صبح گیارہ بجے سے قبل یعنی زہر خورانی کے اس حادثہ سے قبل میرے موکل کی ذہنی کیفیت کیا تھی۔ میرا مطلب ہے کوئی جنون، فتور، ہیجان، دیوانہ پن، پاگل پن یا اور کوئی دوسری دماغی بیماری؟
ڈاکٹر لتا:اس وقت بھی ذہنی کیفیت نارمل ہی ہو گی؟
وکیل صفائی :Beg your pardon
ڈاکٹر لتا:میرے خیال سے اس وقت بھی ملزم کی ذہنی حالت نارمل ہی ہو گی۔ کیونکہ میرے Check up کے مطابق انھیں کوئی دماغی بیماری نہیں۔
وکیل صفائی :ڈاکٹر لتا چٹرجی!آپ کے Personal views کا اس مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں کیا آپ کامل یقین کے ساتھ، کسی ٹھوس ثبوت کے ساتھ بیان دے سکتی ہیں ؟
(ڈاکٹر لتا چٹرجی خاموش ہو جاتی ہے۔ جج اور سرکاری وکیل کو تذبذب کی کیفیت میں دیکھتی ہے۔ ۔ ۔ سناٹا)
وکیل صفائی :آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا لتا جی!
(ڈاکٹر لتا کوئی جواب نہیں دیتی۔ ۔ ۔ سناٹا)
وکیل صفائی :یور آنر!عدالت نے ڈاکٹر لتا کی خاموشی کو نوٹ کیا ہے۔ اب اس سوال کے جواب کی ضرورت نہیں رہی۔
وکیل سرکار :۔ ۔ ۔ یور آنر!فاضل وکیل دفاع، عدالتی گواہ کو ڈرا رہے ہیں، دھمکا رہے ہیں۔ ڈاکٹر لتا پر غیر ضروری دباؤ ڈال رہے ہیں۔ یور آنر! مسٹر رانا عدالت کو ڈرامہ کا اسٹیج سمجھ رہے ہیں۔ یور آنر! میں وکیل موصوف کے اس عمل پر Protest کرتی ہوں۔ ملزم کے وکیل عدالت کو واضح طور پر بتائیں کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟
جج :مسٹر رانا! عدالت کو صاف صاف بتائیے۔ اس خاموشی کا آپ کے پاس کیا مطلب کیا مفہوم ہے؟
وکیل صفائی :اجازت چا ہوں گا کہ ڈاکٹر چٹرجی سے کچھ اور سوالات پوچھوں، تا کہ اس خاموشی کا مطلب واضح ہو جائے۔
جج :اجازت ہے۔
وکیل صفائی :جب میرے موکل کو ہوش آیا۔ اس وقت آپ کہاں تھیں ؟
ڈاکٹر لتا:میں مریض کے قریب ہی موجود تھی۔
وکیل صفائی :ہوش میں آتے ہی جب مریض نے پوچھا کہ ’’میں نے تو خودکشی کر لی تھی کیسے بچ گیا‘‘ تب آپ نے کیا جواب دیا؟
ڈاکٹرلتا:وکیل صاحب!یہ سوال شاید آپ کے ذاتی خیالات سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ جانتے ہیں بنا ثبوت کسی بھی خیال کی مقدمہ میں کوئی گنجائش نہیں۔
وکیل صفائی :میں شرمندہ ہوں۔ پلیز!کیا آپ مریض کو ہوش آنے کے بعد کی کیفیت دہرائیں گی؟
ڈاکٹر لتا:ہوش میں آنے کے بعد مریض تقریباً پندرہ منٹ تک خالی خالی نظروں سے چاروں طرف بالکل دیوانوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
وکیل صفائی : اور پندرہ منٹ بعد؟
ڈاکٹر لتا:وہ اپنے بستر سے کود پڑے۔ اپنے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کی۔ دوا خانہ کا عملہ اس وقت تک بہت ہی مستعد ہو چکا تھا۔ راحیل پاگلوں کی طرح چلا رہے تھے۔ لیکن ان کے تمام جملے ادھورے تھے۔
وکیل صفائی :یعنی اس وقت ان پر دماغی دورہ پڑا تھا۔
وکیل سرکار :یور آنر!ڈاکٹر لتا نے بتایا کہ ملزم پاگلوں کی طرح چلا رہا تھا، میرے فاضل دوست نے اس جملہ کا یہ مطلب کس طرح نکال لیا کہ ملزم پر دماغی دورہ پڑا تھا۔
جج :وکیل صاحب اپنی دفاع میں کچھ کہنا چاہیں گے ؟
وکیل صفائی :ڈاکٹر صاحبہ کا بیان میری بات کا ثبوت ہے۔
وکیل سرکار :یور آنر!اس طرح کپڑے پھاڑنا، پاگلوں کی طرح چلانا دراصل ملزم کی ایک چال تھی قانون سے بچنے کے لیے ایک ڈرامہ تھا جو دواخانہ میں کسی کے اشارہ پر کھیلا گیا۔
وکیل صفائی :میری معزز دوست غیر ضروری الزام تراش رہی ہیں۔ یور آنر! آپ پر اصل حقیقت ابھی واضح ہو جائے گی۔ ۔ ۔ ڈاکٹر لتا!جب میرے موکل کو ہوش آیا، اس وقت دوا خانے کے عملہ کے علاوہ اور کون موجود تھا؟
ڈاکٹر لتا:صرف دوا خانہ کا اسٹاف مریض کو طبی امداد پہنچا رہا تھا، مسٹر شمشاد اور برکت بی ہوش میں آنے کے نصف گھنٹہ بعد آئے۔
وکیل صفائی :یعنی جب مریض پر دماغی دورہ پڑا اس وقت شمشاد صاحب اور برکت بی وہاں موجود نہ تھے۔
وکیل سرکار :Objection یور آنر!وکیل موصوف دوبارہ وہی غیر ذمہ دارانہ بات دہرا رہے ہیں۔ عدالت میں ملزم کی میڈیکل رپورٹ موجود ہے جو اس بات کا کامل ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ملزم پیدائشی پاگل نہیں۔
وکیل صفائی :وکیل سرکار، درست کہہ رہی ہیں یورآنر!میرا موکل By birth پاگل نہیں۔ ۔ ۔ ڈاکٹر چٹرجی!آپ نے قسم کھائی ہے کہ جو کچھ کہو گی سچ کہو گی۔ آپ ایک ڈاکٹر ہیں انسان کو بچانا آپ کی ذمہ داری ہے، آپ پر فرض ہے۔ عدالت کو بتائیے کہ ہوش میں آنے کے بعد درحقیقت مریض کس کیفیت میں مبتلا تھا۔
ڈاکٹر لتا:یہ حقیقت ہے کہ ہوش میں آنے کے پندرہ منٹ بعد مریض پر دماغی دورہ پڑا تھا۔
جج :ڈاکٹر لتا چٹرجی!آپ کی معلومات کے مطابق کیا اس سے قبل کبھی راحیل ابن صدرالدین کسی دماغی دورہ کا شکار ہوئے ؟
ڈاکٹر لتا:یور آنر!میری معلومات کے مطابق یہ ان کی زندگی کا پہلا دماغی دورہ ہے اس سے قبل کا کوئی ثبوت میرے پاس نہیں۔
وکیل صفائی : اور میرے پاس ہے یور آنر!(رپورٹ جج کو پیش کرتا ہے) اس حادثہ سے چھ ماہ قبل کی ایک Specialist کی یہ رپورٹ۔ یور آنر! حادثہ سے چھ ماہ قبل میرا موکل پہلی مرتبہ اسی کیفیت کا شکار ہوا تھا۔ دوسرا دماغی دورہ ان پر یکم فروری ۱۹۷۷ء صبح گیارہ بجے سے قبل پڑا اور ڈاکٹر لتا جس پاگل پن کی بات کر رہی ہے۔ وہ دراصل تیسرا دماغی دورہ تھا۔
جج :اس رپورٹ کو شامل مقدمہ کیا جاتا ہے۔ مسٹر رانا!دوسرے دورہ کا کوئی ثبوت نہیں۔
وکیل صفائی :یور آنر!اس بات کا ثبوت بھی ڈاکٹر لتا ہی فراہم کریں گی۔ ۔ ۔ ڈاکٹر لتا! براہ کرم جنونی دورہ کے وقت مریض نے جو ادھورے جملے ادا کئے، انھیں دہرائیے۔
ڈاکٹر لتا:مجھے صحیح طور پر یاد نہیں۔
وکیل سرکار :Objection یور آنر!فاضل وکیل عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر لتا جب یہ بتا چکی ہیں کہ اس وقت ملزم جنونی کیفیت میں مبتلا تھا۔ اس کے بعد اس سوال کی ضرورت ہی نہیں۔ یور آنر! کسی بھی جنونی کی بڑ عدالت کے لئے قابل قبول نہیں۔ میں معزز عدالت سے درخواست کروں گی کہ ڈاکٹر لتا کو اس سوال کا جواب دینے کے لئے مجبور نہ کیا جائے۔
وکیل صفائی :یور آنر!اس سوال کا صحیح اور واضح جواب ہی میرے بے گناہ موکل کو سزا سے بچا سکتا ہے۔
جج :ڈاکٹرلتاچٹرجی!اس سوال کا رالت ۔ ۔ ۔ سخن داٹ کامقھگع جھق کججواب اپنی یادداشت کے سہارے دیجئے، لیکن اس طرح کہ مطلب بدلنے نہ پائے۔ قانون کافرض ہے کہ ملزم کو اپنی صفائی کاپوراپوراموقعہ دیاجائے۔
ڈاکٹرلتا: (سوچتے ہوئے) مریض اپنے پاگل پن کے دورہ میں کچھ اس طرح کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ یہ سماج ظالم ہے۔ میری تعلیم، تربیت ناقص ہے۔ ۔ ۔ انٹرویو۔ ۔ ۔ دھتکار رہے ہیں۔ ۔ ۔ چکی۔ ۔ ۔ سماج کی ظالم چکی۔ ۔ ۔
وکیل صفائی :دیٹس آل یور آنر!
جج :ڈاکٹر ٹرور العین علیلتا چٹرجی!آپ جا سکتی ہیں۔
(وکیل سرکار کی جانب دیکھتا ہے۔ )
وکیل سرکار :یور آنر!مجھے کل تک وقت دیاجائے۔ ۔ ۔ میں عدالت کی مشکور رہوں گی اگر اس مقدمہ کی کاروائی کل صبح تک کے لئے ملتوی کر دی جائے۔
جج : (وکیل دفاع سے) آپ کوکوئی اعتراض ہے ؟
وکیل صفائی :مجھے کوئی اعتراض نہیں، یور آنر!
جج :اس مقدمہ کی کاروائی کوعدالت کل صبح تک کے لئے ملتوی کرتی ہے۔
(پردہ)
تیسرامنظر
کمرۂ عدالت
جج :عدالت کی کاروائی شروع کی جاتی ہے۔
وکیل سرکار :یور آنر!ڈاکٹرلتاچٹرجی کے اداکئے گئے ادھورے جملوں سے میرے فاضل دوست عدالت میں ایک سسپنس پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان جملوں کی آڑمیں وکیل ملزم پورے نظام تعلیم کوناقص قراردے رہے ہیں اور اس طرح یور آنراپنے موکل پرلگائے گئے الزامات کی پردہ پوشی کے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ ملزم نے سوپر اسٹار ہائی ا سکول میں اول تامیٹرک تعلیم حاصل کی ہے۔ مجھے اس ا سکول کی پرنسپل کوثرجہاں بیگم کو گواہ کی حیثیت سے پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔
جج :اجازت ہے۔
چپراسی:پرنسپل کوثرجہاں بیگم حاضرہے۔ ۔ ۔ پرنسپل کوثرجہاں بیگم۔ ۔ ۔
(کوثرجہاں بیگم داخل ہوتی ہے۔ )
پرنسپل:میں خداکوحاضر ناظرجان کر، جوکچھ کہوں گی سچ کہوں گی، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گی۔
وکیل سرکار :پرنسپل صاحبہ آپ کتنے عرصہ سے سوپراسٹار ہائی ا سکول کی پرنسپل ہیں ؟
پرنسپل:گذشتہ ۱۲سال سے میں پرنسپل کی خدمات انجام دے رہی ہوں۔
وکیل سرکار :راحیل ابن صدرالدین کے بارے میں آپ کیاجانتی ہیں ؟
پرنسپل:ریکارڈ کی چھان بین سے پتہ چلتا ہے کہ راحیل کی تعلیمی حالت بے حد کمزورتھی۔
وکیل سرکار :حاضری کاریکارڈ؟
پرنسپل:راحیل اکثرا سکول سے غیرحاضر رہا کرتے تھے۔
وکیل سرکار :زائد ازنصابی سرگرمیوں میں ان کی شرکت؟
پرنسپل:ایسی سرگرمیوں سے انہیں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔
وکیل سرکار :اسکول کے قوانین کی پابندی میں مسٹر راحیل کاحصہ؟
پرنسپل:یہ اکثراسکول دیرسے آتے۔ بہت سختی کی جاتی تب کہیں یہ یونیفارم کی مکمل پابندی کرتے۔ یونیفارم گندہ، ناخن بڑھے ہوئے، بال الجھے ہوئے، جن میں تیل ندارد۔
وکیل سرکار :آپ اپنے شاگرد پربلاوجہ الزام لگا رہی ہیں ؟
پرنسپل:یہ ایک حقیقت ہے۔ اساتذہ کی ہمیشہ شکایت رہی کہ راحیل نے ہوم ورک نہیں کیا، اسباق یاد نہیں کئے۔ تعلیمی ضروریات ساتھ لانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔
وکیل سرکار :ان کے گھرکی مالی حالت کے تعلق سے کچھ بتائیے ؟
پرنسپل:مالی حالت اطمینان بخش تھی۔ ان کی جیب میں ہمیشہ روپیہ پیسہ ہوتا جسے راحیل غیرضروری خرچ کرتے۔ ان کی اس بری عادت سے دوسرے بچے بھی متاثر ہوئے۔
وکیل سرکار :راحیل کے تعلق سے آپ اور کیا کیا جانتی ہیں ؟
پرنسپل:راحیل اس قدر فضول خرچ ہو چکے تھے کہ جب ان کے پاس پیسہ ختم ہو جاتا اپنی کتابیں وغیرہ فروخت کر دیتے۔ اس سلسلے میں انھیں چوریاں کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ امتحان میں نقل کرنا ان کامحبوب مشغلہ تھا۔ بلاوجہ اپنے ساتھیوں سے جھگڑا کرتے اور اس وقت ان کی گالیاں دوسرے بچوں پربرا اثر ڈالتیں۔
وکیل سرکار :گیمس اور اسپورٹس میں ان کاحصہ؟
پرنسپل:اس میدان میں بھی راحیل نے کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کیا۔
جج :ملزم کومیٹرک کامیاب ہوئے تقریباً آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ عدالت کو تعجب ہے کہ، آپ کو ان کے تعلق سے یہ باتیں کیسے یادرہ گئیں ؟
پرنسپل:میں نے عدالت کوجوکچھ بتایا، اس میں سے کئی باتیں ا سکول کے ریکارڈ پرموجودہیں۔
جج : اور جوریکارڈ پرموجودنہیں ؟
پرنسپل:یور آنر! وہ تمام میرے ذہن پر نقش ہیں۔ عدالت پرواضح ہے کہ دو باتیں انسان کے ذہن پردیرپاتاثرچھوڑتی ہیں۔ بہت ہی اچھی یا بہت بری۔ یہ انسانی سائیکولوجی کا ایک مسلمہ قانون اور اصول ہے۔
وکیل سرکار :دیٹس آل یور آنر!
جج : (وکیل ملزم سے)یورٹرن۔
وکیل صفائی :یور آنر!میرے موکل نے اپنے جنونی دوروں کے دوران کہا تھا، ناقص تعلیم، ناقص تربیت، اس سے مراد ان کی اپنی بچپن کی لا پرواہیاں اور کوتاہیاں تھیں۔ میں نے عدالت میں کوئی سسپنس پیدا نہیں کیا۔ بلکہ میں مس سیما کا انتہائی مشکور ہوں کہ جو بات عدالت میں، ثابت کرنا چاہتا تھا، میری فاضل دوست نے ثابت کر دی۔ میری ایک مشکل آسان کر دی، یور آنر!
جج :مسٹر رانا! مقدمہ کی کاروائی کو آگے بڑھائیے۔
وکیل صفائی :محترمہ! آپ میرے موکل کی استاد ہیں۔ مجھ پر لازم ہے کہ میں آپ کا وہی احترام کروں جو آپ کے شاگرد پر واجب اور فرض ہے۔ ویسے استاد نہ صرف شاگرد کے لئے بلکہ پورے سماج کے لئے قابل تعظیم ہوتا ہے۔
پرنسپل:شکریہ۔ میں آپ کے ان جذبات کی قدر کرتی ہوں۔
وکیل صفائی :کوثر جہاں صاحبہ! اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو براہ کرم اسے میرے موکل کی جانب سے ایک درخواست سمجھئے گا۔
وکیل سرکار :Objection یور آنر! آج وکیل صاحب کا لب و لہجہ بالکل بدلا ہوا ہے وکیل دفاع اپنی اس اداکاری سے پرنسپل صاحبہ کے دل میں ملزم کے لئے ہمدردی کا جذبہ پیدا کر کے دراصل اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ یور آنر! یہ ایک بہترین نفسیاتی حربہ ہے۔
پرنسپل:آئی ایم سوری یور آنر! ہر استاد کے دل میں اپنے شاگرد کے لئے خلوص اور ہمدردی ہوتی ہے۔ کسی نفسیاتی حربہ کی ضرورت نہیں۔ یور آنر! میں عدالت سے درخواست کرونگی، وکیل صفائی کو اجازت دی جائے کہ وہ جو کچھ پوچھنا چاہتے ہیں بلا جھجک پوچھیں۔
جج :وکیل ملزم مقدمہ کو آگے بڑھائیں۔
وکیل صفائی :پرنسپل صاحبہ!سب سے پہلے عدالت کو یہ بتائیے کہ زمانۂ طالب علمی میں راحیل میں جو خامیاں، برائیاں تھیں، اس کے ذمہ دار کیا صرف اور صرف راحیل ہی ہیں ؟
پرنسپل:ان خامیوں اور برائیوں کی ذمہ داری سب سے پہلے راحیل پر ہے۔ لیکن صرف یہی ذمہ دار نہیں۔
وکیل صفائی :پھر آخر ان باتوں کا ذمہ دار کون ہے ؟محترمہ بتائیے آخر مجرم کون ہے ؟
پرنسپل:مجرم کون؟ اس کا فیصلہ تو قانون کرے گا۔ ہاں اتنا ضرور کہوں گی کہ ان تمام باتوں کے ذمہ دار ہیں۔ ۔ ۔ ا سکول اور اس کے اساتذہ، طالب علم کا گھر، ہمارا ماحول، سماج، معاشرہ اور موجودہ نظام تعلیم۔
وکیل صفائی :ایک بچے میں ہزار برائیاں ہوں، چند اچھائیاں بھی ہوتی ہیں۔ آپ کے ا سکول نے خرابیوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو ابھارنے میں کیا رول ادا کیا؟
پرنسپل:راحیل ایک حساس طالب علم تھے۔ ان میں بھی تقریباً تمام صلاحیتیں پوشیدہ تھیں۔ لیکن کیا کیا جائے، راحیل کی لاپرواہیوں، والدین کی عدم توجہ اور بری عادتوں سے چشم پوشی نے انہیں کہیں کا نہ رکھا۔
وکیل صفائی :غلطی راحیل کی تھی۔ آپ ان کے والدین کو کیوں الزام دے رہی ہیں۔
پرنسپل:بچے کے تعلق سے سرپرست صاحبان کو اکثر و بیشتر شکایتیں روانہ کی گئیں۔ لیکن والد محترم یا والدہ صاحبہ نے کبھی اس طرف توجہ فرمانے کی زحمت گوارہ نہ کی۔
وکیل صفائی :آپ کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ صرف شرکت کے وقت تشریف لائے تھے اس کے بعد کبھی صورت نہیں بتائی؟
پرنسپل:پتہ نہیں۔ ۔ ۔ پتہ نہیں شرکت کے لئے بھی تشریف لائے تھے یا نہیں۔ میں سمجھتی ہوں، مدرسہ میں داخلہ بھی کسی پڑوسی کے رحم و کرم کا نتیجہ تھا۔
وکیل صفائی :یعنی۔ ۔ ۔ آپ نے ان کے والد بزرگوار کو دیکھا تک نہیں ؟
پرنسپل:ایک ہی مرتبہ دیکھا اور بڑی اچھی طرح دیکھا۔ ۔ ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ راحیل پر چوری کے دوسرے یا تیسرے الزام پر بڑے طیش میں مدرسہ آئے اور بے چارے کلاس ٹیچر کو خوب باتیں سنائیں کہ ان کے لاڈلے کو بلا وجہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ مگر کوئی کیا کرے، تلاشی پر راحیل کے بستہ سے مذکورہ کتاب برآمد ہوئی۔
وکیل صفائی :چوری، فضول خرچی، گالیاں، بچہ اپنے ا سکول ہی کے ساتھیوں سے نہیں سیکھتا؟
پرنسپل:یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ لیکن انھیں یہ برائیاں ا سکول نہیں سکھاتا، ا سکول کا ماحول اسی وقت پاک وصاف ہو گا، جب گھر اور اس کے اطراف کا ماحول پاک صاف ہو۔
وکیل صفائی :واضح فرمائیے کہ آپ نے اپنے بیان میں سماج اور معاشرہ کا ذکر کیوں کیا ہے ؟
پرنسپل:ہمارے سماج میں جہاں کئی خوبیاں ہیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ رشوت، مکاری، عیاری، چاپلوسی، چالبازی، کینہ کپٹ، خود غرضی، مفاد پرستی، مطلب پرستی اور تعصب جیسے کئی ناسور بھی موجود ہیں۔ جو موجودہ نسل کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
وکیل صفائی :آپ کا ا سکول بچوں کو ان سے بچنے کے لئے کیا تربیت دے رہا ہے ؟
پرنسپل:ہم نے اپنے ا سکول کے بچوں کو صرف نصابی کتب تک محدود نہ رکھ کر ان کے لئے وسیع سے وسیع تر تعلیمی میدان فراہم کیا۔ تا کہ ان میں غور و فکر، ہمت اور جستجو پیدا ہو۔ ٹھوس اور بلند کرداروں کے ساتھ ان کا شعور بیدار ہو سکے۔ بچوں کی ہمہ جہتی ترقی، انفرادی قابلیت کے اظہار اور اضافہ میں زائد از نصابی سرگرمیاں، نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
وکیل صفائی :ان سرگرمیوں کے نتائج امید افزا ہیں ؟
پرنسپل:مفید نتائج کی توقع اس وقت تک فضول ہے جب تک کہ گھر کے افراد کا مکمل تعاون حاصل نہ ہو۔
وکیل صفائی :بچہ اپنی عملی زندگی کوکس طرح سنوار سکتا ہے ؟
پرنسپل:مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کے طلبا حصول علم سے زیادہ حصول ڈگری پر توجہ دے رہے ہیں۔ اگر طلباء میں مسلسل کھوج کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو وہ اپنی علمی ناراضگیوں اور ادارہ کی کارکردگی سے اپنے آپ کو مکمل طور پر سنوار سکتے ہیں۔
وکیل صفائی :تعلیم ختم کرنے کے بعد طالب علم اپنی عملی زندگی میں صفر ثابت ہوتا ہے ؟
پرنسپل:میں اقرار کرتی ہوں کہ موجودہ تعلیمی نظام میں کئی نقائص ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم ابھی تجرباتی دور سے گزر رہا ہے۔
وکیل صفائی : (غصہ سے) محترمہ!کب تک۔ ۔ ۔ آخر کب تک بچے ان تجربات کی نذر ہوتے رہیں گے ؟
پرنسپل:میں بھی نہیں جانتی۔ ۔ ۔ شاید بہت جلد ہم اس پر قابو پالیں گے۔
وکیل صفائی :آپ نے اپنے بیان میں راحیل کی ناقص تعلیمی حالت کا ذکر کیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ہر سال وہ مسلسل کامیاب کیسے ہوتے رہے ؟
پرنسپل:اسے کامیابی کہنا اس لفظ کی توہین ہے۔ دراصل اس عمل کو کہتے ہیں، ترقی دیا جانا۔ والدین بھی اس ترقی یا Promotion سے مطمئن ہو جاتے ہیں اور یہی لغزش بچے کی عملی زندگی میں خطرہ کی گھنٹی ثابت ہوتی ہے۔
وکیل صفائی :گھر سے باہر کے گندے ماحول سے بچہ کس طرح بچ سکتا ہے ؟
پرنسپل:کیوں نہیں بچ سکتا؟ماں باپ کی شفقت اور بری عادتوں پر کڑی نظر، بچے کی ضروریات کا خیال، گھر میں Indoor گیمس وغیرہ، بڑی حد تک پراگندہ ماحول سے پاک رکھ سکتے ہیں۔
وکیل صفائی :شکریہ محترمہ!آخری سوال یور آنر!۔ ۔ ۔ بچے کی بہتر تعلیم و تربیت کے متعلق آپ کی کیا رائے ہیں ؟
پرنسپل:اسٹوڈنٹ، ٹیچر اور سرپرست کا باہمی تعاون اور اشتراک، بچے کو ایک درخشاں مستقبل اور بہترین عملی زندگی سے روشناس کروا سکتا ہے۔
وکیل صفائی :دیٹس آل یور آنر!
جج :پرنسپل کوثر جہاں !آپ جا سکتی ہیں (وکیل سرکار سے) Next۔
وکیل سرکار :دیٹس آل یور آنر!
جج : (وکیل صفائی سے) یور ٹرن۔
وکیل صفائی :میرے موکل کی نوکرانی برکت بی کو صفائی کے گواہ کی حیثیت سے پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔
جج :اجازت ہے۔
چپراسی:برکت بی حاضر ہے۔ ۔ ۔ برکت بی حاضر ہے۔
(برکت بی داخل ہوتی ہے۔ )
کلرک :برکت بی!کہو خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہوں گی؟
برکت : (تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد) ہاں چلو قسم کھا لئیں۔ آگے بولو۔
جج :برکت بی!پہلے اس قسم کو دہراؤ۔
برکت :صاب!ہمیں قسم کھا کو بولئیں (اپنے گلے کو ہاتھ لگاتی ہے)ہمیں دل اچ دل میں پکی قسم کھا لئیں۔
جج :برکت بی!
برکت بی :اللہ پاک کی قسم۔ ہمیں جھوٹ نئیچ بولیں گے۔ کائے کو بولیں گے ؟
وکیل صفائی :برکت بی!تم راحیل کے گھر کب سے نوکری کرتی ہو؟
برکت :یہ لیؤ!کب سے کیا بات ہوئی صاب۔ راحیل میاں میری آنکھیوں کے سامنے اتے سے اتے ہوئیں۔
(دونوں ہاتھوں سے بتاتی ہے۔ )
وکیل صفائی :مطلب یہ کہ کئی سال سے ان کے گھر کام کرتی ہو؟
برکت :ہو و!سہی بولے صاب۔
وکیل صفائی :تمہیں پہلی فروری منگل کا دن یاد ہے ؟
برکت :آپ کا منگل ہم کو نئیں معلوم۔ ہم کو تو خالی ایکچ منگل یاد ہے۔ ۔ ۔ وہ منگل میں دنگل، جب راحیل میاں سڑی کھٹمل مارنے کی دوا پی کو ٹیں ٹیں فش ہو رئے تھے۔
وکیل صفائی :تم جھوٹ بول رہی ہو، کھٹمل مارنے کی دوا کیا تم نے انھیں زبردستی نہیں پلائی تھی؟
برکت :او صاب!اپنا نام برکت بی ہے۔ اپنے سے نکوکھیٹو صاب۔ اللہ کرے جھوٹ سچ کرنے والے کے منہ میں بج بج کیڑے پڑو۔
جج :غیر ضروری باتیں مت کرو۔
وکیل صفائی :سچ سچ بتاؤ، راحیل کو زہر کس نے پلایا؟
برکت :کیاباتاں کر رئیں صاب۔ ۔ ۔ انوں خود اپنے ہاتھ سے پی لیتئیں۔ میں اور شمشاد بھئی اگر ان کو اٹھا کو دوا جرخانہ نئیں لے جاتے توسمج لیؤ اب تک ان کی فاتحہ خوانی ہو گئی ہوتی۔
وکیل صفائی :اچھا یہ بتاؤ!انھوں نے زہر کیوں پیا؟
برکت :صاب!اوپر والے سے ڈرو۔ ۔ ۔ اور یاں بلا کو ہم سے آڑے تیڑھے سوالاں نکو کرو۔ (چلا کر، راحیل سے پوچھتی ہے) اومیاں !بتاؤ نا سڑیلا پھڑیلا زہر کائے کو پیئیں۔
وکیل صفائی :اب اگر تم نے اس طرح کی کوئی حرکت کی تو تم پر توہین عدالت کا الزام لگ جائے گا۔ تم خود سوچ کراس سوال کا جواب دو۔
برکت ۔ :ائے ہئے !!جھوٹے سچے باتاں بنا کو ہم کو یئچ پھانس رئیں کیا؟ سن لیؤ آخری بار۔ اصل حقیقت۔ منگل کو صبویئچ صبوح راحیل میاں گرم گرم گھر کو آئے۔ ۔ ۔ وکیل صاب ایک بات پوچھ سکتیوں۔
وکیل صفائی :پوچھو۔
برکت : (چلا کر، راحیل سے) راحیل میاں !ارے تمیں اس دن انٹر ونٹر کیا دیکو آئے تھے ؟
وکیل صفائی :دیکھو برکت بی تمہیں آخر بار سمجھائے دیتا ہوں۔
برکت :او صاب!اپن آپ کا کچھ کھا کو ہئیں کیا؟ایسے دیدے نکال کو کائے کو ڈانٹ رئیں ؟
جج :وکیل دفاع کار روائی کو آگے بڑھائیں۔
وکیل صفائی :انٹرونٹر سے تمہارا مطلب انٹرویو سے تو نہیں ؟
برکت :ارے ہو!!!انوں دو سال پہلے کالج کر لئیں نا، آپ کو معلوم نا۔ پر صاب ہمارے میاں کو بھلا کوئی بی پسند کائے کو نئیں کرتا۔
وکیل صفائی :یہ بات تمہیں راحیل بتا دیں گے۔ عدالت کا ادب احترام کرو۔
برکت :صاب آپ لو گاں یاں پہ روز آنہ آتئیں جاتئیں، آپ کو معلوم ادب۔ ۔ ۔ احترام۔
وکیل صفائی :برکت بی!عدالت کو بتاؤ کہ جب انٹرویو سے واپس آ کر انھوں نے ہنگامہ مچایا تو تم نے کیا کیا؟
برکت :انوں کیا کیا کی۔ ۔ ۔ کیا کیا کی چلا رئے تھے۔ کبی بولتے کتائیچ بھنبھوڑ لیا۔ کبی ان کو سانپیچ ڈس لے را۔ ہم اکیلی جان کیا کیا کریں گے۔ بھاگ کو جلدی میں ایک کھوسٹ حکیم صاب کو پکڑ کو لائے۔ انوں کیا کیا کی دے دیئیں خدا کو معلوم۔
وکیل صفائی :اس کے بعد۔
برکت :اس کے بعد کائے کو۔ ۔ ۔ بیچ میئچ وہ شاعر کا بچہ گھامڑ گھوٹالا آ گیا۔ بعد میں قلئی کھلی کی میاں کو آج بی نوکری کے واسطے جھٹک دیئیں۔
وکیل صفائی :مطلب یہ کہ بہت غصہ میں تھے ؟
برکت :اب نیئچ پوچھے تو اچھا ہے۔ ہمیں منگل جیسا غصہ آج تک نئیں دیکھے۔ ارے ہو!!ایک راز کی بات سن لیؤ۔ پر کس کوبی بولو نکو صاب۔ ۔ ۔ بعد میں ایک مشٹنڈا ملنے کو آیا۔ تڑتڑی جیسا کچھ تو بی نام تھا اس کا۔ ۔ ۔ آ کو ہمارے سیدھے سادھے میاں کوالٹی سیدھی پٹی پڑا را۔ پراپن کوبی کم نکو سمجھو صاب!اپن بی بیلن لیکو وہ نچائے وہ نچائے کہ موا کبڈی کبڈی کرتا وا۔ ۔ ۔ آؤٹ۔
وکیل صفائی :وہ اجنبی، مسٹر راحیل سے کیا کہہ رہا تھا؟
برکت :شروع شروع میں وہ دلندر گھمڑیل ہمارے میاں کو فلم کے ہیرو کا دعوت نامہ دیا۔ اس کے بعد وہ غٹرغوں کیابولا، سوہم آپ کو پھر پوٹ میں بتائیں گے صاحب؟آپ لوگوں کا بھروسہ نئیں۔ ثبوت ثبوت بولکے گناہ کراسو والے کو چھوڑ دیتیں اور نئیں کچھ کرے سو والے کو اندر کر دیتیں۔
(بالوں سے جوئیں نکال کر مارتی ہے۔ )
جج :عدالت کا وقت ضائع نہ کرو۔ وکیل صاحب کے سوال کو صاف صاف جواب دو۔
برکت :اے لیؤ، بڑے جج صاب بی، وکیل صاحب جیسائیچ کر رئیں۔ صاب! یہ سب باتاں بولکو کچھ فائدہ ہوئیں گاکیا؟میاں پورحم کرم کرو۔ کیسے گم سم کھڑئیں۔ ایک الفاظ بی منہ سے نکال رئیں کیا۔ ۔ ۔ اور غنڈہ بولتا۔ ۔ ۔ کیا سروس پھروس کے پیچھے پڑئیں۔ ایک ہاتھ میں قانون پکڑکو دوسرے ہاتھ سے چوری، ڈا کہ الابلا کیا کیا کی کرو بول لیا۔
وکیل صفائی :اجنبی نے بس اتنا ہی کہا؟
برکت :جج صاب، وقت خراب مت کرؤ بولکو ہم تھوڑا تھوڑا بول رئیں۔ آپن تو، سروتے میں سپیاری ہے صاب۔ کدر سے بی بولے تو مشکل۔ اب جانے دیو نا صاب، بھوتیچ فالتو باتاں کرا سو ہے۔ اپن بھلا کائے کو اپنی زبان خراب کر لینا۔
وکیل صفائی :ٹھیک ہے ٹھیک ہے ہم سمجھ گئے۔
برکت :راحیل بھیا!دیکھو وکیل صاب کتے سمجھدار ہئیں۔ ۔ ۔ اجاڑ، تمیں ہماری باتوں کی قدردانی کب کریں گے توکرو۔ کھڑے کھڑے پیراں بہوت دکھ رئیں۔ ۔ ۔ جاؤں ؟
وکیل صفائی :بس دو منٹ۔ عدالت کو یہ بتا دو کہ اس اجنبی کے جانے کے بعد کیا ہوا؟
برکت :قصہ بہت مزیدار ہے۔ سوب لو گاں غور سے سننا ہاں۔ بولے تو کیا ہوا۔ ہمیں روٹیاں تھپتھپا رئے تھے، کیا سن تئیں کے دھڑادھڑ کی آوازاں آ رئیں۔ بن پیسہ کا تماشہ دیکھنا بولکو چولھا چکی چھوڑ چھاڑ کو بھاگے۔ آپ اجازت دئے تو کیا کیا دیکھے سو کر کو بتاتیؤں۔
وکیل صفائی :مختصراً بیان کر دو، کافی ہے۔
برکت :راحیل بھیا پر اس وقت پھر پاگل پن کا دورہ پڑا تھا۔ اس سے پہلے بی ایک بار انوں پاگل ہو گئے تھے صاب۔
وکیل صفائی :کب؟
برکت :اب دن تاریخ کون یاد رکھتے بیٹھیں گا۔ آپ ڈاکٹر صاب سے پوچھ لینا، ان کے پاس تاریخ واریخ لکھی دی ہوئیں گی۔ ارے ہاں انوں دورہ پڑا سو وقت کیا کیا کی بڑبڑاتیں۔
وکیل صفائی :حادثہ کے دن پاگل پن کے دورے میں جو کچھ کہہ رہے تھے بیان کرو۔
برکت :کبی بولتے۔ ۔ ۔ سماج ظالم ہے۔ ۔ ۔ نوکری کاں ہے۔ کبی بول رئیں میری تعلیم خراب ہو گئی۔ ۔ ۔ میں گھر والوں پر بوجھ کائے کو بنا۔ میرے کو چکی میں ڈال کو پیس رئیں۔ ۔ ۔ اور سوب لو گاں ہنس رئیں۔ کتے باتاں بتاناصاب! دورے کے وقت ہم کو پہچانے بی نئیں۔ مارنے کو دوڑے ہمیں گھر کو قفل ڈال کر شمشاد بھیا کے گھر بھاگتے وے گئیں، شمشاد بھیا کو لیکو دوڑتے وے آئیں۔
وکیل صفائی :جب تم مسٹر شمشاد کو ساتھ لے کر واپس پہنچیں اس وقت راحیل کی حالت کیا تھی؟
برکت :ارے باپ رے۔ ۔ ۔ اب وہ بات یاد نکو دلاؤ صاب۔ سونچے کی آنگ میں کانٹے آتئیں۔ ہمیں لو گاں کیا دیکھتئیں کی میاں زہر چڑھا کو الٹے پڑے وے الٹیاں کر رئیں سوب سامان نتربتر۔
وکیل صفائی :تب تم نے کیا کیا؟
برکت : (ہنستی ہے) کیا کیا؟ آپ کی عقل تونئیں مارے گئی صاب۔ ۔ ۔ ارے ہمیں ان کو اٹھا کو دوا خانہ لیکو گئیں۔ اللہ بھلا کرے وہ ڈاکٹر چٹرجی کا۔ ۔ ۔ خدا کی مرضی سے انوں راحیل بھیا کو بچا لئیں۔
وکیل صفائی :دیٹس آل یور آنر۔
برکت :سلام صاب۔
(کٹہرے سے اتر جاتی ہے۔ )
جج :ٹھہرو، سرکاری وکیل صاحب تم سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔
برکت :او میاں !کیا فضیتی ہے یہ (انگلیاں توڑتی ہے) خدا کے واسطے اگلی بار پی کویاں نکوآؤ۔
وکیل سرکار :جب ملزم نے زہر پیا، اس وقت تم کمرے میں موجود تھیں یا نہیں ؟
برکت : (ساڑھی کوپلو کستی ہے) ارے یہ کورٹ ہے یا بھٹیار خانہ۔ پہلے والے وکیل صاب بولتے زہر ہم نیئچ پلائے، او میم صاب!آپ کو وکیل کون بنا دیا۔ ۔ ۔ ہم کیا کمرے میں، زہر پی رئیں سو تماشہ دیکھ رئے تھے۔ جج صاب آپ کو قیامت میں منہ بتانا ہے۔ انصاف کرو۔
جج :دوسرا سوال کیجئے مس سیما!
وکیل سرکار :اس حادثہ کے تعلق سے تم نے تفصیلات پولیس کوکب بتائیں ؟
برکت :زہر پی لئے بعد۔ ۔ ۔ پہلے سیئچ بتانے کا تھا کیا میم صاب۔
وکیل سرکار :برکت بی!تم نے دوا خانے میں انسپکٹر کھنہ کو بیان دینے سے کیوں انکار کر دیا؟
برکت :ہم کو ہمارے اماں سکھائے کی کورٹ کچہری کی سیڑھی کبی نئیں چڑھنا۔ ۔ ۔ ہمیں بولے چلو، کوئی بی پڑھے لکھے وکیل صاحب سے اس کا راستہ پوچھ لئیں گے۔
وکیل سرکار :تب تمہیں وکیل صاحب نے راستہ بتایا کہ اس طرح کا جھوٹا بیان لکھوا دو۔
وکیل صفائی :objection یور آنر! وکیل عدالت، صفائی کے گواہ کو ڈرا رہی ہیں۔ دھمکا رہی ہیں۔ یور آنر!مس سیما مجھ پر غیر ضروری الزامات لگا رہی ہیں۔
جج :سرکاری وکیل!ایسی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے احتیاط برتیں۔
وکیل سرکار :میں معافی چاہتی ہوں، یور آنر!برکت بی، صرف ہاں یا نہیں میں جواب دوکہ، جب تم مسٹر شمشاد کو بلانے گئیں، اس وقت راحیل بہت ہی غصہ اور طیش میں نہیں تھے ؟
برکت :ہو!!!۔ ۔ ۔
وکیل سرکار :دیٹس آل یور آنر!
جج :۔ ۔ ۔ برکت بی! اب تم جا سکتی ہو۔
وکیل صفائی :دیٹس آل یور آنر
وکیل سرکار :گوا ہوں کے بیانات اور شہادتوں سے یہ واضح طور پر ثابت ہے کہ ملزم انتہائی طیش اور غصہ کے عالم میں خودکشی کامرتکب ہوا۔ اس وقت اس پر جنون یا پاگل پن کا دورہ نہیں پڑا تھا۔ ملزم نے جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر اپنے پورے ہوش و حواس میں خودکشی کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس لئے ملزم راحیل ابن صدرالدین کو سزا ملنی ہی چاہئے۔
وکیل صفائی : اور میں پھر کہوں گا، یور آنر!کہ گوا ہوں کے بیانات اور شہادتوں سے واضح طور پر ثابت ہے کہ زہر خورانی کے وقت وہ جنون کی حالت میں تھے۔ ان پر پاگل پن کا دورہ پڑا تھا۔
وکیل سرکار :یہ صرف میرے فاضل دوست کے ذہن کی اپج ہے۔ وکیل ملزم یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
وکیل صفائی :یور آنر! حادثہ کے وقت میرے موکل کا ہر فعل، ہر عمل، پاگل پن کی طرف اشارہ کرتا ہے اس وقت انھوں نے اپنی بی اے کی ڈگری اور دوسرے اہم ترین کاغذات پھاڑ ڈالے۔ ان کا ہر فعل غیر اختیاری تھا۔ توڑ پھوڑ کے دوران، ان کے ہاتھ دو شیشیاں آ گئیں۔ ممکن ہے راحیل وینیلا ایسنس ہی پی جاتے لیکن اسے ان کی بدقسمتی یا اتفاق کہہ لیجئے کہ غیر ارادی طور پر Tick 20 ان کے معدہ میں پہنچ گئی۔ حادثہ کے وقت ملزم کے ادا کئے گئے ادھورے جملے ان کی بے گناہی کا، کامل ثبوت ہیں۔
وکیل سرکار :یہ جملے بالکل بے بنیاد ہیں۔ یور آنر! ان جملوں کو زہر خورانی سے کوئی تعلق نہیں۔
وکیل صفائی :یور آنر! یہی ادھورے جملے اس مقدمہ کی بنیاد ہیں۔ عدالت اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر کسی کی جائیداد یا میراث پر کوئی دوسرا، غیر قانونی قابض ہو جائے اور اس صدمہ سے شخص مذکور پاگل ہو جائے تو وہ جنونی حالت میں یہی باتیں دہرائے گا۔ یعنی روپیہ پیسہ، زیورات، جواہرات، زمین، جائیداد۔ کیونکہ یہ عمل اس کے تحت الشعور میں دبی ہوئی وہ آواز ہے، وہ کرب اور اذیت ہے جواس کے جنونی اور پاگل پن کے دوروں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات بھی سب سے پہلے یہی معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاگل کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ پاگل پن سے قبل کے اس کے حالات کیا تھے۔
وکیل سرکار :وکیل موصوف کو اس لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہ تھی۔ میرے دوست نے جو کچھ کہا وہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن۔ ۔ ۔ ملزم کی ہسٹری یہ بتاتی ہے کہ وہ ایک صحیح الدماغ نوجوان ہیں۔
وکیل صفائی :یور آنر! پاگل پن کے پہلے دورے کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں موجود ہے۔ میرے موکل کی نوکرانی برکت کے بیان کردہ ادھورے جملوں سے راحیل کے تحت الشعور میں چھپا ہوا کرب بالکل واضح ہے۔
وکیل سرکار :برکت بی نے اپنا بیان وکیل صاحب کے مشورے کے بعد دیا ہے میں معزز وکیل دفاع کے ہتھکنڈوں سے واقف ہوں۔ یور آنر! یہ بیان جھوٹ کا پلندہ ہے!
(وکیل صفائی کا قہقہہ)
جج :آرڈر!آرڈر!!
وکیل صفائی :I am sorry یور آنر!
وکیل سرکار :میں فاضل وکیل کی چالبازیوں اور جعلسازیوں کو جانتی ہوں۔ مسٹر شمشاد اور برکت بی کے اشارے پر، ملزم نے دوا خانہ میں پاگل پن کا ایسا ڈھونگ رچایا، جو سچ معلوم ہوتا ہے۔
وکیل صفائی :وکیل عدالت کو ڈاکٹر لتا چٹرجی کا یہ بیان یاد دلوا دوں کہ میرے موکل پر جنونی دورہ پڑنے کے تقریباً نصف گھنٹہ بعد شمشاد اور برکت بی دوا خانہ پہنچے۔ مس سیما خود اپنے گواہ کو جھوٹا ثابت کر رہی ہیں۔
وکیل سرکار :مسٹر رانا اپنی حدسے آگے بڑھ رہے ہیں۔
جج :عدالت چاہتی ہے کہ آپ دونوں ذاتی حملوں سے بچنے کی کوشش کریں۔ مسٹر رانا واضح کیجئے ان ادھورے جملوں کو کیوں اتنی اہمیت دے رہے ہیں۔
وکیل صفائی :یور آنر! میرا موکل اس ظالم سماج کا ستایا ہوا ایک نوجوان ہے جس نے دو سال قبل بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت سے راحیل تلاش معاش میں بھٹک رہے ہیں۔ لیکن کوئی انہیں نوکری نہیں دیتا۔ ان کی کئی درخواستیں ردی کی ٹوکری میں چلی گئیں۔ انٹرویو لینے والوں نے انھیں نکما اور نا اہل قرار دیا۔ اس طرح پریشانی کے عالم میں ان کا ذہن بار بار یہی دہراتا رہا کہ ان کی تعلیم و تربیت میں جو نقائص رہ گئے ہیں وہ انھیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یونیورسٹی نے انہیں بی اے کی ڈگری دے دی، لیکن یہ ڈگری ان کے لئے کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ یور آنر! راحیل ایک حساس نوجوان ہیں، وہ خود کو اپنے خاندان پر، اس دھرتی پر بوجھ سمجھنے لگے، آہستہ آہستہ شدت جذبات ان پر اس قدر غالب آ گئے کہ یکم فروری ۱۹۷۷ء صبح تقریباً گیارہ بجے ان احساسات نے ایک جنونی شکل اختیار کر لی۔ اس پاگل پن میں انھیں اچھے برے کی کوئی تمیز نہ رہی۔ اس پاگل پن کے دورہ میں میرے موکل سے غیر اختیاری اور غیر ارادی طور پر زہر خورانی کی یہ غیر اخلاقی حرکت سرزد ہوئی۔ یور آنر!حادثہ کے دن میرے موکل پر پاگل پن کا دوسرا دورہ پڑا اور تیسری مرتبہ دوا خانہ میں انھیں اذیت اٹھانی پڑی یور آنر!میرا موکل بے گناہ ہے اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ دیٹس آل یور آنر!
وکیل سرکار :یور آنر!ملزم کو اگر نوکری ہی نہیں ملی تو کیا ہوا، وہ کوئی اور کام کر سکتے تھے کوئی دھندا، بیوپار اور کوئی کام۔ ۔ ۔ لیکن، یور آنر!راحیل ایک بزدل نوجوان ہے۔ ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور سکت نہیں اور جب یہ ہمت ہی ہار بیٹھے تو ان کی بزدلی نے خودکشی کی شکل اختیار کر لی۔ میں عدالت سے درخواست کروں گی کہ راحیل ابن صدرالدین کو اس اقدام خودکشی کے جرم پر کڑی سے کڑی سزا دی جائے جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ دیٹس آل یور آنر!
جج :دستاویزی اور زبانی شہادت پیش شدہ سے یہ ثابت ہے کہ ملزم راحیل ابن صدرالدین نے یکم فروری ۱۹۷۷ء، صبح گیارہ بجے اپنے مکان واقع چوراہا، جنون اور پاگل پن کی حالت میں غیر ارادی اور غیر اختیاری طور پر زہر پی لیا۔ ان پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہوئے عدالت ملزم راحیل ابن صدرالدین کا با عزت بری کرتی ہے۔
(پردہ)
***
ماخذ: ’’پانچ اردو ڈرامے‘‘، امیج پرنٹرس، منظور پورہ، اور نگ آباد، ۱۹۷۹ء
٭٭٭
مشمولہ ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق
تشکر: مصنف اور ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔
ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید