FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

فکر قرآنی

مفتی ابرار متین قاسمی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

ستر پوشی اور نظر کی حفاظت

قرآن  کریم ایک کتاب ہدایت ہے جس کی ہر بات ہر حکم ہدایت سے بھر پور اور لبریز ہے اس کے اندر نفع ہی نفع ہے نقصان کا کوئی تصور ہی نہیں ان سب کے علاوہ سب سے بڑا فائدہ یہ  ہے کہ خدائی طاعت و اطاعت کی تعمیل و تکمیل ہوتی ہے اور یہی خدائی طاعت و اطاعت ایک انسان کو انسانیت کے اعلیٰ وصف یعنی بندگی سے بہرہ ور کرتی ہے جو دنیوی و اخروی زندگی کے لئے حیات سرمدی بخشتی ہے۔

روئے زمین میں جب خدائی احکامات ٹوٹے اور نبی اکرم ﷺ کے پر نور طریقے چھوٹے تو دنیا میں مختلف احکامات کے ٹوٹنے پر مختلف قسم کے عذابات آئے جس سے انسانیت کچھ  دیر کے لئے کانپ اُٹھی ا ور سہم گئی مگر افسوس کے کچھ وقت کے گزرنے کے ساتھ سب کا سب بھلا دیا گیا  گویا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کو آگاہ کیا ہی نہیں۔

قرآن کریم کے بہت سارے احکامات میں ایک معاشرتی حکم یہ وارد ہوا ہے کہ ہر عاقل بالغ آدمی اپنے غیر محرم سے پردہ کرے ماں، بہن، دادی، نانی، پھوپی، خالہ بھانجی، بھتیجی، بہو ساس وغیرہ کے علاوہ بہت سارے ایسے رشتہ دار ہیں جن سے ایسا پردہ کیا جائے جس طرح کہ شریعت میں حکم وارد ہوا ہے جیسے خالہ کی بیٹی، پھوپی کی بیٹی، چچا کی بیٹی ماموں کی بیٹی سالی یا سالی کی بیٹی وغیرہ وغیرہ۔

امت میں جب  پردے کا حکم  توڑا گیا محرم و غیر محرم کے درمیان کے فرق کو بھلایا  تو اس حکم کے ٹوٹ جانے سے مختلف قسم کے بڑے بڑے فتنے دنیا میں پیدا ہو گے، نتیجتاً دنیا کے اندر انسانیت  شیطانیت سے تبدیل ہو گئی  فطری چین وسکون چھن گیا۔ زندگی کا معیار حیوانوں سے بد ترین ہو گیا، نہ ماں کو بیٹے کا فرق ہے نہ بیٹے کو ماں اور بیوی کا فرق ہے اسی طرح نہ بھائی کو بہن کا فرق ہے نہ بہن کو بھائی کا فرق ہے تب ہی تو حالت اس قدر بد ترین ہو گئی ہے کہ ماں کے پیٹ میں بیٹے  کا حمل ہے تو بہن کے پیٹ میں بھائی کا حمل ہے۔

بات حسب  و نسب کی جس کا مغربی ممالک امریکہ وغیرہ میں کوئی اعتبار نہیں یہ لڑکا و لڑکی کو اپنی ماں کا تو پتہ ہے مگر افسوس کے اپنے باپ کا دور دور تک پتہ نہیں اس طرح ماں کو اپنی ماں کا تو پتہ ہے مگر اس ماں کو بھی اپنے باپ کا دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں۔

ستر پوشی کرنا فطرت انسانی ہے

عقلمندی، فہم مندی اور ہنر مندی وغیرہ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق صرف اور صرف فطرت انسانی سے متعلق ہے حیوانات سے ان کا کوئی تعلق نہیں اسی طرح فطرت انسانی میں ایک بات جو حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ستر اور پردہ ہے دنیا کے اندر جتنے حیوان ہیں کسی کے لئے پردہ اور ستر کا کوئی حکم نہیں اور نہ ان کے اندر اس کی کوئی خاص ضرورت ہے وہ اس لے کہ پردہ لازم ہے شرم و حیا عفت و پاک دامنی کو لہذا یہ صفات حیوانات میں پائے نہیں جاتے ہیں لہذاستر اور پردہ کا حکم اسلامی حکم کے علاوہ فطرت انسانی کے لوازمات میں سے ہے۔

جسم پوشی اور پردہ کا حکم فطرت انسانی تقاضوں اور اسلامی احکامات سے متعلق ہے  انسانوں میں مرد و عورت دو صنفوں کے لئے پردہ لازم ہوا مر ایک فرق یہ ہے کہ جس طرح مرد و عورت انسان ہونے کے باوجود بہت ساری چیزوں میں مختلف طبیعت کے حامل  و قائل ہیں تو فطری تقاضوں میں بھی مختلف قسم کے اوصاف کے حامل ہیں۔

چنانچہ مرد و عورت دونوں کے ستر اور جسم پوشی کا حکم یہ ہے کہ مرد کم از کم ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک کپڑا پہنے اور عورت از سر تا پا اپنے تمام بدن کو ڈھانکے رکھے۔ عورت ذات کے لئے پردے کا اس طرح سخت اور تاکید حکم کیوں وارد ہوا ہے۔ حالانکہ مرد ذات کیلے ایسا حکم وارد نہیں ہوا ؟ حدیث پاک میں اس کی شریح آئی ہے کہ المراۃ عورۃ یعنی عورت مکمل طور پر پردے میں رہنے کی چیز ہے اوراس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کے جسم کو و  اس کے ساخت اور بناوٹ کچھ اس طرح بنایا ہے کہ تقریباً لوگ اس کے ہلکے ہلکے انداز میں ظاہر ہونے والے اعضا کو دیکھ کر اپنے آپ میں کھو جاتے ہیں اور ان کے اندر شہوانی و نفسیاتی ارادت و قوت پیدا ہونے لگتی ہے اور پھر نت نئے قسموں کا فتنہ پیدا ہو جاتا ہے جیسا کہ مضمون کے شروع میں وارد ہوا ہے۔

ایک حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تاکتا ہے یعنی اپنے ہاتھ کا چھجا بنا کر دیکھتا ہے اور لوگوں کو اس سے گمراہ کرتا ہے۔

جب کبھی عورت پر کسی اجنبی کی نظر پڑے تو فوری لیے نظر کو ہٹا لے اس نظر مفاجاء ۃ یعنی اچانک غیر ارادی نظر معاف ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلی نظر معاف ہے تو پہلی ہی نظر میں اسے خوب غور سے دیکھنا جائز ہے ایسا بھی نہیں بلکہ نظر پڑتے ہی اپنے نظروں کو پھیر لیں اس طرح پھریں کہ اس کے صورت و جسم کا کوئی خاکہ اس کے ذہن میں محفوظ نہ رہے۔

عورت یا مرد ایک دوسرے سے بلا صحابہؓ دیکھتے اور ملتے ہیں تو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے اللہ دیکھنے والے پر لعنت کرتے ہیں اور جسے دیکھا جا رہا ہے اس پر بھی لعنت کرتے ہیں یعنی جو اپنے جسم کو دیکھا رہا ہو خواہ دکھانے والا مرد ہو یا عورت جس طرح دیکھنے والا مرد ہو یا عورت۔

کوئی مرد کسی اجنبیہ عورت سے یا کوئی عورت کسی اجنبی مرد سے ملاقات ہر گز ہرگز نہ کرے اور اگر کرے تو بہت زیادہ ضرورت کے موقعہ پر کرے جہاں شریعت اجازت دیتی ہے۔ مگر ملاقات ایسی جگہ یا ایسے وقت نہ کرے جس سے تنہائی لازم ہوتی ہو اس لئے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب کبھی کوئی مرد یا کوئی عورت تنہائی میں ہوتے ہیں  تو وہاں تیسرا شخص شیطان ہوتا ہے۔ جو فتنہ و فساد برپا کرتا ہے۔ بلکہ ایسے وقت یا ایسی جگہ ملاقات کر سکتے ہیں جہاں ان دو سے زیادہ مرد و عورت پائے جائیں جس سے کہ فتنہ برپا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ستر پوشی کے ساتھ نظروں کی بھی مکمل حفاظت فرمائے۔ آمین۔

٭٭٭

 

دینی مدارس

دینی درس گاہیں مکتب کی شکل میں ہوں یا دار التحفیظ کی شکل میں، مدرسہ کی شکل میں ہوں یا دارالعلوم و جامعہ کی شکل میں ملت اسلامیہ کے لئے ہی نہیں بلکہ دیگر اقوام و ملل کے لئے بھی ایسے بجلی گھر ہیں جہاں سے دنیا کے ہر شعبہ میں بجلی پہنچتی رہتی ہے۔ اس کی روشنی سارے عالم کو منور کرتے رہتی ہے اور یہ حقیقت نصف النہار کی طرح واضح اور صاف ہے جس میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں۔ مگر اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی احسان فراموشی اور بے احساسی اس بات کی ترجمانی کرتی ہے کہ دینی مدارس کا وجود امت مسلمہ کے کاندھے پر گراں بار ہے۔ خیر ان حضرات سے خیر کی امید تو کیا کی جائے اگر ان سے شر بھی نہ پہنچے تو بہت غنیمت ہے۔

مرا بخیر تو امید نیست شرمرساں

مجھ کو تو تجھ سے خیر کی کوئی امید نہیں شر تو مت پہنچا

جب گم گشتہ ایام پر یا موجودہ ایام پر نظر ڈالتے ہوئے تاریخ کی اوراق گردانی کرتے  ہیں اور مدارس و جامعات کی خدمات پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کا وجود قوم ملت کے لئے کس قدر سود مند رہا۔ مدارس اسلامیہ نے قوم و ملت کو کیا دیا اور قوم نے خاص طور پر برادران اسلام نے مدارس اسلامیہ کے ساتھ کیاسلوک کیا یہ ایک مستقل بحث ہے مگر اس کی چند سرخیاں یہاں بیان کرنی ناگزیر ہے۔ اگر ان مدارس کا وجود نہ ہوتا تو ۱۸۵۷ء کی عظیم تاریخ نہ مرتب ہوتی اور نہ انگریز قوم کے مضبوط قلعہ کی بنیادی اینٹ کھسکتی علماء اسلام نے شاملی و بالاکوٹ کے میدان میں، کالے پانی کے انسانیت سوز و حیاء سوز بند میں، دلی کی جامع مسجد سے  لے کر چاندی چوک تک کے شاہ راہ میں اپنے آپ کو قربان نہ کیا ہوتا تو نہ اس ملک کا نقشہ دیکھنے کو ملتا اور نہ اس کی کوئی حقیقت اور حیثیت باقی رہتی۔

اگر علماء اسلام نے اپنی بیویوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم، گھر دار کو خیرباد نہ کیا ہوتا تو۱۹۴۷ء میں ۱۴  اگست و ۱۵  اگست کی عظیم تاریخ بنتی اور نہ ہر سال ۱۴  اگست کو پاکستان میں ۱۵ اگست کو ہندوستان میں جشن آزادی منایا جاتا۔ یہ تو مدارس وہ جامعات کی ملکی خدمات تھیں جن کی حقیقی تاریخ پر مکاری و عیاری، تنگ نظری و تعصب مزاجی کی دھول ضرور پڑی ہے مگر جب حقیقت سامنے آئے گی۔ تو پہلے سے زیادہ واضح ہو کر آئے گی۔

جب ہندوستان کی تحریکات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو تمام ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر تحریکات انہی مداراس سے جنم لیتی نظر آتی ہیں۔ ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ کچھ تحریکات مثبت انداز پر چلیں تو کچ منفی انداز میں۔ تحریک آزادی، تحریک ریشمی رومال، تحریک جامعہ علی گڑھ، تحریک جامعہ ملیہ، تحریک تبلیغی جماعت وغیرہ ایسی تحریکات ہیں جو ساری دنیا میں اسلامیات و  اخلاقیات کی خدمات انجام دے چکی ہیں، اور فی زمانا دے بھی رہی ہیں۔ اسی کے ثمرات و برکات سے آج ملک و غیر ملک میں ہر آدمی خاص طور پر مسلمانان قوم اپنے ایمان و عقیدہ کو محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ ورنہ کیا بعید تھا کہ ہسپانیہ (اسپین)سمرقند، بخارا، اور مغلیہ دور کے ہندوستان میں اختتام پر الحاد و کفر کی تاریک تاریخ بآسانی دہرائی جاتی اور یہاں پر بھی اللہ کا نام لینے والا باقی نہیں رہتا

اُردو ادب کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیئے تو پتہ چلے گا کہ ان مدارس نے اردو زبان کو قوم و ملت کی زبان سمجھ کر اس کی ابتداء سے اخیر تک اس قدر حفاظت فرمائی کہ اسلامی معلومات کے دوسرے بڑے ذخیرہ کو اردو زبان میں محفوظ کر دیا، اوراس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مکاتب و مدارس نے چھوٹے چھوٹے ننھے منے بچوں کو ابتداء ہی سے اردو کی طرف راغب فرما کر اردو کی ایک حد تک حفاظت فرمائی۔ اگر ان مکاتب ومدارس کا وجود نہیں ہوتا تو اردو زبان بھی سرد خانے میں کبھی کی پہنچ چکی ہوتی۔

علماء کرام کی علی گڑھ یا جامعہ ملیہ وغیرہ کی تحریک سے عوام میں تعلیمی بیداری مہم شروع   نہیں کی ہوتی تو آج مسلمان قوم معتدبہ انداز میں حرفت و صنعت، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں کچھ مقام نہیں بنا پاتی۔ ان کے علاوہ ان مدارس و جامعات میں لاکھوں حفاظ، علماء، فضلاء، مفتی، واعظین، مبلغین، و مناظرین پیدا کئے کہ جن کی تگ و دو  اور اخلاص سے ساری قوم و ملت نے دنیا و آخرت کی رہنمائی حاصل کی اور مقصد زندگی میں کامیاب و کامران ہوئے۔

بہر حال مسلمان قوم میں تبدیلی  فکر جدید اور ترجیح تہذیب جدید کے باوجود جو دینی فکر و تڑپ باقی ہے ان سب کا صلہ مدارس اسلامیہ کو پہنچتا ہے۔ بلا مبالغہ مدارس کا وجود ملک کے ہر باشندے کے لئے اور ہرمسلمان قوم کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ جس سے انکار یا کسی بھی قسم کی ادنیٰ سی بیزارگی احسان فراموشی اور خدائی پوچھ کا سبب بن سکتی ہے۔

ہر شخص اپنے محسن اور کرم فرما کو یاد کرتا ہے اوراس کے متعلق اپنے ذمہ داریوں کو نبھاتا ہے چنانچہ مدارس کے متعلق بھی اپنی کچھ ذمہ داریاں ہیں ان کو بر لانا ہر شخص پر قوم و ملت کا وجوبی وظیفہ ہے۔ (یہ بات واضح رہے کہ ہماری ذمہ داریاں قربانیوں کے درجہ کی ہوں۔ ضرورت پڑے تو صرف زکوٰۃ  و عطیات کے مال ہی سے نہیں بلکہ پورے مال و  پوری جان سے اپنی قربانی دے۔ ضرورت پڑے تو اپنے گھر دار اور بیوی بچوں کی اور اپنی جان کی بھی قربانی دے۔ تب جا کر ہماری ذمہ داری اور ہماری قربانی رنگ لائے گی اور ساری دنیا وقار و عظمت کے ساتھ زندگی بسر کرے گی۔ )

 اپنی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ علماء کرام کو عظمت و وقار کی نگاہ سے دیکھیں اور انہیں اپنے مسائل میں مشیر بنائیں۔ ان کے ساتھ اپنے رشتہ کو ایمانی و مذہبی رشتہ یقین جانیں۔ ان کے مسائل کو حتی الامکان دامے درمے حصہ لیں الغرض عوام علماء کے ساتھ اتنا مضبوط رشتہ بنائیں کہ کوئی قوم ہم پر مکاری و عیاری سے حملہ نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب عوام کا رشتہ علماء حق سے کٹا  تو دینی تنزل و انحطاط کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور دوریاں اس قدر بڑھیں کہ ہماری قوت کا شیرازہ بکھر گیا اور ہمارا رعب سرد پڑ گیا۔ غیر مسلم قوموں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر عالمی سطح پر استحصال کیا خاص طور پر یہودی لابی نے اپنی دیرینہ مشن میں کامیابی کے تقریباً پنجے گاڑھ دیئے اور بدنامی کا دھبہ لگانے کی کوشش کی۔ لہٰذا ہم مسلمانوں پر ضروری ہے کہ علماء کے ساتھ اپنے رشتہ کو مضبوط بنائیں اور مدارس اسلامیہ سے مخلصانہ و والہانہ رشتہ برقرار رکھیں۔

٭٭٭

جدید آلات فلاپی و سی ڈی کی شرعی حیثیت

موجودہ دور کے نت نئے فتنوں میں نے جدید آلات کے ایجادات سے تصویر کے حکم میں کچھ لوگوں کے لئے بلکہ کچھ علماء کرام اور ارباب حل و عقد کے لئے مسئلہ کھڑا کر دیا ہے اور صحیح نتیجہ حاصل کرنے میں کچھ رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں لہذا ضروری معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کی بھی وضاحت کر دی جائے کہ موجودہ دور کے ’’ فلاپی ‘‘ Floppyیا ’’ سی ڈی، C-Dمیں جو تصویر یا حرکت کرنے والی تصویر کو محفوظ کیا جاتا ہے اس کا حکم بھی تصویر یا فلم کے حکم میں ہے یا نہیں ؟

چنانچہ اس سلسلہ میں بعض نامور علمائے کرام نے اپنی ایک الگ رائے پیش کی ہے مگر  برخلاف اس کے بہت سے علماء کرام نے اپنی ایک الگ رائے پیش کی ہے۔

بعض علمائے کرام کا یہ کہنا ہے کہ وہی فو ٹو تصویر کے حکم میں ہو گی جس کی مستقل ایک ’’ ریل ‘‘ Reelیعنی فیتہ ہو جس کو ہم نگیٹوNegativeکہتے ہیں جس پر سفید اور کا لے رنگ کی چھاپ ہو،اس کے علاوہ موجودہ دور میں جو تصویر یا فلم Floppyیا C-Dمیں قید کی جاتی ہے وہ تصویر یا فلم کے حکم میں نہیں۔ اس لئے کہ کمپیوٹر لائن کے ماہرین وانجنئیرس نے یہ کہا کہ Floppyیا C-Dکی پوری کائنات ’’زیرو ‘‘ (o)یا ’’ ون ‘‘ (1)میں ہوتی ہے جب بھی ان دونوں کو استعمال کر کے فوٹو گرافی یا تصویر کشی ہوتی ہے یا کیمرہ اس تصویر کو کیچ کرتا ہے تو صورت کا نقش نہیں لیتا بلکہ اس تصویر کو چھوٹے چھوٹے نا قابل تقسیم ٹکڑوں میں بانٹ کر’’ زیرو ‘‘ (o)یا ’’ ون ‘‘ (1)والی شکل میں لیتا ہے اور جب کبھی اس FloppyیاCDکو DVD یاـC.D.player میں ڈال کرplayکیا جاتا ہے تو ’’ زیرو ‘‘(o)اور ’’ ون ‘‘ (1)کی مدد پر ٹی وی کے اسکر ین یا کمپیوٹر وغیرہ کے پردہ پر تصویر یا فلم جاری کرتا ہے۔

الغرض جب” ”C.Dیا Floppyتصویر کشی کرتے ہیں یا تصویر کو TVوغیرہ کے پر دے پر Playکرتے ہیں تو تصویر کا نقش نہیں لیتے جس طرح کہ فلم کی Reelپر فوٹو وغیرہ کا نقش ہو تا ۔ جب یہ تصویر کا نقش یا چھاپ نہیں ہے بلکہ یہ عکس ہے جو ’زیرو ‘‘(o)اور ’’ ون (1)   ہے تو یہ تصویر کے حکم میں نہیں۔

بعض علماء کرام نے یہ کہا کہ ”C.D”اور ”Floppy”میں جو تصاویر قید کئے جاتے ہیں وہ عکس کے حکم میں نہیں ہے  بلکہ وہ بھی تصویر ہی کے حکم میں ہے اس سلسلہ میں علماء کرام نے مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے۔

(۱)جب آپ یہ کہتے ہیں کہ”CD”اور "Floppy”میں جو تصاویر قید کئے جاتے ہیں وہ تصویر نہیں بلکہ عکس ہیں تو یہ بتائیے کہ عکس کی تعریف کیا ہے ؟ جب آپ عکس کی تعریف کریں گے تو یہی کہیں  گے کہ عکس کہتے ہیں نا پائیدار چیز کو اس لئے کہ جب اصل غائب ہو جاتا ہے تو عکس بھی غائب ہو جاتا ہے۔ حالانکہ Floppyاور C.Dمیں جو زیرو (o)اور ون (1)کی مدد سے تصویر لی جاتی ہے وہ عکس کی طرح غائب نہیں ہوتی بلکہ پائیدار ہوتی ہے۔ جب وہ پائیدار ہوتی ہے تو عکس کے حکم سے نکل جائے گی اور ایک گونہ تصویر سازی اور تصویر کشی کے ممانعت کی بنا پر تصویر کے حکم میں نہ صحیح لیکن تصویر سازی اور تصویر کشی کی ممانعت کے حکم میں تو ضرور آئے گی۔

(۲)    ہاں اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ یہ عکس ہے تصویر نہیں تو اول وہلہ میں یعنی تصویر کشی کے مرحلہ میں آپ کو ٹھہرا کر یہ پوچھتے ہیں کہ کتب حدیث میں جس طرح تصویر سازی کی ممانعت آئی ہے اسی طرح تصویر کشی کی ممانعت ہے یا نہیں ؟تو آپ ضروریہ جواب دیں گے کہ ہاں تصویرسازی کی طرح تصویر کشی کی ممانعت بھی ہے جب تصویر کشی کی ممانعت کتب حدیث سے ثابت ہے تواب جب کہ آپ Floppyیا C.Dمیں جو تصویر کے زیرو یا ون میں قید کر رہے ہیں وہ تصویر کشی کے ہی حکم میں ہے جو کہ ازروئے شریعت نا جائز اور حرام ہے۔

(۳)گذشتہ دور کے علماء کرام نے تصویر کی جو تعریف بیان کی تھی اس دور کے اعتبار سے کی تھی اس دور کے علماء کرام اور فقہاء کرام کو دور حاضر کے نو ایجاد آلات کا تصور تک نہیں تھا۔ اس لئے ضروری ہے کہ گذشتہ دور کے فقہائے کرام نے تصویر کی تعریف میں جن باتوں کا اور جن مضرات اور فتنوں کا خیال کیا تھا کیا آج بھی وہ مضرات اور فتنے اس میں پانے جاتے ہیں یا نہیں ؟

اس کی ایک مثال یوں سمجھئے کہ گذشتہ زمانے کے فقہائے کرام نے سجدے کی تعریف ’’وضع الجبھۃ ‘‘ سے کی تھی کہ سجدے میں پیشانی کو زمین پر ٹیکا جائے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ’’ وضع الجبھۃ ‘‘ میں پیشانی کو زمین پر ٹیکا جاتا ہے۔ مگر موجودہ کی محیرالعقول سواریاں اس تعریف کی حقیقت پر غور کرنے پر فقہاء کرام سے آراء لینے لگی ہیں کہ جب ہوائی جہاز میں کوئی آدمی سفر کر رہا ہو اور مکمل ایک نماز مکمل وقت کا سفر بھی باقی ہو تو یہ شخص نماز پڑھتے وقت سجدہ کیسے کرے ؟ فقہاء کرام نے جواب دیا کہ سبب نماز یعنی وقت پایا گیا اور جب وقت پایا گیا تو نماز ادا کرنی ہی پڑے گی۔ اور جب یہ مسافر ہوائی جہاز میں سجدہ کرے تو اس کا سجدہ ’’ وضع الجبھۃ علی الارض‘‘ میں داخل ہو جائے گا اس طرح سے کہ جہاز کو فضاء میں مستقرمانیں گے اور فضاء کو زمین پر مستقرمانیں گے اور جب زمین پر استقر ار ہو گیا تو سجدے کی تعریف ’’ وضع الجبھۃ علی الارض ‘‘ صادق آ جائے گی۔

تصویر کی گذشتہ زمانے کی تعریف پر موجودہ دور میں بھی وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو باتیں زمانہ اسلام سے پائی جاتی تھیں

(۱)بت پرستی اور اس کی دعوت

(۲)تخلیق باری تعالی کی مشابہت اور اس کی دعوت

(۳)وجہ یہ ہے کہ ’’ فلاپی  ‘‘ Floppyیا ’’ سی ڈی  ‘‘ C.Dمیں جو تصاویر قید کئے جاتے ہیں۔ ان میں حرمت تصویر کی ایک وجہ عبادت لغیر اللہ کی مشابہت نہیں پائی جاتی ہو مگر شرکت فی خلق اللہ تو ضرور پائی جاتی ہے اس لئے کہ جب بھی Floppyیا سی ڈی چلے گی اس وقت ایسے تصاویر یا ایسی فلم ٹی وی کے پردے پر ہو گی جو کہ عکس یعنی Shadeنہیں بلکہ ”o”اور ”1”میں محفوظ تصاویر ہوں گے اور جب یہ تصاویراسکرین پر آتے ہیں یا ’’ویڈیو‘‘ کی فلم چلتی ہے تو شرکت فی خلق اللہ کی صفت ضرور پائی جاتی ہے جو کہ ازروئے کتاب  رسول اللہ نا جائز اور حرام ہے۔

ایک اہم نوٹ اور گذارش

زمانے کی ترقی یافتہ شکلوں نے بہت سارے مسائل میں امت کے لئے فتنہ سامانیاں جمع کر دی ہیں انہیں میں ایک عظیم فتنہ Tvہے جس کے گندے اور برے اثر ات جس طرح ماحول و معاشرہ کو اپنے شکنجے میں لے رکھے ہیں اسی طرح مسلمانو ں کے عقائد و ایمان پردھا وا ڈالنے کے لئے کچھ کم نہیں۔ ان پڑھ سے ان پڑھ آدمی جس کے اندر ایمان و یقین کی ادنی سی چنگاری ہو اور جس کے اندر غیرت ایمانی کاہلکاسا جذبہ ہو وہ از خود یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ Tvگھر یلو ماحول و مزاج کے لئے اور اس کی زندگی کی ترقی کے لئے خاندانی اتحاد و اتفاق کے لئے بڑوں کے ادب و احترام کے لئے مذہبی اقدار کے لئے بھیا نک و تباہ کن چیز ہے مگر ہم اپنے نفس  کے چو نچلوں کو پورا نے کے لئے اور اپنے من کی تسکین کے لئے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے اپنے ایمان و اعمال کو بگاڑنے کے ساتھ اپنے قیمتی وقت کو بھی ضائع کرنے میں پیچھے نہیں ہٹتے کاش کہ کتنا اچھا ہوتا کہ ہم Tvاور Tvکے پیچھے یہودیوں کی سازش کو سمجھتے اور اسے ترک کرنے پر ہمت اور ارادہ فرماتے اور اللہ کے لئے اور اس کے رسول کی اتباع میں گھروں سے TVکو نکال باہر کرتے ؟

قصہ مختصر یہ کہ مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر موجودہ دور میں C.Dاور Floppyمیں محفوظ تصاویرعکس تو ہو نہیں سکتیں جب عکس نہیں ہو سکتیں تو تصویر کشی کے حکم میں ضرور داخل ہونگی۔ اور اس کے علاوہ تصویر کے بنیادی اسباب میں ایک سبب مشابہت فی خلق اللہ بھی ضرور داخل ہے جس بنا پر موجودہ ’’فلاپی ‘‘ Floppyیا ’’ سی ڈی ‘‘ C.Dمیں محفوظ تصاویر کو حرمت کے دائرہ میں رکھا جائے گا اور اسے حرام قرار دیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب والھادی الی الماب

٭٭٭

 

قلم کی فضیلت و اہمیت

        اللہ جل جلا لہ عم نوالہ نے دنیا کے مختلف چیزوں کی فضیلت بتلا تے ہوئے اس کی اہمیت کی طرف اشارہ بھی کیا اور اس کے اہتمام کی تا کید بھی فر ما ئی منجملہ ان چیزوں میں ذرائع تبلیغ کی اہمیت بتلائی اور زبان و قلم کے فوائد کے سا تھ سا تھ اس کی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا چنانچہ سورۃ ’’علق ‘‘ کے اندرز بان کی اہمیت کے سا تھا قلم کی اہمیت کو بھی اُجاگر فر مایا

’’قلم کی فوقیت زبان پر ہے ‘‘

        مفسرین کرام نے مذکورہ آیت کی تفسیر کر تے ہوے یہ وضاحت کی کہ قلم کا تذکر ہ زبان کے تذکر کے بعد ضرور ہے مگر یہ قلم کا تذکرہ : اصلا ً مقدم  ہے اس لئے کہ تمام علوم نقلیہ ہوں کہ یا عقلیہ یہ اسی وقت زبان کے جو ہر دکھلا سکتے ہیں جبکہ یہسپرنی دقرطاس ہوں چنانچہ دنیا کی تمام آسمان کتا بیں اور مصاحف مسطور و مر قوم آج تک چلی آ رہی ہیں اور آخیر میں قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی کتا بت کا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اہتمام کیا اور جو ں جو ں وقت گزرتا گیا خط و کتابت کا سلسلہ اور مضبوط ہو تا گیا قلم کی اوّلی حیثیت کا اندازہ اس صحیح حدیث سے لگا یا جا سکتا ہے جس میں یہ کہا گیا کہ

                                                لما خلق اللہ الخلق کتب فی کتا بہ فھو عندہ فوق العرش ان رحمتی غلبت علی غضبی :

         جب اللہ تبارک و تعالی نے تمام مخلوقات کو پیدا فرمایا تو اپنی کتاب میں (اسے )تحریر فرما یا جو کہ اس کے پاس عرش پر مو جود ہے (اور اسمیں یہ بھی لکھا ہے کہ )بیشک اللہ تعالیٰ  کے غضب پہ اللہ تعالیٰ کی رحمت غالب آ گئی۔

        یہاں ایک عام سے عام آدمی کو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ اللہ تعالی کے علم و حساب کے لئے اس طرح کے  قلم وقر طاس کی کیا ضرورت تھی حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ علم اور حساب دونوں چیزوں سے بے نیاز ہے ؟ اور واقع میں بھی ایسا ہی ہے کہ اللہ تبا رک و تعالیٰ کو اس کی چنداں ضرورت نہیں پھر۔ بھی قلم و قرطاس کا تذکرہ کر نا یہ بتلاتا ہے کہ قلم و قرطاس کی ایک عظیم اہمیت ہے۔

’’قلم کی تین قسمیں ‘‘

        (۱)    قلم تو وہ ہے جو خود اللہ تبارک تعالیٰ کے پاس ہے (۲)وہ قلم جو فر شتوں کے پاس ہے (۳)وہ قلم جسے اللہ تعالی نے ہم بندوں کو مرحمت فرما یا ہے۔

’’خدا نے قلم خود اپنے ہا تھ سے بنا یا۔ ‘‘

        دنیا کی بے شمار چیزیں ایسی ہیں جس کو اللہ تعالی نے اپنے ’’امر‘‘ سے پیدا فرما یا مگر چار چیزیں ایسی ہیں جسے اللہ تعالیٰ خود دست سے بنا یا اور وہ چار چیزیں یہ ہیں (۱)عرش (۲)     جنت  عدن(۳)حضرت آدم علیہ اسلام (۴)قلم

 

 فن کتا بت کا علم سب سے پہلے کسے دیا گیا۔

        بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ فن کتابت کا علم سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا بعض مفسرین یہ لکھتے ہیں کہ حضرت ادریس علیہ اسلام کو دیا گیا۔

        غرضیکہ اُمت کے تمام مبلغین واعظین مفسرین و محدثین معلمین متعلمین اور امت کے تمام لوگ خط و کتا بت اور تحریر کے محتاج ہیں جب تک یہ حضرات تحریر کا سہا را نہ لیں گے اس وقت تک اپنے اپنے دائرہ میں اور اپنے اپنے کارناموں میں برگ و بار کو نہیں پا سکتے۔

        ہمارے اکا بر ین میں حضرت یعقوب صاحب ؒ حضرت محمود احسن ؒ حضرت تھانویؒ حضرت شبیر احمد عثمانیؒ حضرت حسین احمد مدنی ؒ ابو الکلام آزاد ؒ حضرت سید سیلمان ندویؒ مو لا نا علی میاں صاحب ؒ حضت مو لا نا ابو الزا ہد محمد سرفرام صاحبؒ اور حضرت تقی عثما نی صاحب دامت بر کا تہم جیسے قلم کار نہ ہو تے تو ہما را یہ دور قلم کے دور کے اعتبار سے با نج دور کہلا تا مگر آج پو ری دنیا ان کی مختلف النوع خدمات سے بہرہ ور ہو ر ہی اور عوام ہی نہیں بلکہ وقت کے بڑے بڑے علماء کرام میاں مفتیان کرام واعظین کرام ان کے تحریر ات کے خوشہ چیں ہیں۔

٭٭٭

 

پیغام حج

بلاشبہ حج اپنے دامن میں ’’کثیر مقاصد ‘‘اور کثیر فوائد‘‘ رکھتا ہے۔ غور فرمایئے حجاج کرام جب اپنے گھر دار، اہل و عیال اور تمام تر دنیوی مصروفیات کو چھوڑ کر دیوانہ وار دور دراز کے سفرپرچل پڑتے ہیں تو ان کے اندر رجوع الی اللہ کی صفت اور توکل علی اللہ کی خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ دوران سفرخداکی رضا و وفاء میں پیش آنے والی ہر چھوٹی بڑی تکلیف کواسطرح برداشت کرتے ہیں جس سے روح کو غذا اور باطن کو جلا ملتی ہے۔ دنیا کے مختلف گوشوں کے مختلف زبان بولنے والے،مختلف رنگ ونسل کے،مختلف پوشاک پہننے والے جب احرام کا ایک سادہ لباس زیب تن کرتے ہیں تو ایک جہتی کا عملی نمونہ سامنے آتا ہے اورمساوات کا وہ عظیم د رس ملتا ہے جس کی دنیا مثال پیش نہیں کر سکتی،امیر،غریب،حاکم،محکوم،عربی عجمی،شمالی،جنوبی،مشرقی،مغربی سارے لوگو ں کا ایک ہی لباس  و زبان اور خاص قسم کی عبادت،رنگ و ’نسل،زبان و ملک،ذات و پات کی عصبیت کو ختم کرتی ہے اور حج کے مختلف مقامات پر مختلف قسم کی پابندیاں امن و امان اور سلامتی کا درس دیتی ہیں۔

مختلف پہلوؤں پر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ حج ایک ایسی عظیم عبادت ہے جس سے بیک وقت تو حیدورسالت کا درس،رجوع الی اللہ اور توکل علی اللہ کا درس تذکیہ ء باطن ومساوات کا درس، امن و امان سکون  و آشتی کا درس اور تمام اسلامی تعلیمات کا درس ملتا ہے۔

انہیں عظیم مقاصد کوسامنے رکھ کر حج کرنے والے کو ایک ایسی تربیت گا ہ کی طرف لے جایا جاتا ہے کہ جہاں یہ جا کر مذکورہ ہدایت کو اپنے خالی دامن میں بھرے اور جب وہاں سے فیضیاب ہو کر آئے تو اپنے اندر وہ کیفیات باقی رکھے جو ایک حج کرنے والے کو حاصل ہونی چاہیے۔ حج کرنے والا شخص سفرکی ابتدا ء سے لے کر اختتام تک ہر عمل سے پہلے اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کو ٹٹولے،اور اپنی زندگی کو ایک ایسے رخ پرلے آئے کہ جس سے تمام اچھائیاں زندگی میں بس جائیں اور تمام برائیاں دور ہو جائے۔

حج کرنے والا جب حج کا ارادہ کرے تواس کے اس ارادے کے ساتھ ہی ان غلط قسم کے ارادوں کو اپنے دل سے نکال دے جو خدا اوراس کے رسول کوناپسند ہیں،اور جب یہ بدن کے کپڑے اتار کر احرام باندھے تو وہ اس بات کا عزم کرے کہ اب اللہ کے سواء میرا حقیقی تعلق کسی اور سے نہیں،اور جب وضو ء اورغسل کر کے ہرقسم کی گندگی اور لغزش سے پاک ہو جائے تو ٹھیک اسی طرح اپنی زندگی کو ہرقسم کی لغزش و گندگی سے دور کھے اور لبیک کی صدا،دل کی گہرائیوں سے اس طرح لگائے کہ اس کی اس صدا  پر خدا کی جوابی صدا آئے اور جب حرم محترم میں داخل ہو تو اس طرح داخل ہو کہ ہر حرام چیزاس سے دور ہو جائے،اورحجراسودکواس طرح بوسہ دے کہ خدا کی ملاقات کی کیفیت محسوس کرے اور جب شیطان کو کنکریاں مارے تو یہ جانے کہ اب جہالت کی تاریکی سے دور ہو رہا ہے اور علم کی روشنی سے منور ہو رہا ہے اور جب قربانی کرے تواس کے ساتھ اپنے نفس کی قربانی اس انداز کی دے کہ جس سے ہرقسم کی من مانی اورنفسانی خواہشات ختم ہو جائے اور جب مدینہ کی زیارت کرے تو خود کو سرورکونین محمدﷺ کے سامنے ادب و احترام کھڑاہوامحسوس کرے اور جب حلال ہوتواس طرح حلال ہو کہ اس کی زندگی میں حلال چیز کے علاوہ کوئی چیز باقی نہ رہے اور جب الوداع کہے تواس کیفیت کے ساتھ الوداع کہے کہ ہرقسم کی دنیوی خواہشات دین کے لئے الوداع ہو جائے،خواہ مال و دولت کی صورت میں ہو یا بیوی بچوں کی شکل میں ہو،خواہ وہ عزیز و اقارب،دوست و احباب کی شکل میں۔ یا اس کے علاوہ دیگر دنیاوی چیزوں کی شکل میں اور جب  حج والے فریضہ سے فارغ ہو کر لوٹے تواس طرح لوٹے جس طرح ایک معصوم بچہ بے گناہ دنیا میں آتا ہے۔ اس بے گناہی والی کیفیت کو بعد والی زندگی کے لئے باقی رکھے اس لئے کہ مقبول حج کی علامت ہی یہ ہے کہ حج سے پہلی معصیت والی زندگی صالح زندگی سے تبدیل ہو جائے۔

٭٭٭

 

اشتہار بازی اور یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی

تجارت کے اندر حلال و جائز راستوں کا اختیار کرنا اور اپنے صدق و امانت کے ساتھ پورا پورا نبھانا اسلام کی نگاہ میں بہت ہی مستحسن اور قابل ستائش امر ہے ایسی تجارت کرنے والوں کا حشر قیامت کے دن انبیاء و شہدا ء کے ساتھ ہو گا تجارت کو فروغ دینے کے لئے اگر نیک عزائم پس پردہ کارفرما ہوں تو یہ تجارت اور بھی بہترین تجارت کہلائے گی اور یہ تجارت کا فروغ اسی وقت ہو گا جب کہ اس کے لئے امانت و دیانت کے ساتھ اس کی تشہیر بھی مناسب انداز میں کی جائے وہ اس لئے کہ آج سارے عالم میں کاروبار کو فروغ دینے کے لئے سب سے بڑا ذریعہ تشہیر و اشتہار بازی ہے جس کاروبار میں جتنی تشہیر ہو گی وہ کاروبار اسی اعتبار سے ترقی کی طرف رواں دواں ہو گا چنانچہ اسلام نے بھی اشتہار بازی کی اجازت ضرور دی ہے مگر وہ اشتہار بازی معصیت، شعائر اسلام کے خفت سے پاک ہو مگر انقلاب معیشت کے زمانے میں بہت سارے کاروبار کی تشہیر اس طرح کی ہوتی ہے جس سے خدائی احکامات بھی ٹوٹتے ہیں اور منکرات روز افزوں جنم لیتے ہیں جیسا کہ مختلف برانڈس کے مختلف اشیاء کی اشتہار بازی یا تو ایسی ہوتی ہے جو ذی روح (انسان، حیوان) ہوتے ہیں اور تقریباً پروڈکٹس کی اشتہار بازی نیم برہنہ عورتوں سے ہوتی ہے۔  جس کے اندر دو خرابیاں لازمی ہوتی ہیں۔ ایک تصاویر کی حرمت کی معصیت۔ دوسرے منکرات و اخلاقیات کے فساد کا پھیلاؤ۔ ایسے اشتہارات کا حکم تو یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والے اوراس کام کے کروانے والے اور اس کے مالکین سب کے سب گنہگار ہیں اور کبیرہ گناہ کے مرتکب ہونے کے ساتھ منکرات کے پھیلانے کے مجرم بھی۔

دوسرے قسم کے اشتہارات ایسے ہیں جو فی نفسہ جائز تو ہیں لیکن ان کی بے حرمتی کی وجہ سے معصیت سے خالی نہیں جیسے پمفلٹس، دستی اشتہارات، پان کور، پالیتھین، ہوٹل وغیرہ کے ایسے کورس جن پر یا تو بسم اللہ الرحمن الرحیم  لکھا ہوا رہتا ہے یا ماشاء اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر وغیرہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔ مسجد سے باہر نکلتے وقت بصورت اصرار پمفلٹس ہاتھ میں دیا جاتا ہے تو کچھ لوگ آگے بڑھ کر یا تو پھاڑ کر پھینک دیتے ہیں یا اسے غیر محترم جگہ پھینک دیتے ہیں۔ حالانکہ اس پمفلٹ پر بسم اللہ وغیرہ قرآن کی آیت لکھی ہوئی ہوتی ہے گویا کہ انھوں نے جان بوجھ کر نہ سہی غفلت ہی میں ایک برا کام کیا اس کی طرف اولین فرصت میں مشتہرین پر لازم ہے کہ وہ ایسے پمفلٹ شائع نہ فرمائیں جنہیں عوام اس طرح کا اہانت آمیز سلوک کرتے ہوں۔ اسی طرح پان کورس کا معاملہ ہے پان کورس پر ایسی پرنٹ ہوتی ہے جو پان شاپ یا متصل ہوٹل کے اسلامی نام کی ہوتی ہے۔ جیسے ’’ارباب پان ‘‘ ارباب ایک عربی لفظ ہے جو رب کی جمع (ارباب) ہے اور اس لفظ کا اکثر استعمال خدا ہی کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا جا بجا استعمال ہوا ہے اسی طرح کا حال ہوٹل کے کورس کاہے جیسا کہ ’’الحمدللہ ہوٹل‘‘، ’’بسم اللہ ہوٹل‘‘، مکہ، کعبہ، مدینہ، احمدیہ وغیرہ وغیرہ ببیسیوں ایسے الفاظ ہیں جن کی باضابطہ کپڑوں و چوڑیوں کی دکانوں کے لئے یا دیگر بہت سے کاروبار کے لئے ہوتا ہے۔

ان تمام صورتوں میں دانستہ و نادانستہ انداز میں اسلامی و قرآنی الفاظ اور دیگر شعائر اسلام کی بھی بے حرمتی ہوتی ہے یہ تو وہ اشتہارات تھے جن کا تعلق لکھت و تحریر سے ہے لیکن اس کے علاوہ بہت سارے ایسی تصویروں کی بھی بے حرمتی ہوتی ہے جن کا تعلق اسلام سے ہوتا ہے۔

مکہ، مدینہ، بیت المقدس وغیرہ تصاویر کی بے حرمتی، اگر کوئی شخص اپنے اشتہارات پر ایسی تصاویر شائع کرتا ہے جن کا تعلق شعائر اسلام سے ہے اور تقریباً ایسے اشتہارات کی بے حرمتی ہوتی ہو تو یہ ایمانی حرارت کے سردہونے کی علامت ہے جیسا کہ مکہ کی تصویر مدینہ کی تصویر بیت المقدس کی تصویر یا کسی بھی عالم اسلام کی مشہور مسجد یا درسگاہ کی تصویر اور بہت ساری اشتہار بازی ایسی تصاویرسے ہوتی ہے جو ذی روح ہوتے ہیں کبھی یہ غیر ذی روح انسانوں کی تصاویر خاص طور پر عورتوں کی تصاویر پر ایسی ہوتی ہیں جو تقریباً برہنہ یا نیم برہنہ ہوتی ہیں اور اس قسم کے تصاویر بہت سارے مفسدات کو جنم دیتی ہیں۔ ۱)  حرمت نسواں کی آبروریزی۔ ۲) فیشن پرستی کی دعوت۔ ۳) آنکھوں کا زنا۔ ۴)خیالات کا زنا۔ ۵)تہذیب کا بگاڑ۔ لہذا اشتہار بازی کی یہ قسم بھی خطرناک ہے جو جو حکما حرام اور ناجائز ہے۔

     خلاصہ اس پیغام کا یہی ہے کہ ہمارے کاروبار کے لئے جو اشتہار ات یا اشتہار بازی ہوتی ہے وہ اس طرح کے ہوں کہ اس میں کوئی ذی روح کی تصویر ہو اور نہ ایسے الفاظ و قرآنی آیات اورایسی تصاویر ہوں جس سے دو خرابیاں ضرور لازم آتی ہوں ایک معصیت اللہ دوسرے منکرات وغیرہ کے پھیلنے پھیلانے ذریعہ ہاں ! ہمارے اشتہارات پالیتھین کورس ڈبے ایسے ہوں جس میں سادہ سیدھے عام الفاظ یا غیر ذی روح تصاویر جن سے نہ تو معصیت لازم آتی ہو اور منکرات جنم لیتے ہوں۔

ضروری تنبیہ

یہ دور وہ دور ہے جس میں چہار عالم سے سے مسلمانوں کے لئے عداوت و نفرت تعصب و تنگ مزاجی کا بنایا جا رہا ہے اور اس مکروہ فعل کا ایک باب اشتہار بازی سے بھی تعلق رکھتا ہے چنانچہ یہودی وعیسائی اسلام دشمنوں کی بہت ساری ایسی کمپنیاں ہیں جن کی اشتہار بازی میں اسلام دشمنی کا کھلا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ (7 up)، (کوکاکولا)، (پیپسی) ریباک کے چھاپ وغیرہ بہت سارے اشتہار ایسے ہیں جن میں تعصب مزاجی کا بین ثبوت ملتا ہے۔

صد افسوس کہ اگر ہم مسلم تاجر ین بھی نادانستہ و غفلت کی وجہہ سے ایسی غلطی مسلسل کرتے رہیں جس سے خود ہمارے اسلامی الفاظ و شعائر اسلام کی توہین ہوتی ہو تو قابل غور و تعجب آمیز امر ہے۔ اس کی طرف ہر چھوٹے بڑے کو توجہ مرکوز ہونی ضروری ہے۔

٭٭٭

سجدۂ سہوکا بیان

نماز کے سنن ومستحبات اگر ترک ہو جائیں (یعنی )چھوٹ جائیں تواس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی یعنی نماز صحیح ہو جاتی ہے اور نماز کے فرائض میں سے کوئی چیز اگر سہوایا عمداً چھوٹ جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے جس کا کوئی تدارک نہیں جس کی وجہ سے نماز کا لوٹو نا ضروری ہوتا ہے۔ نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی ہے چیز  عمداً  چھوڑ دی جائے تواس کا بھی تدارک نہیں ہو سکتا اورنمازفاسد ہو جاتی ہے۔ اور اگر نماز کے واجبات میں سے کوئی چیز عمداً نہیں بلکہ سہواچھوٹ جائے تو اس کا تدارک ہو سکتا ہے، اور وہ تدارک یہ ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں پوری التحیات پڑھنے کے بعد داہنی طرف ایک مرتبہ سلام پھیر کر دوسجدے کر لیے جائیں، اور سجدہ کے بعد پھر قعدہ کیا جائے اور وہ التحیات اور درود شریف اور دعاء حسب معمول پڑھ کر پھر سلام پھیرا جائے، ان سجدوں کو سجدۂ سہوکہا جاتا ہے۔

اتنی بات سمجھ لیجئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ و سلم کے ان اقوال میں جو شرعی چیزوں کی خبر دینے اور دینی احکام کے بیان سے متعلق ہیں نہ کبھی سہوہوا ہے اور نہ یہ ممکن ہے۔ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال میں سہوہوتا تھا، وہ بھی اس حکمت و مصلحت کے پیش نظر تا کہ اُمت کے لوگ اس طرح سہو کے مسائل سیکھ لیں۔    (مظاہر حق ص۲۱جلد ۲)۔

 

سجدۂ سہوکے اصول

مسئلہ :۔ سجدۂ سہوحسب ذیل وجہوں سے واجب ہوتا ہے :۔

(۱)نماز کے واجبات میں سے کسی واجب کو ترک کر دے (چھوڑ دے )۔

(۲)کسی واجب کواس کے محل سے موخر کر دے۔

(۳) کسی واجب کی تاخیر ایک رکن کی مقدار کر دے۔

(۴)کسی واجب کو دو مرتبہ ادا کر لے۔

(۵)کسی واجب کو متغیر کر دے جیسے جہری (بلند آواز والی ) نماز میں آہستہ اور آہستہ والی نماز میں بلند آواز سے قرأت کر دے۔

(۶)نماز کے فرائض میں سے کسی فرض کواس کے محل سے موخر کر دے۔

(۷)کسی فرض کواس کے محل (جگہ ) سے مقدم کر دے۔

(۸) کسی فرض کو مکرر (یعنی دو مرتبہ بھولے سے ادا کر لے۔ (مسائل سجدہ سہوص۲و در مختار ص۶۷۸جلد اول )۔

مسئلہ :۔ سہو(بھول ) کی وجہ سے اگر نماز میں کوئی ایسی خرابی ہو گئی ہے، مثلاکسی رکن کو مقدم یا موخر کر دیا یا رکوع قرأت سے پہلے کر دیا، یا سجدہ رکوع سے پہلے کر دیا، یا ایک رکن کو مکرر کر دیاتو دوسجدے سہوکے واجب ہوں گے۔ (شرح نقایہ ص۱۱۱ج اء کبیری ص۴۵۵ء نماز مسنون ص۵۱۳)۔

مسئلہ :۔ دراصل سجدۂ سہوترک واجب سے ہی لازم ہوتا ہے مگر چونکہ تاخیر واجب میں بھی ترک واجب لازم آتا ہے، اس لیے تا خیر واجب سے بھی سہولازم آتا ہے (فتاوی دارالعلوم ص۳۷۵جلد۴)۔

مسئلہ :۔ نماز کے سنن اور مستحبات کے ترک سے نماز میں کچھ خرابی نہیں آتی یعنی نماز صحیح ہو جاتی ہے، ہاں جن سنن کے چھوڑ دینے سے نماز میں کراہت تحریمہ آ جا تی ہے اُن کے ترک سے البتہ نماز کا اعادہ کر لینا چاہیئے، اس لیے کہ جو نماز کراہت کے ساتھ ادا کی جائے اُس نماز کا لوٹو نا واجب ہے۔ (شامی )۔

مسئلہ :۔ سجدۂ سہو کر لینے سے وہ خرابی جو واجب کے چھوٹ جانے سے پیش آئی تھی وہ دور ہو جاتی ہے خواہ جس قدر بھی واجب چھوٹ گئے ہوں دوسجدے سہوکے کافی ہیں یہاں تک کہ اگر کسی سے نماز کے  تمام واجبات چھوٹ گئے ہوں، اس کو بھی دوہی سجدے کرنے چاہئیں، دوسے زیادہ سجدۂ سہومشروع نہیں ہے۔

مسئلہ :۔ سجدۂ سہو کرنے کے بعد التحیات پڑھنا بھی واجب ہے۔ (علم الفقہ ص۱۱۷جلد۲، مختار ص۶۸۱جلد اول)۔

سجدۂ سہوکا طریقہ

مسئلہ :۔ سجدۂ سہوکسی نقصان کی وجہ سے ہویاکسی زیادتی کی وجہ سے اس کے ادا کرنے کا طریقہ احناف ؓکے نزدیک یہ ہے کہ آخری قعدہ میں تشہد(التحیات )پڑہنے کے بعد پہلے داہنی طرف (ایک ہی ) سلام پھیرے اس کے بعد دوسجدے کرے، پھر تشہد(التحیات ) درود شریف اور دعاء بدستور پڑھ کر نماز سے نکلنے کے لیے (دونوں طرف )سلام پھیر ے۔ (مسائل سجدۂ سہوص۶۷، ہدایہ ص۱۰۴جلد اول، کبیری ص۴۷۱، شرح نقایہ ص ۱۱۰جلد اول )۔

مسئلہ :۔ افضل یہ ہے کہ داہنی طرف سلام پھیرنے کے بعد یہ سجدے کیئے جائیں اگر بغیرسلام پھیرے یاسامنے ہی سلام کہہ کرسجدے کر لیے جائیں تب بھی جائز ہے۔ (علم الفقہ ص۱۱۷جلد۲)۔

مسئلہ :۔ سجدۂ سہو کرنا تھا، لیکن دونوں طرف سلام پھیر دیا، تب بھی کچھ حرج نہیں پھر بھی سجدۂ سہودونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد کر لے۔ (اگر بولا نہ ہو)۔ فتاوی دارالعلوم ص۳۸۶جلد۴ بحوالہ در مختار ص۵۷۵جلد اول،فتاوی رحمییہ ص۲۴۶جلد۷)

مسئلہ :۔ اگر کسی نے پہلے بائیں طرف سلام پھیر دیا، اس کے بعد سجدہْ سہوکیا تو اس پر (مزید) سجدۂ سہواس غلطی کی وجہ سے واجب نہیں ہے۔ (عالمگیری ص۶۵ج۱) مسئلہ :۔ سجدۂ سہوکے لیے دوسجدے واجب ہیں، اگرسجدۂ سہومیں بجائے دوسجدوں کے ایک ہی سجدہ کیا تو یہ کافی نہیں ہے، لہذا نماز قابل اعادہ ہے۔ (فتاوی رحمییہ ص۳۶جلد۳ بحوالہ ہدایہ ص۱۳۶جلد اول )۔

مسئلہ :۔ اگر امام نے سجدۂ سہوکیا اس کے بعد کسی شخص نے آ کر جماعت میں شرکت کی تو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اسی نیت اور اسی تحریمہ سے اپنی نماز پوری کر لے۔ (فتاوی محمود یہ ص۱۸۳ جلد۲، طحطاوی ص۲۵۶جلد اول )۔

مسئلہ :۔ مسبوق (جس کی رکعت رہ گئی ہو) سجدۂ سہومیں تو امام کی متابعت کرے گا مگر اس کے ساتھ سلام نہیں پھیرے گا، اگر مقتدی نے یہ بات یاد ہوتے ہوئے کہ میری نماز باتی ہے سلام پھیر دیا تو اس کی نمازفاسد ہو جائے گی، اور اگر بھولے سے سلام پھیر دیا ہے تو نماز فاسد نہ ہو گی اور سجدۂ سہوبھی لازم نہ ہو گا کیونکہ وہ اس وقت مقتدی ہے اور مقتدی پراس کی غلطی سے سجدۂ سہولازم نہیں ہوتا۔ (فتاوی دارالعلوم ص۳۷۹، کبیری ص۴۶۵، فتاوی رحمییہ ص۲۳جلد۵بحوالہ بدائع الصنائع ص۱۷۶ج۱، و فتاوی محمودیہ ص۱۷۰جلد۱۰)۔

مسئلہ :۔ جب امام دوسری طرف کا سلام شروع کرے تومسبوق (جس کی رکعت رہ گئی ہو) کھڑا ہو جائے۔ ایک طرف سلام پھیرنے پر کھڑا نہ ہو، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ امام کے ذمہ سجدۂ سہوہو۔ (آپ کے مسائل ص۲۹۳جلد۳۔ وفتاوی محمود یہ ص۲۷۰جلد اور  در المحتا ر ص۵۵۹جلد اول و فتاوی دارالعلوم ص۳۹۴جلد۳)۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سجدہْ سہومیں امام کے ساتھ لوٹنا پڑ جائے۔ رفعت قاسمی )

مسئلہ :۔ اگرکسی نے بجائے داہنی جانب کے، بائیں جانب سلام پھیر دیا تو فقط داہنی جانب سلام پھیر لے، بائیں جانب سلام پھیرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی سجدۂ سہوکی ضرورت ہے،نماز صحیح ہے۔ (فتاوی رحمییہ ص۲۴۷ جلد اول، جوہرہ نیرہ ص۵۵) (دوبارہ بائیں جانب سلام پھیرنا اس پر لازم نہیں ہے۔ محمد رفعت قاسمی غفرلہ،)

٭٭٭

 

سانحۂ   ڈنمارک غیرت ایمانی اور بداعمالیوں کا خاکسانہ

ڈنمارک کے بدبختانہ واقعہ سے جہاں غیرت ایمانی کو جانچا و پرکھا گیا ہے وہیں اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ عالم اسلام کا ہر ایک ملک ہر ایک طبقہ ہر ایک گروہ اپنے بداعمالیوں اور کالے کرتوتوں سے باز آ جائے اور ان تمام فاسد خیالات اور مغربی طرز کے مزاج و مذاق کا قولاً و عملاً بالکلیہ بائیکاٹ کر دے مگر افسوس کہ جب عالم کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی غیرت ایمانی خدائی و حدت کا ولولہ اور عشق رسول کا جذبہ صرف اشتہار بازی نعرہ بازی میں ہی نظر آتا ہے اگرچہ کہاس کی بھی ایک حیثیت ہے مگر اس حیثیت سے کہیں زیادہ حقیقت ایمانی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقت ہے جس کی حقیقت اہمیت اور کیفیت ہم میں معدوم ہے۔

جب ہم اسلامی ملکوں کا جائزہ لیں تو متحدہ عرب سے لے کر مسلم اکثریت ملکوں و صوبوں تک کی معاشرتی حالات بد سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ جن کے حکمراں کثرت دولت و کثرت افراد کے باوجود سیاسی و تمدنی میدان میں اتنے بودے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے خود اپنا مال عالمی منڈی میں فروخت  نہیں کر سکتے اتنے متکاہل اور سست واقع ہوئے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے پروڈکٹس خود بنا نہیں سکتے اتنے عاجز اور بے بس ہیں کہ ہوائی جہاز سے لے کر سوئی تک کی تمام چیزیں مغربی و غیر مغربی ممالک سے دوگنی یا سہ گنی قیمت میں خریدتے ہیں اور رعایا کے معاشرتی حالات سے اتنے بے خبر ہیں یا اتنے بے پرواہ ہیں کہ ان کی رعایا بد اخلاقی بے حیائی اور بے غیرتی کے دلدل میں لمحہ بہ لمحہ دہنستی جا رہی ہے۔ اور شامت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب اسلام دشمن مسلمانوں کے ملکوں کو لقمہ تر بنا رہے ہیں تقریباً حدیث کا وہ مفہوم صادق آتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ غیر قومیں تمہیں ہلاک کرنے اس طرح بلائیں گئی جس طرح کھانے کے لئے مہمانوں کو دستر خوان پر بلایا جاتا ہے۔ علاوہ اس کے اب ان کی ہمتیں اتنی بلند ہو گئیں ہیں کہ وہ قرآن پر حدیث پر اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور صحابہ کرام پر رکیک سے رکیک انداز میں حملہ کریں اور نت نئے فتنے پیدا کریں ان تمام حالات کے باوجود دنیا کے تمام سربرہان مسلم ممالک میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ وہ ڈنمارک یورپ اور امریکہ کے ایوانوں میں لرزہ پیدا کر دیں گو کہ یہ لوگ عملی اعتبار سے بہرے، گونگے اور اندھے ہو گئے ہیں۔

رہی بات شرپسندوں کے بائیکاٹ کی تو اس کے مختلف طریقے ہیں ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کی وضع قطع ان کی چال و چلن ہمارے گھروں ہمارے بڑوں اور ہمارے بچوں سے کھرچ کھرچ کر نکالیں اور جو وضع قطع اسلامی مزاج کی ہے اسے بٹھانے کی کوشش کریں۔

دوسرا بائیکاٹ یہ ہے کہ اگر ہمارے بچے عیسائی مشنری اسکولس وکالجس میں پڑھتے ہیں تو جلد از جلد اس کے متبادل غیر عیسائی مشنری اسکولس میں داخلہ کروائیں ورنہ ہمارا بچہ عیسئای تعلیم اور مزاج کو اوڑھنا بچھونا بنا لے گا اتنا ہی نہیں بلکہ عیسائیت کا ترجمان بن سکتا ہے۔

تیسرا بائیکاٹ یہ ہے کہ ان کے پروڈکٹ کا قطعاً استعمال نہ کریں اگر اس سلسلہ میں کوئی علم نہیں ہے تو معلوم کریں۔ اسلام دشمن ممالک کے پروڈکٹس کا (E.Code) کیا ہے جس پروڈکٹ پر ان کا (E.Code)پایا جائے اس کا خود بائیکاٹ کریں اور دوسروں کو بھی اس  کی ترغیب دلوائیے تاکہ مسلمانوں کی اس خریداری پر جو نفع ان کو ملتا ہو وہ مسلمانوں کے تئیں جو سازشیں رچی جا رہی ہیں اس میں  کام نہ آئے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ کمپنیوں کے نام اور کچھ (E.Code) ایسے ہیں جن کا ایک ہفتہ دو ہفتہ نہیں بلکہ ان کی مستقل سازش تک برابر بائیکاٹ کریں۔

(۱)Cadbury Chocolate(۲)Tup Drink( ۳)Lego Toys، (۴) Holl Chewing gumاور اس کے علاوہ کسی چیز پر Code 57 سے شروع ہوتا ہے ان سب کا بائیکاٹ کر دیں۔ خصوصاً امریکہ اور یورپ کے اشیاء تعیش اور اشیاء ضروریہ کا بائیکاٹ کر دیں اور ان کی متبادل ہندوستانی کمپنیوں کے پروڈکٹ استعمال کریں۔

٭٭٭

 

آیتِ حجاب

یا ایھا الذین امنو لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم الی طعام غیر نظرین انہ ولکن اذا دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشرو او لا مستانسین لحدیث ان ذلکم کان یوذن النبی فیستحی منکم واللہ لا یستحی من الحق واذا سالمتمو ھن متاعاً فسئلو ھن من ورآء حجاب ذلکم اطھر لقلو بکم وقلو بھن   (الاحزاب ۵۳)

ترجمہ:  اے ایمان والو نبیؐ کے گھروں میں (بے بلائے ) مت جایا کرو مگر جس وقت تم کو کھانے کے لئے (آنے کی ) اجازت دی جاوے (تو جانا مضائقہ نہیں مگر تب بھی جانا) ایسے طور پر (ہو ) کہ اس (کھانے ) کی تیاری کے منتظر نہ رہو لیکن جب تم کو بلایا جاوے ( کہ اب چلو کھانا تیار ہے ) تب جایا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو (کیوں کہ) اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے سووہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں ( اور زبان سے نہیں فرماتے کہ اٹھ کر چلے جاؤ) اور اللہ تعالیٰ صاف کہنے سے (کسی کا ) لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر (کھڑے ہو کر وہاں ) سے مانگا کرو یہ بات تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔

مذکورہ آیت کے سلسلہ میں ائمہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ پردے کی فرضیت کا حکم اسی آیت میں نازل ہوا اسی لئے بخاری و مسلم کی بہت سی روایتوں میں اس آیت کو آیت حجاب (پردے کی آیت ) کہا گیا ہے۔

شان نزول

پردے کی آیت کے بارے میں امام بخاری نے حضرت انسؓ کی ایک روایت نقل کی ہے۔

’’ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا! یا رسول ؐ آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے افراد آتے ہیں اگر آپ ازواجِ  مطہرات کو پردے کا حکم دیدیں تو بہت اچھا ہو۔ تو اللہ تعالیٰ  نے آیت حجاب نازل فرما دی۔   (بخاری کتاب التفسری ص ۷۰۶ج ۲)

اسی باب کی دوسری روایت میں جو حضرت انسؓ سے ہی منقول ہے جسے امام بخاری نے نقل کیا ہے حضرت انسؓ فرماتے ہیں۔ ’’انا اعلم الناس بھذہ الایۃ‘‘ کہ آیت حجاب کی حقیقت سے میں لوگوں میں سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں کیونکہ میں اس واقعہ میں حاضر تھا جب کہ حضرت زینب بنِ حجشؓ نکاح کے بعد رخصت ہو کر حرم نبویؐ میں داخل ہوئیں اور مکان میں آپ کے ساتھ موجود تھیں آپؐ نے ولیمہ کے لئے کچھ کھانا پکوایا اور لوگوں کو دعوت دی کھانے کے بعد کچھ لوگ وہیں جم کر آپس میں باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گئے ان لوگوں کے اس طرح دیر تک بیٹھنے سے رسول ﷺ کو تکلیف ہوئی آپ گھر سے باہر تشریف لائے اور دوسری ازواج مطہرات کے پاس ملاقات اور سلام کے لئے تشریف لے گئے جب آپ دوبارہ گھر میں واپس آئے تو یہ لوگ وہیں موجود تھے آپؐ کے لوٹنے کے بعد ان لوگوں کو احساس  ہوا تو منتشر ہو گئے کچھ دیر کے بعد آپؐ پھر باہر تشریف لائے میں وہاں موجود تھا آپؐ نے یہ آیتِ حجاب جو اس وقت نازل ہوئی تھی پڑھ کر سنائی۔

حضرت انسؓ اس باب کی روایت میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت حجاب نازل ہوئی تو آپؐ نے مردوں کے سامنے ایک چادر کا پردہ ڈال دیا۔ اور حضرت زینبؓ پردے کے پیچھے مستور ہو گئی ترمذی شریف کی روایت میں حضرت زینبؓ کے نکاح کے بعد گھر گھر میں نشست کی یہ صورتِ حال بیان کی گئی ہے۔

 وہ اپنا رخ (منہ) دیوار کی طرف پھیرے ہوئے بیٹھی تھیں، اور یہ صورت حال آیت حجاب کے نازل ہونے سے پہلے کی بیان کی گئی ہے اندازہ لگائے کہ شرم و حیاء کا کیا عالم ہے ام المومنین ہیں پردے کا کوئی حکم نہیں اس کے باوجود بھی دیوار کی طرف رخ کر کے بیٹھی ہوئی ہیں اس سے معلوم ہوا کہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی شریف اور معزز خاندانوں اور گھرانوں میں عورتوں کا مردوں کیساتھ اختلاط اور بے تکلف  گفتگو اور بات چیت کا رواج کہیں نہیں تھا۔

٭٭٭

 

الکفر ملۃ واحدۃ

ترجمہ: ہر قسم کا کفر ایک جماعت ہے (مسلمانوں کے مقابلہ میں )

یوں تو دنیا میں بہت سارے دوست اور بہت سارے دشمن ہوتے ہیں جب ہم دوستوں اور دشمنوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو انسانوں کی ذات میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دوست ہے اگر ایسا نہیں ہے تو اس کے ایمان و اعمال کی کمزوری کے ساتھ ساتھ سماجی و اخلاقی کمزوری بھی ہے اس لئے کہ قرآن کی آیت انما المومنون اخوۃ کے تحت یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور دوست ہیں۔

اسی طرح کی تو دنیا میں جتنے غیر مسلم و کافر ہیں وہ سب کے سب مسلمان کے دشمن ہیں خواہ وہ عیسائی ہوں یا یہودی، پارسی ہوں یا سندھی غرضیکہ اقوام عالم میں جتنے ممالک اور جتنے مذاہب ایمان کے دائرے سے باہر ہیں وہ سب کے سب مسلمانوں کے معاند اور دشمن ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ کفر خواہ کسی بھی مذہب و دین کے شکل میں ہو وہ سارے کے سارے ایک جماعت اور ایک اتحاد رکھنے والے ہیں یعنی تمام مذاہب باطلہ ایک امت ہیں نہتے مسلمانوں کے مقابل میں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ  الکفر ملۃ واحدۃ۔

چنانچہ مذکورہ دونوں باتوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ہی دوست بنائے اور اسے ہی اپنا وفادار جانے اور سمجھے اسی طرح ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ ہر کافر کو اپنا مخالف جانے اور سمجھیں خواہ کافر کسی بھی شکل میں پایا جائے استاذ کی شکل میں ہو یا شاگرد کی شکل میں آقا کی شکل میں ہویا غلام کی شکل میں پڑوسی کے شکل میں ہو یا مسافر کی شکل میں غرضیکہ مسلمان کفار کے ساتھ جتنی دنیوی ضرورت ہے اتنا ہی ان کے ساتھ اپنا اچھا برتاؤ رکھے باقی دیگر نجی و مذہبی معاملات میں انہیں اپنا دوست نہ بنائیں۔

آج کل بہت سارے پڑھے لکھے مسلمانوں اور کاروباریوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ مسلمان دوستی کرنے یا دوست بنانے کا حق دار ہی نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کے نہ تو اخلاق اچھے ہوتے ہیں نہ اس کے معاملات ٹھیک ہوتے ہیں لہذا نہ اس کے قریب جاؤ اور نہ اس کے ساتھ بھاؤ  تاؤ کرو۔ جب اس قسم کا فکر پیدا ہو گیا ہو تو سوچنے کی بات ہے کہ ہم کس رخ پر اور کس راستے پر چل رہے ہیں ؟ یقیناً ہمارا رخ اور ہمارا راستہ ایسی سونچ و فکر پر مبنی ہے جو کہ قرآن و حدیث کے مخالف ہے۔ اس لئے کہ قرآن و حدیث میں جسے دوست بتلایا گیا ہے وہی ہمارا دوست ہے اور جسے ہمارا شمن بتلایا گیا ہے وہی ہمارا دشمن ہے۔ خود سے ہماری سونچ ہمارے رائے اور ہمارے فیصلہ سے کسی کو دوست و دشمن بنانا نہ تو عقلمندی و دانشمندی کی بات ہے اور نہ اس میں کوئی کمال کی بات ہے۔ ہاں عقلمندی و دانشمندی تو اس بات میں ہے کہ ہم دوست اسے بنائیں جسے قرآن و حدیث میں بھائی دوست کہا گیا ہے اور ہم دشمن اسے بنائیں جسے قرآن و حدیث میں دشمن بتلایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو از خود دوست اور دشمن بنانا حسرت و پشیمانی کا سبب ہو گا۔

٭٭٭

 

سیل فون اور ہمارا معاشرہ

’’یا نبی سلام علیک والی ٹیونس بھی درست نہیں ‘‘

ٹیونس بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں جیسے گانوں کی ٹیونس پویمس کی ٹیونس (Poems)پوجا کی ٹیونس ’’مارچ‘‘Marchکی ٹیونس وغیرہ مگر کچھ ناواقف لوگوں نے ایک ایسی ٹون بھی ایجاد کی ہے جسے ’’درود شریف ‘‘والی ٹون کہتے ہیں جیسا کہ بہت سارے مسلمان بھائی عقیدت میں ’’یانبی سلام علیک‘‘ والی …ٹیونس رکھتے ہیں اور دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ایک ثواب کا کام انجام دیا حالانکہ اگر غور کیا جائے تو یہ بات صاف ہوتی ہے کہ ہم نے بہت بڑی گستاخی کی وہ اس لئے کہ درود پڑھنا بھی ایک عبادت ہے اور ہر عبادت کا ایک مقصد ہو تا ہے اور اس عبادت کا مقصد اسی وقت حاصل ہو گا جب کہ اس کو اسی ڈھنگ سے کیا جائے جس طرح شریعت بتلاتی ہے۔

چنانچہ نماز وہی قابل قبول ہے جس میں خشوع خضوع ہو، روزہ وہی قابل قبول ہے جس میں تقویٰ ہو وغیرہ وغیرہ، اسی طرح درود شریف پڑھنے کا ایک خاص مقصد عشق رسول ہے، مگر اس کے لئے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے مگر یہ بھی طے ہے کہ درود کو خشوع خضوع کے ساتھ دل جمعی و احترام کے ساتھ پڑھے، نہ کہ غفلت کی حالت میں پڑھے اور سنے کیوں کہ ہر وہ کام جو غفلت کی حالت میں کیا جاتا ہے اس میں بے ادبی اور بے احترامی ضرور ہوتی ہے، ہے لہذا وہی درود قابل قبول ہو گا، جس میں عقیدت اور محبت ہو اور یہ دونوں چیزیں اسی وقت حاصل ہوں گی جب کہ یکسوئی اور ایک جہتی حاصل ہو اگر یکسوئی اور توجہ نہیں ہو گی تو آپ کے اندر نہ عقیدت پیدا ہو گی اور نہ محبت بلکہ ایک قسم کی بیزار گی ضرور پیدا ہو گی اور یہ کتنی گھناؤنی بات ہے کہ آپ کے فون پر درود چل رہا ہو اور آپ بیزارگی کا اظہار کریں غرضیکہ فون کے اندر درود شریف والی رنگ ٹون رکھنا ادب کے خلاف ہے اور نا جائز بھی جس طرح گھروں کے اندر اذان والی الارم(گھڑی ) (Alarm Watch)رکھنا یا اذان والی ڈور بیل (Door Bell)رکھنا مکروہ تحریمی اور نا جائز ہے۔ اسی طرح درود شریف والی رنگ ٹون بھی ایقاظ بالتھلیل کے تحت داخل ہو کرنا جائز ہو گی۔ (جیسا کہ جواہر الفقہ اور فتاویٰ مظاہر علوم میں ہے )۔

علاوہ ازیں درود والی رنگ ٹون میں دوسری بڑی خرابی  یہ ہے کہ بسا اوقات آدمی بیت الخلاء میں ہو تا ہے یا طہارت خانہ میں ہو تا ہے اور یہ گندی جگہ درود والی رنگ ٹون بجے تو کتنی بڑی بے ادبی کی بات ہو گی۔

قرآنی آیات و اذان والے رنگ ٹون

ٹھیک اسی طرح سے جو حکم درود شریف والی رنگ ٹون کاہے اسی طرح قرآن آیات و اذان والی رنگ ٹون کاہے (یعنی نا جائز ہے ) اس لئے کہ اس میں بھی غیر محل ہونے کی وجہ اور استخفاف کے قوی خوف ہونے کی وجہ ہے ویکرہ ان یقرا فی الحمام لانہ موضع النجات ولا یقرا فی بیت الخلا کذا فی فتاویٰ قاضی خان۔

سیل فونز میں گانے فیڈ کرنا اور سننا

گانا بجانا، سننا، یا سنانا دیکھنا یا دکھانا سب کا سب نا جائز اور حرام ہے لیکن آج کے ماحول پر ایک نظر ڈالئے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک مستقل مصروفیت اور ذوق طبیعت بن کچی ہے گانا سننا یا سنانا آج کل دو طرح سے ہو رہا ہے ایک تو خود اپنے سل فونز میں روپیہ خرچ کر کے گانے ڈاؤن لوڈ  کرنا اور سننا:ون:کرنا اور سننا اور دوسرے FMپر یعنی ریڈ یو پر گانے سننا یہ دونوں چیزیں ازروئے شریعت حرام ہیں جس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔

من جلس الی قینۃ یسمع منھا صب فی اذنہ الاٰنک یوم القیامۃ(قرطبی ۷ ۵۰)

ایک نئی وباء Caller tone

بعض لوگ تو رنگ Tone ایسے رکھتے ہیں جو گانے بجانے اور میوزک کے قبیل سے ہوتے ہیں اور اس کا گناہ اپنے اوپر لاد لیتے ہیں۔

مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دوسروں کو جو جان بوجھ کر زبردستی میوزک یا گانے سناتے ہیں جیسے کوئی آدمی کسی آدمی کو فون کرتا ہے تو عام طور جو گھنٹی بجنے کی آواز ہوتی ہے وہ نہیں آتی بلکہ گانا یا کوئی میوزک سننے میں آتی ہے اور اس طرح کی میوزک کے لئے لوگ ماہانہ 40,30یا50روپیہ دیکر گناہ پر گناہ کماتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس طرح سے کرنا خود گناہ کمانے کے ساتھ دوسروں کو گناہ کی ترغیب دینا ہے یعنی برائی کی دعوت دینا ہے اس کے ساتھ ساتھ کوئی نیک آدمی ہو تو اس ے اس قبیح فعل سے تکلیف دینا ہے جس کی ممانعت حدیث میں یوں آئی ہے کہ عن ابی امامۃ عن النبیا قال ان اللہ عزوجل بعثنی رحمۃ وھدی للعالمین امرنی ان امحق المزامیر و الکفاء ات یعنی البربط والاوثان التی کانت تعبد فی الجاھلیۃ مسند احمد ابن حنبل ۵ ۲۵۷۔

٭٭٭

 

اسلامی  سلام

جس طرح اسلام میں ملاقات کے وقت لفظ السلام علیکم وغیرہ کے الفاظ ہیں اسی طرح دیگر اقوام و ملل کے نزدیک بھی کچھ خاص قسم کے الفاظ و جملے ہیں جیسے ہندوؤں کے نزدیک ’’نمستے ‘‘ ’پرانم‘‘ ’’رام رام ‘‘ وغیرہ تو عیسائیوں و یہودیوں کے نزدیک صبح کے وقت گڈ مارننگ دوپہر کے وقت       گڈ آفٹر نون رات کے وقت گڈ نائیٹ وغیرہ وغیرہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک، تمام مذاہب، تمام زبانیں لفظ عربی و طریقہ سلام ’’السلام علیکم ‘‘ کے معنی و مفہوم اوراس کی محیر العقول جامعیت  و افادیت کے اعتبار سے کمزور  و لاغر ہیں اگر آپ اسپرایک تحقیقی نظر ڈالیں اور موازنہ کریں تو اسلامی سلام السلام علیکم کی جامعیت و کاملیت کا بخوبی اندازہ ہو گا۔

ایک عجیب و غریب حکایت

 کسی جگہ دودوست رہتے تھے ان میں کا ایک شخص مسلمان تھا اور دوسرا عیسائی ایک دن ایسا ہوا کہ مسلمان صاحب کے گھر کسی کا انتقال ہو گیا جب پرسہ ودلاسہ کے لئے عیسائی دوست قبرستان پہنچے تو ملاقات کے وقت کس لفظ اور کس جملہ کا استعمال کریں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس لئے کہ اگراس موقع  پر لفظ  گڈ مارننگ Good Morningیا گڈ آفٹر نون یا گوڈ اویننگ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں تو سیدھے سیدھے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ اس غم کے موقع پریہ صبح یہ دوپہر یا یہ شام تمہیں مبارک ہو اس طرح کے الفاظ تو اس غم والے موقع کے اعتبار سے انتہائی غیر مناسب ہیں لہٰذا اب کیا کرنا چاہئے چنانچہ اس نے عیسائی مذہب و انگریزی زبان کی تمام کتابیں چھان مار دیں مگر اسے غم و الم کے موقع پر استعمال کرنے کے لئے کوی ایسا لفظ یا جملہ نہ ملا کہ اسے استعمال کر سکیں لہٰذا اب کریں تو کیا کریں سواس شخص نے دین اسلام کے لفظ السلام علیکم وغیرہ پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک چھوٹا سا جملہ اپنی جامعیت و کاملیت کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ اس جملے کو ۲۴ گھنٹوں میں کسی بھی وقت ملاقات پر استعمال کر سکتے ہیں، صبح ہو یا دوپہر شام ہو یا رات اوراس طرح کے جملے کو غم کے موقع پر بھی استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ غم کے موقع پر اس کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو، اور ہر انسان کو سلامتی اور امن و امان ہر گھڑی چاہئے صرف صبح کو یا دوپہر کو یا شام کو یا کسی خاص وقت کو ہی اسے سلامتی چاہئے اور دیگر اوقات میں اسے سلامتی کی ضرورت نہیں ایسا تو نہیں جیسا کہ عیسائی و انگریزی تہذیب و زبان اس کی ترجمانی کرتی ہے اس لئے کہ جب ایک آدمی good morningکہتا ہے تو مطلب اس کا یہی ہوتا ہے کہ تم پر سلامتی ہو صرف صبح کے وقت  اسی طرح good after noon اور good nightکا حال ہے اور یہ جملے ایسے بھی ہیں کہ جن کا استعمال صرف خوشی کے موقع پر ہی ہو سکتا ہے غم کے موقع پر ہر گز نہیں ہو سکتا الغرض یہ اسلامی سلام اور عیسائی و غیر مذہبی good morningوغیرہ کے درمیان معنی و مفہوم جامعیت و افادیت کے اعتبار سے ایک بڑا فرق ہے۔ الغرض جب وہ عیسائی دوست صرف لفظ السلام علیکم پر اتنی تحقیق کر لیا تو اب ان کے لئے دین کو سمجھنا آسان ہو گیا اور اس نے عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام کو گلے لگا لیا یہ ہے لفظ السلام علیکم کا عظیم ونفع بخش بلکہ ہدایت بخش اثر

عقلمند کو کافی ہے ایک حرف نصیحت

ناداں کو ناکافی نہ دفتر نہ رسالہ

سلام میں پہل کرنا واجب سے زیادہ ثواب ہے

عامی سے عامی شخص کو اس بات کا علم ہے کہ واجب درجہ و اجر کے اعتبار سے سنت سے زیادہ بڑی اور افضل چیز ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ سلام کرنا مسنون وسنت ہے اور سلام کا جواب مرحمت کرنا واجب ہے۔ مگر سلام میں پہل کرنے والی سنت واجب سلام کے جواب دینے سے اجر و ثواب میں  بڑھی ہوئی ہے لیکن امت میں یہ چیز بہت ہی مفقود ہے ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ ہر ملاقاتی ہر ملنے جھلنے والا مجھے سلام کرے مگر میں کسی کو سلام نہ کروں اور یہ صفت انتہائی بری اور مہلک ہے۔

سلام میں پہل کرنا کبر سے بری ہونا ہے

مذموم وخبیث صفات میں ایک صفت کبر و

تکبر ہے جوشخص اپنی ذات کے اندر کبر و تکبر کو پالتا ہے گویا کہ وہ خدا کی لعنت میں گرفتار ہو رہا ہے اور ذلت کی موکھی کھارہا ہے، کبر سے وہی شخص بری وآزاد ہے جسکے اندر سلام میں پہل کرنے کی عادت نہ ہو۔

ضابطۂ سلام

یوں تو سلام کرنے میں چھوٹا بڑے کی کوئی قید نہیں ہے مگر اس سلسلہ میں ایک ضابطہ یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو قوی ضعیف کو سلام کرے، چھوٹے بڑے کو سلام اس لئے کرے وہ عمر میں بڑھے ہوئے ہیں اور یہ ان سے چھوٹے ہیں بڑوں کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے چھوٹے بڑوں کو سلام کرے اور اس طرح سے ہر قوی ضعیف کو سلام کرے تاکہ یہ قوی اپنے اندر سے اپنی طاقت و قدرت کی بڑائی کو دل سے باہر نکال پھینکیں۔

سلام اسے بھی کرے جسے  نہ جانتا ہو

حدیث میں آتا ہے کہ تقریٰ السلام علی من عرفت ومن لم تعرف۔ سلام کرو جنہیں تم جانتے ہو یا نہ جانتے ہو ایسا نہیں کہ جسے تم جانتے ہو سلام کرو مگردوسروں کو پس پشت ڈال دو۔

سلام کب کب کریں

حدیث میں آتا ہے کہ جب تم گھر میں آؤ تو سلام کر کے آؤ اور جب تم گھر سے جاؤ تو سلام کر کے  جاؤ اور جب تم کسی مجلس میں جاؤ تو (احتیاط )سے سلام کر کے جاؤ اور بیٹھو اور مجلس کے ختم تک مت اٹھو۔ خیال رہے کہ جب ہم ایسی جگہ جائیں جہاں کچھ لوگ سورہے ہوں اور کچھ لوگ جاگ رہے ہوں تو وہاں پر بھی سلام ضرور کرو مگر اس طرح سے کرو کہ سونے والے نہ جاگیں اور دیگر لوگ جو جاگ رہے ہیں وہ بھی سن لیں یہی حضور ﷺ کا معمول تھا جب کہ آپ اصحاب صفہ کے پاس جاتے۔

سلام کتنی دیر کے بعد کرنا چاہئے

ایک مومن دوسرے مومن کے درمیان کچھ سکنڈ کے لئے کوئی جھاڑ یا دیوار حائل ہو جائے تو سلام کروایسا نہیں کہ دن میں ایک آدمی کو ایک ہی سلام یا ایک مہینہ میں ایک ہی سلام اور کچھ تو وہ لوگ بھی ہیں جو زندگی بھر میں دو ہی مرتبہ سلام کرتے ہیں ایک رمضان میں دوسرے بقر عید اور بعض بدنصیب تو اس سے بھی محروم ہیں جو ایک خون، ایک کنبہ، ا ور ایک قبیلہ کے ہونے باوجود زندگی بھر ایک دوسرے کو سلام نہیں کرتے۔

٭٭٭

 

حج ۔۔حقیقت۔ فرضیت۔ فضیلت و منکرات

حج ارکان اسلام کا آخری تکمیلی رکن ہے جسے ہم اور آپ شریعت کی اصطلاح میں حج بیت اللہ الحرام کہتے ہیں۔

 حج کیا ہے …… ؟

ایک متعین وقت میں مخصوص اعمال کے ساتھ عشق خداوندی میں ڈوب کر دیوانوں و مجنونوں کی طرح رب ذوالجلال کے آستانے پر حاضر ہونا اوراس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اداؤں اور طریقوں کو مقدور بھر اخلاص کے ساتھ کے بجا لانا اور خود کو مسلک ابراہیمی اورسلسلہ محمدی کا ثبوت دینا اور اندرونی جذبات کا اظہار کرنا جو ایک سچے پکے مومن کے دل میں جاں گزیں ہوتے ہیں۔

خدا کی دو صفتیں

خدا کی دو صفتیں ہیں ایک صفت حاکمیت و ملوکیت کی دوسری رحمت و مودت کی۔ پہلی صفت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ قبول اسلام کے بعد اللہ کے گھر مساجد میں رکن اول نماز کو بجا لائے اسی طرح کا کچھ حال زکوٰۃ کا بھی ہے جس میں خدا کی صفت حاکمیت و شہنشاہیت کو سامنے رکھ کر ادا کیا جاتا ہے۔ مگر ارکان خمسہ میں آخر الذکر دو ارکان روزہ اور حج ایسے ہیں جس میں خدا کی دوسری صفت شفقت و مودت کا ثبوت ملتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ جب آدمی روزہ رکھتا ہے تو دن بھر خدا کے عشق میں سرشارہو کر بھوک پیاس برداشت کرتا ہے اور اسے ہنسی خوشی بجا لاتا ہے اورخداسے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح کا بلکہ اس سے زیادہ اتم، و اکمل حال اور خدا کی محبت کا سچا ثبوت بندے کو حج جیسے عظیم رکن میں جھلکتا ہے حج کی ابتدائی کیفیت سے آخری کیفیت تک تمام مراحل پر محبت خداوندی ہی جھلکتی نظر آتی ہے۔ اوربس۔

عشق حقیقی کی ایک جھلک

حاجی جب حج کا ارادہ کرتا ہے اور احرام باندھ کر نکلتا ہے تواس قدر دیوانہ وار نکلتا ہے کہ نہ تو اس کے کپڑے سلے ہوئے ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کے سر پر کوئی آسرا حفاظت کا نظر آتا ہے اسی طرح نہ بے ترتیب بالوں کی حجامت کا خیال نہ ناخن ترشوانے کا ہوش نہ بالوں میں کنگھا نہ سرمیں کوئی تیل نہ کپڑوں پر خشبو غرضیکہ انسانی ضروریات کی ساری چیزیں ترک کر دیتا ہے۔ اور لبیک لبیک پکار کر گریہ و زاری کرتے ہوئے طواف کرتا ہے اوراس کے در و دیوار، گلی کوچوں میں مجنون کی طرح چکر لگا کر شہر سے باہر نکل کر کبھی منی میں، کبھی مزدلفہ میں، کبھی عرفات کے میدان میں بسیراکرتا ہے اوراس سے قبل صفا و مروہ پر دوڑ کر اپنے رب کو مناتا ہے یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو عشق خداوندی کی حقیقی ثبوت دیتی ہیں۔

فرضیت حج

فرضیت حج سنہ ۹ ہجری میں ہوئی۔ اوراس رکن کو ہر اس شخص پر لازم قرار دیا گیا جو من استطاع الیہ سبیلا کی فہرست میں آئے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ من استطاع الیہ سبیلا کی تھوڑی سی توضیح کی جائے۔ تاکہ کسی پر کسی قسم کا شبہ نہ رہے۔

جو شخص جسمانی صحت کے ساتھ مالی و معاشی اعتبار سے اتنی قدرت رکھتا ہو کہ وہ سفر حج کا مکمل خرچ اورراستہ کے کھانے پینے کا سامان مہیا کر سکے ایسے شخص پر حج فرض ہو جاتا ہے۔ ضروری وضاحت یہ ہے کہ ’’زاد راہ ‘‘میں خرچ بھی شامل ہے جو لوگ اس کی ماتحتی میں زندگی بسر کرتے ہوں اور وہ اس کی قدرت نہ رکھے یعنی اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں کا خرچ برداشت کر نہ سکے وہ من استطاع الیہ سبیلاکی فہرست سے خارج ہو جاتا ہے۔

ایک تنبیہ

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو راہ افراط پر چلتے ہوئے سفر حج کے لئے رخت سفر باندھتے ہیں جبکہ ان کے گھر والوں کی کفالت مکمل ہوتی ہی نہیں۔ اس پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو خیر کا کام ہے کہ گھر والے بھوکے رہیں یا کوئی اور حاجت کے محتاج ہو ں۔ واضح رہے کہ اس جگہ بندہ ایک غیر فرض کو فرض پر اہمیت و فوقیت دے رہا ہے جو کہ از روے شرع درست نہیں ہے۔ اور بعض لوگ ایسے ہیں جن پر حج فرض ہو چکا ہے مگر وہ تفریط کے راستے پر چلتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ارے صاحب ابھی تو بہت سارے گھریلو کام کاج باقی ہیں مثلاً گھر دار کی نئی تعمیر یا فلاں بیٹے یا بیٹی کے شادی بیاہ، یا ریٹائرمنٹ کا انتظار یا کاروبار کے دیکھ رکھ کا نظام وغیرہ وغیرہ۔

واضح رہے کہ وہ شادی فریضۂ حج کے لئے مانع ہو سکتی جو شادی شرع کے موافق کی جائے۔ نہ کہ وہ شادی فریضۂ حج کے لئے مانع ہے جسے ہمارے معاشرے نے فریضہ حج سے زیادہ فوقیت دے رکھی ہے۔ جس میں رسومات واسراف کیا جاتا ہے۔ اسلام نے ریٹائرمنٹ کے انتظار کو فریضہ حج کے لئے مانع قرار نہیں دیا ہے جب کہ آپ فریضۂ حج کے دائرہ میں آ چکے ہیں۔ اسی طرح کاروبار کرنے والے کا معاملہ ہے کہ وہ کسی خاص نظم و انتظام یا نگران کو مانع کیوں سمجھے جب کہ کاروبار کچھ عرصہ کے لئے بند کر کے فریضۂ حج کو ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ بہانہ جو کاروبار کے سلسلہ میں کسی خاص نظم و انتظام کا حائل ہوتا ہے حج کی فرضیت سے منع نہیں کرتا اسی طرح سے گھر کی تعمیر کے سلسلے میں عمداً غلطی کی جاتی ہے کہ جب گھر کی تعمیر ہو جائے گی تبھی حج کو جائیں گے۔ مگر گھرکی تعمیر سے وہ گھر کی تعمیر مراد نہیں ہے جو تاج محل یا شیش محل کے برابر ہو بلکہ سرچھپانے کے لئے کوئی اچھا سا گھر میسرآ جائے تو بصورت دیگر یہ  فعل موجب لعنت ہے۔

تارک  حج کے لئے شدید وعید

جب من استطاع الیہ سبیلا کی توضیح ملاحظہ کر لی تو اب ترک حج پر کیا وعید ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو شخص حج فرض ہونے کے بعد بھی حج نہیں کرتا تو اس شخص کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ حالانکہ یہ دو قومیں ایسی ہیں کہ قرآن نے ایک کے متعلق ’’ضالین‘‘ یعنی گمراہ دوسرے کے متعلق ’’المغضوب‘‘ یعنی جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حج فرض ہونے کے باوجود غفلت برتنا  گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور خدا کے عذاب سے قریب کرتا ہے۔ اللہ ہی اس قدر بھیانک عذاب سے ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین۔

کونسا حج، حج  مقبول ہے

 بہرحال  جو شخص حج کرنے کے لئے جائے وہ شخص نہ تو ’’رفث‘‘ یعنی شہوت والی باتیں کرے اور نہ ’’فسوق‘‘ یعنی جھگڑا وغیرہ کرے۔ سو ایساشخص جب حج کر کے لوٹتا ہے تو ایسے لوٹتا ہے جیسا کہ وہ آج ہی پیدا ہوا ہو یعنی جس طرح ایک معصوم بچہ تمام گناہوں سے پاک و صاف ہوتا ہے اسی طرح  حج کرنے والا حاجی بھی تمام گناہوں سے پاک وصاف ہو کر گھر لوٹتا ہے۔ اس کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کیئے جاتے ہیں۔ جب کہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے۔

رہی بات بندوں کے حقوق کی تو اس کے لئے تو صاحب معاملہ ہی سے معافی تلافی ضروری ہے۔ کہیں اس خوش فہمی میں نہ ہو کہ اب تو حج کر لیا ہے تمام گناہ خواہ وہ حقوق اللہ ہوں یا بندوں کے حقوق معاف ہو جائیں گے ؟

حج  مقبول کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ حج کے بعد والی زندگی حج کی پہلی والی زندگی سے دین اور فکر آخرت کے اعتبار سے بدلی ہوئی ہو۔ یعنی اب اس کے اندر دنیوی چاہت کم ہو کر اخروی فکرپیداہواوراس کے لئے نیک اعمال کرتا ہو۔ خود کو دینی و اصلاحی مشغلوں میں مصروف رکھتا ہو ایسے حاجی کے لئے خدا کی طرف سے معافی کا اعلان ہے۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ حاجی جب حج کر کے واپس ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے خاص بندوں میں شمار کر لیتے ہیں۔ جب یہ دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے مغفرت طلب کرتا ہے تو اس کی مغفرت بھی کر دی جاتی ہے۔ یہ تو اخروی فائدہ ہے دنیا وی اعتبار سے حج ایک ایسی عظیم الشان عبادت ہے کہ حج کرنے کے بعد حاجی کو فقر وافلاس معاشی تنگی سے چھٹکارا نصیب ہوتا ہے اب یہ معاشی اعتبارسے فقر وافلاس میں مبتلا نہیں ہو گا۔ وہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو شخص حج کرنے کے لئے گھر سے نکلے اور راستے میں انتقال کر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو حج کا مکمل ثواب عطا کرتے ہیں اور اس کی مغفرت فرماتے ہیں۔

فرضیت حج وغیرہ کی وضاحت کے بعد اس کے ارکان و افعال کا نمبر آتا ہے جسے اپنے اپنے متعلقہ معلمین سے بروقت سیکھ لیا جائے۔ قطع نظراس سے اب ان چند منکرات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس کو ہمارے معاشرے نے دینی حیثیت دے رکھی ہے۔

حج سے متعلق منکرات ورسومات

راہ افراط پر چلنے والے  اہل علم حضرات نے ہر عبادت کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی اور نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ میں رائے زنی کرتے ہوئے دین میں کمی زیادتی کا برا کام انجام دیا ہے۔ جیسا کہ نماز کے بعد جہری دعا افضل ہے یا سری، بالغ و نابالغ کے پہلے روزہ پر رسم روزہ کشائی وغیرہ وغیرہ اسی طرح حج سے متعلق بہت سے منکرات کو جنم دے رکھا ہے جیسا کہ حاجی کی دعوت یا حاجی کو دعوت کا اہتمام، حاجی کی گلپوشی، ریلوے اسٹیشن یا حج کیمپ پر دوست احباب رشتہ داروں کا ایسا ہجوم جو تکلیف کا باعث بنتی ہے۔

حج کرنے والے کو دعوت

کتنی عجیب بات ہے کہ جب حج کرنے والا اپنے حج کی اطلاع یا خبر اعزہ و اقارب کو  دیتا ہے تو اب اس کے اعزا ء اس کے لئے ایک خاص دعوت طعام کا انتظام کرتے ہیں۔ اوراس کے لئے نئے کپڑے گلپوشی وغیرہ کر کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے دین کا ایک کام انجام دیا ہے حالاں کہ ان کی دعوت ان کے کپڑے ان کی گلپوشی کا تعلق نہ تو اسلام سے ہے نہ فطری تقاضوں کے موافق۔ بلکہ یہ تو اسراف، دکھاوا، وغیرہ میں شامل ہوتا ہے۔

اب جب تمام اعزہ، و اقارب اپنی اپنی دعوتوں سے فارغ ہو جاتے ہیں تو عین حج سے ایک دن قبل حاجی صاحب اپنے گھر پر تمام رشتہ دار دوست احباب کو دعوت طعام دیتے ہیں جس میں پر تکلف کھانوں ماکولات و مشروبات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ دعوت اس قدر عظیم پیمانے پر ہوتی کہ جس میں ایک یا دو غریب لڑکیوں کی شادی بہت آسانی سے ہو جائے۔ جب یہ دعوت اپنے شباب پر پہنچ کر انگڑائی لینے لگتی ہے تو فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی جاری ہو کر اس دعوت کا دینی و اخلاقی اعتبار سے ایسا گھنونا مذاق کرتی ہے جس میں معصیت اورمفاسد کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا۔ یہ ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کا سلسلہ بتدریج باقی رہتے ہوئے حج کیمپ یا اسٹیشن وغیرہ پر بھی ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ جب حج کرنے والا جب حج کر کے واپس آتا ہے تو اس وقت بھی یہ سلسلہ جاری ہو کر ٹھنڈی سانس لیتا ہے۔

حج اور شاپنگ

حج کرنے والا جب حج کرنے کے لئے جائے تو وہاں جا کر اسے اپنے خدا کے عشق میں ڈوب کر دنیا  سے تعلق توڑ کر جہاں تک ہو سکے اس کی عبادات اوراس کے احکامات کو بحسن و خوبی انجام دے۔ اور یہی حج اللہ کے نزدیک مقبول حج ہے مگر افسوس کے ہمارے بیشتر حاجی یا کچھ حضرات حج کو ایک میلہ سمجھ کر اپنے گھر دار والوں کی فہمائش پوری کرنے کے لئے تمام بازاروں کی خاک چھانتے ہیں اور اپنا انتہائی قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں اور جب واپس لوٹتے ہیں تو کسی قسم کا افسوس انہیں نہیں ہوتا یہ بھی ایک شیطان کی چال ہے کہ جہاں ہم دنیا کو بھلانے آئے تھے آخرت کی فکر ہمیشہ کے لئے پیدا کرنے کے لئے آئے تھے اور خود کو اللہ کے لئے فنا کرنے کے لئے آئے تھے۔ دنیا میں اس قدر محو ہو گئے کہ فریضہ حج کہ صحیح ادائیگی کا خیال تک نہ رہا۔

حاجی سے دعا کروانا

حدیث میں آتا ہے کہ جب حاجی حج کر کے واپس آئے تو اس سے دعا کروائے وہ اس لیئے کہ اب حاجی گناہوں سے پاک و صاف ہو کر لوٹا ہے قوی امکان ہے کہ اب اس کی دعا میں قبولیت کی زیادہ تاثیر ہو۔ حدیث سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے اوراس کے علاوہ کھانے پینے کی دعوتیں۔ گلپوشی وغیرہ غیر شرعی امور ہیں۔ خواہ وہ حج سے پہلے ہوں یا حج کے بعد۔

متعدد حج افضل ہیں یا رشتہ داروپڑوسی کی امداد

اب ایک نیا دور شروع ہوا ہے جس میں نام نمود ریا کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ایک آدمی ایک حج کے علاوہ کئی کئی نفل حج ادا کرتا ہے اور فکر اس بات کی کرتا ہے کہ میرا ’’حج والا اسٹار ‘‘بڑھ جائے۔ جس طرح ملٹری میں دن بدن ایک افسر کو متعدد اسٹارس سے نوازا جاتا ہے اسی طرح نفل حج کرنے والوں کا حال ہے حالاں کہ اس کا بھائی، بہن، چچا، مامو، پڑوسی یا دوست اس قدر محتاج ہوتا ہے کہ دو وقت کی روٹی روزی تک میسر نہیں آتی۔ وہ اس قدر پسماندگی کی حالت میں ہوتا ہے کہ تعلیمی فیس یا دیگر ضروری میڈیسن کے اخراجات برداشت نہیں کر پاتا  مگر یہ شخص ہے کہ حج پر حج کئے چلا جا رہا ہے۔ جب کہ اس کے کاندھے پر ایک فرض حج کی ادائیگی کے بعد حقوق العباد والا عظیم فریضہ نافذ ہو چکا ہے اس لیئے وہ کئی ایک نفلی حج سے افضل ہے لہذا نفلی حج ادا کرنے کے بجائے اپنے رشتہ دار پڑوسی وغیرہ کی مدد کرے اور حتی الامکان ان کے حقوق کو جاننے، پہنچانے، ماننے اور عمل کے  دائرہ میں رکھے۔

٭٭٭

 

جہیز ایک سماجی وباء

شادی خواہ امیر کی ہو یا غریب کی، نام نہاد دیندار گھرانہ کی ہو یا غیر دیندار گھرانہ کی یہ اسی وقت تکمیل کو پہنچتی ہے جب کہ اس میں دام دہیز کا معاملہ شباب پر ہو اور اسے بڑے ہی شان  و شوکت کے ساتھ نبھایا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اتنی بات تو بڑی ہی صاف اور واضح ہے کہ مروجہ جہیز کا تعلق نہ تو اسلامی تعلیمات سے ہے نہ ہی عہد نبوت اور اس کے بعد کے صلحاء و اتقیاء کے زمانے سے یہ جہیز والا معاملہ ایک ناقابل فہم و ناقابل قبول معاملہ ہے جو سراسر بیک وقت کئی ایک خرابیوں کو پیدا کرتا ہے اور سارے معاشرے کو دلدل میں ڈھکیلتا ہے۔

جہیز اور سماجی خرابیاں

جہیز اور اس کی ادائیگی میں جو خرابیاں اور مفسدات رونما ہوتے ہیں اس سے کون واقف نہیں اور اس کے ضرر سے شخصی و نجی زندگی ہی نہیں بلکہ اجتماعی و گھریلو زندگی بھی برباد ہے۔ گویا کہ جہیز کی لعنت ایک متعدی مرض ہے جس میں سارا معاشرہ دگرگوں حالات سے گزر رہا ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو مالی و معاشی حالات سے فقر و فاقہ کی زندگی گزاری ہے ہیں اور کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے آنگن میں لڑکیاں سیانی ہوتی ہیں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں اور وقت کے گزرتے گزرتے گھر والوں کو بھی شادی کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کوی اچھامناسب رشتہ مل جائے اور اس کی شا دی کر دی جائے مگر جہیز کی لعنت اتنی گراں بار ہوتی ہے کہ اس کی نہیں کر سکتے چنانچہ یہ لڑکیاں دلی مسرت دل ہی دل میں رکھ کر اپنی جوانی کے باغ و بہار سے نکل کر ادھیڑ عمر میں آ رکتی ہیں اب حالت اس قدر بھیانک اور ناقابل بیان ہوتی ہے کہ نا جائز تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ (اس جگہ رک کر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ عورت ذات سے مروجہ جہیز نے کس قدر بھیانک مذاق و کھلواڑ کیا ہے اور اس سلسلہ میں جاہل تو جاہل اچھے اچھے عقلمند جن کا اہل علم و فضل سے تعلق ہوتا ہے ان کے ماتھے پر بھی بے حیائی و بے غیرتی کی زری سے عار محسوس نہیں ہوتی بلکہ یہ تو اس جگہ بے حس، بے عقل، بے فہم، بے غیرت ہو جاتے ہیں باوجود جن پر اسلامی گھرانہ اور اسلامی معاشرہ کا ایک لیبل لگا ہوا ہوتا ہے۔ گویا کہ یہ حالت بعینہ چراغ تلے اندھیرے کی صادق آتی ہے۔ نتیجتاً ان لڑکیوں کی کوکھ سے حلال بچوں کے علاوہ حرام بچوں کی نشو نما  ہوتی ہے جس سے زنا جیسی بدترین صورت کی احیاء ہوتی ہے۔

بعض دفعہ جہیز کم دینے کی وجہ سے لڑکی کو لڑکے والوں کے ظلم و ستم کا شکار ہونا پڑتا ہے اور  نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ یا تو لڑکی کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نرک بن جاتی ہے یا یہ کہ اسے طلاق نامہ سے ابدی فراق اختیار کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار اپنی جان ہی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں دو خاندانوں میں تصادم اسقدر بھیانک ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے خون کی پیاس بجھائے بغیر سانس نہیں لیتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جہیز ایک طرف زناء اور حرامی اولاد کو جنم دیتا ہے تو دوسری طرف ظلم وستم طلاق خلح، تلخ زندگی، خودکشی، ہلاکت، اور دونوں خاندانوں میں دور دور تک جانی دشمنی پیدا کر دیتا ہے۔

جہیز اور اس کی حقیقت

انتہائی اختصار کے ساتھ یہ سمجھئے کہ جہیز ایک عربی لفظ ہے جو ایسی اشیاء کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ضروریات زندگی کے لئے ناگزیر ہوں جس میں آرائش، زبیائش، فہمائش وغیرہ کی قطعاً گنجائش نہیں۔

جہیز اوراسلام

حضرت فاطمہ ؓ کو شادی کے موقع پر بطور مجبوری اور حضرت علیؓ کے غربت کی وجہ سے بطور جہیز ایسی چیزیں دی گئیں تھیں جن کی تعداد باختلاف روایت ۹ یا ۱۰ہے۔ ۱۔ دو یمنی چادریں۔  ۲۔ دوبستر۔ ۳۔ چار گدے۔ ۴۔ ایک کملی۔ ۵۔ ایک پیالہ۔ ۶۔ ایک چکی۔ ۷۔ ایک تکیہ۔ ۸۔ ایک مشکیزہ۔ ۹۔ ایک پلنگ۔ ۱۰۔ دو چاندی کے بازو بند۔

مذکورہ اشیاء ایسی ہیں اور اس قدر اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ اس کے بغیر انسان اپنا جینا تصور نہیں کر سکتا اور یہ بات بھی واضح رہے کہ جہیز ہدیہ ہے، جس کے ملنے پر خوشی ہو اور نہ ملنے پر ملامت کی گنجائش نہیں۔

مذکورہ اشیاء ایسی تھیں جن کے بغیر زندگی کا تصور دشوار ہے اور یہ ضروری اشیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس تھیں ہی نہیں اس لئے کہ حضرت علیؓ ایک غریب و خوددار انسان تھے اسی خود داری کی وجہ سے حضرت علیؓ نے اپنی زرہ گروی رکھ کر مذکورہ ضروری اشیاء خریدا تھا تو کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ضروری اشیاء حضورﷺ کی طرف سے دی گئے تھیں۔ الغرض یہ تو اس ذات اور شخصیت کی شادی ہے جو دو جہاں کے آقا کریم کی دختر اور جنت میں عورتوں کی سردار۔

اپنے گھروں کا محاسبہ

 ذرا اپنے اپنے گھر دار کا محاسبہ کریں اور ایک نظر اپنے گھریلو اشیاء پر ڈالیں پتہ چلے گا کہ  اپنے گھروں میں کیا ہے اور کیا نہیں ؟ ہمارے گھر دار ضروری اشیاء سے تو بھرے ہوئے رہتے ہی ہیں اس کے علاوہ گھر میں آرائش وزیبائش وغیرہ کی تمام اشیاء موجود ہوتی ہیں مگر افسوس کہ ہماری نظر و فکر ایسی مردار چیزوں پر ہوتی ہے جس سے ہمارے دل سیاہ ہو جائیں اور ہمارے احساسات ماند پڑ جائیں اور ہمارے ضمیر مردہ ہو جائیں ارے ضمیر تو مردہ اس وقت ہو تا، جب کہ ہمارا دل ہمارا ضمیر زندہ ہو اور اچھے برے کی تمیز کا فرق معلوم ہو۔

ایک سخت وعید

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حدیث پاک کے اس مفہوم کو بیان کر دیا جائے۔ جس میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ جو شخص مال حاصل کرنے کے لئے شادی کرے گا للہ تعالیٰ اسے فقر و فاقہ، تنگدستی کے علاوہ کچھ نصیب نہیں کرے گا۔ لہذا امت مسلمہ کے ہر فرد کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ہمارا یہ جہیز کا عمل کس حد تک درست ہے اور کس حد تک غیر درست کہیں ایسا نہ ہو کہ جہیز کے لالچ میں ہم گرفتار ہو کر لعنت و ملامت میں جکڑ جائیں جہاں رسوائی، غریبی، افلاس کے علاوہ کچھ نہ ہو۔

٭٭٭

 

سورۂ عصر کے تقاضے

والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنواو عملو  الصالحات واتوصوا بالحق وتواصو اباصبرO

ترجمہ:قسم ہے زمانے کی بیشک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے، حق بات کہی، اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

قرآن مجید پورا کا پورا رشد و ہدایت کے اعتبار سے دنیاوی و معاشرتی، اخلاقی و روحانی زندگی کے لئے سراپایکسیر ہے۔ قرآن مجید کی ہرسورت ہر آیت ہر لفظ بلکہ ہر ہر حرف معانی و مفاہیم اسرار و  رموز نعم و حکم سے لبریز ہے۔ دنیا کی ساری انسانی ذہنی طاقتیں و صلاحیتیں یکجا ہو جائیں اور حیات نوح بھی انھیں میسر آ جائے تب بھی اس کے ایک حرف کا حق اور اس کی شایان شان تفسیر و توضیح نہیں کر سکتیں۔ الغرض قرآن حکیم دنیا کے بسنے والے ہر امیر غریب گورے کالے کے لئے عارضی زندگیوں کے گذارنے کا طریقہ بتلاتا ہے اور جب تک کہ اس کی مکمل ہدایت کو زندگی کے عملی جامہ میں نہیں پہنایا جاتا اس وقت تک انسان کو زندگی کی حقیقی کامیابی و کامرانی میسر نہیں آ سکتی اور نہ اس کی ’’نیا پار‘‘ ہو سکتی ہے، اس لئے ہر آدمی پر ضروری ہے کہ وہ قرآن عظیم کی ہر بات کو جانے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرے۔

پورے قرآن پر نظر رکھنا اس کی باریکیوں کو معلوم کرنا اور حقائق و دقائق کی تہہ تک پہنچنا ہرکس  و ناکس کی بات نہیں حسب ضرورت اپنے زمانے اور اپنے علاقے کے جید علماء  کرام و مفسرین عظام سے اسے معلوم کرئیں اور ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ علاوہ ازیں قرآن مجید کی  اس صورت کو اوراس کے پیغام کو ہمیشہ یاد رکھ لیا جائے جس میں کامیاب زندگی کے چار اُصول  بیان کئے گئے ہیں اور جو شخص اس کے دروس کو یاد نہیں رکھے کا یا یاد بھی رکھے گا مگر کسی ایک دو تین کو بھلا دے گا تو بقول خدائے عزوجل وہ خسران عظیم میں مبتلا ہو جائے گا۔ وہ اُصول یا دروس قرآن مجید کی ایک چھوٹی سی سورۃ، سورہ عصر میں ہیں۔

سورۂ عصر کی اہمیت و فضیلت

حضرت عبیداللہ ابن حصن ؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ  کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین جب آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے اور جب جدا ہوتے تو اس وقت تک جدا نہیں ہوتے جب تک کہ سورہ عصر کو یاد کر کہ اس کی ہدایات پر جمنے کا تذکرہ نہیں کرتے مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام جیسے دین پر سو فیصد چلنے والے یہ سمجھتے تھے کہ جب تک سورۂ عصر کے ہدایات کو یاد نہ رکھا جائے اوراس کے تقاضوں پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک ہماری زندگی کا حقیقی مقصد برآمد نہیں ہو سکتا۔ تب ہی تو صحابہ کرام ؓ ایک دوسرے کو سورہ عصر کی ہر کی وصیت کیا کرتے تھے۔ اسی لئے امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ صرف سورہ عصر کو نازل فرماتا اور باقی قرآن نازل نہ فرماتا تو یہ بھی انسانی  زندگی کی ہدایت و کامیابی کے لئے کافی تھا۔

سورۂ عصر کے چار تقاضے

سورہ   عصر کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کل چار طرح کی ہدایات کیں ہیں، ۱۔ ایمان کا لانا ۲  عمل صالح کا ہونا، ۳ امر بالمعروف کا وظیفہ بجا لانا، ۴ نہی عن المنکر کا کام کرنا۔ ایمان و عمل صالح کا تقاضہ خود انسان کی ذات سے ہے اور امر بالمعروف، نہی عن المنکر کا تعلق اپنی ذات کے علاوہ دیگر لوگوں سے ہے اور ان چاروں میں ہر ایک کو پورا کرنا ضروری ہے اگر ان چار تقاضوں میں سے ایک کو بھی فراموش کر دے گا تو تقاضۂ اول ’’ایمان‘‘ کے انکار کی صورت میں ابدی  بربادی مول لے گا تقاضہ ثالث و رابع سے سستی و کاہلی کے نتیجہ میں مواخذہ میں مبتلا ہو گا۔

تقاضۂ اول ایمان

دنیا کا ہر آدمی ایمان کے حسین فلاح و بہبود کے حکم کو نہیں مانے گا تواس کی کامیابی غیر یقینی ہے اگر چہ کہ وہ نیک صالح انسان ہو اور ایمان اور اہل  ایمان کی مدد و معاونت ہی کیوں نہ کرتا ہو جیسا کہ ابوطالب ہے جنہوں نے ایمان پھیلانے میں ممکن و مقدور بھر کوشش کی  لیکن فکر اسلام کے دروازے میں داخل ہونے سے محرورم رہے اور ابدی زندگی کو برباد کر دیا۔ معلوم ہوا کہ آدمی خواہ کتنا ہی نیک ہو اور دین واسلام کے حق میں اپنے تن، من، دھن کی بازی لگا دے مگر اسلام کو قبول نہ کرے تو اس کے تمام اعمال اکارت گئے۔

عمل صالح کا تقاضہ

عمل کا تعلق یاتو ’’عبادت‘‘ سے ہو گا یا ’’معاملات ‘‘ سے۔ عبادت جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ وغیرہ معاملات جیسے ماں باپ کے حقوق بھائی بہن کے حقوق بیوی بچوں کے حقوق، ہمسائیوں و رشتہ داروں کے حقوق وغیرہ وغیرہ جب تک مذکورہ عبادت لوگوں کے ساتھ عمل صالح کا برتاؤ نہیں ہو گا اس وقت عمل صالح کا تقاضہ پورا نہ ہو گا جیسے اگر کوئی شخص نماز تو پڑھتا ہے مگر روزہ نہیں رکھتا، یا نماز روزہ تو رکھتا ہے مگر زکوٰۃ نہیں دیتا یا نمازو، روزہ، زکوٰۃ سب ادا کرتا ہے مگر حج فرض ہونے بعد حج ادا نہیں کرتا تو یہ عمل صالح کی فہرست سے خارج ہو جائے گا اسی طرح کوئی شخص ماں باپ کا فرماں بردار ہے مگر بھائی بہن وغیرہ کے حقوق یا بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو یہ عمل صالح کی فہرست سے خارج ہو جائے گا اگر چہ کہ وہ عبادات میں مکمل و کامل ہو علاوہ اس کے یہ مذکورہ اعمال خواہ عبادات ہوں یا معاملات قرآن و حدیث کے روشنی میں مسنون طریقہ پر ہوں نہ تواس میں جہالت   و کم علمی کا عنصر ہو اور نہ بدعات و خرافات کا خمیر۔ اس لئے جو بھی عمل صالح انداز میں نہ ہو وہ عمل مقبول ہونے کے بجائے ناقابل قبول ہو گا۔

جیسے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ’’دکھاوا‘‘ بھی کر رہا ہے تو اس کا یہ عمل صالح نہیں ہو سکتا اسی طرح روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ کا حال ہے۔ کوئی شخص ماں باپ کا کہنا تو مان رہا ہے مگر مکمل انداز میں نہیں مان رہا یا کوئی اپنے بیوی بچوں کو پال پوس رہا ہے مگر واجب حقوق میں کوتاہی کر رہا ہے یا ان پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑ رہا ہے تواس کا یہ عمل غیر صالح ہو گا۔

خلاصہ اس کا یہی ہے کہ عمل صالح خواہ عبادات سے متعلق ہو یا معاملات سے یہ اس وقت تک صالح نہیں کہلائے گا جب تک کہ اس کو مکمل و صحیح انداز میں بغیر کوتاہی کے ادانہ کرے۔

مذکورہ یہ دونوں چیزیں بندے سے تعلق رکھتی ہے علاوہ ازیں دو اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق دیگر لوگوں سے ہے ایک امر بالمعروف ۲ نہی عن المنکر۔

امر بالمعروف کا تقاضہ

امر بالمعروف کا تقاضہ یہ ہے کہ جب انسان ایمان عمل صالح کے میدان میں اترا جائے اور اسے مکمل ادا بھی کرے مگر امر بالمعروف کا کام باوجود قدرت و طاقت کے نہ کرے تو بخدا  وہ کامیاب و کامران نہیں اگرچہ کہ وہ تہجد گزار عابد و زاہد ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ جب بھی اپنے متعلقہ حلقہ میں یعنی جب یہ گھر پر ہو اور وہاں وہ یہ دیکھ رہا ہو کہ گھر والے افراد نیک اعمال سے دور ہیں نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ کو بجا نہیں لاتے تو اب اس پر واجب ہے کہ ان کو اس کی ترغیب دے اور بار بار اس کی تاکید کرتے رہے کسی قسم کی سستی و کاہلی نہ برتے اگر یہ ہاتھ سے روک سکتا ہے تو ہاتھ سے ان کی خبر گیری کرے۔ زبان سے حکم دے سکتا ہے تو زبان سے اگر یہ بھی نہ کر سکے تو کم از کم دل سے براسمجھے۔

امر بالعروف کے تقاضے میں سب سے پہلے مخاطب خود اس کے گھر دار والے ہیں پھر اس کے رشتہ دار پھر پڑوسی پھر محلہ پھر ملک بلکہ ساری دنیا۔

نہی عن المنکر کا تقاضہ

یہ ہے کہ جب انسان کہیں کوئی برائی ہوتے ہوئے دیکھے مگر منع نہیں کرے تو یہ بھی انسان کامیاب نہیں ہو سکتا اگر چہ کہ یہ کامل ایمان عمل صالح کا مجسمہ اور نیکیوں کی دعوت دینے والا ہو۔

خلاصہ

یہ ہے کہ حقیقی کامیابی اس وقت تک انسان کو میسر نہیں آ سکتی جب تک کہ وہ مذکورہ چار کاموں میں سے کسی ایک کو کسی بھی حال میں ترک نہ کرے ایمان کے تقاضے کو پورا نہیں کرتا تو یہ تو پورا ہی ناکام ہے ایمان والا تو ہے مگر کوئی ایک مفقود ہے جیسے عمل صالح کی کمیت و کیفیت امر بالمعروف یا نہی عن المنکر تو یہ شخص نجات تو حاصل کر سکتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو سکتا۔

لہٰذا ہر انسان کو ایمان کے بعد عمل صالح امر بالمعروف، نہی عن المنکر کا کام انجام دینا ضروری ہے۔ اور اس کے لئے اپنی متاع عزیز و قیمتی سرمایہ ’’عمر‘‘ کو ان چار کاموں کے لئے وقف کر دینا چاہئے جیسا کہ لفظ ’’والعصر‘‘ سے اسی کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔

٭٭٭

 

عیسائیت پرست ہیں  یا یہودیت پرست

روشن خیال، جدیدیت پسند، وسعت پسند یا ان جیسے الفاظ اس قدر پر مکر و پر فریب ہیں کہ جب بھی ان الفاظ کا استعمال جدید تعلیم یافتہ اشخاص یا ان سے مرعوب اشخاص کے لئے ہوتا ہے تو قرآن و حدیث کے روشنی میں شک ہی نہیں بلکہ یقین ہونے لگتا ہے کہ اب ان کی نیا یہودیت کے بھنور میں پھنس جائیگی یا عیسائیت کے بھنور میں۔

مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب و اثرات پر بیشمار کتابیں، رسالے، مجلات وغیرہ منظر عام پر آتے ہیں مسلم قوم کے عروج کے اسباب ایمان و یقین، عادات و اخلاق، عدل و انصاف بیان کئے جاتے ہیں تو زوال کے اسباب عیش پرستی، سستی و کاہلی بیان کئے جاتے ہیں۔ مگر اب وقت ایسا آ گیا ہے کہ محقق مزاج، منصف مزاج مورخین و مصنفین کو مسلمانوں کے زوال کے اسباب روشن خیالی، جدیدیت پسند، ضرور بیان کرنا پڑے گا تب ہی تو یہ امت خلیفہ ارض کے مقام کو کھو کر رسواے زمانہ یہودی وعیسائی قوم کو ترقی و عروج کا زینہ بنا رہی ہے اور ایک حاکم قوم کے تعلیمات و امتیاز رکھنے کے باوجود محکوم مقہور ہو کر زندگی بسر کر رہی ہے۔

جدیدیت پسندی کیا ہے

جدیدیت پسندی کہتے ہیں صراط مستقیم سے ہٹ کر قوم مغضوب ’’یہود‘‘ قوم ضال ’’نصاری‘‘ کے راستے پر چلنا وہ اس لئے کہ ’’انعمت علیھم‘‘ کے ’’چار طبقے ‘‘ قرآن ہی میں بیان کئے گئے ہیں، ۱، انبیاء کا ۲ صدقین کا، ۳ شہداء کا اور ۴ صالحین ان کے علاوہ جو شخص، جو قوم، یا جو تحریک اسلامی لیبل لگا کر کتنے ہی احیاء دین کے نعرے لگا لے وہ زیغ و ضلال سے خالی نہیں اب اس امت میں نہ تو انبیاء ہیں نہ صدیقین اور نہ ہی شہدا لیکن ایک طبقہ صالحین کا اب بھی باقی ہے اور ہمیشہ رہے گا جن کے اندر قرآن و حدیث کے تعلیمات انبیاء وغیرہ کے تعلیمات کا بحر ذخار ہوتا ہے۔ جو بھی شخص ان کی اتباع کو چھوڑ دے گا وہ اب یا تو یہودیت کے بھنور میں پھنس جائے گا یا عیسائیت کے بھنور میں۔

۲۔ جدیدیت پسندوں کا ماڈرن دین

دنیا کے تقریباً جدیدیت پسند لوگ یہ سمجھتے اورسمجھاتے ہیں کہ ہم کو دنیاوی ترقی کے لئے زمانے کے اقوام و ملل کے رنگ ڈھنگ، ماحول و مزاج میں ڈھلنا چاہئے اگر چہ کہ اس طرز زندگی کے لئے قرآن و حدیث آیات عبادات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا پڑے حرام و نا جائز کو حلال و جائز کرنا پڑے حقیقتاً ان جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو نفسانیت کا ایسا جنون و پاگل پن سوار ہے کہ خوش عیش، آزاد زندگی گزارنے کے لئے دین کا لیبل لگا کر از خود ایسا دین پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ نفسانیت و شیطانیت کے تقاضے قرآن و حدیث کے روشنی میں پورے کیئے جائیں جس کا نام ماڈرن اسلام (Modern Islam)ہے۔ ماڈرن دین کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھی ان کے حق میں جنت رہے اور آخرت بھی حالاں کہ یہ تو ناممکنات کے قبیل سے اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ (الدنیاسجن للمومن وجنۃ للکافر) دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں پر وہی کھانا ہو گاجس طرح قید خانے میں دیا جائے یہاں وہی پہننا ہو گا جو قید خانے میں دیئے جائیں یہاں زندگی  ویسی ہی گزارنی پڑے گی جس طرح قید خانے کے افسر لوگ کہیں ورنہ سرزنش اور بڑھ جائے گی۔

روشن  خیالوں کے افکار و خیالات

جب کبھی نظر اخبار کے مذہبی کالم یا سنڈے ایڈیشن پر پڑتی ہے تو روشن خیال، روشن خیال کے الفاظ اور اس کے مضحکہ خیز مضامین ایک صدا بلند کرتے ہیں کہ ہر مسلمان کو روشن خیال ہونا چاہئے اور ایک فاجرانہ جملہ خوب استعمال کرتے ہیں کہ اگر دنیا میں جینا ہے تو دین بھی کرنا چاہئے اور دنیا بھی ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل تو دنیا کرنا ہے ساتھے ساتھ کچھ بیکار وقت مل جائے تو دین بھی کر لینا چاہئے اور وہ بھی ایسا دین کہ جس کی حقیقی صورت و سیرت ہی بگڑ ی ہوئی ہو۔ اور ان ماڈرن دینداروں کے اماموں و پیشواؤں کے افکارات ملاحظہ فرمائیں کہ جب ان میں روشن خیال فکر بیدار ہو تو انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام کی مقدس جماعت کو غیر مہذب انداز کا نشانہ بنایا گیا بہت صحابہ    کرام کی مقدس جماعت کو عدل و انصاف کے خاطی قرار دیا گیا اس کے بعد وارثین انبیاء کو موضوع ملامت بنایا گیا مدارس مکاتیب خانقاہوں و عدل پروروں کو بے حقیقت و بے فائدہ ٹھہرایا گیا علم دین کے حاصل کرنے والوں اور ان کے معین و مددگاروں کو امت کے لئے  بوجھ باور کرایا گیا غرضیکہ دین کے تمام شعبوں کے تمام طبقوں کے شبیہ کو بگاڑا گیا جس کے نتیجہ میں جدیدیت پسند لوگوں کے افکار و خیالات بھی ان کے پیشواؤں و رہبروں کی طرح ہو گئے۔

جدیدیت کے اثرات

ان جدیدیت پسند لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کہاں پسند آتے بلکہ انھیں تو یہود و نصاریٰ کے بتائے ہوئے طریقے ضرورپسند آئے ان کی اتباع میں داڑھی منڈھانا آسان ان کی اتباع میں کورٹ پتلون پہننا آسان، ان کی اتباع میں ٹائی لگانا آسان ان کی اتباع میں انگلستانی ٹوپی لگانا آسان ان کی اتباع میں قرآن حدیث کے مفہومات کو بگاڑ کر عورتوں کو بے پردہ کرنا آسان ان کی اتباع میں ETVاور QTV پر جوان وحسین لڑکیوں کو دعوت نظارہ دینا آسان ان کی اتباع میں سود کو حیلہ و بہانہ سے حلال سمجھنا آسان ان کی اتباع میں الکحل کو جائز سمجھنا آسان ان کی اتباع میں تصویر کشی و فلم بندی اور ٹی وی وغیرہ دیکھنا آسان اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی اتباع میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر عقیدۃً نہ سہی عملاً تحریف کرنا آسان۔ یہ ہے ان روشن خیالوں کے مہلک اثرات۔

روشن خیالی کا نعرہ دراصل تحریف قرآن و حدیث ہے

روشن خیال لوگ یہی چاہتے ہیں کہ جن چیزوں کو شریعت نے نا جائز و حرام  قرار دیا ہے اُسے قرآن و حدیث کے روشنی میں جائز قرار دینا مطلب یہ ہے کہ اب چوری، غصب، سود، رشوت تصویر کشی، وغیرہ وغیرہ ڈنکے کی چوٹ پر کریں گے وہ بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں۔  ایک زمانہ تھا کہ لوگ شراب پیتے یا چوری کرتے یا تصویر لیتے یا ویڈیو گرافی کرتے تو دل ہی دل میں اسے بڑا سمجھتے مگر اب ایک ایسا دور آ گیا ہے روشن خیالوں نے قرآن و حدیث سے محرکات کو جائز قرار ٹھہرا دیا۔ (افسوس ہے ان بے چارے روشن خیالوں پر)

روشن خیالوں کی حماقت تو دیکھئے

 روشن خیالوں کی چکی  پھرتی ہے تو صرف اور صرف حقیر و ذلیل دنیا یا دنیا والوں کے ارد گرد پھرتی ہے انھیں مطلب ہے تو صرف دنیا داروں ہی سے وہ بھی ایسی دنیا والوں سے جو علانیہ فاسق و فاجر ہیں جن کو دین سے ادنیٰ قسم کا بھی تعلق نہیں روزنامہ سیاست کے  سنڈے ایڈیشن میں ایک کالم نگار ایک خاص قسم کا مضمون لکھیں ہیں جب اس مضمون پر نگاہ پڑی تو مجھے حیرت ہوئی بلکہ ایک قہقہہ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی اس لئے کہ حیرت تو اس وقت ہوتی جب کہ کمال درجہ کی چیز سنے یا دیکھے یا انتہائی جوروستم کی کوئی داستان سامنے آئے یہاں تو ان دونوں چیزوں میں کوئی چیز تھی ہی نہیں بلکہ ایک مخبوط الحواس زبان کچھ بک رہی تھی جسے جنون و پاگل پن کہہ سکتے ہیں صاحب قلم مسلمانوں کے لئے ایسے اشخاص کو آئیڈیل بناتے ہیں جن کی تصویر ہر اعتبار سے مجروح ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بھی مضائقہ نہیں ہو گا کہ وہ اسلام کے نام پر ایک شرمناک مثال ہے جن سے اسلام اور اسلامیت کی کیا ترجمانی ہوتی ایک عام مسلمان کی زندگی کے لئے بھی چلو بھر پانی میں ڈوب کر ہلاک و برباد کرنے کی مثال ہے جیسا کہ پرافل بدوائی نے سب سے پہلے ایم ایف حسین (آرٹسٹ) کا نام ذکر کیا ہے اور انھیں ترقی پسند روشن خیال مسلمان قرار دیا ہے یم ایف حسین اپنے زمانہ کے نامور آرٹسٹ ضرور ہوں گے کہ مگر کیا اسلامی تعلیمات کے روسے ان کا رویہ اور ان کا مشغلہ جائز ہے ؟ جواب یہی ہو گا کہ  ہرگز نہیں یہ نا جائز اور حرامکاری ہے اس لئے کہ تصویر بنانے والا دو گناہ عظیم کا مرتکب ہوتا ہے

 ۱۔ ایک بت پرستی کو ہوا دینے میں

۲۔ دوسرے  خدائی صفت میں دخل اندازی کرنے میں۔ یہ دونوں چیزیں ہر عام مسلمان کو کسی حالت میں گوارا نہیں مزید برآں یہ کہ جب یم یف حسین نے آرٹ کے نام پر ایسی ننگی و عریاں تصویریں امت کو دیں ہیں جن سے بے حیائی بھی حیاء کرتی ہے، اگر کوئی شخص کسی کی ماں بہن کی تصویر اتار تا ہے تو کیا یہ  اس بات کو گوار کرے گا ٹھیک اس طرح مردانہ یا زنانہ تصویر کشی برہنہ یا نیم برہنہ انداز میں کرے تو کوئی کیوں گوارا کرے  افسوس کہ روشن خیالوں کو اتنی سی بھی عقل نہیں۔

علاوہ اس کے یم یف حسین اتنی ہی حالت زار پر خود کو روک نہ سکے بلکہ فسق فجور کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے پروڈیوسر بھی بن گئے اور کئی ایک ماؤں بہنوں کی ننگی تصویر یں لوگوں کے سامنے پیش  کر دے یہ ہے آئیڈیل مسلمان کی تصویر ہم کیا قرآن و حدیث تو ایسی شخصیت پر ہزار ہا مرتبہ لعنت کرتا ہے تو اب ہم اور تم کون ہیں فیصلہ کرنے والے کے فلاں آئیڈیل ہے فلاں نہیں۔

اسی طرح بدنام زمانہ فاسق و فاجر شاہ رخ خاں کو پیش کیا ہے کہ یہ بھی روشن خیال اور آئیڈیل مسلمان ہیں کہ ہم تو کہتے ہیں نئے زمانے کے نئے جنریشن کو بلکہ اس ملک کے قیمتی اثاثہ کو سب سے زیادہ برباد کرنے والا کوئی شخص ہے تو وہ ہے فلم اسٹار شاہ رخ خان اس پر مزید تبصرہ کرنا تو ایسا ہے جیسے گالی کو گالی دینا اور بس۔

اسی طرح سے ثانیہ مرزا کو آئیڈیل کے طور پر پیش کیا ہے اگر قلم پکڑنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے   تو ذرا ہم جیسے طالب علموں سے رجوع کر لیتے وہ ثانیہ مرزاجس نے خود ایک اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مجھے سیٹ پر اسطرح نیم عریاں لباس پہننے سے خود اسلام نہیں روکتا  ہم اس سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ تمہیں یہ سبق کس نے دیا؟ قرآن نے ؟ حدیث نے ؟ کسی عالم یا مفتی نے ؟ یا تمہارے والدین نے ؟ اگر یہ سبق تمہیں دیا ہو گا تو روشن خیالوں نے ضرور دیا ہو گا جو آج امت کے حق میں ایک بڑا فتنہ ہے بلکہ گھر کا ایک چراغ ہو کر ایک مہیب فضاء پیدا کر دیا ہے۔ دنیا میں انسان صرف کھیلنے ہی نہیں آیا بلکہ وہ خدا کے دین کو پہچان کر چلنے اور انسانیت کے دکھ و درد کو بانٹنے آیا ہے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ ساری دنیا کے لوگ اگر ہماری بیٹیو ں و لڑکیوں کے انگ انگ سے محظوظ ہو رہے ہوں تو انصاف سے بتا دے کہ آپ کا دماغ آپ کا مشورہ آپ کا حکم آپ کی روشن خیالی بہتر اور صحیح ہے یا خدا ورسول کا حکم ؟ جواب آپ کا یہی ہو گا کہ خدا اور رسولؐ کا! تو پھر آپ یہ کیسے گوارا کر لیتے ہیں کہ خدا کے اتنے بڑے حکم ’’ پرد ہ‘‘ کو توڑا جا رہا ہے بلکہ بے پردگی کو جائز کہتے ہوئے عام مسلمانوں کو دعوت بھی دی جا رہی ہے کہ تم بھی آزادی سے برقع اتار کر پھینک دو تم بھی آزادی سے دوپٹہ نکال کر پھینک دو تم بھی آزادی سے بجائے قمیض کے ٹائیٹ اسکن شرٹ پہن لو جس سے سارا ہاتھ بغل اور پیٹ پیٹھ کا نچلا حصہ نظر آئے اور چھاتی وغیرہ کپڑے کے باہر سے ابھر کر نوجوان دلوں کو غلط تصورات پیدا کرے اسی طرح بجائے شلوار کے صرف ٹائیٹ اسکن پینٹ ہی نہیں بلکہ، اسکرٹ پہنو جس سے پنڈلیاں تمہارے ران ور کپڑے کے باہر وغیرہ وغیرہ نظر آتا ہو، یہ ہے ایک معصوم نوجوان دوشیزہ کی اسلامی تصویر کریلا نیم چڑھا کس طرح اس کو آئیڈیل کہتے ہو۔

٭٭٭

 

حقیقتِ اخلاص اورضرورت

    ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اعمالکم۔ ولکن ینظر الی قلوبکم ونیاتکم۔

’’اخلاص ‘‘یہ ایک ہلکا پھلکا لفظ ضرور ہے مگر اس کی حقیقت و اہمیت کی وجہ سے اس کی تشریح توضیح میں کتنے واعظین و مقررین نے اپنی محنتوں کو صرف کیا اور کتنے خانقاہوں و قلم کاروں نے اپنی نگارشات و  توجہات سے اصلاح باطن کی کوشش کی مگر نتیجتاً اس کے ثمرات و برکات کم ہی برآمد ہوئے جس سے نہ تو خالق کے مرضیات کا حصول ہوتا ہے اور نہ اس کے انعامات کا۔

اخلاص کا مطلب

اخلاص عربی لفظ ہے جس کے معنی و مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو کسی کے لئے خاص و مختص کر دینا اوراس قدر خاص کر دینا کہ اس کا تعلق دوسرے سے قطعاً نہ ہو مثلاً اگر ہم نماز پڑھ رہے ہیں تو ہمارا یہ عمل اللہ ہی کے لئے ہو اور اس عمل سے کسی کو مرعوب و مرغوب کرنا مقصود نہ ہو کہ لوگ دیکھ کر یہ کہیں کہ دیکھو یہ آدمی نمازی ہے، روزہ دار ہے، تہجد گزار ہے فلاں ہے فلاں ہے۔

اخلاص روح  ہے اعمال جسم ہے

اعمال خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے معاشرات سے ہو یا اخلاقیات اسی وقت خدا کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے جائیں گے جب کہ ان کے اندر اخلاص لبریز ہو اگر ان میں اخلاص مفقود ہو گا تو یقیناً یہ عمل بجائے جزا و ثواب کے عقاب و عتاب کا باعث ہونگے اس لئے اخلاص کی حقیقت اعمال کے لئے ایسی ہے جیسے جسم کے لئے روح کی کہ جب تک روح نہ ہو اس وقت تک جسم بے کار ہے خواہ وہ جسم کتنا ہی مضبوط و قوی، حسین و جمیل ہو اس جسم کی جسمانی قوت اور اس کا حسن و جمال اسی وقت فائدہ مند ہو گا جب تک کہ اس میں روح نہ ہو۔ اسی طرح کا حال اخلاص کاہے خواہ ہمارے اعمال لامحدود لاحساب ہو، ظاہری اعتبار سے خوب چمک دمک  والے ہوں ہو یعنی لوگ دیکھ کر ضرور یہ کہتے ہوں کہ فلاں شخص تو بڑا ہی تہجد گزار، بڑا ہی عابد و زاہد بڑا ہی سخی و داتا بڑا ہی صابر و شاکر ہے تو اس بات میں دو رائے ہی نہیں کہ اس کی ساری نمازیں ساری عبادتیں سارے نیک اعمال غارت و برباد نہ ہوئیں ہوں اوراس شخص کی مثال ایسی ہے جو خدا کے سامنے کھڑے ہو کر خدا کو دھوکہ دے رہا اور جو شخص خدا کے سامنے کھڑے ہو کر خد اہی کو دھوکہ کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ وہ کسی بندے کو نہیں بلکہ اللہ ہی کو دھوکہ دے رہا ہے اور جو شخص خدا کو دھوکہ دے اس کا کیا حال ہو گا اللہ ہی کو معلوم۔

اخلاص کا وزن

اخلاص ایک ایسی شئے ہے جس کے مختلف اوزان ہیں کبھی اس کا وزن بڑھتا ہے تو کبھی گھٹ جاتا ہے جب اس کا وزن بڑھتا ہے تو اتنا بڑھتا ہے کہ ایک حدیث پاک کا مطلب ہے کہ جب بندہ پورے اخلاص و دھان کے ساتھ ایک مرتبہ کلمہ لا الہ الا للہ پڑھتا ہے تو یہ قیامت کے دن اتنا وزنی ہو جاتا ہے کہ گناہوں کے دفاتر بھی اس کے سامنے ہلکے پڑ جاتے ہیں اور وہ ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں۔ مگر جب اخلاص کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے  تو پہاڑوں جیسے اعمال بھی اتنے ہلکے ہو جاتے ہیں کہ اس کے لئے کوئی اجر باقی نہیں رہتا۔

اخلاص کے فوائد و اثرات

بنی اسرائیل کا وہ مشہور واقعہ جس میں تین لوگوں نے مصیبت وپریشانی کے موقع پر اخلاص کو ذریعہ بنایا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی مصیبت کو دور کر دیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ بنی اسرائیل کے ۳ آدمی ایک بیابان سے گزر رہے تھے دفعۃً بارش شروع ہو گئی اور یہ لوگ پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی، اور اچانک غار کے دہانے پر ایک چٹان  آ کھڑی ہو گئی جب یہ لوگ نکلنا چاہے تو نکل نہیں سکے۔ نہ ان کی طاقت اس چٹان کو ہٹا سکی اور نہ اس بیابان میں کوئی ان کی مدد کو موجود تھا، بس اب تو ایک راستہ تھا خدا سے مدد طلب کرنے کا جب تینوں نے اپنے نیک عمل کو واسطہ بنایا تو وہ نیک عمل جو محض رضائے الہی کے لئے کیا گیا تھا اس کی برکت سے یہ مصیبت ٹل گئی اور وہ لوگ اس مصیبت سے نجات پالیے۔ ۱۔ پہلے شخص نے دعا کی اے خدا میں نے اپنے ماں باپ کی فرمانبرداری میں تیری رضا کو اسطرح ملحوظ رکھا کہ اپنی بیوی کو اور اپنے ننھے بلبلا تے بچوں کو فراموش کر دیا مگر میں نے ماں باپ کے حقوق کو مقدم رکھا اگر میرا یہ عمل صرف اور صرف تیرے ہی کیا تھا ہے تو اس مصیبت کو ہٹا دے۔ ۲۔ نے کہا کہ میں نے اپنی چچازاد بہن کو زنا کی طرف بلایا مگر اس نے انکار کر دیا مگر ایک موقع پر اس نے روپیوں کی مجبوری کی وجہ سے یہ عمل قبول کیا اور اس وقت میرے لئے ہر طرح کے اسباب مہیا تھے مگر میں اس وقت اپنی نفسانی جذبات کو صرف تیرے لئے دبایا ہو تو یہ مصیبت مجھ سے ہٹا دے۔ اسی طرح ۳۔ نے کہا کہ میں نے ایک مزدور کی مزدوری کو اس قدر امانت و دیانت سے رکھا اور اس کو کاروبار میں لگا کر اتنا بڑھایا کہ وہ ایک کثیر مقدار کو پہنچ گئی اور جب وہ اپنی مزدوری بقدر اجرت لینے آیا تومیں نے اس کی رقم مع منافع کثیر لوٹا دی اور وہ اس کثیر رقم کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوا لیکن میں نے اسے بتلایا یہ ساری رقم تیری ہی ہے اور یہ عمل میں نے صرف تیرے لئے کیا ہے تو اس چٹان والی مصیبت کو مجھ سے ہٹا دے۔ چنانچہ ان تینوں نے اخلاص سے اپنی مصیبت و بلا سے نجات پالی اور وہ لوگ اس غار سے باہر آ گئے۔

اخلاص مطلوب ہے صرف عمل نہیں

ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اعمالکم۔ ولکن ینظر الی قلوبکم ونیاتکم۔

 اس حدیث پاک میں بھی اخلاص کی طرف توجہ دلائی گئی اور دو اہم پہلوں سے آگا ہ کیا گیا ہے۔ ( ۱) اللہ تعالیٰ کے نزدیک عمل کے مقبول ہونے کے لئے کسی صورت وغیرہ کی حیثیت نہیں اور نہ ہی کسی خاندان، حسب نسب، کی بلکہ اخلاص کی ضرورت ہے۔ ( ۲)۔ صرف عمل مقصود نہیں بلکہ ایسا عمل درکار ہے جس میں اخلاص اور حسن نیت ہو اور جو عمل کہ اخلاص سے خالی ہو گا وہ مردود   ومبغوض ہو گا۔

غیر اخلاص کے دو عظیم نقصانات

جب اخلاص ختم ہو گا تو۔ (۱) رضائے الہی۔ (۲) رحمت خداوندی سے محروم ہو گا رضائے الہی جب تک حاصل نہیں ہو گی اس کے لئے آخرت کا مسئلہ کیسے حل ہو گا اور جب تک رحمتِ خدا حاصل نہیں ہو گی تو اس کی دنیوی و اخروی زندگی کامیابی کیسے ہمکنار ہو گی اسلئے کہ اخلاص سارے اعمال کی روح، رضائے خداوندی کی حاصل کرنے کی کنجی اور دنیا وی و  اخروی نجات کا ذریعہ ہے۔

٭٭٭

 

صبر کی ایک مثال

صبر کی تعریف

صبر کی تعریف یہ ہے کہ بدلہ لینے کے موقع پر باوجود قدرت کے صاحب  معاملہ کو معاف کر دینا۔ خود کے حق کو دبا کر دوسرے کو در گذر کر دینا۔ یہ صبر کی ایک مختصر تعریف ہے۔

صبر کی تقسیم

اگر کوئی شخص صبر کی تقسیم کرنا چاہئے تو مجموعی اعتبار سے اس کی دو قسمیں بنتی ہیں۔

 (۱) ’’ صبر علی الطاعہ‘‘دوسرے صبر ’’صبر علی المصیبہ ‘‘ صبر علی الطاعہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ناموافق ماحول و مزاج میں خدائی احکام کو بجا لانا۔ جیسے سردی کے زمانے میں فجر کی نماز کے لئے جاگنا اور بشاشت قلب کے ساتھ ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا اور بارگاہ  خداوندی میں حاضر ہونا وغیرہ وغیرہ۔

صبر علی المصیبۃ کی مثال، پھر صبر المصیبہ کی دوقسمیں ہیں۔ ایک سماوی مصیبت دوسری   دنیوی مصیبت، سماوی مصیبت کی مثال جیسے طوفان آندھی وغیرہ وغیرہ۔ دنیوی مصیبت کی مثال بندوں کی طرف سے کوئی تکلیف و اذیت کا افعال و اقوال کے اعتبارسے پہنچنا۔

صبر کی مذکورہ تمام اقسام میں آخر الذکر صبر علی المصیبہ زیادہ اہمیت و فوقیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اس صبر کا تعلق راست ایک بندے کو دوسرے بندے سے ہوتا ہے۔ یعنی جب کوئی شخص کسی شخص کو قولی و فعلی اذیت دیتا ہے اوردوسرا شخص جسے تکلیف پہنچ رہی ہے باوجود بدلہ لینے کے قدرت کے اللہ کے لئے معاف کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے خدا کی جانب سے ۳ قسم کی بشارت سنائی گئی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ اولئک علیھم صلوۃ من ربھم ورحمۃ واولئک ھم المفلحون۔ (۱)امن وسلامتی کی بشارت۔ (۲) رحمت اور(۳)فلاح و کامرانی کی۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس قسم کے صبر کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ اور اپنے بھائی کی خطاء و غلطی کو معاف فرما کر بھائی چارگی اور امن و امان کا ماحول بناتے ہیں۔ اگر اس جگہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے اس واقعہ کو بطور نصیحت ذکر کیا جائے تو کیا بعید ہے کہ ہم میں بھی صبر کی تمام اقسام پیدا ہو جائے۔ ساتھے ساتھ خصوصی طور پر دنیا وی مصیبت پر بھی صبر کرنا آسان ہو جائے۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت ابو حنیفہؒ اپنے گھر تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آ کر دستک دی اور امام صاحب کو طلب کیا۔ جب امام صاحب علیہ الرحمہ باہر آئے تواُس شخص سے پوچھا کہ آپ کا آنا کیسے ہوا اور آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ تو اس کمبخت اورفسادی صفت شخص نے کہا کہ میں آپ کی والدہ محترمہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ امام صاحب نے پورے صبر و تحمل کے ساتھ فرمایا کچھ دیر توقف فرمایئے، میں اپنی والدہ سے پوچھ کر آتا ہوں۔ جب اندر جا کر واپس آئے تو کیا دیکھا کہ وہ شخص مقتول و مہلوک ہے، امام صاحبؒ نے یہ کہا ’’قتلہ صبری‘‘ میرے صبر نے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

دیکھا آپ نے علمی و فقہی جلالت شان اور ان کے تقویٰ و ورع کے باوجود ایک عامی شخص کے اتنے درشت جملے پر کس قدر صبر کا مظاہرہ کیا۔ سنتے ہی ساعت  اول میں اپنے نفس پر کنٹرول کیا۔ جو حقیقی اعتبار سے صبر کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس لئے کہ حقیقی اعتبار سے صبر مصیبت یا دکھ کے اول اول وقت ہی میں کیا جانا چاہئے۔ اسی لئے کہا گیا ہے۔ الصبر عندصدمۃ الاولی۔ یعنی صبر تو وہ صبر ہے جو تکلیف و مصیبت کے پہنچنے کے اول وقت پر ہی کیا جائے۔

اس واقعہ میں امت مسلمہ کو یہ سبق ملتا ہے کہ آدمی صبر کے تمام اقسام کا لحاظ رکھے خواہ صبر علی الطاعۃ ہو یا صبر علی المصیبہ۔ خاص طور پر صبر علی المصیبہ پر بڑے ثبات قدمی کے ساتھ نفس پر کنٹرول کرتے ہوئے جمے رہے۔ اگر کوئی شخص گالی گلوچ کرتا ہے برا بھلا کہتا اور کوئی نازیبا حرکت کرتا ہے تو اس شخص کو بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود  اللہ کے لئے معاف کر دے اور اللہ سے دعا مانگے۔ اے اللہ مجھے صبر پر استقامت عطا فرما سو اس وقت بندہ خدا کی تین نعمتوں سے نوازا جائے گا۔ ۱۔ رحمت۔ ۲۔ امن وسلامتی۔ ۳۔ فلاح و کامرانی۔

٭٭٭

 

پردہ اور کسبِ معاش

 ہرمسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی اس جہان کا مالک ہے اور وہی اس جہاں کا پروردگار یعنی پالنے پوسنے والا اور پرورش کرنے والا ہے جیسا کہ سورۂ فاتحہ اور اس کا علاوہ بہت ساری قرآنی آیات میں اس کی وضاحت آئی ہے ہاں اتنی بات ضرور  ہے کہ پرورش کرنے یا پرورش پانے میں ساری انسانیت کو بہت سارے اسباب کے ساتھ دو ایسے اہم اسباب کا محتاج بنایا ہے جن کے بغیر نہ تو دنیا کی نسل چل سکتی ہے اور نہ بڑھ سکتی ہے ان میں ایک کا تعلق باپ کاہے اور دوسرے کا تعلق ماں کاہے۔ افزائش نسل اور صالح معاشرے کی تشکیل میں ان دونوں کا ایک خاص کر دار اور رول ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مرد عورت کا رول یا عورت مرد کا رول انجام نہیں دے سکتی اگر ایسا ہے تو یہ ہے کہ یہ انسانیت اور فطرت سلیمہ کا خون ہے۔

 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح ان دونوں کی تخلیق اور پیدائشی نمونہ میں نمایاں فرق رکھا ہے اسی طرح ان کے طبعی و فطری صفات میں بھی نمایاں فرق رکھا ہے کوئی مرد عورت نہیں بن سکتا  اور نہ کوئی عورت مرد بن سکتی ہے اگر کوئی شخص مرد کی مردانہ تخلیق اور مردانہ اعضاء کو معطل اور ختم کر کے زنانہ وضع و قطع میں ڈھالنا چاہے یا یہ کہ عورت کو خاص زنانہ اعضاء کو بالکلیہ ختم کر کے مردانہ شکل و صورت میں ڈھالنا چاہے تو وہ فطرت سے بغاوت کرتا ہے اورایسا شخص انسانیت کا بدترین دشمن کہلائے گا بلکہ یوں بھی کہا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں ہو گا کہ یہ دہشت و وحشت کے پھیلانے میں دہشت گردی کا رول ادا کر رہا ہے۔

 جس طرح مردو عورت تخلیق انسانی میں یکساں نہیں ہو سکتے ٹھیک اسی طرح مردانہ و زنانہ صفات  و اوصاف میں اور اپنے خاص عمل و وظیفہ میں برابر نہیں ہو سکتے۔ بہت سارے مردانہ صفات میں ایک نمایاں صفت یا یہ کہ خاص وظیفہ و عمل یہ ہے کہ مرد امور خانہ داری کو متوازن انداز میں چلانے کے لئے بیوی بچوں کی پرورش کے لئے کسب معاش اور حلال رزق میں مصروف رہے تاکہ گھر یلو نظام میں بگاڑ و انحطاط پیدا نہ ہو، اسی طرح بہت سارے زنانہ صفات میں ایک زنانہ صفت اور خاص ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھریلو نظام اور گھر کا نظم و ضبط اور اولاد کی مکمل سرپرستی اور نگرانی میں کمی و کوتاہی نہ کرے۔ اسلئے کہ حدیث میں آتا ہے کہ اولاد کی پہلی درس گا ہ اور مکتب خود ماں کا گود ہے جو ایک فطری نظام کے تحت جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے اگر کوئی شخص اس فطری نظام سے بغاوت کرئے گا  تو اخلاقی و مالی تباہیوں سے دو چار ہو گا۔ جیسا کہ آج کے مغرب زدہ یا مغرب پرست اور مغرب غلامی کے دور میں دنیا کے بیشتر ممالک و اقوام اس فطری نظام کا خون کر کہ دنیوی وسائل و ترقیات میں کچھ حد تک کا میاب ہوتے گئے ہیں۔ لیکن ان دنیوی و سائل و ترقیات سے جو قلبی سکون امن امان، زوجین کی وفاداری، عفت و عصمت کی پاسداری، ایک دوسرے پر اعتماد، اولاد کی نیک صالح پرورش، خاندانوں میں اخوت و محبت مطلوب و مقصود تھا سب کا سب چھن گیا اور لٹ گیا اور ایک صالح معاشرہ کے بجائے بد کر دار معاشرہ پیدا ہو گیا۔

بہر حال اس کے کیا اسباب و عوامل ہیں اور اس کے لئے کون ذمہ دار ہیں اس کی تو ایک بڑی لمبی چوڑی فہرست ہے۔ منجملہ ان اسباب میں ایک عظیم اور بنیادی سبب عورت کا اپنے محفوظ قلعہ یعنی (پردے ) سے نکل کر بے پردہ ہونا ہے، پھر بے پردہ ہونے کے بھی کئی ایک اسباب ہیں ایک سبب تو یہ ہے کہ تعلیم و تعلم کے لئے بے پردہ ہونا، دعوت و تقریب کے لئے بے پردہ ہونا، سیر و تفریح کے لئے بے پردہ ہونا، عشق بازی کے لئے بے پردہ ہونا، مقابلۂ حسن کے لئے بے پردہ ہونا وغیرہ سب کے سب اپنی جگہ ایک مستقل موضوعات ہیں۔ بے پردہ ہونے کے ان مستقل موضوعات میں ایک مستقل موضوع کسب معاش ہے۔

معاشرے کے پلنے اور پرورش پانے کے لئے واقعتاً کسب معاش بہت ضروری ہے مگر اس کی ذمہ داری اللہ تبارک و تعالیٰ نے مرد کے کاندھے پر ڈالی ہے جس معاشرہ میں مرد ہونے کے باوجود اس ذمہ داری کو قبول نہیں کرتے وہ دیوس ہیں اور مرد ہونے کے باوجود مردانگی پر ایک دھبہ ہیں ہاں جہاں مرد کمائی پوت ہیں اور اس کی ایک کمائی سے زندگی بسر ہو سکتی ہے اس کے باوجود کسی نوجوان لڑکی یا عورت کا گھر سے کسب معاش کے لئے باہر نکلنا، نہ فطرت کے موافق ہے اور نہ شریعت اسلامیہ کے مزاج کے موافق ہے۔ کچھ نوجوان لڑکیاں اور کچھ نوجوان عورتیں مغربی تہذیب کو اپنا خوگر بنانا چاہتی ہیں یا یہ کہ اپنی خاندانی یا علمی یا مالی پوزیشن کو حاصل کرنے کے لئے اور اپنے معاشرے میں اپنی ناک اونچی کرنے کے لئے اپنا رخ کسی ’’ کاروبار‘‘ کسی ’’ سافٹ ویر‘‘ کمپنی یا کسی فینانشیل کمپنی یا کسی Call Centreکو کرتی ہیں  یقیناً یہ وہ صورتیں ہیں جس کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے نہ فطرت اس پر آمدہ ہوتی ہے جہاں جانا نوکری کرنا اپنے دین و ایمان کو بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی معصوم زندگی اپنی عفت و عصمت کو داو پر لگانا ہے۔ جس سے بچنا اوردوسروں کو بھی اس سے بچانا وقت کا تقاضہ ہے۔ واقعتاً جن گھروں میں کمائی کرنے کے لئے مرد حضرات نہیں ہیں یا یہ کہ گھریلو زندگی ایک معتدل انداز سے چل نہیں سکتی تو اب اس صورت میں صرف گزر بسر کرنے کی حد تک اسلام شرعی حدود میں اجازت دیتا ہے۔ مثلاً گھر بیٹھے کئی ایک ایسے کام ہیں جو کسب معاش کے نئے نئے راستے پیدا کرتے ہیں یا یہ کہ کوئی ایسی کمپنی ہو کہ جہاں صرف اور صرف عورتیں ہیں کام کرتی  ہوں یا یہ کہ کوئی ایسا اسکول یا کالج ہو جہاں صرف لڑکیاں ہی تعلیم حاصل کرتی ہوں یا کہ کوئی ایسی ویلفیر سوسائٹی ہو جہاں عورتوں کے علاوہ کسی کا عمل دخل نہ ہو یہ یا کہ اس کے علاوہ جتنی وہ صورتیں دین و شریعت کے موافق ہوں سب کے سب جائز ہیں۔ ان جیسے کاموں پر شریعت پابندی عائد نہیں کرتی اس لئے کہ شریعت فطرت اور طبیعت کے خلاف کوئی حکم نہیں دیتی البتہ حیوانانیت، نفسانیت اور انانیت کے خلاف ضرور حکم دیتی ہے جو کہ انسانیت کے لئے نقصان دہ اور فتنہ کا سبب ہے۔

٭٭٭

تشکر: شارپ کمپیوٹر، حیدر آباد، جن کے توسط سے فائلوں کی فراہمی ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید