فہرست مضامین
فحاشی اور ادب
مدیر: اشعر نجمی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
’اثبات‘، ممبئی، شمارہ ۱۲۔ ۱۳ سے انتخاب
انما الاعمال بالنیات
جب میں نے کافی غور و خوض کے بعد "اثبات” کے زیر نظر شمارے کے لیے "عریاں نگاری اور فحش نگاری” جیسے نزاعی لیکن نہایت ہی اہم ادبی مسئلے کو بطور موضوع (تھیم) منتخب کیا تو کچھ لوگوں سے مشورہ کر لینا مناسب سمجھا۔ چنانچہ اس غرض سے میں نے ہند و پاک کے کئی سروقدادبی شخصیتوں سے رابطہ کیا، سبھی نے توقع سے زیادہ ہمت بندھائی۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ موضوع لائبریری کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر انھوں نے مجھے خبردار بھی کیا کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اسے دوسرا رنگ دینے کی کوشش کریں یعنی مجھ پر شہرت طلبی کا الزام عائد کریں۔ ان کی یہ بات میرے حلق سے نیچے نہیں اتری، کیوں کہ اول تو مجھے اپنے پرچے کے سنجیدہ اور با ذوق قارئین کی ذہنی لیاقت اور ان کی بالغ نظری پر مکمل اعتماد ہے اور دوم یہ کہ بالفرض محال اس الزام کی تپش میں جھلسنا میرا مقدر ہے بھی تو کیا فرق پڑتا ہے، کیوں کہ کسی نہ کسی کو اس آگ میں آج نہیں تو کل اترنا ہی ہو گا ورنہ اقبال کے اس تصور کی تجسیم ممکن نہیں جس کے تحت ابراہیم ؑ کی سی خود اعتمادی کے سامنے دہکتے ہوئے شعلے بھی "انداز گلستاں ” پیدا کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ خود کو اس اعزاز سے محروم رکھنے کا کوئی جواز میرے پاس نہیں تھا۔ البتہ میں نے جہاں دیدہ اور دور اندیش فاروقی صاحب کے مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے اس ادبی مسئلے پر نظری تنقید کو مقدم رکھا اور نمونۂ کلام کا حصہ "مصلحتاً” مختصر کر دیا۔ اس مختصر حصے میں بھی میں نے "فحش نگاری”پر”عریاں نگاری” کو ہی ترجیح دی۔ یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں اکثر معیاری فحش کلام سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آئے ہیں جن کا حصول اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس مشکل مرحلے کو بھی میری مہم جو طبیعت نے سر کرنے کی کوشش کی تھی جس میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی۔ استاد رفیع احمد خاں، محشر عنایتی، نشتر ترکی، مائل لکھنوی وغیرہ جیسے قادر الکلام فحش نگاروں کے کلام میرے ہاتھ لگے جن کی خوبیاں اور جدتیں بیان سے باہر ہیں۔ حمد، نعت، منقبت، سلام، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، غزل، نظم ؛ کوئی صنف ایسی نہیں تھی جسے انھوں نے اپنے مخصوص رنگ میں برتا نہ ہو اور قلم نہ توڑ دیا ہو لیکن بقول جوش، "افسوس کہ میری قوم میں ابھی تک مردوا پن پیدا نہیں ہوا، ورنہ ان کے فحش اشعار نقل کر کے اپنے دعوے کو مدلل کر دیتا۔ ”
اکثر و بیشتر عریانی اور فحاشی کا استعمال مترادفات کے طور پر کیا جاتا ہے، حالاں کہ ان دونوں میں کافی فرق ہے۔ عریانی کا تعلق جمالیات سے ہے جب کہ فحاشی سماجیات سے متعلق ہے۔ یہ ایک ایسا عمیق اور اتنا وسیع موضوع ہے جس کی جڑیں کئی معاشرتی علوم سے پیوست ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ عریانی یا فحاشی کے تصورات اضافی ہیں۔ مختلف ادوار، مختلف معاشرے بلکہ ایک ہی معاشرے کے مختلف طبقوں میں یہ تصورات مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہیں۔ مثلاً امریکا میں پائی جانے والی عریانیت کو ایک طبقہ انتہاپسند ی سے تعبیر کرتا ہے لیکن خود امریکیوں کو اٹلی کے ٹیلی ویژن فحاشی اور عریانیت کے علم بردار نظر آتے ہیں جہاں برہنگی کے ساتھ جنسی اختلاط کے مناظر بھی بلا جھجک پیش کر دیے جاتے ہیں۔ فرانس میں آدھی رات گذرنے کے بعد وہاں کے ٹیلی ویژن اپنے ناظرین کو اشارہ کر دیتے ہیں کہ اب بچوں کو سلادیا جائے تاکہ عریانی اور فحاشی سے بھرپور پروگرام نشر کیے جا سکیں۔ میکسیکو میں عریاں تصاویر کی اشاعت پر یہ پابندی عائد ہے کہ ایک صفحے پر صرف ایک چھاتی دکھائی جائے، جب کہ جاپان میں صرف موئے زہار کی نمائش ممنوع ہے۔
نظام اخلاق کوئی جامد شے نہیں، جسے ایک دفعہ وضع کر لیا جائے اور پھر اسی کسوٹی پر ہر زمانے اور ہر معاشرت کو پرکھا جائے۔ زمانے کے ساتھ اخلاق کے پیمانے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اور اخلاق کا تعلق معاشی اور سماجی اقدار کے ساتھ بڑا گہرا ہوتا ہے، لہٰذا اقتصادی اور سماجی تعلقات کی نوعیت کے مطابق اخلاقی اقدار بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش کے چند قبیلے اور افریقہ کے تاریک جنگلوں میں بسنے والے حبشی برہنہ زندگی گذارتے ہیں اور اس میں وہ کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے کیوں کہ یہ عریانی ان کی تہذیب کا جز ہے۔ آپ خواہ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن وہ اسے فحاشی نہیں سمجھتے۔ ان لاکھوں بوڑھوں اور جواں مردوں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جو ایک آدھ لنگوٹ کے سوا ہر لباس سے بے نیاز رہتے ہیں۔ کیا یہ دلچسپ بات نہیں کہ مغرب میں عورت عریاں ہے اور مشرق میں مرد۔
جہاں تک اردو شعر و ادب میں شہوانی جذبات اور جنسی واردات کے اظہار کا تعلق ہے تو یہ کل تک معمول کا حصہ تھا، چنانچہ آپ میر، غالب، درد، ذوق، انشا، جرأت، رنگین اور داغ سے لے کر نظیر اکبر آبادی تک کے دواوین پڑھ جائیے، آپ کو سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے اشعار ملیں گے جو آج کے نقطۂ نظر سے بہ آسانی فحش اور مخرب الاخلاق قرار دیے جا سکتے ہیں جب کہ صرف دو ڈھائی سو سال قبل تک ان اشعار کو مبتذل تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ ہمارا اخلاقی معیار انگریزوں کی آمد کے بعد کس قدر بدل چکا ہے، اس کا اندازہ اس امر سے کیجیے کہ جب منشی نول کشور نے نظیر اکبر آبادی کے دیوان کا پہلا ایڈیشن شائع کیا تو اس میں جنسی واردات سے متعلق تمام اشعار موجود تھے، لیکن دوسرے ایڈیشن میں ان تمام اشعار اور نظموں سے فحش الفاظ حذف کر کے خالی جگہوں میں نکتے ڈال دیے گئے، جو ناشر کے خیال میں قانون کی گرفت سے بچنے کا آسان طریقہ تھا۔ چنانچہ بقول فاروقی، "ہم لوگ تو نظیر اکبر آبادی کا کلیات پڑھتے ہی نہیں۔ ہم نقطے پڑھتے ہیں کہ اس میں جگہ جگہ نقطے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کے لیے نظیر نے شعر کہے تھے، انھوں نے پہلے تو کبھی اس کو پڑھا ہو گا یا سنا ہو گا۔ ” یہاں برسبیل تذکرہ مجھے اس پر بھی حیرت اور تاسف کا اظہار کر لینے دیجیے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی "تاریخ ادب اردو” میں یہی کیا ہے یعنی قدما کے ایسے نمونۂ کلام پر انھوں نے نقطے لگا دیے ہیں جو ان کی نظر میں عریاں اور فحش ہیں۔
اس ضمن میں فورٹ ولیم کالج سے شائع ہونے والی مشہور داستان "توتا کہانی” کی مثال بھی دی جا سکتی ہے جس میں بہت سی ایسی کہانیاں شامل ہیں جنھیں آج کے دور میں آسانی سے مخرب الاخلاق کہا جا سکتا ہے۔ شاید اسی خطرے کے پیش نظر ڈاکٹر وحید قریشی نے جب اسے مرتب کر کے شائع کیا تو اس کی بہت سی عبارتیں یا تو بدل دیں یا حذف کر دیں۔ ایک زمانہ تھا کہ بعض بھکاری بنگلہ زبان کے قدیم مصنف بھارت چندر کی ایسی نظمیں گاؤں گاؤں گشت لگا کر گایا کرتے تھے جن میں رادھا اور کرشن کے ناجائز تعلقات کا نہایت رومانی بلکہ فحش انداز میں ذکر ہوتا تھا۔ ایسے مغنی بھکاریوں کو "پانچالک” یا "کویال” کہا جاتا تھا۔
ہندوستان کے شاعروں نے فارسی غزل کی تقلید کرتے ہوئے اردو میں غزل گوئی کی ابتدا کی۔ چوں کہ ایرانی معاشرے میں مرد اور عورت کے فطری رشتے پر سخت پابندیاں عائد تھیں، لہٰذا وہاں کے شاعروں نے امرد پرستی میں جنسی جذبے کی تسکین کا سامان کیا۔ ایران میں امردپرستی کے سراغ کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یونان کے سفر پر نکلنا پڑتا ہے جہاں نوجوان اور حسین و خوب رو لڑکوں سے جنسی محبت ایک مستحسن فعل تصور کیا جاتا تھا اور وہاں بھی اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
اب چونکہ ایران اور ہندوستان کے مسلم معاشروں میں جنسی حالات یکساں تھے، لہٰذا یہاں غزل کے حوالے سے ہم جنسیت کو فوری مقبولیت حاصل ہو گئی۔ لیکن یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اس اوائل دور میں سبھی اردو غزل گو شعرا عملاً امرد پرست بھی تھے۔
دہلی کے بعد لکھنؤ اردو شاعری کا دوسرا بڑا مرکز تھا لیکن ان دونوں شہروں کے سیاسی اور اقتصادی حالات میں زمین آسمان کا فرق موجود تھا۔ دہلی کے مقابلے میں لکھنوی معاشرہ ایک جاگیرداری معاشرہ تھا اور وہاں معاشی آسودہ حالی اور خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ شاعروں اور فن کاروں کو نوابین اور امرا کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس عہد میں طوائف لکھنوی معاشرے کی اہم اور نمایاں کردار ہے۔ زنان بازاری اور ارباب نشاط سے جنسی اختلاط نوجوانوں کا مرغوب مشغلہ تھا۔ حتیٰ کہ عورتوں کے درمیان جنسی اختلاط بھی وہاں کی شاعری پر نمایاں طور پر اثر انداز ہوا۔ جان صاحب، سعادت یار خاں رنگین اور انشا نے ریختہ کے برعکس "ریختی” کو ایجاد کیا اور بیگماتی محاورے اور مخصوص اصطلاحات کے ذریعے عورتوں کی زبان میں جنس اور جنسی موضوعات پر ریختیاں لکھیں۔
اردو ادب میں عریاں نگاری کو ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ کیا گیا۔ "انگارے ” وہ پہلی تصنیف تھی جس کے خلاف غلغلہ اٹھا اور اسے ممنوع قرار دے دیا گیا۔ عصمت چغتائی کا "لحاف”، حسن عسکری کا "پھسلن” اور پھر میرا جی اور راشد کی نظموں نے یہ رائے عام کر دی کہ ترقی پسند ادب عریاں ہے اور ترقی پسندی عریاں نگاری کی متبادل ہے۔ لہٰذا، یہ یاد دلانے کی شاید ضرورت نہیں کہ اسی افواہ کے سد باب کے لیے ترقی پسندوں نے اپنی انجمن کا ایک ہنگامی اجلاس کیا جس میں یہ ریزولیشن لانے کی کوشش کی گئی کہ عریاں نگاری ترقی پسندی نہیں ہے۔ لیکن احتشام حسین صاحب نے اس پر کافی حیرت کا اظہار کیا کہ اس ریزولیشن کی سخت ترین مخالفت مولانا حسرت موہانی نے کی تھی، نتیجتاً اس کی نوعیت بدل دی گئی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ وہ حضرات جو آج عریاں نگاری کو معتوب کرنے میں ذرا سی بھی توقف نہیں کرتے، ان میں سے شاید ہی مولانا سے زیادہ کوئی متقی اور پرہیز گار ہو۔
منٹو کے افسانے "ٹھنڈا گوشت” پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ” …اگر اس کی تفصیلات بذات خود عریاں ہیں تو اس کی اشاعت میں شامل نیت اور ارادہ بھی اسے عریاں ثابت ہونے سے نہیں روک سکتے۔ "فاضل جسٹس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "یہاں یہ نکتہ بالکل غیر اہم ہے کہ کہانی لکھتے وقت مصنف کی نیت کیا تھی۔ ایسے مقدمات میں رجحان کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ نیت کی۔ ”
لیکن اگر ہم اس ضمن میں "نیت” یا "مقصد” کو خارج کر دیتے ہیں تو پھر دیکھیے کیسا انتشار پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن حکیم کی کچھ آیتیں ہیں جن کا ترجمہ کرنے میں مولوی نذیر احمد نے ایک نوٹ لگایا ہے کہ عربی لفظ سے عریاں چیز مراد ہے، اس لیے انھوں نے دوسرا لفظ استعمال کیا جو با اخلاق لوگوں میں رائج ہے۔ صحیح بخاری شریف میں بہت سے ایسے واقعات درج ہیں جو جدید عریاں نگار وں کے دانت کھٹے کر دیں۔ ان تمام کتابوں میں جن کو آسمانی اور مذہبی تسلیم کیا جاتا ہے جیسے "بھگوت گیتا”، "توریت”، "انجیل” یا "ژنداوستا” میں ایسے حصے ضرور ہیں جن کو عریاں کہا جائے۔ شیخ سعدی جیسے مصلحین اخلاق "گلستان” کے باب پنجم میں کچھ حکایتیں بالکل عریانی کے ساتھ رقم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا روم بھی اپنی اس مثنوی جسے "ہست قرآن در زبان پہلوی” کہا گیا ہے، کچھ ایسے عریاں قصے بیان کرتے ہیں جو آج کل کے تمام عریاں نگار وں کو مات دے دیتے ہیں۔ دوسری طرف ذرا ملٹن کو دیکھیے جسے زاہد خشک کہا گیا، وہ بھی حوا کی تصویر کھینچنے میں عریانی سے پرہیز نہیں کرتا۔ خود مسلمانوں میں شیعہ سنی میں متعہ کا عمل کسی قدر نازک ہے۔ سنی اسے بدکاری کہتا ہے جب کہ شیعہ اسے جائز گردانتا ہے۔
مذاہب کے علاوہ اب تاریخ نویسی پر ذرا ایک نظر ڈالیے۔ جب کوئی مورخ عباسی اور اموی دور معاشرت کا خاکہ کھینچے گا تو اسے یہ بتانا ہو گا کہ "مقیاس الشباب ” کو قابو میں رکھنے کے لیے اس وقت چھوٹے کپڑوں کی تراش خراش کیا ہوتی تھی۔ حرم سرا میں شب خوابی کا لباس کیا ہوتا تھا، وغیرہ۔ تو کیا ہم تاریخ نویسی کو بھی عریاں نگاری سے موسوم کریں گے ؟
دیکھا آپ نے، نیت اور مقصد کو خارج کر دینے کا انجام؟ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن حکیم میں جو "عریاں ” الفاظ ہیں، ان کے ذریعے ایسی ہدایت منظور ہے جس سے آدمی بھٹک نہ سکے۔ اسی طرح احادیث میں جو "عریانی” ہے، اس کو ہم عصمت رسول ؐ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عریاں نگاری میں "نیت” کا بڑا دخل ہے اور یہ دیکھنا ضروری ٹھہرا کہ یہ کس مقصد سے کی گئی ہے۔
اس کے برخلاف ذرا خواتین کے مقبول رسائل کی تحریروں اور بطور خاص ان میں شائع ہونے والے اشتہارات کا بھی جائزہ لے لیں جہاں مثلاً کچھ اس طرح کی تحریریں نظر آتی ہیں، ” خواتین کے پوشیدہ امراض اور ان کا علاج”، "ماہواری میں کمی کا علاج”، "سینے کے ابھار میں نقص”، "کولھے بہت بھاری ہیں ” وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہی نہیں بلکہ کئی مذہبی رسائل میں مولانا صاحب کے قیمتی مشورے پڑھ کر قارئین کو جو ذہنی آسودگی ملتی ہے، وہ بیان سے باہر ہے اور جو کچھ اس قسم کے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں، "بیوی کے ساتھ غیر فطری فعل کے بعد نکاح کا ٹوٹنا”، "میاں کے لیے بیوی کے ساتھ مباشرت کب اور کیسے جائز ہے ؟”، "خاوند کے منھ میں دانستہ بیوی کا دودھ چلا جائے تو شرعی حکم؟” وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے دور میں خواتین کی ہاکی ٹیم جیسے فروعی مسئلے پر جب لوگوں نے اپنی توانائیاں ضائع کرنی شروع کیں تو ایک خاتون رہنما نے فرمایا کہ خواتین اپنے گھروں کی چہار دیواری کے اندر ہاکی اس طرح کھیل سکتی ہیں کہ مرد حضرات ان کو نہ دیکھ پائیں۔ ایک بار ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی عمران خان کو صرف اس لیے مجرم قرار دے دیا، کیوں کہ ان کے مطابق عمران اپنی گیند کو اپنی ران پر نہایت ہی اشتعال انگیز طور پر رگڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم نے ایک زمانے میں لڑکیوں پر سورۂ یوسف کی تفسیر پڑھنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی تھی۔
لوگ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ اشیا اور اعمال فحش نہیں، محض دماغی حالت فحش ہوتی ہے۔ قول رسول ؐ ہے، "انما الاعمال بالنیات”؛ عمل نہیں بلکہ وہ ذہنی حالت جس کی وجہ سے ارتکاب عمل ہوتا ہے، اسی کو اچھا یا برا کہا جا سکتا ہے۔ اسی قول کی روشنی میں ادب میں اس مسئلے کا حل نسبتاً آسان ہے، کیوں کہ ادب تو نام ہی ذہنی حالت کا ہے، وہ ذہنی حالت جو لفظوں کی شکل میں ہم پر ظاہر ہوتی ہے۔
جہاں تک جنسی اشتعال کی بات ہے تو یہ کیسے طے ہو کہ کون چیز کسی فرد کو مشتعل کر سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کے جذبات میں محض کاجل بھری آنکھیں ہیجان برپا کر دیتی ہیں تو کیا آپ آنکھوں میں کاجل ڈالنے کو بھی فحاشی قرار دیں گے ؟ کچھ افراد کو ایک زیر لب مسکراہٹ ہی زخمی کر جاتی ہے، تو کیا آپ مسکراہٹ پر پابندی عائد کریں گے ؟ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے جذبات پرندوں اور حیوانوں کے اختلاط سے برانگیختہ ہو جاتے ہیں، تو کیا آپ پرندوں اور حیوانوں کو فحش قرار دے کر انھیں ملک بدر کر سکتے ہیں ؟ اچھا چھوڑیے ان خارجی محرکات کو، ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو تنہائی میں آنکھیں موند کر تصور میں ڈوبتے بہکتے ہی چلے جاتے ہیں تو کیا آپ تصور کو فحاشی سے تعبیر کر کے اس پر حد قائم کریں گے ؟ ہمارے ہاں گلی گلی اور محلے محلے مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں بطور خاص حسین شاعرات کو نہ صرف مدعو کیا جاتا ہے بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ انھیں اسٹیج کی پہلی صف میں بٹھایا جائے تاکہ سامعین انھیں دیکھ کر اپنی آنکھیں سینکتے رہیں۔ ان شاعرات کا انتخاب اکثر و بیشتر ان کی قادرالکلامی پر نہیں بلکہ ان کے عشوے و غمزے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب یہ شاعرات تیر و تبر سے لیس ہو کر مائک پر ترنم ریز ہوتی ہیں اور "معاملہ بندی” (جسے مصحفی نے "چھنالے کی شاعری” کہا ہے ) والے اشعار مسکر امسکرا کر سامعین کی طرف اچھالتی ہیں تو سامعین کی پہلی صفوں میں موجود مقطع صورتیں بھی کھل اٹھتی ہیں۔ ایک تہذیبی اور ثقافتی علامت کی یہ تذلیل دیکھ کر کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ جو "شرفا” معاشرتی دباؤ کے سبب مجرے نہ دیکھ پانے کی محرومی سے دو چار ہیں، انھوں نے اسے مشاعرے کی شکل دے دی ہے ؟ تو پھر اگر عصمت افسانہ لکھتی ہیں تو اس پر اعتراض کیسا؟ اگر صادقین مصوری کرتا ہے تو اس پر احتجاج کیوں ؟ اگر آپ اس حقیقت کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں رکھتے تو ہر فن کار کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیجیے تاکہ وہ روشنی اور اندھیرے کی تمیز نہ کر پائے، ان کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیجیے تاکہ ان کے احساس کو سرگوشیوں میں ڈوبی سسکیاں نہ جھنجھوڑ پائیں۔
ادیب قاری کے لیے مسرت کی بہم رسائی اور اس کی تنقیح کا بھی ذمے دار ہوتا ہے۔ اگر کوئی ادیب اپنے قلم کو فحاشی کو مقصد بنا کر پیش کر رہا ہے تو یقیناً وہ لائق تعزیر ہے لیکن اگر اس نے فحاشی اور عریانی کو کسی بڑے مقصد کا ذریعہ بنایا ہے تو یہ ہرگز ناجائز نہیں کیوں کہ مقصد اور نیت زیادہ اہم ہیں، نہ کہ ذرائع۔ ایک ایسے دور میں جب حسن کی نمائشوں، عریاں فلموں، بلیو فلموں، انٹرنیٹ کی کارستانیوں اور مخرب الاخلاق اشتہاروں نے خلوت ہی نہیں، جلوت میں بھی فحاشی اور عریانیت کی تجلیاں عام کر دی ہیں، ہم ان قادر الکلام شاعروں اور ادیبوں کو گردن زدنی سمجھتے رہنے میں کہاں تک حق بجانب ہیں ؟کیا اخلاق، منافقت کا متبادل ہے ؟ کیا حقائق کو چھپانا ایک اخلاقی جرم نہیں ہے ؟ کیا ہمارے بیشتر ذہنی و سماجی عوامل کی تہ میں جنس کا نا پختہ شعور کارفرما نہیں ؟ کیا ان مسائل کا حل صرف اغماض و تجاہل کے ذریعے ممکن ہے ؟ اور اگر ادب کے توسط سے ہمیں ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کا موقع ملتا ہے تو کیا یہ لائق تعزیر ہے ؟ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے کلب بھی ہیں جہاں عریاں رقص ہوتے ہیں،جہاں Strip Tease پارٹیاں منعقد ہوتی ہوں، جہاں شراب، افیون اور بھنگ کے ٹھیکے دیے جاتے ہیں، جہاں رنڈیوں اور کسبیوں کو جسم فروشی کے لیے لائسنس دیا جاتا ہے، جہاں "بلیو فلموں ” کی دکانیں شاہراہوں پر چمکتی ہیں، جہاں انٹر نیٹ پر فحش سائٹس کم عمر بچوں کو "با اخلاق” بنانے کے لیے ۲۴ گھنٹے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، جہاں اخباروں میں نیم برہنہ تصاویر کی اشاعت برحق ہے، ایسے معاشرے میں صرف وہ ادیب لائق تعزیر کیوں ہے جو منافقت کی نقاب نوچ پھینکنا چاہتا ہے اور زندگی کی مکمل تصویر پیش کرنے کا خواہش مند ہے۔
میں یہاں دوسرے اور تیسرے درجے کے ادب کی وکالت نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ نہ تو وہ میرا ہدف ہے اور نہ ہی میرا مسئلہ۔ پست درجے کے ادب کا مقصد محض سنسنی پیدا کرنا ہوتا ہے اور پست شخص اسی کی وجہ سے اس کا مربی بنتا ہے۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ سنسنی کا مخرج محض جنس ہی نہیں بلکہ سیاست اور مذہب بھی ہو سکتے ہیں۔ اب جاسوسی افسانوں یا ناولوں کو ہی لے لیجیے۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ابن صفی کی بازیافت نو کی کوشش بڑے جذباتی انداز میں کی جا رہی ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ اردو کی ترویج و اشاعت میں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں نے کافی اہم رول ادا کیا ہے اور یہ کہ عام قارئین کا ایک بڑا طبقہ خالص ادب پر ان جاسوسی ناولوں کو ترجیح دیتا تھا۔ اگر واقعی یہ سچ ہے تو پھر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ قوم کو سنسنی کے درجے پر رکھنے میں سب سے زیادہ اسی طرح کے ادب معاون ہوتے ہیں، چنانچہ کیوں نہ ایسے ادب کو ایک سرے سے قلم زد کر دیا جائے ؟ لیکن قلم زد کرنے کی بات تو دور، اب تو ہم نے جرائم اور مار دھاڑ پر مبنی فلموں کو نوجوانوں کے سامنے پیش کر دیا ہے اور ہم اس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ عریانیت سے ہم نے نئی نسل کو محفوظ کر لیا ہے۔ جہاں تک میری ناقص معلومات کا تعلق ہے، قرآن حکیم عریانی سے کہیں زیادہ تشدد کی مذمت کرتا ہے لیکن ہمارے مصلحین کے نزدیک یہ کبھی اہم مسئلہ ہی نہیں رہا بلکہ وہ تشدد کے عوامی مظاہروں سے بھی چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف جہاں کہیں جنسی اختلاط کی ایک جھلک بھی دکھائی دے جائے، فوراً شور مچانے لگتے ہیں۔ مغرب میں تو تشدد کو بھی ایک طرح کی "عریانی” (indecency) تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن مشرق کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے قصیدے پڑھنے والے ہمارے محتسبین کانوں میں روئی اور آنکھوں میں کالا چشمہ لگائے مغربی معاشرے کو کوس رہے ہیں۔
عریانی کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ جسے ہمارے مصلحین نظر انداز کرتے رہے ہیں،اس پر بھی تھوڑی دیر گفتگو ہو جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔ تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ایک زمانے میں مرد اور عورت بالکل برہنہ پھرتے تھے جس کے نتیجے میں جنسی اشتعال بتدریج کم ہونے لگا، حتیٰ کہ وہ مکمل طور پر غیر جنسی ہونے لگے اور انسانی نسل کے بالکل ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ چنانچہ کپڑے ایجاد کیے گئے اور ان اعضا کو چھپایا گیا جن کا جنس سے براہ راست تعلق ہے۔ اس کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ جب اتفاقاً لوگوں کی نظر ان پوشیدہ اعضا پر پڑنے لگی تو وہ جنسی طور پر مشتعل ہونے لگے۔ اچھا پھر یہ محسوس کیا گیا کہ بار بار ان پوشیدہ حصوں پر نظر پڑنے اور انھیں غور سے دیکھنے کے سبب بھی ان سے بیزاری محسوس ہوتی ہے تو مردوں اور عورتوں کا اختلاط کم کر دیا گیا، ان پر پہرے بٹھا دیے گئے۔ لہٰذا، اب جب بھی یہ ایک دوسرے سے ملتے یا ایک دوسرے پر نظر پڑتی تو جنسی اشتعال پیدا ہونے لگا۔ یہ سلسلہ انیسویں صدی تک جاری رہا اور عریانی اخلاقی عیوب میں داخل ہو گئی۔ لیکن بیسویں صدی کی تیز زندگی میں کپڑوں کی اہمیت کم سے کم ہوتی چلی گئی اور معاشی ضرورتوں نے عورت اور مرد کے معاشرتی میل جول کی راہ ہموار کر دی۔ اس کا جو نتیجہ سامنے آیا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ فرانس اور انگلستان میں اب زیادہ تر لوگ "غیر جنسی” ہوتے جا رہے ہیں۔ یورپ کی عورتیں بسوں میں مردوں کی گود میں بیٹھ جاتی ہیں۔ اکثر ہوٹلوں میں اجنبی مرد اور عورت ایک ہی بستر پر سو جاتے ہیں اور صبح کو بالکل انجان ہو کر اپنے اپنے راستے نکل پڑتے ہیں۔ اس کے برخلاف ذرا اپنے ماحول کا جائزہ لیں۔ ہمارے ہاں عورت آج بھی کسی دوسرے سیارے کی چیز ہے جسے مرد گھورتے نظر آتے ہیں۔ یورپ کی عورتیں اس گھورنے پر متعجب ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں اگر کسی مرد کا کسی عورت سے جسم اتفاق سے چھو جائے تو سمجھیے، قیامت بر پا ہو گئی۔ ممبئی جو ہندوستان کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ مصروف اور زیادہ وسیع النظر شہر ہے، یہاں جنسی تجسس اتنا نمایاں نہیں ہے جتنا ہندوستان کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں نظر آتا ہے۔ یہاں عورتوں اور مردوں کے درمیان اتنا بڑا فاصلہ نہیں ہے، جتنا عموماً دوسرے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں نظر آتا ہے۔ یہاں آپ کو عورتیں ایسے ملبوسات میں بھی کثرت سے نظر آ جائیں گی جنھیں اگر وہ پہن کر دوسرے شہر میں گھومنے پھرنے کی جسارت کریں تو ممکن ہے کہ وہاں ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آ جائے۔ لیکن یہاں کے لوگوں کے لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ملبوسات کی اس عریانی سے ان کے دل بھر چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہاں اس طرح کی عریانی اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ اس کے برخلاف اتر پردیش اور بہار کے اکثر وہ نوجوان جو ذریعۂ معاش کے لیے اس شہر میں آتے ہیں، ان کے لیے یہ نظارہ جنسی اشتعال کا سبب بن سکتا ہے، جب کہ یہاں کے رہنے والوں کے لیے یہ معمول کا حصہ ہے اور وہ گھورنے والوں کو خود گھور نا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لیے جب میں کہتا ہوں کہ فحاشی یا عریانی کا تصور اضافی ہے، جو جغرافیہ، نفسیات، رسم و رواج، عقیدے، طرز زندگی وغیرہ کی مناسبت سے بدلتا رہتا ہے تو میرا مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ عریانی اس قدر مخدوش چیز نہیں ہے جس کے خلاف احتجاج کا کوئی موقع آپ گنوانا نہیں چاہتے۔
اوشو رجنیش نے اس ضمن میں ایک حکایت بیان کی ہے۔ دو جین مُنی بھائی ایک سفر پر نکلے تھے۔ اب آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ جین دھرم میں تیاگ اور سنیاس کے قوانین کافی سخت ہیں۔ خیر، دونوں بھائی جنگل اور دریا عبور کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن تھے۔ راستے میں ایک ندی حائل ہوئی جہاں ایک اکیلی خوب صورت لڑکی زار و قطار روتی نظر آئی۔ چھوٹے بھائی نے اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ قافلے سے بچھڑ چکی ہے اور وہ یہ ندی پار نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر بڑا بھائی تو آگے بڑھ گیا، کیوں کہ اس کے مذہبی نقطۂ نظر سے "استری اسپرش” حرام تھا۔ لیکن چھوٹے بھائی نے اس لڑکی کو بلا تکلف اپنے کاندھے پر سوار کیا اور ندی پار کر گیا۔ بڑے بھائی نے ناگواری اور شدید غصے میں یہ سب کچھ دیکھا لیکن خاموش رہا۔ چھوٹے بھائی نے لڑکی کو ندی کی دوسری طرف اپنے کندھے سے اتارا اور اپنے بڑے بھائی کے پیچھے حسب سابق ہو لیا۔ کئی گھنٹے گذر گئے لیکن بڑے بھائی کا تشنج برقرار رہا۔ کافی دیر گذرنے کے بعد اس سے برداشت نہ ہوا اور بالآخر وہ اپنے چھوٹے بھائی کی طرف پلٹ کر اس پر برس پڑا، "تم نے پاپ کیا ہے۔ ” چھوٹا بھائی اس اچانک سرزنش سے پریشان ہو گیا، اس نے پوچھا، ” مجھ سے کیا غلطی ہو گئی؟” بڑے بھائی نے اسے سخت و سست کہتے ہوئے کہا "کیا تمھیں علم نہیں کہ سنیاسی کے لیے استری اسپرش حرام ہے اور تم نے اس کنیا کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا؟” چھوٹے بھائی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا، "بھیا! میں نے تو گھنٹوں پہلے اس کنیا کو اپنے کندھے سے نیچے اتار دیا تھا لیکن آپ اب تک اسے اپنے سر پر بٹھائے ہوئے ہیں ؟” مشرق اور مغرب کے جنسی رویے میں بھی یہی فرق ہے۔
ماہرین نفسیات کے ایک سروے کے مطابق فحش ادب ہمیشہ جنسی گھٹن کے دور میں پیدا ہوتا ہے۔ جنسی اختلاط کے مواقع جتنے کم ہوتے ہیں یا ان کا حصول جتنا مشکل ہوتا ہے، فحش ادب اسی کثرت سے پیدا ہو گا۔ گویا فحش ادب کی پیداوار اور اس کے مطالعے کا ایک اہم مقصد جنسی گھٹن کا اخراج بھی ہے۔ پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فحش ادب ایک قسم کا اظلال ہوتا ہے یعنی تخلیق کار اپنی دبی خواہشات کو کسی اور کے سر منڈھ دیتا ہے اور اس طرح وہ جو خود کرنا چاہتا ہے، ناول یا افسانے میں کسی اور کردار سے کرواتا ہے، نہ کہ شموئل احمد کی طرح وہ خود ہی اپنے کرداروں سے جماع کرنے لگتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ادب، ادیب کی سوانح نہیں ہوتا لیکن جو امور ایک ادیب کی تخلیقی زندگی کا حصہ ہو جاتے ہیں اور اس کی تخلیقات کا ایک مزاج متعین کر رہے ہوتے ہیں، ان سے صرف نظر کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ فرائڈ کا بھی کہنا ہے کہ تخلیات کی کثرت ان لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے جو معاشی، سماجی یا جنسی لحاظ سے ناآسودہ ہوتے ہیں یا سماجی مقام حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ چنانچہ ادیب انھی جبلتوں کی تسکین کرتا ہے۔ اس اعتبار سے عالمی ادب پر نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ادب "شریفوں ” کا کاروبار نہیں ہے۔ عظیم فن کاروں کی سوانح حیات کے مطالعے سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ یا تو وہ غیر معمولی قوت رجولیت کے مالک تھے یا نمایاں ہم جنسی میلان رکھتے تھے۔ مثلاً سوفو کلیز کی زندگی عشق بازی اور کام جوئی میں گذری، سیفو کے اپنی شاگرد لڑکیوں کے ساتھ ہم جنسی کے تعلقات تھے۔ ورجل ہم جنسی تھا، اس نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ اطالیہ کا معروف سنگ تراش لیونارڈ و ڈاونچی اور مائیکل اینجلو ہم جنسی تھے۔ نطشے نے مشہور مصور رفائیل کے بارے میں کہا ہے کہ "جنسی نظام کی حدت کے بغیر رفائیل پیدا نہیں ہو سکتا۔ ” شیکسپیئر اور مارلو ہم جنسی تھے۔ شیکسپیئر نے تو اپنے محبوب لڑکوں سے ایک سو سے زائد سانیٹوں میں اظہار عشق کیا ہے۔ شیخ سعدی خوب صورت حمامی لونڈوں کو گھورنے کے لیے کئی کئی میل پیدل سفر کر کے جایا کرتے تھے۔ میر تقی میر کے دواوین دلّی کے لونڈوں سے بھرے پڑے ہیں۔ گوئٹے غیر معمولی جنسی توانائی کا مالک تھا، اس نے بے شمار عورتوں سے عشق کیا۔ ونکل مان، والڈ پیٹر اور آ سکر وائلڈ ہم جنسی تھے۔ آ سکر وائلڈ پر سدومیت کا جرم ثابت ہو گیا اور اسے قید کاٹنی پڑی۔ آندرے ژید اپنی سدومیت کا ذکر دلچسپ انداز میں کرتا ہے۔ عربی کا معروف شاعر ابو نواس سدومی تھا، اس نے امردوں کی تعریف میں پر جوش قصائد لکھے ہیں۔ ورلین اور راں بو کا آپس میں ہم جنسی معاشقہ تھا۔ ایک بار دونوں کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا، ورلین نے راں بو پر طمنچہ داغ دیا جس سے وہ زخمی ہو گیا اور ورلین کو دو سال کی قید ہوئی۔ ایلن گنس برگ اور پیٹر وسلوفسکی چودہ برس تک ہم جنسی رشتۂ ازدواج میں منسلک رہے۔ وکٹر ہیوگو، بالزاک اور بائرن پر عورتیں پروانوں کی طرح نثار ہوتی تھیں۔ وکٹر ہیوگو اسی برس کی عمر میں بھی جنسی ملاپ کرتا رہا۔ موپاساں قحبہ خانوں میں جا کر ایک ہی تخلیے میں کئی کئی کسبیوں کے ساتھ تمتع کیا کرتا تھا، اس کی موت آتشک میں مبتلا ہو کر ہوئی۔ بائرن نے سولہ برس کی عمر میں اپنی بڑی سوتیلی بہن آگسٹا کے ساتھ معاشقہ کیا۔ فرانس کا مشہور مورخ والٹیئر بڑھاپے میں اپنی بھانجی سے معاشقہ کرتا رہا۔ آلڈس ہکسلے یہودی کسبیوں کی صحبت میں خوش رہتا تھا، یہ بھی آتشک میں مبتلا ہو کر اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ مشہور مصور وین گوغ گھٹیا درجے کی ٹکہائیوں کے پاس جایا کرتا تھا۔ اس نے اپنی بہترین تصویریں پاگل خانے میں تخلیق کی تھیں، بالآخر اس نے ۳۷ برس کی عمر میں خودکشی کر لی۔
شاعری، تمثیل نگاری، موسیقی، مصوری اور سنگ تراشی میں جنسی محرکات و عوامل شروع سے کار فرما رہے ہیں۔ جذبۂ عشق جنسی جبلت ہی کا پروردہ ہے، کیوں کہ "بقول صوفیوں کے نامردی میں عشق نہیں ہوتا، اس کے لیے رجولیت ضروری ہے۔ ” فردوسی کے شاہنامے میں زال اور رودابہ کا افسانہ، ایلیڈ میں پیرس اور ہیلن کا عشق، کالی داس کے ناٹک میں وکرم اور اروسی کا پیار، طربیۂ خداوندی میں دانتے کا بیاطر سچے سے عشق، فاؤسٹ میں فاؤسٹ اور گریچن کا رومان، رومیو جولیٹ میں دو دشمن خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کا المناک پیار، ٹالسٹائے کی "جنگ اور امن” میں آندرے اور نٹاشا کی محبت، ہیوگو کے "نوترادم کا کبڑا” میں کواسمیڈو کی خانہ بدوش لڑکی سے بے پناہ محبت وغیرہ، قارئین کے ذہن و قلب پر جمی ہوئی خود غرضی اور منافقت کی پھپھوندی کو دور کرتی ہے اور وہ خود فراموشی کے جذبات سے سر شار ہو جاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان فن پاروں میں جنسی جبلت مرتفع ہو کر انسان کے تزکیۂ نفس اور رفعت احساس کا سبب بن جاتی ہے۔
شاعروں، ناول نگاروں اور تمثیل نگاروں نے ہر طرح کے جنسی موضوعات کو برتا ہے۔ جنسی غلامی، ایذا کوشی، ایذا طلبی، مرد افگن عورتوں، حیوانیت، ہم جنسیت، معاشقۂ محرمات، نرگسیت، زنانے مردوں، مردانہ عورتوں، نوخیزوں کے ساتھ بڑی عمر کے لوگوں کے معاشقے وغیرہ، غرض کہ کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس سے ادب و فن کا دامن خالی ہو؛ مثلاً یوری پیڈیز کی تمثیل محرمات کے معاشقے پر مبنی ہے۔ شیکسپیئر کی تمثیل اینٹونی کلیوپیٹرا کا مرکزی خیال جنسی غلامی ہے۔ عصمت لکھنوی زنانہ لباس پہن کر مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ الف لیلہ و لیلہ کی داستان میں دو لزبائی عورتوں کا معاشقہ بیان کیا گیا ہے۔ بائرن نے اپنی "جنسی کج رویوں ” کی سرگذشت لکھی تھی۔ ٹالسٹائے اپنی بیوی سے سخت متنفر تھا اور اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے "میں ایک غلیظ شہوت پرست بڈھا ہوں۔ ” اواخر عمر میں ٹالسٹائے ازدواجی زندگی کو "قانونی عصمت فروشی” کہا کرتا تھا۔ اس کے عظیم ناول "آنا کیرے نینا ” کا موضوع بھی یہی ہے۔ منٹو تو بے چارہ معصوم تھا، فحاشی کے لیے جو شدت اور انہماک درکار ہے، وہ اس میں مفقود تھا۔ شاید اسی لیے اس نے مثنوی میر درد کے بارے میں کہا تھا کہ "شکر ہے کہ میں نے اپنی پیاس اور بھوکی خواہشات نفسانی کو پرچانے کے لیے ایسے اشعار نہیں لکھے …ایسی شاعری دماغی جلق ہے۔ لکھنے اور پڑھنے والوں دونوں کے لیے میں اسے مضر سمجھتا ہوں۔ ” عصمت کے ہاں بقول دین محمد تاثیر، نو بلوغتی اضطراب ہے، ممتاز مفتی میں نکتہ پروری زیادہ ہے، البتہ بیدی کے یہاں جنسی بے چینی موجود ہے لیکن ان کے کئی افسانوں میں بھی غیر روحانی اور محض بدنی جنسی تعلق سے بیزاری کے تاثرات ہی نظر آتے ہیں۔ ان سے قطع نظر اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ اور عالمی ادب کا گراں قدر اثاثہ،اسی جنسی جبلت کے مرہون منت ہیں جس نے ان عظیم فن کاروں کو جہان نو خلق کرنے کے لیے اکسایا۔ ن۔ م۔ راشد نے ایک بار بڑی معقول بات کہی تھی کہ” فحاشی کے وجود سے انکار کرنا گویا انسانیت کی یا زندگی کی ہر بنیاد سے انکار کرنا ہے، کیوں کہ فحاشی جس کا اپنا تعلق جنسیت سے ہے، انسان کے ساتھ لگی ہے بلکہ اس سے انسان کا خمیر مایہ اٹھایا گیا ہے۔ اگر حضرت آدم ؑ دانۂ گندم نہ کھاتے تو ہم آپ شاید اب تک جنت میں ہی جمائیاں لے رہے ہوتے۔ ”
اظہار تشکر
ادب میں عریاں نگاری اور فحش نگاری پر خصوصی شمارے کی اشاعت کا ارادہ حسب توقع میرے لیے چیلنج ثابت ہوا۔ اول تو اس موضوع پر کوئی باقاعدہ تصنیف نہیں ہے اور دوم یہ کہ ان تمام بکھرے مضامین کو یکجا کرنا بذات خود ایک صبر آزما کام تھا۔ اس سفر میں انگریزی کے کچھ بہت ہی اچھے مضامین ہاتھ لگے مثلاً جارج اسٹینر کا طویل مضمون۔ "The Tongues of Eros”، سنسکرت کے حوالے سے J. Masson-Moussaieff کا شاندار مضمون "The Obscenity in Sanskrit Literature”، جارج آرویل کا "Inside the Whale” اور طارق رحمن کا مضمون "Obscenity in Urdu Literature” کے علاوہ شیکسپیئر، بائرن، ولیم بلیک، والٹ وٹمین، بریڈ فورڈ اور حافظ شیرازی وغیرہ کی نظمیں بھی میرے انتخاب میں شامل تھیں لیکن ہمارے کچھ غیر ذمے دار مترجمین کی وعدہ خلافی کے سبب انھیں شامل اشاعت کرنا ممکن نہ ہو سکا جس کا مجھے از حد افسوس ہے۔
شاید یہ شمارہ اس طرح نہ شائع ہو پاتا، اگر پاکستان کے معروف صحافی علی اقبال کی گراں قدر تالیف’’ روشنی کم، تپش زیادہ‘‘ پر میری نظر نہ پڑی ہوتی، جس میں انھوں نے فحاشی کے موضوع پر بہت سی تحریروں کو یکجا کر دیا ہے۔ یہ اردو میں اپنے موضوع کا پہلا اور بڑا جامع انتخاب ہے۔ میں نے اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ہے جس کے لیے میں صاحب کتاب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اس کے علاوہ مواد کی فراہمی میں ہمیشہ کی طرح شمس الرحمن فاروقی صاحب نے میری کافی مدد فرمائی۔ جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہوئی،میں نے بلا تکلف اپنا دست طلب دراز کر دیا اور انھوں نے بلا تردد میری فرمائش پوری کر دی۔ ان کی اس نوازش خسروانہ کے لیے میں کورنش بجا لاتا ہوں۔
میرے نوجوان ادیب دوست تصنیف حیدر (دہلی) نے اس شمارے کے لیے نہ صرف مواد فراہم کرنے میں میری مدد کی بلکہ اپنے کئی قیمتی مشوروں سے بھی نوازا۔ خود غرضی اور خود نمائی کے اس دور میں شعر و ادب کے لیے ایسی حیرت آفرین خود سپردگی مجھے نہال کر گئی۔ میں اپنے اس کرم فرما کی عنایت بے غایت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جناب وقار قادری (ممبئی) کا شمار اردو زبان و ادب کے خاموش جاں نثاروں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ اچھے مترجم ہی نہیں بلکہ قادر الکلام نظم گو بھی ہیں لیکن ان کا محبوب مشغلہ مطالعہ ہے۔ چنانچہ ان کے اس مشغلے کا میں نے خوب فائدہ اٹھایا اور انھوں نے بھی فیاضی دکھاتے ہوئے اپنی نجی لائبریری سے مجھے استفادہ کرنے کا پورا موقع دیا۔ میں اپنے اس کرم گستر کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
—
اشعر نجمی
٭٭٭
مضامین پر مشتمل یہ حصہ بیک وقت وزنی اور ناکافی ہے۔ کمیت کے اعتبار سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس حصے میں موضوع کے تعلق سے وہ تمام گوشے زیر بحث آئے ہیں جن پر غور و فکر کیے بغیر اس مسئلے پر سنجیدہ گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ لیکن کیفیت کے اعتبار سے اس لیے ناکافی ہے، کیوں کہ میں نے طوالت کے خوف سے اس کا دائرہ صرف ادب تک محدود کر دیا ہے جب کہ یہ فنون لطیفہ کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ اگرچہ کئی مضامین میں ضمناً ان کا ذکر بھی آ گیا ہے لیکن بہرحال وہ ناکافی ہیں۔
کئی ثقہ ناقدین اور اہل الرائے حضرات نے اپنی تحریروں میں عریانیت اور فحشیات کو معاشرتی نظم ونسق کے تناظر میں بھی دیکھا ہے جو میرے خیال میں اس لیے ناگزیر تھا، کیوں کہ احتجاج و احتساب کے نعرے یہیں سے بلند ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی میں نے قطع و برید سے کام لیتے ہوئے صرف ایسی تحریروں کو ترجیح دی ہے جن میں کسی نہ کسی طور پر ادبی صورت حال کا محاکمہ پیش نظر ہو۔
حالاں کہ زیر نظر باب کے عنوان "حزب الاحرار” سے ظاہر ہے کہ اس میں موضوع کے تعلق سے آزادہ مزاج افکار شامل ہیں۔ لیکن فکری مشابہت اور مناسبت کے باوجود ان مضامین میں رویے کا فرق بھی واضح ہے۔ کہیں اپنے موقف پر شدت نظر آتی ہے تو کہیں توازن داد و ستد، کہیں میانہ روی تو کہیں عذر خواہی، کہیں ہمواری تو کہیں گنجلک بیانی، کہیں جراحی تو کہیں لیت و لعل؛ گویا یہ ایک ایسا نگار خانہ بن گیا ہے، جس میں مختلف مکاتیب فکر کے پروردہ اذہان نے اپنے اپنے مو قلم کے ذریعہ ان انسانی تجربات کے ارتعاش کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے جس کے بغیر "روحانیت” کا تصور بھی محال ہے۔ آپ ان افکار سے شدید اختلاف کر سکتے ہیں (کہ یہ آپ کا حق ہے ) لیکن ان سے صرف نظر کر پانا مشکل ہے، کیوں کہ ان مسائل کا حل اغماض و تجاہل کے ذریعے ممکن ہی نہیں۔
مدیر اثبات
٭٭٭
ادب و فن میں فحش کا مسئلہ
محمد حسن عسکری
پچھلے مہینے اپنی باتوں کے سلسلے میں فراق صاحب نے چند اشعار لیے تھے جنھیں عام طور پر فحش سمجھا جاتا ہے اور بتایا تھا کہ وہ کیوں فحش نہیں ہیں۔ ہر بحث میں اور خصوصاً اس فحش نگاری کی بحث میں کلیے قائم کرنے اور مطلق اصولوں پر جھگڑنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ٹھوس مثالیں لے کر ان کے حسن و قبح پر غور کیا جائے۔ اور سطح کے نیچے جا کر محض لغوی مطلب کے علاوہ انھیں معنی کی دوسری قسموں (ارادہ، مزاج، لہجہ وغیرہ) کی روشنی میں بھی دیکھا جائے۔ بحث کو صاف اور واضح کرنے کے علاوہ اس میں ایک عام تعلیمی اور تہذیبی فائدہ بھی ہے۔
لیکن میں اتنا خوش یقین نہیں کہ نئے ادب پر عریانی کا الزام لگانے والوں کو بھی اس مقصد سے متاثر ہوتا ہوا سمجھوں۔ جے۔ کے۔ دی ماں، فرانسیسی فطرت نگاروں میں سے ایک تھا اور بعضوں کے نزدیک ان میں سب سے ممتاز۔ اس کے ادبی اصولوں میں سے سماجی مقصد نہیں تھا بلکہ بدی کی رزمیہ لکھنا۔ اس کتاب "Against The Grant” کو، جو آ سکر وائلڈ (Oscar Wilde) کے حلقہ میں پوجی جاتی تھی، شاید جنسی تخریبات کی انسائیکلوپیڈیا کہنا بجا ہو گا۔ لیکن آخر میں اس نے توبہ کر لی تھی اور اکثر بدی کی پرستش کرنے والے مصنفوں کی طرح رومن کیتھولک ہو گیا تھا۔ اسی زمانے میں اناتول فرانس (Anatole France)کے پاس پیغام بھیجا کہ بس اب بہت گندگی سے کھیل چکے، توبہ کرو اور سچے عیسائی بن جاؤ۔ اناتول فرانس نے بصد ادب جواب دیا، "مسیودی ماں کو میرا سلام پہنچانا اور کہنا میسو فرانس انھیں صلاح دیتے ہیں کہ وہ اپنے قارورے کا امتحان کرائیں۔ ”
فراق صاحب کی طرح میں نے بھی بحث کے لیے چند مثالیں چنی ہیں۔ ان میں سے کچھ مصوری اور مجسمہ سازی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان پر لکیر، سطح، تناسب اور حجم کے نقطۂ نظر سے غور کیا جاتا، لیکن میں ان فنون میں کورا ہوں۔ میں نے تو صرف ورق گردانی کرتے ہوئے دو چار مثالیں ایسی چھانٹ لی ہیں، جنھیں فحش سمجھا گیا ہے یا بعض پاک بیں حضرات سمجھ سکتے ہیں۔ میں نے خاص طور پر مذہبی آرٹ کی مثالیں چھانٹی ہیں۔
لیکن مذہبی آرٹ پر ہم اس وقت تک انصاف کے ساتھ غور نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم دوسروں کے احساسات کو بھی اتنا ہی قابل وقعت نہ سمجھیں جتنا کہ اپنے معتقدات کو۔ غالباً احساسات کا درجہ معتقدات سے بلند تر ہے ؛ کم سے کم آرٹ کی دنیا میں۔ اور مذہب ہے کیا سوائے زندگی اور کائنات کے بارے میں ایک خاص نقطۂ نظر قائم کرنے کے ؟ ممکن ہے کہ میرے مذہبی اعتقاد کی رو سے سانپوں کو پوجنے والے حبشی کا اعتقاد غلط ہو لیکن اگر میں ایمان دار ہوں تو اس جذبے کی گہرائی، خلوص اور بنیادی حیثیت سے انکار نہیں کر سکتا جس نے اسے سانپ پوجنے پر مجبور کیا۔ بلکہ ممکن ہے، اس کا جذبہ میری توحید پرستی سے زیادہ پر زور، زیادہ سچا ہو اور روح کائنات سے رشتہ قائم کرنے میں اس کی زیادہ مدد کرتا ہو۔ شاید میری باتیں اسلام کے خلاف ہوں لیکن میرا یقین ہے کہ میں "قرآں در زبان پہلوی” کے الفاظ دہرا رہا ہوں : "موسیا، آداب داناں دیگر اند۔ ”
تو غرضیکہ ہم کسی زمانے، کسی قوم کے مذہبی آرٹ کو اس وجہ سے رد نہیں کر سکتے کہ اس میں ہمارے مذہبی معتقدات نہیں پائے جاتے۔ اس بنیادی اصول کو ماننے کے بعد زمانہ قبل از تاریخ اور افریقی قوموں کی نقاشی اور مصوری (جو سو فی صدی مذہبی ہے ) سے لے کر مصری، ہندو اور عیسائی مذہبی آرٹ تک دیکھ جائیے۔ پاکیزہ ترین تصویروں اور مجسموں میں بھی جنسی اعضا کو چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی، حالاں کہ ان موقعوں پر کسی غیر اور نامناسب جذبے کی مداخلت گوارا نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے سنجیدہ موقع پر جہاں کائنات کے متعلق صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری جماعت کا رد عمل دکھانا منظور ہو، وہاں کوئی ایسے عنا صر داخل کیے گئے ہوں گے جن کا مقصد جنسی ترغیب و تحریک یا جنسی تجسس ہو۔ جہاں فن کار کی ساری روح ستائش و نیائش یا خوف و ہیبت کے جذبوں میں سمٹ آئی ہو، وہاں اسے جنسی لذت کا خیال کیسے آ سکتا ہے ؟ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کوئی فن کار اپنے فن پارے کی وحدت تاثر اتنی آسانی سے کیسے برباد کر سکتا ہے ؟ اور خصوصاً جب کہ وہ محض اپنے جذبوں کا اظہار نہ کر رہا ہو بلکہ پوری قوم نے ایک اہم فرض اس کے سپرد کیا ہو…جہاں ذرا سی لغزش میں اسے ابدی لعنت مول لینے کا خدشہ ہو۔ ایسے مقام پر صرف ایسے لوگوں کا ذہن جنس کی طرف جا سکتا ہے جن میں جمالیاتی احساس غائب ہو، یا جن کے دل سے چھچھورے اور سستے مزے کا خیال کبھی نہ جاتا ہو۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مجسموں اور تصویروں میں جنسی اعضا اس وقت چھپائے جانے شروع ہوتے ہیں، جب زمانہ انحطاط پذیر اور انحطاط پسند ہوتا ہے، جب روحانی جذبے کی شدت باقی نہیں رہتی اور خیالات بھٹکنے لگتے ہیں۔ جب فن کار ڈرتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین کی توجہ اصلی چیز پر مرکوز نہیں رکھ سکے گا۔ پتے اس وقت ڈھکے جانے شروع ہوتے ہیں جب فن پارے کی وحدت قوم کی نظر میں باقی نہیں رہتی اور وہ اسے مختلف ٹکڑوں کا مجموعہ سمجھنے لگتی ہے۔ ان چیزوں سے قطع نظر، بعض دفعہ تھوڑا سا پردہ تصویر کو کہیں زیادہ فحش بنا دیتا ہے اور ذہن کو لامحالہ برے پہلوؤں کی طرف لے جاتا ہے، کیوں کہ اس میں وہی sneaking کی صفت پیدا ہو جاتی ہے جس کا ذکر فراق صاحب کیا ہے۔ اس کی درخشاں مثالیں رائل اکیڈمی کی تصویریں اور مجسمے ہیں، جسے انجیر کا پتہ استعمال کرنا پڑے وہ صرف اخلاقی حیثیت سے ہی کمزور نہیں بلکہ شاید اچھا فن کار بھی نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ بعض اعضا کو اپنے نقش میں کس طرح بٹھائے۔ انجیر کے پتے کے پیچھے وہ عریانی نہیں چھپاتا بلکہ اپنی فنی کمزوری۔ برہنہ جسم دیکھنے اور دکھانے کے لیے بھی بڑی قوت مردمی، بڑی سنجیدگی اور بڑے گہرے اخلاقی اور روحانی احساس کی ضرورت ہے۔ جسم اور جنسی اعضا کو پاک سمجھنا غالباً سب سے مشکل مسئلہ ہے جو انسانی روح کے سامنے آ سکتا ہے۔ جسم کو روح کے برابر پاکیزہ اور لطیف محسوس کرنا ایک ایسا مقام ہے جو فرد اور قوم دونوں کو تہذیب کی انتہائی بلندی پر ہی پہنچ کر حاصل ہوتا ہے اور یہ دنیا کے دو بڑے تمدنوں، ہندو اور یونانی کا ما بہ الامتیاز ہے۔ اور یہ دونوں آرٹ جسمانی حقیقتوں سے آنکھیں نہیں چراتے۔ یہاں میں یونانی آرٹ کی ایک خصوصیت کا ذکر کروں گا۔ یونانی آرٹ کا اصول آدرش اور مکمل ترین نمونے کی تلاش ہے۔ وہ حقیقت کو بگاڑتا ہے، اسے حسین تر ین شکل میں پیش کرنے کے لیے۔ اس نے اپنی ساری توجہ عورت کے جسم پر ہی صرف نہیں کی بلکہ ایک زمانے میں مرد کا جسم ہی حسن کا آدرش تھا۔ یونانی آرٹ نے دکھایا ہے کہ مرد کے اعضائے تناسل میں بھی اتنا ہی حسن، صداقت اور نیکی ہوتی ہے جتنی وینس (Venus) کے سینے میں۔ اگر حسن نام ہے توازن، تناسب اور آہنگ کا، اور حسن صداقت ہے تو ان مظاہر میں بھی اتنا ہی حسن، صداقت اور نیکی ہے جتنا اپولو (Apollo) کے چہرے میں۔ یہاں پھر یہ یاد رکھیے کہ یونانی آرٹ بھی بہت حد تک مذہبی ہے، خواہ اس کی پرستش کا مرکز کوئی موہوم ہستی نہیں بلکہ انسان ہیں۔ وہ الگ الگ چیزوں کے بارے میں نہیں بلکہ پوری کائنات کے متعلق ایک نقطۂ نظر کا اظہار ہے۔ یونان کے آخر ی دور میں لذت پرستی آ گئی ہو لیکن شروع کا زمانہ قطعاً معصوم ہے۔
یہ نہ سمجھیے کہ تصویر میں جنسی اعضا کی شمولیت کی وجہ جواز محض حقیقت نمائی کا اصول…چونکہ وہ جسم کا حصہ ہیں، اس لیے دکھانا پڑتا ہے۔ نہیں، بلکہ اگر فن کار میں صلاحیت ہے تو یہ حصے اظہار میں اس کی اتنی ہی مدد کر سکتے ہیں جتنی کوئی اور۔ گہری سے گہری روحانی کیفیتیں ان کے صحیح استعمال سے زیادہ واضح کی جا سکتی ہیں۔ فن پارہ ایک وحدت ہوتا ہے۔ اس کے ہر جز کو مرکزی جذبہ کا صرف تابع ہی نہیں ہونا پڑتا بلکہ اسے اظہار اور وضاحت میں بھی معاونت کرنی پڑتی ہے۔ اور پھر بڑا فن کار تو ذرا سے نقطے کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ میرے سامنے افریقہ کے ایک چوبی مجسمے کی تصویر ہے جس میں روح کائنات سے خوف زدہ ہونے اور ہیبت سے جم کر رہ جانے کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ صرف دیکھنے ہی سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ مڑی ہوئی متشنج رانوں کے درمیان اور باقی جسم کے تناسب سے ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے نے اثر میں کیا اضافہ کر دیا ہے …اگو ستینودی دو چیو کی سنگ مرمرپر ابھری ہوئی تصویر ہے ؛ "میڈونا اور بچہ” …عیسیٰ کے بچپن کی جتنی تصویریں میں نے دیکھی ہیں، ان میں یہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ کیوں کہ عام طور پر مصور سارا زور تقدس پیدا کرنے میں صرف کر دیتے ہیں لیکن یہاں ایک ایسی چیز پیش کی گئی ہے جو تقدس اور طہارت سے کہیں بلند ہے۔ یعنی بچے میں زندگی کا ابھار، زندگی کا مچلنا، یہ معصوم شوخی اور تبسم کی لہریں جیسی چہرے پر نمایاں ہیں، بالکل ویسی ہی رانوں کی سلوٹوں میں بھی۔ اور جس کیفیت سے جنسی اعضا دکھائے گئے ہیں، وہ چہرے کی معصومیت کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
مائیکل اینجلو(Michael Angelo) کی مشہور تصویر ہے ؛ "تدفین”۔ عیسیٰ کو بالکل برہنہ دکھایا گیا ہے، کیوں کہ موت کے اثر کو جسم کے ہر حصے سے ظاہر کرنا مقصود تھا اور خصوصاً ٹانگوں سے چہرے پر انتہائی سکون اور روحانیت طاری ہے۔ مصور کو یقین تھا کہ جنسی حصے عریاں کر دینے سے اس روحانی جمال پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔ اگر اس کا ذرا سا بھی شائبہ ہوتا تو مائیکل اینجلو جیسا مصور کبھی بھی عریانی کی خاطر عریانی پسند نہ کرتا۔ چنانچہ روبنز نے اپنی تصویر "مردہ مسیح ” میں تھوڑا سا حصہ ڈھک دیا ہے، حالاں کہ یہاں چہرہ پر جمال نہیں بلکہ کسی عام مصلوب لاش کا سا ہے۔ یہ پردہ اس وجہ سے کہ سر پیچھے کی طرف ڈھلکا ہوا ہے۔ اگر جنسی حصے جن کی جگہ تصویر میں آگے ہے، کھلے ہوتے تو وہ نظروں کو وہیں روک لیتے اور بازوؤں کی قوت اظہار میں بھی حارج ہوتے۔ یہ فیصلہ تو فن کارانہ احساس ہی کرتا ہے کہ کسی جگہ عریانی موزوں ہے کہاں نا موزوں۔
بلیک (Blake) کی تصویر "شیطان باغی فرشتوں کو ابھار رہا ہے۔ ” جنسی حصہ پیٹ کے عضلات سے مل کر ایک مثلث بناتا ہے جس کی لکیریں ٹانگوں کو اوپر کے جسم سے الگ کرتی معلوم ہوتی ہیں۔ اس فرق سے ٹانگیں ستون بن جاتی ہیں اور مضبوطی سے اپنی جگہ گڑی ہوئی معلوم ہونے لگتی ہیں اور شیطان کو تو غالباً انجیر کا پتہ سجتا بھی نہیں۔
رودیں (Rodin) کے مجسمے (Bronze Age) پر غور کیجیے۔ یہاں انسان کے اندر فطرت کا احساس بیدار ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ یہ احساس پیروں سے سر تک چڑھتا چلا گیا ہے اور جذبہ کی شدت سے آدمی کے ہاتھ اوپر اٹھ گئے ہیں۔ کپڑے پہنا کر تو خیر یہ خیال ظاہر ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اگر ہوتا بھی تو اتنا قوی اور صحت ور نہ ہوتا۔ لیکن اگر بیچ میں ذرا سی دھجی ہوتی تو یہ فائدہ ضرور تھا کہ نیک لوگوں کو اسے دیکھ کر آنکھیں نیچی نہ کرنی پڑتیں، مگر لائنوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا۔ نظر بیچ میں اٹک جاتی اور ساتھ ہی اس احساس کی روانی بھی وہیں ٹوٹ جاتی اور مجسمے میں وہ بے اختیاری اور از خود رفتگی نہ رہتی جو اب ہے۔ اب تو شدت تاثر اور ہم آہنگی کا یہ عالم ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ سارا جسم سن ہو گیا ہے اور سارا احساس کھنچ کر سر اور بندھی ہوئی مٹھی میں آ گیا ہے …گویا روح ایک نقطے پر یکایک جل اٹھی ہے۔ یہاں جنسی اعضا کی سکون پذیری کیا اثر پیدا کرتی ہے ؟ شاید جسم اور روح کا فرق مٹ جاتا ہے۔
عریانی کی وجہ سے ایسٹپائن جیسا مطعون و مردود رہا ہے، وہ تو بجائے خود ایک داستان ہے۔ اس نے اسٹرینڈ کی ایک عمارت کے لیے عورت اور مرد کی زندگیوں کے مختلف مدارج کے مجسمے بنائے تھے اور اپنی ساری معصومیت اور طہارت قلب صرف کر دی تھی۔ وہ دراصل مرد اور عورت کے تعلقات کے مثالی نمونے تھے اور نیا ئشانہ جذبے سے پر۔ مگر شریف عورتوں نے یہاں صرف عیاشانہ جذبہ دیکھا اور پھر اپنی شکایتوں کے باوجود انھیں دیکھنے بھی جوق در جوق آئیں۔ اسی طرح اس کے مجسمے "پیدائش” کو بھی فحش اور گندا کہا گیا۔ لیکن پھر وینس دی میدیچی (Venus de’ Medici) کو فحش کیوں نہیں کہا جاتا؟ غالباً اس وجہ سے کہ اس کے پستان بہت شہوت انگیز ہوتے ہیں اور ایسٹپائن کا مجسمہ لوگوں کے لیے محض وحشت انگیز تھا۔ رائل اکیڈمی تو چونکہ نارنگیوں اور سنگتروں کی روایت تازہ کرتی رہتی ہے، اس لیے اس کے کارناموں سے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن محض ایک پھولا ہوا پیٹ اور بدنما پستان دکھا کر ایسٹپائن اخلاق کا دشمن بن گیا تھا۔ حالاں کہ یہاں وہ جنسیت کی بنیادوں تک پہنچ گیا ہے۔ بعضوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ حاملہ نہیں بلکہ دھرتی ماتا ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ جنس کی اہمیت اور عظمت کیا ہے۔
ایسٹپائن ہی کا مجسمہ ہے "آدم”، جسے دیکھ کر خاتونوں کے ہاتھوں سے عینکیں گر گر پڑی ہیں اور جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مجسمہ ایک آدمی نے نہیں بنایا بلکہ پوری نسل انسانی نے۔ لیکن نسل انسانی نے بھی حیا سوزی کی انتہا کر دی ہے کہ آدمی کو ابو الابا کے جسم میں خیزش دکھائی ہے۔ اول تو آدم کے بارے میں یہ بدگمانی اور پھر اس کیفیت میں۔ چھی چھی!!
لیکن اس مجسمے کے لیے مبالغہ آمیز اسم صفت گنوانے کی بجائے میں اس جسارت کی فنی اہمیت دریافت کرنے کی کوشش کروں گا۔ یونانی اور دوسرے قدیم مجسمہ ساز حرکت دکھاتے ہوں یا نہ دکھاتے ہوں مگر جس دن سے لیسنگ نے فتویٰ دیا ہے کہ مجسمہ حرکت کا اظہار نہیں کر سکتا، صرف سکون کو یا حرکت کو ایک جگہ ٹھہرا کر مجسمہ بنایا جا سکتا ہے ؛ اس دن سے مجسمہ ساز اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اس روایت کو توڑنے کے لیے رودیں نے چلتے پھرتے آدمیوں کے مجسمے بنائے ہیں لیکن نئے مجسمہ ساز مثلاً ایسٹپائن یا ہنری مور (Henry Moore) اس مادے کا بہت احترام کرتے ہیں جس سے وہ مجسمہ بنا رہے ہوں۔ چنانچہ یہ لوگ پتھر کو وہ شکلیں اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتے جو گوشت و پوست سے مخصوص ہیں۔ حرکت کے اظہار کے لیے وہ پتھر کے اندر سے حرکت پیدا کرتے ہیں۔ اسے اوپر سے توڑتے مروڑتے نہیں۔ اس مجسمہ میں ایسٹپائن کو انسان کی ہمیشہ ترقی کرتے رہنے کی لگن اور مشکلوں سے مقابلہ کی جرأت دکھانی تھی۔ لیکن اس نے آدم کو بھاگتا ہوا نہیں دکھایا بلکہ ہاتھ تک بدن سے جڑے ہوئے ہیں۔ مجسمے کے اندر ایک ایسی اینٹھن، ایک ایسا ابھار اور قوت پیدا کی گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے، آدم زمین سے اٹھ کر اوپر کھنچا چلا جا رہا ہے اور اس میں اپنی انتہائی طاقت صرف کر رہا ہے۔ خود سوچ لیجیے کہ وہ تھوری سی بدتمیزی کیا نشو د نما پاتی ہے۔ یہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جنس انسان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ مددگار ہے اور اس کی پرورش بھی اتنی ہی ضروری جتنی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کی ہے۔
ہاں، ایک سب سے زیادہ مذہبی زمانہ کو تو میں بھولا ہی جا رہا تھا یعنی یورپ کا عہد وسطیٰ۔ اس زمانہ کی جنسی حقیقت پسندی اور ظرافت کی عریانی تو مشہور ہی ہے لیکن یہ چیزیں مذہبی ڈراموں تک میں داخل ہو گئی تھیں۔ یہ ڈرامے محض تفریح طبع کا ذریعہ نہیں تھے بلکہ ایک قسم کی عبادت۔ لیکن ان میں بھی کھلے کھلے جنسی اشارے معیوب نہیں سمجھے جاتے تھے۔ نوح اور ان کی بیوی اسی ٹھاٹھ سے لڑتے تھے جیسے کوئی اور میاں بیوی۔ اور نوح کی بیوی کی زبان کسی عام عورت سے پاک تر نہیں خیال کی جاتی تھی۔
عریانی سے کیا کام لیے جا سکتے ہیں، دیکھنا ہو تو زولا کے یہاں چلیے۔ کسی عورت کا ذکر آ جائے تو اس کے پستانوں کا حال بیان کیے بغیر وہ مشکل ہی سے بڑھتا ہے۔ شاید کسی سائنس داں نے بھی اتنی قسمیں نہ بیان کی ہوں گی جتنی زولا نے ایک کتاب میں۔ لیکن یہ لذت پرستی نہیں ہے بلکہ نفسیات اور کردار نگاری۔ عورت کے سلسلے میں تیس فی صدی کردار تو وہ پستانوں کے ساتھ ہی بیان کر دیتا ہے اور اس کی داستان حیات بھی۔ زولا کا شاہ کار "جرمینل” ہے۔ یہ سرمایہ اور محنت کی جنگ کی رزمیہ ہے اور اس کا درجہ اتنا بلند ہے کہ آندرے ژید کے خیال میں اسے فرانسیسی میں نہیں بلکہ کسی بین الاقوامی زبان میں لکھا جانا چاہیے تھا۔ مزدوروں نے بغاوت کی ہے اور وہ ہر چیز برباد کرتے پھر رہے ہیں۔ اسی جوش میں وہ ایک سوداگر کو، جو ان کی لڑکیوں کو خراب کیا کرتا تھا، مار ڈالتے ہیں اور اس کے عضو مخصوص کو کاٹ کر ایک سلاخ میں پرو لیتے ہیں۔ زولا کی ذہنی گندگی…لیکن یہ موقع نہایت سنجیدہ ہے اور یہاں اس کی گنجائش ہو ہی نہیں سکتی، اور خصوصاً اس کتاب میں جہاں زولا کھلم کھلا پرولتاری انقلاب کی حمایت کر رہا ہے۔ زولا گروہوں اور ہجوموں کی نفسیات کا ماہر ہے۔ اس میں ٹالسٹائے کے علاوہ مشکل ہی سے کوئی اس کی برابری کر سکتا ہے۔ مزدوروں کی یہ حرکت ایک مشتعل گروہ کے جنون کا آخری درجہ ہے اور نفسیات کے مالک کی طرح زولا اسے دکھانے میں نہیں جھجکا ہے اور اسی سلسلے میں وہ متوسط درجے کے اخلاق پر اور نئی اقدار کے بڑھتے ہوئے حملے کے سامنے بیچارگی اور ریاکاری پر ایک بڑی سخت چوٹ بھی کر گیا ہے۔ جب مزدور اس حالت میں کارخانہ کے منیجر کے مکان کے سامنے سے گذرتے ہیں تو اس کی بیٹی اپنے باپ (یا ماں ) سے پوچھتی ہے کہ یہ کیا ہے ؟ اسے کوئی جواب نہیں ملتا اور آخر دونوں جھینپ کر کھڑکی سے ہٹ آتے ہیں۔ نفسیات کے سلسلے میں شیکسپیئر کی مثال لیجیے۔ اس کے مزاحیہ کرداروں اور بہت سے مردوں کی زبانوں سے تو خیر بڑے تر و تازہ پھول جھڑتے ہیں لیکن یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی کسی ہیروئن کو مبتذل بنا سکتا ہے اور پھر المیہ کی ہیروئن کلو پیٹر ا کو اس نے محض شہوت پرست نہیں دکھایا بلکہ بلند نظر اور پر جلال بھی۔ بری سے بری چیزیں بھی اس کے اندر بھلی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ لیکن اس کی گفتگو جنسی علامتوں سے بھری پڑی ہے اور اینٹینی کے روم چلے جانے کے بعد تو یہ عنصر اور بھی بڑھ جاتا ہے اور ہر ہر بات میں اس کی جنسی بے قراری مچلتی ہوئی نظر آتی ہے۔
کلوپیٹرا سے یہ باتیں کہلوا کر شیکسپیئر اسے شور ڈچ کی رنڈی نہیں بنا رہا تھا بلکہ اس کی نفسیاتی بصیرت وہ چیز پیش کر رہی تھی جس کا تجزیہ اب آ کر فرائد نے کیا ہے۔ اور نہ اس سے کردار کی بلندی میں کوئی فرق پڑتا ہے بلکہ کلوپیٹرا کی انسانیت اور بڑھ جاتی ہے۔ جنسی جذبے کی شدت اس کی قربانی کو اور بھی پر وقعت بنا دیتی ہے۔ شیکسپیئر مقابلے سے بڑے کام لیتا ہے۔ "اوتھیلو” میں ایک طرف تو ڈیسڈی مونا کی انتہائی معصومیت اور بھولپن ہے، اس کی زبان سے لفظ رنڈی بھی نہیں نکلتا۔ دوسری ایاگو کی دریدہ دہنی ہے جو کسی وقت فحاشی سے باز نہیں آتا اور آخر اس کا اثر اوتھیلو پر بھی پڑتا ہے اور اس کے دماغ پر جنسی ہولناکیاں مسلط ہو جاتی ہیں۔ یقیناً یہ فحش برائے فحش نہیں، نہ چونی والوں کی تسکین کا سامان۔ یہ شدید اور بعض وقت اعصاب زدہ فحش گوئی کی فضا جو اس ڈرامے پر چھائی ہوئی ہے، ڈیسڈی مونا کی شرافت نفس اور سادگی میں چار چاند لگا دیتی ہے اور وہ شیطانوں کے درمیان گھری ہوئی فرشتہ نظر آنے لگتی ہے۔
اس قسم کے مقابلے کو اگر پرکاری سے استعمال کیا جائے تو وہ کیا اثر پیدا کرتا ہے، اس کی مثال میں، میں ڈے لوئیس کی ایک نظم پیش کروں گا جو انھوں نے موجودہ جنگ کے متعلق لکھی ہے۔ یہ ایک بہت چھوٹی نظم ہے، جس میں توپوں کو عضو تناسل سے تشبیہ دی ہے، وہ دنیا کے رحم میں بربادی کا بیج بونے کے لیے تنی کھڑی ہیں۔ غالباً شاعر کی ذہنی گندگی، مگر کیا دنیا میں کوئی دوسری تشبیہ رہ ہی نہیں گئی تھی؟ لیکن غور کیجیے کہ جو زور اس تشبیہ سے پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور سے ممکن نہیں تھا۔ محض تناؤ کا زور نہیں بلکہ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جو چیزیں انسان کے لیے رحمت ہو سکتی تھیں، وہ آج لعنت بنی ہوئی ہیں۔ عضو تناسل افزائش اور برکت کا نشان ہے لیکن یہاں اسے بربادی کی علامت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ توپ سائنس اور علمی ترقیوں کی نمائندگی بھی کرتی ہے، ان چیزوں کا مقصد تھا کہ فطرت سے انسان کی لڑائی میں اس کی مدد کریں لیکن آج وہ خود انسان کی ہلاکت کے درپے ہیں۔ اس خیال کو کسی اور علامت کی مدد سے اتنی ہی چھوٹی نظم میں ادا کرنے کی کوشش کیجیے، لیکن یہ خیال رہے کہ وعظ کا عنصر نہ آنے پائے جس طرح یہ نظم اس سے پاک ہے۔ تو یہ قطعاً انفرادی طور سے فن کار پر منحصر ہے کہ وہ عریانی سے کیا کام لیتا ہے۔ اور اسے پاکیزہ ترین جذبات کے اظہار کی خدمت لی جا سکتی ہے اور لی گئی ہے۔ رلکے نے کہہ رکھا تھا کہ آرٹ کا مقصد تعریف کرنا ہے لیکن ہمارے زمانے میں تعریف کرنا کوئی ایسا آسان کام نہیں ہے۔
اگر رلکے خود تعریف کر سکا ہے تو زندگی سے بھاگ کر، اپنے آپ کو مداخلت سے محفوظ کرنے کے بعد، خاص قسم کے عارفانہ اور مابعد الطبیعاتی جذبے کو اپنے اوپر طاری کرے۔ لارنس نے تعریف کی ہے مگر زندگی کے ایک خاص مظہر کی، ایک مخصوص شعلے کی جو آدمی کو ایسے لپیٹ لیتا ہے کہ بے اختیار منھ سے تعریف نکل ہی آتی ہے لیکن عامیہ زندگی کی سطح پر اتر کر، اس کی ظاہری کیفیت کو قبول کر کے۔ ناک بھوں چڑھائے بغیر اس میں رہبانیت یا خدا کے جلوے یا کسی آفاقی اصول کو تلاش کیے بغیر، تعریف کرنا ہر آدمی کا کام نہیں ہے۔ اور پھر ہمارے زمانے میں کہ جب فرد اور سماج میں اتنی مغائرت اور مخالفت ہو لیکن جوئس نے اسی طرح تعریف کی ہے اور "یولیسس” کے اس حصے میں جس کی وجہ سے کتاب کو ضبط کر لیا گیا تھا۔ میرین بلوم ایک معمولی عورت ہے اور ایسی ہی شہوت پرست۔ اس میں کوئی بات بھی بلند یا پاک نہیں اور ایسی ہی ایمان داری اس کی خود کلامی میں برتی گئی ہے لیکن اس کی عریاں خیالی اسے ٹھوس بنا دیتی ہے۔ اس کا رشتہ ہماری دنیا، ہماری زمین سے مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر میں اس کی جنسیت زمین اور زندگی کی حمد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور یہ جذبہ اتنا ہی اعلیٰ و ارفع ہے جتنا کوئی اور۔ بالکل ایسا ہی ٹھوس کردار چوسر نے اپنے "باتھ کی خاتون” کی شکل میں پیش کیا ہے۔ دونوں عورتیں زندگی سے بے اندازہ لطف لیتی ہیں، دونوں زندہ رہنے کی بے پایاں خواہش رکھتی ہیں مگر "باتھ کی خاتون” میں ایک بات زیادہ ہے، وہ مرنے سے بھی نہیں ڈرتی۔ زندگی نے اسے جو کچھ دیا ہے وہ اس سے پوری طرح مطمئن ہے۔ حالاں کہ ہمارے زمانے کے کردار زندگی سے بیزار ہوتے ہوئے بھی موت اور وقت سے لرزتے ہیں۔ اپنی جوانی کے گذر جانے کے خیال سے وہ افسردہ تو ضرور ہوتی ہے مگر باقی عمر سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی جنسیت کی مدد سے وقت پر فتح حاصل کرتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ خدا نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نسل کو بڑھاتا رہے۔ اسی وجہ سے وہ خدا کا شکر ادا کرتی ہے کہ اسے پانچ شوہر ملے ہیں اور وہ چھٹے کا استقبال کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ وہ اپنے کو عفیفہ بنا کر نہیں رکھنا چاہتی بلکہ شادی کے کاروبار میں اپنی ساری زندگی کے پھول کو پیش کرے گی، وہ اصلاح ادب کانفرنس سے پوچھتی ہے :
"مجھے یہ بھی تو بتائیے کہ اعضائے تناسل بنا نے کا مقصد کیا تھا؟ یہ لوگوں نے اپنی کتابوں میں کیوں لکھ رکھا ہے کہ مرد کو اپنی بیوی کا قرض ادا کرنا چاہیے۔ اب وہ اپنی ادائیگی کیسے کرے گا، اگر اپنا نفیس آلہ استعمال نہ کرے ؟ بیوی کی حیثیت سے میں تو اپنے آلے کو ایسی ہی آزادی سے استعمال کروں گی جیسے میرے خالق نے مجھے عنایت کیا ہے۔ اگر میں روک ٹوک کروں تو مجھ پر خدا کی مار ہو۔ میرا شوہر اسے صبح و شام دونوں وقت لے سکتا ہے۔ جب اس کا دل چاہے آئے اور اپنا قرض چکائے لیکن افسوس! عمر نے جو سب چیزوں میں زہر ملا دے گی، میری خوب صورتی اور میرا زور چھین لیا ہے۔ خیر، جانے دو، چلو رخصت۔ شیطان بھی اسی کے ساتھ جائے۔ آٹا تو ہو ہی چکا، اس کا کیا ذکر، اب تو جیسے بھی ممکن ہو گا مجھے بھوسی ہی بیچنی پڑے گی لیکن اب میں بھی پوری زندہ دلی سے رہوں گی۔ ” ورجینیا و ولف بڑی حسرت اور رنج کے ساتھ کہتی ہیں، "اب یہ قہقہہ کرۂ زمین پر دوبارہ نہیں سنا جائے گا، جو پیٹ کی تہوں سے اٹھتا ہے۔ ”
چوسر کے ایک عالم نے ان تمام حصوں کو اپنی کتاب سے نکال دیا ہے۔ اسی طرح مڈلٹن مرے (جن کی رائے کا میں ہر جگہ بہت احترام کرتا ہوں ) فرماتے ہیں کہ "لارنس نے ‘لیڈی چیٹرلی کا عاشق’ میں جو ناقابل تحریر الفاظ استعمال کیے ہیں وہ نفس مضمون کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، صرف گالی برائے گالی ہیں۔ ” شاید۔ لیکن میرا ذاتی رد عمل تو یہ ہے کہ ان گالیوں اور بعض عامیانہ حرکتوں کی وجہ سے میلر ز اور لیڈی چیٹرلی عام انسانوں سے بہت قریب آ گئے ہیں اور یہ بات لارنس کی کتاب میں ذرا کم ہی ہوتی ہے۔ اس سے صرف کتاب کے ٹھوس پن اور انسانیت ہی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لارنس کے پیغام کی اشاعت میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس کی حقیقت ہم سے قریب ہو جاتی ہے اور وہ ایسی چیز نہیں رہتی جس تک پہنچنے کی ہم خواہش بھی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح بکرے اور بکری پر لارنس کی نظموں کی حقیقت نگاری، جنسی جذبے کی تندی، وحشت اور ایک حد تک مضحکہ خیزی کا اظہار ہے بلکہ اس حقیقت نگاری میں "جنس کے پیغمبر” کی، جنس سے جھجک، ڈر اور نفرت جھلکتی ہے۔
لارنس کے ذکر سے مجھے ایک اور سوال یاد آتا ہے۔ عریانی کے معذرت خوا ہوں کی طرف سے بعض دفعہ فحش اور غیر فحش کا فرق بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سفید رومال سے چہر ہ صاف کر کے کہا جاتا ہے کہ جنس کے ذکر میں لذت کا اظہار نہ ہونا چاہیے اور نہ ترغیب کا عنصر۔ مگر مجھے اس سے اختلاف ہے، کیوں کہ حقائق کو بھی اس سے اختلاف ہے، آخر لذت سے اتنی گھبراہٹ کیوں ؟ جب ہم کسی پیڑکو، کسی کردار کے چہرے کو، اس کے کپڑے کو، کسی سیاسی جلسے کو مزے لے لے کر بیان کر سکتے ہیں اور تنقید اسے ایک اچھی صفت سمجھ سکتی ہے تو پھر عورت کے جسم کو یا کسی جنسی فعل کو لذت کے ساتھ بیان کرنے میں کیا بنیادی نقص ہے ؟ دراصل اس اعتراض کی بنیاد وہ روایتی احساس ہے جو جسم کے بعض حصوں اور بعض جسمانی افعال سے جھجکتا ہے اور انھیں بنفسہ گندہ اور پلید سمجھتا ہے اور ان کے وجود کو ابدی لعنت کا داغ۔ یہی ذہنیت جو ایک طرف تو ادب اور آرٹ پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے لیکن دوسری طرف لاتعداد فحش کتابوں کو جنم دیتی ہے۔ لذت بجائے خود کسی فن پارے کو مردود نہیں بنا سکتی بلکہ اس کے مقبول یا مردود ہونے کا دارومدار ہے لذت کی قسم، اس کی سطح پر، فن کار کے مزاج اور نقطۂ نظر پر۔ کیا شیکسپیئر کی وینس اور ایڈونس، ٹیشئین کی برہنہ عورتیں، دودین کے دو مجسمے، "دائمی بہار” "بوسہ” اور "ہم آغوشی” لذت اور ترغیب سے بالکل خالی ہیں ؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے، کیا ہم انھیں فحش کہہ کر چھوڑسکتے ہیں ؟
فحش کی یہ ترغیب والی تعریف غالباً ترقی پسند وں کی طرف سے ہوئی ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بہت پھیل جاتا ہے۔ فحش کے سوال سے کہیں آگے یہ فیصلہ ہو جائے کہ جنس قطعاً گندی اور غیر شریفانہ چیز ہے۔ اس لیے اس سے لذت کا اظہار اور اس کی ترغیب بھی نا مناسب ہے۔ میں ماننے کو تیار ہوں لیکن اگر تاکید جنس پر نہیں بلکہ ترغیب پر ہے تو ادب کے ذریعے سے انقلاب یا سماجی تبدیلی کو ترغیب دلانا بھی اتنی ہی نامناسب چیز ہے۔ ترغیب کا مسئلہ چھیڑ کر ترقی پسند ایک پڑوس میں جا پہنچتے ہیں جس کے سائے سے بھی وہ بھاگتے ہیں یعنی جیمز جوئس۔ جوئس کا نظریہ ہے کہ جمالیاتی جذبے میں "حرکت” نہیں ہوتی بلکہ فرار، آرٹ نہ تو کسی چیز کی خواہش ہمارے دل میں پیدا کرتا ہے اور نہ کسی چیز سے نفرت، جو آرٹ اس اصول کا پابند ہے وہ مناسب آرٹ ہے اور جو خواہش یا نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، غیر مناسب آرٹ ہے، خواہ وہ فحش ہو یا اخلاقیات۔ اس سلسلے میں جوئس نے وینس کے مجسمے کی مثال دی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں وینس کی رانیں اس وجہ سے پسند آتی ہیں کہ وہ بڑا تندرست بچہ پیدا کر سکتی ہیں اور پستان اس لیے کہ ان میں بچے کو دودھ پلا کر توانا رکھنے کی بڑی صلاحیت دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح وینس عورت اور ماں کے فرائض کا مثالی نمونہ بن جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک بڑا فن پارہ ہے لیکن جوئس کے نزدیک یہ احساسات جمالیات کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ علم اصلاح نسل کی طرف۔ وینس ہمیں صرف اس وجہ سے پسند آتی ہے کہ اس میں حسن اور آہنگ ہے۔
جوئس کا یہ بیان بنیادی طور پر بہت صحیح اور کم سے کم مفید ضرور ہے مگر اس نے انتہا پسندی کی بھی حد کر دی ہے۔ شاید کوئی فوق الانسان ہوا ہو جس نے ایسا فن پارہ پیش کیا ہو یا جس کا رد عمل اتنا جچا تلا ہو۔ کم سے کم میرے اندر تو فن پارہ ضرور حرکت پیدا کرتا ہے۔ حالاں کہ یہ حرکت وہ نہیں ہوتی جو فحش یا اخلاقیات سے پیدا ہوتی۔ خود جوئس کے یہاں کافی نفرت اور بیزاری پائی جاتی ہے اور میرین بلوم کا کردار کسی طرح ترغیب سے خالی نہیں اور لارنس کے یہاں ترغیب کے کیا معنی، وہ تو جنسی تعلقات کے ایک عنصر کا پرچار کرتا ہی ہے،اگر کسی جگہ صحت مند مباشرت کی ترغیب پائی جائے تو میں اسے فحاشی کہنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ آپ فوراً اعتراض کریں گے کہ پھر تو شاید کوک شاستر بھی ادب بن گیا۔ لیکن یہاں میں فحش کو آرٹ ثابت کرنے پر اپنا زور قلم صرف نہیں کر رہا ہوں بلکہ صرف آرٹ کو فحش سمجھے جانے سے بچانا چاہتا ہوں۔
سوال دراصل ترغیب کا نہیں بلکہ آرٹ اور غیر آرٹ کا۔ غیر آرٹ کے لیے ایک نام تجویز کرتا ہوں، جذباتیت۔ یہ جذباتیت کسی طرح کی بھی ہو سکتی ہے۔ نفس پرستی، انقلاب پرستی، اخلاق پرستی، ساری گڑبڑ یہاں سے چلتی ہے کہ عموماً فن پارے کو بڑی سادہ چیز سمجھا جاتا ہے اور اس کی پیچیدگی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہم اس کے صرف ایک رخ، ایک احساس کو لے لیتے ہیں اور اسی کو سارا فن پارہ سمجھتے ہیں اور اسی غلط فہمی پر اپنے فیصلے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہیں سے جذباتیت شروع ہوتی ہے۔ اگر یہ جذباتیت فن کار میں ہو تو وہ سرے سے فن پارہ پیدا کر ہی نہیں سکے گا، اسے اخلاقی وعظ بنا دے گا یا فحش۔ اور جب یہ جذباتیت پڑھنے والے یا دیکھنے والے میں ہو تو وہ اچھے خاصے فن پارے کو توڑ مروڑ کر غیر آرٹ بنا دیتی ہے مثال کے طور پر اصلاح ادب کانفرنس۔
اس الجھن کا ایک مخرج اور بھی ہے۔ ہماری تنقید کے نزدیک آرٹ نام ہے اپنے جذبات کے اظہار اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا۔ یہ سن کر ہربرٹ ریڈ سے تو اپنا قہقہہ نہیں رک سکا لیکن مجھ میں ابھی اس سے انکار کی جرأت نہیں پیدا ہوئی۔ بہرحال آرٹ کوئی انجکشن کی پچکاری نہیں ہے جس کے ذریعے سے نئے نئے جذبے ہمارے اندر داخل کیے جاتے ہوں۔ زیادہ بک بک کیوں کروں، آپ ارسطو کا "کیتھا رسز” والا نظریہ جانتے ہیں۔ آرٹ میں ایک جلابی کیفیت ہوتی ہے جو ہمارے جذبات سے زوائد کو خارج کر کے ہمارے اندر توازن اور سکون قائم کرتی ہے۔ جذباتیت اور آرٹ میں یہی فرق ہے۔ دونوں ہمارے گھٹے ہوئے جذبات کو راستہ دیتے ہیں لیکن جذباتیت میں روک نہیں ہوتی۔ وہ جذبات پر کوئی حد نہیں قائم کر سکتی۔ آرٹ جذبات کی حد بندی کرتا ہے، ان کی تنظیم کرتا ہے اور انھیں ایک خاص نقش کی شکل میں ترتیب دیتا ہے۔ ٹیشین کی برہنہ تصویر دیکھنے کے بعد ہم بازار میں کود کر راستہ چلتی عورتوں کے کپڑے پھاڑنا نہیں شروع کر دیتے بلکہ اپنے جنسی جذبات میں ایک بہتر توازن اور ارتقا پاتے ہیں۔ شاید فحش سے پہلا والا اثر پیدا ہوتا ہے۔ اگر آرٹ ہمارے اندر کوئی جذبہ پیدا کرتا ہے تو وہ بقول ہربرٹ ریڈ، تحیر کا جذبہ ہے۔ اگر آرٹ صحیح قسم کا ہے اور پڑھنے والا اس سے کوئی غلط نتیجہ مرتب کرتا ہے یا اس کے اندر فاسد مادہ بھڑک اٹھتا ہے تو اس کے لیے اس فن پارے کو ملزم نہیں گردانا جا سکتا۔ آرٹ شہوت پرستی یا دنیا کے گنا ہوں پر زار و قطار رونا یا لال جھنڈا لے کر دو دو گز اونچے اچھلنے لگنا نہیں سکھاتا بلکہ حسن، ترتیب اور آہنگ کو تحیر کی نظروں سے دیکھنا۔
اگر موجودہ ادب میں فحش موجود ہے تو اسے ہوّا بنانے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اگر آپ لوگوں کو فحش کی مضرتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں یہ سمجھنے کا موقع دیجیے کہ کیا چیز آرٹ ہے اور کیا نہیں ہے اور آرٹ کیوں فحش، اخلاقیات، سیاست اور اقتصادیات سے بہتر اور بلند تر ہے۔ جو شخص آرٹ کے مزے سے واقف ہو جائے گا، اس کے لیے فحش اپنے آپ پھسپھسا ہو کر رہ جائے گا۔ کم سے کم اپنی ذہنی تندرستی کے دوران میں تو وہ فحش کو چھونا بھی نہیں چاہے گا۔ سب سے نفیس پہچان فحش اور آرٹ کی یہی ہے کہ فحش سے دو بارہ وہی لطف نہیں لے سکتے جو پہلی مرتبہ حاصل کیا تھا۔ آرٹ ہر مرتبہ نیا لطف دیتا ہے۔ اس توازن اور ارتفاع کی مثال کے طور پر مجھے فراق صاحب کا شعر یاد آتا ہے
ملے دیر تک ساتھ سو بھی چکے
بہت وقت ہے آؤ باتیں کریں
اردو کی جنسی شاعری میں بہت کم ایسے شعر ہوں گے جن میں یہ معصومیت، یہ ذہنی لطافت، آرٹ کا یہ تحیر پایا جاتا ہو۔ میں اس شعر کو دہرانے سے کبھی نہیں تھک سکتا۔
فن کا تناسب بذات خود ایسی چیز ہے جو گندی سے گندی بات کو بے ضرر بنا دیتا ہے اور فنون میں یہ تناسب لکیروں، رنگوں وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ادب میں بیانیہ انداز کے لوازمات بھی اس کی ایک قسم ہیں، مثلاً شیخ سعدی کا مشہور مصرعہ، "ہمیں بہ جملۂ اول عصائے شیخ بخفت” اور پھر قہقہہ تو بڑی سے بڑی غلاظت کو دھو دیتا ہے اور عقل؟ ایسے لوگوں کے نام یاد کیجیے جن کی عقل واقعی خوف ناک قسم کی تھی اور پھر یہ غور کیجیے کہ انھوں نے کتنی عریانی برتی ہے۔ دو چار نام تو مجھ سے سنیے۔ رابیلے، چوسر، شیکسپیئر، سوئفٹ، والٹیر، جوئس۔
["جھلکیاں "(حصہ اول)، مرتبین: سہیل عمر/نغمانہ عمر،
مکتبۂ الروایت، لاہور، 1981]
٭٭٭
نئی شاعری
محمد حسن عسکری
یہ شکایت بہت عام ہے کہ نئی شاعری میں گھناؤنی اور نفرت انگیز چیزوں کا ذکر ہوتا ہے۔ "مداوا” میں ایک صاحب نے کلیہ قائم کیا ہے کہ گندی چیزوں کے ذکر اور شاعری کا میل نہیں ہو سکتا۔ حالاں کہ اسی مضمون میں آپ پہلے کہہ آئے ہیں کہ شاعر موضوع کے انتخاب میں بالکل آزاد ہے۔ نئے شاعروں کی رہنمائی کے لیے جن شاعروں کا نام لیا گیا ہے، ان میں شیکسپیئر کا نام بھی شامل ہے۔ اس لیے میں فرض کرتا ہوں کہ اسے آپ بڑا شاعر سمجھتے ہیں، گو یہ تو یقینی ہے کہ آج سے آپ اس سے نفرت کرنے لگیں گے۔ شیکسپیئر کا دستور ہے کہ وہ ہر ڈرامے کی تشبیہات اور استعارات اور تصورات کا ایک خاص نقشہ بنا لیتا ہے جو ڈرامے کی فضا سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ تو جناب شیکسپیئر نے ایک ڈرامہ لکھا ہے، جس کا نام ہے "ہیملیٹ”۔ اور اس ڈرامے کو عموماً شیکسپیئر کی سب سے بڑی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شیکسپیئر کی کور ذوقی ملاحظہ ہو کہ اس سب سے بڑی تصنیف کے تصورات کا نقشہ مشتمل ہے پھوڑے، پھنسیوں اور پیپ وغیرہ پر، اس ایک ڈرامے میں وہ ان چیزوں کی تمام ممکنہ قسمیں گنوا چکا ہے۔ اسی طرح "اوتھیلو” میں استعارے لیے گئے ہیں، گھناؤنے اور نفرت انگیز جانوروں سے۔ آرٹ میں کوئی چیز ویسی نہیں رہتی جیسی وہ زندگی میں ہے، آرٹ اس کی ماہیت تبدیل کر دیتا ہے۔ یہاں روزمرہ کی زندگی کا اچھا اور برا نہیں دیکھا جاتا بلکہ بجا اور بے جا استعمال۔ گندگی کے خلاف ایک کلیہ نہ قائم کیجیے بلکہ انفرادی طور پر اس کا استعمال دیکھیے اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی "پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے ” کو بے محل نہیں بتا سکتے۔
یادش بخیر، فحش اور عریانی ! اس کی شکایتیں تو مدت سے ہو رہی ہیں لیکن آپ نے ابھی تک نہیں بتایا کہ آپ کس چیز کو فحش سمجھتے ہیں ؟ نظم نقل کر کے اس کی نیچے "فحش” لکھ دینے سے تو کام نہیں چلتا۔ فحش کی تعریف تو کیجیے۔ اپنی طرف سے تو میں فحش کی تعریف پہلے بھی کر چکا ہوں اور اب پھر دہراتا ہوں۔ میں اصل میں کسی لفظ کو بذات خود فحش نہیں سمجھتا، صرف اس کا استعمال اسے فحش یا غیر فحش بناتا ہے۔ لیکن آپ حضرات کو تو محض مخالفت منظور ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ آپ "وہ گئی” کو بھی فحش کہیں گے۔ آپ نئے شاعروں پر سطحی دل و دماغ رکھنے کا الزام لگاتے ہیں مگر آپ خود نئی شاعری کو سطحی طور پر پڑھتے ہیں، جبھی تو آپ اس میں عورت پرستی اور شباب پرستی دیکھتے ہیں اور "کھاؤ پیو، مگن رہو” کا نظریہ نئے شاعروں کے سر مڑھے دے رہے ہیں …
بہرحال اب میں آپ کے سامنے نئے شاعروں کی عورت پرستی کی مثال پیش کروں گا۔ فیض کی نفس پرستی ملاحظہ ہو، محبوب سے کہتے ہیں ع
اب بھی دلکش ہے تراحسن مگر کیا کیجیے
محبت کے دکھوں اور راحتوں کے علاوہ اور بھی سکھ دیکھ رہے ہیں۔ محبوب کو پہلی سی محبت بھی نہیں دے سکتے۔ منھ پھٹ اور دریدہ دہن کہ اس سے صاف کہے دے رہے ہیں :
تو اگر میری ہو بھی جائے
دنیا کے غم یوں ہی رہیں گے
توبہ توبہ، کیسی گھناؤنی خواہشیں ہیں کہ وصل کی آرزو میں نہیں مرتے بلکہ محبوبہ سے اخلاقی سبق سیکھنا چاہتے ہیں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرماں کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سر د آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
راشد کی آلودگیاں دیکھیے۔ محبوبہ کی بانہوں میں بڑے آرام سے پڑے رہنے کے بجائے اٹھ اٹھ کر بھاگ رہے ہیں۔ خونخوار درندوں کے غول سے وطن کو بچانا چاہتے ہیں۔ کیا ہولناک ہوس کاری ہے کہ بستر کی لذتوں سے جان چھڑا کر بیچاری محبوبہ کو مفلسوں، بیماروں کے ہجوم دکھا رہے ہیں۔ اسے لے کر سر زمین عجم جانا چاہتے ہیں، جہاں خیر و شر، یزداں و اہرمن کا فرق مٹ گیا ہو۔ اس پر یہ ظلم ڈھاتے ہیں کہ
مجھے آغوش میں لے
دو ‘انا’ مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے
یہ جذبی ہیں، طوائف سے جنسی آسودگی حاصل کر کے واپس نہیں چلے آتے بلکہ اس کی پست نگاہی کا گلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اوروں کو چھوڑیے، بیچارا مخمور تک نفس پرستی کو پسند نہیں کرتا بلکہ "لہو کی جوانیاں ” میں تو اس کا انداز بڑا واعظانہ ہے۔ فرق کی بوالہوسی بھی دیکھنے کی چیز ہے
ملے دیر تک ساتھ سو بھی لیے
بہت وقت ہے آؤ باتیں کریں
وصل سے بھی ان کی پیاس نہیں بجھتی، جنسی جذبے کو احساس رفاقت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے نئے شاعروں کی عورت پرستی جس پر جتنی لعنتیں بھی بھیجی جائیں کم ہیں۔
نئی شاعری کی بنیاد جنسی الجھنوں پر بتانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کون سا اردو شاعر ہے جس کی شاعری اسی بنیاد پر قائم نہ ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہر شاعری خواہ وہ متصوفانہ ہو یا عارفانہ ہی کیوں نہ ہو، جنسی جذبے کی ارتفاع پائی ہوئی شکل ہوتی ہے لیکن بغیر ارتفاع کے بھی جنسی الجھنیں اچھی سے اچھی شاعری کا موضوع بنتی رہی ہیں۔ شاعری اندرونی تصادم اور کشمکش سے پیدا ہوتی ہے اور یہ کشمکش جتنی تیز اور تند ہو گی، اتنا ہی شعریت کا رنگ نکھرے گا۔ نئی شاعری میں صرف و محض ہوس کاری نہیں ہے بلکہ ہر جگہ ایک شدید کشمکش کے نشان ملتے ہیں اور یہ شدت بعض اوقات زیادہ صاف الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ جنسی الجھنیں صرف اردو کے شاعروں ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ عالم گیر ہیں۔ ہمارے شاعروں میں احساس اور اعتقاد کا تصادم ہو رہا ہے، خواہشات اور روایات کا، نئے علم اور پرانی قدروں کا، جنسیات اور اقتصادیات کا۔
ایک طرف پرانی روایات ہیں جو پاک اور غیر جسمانی محبت پر زور دیتی ہیں۔ دوسری طرف شاعر کی جنسی خواہشیں ہیں، نئی نفسیات ہے جو پاک محبت کا بڑا بے رحمانہ تجزیہ کرتی ہے جس کے نزدیک محبت دائمی نہیں بلکہ وقتی جذبہ ہے۔ نیا شاعر ان دو اصولوں کے درمیان لٹکا ہوا ہے اور ان میں سے کسی کو بھی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔ مثالیں راشد کے یہاں دیکھیے
یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
کہ ایک زہر سے لب ریز ہے شباب مرا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے
یا دوسری جگہ
وقت کے اس مختصر لہجے کو دیکھ
تو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداں ہو جائے گا
مطمئن باتوں سے ہو سکتا ہے کون
روح کی سنگین تاریکی کو دھو سکتا ہے کون
تیسری جگہ راشد نے ان دونوں اصولوں میں سمجھوتے کی کوشش کی ہے
میں جو سرمست نہنگوں کی طرح
اپنے جذبات کی شوریدہ سری سے مجبور
مضطرب رہتا ہوں مدہوشی و عشرت کے لیے
اور تری سادہ پرستش کے بجائے
مرتا ہوں تیری ہم آغوشی کی لذت کے لیے
میرے جذبات کو تو پھر بھی حقارت سے نہ دیکھ
اور مرے عشق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہد وفا ہے ابدی
بالکل یہی کشمکش اور شاعروں کے یہاں موجود ہے۔ آپ اسے نظر انداز کر جاتے ہیں جو شاعری کی روح ہے اور صرف لفظ پڑھ پڑھ کر اس شاعری کو فحش کہنے لگتے ہیں۔ حال ہی میں ایک صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر موجودہ جنسی اقدار مصنوعی ہیں تو شاعروں کے پاس جنسیات کی نئی اقدار کیا ہیں ؟ لیکن نئے شاعر کسی عریانی کے کلب کا اعلان نامہ تو مرتب نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان نظموں میں بعض پابندیوں سے بیزاری اور بعض آزادیوں کی پسندیدگی کا اظہار ملتا ہے لیکن وہ چیز جو شاعری کے لیے فائدہ مند ہے، دو قسم کی قدروں کا تصادم ہے نہ کہ نئی قدروں کی مجوزہ فہرست۔
ایک نیا جنسی عنصر ہماری دنیا میں پیدا ہوا ہے جس کا بہترین اظہار ڈی۔ ایچ۔ لارنس نے کیا ہے اور جس کی ہمارے یہاں ابھی صرف پرچھائیاں بھی ملتی ہیں۔ یہ ہے خود پرستی اور جنسی جبلتوں کی لڑائی۔ پہلی جبلتوں کا تقاضہ ہے کہ اپنی انفرادیت کو سب سے الگ اور نادر الوجود بنائے رکھا جائے لیکن جنسی خواہش دوسرے فرد سے ملنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ مجبوری انفرادیت کے پرستار کو فطرت کا ظلم معلوم ہوتی ہے۔ وہ جنسی جذبے کو اپنے لیے ایک صلیب سمجھنے لگتا ہے۔ جنسیت سے یہ ڈر اور نفرت لارنس کے یہاں جس عریانی کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے، اگر اس کا شائبہ بھی اردو میں پایا جائے تو شاید آپ کتابیں جلانے لگیں لیکن ہم لارنس کی اس عریانی کو کسی طرح بھی فحش نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ اس کے اظہار کے لیے یہ عریانی ضروری ہے۔
سب سے بڑی چیز جو نئی نسل کو جنس پر اتنی توجہ صرف کرنے پر مجبور کرتی ہے، وہ ایسی چیزوں اور ایسے اصولوں کی کمی ہے جن پر اپنے جذبات خرچ کیے جا سکیں۔ اس ماحول میں جس سے نئی نسل اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں پاتی، جب اسے اپنے جذبات کی آسودگی کا سامان نہیں ملتا، تو وہ زائد جذبے جنس کی طرف ڈھلک جاتے ہیں۔ اس ماحول سے ہم آہنگی تو الگ، نیا شاعر تو اسے اپنے دشمن کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ چونکہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتا، اس لیے لازمی طور پر اپنے احساس شکست کو جنسی جذبے میں چھپا دینا چاہتا ہے اور صاف صاف اس کا اقرار بھی کر لیتا ہے
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
یہی مجروح اور شکست خوردہ ذہنیت جب اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو اجنبی عورت کے جسم سے انتقام لینا شروع کر دیتی ہے۔ آپ لوگوں نے اس نظم "انتقام” پر راشد کو بہت طعنے دیے ہیں لیکن وہ غریب تو خود اپنے آپ کو طعنہ دے رہا ہے، خود اپنے اوپر استہزا کر رہا ہے۔ آپ اس کا لہجہ نہ سمجھیں تو وہ کیا کرے۔ یہ نظم جنسی نہیں ہے جیسا کہ آپ سمجھے ہیں، بلکہ سیاسی اور اخلاقی۔ ایسی نظموں میں راشد اپنی گھناؤنی خواہشوں کا اظہار نہیں کرتا بلکہ قوت ارادی اور "جینے کی خواہش” کی کمزوریوں اور بیماریوں کا تجزیہ۔ محض عشرت پسندی اور تن آسانی اور "کھاؤ پیو، مگن رہو” والا نظریہ آپ کو کسی نئے شاعر میں نہیں مل سکتا۔ ہر شاعر کی آواز دکھی ہوئی اور چوٹ کھائی ہوئی ہے۔ صرف لفظوں پر غور نہ کیجیے بلکہ روح سمجھیے۔ کبھی آپ نے یہ بھی سوچاہے کہ نئے شاعر کو اپنی "ہوس کاری” میں سکون بھی ملتا ہے یا نہیں، یا پھر بھی اس کے اندر اسی طرح خلائیں پھیلتی رہتی ہیں۔ جن نظموں کو آپ فحش بتا رہے ہیں، انھیں پھر سے پڑھیے "بے کراں رات کے سناٹے میں "، اس نظم کا شاعر اپنے آپ کو جنسی لذت میں ڈبو دینے پر مجبور ہے لیکن ساتھ ہی وہ اس سے ہچکچا بھی رہا ہے۔ جنس سے لذت لینے کے لیے اسے ایک قصہ گھڑنا پڑتا ہے کہ اس کی محبوبہ "جو شاید بیوی ہے ” کسی ساحل کی دوشیزہ ہے اور وہ خود اس کے دشمن ملک کا تھا ہوا سپاہی ہے اور ہم آغوشی سے اپنی تھکن کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ اس افسانے کا جادو چلتا تو ہے لیکن تھکن، پیاس، غیر آمادگی، گراں باری کے اثرات پھر بھی قائم رہتے ہیں
نیند آغاز زمستاں کے پرندے کی طرح
خوف دل میں کسی موہوم شکاری کا لیے
اپنے پر تولتی ہے چیختی ہے
٭
آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں
ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں
درحقیقت یہ وہ کیفیت ہے جب "زنا” سے زیادہ آسان اور آرام دہ تو خود کشی نظر آتی ہے۔
میرا جی اس بے لطفی اور بے رنگی کے احساس میں دو ہاتھ اور آگے ہیں۔ وہ محبوبہ کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی اداس ہو جاتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ آخر ایسا کیا فرق پڑ جائے گا؟ یہ ہے نئے شاعروں کا تعیش۔ ان آلودگیوں کی اور مثالیں بھی دوں گا۔ یہ تاثیر ہیں جو حسینوں کی بانہوں میں حصار عافیت ڈھونڈنے والے کو شہ دے رہے ہیں
تمناؤں میں الجھاتا رہے گا دل کو تو کب تک
کھلونے دے کے بہلاتا رہے گا دل کو تو کب تک
ہوس کی ظلمتیں چھائی ہوئی ہیں تیری دنیا پر
یہ وشوا متر عادل جو ہیں، اپنی جنسی فتح پر خوشی کے نعرے لگا رہے ہیں
مری تڑپتی ہوئی روح پھڑپھڑاتی ہے
نحیف زیست سے عاری ہے پر بھی ٹوٹے ہوئے
مگر یہ رینگتے لمحوں کی چیونٹیاں چپ چاپ
لپٹ لپٹ کے اسے بار بار چومتی ہیں
یہ اختر الایمان ہیں، نیند سے پہلے مزے لے لے کر اپنی گھناؤنی خواہشیں بیان کر رہے ہیں
اشک بہہ جائیں گے آثار سحر سے پہلے
خون ہو جائیں گے ارمان اثر سے پہلے
سرد پڑ جائے گی بجھتی ہوئی آنکھوں کی پکار
گرد برسوں کی چھپا دے گی مرا جسم نزار
جاگتے جاگتے تھک جاؤں گا سو جاؤں گا
آپ اس حزن و ملال کو کیوں نہیں دیکھتے، سب سے پہلے آپ کی نظریں عریانی پر کیوں پڑتی ہیں ؟ اس وجہ سے کہ آپ خود شاعری نہیں کر سکتے، لیکن اگر واقعی خلوص کے ساتھ آپ اس انداز بیان کو پسند نہیں کرتے تو ان شاعروں کی الجھنیں دور کرنے میں مدد کیجیے۔ ان کے ساتھ مل کر دنیا کو بدلیے۔ اس پر خوب یاد آیا۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ اگر یہ شاعری بدلے ہوئے حالات نے پیدا کی ہے تو اسے دیکھ کر بدلے ہوئے حالات سے بھی نفرت ہو جاتی ہے۔ جی، ہم اور کیا چاہتے ہیں ؟ جادو سر پر چڑھ کے بولا۔ جب ہم اس سماجی ماحول سے آپ کو نفرت دلانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر آپ نے ہمارا نقطۂ نظر قبول کر لیا۔ خیر، کم سے کم آپ نا انصافی تو نہ کریں اور اور اس روحانی تشنج کو ہوس کاری کا نام تو نہ دیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ جب وقت آئے گا تو طربیہ شاعری بھی یہی آپ کے خادم کریں گے۔ آپ کے بس کا یہ روگ بھی نہیں ہے
کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھا ہے
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
لیکن اگر چند ایسے چھوٹے موٹے شاعر موجود ہیں جو محض جنسی لفظوں کے بل پر شاعری کرنا چاہتے ہیں تو ان سے اس قدر گھبرا جانے کی کیا وجہ ہے ؟ اور پھر اس قدر گھبرا جانا کہ سرکاری وزیروں کے پاس وفد لے کر جار ہے ہیں، بسورتے ہوئے کو "ہمیں چھیڑا”…نئے شاعروں پر بگڑتے وقت تو آپ بھی ملٹن کے شعر نقل کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ اسے اتنا بڑا شاعر مانتے ہیں تو اپنے آپ اس سے سبق کیوں نہیں لیتے ؟ کبھی اس کی "ایروپیجٹیکا” (Areopagitica) تو کھول کر دیکھیے کہ وہ کتابوں پر پابندیوں کا کتنا مخالف تھا۔ ملٹن کی بنیادی دلیل ہی یہ تھی کہ ہر شخص کو انتخاب کی آزادی ہونی چاہیے۔ بلکہ بری کتابیں پڑھے بغیر اچھی کتابوں کی تمیز ممکن ہی نہیں۔ اگر آپ کسی نظم کو فحش سمجھتے ہیں تو وجہ بتائیے، اس پر بحث کیجیے۔ اگر آپ نے ثابت کر دیا کہ اس نظم میں شاعری نہیں ہے تو چلیے قصہ ختم ہوا۔ کوئی اسے پڑھے گا ہی نہیں اور وہ اپنے آپ مر جائے گی۔ جتنا وقت آپ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے میں صرف کرتے ہیں، اگر اسے آپ لوگوں کا ذوق بلند کرنے میں لگائیں تو فحش پنپ ہی نہیں سکتا۔ لیکن جنس کے اظہار پر پابندیاں اور تعزیریں عائد کر نے کا نتیجہ ہمیشہ عریانی کی چوگنی ترقی ہوتا ہے۔ کرومویل کے زمانے میں ڈرامے کو مخرب اخلاق سمجھ کر اسٹیج کو قانوناً بند کر دیا گیا۔ دس سال کے بعد جب پابندیاں ہٹیں اور تھیٹر کھلے تو جو مواد، اس دوران میں پکتا رہا تھا، اس زور سے ابلا کہ ہر ڈرامہ نگار نے زناکاری کو اپنا موضوع بنا لیا۔ لیکن اگر آپ واقعی خلوص کے ساتھ چند پابندیاں ضروری سمجھتے ہیں تو کھوئی کھوئی باتیں نہ کیجیے، فحش کی واضح تعریف بتائیے اور اس کی روشنی میں نئے شاعروں کی بد عنوانیاں گنوائیے۔ معلوم نہیں غالب آپ کے نزدیک قابل استناد ہے یا نہیں، لیکن آپ کے معلومات کے لیے فحش کی وہ تعریف سناتا ہوں جو انھوں نے تیغ تیز میں مہیا کی ہے۔ اصل عبارت تو میرے سامنے موجود نہیں ہے لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ فحش صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اعضائے تناسل کا ذکر ہو یا کسی کی ماں، بیٹی یا جورو پُنی جائے۔ اس تعریف کو معیار بنا کر جانچیے تو کسی نئے شاعر کا ایک مصرعہ بھی گرفت نہیں آ سکتا۔ اگر میرا جی نے اعضائے تناسل کا ذکر کیا ہے تو ایسے چکر دار طریقے سے کہ بعض وقت آپ حضرات انھیں اہمال کا مجرم گرداننے لگتے ہیں۔ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ جنسیات کو خوب پردوں میں ڈھکا چھپا کر محفل میں لاؤ، جب آپ کے ارشاد کی تعمیل ہوتی ہے تو آپ پھر بگڑتے ہیں کہ اس کپڑوں کی پوٹلی میں ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
اس فحاشی والے اعتراض کا دم چھلہ یہ الزام ہے کہ نئی شاعری اخلاقی قدروں کے لیے تباہ کن ہے۔ نئے شاعروں کے سامنے واقعی ترقی کا کوئی بلند مقصد نہیں ہے اور ایک نظم بھی ایسی نہیں ملتی جس سے سماج کی خدمت انجام دی جا سکتی ہو۔ پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ حضرات جو شاعری کرتے ہیں، اس سے سماج کی کیا خدمت ہوتی ہے، یا کچھ دن گذرے پارسی دوشیزاؤں اور رقاصاؤں کو دیکھ کر نیاز فتح پوری صاحب ریشہ خطمی ہوا کرتے تھے، ان کی تمام رقت کون سی اخلاقی عمارت کے لیے گارے کا کام دے رہی ہے ؟ پھر جب آپ خود قبول چکے کہ شعر میں آپ رنگینی اور مکروہات دنیوی کے بھلانے کا سامان چاہتے ہیں تو یہ دوشیزہ (لفظ دوشیزہ کی چیختی فحاشی پر نظر رکھیے ) کی ننگی باہیں دیکھ کر "سی سی” کرتے ہیں۔ نیا شاعر اجنبی عورت کے بستر پر اپنے ذہن کو دلدل بنا لینا چاہتا ہے۔ چلیے، دونوں برابر۔ آپ کا اعتراض ٹھیٹ ریاکاری بلکہ نیا شاعر آپ سے اس طرح اخلاقی حیثیت سے بلند ہے کہ ذرا سی ہونٹوں کی سرخی آپ کو ایسا مست کر دیتی ہے جیسے دونوں جہان کی دولت مل گئی ہو۔ اور نیا شاعر ہم آغوشی، بلکہ لذت اندوزی کے دوران میں بھی اعتراف کر لیتا ہے کہ شہوانیت محض ایک ریگ زار ہے۔
لیکن اگر آپ کو اخلاقی تنقید سے ایسا ہی پیار ہے تو مجھے بھی کوئی عذر نہیں ہے بلکہ میرے سب سے محبوب نقادوں میں سے ایک ارونگ بینٹ ہے جس نے اخلاقیات کی لکڑی سے پچھلے ڈیڑھ سو سال کے ادب کو ایسا دھنا ہے کہ ادھ موا ہی کر کے چھوڑا ہے لیکن اسے کیا کیا جائے کہ آپ کے نزدیک اخلاقیات کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ کس عورت کے ساتھ سویا جا سکتا ہے اور کس کے ساتھ نہیں۔ عیسوی اخلاق کے انکسار، یونانیوں کے تصور عدل اور ہندوؤں کے عقیدے سے روح کائنات سے ہم آہنگی کا تو آپ نے نام بھی نہیں سنا معلوم ہوتا۔ اور نہ آپ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ روحانی دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں جاتی اور زندگی کا ہر تجربہ ایک اخلاقی قوت ہوتا ہے۔ دوبارہ سوچیے کہ آپ ایسی نسل کی شاعری کو اخلاق کے منافی کہہ رہے ہیں، جس نے نئی اخلاقی اقدار دریافت کرنے کا بار گراں اٹھایا ہے جو بڑے سے بڑا جرأت طلب تجربہ کرنے سے بھی نہیں گھبراتی، جو اپنی تمام ہزیمت خوردگی، تشکک اور ذہنی بحران کے باوجود زندگی پر کچھ ایسا بھروسہ کرتی معلوم ہوتی ہے کہ منفی عناصر سے بھی مثبت فوائد کا پھل لینے کی امید کرتی ہے۔
غبار راہ کے اشارے سنبھال لیتے ہیں
افق کے دھندلے کنارے سنبھال لیتے ہیں
سنا ہے ٹوٹتے تارے سنبھال لیتے ہیں
بس ایک بار سہی ڈگمگا کے دیکھ تو لوں
یہ وہ نسل ہے جو اپنے ستواں جسم کو رقاصاؤں کے بازوؤں کی پھڑک پر پگھلا پگھلا کر ختم نہیں کر دینا چاہتی بلکہ جسم و زباں کی موت سے پہلے سچ کی حمایت میں بولنا چاہتی ہے۔ جو محبوبہ سے ذاتی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے بجائے ایک جہاں سوز "انا” کی تشکیل کی آرزو مند ہے۔
کیوں نہ جہان غم اپنا لیں
بعد میں سب تدبیریں سوچیں
بعد میں سکھ کے سپنے دیکھیں
سپنوں کی تعبیریں سوچیں
نیا شاعر جب زندگی سے بھاگ کر عورت کے سینے میں پناہ لیتا ہے تو اپنے فرار کو خوب صورت ناموں کے پیچھے نہیں چھپاتا۔ ساتھ ہی اس کی کشش کا مرکز ہمیشہ نسائی جسم کے نشیب و فراز بھی نہیں ہوتے
ایک سودا ہی سہی آرزوئے خام سہی
ایک بار اور محبت کر لوں
ایک انسان سے الفت کر لوں
نہ وہ زندگی کے مظاہرے سے اتنا ڈرتا ہے کہ ان جانے اور ان دیکھے ہوئے کے خوف کے مارے روایتی اخلاقیات کے بند کمرے سے قدم باہر نہ نکالے۔ وہ اہرمن سے اس کے تہہ خانے میں ملاقات کرنے پر آمادہ ہے۔ نئے شاعروں کا دل گردہ دیکھیے۔
یا اتر جاؤں گا میں پاس کے ویرانوں میں
اور تباہی کے نہاں خانوں میں
تاکہ ہو جائے مہیا آخر
آخر حد تنزل ہی کی ایک دید مجھے
اور یہ خوش نصیبی داد کی مستحق ہے کہ تباہی کے نہاں خانوں میں بھی وہ "نور کی منزل آغاز” کی ایک جھلک دیکھ پانے سے نا امید نہیں ہوتا۔ اور کچھ نہیں تو اس کی تسلی کے لیے یہی بہت کافی ہو گا کہ اپنی جرأت پرواز کا اندازہ ہو جائے۔
اب میں ایسے موضوعات پر شعر پیش کروں گا جو سو فی صدی جنسی ہیں اور ایک ایسے شاعر کے، جو آپ کے خیال میں اپنے آپ تو ڈبوئے گا ہی مگر اوروں کو بھی لے ڈوبے گا۔ میراجی نے جو تخریبات جنسی کا درس دینے کے لیے مدرسہ کھول رکھا ہے، میں آپ کو وہاں لے چلتا ہوں۔ یہ حضرت روز نت نئی عورت چاہتے ہیں اور کسی ایک کا ہو کر رہنے کا جھنجھٹ اپنے ذمے نہیں لیتے۔ وہ اس پر فخر کریں تو کریں لیکن ان کی سب سے بڑی حرام کاری تو یہ ہے کہ جنسی لذت کی چسکیاں نہیں لیتے رہے بلکہ زندگی کے انقلابات انسان کی فطرت اور نظام کائنات کے متعلق سوچنے لگتے ہیں اور حیرت میں ڈوب جاتے ہیں
اور چاند چھپا تارے سوئے طوفان مٹا ہر بات گئی
دل بھول گیا پہلی پوجا من مندر کی مورت ٹوٹی
دن لایا باتیں انجانی پھر دن بھی نیا اور رات نئی
پیتم بھی نئی پریمی بھی نیا سکھ سیج نئی ہر بات نئی
اک پل کو آئی نگاہوں میں جھلمل جھلمل کرتی پہلی
سندرتا اور پھر بھول گئے
ہم اس دنیا کے مسافر ہیں
اور قافلہ ہے ہر آن رواں
ہر بستی ہر جنگل صحرا اور روپ منوہر پربت کا
ایک لمحہ من کو لبھائے گا ایک لمحہ نظر میں آئے گا
ممکن ہے کہ آپ یا میں اس جنسی اخلاق کو قبول نہ کریں لیکن ہمارے سامنے شادی کے مسئلے پر برٹرینڈ رسل کی کتاب تو ہے نہیں، ایک نظم ہے، اور اسی حیثیت سے ہم اس پر غور کریں گے۔ شاعرانہ تخیل یہی تو کرتا ہے تاکہ کسی مخصوص جذبے کو عالم گیر زندگی کے پس منظر میں رکھ کر دیکھے اور یہی اخلاقیات کا عمل ہے۔ ایک احساس یا فعل کو پورے نظام زندگی میں جگہ دینا۔ یہی اس نظم میں کیا گیا ہے۔ بلکہ جب ہم یہ نظم ختم کرتے ہیں تو ہم آزاد محبت کے حسن و قبح پر بحث نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ نظم ہمارے ذہن میں نظام زندگی پر تحیر کا جذبہ اور ایک ہلکی سی افسردگی چھوڑ جاتی ہے۔ اس نظم کی ٹھسک سے پھوٹ بہنے کا ڈر کسی کچ پیندیے ہی کو ہو سکتا ہے۔ انفرادی، عارضی، وقتی بلکہ معمولی سے جنسی جذبے تک کو فوراً کائناتی زندگی سے متعلق کر لینا میرا جی کی خصوصیت ہے جو غالباً وشنو شاعری کے اثر سے ان میں پیدا ہوئی ہے، مثال دیکھیے
آج اشنان کیا گوری نے (آج بھلا کیوں نہائی؟)
یہ سنگار چال مایا کا اس نے کس سے نبھائی
اگر میں آپ کو یہ خبر سناؤں کہ میراجی نے اپنے پہلے جنسی اتصال کے متعلق ایک نظم لکھی ہے تو آپ اس کے سوا اور کچھ تصور ہی نہیں کر سکیں گے کہ انھوں نے اپنی کار کردگی کی داستان بڑے چٹخارے لے لے کر بیان کی ہو گی۔ لیکن یہ جان کر آپ مایوس ہوں گے کہ دوسری لائن ہی میں وہ انسانی زندگی پر خیال کی حکمرانی کی طرف بھٹک جاتے ہیں
اب کچھ نہ رہا مٹی میں ملا جو دھن تھا پاس وہ دور ہوا
وہ دھن بھی دھیان کی موج ہی تھی مچلی ابھری ڈوبی کھوئی
پھر اسی واردات سے میرا جی کو اپنے گذشتہ زندگی پر ایک نظر ڈالنے کی تحریک ہوتی ہے۔ غور کیجیے گا کہ اتنی غمگین آواز کسی شہوت پرست یا عیاش طبع کی نہیں ہو سکتی
یہ دنیا ایک شکاری تھی کیا جال بچھایا تھا اس نے
دو روز میں ہم نے جان لیا سکھ اور کا ہے اور دکھ اپنا
سنجوگ کے دن گنتی میں نہیں اور پریم کی راتیں ہیں سپنا
اور میرا جی کیسے ہوس کاری کے نشے میں چور اونچے مکان کی طرف گئے تھے، وہ بھی سن لیجیے
یہ دنیا ایک بیوپاری تھی کیسا بہکایا تھا اس نے
من جال میں پھنس کر جب تڑپا جھنجھلا اٹھا جھنجھلا اٹھا
اس مہم میں کامیاب ہونے کی خوشی تو درکنار، میراجی تو اپنی پاکیزگی زائل ہو جانے کے رنج کو چوٹ کی طرح لیے بیٹھے ہیں ع
وہ پہلی اچھوتی سندرتا نیند آ ہی گئی اس کو سوئی
اسی طرح کر رہے ہیں نئے شاعر اخلاق و شرافت کا ستیا ناس۔ یہ تو صرف ایسی مثالیں تھیں جن کے معنی صاف ظاہر ہیں لیکن نئے شاعروں کی آواز میں جس نئی انسانیت کی گونج اور ان کے لب و لہجے میں جس نئی اخلاقیات کے قدموں کی آہٹیں سنائی دے رہی ہیں، کیا اس تصور کو واضح تر کرنا، اس خواب سیمیں کو مرئی بنانا، نوعی ترقی کی خدمت نہیں ہے ؟ کیا اس سے زیادہ نرم مزاج، زیادہ توانا، زیادہ رچے ہوئے اخلاق کی بنیادیں استوار نہیں ہو رہی ہیں ؟ لیکن ہمارا مسلک خود فریبی یا عالم فریبی نہیں ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں کو ہنر وری نہیں سمجھتے۔ ہمارے اندر جو اخلاقی تضاد اور تصادم ہیں، ہمیں اچھی طرح ان کا احساس ہے۔ لیکن کا وہی حل کار آمد ہو سکتا ہے جو خود ہمارے اندر پیدا ہوا ہو، آپ کا بخشا ہوا نہیں۔ جب آپ "انتقام” یا "گناہ” جیسی نظم کو مردود قرار دیتے ہیں تو آپ صرف ظاہر پرستی کر رہے ہوتے ہیں۔ نئی نسل کی حیرانی، جھنجھلاہٹ، افتادگی اور اذیت پسندی کو متہم کرتے وقت ایک نئے شاعر کا یہ شعر یاد رکھیے جس میں بذات خود نئی اخلاقیات کی رعنائیاں جھلملا رہی ہیں
پاؤں کی تھرتھری نہ دیکھ، دیکھ یہ نالۂ جرس
راہ گذار عشق میں چھوٹتی ہمتیں نہ دیکھ
ایک بات اور ملحوظ رہے۔ عیسوی، یونانی یا ہندو اخلاقیات کے نقطۂ نظر سے جتنی کمزوریاں آپ نئے شاعر میں ڈھونڈ سکیں گے، ان میں سے کئی خود اقبال کے یہاں بھی ملیں گی، کیوں کہ "شاعر مشرق” کو کسی طرح یورپ کی رومانی تحریک سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
شاعری اور اخلاقیات کے تعلق پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں تو اچھا ہے۔ اس بحث کے دو پہلو ہو سکتے ہیں جن کے کلاسیکی نمائندے افلاطون اور ارسطو ہیں۔ نئی اردو شاعری تو پھر بھی چھوٹی چیز ہے، افلاطون ہر شاعری کو بنفسہ اخلاق دشمن سمجھتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ شاعری سے جذبات میں اتنا ہیجان پیدا ہوتا ہے جس سے طبیعت کا اعتدال قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اس نے اپنی مثالی ریاست سے شاعروں کو بصد تکریم رخصت کر دینے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس کے برخلاف ارسطو کی تخیل پسندی نے ادب کے متعلق ایسا قطعی فیصلہ نہیں کیا۔ اس کی رائے ہے کہ شاعری جذبات میں تہلکہ مچا دینے والا ہیجان پیدا نہیں کرتی بلکہ رکے ہوئے جذبات کو راہ دیتی ہے اور زوائد خارج کر کے دوبارہ استدلال قائم کرتی ہے اور یہی رائے ہے جدید نفسیات کا۔
لیکن افلاطون کا انجام عبرت ناک ہے۔ حضرت بڑے دور اندیش اور پیش بیں بن کر چلے تھے، لیکن خود جناب ہی کا فلسفہ آج تک جذبات میں ہیجان پیدا کر رہا ہے اور اکثر رنگین مزاجوں کا ملجا و ماویٰ بن رہا ہے نہ کہ سوفو کلیز اور یوری پائیڈز کی شاعری۔ تو جب تک شاعری کو شاعری سمجھ کر پڑھا جاتا ہے اور اسے اخلاقیات کا بدل نہیں سمجھا جاتا، اس سے نقصان پہنچنے کا احتمال نہیں۔ لیکن جہاں شاعر نے اپنی حیثیت سے غیر مطمئن ہو کر شاعری سے زیادہ عارف، فلسفی، سیاسی یا مذہبی پیشوا، مصلح، معلم اخلاق، قانون ساز یا پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں نے اس کا مطالبہ منظور کر لیا تو پھر شاعری تو خیر خطرے میں پڑی سو پڑی، ہیئت اجتماعی کو بھی ڈرنا چاہیے کہ بھرے بازار میں مست ہاتھی گھس آیا۔ اگر شاعر اخلاقیات کے پرچار کو شاعری سے اونچا درجہ دے دے تو پیغمبری تو شاید وہ کر لے مگر شاعری اس کے بس کی نہیں رہتی۔ شاعری کا مقصد نہ تو قوموں کو زندہ کرنا ہے (ممکن ہے اس کا یہ اثر بھی ہوتا ہو)، نہ نالیوں کی صفائی نہ چکلوں کا اشتہار دینا، بلکہ ایک بڑا حقیر سا …ملارمے کے الفاظ میں to evoke objects، اسی کو الیٹ نے کہا ہے to present actuality …ظاہر ہے کہ اس مفہوم میں وہ روحانی اور نفسیاتی تجربے بھی شامل ہیں جو تجربہ کرنے والے کے لیے واقعی ٹھوس چیزوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے میں اسی مفہوم کے لیے صوفیوں کی اصطلاح "حال” پیش کروں گا۔ اخلاقی درس قال ہوتا ہے اور شاعری حال۔ شعر میں ‘جو ہونا چاہیے ‘ نہیں ہوتا بلکہ ‘جو ہو چکا ‘ امر متوقع نہیں امر واقع۔ اسی وجہ سے میں دعویٰ کرتا ہوں کہ کوئی شاعری جو اس نام کی مستحق ہے، اخلاق سے باہر نہیں ہوتی۔ یہ تو تھا شعر پڑھنے کا پہلا درجہ، دوسرے درجے میں ہم اس مخصوص شعر کے اخلاقی مزاج سے بھی بحث کر سکتے ہیں۔ اسے اچھا یا برا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس مزاج کو اپنے اخلاقی نظام میں اونچی یا نیچی جگہ بھی دے سکتے ہیں، کیوں کہ ہر وقت شعر کو شعر کی حیثیت سے پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتے لیکن دوسرے درجے کو پہلے رکھنا ہمیں ہمیشہ بہکا دے گا۔ اس مخصوص مزاج کی جگہ اپنے اخلاقی نظام میں کیسے ڈھونڈیں، یہ بھی عرض کیے دیتا ہوں۔ شعر میں، جیسا میں نے کہا، امر متوقع نہیں ہوتا بلکہ امر واقع۔ اس لیے شعر اخلاقی لائحۂ عمل نہیں ہو گا بلکہ اخلاقی دستاویز جس کو آپ اپنی طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک بے ڈھنگی سی مثال دوں گا۔ شعر تو ایک اینٹ ہے جسے گھر کی دیوار میں بھی لگا سکتے ہیں اور چاہیں تو راستہ چلتوں کا سر بھی پھوڑسکتے ہیں اور اپنا بھی۔ وہی نظمیں جو آپ کو خطرناک طور پر فحش معلوم ہوتی ہیں، قومی تعمیر کے کام میں مدد دے سکتی ہیں، بشرطیکہ آپ انھیں استعمال کر سکیں۔ ایزرا پاؤنڈ کو اس سلسلے میں بڑی کار آمد تشبیہ سوجھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاعر تو خطرے کی گھنٹی ہے۔ وہ آپ کو آگاہ کر سکتا ہے کہ آگ لگ رہی ہے لیکن اسے آپ آگ بجھانے والا انجن بننے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارے مداوائی دوستوں کو تو ضد ہے کہ گھنٹی میں ہی سے پانی ابل پڑے، ورنہ جلتا رہے تو جلا کرے۔ ہم تو ہاتھ پیر ہلانے والے ہیں نہیں۔ غرض یہ کہ شاعری کی اخلاقی قدر و قیمت کو افعال کی حیثیت سے نہ جانچیے بلکہ اشعار کی حیثیت سے۔ شعروں میں خواہ مخواہ اوپر سے اخلاقیات ٹھونسنے کے متعلق میری بات نہ مانیے بلکہ گوئٹے کی رائے سنیے، جسے اب سے پہلے تک نہ صرف بہت بڑا شاعر بلکہ فلسفی، معلم اخلاق اور عارف سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ادب میں دو قسم کے جعل ساز ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو فنی پہلوؤں کو غیر ضروری سمجھ کر صرف روحانیت یا خیالات کے بھروسے پر شاعری کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو صرف ایک خوب صورت سا ڈھانچا بنا کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ دوسرا گروہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور پہلا آرٹ کو۔ لیکن اگر آپ شعر پڑھتے وقت ذہنی توازن قائم نہیں رکھ سکتے اور چھوت سے گھبراتے ہیں تو پھر یہی ہو سکتا ہے کہ آپ اس نصیحت پر عمل کریں : "تو نہ جا تیرا کورا پنڈا ہے۔ ”
لڑکیوں کا اخلاق درست رکھنے کی فکر بھی ایک مستحسن جذبہ ہے لیکن جب تک جنسی تعلیم کا انتظام نہیں ہوتا، ان کے لیے ہر چیز اشتعال انگیز بن سکتی ہے۔ میرے مشاہدے میں تو یہ آیا ہے کہ جنسی لذت کا سبق لڑکیاں "بہشتی زیور” سے سیکھتی ہیں بلکہ نئی شاعری ایک طرح جنسی بے راہ روی کو روکنے میں معاون ہو سکتی ہے کیوں کہ وہ محبت کے جنسی پہلو پر پردہ نہیں ڈالتی بلکہ ہم آغوشی کی آرزو پہلے ہوتی ہے، عہد وفا کے ابدی ہونے کا وعدہ بعد میں۔ ہاں، آپ حضرات کی تکنیک اس سے مختلف ہے۔ آپ افلاطونی محبت کی ٹٹی کے پیچھے سے شکار کھیلتے ہیں۔ حملہ کرنے سے پہلے دھواں پھیلاتے ہیں۔ نیا شاعر تو پہلے ہی سے جتا دیتا ہے کہ محبوبہ کو کیا کھونا اور کیا پانا ہے۔ بہرحال اگر کنوئیں میں گرنا ہی ٹھہرا تو آنکھوں پر پٹی باندھ کر گرنے سے بہتر آنکھیں کھول کر گرنا ہے۔ اور جب آنکھیں کھلی ہوں تو آدمی مشکل سے گرنے پر رضامند ہوتا ہے۔
[جھلکیاں (حصہ اول)، محمد حسن عسکری، مرتبین: سہیل عمر/نغمانہ عمر، مکتبہ الروایت، لاہور، 1981]
٭٭٭