مصحف
نمرہ احمد
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
سنہری صبح بھیگ رہی تھی، جب وہ سست روی سے چلتی ہوئی بس اسٹاپ تک پہنچی۔ کندھے پر بیگ لٹکائے، ہاتھ میں پانی کی چھوٹی بوتل پکڑے، چہرے پر ڈھیروں بے زاری لیئے، وہ بینچ کے قریب آئی، جہاں بیٹھ کر وہ روز 10 منٹ بس کا انتظار کرتی تھی۔
اس نے بیگ ایک طرف رکھا اور بینچ پر بیٹھ گئی۔ پھر ایک ہاتھ سے جمائی روکتے دوسرے سے بوتل کھول کر لبوں سے لگائی۔ گرمی آج کل بڑھتی جا رہی تھی صبح ہی صبح اسے پسینہ آنے لگا تھا، جانے آگے کیا ہو گا، وہ گھونٹ بھرتی بے زاری سے سوچ رہی تھی، چہرے پر بھی وہی اکتاہٹ کے تاثرات تھے، جیسے دنیا بھر سے خفا ہو، سنہری پیشانی پر مستقل پڑے بل اور کانچ سی خوبصورت بھوری سنہری آنکھوں میں چھائی خفگی، کچھ تھا اس میں جو اسے سارے میں یکتا کرتا بناتا تھا، لمبے کرتے اور جینز میں ملبوس رسی کی مانند دوپٹہ مفلر کے انداز میں گردن سے لپیٹے، ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ پاؤں جھلاتی، تنقیدی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اور تب ہی اسے احساس ہوا کہ وہ سیاہ فام لڑکی آج بھی بینچ پر اس کے ساتھ بیٹھی ہے۔
ان دونوں کے درمیان اس کا بیگ پڑا تھا اور اس وقت وہ سیاہ فام لڑکی سرجھکائے، نگاہ ترچھی کیے اس کے بیگ کو دیکھ رہی تھی، جہاں جگہ جگہ چاک اور وائٹنر سے اس نے اپنا نام لکھا ہوا تھا۔
محمل ابراہیم۔ ۔ ۔ ۔ محمل ابراہیم۔
آڑا ترچھا چھوٹے بڑے ہر انداز میں یہی لکھا تھا، وہ لڑکی کبھی ہی اس کے بیگ کو دیکھتی تھی مگر محمل کے تو روز کے دس منٹ اس سیاہ فام لڑکی کا جائزہ لیتے ہی گزرتے تھے۔
وہ بھی عجیب پراسرار کردار تھی، یہاں اسلام آباد میں سیاہ فام نظر آ ہی جاتے تھے، مگر وہ اپنے جیسوں سے مختلف تھی سر پر رو مال باندھ کر گردن کے پیچھے گرہ لگاتی اور نیچے اوور کوٹ موٹے ہونٹ سیاہ رنگت، مگر چمکیلی آنکھیں کوئی ایسی چمک تھی ان میں کہ محمل کبھی ان آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی تھی، ہمیشہ نظر چرا جاتی شاید ڈیڑھ مہینہ قبل وہ اسے اپنے مخصوص اوقات میں اسٹینڈ پر دیکھتی تھی اور ان ڈیڑھ ماہ میں ان کا انداز ہمیشہ یکساں رہا تھا۔
کمر سیدھی رکھے الرٹ سی بینچ بیٹھی خاموشی سے سامنے سیدھ میں دیکھتی وہ بہت چپ سی لڑکی معلوم نہیں کون تھی اور پھر اس کی وہ پر اسرار کتاب جس کا سیاہ سرورق بالکل خالی تھا اس کی گود میں دھری ہوتی اور کتاب کے کناروں پر اس کے سیاہ ہاتھ مضبوطی سے جمے ہوتے۔
اس کے انداز سے کچھ خاص جھلکتا تھا، کتاب کی حفاظت کا احساس یا پھر اس کے بیش قیمت ہونے کا۔
کتاب بالشت بھر موٹی تھی۔ صفحوں کے جھلکتے کنارے پیلے اور خستہ لگتے تھے۔ جیسے کوئی قدیم کتاب ہو سینکڑوں برس پرانا کوئی نسخہ ہو۔ کچھ تھا اس میں کوئی قدیم راز یا کوئی پراسرار کتھا، وہ جب بھی اس پر اسرار کتاب کو دیکھتی، یہی سوچتی، اور آج جانے کیا ہوا، وہ اس خاموش سی لڑکی سے مخاطب ہو ہی گئی شاید تجسس عاجز کر رہا تھا۔
ایکسکیوز می۔ ایک بات پوچھ سکتی ہوں ؟
پوچھو۔ سیاہ فام لڑکی نے اپنی چمکیلی آنکھیں اٹھائیں۔
یہ کتاب کس کی ہے ؟
میری۔
میرا مطلب اس میں کیا لکھا ہے ؟
وہ چند لمحے محمل کا چہرہ دیکھتی رہی پھر آہستہ سے بولی۔
میری زندگی کی کہانی
اچھا۔ وہ حیرت چھپا نہ سکی۔ میں سمجھی یہ کوئی قدیم کتاب ہے۔
قدیم ہی ہے صدیوں پہلے لکھی گئی تھی۔
تو آپ کو کہاں سے ملی؟
مصر کی ایک پرانی لائبریری سے، یہ کچھ کتابوں کے بیچ پڑی تھی۔ جب میں نے اسے نکالا تو اس پر زمانوں کی گرد تھی، وہ محبت سے سیاہ جلد پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہہ رہی تھی۔ اس کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ تھی میں نے وہ گرد جھاڑی اور اسے اپنے ساتھ رکھ لیا، پھر جب پڑھا تو معلوم ہوا اسے تو کسی نے میرے لئے لکھوا کر ادھر رکھ دیا تھا۔
محمل منہ کھولے اسی دیکھ رہی تھی
تمہیں کیا دلچسپی ہے اس میں ؟
میں اس کے بارے میں مزید جاننا چاہتی ہوں کیا میں اسے پڑھ سکتی ہوں ؟وہ ہلکا مسکرائی
تم نئے دور کی نئی لڑکی ہو اس قدیم زبان میں لکھے نسخے کو کہاں سمجھو گی؟
مگر یہ ہے کیا اس میں لکھا کیا ہے ؟وہ تجسس اب اسے بے چین کر رہا تھا۔
میرا ماضی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی پل ہارن بجا تو محمل نے چونک کر سامنے سڑک پر آتی بس کو دیکھا۔
میرا حال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سیاہ فام لڑکی کہہ رہی تھی
محمل بیگ کا اسٹریپ پکڑے کھڑی ہوئی اسے جلدی کالج پہنچنا تھا۔
اور میرا مستقبل بھی مجھے کیا پیش آنے والا ہے یہ کتاب سب بتا دیتی ہے۔
میں چلتی ہوں وہ بس کی طرف دیکھتے معذرت خواہانہ انداز میں کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
اس میں تمہارا بھی ذکر ہے محمل۔ وہ الٹے پاؤں مڑی۔
میرا ذکر؟میرے بارے میں کیا لکھا ہے وہ ششدر رہ گئی تھی۔
یہی کہ میں تمہیں یہ کتاب دے دوں۔ لیکن میں تو اسے تمہیں تبھی دوں گی جب تم تھک کر خود مجھ سے مانگنے آؤ گی کیونکہ اس میں تمہاری زندگی کی کہانی بھی ہے۔ جو ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے سب لکھا ہے۔
بس کا تیز ہارن پھر سے بجا تو وہ کچھ کہے بنا تیزی سے اس طرف لپکی راڈ پکر کر اوپر چڑھتے اس نے پل بھر کو پلٹ کے دیکھا تھا۔
وہ سیاہ فام لڑکی اسی طرح مسکرا رہی تھی۔
پراسرار معنی خیز مسکراہٹ محمل کو ایک دم اس سے بہت ڈر لگا تھا۔
٭٭
کالج کے بعد وہ اپنی دوست نادیہ کے ابو کی اکیڈمی میں سیونتھ کلاس کے بچوں کو سائنس اور میتھس پڑھاتی تھی گھر پہنچتے پہنچتے اسے روز ساڑھے تین ہو جا تے تھے۔
گیٹ عبور کر کے پورچ میں دیکھا تو تین گاڑیاں آگے پیچھے کھڑی تھیں۔
دل کراہ کے رہ گیا۔ گر میں گاڑیوں کے باوجود بسوں پیں دھکے کھانے پر مجبور تھی۔
ہم چچاؤں کے رحم و کرم پر پلنے والے یتیموں کے نصیب بھی کتنے یتیم ہوتے ہیں نا؟خود پر ترس کھاتی وہ اندر آئی تھی۔
لاونج میں خاموش دوپہر اتری تھی۔ وہ سب کے سونے کا ٹائم تھا۔ آغا جان اس کے سب سے بڑے تایا اس وقت تک آفس سے لوٹ آئے تھے۔ اور ان کی کچی نیند کے باعث پورے گھر کو حکم ہوتا کہ پتہ بھی نہ کھڑکے ورنہ وہ ڈسٹرب ہوں گے۔ حکم بظاہر پورے گھر کو اور در حقیقت محمل اور مسرت کو سنایا جاتا تھا۔ اور آخر میں جب آغا جان کی بیگم مہتاب تائی ان الفاظ کا اضافہ کرتیں۔
اور مسرت اپنی بیٹی کو سمجھا دینا جب لور لور شہر پھرنے سے فارغ ہو جائے تو گھر آتی ہوئی میں گیٹ آرام سے کھولا کرے۔ آغا صاحب کی نیند خراب ہوتی ہے، اب میں کچھ کہوں گی تو اسے برا لگے گا۔ گز بھر کی تو زبان ہے اس کی۔ نہ چھوتے کا لحاظ نہ برے کا ادب۔ استغفر اللہ ہماری بیٹیاں بھی کالج میں پڑھی ہیں ان کے تو انداز ایسے نہ نکلے جیسے محمل کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وغیرہ وغیرہ تو اسے تو آگ ہی لگ جاتی تھی۔ ہر روز دروازہ کھولتے ہوئے یہی فقرہ سماعت میں گونجتا تو چڑنے کے باوجود دروازہ آہستہ بند کرتی۔
کچن کی طرف آئی تو سنک میں جھوٹے برتنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ناگواری سے ناک چڑھائے اس نے بیگ سلیب پر رکھا اور ہاٹ پاٹ کی طرف بڑھی۔ صبح ناشتے کے بعد اب تک کچھ بھی نہیں کھایا تھا، اور اب زوروں کی بھوک لگی تھی۔
ہاٹ پاٹ کھولا تو وہ خالی تھا رو مال پر روٹی کے چند ذرے بکھرے تھے اس نے فریج کھولنا چاہا تو وہ لاکڈ تھا۔ مہتاب تائی اس کے آنے سے قبل فریج لاک کر دیتی تھی۔ مسرت اس کے لیے کھانا بچا کر ہاٹ پاٹ میں رکھ دیتی تھی۔ مگر جب سے مہتاب تائی نے کھانے کی خود نگرانی سٹارٹ کی تھی۔ ہاٹ پاٹ ہر تیسرے دن خالی ہی ملتا تھا۔
تکلیف سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، لیکن پھر ضبط کر کے باہر نکلی۔ اور آہستہ سے گیٹ عبور کر کے کالونی سے باہر نکڑ والے ہوٹل سے ایک نان اور ایک کباب لے آئی اس کے پاس اتنے ہی پیسے تھے۔
واپسی پر وہ پھر پرانی محمل بن چکی تھی۔
لاونج کا دروازہ کھول کے دھڑام سے بند کیا۔ فرش پر پڑی فٹ بال اٹھا کے پوری قوت کے ساتھ دیوار پر ماری اور صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی نان کباب کا لفافہ کھولنے لگی۔
لمحے بھر بعد ہی آغا جان کے کمرے کا دروازہ کھلا اور تنتناتی ہوئی تائی مہتاب باہر آئی۔
محمل۔ وہ گرجیں، تو اس نے آرام سے سر اٹھایا۔
کباب کھائیں گی تائی ماں ؟
شٹ اپ ہزار بار کہا ہے دروازہ آرام سے کھولا کرو مگر تم۔
آہستہ بولیں تائی جان اس وقت آغا جان سو رہے ہوتے ہیں اٹھ جائیں گے۔ وہ نان پر کباب رکھ کے بے نیازی سے پاؤں جھلاتی کھا رہی تھی۔
تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احسان فراموش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں ذرا بھر بھی احساس ہے کہ آغا صاحب دن بھر کے تھکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر فقرہ مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اپنا نان کباب اٹھائے اپنے کمرے کی طرف جا چکی تھی۔
تائی مہتاب تلملاتی کلیستی رہ گئی۔
اندر مسرت آوازوں پر جاگ چکی تھی۔
کیا ہوا ہے محمل بھابھی بیگم کیوں ناراض ہو رہی تھی؟
دماغ خراب ہے ان کا پیدائشی مسئلہ ہے۔ آپ کو نہیں پتہ؟اس نے بے زاری سے نان کباب کا لفافہ بستر پر رکھ دیا۔
مگر ہوا کیا ہے ؟ان کی نگاہ پھسل کر لفافے پر گئی۔ پھر باہر سے کھانا لائی ہو فریج میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر خود ہی خاموش ہو گئی۔
آپ کے لیئے لائی ہوں آپ نے کچھ کھایا؟
میں کھا چکی، یہ تم کھاؤ میں جانتی ہوں تم نے کچھ نہیں کھایا، وہ تھکاوٹ سے مسکرائیں تو محمل نے لمحہ بھر کو ماں کو دیکھا، سادہ گھسے ہوئے کاٹن کے جوڑے میں سفید ہوئے بال اور جھریوں زدہ چہرے والی اس کی تھکی تھکی بے ضرر سی ماں جو واقعی اس عالی شان کوٹھی کی مالکن ہوتے ہوئے بھی ملازمہ لگتی ہے۔ ۔
دل برا مت کیا کرو محمل اللہ کا نام لے کر کھا لو۔
مجھے غصہ آتا ہے ان لوگوں پر اماں۔
باہر تائی مہتاب کے بہلنے کی آواز برابر آ رہی تھی۔ ۔
وہ اب شور کر کے جانے کس کس کو بتا رہی تھی۔
ناشکری مت کرو بیٹا انہوں نے رہنے کے لیے ہمیں چھت دی ہے سہارا دیا ہے۔
احسان نہیں کیا میرے باپ کا گھر ہے۔ اسے ابا نے ہمارے لیئے بنوایا تھا، یہ بزنس یہ فیکٹریاں یہ سب ابا نے خود بنایا تھا۔ سب کچھ ابا نے ہمارے نام کیا تھا۔
تمہارے ابا اب زندہ نہیں رہے محمل وہ اب کہیں بھی نہیں ہیں۔ وہ جیسے تھک کر کہہ رہی تھیں۔ ۔
اور وہ انہیں دیکھ کر رہ گئی۔ پھر اس نے سر جھٹک کر لفافہ اٹھایا نان سخت ہو چکا تھا اور کباب ٹھنڈا۔ وہ بے دلی سے لقمے توڑنے لگی۔
٭٭
یہ ٹھنڈا بے لذت کھانا کھا کے وہ کچھ دیر ہی سوپائی کہ تھاہ کی آواز کے ساتھ کمرے کے دروازے سے فٹبال ٹکرایا۔
وہ ہربرا کے اٹھ گئی۔
باہر دیوار پر فٹ بال مارنے کی آوازیں برابر آ رہی تھی۔
کچی نیند ٹوٹی تھی۔ وہ برا سا منہ بنائے جمائی روکتی اٹھی۔ سلیپر پہنے اور بال لپیٹتے دروازہ کھولا۔
اس کا اور مسرت کا مشترکہ کمرہ در اصل کچن کے ساتھ ملحقہ اسٹور روم تھا بہت چھٹا نہ بہت برا عرصہ پہلے اسے کاٹھ کباڑ سے خالی کروا کے ان دونوں کو ادھر منتقل کر دیا تھا، اس کے ساتھ باتھ روم نہیں تھا اس لیئے انہیں لاونج سے گزر کر گیسٹ روم کی طرف جانا پڑتا تھا۔
باہر لاونج میں ناعمہ چاچی کے معاذ اور معز فٹ بال سے کھیلتے دوڑتے پھر رہے تھے۔
تمیز نہیں ہے تم لوگوں کو دیکھ کر کھیلا کرو میں سو رہی تھی۔
کچن کے کھلے دروازے پر کھڑی اندر کسی سے بات کرتی ناعمہ چاچی فوراً مڑیں۔
اب میرے بچے کھیلے بھی نا؟تمہارا تو کام ہی سونا ہے نہ دن دیکھا نہ رات ہر وقت بستر ہی توڑتی رہتی ہو۔
ہاں تو میرے باپ کے پیسے سے یہ بستر ائے تھے توڑوں یا پھوڑوں میری مرضی۔ ابا کی ڈیتھ سے پہلے اسد چچا تو غالباً بے روزگار تھے نا؟وہ بھی محمل تھی سارے حساب فوراً چکا کر بے نیازی سے باتھ روم کی طرف چلی گئی۔ ادھر ناعمہ چاچی بڑبڑا کر رہ گئیں۔
منہ ہاتھ دھو کر اس نے اپنے سلکی بھورے بال دونوں ہاتھوں میں سمیٹ کر اونچے کیئے اور پونی باندھی۔ بہت اونچی سی بھوری پونی ٹیل اس پر بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ ذرا بھی سر ہلاتی تو اونچی پونی ساتھ ہی گردن کے اوپر جھولتی۔ اس کی آنکھیں کانچ سی سنہری تھی اور ہلکا سا کاجل بھی اسے دہکا دیتا تھا۔ وہ بلا شبہ گھر کی سب سے حسین لڑکی تھی۔
اسی لئے تو جلتی ہیں یہ سب اسے ہنسی آ گئی۔ ایک نظر خود پر ڈالی۔ جینز کے اوپر کھلا سا کرتا اور گردن کے گرد لپیٹا دوپٹہ، مفلر کی طرح ایک پلو سامنے لٹکتا اور ایک پیچھے کمر میں وہ واقعی سب سے منفرد تھی۔
کچن میں تائی مہتاب نگٹس نکال کے مسرت کے سامنے رکھ رہی تھیں جو بہت تابعداری سے ایک طرف چائے کا پانی چڑھا کر دوسری ٹرف تیل گرم کر رہی تھی اس پر نظر پڑی تو نگٹس رکھتے ہوئے ذرا لا پرواہی سے گویا ہوئی۔
یہ بچوں کے لیے فرائی کر دو مسرت اب ہر کوئی باہر سے منہ مار کے تو نہیں آتا نا!
بجا فرمایا تائی اماں۔ یہاں تو لوگ گھر کے اندر ہی دوسروں کے مال پر منہ مارتے ہیں وہ اطمینان سے کہہ کر کولر سے پانی بھرنے لگی۔
زبان کو سنبھالو لڑکی، توبہ ہے ہماری بیٹیاں تو کبھی ہمارے سامنے ایسے نہیں بولیں۔
آپ برا مت مانیں بھابھی بیگم۔ میں سمجھا دوں گی۔ گھبرا کر مسرت نے ایک ملتجی نظر محمل پر ڈالی۔ وہ کندھے اچکا کر کھڑے کھڑے پانی پینے لگی۔
سمجھا دینا بہتر ہو گا۔ اس پر ایک تنفر نظر ڈال کرتا ئی مہتاب باہر چلی گئیں۔ ناعمہ چچی پہلے ہی جا چکی تھی۔ اب مسرت اور محمل ہی کچن میں رہ گئے تھے۔
اب یقیناً برتن بھی آپ ہی کو دھونے ہوں گے ؟اماں۔
دھو بھی دوں تو کیا ہے ؟ان کے احسان کم ہیں ہم پر؟وہ مصروف سی ایک ایک نگٹس کڑاہی میں ڈال رہی تھی۔ محمل نے ایک گہری سانس لی اور آستین موڑ کر سنک کی طرف متوجہ ہوئی اسے غم تھا، کہ اگر وہ نہ کرے گی تو مسرت کو ہی کرنا ہو گا اور ابھی تو انہوں نے رات کا کھانا بھی تیار کرنا تھا۔
رہنے دو بیٹا میں کر لوں گی لیکن میں بھی ان لوگوں پر تھوڑا احسان کرنا چاہتی ہوں۔ وہ برتن دھو کر فارغ ہوئی تو مسرت ٹرالی بھر چکی تھی۔ محمل یہ باہر لے جاؤ، سب لان میں ہوں گے وہ بنا احتجاج ٹرالی گھسیٹنے لگی، لان میں روز شام کی طرح کرسیاں لگی تھیں۔
آغا کریم اخبار کھولے دیکھ رہے تھے، ساتھ ہی مہتاب تائی اور نا عمہ چاچی باتیں کر رہی تھی، ناعمہ چاچی سب سے چھٹے اسد چچا کی بیوی تھی جو قریب ہی بیٹھے غفران چچا سے کچھ کہہ رہے تھے۔ غفران چچا اور محمل کے ابا آغا ابراہیم جڑواں تھے آغا کریم ان سے برے اور اسد چچا چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
غفران چچا کی بیگم فضہ چچی برآمدے میں کھڑی اپنی بیٹی کو اواز دے رہی تھیں اسے ٹرالی لاتا دیکھ کر مسکرائی۔
ارے محمل جان تم اکیلی لگی رہی، ندا یا سامیہ کو کہہ دیا ہوتا تمہاری ہیلپ کروا دیتی۔
فضہ چچی مہتاب تائی اور ناعمہ چچی کی طرح زبان کی کڑوی نہ تھی بلکہ اتنی میٹھی تھی کہ جب اپنی مٹھاس اپنے لبوں سے دوسرے کے حلق میں انڈیلتی تو وہاں کانٹے اگ جاتے۔
اٹس اوکے۔ وہ بھی بس مسکرا کے ٹرالی آگے لے گئی۔ اب کیا کہتی کہ ندا اور سامیہ نے پہلے کونسے کام کیئے ہیں جو آج کرتیں، اگر وہ انہیں بلاتی وہ فوراً چلی آتیں، ایک دو چیزیں پکڑاتی چولہا جلاتی باتیں بگھارتیں۔ اور پھر آہستہ سے کھسک جاتیں، اس کے بعد لان میں فضہ چاچی ایک ایک چیز یہ چکھیں میری سامیہ نے بنائی ہے۔ اور میری ندا کے ہاتھوں میں تو بہت ذائقہ ہے کہہ کر پیش کرتی، اس پر مہتاب تائی ان کی تعریف کرتی اور محمل کو کاہلی کے وہ طعنے ملتے اس سارے قصے سے بچنے کے لیئے محمل نے کبھی ان دونوں کو بلانے کی غلطی نہ کی تھی۔
مگر فضہ چاچی کی یہ میٹھی زبان ہی تھیک نی وہ کبھی ان کو پلٹ کے جواب دے سکی نہ ہی کچھ جتا سکی وہ موقع ہی نہ دیتی۔
لاؤ لاؤ جلدی لاؤ دونوں ماں بیٹی لگتی ہیں پھر بھی گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
تائی آپ کوئی ملازمہ کیوں نہیں رکھ لیتی کم سے کم آپ کو ہم ماں بیٹی پر چلانا تو نہیں پرے گا۔ وہ تیزی سے کہہ کر ٹرالی چھوڑ کر واپس گئی۔
سب باتیں چھوڑ کر اس طرف دیکھنے لگے تھے۔ احسان کرنے کا تو زمانہ ہی نہیں رہا، تائی نے ٹرالی اپنی طرف کھینچی، آغا کریم نگاہیں چرا کر پھر سے اخبار میں گم ہو چکے تھے۔
وہ کچن کی طرف واپس آئی تو فواد تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا نیچے آ رہا تھا۔
چائے لگ گئی؟آخری سیڑھی پر اترتے مصروف سے انداز میں کہتے وہ کلائی پر گھڑی باندھ رہا تھا
اسنیکس رکھ آئی ہوں، چائے لاتی ہوں، وہ زیادہ غور سے سنے بغیر نکل گیا۔ محمل نے لمحہ بھر کو رک کے اسے جاتے دیکھا،، ،، ،، ،، ،، ،۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ مہتاب تائی کا بڑا بیٹا تھا۔ حنان وسیم اس کے بعد تھے اور سدرہ مہرین سب سے چھوٹی تھی، فواد آغا جان کے آفس جاتا تھا اونچا لمبا خوش شکل تو تھا ہی مگر ڈریسنگ اور دولت کی چمک دمک سے مزید پرکشش اور ہینڈسم لگتا تھا۔ خاندان کا سب سے ہینڈسم اور پاپولر لڑکا، جس پر ہر لڑکی کا دل اور اور لڑکی کی ماں کی نظر تھی
ندا اور سامیہ ہوں یا ناعمہ چاچی کی مغرور نخریلی آرزو سب فواد کے آگے پیچھے پھرتیں رضیہ پھپھو تو اپنی اکلوتی فائقہ کے لیئے کبھی فواد کو ڈنر پر بلا رہی ہوتی۔ تو کبھی فائقہ انڈوں کا حلوہ بنا کے لا رہی ہے۔ فواد میٹھا شوق سے کھاتا تھا سو یہ لڑکیاں ماؤں کے بنائے کو اپنا کہہ کر بہت شوق سے پیش کرتی تھیں۔ مگر وہ بھی سدا کا بے نیاز تھا۔
اپنی اہمیت کا احساس تھا کہ بے زاری اور اتراہٹ کم نہ ہوتی تھی، ورنہ حنان تو بمشکل ایف اے کر کے دبئی ایسا گیا کہ نہ تو پھر خط پتر بھیجا نہ پھوٹی کوڑی گھر بھیجی۔
تعلیمی ریکارڈ اس کا اتنا برا تھا کہ تائی کڑھتی رہتی تھیں۔ مگر یہ وسیم تھا جس نے تائی اور آغا کریم کا ہر جگہ سر شرم سے جھکایا تھا۔
نالائق نکما ایف اے میں دو بار فیل ہو کر پڑھائی چھوڑ کر آوارہ گردی میں مشغول سگریٹ کا عادی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور کہنے والے تو دبے لفظوں کہہ بھی دیتے تھے۔ کہ ان گلیوں کا بھی پرانا شناسا ہے جہاں دن سوتے اور راتیں جاگتی ہیں۔
وہ سر جھٹک کر کچن میں آئی تو مسرت جلدی جلدی کپڑے سے سلیب صاف کر رہی تھیں۔ ان کی پیالی میں آدھا کپ چائے پڑی تھی۔ ان سے کچھ کہنا بے کار تھا اس نے ٹرے اٹھا لی۔
لان میں فضہ چاچی کے ساتھ والی کرسی پر فواد بیٹھا تھا۔ وہ اسے مسکرا کے بہت توجہ سے کچھ بتا رہی تھیں۔ اور وہ لاپرواہی سے سن رہا تھا۔
محمل اس کے کپ میں چائے انڈیل ہی رہی تھی کہ وہ کہہ اٹھا۔
میرے کپ میں چینی مت ڈالنا۔
نہیں ڈالی۔ وہ پنجوں کے بل گھاس پر بیٹھی سب کو چائے اٹھا کر دے رہی تھی۔
ارے بیٹا چینی کیوں نہیں پی رہے ؟فضہ چاچی بہت زیادہ فکر مند ہوئیں۔
یونہی کچھ ویٹ لوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اتنے تو سمارٹ ہو اور کیا لوز کرو گے ؟: آرزو اسی پل سامنے والی کرسی پر آ بیٹھی تھی اور میری چائے میں آدھا چمچ چینی محمل۔
وہ فواد کے بالکل سامنے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کے بیٹھی تھی۔ چست سا سفید ٹراؤزر اور اوپر قدرے کھلے گلے والی ریڈ شارٹ شرٹ۔ کندھوں تک اسٹیپ میں کٹے بال اور گندمی عام سا چہرہ جس کو بہت محنت سے اس نے قدرے پر کشش بنایا تھا مگر پتلی کمان سی آئی برو اس کو بہت شاطر دکھاتی تھیں۔
فٹ تو رکھنا پڑتا ہے خود کو۔ محمل یہ کباب پکڑانا۔ فواد نے ہاتھ بڑھا کر کہا تو محمل نے فوراً کباب کی پلیٹ اٹھا کر دینی چاہی اور دیتے دیتے اس کی انگلیاں فواد کے ہاتھ سے مس ہوئیں۔
وہ چونکا تو گھبرا کر محمل نے پلیٹ چھوڑ دی۔ وہ گر جاتی اگر وہ تھام نہ لیتا۔ محمل نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ پلیٹ پکڑے ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ چونک کر، سب بھول کر، جیسے اسے پہلی دفعہ دیکھا ہو۔ بس لمحے بھر کا عمل تھا۔ اس نے رخ پھیر لیا۔ تو وہ بھی دوسری جانب متوجہ ہو گیا۔
فضہ چاچی اور آرزو کسی اور جانب متوجہ تھیں۔ کسی نے بھی وہ لمحہ محسوس نہیں کیا تھا جو آ کر گزر بھی چکا تھا اور فواد وہ وقفے وقفے سے اس پر ایک نگاہ ڈالتا تھا، جو پنجوں کے بل گھاس پر بیٹھی سب کو چائے سرو کر رہی تھی۔ ذرا سا سر کو جھکاتی تو بھوری پونی ٹیل اور اونچی لگتی۔ سر اٹھا تی پونی بھی ساتھ ہی جھولتی اور وہ کانچ سی سنہری آنکھیں ان ساری لڑکیوں کے پاس اس جیسا کچھ بھی نہ تھا۔
وہ چائے کے سپ لیتا خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
٭٭٭
شام میں وہ کمرے میں بند پڑھتی تھی پھر مغرب ڈھل گئی تو کچن میں آ گئی جہاں مسرت پھرتی سے کٹنگ بورڈ پر پیاز ٹماٹر کاٹتی رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں کچن میں اور کوئی نہیں تھا اور سارا پھیلاؤ یقیناً انہیں کو سمیٹنا تھا۔
اماں !یہ تائی اماں اور چاچیوں میں سے کوئی کھانے کی ذمے داری کیوں نہیں لیتا؟ہمیشہ آپ ہی کیوں بناتی ہیں ؟ وہ یہ سب دیکھ کر ہول گئی تھی۔
تو ہمارا گھر ہے بیٹا یہ کر دوں گی تو کیا ہو جائے گا؟
آپ تھکتی نہیں ہیں ان کی خدمت کرتے کرتے ؟
نہیں تھکن کیسی؟وہ اب جھک کر چولہا جلا رہی تھی۔
اچھا بتائیں کیا بنانا ہے ؟میں کچھ کروا دوں۔
بریانی تو بنانی ہی ہے۔ باقی مہتاب بھابھی سے پوچھتی ہوں۔ اور اس وقت مہتاب تائی نے کچن کے دروازے سے جھانکا۔
کھانا بنانا اب شروع بھی کر دو مسرت!روز دیر ہو جاتی ہے۔
مسرت چولہا جلاتے فوراً پلٹی۔ جی بھابھی بس شروع کر رہی ہوں آپ بتائے وسیم بیٹا بریانی کا کہہ گیا تھا ساتھ کیا بناؤں ؟وہ دوپٹے سے ہاتھ پونچھتے ان کے سامنے جا کر پوچھنے لگیں۔
ساتھ ہی مٹر قیمہ بنا دو، کباب بھی تل لینا اور دوپہر والا اروی گوشت بھی گرم کر لینا آلو کا ایک سالن بھی بنا لو سلاد بھی نہیں بھولنا۔
جی اور میٹھے میں ؟
دیکھ لو۔ وہ بے نیازی اور نخوت سے گویا ہوئیں۔ پڈنگ بنا لو یا ڈبل روٹی کی کھیر۔ اور ایک اچٹتی نظر اس پر ڈال کر پلٹ گئیں۔
ایک ٹائم میں دیگچے بھر بھر کر آپ تین تین چار چار ڈشز بناتی ہیں مگر رات کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں ہے وہ کلستی بھی تھی اور حیران بھی ہوتی تھی۔
تم خود ہی تو کہتی ہو وہ ہمارا مال حرام طریقے سے کھاتے ہیں۔ پھر حرام میں کہاں برکت ہوتی ہے بیٹا؟ان کے لہجے میں برسوں کی تھکن تھی اور کہہ کر وہ پھر سے کٹنگ بورڈ پر جھک گئیں۔
وہ بالکل چپ سی پو گئی۔ واقعی کیوں یہاں دیگچے کے دیگچے ایک وقت کے کھانے میں ختم ہو جاتے تھے، اس نے تو کبھی اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا اور اماں بھی ان کے ہر ظلم و زیادتی سے آگاہ تھیں پھر بھی چپ چاپ سہے جاتی تھیں۔
ہمارا مال!دل میں ایک کانٹا سا چبھا۔ گیارہ برس قبل ابا کی ڈیتھ سے پہلے یہ فیکٹریاں یہ جائیدادیں، بینک بیلنس، یہ امپورٹ ایکسپورٹ کی پوری بزنس ائمپائر سب ابا کا تھا اور یہ آغا کریم، یہ راجہ بازار میں کپڑوں کی ایک دکان چلاتے تھے۔ غفران چاچا ایک معمولی سی کمپنی میں انجینئر بھرتی تھے اور آرزو کے والد اسد چاچا۔ وہ تو وسیم کی طرح تھے۔ بے روزگار، نکمے، نکھٹو اور نالائق پھر کیسے ابا کے چہلم کے بعد وہ اپنے اپنے کرائے کے مکان خالی کر کے باری باری یہاں آن بسے۔
یہ آغا ابراہیم کا گھر آغا ہاؤس تین منزلہ عالی شان محل نما کوٹھی تھی، نچلی منزل پر آغا جان کی فیملی نے بسیرا جمایا بالائی پر فضہ چاچی نے اور سب سے اوپری منزل پر اسد چچا کی فیملی کا قبضہ تھا۔
وہ چند دن کے لئے آئے تھے، مگر پھر وہ چند دن کبھی ختم نہ ہوئے۔ بات بے بات جگہ کی کمی کا رونا رویا جاتا، یہاں تک کے ماسٹر بیڈ روم سے مسرت اور محمل کو نکال کے اسٹور روم میں شفٹ کر دیا گیا۔
وہ اس وقت چھوٹی تھی، شاید نو دس سال کی مگر جیسے جیسے شعور کی منزلیں طے کی تو اندر ہی اندر لاوا پکتا رہا۔ اب تو عرصہ ہوا اس نے دبنا چھوڑ دیا تھا۔ گھر کے مردوں کے سامنے تو خیر وہ زبان بند ہی رکھتی تھی۔ مگر تائی چاچیوں سے برابر کا مقابلہ کرتی اور کزنز تو کسی کھاتے میں ہی نہیں تھیں۔ لیکن اس زبان چلانے کے باعث اس پر سختیاں بڑھتی گئیں۔ وہ محض زبان سے جواب دے سکتی تھی۔ مگر تائی اماں وغیرہ دوسرے حربے بھی استعمال کرتے۔ جب اس نے اپنے ذاتی جیب خرچ کے لئے اپنی دوست کے والد کی اکیڈمی میں ٹیوشنز دینا شروع کی تھی اس کو گھر واپسی میں دیر ہو جاتی اور نتیجتا یا قسدا اس کے لئے دوپہر کا کھانا نہ رکھا جاتا۔ ایک دفعہ اماں ایک روٹی اور سالن کی پلیٹ بچا کر کمرے میں لے گئیں، مگر مہتاب تائی کی نظر پر گئی اور گھر میں بھونچال آ گیا۔
وہ باتیں سنائیں مسرت کو ایسے ایسے چوری کے الزامات و القابات سے نوازا کہ مسرت پھر کبھی اس کے لیئے کچھ نہ بچا سکیں۔ تائی یہ سب اس لیئے کرتی تھیں۔ تا کہ وہ ٹیوشنز چھوڑ دے اور جو پندرہ سو روپیہ اسے ٹیوشنز کا ملتا ہے وہ نہ ملا کرے۔
اور ٹیوشنز کی اجازت بھی تو اسے کتنی منتوں سے ملی تھی۔ جب سب کے سامنے ہی اس نے پوچھ لیا تھا تو شروع میں تو سب ہی اکھڑ گئے۔ لیکن اس کا فقرہ کہ ٹھیک ہے میری پاکٹ منی نکالیئے، لیکن وہ اتنی ہی ہو جتنی سدرہ اور مہرین آپی کو ملتی ہے۔
کیونکہ اگر مجھے پاکٹ منی نہ ملی تو میں سدرہ اور مہرین کے ہر اچھے اور مہنگے جوڑے کو آگ لگا دوں گی۔
اور وہ پہلی دفعہ اتنی جنونی ہو کر بولی تھی کہ مزید دس منٹ کی بحث کے بعد اسے اجازت مل ہی گئی تھی اور ابھی جو اماں نے یاد دلا دیا کہ وہ لوگ ان کا مال کھاتے ہیں تو وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ کچھ ایسا ضرور ہے کہ آغا جان اس بیس سال کی لڑکی سے خائف ہیں۔ اگر کبھی وہ اپنا حصہ مانگنے کے لئے کھڑی ہو جائے تو۔ تو کیا ان کا کیس اتنا کمزور ہے کہ وہ عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ نہ کروا سکیں گے۔
اور انہیں ہر چیز محمل کے حوالے کرنی پڑے گی؟اور کیا وہ بیس سالہ لڑکی اتنی با ہمت ہے کہ وہ ان سب کو ان شطرنج کے اتنے ماہر اور چالباز کھلاڑیوں کو اپنی انگلیوں پر نچا سکے ؟
جواب ایک زور دار نہیں تھا۔ وہ کبھی بھی انک خلاف کھڑی نہیں ہوسلتی تھی، لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کبھی اس کے ہاتھ ان کی کوئی کمزوری لگ جائے، کوئی دکھتی رگ جسے دبا کر وہ اپنے سارے حساب چکتا کر سکے، تو کتنا مزہ آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایسی کیا دکھتی رگ ہو سکتی تھی ان کی؟
بات سنو؟مہتاب تائی نے پھر سے کچن میں جھانکا تو وہ اپنے خیالات کی بہکی رو سے چونکی۔
فواد کہہ رہا ہے میٹھے میں چاکلیٹ سوفلے ہونا چاہیئے یوں کرو۔ ابھی ساتھ ساتھ شروع کر دو اور ہاں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیئے بہت عرصے بعد میرے بیٹے نے کسی خاص میٹھے کی فرمائش کی ہے۔ بہت مان و فخر اور تنبیہ بھرے انداز میں کہہ کر وہ پلٹ گئیں۔ اور محمل کے ذہن کی بھٹکتی رو اسی ایک نکتے پر منجمد ہو گئی۔
میرا بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ میرا بیٹا!
تو آغا جان اور مہتاب تائی کی کمزوری دکھتی رگ اور تڑپ کا پتہ سب کچھ فواد ہی تھا۔
اور اگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر دکھتی رگ اس کی انگلی تلے آ جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو؟
محمل!یہ آلو کاٹ دو۔ میرا خیال ہے آلو انڈے کا سالن بھی بنا لیتے ہیں سب شوق سے کھاتے ہیں۔
ہوں۔ وہ سوچ میں گم ان کے قریب آئی اور آلو چھیلنے لگی۔
مسرت نے بریانی کا مسالا بنایا، قیمہ مٹر بھی پکنے کے قریب تھا۔ محمل نے شامی کباب تلے، پھر آلو انڈے کا سالن سلاد رائتہ سب بنا چکی تو مسرت روٹی پکانے لگیں۔
فواد کے لیئے سوفلے بنا کر فریج میں رکھ دیا تھا نا؟
جی اماں آپ فکر ہی نہ کریں۔ وہ مسکرا کر بولی۔ اسے شام لان میں فواد کا خود کو چونک کر دیکھنا اور لمحے بھر کو مبہوت ہونا یاد آیا تھا۔ جو غلطی خاندان کی ساری لڑکیاں کرتی تھی وہ محمل کو نہیں دہرانی تھی اسے اپنی اہمیت نہیں گنوانی تھی، اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔ ۔
ذرا دیر کو وہ ہاتھ روک کر مسرت سے نظر بچا کر باہر لاؤنج میں گئی، جہاں تمام لڑکیاں اس وقت بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں آرزو اسی چست لباس میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی تھی۔
فواد کی بہنیں سدرہ اور مہرین بھی پاس ہی تھیں۔ سدرہ چوبیس برس کی بہت عام شکل کی لڑکی تھی اسی کمی کو پورا کرنے کے لیئے خوب سارا میک اپ اور جیولری گھر میں بھی زیب تن کیے رکھتی۔ سیاہ بالوں میں گولڈن اسٹریکنگ بھی کرا رکھی تھی۔ پھر بھی زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔
تئیس سالہ مہرین کا البتہ قد چھوٹا تھا، کافی چھوٹا اور بال بے حد گھنگھریالے۔ وہ سارا سارا دن اپنے بال سیدھے کرنے یا قد لمبا کرنے کے ٹوٹکے آزماتی رہتی۔ فضہ چچی کی ندا اور سامیہ میں سے ندا بری تھی اور سامیہ چھٹی مگر سامیہ اپنے بے حد لمبے قد کے باعث بڑی لگتی تھی۔ مہریں اس سے اسی باعث خار کھاتی تھی اور سامیہ بھی اپنی ماں کی طرح میٹھی میٹھی باتوں سے سارا دن مہریں کو مزید اھساس دلاتی رہتی۔
ندا شکل کی ذرا اچھی تھی سانولی رنگت پر بڑی بڑی آنکھیں اسے قدرے ممتاز بناتی تھی اور تبھی آرزو اسے نہ پسند کرتی تھی شاید وہ جانتی تھی فواد کے لئے اس کے مقابلے پر سامیہ کمزور جبکہ ندا ایک مضبوط امیدوار تھی۔
فواد کی بہنیں سدرہ اور مہرین تو بی اے کر کے ہی پڑھائی چھوڑ چکی تھی جبکہ بائیس سالہ سامیہ تئیس سالہ ندا بی اے کرنے کالج اور اتئیس سالہ آرزو ماسٹرز کے لئے یونیورسٹی جاتی تھی۔ آرزو مر مر کر پاس ہونے والوں میں سے تھی اور اس کی یونیورسٹی پہنچ جانے کی وجہ آغا جان کی سفارشیں تھی۔ یہ سفارشیں سدرہ اور مہرین کے وقت بھی کام آ جاتی اگر جو انہیں پڑھنے کا رتی بھر بھی شوق ہوتا۔ بات سنیں۔ اس نے بظاہر عجلت میں سب کو مخاطب کیا۔ رات کھانے کے لیے سوفلے بنانا ہے آپ لوگوں میں سے کوئی ہیلپ کرائے گا؟ نہیں۔
آرزو نے ریموٹ سے چینل بدلتے اسے دیکھنا گوارا نہیں کیا۔
ندا اپنے ناخنوں پر کیوٹکس رگڑ رہی تھی، لمبی سی سامیہ فوراً فون کی طرف متوجہ ہو گئی۔ مہرین نے چہرے کے آگے رسالہ کر لیا اور سدرہ بہت انہماک سے اسی وقت ٹی وی دیکھنے لگی۔
چلیں فائن۔ وہ واپس کچن میں آ گئی۔
ڈائننگ ہال میں روز کی طرح کھانا کھایا گیا۔
محمل ہمیشہ کی طرح سب سے آخری کرسی پر بیٹھی تھی جہ آغا جان کی سربراہی کرسی کے بالکل سیدھ میں تھی۔ مسرت ادھر ادھر چیزیں پکڑاتی پھر رہی تھی۔ ۔
میٹھا لے آؤ۔
کھانا ختم کر کے مہتاب تائی نے محمل کو اشارہ کر کے کہا۔ مسرت ابھی جھوٹے برتن اٹھا کر کچن میں گئی تھی۔
میٹھا تو آج نہیں بنا۔ وہ بہت اطمینان سے با آواز بلند بولی تو سب چونک کر اسے دیکھنے لگے۔
مگر۔ ۔ ۔ ۔ فواد نے الجھ کر ماں کو دیکھا۔ میں نے کہا تھا کہ چاکلیٹ سوفلے بنانا ہے۔
محمل یہ کیا بد تمیزی ہے ؟ تایہ اماں نے گھرکا۔
بد تمیزی فواد بھائی آپ یہ کھانے کی ڈشز گنیں۔ بریانی مٹر قیمہ اروی گوشت آلو کباب سلاد رائتہ ذرا گن کر دیکھیں، یہ سب اماں نے اکیلے بنایا ہے، میرے اگزامز ہو رہے ہیں میرے پاس وقت نہیں تھا کہ بناتی آپ کی ان بہنوں سے کہا بھی کہ فواد کے لئے سوفلے بنانا ہے ہیلپ کروا دو مگر سب نے انکار کر دیا۔
اب اتنا سارا کرنا اور اوپر سے میٹھا بنانا ہمارے بس سے باہر تھا، سوری میں کل بنا دوں گی یا میری ماں کی تھکن سے بڑھ کر آپ کے لئے ٹیسٹ ضروری ہے تو میں انہیں کہہ دیتی ہوں۔
اماں اماں اس نے آواز لگائی۔ اور جہاں لڑکیاں بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی اور مہتاب تائی کچھ سختی سے کہنے ہی لگی تھی کہ وہ کہہ اٹھا۔
نہیں نہیں اٹس اوکے۔
میں نے خیال نہیں کیا کی تمہارے ایگزامز ہیں اور ممی!۔
اس نے ماں کو تنبہیی نظر سے دیکھا۔ کچن کا کام صرف محمل اور مسرت چچی کی ذمے داری نہیں ہے اب ساری نواب زادیوں کو بھی کہا کریں ہاتھ تو بٹا سکتی ہیں یہ۔
ہاں تو کرتی تو ہیں۔
ہاں ٹھیک ہے۔ آغا جان نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بات ختم کرنا چاہی۔ جوان بیٹا جو ان سے اونچا تھا، اس کی بات کے آگے انہیں اپنی بات کمزور لگ رہی تھی۔ مہتاب تائی پہلو بدل کے رہ گئی۔
ناعمہ چاچی زیر لب کچھ بڑبڑائی اور تو اور فضہ چاچی بھی خاموش سی ہو گئی تھیں۔ لڑکیاں الگ شرمندہ۔
وہ اطمینان سے فواد کے اٹھنے سے قبل ہی اٹھ گئی۔ مسرت کو برتن اٹھاتے پہلے تو علم بھی نہ ہو سکا کہ کیا ہوا ہے اور جب ہوا تو معافی تلافی کرنے لگیں …۔
اندر آ کر محمل کو بھی ڈانٹا مگر پرواہ کئے بغیر کتابوں میں سر دئیے بیٹھی رہی۔ فواد کے اٹھنے کے بعد یقیناً تائی نے بہت سنائی تھی مگر فواد کے الفاظ کا اثر زائل نہیں کر سکتی تھیں۔ اس کی گھر میں ایک مضبوط حیثیت تھی۔ سو بہت سی خواتین رات کو کڑھتے ہوئے سوئی تھیں۔
صبح کالج بس کے لئے وہ اسٹاپ پر رکھے بینچ پر آئی تو ذہن ابھی تک ادھر ہی الجھا ہوا تھا۔ بینچ پر بیٹھتے ہوے اس نے سرسری سا دیکھا، وہ سیاہ فام لڑکی اسی طرح بیٹھی تھی۔ گود میں رکھی کتاب کے کناروں پر مضبوطی سے ہاتھ جمائے خاموشی سے سامنے دیکھ رہی تھی۔
وہ جمائی روکتی بیٹھ ہی گئی، اور بے دلی سے بس کا انتظار کرنے لگی۔ اس نے وہی کل والا اجرک کا کرتا جینز کے اوپر پہن رکھا تھا۔ اور بال اونچی پونی میں بندھے ہوئے تھے۔ سوچ وہی فواد کے گرد گھوم رہی تھی۔ صبح وہ جلدی نکلتی تھی تب تک وہ نیچے نہیں آیا ہوتا۔
اس کا کمرہ دوسری منزل پر تھا۔ جو تھی تو غفران چچا فضہ چاچی کی آماجگاہ مگر وہ کنارے والا کمرہ فواد کا پسندیدہ تھا، سو وہ اس کو عرصہ پہلے الاٹ کر دیا گیا۔
فضہ چاچی کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا حسن ہی تھے۔ سو وہ کمرہ ان کی ضرورت سے زائد ہی تھا۔ اور یہ تو محمل کا دل ہی جانتا تھا کہ وہ کمرہ تو ابا نے بنوایا ہی اس کے لئے تھا مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیاہ فام لڑکی اسی خاموشی سے سامنے دیکھ رہی تھی۔ وہ بور ہونے لگی تو ادھر ادھر گردن گھمائی۔ سیاہ کتاب دیکھ کر کل کا واقعہ یاد آیا۔
یہ کتاب کب ملی تھی آپ کو؟
بغیر تمہید کے اچانک سوال۔ اس لڑکی نے اطمینان سے گردن اس کی طرف موڑی۔
دو سال پہلے۔
یہ کس نے آپ کے لئے خصوصاً ً چھوڑی تھی؟
ہے کوئی۔ وہ ذرا سا مسکرائی موٹی آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی۔
آپ کو اچھا لگتا ہے ؟ اس نے غور سے اس چمک کو دیکھا۔
بہت زیادہ۔
آپ اسے کافی جانتی تھیں ؟میرا مطلب ہے یہ تو صدیوں پرانی کتاب ہے۔
بس میں جانتی ہوں۔
اور یہ کتاب۔ ۔ یہ آپ کو آپ کا ماضی حال مستقبل کیسے دکھاتی ہے ؟
اس میں سب لکھا ہے۔ گزرے واقعات اور وہ جو میرے ساتھ پیش آنے والا ہے۔ اور مجھے ایسے موقع پر کیا کرنا ہے سب لکھا ہے۔
محمل کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ سیاہ فام لڑکی اسے بہت عجیب بات بتا رہی تھی۔ جانے کیسے پر اسرار بھید بھری کتاب تھی وہ۔
آپ کو اس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے ؟
جتنا تمہاری سوچ سے بھی اوپر ہے۔
تو آپ کے تو بہت مزے ہوں گے ؟آپ اس کو پڑھ کر سب جان جاتی ہوں گی۔
ہاں مگر اس میں کچھ عمل ہیں۔ پہلے وہ پرفارم کرنے ہوتے ہیں پھر ہر چیز ویسے ہی ہوتی ہے جیسے اس میں لکھا آتا ہے۔
عمل؟ عملیات؟ وہ چونکی اندر کوئی الارم سا بجا۔
یہ تو کوئی سفلی علم کی ماہر بیٹھی ہے، اسے تھورا احتراز برتنا چاہیے۔
ہاں۔ سیاہ فام لڑکی مسکرائی۔ جو وہ عملیات کر لے، وہ اس کتاب کے ذریعے دنیا پر راج کرتا ہے، سب لوگ اس کی مٹھی میں آ جاتے ہیں، اور ہر شئے اس کے لئے تسخیر ہو جاتی ہے۔ صرف میں نہیں اگر تم بھی اس کتاب کا خاص علم سیکھو تو تمہیں اس کے الفاظ میں اپنا ماضی حال مستقبل نظر آنے لگے گا۔ ۔
اور۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد ؟ وہ سحر زدہ سی سوال پر سوال کیے جا رہی تھی۔
اس کے بعد تم اس کتاب کو چھوڑ نہیں سکتی، تمہیں اپنی زندگی اس سے باندھ کر ہی گزارنی ہو گی۔
اور اگر میں اسے چھوڑ دوں تو؟
تو تم تباہ ہو جاؤ گی تمہاری ہر چیز ہر محبت، سب تباہ ہو جائے گا۔ اس کو لے کر تم چھوڑ نہیں سکتیں۔ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔
محمل گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ میری بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی پل بس قریب آتی نظر آئی وہ دوڑ کر بس کی طرف جانے لگی۔
تم ایک دن ضرور آؤ گی میرے پاس ۔ سیاہ فام لڑکی مسکرائی تھی۔ تم ایک دن ضرور گڑ گڑا کر یہ کتاب مانگنے آؤ گی۔ میں جانتی ہوں تم لوگوں کی ستائی ہوئی ہو، تمہارا دل زخمی اور ہاتھ خالی ہیں۔ اور جس دن یہ دل پوری طرح ٹوٹ جائے گا میں تمہیں یہ کتاب دے دوں گی۔ جاؤ تمہاری بس آ گئی ہے۔
٭٭٭
شام کو اس نے بہت محنت سے چاکلیٹ سوفلے بنایا اور جب وہ خوب ٹھنڈا ہو گیا تو ٹرے میں سجا کر اوپر سیڑھیاں چڑھنے لگی ابھی دوسری سیڑھی پر ہی تھی کہ آرزو نیچے آتی دکھائی دی۔
یہ کس کے لیے ہے ؟وہ ماتھے پر بل ڈالے لمحہ بھر کو رکی فادی کے لئے ہے ؟
جی انہوں نے کل کہا تو تھا میرے پاس ٹائم کہاں تھا، آج بھی کسی کو یاد نہ آیا تو بنا ہی دیا۔ اس نے بے نیازی سے شانے جھٹکے۔ وہ دوسری سیڑھی پر ٹرے اٹھائے منتظر تھی کہ آرزو نیچے اترے تو وہ اوپر جائے۔
اور ڈنر کی تیاری کر لی تم نے ؟آرزو زینے سے اتر کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
اماں بنا رہی ہیں۔
قورما بنا لیا ہے ؟ممی نے کہا بھی تھا۔ تم نے چیک کیا؟
آپ سیدھے سیدھے کہہ دیں کہ میں چلی جاؤں اور آپ یہ ٹرے فواد بھائی کو دے کر اپنے نمبر بنا لیں تو لیں پکڑیں۔ اس نے ٹرے زور سے اسے تھمائی۔
مجھے اور بھی کام کرنے ہیں اور کھٹ کھٹ سیڑھیاں اتر کر کچن کی طرف چلی گئی۔
بد تمیز۔ وہ بڑبڑائی۔
مگر محمل جانتی تھی اس کی بلند آواز فواد سن چکا ہو گا اور اب آرزو جو چاہے کر کر لے، وہ جانتا تھا کہ کام کس نے کیا ہے اور نمبر کون بنانا چاہ رہا تھا۔
اور پھر یہی ہوا۔
رات کھانے کھانے میں جب مسرت نے چاکلیٹ سوفلے لا کر رکھا تو فواد نے سب سے پہلے کہہ ڈالا۔
یہ تم نے بنایا ہے محمل؟
جی۔ وہ سادگی سے بولی۔
آرزو نے ناگواری سے پہلو بدلا۔
بہت ٹیسٹی ہے، تم ہی روز میٹھا کیوں نہیں بناتی؟
اتنی فارغ نہیں ہوں میں سو کام ہوتے ہیں مجھے ایگزامز ہو رہے ہیں میرا دل کرے گا تو بنا دیا کروں گی ورنہ سب جانتے ہیں محمل سے یہ جی حضوریاں نہیں ہوتیں۔ اماں ایک پھلکا مجھے بھی دیں۔ وہ مصروف سی اماں کے ہاتھ سے پھلکا لینے لگی، جیسے اسے فواد کے تاثرات کی پروا ہی نہیں تھی۔
وہ تائیداً سر ہلا کر سوفلے کھانے لگا مگر بار بار نگاہ بھٹک کر اس کے مومی چہرے پر جا ٹکتی تھی۔ سوفلے کو اس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
وہ کچن میں کھڑی سنک کے سامنے دوپہر کے برتن دھو رہی تھی جب سامنے بڑی سی کھڑکی کے پار آسمان پر سرمئی بادل اکٹھے ہونے لگے۔ وہ ابھی تک اسفنج پلیٹ میں مارتے ہوئے اس سیاہ فام لڑکی کے متعلق سوچ رہی تھی، جس سے وہ گذشتہ کچھ دنوں سے احتراز برت رہی تھی۔ عین بس کے ٹائم پر اسٹاپ پر آ جاتی اور بینچ پر بیٹھنے کی بجائے ذرا فاصلے پر کھڑی ہو جاتی، نہ تو دانستہ اس لڑکی کو دیکھتی نہ اس کے قریب جاتی، معلوم نہیں کیوں اسے اس لڑکی سے اور اس کی کتاب سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
بادل ذرا گرجے تو وہ چونکی۔ نیلگوں سنہری شام پر ذرا سی دیر میں چھایا ہو گئی تھی۔ بجلی چمکی اور یکایک موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں۔ محمل نے جلدی جلدی آخری برتن دھو کر ریک میں سجائے، ہاتھ دھوئے اور باہر لان کی طرف بھاگی۔ بارش دیکھ کر اس کا دل یونہی مچل جایا کرتا تھا۔
محمل جاؤ مسرت سے کہو بلکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تائی مہتاب جو برآمدے میں کرسی پر بیٹھی لڑکیوں سے گپ شپ میں مصروف تھیں اسے آتے دیکھ کر حکم صادر کرتے کرتے رکیں، اس کے چہرے پر بارش میں کھیلنے کا شوق رقم تھا۔ تائی نے لمحہ بھر کو سوچا اور حکم میں ترمیم کر دی۔ بلکہ جاؤ پکوڑے بنا کہ لاؤ ساتھ میں دھنیے کی چٹنی بھی ہو اور معاذ کے لئے آلو کی چپس فرائی کر لو۔
اس کے چہرے پر پھیلا اشتیاق پھیکا پر گیا۔ اس نے قدرے بے بسی سے ان کو دیکھا۔
مگر تائی ابھی کیسے ؟وہ بارش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعد میں کروں گی وہ منمنائی۔
ہاں تو بارش کے لیے ہی تو کہہ رہی ہوں۔ جاؤ شاباش جلدی کرو۔ اور ندا یہ سوٹ پھر تمہیں کتنے کا پڑا تھا؟وہ ندا کے دوپٹے کو انگلیوں میں مسل کر ستائشی انداز میں پوچھ رہی تھیں۔
صرف ڈیڑھ ہزار کا تائی! میں کل ہی آپ کو بھی لے چلتی ہوں، وہاں بہت اچھے پرنٹس آئے ہوئے تھے۔ آپ کا کمپلیکشن تو ویسے بھی فیر ہے، آپ پر تو ہر رنگ ہی کھل جاتا ہے۔
وہ آپس میں مصروف ہو گئی تھیں۔ محمل پیر پٹختی اندر آئی۔
آلو چھیل کر کاٹتے۔ بیسن گھول کر رکھا تو تب تائی مہتاب کی آواز آئی مکس پکوڑے بنانا فواد کو پیاز والے پکوڑے بہت پسند ہیں۔
بھاڑ میں گئی اس کی پسند۔ اس نے زور سے چھری سلیب پر پٹخی۔ آلو قتلوں میں کاٹے تھے اب پھر ان کو چھوٹا کرنا پڑے گا۔ مرچیں پیاز بھی کاٹنے پڑیں گے۔
شدت بے بسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ تب ہی فواد ماں کو پکارتا ہوا کچن کے کھلے دروازے پر ٹھٹک کر رکا۔
کھلی جینز پر لمبا کرتا اور گلے میں مفلر کی طرح دوپٹہ لپیٹے، بھوری اونچی پونی باندھے وہ سر جھکائے کھڑی کٹنگ بورڈ پر ٹھک ٹھک پیار کاٹ رہی تھی۔ آنسو گالوں پر چمک رہے تھے۔
محمل!
وہ بے چین سا قریب آیا۔ کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو؟
میری مرضی آپ لوگوں کو کیا؟آپ لوگوں کو تو اپنے کھانے سے غرض ہوتی ہے۔ فواد کے دل میں جگہ بنانے کے سارے ارادے بھلا کر وہ تڑخ کر بولی۔
پھر بھی کسی نے کچھ کہا ہے ؟
یہاں کہتا کوئی نہیں ہے سب حکم صادر کرتے ہیں۔ اس نے چھری والے ہاتھ کی پشت سے گال صاف کیا۔ اور مجھ سے ابھی کوئی بات نہ کریں، میں بہت غصے میں ہوں یا تو چھری مار دوں گی یا پکوڑوں میں زہر ملا دوں گی۔
اچھا۔ وہ پتہ نہیں کیوں ہنس دیا تھا۔
وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔
آپ کیوں ہنسے ؟
کچھ نہیں۔ خیر بناؤ پکوڑے اور مکس والے بنانا۔ وہ اپنی پسند بتا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔
اس کے آنسو پھر سے بہنے لگے۔ جانے کس بھولے پن میں وہ یہ سوچ بیٹھی تھی۔ اگر وہ اس کی مٹھی میں آ گیا تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے نفی میں سر جھٹکا۔ وہ سب ایک جیسے تھے بے حس خود غرض مطلبی۔
اور جب تک پکوڑے بنے بارش ہلکی ہو چکی تھی۔ وہ سب لڑکے لڑکیاں برآمدے میں بیٹھے دو منٹ میں ہی پکوڑے چٹ کر گئے تھے۔
اور اب حسن سب کو لانگ ڈرائیو پر لے جانے کا پروگرام بنا رہا تھا۔
تم لوگ بھی کیا یاد کرو گے، کس سخی سے پالا پڑا تھا۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھا فرضی کالر جھاڑ کر کہہ رہا تھا۔
حسن فضہ چاچی کا بیٹا اور ندا سامیہ کا بھائی تھا۔ شکل میں ندا سے مشابہ تھا، بڑی بڑی پر کشش آنکھیں اور سانولی رنگت۔ البتہ عادتوں میں وہ کافی مختلف تھا۔ اس نے فضہ کی میٹھی زبان تو مستعار لی تھی۔ مگر کڑوا دل نہیں کیا تھا۔ وہ گھر کا واحد فرد تھا جو دل کا بھی اچھا تھا نرم گو صاف دل اور ہینڈسم۔
ابھی بھی وہ آفس سے آیا تھا۔ اور کوٹ کرسی کے پیچھے ٹکائے آستین فولڈر کیے بیٹھا تھا وہ تھکن کے باوجود سب کو آؤٹنگ پر لے جانے کی دعوت دے رہا تھا۔
کون کون چلے گا؟سامیہ بلند آواز میں پوچھنے لگی تو محمل بھی دل میں مچلتی خواہش کے باعث باہر آ گئی۔
میں بھی چلوں گی۔
سب نے رک کر اسے دیکھا تھا۔
کندھے پر پرس لٹکائے بالوں کو سٹئل سے بینٹ میں جکڑتی آرزو نے، جو اندر سے باہر آ رہی تھی قدرے نا گواری سے اسے دیکھا۔ ان کو بھی یہ شوق ستانے لگے ہیں ؟ اور پھر سب ہی ساتھ ساتھ بہلنے لگے۔ تمہاری جگہ نہیں بنے گی۔
ہم پاپا کی ہائی ایس لے کر جا رہے ہیں۔ سب کی سیٹیں پوری ہیں۔
تم باہر جا کر کیا کرو گی؟سدرہ تمسخرانہ انداز میں ہنسی۔
مہتاب تائی کی فوٹو کاپی۔
بیٹا جان آپ کے تو ایگزامز ہو رہے تھے۔ فضہ چچی بہت فکر مندی اور پیار سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ خوب دل لگا کر پڑھو۔ آپ نے بہت اچھے مارکس لینے ہیں۔ جاؤ شاباش سارے کورس کو کم از کم دو بار ریوائز کرو۔ ابھی شروع کرو گی تو رات تک پورا ہو گا۔
ناں تم نے باہر جا کر کیا کرنا ہے ؟ رات کا کھانا کون بنائے گا؟ ماں الگ ڈرامے کر کے بستر پر پڑی ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے ان کو بس مفت کی روٹی توڑے جاتے ہیں۔
فواد نے لمحے بھر کو کچھ کہنا چاہا، پھر خاموش رہا، اور حسن جو خاموشی سے ساری کاروائی دیکھ رہا تھا بول اٹھا۔
کوئی محمل سے بھی تو پوچھے وہ کیا چاہتی ہے ؟
ہاں اب ہم اس سے پوچھتے رہیں۔ تائی بگڑ کر بولیں۔ حسن لمحہ بھر کو بالکل چپ ہو گیا۔ مگر فضہ نے بیٹے کے جھاڑے جانے کو واضح برا مانا۔
جاؤ تم اندر جاؤ۔ بس اتنا ہی کہہ سکیں۔ تائی مہتاب سے مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
وہ پیر پٹخ کر بھاگ کر کچن میں آئی اور سنک میں سر جھکا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
کافی دیر بعد روتے روتے سر اٹھایا۔ تو کھڑکی کے پار ڈرائیو وے پر ہائی ایس باہر نکلتی نظر آئی۔
اس میں ایک دو لوگوں کی جگہ تو واضح بن جاتی تھی۔
بے اختیار اس کا دل چاہا کہ رات کے کھانے میں زہر ملا دے۔ اور کاش کہ وہ ایسا کر سکتی۔
ساری رات وہ وقفے وقفے سے آنسو بہاتی رہی تھی۔
ٹھیک سے سو بھی نہیں سکی تھی۔ صبح اٹھی تو سر بھاری بھاری سا ہو رہا تھا۔ بمشکل ہی ایک سوکھا توس اور چائے کی پیالی حلق سے اتاری اور باہر نکل گئی۔
اسٹاپ پر معمول کی ٹھنڈی صبح اتری تھی۔ بینچ پر وہ سیاہ فام لڑکی ویسے ہی خاموشی سے سیدھ کی جانب دیکھ رہی تھی۔ گود میں سیاہ جلد والی کتاب رکھی تھی۔ اور اس کے سیاہ ہاتھ کے کناروں پر مضبوطی سے جمے تھے۔
آج وہ قدرے تھکی تھکی اور غمزدہ تھی، سو جا کر بینچ پر بیٹھ ہی گئی۔ دس منٹ ہی کاٹنے تھے تو اتنا کیا احتراز برتنا۔ سیاہ فام لڑکی نے ذرا سی گردن اس کی جانب موڑ لی۔
رات کو ٹھیک سے سوئی نہیں ؟
بس ایسے ہی۔ وہ دوسری جانب دیکھنے لگی۔
سامنے سڑک خالی تھی، دوسری طرف اکا دکا لوگ بس کے منتظر ٹہل رہے تھے۔
لوگوں کی ستائی ہوئی ہو؟
اس نے چونک کر اسے دیکھا۔
آپ کیسے کہہ سکتی ہیں ؟محتاط انداز میں پوچھا۔
تمہارے چہرے پر لکھا ہے، تمہارا دل غمگین اور دل بوجھل ہے۔ تم تکلیف میں ہو اور لوگوں کی باتیں تم سے برداشت نہیں ہوتیں۔ ہے نا؟
معلوم نہیں۔ اس نے بظاہر لاپرواہی سے شانے اچکائے۔ البتہ اندر دل زور سے دھڑکا تھا۔
اور تم مستقبل کے لئے خوف زدہ اور ماضی کے بارے میں غمگین ہو شاید۔
شاید۔ اب کے وہ واضح چونکی تھی۔ بے اختیار ہی لبوں سے پھسلا تھا۔
تم اپنا مستقبل اور تمام پریشانیوں کا حل جاننا چاہتی ہو۔ کچھ ایسا ہو جس سے یہ تمہیں تنگ کرنے والے لوگ تمہارے آگے پیچھے پھرنے لگیں، تمہارا محبوب تمہارے قدموں میں آ گرے مال و دولت تم پر نچھاور ہو جائے، تم سب کو اپنی مٹھی میں کر کے دنیا پر راج کرو کیا تم یہ نہیں چاہتیں؟
ہاں۔ محمل نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ اس کا دل موم کی طرح پگھل رہا تھا۔ وہ سیاہ فام لڑکی اس کی ہر دکھتی رگ ہا تھ میں لے رہی تھی۔ میں یہی چاہتی ہوں۔
اور اگر میں تمہیں کچھ ایسا دوں تو؟
کیا یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتاب؟
اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ اسے لگ رہا تھا وہ زیادہ دیر تک resist نہ کر پائے گی۔
ہاں اگر تم یہ لو گی تو سب تمہاری مٹھی میں آ جائے گا سب کچھ۔
محمل متذبذب سی لب کچلنے لگی۔ اس لڑکی کی باتیں بہت پر فریب پرکشش تھیں۔ اسے لگا وہ جلد ہی پھسل جائے گی۔ بہک جائے گی۔
کیا یہ سب اتنا آسان ہے ؟
شاید نہیں۔ تمہیں اس کتاب کے عمل میں بہت مشکل لگے گی۔ مگر ایک دفعہ سیکھ جاؤ گی تو سب آسان ہو جائے گا۔ زندگی سہل ہو جائے گی۔ اور پھر جن کے لیے تم روتی ہو۔ وہ تمہارے لئے روئیں گے۔ وہ تمہارے پیچھے آئیں گے۔
بس کا تیز ہارن اسے ماحول میں واپس لایا۔ وہ چونکی اور بیگ کا اسٹرپ کندھے پر ڈالے اٹھ کھڑی ہوئی دس منٹ ختم ہو چکے تھے۔
میری بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بس کی جانب بڑھی۔
دل ابھی تک زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔
محبوب قدموں میں۔ لوگ مٹھی میں دولت نچھاور اور دنیا پر راج۔ ۔ ۔ ۔
کیا یہ سب ممکن تھا؟وہ اس کے کہے گئے الفاظ پر سارا راستہ غور کرتی رہی تھی۔ لیکن پھر بار بار خود کو جھڑک دیتی۔
یہ کالے علم سفلی علم جادو ٹونے، چلے وغیرہ برے کام تھے۔ اسے ان میں نہیں پڑنا چاہیئے۔ اسے ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیئے۔
کالج کے دروازے پر اترتے ہوئے اس نے فیصلہ کر لیا تھاک وہ آئندہ اس سیاہ فام لڑکی کے قریب بھی نہیں جائے گی۔ بینچ پر بیٹھے گی نہ ہی اس سے بات کرے گی۔ اسے ڈر تھا اگر اس نے ایک بار پھر اس کی بات سن لی تو شاید وہ اسے قبول کر کے کسی ایسے گم نام رستے پر نکل پڑے جہاں سے واپسی کا سفر نا ممکن ہو۔
٭٭٭
اس دن سدرہ کے رشتے کے لیئے کچھ لوگ آ رہے تھے۔ یہ خبر مسرت نے اسے تب دی جب گھر بھر کی صفائیاں اور لڑکیوں پھرتیاں دیکھ کر ماں کی طرف آئی تھی۔
ورنہ پہلے جب بھی سہ پہر میں لاؤنج کا دروازہ آہستہ کھول کر آتی تو گھر میں سناٹا اور ویرانی چھائی ہوتی اور آج۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لمبی سی سامیہ بانس کی جھاڑو سے چھت کے جھالے صاف کر رہی تھی۔ سدرہ ڈرائنگ روم کی ڈیکوریشن کو از سر نو ترتیب دے رہی تھی۔ ندا ماں کے سر پر کھڑی لان کی صفائی میں مشغول تھی۔ تو مہرین مہتاب تائی سے سر ہلاتی کچھ ہات سن رہی تھی۔
ایک آرزو ہی تھی جو ٹیرس پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی کانوں میں واک مین لگائے کسی میگزین کے ورق الٹ رہی تھی۔ بے پرواہ بے نیاز اور مغرور شکر کہ خوبصورت نہ تھی۔ ورنہ شاید وہ آسمان سے نیچے نہ اترتی۔
رشتہ سدرہ کا ہے اور یہ خود غرض خاندان سارا کا سارا لگا ہوا ہے۔ مطلب؟
اونہہ آہستہ بولو۔ مسرت نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ پھر آہستہ سے بتانے لگی۔ در اصل بھابھی بیگم کا محض اندازہ ہے کہ رشتہ سدرہ کا ہی ہو گا۔ نعمان بھائی کی بیگم نے خصوصاً ً کسی کا نام نہیں لیا۔ سو فضہ کو شاید کوئی امید ہو۔
نعمان بھائی کون؟
تمہارے ابا کے دور کے رشتہ دار ہیں ان کا بیٹا فرقان ایرونائیکل انجینئر ہے۔ بہت اچھا گھرانا ہے اور ایک بیٹی ہے شادی شدہ آسٹریلیا میں رہتی ہے۔ بیگم نعمان نے کسی کے ذریعے کہلوایا ہے۔
اور یہ ساری لڑکیاں اس امید پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید ان کا رشتہ ہو جائے۔ واٹ ربش! وہ تمسخرانہ ہنس کر کمرے کی طرف چل دی۔
شام میں مسرت نے اسے کچن میں مدد کے لیے بلوا لیا تھا۔
اچار گوشت، بریانی سیخ کباب فرایڈ مچھلی اور کیا کچھ کریں گی آپ؟وہ برتنوں کے ڈھکن اٹھا اٹھا کر جھانکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ یہ سب تو تیار ہیں تم میٹھے میں دو چیزیں اور رشین سلاد بنا دو۔ اور چائے کے ساتھ سنکس بھی۔
چائے بھی اور کھانا بھی؟وہ کمر پر ہاتھ رکھے حیرت سے بولی۔ اتنا سب کچھ کس لئے ؟کیا اتنا کال تھا سدرہ باجی کے رشتوں کے لئے ؟
اونہہ آہستہ بولو۔
میں کسی سے ڈرتی تھوری ہوں۔ ابھی جا کر منہ پر بھی بول سکتی ہوں۔
اور تمہارے اس کہنے پر باتیں مجھے سننی پڑتی ہے محمل! وہ تھکن سے آزردہ سی بولیں۔ تو وہ خاموش سی ہو گئی۔ پھر دوپٹے کی گرہ کس کر کام میں جت گئی۔
چائے کی ٹرالی اس نے بہت اہتمام اور محنت سے سجائی تھی۔ اس وقت بھی وہ پنجوں کے بل بیٹھی ٹرالی کے نچلے حصے میں پلیٹیں سیٹ کر رہی تھی۔ جب تائی مہتاب کچن میں کچھ کہتی ہوئی داخل ہوئیں۔ سدرہ ان کے پیچھے تھی۔
سب تیار ہے ؟
جی اس نے بیٹھیے بیٹھے گردن اٹھائی۔ مہتاب تائی قدرے عجلت میں نظر آ رہی تھی۔
ٹھیک ہے سدرہ تم یہ لے جاؤ، اور مٹھائی کدھر ہے ؟میرا خیال ہے چائے کے بعد ہی بات پکی کر دیتے ہیں۔ مٹھائی تب تک سیٹ کر لینا۔
وہ تو رشتہ مانگنے آئی ہیں بات اتنی جلدی پکی کر دیں گی؟ وہ حیرانی سے ہاتھ جھاڑتی کھڑی ہوئی۔
اور تائی بھی کسی اور موڈ میں تھی سو بتانے لگیں۔
ہاں تو اب مزید کیا انتظار۔ لڑکا اتنا اچھا اور خوش شکل ہے۔ اور پھر ہمارے پاس کوئی کمی تھوڑی ہے۔ منگنی آرام سے دو مہینے تک کریں گے۔ اور شادی سال ڈیڑھ تک۔ ایسی دھوم دھام سے شادی کروں گی سدرہ کی کہ زمانہ دیکھے گا۔ ان کے انداز سے تکبر کی بو آ رہی تھی۔
ایک لمحے کو محمل کے دل میں آیا۔ نفیس سی وہ خاتون جو ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہیں سدرہ کو نا پسند کر کے چلی جائیں۔ اور تائی صدمے سے بیمار پڑ جائیں۔ آخر خود پر غاصب لوگ کسے پسند ہوتے ہیں ؟مگر شاید ادھر تو سب پلان ہی بن چکے تھے۔
سدرہ نازک ہیل کی ٹک ٹک کرتی ٹرالی دھکیلتی ہوئی لے گئی۔ اور وہ خالی کچن میں خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ مسرت بھی مہمانوں کے پاس تھی، جانے کیسے تائی کو ان کے گھر کا فرد ہونے کا خیال آیا۔ اور ان کو وہیں بٹھا لیا۔
ٹشو محمل ٹشو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناعمہ چاچی نے زور سے آواز لگائی تو وہ تیزی سے اٹھی۔
ٹشو رکھنا بھول گئی تھی؟اف یہ ٹشو کا ڈبہ اٹھا کر بھاگی، بس لاؤنج میں شیشے کے سامنے رک کر لمحہ بھر کے لیے خود کو دیکھا۔
اونچی پونی سیاہ جینز پر سفید کرتا اور گردن کے گرد مخصوص انداز میں لپٹا تائی اینڈ ڈائی دوپٹہ جسے وہ بہت سے جوڑوں کے ساتھ چلاتی تھی۔ یہ غالباً پچھلی سے پچھلی بقر عید پر بنوایا گیا جوڑا تھا۔ جو ابھی تک خاصا گھس چکا تھا۔
خیر کونسا میرے رشتے کے لیے آئے ہیں۔ شانے اچکا کر وہ ڈراینگ روم کی طرف بھاگی۔
نفیس اور با وقار بیگم نعمان بڑے صوفے پر بری تکلف سے بیٹھیں مسکراتے ہوئے تائی مہتاب کی باتیں سن رہی تھیں۔ اسے آتا دیکھ کر قدرے خوش دلی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
محمل بیٹا آپ اب آئی ہو؟کب سے پوچھ رہی تھی تمہاری تائی سے وہ ایک دم سے گڑبڑا سی گئی۔ لیکن سنبھل کر آگے بڑھ کے ملی۔
اسلام علیکم۔
وعلیکم اسلام۔ اتنی دیر سے پوچھ رہی تھی تمہارا۔
وہ میں۔
وہ میں۔
ہاں آئی نو بیٹا تم اس اہتمام میں لگی ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے جب میں کریم بھائی کی عیادت کے لیے آئی تھی اس اکیلی بچی نے سارا کھانا بنایا تھا۔ وہ اسے پاس بٹھاتے پیار سے دیکھتے، دو برس پرانی بات دہرا رہی تھیں۔
وہ گھبرا کر کبھی تائی کے تنے نقوش کو دیکھتی تو کبھی سدرہ کی متغیر ہوتی رنگت کو۔ وہ تو بس ٹشو دینے آئی تھی۔ پھر اتنا استقبال چہ معنی دارد۔
آپ یہ ڈرم اسٹکس لے نہ بھابھی؟یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تائی نے ان کا دھیان بٹانے کے لیے بولا۔
ارے یہ تو میری فیورٹ ہے۔ محمل تم نے بنائی ہے نا؟ مجھے یاد ہے تم نے اس دفعہ بھی کھانے میں یہ بنائی تھیں۔ اور فری(بیٹی) نے اسپیشلی تم سے ریسیپی بھی لی تھی۔
اور اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ وہ کیا کرے۔
بے بسی و بے چارگی سے وہ سر ہلا پا رہی تھی۔ ادھر تائی مہتاب اب پریشان ہو رہی تھیں۔ یہی تو ہمیشہ سے ہوتا آ رہا تھا سدرہ کے رشتے کے لیے آنے والی ہر مہمان کو وہ مسرت اور محمل کی بنائی ہوئی چیزیں۔ یہ میری سدرہ نے بنائی ہیں کہہ کر پیش کرتیں۔ مگر جانے کب وہ خاتون گھر کی ساری سن گن لانے گئی تھیں۔
بس بھابھی لڑکیاں ماشاءاللہ سب ہی سگھڑ ہیں۔ ہمارے گھر میں۔ فضہ چاچی نے بظاہر مسکرا کر بات سنبھالی مگر قدرے بے چین وہ بھی تھیں۔ کہیں کچھ بہت غلط تھا۔
جی مگر یہ سب تو سدرہ نے بنایا ہے۔ بے چاری صبح سے لگی ہوئی تھی۔ مسرت نے جلدی سے کہا۔ جی جی تائی مہتاب نے تائید کی۔
ویری گڈ سدرہ بیگم نعمان اب باکس پیٹیز لے رہی تھی۔ یہ باکس پیٹیز تو بہت اچھی بنائی ہیں۔ سدرہ اس کی فلنگ میں کیا کیا ڈالا ہے ؟
اور سدرہ کے تو فرشتوں کو بھی پتہ نہ تھا۔ کہ باکس پیٹیز میں ڈلتا کیا کیا ہے۔ وہ ایک دم کنفیوز سی ماں کی شکل دیکھنے لگی۔
در اصل میں کوکنگ کا بہت شوق رکھتی ہوں۔ اور میرے بچوں کا ٹیسٹ بھی بہت اعلا ہے۔ نعمان صاحب خود اچھے کھانوں کے بہت رسیا ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ بہو کے ہاتھ کا ٹیسٹ چکھ کر ہی رشتہ مانگنا۔ ویسے تو آپ کی ساری بیٹیاں ہی ماشاءاللہ پیاری سلیقہ مند ہیں۔ مگر محمل تو مجھے خاص طور پر عزیز ہے۔ سعیدہ آپا نے بتایا تو ہو گا میں کسی خاص مقصد کے لیے آئی ہوں تو اب لمبی چوڑی کیا تمہید باندھوں مہتاب آپا فرقان تو آپ کا دیکھا بھالا ہے اللہ کا شکر ہے ہر طرح سے نوازا ہے اس نے ہمیں۔
بس محمل کے لیے آپ لوگوں کے پاس سوال کرنے آئی ہوں۔ اگر ہو سکے تو اسے میری بیٹی بنا دیں۔
اور مہتاب تائی سے مزید سننا دشوار ہو رہا تھا۔
محمل تم اندر جاؤ۔ انہوں نے بمشکل خود کو نارمل رکھتے ہوئے اشارہ کیا۔ تو وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔
پیچھے کیا باتیں ہوئی۔ کس نے کیا کہا، کب ان خاتون کو کھانا کھلائے بغیر رخصت کیا گیا۔ اور تائی کے بند کمرے میں سب بڑوں کی کیا بات ہوئی، وہ ہر شئے سے دور اپنے کمرے میں کان لپیٹے پڑی تھی۔
اس کا دل کچھ بھی کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ عجیب سی کیفیت تھی۔ جیسے بند غار میں روشنی اور ہوا کا کوئی روزن کھل گیا ہو۔ بے کیف اور روکھی پھیکی زندگی میں ایک دم ہی کوئی خوشگوار اور سرسبز موڑ آ گیا تھا۔
امیدیں پھر سے زندہ ہو گئی تھی۔ اور اسے لگ رہا تھا ایک نئی زندگی بانہیں پھیلائے اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہے۔
ایرو ناٹیکل انجینئیر خوش شکل فرقان ماں باپ کا اکلوتا کھانے کا شوقین۔
اس کے لب آپ ہی آپ مسکرانے لگے۔
٭٭٭
انہوں نے سدرہ کی جگہ میرا رشتہ مانگا کین یو بلیو اٹ؟
میں تو اتنی شاکڈ ہو گئی تھی، اوہ گاڈ اتنا اچھا پرپوزل ہے۔ وہ آنٹی اتنی لونگ اور سویٹ تھیں کہ میں تمہیں کیا بتاؤں اور پتہ ہے ان کا بیٹا ایرو ناٹیکل انجینئیر ہے۔ اور تم میری بات سن رہی ہو کی نہی؟اس نے فائل میں پیپر لگاتی نادیہ کا کندھا ہلایا تو وہ۔ ہاں ہاں بتاؤ پھر کیا ہوا؟ کہہ کر پھر سے صفحہ ترتیب سے لگانے لگی۔
ہونا کیا تھا تائی اماں کی شکل تو دیکھنے لائق ہو گئی تھی۔
اچھا! نادیہ اب انگلش کے ورق الٹاتی کچھ تلاش کر رہی تھی۔ وہ دونوں کالج کے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھیں تھیں۔ محمل اسے کل کی ساری روداد سنا رہی تھی۔
تائی نے تو مجھے فوراً وہاں سے بھیج دیا۔ بے چاری ہر چیز سدرہ نے بنائی کہہ کر پیش کر رہی تھیں۔ مگر وہ آنٹی بھی بہت تیز تھی ایسے پرخچے اڑائے کہ تائی اماں کئی دن تک یاد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میری بات نہیں سن رہی نادیہ۔ اس نے خفا سی ہو کر منہ موڑ لیا۔
نہیں نہیں سن رہی ہوں نا! نادیہ نے بوکھلا کر فائل ایک طرف سیڑھی پر رکھی مگر وہ منہ موڑے بیٹھی رہی۔
اچھا بتاؤ نا تو وہ صاحب مکینکل انجینئیر ہیں ؟میں دو گھنٹے بک بک کر کے تھک گئی ہوں کہ وہ ایرو ناٹیکل انجینئیر ہے تم اگر سن لیتیں تو یہ سوال نہ کرتی، مگر تم اپنی فائل جوڑنے میں لگی ہوئی ہوں۔ وہ بیگ اٹھا کر اٹھی تو نادیہ بھی ساتھ میں اٹھی۔
ارے ناراض تو نہ ہو۔
نہیں یار سیریسلی ناراض نہیں ہوں۔ مجھے یاد آیا، مجھے میڈم مصباح سے ملنا تھا ایک کام کے لیے۔ میں تھوری دیر تک آتی ہوں۔ محمل نے بظاہر مسکرا کر کہا اور مڑ کر چل دی۔ جب وہ تیز تیز سر جھکائے چلتی تھی تو اونچی پونی ساتھ ساتھ ہی ادھر ادھر جھولتی بہت اچھی لگتی تھی۔
چند قدم دور اس نے مڑ کر نادیہ کو دیکھا، نادیہ بہت آرام اور انہماک سے بیٹھی اپنی فائل میں کچھ لکھ رہی تھی۔ وہ تاسف سے آگے کو چلنے لگی۔ کتنی جلدی نادیہ نے اس کی سو کالڈ بیسٹ فرینڈ نے اس کی آخری بات پر یقین کر لیا تھا۔ جیسے وہ واقعی ناراض نہیں ہے۔ حالانکہ وہ جانتی تھی گھر میں اماں اور کالج میں وہ تھی جن سے وہ دل کی ہر بات شیئر کرتی تھی۔ مگر دونوں بے توجہی سے سنتی تھی، کبھی کام میں مصروف ہوں ہاں کہہ دیا تو کبھی سنا ہی نہیں۔
اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ سامنے والے برآمدے کے ایک ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اور اداسی سے سامنے لان کے سبزے کو دیکھ سنہری اور چمکیلی صبح ہر جانب بکھری تھی۔ گھاس پر ٹولیوں کی شکل میں سفید یونیفارم میں لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ کوئی کھانے پینے اور کوئی گپ شپ میں مصروف تھی۔ سب کی اپنی اپنی دنیا تھی اور وہ ان میں مگن تھیں۔
کیا یہی زندگی ہوتی ہے۔ یا کیا اس کی زندگی جیسی مشکل زندگی کسی اور کی نہ تھی۔ اس نے آزردگی سے سوچا تھا۔
کیا مجھے کبھی وہ خوشیاں نہیں ملیں گی جو میں چاہتی ہوں ؟بڑا سا گھر دولت اثر ورسوخ محبت کرنے والا لائف پارٹنر۔ ۔ ۔ کیا یہ سب ایک ساتھ میرے قدموں میں ڈھیر ہو سکتا ہے ؟ اس نے ستون سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ بند پلکوں پر سنہرے خواب اترنے لگے تھے۔ وہ ایرو ناٹیکل انجینئیر یا فواد ان میں سے کسی کی بھی بیوی بن جاؤں تو سب کچھ میرا ہو سکتا ہے۔
سب کچھ میرے قدموں میں ڈھیر ہو سکتا ہے۔ بلند ہر چیز کی بلندی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو وہ عملیات کر لیتا ہے وہ دنیا پر راج کرتا ہے۔
کچھ ایسا ہو کہ تمہیں تنگ کرنے والے لوگ تمہارے آگے پیچھے پھرنے لگیں۔ مال دولت تم پر نچھاور ہو۔ تمہارا محبوب تمہارے قدموں میں آگرے۔
اور اگر میں ایسا کچھ تمہیں دے دوں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں ایک دم سے ہی وہ ساری باتیں اور اس سیاہ فام لڑکی کی چمکیلی باتیں یاد آئی تھیں۔
تم سب کو مٹھی میں کر کے ساری دنیا پر راج کرو کیا تم یہ نہیں چاہتی؟
اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ یوں لگتا تھا وہ لڑکی اپنی بھید بھری آواز میں اس کے پاس سے ہی بول رہی ہے۔
پتہ نہیں کیا کروں۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، ایک لمحے کو اس نے وہ کتاب اس سے مانگنے کا سوچا مگر دوسرے ہی پل خوف کا غلبہ طاری ہو گیا۔
نہیں نہیں پتہ نہیں کونسا سفلی علم ہے اس کے پاس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ان کاموں میں نہیں پڑوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آغا جان کو معلوم ہوا تو ٹانگیں توڑ دیں گے میری۔
وہ خود کو سرزنش کرتی۔ فائل اور بیگ سنبھالے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے اب اس سیاہ فام لڑکی سے کوئی بات نہیں کرنی تھی! بس اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔
البتہ دل کے کسی چھپر خانے میں اس کتاب کو پانے کی خواہش نے بھی خاموشی سے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔
٭٭٭
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں