FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

غزل اور تحسین غزل

 

 

 

               امتیاز احمد

 

 

 

 

 

غزل اردو اور فارسی کی مقبول ترین اصناف میں سے ہے۔ اس کی ابتدا عموماً قصیدہ کی تشبیب یا نسیب میں تلاش کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی صنف ہے جس کی پہچان اس کی ہیئت سے ہوتی ہے۔ یعنی اس کی جو شکل، صورت اور ڈھانچہ ہے وہی اس کی پہچان مقرر کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی ایک شعر کو سمجھنے کے لیے کسی دوسرے شعر کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ پہلے شعر کا دوسرے شعر سے اور دوسرے شعر کا تیسرے شعر سے یا تیسرے شعر کا چوتھے شعر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ ان کے درمیان کوئی ربط یا تسلسل نہیں پایا جاتا ہے۔ عملی طور پر یہ ایک ہی بحر، ردیف اور قافیہ میں کہے ہوئے اشعار کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایک ہی غزل کے مختلف اشعار الگ الگ موضوع پر الگ الگ تجربے کا اظہار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پہلے شعر میں محبوب کی آنکھوں کی خوب صورتی کا بیان ہو تو دوسرے شعر میں دنیا کی بے ثباتی کا بیان ہوسکتا ہے۔ تیسرے شعر میں واعظ اور زاہد کا مذاق اڑایا جا سکتا ہے تو چوتھے شعر میں شراب کی تعریف کا مضمون بیان کیا جا سکتا ہے اور پانچویں شعر میں کوئی اخلاقی مضمون بیان کیا جا سکتا ہے۔

عام طورسے غزل کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ غزل کے لغوی معنی بازنان گفتن یعنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا یا عشق و محبت کی باتیں کرنا ہے، لیکن اصطلاح شعرا میں غزل اس منظوم کلام کو کہتے ہیں جس کا ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں کم سے کم تین یا پانچ شعر پائے جاتے ہوں، جس کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوں اور بقیہ اشعار کے بھی دوسرے مصرعے اسی ردیف اور قافیہ میں کہے گئے ہوں۔ اس کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ مطلع جس وزن یا بحر میں کہا گیا ہو، غزل کے بقیہ اشعار بھی اسی وزن یا بحر میں کہے جائیں گے۔ غزل کے آخری شعر کو جس میں شاعر کا تخلص استعمال ہوا ہو مقطع کہتے ہیں۔

 

صنفی خصوصیات

 

اس صنف میں بنیادی طور پر بڑی سے بڑی بات کو انتہائی ایجاز اور اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاعری کی اور دوسری اصناف کے برعکس اس صنف کا پیمانہ بہت چھوٹا ہے۔ اس میں بڑی سے بڑی بات کو ادا کرنے کے لیے شاعر کے پاس صرف دو مصرعے ہوتی ہیں۔ انہی دو مصرعوں میں وہ اپنی بات کو کبھی تشبیہوں کے ذریعے بیان کرتا ہے تو کبھی استعاروں کے ذریعے، کبھی تلمیح کی صنعت کا استعمال کرتا ہے تو کبھی تضاد کی صنعت کو برتتا ہے، کبھی لف و نشر مرتب کی صنعت استعمال کرتا ہے تو کبھی لف و نشر غیر مرتب کی صنعت استعمال کرتا ہے اور کبھی اسی طرح کی اور دوسری صنعتیں استعمال کرتا ہے۔ یہ صنعتیں دراصل Poetic tools یعنی شعری حربے یا شعری طریقِ کار ہیں جن کے ذریعے اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ خوب صورت یا پُر اثر انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

 

غزل کی ابتدا اور ارتقا

 

اردو غزل کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہے (۱۵۶۵۔ ۱۶۱۲ء) جو دکن میں قطب شاہی سلطنت کا فرماں روا تھا اور ۱۵۸۰ء میں تخت سلطنت پر بیٹھا۔ قلی قطب شاہ کا بہت ضخیم کلیات شائع ہو گیا ہے۔ اس میں بڑی تعداد میں اس کی غزلیں موجود ہیں۔ قلی قطب شاہ کے بعد ولیؔ اور سراجؔ اورنگ آبادی اردو غزل کے نمائندہ اور بڑے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ قلی قطب شاہ کے یہاں زبان و بیان میں دکنی اثرات بہت نمایاں ہیں۔ کچھ اثر سنسکرت کی شعری روایت کا بھی ہے جس میں عورت کی طرف سے اظہارِ عشق کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر قلی قطب شاہ کے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں :

پیا باج پیالہ پیا جائے نا

پیا باج یک تل جیا جائے نا

کہی تھے پیا بن صوری کروں

کہیا جائے امّا کیا جائے نا

قطب شہ نہ دے مج دوانے کوں پند

دوانے کو کچ پند دیا جائے نا

ولیؔ دکنی (۱۶۶۸۔ ۱۷۲۰ء) کے یہاں زبان کی سطح پر مذکورہ دکنی اثرات ضرور ملتے ہیں لیکن شعری روایت کی سطح پر سنسکرت سے استفادہ کی راہ مسدود ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ان کا رجحان فارسی کی شعری روایت کی طرف ہے۔ محمدحسین آزاد کی روایت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ۱۷۰۷ء میں اپنے سفر دہلی میں جب وہ میاں سعداﷲ گلشن سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے تو انھیں جو نصیحت کی گئی وہ یہی تھی کہ فارسی شاعری کے جو مضامین و موضوعات بھرے پڑے ہیں ان سے استفادہ کرو۔ تم سے کون پوچھنے والا ہے۔ چنانچہ ولیؔ کی غزلیں اُٹھا کر دیکھ ڈالیے، اس میں فارسی روایت سے استفادہ کی بے انتہا خوب صورت مثالیں ملیں گی۔ مثلاً:

تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا

جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

دی باد شہی حق نے تجھے حسن نگر کی

جا کشور ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا

تعریف ترے قد کی الف وار سری جن

جا سر و گلستاں میں خوش الحاں سوں کہوں گا

……

وہ صنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ

آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ

ناز دیتا نہیں گر رخصت گلگشت چمن

اے چمن زار حیا دل کے گلستان مین آ

……

مت غصے کے شعلے سوں جلتے کوں جلاتی جا

ٹک مہر کے پانی سوں یہ آگ بجھاتی جا

اس رات اندھاری میں مت بھول بڑوں تس سوں

ٹک پاؤں کے بچھوؤں کی آواز سناتی جا

تجھ عشق میں جل جل کر سب تن کوں کیا کاجل

یہ روشنی افزا ہے اَنکھین کو لگاتی جا

……

کیا مج عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ

کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ

عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل روسوں

خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

مرے دل کو کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں

کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ

ادا و ناز سوں آتا ہے وہ روشن جبیں گھر سوں

کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ

ولیؔ مج دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا

کہ جیوں انکھیاں مُنیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ

ولیؔ کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی یہ بات بہت اہم ہے کہ:

’’آگے چل کر جتنے رجحانات (اردو شاعری میں ) نمایاں ہوئے وہ خواہ عشقیہ شاعری کا رجحان ہو یا ایہام پسندی کا، لکھنوی شاعری کی خارجیت اور مسّی چوٹی والی شاعری ہو، مسائل تصوف کے بیان والی شاعری ہو یا ایسی شاعری ہو جس میں داخلیت اور رنگارنگ تجربات کا بیان ہو یا اصلاح زبان و بیان کی تحریک ہو سب کا مبدا ولیؔ ہے۔ ‘‘

اسی طرح شمس الرحمن فاروقی نے بھی یہ بات بالکل درست کہی ہے کہ:

’’ولیؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قطعی طور پر اور ہمیشہ کے لیے ثابت کر دیا کہ گجری اور دکنی کی طرح ہندی/ ریختہ (یعنی موجودہ اردو) میں بھی بڑی شاعری کی صلاحیت ہے۔ ولیؔ نے یہ بھی دکھا دیا کہ ریختہ/ ہندی یعنی موجودہ اردو میں یہ بھی قوت ہے کہ وہ سبک ہندی کی فارسی شاعری پر فوقیت لے جا سکتی ہے یا کم سے کم اس کے شانہ بہ شانہ تو چل ہی سکتی ہے۔ تشبیہ اور پیکر کی نفاست ہو یا استعارے کی وسعت، تجرید اور پیچیدگی، مضمون آفرینی ہو یا معنی آفرینی ہندی / ریختہ فارسی سے ہرگز کم نہیں۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اردو کے شعرا کو ایک نئی شعریات کے احساس اور وجود سے آشنا کیا۔ اس شعریات میں سنسکرت، سبک ہندی اور دکنی تینوں کے دھارے آ کر ملتے ہیں۔ ‘‘

ان دونوں کے برعکس سراج اورنگ آبادی (۱۷۱۵۔ ۱۷۶۳ء) کے یہاں زبان منجھ کر اور صاف ہو جاتی ہے۔ زبان کی اس صفائی کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں تصوف کی آمیزش بھی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں :

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی

نہ جنوں کی پردہ دری رہی نہ خرد کی بخیہ گری رہی

ان بزرگوں کے بعد شیخ مبارک آبرو (وفات: ۱۷۵۰ء)، شرف الدین مضمون (وفات: ۱۷۴۵ء)، محمد شاکر ناجی اور غلام مصطفی یکرنگ وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ یہ لوگ ایہام گوئی کے بہت شائق تھے، اکثر اشعار ذومعنی نظم کرتے ہیں۔ انہی لوگوں کے یہ اشعار ہیں :

اے صبا کہہ بہار کی باتیں

اس بت گل عذار کی باتیں

 

کس پہ چھوڑے نگاہ کا شہباز

کیا کرے ہے شکار کی باتیں

 

چھوڑتے کب ہیں نقد دل کو صنم

جب یہ کرتے ہیں پیار کی باتیں

شاکرناجیؔ

……

 

اب دین ہوا زمانہ سازی

آفاق تمام دہریا ہے

 

کنجی اس کی زبان شیریں ہے

دل مرا قفل ہے بتاشے کا

 

تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے

کہاں ہے؟ کس طرح کی ہے کدھر ہے؟

آبروؔ

……

 

جس کے درد دل میں کچھ تاثیر ہے

گر جواں بھی ہے تو میرا پیر ہے

 

زبان شکوہ ہے مہدی کا ہر پات

کہ خوباں نے لگائے ہیں مجھے ہات

 

پارسائی اور جوانی کیوں کے ہو

ایک جاگہ آگ پانی کیوں کے ہو

 

نہ کہو یہ کہ یار جاتا ہے

دل سے صبر و قرار جاتا ہے

یکرنگؔ

 

ان لوگوں سے متّصل شاہ ظہور الدین حاتم(۱۶۹۹۔ ۱۷۹۱ء)، سراج الدین علی خاں آرزو (۱۶۸۹۔ ۱۷۵۶ء)، اشرف علی خاں فغاں (وفات: ۱۷۷۲ء) اور مرزا مظہر جان جاناں (۱۶۹۸۔ ۱۷۸۱ء) تھے جنھوں نے اردو شاعری کے عہد زرّیں کے لیے ماحول تیار کیا۔ بلکہ آرزو نے تو بعضوں کی تربیت بھی کی۔ چنانچہ محمدحسین آزاد نے ’’آبِ حیات‘‘ میں میرؔ و سوداؔ وغیرہ کے بارے میں بہت خوب صورت جملہ لکھا ہے:

’’خان آرزو کے فیضِ صحبت نے ان نوجوانوں کے کمال کو اس طرح پرورش کیا جس طرح دایہ اپنے دامن میں ہونہار بچوں کو پالتی ہے۔ ‘‘

چنانچہ مظہر جان جاناں، میر عبدالحئی تاباں، میر ضاحک، میر درد (۱۷۲۰۔ ۱۷۸۵ء)، میرسوز سب نے اپنے اپنے انداز میں اس صنف کی آبیاری کی، لیکن جو مرتبہ مرزا محمد رفیع سوداؔ (۱۷۱۳۔ ۱۷۸۱ء) اور میر تقی میر (۱۷۲۳۔ ۱۸۱۰ء) کو حاصل ہوا اور کسی کو نہ ہوسکا۔

میر تقی میرؔ (۱۷۲۳۔ ۱۸۱۰ء)  کو خدائے سخن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے لگ بھگ تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے، لیکن ان کی غزل میں جو سوزوگداز، جو خودسپردگی، ہڈیوں میں چھید کر دینے والا جو غم، الفاظ کو برتنے کا جو سلیقہ اور کثیر المعنویت پائی جاتی ہے وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوا۔ ان کے یہ اشعار دیکھیے:

میر صاحب رُلا گئے سب کو

کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے

سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

ان اشعار میں دل اور دلّی کی تباہی کی داستان بار بار بیان ہوئی ہے۔ یہ اشعار ہمیں بار بار ان کی غمگین شخصیت کا احساس دلاتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کی بے ثباتی اور دوسرے متصوفانہ مضامین بھی ان کے یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں :

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

میرؔ کے مقابلے میں مرزا محمد رفیع سودا (۱۷۱۳۔ ۱۷۸۱ء) قصیدہ اور ہجو کے مرد میدان ہیں، لیکن انھوں نے غزلیں بھی کم نہیں کہی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں بھی قصیدہ کا ہی انداز ملتا ہے۔ قصیدہ کی سی بلند آہنگی اور ایک برون بیں (Extrovert) شخصیت کا احساس ہمیں بار بار ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایجاز کے بجائے اطنابِ ایمائیت و اشاریت کے بجائے وضاحت و صراحت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کے یہاں تہہ داری، رمزیت اور وفور معنی کی کیفیت پیدا نہیں ہوپا تی۔ خواجہ میر دردؔ (۱۷۲۰۔ ۱۷۸۵ء) عملی طور پر بھی صوفی تھے۔ کلام میں بھی تصوف کا رنگ چھایا ہوا ہے، لیکن شمس الرحمن فاروقی کے خیال میں اس عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں اس دنیائے عشق کے اثرات بھی ملتے ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی کا خیال ہے کہ دردؔ کے یہاں ایک تشکیک اور بے یقینی کا انداز ملتا ہے۔ ان کے خیال میں غالبؔ کی عقلیت، تفکر، تشکیک اور فلسفیانہ اور مابعد الطبیعاتی کرید کی ابتدائی صورتیں دردؔ کے یہاں ملتی ہیں۔ ان کے یہ اشعار خاص طورسے قابلِ ذکر ہیں :

تہمت چند اپنے ذمّے دھر چلے

جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے

تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے؟

جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہو گا

کہ نہ ہنستے ہی رو دیا ہو گا

انشاء اﷲ خاں انشاؔ (۱۸۱۷ء۔ …)، شیخ قلندر بخش جرأت اور شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ بھی اسی دور کے شعرا میں سے ہیں۔ انشاؔ کی ذہانت کے بارے میں محمدحسین آزاد نے جو کسی کا یہ قول نقل کیا ہے وہ آج بھی سند ہے کہ:

’’انشا کے فضل و کمال کو شاعری نے کھویا اور شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبویا۔ ‘‘

ان کی غزل ہمیشہ یاد رکھی جائے گی:

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی

تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی پر

غرض کچھ اور ذہن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں

بسانِ نقشِ پاتے رہ رواں کوئے تمنا میں

نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک

نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں

کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے

میاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں

بخیوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو

جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں

بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کیسے انشاؔ

غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں

جرأت کے بارے میں میر تقی میرؔ کا یہ جملہ آج بھی مشہور ہے کہ:

’’شعر تو تم کہہ نہیں جانتے ہو۔ اپنی چوما چاٹی کہہ لیا کرو۔ ‘‘

حسرت موہانی نے ان کے بارے میں ٹھیک لکھا ہے کہ:

’’جرأت کا کلام سادگی زبان کے ساتھ حسن و عشق کے معاملات سے لبریز ہے۔ ‘‘

ان کے یہ اشعار آج تک زبان زد خاص و عام ہیں :

لگ جا گلے سے تاب اب اے نازنیں نہیں

ہے ہے خدا کے واسطے مت کر نہیں نہیں

یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا

چمپئی رنگ ان کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا

گر وہ ہاتھ آئیں تو زانو پہ بٹھائے رکھیے

لب سے لب سینے سے سینے کو ملائے رکھیے

رشک آتا ہے جب کہے ہے کوئی

میں نے اک قدردان پایا ہے

بھول گئے تم جن روزوں ہم گھر میں بلائے جاتے تھے

ہوتے تھے کیا کیا چرچے اور عیش منائے جاتے تھے

بقول رام بابو سکسینہ: ’’انھوں نے سب سے پہلے بگڑے ہوئے عام مذاق کی پیروی کی اور ایسا رنگ اختیار کیا جس کی تکمیل متاخرین میں مرزا خاں داغؔ کے ہاتھوں ہوئی۔ ‘‘

مصحفیؔ کا کلام تو ہر اعتبار سے استادی کا بہترین نمونہ ہے۔ وہ متقدمین کے پیرو اور بہت زود گو تھے۔ مختلف اصناف پر انھیں کمال حاصل تھا۔ ان کے اشعار نمونے کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں:

اس باغ بے ثبات میں فکر مکاں نہ کر

بلبل تو جمع خار و خسِ آشیاں نہ کر

نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر

یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و حرماں لے کر

جی بھر کے دیکھ لوں رخ جاناں شب وصال

ہے مغتنم تلاوتِ قرآن شب کی شب

رہ جاؤ میرے گھر کبھی مہمان شب کی شب

دشوار کیا ہے وقفہ مری جان! شب کی شب

شیخ امام بخش ناسخؔ (۱۷۷۲۔ ۱۸۳۸ء) اور خواجہ حیدر علی آتشؔ (۱۷۷۸۔ ۱۸۴۷ء) کو دبستانِ لکھنؤ کے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دونوں نے زبان کی تراش خراش میں اہم رول ادا کیا۔ امام بخش ناسخ کے بارے میں محمد حسین آزاد کا بیان ہے کہ:

’’انھیں ناسخ کہنا بجا ہے کیوں کہ طرزِ قدیم کو نسخ کیا۔ ‘‘

ان کے یہاں میرؔ، دردؔ، سوداؔ وغیرہ کی فطری آمد کے بجائے ایک طرح کے آورد اور کوشش کا احساس ہوتا ہے۔ اس لیے کلام دشوار پسند ہے۔ غزلوں میں بقول آزاد ’’شوکت الفاظ اور بلند پروازی اور نازک خیالی بہت ہے اور تاثیر کم۔ ‘‘ شاعری ان دونوں کے یہاں خصوصاً اور لکھنوی شعرا (وزیرؔ، رشکؔ، صباؔ، بحرؔ، رندؔ) کے یہاں عموماً صنعت گری کا نام ہے، چنانچہ آتشؔ کا بہت مشہور شعر ہے:

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

ناسخؔ کے یہ اشعار آج بھی اپنے انداز کی یاد دلاتے ہیں :

وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں

ہائے میں کیا کروں، کہاں جاؤں

اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے

آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

کسی کا کب کوئی روز سیہ میں ساتھ دیتا ہے

کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے

راستی کا نام بھی اس شہر میں سنتے نہیں

کیوں نہ ہوں سب لکھنؤ کے کوچہ و بازار کج؟

ہر گلی میں ہیں سائل دیدار

آنکھ یاں کاسۂ گدائی ہے

زندگی زندہ دلی کا نام ہے

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

جو روز ایک وضع پر رنگ جہاں نہیں

وہ کون سا چمن ہے کہ جس کو خزاں نہیں

دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں

آگ ہم سنگ کی مانند نہاں رکھتے ہیں

مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا

طلوع صبح محشر، چاک ہے میرے گریباں کا

کوئی غارت گر نہیں، دیوانوں کے اسباب کا

خانۂ زنجیر کو کچھ غم نہیں سیلاب کا

آتشؔ (۱۷۷۸۔ ۱۸۴۷ء) کے یہاں بول چال، روزمرہ اور محاورہ کا لطف ہے۔ ناسخ کے مقابلے زبان اور طرز بیان صاف ہے۔ محمدحسین آزاد کے خیال میں :

’’سیدھی سی بات کو پیچ نہیں دیتے۔ ترکیبوں میں استعارے اور تشبیہیں فارسیت کی بھی موجود ہیں، مگر قریب الفہم اور ساتھ اس کے محاورہ کے زیادہ پابند ہیں۔ ‘‘

چنانچہ ان کے یہ اشعار آج بھی پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں :

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے

ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے

پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم

اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ

برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے

عالم حسنِ خدا دادِ بتاں ہے کہ جو تھا

ناز و انداز بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا

آئینہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا

چہرۂ شاہد مقصود عیاں ہے کہ جو تھا

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

طبل و علم نہ پاس ہے اپنے نہ ملک و مال

ہم سے خلاف ہوکے کرے گا زمانہ کیا

تار تار پیرہن میں بس گئی ہے بوئے دوست

مثل تصویر نہالی میں ہوں اور پہلوئے دوست

اس بلائے جاں سے آتشؔ دیکھیے کیوں کر نبھے

دل سوا شیشے سے نازک، دل سے نازک خوئے دوست

دہن پیر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے؟

کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے؟

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا؟

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے؟

غم و غصہ و رنج و اندوہ ہو حرماں

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے؟

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

ان شعرا کے بعد غالب (۱۷۹۶۔ ۱۸۶۹ء)، مومنؔ (۱۸۰۰۔ ۱۸۵۱ء) اور ذوق نے اپنا اپنا رنگ دکھایا۔ ذوقؔ (۱۷۸۸۔ ۱۸۵۴ء) بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ ان کے یہاں روزمرہ اور محاورہ کا بہ کثرت استعمال اور بندش کی چستی پر زور ملتا ہے، لیکن ان خوبیوں کا استعمال عام طور پر رسمی مضامین، خیال بندی اور لسانی ہنر مندی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ذوقؔ کا بنیادی مزاج ناصحانہ ہے اس لیے وہ فنی ہنر مندی کا بہت زیادہ استعمال نہیں کرتے، لیکن اس کے باوجود تجربے کی آنچ ان کے اشعار کو ضرب المثل بنانے میں مدد کرتی ہے۔ بقول پروفیسرابوالکلام قاسمی:

’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے مطلع میں تمثیلی طریقِ کار استعمال کر کے دعویٰ اور دلیل کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ ‘‘

اسی طرح ممتاز ناقد شمس الرحمن فاروقی نے ان کی شاعری کو لطف انگیز قرار دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

’’ان کا (ذوقؔ کا) کلام لطف انگیز ہے کیوں کہ وہ لسانی اظہار میں ہنرمند ہیں۔ میں تو شاعری کو لطف کی خاطر پڑھتا ہوں، اور مجھے ذوقؔ کے بہت سارے کلام سے لطف حاصل ہوتا ہے۔ تو میں ذوقؔ کی قدر کرتا ہوں۔ ‘‘

چنانچہ ذوقؔ کے بہ کثرت اشعار ضرب المثل کے طور پر مشہور ہیں۔ اردو ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہیں :

اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا

بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر

آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے

وقت پیری شباب کی باتیں

ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوقؔ اس جہاں کو زیب اختلاف سے

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات

رو کر گزار یا اسے ہنس کر گزار دے

مومن خاں مومنؔ (۱۸۰۰۔ ۱۸۵۱ء) کے کلام میں اساتذۂ لکھنؤ کے اثرات بھی ملتے ہیں، لیکن ان کے یہاں صحیح جذبات نگاری اور بلند پروازی کا جوہر ملتا ہے۔ علمی لیاقت اور طباعی کی وجہ سے ان کے یہاں پامال مضامین نہیں ملتے۔ غالبؔ کی طرح ان کے یہاں بھی فارسیت کے اثرات بہ کثرت ملتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار مقبول خاص و عام ہیں :

تاب نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں

اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے

ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے

دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب

تھا سازگار طالع ناساز دیکھنا

ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے

اسداﷲ خاں غالبؔ (۱۷۹۶۔ ۱۸۶۹ء) اپنے دور کے ان تمام شعرا سے مختلف اور ممتاز نظر آتے ہیں۔ وہ نہ روزمرہ اور محاورہ کی پابندی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، نہ اخلاقی مضامین باندھتے ہوئے، نہ عامۃالورود جذبات و احساسات کو نظم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں نہ ہر شخص کی زبان پر چڑھ جانے اور عوام میں مقبول ہو جانے اور کوٹھوں پر گائے جانے والے اشعار کہتے نظر آتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک مشکل پسند شاعر ہیں :

مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی

وہ کائنات کے بنیادی مسائل و معاملات پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ؛ مسلمات تو توڑتے اور ان پر شبہ کرتے ہیں اور ہماری ذہنی اور فکر صلاحیت کو مہمیز کرتے ہیں :

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں

غمزہ عشوہ و ادا کیا ہے؟

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا؟

کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

وہ کلاسیکی شاعروں کی طرح آداب عشق کے پاس میں اپنے آنسوؤں کو پی جانے کا عادی نہیں بلکہ ان تکلّفات کو ختم کر کے ایک تکلّفانہ انداز اپناتا ہے:

دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہ تھا

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

بعد کے زمانے میں انہی غالبؔ کے شاگرد الطاف حسین حالیؔ (۱۸۳۷۔ ۱۹۱۴ء) مقدمۂ شعر و شاعری لکھ کر اردو شاعری کی تاریخ میں انقلاب برپا کر دیا۔ ہر وہ چیز جو پہلے سے رائج تھی اسے اپنی تنقیدی کا نشانہ بنایا:

یہ شعر و قصائد کے ناپاک دفتر

عفونت میں سند اس سے جوہیں بدتر

لیکن ٹھیک اُسی زمانہ میں ذوقؔ کے شاگرد مرزا خاں داغؔ دہلوی نے زبان و بیان کے چٹخارے کو باقی رکھتے ہوئے اردو شاعری کی روایت میں ایک زیادہ Bold عاشقی کا تصور پیش کیا اور معشوق سے برابری کی سطح پر معاملہ کیا:

نہیں ہوتی بندے سے طاعت زیادہ

بس اب خانہ برباد دولت زیادہ

کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں

دل بہل جائے گا کہیں نہ کہیں

جواب اس طرف سے بھی فی الفور ہو گا

دبے آپ سے وہ کوئی اور میں ہو گا

حلقۂ آغوش ہے یہ حلقۂ گیسو نہیں

کسمسا کر ہو نہ جائے گی رہائی آپ کی

انہی مرزا خاں داغؔ دہلوی (۱۸۳۱۔ ۱۹۰۵ء) کے شاگرد شیخ محمد اقبال ہوئے اور شروع میں ان کے رنگ کی اتباع میں اس طرح کے اشعار خوب خوب کہے:

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا

تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی

اقبالؔ (۱۸۷۷۔ ۱۹۳۸ء) ایک جینیس ہے جس کا اردو شاعری کے پاس کوئی بدل نہیں۔ وہ شاعر ہے، مفکر ہے، سیاست داں ہے، وہ ایک ساتھ اردو کا شاعر ہے، فارسی کا شاعر ہے، نظم کا بھی شاعر ہے، غزل کا بھی شاعر ہے لیکن اس کی جینیس کا اصل اظہار اس کی طویل نظموں میں ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ غزل کہتے ہیں ان غزلوں میں بھی نظم کا سا تسلسل پیدا ہو جاتا ہے جسے ہم زیادہ سے زیادہ غزل مسلسل کا نام دے سکتے ہیں۔ اسی طرح ان کی غزلوں میں ایک طرح کی بلند آہنگی اور فکری لَے پائی جاتی ہے۔ وہ اسلامی تلمیحات سے بار بار استفادہ کرتے ہیں اور غلامی کے مقابلے میں آزادی کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے یہ اشعار دیکھیے جو بیداری اور آزادی کے پیغام سے بھرے ہوئے ہیں :

فطرت کو خرد کے روبرو کر

تسخیر مقام رنگ و بو کر

 

تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے

کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر

 

بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت

جو اُس سے نہ ہوسکا وہ تو کر

اقبالؔ کے ہم عصروں میں ہی پنڈت برج نرائن چکبستؔ (۱۸۸۲۔ ۱۹۲۶ء)، اصغرحسین اصغرگونڈوی (۱۸۸۴۔ ۱۹۳۶ء)، جگرؔ (                        )، فانیؔ (۱۸۷۹۔ ۱۹۴۱ء)، حسرتؔ (۱۸۸۰۔ ۱۹۵۱ء) اور یاس یگانہ چنگیزی (۱۸۸۴۔ ۱۹۵۶ء) بھی ہیں۔ ان سارے شعرا نے اپنے اپنے طور پر قابلِ ذکر خدمات انجام دیں، لیکن ان کا زمانہ بنیادی طور پر نظم نگاری کا زمانہ تھا۔ اس لیے غزلوں میں یہ کوئی غیر معمولی کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ اس صنف میں جتنے امکانات تھے انھیں غالبؔ اپنی انتہائی شکل میں استعمال کر چکے تھے۔ اس زمانے میں اس کے نئے امکانات کو جس قدر ممکن تھا اقبالؔ نے استعمال کیا۔ اس لیے یہ سب صباؔ، وزیرؔ، رندؔ اور رشکؔ کی طرح دوسرے درجہ کے شعرا ہو کر رہ گئے۔ ان کے کچھ اشعار مشہور بھی ہوئے، بہرحال یہ اپنے زمانے کے نمائندہ شعرا تھے کہ اُس زمانہ میں غزل میں اس سے بڑی شاعری نہیں ہوئی۔ یہ چند اشعار ان کی نمائندگی کرتے ہیں :

پاتا نہیں جو لذت آہِ سحر کو میں

پھر کیا کروں گا لے کے الٰہی اثر کو میں

 

جینا بھی آگیا مجھے مرنا بھی آگیا

پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں

 

مستانہ کر رہا ہوں، رہِ عاشقی کو طے

کچھ ابتدا کی ہے نہ خبر انتہا کی ہے

 

آلام روزگار کو آساں بنا دیا

جو غم دیا اُسے غم جاناں بنا دیا

 

اصغرؔگونڈوی

 

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

 

فانیؔ ہم تو جیتے جی وہ میّت ہیں بے گور و کفن

غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا

فانیؔ

 

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

 

اﷲ ری جسم یار کی خوبی کہ خود بخود

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

 

توڑ کر عہد کرم ناآشنا ہو جائیے

بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائے

 

حسرتؔ

 

خودی کا نشّہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

 

بشر ہوں میں، فرشتہ کیوں بنوں، جیسا ہوں اچھا ہوں

بغاوت اپنی فطرت سے نصیب دشمناں کیوں ہو؟

 

لذت زندگی مبارک باد

کل کی کیا فکر؟ ہرچہ باداباد

 

یگانہؔ

ان شعرا کے جاتے جاتے ترقی پسند تحریک کا غلغلہ بلند ہونے لگا تھا۔ اس تحریک کی مقصدیت غزل کو اور غزل اس تحریک کی مقصدیت کو راس نہیں آتی تھی۔ اس لیے اس زمانے کے بہت کم شعرا نے اس طرف توجہ دی۔ ان چند شعرا میں رگھوپتی سہاے فراق گورکھ پوری (۱۸۹۶۔ ۱۹۸۲ء)، جاں نثار اختر (۱۹۱۴۔ ۱۹۷۶ء)، مجازؔ(۱۹۱۱۔ ۱۹۵۵ء)، معین احسن جذبیؔ (                      )، مجروح سلطان پوری (             ) اور فیض احمد فیضؔ (۱۹۱۱۔ ۱۹۸۴ء) کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ان شعرا نے خاص طورسے کلاسیکی شاعری کی لفظیات میں نئے معنی پیدا کیے۔ عشقیہ شاعری کو سیاسی رنگ دینا ان شعرا کا خاص امتیاز ہے۔ ان کے یہ اشعار خاص طورسے اردو کے اجتماعی حافظہ کا حصہ ہیں :

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق کا دھوکہ ہے سب مگر پھر بھی

 

ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی

 

پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا

وہ کوچہ روکش جنت ہو، گھر ہے گھر پھر بھی

 

سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترک محبت کا بھروسہ بھی نہیں

 

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

 

فراقؔ

 

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی

اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

 

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو

دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

 

جذبیؔ

 

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

 

دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار

رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

 

جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے

تمہاری بات نہیں، بات ہے زمانے کی

 

مجروحؔ

 

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا، اے شورش دوراں بھول گئے

وہ زلف پریشاں بھول گئے، وہ دیدۂ گریاں بھول گئے

 

سب کا تو مداوا کر ڈالا، اپنا ہی مداوا کر نہ سکے

سب کے تو گریباں سی ڈالے، اپنا ہی گریباں بھول گئے

 

پھر کسی کے سامنے چشم تمنا جھک گئی

شوق کی شوخی میں رنگ احترام آ ہی گیا

 

کبھی ساحل پہ رہ کر شوق، طوفانوں سے ٹکرائیں

کبھی طوفاں میں رہ کر فکر ہے ساحل نہیں ملتا

 

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

 

خرد کی اطاعت ضروری سہی

یہی تو جنوں کا زمانہ بھی ہے

 

مجازؔ

 

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید