فہرست مضامین
ماسوا
راجندر سنگھ بیدی
ما سوا
بغلی کمرے سے ہنسی کی آواز آئی۔
میں بدستور اپنا کام کرتا گیا، اگرچہ ’’جیتی بی بی ‘‘ بھی برابر ہنستی گئی۔ جیتی کا کیا تھا ،وہ تو ہنستی ہی رہتی تھی … ایک عام بات، جس پر کوئی مسکرانا تک گوارا نہ کرے، جیتی کے لیے بڑا ہنسوڑ لطیفہ ہوتی تھی—— دیکھیے جی یہ ٹوپ چھڑی پر لٹکاوا ہے یا نہیں۔ اور یہ چھڑی نہیں آدمی ہے— آدمی! اور جیتی کو ہم پڑھے لکھوں کے ’’سلجھے ہوئے‘‘ مزاح نے خراب نہیں کیا تھا۔
جیتی بی بی کے ہنسنے کی آواز میرے لیے غیر متعلق شور ہو کر رہ گئی تھی۔ متعلق اور غیر متعلق شور میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً میں ایک دوست کے نام خط لکھ رہا ہوں جس میں مجھے ایک بدگمانی کو دور کرنا ہے۔ نہیں خط کو جانے دیجیے، شاید اس سے میرا مفہوم واضح نہ ہو سکے۔فرض کیجیے میں ایک نظم لکھ رہا ہوں۔ چاند تاروں کے متعلق ایک نظم، جو ہمارے شاعر اکثر لکھا کرتے ہیں اور جس میں دھندلکے ، اجنبی ، اَگنت، مبہم، بے نام خلا وغیرہ کے سوا کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ لیکن پڑوس کے سردار فتح’’سونہہ‘‘ حویلیاں والے کیرتن سو ہلا پڑھنا شروع کر دیتے ہیں—گگن میں تھال روی چند دیپک بنے، تار کا منڈلا جنک موتی، تو اگلے ہی لمحے سارا آسمان ایک وسیع و عریض تھال کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے جس میں چاندوسورج دِیے بن جاتے ہیں، اور تارے اَن گنت موتیوں کی طرح تھال میں پڑے نظر آنے لگتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایسے ہی وسیع و عریض پیمانے پر بھوکندن کی آرتی اُتر رہی ہے اور پون کا جسیم چنور، دھوپ ملیان کی صورت میں ہل رہا ہے… اب اتنی حسین منظر کشی کے بعد چاند تاروں کے متعلق کوئی کیا لکھے گا؟ برخلاف اس کے سامنے کے سروس اسٹیشن سے دن رات کاریں دھلنے کا شور سنائی دیتا ہے اور مستری بجلی کے فوارے کے ساتھ فحش کلامی بھی کرتا ہے۔ لیکن میں لکھ سکتا ہوں ، پڑھ سکتا ہوں، سوچ سکتا ہوں، بلکہ ایسا شور مجھے زندگی کا قرب، ایک قسم کا تحفظ کا احساس اور— نظم اس کے سوا دیتا ہے اور یوں غیرمتعلق شور میرے لیے ممد و معاون ثابت ہو جاتا ہے…
لیکن آہستہ آہستہ جیتی کا شور ’’متعلق‘‘ ہو رہا تھا — ’’کس کا دیا کھاتی ہوں — ان کا؟‘‘ اور پھر ایک بڈھے کی نامانوس آواز آئی۔ ہمارے گھر میں یہ دوسرا بوڑھا کون ہو سکتا ہے۔ یہ جیتی کے والد کی آواز نہ تھی۔ وہ ہمارے موتی بازار میں آتے تھے،لیکن گاہے ماہے اور وہ بھی قدامت پسند ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹی کے گھر کا کچھ نہ کھاتے۔ اگر کہیں زبردستی کوئی سنگترے کی پھانک منھ میں ڈال دے، تو پورے سنگترے کی قیمت رکھ دیتے اور ہمیں یوں معلوم ہوتا جیسے اچھی خاصی تجارت ہو سکتی ہے اور پھر جب وہ اپنی بیٹی کو نوکروں پر رُعب جماتے اور بچوں کو آیا کی گود میں دیکھتے تو ان کی آنکھوں میں پانی آ جاتا اور وہ پیار کا کوئی شبد کہے بغیر چل دیتے۔ آخر اس کی ضرورت بھی کیا تھی۔ جب اپنا آپ، بچوں کی صورت میں سکھی ہو جاتا ہے تو پھر موت پر کیوں نہ کوئی شادیانے بجائے …… لیکن وہ بڈھا کوئی اور تھا ، ورنہ بابوجی میرے سُسرایسے بلغمی مزاج کے نہ تھے اور نہ یوں ہنستے تھے جیسے کوئی آواز نکل کر ایک تھیلے میں گم ہو جاتی ہے۔ پھر جیتی کی آواز آئی — ’’ان کا دیا کھاتی ہوں؟ یہ تو مجھے پہلے ہی پتہ تھا —— کچھ اور بتاؤ؟‘‘… اور ہنسی……
میں اپنے کام کو ڈالتے ہوئے بغلی کمرے کی طرف چل دیا۔ کمرے تک جانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ دونوں کمروں کے درمیان غسل خانے کے سامنے چھتا ہوا ایک چھوٹا سا برآمدہ تھا، جو زمین سے دو تین فٹ اونچا تھا۔ اس کی سیڑھیوں پر ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا اور اس کے سامنے لوہے کی ایک کرسی پر (جس پر مشکل سے کوئی بچہ بیٹھ سکے) جیتی بیٹھی اپنا ہاتھ اس بوڑھے کو دکھا رہی تھی۔ بوڑھے کا رنگ سًرخ تھا اور اس کے سر پر بے احتیاطی سے بندھی ہوئی گیروئی پگڑی سے مطابقت رکھتا تھا۔ اس کی ڈاڑھی مونچھیں سفید ہونا چاہیے تھیں، لیکن کثیف سے تیل کے استعمال نے انھیں پیلا بنا دیا تھا… ’’بیٹا ہنسو مت، تمھارا ہاتھ ہل جاتا ہے‘‘ — وہ کہہ رہا تھا اور ایک حقیر سے وقفے کے بعد سر کو جھٹکا دیتا تاکہ پگڑی پیچھے نہ گر جائے۔ سر سے پانو تک جوگی ہونے کے باوجود اس کی نسل سادھوؤں اور سپیروں سے یکسر علاحدہ تھی۔ اس میں کوئی ایسی بے نیازی نہ تھی اور نہ ہی تکرار طلب،دودھا دھاری ہونے کے باعث دودھ ہی پر گزارہ کر لیتا تھا — وہ خوش تھا — خوش، بالکل کائنات کا باپ بن کر ، جیتی کا ہاتھ تھامے ہوئے بولا—
’’یہ مارس کا گرڈل ہے‘‘ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہہ رہا تھا۔
یہ’’ ریکھا جو ادھر جاتی ہے، اس کا مطلب ہے تم ٹریول بھی کرو گی۔‘‘
’’کدھر جاؤں گی؟‘‘ جیتی پوچھ رہی تھی وہ کہہ رہا تھا — ’’سمندر کا سفر نہیں، یوں کچھ جاترا معلوم ہوتی ہے۔‘‘
میں نے کہا — ’’جیتی تم اتنا شور مچا رہی ہو کہ میں ……
ابھی میں نے فقرہ بھی پورا نہ کیا تھا کہ جیتی منھ پھُلا کر روٹھ چکی تھی … ’’تمھیں تو بس ٹڈیوں کے بولنے کی آواز بھی روک دے گی۔‘‘ اس وقت تک وہ بوڑھا رمّل اور پامسٹ میری انگلی پکڑ کر مارس کے گرڈل پر رکھ چکا تھا۔
مانتا ہوں ہمارے سماج میں خاوند کا کھوج جل جاتا ہے، لیکن جس آسانی سے وہ بڈھا مجھے جیتی کا شوہر سمجھ گیا تھا، یہ بات میرے لیے کافی حیران کن تھی۔ اور پھر وہ یوں باتیں کرنے لگا گویا مجھے برسوں سے جانتا ہے۔ وہ فوراً میرے ساتھ ایک رشتے میں داخل ہو چکا تھا۔ اس بات کو جانے بغیر کہ میرے باوا کے باوا کا باوا …… یہاں کچھ عقل گم ہو جاتی ہے، ورنہ مجھے یہ کیوں معلوم ہوتا کہ اگر کوئی عورت بھی میری بیوی ہوتی تو اس کی وضع قطع جیتی ایسی ہوتی۔ دس برس ہوئے مجھے بابو جی کا داماد بنے ہوئے، لیکن جب سے بابو جی پیدا ہوئے، میں ان کا داماد تھا۔
تو مارس کے گرڈل کا مطلب تھا کہ کام کرو گے اور کھاؤ گے۔ میں نے کہا ’’اگر یہ گرڈل جیتی کے ہاتھ میں ہے تو اس نے دو تین نوکر رکھے ہیں، جن پر حکومت کرتی ہے، اور خود پلنگ پر بیٹھ کر موزے بنتی ہے۔ اپنے خاندان کے لوگوں کے موزے ختم ہو جاتے ہیں تو اَڑوس پڑوس کے شروع کر دیتی ہے۔ جیتی بول اٹھی’’ نوکر تو نام کے نا، سارا دن ان سے مغز کھپائی ہوتی ہے۔کوئی کام اپنے آپ بھی کرتے ہیں؟‘‘—— تو یہ تھی گرڈل کی تشریح اور پھر موزے … اگر اُس کے ہاتھ کی ریکھا میرے ہاتھ کے ساتھ پڑھی جائے، تب کہیں وضاحت ہوتی تھی۔
لیکن جیتی خوش تھی —— خوش! اُس بڈھے کی طرح۔ وہ دونو ایک دوسرے کے اتنا ہی قریب تھے، جتنا میں ان سے پرے تھا۔ میں ہر روز آسمان سے زمین پر آتا تھا۔ یہ لوگ تھوڑا بہت بھی آسمان کی طرف جاتے تو بے حد خوش ہوتے۔ لیکن میرا آسمان بتدریج اونچا ہو رہا تھا۔ جیتی کے لیے یہ بات پریشان کن نہ تھی کہ وہ میری قسمت کا کھاتی ہے۔ عورت اور کمائی! کچھ طوائفوں ایسی بات معلوم ہوتی تھی۔ باوجود اس بات کے کہ میرے غلاموں کا حلقہ وسیع ہوتا تھا۔ مجھے یہ بات اچھی نہ لگی۔ لیکن یوں اچھا نہ لگنے میں جو اچھا لگتا ہے، اس نخوت کا کوئی کیا کرے۔
تو بڈھے نے جتنی باتیں بتائیں وہ ایسی تھیں کہ ہم ان پر یقین کرنا پسند کرتے تھے۔ کہیں تھوڑا بہت ردّ و بدل ہوتا تھا، لیکن وہ ہمیں پریشان کرنے کے لیے کافی نہ تھا۔ مثلاً یہ کہ روی وار کے دن جو ہم کالی گائے لائے ہیں، یہ پھلے گی نہیں، شاید اسی لیے بچھڑا مر گیا تھا، اور سوا لگوانے کی وجہ سے گائے کا ایک تھن ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا تھا۔ لیکن ایسی بات کو صرف ایک اتفاق کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے اور انسان صاف کہہ سکتا ہے، اس کا قسمت سے کوئی سمبندھ نہیں۔ البتہ دوسری بات جو تشویشناک ہو سکتی ہے وہ یہ تھی ،یوگ بڑا ہو کر ہمیں تنگ کرے گا۔ سوا بھی آٹھ دس سال پڑے تھے یوگ کے بڑا ہونے میں۔
برخلاف اس کے ہمارے حق میں کتنی باتیں تھیں۔ قسمت کی لکیروں اور دماغ کی ریکھا کو کاٹتی ہوئی شہادت کی انگلی کی طرف جھکتی تھی۔ وہاں زُحل کی ایک ’’پہاڑی‘‘ تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ زندگی بھر ہمیں معاش کی فکر نہ ہو گی، اور آخر عمر میں ’’راج دربار میں بڑا مان‘‘ پائیں گے۔ یہ بات بھی مجھے اچھی نہ لگی ، خیر …… دروازے پر ہلکی سی کھٹ کھٹ سنائی دی۔ بابوجی کی آواز تھی۔ انھیں کا انداز تھا کہ دروازے کے شیشوں پر چھڑی سے ہلکی ہلکی ضربیں لگاتے اور کسی کا نام پکارنے کے بجائے ایک رینگتی ہوئی آواز میں ہری او ……و ……و …م کہتے۔
آج بابوجی نے پگڑی بھی ایسی باندھی تھی، جس پر شلوک لکھے تھے۔ ایسی پگڑیاں ہردوار میں ملتی تھیں اور ان کے ایک پلو میں میٹھے چنے، بھُنے ہوئے چاول پرشاد کے طور پر ملتے تھے۔ آج چھڑی بھی مختلف تھی۔ یہ سُکھ چین لکڑی کی بنی ہوئی تھی، جس پر پھوڑے ہی پھوڑے نظر آتے تھے اور یہ چھڑی گھر میں سانپ بھگانے کا بہترین نسخہ تھی۔ جیتی اپنے پُوجیہ پتا جی کی طرف متوجہ ہوئی اور بڈھا اُٹھ کر کھڑا ہو گیا ،گویا وہ پیسے نہیں لے گا۔ البتہ اخبار والے اور کوئلے والے کی طرح مقررہ تاریخ پر چکانے آئے گا۔ لیکن میں کچھ نقدی اس کی مٹھی میں تھما چکا تھا۔
’’یہ میں نہیں لوں گا بٹیا!‘‘ اس نے کہا۔
’’کیوں بابا، کیوں نہیں لو گے؟‘‘
بڈھے نے اپنی رمل اور وہ کتاب جس پر ہندی کے بے شمار زائچے بنے ہوئے تھے، اٹھائی ، اسے چھاڑا ، چوما، آنکھوں اور سر سے لگایا اور اپنی جھولی میں رکھ لیا۔ اس وقت تک اس کی چہرے سے خوشی زائل ہو چکی تھی اور اُداسی کے تاثرات نظر آنے لگے تھے۔ وہ بوڑھا ان لوگوں میں سے تھا، جو خوشی کے وقت خوش اور غمی کے وقت غمگین ہوتے ہیں۔ ایک دن میں دس بار ہنستے اور پانچ چھ بار رو بھی لیتے ہیں اور ایک ہی تاثر کو مستقل نہیں ہونے دیتے۔ بڈھے نے کہا ’’بیٹا! میں پیسے نہیں لوں گا، جو خبرمیں سنانا چاہتا ہوں، وہ اچھی نہیں ہے— ہاتھ دکھاؤ۔
جیتی کے والد اس اثنا میں بڑے اطمینان کے ساتھ کشمیری آسن پر براجمان ہو چکے تھے۔ جیتی انھیں بابا کی باتیں سنا کر ہنس رہی تھی، بوڑھے نے مفاہمت کے انداز سے اس کی طرف دیکھا اور ایک قہقہہ کہیں تھیلی میں گم ہو کر رہ گیا۔ پھر بوڑھے نے سنجیدہ سا منھ بناتے ہوئے کہا ’’بیٹا! بُرا تو نہیں مانو گے، اداس تو نہیں ہو گے۔‘‘میں نے کہا۔ ’’بابا جتنا میں اداس نظر آتا ہوں اس سے زیادہ اور کیا ہوں گا؟‘‘…’’ نہیں نہیں‘‘ بڈھا ہنسا … قریب بابو جی یوگ کی باتیں سن کر اس سے لاڈ کر رہے تھے … باہر جو دروازہ اندرونی صحن میں کھلتا تھا، حویلیاں والے سردار کی آواز اس میں سے ہو کر آ رہی تھی۔ وہ گا رہے تھے —— لال رنگ تس کو لگا —— لال رنگ اسے لگتا ہے جو بہت خوش نصیب ہوتا ہے۔ یہ دوسرے مصرع کا موضوع تھا، لیکن بڈھے نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’یہ ہنستی کھیلتی مورت بس چپکے سے چل دے گی۔‘‘
میں نے گھبرا کر کہا۔’’کیا؟‘‘
بڈھے نے نقدی واپس میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔’’جیتی بہت دیر جیتی نہ رہے گی اور ………‘‘
’’اور؟‘‘
’’اور تمھاری دوسری شادی ہو گی‘‘
یوں تو میں ہر اس بات کو مان لیتا ہوں جس کے لیے میں نے دام دیے ہوں، لیکن سب سے زیادہ اس بات کا قائل ہوتا ہوں، جس کے لیے کوئی دام قبول نہ کرے۔ کوئی آدمی چیز دے اور چل دے تو یہ چل دینا ہمیں کتنا مربیّانہ معلوم ہوتا ہے — حویلیاں والے کی آواز نے مجھے جھنجھلا دیا تھا۔ بوڑھے کی بتائی ہوئی خبر ’’ لال پتنگ‘‘ نہ ہو سکتی تھی۔ لیکن میں اپنے کام کو چھوڑ کر سروس اسٹیشن کے سامنے بوڑھے کو جاتے دیکھا کیا۔ اس کی بغلوں اور اس کی چھاتی پر خاصی چربی ہونے کے باعث بوڑھے کے بازو بے ہنگی کے انداز میں ہل رہے تھے۔ وہ کھڑا رہتا تو میں کچھ بھی محسوس نہ کرتا، لیکن اس نے بات کہی اور چل دیا!‘‘…… وہ سُرخ اور سفید، بھاری بھرکم آدمی اس قدر زندہ تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے موت کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ لیکن اب اس کی چھوڑی ہوئی خالی جگہ شمشان کی طرح بھائیں بھائیں کر رہی تھی — وہ چلا گیا اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس کے بوجھ سے دبی ہوئی سیمنٹ کی سیرھیاں آہستہ آہستہ اپنی سطح پر آ رہی ہیں۔ کوئی تیز لانچ پانی سے گزر جائے تو پانی میں ایک گھاؤ سا پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح مجھے اس بوڑھے کے پیچھے ایک گھاؤ سا نظر آ رہا تھا اور اردگرد کی فضا اس گھاؤ کو پاٹنے کے لیے چاروں طرف سے امنڈتی دکھائی دیتی تھی۔
آج سروس اسٹیشن خاموش تھا۔ اسلامی بھائی ہونے کے باعث سروس اسٹیشن کا مالک جمعہ کے دن دکان بند رکھتا تھا۔ سو آج وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ چند آوارہ کتّے ایک مریل سے کتے کو ڈھکیلتے ہوئے کاروں کے پلیٹ فارم کے نیچے خالی جگہ میں گھس گئے تھے اور اسی دم چلے بھی گئے۔ تو گویا وہاں فقط اس سروس اسٹیشن کی عمارت کھڑی تھی، جس کے پیچھے سیوبیر کا اکیلا درخت پچھلے روز کی بارش میں دھُلا ہوا اپنی سرسبزی سے آنکھوں میں کھبا جاتا تھا۔ بائیں طرف جنگلے کے پیچھے ہوا بھرنے والی موٹر نظر آ رہی تھی اور اس پر ’’ایر‘‘ یعنی ہوا کے حروف انگریزی میں اتنے موٹے لکھے ہوئے تھے کہ ان کے لکھے ہونے میں خواہ مخواہ شک پیدا ہوتا تھا…
بوڑھے نے بات کہی اور چل دیا !… وہ ابھی تک بازار میں اس جگہ پہنچا تھا، جہاں رنگریز اور ان کے شاگرد مل کر پگڑیاں سکھا رہے تھے۔ بوڑھا دم بھر کے لیے صافے کے پیچھے اوجھل ہو گیا۔ لیکن اسی دم پھر سامنے آ گیا۔ ابھی وہ یکے سے بچنے کے لیے گلی کی پناہ میں گیا ہی تھا کہ دو بچّے لڑتے ہوئے بوڑھے سے بھڑ گئے۔ بوڑھے کی پگڑی پیچھے کی طرف سرک گئی، جسے اس نے ٹھیک کیا اور بچوں کو چمکار کر آگے چل دیا — آخر اسے نظروں سے اوجھل ہونا تھا، سو وہ ہو گیا۔
رسوئی سے پلیٹ کے گرنے کی آواز آئی، شاید آیا کے ہاتھ سے گری تھی۔ چونکہ اُسے اکثر بے احتیاطی کے باعث ڈانٹ پڑتی، اس لیے اس کے ہاتھ کانپتے رہتے تھے۔ نوکروں کے کوارٹروں میں جو تیل کا لمپ جلایا جاتا تھا، اس کی چمنی وہ تین چار بار پھوڑ چکی تھی۔ لیکن یوں معلوم ہوتا تھا جیسے جیتی نے پھر اب کے اس کا پلیٹ توڑنے کا قصور معاف کیا ہے۔ کاش پہلی بار جب اس سے چیز ٹوٹی تھی — اس وقت کوئی اس کے گناہ کو معاف کر دیتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی… ہری اوم کی آواز کے ساتھ بابو جی کے پیٹ سے ایک خاص قسم کی آواز نکلی، جو پیٹ کے یکسر خالی ہونے پر پیدا ہوتی ہے، یا بہت کھا لینے کے بعد سننے میں آتی ہے۔ ساتھ ہی پتہ چلا کہ مجھے پکارا جا رہا ہے۔
میں نے کہا۔’’جی آپ مجھے بلا رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں بھاگیرتھ، بات سنو‘‘ —— جیسے میرے اپنے انداز سے آواز آئی ’’جیتی کو کہو ورزش کیا کرے۔‘‘
’’ورزش کیا کرے‘‘ وہ تو پہلے ہی گھر کے کام کاج تلے دبی ہوئی ہے—‘‘
’’لیکن بابو جی—— نوکر بھی بھلا اپنے کام کرتے ہیں۔ جب تک بیوی خود ہاتھ پانو نہ ہلائے، کون جان مارتا ہے۔ اب جو یہ سب پنکھے ، جھلکورے قرینے سے دھرے ہوئے ہیں، نوکروں نے دھرے ہیں؟ ننگا سر لگ کر صوفے کی پشت میلی ہو جائے، کیا مجال جو نوکر کہیں اس پر کپڑا ڈال دیں، یا اُسے پکڑ کر دھو ڈالیں۔‘‘
’’تو یہ دھونے دھُلانے کا کام کون کرتا ہے؟‘‘
’’جیتی۔‘‘
’’یہ تو اچھی بات ہے بیٹا، اصل ورزش تویہی ہے۔ نہ کہ بنا مطلب ناپتے پھرنا شہر کی گلیاں سیر کے بہانے۔‘‘
’’عورت کے لیے سب سے اچھی ورزش گھر کا کام کاج ہے، جس سے اس کا شریر گٹھا رہتا ہے اور وہ بیمار نہیں ہوتی۔ کپڑے دھونے سے بازوؤں اور چھاتی میں طاقت آتی ہے، کام نہ کیا تو موئی ہو جائے گی۔‘‘
جیتی کو پتہ چلا تو وہ بدستور ہنستی ہوئی باہر آئی —— ’’بابو جی آپ بھی حد ہیں۔ آپ کو چاہیے میری طرف داری کریں، آپ اُلٹا مجھے کام کرنے کے لیے کہتے ہیں، تو میں کام نہیں کرتی؟ سارا دن سینا پرونا، کتر بیونت کے علاوہ کپڑے دھونا، حتی کہ برتن بھی مجھے ہی مانجھنا پڑتے ہیں۔ گن آنند کی تو یہ کوشش ہوتی ہے، ذرا بی بی آنکھ اِدھر کرے اور وہ جھٹ سے سارے جھوٹے برتن گرم پانی میں ڈال دے اور مانجھے نہیں، اور جھاڑ پونچھ کر برتونی پر لگا دے۔‘‘
’’تو خود کام کرتی ہے، یہ سُن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی‘‘ — بابو جی کہہ رہے ، لیکن ایک بات سے انھیں بھی اتفاق تھا کہ جیتی کو برتن نہیں صاف کرنے چاہئیں۔ وہ بہو بیٹی سے سر دبوانے، جوتا اُٹھوانے، چلم بھروانے اور ایسے نیچ کام کروانے کے خلاف تھے۔ نہ اپنا نیچے کا کپڑا کسی بہو بیٹی کو دیتے، نہ ان کا اپنے بدن سے چھونے دیتے۔ کہنے لگے ضروری ضروری کپڑے آپ دھونے چاہئیں اور جو بہت ہو جائیں تو ایک کی جگہ دو دھوبی لگا لیے جائیں۔ ایک کو دوسرے کے اوپر لگایا جائے تو یہ لوگ آپس میں لڑتے ہیں اور مالک سُکھی ہو جاتا ہے—— خوب اُپج تھی۔
جیتی نے انگلیوں سے یوگ کی مانگ بناتے ہوئے کہا۔’’وہ ریکھا وِدوان آیا تھا ، کہہ رہا تھا، ہاتھ میں لکھا ہے، کام کرو گی تو کھاؤ گی۔‘‘
’’نہ کرو گی تو بھاگیرد تمھیں کیا کہنے چلے گا؟‘‘ بابوجی نے میری وکالت کی، جیسے کچھ دیر روشنی کی طرف دیکھتے رہنے سے ہر چیز پر ایک لال ، نیلا اور کالا سا دھبّہ نظر آتا ہے اور نگاہ کے ساتھ ساتھ حرکت کرتا ہے، اسی طرح اس بوڑھے کی روشن باتوں نے یوگی، جیتی اور بابوجی کے چہرے کو ایک منحوس رنگ دھبے کے پیچھے چھپا دیا تھا۔ کبھی کبھی جیتی کی شکل صاف نظر آتی۔ وہ کتنی بھولی دکھائی دیتی—— اچھی بیٹی، اچھی بیوی، اچھی ماں — وہ ہنستی رہتی تھی۔ میں نے اس کی ہنسی کو کچلنے کی بہت کوشش کی۔ اس کی مسکراہٹ کا جواب میں نے تیور سے دیا اور ہنسی کا جواب خفگی سے، لیکن وہ ہنستی رہی۔ کیا موت اس ہنسی کو کچل دے گی؟…… وہ بوڑھا رمّال میرے دل کے تالاب میں ایک وزنی پتھر پھینک کر چلا گیا تھا اور مجھے معلوم ہوتا تھا، جیسے کثرتِ تلاطم سے میرے دل کے کنارے دل کے اندر گر رہے ہیں۔
’’گن آنند —— ارے اوگن آنند‘‘ میں نے اپنے آپ سے بچنے کے لیے آواز دی۔
’’جی ہو۔‘‘
گن آنند ایسے ہی بولا کرتا تھا — ’’جی ہو‘‘ میں نے کہا ’’جی ہو کے بچّے ، بابوجی کے لیے حقّہ ڈال دے۔‘‘ جواب میں پھر جی ہو، کی آواز آئی۔اس اثنا میں بابو جی اپنی جیب سے تمباکو نکال چکے تھے اور میری طرف بڑھا رہے تھے۔ پڑوسیوں کا موزہ، جیتی کی سلائیوں پر لمبا ہوتا جا رہا تھا۔ جب وہ تیسری سلائی ڈالتی اور دایاں، بایاں ہاتھ اکٹھا جھٹکتی ، تو ساتھ ہی اس کے پتلے پتلے ہونٹ سمٹ جاتے۔ میری نگاہوں کے قریب سے کہیں ایک کرن اس کے ہونٹوں پر پہنچ کر کھیل جاتی —— اس وقت وہ بابو جی کی طرف اشارا کرتی اور میں چھپ جاتا۔ پہلے میں جیتی بیٹی کو دیکھ رہا تھا، بھر جیتی ماں کو دیکھنے لگا —— اب میرے سامنے جیتی تھی — عورت!… میری نگاہیں اس کے خوبصورت جسم، اس کے بت کی پیمائش کرتی ہوئی کولھوں پر آ رُکیں۔ درزی نے بانات میں سے دو دو ریشے کھینچ کر کمر کے قریب قمیص کو کس دیا تھا اور جیتی کے اوپر اور نیچے کے جسم کی حد بڑی صفائی سے باندھ دی تھی۔ درمیان کا جسم کپڑے کے نیچے یوں معلوم ہو رہا تھا گویا ایک بھوری سی بلی آگ کے پاس سے اُٹھ رہی ہے اور کمر کو باقی جسم سے اوپر اٹھا کر کھڑی اکڑ رہی ہے … اور اس کے بعد یوں نظر آنے لگا جیسے بہت بڑے پیندے والی ستار پڑی ہے …
اس وقت تک گن آنند بابوجی کے لیے حقہ ڈال چکا تھا، بلکہ بابوجی بھی تمباکو چلم میں پھینک چکے تھے۔ جیتی میری نگاہوں کی تاب نہ لا کر شرما چکی تھی۔ بیٹی اور ماں کی صورت میں جو وقار جیتی کے چہرے پر ہوتا تھا ، ایسا ہی وقار عورت ہونے پر بھی قائم رہتا، بلکہ وہ کبھی یوں سر اٹھاتی جیسے کہہ رہی ہو —— میں ہوں! لیکن میں اپنی نگاہوں کی فحاشی سے اکثر اسے اس کے مفعول ہونے کا یقین دلا دیتا ۔ اس وقت وہ نہایت بے بس ہوتی اور میں اوچھے ہتھیاروں کی مدد سے وہ لڑائی جیت لیتا ،ورنہ قاعدے کی لڑائی میں عورت سے کون کبھی جیتا ہے؟
میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور نئے سرے سے اپنے دوست کی بدگمانی دور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے اس کے نام ایک بے سر و پا لمبا چوڑا خط لکھا، کیونکہ میں اس کی دوستی کی قدر کرتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ محض اس بات پر مجھ سے ناراض ہو جائے کہ میں نے ایک معمولی سی پارٹی میں اس کا تعارف عورتوں سے نہیں کروایا۔ میں جانتا ہوں وہ اس محفل میں محض چائے پینے کی غرض سے نہیں بلایا گیا تھا، اور مجھے عورتوں کے علاوہ اس شام کے مہمان کے ساتھ بھی اسے ملانا چاہیے تھا۔ لیکن قصّہ یہ تھا کہ میں تو مہمانوں کے سواگت میں لگا ہوا تھا اور یہ تعارف کا کام کسی دوسرے کے سپرد تھا۔ یا شاید میں نے اپنے دوست کو بہت اپنا بھی سمجھ لیا تھا اور اس لیے بنا جانے بوجھے مجھ سے یہ غلطی ہوئی …
لیکن میں بہت دیر تک اس خط کے متعلق سوچ بھی نہ سکا۔ اس وقت شام ہو چکی تھی اور دائیں طرف کے مکان میں اوپر کے فلیٹ پر روشنی اور سائے آپس میں گھل مل گئے تھے۔ کمروں میں ابھی بتیاں نہیں جلی تھیں، فقط کچھ دوپٹے اِدھر اُدھر حرکت کرتے نظر آ رہے تھے۔ سامنے سڑک پر پل بھر کے لیے بتی جل اور پھر بجھ گئی۔ معلوم ہوتا تھا بجلی کمپنی والوں نے آزمائشی طور پر ان بتیوں کو روشن کیا ہے۔ میں پھر جیتی کے متعلق سوچنے لگا —— مجھے دوسری شادی کسی قیمت پر منظور نہ تھی۔
میں نے قلم کو میز پر رکھا اور کرسی میں اکڑوں بیٹھ کر دونوں گھٹنوں کو اپنے ہی بازوؤں میں بھینچ لیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بھنگی ،کمیٹی سے باہر تنخواہ لینے کے لیے بیٹھا ہے۔ میری ٹھوڑی بڑے آرام سے گھٹنوں پر ٹکی ہوئی تھی۔ یہ بات نہیں کہ اس ٹھوڑی کو اٹھائے پھرنا مجھے بوجھل معلوم ہو رہا تھا، بلکہ یہ اس لیے تھا کہ اس طور بیٹھنے سے میں مافیہا سے بے خبر سوچ سکتا تھا۔ چنانچہ میں دنیا جہان کی باتیں سوچنے لگا۔ اس دنیا جہان کی باتیں جن سے جیتی متعلق تھی۔
شادی کے بعد پانچ چھ سال تو ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں لگا دیے… میری ماں مر چکی تھی۔ اس لیے مجھ میں خواہ مخواہ یہ احساس پیدا ہو گیا کہ جیتی میرے یتیم بہن بھائیوں کو اچھی طرح نہ رکھے گی۔ مجھے وہ شدید اختلاف کا دن یاد ہے جب جیتی نے میرے بہن بھائیوں کی نسبت مجھے اچھا کھانا دیا۔ میری ہدایات کے خلاف اور میں نے انتہائی غصّے میں برتن باہر پھینک دیے تھے۔
جہاں بھی کبھی اس قدر اختلاف ہوتا تھا، جیتی دب جایا کرتی تھی، حالاں کہ اسے دبنا نہیں چاہیے تھا۔ میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی عورت بہت شوہر پرست ہو جائے اور خاوند کی بے ہودہ باتوں کے خلاف بھی احتجاج نہ کرے، تو شوہر مزید بیہودہ باتیں کرتا ہے، اور کسی بات کو بیہودہ نہیں سمجھتا۔ برخلاف اس کے جب عورت شور مچاتی اور محلے والوں کو اکٹھا کر لیتی ہے اور نام نہاد شرافت سے سہمی نہیں رہتی، تو مرد زیادہ سے زیادہ ایک دو بار ایسا شور بپا ہوتے دیکھتا ہے، اس کے بعد وہ راہ راست پر آ جاتا ہے۔ ہر شخص میں جھگڑے سے بچنے کی قدرتی خواہش ہوتی ہے۔ اس امتحان کے باوجود اگر کوئی مرد جھگڑالو ثابت ہو، تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں، سوائے اس کے کہ مرد ، عورت علاحدہ علاحدہ ہو جائیں — اس دن بھی محلے کے لوگ اکٹھے ہو گئے، عورتوں اور مردوں نے مل کر مجھے شرمسار کیا —— اور میں خود ہی جا کر سڑک پر سے برتن اُٹھا لایا۔
’’بات یہ ہے ،یہ عورتیں ہی عورتوں کو خراب کرتی ہیں‘‘ وہ کہنے لگیں ’’جیتی نے اگر تمھیں اچھا کھانا دیا ہے تو بہت اچھا کیا ہے۔ یہ تو ایک اچھی عورت کی صفات میں سے ہے۔‘‘جیتی کہہ رہی تھی۔’’گھر بھر میں مرد ہمیشہ سب سے اچھا کھاتا اور سب سے اچھا پہنتا ہے، اس کے بعد کسی کی باری آتی ہے۔ میں اپنے بچے کو وہ کھانا نہیں دیتی جو آپ کو دیتی ہوں —— ہاں اگر میرے اپنے بچے اور تمھارے بہن بھائیوں کے کھانے میں فرق ہو تو مجھے چوٹی سے پکڑ لو…‘‘
اس وقت جب میں یہ باتیں سوچ رہا تھا، تو پھر چھڑی کے زمین پر لگنے کی آوازیں آئیں۔ معلوم ہوا بابوجی اپنے ہاں جا رہے ہیں، اور ان کی سکھ چین ایک باقاعدہ وقفے کے ساتھ زمین پر پڑ رہی تھی۔ جاتے ہوئے بھی ہری اوم کی آواز کانوں پڑی۔ اس وقت وہ اکیلے نہیں جا رہے تھے، بلکہ یوگ کو بھی اس کے ننہیال لے جا رہے تھے۔ کمرے کا پٹ آہستہ سے کھلا اور آواز آئی —— ’’بھاگیرتھ بیٹا! میں جا رہا ہوں—‘‘
میں نے وہیں سے آواز کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا …’’ پھر کب آؤ گے با،جی؟‘‘
’’اب جیتی کو کہو نا ،دو تین مہینے کے لیے ہمارے ہاں چلی آئے۔‘‘
’’اب بھی تو آپ ہی کے ہاں ہے‘‘
’’نہیں میرا مطلب ہے‘‘— بابو جی کہہ رہے تھے — ’’میں اس سال وشنو دیوی جا رہا ہوں۔ جیتی بھی میرے ساتھ چلی جائے۔‘‘
’’اچھا ، با،جی—— ابھی راستہ کھلنے میں دیر ہے، سوچ لیں گے— پرنام!‘‘
یوگ نے دروازے سے منھ نکال کر مجھے لکڑی کا انجن دکھایا۔ یہ غالباً بابوجی لائے تھے۔ انجن دکھاتے ہی وہ اونچی آواز میں ہنس کر اپنے نانا کے ساتھ ہولیا، میں کُرسی میں ذرا سا ہلا تو اُسے خیال آیا کہ میں اُسے ننہیال نہیں جانے دوں گا، اس لیے وہ فوراً بھاگ گیا۔
جیتی ایک خدا داد ذہن کی مالک تھی۔ وہ معمولی سی ہندی جانتی تھی اور بس۔ اسے کسی طور پر پڑھے لکھے ہونا نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے باوجود میں کبھی اُسے انگریزی فلم دیکھنے کے لیے لے جاتا تو وہ فلم کی ساری کہانی سمجھ جاتی۔ جزوی تفاصیل اور گفتگو کے متعلق وہ لغزش کھا جائے تو کھا جائے، لیکن چیز کا مفہوم اور کہانی کے مرکزی خیال پر پہنچتے ہوئے اسے کبھی دیر نہ لگتی۔ بلکہ جب کبھی میں اپنی عادت کے مطابق بے توجہ ہوتا اور اس سے پوچھتا — اب کیا ہوا تو وہ چند لفظوں میں تسلسل قائم کر دیتی… لیکن ان خوبیوں کے باوجود جیتی میں شدید نقائص تھے۔ مثلاً یہ کہ وہ کسی کی پوری بات نہ سنتی تھی۔ درمیان میں بولنے لگتی ۔دوسرے یہ کہ وہ جھوٹ کو بالکل برداشت نہ کرسکتی تھی۔ وہ فوراً دروغ باف کے منھ پر کہہ دیتی کہ یہ جھوٹ ہے، حالانکہ یہ اخلاق کے منافی ہے— جھوٹ اس کی برداشت سے باہر تھا، اس لیے رشتے دار اُس سے نالاں رہتے تھے۔ وہ لاگ لپٹ کے ساتھ بات کرتے تھے۔ لیکن جیتی انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
میری عادت ہے میں حالات کا مقابلہ کرنے سے جی چراتا ہوں۔ مثلاً مجھے اپنے کرایہ دار سے کرایہ مانگنا پڑے تو میں اس سے نہیں مانگوں گا، تا وقتیکہ وہ مجھے خود نہ دے دے، یا کوئی ایسی بات کرنے سے احتراز کروں گا جس سے میرے دل کا امن و امان تباہ ہو جائے۔ لیکن ایسے میں جیتی عین مقام پر پہنچ کر دو ٹوک فیصلہ کر دیتی ہے۔ جہاں میں امن و امان کے متعلق سوچتے رہنے سے اپنے دل کا سکون کھو بیٹھتا ہوں، وہاں وہ لڑ جھگڑ کر ایک مستقل قسم کے سکون کی بنیاد رکھ دیتی ہے۔ جیتی میرا مرد ہے اور میں اس کی عورت ہوں…… اور میں کیسے برداشت کرسکوں گا کہ یہ عورت مر جائے اور میں دوسری شادی کر لوں۔
سردار فتح سنگھ حویلیاں والے دروازے میں نمودار ہوئے اور میرے خیالات کا سلسلہ تھوڑی دیر کے لیے منقطع ہو گیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جو ڈاکیہ غلطی سے ان کے برآمدے میں پھینک گیا تھا۔ میں نے کہا —— ’’شکریہ سردارصاحب!‘‘ سردار صاحب جواب میں مسکرا دیے، اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر بولے، گویا کوئی بات اتفاقاً یاد آ گئی ہو — ’’آج نہیں اُڑے گی کیا؟ ‘‘میں نے کہا ’’سردارجی! آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘… ’’اچھا، اچھا—ہاہا، اچھا۔‘‘ سردار صاحب کو اتفاقاً یاد نہیں آئی، بلکہ وہ کچھ دیر پہلے ضرور اس کے متعلق سوچتے رہے ہوں گے۔ گذشتہ بارش کے روز سے انھوں نے ابر سے خوب فائدہ اٹھایا تھا اور آج بھی بادل آسمان پر اِدھر اُدھر بکھرے نظر آ رہے تھے، جنھیں سردار صاحب اپنے تخیل میں یکجا کر رہے تھے۔ شام کے وقت دھند آسمان سے نیچے اُتر آئی تھی اور سڑک پر بجلی کی بتی ایک محدود سا رقبہ روشن کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کرسکتی تھی۔ فقط سروس اسٹیشن اور سیوبیر کے درخت، دو بلند قامت سایوں کی صورت میں نظر آ رہے تھے۔
مجھے خیال آیا کہ اگر جیتی میری جگہ ہوتی تو اس لفافے کو بھی محض مجھ تک آنے کا ایک بہانہ سمجھتی۔ یہاں پہنچ کر جیتی سے مجھے اختلاف ہو جاتا ہے اور میںاِسے شرافت نہیں سمجھتا۔ اوّل تو کوئی وجہ نہیں کہ کسی کو ثبوت کے بغیر مجرم سمجھاجائے اور بالفرض اگر ایسی بات حویلیاں والے سردار کے دماغ میں آئے بھی، تو یہ ایک معمولی کمزوری ہے جسے کسی انسان کو جتا دینا بہت برا ہے …
میں نے لفافہ کھولا، کلدیپ کی چٹھی تھی۔ میں ابھی جو خط لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا، اسی کے نام تھا، اسی کی ایک غلط فہمی کو دور کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس نے یہ خط لکھ کر میرے ساتھ ہمیشہ کے لیے تعلق توڑ لیا تھا۔ میرا کلیجہ میرے منھ کو آ رہا تھا۔ میں نے بآواز بلند کہا —— ’’گن آنند‘‘ جواب آیا ’’جی ہو۔‘‘ لیکن میں اپنے چائے پینے کے ارادے کو زبان پر نہ لا سکا۔ ابھی ابھی کمبخت کام کر کے ہٹے ہوں گے اور پھر خدا جانے چینی بھی ہے یا نہیں — آخر انسان کے بچّے ہیں۔ انھیں دو گھڑی تو آرام کرنا چاہیے۔
لیکن دروازہ آہستہ سے کھلا اور مجھے جی ہو مجسّم کھڑا نظر آیا۔ میں نے اس کشمکش کو اتنی توجہ کے قابل نہ سمجھا اور میں نے کہا ! بھئی اگر چائے کی ایک پیالی مل جائے تو …… گن آنند نے کہا ’’بی بی تو پہلے ہی چائے بنا رہی ہے‘‘ میں نے کہا — ’’اچھا ، اچھا —‘‘
اور پھر وہی خط، آخر اس شخص نے میری زندگی سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مجھے ایک دھچکا لگا۔ پھر میں نے کہا چلو اچھا، یہ بھی قصّہ پاک ہوا۔ ہر روز یہ آدمی میرا وقت ضائع کیا کرتا تھا۔ اگرچہ باتیں بڑے کام کی کہتا تھا، لیکن آدمی کہی ہوئی باتوں سے کب سیکھتا ہے۔ جب تک اُسے خود تجربہ نہ ہو، وہ کب کسی چیز کا قائل ہوتا ہے؟
کلدیپ بھی جیتی کی طرح خدا داد ذہن کا مالک تھا اور پھر اس پر پڑھا لکھا آدمی مجھے وہ دن یاد آئے، جب میں انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر اس کے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ کلدیپ اخلاق کا مجسمہ تھا، لیکن اس معمولی سی بات پر اُس نے مجھے الوداع کہنا مناسب سمجھا……
ایک دن میں نے اُسے کہا ’’کوئی آدمی جھوٹ بول رہا ہو اور تمھیں پتہ چل جائے کہ وہ سراسر دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے، تو کیا تم اُسے ٹوک دو گے؟‘‘
کلدیپ نے کہا ’’موقع کی بات ہے۔‘‘
ظاہر ہے، میرے من میں اس وقت بھی جیتی ہی تھی۔ چنانچہ میں نے اپنے ایک بوڑھے دوست کا قصّہ سنایا۔ میں نے کہا ’’رفیق ہے نا میرا دوست، وہ ایک دن قصّہ سنا رہا تھا کہ میں اپنے ایک دوست کے ہاں جایا کرتا تھا۔ اگرچہ یہ بات مخرب الاخلاق نظر آتی ہے لیکن بابا دل ہی تو ہے—— اس دوست کی بہن سے میری محبت ہو گئی۔‘‘میں نے کہا بھئی ہاں —— ’’ ممکن تو ہے۔‘‘ رفیق نے کہا — ’’یہ سرینگر کا واقعہ ہے۔ میرا دوست ایسے مکان میں رہتا تھا جس کا دروازہ دریائے جہلم کی طرف کھلتا تھا‘‘ —— میں نے کہا —— ’’ہاں دروازہ بھی جہلم کی طرف کھل سکتا ہے!‘‘
میں نے کلدیپ کو صاف صاف کہہ دیا کہ رفیق کے گذشتہ اطوار کی بنا پر میں نے یہیں سے اس کی داستان پر شک کرنا شروع کر دیا تھا۔وہ حکایت میں حقائق کا رنگ دینا چاہتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ اس میں رومانی کیفیات بھی پیدا کرے— اگر ہم وِسکی کا گھونٹ پی لیتے تو یہ واقعہ ضرور شام کے وقت ہوتا ،جب کہ سورج جہلم پر غروب ہو رہا ہوتا ہے اور اس کی شعلہ باری پانی پر آہستہ آہستہ مدھم ہوتی نظر آتی ہے… یہی جگہ تھی جہاں کلدیپ نے مجھے ٹوک دیا اور کلدیپ کا زاویہ نگاہ بھی وہی تھا جو میرا تھا۔ اس منزل پر اس کی داستان میں شک کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا تھا۔ یہ صریحاً غنڈہ گردی تھی۔ بہرحال رفیق نے اپنی بات کو جاری رکھا اور بولا—
’’ایک دن امرسنگھ کالج میں میچ تھا اور مجھ یقین تھا کہ کنیزمٹنو —(یہ اس لڑکی کا نام تھا) کا بھائی ضرور میچ دیکھنے کی غرض سے گیا ہو گا، کیونکہ وہ ایسی پُر رونق جگہوں پر جانے کا بہت شوقین تھا، بلکہ میں نے اسے امیراکدل پر جاتے بھی دیکھا تھا۔ میں نے کہا، آج بڑا سنہری موقع ہے اظہارِ محبت کا۔ میں اپنی تمام ہمت کو جمع کروں گا، اور اس کے سامنے اپنے دل کا ماجرا کہہ سناؤں گا… میں آہستہ آہستہ کنیز کے ہاں پہنچا۔گھر بھر میں میری بے تکلفی تھی۔ میں پردے ہٹاتا ہوا بیٹھک میں پہنچا۔ کھڑکی دریا کی طرف کھلی ہوئی تھی اور کمرے کے اندر سے کنیز مجھے نجارچے پر کھڑی نظر آئی— اس وقت سورج ڈوب رہا تھا—‘‘ اور بغیر وسکی کے رفیق نے سورج کو غروب کر دیا، چنانچہ ’’سورج غروب ہو رہا تھا اور اس کی سنہری شعاعوں نے کھڑکی میں کھڑی کنیز کے بالوں کو طلائی مغزی لگادی تھی۔ گویا سچ مچ سنہری موقع تھا اور کنیز کی یہ پیاری پیاری شکل روشنی کے خلاف دھندلی دھندلی نظر آ رہی تھی۔ میں دبے پانوآگے بڑھا اور آخر کی کھڑکی پر پہنچ کر میں نے اسے ایک دم بازوؤں میں لے لیا اور اس کا منھ چوم لیا—— لیکن میں گھبرا کر الگ ہو گیا۔ وہ کنیز نہیں، بلکہ اس کی ماں تھی۔
ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ پہلے رفیق اور میں، اور بعد میں کلدیپ اور میں۔ ایک دو باتیں غور طلب تھیں۔ وہ یہ کہ کہانی کے آخر میں یک دم ایسا پلٹا داستان گوئی کے فن کے اعتبار سے بہت پرانی بات ہو چکی تھی۔ لیکن رفیق بوڑھا ہو چکا تھا اور زمانے کی دوڑ سے پیچھے رہ گیا تھا۔ دوسرے اپنی تمام داستانوں میں رفیق نے محبت میں اپنے آپ کو کامران ہوتا ہوا کبھی نہیں دکھایا تھا۔ محبت بڑے دلچسپ انداز میں شروع ہوتی تھی اور بس یوں ہی ختم ہو جاتی تھی۔ بسا اوقات ناکامی پر اپنی داستان کو ناکامی پر ختم کرنا رفیق کا فن تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اہلِ نظر فوراً اعتراض کریں گے کہ تمھارے ایسی شکل کے آدمی سے کون لڑکی محبت کرسکتی ہے؟ اس لیے وہ حدود کے اندر رہنا چاہتا تھا——کاش! کوئی لڑکی اس سے محبت کرتی تو وہ زندگی میں سچ کے سوا اور کچھ نہ کہتا۔
کلدیپ نے پوچھا — ’’ پھر تم نے اسے ٹوک دیا؟‘‘
میں نے کہا ’’نہیں، اس کے ساتھ جی بھر کر ہنس لینے کے بعد میں نے بھی اسے ایک جھوٹی کہانی سُنا دی۔ اس وقت کلدیپ کھڑا ہو گیا۔ اس نے میرے ساتھ پُر جوش مصافحہ کیا اور بولا ’’بھاگیرتھ، تم بہت بڑے آدمی ہو‘‘ اور میں حیران ہو کر نیچے دیکھنے لگا ……
میں اس تعریف سے مزید لطف اٹھانا چاہتا تھا۔ میں نے کہا — ’’اخلاق کے لیے بہت عالی ظرفی کی ضرورت ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دسترخوان پر اگر مہمان سالن گرا دے تو میزبان کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ کہے — ’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں‘‘ — بلکہ اُسے یوں ظاہر کرنا چاہیے، جیسے اس نے دیکھا ہی نہیں۔‘‘
کلدیپ نے مجھے بتایا ’’میں نے ایسے انسان بھی دیکھے ہیں، جو خود بھی تھوڑا سالن گرا دیتے ہیں۔ کرنل فاکس میرا دوست تھا۔ اس کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے میرے ہاتھ سے چمچہ گر گیا۔میں نے اسی وقت دیکھا، اس کی بیوی میز کے نیچے اپنا چمچہ گرا چکی تھی‘‘…… پھر کلدیپ نے ایک اور داستان سنائی۔ ’’میسوپوٹیمیا میں پرنس آف ویلز نے ہندستانی فوجیوں کے ساتھ کھانا اسی انداز میں کھایا جس میں فوجی کھا رہے تھے۔ حالاں کہ کھانا انگریزی تھا اور ہندی فوجیوں کو اسے کھانے کا سلیقہ نہ آتا تھا۔‘‘
ایسا دوست، کلدیپ میری زندگی سے نکل گیا!کتنا خوش ذوق آدمی تھا، لیکن معمولی سی بات پر ناراض ہو جانا بھی اس کی خوش ذوقی کی علامت ہے؟ کیا یہ غنڈہ گردی نہیں ہے کہ جو شخص پہلے ہی اپنے آپ کو مجرم تصور کرتا ہو، اس کو بتایا جائے کہ وہ مجرم ہے …… اچھا، وہ میری زندگی سے نکل گیا ہے تو نکل جائے اس کا انداز ہمیشہ ناصحانہ ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ مجھے یہ بتانے کی کوشش کیا کرتا تھا کہ مہمانوں کے سامنے پھل چیر کر نہیں رکھنے چاہئیں۔ پھل ضائع بھی ہوتے ہیں اور یہ طریقہ بھی نہیں ہے۔ یوں بھی مہمان اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے کھاتا ہے اور وُوں بھی تھوڑا کھاتا ہے— لیکن جس مہمان کو میں اصرار سے کھلانا چاہتا ہوں، اس کا کیا کروں۔میں کلدیپ کی باتوں کو سن لیتا۔ مجھے اپنے آپ کو کم عقل، کوتاہ بیں مان لینے میں کبھی عذر نہ ہوتا تھا۔ میں ہمیشہ ثانوی درجہ حاصل کر کے خوش ہوتا تھا، اور اس میں مجھے زیادہ راحت اور تسکین ملتی تھی۔
کلدیپ چلا گیا ہے تو میں خورشید کو اپنا دوست بنا لوں گا۔ وہ اچھا آدمی ہے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو اتنا اچھا نہیں سمجھتا۔ ذہنی اعتبار سے وہ اتنا بلند نہیں لیکن جب وہ میرے سامنے تھوڑی سی پی کر بہک جاتا ہے تو مجھے اچھی طرح پتہ چلتا ہے کہ پینا بُری چیز ہے۔ کلدیپ کی مدلّل باتوں سے مجھے پتہ نہیں چل سکتا۔
کیا کلدیپ ایسے دوست کے چلے جانے سے زندگی کا کھیل رک جاتا؟ نہیں … میں سولہ برس کا تھا جب میرے والد فوت ہوئے تھے۔ اس وقت دُنیا مجھے اپنی آنکھوں میں اندھیر نظر آتی تھی۔ میں سمجھتا تھا سب کچھ ختم ہو گیا ۔یوں معلوم ہوتا تھا جیسے میں ایک کنوئیں میں ہوں، جس کے اوپر دیکھنے سے کنارے ملتے معلوم ہوتے ہیں اور جیسے میں نیچے ہمیشہ کے لیے مدفون ہو جاؤں گا … میں گھر کے باہر فرش پر اوندھا پڑا رو رہا تھا۔ بدر َو کے کناروں کی پکی مٹی کو اپنے دل کے ساتھ لگاتا تھا، تو کہیں تسکین ہوتی تھی … ایک چبھن تھی … جلن جو سارے جسم کا احاطہ کیے ہوئے تھی… اس وقت مجھے خیال آیا، کیا اس کے بعد میرا زندہ رہنا ناممکن ہو جائے گا — کیا میرا ہنسنا کھیلنا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا؟ میں بدرَو کے کنارے سے اٹھا اور غسل خانے میں چلا گیا وہاں میں نے ہنسنے کی کوشش کی۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ میں ہنس بھی سکتا ہوں— میں ہنس رہا تھا اور ساتھ کے کمرے میں میرے والد کی لاش پڑی تھی ……
اس کے بعد میری شادی ہو گئی اور بابو جی مجھے والد سے زیادہ عزیز معلوم ہونے لگے۔ میں نے عاطفت کے لیے اپنے سُسر کو قبول کر لیا ۔اب میں ہنستا ہوں، کھیلتا ہوں اور قریب قریب اپنے والد کو بھول چکا ہوں، بلکہ ان کی زندگی میں مجھے اتنی آزادی نہ تھی۔ اب میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں، مجھے کوئی روکنے والا نہیں۔ ایسے، جیسے میں کلدیپ سے علاحدہ ہو کر سبک ہو رہا ہوں اور اگر جیتی ہنستی کھیلتی چلی جائے —— نہیں نہیں!……
اس وقت تک رات پڑ چکی تھی اور کھانا تیار ہو چکا تھا۔ گن آنند، آیا اور پرمیشری نوکرانی، جو برتن توڑا کرتی تھی، گھبرا گھبرا کر اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے۔ انھیں سانس تک لینے کی فرصت نہ تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھر میں بہت سے مہمان آ گئے ہوں، حالاں کہ بابوجی آئے اور یوگ کو بھی ساتھ لیتے گئے، جس کے دم سے گھر کی رونق تھی اور جو ہر لحظہ کوئی نیا قضیہ کھڑا کیے رہتا تھا۔
اس وقت میرا بھی جی چاہنے لگا کہ تھوڑی سی پی لوں اور شمشان کی سی خاموشی میں کچھ ارتعاش پیدا کروں۔ پتاجی کی موت پر آنسو بہاؤں، اور کلدیپ کی فاتحہ خوانی کر لوں۔ سارے بدن میں متواتر سوچتے رہنے سے جو تناؤ پیدا ہو گیا تھا، اسے آسودہ کرنے کو جی چاہتا تھا۔ سردار فتح ’’سونہہ‘‘ اس وقت سونے کی تیاریاں کر رہے تھے اور کیرتن سو بلا کی آواز دروازے کی جالی سے چھن کر مجھ تک آ رہی تھی —کیسی آرتی ہورے بھوکھنڈنا، تیری آرتی اناہتا شبد دا جنت بھیری … اور اِن اَن گنت بھیریوں کی آوازیں میرے کانوں میں گونجنے لگیں۔ الفاظ معدوم ہو گئے اور صرف آوازیں غیر متعلق شور ہو کر میرے تخیل کی معاون ہو گئیں — میں سوچتا رہا — سوچتا رہا…… اس کرسی میں دبکا ہوا، اور ابھی تک کھانے کے لیے مجھے آواز نہیں دی گئی تھی ……
اگر میری دوسری شادی ہو بھی جائے تو میں زندگی کو استوار کرنے سے پہلے اتنی کشمکش نہیں کرسکتا۔دراصل میں اتنا تھکا ہوا ہوں کہ اب دوسری شادی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
لیکن یہ آسان بات ہے۔ آخر شادی کسی پڑھی لکھی لڑکی سے ہو گی، جو ہر بات کو ہمدردی کے نقطہ نظر سے دیکھے گی … پلنگ پر بیٹھی ہے ایک مدراسی دھوتی پہنے، جس کا کنارہ بہت چوڑا اور سیاہ ہے اور یہ پتہ نہیں چلتا، اس کے بال کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور ساری کا پلّو کہاں ختم ہوتا ہے۔ دھوتی کی زمین مٹیالی ہے اور اس کے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تین تین حلقے نظر آتے ہیں۔ اوپر کا حلقہ سیاہ ہے جو پلّو سے مطابقت رکھتا ہے، درمیان کا زرد، اس کے اندر کا سفید، پھر نیلا، اور آخر میں دھوتی کی زمین ابھری ہوئی ہے…
وہ خاموش ہے۔ گنواروں کی طرح نہیں ہنستی اور نہ جھوٹ کو اتنا برا سمجھتی ہے۔ شاید برا سمجھتی ہو، لیکن کہتی نہیں۔ بڑی خاموشی سے مسکرائے جاتی ہے…
میں اس سے کہہ رہا ہوں کہ — ’’میں جیون کی اس دوڑ میں تھک گیا ہوں سکھداں! میں شاید تمھارے ارمانوں کو پورا نہ کرسکوں۔ لیکن میں تمھیں محبت اور سکھ دے سکتا ہوں۔ ایسی محبت نہیں جو شعلہ جوالہ ہو۔ ہاں البتہ ایک دھیمی دھیمی آنچ ،جس میں محبت پختہ بھی ہوتی ہے اور خوش ذائقہ بھی …… تمھیں دو یتیم بچے بھی سنبھالنا ہوں گے اور ان سب باتوں کے جواب میں وہ شرما کر سر ہلا دیتی ہے، گویا اسے سب کچھ منظور ہے!
وہ کہہ رہی ہے —— ’’میرا خیال ہے، تمھارے دوستوں کو کھانے پر بلاؤں۔‘‘
’’ہاں بلاؤ سکھداں! یہ تم نے میرے من کی بات کہہ دی‘‘ —— اور ہم ایک فہرست مرتب کرنے لگتے ہیں۔
دوست آتے ہیں کھانا کھاتے ہیں۔ امریکن اسینڈ ٹافی میز پر رکھی جاتی ہے، اور میرے دوست اسے اسٹینڈ پر سے اُٹھا کر کھاتے ہیں۔ اس خیال میں، کہ کوئی چھلکا اتارنے کی ضرورت نہیں،لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ ٹافی اسٹینڈ سمیت اُٹھائی جاتی ہے اور اسے منھ میں ڈال کر اسٹینڈ رکھ دیا جاتا ہے۔ میں سراسیمہ ہو کر اِدھر اُدھر دیکھتا ہوں۔ سکھداں سب کچھ جانتے ہوئے بھی میرے دوستوں کی طرح غلط طریقے سے ٹافی کھاتی ہے…
اس کے بعد مجھے جانگلو سی ہنسی سنائی دی۔ میرا ماحول اس وقت اس قدر پُرسکون تھا کہ میں جیتی کی ہنسی کو برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ دراصل …… دراصل میں چاہ رہا تھا کہ یہ ہنسی ختم ہو جائے …… مجھے کھانے کے لیے آواز دی گئی۔ میں اُٹھا جب کہ مجھے اپنی نگاہوں کے افق پر وہ بوڑھا رماّل اپنے بازو ہلاتا ہوا گزرتا نظر آنے لگا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید