FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

مضامین چراغ حسن حسرت

 

 

چراغ حسن حسرت

 

 

 

 

 

عرض

 

حسرت نہ کسی تعارف کے محتاج ہیں نہ ان کے کمالات ادبی کی طرف اہل ذوق کو توجہ دلانے کی ضرورت باقی ہے۔ اس لیے کہ اردو کی کتابیں اور اخبارات پڑھنے والے مرحوم کے نام اور کام سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہ چند سطور محض اس لیے لکھ رہا ہوں کہ مرحوم کی یاد کو تازہ رکھا جائے ہماری قوم اپنے رجال کو بہت جلد بھلا دینے کی عادی ہے اور ہمیں چاہیے کہ بار بار یاد دہانی کرتے رہیں اور مرحوموں کے تذکرے کو تازہ رکھیں۔

حسرت نے صرف اکیاون سال کی عمر پائی اور عین اس مرحلہ حیات پر جب اہل فکر اور اہل قلم کے فکر میں حقیقی پختگی اور قلم میں صحت مند روانی پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا کو کوئی مستقل اور پائیدار چیز دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ اجل کے بے درد ہاتھوں نے حسرت کو ہم سے چھین لیا۔ اور ہماری وہ توقعات پوری نہ ہو سکیں جو ہم نے حسرت سے وابستہ کر رکھی تھیں۔

حسرت نے بے شمار ماہوار رسالوں ، ہفتہ وار اور روزانہ اخباروں کی ادارت کی۔ ان میں مضمون لکھے۔ بہت سے نوجوانوں کو اپنے فیض صحبت سے مستفیض کیا۔ اپنے ہم چشموں اور ہم عصروں میں ممتاز مرتبہ حاصل کیا۔ ادبی شہرت کے آسمان پر روشن ستارہ بن کر چمکے۔ اس کی کیا وجہ تھی اخبار نویسوں اور مضمون نگاروں میں جن میں سے ہر فرد اپنے آپ کو ابو الکلام اور اقبال کا ہمسر سمجھتا ہے ممتاز ترین درجہ حاصل کرنا اور ہم عصروں سے اپنے کمال کا اعتراف کرانا کوئی معمولی بات نہیں۔ آخر حسرت میں وہ کون سا سرخاب کا پر لگا تھا کہ وہ ان بلندیوں تک پہنچ گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ حسرت نے اپنے نوجوانی کے ایام میں اکابر علم و فن و ادب مثلاً نواب نصیر حسین خیال، آقائے مویدا لاسلام مدیر ’’جبل المتین‘‘ مولانا ابو الکلام آزاد کی حاشیہ نشینی اختیار کی اور ان کے ملفوظات و مکتوبات کو حرز جاں بنایا۔ وہیں سے حسرت کو ذوق صحیح کی نعمت ملی اور شوق مطالعہ روز افزوں ہوتا چلا گیا۔ ادب شعر تاریخ صحافت اور تنقید کے مختلف شعبوں میں پختہ خیالی بڑھتی گئی۔ زبان کی تحصیل میں حسرت نے خاص محنت کی خصوصاً طلسم ہوشربا بوستان خیال فسانہ آزاد کو تحصیل زبان کے نقطہ نظر سے از اول تا آخر پڑھا۔ وہ محاور ہ اہل زبان کے معاملہ میں خاصے قدامت پسند تھے۔ اور یہ اثراسی مطالعہ کا تھا۔ وہ روز مرہ اور تذکیر و تانیث وغیرہ میں لکھنو کی زبان کا تتبع کرتے تھے۔ دہلی کے مخصوص محاور ات ان کی تحریروں میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

صحبت و مطالعہ کے اس دور میں حسرت نے ایک ادبی رسالے کی ادارت بھی کی اور ایک دو روزانہ اخباروں میں کام بھی کیا۔ اس کے بعد لاہور آ گئے۔ اور زمیندار ’’احسان‘‘ ’’شہباز‘‘ ’’انصاف‘‘ ’’پنچایت‘‘ ’’امروز‘‘ میں اپنے کمالات صحافت کا ثبت دیتے رہے چونکہ ان کی صحافت کے زمانے میں سیاسیات ملکی کی بحثیں بہت زوروں پر تھیں اور حسرت کا ذوق ادب و تفنن کماحقہ تسکین نہ پاتا تھا اس لیے انہوں نے اپنا مشہور ہفتہ وار ادبی و فکاہی رسالہ شیرازہ جاری کیا جس کو اہل ذوق اب تک یاد کرتے ہیں اور جس کے بند ہو جانے کے بعد گزشتہ پندرہ سال کے دوران میں کسی کو اس رنگ اور معیار کا رسالہ جاری کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے زمانے کے ادیبوں میں بہت کم ایسے ہیں جو حسرت کے سے دکھ رکھاؤ کے ساتھ ’’شیرازہ‘‘ جیسا ’’ادبی و فکاہی‘‘ رسالہ مرتب کرنے کی استعداد رکھتے ہوں۔

حسرت نے اخباروں کی ایڈیٹری کے علاوہ بعض رسالوں میں مضمون نگاری بھی کی۔ اور غزل گوئی کی طرف بھی توجہ مبذول کی۔ گو ان کے یہ مشاغل محض ضمنی تھے عزیزی ظہیر الحسن جاوید نے اپنے باکمال والد کے چند مضامین کا یہ مجموعہ مرتب کر دیا ہے۔ باقی مضامین کی تلاش جاری ہے۔ جو ایک اور مجموعے کی صورت میں چھاپے جائیں گے۔ حسرت کا شاعرانہ کلام مقدار کے اعتبار سے کم لیکن نفاست کے لحاظ سے بعض معاصرین کے مجموعوں پر بھاری ہے۔ اس کی ترتیب بھی کی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ عزیزی ظہیر بہت جلد یہ گلدستہ ادب بھی قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔

ان چند الفاظ کے ساتھ میں یہ مجموعہ مضامین ارباب ذوق سلیم کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں۔

مسلم ٹاؤن لاہور

یکم جنوری ۱۹۵۶ء

عبدالمجید سالک

٭٭٭

 

 

 

 

دھوپ چھاؤں

 

مسافروں سے بھری ہوئی لاری شور مچاتی کچی سڑک پر بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ہوا میں خنکی تھی فضا میں اکتاہٹ ہمارے داہنے ہاتھ بھوری لال پیلی چٹانیں چپ کھڑی تھیں۔ بائیں ہاتھ ایک برساتی نالہ پتھروں سے سر پٹکتا دھیمے سروں میں ایک اداس گیت گاتا بہہ رہا تھا۔ ان سے ذرا ہٹ کر سرسوں کا ایک کھیت تھا۔ لیکن سرسوں کے پھولوں کی رنگت تیز دھوپ اور پانی کی کمیابی کی وجہ سے پھیلی ہوئی تھی ہمارے سامنے پیڑ کی سرتوڑ چڑھائی تھی اور پیچھے میرپور کا شہر جو اس وحشت ناک ویرانے میں نخلستان کی حیثیت رکھتا ہے۔

میں ملایا سے فروری ۱۹۴۷ء میں ہندوستان پہنچا مہینہ بھر کی رخصت سنگاپور ہی میں منظور ہو چکی تھی۔ اس لیے کوئی پانچ چھ دن بمبئی میں اور ایک دن لاہور میں ٹھہر کر میر پور کے راستے پونچھ کا رخ کیا۔ لاہور میں سول نافرمانی کی تحریک پورے شباب پر تھی اور اس سیلاب کی لہر میر پور کی سرحد تک پہنچ چکی تھیں۔ لیکن خود میر پور کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہی پکی حویلیاں اینٹ اور پتھر کے اونچے اونچے مکان جن کی تعمیر میں کوئی حسن تناسب نہیں نظر آتا تھا۔ اور ان میں مسلمانوں کے کچے جھونپڑے جن کی بے حیثیتی ان پکی حویلیوں کے تقابل سے زیادہ واضح اور نمایاں ہو چکی تھی وہی اداس اداس سے بازار جن میں پتھروں کا فرش بچھا ہے اور وہی تنگ و تاریک گلیاں جن میں قدم قدم پر چلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

میں دو اڑھائی برس کے بعد اس طرف آیا تھا اور اس عرصہ کے اندر دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔ لیکن میر پور کی حالت میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا۔ میں اسے جس طرح چھوڑ کر گیا تھا اب بھی وہ اسی طرح نظر آتا تھا۔

لاریوں کے اڈے پر خاک اڑ رہی تھی اور نانبائی کی دکان کے پاس وہ سکھ جو مسافروں سے مانگ مانگ کر چوری چھپے سگریٹ پیتا ہے اسی طرح کھڑا تھا البتہ اس کی داڑھی کے بال زیادہ بکھر گئے تھے۔ چہرہ زیادہ زرد نظر آتا تھا اور اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑے تھے۔ اڈے پر اس کے علاوہ دو تین ڈرائیور تھے۔ دو تین مہاجن جو پونچھ اور میر پور کے آڑھتیوں کے کارندے ہیں ان میں ملکھی رام بھی تھا جو کسی آڑھتی کے ہاں کام کرتا تھا بازار کی بھی یہی کیفیت تھی۔ چند دکان دار دکانیں بڑھا چکے تھے۔ باقی میلے کچیلے کپڑے پہنے دکانوں میں بیٹھے بازار میں سے گزرنے والوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔ نالے کے پاس ایک موچی کچھ پرانے جوتے کچھ چھوٹی بڑی کیلیں اور نعل لیے بیٹھا تھا۔

چوک میں مسلمان کی کوئی دکان نہیں۔ بازار کے خاتمے پر کچھ دکانیں ضرور ہیں لیکن ان میں کام کی دکانیں تو بس دو تین ہی ہیں۔ یہاں کے مسلمان دکانداروں میں کچھ سنار ہیں کچھ درزی، دو تین رنگریز ، تین چار موچی اور باقی جال ہے۔ اللہ بس باقی ہوس۔ لیکن میرپور کے بڑے بڑے دکانداروں کو بھی جب کبھی میں نے دیکھا ہے تو یہی محسوس کیا ہے کہ وہ زندگی سے بیزار ہیں۔ لیکن اب کے یہ بیزاری اور اکتاہٹ کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ اور زندگی سے انہیں ہاتھ بھی کیا آیا؟ وہی دھوتی کرتا یا کرتا اور پاجامہ وہی گیہوں یا مکی کی روٹیاں ارد یا مونگ کی دال، آلو کی بھاجی بس ساری زندگی ایک ہی ڈھنگ سے تو گزر جاتی ہے۔ اس میں کوئی اتار چڑھاؤ آتا ہی نہیں۔ خود نہ اچھا کھاتے ہیں نہ اچھا پہنتے ہیں۔ اولاد کی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں۔ ہاں دامادوں کو خوب کھلاتے ہیں ان میں ایسے کم ہیں جنہیں بنکوں پر اعتبار ہو ، زیادہ تر مہاجن تو اپنی ساری جمع جتھا زمین میں گار دیتے ہیں اور جنگ کے زمانے میں تو انہیں نوٹوں کا اعتبار بھی نہ رہا۔ چاندی کے جتنے روپے سمیٹ سکے سمیٹ لیے ، یا پھر سونا خریدا اور اسے چاندی کے روپوں کے ساتھ چولھوں کے نیچے گاڑ دیا اگرچہ سو د کی شرح بھی خاصی تھی۔ لیکن اب یہ لوگ روپیہ قرض دینے سے بھی ہچکچاتے تھے۔ پہلے جنگ کی وجہ سے ایک مبہم سا خوف چھایا رہتا تھا۔ میر پور کا ہر دکاندار سمجھتا تھا کہ جیسے ہٹلر نے اس کو لوٹنے کے لے اتنی بڑی لڑائی چھیڑ رکھی ہے۔

پھر پاکستان کانام سنائی دینے لگا۔ پنجاب سے جو آتا تھا یہی کہتا تھا… کہ پاکستان کی تحریک نے بہت زور باندھ رکھا ہے۔ ہٹلر سے انہیں چڑ نہیں تھی۔ بلکہ ان میں سے اکثر ہٹلر سے کوئی لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ آخر سو استگار جرمنوں کا قومی نشان ہے۔ ہٹلر صبح سویرے اٹھ کر گیتا کا پاٹھ کرتا ہے کرشن جی کو بہت مانتا ہے اور بھگوان کا رتیکہ کا تو وہ سچا پجاری ہے۔ البتہ پاکستان سے انہیں ضرور چڑ تھی۔ نیشنل کانفرنس والے کہنے کو توپاکستان کے مخالف تھے ان کے لیڈروں نے اپنی تقریروں میں بار بار کہا تھا کہ ہم پاکستان کو نہیں مانتے۔ لیکن نیشنل کانفرنس والوں کا کیا اعتبار؟ آخر راجہ اکبر خان انہیں تو لیڈر تھا۔ سمت ۱۹۸۸ء میں بھی انہیں لوگوں نے اودھم مچایا تھا۔ پھر کشمیر چھوڑ دو کی تحریک بھی انہیں نے شروع کی تھی۔ ملکھی رام سچ کہتا تھا کہ مسلمان سب ایک ہیں۔ یوں تو یہ ہندوؤں کی خیر خواہی جتاتے ہیں اور کچھ ہندو لونڈوں کو بھی سبز باغ دکھا کے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ لیکن اصل میں نیشنل کانفرنس یا مسلم کانفرنس سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ پنڈت نہرو کی تو مت ماری گئی ہے کہ شیخ عبداللہ کی حمایت کہے جا رہے ہیں۔ ہندوؤں کے لیڈر تو پنڈت وشنو گپتا مہاراج ہیں جو ساورکر جی سے جا کے مل آئے ہیں یا پھر یہ راشٹر یہ سیوک سنگھ والے جو دھرم کی رکھشا کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔

ان مہاجنوں کی زندگی تو بالکل بے کیف ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح جس میں کبھی کوئی نہر نہیں اٹھتی۔ لیکن سال میں دو تین مرتبہ یعنی لولی اور دسہرہ کے موقع پر ایک ہلکا سا تموج پیدا ہو جاتا ہے۔ ہولی کے موقع پر خوب خاک اڑتی ہے۔ رنگ کی پچکاریاں چلتی ہیں اور کپڑے شرابور ہو جاتے ہیں۔ سہرے میں سوانگ نکلتے ہیں۔ رام لیلا کی دھوم سے منائی جاتی ہے۔ پارسال برلی والے پنڈت رادھے شیام کے شاگردوں کی ایک بھجن منڈلی آ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے رات بھر چوک میں مردوں اور عورتوں کا بڑا جمگھٹا رہتا تھا اور آرتی کے بول تو دینے شاہ کو بھی یاد ہیں۔ جے جگدیش ہرے سوامی جے جگدیش ہرے ان لوگوں کو لڑائی جھگڑا پسند نہیں۔ لیکن مقدمہ بازی بھی تو تفریح کا ایک ذریعہ ہے۔ اور بظاہر تو گالی گلوچ بھی تفریح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن گالی ان کی بول چال کا جزو بن کر رہ گئی ہے۔ ان کے لیے اس میں تفریحی عنصر بہت کم ہے۔ یہ لو گ ایک دوسرے سے بات بھی کرتے ہیں تو اسے گالی سے شروع کر کے گالی پر ختم کر دیتے ہیں۔ بہت ہے نازک نازک مطالب جو اور کسی طرح ادا نہیں ہو سکتے گالیوں کے ذریعے ادا ہو جاتے ہیں۔ اور میں نے تو یہ بھی کبھی دیکھا ہے کہ دینے شاہ اور منو شاہ ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں جنہیں سننے کی تاب لانا بھی دل گردے کا کام ہے۔ اور آس پاس کے دوسرے دکاندار جو حلقہ باندھے کھڑے ہیں اور داد دے رہے ہیں۔ غرض گالیوں کا یہ مقابلہ کبھی کبھی اچھے خاصے مشاعرے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان لوگوں کو بے کیف زندگی میں کسی قدر ہما ہمی پیدا ہو جاتی ہے۔

میر پور کا علاقہ پرانی تقسیم کے اعتبار سے چھبال کے علاقے کا ایک حصہ ہے یہ علاقہ جو اب قبیلہ کے نام پر چھبال کہلاتا ہے چناب اور جہلم کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ اس قبیلہ کا مورث اعلیٰ ایک نو مسلم شادی خان نامی تھا۔ جس کی قبر نوشہرہ میں ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے ایک مسلمان عورت سے شادی کر لی لیکن اس کی پہلی بیوی کی اولاد ہندو ہی رہی۔ چنانچہ جب قبیلہ میں ہندو مسلمان دونوں شامل ہیں تو میرا پور کے علاقے میں اب بھی ہیں۔ جرال اور منگوال بھی جو چب قبیلہ کی طرح اصل لحاظ سے راجپوت ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی جاگیریں بھی ہیں۔ لیکن ان میں خوش حال لوگ کم ہیں پھر بھی سب راجہ کہلاتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ راجہ سن کے خوش ہوتے ہیں یہ لانبے  قد چوڑے ہاڑ اور مضبوط ہاتھ پاؤں کے لوگ ہیں۔ ضلع جہلم کے لوگوں کی طرح طرہ دار پگڑیاں ململ کے کرتے اور رنگین تہ بند ان کا خاص لباس ہے۔ لیکن یہ لباس بھی کسی کسی کو میسر آتا ہے۔ میر پور اور اس کے آس پاس کے علاقے میں جو مسلمان آباد ہیں ان میں ہندوانہ رسمیں کم رہ گئی ہیں۔ چھبال اور کامنڈی کے دوسرے حصوں کے لوگوں پر ہندوؤں کا اثر بہت گہرا نظر آتا ہے۔

کہتے ہیں کہ آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے یہ لوگ برہمنوں سے زائچہ کھلواتے تھے۔ اور بعض نیچ ذاتوں کی ہندو عورتوں کو بھی گھر ڈال لیا کرتے تھے۔ لیکن ڈوگروں کو گھر ڈالنے کا حق صرف ڈوگروں کے لیے مخصوص ہو کے رہ گیا ہے۔

چھبا ل کے اکثر حصوں میں پانی کی فراوانی ہے۔ فصل بھی خوب ہوتی ہے۔ اور گرمی بھی کچھ ایسی نہیں پڑتی لیکن میرپور اور اس کے آس پاس کے علاقے میں تو لوگوں پر قیامت گزر جاتی ہے۔ میر پور سے جنگڑ تک کوئی بتیس تینتیس میل کا فاصلہ ہے۔ لیکن راستے میں کہیں پانی نہیں ملتا۔ بارش ہو گئی تو چھوٹ چھوٹے نالوں اور کنوؤں میں پانی نظر آنے لگتا ہے۔ ورنہ لوگ ایک ایک بوند کو ترس جاتے ہیں راستے میں ایک دو جوہڑ ہیں انسان اور حیوان انہیں کا پانی پیتے ہیں۔ ایک چشمہ بھی ہے لیکن گرمیوں میں دو اڑھائی مہینے خشک پڑا رہتا ہے۔ لوگوں نے کئی مرتبہ راجہ کی خدمت میں عرض داشتیں کیں لیکن وہ فائلوں کے انبار تلے دب کے غائب ہو گئیں۔ آخر ان لوگوں کے لیے لاکھوں روپے خرچ کر کے نل لگوانے کا کام کون کرے۔ مہاراجہ صاحب ایسی سخاوتیں کرنے لگیں تو ریاست کا دیوالیہ پٹ جائے۔ آخر اس علاقہ میں رکھا ہی کیا ہے۔ لے دے کے صرف میرپور کی بستی اہمیت رکھتی ہے۔ بڑے بڑے تاجر اور ضلع کے افسر وہیں رہتے ہیں۔ وہاں ایسے کنوئیں موجود ہیں جن میں سال بھر پانی رہتا ہے۔

لاری پیر ک ڈھلوانوں پر بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ ان پہاڑوں اور پہاڑی دروں پر وگ پیر کیوں کہتے ہیں۔ چھبال کے علاقے کے درمیان پہاڑوں کی جو دیوار سی کھنچی ہوئی ہے۔ وہ کچھ زیادہ اونچی نہیں۔ پھر ان پہاڑوں پر برف بھی تو نہیں پڑتی۔ پیر پنجال کی بات ہی اور ہے۔ اس کی بعض چوٹیاں سولہ ہزار فٹ سے بھی زیادہ اونچی ہیں۔ اور ان پر برف ہمیشہ جمی رہتی ہے۔ گرمی کے موسم میں جب پیر پنجال کے سلسلہ کوہ کی گھاٹیاں سبزہ سے ڈھک جاتی ہیں تو اس کی سبز قبا اور سفید برفانی عمامہ دیکھ کر سچ مچ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خضر صورت بزرگ سر پر نورانی عمامہ لیے کھڑے ہیں اصل بات تو اتنی ہی تھی آگے چل کر لوگوںے پیر پنجال سے طرح طرح کی روایتیں وابستہ کر لیں اور پانچ پیروں والی روایت تو ایسی مشہور ہوئی کہ بعض دروں میں لوگوں نے چبوترے بنا کے ان پر بیرقیں لگا دیں اور ایک شخص مجاور بن کے بیٹھ گیا۔ اب یہاں سے گزرتے وقت پیسہ دو پیسہ پھینکے جبھی طبیعت کو اطمینان نصیب ہو گا ورنہ یہ دغدغہ لگا رہے گا۔ کہ نہ جانے پیر صاحب ناراض ہو کر کیا کر بیٹھیں ل بہت سے پرانے معتقدات تشبیہوں سے ابھرتے ہیں۔ اور اکثر ملکوں کو دیو مالا کی تعمیر میں ان تشبیہوں کا بڑا حصہ ہے۔ کشمیر میں جو عام خیال ہے کہ ندی الہ سانپ یا سانپوں کا کرشمہ فیض ہے اسے بھی اسی قسم کی تشبیہ نے ہی جنم دیا ہے۔ اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو میر پور اور جھنگڑ کے درمیان جو پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا ہے اسے پیر کہنے میں کوئی ایسا حرج بھی نہیں اس پہاڑی سلسلہ کی چوٹی پر چیڑ کے درختوں کے گھنے جنگل ہیں ڈھلوانوں پر کہیں کہیں تو چھوٹی جھاڑیاں ہیں اور کہیں جھاڑیاں بھی نہیں ہیں بس کالی نیلی اور بھوری چٹانیں پھیلتی چلی گئی ہیں۔ یوں کہیے کہ پیر پنجال یعنی بڑے پیر کا عمامہ سپید اور چھوٹے کی دستار مبارک سبز رنگ کی ہے۔ یعنی تشبیہہ کا تعلق یہاں بھی موجود ہے۔ پہلے تو لوگ چھوٹے پیر کی کچھ ایسی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ لیکن جب سے یہاں دو تین لاریاں تباہ ہوئی ہیں لوگ اس سے ڈرنے لگے ہیں۔

لاری میں مجھ سمیت تیرہ مسافر تھے ان میں تین تو سپاہی تھے اور جو پونچھ کے غربی حصے کے رہنے والے تھے۔ اب چھٹی گزارنے گھر جا رہے تھے ایک ہندو دوکاندار جو اپنی نئی نویلی دلہن کو اس کے میکے سے لے کر آ رہا تھا تین چوتھائی دیہاتی جو کسی مقدمے کے سلسلے میں گواہی دینے میر پور آئے تھے اور دو مہاجن جو میر پور سے گڑ لے کر پونچھ جا رہے تھے۔ اور میں اور میرا لڑکا ظہیر اور میرا چھوٹا بھائی ضیا جو مجھے لینے لاہور سے آئے تھے ظہیر تتلیوں کو دیکھ دیکھ کے تالیاں بجا رہا تھا۔ دلہن لال جوڑا پہنے لمبا گھونگھٹ کاڑھے گٹھڑی بنی ایک گوشے میں پڑی تھی۔ اس کا خاوند اس کے پاس بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ باقی دونوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔ ان میں ایک کی کڑبڑی داڑھی تھی دوسرا بالکل بڈھا پھوس تھا۔ دو سپاہی جو چودھویں پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی پلٹن سے اجٹین کی باتیں کر رہے تھے تیسرا داد کے طور پر سر ہلا رہا تھا اور باقی لو گ اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ لاری کی گڑگڑاہٹ میں فریاد کا انداز تھا۔ جیسے وہ پیر کی چڑھائی چڑھنا نہیں چاہتی۔ لیکن ڈرائیور اور پٹرول اسے کھینچے جا رہے تھے۔ پٹرول کی عظمت کا احساس سب کو تھا کیونکہ ایک سوا میں اس کی تیر بو پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن مجھے سب سے زیادہ تھا کیونکہ میں ٹنکی کے پاس اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ گاڑی بار بار اچھلتی تھی۔ گویا پٹرول اور ڈرائیور دونوں کے پھندے سے آزاد ہو کر کہیں بھاگ جانا چاہتی ہے۔ کبھی کبھی لاری کا پہیہ کسی گڑھے میں جا پڑتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارے انجر پنجر ڈھیلے ہو گئے کسی مسافر کا سر چھت سے جا ٹکراتا تو کوئی سیٹ پر اوندھے منہ گر پڑتا کبھی کبھی وہ گیند کی طرح اچھلتی تھی اور ہم سب اس کے ساتھ گیند کی طرح اچھلتے تھے۔ اب دھوپ تیز ہو گئی تھی اور یہ مڑتی تڑتی کچھ سڑک پر جو سنگلاخ چٹانوں اور چیڑ کے درختوں میں بل کھاتی ہوئی چلی گئی ہے۔ دھوپ ہانپتی ہوئی چٹانوں اور چیڑ کے درختوں یں بل کھاتی ہوئی چلی گئی ہے۔ چھوپ ہانپتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یوں تو ا س اجاڑ پگ ڈنڈی کو سڑک کہنا مذاق ہے۔ لیکن خیال آتا ہے کہ ایک وہ زمانہ بھی تھا جب لوگ پیدل یا ٹٹوؤں پر سفر کرتے تھے۔ اور میر پور سے پونچھ تک کا راستہ جو دن بھر میں طے ہوتا ہے تین چار دن میں طے ہوا تھا۔ تو یہ کچی سڑک غنیمت معلوم ہونے لگتی تھی۔ اس سڑک کی قدر ساون بھادوں کی مہینو ں میں معلوم ہوتی ہے۔ جب زور کی بارش سڑک کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور کئی کئی دن لاری اس طرح سے گزرتی نظر نہیں آتی۔ اب تو لوگوں کو لاری پر سفر کرنے کی کچھ ایسی عادت ہو گئی ہے کہ کئی دن سڑک کھلنے کے انتظار میں پڑے رہتے ہیں۔ انہیں ہمت نہیں ہوتی کہ پیدل ہی چل نکلے اصل میں ۱۹۳۱ء کی تحریک شروع نہ ہوتی تو یہ سڑک نہ بنتی اور لوگ آج بھی ان پہاڑی پگڈنڈیوں کو ٹٹوؤں کے ذریعے یا پیدل طے کرتے نظر آتے۔ اس تحریک کے بعد کہیں مہاراجہ کو احساس ہو ا کہ ڈوگرہ راج قائم رکھنا ہے تو سڑکیں بھی بنانی پڑی گی۔ تاکہ وقت آ پڑے تو ریاست کے مختلف حصوں میں آسانی سے فوج بھیجی جا سکے اصل میں سڑک تو فوج کے لیے بنی تھی مہاراجہ نے از راہ فیاضی دوسرے لوگوں کو بھی اس سفر کرنے کی اجازت دے دی۔

ملکھی رام سچ کہتا ہے کہ راج کرنا آسان نہیں۔ ریاست میں ذراسی شورش ہو گئی اور خزانوں کے منہ کھل گئے یہ یعنی مہاراجہ کو جگہ جگہ سڑکیں بنوانی پڑیں۔ یہ سڑکیں کچی ہی سہی لیکن آخر سڑکیں تو ہیں۔ مہاراجہ پرتاب سنگھ سڑکوں سے بہت ڈرتے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ ان سڑکوں کے ذریعے باہر سے مال ہی نہیں آتا۔ صرف سیاح ہی نہیں آتے نئے خیالات بھی آتے ہیں۔ اور پونچھ وار راجہ موتی سنگھ تو سڑکوں سے زیادہ ڈاک خانوں اور تار گھروں سے خائف تھے انہوں نے مدت تک اپنے علاقے میں اس خیال سے ڈاک خانہ نہیں کھلنے دیا کہ ڈاک خانہ کھل گیا تو لوگ ان کی شکایتیں لکھ لکھ کر انگریزوں کے پاس نہ بھیجیں۔ آخر شکایتیں لکھ لکھ کر بھیجنے سے ہوتا ہی کیا ہے ؟ دراصل مہاراجہ ہری سنگھ بھی سڑکوں کے حامی نہیں تھے۔ کچھ ایسی مجبوریاں ہی آ پڑی تھیں کہ یہ سڑک بنوانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ورنہ رعایا کی بھلائی تو اسی میں تھی کہ یہ سڑک نہ بنتی۔ آخر باہر کے لوگو ں کو اپنے ہاں آنے کا موقع ہی کیوں دیا جائے۔ اور پھر سڑک بن جانے سے بے چارے مرکبانوں کا نقصان بھی تو ہوا ہے۔ اور نقصان بھی ایسا ویسا نہیں بچارے سچھ مچ مر مٹے ہیں یعنی انہیں اور ان کے ٹٹوؤں کو اب کوئی پوچھتا نہیں۔

اس سڑک پر کوئی سنگ میل نظر نہیں آتا ۔کہیں کہیں چٹانوں پر کچھ ہند سے دکھائی دے جاتے ہیں۔ لیکن وہ اتنے دھندلائے ہوئے ہیں کہ صاف پڑھے نہیں جاتے۔ ایک جگہ لکڑی کا ایک بڑا سا کندا پڑا ہے۔ کندا کیا ہے پورے کا پورا درخت ہے جسے میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں یہاں پہنچ کر میں ہمیشہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ نواب منزل مار لی یعنی جھنگڑا کا فاصلہ متعین نہیں کر سکا۔

پیر کی چوٹی سے جھنگڑ تک کوئی تین میل کا اتار ہے لیکن راستہ خاصہ خطرناک ہے۔ ایسے ایسے موڑ آتے ہیں کہ وہ لاری کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کئی برس ہوئے یہاں ایک لاری گری تھی اور کئی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ پھر بھی یہاں پہنچ کر طبیعت میں ایک راحت سی محسوس ہوتی ہے۔ نیلی اور بھوری چٹانوں کو دیکھ کر جی اکتا گیا ہے۔ کچھ ایسی یکسانی ہے کہ کیا کہوں ایک موڑ دوسرے موڑ سے ذرا بھی مختلف نہیں ہوتا۔ یہاں اور کیفیت ہے۔ چیڑ کے درخت ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔ جن میں سے دھوپ چھن چھن کر سڑک پر پڑتی ہے۔ اور چھوپ چھاؤں کی شطرنجیں سی بچھی رہتی ہیں۔ یہاں سے جھنگڑ کا چھوٹا سا گاؤں بالکل زیر قدم معلوم ہوتا ہے اصل میں یہاں دو گاؤں ساتھ ساتھ ملے ہوئے ہییں ایک کا نام سریاہ ہے۔ دوسرے کا نام دھرسال جھنگڑ۔ سڑک جھنگڑ میں سے گزر تی ہے۔ لاریوں کا اڈہ بھی لیکن کبھی کبھی اسے سریاہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ سڑک کے کنارے ایک نانبائی کی دکان ہے اور اس کے ساتھ کی دکان میں ایک ہندورسوئے نے اپنا بھوجن بھنڈار کھو ل رکھا ہے۔ سامنے کے رخ ایک بنئے کی دکان ہے۔ جہاں گھٹیا سگرٹوں سے لے کر گڑ اور نمک تک ضروریات کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ پانی کی یہاں کمی نہیں۔ اس لیے ۲۳میل سے تھکا دینے والے سفر کے بعد طبیعت کو ہمیشہ آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ جھنگڑ سے جموں کو بھی ایک سڑک نکلتی ہے نوشہرہ پہنچ کر یہ سڑک دو شاخوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک شاخ تو بیری پتن اور اکھنور سے ہوتی ہوئی سیدھی جموں چلی جاتی ہے۔ دوسری رام پور راجوری تک جا پہنچتی ہے۔ جب تک سڑک نہیں بنی تھی جھنگڑ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ البتہ نوشہرہ اس نواح کی بڑی اہم بستی سمجھی جاتی تھی اور وہاں خاصی فوج رہتی تھی۔ لیکن جب سڑک بنی تو ایک دو کم پنیاں جھنگڑ بھیج دی گئیں جھنگڑ سے آگے دور تک میدانی علاقہ ہے۔ اور سیری کی بستی تو جھنگڑ سے ملی ہوئی ہے۔ ۱۹۳۱ء کے ہنگامے میں جسے یہ لوگ سمت ۱۹۸۸ء کی شورش کہتے ہیں سیری اور کھوئی رٹہ کے بازار بھی لٹ گئے تھے۔ اسی لیے جھنگڑ میں فوج بھیج دیگ ئی تھی تاکہ پھر کبھی شورش ہو تو کچل ڈالا جائے۔ ڈوگوں کو لے دے کے حکومت کرنے کا یہی طریقہ آتا ہے کہ جہاں ذرا گڑبڑ ہوئی فوج بھیج دی گئی۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ شورش کی وجہ کیا ہے کتنے لوگ بھوکوں مر گئے۔ کتنے فاقوں سے جاں بلب ہیں۔ تحصیل کے پیادوں پٹواریوں گردواروں جنگل اور پولیس کے اہل کاروں نے قیامت مچا رکھی ہے اور ساہوکار کس طرح لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ جہاں ذرا شور مچا فوج آ موجود ہوئی اور حکومت کرنے کا طریقہ بھی تو طبع زاد نہیں ڈوگروں نے اپنے خداوندان نعمت یعنی سکھوں سے اڑایا ہے۔ ڈوگرے اچھے سپاہی ہوتے ہیں یا نہیں البتہ انہیں انسان شکاری کی خاصی مشق ہے اور نہتے انسانوں کو گولی مار دینے کے لیے بہادری کی کچھ ایسی ضرورت بھی تو نہیں۔

لاری جھنگڑ میں کوئی آدھ گھنٹہ رک کے پھر چل کھڑی ہوئی لیکن یہاں سے کوٹلی تک سپاٹ میدان ہے۔ اس لیے کاری کی گڑگڑاہٹ میں اب فراد  انداز نہیں اور کہیں کہیں تو اس کا شور سہانے گیت کی طرح کانوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے۔ تینوں دیہاتی جھنگر ہی میں اتر گئے تھے نوجوان مہاجن اور اس کی دلہن نے بھی سیری ہی تک ساتھ دیا۔ دلہن اب بھی لمبا گھونگھٹ کاڑھے ہوئے تھی لیکن لال رنگ کے مہین کرتے میں سے اس کا نو شباب جسم چھلکتا نظر آتا تھا۔ لاری سے اتر کر جب وہ اپنے خاوند کے پیچھے پگڈنڈی کی طرف بڑھی تو ا س کے انداز میں جھجک سی تھی۔ اور اس کے قدم کچھ رکتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ گو یا میکا چھٹنے کاسارا قلق اس کی چادر میں آ گیا تھا۔ میکے کو جہاں کی ہر چیز جانی پہچانی تھی جہاں ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔ وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ اس کے آگے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس اندھیرے میں ساس جس کی اسنے ایک ہی جھلک دیکھی تھی۔ کہیں دبکی بیٹھی تھی۔ نہ جانے وہ کب  اس تاریکی میں سے نکل کر بھوکی شیرنی کی طرح اس پر جھپٹ پڑے۔ سامنے کی پہاڑی پر ایک گوالا اس علاقے کا مقبول عام گیت سپاہیا گا رہا تھا۔ دو سپاہیوں کے سینے میں اس جانی پہچانی دھن کو سن کر تن گئے تیسرا چپ چاپ بیٹھا رہا گویا اس دھن سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی کم از کم وہ اپنے آپ کو اس گیت سے مخاطب نہیں سمجھتا تھا۔ میرا ہاتھ بھی خود بخود مونچھوں کی طرف اٹھ گیا۔ آخر میں بھی تو سپاہی تھا۔ اور نہیں لوگوں کی طرح چھٹی گزارنے گھر جا رہا تھا۔

سیری سے آگے کھوئی رٹہ کا قصبہ ہے خاصہ بڑا بازار ہے۔ جس میں ا س علاقے کے عام قاعدے کے مطابق پتھر کا فرش بچھا ہوا ہے۔ ہمارے خاندان کی ایک شاخ یہاں آباد ہو گئی تھی۔ میرے کئی چچیرے بھائی اور رشتے کے کئی اور عزیز بھی یہاں رہتے ہیں۔ لیکن وہ سب کے سب ہندو ہیں۔ اس لیے اس سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا اور گوپال دامن کے سوا ان میں سے کوئی کھل کے بھی تو نہیں ملتا۔ بس اس راستے آٹے جاتے کئی برس دو برس کے بعد ملاقات ہو جاتی ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا ہوں اور جج کی تیز تیز نگاہیں میرے دل میں اتری جا رہی ہیں لیکن ان نگاہوں میں کچھ غصہ ہوتا ہے کچھ ملامت کچھ رحم کچھ تاسف اور کبھی کبھی تو شفقت کانور بھی جھلکنے لگتا ہے۔

کھوئی رٹہ سے پانی کے پل تک صاف میدان ہے۔ اس سے آگے سڑک کہیں کہیں ٹوٹی پھوٹی ہے۔ بان جسے بان گنگا بھی کہتے ہیں ایک تیز رفتار نالہ ہے یوں تو اس میں پانی زیادہ نہیں ہوتا لیکن گرمیوں کے شروع میں جب برف پگھلتی ہے یا برسات کے موسم میں جب جل تھل ایک ہو جاتے ہیں بان گنگا خاصی بڑی ندی کا روپ دھار لیتی ہے نہ جانے اس کے نام کے ساتھ لوگوں نے گنگا کیوں چپکا دیا ہے۔ کہاں یہ چھوٹی سی ندی اور کہا ں گنگا لیکن بان پر گنگا کا اضافہ کر کے ہندوؤں نے اس پر اپنا حق ثابت کر دیا ہے۔ مسلمانوں نے پہاڑی دروں پر کمپا مارا اور انہیں پیر بنا دیا۔ ہندوؤں نے ندی پر جال پھینکا یعنی اسے گنگا بنا کے اپنے کھاتے میں ڈال لیا۔ ندی تو چھوٹی ہے لیکن پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اپنی گزرگاہ کے بہت سی زمین پر قبضہ جما لیا ہے تاکہ جتنا پھیلنا چاہے پھیل سکے۔ پھر اس کے کڑاڑے بھی بہت اونچے ہیں اور اس کا پل جو اس علاقے میں عجائبات کا نمونہ سمجھا جاتا ہے ڈاٹوں کے بغیر سوئٹرز لینڈ کے پلوں کے نمونے پر بنایا گیا ہے۔

یہاں سے اگلا پڑاؤ کوٹلی ہے۔ میر پور سے ۲۳ میل جھنگڑ اور ۹۲ میل کوٹلی چار پانچ ہزار کی آبادی کا قصبہ ہے۔ دہنے ہاتھ دریائے پونچھ ہے جس کے کنارے کنارے چشمے ہی چشمے پھیلے ہوئے ہیں۔ ان سے دور سرسوں کے پیلے پیلے پھول کھیت جن کی مینڈیں سبزہ سے ڈھکی ہوئی ہیں گویا زمرد کی جدول میں سونے کی گلکاری ہے اس سے آگے پھر چڑھائی شروع ہو جاتی ہے اور کہیں کہیں تو ایسے ایسے خطرناک موڑ ہیں کہ ڈرائیور چوک جاتے تو کسی کی ہڈی پسلی کا پتہ نہ چلتا ساتویں میل پر ایک خطرناک نالہ آیا جسے نیل کہتے ہیں۔ میں اب تو اس پر بھی پل بن گیا تھا ورنہ ایک زمانہ میں لاریوں کو نالے میں سے گزرنا پڑتا تھا (کوٹلی کے تین اور مسافر سوار ہوئے ان میں ایک تو کوٹلی کا مہاجن تھا۔ دوسرا ایک نوجوان کمپونڈر تیسرا پولیس میں محرر یا ہیڈ کانسٹیبل تھا) انہوں نے لاری میں بیٹھتے ہی باتیں شروع کر دیں کچھ بارش کے تذکرے کچھ فصل کا ذکر کچھ اناج اور گھی کی گرانی کے قصے۔ کانسٹیبل کی شکایت تھی کہ گاؤں والے لڑائی کی وجہ سے بہت دولت مند ہو گئے ہیں۔ ا س لیے سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔ غضب کہ ڈیڑھ روپے میں مرغی آتی ہے۔ بیس بائیس سیر لکڑیوں کا گٹھا سوا روپے میں ملتا ہے۔ مہاجن کہنے لگا۔ کل جگ ہے کل جگ جو ہو تھوڑا ہے بھگت کبیر کہہ گئے ہیں … لیکن حافظہ پر زور ڈالنے کے باوجود کبیر کا دوہا اسے یاد نہ آیا اور کسی نے پروا بھی نہ کی۔

سڑک کچھ دور دور یاہ کی گزرگاہ کے ساتھ چلتی ہے پھر دریا نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے دیو پیکر پہاڑوں کے توبہ توبہ پھیلے ہوئے سلسلے کو اپنے آغوش میں لے لیتے ہیں َ لیکن وہ پہاڑی دروں سے نکل کر دریا کی گزرگاہ کے پیچھے بھاگتی ہے اور بالآخر اسے پا لیتی ہے۔ اب سڑک دریا کے ساتھ ساتھ چلتی ہے لیکن دریا کا کڑاڑ بہت اونچا ہے۔ سڑک کو اتنی اونچائی پر دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے ک وہ اس کی نگرانی کر رہی ہے۔ اور اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتی۔ اسے ڈر ہے کہ کہیں و ہ پھر اس سے جدا نہ ہو جائے۔ پھر یہ ایک دوری بھی گراں گزرنے لگتی ہے۔ وہ گھاٹیوں سے اتر کے دریا کے قریب آ جاتی ہے۔ اور وہ دونوں پہلو چلنے لگتے ہیں اور سڑک کی اس بیتابی کو وجہ سمجھ لینا کچھ ایسا مشک بھی نہیں۔ یہ پہاڑوں کا بانکا جس نے چٹانوں کے سینے چھید کے اپنے لیے راستہ بنایا ہے حسین بھی تو اتنا ہے کہ اس کے حسن کی تعریف کرنے کے لیے شاعروں کو موزوں الفاظ نہیں ملتے خاص طور پر جاڑے کے موسم میں جب رگوں میں خون منجمد ہو جاتا ہے اور بہار کے شروع میں جب خوبانی کی ادھ کھلی کلیوں کی خوشبو فضا میں پھیل جاتی ہے۔ اور سوئے جذبات ایکا ایکی جاگ اٹھتے ہیں َ وہ بہت ہی مہین معلوم ہوتا ہے۔ اس کی چال میں وقار اور تمکنت ہے۔ محبت میں عشق کا گداز ہے اور اس ک پانی میں آسمان کی نیلاہٹ کی ساری رعنائی سمٹ آئی ہے۔ اور جب اس کی موجیں سپید سپید پتھروں اور اودھی نیلی اور لال چٹانوں سے ٹکرا کر پھیلتی ہیں تو بلور کی چادر سی لہرا جاتی ہے جس طرح اس کے حسن کی کیفیت بیان کرنے کے لیے وہ ساری تشبیہیں بیکار بیکار ہو جاتی ہیں جو شاعروں کو انسانی حسن نے سمجھائی ہیں۔ اسی طرح اس ک شیریں نغمہ کے لیے ہمیں موسیقی کی کتابوں میں کوئی اصطلاح نہیں ملتی اور نہ دیپک ہے۔ نہ میگھ بلکہ وہ ایسا سرمدی نغمہ ہے جو کہیں عالم ملکوت ہی کی فضاؤں میں گایا جاتا ہے۔

پہاڑی دروں سے نکلتے نکلتے سورج کے چہرے پر زردی چھا گئی ہے۔ اب درختوں کی پھننگ اور پہاڑوں کی گھاٹیوں پر دھوپ دم توڑ رہی ہے۔ دریا کی سطح پر سونے کا ورق سالمحہ بھر کے لیے کانپا اور پھر اس کی رنگت سیاہ پڑ گئی۔ ہم پونچھ کی حد میں آ پہنچے تھے۔ اور ظہیر چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ وہ رہا تتا پانی میں نے نظر اٹھا کے دیکھا۔ دریا کے اس پار تتا پانی کی عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔ ڈرائیور نے لاری کی رفتار تیز کر دی اور تھوڑے عرصے میں ہم شعر آ پہنچے۔ یہ خاصا بڑا گاؤں ہے۔ ایک زمانے میں یہاں کسٹم کی چوکی تھی۔ اب ایک پکی عمارت ہے جس پر ٹین کی چھت ہے۔ اس کی یادگار باقی رہ گئی ہے۔ لیکن پونچھ کی حد میں پہنچے ہی ایسا معلوم ہوا کہ فضا بدل گئی۔ پہاڑیاں زیادہ سرسبز ہیں۔ ہوا میں زیادہ خنکی ہے اور ہر طرف درختوں کے جھنڈ چھائے ہوئے ہیں َ اب راستے میں قدم قدم پر چشمے ملنے لگے۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر سوتے پھوٹ نکلے ہیں اور پانی سڑک پر بہہ رہا ہے۔ زرخیز میدان پھیلتے چلے گئے ہیں۔ یہ شہر سے ملے ہوئے بیدار اور بلنوئی کے گاؤں ہیں۔ ان سے آگے ٹبل یہاں سڑک کے دہنے ہاتھ ہٹ کر شمال کی طرف لیکن مداریوں کی بستی تک پہنچ کر اس کا رخ پھر بدل جاتا ہے اور وہ دریا کی گزرگاہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی مشرق کی طرف ہو لیتی ہے۔ اب سورج غروب ہو چکا تھا۔ شام کی سیندور بھری مانگ کی چمک پھیکی پڑ چکی تھی۔ اور رات کے کاجل نے ہر طرف پھیل کر آسمان کی نیلاہٹ کو دھندلا دیا تھا۔ اور ستارے اس وسیع سمندر میں کشتیوں کے بادبان معلوم ہوتے تھے۔ پرندے بسیر ا کر لینے کے لیے درختوں پر گرے پڑتے تھے۔ اور ا کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی شام کے دھندلکے میں ایک ہد ہد کی کلغی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ ایک ہریل بسیرے کی تلاش میں اڑا جا رہا تھا۔ سردی خاصی تھی اور ہم سب ٹھٹھرے جا رہے تھے لیکن ہوا کے ٹھنڈے جھونکے اپنے ساتھ مٹی اور گھاس کی سوندھی سوندھی بو بھی اڑا لائے تھے۔ جس میں خوبانی اور شفتالو کی کلیوں کی ہلکی ہلکی خوشبو اور چنبیلی کے پھولوں کی مہک گھل مل رہی تھی۔ ہمارے دہنے ہاتھ کی ڈھلوانوں پر چیڑ کے درخت چھائے ہوئے تھے۔ اور دھندلکے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ڈوگرہ سپاہی کندے پر بندوقیں رکھے ہوئے پہرہ دے رہے ہیں تاکہ ہوا چنبیلی کی خوشبو چرا کے لوگوں تک نہ پہنچا دے۔

تینوں سپاہی مدار پور ہی میں اتر گئے اور دریا کا پر خروش نغمہ اور جھرنوں کے سہانے گیت سننے مشرق کی طرف بڑھے۔ رات کا جادو مجھ پر چھایا جا رہا تھا۔ اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہوئی جا رہی تھیں۔ لمحہ بھر ک لیے مجھ پر غنودگی چھا گئی اور لاری ایک پتھر سے ٹکرا کے اچھلی تو میں چونک پڑا۔ میرے سامنے دریا کی کالی کالی موجوں سے ہٹ کے ہزاروں جگنو اڑ رہے تھے۔ اور ان کے بعد پراسرار نیلا نیلا دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو میں بالکل نہ سمجھ سکا کہ میں کہاں ہوں اور اتنے جگنو کہاں سے آ گئے۔ پھر یکایک مجھے خیال آیا کہ لاری منزل پر پہنچ گئی ہے۔ میرے سامنے دریا کے اس پار پونچھ کا شہر ہے۔ اور روشنی کے نقطے جنہیں میں جگنو سمجھ رہا ہوں بجلی کے قمقمے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

آؤ مشاعرہ کریں

 

 

زندگی میں بڑے بڑے ہنگامے دیکھے ہیں۔ اخبار اور رسالے نکالے ہیں اور ادبی بحثوں میں حصہ لیا ہے۔ تقریریں کیں ، کتابیں لکھیں ، موسیقی کی کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ بڑے بڑے گویوں کو سنا۔ اب جی چاہتا ہے کہ خدا توفیق دے تو جیتے جی ایک مشاعرہ کرا ڈالیں۔ لیکن صاحب بندہ ان مشاعروں کا قائل نہیں کہ ادھر ادھر سے شاعر جمع کیے۔ اور دو ڈھائی گھنٹے ہاؤ ہو کر لی یعنی کاتا اور لے ڈورے۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے مشاعرے روز ہوتے رہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو دن ڈھلے شہر میں نکل جائیے۔ کہیں نہ کہیں مشاعرہ ضرور ہو رہا ہو گا۔ مشاعرہ ہو تو اس دھوم کا ہو کہ مدتوں سندرہے اور عند الضرورت کام آئے۔ یعنی لوگ اس کا ذکر اس طرح کریں کہ جس طرح کوئٹے اور بہار کے زلزلوں کا ذکر کرتے ہیں کسی واقعہ کی تاریخ بتانا ہو تو اس کا حساب اس مشاعرے تاریخ سے لگایا جائے مثلاً آپ صاحبزادے کی عمر پوچھیں تو جواب ملے کہ برے مشاعرے سے ٹھیک دو مہینے بعد پیدا ہوا تھا۔ اس قسم کا مشاعرہ ہو تو ایک بات بھی ہے اور مشاعرہ کرنا کیا ضرور ہے۔

آج کل کے مشاعروں میں ایک قباحت ہے کہ ان میں شاعروں کو اپنے جی کے حوصلے نکالنے کا موقع نہیں ملتا۔ ایک تو طرح سرے سے مفقود اور دوسرے یہ شاعر کی مرضی پر موقوف ہے کہ چاہے غزل پڑھے چاہے نظم اور یہ بھی ضروری نہیں کہ غزل یا نظم نئی ہو۔ بعض شاعروں کا تو یہ حال ہ کہ ایک ہی نظم ساری کائنات ہے۔ ہر مشاعرے میں بری بے تکلفی سے وہی سنا دیتے ہیں اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ نظم مشاعرے کے ڈھب کی چیز ہی نہیں۔ کیونکہ نظم کی اچھائی برائی کا اندازہ اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک پوری سن نہ لی جائے۔ ہر شعر پر داد کا ہنگامہ برپا نہ ہو شاعر کو تسکین ہوتی ہے نہ سننے والوں کو لطف آتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لوگ مشاعروں میں نظم کے مصرعوں اور شعروں پر داد دیتے ہیں لیکن یا تو صرف اس لیے کہ اکثر نظموں میں غزل کے انداز کے مصرعے اور شعر نکل آتے ہیں جن کی وجہ سے محفل گرم ہو جاتی ہے۔ ورنہ میں یہ ماننے سے تو رہا کہ پوری نظم کو سن کے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں َ غزل کو آپ جو چاہے کر لیجیے لیکن آپ اتنا ضرور ماننا پڑے گا کہ مشاعروں کی رونق اور ہما ہمی غزل کے دم قدم سے ہے۔ صرف نظموں کی وجہ سے مشاعرے چمک سکتے تو مشاعرہ اردو سے مخصوص ہو کے نہ رہ جاتا۔ انگریز فرانسیسی جرمن اور روسی بھی مشاعرے کرتے۔ جاپان اور چین میں بھی شعر خوانی کی محفلیں منعقد ہوتیں۔ اس لیے میری سنیے تو مشاعرے کو نظم سے پاک رکھیے۔ ہاں ایک دو نظمیں ہو جائیں تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ لیکن یہ نظمیں بھی مضمون کے لحاظ سے غزل کے قریب قریب ہوں ورنہ لگ سنتے سنتے اکتا جائیں گے۔ مشاعرے میں اس قسم کی نظمیں کامیاب ہوتی ہیں جن میں ایک ہی خیال کو ہر پھر کے لیے نئے طریقوں سے ادا کیا جائے۔ آپ نے بعض نظمیں دیکھی ہوں گی جن پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو بات غزل کے ایک شعر میں کہی جا سکتی ہے وہی بات شاعر نے پوری نظم میں کہہ ڈالی ہے۔ نظم میں کئی بند ہیں لیکن ساری نظم کی جان ٹیپ ہے جو غزل مطلع معلوم ہوتی ہے۔ اس قسم کی نظموں میں ایک خوبی یہ ہے کہ چاہے پوری نظم پڑھیے یا پہلا اور آخر ی بند پڑھ ڈالیے۔ چاہے صرف ٹیپ پر ہی اکتفا کیجیے مضمون میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ نے اس قسم کی کوئی بھی  نظم لکھی ہے تو مشاعرے میں ضرور پڑھیے میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو ضرور داد ملے گی۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ مشاعرہ طرحی ہو یا غیر طرحی۔ میرے خیال میں تو مشاعرے کا طرحی ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر چند غیر طرحی غزلیں بھی ہو جائیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اس طرح مشاعرہ میں تنوع پیدا ہو جائے گا لیکن طرح کے بغیر کوئی چارہ نہیں  کیونکہ شاعری کا کمال طرحی  مشاعروں میں ہی اجاگر ہوتا ہے۔ میر و سودا، انشا و مصحفی، آتش و ناسخ وغیرہ کی شاعری کو آخر انہیں طرحی مشاعروں نے چمکایا ہے اور میں نے ایسے ایسے مشاعرے بھی دیکھے ہیں جن میں شاعر اپنے ساتھ لٹھ بند شاگردوں کے لشکر لے آئے تھے۔ جب اس بحث کا فیصلہ نہ ہو سکاکہ فلاں قافیہ کس شاعر نے سب سے اچھا باندھا ہے تو ان لوگوں نے لٹھ سنبھالنے اور دم بھر میں مشاعرہ میدان جنگ بن گیا۔ لیکن گھبرائیے نہیں اب نہ ایسے استاد ہیں نہ شاگرد اس لیے اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کہ مشاعرے میں لٹھ چل جائے گا۔ اب اس طرف سے مطمئن ہو کے لگے ہاتھو ں مصرع منتخب کر لیجیے۔ لیکن طرح کے انتخاب میں اس بات کا ذکر رہے کہ ردیف لمبی ہو تاکہ مصرع اٹھانے میں آسانی ہو پھر لمبی ردیف میں یہ خوبی بھی تو ہے کہ قافیہ بولتا ہوا معلوم ہوتا ہے آپ نے دوسرے مصرع کا پہلا لفظ ہی پڑھا کہ سننے والوں کو قافیہ سوجھ گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی سبحان اللہ کا غل اس طرھ مچا کہ عرش و فرش وجد میں آ گئے مصرع طرح تلاش کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ دیوان اٹھایا اور کوئی شگفتہ سی زمین دیکھ کر مصرع طرح تجویز کر دیا۔ لیکن یہ طریقہ بہت پرانا ہے۔ ہو سکے تو کوئی نئی زمین طرح کرنے کی کوشش کیجیے یا اگر کسی شاعر کے دیوان ہی سے مصرع طرح تلاش کرنا ہے کسی غیر معروف شاعر کے کلام پر توجہ فرمائیے۔ بہرحال مصرع طرح تجویز ہوتا رہے گا۔ میں بھی غور کرتا ہوں آپ بھی غور کیجیے۔ پہلے یہ فیصلہ کیجیے کہ مشاعرے میں نشست کا انداز کیا ہو میرے نزدیک تو بہتر یہ ہے کہ چاندنی کا فرش ہو لیکن اگر  آپ کو یہ پسند نہیں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ڈائس ہو شعرائے کرام تشریف فرما ہوں سامعین گرداگرد کرسیوں پر۔ یہ گنگا جمنی طریقہ ہے جس میں قدیم و جدید دونوں انداز موجود ہیں آپ کو شاید ناپسند ہو لیکن مجھے تو پسند ہے۔ مدت ہوئی ایک صاحب نے نیم ادبی مجلس کی بنیاد ڈالی تھی جس کے جلسے اس شان سے ہوتے تھے کہ حاضرین کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور صدر جلسہ فرش پر تشریف فرما ہیں۔ یہ طریقہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہے یہ ضروری نہیں کہ نشست کا یہی انداز اختیار کیا جائے۔ آپ کی سمجھ میں کوئی طریقہ آئے تو فرما دیجیے لیکن ذرایہ خیال رہے کہ جب تک مشاعرے میں حقہ کے دور کے ساتھ ساتھ شمع گردش نہ کرے۔ نہ شعر پڑھنے کا لطف آتا ہے نہ سننے کا اس فکر میں نہ پڑیے کہ مشاعرہ کہاں ہو شہر میں کئی ہال ہیں ان میں سے کوئی نہ کوئی ایک دن کے لیے کرائے پر مل جائے گا۔

اب رہا اعلان کا معاملہ تو اس طرف سے بھی مطمئن رہیے۔ اخباروں میں اعلان چھپوا دیا جائے گا اور اس پر ایک کوڑی بھی خرچ نہ ہو گی۔ لیکن صرف اخباروں میں اعلان کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ کچھ اشتہار بھی چھپوانے ہوں گے اور ان پر تھوڑے سے روپے بھی خرچ کرنے پڑیں گے۔ لیکن یہ اطمینان رکھیے کہ مشاعرے پر جو خرچ ہو گا اس سے چوگنی رقم ٹکٹوں کے ذریعے ہاتھ آ جائے گی۔ آپ نہ جانے مشاعرے کو کیا سمجھتے ہیں اجی صاحب اچھا خاص نفع بخش کاروبار ہے۔ اور میں تو ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے عمر بھر مشاعرے کرانے اور بٹیر لڑانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ اور بڑے اطمینان سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم اور آپ کاروباری آدمی نہیں۔ اور اس طرح روپیہ کمانا نہیں چاہتے اور یہ کون کہتا ہے کہ جو روپیہ یوں ہاتھ آئے اسے ہضم کر جائیے۔ لاگت کے دام وضع کر کے کسی کار خیر میں صرف کر ڈالیے۔ بیواؤں کو دے دیجیے یتیموں کی دستگیری کیجیے بیچارے غریب پیٹ بھر کھائیں گے اور اردو ادب کو دعا دیں گے۔

اب صرف ایک بات رہ گئی ہے۔ کہ اس مشاعرے میں ملک بھر کے نامور شاعروں کو کیسے جمع کیا جائے۔ تو یہ بھی بہت آسان ہے۔ آ ج ہی شعرا سے خط و کتابت شروع کر دیجیے۔ لیکن خط کا لہجہ نیاز مندانہ ہو شاعر کی تعریف جی بھر کے کیجیے کسی کے نام کے ساتھ تاج الشعرا لکھیے کسی کو خدائے سخن کسی کو ملک الکلام کسی کو لسان الملک کسی کو مصور جذبات کر کے مخاطب کیجیے۔ جو مشاعرے میں شریک ہونے سے انکار کر دے اسے پھر خط لکھیے اور اس میں لکھ دیجیے کہ سفر خرچ اور قیام و طعام کا انتظام مشاعرے کے منتظمین کے ذمے ہو گا۔ ایک اور طریقہ بتاؤں شہر کے کسی بڑے آدمی کو صدارت کے نام پر پھانسیے بعض شعرا کے قیام کا انتظام اس کے ہاں ہو جائے گا۔ جو باقی بچیں گے انہیں بعض دوستوں کے ہاں ٹھہرا دیا جائے گا۔ یہ قضیہ تو یوں طے ہوا اب رہا یہ امر کہ شاعروں کو کیا دیا جائے تو اس کا حل بھی بہت آسان ہے۔ شعرا کو صرف داد دیجیے جو داد پر مطمئن نہ ہوں انہیں سفر خرچ پر ٹرخائیے آپ ہیں کس خیال میں۔ تفریح کے جتنے سامان ہیں ان میں مشاعرہ سب سے کم خرچ اور بالا نشین سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب بعض لوگ بیاہ شادی کی تقریبوں پر بھی ایک مشاعرہ کر ڈالنا کافی سمجھتے ہیں۔ میرے ایک دوست کے خاندان میں یہ رسم چلی آئی ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبوں پر مجرا ضرور ہوتا ہے۔ اب کے انہوں نے اپنے بھائی کی شادی پر طوائف کے مجرے کے بجائے ایک چھوٹا سا مشاعرہ کر ڈالا۔ اس طرح ایک تو انہیں سینکڑوں روپوں کی بچت ہو گئی دوسرے انہوں نے اس ترکیب سے اپنا نام اردو ادب کے محسنوں کی فہرست میں درج کروا دیا۔ اسے کہتے ہیں ہڑ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے۔

ملاحظہ فرمایا آپ نے مشاعرے کا سیدھا سادا اور آسان نسخہ ہے  آپ اس ترکیب پر عمل کر کے دیکھیے۔ اس ٹھاٹھ کا مشاعرہ ہو گا کہ جسے لوگ مدتوں یاد کرتے رہیں گے۔ اور ایک مشاعرہ کیا ہے اس ترکیب سے جتنے مشاعرے چاہے کیجیے۔ کیا مجال کہ ان میں ذرہ بھر کوئی کسر باقی رہ جائے۔ یہ بڑے بڑے استادوں کا آزمودہ نسخہ ہے۔ جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ سامعین میں کچھ ایسے ہوں کہ جو داد دینے کا سلیقہ رکھتے ہوں۔ اگر اس قسم کے لوگ میسر نہ ہو سکیں تو چند لڑکوں کو جمع کر کے انہیں داد کے بندھے ہوئے فقرے رٹوا دیجیے۔ خدا نے چاہا تو مشاعرہ کامیاب ہو گیا۔ خیر یہ کام بھی مجھ پر چھور دیجیے۔ آپ خدا کا نام لے کر مشاعرے کی تیاری شروع کیجیے یعنی آ ج ہی شعرا کی فہرست مرتب کر کے انہیں خط لکھ دیجیے لیکن یہ تو طے نہیں ہوا کہ مشاعرہ کس تاریخ کو ہو خیر خط لکھنے شروع کیجیے اور تاریخ کی جگہ خالی چھوڑ دیجیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ریڈیو سننا

 

جی ہاں ناپسند ہے۔ مجھے ریڈیو سننا سخت ناپسند ہے۔ اگر آپ شاعر ہیں تو بے قافیہ نظمیں لکھتے ہیں تو بیاض نکالیے اور مجھے اپنا سارا کلام سنا دیجیے میں مصیبت ہنسی خوشی برداشت کر لوں گا۔ بلکہ کیا خوب سبحان اللہ! اور مکرر ارشاد فرمائیے کے نعرے بھی لگاؤں گا اور آ پ پریہ ظاہر نہیں ہونے دوں گا کہ آپ کے کلام بلاغت التیام کا ایک مصرع بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر آپ شاعر نہیں بلکہ افسانہ نویس ہیں اور آپ کو اپنے افسانے سنانے کا شوق ہے تو آئیے اپنے افسانوں کا پشتارہ میرے سر پر دے مارئیے میں تھانے رپٹ لکھوانے نہیں جاؤں گا۔ لوگوں سے آپ کی شکایت نہیں کروں گا۔ اخبار میں آپ کے خلاف مضمون نہیں لکھوں گا۔ مجھ پر ایسے ویسے حادثے بہت گزر چکے ہیں اور آپ شاعر اور افسانہ نگار دونوں نہیں بلکہ نرے نقاد ہیں اور جناب تربوز شادابی مرموز عنابی کی شاعری کے پس منظر پر تقرری کر کے مجھے مرعوب کرنا چاہتے ہیں۔ تو میں بڑی آسانی سے مرعوب ہو جاؤں گا لیکن خدا کے لیے مجھے ریڈیو سننے کو نہ کہیے گا۔ میں ریڈیو نہیں سنوں گا۔ میں ہرگز نہیں سنوں گا۔ آپ نے ریڈیو سیٹ خریدا ہے تو میں کیا کروں ؟ غریبوں محتاجوں کو اس خوشی میں کھانا کھلائیے اور اس پر بھی تسکین نہ ہو تو ان بیچاروں کو چلتے وقت ریڈیو بھی سنو ا دیجیے لیکن خدا کے لیے مجھ پر مشق ستم نہ فرمائیے بس یاد رکھیے کہ ادھر آپ نے ریڈیو سیٹ کو ہاتھ لگایا اور ادھر میں بھاگ کھڑا ہوا۔

ریڈیو سننے سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مجھے موسیقی کا ذوق نہیں یا ریڈیو پر جو ڈرامے اور تقریریں وغیرہ براڈ کاسٹ ہوتی ہی۔ انہیں میں پسند نہیں کرتا۔ ڈرامے کے متعلق اتنا سن لیجیے کہ کونتھین نیو الفریڈ اور بھارت بیاکل ٹھیٹریکل کمپنی سے لے کر شاہ عالمی دروازے کی پیسہ کمپنی تک ک کھیل دیکھ ڈالے ہیں۔ تقریریں ادبی اور غیر ادبی ہر قسم کی سنی ہیں۔ موسیقی سے میرے شغف کا یہ حال ہے کہ تان توڑ خان، استاد تان دراز خان استاد تان رس خان سب کو سنا ہے۔ اور موسیقی سے میرے حسن عقیدت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ میاں تان سین کے مزار پر جو بیری کا درخت ہے اس کے پتے ہر سال منگواتا ہوں اور اپنے محلہ کے لوگوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ غرض مجھے نہ موسیقی سے کد ہے نہ ادبی بحثوں ڈراموں تقریروں اور مشاعروں سے بلکہ مجھے تو صرف ریڈیو سننے سے وحشت ہوتی ہے۔

نادر شاہ کے متعلق مشہور ہے کہ جب ہندوستان آیا تو ہاتھی کی سواری کا شوق ہو۳ا۔ ہاتھی پر سوار ہوا تو مہاوت سے کہنے لگا عنانش بدستم بدہ مہاوت نے جواب دیا فیل عنان ندارد۔ نادر شاہ یہ کہہ کر ہاتھی سے اتر آیا کہ مرکبے کہ عنانش بدست غیر باشد سواری رانشاید یعنی جب مرکب کی باگ ڈور دوسرے کے ہاتھ میں ہو وہ سواری کے لائق نہیں۔ ریڈیو کا معاملہ بھی ہاتھی کی سوار کا سا ہے۔

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

آپ چاہتے ہیں تو ایک اور واقعہ سن لیجیے۔ ہندوستان میں ریڈیو کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ایک صاحب کے ہاں کچھ لوگ بیٹھے ریڈیو سن رہے تھے اتنے میں ایک نے کہا ذرا زہرہ جان کی کوئی چیز سنوائیے۔ دوسرا بولا میں تو چھوٹی بڑی سوئیاں سننا چاہتا ہوں۔ شیخ صاحب بولے بھئی یہ ریڈیو ہے  گراموفون نہیں صاحب جنہوں نے پہلے فرمائش کی تھی بولے اچھا یوں کہیے کہ ریڈیو اپنی کہے جاتا ہے کسی کی نہیں سنتا۔ چلو میاں رحیم بخش فقیرا کو بلو ا کے اس سے سنیں۔ ظالم کو زمانے بھر کی چیزیں یاد ہیں جو چاہو سن لیجیو۔

اب اس قصہ میں نہ پڑیے کہ یہ بات کس نے کہی اور کس موقع پر کہی۔ فقیر یا کون تھا اور رحیم بخش کون لیکن اتنا تو آپ بھی مانیں گے کہ کہنے والا بڑے پتے کی بات کر گیا۔ ریڈیو بہت بڑی ایجاد سہی لیکن اس  کے زبان ہی زبان ہے نہ کان ہیں نہ آنکھیں۔ اب اگر آپ کو ایسے بہرے آدمی سے واسطہ پڑ جائے جس کی زبان کترنی کی طرح چلتی ہو تو آ پ کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کہ یا تو اس سے کسی طرح پیچھا چھڑا کر بھاگ نکلیے یا چپ چاپ اس کی باتیں سنتے رہیے لیکن ا س کی باتوں کو جواب دینے کی کوشش کرنا بے سود ہے۔ چلا چلا کے باتیں کیجیے گا تو اپنا ہی نقصان ہے۔ خناق یا نفث الدم ہونے کا اندیشہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آج کل دوائیں بہت مہنگی ہیں َ حکیم اور ڈاکٹر صاحب دونوں کامیاب ہیں۔ حکیم صاحب ہوا لشافی کر کے نسخہ لکھ دیں گے۔ لیکن دوا کے پورے اجزا کہاں سے لائیے گا۔

آپ جی میں کہتے ہوں گے کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے۔ ریڈیو کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب جی چاہے سنیے۔ جب جی چاہے بند کر دیجیے آپ کا خیال درست ہے کہ لیکن صاحب اس قسم کے اختیارات اپنے ریڈیو سیٹ تک محدود ہیں مجھے تو سرود خانہ ہمسایہ نے مارا۔ اغل بغل جو لوگ رہتے ہیں سبھی کے ہاں ریڈیو موجود ہے۔ پھر ان کے شوق کا یہ حال کہ صبح سے سننا شروع کرتے ہیں اور رات کے بارہ بجے تک برابر سنتے چلے جاتے ہیں۔ یعنی ریڈیو تھک جانے تو تھک جائے یہ نہیں تھکتے۔ فرمائیے ان کے ریڈیو سیٹ پر مجھے کیا اختیار ہے۔ آخر انگریز کی حکومت ہے نادر شاہی تو نہیں ہے کہ دھونس سے کام چل جائے۔ اب میری مجبوریوں اور پریشانیوں پر غور کیجیے کہ ریڈیو سننا نہیں چاہتا۔ لیکن برابر سنتا ہوں اب یہ تو ہونے سے رہا کہ جب تک گھر می بیٹھا رہوں کانوں میں انگلیاں ٹھونسے رکھوں لے دے کے یہی طریقہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مکان چھوڑ دوں لیکن اول دوسرا مکان ملنا ناممکن ہے۔ پھر اگر مکان مل گیا تو مل گیا تو وہاں کیا پڑوس میں ریڈیو نہ ہو گا :

بہر زمین کہ رسیدم یم ریڈیو پیداست

غرض میرا معاملہ یہ ہے کہ گڑ کھاتا ہوں گلگلوں سے پرہیز کرنا چاہتا ہوں۔

ریڈیو پر تقرری کرنے سے مجھے انکار نہیں صرف ریڈیو نہیں سننا چاہتا۔ میں بلا ناغہ سنتا ہوں اور بے قصد و ارادہ سنتا ہوں۔ بہتیرا چیختا چلاتا ہوں کہ جبر و اختیار کے فلسفے پر پہروں غور کرتا رہتا ہوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس مصیبت سے نجات کی کوئی صورت نہیں۔

یہ درد سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے

آپ ریڈیو سنتے ہیں۔ ریڈیو سننے کو ضروریات زندگی میں سمجھتے ہیں۔ اس لیے اندیشہ ہے کہ میری اس گفتگو سے آ کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے۔ اس لیے میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں ک میں ریڈیو کا احترام کرتا ہوں۔ ریڈیو پر جو صاحب کمال لوگ اپنے ہنر کی نمائش کرتے ہیں ان سے بھی مجھے بے حد عقیدت ہے۔ میں ریڈیو سننا نہیں چاہتا تو اس کی وجہ وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں۔ یعنی مجھے گونگوں کی محفل میں بیٹھنے سے انکار نہیں لیکن بہروں سے بہت ڈرتا ہوں۔ گانا سننے کا شوق ہے لیکن گانا سننے اور سنانے کا لطف اسی میں ہے کہ سننے اور سنانے والا دونوں آمنے سامنے موجود ہوں۔ آپ جو چیز سننا چاہتے ہیں داد کا موقع ہو تو داد بھی دیں۔ اگر آپ کن رس ہیں اتنا سمجھتے ہیں کہ گویے نے کیا چیز گائی اور حسب موقع داد بھی دے سکتے ہیں تو یقین کیجیے کہ گویا جی توڑ کے گائے گا۔ ورنہ ریڈیو کا گانا قبرستان میں مردوں کو گانا سنانا ایک ہی جیسا ہے۔ ایسا گانا سننے سے تو اچھا ہے کہ کسی ماہر روحانیات سے دوستی گانٹھیں اور تان سین کی روح کو بلوا کر گانا سنیں یا طوطا پال لیں اور ا س سے باتیں کریں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ریڈیو پر گانا سن کر بھی آپ داد دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ داد نہیں بے داد ہے۔ سبحان اللہ کے جواب میں جب تک آپ آداب عرض نہ سن لیں داد دینے کا یا لطف ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس ادھوری بات کا ثواب بیچارے گویے کی روح کو پہنچ جاتا ہو۔ لیکن میرے نزدیک یہ بات بھی محل نظر ہے ہ آپ مانیں یا نہ مانیں میں تو یہی کہوں گا کہ موسیقی کے بہت سے ایسے اسرار ہیں جو گانے والے کے چشم و ابرو میں پوشیدہ ہوتے ہیں اور بہت سے رموز ا س قسم کے ہیں جو گلوری کے ساتھ حلق میں اترتے اور چودہ طبق روشن کر جاتے ہیں۔ پھر اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تسم رہبری نہ کرے تو سننے والا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرے۔

ریڈیو پر ہمیں گانا جو سننے کا موقع ملتا ہے وہ یکسر ابہام ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ابہام سے ہر شخص کو الجھن ہوتی ہے۔ گانے کا جانے دیجیے۔ شاعر واعر کو لیجیے ریڈیو پر مشاعرے بھی ہوتے ہیں۔ شعر اپنا کلام بھی سناتے ہیں لیکن ا س شعر خوانی کی حیثیت سے اس شاعر سے پوچھیے جو غزل شروع کرتا ہے۔ اسے خیال ہوتا ہے کہ اس وقت سارا ہندوستان میرا کلام سن رہا ہے۔ لیکن جب داد کا سہارا نہیں پاتا تو اسے یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ سب لوگوں نے اپنے اپنے ریڈیو بند کر دیے ہیں ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ جو میرا کلام سننا چاہتا ہو۔

آپ جانتے ہیں کہ اکثر لوگ چونی خرچ کر کے مشاعرے میں اس لیے شریک ہوتے ہیں کہ بیچارے شاعر سے چونی وصول کریں گے۔ اگر شاعر اپنا کلام تحت اللفظ سنانا شروع ہو گیا تو ہر طرف سے آوازیں آتی ہیں کہ ترنم سے ترنم سے گا کے سنائیی گا کے سنائیے  بعض شاعر اس شور و غل کو خاطر میں نہیں لاتے اور کوئی سنے یا نہ سنے غزل پوری کر کے دم لیتے ہیں۔ بعض موسیقی سے ناواقف ہونے کے باوجود گنگنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر بیٹھ جائیے بیٹھ جائیے گا کا شور مچتا ہے۔ لوگ زور زور سے پاؤں فرش پر مارتے ہیں ، سیٹیاں بجاتے بلی کی بولیاں بولتے ہیں اور بچارا شاعر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔ ریڈیو کے مشاعروں میں ان تمام آفات سے محفوظ ہوتا ہے۔ اس لیے سننے والوں کو تو خاک لطف آتا ہو گا۔ شاعروں کو بھی جن کی عمر اسی قسم کے ہنگاموں میں گزر گئی ہے۔ ریڈیو کے مشاعرے روکھے پھیکے معلوم ہوتے ہیں۔ آخر وہ مشاعرہ ہی کیا جس میں شور نہ مچے۔ ہنگامہ نہ ہو۔ آوازے نہ کسے جائیں۔ ریڈیو کے مشاعرے کیا ہیں کاغذی پھول جو خوشبو نہیں رکھتے یا مشینی چاول جن میں وٹامن بہت کم ہیں۔ شاعری کو بھی وٹامن عام مشاعروں کی کھلی فضا اور شاعروں کی باہمی چشمکوں اور ہنگامہ آرائیوں کی بدولت ہی قائم رہ سکتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر مشاعرہ بدقسمتی سے ریڈیو ہی کا مرغ دست پرور بن کے رہ جائے تو بچاری شاعری چند دنوں میں خون تھوکنے لگے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ مشاعرہ ابھی تک ریڈیو کی گھٹی ہوئی فضا کے باہر سانس لے رہا ہے ورنہ ریڈیو نے مشاعرے اور اس کے ستھ بچاری شاعری کو خدا گنج پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔

تو بندہ پرور یہ کتھا بکھانے سے مقصد یہ ہے کہ مجھے ریڈیو سننا پسند نہیں لیکن اس سے خدانخواستہ یہ نہ سمجھیے کہ آج ریڈیو سیٹ گھر گھر موجود ہیں۔ اور میں غالب کی طرح وبائے عام میں مرنے کو کسر شان سمجھتا ہوں۔ نہیں صاحب! میں غالب کی طرح ترک افراسیابی نہیں جو ہر بات میں اپنا راستہ نکال لوں۔ عوام کے تتبع کو گناہ سمجھوں بلکہ بات صرف اس قدر ہے کہ میں مشینی شاعری مشینی موسیقی، خطابت کا چنداں قائل نہیں لیکن اگر آپ قائل ہیں تو چشم ما روشن دل ما شاد۔ ہاں اس سلسلے میں ایک اور بات عرض کر دوں کہ میں نے جو کچھ کہا ہے یہ بہ ثبات عقل و ہوش بے جبر و کراہ بے اشارت و ایما کہا ہے اپنے ورثا کو میری وصیت ہے کہ وہ میری قبر پکی بنائیں تاکہ ریڈیو کی آواز مجھ تک نہ پہنچ سکے۔ ورنہ خدا جانے قیامت سے پہلے کتنی بار مجھ پر قیامت گزر جائے اور صور اسرافیل پھنکنے سے پیشتر کتنی دفعہ چونک کے لحد میں اٹھ بیٹھوں۔

٭٭٭

 

 

 

بزم اقبال میں چند لمحے

 

میں نے علامہ اقبال کے جلسوں کو بھی دیکھا ہے پارٹیوں دعوتوں اور پنجاب کونسل کے اجلاسوں میں بھی لیکن جب ان کا ذکر آتا ہے تو میرے تصور کے پردے پر سب سے پہلے ان کی جو تمثال ابھرتی ہے ان کی نج کی صحبتوں کی تصویر ہے۔ شام کا وقت ہے وہ کوٹھی کے صحن میں چارپائی پر ململ کا کرتہ پہنے بیٹھے ہیں۔ چوڑا چکلہ سینہ سرخ و سپید رنگت، زیادہ سوچنے کی وجہ سے آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں۔ چارپائی کے سامنے کرسیاں بچھی ہوئی ہیں لوگ آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ان پر ہر قسم کے لوگ ہیں شاعر لیڈر، اخبار نویس اسمبلی کے ممبر ، وزیر، پارلیمنٹری سیکرٹری، طالب علم، پروفیسر مولوی ، کوئی آدھ گھنٹہ سے بیٹھا، کوئی گھنٹہ بھر، لیکن بعض نیاز مند ایسے ہیں جو گھنٹوں بیٹھیں گے۔ اور خاصی رات گئے گھر جائیں گے۔ حقہ کا دور چل رہا ہے۔ علمی ادبی اور سیاسی باتیں ہو رہی ہیں اقبال سب کی باتیں سنتے ہیں اور بیچ میں ایک آدھ فقرہ کہہ دیتے ہیں۔ جو خود اس موضوع پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب اندر چلا آ رہا ہے۔ اردو میں باتیں کرتے کرتے پنجابی کی طرف جھک پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی انگریزی یکا ایک آدھ فقرہ زبان پر آ جاتا ہے لیکن بات میں الجھاؤ بالکل نہیں جو کہتے ہیں دل میں اتر جاتا ہے۔ میں نے کبھی ان کی صحبتوں میں اپنے آپ کو ان کے بہت قریب پایا ہے۔ لیکن مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا ہے کہ مجھ سے دور ہیں بہت دور شاذ و نادر ہی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے کہ جو انہیں ہم دنیا والوں کے قریب لے آتا ہے۔ ان کی گفتگو علم و حکمت اور فلسفہ و سیاست کے متعلق ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ لطیفے اور پھبتیاں بھی کہتے تھے۔ میں نے انہیں موسیقی اور پتنگ بازی کے متعلق بھی باتیں کرتے سنا ہے۔ ان کے ہاں آنے والوں میں صرف اہل علم ہی نہیں تھے ایسے لوگ بھی تھے جنہیں علم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ ان سے انہیں کے ڈھب کی باتیں کرتے۔

٭٭٭

 

نشاۃ الثانیہ

 

میں یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ پاکستان میں اجتہاد کو کیا مسئلہ حل کرنا ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہو کہ ہم ایک آزادی حاصل کر چکے ہیں لیکن ابھی دوسری آزاد ی کا حصول باقی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کیوں ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے جھجکتا ہے۔ غیر شعوری طورپر ہم سب ڈرتے ہیں اسلام اور پاکستان میں نشاۃ الثانیہ کا آنا لازمی ہے۔ لیکن اگر اسے کچل دیا گیا ہے یا اسے روک دیا گیا یا اس کا گلا گھونٹ دیا گیا تو ہماری حالت بعینہ ساکن پانی کی ایک جھیل کی مانند ہو جائے گی۔ جس کا پانی رفتہ رفتہ بخارات بن کر اڑ جائے گا۔ اور اس کی گہرائیوں میں بھی بجز کیچڑ اور دلدل کے کچھ اور باقی نہ رہے گا میں اسے علامہ اقبال کے کلام کے ایک اقتباس پر ختم کرتا ہوں۔

آخری حرکت محض ذہنی حرکت نہیں بلکہ ایسی زبردست حرکت ہے جو انسان کی خودی کی گہرائیوں تک میں جنبش پیدا کر دیتی ہے اور اس کی قوت ارادی کو یہ تخلیقی یقین دلاتی ہے۔ کہ دنیا محض جائے مشاہدات ہی نہیں اسے محض تصورات و نظریات کی عینک سے نہیں دیکھا جاتا۔ بلکہ لامتناہی حرکت و جدوجہد مسلسل سے اس کی تشکیل و تعمیر تو ضروری ہے۔ یہی اسلام کا راز اسلام کی حقیقی روح اور ہماری زندگیوں کا عطر ہے۔

ایسے شخص جو ان کے ہاں اکثر آیا کرتا تھا ان سے کہا۔

مجھے عشق ہو گیا ہے۔ میں آپ کے ہاں ہر شام اس لیے چلا آتا ہوں کہ آپ کی باتوں کو سن کر مجھے تسکین ہوتی ہے بتائیے میں کیا کروں ؟

وہ تھوڑی دیر چپکے بیٹھے رہے پھر پوچھا اس معاملہ میں تمہاری نیت نیک ہے ؟

جی ہاں ! میری نیت تو درست ہے !

کامیابی کی کوئی  صورت نہیں ؟

مجھے تو قطعاً مایوسی ہو چکی ہے !

پھر تم کیا چاہتے ہو؟

یہی کہ میرے قلب کو سکون حاصل ہو جائے۔

تو قرآن پڑھا کرو۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب

پھر ایک موقعہ پر ان کے پاس ایک نوجوان آیا جو خو د کشی کرنا چاہتا تھا انہوں نے پوچھا:

تم نے کیا واقعی خود کشی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟

جی ہاں !

تمہارا مذہب کیا ہے ؟

میں ہندو ہوں۔

کیا تم اپنے مذہب پر یقین رکھتے ہو؟

ایک حد تک!

تم آواگون کو مانتے ہو؟

جی ہاں

پھر خود کشی کرنے سے کیا فائدہ؟

میں زندگی کے دکھوں سے چھوٹ جاؤں گا۔

اس کی امید بہت کم ہے دیکھو تمہارے عقیدے کے مطابق تمہیں خود کشی کرنے کے بعد یا تو اس سے بہت جنم ملے گا یا اس سے بدتر۔ یا پھر تمہارے موجودہ جنم جیسا۔ گویا بہتری کی امید صرف ایک تہائی ہے تو اس حالت میں خود کشی کیوں کی جائے۔

نوجوان اقبالؒ کو نہیں جانتا تھا اسے ایک اور شخص اقبال کے ہاں لے آیا تھا تاہم اسے ایسا معلوم ہوا کہ ا س کے قلب سے تسکین کی ایک لہر سی اٹھی جو اس کی روح پر چھا گئی اس نے خودکشی کا ارادہ ترک کر دیا۔

یہ نوجوان دیوندر ستیارتھی تھا۔ جس نے آگے چل کر گیت جمع کرنے اور دیہاتی زندگی کے متعلق افسانے لکھنے کی وجہ سے شہرت پائی۔ اس نے یہ واقعہ خود نقل کیا ہے۔ ۔

اقبال شاعر تھے لیکن ان کے ہاں شعر خوانی کی محفلیں نہیں لگتی تھیں۔ لوگوں کو اپنے شعر نہیں سناتے تھے اور دوسروں سے شعر سنانے کی فرمائش نہیں کرتے تھے۔ ان کا سیاسی فکر بہت پختہ تھا۔ لیکن انہیں سیاسی جور توڑ نہیں آتے تھے وہ اگرچہ پنجاب کونسل کی مجلس قانون ساز کے ممبر بھی رہے گول میز کانفرنس میں بھی شریک ہوئے لیکن وہ خود بھی اپنی ان سرگرمیوں سے مطمئن تھے۔ اس کے اطمینان کے لمحے یہ ی نج کی صحبتیں تھیں۔ جن میں تکلف کا شائبہ تک نہ تھا۔ جن لوگوں کو ان محفلوں میں شامل ہونے کا اتفاق ہوا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کراچی اور لاہور

 

ایک زمانے میں دلی ار لاہور حریف سمجھے جاتے تھے۔ ہم لوگوں نے امرتسر کو لاہور کے مقابلے پر کھڑا کر دیا۔ وہ انی تو ملتان بہ گیا۔ اب کراچی اور لاہور حریف اور مد مقابل سمجھے جاتے ہیں۔ کراچی سارے پاکستان کا دارالحکومت ہے ار لاہور صرف مغربی پاکستان کے صوبے کا صدر مقام ہے۔ پھر بھی کراچی کے مقابلہ میں کسی شہر کا نام آتا ہے تو وہ لاہور ہی ہے۔

ہم نہ کراچی کے طرف دار ہیں نہ لاہور کے۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ لاہور میں جو بھاری بھرکم پن ہے وہ کراچی میں نام کو نہیں۔ کراچی عزت اور مرتبہ میں لاہور سے آگے سہ لیکن لاہور کا سا وقار کہاں سے لائیے گا۔ لاہور میں سنجیدگی اور متانت ہے۔ کراچی میں نودولتیوں کا سا چھچھورا پن۔ آخر عمر کا فرق بھی کوئی چیز ہے۔ لاہور دو اڑھائی سال کا بڈھا کراچی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش کہاں کراچی اور کہاں لاہور؟

جو لوگ کراچی کی صاف ستھری سڑکیں دیکھ کے آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ لاہور کی سڑکیں دیکھ کے جی بہت کڑھتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میاں تم اس بڈھے کے چہرے کی جھریوں کا قصہ لے کر بیٹھ گئے۔ اس کے دوسرے کمالات پر بھی تو غور کرو سنا نہیں کہ شاعر کیا کہہ گیا ہے :

میرے چہرے کی جھریوں پر نہ جا

دل ابھی تک جوان ہے پیارے

اور ہاں اس غزل میں ایک شعر کراچی کے حسب حال بھی تو ہے :

دیک کے قد یار کہتا ہوں

تیری اونچی دکان ہے پیارے

وہ کہتے ہیں کراچی سمندر کے کنارے آباد ہے۔ جواب دیتا ہوں کہ سمندرکے کنارے آباد ہونا کون سابڑا کمال ہے۔ ہاں اگر سمندر کراچی کے کنارے ہو تو پھر اور بات تھی۔ اور سچ پوچھو تو بیچارے سمندر میں کون سی ایسی شاخ زعفران ہے۔

بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا۔

یہ نہیں دیکھتے کہ راوی جیسا دریا لاہور کے قدموں میں پڑا ہے۔

کراچی میں بڑی خوبیاں سہی لیکن شالامار باغ جہاں گیر کا مقبرہ کامران کی بارہ دری شاہی قلعہ، شاہی مسجد، نہ گھدو شاہ کا تکیہ نہ داتا کا دربار نہ اییس جلے تن جو چلے کے جاڑے میں ململ کے کرتے پہنتے ہیں لسی پیتے ہیں اور وارث شاہ کی ہیر پڑھتے ہیں۔ ذرا موچی دروازہ کے اندر چلے جائیے۔ صبح و شام دودھ دہی کی دکانوں پر کیا بھیڑ بھڑکا ہوتا ہے۔ توبہ کیجیے کہاں کراچی ار کہاں لاہور۔ صاف ستھری سڑکوں اور سمندر کے قریب سے تو کوئی شہر سچ مچ شہر نہیں بن جاتا۔ ذر ا آپ ہی خدا لگتی کہیے جس شہر میں بچ مورتوں کی آواز سننے میں نہیں آتی وہ بھی کوئی شہر ہے۔

کراچی میں وزیر ہیں۔ سفیر ہیں بڑے بڑے عہدہ دار ہیں جو تمکنت کے مارے زمین پر قدم نہیں رکھتے۔ دولت مند تاجر ہیں جن کے قبہ شکم کا دامن قبہ فلک سے بندھا ہوا ہے لیکن کراچی والوں میں بھی اقبال سا کوئی شاعر بھی ہوا ہے۔ اور اقبال کا ذکر کیا وہاں تو چھوٹا موٹا شاعر بھی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ ایک صاحب غلطی سے مشاعرے کا اعلان کر بیٹھے لیکن جب مشاعرہ کی تاریخ قریب آئی تو معلوم ہوا کہ پورے شہر میں ڈھائی شاعر ہیں ار ان میں بھی ڈیڑھ شاعر لاہور ہی سے آیا ہے۔ وکٹوریہ والوں اور رکشا والوں کی منتیں کیں کہ ارے بھئی کہیں سے ایک آدھ شعر مہیا کر و نہیں تو خود شاعر بن جاؤ۔ سارے دفتر چھان مارے کہ شاید کوئی کلرک ہی ایک آدھ شعر موزوں کر لے لیکن شاعری کو کراچی کی آب و ہوا راس نہیں آئی۔ یہ تو ایک مصرعہ سے دوسرا مصرعہ بڑھ جاتا ہے یا پھر ایطائے جلی یا ایطائے خفی ہو جاتا ہے۔ اور ان آفتوں سے بچ نکلے تو شتر گربہ کے مرض سے تو بچنے کی کوئی صورت ہی نہیں۔ آخر تھک ہار کر لاہور کا رخ کیا۔ بڑی مشکل سے کچھ شاعر ہاتھ آئے اور کراچی نے لاہور کے شاعروں کے بل پر ایک مشاعری کر لیا اب اخباروں میں کراچی کے مشاعرہ کا پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ اور کراچی والے ان مشاعرے کا ذکراس طرح کرتے ہی جیسے انہوں نے کراچی میں شاعری کے کار خانے کھولے ہوئے ہیں۔ جن میں فرشی اور عرشی کا مشاعرہ ڈھل جاتا ہے۔ حالانکہ لاہور کے شاعروں کے طفیل کراچی میں مشاعرہ کر لینا بالکل ویسا ہی ہے کہ پرزے امریکہ سے آئیں انجینئر بھی وہیں سے بلائے جائیں اور کراچی میں انہیں جوڑ کے موٹر کار تیار کر لی جائے۔

لاہور پر نظر ڈالو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ پراتم بڈھا جس کی سفید ڈاڑھی نے اس کے سینے کو ڈھانک رکھا ہے۔ سر پر سپید پگڑ باندھے ململ کا کرتہ پہنے اور تہ بند باندھے اور ایک ہاتھ میں لٹھ لیے دوسرا ہاتھ پھیلائے وسط ایشیا کی سب سے بڑٰ شاہراہ پر کھڑا ہے۔ اس نے گردش لیل و نہار کے بہت سے تماشے دیکھے ہیں قوموں کے عروج و زوال کے سینکڑوں مناظر اس کی نظروں سے گزرے ہیں۔ وہ دل پر صدیوں کا بوجھ لیے کھڑا ہے۔ لیکن چہرا مسکراہٹ کے نور سے جگمگا رہا ہے اور آنکھیں کہہ رہی ہیں کہ میاں جھجکتے کیوں ہو؟ آؤ یہاں تم سب کے لیے جگہ موجود ہے۔

لاہور میں متانت ہے وقار ہے حلم ہے اور حلم ہی نہیں علم بھی تو ہے۔ یہاں کی ادبی محفلیں یہاں کی لائبریریاں یہاں کے کالج اور سکول یہاں کے اخبار کراچی میں کہاں ؟

اور یہ چیزیں بھی میسر ہو جائیں تو نوعمر کراچی بڈھے لاہور کی سی شفقت کہاں سے لائے گا؟ اسے دیکھ کر تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی صاحب بہادر منہ میں سگار لیے گٹ پٹ کر رہے ہیں۔ اٹھتی جوانی ہے۔ دولت کی کمی نہیں پھر بڑے چاؤ چونچلے سے پرورش پائی ہے اس لیے طبیعت میں ذرا اکھڑ پن آ گیا ہے۔

سٹیشن سے  بڑھ کے شہر میں قدم رکھو تو پاؤں کچھ رکتے معلوم ہوتے ہیں اور خیال آتا ہے کہ نا جانے صاحب بہادر کب ڈانٹ دیں۔ غرض کہاں لاہور کہا ں کراچی؟ کراچی سے متعلق زیادہ سے زیادہ آپ یہی کہہ سکتے ہیں کہ:

غرور حسن باجہل پٹھانی

٭٭٭

 

 

مانگے تانگے کی چیزیں

 

پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔ اصل مضمون تو بیری پین کا ہے اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے نہیں تو دل پر جبر کیجیے لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔ بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں۔ اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھاجاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ اور کہتے چلے آئیں ہیں کیا معنی کہتے چلے جائیں گے۔

میں نے عہد جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار دیار شمار قافیہ ہو تو حیات مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے۔ جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو  جائے تو اور بات ہے۔ … لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنی ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

غرض زندگی مستعارہے اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہو ا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس میں کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔ مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا اور لیکن جب می دیا سلائی نہیں یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آ یا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہو کے رہ گیا۔

یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے۔ اور ہمیشہ بہت موثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہ کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس دادوستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا۔ برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔ چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقع سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

آخر زندگی کا مقصد اس کے سوا اور ہے بھی کیا کہ خوش ہونے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اگر مانگے کی چیز برتنا زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے اور اللہ کی مخلوق کو خوش رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے تو اسے برا کون کہتا ہے وہ تو ایک طرح کی عبادت ہے عبادت۔ اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دوں کی مانگے تانگے کی چیزوں سے اللہ کی مخلوق کو خوش کرنے کا کام کیسے لیا جائے یا لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی کوٹھی ہے اور کوٹھی میں کوئی مالی ہے تو اس سے گھاس چھینے کا کھرپا مانگ لائیے۔ اس بت پر چونک نہ پڑیے۔ حاشاوکلا میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ میں آپ کو گھسیا رہ یا مالی سمجھتاہوں یا میرے نزدیک کھرپا آپ کے مصرف کی کوئی چیز ہے۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ مالی سے کھرپا مانگیں تو اسے خیال سے کتنی طمانیت حاصل ہو گی۔ کہ اس کا کھرپا بھی بڑے کام کی چیز ہے یعنی وہ اپنے پڑوسی سے عاریتاً کھرپا دے کے اس کی گردن اپنے بار احسان سے جھکا سکتا ہے۔

آپ کو مالی کھرپا دینے سے ہرگز انکار نہیں کرے گا۔ اور انکار کرنے کی وجہ بھی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ تو الٹا آپ کا احسان مند ہو گا۔ کہ احسان اٹھانا گوارا کر لینا بچارے مالی کے لیے کتنا عظیم الشان واقع ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے۔ وہ مہینوں لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہے گا۔ برسوں اس کے گن گائے گا۔ جس سے کہے گا کہ یہ صاحب جو پڑوس میں آ کے ٹکے ہیں بہت شریف آدمی ہیں َ ابھی کچھ دن ہوئے کہ مجھ سے کھرپا مانگ کر لے گئے تھے جانے کیا ضرور ت تھی، چاہتے تو نوکر کو بھیج دیتے لیکن وہ خود آئے اور کھرپا مانگ کر لیے گئے اور یہ نہیں بلکہ چلتے وقت اس طرح میرا شکریہ ادا کیا کہ جیسے میں کہیں کا نواب ہوں۔ اور جب بچے رات کو سوتے وقت کہانی کے لیے ضد کریں گے تو مالی اپنے پڑوسی بابو صاحب اور اپنے کھرپے کا قصہ لے بیٹھے اور خدا جانے کتنی نسلوں تک یہی واقعہ کس قدر تغیر و تبدل کے ساتھ روتے بچوں کو بہلانے اور منانے کے کام آتا رہے گا۔

یہ جو کچھ میں نے کہا ہے مثال کے طور پر کہا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ صرف مالی سے مانگے اور کھرپا ہی مانگیے۔ مالی ہی سے نہیں اڑوس پڑوس میں جتنے لوگ ہیں سب سے مانگیے۔ راستہ چلتوں سے مانگیے۔ دوکانداروں پر اعتماد کریں تو ان سے مانگیے۔ درزی سے انگشتانہ قینچی ، سوئی یا ہو سکے تو کپڑے سینے کی مشین مانگ لائیے۔ بڑھی سے بسولا لوہار س ہتھوڑا سقے سے مشک غرض کہ جس گھر پر اداسی چھائی ہوئی نظر آئے وہاں سے کوئی نہ کوئی چیز ماگ لائیے۔ اکثر لوگوں کی زندگی تو اس خیال نے تلخ کر رکھی ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے۔ نہ مال ہے نہ دولت نہ اثاثہ نہ جائیداد نہ وہ کسی پر احسان کرنے کے قابل ہیں نہ کوئی احسان اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی چیز مانگنا ان پر احسان کرنا ہے کیونکہ اس  طرح ان کا بھی کوئی مصرف ہے۔ وہ بھی دوسرے انسانوں پر احسان کر سکتے ہیں۔ غرض مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے تو آپ بھی خوش دوسرے بھی خوش دوسروں کو یہ احساس کہ وہ احسان کرنے کے قابل ہیں اور آپ کو یہ احساس کہ آپ لوگوں کے احسان اٹھا کے ان کی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ اب فرمائیے دنیا میں اس سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہو گی کہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مانگے تانگے کی چیز برتنے میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں۔ کیسی ہی ضرورت کیوں نہ آ پڑے کسی سے مانگیں گے نہیں۔ اس عادت نے ان کی طبیعت میں اکل کھر ا پن پیدا کر دیا ہے۔ مزاج میں شگفتگی نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس روہی دیں گے۔ گھر میں بیوی سے چخ چلتی ہے باہر ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان سے ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ ایسے لوگ چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی آسودہ کیوں نہ ہوں ان کی زندگی ہمیشہ تلخ رہے گی۔ جس محلے میں رہتا ہوں وہاں بھی اس قسم کے ایک بزرگ موجود ہیں جو نہ تو خود کسی سے کوئی چیز عاریتا ً لیتے ہیں اور نہ کسی کو کوئی چیز ادھار دیتے ہیں۔ لیکن صرف اسی ایک عادت کی بدولت جسے وہ اپنی زندگی کا بڑا اہم اصول سمجھتے ہیں ان کی زندگی میں ہے اور اب تو یہ حال ہے کہ نہ کوئی ان کے ہاں آتا ہے نہ وہ کسی کے ہاں جاتے ہیں ایک دفعہ اندھیری رات میں اپنے گھر کا راستہ بھول گئے تھے اور ساری رات بھٹکتے رہے صبح کو گھر پہنچے تو بیوی اور بچوں پر غصہ نکالا اور کئی دن تک بدمزگی رہی مجھے تو یقین ہو چلا ہے کہ اگر ان کا یہی ہنجار رہا تو ایک دن پاگل خانہ آباد کریں گے۔

مجھے ایک شخص نے بتایا ہے کہ ان کا بچپن سے یہی حال ہے۔ اسکول میں تو جب بھی مانگے تانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اس میں کچھ زیادہ قصور نہیں۔ تربیت ہی ناقص ہوئی ہے ورنہ کون ہے جو اسکول میں مانگے کی چیز برتنے کو معیوب سمجھے۔ ہمارے ملک کے اسکولوں میں جہاں اور بہت سی باتیں سکھائی جاتی ہیں وہاں مانگے کی چیزیں برتنا بھی سکھایا جاتا ہے اور سکھایا کیا جاتا ہے خود آ جاتا ہے۔ لڑکے ایک دوسرے سے قلم ، دوات، کتاب، پنسل ربڑ مانگ کر برتتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ہنسی خوشی گزر جاتی ہے۔ لیکن اسکولوں میں چیزیں مانگنا محض اختیار ی مضمون ہے لازمی مضمون قرار دے کر سکول کے نصاب میں شامل کر لیا جائے اور یہی نہیں بلکہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کو تربیت دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں مانگے کی چیزیں برتنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چیزوں کو احتیاط سے برتنے کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ اپنی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن دوسرے کی چیز کو برتتے وقت انسان بڑی احتیاط کرتا ہے۔ اور جو لوگ بچپن ہی سے مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ وہ اپنی چیزیں بھی احتیاط سے برتنے لگتے ہیں اگر آپ نے نئی نئی شادی کی ہے اور آپ کی بیوی غیر محتاط ہے تو اسے ایک دن چپکے سے کہہ دیجیے کہ اس گھر میں جتنی چیزیں ہیں سب مانگے تانگے کی ہیں۔ اس لیے انہیں احتیاط سے برتنا۔ اسے یہ سن کے صدمہ تو ضرور ہو گا کہ لیکن آپ کی چیزیں برتنے میں احتیاط سے کام لیا کریں گے اور آپ کو آئے دن نئی چیزیں خریدنے کی مصیبت سے نجات مل جائے گی۔ غرض یہ ہے کہ اگر آپ چیزیں برتنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو مانگے تانگے کی چیزیں استعمال کیجیے اور اگر آپ نے بہت سی ضرورت کی چیزیں خرید لی ہیں اور انہیں برتنے کا سلیقہ نہیں آیا تو جو کوئی مانگنے آئے اسے بے تکلف دے ڈالیے۔ اس طرح آپ کی چیزیں محفوظ رہیں گی۔ اور اس زمانے میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ نئی چیزیں نہ خریدی جائیں اور پرانی چیزوں ہی سے کام لیا جائے اور اگر کوئی صاحب اپنی چیزوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی طریقہ نہیں سوجھتا تو میری خدمات حاصل کریں۔

٭٭٭

 

 

 

 

خوجی

 

 

لیجیے ان سے ملیے ان کا نام خوجی ہے وطن لکھنو پیشہ امیرو ں کی مصاحبت چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں چھوٹا سا قد، کالی کالی رنگت گلیور صاحب کے سفر نامے میں آپ نے بونوں کی بستی کا حال پڑھا ہو گا۔ میاں خوجی کو دیکھ کے بے اختیار بونے یاد آ جاتے ہیں۔

خوجی کا اصل نام کیا ہے ؟ ان کے باپ دادا کون تھے ؟ انہوں نے بچپن اور جوانی کا زمانہ کیسے گزارا؟ یہ باتیں ہمیں معلوم نہیں ہاں خود ان کی زبان سے ان کی ابتدائی زندگی اور اصل و نسل کے متعلق بعض باتیں معلوم ہوئی ہیں۔ مثلاً میاں خوجی کا بیان ہے کہ ان کا اصل نام خواجہ بدیع الزمان ہے اودھ کی بادشاہت کے آخری زمانے میں وہ وگلہ والی پلٹن کے کمیدان تھے۔ لیکن خوجی کی بات کا کیا اعتبار؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر خوجی کہہ کے پکاریے تو وہ فوراً بگڑ جائیں گے۔ اب چاہے رستم مقابلے پر ہو۔ کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹے وہ پیٹے پیٹے تھک جائے اور یہ پٹتے پٹتے نہیں تھکتے۔ پٹخنیاں کھاتے ہیں لیکن پھر بھی جھاڑ پونچھ کے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ خم ٹھونکتے ہیں اور لپٹ جاتے ہیں جہاں ہاتھ نہیں چلتا وہاں زبان چلتی ہے۔ یعنی چیختے ہیں چلاتے ہیں شور مچاتے ہیں۔ اپنی جوانی کے زمانے میں وگلہ والی پلٹن کی کمیدانی کو یاد کرتے ہیں افسوس کے لہجے میں کہتے ہیں کہ نہ وئی قرولی ورنہ پیٹ میں پھونک دیتا قرولی بڑے شکاری چاقو کو کہتے ہیں۔ افسوس کہ میاں خوبی کو عمر بھر قرولی میسر نہ آئی۔

میاں خوجی کو صرف اپنی طاقت پر ناز نہیں اپنی طرح داری پر بھی گھمنڈ ہے۔ ہر موقع پر اپنی شکل صورت اپنے کاٹھ قد کی تعریف کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکال لیتے ہیں لیکن اسے کیا کیا جائے کہ لوگ نہ ان کی طرح داری کے قائل نہ پہلوانی کے۔ جہاں انہوں نے یہ ذکر چھیڑا لوگوں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ اب خوجی اچھلتے ہیں کودتے ہیں ڈراتے ہیں دھمکاتے ہیں قرولی کو یاد کر تے ہیں لیکن لوگ ہیں کہ ہنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔

خوجی کی ابتدائی زندگی  کا حال ہمیں معلوم نہیں ہم نے جب انہیں پہلی دفعہ دیکھا انکا بڑھاپا تھا اور لکھنو کے ایک خاندانی رئیس کے ہاں ملازم تھے اور نواب بڑے بھولے بھالے تھے۔ مصاحب سب کے سب گرگے نت نئی تدبیروں سے نواب کو لوٹتے تھے۔ خوجی بھی انکی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ اور لوٹ کے مال میں سے کچھ حصہ انہیں بھی مل جاتا تھا۔ اتنے میں نواب کے ہاں ایک نئے مصاحب آئے نام محمد آزاد لکھنوی ہی کے رہنے والے تھے عالم فاضل شاعر انگریزی ، فارسی ، عربی کے ماہر، پہلوان لکڑی ، بانک ، ٹپہ اور شمشیر زنی میں طاق۔ نواب کو بٹیر بازی کا شوق تھا۔ اس شوق پر ہزاروں روپے خرچ ہوتے تھے۔ خاص طور پر ایک بٹیر بہت پیارا تھا اور اس کا نام انہوں نے صف شکن رکھا تھا۔ آزاد کو دل لگی جو سوجھی تو صف شکن کو اڑا لیا۔ اب مصاحبوں نے بھولے نواب کو بہلانا شروع کیا۔ ایک نے کہا صف شکن بٹیر نہیں تھا ولی تھا۔ دوسرا بولا میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ تیسرے نے کہا کہ صف شکن روٹھ کے چلے گئے ہیں میاں آزاد سے۔ کہیے انہیں منا کے لائیں غرض آزاد صف شکن شاہ کو منانے کے لیے بھیجے گئے۔ بیچ میں کئی پیچ ہوئے اور میاں خوبی نواب کو چھوڑ کے آزاد کے رفیق بن گئے۔

اب آزاد کی نسبت ایک تعلیم یافتہ لڑکی حسن آرا سے ٹھہری؛ ان دنوں ترکی اور روس میں جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ بیاہ کی شر ط یہ تھی کہ میاں آزاد ترکوں کی فوج میں بھرتے ہو کے لڑیں۔ جنگ کے بعد ان کا بیاہ حسن آرا سے رچایا جائے گا۔ آزاد ترکی گئے۔ جنگ میں شریک ہوئے تمغے لٹکا کر واپس آئے اور حسن آراء سے شادی ہو گئی۔ خوجی اس سفر میں بھی آزاد کے ساتھ تھے۔ وہ تلواریں مارتے تھے کہ یہ ایک کونے میں بیٹھ کر افیون پیتے تھے اور کوئی آفت پڑتی تو  لانا میری قرولی کا شور مچاتے تھے۔

میں نے خوجی کا مختصر حال بتا دیا ہے۔ اسے سن کر شاید آ پ میں سے کسی صاحب کو خیال ہو کہ خوجی ایسے دلچسپ آدمی سے ضرور ملنا چاہیے اور کیا عجب کہ آپ میں کوئی صاحب یہ بھی پوچھ بیٹھیں کہ خوجی زندہ ہے یا مر گیا اور زندہ ہے تو اس سے کہاں ملاقات ہو سکتی ہے ؟ خوجی زندہ تو ضرور ہے اور ابھی بہت مدت تک زندہ رہے گا۔

لیکن یہ نہ سمجھیے کہ لکھنو یا دلی کے کسی گلی کوچے افیونیوں کی کسی مجلس یا امیروں کی کسی محفل میں اس سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ اس سے ملنے کے لیے آپ کو فسانہ آزاد کے ورق الٹنے پڑیں گے۔

فسانہ آزاد پنڈت رتن ناتھ سرشار کی تصنیف ہے۔ سرشار لکھنو کے رہنے والے تھے اور یہ کتاب جو بڑی بڑی چار جلدوں میں ہے انہوں نے آج سے کوئی ساٹھ برس پہلے لکھی تھی۔

ان دنوں پرانے زمانے کے امیروں کے دربار قائم تھے۔ بٹیر بازی اور پتنگ بازی زوروں پر تھی۔ رئیسوں کو خوشامدی مصاحبوں نے گھیر رکھا تھا۔ سرشار کی اس کتاب میں اس زمانے کی صحیح زندگی کے نقشے ملتے ہیں۔

خوجی کی قسم کے مسخرے سرشار کی نظر سے ضرور گزرتے ہوں گے۔ لیکن خوجی کا پتلا خود سرشار نے تراشا ہے۔ اور اس میں اس طرح روح پھونک دی ہے کہ وہ سچ مچ کا چلتا پھرتا، جیتا جاگتا، گوشت پوست کا بنا ہوا انسان معلوم ہوتا ہے۔ خوجی کے حالات پڑھتے وقت ہمیں لمحہ بھر کے لیے بھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ وہ صرف کہانی کا مسخرہ اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کی گھڑنت ہے۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسے بار ہا گلی کوچوں میں چلتے پھرتے دیکھا ہے۔ قہقہے لگاتے ہنستے ہنساتے لوگوں سے پٹتے دیکھا ہے اور لانا میر ی قرولی کے نعرے لگاتے سنا ہے اور سچ پوچھیے تو یہ کمال ہے کہ کوئی قصد نویس ایسا جیتا جاگتا کاغذی پتلا بنا کے کھڑا کر دے کہ جس پر سچ مچ کے انسان کا گمان ہو۔

اس سے یہ نہ سمجھیے کہ جو لوگ کہانیاں لکھتے ہیں وہ ایسے ان جانے ان بوجھے انسانوں کی خیالی تصویریں کھینچ دیتے ہیں جنہیں نہ کسی نے دیکھا نہ سنا قصہ نویس اور مصور جو نقشے کھینچتے ہیں وہ خود انکے تجربے اور مشاہدے کا نتیجہ ہوتے ہیں وہ کہیں سے ایک چیز اور کہیں سے دوسری چیز مگر جب انہیں جوڑ تے ہیں تو ایسی تصویر کھنچ جاتی ہے کہ جس پراصل کا شائبہ ہوتا ہے لیکن انسان کے تجربہ کے خزانے میں جو کچھ ہے اس سے صحیح کام لینا بھی بڑا ٹیڑھا کام ہے۔ ذرا چوک گئے اور تصویر بے جوڑ نظر آنے لگی۔ مثلاً فسانہ آزاد میں بہت سی تصویریں نظر آتی ہیں۔ جن میں بعض بالکل بے ڈھنگی ہیں۔ دور کیوں جائیں آزاد ہی کو لیجیے جس کے نام پر ایک کتاب کا نام رکھا گیا ہے۔ آزاد ایسا انسان ہے جس میں دنیا بھر کی خوبیاں موجود ہیں جو جو فن اسے آتے ہیں اسے سو برس میں بھی کوئی شخص نہیں سیکھ سکتا۔ پھر بھی وہ ابھی نوجوان ہے۔ دوسری طرف خوجی ہے جس میں خامیاں بھی ہیں اور خوبیاں بھی اور دراصل اپنی خامیوں کے باعث ہی وہ سچ مچ کا انسان معلوم ہوتا ہے۔ تصویر میں آزاد اور خوجی دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ خوجی کے خدوخال ابھرے ابھرے نظر آتے ہیں آزاد کے چہرے کے نقش مدھم پھیکے پھیکے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خوجی کے مقابلے میں ایک پرچھائیں سی بن کے رہ گیا ہے۔

آزاد قریب قریب مر چکا ہے اور اس میں تھوڑا بہت سانس باقی ہے تو صرف خوجی کی وجہ سے لیکن خوجی زندہ ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے فسانہ آزاد پڑھا ہے وہ لوگوں کی شکل و صورت میں خوجی کو ڈھونڈتے ہیں اور کسی شخص کے شکل وضع چال ڈھال یا خیالات میں خوجی کی سی کوئی بات نظر آتی ہے تو وہ فوراً اسے خوجی کہہ دیتے ہیں۔ خوجی کے زندہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور رہ رہ کے خیال آ رہا ہے کہ کہیں میں خوجی کی نظر سے یہ مضمون گزرا تو لانا میری قرولی کہتے ہوئے ہمارے دفتر میں نہ گھس پڑیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مصرع اٹھانا

 

مصرع اٹھانا اچھا خاصا فن سمجھا جاتا ہے جو دلی سے فیض آباد اور فیض آباد سے لکھنو گیا اور اب ہجرت کر کے کراچی اور لاہور وغیرہ میں آباد ہو گیا ہے۔ لیکن سچ پوچھو تو یہ فن لکھنو والوں پہ ختم ہو گیا۔ اس سرزمین نے جہاں بڑے بڑے عالم فاضل خطاط شاعر داستان گو ، رکاب دار، خاص بردار وغیرہ پیدا کیے ہیں وہاں اس خاک پاک سے ایسے ایسے مصرع بردار بھی اٹھے ہیں جن کے کارنامے یاد آتے ہیں تو بے اختیار فردوسی کا یہ مصرع اٹھانے کو جی چاہتا ہے کہ:

تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو

ببن مرزا کو تو آپ جانتے ہوں گے وہی ببن مرزا جو پاٹے نالے پر رہتے تھے۔ اجی وہی بھینگے سے بڑے میاں جو کبھی کبھی انن کبڑے کی دوکان پر نظر آتے ہیں۔ آپ نے انہیں نہیں دیکھا تو کم از کم نام تو ضرور سنا ہو گا۔ موٹا نقشہ گندمی رنگت گول چہرہ بڑے بڑے ہاتھ پاؤں مرتے مر گئے لیکن وضع میں فرق نہ آیا۔ سر پر ہمیشہ دو پلڑی ٹوپی ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ انگرکھا اور تنگ مہری کا پائجامہ گھر پر بھی ہمیشہ یہی لباس ہوتا تھا۔ جب ان سے ملنے گئے یہی دیکھا کہ کھری چارپائی پر بیٹھے ہیں سامنے حقہ رکھا ہے مصرع اٹھانے کی مشق کر رہے ہیں یا گنگنا رہے ہیں ببن مرزا دکے باوا چڑیمار تھے۔ دادا کا اسم نواب روشن الدولہ کے چوبداروں میں ہو گیا تھا۔ خود ببن مرزا نے ساری عمر کوئی کام نہیں کیا۔ شروع شروع میں ورزش کا شوق تھا۔ لیزم اور مگدر ہلاتے تھے پھر مشاعروں میں جانا شروع کیا۔ اور مگدر ہلاتے ہلاتے مصرع ہلانے لگے۔ پھر مصرعے اٹھانے شروع کر دیے۔ اور اس فن میں ایسا کمال پیدا کیا کہ جس مشاعرہ میں نہ ہوں اس میں لوگوں کو لطف ہی نہیں آتا تھا۔ اور نواب معشوق الدولہ کے ہاں جتنے مشاعرے ہوتے تھے ان کا سارا انتظام یہی کرتے تھے۔ ہوشیار آدمی تھے۔ مشاعروں کے اس انتظام میں تھوڑے بہت روپے پیدا کر لیے تھے۔ اور یوں بھی نواب صاحب ان سے اکثر سلوک کرتے رہتے تھے اور آخر آخر میں تو شہر کے اکثر مشاعروں کا انتظام ببن مرزا کے سپرد ہو گیا تھا۔ یہ مشاعروں کا انتظام بھی کرتے تھے۔ مصرع بھی اٹھاتے تھے اور کوئی شاعر شعر پڑھتے پڑھتے بے ہوش ہو جاتا تھا تو اسے اٹھا کر اس کو گھر پہنچانا بھی انہیں کے ذمے تھا۔

مرزا اس صفائی سے مصرعے اٹھاتے تھے کہ کوئی کیا اٹھائے گا۔ شاعر نے ابھی پہلا مصرع پورا نہیں کیا کہ انہوں نے اٹھا کے اسے ٹھکانے بھی لگا دیا۔ پھر لپک کر دوسرے مصرعے کو پہلی سی ٹمکی دی اور شاعر ابھی شعر پڑھنے بھی نہ پایا تھا کہ انہوں نے کڑک کر سبحان اللہ کہا اور اب جو داد کا غل مچا ہے تو لوگوں کو یہی معلوم ہوا ہے کہ اصل میں مرزا ببن برات کے دولہا ہیں ورنہ بیچارا شاعر محض خوگیر کی بھرتی یا یوں کہنے کہ صرف وزن برائے بیت ہے لوگوں میں مشہور ہے کہ مرزا ببن جن شاعروں سے مہینے کے مہینے تھوڑا بہت روپیہ مل جاتا تھا ان کے مصرعے اس صفائی سے اٹھاتے تھے کہ ہچکولا تک نہیں لگنے پاتا تھا اور جن سے یافت کی امید نہیں ہوتی تھی انہیں یونہی ٹرخا دیتے تھے اس الزام کے جھوٹ سچ کا حال ہمیں معلوم نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ نواب معشوق الدولہ نے جب مشاعروں میں غزل پڑھی ہے۔ ببن مرزا نے مصرع برداری کا سارا کمال صرف کر دیا ہے۔ اور بعض دوسرے لوگوں کے معاملے میں کسی قدر بے توجہی بھی برتی ہے۔ مثلاً کبھی کبھی یہ بھی ہوا ہے کہ مرزا نے بعض مصرعوں کو اٹھا کے اس زور سے پٹخا ہے کہ انجر پنجر ڈھیلے کر دیے ہیں اور بے چارا شاعر مدتوں نامی استادوں اور بڑے بڑے عروضیوں سے ہلدی لگواتا رہا ہے۔

لاہور کے لوگ مصرع اٹھانا نہیں جانتے تھے۔ مشاعرہ میں شریک ہونے کو تو ہو گئے لیکن جتنی دیر تک رہے نہ مصرع اٹھایا نہ سر ہلایا نہ سبحان اللہ یا کیا خوب کہا بس میر تقی بن کے بیٹھے رہے۔ پھر دلی اور اودھ سے کچھ سخنور اور سخن فہم حضرات لاہور تشریف لائے اور ان کی وجہ سے اس سرزمین پر بھی مصرع اٹھانے کے فن نے رواج پایا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ فن چاہے کوئی ہو مصرع اٹھانا یا بھاڑ بھونکنا صفائی تو مشق ہی سے آتی ہے۔ شروع شروع میں تو اہل لاہور کو یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں مصرع میلا نہ ہو جائے یا اس کے چوٹ چپٹ نہ آ جائے۔ اس لیے جھجک جھجک کر مصرع اٹھاتے تھے اور کبھی کبھی تو یہ بھی ہوا ہے کہ آدھا ہی مصرع اٹھا ہے اور آدھا حلق میں پھنس کے رہ گیا ہے لیکن پھر جو مصرع اٹھانے شروع کیے تو لوگوں نے دیکھا کہ مصرعوں کے مصرعے بالکل چر مر ہو کر رہ گئے ہیں۔ کسی کو چٹخنی دی کسی کو اڑنگے پر چڑھایا اور ہڈی پسلی ایک کر دی۔ یہی وجہ ہے ہ جمنا پار سے جو لوگ ہجرت کر کے لاہور آئے ہیں وہ مصرع اٹھانے والے بھی اپنے ساتھ ہی لائے ہیں۔ اور تو خدا نے جو کچھ دکھایا دیکھ لیا لیکن لاہور والوں کے ہاتھوں مصرعوں کی بے حرمتی نہیں دیکھی جاتی۔ ا س جسارت کا بھی کوئی ٹھکانا ہے کہ نہ کلے میں گلوری نہ آنکھوں میں سرمہ اور چلے ہیں مصرع اٹھانے۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ باہر سے آنے والوں میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جن کے گھروں میں لاکھوں کا سامان موجود تھا۔ لیکن انہوں نے کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا بیاض اٹھا کے بغل میں ماری۔ مصرع بردار کی انگلی پکڑی اور چل نکلے بعض لوگوں نے تو اس بے سروسامانی کی حالت میں سفر کیا کہ بیاض بغل میں ہے اور مصرع بردار پیچھے پیچھے اور انہیں دونوں کے سہارے جنگلوں اور ویرانوں میں بڑھے چلے جا رہے ہیں ۔جہاں قدم رکھا انہوں نے بیاض نکال کے کلام سنانا شروع کر دیا اور مصرع بردار نے پہلا مصرع اٹھا کے دوسرے مصرع کا ٹیٹوا جو دبایا تو سماں بندھ گیا۔ غرض لاہور پہنچے تو یہ کیفیت تھی کہ مصرع کی دم میں سماں بھی بندھا ہوا چلا آ رہا ہے۔

پرانے زمانے کے امرا و سلاطین کے ہاں مصرع برداری کوئی خاص عہدہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ خدمت بھی مصاحبوں اور ندیموں کے سپرد تھی اور آپ جانتے ہیں کہ امی جمی کا زمانہ تھا۔ گھر گھر شعر و شاعری کے چرچے تھے۔ ایک نے مصرع کہا دوسرے نے کھٹ سے مصرع لگایا اور اب جو دیکھیے تو اچھا خاصا شعر ہے۔ جس پہ سبحان اللہ اور کیا خوب کہنے کو جی چاہتا ہے۔ مصرع اٹھانا کچھ ایسا معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ آپ نے میرا مصرع اٹھایا میں نے آپ کا۔ اور بادشاہوں اور امیروں کی تو یہ کیفیت تھی کہ بادشاہ سلامت بھی شاعر نواب صاحب بھی شعر کہتے ہیں۔ بیگمات بھی شاعری میں درک رکھتی تھیں۔ شوہر بھی ناز اٹھاتا ہے۔ مصرع اٹھانے میں بھی بند نہیں ادھر سے ترکی بہ ترکی جواب مل جاتا ہے۔ اور بادشاہ سلامت یا نواب صاحب کہیں بھی ہوں مصرع بردار سایے کی طرح ساتھ لگا ہے۔ وہ ہاتھی پر سوا رہیں خواصی میں مصرع بردار بیٹھا ہے۔ انہوں نے شعر پڑھایا مصرع بردار نے مصرع اٹھایا۔ ہاتھی نے چنگھاڑ چنگھاڑ کر اور مہاوت نے بڑی بری دھت دھت کہہ کر داد دینی شروع کی اور اچھی خاصی محفل مشاعرہ منعقد ہو گئی چرکٹا پیچھے پیچھے بھاگا چلا آ رہا ہے لیکن اس محفل میں بھی وہ اپنے آپ کو شریک سمجھتا ہے یعنی پکار پکار کر سبحان اللہ کہے جا رہا ہے۔

اب بادشاہوں اور نوابوں کا زمانہ نہیں رہا۔ لیکن اب بھی جہاں ذرا افسر قسم کے لوگ خود شعر کہتے یا دوسروں سے کہلوا کے اپنے نام سے پڑھتے ہیں وہاں بازار فوجداری کے ساتھ ساتھ مصرع برداری کا بازار بھی گرم ہے گویا دربار کا دربار ہے۔ بڑے صاحب خود ہی شاعر ہیں۔ خود ہی میر مشاعرہ اور خود ہی نواب صاحب اور ان کی ماتحتی میں جنتے بھی لوگ ہیں وہ درباری بھی ہیں اور سامعین و حاضرین بھی داد بھی دیتے ہیں اور مصرع بھی اٹھاتے ہیں اور کبھی کبھی جب حاضری کم ہو تو چپراسیوں کو بھی سامعین میں شامل دربار کر لیا جاتا ہے۔ لیکن ستم یہ ہے کہ اس مصرع بردار کا الاؤنس ہی مقرر ہے نہ اوور ٹائم ملتا ہے گویا صاحب کا کلام سننا مصرع اٹھانا اور دینا ایک قسم کی بے گار ہے لیکن اس بیگار کی داد نہ فریاد۔ یہ نہ سمجھیے کہ ہر مصرع اتنا ہلکا پھلکا ہوتا ہے کہ لپک کے اٹھایا اور ٹھکانے لگایا۔ بعض شعرا بڑی سنگلاخ زمینوں میں بڑے بڑے ثقیل مصرعے نکالتے ہیں۔ یہ مصرعے کیا ہیں پتھر کی سلیں ہیں جو اوپر تلے لڑھکتی چلی آ تی ہیں۔ اب اس قسم کے مصرعوں کو کون اٹھائے سنا ہے کہ ایک صاحب کسی محفل میں اس قسم کے مصرعے اٹھاتے اٹھاتے بے ہوش ہو گئے تھے۔ لوگوں نے بڑھ کر سنبھالا حلق میں پانی ٹپکایا لیکن دیر تک انہیں ہوش نہ آیا۔ کہتے ہیں کہ اس عالم میں بھی وہ مصرع اٹھانے کے فرض سے غافل نہیں ہوئے تھے یعنی ان کے ہونٹ برابر ہل رہے تھے بلکہ کبھی کبھی واہ کی ہلکی سی آواز بھی سنائی دے جاتی ہے۔ اس واقعہ سے کچھ دنوں کے بعد مجھے دلی سے چلے آنا پڑا۔ خبر نہیں انہیں ترقی بھی ملی یا یہ وار خالی گیا۔

ڈیڑھ دو برس ہوئے کراچی کے ایک مشاعرہ میں ایک بہت بڑے شاعر اپنا کلام سنا رہے تھے اتفاق سے میں بھی اس محفل میں موجود تھا۔ مجھ پر نظر پڑی تو کہنے لگے آپ وہاں کیا کر رہے ہیں۔ میرے پاس آ کے بیٹھیے مصرع بھی اٹھائیے اور داد بھی دیجیے۔ میں نے عرض کیا اس فقیر حقیر نے عمر بھر یا تو مصرعے اٹھائے ہیں … یا جنازوں کو کندھا دیا ہے آپ فکر نہ کیجیے میں یہیں بیٹھے بیٹھے مصرع بھی اٹھاؤں گا اور داد بھی دوں گا اور سچ پوچھیے تو میں نے کچھ غلط نہیں کہا کیونکہ نماز جنازہ بھی فرض کفایہ ہے اور شاعری کی شریعت میں مصرع اٹھانے کو فرض کفایہ سمجھا جاتا ہے ریاست بہاول پور کے لوگوں کے متعلق یہ جو مشہور ہے کہ وہ مشاعروں میں مصرع تو اٹھاتے ہیں لیکن شاعر کو داد دینے کے بجائے صرف اللہ اکبر کہہ کے چپکے ہو رہتے ہیں تو غالباً اس کی وجہ یہی ہے لیکن انہیں مصرع اٹھاتے وقت ایک بار نہیں بلکہ چار بار اللہ اکبر کہنا چاہیے کیونکہ چار تکبیروں کے بغیر نماز جنازہ نہیں ہوتی اور ہاں ناز بردارید کو بھی کہیں فرض کفایہ نہ سمجھ لیجیے گا۔ کیونکہ مصرع اٹھانا فرض کفایہ ہو تو ہو کم از کم ناز اٹھانا تو ہرگز فرض کفایہ نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

باغ و بہار

 

تلفظ کا معاملہ ایسا ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں مثلاً معنون ایک عام لفظ ہے اسے اکثر تعلیم یافتہ حضرات معنون (بر وزن مفعول) ہی پڑھتے ہیں۔ اس لیے عوام اگر ملاحظہ فرمائیے کی جگہ ملاحظہ (خ ط ہ) کہہ جائیں یا دم بخود کو نجود (ن ج و د) اور ذہنیت کو ذہینت(ذ ہی نت) کہیں تو انہیں معذور سمجھنا چاہیے۔

تلفظ کی غلطیوں کی ایک وجہ ہے کہ اکثر لوگوں نے کتابیں پڑھ کر اردو لکھنا اور بولنا سیکھا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ بظاہر ذہنیت اور ذہنیت کے املا میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے جب تک کسی شخص نے ذہنیت نہ سنا ہو اس کے لیے اس لفظ کا صحیح تلفظ کرنا مشکل ہے۔ پھر اکثر لوگ ایسے ستم ظریف ہیں کہ کسی سے غلط لفظ سن کر اسے ٹوکنے کے بجائے خوش ہوتے ہیں کہ دل لگی کا سامان ہاتھ آ تا گیا۔ کوئی دو مہینے ہوئے ایک صاحب مجلس مباحثہ میں تقریر کر رہے تھے کہ ان کی تقریر کا انداز بھی اچھا تھا اور دلائل بھی خاصے پر زور معلوم ہوتے تھے۔ لیکن انہوں نے تلفظ کی بعض ایسی غلطیاں کیں جنہوں نے ان کی ساری خوبیوں پر پانی پھیر دیا۔ مثلاً ایک موقع پر بدرجہ اتم کے بجائے بدرجہ اوتم کہہ دیا جس پر بعض لوگ مسکرائے اور کنکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر چپکے ہو گئے لیکن کسی کو انہیں ٹوکنے کی جرات نہ ہوئی اور غالباً کسی نے جلسہ ختم ہونے پر بھی اس غلطی سے آگاہ نہ کیا۔ اس لیے تلفظ کی یہ غلطی ان سے بار بار ہوتی رہے گی اور وہ یوں ہی مایہ تفریح بنے رہیں گے۔

پچھلے دنوں ایک صاحب نے مجھ سے کہا فلاں شخص جو بڑا تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے اور کسی قدر عربی سے بھی واقف ہے مترجم کو مترجم کہتا ہے۔ جب میں نے عرض کیا کہ مترجم صحیح ہے تو انہیں سخت حیرت ہوئی اس طرح بعض پڑھے لکھے لوگ رجحان کو رجحان (ر ح ج ا ن) کہتے ہیں۔ کراچی میں ایک صاحب نے مجھ سے شکایت کی کہ ریڈیو والوں نے فلاں ڈرامہ میں کوئی بار نخو کہا ہے حالانکہ اصل لفظ نجور(ن ج و ر) ہے یہ اعتراض کچھ ایسے انداز میں کیا گیا تھا کہ میں ہنسی ضبط نہ کر سکا۔

اب میں ان سے کیا بحث کرتا کہ ریڈیو والوں نے صحیح تلفظ کیا ہے۔ کیونکہ وہ اس قسم کے لوگوں میں سے ہیں جو اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کرتے اور جہاں کور دبتی دیکھتے ہیں لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں َ ریڈیو کے سلسلے میں یاد آ گیا کہ ایک مرتبہ کراچی ریڈیو سٹیشن نے کسی صاحب جدول کا تلفظ فعول کے وزن پر جدول کیا تھا اس پر بڑی لے دے ہوئی اور یہ طے پایا کہ صحیح لفظ جدول ہے۔ حالانکہ نہ جدول صحیح ہے نہ جدول بلکہ اصل لفظ تو جدول ہے۔ اس سلسلہ میں املا کی بعض غلطیوں کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ جس طرح بعض لفظوں کے املا نے لوگوں کو تلفظ کی غلطیوں کی رہین منت مثلاً اکثر جگہ نقطہ نظر اور نقطہ نگاہ کی جگہ نکتہ نگاہ اور نکتہ نظر ہی لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ نکتہ اور نقطہ کے معنوں میں بڑا فرق ہے۔

ہم ہمیشہ سے سنتے آ رہے ہیں کہ امام کی جمع ائمہ ہے۔ لیکن پچھلے دنوں میں لوگوں کی زبان سے آئمہ سنا تو تعجب ہوا۔ اسی زمانہ میں بعض علماء کی تصانیف نظر سے گزریں۔ ان میں بھی ائمہ کی جگہ آئمہ ہی لکھا دیکھا لیکن ظاہر ہے کہ جو لوگ ائمہ کی بجائے آئمہ لکھتے ہیں اور بولتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ ائمہ جو امام کی جمع ہے افعلہ کے وز پر ا ء ممہ تھا۔ اس پر ادغام کا قاعدہ جاری ہوا۔ ساتھ ہی میم اول کے بجائے ہمزہ کو مکسور کر دیا گیا اور اس طرح اس لفظ سے ائمہ کی شکل اختیار کر لی۔

املا کی بہت ساری غلطیاں ہیں جن پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غالباً تلفظ کی غلطی کی وجہ سے املا سے بھی الف ممدودہ نے الف مقصورہ کی جگہ لے لی ہے مثلاً اراضی اور اسامی اور آراضی عام طور پر لکھا جاتا ہے۔ بلکہ کہیں کہیں تو ہم نے اہالی کو آہالی بھی دیکھا ہے۔ حالانکہ تینوں لفظ فعالی کے وزن پر ہیں جو عربی کے اوزان جمع میں سے ہے۔ اراضی ارض کی جمع ہے۔ داسامی اسم کی جمع ہے اور اہالی اہل کی۔ اس لیے ائمہ کی طر ح یہاں بھی الف مقصورہ کو الف ممدودہ بنانے کی کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی۔

عربی کے خاص حروف میں سے ہے۔ اس لیے گزشتہ گزرنا یا گزارہ میں ذ کے بجائے ز ہی لکھنا چاہیے۔ بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ ذرا کو بھی ذ کے بجائے ز ہی لکھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ لفظ عربی الاصل نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اب زیادہ تر زرا کی بجائے ذرا ہی لکھا جاتا ہے۔

ایک اور لفظ کے املا میں اکثر لوگوں سے غلطی ہو جاتی ہے یعنی غیظ کو اکثر تعلیم یافتہ حضرات بھی ض سے غیض ہی لکھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن حکیم میں آیا ہے۔

والکاظمین غیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین

اس غلطی کو آج کل کے لوگوں کی غلطی میں شمار نہیں کرنا چاہیے ؟ کیونکہ یہ غلطی مدت سے چلی آتی ہے اور بعض پرانی کتابوں میں غیظ کی جگہ غیض ہ لکھا نظر آتا ہے اسی طرح اکثر لوگ جن میں بڑے بڑے اہل علم بھی شامل ہیں بڑے بے تکلفی سے محفوظ و مصؤن لکھ جاتے ہیں۔ حالانکہ مصؤن غلط ہے صحیح لفظ مصؤن ہے۔ ۔

روح رواں بھی ان غلطیوں میں سے ہے جو تلفظ کے ساتھ ساتھ املا میں بھی موجود ہیں۔ یعنی اکثر لوگوں کے نزدیک روح رواں آب رواں کی قسم کی ترکیب ہے حالانکہ یہ مرکب اضافی یا مرکب توصیفی نہیں بلکہ مرکب عطفی ہے۔ یعنی ترکیب روح رواں نہیں بلکہ روح و رواں ہے کیونکہ روح اور رواں کے معنی ایک ہیں۔ روح عربی کا لفظ ہے اور رواں فارسی کا چنانچہ انوری فردوسی کی میں تعریف میں کہتا ہے :

آفرین بروان فردوسی

آں ہمایوں نژاد و فرخندہ

اونہ استاد بود ماشاگرد

او خداوند بود و مابندہ

تلفظ اور املا کی اور بھی بہت سی غلطیاں ہیں جن کی فہرست کئی صفحوں میں آئے گی ہم نے محض مثال کے طور پر چند غلطیاں جو بہت عام ہیں گنوا دی ہیں اس قسم کی غلطیوں سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو نیا لفظ سامنے آئے اس کے استعمال کرنے سے پہلے اس کے تلفظ املا اور معنی کے متعلق اچھی طرح تحقیق کر لی جائے۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ زیادہ تر عربی الاصل الفاظ کے سلسلے میں غلطیاں کر تے ہیں لیکن عربی گریمر کے بعض ابتدائی قاعدوں سے واقفیت حاصل ہو جائے تو غلطی کا احتمال بہت کم رہ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دو دلچسپ واقعات یاد آ گئے وہ سن لیجیے۔

مدت ہوئی خواجہ حسن نظامی نے لوگوں کو تلفظ کی غلطیوں سے بچانے کے لے املا میں بعض تصرفات کیے تھے۔ مثلاً وہ مدت تک دلی کو دل لی لکھتے رہے اس میں کنایہ یہ تھا کہ دلی میں اصل میں ’’دل لی‘‘ یعنی دلستاں ہے۔ دلی کے اس املا نے تو رواج نہ پایا البتہ دلی والوں سے خواجہ صاحب کو اس نکتہ طرازی کی بڑی داد ملی۔

راقم نے اس مصرع پر دوسرا مصرع لگا کر اسے مطلع بنایا۔ یعنی بلی کو ’’بل لی‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ دلی جو تعلق دل سے وہی بلی کو بل سے ہے۔ یعنی یہ کمبخت بل کے بل صاف کر جاتی ہے۔ لیکن اول تو بلی کے حامی بہت کم تھے اس لیے راقم کو اس نکتہ طرازی کی داد نہ ملی۔ دوسرے آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے سنجیدہ مسائل دقیقہ سنجیوں سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے معاملہ دل لی اور بل لی سے آگے نہ بڑھا اور تلفظ کا مسئلہ جوں کا توں رہ گیا۔

٭٭

 

اس سلسلے میں یاد آ گیا کہ کلکتے کے مدرس بچوں کو قاعدہ پڑھاتے وقت بڑی جدتیں کرتے ہیں مثلاً وہ قل کے ہجے یوں کراتے ہیں قافے اوپر پیش لامے اوپر ججم قافر لا مر ہومر لو گول مال۔ لامر بھیتر قاف چھکی گے لو۔ ہولو  قل۔ گویا لام اور قاف دونوں بڑے نامی پہلوان ہیں ۔ قاف کے ہاتھ میں پیش کا گرز ہے۔ لام کے پاس جزم کا کلہاڑا۔ ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ قاف اور لام میں لڑائی ہو گئی۔ قاف کو غصہ جو آیا تو گرز پھینک کر لام کے پیٹ میں گھس گیا چلیے قل ہو گیا۔ آ پ کہیں گے کہ یہ کیا قصہ لے بیٹھے لیکن بندہ نواز اعتراض کرنے سے پہلے زرا اس بات پر غور کر لیجیے کہ اگر ہجوں کا یہی طریقہ اختیار کیا جائے تو تلفظ کی کوئی غلطی نہ ہونے پائے۔ لڑائی کی ٹوائی کہانی کی کہانی اور ہجے کے ہجے۔ غرض وہ جو کہتے ہیں کہہ ایک ٹکٹ میں دو مزے تو یہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

بعض نقادوں نے شاعری کی خوبیاں گنوانے میں کچھ ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ شاعری بالکل چنا جور گرم بن کر رہ گئی ہے۔ اس قسم کے نقاد پاکستان میں بھی ہیں اور بھارت میں بھی اب کسی کا نام کیا لوں۔ لیکن ان لوگوں نے اچھے شعر کی پہچان کے جو قاعدے بتائے ہیں ان کو سامنے رکھا جائے تو ساری فارسی شاعری پر یہ شعر بھاری معلوم  ہوتا ہے :

دندان چو جملہ درد ہانند

چشمان تو زیر ابرو انند

اس سے یہ نہ سمجھیے کہ اس قسم کے اشعار سے اردو شاعری خالی ہے۔ اس انداز کے اشعار ہمارے ہاں بھی موجود ہیں اور موجود نہ بھی ہوں تو حسب ضرورت تصنیف کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً یہ شعر کسی پرانے استاد کا ہے۔

آئینہ پیش رو ہے تو شانہ ہے ہاتھ میں

آنکھوں میں ہے حضور کی سرمہ لگا ہوا

حقیقت نگاری اسی کا نام ہے کسی نے اسی سے ملتا جلتا شعر کہا ہے :

جو خشکی سے دو کوس کا ہے سفر

تو خشکی سے دو کوس کا ہے سفر

اس شعر میں اور جو خوبیاں ہیں وہ تو الگ رہیں۔ ذرا قافیہ ملاحظہ فرمائیے اور یہ بھی دیکھیے کہ اگرچہ سفر چار کوس کا ہے۔ لیکن ردیف کی لمبائی چار کوس سے کم نہیں۔ اسی دو کوس اور چار کوس کے سلسلے میں ایک اور شاعر کہہ گیا ہے کہ:

گاڑی آتی ہے گاڑی جاتی ہے

گاڑی جاتی ہے گاڑی آتی ہے

یعنی پیدل نہیں چلنا پڑتا۔ بلکہ سفر کے لیے گاڑی حاضر ہے اور اب تو لاری بھی چلنے لگی ہے۔

٭٭

 

اسی قسم کے ایک حقیقت نگار شاعر کا یہ مصرع راقم کو نہیں بھولتا کہ:

کھڑکیاں بند کرو سرد ہوا آتی ہے

جب ان کے کلام کا شہرہ عام ہوا تو یہ مسڑع ایک مجذوب قسم کے بزرگ کی نظر سے گزر ا تو ان کی زبان سے یہ نکلا کہ یہ شخص ضرور کسی اونچے رتبے پر پہنچے گا۔ چنانچہ وہ معماروں میں نوکر ہو گئے۔ اور بڑے اونچے رتبے پر پہنچے یعنی سات سات منزل کی عمارتیں ان کے ہاتھوں سے تعمیر ہوئیں اور ابھی خدا جانے کہاں پہنچتے لیکن ایک مرتبہ کسی مکان کی کھڑکی تعمیر کر رہے تھے ہ پاؤں پھسلا اور ٹانگ ٹوٹ گئی اور شاید کہیں چوکیداروں میں نوکر ہیں۔

اس سلسلے میں ایک اور واقعہ یا د آتا ہے کہ امرت سر کا ایک نوجوان ایک نجومی کے پاس اپنے مستقبل کا حال معلوم کرنے گیا۔ نجومی نے کہا استاد مجھے تو تمہارے سر پر تاج شاہی نظر آتا ہے یہ نوجوان کچھ عرصے کے بعد ایک تھیٹر میں نوکر ہو گیا اور مدتوں بادشاہ کا پارٹ کرتا رہا۔ آج سے تیرہ چودہ سال پہلے پھوٹے دروازہ میں ایک ٹوٹے پھوٹے تھیٹر نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ٹکٹ غالباً ایک آنے سے چار آنے تک تھا۔ اس لیے اکثر بے فکرے سر شام وہاں پہنچ جاتے تھے۔ بعض لوگوں نے ان بادشاہت سلامت کو آخری مرتبہ وہیں دیکھا تھا۔

آپ کو یاد ہو گا کہ آج سے کوئی بیس برس پہلے جب بعض شعرا نے بے قافیہ نظمیں لکھنی شروع کیں تو میں نے بھی ان کی پیروی میں بعض نظمیں کہی تھیں جو مختلف اخباروں میں شائع ہوئیں ان میں سے ایک نظر کا دوسرا بند اس طرح شروع ہوتا تھا۔

یہ بھینس آہ یہ بھینس… فضا میں تیرتے  ہیں قہقہے جن کی جگالی کے۔

مرے کمرے کی تنہائی میں اکثر آ نکلتی ہے۔

یہ نظمیں تو شائع ہو گئیں لیکن پچھلے دنوں پرانے کاغذات میں ایک اور نظم کا مسودہ ہاتھ آ گیا یہ نظم جس کا عنوان سڑک ہے۔ راقم نے دہلی میں لکھی تھی اور غالباً اب تک کہیں نہیں چھپی۔

یہ سڑک

سامنے یہ جو کچی سی سڑک

جس پہ استادہ ہیں شیشم کے درخت

پا بغل صف بستہ

پاسبانوں کی طرح

یہ سڑک

٭٭٭

یہ سڑک صاف بھی سیدھی بھی

نہ کوئی پھیر نہ موڑ

نہ کوئی پیچ نہ خم

اور نہ خاشاک کے انبار کہیں

یہ سڑک

٭٭٭

یہ سڑک جس پر جوانان حسین محو خرام

کاجل آنکھوں میں ہے کاجل میں نشے کے ڈورے

تمتماتے ہوئے گال

بال بکھرے ہوئے بہکی ہوئی چال

اور کلوں میں دبائے ہوئے پان

یہ سڑک یہ سڑک خام سہی

شارع عام سہی

پھر بھی یہ بات بڑی ہے کہ چلی آتی ہے

اپنی ہی دھن میں چلی آتی ہے

یوں ہی کلکتے سے لاہور تلک

یہ سڑک

٭٭٭

کبھی تنہائی سے گھبرا کے نکل آتا ہوں

اس سڑک پر جو ٹہلنے کے لیے

یک بیک

ذہن بن جاتا ہے میرا بھی سڑک کے مانند

ایک ایسی ہی سڑک کے مانند

جو چلی جاتی ہے کلکتے سے لاہور تلک

اس پہ افکار جواں

مثل جوانان حسین محو خرام

اور اشعار رواں

کار کی طرح رواں رواں اور دواں

گرد میں جس کی چھپی جاتی ہے

شعلہ رخ کی لپک

شور میں جس کے دبی جاتی ہے

ایک چوڑی کی کھنک

یہ سڑک

٭٭٭

سامنے جو ہے کچی سی سڑک

جس پر استادہ ہیں شیشم کے درخت

پا بغل صف بستہ

پاسبانوں کی طرح

یہ سڑک

٭٭٭

یہ نظم پوری طرح بے قافیہ نہیں۔ بلکہ کہیں کہیں قافیہ بھی آ گیا ہے۔ پھر بھی اکثر لوگوں کو اس لیے پسند ہے کہ سڑک چاہے کچی ہو یا پکی آخر کام کی چیز ہے۔

اور سڑک ایسی ویسی نہیں کہ

جو خشکی سے دوکوس کا ہے سفر

تو خشکی سے دو کوس کاہے سفر

بلکہ اس سڑک کا تو یہ عالم ہے کہ

اپنی دھن میں ہی  چلی جاتی ہے

یوں ہی کلکتے سے لاہور تلک

٭٭٭

 

 

روس اور ایران کا ایک ادبی معرکہ

 

                نظامی گنجوی کا وطن

 

ہمارے ملک میں جو لوگ شعر و ادب کا مذاق رکھتے ہیں ان میں بہت کم ایسے ہوں گے جو نظامی گنجوی کا نام نہ جانتے ہوں۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے جب فارسی کا رواج عام تھا نظامی کو مثنویاں خصوصاً سکندر نامہ اور شیریں خسرو درس میں شامل تھیں۔ طلبہ گلستاں اور بوستان سے فارغ ہونے کے بعد سکندر نامہ پڑھتے تھے اور ا س کے بعد ابو الفضل اور سہ نثر ظہور وغیرہ کی باری آتی تھی۔ لیکن زمانہ یہ ورق الٹ چکا ہے۔ اب نظمی کی مثنویاں جو پنج گنج نظامی کے نام سے مشہور ہیں کتب خانوں کی الماریوں کی زینت بن کے رہ گئی ہیں۔

ہمارے ملک سے تو خیر فارسی مٹ چکی ہے۔ اس لیے خمسہ نظامی اور فارسی کی دوسری کتابوں سے اس قسم کی بے اعتنائی قدرتی بات معلوم ہوتی ہے لیکن ایران میں بھی گزشتہ بیس پچیس برس سے وطن پرستی کا جو سیلاب امڈ رہا ہے ا س نے ایرانیوں کی نگاہ تنقید کو بہت دھندلایا ہے۔ اور وہ فردوسی کے سوا جو ایران کے پاستانی عہد کا داستان نگار ہے۔ اور کسی شاعر کو چنداں لائق التفات نہیں سمجھتے۔

قومی عصبیت کا یہ جوش اب تو بہت حد تک کم ہو گیا ہے لیکن آج سے چند برس پہلے یہ کیفیت تھی کہ عربی زبان کے الفاظ چن چن کر فارسی سے نکالے جا رہے تھے۔ جمشید کیومرث کیقباد اور کیخسر و کے افسانوں سے محفلیں گرم تھیں اور یہی نہیں بلکہ پرانی دشمنیاں جن پر ہزاروں برس کی مدت گزر چکی ہے تازہ کی جار رہی تھیں توران کا بادشاہ افراسیاب عین ایران کا حریف تھا۔ چنانچہ شاہنامے میں ایران و توران کے معرکوں کی داستان سینکڑوں صفحوں پر پھیلی ہوئی ہے۔

جدید ایران کے شاعروں اور انشاء پردازوں نے اس پرانی عادت کو پھر ابھارا اور ایک مشہور شاعر عارف قزوینی نے یہاں تک کہہ دیا کہ:

زترک داز زبان ترک پرہیز

ظاہر ہے کہ قومی عصبیت کے اس دور میں نظامی جیسے شاعروں کی کیا قدر ہو سکتی تھی کیونکہ سکندر نامہ جو نظامی کی شاعری کا سب سے بڑاکارنامہ ہے۔ ایک غیر ملکی فاتح سکندر مقدونوی کی فتح مندیوں کا تذکرہ ہے جس کے ہاتھوں ایران کی کیانی سلطنت کا چراغ گل ہوا لیکن تین چار برس ہوئے ایک ایسا واقع ہوا جس نے ایرانیوں کو پھر نظامی کی شاعری کی طرف متوجہ کیا۔

آپ کو معلوم ہو گا کہ مولانا نظامی گنجہ کے باشندے تھے۔ جو مدت تک ایران کی سلطنت میں رہ چکا ہے۔ اور اب اذر بائیجان کی روسی جمہوریت میں شامل ہے۔ چند برس ہوئے جب روسیوں نے دوسرے جھگڑوں سے فراغت پا کر علمی کاموں کی طرف توجہ کی تو نظامی کا کلام بھی سامنے آیا۔ ان کے حالات کی تحقیق کی گئی اور اخباروں اور رسالوں میں ان کے کلام کا اقتباس چھاپا گیا۔ انہیں دنوں جرمنی اور روس میں جنگ چھر گئی اگر جنگ کا زمانہ علمی اور ادبی سرگرمیون کے لیے موزوں ہیں تاہم نظامی چونکہ رزمیہ شاعری کے استا د ہیں اور میدان جنگ کی تصویریں کھینچنے میں بڑا کمال رکھتے ہیں۔ اس لیے اس زمانہ میں نہیں اور بھی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔

۱۹۴۴ء میں ان کی ہشت صد سالہ یادگار منائی گئی۔ روس کے بڑے بڑے شہروں میں جلسے ہوئے نظامی کے کلام پر مضامین لکھے گئے اخباروں اور رسالوں میں ان کے کلام کا ترجمہ چھاپا گیا اور ان کے سوانح حیات اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کے متعلق لمبے لمبے مضامین لکھے گئے۔

 

                قمی یا گنجوی

 

روس میں نظامی کی یہ قدر و منزلت دیکھ کے ایرانیوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ خود انہوں نے نظامی کی وہ قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق تھے لیکن اس کے ساتھ انہیں یہ بات ناگوار بھی گزری کہ روسیوں نے ان کا ایک بڑا شاعر بھی چھین لیا ہے۔ چنانچہ ایرانی اخباروں نے اس پر پر زور مضامین لکھے جن میں نظامی کو روسی قرار دینے کی جسار ت پر حیرت و تعجب کا اظہار کیا گیا تھا۔

ہماری نظر سے وہ تمام مضامین تو نہیں گزرے جو ایرانی اخبارات نے اس سلسلے  میں لکھے ہیں لیکن ان کے اقتباس ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانیوں نے اس بحث میں جو سب سے بڑی دلیل پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ گنجہ اب روس میں شامل سہی لیکن وہ ہمیشہ ایران میں شامل رہا ہے اس کے علاوہ نظامی کی زبان خالص فارسی ہے اور رزمیہ شاعری ہے جو ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ فردوسی کے متبع ہیں۔

لیکن اس کے علاوہ نظامی نے ایرانی ہونے کی ایک اور دلیل ہے وہ غالباً کسی ایرانی اخبار نے پیش نہیں کی۔ یا کم از کم ہماری نظر سے نہیں گزری۔ نظامی دراصل گنجہ کے باشندے نہیں تھے۔ بلکہ تفرش کے رہنے والے تھے جو قم کا ایک ضلع ہے۔ یہ سارا علاقہ پہلے بھی ایران میں تھا اور اب بھی ایران میں ہے۔ نظامی کی ساری عمر چونکہ گنجہ میں گزری اس لیے وہ گنجوی کے نام سے مشہور ہوئے ہیں تاہم انہیں قمی ہونے پر فخر تھا چنانچہ سکندر نامہ میں وہ لکھتے ہیں۔

چو در گرچہ در بحر گنجہ گمم

ولیک از قہستان شہر قمم

یہ ٹھیک ہے کہ یہ شعر بعض مطبوعہ نسخوں میں نہیں ملتا۔ لیکن اکثر پرانے نسخوں میں موجود ہے۔ چنانچہ تذکرہ ہفت اقلیم میں جو فارسی شعراء کا ایک مبسوط تذکرہ ہے۔ اسی شعر کی بنا پر انہیں تفریشی اور قمی قرار دیا گیا ہے۔ آتش کدہ کے مصنف لطف علی بیگ آذر نے بھی یہی لکھا ہے کہ وہ تفرش کے رہنے والے تھے۔

قم نے کئی اہل علم اور شاعر پیدا کیے۔ ان میں سے ایک شاعر کا تخلص بھی قمی ہے یہ شاعر جو ظہوری کا معاصر تھا بہت اچھی غزل کہتا تھا۔ جوانی میں دکن چلا آیا اور ہیں عمر گزار دی۔ فیضی نے دکن سے اکبر کے نام جو خط لکھے ہیں دان میں قمی کی بہت توصیف کی ہے۔ گنجہ کے شعرا میں صرف ایک شخص ابو العلا گنجوی کا نام تذکروں میں ملتا ہے یہ شخص خاقانی شیروانی کا استاد اور خسرتھا۔ بعد میں استاد شاگرد میں چل گئی تھی۔ چنانچہ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہجو لکھی۔

 

                قبولیت کا سبب

 

بہرحال نظامی کا وطن چاہے گنجہ ہو یا تفرش وہ روسی ہوں یا ایرانی۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بڑے صاحب کمال تھے اور شاہ نامہ کے بعد جو مثنویاں لکھی گئی ہیں ان میں انہیں کی مثنویوں کا درجہ آتا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں انہوں نے پانچ مثنویاں لکھی ہیں جنہیں خمسہ نظامی یا پنج گنج نظامی کہتے ہیں سکندر نامہ کے دو حصے ہیں سکندر نامہ بری اور سکندرنامہ بحری۔ اس کے بعد شیریں اور خسرو کا درجہ ہے۔ جو ایران کے بادشاہ خسرو پرویز اور شیریں کی داستان ہے چوتھی مثنوی ایران کے ایک اور بادشاہ بہرام کا قصہ ہے۔ پانچویں مخزن اسرا ر ہے جس کا موضوع اخلاق اور مذہب ہے۔

اگرچہ نظامی حسن و عشق کی داستانیں بھی خوب لکھتے تھے اور شیریں خسرو میں انہوں نے یہ موضوع بڑی اچھی طرح نبھایا ہے۔ اس کے علاوہ کوہ و دشت اور باغ وراغ کی منظر نگاری پر بھی انہیں بڑی دسترس حاصل ہے۔ لیکن انہیں زیادہ تر سکندر نامہ کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی اور روس میں بھی انہوں نے جو قبول پایا ا س کی وجہ سکندر نامہ اور خاص طور پر سکندر نامہ کا وہ حصہ ہے چنانچہ روسی اخباروں اور رسالوں نے ان کے کلام کے اقتباسات چھاپے ہیں ان میں سکندر نامہ کے ایک حصہ کو بار بار نقل کیا گیا ہے اس کے چند شعر سنیے :

درآمدبہ غریدن آواز کوس

ملک بردہان دہل داد بوس

زبیم چقاچق کہ آمد زتیر

کفن گشت در زیر جوشن حریر

بہ جنبش برآمد و دریائے خون

شداز موج آتش زمین لالہ گوں !

جگر تاب شد نعرہ ہائے بلند

گلو گیر شد حلقہائے کمند

زسم ستوراں دروں پہن دشت

زمین شش شدہ آسمان کشت ہشت

ہمارے ہاں اخری شعر کو عام طور پر مبالغہ کے مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ روسیوں نے سب سے زیادہ اس شعر پر داد دی ہے۔ نظامی کے سال پیدائش اور سال وفات کے بارے میں بڑا اختلاف ہے۔ اور روسیوں نے ان کی سال پیدائش کے متعلق جو تحقیق کی وہ مولانا شبلی کی تحقیق کے مطابق ہے یعنی انہوں نے بھی ۵۳۳ء یا ۵۳۴ء کو نظامی کا سال پیدائش قرار دیا ہے۔ جو ۱۱۴۳ء یا ۱۱۴۴ء کے برابر ہوتا ہے اور اسی حساب سے ۱۹۴۴ء میں ان کی ہشت صد سالہ یادگار منائی گئی ہے۔

نظامی کے وطن کے بارے میں جو بحث چلی آ رہی تھی اس کا کوئی فیصلہ تو نہیں ہو سکا لیکن اس سے اتنا فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ ایرانی پھر نظامی کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں اور انہیں اپنے ملک کے بڑے شاعروں میں سے سمجھنے لگے ہیں ہم نے ہمیشہ اپنے ملک کے بڑے آدمیوں کو دوسروں کے توسط ہی سے پہچانا ہے۔ یورپ خیام کی قدر نہ کرتا تو خیام کو کون جانتا تھا؟ ٹیگور اقبال اور ایشیا کے بہت سے دوسرے صاحب کمال لوگوں کا بھی یہی حال ہے۔

نظامی کے علاوہ روس میں فارسی زبان کے ایک اور شاعر امیر علی شیرانوائی کی بہت قدر ہوئی۔ نوائی سلطان حسین کے درباری امرا میں سے تھا۔ اور فارسی اور ترکی زبانوں میں بہت اچھا شعر کہتا تھا۔ لیکن ایران کے اہل علم نوائی کو لوک شاعر سے زیادہ شعرا کے سرپرست اور مربی کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ تمام تذکرہ نگاروں نے ان کی اس حیثیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اگر چنگیز خان زندہ ہوتا

 

بے اطمینانی انسان کی طبیعت میں ہے۔ نہ وہ اپنے ماضی سے مطمئن نہ حال سے خوش۔ جب وہ اپنی ناکامیوں پر نظر ڈالتا ہے تو صرف ٹھنڈی سانس بھر کر چپکا نہیں ہو جاتا بلکہ جو واقعات گزر چکے ہیں کبھی کبھی اپنے ذہن میں ان کی ترکیب بدل دیتا ہے۔ بلکہ ان میں سے تبدیلیاں کر لیتا ہے۔ جس طرح ایک شاعر اپنے کلام پر نظر ثانی کرتے وقت تنقید کے خوف سے الفاظ کی ترتیب بدل ڈالے یا بعض الفاظ کو حشو سمجھ کر نکال دے اور ان کی جگہ دوسرے الفاظ لے آئے۔

آپ نے اگر اس انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پر غور کیا ہے تو آپ کو اس طومار میں ایطائے خفی یا ایطائے جلی کی مثالیں نظر آئی ہوں گی۔ کبھی آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ اس شعر میں شتر گربہ ہے۔ یہاں بندش سست ہے۔ یہاں حرف صحیح ساقط ہو گیا ہے۔ یہاں مضمون پامال ہے یہاں اختلاف بحر ہے اور استغفراللہ یہ غزل کہتے وقت میری کیا مت ماری گئی تھی کہ پورا مصرع وزن سے خارج ہے۔ لیکن صاحب دل ہی سل میں اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کو الٹ پلٹ کے اور ان کی ترتیب بدل کے خوش ہو لینا اور بات ہے۔ زندگی سچ مچ شعر تو نہیں کہ جب چاہیں اس کی اصلاح کر لیں یا اگر کلام چھپ گیا تو اس کے ساتھ ایک غلط نامہ شائع کروا لیں اور یہ بھی نہ ہو سکیں تو سوچ کے چپکے ہو رہیں کہ چلو اگلے ایڈیشن میں صحیح ہو جائے گی۔ گزرے ہوئے دن پلٹ کر نہیں آتے اور جو کچھ ہو چکا اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہم اور آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے اگر مگر چناں و چنیں اور کاشکے کی بھول بھلیاں میں کھو جائیں اور

یو ں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا

گنگنانا شروع کر دیا یا مرزا غالب کی طرح یہ کہہ کے چپکے ہو رہے کہ:

آئینہ و گزشتہ تمنا و حسرت است

یک کاشکے بود کہ بصد جانوشتہ ایم

لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم اور زندگی میں جو غلطیاں کر چکے ہیں اگر وہ ہم سے سرزد نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ یا مرز غالب کو اپنے چچا کی پوری جاگیر مل جاتی تو آیا وہ کلکتہ اٹھ جاتے یا دہلی میں رہتے اور کلکتے چلے جاتے تو وہاں کی آب و ہوا کا ان کی غزل گوئی پر کیا اثر پرتا؟ مجھ سے تو یہ سوال کیا گیا ہے کہ اگر چنگیز خان زندہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ اول تو مجھے اس سوال پر ہی اعتراض ہے۔ چنگیز خان جن اثرات کی پیداوار تھا۔ ان پر غور کیا جائے تو علت اور معلول کا ایک لامتناہی سللسہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ جس کی کڑیاں گننا ہمارے بس کا روگ نہیں۔ زندگی کے پیڑ میں ایسا کڑوا پھل ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس لیے خاص موسم شرط ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ چنگیز خاں جیسے شخص کے لے بارھویں تیرھویں صدی کا موسم اور مغولستان یعنی منگولیا کا ماحول ہی موزوں تھا۔ چنگیز خاں کو جس زمان اور جس ماحول میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ وہ اسی زمانے میں اور ماحول میں پیدا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ آپ اور ہم اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کی ترتیب الٹنے پلٹنے اور نئے ڈھنگ سے ان کی چولیں بٹھانے کے عادی ہیں۔ چنگیز خاں سے بھی اسی قسم کی زبردستی کر گزریں یعنی اسے تیرھویں صدی سے کھینچ کر بیسویں صدی میں لا کھڑا کریں۔ خیر یوں ہے تو یوں ہی سہی۔ آئیے اب ہم اور آپ مل کر اس سوال پر غور کریں کہ اگر یہ مغل سردار جس نے پرانی دنیا کے نصف حصے کو زیر و زبر کر ڈالا تھا۔ آج ہوتا تو کیا ہوتا؟

یہ سوال سن کر آپ کا ذہن یقیناً ہٹلر کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہٹلر کے چہرے میں چنگیز  خان کے خدوخال کا عکس تیار کر لینا بڑی آسان اور پیش پا افتادہ سی با ت ہے اور ممکن ہے کہ آ پ کو اقبال کا یہ شعر بھی یاد آ گیا ہو کہ:

از خاک سمر قندے ترسم کرد گر خیزد

آشوب ہلا کوئے ہنگامہ چنگیزے

ہٹلر اور چنگیز خان میں بظاہر کئی چیزیں مشترک معلوم ہوتی ہیں۔ اور دونوں کے کارناموں میں بھی بڑی مشابہت ہے۔ مثلاً چنگیز خان تو چنگیز خانی کو جو اس کے بعض قوانین کا مجموعہ تھا ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتا تھا۔ ہٹلر بھی نیا نظام قائم کرنے کا مدعی تھا اور نازیوں میں مائن کیمپ کو وہی حیثیت دی جاتی تھی جو مغلوں میں تورہ چنگیز خانی کو حاصل تھی۔ پھر دونوں میں تنظیم کی خاص صلاحیت ہے اور دونوں خون ریزی کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے بڑی مشابہت یہ ہے کہ کیف کا شہر دو دفعہ لٹا ہے۔ ایک دفعہ چنگیز مغلو ں نے اسے تاراج کیا تھا اور دوسری دفعہ ہٹلر نازیوں کے ہاتھوں اس کی تباہی آئی۔ اس لیے مجھے مان لینے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر چنگیز خان آج زندہ ہوتا اور یورپ میں ہوتا تو نسل انسانی کے لیے ہٹلر کے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتا۔ لیکن یہ امر مشتبہ ہے کہ اگر چنگیز خان آج مغولستان ہی میں پیدا ہوتا تو کیا دنیا اسے فاتح اور کشور کشا کی حیثیت سے جانتی۔ اور کیا اس کی سرداری میں مغل فوجیں آج بھی نصف کردہ ارض کو پامال کر ڈالتیں۔ بارہویں اور تیرہویں صدی میں ایسے کارنامے انجام دینے کے لیے جو چیزیں ضروری تھیں وہ آج بے کار ہو کے رہ گئی ہیں مثلاً اس عہد میں ہر نامور سردار کے لیے ضروری تھا کہ وہ جسمانی قوت میں نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتا ہو۔ فنون سپہ گری یعنی تیغ گری تیغ زنی تیر اندازی، نیزہ بازی، اور شہسوری میں ماہر ہو۔ لیکن آج کل جسمانی قوت یا فنون سپہ گری کی مہارت بے معنی ہے۔ ہٹلر میں تنظیم کی صلاحیت ضرور تھی۔ لیکن وہ پہلوان تو ہرگز نہ تھا۔ فنون سپہ گری سے بھی نابلد تھا۔ پھر اس نے وہ کیا جو چنگیز خاں نے اپنے عہد میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ چنگیز خان نے بڑی بڑی فتوحات اس لیے حاصل کیں کہ منگولیا میں اعلیٰ نسل کے مضبوط اور جفا کش گھوڑے کثرت سے ہوتے ہیں۔ مغل گھڑے چڑھے جب مغولستان کے کوہستانوں سے گھوڑے دوڑاتے نکلتے ہیں تو انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔

آج کی لڑائیوں میں گھوڑوں کو اتنی اہمیت نہیں رہی اب تو ٹینکوں کا زمانہ ہے اور ہٹلر نے ٹینکوں کی مدد سے ہی میدان سر کیے ہیں۔ شاید آپ کہیں گے کہ اگر چنگیز خان اس زمانے میں ہوتا تو اس کے پاس بھی ٹینک ہوتے لیکن صاحب مغولستان میں ٹینک کہاں سے آتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے لیکن منگولیا کے باشندوں کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ ان کی زندگی اب بھی قریب قریب ایسی ہی ہے کہ جیسی آج سے سات ساڑھے سات سو برس پہلے تھی۔ اب بھی دشت گوبی کے آس پاس کے علاقے میں مغل خانہ بدوشوں کے قافلے بھیڑ بکریوں کے گلے کے لیے چارے کی تلاش میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ اب بھی گھوڑے ان کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ اس لیے چنگیز خان آج ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار یا منگولیا کے کسی علاقے کا حاکم ہوتا۔ اور اگر اسے فتح مندی اور کشور کشائی کا شوق چراتا تو آس پاس کے علاقے پر چھاپا مارنا شروع کر دیتا اور ممکن ہے کہ اخباروں کے کالموں میں اس کا نام بھی آ جاتا۔ ریڈیو پر بھی ہم اس کا ذکر سن لیتے اور ہمارے ملک کے اکثر لوگ یہ جان لیتے کہ منگولیا کے سرداروں میں ایک صاحب چنگیز بھی ہیں۔ اور ممکن ہے ک کبھی ہم یہ بھی سن لیتے جاپانیوں یا روسیوں سے چنگیز کی ان بن ہو گئی پہلے تو بڑے زور میں تھا لیکن ایک ہی ہوائی حملے نے ساری شیخی کرکری کر دی اور چنگیز خانی دھری کی دھری رہ گئی۔ اور ممکن ہے کہ چنگیز خان کو کسی قبیلے کی سرداری بھی ہاتھ نہ آتی اور ساری عمر جھیل بے کال کے آس پاس گھاس کھودتے گزر جاتی اور اس طرح اس مذاق خونریزی کی تسکین کا سامان فراہم ہو جاتا۔ یہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ قیصر ولیم ثانی جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد درخت کاٹا کرتے تھے غالباً انہوں نے یہ مشغلہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ انہیں بھی تخریب سے ازلی مناسبت تھی۔ منگولیا میں درخت کم ہیں اس لیے چنگیز خان درختوں کے بجائے گھاس پر غصہ نکالتا اور اسی کو کشور کشائی اور جہانگیری کا بدل سمجھتا اور یہ بھی اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان منگولیا میں ہوتا ورنہ اگر وہ ہندوستان اور پاکستان میں پیدا ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار ہوتا نہ کسی علاقے کا حاکم بلکہ یہ تو لیڈر ہوتا یا پھر شاعر ہوتا۔ لیڈر ہوتا تو سیاست کے گلے پر کند چھری پھیرتا۔ اخبارنویس کی ٹانگ اس طرح توڑتا کہ بچاری ہمیشہ کے لیے لنگڑی ہو کر رہ جاتی۔ اور شاعر یا ادیب ہوتا تو ادب کا خون بہاتا۔ بھاری بھرکم لغات اس طرح لڑھکاتا کہ شاعری اس کے نیچے دب کے رہ جاتی۔ پرانے شاعروں کے دیوانوں پر ڈاکہ ڈالتا اور بڑے برے سلاطین سخن کے کلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتا۔ متداول بحروں میں ایسے تصرفات کرتا کہ ان کی شکل نہ پہچانی جاتی۔ یہ اس لیے کہ ہندوستان پاکستان میں منگولیا ایسے گیا ہستان نہیں جہاں چنگیز خان اطمینان سے گھاس کھو د سکتا اور درخت کاٹنا جرم ہے اور یہ پھر بھی ہے جس طرح منگولیا گھوڑوں کے لیے مشہور ہے۔ ہمارا ملک شاعری اور شاعروں کے لیے مشہور ہے۔ اس لیے یقین ہے کہ چنگیز خان کو شاعری کا پیشہ اختیار کر کے کاغذی گھوڑے دوڑانے اور قلم کی تلوار چمکانے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہ آتا اور اس معاملے میں مرزا غالب کا فتویٰ بھی تو یہی ہے کہ:

بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

٭٭٭

 

 

سپید سمندری بندر

 

سپید سمندری بندر کی کہانی میں نے احمد بن الیاس بن سالم سے سنی تھی جو جاوا کے مشہور تاجر وں میں سے ہے۔ اور جس کی دانائی اور عقل مندی کی تعریف جوگ جا کرتا کے سب لوگ کرتے ہیں لیکن کوئی ایسی کہانی نہیں جو صرف احمد بن الیا س کو یاد ہو گا جاوا کے شہر دیہات خاص طور پر جوگ جا کرتا اور اس کے آس پاس کے دیہات کے گاؤں میں یہ کہانی بہت مشہور ہے۔ اور میں نے کوٹا گیدہ میں وہ پتھر بھی دیکھا ہے جس سے سپید سمندری بندری کو باندھ دیا گیا تھا یہ پتھر کیا ہے ایک بڑی چٹان ہے۔ جس پر کسی اجنبی زبان میں کچھ حروف کھدے ہوئے ہیں کوٹا گیدہ کے لوگ اب بھی اسے سپید سمندری بندر کا پتھر ہی کہتے ہیں۔

جس زمانہ میں یہ واقعہ پیش آیا کوٹا گیدہ آج کی طرح ایک چھوٹا سا قصبہ نہیں بلکہ ماتا رام کی سلطنت کا دارالحکومت ہے اور بہت بڑا شہر تھا ماتا رام کا سلطان بڑا طاقت ور تھا۔ اس کے جہاز دور دور تک سمندروں کو کھنگالتے پھرتے تھے۔ اس کی فوج ریت کے ذروں کی طرح ان گنت تھی اور آس پاس بہت سے جزیروں کے راجہ اس کو خراج دیتے تھے۔ وہ قوت اور عظمت والا سلطان تھا جس کے طاقت ور بازو کوٹا گیدہ کے لیے شہر پناہ بنے ہوئے تھے۔ اور کوٹا گیدہ کا شہر تو سمندر کے کنارے اس طرح کھڑا تھا جیسے کوئی شرمیلی دلہن بارہ ابھرن سولہ سنگار سے آراستہ سر نہوڑائے کھڑی ہو۔ اس میں محل اور حویلیاں ہی پھیلی ہوئی تھیں۔ اونچے اونچے محل لکڑی کی مخروطی چھتوں والی حویلیاں رمبوتاں منگوسٹین اور دربان کے درختوں سے گھری ہوئی محل سراہیں پھر ان میں کہیں کہیں انناس کی جھاڑیاں چھالیا کے پیڑ نکیلے لمبے لمبے پتوں والے پیڑ جو آفتاب کے طلوع و غروب کے ساتھ ساتھ کبھی ارغوانی کبھی سرمئی اور کبھی نارنجی معلوم ہوتے تھے اور شہر کے ساتھ ساتھ کمپونگ تھے۔ یورپ کے ان پر اسرار جزیروں کے پا اسرار دیہات درختوں سے گھرے ہوئے دیہات جن کی ہریالی سے آنکھوں میں ٹھنڈک پڑتی تھی اور آنند کی ایک لہر سی اٹھ کے د ل پر چھا جاتی تھی ان کمپونگوں کے ساتھ ساتھ دھان کے کھیتوں کے تختے تھے۔ ان کے آگے گھنے جنگل دریاؤں کی ترائیاں سمندر کے ریتلے ان گھنے جنگلوں میں جہاں کافور صندل اور عود کے پیڑوں کے جھنڈ چھائے ہوئے تھے سیاہ مرچ الائچی اور دار چینی کے درختوں کا ہجوم تھا کہیں ہاتھی دوڑتے پھر تے تھے کہیں اجگر اونگھ رہے تھے۔ اور ان دریاؤں کی ترائیوں میں جہاں سپید سپید ریت پر مٹی کی تہیں چڑھی ہوئی تھیں کہیں مگر مچھ لوٹ رہے تے اور کہیں گھڑیال خوش مستیاں کرتے نظر آتے تھے۔

ایک رات کوٹ گیدوہ میں بڑے زور کا طوفان آیا۔ کالے کالے بادل جو طوفانی سمندر کی طرح غضب ناک معلوم ہوتے تھے۔ بستیوں اور جنگلوں پر دفعتہً جھک پڑتے وہ سچ مچ ہاتھیوں کے گلے کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ جھوم جھوم کر چلنے والے ہاتھیوں کی طرح جو سلطان کی سواری کے آگے آگے چلتے تھے اور بجلی کی روپہلی لکیریں بالکل گجک چینی معلوم ہوتی تھیں جو کالے کالے اور بھاری بھرکم ہاتھوں کے قدموں میں تیزی پیدا کر دیتی ہے۔

ماتا رام کا سلطان تخت پر بیٹھا ناچ دیکھ رہا تھا۔ اس کے گردا گرد بڑے بڑے سردار رنگین سارونگوں میں ملبوس حلقہ باندھے کھڑے تھے۔ یہ بیرونگ قسم کا ناچ تھا۔ جو جاوا اور بالی دونوں جزیروں میں ناچا جاتا ہے اور ناچنے والی ایک مشہور رقاصہ تھی جس کا سڈول جسم بید کی طرح لچکیلا تھا۔ اس ناچ کا مقصد یہ تھا کہ بد روحوں کو نکال دیا جائے۔ ناچ کی دھن میں کچھ التجا کا انداز تھا۔ کچھ تحکم کا۔ ناچنے والی کے جسم کی حرکات میں اس کا مڑنا۔ جھکنا، رکنا، بڑھنا ہی یہی مضمون اد ا کر رہی تھیں۔ یکایک ایک ایسی آوا ز آئی جیسے ساری بد روحیں جو فضا میں آوارہ پھرتی رہتی ہیں زمین پر ٹوٹ پڑی ہوں۔ ہوا کے تیز جھونکے نے کافوری شمعوں کو گل کر دیا۔ رقاصہ گلاب کی پتی کی طرح کانپتی ہوئی زمین پر گر پڑی سلطان جو تکیہ کے سہارے ٹیک لگا تخت پر بیٹھا تھا کھڑا ہو گیا۔ لو گ شمعیں روشن کرنے کے لیے دوڑ پڑے۔ غرض یہ محفل نشا ط بڑی ابتری کی حالت میں ختم ہو گئی۔ سلطان سخت پریشانی کی حالت میں اپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔ لیکن ساری رات اسے نیند نہ آئی محل کی دیواروں پر مینہ کی بوچھاڑ پڑتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا بد روحیں دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

صبح ہوتے ہوتے بارش تھم گئی۔ شام کے ڈوبتے ہوئے آفتاب اور نارنجی شفق نہ سمندر کو پر خروش پایا تھا۔ رات کی تاریکی اس کی کف درد ہاں موجود کو دیکھ کر کانپ اٹھی تھی۔ لیکن جب صبح کی سنہری کرنوں نے اسے چھوا تو وہ بالکل ساکن تھا اور بالکل بے خروش اور اس کے ماتھے پر کہیں بل بھی تو نہیں تھا۔ کوٹا گیدہ ماہی گیر صبح سویرے سمندر کے کنارے پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ساحل سے کچھ دور ایک جہاز کے ٹوٹے ہوئے بادبان اور تختے تیر رہے تھے۔ ان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ اس ساحل پر جہاں ہر طرف چٹانیں ہی چٹانیں پھیلی ہوئی تھیں پہلے بھی کئی جہاز یوں ہی تباہ ہو چکے تھے۔ پھر ایکا یک انہیں ساحل پر کوئی سپید سپید سی چیز نظر آئی وہ اس کی طرف بڑھے یہ ایک لاش تھی ایک بہت بڑے بندر کی لاش  وہ حیران ہوکے اسے دیکھنے لگے۔ اس کے سر پر بڑے بڑے سنہری بال تھے جن سے اس کا سپید سپید جسم جھلکتا نظر آتا تھا۔ ان کی بہت سی قسمیں تھیں بعض داڑھیوں والے بندر تھے۔ بعض بغیر داڑھی کے۔ اور نگ اوتان یعنی جنگل کا آدمی بھی بندر کی ایک قسم تھا جو انسان سے بہت مشابہ معلوم ہوتا تھا۔ یہ بندر اور نگ اوتان سے بھی مختلف تھا۔ اس  کا جسم سپید تھا۔ بالکل سپید۔ اس کے بال سنہری تھے اور بھورے تھے۔ بندروں کے زرد زرد بالوں سے زیادہ چمکیلے پھر اس کا ساراجسم بالوں سے ڈھکا ہوا بھی نہیں تھا۔

ایک ماہی گیر کہنے لگا۔ اتنا تو یقین ہے کہ پالتو بندر ہے۔ لیکن ہم نے ایسا بند ر کبھی نہیں دیکھا۔

ایسا اور بڈھا ماہی گیر جس نے سمندر کے کئی سفر کیے تھے۔ اور جس کا نام سلیمان تھا۔ کہنے لگا یہ مونیت پوتے لاوت ہے۔ سپید سمندری بندر سمندر کے دیوتا ورن کا بیٹا ہے۔ پچھم ان سمندروں سے آگے کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سپید بندروں کی بڑی بڑی بستیاں ہیں۔ زندگی کتنی عجیب ہے۔ کسے یقین تھا کہ ہم جیتے جی مونیت پوتے لاؤت کو دیکھ سکیں گے۔ یہ تو ایک عجیب واقعہ ہے۔ جو سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا اور بادشاہوں کے خزانوں میں محفوظ رہے گا۔

سلیمان اور اس کے ساتھی مسلمان تھے۔ انہیں مسلمان ہوئے کتنی پشتیں ہو چکی تھیں۔ لیکن ابھی تک ان پر اپنے ملک کی پرانی روایات کا اثر باقی تھا۔ اور صرف سلیمان اور اس کے ساتھیوں کا ہی یہ حال نہ تھا بلکہ ماتا رام کے پڑھے لکھے لوگ بڑے بڑے امراء اور سردار بھی اسی قسم کی توہمات میں مبتلا تھے۔ ان کے آباؤ اجداد ہندوستان کے برہمنی مذہب یا ایک ایسے مذہب کے پیرو تھے جو برہمنی مذہب سے بہت حد تک ملتا جلتا تھا۔ لیکن اس پر مہایان فرقہ کے بدھ دھرم کا بھی بڑ ا اثر تھا۔ پھر وہ سب کے سب ایک بار ہی مسلمان ہو گئے۔ لیکن ان میں اب بھی پرانے مذہب کی روایتیں تھیں اور ملایا جاوا کے ادب شاعری اور موسیقی پر تو اب بھی اثر باقی ہے۔

سلیمان اور اس کے ساتھی یہ باتیں کر رہے تھے۔ کہ بندر کے جسم کو حرکت ہوئی اور وہ تیز تیز سانس لینے لگا۔ سلیمان بولا مونیت پوتے لاوت زندہ ہے میں نہ کہتا تھا کہ سمندر کی لیریں دیوتا کے بیٹے کو ہلاک نہیں کر سکتیں۔

تھوڑی دیر میں سمندر ی بندر نے آنکھیں کھول دیں اور وہ اپنے ارد گرد ماہی گیروں کا ہجوم دیکھ کر بہت متعجب ہوا۔ پھر اٹھ بیٹھا اور اپنی زبان میں کچھ کہنے لگا۔ جیسے یہ پوچھ رہا ہو کہ تم کون ہو ار میں یہاں کیسے آ گیا؟ لیکن بندروں کی زبان عجیب ہے جسے کوئی نہیں سمجھ سکتا اور سمندری بندر کی زبان تو دوسرے بندروں کی زبان سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ اسے تو صرف حضرت سلیمان ہی سمجھ سکتے ہیں۔

سپید بندر بھوکا معلوم ہوتا تھا۔ ایک ماہی گیر بھاگا بھاگا گیا اور پاس کے ایک کمپونگ سے کچھ کیلے لے آیا۔ کیلے کھا کے اس کی توانائی عود کر آئی اور ماہی گیر اسے سلطان کے دربار کی طرف لے چلے۔ انہوں نے تعجب سے دیکھا کہ سمندر ی بندر بالکل انسانوں کی طرح ہنستا بھی ہے۔ حالانکہ کوئی بندر بھی حتیٰ کہ اور نگ اوتان بھی انسانوں کی طرح نہیں ہنس سکتا۔

سلطان کے دربار میں سپید سمندری بندر بالکل نہیں گھبرایا۔ وہ تحت سے کچھ فاصلے پر جھکا کر کھڑا ہو گیا اور اپنی زبان میں چلا چلا کر کچھ کہنے لگا  اس کے انداز میں خوشامد بھی تھی اور التجا بھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ سلطان سے کوئی درخواست کر رہا ہے۔

دربا رمیں اگرچہ بڑے بڑے عالم موجود تھے لیکن اس کی باتیں کسی کی سمجھ میں نہ آئیں اور سمجھ میں کیسے آتیں سپید سمندری بندر کی زبان سمجھ لینا انسان کا کام نہیں وہ نیلگوں سمندروں کی ایک عجیب مخلوق ہے جو خوابوں کے نیلے نیلے دھندلکے سے پیدا ہوتی ہے البتہ اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ یہ وہی سمندری بندر ہے جس کی کہانیاں پرانے زمانے کے جہاز رانوں کی زبانی ہم تک پہنچی اور ایسی سرزمین سے آیا ہے جہاں نہ سورج ہے نہ دھوپ بلکہ ایک سپید سپیید غبار ہر طرف ہر وقت چھایا رہتا ہے لیکن ماتا رام کا سلطان اسے دیکھ کر گھبرا گیا اور جی میں کہنے لگا کہ یہ تو وہی بدرو ح ہے جو کل رات میرے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ بیرونگ کا ناچ بھی جو بد روحوں کو کھدیڑنے کا مجرب نسخہ ہے اسے مجھ تک پہنچنے سے نہیں روک سکا۔ میں اسے چھوڑوں گا نہیں بلکہ منتروں سیاسے اپنے بس میں کر لوں گا۔ اور پھر محل کے دروازے پر قید کروں گا۔ تاکہ کوئی بد روح چاہے رنگدار ساحر ہی کیوں نہ ہو میرے محل کی طرف رخ نہ کر سکے۔

پھر سلطان میں سپید سمندری بندر کے پاؤں میں زنجیر ڈال کر اپنے محل کے سامنے ایک بڑے پتھر کے سامنے باندھ دیا سپید بندر کبھی ہنسا اور کبھی چلا چلا کر کچھ کہتا جیسے کوئی نہ سمجھ سکتا تھا۔ عورتیں بچے بوڑھے اور جوان جوق در جوق اسے دیکھنے آتے تھے۔ کوئی اس کے لیے چاول لاتا اور کوئی اس کے لیے رمبوتان کوئی میگوسٹین اور دوسرے عجیب و غریب پھل جو یور پ کے ان جزیروں میں پیدا ہوتے ہیں۔ مینہ کی بوچھاڑ اور دھوپ میں زندگی بسر کرتے کرتے اس کی رنگت سنولا گئی۔ اور وہ چپ چاپ اور اداس رہنے لگا۔ سگ خارا کا ایک بڑا سا ٹکڑا اس کے ہاتھ آ گیا تھا اور وہ اس بڑے پتھر پر جس سے وہ بندھا ہوا تھا لکیریں کھینچتا رہتا تھا۔ وہ لکیریں روز بروز اجاگر ہوتی تھیں اور خاصے فاصلے سے باآسانی دکھائی دے سکتی تھیں۔

شام کے وقت جب سورج ڈوبنے لگتا ارغوانی شفق نارنجی ہو جاتی سرمئی بادل دھوئیں کے بادل نظر آتے۔ پھر اس دھوئیں میں سے سنہری لکیریں پھوٹیں اور ایسا معلوم ہوا کہ مغربی افق کو پگھلے ہوئے سونے کی ندیوں نے آغوش میں لے لیا ہے یہ تو اس کی آنکھیں اس زرنگار افق سے پریاس سرزمین کو تلا ش کرنے کی کوشش کرتا جہاں نہ آفتاب نکلتا ہے نہ دھوپ چمکتی ہے۔ بلکہ ایک سپیدسپید غبار چھایا رہتا ہے۔

یوں ہی کئی برس گزر گئے۔ آخر ایک دن سپید سمندری بندر مرگیا اور اس کی لاش سمندر میں بہا دی گئی۔ لیکن جس پتھر سے وہ بندھا ہوا تھا وہ اب بھی موجود ہے اور لوگ اسے سپید سمندری بندر کا پتھر کہتے ہیں۔

میں نے یہ کہانی احمد بن الیاس سے سنی تھی لیکن بعد میں بعض ملائی اہل علم سے اس داستان کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ماتار ام حکومت کے پرانے وقائع نگاروں نے بھی اسی داستان کی  تصدیق کی ہے اور ان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ۱۵۶۰ ء میں پیش آیا تھا۔ اس زمانہ میں یورپ کے لوگ تو ملایا میں تو پہنچ سکتے تھے لیکن جاوا کی سرزمین ان کے قدموں سے ناآشنا تھی۔

بعض انگریز اور ڈچ سیاحوں نے اس داستان سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ شخص جسے جاوا کے لوگوں نے بندر سمجھا پہلا یورپین تھا جو جاوا پہنچا۔ غالباً وہ ہالینڈ کا رہنے والا تھا۔ اس خیال کی تصدیق یوں بھی ہو تی ہے کہ اس پتھر پر جو لکیریں کھنچی ہیں وہ بے معنی لکیریں نہ تھیں َ بلکہ لاطینی فرانسیسی اطالوی اور ڈچ زبان کے الفاظ تھے۔ جو اب بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ لاطینی میں اس نے جو فقرہ لکھا ہے اس کے معنی ہیں کسی غریب کی بدنصیبی پر ہنسنے کی بجائے اپنی حماقت پرہنسو۔

فرانسیسی اطالوی اور ڈچ زبان میں اس نے ایک ہی فقرہ لکھا ہے جس کا مطلب ہے کہ دنیا اسی طرح گھوم رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بڑا عالم تھا۔ یعنی اپنی مادری زبان کے علاوہ بھی دو تین زبانیں جانتا تھا۔

جاوا کے لوگوں نے اسے بندر سمجھ لیا تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے بالوں اور آنکھوں کی رنگت تھی۔ اس کی سنہری ڈاڑھی نے لوگو ں کو دھوکے میں ڈال دیا کیونکہ جاوا اور ملایا میں لمبی اور گنجان ڈاڑھیاں ہوتی ہی نہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ جب البوکرک اعظم کے سفیر ملایا پہنچے تو محل سلطانی کے راستے ہی میں گھر گئے۔ بعض لوگ ان کے ڈیل ڈول اور تن و نوش کو دیکھ کر حیران ہوتے تھے بعض ڈاڑھیو ں کو کھینچ کھینچ کر دیکھتے تھے کہ یہ اصلی ہیں یا مصنوعی۔

بہرحال سپیدسمندری بندر کوئی ولندیز تھا جو کافور صندل اور گرم مسالے کی تلاش میں پورب کے ان پراسرار جزیروں تک جا پہنچا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کے ہم ون ہزاروں کی تعداد میں ماتا رام کی حکومت کے ہر گوشے میں پھیل گئے تھے چنانچہ آج بھی یہ سمندری بندر جاوا کے لوگوں کی زبان میں مونیت پوتے لاوت اس سرزمین پر چھائے ہوئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

دیوان سنگھ مفتون

 

 

آج سے کچھ عرصہ پہلے یہ عام دستور تھا کہ کسی اخبار نویس کے کمالات بیان کرنے بیٹھتے تھے تو کہتے تھے کہ اتنی دفعہ جیل گیا ہے۔ اتنی بار اخبارات کی ضمانت ضبط کرائی ہے۔ پولیس والے تو الگ رہے ڈپٹی کمشنروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ جب لکھنا پر آیا ہے تو برے بڑوں کا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ دیوان سنگھ مفتون کو اخبار نویسی کے اس معیار پر بھی پرکھیے۔ جب بھی پور اترتا ہے یعنی اس پر آج تک پندرہ یا سولہ مقدمے بن چکے ہیں تین بار جیل گیا ہے قرقیوں اور ضبطیوں کا حساب مجھے یاد نہیں۔ باقی رہا لکھنے کا قصہ تو ظالم نے کیا کیا نہیں لکھا اور کس کس کے خلاف نہیں لکھا ہے۔

دیوان سنگھ نے ساری عمر اخبار نویسی ہی نہیں اور بہت سے پاپڑ بیلے ہیں مہاراجہ پرنابھ کا مصاحب رہا ہے۔ موٹر ڈرائیوری کی ہے۔ مدت تک ایک ڈاکٹر کے ہاں کمپونڈر بھی رہا ہے۔ اور غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ بیچم صاحب کی گولیوں کومانتا ہے۔ ٹنکچر آیوڈین کا قائل ہے۔ کروشن سالٹ کا نام آتے ہی اس کی گردن عقیدت سے جھک جاتی ہے۔ لیکن سدھ مدر دھوج ہو یا لبوب کبیر دونوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ خمیرہ بنفشہ اور خیسامذہ جوشاندہ صاف کردہ قسم کے معمولی خیساندوں اور جوشاندوں کا ذکر کیا ہے۔ میں نے اسے ایارج فیقراور دوا المسک سے مرعوب ہوتے نہیں دیکھا۔ طب کا نام آیا۔ اور اس نے ہو الشفافی کہہ کے زبان کھولی اور جب تک کروشن سالٹ کا قائل نہیں کر لیا پیچھا نہیں چھوڑا۔

یہ عجیب بات ہے کہ اسے دیسی طریقہ علاج سے چڑ ہے۔ لیکن جوتش پر ایمان رکھتا ہے۔ رمل اور جفر کو بھی مانتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو جوتش اور جوتشیوں کو اس کی زندگی میں کروشن سالٹ سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ سخت سے سخت مقدمہ کے دوران مٰں اس نے ہمیشہ وکیل کی قانونی نکتہ آرائیوں پر جوتشی کے مشورہ کو اہمیت دی ہے۔ وکیل کہتا ہے کہ مسل نکلواؤ جوتشی کہتا ہے کہ مسل کا زائچہ بنواؤ مسل نکلوائی گئی یا نہیں لیکن مسل کا زائچہ ضرور بن گیا۔ اسے خود بھی نجوم میں شدبد ہے پھر ایک صاحب جو نرے نجومی ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے اخبار نویس بھی ہیں برسوں تیاست میں سیاست کے ساتھ ساتھ جوتش بھی لڑاتے رہے۔ میں بعض خاص خاص مقدموں کے زمانے میں تو دیوان سنگھ سے ان کی گاڑھی چھنتی رہی ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ دفتر کا کام رکا پڑا ہے اور یہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہیں سنگھ کرک تلا بکھان رہے ہیں۔ لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے۔ کیونکہ دیوان سنگھ کو دفتر کے کام کا بڑا خیال رہتا ہے۔ اچھی خاصی عمر ہونے کو آئی ہے ساٹھ کے پیٹے میں ہو گا۔ داڑھی کے بال صرف خضاب کی برکت سے سیاہ ہیں لیکن صبح سے کام کرنے بیٹھا ہے تو چراغ ہی جلا دیے۔ اس عالم میں کوئی ملنے آ گیا تو یہ کیفیت نظر آئی کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کر رہا ہے اور دوسرے ہاتھ سے پاجامہ سنبھال رہا ہے بھاری بھرکم جسم ہے توند بڑھی ہوئی ہے۔ پاجامہ تو خیر توند کی برکت سے اپنی جگہ پر نہیں رہتا۔ نہ جانے پگڑی کے پیچ کیوں بار بار کھل جاتے ہیں۔ پگڑی اتار تا ہے باندھتا ہے پھر اتارتا ہے اور باندھتا ہے اور بعض اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ سے پاجامہ سنبھالے ہوئے ہے اور دوسرے سے پگڑی۔ اس حالت میں مصافحہ کی گنجائش کیسے نکلے ؟

اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور روشن ہیں۔ لیکن باتیں کرتے وقت انہیں بار بار جھپکاتا ہے۔ اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ باتیں کرتے کرتے کچھ اور سوچنا شروع کر دیا اور گفتگو کا سلسلہ بیچ میں سے ٹوٹ گیا۔ یہ مرض تھوڑا تھوڑا مجھے بھی ہے اس لیے کبھی کبھی یہ بھی ہوا ہے کہ دونوں کا ذہن تھوڑی دیر کے لیے غیر حاضر ہو گیا ہے پھر جو سلسلہ چھیڑنا چاہتا تو دونوں کو یاد نہیں کہ موضوع کیا تھا؟

اگر اس کی حیثیت گفتگو میں سامع کی ہے تو یقین کیجے کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ اس نے نہیں سنا یا سنا ہے تو پورا نہیں سنا وہ آپ کے سامنے بیٹھا ہے لیکن اس کا ذہن پٹیالہ الور اور شملہ کی سیر کر رہا ہے ہاں اگر آپ سے اس کے ڈھب کی کوئی بات کہی ہے تو وہ ذہن کو ایک جھٹکے کے ساتھ شملہ کی بلندی سے زمین پر لے آتا ہے اور مسکرا کے کہتا ہے کہ کیا فرما رہے تھے آپ میں نے سنا نہیں۔ آج تک اس نے فلم پورا نہیں دیکھا۔ یا تو فلم دیکھتے دیکھتے سو جاتا ہے یا پھر ذہن کو پٹیالہ اور بھوپال کی سیر کرانے کے لیے بے عنان چھوڑ دیتا ہے۔ کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے تو دوستوں سے کہتا بھئی تھکا ہوا ہوں لیکن نیند نہیں آتی۔ آؤ ذرا سینما ہو آئیں تم فلم دیکھ لینا میں گھڑی دو گھڑی سو لوں گا۔

اس پراگندہ خیالی کے ساتھ ساتھ اس کی زدگی میں بڑی ترتیب ہے جو کام کیا ہے ہمیشہ سلیقے سے کیا ہے دفتر کا بہت سا کام خود کرتا ہے۔ مضمون بھی لکھتا ہے اور انتظام بھی کرتا ہے۔ ڈاک خود کھولتا ہے ایک ایک خط دیکھتا ہے اہم خطوط کو صندوقچے میں بند کر کے تالا لگا دیتا ہے۔ تالا کھولتا ہے ایک آدھ خط کو پھر سے دیکھتا ہے اور بند کر دیتا ہے۔ والیان ریاست کے متعلق اس نے الگ الگ فائلیں بنا رکھی ہیں۔ جن میں اس کے اہل کاروں کے متعلق ہر قسم کی معلومات جمع کر دی گئی ہیں۔ ہزہائی نس کی کتنی بیویاں ہیں خواصوں کو کون کون منظور نظر ہیں ؟ کتنی طوائفوں سے ان کا تعلق رہا ہے۔ ؟ ہنا کب گئی کب آئی لیلا کے توسط  سے دربار میں پہنچی اور اسے کتنا روپیہ ملا۔ محل میں کیا کیا سازشیں چل رہی ہیں۔ چھوٹی رانی صاحبہ کیا کھیل کھیل رہی ہیں۔ اور بڑی رانی صاحبہ کس فکر میں ہیں۔ مہاراج کمار کو زہر دینے کی سازش ہوئی تھی۔ اور میں کس کس کا ہاتھ تھا؟ چھوٹی رانی نے پردے کی اوٹ سے نوجوان سیکرٹری کو دیکھ کے کیا کہا تھا؟ اور پھر یہ بات بڑی رانی تک کیسے پہنچی۔ غرض دیوان سنگھ والیان ریاست کے عشر ت کدوں پر آسیب کی طرح چھایا جا رہا ہے۔ وہ ان کے اور ان کے وابستگان دامن کے دلوں کی دھڑکنوں تک کو پہچانتا ہے ان پر ہنستا ہے اور قہقہے لگاتا ہے۔ اور حیران ہو ہو کے اپنے آپ سے پوچھتا ہے۔ یہ فرسودہ نظام کب تک چلے گا؟ ان راجاؤں اور نوابوں سے دنیا کو کب نجات ہو گی۔

ریاست کے نکلنے سے پہلے بھی اخباروں میں ریاستوں کے حالات چھپتے رہتے تھے بلکہ والیان ریاست کے چندہ کی شرح ہی الگ مقرر تھی۔ اور کچھ اخبار نویس و ایسے تھے کہ جن کی روٹی ریاست کے چندہ کے شرح ہی الگ مقرر تھی اور کچھ اخبار نویس تو ایسے تھے جن کی روٹی ریاستوں ہی کے طفیل چلتی تھی۔ یعنی کسی ریاست سے تعلق پید اکر کے والیِ ریاست اور اس کے اہل کاروں کی تعریف میں اپنا مضمون چھاپنے شروع کر دیے اور جتنا اخبار چھپا سارا ریاست بھیج دیا۔ سال میں ایک دو مرتبہ یعنی رئیس کی سالگرہ یا کسی اور تقریب پر خود ہی ہو آئے۔ ڈاک بنگلے میں ٹھہرائے گئے۔ مہمانیاں ہوئیں اخبار کے چندے کے نام سے کچھ ملا وہ تو ان کا حق بھی تھا اور چلتے وقت دو چار سو روپے اور بھی مل گئے۔ ان چھٹ بھیا قسم کے ریاستی اخبار نویسوں کا آخری اجتماع پٹیالہ میں ہوا تھا۔ مہاراجہ پٹیالہ نے انہیں دو وقت کا کھانا کھلایا۔ چلتے وقت پندرہ روپے فی کس کے حساب سے نذر کیے اور ساتھ ہی یہ کہہ دیا خبردار آئندہ کبھی ادھر کا رخ نہ کرنا ورنہ یہ پندرہ روپے بھی نہیں ملیں گے۔

دیوان سنگھ اس گروہ میں شریک نہیں ہوا ریاست نکالنے سے پہلے مہاراجہ نابھ کا ملازم تھا۔ بلکہ یہ اخبار ہی مہاراجہ نابھ نے نکلوایا تھا۔ پہلے پہل اس کے حملوں کا رخ زیادہ پٹیالہ ہی کی طرف رہا۔ پھر آہستہ آہستہ سارے والیان ریاست لپیٹ میں آ گئے۔ انہوں نے سوچا تھا۔ اخبار نویس کی بساط ہی کیا ہے دو سونہ سہی چار سو سہی لیکن جب دیکھا کہ دو چار سو چھوڑ ہزار دو ہزار میں اس بلا سے مخلصی نصیب نہیں ہوتی تو دوسرے حربے آزمائے۔ انہیں بھی بے کار پایا تو تھک ہار کے بیٹھ گئے۔ اور یہ فرض کر لیا کہ دیوان سنگھ روئیں تن ہیں۔ سونے چاندی سے تو شاید نرم ہو جائے لیکن دوسرا حربہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ آخر نواب بھوپال سے مقابلہ آ پڑا تو اس روئیں تنی کا طلسم کچھ کچھ ٹوٹا۔ کہتے ہیں نواب صاحب نے اس مقدمہ پر دس لاکھ خرچ کر دیے۔ دیوان سنگھ نے بھی اپنی بساط سے زیادہ صرف کیا۔ یعنی کوئی لاکھ سوا لاکھ کے ماتھے گئی اس مقدمہ میں کچھ لوگوں نے ایک اور اشقلہ چھوڑا۔ یعنی کہنا شروع کر دیا دیوان سنگھ سکھ ہے اور نواب مسلمان۔ مسلمان اخباروں کو نواب صاحب کا ساتھ دینا چاہیے۔ لیکن یہ وار خالی گیا۔

دیوان سنگھ سکھ تو ضرور ہے لیکن مذہبی تعصب کی چھاؤں اس پر نہیں پڑی۔ اکالیوں سے اس کی ہمیشہ ٹھنی رہی ہے۔ اور اتارا سنگھ سے مقدمہ بازی بھی ہوتی رہی ہے۔ شہید گنج کے جھگڑے میں اس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا۔ تو یہ خیر پرانی باتیں ہیں۔ ڈاکٹر قریشی کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا کا حکم سنایا گیا تو دیوان سنگھ نے صاف لکھ دیا کہ بچارا ڈاکٹر بے گناہ ہے۔ سیاسیات میں وہ ہمیشہ گاندھی جی کا پیروکار رہا ہے۔ اکالیوں اور ہندو مہا سبھائیوں سے اسے چڑھ ہے۔ مسلم لیگ کا بھی مخالف ہے۔ لیکن کسی جماعت کو حلق کا داروغہ نہیں بننے دیا۔ جو جی میں آتا ہے بے تکلفی سے لکھ ڈالتا ہے اور اس کی پروا نہیں کرتا کہ کوئی کیا کہے گا۔ دوستی اور دشمنی کے آداب خوب جانتا ہے۔ دوست کی خاطر سب کچھ کر گزرتا ہے۔ لیکن دشمن کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ خواجہ حسن نظامی سے ہم نے اس کی دوستی کا زمانہ دیکھا اور دشمنی کا بھی خواجہ کا دوست تھا تو حاضر و غائب انہیں کی تعریفیں ہوتی تھیں۔ اخبار میں مناقب چھپ رہے ہیں۔ نج کی صحبتوں میں ان کی ثنا خوانی ہو رہی ہے۔ پھر جو ٹھن گئی تو ٹھن گئی۔ قلم سے ایسے ایسے کچوکے دیے ہیں کہ خدا کی پناہ خواجہ بھی کوئی ایسے ویسے نہ تھے کہ دب جاتے انہوں نے بھی خوب خوب مقابلہ کیا۔ لیکن دیوان سنگھ سے پیش نہ گئی۔ اب تو زمانہ نے وہ ورق ہی الٹ دیا۔ نہ وہ دلی رہی نہ وہ خواجہ حسن نظامی لیکن دیوان سنگھ اب بھی وضع نبھائے چلا جاتا ہے۔

پولیس والوں سے اسے سخت دشمنی ہے۔ اخبار میں ہمیشہ ان کے خلاف لکھتا رہا ہے۔ پولیس کے ایسے ایسے کارنامے اسے یاد ہیں جو چھپ جائیں تو ضخامت میں طلسم ہوش رہا ہے کچھ ہی کم ہوں گے اور ایک پولیس پر کیا موقوف ہے۔ والیان ریاست کی زندگی کے ایسے ایسے واقعات معلوم ہیں جو شاید کسی کو بھی معلوم نہ ہوں۔ لیکن ان میں کچھ گفتنی ہیں کچھ ناگفتنی ناقابل فراموش کے عنوان سے ریاست میں اس نے ایک مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو کتابی صورت میں چھپ گیا ہے۔ لیکن اس قسم کی داستانوں کا جو ذخیرہ اس کے سینے میں محفوظ ہے یہ اس کا سواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی نہیں اور اس کا سب سے دلچسپ حصہ تو وہ ہے جو قید تحریر میں نہیں آ سکتا۔

دیوان سنگھ کا علم کتابی نہیں بلکہ اس نے گھوم پھر کے علم حاصل کیا ہے۔ اس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ہر طبقے اور گروہ کے لوگوں سے ملا ہے۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک رہا ہے۔ ان کے دل کی دھڑکن سنی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی دھڑکتے پایا ہے۔ وہ کبھی ہندوستان سے باہر نہیں گیا لیکن کبھی کبھی اسے دیکھ کے میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ اس نے ملکوں ملکوں کی سیر کی ہے اور زمانے کی کئی رنگا رنگیاں دیکھی ہیں وہ اپنی عمر ساٹھ اکسٹھ برس بتاتا ہے لیکن یقین نہیں آتا۔ مجھے تو وہ دو ڈھائی ہزار برس کا پراتم بڈھا معلوم ہوتا ہے جو فراعنہ مصر کے زمانے میں آئی سس دیوی کا سردار کاہن تھا۔ مصر کے بازاروں میں اس کی سواری نکلتی تھی۔ تو لوگ راستہ چھوڑ کے سڑک کے کنارے کھڑے ہو جاتے تھے۔ فرعون اس سے ڈرتا تھا کیونکہ شبستان شہی کے بہت سے راز اسے معلوم تھے اور پھر وہ جادوگر بھی تھا۔ تاہ دیوتا کے مندر میں جادو کی جو کتاب ہے اس کے تمام اسرار پر اسے پورا پورا عبور حاصل تھا۔ لیکن وہ دیوی دیوتاؤں پر ہنستا تھا۔ فرعون پر ہنستا تھا۔ اس کے توہمات پر ہنستا تھا۔ ملکہ پر ہنستا تھا۔ نوبہ کے اس سیاہ فام غلام پر ہنستا تھا جس سے مصر کی ملکہ ملوث تھی۔ وہ روما میں بھی رہا ہے۔ گلیڈئیزوں میں بھی اور شاہی مشیروں میں بھی ملکہ اس پر اعتماد کرتی تھی۔ ملکہ نے اسے اپنے سارے خوفناک راز بتا دیئے تھے۔ لیکن وہ ان دونوں پر ہنستا تھا۔ حالانکہ روما والے صرف کلاڈیس پر ہنستے تھے۔ وہ پاٹلی پتر میں اشوک کے محل کے قریب ایک شراب فروش کے ہاں مدتوں رہا ہے۔ اجین میں اس نے کالی داس کا کلام سن کے اسے بارہا داد دی ہے۔ اس نے بکرما جیت اور بھوج دونوں کی مصاحبت کی ہے۔ غرض وہ زمانے کے ساتھ ساتھ ایک پر اسرار سائے کی طرح چلا آیا ہے اور نہ جانے کب تک یونہی چلا جائے گا۔

دیوان سنگھ ریاستوں اور ان کے حکمرانوں کا سخت مخالف ہے۔ لیکن اس نے اپنی زندگی بھی انہیں لوگوں کے انداز پر ڈھالی ہے۔ اسے پر اسرار بننے کا بڑا شوق ہے۔ آپ بیٹھے اس سے باتیں کر رہے ہیں۔ ایک شخص آتا ہے اور اس کے کان میں کچھ کہہ کے چلا جاتا ہے وہ صندوقچہ کھولتا ہے ایک کاغذ نکالتا ہے اسے دیکھتا ہے اور بند کر دیتا ہے۔ پھر صندوقچہ کھولتا ہے اور دوسرا کاغذ نکالتا ہے۔ اسے پڑھتا ہے اور پھر بند کر دیتا ہے اور اپنے بیوی بچوں سے ہمیشہ ان بن رہی ہے۔ لیکن شام کے محلے ٹولے کے بچے جمع ہوتے ہیں دربار لگتا ہے۔ انعام تقسیم ہوتے ہیں۔ کسی کو تصویر، کسی کو شوخ رنگ کاغذ، کسی کو دونی کسی کو چونی۔ خوب کماتا ہے بے حساب خرچ کرتا ہے لیکن ریاستوں کے عام دستور کے مطابق عملہ کی تنخواہ ہمیشہ اس کے ذمے چڑھتی رہتی ہے۔ ایک دفعہ میرے شناسا ایک منشی جی جو اس کے ہاں کتابت کرتے ہیں تنخواہ مانگنے آئے۔ جواب ملا نالش کر دو۔ عدالت سے قسطیں مقرر ہو جائیں گی۔ روپیہ آسانی سے ادا ہو جائے گا۔ منشی جی نے نالش کر دی۔ کام بھی کرتے رہے۔ مقدمہ بھی چلتا رہا۔ قسطیں مقرر ہو گئیں اور ادا بھی کر دی گئیں لیکن مدعی مدعا علیہ میں کبھی کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔ وہی دیوان سنگھ اور وہی منشی جی۔ آخر دیوان سنگھ بھی تو والیِ ریاست ہے یہ نہ کرے تو اور کیا کرے۔

کبھی کبھی کام سے اکتا کے کہتا ہے کوئی خدا کا بندہ یہ اخبار خرید لے تو میں جنوبی ہندوستان چلا جاؤں۔ ایک چھوٹی سی کٹیا ہو، اطمینان سے بسر ہوتی چلی جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بادشاہ سلامت نے بچہ جنا

 

تاریخ اودھ میں جو عجائبات نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا عجوبہ غازی الدین حیدر کی بیگم کی بدعات ہیں۔ اس خاتون نے جو مبشر خان نجومی کی بیٹی تھی۔ سب سے پہلے امام مہدی کی ولادت کا تیوہار منانا شروع کیا جو ماہ شعبان میں دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ یہاں تو خیر تھی لیکن بادشاہ بیگم نے کچھ عرصے کے بعد ایک اختراع فرمائی یعنی شرفا کی خوبصورت اور کمسن لڑکیوں کو گیارہ اماموں سے منسوب کر کے انہیں الگ الگ مکانوں میں رکھا۔ یہ لڑکیاں اچھوتیاں کہلاتی تھیں۔ ہر اچھوتی کی خدمت کے لئے متعین خادمائیں مقرر تھیں اور وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کرتی تھیں۔ صرف حضرت علیؓ سے کوئی اچھوتی منسوب نہیں کی گئی۔ کیونکہ اس طرح حضرت فاطمہؓ کی شان میں گستاخی ہوتی تھی۔

اچھوتیاں چونکہ ائمہ سے منسوب تھیں اس لئے شادیاں نہیں کر سکتی تھیں۔ ایک اچھوتی نے اس قید تنہائی سے نجات حاصل کرنے کے لئے عجیب طریقہ اختیار کیا یعنی ایک مرتبہ پچھلے پہر اٹھ کر رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ محل کی عورتیں جمع ہو گئیں۔ بادشاہ بیگم کو خبر ملی تو وہ بھی آئی اور پوچھا کیا ہوا۔ اچھوتی نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ امام علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں اور نہایت بلند آواز میں مجھ سے کہہ رہے ہیں جا میں نے تجھے طلاق دی۔ میری آنکھ کھلی تو میں نے رونا شروع کر دیا کیونکہ امام کے نکاح سے خارج ہونے کے بعد دین و دنیا میں میرے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ بادشاہ بیگم نے یہ سن کر اس اچھوتی کو اس وقت پالکی میں سوار کیا اور سامان سمیت اس کے میکے بھجوا دیا۔ بادشاہ بیگم نے مشہور کر رکھا تھا کہ جنوں کا بادشاہ اس پر عاشق ہے۔ چنانچہ آٹھویں دسویں روز وہ بن سنور کر اور بھاری جوڑا اور زیور پہن کے ایک آراستہ پیراستہ کمرے میں بیٹھ جاتی تھی۔ پھر گائنیں حاضر ہوتی تھیں اور گانا بجانا شروع ہو جاتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ بھی رخصت ہو جاتی تھیں اور بالکل تخلیہ ہو جاتا تھا۔ محل کی خواصوں میں مشہور تھا کہ بادشاہ بیگم سے جنوں کے بادشاہ کی بات چیت بھی سنی ہے۔ تو ہم پرست لوگ جو کچھ سنتے تھے اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے تھے اور تو اور خود غازی الدین حیدر کو ان باتوں پر پورا یقین تھا۔ وہ اپنی بیگم سے بہت ڈرتا تھا اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ شاید اسے یہ اندیشہ بھی تھا کہ بیگم کہیں بادشاہ جنات سے کہہ کے سلطنت ہی نہ چھنوا دے۔

نصیر الدین حیدر جو غازی الدین حیدر کے بعد تحت پر بیٹھا، ان بدعات میں بادشاہ سے بھی بڑھ گیا۔ وہ صبح دولت نام ایک خواص کے بطن سے تھا لیکن بادشاہ بیگم نے اسے اپنے بیٹوں کی طرح پالا تھا۔ اس لئے بچپن میں جو دیکھا تھا اس کا نقش ایسا گہرا تھا کہ حکومت ہاتھ آئی تو خود بھی اسی قسم کی حرکت شروع کر دی۔ اس نے بھی اپنی ماں کی طرح گیارہ اچھوتیاں جمع کیں جو گیارہ اماموں سے منسوب تھیں۔ ان کے لئے بھاری بھاری جوڑے اور زیور تیار کرائے جب کسی امام کی ولادت کا دن آتا تھا تو بادشاہ اپنے آپ پر حاملہ عورت کی سی کیفیت طاری کر لیتا۔ اس طرح روتا اور کراہتا کہ گویا سچ مچ درد  زہ میں مبتلا ہے۔ پھر بچہ کی جگہ ایک مرصع گڑیا بادشاہ کے سامنے رکھ دی جاتی۔ مبارک سلامت کا غل مچتا۔ زچہ گیریاں گائی جاتیں۔ چھ دن بادشاہ زچہ خانے میں رہتا۔ جو مقوی دوائیں اور کھانے زچاؤں کو دیے جاتے ہیں، وہ سب بادشاہ کو کھلائے جاتے۔ لکھنو میں ایسے موقعوں پر بڑے تکلفات ہوتے ہیں اور بہت سی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ اس موقعہ پر یہ تمام رسمیں ادا ہوتیں۔ چھٹے دن بادشاہ غسل کرتا۔ رات ہوتی تو بادشاہ زنانہ لباس پہنے گڑیا کو گود میں لئے لنگڑاتا ہوا تارے دیکھنے نکلتا۔ اب کھانے تقسیم ہوتے۔ گویوں کی تانوں اور مبارک سلامت کی صداؤں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔

اس رسم سے فراغت ہوتی تھی تو بادشاہ محافہ پر سوار باجے گاجے کے ساتھ شہر میں نکلتا۔ آگے آگے ہاتھی ہوتے تھے۔ ان کے پیچھے سواروں کے پرے پیدلوں کی پلٹنیں پیچھے بادشاہ کا محافہ جس کے دہنے بائیں سوار ہوتے تھے۔ امرا دربار اور معززین غرض اس شان سے بادشاہ سارے شہر کا چکر لگا کے پھر شاہی محل میں داخل ہوتا۔

سلاطین اودھ کے اللے تللوں کا ذکر کتابوں میں پڑھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کا سارا سال تو اسی قسم کی رسموں میں گذر جاتا ہو گا امور سلطنت کی طرف توجہ کرنے کا موقع کب ملتا ہو گا۔ دراصل یہ امور سلطنت کی جانب توجہ ہی کب کرتے تھے۔ سلطنت کے معاملات پر وزراء اور دوسرے عہدہ دار مسلط تھے جو رعایا کو بے دریغ لوٹتے تھے۔ لکھنو جو اس حکومت کا مرکز تھا، وہاں کے لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ اس قسم کی حرکات کو عظمت شاہانہ کا نشان سمجھتے تھے اور جو بادشاہ اس معاملہ میں دوسروں سے آگے بڑھ جاتا تھا اس کی عظمت کے قائل ہو جاتے تھے۔ آصف الدولہ کو محض اسراف بے جا کی وجہ سے لوگ ’’ ولی‘‘ کہتے تھے اور دکاندار یا آصف الدولہ ولی کہہ کے دوکان کھولا کرتے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بھاٹ اور سوانگی

 

 

بھاٹ اور سوانگی کا نام سنتے ہی ایک پرانا مرقع میری نظر کے سامنے آ گیا جس کے نقوش مدھم پڑ گئے ہیں۔ رنگ پھیکے پھیکے لکیریں دھندلائی ہوئی۔ اس مرقع کی کچھ تصویریں اجنبی معلوم ہوتی ہیں کچھ جانی پہچانی۔ کیونکہ ہر چند میرے اور اس کارواں رفتہ کے درمیان سینکڑوں برس کی مدت حائل ہے۔ زمانے نے غبار کا ایک پردہ سا تان رکھا ہے۔ جس نے میری نظروں کو دھندلا دیا ہے تاہم میں نے ہندوستان کے ماضی کے متعلق جو کچھ پڑھا ہے بزرگوں کی زبانی جو کچھ سنا ہے اس نے اس بیگانگی اور نا آشنائی کی شدت کو کس قدر کم کر دیا ہے۔

میں ان تصویروں کے پھیکے پھیکے نقوش مبہم خد و خال پر غور کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یکایک ان کے دھندلے خطوط ابھر آئے۔ رنگ شوخ ہو گئے۔ ان کے لب ہلنے لگے۔ یعنی ان تصویروں میں جان سی پڑ گئی۔ اب جو سوچتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مٹی مٹی سنہری لکیریں راج محل کے ستون ہیں جو ایک عظیم الشان عمارت کو سہارا دیئے کھڑے ہیں۔ یہ آڑے ترچھے خط یہ مدھم مدھم نقش و نگار راج سنگھاسن۔ جڑاؤ مکٹ سنہری مسندیں، پٹکوں کے حاشیے اور تلواروں کے قبضے ہیں۔ راج محل میں دربار لگا ہے۔ راجہ سر پر مکٹ رکھے سنہری تاج پہنے چھپر تلے بیٹھا ہے۔ بڑی بڑی مونچھیں کھلتا ہوا گیہواں رنگ، کھلی پیشانی، سڈول جسم، تلوار کے قبضے پر ہاتھ دونوں طرف درباریوں کی قطار، یکبارگی ایک شخص آگے بڑھتا ہے اور پر اکرت کی ایک نظم پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ الفاظ کی شوکت مصرعوں کے در و بست سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رزمیہ نظم ہے۔ لفظ لفظ میں تلواروں کی بجلیاں کوندتی اور سنانیں چمکتی نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ رزمیہ نظم نہیں۔ قصیدہ ہے جس میں موقع کی مناسبت سے راجہ کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کے اور اس کے باپ دادا کے کارنامے بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن نظم میں بلا کی روانی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک غضب ناک دریا پہاڑوں کو چیرتا درختوں کو جڑ سے اکھیڑتا چٹانوں کو توڑتا پھوڑتا اپنی رو میں بہاتا لئے جا رہا ہے۔ جگہ جگہ دیو مالا کی پر لطف تلمیحیں ہیں جنہوں نے کلام میں زیادہ زور پیدا کر دیا ہے کہ شوخی کے جلال و غضب کا ذکر جس کی آگ نے کام دیو کو جلا کر راکھ کر ڈالا تھا۔ کہیں سورگ کے راجہ اندر کے جنگی ہتھیاروں یعنی اس کے بجر اور دھنش اور اس کی سواری کے ہاتھی ایراوت کی طرف اشارے ہیں۔ جو سیہ مست بادلوں کی طرح جھوم جھوم کے چلتا ہے۔ یہ عشق و وفا کی شاعری نہیں جس میں ساون کی راتوں، آم کے مور، کوئل کی کوک، پپیہے کی پکار، تالاب، کنول بھونرا اور مالتی کی جھاڑیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ درباری شاعری ہے جن میں رزمیہ شاعری نے مدحیہ شاعری کے ساتھ مل کے عجب شان پیدا کر دی ہے اور یہ شخص راجہ کے دربار کا بھاٹ ہے جو ایک خاص تقریب پر اپنی زبان آوری کا کمال دکھانے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔

بھاٹ اور کوی میں بڑا فرق یہ تھا کہ کوی کے لئے کسی دربار سے تعلق رکھنا اور مدحیہ قصیدے کہنا ضروری نہیں ہوتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض گویوں کو بھی درباروں سے تعلق رہا ہے لیکن دربار میں بھی وہ بھاٹوں سے اونچی حیثیت رکھتے تھے بعض کوی ایسے تھے جن کی زبان راجاؤں کی مدح سے آلود نہیں ہوئی۔ بعض گویوں نے بادشاہوں کی تعریف بھی کی ہے لیکن ان کا انداز الگ تھا۔ بھاٹوں کو دراصل ان کی شاعری کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی زبان آوری کی وجہ سے قابل قدر سمجھا جاتا تھا اور بعض بھاٹ تو خود شعر کہنا نہیں جانتے تھے بلکہ پرانے شاعروں کا رزمیہ کلام پڑھ کے سنا دیتے تھے۔ یا شاعروں کے کلام میں تھوڑی سی قطع و برید کر کے اسے موقع کے مناسب بنا لیتے تھے۔

پرانی کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوی عام طور پر ترنم سے شعر پڑھتے تھے اور بھاٹ تخت اللفظ میں اپنا کمال دکھاتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں راجاؤں کے نسب نامے اور ان کے بزرگوں کے کارنامے بھی یاد ہوتے تھے۔ جنہیں وہ بڑے مبالغے کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ عربوں میں بھی نسب نامے یاد رکھنا بڑا کمال سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ جو لوگ نسب نامے یاد رکھتے تھے وہ نساب کہلاتے تھے اور بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن ہندوستان کے بھاٹوں کو عرب کے نسابوں سے کوئی نسبت نہیں غرض بھاٹ اور کوی کے فرق کو چند لفظوں میں بیان کرنا ہو تو یہ کہنا چاہیے کہ کوی اپنے تاثرات بیان کرتا ہے اور بھاٹ کو ذاتی تاثرات سے کوئی واسطہ نہیں وہ ایک مقررہ فرض بجا لاتا ہے اور بس۔

بھاٹوں نے اور کچھ کیا کیا نہ کیا، کم از کم راجاؤں اور بڑے امیروں کے دل میں جوش سماعت ضرور زندہ رکھا۔ وہ ان لوگوں کے بڑوں کے قابل فخر کارنامے اس انداز میں بیان کرتے تھے کہ سننے والوں کی رگوں میں خون موج مارنے لگتا تھا۔ کڑکیت بھی انہیں بھاٹوں کے بھائی بند تھے جو جنگ کے موقع پر سپاہیوں کو لڑائی کے لئے ابھارتے تھے۔ پرانے زمانے کی لڑائیوں میں یہ دستور تھا کہ جب دو فوجیں آمنے سامنے ہوتی تھیں تو پہلے دونوں کے کڑکیت اپنی اپنی فوجوں کے سامنے کھڑے ہو کر کڑکا کہتے تھے یہ کچھ اشعار ہوتے تھے جن میں دنیا کی بے ثباتی کے ذکر کے ساتھ ساتھ اپنی طرف کے سپاہیوں کی بہادری کی تعریف کی جاتی تھی۔ یہ رسم عرب میں بھی تھی۔ اسلام سے پہلے شاعر بھی یہ خدمت انجام دیتے تھے۔ پھر لڑائیوں میں عورتیں بھی دف بجا بجا کے گیت گاتیں اور اپنی طرف سے شہ سواروں کو لڑائی پھر ابھارتی تھیں۔ عربوں کے اسلام لانے کے بعد یہ رسم مٹ گئی اشعار کے ذریعے فوج کو برانگیختہ کرنے کا کام صرف شاعروں کے ذمے رہ گیا۔ لیکن اس غرض کے لئے خاص طور پر شاعر نہیں رکھے جاتے تھے کیونکہ جس زمانے کا یہ ذکر ہے اس زمانے میں عربوں میں شاعروں کی کثرت تھی۔ ہر فوج میں سینکڑوں شاعر ہوتے تھے اور اکثر اوقات تو خود سردار لشکر کو شاعری میں خاصا درک ہوتا تھا۔

ہندوستان کی بعد ریاستوں میں اب بھی بھاٹ موجود ہیں۔ جو دسہرہ اور بسنت کے درباروں میں شادی بیاہ کے موقع پر گیت سناتے ہیں۔ کوئی بیس سال ہوئے مجھے ایک بھاٹ سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا بڑا ذہین شخص تھا اگرچہ پڑھنا لکھنا واجبی ساہی جانتا تھا لیکن برج بھاشا پر بڑا عبور رکھتا تھا اور حسب موقع فوراً شعر جوڑ لیتا تھا یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اس کا اپنا کلام تھا وہ پرانے شاعروں کے کلام میں موقع کی مناسبت سے ترمیم کر کے شعر گھڑ لیتا تھا۔

اس مرقع میں ایک اور تصویر بھی ہے شیشم کے پیڑ تلے گاؤں کے لوگ اکٹھے ہیں۔ بیچ میں کچھ آدمی ناٹک کر رہے ہیں لیکن نہ پردے ہیں نہ خاص لباس ایک آدمی سارنگی بجا رہا ہے دوسرا ڈھولک پر تال دے رہا ہے اور تیسرا اونچی لے میں کچھ گا رہا ہے۔ یہ ایک لمبی نظم ہے جس کے مطلب کو یہ شخص ایکٹنگ کے ذریعے واضح کر رہا ہے خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب دیتا ہے لیکن موقع کے لحاظ سے لب و لہجہ بدل جاتا ہے یہ سوانگیوں کی منڈلی ہے اور نل و مینتی کی کہانی ان کا موضوع ہے۔

سوانگیوں کی منڈلی میں زیادہ آدمی بھی ہوتے تھے جو مختلف پاٹ ادا کرتے تھے۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق بھیس بدلنے کا سامان بھی رکھتے تھے۔ لیکن اکثر منڈلیاں سامان کے بغیر بھی کام چلا لیتی تھیں۔ دیہات میں اب بھی ان لوگوں کی منڈلیاں نظر آ جاتی ہیں لیکن ان کی اگلی سی قدر نہیں رہی۔

سوانگوں اور رہس دھاریوں میں بہت تھوڑا فرق ہے۔ رہس دھاریوں کا موضوع دھارمک ڈرامے ہیں۔ خصوصاً سری کرشن جی کی زندگی ان کا اصل وطن برج اور متھرا کا علاقہ ہے جہاں کرشن جی کی زندگی کا ابتدائی زمانہ گزرا۔ سوانگی ہر طرح کے کھیل دکھاتے ہیں اس کے علاوہ سوانگیوں کی سرگرمیاں صرف دیہات تک محدود رہ گئیں۔ رہس دھاری شہروں تک پہنچے اور جہاں تک گئے ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔ اودھ کے آخری بادشاہ واجد علی شاہ مرحوم کو رہس کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ شاہی محلوں میں رہس ہوتی تھی بادشاہ کنھیا بن کے چھپ جاتے تھے اور گوپیاں انہیں ڈھونڈنے نکلتی تھیں۔ ہندوستان میں تھیٹر کی بنیاد بھی رہس ہی سے پڑی۔ یعنی رہس کو سامنے رکھ کر اندر سبھا کا ناٹک کھیلا گیا جو ہندوستان میں تھیٹر کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

سوانگیوں اور رہس دھاریوں کے آغاز کے متعلق تحقیق کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستانی ڈرامہ جو بڑے عروج پر پہنچ چکا تھا جب راجوں مہاراجوں کی سرپرستی سے محروم ہو گیا تو اس کی جگہ سوانگ اور رہس نے لے لی۔ لیکن یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی ممکن ہے کہ سوانگ ہندوستانی ڈرامے کی ابتدائی صورت ہو۔ جب ڈرامے نے ترقی کی تو کالی داس، بھوبھوتی شدرک بھاش، ہرش وغیرہ جیسے مصنف مل گئے تو وہ حکومتوں کے مرکزوں اور بڑے بڑے شہروں میں تو بہت اونچے درجے پر جا پہنچا۔ لیکن دیہات میں اس کی حالت جوں کی توں رہی یعنی اس نے سوانگ کے دائرے سے قدم باہر نہیں نکالا۔ باقی رہے تو رہس دھاری تو ان کا معاملہ ہی الگ ہے کیونکہ رہس کا موضوع کرشن جی کی زندگی ہے اور یہ اور بات ہے کہ بعض رہس دھاریوں نے اپنے موضوع کو محدود نہیں رکھا اور آگے چل کر مختلف قسم کے ناٹک دکھانے شروع کر دیے۔ رہس دھاری بھی اگرچہ سوانگیوں ہی کا ایک گروہ ہیں لیکن انہیں جو عروج حاصل ہوا وہ سوانگیوں کو کبھی نصیب نہیں ہو سکا۔ اکثر رہس دھاری بھیس بدلنے میں خاصا اہتمام کرتے ہیں پھر انہیں راگ دویا میں بھی کسی قدر مہارت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سوانگی صرف دیہاتیوں کے ڈھب کی سیدھی سادی دھنیں یاد کر لینا کافی سمجھتے ہیں۔ رہس دھاریوں کے قدر دان اب صرف چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں رہ گئے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔

بہروپئے بھی سوانگیوں کے بھائی بند ہیں۔ سوانگیوں کی منڈلیاں ہوتی ہیں۔ بہروپیا اپنے ہنر کی بدولت کما کھاتا ہے۔ بہروپئے طرح طرح کے بہروپ بھرتے ہیں اور جو لوگ ان کے بہروپ سے دھوکا کھا جاتے ہیں ان سے انعام کے طالب ہوتے ہیں سوانگ اور بہروپ صرف ہندوستان پرہی موقف نہیں۔ ایشیا کے اکثر ملکوں خصوصاً چین میں اب تک ایسی ناٹک منڈلیاں موجود ہیں جو سوانگیوں اور رہس دھاریوں سے بہت ملتی جلتی ہیں اور تو اور یورپ کے بعد دیہات میں جو راہ باٹ سے کٹے ہوئے ہیں ایسی منڈلیاں مل جائیں گی جو پرانے انداز کے چھوٹے چھوٹے ڈرامے دکھاتی ہیں۔

غرض بھاٹ، سوانگی، رہس دھاری بہروپئے کہنے کو اب بھی موجود ہیں۔ لیکن اصل میں ان کا زمانہ ختم ہو گیا وہ ہندوستان کی پرانی تہذیب کی آخری یادگاریں ہیں جو چاہے ملک کے کسی گوشے میں بیس تیس بلکہ سو پچاس تک یوں ہی پڑی رہیں۔ لیکن نئے زمانے میں ان کے لئے کہیں بھی گنجائش نہیں نکل سکتی۔ آج ان کی حیثیت مدھم نقوش کی ہے۔ کل دیکھئے گا کہ یہ پھیکے پھیکے نقوش بھی بالکل مٹ گئے اور سادہ ورق باقی رہ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

طاہرہ

 

طاہرہ (اپنے آپ سے ) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں نے اب سے دور کوئی بھیانک سپنا دیکھا تھا۔ جس کی خود ایک ڈراؤنی پرچھائیں کی طرح میری روح پر چھائی جا رہی ہے۔ لیکن میں جو کچھ دیکھ رہی ہوں یہ بھی کہیں سپنا تو نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جاگ اٹھوں اور وہی اندھیرا مجھے گھیر لے نہیں یہ خواب نہیں حقیقت ہے میں جاگ رہی ہوں۔ میکلوڈ روڈ یہی تو ہے مقبول نے کہا تھا کہ بائیں ہاتھ مڑ کے جو بڑی سی کوٹھی ہے وہ بھائی کو الاٹ ہوئی ہے مجھے یہیں سے مڑنا چاہیے۔ چند لمحوں کے اندر وہاں جا پہنچوں گی۔ سب وہی ہیں ابا، بھائی جان، بھابی، فریا، سلمیٰ صلو تو اب ماشاء اللہ خاصا بڑا ہو گا لیکن کسی سے پوچھ لینا چاہیے کہیں راستہ نہ بھول جاؤں بھائی جان کو تو یہاں سب جانتے ہوں۔ یہ بڑے میاں جو سامنے جا رہے ہیں ان سے پوچھوں ان کی چال تو بالکل ابا جان کی سی ہے کہیں وہی تو نہیں۔ یہ تو سچ مچ وہی ہیں۔

(پکارتی ہے )

ابا جان

بوڑھا: کیا کسی نے مجھے پکارا ہے

طاہرہ: ابا جان

بوڑھا: تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہٹ جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلی جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھاگ جا۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے

طاہرہ: ابا میں آپ کی بیٹی طاہرہ ہوں

بوڑھا: میری بیٹی، میری کوئی بیٹی نہیں

طاہرہ: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کیا میں آپ کی بیٹی نہیں

بوڑھا: نہیں میری کوئی بیٹی نہیں تجھے دھوکا ہوا ہے

ایک آدمی: یہ کیا جھگڑا ہے ؟

دوسرا آدمی: یہ خاتون کہتی ہے یہ بڑے میاں اس کے ابا ہیں اور بڑے میاں فرماتے ہیں ان کی کوئی بیٹی ہی نہیں۔

پہلا آدمی: اس خاتون کو دھوکا ہوا ہو گا باپ اور اپنی بیٹی کو نہ پہچانے معلوم ہوتا ہے بچاری کا دماغ چل گیا ہے۔

دوسرا آدمی: پاگل۔ ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ہرگز نہیں

بوڑھا: آپ لوگوں نے تو مجھے گھیر لیا۔ معاف کیجئے میں ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں۔ میرا ہرج نہ کیجئے۔ استغفراللہ، شریف آدمیوں کیلئے رستہ چلنا مشکل ہو گیا ہے۔

(وقفہ)

طاہرہ (اپنے آپ سے ) یہ تو وہی بھیانک سپنا ہے جو میری روح پر چھایا جا رہا ہے۔ ایک ہی سپنا ہے ج وختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ میں سمجھتی تھی کہ میں اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آ گئی ہوں۔ ریتلے میدانوں سے گزر کے ہرے بھرے پیڑوں کی چھاؤں میں پہنچ گئی۔ لیکن یہاں بھی وہی اندھیرا ہے۔

یہاں بھی لو کے تھپیڑے جسم کو جھلسا ڈالتے ہیں اور گرم گرم ریت جلتی بھوبل کی طرح معلوم ہوتی ہے یہاں بھی کوئی چشمہ نہیں، یہاں بھی کہیں ہریاول نظر نہیں آتی۔ ریت کے ٹیکرے پر جو پانی کی لہر سی اٹھتی دکھائی دے رہی ہے وہ صرف نظر کا دھوکا تھا۔ ابا نے سچ کہا تھا لڑکی تجھے دھوکا ہوا ہے تو پھر میں کیا کروں، کہاں جاؤ۔ باپ کی نظروں میں شفقت کا نور نظر نہ آئے تو کوئی کسی سے رحم کی بھیک کیا مانگے۔ سورج چمکنا چھوڑ دے تو دنیا کے پاس اندھیرے کے سوا کیا رہ جاتا ہے۔ ساون کے بادل آگ برسانے لگے تو پیاسی زمین کیا کرے۔

(وقفہ)

نہ جانے میں کہاں چلی آئی (اشارہ) ہاں یہی تو وہ موڑ ہے یہ پیلی کوٹھی جو سامنے نظر آ رہی ہے بھائی جان ہی کی ہے اس کا دروازہ بھی کھٹکھٹا کے دیکھ لو۔ لیکن باپ نے دھتکار دیا تو بھائی سے کیا امید ہے۔ یہ بھی نظر کا دھوکہ ہے طاہرہ یہ بھی نظر کا دھوکہ ہے وہ بھی یہی کہیں گے کہ لڑکی تجھے دھوکہ ہوا ہے۔ میری کوئی بہن نہیں اماں زندہ ہوتیں تو اپنی بیٹی کو سینے سے لگا لیتیں بھائی اور بھابی سے کیا امید لیکن میری بلا سے کوئی جو چاہے کہے بھائی جان کو ایک نظر تو دیکھ لوں گی۔

(وقفہ)

لیکن میری ہمت جواب دے رہی ہے۔ پاؤں لڑکھڑا رہے ہیں۔ زمین بھوبل کی طرح معلوم ہوتی ہے تو کیا بھائی جان سے ملے بغیر واپس چلی جاؤں۔ لیکن نہیں نہیں میں یہاں تک تو آ گئی ہوں تو مل بھی لینا چاہیے۔ یوں ہی چلی جاؤں گی تو دل میں ہمیشہ خلش رہے گی۔ اس آخری سہارے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں دروازہ کیسے کھٹکھٹاؤں۔ ڈر لگتا ہے کوئی نوکر بھی تو نظر نہیں آتا اتنی بڑی کوٹھی ہے برآمدے میں گھنٹی تو ہو گی۔ ہاں یہ رہی گھنٹی

(گھنٹی بجاتی ہے )

مرد کی آواز: صفیہ کون ہے۔ رمضان دیکھو کون ہے ؟

عورت کی آواز:رمضان تو باورچی خانے میں ہیں۔

بھائی: تو میں دیکھتا ہوں کون ہے۔

طاہرہ: میں ہوں !

بھائی: طاہرہ تم! تم کیسے میرا مطلب ہے کہ تم تم۔ ۔ ۔ ۔

بھابی: تم کس سے باتیں کر رہے ہو۔ ارے طاہرہ تم یہاں ؟

طاہرہ: بڑی بھول ہوئی لیکن میں یہاں رہنے نہیں آئی۔ بس ادھر سے گذرتے خیال آیا کہ کھڑے کھڑے دیکھ چلوں۔ صلو اور ثریا کہاں ہیں ؟

طاہرہ: تو میں انہیں دیکھ بھی نہ سکوں گی۔ میں ادھر سے گزر رہی تھی جی تو چاہا تھا کہ آپ لوگوں کو دیکھ چلوں۔

بھائی: بات یہ ہے کہ۔ ۔ ۔

طاہرہ: میں سمجھ گئی وہ بھیانک پن ابھی ختم ہونے میں نہیں آیا یہاں بھی وہی اندھیرا چھایا ہوا ہے روشنی کی ایک ہلکی سی کرن بھی تو کہیں نظر نہیں آتی۔ کوئی جھوٹے سہاروں پر کب تک جئے۔ اچھا ہوا یہ سہارا بھی ہٹ گیا۔ پھر بھی اتنا تو ہے کہ آپ نے مجھے پہچان لیا اب نے تو پہچانا بھی تو نہیں۔

بھائی: کہاں ملے تھے ؟

طاہرہ: موڑ کے پاس میں نے انہیں پکارا تو کہنے لگے، لڑکی تجھے دھوکہ ہوا ہے میری تو کوئی بیٹی ہی نہیں۔ شاید آپ بھی سڑک پر ملتے تو یہی کہتے کہ لڑکی تجھے دھوکہ ہوا ہے میری تو کوئی بہن نہیں

بھابی: میں تو سمجھی تھی۔ ۔ ۔ ۔

طاہرہ: آپ سمجھی تھی کہ طاہرہ مر گئی، مر گئی ہوتی تو اتنے دکھ کا ہے کو اٹھانے پڑتے۔ پر میں کچھ ایسی ہی سخت جان تھی کہ اتنی مصیبتیں اٹھا کے بھی زندہ رہی۔

بھابی: کیسی پڑپڑ باتیں کئے جا رہی ہے شرم تو نہیں آتی؟

طاہرہ: باپ اور بھائی نے آنکھیں پھیر لیں تو تم سے کیا امید ہو سکتی تھی۔ بھابی پر دکھ ہے کہ عورت کے دکھ کو نہ سمجھے۔

بھائی: طاہرہ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ ہوا اس میں تمہارا قصور نہیں لیکن تمہیں معلوم ہے۔

طاہرہ: میں سمجھ گئی بھائی جان باپ چھی نہیں رہتی لوگ پوچھیں گے یہ لڑکی کون ہے ؟ کہاں سے آئی ہے نوکر آپس میں باتیں کریں گے۔ تھوڑے دنوں میں انگلیاں اٹھنے لگے گی۔ یہی یا کچھ اور ؟ اس لئے تو میں نے یہی کہہ دیا تھا کہ میں یہاں رہنے نہیں آئی۔

بھائی: طاہرہ عقلمند لڑکی ہے ہماری مجبوریوں کو سمجھتی ہے کہ یہ بات پھیلی تو خاندان کی ناک کٹ جائے گی ہم کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔

طاہرہ: ہاں خاندان کی ناک کٹ جائے گی، آپ لوگ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے (قہقہہ لگاتی ہے ) ہاہا بڑے اونچی ناک والے، خاندان کی ناک اس دن نہیں کٹی تھی جب یہ سور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے تھے اس وقت ان لوگوں کی غیرت اور حمیت کو کیا ہوا تھا۔ اس وقت کسی کو خاندان کی عزت کا خیال کیوں نہیں آیا۔ بھاگتے وقت کسی کو یاد نہ رہا کہ طاہرہ کہاں گئی؟ لاری میں بیٹھتے وقت کسی نے نہ سوچا کہ اس بیچاری کو ہم کس کے حوالے کر کے جا رہے ہیں ؟ اس وقت سب کو اپنی جانیں بچانے کی فکر تھی نا غیرت و حمیت والے تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزت پر اپنی جانیں قربان کر دیں۔ تم ایسے لوگوں کو عزت اور شرافت کا نام لینے کا کیا حق حاصل ہے ؟ غیرت حمیت، عزت سب کھو سکتے ہیں۔ پیتل کی ٹکیاں جن پر سونے کا جھول چڑھا ہے بے غیرتی کو غیرت مندی کہہ دو تو سچ مچ غیرت مندی نہیں بن جاتی۔ اندھیرے کا نام اجالا رکھ دو تو اجالا تو نہیں ہو سکتا۔ عجیب بات ہے، بدی نے نیکی کا لباس پہن لیا۔ بے غیرتی نے شرافتی کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور کانٹا پنے کو پھول کہتا ہے خدایا میں کہاں چلی آئی، یہاں تو ریت ہی ریت ہے۔ چٹیل پہاڑیاں، تپتی ہوئی چٹانیں۔ ریت کے تودے اور لو کے تھپیڑے جو جسم کو جھلسائے دیتے ہیں۔ وہ سبزہ زار کہاں گیا جو میری آنکھوں کے سامنے لہرا رہا تھا۔ وہ چشمہ کیا ہوا جس کی تلاش میں یہاں تک چلی آئی تھی وہ تو نظر کا دھوکا تھا صرف نظر کا دھوکا، یہاں تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے جس میں روشنی کی ایک کرن بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس اندھیرے میں زہر گھلا ہوا ہے۔ میر ادم گھٹ رہا ہے نہ جانے یہ اندھیرا میرے ساتھ چلا آیا ہے یا پہلے ہی یہاں تاریکی تھی۔ میں یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔

بھائی: طاہرہ کہاں جا رہی ہو ذرا ٹھہرو تو سہی۔

طاہرہ: نہیں میں نہیں ٹھہر سکتی۔ رات کا دامن ماں کی گود کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ مجھے اس میں کھو جانے دیجئے۔ ڈرئیے نہیں میں کبھی آپ کا نام نہیں لوں گی میں کسی کو نہیں بتاؤں گی کہ میں کس کی بیٹی ہوں اور کس کی بہن ہوں۔ یہی ڈر تھا نا آپ کو تو مطمئن ہو جائیے، میں کسی سے آپ کا ذکر نہیں کروں گا۔

(تیز تیز قدم اٹھاتی باہر نکل جاتی ہے )

بھائی: چلی گئی، طاہرہ چلی گئی اور میں اسے روک بھی نہ سکا۔

بھابی: روک لیتے نہ کس نے کہا تھا نہ روکنے کو

بھائی: میں اس سے اتنا بھی نہ کہہ سکا کہ بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر سستا لو، میں نے تو اس سے یہ بھی نہیں کہا پانی ہی پی لو، اور یہ طاہرہ تھی میری پیاری بہن جسے میں پیار سے گڑیا کہا کرتا تھا۔

بھابی: تو کس نے کہا تھا اپنی گڑیا کو جانے دو، اس نے نہ جانے کیا کچھ کہہ ڈالا؟ اور میں چپ چاپ کھڑی سنتی رہی

(پاؤں کی چاپ)

کیا بات ہیں کیا کر رہے ہو تم دونوں یہاں :

بھابی: کچھ بھی نہیں

باپ: اندر چلو خاصی سردی ہے، آج رات تیز ہوا چل رہی ہے۔ کہیں زکام نہ ہو جائے۔ تم کچھ کھوئے کھوئے سے معلوم ہوتے ہو ماجد کیا بات ہے ؟

بھابی: کچھ بھی نہیں، طاہرہ۔ ۔ ۔

باپ : وہ یہاں بھی آئی تھی کیا؟ ہوں یہی آئی ہو گی اور کہاں جاتی، راستے میں مجھے بھی ملی تھی میں نے منہ نہ لگایا  ہنہ، تو چلی گئی نا۔

ماجد: ہاں چلی گئی، برآمدے میں تھوڑی دیر کھڑی رہی اور پھر چلی گئی میں نے اس سے اتنا بھی نہیں کہا کہ اندر چلو تھوڑی دیر سستا لو، اب تو خوش ہیں نا آپ؟

باپ: تم نے اچھا کیا اور اس کے سوا تم کر بھی کیا سکتے تھے۔ اب اس کا گھر میں کیا کام؟

ماجد: پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ طاہرہ کا اس گھر میں کیا کام لیکن اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ میری رائے بدل گئی ہے، میں محسوس کر رہا ہوں کہ اس بیچاری کا کوئی قصور نہیں۔ اصل میں قصور وار تو ہم ہیں اور میں تو سب سے بڑا مجرم ہوں، جس نے اسے اپنے ہاں پناہ دینے سے انکار کر دیا۔

باپ: تم یہ کیا کہہ رہے ہو ماجد، تمہیں خاندان کی عزت کا پاس نہیں۔

ماجد: طاہرہ کی باتیں سن کر میری آنکھیں کھل گئی ہیں، مجھے معلوم ہیں کہ جھوٹی عزت کی خاطر ہم نے جانے کتنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔

باپ: معصوم؟

ماجد: ہاں معصوم نہیں تو اور کیا؟

باپ: صفیہ تم نے اس احمق کو نہیں سمجھایا؟

صفیہ: وہ آپ کی بات نہیں مانتے تو میری کیا حیثیت ہے۔

ماجد: اس نے کہا تھا بڑے آئے اونچی ناک والے، خاندان کی ناک اس دن نہیں کٹی تھی جب آپ لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے تھے ؟ اس وقت آپ کی غیرت کو کیا ہو گیا تھا، اس وقت کسی کو خاندان کی عزت کا خیال نہ آیا۔ غیرت اور حمیت والے تو وہ لوگ تھے۔ جنہوں نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزت پر اپنی جانیں قربان کر دیں، تم ایسے لوگوں کو شرافت اور عزت کا نام لینے کا کیا حق حاصل ہے ؟

باپ: وہ بے حیا لڑکی باتیں کہتی رہی، اور تم کھڑے سنتے رہے۔

ماجد: ہاں میں چپ چاپ کھڑ ا سن رہا تھا، مجھے وہ رات یاد آ گئی جب ہم اسے اکیلا چھوڑ کے بھاگ نکلے تھے، شعلے بھڑک رہے تھے تلواریں چمک رہی تھیں، لال لال شعلوں کی روشنی میں وہ ڈراؤنے چہرے اور زیادہ ڈراؤنے معلوم ہوتے تھے، طاہرہ کی چیخیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں، پھر میں نے دیکھا ثریا آپ کی گود میں ہیں اور آپ کھیتوں کی آڑ پکڑے بھاگے جا رہے ہیں، رمضان منو کو لئے آپ کے پیچھے پیچھے جا رہا ہے اور میں اور صفیہ جھاڑیوں میں دبکے ہوئے ہیں اور پھر ایکا ایکی میں جا گا اٹھا، میری تاریک روح میں احساس کی کرن پھوٹی اور مجھے مجھے۔ ۔ ۔

باپ: پاگل ہو گئے ہو کیا؟

ماجد: ہاں میں پاگل ہو گیا ہوں اور ا س ملک میں ہزاروں ایسے پاگل ہیں جنہوں نے جھوٹی عزت کی خاطر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو نہیں ٹھکرایا۔

باپ: اچھا جو ہوا سو ہوا، اب اس قصہ کو جانے دو، آؤ اندر چلیں، کس بلا کی سردی ہے، تمہیں کہیں زکام نہ ہو جائے۔

ماجد: آپ کو میرا بڑا خیال ہے لیکن ذرا آپ اس بیچاری کا بھی تو خیال کیجئے، جو نہ جانے کہاں ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہیں اور جسے اس سردی میں سر چھپانے کا ٹھکانا بھی میسر نہیں۔

باپ: اب ان باتوں پر غور نہ کرو، آؤ اندر چلیں۔

صفیہ: ابا جان ٹھیک کہتے ہیں، آئیے اندر چلیں

ماجد: تم بھی یہی کہتی ہو صفیہ، تم بھی یہی کہتی ہو؟

باپ:ـ تو یہاں کب تک کھڑے رہو گے ؟

ماجد: میں جا رہا ہوں !

باپ: کہاں ؟

ماجد: طاہرہ کو ڈھونڈ کے کیا کرو گے ؟

باپ: اسے ڈھونڈ کے کیا کرو گے

ماجد: میں اسے تلاش کر کے لاؤں گا۔ میں اسے کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ نکالوں گا وہ زیادہ دور نہیں گئی ہو گی۔ یہیں ہو گی کہیں، میں اسے ڈھونڈ کے لے آؤں گا۔ میں اس کی منتیں کروں گا۔ ہاتھ جوڑوں گا گڑگڑا کے اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا، میں اسے ضرور لے آؤں گا۔

باپ: اسے یہاں لاؤ گے ؟

ماجد: اور کیا وہ اپنے بھائی کے پاس پناہ لینے آئی تھی وہ یہیں آئی تھی میں اسے یہاں لاؤں گا۔

باپ: ناممکن!

ماجد: ناممکن کیوں، میں نے اسے گھر سے نکالا ہے، پھر میں اسے اپنے گھر میں کیوں لاؤں ؟

باپ: میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔

ماجد: نہیں آپ اسے اجازت دے دیں گے، میں اسے ایک دفعہ لے کے یہاں ضرور آؤں گا اور آپ اجازت نہ دیں گے تو میں کہیں اور چلا جاؤں گا۔ یہ گھر ویران ہو جائے گا یہاں تو ہمیشہ اندھیرا چھایا رہے گا اس کی چھت گر پڑے گی دیواروں پر کائی اگ آئے گی۔ یہاں الو بولیں گے چمگاڈر بسیرا کریں گی۔

باپ: یہ کیا کہہ رہے ہو؟

ماجد: میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں آپ نہیں دیکھ سکتے، میں اپنی زندگی اس کام کے لئے وقف کر دوں گا کہ آئندہ کوئی بھائی اپنی بہن کو یوں اپنے گھر سے نکال نہ سکے۔ کوئی باپ اپنی بیٹی کو پہچاننے سے انکار نہ کرے، وہ زیادہ دور نہیں گئی ہو گی، میں اسے ابھی لے کر آتا ہوں۔

(وقفہ)

(پکارتا ہے )

طاہرہ! طاہرہ! طاہرہ! طاہرہ! طاہرہ! طاہرہ!

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100033.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید