فہرست مضامین
- موازنۂ انیس و دبیر کی تاریخی و تنقیدی اہمیت
- ڈاکٹر امتیاز احمد
- دیباچہ
- تمہید
- حالاتِ زندگی
- تصانیف
- تنقید نگاری
- محاکات کی تعریف
- محاکات کی تکمیل کن کن چیزوں سے ہوتی ہے
- تخیل
- تخیل کی بے اعتدالی
- الفاظ کی تلاش و جستجو
- سادگی ادا
- واقعیت
- موازنۂ انیس و دبیر کا سنہ تصنیف
- موازنہ کے تسامحات
- موازنۂ انیس و دبیر کی اہمیت
- موازنہ کے جواب میں لکھی گئی کتابیں
- موازنہ سے متاثرہ کتابیں
- فصاحت کی تعریف
- فصاحت کے مدارج
- فصیح اور مبتذل میں فرق
- ابتذال
- الفاظ کی فصاحت اور کلام کی فصاحت میں فرق
- بلاغت کی تعریف
- تنقید و تجزیہ
- خلاصہ
- کتابیات
موازنۂ انیس و دبیر کی تاریخی و تنقیدی اہمیت
ڈاکٹر امتیاز احمد
دیباچہ
ہمارا مقصد اردو تنقید کی ایک اہم کتاب ’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ سے آپ کو متعارف کرانا ہے۔ اس اکائی کو مکمل کر لینے کے بعد آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ:
۱۔ حالیؔ کے بعد اردو تنقید کے ایک اہم دبستان یعنی شبلی نعمانی کی تنقید کا جائزہ لے سکیں۔
۲۔ حالیؔ اور شبلیؔ کے بنیادی تنقیدی مباحث کو سمجھ سکیں۔
۳۔ مذکورہ دونوں ناقدین کے تنقیدی نظریات میں فرق کر سکیں۔
۴۔ اس بات کو سمجھ سکیں کہ شبلی کا بنیادی نظریہ کیا ہے ؟
۵۔ وہ شاعری کی تنقید کے لیے کون کون سی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔
۶۔ شبلی کا ادبی اور تنقیدی مرتبہ کیا ہے ؟
تمہید
شبلی نعمانی کا شمار اردو کے ممتاز ترین ناقدین میں ہوتا ہے۔ وہ الطاف حسین حالیؔ (1837-1914) کے بعد اردو کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ ہمارے بہترین سوانح نگار، سیرت نگار، شاعر، مکتوب نگار، انشاپرداز اور سفرنامہ نگار بھی ہیں۔ مہدی افادی نے انھیں ’’اردو میں تاریخ کا معلّم اوّل‘‘ بلاوجہ نہیں کہا ہے۔ وہ کثیر الجہت شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنے زمانے کی چند اہم ترین شخصیات میں سے ہیں۔ اُن کا شمار سرسید احمد خاں (1817-1898) کے رفقا میں ہوتا ہے۔ وہ سرسید (1817-1898)، حالیؔ (1837-1914)، محمدحسین آزاد (1830-1910) اور نذیر احمد (1826-1912) کے ساتھ اردو نثر کے عناصر خمسہ میں شمار ہوتے ہیں۔
حالاتِ زندگی
شبلیؔ یکم جون ۱۸۵۷ء کو اعظم گڑھ کے بندول گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام شیخ حبیب اﷲ تھا۔ اُن کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی ہوئی۔ اس کے بعد جون پور اور غازی پور کے بعض مدرسوں میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۷۳ء میں شبلیؔ کے والد اور بعض دوسرے لوگوں نے مل کر اعظم گڑھ میں ایک عربی مدرسہ کی بنیاد ڈالی جس کے صدر مدرس مولانا فاروقی چریاکوٹی تھے۔ شبلی نے انھیں کی نگرانی میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے رام پور اور لاہور کا سفرکیا اور وہاں کے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد والد کے اصرار پر وکالت کا امتحان پاس کیا اور وکالت شروع بھی کی لیکن اسے جاری نہ رکھ سکے۔ کچھ دنوں اِدھر اُدھر چھوٹی موٹی ملازمتیں بھی کیں۔ لیکن شبلی کی اصل زندگی کا آغاز ۱۸۸۳ء میں محمڈن اینگلو اور ینٹل کالج (ایم۔ اے۔ او کالج) علی گڑھ میں اسسٹنٹ پروفیسر عربی کے عہدے پر اُن کے تقرر سے ہوتا ہے۔ ایک مصنف نے بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ شبلی کو علامہ شبلی علی گڑھ نے بنایا۔ ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی کے الفاظ میں :
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شبلی میں ذکاوت و ذہانت کے آثار بچپن سے موجودتھے ، اور نقد و نظر، تحریر و تصنیف اور شعروسخن وغیرہ کی صلاحیتیں فطری طور پر موجود تھیں۔ لیکن جہاں تک ان صلاحیتوں کے ظہور و نمود اور نشوونما پانے کا تعلق ہے تو یقیناً وہ علی گڑھ کی فضاؤں اور سرسید کی صحبتوں ہی کی رہینِ منّت ہے۔ علی گڑھ میں شبلی کا قیام کم و بیش سولہ برس رہا۔ اس دوران انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ جدید دور کے سیاسی و سماجی اور علمی و تہذیبی حالات اور تقاضوں سے واقفیت بہم پہنچائی، مطالعہ میں وسعت پیدا کی، تحریر و تصنیف کا سلیقہ سیکھا۔ اپنے علمی و تہذیبی ورثے کی قدر و قیمت سے آگاہی حاصل کی۔ مغرب کو جانا، اہلِ مغرب کی تصانیف کا مطالعہ کیا۔ اُن کی خامیوں اور خوبیوں ، مثالب و مناقب کے حدود متعین کیے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہیں وہ مؤرخ بنے ، سوانح نگار بنے ، مصنف بنے ، خطیب بنے ، شاعر بنے ، ادیب بنے ، بلکہ شمس العلما بنے ، علامہ بنے۔ ‘‘
علی گڑھ میں شبلی کا قیام ۱۸۸۳ء سے ۱۸۹۸ء تک رہا۔ ستمبر ۱۸۹۶ء سے ریاست حیدرآباد سے انھیں سو روپے وظیفہ ملنے لگا۔ ۱۹۰۱ء میں ریاست حیدرآباد کے نظامت سررشتۂ علوم و فنون کے عہدہ پر اُن کا تقرر ہوا۔ یہاں وہ ۱۹۰۵ء تک رہے۔ اپریل ۱۹۰۵ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلما کے معتمد تعلیم منتخب ہوئے۔ اس تعلق کی وجہ سے انھوں نے لکھنؤ میں رہائش اختیار کی۔ یہاں اُن کا قیام ۱۹۱۳ء تک رہا۔ آخر عمر میں وہ اپنے وطن اعظم گڑھ چلے گئے جہاں ۱۸؍ نومبر ۱۹۱۴ء کو ان کا انتقال ہوا۔
تصانیف
شبلیؔ نے اردو میں بہ کثرت تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ ان تصانیف میں فارسی اور اردو شاعری کے کلیات کے علاوہ الغزالی، المامون، سیرۃالنعمان، الفاروق، سوانح مولانا روم، الجزیہ، مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم، کتب خانہ، اسکندریہ، سیرۃالنبی، علم الکلام، موازنۂ انیس و دبیر اور شعر العجم خاص طورسے اہم ہیں۔ اردو کی نظمیہ شاعری میں اُن کی نظمیں عدل جہاں گیری، صبح امید، شغل تکفیر، ہم کشتگان معرکۂ کان پور ہیں ، خاص طورسے یاد رکھی جائیں گی۔ ’شغل تکفیر‘ کے یہ مصرعے دیکھیے جو طنز سے بھرے ہوئے ہیں :
اک مولوی صاحب سے کہا میں نے کہ کیا آپ
کچھ حالت یورپ سے خبردار نہیں ہیں
آمادۂ اسلام ہیں لندن میں ہزاروں
ہرچند ابھی مائل اظہار نہیں ہیں
تقلید کے پھندوں سے ہوئے جاتے ہیں آزاد
وہ لوگ بھی جو داخل احرار نہیں ہیں
جو نام سے اسلام کے ہو جاتے تھے برہم
ان میں بھی تعصب کے وہ آثار نہیں ہیں
افسوس مگر یہ ہے کہ واعظ نہیں پیدا
یا ہیں تو بقول آپ کے دیندار نہیں ہیں
کیا آپ کے زمرہ میں کسی کو نہیں یہ درد
کیا آپ بھی اس کے لیے تیار نہیں ہیں
جِھلّا کے کہا یہ کہ یہ کیا سوء ادب ہے
کہتے ہو وہ باتیں جو سزاوار نہیں ہیں
کرتے ہیں شب و روز مسلمانوں کی تکفیر
بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بیکار نہیں ہیں
تنقید نگاری
تنقید نگار کی حیثیت سے شبلی کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کا شعری اور ادبی ذوق بہت اعلیٰ درجہ کا تھا۔ ایک ساتھ وہ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں کے شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے۔ لیکن ان کی شخصیت کی نفاست اور نزاکت کو نکھارنے اور سنوارنے میں فارسی شاعری نے خاص طورسے اہم رول ادا کیا تھا۔ چنانچہ اس کے ثبوت کے طور پر انھوں نے پانچ جلدوں میں فارسی شاعری کی تاریخ مرتب کی جو شعر العجم کے نام سے شائع ہوئی۔ شاید اسی لیے خورشید الاسلام نے لکھا ہے :
’’شبلی پہلے یونانی ہیں جو مسلمانوں میں پیدا ہوئے۔ ‘‘
شعر العجم کی پہلی جلد ۱۹۰۸ء میں ، دوسری ۱۹۰۹، تیسری ۱۹۱۰، چوتھی ۱۹۱۲ء اور پانچویں ۱۹۱۸ء میں مطبع فیض عام علی گڑھ سے شائع ہوئی۔ اس کی ابتدائی تین جلدیں تو فارسی شاعری کی تاریخ سے متعلق ہیں لیکن چوتھی اور پانچویں جلد فارسی شاعری اور اس کی مختلف اصناف پر اصولی بحث کے لیے مخصوص ہے۔ اس میں یہ بحث کی گئی ہے کہ شاعری کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ اور اس کے اصل عناصر کیا ہیں ؟ چنانچہ شاعری کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جو جذبات الفاظ کے ذریعہ سے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔ ‘‘
’’جو کلام انسانی جذبات کو برانگیختہ کرے اور اُن کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے۔ ‘‘
’’شعر کا نمایاں وصف جذبات انسانی کا برانگیختہ کرنا ہے۔ ‘‘
پھر ایک یورپین مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ہرچیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش یا کسی اور قسم کا اثر پیدا کرتی ہے شعر ہے۔ ‘‘
پھر وہ شاعری کے اصل عناصر کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ایک عمدہ شعر میں بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں۔ اس میں وزن ہوتا ہے ، محاکات ہوتی ہے یعنی کسی چیز یا کسی حالت کی تصویر کھینچی جاتی ہے ، خیال بندی ہوتی ہے ، الفاظ سادہ اور شیریں ہوتے ہیں ، بندش صاف ہوتی ہے ، طرز ادا میں جدت ہوتی ہے ، لیکن کیا یہ سب چیزیں شاعری کے اجزا ہیں ؟ کیا ان میں سے ہر ایک چیز ایسی ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو شعر شعر نہ ہوتا؟‘‘
پھر اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ارسطو کے نزدیک یہ چیز محاکات یعنی مصوری ہے ، لیکن یہ بھی صحیح نہیں۔ اگر کسی شعر میں تخیل ہو اور محاکات نہ ہو تو کیا وہ شعر نہ ہو گا؟‘‘
اس پوری بحث سے مولانا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ:
’’حقیقت یہ ہے کہ شاعری اصل میں دو چیزوں کا نام ہے محاکات اور تخیل۔ ان میں سے ایک بات بھی پائی جائے تو شعر شعر کہلانے کا مستحق ہو گا۔ ‘‘
محاکات کی تعریف
محاکات کی تعریف کرتے ہوئے شبلیؔ لکھتے ہیں :
’’محاکات کے معنی کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اُس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔ ‘‘
یہ وہی خوبی ہے جسے بعد میں امریکی نئی تنقید نے Imagery کے نام سے تعبیر کیا اور جس کے لیے اردو میں ہم پیکر تراشی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یعنی محاکات شاعرانہ مصوری کا نام ہے۔ اسی لیے شبلی عام مصوری اور شاعرانہ مصوری میں فرق کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
۱۔ ’’ایک بڑا فرق عام مصوری اور شاعرانہ مصوری میں یہ ہے کہ تصویر کی اصل خوبی یہ ہے کہ جس چیز کی تصویر کھینچی جائے اس کا ایک ایک خال و خط دکھایا جائے۔ ورنہ تصویر ناتمام اور غیر مطابق ہو گی۔ بہ خلاف اس کے شاعرانہ مصوری میں یہ التزام ضروری نہیں کہ شاعر اکثر صرف اُن چیزوں کو لیتا ہے اور اُن کو نمایاں کرتا ہے جن سے ہمارے جذبات پر اثر پڑتا ہے۔ باقی چیزوں کو وہ نظرانداز کر دیتا ہے یا اُن کو دھندلا کر دیتا ہے کہ اثر اندازی میں خلل نہ آئے۔ ‘‘
۲۔ ’’ایک بڑا فرق اور مصوری اور محاکات میں یہ ہے کہ مصور کسی چیز کی تصویر کھینچنے سے زیادہ سے زیادہ وہ اثر پیدا کر سکتا ہے جو خود اُس چیز کے دیکھنے سے پیدا ہوتا لیکن شاعر باوجود اس کے کہ تصویر کا ہر جزو نمایاں کر کے نہیں دکھاتا تاہم اس سے زیادہ اثر پیدا کر سکتا ہے جو اصل چیز کے دیکھنے سے پیدا ہوسکتا ہے۔ ‘‘
۳۔ ’’تصویر کا اصل کمال یہ ہے کہ اصل کے مطابق ہو اور اگر مصور اس امر میں کامیاب ہو گیا تو اس کو کامل فن کا خطاب مل سکتا ہے ، لیکن شاعر کو اکثر موقعوں پر دو مشکل مرحلوں کا سامنا ہوتا ہے۔ یعنی نہ اصل کی پوری پوری تصویر کھینچ سکتا ہے … نہ اصل سے زیادہ دور ہوسکتا ہے … اس موقع پر اس کو تخیل سے کام لینا پڑتا ہے۔ وہ ایسی تصویر کھینچتا ہے جو اصل سے آب و تاب اور حسن و جمال میں بڑھ جاتی ہے لیکن وہ قوتِ تخیل سے سامعین پر یہ اثر ڈالتا ہے کہ یہ وہی چیز ہے لوگوں نے اس کو امعان نظر سے نہیں دیکھا تھا اس لیے اس کا حسن پورا نمایاں نہیں ہوا تھا۔ ‘‘
محاکات کی تکمیل کن کن چیزوں سے ہوتی ہے
۱۔ ’’شبلی کے خیال میں محاکات کے لیے ’’سب سے پہلی شرط وزن کا تناسب ہے ‘‘… اس لیے جس جذبہ کی محاکات مقصود ہو شعر کا وزن بھی اُسی کے مناسب ہونا چاہیے۔
۲۔ ’’جب کسی چیز کی محاکات مقصود ہو تو ٹھیک وہی الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جو اُن خصوصیات پر دلالت کرتے ہیں۔ ‘‘
۳۔ ’’جب کسی قوم یا کسی ملک یا کسی مرد یا عورت، یا بچہ کی حالت بیان کی جائے تو ضرور ہے کہ اُن کی تمام خصوصیات کا لحاظ رکھا جائے۔ مثلاً اگر کسی بچے کی کسی بات کی نقل کرنی مقصود ہو تو بچوں کی زبان کا، طرز ادا کا، خیالات کا، لہجہ کا لحاظ رکھنا چاہیے ، یعنی ان باتوں کو بعینہٖ ادا کرنا چاہیے۔ ‘‘
۴۔ محاکات میں کمال کے لیے عام کائنات کی ہرقسم کی چیزوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
۵۔ بعض جگہ صرف جزئیات ادا کرنے سے محاکات ہوتی ہے لیکن ہر جگہ کسی شے یا واقعے کے تمام اجزا کی محاکات ضروری نہیں۔ ‘‘
۶۔ محاکات کی تکمیل بعض اوقات مخالف پہلو دکھانے سے ہوتی ہے۔
۷۔ محاکات کا ایک بڑا آلہ تشبیہ ہے۔ اکثر اوقات ایک چیز کی اصلی تصویر جس طرح تشبیہ سے دکھائی جا سکتی ہے دوسرے طریقے سے ادا نہیں ہوسکتی۔
تخیل
شبلیؔ کے نظام نقد میں تخیل کو خاصا بلند مقام حاصل ہے۔ وہ تخیل کو ’’قوتِ اختراع‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرے ناقدین کے برعکس شعر و ادب کے ساتھ ساتھ سائنس اور فلسفہ کے لیے بھی اسے ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ تخیل کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اگرچہ محاکات اور تخیل دونوں شعر کے عنصر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاعری دراصل تخیل کا نام ہے۔ محاکات میں جو جان آتی ہے تخیل ہی سے آتی ہے ورنہ خالی محاکات نقالی سے زیادہ نہیں۔ قوتِ محاکات کا یہ کام ہے کہ جو کچھ دیکھے یا سنے اس کو الفاظ کے ذریعے سے بعینہٖ ادا کر دے ، لیکن اُن چیزوں میں ایک خاص ترتیب پیدا کرنا اور تو افق کو کام میں لانا، اُن پر آب و رنگ چڑھانا قوتِ تخیل کا کام ہے۔ ‘‘
اُن کے خیال میں :
۱۔ ’’تخیل مسلّم اور طے شدہ باتوں کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتی بلکہ دوبارہ اُن پر تنقید کی نظر ڈالتی اور بات میں سے بات پیدا کرتی ہے۔ ‘‘ (شعر العجم، جلد چہارم، ص:۲۸)
۲۔ ’’قوتِ تخیل کے استدلال کا طریقہ عام استدلال سے الگ ہوتا ہے۔ وہ اُن باتوں کو جو اور طرح سے ثابت ہوچکی ہیں نئے طریقے سے ثابت ہوتی ہے (کرتی ہے )۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۳۰)
۳۔ ’’علت و معلول اور اسباب و نتائج کا عام طرح پر جو سلسلہ تسلیم کیا جاتا ہے شاعر کی قوتِ تخیل کا سلسلہ اس سے بالکل الگ ہے۔ وہ تمام اشیا کو اپنے نقطۂ خیال سے دیکھتا ہے اور یہ تمام چیزیں اس کو ایک اور سلسلہ میں مربوط نظر آتی ہیں۔ ہر چیز کی غرض و غایت، اسباب و محرکات، نتائج اس کے نزدیک وہ نہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۳۱)
تخیل کی بے اعتدالی
اپنے بزرگ ہم عصر مولانا الطاف حسین حالیؔ کی طرح شبلیؔ بھی تخیل کو بے لگام چھوڑنے حق میں نہیں ہیں ، اور بعد کے زمانے کے شاعروں کے یہاں پائی جانے والی بے اعتدالی کی بنیادی وجہ وہ تخیل کو بے لگام چھوڑنا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’ شعر کی اس سے زیادہ کوئی بدقسمتی نہیں کہ تخیل کا بے جا استعمال کیا جائے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۴۰)
’’متاخرین کی اکثر نکتہ آفرینیاں اسی قسم کی ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ قوتِ تخیل کا استعمال بے جا طورسے ہوا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۴۱)
اُن کے خیال میں تخیل کی یہ بلند پروازی مبالغہ کی شدت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اُن کے خیال میں :
’’وہ تخیل اکثر بیکار اور بے اثر ہوتی ہے جس میں تمام عمارت کی بنیاد کسی لفظی تناسب یا ایہام پر ہوتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۴۲)
تخیل کی بے اعتدالی کا بڑا ذریعہ وہ مبالغہ کے ساتھ ساتھ تشبیہات و استعارات کو سمجھتے ہیں۔ چنانچہ حالیؔ کی طرح وہ بھی لکھتے ہیں :
’’استعارے اور تشبیہیں جب تک لطیف، قریب الماخذ اور اصلیت سے ملتی جلتی ہوتی ہیں شاعری میں حسن پیدا کرتی ہیں ، لیکن جب تخیل کو بے اعتدالی کا موقع ملتا ہے تو وہ دور اَز کار اور فرضی استعارات اور تشبیہیں پیدا کرتی ہے اور پھر اس پر اور بنیادیں قائم کرتی جاتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۴۳)
وہ تشبیہات و استعارات کو کلام میں وسعت اور زور پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
الفاظ کی تلاش و جستجو
حالیؔ نے اس موقع پر تفحصِّ الفاظ کا عنوان قائم کیا ہے۔ اور اسے شاعر کے اندر پائی جانے والی تین بنیادی صلاحیتوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ جس طرح سے حالیؔ نے مناسب الفاظ کی تلاش میں شاعر کے ذریعہ الفاظ کے ستّر ستّر کنویں جھانکنے کا ذکر کیا ہے اُسی طرح شبلیؔ لکھتے ہیں :
’’شاعر ایک ایک لفظ کی تلاش میں رات رات بھر جاگتا رہتا ہے جب کہ مرغ اور مچھلیاں تک سوتی ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۸)
اُن کے خیال میں :
’’مضمون کتنا ہی بلند اور نازک ہو لیکن اگر الفاظ مناسب نہیں ہیں تو شعر میں کچھ تاثیر نہ پیدا ہوسکے گی۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۸)
معنی کے مختلف Shades، رعایتوں اور مناسبتوں کا ذکر کرتے ہوئے شبلیؔ لکھتے ہیں :
’’ہر زبان میں مترادف الفاظ ہوتے ہیں جو ایک ہی معنی پر دلالت کرتے ہیں ، لیکن جب غور سے دیکھا جائے تو ان الفاظ میں باہم فرق ہوتا ہے۔ یعنی ہر لفظ کے مفہوم اور معنی میں کوئی ایسی خصوصیت ہوتی ہے جو دوسرے میں نہیں پائی جاتی … شاعر کی نکتہ دانی یہ ہے کہ جس مضمون کے ادا کرنے کے لیے خاص جو لفظ موزوں اور مؤثر ہے وہی استعمال کیا جائے۔ ورنہ شعر میں وہ اثر نہ پیدا ہو گا۔ ‘‘
(ایضاً۔ ص:۶۴)
’’شاعر جس طرح مضامین کی جستجو میں رہتا ہے اس کو ہر وقت الفاظ کی جانچ پڑتال اور ناپ تول میں بھی مصروف رہنا چاہیے۔ اس کو نہایت دقّتِ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ کون سے الفاظ میں وہ مخفی اور دور از نگاہ ناگواری موجود ہے جو آئندہ چل کر سب کو محسوس ہونے لگے گی۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۶۸)
سادگی ادا
حالیؔ نے شعر کی خصوصیات کے سلسلہ میں سادگی کا ذکر کیا ہے۔ شبلیؔ بھی اسے اچھی شاعری کی خصوصیت قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’سادگی ادا کے یہ معنی ہیں کہ جو مضمون شعر میں ادا کیا گیا ہے بے تکلف سمجھ میں آ جائے۔ ‘‘
(ایضاً۔ ص:۶۸)
اُن کے خیال میں اس کے لیے ضروری ہے کہ:
۱۔ ’’جملوں کے اجزا کی وہ ترتیب قائم رکھی جائے جو عموماً اصلی حالت میں ہوتی ہے۔ ‘‘
(ایضاً۔ ص:۶۸)
۲۔ ’’مضمون کے جس قدر اجزا ہیں اُن کا کوئی جزو رہ نہ جائے جس کی وجہ سے یہ معلوم ہو کہ بیچ میں خلا رہ گیا ہے۔ ‘‘
۳۔ ’’استعارے اور تشبیہیں دور از فہم نہ ہوں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۶۹)
۴۔ ’’تلمیحات ایسی نہ ہوں جن سے لوگ ناواقف ہو۔ ‘‘ ((ایضاً۔ ص:۷۰)
۵۔ ’’روزمرہ اور بول چال کا خیال رکھا گیا ہو۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۰)
واقعیت
حالیؔ نے شعر کی اس خوبی کو اصلیت کا نام دیا ہے جو اُن کے نظامِ نقد میں مطالعۂ کائنات سے متعلق ہو کر دائرے کو مکمل کر دیتی ہے۔ شبلیؔ بھی اس سلسلے میں ان کے ہم خیال نظر آتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’شاعری سے اگر صرف تفریح خاطر مقصود ہو تو مبالغہ کام آسکتا ہے لیکن وہ شاعری جو ایک طاقت ہے ، جو قوموں کو زیر و زبر کر سکتی ہے ، جو ملک میں ہلچل ڈال سکتی ہے ، جس سے عرب قبائل میں آگ لگا دیتے تھے ، جس سے نوحہ کے وقت در و دیوار سے آنسو نکل پڑتے تھے وہ واقعیت اور اصلیت سے خالی ہو تو کچھ کام نہیں کر سکتی۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۵۔ ۷۶)
’’یہ اثر اُسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب شعر میں واقعیت ہو۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۶)
’’کلام میں واقعیت ایسی ضروری چیز ہے کہ بلاغت کے بہت سے اسالیب میں صرف اسی وجہ سے حسن اور اثر پیدا ہوتا ہے کہ اس میں واقعیت کا پہلو ہوتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۷)
وہ مزید کہتے ہیں کہ:
’’تخیل میں بظاہر واقعیت کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی لیکن درحقیقت تخیل بھی اُسی وقت پُر لطف اور پُر اثر ہوتی ہے جب اس کی تہہ میں واقعیت ہو۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۹)
شاعری کی تاثیر، اس کے استعمال اور شاعری اور اخلاق کے تعلق سے شبلیؔ نے بھی لگ بھگ ویسی ہی بحثیں کی ہیں جیسی بحثیں حالیؔ نے مقدمۂ شعر و شاعری میں کی ہیں۔
موازنۂ انیس و دبیر کا سنہ تصنیف
تنقیدی مباحث کو بنیاد بنا کر شبلیؔ نے حیدرآباد کے زمانۂ قیام میں ’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ تحریر کیا۔ یہ کتاب ۱۹۰۴ء میں مکمل ہوئی لیکن اس کی اشاعت کی نوبت ۱۹۰۶ء میں آئی۔ ۱۹۰۴ء میں کتاب کا جو مسودہ تیار ہوا تھا وہ ریاست حیدرآباد سے اشاعت کے لیے مالی اعانت کے انتظار میں پڑا رہا، لیکن اس کی نوبت نہ آئی۔ ملک کی آزادی کے بعد جب ریاست حیدرآباد کو ہندوستان کا لازمی حصہ بنا لیا گیا تو حیدرآباد کے دوسرے ریکارڈس کے ساتھ یہ مسودہ/ مخطوطہ بھی National Archives میں آیا، اور ا ب وہاں محفوظ ہے۔ حیدرآباد سے واپسی کے بعد شبلیؔ نے اسے اپنے نوٹس اور حافظہ کی بنیاد پر دوبارہ تحریر کیا جو علامہ کی محنت، لگن، مرتب ذہن اور کام کرنے کے مرتب انداز کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اسی سے ڈاکٹرمسیح الزماں کے بہت سے اعتراضات کا جواب بھی مل جاتا ہے۔
موازنہ کے تسامحات
ڈاکٹر مسیح الزماں نے لکھا ہے کہ:
’’شبلی کے یہاں جو تسامحات اور غلطیاں نظر آتی ہیں وہ سہل پسندی اور نقطۂ نظر کے سرسری ہونے کا نتیجہ ہیں۔ … شبلی نے اس طرف سے کافی بے توجہی برتی ہے جس کے نتیجہ میں غیر
اطبۃًئ ہو قاور اوقات شَرْ واز عبیدذمہ دارانہ باتیں جا بہ جا نظر آتی ہیں۔ ‘‘ (موازنۂ انیس و دبیر، مرتبہ ڈاکٹرمسیح الزماں ، ص:۱۳)
ظاہر ہے الفاروق، المامون، الغزالی، سیرۃالنعمان، سیرت النبی اور شعر العجم کے مصنف سے کسی سرسری پن، سہل پسندی یا غیر ذمہ دارانہ رویہ کی امید نہیں کی جا سکتی۔ یہ باتیں صرف اصل مسودہ کے حاصل نہ ہوسکنے کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہوں گی۔ اس طرح کی جن تسامحات یا غلطیوں کی ڈاکٹرمسیح الزماں نے نشان دہی کی ہے اُن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ شبلی کے نزدیک فارسی میں واقعاتِ کربلا سے متعلق سب سے پہلے محتشم کاشی نے مرثیہ لکھا… پروفیسر سیدمسعود حسن رضوی کی تحقیق کے مطابق فارسی مرثیہ گویوں میں آذری کا نام سب سے پہلے لیا جانا چاہیے جس کا انتقال ۸۶۶ ھ میں ہوا۔ (ایضاً۔ ص:۳۱)
۲۔ اس عبارت سے دھوکا ہوسکتا ہے کہ ظہوری محتشم کے بہت بعد کا شاعر ہے حالاں کہ دونوں کو معاصرین کہا جا سکتا ہے۔ (ایضاً۔ ص:۳۴)
۳۔ ولیؔ کا انتقال ۱۱۵۷ھ (۱۷۴۴ئ) میں ہوا۔ اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ولیؔ سے ڈیڑھ سوسال پہلے دکن میں اردو شاعری کا رواج ہو چکا تھا (شبلی نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں شاعری کی ابتدا ولیؔ سے ہوئی) اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ ہے جس کا زمانہ ۱۶۱۲۔ ۱۵۶۵ء (۱۰۲۰۔ ۹۷۳ھ) ہے۔ (ایضاً۔ ص:۳۶)
۴۔ ایک جگہ شبلیؔ نے لکھا ہے کہ سوداؔ نے میر تقی کے مرثیہ کا رد لکھا ہے۔ مسیح الزماں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ مرثیہ میر تقی میر کا نہیں میر محمد تقی متخلص بہ تقی کا مرثیہ ہے۔ شبلیؔ کو تسامح ہوا ہے۔ (ایضاً۔ ص:۳۷)
۵۔ اس کتاب میں اردو کے قدیم ترین مرثیہ (قلی قطب شاہ اور وجہیؔ کی تخلیق قرار دیے گئے ہیں جب کہ ان سے پہلے کے ایک شاعر برہان الدین جانم (وفات:۹۹۰ھ) کے ایک مرثیہ کا پتہ چلا ہے۔
۶۔ شبلیؔ نے لکھا تھا کہ ضاحکؔ کا کلام سرے سے مفقود ہے مسیح الزماں نے اس کی تصحیح کی ہے کہ ضاحکؔ کا دیوان اب مل گیا ہے۔
۷۔ مولانا نے لکھا تھا کہ یاد نہیں آتا کہ میرحسن کے دیوان میں مرثیہ ہے یا نہیں۔ مسیح الزماں نے اس کے بارے میں بھی قطعیت کے ساتھ لکھا ہے کہ دیوان میں نہیں ہے لیکن مسعودحسن رضوی ادیب کے پاس اُن کے تین مرثیے ہیں۔
۸۔ سوداؔ کے بارے میں شبلیؔ نے لکھا تھا کہ انھوں نے مرثیہ کو چنداں ترقی نہیں دی۔ مسیح الزماں نے اس کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شبلیؔ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔
۹۔ شبلیؔ نے لکھا تھا کہ ’’سب سے پہلے جس شخص نے مرثیہ کو موجودہ طرز کا خلعت پہنایا وہ میرضمیر تھے۔ مسیح الزماں نے اس کی بھی تردید کی اور لکھا کہ ان میں بعض جدتیں میر ضمیر سے بہت پہلے ہو چکی تھی۔
۱۰۔ اسی طرح ایک جگہ شبلیؔ نے لکھا کہ میر ضمیر نے سب سے پہلے مرثیہ تحت اللفظ پڑھنا شروع کیا۔ مسیح الزماں نے اس کی بھی تردید خود ان کی مثنوی مظہر العجائب کے حوالے سے کی ہے کہ ان سے پہلے یہ رواج موجود تھا۔
موازنۂ انیس و دبیر کی اہمیت
یہ اور اس طرح کی بہت سی غلطیاں اور تسامحات شبلی کے یہاں راہ پا گئی ہیں کیوں کہ پچھلے سوسال میں اردو تحقیق نے اردو ادب کی تاریخ میں جو اضافے کیے ہیں ، جو نئی نئی معلومات ہمیں حاصل ہوئی ہیں ، جو نئے حقائق سامنے آئے ہیں وہ اُس وقت تک سامنے نہیں آئے تھے ، لیکن ان سب کے باوجود موازنۂ انیس و دبیر کو اردو مرثیہ کی تنقید میں جو اہمیت حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خود ڈاکٹر مسیح الزماں کے مطابق:
’’شبلی کے موازنہ کی اوّلین اہمیت یہ ہے کہ اس سے مرثیہ خصوصاً انیس کے شاعرانہ مرتبہ کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوئی۔ ‘‘
انہی کے الفاظ میں :
’’شبلی نے پوری کتاب کلامِ انیس کے مطالعہ کے لیے وقف کر کے اس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا۔ فصاحت، روزمرہ و محاور ہ، بلاغت، جذبات انسانی کی ترجمانی، مناظر قدرت کی پیش کش، واقعہ نگاری، رزمیہ، استعارات و تشبیہات وغیرہ عنوانات قائم کر کے ہر پہلو پر اپنے دور کے اصول و معیار کے مطابق تفصیل سے رائے ظاہر کی۔ ‘‘
’’انھوں نے انیس کے کلام کے لمبے لمبے اقتباسات پیش کیے ہیں تا کہ پڑھنے والوں کو ان کی باریکیاں اور اشارے ، جذبات کے اُتار چڑھاؤ، فرض و محبت کی کش مکش، زندگی سے الفت اور قربانی کی عظمت، حفظ مراتب کے نکتے ، جمالیاتی حسن و کیفیت کے نمونے ، بیانیہ شاعری کے رنگارنگ ٹکڑے ، جوش شجاعت اور رنج بے کسی کی جھلکیاں ، جبر و اختیار کے لمحے ترشے ہوئے ہیرے کی طرح اپنے جلوۂ صد رنگ کے ساتھ نظر آ جائیں۔ ‘‘
کتاب کے آخری حصہ میں انیس اور دبیر کی شاعری کا جو موازنہ و مقابلہ کیا گیا ہے اس کی وجہ سے پوری کتاب کا موضوع موازنہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ بات درست نہیں ہے۔ اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر شبلی کی کتاب کے جواب میں کئی کتابیں شائع ہوئیں جن میں مندرجہ ذیل خاص طورسے اہم ہیں :
موازنہ کے جواب میں لکھی گئی کتابیں
۱۔ رد الموازنہ از میر افضل علی ضو
۲۔ تردید موازنہ از حسن رضا و محمد جان عروج
۳۔ المیزان از نظیرالحسن فوق
موازنہ سے متاثرہ کتابیں
ان کتابوں کے علاوہ بعض دوسری کتابوں پر بھی موازنۂ انیس و دبیر کے اثرات مرتب ہوئے ان میں خاص طورسے اہم مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ حیات دبیر از افضل حسین ثابت
۲۔ واقعاتِ انیس از امجد علی اشہری
۳۔ یادگارِ انیس از امیر احمد علوی
۴۔ تنقید آبِ حیات بہ احوال مرزا دبیر از محمد رضا
جہاں تک اس کتاب کی تنقیدی اہمیت کا سوال ہے دو شاعروں کے سنجیدہ تنقیدی مطالعہ کی پہلی کتاب ہونے کی وجہ سے ادبی حلقوں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں فصاحت اور بلاغت کے معیارات نے خاص طورسے اہم رول ادا کیا ہے۔
فصاحت کی تعریف
فصاحت کی تعریف کرتے ہوئے شبلی لکھتے ہیں :
’’علمائے ادب نے فصاحت کی یہ تعریف کی ہے کہ لفظ میں جو حروف آئیں اُن میں تنافر نہ ہو، الفاظ نامانوس نہ ہوں ، قواعد صرفی کے خلاف نہ ہوں۔ ‘‘
(موازنۂ انیس و دبیر، مرتبہ: ڈاکٹرمسیح الزماں ، ص:۵۲)
پھر اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ درحقیقت ایک قسم کی آواز ہے اور چوں کہ آوازیں بعض شیریں ، دل آویز اور لطیف ہوتی ہیں مثلاً طوطے اور بلبل کی آواز اور بعض مکروہ و ناگوار مثلاً کو ّے اور گدھے کی آواز۔ اس بنا پر الفاظ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں بعض شستہ، سُبک، شیریں اور بعض ثقیل، بھدّے ، ناگوار۔ پہلی قسم کے الفاظ کو فصیح کہتے ہیں اور دوسرے کو غیر فصیح۔ بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ فی نفسہٖ ثقیل اور مکروہ نہیں ہوتے لیکن تحریر و تقریر میں اُن کا استعمال نہیں ہوا ہے یا بہت کم ہوا ہے۔ اس قسم کے الفاظ بھی جب ابتداً استعمال کیے جاتے ہیں تو کانوں کو ناگوار معلوم ہوتے ہیں۔ اُن کو فنِ بلاغت کی اصطلاح میں غریب کہتے ہیں ، اور اس قسم کے الفاظ بھی فصاحت میں خلل انداز کہے جاتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۲۔ ۵۳)
فصاحت کے مدارج
فصاحت کے مدارج کا ذکر کرتے ہوئے شبلی لکھتے ہیں :
’’فصاحت کے مدارج میں اختلاف ہے۔ بعض الفاظ فصیح ہیں۔ بعض فصیح تر بعض اُس سے بھی فصیح تر۔ میرانیسؔ کے کلام کا بڑا خاصہ یہ ہے کہ وہ ہر موقع پر فصیح سے فصیح الفاظ ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ ‘‘
(ایضاً۔ ص:۵۴)
فصیح اور مبتذل میں فرق
فصیح اور مبتذل میں فرق کرتے ہوئے شبلی لکھتے ہیں :
’’فصاحت کے متعلق ایک بڑا دھوکا یہ ہوتا ہے کہ چوں کہ فصاحت کے یہ معنی ہیں کہ لفظ سادہ، آسان، کثیرالاستعمال ہو اس لیے لوگ مبتذل اور سوقی الفاظ کو بھی فصیح سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ دونوں میں سفید و سیاہ کا فرق ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۴۔ ۵۵)
ابتذال
ابتذال کی وضاحت کرتے ہوئے شبلی رقم طراز ہیں :
’’ابتذال کے معنی عام طور پر یہ سمجھے جاتے ہیں کہ جو الفاظ عام لوگ استعمال کرتے ہیں وہ مبتذل ہیں ، لیکن یہ صحیح نہیں۔ سیکڑوں الفاظ عوام کے مخصوص الفاظ ہیں لیکن سب میں ابتذال نہیں پایا جاتا۔ ابتذال کا معیار مذاق صحیح کے سوا اور کوئی چیز نہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۵)
الفاظ کی فصاحت اور کلام کی فصاحت میں فرق
اسی طرح الفاظ کی فصاحت اور کلام کی فصاحت میں شبلی فرق کرتے ہیں۔ کلام کی فصاحت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں۔ بلکہ یہ بھی ضرور ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے اُن کی ساخت، ہیئت، نشست، سُبکی اور گرانی کے ساتھ اُس کو خاص تناسب اور توازن ہو۔ ورنہ فصاحت قائم نہ رہے گی۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۵۵۔ ۵۶)
اسی سلسلہ میں انھوں نے روزمرہ اور محاور ہ کی بحث بھی کی ہے اور اس کے لیے اہلِ زبان کی بول چال کو معیار قرار دیا ہے۔ بحروں کے انتخاب یا حسن قافیہ و ردیف اور تنسیق الصفات کے استعمال کو بھی فصاحت کا ہی حصہ قرار دیا گیا ہے۔
بلاغت کی تعریف
بلاغت کی تعریف کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں :
’’بلاغت کی تعریف علمائے معانی نے یہ کی ہے کہ کلام اقتضائے حال کے موافق ہو اور فصیح ہو۔ ‘‘
پھر اس کی تفصیل بیان کی ہے کہ:
’’ہر عنوان کے ادا کرنے کے لیے بلاغت کے خاص خاص طریقے ہیں۔ مثلاً سفر کی تیاری کے بیان کرنے میں بلاغت کا یہ اقتضا ہے کہ سفر کے وقت جو جو واقعات اور حالات پیش آتے ہیں ان کی تصویر کھینچی جائے۔ سفر کی آمادگی، سواریوں کی تقسیم، زادِسفر کا انتظام، محملوں اور کجاووں کی تیاری، مستورات کے پردے کا انتظام، دوست اور احباب کے وداعی جذبات، بھائی بہنوں اور عزیزوں کی گریہ و زاری، دل دہی اور صبر کے کلمات یہ تمام باتیں تفصیل سے بیان کی جائیں ، اور اس طرح کی جائیں کہ آنکھوں کے سامنے بعینہٖ سفر کا نقشہ پھر جائے۔ میرانیس نے جہاں جہاں سفرکا بیان کیا ہے ان نکتوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۵)
اسی طرح جنگ کے سلسلہ میں بلاغت کے تقاضے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’دو حریفوں کی باہمی معرکہ آرائی کو اس طرح بیان کرنا چاہیے کہ پہلے دونوں کے سراپا، ڈیل ڈول اور اسلحۂ جنگ سجنے کا نقشہ دکھایا جائے ، پھر بتایا جائے کہ دونوں نے فن جنگ کے کیا کیا ہنر دکھائے۔ حریف نے حریف پر کیوں کر حملہ کیا، کس طرح وار بچایا، تلوار کے کیا کیا ہاتھ دکھائے ، بند کیوں کر باندھے وغیرہ وغیرہ۔ میرانیس کے یہاں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں۔ بہ خلاف اس کے مرزا دبیر صاحب آسمان و زمین کے قلابے ملا دیتے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں لگتا کہ دونوں حریفوں میں سے کسی نے دوسرے پر وار بھی کیا تھا یا نہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۶)
اسی طرح بلاغت کا ایک اور نکتہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’بلاغت کا ایک بڑا نکتہ یہ ہے کہ واقعات کے بیان میں جس درجہ و رتبہ اور جس سن و سال کے لوگوں کا ذکر آئے اُسی قسم کے طرز خیال اور طریقِ ادا کو ملحوظ رکھا جائے۔ بوڑھے ، بچے ، جوان، مرد، عورت، کنواری، بیوہ، آقا، غلام، نوکر چاکر، غرض جس کی زبان سے جو خیال ظاہر کیا جائے اس کی زبان اور طرزِ خیال کی تمام خصوصیتوں کو قائم رکھا جائے۔ میرانیس نے تمام مرثیوں میں اس نکتہ کو ملحوظ رکھا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۶)
شبلیؔ کے یہ مباحث حقیقت پسند فکشن کے مسائل و مباحث سے جاکر مل جاتے ہیں۔
بلاغت کی اس بحث میں شبلی نے مراثیِ انیس کے ایسے خوب صورت تجزیے کیے اور جذبات نگاری کی ایسی خوب صورت مثالیں پیش کی ہیں جن کی مثال ملنی مشکل ہے۔
مختلف واقعات کے بیان کے سلسلہ میں بلاغت کے مسائل کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’واقعات کے بیان میں بلاغت کا ایک بڑا ضروری اصول یہ ہے کہ کہیں سے سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔ جب کوئی واقعہ مختلف اور متعدد واقعات پر مشتمل ہوتا ہے تو ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کی طرف منتقل ہوتے ہوئے اکثر بیان کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے یا زائد اور بھرتی کے لفظ لانے پڑتے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زبردستی ایک واقعہ کا دوسرے پیوند لگایا ہے۔ مرزا دبیر صاحب کے کلام میں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔ میرانیس کے اکثر مرثیے بہت سے متعدد واقعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اُن پر الگ الگ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر واقعہ ایک جداگانہ مرثیہ کا موضوع ہے۔ لیکن تسلسل بیان کا یہ اثر ہے کہ تمام مختلف واقعات ایک مسلسل زنجیر بن جاتے ہیں جس کی تمام کڑیاں آپس میں ملی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۸۷)
تنقید و تجزیہ
ان بنیادی نکات کے بعد شبلیؔ نے مراثیِ انیس کی تنقید اور تجزیہ کا جو فریضہ انجام دیا ہے وہ بے مثال ہے۔ مثال کے طور پر انیس کے ایک شعر کا انتخاب کرتے ہیں :
بیکس ہوں مرا کوئی مددگار نہیں ہے
تم ہو سو تمھیں طاقت گفتار نہیں ہے
اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہ وہ موقع ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے روانہ ہو رہے ہیں۔ تمام خاندان کو ساتھ لیا ہے ، لیکن صغریٰ کو باوجود اس کے کہ آپ کی چہیتی بیٹی تھیں بیماری کی وجہ سے ساتھ نہیں لے جاتے۔ صغریٰ نہایت گریہ و زاری کرتی ہیں اور ایک ایک سے سفارش کراتی ہیں کہ مجھ کو بھی ساتھ لیتے چلیے ، لیکن کوئی حامی نہیں بھرتا۔ اُس وقت علی اصغر سے جو شش ماہے بچے تھے خطاب کر کے کہتی ہیں کہ اس وقت میرا اور کوئی مددگار نہیں ہے۔ ایک تم ہو لیکن افسوس تم کو بولنے کی طاقت نہیں۔ تمام لوگوں سے مایوس ہو کر ایک بچے کا سہارا ڈھونڈنا اور پھر یہ خیال کہ وہ بولنے کے قابل نہیں انتہا درجہ کی حسرت اور ناکامی کی تصویر ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۰۰)
اسی طرح میدانِ جنگ میں ایک شخص جو حضرت امامؑ کو نہیں پہچانتا ہے وہ امام حسین سے پوچھتا ہے کہ وہ کون ہیں ؟ امامؑ کے جواب کو انیس اور دبیر دونوں نے نظم کیا ہے۔ انیس کہتے ہیں :
فرما نہیں سکے کہ شہ مشرقین ہوں
مولانا نے سرجھکا کے کہا میں حسین ہوں
اس کے برعکس دبیرؔ اس صورت حال کو یوں نظم کرتے ہیں :
فرمایا میں حسین علیہ السلام ہوں
شبلی اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’موقع کی حالت یہ ہے کہ حضرت امام حسین اپنا نام اس حیثیت کے ساتھ بتائیں جس سے کسی قدر شرف اور فضیلت کا اظہار ہوتا کہ پوچھنے والا سمجھ سکے کہ یہ وہی امام حسین ہیں جن کا وہ غائبانہ دل دادہ اور مشتاق ہے۔ لیکن امام ممدوح کی خاکساری مانع آتی ہے۔ وہ اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ میں حسین ہوں ، لیکن چوں کہ مستفسر قرائن سے اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ محض نام لینے سے بھی غالباً پہچان لے گا اور اس لیے حسین کہنا بھی گویا اپنے آپ کو امام کہا ہے۔ اس بنا پر نام لینا بھی ایک طرح پر شرف اور فضیلت کا اظہار ہے۔ اس لیے خالی نام لیتے ہوئے بھی آپ شرما جاتے ہیں اور شرم سے آپ کی گردن جھک جاتی ہے۔ اس بنا پر شاعر کہتا ہے کہ:
مولا نے سرجھکا کے کہا میں حسین ہوں
لیکن شاعر کو جو امام حسین علیہ السلام کی عظمت کے اثر سے لبریز ہے گوارا نہیں ہوتا کہ آپ کا نام اس سادگی سے لیا جائے ، اُس کے نزدیک امام علیہ السلام اگر اپنے آپ کو بادشاہ مشرقین کہتے تو یہ کچھ خودستائی نہ تھی، بلکہ محض ایک واقعہ تھا۔ جس طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے آپ کو رسول اﷲ کہتے تھے اور یہ خودستائی نہیں خیال کی جاتی تھی۔ شاعر کے دل میں حسرت ہے کہ کاش امام نے بیان واقعہ ہی کیا ہوتا۔ اس کو وہ اس طرح ادا کرتا ہے :
یہ تو نہیں کہا کہ شہ مشرقین ہوں
تاہم اس سے یہ خیال بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کی اعلیٰ ظرفی اور شرافت نفس کا یہی اقتضا تھا کہ وہ خاکساری کو بیان واقعہ پر مقدم رکھتے۔
اس موقع پر یہ کہے بغیر رہا نہیں جاتا کہ اسی واقعہ کو مرزا دبیر صاحب نے اس طرح باندھا ہے۔
فرمایا ’’میں حسین علیہ السلام ہوں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۹۱۔ ۹۳)
خلاصہ
مختصر یہ کہ اردو میں تقابلی تنقید کی ابتدا موازنۂ انیس و دبیر سے ہوتی ہے۔ شبلیؔ کی تنقید اخلاقی پہلوؤں کو مد نظر رکھتی ہے۔ انھیں نظرانداز نہیں کرتی، لیکن اُن کا طریق کار سماجی تنقید کا نہیں ہے۔ بعد کے ناقدین نے انھیں جمالیاتی تنقید کے ذیل میں رکھا ہے۔ مشہور ناقد خلیل الرحمن اعظمی کا خیال ہے کہ:
’’شبلی کی تنقید حالیؔ کی تنقید کا ردِ عمل معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘
لیکن ڈاکٹر مسیح الزماں کا خیال ہے کہ اپنے دوسرے معاصرین کی طرح شبلی بھی بنیادی طور پر اصلاح پسند تھے۔ اُن کے مطابق:
’’شبلی بھی اسی اصلاح پسند گروہ سے متعلق تھے۔ اس لیے تبصرہ و تنقید کا نمونہ پیش کرنے کے لیے انھیں ایسے شاعر کی تلاش ہوئی جس کی شاعری اعلیٰ فن کاری کے ساتھ ساتھ موضوع کے اعتبار سے بھی اعلیٰ اخلاقی اور سماجی قدروں کی حامل ہو۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۰)
کتابیات
۱۔ شبلی از ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی، ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی
۲۔ حیاتِ شبلی از سیدسلیمان ندوی، دار المصنّفین، اعظم گڑھ
۳۔ شبلی کا ذہنی ارتقا از سید سخی احمد ہاشمی
۴۔ شبلی معاندانہ تنقید کی روشنی میں از سیدشہاب الدین دسنوی
۵۔ شبلی نمبر (فکر و نظر، علی گڑھ) مدیر شہریار
۶۔ یادگار شبلی شیخ محمد اکرام
۷۔ شبلی کا مرتبہ اردو ادب میں عبد اللطیف اعظمی
۸۔ شبلی ایک دبستان آفتاب احمد صدیقی
۹۔ شبلی نقادوں کی نظر میں مرتبہ ناز صدیقی
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید