FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

افسانہ کی ہیئت و ماہیت  (صنفیاتی مباحثہ)

افسانہ پُر اسرار کائنات میں رونما ہونے والے وقوعات اور انسان کی زندگی کے عرصہ میں پیش آنے والی واردات و کیفیات کا بیانیہ ہے۔ روز ازل سے آج تک کائنات سے زندگی کا رشتہ ہموار کرنے کی سعی اور اس کے مختلف پہلوؤں کی ترتیب و تعمیر کے علی الرغم ایک متوازی کائنات کی تخلیق بھی افسانہ نگار کرتا ہے۔

پیش نظر کائنات سر بستہ رازوں کا خزینہ ہے۔ انسان نے درون خانہ رازوں کا انکشاف کرنے کے لیے شعور و فہم کے گھوڑے دوڑانے کے باوجود تخلیق کائنات کا راز آج بھی تلاشِ رائیگاں ثابت ہوا ہے۔ اگر وجہ تخلیق اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز انسان ہے تو یہ التباس اس لیے ہے کہ احدیت اپنی ذاتِ اقدس کی جملہ تجلیات دیکھنے اور اپنے وجود کی صفت کمالیہ ’’کن فیکون‘‘ کے شوق کی تکمیل کے لیے اس عارضی کائنات کو سجانے کی روایت بھی ملتی ہے۔ تمام ادیان اور مذاہب کے پیرو کار اس امر پر متفق ہیں کہ ایک عجیب و غریب، فہم و ادراک سے ماورا پُر اسرار شکتی نے اس دائروی کائنات میں انسان کو مرکزی حیثیت دی ہے۔

علوم و فنون کے تمام شعبوں میں چاہے وہ سائنسی ہوں یا سماجی انسان کی زندگی کے مختلف پہلو کے تعلق سے انسان کے Behaviour کا مطالعہ کرتے ہیں، لیکن ادب میں مجموعی طور سے اس کی حیثیت ارتکازی ہوتی ہے چونکہ اس کا وجود باطنی و خارجی اعتبار سے پر اسراری نوعیت کا ہوتا ہے، اس لیے اس کی نفسیات، جبلت و فطرت کے بے شمار راز ہائے بستہ روز آفرینش سے امروز تک کھولنے کی تگ و دو جاری ہے، پھر بھی اس کی شخصیت کے بیشتر پہلو اخفا بنے ہوئے ہیں انہیں گرہوں (Complexes) کو کھولنے اور گوشوں کی تلاش ادب کی ہر صنف میں موضوع بنانے کی سعی ملتی ہے۔

افسانہ حیات و ممات اور کائنات کی پُر اسراریت کا بیان ہے، اور جب اس میں ثقافتی و تہذیبی عمل شامل ہوتا ہے تو بیانیہ بن جاتا ہے۔ پر اسراریت داستانوں کی روایت سے ماقبل کہانی کہنے اور سننے کے عمل میں داخل تھی۔ یہ عنصر کہانی کی قرأت میں تجسس کو برقرار رکھتا ہے جو افسانہ کے قلب ماہیت کا جُز بھی ہے۔ افسانہ کی واقعاتی ترتیب و ترکیب میں پر اسراریت کے نزول سے ہی ماجرائی کیفیت کی دریافت ہوتی ہے جو کہانی کو ابتدا سے خاتمہ تک قاری کو پڑھنے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔

غزل کا فن، ایجاز و اختصار اور رمز و ایماء کی بنیاد پر دنیائے شاعری کی سلطنت میں تخت نشین ہے۔ اسی طرح افسانہ بھی اپنی صنفی بنیاد پر نزاکت، تہہ داری اور اسلوبیاتی سطح پر خوردہ ہونے سے انکار کرتا ہے۔ چونکہ اس کے خمیر میں جذب و کیف کے ساتھ شعور و ادراک کی کارفرمائی بھی ہوتی ہے، اس لیے نثری کائنات میں بھرپور تخلیقی صنف ہونے کی دعویداری کرتا ہے، اور زندگی و کائنات کی طرح متحرک صنف ہونے کا جواز اس طرح پیش کرتا ہے کہ اردو دنیا میں تولد ہوتے ہی نہایت تیز رفتاری سے ارتقاء پذیر ہو کر فکشن کائنات میں اپنا مقام اور وجود قائم کیا اور اب عالمی افسانوی ادب میں آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت اور صداقت رکھتا ہے۔

انسان کے جسم و ساخت کی تکمیل اعضاء و جوارح کی ترتیب و تنظیم سے ضرور ہوتی ہے، لیکن اس کی قلبی ماہیت روح و انفاس اور ذہن و دل سے ہی تشکیل پاتی ہے۔ اسی لیے اعضائے جسمانی کا پوسٹ مارٹم کر کے انسان کو سمجھنے کی سعی اس کی اصل حقیقت اور عظمت کی بے وقعتی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ افسانے کو عنصری تعمیر کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش بھی اسی طرح کی ہو گی۔ افسانہ برائے کہانی تو ہو جائے گا، لیکن اس کی تخلیقی اہمیت اپنے معنی کھو دے گی۔ اس امر سے اختلاف ممکن نہیں کہ افسانہ کی ماجرائی کیفیت عمل تنفس کی طرح ہے اور اس کی روح کہانی ہوتی ہے۔

ادب میں یہ خیال مستعمل ہے کہ یہ صنف براہِ راست اور بطور کلی انگریزی ادب سے حاصل کی گئی ہے اس کی ہماری افسانوی روایت سے کچھ تعلق نہیں۔ عبادت ؔبریلوی نے لکھا ہے:

’’اردو افسانے کی روایت میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس کے باعث مختصر افسانہ فطری طور پر رائج ہوتا۔ اس کا بیج یہاں کی ادبی زمین میں پھوٹا نہیں بلکہ مغرب سے اس کا پودا لا کر لگایا گیا۔‘‘ (تنقیدی زاویے، اردو افسانے پر ایک نظر، ص 232)

یہ خیال شدید غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے ابتدائی زمانہ میں اردو محققین نے باقاعدہ داستان کہی جانے والی داستانوں میں مرزا تحسین کی ’’نو طرز مرصع‘‘ ملّا وجہی کی ’’سب رس‘‘ کو سب سے پہلی داستان قرار دیا ہے، اس کے علاوہ زریں کی ’’نو طرز مرصع‘‘ یا ’’باغ و بہار‘‘ (۱۸۰۱ء) اور انشا اللہ خاں کی ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ (۱۸۰۳ء) داستانیں سامنے آتی ہیں۔ ان کے علاوہ جو داستانیں تصنیف و تالیف کی گئیں وہ سب کی سب فورٹ ولیم کالج کے منصوبے کے تحت ہیں۔ اس دور کی داستانوں میں میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘ حیدر بخش حیدری کی ’’آرائش محفل‘‘، بہادر علی حسینی کی ’’داستان امیر حمزہ‘‘ مظہر علی ولا اور للو لال جی کی ’’بیتال پچیسی‘‘ کاظم علی جواں اور للو لال جی ’’سنگھاسن بتیسی‘‘ وغیرہ کا نام بطور خاص قابل ذکر ہیں، جو اردو میں باقاعدہ قصے کہانی کی روایت کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ان داستانوں میں مختصر افسانے کی چند خصوصیات ملتی ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ کہانی مشرقی تہذیب کی جبلت میں داخل ہے۔ بر صغیر میں کہانی کی روایت بہت قدیم ہے۔ ہندوستان تو ہمیشہ سے کہانیوں اور کتھاؤں کا دیش رہا ہے۔ یہاں کے مذاہب کی تعمیر و تشکیل میں بھی قصہ اور کہانیوں کی خاص کارفرمائی رہی ہے۔

’’کتھا سرت ساگر‘‘، جو ’’بیتال پچیسی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی، کے علاوہ ’’پنج تنتر‘‘ اور اسی طرز کی دوسری کہانیاں جیسے قدیم افسانوی روایت میں جاتک کہانیاں جو در اصل مہاتما گوتم بدھ کے فرمودات اور حیواناتی تمثیلات کا وسیع سرمایہ ہیں۔ ان کہانیوں میں گوتم بدھ کے مختلف جنموں کا تذکرہ مختلف جانوروں کی شکل میں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی قدیم افسانوی روایات میں فیبلز (Fables) کی روایت بھی بہت مستحکم ہے۔ کہانی کی جڑیں اساطیری حکایات، مذہبی اور سبق آموز قصوں اور قصص الانبیاء میں بھی مل جائیں گی۔ یہ کہانیاں اپنے دور کی سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹے ہیں۔ جن میں علم و حکمت خزانے، پند و نصائح، درس اخلاق، تجربات و مشاہدات کی جھلکیاں اور زندگی کے عرفان کی روشنی دکھاتی ہیں۔

متذکرہ تمام افسانوی روایات اور دستیاب تمام چھوٹی بڑی داستانوں میں تخیلات و تصورات اور رومان و دلکشی کی ایک دنیا آباد ہے، جس کے سحر میں انسان کھو جاتا ہے۔ ان داستانی کہانیوں میں وحدت تاثر نہیں پیدا ہو پاتا ہے، اور کہانی کے آغاز، اس کے بتدریج ارتقاء اور نتیجہ خیز انجام اور تکمیل میں بھی کمی کا احساس ہوتا ہے، لیکن ان میں دلچسپی کا لازمی عنصر ضرور پایا جاتا ہے، جو فکشن کی سب ہی اصناف کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کرداروں کی نقل و حرکت، ترتیبی عناصر ابتدا، وسط اور خاتمہ اپنی بہت سی خامیوں کے ساتھ داستانوں میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ نامیاتی صنفی لوازمات جو افسانہ/ناول کے لیے ضروری قرار دیے گئے ہیں، ان کے لیے زمین پہلے ہی سے ہموار تھی۔ مقامی فضا اور ارضی ماحول میں تہذیبی اور معاشرتی نظام جو انسانوں کے ذریعہ قائم ہوتا ہے فکشن کے لیے صحت مند غذا مہیا کرتا ہے کی بھی کوئی کمی نہیں تھی، صرف مشرق کی طرف نظر ڈالنے کی ضرورت تھی بجائے اس کے کہ مغرب کی جانب دیکھا جاتا۔

اگر اردو ناول نویسی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو اردو ناول اپنے ابتدائی دور میں ہی زندگی کی حقیقتوں کا ترجمان و مفسر تو بن گیا تھا، لیکن داستان کے تخیل، تصور، مبالغہ آرائی اور شعریت سے بالکل آزاد نہیں ہو سکا تھا۔ اسی لیے اردو ناول بہت سی داستانی مبالغہ آرائی اور شعریت سے بالکل آزاد نہیں ہو سکا تھا۔ اسی لیے اردو ناولوں میں بہت سی داستانی کار فرمائی برقرار رہی اس بنیاد پر اردو ناول کو مغرب سے بر آمد کی گئی، خالص مغربی صنف ادب تصور کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ اس تصور کی حقیقت سے انکار کی کافی گنجائش ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اردو داستانوں نے انگریزی اثرات سے متاثر ہو کر ایک ایسی صنف کی صورت اختیار کی جو موضوع، مواد اور واقعات کی حقیقت میں تخیل و تصور اور دوسرے داستانی عناصر کے امتزاج سے وجود پذیر ہوئی ہے، اور اس کے فوراً ہی بعد علامہ راشد الخیری نے اس فن کو ایسی شاہراہ دینے کی کوشش کی جو در اصل ناول کی حقیقی منزل تک جاتی ہے اور پریم چند نے ناول نگاری کے فن کو فروغ و ارتقاء کے ساتھ ہی بام عروج تک پہچانے میں کامیابی حاصل کی۔

راقم پہلے ہی عرض کر چکا ہے کہ یہ بیان کہ صنف افسانہ براہِ راست اور بطور کلی انگریزی ادب سے حاصل کی گئی ہے قطعاً غلط فہمی پر مبنی ہے، اور مغربی تقلید پسندی کا مظہر بھی ہے۔ قصّے کہانی کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت اس لیے حاصل رہی ہے کہ انسان کی نشو و نما اور اس کے ذہنی و شعوری فروغ و ارتقاء میں اس کا نمایاں رول رہا ہے، اور انسان کے فرحت و انبساط کا موثر ذریعہ بھی قصے و کہانیاں رہے ہیں۔ اخلاقی نقطۂ نظر سے بھی ان قصوں کی اہمیت رہی ہے۔ کسی مفکر کا کہنا ہے کہ دنیا نے آج جتنے بھی اخلاقی سبق سیکھے ہیں وہ قصّے، کہانیوں، حکایات اور تمثیل کے پیرائے میں سیکھے ہیں کیونکہ براہِ راست نصیحت کی باتیں سیکھنے سے انسان قاصر رہتا ہے۔ داستانیں اردو میں باقاعدہ قصے کہانی کی روایت کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ان داستانوں میں مختصر افسانے کی چند خصوصیات بھی ملتی ہیں غالباً اسی لیے منٹو نے بھی افسانے کا آغاز ان روایتی قصوں سے مانا ہے۔

’’مختصر افسانے کی روایت تو وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے قصے کہانیوں نے جنم لیا۔‘‘ (نقوش افسانہ نمبر، جنوری، ۱۹۸۵ء)

انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں بھی قدیم قصوں اور مختصر افسانے کی مماثلت کا ذکر ملتا ہے:

’’اگرچہ بیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر مختصر افسانے کے غنائی اور ڈرامائی امکانات کا گہرا مطالعہ کیا گیا، لیکن افسانے کی مخصوص تاریخ اور طویل حکایت سے اس کی مماثلت روایتی ہے۔‘‘

کوئی بھی ادبی صنف خود رو پودے کی طرح خود بخود وجود میں نہیں آتی ہے، اور نہ ہی کسی سیاسی، سماجی یا قدرتی حادثہ یا دباؤ ہی کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ نئے سیاسی و سماجی نظام، نئی تہذیبی اور تمدنی کروٹوں اور زندگی کے بدلتے رویوں کے زیر اثر بتدریج ارتقاء پذیر ہوتی ہے، اور یہ پورا عمل اتفاقیہ ہوتا ہے یا زوال و انحطاط سے دو چار ہو کر دھیرے دھیرے یا تو ختم ہو جاتی ہے یا اس کا چلن کم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر داستان کے ساتھ ساتھ قصیدہ اور مثنوی جیسی شعری اصناف ہمارے سامنے ہیں جو خالص جاگیردارانہ نظام کی دین تھیں اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمہ کے بعد اپنا اثر کھوتی گئیں اور اب تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔

اسی طرح وقت نے کروٹ بدلی، ایک نیا ادبی اور تعلیمی ماحول پیدا ہوا اور اس نئے ادبی، تعلیمی اور فکری حالات و ماحول نے ناول کے ساتھ ساتھ ایک ایسی صنف کا بھی مطالعہ کرنا شروع کر دیا جو کم سے کم وقت میں رومان کی رنگینیوں کے ساتھ زندگی کی سادہ اور پر پیچ حقیقتوں اور فن کار کی تخیل آمیزی سے زندگی کے کسی نہ کسی اہم پہلو کی بھی ترجمانی کر سکے، اور مختلف تجربات و مشاہدات سے بھی روشناس کرا سکے۔ چنانچہ ہندوستان کی لوک کہانیوں، عوامی قصوں اور داستانوں کی روایت کی بنیادوں پر جدید مغربی ادب کی معروف صنف Short Story کے اثرات سے اردو میں بھی افسانہ نگاری کا آغاز ہوا۔

یہاں اس رائج خیال سے انکاری ہونا پڑتا ہے کہ افسانہ براہِ راست مغرب کی دین ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ مشرق میں کہانی /قصہ کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، جبکہ کہانی/ماجرا/قصہ/واقعہ جو افسانہ کی روح گردانا جاتا ہے مشرق میں موجود تھا۔ ادب میں کسی صنف کا کلّی طور سے آنا یا معروف صنف کے اثرات قبول کرنا دونوں بیانوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

اردو افسانہ کی صنف ایک ایسی عمارت ہونے کی دعویداری کرتی ہے جو ہندوستان کی زمین اور بنیادوں پر تعمیر ہوئی ہے اور اس میں استعمال ہونے والے میٹریل بھی ہندوستانی ہیں، لیکن اس کی تعمیر انگریزی نقشے کے مطابق کی گئی ہے۔ اس کے درو دیوار کے رنگ و روغن اور ظاہری حسن و خوبی میں ضرورتاً مغربی انداز اور طریقۂ کار سے کام لیا گیا ہے۔ اور اب تو یہ ضرورت بھی ختم ہو گئی چونکہ اردو افسانہ خود کفیل ہونے کی دعویداری کرتا ہے۔

بہر حال اردو میں مختصر افسانہ اپنے روایتی انداز میں اٹھارہویں صدی میں شروع ہو چکا تھا۔ بحیثیت صنف ادب اس کا تعین اس وقت ہوا جب بیسویں صدی میں انگریزی ادب کے اثرات ہمارے ادب پر پڑے۔

دنیا کی زندہ زبانیں ایک دوسرے کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ ادب ایک بہتا ہوا پانی ہے جس کی رفتار کبھی نہیں رُکتی۔ رجحانات، نظریات، فکریات اور نئی نئی تھیوریز کی آمد اور درآمد کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اب یہ گیت گانا بند ہونا چاہیے کہ افسانہ مغرب سے آیا، ناول مغرب کی دین ہے اور جدید نظم انگریزی سے اردو میں آئی اور حالیؔ اور آزادؔ کے توسط سے اردو ادب میں بالکل نئی شعری صنف کے طور سے متعارف ہوئی، حالانکہ حالیؔ اور آزادؔ تو بعد کی کڑیاں ہیں۔ اس سے پہلے نظیرؔ اکبرآبادی نظم نگاری کی شروعات کر چکے تھے۔ اردو میں مثنوی نگاری کی صحت مند روایت نے نظم کے لیے زمین پہلے ہی ہموار کر دی تھی۔ بیشتر مثنویاں مکالماتی انداز میں لکھی گئیں، مسلسل نظمیں ہیں جو آئندہ نثری میدان میں ڈرامہ نگاری کا آغاز و ارتقاء کا سبب نہیں۔ حالانکہ مشرق کی قدیم ترین روایت میں کالی داس کی ’’شکنتلا‘‘ اور دیگر نظمیہ ڈرامے ہمارے سامنے بطور مثال اور دلیل موجود تھے۔ یہاں یہ بیان بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ ڈرامہ مشرق سے مغرب میں آیا۔ خیر یہ بات جملہ معترضہ کے طور پر آ گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ نظیرؔ اکبرآبادی نے خالص قومی، دیسی اور مقامی نظمیں لکھیں ان کے ارضی اور اجتماعی موضوعات انسانی اور وطنی مسائل سے جڑے تھے جو امن، اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں۔ ساتھ ہی حکیمانہ نکات اور اخلاقی رموز کا موثر بیانیہ ہیں۔ نظیرؔ اکبرآبادی کے آس پاس کے زمانہ میں بنگال میں عبد الغفور شہبازؔ اور دیگر شعراء بھی نظمیں لکھنے میں مصروف تھے۔ تاریخی شواہد کی روشنی میں اس بیان سے بھی انکار کیا جانا ضروری ہے کہ جدید نظم انگریزی کی دین ہے اب تو مغرب بھی موضوعاتی سطح پر نظیر اکبرآبادی کو جدید نظم گو شاعر تسلیم کرتا ہے۔ یاد رہے جدید نظم موضوعاتی بنیاد پر ہی جدید کہلاتی ہے۔

شاعری کے سلسلے میں یہ تصور عام ہے کہ کائنات میں سب سے پہلے شاعری وجود میں آئی، لیکن اس بیان کو عقل تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ لسان و زبان سے آشنا ہوتے ہی انسان نے اپنی ضروریات کا اظہار شاعری میں شروع کر دیا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان با شعور اور تہذیب یافتہ ہونے سے قبل نطق و زبان سے محروم تھا تو وہ اپنی خواہشوں کے اظہار اور ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے اشارے اور کنایوں کا سہارا لیتا ہو گا۔ جب اس کو زبان و بیان سے روشناسی ہوئی ہو گی تو ابتدائی صورت میں نوک زبان پر رائج اسماء کا بیان آیا ہو گا جن اشیاء سے وہ نا آشنا ہو گا اس کے نام اس نے قیاس اور حقیقی صورت کو مد نظر رکھتے ہوئے رکھے ہوں گے۔ پھر افعال بنائے ہوں گے تب کوئی زبان تخلیق ہوئی ہو گی۔ در اصل نئی زبان کا بننے کا یہی طریقۂ عمل (Process) ہے۔ حضرت آدم کی تخلیق پر عزازیل کے اعتراض کا جواب دینے کے لیے خالق کائنات نے انسان کو اسماء کا علم دے کر فرشتوں سے سوال کیا۔ بتاؤ یہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا واللہ اعلم بالصواب چونکہ ملائکہ کو اللہ رب العزت کی جانب سے علم عطا نہیں ہوا تھا۔ اس واقعہ سے کئی نکات سامنے آتے ہیں۔

۱- زبان بننے کے عمل میں سب سے پہلے اسماء بنتے ہیں، دوسرے زبان سیکھنے کے لیے سبق اول اسماء کا علم حاصل کرنا ہے۔

۲- یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ ان سوالات میں ’’یہ‘‘ اور ’’وہ‘‘ اسم اشارہ ہیں، جن کے پاس زبان اور لفظ و بیان سے آشنائی نہیں ہوتی وہ اشارے کنایے سے ترسیل کا کام لیتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبان سیکھنے کی پہلی صورت یہی ہے۔

۳- اس کائنات میں انسان کے ساتھ وسیلۂ اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی زبان ضرور آئی ہے جس وقت روئے ارض پر حضرت آدم علیہ السلام کو اتارا گیا تو ان کی زبان مبارک پر ذکر الٰہی اور دعائیہ کلمات کا ورد ہونے کا مذہبی کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔

۴- روز ازل میں اللہ رب العزت، ملائکہ، انسان اور عزازیل کے درمیان جو مکالمہ قائم ہوا وہ بھی حرف و لفظ کا ذریعہ ہی ہو گا۔ اس میں منظر نامہ، فضاء، مکالمہ، شر و خیر کا تصادم، تجسس، کلائمکس خاتمہ جس میں عزازیل کو ملائکہ کی امامت کے منصب سے معز ولی کا حکم ربی کی نافرمانی، تکبر اور گھمنڈ کی پاداش میں راندۂ درگاہ کر دیا گیا۔ یہاں قرین قیاس ہے کہ افسانہ کی سب سے پہلی دھمک یہیں سنائی دیتی ہے۔

قصوں سے انسان کا ربط و تعلق کچھ نیا نہیں۔ انسان سے اس کی دلچسپی ازلی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس فن کا آغاز مصوری، بت تراشی اور دیگر فنون لطیفہ سے پہلے ہوا۔ عبدالقادر سروری ’’دنیائے افسانہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’(یہ) دنیا کا سب سے قدیم فن ہے جس زمانے میں مصوری، بت تراشی اور دیگر فنونِ لطیفہ مستور بلکہ خیال میں بھی دور تھے۔ افسانہ دنیا سے روشناس ہو چکا تھا اور اپنے منتہائے پیدائش کو بوجوہ احسن پورا کر رہا تھا۔ یونانی نقطۂ نظر سے یہ فن شاعری اور موسیقی سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ اس کی جہانگیری کا یہ حال ہے کہ کائنات کے کسی گوشہ میں ایسی قوم کا پتہ نہیں چلتا جس کے کان قصوں سے نا آشنا ہوں۔‘‘ (دنیائے افسانہ، عبدالقادر سروری، ص: ۲۵)

افسانہ کا آغاز پریم چند سے پہلے ہو چکا تھا۔ باضابطہ پریم چند سے جوڑنے کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ان کے زمانے میں افسانہ زندگی کے قریب ہو گیا تھا، لیکن افسانہ تو ان سے قبل بھی زندگی کے درمیان میں تھا، صرف زندگی کے چند گوشے اجاگر کر رہا تھا۔ پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم اردو افسانے کے مبتدی کہلاتے ہیں۔ پریم چند نے حقیقت نگاری کی علمبرداری کی اور سجاد حیدر یلدرم نے تصوراتی دنیا کے نقشے پیش کیے، زندگی کے مختلف گوشوں کو دونوں سمیٹ رہے تھے۔ لیکن پریم چند نے زندگی کی وسعتوں کو پیش کر کے اردو افسانہ کو رفتار دی۔ ۱۹۳۲ء میں سجاد ظہیر کے مجموعہ ’’انگارے‘‘ کی اشاعت کے بعد افسانے کو نیا رجحان اور نئی جہت ملی۔ اسی زمانے میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر بڑے معرکے کے افسانے تخلیق ہوئے۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری، احمد علی، غلام عباس، بلونت سنگھ، احمد ندیم قاسمی، ممتاز شیریں، اختر انصاری، اختر اورینوی، مہندر ناتھ اور اوپندر ناتھ اشک وغیرہ نے اپنے مذاق و مزاج سے اردو افسانہ کو وقیع بنایا۔ ان تمام فن کاروں کے موضوعات میں اجتماعی شعور تھا۔ سماج میں ہونے والے واقعات و حادثات کو اجتماعی سماجی سیاق و سباق میں پیش کیا۔ ترقی پسندی کے تصور کی جب مقبولیت کم ہوئی تو ۱۹۶۰ء کے بعد افسانے نے روایت سے انحراف کیا۔ اس میں داخلی اور شخصی لے ابھرنے لگی، اظہار و اسلوب کے نئے نئے پیرائے تلاش کیے گئے، زندگی کے نئے تصور نے علامتی اور تجریدی افسانے کو جنم دیا۔ یہ افسانہ ادعائیت پسندی کا حامل اور افسانہ آئیڈیل ازم (Idealism) اور جذبۂ اصلاح، مدعا، مقصد سے عاری تھا۔ اس میں منطقی ترتیب و تنظیم، زمان و مکاں، کردار وغیرہ کی پابندی سے انکار کیا گیا۔ اسی دور میں اینٹی کردار اور اینٹی اسٹوری افسانے لکھے گئے، حیرت ہے کہ افسانہ کا اینٹی اسٹوری ہونا پھر بھی افسانہ ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔ اسی دور میں شاعری اور افسانہ کی زبان میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے بعد کلاسیکی و روایتی افسانے کی بازیافت ہونے لگی۔ غرض افسانہ پریم چند سے انتظار حسین، قراۃ العین حیدر اور سریندر پرکاش تک مختلف شکلیں بدلتا رہا ہے۔ اس کی ہیئت مسلسل بہاؤ میں ہے۔ آج تک نئی ہیئت اور ساخت میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

ہر زمانہ میں افسانہ کی ہیئت، ساخت اور اس کی صنفی لوازمات پر مباحثے قائم ہوئے ہیں، لیکن اس کے منضبط طریقہ یا مخصوص ساخت کے سلسلے میں سوالات اب بھی کھڑے ہیں۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری تنقید بیشتر شاعری کی تنقید رہی ہے۔ ادب میں پورا زور شاعری کی لسان و زبان اور اس کے لوازمات پر صرف ہوا ہے، چونکہ اردو نے فارسی سے کسبِ فیض کیا ہے اور ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ فارسی میں نثری تنقید کی روایت زیادہ مستحکم نہیں اس کے اثرات ہمارے یہاں بھی پڑے ہیں۔

افسانہ کی شعریات پر کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ افسانہ کی ہیئت و ماہیت اس کی صنفی ضروریات اور ترتیب و ترکیب آج تک متعین نہیں ہوئی ہے۔

بعض شعر و سخن کے حامی ناقدین نے افسانہ کو معمولی صنف قرار دیا ہے۔ محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب نے بھی اس کو خاندان کے چھوٹے لڑکے سے تشبیہ دی ہے، بعض اسے ناول کا گمشدہ باب کہتے ہیں، لیکن افسانہ نہ تو ناول کا گمشدہ باب ہے اور نہ ہی ناول کا اختصار ہے۔ اس کا اپنا مخصوص مقام اور منفرد حیثیت ہے۔ اسی لیے افسانہ کے فن کو ہر ملک اور ہر زبان میں یکساں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ با شعور ناقدین نے افسانہ کے فن کی اہمیت اور مشکلات دونوں کو تسلیم کیا ہے۔ سلطان حیدر جوش ؔلکھتے ہیں:

’’البتہ اس میں کلام نہیں کہ افسانہ اپنے میدان کا نقش آخر اور قبیلے کا اشرف المخلوقات ہے۔‘‘ (رسالہ مصنف، فن افسانہ نگاری پر ایک نظر، سلطان حیدر جوش، ص ۸۵)

غرض افسانے کا فن زیادہ محنت اور ریاضت چاہتا ہے۔ دیگر اصناف ادب کی طرح اس کے موضوعات بھی براہِ راست زندگی سے لیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی جاندار اور غیر جاندار شے اس کا مرکزی حوالہ ہو سکتا ہے۔ خصوصی طور پر انسان مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی نفسیاتی نکتہ، معاشرتی نظام کی بدعنوانیاں، سیاسی امور، انسانی اطوار کے مضحکہ خیز پہلوؤں اور اس کی شخصیت اور نفسیات کے گو شے افسانے کے موضوعات ہوتے ہیں۔ بہر کیف زندگی کا کوئی مثبت و منفی پہلو افسانے کا موضوع بن سکتا ہے۔ افسانوی ادب میں موضوع کی اہمیت اپنی جگہ پر ہو سکتی ہے، موضوعات کی یکسانیت اور موضوعات کا تنوع ہونا بھی اہم اور بہتر ہے، لیکن بڑی بات موضوع کو برتنے کا رویہ ہے کہ افسانہ نگار نے اس روایتی، مخصوص اور غیر مخصوص موضوع کو اپنے افسانہ میں کیسے ٹریٹمنٹ دیا ہے، اس نرالے اور انوکھے برتاؤ (Treatment) سے معمولی موضوع بھی مخصوص اور نیا بن جاتا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ کوئی بھی زندگی کا موضوع نہ معمولی ہوتا ہے نہ فرسودہ ہوتا ہے۔ افسانہ تو معمولی اور غیر معمولی ہو سکتا ہے۔ اس صنف کی تمام دلآویزی اور کامیابی کا دارومدار فنی حسن و نزاکت پر ہے، کیونکہ فنی حسن کے بغیر کوئی بھی تخلیق ادبی معیار حاصل نہیں کر سکتی۔ افسانہ کیا ہے؟ اس کی ہیئت اور ماہیت کیسی ہونی چاہیے؟ اس کے صنفی التزامات اور ترکیبی مقتضیات کیا ہیں؟ فن افسانہ کے ترکیبی عناصر، صنفی مقتضیات اور امکانات آج بھی مباحثہ کا موضوع ہیں۔ افسانہ کی مستقل تعریف، ہیئت اور اس کا حدود و اربعہ آج تک متعین نہیں ہوا ہے۔ آئندہ ہونے کے اس کے امکانات بھی نہیں ہیں، کیونکہ ہر افسانہ اپنے صنفی پیمانے خود طے کرتا ہے تخلیقیت اور فنی حسن ہونا شرط ہے۔ جدیدیت کے بعد افسانہ میں کہانی پن کی واپسی کے نعرے نے ایک رجحان کی سی شکل اختیار کر لی تھی، ترقی پسند تحریک کے دور میں کہانی میں مقصدیت، اجتماعیت، حقیقت نگاری اور سماج کی ترجمانی کی باتیں کہی گئی ہوں یا جدیدیت میں ’’میں‘‘ کی تلاش، خود کلامی، باطنی سفر، وجودی شناخت، علامت ابہام و اشکال کا دھُندلا پن پر زور دیا گیا ہو۔ اوّل نظریات سے جڑے رہنے پر اصرار دوم ادعائیت پسندی پر مصر دکھائی دیتا ہے۔ افسانہ حیات و ممات کا ایسا استعارہ ہے جو باطنی طور سے آزاد صنف ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اور کسی بھی خارجی یا نظریاتی دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ افسانہ نے کہانی کی طرف مراجعت کی ہے۔ کوئی بھی افسانہ بِنا کہانی کے کیسے افسانہ ہو جاتا ہے؟ اینٹی اسٹوری افسانہ میں اسٹوری نہ ہو تو پھر وہ کیوں کر افسانہ کہلاتا ہے؟ یہ تو ممکن ہے واقعات میں منطقی ربط نہ ہو۔ کسی خاص کیفیت میں انسان کا ذہن و شعور پانی کی رو کی طرح بہتا چلا جائے، بے منزل سفر کی طرف جس میں نہ وقفہ اور نہ سکوت و ٹھہراؤ۔ قاری خود ہی ان واقعات میں اعراب، حروف جار، وقوف اور سکون کی علامتیں لگا کر کہانی بنا لے۔ لیکن کسی اسٹوری کو اینٹی اسٹوری کہنا، نتیجہ کے طور پر اسٹوری کا وجود ہونے کو تسلیم کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ کے صنفی قالب میں کہانی پن کا ہونا روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن افسانہ کو صرف کہانی سمجھنے والوں میں یہ رجحان پنپنے لگا کہ مصنف آزاد ہے اور اس نے تخلیق افسانہ کی ہر شرط سے انکار کرتے ہوئے سوائے کہانی کے باقی پابندیوں سے خلاصی اختیار کر لی اس لیے انہیں ذہنی دباؤ کی شدت اور تخلیقی کربناکی سے گزرنا بھی نہیں پڑتا۔ افسانہ نگار بننے کے شوق، دنوں دن شہرت حاصل کرنے اور چھپنے کی جلد بازی میں تن آسانی اور عجلت پسندی کی عادت پڑ گئی ہے۔ جس سے افسانہ کے فن کو فروغ ہونے کے بجائے اور اس کی تصویر دھندلی پڑنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

تخلیق افسانہ بڑا نازک، سنجیدہ اور شعوری فن ہے۔ اس کے متن کی پیش کش کے لیے ایک ایسا اسلوبیاتی نظام مرتب کرنا ہے کہ جس کے پس پردہ مسلسل ثقافتی اور تہذیبی عمل غیر شعوری طور پر کام کرتا ہے جو کرداروں کی فطرت اور جبلت کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے۔ الفاظ کی تلاش پھر ان کی ساختیاتی ترکیب ایک ایسا بیانیہ خلق کرتی ہے جس میں موضوع اندرون خانہ ہوتا ہے اس کے پس پشت ثقافت اور تمدن کی بسیط کائنات پوشیدہ ہوتی ہے۔

صنفی نقطۂ نظر سے افسانہ کی کرافٹ کے لیے عناصر ترتیبی کی رعایت ضروری شرائط کی پابندی اور کہانی پن کا ہونا اہم آلات ہیں۔ پلاٹ کی منطقی ترتیب، کرداروں کی فعالیت، مکالمات کی برجستگی، متحرک منظر نگاری، ارضی و مقامی تہذیب، زبان کی سادگی اور بیان کی تہہ داری افسانہ کی تخلیقی اور عضویاتی تعمیر میں تاثر کی ایسی وحدت پیدا کرتی ہے کہ کوئی بھی واقعہ، حادثہ، کہانی، سانحہ افسانہ کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔

در اصل افسانہ معنی کی تہہ داری کے ساتھ ذہن و شعور کی نئی سطحوں کو تخلیق کرنے کا عمل ہے۔ انسان کا زندگی سے فطری رشتے برتنے اور اس کے ساتھ رویہ اختیار کرنے کا اپنا الگ ڈھنگ اور مخصوص طریقۂ کار ہوتا ہے۔ اس کے عمل اور ردّ عمل کے شعور کی جستجو افسانہ نگار کرتا ہے۔ صنف افسانہ دیگر اصناف نثر کے مقابلے میں زیادہ دقت طلب اور غور و خوض کا متقاضی ہے۔ اس لیے راجندر سنگھ بیدی نے لکھا ہے:

’’یہ طے شدہ بات ہے کہ افسانے کا فن زیادہ ریاضت اور ڈسپلن مانگتا ہے۔‘‘ (اردو افسانہ۔ روایت اور مسائل۔ بیدی ص ۳۱)

مغربی مفکر H.E Bates نے فن کی مشکلات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’کہانی لکھنا گویا دیا سلائی کے تنکوں سے عمارت بنانا ہے، اور اس عمل میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ ایک تنکا اڑا دھم کر کے سب کو گرا دیتا ہے۔‘‘ (The Modern Short Story, H.E. Bates, P.No. 17)

افسانہ کوئی جامد یا غیر متحرک صنف نہیں ہے۔ اس میں تجربہ، مشاہدہ، تبدیلی اور اضافے کو قبول کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ اگر افسانہ پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سجاد حیدر یلدرم سے پہلے اور پریم چند کے بعد خواہ وہ ترقی پسند افسانہ ہو یا جدید یا جدید تر افسانہ یا ما بعد جدید افسانہ سب میں تکنیک، ہیئت اور اسلوب کے کامیاب تجربے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افسانہ دیگر ادبی اصناف کے مقابلے میں ایک آزاد صنف ہے۔ اسی لیے اس میں ہیئت اور اسلوب کے تجربوں کی کافی گنجائش ہے۔ چنانچہ ایچ۔ ای۔ بیٹس نے اپنی کتاب ’’دی ماڈرن شارٹ اسٹوری‘‘ (۱۹۴۵ء) میں اس آزاد صنف میں تجربہ کی گنجائشوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

”The short story writer is the freest of all artists in words: far freer than the dramatist in finitely freer than the poet, and in reality far freer than the novelist since he is offered a wealth of subjects which it is unprofitable, undignified, or otherwise not worth the novelist’s while to touch”(P. 216)

۱۹۴۹ء میں ہیئتی امکانات کے سلسلے میں کرشن چندر نے بالکل ملتی جلتی باتیں کہی ہیں:

’’پرانی ہیئت میں نئے سماجی مواد کو پیش کرنا ہمارا شیوہ رہا ہے، لیکن ہمیں اب افسانوی ہیئت میں تبدیلی کرنا چاہیے۔ کیونکہ افسانے میں ہیئت کے اعتبار سے بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔ مختصر افسانے کو بے حد مختصر کر دیجئے تو نظم سے جا ملتا ہے اور بڑھا دیجئے تو ناول کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ اس کے مکالمے کو پھیلا دیجئے تو ڈرامائی گنجائش پیدائش ہو جاتی ہے اور بیانیہ عناصر بڑھا دیجئے تو یہ انشائے لطیف کے قریب ہو جاتا ہے اس سے اس کے وسیع پھیلاؤ اور اس کے امکانات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے اندر بہت سے ہیئتی اجزاء کو سمونے کی قوت رکھتا ہے۔‘‘ (تعارف، مجموعہ، ہل کے سائے میں ،ص ۲۳)

نفس الامر یہ کہ افسانہ ایک منفرد ادبی صنف ہے، جس نے مغرب و مشرق کے سنجیدہ فن کاروں، ادیبوں اور نقادوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے، اور انہوں نے افسانہ کی ہیئت و تعریف اور اس کے مقتضیات کے سلسلے میں اپنے اپنے خیالات تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بیان کیے ہیں، پھر بھی افسانہ کی شناخت کے لیے ایڈگر ایلین پو Edgar Allen Poe کے نظریہ کے پیش نظر ایک مکمل افسانہ وہ ہو گا جس میں واحد تاثر کی فضا بندی، واقعات کی منطقی ترتیب، الفاظ کا مناسب استعمال اور آدھے گھنٹے میں دو گھٹنے کے اندر پڑھا جانے والا فن پارہ حالانکہ اس تعریف میں وقت اور وقفہ تعین کرنے کی شرط نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی اس کو قابل اعتنا سمجھا گیا۔ واحد تاثر والا فقرہ اساسی اہمیت اسی لیے رکھتا ہے کہ یہ موضوع کی تحدید نہیں کرتا اور نہ تکنیک کے سلسلے میں ہدایتیں کرتا ہے، بلکہ افسانے کی کرافٹ اور فنی وحدت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس طرح پو کا یہ خیال افسانے کی ہیئت کو تجربات کے لیے آزاد چھوڑ دیتا ہے۔

اسی لیے H.E. Bates کے خیال میں افسانے کی تخلیق کسی ایک قاعدے یا کلیے پر منحصر نہیں۔ اس کی تشکیل کا انحصار مصنف کے نقطۂ نظر پر ہے۔ وہ کہتا ہے:

’’کوئی ایسی تعریف یا کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جو افسانے کی ساخت، تاثر اور حسن کا مکمل معیار ہو جس طرح آسمان اینٹوں سے بنا ہوا نہیں ہے، اسی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ کہانیاں بھی سانچوں یا فرموں کے مجموعے نہیں ہیں۔‘‘ (The Modern short story, H.E. Bates, P.No. 18)

معلوم ہوا کہ افسانہ کوئی جامد یا مردہ صنف نہیں اس لیے اس کی کوئی مکمل تعریف کرنے کی کوشش جزوی طور پر کامیاب ہوتی ہے، کیونکہ افسانہ نگاروں کی نئی نسل اپنی فنی اور فکری ضروریات کے مطابق اس صنف کو نت نئے تجربات و مشاہدات سے گزار کر وسعت اور تنوع سے ہمکنار کرتے رہتے ہیں۔ در اصل افسانہ نگار کا طریقۂ اظہار و انداز اور پیش کش ہی اصل تکنیک ہوتی ہے۔ افسانہ کی طرح تکنیک بھی جامد شے نہیں ہوتی بلکہ وقت و حالات، زمانے کے تقاضوں اور موضوع و مواد کے پیش نظر بدلتی رہتی ہے، اور جب افسانہ نگار کے فنی، فکری اور تخلیقی تقاضے بدلتے ہیں تو کل کی تعریف آج کے لیے اور آج کی تعریف آئندہ دنوں کے لیے ناکافی ثابت ہو گی اور بعض حالات میں غیر متعلق اور کبھی کبھی فرسودہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ پھر بھی جب افسانہ ایک منفرد صنف ہے تو اس کی صنفی شناخت ہونا بھی اس لیے ضروری ہے کہ جس تحریر پر افسانہ کا لیبل لگا دیا جائے گا اسے افسانہ تسلیم کرنا پڑے گا، اسی لیے ایڈگر ایلین پو نے افسانہ کی تکمیل کے لیے جن عناصر کا ذکر کیا ہے فی زمانہ اس تعریف کو ذہن میں رکھ کر افسانے میں ہیئت اور اسلوب کے تجربات کا مطالعہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ افسانہ تکنیکی اور ہیئتی سطح پر بدلے گا تو اپنے ساتھ جانچ پرکھ کے لیے پیمانے لائے گا اور وقت کے ہاتھوں میں افسانہ کی ہیئت و ماہیت تکنیک اور صنفی ترکیب کی پیمائش کے لیے ایک نیا زاویۂ تنقید قائم ہو جائے گا۔

چونکہ انسان کی مجموعی زندگی اس صنف کا موضوع رہی ہے، اس لیے اس میں بلا کا تنوع اور رنگا رنگی ہے جو اس فن کی بقا کا ضامن ہے۔ افسانہ ایک ایسا فن پارہ ہے جو ذہنوں میں محفوظ رہتا ہے اور یہ خوبی کسی دوسری نثری صنف کو حاصل نہیں ہے۔

شافع قدوائی اور افسانے کی صنفی تنقید

افسانہ ادب کی ایک متحرک و فعال نثری صنف ہے۔ اس کا براہِ راست تعلق زندگی کی عمل و حرکت سے ہے جس میں ہر لمحہ تغیرات آتے رہتے ہیں۔ افسانہ میں بھی زندگی اور کائنات کی بدلتی ہوئی صورت حال کے ساتھ رویوں میں منقلب ہونے کی پوری پوری صلاحیت ہے۔ اسی لیے افسانہ کے ترکیبی اجزا کے تعین کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔ جوں جوں زندگی میں تبدیلیاں آتی رہیں گی افسانہ کی ساخت اور تعمیر و تشکیل میں بدلاؤ آئے گا۔ زندگی کے موضوعات کے واسطے سے ٹریٹمنٹ اور اس کے اسلوبیاتی نظام میں افتراق کی وجہ بھی یہی ہے کہ بدلتے وقت کے مطابق معنی و مفاہیم، سوچ و فکر میں بھی تبدیلی کے نشان دکھائی دیتے ہیں۔ نجی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں رویے اور سروکار بھی بدلتے ہیں۔ انھیں کی پیش کش کو تخلیقی عمل میں شامل کرنے سے افسانہ نئے انداز میں تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے جدید اور قدیم کی بحث بے معنی ہونے کے باوجود مذہبی اور روایتی عناصر، تہذیبی ارتقا پذیری، معاشرتی سانچوں کی شکستگی اور سیاسی نظام کی تبدیلی، شعوری اور غیر شعوری طور سے تخلیق افسانہ کے عمل میں محرک ہوتے ہیں۔ افسانہ کے اسٹرکچر (structure) کی متعین تشکیل کی نمو پذیری ہونے کی امکانی صورت نظر نہیں آتی۔

اردو افسانہ کی تنقید قابلِ اعتنا اس لیے نہیں ہوتی کہ شعریات کو اصل تخلیق تسلیم کر لیا گیا۔ ادب میں اس روایت نے قانونی صورت اختیار کر لی ہے کہ کائنات میں سب سے پہلے شعری تخلیقات معرضِ وجود میں آئیں۔ ترنم اور آہنگ کی بنیاد پر یہ قیاس حقیقی شکل اختیار کر گیا جو ایک المیہ ہے۔

کہانی کے آغاز کا اوّلین نقش روزِ اوّل سے ہی نظر آتا ہے۔ تخلیقِ آدم کے منظرنامہ میں عزازیل اور رب العزت کے درمیان ہوئے مکالمہ میں افسانہ کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ فضا، کردار، تصادم، تجسّس، کہانی کے ترکیبی عناصر کو بغیر منطقی ترتیب دیے بھی کہانی کی ترکیب و تعمیر ہو جاتی ہے۔ اب چاہے پسِ پشت افسانہ کا نہ ختم ہونے والے اس سلسلہ میں مذہبی حکایات، اساطیر، دیومالا، ہندو متھ، قصص الانبیا میں کہانی بتدریج ارتقا پذیر ہوتی ہوئی زندگی کی افزونی میں آج بھی شامل ہے، اور حیات و کائنات کے متوازی اپنی کائنات کا خاکہ مرتب کر رہی ہے۔

افسانہ شناسی کی بنیاد موضوع کی تلاش رہی ہے، جو انسانی اوصاف باطن سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن اس کا اظہار کرداروں کی حرکات و سکنات سے ہوتا ہے۔ افعالِ نیک و بد کو خارجی زندگی سے جوڑ کر یک رنگی بیان کے ذریعے سطحی طور پر پیش کرنا افسانہ نویسی کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ افسانہ کی تنقید میں بھی موضوعاتی محاسبہ، پلاٹ، کردار، واقعہ، مکالمہ، کلائمکس اور اختتامیہ پر مبنی سرسری بحثیں افسانہ کی خصوصیات کے طور پر واضح کرنا مقصد رہا ہے، جس سے افسانہ کے صنفی امتیازات کی وضاحت نہ ہو سکی۔ اردو تنقید میں عموماً کہانی پن کو واقعاتی تسلسل سے تعبیر کیا جانا اور اس میں تحیر و تجسّس کو لازم ٹھہرانا افسانہ کی اساسی اہمیت قرار دیا گیا۔ مراجعت کے اس تصور میں افسانہ نے کہانی پن کو تو تلاش کر لیا، لیکن افسانہ اسلوبیاتی نظام اور معنی کی تہہ داری سے محروم ہو گیا۔ پلاٹ اور کردار کی بحث، بیان کے منطقی ربط، واقعات کے منطقی تسلسل اور یک رُخ اور پہلو دار کردار سے آگے نہ جا سکی۔ کہانی پن کے موضوع کی تلاش و تشریح کا اسیر ہونے سے افسانہ کی تخلیق آزاد روی کی کشش سے دور ہونے کے امکانات بڑھ گئے۔

اردو تنقید کی روایت رہی ہے کہ موضوع کے حوالے سے افسانے کے خد و خال بیان کیے جاتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے بعد جدیدیت کے زیر اثر افسانے کہانی پن سے عاری، زبان و بیان کی یکسانیت، زندگی سے فراریت اور ’’میں‘‘ کی تلاش میں اشکال مہملیت کا شکار ہو گئے۔ شافع قدوائی کہتے ہیں:

’’ساتویں اور آٹھویں دہائی میں جب زبان کے ذریعے نمو پذیر ہونے والی حقیقت کسی متضاد پہلوؤں کو بہ یک وقت گرفت میں لینے کی کوشش کی گئی اور استعاراتی اور تجرید کی فلک الافلاک کی شعوری تعمیر سے گریز کیا گیا تو اسے کہانی پن کی طرف مراجعت سے تعبیر کیا گیا۔‘‘ (فکشن مطالعات پس ساختیاتی تناظر، ص: ۵۷)

اب افسانہ میں کہانی پن کا ہونا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ آج افسانہ کی صورت حال یہ ہے کہ خارجی واقعات کی ترتیب اور مشاہدات و تجربات کی یکسانیت کو اکہرے بیانیہ میں نانی کی کہانی کی طرح بیان کرنے کے عمل میں سادہ بیانی کو افسانہ کی تخلیق کو معراج سمجھ لیا گیا ہے، اور افسانہ کے اسلوب سے بہتر صحافت کی زبان زیادہ پُر کشش نظر آتی ہے اور اسلوب اور تخلیقیت بے معنی ہو کر رہ گیا ہے، جب کہ افسانہ نگار خارجی دنیا کے متوازی ایک نگارخانہ تخلیق کرتا ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیت اور فنی ہنر مندی سے اپنے انفرادی اور اختصاصی نقوش واضح کرتا ہے۔ اس صورت میں تنقید بھی موضوع کی تلخیص ہو کر رہ گئی، لیکن یہ طریقۂ کار جینوئن افسانہ نگار کے لیے اختیار کیے جانے سے دشواری یہ ہوتی ہے کہ اسلوب کی معنی آفرینی، بیانیہ کی تہہ داری، متن در متن کی تلاش، زبان و بیان کے مفاہیم اخفا میں رہ جانے کے سبب ان کے فن کی قدر و قیمت نظر انداز ہو جاتی ہے، اور سطحی افسانوں اور اکہرے بیان کی بنیاد پر ادب میں ناموری اور مقام حاصل کر لیتے ہیں۔ جب سہل نگاری اور تن آسانی شہرت کی معراج ہے تو مشقت کی درد سری کون لے، ادھر جوڑ توڑ کی پالیسی بھی غیر فن کو فن بنانے کا ایک معاون عنصر خود ایک فن بن گیا ہے۔

کہانی کا صرف کہانی ہونا ایک فرسودہ عقیدہ ہے۔ مجھے کہانی پن سے کوئی انکار نہیں، کیوں کہ تجسّس، حیرت زائی، کہانی سے جڑے رہنے کا کہانی ہونا ہے، لیکن اس ہونے میں اسلوبیاتی نظام بنیادی چیز ہے جو افسانے کے جملہ عناصر کو نامیاتی کل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جس میں تہہ داری، استعاراتی تراکیب، جملوں کی فنی ترتیب، الفاظ کا پُر معنی التزام، تخلیقیت کی اساس اور فن پارہ کی روح ہے۔ جیسے:

’’اسٹیشن کی جگ مگ روشنی اس گنوار خوب صورت عورت کی طرح ٹھٹھر رہی تھی۔‘‘

اس جملے کی ترتیب میں جاڑے کی شدت، گنوار خوب صورت عورت کی غریبی، جگ مگ روشنی کو خوب صورت عورت کے ٹھٹھرنے کی تشبیہ، متحرک منظر کشی کی طرف ایک رمز بھی ہے۔ آگے اس جاڑے کی شدت کو دھیان میں رکھیں:

’’قریب ہی ایک کتّا جو کچھ دیر پہلے اپنی ٹانگوں میں دم دُبکائے امریکہ کے ہم جنسی قانون کا مذاق اڑا رہا تھا۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی ’’کہانی بن گئی‘‘ ص: ۲۱)

یہاں کتّے کا مذکر ہونا، ٹانگوں میں دم دُبکانا، امریکہ کے ہم جنسی قانون کا مذاق اڑانا۔ پوری تہذیب کی طرف اشاراتی انداز میں طنز کیا ہے۔ شافع قدوائی کہتے ہیں:

’’کہانی پن افسانہ کی خلقی صفت ہے، جو اس کے ناگزیر اجزا راوی، کردار، مکالمہ، طرزِ اظہار، فضا، مناظر اور بیانیہ عرصہ کو ایک نامیاتی کل کے طور پر پیش کرتی ہیں اور کہانی پن موضوع ہی نہیں بلکہ تخلیقی طرز اظہار میں مضمر ہوتا ہے۔‘‘ (فکشن مطالعات پس ساختیاتی تناظر، ص: ۵۸)

افسانہ کے صنفی عناصر اور اس کے فنی اجزا آج بھی وضاحت طلب ہیں۔ یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ افسانہ کی تخلیق اپنے فنی پیمانے لے کر خود اترتا ہے۔ اگر اس میں تخلیقیت اور اس کے بیانیہ میں اسلوبیت، پسِ ساختیات، بین المتونیت مضمر ہے تو وہ افسانہ کا انفراد و اختصاص بن جاتا ہے، اور ایسا تب ہی ہوتا ہے کہ کردار کی تشکیل و تعمیر میں تمام تر تہذیبی، مذہبی، سماجی اور نفسیاتی محرکات بھی شعوری اور غیر شعوری طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی تلاش و جستجو بھی ضروری ہے چوں کہ ہر افسانہ کی بنیاد کوئی جاندار شے ہوتی ہے۔ اگر غیر جاندار ہوتی ہے تو اسے تخلیق نگار متحرک کر کے زندگی عطا کرتا ہے۔

بعض مرتبہ تنقید نگار اپنے مخصوص مکتبۂ فکر کی بنیاد پر صنف افسانہ سے ان نکات کو نکال لیتے ہیں جو ان کے نظریہ اور سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں، اور تخلیق نگار کو own کرنے کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں، جس نے ادب میں کسی بھی وسیلے سے کوئی مقام یا نجی طریقۂ کار سے کوئی درجہ حاصل کر لیا ہو، اس کی تخلیق کے اکہرے بیان سے بھی معنیوں کی تہیں دریافت کر لی جاتی ہیں، جو صرف انھیں کو نظر آتی ہیں۔ چاہے افسانہ نگار نے نام نہاد تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے اپنے اسلوب کو پُر معنی اور تہہ دار بنانے کی کوئی شعوری کوشش نہ کی ہو جب کہ افسانہ کی تخلیق ایک شعوری عمل کا نام ہے۔ اس طرح افسانہ کا سطحی بیانیہ تنقید نگار کے ایما پر پُر معنی بیان کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر:

’’ایک شخص سڑک کی دائیں فٹ پاتھ پر جا رہا تھا، اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔‘‘ اس جملہ کا اخفا یہ ہے کہ وہ غلط ہاتھ پر جا رہا تھا یا یہ کہ اسے بائیں طرف چلنا تھا۔ اس میں سامنے کی صداقت میں فنٹاسی ’’یقین‘‘ کے ساتھ ہے … فنٹاسی اس لیے کہ ایکسیڈنٹ کی وجہ وہیکل کی تیز رفتاری یا کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

’’ایک شخص سڑک کی ایک جانب چل رہا تھا کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا اور مرگیا۔‘‘ اس جملہ کا اخفا یہ ہے کہ شاید وہ غلط ہاتھ پر چل رہا تھا۔ جلدی میں ہو گا، دیکھ کر نہیں چل رہا ہو گا… چوں کہ دائیں بائیں ہاتھ کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے اس لیے ’’قیاس‘‘ ہے، لیکن ایکسیڈنٹ کی صداقت بھی فنٹاسی ہونے میں کوئی شبہ نہیں صورت حال پہلے جیسی ہے۔

مندرجہ بالا مثالیں پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلوبیاتی تناظر میں اخفا کی تلاش کے لیے تخلیق نگار کی تخلیقی صلاحیت اور اس کی شعوری کوشش کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہو گا ورنہ ایسی بیش تر مثالیں مل جائیں گی کہ غیر تخلیقی زبان، میں بھی تنقید نگاروں نے اخفا کے معنی تلاش کر لیے ہیں۔ یہاں تنقیدی صداقت، صلاحیت، علمیت کا لحاظ رکھنا اہمیت کا حامل ہے، اور غیر جانب داری کی پاسداری بھی ضروری ہے۔

محمد شافع قدوائی موضوعِ اساس، افسانہ کی تنقید سے انکار کرتے ہوئے افسانہ میں موضوع کی تلاش کو ‘Paraphrasing’ کہتے ہیں:

’’اردو میں مروّجہ فکشن تنقید بعض استثنائی مثالوں سے قطع نظر موضوع کی تلخیص Paraphrasing سے عبارت اور مواد سے ماخوذ اقداری فیصلوں value judgement سے گراں بار نظر آتی ہے۔‘‘ (فکشن مطالعات پس ساختیاتی تناظر، ص: ۵۶)

شافع قدوائی نے اپنے مقالہ ’’کہانی پن کی واپسی :متھ یا حقیقت‘‘ میں ان وجوہات کو بھی تلاش کیا ہے کہ موضوعِ اساس تنقید کا رواج ادب میں کیوں ہوا؟ وہ افسانہ کی اس طرح کی تنقید کو Thematic mannerism کی تشریح کی عبرت ناک مثال بتاتے ہیں۔ عام طور پر افسانہ میں ابتدا، وسط اور اختتام کو کہانی کے ناگزیر اجزا خیال کیے جانے میں کہانی پن کو موضوع کی تلاش و تشریح کا اسیر ٹھہرایا جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر افسانہ کی تشریح و تعبیر کے اصولوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’ترقی پسند افسانہ علت و معلول کی مانوس منطق پر مبنی بیانیہ کو افسانہ کی اساسی خوبی گردانا اور تجسّس کو مہمیز کرنے کے ہنر کو کہانی پن سے تعبیر کیا۔‘‘ (فکشن مطالعات پس ساختیاتی تناظر، ص: ۵۸)

اسی طرح جدیدیت پسند نقادوں کے طرزِ تنقید سے بھی انکار کرتے ہوئے ان کی دلیل ہے کہ جس طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثر افسانہ نگاری میں موضوعاتی سطح پر خارجی حقیقت نگاری اور اظہار کی سطح پر علت و معلول کی مانوس منطق پر استوار بیانیہ کو توجہ کا مرکز بنایا اسی طرح ’’جدید افسانہ نگاروں نے خارجی حقیقت نگاری سے اعراض کرتے ہوئے مواد کی سطح پر داخلی و نفسی کوائف کو تنہائی، بے گانگی، رشتوں کی شکست و ریخت، ذہنی بے چینی، داخلی کرب اور زندگی کی لایعنیت کے داعیوں کو متحرک کرتے ہیں۔ ترسیل کو اپنا مقصود جانا لہٰذا بالواسطہ طرزِ اظہار ان کے لیے سب سے مقبول فنی حربہ ٹھہرا۔‘‘

کہانی پن افسانہ کی روح ضرور ہے، لیکن افسانہ کی تشکیل کے لیے کردار، مکالمہ، راوی، فضا بھی ضروری اجزا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کل کو پیش کرنے کے لیے موضوع کوئی الگ کی چیز نہیں بلکہ کہانی کا ہونا ہی اس کا موضوع ہوتا ہے۔ اس لیے افسانے میں موضوع کہانی کے تخلیقی اظہار میں ہی مضمر ہوتا ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی رقم طراز ہیں:

’’کہانی پن سے مراد تفصیلات کا اظہار اور بعض کو معرضِ التوا میں رکھنا ہے۔ التوا کا وقفہ کتنا ہو، یہ لازماً علت و معلول پر منحصر نہیں ہوتا۔ کہانی پن زمانی ربط کے ساتھ ساتھ ذہنی اور تاثراتی ربط کے لیے سازگار بیانیہ عرصہ قائم کرتا ہے۔ اس لحاظ سے کہانی پن محض دلچسپی یا تجسّس کا زائیدہ نہیں ہوتا۔‘‘

شافع قدوائی نے کہانی پن کے طریقۂ کار سے انکار کے اوّلین نقوش منٹو کے یہاں تلاش کیے۔ اس کے علاوہ انتظار حسین کے ہاں اسٹوری لائن بالکل نئی صورت میں ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ منٹو کے یہاں بیش تر افسانوں میں Story line تجسّس سے بہت آگے کی منزلوں کا پتہ دیتی ہے۔ ’’کائنات کے جملہ مظاہر بشمول وجود انسانی خلقی طور پر متضاد رویوں کی آماج گاہ ہے، لہٰذا علت و معلول کی مانوس منطق پر استوار کہانی پن کے توسط سے اس کی تکذیب کی جا سکتی ہے۔‘‘ در اصل منٹو کے افسانوں کا بنیادی رمز ان کے منطقی انجام میں پوشیدہ ہے، ان کے کلائمکس گھماؤ دار ہونے کے سبب ان کی کہانیاں تہہ دار ہونے کا اصرار کرتی ہیں۔ بہ ظاہر ان کی کہانیوں کا اسلوب اور کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگی حیرت افزا تجسّس Readability پیدا کرتی ہے، یہ دیکھنے کے لیے کیا ہونے والا ہے؟ اور جب کہانی اختتام پر پہنچتی ہے تو وہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ یہاں بھی منٹو التوا میں رکھ کر علل و اسباب کی قید سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور کہانی پن کے یک رُخے تصور کی تکذیب کرتے ہوئے Story line پوری کہانی کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ انتظار حسین کے افسانوں میں زمانی ترتیب سے زیادہ ثقافتی ربط پر زیادہ اصرار ملتا ہے۔ بقول شافع قدوائی ان کے یہاں Story line کا ماخذ واقعہ یا وقوعات کی کثرت نہیں بلکہ ایک نوع کی Intertextuality ہے جس کا ماخذ Incredible beliefs ہی ہے۔‘‘ انتظار حسین کے یہاں ماضی کی بازیافت، تہذیبی زوال، ہجرت کا دکھ، بے جڑی کا احساس، تشخص سے محرومی، روحانی و اخلاقی انحطاط، وجودی مسائل کے اظہار کی داستان ہے۔ انتظار حسین نے ترقی پسند اور جدید افسانہ نگاروں کے تصور کائنات، طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی جد و جہد جیسے مسائل سے انحراف کیا اور نجات کوشش فلسفے سے افسانہ کو ترتیب دیا۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں اسٹوری لائن کو multi fold نہیں بنایا جا سکتا۔ بقول شافع قدوائی:

’’جدید افسانہ نگاروں نے طے شدہ موضوعیت کے جبر کے توڑنے اور افسانہ کی خلقی ماہیت کو بحال کرنے کے لیے منطقی ربط سے زیادہ داخلی انتشار کی مظہر بے ربطی پر زور دیا۔ کہانی پن کے mannerism کے انکار سے بعض ناقدین نے یہ نتیجہ نکالا کہ بیش تر افسانہ نگاروں کے ہاں کہانی پن کا فقدان ہے۔‘‘

پروفیسر شافع قدوائی فکشن کو نظری اور عملی پہلوؤں سے دیکھتے ہیں۔ فکشن تنقید کو نئے رجحانات اور میلانات سے آشنا کرتے ہوئے عالمی تناظر میں اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید، جدید اور مابعد جدید تنقید کے پسِ منظر میں فرسودہ اور committed تنقید نگاری کے تصور سے انکار کرتے ہوئے بین المتونیت کی تلاش کے حامی ہیں اور افسانوی نظم میں تہہ داری اور ترفع ہونے کا اصرار کرتے ہیں۔

شافع قدوائی کی تنقیدی زبان سے بیش تر ناقدین کو اعتراض ہے، شاید اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ مغربی رجحانات، عالمی افکار و نظریات، نئے نئے علوم سے آگہی اور نئی نئی اصطلاحات جو ان کی تحریروں میں در آتی ہیں ان کے مفاہیم کی جان کاری ہونا بھی ضروری ہے، تب ہی ان کے مضامین کے پوشیدہ معنوں سے آگاہی ہو گی۔

زبان اگر ایک تخلیقی عمل ہے تو تنقید بھی اسلوبیاتی نقطۂ نظر سے بہرحال ایک تخلیق ہوتی ہے اور جو زبان وہ تنقید کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ سنجیدگی سے مطالعہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔

٭٭٭

طارق چھتاری کے افسانے تہذیبی تصادم کا شناخت نامہ (آدھی سیڑھیاں کے حوالے سے)

افسانہ ذہن و شعور کی نئی سطحوں کو دریافت کرنے کا تخلیقی عمل ہے۔ انسان اس کا مرکزی موضوع ہے، اس سے متعلق اشیائے کائنات اور اجناس زندگی شعوری /غیر شعوری سطح پر حوالہ بننے کی امکانی صورت اختیار کرتے ہیں۔ چونکہ انسان کو پیش نظر کائنات میں فوقیت اور اشرفیت کا درجہ حاصل ہے، اس لیے وجود انسانی، کائنات اور حیات و ممات کے تعلق سے اس کا برتاؤ (Behaviour) تخلیقی ادب کا موضوع ہوتا ہے۔ انسان سماجی نظام کا ایک جز ہے، زندگی سے فطری رشتے برتنے کا اس کا ایک الگ ڈھنگ اور مخصوص رویہ ہوتا ہے۔ حادثات، واقعات، رونما ہونے کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ شخصی اعتبار سے سوچ و فکر اور حسی کیفیات میں بھی افتراق ہوتا ہے، اور اس سوچ و فکر کی تشکیلی، جغرافیائی حالات، معاشی ترتیب، معاشرتی نقطۂ نظر سے نمو پذیر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی نفسیات، فطرت اور جبلت پر اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ انسان کی شخصیت کی تعمیر و ترتیب کے ارتقائی عمل میں، مذہبی امور، سماجی اور تہذیبی عناصر بھی کارفرما ہوتے ہیں۔

تخلیقی فن کار منظر و پس منظر اور عمل و رد عمل کے شعور کی جستجو کرتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کہانی کہنے اور سننے کی لگن انسان کی جبلت میں داخل ہے۔ اس طرح پیش نظر کائنات کا ہر تیسرا آدمی کہانی کار ہے کہ کہانی سننے اور سنانے کا یہ فطری عمل روز ازل سے ورثہ میں ملا ہے، لیکن زبانی/ تحریری ترسیل اظہار کے لیے پر تجسس اور تحیر انگیز بیانیہ درکار ہوتا ہے۔ افسانہ صرف لفظوں کے جوڑنے کا فن نہیں، بلکہ وسیلۂ اظہار کے لیے الفاظ کی ترتیب معنی کا فن ہے، جس کے طرز وجود میں متن کی تعمیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ افسانہ میں اجتماعی زندگی کی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ انفرادی سوچ کے بیانیہ میں شعوری یا غیر شعوری طور سے کثیر ثقافتی عناصر اور تہذیبی امور نہ صرف کارفرما ہوتے ہیں بلکہ فرد کے اعمال و افعال کی کار کردگی میں بھی مستتر ہوتے ہیں۔

زندگی کے تجربات و مشاہدات، زمانے کے نشیب و فراز کی روداد کو رومان اور جمالیات کی لذتوں سے ہم آہنگ کر کے صرف افسانہ ہی نہیں فنونِ لطیفہ کی ہر شاخ اور ادب کی ہر صنف زندگی اور کائنات کی مکرر تخلیق (Remaking) اس طرح ہے کہ عام انسان جو اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہے وہ معروضی انداز میں بیان کرتا ہے، لیکن ایک سنجیدہ فن کار حیات و کائنات کی Objectivity کو اپنی نگاہِ بصیرت کی بنیاد پر Subjective بنا کر اپنے مخصوص بیانیہ کے ذریعہ حتی الامکان صنفی لوازمات کی فطری ترتیب کے ساتھ تخلیق کو سامنے لاتا ہے۔

طارق چھتاری ۱۹۸۰ء کے آس پاس ابھرنے والی اس نسل کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہیں جو افسانہ میں کہانی پن کی واپسی کی تلاش میں مصروف رہنے کے عمل سے منکر ہوتے ہوئے لسانی ترتیب میں متون کی شعوری /غیر شعوری طور پر دخیل ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افسانہ کی بنیادی روح کہانی ہے، جس کے ناگزیر اجزا راوی، کردار، مکالمہ، مناظر اور بیانیہ عرصہ کو نامیاتی کل کے طور پر افسانہ نگار اپنے مخصوص طرز اظہار میں پیش کرتا ہے۔ طارق چھتاری ان احتیاط پسند افسانہ نگاروں میں سے ہیں جو تخلیقی احترام اور اساسی بنیاد پر افسانہ کی بافت کرتے ہیں، وہ کہانی کہنے کے شعوری عمل میں کسی بھی باضابطہ رجحان سے انکار کرتے ہوئے تخلیقی آزادی کی بے راہ روی کے قائل نظر نہیں آتے ہیں، اس کے باوجود نت نئی تکنیک اور موضوعی ٹریٹمنٹ اختیار کرنے میں فنی ہنر مندی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

’’گلوب‘‘ میں جنسی نفسیات (Psycho-sexo) کے کرب کو تمثیلی اور رمزیاتی بیانیہ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ مالکہ عورت اپنی جنسی خواہش کی آسودگی کو اپنے طریقہ سے حاصل کرتی ہے۔ مرد جو اس کا نوکر ہے اس کا جبر و استحصال کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔ خارجی سطح پر اگر Paraphraising کی جائے تو عورت صدیوں سے مرد کی بو الہوسی کا شکار رہی ہے، اور ہمیشہ اس کے ظلم و ستم اور جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ رہی ہے۔ اس ’’لمحۂ خاص‘‘ میں بھی مرد کی مرضی کے مطابق اس کو چلنا ہوتا ہے، اس کی اپنی فطرت بے بس اور ضرورت بے معنی ہو جاتی ہے، لیکن یہاں صورت حال بدلی ہوئی نظر آتی ہے کہ تانیثیت کا وہ تصور کہ عورت ہمیشہ مرد اساس معاشرہ کی گرفت میں رہی ہے Subvert ہوتا نظر آتا ہے۔ اندرونی سطح پر افسانہ بین المتونیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ خوبصورت کائنات عورت کی تمثیل ہے جس کی بظاہر خوبصورتی کے بطن میں حیوانیت، خباثت اور ظالمانہ رویہ پوشیدہ ہے، جو انسان کو اپنے حسن و جمال سے رجھاتی ہے اور اپنے جال میں پھانس کر اس کا استحصال بھی کرتی ہے، یعنی انسان اس کے سامنے مظلوم، مجبور اور معذور نظر آنے لگتا ہے۔ اس کائنات کی دلفریبی سے نہ صرف انسان لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ جنسی لذت کو شی اور ایذا پسندی سے آسودگی حاصل کرتا ہے۔ مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے مشرقی اقدار کے بکھرنے کا طنزیہ اظہار کا غماز ہے۔

’’نیم پلیٹ‘‘ میں شناخت سے محرومی کا مسئلہ بیان ہوا ہے، جو جدید دور کا نفسیاتی المیہ ہے کہ انسان اس جم غفیر میں تشخص کی گم شدگی کا عذاب اور تنہائی کا کرب جھیل رہا ہے، اور دنیا کی نیرنگیاں انسان کی ذات سے وابستہ ہونے کے باوجود بھی ان سے محروم ہے۔ پچھتر سالہ بوڑھا کیدار ناتھ جس کو افسانہ میں مرکزیت حاصل ہے اپنی یادداشت کے فقدان سے اپنی ذات اور نام سے محروم ہو گیا۔ بات صرف حافظہ ہی کی نہیں بلکہ مسئلہ بزرگوں کی ناقدری کا بھی ہے۔ جدید زمانے میں رشتوں کی عظمتیں بے معنی اور تہذیبی اقدار ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں۔ بوڑھوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان کو وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہاں جدید تہذیبی جبر کے سبب یادداشت کے کھو جانے کی صورت میں کہانی میں نمو پذیر ہوتی ہے۔ افسانہ میں مغربی تسلط کے زیر اثر مشرقی تہذیبی اقدار کا انحطاط ہونے پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے۔ حافظہ کی محرومی زندگی کے ثقافتی اساس کے بکھرنے کو خاطر نشان کرتی ہے۔ بوڑھا شخص خارجی حوالوں سے تہذیبی نشانات دریافت کرنے میں کوشاں ہے جبکہ تہذیب کا خارجیت کے ساتھ اندرونی پہلو بھی ہوتا ہے۔ دور حاضر کا ایک ہولناک منظر نامہ یہ بھی ہے کہ گھر کے بزرگوں کو غیر مطلوبہ شے سمجھا جاتا ہے۔ والدین کو اولڈ ایج ہوم میں بھیجنے کا طرز حیات بھی مغرب کی دین ہے۔ مشترکہ خاندان کی روایت بکھرنے اور تہذیبی زوال کا المیہ جدید دور کی دین ہے۔ علیحدہ، آزادانہ زندگی گزارنے کی چاہت نے شدت اختیار کر لی ہے۔ Privacy کا چلن عام ہونے کے تصور نے بے راہ روی کی طرف فرد کو موڑ دیا ہے۔ بزرگوں کے عمل دخل کو وہ غیر ضروری خیال کرتا ہے۔ اسی لیے اخلاقی اور تہذیبی دیواریں مسمار ہوئی ہیں۔

طارق چھتاری تہذیبی تضادات اور مخالف عناصر کے باہمی امتزاج سے اپنے افسانوں کا خمیر اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے بیشتر افسانوں میں ثقافتی امتیازات کے مختلف پہلوؤں کو مرکز نگاہ بنایا ہے۔ معاشرتی ڈسکورس ان کے افسانوں کا ناگزیر جزو ہے۔ جدیدیت اور ترقی پسندی کی مروجہ روشوں سے شعوری طور سے انحراف کرتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی سروکاروں کو مختلف پیرایۂ بیان میں طارق نے اپنے افسانوں کا متن خلق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوں کا بنیادی مسئلہ نو آبادیاتی نظام کے تسلط سے ثقافتی سروکاروں کے یکسر بدلنے کا شدید احساس ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے افسانوں کا قلب قائم کرتے ہیں۔ مکالموں اور خود کلامی کے ذریعہ تہذیبی ارضی بنیادوں کو افسانہ کی بافت میں جزو لازم بنا کر اسے تخلیقی پیرایۂ اظہار عطا کرتے ہیں۔

عشق کی جمالیات فنون لطیفہ کی روح ہے، اور تخلیقی ادب کا بنیادی عنصر ہے۔ عشق ایک آفاقی جذبہ ہے جو انسان کی سرشت میں داخل ہے اور تمام علوم و فنون میں اس کو مرکزیت حاصل ہے۔ کائنات کی ہر تہذیب میں کسی نہ کسی شکل میں یہ موجود ہے۔ اس کے منکرین بھی اس کی فطرت کا اقرار کرتے ہیں۔ عمر کے دورانیہ کے مطابق تصورات بدلتے ہیں، اور بدلتے وقت کے ساتھ اقدار بھی بدلتی ہیں۔ اس لیے عصری تقاضوں کے تحت اس کے معنی و مفہوم میں افتراق ہونا لازمی ہے۔

افسانہ ’’دھوئیں کے تار‘‘ میں مغربی تہذیب کے تصور عشق کو کرداروں (طلباء طالبات) کے توسط سے نہ صرف صنف نازک کی نفسی کشمکش کو فطری اظہار میں پیش کیا گیا ہے بلکہ مغربی ثقافتی نظام کے حاوی ڈسکورس کو معنی خیز مکالموں کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے متوازی یہاں عشق میں جان دینے کا وہ روایتی تصور بھی بے معنی ہو جاتا ہے کہ عشق کی تکمیل ’’وصل‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ عشق ایک ایسی آرزو کا نام ہے جو کبھی پوری نہیں ہوتی، باوجود اس کے رعنا اور سمیر کے عشق کے درمیان شیراز کی آمد باعث آزار بننے کے بجائے ’’ہجر‘‘ ہی عشق کی تکمیل ثابت ہوتا ہے۔ محبت کی داخلی کیفیت کو موتیوں کے ہار کی ظاہری صورت سے مربوط کر کے محبت کا بے لوث تصور قائم کرتے ہوئے جدائی کے موڑ پر افسانہ کا خاتمہ ہوتا ہے جو مشرقی اقدار کا اشاریہ ہے۔ محبت برقرار تب ہی رہ سکتی ہے کہ اگر اس کا مقدر فاصلے پر قائم ہو، ورنہ اتصال محبت کی موت بن جاتا ہے۔ رعنا کو سمیر کا دیا ہوا تحفہ موتیوں کا ہار آنسوؤں کی لڑی کی علامت بن کر بے لوث محبت کا پر معنی نظام مرتب کرتا ہے۔

جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ طارق کے افسانوں میں تہذیبی اور ثقافتی سطح پر ایک کشمکش جاری رہتی ہے۔ مذکورہ افسانے میں بھی مغربی اور مقامی تہذیب کے تضادات اور مخالف رویوں کو طنزیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اسی قبیل کا افسانہ ’’برف اور پانی‘‘ ہے، جس میں جاوید اور سیما کے درمیان عشق ہونے کے بعد شادی ہو جاتی ہے۔ اس افسانہ میں ’’فلیش بیک‘‘ کی تکنیک اختیار کی گئی ہے۔ افسانہ نگار ایک طویل عرصہ کی مسافت کی روداد اشاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے۔ کہانی کا تسلسل برقرار رکھنے میں مربوط رمزیاتی انداز میں زندگی کے لمبے سفر کی صراحت کو ایجاز و اختصار میں بیان کرنا طارق کی فن کارانہ ہنر مندی کی دلیل ہے۔ عشق کے جذبہ کی پیش کش کا رمزیاتی اور اشاراتی اظہار میں ہونا موضوع اور ٹریٹمنٹ کی مناسبت سے تخلیقی شعور کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔

پوری کائنات قوموں کے عروج و زوال کی عبرت ناک داستان سے بھری ہوئی ہے۔ تاریخ تمام تر علوم و فنون کے مطالعہ کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں کسی بھی زمانے یا مقام کی سیاسیات، معاشیات، سماجیات اور فنون لطیفہ کی صورت مرتب کی جاتی ہے۔ ادب تمام علوم و فنون کا خزینہ ہے۔ طارق چھتاری اس نوع کے افسانہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے مروجہ روش سے شعوری طور پر انحراف کرتے ہوئے تہذیبی سروکاروں کو آشکار کرنے کے لیے بیانیہ کے مختلف طرزوں کو اختیار کر کے اپنے افسانوں کا متن خلق کرنے کی سعی کی ہے۔ انہوں نے تجرباتی بنیادوں پر اپنی شناخت قائم نہیں کی بلکہ افسانہ کی صنفی اساس اور فنی دائرے میں رہ کر تکنیکی سطح پر اپنی مرکزیت قائم کی ہے جو دیگر افسانہ نگاروں سے انہیں مختلف اور معتبر کرتی ہے۔ زیر مطالعہ افسانہ ’’آدھی سیڑھیاں‘‘ تہذیبی تضادات کی بہترین مثال ہے۔ افسانہ کا پس منظر قصباتی اور دیہی علاقہ میں رہنے والے انسانوں کا ہے۔ یہ افسانہ مرکزی کردار سعیدہ بیگم اور ان کے بیٹے احمد جو شہر علی گڑھ میں زیر تعلیم ہے کے نظریاتی افتراق پر مبنی ہے۔ کہانی کا ایک پہلو پرانی پیڑھی اور نئی نسل کے سوچنے اور جینے کے انداز کی بھی وضاحت کرتا ہے جسے جدید اصطلاح میں Generation Gap بھی کہہ سکتے ہیں۔ افسانہ میں قصباتی اور شہری زندگی کے تہذیبی تصادم سے پیدا ہونے والے مسائل کے علاوہ زمانۂ قدیم کی روایات اور جدید طرز کی زندگی کے درمیان ٹکراؤ کی صورت بھی نظر آتی ہے، لیکن وہ ٹکراؤ شدت آمیز نہیں ہے بلکہ نفسیاتی کیفیتوں کو نشان زد کرتا ہے۔ طارق چھتاری کی افسانوی کائنات کا اختصاص یہ بھی ہے کہ وہ فنی حربوں کی کرشمہ سازیوں کے ذریعے منظر کو پس منظر میں بدلنے، حال کو ماضی سے جوڑنے، شہر کو دیہات میں منقلب کرنے کے فن سے واقف ہیں۔ اس لمحہ قاری پر تجسس ہو کر افسانہ کی بافت پر غور و فکر کرنے لگتا ہے۔ دورانِ قرأت‘گریز‘ کا لمحہ بھی آتا ہے اور یہ عنصر کسی ایک لفظ، ایک جملہ یا کسی شے سے ظاہر ہو جاتا ہے اور افسانہ کا موجودہ منظر، پس منظر میں کیسے چلا جاتا ہے:

’’احمد نے سامنے دیکھا، دور تالاب کے اس پار اس کے اپنے ہرے ہرے کھیت لہلہا رہے تھے، اس نے آنکھیں بند کر لیں اور جب کھولیں تو محسوس ہوا کہ صدیاں بیت گئی ہیں۔ اب بازی پلٹ گئی تھی۔ زمین پر بکھری ہری گولیاں غائب تھیں اور لال گولیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ سورج کی کرنیں زمین پر اتر آئی تھیں اور کانچ کی لال گولیوں پر اس طرح پڑ رہی تھیں کہ اس کے کھیت اب سرخ نظر آ رہے تھے۔ احمد نے گھڑی دیکھی نو بجنے ہی والے تھے۔ وہ لالہ دیوی سرن کی گدی پر پہنچا تو دیکھا کہ لالہ اپنا لال بہی کھاتا لیے کچھ لوگوں کے بیچ بیٹھے حساب کتاب میں مشغول ہیں۔‘‘ (آدھی سیڑھیاں، باغ کا دروازہ، ص: ۱۰۰)

کہانی کے ابتدائی مرحلے سے منتخب اس اقتباس سے زندگی اور کائنات کے ترفع پہلو (Dimension) برآمد ہوتے ہیں۔ انسان اس عالم آب و گل کے مقابل کتنا بے بس اور مجبور ہے۔ وقت کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتا۔ ’’اس نے آنکھیں بند کر لیں اور جب کھولیں تو محسوس ہوا کہ صدیاں بیت گئی ہیں۔‘‘ مصنف گریز کے اس جملے سے قاری کو ماضی کی جانب رسائی کراتا ہے۔ ایک ہی لمحہ میں احمد کی نگاہوں کے سامنے صدیوں پر مشتمل اس مسافت میں انسانی تہذیب کی بنتی بگڑتی تصویریں گھومنے لگتی ہیں۔ تخلیق صرف لفظوں کے جوڑنے کا فن ہی نہیں بلکہ اس کی ترتیب میں پوشیدہ متن کی جانب اشاریہ بھی ہے۔ الفاظ کے مرتب اظہاریہ کے پس پشت ایسی روداد جو ان کہی ہوتے ہوئے بھی تخلیق کا جز ہوتی ہے قاری کو ان سارے مناظر کی سیر کراتی ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اقتباس دیکھیں:

’’صبح اٹھ کر جب وہ ڈیوڑھی کے صدر دروازے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ دو بچے دھوپ میں کنچے کھیل رہے ہیں۔ احمد اونچے چبوترے پر کھڑا چھوٹی چھوٹی کانچ کی ان گولیوں کو دیکھتا رہا، جنہیں بچے انگلیوں سے ادھر ادھر لڑھکا رہے تھے۔ ہری گولیوں والا بچہ جیت رہا تھا۔ بچے نے جیب سے ہری گولیاں نکال کر اطمینان سے زمین پر پھیلا دیں اور جیتی ہوئی لال گولیوں کو چاک کی جیب میں رکھ لیا۔‘‘ (آدھی سیڑھیاں، باغ کا دروازہ، ص: ۹۹)

دو بچے ہیں اور دو رنگ کے کنچے ہیں۔ ہرا رنگ سر سبز اور شادابی کی علامت بن کر زمینداری کے نظام کی جانب ذہن مبذول کراتا ہے۔ ڈیوڑھی کے صدر دروازے سے باہر نکلنا، آفتابے میں گرم پانی سے منھ دھونا، ناشتے کے بعد سلفچی میں ہاتھ دھونا، تانبے کے منقش خاص دان، گلاب پاش، پاندان، حسن دان، بادیے اور طبق کا قلعی گر کی دوکان پر پہنچنا۔ ہار، بندے، بالیاں، جھمکے بازو بند، جھومر، چوڑی اور کنگن کا خریدنا۔ ریشم کے کپڑوں پر زری اور زردوزی ہونا۔ پہلے ہری گولیوں والے بچے کا جیتنا۔ یہ سب ایسی اطلاعات ہیں جو زمیندارانہ نظام کے تہذیبی جزئیات کے اشارے بن جاتے ہیں۔ طارق کے افسانوں میں وقت کی کڑیاں ٹوٹ کر ایک اکائی میں تبدیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مذکورہ افسانہ کی بافت میں حال اور ماضی دھوپ اور چھاؤں کی طرح ایک دوسرے میں ایسے پیوست ہیں کہ نہ صرف ماضی بعید و قریب موجود زمانۂ حال کا حوالہ بنتا ہے بلکہ عمر کا وہ حصہ عہد طفلی کا گزراں ہو کر بھی انسان کے اندر موجود ہوتا ہے، اور ہر لمحہ اس کے ساتھ چلتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہری گولیوں والا بچہ جیت رہا ہے۔ احمد تالاب کے اس پار نظر اٹھاتا ہے ہرے ہرے کھیت لہلہا رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے آنکھیں بند کر لیں محسوس ہوا صدیاں بیت گئیں اور بازی پلٹ گئی تھی، اور اب زمین پر بکھری ہری گولیاں غائب تھیں اور لال گولیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ انقلاب زمانہ کا عجب کھیل نرالا ہے۔ زمینداری زوال پذیر ہو کر مہاجنوں کے ہاتھوں فروخت ہو چکی تھی۔ اپنی آن بان اور تہذیب کو بچانے کے لیے ان دو کوڑی کے انسانوں کے آگے ایسے لاچار ہوئے کہ ان کے ہاتھوں اپنی عزت و ناموس کو گروی رکھ دیا:

’’تمہیں روپیوں کی ضرورت ہے نا؟‘‘

وہ خاموش بیٹھا رہا۔ در اصل لالہ دیوی سرن کا سوال ہی احمد کا جواب تھا۔

’’دیکھو کنور صاحب، سرکار نے کچھ ایسے قانون بنا دیے ہیں کہ بغیر کوئی چیز رکھے، بیاج پر روپیہ دیتے ڈر لگتا ہے۔ اب تو بیاج کا کام ختم ہوتا ہی لگے ہے۔ پیٹ پالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ سوچ رہا ہوں بھینسیں پال کر دودھ کا کام شروع کر دوں۔‘‘ (آدھی سیڑھیاں، باغ کا دروازہ، ص: ۱۰۰)

تخلیق کے صرف الہامی ہونے کی دعویداری سے انکار کرتے ہوئے تخلیقی عمل کی کربناک کیفیت میں شعور و ادراک کی شمولیت پر مصر ہوتے ہیں، اور اس امر کا احساس کراتے ہیں کہ تخلیق کے شعوری عمل میں رومان اور جمالیات کی کارفرمائی بھی درکار ہوتی ہے۔ طارق چھتاری تہذیبی تصادم، ثقافتی اقدار کے ٹوٹنے اور بکھرنے جیسے مسائل سے اپنے افسانوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ ان کا ’’آدھی سیڑھیاں‘‘ ان کی فنی ہنر مندی کی بہترین دلیل ہے۔ افسانہ میں سعیدہ بیگم اور احمد کو مرکزیت حاصل ہے۔ سعیدہ بیگم اپنی روایات اور مذہبی اقدار سے جڑی ہیں اور دیہی زندگی کی خوبصورتی، کشادگی اور منظریت سے ذہنی طور سے لگاؤ ہے۔ زمین، حویلی، جاگیریں، اجناس و اشیاء یہاں تک کہ پرانی رسمیات سے بآسانی علیحدگی اختیار کرنا ان کے لیے بے حد مشکل ہے جبکہ احمد نئی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ علی گڑھ میں زیر تعلیم ہونے کے سبب شہری زندگی سے مانوس ہونا ایک فطری امر ہے، لیکن جاگیردارانہ نظام کے بکھرنے اور زمینداری کے زوال ہونے سے شہر کی گہما گہمی اور بے سکون زندگی اختیار کرنا اس کی مجبوری بھی ہے۔ پرانی اور نئی پیڑھی کے اس تصادم کی شدت کو ایک Slow Movie کی تکنیک میں بیان کرنا فنی کمال کا درجہ اس لیے رکھتی ہے کہ نہ اس میں نری جذباتیت ہے اور نہ ہی حقیقت پسندی کا سنگین انداز ہے جو ترقی پسندوں کا عام وطیرہ رہا ہے۔ اس کائنات میں غریب ہونا اور غریبی جھیلنا بڑا غم نہیں چونکہ اس کی عادت بن گئی ہے۔ آسودگی اور آسائش سے بھری زندگی سے اس کا دور تک واسطہ نہیں ہوتا، لیکن بننے کے بعد بگڑنے کا غم بڑا ہوتا ہے اسی بڑے غم کو پیش کرنے کے لیے ’’آدھی سیڑھیاں‘‘ تخلیق ہوئی ہے جس میں نئی اور پرانی پیڑھی کی ذہنی کشمکش، زمانہ کی تبدیلی کا احساس، تہذیبی تصادم کو نفسیاتی کرب کے ساتھ ابھارا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ افسانہ میں نہ کہیں مزاحمت میں زور ہے اور نہ ہی احتجاج کی شدت ہے بلکہ افسانہ میں ماں اور بیٹے کے درمیان مختلف مراحل میں ہونے والی گفتگو میں ممتا اور سعادت مندی کی تہذیب پوشیدہ ہے۔ احمد نے منھ دھو لیا ہے، اور سعیدہ بیگم ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں ہو چکی ہیں:

’’اب شادی میں صرف ایک مہینہ باقی ہے اور تم نے روپیوں کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا۔ مہمانوں کو دعوت نامے بھی پہنچنے ہیں۔ ایک مہینہ پہلے سے تو مہمان داری جڑنا چاہیے۔‘‘

احمد روغنی روٹی کا نوالہ چباتے ہوئے بولا۔

’’امی جان، اب وہ زمانہ نہیں رہا، اب کسی کے پاس اتنا وقت کہاں ہے جو مہینوں پہلے سے شرکت کرے۔ جنہیں بلانا ہو گا ہفتہ بھر پہلے دعوت نامے بھیج دیں گے۔ خاص خاص رشتے داروں کو تو بلانا ہی ہے۔ بھیڑ جمع کرنے سے کیا فائدہ۔‘‘ آگے سعیدہ بیگم ’’ٹھیک ہے بیٹے جیسی تمہاری مرضی‘‘ کہہ کر بات ختم کر دیتی ہیں۔‘‘ (آدھی سیڑھیاں، ص: ۹۸)

اس جدید دور میں گیسٹ ہاؤس اور میرج ہوم کے چلن نے مہمانوں کے جڑنے کا تصور ختم کر دیا ہے، عدیم الفرصتی کے اس دور میں مہمان داری نبھانے کا کس کے پاس وقت ہے اور پھر یہاں تو معاشی مجبوری بھی ہے۔ چونکہ ہری گولیاں چاک کی جیبوں میں واپس چلی گئیں ہیں بساط پر لال گولیاں بکھری ہیں۔ لال رنگ خون اور خطرہ کی علامت ہے جو منقلب زمانہ کی دستک بھی ہے۔ دوسرا کچھ دیر پہلے ہری گولیوں سے ہار رہا تھا بساط الٹنے سے لال گولیوں کا بچہ جیت رہا ہے۔ تہذیبی نشانات کا مٹنا، زمینداری کا زوال ہونا تیز رفتاری سے دیہاتوں کا سمٹنا ہرے بھرے کھیتوں کا عمارتوں اور صنعتوں میں تبدیل ہونا آنے والے خطرات کی پیش قیاسی ہے۔

اردو افسانہ نگاروں کا قوموں کے عروج و زوال کی روداد کا بیانیہ مرغوب موضوع اس لیے رہا ہے کہ مسلمانوں نے گنگا جمنی تہذیب کی ارض ہند پر نہ صرف تخم ریزی کی بلکہ اس کی آبیاری میں تاریخی کارنامے انجام دیے ہیں۔ طارق چھتاری کے یہاں نہ زوال کی نوحہ گری ہے اور نہ عروج کی جلوہ سامانیوں کا اظہاریہ ہے۔ بلکہ وہ فنی حربوں کی کرشمہ سازیوں کے ذریعے منظر کو پس منظر میں بدلنے، حال کو ماضی سے جوڑنے، شہر کو دیہات میں منقلب کرنے کے فنی رموز سے واقف ہیں۔ کبھی ایک لفظ، ایک جملہ یا احساس کے ایک پل کے سہارے پیش منظر کو شعوری طور سے متغیر کرنے کے تخلیقی تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہیں یہاں قاری چونک کر افسانہ کی بافت کی پر اسراریت سے محظوظ بھی ہوتا ہے اور دادِ تحسین بھی کرتا ہے۔ قاری کا متجسس ہونا ہی افسانے کی ترکیب و تشکیل کی اہم خوبی گردانی جاتی ہے۔

افسانہ ’’آدھی سیڑھیاں‘‘ ترکیبی سطح پر ابتدا، وسط اور خاتمہ تک مرکزی کرداروں کے شائستہ اور سنجیدہ مکالموں کے دھیمے پن سے اپنی فعالیت برقرار رکھتے ہوئے کہانی ہونے کے اصرار پر تہذیبی کشمکش کو لسانی تخلیقیت اور اسلوبیاتی نظام کو آخر تک قائم رکھتا ہے۔ مذکورہ افسانہ ارضیت سے جڑے ہونے کا آرزو مند اور تہذیبی اقدار کی بدلتی صورت کا عکس بھی ہے۔

شادی قریب ہے، روپیوں کی سخت ضرورت ہے، لالہ دیوی سرن ایک گھاگ ساہوکار ہے۔ احمد جو ایک زمیندار گھرانے کا چشم و چراغ ہے، لیکن پورے افسانے میں عزت نفس، خود داری اور وضع داری کی خاطر زبان پر حرف مطالبہ نہیں لاتا ہے۔ لالہ دیوی سرن احمد کی طرف کھسکتے ہوئے آہستہ سے پوچھتا ہے، ’’تمہیں روپیوں کی ضرورت ہے؟‘‘ وہ خاموش بیٹھا رہا۔ در اصل دیوی سرن کا سوال ہی احمد کا جواب تھا۔ یہاں تہذیب کے مٹنے کا درد مصنف کی خاموش بیانی میں مضمر ہے۔ آگے دیکھئے لالہ دیوی سرن اپنے مکر و فریب کے جال میں تہذیبی نشانات کو پھنسانے کی سعی کس طرح کرتا ہے:

’’شادی کے بعد ماتا جی کو تو اپنے ساتھ ہی لے جاؤ گے، ڈیوڑھی خالی ہو جائے گی، زنان خانہ تو ٹوٹ ہی گیا ہے۔ بس ڈیوڑھی کا حصہ بچا ہے، اگر تم اسے بیچ دو تو میں اس میں بھینس پالنے کا بندوبست کر لوں، میرا بھی کام نکل جائے گا اور تمہاری شادی بھی۔‘‘ (آدھی سیڑھیاں، ص: ۱۰۰)

یہاں احمد کا ضبط و تحمل مصنف کی زبانی دیدنی ہے۔ احمد کی آنکھیں پھیل گئیں ہیں، کچھ حیرت سے کچھ قصداً تاکہ آنسو خشک ہو جائیں اور ٹپکنے نہ پائیں۔ رنگ برنگے دائرے بننے اور مٹنے لگے ہیں اور نظروں میں بچپن کی دھندلی تصویریں ابھر آئیں۔ در اصل بچپن گزر جانے کے بعد بھی فرد کے دل میں مستقل قیام پذیر رہتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، افسانہ پھر رنگ بہ رنگ بنتے مٹتے دائروں کے ساتھ ماضی کے لیے Twist کرتا ہے جس میں ابا حضور کی آن بان، فرشی حقہ کے دھوئیں میں خمیرے کی خوشبو سے فضا معطر ہونا اور کہانی کو مناظر، اور جزئیات نگاری سے جوڑنے کا عمل ایجاز و اختصار کا مثالی نمونہ ہے۔

کسی بھی صنف کا اولین تفاعل اظہار کا بیانیہ ہے۔ لسانی نظام جس کے سہارے متن نمایاں ہوتا ہے، یہ ہمیں باور کراتا ہے کہ کوئی بھی متن اپنا آزادانہ وجود نہیں رکھتا۔ اسی لیے طارق کے افسانوں کے عناصر ترکیبی ایک دوسرے میں اتنے گتھے ہوئے ہوتے ہیں کہ اس کے الگ الگ اجزاء کا تجزیہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کے کرداروں کے افعال و حرکات حالات کے مطابق ارتقاء پذیر ہوتے ہیں۔ پہلے تو احمد ڈیوڑھی کے فروخت ہونے کے سلسلے میں دو ٹوک جواب دیتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ ایک تو پہلے ہی بہت کچھ بک چکا ہے۔ ڈیوڑھی کے علاوہ اسی پچاسی بیگھے زمین ہی تو بچی ہے، اگر ڈیوڑھی بھی بک گئی تو بستی میں جو کچھ عزت ہے وہ بھی خاک میں مل جائے گی۔ احمد کے دس پانچ بیگھے زمین فروخت کرنے کے اصرار پر ’’نہیں احمد۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ کی گردان پر وہ چونکتا ہے کہ میاں شاید دل میں کہا ہو مگر زبان سے صرف احمد ہی نکلا۔ رو بہ زوال اقدار کے ٹوٹنے کی طرف ایک کربناک اشاریہ ہے کہ کل تک جو لوگ ہاتھ جوڑتے تھے، ڈیوڑھی پر چڑھنے کی ہمت نہیں تھی آج وہ ڈیوڑھی کا سودا کرنے کی جسارت کر رہے ہیں اور ’’احمد میاں‘‘ کہنے میں زحمت ہو رہی ہے:

’’تو پھر ساری زمین بیچ دو۔ میں خرید لوں گا۔ تمہیں کون سی کھیتی باڑی کرنی ہے۔ پڑھ لکھ کر تو نوکری ہی کرو گے۔‘‘

لالہ دیوی سرن احمد کا چہرہ پڑھنے لگے۔ پھر خاموش بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھا اور الماری سے پوتھی نکال کر پٹ اس طرح بند کیے جیسے احمد کو باہر نکال کر دروازہ بند کر لیا ہو۔ احمد نے محسوس کیا کہ وہ سامان کی گٹھری بن گیا ہے۔‘‘ (آدھی سیڑھیاں، ص: ۱۰۲)

احمد کے سامنے بے بسی کا عالم یہ تھا کہ شادی کی تاریخ قریب آتی جا رہی تھی اور ابھی تک پاندان کی چھالیوں بھر کا انتظام بھی نہ ہو پایا تھا۔ بدنامی کے خوف سے تاریخ بھی نہیں بڑھائی جا سکتی تھی۔ ادھر ادھر سے روپیوں کا انتظام کرنا بھی مشکل تھا۔ جن کے پاس روپے تھے وہ اس کی ضرورت کا فائدہ اٹھا کر کوڑیوں کے دام زمین خریدنا چاہتے تھے۔

زیر مطالعہ افسانہ میں پرانی پیڑھی اور نئی نسل کی سوچ میں نفسیاتی ٹکراؤ اس وقت اجاگر ہوتا ہے جب باقی ماندہ زمین کو فروخت کرنے کے لیے وہ اپنی ماں سے ذکر کرتا ہے۔ اس نفسیاتی ٹکراؤ کا سبب یہ تھا کہ سعیدہ بیگم اپنی جگہ، اپنی چیزوں، اپنے رسم و رواج اور خصوصی طور سے اپنے شوہر کی یادوں جن کی کل جاگیر اور مال و متاع کی وہ محافظ تھیں اس شدت سے جڑی ہوئی تھیں کہ وہ ان سے علیحدگی آسانی سے اختیار نہیں کر سکتی تھیں، دیگر جس تہذیب سے وہ وابستہ تھیں اس میں اخلاقیات اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی وہ امانت دار تھیں۔ نئی نسل کے پروردہ احمد کی مجبوری معاشی ضرورتیں تھیں۔ اس کا جواز یہ ہے کہ حصول تعلیم کے بعد سوائے نوکری کرنے کے چارہ بھی کیا تھا؟ کھیتی باڑی اور زراعتی معاملات سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ دوسری مجبوری ہونے والی بیوی شہری زندگی سے وابستہ تھی۔ ادھر اقامتی تعلیم کے اخراجات، روزانہ خرچہ کے علاوہ ضروریات شادی کے لیے روپیہ بھی جمع کرنا تھا، ایسی صورت حال کو لاچاری اور بے بسی ہی کہا جائے گا۔ صرف یہ خیال کرنا کہ نئی نسل سے تعلق رکھنے والے احمد کو شہری زندگی کی چکا چوند پسند ہے، جدید اشیاء سے لگاؤ ہے، اسی لیے اس کی نظر میں پرانی چیزیں اور قدیم تہذیب بے معنی ہو گئی ہیں۔ یہاں نئی تہذیب اور پرانی تہذیب کے تصادم کے اسباب میں تقاضۂ وقت، تغیرات حالات اور معاشرتی نظام میں جو تبدیلی رونما ہوئیں وہ بھی اپنی جگہ نا گزیر حقیقت رکھتی ہیں۔ جن کے سامنے انسانی معاشرہ ہمیشہ بے بس اور لاچار رہا ہے۔ انقلاب زمانہ کی لپیٹ میں ہر انسان قید ہے۔ اسی لیے حالات کے مطابق اس کی سوچ بنتی اور بگڑتی ہے۔ والدین کی عزت و آبرو اپنی جگہ لیکن جاگیر داری اور زمین کو داؤ پر لگانا احمد کی مجبوری ہے ورنہ اپنی والدہ کو مطمئن کرنے کے لیے جس طرح سے وہ مدلل گفتگو کرتا ہے وہ اس کے اندر چھپے درد و کرب کا اظہار ہے۔ اسی طرح والدہ کا راضی ہونا بھی ان کی بے بسی اور مجبوری کا بیانیہ بن کر قاری کے سامنے آتا ہے۔ یہاں ٹکراؤ کی صورت نہیں بنتی بلکہ حالات کے مطابق فیصلہ لینے کی صورت بنتی ہے۔ ’’ہمیں اب کھیتی کے بھروسے نہیں رہنا چاہیے۔ آمدنی کا کوئی اور ذریعہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ سعیدہ بیگم کے استفسار پر وہ مشورہ دیتا ہے کہ ’’آج کل شہروں میں مکانوں کے کرائے بہت ہیں، اگر کچھ مکان بنوا دیے جائیں تو ماہانہ آمدنی خاصی ہو جائے گی اور پھر رہنے کو بھی ایک مکان ہو جائے گا، کرائے کے مکان میں تو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ آپ کا بھی یہاں اکیلے دل گھبراتا ہو گا، وہیں ساتھ رہیں گے۔ آپ کا دل بھی لگا رہے گا۔‘‘

’’سعیدہ بیگم کی آنکھ سے آنسو گرا اور لحاف کی روئی میں جذب ہو گیا۔ وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولیں ’’اس بچی کھچی زمین کو کیوں بیچتے ہو۔ تمہارا یہاں سے بالکل اکھڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے کبھی کبھار آ بھی جاتے ہو۔ پڑی رہنے دو اسے اپنے ابّا حضور کی نشانی سمجھ کر۔‘‘ (آدھی سیڑھیاں، ص: ۱۰۴)

مذکورہ افسانہ میں جگہ جگہ کرداروں کی ذہنی کیفیت کو ظاہری اشیاء اور منظر نگاری کے ذریعہ مصور کیا گیا ہے۔ افسانہ کو فطرت، حقیقت اور ارضیت سے جڑے ہونے کے باوجود بھی تخیلاتی کائنات کی سیر کرانے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ مثالیں دیکھئے:

’’سورج کی کرنیں زمین پر اتر آئی تھیں اور کانچ کی لال گولیوں پر اس طرح پڑ رہی تھیں کہ اس کے کھیت اب سرخ نظر آ رہے تھے۔‘‘

سعیدہ بیگم کی ذہنی کیفیت اور بے چینی کا اظہار دیکھیں:

’’سعیدہ بیگم نے چھت کی طرف دیکھا۔ ایک جنگلی کبوتر شہتیر کے کنڈے میں جھول رہا تھا۔ معلوم نہیں کیا ہوا کہ اپنے پر پھیلانے لگا اور پھر کنڈے کے دائرے سے نکل کر پر پھڑپھڑاتا ہوا دیوار سے جا ٹکرایا۔ نیچے فرش پر گرنے ہی والا تھا کہ سنبھلا اور روشن دان کی طرف اڑا۔ روشن دان کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا۔ کبوتر تیزی سے نکلا اور باہر تاریکی میں گم ہو گیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘

احمد کا نفسیاتی کرب اور اس کی لاچاری کا بیان:

’’احمد اپنے کمرے میں جلتی ہوئی لالٹین کی لو کبھی تیز کرتا تو کبھی کم۔ جب لو اتنی کم ہو جاتی کہ لالٹین کے بجھ جانے کا گمان ہونے لگتا تو وہ ہڑ بڑا کر اس کی لو اتنی تیز کر دیتا کہ چمنی چٹخ جانے کا خوف اس کے جسم میں تیر جاتا۔ چمنی اتنی سیاہ ہو چکی تھی کہ شیشے کی قید سے باہر نکلنا اب روشنی کے بس میں نہیں تھا۔‘‘ (آدھی سیڑھیاں، ص: ۱۰۴، ۱۰۵)

’’زمین فروخت ہو چکی ہے، آدھی رقم ملنے پر سعیدہ بیگم کے ہاتھ میں روپے لا کر دیے تو ان کے ہاتھ کانپ گئے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پھر بولیں

’’کیا تم نے زمین بیچ دی۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘

’’اس کے علا وہ کوئی راستہ نہیں تھا‘‘

’’تو کیا ڈیوڑھی بھی بیچ دو گے؟‘‘ سعیدہ بیگم کی بوڑھی نظریں ڈیوڑھی کی دیواروں پر رینگنے لگیں، نہیں امی جان، عید، بقر عید تو ہم یہیں کیا کریں گے۔‘‘

تحریر کردہ مکالموں سے انکشاف ہوتا ہے کہ ڈیوڑھی سے محبت صرف سعیدہ بیگم ہی کو نہیں ہے احمد کو بھی ڈیوڑھی کی آبرو اور اپنے والد مرحوم کی عزت و ناموس کی فکر ہے۔ لالہ رام سرن سے ڈیوڑھی فروخت کرنے کے مطالبے کو سرے سے انکار کر دینا اس امر کا روشن ثبوت ہے۔ شہر کی زندگی مجبوری اور عصری تقاضوں کے تحت اختیار کرنے کے باوجود عید اور بقر عید کی تقریبات منانے کی آرزومندی اپنی زمین سے بے پناہ محبت ہونے کی گواہی ہے۔ شہروں کے پھیلنے اور دیہاتوں کے سکڑنے کے جہاں دیگر اسباب ہیں وہیں ایک خصوصی وجہ وسائل کی تنگی اور معاشی نظام کی بے ترتیبی بھی ہے۔

شادی ہو چکی ہے۔ سعیدہ بیگم کی خواہش کے مطابق احمد میاں کی بارات میں بستی کے ہندو مسلمان سبھی شریک ہوئے۔ صبا دلہن بن کر آئی تو خوشی میں رات بھر آتش بازی چھوٹی۔ ولیمے کی دعوت میں قرب و جوار کے گاؤں والوں کو بھی بلایا گیا۔ ہندوستان کثیر الاقوام اور کثیر المذاہب ملک ہے۔ کثرت میں وحدت کا تصور اس کے مزاج میں داخل ہے۔ روا داری اور بھائی چارگی تہذیب کی پہچان ہے۔ لیکن مغربی نظام کے غلبہ کے بعد مشرقی ثقافت کا یہ اہم جز ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اپنے تہذیبی فخر اور انگریزی غرور کے زعم نے مشرقی تہذیب کو برباد کر دیا۔ اخلاقی اور انسانی اقدار بکھر گئیں۔ انفرا اسٹرکچر اور صنعتی دور نے دیہاتوں کو نگل لیا ہے۔ اس تیز رفتار زمانہ میں گاؤں شہروں میں تبدیل ہو گئے۔ ڈیوڑھی شہر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئی۔ عجب انقلاب دوراں ہے کہ سبز لہلہاتے کھیت سرخ عمارتوں میں تبدیل ہو کر اپنا تہذیبی وجود شہر کی بے حس زندگی میں کھو چکے ہیں۔ ڈیوڑھی شہر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئی ہے۔ بڑا سا غسل خانہ سمٹ کر باتھ روم بن گیا۔ چولھے سے گیس نکلنے لگی اور کمروں کی چھتیں اتنی نیچے کھسک آئیں کہ سعیدہ بیگم کا دم گھٹنے لگا۔ سعیدہ بیگم جیسے تہذیبی اقدار اور پرانی رسومات سے جڑے افراد شہر کی مصنوعی اور غیر فطری ماحول میں کیسے Adjust ہو سکتے ہیں؟ شہر اور دیہات کے تہذیبی تضادات کو دیکھ کر نہ صرف وہ حیرت زدہ ہوتے ہیں بلکہ شہر کے آزاد ماحول میں ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ سعیدہ بیگم گم صم رہنے لگیں اور بیٹے سے سوال کرتی ہیں۔ ’’بیٹے یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ ہمارے خاندان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بہو بازار۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

سعیدہ بیگم کی آنکھوں میں محفوظ زوال پذیر تہذیب کے درد کا احساس ہے کہ سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کا عمل تہذیب کے عروج و زال کی ہی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ نئی اور پرانی نسل کے نظریاتی افتراق کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، اور یہ اختلاف عصری تقاضوں کے زیر اثر بنتا اور بگڑتا ہے۔ مذکورہ افسانے کا علامتی عنوان سیڑھیاں چڑھتے وقت اللہ اکبر کی شانِ کبریائی کی عظمت کا بیان نہیں بلکہ اترتے وقت پستی میں بھی سبحان اللہ کہنے والی سعیدہ بیگم اپنی پرانی ڈیوڑھی پر واپس ہونے کے لیے مصر ہے، اور ثنا خوانی اور اظہار تشکر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، بلکہ اپنی پرانی تہذیب سے دل بستگی کا عالم یہ ہے کہ زوال آمادہ حویلی میں خوش اور مطمئن رہنے کی آرزو مندی کا عملی اظہار اس طرح کرتی ہے کہ کائنات کی ہر شے فانی ہے۔ فقط اللہ کا نام اور وجود لافانی ہے۔ یہ مذہبی اصطلاحات اس لیے زیر قرطاس آئیں کہ فن کار کا ایک تہذیبی، سماجی اور مذہبی پس منظر ہوتا ہے۔ بھلے ہی وہ اپنے ورثہ سے انکار کرے یا مذہبی فکر اور معاشرتی رسمیات کی ادائیگی میں کوتاہی کرے بھی وہ اس کے شعور/ غیر شعور میں محفوظ ہوتی ہیں اور تخلیقی عمل میں شعوری اور غیر ارادی طور پر نازل ہوتی ہیں۔ بھلے ہی احمد نئی نسل کا نوجوان ہے جس کی بیشتر زندگی پر شہری ماحول کے نقوش گہرے ہونے کے باوجود اپنی ارضیت سے نجات حاصل کرنا اس کے لیے بھی نا ممکن ہے۔ اس کے شعور میں مٹی کا درد اس لیے قائم ہے کہ دیہی زمین اور زمینداری کے تہذیبی اقدار کا وہ پروردہ ہے۔

جدید تحریکات کے افادی نقطۂ نظر کا ایک پہلو اخلاق بھی ہے۔ سماجی نظام کی بنیاد اخلاقی اقدار اور رشتوں کی عظمتوں پر قائم ہے۔ ادب میں اس کا منعکس ہونا خیر ہے، لیکن اخلاقی رموز کو تخلیق کا مقصد بنا کر اس طرح خلق کرنا کہ قرأت میں مدعا تو نظر آ جائے، لیکن تخلیقیت اور فنی حسن غائب نہ ہو تو یہ ہنر ادب میں فال نیک نہیں ہیں۔ احمد کے دل میں ماں کی صحت و عظمت اور بزرگی و احترام اس کے فعل و عمل کا راست بیانیہ ہی نہیں بلکہ افسانے کے اسلوبیاتی نظام میں خاموش اور ان کہا اظہاریہ بھی بار بار آتا ہے۔ طارق چھتاری کے تخلیقی اظہار میں زبان کے اندر ایک زبان ایسی بھی پیدا ہو جاتی ہے جو معاشرے کی باطنی زندگی کی نشان دہی کرتی ہے۔ وہ حال میں زندہ رہتے ہوئے ماضی کی طرف تہذیبی سفر کی روداد اور اندرونی وارداتوں کے رمزیاتی اور اشاراتی لہجے میں نری حقیقت نگاری سے گریز کرتے ہوئے خالص جذباتیت سے عاری بیانیہ اس طرح خلق کرتے ہیں کہ حال کو ماضی سے الگ کرنے والی لکیر بے معنی ہو جاتی ہے۔

٭٭٭

ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی، فکشن نظریہ (قصہ گوئی سے افسانے تک)

ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی کی ممتاز اور محبوب شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ مرحوم کو نثر و نظم دونوں اصناف میں برابر کا درجہ حاصل تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعری میں زندگی کی سرگوشیاں، سر مستیاں اور مسرتوں کے متوازی انسانی جذبات، کیفیات اور انسان کے مصائب و آلام سے غزل کے دامن کو وسعت بخشی۔ ان کی تنقیدی بصیرت کے روشن پہلوؤں پر بات کی جائے تو ان کی تنقید نگاری کا انداز معتدل اور متوازی ہے۔ ادب کے سلسلے میں وہ مثبت سوچ کے قائل ہیں، اس لیے تخلیق کے معائب و نقائص کے بجائے اس کی خوبیوں کو تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ نتیجتاً تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی اور اچھا کرنے کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ تنقید میں تاثراتی انداز اپناتے ہیں۔ سنجیدگی، متانت اور وسعت ان کی تنقید نگاری کی اہم خوبیاں ہیں۔

موصوف کا فکشن تنقید کا مطالعہ بہت عمیق ہے۔ مشرقی و مغربی افسانوی ادب کا تنقیدی مطالعہ کر کے ناولوں اور افسانوں پر بڑی پر مغز اور متوازن رائے قائم کی ہے۔ وہ فکشن کا تاثراتی نقطۂ نظر سے ضرور مطالعہ کرتے ہیں، لیکن فنّی جمال اور متنی پیش کش پر عملی مباحثہ قائم کرتے ہوئے فکشن کے ادب پاروں پر اپنی تنقیدی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ عام طور پر تنقید نگار ایک مخصوص مکتبۂ فکر کے حامی ہوتے ہیں اور اسی روشنی میں فن پارہ کی جانچ پرکھ کرتے ہیں۔ اگر فن کار ان کے نقطۂ نظر کے مطابق کھرا اترتا ہے تو وہ اس کے معترف ہوتے ہیں، ورنہ اس کی حیثیت دوئم درجہ کی ہو جاتی ہے، لیکن نسیم اعظمی کسی بھی دبستانی اصولوں یا نظری ضابطوں کے قائل نظر نہیں آتے۔ افسانہ ہویا فنون لطیفہ کی دیگر اصنافِ سخن۔ ان تمام میں فن کار آزادی کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ الفاظ کی شعوری ترتیب سے براہِ راست اظہار کرنے کا حمایتی ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی لیے وہ اس کا آرزومند ہوتا ہے کہ اس کی تخلیقات کی قدر کا تعین بھی اسی طرح کیا جائے، جس طرح تخلیق کے معرضِ وجود میں آنے کے لیے جس تخلیقی کرب سے وہ دوچار ہوا ہے۔ اس میں ڈوب کر ان کیفیات اور احساسات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے جس سے وہ گزرا ہے۔

ادب میں شعری تنقید کا رواج زیادہ توانا اور صحت مند رہا ہے۔ فکشن تنقید پر تنقید نگاروں نے کم توجہ دی ہے۔ خود نسیم اعظمی نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی اور دیگر شعری اصناف کو اپنی تنقید کا موضوع بنایا ہے۔ چند سال قبل فکشن تنقید کے تعلق سے ان کے مضامین کی ایک کتاب ’’اردو کے چند فکشن نگار: تنقید و تجزیہ‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں موصوف نے افسانہ نگاروں اور ناول نویسوں کے فکر و فن کا بھر پور جائزہ لیا ہے، جو اردو فکشن پر ان کی وسعت نظری اور سنجیدہ مطالعہ کی دلیل ہے۔ مذکورہ کتاب کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ معدودے چند فکشن ناقدین کی فہرست میں نسیم اعظمی کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔

موجودہ تیز رفتار ترقی اور الیکٹرانک کے دور میں تخلیقات کو سنجیدگی سے پڑھنے کی روایت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ادب کے پڑھنے والے قارئین کی تعداد نہ کے برابر ہو گئی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ زیادہ تر نقاد شہرت یافتہ ادبا و شعرا کو ہی اپنے نوکِ قلم کا موضوع بناتے ہیں، نیز وہ ادیب اور فطری تخلیق کار جو سنجیدگی سے ادب کا مطالعہ کر تے ہیں اور اپنی تخلیقات کے ذریعہ بہترین ادب پیش کرتے ہیں ناقدین کی توجہ سے محروم رہتے ہیں۔ کم و بیش یہی حال جینوئن فن کاروں کا ہے، ان پر بھی نظر التفات کم ہی ہوتی ہے، اور وہ بھی ناقدین کی نظر عنایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ فن کار یا تخلیق کار تب ہی توجہ کا مرکز ہوتا ہے جب کوئی نامور نقاد اس کے فن پارے کی طرف توجہ مبذول کرے۔ فطری فن کاروں یا تخلیق کاروں سے صرف نظر کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس شہرت حاصل کرنے کے لیے وسائل اور موجودہ دور میں جو ادبی سیاست ہوتی ہے اس سے وہ ناواقف ہوتے ہیں۔ کتنے ہی فن کار اور سنجیدہ ادیب تاریخ کی گرد میں دب گئے اور اس خاک کو نہ کوئی کریدنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو یاد کرنے والا۔ غالب ؔکی طرح کم ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں حالیؔ جیسا شاگرد نقاد مل جاتا ہے۔

یہ بات ضمنی طور پر اس لیے آ گئی کہ نسیم اعظمی بھی انہیں ادیبوں میں سے ہیں جن کی ادبی، علمی، تعلیمی اور تدریسی خدمات کا بجا طور پر اعتراف نہیں کیا گیا، جیسی پذیرائی کے وہ مستحق تھے ویسی ان کے حصّے میں نہیں آئی یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ان کے شاگرد رشید ظہیر حسن ظہیرؔ جو موصوف کے بہت قریب رہے انہوں نے ’’ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی: شخصیت اور جہات‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ انہوں نے عرض مرتب میں خندہ پیشانی سے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ مذکورہ کتاب موصوف کی شخصیت کے نہ ہی شایانِ شان ہے اور نہ ہی ان کی تعلیمی اور ادبی خدمات کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ موصوف پر جس انداز سے اور جتنا کام ہونا چاہیے تھا نہیں ہوا ہے۔ ہماری ادبی تنظیمیں، اکادمیاں اور سرکاریں انہیں لوگوں کو اعزازات و انعامات سے نوازتی ہیں جو جی حضوری اور خوشامد کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن موصوف نے صلہ و ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنے فرائض کو بہ خوبی انجام دیا ہے۔

راقم نے بھی مذکورہ کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے ان کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں اور مختلف جہتوں سے روشناسی ہوئی۔ نیز ان کے علمی و ادبی کاموں کے طریق کار اور ان کے اہم کارناموں سے آگاہی بھی ہوئی، لیکن ان کی افسانوی تنقید اور صنف افسانہ سے متعلق مذکورہ کتاب جو ۲۰۱۵ء میں شائع ہوئی ہے اس ضمن میں کوئی بھی مضمون شامل نہیں ہے۔ سوائے مرتب کے ایک مختصر تعارفی تبصرہ بہ عنوان ’’ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی کی فکشن تنقید پر ایک نظر‘‘ اور خود مرتب کا ایک طویل انٹر ویو بہ عنوان ’’ڈاکٹر ایم۔ نسیمؔ اعظمی سے ایک ادبی ملاقات‘‘ جس میں افسانہ اور ناول سے متعلق تین سوالات ہیں، جن سے ان کی فکشن تنقید کے بارے میں نہ تو کوئی روشنی ملتی ہے اور نہ ہی ان کے تنقیدی وژن کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی لیے موصوف کی تصنیف ’’اردو کے چند فکشن نگار: تنقید و تجزیہ‘‘ کی روشنی میں ان کی فکشن تنقید کو زیر نظر مضمون میں سمجھنے کی سعی کی گئی ہے۔

مذکورہ بالا کتاب کے آغاز میں ’’اردو افسانہ: منظر پس منظر‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون شامل ہے، جو کافی جامع اور وقیع بھی ہے نیز اہمیت کا حامل بھی۔ مذکورہ مضمون میں موصوف نے صنف افسانہ سے متعلق اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا ہے۔ انسان کی زندگی میں کہانی کی وقعت کو اس طرح واضح کیا ہے کہ تحریر کی ایجاد سے پہلے کہانیاں کہنے، سننے کی روایت رہی ہے۔ گزشتہ دور سے ہی قصّہ گوئی کی بازگشت انسان کی فطرت اور جبلّت میں گونجتی رہی ہے۔ راقم نے اپنے مضمون ’’شافع قدوائی اور افسانے کی صنفی تنقید‘‘ میں اس طرف اشارہ کیا ہے:

’’اردو افسانہ کی تنقید قابلِ اعتنا اس لیے نہیں ہوتی کہ شعریات کو اصل تخلیق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ادب میں اس روایت نے قانونی صورت اختیار کر لی ہے کہ کائنات میں سب سے پہلے شعری تخلیقات معرضِ وجود میں آئیں۔ ترنّم اور آہنگ کی بنیاد پر یہ قیاس حقیقی شکل اختیار کر گیا جو ایک المیہ ہے۔

کہانی کے آغاز کا اوّلین نقش روزِ اوّل سے ہی نظر آتا ہے۔ تخلیق آدم کے منظر نامہ میں عزازیل اور اللہ ربّ العزت کے درمیان ہوئے مکالمہ میں اضافہ کی دھنک سنائی دیتی ہے۔ فضا، کردار، تصادم اور تجسس کہانی کے ترکیبی عناصر کو بغیر منطقی ترتیب دیئے بھی کہانی کی ترتیب و تعمیر ہو جاتی ہے۔ اب چاہے پسِ پشت افسانہ کا نہ ختم ہونے والے اس سلسلہ میں مذہبی حکایات، اساطیر، دیو مالا، ہندو متھ، قصص الانبیا میں کہانی بہ تدریج ارتقا پذیر ہوتی ہوئی زندگی کی افزونی میں آج بھی شامل ہے اور حیات و کائنات کے متوازی اپنی کائنات کا خاکہ مرتب کر رہی ہے۔‘‘

اقتباس طویل ہو گیا ہے لیکن اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے اس کا درج کرنا ضروری تھا۔ موصوف کا مضمون کہانی کے ارتقا پر روشنی ڈالتے ہوئے تحقیقی نقطۂ نظر سے بہت سی باتوں کا انکشاف بھی کرتا ہے۔ موصوف گناڈھیہ (۳۱۵ ق م) کو ہندوستان کا قدیم ترین کہانی کار مانتے ہیں۔ ۱۰۶۳ء سے ۱۰۸۸ء کے دوران پنڈت سوم دیو جین نے انہیں کہانیوں کو ’’کتھا سرت ساگر‘‘ کے نام سے مرتب کیا تھا، اور انہیں کہانیوں کو انیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کے زیر اہتمام ۱۸۱۳ء میں ’’بیتال پچیسی‘‘ کے نام سے مظہر علی ولا اور للّو لال جی نے ترجمہ کر کے مرتب کیا جو اپنے زمانہ میں کافی مشہور ہوئیں اور آج بھی مقبول ہیں اور شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی :

’’ان کے اثرات الف لیلہ سمیت دنیا کی تقریباً ساری زبانوں میں رائج کہانیوں میں پائے جاتے ہیں۔ ’’بیتال پچیسی‘‘ میں کل پچیس کہانیاں ہیں۔‘‘

ان کہانیوں کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ جدید الیکٹرانک دور میں بھی ’’وکرم بیتال‘‘کے نام سے ایک طویل سیریل دلچسپی سے دیکھا گیا۔ موصوف کا خیال ہے کہ یہ کہانیاں اپنے زمانے کی سماجی اور معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’جن میں علم و حکمت کے خزانے بھی ہیں اور پند و نصیحت اور سبق آموزی کے عناصر بھی ہیں اور درس اخلاق اور تجربات و مشاہدات کی جھلکیاں بھی ہیں اور زندگی کے عرفان کی روشنی بھی۔‘‘ (اردو کے چند فکشن نگار: تنقید و تجزیہ، ص: ۸)

’’کتھا سرت ساگر‘‘ کے علاوہ ’’پنج تنتر‘‘ اور ’’فیبلز‘‘ (Fable) جاتک کہانیاں جو گوتم بدھ کے فرمودات پر مبنی خیال کی جاتی ہیں، ہندوستان کی قدیم افسانوی روایت کا حصّہ ہیں، لیکن یہ تمام عالمی افسانوی ادب پر اثر انداز ہوئی ہیں۔ نسیم اعظمی صاحب کا جاتک کہانیوں کے بارے میں خیال ہے کہ:

’’دنیا میں حیواناتی تمثیلات کی کہانیوں کا سب سے بڑا وسیع سرمایہ تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کہانیوں میں گوتم بدھ کے مختلف جنموں کا تذکر کیا گیا ہے، جو مختلف جانوروں کی شکل میں ہوتا ہے، اور ان میں مختلف قسم کے تجربات سے گزرنے کا بیان پایا جاتا ہے۔‘‘ (ص: ۸)

ہندوستان کی قصہ گوئی کی روایت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قصّہ گوئی کی روایت اس قدر مستحکم ہے کہ بر صغیر کا کوئی شہر، قریہ، قصبہ یا علاقہ ایسا نہیں ملتا کہ جہاں عوامی سطح پر قصّہ گوئی کی روایت نہ ملتی ہو۔ باقاعدہ پیشہ ور قصّہ خواں قصّے، کہانیاں اور واقعات جو سینہ بہ سینہ چلے آ رہے ہیں ان کو سنایا کرتے اور عوام و خواص بڑے شوق سے سنتے اور اپنی روز مرہ کی زندگی کی پریشانیوں اور الجھنوں کو بھول کر اپنی آنکھوں میں نئے خواب، نئی امنگیں اور نئے حوصلوں کو سجا کر اٹھتے اور اپنی زندگی کی کئی منزلیں نئے راستوں میں کامیابیاں پانے کے لیے تازہ دم ہوتے تھے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:

’’مذہبی اور قدیم طرز کی کہانیوں کے علاوہ حکیم لقمان کی حکایات، حکایاتِ سعدی اور دوسرے خرد افروز قصّوں کے چرچے نہ صرف ہمارے ہندوستان اور بر صغیر کے دوسرے حصوں میں بلکہ دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ ایسے عوامی قصے نہ کسی مخصوص ملک یا علاقے تک محدود رہتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی مذہب ہوتا ہے …اس لیے دنیا بھر میں ایسی کہانیوں اور قصہ گوئی کی روایتوں کے وافر ذخیرے بکھرے پڑے ہیں اور جن میں بہت ساری مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔‘‘ (ص: ۹)

ہند قدیم کے قصّے کہانیاں دنیا بھر کی کہانیوں اور قصّہ گوئی کی روایات میں بڑی مماثلتیں پائی جاتی ہیں، اس سے قطعاً اختلاف کی گنجائش نہیں، بلکہ اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ ایک روسی اسکالر کا کہنا ہے کہ ساری دنیا کے عوامی قصوں کی روایات میں بنیادی طور پر بہت سی یکسانیت پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک جرمن خاتون ریسرچ اسکالر کو بھی ہندوستانی اور جرمنی قصوں میں غیر معمولی مماثلتیں نظر آتی ہیں۔ مذکورہ کتاب میں موصوف نے ٹکساس یونیورسٹی (امریکہ) کے ایک اسکالر نیتھن طبور جو ۱۳-۲۰۱۲ء میں ہندوستان آئے تھے، اپنی ذاتی ملاقات میں ادبی گفتگو کے حوالے سے موصوف فرماتے ہیں کہ:

’’ہندوستان اور امریکہ یہاں تک کہ یروشلم کے قدیم قصوں اور روایتی قصوں میں بہت سی یکسانیت پائی جاتی ہیں۔‘‘

انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافتی ارتقا میں ان قصّے کہانیوں کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔ یہ قصّے کہانیاں اور حکایتیں انسانی زندگی و معاشرت اور فکر و عمل کا بہت ضروری حصّہ بن جاتی ہیں۔ قدیم تاریخ برسوں سے پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں کہ مافوق الفطرت عناصر جن، بھوت، دیو، پریاں، شاہ زادوں اور شاہ زادیوں کے قصّے ہوں یا حیواناتی تمثیلی کہانیاں، لیلیٰ مجنوں، وامق و عذرا، شیریں فرہاد، ہیر رانجھا اور سونی مہیوال کے عشقیہ افسانے ہوں یا آلہ اودل کے شجاعتی قصّے ہوں جس میں عیارِ دانش، گنج خوبی، سنگھاسن بتیسی، قصّہ سیف الملوک، بدرِ منیر اور گلِ بکاؤلی کے قصّے اور کہانیاں ہوں، سب ہی انسانی تہذیب و معاشرت کی میراث ہیں جن کو عوامی سطح پر مقبولیت کل بھی حاصل تھی اور آج بھی دلچسپی، فرحت و انبساط کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اسی لیے نسیم اؔ عظمی صاحب اس کا احساس کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کیوں کہ یہ عوامی کہانیاں محض کہانیاں نہیں ہیں بلکہ انسانی ذہن و فکر کے ارتقا کی ایسی تہذیبی روایتیں ہیں جنہیں نظر انداز کر کے انسانی معاشرت و تمدن کے ارتقا کی صحیح تفہیم نہیں کی جا سکتی، اور اگر عوامی قصّوں اور کہانیوں کے سرمایوں کو یکجا کر کے ان کی باقاعدہ ترتیب دی جائے تو کچھ ایسی حقیقتوں کے سامنے آنے کے امکان ہیں جس کے تناظر میں داستانوں کا بہ خوبی تجزیہ کیا جا سکے اور انسانی ذہن و فکر نیز تہذیب و معاشرت کے بہ تدریج ارتقا کو بھی بہ خوبی سمجھنے میں مدد ملے گی اور بہت کار آمد باتیں بھی سامنے آ سکیں گی۔‘‘ (ص: ۱۱)

قصّہ گوئی سے داستان سرائی کے ارتقائی عمل میں وہ داستان کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ:

’’قصہ کہانی سننے کی روایت اور اس سے انسانی دلچسپی و لگاؤ در اصل اس کی اجتماعی زندگی کی حقیقت کا اظہار ہے، اور انہیں چلتی، پھرتی کہانیوں اور آوارہ قصوں کو منضبط انداز میں پیش کرنے کا نام داستان ہے۔‘‘

انسان کے غیر شعوری دور میں اسے اکیلے اور تنہا زندگی گزارنے کی عادت تھی۔ وہ تہذیب و تمدن سے نا آشنا تھا۔ اپنی بھوک، پیاس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے شکار کی تلاش میں ادھر، ادھر مارا پھرتا تھا۔ نباتات کے پتوں، جڑوں اور پھلوں پر گزارا کرتا اور جہاں جو کچھ مل جاتا اس سے اپنا پیٹ بھر لیتا۔ جب انسان کے اندر اجتماعی زندگی گزارنے کا شعور بیدار ہوا تو اس نے فطرت کی جن قوتوں سے نبرد آزمائی کرنے کی شروعات کی اور جن جن نشیب و فراز سے گزر کر اس نے کامیابی و کامرانی حاصل کی تو اس کی روداد بیانی میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ چوں کہ اس کے پاس اپنے خیالات و کمالات کے اظہار کے لیے اپنی زبان نہیں تھی۔ وہ نطق و لسان سے محروم تھا، اس لیے اپنی بہادری کے قصے اور شکاریات کے شجاعت سے بھرپور کارنامے اپنی آنکھوں اور ہاتھوں و پیروں کے ذریعہ اشارے و کنائے میں بیان کیے۔ راقم نے اپنے ایک افسانہ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ میں جس میں کہانی خود راوی ہے اور اپنی روداد اس طرح بیان کرتی ہے:

’’یہ دنیا کا سب سے پہلا عجوبہ تھا، دائرے نے حرکات و سکنات کو نطق دینا چاہا…اور مجھے اپنی ناک بھنویں اور انگلی کے اشارے سے یوں سنایا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

’’ایک اتنا لمبا…با‘‘ دونوں ہاتھوں کو پھیلایا) ’’اتنا بڑا… موں۔۔ ۔۔ ہ۔۔ ۔ منھ (اپنے ہاتھوں کو سکوڑ دیا) وہ منھ کھو…کھولے تھا‘‘ (اس نے اپنا منھ کھول دیا) ’’اتنے بڑے بڑے دانت‘‘ (اس نے اپنے دانت کھول دیئے) ’’وہ میری طرف آیا‘‘ (اس نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا) …پھر وہ آگے آیا اور نکیلا ہتھیار دکھاتے ہوئے بولا! ’’یہ لال لال خون میں نے اس کی گردن میں گھونپ دیا‘‘ (اس نے اپنی گردن پر ہتھیار پھیرا) ۔۔ ۔۔ ’’اور وہ گر گیا…سامنے شکار مرا ہوا پڑا تھا۔ اس نے انگلی سے اشارہ کیا۔‘‘ (وہ اور پرندہ، احمد رشید، ص: ۰ ۱)

افسانہ کے منظر نامہ کو بیان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ غیر تہذیب یافتہ انسان کے پاس جب زبان و لسان نہیں تھی تب بھی وہ اپنی بہادری اور حوصلے کی روداد اشاروں کنایوں میں بیان کرتا اور سننے اور دیکھنے والے لطف اندوز ہوتے، اسی قسم کی شجاعت و بہادری کے قصّے سنانے میں فخر و وقار کی نفسیات انسان کے اندر کام کرتی ہے۔

جب انسان کو نطق و لسان اور زبان و بیان کی قدرت کے ساتھ فکر و شعور کی چاشنی ملی تو اس نے معرکوں اور مہموں اور تجربات و مشاہدات کی روداد کا عمل دہرانا شروع کر دیا، اور اس روداد بیانی میں پر اسراریت پیدا کرنے کے لیے حیرت ناک اور مافوق الفطرت واقعات کو شامل کر کے اسے مزید دلچسپ اور دل کش بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ داستان سرائی کا باقاعدہ آغاز اسی طرح ہوا ہے۔ دن کی سخت محنت و مشقت کے بعد انسان کو جسمانی راحت اور ذہنی سکون کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے اپنی تھکن کو دور کرنے اور زندگی کی تلخیوں کو بھولنے اور آئندہ کے لیے تازہ دم ہونے اور وقتی خود فراموشی کی کیفیت حاصل کرنے کے لیے داستان سرائی کے رواج کو عام کیا اور اس کو مزید پر لطف بنانے کے لیے اسے رومان کی لذتوں سے آشنائی کی شروعات کی ہو گی اس بابت موصوف فرماتے ہیں:

’’اس نے اپنی حقیقت بیانی میں رومان، تصور اور تخیل کی آمیزش سے ایک ایسی تصوراتی اور تخیلاتی دنیا آباد کرنے کی کوشش شروع کر دی، جس میں اسے لذتِ کام و دہن، ذائقہ فکر و خیال کے ساتھ ہی حقیقی زندگی کی سخت آزمائشوں سے بھی قدرے نجات کی صورت پیدا ہو سکے، اور مجلسی زندگی کی لطف سامانیوں میں بھی اضافہ ہو سکے، اور جب ایسا ہونے لگا تو پھر اسے ضبط تحریر میں لایا جانے لگا، جس سے باقاعدہ تحریری داستان سرائی کا بھی آغاز ہو گیا ہو گا۔ کیوں کہ کوئی بھی ادبی صنف خود رو پودے کی طرح خود بہ خود وجود میں نہیں آتی … تہذیبی اور تمدنی کروٹوں اور زندگی کے بدلتے رویوں کے اتفاقیہ زیر اثر بہ تدریج ارتقا پذیر ہوتی ہیں یا زوال و انحطاط سے دو چار ہو کر دھیرے دھیرے یا تو ختم ہو جاتی ہیں یا ان کا چلن کم ہو جاتا ہے۔‘‘ (ص: ۱۲)

اردو میں داستان نگاری کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے نصف آخر سے ہوتا ہے۔ داستانوں کے فروغ میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مرزا عطا حسین خاں تحسین کی ’’نو طرزِ مرصع‘‘ اور بعض مورخین نے ملا وجہی کی کتاب ’’سب رس‘‘ کو اردو کی سب سے پہلی داستان قرار دیا ہے۔ ’’نو طرزِ مرصع‘‘ کو میر امن دہلوی نے ’’باغ و بہار’ کے نام سے ۱۸۰۱ء میں ترجمہ کیا۔ انشاء اللہ خاں انشا نے ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ لکھی۔ فورٹ ولیم کالج میں ’’باغ و بہار‘‘ کے علاوہ حیدر بخش حیدری کی ’’آرائشِ محفل‘‘ اور بہادر علی حسینی کی ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘۔ مظہر علی ولا اور للّو لال جی کی ’’بیتال پچیسی‘‘ کاظم علی جواں اور للّو لال جی کی ’’سنگھاسن بتیسی‘‘ وغیرہ کے نام بہ طورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اور بھی سینکڑوں داستانیں ہیں جن میں چند یہ ہیں۔ رجب علی بیگ سرور کی ’’فسانۂ عجائب‘‘ نیم چند کھتری کی ’’گلِ صنوبر‘‘، ’’الف لیلیٰ، بوستانِ خیال اور طلسم ہوش ربا‘‘ وغیرہ بھی اردو کے داستانوی ادب میں کافی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔ مذکورہ تمام داستانوں کے مطالعہ کے بعد صاحب کتاب جس نتیجے تک پہنچے ہیں ذیل میں اس کی تفصیل پیش ہے۔

٭ اردو کی دستیاب تمام چھوٹی بڑی داستانوں میں جو یکسانیت پائی جاتی ہے اس میں دانستاً قصہ کو طول دینا اور کہانی کو بڑھا نے کے لیے کلیدی قصّے میں ضمنی قصّے کو جوڑ دینا۔

٭ ان داستانی کہانیوں میں وحدتِ تاثر نہیں ہو پاتا، اور کہانی کا آغاز، اس کے بہ تدریج ارتقا، نتیجہ خیز انجام اور تکمیل میں بھی کمی کا احساس ہوتا ہے، لیکن ان میں دل چسپی کا لازمی عنصر ضرور پایا جاتا ہے۔

٭ ان داستانوں میں تخیلات و تصورات اور رومان و دل کشی کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے جس کی تعمیر و تشکیل میں داستان گوئی کی بنیادی روایت کی کار فرمائی ہوتی ہے۔

٭ مافوق الفطرت عناصر کے ذکر سے ایک طلسمی دنیا قائم ہوتی ہے جو غیر حقیقی اور بعد از عقل و فہم اور فطرت و نفسیات سے بالا تر ہوتی ہے۔

٭ لیکن داستانوں میں نیکی اور بدی کا تصادم بھی ہوتا ہے، آخر میں نیکی کو بدی پر فتح حاصل ہوتی ہے۔

٭ پڑھنے اور سننے والے کو ذہنی، قلبی اور روحانی مسرت و انبساط حاصل ہوتا ہے۔

داستان کی محیر العقول دنیا صرف تخیلات و تصورات کی پروردہ تھی، لیکن اس میں ایسی فضا سازی کی جاتی تھی کہ یہ حقیقی دنیا سے زیادہ قابلِ یقین معلوم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایم۔ نسیم اؔ عظمی کا خیال ہے کہ:

’’داستانوں کی خیالی دنیا کی مدد سے حقیقی دنیا کو بنیاد بنا کر اور اس حقیقت میں تخیلات کی آمیزش کر کے اور مغرب میں رائج ہو چکے ناولوں سے متاثر ہو کر مولوی نذیر احمد نے اردو میں ناول نگاری کا آغاز کیا۔ مراۃ العروس (۱۸۶۹ء) لکھ کر اردو میں ناول نگاری کی شروعات اس وقت کی جب اردو میں داستان گوئی اپنے شباب پر تھی…ناول نگاری کے آغاز کے بعد بھی اردو میں باقاعدہ داستان نویسی ہوتی رہی اور ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ محمد عبد اللہ بلگرامی(۱۸۷۱ء) ’’طلسمِ حیرت‘‘ جعفر علی سیون (۱۸۷۲ء) ’’بوستانِ خیال‘‘ محمد عسکری و آغا حجو (۱۸۸۲ء تا۱۸۹۱ء) ’’داستان امیر حمزہ‘‘ تصدق حسین، محمد حسین جاہ اور احمد حسین قمر (۱۸۸۳ء تا ۱۹۰۱ء) ’’ہزار داستان‘‘ حامد علی خاں (۱۸۸۹ء) اور ’’الف لیلہ‘‘پنڈت رتن ناتھ سرشار (۱۹۰۱ء) وغیرہ بہ طورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔‘‘ (ص: ۱۵)

داستانوں کے حوالے سے یہ تحقیقی نوعیت کا بہت اہم مضمون ہے۔ طوالت کے خوف سے بہت سی داستانوں کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تنقید کے ساتھ تحقیقی مضمون لکھنا بہت مشقت طلب اور جگر سوزی کا کام ہے، مگر موصوف نے یہ اہم اور مشکل کام بھی بہ حسن و خوبی انجام دیا ہے۔

اردو داستانوں کے بطن اور انگریزی ناولوں کے زیرِ اثر ایک نئی صنف ’’ناول‘‘ کی بنیاد قائم ہو گئی تھی۔ جن لوگوں نے اس نئی صنف میں اپنی بے پناہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ان میں عبد الحلیم شرر اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کے نام خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں، جنہوں نے داستان کے جذباتی اور مبالغہ آرائی کے عناصر کو باقی رکھتے ہوئے خالص انگریزی اور یورپی ناولوں کے طرز پر متعدد ناول لکھے، جن میں ’’فسانۂ آزاد‘‘ واقعہ نگاری کی رنگینی، طرز بیان کی صنعت گری اور کرداروں کی تشکیل و تعمیر کی وجہ سے مقبول ہے۔ عبد الحلیم شرر خصوصاً تاریخی ناولوں میں مردانگی، شجاعت اور جاں بازی کے مطالعہ آمیز کارناموں کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔ بقول ایم۔ نسیم اعظمی :

’’اردو ناول کو مغرب سے برآمد کی گئی خالص مغربی صنف ادب تصور کرنا مناسب نہیں ہو گا، بلکہ اردو داستانوں کے انگریزی اثرات سے متاثر ہو کر ترقی پانے والی ایک ایسی نثری صنف ہے جو موضوع و مواد اور واقعات کی حقیقت میں تخیل و تصور اور دوسرے داستانی عناصر کی آمیزش سے وجود پذیر ہوئی ہے۔‘‘ (ص: ۱۷)

اردو ناول نگاری کے ابتدائی دور میں منشی سجاد حسین، مولوی نذیر احمد، عبد الحلیم شرر اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کے علاوہ جن لوگوں نے اس کے فروغ میں نمایاں کارنامے انجام دیئے ان میں مرزا ہادی حسن رسوا کا نام خصوصی طور سے لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مرزا محمد سعید کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔ بعد ازاں محمد علی طیب اور علامہ راشد الخیری نے بھی ناول کے فن کو آگے بڑھانے کی سعی کی ہے۔ ناول کی حقیقی منزل وہ ہے جسے پریم چند کی ناول نگاری کہا جاتا ہے۔ پریم چند نے متعدد ناول لکھے اور اردو میں اس فن کو اتنی ترقی دی کہ یہ بامِ عروج تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

نئے ادبی اور تعلیمی ماحول نے ایسی فکری بیداری پیدا کی کہ اس نے ناول کے ساتھ ایک ایسی صنف کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا جو قلیل مدت میں رومان کی رنگینیوں کے ساتھ زندگی کی پر پیچ حقیقتوں اور فن کار کی تخیل آمیزی سے زندگی کے مختلف تجر بات و مشاہدات سے بھی روشناس کرا سکے اور قاری کی ذہنی دلچسپی و تفریح کا سامان مہیا کرا سکے۔ چنانچہ ہندوستان کی لوک کہانیوں، عوامی قصوں کی روایت کی بنیادوں پر جدید مغربی ادب کی معروف صنف شارٹ اسٹوری کے اثرات سے اردو میں بھی افسانہ نگاری کا آغاز ہوا۔ اس بابت موصوف رقم طراز ہیں:

’’اردو افسانہ کی صنف کو ایک ایسی عمارت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو ہندوستان کی زمین اور بنیادوں پر تعمیر ہوئی ہے، اور اس میں استعمال ہونے والے میٹریل بھی ہندوستانی ہیں۔ لیکن اس کی تعمیر انگریزی نقشہ کے مطابق کی گئی ہے، اور اس کے درو دیوار کے رنگ و روغن اور ظاہری حسن و خوبی میں بھی مغربی انداز اور طریقِ کار سے کام لیا گیا ہے۔‘‘ (ص: ۱۸)

سر سید احمد خاں کی علی گڑھ تحریک کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ مغربی اثرات سے اردو زبان و ادب مغربی ادب و شاعری کی مقصدی روایت کو نئے انداز میں رواج دیا۔ اصلاح پسندی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے احساسات پیدا کیے۔ مغلیہ عہد کے زوال کے بعد ملکی حالات ابتر ہو چکے تھے، خاص طور سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن زوال پذیر تھی۔ ان کے معاشرتی اور سماجی حالات تباہ ہو چکے تھے۔ اس لیے سر سید احمد خاں اور ان کے رفقا نے قوم و ملّت کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا۔ سر سید احمد خاں اور ان کے احباب مولوی نذیر احمد، مولانا حالی، اکبر الہ آبادی اور عبد الحلیم شرر وغیرہ کی تحریروں نے اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ قوم و ملّت پر مثبت اثرات مرتب کیے، جس کے نتیجے میں ’’اودھ پنچ‘‘ (۱۸۷۷ء) کی شروعات مانی جاتی ہے۔ منشی سجاد حسین اور ’’اودھ پنچ‘‘ کے دیگر قلم کاروں کی مزاحیہ تحریروں سے اردو میں مختصر افسانے کے ابتدائی نقوش ابھرنے شروع ہوئے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

’’منشی جوالا پرشاد برق، مرزا مچھو بیگ ستم ظریف، نواب سید محمد آزاد اور علی محمود شمسی کی تحریروں سے اردو افسانوں کی بنیاد پڑنی شروع ہوئی اور سجاد حیدر یلدرم نے غالباً پہلی بار انگریزی لفظ و صنف شارٹ اسٹوری (Short Story) کو اردو متبادل کے طور پر اور اسی مفہوم میں لفظِ افسانہ کا استعمال کیا۔‘‘ (ص: ۱۹-۲۰)

افسانہ ایک علاحدہ نثری صنف کی حیثیت سے باقاعدہ متعارف ہوا، جس میں زندگی کی وسعتوں، گہرائیوں اور معاملات و مسائل کی عکاسی اور ترجمانی ہوتی ہے۔ فنی نقطۂ نظر سے یہ ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں تفصیل و، وضاحت کے بجائے ایجاز و اختصار کی اہمیت ہوتی ہے۔ در اصل جاگیر دارانہ نظام نے داستان جیسی صنف کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ نئے سیاسی حالات و ماحول اور جدید مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور جدید صنعتی ترقی نے ناول، افسانہ، جدید اور آزاد نظم جیسی اصناف کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ ان کو فروغ بھی دیا۔ فکشن کی دونوں اصناف یعنی داستان، ناول اور افسانہ میں بعض ایسی مماثلتیں اور یکسانیت پائی جاتی ہیں کہ ان میں حد فاصل قائم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی نے دونوں اصناف کا فرق اجمالاً واضح کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

’’ناول کا کینوس زیادہ وسیع ہوتا ہے اس میں پوری زندگی و معاشرت اور اس کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں کی پوری تفصیل و صراحت کے ساتھ ترجمانی کی جاتی ہے۔ اس لیے ناول واقعات کے مجموعے کا نام ہے جب کہ افسانہ میں زندگی کے کسی ایک واقعہ، حادثہ، معاملہ، تجربہ یا پہلو کا بیانیہ اظہار ہوتا ہے اور اس میں انسانی زندگی یا معاشرت کے کسی ایک پہلو، زاویہ، واقعہ یا پہلو کا بیانیہ ہوتا ہے اور اس میں انسانی زندگی یا معاشرت کے کسی ایک پہلو، زاویہ، واقعہ یا خیال و احساس کو ہی موضوع بنایا جاتا ہے اور اس میں تخیل کی آمیزش سے افسانہ بنا دیا جاتا ہے۔ … اس لیے افسانہ حقیقت واقعہ کے فنی اظہار کا نام ہے اور اس فنی اظہار میں تخیل و تصور اور ذوقِ جمال کی مدد سے ہی زندگی کی کوئی نئی دلکش، دل چسپ، پرکشش اور خوبصورت تصویر بنا کر یا زندگی کسی تاریک پہلو یا بدصورتی کی تصویر کشی کے توسط سے تصورِ حسن و جمالیات کے احساس کی بے داری کو مختصر قصّہ بنا کر پیش کرنے کا نام افسانہ ہے۔ اس میں کردار و مسائل کی بہ ذاتِ خود کوئی الگ حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ کہانی کی بنت میں ہی شامل ہوتے ہیں اور افسانہ کے وحدتِ تاثر میں شدّت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔‘‘ (ص: ۲۰-۲۱)

افسانہ میں تحیر و تجسس کی فضا قائم کی جاتی ہے اور فضا کی تعمیر کے لیے ایمائیت، اشاریت اور اختصاریت سے کام لیا جاتا ہے۔ افسانے کے چونکا دینے والے انکشاف سے قاری متاثر ہوتا ہے۔ افسانہ میں پلاٹ ایک بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے جس میں واقعات و جزئیات کی منطقی ترتیب میں خارجی و داخلی ربط قائم کرنا بھی افسانے کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح افسانہ میں مواد، موضوع اور کردار نگاری میں بھی ہم آہنگی قائم کی جاتی ہے۔ مکالمہ سے کرداروں میں فعالیت اور تحریک پیدا کر کے تاثر میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ افسانہ میں حسن تاثیر کے لیے جذبات نگاری، منظر کشی اور فضا سازی بہت ضروری ہوتی ہے۔

افسانہ اور ناول کی کرداری نگاری کے افتراق کی وضاحت کرتے ہوئے موصوف کا ماننا ہے کہ صنف افسانہ میں نہ ناول جیسی کردار نگاری کی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی ان سے ناول کی طرح کام لیا جا سکتا ہے۔ وہ مزید لکھے ہیں:

’’لیکن افسانہ مناظر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، زمان و مکان کے تعین اور ماحول و فضا سازی میں معاون ہوتے ہیں اور کردار و واقعہ میں باطنی ارتعاش و کیفیت پیدا کرنے میں کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔‘‘

ناول اور افسانہ کے بنیادی فرق کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں:

’’ناول اور افسانے کی صنفی ضروریات الگ الگ ہوتی ہیں۔ ناول اور افسانے میں صرف طول کا فرق نہیں ہے۔ (گو سب سے پہلے طوالت کے حوالے سے ہی ہم ناول اور افسانے میں امتیاز کرتے ہیں۔) بلکہ وقت کے برتاؤ کا بھی فرق ہے اور یہ فرق اتنا ہی اہم ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ناول میں وقت کا آگے بڑھتے رہنا اس کی اہم خصوصیت ہے جب کہ افسانے میں وقت کے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (جدید اردو افسانہ: ہیئت اور اسلوب میں تجربات کا تجزیہ، ص: ۲۱)

مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں ناول اور افسانے کا واضح فرق سامنے آتا ہے، اسی ضمن میں پروفیسر مولا بخش کی مثبت رائے پر بھی نظر ڈالتے چلیں جو انہوں نے اپنے مضمون ’’ثقافتی تاخیر کا بیانیہ اور طارق چھتاری کا افسانوی زاویہ‘‘ میں افسانے کے سلسلے میں دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’افسانہ زندگی کے کسی ایک نکتے پر منتج اور معنیاتی فشار پر راجع یک بابی (Single Episodic) مگر ہمہ جہت ایسی تمثیل (Drama) بہ صورت بیانیہ ہے جو کسی نہ کسی لمحۂ فکریہ پر ختم ہوتا ہے، مگر اختتام کے زاویئے ہمیشہ التوا میں رہتے ہیں۔ دیگر اصنافِ سخن کی طرح ہر دور میں افسانے کی ساخت میں تبدیلی ہوتی چلی گئی ہے۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ ناول میں وقت آگے دوڑتا ہے اور پیچھے بھی۔ لیکن افسانے میں برائے نام وقت میں حرکت ہوتی ہے۔ چنانچہ جب ناول میں یہ کہتے ہیں کہ ’’دس سال گزر گئے‘‘ تو ان دس سالوں کی صورتِ حال کی وضاحت کر نی ہو گی کہ ان دس سالوں میں کرداروں کی نشو و نما پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہاں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ناول میں کردار Growہوتے ہیں لیکن افسانہ میں ’’دس سال گزر گئے‘‘ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ ان دس سالوں کے طویل عرصہ میں کرداروں پر کیا گزری۔

ناولٹ/ناول میں افسانہ کی طرح پلاٹ، کردار، محل وقوع اور ضمنی پھیلاؤ بھی ہوتا ہے، لیکن مختصر افسانے کی وحدت نہیں ہوتی۔ ناول اور ناولٹ میں ضمنی پلاٹ بھی ہو سکتے ہیں، کرداروں کی بہتات ہو سکتی ہے، واقعات کی بھرمار ہو سکتی ہے اور گریز کے لمحات بھی آ سکتے ہیں، لیکن افسانے میں مذکورہ تمام چیزیں لازم نہیں ہیں۔

قصے، کہانی میں افسانے کے بر خلاف واقعات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے، اس میں حقیقی نقطۂ عروج کا احساس نہیں ہوتا۔ اس میں قصوں کی زنجیر ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس افسانہ میں اپنی مرضی سے کسی چیز کا اضافہ نہیں کر سکتے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی فرماتے ہیں:

’’لیکن مناظر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے زمان و مکان کے تعین اور ماحول و فضا سازی میں معاون ہوتے ہیں اور کردار و واقعہ میں باطنی ارتعاش و کیفیت پیدا کرنے میں کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ جذبات نگاری سے افسانہ میں تحریک عمل، ردّ عمل، داخلی کیفیات اور کشمکش کی عکاسی کی جاتی ہے، اور وحدتِ تاثر کو شدید، دیر پا اور حیران کن بنانے میں کام لیا جاتا ہے۔‘‘ (ص: ۲۱-۲۲)

افسانہ کسی جامد شے کا نام نہیں، یہ بڑی فعال اور متحرک صنف ہے۔ اس میں متغیر حیات و کائنات، حالات و واقعات، دیگر سماجی اور معاشرتی بدلاؤ کے ساتھ تبدیلی کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس میں زندگی کے نت نئے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر تجربہ کرنے، اضافے اور تخفیف کرنے کی بھر پور گنجائش ہوتی ہے۔ اگر افسانے پر نگاہ ڈالیں تو یہ سچائی ہمارے سامنے آتی ہے کہ پریم چند کی حقیقت نگاری ہو یا اس کے آس پاس سے تھوڑا قبل اردو میں رومانوی افسانہ نگاری کے علم بردار نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم (نیاز افسانہ نگاری میں خود کو سجاد حیدر یلدرم کا شاگرد تصور کرتے ہیں۔) مجنوں گورکھپوری وغیرہ نے اردو افسانہ کے آغاز و ارتقا میں نمایاں کار نامے انجام دیئے ہیں۔ علاوہ ازیں حجاب امتیاز علی، مسٹر عبد القادر، ل۔ احمد، سدرشن، علی عباس حسینی، اعظم کریوی اور محمد مجیب وغیرہ نے بھی بیسویں صدی کے نصف اوّل میں ترقی پسند تحریک سے قبل اردو افسانہ نگاری کو فروغ دینے اور اس میں وسعت و ہمہ گیری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا جنہیں کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح پریم چند کے بعد خواہ وہ ترقی پسند افسانہ ہو یا جدید تر سب میں تکنیک، ہیئت اور اسلوب کے کامیاب تجربے کیے گئے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا۔ موصوف بھی افسانہ میں تکنیک کو بڑی اہمیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’افسانہ میں تکنیک کی کوئی واضح تعریف متعین نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی اصول یا قاعدۂ کلیہ ہی طے شدہ ہے، بلکہ افسانہ کا ہر موضوع اور مواد اپنے لیے خود تکنیک پیدا کر لیتا ہے اور اس کا بہت کچھ انحصار افسانہ نگار کے پیرایۂ اظہار و اندازِ پیش کش پر ہوتا ہے۔ افسانہ میں عموماً عمل اور مکالمہ کی ملی جلی تکنیک کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ (ص: ۲۲)

کرشن چندر نے افسانے کے ہیئتی امکانات کے سلسلے میں مجموعہ ’’ہل کے سائے‘ ‘کے تعارف میں لکھا ہے:

’’پرانی ہیئت میں نئے سماجی مواد کو پیش کرنا ہمارا شیوہ رہا ہے، لیکن ہمیں اب افسانوی ہیئت میں بھی تبدیلی کرنا چاہیے۔ کیوں کہ افسانے میں ہیئت کے اعتبار سے بھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔ مختصر افسانے کو بے حد مختصر کر دیجئے تو نظم سے جا ملتا ہے، اور بڑھا دیجئے تو ناول کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ اس کے مکالمے کو پھیلا دیجئے تو ڈرامائی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے، اور بیانیہ عنصر بڑھا دیجئے تو، یہ انشائے لطیف کے قریب ہو جاتا ہے۔ اس سے اس کے وسیع پھیلاؤ اور اس کے امکانات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے اندر بہت سی ہیئتی اجزا کے سمونے کی قوت رکھتا ہے۔‘‘

کرشن چندر کے ۱۹۴۹ء کے مذکورہ بیان سے کچھ نکتے بر آمد ہوتے ہیں۔

٭ نئے سماجی مواد کے لیے پرانی ہیئت کار گر ثابت نہیں ہو گی، اس لیے اب افسانوی ہیئت میں تبدیلی ضروری ہے۔

٭ افسانے کے وسیع پھیلاؤ اور اس کے امکانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے اندر بہت سی ہیئتی اجزا کو سمونے کی قوت رکھتا ہے۔

٭ افسانہ بہت ہی نازک صنف سخن ہے اس لیے احتیاط اور ہنر مندی کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس لیے بہت سے تنقید نگاروں کا ماننا ہے کہ افسانہ رمز و ایما، اشاریت اور اختصاریت کا متقاضی ہے۔ قاضی عبد الستار اکثر کہا کرتے تھے کہ افسانہ حشو و زوائد کا قائل نہیں ہوتا وہ اپنے نازک جسم پر زائد الفاظ کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود افسانہ کے سلسلے میں ایک نظریہ ہے کہ افسانہ دیگر اصناف کے مقابلے میں ایک آزاد ترین صنف ہے۔ ایچ۔ ای۔ بیٹس نے اپنی کتاب The Modern Short Story (۱۹۹۵ء) میں پرانی گنجائشوں کا ذکر کیا ہے۔

"The Short Story writer is the freest of all artists in words: far the free than the dramatist, infinitely freer than the poet, and in reality far freer than the novelist since. He is offered a wealth of subjects which it is unprofitable, undignified or otherwise not worth the novelist’s while a touch.” (page No. 216)

ہیئت کے سلسلے میں قدیم تصور ہے کہ ہیئت اور مافی الضمیر میں ظرف اور مظروف کا تعلق ہے، یعنی کوئی بھی رقیق شے جس برتن میں ڈالی جائے گی وہ اسی کی شکل اختیار کر لے گی۔ لیکن اس نظریہ کو معاصر نقاد نے مسترد کر دیا ہے۔ چوں کہ اس میں دوئی کا تصور ابھرتا ہے۔ مطلب ہیئت اور مافی الضمیر الگ الگ چیزیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہیئت اور مافی الضمیر کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ناگزیر طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی فر ماتے ہیں:

’’افسانہ میں تکنک سے مراد در اصل وہ طریقۂ کار ہوتا ہے جس کے ذریعہ افسانہ نگار اپنے مواد کو پیش کرتا ہے۔ لہٰذا افسانہ نگار کا طریقۂ اظہار اور اندازِ پیش کش ہی افسانہ کی اصل تکنک ہوتی ہے۔ اس لیے تکنک افسانہ نگاری کا نہ اصل نہ بنیادی مقصد ہوتی ہے اور نہ ہی ہیئتی تصور کی جاتی ہے اور نہ ہی جامد شے ہی ہوتی ہے، بلکہ وقت و حالات۔‘‘

تکنک کے معنی طریقۂ عمل یا طریقۂ کار کے ہوتے ہیں۔ تکنک انگریزی لفظ ہے جو انگریزی میں یونان سے آیا ہے۔ اس سلسلے میں ممتاز شیریں کا بہت اہم مضمون ’’ناول اور افسانہ میں تکنک کا تنوع‘‘ بہت کار آمد ہے۔ وہ فرماتی ہیں:

’’افسانہ کی تکنک میں جس طریقے سے مواد ڈھلتا ہے وہی تکنک ہے۔‘‘

ممتاز شیریں اسی مضمون میں مزید فرماتی ہیں:

’’جب سے افسانہ اپنے مخصوص دائرے سے باہر نکل آیا ہے اس میں بلا کا تنوع، وسعت اور قوت آ گئی ہے، افسانوی ادب متمول اور آزاد ہو گیا ہے۔ ساری پابندیوں کو توڑ کر زندگی کی ساری وسعتوں اور پیچیدگیوں کو اپنے آپ میں سمو لینا چاہتا ہے۔ اب ایسے افسانے بھی ہیں جن میں پلاٹ نہیں ہو تا، جن کی کوئی متناسب اور مکمل شکل نہیں ہوتی، وقت اور مقام کا تسلسل نہیں ہوتا، افسانے کے حصوں میں بھی تسلسل لازمی نہیں …چند الگ الگ تاثرات صرف ہلکی سی مناسبت کی وجہ سے افسانہ بنائے جا سکتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی نے اردو افسانہ میں عمومی طور پر تین اجزائے ترکیبی کا ذکر کیا ہے۔

(۱) موضوع: جو افسانہ میں بنیادی فکر پنہاں ہوتی ہے وہی اس کا اصل موضوع ہوتا ہے۔ موضوع، مواد، نفسِ مضمون اور تھیم کو بھی کہتے ہیں۔ موضوع کا تعلق افسانہ نگار کے احساسات و خیالات سے ہوتا ہے۔ (۲) دوسرا جز پلاٹ: واقعات اور جزئیات میں منطقی ربط قائم کرتا ہے۔ پلاٹ کا بنیادی مقصد کہانی کی ابتدا، وسط اور خاتمہ کے درمیان ربط و تسلسل برقرار رکھتا ہے تاکہ کہانی میں وحدتِ تاثر پیدا کیا جا سکے۔ (۳) تیسرا جز کردار نگاری ہے: کردار نگاری کو افسانے کا لازمی جز مانا جاتا ہے۔ افسانہ کی بافت میں پلاٹ، کردار اور فضا کو بنیادی عنصر کا درجہ دیا جاتا ہے۔

مذکورہ تینوں عناصر کے علاوہ افسانہ میں اسلوب جسے انگریزی میں Style کہتے ہیں کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اسلوب کی مستقل تعریف متعین کرنا آسان نہیں ہے۔ مختلف ادیبوں نے اپنی اپنی رائے دی ہیں۔ موصوف اس بابت رقم طراز ہیں:

’’کسی بھی فن، آرٹ، تحریر یا تقریر میں اسلوب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اسلوب در اصل وہ نازک، باریک، لطیف اور مخصوص طرزِ اظہار ہوتا ہے جو کسی فن کار کو دوسرے فن کار سے ممتاز بناتا ہے، اور اس کی مخصوص اور انفرادی شناخت بنانے میں معاون ہوتا ہے۔‘‘ (ص: ۲۵)

ادب میں اسلوب کی تعریف بھی متعین نہیں ہے۔ لارڈ جیسٹر فیلڈ کی نمائندہ تعریف ہے‘اسلوب خیال کا لباس ہے۔‘ یہ ایک قدیم تصور ہے جو اسلوب کو خیال سے الگ آرائش کی چیز سمجھتا ہے۔ رومانی دور میں یہ تعریف بہت مشہور ہوئی کہ اسلوب در اصل خود شخص ہے اس پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اسلوب اگر شخصیت کا اظہار ہے تو پھر اسلوب کا مطالعہ چھوڑ کر شخصیت کا مطالعہ مفید ہو گا۔‘‘

آخر میں شمس الرحمن فاروقی کے خیال پر نظر ٹھہرتی ہے:

’’اسلوب کی اساس در اصل زبان پر ہے۔ نفس الامر یہ ہے کہ اسلوب کے بغیر کسی بھی تحریر یا افسانہ میں جان پیدا ہونا مشکل ہوتی ہے۔ اس کا فرد اور زمانہ سے گہرا رشتہ ہوتا ہے اس لیے اشیا، افراد اور زمانے کی تبدیلی سے اس میں بھی تبدیلی آتی ہے۔‘‘

آخر میں ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی کے تنقیدی نظریات اور تنقیدی رویوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ افسانہ میں زندگی کے مسائل اور بدلتے ہوئے رشتوں کو مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اس صنف نے جس سرعت سے ترقی کی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ اس صنف کی زندگی سے ہم آہنگی ہے۔ زندگی کی تبدیلیاں اور ترقیاں اس کی راہ میں حائل نہیں ہوئیں، بلکہ یہ ترقی کے راستے ہموار کرتی رہیں۔ ڈاکٹر نسیم اعظمی نے افسانہ کی ہیئت کے سلسلے میں مدلل بحث کی ہے۔ ادب کی دوسری اصناف کی طرح افسانے میں بھی مواد اور ہیئت کا امتزاج ہوتا ہے۔ اس کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس ہم آہنگی میں اس فن کے حسن کا راز پوشیدہ ہے۔ فن کا جمالیاتی پہلو اس حسین امتزاج کا دوسرا نام ہے۔ افسانہ میں موضوع اور ہیئت کی آمیزش ہی اپنے جلوے بکھیرتی ہے۔ افسانہ کی تعریف، ہیئت اور ارتقا کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے ’ہندوستان میں کہانی کہنے، سننے کی شروعات کیسے ہوئی؟‘ پر استدلالی بحث کی ہے۔ داستان گوئی کے سلسلے میں ان کا محققانہ نظریہ دلائل کی روشنی میں قابلِ مطالعہ ہے

موصوف کا تنقیدی مزاج نہایت متوازن اور معتدل ہے۔ فن پارہ میں مثبت پہلوؤں کی تلاش ہی ان کا طریق تنقید ہے۔ کسی بھی تخلیق کو جانچنے، پرکھنے کے لیے انہوں نے کبھی بھی سخت رویہ اختیار نہیں کیا۔ وہ کسی بھی مکتبۂ فکر سے وابستہ نہیں تھے، اور نہ ہی نظریاتی عینک چڑھا کر تخلیقی کارناموں کی ناپ تول کرتے ہیں۔ موصوف براہ راست تخلیقی فن پاروں کو پڑھ کر اپنی منصفانہ رائے قائم کرتے ہیں، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر ایم۔ نسیم اعظمی عملی تنقید کے حامی نظر آتے ہیں۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل