FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

غلام کے افسانے

 

 

                غلام ابن سلطا ن

 

 

 

 

مہترانی

 

لاہور کے آزادی چوک سے لے کر شاہی قلعہ تک جنوبی سمت کی شاہراہ پر ہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔ یہ کشادہ سڑک کئی تاریخی حوالوں کی وجہ سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اور بھاٹی اسی علاقے سے ملحق ہیں۔ اسی سڑک کے بالکل سامنے تاریخی اقبال پارک ہے جس کے مرکز میں آسمان کی رفعتوں سے ہم کلام مینارپاکستان بر عظیم کے مسلمانوں کی جد و جہد آزادی، قومی عظمت، حریتِ فکر و عمل اور ملی وقار او رسر بلندی کی علامت ہے۔ اس کے سامنے لیڈی ولنگڈن ہسپتال واقع ہے جہاں دکھی انسانیت کی خدمت کی قدیم اور قابل قدر روایت مسلسل پروان چڑھ رہی ہے۔ شہر میں  جدید میٹرو بس چلنے سے یہاں سڑک پر ٹریفک کا ہجوم قدرے کم ہو گیا ہے اور میٹر و بس کے لیے تعمیر کی گئی بالائی سڑک نے قدیم شاہراہ پر مسافروں کی نقل و حمل کا بوجھ بانٹ لیا ہے۔ یہاں ماحولیاتی آلودگی، ٹریفک کے بے ہنگم ازدحام اور شور کی وجہ سے بہت مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ اس کے با وجود یہ علاقہ اپنی صد رنگی کی وجہ سے اپنے حسن و دل کشی میں اپنی مثال آپ ہے۔ شہر کی صفائی پر مامور بلدیہ کے ذمہ دار اہل کاروں نے شہر کے دوسرے علاقوں سے کہیں بڑھ کر اس علاقے پر توجہ دی ہے۔ شہر کے دور افتادہ علاقوں کی کچی آبادیوں کے کچے گھروندوں میں تو صفائی کی نوبت ہی نہیں آتی کیونکہ وہاں شیدی فولاد خان قماش کے مسخرے شہر کا صفایا کرنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے اسی شاہراہ پر جاروب ہاتھ میں تھامے دو مہترانیاں سورج طلوع ہونے سے پہلے سڑک پر صفائی میں مصروف ہو جاتیں۔ صبو اور ظلو نام کی یہ دو مہترانیاں شاہی محلے کی مکین تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو ان کے کوٹھے آباد تھے لیکن وقت گزرنے اور ان کا شباب ڈھلنے کے ساتھ ساتھ سب رونقیں ماند پڑ گئیں۔ حالات و قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طوائف کا بڑھاپا اس کے لیے بہت بڑا عذاب بن جاتا ہے۔ اسی لیے قحبہ خانوں کے اکثر بھڑوے یہ کہا کر تے تھے کہ ہر جسم فروش رذیل طوائف کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار کو پڑھ لے اور عالمِ شباب ہی میں عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لے۔ وہ زمانہ اب خیال و خواب ہو گیا جب صبو اور ظلو کے رقص، گانے اور حسن و جمال کے شیدائی ان کے ایک اشارے پر دل، جان اور متاعِ حیات تک لٹانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے لیکن اب تو صبو اور ظلو کو شہر میں مانگنے پر بھیک بھی نہیں ملتی تھی۔

جمالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جس طرح پُر شکوہ اور حسین عمارات کے کھنڈرات بھی ماضی کی داستان سناتے ہیں بالکل اسی طرح دو شیزاؤں کے حُسن پر اگر ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد پڑ جائے تو پھر بھی یہ حُسن اپنی گُزشتہ تابانیوں اور آتش سامانیوں کی داستان سنا  کر حسن و رومان کے معمر متوالوں کے دلوں کو لُبھا کر لہو کر گرماتا رہتا ہے۔ عشق پر زور نہیں یہ ایک ایسی آتش ہے جو اس وقت بھی بھڑک سکتی ہے جب ہاتھ میں جنبش تک نہ ہو اور عناصر کا اعتدال عنقا ہو چکا ہو۔ جب بھی لُٹی محفلوں کی دھُول کو صاف کیا جائے تو ماضی کے متعدد چاند چہرے اور حال کے ماند چہرے اپنی حسرت اور عسرت کے اوراقِ پارینہ کی روداد زبانِ حال سے بیان کر نے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ صبو اور ظلو ہر روز اپنی ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراقِ پارینہ کا مطالعہ کرتیں، اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتیں، کچرے کے ڈھیر صاف کرتیں اور شہر کی گندگی کو زدِ جاروب سے ہٹاتی چلی جاتیں۔ وہ حسینائیں جن کے عشرت کدے گلاب، چنبیلی اور موتیا، صندل، موگرا، رات کی رانی اور دن کے را جا کے عطریات سے ہمہ وقت مہکتی رہتی تھیں اب وہ ان مقامات کی صفائی کرنے پر مجبور تھیں جہاں سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے رہتے  تھے۔ نیلے رنگ کی شلوار، قمیص اور نیلے رنگ کا دوپٹہ اوڑھے یہ دونوں مہترانیاں اس پُر ہجوم شاہراہ کی صفائی میں ہمہ وقت مصروف رہتیں۔ ان کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں ہمیشہ آنسو، مُرجھائے ہوئے لبوں پر آہیں، سفید بالوں میں زندگی کے رائیگاں طویل اور صبر آزما سفر کی دھُول اور اعصاب شکن مسافت کے باعث کمر میں خم تھا، جو ان کے لیے تذلیل کی صورت مجسم بن گیا تھا۔ کچھ دنوں سے علی الصبح ایک شخص اپنے دو ساتھیوں کو ساتھ لے کر ا س طرف آ نکلتا اور ان مہترانیوں کو حیرت سے دیکھتا اور اشاروں کنایوں سے انھیں متوجہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ متفنی سٹھیایا ہوا خضاب آلودہ کھوسٹ  بادامی باغ کی جانب سے نمو دار ہوتا۔ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی ہئیت کذائی دیکھ کر ہنسی ضبط کر نا مشکل تھا۔ لنڈا بازار سے خریدے ہوئے انگریزی سوٹ میں ملبوس یہ گنجے اپنی عیاشیوں کے باعث پریوں کا اکھاڑا سجا کر را جا اِندر بن جاتے اس جنسی جنون میں وہ اب تک گنجِ قارون لُٹا چُکے تھے۔ اپنی آنکھوں پر موٹے شیشیوں کی عینکیں لگائے، انگلیوں میں عقیق کی انگوٹھیاں ٹھونسے، پاؤں میں استعمال شدہ جوتے گھسیٹ کر جب چلتے تو دو طرفہ ندامت اور پُورے بازار کی لعنت، ملامت، تُو تکار اور پھٹکار ان کے ہم رکاب ہوتی۔ واقفانِ حال سے معلوم ہوا کہ یہ گھاسفو، زادو لُدھیک اور رنگو تھے۔ یہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتے اور ہر پری چہرہ کو دیکھ کر خُوب ہنہناتے۔ یہ رسوائے زمانہ چکنے گھڑے اپنی بے ضمیری، بے حسی اور بے غیرتی کی وجہ سے بہت بد نام تھے۔

گھاسفو، زاد ولُدھیک اور رنگو اس علاقے کے بد نام سمگلر، منشیات فروش، بھتہ خور اور جنسی جنونی تھے۔ ان کے خوف اور دہشت کی وجہ سے لوگ انھیں دیکھ کر راستہ بدل لیتے اور سوچنے لگتے کہ ان فراعنہ کی بد اعمالیوں اور روسیاہیوں کے غیر مختتم سلسلے کے با وجود نا معلوم کیوں خالقِ کائنات نے ان کے عرصۂ حیات کو طُول دے رکھا ہے۔ ان تینوں ننگ انسانیت درندوں کا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ قریبی تعلق تھا اس لیے کوئی بھی ان سے ٹکر لینے کا حوصلہ نہ رکھتا تھا۔ صبو اور ظلو ان جنونیوں کے قبیح کردار کے بارے میں سب کچھ جانتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں بُوڑھی مہترانیوں کا سو پُشت سے آبائی پیشہ قحبہ خانہ کی خرچی ہی تھا۔ دوسری طرف گھاسفو، زادو لُدھیک اور رنگو کا نا م سُن کر ہر شخص استغفار پڑھتا  اور بر ملا کہتا کہ ان مشکوک نسب کے موذیوں کا نہ تو باپ اور نہ ہی دادا، ان میں سے توہر ایک ہے سو پُشت کا حرام زادہ۔ گھاسفو، زادو لُدھیک اور رنگو نے اپنے مکر کی چالوں سے صبو اور ظلو کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا۔ صبو اور ظلو کو یہ بات اب اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ اب ان کا وقت گُزر چُکا ہے۔ کتابِ زیست سے شباب کے باب کی تکمیل کے بعد وہ خود کو حالات کے رحم و کرم پر محسوس کرتی تھیں۔ ہوس پرستوں کا کمینہ پن اب ان پر واضح ہو چُکا تھا جو لوگ انھیں دیکھ کر جیتے اور ہر وقت ان کے ساتھ مکر و فریب پر مبنی پیمان وفا باندھ کر ان کی زندگی سے کھیلتے رہے اب ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ان کے خود غرض پرستار ان کے گلشنِ زیست کی کلیوں کا رس چوس کر اپنی اپنی راہ لگے اور اب جان لیوا مصائب، آلام روزگار اور ایڈز جیسی مہلک بیماری کا زہر پینے کے لیے وہ تنہا رہ گئی تھیں۔ گھاسفو، زادہ لُدھیک او ر رنگو کی صورت میں اُنھیں ایسے محرم مِل گئے جو نہ صرف ان کے ماضی سے آگاہ  تھے بل کہ ان کے حال اور مستقبل پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ جنس و جنون، عیش و طرب اور عریانی و فحاشی کے گھناؤنے دھندے کی بہتی گنگا میں سب مل کر ہاتھ دھوتے، ہنومان جی کی سیوا کرتے لکشمی دیوی کی پُوجا کرتے اور ہر چڑھتے سورج دیوتا کی پرستش کر کے اپنا اُلّو سیدھا کرتے۔ دُور سڑک کے کنارے واقع ایک مندر کے سائے میں بیٹھ کر منشیات فروشوں اور جنسی جنونیوں کا یہ ٹولہ بد اعمالیوں کے نئے حربے تلاش کرتا۔ کئی چور، ٹھگ اور اُچکے ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔ کبھی یہ سنجیونی بُوٹی بیچتے، کبھی اُلّو کی آنکھ کا سُرمہ فروخت کرتے اور کئی با ر جاہل لوگوں کو گیدڑ سنگھی بیچی۔ ’’ محبو ب تمھارے قدموں میں‘‘ کے عنوان سے گنڈے اور عملیات کے نام پر نو جوانوں سے رقم بٹوری۔ سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر یہ پیرِ تسمہ پا زمین کا بوجھ بن کر دِل سے آلام روزگار کا بوجھ ہلکا کرنے کی سعی ء ناکام کرتے۔ یہ طوطا چشم اور موقع پرست درندے عام آدمی کی زندگی کی تمام کلیوں کو شرر کر کے رُتوں کو پلک جھپکتے میں بے ثمر کر دیتے تھے۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا ان بگلا بھگت، جو فروش گندم نما مُوذیوں کا وتیرہ تھا۔ انھوں نے کئی بار نجومی، جوتشی، رمال، نجومی، عطائی، عامل اور سادھو کا سوانگ رچایا۔ صبو اور ظلو بلدیہ کے شعبہ صفائی میں مہترانی کی ملازمت کے علاوہ سہ پہر کو متمول لوگوں کے گھروں میں بھی جاتیں اور وہاں بیت الخلا اور گھروں کے صحن اور فرش کی صفائی کے کام کرتیں اور اس طرح وہ معقول رقم کما لیتیں۔ صبو اور ظلو کے ذریعے گھاسفو، زادو لُدھیک اور رنگو دولت مند طبقے کے گھرانوں کے اندرونی حالات سے آگاہی حاصل کرتے اور نہایت عیاری سے ان گھرانوں کی جمع پُونجی لُوٹ کر ان کا صفایا کر دیتے۔ حالات اس قدر ابتر ہوتے چلے جا رہے تھے کہ زمین کا بوجھ بننے والے تو دندناتے پھرتے تھے لیکن زمین کا بوجھ اُٹھانے والوں کا کہیں بھی سُراغ نہیں ملتا تھا۔

اچانک ایک تبدیلی رو نما ہوئی اور ایک نئی مہترانی اسی علاقے کی صفائی پر  مامور ہو گئی۔ دیکھنے والوں کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں، شعاع نام کی یہ مہترانی کہنے کو تو مہترانی تھی لیکن یہ تو سچ مچ کی ر انی تھی۔ ایک تو اُٹھتی جوانی پھر اس کا حسن، عشوے، غمزے، نا ز و  ادا اور چال جیسے کڑی کمان کا تیر یہ سب کچھ دیکھ کر کئی عشقی ٹڈے دل تھام کر رہ جاتے۔ شعاع کے غرورِ  حسن کا یہ حال تھا کہ وہ کسی کی طرف بھی آنکھ بھرکر نہ دیکھتی جب کہ شعاع کو دیکھتے ہی نگاہیں چندھیا جاتیں۔ شعاع کے حسن کے ہر سُو چرچے تھے سر و قد، دُبلا اور متوازن جسم، پتلی کمر، سر پر لمبی گھنی اور سیاہ زُلفیں، باریک اُنگلیاں، صراحی کے مانند گردن، گُلاب کی پنکھڑیوں کے مانند نرم و نازک ہو نٹ، کشادہ پیشانی، نیلی چشمِ غزال، ٹھوڑی پر چاہِ زنخداں اور بات کرتے وقت رخساروں پر پڑنے والے چھوٹے چھوٹے گڑھے۔ اس کی زنجیر زلف کی ہمہ گیر کیفیت کا یہ عالم تھا کہ کئی آزاد بھی اس زلف گرہ گیر کی اسیری کی تمنا لیے اس شاہراہ کی خاک چاٹتے پھرتے۔ وہ جب بولتی تو یوں محسوس ہوتا کہ اس کو ہونٹوں سے پھُول جھڑ رہے ہیں۔ اس علاقے میں صفائی کی صورتِ  حال میں بہتری لانے کی غرض سے یہ نئی مہترانی پہلے سے کام کرنے والی دو مہترانیوں صبو اور ظلو کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے یہاں تعینات کی گئی۔ زادو لُدھیک، رنگو اور گھاسفو نے جب شعا ع کو دیکھا تو وہ بھی اس کے دیوانے ہو گئے۔ یہ مخبوط الحواس، فاتر العقل، جنسی جنونی، عادی دروغ گو اور ہمہ وقت شراب کے نشے میں دھت رہنے والے سٹھیائے ہوئے مجنوں اپنی اپنی دنیا میں اس نئی لیلیٰ کو بسا کراس کی راہ میں سب کچھ نثار کرنے پر تُل گئے۔ شعاع کے حصے میں صفائی کا ایک سو گز شاہراہ کا ٹکڑا آیا تھا۔ صفائی پر مامور عملے کے نظام الاوقات کے مطابق شعاع ہر روز صبح چھے بجے صفائی کے لیے اپنے مقام تعیناتی پر بلا ناغہ پہنچتی تھی۔ جب وہ یہاں آتی تو پُوری سڑک پر کہیں بھی گندگی کا نام و نشان تک نہ ہوتا تھا۔ شعاع کے پہنچنے سے پہلے ہی سڑک کی مکمل صفائی کر دی جاتی اور اس پر چھڑکاؤ بھی کر دیا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی اس علاقے کا تمام کچرا بھی دُور کہیں ٹھکانے لگا دیا جاتا۔ پوری شاہراہ آئینے کے مانند صاف، شفاف اور حسین منظر پیش کر رہی ہوتی۔ دیکھنے والوں کو گُمان گُزرتا کہ شاید کوئی بہت ہی اہم شخصیت آج اس طرف سے گُزرنے والی ہے۔ شعاع ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموشی سے یہ منظر دیکھتی اور منہ سے کچھ بھی نہ کہتی۔ وہ جانتی تھی کہ دنیا میں عقل کے اندھوں اور گانٹھ کے پُوروں کا کبھی قحط نہیں رہا ایک کی تلاش میں نکلو تو راستے میں ایک سو احمق آنکھوں پر پٹی باندھے دل تھام کر حُسن کی بارگاہ میں کورنش بجا لانے کو تیار دکھائی دے گا۔

بلدیہ کے حکام نے شعاع کی کارکردگی کو دیکھا تو صبو اور ظلو کے حصے کا علاقہ بھی اسے دے دیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی خاطر اس کی تنخواہ میں بھی بیس روپے ماہانہ کا اضافہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی صبو اور ظلو کو شعاع کا معاون مقرر کر دیا۔ صبو اور ظلو کی تو گویا جان ہی چھُوٹ گئی اور بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا۔ اب ان کے حصے کی شاہراہ کی صفائی بھی علی الصبح ہو جاتی۔ شعاع کی آمد سے ان دونوں مہترانیوں کا بوجھ ختم ہو گیا اور اب وہ مستقل طور پر آرام کرتیں۔ یہ دونوں مہترانیاں اب آرام طلب اور کا م چور بن گئی تھیں۔ اس علاقے کے مکینوں کی متفقہ رائے تھی کہ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے شعاع کے دم سے ہیں۔ شعاع کے پیرہن کو رنگ کا منبع اور اس کی زلف کو  لہرانے کو عطر بیزی کا وسیلہ سمجھا جانے لگا۔ کئی توہم پرست لوگوں کی رائے تھی کہ شعاع پر کسی پری کا سایہ ہے۔ یہ پری بھوتوں کو حکم دیتی ہے کہ شعاع کے حصے کی صفائی سب بھُوت مل کر کیا کریں۔ شاید اسی وجہ سے شعاع کے ہاتھوں صفائی کے لیے شاہراہ کا جو حصہ مقرر کیا جاتا اس کی صفائی اس خوش اسلوبی سے ہو جاتی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ بعض عامل اور سادھو یہ بھی کہتے کہ شعاع نے جادو اور عملیات کے ذریعے ہم زاد، بھوت، جن اور چڑیلیں اپنی تابع بنا رکھی ہیں۔ یہ باتیں دیکھنے والوں کے جی کو لگتیں اور وہ فرطِ اشتیاق سے شعاع کے انو کھے کام کو دیکھ کر دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے اور اسے کسی مافوق الفطرت قوت کا کرشمہ قرار دیتے۔ بد نام جنسی جنونی رنگو، گھاسفو اور زادو لُدھیک اکثر یہ کہتے کہ شعاع کے صفائی کے کام پر آنے کے بعد سے ہر طرف موسم گُل کا سما ں ہے۔ چند ماہ بعد یہ بات ڈھکی چھُپی نہیں رہ گئی تھی کہ شعاع کی جگہ گندی نالیاں اور شاہراہوں کی صفائی میں کون جی کا زیاں کر رہا ہے۔ اہلیان علاقہ نے کئی مرتبہ شعاع کے کام کی تعریف کی لیکن شعاع نے کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا۔ دوسری طرف رنگو، گھاسفو اور زادو لُدھیک کے مزاج میں مسلسل اضمحلال کی کیفیت پیدا ہوتی چلی گئی اور کئی بیماریوں نے ان نا ہنجار عیاشوں کو گھیر لیا تھا۔ خاص طور پر تکلیف دِہ جِلد ی عوارض اور سانس کی بیماریوں نے تو اُن کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ وہ ہمیشہ شعاع کی محبت کا دم بھرتے لیکن شعاع نے کبھی ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ ایک دن تینوں دوستوں نے ظلو اور صبو کو ساتھ لیا اور شعاع کے گھر جا پہنچے۔ تینوں دوست اس نتیجے پر پہنچے کہ شعاع کے عجز و نیاز سے راہ پر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ گزشتہ چھے ماہ سے اس کی خاطر جاروب کشی کر رہے تھے، گندے نالے صاف کر رہے تھے ا ور اس شاہراہ کا کچرا اور غلاظت اپنے سر پر اُٹھا کر شہر سے دُور پھینک آتے۔ آج اُنھوں نے شعاع کا دامن حریفانہ کھینچنے کا تہیہ کر لیا۔

شام کے سائے ڈھل رہے تھے کئی ماہ سے بھل صفائی کرتے کرتے رنگو، گھاسفو اور زادو لُدھیک کے لمحات زیست پیہم غموں میں ڈھل رہے تھے۔ وصل کی تمنا میں اُنھوں نے دل پہ جبر کر کے ستم کش سفر رہنے اور جاروب کش بننے سے بھی دریغ نہ کیا۔ تینوں منافق رفیق اور حاسدرقیب اپنی داشتاؤں ظلو اور صبو کو ساتھ لے کر شعاع کے گھر جا پہنچے۔ اُنھوں نے ایک سکیم بنائی کہ اس تپسیا کی وجہ سے ان کی حالت بہت سقیم ہونے لگی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ غمِ دوراں کے ہاتھوں گور کنارے پہنچ جائیں، شعاع جیسی سونے کی چڑیا کو پنے دام میں پھنسا کر قحبہ خانے کی زینت بنا دیا جائے اور اس کے ذریعے خرچی وصول کر کے پھر سے دادِ عیش دینے کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ وہ بہت سے فواکہ اور شیرینی لے کر شعاع کے گھر پہنچے۔ شعاع نے مصنوعی خندہ پیشانی سے ہوس کے مارے ان جنسی جنونیوں کا  با دِلِ نا خواستہ خیر مقدم کیا  اور ان کے راتب بھاڑے کا بھی انتظام کیا لیکن ان میں سے کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ شعاع کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ سب کس مقصد کے لیے اس کے ہاں آئے تھے۔ رنگو، گھاسفو اور زادو لُدھیک نے بہ یک زبان شعاع سے کہا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو شریک حیات بنا لے۔ وہ ٹسوے بہاتے ہوئے کہنے لگے کہ اُن کی گردن تو کٹ سکتی ہے لیکن اب جدائی کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں۔ شعاع نے اس بے جوڑ ناتے سے معذرت کی تو یہ تینوں مشتعل ہو گئے۔ باؤلے کتے کی طرح ان تینوں جنسی جنونیوں کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور وہ شعاع کو کاٹنے کے لیے غُرا رہے تھے۔ زادو لُدھیک نے نتھنے پھیلا کر غُراتے ہوئے آگے بڑھ کر شعاع کو اپنی بانہوں میں دبوچنے کی کوشش کی۔ شعاع نے اس غیر متوقع دست درازی کو اس  بُوڑھے اور خزاں رسیدہ شخص کے پاگل پن پر محمول کیا اور اس سے بچنے کے لیے جست لگائی اور پُوری قوت سے اس درندے کی گردن پر گھونسے مارنے شروع کر دئیے۔ زادو لُدھیک شعاع کے اس دفاعی وار کی تاب نہ لا سکا اور لڑ کھڑا کر منہ کے بل گر پڑا۔ اس کی ناک اور منہ سے خون بہنے لگا، اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور بے سُدھ ہو گیا۔ اب گھاسفو نے نہایت ڈھٹائی اور بے حیائی سے آگے بڑھ کر شعاع کو پکڑنا چاہا۔ شعاع نے اس درندے کو ٹھوکر مار کر گرایا اور اُس پر بھی لاتوں اور مُکوں کی بو چھاڑ کر دی۔ گھاسفو بھی دور جا گرا اور خوف اور درد کے مارے اس کی گھگھی بندھ گئی۔ رنگو نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن شعاع نے اس بُزدل اور گھٹیا عیاش کو دبوچ لیا اور اس کی خوب دُرگت بنائی۔ ظلو اور صبو نے جب یہ حال دیکھا تو وہ مگر مچھ کے آنسو بہانے لگیں اور شعاع کے قدموں میں گِر کر معافی کی دست بستہ اِلتجا کی۔ اب شعاع نے ایک مضبوط اور بھاری جُوتا اُٹھایا اور سب ننگِ انسانیت درندوں کو تڑ تڑ پیزاریں پڑنے لگیں۔ حسین و جمیل خواجہ سرا شعاع نے جُوڈو کراٹے کی جو تربیت حاصل کر رکھی تھی، وہ اس کے کام آ ئی اوراس نے سانپ تلے کے سب بچھو کُچل کر نیم جاں کر دئیے۔ آج اس پُر عزم اور با ہمت خواجہ سرا کے ہاتھوں ان بے ضمیروں کی جو دھُنائی ہوئی اس سے سب مُوذیوں کو نانی یاد آ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

چکنے گھڑے

 

 

آج صبح زادو لُدھیک اور گھا سفوکو بنارس کے نواح میں ایک مندر کے نزدیک ایک میدان میں ہری ہری گھاس پر چلتے دیکھا تو دل میں ایک ہوک سی اُٹھی کہ یہ سبز قدم یہاں کیسے آ پہنچے۔ یہ نا ہنجار زندگی بھر در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور اب ان کی آخری ہچکی بھی ٹھوکر ہی کے وسیلے سے ہو گی۔ کھنڈرات، ویرانو ں، اُجاڑ علاقوں اور خارستان و ریگستان کے مکین یہ کمین پُر سکون بستیوں کو حزین کرنے کیوں چلے آئے؟یہ چکنے گھڑے جس طرف بھی جاتے ہیں وہاں ذلت اور تخریب کے کتبے آویزاں ہو جاتے۔ گلشن میں ان کی آمد سے ہر شاخ پر بُوم و شپر کا بسیراہو جاتا۔ شہر کے سب لوٹے اور لُٹیرے اِن چکنے گھڑوں سے آتش سیال حاصل کرتے اور جگر کی آگ بُجھاتے۔ چلتے پھرتے ہوئے یہ مُردے ہمیشہ کفن پھاڑ کر ہنہناتے رہتے اور اپنی بے حسی بے غیرتی اور بے ضمیری پر دندناتے پھرتے تھے۔ معززینِ  شہر، با وقار اہلِ کمال اور پُر امن شہری ان بے وقعت مجرموں کو دیکھتے ہی لا حول کا وِرد شرع کر دیتے اور ان پر تین حر ف بھیجتے۔ ان مخبوط الحواس اور فاتر العقل مسخروں کی ہذیان گوئی سے سب پناہ مانگتے۔ گھاسفو نے ہمیشہ زادو لُدھیک کی بے غیرتی اور بے حسی پر حسد کیا اور وہ بر ملا کہتا کہ بے شرمی اور بے حسی میں زادو لُدھیک اس سے بڑھ گیا ہے۔ زادو لُدھیک نے ایک مر تبہ اپنے شریک جُرم اور بد نام جواری گھاسفو کے بارے میں کہا تھا:

گھڑا سمجھ کے وہ چُپ تھا میری جو شامت آئی

اُٹھا اورا ُٹھ کے لتے میں نے بد زباں کے لیے

زاد و لُدھیک اور گھاسفو ہم زُلف بھی تھے اور ہم نوالہ اور ہم پیالہ بھی تھے۔ عالمِ شباب میں ان جنسی جنونیوں اور منشیات کے عادی گھٹیا عیاشوں کے ہاتھوں کسی کی عزت و  آبرو محفوظ نہ تھی۔ پُورے علاقے میں سوادِ سحر میں نُور و نکہت کی فضاکو مسموم کر نے میں ان کا قبیح کردار کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ ان کی اخلاق باختگی، مظالم اور سمے کے سم کے ثمر سے پُوری فضا سوگوارہو جاتی اور دکھی انسانیت اشک بار ہو جاتی۔ مظلوم، بے بس و لاچار اور دُکھی انسانیت ان کی پیدا کردہ سفاک ظلمتوں میں چراغِ  دِل کو فروزاں کر کے گوشۂ عافیت کی تلاش میں نکلتے مگر وہ سرابوں کے عذابوں میں منزلوں سے نا آشنا در بدر اور خاک بسر پھرتے رہتے۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ ان پیشہ ور جرائم پیشہ درندو ں اور دلوں میں نفرت کے بیج بونے والوں نے مجبوروں پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ بے بس انسانیت کے لیے جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا۔ ان حالات میں یہ بونے خود کا باون گزا سمجھنے لگے، اپنے جعلی قدو قامت پر اُنھیں اس قدر زعم تھا کہ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ریت کے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر سر بفلک کوہساروں کی بلندی کو نہ دیکھنے والے شیخی خوروں کی بے بصری اور کور مغزی سے ایسی ہی بوالعجبی اور طُرفہ تماشے ہی کی توقع رکھنی چاہیے۔ معاشرے کے تمام با ضمیر لوگ اندھی خواہشات کے پھُنکارتے ہوئے ناگوں کو کُچل کر عزت نفس کا علم تھام کر آگے بڑھنے کی آرزو کرتے لیکن یہ سفلہ و ابلہ گُرگ اپنے پالتوسگانِ راہ کو شہ دیتے اور سگانِ راہ اُن پر جھپٹ پڑتے۔ ان کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور مظالم نے مظلوموں کے خیمۂ جاں کی طنابیں کاٹ ڈالیں اور ان کے پیدا کردہ حصارِ تیرگی کی مسموم فضا میں مظلوموں کا دم گھُٹنے لگا۔ فصیلِ ذات کے حصار میں کبر و نخوت اور مے ارغوانی کے نشے سے بد مست ان عیاروں نے مظلوموں کے کچے گھروندوں کی زمین کو اپنی سفاکی سے لہو لہو کر دیا۔ ان فراعنہ کی بد اعمالیوں سے بیزار اور ان کے ہاتھوں ستم کشِ سفر رہنے والے مظلوموں نے ایک مرتبہ ان کے خلا ف بہت بڑ جلوس نکالا۔ مشتعل مظاہرین کا یہ جلوس شہر کی مصروف شاہراہوں سے گزرا۔ جلوس کے شرکا ان ننگِ انسانیت درندوں کے خلاف یہ نعرے لگا رہے تھے:

منہ کے ذائقے کڑوے ہیں :    ان کے پیچھے بھڑوے ہیں

کڑوا زبان کا ذائقہ ہے     :   اس کے پیچھے نائکہ ہے

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا سب کروفر سیل زماں کے تھپیڑوں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ گیا۔ جنگل کے ماحول میں ایسے سانحے ان پر گُزرنے لگے کہ یہ ناہنجار اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگے۔ گوشۂ عزلت میں درد کی شمع رات بھرسُلگتی رہتی اور یہ غم کی تھر تھراتی لو پردیپک راگ الاپتے ر ہتے۔ عبرت سرائے دہر میں کبھی یہ ایام گزشتہ کی کتاب کے مطالعہ میں جی کا زیاں کرتے اور کبھی رفتگاں کی یاد کو اپنے دل میں بسائے اجنبی سی منزلوں کی جستجو میں نکلتے لیکن سرابوں کے عذابوں میں پھنس کرنا مُرادانہ زیست کرتے۔ لُٹی محفلوں کی دھُول سے اٹی ان کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں بیتے ہوئے حسین دنوں کی عیاشیاں، بد معاشیاں، اُمنگیں اور ترنگیں اب تک خیال و خواب کی صورت میں بسی تھیں۔ وہ سوچتے اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر لائیں ؟ان پر یہ راز کھُل گیا تھا کہ مے و افیون اور جنس و جنون کے شیدائیوں کے لیے ذلت ورسوائی، بربادی اور رُوسیاہی کی کوئی حد یا کوئی منزل ہی نہیں ہوتی۔ ہر انسان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں لیکن ہر شخص مصلحت کے تحت نشیبوں سے بچ کر فرازوں کی تمنا کرتا ہے۔ گھاسفو، اس کی بیوی ثباتی، زادو لُدھیک اور اُس کی بیوی ظلی کی کور مغزی کا یہ حال تھا کہ یہ زندگی بھر دانستہ نشیبوں کی جانب سر گرم سفر رہے۔ مجنونانہ زیست کی رذیل اور جبر آزما مسافت کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ نحوست اور بد بختی کی دھُول اُن کا پیرہن بن چُکی ہے۔ وہ جاگتی آنکھوں سے بھُوتوں، چڑیلوں اور ڈائنوں کو اپنے رُو برو دیکھتے۔ حالات نے ایسا رُخ اختیار کر لیا کہ اب تو یہ مافوق الفطرت عناصر اُنھیں اپنے ابنائے جنس دکھائی دیتے تھے۔ کبھی کبھی ان کے والدین بھی ان کے سامنے آ جاتے وہ بھی ان ننگِ آبا کی بد اعمالیوں کے باعث عرقِ ندامت سے تر ہوتے تھے۔ ان کے خار زارِ  حیات سے حالات کے کرگس و بُوم اور زاغ و زغن زرو مال کے سب استخواں نوچ کر لمبی اُڑانیں بھر چُکے تھے۔ ان کے رقیب ان کی چھاتی پر مونگ دلتے رہتے اور وہ بے بسی کے عالم میں کفِ افسوس ملتے رہتے۔

پرِ زمانہ تو پروازِ نُور سے بھی تیز ہے۔ ایام کے پُلوں کے نیچے سے آبِ رواں کے بہاؤ کا سلسلہ جاری رہا اور سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ زادو لُدھیک اور گھاسفو کے بدنام ساتا روہن اور مارِ آستین ہی ان کے مکمل انہدام کے ذمہ دار تھے۔ ہیرا منڈی میں کثرتِ مے نوشی اور جنسی جنون کے باعث یہ دونوں خسیس کئی عوارض میں مبتلا ہو گئے۔ رسوائے زمانہ جسم فروش رذیل طوائفوں ظلی اور ثباتی نے ہیرا منڈی میں اپنے قحبہ خانوں کے جال میں پھنسا کر انھیں نہ صرف مالی اعتبار سے مفلس و قلاش کر دیا بل کہ جسمانی طور پر بھی یہ مُردوں سے بھی بد تر ہو چُکے تھے۔ ان عیاروں کے سجائے ہوئے مصر کے بازار میں ہر کوئی اپنی متاعِ  زیست گنوا نے کے لیے بے قرار دکھائی دیتا تھا۔ یہ شداد جس فردوسِ بریں کی تعمیر میں منہمک رہے سیلِ حوادث نے اُسے نیست و  نابُود کر دیا۔ اس دنیا کے آئینہ خانے میں حالات نے انھیں تماشا بنا دیا۔ کئی جان لیوا بیماریوں نے انھیں جکڑ لیا۔ یرقان، جذام، کوڑھ، خارش، ایڈز، جگر کے عارضے، گُردوں کی تکلیف، تپ دق اور دل کے روگ جیسی فطرت کی تعزیروں نے ان مُوذی و مکار درندوں کو زندہ در گو ر کر دیا۔ شہرسے دُور ایک جذام گھر میں ان دونوں مُوذی درندوں کو علاج کے لیے پہنچا دیا گیا۔ منشیات کے علاج کے ماہر معالج کی ہدایت کے مطابق کڑی نگرانی اور سخت پہرے میں یہاں ان کے علاج و پرہیز کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک دن ایک سانپ تلے کے بچھو کی مدد سے یہ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنے گھر پہنچے تو  چو لھے ٹھنڈے ہونے کا باعث گھر والوں کی سر د مہری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اوردسمبر کی سردی میں ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ زمانہ بدل چُکا تھا ثباتی اور ظلی اب ضعیف ہو چُکی تھیں ان کو اب بنارس میں مانگے پر بھیک بھی نہیں ملتی تھی۔ وہ جاروب کش مہترانیاں بن کر امرا کے گھروں کے بیت الخلا صاف کرتی تھیں۔ بد نام چور کی یہ فطرت ہے کہ وہ چوری نہ بھی کر سکے تو ہیر ا پھیری اور بے ضمیری سے باز نہیں آتا۔ ثباتی اور ظلی ایک امیر گھرانے میں صفائی کرتی تھیں۔ اس گھرنے کے سب افراد ان تقدیر کی ماری طوائفوں پر مہربان تھے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ ایک دن موقع پا کر طوائفوں نے اپنے محسنوں کے گھر کا صفایا کر دیا اور نقد رقوم، سونے، چاندی کے بیش بہا  زیورات، ہیرے، جواہرات، قیمتی سامان اور بیش قیمت کپڑے چُرا لیے۔ یاس و حُرماں نصیبی مسلسل ان رذیل طوائفوں کے تعاقب میں تھی، ان پر مقدمہ چلا اور چوری ثابت ہو گئی۔ ان کو عدالت نے زندان میں بھیج دیا اور تمام سامان بر آمد کر لیا گیا۔ زندان میں ان کے جنس و جنون کی شورش کافور ہو گئی اور ان کو اپنی اوقات کا علم ہو گیا۔ چار سال کی اسیری کے بعد جب وہ باہر آئیں تو ان کے گھروں میں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ عہدِ جوانی کی سب عیاشی اب خیال و خواب بن چُکی تھی اور یہ ضعیف طوائفیں اپنی حسرتوں پر آنسو بہانے کے لیے تنہا رہ گئی تھیں۔ جس کوٹھے پر رقص، موسیقی اور ضیافتوں کا سلسلہ صبح کاذب سے لے کر رات گئے تک جاری رہتا تھا اب وہاں فاقہ کشی روز کا معمول تھی۔ ویران گھر کی دیواروں پر سرِ شام ہر طرف محرومی اور نا مرادی بالے کھولے گریہ و زاری میں مصروف رہتی تھی۔ نو خیز کلیوں اور کھلتے گلابوں میں کانٹے چبھانے والے یہ سب مفت خور اب اپنے ویران گھر میں رُوکھی سُو کھی کھا تے کھاتے سُوکھ کر کانٹا ہو گئے۔

ان کو یہ معلوم تھا کہ حالات کی سنگینی نے ان کی زندگی سے رعنائی اور رنگینی کو معدوم کر دیا تھا۔ ہر جوتشی، رمال، نجومی، قیافہ شناس اور عامل نے انھیں یہی بتایا کہ کہ یہ سب کچھ کسی چڑیل، کالی بلا، آسیب یا بھوت کی کارستانی ہے۔ عامل جادو گر اکرو نے انھیں بتایا کہ ان کی خانماں بربادی کالے جادو کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کئی بار انھوں نے سر کٹے بھوتو ں کو دیکھا جو رات کی تاریکی میں ان کا تعاقب کرتے اور انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے۔ مہیب سناٹوں، جانگسل تنہائیوں اور ہولناک تاریکیوں میں ان کا پالا کچھ ایسے پر اسرار آدم خوروں سے پڑا جو اپنی ناک اور کانوں سے محروم تھے اور جن کے چہرے پر اس قدر کالک ملی ہوئی تھی کہ ان کی شکل و صورت کی شناخت نا ممکن تھی۔ انھوں نے ماہرین علم بشریات کو اپنی اس پریشانی سے آگا ہ کیا تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ تو ان کی اپنی تصویریں یا ہم زاد معلوم ہوتے ہیں۔ اپنے ہم زاد کے ستم سہتے سہتے وہ ہولناک تباہی اور مکمل انہدام تک جا پہنچے۔ ان کے گھر میں کچھ ایسے افراد کا آنا جانا بھی رہا جن کی شکل و صورت سگانِ راہ، ریچھوں اور بھیڑیوں سے ملتی جُلتی تھی۔ ان کے گھر کے کونے کھدروں میں کئی بجو مستقل طور پر رہتے تھے۔ قبروں میں اپنے تیز نوکیلے پنجوں سے شگاف ڈال کر نئے دفن ہونے والے مُردوں کی لاشیں کھُدیڑنے والے یہ منحوس اور مکروہ جانور آفتِ نا گہانی کی صورت میں ان کے گھر میں آ گھُسے تھے اور گہرے بِل بنا کر اور لمبی سرنگیں کھود کر مرداروں کا گوشت نوچتے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر مردہ خانے کی کریہہ شکل اختیار کر گیا تھا۔ کوّے کی جسامت کے بڑے بڑے چمگادڑ دن کو تو ان کے گھر کے شہتیروں سے لٹکے رہتے لیکن شام ہوتے ہی وہ صحن میں لمبی اُڑانیں بھرتے۔ چِیل کی جسامت کے چُغد نا معلوم کس طرف سے سرشامِ نمودار ہوتے اور رات بھر چمگادڑوں کے ساتھ مل کر ان کے گھر کے اوپر پرواز کرتے رہتے تھے۔ ایک ان جانا خوف ان کے اعصاب پر مسلط ہو چُکا تھا اور ان کی چھٹی حِس یہ کہتی تھی کہ اب اُن کا جانا ٹھہر گیا ہے وہ صبح گئے کہ شام گئے۔ انھوں نے ہنومان جی کی سیوا بھی کی اور سنجیونی بُوٹی تلاش کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ان کی سب خواہشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ بنارس کے ایک سادھو نے انھیں بتایا کہ اب ان کی ہونی کو روکنا ممکن ہی نہیں اس نے یہ بھی بتایا کہ اگلے جنم میں یہ دونوں سگِ آوارہ ہو ں گے اور ان کی داشتائیں ظلی اور ثباتی ڈائنیں اور چڑیلیں بن جائیں گی۔ ان جسم فروش رذیل طوائفوں نے بے شمار گھر بے چراغ کر دئیے اور زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دیں۔ ادھیڑ عمر کی ثباتی اور ظلی کے بارے میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ یہ خون آشام بلیاں نو سو چوہے ڈکارنے کے بعد گنگا اور جمنا کی یاترا کرنے اور ہیرا دیوی کی مورتی کے سامنے چھے ماہ کی طویل تپسیا کرنے کے باوجود اپنی نجا سکت اور خباثت کے باعث زندگی بھر مردودِ  خلائق ہی رہیں۔ ظلی اور ثباتی کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔ دو چڑیلیں ہمہ وقت ان کے در پئے آزار رہتیں۔ ان کے گھر سورج غروب ہوتے ہی شام الم ڈھلتی تودرد کی تیز ہوا چلنے لگتی۔ ان کے عفو نت زدہ جسم کا ریشہ ریشہ آلامِ روزگار کی بھٹی میں سُلگنے لگتا۔ راتوں کے پچھلے پہر میں ایک آدم خور چڑیل ہر طوائف کے کمرے میں داخل ہوتی اوراس کے جسم کو جھنجھوڑنے اور بھنبھوڑنے لگتی۔ اس کے بعد اس کی گردن میں اپنے نوکیلے دانت پیوست کر کے اُ س کی رگوں کا خون پینے لگتی۔  ہر طوائف کے ساتھ یہی المیہ دہرایا جاتا۔ ہر طوائف کا کہنا تھا کہ یہ چڑیل عجیب مانو س اجنبی تھی جب آتی تو جنسی جنون میں مردوں سے بھی آگے نکل جاتی۔ ان کے بعض احباب اس کو توہم پرستی اور خام خیالی پر محمول کرتے لیکن ان طوائفوں کی گردن پر دانتوں کے نشان اور بہتا ہوا خون دیکھ کر لوگوں کا شک یقین میں بدل جاتا اور سب لوگ اسے عذاب سے تعبیر کرتے۔ سیلِ زماں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی مثال بھی سیلِ رواں کی تُند و تیز موجوں کی سی ہے کوئی بھی شخص اپنی شدید ترین تمنا اور قوت و ہیبت کے باوجود پُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں اور بیتے لمحات کے لمس سے دوبارہ کسی بھی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ ثباتی اور ظلی کو بھی حالات اس موڑ پر لے آئے کہ عالمِ تنہائی میں کوئی ان کا پرسان حال نہ رہا۔ بسترِ مرگ پر پڑی ثباتی نے ظلی سے کہا:

’’سچ مُچ ہماری کایا کلپ ہو چُکی ہے اور ہم ڈائنیں بن چُکی ہیں۔ خون آشامی ہماری فطرت بن چُکی ہے۔‘‘

’’مُجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم دونوں کی کایا کلپ ہو چُکی ہے۔‘‘ظلی نے کراہتے ہوئے کہا ’’میں جانتی ہوں کہ ہم دونوں ڈائنیں اور چڑیلیں بن گئی ہیں اور ہم طویل عرصے سے رات کی تاریکی میں ایک دوسری کو جھنجھوڑتی اور بھنبھوڑتی ایک دوسری کا سر پھوڑتی اور گردن کا خون نچوڑتی رہی ہیں۔‘‘

’’میں سب جانتی ہوں۔‘‘ظلی نے آہ بھر کر کہا ’’زندگی کے وہ دن تو اب بیت گئے۔ اب ان باتوں کو کیا دہرانا ؟مجھے معلوم ہے کہ ہم ایک دوسری ے لیے چڑیل بن جاتی تھیں۔‘‘

گردشِ حالات اور شامتِ اعمال کے نتیجے میں یہ طوائفیں ایڈز کی جان لیوا بیماری سے نڈھال ہو کر چارپائی سے لگ گئیں اور پھر ان کی ارتھی اُٹھی۔

زادو لُدھیک اور گھاسفو اب اپنے پُرانے آشنا تلنگوں کو یاد کرتے اور انبوہِ غم اور ہجومِ یاس میں سسکتی اُمنگوں، دم توڑ تی ترنگوں نے ان بھُوکے ننگوں کو عبرت سرائے دہر میں خاک بسر پھرنے، آہیں بھرنے اور بیتے دنوں کی یادوں پر کُڑھنے پر مجبور کر دیا۔ لُٹی محفلوں کی دھُول سے ان کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ ایک دن یہ اپنے پُرانے ساتھی اور شریکِ جرم ساتھی روپن مل وانی کے ہاں پہنچے۔ کالے دھن کی فراوانی سے روپن مل وانی کی پانچوں گھی میں تھیں اوراس کا شمار شہر کے انتہائی متمول اور با اثر لوگوں میں ہوتا تھا۔ روپن مل وانی ایک زمانے میں کوڑی کوڑی کا محتاج تھا اور شہر میں جُو تیاں چٹخاتا پھرتا تھا۔ اس کے بعدگھاسفو اور زادو لُدھیک کے عقوبت خانے، چنڈو خانے اور قحبہ خانے میں صفائی کے کام کے لیے اسے ملازم رکھا گیا۔ اس بھڑوے نے قحبہ خانے کی ملازمت کے دوران زادو لُدھیک اور گھاسفو کے ذریعے جرائم پیشہ افراد اور منشیات کے سمگلروں سے تعلقات استوارکر لیے۔ اس کے بعد کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب اور زر و مال کے استخواں نو چنے والے اس سگِ آوارہ نے کالا دھن کمانے کا ہر حربہ استعما ل کیا۔ چند برسوں میں روپن مل وانی کا شمار علاقے کے انتہائی صاحبِ ثروت لوگوں میں ہونے لگا۔ زادو لُدھیک اور گھاسفو نے بھی قحبہ خانے سے بے تحاشا کالا دھن کمایا لیکن انھوں نے سب کچھ سٹے بازی میں ضائع کر دیا۔ روپن مل وانی اپنی عیاری اور مکر کی چالوں سے دونوں ہاتھوں سے زر و مال سمیٹنے میں ہمہ وقت مصروف رہا  اوروسیع جائیداد کا مالک بن گیا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ روپن مل وانی نے جادو ٹونے کے ذریعے زر و مال کے انبار لگا لیے ہیں۔ اس شخص کی خست و خجالت کی وجہ سے کوئی بھی اس کو منہ نہ لگاتا۔ جیسے جیسے اس کی دولت بڑھتی گئی اسی قدر تیزی سے یہ انسانیت سے محروم ہوتا چلا گیا۔ اس ابن الوقت، طوطا چشم اور محسن کُش نے گھاسفو اور زادو لُدھیک سے مِل کر کئی بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ قسمت سے محروم دونوں دوست اس موہوم آس پر اپنے پرانے ساتھی روپن مل وانی کے ہاں پہنچے کہ اُس کے ہاں قیام سے وہ اچھی غذا بھی کھا سکیں گے اور مے و انگبین کی فراوانی سے اپنے دل کو شاد کر سکیں گے۔ روپن مل وانی ان مفت خور، لیموں نچوڑ اور ننگِ  انسانیت درندوں کی حالتِ  زار دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اس نے اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور ان بن بلائے بے غیرت اور بے ضمیر مہمانوں کو مویشیوں کے ڈھارے میں ایک بو سیدہ چٹائی پر بٹھایا اور جھوٹی تسلی دیتے ہوئے پُوچھا :

’’  دنیا والوں نے تمھیں سبزۂ نو دمیدہ کے مانند پائمال کر دیا ہے تمھاری حالت بہت خراب ہے۔ یہ تو بتاؤ کہ تمھارے علاج کی کیا کیفیت ہے ؟‘‘

زادو  لُدھیک نے گلو گیر لیجے میں کہا:’’ ہم جذام گھر میں ایک سال پڑے رہے سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور کسی دوا نے کام نہ کیا، یوں سمجھ لو کہ جنونِ عشق اور نشے کی لت نے ہمارا کام تمام کیا ہے۔  اب تو کوئی اُمید بر نہیں آتی اور نہ ہی بہتری کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ جن لوگوں کی پھُوٹی کوڑی بھی ہم نے کبھی نہیں چُرائی تھی، ہماری تقدیر کیا پھُوٹی کہ وہ اب ہمیں اس حال میں دیکھ کر ہمارا منہ چڑا کر آنکھیں چُرانے لگے ہیں۔ ہمارا یہ احسان وہ بھول گئے ہیں کہ ہم نے اُنھیں کبھی گزند نہ پہنچایا  اور وہ ہمارے شر سے محفوظ رہے۔ جب ہم جوان تھے تو شہر کے سب اُٹھائی گیرے، بھتہ خور، رہزن، نقب زن، چور، اُچکے، تلنگے، لُچے، رجلے، خجلے، ٹھگ اور اُجرتی بد معاش ہمارے پروردہ تھے اور ہمارے ایک اشارے پر جاہ و حشمت اور کبر و نخوت کے سفینے اُلٹ دیتے تھے۔ ان احسان فراموش ظالموں کی بد سلوکی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور ہم پھُوٹ پھُوٹ کر روتے ہیں۔

گھاسفو نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا:’’ہماری بیماری کی وجہ کمزوری ہے اب ہمارے تمام اعضا مضمحل ہو چکے ہیں، عناصر کا اعتدال عنقا ہے۔ ہمارے پروردہ سب بد معاش طوطا چشم نکلے اور کوئی ہمارے دلِ شکستہ کا حال پُو چھنے والا اب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ روپن مل وانی تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تمھاری یہ زرعی زمین، فارم ہاؤس اور سرمایہ کی کثرت سمگلنگ اور منشیات فروشی کے ذریعے کالا دھن کمانا ہماری مدد کے بغیر کیسے ممکن تھا۔ ہم نے جان جوکھوں میں ڈال کر سمگلنگ، منشیات اور قحبہ خانے کی کمائی سے دوستوں کی تجوریاں بھر دیں لیکن ہمارے سب دوست مارِ آستین نکلے۔ آج ہم پر بُرا وقت آ گیا ہے تو  سب نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیے۔ ہم بے بسی کی تصویر بن کر تمھارے پاس چلے آئے ہیں شاید تم پُرانی سنگت کا کچھ احساس کرو اور ہمیں سر چھپانے کی جگہ دے دو اور ہمارے لیے اچھی غذا کی فراہمی کا بندوبست کر دو۔ شفا خانے اور اپنے گھر میں ہمیں اچھوت سمجھا جاتا رہا ہے، پرہیز کے نام پر ہمیں صرف اُبلی ہوئی سبزی اور خُشک روٹی ملتی رہی۔ مسلسل فاقے اور جبری پرہیز نے ہمیں جیتے جی مار ڈالا۔ مدام فاقہ کشی اور ناگوار پرہیز سے تنگ آ کر ہم جذام گھر سے بھاگ نکلے اور اپنے گھر آ گئے۔‘‘

’’اپنے گھر میں تمھیں کھانے کو کیا ملتا ہے؟‘‘ روپن مل وانی نے بے توجہی سے پُو چھا ’’جذام گھر سے بھاگ کر تم نے اچھا نہیں کیا۔ متعدی امراض میں مبتلا تم جیسے مریضوں کو آبادی اور شہریوں سے دور اس لیے رکھا جاتا ہے کہ یہ متعدی مرض دوسروں کو نہ لگ جائے اور ان کی زندگی بھی تمھاری طرح اجیرن نہ ہو جائے۔ تم نے تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری اور گھر پھُونک کر تماشا دیکھتے رہے۔‘‘

زادو لُدھیک بولا ’’ گھر والوں نے دکھ دئیے تو ہم غم جہاں کا حساب کرنے لگے، ایسے میں ہمیں تم جیسے دوست بے حساب یاد آئے۔ اپنے گھر میں بھی ہمیں خُشک سوکھی روٹی اور سادہ پانی کا ایک گلاس ملتا رہا  ہے۔ اب کہاں کا گھر اور کیسی غذا ؟اب تو سب کو جان کے لالے پڑے ہیں دو وقت کی روٹی تک دستیاب نہیں۔ ہمارے گھر والے ہمیں بوجھ سمجھتے ہیں اور ہمارے مرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اب تو ہماری حالت اس قدر بگڑ گئی ہے کہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کو ایک خشک روٹی اورسر چھُپانے کی جگہ دینے پر بھی گھر والے آمادہ نہیں۔‘‘

یوں تو روپن مل وانی کے وسیع و عریض فارم ہاؤس بڑی تعداد میں درندے کھلے عام دندناتے پھرتے تھے لیکن اُس کے مویشیوں کے ڈھارے میں دو گدھے، تین کُتے، چار بِلیاں، دو خنزیر اور دو ریچھ نیم جان حالت میں لیٹے تھے۔ اس بوسیدہ اور سیم زدہ ڈھارے کا کچا فرش دھان کی پرالی سے ڈھکا ہوا تھا۔ جانوروں کے فضلہ اور غلاظت کی آلودگی سے یہ پرالی گیلی ہو چُکی تھی اور فرش سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے۔ ڈھارے کے ایک کونے میں تینوں خارش زدہ کتے آنکھیں بند کیے پرالی میں منہہ چھپائے پڑے تھے۔ جو ں ہی ان کتوں نے زاد ولُدھیک اور گھاسفو کو آتے دیکھا تو وہ دُم دبا کر، گردن ہلا کر اور سر اُٹھا کر ہلکی آواز میں بھونکنے لگے اور اپنے غلیظ دانت نکال کر انھیں دکھانے لگے۔ بِلیاں اپنے پنجوں سے اپنے جسم کو کھجلانے لگیں، خنزیر اور ریچھ بھی نتھنے پھُلا کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ سب جانور ان نئے اجنبی، خستہ حال اور گُرگ آشتی کے رمز آشنا بھیڑیوں کی آمد پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ درندوں اور جانوروں کی سُونگھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سب جانوراس فکر میں دکھائی دیتے تھے کہ وہ  اپنے لیے اس ڈھارے میں کوئی محفوظ پناہ گاہ تلاش کر لیں جہاں وہ ان نئے آنے والے درندوں سے دُور رہتے ہوئے ان مُوذیوں کو لاحق متعدی امراض سے بچ سکیں۔ روپن مل وانی نے حقارت سے ان دونوں موذیو ں کو دیکھا  اور انھیں مویشیوں کے ڈھارے کی طرف جانے کو کہا۔ جہاں کچے فرش پر بچھی ہوئی عفونت زدہ پرالی ہی اب ان دونوں کا بچھونا تھی۔ روپن مل وانی نے اپنے دیرینہ جرائم پیشہ ساتھیوں کے لیے خشک روٹی اور سادہ پانی کی فراہمی کا بندوبست کر دیا  اور کہا:

’’اب اس ڈھارے کو بھی اپنا ہی گھر سمجھواور تمھارے گھر جیسی غذا اس فارم کا خاکروب روزانہ تمھارے سامنے ڈال جائے گا۔‘‘

یہ سُن کر زمین کا بوجھ بے حس گھاسفو اور عادی دروغ گو زادو لُدھیک ٹسوے بہانے لگے لیکن یہ چکنے گھڑے د ل ہی دل میں خوش تھے کہ فاقہ کشی سے نجات مل گئی اور سر چھُپانے کی جگہ تو مِل گئی۔ ایک رات گھاسفو نے غور سے دیکھا تو زادو لُدھیک غُراتا ہو ا اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ مارے خوف کے اُس کی گھگھی بندھ گئی۔ اب دونوں کی آنکھوں میں درندگی کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ گھاسفو بھی غراتا ہوا اس پر جھپٹا۔ دُور لیٹے ہوئے سگانِ آوارہ بھی غراتے ہوئے ان کی طرف بڑھے۔ باقی درندوں نے بھی اس طوفانِ بلا میں بھر پور حصہ لیا۔ اس قدر شور تھا  کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کایا کلپ ہونے کے بعد چکنے گھڑے اب باؤلے سگ بن چُکے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حادثہ

 

سال کی آخری رات تھی اس کے ساتھ ہی ہر چہرے پر نئے برس دو ہزار پندرہ کی آمد کی خوشی دیدنی تھی۔ شہر کی ایک کچی آبادی کے ایک گم نام کوچے میں مقیم ناصف بقال پر یہ رات بہت بھاری تھی۔ اس کی عمر ستر سال ہو چکی تھی اور اس کے اعضا مضمحل ہو چکے تھے اور عناصر میں اعتدال عنقا تھا۔ اس کے خرابات آرزو پر حسرت و یاس کا بادل ٹُوٹ کر برس گیا۔ ایک عادی دروغ گو، قحبہ خانہ، چنڈو خانہ اور کسینو کے مالک، منشیات کے تاجر، سمگلر، پیمان شکن، محسن کش اور ابن الوقت درندے کی حیثیت سے ناصف بقال کی معاشرے میں کوئی قدر و منزلت نہ تھی۔ وہ غمِ جہاں کا حساب کرنے میں خجل ہو رہا تھا کہ اسے ماضی کے کئی دیرینہ رفیق بے حساب یاد آئے۔ اس عالم پیری میں جب جانگسل تنہائیوں کا زہر اس کے ریشے ریشے میں سرایت کر گیا تو وہ ثباتی، ظلی، شعاع، تمنا، زادو لُدھیک، اکی، عارو اور رنگو کو یاد کر کے آہیں بھرنے لگا۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے کرتے وہ سوچنے لگا کہ عیش و طرب اور وصل کے برس تو گھڑیوں کے مانند بیت گئے مگر تنہائیوں کی گھڑیاں تو اب برسوں پر محیط دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی آنکھوں کی نیند اُڑ چکی تھی اور دل کی تاریکی اس کے مقدر کی سیاہی کے مانند اس کی رُ و سیاہی بنتی چلی گئی۔ اس کی بُوم جیسی آنکھیں لُٹی محفلوں کی دھُول سے اٹ گئی تھیں۔ ساٹھ سال کی عمر میں وہ واقعی سٹھیا گیا تھا اوراس کی عقل پر ایسے پتھر پڑ گئے تھے کہ اس نے ہیرا منڈی کی رذیل اور جسم فروش نو جوان طوائفوں ثباتی اور ظلی سے ٹُوٹ کر محبت کی۔ زادو لُدھیک اپنی داشتہ ظلی کو سیڑھی بنا کر ناصف بقال سے مالی مفادات حاصل کرتا رہا اور اپنی تجوری مسلسل بھرتا رہا۔ رنگو نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے اپنی اہلیہ ثباتی کو ناصف بقال کی خدمت پر مامور کر دیا جوہر وقت ناصف بقال کی محبت کا دم بھرتی اور ساتھ ہی اپنی جمع پونجی میں اضافہ کر کے اسے کر گس کی طرح نو چتی رہتی۔ ناصف بقال ہمہ وقت حسین و جمیل طوائفوں کے جھُرمٹ میں را جا اِندر بن جاتا، دادِ عیش دیتا، خوب ہنہناتا  اور اپنے جنسی جنون کی تسکین کا ہر قبیح حربہ استعما ل کرتا۔ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی اس شُوم کا وتیرہ بن چکا تھا۔ بیتے دنوں کو یاد کر کے وہ اس قدر رویا کہ روتے روتے فرط غم سے وہ نڈھال ہو گیا اور آنے والے وقت کے متوقع عذاب کے تصور سے اس کی گھگھی بندھ گئی۔ اپنی پتھرائی آنکھوں سے وہ دروازے کی طرف دیکھنے لگا لیکن اب یہاں کسی کی آمد متوقع نہ تھی۔ اس کے پروردہ تمام بھوکے فصلی بٹیرے اورسب چڑیاں دانے چُگ کر لمبی اُڑان بھر گئیں۔ اس کے ساتا روہن کا بھی کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔

وہ مسلسل اپنی گدھے کے بالوں سے بنی ہوئی وِگ کو کھجلا رہا تھا اور اپنے ہاتھ کی اُنگلی میں ٹھنسی ہوئی عقیق کے بڑے نگینے والی چاندی کی انگوٹھی کو ہلا رہا تھا۔ لنڈے کا تھری پیس سوٹ پہنے یہ کلین شیو خضاب آلودہ بُڈھا کھوسٹ اپنی حسرتوں پر آنسو بہانے کے لیے تنہا رہ گیا تھا۔ وہ  اپنی خمیدہ کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنے شکنوں سے بھرے بستر سے اُٹھا، موٹے شیشوں والی نظر کی عینک اُتاری اور شپر جیسی بند آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار کر ان کے گدلے پن کی صفائی کی کوشش کرنے لگا۔ حرام کا مال کھا کھا کر وہ پھُول کر کُپا ہو گیا تھا۔ اس کے منہ کا ذائقہ بدل چکا تھا اور زبان کی کڑواہٹ کا اثر لہجے کی تلخی، بے ہود ہ گوئی، خلجان اور ہذیان کی صورت میں سامنے آیا۔ اب اسے ثباتی اور ظلی کے ہاتھ سے تیار کیا ہوا کھانا میسر نہ تھا بل کہ ریڑھی سے نان حلیم خرید کر زہر مار کرتا تھا۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ اس کی اپنی اہلیہ نے بھی اپنی بیٹیوں کو ساتھ لیا اور شاہی محلے میں اپنے آبائی کوٹھے میں بسیرا کر لیا۔ اس جگہ خوب سے خوب ترکی جستجو کا سلسلہ جاری تھا اور یہاں ان کی پانچوں گھی میں تھیں۔ اپنی ناک میں اُنگلیاں ٹھونستے ہوئے لڑکھڑاتا ہوا یہ چکنا گھڑا با ہر نکلا۔ سڑک پر ایک جگہ لکھا تھا ’’نیا سال مبارک‘‘۔ جب اس نے یہ تحریر پڑھی تو وہ مگر مچھ کے آنسو بہانے لگا۔ بے وفا ساتھیوں نے اس کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور اس کے لیے تو ایک ایک لمحہ بلائے جان بن گیا تھا۔ اس کی زندگی کے تمام موسم خزاں کی زد میں تھے۔ اب تو اس کی حیات کے لرزہ خیز اوراعصاب شکن افسانوی ماحول میں ہر طرف ذلت، تخریب، نحوست، بے برکتی، بے توفیقی، بے ضمیری، بے غیرتی، بے حیائی، بے حسی اور بد بختی کے کتبے آویزاں ہو چکے تھے۔ وہ دبے پاؤں واپس اپنے کمرے میں آ گیا  اور اپنے ماضی کے حالات کے بارے میں سوچنے لگا۔ ہر طر ف ہو کا عالم تھا، اس کے کمرے کی ایک کھڑکی کھلی تھی جس سے باہر کا سارا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ ممبئی کے نوجوان نئے سال کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس کے لیے تو یہ تیاریاں دل آزاریوں کے سوا کچھ نہ  تھیں۔ ہمیشہ کی طرح وہسر شام نشے کی بڑی مقدار استعمال کر کے بے سدھ ہو گیا تھا۔ اب اس کا نشہ ٹُو ٹنے لگا تھا۔ مسموم حالات کی حدت کے باعث اس کا دماغ تو پہلے ہی طویل رخصت پر تھنا ب دل و جگر کی آگ بجھانے کی خاطراس نے برف میں لگی صراحیِ مے اپنے حلق میں اُنڈیلی اور پھر سے وادیِ خیال کو مستانہ وار طے کرنے کی ٹھان لی۔

اسی اثنا میں اس نے حکیم سیالوی کو دیکھاجو اسے دلاسا دے رہے تھے۔ اسے وہ دن یاد آ گئے جب اس نے عالم شباب میں داد عیش دینے اور شراب و شباب کے ساتھ ہمہ وقت سنگت کا آغاز  کیا تو اس کی اخلاق با ختگی، جنسی جنون اور بے راہ روی کی نفرت انگیز داستانیں ہر شخص کی زبان پر تھیں۔ منشیات کے بے تحاشا استعمال سے وہ نشاط اور بے خودی کے عالم میں ہر ناصح کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور ان کی نصیحت کو سنی ان سنی کر دیتا۔ حکیم سیالوی نے اُسے بہت سمجھایا کہ منشیات کے استعمال سے انسان موت کی جانب تیزی سے بڑھنے لگتا ہے۔ منشیات فروش پر جب سب بلائیں تمام ہو جاتی ہیں تو مرگ نا گہانی اسے دبوچ لیتی ہے۔ سب ناصح اسے سمجھاتے رہے لیکن اس کے دماغ میں تو خناس سما گیا تھا کہ وہ را جا اندر ہے اوراسے پریوں کا اکھاڑاسجانے کا اختیار ہے۔ وقت پر لگا کر  اُڑتا رہا اس کی کتاب زیست سے شباب کا باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس کے بعد مختلف بیماریوں نے اسے اپنے نرغے میں لے لیا۔ پہلے ایک گردے میں پتھری کا آپریشن ہوا پھر دوسرے گردے میں پتھری کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد پِتے اور معدے میں پتھری اور ساتھ ہی مثانے میں غدود اور پتھری سے وہ زندہ در گور ہو گیا۔ اس کی تمام جمع پونجی ان بیماریوں کے علاج معالجے اور پیچیدہ نوعیت کے آپریشن کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جان لیوا دکھوں، لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات اور جا نگسل تنہائیوں میں اس کے احباب ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جب اس کی امیدوں کے پھول کھلنے کی توقع تھی تو ہوس پرستوں نے انھیں کا نٹوں سے فگار کر دیا۔ جن لوگوں کی رفاقت کو اس نے چراغ راہ سمجھا تھا وہی اسی کا گھر پھونک کر تماشا دیکھتے رہے۔ اس دنیا کے آئینہ خانے میں دکھوں کا جال بچھا کر سب ساتھی اسے تماشا بنا کر چلتے بنے۔ وہ زندگی بھر رنگ، خوشبو اور حُسن و خوبی کے استعاروں سے مزین گُل ہائے رنگ رنگ کی تمنا میں سر گرداں رہا۔ اب اس کی شامت اعمال نے یہ دن دکھائے کہ عالم پیری میں اس کی آنکھوں میں کالا مو تیا اُتر آیا۔ اب شدید ضعف بصارت کی ماری اس کی پتھرائی ہوئی کرگسی آنکھوں میں لُٹی محفلوں کی دھُول اُڑتی رہتی تھی۔ حالات اسے اس موڑ پرلے آئے کہ اگرچہ اس کی یادداشت بُری طرح متاثر ہو چُکی تھی لیکن اُسے نہ صرف چھٹی کا دودھ یاد آ گیا بل کہ نانی کی یاد بھی ستانے لگی۔ جس کے پاس ہر چیز کی فراوانی ہوتی تھی اس کو بھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ جس گھر میں پہلے حسین و جمیل مغنیاؤں کے پُرسوز نغمے گُو نجتے تھے اب اس گھر میں ہر طرف اُلّو بولتے تھے۔

حکیم سیالوی کو دیکھتے ہی ناصف بقال کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں اور اس نے اپنی داستان غم بیان کی اور گردوں، پتے، مثانے اور معدے کی پتھری اور آپریشن کے عذاب کا احوال بیان کیا۔ اس نے بتایا کہ جسم کے تمام بڑے اعضا میں بڑی بڑی پتھریوں کا بن جانا معالجوں کے لیے بھی ناقابل فہم تھا۔ سب حکیم اور ڈاکٹر اس انتہائی پیچیدہ، جان لیوا اور تکلیف دہ روگ کو ایک عذاب سے تعبیر کرتے تھے۔ ان پتھریوں کے علاج نے اسے مفلس و قلاش کر دیا اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔ یہ سنتے ہی حکیم سیالوی صاحب نے اپنے دبنگ لہجے میں کہا کہ ایک راندہ ء درگاہ زانی اور شرابی کو دنیا والے تو سنگسار نہ کر سکے لیکن فطرت کی تعزیریں تمھیں اندرونی طور پر رفتہ رفتہ سنگسار کرتی جا رہی ہیں۔ میں نے تمھیں بہت سمجھایا تھا لیکن تمھاری عقل پر تو پتھر پڑ گئے تھے۔ وہ دن دور نہیں جب حالات یہ رخ اختیار کریں گے کہ فطرت کی سنگساری کا یہ سلسلہ تمھیں مکمل طور پر منہدم کر دے گا۔ تمھاری شامتِ اعمال کے باعث ہونے والی تمھاری اس سنگساری کے نتیجے میں تم زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اُتر جاؤ گے زمین کا بوجھ قدرے کم ہو جائے گا  اور ہر شخص یہ کہے گا کہ خس کم ہونے سے گلشنِ ہستی کی پاکیزگی میں اضافہ ہوا ہے۔

ناصف بقال، رنگو، اکی، زادو لُدھیک عارو اور تارو سب کے سب رسوائے زمانہ بد معاش تھے۔ ان اُجرتی بد معاشوں اور پیشہ ورلُٹیروں نے قتل و غارت کا جو بازار گرم کر رکھا تھا اس کے باعث زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو گئی تھیں۔ ممبئی کے قحبہ خانوں میں ان کی پروردہ جسم فروش رذیل طوائفوں ثباتی، ظلی، شعاع اور تمنا نے بے حیائی اور فحاشی کی انتہا کر دی تھی۔ منشیات کے کالے دھن اور خرچی کی آمدنی نے ان عقل کے اندھوں کو انسان دشمنی کے مکروہ جرائم میں مبتلا کر دیا۔ زاد ولُدھیک اور ناصف بقال نے اپنی بد اعمالیوں سے زندگی کو پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچا دیا۔ وقت کے اس سانحہ کو کیا نام دیا جائے کہ یہ جاہل اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان موذی و مکار بگلا بھگت جنونیوں اور خون آشام دہشت گردوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں کے باعث کئی گھر بے چراغ ہو گئے۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری ان ننگ انسانیت درندوں کا وتیرہ تھا۔ ان مخبوط الحواس، فاتر العقل اور جنسی جنونی درندوں نے ہمیشہ خو دکو کہکشاں کا مکیں سمجھا  اور مظلوم انسانیت کو راستے کا پتھر سمجھتے ہوئے اسے زد جاروب کھانے پر مجبور کر دیا۔ ناصف بقال نے اگرچہ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا تھا لیکن اس کے دل سے کبھی کبھی ایک ہوک سی اُٹھتی کہ اس کی ذلت، رُو سیاہی، تباہی اور جگ ہنسائی میں زادو لُدھیک، تارو،  عارو، رنگو، اکی، ظلی اور ثباتی کا قبیح کردا ر شامل ہے۔ معاشرے میں ان کو کالی بھیڑیں، گندے انڈے، سفید کوے اور عفونت زدہ غلیظ مچھلیاں سمجھا جاتا تھا اور یہ سب مردود خلائق تھے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ناصف بقال اپنے ان قریبی احباب کے خلاف کچھ نہ کر سکا اور ایک خارش زدہ سگ راہ کے مانند ان کے تلوے چاٹتا رہتا۔ کُوڑے کے ڈھیر سے ذاتی مفادات کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے کی کر یہہ عادت اسے ورثے میں ملی تھی۔ بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ زادو لدھیک اور ناصف بقال کے آباکاگھاس کھودنے اور کتے گھسیٹنے پر مدار تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ سو پُشت سے ان کے آبا کا پیشہ گدا گری، منشیات فروشی رہزنی اور لوٹ مار تھا۔ ان کے گھروں کی عورتیں قحبہ خانے کی زینت بن کر خرچی کے ذریعے زر و مال سمیٹ لیتیں اور اپنے مردوں کے لیے عیاشی کا سامان فراہم کرتیں۔ ناصف بقال اور زادو لُدھیک کے سبز قدم جہاں بھی پڑتے وہاں ویرانی ڈیرے ڈال لیتی۔ ان کی صرف زبان ہی کالی نہیں تھی بل کہ بد اعمالیوں کے باعث ان کی رو سیاہی کی داستانیں بھی زبان زد عام تھیں۔  اس کے سارے ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھی اب اس سے نفرت کرتے تھے۔ ان موقع پرست فصلی بٹیروں نے ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب طوطا چشم اور مارِ آستین ہیں اور ان کے ساتھ ربط رکھنا دہکتے ہوئے انگاروں سے کھیلنے کے مترادف تھا۔ اس کے باوجود وہ را جا اِندر بنا پریوں کے اکھاڑے میں دادِ عیش دیتا رہا۔ اپنی طویل زندگی میں اس نے آدمی کے لاکھوں رُوپ دیکھے، ہر وضع اور ہر قماش کے آدمی سے اُس کا پالا پڑا، چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں ہو تی رہیں لیکن وہ کسی ایک بھی معتبر انسان کو تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا جو اس کا محرم راز بن سکے۔ اب وہ جان گیا تھاکہ وہ زندگی کے حقیقی شعور سے یکسر بے بہرہ ہے۔ اپنے شام و سحر کی کشتیوں کو سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں کے باعث گرداب میں غرقاب ہوتا دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھتا۔ اب وہ دشتِ جنوں میں تنہا بھٹک رہا تھا  اور سرابوں کے عذابوں میں کوئی اس کا پُرسانِ حال نہ تھا۔ اب اسے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ سیرِ جہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ اب تو سفر کی دھُول ہی اس کا پیرہن بن گیا تھا۔

اس کی زندگی میں ہمیشہ نئی سے نئی ابتلا کا طوفان بپا رہا لیکن وہ ابتدا کی فکر و احتیاط اور انتہا کے کرب یا صدمات سے بے نیاز عشق و جنوں کے سرابوں میں سر گرداں رہا۔ اب اسے قضا کے ہاتھوں زندگی کا دریچہ بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا  اور خورشید محشر کی تیز شعاعوں نے اس کی نگاہوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ وہ بار بار یہ سوچتا کہ وہم و گماں کے موسم میں اس کی ناکام زندگی اس طرح بکھر گئی جیسے خزاں کے مسموم ماحول میں بُور لدے چھتناروں کے خشک پتے ہر سُو بکھر جاتے ہیں اس کے قریۂ جاں میں اعصاب شکن سناٹوں، جان لیوا تنہائیوں، غیر مختتم رسوائیوں، جگ ہنسائیوں، رُو سیاہیوں، مسموم ہواؤں، موہوم تمناؤں اور تلخ یادوں کی خزاؤں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ اب تو جگر کی آگ بجھانے والی مے انگبین اور ما اللحم سہ آتشہ اسے میسر نہ تھا۔ اس تشنگی اور جنسی بھوک سے اس کے اعصاب شل ہو چکے تھے اور وہ بہت خجل ہو رہا تھا۔ یاس و ہراس پر مبنی سوچییں اُ س کے لیے سوہان روح بن چکی تھیں۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایام گزشتہ کی یہ لرزہ خیز یادیں ہی اس کی روح قبض کر لیں گی۔ وہ ان خیالوں میں گم تھا کہ اچانک اس کے سامنے چڑیلیں، ڈائنیں اور پچھل پیریاں گھومنے لگیں۔ ان کے ساتھ دیو، بھوت اور آدم خور بھی تھے۔ اس نے غور سے دیکھا تو مافوق الفطرت عناصر کے ہجوم میں اسے کچھ پرانے آشنا چہرے بھی دکھائی دئیے ان میں  ظلی، ثباتی، تمنا، رنگو، زادو لُدھیک، اکی، عارو اور تارو بھی شامل تھے۔ اپنے حقیقی رُوپ میں یہ ننگ انسانیت درندے بہت خوف ناک دکھائی دے رہے تھے۔ اکثر غارت گر بندِ قبا اور لباس کے تکلف سے بے نیاز، شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے رقص کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پیمان وفا باندھ رہے تھے۔ اس نے انھیں متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کسی نے اس کی آہ و فغاں پر دھیان نہ دیا۔ چور محل میں جنم لینے والے مشکوک نسب کے سانپ تلے کے یہ بچھواس کے لیے مارِ آستین ثابت ہوئے۔ جنسی جنون، ہوس، کالے دھن اور عشق لا حاصل کے اندھے سفر میں وہ محرومیوں، مایوسیوں، ناکامیوں، نا مرادیوں اور  بربادیوں کے ابتلا میں صحرا کے ایک تنہا شجر کے مانند تھا جسے سمے کی دیمک نے چُپکے چُپکے اندر سے کھا کر کھوکھلا کر دیا تھا  اور اب اس میں کسی غنچے کے کھِلنے کی توقع نہ تھی۔ ا س کی زندگی کے خزاں رسیدہ بوسیدہ شجر پر بُوم، شپر، کرگس اور زاغ و زغن کا بسیرا تھا۔

ابھی وہ پریشانی کے عالم میں یہ سب مناظر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ دور کھڑے الم نصیبوں اور جگر فگاروں پر پڑی۔ اس نے ان سب کہ پہچان لیا یہ سب وہی مجبور لوگ تھے جنھیں اس نے زندگی بھر بے پناہ اذیت اور عقوبت میں مبتلا رکھا۔ وہ اپنے دِل کو سِل بنا چُکا تھا  اور اس کے غیظ و غضب سے دُکھی انسانیت پر جو کوہِ ستم ٹُوٹا اس کے باعث ان مظلوموں کی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا۔ اس کے بے رحمانہ انتقام اور شقاوت آمیز نا انصافیوں نے ان مجبوروں کی اُمیدوں کی فصل غارت کر دی اور ان مظلوموں کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی گئی۔ ان کی گریہ و زاری کو دیکھ کر وہ جان گیا کہ اس کے بہیمانہ سلوک کی وجہ سے گلستان میں جو بادِ صر صر چلی اس نے گلشنِ زیست کی کلیوں اور غنچوں کو جھُلسا دیا۔ اس کے جبر نے مجبوروں کی آہ و فغاں کو اس طرح مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا کہ ان کے ہونٹوں کی مسکان تک چھین لی۔ بے وفائی اور پیمان شکنی سے لذتِ ایذا حاصل کرنا اس کا وتیرہ تھا یوں وہ جس شہر میں بھی گیا اسے مانندِ کُوفہ بنا دیا۔ اس کی خود غرضی اور ابن الوقتی ضرب المثل تھی یہاں تک کہ قیس جیسے رمیدہ ہجر گزیدہ کو بھی اس کے دست جفا کار نے بدن دریدہ بنا دیا۔ وہ سو چنے لگا کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے درد سے چکیدہ بے بس انسانیت اس کی ہوس ناکی کے باعث مکمل انہدام کے قریب پہنچ گئی۔  مصیبت کی اس گھڑی میں بار بار اس کے دل میں یہ خیال آتا کہ اس نے ہوس، جنسی جنون، حُسن و رومان، منشیات فروشی، چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں کے گورکھ دھندوں بے حسی اور بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اس نے قبضہ مافیا سے مل کر یتیموں، بیواؤں، بے نواؤں اور مظلوموں کی املاک پر ہاتھ صاف کیا۔ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں اس کے قبیح کردار کو ہر شخص نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ سب لوگ اسے موذی و مکار فرعون قرار دیتے تھے۔ اس نے کِشتِ دہقاں اور مفلوک الحال لوگوں کی عزت و آبرو لوٹ لی۔ وہ سوچنے لگا کہ اس کے بُغض و کینہ کے باعث لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ اس نے بے شمار لوگوں کی آرزوؤں کا خون کیا۔ وہ زندگی بھر ان قسمت سے محروم لوگوں کی شہ رگ کا خون پیتا رہا اور یہ جگر فگار لوگ لبِ اظہار پر تالے لگا کر خون تھوکتے رہے اور سد اخون کے آنسو پیتے رہے۔ اگرچہ ان مصیبت زدوں کے رفو گر ان کے چاک گریباں سیتے رہے لیکن اس نے ہمیشہ ان کے گریباں کو تار تار کیا اور ان کو معاشرتی زندگی میں زبون و خوار کیا۔ ان غریبوں کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برستی رہیں مگر اس قدر بے حسی کا شکار تھا کہ کبھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ان میں کئی لوگ ایسے بھی تھے جو پنی فگار انگلیوں سے کچرے کے ڈھیر سے رزق تلاش کر کے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے لیکن جبر کی اندھی قوت کو استعمال کر کے وہ ان ناتوانوں سے بھی بھتہ وصول کر کے اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کرتا رہا۔ اس نے بشیر، منیر اور کئی ستم زدوں کو دیکھا جو اس کی نا انصافیوں اور مظالم کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے اور عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ ملک کے تمام اُجرتی قاتلوں اور پیشہ ور بد معاشوں کے ساتھ اس کے قریبی مراسم تھے۔ وہ سب کے ساتھ شریکِ جرم رہا  اور خوب گلچھرے اُڑائے یہ سب درندے اسے تنہا چھوڑ کر نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے، کسی نے اس کے شکستہ دل کا حال کبھی نہ پُوچھا۔ اس نے مظلوم لوگوں کو پُکار ا مگر سب نے نفرت سے اسے دیکھا اپنا دامن جھاڑا، آسمان کی طرف نگا ہ کی اور اپنی اپنی راہ لی۔ سب سوچ رہے تھے کہ خالق کائنات نے اب تک اس نمرود کے عرصۂ حیات کو کیوں بڑھا رکھا ہے۔ ایسے جو فروش گندم نمابُزِ اخفش کو تو اب تک مر جانا چاہیے۔ وہ یہ سوچ کو آہیں بھرنے لگا کہ اس کی زندگی اسی سمت جا رہی ہے جیسے شام ڈھلے طیور اپنے آشیانوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کی شام کے وقت وہ موت کی آہٹ کو محسوس کر رہا تھا۔ جا نگسل تنہائیوں اور تاریک شب و روز کے بھیانک سناٹوں نے اُسے زندہ در گور کر دیا تھا۔ اب نہ تو اس کی کوئی امید بر آتی اور نہ ہی اسے مسموم حالات کے مہیب بگولوں سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی تھی۔

اب اس کی پرورش کرنے والے اس کے والدین اس کے سامنے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس نو عمر لڑکے کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس کے حقیقی والدین کا کسی کو علم نہیں۔ یہ بہت پُرانی بات ہے کہ سال ۱۹۴۶میں ممبئی کے ایک جاروب کش چنگڑو کو کوڑے کے ڈھیر سے چادر میں لپٹا ایک نو مولود بچہ ملا۔ ممبئی کے متمول اور معمر تاجر جوڑے روپن مل اور اس کی بیوی کا منی نے اسے گود لے لیا۔ گرد و نواح کے سب لوگ کہتے تھے کہ سانپوں کے بچے کبھی وفا نہیں کرتے خواہ انھیں اپنے ہاتھ کی چُلّی میں دودھ پلایا جائے اسی طرح انگور کی نرم و نازک بیل کو اگر کیکر پر چڑھا دیا جائے تو خارِ مغیلاں کی نشتر زنی سے انگور کا ہر خوشہ چھلنی ہو جاتا ہے۔ جب وہ جوان ہوا تو اس نے روپن مل اور کامنی کو ہلاک کر دیا اور ان کی لاشیں جلا دیں۔ اس نے سب کو یہ بتایا کہ یہ اموات چو لھا پھٹ جانے کے باعث ہوئیں۔ ان کی ساری جائیداد اب اس کی ملکیت تھی۔ اس نے اپنے محسنوں کو سوختہ بدنوں کے ساتھ دیکھا تو اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ ان کا بے بسی کے عالم میں جل کر راکھ ہو جانا وہ کبھی بھلا نہ پایا۔ کامنی اور روپن مل نے اس کے سامنے رو رو کر جان بخشی کی التجا کی لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ وہ بھی آج اس کی طرف دیکھ کر نفرت سے منہ موڑ کر چلے گئے۔

اچانک ناصف بقال نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک پر اسرار شخص کھڑا ہے۔ اس نے کھا جانے والی نگاہوں سے اس شخص کو دیکھا۔ اس شخص نے بھی قہر بھری نگاہوں سے ناصف بقال کو گھورا اور نفرت کا اظہار کیا۔ کئی جوتشی، رمال اور نجومی اُسے بتا چکے تھے کہ ایک بھوت اور آسیب مسلسل اس کے تعاقب میں رہتا ہے۔ اس بھوت نے ناصف بقال کی زندگی کی رعنائیوں کو گہنا دیا ہے۔ کئی مندروں کی یاترا کرنے، مورتیوں کے سامنے سر جھکانے، صدقہ خیرات کرنے اور گنگا نہانے کے با وجود ناصف بقال اس بھوت اور آسیب سے چھُٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آج اس کے سامنے یہ بھوت اپنے چہرے پر بھبھوت مل کر جس ڈھٹائی کے ساتھ کھڑا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر رہا تھا وہ اس کے لیے تشویش اور اضطراب کا باعث تھا۔ ناصف بقال اس نتیجے پر پہنچا کہ ہو نہ ہو یہی وہ بھوت ہے جس نے اس کی زندگی کو غم کا فسانہ بنا کر اسے دنیا کے آئینہ خانے میں تماشا بنا دیا ہے۔ ا س بھوت کی کا رستانی کی وجہ سے وہ نہ تو تین میں رہا اور نہ ہی تیرہ میں۔ اسے یقین ہو گیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس بھوت کی سفاکی نے اسے جس اذیت اور عقوبت میں مبتلا کر رکھا ہے، اس کا انتقام لیا جائے۔ وہ عجیب الخلقت اور پُر اسرار بھوت ایک ناگہانی آفت کے مانند ناصف بقال کو مسلسل گھُور رہا تھا اور مسلسل اس کا منہ چِڑا رہا تھا۔ اس کے جواب میں ناصف بقال بھی اسے غیظ و غضب اور قہر بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اب ناصف بقال کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ جسمانی کمزوری اور شدید ذہنی دباؤ کے باوجود اس نے سمجھا کہ اب فیصلے کی گھڑ ی آ گئی ہے اور اس بھُوت کو منہ توڑ جواب دینا بہت ضروری ہے۔ یقیناً یہی وہ بھوت ہے جس کے بارے میں گزشتہ کئی برسوں سے نجومی، جوتشی اور رمال اسے متنبہ کرتے چلے آئے ہیں۔ اس نے اپنی پوری قوت کو مجتمع کیا، ایک لمبی جست لگائی اور ایک زور دار مکہ سامنے کھڑے بت کی گردن پر رسید کیا۔ ایک زور دار آواز سے سامنے دیوار پر لگا بہت بڑا قد آدم آئینہ ٹُوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا۔ نشے میں دھت ناصف بقال منہ کے بل آئینے کی کرچیوں کے ڈھیر پر جا گرا۔ شکستہ آئینے کی ایک لمبی اور تلوار کی طرح تیز کرچی اس بھیڑئیے کی شہ رگ پر پھر گئی۔ کمرے کے فرش پر عفونت زدہ سیاہ خون ہر طرف بہہ رہا تھا۔ وہ درندہ جو آتشِ سیّال سے زندگی بھر گرم رہا اب ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہو چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

      بادامی باغ

 

منشی گھسیٹا خان بھی عجیب شخص تھا،خود ستائی اور خود نمائی اس کی گھُٹی میں پڑی تھی۔واجبی سی تعلیم کے باوجود یہ خود کو عصرِ حاضر سب سے بڑا مورخ اور فلسفی سمجھتا تھا۔ اپنی زندگی کی ستر خزائیں دیکھنے کے بعد بھی اس کی رجائیت پسندی کا یہ حال تھا کہ اس کی زندگی کے دن موہوم بہاروں کے روگ میں کٹنے لگے اوراس کا دل و جگر کرچیوں میں بٹنے لگے۔جب کوئی اس کندۂ  نا تراش کو اس کے جنسی جنون،منشیات کے نشے کی قبیح عادت،چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں کے گورکھ دھندے سے تائب ہونے کا مشورہ دیتا، تو یہ نا ہنجار عف عف کر کے کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا،پریوں کا اکھاڑہ سجا کر اس میں راجا اِندر بن کر ہنہناتا،اپنی جہالت پر اِتراتا اور ڈھٹائی سے ہر طر ف دندناتا پھرتا تھا۔اس سٹھیائے ہوئے بُڈھے کھوسٹ کی ہیئتِ کذائی دیکھ کر ہنسی ضبط کرنا مشکل تھا۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے باعث یہ خبطی شامتِ اعمال اور گردشِ حالات کی زد میں اس طرح آیا کہ اس کے سب کس بل نکل گئے۔اس کے باوجود یہ چکنا گھڑا بے حسی اور بے غیرتی کی تصویر بنا حسن و رومان اور عشق و جنون کی خا ر زار راہوں پر خوار و زبوں گھومتا،نشے میں دھت یہ متفنی ہر حسین چہرے کو دیکھ کر جھُومتا اور ضعفِ پیری کے باوجود سیرگاہوں اور چرا گاہوں میں ٹانگیں گھسیٹتا پھرتا تھا اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا۔ شریف لوگوں کو فرضی مقدمات میں گھسیٹنا اس متفنی کا وتیرہ تھا، اسی وجہ سے اس ننگِ اسلاف کا نام منشی گھسیٹا خان پڑ گیا۔ مغز سے یکسر خالی گنجی کھو پڑی پر خچر کی دُم کے لمبے بالوں سے تیار کی ہوئی خود ساختہ وِگ پہنے، موٹے سفید شیشیوں کی نظر کی عینک اپنی کرگسی آنکھوں اور کٹی ناک پرسجائے، ہاتھ کی انگلیوں میں عقیق کی انگوٹھیاں ٹھونسے، یہ زمین کا بوجھ کسی مر ے ہوئے منحوس گورے کا کُوڑے کے ڈھیر پر پھینکا ہوا لنڈے کا بد رنگ،بد وضع اور بوسیدہ سُوٹ اپنے بے حس تن پر کس کر نکلتا۔بھرے بازار کی لعنت و ملامت اور دو طرفہ ندامت اس کے ہم رکاب رہتی۔اس کے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز عادی دروغ گو زادو لُدھیک اور منشیات کا بد نام سمگلراکرو بھٹیارا بھی اس کے ساتھ ہوتے۔ گرمیوں کے موسم میں سہ پہر کے وقت یہ تینوں سٹھیائے ہوئے گھٹیا عیاش اور بدنام اُچکے ایامِ گُزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی اور لُٹی محفلوں کی نوحہ خوانی کے لیے اکٹھے ہوتے۔تین اُچکوں کی یہ کہانی ایک بلائے نا گہانی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ عام طور پر منشی گھسیٹا خان ہذیان بکتا لیکن کبھی کبھی یہ سارق شاعری کو بھی منہ مار لیتا تھا یہی وجہ ہے کی پاپ بیتی میں اس متشاعر کی جسارت سارقانہ کے بھونڈے انداز بھی اس کا منہ چڑا رہے ہیں۔زادو لُدھیک نے چمگادڑ کی طرح سورج سے منہ چھپا کر کان کھُجاتے ہوئے اور دُم ہلاتے ہوئے کفن پھاڑ کر کالی زبان ہلائی:

راوی کے کنارے پر

وقت گزارتے ہیں

یادو ں کے سہارے پر

اکرو بھٹیارا اُلو کی طرح آنکھیں گھُماتا ہوا منشی گھسیٹا خان سے مخاطب ہو کر ہرزہ سرا ہوا

’’تمھاری رائیگاں زیست کی ورق ورق داستاں کو آلام روزگار کے مہیب بگولوں نے جس طرح گندے نالوں میں بکھیرا ہے وہ نشانِ عبرت ہے۔آج ان رازوں سے نقاب اُٹھائیں جن کے باعث تمھاری زندگی بے ثمر ہو کر رہ گئی۔ِِ‘‘

منشی گھسیٹا خان نے پاؤں گھسیٹتے ہوئے اور سر پیٹتے ہوئے کہا:

’’ سہہ رہا تھا غمِ نہاں کا عذاب

سر پہ وہ تھوپ کر خضاب آئے

آؤ میری نادانی کی کہانی منہ زبانی میری زبانی سُنو اور اسے سن کر ارد گرد کی سُن گُن لو اور سر دھُنو۔ تین سو سال پہلے کی بات ہے لاہور میں دریائے راوی کے دونوں کناروں پر تین میلوں پر محیط ایک وسیع باغ تھا۔اس باغ میں اثمار کے بُور لدے چھتنار، ہزارہا شجرِ سایہ دار سروو صنوبر،سنبل و ریحان موجو د تھے۔ اس میں کثرت سے اُگے بادام کے پودوں کی وجہ سے اس کا نام بادامی باغ پڑ گیا۔اس مقام پر نازک اندام اور ان کے نمک حرام ہوس پرست آشنا مے گلفام سے سیراب ہوتے۔چُلّو میں اُلّو بن جانے والے یہاں اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی غرض سے آتے مگر ان کی کج روی کے باعث سب تدبیریں اُلٹی ہو جاتیں۔جب ان کی قسمت اور تقدیر پھُوٹتی تو ان میں پھُوٹ پڑ جاتی اور یہ پھُوٹ پھُوٹ کر رونے لگتے۔جب میں جوان تھا تو یہی جگہ میری گزرگاہِ خیال بن گئی اور یہیں میری زندگی کے ساتھ ایسا کِھلواڑ  ہوا کہ حسین تتلیوں کی اکھاڑ پچھاڑ سے میری زندگی وبال بن گئی۔ ‘‘

’’منشی گھسیٹا خان!  مجھے تو یوں لگتا ہے کہ تمھاری اِن دل خراش یادوں ہی کی وجہ سے تمھیں خارش کا متعدی عارضہ لا حق ہو گیا ہے۔‘‘زادو لُدھیک نے اپنی کٹی ناک پر اُنگلی رکھ کر کہا ’’تمھاری یادیں خزاں رسیدہ شجر کے مانند ہیں جسے سمے کی دیمک چُپکے چُپکے کھاتی رہی اور پُورا تنا ہی کھوکھلا ہو گیا۔‘‘

’’مردہ جب بھی بولتا ہے وہ کفن پھاڑ کر ہی بو لتا ہے۔‘‘منشی گھسیٹا خان بولا ’’میر ا تن کھوکھلا ہوتا چلا گیا، من کی ترنگ ختم ہو گئی،میں بو کھلا گیا اور میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ میں اپنے دل و جگر میں بھڑکنے والی یہ آگ برف میں لگی مے کی صراحی اپنے حلق میں اُنڈیل کر بجھاتا۔گھر پھونک کر تماشا دیکھنا میرا معمول اور شوقِ فضول بن گیا۔‘‘

’’  واہی تباہی بکنے والے شخص کی واہیات واردات کو اس کی زندگی کے معمولات کی ہفوات کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟‘‘ دھن کا دیوانہ اکر و بھٹیارا اپنا بھاڑ جیسا دہن کھول کر مجنونانہ انداز میں کہنے لگا’’سٹھیائے ہوئے آدمی اور خزاں رسیدہ درخت میں کوئی فرق نہیں۔جس طرح بادِ سموم کے باعث درخت کی کومل کلیاں،پھُول اور ثمرِ نورس رزقِ خاک بن جاتے ہیں،اسی طرح ہر مخبوط الحواس جنسی جنونی درندے کی کور مغزی،بے بصری،ذہنی افلاس کے باعث اس کی زندگی وقفِ یاس ہو جاتی ہے۔جب کسی درخت پر بُرا وقت آتا ہے تو طائران خوش نوا درخت پر موجود اپنے آشیانوں کو چھوڑ کر لمبی اُڑان بھر جاتے ہیں۔اسی طرح حسن و عشق اور تقدیر کا مارا جب حالات کی زد پر آتا ہے تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا ہے۔اس کے سب محبوب اپنی اپنی راہ لیتے ہیں اور وہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہانے کے لیے تنہا رہ جاتا ہے۔‘‘

’’اب مجھے اپنی داستان سنانے دو گے اور کچھ میری طرف بھی دھیا ن دو گے یا یوں ہی جی کا زیاں کر کے اپنے ہذیان اور خلجان سے مجھے اپنے وجود سے بد گُمان کرو گے۔‘‘ منشی گھسیٹا خان نے اپنے لنڈے کے کوٹ کی جیب سے بائیسیکل کا ایک زنگ آلود پیچ نکال کر اپنے عفونت زدہ منہ میں ڈال کر کہا’’ میں نے بہت کوشش کی لیکن کہیں سے تاب نہ لا سکا اگر تم نے میری بات پر توجہ نہ دی تو میں یہ پیچ کھا لوں گا۔‘‘

’’بس بہت ہو چُکی!اب تمھیں نہ تو پیچ کھانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی تاب لانا تمھارے بس میں ہے۔‘‘زادو لُدھیک خارش زدہ باؤلے سگِ آوارہ کی طرح غُرّایا ’’تم نے حبس کا جو ماحول بنایا،اس نے زندگی کی سبھی رُتیں بے ثمر کر دیں۔میری طرح تمھارے جسم سے بھی عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں۔ہم تینوں کی منزل خارزار زیست میں آبلہ پا مارے مارے پھرنا ہے جہاں بے شمار خارِ مغیلاں اپنی نوک کو تیز کیے ہماری راہ میں بچھے ہیں۔اس صحرا میں حنظل،دھتورا،تمباکو،پوست،بھنگ،اکڑا،تھوہر اور پوہلی کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔تمھاری ہرزہ سرائی سُن کر کون ہے جو تمھاری مدح سرائی کرے ؟ میری طرح تمھاری کھوپڑی بھی مغز سے خالی ہے تمھارا سب کر و فر جعلی ہے،تیری زبان کالی ہے اور تو محض شیر قالی ہے۔تجھے باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں آتا اور تمھاری بنائی ہوئی باتیں سننے والے کے دل،دماغ اور روح کو شدید کرب،اذیت اور ذہنی دباؤ کا شکار کر دیتی ہیں۔چلو چھوڑو اب جو کہنا ہے وہ کہو اور دوستو اس کے ستم سہو۔‘‘

منشی گھسیٹا خان بولا ’’ماضی کی یادیں میرے لیے پیرِ تسمہ پا ثابت ہوئی ہیں۔ میں نے منشیات فروشی،قحبہ خانے اور چنڈو خانے کے کاروبار سے جو کالا دھن کمایا،اُسی نے میرا منہ کالا کر دیا۔میری تجوری میں گنجِ قارون جمع ہو گیا۔میں نے جوں ہی سر اُٹھایا تو پری چہرہ لوگوں نے مجھے سبزۂ نو دمیدہ کے مانند پامال کر دیا اب تم دیکھ رہے ہو کہ میری کھو پڑی پر صرف گنج رہ گیا ہے اور قارون حسن و عشق کی یلغار اور حسیناؤں کی کفش اندازی کی بھر مار میں کہیں گُم ہو چُکا ہے۔ میری دولت پر گلچھرے اُڑانے والے سب طوطے اُڑ  گئے۔ان کی طوطا چشمی دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑ گئے۔راتوں کے پچھلے پہر میں تنہائیوں کا زہر پی کر اور تارے گِن کر وقت گزارنا میرا معمول بن گیا۔

’’اتنی تباہی،روسیاہی اور جگ ہنسائی کے بعد بھی تم نے عقل کے ناخن نہیں لیے۔‘‘زادو لُدھیک نے کہا’’ عام طور پر تمھاری ہر بات ہفوات ہوتی ہے لیکن یہ بات خوب ہے کہ تمھارے پاس گنجِ قارون تھا لیکن قارون تو حسن و جمال پر قربان ہو گیا اب صرف کھو پڑی پر گنج ہی رہ گیا ہے۔یہ گنج حسینوں کی تڑ تڑ پیزاروں کا عطیہ ہے۔‘‘

’’ یہ مُو رکھ منشی گھسیٹا خان عقل کے ناخن کیسے لیتا ؟‘‘ اکر و بھٹیارا بولا ’’ عاشقی کی کفش اندازی سے آرزوئیں مات کھا کر رہ جاتی ہیں۔سب لوگ یہی دعا کرتے تھے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ناخنِ  تدبیر ایسے عشقی ٹڈوں کو کبھی نہیں مل سکتے۔‘‘

’’  تم میں کوئی بھی نکتہ سنج نہیں،اب صرف گنج ہی کی گفتگو جاری رکھ کر رنگ میں بھنگ نہ ڈالو۔‘‘ منشی گھسیٹا خان نے کہا’’ میری داستانِ حسرت پر غور کرو۔گرمیوں کی ایک صبح میں بادامی باغ کی سیر کر رہا تھا کہ میرے دل میں نئی ترنگ اُٹھی اور میں نے یہ گیت گایا:

کچی گر ی دا رنگ ہووے تے اکھ بادامی

ایو جیہی مُٹیار مِلے تے دیواں سلامی

ترجمہ:رنگ ہو کچے ناریل جیسا اورآنکھ ہو مثلِ بادام

ایسی دوشیزہ کہیں ملے تو جھُک کے کروں سلام

میری تان سُن کر گوالمنڈی کی جانب سے ایک گوالا میر ی طرف بڑھا اور کہنے لگا کہ تمھاری آواز تو پھٹے ہوئے ڈھول جیسی ہے،آئندہ اس طرح بے سُری آواز میں گیت نہ گایا کرو۔اس خوف ناک آواز کوسُن کر اس کی بھینسیں ڈر جاتی ہیں اور رسی تڑا کر بچ نکلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ہر بھینس یہ چاہتی ہے کہ اس طوفان بد تمیزی سے بچ دور کہیں دور نکل جائے۔‘‘

’’   ارے او بھینسے !تمھاری مظلوم بھینسوں کا اندازہ غلط نہیں۔‘‘ میں نے دانت پیستے ہوئے،عفونت زدہ تھُوک نگلتے ہوئے اور زہر اُگلتے ہوئے کہا’’ تمھاری بھینسیں تمھارے استحصالی روّیے کی وجہ سے تم سے نفرت کرتی ہیں۔تم بے زبان بھینسوں کا دُودھ فروخت کر کے اپنی تجوری بھر لیتے ہو لیکن مظلوم بھینسوں کو پیٹ بھر کر کھانے کو مناسب چارہ نہیں دیتے۔تُف ہے تمھاری سوچ پر،تہمت لگا کے بھینسوں پر جو اپنی تجوری بھرے ایسے شیر فروش کو تو مر جانا چاہیے۔بھینسیں اس سماج سے ناخوش و بیزار ہیں وہ دنیا کے رسم و رواج کو پسند نہیں کرتیں وہ چاہتی ہیں کہ ان کے لیے مٹی کا ڈیری فارم کہیں اور بنا دیا جائے۔ جہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس جیسا جنگل کا قانون نافذ نہ ہو۔ سفید کووں،گندی مچھلیوں،بگلا بھگتوں،جو فروش گندم نما سفہا، کالی بھیڑوں اور بھینسوں کی راہ میں جو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔تمھارے جیسے مفاد پرست گوالے جو ظلم و جور کے حوالے بن گئے ہیں انھیں تو محکمہ انسدادِ  بے رحمیِ حیوانات کے حوالے کرنا چاہیے۔آج کے دور کا لرزہ خیز المیہ اور طُرفہ تماشا یہ ہے کہ محکمہ انسدادِ بے رحمیِ حیوانات کی کایا پلٹ گئی ہے اور اب یہ محکمہ اِمدادِ بے رحمی ء حیوانات بن چُکا ہے۔ اب تو یہی ڈیری فارمنگ اور سائنس کا حوالہ ہے،ہر زباں پر بھینس اور گوالا ہے۔‘‘

’’بند کر ویہ بے سرو پا فلسفیانہ باتیں۔‘‘گوالے نے اپنی آستین سے اپنے منہ سے بہنے والا جھاگ صاف کرتے ہوئے کہا ’’تمھیں فلسفے کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں اور رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہو۔میر ی یہ بات کان کھو ل کر سن لو اگر آئندہ تم نے یہ بے سُرے گیت الاپے تو میں تمھاری زبان گُدی سے کھینچ لوں گا۔کہاں سے آ گیا ہے شُوم ناہنجار پیدائشی ڈُوم۔‘‘

اس کی قدر ناشناسی کے باوجود میں نے ہمت نہ ہاری اور گلوکاری کا یہ سلسلہ چوری چھُپے جاری ر کھا۔ایک دن میری اُمید بر آئی اور ہیرا منڈی سے ایک حسینہ نمودار ہوئی۔ یہ میرے خوابوں کی حسین و جمیل ملکہ تھی۔اس کا رنگ کچے ناریل کی طرح سفید تھا اور چشمِ غزال بالکل بادام کی صورت میں تھیں۔اس کی چال کڑی کمان کے تیر کے مانند تھی۔اس حسینہ کو دیکھتے ہی میرے ہوش و حواس رخصت ہو گئے اور میں وصل کی تمنا لیے اسے دیکھتا رہ گیا۔میرا سینہ و دِ ل جو حسرتوں سے چھا گیا تھااس حسینہ کو دیکھتے ہی میرے دِل میں ایک لہر سی اُٹھی۔میں اُٹھا اور میں نے اُٹھ کے قدم نازنیں کے لیے۔میرا جگر دیکھو کہ میں کاسۂ چشم لیے اپنی جان پر کھیل کر اس حسینہ کے قدموں پر گر گیا اور اس سے حسن کے جلووں کی خیرات طلب کی۔میری یہ بے ساختگی،بے تکلفی اور بے باکی اس شوخ کو پسند نہ آئی اور اس نے میرے گریبان کو اس طرح حریفانہ کھینچا کہ دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں کوئی فاصلہ نہ رہا۔اس کے بعد اس حسینہ نے میری وہ دُرگت بنائی کہ مجھے دن کے وقت سورج کی روشنی میں تارے دکھائی دینے لگے اور چھٹی کا دُودھ بھی یاد آ گیا۔‘‘

علاقے کے لوگوں مجھے وہاں سے اس طرح نکالا جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ بے نیل مرام اور بے آبر و ہو کر کوچۂ محبوب سے نکلنے کے بعد کافی عرصہ تک میں بے یار و مددگار اسی راہوں پر بھٹکتا رہا  جو منزل کا نشاں نہ تھیں۔تلاشِ بسیار کے بعد مجھے سر چھپانے کے لیے جس کٹیا میں جگہ ملی وہ بہت بوسیدہ تھی۔ ایک رات موسلادھار بارش ہوئی چھت کا پر نالہ ٹوٹ گیا اور پانی سے ساری کٹیا بھر گئی۔ جل تھل ایک ہو گیا۔ میرے سارے کپڑے اور بسترعفونت زدہ کیچڑسے لت پت ہو گئے۔ اس عالم یاس میں کسی نے میرے دل شکستہ کا حال نہ پوچھا۔ میں نے اپنے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائی اور گندے نالے پر دھونے  کے لیے لے آیا۔ آنکھوں سے جوئے خوں رواں تھی اور دل اشک بار تھا۔ میں نے تان لگائی:

ٹوٹا پرنالہ ہے

صفائی اور نہانے کو

یہی گند ا نالہ ہے

نالے کے کنارے پر کئی مگر مچھ اور کچھوے رینگ رہے تھے۔میں نے انہیں مخاطب کر کے کہا:

نالے کا کنارا ہے

مگر مچھ کے جبڑوں پر

افسانہ ہمارا ہے

اچانک دریا سے ایک ناگن باہر نکلی  اور بولی :

ــــ   ’’صرف مگرمچھ کے جبڑوں پر ہی نہیں بل کہ بجو، سانپ، بچھو اور لدھڑ بھی تمھارے تغیر حال کو زمانے کے اتفاقات کا نام دیتے ہیں۔ کل تک تمھیں زندگی کی ہر آسائش میسر تھی مگر اب تمھیں اس شہر نا پر ساں میں مانگنے پر بھیک بھی نہیں ملتی‘‘

میں نے ناگن سے پوچھا تم کون ہو؟میرے سب دیرینہ ساتھی تو ابتدا ہی میں دفینہ لُوٹ کر نو دو گیارہ ہو گئے اب تم انتہا کی خبر لینے کیسے پہنچی ہو؟تم ایک خزاں رسیدہ درخت کے پاس اس وقت سایہ طلب پہنچی ہو جب سمے کی دیمک نے تنے کو مکمل طور پر کھوکھلا کر دیا اور آلامِ روزگار کی تمازت اثمار و اشجار کی تازگی کو کھا گئی۔‘‘

ناگن نے کہا’’ میرا نام ظِلو ہے میں نے پا زمین دفن میں اپنی کرگسی آنکھیں کھولیں پچھلے جنم میں طوائف کی حیثیت سے گزرنے والی  میری زندگی میرے لیے شرمندگی کا باعث بن گئی۔میرے چاہِ زقن سے ایک عالم سیراب ہوا،قلزمِ وقار کا ہر گوشہ پایاب ہوا۔میری موت کے بعد زمانے نے مجھے اس ناگن کی صورت میں بازیاب کیا۔ میر ی طرح تم بھی سادیت پسندی کے جان لیوا روگ کے علیل ہوا سی لیے ہر جگہ ذلیل ہو۔ اب تم مرو گے اور اگلے جنم میں تم ایک اژدہا کی صورت میں لذتِ ایذا حاصل کرو گے۔ تمھارے نئے جنم کے بعد ہم دونوں ایک ہو جائیں گے اور انسانیت پر بے پناہ ستم ڈھائیں گے، مظلوموں کے چام کے دام چلائیں گے،ہر گھر میں صفِ ماتم بچھائیں گے اور مجبوروں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیں گے۔‘‘

تم میری حقیقت سے کیسے آگاہ ہو؟ میں نے پوچھا ’’  اگلے جنم کی بات تو تم نے کہ دی لیکن یہ نہیں بتا یا کہ میرا یہ پہلا جنم کب اپنے انجام کو پہنچے گا؟میری زندگی کا موجودہ سفر کبھی منزل سے آشنا ہو سکے گا۔دمِ  آخریں بلا شبہ بر سرِ را ہ ہے لیکن میرے دِلِ نا صبور میں اب بھی وصل کی تمنا انگڑائیاں لے رہی ہے۔کیا مرنے سے پہلے مجھے کسی حسین و جمیل محبوب کی زلفوں کا گھنا سایہ نصیب ہو سکے گا؟‘‘

’’تمھارا وصل اب موت ہی سے ہو گا۔ تم اس وقت اژدہا سے بھی زیادہ زہریلے ہو ‘‘ ناگن اپنا پھن لہراتے ہوئے بولی ’’ تم اپنی انگلی کو اپنے دانتوں سے کاٹو تو تمھارے عفونت زدہ اورسڑاند کے مارے پُورے بدن میں زہر سرایت کر جائے گا۔ تمھارے دانتوں کے مہلک زہر کا تریاق کہیں نہیں ملے گا اور تم خارش زدہ باؤلے کتے کی طر ح تڑپ تڑپ کر مر جا ؤ گے‘‘

’’نہیں ہر گز نہیں مجھے اپنا یہ اذیت نا ک انجام پسند نہیں ‘‘ میں نے روتے ہوئے کہا ’’  اس جبر کا انسداد کرو میری کچھ امداد کرو اور میرا انجام کچھ سہل کرو اور ہمدردی میں اب پہل کرو۔‘‘

’’ ایک صورت اور ہے اور وہ تمھارے لیے محلِ غور ہے۔‘‘ غصے سے بپھری اور شکل سے نِکھری ہوئی ناگن نے کہا’’ جذبۂ رقابت سے خجل بڑے سہل طریقے سے میں تمھیں ڈس لوں لیکن میر ا زہر بہت کم ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ تمھیں ڈسنے سے تمھارا زہر میرے ریشے ریشے میں سرایت کر جائے گا۔ تجھ سے تو زہر خواری کی ذلت اٹھ سکتی ہے لیکن مجھ میں یہ تاب نہیں ‘‘ یہ کہہ کر ناگن دریا ڈُبکی لگا کر غائب ہو گئی اور اچانک ایک مُذی و مکار لومڑی ادھر سے گزری،جس نے نارسائی کے باعث دم رُکنے کے بعد انگوروں کی تُرشی کا بہانہ بنا کر انھیں کھانے کا ارادہ ترک کر کے اس کھسیانی بلی کو بھی مات دی تھی جس نے کھمبا نوچ کر اپنی اندرونی سفلگی کا بر ملا اظہار کیا تھا۔ لومڑی نے جب منشی گھسیٹاخان کو خاک بہ سر،پائمال اور خوار و زبوں دیکھا تو اپنے مکر کی چالوں سے اس کو متوجہ کر نے کی خاطر ٹسوے بہاتے ہوئے بولی ’’اب تو تم پر یہ راز کھُل گیا ہو گا کہ جب ظلم کی فصل پک جاتی ہے تو دست قضا فوراً درانتی سنبھا لیتا ہے اورسروں کی فصل سے کھلیان پٹ جاتے ہیں۔اس وقت فطرت کی تعزیروں سے بچنے کی دوڑ بے فائدہ ہوتی ہے،حالات کا جبر تمھاری کلائی مروڑ کر گردن توڑ دیتا ہے۔اس وقت تم حالات کے نرغے میں آ چُکے ہو۔‘‘

’’تم کون ہو منشی گھسیٹا خان نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا ’’تم نے منشی گھسیٹا خان جسے اپنے عہد کے نعمت خان کلانونت کی حیثیت سے ہر بوالہوس اچھی طرح جانتا  ہے،کے ساتھ اس گستاخانہ لہجے میں گفتگو کی جسارت کیسے کی؟ یہ بھی بتاؤ کہ کُو بہ کُو میری ذلت کی داستان سنا کر میری رسوائی کی جو نوبت آئی ہے اس میں جو قبیح کردار تم نے ادا کیا ہے اس کے پیچھے کس کا اشارہ تھا؟‘‘

’’تُف ہے تم پر کہ تم اپنے خون کو بھی نہ پہچان سکے۔‘‘لومڑی نے عیاری کی منحوس چمک سے لبریز آنکھیں مٹکاتے اور خون سے لتھڑے دانت پیستے ہوئے کہا’’  میں پچھلے جنم میں تیری ماں تھی۔میرا نام ثباتو تھا۔ میری پہچان شہر کی سب سے بڑی نائکہ،رقاصہ،مغنیہ اور طوائف کی تھی۔ ‘‘

’’لوگ مجھے مشکوک نسب کا درندہ قرار دیتے ہیں۔‘‘منشی گھسیٹا خان نے چمگادڑ کی طرح آنکھیں بند کرتے ہوئے اور بُوم کے مانند منہ کھول کر منحوس چیخ نکالتے ہوئے کہا ’’میرا مرحوم باپ زوال کے وبال کے بعد کس حال اور کس خیال میں ہے؟‘‘

’’تمھارا نسب یقیناً مشکوک ہی سمجھا جائے گا کیونکہ میں خود بھی تمھاری حقیقت کی شناسا نہیں۔‘‘مکار لومڑی نے دُم ہلاتے ہوئے کہا’ ’  تو نہ صرف ثقلِ سماعت کے باعث بہرا ہے بل کہ عقل و فہم سے بھی یکسر بے بہرہ ہے۔ تمھارے باپ کو شہر کا سب سے ظالم بھڑوا سمجھا جاتا تھا۔اب وہ مسخرادوسرے جنم میں بھیڑیے کے روپ میں جنگلوں کی خاک چھانتا پھرتا ہے۔‘‘

’’اب میں یہ بات اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔‘‘منشی گھسیٹا خان نے مثلِ  حمار کان ہلاتے ہوئے اور دُم دباتے ہوئے کہا ’’جب میں جوان تھا تو لوگ مجھے علاقے کا مشاق خرسوار،مضبوط لٹھ بردار بھتہ خور قرار دیتے تھے۔‘‘

’’سچ کہتے ہو،یوں تو جھُوٹی ہے ؟ذات منشی کی لیکن دِل کو لگتی ہے بات منشی کی۔‘‘لومڑی نے اپنے غلیظ پنجوں سے اپنا منہ صاف کرتے ہوئے کہا ’’تمھار باپ بھی ملک کا بڑا خر سوار تھا۔وہ ایک بار بپھرے ہوئے گدھے سے گتھم گتھا ہو گیا اور گدھے کو پچھاڑ ر اسے دو لتیاں رسید کیں۔اس کے بعد وہ پورے علاقے میں خر افگن کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔تمھارا باپ بہلو خان ایک خو نخوار  بھیڑیا بن کر جنگل میں منگل کی کیفیت سامنے لا رہا ہے۔یوں تو جنگل میں اب بدھ اور یُدھ کا سماں ہے اس کے باوجود اس بھیڑیے پرخچر کا گُماں ہے۔اس جنگل میں نافذ جنگل کا قانون مسلسل مظلوموں کی آرزوؤں کا خون کر رہا ہے اور ہر درندہ اس خون آشامی پر دوسرے درندے کو مطعون کر رہا ہے۔کئی چرواہے اپنی اپنی ڈفلی لیے اور اپنا اپنا راگ الاپتے اس جنگل میں بد روح نما ہوتے ہیں لیکن مضبوط کاٹھی کو جو بھی لٹھ بر دار چرواہا خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے،وہی اپنی پسند کی بھینس کو ہانک کر لے جاتا ہے اور میدان ما ر لیتا ہے۔

منشی گھسیٹا خان،زادو لُدھیک اور اکرو بھٹیارا ہوس اور جنسی جنون کی جن راہوں پر چل نکلے تھے وہ انھیں مکمل تباہی اور انہدام کی جانب لے جا رہی تھیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضے بھی بر ق رفتاری کے ساتھ بدلتے رہے،خوشی کے لمحات غموں میں ڈھلتے رہے۔ان کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ان کی آستینوں میں سانپ بھی پلتے رہے مگر یہ ان تلخ حقائق سے بے خبر اپنی دھُن میں مگن رہے مگر من ہی من میں کُڑھتے اور جلتے رہے۔موقع پرستی اور منافقت کی اساس پر استوران تینوں بے ضمیروں کی رفاقت گرگ آشتی کی مثال تھی۔دن کی روشنی میں تو یہ تینوں بادامی باغ میں مل بیٹھتے اور چوری،ٹھگی اور لوٹ مارکی وارداتوں کے منصوبے بناتے۔ چور محل میں جنم لینے والے کئی سانپ تلے کے بچھو، بے شمار زاغ و زغن اور شہر خموشاں کے بجو بھی ان کے ہم نوا تھے۔شام کے سائے ڈھلتے ہی و ہ سب اپنی اپنی راہ لیتے مگر یہ تینوں ایک دوسرے سے چھُپ چھُپ کر منشیات اور جنس و جنون کے مکروہ دھندے سے کالا دھن کمانے میں مصروف ہو جاتے۔ منشی گھسیٹا خان ان کا گُرو تھا لیکن اس کے کرگس قماش کے دونوں چیلے زندگی بھر اپنے گُرو کو نوچتے رہے اور اس کی بربادی کے بارے میں سوچتے رہے۔ گردشِ حالات سے ظاہر ہوتا تھا کہ منشی گھسیٹا خان اب اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا تھا،فطرت کی سخت تعزیریں اس کی منتظر تھیں۔جب بھی ہجوم یاس میں اس کا دل گھبراتا تو بادامی باغ کا چکر لگا کر راوی کے کنارے پر جا نکلتا اور ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پلٹنے لگتا۔

گرمیوں کا موسم تھا،منشی گھسیٹا خان راوی کے کنارے چہل قدمی میں مصروف تھا۔شام کے سائے ڈھل رہے تھے منشی گھسیٹا خان واپس بادامی باغ جانے کے لیے ہڑ بڑا کر اٹھا۔ اچانک اس کا سر چکرا گیا اور پاؤں لڑکھڑا گئے۔ وہ دریائے راوی کے کنارے لڑھکتا ہوا دریا کے گرداب میں جا گرا۔ بے شمار مگر مچھ پانی پر تیرتے ہوئے اس ننگ وجود پر جھپٹے اور پلک جھپکتے میں اس کی تکا بو ٹی کر دی۔ اگلے روز راوی کے کنارے پر ایک خون آشام اژدہا نمودار ہوا جسے پہلے کسی نے نہ دیکھا تھا۔ اس اژدہا کے خوف سے لوگ راوی کے کنا رے پر جانے سے خوف زدہ رہنے لگے۔بادامی باغ میں جرائم پیشہ اُچکوں میں سے ایک کم ہو گیا۔اب اس کے باقی دو ساتھی زادو لُدھیک اور اکرو بھٹیارا جب بادامی باغ سے نکل کر راوی کے کنارے پہنچتے اور وہاں آنکھوں سے شعلے نکالتے،منہ سے خون اُگلتے اس مانوس نووارد اژدہا کو دیکھتے جو چوہوں اور حشرات پر جھپٹ رہا ہوتا   تو دائمی مفارقت دے جانے والے  اپنے گُرو کو یاد کر کے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے اور وہ بے اختیار پُکار اُٹھتے:

تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

٭٭٭

 

 

 

سیہنا

 

 

نوجوان سیہنا کی عین عالمِ شباب میں ناگہانی موت کی خبر سن کر بستی کا ہر حساس انسان لرز اُٹھا۔ زندگی کا ساز بھی ایک عجیب نوعیت کا ساز ہے، اس کے ساز سے نمو پانے والا زندگی کا سوزِ دروں قلب اور روح کے احساسات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ زندگی میں کچھ ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو بادی النظر میں تو معمولی لوگ ہوتے ہیں لیکن ان سے وابستہ یادیں غیر معمولی نوعیت اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ لوگ جب ہمارے پاس ہوتے ہیں تو ہم ان کی کوئی قدر نہیں کرتے لیکن جب یہی معمولی لوگ زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیتے ہیں تو معاشرتی زندگی میں جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ اندیشۂ شام و سحر کے امین اوقات، اتفاتات، سانحات، ، تعلقات، زندگی کے ارتعاشات، اور احباب سے وابستہ تلخ و شیریں یادوں کے ہیجانات کے لوحِ دِل پر غیر مختتم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیہنا بھی ایک انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے نہایت دیانت دار محنت کش کا بیٹا تھا۔ سیہناکی بے بسی کے عالم میں موت نے بستی کے تمام مکینوں کو یاس و ہراس میں مبتلا کر دیا۔ یہ کڑیل نو جوان تن تنہا آٹھ برقی کھڈیاں چلاتا۔ صبح سے شام تک فیکٹری ایریا میں انتہائی صبر آزما اور کٹھن حالات میں مزدوری کرتا اور کئی بار اسی فیکٹری میں دن اور رات کی ڈبل شفٹ بھی لگاتا۔ رزقِ حلال کما کر اپنے بوڑھے والدین کے لیے دو وقت کی روٹی اور دوا، علاج کے لیے درکار رقم کا بندو بست کرتا تھا۔ جب سے سیہنانے مزدوری پر جانے کے کام کا آغاز کیا اس کے گھر والوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی جس سے اس کے گھر کی روزانہ آمدنی میں اضافہ ہو گیا۔ قرض کا بوجھ اُترنے لگا اور خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ  بہاراں کی موہوم سی اُمید پیدا ہو گئی۔ اپنے والدین کی ہدایت کے مطابق سیہنا نے ایک ڈاکیے کی رہنمائی سے نزدیکی ڈاک خانے میں اپنا بچت کھاتہ بھی کھو ل لیا تھا۔ سیہنا کی ماں شاہدہ اور باپ فدا بہت مطمئن و مسرور رہنے لگے۔ وہ اس آس پر زندہ تھے کہ شاید پتھر کی بھی تقدیر بل جائے۔ ان کا قدیم آبائی مکا ن جو طُوفانِ نوحؑ کی باقیات کا منظر پیش کر رہا تھا اب ایک کھنڈر کی شکل اختیا ر کر گیا تھا۔ سیہنا کے کام پر جانے کے بعد اس میں تعمیری نوعیت کی مرمت اور برائے نام سی تبدیلیا ں رونما ہونے لگیں۔ پہلے اس بوسیدہ مکان میں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہوتا تھا، اب اس میں بجلی کا میٹر لگ گیا۔ نصف صدی سے مرمت طلب شکستہ دیوار وں اور چھلنی کی طرح ٹپکنے والی چھتوں کی مرمت کر دی گئی۔ یوں تو سیہنا کا مکان گارے اور کچی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا لیکن گلی کی جانب والی دیوار دوم اینٹوں سے نئے سرے سے تعمیر کی گئی، اس دیوار کو پلستر کر دیا گیا۔ ایک دن میں وہا ں سے گزرا تو یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو ئی کہ سیہناکے گھر کی گلی والی دیوار میں کیکر کے پُرانے دیمک خوردہ دروازے کی جگہ لوہے کا ایک خوب صورت دروازہ نصب ہو چکا تھا، جس پر نیلا روغن بہت بھلا لگ رہا تھا۔ اور ایک مربع فٹ لکڑی کی تختی پر سفید روغن کر کے اس پر نیلی روشنائی سے جلی حروف میں لکھا تھا ’’ قصرِ سیہنا‘‘۔ بعض لوگوں کی کسرِ  نفسی اور عجز و انکسار میں لپٹی رعونت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے بلند و بالا قصر و ایوان پر جھونپڑی لکھ دیتے ہیں جیسے ’’ نمرود کاٹیج‘‘ وغیرہ۔ ہر فرعون، نمرود، فریدوں اور قارون عام آدمی کا مکھوٹا اپنے چہرے پر چڑھا کر سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں دُھول جھونکتا ہے مگر اس کا کچا چٹھا سب کے سامنے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک کُٹیا پر قصر کی تختی دیکھ کر ہر شخص حیرت اور استعجاب میں ڈوب جاتالیکن غریبوں نے اپنے دل کی شادمانی کے لیے جس انتہائی مختصر اورسہل راہ کا انتخاب کیا وہ خواب سراب کے سوا کچھ بھی تو نہ تھا۔

محنت کش طبقے کا یہ نفسیاتی مسئلہ ہے کہ یہ روکھی سوکھی کھا کر نل کا پانی پی کر بھی ہر حال میں اپنے خالق کا شکر ادا کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نوشتۂ تقدیر اور حالات کا جبر ہے جو انھیں صبر و شکر کے ساتھ زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ فدا اور شاہدہ نے اپنے اکلوتے بیٹے سیہنا کی شادی کے اخراجات کے لیے مناسب رقم جمع کر لی۔ انھوں نے اپنے بیٹے سیہنا کو ہدایت کر دی کہ وہ گھر کے اخراجات کے لیے درکار رقم الگ کر نے کے بعد باقی رقم نزدیکی ڈاک خانے میں اپنے کھاتے میں جمع کر ا دیا کرے۔ فدا اور شاہدہ بھی مہینے میں ایک بار مقامی ڈاک خانے میں جاتے اور مہینہ بھر میں وہ اپنا پیٹ کاٹ کر جو رقم پس انداز کرتے وہ سیہناکے بچت کھاتے میں جمع کرا دیتے۔ جاگتی آنکھوں سے روشن مستقبل کے خواب دیکھنے کی آرزو اور اُن سُندر سپنوں کی تعبیر کے انتظار میں اُن کی آنکھیں پتھر ا گئی تھیں۔ الم نصیبوں کے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ جب وہ فاقہ کشی کا شکار ہوں تو کوئی اُنھیں نانِ جویں تک دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اور جب وہ روکھی سُوکھی کھا کر پیٹ کا دوزخ بھرنے کی سکت رکھتے ہوں تو کوئی انھیں دیکھ نہیں سکتا۔ حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے تھے۔ سیہنا کے والدین فدا اور شاہدہ اپنی زندگی کے بہت کٹھن حالات سے گزر رہے تھے۔ اُس کی ماں شاہدہ دن بھر دولت مند لوگوں کے گھروں میں صفائی اور خانہ داری کے کام انجام دینے کے لیے نوکری کرتی۔ اپنے فارغ اوقات میں یہ محنت کش عورت کپڑوں پر کشیدہ کاری کرتی، شیشوں والی پنکھیاں بناتی اور اُونی سوئیٹر بنا کر رزقِ حلال کماتی۔ فدا نے زندگی بھر معماروں کے ساتھ مل کر مکانات کی تعمیر میں مزدوری کی۔ چار سا ل قبل ایک مکان کی تعمیر میں مزدوری کے دوران وہ زیرِ  تعمیر ہال کی تعمیر کے لیے بنائے گئے ایک قالب پر کھڑا تھا کہ قالب کے تختے ٹوٹ گئے۔ اس حادثے کے نتیجے میں دو مزدور زندگی کی بازی ہار گئے، فدا شدید زخمی ہو اور اس کی ایک ٹانگ ٹُوٹ گئی مگر اس نے غم کو گلے کا ہار نہ بنایا۔ زیرِ تعمیر ہال کے مالک سرمایہ داروں میں سے کسی نے ان مزدوروں کے شکستہ دل کا حال نہ پُوچھا۔ اس کی زندگی تو بچ گئی لیکن اس حادثے کے بعد وہ مزدوری کرنے اور بھاری بوجھ اُٹھانے کے قابل نہ تھا۔ انسانی زندگی کئی سانحات اور حوادث سے عبارت ہے وہ یہ بات اچھی طرح جا نتا تھا کہ ان حادثات کے بعد انسان کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکں اس کی روح زخم زخم ہو جاتی ہے اور پُورا  وجودکر چیوں میں بٹ جاتا ہے۔ اس تکلیف دہ حادثے کے زخم بھرنے کے بعد فدا نے ایک نئے عزم کے ساتھ زندگی کے کٹھن سفر کا آغاز کیا۔ وہ منہہ اندھیرے گھر سے نکلتا، دریائے جہلم اور چناب کے سنگم پر واقع تریموں ہیڈ ورکس کے نواح میں میلوں تک پھیلے خود رو سر کنڈوں سے مونج کا ٹتا اور اس کا گٹھا سر پر اُٹھا کر گھر لاتا، مونج سوکھ جانے کے بعد اپنے گھر کے چھپر میں بیٹھ کر مونج کُو ٹتا۔ اس کے بعد ہاتھ پر مونج کا بان بناتا اور مونج کا یہ پُختہ بان شہر میں جا کر فروخت کر دیتا۔ فدا کا بنایا ہو مونج کا بان لوگوں میں بہت مقبول تھا چار پائیاں بُننے کے لیے لوگ یہ بان ہاتھوں ہاتھ لیتے مگر اس کے بد طینت حاسد اس کی بڑھتی ہوئی آمدنی، متوقع خوش حالی اور فراغت کو دیکھ کر اپنی بے بصری پر کفِ افسوس ملتے اور اپنے شب و روز کے معمولات کے انجام کے بارے میں سوچ کے ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ جاتے۔

فدا اور شاہدہ نے سیہنا کی شادی کے لیے ہم پلہ رشتے کی تلاش شروع کر دی۔ چار سال کے مختصر عرصے میں فدا، شاہدہ اور سیہنا کی خون پسینے کی کمائی میں جو بچت ڈاک خانے کے بچت کھاتے میں جمع ہو سکی وہ پانچ لاکھ تھی۔ سب نے اسے قدرتِ  کاملہ کی کرم نوازی پر محمول کیا۔ موسم کی اداؤں کو سمجھنے والے اس امر سے بخوبی آگا ہ ہیں کہ لوگ تیزی سے تغیر پذیر موسم کے مانند روپ بدل لیتے ہیں۔ بعض ابن الوقت لوگ تو اپنا سوانگ بدلنے میں گرگٹ کو بھی مات دیتے ہیں۔ ہر قسم کی سہولیات سے محروم قدیم کچی آبادی کے وہ لوگ جو اس غریب خاندان کی غربت کے باعث ان لوگوں کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، وہ بھی اب ان کی جانب مائل بہ کرم ہو گئے۔ خزاں کی مسموم ہواؤں نے ان کے گلشنِ ہستی میں اُمیدوں کی کلیوں اور توقعات کے شگوفوں کو جُھلسا دیا تھا۔ اچھے دنوں کے بارے میں اب ان کی اُمید بر آنے اور چشم کے زار رونے کی کیفیت کے تھمنے کی صورت نظر آ رہی تھی۔ میر ے ایک پڑوسی ارشد کے ساتھ اس خاندان کے دیرینہ مراسم تھے۔ ارشد نے اس مفلوک الحال خاندان کی زندگی کے بارے میں مجھے بتا یا کہ ہمیشہ کوئی بلا ان بد نصیبوں کے تعاقب میں رہتی ہے۔ عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں لیکن ان مجبوروں کی زندگی میں فراز عنقا ہیں اور نشیبوں کی بھر مار ہے۔ تقدیر کے رازوں کا مظہر یہ ایک ایسا معما ہے جسے سمجھنا اور سمجھاناممکن ہی نہیں۔ یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ ان مجبوروں کی حیات مستعارکی سب رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں مختصر اور آہیں بے اثر کیوں کر دی جاتی ہیں۔ جب بھی ان کے گلشن ہستی میں اُمید کا کوئی گلاب نمو پاتا ہے تو اہلِ جور اس میں حسد کے خارِ مغیلاں چبھو کر ان کی روح کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیتے ہیں۔ نامعلوم ان کے گھر پر آسیب کا سایہ ہے، کسی جن، بھوت، چڑیل، آدم خور، کالے جادو یا بد روح کا اثر ہے کہ جب بھی ان کے گھر میں خوشی کا کوئی امکان پیدا ہوتا ہے، ایسے پُر اسرار حالات پیدا ہو جاتے کہ اِن کی اُمیدوں کی فصل غارت ہو جاتی اور صبح شام کی تمام محنت اکارت چلی جاتی۔ ایک دن اسی موضوع پر گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ارشد نے کہا:

’’آج سیہنا، اس کا باپ فدا اور اس کی ماں شاہدہ یہاں مجھے ملنے آ رہے ہیں۔ تم بھی یہیں رُک جاؤ اور ان الم نصیبوں کے پیچیدہ مسائل کی گُتھی سُلجھانے کی کوششوں میں میری مدد کرو۔ ان کے ساتھ میرا درد مندی اور خلوص کا جو تعلق ہے و ہ میں بر قرار رکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

میں نے ارشد سے پوچھا ’’خیر تو ہے !وہ کس مقصد کے لیے یہاں آ رہے ہیں۔ ‘‘

’’کوئی خاص مقصد تو نہیں ‘ارشد نے سرسری انداز میں کہا’’ یہ بھی عجیب لوگ ہیں، خود کو تباہ کر لینے کا جب بھی کوئی غیر ذمہ دارانہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو محض مجھے آگاہ کرنے اور دِل دُکھانے کی خاطر مشورے کے لیے یہاں چلے آتے ہیں۔ ‘‘

’’ یہ تو بڑی حیران کُن بات ہے۔ ‘‘ میں نے کہا ’’کوئی بھی انتہا پسندانہ فیصلہ کر لینے اور اس پر عمل کرنے کی ٹھان لینے کے بعد کسی کو اس سے آگاہ کر کے آزردہ کرنے اور اس کے بارے میں مشورہ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟‘‘

’’اب میں ان لوگوں کی ضرورت کی وضاحت کیسے کروں ؟‘‘ارشد نے بیزاری سے کہا’’جس مشورے اور آگاہی کو آپ غیر ضروری سمجھتے ہیں، اُسی کو یہ لوگ نا گزیر خیال کرتے ہیں۔ اپنی بربادی اور انہدام کی پہاڑ جیسی غلطیاں کرنے کے باوجود بھی انھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور ذرا ملال تک نہیں ہوتا۔ یہ مزدور اپنے دِل کی ویرانی کو تقدیر کے کھاتے میں ڈال کر اپنی زندگی آہوں، پچھتاووں، سسکیوں اور خون کے گھونٹ پینے میں گزار دیتے ہیں۔ یہ مجبور انسان وہم و گُمان کے اسیر ہیں اور نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ ان کی کور مغزی اور بے بصری کا یہ حال ہے کہ جب تک ٹھو کر پہ ٹھوکر نہ کھائیں انھیں سکون نہیں ملتا۔ گردشِ ایّام نے ان کے ساتھ ہمیشہ عجب کھیل کھیلے ہیں۔ بے چین، گھبرائے ہوئے خاک بہ سر پھرنا اور در در کی ٹھوکریں کھانا ان کا مقدر ہیں۔ اُمنگوں کے لاشے اُٹھائے، حسرتوں کی دہکتی آگ میں ہمہ وقت سُلگتے یہ خزاں رسیدہ لوگ بُزدلانہ توہم پر ستی، مجنونانہ مہم جوئی اور احمقانہ قسمت آزمائی کی خاطر ٹھوکر کے علاقے میں جانے والے ہیں۔ ‘‘

ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ فدا، شاہدہ اور سیہنا پریشانی اور مایوسی کے عالم میں وہاں آ پہنچے۔ ایک ان جانے خوف کے باعث فدا اور شاہدہ دونوں کے چہرے ہلدی ہو رہے تھے۔ سیہنا کی آنکھیں بوٹی ہو چُکی تھیں اور وہ لڑ کھڑا رہا تھا۔ ہمارے قریب آ کر فدا نے بھرائی ہو ئی آواز میں کہا:

’’ہم نے یہ بستی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت ہو چُکی، اب ہم چاروں طرف بکھرے دُکھوں کے جال سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ہم محنت کشوں کی یہاں کوئی قدر نہیں کرتا۔ ہم جان مار کے کام کرتے ہیں لیکن کبھی ہمیں کوئی انعام نہیں ملا۔ ‘‘

’’کیا معاملہ ہے ؟اس قدر پریشان کیوں ہو ؟‘‘ارشد نے نرم لہجے میں پُوچھا ’’اس بستی کو چھوڑنے کے بعد تم کہاں جاؤ گے؟یہاں تمھیں کن مشکلات کا سامنا ہے جن سے گھبرا کر تم بستی چھوڑنا چاہتے ہو؟حوصلے اور اعتماد سے کام لو، سب مشکلات کا حل نکل آئے گا۔ کرب ناک حالات کے جبر کے باوجود صبر سے کام لینا چاہیے۔ قادرِ مطلق کے انصاف اور مظلوموں کی دادرسی میں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن وہاں اندھیر ہر گز نہیں۔ تمھارا دماغ تو نہیں چل گیا کہ تم مزدور ہو کر انعام کی تمنا کر رہے ہو۔ یہاں تو صرف جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملتا ہے۔ ‘‘

’’اس بستی میں واقع ہمارے پُرانے گھر میں جن، بُھوت، چڑیلیں، آسیب، بد روحیں، آدم خور اور سر کٹے انسان مستقل طور پر ڈیرہ ڈال چُکے ہیں۔ ‘‘شاہدہ نے روتے ہوئے کہا ’’اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے، ہماری زندگی خطرے میں ہے۔ چڑیلیں ہمارے گھر سے سامان اور پیسے چُرا کر لے جاتی ہیں۔ میرے کانوں میں ڈالی ہوئی سونے کی بالیاں تک چڑیلوں نے اُتار لیں۔ ‘‘

’’ سونے کی بالیاں چوری ہونے کے بعد تم نے نا معلوم چڑیلوں کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا، یہ سب توہم پرستی اور خام خیالی ہے۔ ‘‘ارشد نے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا’’ جس مخلوق کا ذکر تم لوگ کر رہے ہو اس پُر اسرار مخلوق کو پہلے تو اس علاقے میں کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘

’’  ہم تھانے میں گئے تھے اور تھانے دار سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد چڑیلوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ درج کریں لیکن اس نے ہنس کر ہمیں دھتکار دیا اور ہم مظلوموں کا مذاق اُڑایا۔ جہاں آگ جلتی ہے صرف وہی جگہ آگ کی گرمی کو محسوس کر سکتی ہے ‘‘ سیہنا  نے اضطراب سے جواب دیا ’’  صرف ہمیں خبر ہے کہ ہم یہاں کن مصیبتوں میں گِھر گئے ہیں۔ گنڈے، ٹونے اور کالے جادو نے ہماری زندگی بر باد کر دی ہے۔ ہم ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو چار قدم پیچھے کی جانب جا پڑتے ہیں۔ یہاں ہر روز صبح کے وقت جب میں کام کے لیے اپنے گھر سے باہر نکلتا ہوں تو ایک منحوس کالی بلی میرا راستہ کاٹتی ہے، ہمارے کمرے کی چھت سے چمگادڑ چمٹے رہتے ہیں، صحن میں کیکر کے سوکھے درخت پر بے شمار اُلّو اپنے گھونسلوں میں رہتے ہیں، دن کے وقت ہمارے گھر کے گرتے ہوئے کمرے کی منڈیروں پر بیٹھے درجنوں زاغ و زغن اور کرگس ہمہ وقت پر جھاڑتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’ کاہلی، غربت اور احساسِ محرومی نے تمھیں جذباتی طور پر اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ تم نفسیاتی مریض بن گئے ہو۔ ‘‘ ارشد نے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا’’ کالے جادو کے بارے میں تمھاری بات تو سفید جُھوٹ ہے۔ بلاوجہ لال پیلا ہونے اور خوف زدہ رہنے کی ضرورت نہیں تم نے جن بلاؤں کا ذکر کیا ہے ان کی سرے سے کوئی حقیقت ہی نہیں۔ کھسیانی کالی بِلیوں کو تو کھمبا نوچنے سے فرصت نہیں وہ تمھارا رستہ روکنے میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں ؟رہ گئے زاغ و زغن، کر گس اور بُوم و شپر تو یہ سب طیور تو عرصہ ہوا عقابوں کے نشیمن میں جا گُھسے ہیں جہاں وہ آرام سے دادِ عیش دے رہے ہیں۔ اُنھیں باؤلے کُتے نے کاٹا ہے کہ وہ سیم و زر سے آراستہ آشیاں، مے و انگبیں اور شباب کی رنگینیاں چھوڑ کر تمھارے زندان نما گھر کا رُخ کریں۔ ‘‘

’’یہ مکان منحوس ہے اور یہاں رہنے والوں کی زندگی ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے۔ ‘‘سیہنا نے پُر نم آنکھوں سے کہا ’’ہم کل صُبح یہ گھر چھوڑ دیں گے۔ میں نے اپنے تین مرلے کے مکان کا سودا دو لاکھ روپے کے عوض کر دیا ہے۔ بستی کا ایک باشندہ’’ ناسو‘‘جو آتش بازی کے سامان، سیمنٹ، کھاد اور نمک کا کاروبار کرتا ہے، وہ یہاں سٹور بنائے گا۔ اپنے آبائی مکان کی پُوری رقم میں نے وصول کر لی ہے۔ اس وقت ہم سب آپ سے الوداعی مُلاقات کے لیے آئے ہیں۔ اس بار ہم جس طرح بچھڑ ر ہے ہیں شاید ہماری اگلی ملاقات نیند اور خوابوں میں ہوسکے گی۔ ‘‘

ارشد سمجھ گیا کہ ’’ ناسو‘‘ جو ایک رسوائے زمانہ سمگلر اور منشیات کے دھندے میں ملوث کالے دھن والا نو دولتیا تھا، اس نے ان لوگوں کو یہاں سے نکال کر ان کے مکان میں اپنا دھندہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ جگہ اس نا ہنجار کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوسکتی تھی۔

’’اچھا تم لوگ جہاں رہو خوش رہو ‘‘ارشد نے اس لا حاصل بحث کو ختم کرتے ہوئے کہا ’’اگر تم نے اپنی تخریب کے ذریعے اپنی لُٹیا ڈبونے کا فیصلہ کر لیا ہے توکس کی یہ تاب ہے کہ تمھیں اس سے بچا سکے؟‘‘

بوجھل قدموں سے یہ تینوں وہاں سے اپنی نا معلوم منزل کی جانب چل پڑے۔ میں نے محسوس کیا کہ فدا اور شاہد دُکھی دِل سے اپنا آبائی مکان چھوڑ رہے تھے۔ وہ اس بستی سے اس طرح اُٹھے جس طرح کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔

وقت برق رفتاری سے گزرتا رہا، وقت کا یہی توسب سے بڑا المیہ ہے کہ یہ بڑی تیزی کے ساتھ بیت جاتا ہے۔ جب ہمیں ہوش آتا ہے تو ہم یہ دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں کہ بیتے لمحات اب ہماری دسترس میں نہیں رہے۔ دو ماہ کے بعد ارشد تعلیمی مسائل کے سلسلے میں تین سال کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔ اپنے گھریلو معاملات کے باعث مجھے اپنے آبائی گاؤں منتقل ہونا پڑا۔ اس عرصے میں مجھے ان لوگوں کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکیں۔ زندگی کی برق رفتاریوں، تقدیر کے اشاروں اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر انسانی تدابیرخس و خاشاک کے مانند بہہ جاتی ہیں۔ ان مجبوروں کی یادوں کے زخم کبھی نہ بھر سکے، میں کسی نہ کسی بہانے ان کو یاد کرتا رہا لیکن ان کی تلاش میں نکلنے کا حوصلہ نہ تھا۔ یہ تو اپنا کوئی نشانِ منزل تک دے کر نہیں گئے تھے۔ انھوں نے تو جاتے جاتے یک طرفہ طور پر معتبر ربط کے تمام سلسلے ہی منقطع کر لیے تھے۔ رہا دید وا دید کا معاملہ تو میرے ساتھ ان کے اتنے قریبی مراسم کبھی نہیں رہے تھے کہ میں ان لوگوں سے ملنے کے لیے ان کی نئی بستی میں جاتا یا وہ میرے ہاں آ کر اپنے حالات سے مجھے آ گاہ کرتے۔ وقت کے ہاتھوں زندگی کی ایسی دُوریاں رفتہ رفتہ مجبوریوں کا روپ دھار لیتی ہیں اور انسان گردشِ حالات کے قہر کے سامنے سپر انداز ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے مدارج کی تکمیل کے بعد ارشد واپس اپنے گھر پہنچا تو میں اپنے اس دیرینہ رفیق سے ملنے اس کے گھر چلا گیا۔ باتوں باتوں میں ارشد نے فدا، شاہدہ اور سیہنا کا بھی ذکر کیا۔ وہ  ان تین مفلوک الحال محنت کشوں کے بارے میں فکر مند تھا جو آلام روزگار کے مسموم بگولوں کی زد میں آنے کے بعد حالات کے ر حم و کرم پر تھے۔ اس نے مجھے بتایا:

’’ قحط الرجال کے موجودہ دور میں بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلا رہا ہے۔ معاشرتی زندگی ایک جنگل کا منظر پیش کرتی ہے جہاں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ اس گھنے اور مخدوش جنگل میں منگل ہو یا جنگل میں مور ناچے کسی کو ا س کی پروا نہیں۔ ہماری محفل سے اُٹھ کر سرابوں کے عذابوں میں اُلجھنے والوں کی داستانِ حسرت سن کر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’یہ بات تو سچ ہے مگر ہم ان تین محنت کشوں کی تلاش میں جائیں تو کہاں جائیں ؟‘‘میں نے کہا ’’نا معلوم اب وہ کس حال میں ہوں گے؟ان خانماں برباد لوگوں کو گردشِ افلاک نے حالات کی قبروں کے دلخراش کتبوں میں بدل دیا ہے۔ ‘‘

’’ ان لوگوں کا اتا پتا صرف رسوائے زمانہ منشیات فروش ناسوکو معلوم ہے اور اس قماش کے مسخرے سے ملنا میرے لیے ممکن ہی نہیں تھا‘‘ ارشد نے اطمینان سے کہا ’’میں نے ہمت نہیں ہاری اور ناسو کے ایک معتمد ساتھی کی مدد سے ا ن لوگوں کا ٹھکانہ معلوم کر لیا ہے۔ اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں ہونا بے حسی کی علامت ہے، اگلے منگل کو ہم وہاں چلیں گے اور ان سے مل کر ان کی پُر آشوب زندگی کی حقیقی معنویت کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘

اپنے طے شدہ وقت کے مطابق اگلے منگل کو ہم اپنے ان پُرانے پڑوسیوں سے ملنے ٹھوکر کے علاقے میں پہنچے۔ ایک شکستہ سی کٹیا میں زمین پر بچھی پھٹی ہوئی میلی چٹائی پر فدا اور شاہدہ بیٹھے اپنے شباب اور ایام گزشتہ کی نوحہ خوانی میں مصروف تھے۔ ہمیں دیکھ کر ان کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو گئی۔ ان کے اعضا مضمحل ہو چُکے تھے اور آلامِ  روزگار کی دُھوپ میں مسلسل جلنے کے بعد دونوں سُوکھ کر کا نٹا ہو چُکے تھے۔ اس دنیا کے آئینہ خانے میں مصائب و آلام نے انھیں تماشا بنا دیا تھا۔ سامنے ایک کھری چارپائی پر میلے اور پھٹے کپڑوں میں لپٹا ایک نو جوان بے حد پرانی اور پیوند لگی میلی کچیلی چادر اوڑھے لیٹا تھا۔ یہ سیہنا تھا جو اس قدر نحیف و نا تواں ہو چکا تھا کہ اس کی شناخت بھی مشکل تھی۔ ہمیں دیکھ کر فدا نے روتے ہوئے کہا:

’’  یہ  ہمارا لختِ جگر سیہنا ہے جسے اٹھارہ برس تک ہم نے گود میں لے کر پالا ہے، حالات کے ستم نے اس گور کنارے پہنچا دیا ہے۔ ‘‘

شاہدہ کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور مدام فاقہ کشی کے باعث وہ بہت دھیمے لہجے میں بولی ’’تم اب آئے ہو جب سارا کھیل ہی ختم ہو چُکا ہے۔ اب تو موت ہی ہمارے دُکھوں کا مداوا کر سکے گی۔ اس بے حس دنیا سے تو ہمیں کسی قسم کی ہمدردی کی کوئی توقع نہیں۔ ‘‘

’’تمھارا یہ حال کیسے ہوا ؟‘‘ارشد نے گلو گیر لہجے میں پُوچھا ’’  جب تم ہماری بستی سے نکلے تھے تو تمھارے پاس معقول رقم تھی وہ کہاں گئی؟‘‘

’’جب بُرا وقت آتا ہے تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ‘‘فدا نے آہ بھر کر کہا ’’مکان فروخت کرنے کے بعد اور ڈاک خانے میں جمع رقم ملا کر ہمارے پاس کُل چھے لاکھ روپے تھے۔ سیہنا نے اس راز سے ناسو کو آ گا ہ کر دیا تھا۔ بس یوں سمجھ لو کہ یہیں سے ہماری بد قسمتی کا آغاز ہو گیا۔ عیارناسو نے سادہ لوح سیہنا کو منشیات کا عادی بنا دیا اور اس نا ہنجار کی صحبت میں ہمارے بیٹے کو قحبہ خانے، چنڈو خانے، جوئے اور سٹے بازی کی لت پڑ گئی۔ ‘‘

’’میرا خالق جلد اس بے غیرت ناسو کا ستیاناس کرے جس نے ہمارے بیٹے کو جیتے جی مار ڈالا۔ ‘‘شاہدہ نے زار و قطار روتے ہوئے کہا’’ سیہنا اس کے چنڈو خانے، قحبہ خانے اور قمار خانے میں کثرت سے جانے لگا۔ دولت، صحت، شباب اور عزت کا بھرم ختم ہو گیا، اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ سیہناسب کچھ سٹے بازی، شراب و شباب اور رقص و سرود کی محفلوں میں لُٹوا بیٹھا۔ ‘‘

’’تم سیہنا کے والدین تھے، تم نے اس کو بُری صحبت سے روکا کیوں نہیں تھا؟‘‘ارشد نے دُکھ بھرے لہجے میں پُوچھا ’’ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ناسو نے تمھارا تعاقب کیسے کیا ؟تم تو وہ بستی چھوڑ کر دور آ گئے تھے پھر ناسو نے سیہنا کو اپنے رنگ میں کیسے رنگ لیا ؟‘‘

’’ناسو خود کہتا پھرتا ہے کہ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے لوگوں سے اس کے قریبی تعلقات ہیں ‘‘فدا نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ناسو ایک مافیا کا نام ہے جس کا جال ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ ناسو مافیا اپنے مکر کی چالوں سے غریبوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے، پھر ان مظلوموں کا خون چُوس لیتا ہے۔ اس کے جال میں پھنسنے والے کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جاتے ہیں مگر کالا دھن کمانے والا یہ سیاہ کار سدا اپنی تجوری بھرنے میں مصروف رہتا ہے۔ مظلوموں کی فقیرانہ صدا پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ناسو نے میرے بیٹے سے ساری رقم ہتھیا لی اور اس کے بعد مشکوک نسب کا یہ درندہ ہماری جان کا دشمن بن گیا۔ اس کالے زہریلے ناگ کے پھن کو کچلنے والا کوئی نہیں۔ خدا نخواستہ اگر کوئی شخص ناسو کے جال میں پھنس جائے تو اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اس کالے زہریلے ناگ کا زہر میرے مظلوم بیٹے کے جسم کے ریشے ریشے میں سرایت کر گیا ہے۔ ناسو ایک ایسا ظالم و سفاک، موذی و مکار درندہ ہے کہ اس کے دماغ میں ہوس اور رعونت کا خناس سما گیا ہے۔ اس بھیڑیے نے تو پُورے شہر کو عقوبت خانے، چنڈو خانے اور  قحبہ خانے میں بدلنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ ‘‘

’’ سچ ہے ناسو جیسے ہوس پرست اورجنسی جنونی سرمایہ دار کا ذہنی افلاس زندگی بھر ختم نہیں ہوتا۔ جب سیہنا منشیات فروشوں کے ہتھے چڑھ گیا تو اس کی اصلاح کی کوشش کیوں نہ کی گئی ؟  سیہنا کے علاج پر تم نے بر وقت توجہ کیوں نہ دی ؟‘‘ارشد نے پوچھا’’ جو کچھ ہونے والا ہے میں اس کے بارے میں اتنا فکر مند نہیں جتنا اس بارے میں تشویش میں مبتلا ہوں جو کچھ ہو چُکا ہے۔ جو سانحات ہو چُکے ہیں اُن کا مُجھے سرے سے یقین ہی نہیں آتا۔ یہ تو بتائیں کہ سیہنا کو کون سی بیماری لاحق ہو گئی ہے؟‘‘

’’کیسا علاج اور کہاں کی دوا؟‘‘شاہدہ بولی’’ یہاں آنے سے پہلے تو اچھا خاصا گزارا ہو جاتا تھا لیکن اب تو دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں دوا اور علاج کے لیے رقم کہاں سے لائیں ؟۔ منشیات کا یہ خاصہ ہے کہ ان کے زیادہ استعمال سے پہلے تو دِل کی نازک رگیں اور پُوراجسم ٹُوٹتا ہے یہاں تک کہ انسان کی گردن ٹُوٹ جاتی ہے۔ ‘‘

فدا نے اپنی بیوی کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’ کثرتِ مے نوشی اور جنسی جنون کے باعث نوجوان سیہنا کے دونوں گُردے ناکارہ ہو چُکے ہیں۔ اس وقت کڑیل جوان سیہناایڈز جیسے جان لیوا روگ میں مبتلا ہو چُکا ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کا مرض لا علاج قرار دیا ہے۔ نوجوان بیٹے کی جان لیوا بیماری نے تو ہم بُوڑھے والدین کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ ‘‘

ہماری گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک سیہنا نے آنکھ کھولی۔ اس کی ہر مُسرت غمِ  دیروز کا عنوان بن گئی تھی اور وہ حسرت بھری نگاہوں سے ہم سب کو اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے یہ اس کی ہمارے ساتھ آخری ملاقات ہو۔ ہماری باتیں سُن کر وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس کے الفاظ ہونٹوں پر پتھر ا گئے تھے۔ وقت کی گود میں لمحات رفتہ رفتہ دم توڑ رہے تھے۔ حالات کی سنگینی کا یہ عالم تھا کہ سیلابِ بلا اب سر سے گُزر گیا تھا۔ اس کی باقی ماندہ زندگی ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے مانند تھی جسے سیلِ زماں کی مہیب موجیں کسی بھی وقت دھو کر ہمیشہ کے لیے مٹا سکتی تھیں۔ اس بد قسمت نو جوان کی زندگی کی محفلیں ظالموں نے لُوٹ لیں جس کے نتیجے میں اس کے جذبات و احساسات نے دم توڑ دیا۔ ارشد نے جب سیہنا کی حالتِ زار دیکھی تو وہ اپنے آ نسو ضبط نہ کر سکا۔ سیہنا کی زندگی کے ساز خاموش ہو رہے تھے اور نغمات مہیب سناٹوں میں ڈھل رہے تھے۔ اس کے رگ و پے میں درد، کرب اور اذیت و عقوبت کا رقص بالکل اسی طرح جاری تھا جس طرح جنگل میں مور محوِ رقص ہو مگر کوئی محرمانہ نگاہ اس طرف نہ اُٹھ رہی ہو۔

ارشد نے سیہنا کی متوازن غذا کے لیے کچھ رقم اس کی ماں کے حوالے کی اور پُر نم آنکھوں سے ان سب کو الوداع کہا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی ویران زندگی کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ شام کو ہم بوجھل قدموں سے گھر روانہ ہوئے۔ ہم دیر تک سیہنا کی جوانی کے بارے میں سوچتے رہے جو موجِ نسیم کے ما نند اِدھر آئی اور اُدھر چلی گئی۔ ایک ہفتے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ نوشتۂ تقدیر اور غمِ حیات کے دام میں اُلجھی سیہنا کی زندگی کی شمع بُجھ گئی۔ اس کے والدین کی ہر دعا بے اثر گئی اور ان کی آہ و فغاں بھی نا معلوم کہاں جا کے دم توڑ گئی۔

٭٭٭

تشکر: مصف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید