FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

اوور کوٹ اور دوسرے افسانے

 

 

                غلام عبّاس

 جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

[وِلادت: ۱۹۰۹ء —– وفات:۱۹۸۲ء]

 

اردو کے مشہور افسانہ نگار غلام عبّاس امرتسر میں ۱۹۰۹ء میں پیدا ہوئے تھے۔انیسویں صدی کے وسط میں سیاسی اُتھل پتھل سے متاثر ہو کر ان کے خاندان نے افغانستان سے ہندوستان کو ہجرت کی تھی۔اُن کے خاندان کے لوگ پہلے لدھیانہ میں مقیم ہوئے، بعد ازاں امرتسر میں اور پھر لاہور چلے گئے۔کراچی میں ۱۹۸۲ء میں ان کا انتقال ہوا۔

غلام عبّاس نے کسی ادبی ادارے یا تحریک سے وابستہ ہوئے بغیر ہی اپنے افسانوں ،آنندی اور اوورکوٹ کے ذریعہ عالمی شہرت حاصل کی۔’آنندی‘ ، ’جاڑے کی چاندنی‘ اور’ کان رس‘ ان کے افسانوں کے مشہور مجموعے ہیں۔

 

 

 

 

 

اوور کوٹ

 

جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلو بند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔

یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔

اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو” کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔

جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔

راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔

ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔

نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔

مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔

نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔

نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔

ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔

"پان والا!۔”

"جناب!”

"دس کا چینج ہے؟”

"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟”

"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟”

"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟”

"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔”

لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔

ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔

"پور لٹل سو ل”

اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔

تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔

اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔

تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔

پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔

"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟”

"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔”

فہرست لے لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔

"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟

"چودہ سو تیس روپے ہے۔”

نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا "اوہو اتنی۔”

دکاندار نے کہا "آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔”

"شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔”

"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔”

وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔

اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری” کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔

اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹا گندھا ہوا تھا جو اس کمر سے نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔

ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔

"سنو میرا کہنا مانو” لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا "ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔”

"نہیں، نہیں، نہیں۔”

"میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہو گی۔”

"لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔”

"تمہارے باپ کو کتنا رنج ہو گا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔”

"چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔”

نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔

اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔

جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔

اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔

فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔

شہناز نے گل سے کہا:

"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔”

گل دبی آواز میں بولی۔

"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔”

"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟”

"نہیں بھاگ گیا۔”

"کتنے افسوس کی بات ہے۔”

آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔

اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلو بند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔

نوجوان کے گلو بند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلو بند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔

بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔

اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:

ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔

افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔

٭٭٭

 

 

 

کتبہ

 

 

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ ہے جو دُور تک پھیلتا چلا گیا ہے ۔ عمارتوں میں کئی چھوٹے بڑے دفتر ہیں جن میں کم و بیش چار ہزار آدمی کام کرتے ہیں۔دن کے وقت اس علاقے کی چہل پہل اور گہما گہمی عموماً کمروں کی چار دیواریوں ہی میں محدود رہتی ہے۔ مگر صبح کو ساڑھے دس بجے سے پہلے اور سہ پہر کو ساڑھے چار بجے کے بعد وہ سیدھی اور چوڑی چکلی سڑک جو شہر کے بڑے دروازے سے اس علاقے تک جاتی ہے، ایک ایسے دریا کا روپ دھار لیتی ہے جو پہاڑوں پرسے آیا ہوا، اور اپنے ساتھ بہت ساخس و خاشاک بہا لا یا ہو۔

گرمی کا زمانہ، سہ پہر کا وقت ، سڑکوں پر درختوں کے سائے لمبے ہونے شروع ہو گئے تھے مگر ابھی تک زمین کی تپش کا یہ حال تھا کہ جُوتوں کے اندر تلوے جُھلسے جاتے تھے۔ ابھی ابھی ایک چھڑکاؤ گاڑی گزری تھی۔ سڑک پر جہاں جہاں پانی پڑا تھا بخارات اُٹھ رہے تھے۔

شریف حسین کلرک درجہ دوم، معمول سے کچھ سویرے دفتر سے نکلا اور اس بڑے پھاٹک کے باہر آ کر کھڑا ہو گیا جہاں سے تانگے والے شہر کی سواریاں لے جایا کرتے تھے۔

گھر لوٹتے ہوئے آدھے راستے تک تانگے میں سوار ہو کر جانا ایک ایسا لُطف تھا جو اسے مہینے کے شروع کے صرف چار پانچ روز ہی ملا کرتا تھا اور آج کا دن بھی انہی مبارک دنوں میں سے ایک تھا۔ آج خلافِ معمول تنخواہ کے آٹھ روز بعد اس کی جیب میں پانچ روپے کا نوٹ اور کچھ آنے پیسے پڑے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی مہینے کے شروع ہی میں بچوں کو لے کر میکے چلی گئی تھی اور گھر میں وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ دن میں دفتر کے حلوائی سے دو چار پوریاں لے کر کھا لی تھیں اور اوپر سے پانی پی کر پیٹ بھر لیا تھا۔ رات کو شہر کے کسی سستے سے ہوٹل میں جانے کی ٹھہرائی تھی۔ بس بے فکری ہی بے فکری تھی۔ گھر میں کچھ ایسا اثاثہ تھا نہیں جس کی رکھوالی کرنی پڑتی۔ اس لیے وہ آزاد تھا کہ جب چاہے گھر جائے اور چاہے تو ساری رات سڑکوں پر گھومتا رہے۔

تھوڑی دیر میں دفتروں سے کلرکوں کی ٹولیاں نکلنی شرو ع ہوئیں اور ان میں ٹائپسٹ ریکارڈ کیپر، ڈسپیچر، اکاؤنٹنٹ ، ہیڈ کلرک، سپرنٹنڈنٹ غرض ادنیٰ و اعلیٰ ہر درجہ اور حیثیت کے کلرک تھے اور اسی لحاظ سے ان کی وضع قطع بھی ایک دوسرے سے جُدا تھی۔ مگر بعض ٹائپ خاص طور پر نمایاں تھے۔ سائیکل سوار آدھی آستینوں کی قمیص ، خاکی زین کے نیکر اور چپل پہنے، سرپر سولا ہیٹ رکھے، کلائی پر گھڑی باندھے، رنگدار چشمہ لگائے، بڑی بڑی توندوں والے بابو چھاتا کھولے، منہ میں بیڑی، بغلوں میں فائلوں کے گٹھے دبائے۔ ان فائلوں کو وہ قریب قریب ہر روز اس امید میں ساتھ لے جاتے کہ جو گُتھیاں وہ دفتر کے غل غپاڑے میں نہیں سُلجھا سکے۔ ممکن ہے گھر کی یکسوئی میں ان کا کوئی حل سُوجھ جائے مگر گھر پہنچتے ہی وہ گرہستی کاموں میں ایسے الجھ جاتے کہ انہیں دیکھنے تک کا موقع نہ ملتا اور اگلے روز انہیں یہ مفت کا بوجھ جوں کا توں واپس لے آنا پڑتا۔

بعض منچلے تانگے، سائیکل اور چھاتے سے بے نیاز ، ٹوپی ہاتھ میں ، کوٹ کاندھے پر، گریبان کُھلا ہوا جسے بٹن ٹوٹ جانے پر انہوں نے سیفٹی پن سے بند کرنے کی کوشش کی تھی اور جس کے نیچے سے چھاتی کے گھنے بال پسینے میں تتر بتر نظر آتے تھے۔ نئے رنگروٹ سستے، سلے سلائے ڈھیلے ڈھالے بد قطع سوٹ پہنے اس گرمی کے عالم میں واسکٹ اور نکٹائی کالر تک سے لیس ، کوٹ کی بالائی جیب میں دو دو تین تین فونٹین پن اور پنسلیں لگائے خراماں خراماں چلے آرہے تھے۔

گو ان میں سے زیادہ تر کلرکوں کی مادری زبان ایک ہی تھی مگر وہ لہجہ بگاڑ بگاڑ کر غیر زبان میں باتیں کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔اس کی وجہ و ہ طمانیت نہ تھی جو کسی غیر زبان پر قدرت حاصل ہونے پر اس میں باتیں کرنے پر اکساتی ہے بلکہ یہ کہ انہیں دفتر میں دن بھر اپنے افسروں سے اسی غیر زبان میں بولنا پڑتا تھا اور اس وقت وہ باہم بات چیت کر  کے اس کی مشق بہم پہنچا رہے تھے۔

ان کلرکوں میں ہر عمر کے لوگ تھے ۔ ایسے کم عمر بھولے بھالے نا تجربہ کار بھی جن کی ابھی مسیں بھی پوری نہیں بھیگی تھیں اور جنہیں ابھی سکول سے نکلے تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور ایسے عمر رسیدہ جہاں دیدہ گھاگ بھی جن کی ناک پر سالہا سال عینک کے استعمال کے باعث گہرا نشان پڑ گیا تھا اور جنہیں اس سڑک کے اتار چڑھاؤ دیکھتے دیکھتے پچیس پچیس ،تیس تیس برس ہو چکے تھے ۔ بیشتر کارکنوں کی پیٹھ میں گدّی میں ذرا نیچے خم سا آگیا تھا اور کُندا ُستروں سے متواتر داڑھی مونڈھتے رہنے کے باعث ان کے گالوں اور ٹھوڑی پر بالوں میں جڑیں پھوٹ نکلی تھیں جنہوں نے بے شمار ننھی پھنسیوں کی شکل اختیار کر لی تھی۔

پیدل چلنے والوں میں بہتیرے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ دفتر سے ان کے گھر کو جتنے راستے جاتے ہیں ان کا فاصلہ کتنے ہزار قدم ہے ۔ ہر شخص افسروں کو چڑچڑے پن یا ماتحتوں کی نالائقی پر نالاں نظر آتا تھا۔

ایک تانگے کی سواریوں میں ایک کی کمی دیکھ کر شریف حسین لپک کر اس میں سوار ہو گیا۔ تانگہ چلا اور تھوڑی دیر میں شہر کے دروازے کے قریب پہنچ کر رک گیا ۔ شریف حسین نے اکّنی نکال کر کوچوان کو دی اور گھر کے بجائے شہر کی جامع مسجد کی طرف چل پڑا، جس کی سیڑھیوں کے گردا گرد ہر روز شام کو کہنہ فروشوں اور سستا مال بیچنے والوں کی دکانیں سجا کر تی تھیں اور میلہ سالگا کرتا تھا ۔ دنیا بھر کی چیزیں اور ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ یہاں ملتے تھے ۔ اگر مقصد خرید و فروخت نہ ہو تو بھی یہاں اور لوگوں کو چیزیں خریدتے، مول تول کرتے دیکھنا بجائے خود ایک پُر لطف تماشا تھا۔

شریف حسین لیکچر باز حکیموں، سینا سیوں ، تعویذ گنڈے بیچنے والے سیانوں اور کھڑے کھڑے تصویر اتار دینے والے فوٹوگرافروں کے جمگھٹوں کے پاس ایک ایک دو دو منٹ رکتا، سیر دیکھتا اس طرف جا نکلا جہاں کباڑیوں کی دکانیں تھیں۔ یہاں اسے مختلف قسم کی بے شمار چیزیں نظر آئیں۔ ان میں سے بعض ایسی تھیں جو اپنی اصلی حالت میں بلاشبہ صنعت کا اعلیٰ نمونہ ہوں گی مگر ان کباڑیوں کے ہاتھ پڑتے پڑتے یا تو ان کی صورت اس قدر مسخ ہو گئی تھی کہ پہچانی ہی نہ جاتی تھی یا ان کا کوئی حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہوتا جس سے وہ بے کار ہو گئی تھیں۔ چینی کے ظروف اور گلدان، ٹیبل لیمپ، گھڑیاں ، جلی ہوئی بیٹریاں ، چوکٹھے ، گراموفون کے کل پُرزے ، جراحی کے آلات، ستار، بھس بھرا ہرن، پیتل کے لم ڈھینگ ، بدھ کا نیم قد مجسمہ……..

ایک دکان پر اس کی نظر سنگِ مر مر کے ایک ٹکڑے پر پڑی جو معلوم ہوتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے کسی مقبرے یا بارہ دری سے اکھاڑا گیا ہے ۔ اس کا طول کوئی سوا فٹ تھا اور عرض ایک فٹ ۔ شریف حسین نے اس ٹکڑے کو اُٹھا کر دیکھا۔ یہ ٹکڑا ایسی نفاست سے تراشا گیا تھا کہ اس نے محض یہ دیکھنے کے لیے بھلا کباڑی اس کے کیا دام بتائے گا، قیمت دریافت کی۔

” تین روپے !” کباڑی نے اس کے دام کچھ زیادہ نہیں بتائے تھے مگر آخر اسے اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس نے ٹکڑا رکھ دیا اور چلنے گا۔

” کیوں حضرت چل دیے؟ آپ بتائیے کیا دیجئے گا!”۔

وہ رُک گیا ۔ اسے یہ ظاہر کرتے ہوئے شرم سی آئی کہ اسے اس چیز کی ضرورت نہ تھی اور اس نے محض اپنے شوقِ تحقیق کو پورا کرنے کے لیے قیمت پوچھی تھی۔ اس نے سودا، دام اس قدر کم بتاؤ کہ جو کباڑی کو منظور نہ ہوں۔ کم از کم وہ اپنے دل میں یہ تو نہ کہے کہ یہ کوئی کنگلا ہے جو دکانداروں کا وقت ضائع اور اپنی حرص پوری کرنے آیا ہے۔

” ہم تو ایک روپیہ دیں گے” ۔ یہ کہہ کر شریف حسین نے چاہا کہ جلد جلد قدم اٹھاتا ہو کباڑی کی نظروں سے اوجھل ہو جائے مگر اُس نے اس کی مہلت ہی نہ دی۔

” اجی سنیے تو ، کچھ زیادہ نہیں دیں گے؟ سو ا روپیہ بھی نہیں…….. اچھالے جائیے”۔

شریف حسین کو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ میں نے بارہ آنے کیوں نہ کہے۔ اب لوٹنے کے سوا کوئی چارہ ہی کیا تھا۔ قیمت ادا کرنے سے پہلے اس نے اس مرمریں ٹکڑے کو اُٹھا کر دوبارہ دیکھا بھالا کہ اگر ذرا سا بھی نقص نظر آئے تو اس سودے کو منسوخ کر دے۔ مگر وہ ٹکڑا بے عیب تھا۔ نہ جانے کباڑی نے اسے اس قدر سستا کیوں بیچنا قبول کیا تھا۔

رات کو جب وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھر کی چھت پر اکیلا بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا تو اس سنگِ مر مر کے ٹکڑے کا ایک مصرف اس کے ذہن میں آیا ۔ خدا کے کارخانے عجیب ہیں۔ وہ بڑا غفور الرحیم ہے ۔ کیا عجب اس کے دن پھر جائیں۔ وہ کلرک درجہ دوم سے ترقی کر کے سپرنٹنڈنٹ بن جائے اور اس کی تنخواہ چالیس سے بڑھ کر چار سو ہو جائے…….. یہ نہیں تو کم سے کم ہیڈ کلرک ہی سہی۔ پھر اسے ساجھے کے مکان میں رہنے کی ضرورت نہ رہے بلکہ وہ کوئی چھوٹا سا مکان لے لے اور اس مرمریں ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا کے دروازے کے باہر نصب کر دے۔

مستقبل کی یہ خیالی تصویر اس کے ذہن پر کچھ اس طرح چھا گئی کہ یا تو وہ اس مرمریں ٹکڑے کو بالکل بے مصرف سمجھتا تھا یا اب اسے ایسا محسوس ہونے لگا گویا وہ ایک عرصے سے اس قسم کے ٹکڑے کی تلاش میں تھا اور اگر اسے نہ خریدتا تو بڑی بھُول ہوتی۔

شروع شروع میں جب وہ ملازم ہوا تھا تو اس کا کام کرنے کو جوش اور ترقی کا ولولہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ مگر دو سال کی سعی لا حاصل کے بعد رفتہ رفتہ اس کا یہ جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور مزاج میں سکون آ چلا تھا۔ مگر سنگِ مر مر کے ٹکڑے نے پھر اس کے خیالوں میں ہلچل ڈال دی۔مستقبل کے متعلق طرح طرح کے خوش آئندہ خیالات ہر روز اس کے دماغ میں چکر لگانے لگے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، دفتر جاتے ، دفتر سے آتے، کوٹھیوں کے باہر لوگوں کے نام کے بورڈ دیکھ کر ۔ یہاں تک کہ جب مہینہ ختم ہوا اور اسے تنخواہ ملی تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سنگِ مرمر کے ٹکڑے کو شہر کے ایک مشہور سنگ تراش کے پاس لے گیا جس نے بہت چابکدستی سے اس پر اس کا نام کندہ کر کے کونوں میں چھوٹی چھوٹی خوشنما بیلیں بنا دیں۔

اس سنگِ مرمر کے ٹکڑے پر اپنا نام کُھدا ہوا دیکھ کر اسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنا نام اس قدر جلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا ہو۔

سنگ تراش کی دکان سے روانہ ہوا تو بازار میں کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ کتبہ پر سے اس اخبار کو اتار ڈالے جس میں سنگ تراش نے اسے لپیٹ دیا تھا اور اس پر ایک نظر اور ڈال لے مگر ہر بار ایک نامعلوم حجاب جیسے اس کے ہاتھ پکڑ لیتا۔شاید وہ راہ چلتوں کی نگاہوں سے ڈرتا کہ کہیں وہ اس کتبہ کو دیکھ کر اس کے ان خیالات کو نہ بھانپ جائیں جو پچھلے کئی دنوں سے دماغ پر مسلط تھے۔

گھر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس نے اخبار اتار پھینکا اور نظریں کتبہ کی دلکش تحریر پر گاڑے دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔ بالائی منزل میں اپنے مکان کے دروازے کے سامنے پہنچ کر رُک گیا۔ جیب سے چابی نکالی، قفل کھولنے لگا۔ پچھلے دو برس میں آج پہلی مرتبہ اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کے مکان کے باہر ایسی کوئی جگہ ہی نہیں کہ اس پر کوئی بورڈ لگایا جا سکے۔ اگر جگہ ہوتی بھی تو اس قسم کے کتبے وہاں تھوڑا ہی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے تو بڑا سامکان چاہیے جس کے پھاٹک کے باہر لگایا جائے تو آتے جاتے کی نظر بھی پڑے……..

قفل کھول کر مکان کے اندر پہنچا اور سوچنے لگا کہ فی الحال اس کتبہ کو کہاں رکھوں، اس کے ایک حصہ مَکان میں دو کوٹھریاں ، ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ تھا۔ الماری صرف ایک ہی کوٹھڑی میں تھی مگر اس کے کواڑ نہیں تھے بالآخر اس نے کتبہ کو اس بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔

ہر روز شام کو جب وہ دفتر سے تھکا ہارا واپس آتا تو سب سے پہلے اس کی نظر اس کتبہ ہی پر پڑتی۔ امیدیں اسے سبز باغ دکھاتیں اور دفتر کی مشقت کی تکان کسی قدر کم ہو جاتی۔ دفتر میں جب کبھی اس کا کوئی ساتھی کسی معاملے میں اس کی رہنمائی کا جویا ہوتا تو اپنی برتری کے احساس سے اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں جب کبھی کسی ساتھی کی ترقی کی خبر سنتا، آرزوئیں اس کے سینے میں ہیجان پیدا کر دیتیں ۔ افسر کی ایک ایک نگاہ لطف و کرم کا نشہ اسے آٹھ آٹھ دن رہتا۔

جب تک اس کی بیوی بچے نہیں آئے وہ اپنے خیالوں ہی میں مگن رہا۔ نہ دوستوں سے ملتا نہ کھیل تماشوں میں حصہ لیتا، رات کو جلد ہی ہوٹل سے کھانا کھا کر گھر آ جاتا اور سونے سے پہلے گھنٹوں عجیب عجیب خیالی دنیاؤں میں رہتا، مگر ان کے آنے کی دیر تھی کہ نہ تو وہ فراغت ہی رہی اور نہ وہ سکون ہی ملا۔ ایک بار پھر گرہستی کے فکروں نے اسے ایسا گھیر لیا کہ مستقبل کی یہ سہانی تصویریں رفتہ رفتہ دھُندلی پڑ گئیں۔

کتبہ سال بھر تک اسی بے کواڑ کی الماری میں پڑا رہا۔ اس عرصے میں اس نے نہایت محنت سے کام کیا۔ اپنے افسروں کو خوش رکھنے کی انتہائی کوشش کی مگر اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔

اب اس کے بیٹے کی عمر چار برس کی ہو گئی تھی اور اس کا ہاتھ اس بے کواڑ کی الماری تک بخوبی پہنچ جاتا تھا۔ شریف حسین نے اس خیال سے کہ کہیں اس کا بیٹا کتبہ کو گرانہ دے اسے وہاں سے اٹھا لیا اور اپنے صندوق میں کپڑوں کے نیچے رکھ دیا۔

ساری سردیاں یہ کتبہ اس صندوق ہی میں پڑا رہا۔ جب گرمی کا موسم آیا تو اس کی بیوی کو اس کے صندوق سے فالتو چیزوں کو نکالنا پڑا۔ چنانچہ دوسری چیزوں کے ساتھ بیوی نے کتبہ بھی نکال کر کاٹھ کے اس پرانے بکس میں ڈال دیا جس میں ٹوٹے ہوئے چوکھٹے بے بال کے برش، بیکار صابن دانیاں، ٹوٹے ہوئے کھلونے اور ایسی ہی اور دوسری چیزیں پڑی رہتی تھی۔

شریف حسین نے اپنے مستقبل کے متعلق زیادہ سوچنا شروع کر دیاتھا۔ دفتروں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ ترقی لطیفہ غیبی سے نصیب ہوتی ہے، کڑی محنت جھیلنے اور جان کھپانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔اس کی تنخوا ہ میں ہر دوسرے برس تین روپے کا اضافہ ہو جاتا جس سے بچوں کی تعلیم وغیرہ کا خرچ نکل آتا اور اسے زیادہ تنگی نہ اٹھانی پڑتی، پے درپے مایوسیوں کے بعد جب اس کو ملازمت کرتے بارہ برس ہو چکے تھے اور اس کے دل سے رفتہ رفتہ ترقی کے تمام ولولے نکل چکے تھے اور کتبہ کی یاد تک ذہن سے محو ہو چکی تھی تو اس کے افسروں نے اس کی دیانت داری اور پرانی کار گزاری کا خیال کر کے اسے تین مہینے کے لیے عارضی طور پر درجہ اوّل کے ایک کلرک کی جگہ دے دی جوچھُٹی پر جانا چاہتا تھا۔

جس روز اسے یہ عہدہ ملا اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے تانگے کا بھی انتظار نہ کیا بلکہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پیدل ہی بیوی کو یہ مژدہ سنانے چل دیا۔ شاید تانگہ اسے کچھ زیادہ جلدی گھر نہ پہنچا سکتا!

اگلے مہینے اس نے نیلام گھر سے ایک سستی سی لکھنے کی میز اور ایک گھومنے والی کرسی خریدی، میز کے آتے ہی اسے پھر کتبہ کی یاد آئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی سوئی ہوئی امنگیں جاگ اٹھیں ۔اس نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے کاٹھ کی پیٹی میں سے کتبہ نکالا، صابن سے دھویا پونجھا اور دیوار کے سہارے میز پر ٹکا دیا۔

یہ زمانہ اس کے لیے بہت کٹھن تھا کیونکہ وہ اپنے افسروں کو اپنی برتر کار گزاری دکھانے کے لیے چُھٹی پر گئے ہوئے کلرک سے دُگنا کام کرتا۔اپنے ما تحتوں کو خوش رکھنے کے لیے بہت ساان کا کام بھی کر دیتا ۔گھر پر آدھی رات تک فائلوں میں غرق رہتا ۔پھر بھی وہ خوش تھا۔ ہاں جب کبھی اسے اس کلر ک کی واپسی کا خیال آتا تو اس کے دل بجھ سا جاتا کبھی کبھی وہ سوچتا، ممکن ہے وہ اپنی چُھٹی کی میعاد بڑھوا لے……..ممکن ہے وہ بیمار پڑ جائے…….. ممکن ہے وہ کبھی نہ آئے ……..

مگر جب تین مہینے گزرے تو نہ اس کلرک نے چُھٹی کی میعاد ہی بڑھوائی اور نہ بیماری پڑا ، البتہ شریف حسین کو اپنی جگہ پر آ جانا پڑا۔

اس کے بعد جو دن گزرے ،وہ اس کے لیے بڑی مایوسی اور افسردگی کے تھے۔ تھوڑی سی خوشحالی کی جھلک دیکھ لینے کے بعد اب اسے اپنی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر معلوم ہونے لگی تھی۔ ا س کا جی کام میں مطلق نہ لگتا تھا۔ مزاج میں آلکس اور حرکات میں سُستی سی پیدا ہونے لگی، ہر وقت بیزار بیزار سا رہتا۔ نہ کبھی ہنستا ، نہ کسی سے بولتا چالتا مگر یہ کیفیت چند دن سے زیادہ نہ رہی۔ افسروں کے تیور جلد ہی اسے راہِ راست پر لے آئے۔

اب اس کا بڑا لڑکا چھٹی میں پڑھتا تھا اور چھوٹا چوتھی میں اور منجھلی لڑکی ماں سے قرآن مجید پڑھتی، سینا پرونا سیکھتی اور گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹاتی۔ باپ کی میز کرسی پر بڑے لڑکے نے قبضہ جما لیا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اسکول کا کام کیا کرتا۔ چونکہ میز کے ہلنے سے کتبہ گر جانے کا خدشہ رہتا تھا اور پھر اس نے میز کی بہت سی جگہ بھی گھیر رکھی تھی۔ اس لیے اس لڑکے نے اسے اٹھا کر پھر اسی بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔

سال پر سال گزرتے گئے۔ اس عرصہ میں کتبہ نے کئی جگہیں بدلیں ، کبھی بے کواڑ کی الماری میں تو کبھی میز پر۔ کبھی صندوقوں کے اوپر تو کبھی چار پائی کے نیچے۔ کبھی بوری میں تو کبھی کاٹھ کے بکس میں۔ ایک دفعہ کسی نے اٹھا کر باورچی خانے کے اس بڑے طاق میں رکھ دیا جس میں روزمرہ کے استعمال کے برتن رکھے رہتے تھے۔ شریف حسین کی نظر پڑ گئی، دیکھا تو دھوئیں سے اس کا سفید رنگ پیلا پڑ جاتا تھا ، اٹھا کر دھویا پونچھا اور پھر بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا مگر چند ہی روز میں اسے پھر غائب کر دیا گیا اور اس کی جگہ وہاں کاغذی پھولوں کے بڑے بڑے گملے رکھ دیے گئے جو شریف حسین کے بڑے بیٹے کے کسی دوست نے اسے تحفے میں دیے تھے۔رنگ پیلا پڑ جانے سے کتبہ الماری میں رکھا ہوا بدنما معلوم ہوتا تھا مگر اب کاغذی پھولوں کے سرخ سرخ رنگوں سے الماری میں جیسے جان پڑ گئی تھی اور ساری کوٹھڑی دہک اٹھی تھی۔

اب شریف حسین کو ملازم ہوئے پورے بیس سال گزر چکے تھے۔اس کے سر کے بال نصف سے زیادہ سفید ہو چکے تھے اور پیٹھ میں گدّی سے ذرا نیچے خم آگیا تھا ۔ اب بھی کبھی کبھی اس کے دماغ میں خوشحالی و فارغ البالی کے خیالات چکر لگاتے مگر اب ان کی کیفیت پہلے کی سی نہ تھی کہ خواہ وہ کوئی کام کر رہا ہو۔ تصورات کو اُڑا لے جاتی اور پھر بیٹی کی شادی، لڑکوں کی تعلیم، اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات ، پھر ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے نوکریوں کی تلاش ……..یہ ایسی فکریں نہ تھیں کہ پَل بھر کو بھی اس خیال کو کسی اور طرف بھٹکنے دیتیں۔

پچپن برس کی عمر میں اسے پنشن مل گئی۔ اب اس کا بیٹا ریل کے مال گودام میں کام کرتا تھا۔ چھوٹا کسی دفتر میں ٹائپسٹ تھا اور اس سے چھوٹا انٹرنس میں پڑھتا تھا۔ اپنی پنشن اور لڑکوں کی تنخواہیں سب مل ملا کے کوئی ڈیڑھ سو روپے ماہوار کے لگ بھگ آمدنی ہو جاتی تھی جس میں بخوبی گزر ہونے لگی۔ علاوہ ازیں اس کا ارادہ کوئی چھوٹا موٹا بیوپار شروع کرنے کا بھی تھا مگر مندے کے ڈرسے ابھی پورا نہ ہو سکا تھا۔

اپنی کفایت شعاری اور بیوی کی سلیقہ مندی کی بدولت اس نے بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادیاں خاصی دھوم دھام سے کر دی تھیں۔ ان ضروری کاموں سے نمٹ کر اس کے جی میں آئی کہ حج کر آئے مگر اس کی توفیق نہ ہو سکی۔ البتہ کچھ دنوں مسجدوں کی رونق خوب بڑھائی مگر پھر جلد ہی بڑھاپے کی کمزوریوں اور بیماریوں نے دبانا شروع کر دیا اور زیادہ تر چار پائی ہی پر پڑا رہنے لگا۔

جب اسے پنشن وصول کرتے تین سال گزر گئے تو جاڑے کی ایک رات کو وہ کسی کام سے بستر سے اٹھا۔ گرم گرم لحاف سے نکلا تھا۔ پچھلے پہر کی سردا ور تند ہوا تیر کی طرح اس کے سینے میں لگی اور اسے نمونیا ہو گیا۔ بیٹوں نے اس کے بہتیرے علاج معالجے کرائے۔ اس کی بیوی اور بہو دن رات اس کی پٹی سے لگی بیٹھی رہیں مگر افاقہ نہ ہوا وہ کوئی چار دن بستر پر پڑے رہنے کے بعد مر گیا۔

اس کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا مکان کی صفائی کرا رہا تھا کہ پرانے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بوری میں اسے یہ کتبہ مل گیا ۔بیٹے کو باپ سے بے حد محبت تھی، کتبہ پر باپ کا نام دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر آئے اور وہ دیر تک ایک محویت کے عالم میں اس کی خطاطی اور نقش و نگار کو دیکھتا رہا۔ اچانک اسے ایک بات سوجھی جس نے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دی۔

اگلے روز وہ کتبہ کو ایک سنگ تراش کے پاس لے گیا اور اس سے کتبہ کی عبارت میں تھوڑی سی ترمیم کرائی اور پھر اسی شام اسے اپنے باپ کی قبر پر نصب کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

    گوندنی

 

مرزا برجیس قدر کو میں ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ ہر چند ہماری طبیعتوں اور ہماری سماجی حیثیتوں میں بڑا فرق تھا۔ پھر بھی ہم دونوں دوست تھے۔ مرزا کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو کسی زمانے میں بہت معزز اور متمول سمجھا جاتا تھا مگر اب اس کی حالت اس پرانے تناور درخت کی سی ہو گئی تھی جو اندر ہی اندر کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر ایک دن اچانک زمین پر آ رہتا تھا۔ مرزا اس میں ذرا سی کوتاہی بھی نہ ہونے دیتا تھا۔ اس کے دل میں نہ جانے کیوں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ خاندان ان کا وقار قائم رکھنے کیلئے درشت مزاجی اور تحکم لازمی ہیں۔ اس خیال نے اسے سخت دل بنا دیا تھا مگر یہ درشتی اوپر تھی اندر سے مرزا بڑا نرم تھا اور یہی ہماری دوستی کی بنیاد تھی۔ ایک دن سہہ پہر کو میں اور برجیس قدر انارکلی میں ان کی شان دار موٹر میں بیٹھے ایک مشہور جوتے والے کی دوکان سے سلیم شاہی جوتا خرید رہے تھے۔ مرزا نے اپنا ٹھاٹھ دکھانے کیلئے یہ ضروری سمجھا تھا کہ موٹر میں بیٹھے بیٹھے دکان کے مالک کو پکارے اور جوتے اپنی موڑ ہی میں ملاحظہ کرے۔ شہر میں ابھی مرزا کی ساکھ قائم تھی اور دکان دار عام طور پر اس کی یہ ادائیں سہنے کے عادی تھے چنانچہ جوتے والے نے اپنے دو کارندے مرزا کی خدمت پر مامور کر دیے مگر مرزا کو کوئی جوتا پسند نہیں آ رہا تھا اور وہ بار بار ناک بھوں چڑھا کر ان کارندوں کو سخت وست کہہ رہا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مرزا کو دراصل جوتے کی ضرورت ہی نہیں اور یہ جھوٹ موٹ کی خریداری محض بھرم رکھنے کیلئے ہے۔

عین اس وقت ایک بڈھا بھکاری ایک پانچ سالہ لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھے مرزا کی موٹر کے پاس آ کھڑا ہوا۔ یہ بڈھا اندھا تھا۔ لڑکی کے بالوں میں تنکے الجھے ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا تھا مدت سے کنگھی نہیں کی گئی۔ دونوں کے تن پر چیتھڑے لگے تھے۔ ” اندھے پر ترس کھاؤ بابا۔ بڈھے نے ہانک لگائی۔ ” بابو جی میں بھوکی ہوں۔ پیسہ دو۔” لڑکی نے لجاجت سے کہا۔ مرزا نے ان لوگوں کی طرف توجہ نہ کی۔ وہ بدستور جوتوں پر تنقید کرتا رہا۔ اندھے فقیر اور لڑکی نے اپنا سوال دہرایا۔ اس پر مرزا نے ایک نگاہ غلط انداز ان پر ڈالی اور کہا۔ معاف کرو۔ معاف کرو۔ بھکاری اب بھی نہ ٹلے۔ بابو جی رات سے کچھ نہیں کھایا۔ اندھے نے کہا۔ بابو جی بڑی بھوک لگ رہی ہے، پیٹ میں کچھ نہیں لو دیکھو۔ بچی نے کہا اور جھٹ میلا کچیلا کرتا اٹھا کر اپنا پیٹ دکھانے لگی۔ لاغری سے بچی کی پسلیاں باہر نکلی ہوئی تھیں اور گنی جا سکتی تھیں۔ ” بس ایک پیسے کے چنے بابو جی” مرزا کو اس لڑکی کا میلا میلا پیٹ دیکھ کر گھن سی آئی۔ توبہ توبہ اس نے بے زاری کے لہجے میں کہا۔ بھیک مانگنے کیلئے کیا کیا ڈھنگ رچائے جاتے ہیں۔ جاؤ جاؤ بابا خدا کیلئے معاف کرو۔ ۔ مگر فقیر اب بھی نہ گئے۔ قریب تھا کہ مرزا غصے سے بھنا جاتا مگر یہ تماشہ اسطرح ختم ہو گیا کہ مرزا کو اس دکان دار کا کوئی جوتا پسند نہ آیا اور وہ اپنی موٹر وہاں سے بڑھا لے گیا۔

اس واقعے کے چند روز بعد میں اور مرزا برجیس قدر شہر کے ایک بڑے سینما میں ایک دیسی فلم دیکھ رہے تھے۔ فلم بہت گھٹیا تھی، اس میں بڑے نقص تھے مگر ہیروئن میں بڑی چنک منک تھی اور گاتی بھی خوب تھی۔ اس نے فلم کے بہت سے عیوب پر پردہ ڈال دیا تھا۔ کہانی بڑی دقیانوسی تھی۔ اس میں ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ بنک کے چپڑاسی کو اس الزام میں کہ اس نے بنک لوٹنے میں چوروں کی مدد کی، پانچ سال قید کی سزا ہو جاتی ہے۔ اس چپڑاسی کی بیوی مر چکی ہے مگر اس کا ایک چار سالہ بیٹا ہے جو اپنی بوڑھی دادی کے پاس رہتا ہے۔ چپڑاسی کے قید ہو جانے پر یہ دادی پوتا بھوکوں مرنے لگتے ہیں۔ ادھر کوٹھڑی کا کرایہ نہ ملنے پر مالک مکان انہیں گھر سے نکال دیتا ہے۔ بڑھیا پوتے کا ہاتھ پکڑ کا بازار میں بھیک مانگنے لگتی ہے۔ وہ ہر راہگیر سے کہتی ہے۔ ” بابو جی ہم بھوکے ہیں۔ ” ایک پیسے کے چنے لے دو بابو جی۔ لڑکا کہتا ہے۔ جب فلم اس مقام پر پہنچی تو مرزا برجیس قدر نے اندھیرے میں مجھ سے کہا۔ بیا ذرا اپنا رومال تو دیتا، نہ جانے میرا کہاں گر گیا۔ میں نے اپنا رومال دیدیا۔ جب تک تماشہ ہوتا رہا میں نے مرزا کو سخت بے چین دیکھا۔ وہ بار بار کرسی پر پہلو بدلتا اور ہاتھ چہرے تک لے جاتا۔ خدا خدا کر کے فلم ختم ہوئی تو میں نے دیکھا وہ جلدی جلدی آنکھیں پونچھ پونچھ رہا ہے۔ ” ایں، مرزا صاحب! میرے منہ سے بے اختیار نکلا آپ رو رہے تھے۔ ” نہیں تو۔ مرزا نے بھرائی ہوئی آواز میں جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ ” آنکھوں کو ذرا سگریٹ کا دھواں لگ گیا تھا اور بھئی میں یہ سوچ رہا ہوں کہ سرکار ایسے دردناک فلم دکھانے کی اجازت کیوں دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

گل عباس

 

 

میں ایک چھوٹے سے کالے کالے بیج میں رہتا تھا۔ یہی میرا گھر تھا۔ اس کی دیواریں خوب مضبوط تھیں اور مجھے اس کے اندر کسی کا ڈر نہ تھا۔ یہ دیواریں مجھے سردی سے بھی بچاتی تھیں اور گرمی سے بھی۔ کچھ دِن تو میں اِدھر اُدھر رہا، لیکن میرا گھر کالی مٹّی میں دَبا دِیا گیا کہ کوئی اُٹھا کر پھینک نہ دے اور میں کِسی شریر لڑکے کے پاؤں تلے نہ آ جاؤں۔ زمین کی مدّھم گرمی مجھے بہت اچھی لگتی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ بس اب میں ہمیشہ مزے سے یہیں رہوں گا، مگر میرے کان میں اکثر میٹھی میٹھی سُریلی سی آواز آتی تھی۔ میں ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا کہ آواز کدھر سے آتی تھی، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اوپر سے آتی تھی۔ یہ آواز مجھ سے کہا کرتی تھی کہ ’’اِس گھر سے نکل! بڑھ روشنی کی طرف چل!‘‘ لیکن میں زمین میں اپنے گھر کے اندر اَیسے مزے سے تھا کہ میں نے اُس آواز کے کہنے پر کان نہ دھرا۔ اور جب اُس نے بہت پیچھا کیا تو میں نے صاف کہہ دِیا کہ: ’’نہیں!—میں تو یہیں رہوں گا۔ بڑھنے اور گھر سے نکلنے سے کیا فائدہ؟یہیں چین سے سونے میں مزہ ہے۔ یہیں! میں تو یہیں رہوں گا۔‘‘

یہ آواز بند نہ ہوئی۔ ایک دِن اُس نے اَیسے پُر اثر انداز سے مجھ سے کہا:’’ چلو ! روشنی کی طرف چلو! کہ مجھے پھریری سی آ گئی اور مجھ سے رہا نہ گیا۔میں نے سوچا اِس گھر کی دیواروں کو توڑ کر باہر نکل ہی آؤں، مگر دیواریں مضبوط تھیں اور میں کمزور۔ اب جب وہ آواز مجھ سے کہتی کہ ’’بڑھے چلو!‘‘ تو میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتا تھا اور مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں بہت طاقتور ہو گیا ہوں۔ آخر کو اللہ کا نام لے جو زور لگایا تو دیوار ٹوٹ گئی اور میں ہرا کِلّہ بن کر نکل آیا۔اس دیوار کے بعد زمین تھی مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور اُس کو بھی ہٹا دِیا۔اَب میں نے اپنی جڑوں کو نیچے بھیجا کہ خوب مضبوطی سے جگہ پکڑ لیں۔ آخر کو ایک دِن میں زمین کے اندر سے نکل ہی آیا۔اور آنکھیں کھول کر دُنیا کو دیکھا۔ کیسی خوب صورت اور اچھی جگہ ہے۔

کچھ دِنوں بعد تو خوب اِدھر اُدھر پھیل گیا اور ایک دِن اپنی کلی کا منہ جو کھولا تو سب کہنے لگے:’’دیکھو! کیسا خوب صورت لال لال گل عبّاس ہے۔‘‘میں نے بھی جی میں سوچا کہ اُس تنگ گھر کو چھوڑا تو اچھا ہی ہے۔آس پاس اور بہت سے گل عبّاس تھے۔میں اُن سے خوب باتیں کرتا اور ہنستا بولتا تھا۔دِن بھر ہم سورج کی کرنوں سے کھیلا کرتے تھے اور رات کو چاندنی سے۔ ذرا آنکھ لگتی تو آسمان کے تارے آکر ہمیں چھیڑتے تھے اور اُٹھا دیتے تھے۔ افسوس! یہ مزے زِیادہ دِن نہ رہے۔ایک صبح ہمارے کان میں ایک سخت آواز آئی۔ ’’ گلِ عبّاس چاہیے، گلِ عبّاس!‘‘ اچھا جتنے چاہیے لے لو۔‘‘ہمارے سمجھ میں یہ بات کچھ نہ آئی اور ہم حیرت ہی میں تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اِرادہ کر رہے تھے کہ ذرا چل کر اپنے دوست ستاروں سے کہیں کہ دوڑو! ہماری مدد کرو!یہ کیا معاملہ ہے؟ اتنے میں کسی نے قینچی سے ہمیں ڈنٹھل سمیت کاٹ لیا اور ایک ٹوکری میں ڈال دِیا۔

اب یاد نہیں کہ اُس ٹوکری میں کتنی دیر پڑے رہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ میں اوپر تھا نہیں تو گُھُٹ کر مر جاتا۔ شاید میں سو گیا ہوں گا، کیونکہ جب میں اُٹھا ہوں تو میں نے دیکھا پانچ چھ اور ساتھیوں کے ساتھ مجھے بھی ایک خوب صورت تاگے سے باندھ کر کسی نے گلدستہ بنایا ہے۔ آس پاس نظر ڈالی تو نہ باغ کی روشیں تھیں، نہ چڑیوں کا گانا۔ سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی میلی کچیلی دوکان تھی۔ ہزاروں آدمی اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔یکے گاڑیاں شور مچا رہی تھیں۔فقیر بھیک مانگ رہے تھے اور کوئی ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔میرا جی ایسا گھبرایا کہ کیا کہوں؟ستاروں کو ڈھونڈا تو اُن کا پتا نہیں، چاند کو تلاش کیا تو وہ غائب۔ سورج کی کرنیں بھی سڑک تک آ کر رُک گئی تھیں۔اور میں پکارتے پکارتے تھک گیا کہ :’’ مجھے جانتی ہو؟ روز ساتھ کھیلتی تھیں، ذرا پاس آؤ اور بتاؤ کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ مگر وہ ایک نہ سنتی تھیں۔ شام ہونے کو آئی تو ایک خوب صورت لڑکی دوکان کے پاس سے گزری۔ہماری طرف دیکھا۔پھولوں والے نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو اِس زور سے جھٹکا دے کر لڑکی کے سامنے رکھا کہ میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔

پھولوں والے نے کہا:’’بیٹی! دیکھو کیسے خوب صورت گل عبّاس ہیں۔ ایک آنے میں گلدستہ، ایک آنے میں ۔

لڑکی نے اِکنّی دی اور ہمیں ہاتھ میں لے لیا۔ اُس کے ہاتھ اَیسے نرم نرم تھے کہ یہاں آ کر جان میں جان آ گئی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد شاید میں بے ہوش ہو گیا۔ اَصل بات یہ تھی کہ پانی نہیں ملا تھا اور پیاس بہت لگی تھی ۔ لڑکی نے شیشے کے ایک گل دان میں پانی بھر کر ہمیں پلایا تو طبیعت ذرا ٹھیک ہوئی۔اور میں نے سر اُٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔میں ایک صاف کمرے میں تھا، جس میں کئی بستر لگے ہوئے تھے۔ایک طرف سے ایک بیمار لڑکی کی آواز سنائی دی۔’’ڈاکٹر صاحب! کیا میں اچھی نہیں ہوں گی، کیا اب میں کبھی چل پھر نہ سکوں گی؟کیا کبھی باغ میں کھیلنے نہ جا سکوں گی؟اور کیا اب کبھی گل عبّاس دیکھنے کو نہ ملیں گے؟‘‘ یہ کہتے کہتے بچی کی ہچکی بندھ گئی۔آنکھوں سے آنسو پونچھ کر کروٹ لی تو اس کو میں اور میرے ساتھی گل دان میں رکھے ہوئے دِکھائی دِیے۔ لڑکی خوشی سے تالیاں بجانے لگی۔ پاس جو نرس کھڑی تھی اُس نے ہمیں اُٹھا کر اس لڑکی کے ہاتھ میں دے دِیا۔ اس پیاری بچی نے ہمیں چوما۔ اُس کے گورے گورے گالوں میں ہماری سُرخی کی ذرا سی جھلک آ گئی۔

اُس وقت سمجھ میں آیا۔ بیج کا گھر چھوڑ کر روشنی کی طرف بڑھنے کی غرض یہی تھی کہ ایک دُکھیاری بیمار بچی کو کم سے کم تھوڑی دیر کی خوشی ہم سے مل جائے۔

٭٭٭

 

 

جواری

 

 

پولیس نے ایسی ہوشیاری سے چھاپہ مارا تھا کہ ان میں سے ایک بھی بچ کر نہیں نکل سکاتھا اور پھر جاتا تو کہاں، بیٹھک کا ایک ہی زینہ تھا جس پر پولیس کے سپاہیوں نے پہلے ہی قبضہ جما لیا تھا۔ رہی کھڑکی، اگر کوئی منچلا جان کی پروانہ کر کے اس میں سے کود بھی پڑتا تو اول تو اس کے گھٹنے ہی سلامت نہ رہتے اور بالفرض زیادہ چوٹ نہ آتی تو بھی اسے بھاگنے کا موقع نہ ملتا کیونکہ پولیس کے نصف درجن سپاہی نیچے بازار میں بیٹھک کو گھیرے ہوئے تھے اور یوں وہ سب کے سب جواری،جن کی تعداد دس تھی پکڑ لیے گئے تھے۔

اتفاق سے اس دن جو جواری اس بیٹھک میں آئے تھے ان میں دو ایک پیشہ وروں کو چھوڑ کر باقی سب کبھی کبھار کے شوقیہ کھیلنے والے تھے اور یوں بھی عزت دار اور آسودہ حال تھے۔ ایک ٹھیکہ دار تھا، ایک سرکاری دفتر کا عہدہ دار، ایک مہاجن کا بیٹا تھا، ایک لاری ڈرائیور تھا اور ایک شخص چمڑے کا کاروبار کرتا تھا۔

ان میں دو شخص ایسے بھی تھے جو بے گناہ پکڑ لیے گئے تھے۔ ان میں ایک تو من سکھ پنواڑی تھا ۔ ہر چند وہ کھی کبھی کھیل بھی لیا کرتا تھا مگر اس شام وہ قطعاً اس مقصد سے وہاں نہیں گیا۔ وہ دُکان پر ایک دوست کو بٹھا کر دس کے نوٹ کی ریزگاری لینے آیا تھا ۔ ریزگاری لے چکا تو چلتے ایک کھلاڑی کے پتوں پر نظر پڑ گئی ، پتے غیر معمولی طور پر اچھے تھے۔ یہ دیکھنے کو کہ وہ کھلاڑی کیا چال چلتا ہے یہ ذرا کی ذرا رکا تھا کہ اتنے میں پولیس آ گئی ۔ بس پھر کہاں جا سکتا تھا!

دوسرا شخص ایک عمر رسیدہ وثیقہ نویس تھا جو ٹھیکہ دار کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس بیٹھک میں پہنچ گیا تھا ۔ ٹھیکہ دار سے اس کی پرانی صاحب سلامت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ ٹھیکہ دار اس کے بیٹے کو بھی چھوٹا موٹا ٹھیکہ کا کام دلا دیا کرے۔ وہ کئی دن سے ٹھیکیدار کی تلاش میں سرگرداں تھا اور آخر ملا بھی تو کہاں ، جہاں نہ تو ٹھیکہ دار کو کھیل سے فرصت اور نہ اسے اتنے آدمیوں کے سامنے مطلب کی بات کہنے کا یارا ۔ ٹھیکہ دار کھیل میں منہمک تھا اور وثیقہ نویس اس سوچ میں کہ وہ کون سی ترکیب ہو سکتی ہے جس سے یہ کھیل گھڑی بھر کے لیے تھم جائے اور دوسرے سب لوگ اٹھ کر باہر چلے جائیں ۔مگر اس قسم کی کوئی صورت اسے نظر نہ آتی تھی۔اِدھر ٹھیکہ دار تھا کہ گھنٹوں سے برابر کھیلے جارہا تھا۔ آخر وثیقہ نویس مایوس ہو کر چلنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں پولیس آ گئی اور جواریوں کے ساتھ اُسے بھی دھر لیا گیا۔

ان دونوں نے اپنی بے گناہی کے بہتیرے ثبوت کیے مگر پولیس نے ایک نہ سنی ۔ باقی کے لوگ پولیس کے اس اچانک دھاوے سے ایسے دم بخود رہ گئے تھے کہ کسی کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ سپاہیوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ پہلے سب کو بیٹھک سے نیچے اتارا، پھر ان کے گرد گھیرا ڈال کر انہیں پیدل تھانے لے چلے۔

یہ بھی غنیمت ہوا کہ جھپٹٹا وقت تھا۔ دھُند لکے میں زیادہ لوگوں کی نظر نہ پڑی اور یہ لوگ کوٹ کے کالر یا پگڑی کے شملے میں منہ چھپائے ، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے جلد ہی تھانے پہنچ گئے جہاں تھانے دار کے حکم سے ان سب کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔

حوالات کی یکسوئی میں جب ان لوگوں کو تماشائیوں کی استہزا بھری نظروں اور سپاہیوں کے کڑے تیوروں اور کرخت لہجوں سے امان ملی اور جان پہچان کے لوگوں سے مڈ بھیڑ کا خوف بھی نہ رہا تو قدرتی طور پر سب سے پہلے ان کا دھیان بیٹھک کے مالک کی طرف گیا جو اُن سب کے ساتھ ہی حوالات میں بند تھا۔ ہر شخص اُس کو اپنی بربادی کا باعث سمجھتا تھا ۔ چنانچہ سب کو اس پر سخت غصہ آ رہا تھا ۔ اگر یہ شخص احتیاط سے کام لیتا مکان کو سرائے نہ بنا لیتا کہ ہر ایرا غیرا منہ اٹھائے چلا آ رہا ہے، بیٹھک کے باہر کسی مخبر کا انتظام کرتا، نیز پولیس والوں سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھتا تو ان لوگوں پر یہ برا وقت کبھی نہ آتا۔

بیٹھک کے مالک کا نام تو خد اجانے کیا تھا مگر سب لوگوں اسے نکّو نکّو کہا کرتے تھے۔ یہ شخص درمیانے قد اور چھریرے بدن کا تھا ۔ شربتی آنکھیں جن میں سُرمے کے ڈورے۔ سفید رنگت، چھوٹی چھوٹی مونچھیں ، چہرے پر چیچک کے مٹے مٹے سے داغ، دانت پانوں کے کثرتِ استعمال سے سیاہی مائل سُرخ ہو گئے تھے۔ گھنگھریالے بال جو ہر وقت آنو لے کے تیل میں بسے رہتے ۔ بائیں طرف سے مانگ نکلی ہوئی۔ دائیں طرف کے بال ایک لہر کی صورت میں پیشانی پر پڑے ہوئے ، ململ کا کُرتا جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے ۔ گلے میں چھوٹا سے سونے کا تعویذ سیاہ ڈورے میں بندھا ہوا ۔اُس کا کُرتا ہمیشہ اُجلا ہوتا مگر دھوتی عموماً میلی ۔ سردیوں میںاس لباس پر ایک پرانا سُرخ دوشالہ زری کے حاشیے والا اوڑھ لیا کرتا۔ اس کی حرکات میں بَلا کی پُھرتی تھی۔ جتنی دیر میں کوئی مشاق سے مشاق جواری ایک دفعہ تاش پھینٹے اور بانٹے یہ اتنی دیر میں کم سے کم دو دفعہ تاش پھینٹتا اور بانٹ لیتا تھا۔

نکو پہلے ہی اس حملے کے لیے تیار تھا۔ پولیس کے چھاپے مارنے سے لے کر اس وقت      تک تو اس نے چپ سادھے رکھی تھی اور اس سارے قضیے میں اس کا رویہ ایک بیگانے کا سارہا تھا مگر اب جب کہ سب طرف سے اس پر تیز نظروں کے حملے شروع ہوئے تو اُس نے ایک جَھر جھری لی اور اپنی مدافعت میں ایک لطیف مسکراہٹ، جس میں خفیف سی شوخی ملی ہوئی تھی ، اپنے ہونٹوں پر طاری کی۔ یہ مسکراہٹ چند لمحے قائم رہی پھر اس نے نہایت اطمینان کے ساتھ سب پر ایک نظر ڈالی اور بڑی خود اعتمادی کے لہجہ میں کہا :

"آپ لوگ بالکل بھی فکر نہ کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کا بھی بال بیکا نہ ہو گا۔ میرے ہاں پچھلے پانچ برس میں آج تک ایسا نہیں ہوا تھا۔ اسے تو، کیا کہنا چاہیے، مذاق سمجھو مذاق”۔

جواریوں نے نکّو کی اس بات کو سُنا ، پر اس سے ان کے غصے میں ذرا بھی کمی نہ ہوئی بعض نے گردن ہلائی، بعض نے بازو جھٹک دئیے۔

” ہوں ۔ مذاق سمجھیں۔ یہ اچھی رہی !” ٹھیکہ دار نے کہا۔

” لا حول و لا قوة” چمڑے کے سودا گرنے ذرا چمک کر کہا۔” عجیب آدمی ہو یا ر، یہاں لاکھ کی عزت خاک میں مل رہی ہے اور تم اسے مذاق بتا رہے ہو!”۔

” ناراض کیوں ہوتے ہو شیخ جی، میں نے جو کہا ، آپ کا بال بھی بیکا نہ ہو گا”۔ مونچھوں پر تاؤ دیتے نکلو گے مونچھوں پر تاؤ دیتے !”۔

” چل ہٹ لپاڑیا کہیں کا ” ٹھیکہ دار نے کہا ۔

” لپاڑیا کون ۔ میں؟”۔ نکّو نے تنک کر کہا ۔ ” خیر جو جی میں آئے کہہ لو مگر میں پھر کہتا ہوں کہ تم میں سے کسی پر آنچ تک نہ آئے گی”۔

وہ جواری جو کسی سرکاری دفتر میں اکاؤنٹنٹ تھا اسے جوئے سے سخت نفرت تھی مگر جب کبھی اس کی بیوی، بچوں کو لے کر میکے جاتی تو اس کو بیٹھک ہی کی سُوجھتی ۔ دفتر سے اُٹھ کر سیدھا وہیں کا رُخ کرتا ۔ ہر بار ہارتا اور اپنے کو کوستا ۔عہد کرتا پھر کبھی نہ آؤں گا ۔ اگلے روز سب سے پہلے پہنچتا، اس شخص نے نکّو کی یہ بات اَن سنی کر کے فریاد کے لہجے میں کہنا شروع کیا :

” ارے بھائی میں لُٹ گیا ، میںسرکاری آدمی، میر ی عزت دو کوڑی کی ہو گئی ہائے میری بیوی بچے، نکّو نے مجھے برباد کر دیا، ہائے…….. "۔

” سنو تو سہی ملک صاحب……..”۔

” ارے کیا خاک سنوں، ہائے وہ کون سا منحوس دن تھا جب میں نے تیری صورت دیکھی، ارے یارو میں سرکاری ملازم۔ اگر دفتر والوں کے کان میں بھنک بھی پڑ جائے تو بد نامی…….. ارے بدنامی کو تو گولی مارو یہاں پندرہ برس کی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں ہائے میرے بیوی بچے……..”۔

مہا جن کا بیٹا جس نے دولت کمانے کا یہ سہل اور دلچسپ طریقہ نیا نیا سیکھا تھا اب تک تو بڑے ضبط سے کام لے رہا تھا مگر ملک کا یہ واویلا سن کر یکبارگی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔

” صبر کرو چھوٹے شاہ جی صبر کرو "۔ نکّو نے کہا ۔ ” تم تو یار عورتوں کی طرح رونے لگے۔ مرد بنو ۔ ارے بھائی یہ تو بات ہی کچھ نہیں ہے "۔

” میرے پتا جی کو پتہ چل گیا "۔ مہا جن کے بیٹے نے سسکیاں لے لے کر کہا ۔” تو وہ ایک دم مجھے گھر سے نکال دیں گے "۔

” ارے یار چھوڑ بھی ، کوئی گھر سے نہ نکالے گا”۔ نکّو نے کہا:

” نکّو ” ملک نے کہا ۔” یہ سب تیرا کیا دھرا ہے "۔

” ملک صاحب ” ۔ نکّو نے پُر زور لہجہ میں کہا ۔” آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔ آپ میری بات مانیں، جو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ پر ذرا آنچ نہ آئے گی ۔ یوں نکال لاؤں گا جیسے مکھن میں سے بال نکالتے ہیں”۔

” بس رہنے دے بھائی” ۔ ملک نے ملامت آمیز لہجہ میں کہا ۔” اگر یہی دم خم تھا تو پولیس کو آنے ہی کیوں دیا ہوتا !”۔

” ملک صاحب آپ میری با ت مانیں۔ میں آپ سے سچ کہتا ہوں آپ کا بال بھی بیکا نہ ہو گا ۔ بات اصل میں یوں ہے کہ تھانے دار اپنا ہی آدمی ہے۔ سمجھے آپ، وہ بڑا مہربان ہے۔ وہ آ پ کو کچھ نہیں کہے گا۔ میرے منہ پر تھوک دینا اگر کچھ کہا "۔

نکّو کی یہ بات سن کر سب جواری پَل بھر کو خاموش کچھ سوچتے رہے۔ بعض تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق اس کی بات کا یقین کر لینا چاہتے تھے اور بعض کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ کچھ فیصلہ نہیں کرسکے کہ انہیں نکّو پر بھروسہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ البتہ یہ ظاہر تھا کہ رفتہ رفتہ ان کا غصہ اترتا جا رہا تھا۔

” دیکھو نکّو”۔ چمڑے والے شیخ جی نے کہا ۔” میں سو پچاس کی پرواہ نہیں کرتا ، مگر میری عزت بچ جائے۔ ویسے بات تو کچھ بھی نہیں ہے اور یوں میرا بہنوئی خود سب انسپکٹر پولیس ہے ، مگر توبہ توبہ یہ کسی سے کہنے والی بات ہے !”۔

” کون ؟ من سکھ پنواڑی کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ وہ اتنے بڑے بڑے آدمیوں کو اس مصیبت میں اپنا ساجھی دیکھ کر اپنا دُکھڑا بھول گیا تھا”۔

” اجی یہی آپ کے تھانے دار صاحب بہادر "۔ یہ کہہ کر نکّو ہنس پڑا۔

وہ جواری جو لاری چلا تا تھا کونے میں کھڑا کچھ دیر نکّو کو بہت غور سے دیکھتا رہا، پھر اس کے قریب آیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگا:

” دیکھ نکّو ! مجھے صبح سویرے لاری میں خشک میوہ بھر کے دور لے جانا ہے ٹھیکہ دار میرا انتظار کر رہا ہو گا ۔ اگر تیری واقعی یہاں کسی سے واقفیت ہے تو کوئی ایسی ترکیب کر کہ میں صبح سے پہلے پہلے یہاں سے خلاصی پا جاؤں”۔

یوں تو دھیرے دھیرے سبھی لوگ آخر کار نکّو کی باتوں پر کان دھرنے لگے تھے مگر اس لاری ڈرائیور نے جس لہجہ میں نکّو سے خطاب کیا اس نے قطعی طور پر نکّو کے ساتھیوں میں اس کا اقتدار قائم کر دیا ۔ نکّو نے بھی اسے محسوس کیا اور اپنی اس کامیابی پر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، البتہ لاری ڈرائیور نے جماعت سے علیحدہ ہو کر تنہا اپنی ذات کے لیے جو سفارش کی تھی اس کو سب نے نا پسند کیا اور اسے لاری ڈرائیور کی خود غرضی اور کمینگی پر محمول کیا گیا۔

نکّو نے ، جس کے لہجہ میں، اب اور بھی خود اعتمادی پیدا ہو چکی تھی ، لاری ڈرائیور سے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا :

"مرزا جی ! میری جان گھبراؤ نہیں۔ اس کا بھی انتظام ہو جائے گا”۔

” انتظام و نتظام خاک نہیں ہو گا”۔ اچانک وثیقہ نویس نے جھلّا کر کہا ۔” مرزا تم بھی اس ڈینگئے کی باتوں میں آ گئے۔ جو سرپر پڑی ہے اسے خود ہی بھگتو”۔

نکّو نے وثیقہ نویس کے اس غیر متوقع حملے کو بڑی چابک دستی سے روکا ، وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

” لو بڑے میاں کی بات سُنو”۔ اس نے کہا ۔” ہوں، انتظام نہیں ہو گا اور یہاں مال جو کھلایا جاتا ہے ہر مہینے ۔ بھائیو میں پھر کہتا ہوں کہ اسے مذاق ہی سمجھو۔ میں ہندو مسلمان والی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ کسی کا بال بھی بیکا نہ ہو گا۔ وہ یوں کہ تھانیدار …….. اب کیا بتاؤں تمہیں "۔ وہ ہنس پڑا ۔” کہہ جو دیا اپنا ہی آدمی ہے …….. اب تم کہلوا کے ہی رہو گے پر  ذکر وِکر نہ کر بیٹھنا کسی سے ورنہ پھنس جاؤ گے، میرا دوش نہیں ہو گا۔ وہ بات یوں ہے کہ تھانے دار …….. اب تم سے کیا چھپانا…….. بھئی میری اس کی رشتہ داری ہے ۔سن لیا؟ کیوں بڑے میاں اب تو ہو گئی تسلی۔ اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو پچھلے پانچ برس سے اتنے بڑے شہر میں یہ دھندا بھلا کیسے چلتا رہتا”۔

نکّو نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اقتدار کی عمارت پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہو چکی تھی۔

ان جواریوں میں ایک شخص تھا جس کے چہرے سے کوئی صدمہ یا رنج ظاہر نہیں ہوتا تھا وہ اس سارے واقعہ کے دوران بالکل خاموش رہا تھا۔ وہ اٹھائیس برس کا ایک دُبلا پتلا نوجوان تھا، لباس اور وضع قطع کی طرف سے خاصا بے پروا معلوم ہوتا تھا۔ مدت ہوئی اس شخص نے نا تجربہ کاری کی وجہ سے ایک خاصی معقول رقم ہار دی تھی بس اسی دن سے یہ عہد کر رکھا تھا کہ جس روز ہاری ہوئی رقم کو واپس جیت لوں گا جوئے کا پھر کبھی نام نہ لوں گا۔ اس بیٹھک میں آنے سے گھنٹہ دو گھنٹے پہلے کسی باغ میں بیٹھ کر کھیل کا ایک پروگرام سا بنا لیا کرتا۔ چالیں تک سوچ رکھتا ۔ بے حد احتیاط سے کھیلتا۔ نہ تاؤ کھاتا نہ جوش ، مگر بدقسمتی سے ہاری ہوئی رقم روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا قرض بھی۔

اس شخص کو رُسوائی یا قید اور جرمانے کا ذرا غم نہ تھا ، البتہ اس بات کی فکر ضرور تھی کہ یہ سب کے سب ڈرپوک ہیں۔ بچ گئے جب بھی اور پھنس گئے جب بھی اس بیٹھک کا رُخ نہ کریں گے۔

ادھر نکّو نے اب حالات پر قابو پالیا تھا۔ اگرچہ وہ رات رات میں کسی مخلصی کا انتظام بھی نہیں کرسکا تھا تاہم اس نے کسی نہ کسی طرح ہر شخص کو یہ یقین دلایا تھا کہ تھانے دار اگر اس کا قریب کا نہیں تو دور کا قرابت دار ضرور ہے اور صبح ہوتے ہی انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ چنانچہ سب لوگ زمین پر وہ پھٹے پرانے بدبو دار کمبل بچھا کر جو سپاہیوں نے لادئیے تھے نخپت سے ہو کر پڑے رہے۔

” اوہو۔ غضب ہو گیا !” اچانک نکّو نے کہا اور لیٹے لیٹے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔

” کیوں، کیوں، خیر تو ہے ؟” اندھیرے میں جواریوں نے پوچھا۔

” بھئی اگر پتا ہوتا کہ یہاں رات کاٹنی پڑے گی تو تاش ساتھ لیتے آتے اور مزے سے ساری رات کھیلتے …….. کہو تو ابھی کسی سپاہی کو بھیج کرتا ش اور موم بتی منگا لوں؟”۔

” نہ نہ بابا معاف کرو”۔ کئی آوازیں ایک ساتھ سنائی دیں۔

” تم جانو”۔ نکّو نے بے پروائی سے کہا گویا ایسا نہ کرنے میں انہی کا نقصان ہے۔” ورنہ اچھی خاصی دل لگی رہتی۔ صبح کو تھانے دار کو سناتے تو وہ بھی خوب ہنستا ……..”۔

اگلے روز صبح نو بجے کے قریب ایک سپاہی حوالات کے سلاخ دار دروازے کے باہر آ کر کھڑا ہوا اور بلند آواز سے پکار کر کہنے لگا:

” او جوار یو اٹھو ۔ تمہاری داروغہ صاحب کے سامنے پیشی ہے”۔

جواری دیر سے اس حکم کے منتظر تھے۔ سب کی نظریں بے اختیار نکّو کی طرف اٹھ گئیں۔ نکّو نظریں ترچھی کر کے ایک خاص ادا سے مسکرادیا۔

پانچ منٹ کے بعد یہ دسوں آدمی تھانے کے چھوٹے سے میدان میں قطار باندھے کھڑے تھے ۔ پانچ، دس منٹ، آدھا گھنٹہ گزر گیا مگر تھانے دار کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اس دوران نکّو برابر اپنے لطیفوں، پھبتیوں اور ہنسی مذاق کی باتوں سے اپنے ساتھیوں کا جی بہلاتا رہا، مگر جب ایک گھنٹہ گزر گیا اور تھانے دار نظر نہ آیا تب تو سب جواری بہت گھبرائے، ہنسی ان کے ہونٹوں سے غائب ہو گئی، سب کے چہرے اُتر گئے اور ایک بدگمانی کی لہر اُن میں پھیل چلی۔ وہ بار بار فکری مندی کے ساتھ نکّو کی طرف مستفسر انہ نظروں سے دیکھتے اور نکّو جواب میں ہر ایک کو ہاتھ سے صبر کا اشارہ کر دیتا۔ اس عرصے میں دو تین سپاہی ان جواریوں کے پاس سے گزرے اور نکّو نے ہر ایک کو خان صاحب جی "،” خان صاحب جی” کہہ کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ، مگر نہ تو انہوں نے نکّو کی بات کا کوئی جواب دیا اور نہ پلٹ کر ہی اس کی طرف دیکھا۔

آخر جب انہیں کھڑ ے کھڑے پورے دو گھنٹے گزر گئے اور ان کی ٹانگیں تھک کر چُور ہو گئیں تو ایک سیاہ لاری تھانے کے اندر داخل ہوئی۔ اس میں سے تھانے دار اور کئی سپاہی نکلے۔ تھانے دار کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے اور سپاہیوں کے کندھوں پر بندوقیں ۔ انہیں خالی ہاتھ لوٹتے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ جس مہم پر وہ صبح ہی صبح گئے تھے اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی اور یہ مہم ضرور کچھ بڑی ہی اہم مہم ہو گی، جبھی تو تھانے دار پریشان پریشان سا نظر آ رہا تھا۔

نکّو دور ہی سے تھانے دار کو دیکھ کر اچھل پڑا۔

” وہ آگیا میرا موتیوں والا "۔ اس نے کہا ۔” بس اب گھبراؤ نہیں۔ دو تین ہی منٹ میں بیڑا پار ہوا چاہتا ہے "۔

یہ کہہ کر نکّو نے دور ہی سے تھانے دار کو ایک فرشی سلام کیا ۔ تھانے دار کی یا تو اس پر نظر نہیں پڑی یا پھر اس نے دانستہ نظریں پھیر لیں اور وہ سپاہیوں کی بیرکوں میں چلا گیا۔

” نکّو” وثیقہ نویس نے طعن آمیز لہجہ میں کہا ۔” میں جانوں تھانے دار کی تم پر نظر نہیں پڑی ورنہ وہ تمہارے سلام کا جواب ضرور دیتا "۔

” اجی توبہ کرو "۔ نکّو نے کہا ۔” تھانے دار میرے سلام کا جواب کبھی نہیں دے گا ۔ بھائی وہ اس وقت رعب میں ہے، رعب میں ، کیا سمجھے !۔ تھانیداری ہے کچھ مذاق تھوڑا ہی ہے ۔ ہم سے سیدھے منہ بات کرے تو سپاہیوں پر رُعب کیسے جما رہے ۔کل کو یہی سپاہی اس کے ناک چنے نہ چبوا دیں اور سپاہی تم جانو مداری کے بندر کی طرح ہوتے ہیں کہ جب تک لاٹھی نظر آتی رہے ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیں ، جہاں مداری نے ذرا ڈھیل دی بس لگے اینٹھنے ، سر پر سوار ہونے ……..

پانچ منٹ کے بعد تھانے دار چند سپاہیوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوا بارکوں میں سے نکلا اور ان جواریوں کے پاس سے گزرتا ہوا تھانے کے پھاٹک پر جا کھڑا ہوا اور وہاں کھڑے کھڑے بدستور سپاہیوں سے باتیں کرتا رہا۔

اتنے میں تھانے دار کے دفتر میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ذرا سی دیر میں ایک سپاہی دوڑتا ہوا تھانے دار کے پاس پہنچا۔ جب تھانے دار تنہا واپس آ رہا تھا تو نکّو نے ایک بار پھر اسے سلام کیا ۔ تھانے دار نے گھور کر اس کی طرف دیکھا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا دفتر میں چلا گیا۔

” کہا تھا نا "۔ نکّو نے فتح مندانہ لہجہ میں کہا ۔” وہ میرے سلام کا جواب نہیں دے گا۔ کیوں جواب دیا ؟”۔

سب جواری خاموش رہے۔

” ایک دن "۔ نکّو نے پھر کہنا شروع کیا ۔” تھانے میں بس وہ اور میں ہی تھے کوئی سپاہی آس پاس نہیں تھا۔ بس پھر کیا تھا۔ اتنی گدگدیاں کیں کہ ہنسا ہنسا کے بُرا حال کر دیا”۔

تھانے دار کوئی آدھ گھنٹے تک دفتر کے اندر ہی رہا۔ یہ لوگ پھر بے صبر ہو چلے تھے کہ اتنے میں وہی سپاہی جس نے صبح آ کر پیشی کی اطلاع دی تھی دفتر سے نکلا اور سیدھا ان کے پاس آ کر اپنے اکھڑ لہجے میں کہنے لگا:

’ ’ او جواریو! سنو۔ داروغہ صاحب نے حکم دیا ہے کہ تم سب کے سب دھوتی پا جامہ کھول کے زمین پر ایک قطار میں اوندھے لیٹ جاؤ ۔ پھر تم میں سے سرے والا آدمی ایک ایک کر کے اٹھے اور ہر ایک کے دس دس جوتے لگا کے خود دوسرے سرے پر اوندھا لیٹ جائے۔ غرض اسی طرح سب کے سب باری باری ہر ایک کے دس دس جوتے لگائیں۔

تھانے دار کا یہ حکم اتنا غیر متوقع تھا کہ سب جواری ہکا بکا رہ گئے اور سراسیمہ ہو کر سپاہی کا منہ تکنے لگے۔

” الوؤں کی طرح میرا منہ کیا تک رہے ہو۔ اگر حکم سمجھ میں نہ آیا ہو تو پھر سنا دوں؟”۔ یہ کہہ کر جواب کا انتظار کئے بغیر سپاہی نے وہی الفاظ پھر دہرا دیے۔

اس پر وثیقہ نویس اور من سکھ پنواڑی بے اختیار آگے لپک کر سپاہی کے قدموں سے لپٹ گئے۔

” خان صاحب ہم بالکل بے قصور ہیں”۔انہوں نے یک زبان ہو کر گڑگڑا کر کہا۔” یہ سب لوگ گواہی دیں گے کہ ہم بالکل بے گناہ ہیں۔ جس وقت پولیس آئی ہم نہ تو کھیل رہے تھے اور نہ اس ارادے سے وہاں گئے تھے ۔ ہم بے گناہ ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ ہم بالکل بے قصور ہیں”۔

"میں گواہی وواہی کچھ نہیں جانتا”۔ سپاہی نے کہا۔ ” داروغہ صاحب نے سب کے لیے یہی حکم دیا ہے۔ ہاں اور سنو !انہوں نے کہا ہے اگر یہ لوگ راضی نہ ہوں تو ان سب کو پھر حوالات میں بند کر دیا جائے۔ دیکھو، دیر نہ کرو۔ مجھے داروغہ صاحب کے ساتھ ابھی ابھی باہر جانا ہے۔ لاری تیار کھڑی ہے ۔ تم نے دیر کی تو میں پھر سب کو حوالات میں بند کر دوں گا”۔

وثیقہ نویس اور من سکھ دونوں مایوس ہوکے پھر قطار میں آ کھڑے ہوئے۔ ان کا یہ انجام دیکھ کے کسی جواری کو لب ہلانے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ سخت پریشان ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کیا جائے۔ ان کی نظریں بار بار نکّو پر پڑتیں تھیں جو گویا دیواروں کو چھیدتی ہوئی تھانے دار کو ڈھونڈ نکالنا چاہتی تھیں۔

” دیکھو دیکھو”۔ سپاہی نے کہا۔ ” تم لوگ دیر کر رہے ہو مجھے مجبوراً تم سب کو حوالات ہی میں بند کر دینا پڑے گا”۔

اس پر بھی جواری ابھی لیت و لعل ہی کر رہے تھے کہ اچانک کسی کے دھڑام سے زمین پر گرنے کی آواز آئی۔

یہ نکّو تھا جو دھوتی کھولے زمین پر اوندھا پڑا تھا ۔ اسے اس حال میں دیکھ کر من سکھ کی ہمت بندھی اور اس نے بھی نکّو کی پیروی کر ہی دی۔ اکاؤنٹنٹ ملک اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ سپاہی نے پیچھے سے آ، گدّی سے پکڑ کر زبردستی نیچے بٹھا دیا اور اس نے نا چارا پنے نیکر کے بٹن کھول دئیے۔

سپاہی کے اس سلوک کو دیکھ کر دوسرے جواری آپ ہی آپ زمین پر لیٹ گئے۔ صرف چمڑے والے شیخ جی کھڑے رہ گئے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور صورت سے انتہا درجہ کی مظلومی برس رہی تھی۔ ان کا ہاتھ بار بار کمر بند پر پڑتا تھا مگر وہیں رہ جاتا تھا۔

ایسے معزز اور شریف صورت آدمی کو ایسی پریشانی میں دیکھ کر سپاہی کا دل پسیج گیا اور وہ جان بوجھ کر وہاں سے ٹل گیا ۔ شیخ جی نے دل کڑا کیا، پگڑی کے شملے سے آنسو پونچھے، گردن پھرا کر اپنے اردگرد نظر ڈالی اور پھر انتہائی مجبوری کے ساتھ بالآخر انہوں نے بھی تھانے دار کے حکم کی تعمیل کر دی۔

سرے پر لاری ڈرائیور تھا ۔ سب سے پہلے جوتے لگانے کی اس کی باری تھی ۔ جس وقت وہ اٹھا تو نکّو زور سے کھنکھکارا ۔” مرزا جی سنبھل کے "۔ اس نے کہا۔ ” سب اپنے ہی آدمی ہیں ہاں۔ دیکھنے میں زور کا ہاتھ پڑے مگر …….. سمجھ گئے نا ……..”۔

لاری ڈرائیور نے ابھی پانچ تک ہی گنتی کی تھی کہ وہی سپاہی تھانے کے دفتر سے نکلا اور اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔” داروغہ صاحب کہتے ہیں "۔ اس نے پاس آ کر کہا ۔” اگر تم لوگوں نے ٹھیک طرح سے جوتے نہ لگائے تو میں اپنے سپاہیوں سے جوتے لگواؤں گا”۔ یہ کہہ کر وہ پھر چلا گیا۔

جواریوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ خود ہی آپس میں زور  زور کے جوتے لگوا لیں چنانچہ کوئی بیس منٹ کے بعد، جب ہر ایک نے ہر ایک کے دس دس جوتے لگائے تو وہ اس کا م سے نمٹ ، چنانچہ کپڑے جھاڑ، اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اتنے میں وہی سپاہی پھر آیا اور کہنے لگا۔” جاؤ اب کے داروغہ صاحب نے تمہارا قصور معاف کر دیا ہے، پھر کبھی جوا نہ کھیلنا”۔

یہ لوگ تھانے میں سے یوں نکلے جیسے اپنے کسی بڑے ہی عزیز قریبی رشتہ دار کو دفن کر کے قبرستان سے نکلے ہوں۔ تھانے سے نکل کر کوئی سو گز تک تو وہ چپ چاپ گردنیں ڈالے چلا کیے ۔اس کے بعد نکّو نے یکبارگی زور کا قہقہہ لگایا۔ اتنے زور کا کہ وہ ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا ۔” کیوں دیکھا !”۔ اس نے کہا ۔ ” نہ چالان ، نہ مقدمہ، نہ قید، نہ جرمانہ میں۔ نہ کہتا تھا اسے مذاق ہی سمجھو!”۔

٭٭٭

ماخذ: مخلف ویب سائٹس سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید