فہرست مضامین
- فردا نژاد
- پیش لفظ
- منظوم پیش لفظ
- آدم زاد کی دُعا
- ہم ذات کے نام
- سنگ بے حیا
- کایا کا کرب
- بے زور آور
- ایوری باڈی نو باڈی
- نیلی گرد کا زمزم
- نیا عہد نامہ
- نیا مسیحا
- ایک مکالمہ
- لا مرکز آوازیں
- سو ضرب صفر
- پردہ گرتا ہے
- انا سے ماورا تک
- سن شائن
- زخم بینا
- عہد
- دھند میں اٹھتا ہاتھ
- سمے اور مَیں
- ہم
- دن دریا
- زید آ
- رِچُوئل
- مٹی کا زنگ
- سفارتیا
- نیم وا دروازہ
- اونیس۔ ۔ سفر کی قوس پر
- ناتمامیوں کا گیت
- لمحے کا سمندر
- دیوارِ چین
- تاچائے
- کوئی لگن
- لیو سان چے
- منجمد ندی کی زنجیر
- مہر نیم شب
- گرتے ستون کا منظر
- یا ر بے پروا
- روز کم شب
- بند دروازے میں کرن کی درز
- میں کیا کرتا!
- میرِ نابلس
- نیم اجنبیت کے پُل پر ایک شام
- چکور دستک اور صلیب
- افریقہ۔ ۔ ۔ اگلے محاذ پر
- منظر کا خلا
- اجنبی
- لشکارا
- بے نوشتہ نظم کا پیش لفظ
- نا رسیدہ لمحے کا بلاوا
- اعلان نالۂ بیروت
- کہانی
- ہری نظم
- گمان سے پہچان تک
- نارسیں
- ڈوبتے پتھر کی صدا
- خود کلامی کے کٹہرے میں
- دُور نما روشنیوں کی خوف
- رونق کا شگون
- گماں کی منطق
- آئینہ نما
- حبس کی خراب گاہ سے
- مُنکروں کے درمیان
- بے وعدہ عمروں کے بن باس میں
- ریت کی پیاس
- خواب آفریں !
- نوعِ نو جسم
- سُرخ پرچم نہر
- دراز سایہ سہ پہر
- جو ہیں اور نہیں ہیں
- حصارِ سزا میں
- سورج کی خوشبو
فردا نژاد
آفتاب اقبال شمیم
پیش لفظ
میرا وجدان اور شعور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں ایک نیم آفریدہ دنیا میں پیدا ہوں۔ ایک نامکمل منظر کی نامکمل شناخت کرنے کے لئے۔ میری روشنی کے علاقے میرے وجود کے اندر، باہر اور اس کے مضافات میں کہیں کہیں واقع ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے بیچ میں خلا ہی خلا ہیں۔ یہ علاقے نادر یافت شدہ اسرار کے سمندر میں تیرتے ہوئے، اوجھ ہوتے ہوئے، ابھرتے ہوئے جزیرے ہیں۔ زنگی اپنی پہچان کے لئے مجھے مٹا کر پھر بناتی ہے اور بار بار ایک ہی نقش بنتا ہے، جس میں زندگی کا جوہر ایک لاتعلق خارجی حقیقت سے دست و گریباں نظر آتا ہے۔ کیا یہ جنگ لامتناہی ہے یا ہار جیت کے بغیر ختم ہو جائے گی؟ میں زندگی کے حق میں کوئی گواہی نہیں دے سکتا۔ وقت کی سمتیں اور ان کی طوالتیں میرے ادراک کے احاطے سے باہر ہیں۔
میرا حافظ میری فنا اور بقا کا حوالہ ہے اور میری تاریخ اس فنا و بقا کی جدلیت کو دستاویز۔ ۔ ۔ ۔ ایک مسلسل تجربہ جو ماضی سے مستقبل کی روشنی تلاش کرتا ہے اور مجھے میرے تصرّف میں رکھتا ہے۔ میری آزادیوں کو مشروط کرتا ہے اور میرے امکانات کا رُخ ایک طے شدہ راستے، جس میں حادثوں کے کہیں کہیں خم ہیں، کی جانب موڑتا رہتا ہے۔ میں اس تجربے کی دریافت ہوں۔ اور اسی رت کا آئندہ ہوں۔ تاریخ کا جبر کچھ ایسا ہے کہ میں اپنے آپ کو رد کر کے نئے سرے سے دریافت کرنا چاہوں تو شاید نہ کر سکوں۔
اجتماع معاشرت کی پناہیں پسند کرتا ہے۔ بکھر کر بے سمت ہو جانے کا خوف ایسا ہے کہ زمانہ اس کے ارادے کا اظہار بن کر اُسے اپنے کناروں کے درمیان رواں رکھتا ہے۔ اجتماع زندگی کی روئیدگی کا مظہر ہے اور برف پوش منطقتوں سے بچ کر چلتا ہے۔ چلچلاتی دھوپوں میں مفاہمت کی چھاؤں اوڑھ لیتا ہے۔ فرد زندگی کا مرکزہ ہے جس میں سرسبزی کی خواہش گھمسان مچائے رکھتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اجتماع کے ساتھ رہنے اور اس سے ٹوٹ کر الگ ہو جانے کی آرزو نے مجھے ہمیشہ مضطرب رکھا ہے۔ میں نے تند ہوا کو درخت کی لچک کا تاوان بھی دیا ہے اور دوسروں کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے، راہداری کا پروانہ حاصل کرنے کے لئے اپنی روح کا داغا جانا بھی قبول کیا ہے۔ اگر ایساہ کرتا تو اقرار کی یہ نظم کیسے لکھتا جو زندگی کے سامنے رکھی ہوئی لوحِ سنگ پر ہونے، نہ ہونے کا منظر نامہ مرتب کر رہی ہے اور کیسی عجیب بات ہے کہ دُکھ کے معرکہ زار میں، میں خود اپنے مقابل کھڑا ہوں۔ کبھی اپنے سامنے زمانے کی دیوار بن کر اور کبھی اپنی راہ میں پہچان کے قدے کا لمبا سایہ بن کر۔
زید اور میں خواب دیکھتے ہیں۔ زید وہ فدِ اول یا عنصری انسان ہے جس کی بنیاد پر میں نے اپنی معاشرتی شخصیت کی تعمیر کی ہے۔ ہم دونوں جبر کے شاہی قلعے کے زندانی سرد سلوں پر سوتے ہیں اور دُور کے اس شہر کی جانب دیکھتے رہتے ہیں جہاں محبت اور آزادی کے مندر میں داسیاں ناچتے ناچتے خود اپنی خوشبو بن جاتا ہیں۔ حسن منکشف ہو کر وصل کی بشارتیں دیتا ہے اور اک فردِ دگر کی آفرینش گزرے ہوئے حوالوں کو نابود کر دیتی ہے۔ ہر لمحہ تخلیق کا لمحہ بن جاتا ہے۔ ایک کرب جس میں سارا وجود پگھل کر بہتے ہوئے اپنی وسعتیں پا لیتا ہے۔ اور اس خواب کی سیر گاہ بے محیط ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رخشِ ارض کی پسلیوں سے رستے ہوئے لہو سے تقدیر کی مہمیز سرخ ہے اور خلاؤں کو پھاندتے ہوئے سموں سے ستارے اُڑ اُڑ کر نئے آسمانوں کو جنم دے رہے ہیں۔ ہر فراز اگلے فراز کی دہلیز بنتا جا رہا ہے۔
اور ہمارے ملکِ خواب میں فردا زاد رہتے ہیں۔ خوب صورت، توانا، معصوم، جو اندر اور باہر کی ساری دیواریں مسمار کر چکے ہیں۔ جو رفتہ و آئندہ کے درمیان محصور نہیں بلکہ آزادیوں کے ارتفاع سے دریا کو ساری سمتوں میں رواں دیکھتے ہیں۔ جو کل کے شہر کو جلا کر زرمُوش کی وبا سے ہمیشہ کے لئے نجات پا چکے ہیں۔ جہاں مساوات ہے، انسان، انسان کا استحصال نہیں کرتا۔ محبت بونے والے روشنیاں اگاتے ہیں۔ کیسی من ہر زمین ہے جہاںہ خان قوت کی ثقالت ہے نہ کا تعفّن چاہتوں کی نرم ہوا دما دم چلتی رہتی ہے۔ اور خواب دیکھنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے ! فطرت، تخّیل کی دلہن ہے۔ ہم خواب دیکھتے رہیں گے۔ ہمیں اُس کی بیوگی منظور نہیں۔
جہاں میرے آدرش کا سورج طلوع ہوا، وہ یہی خطۂ سبز قبا ہے جو پسماندگی کا کشکول تھامے وقت سے رفتار کی بھیک مانگ رہا ہے۔ میں ساری گزری ہوئی عمر سے اپنی گلیوں میں ناداری اور جہل کو دھمال ڈالتے دیکھ رہا ہوں۔ نامعلوم انگلیاں پیادے کو گھر، بازار اور دفتر کے سفید اور سیاہ خانوں میں نچاتی رہتی ہیں اور بے معنویت کا یکساں سفر جاری ہے۔ کچھ بڑے ہیں، جو بہت برے ہیں۔ باقی سب کے سب چھوٹے ہیں۔ دنیا داریوں کو تقدس کے غلاف میں لپیٹ کر اونچے طاقچوں میں سجایا جاتا ہے۔ اشیاء سے محبت کی تلقین کی جاتی ہے۔ منافقت کے رائج الوقت سکے پر بے چہرے فرمانروا کا نقش چمکتا ہے۔ نامعلوم زور آور کی سفّاک ضرورت نے ایک اور ایک اور ایک اور دوسرے کے درمیان فاصلے حائل کر رکھے ہیں۔ انسان کو نا انسان بنانے کا عمل جاری ہے۔ لیکن میں جو گزری ہوئی نسلوں کے ساتھ اپنی اس سرزمین پر قدم بہ قدم چلا ہوں، مایوس نہیں۔ کیونکہ مجھے کل بھی آنا ہے۔ کیا خبر کہ دکھ کی یاترا سے جب لوٹوں تو مجھے معنی کے اور بلندیوں کے سفر کا سراغ مل جائے۔
لفظوں کو توڑنے اور جوڑنے کا عمل حرارت پیدا کرتا ہے لیکن صرف اتنی کہ اس سے شب زار معنی میں شمع جلا سکیں۔ ہمارے حواس ان کے اور یہ ہمارے حواس کے محتاج ہیں۔ ہاں۔ اس اعتبار سے قابلِ قدر ہیں کہ ان میں انکار کی جرأت بھی ہے اور اقرار کی توانائی بھی۔ یہ سچ کی رو کو اپنے اندر سے گزرنے دیتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر جڑوں کی مانند پھیلے ہوئے ہیں اور شاخ نطق سے پتّیوں کی طرح پھوٹتے ہیں جن میں نصف سچائی کی ہریالی ہوتی ہے۔ انہی لفظوں کی روشنائی سے میں نے یہ نظمیں لکھی ہیں۔
آفتاب اقبال شمیم
مئی ۱۹۸۵
منظوم پیش لفظ
یاور ماجد
(محترم آفتاب اقبال شمیم کی کتاب فردا نژاد کا دیباچہ جو انہوں نے لکھا اور میں نے اپنے شعری سفر کے اوائل میں منظوم کیا)
شعور و وجد میرے مجھ کو ہر دم ہی بتاتے ہیں
کہ دنیا جس میں پیدا میں ہوا۔ ۔ ۔ نا آفریدہ ہے !
میں آیا ہوں عدم تکمیل کے مارے ہوئے ایسے مناظر کو
ذرا تشنہ سی اِک پہچان دینے
کہ میری روشنی کے سب علاقے
مرے اندر، مرے باہر، مرے دائیں، مرے بائیں کہیں ہیں
اور ان کے بیچ میں طرفہ خلا ہے
علاقے یہ کہ جیسے ہوں جزیرے
عجب اِک بحرِ پر اسرار کے اندر
چھپے ہیں، تیرتے ہیں، ڈوبتے ہیں اور ابھرتے ہیں
زِندگی!
مجھ کو مٹا کر پھر بناتی ہے
بنا کر پھر مٹاتی ہے
مگر ہر بار اِک ہی نقش بنتا ہے
کہ جس میں اس کا جوہر
عجب سی لا تعلّق خارجی سچّائی سے دست و گریباں ہے
تو کیا یہ جنگ دائم ہی رہے گی؟
تو کیا انجام اس کا کچھ نہ ہو گا؟
جو پوچھو مجھ سے تو میں زِندگی کے حق میں کوئی بھی گواہی دے نہیں سکتا
کہ اس کی وسعتیں، گہرائیاں اور سرحدیں
مری پابند سوچوں کے احاطے ہی سے باہر ہیں
مرا ماضی!
مری اپنی فنا کا اور بقا کا اِک حوالہ ہے
مری تاریخ بھی میری فنا کی اور بقا کی جدلیت کی ایک دستاویز سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
نہیں کچھ اس ذرا سے تجربے سے بڑھ کے
جو ماضی سے مستقبل کی صبحیں ڈھونڈتا ہے اور مجھے مصروف رکھتا ہے
مری آزادیوں کے راستوں کو بند کرتا،
میرے امکانات کا رخ طے شدہ رستے کی جانب موڑتا ہے
وہ رستہ جس میں کتنے ہی حوادث کے ہزاروں موڑ بستے ہیں
میں حاصل ہوں اسی اِک تجربے کا،
اسی رستے کا آئندہ
مگر ان راستوں میں دور اتنا جا چکا ہوں،
کہ پھر سے اپنی خود دریافتی کے سارے امکانات اب معدوم ٹھیرے ہیں
اجتماع !
اِک ساتھ رہنے کی پناہیں چاہتا ہے،
بکھر کر ٹوٹ جانے کا تصور ہی کچھ ایسا خوف آور ہے
زمانہ اس ارادے کے مہیب اظہار کا دریا سا بن کے
رواں رکھتا ہے اس کو درمیاں اپنے کناروں کے
اجتماع !
مظہرِ روئیدگیِ زندگی ہے
اور ٹھٹھرتی منطقوں سے دور رہتا ہے
دہکتی دھوپ میں آ جائے تو ہر مرتبہ
نئے اِک روپ کی چھاؤں کی چادر اوڑھ لیتا ہے
فرد!
تو بس زِندگی کا مرکزہ ہے
جسے سرسبزی کی خواہش بہت بے چین رکھتی ہے
حقیقت پوچھتے کیا ہو!
مجھے تو اجتماعوں میں بسے رہنے کی خواہش
اور ان سے ٹوٹ کر دور اور الگ رہنے کی تشنہ آرزوؤں نے
ہمیشہ مضطرب رکھا ہے
میں نے تو ہوائے تند کو اپنی لچک کا بے بہا تاوان بھی بخشا
اور سب کی ہمرہی کو،
راہداری سے گزرنے کی اجازت کو
سسکتی روح کو بھی داغوایا ہے !!
اگر ایسا نہ کرتا تو
بھلا یہ نظم کیسے لکھتا جو اب زِندگی کے سامنے
رکھی ہوئی پتھر کی تختی پر
خود اپنے ہی نہ ہونے اور ہونے کا نظارہ دے رہی ہے
عجب مشکل تو یہ ہے رنج کے اس معرکے میں
مرے مدِّ مقابل اور کوئی بھی نہیں میں خود کھڑا ہوں !!
کبھی خود ہی زمانے کی کوئی دیوار بن کر
کبھی پہچان کے اونچے نکلتے قد کا کوئی سایۂ بے کار بن کر
زید اور میں خواب تکتے ہیں
زید ہے وہ فردِ اوّل،
عنصری انسان ایسا جس کی بنیادوں پہ میرا
معاشرتی تشخّص قائم و دائم ہے
وہ اور میں جبر کے شاہی قلعے میں قید ہیں
اور برف پر لیٹے حسیں خوابوں کی دنیا میں اکٹّھے سیر کرتے ہیں
یہیں سے دور کے اس شہر کو حسرت سے تکتے ہیں
جہاں پر داسیاں،
محبت اور آزادی کے مندر میں تھرکتے ناچتے خود اپنی ہی خوشبو میں ڈھل جاتی ہیں
اور
پھر حسن خود کو منکشف کر کے خود اپنے وصل کی خبریں سنا تا ہے
اور اِک فردِ دِگر کی آفرینش،
گزارے سب حوالوں کو مکمل طور سے نابود کر دیتی ہے
ہر لمحہ ہی گویا لمحۂ تخلیق بن جاتا ہے
میں اور زید دونوں کرب کے دریا کی لہروں میں
پگھل کر بہتے بہتے اپنی اپنی وسعتوں میں غرق ہو جاتے ہیں
اور یہ سیر گاہِ خواب بے سرحد،
مکمل طور سے لا منتہی ہے
ہمارے سامنے تقدیر کی مہمیز اپنی سرخیاں،
زمیں کی پسلیوں کے بے بہا رِستے لہو
سے لے رہی ہے
خلاؤں کو سُموں جیسے ستارے
نئے افلاک دیتے ہیں
ہر اِک اٹھتا قدم اگلے فرازوں کی نئی دہلیز بنتا ہے
یہاں اس خوبصورت شہر میں فردا کے باسی رہ رہے ہیں
حسیں ہیں،
اور توانا اور گنہ سے دور
جو اندر اور باہر کی ہر اک دیوار بالکل توڑ بیٹھے ہیں
جو رفتہ اور آئندہ کے پاٹوں میں نہیں پِستے
جو آزادی کے دریا کو سبھی سمتوں میں چلتا دیکھتے ہیں
جو کل کے شہر کو شعلے دکھا کر
نحوست سے بھرے زرموش کی بیماریاں سب تلف کر بیٹھے
وہاں سب ہی برابر ہیں
وہاں کوئی کسی کے حق کا غاصب ہو نہیں سکتا
محبت بو کے فصلیں روشنی کی کاٹتے ہیں
کہو، کیسی منوّر سی زمیں ہے،
جہاں پر چاہتوں کی باد رقصاں ہے
حسیں سپنوں کی وادی دیکھنے سے
ہمیں بولو تو آخِر کون روکے گا
یہ فطرت تو تخیّل کی دلہن ہے
اور اِس کی بیوگی اب ہم نہ دیکھیں گے
فقط ہم خواب دیکھیں گے
مرے آدرش کا سورج جہاں نکلا
وہ خِطّہ تو سدا اِک کاسۂ پسماندگی تھامے
زمانے سے ذرا سی تیز حرکت کی گدائی کو کھڑا ہے
میں اپنی بستیوں میں بچپنے سے
جہل اور غربت کو رقصاں دیکھتا آیا
کہیں سے دستِ نا معلوم پیادوں کو گھروں میں اور بازاروں میں ہر اِک پل نچاتا ہے
ازل سے اپنا لا یعنی سفر جاری و ساری ہے
یہاں پر کچھ بڑے ہیں
جو کہ بس بے حد بڑے ہیں
باقی سب کے سب ہی چھوٹے ہیں
یہاں بے معنی دنیا داریاں تقدیس کے مہنگے لبادوں میں سجا کر طاقچوں پر رکھی جاتی
ہیں
یہاں اشیاء سے الفت کی بہت تلقین ہوتی ہے
یہاں اِک دوسرے کے درمیاں کے فاصلوں کی وجہ
نامعلوم زور آور کی بے رحمانہ ضرورت ہے
یہاں انساں کو نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے
مگر میں جو کئی نسلوں سے ایسی سرزمیں میں منزلوں کو ڈھونڈتا ہوں
نہیں مایوس بالکل بھی
مجھے تو کل بھی آنا ہے
خبر کیا دکھ کی ایسی یاترا سے جب بھی لوٹوں
مجھے معنی کے، سر افرازیوں کے اس سفر کا
سراغِ خفتہ مل جائے
عمل لفظوں کے جڑنے اور تڑنے کا حرارت خیز ہوتا ہے
مگر صرف اس قدر
کہ شب زارِ معانی میں کوئی چھوٹی سی شمع جل سکے
مرے اور میرے لفظوں کے حواس انمول ہیں
کہ ان میں جرأتِ انکار اور اقرار کی قوّت برابر ہے
یہ سچ کی رَو کو اپنے بیچ سے بہنے بھی دیتے ہیں،
ہماری روح میں گویا جڑوں کی طرح پھیلے ہیں
ہمارے نطق کی شاخوں سے پتوں کی طرح کھِلتے ہیں
جِن میں نصف سچّائی کی ہریالی دکھاتے ہیں
انہی لفظوں کی روشن اور انمٹ سی سیاہی سے
مرے اندر کے شاعر نے یہ ساری نظمیں لکھی ہیں
آفتاب اقبال شمیم
٭٭٭
آدم زاد کی دُعا
زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر
کہ سجدہ کر سکوں
یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں
اور گرتا جا رہا ہوں اپنی فطرت کے نشیبوں میں
تِری کوتاہیوں میری انا کی سرحدیں ہیں
کیا یہ دیواریں
سدا اُٹھتی رہیں گی میرے سینے پر؟
بتا یہ رنگتیں، یہ دُوریاں پیدا ہوئی ہیں
کس کی دانش سے
بتا میرے لہو میں ڈوبتے جاتے ہیں کیوں
انجیر و زیتون کے گیاہستاں
مُجھے بھائی میرے نیلام کرنے جا رہے ہیں
تک رہا تو مجھے معذور آنکھوں کی سفیدی سے
یہ کیسا شہر ہے
جس کی ثقافت کی مچانوں سے
مُجھے مارا گیا ہے اور میں شو کیس میں
لٹکا ہوا ہوں
میرا منظر دیکھنے والے
لکھی سطروں کی کالی ڈوریوں پر ناچتے آتے ہیں
خود اپنے تماشائی
بتا بڑھتی ہوئی آبادیوں میں
چاندنی کیوں گھٹ گئی ہے
لبریم، پلکیں جھپکتے قمقمے، آنکھوں کا بھینگا پن
نئے چڑھتے دنوں کی سرخیاں ہیں کیا؟
خداوندا!
مجھے طائر، شجر، پربت بنا دے
یا مجھے ڈھا دے
کہ دوبارہ جنم لوں اپنی بے مشروط آزادی کی خواہش سے
٭٭٭
ہم ذات کے نام
کتنی سفّاک تھی
موجِ آتش نفس
جو کہ برسوں کے پتھر کو
لمحوں کا تنکا بنا کر
بہا لے گئی
اور میں درد کے آبِ پایاب میں
ڈوبنے کے لئے
خواہشوں کے خُدا سے مناجات کرتا رہا
تُو خزاں زاد، بھیگا ہوا بارش برگ میں
بے نشاں راستوں یہ رواں
اپنی آواز کو میرے لہجے میں سُنتا رہا
شہر میں
دھوپ کی دھار سے
سارے سایوں کو کاٹا گیا
سُرخ آنچل ہری رُت نے اوڑھا نہ تھا
کہ اُسے
سُرخ آنچل ہری رُت نے اوڑھا نہ تھا
کہ اُسے
بیوگی کی سزا دی گئی
لوگ مایوسیوں کے عَلَم لے کے چلتے رہے
آس کی پیاس سے مرنے والوں کے اعزاز میں
تعزیے
ہر مکاں سے نکلتے رہے
یہ مناظر تِری آنکھ کے زخم
میری صدا کے خلا
شہر والوں کا مقسوم تھے
تو پھٹی پتلیوں میں کئی آسماں،
کتنے سورج چھپائے ہوئے
اپنے ہونے، نہ ہونے کے کہرام میں
ہر نئی نسل کے ساتھ مرتا رہا
اور جینے کی میعاد بڑھتی رہی
٭٭٭
سنگ بے حیا
قید خانے کی دیوار پر انگلیوں کے نشان
ناخنوں کی خراشیں
سزا یافتہ مجرموں کی شب و زر سر پھوڑنے کی صدا
تیس برسوں سے رو کی ہوئی سانس
سینے میں سولی کی مانند لٹکتی ہوئی
اور آنکھوں کے جلتے ہوئے دائرے سے نکلنے کی
ممنوعہ سڑکوں پہ پھرنے کی خواہش کا
تاوان۔ ۔ ۔ ۔ ہر سوچ کی نامرادی
(بگولے کی زنجیر کو خار و خس توڑ سکتے نہیں )
نینوا کے اندھیرے کنوئیں، دل کے پاتال میں
کوئی برسوں سے گرتی ہوئی چیخ
ہاروت و ماروت کو چھُو کے لوٹی نہیں
آسماں اتنا اونچا ہے
پاؤں کی اکڑی ہوئی انگلیوں پہ کھڑے
بازوؤں کو اٹھائے ہوئے، سوچتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ کہ چھو لوں اسے
تیس برسوں کی روکی ہوئی سانس چلنے لگے
٭٭٭
کایا کا کرب
اُس نے دیکھا
وہ اکیلا اپنی آنکھوں کی عدالت میں
کھڑا تھا
بے کشش اوقات میں بانٹی ہوئی صدیاں
کسی جلّاد کے قدموں کی آوازیں مسلسل
سُن رہی تھیں
آنے والے موسموں کے نوحہ گر مدّت سے
اپنی بے بسی کا زہر پی کی
مر چکے تھے
اُس نے چاہا
بند کمرے کی سلاخیں توڑ کر باہر نکل جائے
مگر شاخوں سے مُرجھائے ہوئے پتّوں کی صورت
ہاتھ اُس کے بازوؤں سے
گِر چکے تھے
٭٭٭
بے زور آور
چھتیں چھلنی ہیں
کالے موسموں کے زور سے کمرے کی دیواریں لرزتی ہیں
وہ اپنے آپ سے باہر کہاں جائے
کہ سارے راستے آخر یہیں پر لَوٹ آتے ہیں
برہنہ رات کو وہ ‘فرض کردہ‘ روشنی سے ڈھانپتا ہے
نیستی کے خوف سے چھُپ کے پنہ گاہوں میں
دن کے خیر کی زنجیر
پتھریلی زباں سے چاٹنا رہتا ہے
بے الزام قیدیں کاٹتا ہے
اور کہتا ہے
سزا اک زہر امرت ہے
یہاں اپنی حدوں کے مُلک میں بھی دوسروں کا دخل
برحق ہے
یہاں جینے کی یہ مشروط آزادی ہمارا خود نوشتہ حُکم نامہ ہے
تو پھر یہ بے دلی کا مُوڈ
اپنے آپ سے یا دوسروں غیر دلچسپی
سُلگتی آگ سے اُٹھتے دھُوئیں کے گھونٹ
آخر کون سے غم کا مدا وا ہیں
مشاغل، عادتیں، خوش فہمیاں، ہندسہ نما الفاظ
سینے کے پھٹے زخموں کو بھرنے کے لئے کافی۔ ۔ ۔ ۔ بہت کافی ہیں
جینے کے تدبّر اور جذبے کا تقاضا ہے
کہ ہم اپنے نشیبوں سے بلندی کی طرف دیکھیں
جہاں کے اوج سے فتحیں
تمنا کی زباں میں ہم سے کہتی ہیں
کہ ہم بونے نہیں ہیں دیوتا ہیں
جو نئی ساعت کی کالی ریل کے نیچے کٹے اعضا کو جمع کر کے
دوبارہ جنم لیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اس نوروز پر جینے کا پھر سے عہد کرتے ہیں
٭٭٭
ایوری باڈی نو باڈی
لٹکتی سانس کے پردے پہ برسوں کے پرانے، ملگجے جالے کشیدہ ہیں
ہوا کی آب گوں ململ میں ننگا جسم لپٹا ہے
پھٹی آنکھوں میں ناخن اُگ رہے ہیں، آؤ۔ ۔ ۔ ۔ جالی دار دیوار پہ
کوئی پوسٹر چسپاں کرو، اعلان کر دو۔ ۔ ۔ ۔ آج اُس کے استخوانی ہاتھ
اُس کی موت کی تاریخ لکھیں گے
کسی اخبار کے چالیسویں کالم میں اُس کا نام کل مذکور ہو گا
بے درخت و سنگ میدانوں میں اُس کی
بے صدا آواز اپنا عکس ڈھونڈے گی
تو کوئی سر کٹا بے نام ہیرو خاک سے اُٹھ کر
دھوئیں کے دائرے سے ایک کالا لفظ پھونکے گا
اُسے پتھر بنا دے گا
اُسے کہہ دو کہ ہم بھی جالیوں والی عمارت کے مکیں ہیں
جس کے سوراخوں پہ
سرجن نے مکینک کی جراحت سے نئی آنکھیں لگائی ہیں
کہ شاید اندرونی حادثوں کو جذب کر لیں اور سارے حرف
اپنے حاشیوں کی قید سے آزاد ہو جائیں
اُسے کہہ دو کہ ہم، ہم بھی نہیں ہیں، شام کے انبوہ سینماؤں سے
جب باہر نکلتے ہیں تو ہم اپنی شباہت
ہر کس و ناکس کے چہرے میں نمایاں دیکھتے ہیں،
رات کے بھاری کواڑوں پر
ہمارے ہاتھ شب بھر دوسروں کی دستکیں دیتے ہیں
جیسے اجنبی گھر ہو
جسے برسوں سے ہم اپنا سمجھتے ہیں
اُسے کہہ کو کہ وہ، بھی نہیں ہے، زرد معیاروں کی دنیا میں
ہزاروں دھوپ چھاؤں کے بنے پیکر
خلا میں اپنی ویثرن ڈھونڈتے رہتے ہیں، بچوں کی طرح
بھیگی ہتھیلی سے
کسی دیوار پر اپنے ہی سائے کو مٹاتے ہیں
مگر کچھ بھی نہیں ہوتا
اُسے کہہ دو کہ ہم سو سرسری کردار ہیں
جو روز کی جنگوں میں مرتے ہیں
مگر کچھ بھی نہیں ہوتا
٭٭٭
نیلی گرد کا زمزم
میں تخیّل کے تشدّد کا شکار
دیکھتا ہوں آسماں سے سایہ سایہ چیتھڑے گرتے ہوئے
سُن رہا ہوں
پھڑ پھڑاتی دھوپ کی پیلی صدا
درد کی بوڑھی چڑیلیں
آنکھ کے صحرا میں اپنی ریتلی آواز میں سب کو پکاریں
آؤ آؤ
میں اکیلا اپنے سناٹے میں، گرد و پیش کے آشوب میں کھویا ہوا
چل رہا ہوں
راستے کے سنگریزے آنکھ سے چُنتے ہوئے
تاکہ پتھرائی ہوئی صر صر کی سڑکیں، رفتہ رفتہ میرے پاؤں چاٹ لیں
چل رہا ہوں
جانے کِس جانب مجھے جانا ہے، کیوں جانا ہے
شاید فاصلوں کی انتہا اُفتادگی ہے
اور شاید
منزلیں اُس واہمے کی موت کا منظر ہیں
جو تازہ لہو کے آئینے کا عکس ہیں
جو تازہ لہو کے آئینے کا عکس ہے
اور کیا معلوم۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی واہمہ ہے
کاش کوئی لفظ اپنی بند مٹھی کھول دے
اور کاغذ پہ بجھی سطروں کا جال
مجھ پہ چاروں سمت سے آ کر گرے
کیا خبر آزاد ہو جاؤں لق و دق ریت کے کہرام سے
چیختی چیلیں زمیں سے سایہ سایہ چیتھڑوں کو لے اُڑیں
اور میں مٹی کی ننگی گود میں لیٹے ہوئے
آسماں کو اپنے اوپر ا اوڑھ لوں
٭٭٭
نیا عہد نامہ
ابھی کٹہروں میں پا بہ زنجیر لائے جائیں گے
خواب میں چلنے والے مجرم
زمیں کی شہوت سے چُور جسموں کی جالیوں سے
ہمیں ہمارا شعور جھانکے گا
اور ہم خرد بیں کے نیچے
مسام اندر مسام اپنی منافقت کے کنوئیں میں
اوروں کا عکس ڈھونڈیں گے
اور اونچے چبوترے سے
مکعب فقروں کا بُت ہمیں گھورتا رہے گا
گلی کے درویش کی صدا آج بھی یہی ہے
لہو۔ ۔ ۔ ۔
طہارت کا گرم چشمہ اُبل کے اب سرد ہو چکا ہے
ہماری میراث خودکشی ہے
اُدھیڑ عمروں کے جوہڑوں پر مفاہمت کی سیاہ کائی جمی ہوئی ہے
زباں پہ میلی کراہتیں ذائقہ بنی ہیں
فلاک ٹیٹس کا فحش گھاؤ سفید کیڑے اُگل رہا ہے
ہمارا مقسوم۔ ۔ ۔ ۔ وقت کی پیچ دار سڑکیں
دمہ زدہ موٹروں میں ہم رینگتے رہیں گے
لہو کی تہمت سے سُرخ لوہے کی نوک سے
دشمنی کا اعلان لکھ رہے ہیں
ابھی ابھی باپ اور بیٹے میں جنگ ہو گی
زباں زباں پر
اُبلتے فقروں کے جوش سے آبلے اُگیں گے
مکاں کا مالک گرجتی آواز میں کہے گا کہ اب چلے ہو تو پھر نہ آنا مکاں سے باہر برہنگی ہے
پرانے سائے کو اپنے جسموں سے کاٹ کر بے اماں پھرو گے
تمہاری خواہش کی پیاس سورج کی سنگ باری سے اور بھڑکے گی
اور بھڑکے گی۔ ۔ ۔ ۔ اور تم بے اماں پھرو گے
تمہارے آگے ڈراؤ نے خواب زار میں جاگتے دنوں کے کریہہ منظر
ڈراؤ نے خواب زار جن میں
جلے ہوئے ٹنڈ منڈ پیڑوں سے دائرے، مستطیلیں، مخروط اور ہندسے لٹک رہے ہیں
زمیں کی بد فعلیوں کے پروردہ شہر زادو!
تمہارے جُز دان میں عقیدے کا ایک پار وہ نہیں ہے
تم اس طرح ہو جیسے
ہوا میں ٹوٹی ہوئی پتنگیں
گرجتی آواز سُن کے بیٹا
خود اپنے اندر سمٹ کے موہوم ہو گیا ہے
وہ سوچتا ہے
بزرگ رستم پُرانے منشور کے تعصّب کا تیز خنجر
مِرے لہو میں ڈبو کے مجھ سے کہے گا
لکھوں
نئے زمانے کا عہد نامہ
نئے مکاں کی حدود بندی قبول کر لوں
٭٭٭
نیا مسیحا
سنگ زادوں نے کہا
کوئی تمثال کے جادو سے ہمیں زندہ کرے
کوئی آواز
تحرّک کے نئے قاعدے ایجاد کرے
رنگ کی ذات ہے کیا؟
روشنی اور اندھیرا کیا ہے ؟
بے گرہ ہو کے سوال
منکشف ہم پہ ہمیں کر جائیں
کوئی آواز ہمیں
آن کی آن میں ظاہر کر دے
نیم بینائیاں انوار کے چشمے میں دھُلیں
اور ہم دیکھ سکیں دور نما رازوں کو
سنگ زادوں نے کہا
کوئی وہ ضرب لگائے جس سے لفظ دو نیم ہو، چنگاریاں ہر سُو برسیں
اور معنی کی تپش سے یہ زمستاں کی زمیں
دھوپ کے غسل میں عریاں ہو جائے اور ترسے ہوئے ہونٹ
لو بہ لب حسن کے منظر پی لیں
پھر وہ آیا تو صدائیں گونجیں
آؤ ہم بکھری ہوئی آنکھوں کی
کِرچیاں چُن کے نئے خواب کا منظر لکھیں
انگلیاں زخم کی تاثیر سے گرمائی ہوئی
عہد نامے کے نئے صفحے پر
آنے والے کی گواہی کو مکرّر لکھیں
٭٭٭
ایک مکالمہ
آ چلیں۔ ۔ ۔ ۔ سامنے بائیں جانب کو مُڑتے ہوئے راستے پہ چلیں
کیوں، وہاں اُس طرف کیوں چلیں، اِس طرف کیوں نہ جائیں۔ ۔ ۔ ۔ مگر سوچتا ہوں کہ یہ اور وہ ایک ہی راہ کے دو زمانے ہیں، دو حالتیں ہیں، صدی دو صدی کے شور اور رفتار کے مظہروں کے سوا اور کچھ بھی نہیں، اور کچھ بھی نہیں۔ ۔ کیوں چلیں، اُس طرف موسموں کی ہوا۔ ۔ چھوڑ ہم اُڑتے پرندوں کے انبوہ سے کس لئے جا ملیں اور پھر زید کے تنگ جوتے مجھے کاٹتے ہیں۔ گو اُسے یا مجھے زرد آنکھوں کی تکلیف ہے۔ آ یہیں۔ ۔ ۔ ۔ آ یہیں بیٹھ جائیں، یہیں گھاس پر۔ ۔ ۔ ۔ جانتے ہو یہ پاؤں میں روندی ہوئی گھسا بنجر زمیں اور زرخیز ماں اور قدموں کی گرمی کی اولاد ہے۔
آ چلیں۔ ۔ یہ دھوئیں اور مٹی کی باتیں ہیں، باتوں کے زینے پہ چڑھتے ہوئے تیرا دم ٹوٹ جائے گا۔ ۔ آ اب چلیں۔
کس طرف! کس طرف!۔ ۔ ۔ ۔ میرے آقا! مجھے دائرے کے مسلسل سفر سے رہائی دِلا۔ انگلیاں، انگلیوں پر لپیٹے ہوئے میں کہاں تک گرہ بنیوں سے نکلنے کی خواہش کروں اور لفظوں کی بارش میں بھیگے ہوئے، آنے والے خطوں کے مضامین بے معتبر نامہ برکی زباں سے سنوں۔ ۔ ۔ ۔ اور رنگوں کی آلائشیں۔ ۔ ۔ ۔ سب منافق ہیں۔ ہر با سچّی بھی ہے اور جھوٹی بھی ہے۔
ڈیش اِٹ
اوہ۔ مت نوچ آنکھیں کہ یہ روشنی کی امانت ہیں، جن کے گنوانے کی پاداش میں گونج کی راہداری میں چلنا پڑے گا تجھے عُمر بھر۔ ۔ ۔ ۔ تُو کہ تُو زید کا دوسرا نام ہے۔ نصف چہرہ، تیرے دوسرے نصف چہرے کا بہروپ ہے۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ! صدیوں کی پگڈنڈیاں، کار گاہوں سے بے رزق خلقت نکلتی ہوئی، ای ہی سمت سے لوٹ کر ایک ہی سمت کو روز جاتی ہوئی، دُکھ کے دیروز و فردا کے ڈائل پہ چلتے ہوئے۔
یہ خدائی کو زیر و زبر کرنے والے مسائل نہیں۔ ۔ ۔ ۔
ڈیش اٹ۔ ڈیش اٹ
اور ڈائل پہ چلتی ہوئی سوئیاں اور سورج مسافر، مسافر تِری سانس میں اور تُو۔ ۔ ۔ ۔ منزلیں، منزلوں سے پر،ے تیرا ساحل سمندر سے پہلے بھی ہے اور آگے بھی ہے، ایک ہی راستے اور رشتے میں ہر شے پروئی ہوئی تجھ سے منکر نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اپنا اقرار کر۔
اجنبی تو بہت نارمل ہے، بزرگوں کے اقوال کو سچ سمجھتا ہے لیکن یہاں دیکھنے اور کم دیکھنے کی سزا ایک ہے۔ میرا ہونا، نہ ہونے کی تائید ہے۔ دوریاں بے سفر دوریاں اور تو فاصلے کی مسافت گراف اور گرامر کی گردان سے ناپتا ہے۔ مگر میں نہیں، میں نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ذلتیں منتشا، اے سلیبا، خود آگاہیاں منتشا۔ ۔ ۔ ۔ دہشتیں دشت دم دم گراں۔ ۔ ۔ ۔ پھوڑ دے، ہاں اسے پھوڑ دے۔
٭٭٭
لا مرکز آوازیں
ایک آواز۔ پوربوں میں دھُول دھُول سورجوں کے گردباد بُجھ گئے۔
شام بے لباس ہے
اور اُس کی کوہ کوہ چھاتیوں پہ آسماں جھُکا ہوا
گھونٹ گھونٹ پی رہا ہے کپکپاتی آنکھ سے
بے نمود روشنی کی لذتیں
آ کہ یہ عبادتوں کا وقت ہے
اے عظیم باپ تُو
ہمیں ہمارے بنجروں کے سہم سے نجات دے
یہیں کہیں
ہزار بجلیاں ہوا کی مٹیوں میں بند ہیں
کھڑے ہیں اپنے آپ سے جُدا، ہم اپنے سامنے نہ جانے عکس۔
آئینے کی پیاس کب مٹائے گا
اے عظیم باپ تُو
ہمیں بُجھا۔ ۔ ۔ ۔ کہ پوربوں کی آندھیاں
ہماری زرد راکھ کے لباس کو اُتار دیں
دوسری آواز۔ ۔ ۔ ۔ قدیم جسم دلدلوں کی شام میں
غروب ہو چکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ دیکھتے نہیں ؟
لہو کی روشنائی سے زمین کی جبین پر
لکھی ہوئی شہادتیں
اے عظیم موت! تو گواہ رہ
وہ کہ جن کی گردنوں سے خوف کی رسولیاں
لٹک رہی تھیں
بے نشان ہو چکے !
دھوپ اور سارس
لہو کی شاخوں سے اُس کے اعضاء لٹک رہے تھے
زمیں کے اوپر
پرانا سارس جھُکا ہوا روشنی کے
کیڑوں کو کھا رہا تھا
ہم اپنے چہروں پہ شام کی راکھ مَل چکے تھے
وہ اپنی آنکھوں کے تہ خانے میں زینہ زینہ اُتر رہا تھا
ہرے گلاسوں سے تیز خوشبو کی جھاگ کے بلبلے اُڑا کر ہوا کی دلہن
ہمارے کپڑوں کو چھُو کے گزری
تو یوں لگا۔ ۔ ۔ ۔ یوں لگا کہ جیسے
دیا سلائی کی شر شراتی ہوئی زباں نے
اچانک انگلی کو ڈس لیا ہو
تو اُس نے سوچا
ہری ہری شادیوں کے موسم میں
اس کے چہرے پہ بد شگونی کی میل کیوں ہے
گلی کے لڑکوں کی تیز و تازہ، مہکتی آواز کے غبارے
فضا کو رنگیں بنا رہے ہیں
جوان بوتل کے سرخ ہونٹوں سے
قہقہوں کا سنہرا پانی اُبل رہا ہے
مگر وہ خوشیوں سے بے تعلق
کسی اندھیرے محاذ پر جنگ لڑ رہا ہے
عجیب نمکین ذائقہ ہے
پرانے دشمن کے خون کا۔ ۔ ۔ ۔ دانت
اُس کے اپنے ہی بازوؤں میں
گڑے ہوئے ہیں
٭٭٭
سو ضرب صفر
اُس کی پگھلی ہوئی چھاتیاں
رات کے وقت ٹھہری ہوئی ریت میں بہہ گئیں
گرد میں
ناف تک جسم ڈوبا ہوا
اور آنکھوں میں کڑواہٹیں ڈبڈبائی ہوئیں
آئینے کے مقابل کھڑے
فاحشہ
فالتو جسم کو کاٹتے کاٹتے بے نشاں ہو گئی
آئینے کے مقابل کھڑے
زید اُٹھے ہوئے بازوؤں کی کمانوں سے
چھوڑا گیا
اور اُڑتے ہوئے
نیستی کے خرابے میں گُم ہو گیا
ایک مہمل زیاں ناپنے کے لئے
دن کے سوراخ سے ریت رستی رہی
کُل جہانوں کا عہد
زمیں کی ناف پھٹتی ہے
تو گہرے زلزلے چنگھاڑتے ہیں اور پھر
مرگی زدہ مینار
چُڑ مُڑ کاغذوں یا فروری کے خشک پتوں
کی طرح پاگل ہوا کی انگلیوں پر ناچتے ہیں
اور وہ دانتوں سے
بوڑھے بازوؤں کی رسیوں کو کاٹ دیتی ہے
پرانے آسماں کا زرد خیمہ
ٹوٹتا ہے
جھُریوں کی چھال گرتی ہے درختوں سے
اُدھر دیکھو
گرجتے پربتوں کے غول پے در پے
بلند آواز کے پرچم اُڑاتے آ رہے ہیں
بجلیوں نے سخت سناٹے کو
اپنے ناخنوں سے چیر ڈالا ہے
اُدھر دیکھو
تن آور فیصلے کی یورشوں میں ڈوبتی جاتی ہیں
بنجر گھاٹیاں کل کے اندھیرے کی
ابھی چہرے سے مصنوعی سفیدی کا پلستر
زور سے چٹخے گا
ہم آنکھوں سے گونگے ضبط کے گاڑے ہوئے
نیزے سے نکالیں گے
ابھی سبزہ خلاؤں میں اُگے گا
نوجواں لڑکوں کے میلے میں ہرے موسم
ہمارے کُند جسموں سے اُتاریں گے
کئی برسوں کی نسواری تہیں
ہم وہ نہیں ہوں گے جو "ہیں ” یا "تھے ”
مگر ننگے بدن پر وسوسوں کی، خوف کی
چمگادڑیں چمٹی ہوئی ہیں
اور خوش فہمی کا میٹھا ذائقہ
سب کی زبانوں سے ٹپکتا ہے
کئی سرگوشیاں
تاریک مفروضوں کے جالے بُن رہی ہیں
اس نئے معبد میں
قوت کا خُدا ہم سے کہے گا
میں نئے انبوہ کا آئین ہوں
اقرار جس کا
سب پہ لازم ہے
نہیں ایسا نہیں ہو گا
ہم اپنی خودکشی سے پیشتر اقرار کرتے ہیں
نہیں ایسا نہیں ہو گا
٭٭٭
پردہ گرتا ہے
لے تجھے
پھینکتا ہوں فرش پر
ٹوٹ، ٹوٹ، ٹوٹ جا
میں چلا ہوں دُور اس مکاں سے دُور
بوٹ سے مسل کے اپنے نام کو
اے جہالتوں کی رات!
آ جھپٹ کے نوچ لے
اِن تنے ہوئے سروں کی آبرو
اے غرور کے خُدا
بے شعور کر مجھے
ریت، ریت، ریت ہر طرف اُڑا
بے محیط آندھیوں کی نفرتیں
ناچتی رہیں دھڑوں کے ڈھیر پر
سمفنی
میرے سات نوجوان بھائیوں کی موت پر
چیخ وار قہقہے، چیخ اور قہقہہ
دیک! اُس غروب کی زمیں کو دیکھ
جس پہ گر کے مر گئی
کُل جہاں کی روشنی
٭٭٭
انا سے ماورا تک
آخری، اعلیٰ ترین
فعل۔ ۔ ۔ ۔ جس سے پھوٹ کر بہنے لگے
سب سلاخیں ٹوٹنے کی
اور زنجیروں کے گرنے کی صدا
فعل۔ ۔ ۔ ۔ جس کے بعد خود کو جاننے کا اژدھا
ہر کسی کو کاٹ لے
پاؤں میں روندی ہوئی پیلی، پرانی گھاس سے
اُڑنے گلیں
سبز، گہرے سبز موسم کی گلابی خوشبوئیں
فعل۔ ۔ ۔ ۔ جس کے زور سے
کُل زمانے ایک ساعت میں سمٹ آئیں
نئے دن کی گواہی کے لئے
یہ سُلگنے کا عمل
کب تک۔ ۔ ۔ ۔ یہ اپنا قہر اپنے آپ پر
کرگسوں کے نوچنے کا
اور کالے پانیوں کا جبر
خود پر رحم کھانے کی سزا
بند ہیں سائے کے پنجرے میں پرندے
اور باہر سخت کا سورج
پہاڑوں پر کھڑا
ہر کسی سے کہ رہا ہے آؤ۔ آؤ
فیصلے کی جست سے
تحت الثریٰ کو آسمانوں سے ملاؤ
آؤ۔ آؤ
٭٭٭
سن شائن
گرا دو
ساری دیواریں گرا دو میرے سر پر
اور پھر سوچو
کہ کیا کوہوں کی جبریت کسی دریا کا رستا
روک سکتی ہے
تمہیں کیوں وہم ہے
کہ کاغذوں کے پھول خوشبوئیں اڑاتے ہیں
تمہارے قمقموں کے سرد پس منظر میں
ظلمت کے سمندر ہیں
ہوا میں تتلیوں کے پر اُڑانے سے
نیا موسم نہیں آتا
زمیں پر ہر طرف چیلوں کے سائے
سنگ باری کر رہے ہیں
کوہ پیکر جبر کے ہاتھوں میں پرچم ہے اُجالے کا
اُجالا جو نہیں ہے
اور جو اپنی نفی پر قہر بن کر ٹوٹنے والا ہے
جس کا عکس
کالے درد میں جھلسی ہوئی آنکھوں کی کرنیں ہیں
جنہیں کل فیکٹری کے گیٹ پر
تم نے انڈیلا ہے
٭٭٭
زخم بینا
میں اپنے آپ کو تسلیم کر لوں
اور میرے خون میں جو ضعف کی، انکار کی گرہیں پڑی ہیں
کھول دو اُن کو
پرانے جسم کے جنگلے کو توڑوں
اور دو رویہ فصیلوں کی گلی کی قید سے آزاد ہو کر
اپنے دائیں اور بائیں پھیل جاؤں
ساحلوں کو روندتا دریا نئی سمتوں کے معنی ڈھونڈ لے
دریافتیں ہونے کی، نہ ہونے کی ہو جائیں
بغاوت میرا مذہب کیوں نہیں
یہ روح سیسے کی طرح بھاری۔ ۔ ۔ ۔ اُٹھانے کی سزا
میرے لئے کیوں ہے
خداوند! یہ کیسی بستیاں ہیں جن کا
مستقبل کھلا ہے
اور جن میں رہنے والے آج کی گاڑھی ہوس میں
ناف تک ڈوبے ہوئے ہیں
جنک چہرے یوں بدلتے ہیں
کہ جیسے روز کے اخبار کی شہ سرخیاں ہوں
اشتہاروں کی فحاشی جن کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے
جنہیں ڈھلتی ہوئی عمروں کے ڈھیلے پن کا مہلک عارضہ ہے
جن کے دھڑ سے
چوب کے بازو کسی مردار خواہش کی طرح لٹکے ہوئے ہیں
اور ساری جمع و تفریق کے ہندسوں کی آبادی
مرے اندر، مرے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے
اے خدا! اے مُردہ و زندہ زمانوں کے خدا
اِن بستوں کی دوزخیں کب سرد ہوں گی
اور یہ انبوہ کب میری گواہی دے گا
اپنے آپ کو تسلیم کر لے گا
٭٭٭
عہد
عظیم خواہش! گواہ رہنا
کہ ہم نے کل فیصلے کی تکبیر پڑھ کے اپنا لہو
بہایا تھا راستوں پر
جہاں پہ ہریالیوں کا پرچم
مہ و ستارا کی اوج پر لہلہا رہا ہے
گواہ رہنا کہ
کل کی ظلمت کو ہم نے تسخیر کر لیا ہے
تمام اہرام اپنے سائے پہ آگرے ہیں
ہماری جانب سحر نے پھینکی ہیں مٹھیاں بھر کے روشنی کی
بلندیوں سے برستی کرنوں نے کر دیا ہے
زمیں کا سارا بدن سنہرا
جوان لڑکوں نے سر پہ باندھے ہوئے ہیں سہرے
گلی گلی بے حساب چاہت کی خوشبوؤں سے بھری ہوئی ہے
عظیم خواہش گواہ رہنا
کہ ہم نے تکمیل کے سفر پر
روانہ ہونے سے پیشتر عہد کر لیا ہے
کہ ہم کسی مصلحت کے آگے نہیں جھُکیں گے
ہم اپنے منہ پر مفاہیم کی سیاہ کیچڑ نہیں ملیں گے
گواہ رہنا کہ عزم اپنا
ہمالیہ سے بلند تر ہے
ہماری آنکھوں میں ساری مشرق کی دھوپ سمٹی ہوئی ہے
پیشانیوں پہ خاکِ وطن کا سونا چمک رہا ہے
ہمارے جذبوں کا رہ نما ہے
لہو سے لکھا ہوا نوشتہ محبتوں کا
٭٭٭
دھند میں اٹھتا ہاتھ
الف۔ سبز نیلے پروں کو اٹھائے ہوئے
یہ دیودار صدیوں سے اُڑنے کو تیار ہیں
اور اُڑتے نہیں
بید مجنوں سے شاخوں کی لڑیاں لٹکتی ہوئیں۔ ۔ ۔ ۔ جیسے گر جائیں گی اور گرتی نہیں
اور زرخیز مٹی سے اُگتا نہیں موسموں کا ثمر
میں مسافر۔ ۔ ۔ ۔ سفر کی اُترتی ہوئی قوس پر ہوں رواں
شام کی گرد میں خود سے روپوش ہوتا ہوا
سامنے۔ ۔ ۔ ۔ انت سے لے کے بے انت تک
راستے، راستوں سے نکلتے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ رُک کے رُکتے نہیں
خواب، منظر، حقائق۔ ۔ ۔ ۔ سبھی کے سبھی
ہیں خلا میں معلّق۔ ۔ ۔ ۔ جمود و تحرک
"تہیں ” اور "ہے ” کا تماشا بنے
ب۔ تجھسے منکر ہے اندر کو کھلتی ہوئی آنکھ جو
دیکھتی ہے مگر دیکھتی بھی نہیں
تو نہیں جانتا ہے کہ امکان کی سرحدیں
روز کی گردشوں سے پرے
تیرے قدموں کو چھونے کو تیار ہیں
تو تخال کے خود زاد سایوں میں ڈوبا ہوا
اپنا قامت کی تحلیل تک
جانتا ہے مگر جانتا بھی نہیں کس طرح
تیسرے پہر سورج کے پُرزے اُڑیں
اور ہر شے کے پاؤں سے سائے اُگیں
موج در موج لشکر بڑھیں
جن کی ٹاپیں اندھیر اُڑاتے ہوئے
اپنے اندر ڈبو دیں ہمیں
بے کراں وسعتیں اور بے تہ اندھیرے کی گہرائیاں
اس سمندر میں ڈوبیں تو ابھریں نہیں
اور چاہیں تو ہم
جرأتوں کے دل افروز لمحے کی آواز پر
اپنے جسموں کے انبار سے پاٹ کر
روشنی کا ہمالہ بنا دیں اِسے
٭٭٭
سمے اور مَیں
خود کو کس آگ میں پھینکوں کہ چٹخ جائیں تہیں عمروں کی
اور تاریخ مجھے پھر سے جنے
وقت! اے مہلتیں دینے والے
تیری اک آن کی یورش میں بہیں دُنیائیں
دیکھ! کندھے پہ اٹھائے ہوئے خواہش کی صلیب
تیرے رستے میں کھڑا ہوں
آ کر
روند دے مجھ کو زمانوں کی گزر گاہوں میں
پھر مجھے میٹھوں میں بھ کے ہواؤں میں بکھیر
وقت آ!
اصل کی شکل دکھا
تاکہ کوہوں کے عقب سے ابھرے
آسماں معنی کا
اور اٹھوں میں شاعوں کے شجر کی مانند
اپنے خاکستر سے
روشنی اور ہوس جینے کی
مجھ سے باہر مجھے خوشبو کی طرح پھیلا دے
٭٭٭
ہم
اے زمیں ! گھاس تیری ہری نظم ہے
تو جسے ہر جگہ، ہر اُفق پر، سمندر کی گہرائیوں میں
سدا گنگناتی رہی
جو کبھی کوہساروں کے پرچم کا کتبہ بنی
تو زمستاں کے عفریت نے تیز داتنوں سے کترا اُسے
اور پھر کف اُڑا کے ہوا میں بکھیرا اُسے
راستوں میں اُگی
تو وہاں تہ بہ تہ گرد نے اُس کے نقشوں کو مدھم کیا
سبز معصومیوں کو سدا
منجنیق اور نیپام کی نفرتیں بد بوؤں سے شرابور کرتی رہیں
بارہا راکھ بکھری
زمیں پر کئی پیل پیکر زمانوں کے شانے لگے
پر ہمیشہ ہوا یوں
کہ ماں سبز اولاد جنتی رہی
نظم بنتی رہی
٭٭٭
دن دریا
اے جنگجوؤ!
ان شاموں پر یلغار کرو
آتی ہیں جو آگے پیچھے
کتبے لے کر، دھندلائے ہوئے پیغاموں کے
آؤ، آؤ
اگلے دن کو مسمار کرو
یہ کیا کہ کل بھی جینا ہے ان شرطوں پر
جو مجھ پر عائد ہیں جن کو
لکھا ہے نابیناؤں نے
آنکھیں آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ سب جمع کرو
بھر دو بھر دو ان روشنیوں میں لشکارے
پہنچائے مری سرگوشی کو شعلے کی زباں
ان بوندوں تک
جو قید ہیں ٹھہرے پانی میں
پھر لہروں کے، انبوہوں کے بازو اُٹھیں
ننگے پیروں کی طغیانی
ہموار کرے سب اونچی نیچی جگہوں کو
یہ باہوں کے سوکھے حلقے
پیارے بدنوں سے بھر جائیں
ہر قطرہ دریا بن جائے
٭٭٭
زید آ
رات کے کھیت سے پھوٹتی رُت کی خوشبو اُڑی
جسم میں آہٹیں سی ہوئیں
نوجواں فصل کو کاٹنے کے لئے
دستِ آئندہ آگے بڑھا
خون میں ڈوب کر گولیاں گنگنانے لگیں
روشنی سے سلگتے ہوئے چوک میں جرأتیں
سر لٹانے لگیں
زید آہم بھی شامل ہوں بیساکھ کے جشن میں
اور اس جہل کی اوٹ میں چھُپ کے بیٹھے ہوئے
کیسے بچ پائیں گے
سچ کی دوپہر
یلغار کرتی ہوئی ڈھونڈ لے گی ہمیں
ہم کہ آنکھوں کو اپنے ہی سائے سے ڈھانپے ہوئے
اور اپنے ہی پیچھے کھڑے
خود کو خود سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں
٭٭٭
رِچُوئل
زانیہ ہے کھڑی
اُس کے گدلے، اُبلتے ہوئے جسم میں
کتنے برسوں سے غرّا رہی ہے ہوس لذتِ سنگ کی
بِلّیاں بین کرتی ہیں دیوار پر، سو رہو
اپنی نافعلیوں کی گھنی یاس میں
وہ کھڑی ہے کہ آئے کہیں سے اُسے روندنے کے لئے
جاگنے کی صدا
سوچتی ہے کہ کب، جانے کب فروری ختم ہو
خشک پتے کو
بنجر بگولے کے ہسٹیریا سے رہائی ملے
جسم کے در پہ دستک ہو اُٹھے ہوئے ہاتھ کی
وائلن کے سلگتے ہوئے تار بجنے لگیں
وہ نہیں جانتی
کون آئے گا کب
مرد ذات اُس کی تحویل میں
کون آئے گا کب
شب کی دے وار کو پھاند کر
اور پھر دن چڑھے اُس پہ فتووں کے پتھر گرانے کی تقریب میں
جشن ہو گا پرانی رسومات کا
٭٭٭
مٹی کا زنگ
کیسے پیلے رنگ اُمنڈ کر آئے چاروں جانب سے
پتوں کی بارش میں ہم تو بھیگ گئے
کس بستی میں دھوپ کا نعمہ سُننے جائیں
سارے رستے سوچوں کے
جاتے ہیں بے انت نشیبوں کی جانب
قدموں کے آگے ابہام کی دلدل ہے
دل کی دہشت نگری کے سنّاٹے میں
کالے فوجی بوٹوں کی آواز سنائی دیتی ہے
بگل بجاؤ
رات کی اس ڈھلوان سے اُتریں
پسپا ہونے والی فوجیں
آج کا آرم رات گزرنے سے پہلے مر جائے گا
(کل بھی ہم نے حرف بہ حرف یہی سوچا تھا)
نہر کی سوکھی، سکڑی رگ یں
ہول اُڑتا ہے
چوٹیاں اپنی دودھ سے خالی چھاتیاں کھولے بیٹھی ہیں
وہ اک ہو کے عالم میں
جھانک رہے ہیں آنکھوں کے سوراخوں سے
اور بقا کی خانہ جنگی
ہر زینے پر، ہر کمرے میں جاری ہے
٭٭٭
سفارتیا
آسماں سے کٹ کے آ کر گر پڑی
صحن میں دن کی پتنگ
تیر جو آخیل کا مقدور تھا
اُس کی ایڑی پر لگا
اور شاید نیم عُمری تھی ہلاکت آفریں
ایک پایے کی ضرورت تھی جھکی چھت کے سہارے کے لئے
اُس نے اپنے واسطے دیتانت کا نسخہ لکھا
بہہ گئی ڈھلوان سے ساری تمازت دھوپ کی
بے کراں تھا وہ، اُسے
سوئیوں کی گردشوں میں وقت نے سمٹا دیا
اور اب
جسم کے قلعے میں وہ محصور ہے
ڈھونڈتا رہتا ہے روز و شب ربڑ سی بزدلی کی نرم نرم آسائشیں
یاد ہیں اُس کو پہاڑے نفع و نقصان کے
کر چکا ہے آخری ترمیم وہ رومان کے منشور میں
رینگتا رہتا ہے ساحل کے قریب۔ ۔ ۔ ۔
کیکڑا
٭٭٭
نیم وا دروازہ
کوئی کیوں میرے اندھیروں میں چھُپے
میری میعاد ہی کیا، دہر ہے وُہ، دہر ہے وُہ
میں تو مظہر ہوں زاں خوردہ اصولوں کا
مُجھے چھُپنے دو
میری زنجیر کے حلقے میں مِرے روز و شب
سُو بہ سُو ظاہر و مستور کے ابہام کی منظر گاہیں
صرف سچائیاں کھلتی ہیں مِری آنکھوں پر
کوئی اس سوچ کی گرہیں کھولے
کیا مرا آنا کوئی واقعہ تھا
موج روپوش جو ہو جائے تو کیا ہوتا ہے
ایک تشکیل کی صورت سی سدا مٹتی ہوئی
سات طوفانوں کی اونچائی پر
ایک تخریب کی یورش ہے بپا
روندتی رہتی ہے دریا کے ارادے کو سدا
کون کس سمت اُڑائے لئے جاتا ہے مجھے
زرد سا ہاتھ کسی حرکت کا
سانس کی ڈور سے باندھا ہوا کاغذ ہوں میں
٭٭٭
اونیس۔ ۔ سفر کی قوس پر
خشک دریا کا کشکول
یہ پتنگیں۔ ۔ ۔ ۔ حوالے کے دھاگے سے ٹوٹی ہوئیں
ڈولتے ڈولتے گر رہی ہیں کہاں
وہ کہاں ہیں جو سرسوں کی پھیلی ہوئی دھوپ میں
بھاگتے تھے انہیں لوٹنے کے لئے
اس برہما! تِرے کھیت کے ٹھنٹھہ کیسے اُگیں
پیاس سے ہانپتا ہے کنواں
سیپ اوندھا پڑا ہے تہی ہاتھ پر
کوئی تعویذ کا معجزہ
میرے اکڑے ہوئے جسم کو لوچ دے تو چلوں یا مری آنکھ کے زخم سے
گھنٹیاں سی بجاتا ہوا خوں ٹپکنے لگے
یا نگل لے مجھے
جھاگ کی کپکپی سی اڑاتا ہوا اژدھا
تو کہ ہے آسمانوں، زمینوں پہ پھیلا ہوا
منکشف ہو کہ میں
جی سکوں، مر سکوں
رائیگاں ہوں تو پھر نیستی کی سزا دے مجھے
اوس ہوں تو اڑا دے مجھے
(۲)
روشنی کی ابجد
وقت کی شاخ پر
کوئی اُڑتا ہوا ہنس اُترا ہے کیا؟
ارض کے انگ کو گدگداتی ہوئی کپکپی
دوڑتی پھر رہی ہے مِرے خون میں
اور اپریل کا اولیں آسماں
جھُک کے برسا رہا ہے زمینوں پہ ہریالیاں
یہ ملاپ اور تخلیق کا وقت ہے
سامنے چار سُو
اک الاؤ سی عورت ہے لیٹی ہوئی
خواب، سرخاب سے۔ ۔ ۔ ۔
آب کے عکس نیلی فضاؤں میں اُڑتے ہوئے
کائیوں اور گدلاہٹوں سے اٹی جھیل میں
بَو رہے ہیں کنول
کس کے آنے کا اعلان کرتے ہوئے
کل کا دہقاں مِری راکھ کو مٹھیوں میں سمیٹے ہوئے
بو رہا ہے مجھے
میں کہ نابود ہونے کے ہیجان میں
پھیلتا جا رہا ہوں زمانوں کو باہوں میں گھیرے ہوئے
٭٭٭
ناتمامیوں کا گیت
گِیتا! آؤ، اُترو نا
سپنوں کے زینے پر چڑھتے چڑھتے تم تھک جاؤ گی
آنکھ ہتھیلی پر رکھ کر
ان تاریک زمینوں میں کس بھیدکو پانے نکلی ہو
دیکھی ہے نا، میری شکل توقع کے آئینے میں
میں کیا ہوں !
اک سایہ، اپنے ساوے کا
تم اپنی آواز مِری بے ہیئت ذات میں
ٹپکاؤ گی۔ ۔ ۔ ۔ کیا پاؤ گی
گیت ادھورا، بے ترتیب کناروں کا
باہر سے اسرار بہت تھا کانچ جڑی دیواروں کا
انگلیاں زخمی کر بیٹھی ہو
اور دوا نایاب ہے ایسے زخموں کی
آؤ! بیٹھو پاس مرے
اور مجھے جی بھر کر تم رو لینے دو
کہتے ہیں کہ آخری آنسو
جو آنکھیں بے نور کرے۔ ۔ ۔ ۔ امرت ہوتا ہے
٭٭٭
لمحے کا سمندر
ہوا پیڑوں میں باتیں کر رہی ہے
جھینگروں کے شور میں ہریالیوں کی نغمگی ہے
لفظ معنی کا اشارا ہے
وہاں دیوار کے پیچھے سمندر سو رہا ہے
آسماں ڈوبا ہوا ہے جس کی نیندوں میں
صدف کو لوریاں دیتی ہوئی لہریں
کوئل سے گیت کی خوشبو اُڑتی ہیں
یہ مِلنے کی گھڑی ہے، تم ذرا آنکھیں اٹھاؤ نا!
بھری ہیں بادلوں کی جھولیاں
چاندی کے خوشوں سے
فضاؤں میں نمی کی روشنی سی ٹمٹماتی ہے
کسی قربت کی خواہش روح کے اندر
تڑپی، کلبلاتی ہے
یہ لمحہ وصل کا ہے
جسم پر محرومیوں نے کینچلی ماری ہوئی ہے
پیاس کے ٹھہرے اندھیرے میں
ذرا اپنا ہتھیلی پر دیا رکھ کر جلاؤ نا!
کسی بے انت خواہش کے بہاؤ میں
دہکتی دوزخوں کو ایک لمحے کی خوشی سے
سرد کر ڈالو
جو ایسا ہو سکے تو کر دکھاؤ نا!
٭٭٭
دیوارِ چین
کہاں سے پھیلا ہوا ہے یہ سلسلہ کہاں تک
گزر گیا سیل ہمتوں کا
بنا کے یہ کوس کوس صدیوں کی رہگزر سی
پہاڑ چلّہ چڑھی کمانوں سے تیر پھینکیں
تو آسماں گر پڑے زمیں پر
رواں دواں وقت کے بہاؤ میں
ایک لمبی دراڑ جیسے پڑی ہوئی ہے
عظیم دیوار سر اٹھائے کھڑی ہوئیے
جھُکے ہوئے آسماں کے نیچے
جو اس صحیفے کو عکس در عکس بانٹتا ہے
یہ رزمیہ۔ ۔ ۔ ۔ جو لہو کی شفاف روشنی سے
لکھا گیا ہے
زمیں پہ چنگاریاں اُڑاتے ہوئے وہ آئے
جو بازوؤں سے بلندیوں کا خراج
لیتے رہے
شکم کو اناج دے کر
مشقتّیں جن کی باندیاں تھیں
لہو کے نمکین ذائقے
رقص کرتے رہتے تھے
جن کے ہونٹوں کے آستاں پر
یہیں پہ جسموں کے پیڑ گرتے تھے راکھ بن کر
کڑکتی آواز۔ ۔ ۔ ۔ جبر کی چابکوں کی بجلی
انہی پہاڑوں پہ کوندتی تھی
یہیں پہ محنت کے نقش گرنے
لہو کے پانی میں سنگ گوندھے
صدائے تیشہ اٹھی تو کوہوں سے پھوٹ نکلیں
بقا کی نہریں
زمیں کو اُس کی بلندیوں کی طرف اٹھایا
اُفق کو باندھا اُفق سے اُس نے
قدیم قوّت کی رخش نے دس ہزار ’لی‘ کی مسافتوں میں فنا کے تاتاریوں کے لشکر کو مات دے دی
یہیں پہ محنت کے نقش گرنے
سلوں کو پہنا دئیے سلاسِل
بٹے ہوئے خود گرفت قلعوں کی باڑ توڑی
اُسی نے کوہوں کے سر پہ گاڑا
ہزیمتوں، نصرتوں کا پرچم
کشود کر کے جسے اُڑایا
کئی زمانوں کے وارثوں نے
جو اُڑ رہا ہے
نشیب کو آسماں کی جانب اُڑا رہا ہے
جو کل کو کل سے ملا رہا ہے
٭٭٭
تاچائے
احمق بوڑھے کے بیٹوں نے
دھوپ کے رستے میں حائل پربت کے پاؤں
کاٹ دئیے
تختہ اُلٹا آمر کا
میناروں سے قد آور دہقانوں نے
آنکھوں کے، صبحوں کے پرچم کھولے ہیں
وقت اُڑاتا پھرتا ہے
محنت کی خوشبوئیں دن کے معبد میں
کاہن ہے۔ ۔ ۔ ۔ چھ یونگ ؎۱ کوے جس معبد کا
ہر چوٹی پر، ہر گھاٹی میں
سنکھ کدالوں کے بجتے ہیں
اور عقیدت قطرہ قطرہ
گرم ارادے کے ماتھے سے گرتی ہے
دیکھو نا ! بینائی کے اس روزن سے
احمق بوڑھے کے بیٹوں نے
کیا تصویر بنائی ہے
نظم لکھی ہے ہریالی کے رنگوں سے
جو ہم عصر ہے فردا کی
٭٭٭
کوئی لگن
دیو مالائی زمیں
یہ صدائے غیب کا معبد جہاں فطرت کے آزر نے
چٹانوں سے تراشی ہیں مقدس دیویوں کی مورتیں
دارچینی کے درختوں کے معطّر جھنڈ اُن کے پنکھ ہوں
جیسے ابھی اُڑ جائیں گی
سو بہ سو آباد ہیں غاروں میں جادو کے نگر
پھروں کے گلستاں میں
وقت کا طاؤس جیسے چھوڑ جائے ان گنت انداز
اپنے رقص کے
چوٹیوں سے جھانکتی آنکھوں جلوہ زار میں
بہہ رہا ہے لی چیانگ
جس طرح کھُلتی چلی جائے چٹائی دھوپ کی
رینگتی جاتی ہوں جیسے چمپئی بیلیں نشیبوں کی طرف
کاسیا کے پھول
چاروں موسموں کے یاتری
اس وسیع مندر میں آ آ کر جلاتے ہیں
عقیدت کے دئیے
گونجتی ہے صبح کے گنبد میں کرنوں کی اذاں
تو انہیں کرتا ہے بپتسمہ سنہری دھوپ کے چھینٹوں سے
دن کا دیوتا
لہلہاتی ہیں ہرے زینہ نما کھیتوں میں
دہقاں لڑکیوں کی ٹولیاں
سازِ محنت سے شعاعیں پھوٹتی ہیں
پھڑ پھڑاتے پرچموں کی تھاپ پر
اور صدیوں کے سفر میں روح سے
بچھڑے ہوئے سُر کی صدا
تھرتھراتی ہے ازل کے گیت میں
٭٭٭
لیو سان چے
جب کھِلتا ہے اگست کا پورا چاند یہاں
اس چوٹی سے آواز کا جھرنا گرتا ہے
ہر سینے پر دست دیتے اک جھونکا گیت کی خوشبو کا
ساری بستی میں پھرتا ہے
اس دریا پر
جس نے وادی کی دوشیزہ کو
لے رکھا ہے باہوں میں
بجتا ہے ساز صنوبر کا
گرتے ہیں پھول اناروں کے
گیتوں کی آگ کی پنکھڑیاں
اُس پار کھڑا تنہا سارس
اُس گیت کے موتی چُنتا ہے
جس کی خاطر
وہ جان کی قیمت دے بیٹھی
سفاک خزاں کے ہاتھوں نے
گو برگ زباں کا نوچ لیا
تم دکھو تو
کتنی آوازوں کی کلیاں
اظہار کی کتنی مہکاریں
کھل اُٹھی ہیں
کہساروں پر، دریاؤں میں
ہر بستی میں، ہر گاؤں میں
٭٭٭
منجمد ندی کی زنجیر
آہنی نظرئیے کی کمیں گاہ سے چھپ کے حملہ کرو
اور معصومیت کی سزا دو مجھے
اپنے دانتوں سے کھودو مرے جسم میں خون کی تہہ تک
بربریت کا گہر کنواں
ہاں مگر آنکھ کے طاق میں نظم کا دیپ رکھے ہوئے
آؤں گا میں درِ آسماں کے بڑے چوک سے اگلی رت میں شہیدوں کے تہوار پر
عہد کے سرخ پھولوں پہ اُڑتی ہوئی تتلیاں
اپنے رنگوں کے چھینٹے اُڑاتے ہوئے
شعر کے لفظ بن جائیں گی
آسماں کی طرح یہ کشادہ زمیں
اپنے سینے میں اُترے ہوئے، کوہ کی میخ کو
کھینچ کر پھینک دے گی پرے
اور پھر نظرئیے کی کمانی سے چلتی ہوئی سانس کا قاعدہ
پانیوں کے ہرے معجزوں کے نمو میں
بدل جائے گا
٭٭٭
مہر نیم شب
صدیوں گہرا سٹانا تھا جب اُس کو
گہنایا گیا
میں بھی خاموشی کی اس کالی سازش میں شامل تھا
میرے ہونٹوں پر بھی چُپ کے پہرے تھے
سناٹا ہی سناٹا تھا
پھر تاریخ کا اگلا ورق اُلٹایا گیا
شور اُٹھا
اس بے ساحل شور کے اندر ساتھ سمندر ڈوب گئے
اور زمین جو بنجر تھی، آناً فاناً سرسبز ہوئی
پھر اُس کی آواز۔ ۔ ۔ ۔ صدائے آوندہ کا
ایک تناور پیڑ اُگا
جس کے سبز بدن سے جھلمل کرتی شاخیں
آوازیں ہی آوازیں
کرنوں کے جھرنے بن بن کر پھوٹ بہیں
٭٭٭
گرتے ستون کا منظر
یہاں سے آگے نشیب ہے اور اُس سے آگے
غروب کی گھاٹیاں ہیں، جن میں
لڑھک کے روپوش ہو گیا ہے
سوار دن کا
ذرا ذرا سے چراغ لے کر ہتھیلیوں پر
چلے ہیں با بالشتیے اندھیرے کے چوبداروں کے پیچھے پیچھے
قدم ملاتے ہوئے صدا پر صدا لگاتے
بتاؤ یہ آنکھ کا خلا ہے کہ وقت کا شہ نشیں ہے خالی
کہاں گیا ہے مکیں مکاں کا
کھُلا ہے دروازہ آسماں کا
یہاں سے آگے
چبوترے سے اترے کے اک عکس روشنی کا
چلا ہے بے انت بھُول کی
گیلری کی جانب
جہاں عجائب سجے ہوئے ہیں
٭٭٭
یا ر بے پروا
مجھے ملنے نہیں آیا
عظیم الشان سناٹے کی اس اقلیم میں
شاید مجھے تنہا، بہت تنہا حسن ابدال تک جانا پڑے گا
ایک متحرک خلا کے ساتھ
اک بے انت دُوری کے سفر پر
کیوں نہیں آیا
ہمیشہ کا وہ سیلانی
ذرا اُس کو صدا دو
وہ یہیں اُس کو صدا دو
اُن خوشبوؤں کی اوٹ میں شاید چھُپا ہو
کیا خبر وہ یارِ بے پرواہ کسی چاہت کے کُنج خواب میں
دبکا ہوا ہو
ہاں صدا دو نا!
مجھے تم اس طرح کیوں تک رہے ہو
میں نہیں روؤں گا
میں بالکل نہیں روؤں گا
کیسے مان لوں وہ میرے آنے پر مجھے ملنے نہ آئے
وہ یہیں ہو گا، یہیں ہو گا
مجھے تم کل اِسی رستے پہ اُس کے ساتھ دیکھو گے
٭٭٭
روز کم شب
مری ماں میری سماعت تھی
ستارے دیکھ کر مجھ کو جگا تی تھی
کہیں ایسا نہ ہو میں فیکٹری سے لیٹ جاؤں
بسا اوقات پچھلے پہر سے پہلے
جگا دیتی تھی
میں بے خواب و بے ساعت
نکل پڑتا تھا
اب تک یاد ہے
اُن مختصر راتوں کے دن بھی کس قدر لمبے ہوا کرتے تھے
لیکن اے خُدا!
تو نے مجھے چھوٹے دنوں کی خاص بخشش سے
سدا محروم رکھا
کیوں ؟
٭٭٭
بند دروازے میں کرن کی درز
ظلمت کا ہر عضو ہے بیج سیاہی کا
کٹ کر پھر اُگ آتا ہے
دھوپ میں اتنی کاٹ نہیں کہ میں اُن کو
اندر سے مسمار کروں
کل وہ چہرہ مسخ تھا اتنا آج جسے
میں تصویر سمجھتا ہوں
کیا میں رات کے جادوگر کے شہر میں ہوں
جامد آنکھ کے روزن سے
دیکھ رہا ہوں جو مجھ کو دکھلاتا ہے
یا میں بے معنی دنیا میں
زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں
شاید میں پہچان کی بھول بھلیوں میں
گم ہوں
لیکن کیا یہ کم ہے
خواب کی مشعل ہاتھ میں لے کر چلتا ہوں
٭٭٭
میں کیا کرتا!
آراکش نے
الف انا کو کاٹ دیا
اپنے سائے پر اوندھا گرنے والا
میں تھا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن کیا کرتا
میرے شہر کی ساری گلیاں
بند بھی تھیں متوازی بھی تھیں
تختیاں ہر ہر دروازے پر
ایک ہی نام کی لٹکتی تھیں
میں کیا کرتا
شہر کے گردا گرد سدھائے فتووں کی دیواریں تھیں
میرے نام پہ میرے آگے حائل تھیں
کوہ شمائل دیواریں
جن سے باہر صرف جنازوں کے جانے کا رستہ تھا
٭٭٭
میرِ نابلس
کہا اُس نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں
لہو میں لہرئیے سے ڈالتی بے لفظ سرگوشی کے لہجے میں
گواہ رہنا
میں اتنی دُور سے چل کر تمہارے پاس آیا ہوں
اگرچہ وہ میری ٹانگیں
دھماکے سے اُڑا کر مطمئن ہوں گے
انہوں نے سچ کے شاہد کو اپاہج کر دیا ہے
تم گواہ رہنا۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے سامنے روندا گیا ہوں
اور میں چل کر تمہارے پاس آیا ہوں
ذرا دیکھو!
گلابی روشنی بیدار آنکھوں کے اُفق پر رونما ہو کر
ضمیروں کی فضا میں رچ رہی ہے
اور اک اک روح میں
پرچم کشائی کر رہی ہیں سچ کی آوازیں
کہو! کیا بند آنکھوں میں شفق کو پھولتے محسوس کرتے ہوئے
ضمیروں میں ملامت کی رگیں اُبھری ہوئی ہیں
اور مقناطیس کے حلقے میں ایک رُخ ہو رہی ہیں
سچ کی آوازیں
٭٭٭
نیم اجنبیت کے پُل پر ایک شام
یہ کم کم رنگ، یہ برسے ہوئے بادل کے ٹکڑے سے
مری آنکھوں کے خالی آسماں پر
کتنے برسوں سے معلّق ہیں
یہ کیسی خوشبوئیں ہیں جو کہ جینے کی گلابی
چسکیوں میں مجھ کو رک رک کے پلاتی ہیں
یہ رشتے کیا ہیں
کیوں پتا شج سے ٹوٹ جاتا ہے
یہ چاہت کی ہوس جہدِ بقا کے سیپ میں پلتی ہے
یا کہ سچ کا موتی ہے
مِری آنکھیں کھُلی ہیں لیکن اتنی کیوں نہیں کھُلیں
کہ ظرفِ لفظ میں جھانکوں
خداوند! یہ کوتاہ دستیاں تیری
مجھے جینے نہیں دیتیں مجھے مرنے نہیں دیتیں
٭٭٭
چکور دستک اور صلیب
جب جسم تراٹیں مارے گا اور روح پچھل پائی کی طرح پچھواڑے میں
چِلّائے گی
جب ریت کی پیاس سلیٹی سی، ہونٹوں کی پپڑی کے نیچے
ایسا کہرام مچائے گی
کہ بیٹے اپنے باپوں کی پہنائی ہوئی زنجیروں کو
ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں گے
اُس وقت کے موسمِ فردا میں
سلوٹ سلوٹ چہرے والا۔ ۔ ۔ ۔ تاریک زمانے کا کاہن
گھر گھر میں سچ سندرتا کی
نشری آواز لگائے گا
ترمیم کے معبد کے اندر
تربیت کے رنگین پیویلین کے نیچے
کچھ تازہ بھینٹ کی خوشبوئیں
کچھ مخفی راگ کی سُر تانیں
سلگائے گا
سب آئیں گے
لے لے کر آنکھ ہتھیلی پر سپنے اپنے
پھر اگلے دن کے چوک پہ ہم
خود اپنے آپ تماشائی
سرکس کے چیتے دیکھیں گے
٭٭٭
افریقہ۔ ۔ ۔ اگلے محاذ پر
عشر نے دھاوا بولا ہے
دیکھ! سفید انسانیت کے خیموں پر
پنجے سخت طنابوں کے
جنگل کے محکوم بدن پر ڈھیلے پڑتے جاتے ہیں
کل کے طبل پہ چوٹ پڑی ہے
دیکھ! تڑپتی شہ رگ کی
ہر ہر بستی میں مینار الاؤ کے
روشن ہوتے جاتے ہیں
کل آزادی کی ہریالی پھوٹے گی۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بیلیں
پیڑوں کا رس پینے والی نیلی بیلیں
جڑ سے کاٹی جائیں گی
دیکھ! وہ ٹوٹا (قلعے جیسا)
اور اک جالا مکڑے کا
پرچم سی آنکھیں پربت پہ نصب ہوئیں
امبے او کے ہاتھ میں دستاویز ہے
کل کے سپنوں کی
٭٭٭
منظر کا خلا
ماں ! آ دیکھ نا آنگن میں
کرنوں کی پیلی چنبیلی بکھری ہے
منڈیروں پہ کیا کیا نقش پرندوں کے
چڑھتے دن نے کاڑھے ہیں
پودے۔ ۔ ۔ ۔ کومل تانیں سی
ہریالی کے گیتوں کی
گلیوں کے میلے میں شور ہے بچوں کا
آس کا بابا
رنگارنگ غبارے لے کر آیا ہے
اٹھ نا! کیا تو رحل کے آگے
ہاتھوں کا کشکول اٹھائے
دن کے خاکستر ہونے تک بیٹھے گی؟
آخر کب تک مانگے گی
دُکھ سے گدلائی ظلمت کے آقا سے
جھاڑو سے اُڑتی مٹی کے مولا سے
دن کے موتی جن کو اس آنگن میں تو کھو بیٹھی ہے
جن کے بدلے
اُس نے اپنی بخشش سے بھر ڈالا ہے
تیری رات کی جھولی کو
اگلے روز کے سپنے سے
٭٭٭
اجنبی
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جسے بے نام خوشبوؤں کی آوازیں
تصوّر کی زمینوں میں سدا آوارہ رکھتی تھیں
جسے گھر سے گلی سے مدرسے تک
تربیت نے
قاعدے کی تال پر چلنا سکھایا تھا
وہ کنج خواب کا حجلہ نشیں
خواہش کے روزن سے
سمندر کے اُفق پر
دیکھتا تھا خواب اُڑتے بادبانوں کے
تمسخر روشنی کا دن کے چہرے پر
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جسے بے رشتہ رہنا تھا ہمیشہ
شہر اشیا کی ثقافت میں
کسے رعنائیاں اپنی دکھاتا
کس پہ کشفِ دلبری کرتا
کسے پہچانتا
کیسے جگاتا انگلیوں کے لمس سے
آواز کی خوشبو سے
اشیا میں
حرارت آشنائی کی
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جبیں کی لوح پرکل کی جزائیں
لکھتا رہتا تھا
مقدم زخم کا
خفیہ پتے ممنوعہ رستوں کے
وہی ہر روز کے مضموں میں
لُکنت خالی جگہوں کی
تحیّر لفظ سے ٹوٹے ہوئے معنی کے رشتے کا
وہ لڑکا شاہزادہ تھا
کسی موعود و نا مولود دنیا کا
٭٭٭
لشکارا
بالکونی سے شادی کسی سائے نے
جھُک کے دیکھا مجھے
کون ہے ؟ کون ہے ؟
اور پھر سیڑھیوں سے اترتی ہوئی آہٹوں کی دبی سنسنی
ایک وقفہ
اندھیرے کے سنسان سینے کے اندر دھڑکتا ہوا
بے صدا شور ٹھہری ہوئی سانس کا
در کی درزیں سفیدی کی دو مختصر سی لکیروں سے روشن ہوئیں
اور میں دل کی دہلیز پر
اپنی بھیگی ہوئی مٹّیوں، خشک ہونٹوں کو بھینچے ہوئے
در کے کھلنے کی آواز کا منظر
واپسی کی گزرگاہ پر
دُور ہوتی ہوئی چاپ سُنتا رہا
٭٭٭
بے نوشتہ نظم کا پیش لفظ
میں کفِ دست کی اوٹ میں
سوچ کا پھڑ پھڑتا دیا لے کے چلتا ہوں
جذبوں کے جنگل میں، نعرے لگاتی ہواؤں کی یلغار میں
کیا خبر وہ تنا کی دیوی لبِ آب آئے نظر
غسلِ مہتاب کرتے ہوئے
اس کی عریانیاں
منکشف ہوں لہو کی مچلتی ہوئی لہر پر
روشنی کے کنول کی طرح
لفظ پگھلا ہوا موم بن کے ٹپکنے لگے
اور بہری سماعت سُنے ٹوٹتی جھاگ کی تھرتھری
اور مس ہوں مِرے جسم کی روح سے
میرے امکان کی سرحدیں
جانتا ہوں کہ میں آج بھی لَوٹ آؤں گا
کالک میں لپٹی ہوئی انگلیاں
بے افق، بے نشاں چاند کی سمت
تکتے ہوئے
٭٭٭
نا رسیدہ لمحے کا بلاوا
زید! یہ کیسے پھول ہری آشاؤں کے
دن کے صحن میں کھلتے ہیں
نیم جنوں کی خوشبوئیں
سینے کے صفحے پہ نقش بناتی ہیں
بے مفہوم، شکستہ خط تحریروں کے
آ مکتب سے بھاگ چلیں
دیکھ! وہاں پر
ریت کا ٹھہرا دریا نیلی بینائی کی
وُسعت سے جا ملتا ہے
سُنتا ہے تُو دل میں دھوپ کی دھڑکن سی؟
ایک تمنّا نا معلوم تعاقب کی
ہم سے آگے آہٹ آہٹ چلتی ہے
آدھے عرش کی دُوری سے
دیکھ! پتنگیں کٹ کر ڈولتی جاتی ہیں
پیچھے پیچھے
ریلے ہی ریلے میں اُٹھی باہوں کے
کیا معلوم ہوا کا پرچم کس خوش بخت کے ہاتھ آئے
آہم بھی یلغار کریں
پھر کیا
وہ ہم دنوں سے قد آور بھی ہیں، آگے بھی
٭٭٭
اعلان نالۂ بیروت
دیکھ! یہ وسطِ بیروت کا
آخری مورچہ ہے جہاں میں کھڑا ہوں مگر
ان فضاؤں میں بارود کی آتشیں آندھیوں کا ہدف
میں اکیلا نہیں
میرے پیچھے نظر تا نظر پُر سکوں لہلہاتی ہوئی بستیاں
(جن میں میرے لئے ایک بھی گھر نہیں )
جبر کی زد میں ہیں
دن کی شاخوں سے ٹوٹے ہوئے برگ
بکھرے پڑے میں مِرے سامنے
جن کا تازہ لہو
میری خندق کے حلقوم تک آ گیا ہے
کہ یہ آخری معرکہ۔ ۔ ۔ ۔ اسفلِ ارض سے آسماں کا
دفاعِ ضمیر جہاں کا۔ ۔ ۔ ۔ مرے ڈوبنے تک لڑا جائے گا
کوئی اپنی رگیں کھول کر میری تائید کرنے اُٹھے
اور کوئی سخی مرد اپنا زرِخوں لُٹانے کو تیار ہو
جو مِرے بعد میری جگہ
میری بندوق تھامے ہوئے ایستادہ رہے
اور کل کے کٹہرے میں جب آج کے
یہ سلاطین، یہ دیوتا
بے ضمیروں کی صف میں کھڑے فیصلہ سُن رہے ہوں
تو وہ خلقتوں کو
زمیں سے زمیں تک
نئی، ایک ہی مملکت کے اُبھرنے کا پیغام دے
جس کے خورشیدِ فردا نما بُرج پر
وہ لہو میں نہائی ہوئی نسل کے
خواب فردا کی پرچم کُشائی کرے جس میں بے خانماں، ہجرتوں کے سفر میں
بھٹکتے ہوئے قافلوں کو
ارادے کی آزادیاں پیش کرنے کی تقریب پر
ہر کفِ شاخ کو
دستِ موسم
گُلوں سے حناوی کرے
٭٭٭
کہانی
اے سہیلی بتا!
جسم کی یاترا کر کے آئی ہے تُو
موتیے کی ہنسی سے مہکتے ہوئے تیرے گُلنار چہرے پہ
شکنوں میں لکھے ہوئے
بید کے شبد پڑھ کے سناؤں تجھے ؟
(اے سکھی! انت کا بھید کس پہ کھلا ہے کبھی)
کیا بتاؤں کہ اُن درشنوں سے
مِری آنکھ سیراب ہو کے بھی
پیاسی رہی
ہاتھ کا لمس ایسا تھا
ہر پور سے دیپ کی لو لپکتی تھی ہر سانس میں
تھرتھری سی کسی ان سُنے گیت کی
کیا بتاؤں سکھی! کس طرح دل دریچے کھلے
اور پنجرے سے
احساس کی نارسائی کا پنچھی اُڑا
میں نے دیکھا سکھی
جھیل کی لہر پھلواریوں میں
نئے چاند کا عکس اُگتا ہوا
اور پھر ٹمٹماتے ستاروں کی پریاں مجھے
کل کے سپنوں کے آکاش پرلے گئیں
اسے سکھی! اور پھر یوں ہوا
جب سورے کی پہلی کرن نے جگایا مجھے
گاؤں کا راکشس
جانیے کونسی سمت لے جا چکا تھا انہیں
میں تو چاہت کی ہاری ہوئی
مر گئی
اے سہیلی بتا! دُکھ کی بپتا سناتے ہوئے
تُو بڑی سخت جاں ہے کہ
روئی نہیں
ہاں۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کل کی سچائیوں پر بھروسہ جو ہے
دُکھ کے رپدیس سے
دیکھنا! شیام پیارے ضرور آئیں گے
٭٭٭
ہری نظم
ہم نے وقتوں کی فہرست میں نام ان کا لکھا
جو ہمارے وفادار تھے
اور ان کا لکھا
سبز سچائیاں جن کے تازہ لہو سے مہکتی رہیں
جن کے لہجے میں فردا کا اقرار تھا
اور جو راستے میں پڑی سلوٹیں
اپنے دکھ کے گرانبار قدموں سے ہموار کرتے رہے
کل نئے وقت کی دھوپ تاریک قلعوں کو مسمار کرتے ہوئے
پھیل جائے گی بے انت آزادیوں کی طرح
اپنی مٹی سے اوینس اٹھے گا جب
اور جب تیسرے شہر کی
زرد نسلیں، سیاہ فام آبادیاں
لکھ چکیں گی نیا عہد نامہ نئے وقت کا
تو زمیں گنگنانے لگے گی ہری گھاس کی اُس ہری نظم کو
جس کے مَیں اور تُو اور وُہ لفظ ہیں
بول ہیں
٭٭٭
گمان سے پہچان تک
کلی کی اوٹ سے اُس نے کیا اشارا مجھے
میں مُسکرایا
مساموں میں بجلیاں کوندیں
لہو کے دشت میں ٹاپیں سنائی دیں مجھ کو
گلابیاں سی ہوا میں دکھائی دیں مجھ کو
میں اپنی نظم بنا اور خود کو پڑھنے لگا
ہوا میں اُٹھتی ہوئی سیڑھیوں پہ چڑھنے لگا
گماں ہوا کہ قبا کھول دی ہے ساعت نے
بھنور نے سیپ کو پانی کی طشت پر اُلٹا
اندھیرا فاش ہوا روشنی کے بھید کھلے
عجیب وسعتیں پھیلیں خدائیوں کی سی
مٹھاس گھلنے لگی آشنائیوں کی سی
اُفق نے جھیل کو سمٹایا اپنی باہوں میں
تو زور زور سے کشتی کی سانس چلنے لگی
سفر کا نغمہ چھڑا بادباں کی دھڑکن پر
پیام آئے مجھے میری اپنی خوشبو کے
حیا سے سمٹی ہوئی اک صدا کی سرگوشی
مجھے بلانے لگی
پلٹ کے دیکھا تو لہکتے ہاتھ کسی نیم وا دریچے میں
ہلا رہے تھے بلاوے مِرے حوالوں کے
گلی کے موڑ پہ پہلا درخت پیپل کا
لپٹ گیا مجھ سے
میں بے پناہ کشش کی لپیٹ میں آیا
برس کے بوند گری، اشک ٹوٹ کے ٹپکا
قدیم اصل کے انبوہ کے سمندر میں
٭٭٭
نارسیں
اُسے عکسوں سے بھیگی آنکھ میں وہ ڈھونڈتا ہے
جو لہو کی سرزمینوں میں
ابھی نایافتہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ کون ہے وہ؟
کوئی لڑکی ہے کہ عریانی کا لمحہ ہے ؟
عجب کیا
ہو اُسے شوقِ سماعت پانیوں کے شور کا
جس پر کسی گزرے زمانے میں
کسی نے باندھا تھا
وہ پُشتہ اُس کے آدم جسم سے اونچا۔ ۔ ۔ ۔ محیط اندر محیط
اُس سے بلند ہونے سے پہلے گر گیا ہو گا
وہ اپنی زرد پرچھائیں کی خندق میں
کسی کو ڈھونڈتا ہے
کونسی آواز ہے جس کا تعاقب کر رہا ہے
اور کیسی شام کے حلقے میں آ کر
ڈوبتا جاتا ہے
کتنی دُوریوں سے تک رہا ہے اپنے مشرق کو
مگر وسعت
نظر کی راہداری سے اُسے کیسے دکھائی دے
کسی لمحے کی آزادی
کبھی شاید اُسے اپنے تشدد سے رہائی دے
٭٭٭
ڈوبتے پتھر کی صدا
گیت کا خیمہ ہوا میں گر پڑا
آخری طائر صدا کی اُوس پتوں پر گرا کر اُڑ گیا
اپنے اندر موڑ مُڑتی آہٹیں
سو گئی ہیں گوش کی دہلیز پر
راستے آنکھوں پہ بازو رکھ کے ہیں لیٹے ہوئے
اُڑ رہے ہیں دائروں میں
گم شُدہ سمتوں کے پیلے گردباد
سب قدم ہیں بے قفر یا سب فر ہیں بے قدم
عزم کی تحریر پر کالی ہوس کی روشنائی گر گئی
ریزہ ریزہ نور کے چھینے اُڑا کر گم ہوا
آسماں کا عکس گدلی جھیل میں
اور میرے گرد سنّاٹے کا شہر
بے سماعت، بے زباں۔ ۔ ۔ ۔
میں کہ لا مرکز کھڑا ہوں
ڈوبتی بینائیوں کے درمیاں
کس کو پہچانوں، کِسے آواز دوں
٭٭٭
خود کلامی کے کٹہرے میں
یہ ہے تشخیص اندیشہ۔ ۔ ۔ ۔ بتا کیا ہے ؟
گزر گاہوں میں کیوں ہر سو وبا سایوں کی پھیلی ہے
یہ کسی گردشیں ہیں شہر میں یکساں تغیّر کی
مسیحا بے شفا موسم کا نسخہ
زرد پتے کے لئے تجویز کرتا ہے
نہایت دردمندی اور دل داری سے
نبضِ شاخ پر وعدے کی نازک انگلیاں رکھ کر
وہ اسمِ صبر پڑھتا ہے
بڑے رقّت زدہ لہجے میں کہتا ہے
ہم اپنی روح کے بے آسماں قلزم میں
اپنے جسم کے تختے پہ بیٹھے ہیں
ہمیں
ممکن بھی ہے، زورِ ہوا ساحل پہ لے آئے
وگرنہ سر اٹھاتی موج کا انداز
یوں ہے جس طرح جلاد نے تلوار سونتی ہو
اگر ہونا، نہ ہونا حادثہ ہے یا مقدر ہے
تو پھر اپنی حسوں میں
بے سبب ہیجان پیدا کر کے کیا لو گے
سنو! اس چشم کم بینا سے ایسی دوریوں کو دیکھنے کی
خواہشیں اچھی نہیں ہوتیں
عجب بے اعتدالی ہے صور کی
کسی نا یافتہ جنت کے سپنے دیکھتے رہنا
یہ سایہ جو تمہیں آزار لگتا ہے
ہمیشہ دھوپ کے ہمراہ آتا ہے
جنم کے ساتھ وابستہ ہیں سارے سلسلے غم کے
نہ دو خود کو یہ ایذا، یہ سزا
بے اطمینانی کی
اسے آتا ہے اپنے فائدے کی منطقیں
ایجاد کر لینا
یہ بے اقدار مجلس
منعقد ہوتی رہے گی تا ابد اس کی صدارت میں
مرا آدرش سورج ہے
میں شب گلشنوں سے قمقموں کی روشنی میں
پھول کیں توڑوں
یہ صلحیں میری فطرت کے منافی ہیں
یہ اُس کا فیصلہ پستی میں رہنے کا
زمیں کے آسماں کی سمت اٹھنے کے پرانے خواب کی
تردید کرتا ہے
اُدھر وُہ نظریے کا جال مجھ پر پھینکتا ہے
اِس طرف
اس منفعت خواہوں کی بستی میں
مجھے مجھ سے جدا کر کے
ہدایت کوئی دیتا ہے
مجھے بہتے ہوئے بازار کے گرداب زر میں ڈوب جانے کی
انا کا آخری قلعہ
جہاں کا ایک ہی در پستیوں کی سمت کھلتا ہے
جہاں سے میں اگر چاہوں
اُتر سکتا ہوں اس انبوہ میں
نا اجنبی ہو کر
مگر یہ روشنی دل کی
مجھے آنکھیں لٹانے کی اجازت ہی نہیں دیتی
٭٭٭
دُور نما روشنیوں کی خوف
کانچ کی کوئی چیز کہیں پر گر کر چکنا چُور ہوئی
نابینا اپنے سائے سے ٹکرایا
آنکھیں، آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ہر سو آنکھیں
اوپر رات کا گہرا بادل
اُمڈا ہے
پرنالوں سے بہتا ہے
کالا شور اندھیرے کا
کوئی شاید
جسم کا باری بوجھ اٹھائے نکلا ہے
خود سے بات کرے تو خود بھی سن نہ سکے
پونچھ رہا ہے
بھیگے ہاتھ سے پیشانی پر
لکھا حرف مقدر کا
جیسے یوں بچ جائے گا وُہ بہنے سے
دھوپوں کی طغیانی میں
٭٭٭
رونق کا شگون
دھوپ مدھم تھی
ہوا کی منجمد شاخوں سے سانسیں توڑنا دشوار تھا
اور چوبِ خشک سے لٹکے ہوئے پتے کی آنکھ
اپنے آئینے میں تکتی تھی ہمیں
ہم تہی دستوں نے گلیوں کے خس و خاشاک گھر کے صحن میں جمع کئے
جسم کی دح سے مٹ جانے سے پہلے
خون کے گرتے شرارے سے اُگایا
سبز موسم کے الاؤ کا شجر
منظرِ روپوش کے آثار سے
سب کی آنکھوں کی گزرگاہیں معطر ہو گئیں
اور ہم نے نارسا پیغام بھیجا آسماں کے نام پر
اے خدا!
اب نہ آئے باد زاروں کی ہوا
مشرق و مغرب کے پھیلے فاصلے کی سمت سے
ورنہ ان چنگاریوں کے پھول گلشن کو جلا سکتے بھی ہیں
٭٭٭
گماں کی منطق
دریا کے گہرے باطن میں
نادیدہ انبوہ پسِ انبوہ رواں رہتا تھا لیکن
سطحِ آب پہ آ کر جو معروف ہوئیں وہ اسم نما لہریں کتنی تھیں
اور گہر
جو ساحل کی منظر گاہوں میں
ایک منور لمحے کی انگشت حنائی میں چمکا
وہ گم نامی کی ظلمت میں
بسنے والے ہم زادوں سے کیوں بچھڑا تھا؟
اور پرندہ صحرا کا
اپنی بے مشہور صدا کے سناٹے میں ڈوبا تھا
کیوں ڈوبا تھا؟
اور گلِ رونق پر اُمڈی آنکھوں نے
غفلت کی بے مہری سے
سبزے کو ہر آتے جاتے موسم میں پامال کیا
آخر کیوں ؟
شاید یہ امکان کی اپنی منطق ہے
شاید ہر شے
یکساں دہرائے جانے والے فعلوں کی زد میں ہو
کیا معلوم کہ
اس جمہور کی بے نام آور آبادی
جس میں ہم بھی شام ہیں
ہستی کی دانست میں ہو
٭٭٭
آئینہ نما
یہ جنگل
کس بے معنی سفاکی کے اندھیرے سے
ٹوٹ کے بے ہیئت ہوتے اس موسم میں
بے بخشش ہاتھوں کی جانب تکتا ہے
دیکھ! اکارت جاتی سرد صدی کے منظر نامے میں
نخلِ بے تقدیر کھڑا ہے
بھوک کے سناٹے میں گرتے پتے پر
اس کے اپنے نام کے آگے
میرا نام بھی لکھا ہے میں کہ ان بے اشک آنکھوں سے
اُس کی خاطر
اپنے کل کی ظلمت کے امکان کی خاطر
ایک کرن کی خواہش خوابی پیدا کرنے سے قاصر ہوں
میری دنیا کے مرکز میں ڈھیر لگا ہے سایہ سایہ لاشوں کا
اور زمستاں کا سورج اس پربت کے
لمبے سائے ڈال رہا ہے خود محصور مکانوں پر
٭٭٭
حبس کی خراب گاہ سے
ہوا شرارت سے روز آ کر بٹن دباتی ہے
اور اندر
ذرا سی آواز گونجتی ہے
وُہ دائیں کھڑکی سے اپنے چوبی بدن پہ رکھا ہوا کسی کا
بناوٹی سر نکالتا ہے
ہمیشہ یکساں جواب دیتا ہے
دیکھ: اے کوہِ سبز کی رہنے والی لڑکی
ابھی ضرورت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہم حویلی میں
روشنی کو
سکھائیں آداب ظلمتوں کے
ابھی یہ دروازہ بندشوں کا
نہیں کھلے گا
ہم اپنے دشمن نہیں کہ میعادِ تربیت میں
خلل کو تسلیم کی سند دیں
یہاں سے جاؤ
یہ چار دیواریوں کا پہرہ
یہ حبس خائف نہیں کسی سے
جمود۔ ۔ ۔ ۔ ہیئت خرابیوں کی
تم اپنے دستِ سبک سے کیسے بدل سکو گی
کہیں سے آندھی کا زور
طوفاں کا غلغلہ اپنے ساتھ لاؤ
٭٭٭
مُنکروں کے درمیان
مضطرب ذات کہیں
سچ کا تعویذ اتارے نہ مرے بازو سے
اور میں تیرے فسوں میں آ کر
اسمِ زر پھونکتی آواز کے ہمراہ چلوں
شر کا شہر رواں ہے جیس
اپنے انکار کی مدہوشیوں کے دائرے میں
میں شفق زاد اجالے کا امیں
تیری تاریکیوں کے تنگ کنوئیں کے اندر
اپنی گونجوں کا بھنور بن جاؤں
میرے انگوٹھے پر
روشنائی نہ لگا آج کے سمجھوتے کی
میں گزرگاہ تمنا کا مسافر ہوں مجھے جانے دے
زادِ آوارگی کافی ہے مجھے
اس ہوا زار سے گلدستۂ خوشبو لے کر
جب میں دورانِ سفر فردا سرا میں اتروں
اہلِ نو شہر سے یہ کہہ تو سکوں
لو تمہارے لئے اِک پھول بچا لایا ہوں
٭٭٭
بے وعدہ عمروں کے بن باس میں
آج بھی فرشِ شبِ دیر بز پر
آسمانوں کا بہشتی دھوپ کا چھڑکاؤ کرنے آئے گا
اور دوشیزہ ہوا کی نرم و نازک انگلیاں
کھول کر نظمِ مناظر کی کتاب
رنگ و خوشبو، نور و نغمہ کے ورق اُلٹائیں گی
جسم کے آنگن میں پھیلے گی شفق کی سنسنی
آج بھی اپنے دریچے سے اُسے جاتے ہوئے دیکھوں گا
دفتر کی طرف
اور اس لمحے کے پس منظر میں آئیں گی نظر
لڑکیاں جو رات کے سپنوں کے گلدستے لئے
صبح دم آتی تھیں رودِ نیل پر
جب اجالا دِل کے مندر میں بجاتا تھا سنہری گھنٹیاں
تو گلابوں کی لچکتی ٹہنیاں
عکس اندر عکس پانی میں بہاتی تھیں نیازیں
اپنے پیاروں کے معطر نام پر
اور چکنائے ہوئے تانبے کی رنگت کے بدن
گُدگُدی محسوس کرتے تھے کسی کے لمس کی
بھیجتے تھے ایک پیغامِ تصوّر۔ ۔ ۔ ۔
ایک سندیسہ کرن کی لوچ سے لکھا ہوا
بادِ صبا کے ہاتھ کل کے وصل کا
اور میں دیکھوں گا اُس کو آج بھی سہ پہر کے رستے سے گھر آتے ہوئے
ایک خالی پرس اپنے نیم جاں کندھے سے لٹکائے ہوئے
اُس کی آنکھوں میں نظر آئے گا
بے اقرار لمحہ۔ ۔ ۔ ۔ جانے کتنی دیر سے ٹھہرا ہوا
اور چوبی انگلیاں تھامے ہوئے ہوں گی
کسی تقدیس کی خوشبو،
کسی بے نام سپنے کی کتاب
٭٭٭
ریت کی پیاس
آؤ کہ چل کے رات کا لا نشہ پئیں
اک پَل کی بے پناہیاں
بے انت آسماں
ہم کو دبوچ لیں
دھچکا ہوا کا بند کواڑوں کو کھول دے
نکلیں حویلیوں سے نظر بند لڑکیاں
بے حُسن منظروں کی سزا وار آنکھ کو
آزادیاں ملیں
رونق کا اک شرر
بس دھوم سی مچا دے فنا کی فصیل پر
پھر اس کے بعد فرش پہ، چاہے تو گر پڑے
آئینہ خواب کا
یہ کیا کہ آپ اپنا تماشا بنے ہوئے
ہم دوسرے کے خفیہ اشارے کے سحر میں
ایام کی بساط پہ چلتے رہیں سدا
اپنے خلاف جنگ کسی اور کی لڑیں
رستے کی قوس پر
جینے کی آس نیم دریدہ لباس میں
دائم کھڑی ہوئی
عریانیوں کی ڈھلکی ہوئی بھیک دے ہمیں
آنکھوں کی تشنگی
اک خوشنما سراب کا جلوہ انڈیل دے
صحرا کی اوک میں
٭٭٭
خواب آفریں !
گذرا اِدھر سے وُہ
اِک پُر شکوہ سر کشی کے راہوار پر
تانبے ہوئے کرن کو اندھیرے کی سیدھ میں
اُس نے ہوا کو دشت سے
ساحل سے موج کو
آزاد کر دیا
مضمون دہر سے
بے حاشیہ سطور کی چنگاریاں اُڑیں
اِک خواب کی شگفت سے موسم بدل گیا
دیکھا گیا سپہر تصوّر کے اوج پر
منظر طلوع کا
امکان کی منجنیق سے چھینٹے الاؤ کے
برسے فصیل پر تحریر حرفِ گُل ہوا لوحِ بہار پر
الٹا ورق ہوا نے زمیں کی کتاب کا
دیکھا گیا دیارِ تمنا کے آس پاس
لمحے کو بے لباس
اک برق تھی کہ پشتِ سیاہی سے کُود کر
اُتری زمین پر
غائب ہوئی تو چھوڑ گئی شب کے رُو برو
چشمِ ستارہ جُو
٭٭٭
نوعِ نو جسم
کہاں سے گزرا ہوں
سارے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں
یہ دیکھ:
میرے بدن کو نیلے لہو کی دیمک نے اس جگہ سے
یہاں سے چاٹا ہے
میری آنکھیں
اُبلتے عکسوں کی دلدلیں ہیں
یہ راستے سر و منظروں کے
زمیں کی کچی فصیل پر شُو ہواؤں کے قہقہے
میرے آگے آگے
مرے تعاقب میں لشکری بے یقینوں کے
میں خود کو خود سے چھپا رہا ہوں
یہاں سے نیچے گروں تو کیسے
زمیں کے سارے نشیب میری ہی پستیوں کی
علامتیں ہیں
قدیم راتوں کے پیشواؤ!
پرانی پوشیدگی کے صنعت گروں کی خاطر
گلی کی خندق میں چھُپ کے بیٹھا ہوں
آسمانوں کو نالیوں میں ڈبو چکا ہوں
قدیم راتوں کے پیشواؤ!
میں ایک سو سالہ اژدہا ہوں
کہ اپنی صورت بدل کے فردا کے آئینے میں
پرانے بہروپ کا تماشا قدیم آنکھوں سے
تک رہا ہوں
٭٭٭
سُرخ پرچم نہر
سب نے محنت کی تقدیس کا اسمِ اعظم پڑھا
چانگ دریا کا پانی سوا نیزہ اوپر اٹھا
بے گیاہ آسماں لہلہانے لگا
کوہِ عریاں کو بہتی ہوئی روشنی کا کمر بند باندھا گیا
دودھ کے رس سے پھٹتی ہوئی چھاتیاں
سبز پوشاک سے ڈھک گئیں
مسکرایا کساں دیوتا
بھوک کی ڈأینیں مر گئیں، بیلچوں کی
کدالوں کی ضربات سے
اور بچوں کو سوتیلی ماؤں کی غرّاہٹوں سے رہائی ملی
خشک پربت پہ تازہ رگیں پھیل کر
بن گئیں سرخیاں کل کے منشور کی ٭٭٭
دراز سایہ سہ پہر
ایک لڑکی ابابیل سی
دھوپ میں دس بجے پر فشاں
ایک خوشبو کے جھونکے کے ہمراہ اڑتے ہوئے
راستے میں ملی اور اک آن میں بے نشاں ہو گئی
آنکھ میں تتلیوں سے چرائے ہوئے رنگ ٹپکا گئی
اک شرارا گرا اس کی جانب لپکتے ہوئے ہاتھ پر
انگلیاں جل گئیں
دن کی آواز مغرب میں ڈھلنے لگی
اور احساس میں
اک دھواں سا، زیاں سا دھند لکے بنانے لگا
کتنی بھاری تھیں اشیاء کی اصلیتیں
کھردرے جسم کے پربتوں پر اُبھرتا کہاں
عکس کھویا ہوا
اور اب تیز قدموں سے سہ پہر کی
سیڑھیوں سے اترتے ہوئے
دیکھتا ہوں کہ میں ہوں کھڑا
دم بہ دم ڈوبتے شہر کی غیر مانوس شکلوں کے انبوہ میں
وہ کہیں بھی نہیں، وہ کہیں بھی نہیں
شام ہونے کو ہے۔ ۔ ۔ ۔
ڈوب جا، ڈوب جا
ایک ہی دن میں دو بار سورج نکلتا نہیں
٭٭٭
جو ہیں اور نہیں ہیں
جمود ٹوٹے گا جب زمیں کا
تو برق رفتار حادثوں کے سموں سے چنگاریاں اڑیں گی
نہتّے اور پُر غرور لڑکے
اُڑائیں گے کنکروں کی آندھی
کھنڈر میں اپنی ہزیمتوں کے، اُکھڑے جالوت جا گرے گا
کٹیں گی پھر شہر شہر تازہ بشارتوں کی
نئی رتوں کی مہکتی فصلیں
فضا میں بے نام مرنے والوں کی عظمتوں کے عَلم کھلیں گے
مگر یہ مفروضہ وارداتیں ہمارے جانے کے بعد ہوں گی
چلو چلیں منجمد سڑک پر حشیش پینے
طمانیت کی تلاش کرنے
گریں گے آنکھوں سے جب شرارے
اُتر کے آئے گا دیوتاؤں کے آسماں سے
سکوں کا بے سایہ دار لمحہ
چلو چلیں انتقام لینے کسی سے بیٹھک کے معرکے میں
ہدف کو ہم قہقہوں کی بوچھاڑ سے اُڑائیں
فراغ ہو تو
بچھائیں آنگن کے بیچ میں دھوپ سردیوں کی
بڑھتے ہوئے ناخنوں کو کاٹیں
پڑھیں رسالہ
کہ جس کے رنگین سر ورق پر
چھپی ہے تصویر شاعرہ کی
٭٭٭
حصارِ سزا میں
جانتے ہو، کون ہی
جو کاغذوں پر پیشاں لکھ کر سدا
ایک بے میعاد وعدے کی عدالت میں
بُلاتے ہیں تمہیں
اور پھر خود ساختہ انصاف کی جنت دکھاتے ہیں تمہیں
کس قدر مسحور کرتی ہیں شبیہیں باغ کی
جس میں سنگھاسن پہ بیٹھا بادشاہِ آسماں
شادماں۔ ۔ ۔ ۔
شادماں سرو و صنوبر کی کنیزیں
مورچھل تھامے ہوئے
اپنا سایہ ڈالتی ہیں شوکتوں کی دھوپ پر
اور وہ اپنی سخاوت سے رواں کرتا ہے
چشمے کا سیراب
اور تم
داستاں کے شاہ زادے کی طرح
اس نظامِ سحر نا مطمئن
لوٹتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ اور آگے دیو استبداد کا
فیصلہ در دست آتا ہے نظر
بستیوں کے آہنی پھاٹک کی تالہ بندیاں کرتے ہوئے
کیا کرو گے !
اپنی ناداری کا ترکہ چھوڑ کر مر جاؤ گے
اپنے ظلمت زاد فرزندوں کے نام
یا یہ دستاریں سروں سے کھول کر
دال دو گے خاک پر
تاکہ سمجھوتے کی کالی چیونٹیاں
رفتہ رفتہ۔ ۔ ۔ ۔ ذرہ ذرہ کر کے لے جائیں تمہیں
٭٭٭
سورج کی خوشبو
مِرا نام۔ ۔ ۔ ۔ خوش بخت سورج کی خوشبو،
مِرا شہر۔ ۔ ۔ ۔ بے آسماں ملک کے وسط میں
جس کے بازار اشیاء میں آنکھیں جھپکتی ہوئی فاحشہ
اپنی زرّیں ہتھیلی پہ رکھے ہوئے جسم کی عشرتیں
بانٹتی ہے
جہاں لوگ، اِسراع، ‘اِسراع’ کی گونج پر
یک زباں ہو کے، لبیک کہتے ہوئے
سِحر میں چل رہے ہیں
مِرا مشغلہ۔ ۔ ۔ ۔ ایک خواہش، لگاتار خواہش کہ لمحے کی مہمیز کا زخم
کھا کی حسِیں۔ ۔ ۔ ۔ بے عناں، ایک ہی جست میں
جسم و جاں کی حدیں پھاند لیں
کش لگے اور روحوں کے پاتال میں جاؤں
بربط بجاتے ہوئے
کیا خبر گمشدہ جل پری میری آواز پر جی اُٹھے
اور میرا پتہ۔ ۔ ۔ ۔ ایک نالے کی نیلی گزرگاہ پر
اک مکاں۔ ۔ ۔ ۔ بے نمود اور بے نام سا
جس کے کمرے میں چُپ چاپ سایہ سا چلتا ہوا
اجنبی اور مفرور۔ ۔ ۔ ۔ روپوش گمنامیوں کی پنہ گاہ میں
۔ ۔ ۔ (دیکھتے ہو اُسے ؟)
کل سویرے وہیں۔ ۔ ۔ ۔ دوسرے اور وہ۔ ۔ ۔ ۔ خشت بردار، نژاد ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم
اہرام کی جائے تعمیر پر، پائے جائیں گے
آقا کی بھاری صدا اُس سے پوچھے گی کیا نام ہے ؟
وہ کہے گا، مِرا نام۔ ۔ ۔ ۔ خوش بخت سورج کی خوشبو۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدفردا