فہرست مضامین
پاکستانی ادب کے معمار
منیر نیازی: شخصیت و فن
امجد طفیل
پیش نا مہ
اکادمی ادبیات پاکستان نے 1990ء میں پاکستانی زبانوں کے ممتاز تخلیق کاروں کے بارے میں پاکستانی ادب کے معمار کے عنوان سے ایک اشاعتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ معمار ان ادب کے احوال و آثار کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے یہ کتابی سلسلہ بہت مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ اکادمی پاکستان کی تمام زبانوں کے نامور ادیبوں شاعروں افسانہ نگاروں اور نقادوں کے بارے میں کتابیں شائع کر رہی ہے۔
عہد ساز شاعر منیر نیازی اپنے اسلوب طرز احساس اور زبان و بیان کے اعتبار سے نظم و غزل کے بے مثال شاعر ہیں۔ انہوں نے اردو اور پنجابی شاعری کے حوالے سے عہد حاضر میں اپنی الگ پہچان بنائی ہے اور عالمی سطح پر پاکستانی ادب کے اعتبار و وقار میں اضافہ کیا ہے۔
منیر نیازی کی زندگی اور ادبی خدمات کے حوالے سے پیش نظر کتاب ملک کے معروف ادیب اور شاعر جناب امجد طفیل نے بڑی توجہ اور محنت کے ساتھ تحریر کی ہے۔ امجد طفیل کی یہ کتاب منیر نیازی کی شخصیت اور فن کے بعض اہم گوشوں سے متعارف کرانے اور ان کے کام کو سمجھنے سمجھانے میں یقیناً معاون ثابت ہو گی۔
مجھے یقین ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کا اشاعتی منصوبہ پاکستانی ادب کے معمار ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی پسند کیا جائے گا۔
افتخار عارف
پیش لفظ
منیر نیازی کی شاعری کا میں عرصہ دراز سے مداح ہوں مگر منیر نیازی کی شاعری کے بارے میں لکھنے کا تجربہ میرے لیے منیر نیازی کی تخلیقی دنیا اور جہان معنی میں Liveکرنے کا تجربہ تھا اور میرا دل چاہتا تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ اس تجربے میں رہوں تاکہ میں منیر نیازی کے تخلیقی سوتوں بنیادی استعاروں شعری طریقہ کار کی تہہ تک پہنچ سکوں۔ لیکن کتاب کی تصنیف کے ساتھ ساتھ کتاب کی بروقت اشاعت بھی ضروری ہوتی ہے اور اس بات کا جتنا ادراک کتاب شائع کرنے والے اصحاب کو تھا مجھے نہیں تھا۔ بہرطور میری کاوش آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اس کتاب میں اختصار کے ساتھ منیر نیازی کی شخصیت اور فن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ یہاں میں نے منیر نیازی کی شاعری سے زیادہ مثالیں دی ہیں تاکہ قارئین میری تنقید کے ساتھ ساتھ منیر نیازی کی شاعری سے بھی لطف اندوز ہو سکیں۔ اس حوالے سے کتنا کامیاب ہوا ہوں اس بات کا فیصلہ تو قارئین ہی کر سکتے ہیں میں اس کتاب پر آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔
یہاں میں د و اصحاب کا بطور خاص شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کی بار بار کی یاد دہانیوں کے باعث اس کتاب کی تکمیل ہوئی۔ یہ محترمہ سعیدہ درانی اور محمد جمیل ہیں جو اپنے فرائض منصبی کو سرکاری کام سے کچھ زیادہ سمجھتے ہیں۔
ا مجد طفیل
٭٭٭
سفر حیات
کہتے ہیں کہ شاعر و ادیب اپنے عہد کا نباض ہوتا ہے۔ اس کی تخلیقات میں اس کے عہد کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ انسانی تہذیب کے کسی عہد کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس جو بہت سے معتبر ماخذ ہوتے ہیں ان میں ایک ماخذ ادب بھی ہے۔ ادب کا طریقہ کار تاریخ اور سماجی علوم کے طریقے سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ تخلیق کار نہ تو اپنے عہد کی تاریخ لکھتا ہے اور نہ سیاسی و سماجی واقعات اور معاملات کا معروضی تجزیہ کرتا ہے۔ وہ تو اپنے عہد کے طرز احساس کو اپنے وجدان سے چھوتا ہے۔ انسانی جذبات احساسات کی کائنات کی سیر کرتا ہے۔ زمان و مکاں کے معاملے کو اپنی تخلیقی آنکھ سے دیکھتا ہے اور پھر اسے یوں بیان کرتا ہے کہ آپ بیتی جگ بیتی معلوم ہونے لگتی ہے۔
کسی بھی شاعر و ادیب کے تخلیقی اور فنی سفرکو اس وقت تک پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں جب تک کہ ہم اس کے گرد و پیش کی دنیا کو اپنے دھیان میں نہ رکھیں۔ خاص طور پر وہ تہذیبی اور سماجی حالات جن میں کس لکھنے والے کی زندگی کے ابتدائی ایام گزرے۔ وہ حوادث زمانہ جنہوں نے تخلیق کار کی پرورش میں اہم حصہ لیا شخصیت کی تشکیل میں وراثت میں ملنے والے عضویاتی اور نفسیاتی امکانات ماحول کے ساز گار عوامل کے ساتھ مل کر حصہ لیتے ہیں۔ بچپن کا ماحول، وہ لوگ جن میں بچپن گزرا ہو تا حیات فرد کی شخصیت پر اپنے اثرات مرتب کرتے رہتے ہیں۔
منیر نیازی کی فنی و تخلیقی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس ابتدائی ماحول اور فضا کو اپنے سامنے رکھنا ہو گا جس میں ان کا بچپن گزرا۔ منیر نیازی 19اپریل 1928ء کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور سے متصل خانپور نام کی بستی میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں ماحول جغرافیائی اور سماجی صورت حال کے بارے میں اشفاق احمد نے نہایت تخلیقی انداز میں لکھا ہے :
’’اگر کوہ شوالک سے اس بیدردی کے ساتھ جنگل نہ کاٹے جاتے تو پہاڑوں سے امڈتا ہوا سیلاب ہوشیار پور کی سر زمین کو یوں ہی اپنی لپیٹ میں نہ لے سکتا تھا۔ آبادی اس طرح ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتی۔ اور اگر ہوتی تو ان کے درمیان رسل و رسائل کی آسانیاں تو برقرار رہتیں ‘‘۔
’’ہوشیار پور اس کے گاؤں کے درمیان چو کا ایک لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا ہے برسات کے دنوں میں پہاڑ ی نالے اسے لبالب بھر دیتے ہیں اور جب پانی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو ریت کا لق و دق صحرا ا پنے شہر اور گاؤں کے درمیانی انگڑائی کی طرح پھیلنے لگتا ہے۔ اندھیری راتوں میں چور ان ریگزاروں میں سستا کر اپنے کام پر نکلتے ہیں۔ قبرستان کے اردگرد کبڑی کھجوروں کے جھنڈ میں مدھم سرگوشیاں ہوتی ہیں کالی سیاہ ڈراؤنی راتوں میں اس ریگ زار کے ذرے ایک دوسرے سے چمٹے صبح کے انتظار میں آنکھیں جھپکا کرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اندھیری راتوں میں کوئی دیوانہ چاند کی تلاش میں ادھر آ نکلتا ہے اور رات بھر سانپوں سے بھرے جنگل کی آوازیں سنتا رہتا ہے۔ صبح شہر سے گاؤں جانے والا کوئی بھی مسافر اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ریت کے ذرے پھر سے دھوپ میں چمکنے لگتے ہیں ‘‘۔
’’یہ گاؤں گاؤں بھی نہیں قصبہ بھی نہیں۔ اسے نوآبادیاتی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اور شہر کا سٹیلائٹ ٹاؤن بھی نہیں۔ ایک بستی ہے جو بستے بستے بڑی دیر تک اور بڑی دور تک بس گئی ہے۔ چھوٹی اینٹوں کے بل کھاتی ہوئی گلیاں نیچی چھتوں کے اونچی کرسیوں والی مکان رنگ برنگے شیشوں والی بند کھڑکیاں اور کھلے دروازوں پر بانس اور سرکنڈوں کی تیلیوں کی چھتیں۔ ‘‘
’’اس بستی میں پرانے منصب داروں کے گھر تھے۔ اب ان میں چمگادڑوں اور ابابیلوں کا بسیرا ہے۔ اس نگری میں ان لوگوں کے دو منزلہ مکان ہیں۔ جو تلاش روزگار کے سلسلے میں افریقہ کویت یا بحرین میں بستے ہیں۔ ان لوگوں کے گھر والے یہاں رہتے ہیں۔ ان کی لڑکیوں کے سنگار میز اوپر کے کمروں میں ہوتے ہیں ۔ ان کی میزوں پر افریقہ کویت اور بحرین کے تحفے پڑے ہوتے ہیں۔ پھر یہ لڑکیاں افریقہ کویت یا بحرین چلی جاتی ہیں۔ اور جب لوٹتی ہیں تو ان کی چھوٹی چھوٹی بہنیں جوان ہو چکی ہوتی ہیں۔ جب وہ آتی ہیں تو افریقہ کی آبنوسی رکابیوں میں غیر ملکی شیرینیاں ولایتی رومالوں سے ڈھانپ کر ان چھوٹی اینٹ کی گلیوں میں چلتی ہیں جو آگے نکل کر جوگیوں کے مٹھ کی طرف نکل جاتی ہیں۔ یہ مٹھ ویران ہے اس کی کوٹھڑیاں اور کنڈ ڈھکے چکے ہیں۔ دھرم شالہ کے بس قدم آدم کھولے رہ گئے ہیں اور ان کھولوں میں پھونس کی چھت تلے گونگا رہتا ہے جب سرمئی شام اندھیری رات میں تبدیل ہو جاتی ہے تو بچے اس گلی کے آخری سرے تک جانے سے کتراتے ہیں ۔ نہیں کھنڈروں سے نہیں اس گونگے سے خوف آتا ہے۔ جس کی بے زبانی ان گری پڑی دیواروں میں صدائے بازگشت بن کر ہر وقت گونجتی رہتی ہے۔ ان بچوں نے آج تک کسی سے بات نہیں کی کہ یہ گونگا کئی صدیوں سے زندہ ہے۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ ایک دلدوز چیخ مار کر پھونس کی جھونپڑی جلا دیتا ہے خود اس میں بھسم ہو جاتا ہے اور اگلی صبح اسی خاکستر سے اٹھ کر ایک سو سال زندہ رہنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہر بچے کے ذہن میں آپ سے آپ جنم لیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس بستی میں ان لوگوں کے گھر ہیں جو بڑے گھروں کے کارندے ہیں کارندوں کی عورتیں بالوں میں پیتل کے کلپ لگا کر اور ماتھے پر پھول چڑیاں بنا کر گھروں میں کام کرنے آتی ہیں۔ دھاگے کی گولیوں سے کچے رنگ کے سرخ لیبل نکال کر ہونٹوں پر سرخی کی دھڑی جماتی ہیں اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑے لوگوں کے دیوان خانوں میں گھس جاتی ہیں۔ انہیں بچوں نے ان کو دیوان خانوں میں داخل ہوتے اور وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہی بچے رات کو نانی اماں سے چڑیلوں کی کہانیاں سنتے ہیں اور انہیں مکانوں کے ہر چھجے کی اینٹ خون دکھائی دیتی ہے جسے بچے کچے لیبل کا رنگ…‘‘
’’کوہ شوالک سے اگر جنگل اس بے درد سے نہ کاٹے جاتے تو یہاں بھی گھٹا کا وہی رنگ ہوتا جو شمال کی گھٹاؤں کا ہوتا ہے۔ سرمئی اور دھولے بادل آگے بڑھتے برف پوش چوٹیوں اور شجر پار تراہوں سے ٹکراتے اور وادی میں جل تھل ہو جاتا۔ کوہ شوالک تو بے برگ و بار پہاڑ ہے۔ ا س کی چوٹیوں پر ٹھنڈک کہاں یہاں تو خود تبخیر کا عمل جاری ہے اس کے چاروں اور گھمڈے والی گھٹائیں اتنی گہری اور اس قدر نیلی اور ایسی دلدار ہوتی ہیں کہ جہاں جہاں سے گزرتی ہیں زمین کا وہ حصہ کشش ثقل سے عاری ہو جاتا ہے پھر کوئی ذی روح زمین کے اس حصے پر قدم نہیں جما سکتا اور گھٹائیں اسے اچک کر اپنی گود میں اٹھا لیتی ہیں۔ آموں کے باغوں پر اڑتی ہیں تاریک ریگ زاروں پر جھولا جھلاتی ہیں اور گئے موسموں کے باس سنگھا کر تڑپاتی ہیں۔ ‘‘
’’یہ منیر نیازی کی بستی تھی جو اس کے اردگرد کم اور اس کے ذہن کی گہرائیوں میں طلسمی رنگوں میں بھیگے ہوئے گھر بسا کر بستی جاتی تھی‘‘۔ (1)
اس طویل اقتباس میں جس بستی کے خدوخال ہمیں دکھائی دے رہے ہیں وہ پوری آب و تاب سے ہمیں منیر نیازی کی شاعری میں آباد نظر آتی ہے۔ راتوں کی تاریکی گھنگھور گھٹائیں بستی کے ویران گھر، سنسان گلیاں اور گلی کے آخری سرے پر نامعلوم خوف کے سایے یہ عناصر وہ ہیں جن سے منیر نیازی کی شعری کائنات کا خاکہ تیار ہوتا ہے۔ خان پور کی بستی میں ہمیں کسی بھی شہر کی صورت اور کبھی کسی ویران بستی کی شکل میں منیر نیازی کے ہاں جلوہ گر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ منیر نیازی نے نہ صرف اپنے باہر کے ماحول کو اپنی باطنی ذات کا حصہ بنایا ہے بلکہ وہ اس کی تخلیقی ذات میں یوں پیوست ہوا ہ یکہ قدم قدم پر اپنی جھلک دکھاتا ہے شاعر نے اپنے بچپن میں ماحول کے پراسرار عناصر کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے شاید وہ خود بھی نہیں جانتا ہو گا کہ یہ عناصر آگے چل کر اس کی شاعری میں ایک طلسماتی فضا کی تشکیل کرنے والے ہیں جو اسی کے کام سے مخصوص ہو جائے گی اور اردو شاعری میں ایک الگ ذائقے کی حامل ہو گی۔
خان پور کی بستی میں سات بھائی اور تین بہنیں رہتی تھیں ان میں ایک بھائی کا نام فتح محمد خان تھا اور وہ اپنے بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے فتح محمد خان کی شادی اس زمانے کے ایک شریف اور عزت دار گھرانے کی سگھڑ لڑکی رشیدہ بیگم سے ہوئی۔ ان دونوں کو جب اللہ نے ایک بیٹے سے نواز بیٹے کی پیدائش پر والدین نے وہ سب خوشیاں منائیں جو رواج کے مطابق شریف مناتے ہیں نام اس لڑکے کا محمد منیر خان رکھا۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ خانپور کی بے نام بستی میں پیدا ہونے والا یہ منیر اردو شاعری میں ماہ منیر بن کر چمکے گا۔ اور جدید اردو شاعری میں اپنی منفرد پہچان بنائے گا۔
عام رواج تھا کہ خان پور سے لوگ نوکری کرنے کے لیے برصغیر پاک و ہند کے دوسرے علاقوں اور بیرون ملک بھی جاتے تھے۔ تلاش رزق میں پٹھانوں کا یہ خاندان ساہیوال (اس زمانے میں منٹگمری تھا) میں آباد ہوا۔ ساہیوال میں ان بھائیوں نے ٹرانسپورٹ کا کاروبار آغاز کیا۔ شب و روز کی محنت شاقہ سے کاروبار ترقی کرنے لگا اور خاندان میں خوشحالی آنے لگی۔
محمد منیر خان ابھی صرف دو ماہ کا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں اہل خانہ نے منیر کی والدہ کی شادی چچاسے کر دی۔ محمد منیر خان کی کفایت کا ذمہ تمام چچاؤں نے مل کر سنبھالا۔ اپنی زندگی کے ابتدائی سات سال خان پورمیں گزارنے کے بعد منیر نیازی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ساہیوال آ گیا یوں اس کی پرائمری تعلیم کی ابتدا خان پور سے ہوئی لیکن پرائمری مکمل ساہیوال میں ہوئی۔ اس کے بعد منیر خاں کو گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال میں داخل کروا دیا گیا جہاں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد محمد منیر خان مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے امرتسر کا رخت سفر باندھا ور ان کی والدہ کی مرضی بھی یہی تھی لیکن ان کے چچا منظور احمد جو فوج میں کرنل تھے چاہتے تھے کہ انہیں بھی فوج میں ملازم کرا دیں۔ اس لیے انہوں نے محمد منیر خاں کو رائل انڈین نیوی میں بھرتی کرا دیا۔ چونکہ محمد منیر خاں کی متلون مزاج طبیعت ضابطے میں ڈھالنے کے لیے نہیں بنائی تھی اس لیے وہاں سے بھاگ نکلے پکڑے گئے سزا ہوئی مگر سزا نے محمد منیر خاں کے اندر بغاوت کے جذبے کو مزید مضبوط کر دیا۔ ایک بار پھر بھاگ نکلے۔ اس بار کامیاب ہوئے۔ کافی عرصہ چھپتے چھپاتے گزرا۔ روپوشی کے یہ دن پہلے انہوں نے اپنے شہر اور پھر حاصل پور میں بسر کی۔ چونکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق زیادہ عرصہ عالم تنہائی میں گزارنا پڑا۔ اس عالم تنہائی نے ان کے مزاج اور شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ باضابطہ زندگی سے بغاوت کے اس تجربے نے ان کے اندر کی تخلیقی ذات کو تقویت دی خود سے مکالمے نے اپنے باطن سے رشتہ جوڑنے اور اپنی ذات سے ہم کلام ہونے کی ایسی خو ڈالی کہ محمد منیر خاں سے منیر نیازی تک کے سفرمیں اپنی ذات سے مکالمے کی دھیمی لے ان کی شاعری کا بنیادی وصف بن گئی۔
آوارگی اور تنہائی کی یہ زندگی کب تک چلتی۔ آخر تعلیم کی طرف واپس آئے۔ بہاولپور سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ پھر دیال سنگھ کالج لاہور میں بی اے کے لیے داخل ہوئے۔ یہاں سے سر نگر اور سر نگر سے جالندھر۔ پؤں کا یہ چکر تعلیم کے آڑے آیا۔ اسی دوران برصغیر میں سیاسی حالات کشیدہ وہ گئے قیام پاکستان کے وقت منیر نیازی بی اے کے آخری سال میں تھے۔ لیکن اس کے باوجود جو تعلیم کا سلسلہ ٹوٹا تو ساری عمر اسے دوبارہ جوڑنے کی نہ فرصت ملی نہ حاجت رہی۔
منیر نیازی نے خود اپنے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے ساری عمر شاعری کی اور شاعری کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ ان کی طبیعت ضابطوں میں ڈھلنے کے لیے نہ تھی ایک خاص خو کہ جو آزاد روی اور بے فکری طبیعت کا خاصہ تھا۔ کسی باضابطہ ملازمت کا خیال بھی کبھی آیا ہو گا تو چند ثانیوں سے زیادہ نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ساہیوال میں ایک اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی گئ۔ نام اس ادارے کا ارژنگ پبلشرز تھا اس ادارے کے تحت پہلے انہوں نے ایک ہفت روزہ رسالہ سات رنگ کے نام سے نکالا۔ اسی زمانے میں ایک سہ ماہی پرچہ ارژنگ کے نام سے بھی شروع کرنا چاہا لیکن مالی حالات اور ذاتی معاملات کی وجہ سے جلد ہی یہ ادارہ بند ہو گیا۔
ساہیوال میں انہیں مجید امجد انجم رومانی اور صدیق کلیم جیسے شعراء اور ادباء سے ربط و ضبط کا موقع ملا۔ ان میں سے منیر نیازی نے مجید مجد سے سب سے زیادہ اثرات قبول کیے۔ 1950ء میں منیر نیازی نے لاہور کا رخ کیا اس کے بعد شہر کی سب سے جدید بستی ماڈل ٹاؤن اور پھر ٹاؤن شپ میں لاہور میں رفتہ رفتہ ان کے شاعرانہ شہرت پھیلنے لگ۔ جلد ہی منیر نیازی اپنے ہم عصروں میں نمایاں نظر آنے لگے۔ لاہور میں وہ حلقہ ارباب ذوق کے رکن بنے۔ حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سیکرٹری بھی رہے حلقہ ارباب ذوق سے ان کا تعلق کسی نہ کسی صورت تا حال قائم ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دیگر ادبی تحریکوں سے زیادہ ربط ضبط نہیں رکھا۔
لاہور میں بھی منیر نیازی نے ایک اشاعتی ادارہ المثال کے نام سے قائم کیا جس نے چند کتابیں نہایت اہتمام سے دیدہ زیب انداز میں شائع کیں ان میں نم راشد کی کتابوں کو حوالے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن منیر نیازی کی تخلیقی شخصیت کاروباری داؤ پیچ سے زیادہ مناسبت پیدا نہ کر سکی۔ اس لیے یہ ادارہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ منیر نیازی نے دوسری کوشش مکتبہ منیر کے نام سے کی لیکن یہ ادارہ بھی نہ چل سکا۔
لاہور میں اپنے قیام کے دوران منیر نیازی نے اپنے مالی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے مختلف نوعیت کے تالیفی اور تصنیفی کام کرنے کی کوشش کی مثلاً کالم لکھے تراجم بھی کیے سفر نامہ بھی تصنیف کیا لیکن رفتہ رفتہ منیر نیازی پر کھلتا گیا کہ قدرت نے اسے شاعری کی تخلیق کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس لیے ان کاموں میں زیادہ وقت اور وقت صرف کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ شاعری کی طرف مائل ہوتے چلے گئے۔
منیر نیازی نے شاعری کا آغاز قیام پاکستان سے قبل اس وقت کیا جب وہ سلامیہ کالج جالندھر میں بی اے کے طالب علم تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے حسن رضوی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’میرے خیال میں پہلی 1947ء کے آس پاس آنکھ کھلی جیسے کچھ یکلخت آتا ہے بوچھاڑ کی صور ت آنے والے واقعات کا پیش خیمہ تھا۔ ہجرت کے آثار تھے یا کیا تھا؟ اس وقت میں اسلامیہ کالج میں تھا۔ ہمارا مجلہ مجاہد نکلتا تھا اس میں ایک نظم ایک افسانہ اور ایک انگریزی کی ہوئی تھی… (2) (ص :109)
اپنے ایک دوسرے انٹرویو میں منیر نیازی نے اپنی ابتدائی تخلیقات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:
’’اس میں (مجاہد میں ) پانچ تخلیقات شائع ہوئیں۔ جن میں ایک غزل ایک نظم، کے علاوہ انگریزی نظم ’’ریسلنگ‘‘ بھی شامل تھی‘‘۔ (3)
منیر نیازی کی یہ تخلیقات کالج میگزین مجاہد کے شماروں میں محفوظ ہیں اور غالباً یہ ان کے تابی صورت میں اشاعت پذیر ہونے والے کام میں شامل نہیں۔ کم از کم ان کی کتابوں سے اس بات کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ کہ یہ تخلیقات انہوں نے اپنے کتابی صورت میں شائع ہونے والے کلام میں شامل کیں۔ منیر نیازی کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہم اس نظم برسات سے کر سکتے ہیں جو 1949 ء میں تخلیق ہوئی۔ یہ نظم پہلے ادبی دنیا میں چھپی اور پھر ان کے پہلے مجموعہ کلام تیز ہوا اور تنہا پھول کی پہلی نظم بھی ہے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد منیر نیازی جالندھر سے ساہیوال منتقل ہو گئے جہاں ان کے خاندان کے دیگر افراد آباد تھے۔ ساہیوال میں قیام کے دوران انہیں مجید امجد جیسے شاعر کی صحبت میسر آئی۔ مجید امجد کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں منیر نیازی کے تخلیقی جوہر کھلنے لگے۔ دن کا بہت سا حصہ دونوں کا ایک ساتھ گزرتا تھا۔ اور بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ یوں دونو ں ایک دوسرے کے لیے محرک کا کام کرتے تھے۔ شاعری پر گفتگو سے دونوں اپنے اپنے طور پر تفہیم کے مسائل سے نبرد آزما ہوتے تھے۔ شاعری میں کسی بزرگ شاعر کی شاگردی اختیار نہ کرنے کے سبب منیر نیازی کے لیے یہ آسان ہو گیا کہ وہ اپنے انفرادی تجربے اور صلاحیت کو شعری جامہ پہنا سکے۔ منیر نیازی نے شاعری میں نظم و غزل اور گیت کی ہئیتوں کو اپنے تخلیقی اظہار کے لیے پسند کیا۔ ان کی تخلیقات اردو کے رسائل جیسے فنون اوراق سویرا ادب لطیف معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان کا شمار عہد حاضر کے مشہور و معروف اور اہم ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔
ظاہری طور پر منیر نیازی ایک وجیہ شخص ہیں۔ لمبا قد سرخ و سفید رنگ تیکھے نقوش متناسب جسم اور پر تاثر آواز یہ سب عناصر مل کر منیر نیازی کی مسحور کن شخصیت بناتے ہیں۔ وہ جس محفل میں شریک ہوں مرکز نگاہ بنے رہتے ہیں۔ منیر نیازی کے ایک ہم عصر رحیم گل نے نہایت خوبصورتی سے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ کھینچا ہے۔
’’ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ وسرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سر خ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوت شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا… (4)‘‘
ظاہری خدوخال کے بعد اگر ہم ان کے باطن پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک نوع کی آزاد روی اور متلون مزاجی ان کے ہاں نمایاں ہے کسی ایک حالت میں کسی ایک فضا اور کسی ایک شخص کو زیادہ دیر برداشت کرنے کی خو ان میں کم کم ہے۔ اس کے ساتھ انفرادیت اور خود کو دوسرے لوگوں سے الگ الگ رکھنے کی عادت نے ان کے گرد ایک حصار کھینچ دیا ہے۔ یہ حصار بہت کم اشخاص احوال اور واقعات کو منیر نیازی کی ذات سے حقیقی مکالمے کا موقع دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں شدت پسندی کا عنصر بھی نمایاں ہے یعنی جس فرد یا صورت حال سے متاثر ہوں گے شدید اثرات قبول کریں گے لیکن یہ اثرات دیرپا نہیں ہوں گے۔
منیر نیازی کے مزاج میں شامل ہے کہ یہ سب عناصر نے ان کے لیے اس بات کو بہت مشکل بنا دیا ہے کہ وہ ٹک کر کسی ملازمت میں سرکھپائیں یا کسی ادبی تحریک یا رجحان کا حصہ بن جائیں۔ اس کے برعکس مسافر کا استعارہ ان کی تخلیقی ذات کی نہایت خوبی سے وضاحت کرتا ہے اور وہ اپنے گرد و پیش کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے ایک فاصلہ رکھتے ہیں۔ تقریب میں شامل ہوتے ہوئے بھی سب سے جدا رہتے ہیں۔ قربت رکھنے میں فاصلے کا یہ تجربہ ہمیں منیر نیازی کی شاعری کے پس منظر میں بار بار اپنی جھلک دکھاتا محسوس ہوتا ہے۔
منیر نیازی کے مزاج میں آزادہ روی اور پابندیوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ نمایاں ہے۔ انہوں نے خود ایک سے زیادہ بار کہا ہے کہ میں کسی کام کے لیے خو د کو پابند نہیں کر سکتا۔ اپنے مزاج اور طبیعت کے مطابق زندگی گزارنا مجھے پسند ہے۔ اس طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی ایک حالت میں کسی ایک فضا کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ نہ تو کسی کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے آدمی و اپنے معاملات میں مداخلت کرنے دیتے ہیں۔ گرد و پیش کے مناظر اور صورت حال سے گھٹن محسوس کرتے ہوئے اس کی آزاد ہونے کی خواہش ان میں بار بار سر اٹھاتی ہے۔ ایک سینئر صحافی فدا احمد کاردار نے منیر نیازی سے اپنی ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’منیر نیازی کو آزادی پسند ہے جہاں ماحول کی گھٹن ہو وہاں اس کا دم گھٹنے لگتا ہے اسے زیادہ پابند رکھنے کی کوشش کی جائے تو اس پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے اگر زندگی کے حسن سے پیار نہ ہو تو شاید وہ گھٹے ہوئے ماحول سے تنگ آ کر خود کشی کر لے …(5)‘‘
زندگی کے حسن سے پیار اور تخلیقی فراوانی منیر نیازی کے ہاں جذباتی گھٹن پیدا نہیں ہونے دیتی۔ وہ ہر وقت انی ذات سے مکاکمے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس سے انہیں اپنے ماحول کی گھٹن سے نبرد آزما ہونے میں مدد ملتی ہے۔ پابندیوں کو برداشت نہ کرنے کی رو ش منیر نیازی کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے ساری عمر خو دکو کسی ادبی تحریک ادبی رجحان ادبی ادارے سے مستقل وابستہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے ارد گرد کے ادبی ماحول سے اثرات کو قبو کیے ہیں لیکن یہ اثرات وقتی طور پر اس کی شاعری میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں ایک باطنی تحریک ہے جو اسے ہمہ وقت آگے بڑھنے کے لیے اکساتی رہتی ہے۔
منیر نیاز کے داخلی اور باطنی عناصر نے مل کر ان کے ہاں انفرادیت اور خود پسندی کی وہ کیفیت پیدا کی ہے ان کی خود پسندی انہیں اپنے ہم عصر شاعروں کے کمالات سے صرف نظر کرنے پر اکساتی ہے۔ اور ان کے مزاج میں عدم برداشت پیداکرتی ہے منیر نیازی اپنے ذاتی معاملات یا اپنی شاعری پر کسی بھی نوعیت کی تنقید برداشت نہیں کرتے۔ ان کے اس رویے نے ان کے لیے مشکلات بھی پیدا کی ہیں مگر انہوں نے اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کبھی مفاہمت کی روش اختیار نہیں کی۔ اپنے معاصرین کے بارے میں انہوں نے ہمیشہ کھل کر اور دو ٹوک انداز میں بات کی ہے اپنے ہم عصر شاعروں کے بارے میں ایک انٹرویو میں منیر نیازی نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔
’’میں صرف فیض صاحب کی بات کروں گا۔ ان کا انداز شاعرانہ ہے اور سمجھ میں آتا ہے۔ میں اپنے دیگر ہم عصروں کے بارے میں بیان نہیں دینا چاہتا۔ انہوں نے اپنی جگہیں بنا رکھی ہیں۔ انہیں لوگوں میں کچھ قبولیت بھی حاصل ہے لیکن ان کی شاعری میرے علاقے سے باہر کی شاعری ہے۔ آپ اس کا نام انقلابی شاعری معاشی شاعری مزاحمتی شاعری رکھ دیں۔ مگر یہ شاعری نہیں کیونکہ اس کے ساتھ معذرتیں منسلک ہیں۔ شاعری تو شاعری ہی ہے۔ اس کے ساتھ صفات وابستہ کرنے کی کیا ضرورت ؟ (6)‘‘
منیر نیازی کی شخصیت اور تخلیقی ذات کے یہی عنصر ہیں جنہوں نے اس کو ایک منفرد تخلیق کار میں ڈھالا ہے۔ 1949ء سے شروع ہونے والا شعری سفر آج تک جاری ہے۔ اس شعری سفر کی مختلف منزلیں بقول منیر نیازی ان کی کتابیں ہ یں۔ ان کے گیارہ اردو شعری مجموعے اور تین پنجابی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اردو شاعری کی کلیات اور پنجابی شاعری کی کلیات کے ایڈیشن بک چکے ہیں جوا س بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ منیر نیازی خواص کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی مقبول ہے۔
منیر نیازی نے اپنی زندگی میں دو شادیاں کیں ہیں۔ پہلی شادی صغریٰ خانم نامی خاتون سے ہوئی انہوں نے اپنی پہلی کتاب ’’پہلی بات ہی آخری تھی‘‘ کا انتساب اپنی پہلی بیوی کے نام کیا ہے صغریٰ خانم کا انتقال 1958 ء میں ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری شادی ناہید نامی خاتون سے 30دسمبر 1958ء میں کی۔ ان دو شادیوں کے باوجود وہ اولاد کی سعادت سے محروم رہے۔
منیر نیازی نے بطور شاعر اردو داں طبقوں میں عالمی شہرت حاصل کی۔ وہ شاعر پڑھنے کے یے دنیا کے گوشے گوشے سے مدعو کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ بات کہی جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ کہ جہاں بھی اردو شاعری کے قارئین موجود ہیں وہاں منیر نیازی کے مداحین بھی ضرور مل جاتے ہیں۔
منیر نیازی نے فلموں کے گیت بھی لکھے ہیں۔ ان کے فلمی گیت مقبول عام بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے آ پ کو شہرت عام میں گم کرنا پسند نہ کیا۔ اور اپنی سنجیدی شاعری کو اپنی پہچان بنانا زیادہ ضروری خیال کیا۔
1970 ء کی دہائی میں منیر نیازی نے پاکستان ٹیلی ویژن پر پروگرام بھی کیے۔ ان پروگراموں میں ڈاکٹر محمد اجمل اور پروفیسر اشفاق علی جیسے لوگوں کی میزبانی کے فرائض سر انجام دیتے۔ اسی طرح وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کرتے رہے لیکن اس ایڈوائزر شپ کی نوعیت زیادہ تر اعزازی قسم کی تھی۔
منیر نیازی کو ان کی شاعرانہ خدمات پر بہت پہلے ادبی اور علمی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ہر دو طرح کے اداروں نے ان کی تخلیقی خدمات کا اقرار کیا ہے انہیں بعض عالمی اداروں نے بھی اپنے اعزازات سے نوازا ہے۔
منیر نیازی کی اردو اور پنجابی شاعری کا دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے انہوں نے خود بھی اردو شاعری کو پنجابی میں اور پنجابی شاعری کو اردو میں ترجمہ کیا ہے منیر نیازی کی اردو اور پنجابی شاعری کو داؤ د کمال توفیق رفعت، محمد سلیم الرحمن اور بیدار بخت وغیرہ نے انگریزی میں منتقل کیا ہے اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت شائع ہونے والے انگریزی جریدے Pakistani Literatureکے مختلف شماروں میں ان کی متعدد تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔
٭٭٭
سفر شاعری: منیر نیازی کی نظمیں
1949 ء میں نظم برسات سے شروع ہونے والا شعری سفر ہنوز جاری ہے۔ منیر نیازی نے قیام پاکستان کے بعد کئی سالوں میں ہجرت کے تجربے انسانی جانوں کے ضیاع سے پیدا ہونے والے خوف اور سماجی زندگی کے بنجر پن کو اپنے شعری تجربے میں ڈھالنا شروع کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ تیز ہوا اور تنہا پھول کے نام سے 1959ء میں لاہور میں شائع ہوا۔ اس کتاب کا عنوان ہی منیر نیازی کے بعض اہم ذہنی فکری رویوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تنہا پھول تو شاعر خود ہے۔ اور تیز ہوا معاصر سماجی زندگی کی ہولناکی کی عکاس ہے۔ شاعر کے مزاج کی تنہائی اور انفرادیت کی پوری جھلک ہمیں اس شعری مجموعے کے عنوان میں دکھائی دیتی ہے۔
کتاب کا انتساب ’’خدا کے نام‘‘ اور نیچے یہ قرآنی آیت درج ہے :
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظمین (القرآن)
کتاب کا یہ انتساب جہاں منیر نیازی کے مذہبی شعور اور مذہبی وابستگی کا پتا دیتا ہے وہ اس کی انفرادیت کو بھی نمایا کرتا ہے 50کی دہائی میں اردو ادب میں دو بڑی ادبی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں ایک ترقی پسند ادب کی تحریک اور دوسرا حلقہ ارباب ذوق لاہور کا شعری نقطہ نظر۔ یہ دونوں نقطہ ہائے نظر میں مذہب انسانی زندگی سے غیر متعلق ہے یا نہایت معمولی قدر و قیمت کا حامل ہے۔ اس ادبی فضا میں وہ چند آوازیں جو اپنے مذہبی تشخص اور اپنی مذہبی وابستگی کا باقاعدہ اعلان کرتی نظر آتی ہیں ان میں منیر نیازی کی آواز نہایت نمایاں ہے۔
منیر نیازی کے پہلے شعری مجموعے کے مطالعہ سے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس شاعر کے پاس ایسا کچھ ہے جو اسے دوسرے ہم عصر لکھنے والوں سے ممتاز کرتا ہے۔ کسی نوعیت کا مربوط فلسفیانہ یا فکری نظام تو آپ کو منیر نیازی کی شاعری میں نظر نہیں آئے گا ہاں وہ اپنی شاعری میں ایک ایسی فضا کی تخلیق کرتا ہے جس میں خارجی اور باطنی عناصر مل کر احساس کی سطح پر قاری کو اپنی گرفت میں لے لتے ہیں وضاحت اور طول بیانی کی بجائے اختصار سے اس طرح بات کرنا کہ پڑھنے والے کے ذہن پر نقش بھی ہو جائے اور اسے سوچنے پر مجبور کرنے منیر نیازی کا مخصوص وصف ہے۔ منیر نیازی لفظ کے طلسم سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ الفاظ کے بے جا اصراف سے خطابت تو پیدہو سکتی ہے لیکن شاعری نہیں۔ اس لیے وہ اپنی شاعری میں الفاظ سے طلسم تیار کرتا ہے۔ اس طلسم میں خالی اور ویران مکان سنسان راستے ڈائنیں اور چڑیلیں آسیب زدگی کے تاثر کو گہر ا کرتے ہیں۔ اشفاق احمد نے منیر نیاز ی کے اولین مجموعے کے تعارف میں لکھا تھا۔
’’منیر کی شاعری میں ایک بڑا کمال اس کی اختصار پسندی ہے ‘‘۔
’’منیر کی شاعری میں ڈائنیں چڑیلیں خنجر، بکف جشنیں رنگ و بو میں بسی ہوئی دوشیزائیں اور ایک دفعہ جا کر لوٹ کر نہ آنے والے لوگ کون ہیں۔ ان کی وضاحت کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ مجھے تو بس شوالک کے دامن کی ایک بستی کا علم ہے اس میں بسنے والے کارندوں کی کلپ پوش عورتوں کا پتہ ہے دشت وفا کی ان خوبصورت ہرنیوں کا علم ہے جو ڈولی میں بیٹھتے وقت یوں دھاڑیں مار مار کر روتی تھیں جیسے ان کی کوئی بہت ہی قیمتی شے بستی کے کسی گھر میں رہ گئی ہو اور جس کے ملنے کی کوئی امید نہ ہو۔ نرگسیت اور محبوبیت کی ماری ہوئی اس شے کا جب ان لڑکیوں سے سامنا ہو گا تو وہ اپنے عروسی لباس میں کالی بھنور ا سی آنکھیں بند کر کے یاقوتی ہونٹوں کو ذرا سی جنبش دے کر بس اس قدر پوچھ سکیں گی بے وفا ہم سے بچھڑ کر کیا تجھے سکھ کا خزانہ مل گیا؟‘‘
(تیز ہوا اور تنہا پھول ص 7-8)
منیر نیازی اپنی شاعری میں ایک فضا کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایک ایسی فضا جس میں عناصر فطرت انسان قصبے اور شہر کی عمارتیں ایک دوسرے میں یوں گھل مل جاتی ہیں کہ ایک انوکھی فضا تیار ہو جاتی ہے۔ اس فضا میں ایک عجیب نوعیت کی خواب ناکی ہے۔ سار ی چیزوں پراسرا ر کی ایک دھند چھائی ہوئی ہے۔ درخت کلام کرتے ہیں۔ راستے مسافروں کا پیچھا کرتے ہیں۔ برسوں پہلے گئے مسافر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ عناصر فطرت مافوق الفطرت عناصر کے ساتھ مل کر طلسم کی تشکیل کرتے ہیں یادیں خوابوں میں بار بار ظاہر ہوتی ہیں اور خواب یادوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ یوں منیر نیازی اپنی شاعری میں اس تخلیقی فضا کی تشکیل کرتے ہیں جسے مغربی نقاد طلسطمی حقیقت نگاری (Magical Realism)کا نام دیتے ہیں اور اس حوالے سے لاطینی امریکی تخلیق نگاروں جیسے مورخین اور گارشیا مارکیز کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اردو شاعری اور اردو ادب میں منیر نیازی اس حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ پچاس کی دہائی میں ا س نے اردو ادب میں ایک رجحان کی ابتدا کی۔ اس حوالے سے منیر نیازی کی شاعری خصوصی مطالعے کی مستحق ہے۔
منیر نیازی کی پہلی کتاب ’’تیز ہوا اور تنہا پھول‘‘ اپنے نام کی استعاراتی معنویت کے اعتبار سے بھی قابل توجہ ہے۔ کتاب کا نام شاعر کی انفرادیت کو نمایاں کر رہا ہے۔ اور خو د شاعر کو بھی اس بات کا شعوری ادراک حاصل ہے کہ اس کے اردگرد کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے۔
منیر نیازی کی نظم ’’آمد شب‘‘ ہمیں ان کے مزاج کی رومانیت کے ساتھ ساتھ شاعر کے تخلیقی وجدان اور تخلیقی طریقہ کار کو سامنے لاتی ہے۔
آمد شب
دیے ابھی نہیں جلے
درخت بڑھتی تیرگی میں چھپ چلے
پرند قافلوں میں ڈھل کے اڑ چلے
ہوا ہزار مرگ آرزو کا ایک غم لیے
چلی پہاڑیوں کی سمت رخ کیے
کھلے سمندروں پہ کشتیوں کے بادباں کھلے
سواد شہر کے کھنڈر
گئے دنوں کی خوشبوؤں سے بھر گئے
اکیلی خواب گہ میں
کسی حسیں نگاہ میں
الم میں لپٹی چاہتیں درد دہشت سے جاگ اٹھیں
ہے دل کو بے کلی سیاہ رات آئے گی
جلو میں دکھ کی لاگ کو لیے ہوئے
نگر نگر پہ چھائے گی
(تیز ہوا اور تنہا پھول ص: 17)
’’آمد شب‘‘ کے بعد منیر نیازی کی نظم ’’خزاں ‘‘ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ خزاں منیر نیازی کا پسندیدہ استعارہ ہے اور اپنی شاعری میں انہوں نے مختلف مواقع پر مختلف نوعیت کی کیفیات کی عکاسی کے لیے خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ منیر نیازی کی نظم ’’خزاں ‘‘ ایک ایسی فضا تشکیل کرتی ہے جو قاری کے ذہن پر اپنے نقش چھوڑتی ہے۔
خزاں
ہوا کی آواز
خشک پتوں کی سرسراہٹ سے بھر گئی ہے
روش روش پر فتادہ پھولوں نے
لاکھوں نوحے جگا دیے ہیں
سلیٹی شامیں بلند پیڑوں پہ غل مچاتے
سیاہ کوؤں کے قافلوں سے اٹی ہوئی ہیں
ہر ایک جانب خزاں کے قاصد لپک رہے ہیں
ہر ایک جانب خزاں کی آواز گونجتی ہے
ہر ایک بستی کشاکش مرگ و زندگی سے نڈھال ہو کر
مسافروں کو پکارتی ہے کہ…آؤ
مجھ کو خزاں کے بے صبر تلخ احساس سے بچاؤ
(تیز ہوا اور تنہا پھول)
’’ایک لڑکی ایک قدرے مختلف موضوع کو نہایت خوبصورت طریقے سے پیش کرتی ہے۔ یہ نظم ایک نوخیز لڑکی کے احساسات کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ شاعر نے نہایت خوبصورتی سے ایک الہڑ لڑکی کے جذبات و احساسات کو شاعری کا روپ دیا ہے۔
ایک لڑکی
ذرا خود اپنے ہی
جذبوں سے مجبور ہو کر لڑکی کو دیکھو
جو اک شاخ گل کی طرح
ان گنت چاہتوں کے جھکولوں کی زد میں
اڑی جا رہی ہے
یہ لڑکی
جو اپنے ہی پھول ایسے کپڑوں سے شرماتی
آنچل سمیٹے، نگاہیں جھکائے چلی جا رہی ہے
جب اپنے حسیں گھر کی دہلیز پر جا رکے گی
تو مکھ موڑ کر مسکرائے گی جیسے
ابھی ا س نے اک گھات میں بیٹھے
دل کو پسند آنے والے
شکار کو دھوکا دیا ہے
(تیز ہوا اور تنہا پھول)
مندرجہ بالا تینوں نظموں کا مطالعہ اگر ایک ساتھ کیا جائے تو اس سے ہمیں منیر نیازی کے بعض شعری رویوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ ان نظموں میں منیر نیازی نے جن جذبات و احساسات کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے وہ ایک سطح پر شاعر کے پسندیدہ موضوعات ہیں اور ہمیں منیر نیازی کی شاعری میں ان موضوعات اور احساسات کی بار بار تکرار ملتی ہے۔ شب خزاں اور لڑکی تینوں استعارے بار بار منیر نیازی کے تخلیقی وجدان میں رنگت پیدا کرتے ہیں اور اسے اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ منیر نیازی کی شاعری میں صرف ان موضوعات کی تکرار نہیں چاہیے بلکہ اس نے ان استعاروں کے ذریعے جو کیفیات و احساسات کو پیش کیا ہے اور ہر پیش کش میں ان کا کوئی انوکھا پہلو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً اسی مجموعے میں شامل نظم ’’سراپا‘‘ اس لڑکی کے جسمانی خدوخال کو نہایت جمالیاتی انداز میں بیان کرنے کی خوبصورت مثال ہے۔
سراپا
اس کی آنکھیں کالے بھنوروں کی حزیں گنجار ہیں
ہونٹ اس کے عطر میں بھیگے ہوئے یاقوت کی مہکار ہیں
اس کی گردن جیسے مینائے شراب
اس کے نازک ہاتھ جیسے باغ میں رنگیں گلاب
بال اس کے کالی مخمل کا حسیں انبار ہیں
دانت جیسے موتیے کا خوبصورت ہار ہیں
یہ بھنویں ہیں یا گھٹائیں جھوم کر آئی ہوئیں ؟
اور پلکیں کوہ غم کو چوم کر آئی ہوئیں ؟
پیٹ…مر مر کی تراشیدہ چٹان
ناف… سکھ کے نشے میں سویا ہوا مکان
ساق… پورے چاند کی پہلی سریلی تان ہے
سینہ …شیریں شہد میں ڈوبا ہو اپیکان ہے
اس کی ریشم سی کمر کھاتی ہے بل وقت خرام
اس کے کولہے دیکھنے والی نگاہوں کے لیے ہیں تنگ دام
اس کی رنگت شرم سے گلنار ہے
اس کا ہر جذبہ ہوائے عشق سے سرشار ہے
(تیز ہوا اور تنہا پھول ص 26-27)
اس نظم میں اصل بات عورت کے سراپے کا بیان نہیں بلکہ اس استعاراتی نظام کی تشکیل ہے جس کے ذریعے نہایت جمالیاتی انداز میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ منیر نیازی کی شاعر ی کی اصل خوبصورتی یہی ہے کہ اس میں موضوع کی اہمیت نہیں بلکہ طرز بیان کو فوقیت حاصل ہے۔ طلسمات کے عنوان کی نظم بظاہر ایک لمحاتی احساس کو گرفت میں لیتی ہے لیکن شاعرانہ کمال یہ ہے کہ اس لمحاتی فضا کی تجسیم اس خوبی سے کی ہے کہ یہ فضا ایک لمبے عرصے تک آپ کے ساتھ رہتی ہے۔
طلسمات
پرے سے دیکھو تو صرف خوشبو قریب جاؤ تو اک نگر ہے
طلسمی رنگوں سے بھیگتے گھر نسائی سانسوں سے بند گلیاں
خموش محلوں میں خوب صورت طلائی شکلوں کی رنگ رلیاں
کسی دریچے کی چق کے پیچھے دہکتے ہونٹوں کی سرخ کلیاں
پرے سے تکتی ہر اک نظر اس نگر کی راہوں سے بے خبر ہے
حنائی انگشت کا اشارہ لجائی آنکھوں کی مسکراہٹ
کبھی یونہی راہ چلتے اک ریشمی دوپٹے ک سرسراہٹ
سیاہ راتوں کو ہولے ہولے قریب آتی ہوئی سی آہٹ
یہ ساری راہیں ہیں اس نگر کی جو دائمی آنسوؤں کا گھر ہے
پہلے مجموعے میں شامل منیر نیازی کی نظمیں اپنے اختصار جامعیت اور وحدت کے تاثر کے اعتبار سے پڑھنے والوں کو چونکاتی ہیں۔ آپ ان نظموں سے چند سطریں یا مصرعے نکال کر الگ سے پڑھیں تو ان کا اپنے قاری پر زیادہ اثر نہیں ہوتا مگر جب ان نظموں کو پورے کا پورا پڑھا جائے تو یہ اپنے وحدت تاثر کے باعث پڑھنے والوں کو متاثر کرتی ہیں۔ منیر نیازی نے نظم کی اس بنیادی خوبی کو پیش نظر رکھا ہے۔ کہ نظم بطور وحدت اگر اپنا تاثر بنانے میں کامیاب رہتی ہے تو اسے کامیاب نظم کہا جا سکتا ہے۔ تیز ہوا اور تنہا پھول میں زیادہ نظمیں شامل ہیں اور یہ نظمیں اپنے اختصار جامعیت اور وحدت تاثیر کے اعتبار سے اپنی پہچان منفرد رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے اشفاق احمد کا مندرجہ ذیل بیان قابل غور محسوس ہوتا ہے۔
’’منیر کی شاعری میں ایک بڑا کمال ا س کی اختصار پسندی ہے اس کے ہم عصر یوں مات کھا گئے ہیں کہ ان کی اڑانیں بہت وسیع تھیں اور بعد کی اڑانیں افق کے چکروں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ دوسروں نے بیان شروع کیا اور بیان بند کر دیا سننے والے سر دھنتے رہے۔ منیر نے بات کی اور ختم کی۔ سننے والے سوچنے پر مجبور ہو گئے اور پھر ایک نقطہ ایک ایک حرف ذہن کے جلو میں قطرہ قطرہ ہو کر ٹپکنے لگا… شاعری سے رغبت ہو یا نہ ہو ذہن کا چلو تو کسی کا بھی خالی نہیں ہوتا۔ ‘‘
(تیز ہوا اور تنہا پھول ص 7)
موت ایک المناک سچائی ہے جو انسانی زندگی میں اپنی عالمگیر اثریت کے حوالے سے ہمیشہ تخلیق کاروں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔ کم و بیش ہر اہم شاعر نے موت کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے لیکن بہت کم شاعروں نے موت کو ایک جمالیاتی نشاط کے ساتھ محسوس اور بیان کیا ہو گا۔ منیر نیازی ایک ایسا ہی شاعر ہے جس نے موت کو ایک المناک لیکن جمالیاتی نشا ط انگیز مظہر کے طور پر محسوس اور بیان کیا ہے۔
موت
ہر طرف خاموش گلیاں زرد اور گونگے مکیں
اجڑے اجڑے بام و در اور سونے سونے شہ نشیں
ممٹیوں پر گہری خامشی سایہ فگن
رینگ کر چلتی ہوا کی بھی صدا آتی نہیں
اس سکوت غم فزا میں اک طلسمی نازنیں
سرخ گہرے سرخ لب اور چاند سی پیلی جبیں
آنکھ کے مبہم اشارے سے بلاتی ہے مجھے
ایک پر اسرار عشرت کا خزانہ ہے وہ چشم دل نشیں
(تیز ہوا اور تنہا پھول ص 40)
موت کا یہ منظر نامہ شاعر میں اس دنیا کی حقیقت کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے۔ منیر نیازی کے ہاں ابتدا ہی سے انسانی زندگی اور اس کائنات کی حقیقت کے بارے میں متجسس رویہ رہا ہے۔ اس نے اس حوالے سے مربوط فکری نظام مرتب کرنے کی کوشش تو نہیں کی اور نہ ہی کسی بنے بنائے فکری نظام میں پناہ ڈھونڈی ہے بلکہ اس نے ان مسائل کو احساساتی سطح پر قبو ل کیا ہے اور ان پر اپنے تاثرات کا بھرپور تخلیقی اظہار کیا ہے۔ نظم ’’حقیقت‘‘ میں ہمیں وجودی اور مظہریاتی فلسفے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں خود کو صرف تخلیقی فضا تک محدود رکھا ہے۔
حقیقت
نہ تو حقیقت ہے اور نہ میں ہوں
نہ تیری حرمی وفا کے قصے
نہ برکھا رت کی سیاہ راتوں میں
راستہ بھول کر بھٹکتی ہوئی سجل ناریوں کے جھرمٹ
نہ اجڑے نگروں میں خاک اڑاتے
فسردہ دل پریمیوں کے نوحے
اگر حقیقت ہے کچھ تو یہ اک ہوا کا جھونکا
جو ابتدا سے سفر میں ہے
اور جو انتہا تک سفر کرے گا
اب اسے آپ منیر نیاز ی کی مشہور زمانہ صدا بصحرا کے ساتھ ملا کر پڑھیں جو اپنی تخلیق سے تا حال قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہی ہے۔ ان دونوں نظموں میں ایک نوع کی بے معونیت ہے جو زندگی کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھنے سے عبارت ہے یہ نظمیں شاعر کے تخلیقی وجدان میں موجود زندگی کی بے معنویت اور سونے پن کو خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں۔
صدا بصحرا
چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور
وہ کہتی ہے ’’کون…؟‘‘
میں کہتا ہوں ’’میں …‘‘
کھولو یہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو…
ا س کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور
(تیز ہوا اور تنہا پھول ص 73)
اگرچہ اس نظم کے پس منظر میں ہمیں تھامس ہارڈی (Thomas Hardy)کی ایک نظم کی گونج سنائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود اپنے اختصار، جامعیت اور دلچسپ اسلوب کی بنا پر اسے ہم منیر نیازی کی نمائندہ نظموں میں شمار کر سکتے ہیں۔
جنگل میں دھنک منیر نیازی کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ جس کا بیشتر حسہ پہلے مجموعے کی طرح نظموں پر مشتمل ہے۔ اپنے اسلوب اور فکر کے اعتبار سے شاعر کی تخلیقی زندگی کا دوسرا پڑاؤ ہے۔ ان نظموں کا منظر نامہ بھی انہی بنیادی استعاروں سے عبارت ہے جو تیز ہوا اور تنہا پھول میں موجود تھے لیکن اب ہوا ایک طاقتور استعارے کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ گلیاں، لڑکی، مکان وہی ہیں ان میں رہنے والے مکین بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ ان کے خواب بھی اپنے وجود کا پتہ دیتے ہیں لیکن ہوا کی تیزی تندی اور تخریبی قوت جتنی اس مجموعے سے نمایاں ہوئی ہے وہ پہلے میں اتنی نمایاں نہیں تھی۔ جنگل میں دھنک کے دیباچے میں بیسویں صدی کے نہایت اہم شاعر اور منیر نیازی کے سینئر ہم عصر مجید امجد نے لکھا:
’’مجھے سب سے زیادہ اس کی شاعری کی وہ فضا پسند ہے جو فضا جو اس کی زندگی کے واقعات اس کے ذاتی محسوسات اور اس کی شخصیت کے طبعی افتاد سے ابھرتی ہے۔ اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ جذبے کی صداقت کے ساتھ لکھا ہے اور اس کے احساسات کسی عالم بالا کی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس کی اپنی زندگی کی سطح پر کھیلنے والی لہریں ہیں۔ انہی نازک چنچل بے تاب دھڑکتی ہوئی لہروں کو اس نے شعروں کی سطروں میں ڈھال دیا ہے۔ اور اس کوشش میں اس نے انسانی جذبے کے ایسے گریز پا پہلوؤں کو بھی اپنے شعر کے جادو سے اجاگر کر دیا ہے جو اس سے پہلے اس طرح ادا نہیں ہوئے تھے۔ یہی منیر نیازی کا کمال فن ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی بدبختی ہے وہ لوگ اور پاکستان میں لاکھوں ایسے انسان بستے ہیں جو ایک مانوس طرز فکر ایک بنے بنائے واضح اور معنی اظہار اور ایک روندے ہوئے اسلوب بیان کو قرنوں سے دیکھتے آئے تھے۔ اس نئی آواز کی معنی اندوز لطافتوں سے اخذ کیف نہ کر سکے ‘‘۔
(جنگل میں دھنک ص 7-8)
مجید امجد اگر ایک سطح پر منیر نیازی کی شاعری کے حوالے سے لوگوں کے عمومی رد عمل کا ذکر کر رہے ہیں تو در پردہ اپنی شاعری کے حوالے سے لوگوں کی بے اعتنائی کا شکوہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ منیر نیازی اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں کہ ان کی شاعری نے جلد ہی خاص و عام کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا۔ وقت حالات اور ثقافت میں آنے والی تبدیلیوں نے لوگوں کے مذاق سخن میں بھی تبدیلی پیدا کی مجید امجد تو اپنی زندگی میں شہرت عام حاصل نہ کر سکے۔ لیکن ان کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ لوگ ان کے شعری کمالات کے قائل ہوتے گئے۔ اور آج انہیں بیسویں صدی کے چند نمایاں ترین اردو شعراء میں شمار کیا جاتا ہے۔ منیر نیازی کا معاملہ مجید امجد کے برعکس رہا منیر نیازی کی شہرت کا سفر ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوا اور آج تک وہ ان چند شاعروں میں سے ایک ہیں جنہیں شہرت عام بھی حاصل ہے اور خواص بھی ان کے کمال فن کے معترف ہیں۔ مجید امجد نے جنگل میں دھنک کے دیباچے میں لکھا تھا کہ زر و سیم کی قدروں میں کھوئی ہوئی مخلوق جنگل کی اس دھنک کو کیا دیکھے گی۔ مجید امجد نے منیر نیازی کی شعری کے حوالے سے مزید لکھا تھا:
’’لاہور کے در و دیوار سے لاہور کے رنگیں راستوں اور حسین فضاؤں سے آپ پوچھ لیجیے کس طرح ایک شعلوں میں لتھڑی ہوئی روح صرف شعر کی لگن میں کتنی بے خواب راتوں کی گہری چپ میں اس طرح سرگرداں رہی ہے جیسے اسے نان جویں کی بھی طلب نہ تھی۔ اور لوگوں کے ساتھ تال بجاتے اور داد گروں کی ٹولیاں تھیں مسندیں تھیں اور نگ تھے۔ منیر نیازی کے پاس کیا تھا؟ کوئی سایہ دیوار بھی نہ تھا۔ صرف شعر کہنے کی دھن۔ یوں اپنے آپ کو تنہا اس نے اپنی زندگی کی ایک ایک تڑپ اپنے تجربات کی ایک ایک کسک ہوا کے جھونکوں کی سلوٹوں سے تراشی ہوئی سطور کے اندر رکھ دی۔ آج زر و سیم کی قدروں میں کھوئی ہوئی یہ مخلوق جنگل کی اس دھنک کو کیا دیکھے گی اس صحیفے کو رکھ دو۔ سجا کر رکھ دو۔ اس اونچی الماری میں ابھی اس بازارسے جانے کتنی نسلوں کے جلوس اور گزریں گے۔ یہ جلو س ہنستے کھیلتے قہقہے لگاتے مہ و سال کے غبار میں کھو جائیں گے۔ زمانے کی گرد میں ہم سب اسی کا حصہ ہیں ہم سب اور منیر بھی۔ لیکن خیال اور جذبے کی ان دیکھی دنیاؤں کے پرتو فطرت کے رنگوں اور خوشبوؤں میں تحلیل ہوتی ہوئی نظروں میں جا گرتی تیرتی بدلیوں کے سایوں میں روتے دلوں کی کروٹ جو اس کے شعروں اور شبدوں میں مجسم اور جاوید ہو کر رہ گئی ہے اردو نظم کے مرحلہ ہائے ارتقاء کی ایک جاندار کڑی ہے کون ان نقوش کو بھلا سکے گا۔
(جنگل میں دھنک ص 8-9)
مجید امجد نے تخلیقی انداز میں منیر نیازی کی شاعری اور بالخصوص ان کی نظموں کے اوصاف نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ پچاس کی دھائی میں جب منیر نیازی کے شعری سفر کا آغاز ہوا تو اس وقت نظم بنیادی ذریعہ اظہار کا درجہ حاصل کر چکی تھی۔ ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق ہر دو فکری تحریکوں کے زیر اثر لکھنے والے غزل کے مقابلے میں نظم کو ذریعہ اظہار کے طور پر اولیت دیتے تھے۔ اس لیے پہلے دو مجموعوں میں ہمیں منیر نیازی کے ہاں بھی نظم کا حصہ غزل کے مقابلے میں کافی زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
منیر نیازی کی نظم اپن یساتھ ایک منفرد ذائقہ لیے ہوئے تھی۔ اس نظم کو سراہنے کے لیے نئے شعری مذاق سے شناسائی ضرور ی تھی۔ اور جن لوگوں میں یہ شناسائی موجود تھی انہوں نے منیر نیازی کو اردو نظم کی دنیا میں خوش آمدید کہا ان میں مجید امجد غالباً سب سے نمایاں فرد ہے منیر نیازی کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں ساہیوال میں مجید امجد کی شعری رفاقت میسر رہی۔ مجید امجد کی صحبت میں منیر نیازی کے لیے جدید نظم سے اپنا تخلیقی رشتہ استوار کرنا آسان ہو گیا۔ لیکن ایک بات کا احساس شروع ہی سے ہوتا ہے کہ باوجود دوستانہ رفاقت سے منیر نیازی نے اپنی تخلیقی شناخت برقرار رکھی اور اپنی نظموں میں مجید امجد کے اسلوب اور فکر کی تکرار کرنے کے بجائے اپنے اس رنگ کو نمایاں کیا جو منیر نیازی کی پہچان بنا۔
جنگل میں دھنک کی نظمیں ہمیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ شاعر کے فن میں نکھار آتا جا رہا ہے۔ اس نے اپنے شعری امکانات کے نئے گوشے تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔ بعض شاعروں کے برعکس جو ہمیشہ دائرے میں سفر کرتے ہیں کہ ان کا ہر شعری مجموعہ ان کے پہلے شعری مجموعے کی بازگشت معلوم ہوتا ہے یا دوسری طرح کے شاعر جو سیدھی لائن پر سفر کرتے ہیں اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے کہ وہ کون کون سے کام کر چکے ہیں۔ منیر نیازی کا سفر سائپرل میں حرکت کا سفرہے۔ کہ ہر چکر میں آپ اپنے پہلے مقام سے بلند ہو جاتے ہیں اور اپنے نقطہ آغاز سے آپ متصل بھی رہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلوب اور موضوعات ہر دو سطح پر منیر نیازی نے تیز ہوا اور تنہا پھول میں اپنے لیے ایک شعری دائرہ ترتیب دیا ہے ان کا یہ مجموعہ اس دائرے کے اوپر ایک اور دائرہ ترتیب دینے کی کوشش ہے۔
جنگل میں دھنک کی نظم ہوا کا گیت شاعر کے تخلیقی سفر کی بڑی اچھی نشاندہی کرتی ہے۔
ہوا کا گیت
مرا راستہ روکنے کی کوشش نہ کرو
میں ہوا ہوں
مری کھوج میں جنگلوں گلستانوں پہاڑوں پرانے مکانوں
میں جاؤ گے تو ایک جانکاہ دکھ کے سوا
اور کچھ نہیں مل سکے گا
سیہ کالی راتوں میں
ہلکی سی آہٹ پہ اٹھ کر
سلگتی نگاہوں سے چاروں طرف تکنے والو
کوئی تم میں ایسا بھی ہے ؟
جو رواں ندیوں، راہ چلتی صداؤں کو بانہوں کے گھیرے میں لے کر دکھائے
چلے جانے والوں کو اک بار واپس بلا کر دکھائے
(جنگل میں دھنک ص : 18)
اس نظم کے سارے عناصر وہ ہیں جو منیر نیازی کے پہلے شعری مجموعے میں موجود ہیں لیکن اس نظم میں شاعر نے مختلف عناصر کے ملاپ سے ایک مختلف تصویر بنائی ہے خاص طور پر اس نظم کی آخری سطر اس میں معنویت کے نئے امکان پیدا کر دیتی ہے۔ اب اس کے ساتھ آپ اسی مجموعے میں شامل نظم فریب رکھ کر دیکھیں۔
فریب
شام ہونے کو ہے
شام ہوتے ہی سکھ بھری اک صدا
جنگلوں سے گزرتی ہوئی آئے گی
دشت غربت کی ٹھنڈک ہوا
اس مختصر نظم کے پہلے دو مصرعے اس حقیقت کو واضح کر دیتے ہیں کہ ایک خیالی پیکر اس فر دکو بے چین کر رہا ہے جو دور تنہائی میں کہیں ایک طوفانی رات کاٹ رہا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ یہ تنہائی دوسرے افسانوں سے دور ویرانوں میں زندگی گزارنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو دراصل وجودی تنہائی ہے جو لوگوں کے درمیان رہنے چلنے پھرنے اور روشنیوں سے چمکتے ہوئے شہروں میں زندگی گزارنے سے مزید نمایاں ہوتی ہے۔ جدید شہری علاقوں نے انسانی تنہائی اور کرب میں اضافہ کیا ہے۔ جیسے جیسے شہر پھیلتے ہیں ان کی آبادی بڑھتی جات ہے اس میں آباد لوگوں کی تنہائی اور بیگانگی بڑھتی جاتی ہے۔ اجنبی لوگوں کی موجودگی میں شہر کی گلیاں سونی معلوم ہوتی ہیں کہ ان میں اپنی جان پہچان کا تو کوئی فرد موجود نہیں ہوتا۔
ایک خواہش
یخ آلود، ٹھنڈی ہوا
بادلوں سے بھری شام ہو
اور طوفاں زدہ بحر کی تند موجوں کی مانند
آوازیں دیتے ہوئے پیڑ ہوں
شہر کی سونی گلیوں میں اڑتے ہوئے خشک پتوں
پر اسرار دروازے کے کھلنے کی مدھم صدا
ریشمی پیرہن سرسرانے کی خوشبوؤں کا شو رہو
اور ہم چپکے بیٹھے
کسی کی جفائیں کسی کی وفا یاد کرتے ہوئے
اپنے بے چین دل کو سہلاتے رہیں
(جنگل میں دھنک ص 33)
اب اس نظم کے ساتھ ایک اور نظم ’’خواہش کے خواب‘‘ کو ملا کر پڑھیں کہ جب خواہشیں خوابوں میں ڈھلتی ہیں تو فرد کی زندگی پر ان کے اثرات میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ اور ان کی تخلیقی قوت دو چند ہو جاتی ہے۔
خواہش کے خواب
گھر تھا یا کوئی اور جگہ جہاں میں نے رات گزاری تھی
یاد نہیں یہ ہوا بھی تھا یا وہم ہی کی عیاری تھ
ایک انار کا پیڑ باغ میں اور گھٹا متواری تھی
آس پاس کالے پربت کی چپ کی دہشت طاری تھی
دروازے پر جانے کس کی مدھم دستک جاری تھی
(جنگل میں دھنک ص: 35)
اپنے پیاروں سے دور
اجنبی راستوں پر بھٹکتے دلوں کو سلا جائے گی
(جنگل میں دھنک ص: 20)
دونوں نظموں میں بنیادی طرز احساس مسافرت اور دیار غیر میں فرد پر گزرنے والی کیفیات ہیں لیکن شاعر نے ان دونوں نظموں کو نہایت مختلف انداز میں بیان کیا ہے اور ان دونوں نظموں کو دو منفرد تخلیقی تجربے بنا دیا ہے۔ کالی رات کا استعارہ بھی شاعر کا پسندیدہ استعارہ ہے۔ یہ تنہائی خوف اور بے چارگی کی کیفیات کو نمایاں کرتا ہے۔ منیر نیازی نے اپنی ایک مختصر نظم میں اس استعارے کو نہایت خوبی سے استعمال کیا ہے۔
طوفانی رات میں انتظار
ا س کے ریشمیں کپڑے ہیں یا تیز ہوا کا زور
چھن چھن کر تی پازیبیں ہیں یا پتوں کا شور
آنکھیں نیند سے بوجھ ہیں پر دل بھی ہے بے چین
اسی طرح سے کٹ جائے گی کاجل جیسی رین
(جنگل میں دھنک، ص : 29)
منیر نیازی نے اپنی شاعری میں حسن و عشق کے مثبت اور تعمیری پہلوؤں کے ساتھ ان کے منفی اور تخریبی پہلوؤں کو بھی پیش کیا ہے۔ انسانی زندگی میں جو باتیں مثبت کردار ادا کرتی ہیں وہی قوتیں منفی کردار بھی ادا کرتی ہیں۔ عشق اگر قوت حیات ہے اور انسانی شخصیت کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کرتا ہے تو یہ قوت فنا ہے۔ انسان کو تباہ و برباد بھی کرتا ہے۔ منیر نیازی کی شاعری میں جب حسن و عشق کی منفی کیفیات سامنے آتی ہیں تو وہم سانپوں کا روپ دھار لیتے ہیں اور خوبصورت لڑکیاں چڑیلیں بن جاتی ہیں۔ ایسے میں شاعر اپنے باطن میں تخریبی عناصر کی موجودگی سے انکار نہیں کرتا کیونکہ ان سے انکار دراصل انسان ہونے سے انکار ہے کیونکہ انسان نہ تو سراپا خیر ہے اور نہ سراپاشر بلکہ ا سان میں یہ دونوں قوتیں موجود ہیں اور نارمل انسان ہم اسے کہتے ہیں جس میں خیر اور شر کے درمیان ایک ایسا توازن موجود ہو جس میں خیر کا پلڑا بھاری ہو۔ مگر شاعر نارمل انسان کہاں ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو اس میں موجود شر انتا طاقتور ہو جاتا ہے کہ خیر بہت حقیر معلوم ہونے لگتا ہے اور انسان ہمیں مجسم شر کے ساتھ نظر آتا ہے۔
اس حوالے سے منیر نیازی کی دو نظمیں خزانے کا سانپ ’’بھوتوں کی بستی‘‘ ’’چڑیلیں، ، اور ’’سپیرا‘‘ مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے خزانے کا سانپ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس نظم میں صیغہ واحد متکلم فرد کی بجائے نوع انسانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس نظم کے پس منظر میں غالب سے منسوب وہ بیان بھی جھلک مارتا دکھائی دیت ا ہے جس میں اس نے مغل بچے کے حوالے سے لکھا تھا کہ ہم مغل بچے بھی عجیب ہوتے ہیں جس پر مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں۔ منیر نیازی نے اپنی نظم میں نہایت تخلیقی انداز میں انسانی ذات میں موجود شر کی قوت کو پیش کیا ہے۔
خزانے کا سانپ
ہلاکت خیز ہے الفت مری ہر سانس خونی ہے
اسی باعث یہ محفل دل کی قبروں سے بھی سونی ہے
اسے زہریلی خوشبوؤں کے رنگیں ہار دیتا ہوں
میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں
(جنگل میں دھنک ص : 40)
منیر نیازی نے اپنی نظموں میں جنگل اور اس کے متعلقات کو بھی نہایت خوبی سے استعمال کیا ہے جنگل کی شادابی ویرانی غیر انسانی کیفیات اسے بار بار اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ وہ خوف اور ڈر کی فضا جو نامعلوم احساس سے جنم لیتی ہے۔ اس کی نظموں میں بار بار ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں مجھے بار بار احساس ہوتا ہے کہ منیر نیازی کی شاعری میں شہر اور جنگل کے استعارے ایک دوسرے پر OverLapکرتے ہیں جو دونوں انسانوں کے وجود تنہائی کا کوئی حل اپنے پاس نہیں رکھتے۔ خوف اور دہشت دونوں جگہ انسان کو گھیرے رہتے ہیں۔ منیر نیازی کی نظمیں جنگل میں زندگی جنگل میں جادو اور سندر بن میں ایک رات اس حوالے سے پش کی جا سکتی ہیں جنگل میں دھنک کا ملاحظہ کریں :
پراسرار بلاؤں والا
سارا جنگل دشمن ہے
شام کی بارش کی ٹپ ٹپ
اور مرے گھر کا آنگن ہے
ہاتھ میں اک ہتھیار نہیں ہے
باہر جاتے ڈرتا ہوں
رات کے بھوکے شیروں سے
بچنے کی کوشش کرتا ہوں
(جنگل میں دھنک ص: 64)
دشمنوں کے درمیان شام منیر نیازی کا تیسرا مجموعہ ہے جو بعض حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہے اس مجموعے کا مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ شاعر کا تخلیقی وجدان اسے صنف نظم سے صنف غزل کی طرف لے جا رہا ہے۔ دوسرا خود اس مجموعے میں شامل نظمیں ماقبل کے مجموعوں سے الگ اپنی پہچان کرواتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس مجموعے میں تین بنیادی استعارے ہمیں منیر نیازی کی تفہیم میں مدد دیتے ہیں۔ یہ استعارے ہیں ہوا شام اور موت اس حوالے سے محمد سلیم الرحمن نے منیر نیازی کی شاعری کے بارے میں اپنے دیباچے میں تحریر کیا ہے۔
’’منیر نیازی کی شاعری کے تین بڑے سمبل ہیں ہوا شام اور موت!
دشمن آدمی کے اندر بھی ہوتے ہی۔ باہر بھی۔ شام دل میں بھی ہوتی ہے اور آسمان پر بھی ۔ اندھیرا چھلک آنے پر روشنی کی موت کا سوگ ہو ا یا شاعر کے سوا کون منا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عالم بالا میں ایک بہت پھیلاؤ والا گھنا درخت ہے جس پر ہمیشہ ایک ہی وقت میں خزاں اور بہار چھائی رہتی ہے۔ جب تیز ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو کچھ پیلی مرجھائی پتیاں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں۔ اور اسی طرح نیچے دنیا میں جہاں فنا کو قیام ہے فانی انسان مرتے ہیں یوں مجھے تو ہوا کی آواز موت کی ندا سنائی دیتی ہے۔ جو عالم بالا میں پکار پکار کر ہمارے ناموں کے پتے گراتی رہتی ہے۔ ٹوٹا پتا ڈال سے لے گئی پون اڑا میں سمجھتا ہوں کہ تمام جدائیوں محبتوں اور شکستوں میں ہو ا کا ہاتھ ہے۔ ہوا کا سدا بو بالا رہے ‘‘۔
منیر مسافر بھی تو ہے۔ شام کا مسافر۔ کہتے ہیں کہ شعر وسیلہ ظفر ہے۔ منیر کے ہاں تو شعر وسیلہ خبر ہے نامعلوم کی خبر۔ دراصل یہ سفر ہے ایسی چیز ایک دفعہ آدمی چل کھڑا ہو ا تو پھر لوٹتا نہیں۔ تم ان سیمنٹ کے خولوں سے بڑے بڑے جھڑوس شہروں سے باہر نکلو تاکہ خود کو پا سکو خواہشات اور علائق کے دشت بلا کو جس نے پار کر لیا ہو سمجھو نروان پا لیا۔ صبح ہو یا شام منیر کے ہاں سفر کا ذکر چھڑا رہتا ہے اور مصرعے پرندوں کی طرح پر تولتے رہتے ہیں۔ منیر شمالی یورپ کے دیوتا (Odin)کی طرح ہے جس کے ساتھ ہمیشہ دو کوے اڑتے رہتے تھے اور کوا تمہیں پتا ہے مستقبل کی خبر دیتا ہے کہ کون یا کیا آنے والا ہے ؟ کیا آنے والا ہے ؟ اس کی خبر یا جھلک تو منیر کی نظموں میں ہی مل سکتی ہے۔ میں تو یہ بتا سکتا ہوں کہ جانے والا کون ہے ؟‘‘
(دشمنوں کے درمیان شام ص: 3-4)
محمد سلیم الرحمن نے منیر نیازی کے تین بنیادی استعاروں کی بڑی خوبصورت اور توانا وضاحت کی ہے منیر نیازی کی شاعری میں تینوں عناصر باہم مربوط ہو کر عجیب فضا کی تخلیق کرتے ہیں۔ ہوا اور موت تو بعض اوقات ہمیں منیر نیازی کے ہاں ہم معنی معلوم ہوتے ہیں کہ دونوں میں تخریب کی قوت موجود ہے ہوا کی تندی اور تیزی موت کی یاد دلاتی ہے۔ موت جو شام کو سوگوار بنا دیتی ہے اور بعض شامیں ایسی ہوتی ہیں جن کی اداس اور سوگوار کیفیت موت کے احساس کو جگاتی ہے۔ یہ تینوں استعارے ایک مرکزی کیفیت سے جڑ جاتے ہیں اور یہ مرکزی کیفیت ہے اداسی سوگواری بے کیفی زندگی کی بے معنویت کی جسے منیر نیازی بار بار اپنی نظموں میں پیش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے منیر نیازی کی مختصر نظم شام خوف رنگ بڑے بلیغ انداز میں ان کیفیات کو اپنی گرفت میں لیتی ہے
بجلی کڑک کے تیغ شرر بار سی گری
جیسے گھٹا میں رنگ کی دیوار سی گری
دیکھا نہ جائے گا وہ سماں شام کا منیر
جب باب غم سے خوشبو کوئی ہار سی گری
(دشمنوں کے درمیان شام ص : 11)
ہم اوپر بات کر آئے ہیں کہ منیر نیازی کی شاعری میں شہر تحفظ اور امان کی جگہ نہیں بلکہ انسان کے اندر موجود انسانیت کے جوہر کو کچلنے والی ہیبت ناک مشین ہے اور اس حوالے سے شہر جنگل کا متبادل ثابت ہوا ہے جنگل میں اگر انسان کے جسمانی وجود کو ہر وقت خطرہ رہتا تھا تو شہر میں انسان ہر وقت اپنے روحانی اور نفسیاتی وجود کے تحفظ کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ منیر نیازی شہر کا مکین ہے لیکن اس نے اس شہر سے علاقہ ذرا کم کم رکھا ہے بلکہ اس کے برعکس یہ شہر اس کے لیے دشمنوں سے بھرا ہوا ہے جن کے درمیان شام گزارتے ہوئے شاعر اپنی روح کی گہرائیوں تک میں ایک تڑپ محسوس کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ شاعر اس شہر کو دوزخی قرار دے رہا ہے۔ اس شہر کے لیے بادلوں کی دعا بھی کرتا ہے کہ اس شہر رنگ دل میں ہر چند وہ خود بھی تو مقیم ہے۔
ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا
گرم رنگ پھولوں کا
گرم تھی مہک ان کی
گرم خون آنکھوں میں
تیز تھی چمک ان کی
سوچتا میں کیا اس کو
اس حسیں کی باتوں کو
دیکھتا میں کیا اس کے
خاک رنگ ہاتھوں کو
خوف تھا تمازت میں
عیش شب کی شدت کا
در کھلا تھا دوزخ کا
لمس لب کی حدت کا
میں جواب کیا دیتا
اس کی ان اداؤں کا
ایک شہر مردہ میں
دور کی نداؤں کا
سحر زدہ باطن میں
پانچ بند اسموں کا
بن گیا تھا جسموں میں
زہر پانچ قسموں کا
(دشمنوں کے درمیان شام ص : 39-40)
منیر نیازی کی شاعرانہ فضا میں کئی عناصر ایسے ہیں جو باہم متحارب ہیں لیکن جب وہ تخلیقی عمل کی کیمیا سے گزرتے ہیں تو چیز دیگر میں ڈھل جاتے ہیں۔ سحر زدہ باطن میں پانچ قسموں کا ہمارے تخلیق میں کسی مثبت تمثال کی تشکیل نہیں کرتا لیکن جب ہم اسے نظم کے عنوان سے ملا کر پڑھتے ہیں تو بات کچھ کچھ کھلتی ہے شاعر ہمارے سامنے ایک ایسے شہر کا نقشہ کھینچ رہا ہے جو اپنی تخریبی قوت سے انسان کو انسانی جوہر سے محروم کر رہا ہے۔ ایسے میں شاید ہی باطن میں موجود زہر کا تریاق ثابت ہو سکتی ہے۔ دشمنوں کے درمیان شام کے حوالے سے انتظار حسین منیر نیازی کی شاعری کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’منیر نیازی کے شعری تجربے میں ان تجربوں کا میل ہے جو ہمارے اجتماعی تخیل کا حصہ ہے۔ دشمنوں کے درمیان شام کی نظمیں اور غزلیں پڑھتے پڑھتے کبھی کبھی ان آفت زدہ شہروں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ جہاں کوئی خطرپسند شہزادہ رنج سفر کھینچتا جا نکلتا تھا اور خلقت کو خوف کے عالم میں دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کبھی عذاب کی زد میں آئی ہوئی ان بستیوں کا خیال آتا ہے جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ کبھی حضرت امام حسینؓ کے دقت کا کوفہ نظروں میں گھومنے لگتا ہے۔ اس کے باوجود منیر نیازی عہد کی شاعری کرنے والوں سے زیادہ عہد کا شاعر نظر آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے عہد کے اندر رہ کر ایک آفت زدہ شہر دریافت کیا ہے۔ منیر نیازی کا عہد منیر نیازی کاکوفہ ہے۔ پھر ہیر پھر کر شہر کا ذکر بھی ایک معنی رکھتا ہے۔ اس سے شاعر کا اپنے ارد گرد کے ساتھ گہرے رشتے کا پتہ چلتا ہے۔ ان نظموں میں جو استعاروں اور تلخیوں کا ذخیرہ خرچ ہوا ہے اس سے کام لینے والوں نے یہ کام بھی کیا ہے کہ اردگرد سے بے تعلق ہو کر اپنی ذات کے پاتال میں اتر گئے مگر منیر نیازی کے یہاں بھی یہی ذخیرہ خارج سے استوار کرنے کا فرض انجام دیتا ہے۔ یہ رشتہ بے شک دشمنی کا رشتہ ہے مگر دشمنی کے رشتے میں شدت بہت ہوتی ہے۔ ‘‘
(دشمنوں کے درمیان شام ص : 6)
میرے خیال میں انتظار حسینے اس بیان سے کلی اتفاق مشکل ہے اس لیے کہ منیر نیازی کا اپنے خارج سے رشتہ دشمنی کا ہے۔ میری رائے میں منیر نیازی کا رشتہ اپنے خارج سے محبت اور نفرت کا بیک وقت رشتہ ہے۔ اسے اپنا خارج ناپسند بھی ہے لیکن وہ اس سے محبت بھی کرتا ہے۔ یہ تو شاعر کی آرزوئیں خواہشات اور خواب ہیں۔ یہ کسی خارجی حوالے کے بغیر تو اپنی معنویت پیدا نہیں کر سکتے۔ ہر تخلیق کار اپنے خارج میں موجود جبریت کی مزاحمت کرتا ہے۔ وہ اس دنیا میں موجود بدصورتی ناانصافی اور غیر انسانی رویوں کو ہدف تنقید بناتا ہے۔ وہ بھی اپنے خارج کو اپنے عہد کو پورے طورپر قبول نہیں کرتا کیونکہ خارج اور عہد کو پورے طورپر قبو کرنے سے مفاہمت کی فضا تو پیدا ہو سکتی ہے شاعری نہیں۔
ماہ منیر منیر نیازی کی شاعری میں ایک بنیادی فکری تبدیلی کا اظہار ہے۔ یہ تبدیلی شاعر کے مذہبی شعور کے اظہار سے عبارت ہے مذہبی اقدار سے وابستگی تو منیر نیازی کے پہلے شعری مجموعے سے عیاں ہے پھر دشمنوں کے درمیان شام کا انتساب حضرت امام حسینؓ کے نام ہے جو منیر نیازی کے مذہبی شعور کا اظہار ہے۔ مگر ماہ منیر تک آتے آتے یہ رجحان منیر نیازی کے ہاں بہت نمایاں ہو جاتا ہے اس مجموعے کا نہ صرف انتساب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہے بلکہ اس میں پانچ حمد اور حضرت امام حسینؓ کی یاد میں ایک نظم بھی شامل ہے۔ مذہبی شعور کا یہ اظہار آگے چل کر منیر نیازی کی شاعری میں ایک اہم حصہ عنصر کے طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ مثلاً اسی مجموعے میں شامل نظمیں جیسے اے ہلال عید، اپنے وطن پر سلام اور اپنے شہرو ں کے لیے دعا۔ مذہبی شعور سے عبارت ہیں۔ اسی طرح لاہور کے لیے لکھی گئی نظم اپنے شہر کے لیے دعا میں انہوں نے لاہور کو خدا اور نبیؐ کی امان میں دیا ہے۔
تسخیر تجھ کو کون کرے گا جہان میں
تو ہے خدا اور ا س کے نبیؐ کی امان میں
لاہور پر کمال ! تیرے بام و در کی خیر
(ماہ منیر ص: 28)
دشمنوں کے درمیان شام سے ہونے والی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ کہ منیر نیازی نے اپنے لیے ذریعہ اظہار کے طور پر نظم سے زیادہ غزل کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں۔ ماہ منیر میں شامل نظموں اور غزلوں کا اگر تقابل کیا جائے تو اس بات کا شدت سے اظہار ہوتا ہے کہ اب شاعر اپنی غزلوں میں زیادہ بھرپور تخلیقی اظہار کرنے لگے ہیں۔ ماہ منیر میں شامل غزلیں اپنی فنی پختگی کے اعتبار سے کسی اہم معاصر غز ل گو سے کم نہیں ان پر تفصیلی بحث ہم اگلے با ب میں کریں گے۔ یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ اس مجموعے کے دیباچہ نگار سہیل احمد خان نے منیر نیازی کی شاعری کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے زیادہ تر غزلیہ شاعری سے استفادہ کیا ہے۔ بہر طور اس مجموعے میں کم از کم ایک ایسی نظم شامل ہے جو اپنے تاثر اور پختگی کے اعتبار سے منیر نیازی کی اہم ترین نظموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔
ناحق اس ظالم سے ملنے ہم بھی اتنی دور گئے
ادھر ادھر کی لاکھوں باتیں
اصل جوتھی وہی بات نہ کی
بہت فسانے دنیا بھر کے
اصل کہانی یاد نہ تھی
وہی شناسا آنکھیں جن میں
میری کوئی پہچان نہ تھی
وہی گلابی ہونٹ تھے جن پر
میرے لیے مسکان نہ تھی
اس کے بعد بہت دن ٹھہرا
اس ان جانی بستی میں
بہت دنوں تک خاک اڑائی
اس میدان ہستی میں
اس کے سوا بھی لوگ بہت تھے
حسن کے جلوے اور بھی تھے
وہ بھی ہم سے نہیں ملا پھر
ہم بھی اس سے نہیں ملے
ماہ منیر کی نظموں میں چاند اہم استعارہ ہے۔ اس حوالے سے منیر نیازی کی نظم خاک رنگ ک پریشانی میں خواب اہم مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے جہاں یہ استعارہ اپنی بھرپور معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔
خاکی رنگ کی پریشانی میں خواب
کھوہ کے باہر سبز جھروکا، اس کے پیچھے چاند ہے
جس کی صاف کشش کے آگے رنگ زمین کا ماند ہے
تیز صبا چہروں پر آئی کیسے بندھن توڑ کے
کیسی دور دراز جگہوں کے دل کش منظر چھوڑ کے
مٹتے بنتے نقش ہزاروں گھٹتی بڑھتی دوریاں
ایک طرف پر وصل کا قصہ، تین طرف مجبوریاں
منیر نیازی کی نظموں اور شاعری کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے سہیل احمد خان لکھتے ہیں :
’’منیر اپنی بعض تازہ نظموں میں چاند سے سورج کی طرف سفر کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور ان نظموں میں سورج اور ا س کی چمک کے تلازمات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس کونیاتی سفر سے میرا دھیان بار بار حضرت ابراہیمؑ کے قصے کی طرف منتقل ہو رہا ہے خصوصاً اس لیے بھی کہ اس مجموعے کا آغاز حمدیہ نظموں سے ہو رہا ہے کونیات کا پھیلاؤ مظاہر سے آگے کسی عظیم تر حقیقت کے ادراک کے مرحلے سے بھی دوچار کرتا ہے۔ یوں بھی اب منیر کی شاعری پر قرآن حکیم کے مطالعے کے اثرات واضح طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔
میں نے منیر نیازی کی اس تازہ کتاب کے محض ایک رخ کا ذکر کیا ہے۔ منیر نیازی کے لہجے میں اب جو تفکر اور ارتکاز پیدا ہوا ہے وہ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔ اسی طرح ان نظموں اور غزلوں میں اپنے عہد کی زندگی اور رویوں کا جو شعور ہے اس کا ذکر بھی ضروری ہے۔
منیر نیازی کا یہ مجموعہ اس کے فن کی نئی سمتوں اور ان نئی سمتوں سے آگے امکانی دنیاؤں کی خبر دیتا ہے ‘‘۔
(ماہ منیر ص: 14)
چھے رنگین دروازے منیر نیازی کا پانچواں شعری مجموعہ ہے۔ اس میں شامل نظمیں اور غزلیں شاعر کے ہاں آنے والی پختگی اور سلیقے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس مجموعے میں شامل نظموں اور غزلوں کی فضا اور طرز احساس پہلی نظر میں پڑھنے والے کو احساس دلاتا ہے کہ یہ منیر نیازی کا کلام ہے۔ مثلاً اس مجموعے میں شامل نظمیں جیسے ’’کتنے بے کل نین ہیں ‘‘ ’’کچھ باتیں ان کہی رہنے دو‘‘ گھر بنانا چاہتا ہوں ہر مشکل موسم کی حد پر ایک امت کے گزرنے کے بعد کا وقت نئی محفل میں پہلی شناسائی وغیرہ اس سلسلے میں مثال کے طور پر شامل کی جا سکتی ہیں۔ اس مجموعے کے حوالے سے اصغر ندیم سید اپنے مضمون ’’منیر نیازی‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’میرا خیال ہے کہ اچھے کی معنویت یہی ہے کہ منیر نیازی کو رنگین دروازوں کی اتنی ہی تعداد پسند ہے اور ان رنگوں کے پیچھے تلازماتی سلسلہ ہے ملال کا رنگ ہو یا وصال کا رنگ شام یا تتلی کا۔ آسمان کا یا سمندرکا ان رنگوں کی داستانیں ہیں اور ان دروازوں کے پیچھے شہر ہیں اور ان شہروں میں موسم ہیں۔ یہ سارا منظر سلسلہ در سلسلہ ہے۔ ایک ہفت خواں ہے۔ شاعر کی اقلیم ہے جس میں اس کے خواب اثر پذیر ہو سکتے ہیں۔ اس کی خواہش کو پر لگ سکتے ہیں منیر نیازی ایک خوبصورت زندگی کو اپنے اردگرد دیکھنا چاہتا ہے ‘‘۔
(معاصر۔ دوم، ص : 497)
’’چھ رنگین دروازے ‘‘ کے بعد منیر نیازی کا جو مجموعہ شائع ہوا اس کا نام ’’آغاز زمستان میں دوبارہ‘‘ ہے۔ اس مجموعے میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ لیکن ایک خاص ات یہ ہے کہ منیر نیازی نے اس مجموعہ کلام میں شامل کرنے کے لیے اپنی کئی ایک پنجابی نظموں اور غزلوں کے تراجم بھی کیے ہیں۔ ان نظموں اور غزلوں کے حوالے سے منیر نیازی نے پنجابی کلام کے حوالے سے بات کی ہو گی۔ یہاں ہم صرف ان نظموں اور غزلوں پر بات کریں گے جو اردو زبان میں تخلیق کی گئی ہیں۔
آغاز زمستان میں دوبارہ میں شامل نظموں میں سے کئی ایک قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں مثلاً ’’کیسے پھر اس عہد کو زندہ کروں ‘‘ پابند ہئیت میں ہے۔ جس میں رومانی جذبات کو ضبط کمال کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’’خواب اتنے دیکھتا ہوں ‘‘ میں بھی پابند ہئیت کو ہی قبول کیا گیا ہے۔ اس نظم میں شہر دہشت اور خواب وہ استعارے ہیں جن کے گرد سارے تلازمے بنے گئے ہیں۔
منیر نیازی کا ساتواں مجموعہ ساعت سیار ہے اس کے دیباچے میں فیض احمد فیض نے منیر نیازی کی شاعری کے بارے میں بڑے پتے کی باتیں لکھی ہیں۔ فیض احمد فیض لکھتے ہیں :
’’منیر نیازی کے کلام پر مدح و توصیف کے قریب قریب سبھی مروجہ الفاظ نچھاور کیے جا چکے ہیں۔ اب تو یہی کہنا کافی ہے کہ منیر نیازی کا ہر مجموعہ ان کے مداحوں اور چاہنے والوں کے لیے جنت نگاہ اور فردوس گوش کا سا سامان لے کر آتا ہے۔ ان کو مژدہ ہو کہ ساعت سیار کی صورت میں ایک اور دلکش مرقع ان کی ضیافت طبع کے لیے وارد ہوا ہے جو منیر نیازی کے سبھی معروف اوصاف سے متصف ہے زبان و اظہار کی سادگی و پرکاری جذبات و افکار کا خلوص اور درد مندی منیر کی ذات کی طرح ان ابیات میں قلندرانہ طنطنہ اور بے نیازی بھی موجود ہے مفکرانہ تجسس اور دلسوزی بھی۔ پنجابی منظومات کا اردو ترجمہ ایک دلچسپ اضافہ ہے جس کے لیے منیر کے غیر پنجابی شائقین منیر کے شکر گزار ہوں گے اور ا س مجموعے کے مطالعے کے بعد قارئین کو منیر سے کوئی شکایت پیدا ہو گی تو غالباً یہی کہ کتاب اس قدر مختصر کیوں ہے ‘‘۔
(ساعت سیار، ص 9-10)
ساعت سیار کی ابتدا سلام سے ہوتی ہے جو حضرت امام حسینؓ کی لازوال قربانی کی یاد میں تخلیق کیا گیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ کسی بے روح اور بے رس شاعر کا کلام نہی بلکہ ایک سوچتے ہوئے تخلیقی ذہن کی کار فرمائی ہے۔ اسی طرح والدہ مرحومہ کی یاد میں اور واد مرحوم کی یاد میں ایسی نظمیں ہیں جو شاعر کی ذاتی واردات کو گرفت میں لینے کی کوشش ہے۔ ان نظموں میں شاعر نے جذباتی ہونے کے برعکس غیر جذباتی انداز میں اپنے احساسات کا اظہار کیا ہے۔
لاہور ٹاؤن شب پر نظم زندگی میں آگے بڑھنے اور زندگی کی روانی کو گرفت میں لیتی ہے۔ بظاہر اس کا موضوع یہ ہے کہ شاعر اپنے لیے گھر کی تعمیر کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک پورا ماحول دکھائی دیتا ہے جس میں آبادی اور ویرانی کے آثار ساتھ ساتھ چلتے ہیں نظم ملاحظہ ہو:
لاہور ٹاؤن شپ پر نظم
جس شہر میں رہا میں برسوں کی زندگی میں
کاٹی حیات جس میں شرمندہ خامشی میں
اس شہر کی حدوں پر میں گھر بنا رہا ہوں
ماہ منیر جس پر شب گیر ہو رہا ہے
اک شہر ساتھ میرے تعمیر ہو رہا ہے
میرے مکاں سے آگے میداں کہیں کہیں پر
آبادیاں کہیں پر خالی زمیں کہیں پر
اک بڑھ کا پیڑ جو اب کچھ پیر ہو رہا ہے
جگمگ مکاں سے ملتے سنسان راستے پر
اک لالٹین والے تنور کے سرے پر
اک مرد اور عورت اک سوچ میں کھڑے ہیں
وحشی غزال جیسے زنجیر ہو رہا ہے
(ساعت سیار ص : 11)
اس نظم کی آخری دو لائنیں اسے صرف شاعر کی ذاتی واردات تک محدود نہیں رہنے دیتی بلکہ تسلسل حیات کی تجسیم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ منیر نیازی نے اپنی شاعری میں صرف خارجی ماحول کی عکاسی ہ نہیں کی بلکہ اس نے اس ماحول کی جبریت کو محسوس بھی کیا ہے اور ماحول کی سنگینی سے بچنے کے لیے اپنے خوابوں میں پناہ بھی ڈھونڈی ہے۔
خواب میری پنا ہ میں
بس مرا چلتا نہیں جب سختی ایام پر
فتح پا سکتا نہیں جب یورش آلام پر
اپنے ان کے درمیاں دیوار چن دیتا ہوں میں
اس جہان ظلم پر اک خواب بن دیتا ہوں میں
(ساعت سیار، ص : 72)
جہان ظلم پر خواب بننے کو ہو سکتا ہے کہ کوئی انفعالی فعل تصور کرے لیکن میرے خیال میں خواب بننا بھی فعال ہوتا ہے۔ سختی ایام کے مقابل خواب بننا، اپنے اندر موجود انسانی جوہر کی موجودگی کا سب سے بڑا اعتراف ہے۔ سعادت سعید نے اپنے مضمون بے خوابی کے خوابوں کا شاعر منیر نیازی میں اس حوالے سے دلچسپ اشارے کیے ہیں۔
’’منیر نیازی کی نظموں میں چیتے سانپ بھوت چڑیلیں ڈائنیں نظر آتی ہیں تو اس میں اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ انسان اپنے وطیروں میں جانوروں اور مافوق الفطرت اشیاء کی صورت میں نظر آنے لگے ہیں۔ حقوق غصب کرنا دوسروں کے لہو سے اپنی پیاس بجھانا دوسرے کا گلا کاٹنا بے گناہ اور معصوم آبادیوں پر غاصبانہ قبضے کرنا جذباتی اور فطری میل جول کو روکنے کے لیے فصلیں کھڑی کرنا اور حقیقی انسانی تمناؤں کو دفنانا بیسویں صدی کے انسانوں اور خصوصاً سیاسی اور سماجی اداروں اور ان کے ٹھیکیداروں کا اولین مشین ہے۔ ایسے میں ہمارے شاعر ناول نگار ڈرامہ نویس اور افسانوی ادب کے خالق اگر جدید کلیلہ و دمنہ ترتیب دے رہے ہیں تو وہ عصری تقاضوں سے بے خبر ہیں۔ نئے عہد کی کلیلہ و دمنہ نئے اخلاقی اور انسانی اسباق کا خزینہ سمیٹے ہوئے ہے ‘‘۔
(معاصر، دوم، ص : 502)
اب آپ سعادت سعید کی مندرجہ بالا رائے کو اپنے سامنے رکھیں اور منیر نیازی کی زیر نظم کا مطالعہ کریں تو آپ کو نقاد کی رائے کی صداقت پر یقین آ جائے گا۔
اے سریر آرائے اور نگ حسن
اک بے رخی سی ربط محبت میں ہے کہیں
اک شک کا روگ شوق کی جنت میں ہے کہیں
کیا بات اس کے دل میں ہے کہتا نہیں کوئی
الجھن ہے کس طرح کی بتاتا نہیں کوئی
بس چپ سی لگ گئی ہے جوانان شہر کو
کچھ ہو گیا ہے روح خیابان شہر کو
ہر اہل دل کو جان سے بیزار کر دیا
تو نے تو یار شہر کو بیمار کر دیا
(ساعت سیار، ص: 20)
’’ساعت سیار‘‘ میں ایک نظم ایسی بھی ہے جو زبان از خاص و عام ہے اور منیر نیازی کے تخلیقی مزاج کی خوبصورت عکاس بھی ہے۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یا ر کی ڈھار س بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھو ل جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کے جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
(ساعت سیار، ص: 24)
’’پہلی بات ہی آخری تھی‘‘ منیر نیازی کا آٹھواں مجموعہ کلام ہے۔ اس مجموعے میں شامل بیشتر نظمیں رومانی مزاج کی ہیں ۔ اور ان نظموں میں سپنا آگے جاتاکیسے ’’پہلی بات ہی آخری تھی‘‘ اور ’’محبت اب نہیں ہو گی‘‘ بہت مشہور ہوئیں۔ ان نظموں کی رومانی فضا اور منیر نیازی کا سبک اسلوب پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔
سپنا آگے جاتا کیسے
چھوٹا سا اک گاؤں تھا جس میں
دیے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دوری نے گھیرا
اتنی بڑی تنہائی تھی جس میں
جاگتا رہتا تھا دل میرا
بہت قدیم فراق تھا جس میں
ایک مقررہ حد سے آگے
سوچ نہ سکتا تھا دل میرا
ایسی صورت میں پھر دل کو
دھیان آتا کس خواب میں تیرا
راز جو حد سے باہر میں تھا
اپنا آپ دکھاتا کیسے
سپنے کی بھی حد تھی کوئی
سپنا آگے جاتا کیسے
(پہلی بات ہی آخری تھی ص : 23-24)
پہلی بات ہی آخری تھی
پہلی بات ہی آخری تھی
اس سے آگے بڑھی نہیں
ڈری ہوئی کوئی بیل تھی جیسے
پورے گھر پہ چڑھی نہیں
ڈر ہی کیا تھا کہہ دینے میں
کھل کر بات جو دل میں تھی
آس پاس کوئی اور نہیں تھا
شام تھی نئی محبت کی
ایک جھجک سی ساتھ رہی کیوں
قرب کی ساعت حیراں میں
حد سے آگے بڑھنے کی
پھیل کے اس تک جانے کی
ا س کے گھر پر چڑھنے کی
(پہلی بات ہی آخری تھی ص 51-52)
محبت اب نہیں ہو گی
ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمال ابر و باراں میں
یہ نا آباد وقتوں میں
دل ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہو گی
(پہلی بات ہی آخری تھی ص : 55)
پہلی بات ہی آخری تھی کے بعد منیر نیازی کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ایک دعا جو میں بھول گیا، سفید دن کی ہوا اور سیاہ شب کا سمندر، اور ایک مسلسل۔ ان مجموعوں میں شامل نظمیں منیر نیازی کی شاعری کے عمومی رنگوں کی عکاس ہیں اور کسی نئے تخلیقی امکان کا پتہ نہیں دیتیں۔ ظاہر ہے کہ ہر لکھنے والا اپنی پوری حیات میں تخلیق سے بھرپور نہیں رہتا۔ منیر نیازی کی شاعری میں بھی گزشتہ چند برسوں سے ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہوئی ہے جو نہایت فطری بات ہے۔
منیر نیازی کی شاعری اور خاص طور پر اس کی نظمیں دو سطح پر اپن معنویت کا ابلاغ کرتی ہیں۔ معنی کی ایک سطح الفاظ کے مفہوم سے متعین ہوتی ہے اور دوسری سطح اس فضا سے جس کی تشکیل منیر نیازی کی شاعری میں کرتے ہیں۔ بعض اوقات منیر نیازی اپنی نظم کسی لمحاتی کیفیت کی تجسیم اس خوبی سے کرتے ہیں کہ قاری کے ذہن پر تصویر نقش ہو جاتی ہے۔ منیر نیازی کی نظموں میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ غزل کے شعر کی طرح یاد رہ جاتی ہے اور یہ خوبی بہت کم نظم گو شاعروں کی نظموں میں پائی جاتی ہے۔
منیر نیازی کی نظموں کی معنویت کے حوالے سے سعادت سعید نے اپنے مضمون میں لکھا ہے :
’’منیر نیازی کی نظموں کا کشف ہماری تہذیب کے یک طرفہ رجحان سے پیدا ہوتا ہے ایک ایساے رجحان سے جو دھوپ کی طرح بے رنگ اور پیتل کی طرح بدنما ہے۔ ا س رجحان کے زیر اثر نمودار ہوتی ہوئی دنیا میں ہر طرف تنہائی اور دشمنی بے توجہی اور افسردگی دکھائی دیتی ہے۔ شاعر ا س بدنما دنیا کی تصویر پیش کرتے ہوئے قاری تک اس تصور کو پہنچانا چاہتا ہے کہ جسے اس کی آنکھیں دیکھتی ہیں وہ تہذیب جس کی طرف یہ مختلف نظمیں رہنمائی کرتی ہیں ایک ایسے آشوب میں گرفتار ہے جہاں اس کو اپنی منزل کا علم بھی میسر نہیں ہے۔
(بے خوابی کے خوابوں کا شاعر۔ منیر نیازی معاصر ص : 503)
اصل بات یہ ہے کہ یہ سارامنظرن امہ تو منیر نیازی کے سارے معاصرین کو میسر تھا لیکن یہ منیر نیازی کی تخلیقی ذات تھی کہ جس نے اس منظر نامے میں موجود ان عناصر کی شناخت کی جو معاصر تہذیب میں انسانیت کش تھے۔ منیر نیازی نے ان عناصر کو اپنی ذات کی کٹھالی سے گزارا اور پھر انہیں وہ تخلیقی روپ دیا جو اس کی نظموں اور غزلوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ منیر نیازی کی شاعری کا سارا موا د اس کے اردگرد کے ماحول سے اخذ کیا گیا ہے لیکن منیر نیازی نے اس مواد کو کچے خام مال کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ اس نے حقیقت میں تخیل کی آمیزش سے نئی صورتیں تراشی ہیں۔
منیر نیازی کی نظموں پر بات ہم سراج منیر کے نہایت بلیغ بیان پر مکمل کرتے ہیں۔ سراج منیر لکھتے ہیں :
’’منیر کی یہ شعری کائنات اردو میں اپنی ایک منفرد معنویت رکھتی ہے۔ اس کا بنیادی اصول اشیاء اور مناظرکو آدم اول کی آنکھ سے دیکھنے کا ہے یعنی منیر کے روبرو جو کائنات ہے۔ اس سے منیر کا تعلق ایک مرحلہ حیرت پر واقع ہوتا ہے یہ مرحلہ حیرت وہ ہے جہا ں بصیرت اور اشیاء دونوں اپنی ازلی اور سیایل کیفیت میں ہوتے ہوئے اور تصورات اور مظاہر کی درمیان سرحدیں واضح ں ہیں ہوتیں۔ باہم مدغم ہوتے اور پھر یکایک کسی اور منظر سے اشیاء کے طلوع ہونے کا عمل محض Hallucinationنہیں ہے جو سحر کی کسی کیفیت سے مشابہ ہو۔ بلکہ ہم اسے آدم اول کا تجربہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کیفیت میں بھی حسات کے سانچے انسانی تجربے کے مسلسل اور تکراری عمل کے ڈھانچوں میں ایک نچلی سطح پر متشکل نہیں ہوئے ہوتے اور شاعر اپنے شعری وجدان کی بنیاد پر اشیاء کے درمیان مماثلتوں کو دیکھتا ہے اور پھر حیران ہوتا ہے۔
(یہ چراغ دست فنا کا ہے مشمولہ معاصر 2ص 487)
٭٭٭
سفر شاعری : منیر نیازی کی غزلیں
منیر نیازی کی غزل اپنے اسلوب طرز بیان اور زبان و بیان کے اعتبار سے اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں منیر نیازی نے غز ل کے روایتی تصور کر برقرار رکھا ہے۔ جس میں غزل کے ہر شعر کو ایک اکائی جانا جاتا ہے اور ہر شعر اپنی جگہ پر مکمل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے طرز احساس کی سطح پر غزل کے مختلف اشعار میں ایک ربط باہمی کے پیدا ہو جانے کا احساس بار بار ہوتا ہے۔
منیر نیازی کی غزل بہت سے حوالوں سے ان کی نظموں سے جڑی ہے اور بہت سے حوالوں سے ان کی نظموں سے جدا بھی ہے۔ مثلاً ان کی غزل میں اس کائنات اشیاء اور مظاہر پر نگاہ ڈالنے کا رویہ شعری استعارے اور ان کو برتنے کا سلیقہ ہمیں منیر نیازی کی نظموں کی یاد دلاتا ہے لیکن غزل کی ہئیت کے فنی تقاضے اس خوبی سے بٹھائے گئے ہیں کہ اس سے غزل کا شعر اور نظم اپنی الگ الگ پہچان کرواتے ہیں۔ منیر نیازی دراصل ایک مربوط اور مرتب شخصیت کا حامل شاعر ہے۔ یہ شخصیت جس میڈیم میں بھی اپنا اظہار کرے گی اس پر شخصیت کی چھاپ ضرور نمایاں ہو گی۔ اس حوالے سے منیر نیازی کا شمار ہم عہد حاضر کے چند معتبر ترین شعراء میں کر سکتے ہیں جو اپنا منفرد اسلوب اور پہچان رکھتے ہیں۔
منیر نیازی کی شاعری کو پڑھتے ہوئے بار بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ صرف شعر نہیں کہ رہے بلکہ ایک شعری کائنات کی تشکیل میں مصروف ہیں ۔ فرد جب اپنی خارجی صورت حال سے مطمئن نہیں ہوتا تو وہ اسے بدلنے کی سعی کرتا ہے۔ تخلیق کار کے لیے لازمی نہیں کہ وہ اپنی سماجی صورت کو تبدیل کرنے کے لیے عملی طورپر جدوجہد کرے بلکہ وہ اپنی تخلیقات میں ایک نئی کائنات ایک نئی دنیا تشکیل کر کے اس دنیا کو بدلنے کی اور اپنی آرزو اور ایک نئی دنیا تعمیر کے خواب کی تکمیل کرتا ہے۔ اب یہ سوال ضرور اٹھایا جا سکتا ہے کہ خیال و خواب کی یہ دنیا معاصر سماجی تبدیلی لانے میں کتنی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ تو اس سلسلے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کو بدلنے کی کسی بھی کوشش کا آغاز خیال و خواب کی تبدیلی سے ہی ہوتا ہے۔ دوسرا ادیب شاعر اپنے تخلیق فن سے فرد کو اندر سے تبدیل کرتا ہے۔ وہ اس میں اعلیٰ انسانی اقدار کی تڑپ کو پیدا کرتا ہے تاکہ انسان اپنے اردگرد کی بدصورتیوں سے سمجھوتہ نہ کر لے۔ حسن انصاف اور برابری کے لیے شدید آرزو ہی انسان کو خارج میں تبدیلی لانے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔
منیر نیازی اپنی نظم اور اپنی غزل ہر دو میں زیادہ کام اپنی قوت متصورہ سے کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں شعری تصویریں اور مثالیں اتنی عمدگی سے اور اتنی بڑی تعداد میں پیش کی ہیں کہ ہر پہلو سے شاید ہی ان کا کوئی ہم عصر ان کا مقابلہ کر سکتا ہو۔ اس حوالے سے سہیل احمد خاں کا مندرجہ ذیل بیان ہمیں منیر نیازی کی شاعری کی تفہیم میں کافی مدد دیتا ہے۔
’’منیر کی شعری تصویریں ہمہ گیر تہذیبی تجربوں سے معافی حاصل کر کے کچھ کی کچھ بن جاتی ہیں۔ اجڑی ہوئی بستیاں رستوں میں مر جانے والی امتیں خالی شہر چڑیلیں جادوگرنیاں برجیاں فصیلیں، آسیب زدہ مکان جن کے مکین انہیں چھوڑ گئے یہ سب چیزیں مل کر ایک بڑے اساطیری تجربے سا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔ منیر کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے عہد کو محض بیان کرنے کی بجائے اس کے لیے قدیم صحیفوں حکایتوں، نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی زبان اور ہدایات سے مماثلتیں ڈھونڈ لی ہیں اور اس طرح اکہری حقیقت پسندی کی جگہ واردات اور تجربے کی کلیف تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ‘‘۔
(منقش پہیہ مشمولہ معاصر 2ص: 482-483)
صاحب مضمون نے منیر نیازی کی شعری کائنات کے اعتبار سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہایت خوبی سے منیر نیازی کے اس وصف کو نمایاں کیا ہے جس کے باعث وہ اپنے معاصرین سے ممتاز ہوتا ہے :
’’منیر نیازی کی شعری کائنات تجسس اسرار اور مہماتی سفر کی شعری کائنات ہے اپنے بہت سے ہم عصروں کے برعکس جن کی شاعری میں ہر چیز جانی بوجھی ہے کسی شے کے پیچھے گہرا بھید نہیں ہر چیز کی قطعی وضاحت کر دی گئی ہے منیر کے ہاتھ ہر لحظہ کسی نہ کسی ان دیکھے منظر کسی انجانے بھید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ منیر نے دشتوں کے گنجان راستوں کے پار رنگ و بو کے جو خطے دریافت کیے ہیں وہ اس کی اسی مہم جوئی کا عطیہ ہیں اور کون کہہ سکتا ہے کہ منیر کی شاعری کے شعری مناظر بھید بھری تصویروں اور پھیلتی ہوئی مکاشفاتی سمتوں نے ہمارے شعور اور احساس کے جغرافیے کو وسعت نہیں بخشی اور نئی اردو شاعری کو نہیں پھیلایا۔
(منقش پہیہ ص 484)
اسی مضمون میں آگے چل کر مزید لکھتے ہیں :
’’منیر کی شفاف معصومیت اور اس کی فضا میں بالکل انوکھی معلوم ہوتی ہے۔ کھلتے ہوئے پھولوں پھولوں سے چمٹی ہوئی تتلیوں باغوں سرسوں اور سبز گندم کے کھیتوں کو اولین تجربوں کی طرح دیکھتے ہوئے کی معصومیت جس نے منیر کی شاعری کو گدلا نہیں ہونے دیا منیر نے نعرے نہیں لگائے لیکن نظم کے خلاف بدصورتی کے خلاف مسخ رویوں جیسی نفرت اس کے یہاں سے اور حسن سے جس طرح کی مسلسل وابستگی اس کے یہاں ملتی ہے اس کو پڑھنے والا فوراً محسوس کر سکتا ہے۔ ‘‘
(منقش پہیہ ص: 484)
سہیل احمد خان نے بڑی خوبصورتی اور تخلیقی انداز میں منیر نیازی کی فکر موضوعات اور طرز احساس کی وضاحت کر دی ہے۔ ہمیں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہجرت کے تجربے نے منیر نیازی کے باطن میں ہمیشہ مرکز میں جگہ پائی ہے۔ اس لیے سفر اور مسافر کے تلازمے بار بار ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رات اور دشت بھی بار بار اپنی جھلک دکھاتے ہیں اجڑی ہوئی بستیاں بار بار اپنا ظہور کرتی ہیں یہ سب مل کر خوف ڈر اور بے یقینی کی کیفیات کو ابھارتے ہیں۔ منیر نیازی کو پڑھتے ہوئے بار بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ شادی وقت تھم گیا ہے بار بار اپنے تجربات کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہے اب اس حوالے سے منیر نیازی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی مہتاب میں
٭٭٭
ابھی مجھے اک دشت صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
اک مسافت ختم ہوئی ہے ایک سفر ابھی کرنا ہے
٭٭٭
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
٭٭٭
سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
٭٭٭
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
مجھے ایسے گمان ہوتا ہے جیسے وہ تجربے اور کیفیات جن کا اظہار منیر نیازی کرنا چاہتے تھے وہ ان کی غزل میں زیادہ بہتر انداز میں اپنا اظہار کر پائے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کی طبیعت ہے جس میں اختصار اور جامعیت کی خوبی غزل کے شعری مزاج سے زیادہ قریب ہے جہاں شاعر لمبی چوڑی تفصیلات دینے کی بجائے دو مصرعوں میں اپنا مدعا یوں بیان کرتا ہے کہ اگر آپ شعر کی شرح کرنے بیٹھیں تو بعض اوقات بات کئی کئی صفحات پر پھیل جاتی ہے اور اس حوالے سے کوئی شعری صنف غزل کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
منیر نیازی کی غزل میں مربوط طرز احسا س کی بدولت ایک باطنی وحدت ضرور ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی غزل ایک پورے منظر نامے کی تشکیل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے سراج منیر لکھتے ہیں :
’’منیر کی غزل ہمارے لیے ایک پورا منظر نامہ ترتیب دیتی ہے یہ منظر نامہ تمثالوں یادوں استعاروں سے مرتب ہوتا ہے اور اس کا محل وقوع ایک شہر ہے اس شہر کا جذباتی موسم بام بلند پر بچھڑ جانے والی ایک منتظر صورت سے تشکیل پاتا ہے لہٰذا آئیے اب ہم منیر کے شہر غزل میں اس مرکزی استعارے یعنی شہ نشیں پر ایک صورت کے ہونے یا نہ ہونے کے تعلق سے داخل ہوتے ہیں :
شہہ نشینوں میں ہوا پھرتی ہے کھوئی کھوئی
اب کہاں ہیں وہ مکیں یہ تو بتائے اس کو
یا پھر یہ:
شب ماہتاب نے شہ نشیں پہ عجیب گل سا کھلا دیا
مجھے یوں لگا کسی ہاتھ نے مرے دل پہ تیر چلا دیا
یا پھر اس سے بھی واضح انداز میں :
جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا
اس پرانے بام پر وہ صورت زیبا نہ تھی
لب بام اس صورت سے تعلق منیر کے ہاں ہجر کے تجربے کا ڈھانچہ ترتیب دیتی ہے۔ اور شہر سے تعلق ایک طرف اسی صورت کی توسیع ہے۔ اور دوسری طرف سفر کا استعارہ اسی بنیادی اور ازلی ہجر کے تجربے کی نئی جہت۔ اسی لیے منیر نیازی کے ہاں ایک طرف تو ہجر اور ہجرت کے تجربے یا باہم پیوست ہو جاتے ہیں ۔ اور دوسری طرف سے لوٹنا یا سفر میں رہنا اپنی اصل مفارقت یا اس کی یاد کی ایک ایک استعاراتی جہت پیدا کر لیتا ہے۔
(یہ چراغ دست بنا کا ہے مشمولہ معاصر ص 488-489)
سراج منیر کا یہ طویل بیان درج کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ اس سے ہمیں منیر نیازی کی شاعری کی تفہیم کے یے ایک کلید مل جاتی ہے۔ منیر نیازی اپنی بات کا آغاز ایک شہر سے کرتے ہیں۔ یہ شہر جو کبھی خانپور کی یاد دلاتا ہے اور کبھی ساہیوال کی اور لاہور میں ڈھل جاتا ہے۔ اصل میں منیر نیازی کے خوابوں کا شہر ہے۔ لیکن اس شہر میں سب کچھ نہیں۔ تخریب اور شکست ذات اس شہر میں ڈراؤنے مناظر بھی رکھتی ہے۔ آخر سارے خواب بھی تو خوش کن نہیں ہوتے اور کچھ نہ ہو تو چڑیلیں خالی ویران گلیاں اور تندو تیز ہوا۔ اس سارے منظر نامے میں دہشت کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ مثلاً منیر نیازی کے پہلے مجموعے میں شامل یہ غزل ہمیں منیر نیازی کے شعری رویوں سے ہمارا تعارف کرواتی ہے۔
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
پھرتے ہیں مثل موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اب منیر کے آخری شعری مجموعے سے بعض اشعار دیکھیں :
ہزاروں میلوں پہ رہ گئے ہیں وہ شہر سارے
وہ جن کی یادوں کی دل کے اندر جلن ہے اتنی
٭٭٭
منزلیں آساں بہت تنہا سفر کرنے سے ہیں
رنج ہیں جتنے سفر میں ہمدموں کے دم سے ہیں
آپ دیکھیں کہ اپنے اولین شعری مجموعے سے آخری شعری مجموعے تک ہمیں منیر نیازی کی شاعری میں موضوعاتی تسلسل ملتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی شعری تمثالیں بھ اپنا سفر کرتی ہیں۔ یہ جو بقول منیر نیازی عبرت سرائے دہر ہے منیر نیازی اسے بار بار یاد کرتے ہیں کبھی بچھڑے دیار کی شک میں کبھی واپس لوٹنے کی شدید خواہش کے زیر اثر کبھی اپنے شہر میں واپس جا کر اور وہاں سب کچھ بدلا بدلا پا کر۔ ان مختلف کیفیات کی طرف وہ بار بار پلٹتے ہیں اور ہر بار ان موضوعات میں کوئی نہ کوئی نیا رخ پیدا کرتے ہیں۔
جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا
اس پرانے بام پر وہ صورت زیبا نہ تھی
٭٭٭
اپنے گھر کوواپس جاؤ رو روکر سمجھاتا ہے
جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے
٭٭٭
اجنبی شہروں میں رہتے عمر ساری کٹ گئی
گو ذرا فاصلے پر گھر کی ہر راحت بھی تھی
٭٭٭
میں اکیلا اور سفر کی شام رنگوں میں ڈھلی
پھر یہ منظر میری نظروں سے بھی اوجھل ہو گیا
٭٭٭
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
٭٭٭
تھکن سفر کی بدن شل سا کر گئی ہے منیر
برا کیا جو سفر میں قیام کر بیٹھا
٭٭٭
اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی مہتاب میں
٭٭٭
واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں منیر
جو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں رہا
شہر اور اس کے متعلقات کے حوالے سے منیر نیازی کی ایک غزل اپنے اندر بہت سی کیفیات کو سموئے ہوئے ہے اس حوالے سے یہاں درج کرنے کے قابل ہے۔
جفائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
وفائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
بہاریں دیر تک رہتی ہیں کم آباد قریوں میں
خزائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
صدا سننے کی ہو افسوس کی یا آہ بھرنے کی
صدائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
اندھیرا جب گھنا ہو تو چراغ راہ ویراں کی
شعاعیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
منیر آباد شہروں کے مکینوں کی ہوا لے کر
ہوائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
ہجرت، سفر، مسافرت کے یہ استعارے اس وقت ہمیں زیادہ بامعنی نظر آتے ہیں جب ہم انہیں اس بات کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں کہ اس سرے منظر میں ایک لڑکی بھی موجود ہے۔ گئے مسافر کی منتظر یہ لڑکی منیر نیازی کی شاعری کے مرکز میں کھڑی ہے۔ اس حوالے سے شاعر نے بعض بہت عمدہ کیفیات اپنی غزل میں سمو دی ہیں۔
یہ لڑکی جو اس وقت سر بام کھڑی ہے
اڑتا ہوا بادل ہے کہ پھولوں کی لڑی ہے
آیا ہے بام پر تو کچھ ایسا لگا منیر
جیسے فلک پہ رنگ کا بازار کھل گیا
جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا
اس پرانے بام پر وہ صورت زیبا نہ تھی
اس کے ساتھ منیر نیازی نے اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ کبھی کبھی لوٹ کر جانے والے واپس نہیں آتے اور کوئی ان کا منتظر ہی رہ جاتا ہے ہجر مسلسل کی یہ کیفیت منیر کی غزل میں رائیگانی کا شدید احساس پیدا کرتی ہے دکھ ملال، حزن، اور رائیگانی یہ وہ کیفیات ہیں جو منیر کی شاعری میں پوری طرح سرایت کیے ہوئے ہیں۔
تھی وطن میں منتظر جس کی کوئی چشم حسیں
وہ مسافر جانے کس صحرا میں جل کے مر گیا
اب یہ تینوں کیفیات کے ساتھ ایک تیسری صورت بھی جہاں بام والی صورت زیبا بھی ہے اور مسافر بھی صحرا کی نظر نہیں ہوا لیکن گزرتے وقت نے سارے نقوش یوں دھندلا دیے ہیں کہ:
رستے میں ایک بھولی ہوئی شکل دیکھ کر
آواز دی تو لب پہ لوئی نام بھی نہ آیا
یا پھر وصال کی کیفیت کبھی کبھی یوں بھی ظاہر ہوتی ہے :
کچھ اور وہ ہوا نہ ہوا مجھ کو دیکھ کر
یاد بہار حسن سے غم ناک تو ہوا
روکا انا نے کاوش بے سود سے مجھے
اس بت کو اپنا حال سنانے نہیں دیا
منیر نیازی کی شاعری میں آنے والی لڑکی کبھی ہمیں حسن ازل کی تمثیل معلوم ہوتی ہے اور کبھی گوشت پوست کا زندہ وجود ہے۔ اس کی ذات میں تعمیر و تخریب دونوں اکٹھے ہو گئے۔ چڑی اس کا تخریبی رخ ہے منیر نیازی کی شاعری میں عورت چڑیل کا روپ کیوں دھار لیتی ہے اس بات کی توجیہ نفسیاتی نقاد تو جانے کیا کرے لیکن یہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ منیر نیازی حسن میں جمال و جلا ل دونوں دیکھتے ہیں ان کا حسن اپنے اندر صرف لطیف کیفیات ہی نہیں رکھتا اس میں دہشت بھی چھپی ہوئی ہے۔
حسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیر
ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہو گیا
زردی تھی رخ پہ ایسی کہ میں ڈر گیا منیر
کیا عطر تھا کہ صرف قبائے خزاں ہوا
اب دیکھیں کہ وصال کی کیفیت کو منیر نیازی نے کیا انوکھے انداز میں بیان کیا ہے :
جگمگا اٹھا اندھیرے میں مری آہٹ سے وہ
یہ عجب اس بت کا میری آنکھ پہ جوہر کھلا
وقت تخلیق کاروں کو ہمیشہ اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے۔ منیر نیازی بھی وقت سے نکہت حاصل کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ منیر نیازی کے ہاں جیسا کہ بعض نقادوں نے غلط فہمی سے سمجھ لیا ہے وقت صرف ماضی کو یاد کرنے سے عبارت نہیں ہے۔ اس میں جگہ جگہ مستقل بھی جھلک مارتا ہے۔ اس نے ان کے ہاں نوسٹلجیا کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ وقت ان کے ہاں ایک پنڈولم کی طرح ماضی اور مستقبل کے درمیان گردش کرتا ہے اور ظاہر ہے سب سے زیادہ دورانیہ اس گردش حال کو ملتا ہے۔ یہ بات انہیں اپنے دیگر ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔ جو صرف یاد ماضی میں کھوئے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ایک طرف منیر نیازی یاد ماضی سے اپنے دماغ کے روشن ہونے کا تذکرہ کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ مستقبل کو بھی اپنے پیش نظر رکھتے ہیں۔
گزرے دلوں کی لو سے میرا دماغ چمکا
گم گشتہ عشرتوں کہ رہ کا سراغ چمکا
منیر آ رہی ہے گھڑی وصل کی
زمانے گئے ہجر کی رات کے
پھر منیر نیازی زمانے کے طلسم کو بیان کرنے کے لیے ایک خوبصورت شعر تخلیق کرتے ہیں :
مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اسے جب بھی سوچابلا لیا اسے جو بھی چاہا بنا دیا
یا پھر وہ وقت کی تبدیلی کو اپنے اشعار میں یوں بیان کرتے ہیں :
وقت کس تیزی سے گزرا روز مرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
وقت کے اس استعارے کو اگر خواب کے استعارے کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو اس کی معنویت زیادہ واضح ہوتی ہے۔ منیر نیازی نے خواب کے استعارے کو متنوع معنوں میں اپنی غزلوں میں استعمال کیا ہے خواب کو ہمارے عہد کے دوسرے شاعر بھی اپنے کلام میں استعمال کرتے ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ خواب تخلیقی کے بنیادی سوتوں میں ہے۔ منیر نیازی نے اس تخلیقی سوتے سے بھرپور استفادہ کیا ہے اور اپنی شاعری میں خواب سے پیدا ہونے والی نفسیاتی اور جمالیاتی کیفیات کو نہایت خوبی سے برتا ہے۔
سایہ اشجار کہن سال کا جنت تھا مگر
میں بھی کچھ سوچ کے اس خواب ازل سے نکلا
اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی ماہتاب میں
وصل کی شام سیہ اس پرے آبادیاں
خواب دائم ہے یہی میں جن زمانوں میں ہوں
سحر کے وقت یہ کیا میں نے خواب سا دیکھا
سفید ابر ہرے رنگ میں کھرا دیکھا
رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی
اس نگر میں اک خوشی کا خواب ہونا ہے ابھی
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
میراث جہاں اک عہد وفاکسی خواب میں زندہ رہنے کا
اک قصہ تنہا آدم کا جس نے تنہا پن دیکھا ہے
منیر نیازی نے خواب کو اپنی غزل کی ردیف میں بھی استعمال کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے ایک ہی غزل میں خواب کے مختلف تلازمے استعمال کرتے ہوئے بعض احکامات اور کیفیات کو پیش کیا ہے :
ابر بہار شام تمنا بھی خواب ہے
یہ انتظار حسن دل آرا بھی خواب ہے
ہیں خواب قصہ ہائے فراق و وصال سب
میرے اور اس کے غم کا فسانہ بھی خواب ہے
گزرے ہوئے زمان و مکاں جیسے خواب تھے
سحر خیال عشرت فردا بھی خواب ہے
بس ایک خواب نور سحر کے مقام کا
اس خواب تلخ شب کا مداوا بھی خواب ہے
ملتا ہوں روز اس سے اسی شہر میں منیر
پر جانتا ہوں وہ بت زیبا بھی خواب ہے
خواب کے ساتھ ساتھ چاند یا ماہ کا استعارہ بھی منیر نیازی کو اپنی جانب بار بار متوجہ کرتا ہے چاند کا انسانی کیفیات سے گہرا تعلق ہے۔ چاند زمانہ قدیم سے حسن و جمال کا استعارہ رہا ہے اور جدید دور میں سائنسی انکشافات کے باوجود چاند کے استعاراتی معنوں نے اپنی معنویت کو برقرار رکھا ہے منیر نیازی نے بھی چاند سے وابستہ جمالیاتی امکانات کو کھنگالا ہے اور انہیں تخلیقی انداز میں اپنی غزلوں کے اشعار میں پیش کیا ہے۔
چاند پیڑوں سے پرے ہو رک گئی ہی ہوں بارشیں
کاش وہ لمحہ کبھی اس بت کی صحبت میں کٹے
ک شام سی کر رکھنا کاجل کھے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رکھنا
منیر دیکھ شجر چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر شب بہار میں ہوں
چاند نکلا ہے سر قریہ ظلمت دیکھو
ہو گئی ہیں کیسی سیہ خانوں کی رنگت دیکھو
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
چاند کی طرح پانی بھی منیر نیازی کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ عناصر فطرت میں ہوا پانی مٹی اور منیر نیاز ی کے پسندیدہ استعارے ہیں ان سے ایک سطح پر منیر نیازی کی غزلوں میں ٹھوس کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ پڑھنے والے کو بہتا پانی آکھوں کے سامنیاور چلتی ہوا کانوں کے پردوں پر دستک دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پانی اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں تعمیر اور تخریب دونوں پوری قوت سے چھپے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اگر یہ حیات بخش مشروب ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تو دوسری طرف اس میں فنا کر دینے اور مٹا دینے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ شاعر نے اپنی غزلوں میں ان دونوں طرح کی کیفیات کو استعمال کیا ہے۔
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
سورج کی دمک بجلی کی چمک ساون کا ہرا بن دیکھا ہے
رنگین ملائم پتوں کی سر سر سے بھرا بن دیکھا ہے
دیکھا ہے اسے اس گھر میں مگر لگتا ہے منیر ایسا مجھ کو
دریا کے کنارے پر جیسے پانی میں گھرا بن دیکھا ہے
زمیں کے گرد بھی پانی زمیں کی تہہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو
منیر نیازی کے حوالے سے بعض نقادوں نے شکوہ کیا ہے کہ اس نے خارجی سماجی صورت حال کی عکاسی نہیں کی لیکن میرے خیال میں اس اعتراض میں زیادہ صداقت نہیں ہے۔ منیر نیازی نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ سماجی صورت حال کی نہ صرف عکاسی کی ہے بلکہ اس معاشرے میں موجود ناہمواریوں اور ناانصافیوں پر صدائے احتجاج بھی بلند کی ہے اور اس صورت حال کو تبدیل دیکھنے کی آرزو بھی اس کی شاعری میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے۔ فرق صرف انتا ہے کہ منیر نیازی نے اپنی شاعری میں کسی سیاسی فلسفے کے تحت شعر نہیں ڈھالتا کیونکہ Verificationکے عمل کو شاعری نہیں مانتا۔ بلکہ اس کے خیال میں شاعری ایک ایسی صداقت ہے کہ جو کسی بھی سیاسی و انقلابی فلسفے سے بڑی ہے۔ مثلاً منیر نیازی کی درج ذیل غزل سماجی صورت حال کے خلاف واضح احتجاج کی حیثیت رکھتی ہے۔
غزل
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسم قاہری
اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
یا پھر یہ غزل ملاحظہ ہو جو براہ راست پاکستان کی سیاسی و سماجی صورت حال سے کشید ہو۔
غزل
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے دربدر اس نے کیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا ا س نے منیر
شہر پریہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
ظاہر ہے کہ ہمارے حکمران جو کچھ بھی کرتے ہیں لوگوں کی بھلائی کے نام پر ہی تو کرتے ہیں۔ منیر نیازی نے اپنے سماجی و سیاسی حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ان حالات میں تبدیلی لانے کی آرزو کا اظہار بھی کیا ہے لیکن وہ اسے کوئی کارآسان خیال نہیں کرتے۔
بدلنا چاہتا ہوں اس زمیں کو
یہ کار آسماں کیسے کروں میں
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
منیر نیازی اپنے لوگوں کی فطری نیکی اور سچائی پر یقین رکھتے ہیں اور اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ یہ نظام زر ہے جس نے سب خرابی پیدا کر رکھی ہے۔
بستیوں کی زندگی میں بے زری کا ظلم تھا
لوگ اچھے تھے وہاں کے اہل زر اچھے نہ تھے
آگے بڑھنے سے بیشتر معلوم ہوتا ہے کہ منیر نیازی کی ایک غزل کا تذکرہ کر دیا جائے جس میں شاعرانہ معصومانہ انداز میں اپنے اردگرد موجود اشیاء کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے۔ اس غز کے مطالعے سے ہمیں سراج منیر کی اس بات پر یقین آنے لگتا ہے کہ منیر نیازی اپنے اردگرد موجود کائنات کو آدم اول کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
غزل
یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے
یہ دن ہے کیا چیز رات کیا ہے
فراق خورشید و ماہ کیوں ہے
یہ ان کا اور میرا ساتھ کیا ہے
گماں ہے کیا اس صنم کدے پر
خیال مرگ و حیات کیا ہے
فغاں ہے کس کے لیے دلوں میں
خروش دریائے ذات کیا ہے
فلک ہے کیوں قیدمستقل میں
زمیں پہ حرف نجات کیا ہے
ہے کون کس کے لیے پریشاں
پتہ تو دے اصل بات کیا ہے
ہے لمس کیوں رائگاں ہمیشہ
فضا میں خوف ثبات کیا ہے
منیر اس شہر غم زدہ پر
ترا یہ سحر نشاط کیا ہے
منیر نیازی کی یہ غزل پر ات اس وقت تک ادھار رہے گی جب تک ہم منیر نیازی کے مذہبی شعور کا تذکرہ نہ کریں۔ منیر نیازی نے اپنی شاعری میں حمد نعت سلام وغیرہ تو لکھے ہی ہیں لیکن اس نے اپنی غزلوں میں بھی ایسے نعتیہ اشعار تخلیق کیے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی قلبی وابستگی کے عکاس ہیں اور یہ اشعار ایسے ہیں جن پر بڑے سے بڑا نعت گو فخر کر سکتا ہے۔
فروغ اسم محمدؐ ہو بستیوں میں منیر
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمدؐ شاد رکھتا ہے مجھے
بیٹھ جائیں سایہ دامان احمدؐ میں منیر
اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی
منیر شہر محمدؐ میں جا کے دیکھیں ذرا
بلاد کفر میں خود کو بہت گنوا دیکھا
منیر نیازی کی غزل کے حوالے سے بعض باتیں بنیادی ہم کر آئے ہیں ۔ غزل کے شعر کی ایک تعریف یہ بھی کی جاتی ہے کہ وہ بطور اکائی فن کا استعارہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور غزل کا اچھا شعر زبان زد خاص و عام ہو جاتا ہے۔ اگر اس حوالے سے بھی دیکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ منیر نیازی نے بہت سے شعر ایسے لکھے ہیں جو بطور حوالہ مختلف مواقع پر استعمال ہوتے ہیں ۔ اردو غزل کی شاید ہی خوبی ہے جس کی بدولت غزل آج تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ منیر نیازی نے اردو غزل کے ذخیرے میں ایسے اشعار کا خاطر خواہ اضافہ کیا ہے کہ جو قاری کے ذہن پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں اور یہاں میں چند اشعار بطور حوالہ درج کر ریا ہوں۔
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
٭٭٭
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
٭٭٭
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
٭٭٭
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
٭٭٭
جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا
اس پرانے بام پر وہ صورت زیبا نہ تھی
٭٭٭
درد فراق ہی میں کٹی ساری زندگی
گرچہ ترا وصال بڑا کام بھی نہ تھا
رستے میں ایک بھولی ہوئی شکل دیکھ کر
آواز دی تو لب پہ کوئی نام بھی نہ تھا
٭٭٭
پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی
دل میں لیکن اور ہی اک شکل کی حسرت بھی تھی
اجنبی شہروں میں رہتے عمر ساری کٹ گئی
گو ذرا فاصلے پر گھر کی ہر راحت بھی تھی
٭٭٭
شام فراق آئی تو دل ڈوبنے لگا
ہم کو بھی اپنے آپ پہ کتنا غرور تھا
٭٭٭
اب کہاں ہو گا وہ اور ہو گا بھی تو ویسا کہاں
سوچ کر یہ بات جی کچھ اور بوجھل ہو گیا
حسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیر
ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہو گیا
٭٭٭
کوئی ایسی بات ضرور تھی شب وعدہ وہ جو نہ آ سکا
کوئی اپنا وہم تھا درمیاں یا گھٹا نے اس کو ڈرا دیا
مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اسے جب بھی سوچا بلا یال اسے جو بھی چاہا بنا دیا
٭٭٭
تمام عمر رہ رفتگان کو تکتی رہے
کسی نگاہ میں تنا تو دم نہیں ہوتا
وہ بے حسی سے مسلسل شکست دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
٭٭٭
آزردہ سے مکان میں خاک زمین بھی
چیزوں میں شوق نقل مکانی کو دیکھ کر
٭٭٭
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
٭٭٭
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا
٭٭٭
تھکن سفر کی بدن شل سا کر گئی ہے منیر
برا کیا جو سفر میں قیام کر بیٹھا
٭٭٭
اس کو کہا یادیں تھیں کیا اور کس جگہ پر رہ گئیں
تیز ہے دریائے دل اپنی روانی میں بہت
٭٭٭
ہاتھوں کا ربط حرف مخفی سے عجب ہے
ہلتے ہیں ہاتھ راز کی باتوں کے ساتھ ساتھ
٭٭٭
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو
٭٭٭
کیا تھیں وہ باتیں جو کہنا چاہتے تھے وقت مرگ
آخری دم یار اپنے کن خیالوں میں رہے
٭٭٭
عہد انصاف آ رہا ہے منیر
ظلم دائم ہوا نہیں کرتا
٭٭٭
چار جب چیزیں ہیں بحر و بر فلک اور کوہسار
دل دہل جاتا ہے ان خالی جگہوں کے سامنے
عمر کے ساتھ عجیب سا بن جاتا ہے آدمی
حالت دیکھ کے دکھ ہوا آج اس پری جمال کی
٭٭٭
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
٭٭٭
کوئی تو ہے منیر جسے فکر ہے مری
یہ جان کر عجیب سی حیرت ہوئی مجھے
٭٭٭
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
٭٭٭
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
منزل ہے اس مہک کی کہاں کس چمن میں ہے
اس کا پتہ سفر میں ہوا نے نہیں دیا
٭٭٭
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو
٭٭٭
مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں ان سے تھا
میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا
واپس نہ جا وہاں کہ تیرے شہر میں منیر
جو جس جگہ پر تھا وہ وہاں پر نہیں تھا
٭٭٭
ہم ہیں مثال ابر مگر اس ہوا سے ہم
ڈر کے سمٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم ہیں
٭٭٭
سفر شاعری: منیر نیازی کے گیت
منیر نیازی نے اپنی تخلیقی ذات کا زیادہ تر اظہار تو نظم اور غزل کی ہئیتوں میں کیا ہے لیکن انہوں نے گیت کی ہئیت کو اپنے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔ منیر نیازی کے پہلے دونوں مجموعوں میں گیت الگ درجے میں شامل تھے لیکن لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ منیر نیازی نے گیت کے ساتھ اپنی ذہنیت مناسبت کے نہ ہونے کو محسوس کر لیا ہے۔ ہندوستان کے مقامی مزاج کا حصہ ہے۔ گیت میں بنیادی اظہار عورت کی طرف سے ہے جس میں وہ ہجر کی کیفیات اور برہا کی باتیں رقم کرتی ہے۔ گیت کا لہجہ نسائی ہوتا ہے اور مرد محبوب۔ یوں گیت کا مزاج غزل کے برعکس ہے۔ گیت میں ہندی کیفیات کوسمانا اور ہندی طرز احساس کو بیان کرنا زیادہ آسان ہے۔
منیر نیازی نے گیت اگرچہ کم لکھے ہیں لیکن انہوں نے گیت کے مزاج کو سمجھ کر گیت کی صنف میں اظہار کی اہے۔ ان کا ایک گیت ملاحظہ ہو:
گیت
کس کس سے ہم پریت نبھائیں
کون سی مورت من میں بٹھائیں
سانجھ سویرے کس کو ڈھونڈنے
کنج گلیوں میں جائیں
کس سے پریت نبھائیں
نت نئی اک سندر ناری
ہردے بیچ سمائے
جس ناری کو میں چاہوں
وہ دور کھڑی شرمائے
ایسے بھید سمجھ نہ آئیں
لو پھر سانجھ سہانی آئی
دھیان میں لاکھوں باتیں لائی
سونے گھر میں سندریوں نے
نین جوت جلائی
کس رادھا سنگ راس رچائیں
کس گیت کی لفظیات اسمیں بیان کی گئی۔ کیفیات اپنا الگ ذائقہ رکھتی ہیں۔ یہ ہمیں منیر نیازی کے نظم اور غزل سے بالکل جدا ایک دنیا دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ ایک سے زیادہ اصناف اپنے اظہار کے لیے چنتے ہیں تو ا س کے پیچھے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کوئی ایسی بات موجود ہے کہ جو آپ ایک صنف میں نہیں کہہ سکتے۔ ظاہر ہے کہ اگر منیر نیازی نے نظم اور غزل کے بعد گیت کی صنف کو بھی اپنے اظہار خیال کے لیے چنا تو ان کے پاس کہنے کے لیے ایسی باتیں موجود تھیں جو ان کے خیال میں نظم و غزل میں اچھے طریقے سے بیان کرنا مشکل ہیں۔ اب درج ذیل گیت ملاحظہ کریں جس میں لہجے کا رچاؤ اور لفظیات کا انتخاب اپنے وجود کی گواہی دے رہے ہیں۔
گیت
بات تو دیکھو پاگل من کی
چاہ کرے اس کے جوبن کی
جس کا بسیرا سیج گگن کی
باتیں دیکھو پاگل من کی
جب دن کا دیپک بجھ جائے
امڈ گھمڈ کر بادل چھائے
اک ناری شرماتی جائے
آئیں گھڑیاں مدھر ملن کی
سپنے کب سچے ہوتے ہیں
پریمی تو یونہی روتے ہیں
جلتی رہے گی جوت گگن کی
منیر نیازی نے صرف روایتی انداز میں گیت نگاری نہیں کی بلکہ ان کی تخلیقی شخصیت کی چھاپ ہمیں ان کے گیتوں پر بھی دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ گیت کی صنف میں شاعر کی شخصیت کے اظہار کے امکانات کم کم ہیں کیونکہ یہ صنف بنیادی طور پر شخصیت کو چھاپنے اور اپنی بات کو فانی لہجے میں پیش کرنے سے عبارت ہے لیکن زور دار تخلیقی شخصیت ہر جگہ جھلک مارتی ہے۔ منیر نیازی نے بھی اپنے گیتوں میں نئے رنگ اور نئے انداز پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً ان کا یہ گیت ملاحظہ کریں :
گیت
ڈوب گیا اب شام کا سورج آئی کالی رات
اب تو دل میں درد بسے گا نینوں میں برسات
آئی کالی رات
پی درشن کو سج کر نکلی ہر البیلی نار
دور دیس کی رادھا جائے کس موہن کے دوار
کیسے بنے گی بات
ندی کنارے گانے والو سونے دو ار بساؤ
بچھڑ گئے جو میت پرانے رو رو کر انہیں بلاؤ
ہوئی پریت کی مات
ہم دیکھتے ہیں کہ گیتوں میں منیر نیازی رفتہ رفتہ ہندی آہنگ سے دور ہوتے جاتے ہیں اور غزل کا آہنگ لفظیات ان کے گیتوں میں بھی جھل مارنے لگتے ہیں۔ درج ذیل گیت ملاحظہ کریں :
گیت
اے صاحب جمال
اب آ کے دیکھ تیرے لیے کیا ہے میرا حال
اے صاحب جمال
کچھ رحم کر نہ اتنے تغافل سے کام لے
آ اور مسکرا کے مرا ہاتھ تھام لے
تیرے بغیر مجھ کو تو جینا ہوا محال
اے صاحب جمال
دنیا سے دور اس کی بھری محفلوں سے دور
چوکھٹ پہ تیری آ کے گراہوں غموں سے چور
پردہ اٹھا کے سن بھی ذرا اب مرا سوال
اے صاحب جمال
گیت زیادہ تر عشق مجازی کے بیان کے لیے مختص ہوتا ہے لیکن اس گیت سے خیال گزرتا ہے کہ اس میں منیر نیازی عشق مجازی سے زیادہ عشق حقیقی کی کیفیات کو رقم کر رہے ہیں۔ اس گیت کا مخاطب کوئی اور نہیں یا تو رسول کریمؐ ہیں یا پھر اللہ تعالیٰ کی ذات اس حوالے سے ہمیں منیر نیازی کا یہ گیت اردو گیت نگاری میں ایک منفرد مثال کے طور پر نظر آتا ہے۔
جیسا میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ ابتدا میں منیر نیازی نے گیت کے صنف کے روایتی تقاضے نبھائے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ ان کے گیتوں میں بھی ان کا اسلوب اور طرز احساس نمایاں ہوتا چلا گیا ہے۔ ہندی آہنگ سے دور ان کے یہ گیت ان کی نظموں اور غزلوں کی توسیع معلوم ہوتے ہیں۔ زیر نظر گیت میں ہمیں منیر نیازی کی شخصیت جھلک مارتی دکھائی دیتی ہے۔
گیت
کب تک چلتا رہے گا راہی ان انجانی راہوں میں
کب تک شمع جلے گی غم کی ان بے چین نگاہوں میں
وہ بھی بھول گیا ہو گا تجھے دنیا کے جنجالوں میں
کتنا بدل گیا ہے تو بھی آتے جاتے سالوں میں
گا کوئی گیت خوشی کا پاگل کیا رکھا ہے آہوں میں
مل بھی گیا وہ پھر کیا ہو گا؟ لاکھوں ملتے رہتے ہیں
یہ گلزار تو رات کی چپ میں سب نے کھلتے دیکھے ہیں
رات گئی تو خاک اڑتی ہے پیار کی جلوہ گاہوں میں
کب تک…
آگے چل کر منیر نیازی نے بعض گیتوں میں ان کے یہ دونوں انداز ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں اور ان کے ہاں گیت کا ایک نیا انداز ابھرتا ہے جس میں ہندی الفاظ اور لہجے کی آمیزش تو موجود ہے لیکن اپنے پورے دروبست میں یہ گیت غزل کے زیادہ قریب دکھائی دیتے ہیں منیر نیازی کا یہ گیت تو زبان زد خاص و عوام ہوا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے مہدی حسن نے نہایت سلیقے سے گایا۔
گیت
جس نے مرے دل کو درد دیا
اس شک کو میں نے بھلایا نہیں
اک رات کسی برکھا رت کی
کبھی دل سے ہمارے مٹ نہ سکی
بادل میں جو چاہ کا پھول کھلا
وہ دھوپ میں بھی کملایا نہیں
جس نے مرے دل کو درد دیا
اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
کجرے سے سجی پیاسی آنکھیں
ہر دوار سے درشن کو جھانکیں
پر جس کو ڈھونڈتے میں ہارا
اس روپ نے درس دکھایا نہیں
جس نے مرے دل کو درد دیا
اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
ہر راہ پہ سندر نار کھڑی
چاہت کے گیت سناتی رہی
جس کے کارن میں کوئی بنا
وہ گیت کسی نے سنایا نہیں
جس نے مرے دل کو درد دیا
اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
منیر نیازی کے پہلے دو مجموعوں کے بعد ان کے ہاں گیت کی صنف میں خال خال ہی اظہار ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ ان کے مزاج پر غزل کا رنگ چڑھتا گیا اور انہوں نے غزل اور نظم کو ہ اپنے لیے ذریعہ اظہار کے طور پر قبول کر لیا۔ یہاں ان کے مجموعے ساعت سیار سے ایک گیت کیا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہ کہ باوجود گیت لکھنے کے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس میں اپنا پورا زور نہیں دکھا پا رہے۔
گیت
نہیں ہے رت یہ ملنے کی وہ موسم اور ہی ہو گا
ترے آنے کی گھڑیوں کا وہ عالم اور ہی ہو گا
کوئی مدھم مہک آ کر گلے کا ہار بنتی ہے
اداسی ہجر کی جیسے وصال یار بنتی ہے
ترے پھولوں سے ہونٹوں پر تبسم اور ہی ہو گا
جہاں جس میں رفاقت کی خوشی محسوس ہوتی ہے
محبت جس میں ہر شے دائمی محسوس ہوتی ہے
ہمارے حال کے راز داروں کا محرم اور ہی ہو گا
اسی مجموعے میں شامل ایک اور گیت بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ منیر نیازی اپنے گیتوں میں روایتی طرز بیان سے ہٹ کر اور گیت کی لفظیات سے گریز کر کے اردو میں گیت نگاری کے ایک نئے انداز کی طرح ڈھالنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ انداز گیت میں کتنا کامیاب رہتا ہے اور مقبولیت حاصل کرتا ہے ا س کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے آخری گیت نقل کرتا ہوں :ـ
گیت
گیت گانا چاہتا ہوں حسن دل آرام کا
وصل گل کی صبح کا عہد وفا کی شام کا
میں نے جو دیکھے نہیں ان منظروں کے درمیاں
ایک چہرہ ہے مثال نور زیر آسماں
منتظر جس کی ہے ہستی اس رخ گلفام کا
اس کی آنکھوں کی چمک ہونٹوں کی رنگت میں کہیں
سحر ایسا ہے جو دنیا کی کسی شے میں نہیں
ہوش کی حد سے پرے کیفیت بے نام کا
گیت جو لاتا ہے کشت زندگی میں تازگی
جس کو سن کر دور ہوتی ہے اداسی رات کی
جو مداوا ہے جہاں میں سختی ایام کا
منیر نیازی کی گیت نگاری پر مختصر بات کرنے کے بعد ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ منیر نیازی نے شاعری کی جن دو اصناف میں کھل کر اپنے تخلیقی جوہر کا بھرپور اظہار کیا ہے وہ غزل اور نظم کی اصناف ہیں گیت کی صنف میں اظہار ضرور کیا ہے لیکن اس کی حیثیت ثانوی ہے۔ منیر نیازی کے شعری مرتبے کا تعین کرتے ہوئے ہمیں ان کی نظموں اور غزلوں کو اپنے سامنے رکھنا پڑے گا۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ لکھنے والے کے مرتبے کا اصل تعین اس کی وفات سے پچاس سال کے بعد ہوتا ہے لیکن منیر نیازی کے حوالے سے ہم یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے عہد کے چند نمایاں ترین لکھنے والوں میں شامل ہیں انہوں نے اپنے کمال فن کی داد شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھنے والوں سے بھی لی ہے اور انہیں عوام میں بھی مقبولیت حاصل ہے ان کے چنیدہ شعر اردو شاعری کے یہ کڑے انتخاب میں جگہ پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ منیر نیازی کی چند غزلیں اور گیت جو فلموں میں گائے گئے درج ذیل ہیں :
اس بے وفا کا شہر ہے …
نیلے نیلے آسماں پہ باد ل ہیں چمکے …
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں …
ان سے نین ملا کر دیکھو…
زندہ رہیں تو کیا ہے …
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی…
٭٭٭
منیر نیازی کی پنجابی شاعری
منیر نیازی نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کو اپنے لیے ذریعہ اظہار بنایا ہے جس طرح ان کا اردو کلام اپنی ایک مخصوص پہچان اور خوشبو رکھتا ہے۔ اسی طرح منیر نیازی کی پنجابی شاعری ک ابھی اپنا ذائقہ اور کیفیت ہے۔ منیر نیازی کو جدید اردو شاعری کے ساتھ ساتھ جدید پنجابی شاعری کے بھی نمائندہ شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس حوالے سے بھی انہیں اپنے بہت سے معاصرین پر فوقیت حاصل ہے منیر نیازی کے پہلے پنجابی مجموعے کا نام سفردی رات تھا۔ اس کے بعد دوسرامجموعہ چار چپ چیزاں اور تیسرامجموعہ رستہ دسن والے تارے کے نام سے شائع ہوئے۔ 1988ء میں پہلی بار منیر نیازی کا پنجابی کلام کلیات کل کلام ماور ا پبلشرز سے شائع ہوا جس میں یہ تینوں مجموعے اور تازہ کلام شامل تھا۔ اس کتاب کے آخر میں سہیل احمد خاں اور بانو قدسیہ کی تحریریں تھیں۔ جن سے ہمیں منیر نیازی کے پنجابی کلام کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ بانو قدسیہ نے اپنی تحریر پہلا پڑاؤ میں منیر نیازی کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’اصل وچ منیر نیازی دی شاعری ایک رت اے اک سماں اے اک شہر اے تے شہر وچ وسن والی مٹیار تے اوہدا بیلی اے ایہ بیلی شاعر آپ اے جیہڑا رت تے سمے دا شیشہ اپنیاں تانگاں دے سورج اگے پھرت دے دے کے لشکارے ماردا اے۔ اسیں تربک تربک جانے آں ایدھر اودھر ویخنے آں پر سانوں ادھ آسماناں تیکر سرچ لیٹاں جنیاں وی دسدیاں نہیں۔ نہ توپ لبھ دی اے ناں ہوائی جہاز!‘‘
بانوقدسیہ نے اپنے استعاراتی زبان میں منیر نیازی کی شاعری پر بات کی ہے۔ اب ذرا اس رائے کی روشنی میں منیر نیازی کی پنجابی شاعری سے ایک نظم ہونی دے حیلے ملاحظہ کریں :
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی
ایہ گلاں ہن کرن دیاں نئیں
ویلے لنگ گئے توبہ والے
راتاں ہو کے بھرن دیاں نئیں
جو ہویا ایہ ہونا ای سی
تے ہونی روکیاں رکدی نئیں
اک وار جدوں شروع ہو جاوے
گل فیر اینویں مکدی نئیں
کچھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کچھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
(سفر دی رات ص 28)
آپ دیکھیں گے کہ اس نظم میں اس سبب کو پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ جس کے باعث یہ خاص صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ سبب کو پوشیدہ رکھتے ہوئے اثرات کی منظر کشی سے ساری کیفیات ابھاری گئی ہیں۔ یعنی توپ اور جہاز نظر نہیں آتے روشنیاں دکھائی دیتی ہیں۔ منیر نیازی کی پنجابی شاعری میں بھی ہمیں شہر ایک بڑے طاقت ور استعارے کے طور پر ملتا ہے۔ کبھی یہ شہر آباد شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے اور کبھی اجاڑ ویرانے کا روپ دھار لیتا ہے اردو شاعری میں بھی اور پنجابی شاعری میں بھی جدید شہر زندگی کا جیسا خاکہ منیر نیازی کے ہاں ہمیں نظر آتا ہے وہ کسی دوسرے معاصر شاعر کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ دراصل منیر نیازی نے جدید شہرہ زندگی کی جبریت اور اس کے نتیجے میں فرد میں ہونے والی توڑ پھوڑ کو بڑے تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے۔ مثلاً زیر نظر نظم جدید کا نقشہ بڑی خوبصورتی سے کھینچتی ہے۔
اک اجاڑ شہر
سارے لوکی ٹر گئے لے گئی نال قضا
گلیاں ہوکے بھردیاں روندی پھرے ہوا
کندھیاں سنج مسنجیاں کوٹھے وانگ بلا
کوکاں دین حویلیاں ساڈے ول نہ آ
اجڑے پئے مدان وچ بادشاواں دے رتھ
قبراں دے وچ سوں گے مہندیاں والے ہتھ
جدید شہر جو حساس اور تخلیقی انسان کے لیے اجاڑ ویرانے کی شکل اختیار کر گئے ہیں کہ اب ان کا کام زندگی میں اعلیٰ اقدار کی پاسداری یا انسان میں اچھے اوصاف کی پرداخت نہیں بلکہ اب تو یہ انسانی اوصاف کو کچلنے والی مشین ہے اس لیے شہر اور انسان اب ایک دوسرے کے رفیق نہیں ایک دوسرے کے لیے عافیت کی جگہ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور اس مقابلے پر فرد پس رہا ہے۔ ا س کیفیت نے منیر نیازی کی شاعری میں وہ کیفیت پیدا کی ہے جسے بعض حوالوں سے وجودی موضوعات کے ساتھ بھی جوڑا جاتا رہا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ منیر نیازی کی شاعری کو کسی لگے بندھے فارمولے کے ساتھ بیان کرنا ممکن نہیں کیونکہ ان کے ہاں کئی ایک رجحانات کے شیڈ مل جاتے ہیں لیکن یہ سارے جب ان کی تخلیقی ذات سے نکلتے ہیں تو ایک نئے رنگ میں سامنے آتے ہیں۔ سہیل احمد خان نے منیر نیازی کے پہلے پنجابی مجموعے کے حرف آخر میں لکھا تھا۔
’’منیر دی شاعری سے مفہوم بارے رائج الوقت تنقیدی اصطلاحاں مدد نئیں دے سکدیاں۔ حقیقت پسندی داخلیت، خارجیت دے نصابی معیار اوہدے لئی قابل قبول نئیں ۔ منیر د شاعری دی حقیقت دا پھیلاؤ انسانیت دے ماضی حال تے مستقبل تناں تے محیط اے۔ ایسی شاعری دے وچ خوف دیاں جڑاں آدمیت دے اجتماعی تجربے وچ گڑیاں ہویاں نیں۔ پہلی گل تے ایہ وے کہ منیر دی شاعری وچ کائنات دا جلال تے اوہد ا جمال دونوں روپ نظر آوندے نیں ایناں وچوں صرف اک رخ نوں دیکھنا انصاف دی گل نئیں۔ دوسرے منیر نیازی نے اپنے خوف توں لے کے کے گھر بنن تو پہلے بوہت پرانے ویلے انساناں دے خوف تک اک سلسلہ دریافت کیتا اے۔ حال دی زندگی وچ ایہ تجربہ ہندوستان دی تقسیم دے ویلے فسادات دے نال منسلک اے۔ جیدے وچوں منیر نوں خود گزرنا پیا۔ منیر دی حیرانی دا سبب ایہ امر اے کہ چنگے بھلے انسان یکایک چڑیلاں تے بھوتاں وچ کیوں تبدیل ہو گئے۔ آدمی دے اندر ڈراؤنا روپ کنں حالات وچ باہر آندا اے ؟‘‘
(سفر دی رات ص: 74)
منیر نیازی کی شاعری میں عورت ڈر خوف اور وحشت کے حوالے سے بار بار آتی ہے۔ شہری زندگی کی یہ عورت اب اپنے اندر کے بھولپن کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ وہ لڑکی کے مختلف جذبات و کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کے یاں عورت کا روپ ہمارے روایتی تصورات کے بہت قریب کا ہے۔ جیسے منیر نیازی کی نظم تریا چلتر کی مثال دی جا سکتی ہے۔
تریا چلتر
بھید نئیں کھلیا آخر کی اے
ایس کڑی دی چال
کلیاں ورگا رنگ اے جس دا
بدلاں ورگے وال
کی ہووے تے انج ملدی
جیویں گورھے یار
جے کوئی نال سہیلی ہووے
اکھاں نہ کر دی چار
منیر نیازی کی شاعری کی یہ کڑی بہت جلد اپنے امیج سے باہر آ جاتی ہے اور اب وہ وحشی عورت کے روپ میں آپ کے سامنے ہے۔ یہ وحشی عورت جو آپ سے بہت سے مطالبات کرتی ہے اور اب مرد کے مقابلے میں اپنی کمتر حیثیت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے بلکہ مرد کے لیے خطرہ کی گھنٹی بنتی جا رہی ہے منیر نیازی نے اس نسانی کیسفیت کو جو بیسویں صدی کی تہذیبی تبدیلی کی بدولت پیدا ہوتی ہے نظم ملاحظہ ہو:
وحشی عورت
گوڑھے بدل شوکداں واواں
کالے کٹھن پہاڑ
مہندی ورگے لال بغیچے
ہرے تھور دی واڑ
ڈب کھڑبا جسم اوسدا
مکھڑا وانگ بہار
ہتھ دے اشارے نال بلاوے
چیتے ورگی نار
میرے لہو دی بونے اوہنوں
دتا انج کھلار
جیویں دشمن دے ہتھاں وچ
پھڑی ہوئی تلوار
اکھاں سن یا تیر قضا دے
چلن نوں تیار
(سفر دی رات ص: 42)
ڈر اور خوف کا ایہ استعارہ انسانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ منیر نیازی کو شہر کے مکانوں میں بھی اس مظہر کی کارفرمائی ملتی ہے۔
شہر دے مکان
اپنے ای ڈر توں
جڑے ہوئے نیں
اک دوجے نال
اب دیکھیں کہ ڈر اور خوف کی یہ کیفیات اس وقت مزید بھیانک ہو جاتی ہیں جب فرد کو اپنے چاروں طرف ایسے عناصر کی حکمرانی ملتی ہے جن پر اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔
ہوا نال ٹکراں
اپر قہر خدا میرے دا
ہیٹھاں لکھ بلاواں
سب راہواں تے موت کھلوتی
کیہڑے پاسے جاواں
(سفر دی رات، ص: 59)
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ خو ف کی بنیادی وجہ انسان میں موت کی حقیقت ہے۔ یعنی یہ تصور کہ ہم سب نے آخر مر جانا ہے۔ ایک ایسے وجودی ڈر کو راہ دیتا ہے جس کا کوئی مداوا اب تک تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ منیر نیازی نے اس ڈر کو مختلف حوالوں سے بار بار اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے ہم اک بہادر دی موت کو بھی پیش کر سکتے ہیں۔ جس میں منیر نیازی نے مثنوی کی ہیئت کو استعمال کرتے ہوئے ایک کہانی کی شکل میں نظم کو بنا ہے۔ یہاں زندگی پر موت کے سایے بہت گہرے ہیں۔ ساری زندگی کی تگ و دو کے بعد اگر کچھ حاصل ہوتا ہے تو وہ موت ہے۔ نظم کے آخر میں جب سورما اپنے مقصد حیات کو پا کر اور اپنے ساتھیوں کو موت کے حوالے کر کے جانے لگتا ہے تو اس کے سامنے موت ایک خوبصورت لڑکی کے روپ میں آ کھڑی ہوتی ہے اور یہ نظم ایک ایسے منظر پر ختم ہوتی ہے جہاں صرف موت ایک زندہ وجود کے طور پر موجود ہے بلکہ سب فنا ہو چکا ہے۔
منیر نیازی کی دوسری پنجابی کتاب چار چپ چیزاں میں بنیادی موضوع تنہائی اور اکیلے پن کا ہے۔ لگتا ہے کہ شاعر نے وقتی طور پر اپنے ڈر کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ وہ اب کائنات کے مقابل کھڑا ہے اور اس کیفیت میں کوئی بھی اسے اپنا ساتھی دکھائی نہیں دیتا۔ دے بھی نہیں سکتا کہ یہ خاص وجودی کیفیت ہے۔ یا اگر آپ بوجوہ اجازت دیں تو میں کہوں گا کہ تصوف کے حوالے سے یہ وہ مقام ہے جس میں شاہد اور مشہو د دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل آ جاتے ہیں اور مشاہدے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔ منیر نیازی نے اس حوالے سے انبساط کی کیفیات کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے لیکن اس کیفیت میں جو بار بار شاعر کو اپنی جانب کھینچتی ہے وہ تنہائی اور اکیلے پن کا شدید احسا س ہے۔ اس حوالے سے محمد صفدر میر نے بڑے خوبصورت اشارے کیے ہیں :
’’اوہدے جذبات دا مڈھ اوہدا اکلاپا اے۔ جیہڑا اوہنے سکولاں کالجاں وچ نہیں پرھیا…نہ اوہ روایتی غزل دی محبت سے نفرت اے تے نال اج دے وڈے ستراں دے شاعر اں دی دل ہور منہ ہور قسم دی منافقت دی پال ہوئی محبت تے نفرت اے …
اے اکلاپا اج دے وڈے ہر دے شاعر داروندا کر لاندا ہوئیا آپ سیاپا ئیں۔ اک بہادر دی موت والا اکلاپا اے جیہڑا اپنے ساریاں دشمنیاں نوں مار کے تے اپنے ساریاں ساتھیاں نوں مروا کے تے اپنے سینے وچ تیر کھا کے وی اکلاپتھر وانگ کھلوتارہندااے۔
ایہ گل منیر نیازی دی شخصیت دی اصل وی سے تے اوہدی شاعر ی دی تحریک وی اے ایہ اوسدیاں نظماں وچ جاری سارے خوف دا سر چشمہ ہے تو اوہدی تخلیقی قوت پشت پناہ وی اے۔
(کل کلام ص 128)
صفدر میر کی اس رائے کی روشنی میں آپ منیر نیازی کی زیر نظر نظم کا مطالعہ کریں :
کسے دن
یار مرے بھلا کون اے ایتھے بحر زمین پہاڑ
اساں کسے دن سرے مل کے کراں گے ا و یلغار
ساڈے ای ورگا چپ اسمان وی جائے گا ساتھوں ہار
وانگ ورولیاں اڈدا پھرے گا
دیاں گے ایسی واج
لاہ کے رکھ دیاں گے اوس دی
سرداری دا تاج
(کل کلام ص : 103)
یا پھر منیر نیازی کی نظم خالی شہراں اتے بدل ملاحظہ ہو:
شامان ویلے کن من مینہ دی خالی شہراں اندر
دکھ دیندی اے جیہڑا نئیں ملدا نشے دے زہراں اندر
(کل کلام ص: 114)
ڈر اور تنہائی کے احساسات کے پہلو بہ پہلو ہمیں لاحاصل اور رائیگانی کا شدیداحساس بھی منیر نیازی کی شاعری میں اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ کھوئے ہوئے لوگ اور چیزیں بار بار شاعر کا دھیان اپنی طرف لگاتی ہیں۔ زندگی کا پہلا پیار بار بار اس کی یادداشت پر دستک دیتا ہے اور وہ اس پیار کی کھوج میں تمام عمر لا حاصلی کی کیفیات اپنے سنے میں سموئے ہوئے زندگی گزار دیتا ہے۔
عمر دا اصل حصہ
ملدا کیہ اے ایس دنیا وچ
رت اک نویں جوانی دی
ہو کے بھرن دی پیار کرن دی
اکھاں دی نادانی دی
باقی عمر تے بس فیر اینویں
نسدیاں بھجدیاں لنگھدی اے
دور دراز دیاں سوچاں اندر
روندیاں ہسدیاں لنگھدی اے
بھلدے جاندے خواباں دے
عکساں نوں لبھدیاں لنگھدی اے
(کل کلام ص : 97)
منیر نیازی کی تیسری کتاب رستہ دسن والے تارے ہے جس میں شامل تخلیقات منیر نیازی کے بنیاد ی موضوعات اور انداز بیان کو مزید بہتر انداز میں سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب میں شامل نظمیں جیسے پرچھانویں پچھے تصویر اور ہن ہور کی باقی رہ گیا اے اور خدا تو ودھ خدا دی مخلوق دا ڈر قارئین کو اپنے اندر جذب کرنے کی بہت صلاحیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے ایک نظم ملاحظہ ہو:
خدا تو ودھ خدا دی مخلوق دا ڈر
اک گل ہے میرے دل دے اندر جیہڑی باہر ناں آوے
یاد نئیں رکھنا چاہندا اوہنوں پر بھلی ناں جاوے
کافر ناں کتے سمجھن مینوں دل لوکاں توں ڈر دا
ایسے گللوں ڈردا میں کتے دل دی گل نئیں کردا
(کل کلام ص: 145)
اس مجموعے میں شامل ایک دوسری نظم گان والے پنچھی دی ہجرت بڑے خوبصورت انداز میں ہجرت کے تجربے کو بیان کرتی ہے۔ پہلی نظر میں یہ نظم ایک پرندے کی ہجرت کا منظر نامہ ہے لیکن شاعر نے اس میں ایک خاص طرح کی عمومیت بھر دی ہے جس کی بدولت انسان کے ہجرت کے تجربے کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ نظم کچھ یوں ہے :
گان والے پنچھی دی ہجرت
ہری شاخ کنب رہی اے
تھوڑی دیر پہلے ایتھے عجب رنگ دا پنچھی بیٹھیا گا رہیا سی
کسے نے اوہنوں ڈرا دتا تواو اڈ گیا
ہر ی شاخ اس دے اڈن دے بھار نال کنبی سی
کجھ دیر انج ای کنب دی رہے گی
منیر نیازی نے اپنی شاعری میں بعض ایسی کیفیات کو بھی بیان کیا ہے جن کا سراغ ہیں ان کے معاصرین سے کم کم ملتا ہے۔ اس سے منیر نیازی کی پنجابی نظم خاکی آدم دا آخر عمراندا خواب انسان کے خوابوں اور آدرشوں کو نہایت سلیقے سے بیان کیا ہے۔ اس نظم کے حوالے سے یہ بات طے معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیا میں انسان کا اصل حاصل اس کی تنہائی ہے۔ یوں ساری زندگی کے سفر کا انجام ایک ایسی کیفیت پر ہوتا ہے جو اپنے اندر حزن و ملال لیے ہوئے ہے۔ تاسف کی آمیزش نے اس نظم میں عجیب کیفیت پیدا کر دی ہے۔
خاکی آدم دا آخری عمر اں دا خواب
خواب تو ڈر کے جاگ پواں جے شجراں دی تنہائی وچ
اوہ ہوے ایناں فلکاں اوہلے مست اپنی یکتائی وچ
اک پاسے میں نظر کراں تے ویکھاں رنگ گماناں دے
کھٹیاں ہو کے چڑھیاں شاماں اپر خشک مداناں دے
اک پاسے خالی نگراں دے دراں تے بت در باناں دے
جے کوئی اوتھے ساتھ ناں لبھے فکراں دی گرمائی وچ
سب طرفاں جے ڈبیاں دسن انتاں دی گہرائی وچ
فیر کراں کیہ بیٹھ کے کلا شجراں دی تنہائی وچ
(کل کلام ص: 170)
پنجابی میں منیر نیازی نے نظموں کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی تخلیق کی ہیں لیکن ان کی تعداد نظموں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ منیر نیاز ی کی غزلوں میں موضوعات کم و بیش وہی ہیں جن کا بیان نظموں میں ہوتا رہا ہے لیکن جب شاعر ان موضوعات کو غزل کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو صنف غزل کا مزاج ان موضوعات میں ایک نیا پن پید ا کر دیتا ہے۔ پنجابی شاعری کے حوالے سے غزل ایک نئی صنف ہے پنجابی غزل کا چلن بیسویں صدی میں ہوا ہے اگرچہ اس کے نمونے پرانی شاعری میں بھی مل جاتے ہیں۔ منیر نیازی نے اپنی غزل میں منفی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے پنجابی شاعری کے بنیادی لچھن کو اس میں سمو دیا ہے۔ اس حوالے سے منیر نیازی کی ایک غزل کو نقل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ جس سے آ پ کو یہ بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ منیر نیازی کی پنجابی غزل اپنے ساتھ منیر نیازی کا لہجہ اس کی تاثیر لے کر آئی ہے۔
غزل
بدل اڈے تے گم اسمان دسیا
پانی اترے تے اپنا مکان دسیا
اوتھوں اگے فراق دیاں منزلاں سن
جتھے پہنچ کے اوہدا نشان دسیا
اوہدے سامنے ایہ جگ ویران لگا
اوہناں اکھاں وچ ایسا جہان دسیا
ساڈے حال دی خبر اوھ رکھ دا سی
ساری عمر جیہڑا انجان دسیا
کم اوہو منیر سی مشکلاں دا
جیہڑا شروع چ بہتا آسان دسیا
(کل کلام ص: 144)
منیر نیازی کی پنجابی شاعری کے حوالے سے اتنا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عہد حاضر میں اس کی شاعری نے اپنی پہچان بنائی ہے۔ یہ اپنے رنگ اور ذائقے سے دیگر شعراء کی شاعری سے ممتاز ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی رہے گی۔
٭٭٭
تصانیف
تیز ہوا اور تنہا پھول
یہ منیر نیازی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جسے 1959ء میں کاروان پبلشر ز نے شائع کیا۔ اس مجموعے کو 1991ء میں الحمد پبلشرز نے دوبارہ شائع کیا۔ اس مجموعے کا انتساب منیر نیازی نے خدا کے نام کیا ہے اس مجموعے کا تعارف اشفاق احمد نے سر کہسار کے عنوان سے کہا ہے۔ اس مجموعے میں 60نظمیں 10غزلیں 8گیت 2قطعات شامل ہیں۔
جنگل میں دھنک
یہ منیر نیازی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس کا انتساب قدرت اللہ شہاب کے نام ہے۔ اس مجموعے کا تعارف مجید امجد نے لکھا ہے۔ یہ مجموعہ پہلی دفعہ 1963ء میں شائع ہوا۔ نیا ادارہ نے اسے شائع کیا۔ اس کے بعد 1993ء میں ماورا پبلشرز نے اس مجموعے کا اکونومی ایڈیشن کے طور پر شائع کیا۔ اس مجموعے میں 69نظمیں 21غزلیں 10گیت شامل ہیں۔
دشمنوں کے درمیان شام
یہ شعری مجموعہ مئی 1968ء میں کتابیات 5ٹیمپل روڈ لاہور سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کا انتساب حضرت امام حسینؓ کے نام ہے۔ اس مجموعے کا تعارف محمد سلیم الرحمن اور انتظار حسین نے لکھا ہے۔ اس مجموعے میں 36نظمیں اور 20غزلیں شامل ہیں اس مجموعے میں اس دور کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے اور بہت سی خوبصورت غزلیں اور نظمیں اس مجموعے میں شامل ہیں۔
ماہ منیر
منیر نیازی کا یہ شعری مجموعہ نومبر 1974میں مکتبہ منیر سول پارک لاہور سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کا انتساب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہے۔ اس مجموعے کا تعارف سہیل احمد خاں نے کھلے منظروں کی دنیا کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس مجموعے میں 30نظمیں 39غزلیں شامل ہیں۔
چھے رنگیں دروازے
یہ شعری مجموعہ مکتبہ منیر ماڈل ٹاؤن لاہور سے پہلی دفعہ 1979ء میں شائع ہوا اس کے بعد 1980ء میں مکتبہ منیر ہی سے ماہ منیر اور چھے رنگین دروازے دونوں شعری مجموعوں کو اکٹھا شائع کیا گیا۔ اس مجموعے کا تعارف احمد ندیم قاسمی نے منیر کی منور شاعری کے عنوان کے تحت لکھاہے۔ اس شعری مجموعے میں 37نظمیں اور 23غزلیں شامل ہیں۔ مجموعے کا آغاز ایک خوبصورت حمد سے ہوا ہے جو ان کی پنجابی حمد کا اردو ترجمہ ہے اس کے بعد ایک نظم رسول کریم ؐ کی یاد میں شامل ہے۔
آغاز مستاں میں دوبارہ
یہ مجموعہ مکتبہ منیر سے 1981/82ء میں شائع ہوا۔ اس شعری مجموعے کا انتساب منیر نیازی نے اپنے والد مرحوم فتح محمد خان نیازی کے نام کیا ہے۔ اس مجموعے میں 26نظمیں اور 14غزلیں شامل ہیں کچھ نظمیں ان کی پنجابی نظموں کا اردو ترجمہ ہیں۔
ساعت سیار
منیر نیازی کا یہ شعر ی مجموعہ مکتبہ منیر ٹاؤن شپ سے پہلی دفعہ 1983ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کا انتساب منیر نیازی کی والدہ بی بی رشیدہ بیگم کے نام ہے اور اس کا تعارف فیض احمد فیض نے لکھا ہے۔ اس مجموعے میں 33نظمیں 15غزلیں اور 2گیت شامل ہیں۔ نظموں میں سے 10نظمیں ان کی اپنی ہی پنجابی نظموں کا ترجمہ ہیں۔ مجموعہ کی ابتدا سلام سے ہوتی ہے جس میں حضرت امام حسین ؓ کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے موجودہ رہائشی علاقے ٹاؤن شپ پر بھی ایک نظم لکھ جو اس مجموعے میں شامل ہے۔ اس نظم کا عنوان لاہور ٹاؤن شپ پر نظم ہے اس کے علاوہ اور بہت سی خوبصورت نظمیں اس مجموعے میں شامل ہیں جن میں سے ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں، خواب میری پناہ ہیں، اور نئی تعمیر میں ایک جدائی کی کیفیت قابل ذکر ہیں۔
پہلی بات ہی آخری تھی
یہ شعری مجموعہ پہلی دفعہ 1986ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کا انتساب منیر نیازی نے اپنی پہلی بیگم مرحومہ صغریٰ خانم کے نام ہے۔ اس مجموعے میں 30نظمیں اور 18غزلیں شامل ہیں۔ اس مجموعے کی ابتدا دو حمدیہ مصرعوں سے ہوتی ہے جس کے بعد ایک نعتیہ نظم ہے۔ اس مجموعے میں انہوں نے اپنی مرحومہ بیگم کے لیے بھی ایک نظم لکھی ہے۔ جس کا عنوان ہے میں اور صغریٰ۔ اس کے علاوہ درخت بارش میں بھیگتے ہیں، محبت اب نہیں ہو گی، جیسی خوبصورت نظمیں بھی شامل ہیں۔
ایک دعا جو میں بھول گیا تھا
یہ شعری مجموعہ مارچ 1991میں الحمد پبلشرز نے شائع کیا۔ اس مجموعے کا انتساب منیر نیازی کی دوسری بیگم ناہید منیر نیازی کے نام ہے۔ اس مجموعے میں 10غزلیں اور 40نظمیں شامل ہیں۔ مجموعے کا آغاز جس نظم سے ہوا ہے اس کا عنوان وہی ہے جو مجموعے کا عنوان ہے۔
سفید دن کی ہوا
یہ شعری مجموعہ جولائی 1994 میں عمیر پبلشرز نے شائع کیا۔ اس مجموعے کا انتساب منیر نیازی نے آنے والے خوبصورت کل کے نام سے کیا ہے۔ اس کا تعارف فاطمہ حسن نے سفید دن کی ہوا کے عنوان سے لکھا ہے اس مجموعے میں 9غزلیں اور 12نظمیں شامل ہیں جن میں سے 5نظمیں 1غزل اور کچھ اشعار منیر نیازی کی کلیات کے آخر میں تازہ کلام کے طور پر شامل ہیں جو انہوں نے خود شائع کروائی تھی۔
سیاہ شب کا سمندر اور سفید دن کی ہوا
یہ مجموعہ سفید دن کی ہوا کے ساتھ شائع ہوا۔ اس میں کل 22نظمیں پانچ غزلیں اور چند متفرق اشعار اور مصرعے شامل ہیں۔
ایک مسلسل
منیر نیازی کا بارھواں شعری مجموعہ 2004میں ملٹی میڈیا افئیر ز لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں شامل نظمیں غزلیں اور اشعار گزشتہ چند سالوں کے درمیان تخلیق کیے گئے۔ یہ کتاب منیر نیازی کی شاعری میں اچھا اضافہ ہے۔
کلیات منیر
کلیات منیر پہلی دفعہ 1987ء میں شائع ہوئی جس کی مرتبہ بیگم ناہید منیر نیازی ہیں یہ کلیات پاکستان رائنگز کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ ان کلیات کی پروف ریڈنگ خود منیر نیازی نے کی ہے اس میں ماہ منیر تک کا کلام شامل ہے۔
دوسری بار کلیات 1991میں شائع ہوئی اس میں ان کے مجموعے ایک دعا جو میں بھول گیا تھا۔ تک کا کلام شامل ہے اور آخر میں کچھ تازہ کلام بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ماور ا پبلشرز نے بھی کلیات منیر شائع کی ہے۔ جس کا آخری ایڈیشن 1993ء میں شائع ہوا۔ اس کلیات میں تازہ کلام شامل ہے۔
ماور ا پبلشرز کے بعد الحمد نے بھی کلیات منیر کے ایڈیشن شائع کیے اس کا تازہ ایڈیشن جس میں سفید دن کی ہوا سیاہ شب کا سمندر تک کا کلام شامل ہے۔ خزینہ علم و ادب لاہور نے 2002 میں شائع کیا۔
اس بے وفا کا شہر
اس عنوان سے منیر نیازی کی غزلوں کا انتخاب دو بار شائع ہو چکا ہے۔ پہلی دفعہ 1976ء میں علی برادرز لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ دوسری مرتبہ اسی انتخاب کو فروری 1991 ء میں ماور ا پبلشرز نے شائع کیا۔
غزلیات منیر نیازی
منیر نیازی کی غزلوں کا ایک اور انتخاب اس عنوان کے تحت 1993ء میں جہانگیر بک ڈپو اور پھر گورا پبلشرز لاہورسے شائع ہوا۔
محبت اب نہیں ہو گی
یہ منیر نیازی کی لکھی گئی نظموں کا انتخاب ہے جو جنوری 1991ء میں الحمد پبلشرز نے شائع کرایا ہے اور بعد میں منیر نیازی کی نظمیں گورا پبلشرز لاہور نے شائع ہوا۔
پنجابی شاعری
اردو شاعری کے علاوہ ان کی پنجابی شاعری کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ سفردی رات
۲۔ رستہ دسن والے تارے
۳۔ چار چپ چیزاں
۴۔ کل کلام(پنجابی کلیات کچھ تازہ کلام کے ساتھ۔ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں )۔
نثر نگاری
شاعری کے علاوہ منیر نیازی نے نثر بھی لکھی ہے۔ جن میں مختلف چیزیں شامل ہیں مثلاً ڈرامہ سفر نامہ، تراجم اور کالم وغیرہ۔ ان کی نثر کی تفصیل درج ذیل ہے۔
الف: پنجابی ڈرامہ
۱۔ قصہ دوبھراواں دا
۲۔ قصہ کلے آدمی دے سفر دا
ب: اردو ڈرامہ
(پنجابی ڈراموں کا ترجمہ)
۱۔ قصہ دو بھائیوں کا
۲۔ ایک اکیلے آدمی کا سفر
ج: سفر نامہ
منیر نیازی نے مختلف ممالک کے متعدد سفر مشاعروں کے سلسلے میں کیے۔ جن میں سے کچھ ممالک سے واپسی پر انہوں نے اپنے سفر کا حال مختصر سفر ناموں کی صورت میں لکھا ہے۔ جن کے عنوانات درج ذیل ہیں۔ یہ سفر نامے زیر طبع ہیں۔
۱۔ نیاگرا سے واپسی
۲۔ سفر نامہ
۳۔ ناروے کی سیر
۴۔ سفر نامہ چین
د: کالم نگاری
’’آواز جہاں ‘‘ کے نام سے شائع ہونے والے ایک پرچے میں 1992ء میں منیر نیازی کے چھ کالم شائع ہوئے۔ یہ پرچہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔ ان کالموں کا مستقل عنوان شہر نما تھا اور ذیلی عنوانات درج ذیل تھے :
۱۔ لوگوں نے مجھے ہائی جیکر سمجھ لیا۔
۲۔ پاکستانی شاعر نیویارک میں۔
۳۔ عیش کے شب و روز میں ایک نقص ہے کہ ختم ہو جاتے ہیں۔
۴۔ اس شہر کے طلسمات پہلی محبت کی طرح یاد ہیں۔
۵۔ سفر نامہ اور دوسری باتیں۔
۶۔ جب ایک ادارہ نہیں رہتا۔
٭٭٭
ناقدین کی آراء
محمد سلیم الرحمن
ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک مہیب جھٹپٹے کی دھند خاموشی اور اجاڑ پن میں گھرے ہوئے اپنا راستہ پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں پتا نہیں کہ مشرق کدھر ہے اور مغرب کدھر اور یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جھٹپٹا صبح کا ہے یا کہ شام کا تھوڑی دیر بعد نیا دن ہمارے لیے نئے عزائم اور صعوبتیں لے کر آتا ہے۔ یہ رات کسی عذاب کی طرح ہم پر نازل ہو گی…سیاہ رات جس میں ہم راستوں کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کی سرحدوں کو بھی بھول جائیں گے۔ کون جانے؟ـ
تذبذب کی اس فضا میں ہر منزل گرد و پیش کا سارا منظر غرضیکہ زمین اور آسمان نادیدہ اور معلوم خطروں سے بھرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے آدمیوں کی دھند میں مٹی مٹی شکلیں اتنی پراسرار اور غیر حقیقی ہیں کہ ان سے خوف آتا ہے اور دشمنی کی بو۔
آج کل ہر آدمی دوسرے کو ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ ایک عجیب سی بات ہے۔ لیکن آدمی جتنا زیادہ ذہنی اور مثالیت پسند ہو گا اتنا ہی زیادہ دوسرے کی جسمانی موجودگی کو ایک خطرہ سمجھے گا جو گویا اس کی جان کے درپے ہے۔
بات یہ کسی گیانی نے کہی ہے نام اس کا لینے سے کیا حاصل! یہ بس ضدی کی کڑوی سچائی ہے اور یہی بچھڑے ہوئے تمدن کی سرد مہر خونی شام ہے۔
یہ جھٹپٹا شام ہی کا ہو گا۔ جب آنکھ رکھنے والا ایک شاعر یہ کہتا ہے اور فضا میں پھیلی ہوئی دشمنی کی بو اور تنہائی کی سائیں سائیں کو اپنی نظموں کو اپنی نظمو ں کے ذریعے مستقل وجود بخشتا جاتا ہے تواسے جھٹلانا مشکل ہے۔ بے شک ہم پٹے ہوئے مہرے ہیں شام کو دم گھونٹنے والے چائے خانوں کی میزوں پر بیٹھے ہوئے دوست نما دشمن بسوں میں ایک دوسرے کی جگہ چھیننے پر تلے ہوئے مسافر دفتر سے لوٹ کر بیوی بچوں پر برسنے والے محرر غلک سے چمٹے ہوئے حریص، توندل بیوپاری اور شام کی لال کرنوں یا شام کے فوراً بعد نیلی پیلی روشنیوں میں لتھڑے ہوئے بے کیف چہرے بابل اور نینوا کی شام غداری اور دشمنی کی شام!
لیکن ہمارے دلوں کو ڈھارس دینے اور خود اپنے ذہن کو اجالنے کی خاطر تضاد کو نمایاں کر نے کے لیے منیر ہمیں اس صبح کی جھلکیاں بھی دکھاتا ہے جو ہمارا بچپن تھی۔ جب رنگ زندہ ہوتا ہے تو ہوا تازہ اور آنکھیں روشن تھیں اور ا س خوبصورتی اور صداقت کی جھلکیاں بھی جو بڑھتی ہوئی کمینگی اور بے حسی کے باوجود اب کہیں کہیں دلوں میں چہروں پر باتوں میں اور فطرت کے مظاہر میں باقی ہیں۔
میرا یقین ہے کہ جہاں جہاں بھی انسان کے قدم پہنچے ہیں وہ اپنی خوشبو اور آہٹ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے یہ وہ ورثہ ہے کہ جو فطرت کو انسان سے ملا ہے ایک اداس کرنے والی خوشبو جو کھنڈروں پرانی جگہوں بے چراغ موضعوں اور بھلائی ہوئی گزر گاہوں سے پھوٹتی رہتی ہے دل کی دھڑکن تیز کرنے والی آہٹ جو اجاڑ بیابان میں آدمی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے پراکساتی ہے۔ اس خوشبو اور آہٹ میں عبرتوں اور ہجرتوں کا افسانہ ہے اسی لیے اداسی ہے۔ اور منیر ان کا کھوجی ہے ان کے سراغ میں چلتا ہوا اور وہ جھٹپٹے سے آگے نکل گیا ہے۔ وہ ماضی کی راہ سے مستقبل کو پہنچا ہے۔ اور ہوا اس کی راہ نما ہے۔ کیونکہ ہوا ہی خوشبوؤں اور سروں کو پھیلاتی اور مٹاتی ہے۔ اور ہوا میں نوحے اور زخم خوردگی کی ایسی کیفیت ہے جو تمام انسانی دکھوں سے ماور ا معلوم ہوتی ہے۔ اور وہ ہوا جو اندھیری شام کو چلے اور جو آدھی رات کو خوشبو کے ہار پرو کر کسی راز کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے ان سے زیادہ دل دکھانے والا کون ہے ؟
منیر نیازی کی شاعری کے تین بڑے سمبل ہیں ہوا شام اور موت!
دشمن آدمی کے اندر بھی ہوتے ہیں باہر بھی۔ شام دل میں بھی ہوتی ہے اور آسمان پر بھی۔ اندھیرا جھک آنے پر روشنی کی موت کا یہ سوگ ہو یہ شاعر کے سوا اور کون منا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عالم بالا میں ایک بہت بڑ ا پھیلاؤ والا گھنا درخت ہے۔ جس پر ہمیشہ ایک ہی وقت میں خزاں اور بہار چھائی رہتی ہے۔ جب تیز ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو کچھ پیلی مرجھائی پتیاں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں اور اسی طرح نیچے دنیا میں جہاں فنا کو قیام ہے فانی انسان مرتے رہتے ہیں۔ یوں مجھے تو ہوا کی آواز میں بھی موت کی ندا سنائی دیتی ہے۔ جو عالم بالا میں پکار پکار کر ہمارے ناموں سے پتے گراتی رہتی ہے۔ ٹوٹا پتا ڈال سے لے گئی پون اڑا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام جدائیوں محبتوں اور شکستوں میں ہوا کا ہاتھ ہے ہوا کا سدا بول بالا ہے۔
منیر مسافر بھی تو ہے شام کا مسافر۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہے ہو گا۔ منیر کے ہاں تو سفر وسیلہ خبر ہے …نا معلوم کی خبر۔ دراصل یہ سفر ہے ہی ایسی چیز ایک دفعہ آدمی چل کھڑا ہوا تو پھر لوٹتا نہیں۔ تم ان سیمنٹ کے خوابوں سے بڑے بڑے جھڑوس شہروں سے باہر نکلو تاکہ خود کو پا سکو۔ خواہشات اور علائق کے دشت بلا کو جس نے پا رکر لیا سمجھو نروان پا لیا۔ صبح ہو یا شام منیر کے ہاں سفر کا ذکر چھڑا رہتا ہے اور مصرعے پرندوں کی طرح پر تولتے رہتے ہیں۔ منیر شمالی یورپ کے دیوتا (ODIN)کی طرح ہے جس کے ساتھ ہمیشہ دو کوے اڑتے رہتے ہیں اور کوا تمیں پتا ہے کہ مستقبل کی خبر دیتا ہے کہ کون یا کیا آنے والا ہے۔ کیا آنے والا ہے ؟ اس کی خبر یا جھلک تو منیر کی نظموں میں ہی مل سکتی ہے۔ میں تو یہ بتا سکتا ہوں کہ جانے والا کون ہے۔
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
ریل کی سیٹی سے بڑا اب سفر کا سمبل کیا ہو گا؟ رخت سفر باندھ لو… میں چلا۔
انتظار حسین
دراصل میں اور منیر نیازی جنت میں ایک ہی وقت میں نکالے گئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو اسی حیثیت سے پہچانا ہے۔ چلتے پھرتے کسی موٹر پر ہماری مڈھ بھیڑ ہوتی ہے۔ منیر نیازی سنانے لگتا ہے کہ اس کی بستی کے آدمیوں کے کیسے گھنے پیڑ تھے۔ میں بیان کرنے لگتا ہوں کہ اپن بستی میں شام کیسے پڑتی ہے۔ اور مور کس رنگ سے بولتا تھا منیر نے ہمیشہ اسی طرح سنایا اور سنا جیسے کہ وہ یہ داستان پہلی مرتبہ سن رہا ہے اور پہلی مرتبہ سن رہا ہے۔ ایک ملال کے ساتھ سناتا ہے اور ایک حیرت کے ساتھ سنتا ہے۔ ہم اپنی گمشدہ جنت اپنے دھیان میں بسائے پھرتے ہیں۔ اوروں کے تصور میں بھی اسے تو بسا تو رہنا چاہیے تھا۔ مگر لگتا یوں ہے کہ سب نے کسی نہ کسی رنگ سے اس کی تلافی کر لی ہے۔ یا ضعف حافظہ نے ان کی مدد کی ہے مگر ہمارا حافظہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔ حافظے نے بی بی حوا کو بھی بہت ستایا تھا۔ جنت سے نکلنے کے بعد انہیں جنت کی ایک عمر تک یاد آتی رہی۔ انہوں نے جنت کو بہت یاد کیا اور بہت روئیں۔ جنت کی یاد بہنے والے آنسو جو زمین پر گرے ان سے مہندی کے پیڑ اگے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ روئے ارض پر جتنے مہندی کے پیڑ ہیں وہ سب بی بی حوا کے آنسوؤں کا فیض ہیں۔
مجھے مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر اچھے لگتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان میں تھوڑی میری آنکھوں کی نمی بھی شامل ہے۔ جب منیر اپنے خانپور کو پکارتا ہے تو میرا بھی ایک بستی پکارنے کو جی چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے باغوں اور جنگل کا ذکر کرتا ہے تو میں اسے اسی عالم میں چھوڑ کر اپنے جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں۔ ہماری بستی کا جنگل کچھ بہت گھنا نہیں تھا مگر میری یادوں نے اسے گھنا بنا دیا ہے۔ جب میں منیر نیازی کے شعر پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ جنگل اور زیادہ گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے۔ سوا پنا جنگل بہت گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے سو اب اپنا جنگل بہت گھنا اور بہت پھیلا ہوا ہے لیکن بات یہاں آ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ لگتا ہے کہ اس سے آگے بھی کوئی جنگل ہے۔ اپنے جنگل میں چلتے چلتے میں اچانک کسی اور ہی جنگل میں جا نکلتا ہوں زیادہ بڑے اور زیادہ پرہول جنگل میں۔ مجھے ڈر لگنے لگتا ہے جیسے کہ میں عہد قدیم میں سانس لے رہا ہوں۔ شاید عہد قدیم بھی ہمارے بچپن کے منطقے کے آس پاس ہی واقع ہے یا منیر نیازی نے اپنے شعروں سے کوئی عجب سی پگڈنڈی بنا دی ہے کہ وہ خانپور سے چل کر میری بستی کو چھوتی ہوئی عہد قدیم میں جا نکلتی ہے۔ تو اب صورت یہ ہے کہ میں منیر کے شعر پڑھتے ہوئے اپنے بچپن کے راستے عہد قدیم میں جا نکلتا ہوں۔ بچپن کے اندیشے اور وسوسے عہد قدیم کے آدمی کے وسوسوں اور اندیشوں سے جا ملتے ہیں۔
جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیر
مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو
مگر مجھے لگتا ہے کہ منیر نے خود مڑ کر دیکھ لیا ہے۔
وسوسے اور اندیشے عہد قدیم سے آج تک آتے آتے آدمی کے اندر اتر گئے ہیں۔ اب باہر سے ہم ہمت والے ہیں اندر سے خوف زدہ ہیں۔ پہلے ہم مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اب اندر دیکھنے سے ڈرتے ہیں کیا اندر بھی کوئی جنگل ہے۔ جنگل اصل میں ہمارے پہلے باہر تھا اب ہمارے اندر ہے۔ ہم تو جنگل سے نکل آئے اور بڑے بڑے شہر تعمیر کر کے اپنے چاروں طرف فصیلیں کھڑی کر لیں مگر جنگل ہماری بے خبری میں ہمارے اندر اتر گیا اور سات پردوں میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ اب وہ ہمارے اندر سو رہا ہے۔ منیر نیازی وہ شخص ہے جس کے اندر جنگل جاگ اٹھا ہے اور سنسنا رہا ہے۔ اس نے مڑ کر جو دیکھ لیا ہے اس کی شاعری کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم جنگل میں چل رہے ہیں اور پاتال میں اتر رہے ہیں عجب عجب تصویریں ابھرتی ہیں۔
دبی ہوئی ہے زیر زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے ہوئے تہ خانے میں
٭٭٭
کرے گا تو بیمار مجھے یا
بنے گا نامعلوم کا ڈر
رہے گا دائم گہری تہہ میں
جیسے اندھیرے میں کوئی در
پھر میرے تصور میں عجب عجب تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ میں اپنے پاتال میں اترنے لگتا ہوں۔ اگلی پچھلی کہانیاں اور بھولے بسرے قصے یاد آنے لگتے ہیں چمکتی دمکتی اشرفیوں سے بھری زمین دوز دیگیں راجہ باسٹھ راجہ باسٹھ کے محل کے سنہری برج جو زمین کے اندھیرے میں جگمگ جگمگ کرتے ہیں میری نانی اماں بہت سنایا کرتی تھیں۔ کہ زمیں میں دبی یہ دیگیں کس طرح اندر ہی اندر سفر کرتی ہیں اور پکارتی ہیں اور جب کسی کو یہ پکار سنائی دے جاتی ہے تو اس پر کیا بیتتی ہے۔ ان کی باتیں اسی پکار کو سننے کی خواہش کی غمازی بھی کرتی ہیں مگر وہ ڈرتی بھی رہتی ہیں کہ کہیں سچ مچ کسی سنسان اندھیری رات میں یہ پکار انہیں سنائی نہ دے جائے۔ سانپ ان دیگوں کی رکھوالی کرتا ہے۔ میری نانی اماں یہ بتاتی تھیں کہ سانپوں کا ایک راجہ ہے۔ اسے وہ راجہ باسٹھ کہتی تھیں۔ ہندو دیو مالا کے تذکروں میں ا س کا نام راجہ بسو کا لکھا ہے اس کا محل سونے کا بنا ہوا ہے اور پاتال کے اندھیرے میں جگمگاتا ہے۔ میری نانی اماں سانپ کا نام شاذونادر ہی لیتی تھیں۔ اشاروں کنایوں سے ا س کا ذکر کرتی تھیں۔ منیر نیازی بھی اس کا نام لینے سے ڈرتا ہے مگر اس کا ذکر بہت کرتا ہے۔ اتنا خوف اور اتنی کشش آخر کیوں ؟
نامعلوم کا خوف اور نامعلوم کے لیے کشش اس خوف اور کشش کی صورت میں منیر نیازی کی شاعری میں کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے آدم و حوا ابھی ابھی جنت سے نکل کر زمیں پر آئے ہیں۔ زمین ڈرا بھی رہی ہے اور اپنی طرف کھینچ بھی رہی ہے۔ پاتال بھی ایک بھید ہے اور وست بھی ایک بھید ہے۔ بھید بھری فضا کبھی اس حوالے سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی اس حوالے سے اور شعر کے ساتھ دیومالائی قصے اور پرانی کہانیاں لپٹی چلی آتی ہیں۔
سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ پھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
نہ جا کہ اس سے پرے دشت مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستا ہ نہ ہو
منیر نیازی کے لیے زمین اپنے پاتال اور اپنے پھیلاؤ کے ساتھ دہشت و حیرت سے بھرا ایک تجربہ ہے۔ مگر پھر وہی سوال کہ آخر کیوں ؟ کیا اس کا تعلق بھی جنت سے نکلنے سے ہے ؟ کیا یہ ہجرت کا ثمر ہے ؟ مہندی کے یہ پیڑ خود بخود تو نہیں اگ آئے قدیم آدمی کے تجربے تو ہمارے آپ کے اندر اور دیو مالاؤں اور داستانوں کے اندر دبے پڑے ہیں۔ آخر کوئی واقعہ تو ہوا ہے کہ یہ تجربے پھر سے زندہ ہوئے ہیں اور ایک نئی معصومیت اختیار کر گئے۔
ہجرت کا تجربہ لکھنے والوں کی ایک پوری نسل کو اردو ادب کی باقی نسلوں سے الگ کرتا ہے۔ اس نسل کے مختلف لکھنے والوں کے یہاں اس تجربے نے الگ الگ روپ دکھائے ہیں۔ منیر نیازی کے یہاں اس کے فیض سے ایسا روپ ابھرا ہے جو ایک نئی دیو مالا کا سا نقشہ پیش کرتا ہے۔ باقی نئی شاعری کا کیا ہے وہ تو کسی تجربے کے حوالے کے بغیر خالی ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر بھی ہو سکتی ہے۔
منیر نیازی کے شعری تجربے می ان تجربوں کا میل ہے جو ہمارے اجتماعی تخیل کا حصہ ہے۔ دشمنوں کے درمیان شام کی نظمیں اور غزلیں پڑھتے پڑھتے کبھی ان آفت زدہ شہروں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ جہاں کوئی خطر پسند شہزادہ رنج سفر کھینچتا جا نکلتا تھا۔ اور خلقت کو خوف کے عالم میں دیکھ کر حیران ہوتا تھا کبھی عذاب میں کسی زد میں آئی ہوئی ان بستیوں کا خیال آتا ہے جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے کبھی حضرت امام حسینؓ کے وقت کا کوفہ نظروں میں گھومنے گلتا ہے۔ اس کے باوجود منیر نیازی کی عہد کی شاعری کرنے والو ں سے زیادہ عہد کا شاعر نظر آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے عہد کے اندر رہ کر ایک آفت زدہ شہر دریافت کیا ہے۔ منیر نیازی کا عہد منیر نیازی کا کوفہ ہے۔ پھر ہیر پھر کر شہر کا ذکر بھی ایک معنی رکھتا ہے۔ اس سے شاعر کا اپنے اردگرد کے ساتھ گہرے رشتے کا پتہ چلتا ہے۔ ان نظموں میں جو استعارہ اور تلمیحوں کا ذخیرہ خرچ ہوا ہے اس سے کام لینے والوں نے بھی یہ کام کیا ہے کہ اردگرد سے بے تعلق ہو کر اپنی ذات کے پاتال میں اتر گئے ہیں مگر منیر نیازی کے یہاں یہی ذخیرہ خارج سے استوار کرنے کا فرض انجام دیتا ہے۔ یہ رشتہ بے شک دشمنی کا رشتہ ہے مگر دشمنی کے رشتے میں شدت بہت ہوتی ہے۔
سہیل احمد خان
منیر نیازی کی شاعری ایک طویل جلا وطنی کے بعد وطن کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس شاعری میں حیران کر دینے اور بھولے ہوئے گم شدہ تجربوں کو زندہ کرنے کی ایک ایسی غیر معمولی صلاحیت ہے جو اس عہد کے کسی دوسرے شاعر می نظر نہیں آتی۔ اس عہد کے اکثر شاعروں کی وابستگی نظریات یا علوم کے ساتھ ہے جب منیر کی وابستگی شعری کی اصل یا شاعری کے جوہر کے ساتھ ہے خود کو بطور شاعر شناخت کر کے اپنے وجود کا بطور شاعر ادراک اور اس پر ایمان منیر کو اس عہد کے آدھے شاعروں کے درمیان ایک پورے شاعر کا رتبہ دیتا ہے۔
منیر نیازی کے نزدیک شاعری پورے عہد کے طرز احساس اور رویوں کا عطر ہے منیر اپنے عہد کے رویوں اور نظریات کی منظوم تشریحیں نہیں کرتا۔ وہ تو بے معنی تفصیل کا بھی قائل نہیں۔ وہ چند سطور اور چند تصویروں میں اپنے عہد کو انسانوں اور ان کے رویوں کی اصل بنیاد کی طرف اشارہ کر دیتا ہے۔ پھر اگر آپ چاہیں تو ان تصویروں سے معانی کی طویل داستانیں مرتب کر سکتے ہیں۔ معانی کی انہی امکانی سمتوں کی وجہ سے منیر کی شاعری کو کسی ایک سطح یا عمر کے کسی ایک حصے سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہر سطح کا انسان اس شاعری میں اپنے ذہن کے مطابق سمتیں تلاش کر سکتا ہے۔
منیر کی شاعری میں انسانی زندگی کے جہنمی میدان بھی ہیں اور انسان کی کھوئی ہوئی جنت بھی ہے۔ منیر نے انسانی کردار اور زندگی کے دونوں حصوں سے آنکھیں چار کی ہیں۔ اگر اس کے یہاں ایک طرف قتل دہشت اور ویرانی کا علاقہ ہے تو دوسری طرف معصومیت حسن اور رنگوں کے خطے بھی ہیں۔ منیر کی شاعری ان دونوں عناصر سے مل کر ہی اکائی کی صورت اختیار کر تی ہے۔
منیر کی شاعری انسان کو اس کی ذات کے اولین نقش کی یاد دلاتی ہے۔ سینی گال کا مشہور شاعر سینگور ایک نظم میں لکھتا ہے :
’’مجھے تو علم نہیں یہ سب کچھ کب ہوا تھا۔ میں تو بہشت اور بچپن کو ہمیشہ ایک دوسرے سے ملا دیتا ہوں ‘‘۔
منیر کی شاعری میں انسان کو اس کے بچپن اور بچپن کے ساتھ پیوست بہشت کی یاد دلانے کا جو جادو ہے وہ اسی بات سے ظاہر ہے کہ منیر کی شاعری پر لکھتے ہوئے اکثر دوستوں کو اپنی چھوڑی ہوئی بستیاں یا اپنا بچپن یا د آیا ہے۔ خود میں بھی اس شاعری کو اپنے بچپن اور اپنی اولین یادوں سے الگ نہیں کر سکتا۔ بلکہ معاملہ تو باقی لوگوں سے بھی آگے کا ہے۔ اس لیے کہ منیر نہ صرف مجھے اپنا بچپن یاد دلاتا ہے بلکہ بچپن اور بہشت کی سرحد پر میرے لہو میں گم شدہ بعض نادیدہ بستیوں کو بھی میرے سامنے لاتا ہے جہاں گھروں کی دیواروں پر مور بیٹھے رہتے ہیں۔ آموں کے باغوں میں کوئلیں بولتی تھیں اور آسمان پر ہر طرف کالی گھٹائیں ناچتی رہتی تھیں۔
بہرحال یہ منیر کی شاعری کیساتھ میرا ذاتی رشتہ ہے۔ اس کا زیادہ بیان میں اس وقت نہیں کرنا چاہتا نہ ہی اس شعری کو محض بچپن کی حدود میں رکھ کر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ منیر کی تازہ کتاب ماہ منیر کے سلسلے میں چند باتوں پر اکتفا کروں گا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ماہ منیر نئے مکانی فاصلوں کی وسعت کا سفر نامہ ہے۔ اسی لیے ان نظموں اور غزلوں کا تناظر جدید شاعری کی گھٹن اور تنگی مناظر سے بالکل علیحدہ ہے۔ یہ ایک مسلسل سفر کی کائنات ہے اور یہ سفر اس کائنات کو پھیلاتا چلا جاتا ہے۔ منیر نیازی کی نظموں اور غزلوں کا یہ نیا منطقہ ہمیں ایک نئی کونیات Cosmologyسے دوچار کر رہا ہے۔ اس کونیات کی وسعت کے مقابل نگر کی زندگی نگر بندی کا عالم بن جاتی ہے اور مکان کی چار دیواری خواہش شسیر بسیط صحن کی محراب میں فلک کا اثر دکھ کا پرواز پر مائل کرتی ہے۔ یہی مرحلہ ہے جہاں اجرام فلکی شاعر کے استعاروں اور علامتوں کی صورت میں ظہور کرتے ہیں۔
زمین دور سے تازہ دکھائی دیتی ہے
رکا ہے اس پہ قمر چشم سیر بیں کی طرح
فریب دیتی ہے وسعت نظر کی افقوں پر
ہے کوئی چیز وہاں سحر نیلمیں کی طرح
٭٭٭
یہ تو ابھی آغاز ہے جیسے اس پنہائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھرنا ہے
ماہ منیر کھلے ہوئے منظروں کی کائنات ہے اس لیے ان نظموں میں بار بار چمک اور مختلف مظاہر پر اس چمک کے اثر کا بیان ہوا ہے۔ ان نظموں اور غزلوں نے جو تصویریں بار بار سامنے آتی ہیں وہ اسی چمک اور اسی نور سے مناظر کی رنگت تبدیل ہونے کی داستان بیان کرتی ہیں۔ یہاں نیلے سمندر اور اس پر دھوپ کے شیشے ک چمک کا رشتہ بھی ہے اور کسی چشم نم پر مہر کی اولین کرن کا اثر بھی پرتو خورشید سے چمکتے ہوئے دریچے بھی ہیں داور چاند کی روشنی کا مکانوں کی سیہ رنگت کے ساتھ پراسرار رابطہ بھی۔ کھلے منظروں کی اس کائنات میں پھیلاؤ اور فراخ سمتی کے امکانات کی تلاش کا سفر ہر آن جاری رہتا ہے۔ غالباًً یہی وجہ ہے کہ اس کائنات میں دشمنوں کے درمیان شام کی نظموں کی طرح کائنات سے بنیادی رشتہ دشمنی کا نہیں ہے اور نہ ہی ’’تیز ہوا اور تنہا پھول‘‘ اور ’’جنگل میں دھنک‘‘ کی بہت سی نظموں کی طرح جنگل کی زیادہ تصویر یں نظر آتی ہیں۔ یہ نظمیں تو ’’صحرا یا میدان‘‘ کے تلازمات کو نئی معنویت دیتی ہیں کھلے میدان یا صحرا میں ایک نئی کائنات آنکھوں کے سامنے ہے۔ اب چاند ستارے فلک سورج اور خلا اس شاعری کے بنیادی اسم بن جاتے ہیں۔
نیلے فلک کے اسم میں نقش اسیر کے سبب
حسن ہے آب و خاک میں ماہ منیر کے سبب
٭٭٭
مکاں میں قید صدا کی دہشت
مکاں کے باہر خلا کی دہشت
زمیں پہ ہر سمت حد آخر
فلک پہ لا انتہا کی دہشت
٭٭٭
ہو کشت ثمرور کہ ویراں چمن
نیا شہر امکاں کہ یادوں کا بن
ستارے مرے خواب امید کے
اسی پس منظر میں خود ماہ منیر کے اسم کی معنویت بھی اجاگر ہوتی ہے ان نظموں اور غزلوں میں تلازمات کا جو جھرمٹ ہے ا س کے وسیلے سے چاند اور زمین کے مابین کئی رشتے قائم ہوتے ہیں۔ اس شعری نظام میں مرکزی حیثیت چاند کی ہے اس لیے کہ ماہ منیر وہ اسم ہے جو منظروں کو تبدیل کر دیتا ہے۔ چاند نکلتے ہ سیہ خانوں کی رنگت بدلتی ہے اور آب و خاک میں حسن کا نور جاگتا ہے۔ ان نظموں میں چاند اور زمین کا تعلق حیرت کشش اور خوف کا ملا جلا تجربہ ہے اور اس تجربے سے ایک کونیاتی داستان عشق مرتب ہوتی ہے۔
تیز ہوا اور تنہا پھول میں چاند کے ساتھ جو تلازمے وابستہ تھے وہ قدیم زمانوں کے انسان کے ذہن کی کیفیات کے مظہر تھے۔ منیر کے اس اولین مجموعہ کلام کا چاند قدیم قبائلی زندگی کے تناظر میں پوجا اور حملے کے سیاق و سباق کو سامنے لاتا ہے اور یوں انسان کے بعض اولین ذہنی ارتعاشات سے آشنا کرتا ہے۔
میں تیغ ہاتھ میں لیے سوئے فلک گیا
جذبوں کے رس میں ڈوبے ہوئے چاند تک گیا
کافی تھا ایک وار میری تیغ تیز کا
مہتاب کے بدن سے لہو پھوٹ کر بہا
(شب خون)
وہ ویران باغوں میں جا کر
چاند نکلتادیکھتے ہیں
جب مشرق پر روشنی کا
اک تیز نشان چمکتا ہے
وہ سرگوشی کے لہجے میں
کچھ منتر پڑھنے لگتے ہیں
(ایک رسم)
ان نظموں کے چاند کو ’’ماہ منیر‘‘ کے ’’قمر‘‘ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو ایک نئے چاند سے سامنا ہوتا ہے۔ اس چاند کے ساتھ قبائلی زندگی پوجا یا جنگ کے تلازمے وابستہ نہیں۔
یہ کھلے منظروں کا چاند ہے جو قبائلی تصورات کی پراسراریت میں ڈوبا ہوا نہیں بالکل شفاف اور صاف ہے۔
کھوہ کے باہر سبز جھروکا اس کے پیچھے چاند کا
جس کی صاف کشش کے آگے رنگ زمیں کا ماند ہے
تیز ضیا چہروں پر آئی کیسے بندھن توڑ کے
کیسی دور دراز جگہوں کے دلکش منظر چھوڑ کے
مٹتے بنتے نقش ہزاروں گھٹتی بڑھتی دوریاں
ایک طرف پر وصل کا قصہ تین طرف مجبوریاں
(خاکی رنگ کی پریشانی میں خواب)
منیر اپنی بعض تازہ نظموں میں چاند سے سورج کی طرف سفر کرتا دکھائی دے رہا ہے اور ان نظموں میں سورج اور اس کی چمک کے تلازمات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس کونیاتی سفر سے میرا دھیان بار بار حضرت ابراہیمؑ کے قصے کی طرف منتقل ہوا۔ خصوصاًاس کے لیے بھی کہ اس مجموعے کا آغاز حمدیہ نظموں سے ہو رہا ہے کونیات کا پھیلاؤ مظاہر سے آگے کسی عظیم تر حقیقت کے ادراک کے مرحلے سے بھی دوچار کرتا ہے یوں بھی اب منیر کی شاعری پر قرآن حکیم کے مطالعے کے اثرات واضح طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔
میں نے منیر نیازی کی اس تازہ کتاب کے محض ایک رخ کا ذکر کیا ہے۔ منیر کے لہجے میں اب جو تفکر اور ارتکاز پیدا ہوا ہے وہ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔ اسی طرح ان نظموں اور غزلوں میں اپنے عہد کی زندگی اور رویوں کا جو شعور ہے اس کا ذکر بھی ضروری ہے۔
منیر نیازی کا یہ مجموعہ اس کے فن کی نئی سمتوں اور ان نئی سمتوں سے آگے امکانی دنیاؤں کی خبر دیتا ہے۔
مجید امجد
ڈرتا ہوں منیر نیازی اور اس کی شاعری کے بارے میں یہ چند سطور لکھتے وقت میری نظروں کے سامے اس کی شخصیت کا وہ رخ نہ آ جائے جس پراس کی اور میری دوستی کے خد و خال ہیں زندگی کا ایک اہم حسہ ہم نے ایک دوسرے کے قریب ایک ہی فضا میں اور ایک ہی شہر میں گزارا ہے۔ میں ہمیشہ اس کی صلاحیتوں کا معترف رہا ہوں لیکن جو کچھ میں اب لکھنا چاہتا ہوں وہ صر ف بحیثیت ایک اہم قلم کے ہے ا س کے کلام کے بارے میں جو کچھ میرا تاثر ہے اس کے اظہار میں میں اپنے ذاتی تعلقات کو مخل نہیں ہونے دوں گا۔ مجھے سب سے زیادہ اس کی شاعری کی وہ فضا پسند ہے وہ فضا جو اس کی زندگی کے واقعات اس کے ذاتی محسوسات اور اس کی شخصیت کی طبعی افتاد سے ابھرتی ہے۔ اس نے جو کچھ لکھا ہے جذبے کی صداقت کے ساتھ لکھا ہے۔ اور اس کے احساسات کسی عالم بالا کی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس کی اپنی زندگی کی سطح پر کھیلنے والی لہریں ہیں انہی نازک چنچل بے تاب دھڑکتی ہوئی لہروں کو اس نے شعروں کی سطروں میں ڈھال دیا ہے اور اس کوشش میں اس نے انسانی جذبے کے ایسے گریز پا پہلوؤں کو بھی اپنے شعر کے جادو سے اجاگر کر دیا ہے جو اس سے پہلے اس طرح ادا نہیں ہوئے تھے۔ یہی منیر نیازی کا کمال فن ہے اور یہ ا س کی سب سے بڑی بدبختی ہے۔ وہ لوگ اور پاکستان میں لاکھوں ایسے لوگ بستے ہیں جو ایک مانوس طرز فکر ایک بنے بنائے واضح و معین انداز اظہار اور ایک روندے ہوئے اسلوب بیان کو قرنوں سے دیکھتے آئے ہیں اس نئی آواز کے معنی اندوز لطافتوں سے اخذ کیف نہ کر سکے کہنے والوں نے جو کچھ منہ میں آیا کہہ دیا اور شاید یہ لوگ سچے تھے۔ شاید منیر نیازی نے جو کچھ لکھا ہے ان کے لیے نہیں تھا جب قاری کی طرف سے رد عمل اس قسم کاہو تو شاعر کا انجام معلوم ! چنانچہ منیر نیازی کو جو سزا ملی کس سے مخفی ہے۔ جب قاری کی طرف سے رد عمل اس قسم کا ہو تو شاعر کا انجام معلوم چنانچہ منیر نیازی کو جو سزا ملی کس سے مخفی ہے۔ زمانہ شاعر کو یہی کچھ دیتا ہے ہمارے اس معاشرے میں ہر چیز کو سونے کی میزان میں توا جا سکتا ہے۔ یہ کون جنتا ہے کہ جس کے دامن میں خوبصورت نظموں کے پھول تھے اس کو اس بھری دنیا میں کیا کیا مصائب جھیلنے پڑے۔ یہ سب کچھ میں اس لیے نہیں جانتا کہ میں منیر کا دوست ہوں۔ لاہور کے در و دیوار لاہور کے رنگین راستوں اور حسین فضاؤں سے آپ پوچھ لیجیے کہ کس طرح ایک شعلوں میں لتھڑی ہوئی روح صرف شعر کے رنگین راستوں اور حسین فضاؤں سے آپ پوچھ لیجیے کہ کس طرح ایک شعلوں میں لتھڑی ہوئی روح صرف شعر کی لگن میں اتنی بے خواب راتوں کی گہری چپ میں سرگرداں رہی ہے جیسے اسے نان جویں کی بھی طلب نہ تھی۔ اور لوگوں کے ساتھ تال بجاتے دادا گیروں کی ٹولیاں تھیں عظیم نظریوں کے کوکبہ ہائے جلال تھے مسندیں تھیں اور نگ تھے۔ منیر نیازی کے پا س کیا تھا کوئی سایہ دیوار بھی نہ تھا۔ صرف شعر کہنے کی دھن۔ یوں اپنے آپ میں تنہا اس نے اپنی زندگی کی ایک ایک ترپ اپنے تجربات کی ایک ایک کسک اور ہوا کے جھونکوں کی سلوٹوں سے تراشی ہوئی سطور کے اندر رکھ د۔ آج زر و سیم کی قدروں میں کھوئی ہوئی یہ مخلوق جنگل کی اس دھنک کو کیا دیکھے گی۔ اس صحیفے کو رکھ دو سجا کر رکھ دو اس الماری میں ابھی اس بازار سے جانے کتنی نسلوں کے جلوس اور گزریں گے یہ جلوس ہنستے ہنستے کھیلتے قہقہے لگاتے مہ و سال کے غبار میں کھو جائیں گے زمانے کی گرد میں۔ ہم سب اسی گرد کا حصہ ہیں۔ ہم سب اور منیر بھی۔ لیکن خیال اور جذبے کی ان دیکھی دنیاؤں کے پرتو فطرت کے رنگوں اور خوشبوؤں میں تحلیل ہوتی ہوئی نظروں میں جا گرتی تیرتی بدلیوں کے سایوں میں روتے دلوں کی کروٹ جو اس کے شعروں اور شبدوں میں مجسم اور جاوید ہو کر رہ گئی ہے اردو نظم کے مرحلہ ہائے ارتقاء کی ایک جاندار کڑی ہے کون ان نقوش کو بھلا سکے گا۔ وہ خود کہتا ہے :
مری طرح کوئی اپنے لہو سے ہولی کھیل کے دیکھے
کالے کٹھن پہاڑ دکھوں کے سر پر جھیل کر دیکھے
میرے ہی ہونٹوں سے لگا ہے نیلے زہر کا پیالہ
میں ہی وہ ہوں جس کی چتا میں گھر گھر ہوا اجالا
احمد ندیم قاسمی
آخری سچائی۔ آخری حقیقت تک رسائی تو شاید ناممکن ہے مگر بڑی شاعری حقیقت تک رسائی کا ذریعہ نہ سہی اس رسائی کے لیے جدوجہد کی علامت تو ضرور ہے۔ بڑی شاعری آخری حقیقت تک جانے والی سمت کی نشان دہی ضرور کر دیتی ہے اور منیر نیازی کی شاعری اس کا ایک ثبوت ہے۔
منیر نیازی کے دل و دماغ میں بیشتر ماضی کی یادیں تحریک پیدا کرتی ہیں مگر یہ یادیں اتنی تابندگی ہیں پاکیزہ ہیں کہ ان کی بازیافت میں نہ حا کو کسی گزند کا احتمال ہے اور نہ مستقبل کو کسی نقصان کا خطر ہے جس چیز خیالات و احساسات کو روشن کرتی ہو اور انسان کے دوامی جذبوں پر آفتاب طلوع کرتی ہو اس کی ضرورت حال اور مستقبل دونوں کو ہے منیر نیازی انہیں مثبت اور منور بازیافتوں کا شاعر ہے۔ مورخ اور شاعر کے طریق بازیافت میں یہی تو فرق ہے کہ مورخ کی بازیافت محض بازیافت ہے شاعر کی بازیافت فن میں ڈھل کر پیش رفت کا کردار ادار کرتی ہے۔ جذبے خیال اور فکر کے لیے آخری حقیقت کی سمت نمائی صرف اس طرح ممکن ہے۔
اگر منیر نیازی اپنے عصر کے شعراء سے کچھ الگ ہٹ کر آگے بڑھ رہا ہے تو اس کی ایک وجہ اس کی تیز دھار انفرادیت ہے جو پھیل کر انا نیت تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ مگر منیر کی انا کے اجمال میں لاکھوں با شعور اور حساس اور صورت حال سے غیر مطمئن افراد کی تفصیل پوشیدہ ہوتی ہے۔ منیر نیازی کی شاعری بظاہر بہت سلیس بہت سیدھی سادی ہے مگر بن السطور اتنی گمبھیر ہے کہ جیسے انا الحق کا نعرہ بظاہر بہت سادہ تھا مگر اس کے عقب میں انسان کی روحانی اور وجدانی واردات کی کائناتیں آباد تھیں۔
قدرت کے خارجی مظاہر پر اردو میں بھی بے شمار نظمیں لکھی گئی ہیں اور اشعار کہے گئے ہیں مگر جس شاعر کے ہاں خارجی کائنات انسان کی باطنی کائنات کا ایک ناگزیر حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ وہ اس دور میں منیر نیازی ہی ہے۔ اس کی نظمیں (اور غزلیں ) دیکھیے تو فوری یہ تاثر ہو گا کہ شاعر اپنے مشاہدات کے کمالات دکھا رہا ہے مگر پھر یکایک آپ کو معلوم ہو گا کہ ان درختوں اور شاخوں ان پتوں اور پھولوں ان سورجوں اور دھوپوں ان پہاڑوں اور دریاؤں، ان گھروں اور گلیوں ان رنگوں اور بے رنگیوں میں سے ایک ایک میں ایک نہ ایک نہایت نازک مگر بنیادی انسانی جذبہ یو ں گھلا ہوا ہے جیسے رنگ میں خوشبو گھل ہوئی ہے۔ منیر کی شاعری محض مشاہدے کی شاعری نہیں ہے یہ مشاہدات تو اس کے محسوسات کا صرف پس منظر فراہم کرتے ہیں۔ احسا س کا یہ منقش اظہار منیر نیازی کا منفرد اسلوب ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کی شاعری کو اگر کامیاب اور کارگر شاعری قرار دیا جائے تو یہ مبالغہ نہیں ہے صداقت بیانی ہے منیر نیازی کی یہ شاعری کی آخری سچائی کی سمت جانے والوں کے سفر کو آسان اور آسودہ بنا دیتی ہے۔
بعض اصحاب کہتے ہیں کہ منیر نیازی تنہائی کا شاعر ہے۔ مشکل ہے کہ اچھا فن کار تنہا ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنے گرد و پیش کی صورت حالات پر قناعت نہیں کر سکتا۔ اس لیے تنہا ہے۔ وہ اس بدصورت ؛ دنیا میں خوبصورتیوں کا متلاشی ہے اس لیے تنہا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ اس کی تنہائی کروڑوں ہمنفسوں اور ہم نصیبوں سے آباد ہوتی ہے۔ اگر منیر نیازی کی تنہائی پسندی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے خول میں اسیر ہے تومیں کیا تردید کروں گا۔ منیر کا یہ مجموعہ کلام ہی اس مغالطے کی مسکت تردید ہے۔
میں آخر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ منیر پر بعض اوقات صوفیانہ واردات بھی گزرتی ہے۔ البتہ اس واردات کے اظہار کے لیے وہ قدیم فارسی اور اردو شاعری کی خاص اصطلاحات و تراکیب سے کام نہیں لیتا اس کی لفظیات اس کی اپنی ہیں۔ اس پر مستزاد اس کا مکالماتی طرز ادا ہے جیسے وہ ایک بھری محفل کو بتا رہا ہے کہ …پھر یوں ہوا کہ… بظاہر یہ منیر کی سادگی اور سادہ روی ہے مگر میں قارئین کرام کو خبردار کر دو ں کہ منیر بڑا ہی پرکار شاعر ہے۔ خواجہ میر درد اور اصغر گونڈوی کے تصوف سے منیر کا انداز تصوف قطعی الگ ہے وہ ہمہ اوست اور ہمہ از اوست میں نہیں الجھتا۔ اس کاسرمایہ ایک کرید ہے۔ ایک جستجو کہ جو کچھ ہو رہا ہے ا س میں کس کا ہاتھ ہے اور یہ ہاتھ صرف قوت و ہیبت یا صرف نور و جمال ہے۔ منیر الٰہیات میں بھی جمالیات کی سی واردات کے تجربے میں سے گزر رہا ہے۔ اور اردو شاعری میں یہ قطعی نیا اور امکانات سے پر تجربہ ہے۔
فیض احمد فیض
منیر نیازی کے کلام پر مدح و توصیف کے قریب قریب تمام مروجہ الفاظ نچھاور کیے جا چکے ہیں اب تو یہی کہنا کافی ہو گا کہ منیر نیازی کا یہ مجموعہ ان کے مداحوں اور چاہنے والوں کے لیے جنت گناہ اور فردوس گوش کا نیا سامان لے کر آتا ہے ان کو مژدہ ہو کہ ساعت سیار کی صورت میں ایک اور دلکش مرقع ان کی ضیافت طبع کے لیے واد ہوا ہے جو منیر نیازی کے سبھی معروف اوصاف سے متصف ہے۔ زبان و اظہار کی سادگی و پرکاری جذبات و افکار کا خلوص اور درد مندی منیر کی ذات کی طرح ان ابیات میں قلندرانہ طنطنہ اور بے نیازی بھی ہے مفکرانہ تجسس بھی اور دلسوزی بھی پنجابی منظومات کا اردو میں ترجمہ ایک دلچسپ اضافہ ہے جس کے لیے غیر پنجابی شائقین منیر کے شکر گزار ہوں گے اور اس مجموعے کے مطالعے کے قارئین کو میر سے کوئی شکایت پیدا ہو گی تو غالباً یہی کہ کتاب اس قدر مختصر کیوں ہے۔
فاطمہ حسن
منیر نیازی کی شاعری میں واضح طور پر دو جہتیں ملتی ہیں ایک جہت معنویت کی اور دوسری فضا ک۔ آج جب بہت اہم ناقدین معنویت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور زبان لفظ کے رشتے کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ ان کے کلام میں الفاظ معنی سے زیادہ علامتوں سے قریبی شک میں استعمال ہوئے ہیں جنہیں سوسئیر… نے نشان کہا ہے۔ چنانچہ اس کتاب کا عنوان سفید دن کی ہوا اس بات کی تائید کر رہا ہے اور وہ مختصر نظم بھی جس سے یہ عنوان اخذ کیا گیا ہے۔
سیاہ شب کا سمندر
سفید دن کی ہوا
اور ان قیود کے اندر
فریب ارض و سما
منیر نیازی کے ڈکشن Dictionکی یہ خوبی ہے کہ ان کی شاعری میں معنی کے ساتھ ایک فضا بھی ملتی ہے ایسی فضا جو پراسرار حسین اور خوابناک ہے جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو یا خود اپنے آپ سے کلام کر رہا ہو۔
کوئی آئے باغ میں اس طرح
کوئی دید جیسے بہار میں
کوئی رنگ دار سحر اڑے
کوئی گوشہ شب تار میں
کوئی یاد اس میں ہو اس طرح
کوئی رنج جیسے خمار میں
کوئی زندگی کسی خواب میں
کوئی کام کوچہ یار میں
(کار اصل زیست)
خواب دیکھنا اور خود سے کلام کرنا انسانی فطرت کا ایک ایسا حصہ ہے جس پر تاریخ اور سماجی و سیاسی حالات اثر انداز نہیں ہوتے۔ ازل سے ہر انسان کی زندگی کا بڑا حصہ ان دو صورتوں میں گزرتا ہے۔ خارجی منطقیت کی ابتدا بھی اسی صورت میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر کی عظمت کوتسلیم کرواتی ہے۔
شاعر خارجی اثرات سے لے کر داخلیت کی طرف لوٹتا ہے اور جب یہ اثرات اس کی داخلیت میں جذب ہو کر اظہار پاتے ہیں تو خارجی اور داخلی کیفیت کا وہ امتزاج سامنے لاتے ہیں جس میں اس عہد کی حسیت جھلکتی ہے۔ تکنیک کے لبادے میں پوشیدہ یہ حسیت ہ شاعر کی حیثیت کو تسلیم کرواتی ہے۔ منیر نیازی کے یہاں یہ حسیت اتنی واضح ہے کہ ہمیں یہ عہد ان کی حسیت سے منسوب ہوتا نظر آتا ہے۔
ایک عہد کو متاثر کرنا اور وہ بھی اسی صدی میں جو Compilationکا عہد ہے اور ہر نسل ذہنی طور پر پچھلی نسل سے کہیں زیادہ توانا پیدا ہو رہی ہے بڑی استقامت چاہتا ہے۔ ایک مسلسل توانائی کا تاثر جو ٹوٹنے نہ دے خصوصاً شاعری میں جو مکمل شعوری عمل نہیں ہے۔ اس توانائی کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے منیر نیازی کے پہلے مجموعے تیز ہوا اور تنہا پھو ل سے اس نئے مجموعے تک ان کا سفر دیکھیے۔
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
(تیز ہوا اور تنہا پھول)
ایک دریائے فنا ہے اس کی ہستی اے منیر
خاک اڑتی ہے وہاں پر جس جگہ بہتا ہے وہ
(سفید دن کی ہوا)
جنوری 1959ء میں جب ان کا پہلا مجموعہ چھپا تھا اور آج جب 1994ء کا نصف سال گزر چکا ہے شاعری کے گرتے ہوئے بتوں میں وہ اے پورے قد و قامت کے ساتھ اسی منفرد لہجے کو سنبھالے ہوئے کھڑے ہیں جو ان کی پہچان ہے۔
منیر نیازی کی غزلوں کے بہت سے اشعار یا د رہ جاتے ہیں۔ یہ خوبی تو غزل کی صنف میں ہے پر نظموں کا یاد رہ جانا حیرت ناک ہے۔ منیر نیازی کی اکثر نظمیں ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں اور جب یاد آتی ہیں تو اپنے پورے تاثر کے ساتھ ان کی نظموں میں لفظوں کی روانی کے ساتھ ساتھ گزرے ہوئے منظروں کی روانی ہے جیسے کوئی فلم نظروں کے سامنے سے گزر رہی ہو جیسے کوئی سفر میں ہو اور کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہا ہو۔ یہ پیرایہ اظہار منیر نیازی نے لاشعوری طور پر اختیار کیا ہے۔ یا شاید یہ انداز اس آنکھ سے بیرونی دنیا کے مشاہدے کی خوبی نے پیدا کیا ہے جسے قمر جمیل نے اندرونی آنکھ کہا ہے کہ شاعر بیک وقت چیزوں کو دو انداز سے دیکھ رہا ہے۔
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
کبھی دل میں اداسی ہو تو ان میں جا نکلتا ہوں
پرانے دوستوں کو چپ سے بیٹھا دیکھ لیتا ہوں
یہ تو پیرایہ اظہار کی بات تھی۔ اب اس مجموعے میں ایک نظم دیکھیے :
اس کڑی مسافت میں
رہ گزار آفت میں
اک طویل نفرت کی
بے کنار عادت میں
بے شمار نسلوں کی
بے وفا وراثت میں
منتظر ہیں میرے بھی
میرے ہم سفر کے بھی
(ایک وعدہ جو مجھ سے کیا گیا ہے )
منیر نیازی کی شاعری کو ان کی نسل اور بعد کی نسل دونوں نے محسوس کیا ہے ان کے لہجے میں ایک معصوم بچے کی حیرت ہے۔ یہ حیرت بہت سے سوالات آئندہ کے اندیشے گزرے دنوں کے افشا ہوتے راز جو ہو رہا ہے اور جو نہ ہو سکا وہ بھی غم و غصہ پیار و نفرت لا حاصلی کا احساس اور کچھ حاصل ہونے کی مسرت یہ کیفیات ہمیں منیر نیازی کی شاعری میں خوبصورتی سے سمٹی نظر آتی ہیں جبھی انہیں پڑھ کر ایک سرخوشی کا احسا س ہوتا ہے۔
وہ سر خوشی جو بہت کم نصیب ہوتی ہے
سراج منیر
منیر کی یہ شعری کائنات اردو میں اپنی ایک منفرد معنویت رکھتی ہے۔ اس کا بنیادی اصول اشیاء اور مناظر کو آدم اول کی آنکھ سے دیکھنے کا ہے۔ یعنی منیر کے روبرو کائنات ہے جو اس سے منیر کا تعلق ایک مرحلہ حیرت پر واقعی ہے۔ یہ مرحلہ حیرت وہ ہے جہاں بصیرت اور اشیاء دونوں اپنی ازلی اور سیال کیفیت میں ہوتے ہیں اور تصورات اور مظاہر کے درمان سرحدیں واضح نہیں ہوتیں باہم مدغم ہوتے اور پھر یکایک کسی اور منظر سے اشیا کے طلوع ہونے کا عمل محض (Hallucination)کا عمل نہیں ہے۔ جو سحر کی کسی کیفیت سے مشابہ ہو۔ بلکہ اسے آدم اول کا تجربہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کیفیت میں بھی حسیات کے سانچے انسانی تجربے کے مسلسل اور تکراری عمل کے ڈھانچوں میں ایک نچلی سطح پر متشکل نہیں ہوئے ہوتے اور شاعر اپنے شعری وجدان کی بنیاد پر اشیاء کے درمیان مماثلتوں کو دیکھتا ہے اور پھر حیران ہوتا ہے۔
دور تک پانی کے تالاب تھے ہنگام سحر
شمس اس آب کے اک تازہ کنول سے نکلا
تو اس جہت سے شعر کہنا وسیع منظروں میں بکھری ہوئی چیزوں کو اپنی چشم وا کے تناظر میں ایک نیا رابطہ اور ایک نئی معنویتی تنظیم فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
شعر منیر لکھوں میں اٹھ کر صحن سحر کے رنگوں میں
یا پھر کام یہ نظم جہاں کا شام ڈھلے کے بعد کروں
تو ا س انداز سے منیر کی شاعری میں ایک ایسی دیو مالائی بصیرت کام کرتی دکھائی دیتی ہے جو گاہے اشیاء کے درمیان تناسب تعلقات کو برہم کر دیتی ہے اور گاہے عام موجود مادے اور منظروں سے ایک نئی کائنات تخلیق کرتی ہے۔
٭٭٭
اختتامیہ
منیر نیازی کی شاعری ہمارے عہد کا ایک ایسا منظر نامہ مرتب کرتی ہے جس میں ہم اپنے عہد کے فرد اور سماج کی چلتی پھرتی شکلیں دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ منیر نیازی کو سماجی فکر سیاسی کارکن یا نعرے باز فرد نہیں وہ اول و آخر ایک تخلیق کار ہے۔ جو تخلیق کی جمالیاتی قدروں کو فن میں اولیت دیتا ہے۔ اس لیے منیر نیازی کی شاعری کا مرکزی حوالہ جمالیاتی اور فنی حوالہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منیر نیازی نے اپنی شاعری میں اپنی شخصیت کا اظہار کیا ہے۔ ان کی توانا تخلیقی شخصیت ہمیں ان کی شاعری میں جھلک مارتی دکھائی دیتی ہے۔
منیر نیازی کے فن پر زیر نظر کتاب کی حیثیت سے خشت اول کی ہے۔ ہمارے ہاں تخلیق کاروں کی زندگی اور ان کے فن پر کتابیں تحریر کرنے کا زیادہ رواج نہیں اور بہت کم لکھنے والے ایسے ہیں جن کی زندگی میں ان پر پوری کتاب تحریر کی گئی ہو۔ یہ کتاب منیر نیازی کے فن کا اجمالی جائزہ ہے۔ منیر نیازی کی شاعری کے بہت سے پہلو ہیں ان میں سے صرف چند ایک کو مختصر طور پر اس کتاب میں چھونے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب کے مطالعے کے بعد قارئین زیادہ بہتر انداز میں یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ ہم اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں بہرطور امید کی جا سکتی ہے کہ زیر نظر کتاب منیر نیازی کے قارئین کو دلچسپ محسوس ہو گی اور منیر نیازی پر حوالے کا درجہ اختیار کرے گی۔
٭٭٭
حواشی
۱۔ اشفاق احمد’’سر کہسار‘‘ مشمولہ تیز ہوا اور تنہا پھول 1059ء کاروان پبلشرز اخذ کردہ کلیات منیر (2002)ء خزینہ علم و ادب، لاہور ص 4-5
۲۔ حسن رضوی، گفت و شنید، ص: 109
۳۔ اختر شمار منیر نیازی سے گفتگو تحریر و ترتیب محمد عابد، روزنامہ آزادی 8ستمبر 1994ء
۴۔ رحیم گل خدوخال، ماہنامہ فاصلہ، مئی 1987ء
۵۔ فدا احمد کاردار، منیر نیازی سے ملاقات ہفت روزہ اخبار جہاں، 22تا 29فروری 1976ء
۶۔ حسن رضوی، گفت و شنید
٭٭٭
ماخذ:
http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100032.txt
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اس کتاب میں ان کے مجموعے "دشتِ صدا” کا ذکر کیوں نہیں؟؟؟؟