فہرست مضامین
فارسی شاعری، اور اقبال کا اسلوب بیان
ڈاکٹر محمد ریاض
ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال
مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت
دنیا کی دوسری زبانوں کے مانند، فارسی میں بھی شعر کے نمونے نثر سے پہلے ملتے ہیں۔ قدیم ترین نمونے اب تک تیسری صدی ہجری/نویں صدی عیسوی کے اوائل کے ملے ہیں۔ تصانیف اقبال میں جن ایرانی شعرا کا ذکر ملتا ہے، ان کا عصر حیات پانچویں سے تیرھویں صدی ہجری/گیارھویں سے انیسویں صدی عیسوی کو محیط ہے یعنی غزنویوں کے دور سے قاچاریوں کے عہد تک۔ برصغیر کے شعرا جو ان کے ہاں مذکور ہیں ، وہ بارہویں تا بیسویں صدی عیسوی کے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ اقبال نے قدماء متوسطین اور کسی قدر جدید شعرا کے اسالیب کو پیش نظر رکھا مگر جلد ہی انھوں نے اپنا خاص سبک یا اسلوب اختیار کر لیا۔ بعض حضرات اقبال کی فارسی شاعری کو کلاسیکی شاعری کا نمونہ قرار دیتے ہیں (۱) ۔ یہ بات جزوی طور پر صحیح ہے مگر یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نئی ہیئت شاعری اور نیا انداز بیان اختیار کرنے کی بنا پر اقبال جدید ترین شعرائے فارسی کی صف میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔
ایک عرصے سے فارسی زبان و ادب کے محققین اور ناقدین،فارسی شاعری کے اسالیب پر بحث جاری کیے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں فارسی نثر کے بارے میں بھی کتب و مقالات لکھے جاتے رہے ہیں۔ اِن سب بحثوں کا ماحصل یہ ہے کہ عصری تقاضوں اور ماحول کے مطابق، مصنفین اور شعرا خاص روش و نثر و نظم کو اپناتے رہے ہیں۔ سبک (طرز) اگرچہ نام کے اعتبار سے مقامات و ممالک سے منسوب نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اعصار و ازمنہ سے منسلک ہیں۔
فارسی شاعری کا آغاز، ایران قدیم کے ان مشرقی علاقوں سے ہوا جنھیں ہم ترکستان، خراسان اور ماوراء النہر کے نام سے جانتے ہیں۔ پہلی صدی ہجری کے وسط میں عربوں نے ایران پر تسلط کیا مگر تیسری صدی ہجری کے اوائل تک ایرانیوں نے کافی حد تک آزادی اور داخلی خودمختاری حاصل کر لی تھی۔ ان حالات میں طاہریوں (۲۰۵۔ ۲۵۹ھ ) ، صفاریوں (۲۵۹۔ ۲۹۱ھ ) اور سامانیوں (۲۹۱۔ ۳۶۷ھ) کی حکومتیں جو مندرجہ بالا علاقوں میں قائم ہوئیں ، فارسی ادب کے فروغ کے لیے نہایت درجہ کوشاں رہیں۔ ان حکومتوں کے جانشین غزنوی اور سلجوقی سلاطین ہوئے اس سارے عرصے میں ترکستان اور خراسان کا وسیع علاقہ، فارسی ادب کا گہوارہ بنا رہا۔ فارسی ادب ایران اور ہمجوار ممالک کے بعض حصوں میں پھیلتا گیا مگر شعر فارسی کے بیشتر فصحا جیسے رود کی، دقیقی، فردوسی، فرخی، عنصری، منوچہری اور ناصر خسرو وغیرھم، ایران کے مشرقی علاقوں سے ہی اٹھے۔ ادبی اصطلاح میں ان شعرا کے اسلوب کو سبک ترکستانی بھی کہتے رہے ہیں مگر سبک خراسانی زیادہ متداول اصطلاح ہے۔ بعض محققین تبریز، آذربائجان اور اس کے نواح کے شعرا مثلاً خاقانی،نظامی ،فلکی اور قطران کے اندازِ شعر کو ’سبک آذربائجانی‘ کا نام دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ابتدا سے قرن ہفتم ہجری کے اوائل تک فارسی شاعری کا عام اسلوب، خراسانی ہی رہا ہے۔ البتہ آخری سو سال میں شعرا پرانی ڈگر سے کسی قدر ہٹ رہے تھے اس لیے انوری، ظہیر، خاقانی، نظامی اور عطار وغیرہ کے ہاں شعرائے متقدم کے اسلوب سے کسی قدر اختلاف نظر آتا ہے۔ یہ لوگ سبک خراسانی کے نمائندے تھے مگر تغزل میں اس اسلوب پر چلتے نظر آتے ہیں جس نے نصف صدی بعد ایک نئے سبک یعنی سبک عراقی کو جنم دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ شعرا وغیرہ کا اسلوب نیم خراسانی اور نیم عراقی تھا۔
ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں چنگیز خان اور اس کے منگولی ٹولے نے ایران، خصوصاً خراسان کو تاخت و تاراج کیا۔ کئی علما، فضلا اور شعرا قتل ہوئے اور باقی نے عراق عجم (اصفہان، تہران ، رے، تبریز اور آذربائجان وغیرہ) کا رخ کیا۔ منگولوں ، ایلخانیوں ، خوارزمشاہیوں اور تیموریوں کے عہد میں شاعری بالعموم دربار سے نکل کر دور دور تک پھیلتی گئی۔ اب یہ توصیف، مدح اور پراپیگنڈا کا ذریعہ ہی نہ تھی، اس میں لطیف افکار، تصوف و عرفان، پندو اخلاق اور تفکر بھی سمونے لگا۔ اسے غزل کی زبان مل گئی تھی جسے اقبال ایرانی تفکر کا ایک نمایاں پہلو قرار دیتے ہیں (۲) ۔ اصطلاحاً اس نئے اسلوب شعر کو جو کوئی تین سو سال تک متداول رہا ’سبک عراقی‘ کہتے ہیں۔ اس عرصے میں شعرا عراق عجم کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی تھے مثلاً شیراز میں سعدی اور حافظ تھے۔ بعض مصنف سعدی و حافظ کے اسلوب کو ’سبک فارسی‘ کہتے ہیں یعنی فارس (مشمولہ شیراز) کا اسلوب۔ یاد رہے کہ فارس اس وقت ایران کا ایک صوبہ ہے جس کا صدر مقام شیراز ہے مگر ۱۹۳۵ع تک پارس یا فارس کے نام کا پورے ’ایران‘ پر اطلاق ہوتا تھا۔ بہر حال ہمارے نزدیک ’سبک عراقی‘ ان تین صدیوں کی شاعری کا مناسب ترین نام ہے ورنہ شیراز کے شعرا کو ’سبک فارسی‘ کا نمائندہ کہیں تو قونیہ کے مولانائے روم، دہلی کے امیر خسرو اور ہرات کے مولانا جامی کے اسلوب کو کوئی اور نام دینا پڑے گا، اور ان تکلّفات کا نتیجہ کچھ نہ ہو گا۔
سبک عراقی جس کی تفصیل بعد آئے گی، فارسی شاعری کا دلآویز ترین سبک ہے۔ برصغیر میں دسویں صدی ہجری سے عصر اقبال تک اس کا تتبع نہ رہا، مگر ایرانیوں نے انیسویں صدی عیسوی سے اس سبک (اور کسی حد خراسانی سبک کی طرف بھی) عود کر لیا تھا۔ جدید ایرانی محقق یہاں بھی ایک موشگافی دکھاتے اور دسویں صدی ہجری کے اکثر فارسی شعرا کو مکتب و قوع، کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک معاملہ بندی (وقوع) اور واسوخت لکھنا، سبک عراقی ہے نہ ہندی، بنابریں فغانی اور وحشی بافقی کے قبیل کے شعرا’ شاعرانِ وقوع‘ ہیں (۳) اس اسلوب کی مثالیں بعد میں نقل ہوں گی۔
دسویں صدی ہجری کے اوائل سے ایران میں صفویوں کی حکومت قائم ہوئی جِس کا بانی شاہ اسماعیل اول (م ۹۳۰/۱۵۲۴ع ) تھا۔ صفوی، شیخ صفی الدین اردبیلی (م: ۱۳۳۴ع ) سے منسوب تھے اور انھوں نے کوئی سوا دو سو سال تک حکومت کی ہے۔ ان کے دارالحکومت تبریز،قزوین اور اصفہان رہے۔ صفویوں کا دور، ترقی و پیشرفت کا دور ہے مگر عام شاعری کو اس عہد میں سخت دھچکا لگا۔ مذہبی شعرا کے علاوہ دوسروں کے بارے میں دربار حکومت عام طور پر بے التفات رہا۔ اس لیے اس عہد کے بیسیوں نامور شعرا و ادبا نے برصغیر پاک و ہند کی راہ لی اور مغل شاہنشاہوں اور ان کے امرا کی فیاضیوں سے بہرہ مند ہونے لگے۔ اقبال نے اپنی ابتدائی دور کی ایک نظم ’ہندوستانی بچوں کا گیت‘ میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے برصغیر کی معارف پروری کی تعریف کی ہے:
ٹوٹے تھے جو ستارے فارس (۴) کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
برصغیر میں وارد ہونے والے شعرا نے اپنی طبیعت کی یہاں خوب جولانیاں دکھائیں اور بعض مواقع پر شاعری کو ریاضی اور دیگر علوم عقلی کا نمونہ بنا دیا۔ اقبال کے زیر اثر برصغیر اور افغانستان کے اکثر شعرا نے اب اس ڈگر کو ترک کر دیا ہے۔ قرونِ مذکور کے شعرا کے سبک کو ’سبک اصفہانی‘ بھی کہتے ہیں مگر سبک ہندی کی اصطلاح زیادہ رائج ہے۔ اس کے خصوصیات بعد میں ذکر ہوں گے۔
ایران میں دسویں صدی ہجری کے اواسط سے بارہویں صدی ہجری کے اواخر تک سبک ہندی کا رواج رہا، اس کے بعد خراسانی اور عراقی اسالیب کی طرف رجوع کر لیا گیا۔ اصطلاح میں اسے ’احیائے ادبی، کا عہد کہتے ہیں۔ اس عہد کے چار شاعر آذر، نشاط،طاہرہ اور قاآنی اقبال کی تصانیف میں مذکور ہیں۔
سبک اقبال
ناقدین فن نے اقبال کی مجموعی فارسی شاعری کو ’سبک اقبال‘ کا نام دیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ برصغیر میں فارسی کے انحطاط کے دور میں ایک غیر فارسی زبان شاعر، ایک نیا ’سبک شعر وجود میں لے آئے۔ اس امر کا خود ایرانیوں کو اعتراف ہے کہ اقبال، رودکی، سعدی اور بابا فعانی وغیرہم کے مانند، ایک نئے سبک شعر کے بانی ہیں جسے ان کے نام کے ساتھ منسوب کیا جانا چاہیے۔ ان کا یہ سبک اردو اور فارسی دونوں میں ، اور ہر صنف سخن میں ، نمایاں ہے۔ پروفیسر سعید نفیسی مرحوم نے لکھا ہے کہ اقبال کے فارسی شعر میں عرفی، فیضی، ظہوری،کلیم، صائب، بیدل اور غالب کے سبک کی بازگشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے ہاں سنائی، عطار، رومی، عراقی، اوحدی مراغی اور کمال خجندی کا رنگ ملتا ہے (۵) ۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین خطیبی نے جو ملک الشعرا محمد تقی بہار مشہدی کے خاص شاگرد اور تہران یونیورسٹی میں سبک شناسی فارسی کے استاد ہیں ، لکھا ہے:
’’اقبال کے سبک شاعری کو سبک اقبال کا نام دینا مناسب ہے۔ اقبال کے ہاں سبک ہندی کے عناصر تقریباً مفقود ہیں۔ انھوں نے منوچہری، ناصر خسرو، سنائی، عطار، رومی، سعدی، حافظ اور جامی ایسے اساتذہ شعرا کے سبک کا بغور مطالعہ کیا اور اپنے اشعار کو ان ہی قدیم سبک پر استوار کیا لیکن نئے مضامین و موضوعات کی بنا پر ان کا سبک، سبکِ اقبال بن گیا ہے۔ ۔ ۔ فارسی شاعری میں اقبال نے حیرت انگیز مہارت دکھائی اور اساتذہ کے رنگ میں انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ، دقیق و عمیق فلسفیانہ، صوفیانہ اخلاقی اور سائنسی مضامین بیان فرمائے ہیں۔ ان کی شاعری میں لغوی و معنوی دشواریوں یا الفاظ کے بے محل استعمال کی مثالیں بمشکل ملیں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معانی کی بلندی کے ساتھ اقبال کے الفاظ بھی بلند ہیں۔ اگرچہ اقبال کا مقصد محض شاعری نہ تھا، وہ حقائق بیان کرنے پر زیادہ متوجہ رہے مگر ان کے کلام کو پڑھیں تو فکر و فن ہم سطح و ہم ردیف نظر آتے ہیں ‘‘۔ (۶)
کسی ایک سبک کی کوئی جامع و مانع تعریف پیش کرنا مشکل ہے۔ سبک اقبال کا بھی یہی حال ہے۔ علامہ کا اردو کلام ہو یا فارسی، اپنی انفرادیت کا ببانگ دہل اعلان کرتا ہے مگر اس اعلان کو صاحبان ذوق اور ان کے کلام کی مزاولت رکھنے والے ہی سن سکتے ہیں۔ دیگر اسالیب کی خصوصیات بعد میں بیان ہوں گی۔ اول یہاں سبک اقبال کے چند نمایاں خصوصیات بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ خصوصیات ’سبک عراقی ‘ کے بعد میں بیان ہونے والے خصوصیات کے سوا ہیں :
سبک (طرز ) اقبال کی پہلی خصوصیت فکر و فن کا حسین ترین امتزاج ہے۔ فارسی شاعری کے کسی مفکر شاعر کے ہاں الفاظ و معانی یوں ہم ردیف نظر نہیں آتے۔ مثال کی خاطر حضرت رومی کی تصانیف اور شیخ محمود کی گلشن راز پر ایک نظر ڈالیں۔ جہاں فکر و پیغام بڑھا، وہاں شاعری کا حسن ماند پڑ گیا۔ یہ حضرات شاعر محض تھے نہ اقبال۔ البتہ اقبال کی پیغام دوستی نے ان کی شاعری کا حسن کم نہیں کیا۔ اقبال کو لوگ فلسفی شاعر اور شاعر فلسفی کہتے رہے اور ان دونوں بیانات میں جزوی صداقت ہے۔ اقبال فرماتے ہیں :
ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت
کہ درس فلسفہ می دارد و عاشقی ورزید
بایں بہانہ دریں بزم محرمے جویم
غزل سرایم و پیغام آشنا گویم
پہلا شعر ان کے فلسفی شاعر ہونے کا غماز ہے اور دوسرا شاعر فلسفی ہونے کا موید۔ بہر حال ان کے کلام میں فکر و فن،نقطہ کمال پر نظر آتے ہیں۔
شعر اقبال کی دوسری خصوصیت، سادگی اور سادہ بیانی ہے۔ ذو لسانین شاعر عام طور پر غیر مادری زبان میں گنجلک اور مشکل الفاظ استعمال کرتے اور زبان و بیان کی ہنر نمائی کی طرف توجہ دیتے رہے ہیں۔ اقبال کا مقصد ابلاغ عام تھا، اس لیے ان کے ہاں لفظی یا معنوی دشواریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے اردو کلام کی غیر معمولی اور غالب سے بھی بڑھی ہوئی ’فارسیت‘ کی بعض ناقدین کو شکایت (۷) ہو سکتی ہے، مگر فارسی کلام کے بارے میں ایسی بات کرنا انصاف کے خلاف اور کور ذوقی کی دلیل ہو گی۔ قرآن مجید کی مزاولت سے علامہ مرحوم نے آسانی و مشکل گوئی کے حدود سیکھے،یہی وجہ ہے کہ ان کی کئی اردو نظمیں دوسری جماعت کے بچے پڑھتے اور سمجھتے ہیں ، اور علامہ کی اسی خصوصیت سے استفادہ کرتے ہوئے جناب پروفیسر سید محمد عبدالرشید فاضل صاحب نے ’درسیات اقبال‘ کے تین حصے مرتب کر کے چھپوائے ہیں (۸) ۔ فارسی زبان والے ممالک میں اقبال کی فارسی تصانیف کے کئی حصے ابتدائی جماعتوں کے درس میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اقبال ایسے مفکر شاعر کے لیے سادہ سے سادہ اشعار کہنا، ایک قابلِ فخر بات ہے مجھے ان کے کلام کے معتدبہ حصے میں فرخی سیستانی اور سعدی شیرازی کے کلام جیسی شان سہلِ ممتنع نظر آتی ہے۔ کیوں نہ ہو، آخر وہ شاعر تھے اور ماورائے شاعر بھی۔
نہ پنداری کہ من بی بادہ مستم
مثال شاعراں افسانہ بستم
بہ جبریل امین ہم داستانم
رقیب و قاصد و درباں ندانم
دل سنگ از زجاج من بلرزد
یم افکار من ساحل نورزد
دمی در خویشتن خلوت گزیدم
جہانی لازوالی آفریدم
سبک اقبال کی تیسری خصوصیت، اس کا بے باک، زور دار اور انقلاب پرور لہجہ ہے۔ یہ لہجہ ان کی شاعری کی جان ہے اور اس نے لاکھوں دلوں کو مسخر کر لیا ہے۔ یہی لہجہ ہماری تحریک آزادی کا ایک نمایاں محرک رہا اور اس نے کتنے افراد کو جویا، پویا اور فعال بنایا ہے۔ غزل فارسی میں اقبال نے رومی کی غزلیات کا جوش بیان اپنایا۔ مگر رومی کا جوش بیان، بعض عارفانہ موضوعات کے لیے مختص رہا۔ اقبال کے ہاں عصری تقاضوں کے مطابق سب ہی کچھ ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
گرچہ متاع عشق را عقل بہاے کم نہد
من ندھم بہ تخت جم آہِ جگر گداز را
بہر نرخی کہ ایں کالا بگیری سودمند افتد
بزور بازوی حیدرؓ بدہ ادراک رازی را
اگر یک ذرہ کم گردد ز انگیز وجود من
باین قیمت نمی گیرم حیات جاودانی را
بہ کیش زندہ دلاں زندگی جفا طلبی است
سفر بکعبہ نکردم کہ راہ بے خطر است
ترا نادان امیدِ غم گساریھا ز افرنگ است؟
دل شاہین نسوزد بہر آن مرغے کہ در چنگ است
تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست
بامن میا کہ مسلک شبیرم آرزوست
ز قید و صید نہنگان حکایتے آور
مگو کہ زورقِ ما روشناس دریا نیست
مرید ہمت آن رہروم کہ پا نگذاشت
بجادہ ای کہ درو کوہ و دشت و صحرا نیست
لالۂ این چمن آلودہ رنگ است ہنوز
سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز
چو موج مست خودی باش و سر بطوفاں کش
نرا کہ گفت کہ بنشیں و پابداماں کش؟
مثل شرر ذرہ را ذوق تپیدن دہم
ذوق تپیدن دہم، بال پریدن دہم
می توان جبریل را گنجشک دست آموز کرد
شھپرش با موی آتش دیدہ بستن می توان
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن
در دشت جنونِ من جبریل زبون صیدی
بزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
بیروں قدم نہ از دور آفاق
تو بیش ازینی، تو بیش ازینی
از مرگ ترسی ای زندہ جاوید؟
مرگ است صیدے تو در کمینی
جانے کہ بخشند دیگر نگیرند
آدم بمیرد از بے یقینی
اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو بالخصوص اور جہان اسلام کو بالعموم آزادی کے لے سینہ سپر کیا۔ یہی نہیں ، انھوں نے دولت سے بے نیازی برتنے اور موت سے بے خوف رہنے کا موثر درس دیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ایرانی شعرا نے آزادی اور حقوق مشروط کے حصول کی خاطر بے باکانہ جدوجہد کی، اور ایمان پرور شعر کہے۔ اقبال نے بھی ان کے جس قدر اشعار دیکھے، ان کی تعریف کی ہے (۹) ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایرانی شعرا کو اقبال کا سا متین اور متنوع لہجہ میسر نہ آیا، اور بعض ایرانی از روئے تعصب اس امر کی تاویلات پیش کر رہے ہیں ، مثلاً پروفیسر عباس مہرین شوشتری، جو سالہا سال ہندوستان اور پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، لکھتے ہیں کہ ایران کے معاصر شعرا کو وہ ماحول نہ ملا جو اقبال کو میسر رہا ورنہ وہ بھی وطنیت سے بالاتر ہو کر بات کرتے اور جہان اسلام میں اپنی آواز پہنچا سکتے (۱۰) ۔ کاش وہ یہ بتا سکتے کہ ان کا مدعا اظہار تعصب کے علاوہ کیا ہے؟ بہر حال اقبال کا بے باک لہجہ ایک بے نظیر چیز ہے، اور اس کی غایت کو ان کے جذبہ انسان دوستی میں دیکھا جا سکتا ہے:
حرکت اعصاب گردون دیدہ ام
در رگ مہ حرکت خون دیدہ ام
بہر انسان چشمِ من شبھا گریست
تا دریدم پردہ اسرار زیست
از درون کارگاہِ ممکنات
بر کشیدم سر تقویم حیات
اقبال کی شاعری کی چوتھی خصوصیت، اِن کی ابداعات ہیں۔ آپ نے پرانی اصطلاحات کو نئے معانی دیے، متداول الفاظ کے معانی میں توسیع پیدا کی، نئی تراکیب وضع کیں اور بعض نئی تعبیرات از خود تخلیق کیں۔ ان کے ہاں خودی، بیخودی، عشق اور خرد وغیرہ معمولی معانی کے آئینہ دار نہیں ہیں۔ گرہ خوردہ نگاہ، جنگاہ، طائر پیش رس، تازہ کاری، گران رکابی، افرنگ زدہ، شعلہ درگیر، قدر انداز، زادہ باغ و راغ، فاختہ کہن صغیر، نغمہ پار، اثر باختہ آہ، حاضر آرائی، ایازی، محمودی، سمرقندی، تبریز، ہنگامۂ چنگیز، آشوب ہلاکو، کوفہ وشام اور گرمی سومنات نیز جذبہ، ہنگامہ، گرمی اور آشوب وغیرہ کی نئی نئی تعبیرات سے ان کا کلام مملو ہے۔ ایسے استعارات، کنایات نیز نئے اسامی و اماکن جیسے فرامرز، جہان درست، اور مرغدین وغیرہ اقبال کی زبان شناسی، قادر کلامی، جودت طبع اور خلاقی ذہن کے زندہ ثبوت ہیں۔ ان چار خصوصیات کے علاوہ بعض خصوصیات ان کی فارسی شاعری پر عمومی تبصرہ کے دوران بیان ہو جائیں گے۔
عمومی تبصرہ (کتب، اصناف سخن)
اقبال کی اُردو شاعری کے قابل ذکر نمونے ۱۸۹۴ء کے سال سے، جب وہ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم تھے دست یاب ہیں (۱۱) ۔ ایم۔ اے فلسفہ (۱۸۹۹ء) کرنے، اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ، عربی اور انگریزی کی تدریس فرمانے (۱۸۹۹۔ ۱۹۰۵ع) اور علم الاقتصاد تصنیف کرنے (اشاعت اول ۱۹۰۴ء) کے بعد ۱۹۰۵ء میں جب وہ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لندن روانہ ہوئے، اس وقت تک ان کی اردو شاعری کی دھوم سارے برصغیر میں مچ چکی تھی۔ مگر جیسا کہ پیشتر لکھا گیا، اس وقت تک فارسی میں ان کے کہے ہوئے اشعار میں سے صرف کوئی ایک سو دست یاب ہیں۔ یورپ کے سہ سالہ قیام کے دوران، اقبال نے فارسی گوئی کی طرف خصوصی توجہ دی، سر شیح عبدالقادر نے دیپاچۂ بانگ درا میں اِس ’ مرحلہ انعطاف‘ کے بارے میں اقبال کے قیام لندن سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ نقل فرمایا ہے:
’’ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فارسی شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں ؟ انھیں اعتراف کرنا پڑا کہ انھوں نے سوائے ایک آدھ شعر کبھی کہنے کے، فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی جو مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں جو انھوں نے زبانی مجھے سنائیں۔ ان غزلوں کے کہنے سے انھیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کا حال معلوم ہوا جس کا پہلے انھوں نے اس طرح امتحان نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد ولایت سے واپس آنے پر گو کبھی کبھی اردو نظمیں بھی کہتے تھے مگر طبیعت کا رخ فارسی کی طرف ہو گیا‘‘ (۱۲)
اگرچہ علامہ مرحوم کی ’زبانی‘ سنائی ہوئی غزلوں کی نشاندہی مُشکل ہے مگر واقعہ مذکور اقبال کی فارسی پسندی کے لیے ضرور محرک بنا ہو گا۔ علامہ کی فارسی گوئی کی دیگر وجوہ اس سے قبل بیان ہو چکیں۔
اقبال کی مثنوی اسرار خودی ۱۹۱۵ء میں چھپی۔ اس کے آغاز کا ماہ و سال ہمیں معلوم نہیں مگر قرائن بتاتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے سے قبل اس کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس مثنوی، اور اس کے بعد لکھے جانے والی مثنوی (رموز بے خودی، اشاعت اول۱۹۱۸ع ) میں خودی و بے خودی سے متعلق اقبال کی اساسی تعلیمات ملتی ہیں اور پہلی جنگ عظیم کے وقائع کا ان پر پرتو معمولی نوعیت کا ہے۔ اقبال کی دیگر تصانیف میں اس خوفناک جنگ کے بعض انعکاسات دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہر حال، اقبال نے زندگی کے آخری ۲۵سالوں (اواخر ۱۹۱۳ء تا اوائل ۱۹۳۸ء ) میں فارسی گوئی کی طرف زیادہ توجہ مبذول رکھی اور اس زمانے کی ان کی اردو شاعری میں ’فارسیت‘ کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ بقول سر عبدالقادر کے (دیباچہ بانگ درا) اقبال، اپنے اشہب قلم کو کسی قدر تکلّف کے ساتھ میدان فارسی سے عرصہ اردو کی طرف موڑتے رہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب مرحوم کے اردو کلام میں ’فارسیت‘ کی فراوانی ہے، مگر فارسی شاعروں کے مصرعوں اور شعروں پر تضمینوں ، تراجم اور دیگر تاثرات قبول کرنے کے لحاظ سے اقبال کا اردو کلام، اردو کے ہر دوسرے شاعری کے مقابلے میں فارسی سے زیادہ قریب ہے۔ بلکہ قرآنِ مجید کی آیات، احادیثِ رسول ؐ، بزرگانِ دین کے اقوال اور تاریخ اسلام کی تلمیحات سمونے کی وہ روایت جو اردو نثر نگاروں اور شاعروں کے ہاں موجود رہی، وہ بھی اقبال اور ان کے ہم سن معاصرین پر تقریباً ختم ہو گئی مگر بعض ناقدین نئی روشِ شاعری سے خوش ہیں (۱۳) ۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ اقبال نے اردو شعرا کے کلام پر تضمین کمتر کی ہے۔ سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی کا ایک مصرع اور مرزا غالب کے چند مصرعے اور اشعار ان تضمینوں کی کل کائنات ہیں۔ کیفیت، ہمارے اِس کتابچہ کے ہر صفحے سے ہویدا ہے۔
اقبال کی فارسی مثنویاں
اقبال کی بیشتر فارسی شاعری، صنف مثنوی میں ہے۔ ایک مثنوی گلشن راز جدید (مشمولہ زبور عجم) کے سوا جو شیخ محمود شبستری کی ’گلشن راز‘ کے جواب میں اور اسی بحر میں ہے (بحر ہزج مسدس محذوف یا مقصور یعنی مفاعیلن، مفاعیلن،مفاعیل یا فعولن) ، ان کی دیگر تمام مثنویاں اسرارخودی، رموز بے خودی (موجودہ اسرار و رموز) جاوید نامہ، مسافر، پس چہ باید کرد اور بندگی نامہ (شامل زبور عجم) حضرت مولانا جلال الدین محمد رومی کی مثنوی شریف کی معروف بحر میں ہیں (بحر رمل مسدس محذوف یا مقصور جو زحافات میں فاعلاتن،فاعلاتن فاعلات یا فاعلن ہے) ۔ مثنوی اسرار خودی کے بارے میں اقبال نے تصریح کی ہے کہ اسے لکھتے وقت انھوں نے مثنوی معنوی اور مثنوی بو علی قلندر پانی پتی کے اسلوب کو پیش نظر رکھا ہے۔ اسرار خودی کی تمہید لکھنے میں انھوں نے ظہوری ترشیزی کے معروف ساقی نامہ کی پیروی کا اعتراف کیا ہے (۱۴) ۔ اس قسم کی پیروی کی توضیح اپنے مقام پر آئے گی مثنوی رموز بے خودی، پہلی مثنوی کا تکملہ ہے۔ ان دونوں مثنویوں میں اقبال نے رومی کی مثنوی اور دیوان کبیر، نیز بو علی قلندر کی مثنوی اور عرفی و نظیری کے بعض اشعار نقل و تضمین کیے ہیں۔ اقبال کی دیگر مثنویوں میں بھی نقل اور تضمینوں کی یہی حالت ہے۔ بعض مثنویوں میں انھوں نے اپنی یا دیگر شعرا کی غزلیں بھی نقل فرمائی ہیں۔ یہ انداز امیر خسرو یا عراقی وغیرہ کی مثنویوں میں نظر آتا ہے، مگر اقبال کے ہاں یہ جدت قابل توجہ ہے کہ انھوں نے دوسروں کی غزلیں تضمین فرمائی ہیں۔ رومی نے سنائی و عطار وغیرہ کے چند شعر ضرور تضمین کیے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی جدتیں کئی اعتبار سے بے نظیر ہیں۔
دو بیتیاں (رباعیات)
پیام مشرق کا ابتدائی حصہ (لالہ طور) اور ارمغان حجاز (حصہ فارسی ) تماماً دو بیتیوں پر مشتمل ہے۔ اس وزن میں ارمغان حجاز (حصہ اردو) اور بال جبریل میں متعدد دوبیتیاں موجود ہیں۔ پیام مشرق میں انھوں نے ان دو بیتیوں کو ’رباعیات‘ لکھا ہے لفظی طور پر واقعی یہ ’رباعیات‘ ہیں مگر اصطلاحی طور پر ایسا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کا وزن ’لاحول ولاقوۃ الابا للہ‘ نہیں جس کے ۳۴زحافات رباعی کے لیے مخصوص رہے ہیں۔ اقبال کی یہ دو بیتیاں ، دراصل ترانے ہیں جن کا وزن بابا طاہر عریاں ہمدانی (قرن پنجم ہجری کے شاعر) کی معروف پہلویات یا فہلویات کے وزن کا ہے۔ علامہ نے خود اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے بابا طاہر کی دو بیتیوں کا اسلوب اپنایا ہے (۱۵) ۔ ان سب دو بیتیوں کا وزن ہزج مسدس محذوف یا مقصور ہے جس کا ذکر ’گلشن راز‘ میں ہو چکا ہے۔ اقبال نے رباعی کے خاص وزن کی طرف توجہ نہیں دی مگر اپنے زور بیان سے دو بیتی کو رباعی بنا دیا ہے۔ رباعی کے چار اشعار میں کوئی خاص مضمون بیان کیا جاتا ہے۔ اقبال کی دو بیتیوں کا بھی یہی عالم ہے۔ شعرا نے بالعموم رباعی یا دو بیتی کی ظاہری ہیئت کی پابندی کی ہے۔ پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع مردف و مقفی ملتا ہے جبکہ تیسرا مصرع آزاد نظر آتا ہے یا بعض جگہ مقفی اور مردف اقبال نے متعدد دو بیتیوں میں پہلا اور تیسرا مصرع بے ردیف و قافیہ رکھا اور اس طرح اپنی آزادہ روی اور جدت پسندی کا ثبوت دیا مثلاً:
سحر مے گفت بلبل باغبان را
دریں گل جز نہال غم نگیرد
بہ پیری می رسد خار بیاباں
ولے گل چوں جو ان گردد بمیرد
مسلمانے کہ در بند فرنگ است
دلش در دست او آساں نیاید
ز سیماے کہ سودم بر در غیر
سجودے بوذرؓ و سلمانؓ نیاید
بہر حال، جیسا کہ ہم نے ایک مقالے میں بھی لکھا تھا (۱۶) تسلسل بیان اور وسعت معانی کے لحاظ سے اقبال کی ہر دو بیتی اردو یا فارسی کے بڑے بڑے رباعی گو شعرا جیسے اکبر یا حالی، یا خیام، رومی، سعدی اور سحابی وغیرہ کی ہر رباعی کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہے۔
غزلیات
اقبال کی فارسی غزلیات کے سدا بہار اور دلآویز نمونے پیام مشرق (حصہ مئے باقی) اور زبور عجم (حصہ اول و دوم) میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مثنوی گلشن راز جدید اور مثنوی مسافر میں ایک ایک اور جاوید نامہ میں چند غزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اقبال کے اردو مجموعہ ہائے کلام میں بھی فارسی غزل و تغزل کے نمونے ملتے ہیں۔ غرض، اقبال کی فارسی غزلیات بھی دیوان حافظ کی نصف ضخامت کی حامل ہیں۔
اقبال کی غزل اُن کی فارسی شاعری کا گل سرسبد ہے۔ غزلیات کا معتدبہ حصہ اساتذہ کے قالب ہائے شعر سے ہم آہنگ ہے البتہ لفظ و معنی کے اعتبار سے ان غزلوں کا دوسروں کی غزلوں کے ساتھ مقائسہ و موازنہ کرنا تحصیل حاصل ہو گا:
غزل آن گو کہ فطرت ساز خود را پردہ گرداند
چہ آید زان غزل خوانے کہ با فطرت ہم آہنگ است
در غزل اقبال احوالِ خودی را فاش گفت
ز آنکہ ایں تو کافر از آئین دیر آگاہ نسیت
یہاں روسی، عراقی، سعدی، خسرو، حافظ، جامی، فغانی اور نظیری وغیرہ کی غزلوں کے ہم طرح ضرور ہیں مگر روح شاعرِ مشرق کی اپنی ہے، نمونے بعد میں ملاحظہ فرمائیے گا۔
اقبال نے زبان غزل کو بے انتہا دسعت دی، ان کے تتبع میں غزل میں دنیا بھر کے مضامین سمونا، ہنر مندی ہے۔ ان کی غزلیں اس قابل ہیں کہ دوسرے شاعر ان کی تقلید کریں اور پیغام و تغزل کو ممزوج و مخلوط کرنے کی کوشش کو آگے بڑھائیں۔ اقبال کا یہ بڑا کمال ہے کہ غزل میں ہر قسم کے مضامین ادا کر دیے مگر زبان کے لوچ میں فرق نہ آنے دیا۔ شاعر مشرق کا مقصد ابلاغ تھا، نہ کہ ہُنر نمائی مگر ابلاغ پیغام نے غزل کے تقاضوں کو اتنا معمولی مجروح کیا کہ ہر کہ و مہ اس امر کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتا۔ اقبال فرماتے ہیں :
بایں بہانہ دریں بزم محرمے جویم
غزل سرایم و پیغام آشنا گویم
نعمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوے قطار می کشم ناقہ بے زمام را
وقت برہنہ گفتن است، من بہ کنایہ گفتہ ام
خود بگو کجا برم ہم نفسانِ خام را
اقبال کی بے بدل اور کم نظیر فارسی غزل کے بعض خصوصیات کے بارے میں ان کے ایک ارادت مند دوست چودھری محمد حسین مرحوم کی ایک عمدہ تحریر کا اقتباس ہماری اس بحث کا تتمہ ہے۔ ۱۹۲۷ع میں ’زبور عجم‘ کی اشاعت اول کی مناسبت سے انھوں نے لکھا تھا:
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقبال نے انتہائی کوشش کر دکھائی ہے کہ غزل کو پیغام کے رتبے تک لے جائے۔ یہ کوشش قابل ستائش ہے اور مشرقی علم و ادب کی تاریخ میں اپنی قسم کی پہلی مثال ہے۔ آج عراقی، سعدی، حافظ، عرفی، نظیری، صائب اور غالب وغیرہم ہوتے تو جس فن کو انھوں نے شروع کیا تھا اور جس کے کمالات دکھانے میں زندگی صرف کر دی، اسے حد کمال کو پہنچا ہوا دیکھ لیتے۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتے کہ اقبال، غزل کو پیغام کی منزل تک لے جانے میں اسے بعض ضروری لوازم سے محروم کر رہا ہے کہیں مطلع نہیں لکھتے (۱۷) ، مقطع کی تو پروا ہی نہیں کرتا اور اشعار غزل کی تعداد، اس کے نزدیک بے معنی قید ہے تو شاید وہ اقبال کی غزل کو کوئی نیا نام دیتے جسے اختراع کرنے سے ہم قاصر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غرض، غزل کا یہ عروج، مشرقی شعر کے عروج (۱۸) کی حد ہے۔ ‘‘
مستزادات
مستزادات کی مختلف صورتیں فارسی شاعری میں پانچویں صدی ہجری /گیارہویں صدی عیسوی سے تا امروز جاری رہی ہیں۔ مصرع اول اور مصرع ثانی معنوی طور پر کہیں مربوط ہیں اور کہیں غیر مربوط مگر صوری طور پر ہر بڑے مصرع پر ایک چھوٹا مصرع یا چند مصرعوں پر ایک ہم وزن یا مختلف الوزن مصرع اضافہ شدہ نظر آتا ہے۔ محققین کا خیال ہے (۱۹) کہ مسعود سعد سلمان لاہوری (م ۵۱۵ھ ) غالباً پہلا فارسی شاعر ہے جس نے متسزادات لکھے ہیں۔ اس کے باوجود، پیام مشرق اور زبور عجم میں موجود اقبال کے مستزادات ایسے نمونے فارسی ادب میں بہت کم دیکھے جا سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اہل زبان نے ان منظومات پر اَش اَش کیا ہے (۲۰) ۔ پیام مشرق کے مستزادات فصل بہار، سرود انجم، کرمک شب تاب، حدی اور شبنم کے زیر عنوان دیکھے جا سکتے ہیں۔ زبور عجم کے چار مستزاد آمیز منظومات کے افتتاحی بیت دیکھیں :
۱۔ یا مسلماں راحدہ فرماں کہ جاں بر کف بنہ
یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانی آفریں
یا چناں کن یا چنیں
۲۔
مانند صبا خیز و وزیدن دگر آموز
دامان گل و لالہ کشیدن دگر آموز
اندر دلک غنچہ خزیدن دگر آموز (۲۱)
۳۔ ای غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز
کاشانہ ما رفت بتاراج غماں خیز
از نالہ مرغ چمن از بانگ اذاں خیز
از گرمی ہنگامہ آتش نفساں خیز
از خواب گراں ، خواب گراں ، خواب گراں خیز
از خواب گراں خیز
۴۔ خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعل ناب
از جفای دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
انقلاب انقلاب ای انقلاب
ایسے روح پرور نغمے ہمیں تلاش بسیار کے باوجود فارسی ادب میں نہ مِل سکے، اور آنجہانی پروفیسر آربری نے انھیں عربی ادب کے لیے بھی نادر اور بدیع بتایا ہے (۲۲) ۔
اقبال کی متفرق اختراعات اور جدتیں
اقبال کی مثنوی جاوید نامہ صوری اور معنوی ابداعات کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ کتاب مثنوی میں ہے، مگر اس میں اقبال کی اپنی، نیز رومی، غالب اور طاہرہ بابیہ وغیرہ کی غزلیں بھی مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ رومی اور غالب کی مثنویوں کے اشعار بھی تضمین شدہ نظر آتے ہیں۔ چند ترکیب بند اور مستزادیہ ترجیع بند بھی کتاب میں موجود ہیں۔ ان تنوعات نے کتاب کو بے حد دلچسپ بنا دیا ہے۔ معنوی اعتبار سے بھی یہ کتاب فی الحال فارسی ادب کی کتاب اول ہے۔ کتاب روایات معراج کے اتباع میں لکھی گئی ہے۔ یوں تو روایات معراج کا انعکاس اسلامی ادب میں کافی ہے (۲۳) ایک فارسی شاعر کا ارداویراف نامہ، بایزید بسطامی کے عربی ملفوظات، سنائی کی مثنوی سیرالعباد الی المعاد، عطار کی مثنوی منطق الطیر ابن عربی کی الفتوعات المکیہ اور رسائل، ابو العلا معری کا رسالتہ الغفران ابو عامر اندلسی کا رسالۃ التوابع و الزوابع اور دانتے کی ڈیوائن کامیڈی، وغیرہ سب ہی افلاکی سفر کے نمونے ہیں مگر اقبال کے جاوید نامہ کا رنگ منفرد ہے:
آنچہ گفتم از جہانے دیگر است
این کتاب از آسمانے دیگر است
پیام مشرق اور ارمغان حجاز کے منظومات اور ان کے عنوانات کے تنوع پر نظر ڈالیں تو مسحور کن نظر آتے ہیں۔ شاعری میں ہیئت کے نئے تجربے (مستزادات نو ) بیان ہو چکے۔ نیز شاعر مشرق کی تراکیب سازی اور اصطلاحات تراشی کی بے نظیر قوت کی طرف بھی اشارہ ہو چکا۔ غرض ہر چیز کمال کے انتہائے مقام پر نظر آتی ہے اور اسی وجہ سے ملک الشعرا بہار، اقبال کو عصر حاضر کا بے نظیر مفکر اور حجۃ الشعر و التفلسف قرار دیتے ہیں :
عصر حاضر خاصۂ اقبال گشت
واحدی کزصد ہزاراں برگذشت
عالم از حجت نمی ماند تہی
فرق باشد از ورم تا فربھی
ایک معاصر ایرانی شاعر جناب کاظم رجوی ایزد شعرا فارسی کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اب بالالتزام اقبال کی ہی پیروی کریں :
مولوی وسعدی و حافظ تجلی کردہ اند
در ہمہ افکار و در آمال و در امیال او
شاعران را باید از اندیشہ او پیروی
تابیار آید ز اقوال شان ہمہ افعال او
اقبال اور فارسی شعرا ، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ، ۱۹۷۷ء
حواشی
۱۔ Poems from Iqbal (وکٹر کیرنن) دیباچہ۔
۲۔ The Development of Metaphysics in Persia :تعارف
۳۔ مکتب وقوع در شعر فارسی
۴۔ اقبال نے یہاں فارس کے لفظ میں ’ر‘ کو متحرک اور مفتوح باندھا ہے حالانکہ یہ ساکن ہے۔
۴۔ رومی عصر، ص ۱۲۴
۶۔ ایضاً، ض ۱۵۶ (اردو اقتباس ہمارا ترجمہ سمجھیے) ۔
۷۔ A History of Urdu Literatureمیں اقبال کا ذکر۔
۸۔ شائع کردہ اقبال اکادمی پاکستان،
۹۔ اقبال نامہ ، دوم ص ۱۵۷۔
۱۰۔ تاریخ زبان و ادبیات ایران در خارج از ایران ص ۱۵۴۔ موصوف یہاں اقبال کو فلسفے سے بھی تقریباً کورا قرار دیتے ہیں۔ آخر ہند کے پنشن خوار جو ہیں !
۱۱۔ باقیات اقبال، طبع ثانی۔
۱۲۔ اقبال کے قیام یورپ کے دوران کی ایک غزل ’اقبال‘ مولفہ عطیہ بیگم (ترجمہ ضیا الدین برنی ، ص ۷۔ ۸) میں دستیاب ہے۔ یہ ۱۹۰۷ء کی لکھی ہوئی ہے اور مطلع یوں ہے:
ای گل ز خار آرزو آزاد چون رسیدۂ
تو ہم ز خاک این چمن مانند ما دمیدۂ
۱۳۔ Poems from Iqbal (وکٹر کیرنن) توضیح نمبر ۱۔
۱۴۔ اقبال نامہ اوّل، ص ۸۶، اور دوم، ص ۱۴۹۔
۱۵۔ گفتار اقبال (مرتبہ: محمد رفیق افضل) ص ۲۴۲۔
۱۶۔ ماہنامہ ماہ نو کراچی، اپریل ۱۹۷۰ء نیز فاران کراچی مئی ۱۹۷۱ء۔
۱۷۔ اقبال کا اپنا بیان: مکاتیب بنام گرامی، ص ۱۶۴۔
۱۸۔ ماہنامہ ادبی دنیا لاہور، اپریل و مئی ۱۹۷۰ء ص ۴۹۔
۱۹۔ مباحث بر سبک خراسانی در فارسی۔
۲۰۔ یک چمن گل، ص ۵۔
۲۱۔ یہ مثال مسمطات کے تحت مثلث کی ہے۔
۲۲۔ Aspects of Islamic Civilization میں اقبال کا ذکر۔
۲۳۔ ’’جاوید نامہ پر ایک نظر‘‘ از چودھری محمد حسین (نیرنگ خیال،اقبال نمبر) ۔ ماہنامہ ادبی دنیا لاہور اگست ۱۹۷۱ء میں راقم کا مقالہ نیز راقم کا مقالہJournal of Cultural Institute of R.C.D. Tehran, Spring 1975میں عنوان ہے:
"Javid Nama : A Unique Persian Book”
٭٭٭
تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید