فہرست مضامین
- علم الانسان
- انتساب
- پیش لفظ
- متحدہ سائنس (Unified Science)
- حصۂ اول
- باب نمبر ۱۔ انسانی کام کی تاریخ
- 1۔ انسان
- 2۔ انسان کیا ہے
- 3۔ ماورائی علوم
- 4۔ انسان پر جدید سائنسی تحقیقات
- 5۔ انسان کی ابتدائی تعریف
- نظریۂ ارتقاء Theory of Evolution
- 6۔ یونانی فلسفیوں کی انسان پر بحث
- 7۔ مسلمانوں کا کام
- مسلمان صوفی و سائنسدان
- ۱۔ علامہ اقبال
- ۲۔ حضرت سلطان باھو
- ۳۔ خواجہ شمس الدین عظیمی
- ۴۔ مقاتل بن سلیمان
- ۵۔ ابو اسحٰق محمد بن شعبان
- ۶۔ ابن سینا
- ۷۔ علامہ حافظ ابن القیم
- ۸۔ الکندی
- ۹۔ امام غزالیؒ
- ۱۰۔ حضرت امام مالک
- ۱۱۔ وہب بن منبہ
- ۱۲۔ رازی کے چھ قول
- ۱۳۔ شیخ عز الدین ابن سلام
- ۱۴۔ حضرت خواجہ غلام فرید
- ۱۵۔ ابن سعد
- ۱۶۔ شاہ ولی اﷲ
- ۱۷۔ داتا گنج بخش علی ہجویری
- تبصرہ، تجزیہ، موازنہ
- نتائج
- مسلمان صوفی و سائنسدان
- 8۔ انسان کی جدید تعریف
- 9۔ قدیم انسان
- 10۔ مختلف اقوام کے عقیدے
- 11۔ انسانی کام کی تاریخ کا جائزہ
- حصہ دوئم : نئے نظریات
- انسان سے متعلق ارسطو، سقراط، بقراط، ڈارون، نیوٹن، آئن سٹائن، اسٹیفن ہاکنگ کے مد مقابل کئی سو نئے سائنسی نظریات
- باب نمبر۲: مادی جسم
- باب نمبر۳: نفس AURA
- 17۔ نفس
- ۔18نفس کیا ہے؟
- 19۔ نفس کی تعریف
- 20۔ نفس (باطنی اجسام)کے نام
- 21۔ بنیادی نفس کونسا ہے
- 22۔ نفس ( AURA) جسم ہے
- 23۔ روشنی کا جسم
- 24۔ نفس( AURA) حرکی قوت ہے
- 25۔ جسم کی زندگی
- AURA)-26 ( کے اجسام
- 27۔ جسمانی اعمال کا سبب
- 28۔ جسمانی اعمال کی اطلاعات
- AURA-29 زمان و مکان کا پابند
- 30۔ اعمال کے اثرات
- AURA.-31 روح نہیں
- 32۔ نور کا جسم
- 33۔ مزید اجسام
- 34۔ اجسام کی تعداد
- 35۔ مادی دنیا میں اجسام کی تعداد
- 36۔ انسان کائنات سے مربوط ہے
- ۱۔ مادی جسم
- ۲۔ نفس ( AURA)
- ۳۔ نور کا جسم
- 37۔ زندگی کی صورتیں
- 38۔ اجسام کا تشخص
- 39۔ اجسام کی اہمیت
- 40۔ اجسام کی حقیقت
- 41۔ تمام اجسام فانی ہیں
- 42۔ اصل جسم
- 43۔ انسان کی اصل
- 44۔ لطیف اجسام
- 45۔ انسانی باطن
- 46۔ مجموعی انسان
- 47۔ اجسام کا مسئلہ
- باب نمبر۴: روح (SOUL)
- 48۔ مختلف ادوار میں روح کی علمی حیثیت
- 49۔ روح کی تعریفیں
- 50۔ اب آپ کی کیا رائے ہے؟
- 51۔ تمام تعریفوں کا نتیجہ
- 52۔ روح کی تعریف ممکن نہیں
- 53۔ روح کی تعریف کیوں ممکن نہیں
- 54۔ روح کے نام
- 55۔ یہ سب نام کیا ہیں
- 56۔ باطن سے لاعلمی
- 57۔ اجسام کا چکر
- 58۔ اجسام کا مسئلہ حل ہو چکا
- 59۔ روح کی تعریف
- 60۔ روح کیا ہے ؟
- 61۔ روح و اجسام
- 62۔ روح کا فارمولہ
- ۱۔ روح نکتہ ہے
- سب سے چھوٹا وجود
- ۲۔ یہ نکتہ انرجی ہے
- ۳۔ انر جی زندگی ہے
- ۴۔ زندگی مرتب پروگرام ہے
- ۵۔ پروگرام متحرک ہے
- اعمال
- ۶۔ حرکت کا سبب ارتعاش ہے
- ۷۔ ارتعاش آواز کا ہے
- ۸۔ یہ آواز ایک حکم ہے
- ۹۔ خالق کاحکم
- ۱۰۔ یہ حکم مسلسل نشر ہو رہا ہے
- 63۔ حرکی قوت
- 64۔ روح کی قوت
- 65۔ برقی سسٹم
- 66۔ پاور اسٹیشن
- 67۔ روح خالق کا حکم ہے
- 68۔ انسانوں میں حکم کی خصوصیات
- باب نمبر ۵ : تخلیق
علم الانسان
﴿خزائن العرفان﴾
جلد اول
روبینہ نازلی
http://unifiedscience.info/
rubina.nazlee@yahoo.com
انتساب
اپنی والدہ (سیدہ بلقیس بانو)
کے نام کیونکہ میں اور میرا سب کچھ میرے والدین کا ہے
پیش لفظ
اس کتاب کا موضوع ہے انسان۔ اس کتاب میں پہلی مرتبہ انسان کا تذکرہ اس کی روح کے حوالے سے سائنسی انداز میں کیا گیا ہے۔ سترہ (۱۷)سالہ تحقیق پر مبنی یہ کام سائنسی، فلسفیانہ، اور تحقیقی کام ہے۔ نئے نظریات پر مشتمل یہ کتاب موضوعِ انسان پر سائنسدانوں، فلسفیوں، اور صوفیوں کے لئے رہنما کتاب ہے۔ اس لیے کہ انسانی موضوع کے وہ تمام تر مسائل، الجھنیں، مشکلات، سوالات جن میں صدیوں سے سائنسدان، فلسفی، اور صوفیاء الجھے رہے ان کا حل ڈھونڈتے رہے انہیں سلجھا نہ سکے اس کتاب میں میں نے ان تمام الجھنوں کو سلجھا کر صدیوں کے حل طلب سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے :
۱۔ پہلے حصے میں انسان پر ہوئے تمام تر ادوار کے کاموں کو اکٹھا کر کے ان کا سائنسی، تاریخی، مذہبی حوالوں سے تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، تجزیہ و موازنہ کیا ہے، غلطیوں کی نشاندہی کی ہے، نتائج قائم کئے ہیں۔
۲۔ دوسرے حصے میں نئے نظریات پیش کرتے ہوئے انسان سے متعلق ماضی کی تمام الجھنوں کو سلجھا کر ماضی کے تمام ابہامات کو دور کرتے ہوئے انسان کے ہر انفراد ی موضوع مثلاً روح، نفس، جسم، دماغ، شعور لاشعور، تخلیق، ارتقاء، آواگون وغیرہ کی نئی تعریف پیش کی ہے۔ اور پہلی مرتبہ مجموعی انسان کی تعریف اور تعارف پیش کیا ہے۔
اس کتاب میں میں نے سترہ سالہ تحقیق کے دوران انسان کے تمام ادوار کے مختلف اور متضاد کاموں کاسائنسی، تاریخی، مذہبی حوالوں سے تنقیدی جائزہ، تجزیہ اور موازنہ کر کے درج ذیل نتائج اخذ کیے ہیں۔
۱۔ انسان پر ہوئے تمام تر مختلف اور متضاد سائنسی و غیر سائنسی کاموں کا بنیادی فلسفہ مذاہب سے مستعار لیا گیا ہے۔
۲۔ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ اکثر مذہبی کتابوں میں زمینی فلسفیانہ ترمیم و اضافے ہو چکے ہیں، لہذا اکثر مذہبی اطلاعات اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہیں۔
۳۔ تیسرے انسانی کام میں صحیح مذہبی اطلاعات کو بھی سمجھنے میں غلطی کی گئی۔
۴۔ اور انسانی علوم میں انہیں غلطیوں سے غلط نتائج اخذ کئے گئے۔
۵۔ اور یہی غلط نتائج آج انسان کے مختلف علوم یعنی جسم، نفس، روح، ارتقاء، آواگون، تخلیق وغیرہ کی صورت میں موجود ہیں۔
۶۔ انہی بنیادی غلطیوں کے سبب فی زمانہ موضوع انسان پر جتنے بھی جسم، نفس، روح، ارتقاء، آواگون، تخلیق کے حوالے سے سائنسی و غیر سائنسی علمی کام ہو رہے ہیں سب مفروضہ علوم ہیں اس لئے کہ اگرچہ ان تمام انسانی موضوعات پر ہزاروں برس سے سائنسی و غیر سائنسی کام ہو رہا ہے اس کے باوجود آج تک کسی انسانی موضوع کی علمی تصدیق یا تعریف اور شناخت تک نہیں ہو پائی اس کی وجہ یہ ہے کہ
۷۔ ہزاروں برس کے انسانی کام میں آج تک انسان کی تعریف ہی نہیں ہو پائی ہے۔ آج تک انسان ہی معمہ اور مفروضہ ہے تو درحقیقت اس مفروضہ، معمہ انسان کے تمام علوم بھی مفروضہ علوم ہیں۔
جب کہ اس کتاب میں پہلی مرتبہ انسان کی تعریف اور تفصیلی تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت موضوع انسان پر یہ اپنی نوعیت کا واحد علمی کام ہے جس میں انسان سے متعلق ارسطو، سقراط، بقراط، ڈارون، نیوٹن، آئن سٹائن، اسٹیفن ہاکنگ کے مد مقابل کئی سو نئے سائنسی نظریات کے ذریعے پہلی مرتبہ انسان کی تعریف کی جا رہی ہے۔
یہ موضوع( انسان) روح کے علم کا ایک موضوع ہے۔ اور روح کو یہاں ہم نے متحدہ سائنس (Unified Science) کہا ہے۔ یعنی یہ کتاب(علم الا انسان )علم الروح (Unified Science) کی ایک شاخ ہے۔
لہذا اس کتاب کا نام علم الانسان ہے اور یہ انسانی سائنس(human science)، متحدہ سائنس (Unified Science)کی ایک شاخ ہے۔
جسم پر تو عرصۂ دراز سے سائنسی کام ہو رہا ہے۔ جب کہ روح +نفس( انسانی باطن )کو باقاعدہ۔ یونیفائیڈ سائنس، کے طور پر پہلی مرتبہ یہاں ہم متعارف کروا رہے ہیں۔ ہماری پیش کردہ، متحدہ سائنس(Unified Science)، روح کی سائنس ہے جس کی دو اہم شاخیں، انسان، اور، کائنات، ہیں۔ اس کتاب کا موضوع’ انسان‘ہے۔ جس میں، جسم، روح، نفس(نفسیات)، باطن، ذہن، شعور، لاشعور، وغیرہ جیسے تمام تر موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔
کتاب لکھنے کے دوران میرے بھائی ﴿سید راشد علی رضوی﴾ کا تعاون میرے شامل حال رہا جس کے لیے میں ان کی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ انہوں نے کمپوزنگ کا کام بھی اپنے ذمے لے کر میرے کام کو مزید آسان کر دیا۔
روبینہ نازلی
RUBINA NAZLEE-PAKISTAN
E.MAIL-rnazlee@yahoo.com
E.MAIL-rubina.nazlee@yahoo.com
WEBSITE-http://unifiedscience.info
متحدہ سائنس (Unified Science)
یہاں موضوعِ انسان کو میں نے متحدہ سائنسUnified Science) (کہا ہے۔ انسان متحدہ سائنس کی ایک اہم شاخ ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انسا ن بھی اسی واحد شے سے تخلیق ہوا ہے جس سے کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات و مخلوقات تخلیق ہوئی ہیں لہذا انسان متحدہ سائنس کی سب سے اہم شاخ ہے۔ متحدہ سائنس (Unified Science) سے کیا مراد ہے۔ آیئے ذرا اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
سائنسدانوں کی برسوں کی تحقیقات کا نچوڑ بالآخر یہ نکلا ہے کہ کائنات کی کوئی ایک ہی حقیقت ایک ہی خالق ہے نہ تو دو اسے بنا سکتے ہیں نہ دو اسے چلا سکتے ہیں۔ کائنات اور اس کی وسعت اس کا نظم و تسلسل کسی ایک ہی حقیقت کا مظہر ہے۔ ہر نظریہ دوسرے نظریے سے مربوط ہے۔ ہر نظریہ دوسرے نظریے کا تسلسل ہے۔ ہر نظریہ کسی واحد حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ لیکن وہ واحد حقیقت کیا ہے؟ یہ سوال سائنسدانوں کے لئے ایک بہت بڑا معمہ ہے۔
سائنسدان عرصے سے ایک ایسے وحدانی نظریے کی تلاش میں ہیں جو کائنات کے تمام رازوں سے ایک ہی ساتھ پردہ اٹھا دے لیکن تا حال وہ ایسی کسی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ تاہم وہ مختلف نظریات کو جمع کر کے ایک عظیم وحدانی نظریہ (Grand Unification Theory) بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ کائنات کو بنانے مسلسل پھیلانے اور چلانے والی قوت کوئی واحد قوت ہی ہو سکتی ہے یہ نچوڑ ہے سائنس کی صدیوں کی تحقیقات کا۔ لیکن یہ قوتِ واحدہ کیا ہے ؟ سائنسدانوں کے لئے یہ معمہ ہے بلکہ سائنسی اصول و قواعد کے مطابق تو کائنات کی واحد حقیقت کا سراغ لگانا ناممکن ہی ہے۔ کیونکہ اصولِ غیر یقینیت (Uncertainty Principle) کے مطابق سائنسدان کسی بھی ذرے کی پوزیشن اور رفتار ایک ساتھ نہیں بتا سکتے۔ اگر وہ اس کی پوزیشن صحیح بتاتے ہیں تو اس کی صحیح رفتار نہیں بتا سکتے۔ صحیح رفتار بتاتے ہیں تو پوزیشن نہیں اور مستقبل میں کون سا ذرہ کہاں ہو گا اس کا دارومدار ان دونوں چیزوں پر ہے لہذا سائنسی اعتبار سے ہم کیسے ہی نظریات بنا لیں ہم ایک ذرے تک کا مستقبل نہیں بتا سکتے چہ جائیکہ کائنات کے بارے میں کچھ وحدانی نظریہ (بے تحاشہ نظریات کو یکجا کر کے ) پیش کر سکیں۔ سائنسی نظریات کی روشنی میں ہم ایک ذرے تک کا مستقبل نہیں بتا سکتے یہ سائنسی مفروضہ ہے۔ اور اسی مفروضے کی روشنی میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ وہ واحد حقیقت جو ہر سائنسی نظریے سے جھانک رہی ہے وہ واحد حقیقت جس کی طرف سائنسدانوں کی برسوں کی تحقیقات اشارہ کر رہی ہیں کیا کبھی وہ واحد حقیقت سامنے بھی آئے گی؟ کیا سائنس دان کبھی وحدانی نظریہ پیش کر سکیں گے؟ کیا کبھی کسی متحدہ سائنس کا وجود بھی ہو گا؟
سائنسی اصول و قواعد کی روشنی میں تو یہ ناممکن ہے یا پھر سائنس کو یہ معمہ حل کرنے کے لئے صدیاں درکار ہیں۔ جب کہ کائنات اپنے سفر کے اختتامی مراحل طے کر رہی ہے لہذا یہ انسان کی انتہائی نا اہلی ہے کہ کائنات ابتداء کر کے اپنے اختتامی پوائنٹ پر پہنچ گئی ہے اور انسان اب بھی یہ کہہ رہا ہے کہ کائنات کو سمجھنا ناممکن ہے۔ یہ مجبوری محض سائنس کی ہے سائنس نے اپنے اوپر اتنی پابندیاں عائد کر لی ہیں کہ وہ سامنے کی حقیقت کو بھی اپنے قائم کردہ فرسودہ اصولوں کی روشنی میں جھٹلانے پر مجبور ہے۔ لیکن فلسفہ ایسی کسی مجبوری کو قبول نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنس بھی فلسفہ ہی کی پیداوار ہے کل بھی اور آج بھی فلسفیانہ نظریات ہی نے سائنس کو تجرباتی بنیادیں فراہم کی ہیں پہلے کوئی فلسفہ کوئی فکر جنم لیتی ہے پھر کوئی عملی تجرباتی صورت سامنے آتی ہے۔ فلسفے ہی کی عملی شکل کا نام ایجاد ہے۔ فلسفہ پوری کائنات کے اسرار کھوجتا ہے بغیر کسی مجبوری و معذوری کے حقیقت کو کھلی آنکھ سے دیکھتا اور قبول کرتا ہے۔ لہذا آج ہم بغیر کسی سائنسی بیساکھی کے اسی فلسفے کی رو سے انسان اور کائنات کو کھلی آنکھ سے دیکھیں گے اس پر غور و فکر کر کے حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔ قوتِ واحدہ کی نشاندہی کریں گے۔ اور وحدانی نظریہ پیش کر کے یونیفائیڈ سائنس کی بنیاد رکھیں گے بلکہ میں یہاں یونیفائیڈ سائنس کی تین اہم شاخیں (کائنات، انسان، روح، ) متعارف کروا رہی ہوں۔ (جب کہ یہ سب کچھ ابھی سائنس کے بس کا نہیں )۔ اب یہاں ہم انسان کو جاننے کی سعی میں راست قدم اٹھاتے ہیں۔ اور انسان کو جاننے کی اسی کوشش سے ہمیں کائنات کی واحد حقیقت(Grand Singularity)کا سراغ ملے گا اس لئے کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات (بشمول انسان )اسی قوت واحدہ کا مظہر ہیں۔ اور اگر ہم نے انسان کو جان لیا تو ہمیں کائنات کی واحد حقیقت(Grand Singularity) کا سراغ مل جائے گا۔ اور اگر ہمیں اس قوتِ واحدہ کا سُراغ مل گیا تو ہمیں کائنات اور اس کے خالق کا سُراغ مل جائے گا۔ اس لئے کہ خالق نے کائنات اور اس کی تمام تر موجودات انسان کے لئے بنائی ہیں۔ لہذا انسان کو جان کر ہم نہ صرف کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بلکہ ان تمام کے خالق کو بھی جان جائیں گے۔ لہذا انسان "متحدہ سائنس "کی سب سے اہم شاخ ہے۔
اور یہاں ہمارا موضوع یہی "انسان” ہے۔
حصۂ اول
حصۂ اول میں انسان پر ہوئے تمام ادوار کے کاموں کا تنقیدی جائزہ، تجزیہ، موازنہ اور تبصروں کے بعد خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور نتائج اخذ کیے گئے ہیں
باب نمبر ۱۔ انسانی کام کی تاریخ
1۔ انسان
کائنات میں بے شمار انواع ہیں، بے شمار موجودات ہیں۔
انسان کائنات کی بے شمار انواع میں سے ایک نوع اور لا تعداد موجودات میں سے ایک وجود ہے۔ لیکن تمام موجودات میں انسان کی انفرادیت یہ ہے کہ کائنات اور کائنات کا ہر وجود براہِ راست یا بالواسطہ انسان سے مربوط اور اسی انسان ہی کے لئے موجود ہے۔
لیکن تمام موجودات میں انفرادیت کے باوجود انسان بھی اسی ’واحد شے‘ سے بنا ہے جس سے کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بنی ہیں۔ لہذا ہم خود کو سمجھ گئے تو ہم کائنات اور اس کی موجودات کے بنیادی فارمولے کو سمجھ جائیں گے۔ لہذا ہم کائنات کی ’واحد حقیقت‘ (GRAND SINGULARITY) کا سراغ لگانے کے لئے بہت اوپر آسمان کی وسعتوں پر نظر دوڑانے سے پہلے ذرا سہل طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے اندر جھانک کر دیکھتے ہیں کہ بقول اقبال:
اپنے من میں ڈُوب کر پا جا سُراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
درحقیقت اپنے اندر جھانک کر اپنے من کی دنیا کو دریافت کر کے ہم نہ صرف اس عظیم تخلیق انسان کو جان لیں گے بلکہ خود کو جاننے کے عمل میں ہم انسان کے خالق یعنی آخری حقیقت (GRAND SINGULARITY) کو بھی پہچان لیں گے یعنی سراغ زندگی پا لیں گے۔
حضرت محمد ﷺ نے حدیث قدسی میں فرمایا:
’’الانسان سری و انا سری‘‘
ترجمہ:۔ انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز
ایک اور حدیث میں یوں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ’’من عرف نفس فقد عرف ربّ‘‘
ترجمہ:۔ جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ کیونکہ کہ وہ ہمارے اندر ہی تو ہے۔
ترجمہ:۔ اور سب کا خدا اور باپ ایک ہی ہے جو سب کے او پر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے۔ افسیوں۔ باب ۴ (۶)
ترجمہ:۔ وہ تمہارے نفسوں کے اندر ہے تو تم کیوں نہیں دیکھتے (قرآن)
جب ہماری اور کائنات کی حقیقت خود ہمارے اندر ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتے۔ اگر ہم اپنے اندر جھانکیں تو کائنات ہمیں کھلی کتاب نظر آئے گی۔ یعنی انسان خود اپنے اندر کائنات سمیٹے بیٹھا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے قطع نظر انسان نے ہمیشہ خود سے صرفِ نظر کیا ہے وگرنہ خالق کائنات نے انسان جیسا با اختیار اور طاقتور اپنے بعد کسی اور کو نہیں بنایا ایسا طاقتور کہ لامتناہی کائنات بنا کر اس کی بادشاہی انسان کے حوالے کر دی۔
حضرت مسیح نے کہا: ترجمہ:۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ آسمان کی بادشاہت تمہارے اندر ہے۔
خالق کائنات نے تو کائنات تخلیق کر کے انسان کو سونپ کر اسے با اختیار کیا تھا۔ کائنات اس کے لئے مسخر کی تھی۔ لیکن خالق کے بعد کائنات کی طاقتور ہستی انسان آج اپنی طاقت اپنے اختیار کو بالکل فراموش کر کے خود ساختہ مجبوریوں کا غلام بنا بیٹھا ہے۔ کائنات کا اشرف ترین انسان آج خود کو جانور ثابت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ ہمیں اپنی حیثیت اپنے اختیار کو پہچاننا ہو گا تاکہ ہم اس عظیم الشان کائنات کی خلافت کے اہل قرار پائیں۔ ہمیں اپنے اندر جھانک کر اپنا کھوج لگانا ہی ہو گا۔ ۔
ترجمہ:۔ پس ہم انہیں دکھائیں گے اپنی نشانیاں کائنات میں اور خود ان کے نفسوں میں تاکہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ یقیناً وہ حق ہے۔ (حم السجدہ ۵۳)
کائنات سے متعلق حیران کن سائنسی دریافتیں تو آج ہمارے سامنے ہیں اور مزید ً محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ً لیکن اب ً انفس ً کے راز بھی کھلنے لگے۔ ایٹم کی طرح انسان کے اندر بھی ایک نیا جہان دریافت ہو رہا ہے۔ انسان اپنے اندر جھانک کر اس وسیع دنیا کو بھی حیرت سے دیکھ رہا ہے اور انجانی نگاہوں سے دیکھ تو رہا ہے لیکن اپنے اس باطنی رخ کو سمجھ نہیں پا رہا، الجھ رہا ہے اور آج اس سے یہ گتھی سلجھ نہیں رہی کہ آخر کیسا راز ہے یہ ’انسان‘ ؟
2۔ انسان کیا ہے
انسان کیا ہے؟ یہ معمہ کبھی حل نہیں ہوا۔ اگرچہ انسان کو جاننے کی سعی ہر دور میں ہوئی۔ ہزاروں برس سے ہر دور کے لوگ مختلف زاویوں سے انسان پر تحقیق کرتے رہے ہیں لیکن نتیجہ ندارد۔ ماضی کا انسان عرصہ دراز تک خود کو بندر کی اولاد کہتا رہا اور اپنی ہر تحریر و تحقیق سے خود کو جانور ثابت کرنے کی سعی میں لگا رہا۔ ابھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ انسان بندر کی اولاد ہے یا نہیں کہ کچھ فلسفی ذہن، روح اور نفس کا تذکرہ کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ انسان ذہن و جسم یا روح و جسم کا مرکب ہے۔ پھر انہی فلسفیوں سے سائنسدان پھوٹے جن کی ضد تھی کی انسان محض مادی جسم ہے اور آج بھی مادی جسم پہ کام کرنے والے کہتے ہیں کہ اس جسم میں روح کی گنجائش نہیں اور مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے جب کہ روح تجربے کی زد میں نہیں لہذا ایسے غیر مرئی مفرُوضے علم کی حدود میں نہیں آ سکتے اور پھر انہی ضدی سائنسدانوں نے خود ہی انسان کا روحانی تشخص یا جسمِ لطیف (AURA) بھی دریافت کر لیا یوں انہیں اپنی وہ ضد کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے چھوڑنی پڑی۔ ہزاروں برس سے انسان پر ان تمام متفرق و متنوع موضوعات پہ کام ہو رہا ہے اور آج بھی جاری ہے۔ کو ئی بھی کام درجہ بدرجہ ترقی کر کے آگے بڑھتا ہے جب کہ انسان پہ ہونے والے کام میں یہ خصوصیت ہے کہ انسان پہ کہیں تو اس کی تخلیق کے حوالے سے کام ہو رہا ہے۔ کوئی ارتقا کا حامی ہے۔ تو کہیں مادی جسم پہ کام ہو رہا ہے۔ کہیں روح پہ کام ہو رہا ہے۔ کہیں نفس پہ تحقیق ہو رہی ہے۔ لیکن انسان پہ ہو رہے یہ تمام کام انفرادی کام ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔ آج انسان پر مندرجہ ذیل موضوعات پر تحقیق و تجربات جاری ہیں۔
۱۔ انسان کا ارتقاء
۲۔ انسان کی تخلیق
۳۔ مادی جسم
۴۔ روح
۵۔ نفس
۶۔ اورا (AURA)، چکراز
(۱)۔ انسان کا ارتقاء
مذہبی آسمانی کتابوں سے ملنے والے حقیقی علم کی بدولت انسان خود کو ہمیشہ سے با شعور، با علم اور تہذیب یافتہ مکمل انسان تصور کرتا تھا۔ جب کہ بعض فلسفیوں کی بدولت علمی دنیا میں انسان نے خود کو پہلی دفعہ حیوان کے طور پر متعارف کروایا۔ اور اپنی ہر تحریر و تحقیق سے خود کو جانور ثابت کرنے کی سعی میں لگا رہا۔ اسی کوشش میں بحث کے نئے باب کھلے مثلاً اگر انسان کے آباء و اجداد حیوان تھے تو وہ موجودہ انسانی شکل تک کیسے پہنچا۔ اس کی تخلیق ہوئی یا ارتقاء، مسلسل ارتقاء ہوا یا منزل بہ منزل ہزاروں برس سے یہ بحث جوں کی توں جاری ہے اور آج بھی ماہرین جدید سائنسی ذریعوں سے اس بے کار کی جدوجہد میں مصروف انسان کو حیوان ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ اس کوشش میں وہ سو فیصد ناکام رہے ہیں۔ لیکن اس بیکار کی جدوجہد سے کارآمد ثبوت مل رہے ہیں اور ان جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ارتقاء کے نظریات غیر سائنسی مفروضوں پہ مشتمل بودے، بے بنیاد فلسفے ہیں۔ ارتقاء کی کہانیاں جھوٹی، تصویریں جعلی اور ڈھانچے من گھڑت اور فریب پر مبنی جعلسازی کے شاہکار ہیں۔ لیکن ارتقاء کے حامی آج بھی اپنے قدیم نظریات پر اڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ارتقاء کا نظریہ درحقیقت مذہبی عقیدہ اور آفاقی نظریہ ہے۔ اور ان کی اس بڑی غلط فہمی نے نہ صرف بے بنیاد مفروضوں کو جنم دیا بلکہ قوموں کو گمراہ اور ذہنوں کو پراگندہ کیا ہے اور بے انتہا علمی نقصان کیا ہے۔
(۲)۔ انسان کی تخلیق
آج جدید تحقیقات کے پیشِ نظر کچھ لوگوں نے روح کو تو تسلیم کر لیا ہے لہذا اب ان کا تبدیل شدہ موقف یہ ہے کہ انسان کا جسم تو طبیعاتی حقیقت یعنی کہیں نہ کہیں ارتقاء یافتہ ہی ہے ہاں لیکن اس کی انفرادیت دراصل اس کی روح ہے۔ یہ بھی محض غلطی ہے ، انسان ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ آج جدید سائنسی تحقیقات سے بہت سے سائنسدان نہ صرف ارتقائی مفروضے کی نفی کر رہے ہیں بلکہ ارتقاء کے خلاف اور تخلیق کے حق میں بہت سے سائنسی شواہد بھی اکھٹے ہو گئے ہیں۔
مثلاً DNA کی دریافت اور کوانٹم جمپ(Quantum Jump) یا کیمبری دھماکہ (Cambrian Explosion) جیسی تھیوریوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ کوئی مخلوق ارتقاء یافتہ نہیں اور جدید تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ تمام انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ اس دریافت سے بھی اس نظریے کی نفی ہوتی ہے کہ انسان کے آباؤ اجداد حیوان تھے۔ بہرحال تا حال انسان کے ارتقاء اور تخلیق کی متضاد بحث جوں کی توں جاری ہے۔
(۳)۔ مادی جسم
برسوں مادہ پرست مادی جسم کو ہی آخری حقیقت قرار دیتے رہے۔ سائنسدان برسوں سے مادی جسم پہ کام کر رہے ہیں اور آج ہمارے پاس مادی جسم کا بہت سارا علم ہے۔ اگرچہ AURA کی دریافت سے مادہ پرستوں کے اس خیال کی نفی ہو چکی ہے کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے لیکن پھر بھی حیرت انگیز طور پر مادی جسم پر کام کرنے والے آج بھی انسان کے روحانی تشخص کی نفی کرتے ہیں اور یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ انسانی جسم میں کہیں روح کی گنجائش نہیں۔ آج اس قسم کی ہٹ دھرمی کو ہم صرف لا علمی ہی کہہ سکتے ہیں۔ اگر جسم میں روح کی گنجائش نہیں تو پھر یہ نئی دریافت” AURA ” کیا ہے۔؟ جس کی کہ کر لین فوٹو گرافی کے ذریعے تصویر کشی بھی کر لی گئی ہے۔
اگر جسم میں روح نہیں تو پھر ہم آج عمل خود کر کے الزم تقدیر کو کیوں دے رہے ہیں ؟
آج سائنسدان کیوں نہیں جانتے کہ یہ انتہائی پیچیدہ مشینری (مادی جسم ) خود بخود کیسے اتنے منظم طور پر متحرک ہے۔؟ سائنسدان نہیں جانتے کہ یہ منظم اور مسلسل حرکت اچانک موت کی صورت میں کیوں رک جاتی ہے ؟ ایک نامور انسان کہاں چلا جاتا ہے کہ اس کا نشان بھی باقی نہیں بچتا؟ ہم کیسے کھاتے پیتے ہیں، سوتے جاگتے ہیں، کہاں سے آ رہی ہیں یہ منظم اطلاعات آخر کون ہمیں کنٹرول کر رہا ہے ، خواب، عقل، چھٹی حس، موت و حیات اور خود انسان کیا ہے ؟کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جا رہا ہے ؟ کہاں جانا ہے؟ ان تمام سوالوں کے کیا جوابات ہیں۔؟؟؟
حقیقت یہ ہے کہ مادی جسم سے متعلق تمام تر معلومات کے باوجود ہمارا مادی جسم کا علم اس وقت تک نامکمل ہے جب تک ہم روح کو نہیں جانتے کیونکہ مادی جسم کا تمام تر دارومدار روح پہ ہی ہے لہذا اگر ہم مادی جسم کا حقیقی علم چاہتے ہیں تو ہمیں روح کو جاننا ہی ہو گا۔ ورنہ روح سے لاعلمی کے سبب ہمارا مادی جسم کا علم نامکمل اور ناقص ہے۔
(۴)۔ روح
روح پر بھی ہزاروں برس سے کام ہو رہا ہے اور ہزاروں برس سے آج تک ہر مفکر اور ہر روح کا تجربہ و مشاہدہ کرنے والا روح کو ہدایت کا سرچشمہ کہہ رہا ہے۔ ابتدا ء سے آج تک روح کی بس یہی تعریف کی گئی ہے۔ حالانکہ قصہ اتنا مختصر نہیں ! آخر ہدایت کے سرچشمے سے کیا مراد ہے ؟روح کیا ہے اور روح کی شناخت کیا ہے؟
ہر دور میں روح کو جسم لطیف کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ ہزاروں برس کے ادوار میں اگر چند لوگوں نے روح کو شناخت کیا بھی ہے تو انہوں نے اس کی تعریف یا تعارف سے معذوری کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خیال میں روح وہ معمہ ہے جو حل طلب نہیں جس کی تعریف ممکن نہیں۔ یعنی ہزاروں برس کے روح پر ہونے والے بے تحاشا تحقیقی کام میں نہ تو روح کی تعریف ہو سکی ہے نہ انفرادی شناخت قائم ہوئی ہے بلکہ یہ معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے۔
(۵)۔ نفس
شروع سے آج تک نفس کی تعریف خواہش یا نفسانی خواہش کی جاتی رہی ہے۔ یا انسان کی بعض پیچیدہ خصوصیات کو نفس سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اور نفس کی اسی مفروضہ تعریف پرنفس، انفس، نفسیات یا سائیکالوجی، پیرا سائیکالوجی وغیرہ وغیرہ کے موضوعات پر جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ بے تحاشا مواد اور کتابیں تحریر کی جاتی ہیں۔
جب کہ نفس کی یہ تعریف ہی درست نہیں۔ نفس کسی خواہش کا نام نہیں ہے۔ خواہش اور نفسانی خواہش تو نفس کی بے تحاشا خصوصیات میں سے دو خصوصیات ہیں۔ اور خود نفس کوئی مفروضہ نہیں حقیقت ہے اور اپنی انفرادی شناخت رکھتا ہے۔ درحقیقت نفس مادی جسم سے بھی بڑا تحقیقی موضوع ہے۔ نفس ہر دور میں موضوع بحث تو رہا ہے۔ لیکن ہزاروں برس کے کام میں نہ تو نفس کی انفرادی شناخت ہو سکی ہے اور نہ ہی اس کی صحیح تعریف اور اصل تعارف سامنے آ سکا ہے۔ لہذا نفس سے متعلق تمام مواد بھی مفروضوں پر مشتمل ہے کہیں اتفاقاً صحیح تو زیادہ غلط۔
(۶)۔ اورا AURA، چکراز
انسان کے حوالے سے AURA کی دریافت نے تحقیق کے نئے دَر وَا کئے ہیں۔ ایک دور میں انسان نے روح کو غیر مرئی (Invisible) کہہ کر علم کی حدود سے خارج کر دیا تھا اور فقط مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے والے سائنسدانوں نے ہی بالا آخر اٹھارویں صدی کے آخر میں تسلیم کیا کہ ایک لطیف قسم کی توانائی ہمارے جسم میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ انسان کے روحانی باطنی تشخص کا انکار کرنے والے سائنسدانوں نے بالآخر 1930ء میں انسان سے جڑے اس کے لطیف وجود کی تصویر کشی بھی کر لی۔ اس لطیف وجود کا نام انہوں نے AURA رکھا۔ اسی میدان میں مزید تحقیقات جاری ہیں اور مزید Subtle Bodies اور چکراز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ آج سائنسدانوں نے ایٹم کی طرح انسان کے اندر بھی ایک جہان تلاش کر لیا ہے اور یہ دریافتیں ابھی جاری ہیں۔
مادے کو آخری حقیقت کہنے والے اب ہر شے کے پس منظر میں اس کا نورانی تشخص تلاش کر رہے ہیں جو مفروضوں کو خارج از علم قرار دے رہے تھے وہ کہہ رہے ہیں کہ کائنات ایسے اسرار سے بھری پڑی ہے جو تجربے کی زد میں نہیں لیکن آج ہم انہیں کھلی آنکھ سے دیکھ کر ان کا انکار بھی نہیں کر سکتے۔ آج انسان پر ہر پہلو سے تحقیق و تجربات ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی انسان کو حیوان ثابت کرنے کی جدوجہد بھی جاری ہے۔ اگرچہ نتائج سوفیصد خلاف ہی جا رہے ہیں اسی جدو جہد سے تخلیق کے شواہد مل رہے ہیں۔ روح، نفس اور مادی جسم پہ بھی تحقیقات جاری ہیں۔
ذہن، مادی جسم، روح، نفس یا AURA چکراز تمام کی الگ حیثیتوں اور خصوصیات کے علاوہ بحیثیت مجموعی انسان کی بے شمار خصوصیات بھی ہیں اور انہی خصوصیات کے بل پر ترقی کی اوج پر بیٹھا انسان آسمانوں تک جا پہنچا۔ اس ذہین ترین انسان کی یہ تمام تر صلاحیتیں اس کی کُل صلاحیتوں کا محض پانچ سے دس فیصد ہیں۔ تو پھر اس حیرت انگیز انسان کی باقی پچانوے فیصد صلاحیتیں کہاں پوشیدہ ہیں اور آخر کیوں بے خبر ہے انسان اپنی ان بے پناہ صلاحیتوں سے ؟ اور یہ روح، نفس اور جسم آخر کیا ہیں ؟ کیا اور کیسا تعلق ہے ان کا انسان سے ؟ اور بحیثیت مجموعی انسان کیا ہے ؟
ہزاروں برس کی مسلسل تحقیق و جستجو کے باوجود یہ تمام سوال تشنہ ہیں۔ آج انسان کی تعریف کرنا جوئے شِیر لانے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ علمیت کے دعوے کرنے والا انسان آج تک خود کو نہیں جان پایا! آج انسان اپنی تعریف کرنے سے قاصر ہے۔
افسوس! صدیوں کا انسان آج بھی ماوریٰ کی صف میں بے نشان کھڑا ہے !
3۔ ماورائی علوم
سوال یہ ہے کہ ماورائی علوم سے کیا مراد ہے ؟
یہ لفظ ماوریٰ ماضی کی سنگین غلطیوں کا نتیجہ ہے لہذا اس کا جاننا ضروری اور اس کا ازالہ انتہائی ضروری ہے۔
کائنات آج ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ ہم بڑی بڑی دوربینوں سے اس کی وسعت کے نظارے تو کر رہے ہیں لیکن یہ بے پناہ وسعت ہمارے تجربے اور ادراک کی زد میں نہیں۔ لہذا کائنات کی وہ بے تحاشا ظاہر اور پوشیدہ موجودات و مخلوقات جو ہمارے ادراک اور تجربات کی زد میں نہیں دیگر ذرائع سے ان کا کھوج لگانے اور ہر ممکن طریقے سے ان کا علم حاصل کرنے کے علوم کو ہم نے میٹافزکس، پیراسائیکالوجی، انفس وغیرہ وغیرہ کے نام دئیے ہیں۔ انہیں علوم اور دیگر تمام روحانی علوم کو ماورائی علوم کہا جاتا ہے۔
انہیں علوم کی مسلسل سائنسی و غیر سائنسی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کائنات میں ہمارے علاوہ اور بھی مخلوقات و موجودات موجود ہیں۔ جن میں سے بعض مخلوقات مثلاً جن، فرشتے، روح اور شیطان وغیرہ کے بارے میں ہم کچھ معلومات رکھتے بھی ہیں لیکن یہ معلومات
۱۔ سرسری معلومات ہیں،
۲۔ دوسرے یہ معلومات مفروضہ معلومات ہیں۔ اس کہ وجہ یہ ہے کہ ہم
۳۔ ان مخلوقات میں کوئی امتیازی فرق نہیں رکھتے۔
۴۔ ہم ان مخلوقات کی انفرادی شناخت نہیں رکھتے۔
ہم یہ تمیز نہیں کر سکتے کہ ہمارے ساتھ جو خرقِ عادت واقعہ پیش آیا ہے وہ کسی جن کی کارستانی ہے یا کسی فرشتے کی یا خود ہماری روح ہی ہے۔ اس لاعلمی کے سبب ہم ہر مخلوق کو ماورائی مخلوق اور ہر واقعہ کو ماورائی واقع قرار دیتے ہیں۔ اور مختلف روحانی علوم میں جو مختلف واقعات پہ جانچ پڑتال کی جاتی ہے وہ بھی ایسی ہی ماورائی ہے یعنی ہوا میں تیر چلانے کے مترادف جن میں سے کوئی اتفاقاً صحیح ہے تو زیادہ غلط۔ روح، جن، فرشتے ، شیطان اور یقیناً دیگر مخلوقات میں امتیاز رکھنا انتہائی ضروری ہے جیسا کہ ہم ایک دوسرے میں امتیاز رکھتے ہیں۔ یہ راشد ہے یہ آصف، یہ مرد ہے یہ عورت یہ جانور ہے یہ پرندہ ہم ان تمام میں امتیازی فرق رکھتے ہیں لہذا ہر وجود کی خصوصیات و اعمال کا علم رکھنے کی وجہ سے ہم غلطی نہیں کرتے اور صحیح نتیجہ نکالتے ہیں۔ مثلاً کہیں عمارت کی تعمیر ہوئی ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ عمارت فلاں جانور نے تعمیر کی ہو گی۔ ہم اپنے علم سے انسانوں اور جانوروں اور ان کے کاموں کا فرق جانتے ہیں۔ لہذا ہم کہتے ہیں کہ یہ عمارت فلاں انسان نے تعمیر کی ہے۔ ہم اکثر مخلوقات یا انواع کی خصوصیات و افعال سے واقف ہیں لہذا غلطی نہیں کرتے جب کہ دیگر مخلوقات میں امتیاز رکھنا تو درکنار ہم (سرسری معلومات کے علاوہ) ان مخلوقات کا کوئی علم ہی نہیں رکھتے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارے ارد گرد کائنات میں کتنی، کون کون سی، کیسی کیسی اور کہاں کہاں مخلوقات آباد ہیں۔ لہذا جب حادثاتی طور پر ہم کسی انجانی مخلوق کا مشاہدہ کرتے ہیں یا لوگوں کے ساتھ کچھ خرقِ عادت واقعات پیش آتے ہیں تو وہ بغیر کسی امتیاز کے ہر مخلوق کو ماورائی مخلوق اور ہر واقعہ کو ماورائی واقعہ قرار دیتے ہیں۔
مثلاً امریکہ میں کئیے گئے ایک سروے میں جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا کبھی کسی نے کسی فرشتے کا مشاہدہ کیا ہے ؟
جواب میں تقریباً 81 ملین امریکیوں نے فرشتوں سے ملاقات کا دعویٰ کیا !
اب یقیناً ان لاکھوں لوگوں میں سے سب نے فرشتے کا مشاہدہ نہیں کیا کسی نے کسی روح سے ملاقات کی کسی نے جن کو دیکھا، کسی نے فرشتے اور کسی نے کسی اور مخلوق کو لیکن عام لوگ ان تمام مخلوقات میں امتیاز نہیں رکھتے لہذا جنب کبھی کسی بھی مخلوق کا تذکرہ ہو گا ہر شخص اسی تذکرے میں اپنی ملاقات یا واقعہ کا ذکر ضرور کرے گا کہ ہاں میری بھی ملاقات ہو چکی ہے جیسا کہ فرشتے کا ذکر ہوا تو سب نے بلا امتیاز اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا۔ جس طرح عام لوگ اپنے ماورائی واقعات کا تذکرہ بلا امتیاز کرتے ہیں اسی طرح ماہرین بھی بلا امتیاز جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ جس سے روحانی علوم میں ایک بے تحاشہ بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ لہذا اب ماورائی علوم کا حال یہ ہے کہ نام نہاد ماہرین یا ماہرِ روحانیت کچھ ماورائی واقعات اکھٹے کر کے ان کی وضاحت اپنے
۱۔ مذہبی معیار کے مطابق کرتے ہیں۔
۲۔ کچھ سائنسدان انہی ماورائی واقعات کی سائنسی جانچ پڑتال کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
۳۔ اور کچھ نفسیات دان ماورائی مخلوق کو (نظر کا دھوکا) فریب نظر اور ماورائی واقعات کو توہمات یا نفسیاتی بیماری قرار دے کر لمبے چوڑے فلسفے بیان کرتے ہیں۔ یہ تمام طریقہ کار درست نہیں ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ روحانی علوم کے ماہرین اپنے علم اپنے سبجیکٹ پہ مکمل عبور حاصل کریں اس کا طریقہ یہ ہے کہ مخلوقات میں امتیازی فرق تلاش کریں۔ ان تمام کو انفرادی حیثیت میں شناخت کریں۔ ہر مخلوق کی تمام تر خصوصیات کو شناخت کریں۔ جب کوئی ماہر اپنے علم پہ عبور پالے گا تو وہ واقع سے شناخت کر لے گا کہ یہ تو فلاں مخلوق کی کارستانی ہے۔ جیسے ہم مکان بنا دیکھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو فلاں انسان نے بنایا ہے۔ (یوں نہیں کہتے کہ یہ فریب نظر ہے یا کسی جانور کی کارستانی ہے ) لیکن جب تک ہم ان مخلوقات کا علم حاصل کر کے ان میں امتیاز نہیں برتیں گے تب تک تمام تر ماورائی مخلوقات پہ جانچ پڑتال بے سود ہے۔ بحر حال یہاں اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ آج ً انسان ً بھی اپنے آپ اپنی روح اپنے نفس سے لاعلمی کے سبب آج اپنی روح و نفس کو ہی ماورائی مخلوق قرار دے کر اپنے آپ کو ہی ماورائی مخلوق سمجھ بیٹھا ہے۔ لہذا موضوعِ انسان پہ مختلف اور متفرق موضوعات روح، نفس، ارتقاء آواگون، ذہن، لاشعور، شعور وغیرہ وغیرہ پہ صدیوں سے جو بے شمار سائنسدان، محققین، فلسفی صوفی کام کر رہے ہیں یہ تمام تر کام بے نتیجہ ہیں۔ اس لئے کہ آج تک نہ تو ان تمام موضوعات( روح، نفس، ذہن، لاشعور، شعور)کی انفرادی شناخت ہو سکی ہے نہ ہی انسان کی مجموعی تعریف آج تک ممکن ہوئی ہے۔ جب کہ آج میں برسوں کی مسلسل تحقیق اور غور و فکر کے بعد اپنے سبجکیٹ ’’ انسان‘‘ پہ سیر حاصل ریسرچ کر کے اس قابل ہو چکی ہوں کہ اپنے نئے نظریات کے ذریعے انسان کے انفرادی اجزاء کی شناخت کے بعد مجموعی انسان(روح، نفس، جسم) کی تعریف اور انفرادی شناخت قائم کروں۔
۱۔ لہذا یہاں ہم انسان کو ماوریٰ کی صف سے نکال کر اس کی انفرادی شناخت قائم کریں گے، اس کی تعریف کریں گے۔
۲۔ انسان پہ ہوئے تمام ادوار کے کاموں کا بلا تعصب جائزہ لیں گے وگرنہ اس سے پہلے کہیں محض روح پہ کام ہو رہا ہے کوئی محض جسم کو آخری حقیقت کہہ رہا ہے کوئی فقط نفس کا راگ الاپ رہا ہے وہ بھی بے مقصد۔
۳۔ تمام ادوار کے انسانی کاموں کی خوبیوں خامیوں کی نشاندہی کر کے اصلاح کریں گے
۴۔ ہر روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کریں گے۔
۵۔ روح و نفس کا تفصیلی تعارف اور خصوصیات کا ذکر کریں گے۔
۶۔ اور مجموعی انسان کی تعریف کریں گے۔
۷۔ انسان کی تخلیق اور فنائی ترتیب کو درست کر کے ترتیب وار بیان کریں گے۔
۸۔ ارتقاء اور آواگون جیسے مسائل کا حل پیش کریں گے۔
۹۔ تقدیر، جبر و قدر، ہبوط آدم جیسے نظریات کی تصحیح کریں گے
ہر دور میں انسان کے ارتقاء، تخلیق یا روح، نفس یا مادی جسم پر انفرادی کام تو ہوئے ہیں۔ لیکن یہاں ا ن تمام روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کر کے اور ان تمام کو باہم مربوط کر کے مجموعی انسان کی تعریف کرنے کی سعی کی جا رہی ہے، یعنی یہ پہلا انسانی عملی کام ہے۔
4۔ انسان پر جدید سائنسی تحقیقات
سائنسدان عرصہ دراز تک مادی جسم کو ہی ً انسان ً قرار دیتے رہے۔ وہ صدیوں سے یہی کہتے چلے آ رہے تھے کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے۔
لہذا برسوں جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مادی جسم ہی رہا اور سائنسدان برسوں مادی جسم پر تحقیق کر کے مادی جسم کے راز افشاں کرتے رہے جس کے نتیجے میں آج مادی جسم کا ہم کافی زیادہ سائنسی علم رکھتے ہیں۔ جب کہ انسان کے باطنی پہلو کو جانتے ہی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسدان برسوں مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دے کر انسان کے باطنی پہلو کو جھٹلاتے رہے اور انسان کی روح کو غیر مرئی اور غیر تجرباتی کہہ کر رد کرتے رہے۔ اور برسوں بعد بالآخر سائنسدانوں نے ہی انسان کے باطنی رُخ کا تجرباتی ثبوت فراہم کیا اور آج انسان پر سب سے زیادہ تحقیقی، سائنسی اور تجرباتی کام اسی باطنی رخ پر ہو رہا ہے۔ اور یہ کام کر رہے ہیں ڈاکٹر اور سائنسدان(وہم پرست یا مذہبی روحانی شخصیات نہیں جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے )
اگرچہ روحانی علوم یا ماورائی علوم مشرق سے منسوب ہیں اور انسان کے باطنی روحانی تشخص کی زیادہ تر معلومات بھی ہمیں یہیں سے میسر آتی ہیں لیکن جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مغرب ہی رہا ہے۔ لہذا اسی حوالے سے ! یورپ میں کاپر نیکی (۱۵۴۳ء) وہ پہلا مفکر تھا جس نے انسان کو روحانی حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کی۔
گلیلیو (۱۵۶۲۔ ۱۶۴۲)، نیوٹن ( ۱۶۴۲۔ ۱۷۲۷) ، ڈارون (۱۸۸۲۔ ۱۸۰۹) اور کیپلر نے بھی اس موضوع پر بحث کی۔ سر ولیم کرُکس وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے مادی دنیا پر روحانی اثرات کا سائنسی مطالعہ و تجزیہ کیا۔ ان کی کتاب (Research in the Phenomena of Spiritualism – 1874) نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ سرا لیور لاج کی کتاب (Raymond – 1861) بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ ان دونوں سائنسدانوں کی تحقیق اور تجربات پر اس مسلک کی بنیاد پڑی جسے ماڈرن سپریچولزم کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جو آجکل مغرب کی دنیا میں بڑے وسیع پیمانے پر زیر مشق ہے۔
طبعیات کے معروف سائنسدان سرالیور لاج کا کہنا تھا کہ جس طرح سائنسی طور پر تسلیم شدہ قوتیں مثلاً مقناطیسی کشش یا الیکٹرک سٹی خفیہ انداز میں کام کرتی ہیں مگر سب انہیں تسلیم کرتے ہیں اور ان کے وجود پہ ایمان رکھتے ہیں اسی طرح اس کائنات میں بہت سی قوتیں ایسی بھی ہیں جو انتہائی پوشیدگی سے اپنا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ مگر بظاہر ان کے وجود کا سراغ نہیں ملتا محض اسی وجہ سے ان کا انکار کرنا نادانی ہو گی۔ لاج کا خیال تھا کہ اس موضوع پر ٹھوس تحقیقات کا آغاز ہونا چاہئے۔ اُسی نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ سائنسیات اور روحانیات ابھی تک پوری طرح تعصب سے آزاد ہو سکی ہیں میرے خیال میں ان دونوں کے درمیان ایک خفیہ ربط موجود ہے۔ لاج نے یقین ظاہر کیا کہ ایسا وقت ضرور آئے گا جب خالص سائنسی انداز میں اس پہلو پر تحقیق کی جائے گی اور اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے گا۔
اور وہ وقت آ گیا درحقیقت انگلینڈ کے اعلیٰ ترین اعزاز نائٹ ہڈ (Knight Hood) سے نوازے گئے معروف طبعیات دان لاج نے خود خالص سائنسی انداز میں انسان کی روحانی خصوصیات پر تحقیق کا آغاز کر دیا تھا۔ اگرچہ ان کے ساتھی سائنسدان سائنس کی بجائے انہیں روحانی چکروں میں پڑا دیکھ کر خبطی سمجھنے لگے تھے۔ جب کہ ایک اہم سائنسدان کی روحیت کی طرف بھرپور پیش قدمی کے نتائج سامنے آنے لگے اور سائنسی انداز میں اس موضوع پر تحقیق اور تجربات کا آغاز ہوا۔ لہذا سراولیور لاج سوسائٹی فار سائیکیک ریسرچ ان انگلینڈ Society for Psychic Research in England کے بانی ممبران میں سے سراولیورلاج کے ہم خیال کئی اہم نام اُبھرے مثلاً ڈبلیوایچ مائرز(Fredrick W.H. Myers) نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔ مائرز نے اپنی کتاب (Human Personality and its Survival of Bodily Death) میں سینکڑوں واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے ’ سپرٹ‘(Spirit) کہتے ہیں۔ اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔
دو عالمگیر جنگوں کے بعد روحانیت پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آئیں اور یہ کتابیں لکھنے والے مذہبی انتہا پسند یا وہم پرست عوام نہیں بلکہ یہ سائنسدان، ڈاکٹر، فلسفی اور پروفیسرز تھے۔ لہذا ن معتبر لوگوں کی مسلسل توجہ، سائنسی تحقیق اور تجربوں سے اس علم نے عملی تجرباتی دنیا میں قدم رکھ دیا اور باقاعدہ لیبارٹریوں میں سائنسی بنیادوں پر تجربات ہونے لگے۔
مادام بلاوٹسکی اور ایڈگر کیسی (ورجینیا 18 مارچ 1877 ) نے بھی روحانی صلاحیتوں کے عملی تجرباتی مظاہروں سے اُس وقت کے ڈاکٹروں سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ جس مرض کے علاج میں میڈیکل ڈاکٹر ناکام رہ جاتے یہ روحانی معالج نہ صرف یہ کہ مرض دریافت کرتے بلکہ اس لاعلاج مریض کا علاج بھی کر ڈالتے۔ انہوں نے ماضی اور مستقبل کے واقعات کی نشاندہی بھی کی۔ خوابوں کے اثرات، رنگ و روشنی سے علاج اور مسمریزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اٹھارویں صدی کے آخر میں سائنسدانوں کو انسان کے اندر موجود مقناطیسیت سے متعارف کروایا۔
لہذا سائنسدانوں نے انسان کے اندر موجود اس مقناطیسیت کو الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ (E. M. F) اور بائیوانرجی کے نام دیئے اور جدید سائنسی تحقیقات کے بعد بالآخر سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ ایک لطیف توانائی ہمارے جسم میں سرائیت کئے ہوئے ہے۔ چونکہ یہ نظریہ اس دور کے ٹھوس مائع گیس کسی سے مناسبت نہیں رکھتا تھا لہذا ابتداء میں انسان کے اندر دریافت شدہ اس لطیف توانائی کا نام’ ایتھر‘ (Ether)رکھا گیا اور اس لطیف باطنی وجود کو ایتھرک باڈی (Etheric Body)کہا جانے لگا اس دور کے روحانی علوم کے ماہرین (مادم بلاوٹسکی اور ایڈگرکیسی وغیرہ) نے اس ایتھری وجود پر مقالے بھی تحریر کئے۔ یعنی برسوں انسان کے مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے والے سائنسدانوں نے خود انسان کے باطنی تشخص کا اقرار کیا اور وہ موضوع جسے کچھ عرصہ پہلے توہم پرستی قرار دیا جاتا تھا وہ موضوع انیسویں صدی میں بھرپور طریقے سے سائنسدانوں کی توجہ کا موضوع بنا۔ لہذا اس موضوع پر ہزاروں کتابیں منظر عام پر آئیں مقالے لکھے گئے سائنسی طرز کی تحقیقات تجزئے اور تجربات باقاعدہ لیبارٹریوں میں کئے گئے اور یہ محض نقطہ آغاز تھا۔ لہذا۱۹۳۰ء کی دہائی میں روس میں کیرلین نامی الیکٹریشن نے اتفاقی طور پر ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا جس نے انسان کے اس باطنی وجود کی تصویر کشی بھی کر لی جس کا تذکرہ ہزاروں برس سے ہو رہا تھا۔ کر لین فوٹوگرافی کے ذریعے انسان کے باطنی وجود کو واضع طور پر دیکھا گیا۔ یہ انسان کے جسم سے جڑا ہوا بالکل مادی جسم کے جیسا ہیولا نُما دوسرا انسان تھا ایک لطیف روحانی وجود جسے سائنسدانوں نے AURA کا نام دیا۔ فزکس کی شاخ میٹا فزکس نے AURA کو بائیو پلازمہ کا نام دیا۔ ۱۹۰۰ء سے اب تک سائنسدان اسے مختلف ناموں سے پکار رہے ہیں مثلاً الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ (E. M. F) یا (H. E. F) یا بائیوانرجی یا بائیو پلازمہ، وائٹل فورس، اوڈک فورس، قوئنٹ ایسنس، ففتھ ایلیمنٹ یا جسم اثیر (Etheric Body) جب کہ بنیادی نام AURA ہے۔ اب اس AURA پر سائنسی بنیادوں پر تحقیقات جاری ہیں۔ اب اسی Aura میں مزید چکراز (Chakras) اور سبٹل باڈیز Subtle Bodies بھی دریافت کی گئی ہیں۔ جدید سائنسی طریقوں سے AURA کو اس کی خصوصیات اعمال و افعال کو اور مادی جسم کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اس سلسلے میں لیبارٹریوں میں سائنسی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے۔
مثلاً اسپریچول ایسوسی ایشن آف گریٹ برٹن کی وسیع عمارت میں کئی لیکچر ہال، بیس پچیس کیبن نما کمرے ہیں یہاں روحانی تجربات ہوتے ہیں۔ لندن میں سوسائٹی فار دی سائیکیل ریسرچ نے روحانیت پر سائنسی تجربات کا آغاز 1882 میں کیا۔ ہالینڈ میں مکالمہ ارواح کا فن سائنس کی شکل اختیار کر گیا لہذا حیرت انگیز سائنسی تجربات کئے گئے۔
امریکہ کی دو خواتین ٹروڈی گرس ورلڈ اور باربرامارک نورانی مخلوقات سے رابطہ کروانے کی ماہر ہیں یہ اپنی پرائیویٹ پریکٹس سان ڈیاگو کیلی فورنیا اور ویسٹ پورٹ میں کرتی ہیں۔ امریکہ، لندن، انگلستان، ہالینڈ اور روس کے علاوہ یورپ کے کئی دوسرے ملکوں میں بھی پیراسائیکالوجی(روحانیت ) کے ادارے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ ایٹمی لیبارٹریوں کی طرح پیراسائیکالوجیکل ریسرچ کے بعض پروگرام انتہائی راز داری میں رکھے جاتے ہیں اور بعض بڑی طاقتیں اب اس سائنس کو اپنے سفارتی تعلقات، بین الاقوامی معاملات، جنگی اور جاسوسی کے معاملات میں بھی استعمال کر رہی ہیں مثلاً امریکہ کا CIA کا خفیہ جاسوسی کا ادارہ (Sun Streak/Stargate) روحانی استعداد رکھنے والے جاسوسوں کو جدید سائنسی طریقوں سے روحانی تربیت دے کر روحانی سراغ رسانی کا کام لیتا ہے۔ اور یہ روحانی سراغ رساں اپنے روحانی وجود AURA کو استعمال میں لا کر دشمن کے خفیہ منصوبوں کا گھر بیٹھے سراغ لگاتے ہیں۔ یہ دشمن کے ہتھیاروں کو گھر بیٹھے ناکارہ بنا سکتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کے دماغوں کو گھر بیٹھے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ یہ گھر بیٹھے اپنے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور انسان اپنی روحانی صلاحیتوں کو استعمال میں لا کر مریخ پر بھی جا پہنچا اور ہماری لاعلمی کی انتہا یہ ہے کہ ہم آج بھی اسے توہم پرستی کہہ رہے ہیں جب کہ ہماری بے خبری اور لاعلمی کے سبب آج ہماری سلامتی دشمن کے ہاتھوں میں ہے۔ آج دنیا بھر میں انسان کے باطنی رخ پر نہ صرف روحانی بلکہ سائنسی تجربات ہو رہے ہیں ا ور سائنسدان ایٹم کی طرح انسان کے اندر جھانک کر اس وسیع و عریض دنیا کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ ابھی سمجھ نہیں پا رہے۔ دنیا بھر میں اسی موضوع پر کتابیں تحریر کی جا رہی ہیں رسالے نکالے جا رہے ہیں ان موضوعات پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اور مختلف ٹی وی چینلز پر اب سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے عنوان سے کیسز یا دستاویزی پروگرام بھی آتے ہیں۔ ان تحقیقات سے نہ صرف آج کے لوگ استفادہ کرتے ہیں بلکہ روحانی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں۔
صرف یورپ اور امریکہ میں روحانی اداروں سے وابستہ افراد کی ممبرشپ ایک کروڑسے زیادہ ہو چکی ہے۔
جدید تحقیقات کے نتائج۔ جدید تحقیقات قدیم ادوار کے کاموں کی تصدیق کر رہی ہیں لہذا آج ہر دور کا کام موضوع بحث ہے اور سائنسدان ماہرین محققین بلا تعصب آج ہر دور کے کام کا جائزہ لے کر انسان کی حقیقت سمجھنے کی کوشش میں مصروفِ کار ہیں۔
5۔ انسان کی ابتدائی تعریف
(1) انکسا مندر، ابندرقلیس
انکسا مندر اور ابندرقلیس نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان کی موجودہ شکل ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ اس نے رفتہ رفتہ حیوانی حالت سے ارتقاء کی ہے۔
(2) ارسطو
(۳۸۲۔ ۳۲۲ ق م) ارسطو نے (2500) دو ہزار پانچ سو سال قبل یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان ایک سیاسی حیوان ہے جس کی جبلت میں جوڑتوڑآپس میں کھینچا تانی اور دوسروں پہ غلبہ حاصل کرنے کی خواہش ہے۔
(3) ابوالحسن المسعودی
ابوالحسن المسعودی نے تخلیقِ آدم سے متعلق یہ نظریہ اپنی مشہور کتاب۔ "التنبیہہ و الاشراف ” میں یوں پیش کیا کہ جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان مرحلہ وار وجود میں آئے۔
(4) چارلس رابرٹ ڈارون (۱۸۸۲ -۱۸۰۹)
چارلس رابرٹ ڈارون کے مطابق انسان کی تحلیق نہیں ہوئی بلکہ اس کا ارتقاء یک خلوی جرثومے (Unicellular Organism) سے اتفاقاً ہوا ہے اور وہ موجودہ صورت میں بوزنے (APE) سے پروان چڑھا ہے مزید یہ کہ فطری انتخاب (Natural Selection) کے ذریعے ایک سے دوسری انواع وجود میں آتی ہیں۔ یعنی کسی بھی ایک نوع کی اصل (Origin) کوئی دوسری نوع ہے۔
(5) تھامس کارلائل (Thomas Corloyal)
اٹھارویں صدی کے انگریز مصنف نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان ایک معاشرتی حیوان (Social Animal) ہے۔ یہ مل جل کر معاشرے کو جنم دیتے ہیں۔ بستیاں بساتے ہیں اور قانون وضع کرتے ہیں۔
(6) بنجمین فرنیکلن (Benjamin Franklin)
انیسویں صدی کے ایک اور مغربی مفکر بنجمین فریکلن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان ہتھیار بنانے والا حیوان ہے۔
کسی نے کہا کہ انسان حیوان ناطق ہے یعنی ایسا حیوان جس کی دیگر حیوانات میں انفرادیت یہ ہے کہ وہ ذریعہ اظہار رکھتا ہے۔
مارکس نے انسان کو معاشی حیوان قرار دیا جب کہ پروفیسر جیمز Principles of Psychology میں کہتا ہے کہ انسان بس ایک تقلید کرنے والا ہے۔
تبصرہ، تجزیہ، موازنہ
ان تمام تعریفوں میں انسان کو حیوان کی ترقی یافتہ شکل بتایا گیا ہے۔ صرف ابوالحسن المسعودی نے ارتقاء کا تذکرہ نہیں کیا انہوں نے موجودات یا انواع کی مرحلہ وار تخلیق کا تذکرہ کیا ہے۔
جب کہ باقی تمام تعریفوں میں بتایا گیا ہے کہ انسان نے حیوانی سطح سے رفتہ رفتہ ارتقاء کی ہے۔ اور ہے تو انسان بھی حیوان ہی لیکن دیگر حیوانات میں منفرد اور ترقی یافتہ حیوان ہے۔ اور دیگر حیوانات میں اس کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ بولتا ہے، سیاست کرتا ہے ، ہتھیار بناتا ہے اور معاشرتی زندگی بسر کرتا ہے۔ جب کہ دیگر حیوانات میں یہ خصوصیات موجود نہیں ہیں۔
جب کہ جدید تحقیقات نے ان قدیم نظریات کی قطعاً نفی کر دی۔ جدید تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ جانور بھی بولتے ہیں اور الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں ہاں ان کا ذریعہ اظہار مختلف ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق بعض بندروں کی زبان میں بھی الفاظ کی تعداد 40 یا 45 کے قریب ہے۔ اور صرف جانور ہی نہیں کائنات کا ہر وجود سماعت و بصارت رکھتا ہے وہ موجودات جن کو کچھ عرصہ پہلے تک بے جان تصور کیا جاتا تھا انہی موجودات یا انواع میں سے کچھ کی آوازوں کو سننے کی آج ہم نے اہلیت حاصل کر لی ہے۔
مثلاً بیالوجیکل ریسرچ کے مطابق درخت دوسرے درختوں سے گفتگو کرتے ہیں۔ جب کہ ان درختوں کا ذریعہ اظہار ٹیلی پیتھی (Waves) ہے۔
مختلف موجودات یا انواع کا ذریعہ اظہار مختلف ہے جیسے ہم انسان ہی ایک دوسرے سے مختلف زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں بعض انسان ہاتھ کے اشاروں سے گفتگو کرتے ہیں بعض انسان ٹیلی پیتھی (Waves) کی زبان بھی سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف انواع کا ذریعہ اظہار اور سماعت مختلف ہے لیکن اس اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سماعت اور گفتار سے ہی محروم ہیں۔ لہذا اگر کوئی یہ کہنا چاہے کہ درخت یا جانور یاسمندر انگریزی نہیں بولتے لہذا یہ سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں تو یہ احمقانہ دلیل قابل قبول نہیں۔ لہذا جدید تحقیقات سے ثابت ہو گیا کہ بولنا یا سننا محض انسان کی انفرادی خصوصیت نہیں بلکہ جانوروں کے علاوہ تمام موجودات سماعت و گفتار کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
دیگر حیوانات میں انسان کی انفرادی خصوصیت یہ بھی بیان کی گئی تھی کہ وہ معاشرتی ہے یا سیاست کرتا ہے۔ یہ بھی محض انسانی انفرادیت نہیں ہے۔
ترجمہ:۔ ان میں سے ہر ایک تمہاری طرح ایک امت ہے۔ (قرآن، 6-38)
صرف انسان معاشرتی نہیں ہے۔ محض انسان سیاست نہیں کرتا بلکہ حیوانات میں بھی سیاست ہوتی ہے سیاسی قوانین کے تحت ان کا باقاعدہ سیاسی لیڈر ہوتا ہے اور یہ بڑے معاشرتی قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور ان کا سیاسی اور معاشرتی نظام ہوتا ہے۔ مکھیوں کی ملکہ ہوتی ہے اور چیونٹیوں کا خاندان بھی ہزاروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پورے خاندان کی ایک ملکہ ہوتی ہے ، ان میں فنکار اور باغبان چیونٹیاں، انجینئر اور فوجی چیونٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان میں انسانوں کی طرح ایثار اور قربانی کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ اور حیوان آجکل کے انسان سے کہیں زیادہ نظم و ضبط اور قاعدے قانون کے تحت معاشرتی و سیاسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ انسانوں ہی کی طرح بعض جانور ہتھیار بناتے اور استعمال کرتے ہیں۔ اپنا دفاع کرتے ہیں اپنی جگہ کے لئے لڑتے ہیں جو طاقتور ہوتا ہے وہ شیر ہے۔ اب مختلف چینلز پر ہم حیوانوں کی معاشرتی و سیاسی زندگی کی تقریباً تمام تفصیلات دیکھ سکتے ہیں لہذا یہ کہنا کہ انسان معاشرتی و سیاسی ہونے یا ہتھیار بنانے یا بولنے کے سبب دیگر انواع میں منفرد ہے۔ اس کی بنیاد محض لاعلمی ہو گی۔ وگرنہ یہ تمام خصوصیات حیوانات میں انسانوں سے زیادہ ہیں۔
جب کہ کچھ بظاہر خصوصیات یا حسیات تو حیوانوں میں انسانوں سے بھی زیادہ ہیں اس حساب سے تو حیوان یا دیگر انواع انسانوں سے منفرد قرار پائیں مثلاً جانوروں کی چھٹی حس تیز ہوتی ہے وہ خطرات کی بو پا لیتے ہیں یا آنکھوں سے آنے والے خطرات کے مناظر دیکھ لیتے ہیں لہذا زلزلے اور طوفان کی آمد سے پہلے ہی گھبرا کر بھاگنے دوڑنے لگتے ہیں۔ کُتے میں سونگھنے کی حس انسان سے کئی ملین زیادہ ہے ، انسان کے مقابلے میں شاہین کی آنکھ کسی چیز کو آٹھ گنا بڑا دیکھتی ہے۔ مچھلیاں سمندر میں انتہائی مدھم ارتعاش کو محسوس کرتی ہیں۔
یہ بظاہر چند خصوصیات جو عام طور پر انسانوں میں دیکھنے میں نہیں آتیں جانوروں میں پائی جاتی ہیں۔ جب کہ انسان میں بیان کی جانے والی معاشرت سیاست گفتار جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ یعنی اوپر بیان کی گئی تعریفوں کے حساب سے انفرادی خصوصیات کا حامل انسان نہیں بلکہ حیوانات یا دیگر انواع ہیں۔
انسان معاشرتی ہے یا سیاسی، ہتھیار بناتا ہے یا بولتا ہے درحقیقت یہ انسان کی تعریفیں نہیں ہیں بلکہ یہ اس کی بے شمار خصوصیات میں سے چند خصوصیات کا تذکرہ ہے نہ کہ انسان کی تعریف۔
مثلاً میں ’ روبینہ نازلی‘ ہوں میری کتاب روبینہ نازلی نہیں یا میری تحریر کو روبینہ نہیں کہا جاتا بلکہ خود مجھے روبینہ نازلی کہا جاتا ہے۔
لہذا انسان سیاست بھی کرتا ہے ہتھیار بھی بناتا ہے ، کاروبار بھی کرتا ہے ، ہنستا روتا بولتا ہے اور ہزاروں اسی جیسے مزید کام بھی کرتا ہے اور یہ تمام اس کے کام یا خصوصیات ہیں۔ لہذا اس کے کام انسان نہیں۔
ہاں اگر ہم یہ جاننے کی سعی کریں کہ یہ جو انسان (مادی جسم) نظر آ رہا ہے یہ کن اجزاء کا مجموعہ ہے اس کے اندر کون کون سے جہان آباد ہیں کروڑوں خلیوں کے مجموعے دل جگر گردوں کے علاوہ اس کے اندر کیسے برقی سسٹم ( AURA، چکراز) کام کر رہے ہیں کیا اس کے اندر کوئی روح بھی ہے یہ نفس کیا ہے اور آخر کیسا مجموعہ ہے یہ دکھائی دینے والا بظاہر سادہ سا انسان؟ اسی انسان کو دریافت کرنے کی سعی انسان کی تعریف کے زمرے میں آئے گی۔
اگرچہ انسان کو حیوان کی ترقی یافتہ شکل قرار دینے کی سازش بے بنیاد اور قدیم ہو چکی ہے اس کے باوجود آج یہ باقاعدہ ایک نظریے (نظریہ ارتقاء) کی صورت اختیار کر گئی ہے۔
اگرچہ آج اس نظریہ ارتقاء کے خلاف بھی ہمارے پاس سائنسی و غیر سائنسی شواہد کے ڈھیر موجود ہیں پھر بھی اس بودے قدیم مفروضے کو سائنسی نظریہ ثابت کرنے کی کوشش کس صورت میں کی جا رہی ہے اور ہزاروں برس سے چلے آ رہے نظریۂ ارتقاء کا دفاع ارتقاء کے حامی کیسے کر رہے ہیں اور اس کی موجودہ صورت کیا ہے ذرا جائزہ لیتے ہیں۔
نظریۂ ارتقاء Theory of Evolution
ایک برطانوی یہودی چارلس رابرٹ ڈارون (جو کہ ایک شوقیہ حیاتیات دان (Amateur Biologist) تھا۔ نے اپنی کتاب (The Origin of Species by Means of Natural Selection) یعنی فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور) میں ان نظریات کا اظہار کیا کہ ” انسان کی تخلیق نہیں ہوئی بلکہ حیوانی سطح سے ارتقاء ہوا ہے جس پہ ماحول کے اثرات ہیں۔ اربوں سال پہلے غیر متوازن ماحول میں یک خلوی جرثومے سے حیات پانی میں شروع ہوئی۔ وہیں نمود کی فطری خواہش کی وجہ سے ترقی کرتی رہی۔ وہیں سے مینڈکوں کی ایک نسل خشکی پر آ گئی جن مینڈکوں کو درختوں پر چڑھنے کا شوق ہوا وہ بالآخر اڑنے والے جانور بن گئے انہی میں سے کچھ خشکی پر خوراک و حفاظت کی تلاش میں مختلف اشکال میں بٹ گئے جن میں سے کچھ بندر بن گئے۔ بقاء کی یہ جنگ کروڑوں سالوں سے جاری ہے جس کے نتیجے میں کمزور ناپید ہوتے گئے اور طاقتور بقاء کے لئے موزوں ثابت ہوئے یوں بندروں سے ترقی کر کے ایک نسل انسانوں کی وجود میں آ گئی۔ ”
جب کہ ڈارون خود اپنی اس کتاب میں یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ "اگر انواع درجہ بدرجہ تغیرات کے ذریعے دوسری انواع میں تبدیل ہوئیں تو ہمیں ہر جگہ لاتعداد انتقالی شکلیں کیوں نظر نہیں آتیں؟”
ظاہر ہے اگر ارتقاء ہوا تھا تو ان اربوں سالوں کی ارتقائی زندگی کے نشانات تو موجودہ زندگی سے زیادہ ہونے چاہئیے تھے۔ لیکن افسوس ہم آج تک ایک بھی ایسی انتقالی شکل دریافت نہ کر سکے جسے ہم ارتقاء کی گمشدہ کڑی کہہ سکتے۔
لیکن ارتقاء کے حامی زبردستی ان گمشدہ کڑیوں کے کچھ بے نامِسرے ڈھونڈ ہی لائے یہ چند کھوپڑیاں، ایک دانت اور کچھ ہڈیوں پر مشتمل رکازی ریکارڈ تھا اور اسی رکازی ریکارڈ کی بنیاد پر تصویری کہانیاں بنائی گئیں جن میں بوزنہ سے انسان تک کے ارتقائی سفر کو دکھایا گیا، ارتقاء پرستوں نے چند کھوپڑیوں کی بنیاد پر بوزنہ (APE) سے انسان تک کی دس ممکنہ اقسام کی دریافت کا ڈھونگ رچایا۔ جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں مقالے لکھے گئے برسوں محققین اسی شغل میں لگے رہے۔ پھر برسوں بعد اس رکازی ریکارڈ کا پول کھلنے لگا معلوم ہوا کھوپڑی انسان کی جبڑا بن مانس کا اور دانت سور کا ہے۔ تصویریں من گھڑت، افسانے جھوٹے ہیں۔ یہ سب جعل سازی کے نمونے تھے۔ لہذا خود ماہرینِ رکازیات کو کہنا پڑا۔
(ڈیرک وی ایگر۔ برطانوی ماہر رکازیات)
” اگر ہم رکازات کے ریکارڈ کا تفصیلی مطالعہ کریں خواہ وہ تنظیم و ترتیب کی سطح پر ہو یا انواع کا ہو تو ہمیں بار بار یہی پتا چلتا ہے کہ تدریجی ارتقاء نہیں ہوا تھا ”
جب ڈارون ازم کی سائنسی رو سے قطعاً نفی ہو گئی تو ارتقاء پرستوں نے پیچھے ہٹنے کی بجائے جدید ڈارون ازم کی بنیاد رکھی۔ اس نظریے کے مطابق انواع کا ارتقاء تغیرات (Mutations) اور ان کے جین میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا۔ مزید یہ کہ ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں۔
یہ نظریہ بھی سائنسی دریافتوں نے غلط ثابت کر دیا اور ثابت ہو گیا کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں۔
جب کہ کیمبری عصر (زمین کی قدیم ترین پرت کیمبری (Cambrian) ہے جس کی عمر 52 سے 53 کروڑسال ہے ) کی پرتوں سے ملنے والے جانداروں کے رکازات پہلے سے کسی بھی جد امجد کی غیر موجودگی میں اچانک ہی متعدد انواع کے ظاہر ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ یعنی ارتقاء نہیں ہو ا تخلیق ہوئی ہے۔
ان جدید رکازات کی مدد سے نہ صرف ارتقاء کے تمام تر من گھڑت رکازات کی نفی ہو گئی بلکہ تمام تر ارتقائی نظریات کی بھی نفی ہو گئی۔ لہذا کیمبری عصر سے ملنے والے رکازی ریکارڈ کی روشنی میں ارتقاء پرستوں کو اپنا موقف پھر تبدیل کرنا پڑا لیکن اب بھی انہوں نے ہار نہیں مانی بلکہ مداخلتی توازن (Punctuated Equilibrium) کا راگ الاپنے لگے۔ اس نظریے کی رو سے جاندار کوئی درمیانی شکل اختیار کئے بغیر اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہو گئے یعنی کوئی نوع اپنے ارتقائی آباؤ اجداد کے بغیر ہی وجود میں آ گئی۔ اس قدرے معقول نظریے کی انہوں نے یہ احمقانہ توجیہہ پیش کی کہ رینگنے والے جانوروں کا انڈہ ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا۔ نہ صرف ہر قسم کی سائنس اس بے سروپا دلیل کی نفی کرتی ہے بلکہ خود ارتقائی نظریات کے مطابق انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے ذبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے۔ جب کہ سائنسی رو سے کوئی بھی جینیاتی تغیر خواہ وہ کسی پیمانے کا ہو مثبت نہیں ہوتا نہ ہی یہ جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہوا یا ان میں اضافہ کرتا ہوا پایا گیا ہے۔ بلکہ تغیرات سے جینیاتی معلومات تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہیں۔
ایسی ہی تحقیقات کی روشنی میں انسان اور بن مانسوں کے مابین جو تعلق قائم کیا جا رہا تھا اس کی بھی نفی ہو گئی اور بالآخر صحیح رکازات کے مطالعے کی روشنی میں خود ماہرین رکازیات اور سائنسدانوں کو کہنا پڑا کہ لاکھوں برس پہلے زمین پر پائی جانے والی دو ٹانگی مخلوق در اصل انسان نہیں بلکہ انسان اور بندروں کے درمیان کوئی اور ہی مخلوق تھی جس کا موجودہ انسان سے کوئی تعلق نہیں۔
انسان کو بوزنہ کی ترقی یافتہ شکل بتایا گیا تھا جب کہ بوزنہ (APE) تو آج بھی اپنی تمام تر اقسام کے ساتھ موجود ہے اور بوزنہ سے انسان بننے کے درمیان پائی جانے والی دس ممکنہ اقسام کہاں گئیں۔
کوانٹم جمپ جیسے نظریات کے آ جانے کے بعد اب ارتقاء پرستوں کا موقف یہ تھا کہ ارتقاء منزل بہ منزل ہوا ہے۔
ان نظریات کی نفی اسٹیفن جے گولڈ کے جدید نظریات سے ہو گئی۔ ان نظریات سے ثابت ہو گیا کہ انسان کا ارتقاء مرحلہ وار نہیں ہوا بلکہ تمام نوع انسانی ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ یعنی موجودہ تمام انسانوں کا جد امجد انسان ہی ہے نہ کہ بندر!
انسانی تخلیق کے بارے میں یہ جدید تحقیق امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور ایشیائی ملکوں سے ملنے والی ۱۴۷ (ایک سو سینتالیس) حنوط شدہ لاشوں میں پائے جانے والے DNA کے سائنسی تجزیئے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ یہ خلیے صرف ماں کے ذریعے ہی اولاد میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ تاہم ان میں تغیر و تبدل کے لئے ایک طویل مدت درکار ہے۔ DNA کی ساخت میں تبدیلی کی شرح دس لاکھ برس میں دو سے چار فیصد ہے۔ اس جدید سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہو گیا کہ ارتقاء ہوا ہی نہیں بلکہ تخلیق ہوئی ہے اور انسان بندر کی نہیں انسان ہی کی اولاد ہے ہمیشہ سے !
یہاں ہم نے ارتقائی ادوار کا سرسری جائزہ پیش کیا ہے ہر دور میں ہزاروں برس سے ارتقائی نظریے کی نفی ہو رہی ہے۔
ہمارے پاس انسان کے بارے میں معلومات کے تین مستند ذرائع علم ہیں (1) سائنس (2) تاریخ (3) مذہب۔ ان تینوں ذرائع علم سے حاصل ہونے والی انسانی کہانی میں آج سو فیصد مماثلت پائی جاتی ہے۔
(۱) سائنس
سائنسدان دوان گِش (Duane Gish) پروفیسر گولڈسمتھ (Golde Schmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth) جیسے ماہرین نے مفروضۂ ارتقاء کے حامی جھوٹے سائنسدانوں کے جھوٹ کے فریب کا نہ صرف پردہ چاک کیا ہے بلکہ دو ٹوک الفاظ میں اعلان بھی کر دیا ہے کہ ارتقاء محض فلسفیانہ مفروضہ ہے جس کی کوئی سائنسی حقیقت نہیں۔
جدید سائنس مسلسل ارتقاء کی نفی اور تحلیق کی تائید کر رہی ہے جس کے آج ہمارے پاس ڈھیروں ثبوت موجود ہیں جن میں سے چند نکات کا یہاں دوبارہ ذکر کیا جا رہا ہے۔
(1) جنیاتی تغیر خواہ کسی پیمانے کا ہو مثبت نہیں ہوتا۔
(2) کسی بھی نوع کا تعین کرنے والی ساری معلومات پہلے سے جین (Genes) میں موجود ہوتی ہیں لہذا فطری انتخاب کے ذریعے جین میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اگرچہ جینیٹک کے سائنسدان جین میں رد و بدل کر کے تجربات کرتے ہیں لیکن یہ جنیاتی تغیر نہ تو مثبت ہے نہ ہی فطری انتخاب۔
(3) زمین کی قدیم پرت کیمبری (Cambrian) سے ملنے والے جانداروں کے رکازات متعدد انواع کے اچانک ظہور کی شہادت دے رہے ہیں یعنی ارتقاء نہیں ہوا اچانک تحلیق ہوئی ہے۔
(4) جن جانوروں اور انسانوں میں نسلی ربط جوڑنے کی باقاعدہ سارش کی گئی تھی سائنس نے اس فریب کا پردہ بھی چاک کر دیا اور ثابت ہو گیا کہ انسان کا کسی حیوانی نسل سے کوئی نسلی ربط نہیں۔ جو نقلی کھوپڑیاں اور ڈھانچے اکھٹے کئے گئے تھے ان کا فریب بھی کھل گیا۔
(5) اگر بفرض محال ارتقاء ہوا بھی تھا تو اربوں سالوں کے ارتقائی دور کی انتقالی اشکال موجودہ زندگی سے زیادہ ہونی چاہئے تھیں جب کہ اب تک زندگی کی ایک بھی انتقالی شکل دریافت نہیں ہو سکی۔
(6) پروفیسر میکس ویسٹن ہوفر (Prof. Max Westen Hofer) نے ثابت کیا کہ مچھلیاں، پرندے، رینگنے والے جانور ار ممالیہ جانور سب ہمیشہ سے ایک ساتھ موجود رہے ہیں۔
(7) خلیوں کی بنیادی اور ارتقائی اقسام بھی غیر حقیقی ثابت ہو چکی ہیں 1955ء کے بعد اس حقیقت کا انکشاف ہو چکا ہے کہ تمام خلیوں کا تانا بانا 99فیصد تک ایک جیسا ہوتا ہے اور DNA کے لئے یکسانی کی شرح 100 فیصد تک پائی گئی ہے۔
(8) ایک دعویٰ یہ بھی تھا کہ تمام مخلوقات بقائے اصلح Survival of the Fittest کے قانون کے تابع ہیں جو کمزور ہیں وہ فنا ہو جاتے ہیں۔ جب کہ لاکھوں رکازات کی دریافت سے ثابت ہو چکا ہے کہ بہت سی کمزور مخلوقات مشکل ترین حالات کے باوجود لاکھوں سالوں سے زندہ ہیں۔
(9) ارتقاء پرستوں (Evolutionists) کے خیال میں خلیے کا ظہور اربوں سال پہلے غیر متوازن ماحول میں اتفاقاً ہوا تھا۔ جب کہ ہم آج تک ایک خلیہ بھی تجربہ گا ہوں میں تیار نہیں کر سکے۔ درحقیقت خلیے سے کائنات تک اتفاقات کا کہیں کوئی عمل دخل نہیں سب کچھ منظم و مربوط اور پری پلینڈ ہے۔ DNA میں موجود بے تحاشا معلومات اتفاقاً نہیں۔ حتیٰ کہ امائنوایسڈ (Amino Acids) تک اتفاقاً نہیں بنے۔
(10) خرد حیاتیات (Microbiology) کے ماہرین بھی آج تخلیق (Creation) کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ ہر شے ایک عظیم ترین خالق نے تخلیق کی ہے۔ سائنسدان اس نقطہ نظر کو ذہین ڈیزائن (Intelligent Design) کا نام دیتے ہیں
(11)۔ جس قسم کے قدیم انسانوں کا تذکرہ ارتقائی ماہرین کرتے ہیں اس قسم کے انسان یا انسان نما یعنی یٹیYeti آج بھی پائے جاتے ہیں۔ آج بھی ان جھوٹے افسانوں سے مشابہ مخلوق یعنی Yeti زمین پہ موجود ہے یہ درندہ نما انسان یا انسان نما مخلوق آج بھی وسطی امریکہ (گوئٹے مالا)۔ ایکواڈور، کولمبیا، گیانا، سرنام، برازیل، ہندوستان، نیپال، تبت میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ درندہ نما انسان تہذیب یافتہ دنیا سے ناآشنا ہیں لیکن ان کی موجودگی سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ زمانہ قدیم ہے یا موجودہ دور پتھر کا دور ہے یا انسان بندر کی اولاد ہیں بلکہ ان کی موجودگی ہی ارتقاء کی نفی ہے۔
آج ہرقسم کی سائنس ارتقاء کی نفی اور تخلیق کی تائید کر رہی ہے اور سائنسی دریافتوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کہیں اتفاقات کا کوئی دخل نہیں اور ثابت ہو چکا ہے کہ ہر شے اپنی جگہ بڑی اہم تخلیق ہے جسے کوئی بڑا خالق ہی تخلیق کر سکتا ہے !
(۲) تاریخ
ہمارے پاس سات ہزار سال پرانی تاریخ "آثار الصنادید” اور تحریروں وغیرہ کی شکل میں دستیاب ہے۔ ہزاروں برس کی تاریخ میں کہیں بھی انسان کے ارتقاء کا تذکرہ موجود نہیں پوری تاریخ میں ایک بھی تدریجی انسان کی مثال نہیں ملتی جس کو ثبوت کے طور پر پیش کر کے ہم یہ کہہ سکیں کہ ہاں فلاں دور میں ارتقاء ہوا ہو گا۔
جب کہ 5000ء قبل مسیح سے پیشتر کی تاریخ کی بنیاد زمین سے دستیاب شدہ اوزاروں یا انسانی و حیوانی رکازوں پر ہے۔
ارتقاء سے متعلق رکازی ریکارڈ من گھڑت اور جعل سازی کا شاہکار ہے لہذا اس ارتقائی ریکارڈ کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں۔
البتہ اصل رکازی ریکارڈ سے مسلسل تخلیق کے ثبوت میسر آ رہے ہیں اور ارتقاء کی مسلسل نفی ہو رہی ہے۔
(۳) مذاہب
صحیح آسمانی کتب (ترمیم و اضافہ شدہ نہیں ) سے میسر آنے والی "انسانی کہانی” کے مطابق بھی۔
(1) انسان کی تخلیق ہوئی۔
(2) ابتدا کا انسان بھی انسان ہی تھا۔
(3) اور تمام نوع انسانی جو کرہ ارض پر موجود ہیں ایک ہی جوڑے کی نسل ہیں۔
(4) انسان مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ابتداء سے معاشرت، سیاست، معیشت اور ہر طرح کے علوم رکھتا تھا بلکہ ابتدا کا انسان تو روحانی علوم سے بھی لیس تھا۔ (جس کی آج شہادتیں بھی میسر آ رہی ہیں جدید رکازی اور سائنسی دریافتوں کے ذریعے ) جن پر آج کے انسان نے مادیت کی دبیز تہیں چڑھا دیں۔
یعنی مذاہب بھی تخلیق کی تائید اور ارتقاء کی نفی کر رہے ہیں۔
تاریخ، سائنسی اور مذاہب کی انسان کے بارے میں معلومات میں 100 فیصد مماثلت پائی جاتی ہے یعنی یہ تینوں مستند ذرائع علم ارتقاء کی نفی اور تخلیق کی تائید کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یعنی ارتقاء کو ہر میدان میں 100 فیصد شکست فاش ہوئی ہے۔
اگرچہ نظریہ ارتقاء (Theory of Evolution) کو انیسویں صدی کے وسط میں سائنسی نظریے کی حیثیت سے متعارف کروایا گیا لیکن اسے سائنسی نظریہ ثابت کرنے کی کوشش کوئی ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے جب کہ یہ نظریہ محض ڈیڑھ سو سال پرانا بھی نہیں۔
درحقیقت ہزاروں برس قبل قدیم یونانیوں نے یہ نظریہ علمی دنیا میں متعارف کروایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء ڈارون ازم نہیں بلکہ یونانزم ہے۔
اس ہزاروں برس قدیم نظریے پر ہزاروں برس سے تحقیقی کام ہو رہا ہے اور تحقیق و تجربات کی روشنی میں ہزاروں برس سے اس نظریے کی مسلسل نفی بھی ہو رہی ہے یہ تمام تر ارتقائی نظریات نہ صرف انسان کے انسان ہونے اور تمام انواع کے نوعی تسلسل کی نفی کرتے ہیں بلکہ ہر قسم کی مذہبی، تاریخی اور سائنسی شہادتوں سے متصادم ہیں۔ آج جب کہ ارتقائی نظریات کے فریب کا پردہ پورے طور پر چاک ہو چکا ہے اور آج جہاں اس نظریے کے خلاف ہمارے پاس سائنسی، تاریخی اور مذہبی ثبوت و شواہد کے ڈھیر ہیں تو وہیں اس کے اثبات میں آج ہمارے پاس ایک بھی دلیل نہیں اس کے باوجود ارتقاء پرست اس کے دفاع پر ڈٹے ہوئے ہیں آخر کیوں؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہے کہ آخر ارتقاء پرست اتنا بڑا ارتقائی ڈھونگ رچا کر قوموں کو گمراہ کر کے علمی بحران پیدا کرنے کی کوشش کیوں کرتے رہے ہیں۔ یہ جاننے کے لئے ارتقائی نظریات کا پس منظر جاننا ضروری ہے اور پس منظر جاننے کے لئے ارتقاء پرستوں کا جاننا ضروری ہے۔ (ارتقا کا پس منظر جاننے کے لیے دیکھیے عنوان ’’نظریۂ ارتقا‘‘
درحقیقت ارتقائی نظریے نے مذہبی اطلاعات کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی غلطی سے جنم لیا جب کہ نہ تو یہ مذہبی عقیدہ ہے اور نہ ہی کوئی سائنسی نظریہ ہاں ایک غلط مفروضہ ہے جس نے مذہبی اطلاعات کو ناسمجھنے کی غلطی سے جنم لیا اور اس کے مقلد اس کو ایک الہامی حقیقت تصور کر کے اسے ہر ممکن طریقے سے ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، بہر حال اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ ارتقائی نظریات کو ہر میدان میں شکست فاش ہوئی ہے اور آج تین مستند ترین ذرائع علم (سائنس، مذہب، تاریخ) سے ملنے والی مسلسل شہادتوں سے مندرجہ ذیل یکساں نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
نتائج
(1) ثابت ہو گیا کہ ارتقاء کے حامی خود فریبی کا شکار اسے ایک مذہبی عقیدہ تصور کر کے اندھا دھند اس کے دفاع میں مصروف ہیں جب کہ نہ تو یہ مذہبی عقیدہ ہے نہ سائنسی نظریہ، یہ محض مفروضہ ہے جس کی بلاوجہ جھوٹی تائید کی جا رہی ہے۔
(2) ارتقائی نظریہ ہزاروں برس قدیم یونانی نظریہ ہے یعنی یہ ڈارونزم نہیں بلکہ یونانزم ہے۔
(3) ارتقاء سے متعلق رکازی ریکارڈ من گھڑت، افسانے جھوٹے، دلیلیں بے ثبات اور تمام مواد ردی ہے۔ جعل سازی سے مرکب اس رکازی ریکارڈ یا کباڑ کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں۔
(4) جب کہ جدید رکازات یا اصل رکازی ریکارڈ سے ثابت ہو گیا کہ تمام انواع اپنی موجودہ حالت میں لاکھوں برس پہلے بھی موجود تھیں۔
(5) جدید تحقیقات سے ثابت ہو گیا کہ ارتقاء نہیں ہوا تھا۔ (جینیاتی تغیر نہیں نوعی تسلسل حقیقت ہے )۔
(6) جدید دریافتوں سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ رفتہ رفتہ نہیں اچانک تخلیق ہوئی تھی۔
(7) ثابت ہو گیا کہ کائنات میں کوئی شے اتفاقات یا فطری انتخاب کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔
(8) جدید تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کسی حیوانی نسل کا تعلق انسانی نسل سے نہیں۔
(9) جدید تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تمام انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔
(10) ایک خلیے سے لیکر انسان تک کائنات اور اس کی تمام تر موجودات میں کہیں بھی اتفاقات کا کوئی دخل نہیں ہر تخلیق بڑی خاص ہے، سب کچھ بڑا منظم مربوط، اور ترتیب یافتہ ہے۔ کسی بڑے ذہن کا بڑا مضبوط پلان!
6۔ یونانی فلسفیوں کی انسان پر بحث
(۱) سینٹ تھامس اکیونس
کے خیال میں "انسان ” محض ذہن اور جسم کا نام نہیں بلکہ وہ ذہن اور جسم کے مرکب کا نام ہے۔ (جب کہ ذہن سے یونانیوں کی مراد روح ہوتی تھی)
(۲) آگسٹائن
نے جسم اور روح کے درمیان خط کھینچا اور جسم کو فرد کا کم تر پہلو قرار دیا۔
(۳) افلاطون PLATO
(۴۲۸۔ ۳۴۸ ق م) کے مطابق ہمارے جسم کی حرکات و سکنات روح کی وجہ سے ہیں۔ جونہی جسم اور روح کا تعلق ختم ہوتا ہے جسمانی حرکات و سکنات بھی ختم ہو جاتی ہیں۔
(۴) دمقراط
(۴۶۰۔ ۳۶۸ ق م) نے دو ہزار برس قبل کہا تھا ذہن یا روح آگ کی مانند ہے۔ یہ انسانی روح چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذروں یعنی ایٹموں سے بنی ہے۔ جب یہ ایٹم انسانی بدن سے نکل جاتے ہیں تو انسانی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہی حال جانوروں کا ہے۔
(۵) انیکسا غورث
روح ایک ایسی قوت ہے جو حیوانات و نباتات یعنی ہر جاندار اشیاء کے درمیان جاری و ساری ہے۔
(۶) سقراط
روح ایک غیر فانی شے ہے۔ سقراط نے روح، نفس اور ذات کی اہمیت پر زور دیا اس کا خیال تھا روح ہمیں نیکی اور بدی میں تمیز کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اغلباً سائیکی (Psyche) (روح) کی اصطلاح بھی سقراط نے ہی وضع کی تھی۔
(۷) ارسطوAristotle
(۳۸۴۔ ۳۲۲ ق م) ارسطو روح کو ایک ایسی اکائی تصور کرتا تھا جو اپنی ذات میں ہر لحاظ سے مکمل ہو یعنی فی ذاتہ مکمل ہو۔ البتہ ارسطو نے روح کو دو حصوں میں تقسیم کیا یعنی روح حیوانی اور روح انسانی۔ حیوانی روح کو وہ نچلے درجے کی بتاتا ہے جب کہ اعلیٰ درجہ کی روح کو وہ ذہن کا نام دیتا ہے ارسطو کے بعد بھی کئی مفکرین نے اس تقسیم کو درست تسلیم کیا ہے۔
(۸) فیثا غورث
چھٹی صدی قبل از مسیح کا یونانی فلسفی فیثا غورث( جو جیومیٹری میں مثلث کا موجد مانا جاتا ہے ) اس کا خیال تھا کہ انسانوں کی روح موت کے بعد جانوروں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔
تبصرہ، تجزیہ، موازنہ
یونانی فلسفیوں کی یہ تعریفیں انسان کے متعلق کی گئیں ابتدائی تعریفوں سے یکسر مختلف تعریفیں ہیں قدیم یونانیوں نے ارتقاء پر بحث نہیں کی ہاں چند فلسفیوں نے ارتقائی نظریات کا سرسری اظہار ضرور کیا ہے جس کی کوئی تفصیل یا وضاحت ہمیں نہیں ملتی۔ جب کہ ارتقائی ماہرین نے ہر دور میں انسان کو بندر کی اولاد ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں وہ بس ارتقاء کا دفاع ہی کرتے رہے۔ ارتقائی ماہرین نے روح یا نفس کا کبھی ذکر نہیں کیا جب کہ قدیم یونانی یہاں انسان کی تعریف کسی اور ہی حوالے سے کر رہے ہیں یہاں انسان کے حوالے سے روح یا ذہن، نفس اور جسم کا تذکرہ ہو رہا ہے۔
انسان کو ایک دوسرے رخ سے دیکھنے کے باوجود اس دور کے ماہرین بحیثیت مجموعی انسان کی تعریف کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور یہ معمہ "انسان ” ان کے لئے بھی حل طلب ہی رہا۔ اگرچہ یونانی فلسفی مجموعی انسان کی تعریف نہیں کر پائے لیکن انہوں نے انسان کو جاننے کی کوششوں کو وسیع تر کیا اور انسان کے اندر باطن میں جھانک کر روح و نفس کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ انسان سے وابستہ، روح یا ذہن، نفس، جسم، کے متعلق محض عقائد نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ انسان کے غیر مادی تشخص سے متعلق غیر سائنسی روحانی تجربات و مشاہدات اور گہرا فکر و فلسفہ رکھتے تھے۔ اور یہ دقیق فکری نظریات اور روحانی تجربات و مشاہدات آج کے جدید ترین تجربات و مشاہدات سے 100 فیصد مماثلت رکھتے ہیں مثلاً۔
انیکسا غورث نے روح کو ایک ایسی قوت قرار دیا جو ہر جاندار اشیاء کے درمیان جاری و ساری ہے۔ یہ اگرچہ ایک عمومی فلسفیانہ فکر ہے لیکن آج کی جدید تحقیقات سے مماثلت رکھتی ہے۔
مثلاً 1964ء میں امریکی ماہر جارج گڈ ہارٹ نے دریافت کیا کہ ہمارے جسم کے تمام پٹھوں کا تعلق ایسے پوائنٹس سے ہے جس میں توانائی بہتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ آجکل جو روحانی طریقہ علاج مقبول ہو رہے ہیں ان میں توانائی کے چینلز بتائے جاتے ہیں۔ جسم میں بہنے والی اس توانائی کو وائٹل فورس (Life Force) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سائنسدان انسان سے متصل لطیف جسم AURA میں برقی سسٹم یعنی چکراز (Chakras) کا ذکر کرتے ہیں۔
دمقراط نے بھی روح کو شاید ایسی ہی وائٹل فورس کے روپ میں دیکھا تو کہا کہ روح آگ کی مانند ہے جو چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذروں سے بنی ہے۔ (درحقیقت روح ناقابل تقسیم ذروں سے نہیں بنی بلکہ یہ ذرے روح سے بنے ہیں )اگرچہ یہ روح کی درست تعریف نہیں۔ لیکن تمام تر غلطیوں کے باوجود یہ تعریف قابل توجہ ہے کیونکہ یہ تعریف دراصل روح کی تعریف کرنے کی راست کوشش ہے۔ آج بھی جدید مشینوں کے ذریعے یا مراقبہ کے ذریعے روح کا مشاہدہ و تجربہ کرنے والے حضرات جب اپنے اس تجربے یا مشاہدے کو بیان کرنے کے لئے روح کی تعریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کوشش اسی قسم کی ہوتی ہے جیسا کہ دمقراط نے کی۔ البتہ وہ آج تک اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوئے۔ دمقراط نے روح اور ذہن میں بھی امتیاز نہیں برتا۔ اس نے روح کو ذہن قرار دیا۔ جب کہ روح اور ذہن میں امتیازی فرق موجود ہے۔ لیکن آج سے ہزاروں برس پہلے روح اور ذہن میں امتیاز برتنا مشکل تھا اسی وجہ سے اکثر یونانی فلسفیوں نے انسان کو ذہن و جسم کا مرکب قرار دیا۔ لیکن ذہن سے ان کی مراد روح ہوتی تھی۔ جب کہ آج بھی کچھ لوگ یونانی فلسفیوں کی طرح روح کو ذہن سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ آج روح و ذہن میں امتیازی فرق تجرباتی طور پر ثابت ہو چکا ہے اور آج کے دور میں روح کو ذہن سے تشبیہہ دینا انتہائی لاعلمی پہ محمول ہو گا۔ جب کہ یونانی فلسفیوں کی ذہن سے مراد روح ہوتی تھی لہذا اُن کا یہ موقف کہ انسان ذہن یعنی روح و جسم کا مرکب ہے کسی حد تک درست ہی تھا۔
لیکن یہ تعریف ایک حد تک درست ہے کیونکہ یونانی فلسفیوں نے انسان کو دو نظاموں یعنی روح اور جسم کا مرکب قرار دیا تھا جب کہ انسان محض دو نظاموں کا مرکب نہیں ہے۔ جب کہ یونانیوں کی طرح آج بھی اکثر محققین انسان کو دو نظاموں یعنی روح و جسم کا مرکب ہی قرار دیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔
ایک امریکی ڈاکٹر ریمنڈ موڈی (Raymond Moody) اپنی کتاب (Life after Life) میں افلاطون کی ہزاروں برس قدیم تحریروں کا اپنی آج کی جدید طبیعاتی تجرباتی تحقیقات سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ افلاطون کی تحریروں میں موت کے تجربات ان مشاہدات اور تجربات سے ملتے جلتے ہیں جو میری (ریمنڈموڈی) کتاب کے پچھلے ابواب میں بیان ہو چکے ہیں۔
یونانی فلسفی روح کو اہم اور جسم کو انسان کا کم تر پہلو سمجھتے تھے جیسا کہ آگسٹائن نے جسم کو فرد کا کم تر پہلو قرار دیا۔
ارسطو نے روح کو ایک ایسی اکائی قرار دیا جو ہر لحاظ سے مکمل ہو۔ یہ روح کی وہ تعریف ہے جو ہمیشہ سے رائج رہی ہے اور جو ہمیں مذہبی عقیدوں سے میسر آئی ہے۔ ارسطو نے روح کو دو حصوں (1) روح حیوانی۔ (2) روح انسانی۔ میں تقسیم کیا۔ ہزاروں برس سے لیکر آج تک روح کو ایسے ہی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ( اور یہ تقسیم کرنے والے انسانی باطن کا مشاہدہ کرنے والے روحانی ماہرین یا باطن سے کسی حد تک واقفیت رکھنے والے فلسفی ہیں ) اور آج اس تقسیم کی تصدیق جدید سائنسی تجربات سے بھی ہو رہی ہے۔ روح حیوانی، روح انسانی، یا AURA چکراز کو روح کے حصے قرار دیا جاتا ہے جب کہ یہ مزید لطیف اجسام روح کے حصے نہیں ہیں۔ اور ان لطیف اجسام کو روح کے حصے قرار دینا ایک بڑی غلطی ہے جس نے انسانی علم میں بڑی الجھنیں پیدا کر دی ہیں۔ اور اس کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ غلط فہمی انسانی مجموعے کی ترتیب کو سمجھنے میں غلطی کے سبب پیدا ہوئی ہے اور اسی بڑی غلطی نے بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔
یونانی فلسفی نفس سے بھی واقف تھے اور ان کی یہ واقفیت روحانی مشقوں کے نتیجے میں ہونے والے مشاہدات و تجربات کی مرہونِ منت تھی۔ جیسا کہ افلاطون نے موت کے تجربات میں نفس کا تفصیلی تذکرہ کیا اور اس تذکرے میں اس نے نفس کے اعمال و افعال اور خصوصیات کا تفصیلی تذکرہ کیا جو کہ جدید ترین سائنسی تحقیقات سے مماثلت رکھتا ہے۔
فیثاغورث کا خیال تھا کہ انسانوں کی روح موت کے بعد جانوروں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ یہ نظریہ بھی آج تک جوں کا توں چلا آ رہا ہے اور دنیا میں رائج ہے۔ اور زیادہ تر لوگ اس نظریے کے قائل ہیں (بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے ) آج اس نظریے کو کرما یا آواگون (Reincarnation) کا نظریہ کہتے ہیں۔
ہزاروں برس قبل ارسطو نے "علم الروح ” (Psychology) کے نام سے کتاب بھی لکھی تھی۔ اگرچہ اب اس کتاب کا فقط نام ہی باقی ہے۔ لیکن اس موضوع پر کتاب کا ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس دور میں بھی روح کے موضوع پر کسی حد تک سیر حاصل بحث ہوئی ہو گی، کچھ عقائد ہوں گے، کچھ اس دور کے نظریات ہوں گے، کچھ روحانی تجربات یا مشقوں کا تذکرہ ہو گا جیسا کہ افلاطون کے تجربوں کا ذکر آیا۔ در حقیقت انسان اس کا باطنی تشخص اور روحانی خصوصیات ابتداء سے آج تک ایک مخصوص روحانی طبقے کے موضوعات رہے ہیں لیکن علمی میدان میں انسان کے باطن اور باطنی خصوصیات کا تذکرہ پہلی مرتبہ یونانی فلسفیوں نے کیا انہیں کی فلسفیانہ فکر اور انہی کے علم الروح یا یونانی زبان میں Psychology نے آگے بڑھ کر موجودہ سائیکالوجی، پیرا سائیکالوجی، نفس، نفسیات وغیرہ وغیرہ کی شکل اختیار کر لی۔ لیکن آگے چل کر مادہ پرستوں نے روح و نفس کی باطنی خصوصیات کو تو نفسیات یا سائیکالوجی وغیرہ کے عنوانات کے ساتھ قبول کر لیا لیکن روح و نفس کا انکار کر دیا۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔
اس غلطی کی وجہ یہ بنی کہ یونانی فلسفیوں نے باطنی خصوصیات کا تذکرہ تو کیا لیکن وہ انسان کے باطن یا روح و نفس کی شناخت قائم نہ کر سکے انہوں نے انسان کو ذہن و روح و جسم کا مرکب تو قرار دیا لیکن وہ اسے ثابت نہ کر سکے لہذا ان کے بعد آنے والے مادہ پرستوں نے انسان کے باطنی تشخص کو غیر مرئی مفروضہ قرار دے کر علم کی حدود سے خارج کر دیا۔
انسان کے بارے میں روح، نفس، جسم کے حوالے سے یونانیوں کی طرف سے ہزاروں برس قبل علمی بحث کا آغاز درحقیقت صحیح سمت میں ایک راست اقدام تھا جو آگے بڑھتا تو اس کے بہترین نتائج سامنے آتے۔ اور ہزاروں برس اس پر سنجیدہ علمی کام ہوتا تو یقیناً روح اور نفس کی شناخت ہو جاتی اور بحیثیت مجموعی انسان کی تعریف سامنے آ چکی ہوتی اور آج انسان ذاتی ترقی کے اوج پر بیٹھا ہوتا مگر افسوس مادہ پرست سائنسدانوں نے انسان کے اصل باطنی تشخص کو جھٹلا کر علم کی حدود سے خارج کر دیا اور یوں انسان کی 95 فیصد شخصیت مادیت کی دبیز تہوں میں دب گئی انسان کی روح صدیوں کے لئے مٹی تلے دب گئی اور انسان بے تحاشا خسارے کا شکار ہو گیا۔
یونانی فلسفیوں کی انسان سے متعلق تعریفوں کے موازنے سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آ رہے ہیں۔
نتائج
(1) یونانی فلسفی انسان کا ابتدائی علم رکھتے تھے۔
(2) یہ علم روحانی مشقوں سے حاصل شدہ تجربات و مشاہدات اور گہری فلسفیانہ غور و فکر کا نتیجہ تھا۔
(3) یونانیوں کے روح و نفس کے تجربات و مشاہدات اور فکر و فلسفہ جدید تحقیقات سے 100 فیصد مماثلت رکھتے ہیں۔
(4) وہ ذہن، روح، نفس، جسم سے متعارف تھے۔
(5) لیکن وہ ذہن، روح، نفس کی انفرادی شناخت نہیں رکھتے تھے۔
(6) ذہن کو روح سے تشبیہ دی جاتی تھی۔
(7) روح کو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
(8) نفس کو روح کا حصہ تصور کیا جاتا تھا۔
(9) روح کی تعریفوں میں روح کی تعریف نہیں ہے۔
(10) روحانی خصوصیات کو روح کی تعریف کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
(11) یونانی فلسفیوں نے انسان کو روح اور جسم یا دو نظاموں کا مجموعہ قرار دیا۔
(12) وہ آجکل کی طرح روح کے دوبارہ جانور کی شکل میں نمودار ہونے یا کرما اور آواگون جیسے مختلف النوع (متضاد) نظریات بھی رکھتے تھے۔
(13) یونانی فلسفیوں نے مادی جسم کے علاوہ انسان سے متعلق روح، ذہن و نفس کو پہلی مرتبہ علمی میدان میں متعارف کروایا۔ اس سے پہلے یہ علم مذہبی روحانی پیشواؤں تک محدود تھا۔
(14) جدید تحقیقات سے 100 فیصد مماثلت اور تمام تر اہم تفصیلات کے باوجود یونانی فلسفی انسان کے انفرادی اجزاء روح، نفس، جسم اور مجموعی انسان کی صحیح تعریف کرنے میں ناکام رہے یعنی یونانی فلسفیوں کے اس اہم علمی دور میں بھی یہ معمہ "انسان ” معمہ ہی رہا۔
7۔ مسلمانوں کا کام
مسلمان صوفی و سائنسدان
انسان کی وہ تعریف جو صدیوں سے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ تعریف جس کی وضاحت کرنے کے لئے ہمیں یہاں دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ وہی تعریف شاعر مشرق علامہ اقبال نے محض دو مصرعوں میں بیان کر دی ہے۔
۱۔ علامہ اقبال
اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں
وجودِ حضرتِ انسان نہ روح ہے نہ بدن
۲۔ حضرت سلطان باھو
حضرت سلطان باھو نے انسانی مادی جسم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا۔
انسان کا وجود اربعہ عناصر سے ہے۔ اور عناصر میں سے ہر ایک کی صورت جدا ہے۔ مثلاً آگ کی صورت علیحدہ اور خاک کی بھی علیحدہ ہے اور پانی اور ہوا کی صورت بھی علیحدہ ہے مگر ان چاروں میں سے ہر ایک کی ستر ستر ہزار صورتیں ظاہر و باطن میں فقر پر ظاہر ہوتی ہیں۔ اور دو لاکھ اسی ہزار صورتیں اس کی جلیس ہوتی ہیں۔
۳۔ خواجہ شمس الدین عظیمی
نے جسم کو لباس، خول اور سرائے قرار دیا جب کہ روح کو تین حصوں میں تقسیم کیا لہذا وہ انسان کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ انسان تین جسم یا تین روحوں سے مرکب ہے۔
(1) روح حیوانی (دائرہ نمبر 1 ) نفس، (دائرہ نمبر 2 ) قلب۔
(2) روح انسانی (دائرہ نمبر 1 ) روح، (دائرہ نمبر 2 ) سر۔
(3) روح اعظم ( دائرہ نمبر 1 ) خفی، (دائرہ نمبر2 ) اخفیٰ۔
انسان کے اندر تین کرنٹ کام کرتے ہیں با الفاظ دیگر انسان کے اندر جو صلاحیتیں کام کرتی ہیں وہ تین دائروں میں مظہر بنتی ہیں۔ یہ تینوں کرنٹ محسوسات کے تین ہیولے ہیں اور ہر ہیولہ مکمل تشخص رکھتا ہے۔ ہر کرنٹ سے انسان کا ایک جسم وجود میں آتا ہے اس طرح آدمی کے تین وجود ہیں۔
۴۔ مقاتل بن سلیمان
انسان کے لئے زندگی روح اور نفس ہے۔ سونے کی حالت میں اس کا نفس جو صاحبِ عقل و شعور ہے نکل جاتا ہے لیکن جسم سے علیحدہ نہیں ہوتا جیسے لمبی رسی کی طرح شعاعیں ہوں۔ پھر سونے والا اپنے نکلے ہوئے نفس ہی کہ وجہ سے خواب دیکھتا ہے اور حیات و روح اس کے جسم میں باقی رہتی ہے جن کی مدد سے وہ کروٹ و سانس لیتا ہے اور جب بیدار ہو جاتا ہے تو پلک جھپکنے سے کم مدت میں تیزی سے نفس لوٹ آتا ہے۔ پھر جب اﷲ پاک اسے خواب ہی میں مارنا چاہتا ہے تو اس کے نکلے ہوئے نفس کو روک لیتا ہے۔ دوسری جگہ کہا حالتِ خواب میں نفس نکل کر اوپر کو چڑھتا ہے اور خواب دیکھتے وقت لوٹ کر روح کو خبر دیتا ہے پھر روح انسان کو خبر دے دیتی ہے۔
۵۔ ابو اسحٰق محمد بن شعبان
نفس انسان کے جسم کی مانند ایک جسم ہے اور روح جاری پانی کی طرح ہے۔
۶۔ ابن سینا
کے مطابق اگر روح کا انحصار جسم پر ہوتا تو یہ جسم کی موت کے ساتھ فنا ہو جاتی۔
۷۔ علامہ حافظ ابن القیم
جو روح قبض کی جاتی ہے وہ ایک ہی ہے اور اسی کو نفس کہتے ہیں۔
۸۔ الکندی
نے انسانی جسم کو سادہ غیر فانی اور غیر مرکب قرار دیا وہ روح کو جسم سے الگ اور آزاد سمجھتا تھا اس کے خیال سے جسم کا تعلق محض خارجی نوعیت کا ہے۔
۹۔ امام غزالیؒ
کہتے ہیں اگر تو خود کو پہچاننا چاہتا ہے تو یاد رکھ کے تیری تخلیق دو چیزوں سے عمل میں لائی گئی ہے۔ ایک تو یہی ظاہری ڈھانچہ ہے جسے جسم یا تن کہتے ہیں اور جسے ظاہری آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور دوسری چیز باطن ہے جسے نفس، قلب اور جان سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسے ظاہر کی نہیں باطن کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور تیسری حقیقت اسی معنیِ باطن کا ادراک ہے۔ قلب سے مراد گوشت کا وہ ٹکڑا نہیں جو سینے میں بائیں جانب رکھا ہے اس کی ایسی کوئی قدر و قیمت نہیں کہ وہ تو جانوروں اور مردوں کے سینے میں بھی ہوتا ہے۔ جس کو ہم قلب کہتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کی معرفت کی جگہ ہے۔ یہ وہ روح نہیں جو جانداروں میں ہوتی ہے وہ نہ جسم ہے نہ عرض بلکہ فرشتوں کے گوہر کی جنس سے ایک جوہر ہے۔ قلب گویا ایک روشن اور شفاف آئینہ ہے اور برے اخلاق دھواں اور ظلمات ہیں، جب قلب تک پہنچتے ہیں تو اسے زنگ لگا دیتے ہیں۔
۱۰۔ حضرت امام مالک
کا قول ہے کہ بے شک روح ایک نورانی صورت ہے جو بالکل جسم کی طرح پوری شکل رکھتی ہے جن لوگوں کو کشف اور مشاہدے کی دولت نصیب ہو وہ عالم غیب کی مخلوقات سے ملاقات کرتے ہیں۔
۱۱۔ وہب بن منبہ
انسان کا نفس چوپایوں کی طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خواہشات رکھتا ہے اور انسان کو برائی کی طرف بلاتا ہے اور اس کا مسکن شکم ہے۔ انسان کی فضیلت اس کی روح ہے اس کا مسکن دماغ ہے انسان اس سے حیات پاتا ہے اور یہی انسان کو بھلائی کی دعوت دیتی ہے۔ قلب کی مثال بادشاہ کی سی ہے اور اعضاء خادم ہیں۔ جب نفس برائی کا حکم دیتا ہے تو اعضاء حرکت کرنے لگتے ہیں۔ مگر روح منع کرتی ہے اور اچھائی کی دعوت دیتی ہے۔ اگر قلب مومن ہوتا ہے تو روح کی اطاعت کرتا ہے اور اگر کافر ہوتا ہے تو نفس کی اطاعت کرتا ہے۔
۱۲۔ رازی کے چھ قول
رازی کہتا ہے اگر انسان کسی مخصوص جسم سے مراد ہو جو اس ظاہری بدن کے اندر موجود ہے تو اس قول کے ماننے والے اس جسم کے تعین میں مختلف ہیں۔
(1) بعض کے نزدیک اس جسم سے اخلاط اربعہ مراد ہیں جن سے یہ بدن پیدا ہوا ہے۔
(2) بعض کے نزدیک یہ جسم خون ہے۔
(3) بعض کے نزدیک یہ جسم روح لطیف ہے جو دل سے پیدا ہو کر شریانوں کے ذریعے تمام اعضاء میں پھیلتی ہے۔
(4) بعض کے نزدیک یہ جسم روح ہے جو دل میں پیدا ہو کر دماغ کی طرف چڑھتی ہے اور حفظ و فکر و ذکر کی صالح کیفیت سے متصف ہوتی ہے۔
(5) بعض کے نزدیک یہ جسم دل میں ایک ناقابل تجزی جز ہے۔
(6) بعض کے نزدیک یہ ایک جسم ہے جو ماہیت میں اس جسم محسوس سے الگ ہے اور وہ ایک علوی نورانی لطیف جسم ہے جو زندہ اور متحرک ہے اور جو ہر اعضاء میں ساری ہے۔ پھر جب تک ان اعضاء میں اس جسم سے پیدا شدہ آثار کی قبولیت کی صلاحیت رہتی ہے یہ جسم لطیف ان اعضاء میں گھسا ہوا رہتا ہے اور ان پر حس و ارادے کا فیضان کرتا رہتا ہے اور جب یہ اعضاء غلیظ اخلاط کی وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں اور روح کے آثار قبول کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں تو روح بدن سے جدا ہو کر عالم ارواح میں چلی جاتی ہے۔
۱۳۔ شیخ عز الدین ابن سلام
ہر انسان میں دو ارواح ہیں ایک روح یقظہ یعنی وہ روح کہ جب وہ جسم میں ہو انسان عادتاً بیدار ہوتا ہے اور جب نکل جائے تو وہ انسان عادتاً سو جاتا ہے اور یہ انسان خواب دیکھتا ہے۔
اور دوسری روح حیات ہے کہ جب جسم میں ہو تو وہ جسم زندہ ہو جاتا ہے اور جب اسے نکال دیا جائے تو وہ لقمۂ اجل ہو جاتا ہے۔
۱۴۔ حضرت خواجہ غلام فرید
جسم کثیف اور ظلماتی جسم سے مفارقت کے بعد روح کا جسم مثالی سے تعلق ہو جاتا ہے جو لطیف اور نورانی ہے جسم مثالی میں روح اسی طرح تصرف اور تدبیر کرتی ہے جس طرح کے اس دنیا کی زندگی میں۔
۱۵۔ ابن سعد
نے اپنی طبقات میں وہب بن منبہ سے روایت کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ابن آدم کو مٹی سے تخلیق کیا پھر اس میں نفس کو تخلیق کیا جس کی وجہ سے اٹھتا بیٹھتا سنتا اور جانتا ہے پھر اﷲ تعالیٰ نے روح تخلیق فرمائی جس کی وجہ سے اس نے حق و باطل کو پہچانا۔ ہدایت و گمراہی سے واقفیت حاصل کی۔
۱۶۔ شاہ ولی اﷲ
اﷲ تعالیٰ نے انسان میں دو قوتیں ودیعت کی ہیں۔ ایک قوت ملکیہ (ملکوتی) اور دوسری قوت بہمیہ (حیوانی)۔ ان کی تفصیل یہ ہے کہ انسان میں ایک تو نسمہ ہے اور یہ نسمہ عبارت ہے روح ہوائی سے اور روح ہوائی کا مطلب یہ ہے کہ روح جسم میں طبعی عناصر کے عمل اور رد عمل سے پیدا ہوتی ہے اس نسمہ یا روح ہوائی سے اوپر انسان میں ایک اور چیز بھی ہے جسے نفس ناطقہ روح کہتے ہیں۔
شاہ ولی اﷲ اپنی کتاب "البدور البازغہ” میں مزید لکھتے ہیں۔
یہ بھی جاننا چاہیے کہ نفس ناطقہ یعنی صورت شخصیہ جس کی وجہ سے انسان کا کوئی فرد وہی فرد کہلاتا ہے ، سب سے پہلے اس کا سہارا اخلاط کے بخار سے بنا ہوا لطیف جسم ہوتا ہے کیونکہ صورتوں کا طبعی تقاضا یہ ہے کہ ان کا سہارا وہ ہیولیٰ ہو جس کو اس سے جبلی مناسبت ہے چونکہ نفس ناطقہ جملہ صورتوں میں لطیف ترین، صاف ترین اور مضبوط ترین صورت ہے۔ اس لئے اس کے وجود کا سہارا بھی اسی لطیف ترین جسم پر ہوتا ہے جو لطافت و اعتدال میں اپنی مثال آپ ہو۔ نفس ناطقہ کے حامل ہونے کے لئے ایسا ہی جسم ہیولا کا کام دے سکتا ہے یہ جسم لطیف جو کثیف رگ و پے میں سرایت کیئے ہوئے ہے اور کمالات نفس ناطقہ کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ ہمارے نزدیک نسمہ کہلاتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں نسمہ ایک لطیف ترین جسم ہے جو انسان کے نفس ناطقہ سے اس طرح متصل ہے اور جسم عنصری میں جاری و ساری ہے جس طرح پھول میں اس کی خوشبو بسی ہوئی ہوتی ہے۔ تمام افعال اور قوتوں کا حاصل بھی نسمہ ہے۔ اسے ہم نسمہ، روح طبعی اور بدن ہوائی کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بدن میں ایک لطیف بھاپ ہے جو اخلاط کے خلاصہ سے پیدا ہوتی ہے۔ حس کرنے کی، حرکت کرنے کی، اس میں وہ سب قوتیں ہوتی ہیں جو تدابیر غذا کے متعلق ہیں۔ طب کے احکام کو اس بھاپ سے بڑا تعلق ہے۔ تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بھاپ کے رقیق ہونے کا اور غلیظ ہونے کا صاف اور مکدر ہونے کا بدنی قوتوں پر اور ان افعال پر جو ان قوتوں سے پیدا ہوتے ہیں بڑا اثر پڑتا ہے۔ اگر اس عضو پر یا اس بھاپ کے پیدا ہونے پر جس کو عضو سے تعلق ہے کوئی آفت پہنچتی ہے تو وہ بھاپ بگڑ جاتی ہے اور اس کے کام مختل اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس بھاپ کی موجودگی سے زندگی باقی رہتی ہے اور اس کے تحلیل ہو جانے سے موت ہو جاتی ہے۔ بادی النظر میں روح اسی کا نام ہے۔ لیکن غور رس نظر میں یہ روح کا ادنیٰ طبقہ ہے۔ بدن میں اس کی مثال ایسی ہے جیسی گلاب میں پانی۔
پھر جب زیادہ غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ روح روح حقیقی کا مرکب ہے اور روح حقیقی کے بدن سے متعلق ہونے کا مادہ ہے۔ حقیقی روح ایک جداگانہ چیز ہے وہ ایک نورانی نقطہ ہے ان تمام متغیرات سے جن میں سے بعض جوہر ہیں بعض عرض اس کا ڈھنگ نرالا ہے۔ وہ بچہ ہونے کی حالت میں بھی ویسی ہے جیسی بڑے ہونے کی حالت میں جیسے کہ وہ سیہ رنگی کی حالت میں ہے ایسے ہی سپیدی کی حالت میں ہے۔ ایسے ہی وہ تمام اضداد کی حالت میں یکساں ہے۔ اس کو ابتداً روح ہوائی سے تعلق ہے اور ثانیاً بدن سے۔ اس لئے کہ بدن روح ہوائی سے مرکب ہے۔ وہ عالم قدس کا ایک روزن ہے۔ جب ہوائی میں قابلیت اور استعداد پیدا ہو جاتی ہے تو اس روح سماوی کا اس پر نزول ہوتا ہے۔ جن امور میں کہ تغیر پیدا ہوتا ہے وہ زمین کی مختلف استعدادوں کی وجہ سے ہے۔ جیسے کہ دھوپ کپڑے کو سفید کر دیتی ہے اور دھوبی کو سیاہ۔ اور ہم کو وجدان صحیح سے معلوم ہو گیا ہے کہ موت روح حیوانی کے بدن سے جدا ہونے کا نام ہے۔ جس وقت کے بدن میں روح ہوائی پیدا کرنے کی قوت نہیں رہتی۔ روح ہوائی سے روح قدسی کے جدا ہونے کا نام نہیں ہے۔ جب مضعف امراض سے روح ہوائی تحلیل ہو جاتی ہے تو یہ حکمت الٰہی کا مقتضیٰ ہے کہ روح ہوائی اس قدر باقی رہ جائے کہ روح الہی کا اس سے تعلق رہ سکے۔
۱۷۔ داتا گنج بخش علی ہجویری
مجموعی انسان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ روح سے مراد خون ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک نفس سے مراد روح ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ انسان سوائے روح کے اور کچھ نہیں اور یہ جسم تو اس کے لئے ذرہ بکتر ہے یا ایک مکان ہے یا مقام ہے جس میں کہ وہ رہتی ہے یا ایک جگہ ہے کہ جس میں وہ قیام پذیر ہے۔ تاکہ طبائع کی خرابیوں سے اسے تحفظ و پناہ حاصل رہے اور حس و عقل اس (روح) کی صفات میں سے ہیں۔ لیکن یہ خیال باطل ہے کیونکہ روح کے جسم سے الگ ہو جانے کے بعد بھی انسان کو انسان ہی کہتے ہیں اور یہ نام انسان اس شخص کے مردہ ہو جانے سے ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ویسا ہی رہتا ہے جیسا کہ اس کے زندہ ہونے کی صورت میں تھا یعنی جب روح اس کے ساتھ تھی تو وہ ایک زندہ انسان تھا اور جب روح نے ساتھ چھوڑ دیا تو وہ مردہ انسان کہلانے لگا لیکن انسان وہ بہرحال رہا دوسرے یہ کہ جان یا روح تو حیوانوں کے جسم میں بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود انہیں انسان نہیں کہتے۔ اگر انسانیت کی علت فقط روح ہی ہوتی تو چاہیے تھا کہ جس شے میں جان ہوتی اسے انسان ہی کہتے۔ پس ان لوگوں کے قول کے باطل ہونے کا ثبوت تو واضع طور پر مل گیا۔ ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ اس اسم انسان کا اطلاق روح اور جسم دونوں پر بیک وقت ہوتا ہے اور جب ایک ان میں سے دوسرے سے جدا ہو جائے تو یہ اسم بھی اس سے ساقط ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی گھوڑے میں اگر سیاہ اور سفید رنگ جمع ہو جائیں تو اسے ابلق کہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ دونوں رنگ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو لفظ ابلق ساقط ہو گیا اور تب ان میں سے ایک سیاہ اور دوسرا سفید اور یہ قول بھی باطل ہے اور اس کا باطل ہونا خود ارشاد خداوندی سے ثابت ہو جاتا ہے جہاں فرمایا ہے کہ زمانہ میں ایک وقت انسان پر یہ بھی آ چکا ہے کہ اس کا کچھ ذکر بھی نہ تھا (سورۃ الدھر) یہاں اشارہ خاک آدم کی طرف ہے۔ یعنی اس بے جان مٹی کی طرف جس سے ابھی انسان کی تخلیق عمل میں نہیں لائی گئی تھی۔ یعنی ایک وہ وقت بھی تھا کہ مٹی تھی لیکن انسان نہیں تھا کیونکہ اس مٹی سے اس کا جسم بنا کر اس میں روح نہیں پھونکی گئی تھی۔
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ انسان ایک ایسا جزو ہے جس کا تجزیہ و تقسیم نا ممکن ہے اور دل اس کا محل ہے کہ آدمی کے تمام اوصاف کا منبع وہی تو ہے۔ اور یہ بھی محال ہے کیونکہ اگر کسی شخص کو مار ڈالنے کے بعد اس کا دل باہر نکال لیا جائے تو بھی نام انسانیت اس سے ساقط نہیں ہو جاتا اور اس پر سبھی متفق ہیں کہ جان سے پیشتر آدمی کے جسم میں دل نہیں تھا اور تصوف کے بعض مدعیوں کو اس کے معنی سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ انسان کھاتا ہے ، پیتا ہے لیکن محل تغیر نہیں بلکہ ایک راز خداوندی ہے اور یہ جسم تو بس اس کا لباس ہے اور یہ امتزاج طبع اور اتحاد جسم و روح کی شکل میں اسے ودیعت کیا گیا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اتفاق اس پر سبھی کا ہے کہ عاقل ہوں یا دیوانے اہل فسق ہوں یا جاہل یا کافر کہلاتے تو سب انسان ہی ہیں۔ حالانکہ اس راز کی کوئی ادا ان میں دکھائی نہیں دیتی حالانکہ سبھی کھاتے ہیں پیتے ہیں اور تغیر پذیر بھی ہیں اور کسی شخص کے جسم میں ایسے کون سے معنی از خود نمایاں ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اسے انسان کہا جائے؟ اسی طرح اس کے معدوم ہو جانے پر بھی ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی جسے انسان کہا جائے۔
اور اﷲ تعالیٰ نے ان تمام مادوں کے مرکب کو انسان کہا ہے جس سے انسان کی ترکیب عمل میں لائی گئی ہے۔ بغیر اس معنی کے جو بعض آدمیوں میں ہوتے ہی نہیں۔ ارشاد الٰہی ہے کہ۔
ترجمہ:۔ ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے خلاصہ سے۔ پھر ہم نے اسے بنایا ایک نطفہ ایک مضبوط قرار گاہ (رحم) میں پھر ہم نے نطفہ کو خون بستہ بنایا پھر خون بستہ کو گوشت کا لوتھڑا اور لوتھڑے کو ہڈیاں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا اور پھر اسے اور ہی مخلوق یعنی انسان کامل بنا دیا۔ پس بابرکت ہے اﷲ سب سے اچھا بنانے والا (سورۃالمومنون) پس خدائے عزوجل کے ارشاد کے مطابق جو سب سے زیادہ صادق ہے یہ خاک پاک جسے ایک خاص صورت دے دی گئی اور ایک مخصوص انداز سے آراستہ کر دی گئی، بالآخر انسان کے نام سے موسوم ہوئی، جیسا کہ اہل سنت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ انسان ایک جاندار چیز ہے۔ جس کی صورت اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ اسے موت بھی آ جائے تو اسم انسان اس سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ صورت معہود اور آلت مرسوم ظاہرو باطن میں کسی نہ کسی صورت سے اس کی وابستگی باقی ہے اور صورت معہود سے مراد تندرست یا بیمار ہونا ہے اور آلت مرسوم سے مراد عاقل یا دیوانہ ہونا ہے اور یہ ایک متفقہ حقیقت ہے کہ جو انسان زیادہ صحتمند ہے وہ تخلیق و پیدائش میں اتنا ہی کامل تر ہوتا ہے۔
پس واضع رہے کہ انسان کی وہ ترکیب جسے کامل تر کہا گیا ہے وہ محققین کے نزدیک تین باتوں سے مکمل ہوتی ہے یعنی روح، نفس اور جسم۔
ان میں سے ہر چیز کے لئے ایک صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے یعنی روح کو عقل، نفس کو خواہش اور جسم کو حس کے ساتھ تعلق و معنی ہے۔ اور آدمی نمونہ ہے عالم کل کا اور عالم سے مراد ہے دونوں جہان۔ گویا انسان میں دونوں جہان کا نشان پایا جاتا ہے۔ اس جہان کا نشان ہوا مٹی، پانی، آگ اور اس کی ترکیب بلغم، خون، صفرا، سودا ہے۔
اور اس جہان کا نشان بہشت، دوزخ اور عرصات(میدان) ہے۔ چنانچہ جان اپنی لطافت کی وجہ سے بمنزلہ بہشت، نفس اپنی آفت کے باعث بمنزلہ دوزخ اور جسم بمنزلہ عرصات ہے۔ ان ہر دو کا جمال قہر و انس سے عبارت ہے۔ پس بہشت اس کی رضا کی تاثیر ہے اور دوزخ نتیجہ اس کے قہرو غضب کا ہے۔ اسی طرح راحت معرفت سے اور اس کا نفس حجاب و گمراہی سے ہے۔
تبصرہ، تجزیہ، موازنہ
مسلمان روحانی صوفیوں مفکروں فلسفیوں اور سائنسدانوں نے انسان کی بہت بہترین تعریف کی ہے۔ مسلمانوں نے صدیوں پہلے غیر سائنسی دور میں مادی جسم، روح، نفس اور مجموعی انسان کی جدید ترین سائنسی تعریف کی ہے۔ آج جدید سائنسی دریافتوں سے ان میں سے اکثر تعریفوں کی سائنسی شہادتیں میسر آ گئیں ہیں جب کہ کچھ تعریفیں تو بہت آگے کی ہیں سائنس کی پہنچ سے دور( لیکن یہ محض چند تعریفیں ہی ہیں کوئی علم نہیں )۔ اگرچہ مسلمانوں کا کام تجرباتی کام نہیں ہے فقط تحریری کام ہے لیکن یہ محض تحریری فلسفیانہ کام ہر دور کے کام سے منفرد کام ہے۔ صرف مسلمانوں کی تحریروں میں مادی جسم، روح اور نفس کی نہ صرف انفرادی تعریف ملتی ہے بلکہ پہلی مرتبہ صرف انہوں نے مجموعی انسان کی بھی تعریف کی ہے جب کہ اور کسی کے کام میں انسان کی ایسی مجموعی تعریف نہیں ملتی۔ مسلمانوں نے نہ صرف ہر روح، نفس اور جسم کی جدید ترین تعریف کی ہے بلکہ ہر ایک کے اعمال و افعال اور خصوصیات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جب کہ یونانیوں نے اور جدید محققوں نے جدید سائنسی طریقوں سے روح و نفس کی خصوصیات و اعمال کا تذکرہ تو کیا ہے کسی نہ کسی حد تک لیکن وہ ان تمام کی انفرادی شناخت میں ناکام رہے ہیں۔ اور یہ تمام مجموعی انسان کی تعریف بھی کبھی نہیں کر سکے۔
جب کہ مسلمانوں کی تحریروں میں جو روح و نفس کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں وہ درحقیقت آج کی جدید ترین تحقیقات سے بھی آگے کی ہیں اور انسان کی مجموعی تعریف تو جدید ترین تحقیقات سے بھی ممکن نہیں ہوئی ہے۔ اب ہم مسلمانوں کے کام کا تجزیہ و موازنہ کرتے ہیں۔
سلطان باھو نے صدیوں پہلے غیر سائنسی دور میں مادی جسم کی سائنسی تعریف کی ہے انہوں نے ماد ی جسم کو عناصر کا مجموعہ قرار دیا اور ان عناصر کو مزید چھوٹے اجزاء مثلاً ایٹموں اور خلیوں پر مشتمل بتایا نیز انہوں نے ان کی مقدار کا بھی تعین کیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی نے انسان کو تین جسموں یا تین روحوں کا مرکب قرار دیا ہے انہوں نے ہر دور کے مفکروں کی طرح روح کو حصوں میں تقسیم کیا ہے یہ تقسیم درست نہیں۔ روح کے کوئی حصے نہیں یہ محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے ہاں یہ درست ہے کہ انسان تین جسموں کا مجموعہ ہے انہوں نے ان تین اجسام کو روشنی و نور کی لہریں یا کرنٹ یا محسوسات کی تین ہیولے قرار دیا ہے۔ ایسی ہی تعریف جدید محققین AURA یا چکراز Chakras کی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر دور کے دیگر مفکروں نے انسان کو دو نظاموں روح و جسم کا مجموعہ قرار دیا ہے جب کہ فقط مسلمانوں نے انسان کو تین نظاموں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔
رازی نے انسان کے بارے میں جن چھ اقوال کا تذکرہ کیا ہے یہ وہ مختلف اور متضاد تعریفیں ہیں جو مختلف مفکرین انسان کے بارے میں کیا کرتے ہیں۔ ہر دور میں مختلف مفکرین انسان کے بارے میں ایسی ہی متضاد رائے دیا کرتے ہیں اس کی وجہ مجموعی انسان سے لاعلمی ہے۔ لہذا کوئی تو مادی جسم کو ہی انسان قرار دیتا ہے تو کوئی روح کو اصل انسان قرار دیتا ہے ، کوئی نفس کو اصل محرک قرار دیتا ہے تو کوئی کسی لطیف وجود کو انسان کا اصل تشخص قرار دیتا ہے۔ جب کہ مادی جسم روح یا نفس یا لطیف اجسام ہر ایک انفرادی حیثیت میں انسان نہیں بلکہ انسان ان تمام کی ترکیب کا ایک خاص الخاص مجموعہ ہے۔
جب کہ محققین، فلسفی، سائنسدان انسان کی اسی مجموعی حیثیت سے تا حال ناواقف ہیں لہذا جو محقق انسان کی کسی بھی انفرادی حیثیت (مادی جسم یا روح یا نفس) سے واقف ہے اسی حیثیت کو وہ انسان قرار دیتے ہیں۔ ہر محقق اپنی معلومات کے مطابق انفرادی حیثیت میں ہی انسان کی تعریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی غلط کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس کے نتائج مثبت ہو سکتے ہیں۔ لہذا یہ ثابت شدہ امر ہے کہ انسان محض مادی جسم نہیں ہے نہ ہی وہ محض روح ہے۔ لہذا اگر کوئی اسے محض جسم یا محض روح ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اسے یقیناً ناکامی کا منہ دیکھنا ہو گا۔
وہب بن منبہ نے روح، نفس، جسم کے تخلیقی عناصر کا بھی ذکر کیا انہوں نے روح و نفس کی کچھ خصوصیات بھی بیان کیں اور دل کو اطلاعات کا منبع قرار دیا جب کہ دل سے ان کی مراد ہر خلیے کا مرکز ہے انہوں نے روح و نفس کی انفرادی شناخت بھی قائم کی۔
شیخ عزالدین نے بھی روح و نفس کی خصوصیات بیان کیں انہوں نے بھی دو ارواح کا تذکرہ کیا روح حیات تو ٹھیک ہے لیکن روح یقظہ روح نہیں ہے یہ غلطی تقریباً ہر دور کے مفکرین کیا کرتے ہیں کہ ہر لطیف وجود کو روح قرار دے دیتے ہیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں اس کی وجہ ہم آگے بیان کریں گے۔
صرف مسلمانوں میں چند ایسے مفکر پائے جاتے ہیں جنہوں نے روح و نفس کو انفرادی حیثیت میں شناخت کیا ہے۔ خواجہ غلام فرید نے موت کے بعد روح کی منتقلی کی صحیح تعریف کی ہے لیکن یہ فنائی ترتیب کی مکمل تعریف نہیں ہے ہر دور میں مادی جسم سے مفارقت کے بعد روح کے سفر یا انتقالی کیفیت کو سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے اور اس فنائی ترتیب کو اس برے طریقے سے خلط ملط کیا گیا ہے کہ جس سے بڑے بڑے غلط فلسفوں نے جڑ پکڑ لی ہے جیسا کہ آواگون کا نظریہ یہ اسی غلطی کا نتیجہ ہے۔
مسلمانوں میں کوئی تو روح کی تخلیقی ترتیب کا سرسری علم رکھتا تھا تو کوئی مادی جسم کی تھوڑی بہت تخلیقی ترتیب سے آگاہ تھا لیکن مجموعی انسان کی تخلیقی ترتیب اور فنائی ترتیب کہیں دیکھنے میں نہیں آتی جو سرسری معلومات مسلمانوں کی تحریروں میں ملتی ہیں وہ دوسرے ادوار میں ناپید ہیں۔ اگرچہ قرآن مجید نے یہ تخلیقی و فنائی ترتیب بیان کی ہے لیکن کوئی عالم یا مفکر اس ترتیب کو سمجھ نہیں پایا۔ اگر اس علم پر عبور حاصل کیا جاتا تو شاید یہ ممکن ہو جاتا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ہم اس کتاب میں ہزاروں برس بعد مجموعی انسان کی فنائی اور تخلیقی ترتیب کو بھی مرتب کریں گے۔
شاہ ولی اﷲ نے بھی مختلف روحوں کا تذکرہ کیا اس ایک غلطی کے علاوہ ان کی روح و نفس کے حوالے سے مجموعی تعریف سب سے اچھی تعریف ہے۔ انہوں نے بھی روح و نفس کی انفرادی شناخت کے علاوہ خصوصیات بیان کی ہیں اور لطیف اجسام کے عناصر کا ذکر بھی کیا ہے۔
داتا صاحب نے انسان کو روح و نفس و جسم کا مجموعہ قرار دیا۔
بحیثیت مجموعی مسلمانوں نے نہ صرف انسان کی تعریف کی بلکہ روح، نفس کی انفرادی شناخت بھی قائم کی اور ان تمام کی الگ الگ کچھ بنیادی مرکزی خصوصیات کا بھی ذکر کیا اور ان اجسام کے تخلیقی عناصر کا تذکرہ کرنے کی بھی کوشش کی کہیں کہیں سرسری طور پر روح یا جسم کی تخلیقی ترتیب کا بھی ذکر ہے اگرچہ یہ تعریفیں قدیم اور جدید تعریفوں سے بہت آگے کی تعریفیں ہیں اور صحیح سمت میں راست اقدام ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ تمام تعریفیں محض ابتدائی تعریفیں ہیں صحیح سمت میں اشارہ ہیں درست سمت کی نشاندہی ہیں جب کہ راستہ ہمیں خود تلاش کرنا ہو گا جو کہ بہت دشوار گزار ہے۔
مسلمانوں کی ان تعریفوں سے درج ذیل نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
نتائج
(1) مسلمانوں نے پہلی مرتبہ مجموعی انسان کی تعریف کی ہے۔
(2) صرف مسلمانوں نے انسان کو تین نظاموں (روح، نفس، جسم) کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ ان سے پہلے اور ان کے بعد سب محققوں نے دو نظاموں کا ذکر کیا ہے۔ یعنی روح و جسم۔
(3) مسلمانوں نے صدیوں پہلے غیر سائنسی دور میں انسان (روح، نفس، جسم) کی جدید سائنسی تعریف کی ہے۔
(4) مسلمانوں نے پہلی مرتبہ ہر روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کی۔
(5) مسلمانوں نے ہر روح، نفس، جسم کی خصوصیات کا بھی ذکر کیا۔
(6) مسلمان روح یا جسم کی تخلیق یا فنائی ترتیب کے کچھ ٹکڑوں سے سرسری واقفیت تو رکھتے تھے لیکن وہ مجموعی ترتیب کو سمجھنے سے قاصر رہے لہذا وہ مجموعی انسان کی تخلیقی اور فنائی ترتیب کو ترتیب دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
(7) مسلمانوں نے غیر سائنسی دور میں مادی جسم کی جدید سائنسی تعریف کی ہے۔
(8) مسلمانوں کا کام تحریری فلسفیانہ کام ہے۔
(9) کچھ مسلمانوں نے بھی روح کو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
(10) مسلمانوں کی روح، نفس و جسم کے بارے میں فلسفے ، جدید تحقیقات سے تو 100 فیصد مماثلت رکھتے ہی ہیں لیکن یہ جدید تحقیقات سے ذرا آگے کے نظریات ہیں۔ (اگرچہ یہ نظریات ابتدائی نظریات اور محض تعریفیں ہیں )
8۔ انسان کی جدید تعریف
۱۔ ڈاکٹر الیکسز کیرل.
انسان اپنے جسم سے عظیم تر ایک چیز ہے اور اس پیمانہ خاکی سے باہر چھلک رہا ہے۔
۲۔ مسز گاسکل
اپنی کتاب "What is life” میں لکھتی ہیں کہ جسم میں بیک وقت دو نظام کارفرما ہیں ، ایک جسمانی اور دوسرا اثیری۔ اثیری جسم مادی جسم کے ذرات (Atoms) میں رہتا ہے اور بعد از موت الگ ہو جاتا ہے۔ اصلی و حقیقی جسم اثیری ہے۔ اور مادی جسم محض ایک خول یا سرائے ہے جس میں جسم لطیف کا قیام عارضی ہے۔
۳۔ ٹرائن
اس دنیا میں ہم دو جسم لے کر آتے ہیں۔ مادی اور اثیری۔ یہ اجسام ایک دوسرے میں یوں داخل ہیں جس طرح چینی دودھ میں۔ اثیری جسم مستقل چیز ہے جو زمین سے گزر کر آگے جا رہا ہے اور مادی جسم اس وقفہ کے لئے محض حفاظتی خول کا کام دیتا ہے۔
۴۔ پادری لیڈ بیٹر
تم (انسان) جسم نہیں ہو۔ یہ جسم تمہاری قیام گاہ ہے۔ اجسام محض خول ہیں جنیں ہم موت کے وقت یوں پرے پھینک دیتے ہیں جس طرح کے کپڑے اتار دئیے جاتے ہیں۔
۵۔ دو نظرئیے
انسانی وجود کے بارے دو نظریے ہیں مشینی یا مادی دوسرا روحی یا روحانی۔
(1)۔ (CEBERO CENTRIC) :۔ کی رو سے روح اس طرح جسم کی پیداوار ہے جس طرح لعاب دہن دہن کی۔
(2)۔ (PSYCHO CENTRIC) :۔ انسان کو روحانی وجود قرار دیتے ہیں ان کی نظر میں جسم کی اہمیت لباس سے زائد نہیں جو روح نے بعض مقاصد کے لئے اوڑھ رکھا ہے۔
تبصرہ، تجزیہ، موازنہ
جدید دور کے محققین برسوں کے سائنسی تجربات اور جدید دریافتوں سے انسان کے باطنی رخ کو تو دریافت کر بیٹھے ہیں۔ ایٹم کی طرح انسان کے اندر AURA ، چکراز Chakras اور Subtle bodies کا مشاہدہ تو کر رہے ہیں لیکن سمجھ نہیں پا رہے کہ انسان کے اندر یہ کیسا وسیع جہان آباد ہے۔ وہ حیران ہیں کہ انسان تو اپنے اندر اپنے من کی دنیا میں کائنات سمیٹے بیٹھا ہے اور اپنے اندر کے اس وسیع اور حیرت انگیز نامانوس جہان کو وہ حیرت سے دیکھ تو رہے ہیں لیکن اسے بیان کرنے کے لئے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ہاں لیکن آج انسان کے باطن کی عظمت کا اندازہ کر کے انہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ مادی جسم تو محض پیمانہ خاکی ہے، ایک خول ہے سرائے ہے حقیقی روح کے لئے محض عارضی قیام گاہ ہے۔ جسم تو عارضی شے ہے جب کہ روح تو اسے زمین پر چھوڑ کر کہیں لمبے سفر کی تیاری پر ہے۔ جدید محققین اپنی دریافتوں کی روشنی میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ انسان فقط مادی جسم نہیں بلکہ اس کا وسیع و عریض باطن بھی ہے اور انسان ایک نہیں دو نظاموں کا مجموعہ ہے۔
یہ وسیع جہان باطن انہوں نے دریافت تو کر لیا لیکن ابھی وہ اس کی کوئی حتمی تعریف نہیں کر پا رہے ابھی تک وہ اسے کوئی حتمی نام بھی نہیں دے پائے کبھی اسے سپرٹ کہتے ہیں کبھی Soul کبھی نفس کبھی متحرک یادداشت
مثلاً ڈبلیو ایچ مائزر (Frederic. W.H. Myers) نے اپنی کتاب
Human Personality and its survival of bodily death میں سینکڑوں پراسرار واقعات، حادثات، تجربات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے سپرٹ (Spirit) کہتے ہیں۔
ڈاکٹر ریمنڈ موڈی (1975) نے اپنی کتاب لائف آفٹر لائف میں مر کر زندہ ہونے والے ڈیڑھ سو افراد کے بیانات پر سائنسی تجربات و تجزیات کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ انسان محض مادی وجود نہیں بلکہ ایک اور سمت یا مکمل ذات ہے جسے نفس، Soul یا ادراک جو بھی کہیں وہ ہے ضرور۔
برطانیہ کے رابن فرامین نے کہا میرا خیال ہے وہ ایک متحرک یادداشت ہے اور روح نہیں ہے یہ ایسی یادداشت ہے جو انسان کے مرنے کے بعد رہ جاتی ہے۔
۱۸۸۲ میں لندن میں ایک کمیٹی بنی اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ روح اور اس کے متعلق مسائل پہ بحث کی جائے۔ اس کمیٹی میں یورپ کے ممتاز علماء اور سائنسدان شامل تھے یہ کمیٹی تیس سال قائم رہی اور اس مدت میں اس نے حاضرات ارواح کے مختلف واقعات کی جانچ پڑتال کی اور چالیس ضخیم جلدوں میں اپنے تاثرات کو شائع کیا تیس سال کی چھان پھٹک کے بعد کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی کہ انسان کی جسمانی شخصیت کے علاوہ ایک اور شخصیت بھی ہے جو گوشت پوست کے جسم سے کہیں زیادہ مکمل و ارفع ہے۔ یہی اعلیٰ و ارفع شخصیت موت کے بعد قائم اور برقرار رہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ برسوں کی تحقیقات اور تجربات اور مشاہدوں کے باوجود یہ جدید محقق انسان کے باطنی تشخص سے انجان کیوں ہیں۔ کیوں وہ ابھی تک اس کے نام تک کا تعین نہیں کر سکے۔ تمامتر تجربات کے باوجود۔ باطنی پہلوؤں کا بغور مشاہدہ کرنے کے باوجود درحقیقت یہ سائنسدان اور محقق AURA چکراز، سبٹل باڈیز یا مزید لطیف اجسام کے گھن چکر میں الجھ کر رہ گئے ہیں وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ انسان کے جسم سے کتنے لطیف جسم وابستہ ہیں ، کتنے نظام اس کے اندر کام کر رہے ہیں؟ کیوں؟ اور کیسے وہ ان تمام کا باہم ربط بھی قائم نہیں کر پا رہے اور ماضی کے ناموں روح و نفس کو بھی ان سے منسوب نہیں کر پا رہے انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان ڈھیروں لطیف اجسام میں سے آخر روح کونسی ہے اور آخر روح کا مطلب ہی کیا ہے چلیں کوئی ایک روح ہو گی تو باقی لطیف اجسام کا کیا مطلب ہے ؟ اور کیا اور کیسا تعلق ہے آخر ان لطیف اجسام کا انسان سے اور آخر انسان کیا اور کیسا راز ہے کیسے کون کون سے اور مزید کتنے جہان آباد ہیں بظاہر اس سادہ نظر آنے والے انسان میں؟ ان تمام سوالوں کے جواب سائنسدانوں کے پاس نہیں ہیں اور اس جادو نگری یعنی انسانی باطن کے اندر جھانک کر اس کی وسیع دنیا کو دریافت کر کے وہ آج حیران اور پریشان ہیں سمجھ کچھ نہیں رہے الجھ رہے ہیں۔ بس اتنا ہی کہ پاتے ہیں کہ انسان محض جسم نہیں بلکہ انسان روحانی تشخص بھی رکھتا ہے یا انسان دو نظاموں کا مجموعہ ہے۔ در حقیقت انسان محض دو نظاموں یا محض روح و جسم کا مجموعہ نہیں ہے تو پھر انسان کتنے نظاموں کتنے اجسام کا مجموعہ ہے ، انسان کے باطنی لطیف اجسام کی کیا تعریف اور تعارف ہے۔ اب ہم یہاں اسی انسانی باطنی دنیا سے متعارف کروائیں گے۔
نتائج
(1) جدید محققوں نے انسان کو دو نظاموں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔
(2) جدید محققین سائنسی دریافتوں کی بدولت انسان کے باطن کو تو دریافت کر بیٹھے ہیں لیکن اسے کوئی حتمی نام نہیں دے پا رہے۔
(3) وہ ان لطیف اجسام کا مادی جسم سے ربط نہیں جوڑ پائے۔
(4) وہ ان تمام کا تعارف، تعریف، مقصد، عمل اور خصوصیات نہیں جانتے اگرچہ کسی نہ کسی حد تک ان کے مادی جسم پر اثرات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔
(5) وہ ان تمام (AURA، چکراز، سبٹل باڈیز یا لطیف اجسام) کی انفرادی شناخت نہیں کر پائے۔ اگرچہ انہوں نے انہیں مختلف نام دے رکھے ہیں۔
(6) وہ روح، نفس کو شناخت نہیں کر پائے۔ نہ ہی وہ روح یا نفس سے متعارف ہیں۔
(7) جدید محققین لطیف اجسام کی وجہ سے آواگون جیسے نظریات کو درست سمجھنے لگے ہیں حالانکہ یہ محض ان کی غلط فہمی ہے۔
(8) جدید محققین انسان کے باطن کے مشاہدے کے بعد بری طرح الجھ گئے ہیں۔ اور سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ "انسان ” کیسا راز ہے۔
ان صفحات میں ہم پہلی مرتبہ اس معمے "انسان” کو حل کر کے انسان کی تعریف پیش کریں گے۔
9۔ قدیم انسان
آج یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ
۱۔ قدیم انسان حیوان نہیں انسان ہی تھا ہمیشہ سے۔
۲۔ قدیم انسان یا ماضی کا انسان آج کے ترقی یافتہ مہذب انسان سے زیادہ ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ تھا۔
۳۔ قدیم انسان اپنے (انسان) بارے میں آج کے انسان سے زیادہ علم رکھتا تھا۔
جب کہ آج جدید دور میں ماضی کے انسان کو غیر مہذب اور غیر ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین نے بڑے اندازے تخمینے لگانے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ ابتداء کا انسان تہذیب و تمدن سے عاری، بے علم، بے عقل، بے لباس اور بے ہنر تھا۔ اس کا معیشت، معاشرت اور سائنس سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ابتدا کا انسان جنگلوں میں جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہا تھا۔ جب کہ بعض تو اس سے آگے بڑھ کر انسان کو حیوان ہی قرار دے دیتے ہیں یعنی ابتداء کا انسان حیوان ہی تھا اور رفتہ رفتہ بتدریج اس کی جسامت میں تبدیلی آئی اور یوں وہ آج انسانی روپ میں ظاہر ہوا بتدریج اس کی عقل اور علم میں اضافہ ہوا اور انسان تہذیب سے آشنا ہوا۔
یہ سب انتہائی غیر سائنسی اور بے بنیاد مفروضے ہیں جن کی آج ہمیں مسلسل سائنسی و غیر سائنسی شہادتیں میسر آ رہی ہیں۔ جب کہ تاریخ اور مذاہب ہمیں یہی بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ انسان ابتداء سے با شعور، با علم اور با لباس ہے۔ آج ہمیں مسلسل سائنسی شہادتیں میسر آ رہی ہیں جن کے مطابق ماضی کے انسان نے آج کے انسان سے زیادہ سائنسی ترقی کی تھی اور ماضی کے انسان جانور نہیں تھے بلکہ آج کے انسان سے زیادہ ذہنی و جسمانی اعتبار سے مضبوط انسان تھے۔ وہ آج کے انسان سے زیادہ اپنے (انسان) بارے میں علم رکھتے تھے۔ قدیم انسان نہ صرف اپنی باطنی، روحانی صلاحیتوں میں آج کے انسان سے آگے تھا بلکہ مادی ترقی میں بھی آج کے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔
آج جدید تحقیقات ماضی کے قصوں سے آگے نہیں بڑھیں بلکہ ابھی تک ماضی کے روحانی تجربات کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف کار ہیں۔ مذہبی اور تاریخی قصوں کی شہادت آج کی جدید تحقیقات فراہم کر رہی ہیں۔ نیز آج ہم اس قابل ہیں کہ ان تاریخی تجربات کو تجرباتی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں۔ آج کی جدید تحقیقات ماضی کے روحانی تجربات کے ثبوت تو فراہم کر رہی ہیں لیکن ابھی ان سے بہت پیچھے ہیں۔ ماضی کی تاریخوں میں روحانی کمالات کے جتنے قصے رقم ملتے ہیں ایسے روحانی کمالات آج دیکھنے میں نہیں آتے۔ چند نام نہاد جادوگر کیمیا گری کے کچھ کرتب تو دکھاتے نظر آتے ہیں لیکن یہ کچھ خاص قابلِ توجہ نہیں ہیں۔ آئیے ماضی کے انسان کی مادی و روحانی برتری کے کچھ مشہور ثبوت ملاحظہ کیجیے۔
قدیم انسان کی روحانی برتری
ماضی کا انسان روحانی طور پر آج کے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لہذا ماضی کا انسان اپنے روحانی تشخص یعنی باطن سے آج کے انسان سے زیادہ معلومات رکھتا تھا جس کی تصدیق آج کی جدید سائنس بھی کرنے پر مجبور ہے۔ مثلاً آج کے سائنسدانوں نے (۱۹۳۰ء) میں AURA کی تصویر کشی کی اہلیت حاصل کی ہے جب کہ ہزاروں برس قبل بھی AURA کی تصویر کشی کی جاتی تھی۔ قدیم ادوار میں یونانی، رومی، ہندو اور عیسائی اقوام میں ان کی مذہبی شخصیات کی تصاویر اور مجسموں میں ان کا ہیولا دکھایا جاتا تھا جسے انگریزی میں "HALO” اور قدیم یونانی اور لاطینی زبان میں ” اورا ” AURA اور ایرولا (AUREOLA) کہا جاتا تھا۔ جب کہ آج اسی تاریخی مناسبت سے سائنسدانوں نے انسان کے باطنی رخ یا لطیف جسم کا نام ” AURA ” رکھا ہے۔
جب کہ ڈھائی ہزار برس قبل ایران کے عظیم فاتح (جو سائرس اعظم، کورش اعظم اور ذوالقرنین کے ناموں سے مشہور ہے ) کے باپ کے محل کو منحوس اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے دیواروں پر ارواح کی شکلیں کندہ کروائی جاتی تھیں۔ اور آج سے پانچ ہزار سال پہلے فراعنہ مصر لاشوں کو حنوط کر کے ممی کی شکل دے ڈالتے تھے تاکہ مرنے والے کی روح (بع) اور ہمزاد (کع) اپنے جسم کو شناخت کر لیں۔
یعنی قدیم انسان نہ صرف اپنے باطنی تشخص سے واقف تھے بلکہ اس کی تصویر کشی بھی کرتے تھے۔
ریمنڈی موڈی نے اپنی کتاب ( Life after Life – 1975 ) کا موازنہ ایک تبتی کتاب ( Tibetan Book of Dead ) سے کیا ہے۔ یہ کتاب زمانہ قبل از تاریخ تبت کے دانشوروں کو زبانی پڑھائی جاتی تھی جو سینہ بہ سینہ چل کر آٹھویں صدی عیسوی میں کتابی شکل میں سامنے آئی یہ قدیم کتاب ریمنڈی موڈی کی موجودہ دور کی جدید طبیعاتی تجربات پہ مشتمل کتاب سے حد درجہ مماثلت رکھتی ہے۔ دونوں کتابوں کے تجربات میں مماثلت ہے۔
تبت میں ایسے ماسٹر پائے جاتے تھے جو مراقبہ کے دوران اپنے اوپر مصنوعی موت طاری کر لیتے تھے یعنی طبعی نقطہ نظر سے ان کی موت واقع ہو جاتی نیز ہپناٹزم (جسے وہ کٹن کہتے تھے ) کے ذریعے موکل (جسے وہ ’اورکل‘ کہتے تھے ) سے مستقبل کے حالات معلوم کئے جاتے تھے۔ تبتی لامہ ہوا میں اڑنے ، اپنے AURA کو جسم سے الگ کرنے ، ہزاروں میل دور کی چیزیں دیکھنے ، ماضی و مستقبل میں جھانکنے اور سفر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ تبت میں روحانی تعلیم کے باقاعدہ ادارے قائم تھے۔
ابن بطوطہ نے بھی اپنے مشہور سفر نامے میں چند جو گیوں کے روحانی کمالات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ ایک جو گی کی کھڑاویں خود بخود زمین سے اُٹھیں اور فضا میں معلق ہو گئیں۔ بڑے جو گی نے اپنے شاگرد کو اشارہ کیا وہ بھی فضا میں آہستہ آہستہ بلند ہونے لگا اور اتنا بلند ہوا کہ نظر سے اوجھل ہو گیا۔
ایسے ہی واقعات کا تسلسل اہلِ روحانیت کے ہاں ہمیشہ سے ملتا ہے چاہے وہ مسمان ہوں یا عیسائی، ہندو ہوں یا یہودی تمام کی مذہبی اور تاریخی کتابوں میں ایسے سپر نارمل واقعات کا تسلسل ملتا ہے۔ ایسے خرقِ عادت واقعات کی کوئی سائنسی توجیہہ اگرچہ جدید سائنس پیش نہیں کر سکی مگر آج ان واقعات کی گواہی ضرور دے رہی ہے۔ اور جدید تجربات سے یہ واقعات رفتہ رفتہ ثابت بھی ہو رہے ہیں۔
آجکل بھی ایک انگلش چینل سے ’کرس اینجل‘ نامی شخص ایسے کرتب دکھاتا نظر آتا ہے، کبھی ہوا میں اڑتا ہے کبھی غائب ہو جاتا ہے وہ اسے (Mind Power) قرار دیتا ہے
ماضی کے تمام ادوار میں ان سپر نارمل واقعات کا تسلسل ملتا ہے مثلاً اولیاء کی کرامات یا انبیاء کے معجزے مثلاً عیسیٰ علیہ اسلام اندھے کو بینا اور مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے۔ جب کہ موسیٰ علیہ اسلام کے پاس عصا تھا جو بہت بڑے اژدھے کا روپ دھار لیتا تھا۔ جب کہ حضرت محمد ﷺ نے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو لخت کر دیا تھا۔ اور انہوں نے معراج کا سفر کیا اور ٹائم اور اسپیس کو توڑتے ہوئے خالق کائنات تک جا پہنچے۔ جنت اور جہنم کا مشاہدہ کیا۔
اگرچہ مذہب پرست معجزوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن مادہ پرست انہیں بھی جھٹلاتے ہیں ( یہ فقرہI don’t believe this اب محض لا علمی اور جہالت کا نشان ہے اس لئے کہ کسی بے وقوف کے یقین کرنے نہ کرنے سے حقائق نہیں بدلتے )آج جدید سائنس انتہائی خرقِ عادت معجزوں تک کی شہادت دے رہی ہے۔ مثلاً اپالو مشن کی پروازوں کے درمیان 4 مئی 1967 کے تاریخی دن راکٹ آربیٹر 4کے ذریعے ملنے والی تصویروں میں چاند کی سطح پر دوسوچالیس(240) کلومیٹر طویل اور آٹھ کلومیٹر چوڑی ایک بالکل سیدھی لکیر یا دراڑ کا نمایاں طور پر مشاہدہ کیا گیا۔ قدرتی عوامل کے تحت بننے والی لکیر یا دراڑ کبھی خط مستقیم میں نہیں ہوتی یعنی یہ شہادت ہے اس امر کی کہ آج سے چودہ سو سال پہلے انگلی کے اشارے سے چاند دولخت ہوا تھا(اس معجزے کی تاریخی شہادتیں بھی موجود ہیں ) عیسی علیہ السلام کا معجزہ یہ تھا کہ وہ مُردے زندہ کرتے تھے۔ آج ان کی قوم یہی کام کلون انسان پیدا کر کے کر رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سائنس ابھی دیگر معجزوں اور کرامات کی بھی گواہی دے گی خود سائنس کی مثال بھی جادو یا کرامت کی سی ہے۔
انبیاء کے معجزوں کے علاوہ اولیاء کی کرامات کا بھی تسلسل تاریخ سے ملتا ہے۔ اولیاء نے بھی مردوں کو زندہ کیا سوکھے درخت کو ہرا کیا۔ سوکھے اور رُکے ہوئے دریا کو چلا دیا اور ایسی بے شمار کرامات دکھائیں جو عام حالات میں ناممکن ہیں۔ غرض روحانی کمالات کے جتنے بھی قصے تاریخ میں رقم ملتے ہیں آج دیکھنے میں نہیں آتے چند نام نہاد جادوگر کیمیا گری کے کچھ کرتب تو دکھاتے نظر آتے ہیں لیکن یہ بچوں کے سے کرتب کچھ خاص قابل توجہ نہیں ہیں۔
ماضی کا انسان محض روحانیت میں آج کے انسان سے بڑھا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی آج کے انسان سے بڑھا ہوا تھا۔ آج کے انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی میں ایسی ترقی نہیں کی جیسی کہ ماضی کے انسان نے کی تھی۔ ْْْْْقْْْیتک نہیں بن سکتا۔ مثلًا
قدیم انسان کی سائنسی برتری
ماہرین ابھی تک اہرامِ مصر کی عجوبہ عمارتوں کی ٹیکنیک میں الجھے ہوئے تھے کہ زیرِ سمندر ہزاروں برس پہلے کے شہر دریافت ہونے لگے۔ ایسے شہر جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی میں موجودہ دور سے زیادہ ترقی کی ہوئی تھی۔ ان زیر سمندر شہروں میں گرینائٹ پتھر سے تعمیر شدہ بلند و بالا عمارتیں، ڈامر (Asphalt) سے بنی ہوئی طویل سڑکیں، جہازوں کے طویل رن وے، اہرام، مندر، رومی و مصر کی طرز کے ستون، سیڑھیاں، اور گودام دریافت ہو رہے ہیں۔
مصر میں فیئجم (Fagium) کے مقام پر ایسی پینٹنگز ملی ہیں جن کے رنگ ہزاروں برس گزر جانے کے بعد آج بھی ہلکے نہیں پڑے جب کہ ایسے رنگ جدید دور میں ابھی تک دریافت نہیں ہو سکے۔
ولیم کونگ نے نظریہ پیش کیا کہ 2500 قبل مسیح میں عراق میں طلائی الیکٹرو پلیٹنگ کے ثبوت ملتے ہیں، امریکی ریاست کیلی فورنیا میں کوسو ( Coso ) پہاڑی سلسلہ کے قریب لاکھوں سال پرانا اسپارک پلگ (۱۳ فروری ۱۹۶۱ کو) ملا ہے۔ جرمن ریسرچر ڈاکٹر کولن فنک کے مطابق 4300 برس قبل مصر کے لوگ بجلی کا استعمال جانتے تھے۔ 1938 میں بغداد کے قریب ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کے کھنڈرات سے ایک الیکٹرک بیٹری دریافت ہوئی۔
ہندوستان میں 1800 قبل مسیح میں لکھی گئی ایک قدیم کتاب آگستا سمہتا (Agasta Samhita) میں الیکٹرک بیٹری کی تیاری کی تمام تفصیل موجود ہے۔ بائبل کتاب پیدائش باب 6 آیت 16 میں تحریر ہے۔ تم (نوح علیہ السلام) اپنی کشتی کے لئے ایک صہر (Tsohar) بناؤ اور اوپر سے ایک ہاتھ تک اسے مکمل کرو صہر کا ترجمہ ایک ایسی روشنی ہے جو سورج کی طرح روشن ہو۔ اسی طرح یہودیوں کی مقدس کتاب (ملکہ سباح اور اس کا اکلوتا بیٹا مینلیک میں بھی سلیمان کے گھر میں الیکٹرک بلب کا ذکر موجود ہے۔ اس کتاب کو کبیرا ناگست (Kebra Nagast) بھی کہا جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے 1.5 Million سال پرانا پتھر کا گھر دریافت کیا ہے۔ جب کہ ترکانا (Turkana Body) لڑکے کا فوسل سولہ لاکھ سال پرانا ہے۔
چین میں ایک ایسی پر گوشت لاش ملی ہے جیسے کچھ دیر قبل دفنائی گئی ہو لیکن یہ دو ہزار برس قبل کی ہے۔ مصریوں کی لاشیں بھی آج تک محفوظ ہیں۔ اور باوجود کوشش کے جدید سائنسدان مادی جسم کو محفوظ کرنے کا ایسا مسالہ تیار نہیں کر سکے جیسا ماضی کے انسانوں نے تیار کر کے اپنی لاشوں کو محفوظ کیا تھا۔ ان اصل اور جدید فوسلز کی دریافت سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ انسان لاکھوں سال پہلے نہ صرف انسان تھا بلکہ جدید ترقی یافتہ انسان تھا۔
رومی عہد کے شہر ٹائبرس (Tiberus) کے مقام پر ایسے شیشے دریافت ہوئے ہیں جو توڑے نہیں جا سکتے جیسا کہ آج بلٹ پروف شیشے استعمال کئے جاتے ہیں۔
ساؤتھ امریکن جنگل میں کولمبین تہذیب پر ریسرچ کرنے والے کولونل پی ایچ فاسٹ کے مطابق امریکن مائن انجینئرز کی ایک ٹیم کو سیروڈل پاسکو(Serodel Pasco) کے قریب ایک قدیم مقبرے میں جانچ کے دوران ایک سیل پیک بوتل ملی یہ حادثاتی طور پر گر کر ٹوٹ گئی اس بوتل میں موجود لیکوئڈ کے چند قطرے ایک پتھر پر گرے وہ پتھر لمحہ بھر میں نرم مٹی میں تبدیل ہو گیا لیکن کچھ دیر میں وہ دوبارہ عام پتھر کی طرح سخت ہو گیا۔ جب کہ آج کے سائنسدان ایسے کسی کیمیکل کی ایجاد نہیں کر سکے۔
صحرائے گوپی سے 1950 ء میں 20 لاکھ سال پرانا ایسا پتھر ملا ہے جس پہ کسی جوتے کے فٹ پرنٹ ہیں۔ لاکھوں برس قدیم اقوام (جنہیں ماہرین ہتھیار استعمال کرنے والے دو ٹانگوں والے حیوان قرار دیتے ہیں ) کے پاس ایسا کونسا فارمولا تھا جس سے وہ پتھر کو موم کر لیتے تھے۔ جب کہ ایک مغربی فزیالوجسٹ کو سات سے نو کروڑ برس قدیم ایک پتھر ملا ہے جس کے اندر سے اسٹین لیس اسٹیل کی گیارہ کیلیں Nails برآمد ہوئی ہیں۔ پیرو (امریکہ) کے شہر اکا (Ica) سے ملنے والے ہزاروں برس قدیم منقش پتھروں میں ایک گول گیند نما پتھر ایسا ملا ہے جس پر پوری دنیا کا نقشہ گلوب کی صورت میں ابھرا ہوا ہے اس میں موجود تہذیبوں کے علاوہ ماضی کی گمشدہ تہذیبیں بھی دکھائی گئی ہیں۔ مایا (Mayan) تہذیب سے دریافت ہونے والی ڈھائی ہزار برس قدیم تختیوں میں ایسی تصاویر ملتی ہیں جیسے کوئی شخص راکٹ یا ہوائی جہاز اڑا رہا ہو۔ مصر میں عبیدوس کے مقام پر سیتی اول ” Seti-1 ” کا پانچ ہزار برس قدیم معبد موجود ہے جسے نومبر1988 میں دریافت کیا گیا اس معبد کے شہتیر پر نہ صرف ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز بلکہ جیٹ طیارے، گلائیڈر اور اسپیس شپس کی بھی تصویر بنی ہوئی ہے۔ جب کہ بعض لوگ ان تصویروں کو جھٹلاتے ہیں جب کہ ان آثار کے ثبوت ہمیں تاریخی اور مذہبی کتابوں سے بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ہندوؤں کی قدیم کتابوں (مہابھارت، رامائن اور پرانوں ) میں لفظ ومان (Vimana) یعنی اُڑنے والی رتھ کہا گیا جب کہ بائبل کی کتاب حزقیل میں انہیں کروبی "Cherub” اور تبت کی قدیم کتابوں میں کنٹویا اور ٹنٹویا (Kentyua-, Tantyua) میں اڑنے والی مشینیں کہا گیا جنہیں تبت کے لوگ پرلز (pearls) کہتے تھے اور یونان کی دیومالائی داستانوں میں بھی اڑنے والی سواریوں کا ذکر موجود ہے۔ جب کہ تاریخ طبری میں طوفان نوح کے عہد کے دو بادشاہوں کے ہوائی سفر کا تذکرہ ملتا ہے۔ قدیم بابل کی آشوری تہذیب کے کتبوں میں ایک طاقتور بادشاہ اتانا(Etana) ایک پرندے پر سفر کرتا ہے جو جہاز سے مشابہ ہے۔ ایسے ہی جہازی سفر کا ذکر قرآن نے سلیمان علیہ اسلام کے حوالے سے کیا ہے۔ نینوا سے برآمد ہونے والی ماضی کی قدیم ترین رزمیہ داستان گلگامشن (Gilgamish) کی ساتویں تختی میں گلگامش کا دوست انیکدو اُسے اپنے خلائی سفر کا چشم دید واقعہ سناتا ہے۔
قدیم یونانی فلسفیوں نے کہا تھا کہ ایتھر ایٹم کی روح ایٹم کا لطیف ترین وجود ہے۔ یونانیوں نے اس تعریف میں ایٹم کے حوالے سے دو انکشاف کئے ہیں۔
(۱)۔ ایٹم کا لطیف وجود
(۲)۔ ایٹم کے اندر مزید وجود
ہزاروں برس بعد ج ایٹم کے اندر مزید وجود (نیوکلیس، نیوٹران، پروٹون، الیکٹران، لپٹان اور کوراک) دریافت کر لئے گئے جب کہ ان دریافتوں سے پہلے تک سائنسدان ایٹم کو ہی ناقابل تقسیم ذرہ سمجھتے تھے۔
جب کہ یونانیوں نے مزید وجودوں کے علاوہ ایٹم کی روح یا لطیف جسم کا بھی تذکرہ کیا تھا۔
فوٹان کی دریافت یا (Wave Pocket) کی دریافت سے یہ ثابت ہو گیا کہ ایٹم میں لطیف توانائی بھی موجود ہے۔
قدیم معبدوں سے ملنے والی تصویروں میں DNA کی تصویر بھی شامل ہے یعنی وہ DNA سے بھی متعارف تھے۔
ماضی کے انسانوں نے جنیٹک میں بھی ایسی ترقی کی تھی کہ انہوں نے انسانوں اور جانوروں کے جینز سے ایسی مخلوق تیار کر لی تھی جو انسان اور حیوان کے درمیانی مخلوق تھی جس کی تصویریں ہمیں مقبروں میں نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ مخلوق ایسی وحشی تھی کہ اسی قوم کی تباہی کا سبب بن گئی اور خود ہی آپس میں لڑ کر تباہ ہو گئی۔ ان مخلوقات کا نوعی تسلسل قائم نہیں ہو سکتا تھا یہ مٹ گئیں۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ قدیم اقوام نے کشش ثقل (Gravity) پہ بھی کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جب کہ آج کے دور میں یہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔
(ایک پاکستانی (شیخ سراج الدین )کشش ثقل پر کنٹرول کا دعویٰ کرتا ہے ، اُس کے خیال میں وہ سائیکل گاڑی سے لے کر ٹربائن تک اس قوت سے چلا سکتا ہے لیکن یہاں اس کی کوئی سنتا ہی نہیں )۔
نینڈرتھل (Neanderthalensis) ڈھانچوں کی باقیات اور جدید انسان کے باہمی موازنے سے ثابت ہو چکا ہے کہ نینڈتھل کی کھوپڑی میں زیادہ بڑا دماغ سمانے کی گنجائش تھی جب کہ وہ جسمانی اعتبار سے بھی موجودہ انسان کے مقابلے میں مضبوط اور توانا(مکمل انسان )تھے۔
کَانُواَشَدَّ منکُحہ قُوَۃًّ۔ ترجمہ:۔ وہ تم سے زیادہ قوت والے تھے (سورہ توبہ ۶۹) یعنی قدیم انسان ذہنی و جسمانی لحاظ سے بھی آج کے انسان سے مضبوط تھے۔ ماضی کا انسان آج کے انسان سے زیادہ طویل العمر تھا۔ قدیم انسان ہزاروں برس کی عمر رکھتے تھے یا تو یہ قدرتی عمل تھا یا پھر ہو سکتا ہے انہوں نے طویل عمری کا راز دریافت کر لیا ہو جیسا کہ آج سائنسدان طویل عمری کا راز دریافت کرنے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں۔
ایک امریکی ماہر روحانیت ایڈگر کیسی کے مطابق معدوم شہر اٹلانٹس کے لوگ جدید دور سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ اہرام مصر، ا سٹون ہینج، ایسٹر آئی لینڈ کے مجسمے وغیرہ انہی کی تعمیرات تھے۔ یہ لوگ ٹیلی پیتھی میں بھی مہارت رکھتے تھے ان کے پاس توانائی کا منبع ایک کرسٹل نما پتھر تھا جسے Tuaoi کہتے تھے یہ انعکاسی پتھر سورج کی روشنیوں کو جذب کر کے دوبارہ منعکس کرنے پر قادر تھا ( جب ایڈگر کیسی اٹلانٹس کی سولر انرجی کا ذکر کر رہا تھا تو اس وقت سولر انرجی کے استعمال کی ابتداء نہیں ہوئی تھی)۔ اٹلانٹس کی غرقابی اسی کرسٹل نما انعکاسی پتھر کے حد سے زیادہ استعمال سے ہوئی کرسٹل کی مدد سے لامحدود توانائی حاصل کرنے کی کوشش میں کرسٹل کی توانائی کا شدت سے اخراج ہوا اور یہ براعظم تباہ ہو گیا۔ یہ ہوائی جہاز کی ایجاد بھی کر چکے تھے جسے وہ Vilixi کہتے تھے۔
جب کہ قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایسی بادشاہت کا ذکر ہے جو کسی دور میں کسی کو نہیں ملی سلیمان علیہ السلام کے قصے میں ان کی قوم ہر جدید ایجاد سے لیس نظر آ رہی ہے جن میں سر بہ فلک عمارتیں ہوائی جہاز، سینما، ٹیلی ویژن اجرام فلکی کا مشاہدہ کرنے والی رسد گاہیں اور دوربینیں ، بینک، آبدوز، کشتیاں راکٹ، بجلی کا استعمال، برقی تار، ٹیلی فون وائرلس وغیرہ ہر جدید ایجاد کی تفصیل اس قصے میں موجود ہے۔ قدیم انسانوں کے بارے میں حیرت انگیز دریافتیں جاری ہیں اور ان دریافتوں سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ماضی کا یا قدیم انسان ترقی یافتہ انسان تھا لیکن اب سوال یہ ہے کہ قدیم انسانوں نے آخر کتنی ترقی کی تھی؟
ماضی کی اقوام سے ایک مشہور روایت منسوب ہے کہ ایک قوم نے علم میں اتنی ترقی کی تھی کہ مزید گنجائش ہی نہیں رہی تھی لہذا خالق نے اس قوم کی طرف اپنے فرشتے ( جبریل) کو بھیجا اس( جبریل علیہ اسلام) نے سڑک پر کھیلتے ایک بچے سے سوال کیا کہ بتاؤ جبریل اس وقت کہاں ہے لڑکے نے زمین پر کچھ لکیریں کھینچیں اور بولا۔ جبریل اس وقت آسمان پر ہے نہ زمین پر وہ تم ہو یا میں اور میں تو ہو نہیں سکتا لہذا جبریل اس وقت میرے سامنے ہے۔
مندرجہ ذیل تفصیل سے اندازہ لگائیں کہ وہ کونسا شعبہ ہے جس میں قدیم انسان پیچھے ہے جب کہ وہ ہر میدان میں آگے ہی نظر آ رہا ہے۔ جب کہ ماہرین کا (برسوں کی تحقیقات کے بعد) خیال ہے کہ لاکھوں برس پہلے زمین پر دو ٹانگوں والے حیوان بستے تھے (اور یہی ابتدائی انسان تھے جو رفتہ رفتہ انسانی صورت اختیار کر کے مہذب اور تعلیم یافتہ ہو گئے )جو ایک دوسرے کا خون بہانے والے بے شعور انسان تھے پہلے تو وہ انہیں ہی انسانوں کی ابتدائی صورت کہتے رہے لیکن جدید تحقیقات نے ان کی ان خرافات کی نفی کر دی تو پھر انہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد اندازہ لگایا کہ موجودہ انسان 50,000 سال پہلے وجود میں آیا اور کوئی 40,000 سال پہلے دجلہ و فرات کے کنارے اچانک وہ تہذیب یافتہ ہو گیا۔
جب کہ جدید تحقیقات اور نت نئی دریافتوں سے میسر آنے والے مسلسل شواہد کے نتیجے میں ہمیں ہزاروں برس قبل کا نہیں بلکہ لاکھوں برس قبل کا انسان بھی آج کے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ نظر آ رہا ہے۔ آج کے انسان نے مادی ترقی تو کی ہے لیکن اپنی ہی روح پہ مادیت کی صدیوں کی تہہ چڑھا دی ہے اور آج صدیوں کا انسان خود کو شناخت کرنے سے انکاری ہے۔ کچھ ماہرین روحانیت کا خیال ہے کہ ترقی محض آج کے دور کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ ہر دور میں ہر قوم تقریباً دس ہزار برس میں ترقی کی اوج پر پہنچ جاتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے آثار تو ایسی ہی خبروں کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ ہر قسم کی سائنسی، مذہبی اور تاریخی شہادتوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہر دور کا انسان نہ صرف انسان تھا بلکہ روحانی و مادی ترقی میں بھی آج کے انسان سے بڑھا ہوا تھا۔ جب کہ آج کچھ نام نہاد ماہرین ان تمام تر حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کئے اپنے کچھ ذاتی تعصبات کی بنیاد پر انسان کو حیوان ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان کے غیر سائنسی مفروضوں اور بے بنیاد دعووں کی کلی اگرچہ کھل چکی ہے اور انہی کی بے کار کی جد جہد سے کارآمد ثبوت مل رہے ہیں اور اس حقیقت سے پردہ اُٹھ رہا ہے کہ ابتداء کا انسان کیسا با کمال با شعور اور ترقی میں اتنا بڑھا ہوا تھا کہ آج کا انسان اس کمال کو نہیں پہنچ سکا۔ جو ماہرین ابتدا کے انسان کو غیر مہذب حیوان قرار دیتے ہیں ان کے ان غیر سائنسی مفروضوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ جب کہ انسان کے عظیم الشان ماضی کی گواہی تاریخ، مذاہب اور خود سائنس فراہم کر رہی ہے۔ بہر حال ان ٹھوس شواہد کی روشنی میں یہاں ہم نے قدیم انسان کے بارے میں سائنسی، تاریخی اور مذہبی شہادتیں پیش کی ہیں لہذا اس تمام بحث سے درج ذیل نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
۱۔ ماضی کا انسان جانور نہیں تھا بلکہ( آج کے انسان سے زیادہ تہذیب یافتہ )انسان تھا۔
۲۔ ماضی کا انسان آج کے انسان سے زیادہ ذہنی و جسمانی اعتبار سے مضبوط انسان تھا۔
۳۔ ماضی کا انسان موجودہ دور کے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔
۴۔ وہ محض مادی ترقی ہی نہیں بلکہ روحانیت میں بھی درجہ کمال کو پہنچا ہو تھا۔
۵۔ ماضی کا انسان اپنے (انسان) بارے میں آج کے انسان سے زیادہ علم رکھتا تھا۔
۶۔ قدیم انسان موجودہ انسان سے زیادہ طویل العمر تھا۔
۷۔ ۔ قدیم انسان اپنے باطنی تشخص کا علم آج کے انسان سے زیادہ رکھتا تھا
۸۔ ۔ جدید تحقیقات اور روحانی مشقوں میں وہ آج کے انسان سے آگے بڑھا ہوا تھا
10۔ مختلف اقوام کے عقیدے
انسان سے وابستہ( اس کے جسم کے علاوہ )انسانی باطن، نفس اور روح کے متعلق مختلف اقوام اور مذاہب میں مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں درحقیقت روح و نفس مذہبی آفاقی اطلاعات ہیں اور یہ آفاقی اطلاعات ابھی تک پورے طور پر کوئی سمجھ نہیں پایا اور ان آفاقی اطلاعات میں فلسفیانہ اضافوں نے انہیں مزید الجھا دیا ہے۔ دوسرے، اکثر مذاہب میں تبدیلی ترمیم و اضافوں نے بھی روح و نفس سے متعلق عقیدوں کو متاثر کیا ہے۔ اور ان دو بڑی غلطیوں نے روح و نفس کو ایک پیچیدہ مسئلہ بنا دیا ہے۔ لیکن پھر بھی روح و نفس کی سب سے اہم اطلاعات مذہبی آفاقی اطلاعات ہی ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی تک تجربوں مشاہدوں اور تجزیوں کے بعد بھی روح و نفس یا انسانی باطن یا مجموعی انسان کی کوئی تعریف سامنے نہیں آ سکی۔ یعنی انسان اور اس کے باطن سے متعلق سب سے اہم معلومات مذہبی معلومات ہی ہیں لہذا انسان کو جاننے کے لئے مذہبی معلومات کا ہونا لازمی ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ انسانی باطن(روح و نفس) سے متعلق مختلف اقوم میں کیا عقیدے رائج ہیں۔
۱۔ قدیم امریکی
امریکہ کے ریڈ انڈین سمجھتے تھے کہ روحیں ایک خاص مسکن میں چلی جاتی ہیں۔
۲۔ قدیم افریقی
قدیم افریقی سمجھتے تھے کہ نیک روحیں دیوتاؤں سے جا ملتی ہیں جب کہ برے لوگوں کی روحیں کُتے بن جاتی ہیں۔ افریقہ کے بعض قبائل کا عقیدہ ہے کہ انسان کی روح کالی مکھی بن کر اڑ جاتی ہے اسی لئے وہ مکھی کو کبھی نہیں مارتے۔ افریقیوں میں ارواح کو بلانے اور ان سے مسائل کے حل اور روحانی علاج میں بھی مدد لی جاتی ہے۔ اسی سلسلے کے ڈاکومینٹری پروگرام ہمیں مختلف چینلز پر دیکھنے کو بھی ملتے ہیں۔
۳۔ آئرلینڈ
آئرلینڈ کے بعض قدیم قبائل کا خیال تھا کہ مرنے والے کی روح سفید تتلی بن کر اُڑ جاتی ہے۔
۴۔ قدیم مصری
مصر کے قدیم باشندوں کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان کی دوسری زندگی شروع ہوتی ہے اور اس کی روح اور ہمزاد جسے وہ بع اور کع کہتے تھے اس کے جسم سے نکل کراس کے مقبرے میں رہنے لگتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ (بع) کا میل جول مرنے والے کے عزیزوں دوستوں کے ساتھ رہتا ہے جب کہ (کع) دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے اور دیوی دیوتاؤں کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ کسی آدمی کے ہمیشہ زندہ رہنے کی ان کے خیال میں بس یہی صورت تھی کہ بع اور کع جسم کو پہچانتے ہوں اسی وجہ سے وہ مرنے والے کی لاش کو حنوط کر کے ممی کی شکل دے ڈالتے۔ ممی کے پٹیوں میں لپٹے ہوئے سر پر نقاب چڑھایا جاتا جس پر مرنے والے کی تصویر بنی ہوتی تھی۔ ایسا اس لئے کیا جاتا تھا کہ ممی خراب بھی ہو جائے تو اس کا بع اور اس کا کع اسے پہچان لیں اور بھٹکتے نہ پھریں۔ لاش کے مجسمے بھی بنائے جاتے تاکہ اگر ممی خراب ہو جائے تو بع اور کع بھٹکتے نہ پھریں۔
۵۔ آسٹریلیا
افریقہ اور آسٹریلیا کے پرانے قبائل میں بھی آباؤ اجداد کی ارواح کو پوجنے کا رواج پایا جاتا تھا آسٹریلیا کے آبرجینل (Aboriginal) میں بھی حیات بعد الموت کا تصور پایا جاتا ہے۔
۶۔ ابتدائی دور کے رومی
ابتدائی دور کے رومی قدیم مذہب پر کاربند تھے وہ قدیم مذہب طبعی تھا وہ روحوں کی پرستش کرتے تھے جو گھروں چشموں، کھیتوں اور مفصلات کے دوسرے مقاموں پر کار فرما تھیں۔
۷۔ عربوں کا ایک عقیدہ
قبل از اسلام عربوں میں ایک عقیدہ یہ بھی مروج تھا کہ جب کسی آدمی کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کے سر سے روح ایک پرندہ کی شکل میں نکلتی ہے اور جب تک اس مقتول کا انتقام نہ لیا جائے اس وقت تک وہ اس کی قبر پر چکر کاٹتی رہتی ہے اور کہتی ہے "مجھے پلاؤ میں سخت پیاسی ہوں "۔ اس عقیدہ کے باعث ان کے ہاں اگر کسی آدمی کو قتل کر دیا جاتا تو اس کے قریبی رشتہ داروں کے لئے اس کے خون کو معاف کرنا مشکل ہو جاتا کیونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ جب تک ہم مقتول کا بدلہ نہیں لیں گے اس وقت تک اس کی روح کو چین نہیں آئے گا اور وہ اپنے مشتعل جذبات کو تو ٹھنڈا کر سکتے تھے لیکن اپنے مقتول باپ یا بھائی کی روح کی اس ابدی پریشانی اور اضطراب کو برداشت کرنا ان کے بس کا روگ نہ تھا اس لئے وہ مجبور تھے کہ اپنے مقتول عزیز کا ہر قیمت پر انتقام لیں۔
۸۔ چینیوں کا عقیدہ
چینیوں میں فطری طاقتوں کے مظاہر کے علاوہ اپنے اسلاف کی پوجا کا بھی رواج عام تھا۔ ان کا یہ اعتقاد تھا کہ ان کے اسلاف کی روحیں اپنے آنے والی نسلوں کو نفع بھی پہنچا سکتی ہیں اور نقصان بھی اور ان اسلاف کی روحوں کو خوش و خرم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ ان کے نام سے کھانا پکایا جائے۔ گذشتہ دو ہزار سال سے کنفیوشس کے نظریات جن میں اپنے اسلاف کی پرستش کا عقیدہ اور یہ عقیدہ کہ بادشاہ آسمان کا بیٹا ہوتا ہے اور وہ ان ارواح کے درمیان جو عالم بالا میں سکونت پذیر ہیں اور ان لوگوں کے درمیان جو اس عالم آب و گل میں زندگی بسر کر رہے ہیں شفاعت کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ دونوں عقیدے ان کے ہاں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
قدیم چینیوں کے مطابق ہر شخص کی روح کے دو حصے ہوتے ہیں۔
(i)۔ پو (P.O) یہ اس کی شخصیت کا نظر آنے والا حصہ جو کہ اس کے جسم سے جڑا ہوتا ہے۔
(ii)۔ ہن (HUN) یہ نہ نظر آنے والا حصہ ہے جو کہ جسم میں موجود ہوتا ہے لیکن لازمی نہیں کہ ہمیشہ جسم سے بندھا ہو۔ جب وہ جسم سے باہر پھر رہا ہو تو ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور اگر وہ ظاہر ہو گا تو وہ اصل جسم کی صورت میں ظاہر ہو گا جب کہ اصل جسم اس سے دور ہوتا ہے۔ اصل جسم میں P.O موجود ہوتا ہے۔ اور اگر HUN مستقل طور پر جسم سے دور رہے تو جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
۹۔ بدھسٹ
ہر سال 13 اگست کو بدھ مذہب کے پیروکار "یوم ارواح ” مناتے ہیں۔ اس تہوار پر تمام بدھی لوگ اپنے آباء و اجداد رشتہ دار اور بزرگوں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں۔ جاپان میں اس دن "بون میلہ” لگتا ہے۔ موری اوکا شہر کے "دائی شو آن مندر” میں لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور امیتابھا (نور احمد) کی شان میں گا تھا (نعتیں ) اور مناجات (درود) پڑھتے ہیں۔ ان کے عقائد کے مطابق ان گاتھاؤں اور مناجات کو پڑھنے سے بدھا (احمد) اپنی روحانی شعاعیں ہمارے اوپر پھینکتے ہیں۔ قبروں پر پھول چڑھاتے وقت وہ لوگ مناجات پڑھنے کے ساتھ ساتھ مرحومین سے اس طرح گفتگو بھی کرتے جاتے ہیں جیسے وہ وہاں ان کے سامنے بیٹھے ہوں۔ دائی شو آن کے مندر میں بون میلہ کی تقاریب میں لوگ امیتابھا کی گاتھائیں پڑھتے ہوئے وجد میں آ جاتے ہیں اور والہانہ رقص کرتے ہیں انہوں نے تنکوں کی ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں ان کی روایات کے مطابق اس موقع پر بھجن گانے اور رقص کرنے سے مرحومین کو روحانی سکون پہنچتا ہے۔
۱۰۔ تبت
راز ہائے سربستہ کا مدفن تبت تو منسوب ہی پراسراریت اور ماورائیت سے ہے۔ یہاں کے لوگ مظاہر پرست تھے۔ تبت میں بدھ مت چوتھی صدی عیسوی میں پوری طرح پھیل چکا تھا اور یہ ملک کا اکثریتی مذہب بن گیا تھا۔ بدھ ازم میں بھی آواگون کا عقیدہ بنیادی اساس ہے جسے زندگی کا چکر یا "کرما” کہتے ہیں۔ ان کے مطابق انسان بار بار مر کر دوبارہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا اگلا جنم اس کے اعمال کے مطابق ہوتا ہے۔ تبت میں روحانی تربیت کے ہی تعلیمی ادارے قائم تھے اور وہاں کا سربراہ بھی روحانی عالم ہوتا تھا جسے "دلائی لامہ ” کہا جاتا ہے۔ بدھ مت میں دلائی لامہ کی وہی حیثیت ہے جو عیسائیوں میں پوپ کی۔ ایشیا بھر میں قائم بدھ مت کی حکومتیں اس کی اہمیت تسلیم کرتی ہیں۔ چینی زبان میں لاما کے لئے لفظ بیوفو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ استعمال کیا جاتا ہے جس کے معنی "زندہ بدھا ” کے ہیں یعنی ایسا شخص جو بار بار جنم لیتا ہے۔ (روحانی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں تبتی لاما دوران مراقبہ اپنے اوپر مصنوعی موت طاری کر لیتے تھے اس دوران طبعی نقطہ نظر سے ان پر موت طاری ہو جاتی یعنی سانس اور دل کی دھڑکن رک جاتی وہ عارضی طور پر اپنے نفس کو جسم سے الگ بھی کر لیتے اس طرح ماضی و مستقبل میں سفر کرتے تھے۔ )بدھ مت میں عبادت کا مخصوص تصور نہیں ہے وہ اسے مشق کا نام دیتے ہیں۔ تبتی مختلف روحانی مشقیں کرتے ہیں ان میں سے ایک گروہ چاڈ کا خیال ہے کہ روح جزو خدا ہے اسے جسم کی آلائشوں سے پاک کرنا کمال بندگی ہے۔
۱۱۔ سکھ
سکھ روح کو یونیورسل روح کا حصہ مانتے ہیں ان کے مطابق روح کائنات کا حصہ ہے اور کائنات خدا۔ وہ روح کو آتما اور رب کو پرماتما کہتے ہیں۔
AGGS (AAD GURU GRANTH SAHIB کی کتاب میں ہے۔
Soul (ATMA) to be part of universal soul which is God (Permatma)
۱۲۔ ہندو ازم
ہندوازم میں سنسکرت کا لفظ Jiva روح سے مطابقت رکھتا ہے جس کا مطلب ہے انفرادی روح یا ذات اور آتما کا مطلب ہے روح یا خدا۔ ہندو ازم کے عقائد کے مطابق آتما برہمن کا کچھ حصہ ہے جو ہمارے اندر آ گیا ہے اور روح برہمن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے یعنی یہ خدا کا سر ہے۔
بدھسٹ کے عقائد بھی آتما اور پرماتما سے مماثلت رکھتے ہیں۔
۱۳۔ عقیدۂ تناسخ
تناسخ کا عقیدہ ہندو مذہب کا خصوصی شعار ہے جو اس کا قائل نہیں وہ ہندو دھرم کا فرد نہیں۔ باس دیو، ارجن کو عقیدہ تناسخ کی حقیقت سمجھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ موت کے بعد اگرچہ جسم فنا ہو جاتا ہے لیکن روح باقی رہتی ہے اور وہ اپنے اچھے اعمال کی جزاء اور برے اعمال کی سزا بھگتنے کے لئے دوسرے اجسام کے لباس پہن کر اس دنیا میں لوٹ آتی ہے اور یہ چکر غیر متناہی مدت تک جاری رہتا ہے۔
(موت کے بعد روح کے دیگر لباس پہن کر اپنے اعمال کے مطابق سفر کی روداد کو دیگر زندگیاں یا بار بار زندگی تصور کر لیا گیا حالانکہ یہ ایک ہی زندگی کے سفر کی روداد ہے جسے غلط معنوں میں لیا جا رہا ہے اور اسی تاریخی غلطی کو کرما کا نظریہ کہا جاتا ہے )۔
۱۴۔ کرما کا نظریہ KARMA
ہندو ازم اور بدھ ازم کے عقائد کے مطابق اس بار بار کے جینے مرنے کے تسلسل سے اس وقت ہی انسان کو نجات مل سکتی ہے جب وہ وجود حقیقی میں کھو جاتا ہے جب بھی روح مادہ کے قفس کو توڑ کر آزاد ہوتی ہے تو ہر قسم کے رنج و الم سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ اس عقیدے کی رو سے ایک بار مرنے کے بعد انسان دوسرے جنم میں کسی اور وجود میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہ وجود انسانی، حیوانی بلکہ نباتاتی بھی ہو سکتا ہے۔ پہلے جنم میں اس سے جو غلطیاں سر زد ہوئیں تھیں اس کے مطابق اس کو نیا وجود دیا جاتا ہے جس میں ظاہر ہو کر وہ طرح طرح کی مصیبتوں، بیماریوں اور ناکامیوں میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اگر اس نے اپنی پہلی زندگی میں نیکیاں کی تھیں تو اس کو ان کا اجر دینے کے لئے نئے وجود کا کوئی ایسا قالب بخشا جاتا ہے جس میں ظاہر ہونے سے اس کو اس کی گذشتہ نیکیوں کا اجر ملتا ہے اور اس طریقہ کار کو کرما (Karma) کا نظریہ کہا جاتا ہے۔
کم بیش اہل یونان کا بھی یہی عقیدہ تھا۔
داتا گنج بخش علی ہجویری اپنی کتاب کشف المحجوب میں اس نظر یے پر یوں تبصرہ کرتے ہیں۔
ملحد جو روح کو قدیم کہتے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں اور سوائے اس کے کسی اور شے کو فاعل و مدبر نہیں سمجھتے ارواح کو معبود قدیمی اور مدبر ازلی قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی روح ایک شخص کے جسم سے دوسرے شخص کے جسم میں چلی جاتی ہے اور یہ ایک ایسا شبہ ان لوگوں کا ڈالا ہوا ہے کہ جتنا اجتماع اور اتفاق اس پر ہوا ہے اتنا اور کسی شبہ پر خلق کا نہیں ہوا اس لئے کہ سچ پوچھو تو عیسائی بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اگرچہ بظاہر کہتے کچھ اور ہیں اور ہندو چین و ماچین میں تو سب کے سب لوگ اسی بات پر متفق ہیں، شیعوں قرامطیوں اور باطنیوں کا بھی یہی عقیدہ رہا ہے اور حلولیوں کے دونوں گروہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
(جب کہ آج جب روح کا مشاہدہ کیا جاتا ہے روحانی مشقوں کے ذریعے یا آج سائنس دان جو تجربات و مشاہدات کرتے ہیں وہ بھی یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ روح یونیورسل روح کا حصہ ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ روح یونیورسل روح کا حصہ ہے لیکن روح رب نہیں ہے۔ کرما کے نظریے کی بھی تصدیق کی جاتی ہے روح و باطنی اجسام کا مشاہدہ کرنے والے ان باطنی اجسام کی موجودگی کو کرما یا آواگون کے نظریات کی صدیق تصور کرتے ہیں
اور یہ غلط فہمیاں روح اور باطن سے لاعلمی پر مبنی ہے ہم جب روح اور باطن کی شناخت اور اس کی مسلسل وضاحت کریں گے تو خود بخود یہ غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔
۱۵۔ یہودی
ترجمہ:۔ اﷲ نے انسان کو زمین کی مٹی سے پیدا کیا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا (Genesis 2:7) ، HEBREW BIBLE
بائبل میں روح کی کچھ خاص تعریف موجود نہیں روح کی بہت سی وضاحتیں کلاسیکل لٹریچر میں ملتی ہیں۔ مثلاً
Kabba Lah (esoteric jewish mysticism) کے کام Zohar کے مطابق روح کو تین حصوں میں دیکھا گیا۔
(1) NEFESH – (2) – RUACH (3) NESHAMA-
۱۔ NEFESH۔ روح کا سب سے نچلا حیوانی حصہ یہ انسان کی جسمانی خواہشات سے تعلق رکھتا ہے۔ تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے اور جسم میں پیدائش کے وقت داخل ہوتا ہے۔ باقی کے دو حصے پیدائش کے وقت داخل نہیں ہوتے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ بنتے ہیں۔ اور ان کا بننا انسان کی حرکات اور اس کے اعتقادات پر منحصر ہوتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے یہ انہی لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو روحانی طور پر بیدار ہوں۔
۲۔ روح RUACH۔ یہ درمیانی روح یا Spirit ہے۔ اس میں اخلاقی پہلو پایا جاتا ہے اور یہ اچھے اور برے میں تمیز کرتی ہے اور اس کو ہم سائیکی (Psyche) اور Ego بھی کہتے ہیں۔
۳۔ NESHAM۔ سب سے اونچی درجے کی روح سب سے برتر حصہ۔ یہ انسان کو تمام تر زندہ چیزوں سے منفرد بناتی ہے اس کا تعلق انر سے ہے۔ یہ انسان کو زندگی کے بعد کے فائدوں سے لطف اندوز ہونے میں مدد دیتی ہے۔ روح کا یہ حصہ یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں کو پیدائش کے وقت دے دیا جاتا ہے یہ کسی بھی فرد کو اس کی موجودگی اور خدا کی موجودگی کا علم دیتا ہے۔ موت کے بعد نفس NEFESH ختم ہو جاتا ہے۔ روح (RUACH) کو ایک عارضی جگہ بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کی پاکیزگی کے عمل کے لئے ایک عارضی جنت میں بھیج دیا جاتا ہے۔ NESHAMA کو واپس پلاٹونک ورلڈ میں اپنے محبوب سے وصال کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔
۱۶۔ قرآن مجید
قرآن و حدیث میں نہ صرف روح، نفس جسم کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے بلکہ ان کی انفرادی شناخت اور تخلیقی و فنائی مراحل کا تذکرہ بھی ہے۔ مثلاً
(1) روح :۔ (رب امر ہے ) یہاں قرآن نے روح کو رب نہیں بلکہ رب کا حکم قرار دیا ہے۔ یہ تعریف دراصل روح کی واحد اور صحیح تعریف ہے۔
(2) نفس:۔ خواہش و ارادے سے منسوب ہے اس کی دیگر تفصیلات بھی موجود ہیں جنہیں سمجھنے کی یا جن سے استفادے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
(3) جسم :۔ جسم عمل سے منسوب ہے جسم کے مختلف تخلیقی مدارج کا ذکر قرآن میں تفصیلاً موجود ہے۔
تبصرہ، تجزیہ، موازنہ
تمام مذاہب (قدیم ہوں یا جدید) میں انسانی باطن (روح، نفس )کا تصور پایا جاتا ہے۔ یعنی یہ کوئی ایسا نیا یا انفرادی تصور نہیں ہے جیسا کہ آجکل کچھ ماڈرن لوگ روح و نفس کے ذکر کو توہم پرستی قرار دیتے ہیں۔ روح و نفس سے متعلق یہ رویہ انتہائی احمقانہ رویہ ہے۔ کیونکہ روح تو ہم خود ہیں لہذا خود کو توہم پرستی قرار دے کر خود کا انکار کرنا محض حماقت نہیں اس سے بڑی غلطی ہے۔
تمام مذاہب نے روح و نفس کی ایک سی تعریفیں کی ہیں لیکن تمام مذاہب میں ان روح، نفس سے متعلق مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں۔ درحقیقت روح و نفس مذہبی آفاقی اطلاعات ہیں اور یہ آفاقی اطلاعات اپنی جگہ درست ہیں لیکن ہر دور میں اور آج بھی ان آفاقی اطلاعات کو کوئی بھی پورے طور پر سمجھ نہیں پایا اس کی دو وجوہات ہیں۔
(1) آفاقی اطلاعات کو پورے طور پر سمجھا نہیں گیا دوسرے ان آفاقی اطلاعات میں فلسفیانہ اضافوں نے انہیں مزید الجھا دیا ہے۔ یعنی روح و نفس کی تعریف کرنے کی کوشش (جو کہ غلط کوششیں رہی ہیں ) نے ان اطلاعات کو خلط ملط کر دیا ہے۔
(2) دوسرے اکثر مذاہب میں انہیں سوامیوں اور فلسفیوں نے ترمیم و اضافے کر ڈالے ہیں۔ اور انہیں ترمیم و اضافوں نے روح و نفس کی تعریفوں کو بھی متاثر کیا ہے جس سے نت نئے فلسفوں اور روح سے متعلق نت نئے عقیدوں نے جنم لیا ہے جب کہ ان عقیدوں کا تعلق مذاہب سے نہیں بلکہ یہ عقیدے سوامیوں یا فلسفیوں کے قلم کا شاخسانہ ہیں اور ان عقیدوں (یعنی نظریات) میں وہی غلطیاں پائی جاتی ہیں جو کسی بھی فلسفی کے فلسفے میں متوقع ہوتی ہیں۔
ان بڑی اور بنیادی غلطیوں نے ہی دراصل روح و نفس کو ایسا گھمبیر مسئلہ بنا ڈالا ہے کہ آج تک نہ تو روح و نفس کی صحیح تعریف ممکن ہو سکی ہے نہ ہی مجموعی انسان کی تعریف ہی ممکن ہو سکی ہے۔ لیکن تمام تر ترمیم و اضافوں کے باوجود آج تک روح و نفس کی سب سے بڑی اور اہم تعریف مذاہب ہی نے کی ہے اس کے علاوہ تمام تر برسوں کے تجربوں اور مشاہدوں کے باوجود آج تک روح و نفس کی کوئی تعریف یا شناخت سامنے نہیں آ سکی ہے۔ مذاہب نے روح و نفس یا مجموعی انسان کی جو صحیح تعریف دی ہے اسی تعریف کو فلسفی یا روحانی پیشوا خلط ملط کرتے چلے آئے ہیں اور آج بھی یہی کر رہے ہیں۔ لہذا ہر مذہب میں روح، نفس، جسم کا تذکرہ تو موجود ہے لیکن ان تمام کو اور ان تمام کے اعمال و افعال کو گڈمڈ کر دیا گیا ہے۔ روح کے حصے بیان کئے گئے ہیں جب کہ یہ محض فلسفیانہ اطلاع ہے مذاہب نے روح کو حصوں میں تقسیم نہیں کیا یہ محض فلسفیانہ فکر ہے جو برسوں سے چلی آ رہی ہے۔
جن اجسام کو روح کے حصے بتا یا گیا ہے وہ اپنے علیحدہ انفرادی تشخص رکھتے ہیں وہ دراصل کیا ہیں۔ ان کی انفرادی حیثیت کیا ہے ، ان کی خصوصیات و اعمال کیا ہیں ان تمام تفصیلات کا ذکر آگے آئے گا۔
روح کے مادی دنیا سے جانے کے بعد عالم برزخ سے سفر آخرت تک کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا اور اس غلطی نے باطل عقیدوں کی صورت اختیار کر لی۔
نفس کی بھی انفرادی شناخت نہیں کی گئی نفس کے بعض اجزاء کو روح کے حصے قرار دیا گیا ہے اور نفس کو انفرادی حیثیت میں شناخت کرنے کے بجائے روح کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس غلط فہمی کو آگے دور کر کے نفس کی انفرادی شناخت قائم کی جائے گی۔
اکثر عقائد میں روح اور خالق کو ایک ہی شے تصور کیا گیا ہے جب کہ یہ مذہبی یا کائناتی اطلاع نہیں ہے یہ کوئی عقیدہ نہیں ہے بلکہ کائناتی اطلاع کو سمجھنے کی غلطی نے اس فلسفے کو جنم دیا ہے۔ مختلف اقوام میں روح کی پوجا کا رواج عام ہے اور اس عقیدے نے بھی اس غلط فہمی سے جنم لیا ہے کہ روح اور رب ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔
صرف قرآن نے نہ صرف ہر روح، نفس و جسم کی انفرادی تعریف اور شناخت قائم کی ہے بلکہ ان تمام کے تخلیقی و فنائی مدارج کا بھی ذکر کیا ہے لیکن قرآن سے لاعلمی اور علم میں پختگی نہ ہونے کے سبب آج تک کوئی عالم و فاضل ان آفاقی اطلاعات کو پورے طور پر سمجھ نہیں پایا۔ اگرچہ تھوڑا تھوڑا علم چند عالم و فاضل رکھتے ہیں لیکن یہ مجموعی انسان کا پورا علم نہیں ہے نہ ہی ہر روح، نفس و جسم کا انفرادی علم ہی موجود ہے۔ حالانکہ قرآنِ مجید نے انسان کے ہر انفرادی جز کی نشاندہی کی ہے تعریف اور تعارف بھی کیا ہے۔ لیکن ترجمہ کرنے والے حضرات اس فرق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے لہذا روح و نفس کا ایک ہی ترجمہ کرتے ہیں یا دونوں کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں یا روح و نفس کا ترجمہ جان کر دیتے ہیں۔ یہ محض لا علمی پر مشتمل غلطیاں ہیں۔ قرآن نے روح کو رب نہیں کہا بلکہ رب کا حکم قرار دیا ہے۔ یہی تعریف روح کی صحیح تعریف ہے۔ روح کی یہ واحد تعریف ہے جو اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ لہذا تمام مذاہب کی آفاقی اطلاعات درست تھیں اور درست ہیں لیکن ان اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی کی سوامیوں، روحانی پیشواؤں اور فلسفیوں نے اور اسی غلطی نے غلط عقائد کو جنم دیا جس کی وجہ سے آج تک انسانی تعریف ممکن نہیں ہو پائی۔ درج ذیل بحث سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
نتائج
(1)۔ تمام مذاہب میں انسانی باطن (روح و نفس) کا تصور پایا جاتا ہے۔
(2)۔ مذاہب نے روح کی انفرادی شناخت اور تعریف کی ہے۔
(3)۔ مذاہب نے نفس کی بھی انفرادی شناخت اور تعریف کی ہے لیکن آج تک نفس کی انفرادی تعریف موجود نہیں اور اسے روح کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے۔
(4)۔ مذاہب میں ترمیم و اضافوں سے روح و نفس کی تعریفیں متاثر ہوئی ہیں۔
(5)۔ روح و نفس کی مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے جس سے مختلف عقیدوں نے جنم لیا ہے۔
(6)۔ روح کو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
(7)۔ روح و رب کو ایک ہی شے تصور کیا گیا ہے۔
(8)۔ اکثر مذاہب میں ارواح کی پوجا کا رواج ہے۔
(9)۔ جب کہ قرآن میں یہ مذہبی معلومات اپنی صحیح حالت میں موجود ہیں لہذا قرآن نے نہ صرف روح و نفس، جسم کی انفرادی تعریف کی ہے بلکہ ان کی تخلیقی و فنائی ترتیب کو بھی بیان کیا ہے لیکن اسے آج تک سمجھا نہیں گیا یا اس علمی ذخیرے سے استفادے کی کوشش نہیں کی گئی۔
(10)۔ آواگون یا کرما کے غلط نظریے نے بنیادی عقیدے کی شکل اختیار کر لی ہے جب کہ اس غلط نظریے نے بھی مذاہب کی صحیح اطلاعات کو سمجھنے کی غلطی سے جنم لیا ہے۔ در حقیقت یہ بھی آفاقی نظریہ نہیں ہے۔
11۔ انسانی کام کی تاریخ کا جائزہ
اب یہاں تک پہنچ کر ہم انسان پہ ہو رہے مختلف ادوار کے کاموں کا تفصیلی و تنقیدی جائزہ لے آئے ہیں جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اگرچہ انسانی موضوع پر روح، نفس جسم، ارتقاء، کے حوالے سے صدیوں بہت کام ہوا اور ہو رہا ہے لیکن انسان کے تمام تر موضوعات پہ برسوں کی تحقیق و تجربات اور تمام تر کام کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام ادوار کے لوگ انسان سے متعلق انتہائی ابتدائی علم رکھتے تھے جو کہ محض مفروضوں پر مشتمل تھا۔ کبھی مجموعی انسان کا مکمل علم انسان کو حاصل نہیں ہوا اس لیے کہ انسان ظاہر مادی جسم کے علاوہ ایک وسیع و عریض باطن بھی رکھتا ہے اور انسان آج تک اپنے اس جہان باطن سے ناواقف رہا ہے نہ صرف ناواقف رہا ہے بلکہ اس ناواقفیت پے اصرار بھی کرتا رہا ہے۔ لہذا اگر کبھی کسی نے اس جہان باطن میں جھانک کر اسے بیان کرنے کی کوشش کی تو مادہ پرست انسانوں نے انہیں وہم پرست قرار دے کر ان کی اطلاعات کو توہمات قرار دے دیا۔ اگر انسان ان اطلاعات پر کان دھرتا اور اپنے اندر جھانک کر اپنے اندر آباد دنیا کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا تو یقیناً آج تک انسان کی تعریف سامنے آ چکی ہوتی آج انسان خود سے واقف ہوتا۔ انسان نے ہمیشہ اپنے آپ (اپنی روح اپنے نفس )کو واہمہ قرار دے کر ہمیشہ خود سے صرفِ نظر کیا جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ہزاروں برس کا انسان آج خود سے ناواقف ہے۔
اگرچہ آج جدید تحقیقات کے نتیجے میں سائنسدانوں نے انسان کے اندر اس وسیع جہان کا سراغ لگا لیا ہے لیکن اپنے آپ سے لاعلمی کے سبب ابھی تک وہ اسے شناخت نہیں کر پا رہا الجھ رہا ہے اس سے یہ معمہ سلجھ نہیں رہا۔ اور اب بھی یہ تعین نہیں ہو سکا کہ آخر انسان کیسے کیسے اجسام یا اجزاء کا کیسا مجموعہ ہے۔
یونانیوں نے پہلی مرتبہ انسان کو روح و جسم کا مجموعہ قرار دے کر اسے اس مجموعی حیثیت میں علمی دنیا میں متعارف کروایا۔ ورنہ اس سے پہلے تو فقط چند روحانی پیشوا روح سے واقف تھے۔ اور مادہ پرست مادی جسم کو ہی آخری حقیقت سمجھے ہوئے تھے وہ روح کے تصور تک سے آگاہ نہیں تھے۔
انسان کے جسم میں کوئی روح بھی ہے جو اس مادی جسم کی حرکت و زندگی کا سبب ہے۔ یہ یونانیوں کی فکری پیش قدمی تھی یہ فکر شاید انہوں نے اپنے مذہبی عقائد سے مستعار لی ہو۔ اس فکری پیشقدمی کے علاوہ افلاطون کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک روحانی تجربات و مشاہدات بھی رکھتے تھے۔ یعنی انسانی علم کی ابتداء یونانی دور میں ہو چکی تھی۔
یونانی فلسفیوں نے انسان کے حوالے سے روح، ذہن، نفس، ذات وغیرہ کا ذکر تو کیا لیکن وہ نہ تو نفس، ذہن یا روح کی انفرادی تعریف کر پائے نہ ہی مجموعی انسان کا معمہ حل کر پائے یعنی ان کے دور میں یہ انسانی کام اپنی انتہائی ابتدائی حالت میں نمودار ہوا اگرچہ وہ انسان کی تعریف نہیں کر پائے لیکن انہوں نے یہ کوشش ضرور کی اور انسان کی روح اس کے باطن کا تذکرہ کر کے آگے آنے والے محققوں کے لئے تحقیق کے در وا کر دئیے اور ان کی صحیح سمت کی طرف رہنمائی کی جسے بری طرح رد کر دیا گیا ان کے بعد آنے والے سائنسدانوں نے روح کو غیر مرئی قرار دے کر علم کی حدود سے خارج کر دیا اور فقط مادی جسم کو انسان قرار دے کر صدیوں اس پر کام کرتے رہے۔ اس طرز عمل سے انسان پر صدیوں کی گرد چڑھ گئی اور ابھی تو انسان کے علم کی ابتداء ہوئی ہی تھی کہ اسے وہیں ختم کر دیا گیا۔
مسلمانوں نے بھی جسم کے علاوہ روح و نفس کا تذکرہ کیا اور مجموعی انسان کی بھی تعریف کی لیکن یہ کام بھی بہت ہی ابتدائی نوعیت کا کام رہا جس سے مجموعی انسان کی تعریف ممکن نہیں ہو سکی۔ نہ ہی یہ کام علمی حیثیت میں سامنے آ سکا۔
تمام ادوار میں انسان اس کی روح اس کے نفس کی اتنی تعریفیں اور اتنی متضاد تعریفیں ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کچھ سمجھ ہی نہیں سکتا ہاں الجھ ضرور جاتا ہے۔ اب اگر ہم اپنے علم کی بنیاد پر کہیں کے ان صدیوں برسوں کی بے تحاشا اور متضاد تعریفوں میں سے انسان سے متعلق ایک آدھ تعریف ٹھیک تعریف بھی ہے۔ تو پھر اتنی اور متضاد تعریفوں میں سے اس ایک تعریف کو شناخت کرنا محال ہے۔ اور اگر کر بھی لیں تو یہ تعریفیں اتنی ابتدائی تعریفیں ہیں کہ جو تعریف کے معیار پر بھی پوری نہیں اترتیں۔
درحقیقت پچھلے تمام ادوار میں انسان پہ اتنے متضاد موضوعات پہ کام ہوئے ہیں کہ یہ جاننا محال ہے کہ انسان آخر ہے کیا؟ جو روح پے کام کرتے ہیں وہ کہ دیتے ہیں کہ اصل انسان تو روح ہی ہے۔ جو جسم پہ کام کرتے ہیں وہ آج تک یہی کہتے آئے ہیں کہ جسم ہی آخری حقیقت ہے۔ AURA کی دریافت کے بعد بھی کچھ لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر رضامند نہیں ہوتے اور اپنے قدیم نظریات پر اڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بحر حال ابھی تک نہ تو روح کی شناخت ہوئی ہے نہ نفس کی اور اب تو سائنسدان انسان کے اندر مزید AURA چکراز، سبٹل باڈیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن الجھ رہے ہیں۔ ابھی تک ان تمام کی انفرادی تعریف ہی ممکن نہیں ہو سکی۔ یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ انسان ان تمام باطنی لطیف اجسام کا مجموعہ ہے۔ تو نہ تو ابھی تک ان تمام اجسام کی شناخت ہو پائی ہے نہ ہی تعریف یا تعارف موجود ہے لہذا ان تمام کو مجتمع کر کے سادہ سے انسان کی مجموعی تعریف کرنا فی الحال محال ہے۔ یعنی ہزاروں برس سے انسان کا علم آج تک اپنی ابتدائی حالت میں ہی ہے۔
ہاں جب یونانیوں نے انسان کے باطن کی طرف اشارہ کیا تھا اگر اسی وقت ان کے بتائے ہوئے راستے کی طرف قدم اٹھائے جاتے اس صحیح سمت میں پیش قدمی ہوتی سیر حاصل تحقیق ہوتی تو نتائج یقیناً اچھے نکلتے آج انسان خود سے اپنے باطن سے یقیناً آگاہ ہوتا اور شاید مجموعی انسان کی حیثیت کا بھی تعین ہو جاتا۔
لیکن جب نہ سہی آج ہی سہی آج ہی اپنے آپ کو واہمہ کہنا چھوڑ دیجئے۔ آج بھی روح کا تذکرہ کیا جائے تو لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ کیسی انہونی بات کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج بھی انسان کے موضوع کو سنجیدگی سے لے لیجئے اور اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر خود کو دیکھیئے پہچانیے۔ اگر آج بھی انسان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ اسے کم از کم اپنے بارے میں تو علم ہوا سے خود کو تو جاننا ہی چاہئے۔ تب یہ علم اپنی ابتدائی حالت سے نکل آئے گا اور ہم خود کو شناخت کر لیں گے کہ آخر ہم کیا ہیں۔ آخر انسان کیا ہے ؟ لیکن ابھی تک انسان خود کو شناخت نہیں کر پایا ہے اور یہ انسان کا ابتدائی علم جس کا یہاں ہم نے تذکرہ کیا ہے یہ بھی محض چند لوگوں کے پاس ہے ورنہ انسانوں کی زیادہ تعداد اپنے بارے میں جانتی ہی نہیں۔ ابتدائی علم بھی نہیں رکھتی۔ اب یہاں جو ہم نے انسان پر ہو رہے تمام ادوار کے مختلف کاموں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور اس جائزے سے درج ذیل نتائج اخذ کئیے ہیں۔
تمام ادوار کے انسانی کاموں کے نتائج درجِ ذیل ہیں۔
۱۔ تمام ادوار کے محققین، فلسفی، سائنسدان، انسان کی مجموعی تعریف کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
۲۔ تمام ادوار کا کام انتہائی ابتدائی کام رہا ہے۔
۳۔ اور یہ تمام کام بے نتیجہ ہیں۔
۴۔ تمام ادوار میں مجموعی انسان کے اجزاء (روح یا، نفس یا، جسم )پہ انفرادی کام ہوا ہے۔
۵۔ ہر انفرادی کام( یعنی روح کا کام یا نفس کا کام یا جسم کا کام)ایک دوسرے سے غیر متعلق رہا ہے۔
۶۔ تمام ادوار میں کبھی مجموعی انسان(روح، نفس، جسم) پہ کام نہیں ہوا۔ اسلئے کہ آج تک کوئی انسان کی مجموعی حیثیت کو جان ہی نہیں سکا۔
۷۔ تمام ادوار میں روح کا تذکرہ موجود ہے۔
۸۔ روح کی خصوصیات کو روح کی تعریف کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
۹۔ روح کی تعریفوں میں روح کی تعریف ہی نہیں ہے۔
۱۰۔ تمام ادوار روح کی تعریف اور انفرادی شناخت کرنے میں ناکام رہے۔
۱۱۔ تمام ادوار میں روح کو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
۱۲۔ روح اور رب کو ایک ہی تصور کیا جاتا ہے۔
۱۳۔ تمام ادوار میں ارواح کی پوجا کا رواج رہا ہے۔
۱۴۔ ہر دور میں نفس کا ذکر موجود ہے۔
۱۵۔ نفس کی مروجہ تعریف غلط ہے۔ ہر دور میں نفس کی غلط تعریف کی گئی۔
۱۶۔ تمام ادوار نفس کی تعریف اور انفرادی شناخت کرنے میں ناکام رہے۔
۱۷۔ تمام ادوار میں اصل نفس کو روح یا روح کے حصے کے طور پر متعارف کروایا جاتا رہا۔
۱۸۔ مذاہب نے روح و نفس کی تعریف کی ہے۔
۱۹۔ مذاہب میں ترمیم و اضافے سے روح و نفس کی تعریفیں متاثر ہوئی ہیں۔
۲۰۔ روح و نفس کی مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے جس سے مختلف عقیدوں (ارتقاء آواگون )نے جنم لیا ہے۔
۲۱۔ قرآن نے نہ صرف روح و نفس، جسم کی انفرادی تعریف کی ہے بلکہ ان کی تخلیقی و فنائی ترتیب کو بھی بیان کیا ہے لیکن اسے آج تک سمجھا نہیں گیا یا اس علمی ذخیرے سے استفادے کی کوشش نہیں کی گئی۔
۲۲۔ تمام ادوار میں انسان کے باطنی وجودAuraکا ذکر موجود ہے۔
۲۳۔ تمام ادوار کی روحانی مشقوں اور تجربات میں سو فیصد مماثلت ہے۔
۲۴۔ یونانی ذہن، روح، نفس، جسم سے ابتدائی حیثیت میں متعارف تھے۔
۲۵۔ لیکن وہ ذہن، روح، نفس کی انفرادی شناخت نہیں رکھتے تھے۔
۲۶۔ یونانی فلسفیوں نے مادی جسم کے علاوہ انسان سے متعلق روح، ذہن و نفس کو پہلی مرتبہ علمی میدان میں متعارف کروایا۔ اس سے پہلے یہ علم مذہبی روحانی پیشواؤں تک محدود تھا۔
۲۷۔ ارتقائی نظریہ ہزاروں برس قدیم یونانی نظریہ ہے یعنی یہ ڈارونزم نہیں بلکہ یونانزم ہے
۲۸۔ ہر دور میں روح کے دوبارہ جانور کی شکل میں نمودار ہونے یا کرما اور آواگون جیسے مختلف النوع (متضاد) نظریات موجود رہے ہیں۔
۲۹۔ آواگون یا کرما کے غلط نظریے نے بنیادی عقیدے کی شکل اختیار کر لی ہے جب کہ اس غلط نظریے نے مذاہب کی صحیح اطلاعات کو سمجھنے کی غلطی سے جنم لیا۔ ثابت ہو گیا کہ ارتقاء کے حامی خود فریبی کا شکار اسے ایک مذہبی عقیدہ تصور کر کے اندھا دھند اس کے دفاع میں مصروف ہیں جب کہ نہ تو یہ مذہبی عقیدہ ہے نہ سائنسی نظریہ، یہ محض مفروضہ ہے جس کی بلاوجہ جھوٹی تائید کی جا رہی ہے۔
۳۰۔ ارتقاء سے متعلق رکازی ریکارڈ من گھڑت، افسانے جھوٹے، دلیلیں بے ثبات اور تمام مواد ردی ہے۔ جعل سازی سے مرکب اس رکازی ریکارڈ یا کباڑ کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں۔
۳۱۔ جب کہ جدید رکازات یا اصل رکازی ریکارڈ سے ثابت ہو گیا کہ تمام انواع اپنی موجودہ حالت میں لاکھوں برس پہلے بھی موجود تھیں۔
۳۲۔ جدید تحقیقات سے ثابت ہو گیا کہ ارتقاء نہیں ہوا تھا۔ (جینیاتی تغیر نہیں نوعی تسلسل حقیقت ہے )۔
۳۳۔ جدید دریافتوں سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ رفتہ رفتہ نہیں اچانک تخلیق ہوئی تھی۔
۳۴۔ جدید تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کسی حیوانی نسل کا تعلق انسانی نسل سے نہیں۔
۳۵۔ ماضی کا انسان (نہ صرف پورا انسان تھا حیوان نہیں تھا)بلکہ آج کے انسان سے زیادہ روحانی، ذہنی و جسمانی اعتبار سے مضبوط انسان تھا۔
وہ محض مادی ترقی ہی نہیں بلکہ روحانیت میں بھی درجہ کمال کو پہنچا ہو تھا۔
۳۶۔ جدید تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تمام انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔
۳۷۔ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ مجموعی انسان کی تعریف کی ہے۔ (لیکن یہ محض انتہائی ابتدائی تعریف ہے یہ کوئی انسانی علم نہیں، ہاں یوں ہے کہ انسان سے متعلق یہ انتہائی ابتدائی تعریف بھی پوری انسانی کام کی تاریخ میں ایک ہی ہے اور یہ ایک تعریف بھی صرف مسلمانوں کے ہاں موجود ہے )
۳۸۔ صرف مسلمانوں نے انسان کو تین نظاموں (روح، نفس، جسم) کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ ان سے پہلے اور ان کے بعد سب محققوں نے دو نظاموں کا ذکر کیا ہے۔ یعنی روح و جسم
۳۹۔ مسلمانوں نے صدیوں پہلے غیر سائنسی دور میں انسان (روح، نفس، جسم) کی جدید سائنسی تعریف کی ہے۔
۴۰۔ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ ہر روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کی۔ مسلمانوں نے ہر روح، نفس، جسم کی خصوصیات کا بھی ذکر کیا۔
۴۱۔ مسلمان روح یا جسم کی تخلیق یا فنائی ترتیب کے کچھ ٹکڑوں سے سرسری واقفیت تو رکھتے تھے لیکن وہ مجموعی ترتیب کو سمجھنے سے قاصر رہے لہذا وہ مجموعی انسان کی تخلیقی اور فنائی ترتیب کو ترتیب دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
۴۳۔ جدید محققین بھی سائنسی دریافتوں کی بدولت انسان کے باطن کو تو دریافت کر بیٹھے ہیں لیکن اسے کوئی حتمی نام نہیں دے پا رہے۔
۴۴۔ وہ لطیف اجسام کا مادی جسم سے ربط نہیں جوڑ پائے۔
۴۵۔ وہ ان تمام کا مقصد عمل اور خصوصیات نہیں جانتے اگرچہ کسی نہ کسی حد تک ان کے مادی جسم پر اثرات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔
۴۶۔ وہ ان تمام (AURA، چکراز، سبٹل باڈیز یا لطیف اجسام) کی انفرادی شناخت نہیں کر پائے۔ اگرچہ انہوں نے انہیں مختلف نام دے رکھے ہیں۔
۴۷۔ جدید محققین لطیف اجسام کے مشاہدے کے بعد آواگون جیسے نظریات کو درست سمجھنے لگے ہیں حالانکہ یہ محض ان کی غلط فہمی ہے
۴۸۔ تمام ادوار کی طرح جدید محققین بھی انسان کے باطن کے مشاہدے کے بعد بری طرح الجھ گئے ہیں۔ اور سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ "انسان ” کیسا راز ہے یعنی تمام ادوار کا کام بے نتیجہ رہا۔
۴۹۔ یعنی ہزاروں برس بعد آج بھی یہ معمہ "انسان” ابھی تک معمہ ہی ہے۔
۵۰۔ لیکن اب آگے ہم ان تمام الجھنوں اور غلط فہمیوں کو دور کر کے انسان کی تعریف پیش کریں گے۔ اور یہ تمام تر تعریف نئے نظریات پہ مشتمل ہو گی۔
ان تاریخی غلطیوں سے مندرجہ ذیل سوال سامنے آ رہے ہیں یہ سوالات اگرچہ ہر دور میں کھڑے ہوئے ہیں اور ہر دور کے محقق، سائنسدان، فلسفی، صوفی ان سوالات پر کام کرتے رہے ہیں لیکن ہزاروں برس کی تمام تر تحقیق و جستجو کے بعد آج بھی یہ تمام سوال جوں کے توں تشنہ ہیں۔
وہ سوال مندرجہ ذیل ہیں :۔
12۔ تاریخی سوال
۱۔ آخر مجموعی انسان کی کیا تعریف ہے؟
۲۔ انسان آخر کن کن اجسام کا کیسا مجموعہ ہے ؟
۳۔ روح کیا ہے؟ ہزاروں برس میں روح کی انفرادی شناخت بھی نہیں ہو پائی کیوں ؟
۴۔ کیا روح کے حصے بھی ہیں ؟
۵۔ کیا روح اور رب ایک ہیں ؟
۶۔ نفس کیا ہے ؟ اس کی انفرادی شناخت کیا ہے؟
۷۔ آواگون کے نظریے کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ مذہبی عقیدہ کیسے بن گیا؟
۸۔ ارتقاء جیسے جھوٹے مفروضے نے مذہبی عقیدے اور سائنسی نظریے کی صورت کیسے اختیار کی؟
۷۔ انسان کی تخلیق ہوئی یا ارتقاء۔؟
۸۔ انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟
۹۔ فنائی مراحل کیا ہیں۔؟
۱۰۔ کیا انسان مر کر فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔؟
۱۲۔ یا آخرت کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔؟
۱۳۔ یا وہ بار بار جنم لیتا ہے۔؟
۱۴۔ ) (AURA، چکراز کیا ہیں۔؟
۱۵۔ نظریۂ جبر و قدر کی کیا حقیقت ہے۔؟
۱۶۔ نظریۂ ہبوطِ آدم کیا ہے۔؟
۱۷۔ انسانی تعریف میں ناکامی کے کیا اسباب ہیں؟
۱۸۔ کیا انسان کی تعریف ممکن ہے۔؟
یہ علم انسان سے متعلق وہ سوالات ہیں جن میں صدیوں سے سائنسدان، فلسفی، محققین الجھے تو ہوئے ہیں لیکن انہیں کبھی سلجھا نہیں سکے۔ آئیے ان ہزاروں برس کی الجھنوں کو سلجھا کراس کتاب میں ان تشنہ سوالوں کے جوابات دیتے ہیں۔
حصہ دوئم : نئے نظریات
(تاریخی جواب )
انسان سے متعلق ارسطو، سقراط، بقراط، ڈارون، نیوٹن، آئن سٹائن، اسٹیفن ہاکنگ کے مد مقابل کئی سو نئے سائنسی نظریات
حصہ اول میں ہم نے انسان سے متعلق پرانے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے جبکہ
حصہ دوئم میں اب ہم نئے نظریات کے ذریعے برسوں کے حل طلب تشنہ سوالات کے جوابات دیں گے
اور پہلی مرتبہ انسان کی اور انسان کے ہر انفرادی جز(روح، نفس)کی تعریف اور تفصیلی تعارف پیش کریں گے
اور درج ذیل موضوعات پر نئے انداز میں نئے سائنسی نظریات پیش کریں گے۔
مادی جسم
زندگی کے بعد زندگی
نفس
روح
تخلیق
پیدائش۔
حرکت
عمل
موت
انتقال
آواگون
نظریۂ جبرو قدر
نظریۂ ہبوطِ آدم
AURA چکراز
13۔ انسان کی تعریف
ہر دور کے انسان نے انسان کی تعریف کرنے کی کوشش کی ہے اگرچہ اپنی اس کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوا لہذا آج تک حتمی طور پر یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پایا کہ آخر انسان ہے کیا ؟ یعنی آج تک انسان کی ایک بھی حتمی تعریف نہیں ہو سکی۔
اب ذرا ہم ان مختلف اور متضاد کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں جو انسان کی تعریف کے لئے کی گئی ہیں۔ سب سے پہلے انکسا مندر اور ابندرقلیس دو یونانی فلسفیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انسان کی موجودہ شکل ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ اس نے رفتہ رفتہ حیوانی حالت سے ارتقاء کی ہے۔
لہذا ارسطو نے بھی انسان کو سیاسی حیوان قرار دیا جس کی جبلت میں جوڑ توڑ آپس میں کھینچا تانی اور دوسروں پہ غلبہ حاصل کرنے کی خواہش ہے۔
اس کے بعد سے انسان کا یہی حیوانی تشخص مقبول عام ہوا لہذا چارلس رابرٹ ڈارون نے اس نظریے کو توسیع دی اور وضاحت کی کہ انسان کی تخلیق نہیں ہوئی بلکہ پانی میں یک خلوی جرثومے سے زندگی کا آغاز ہوا اور رفتہ رفتہ ارتقاء کے ذریعے انسان موجودہ صورت میں بوزنے APE سے پروان چڑھا۔
مارکس نے انسان کو معاشی حیوان قرار دیا جس کی سوچ اور فکر کا دارومدار محض اس کا پیٹ ہے۔ جب کہ تھامس کارلائل نے کہا کہ انسان معاشرتی حیوان ہیں جو مل جل کر معاشرے کو جنم دیتے ہیں بستیاں بساتے ہیں قانون وضع کرتے ہیں۔
حزلٹ نے انسان کو شاعرانہ جانور کہا جب کہ بنجمن فرینکلن نے اسے ہتھیار بنانے والا حیوان قرار دیا کسی نے حیوان ناطق کہا تو کسی نے تقلید کرنے والا حیوان کسی نے اسے قوی الفکر حیوان قرار دیا۔
صدیوں سے ایک مخصوص طبقہ خصوصاً ارتقاء پرست انسان کو حیوان ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ ارسطو، ڈارون، مارکس یا سقراط، بقراط، سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس کی اور کونسی تعریف صحیح ہے؟جواب یہ ہے کہ یہ تمام تعریفیں انسان کی تعریفیں ہیں ہی نہیں اور جب ان میں سے کوئی انسانی تعریف ہے ہی نہیں تو پھر صحیح اور غلط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں حیوانوں کے بالمقابل انسان کی کچھ انفرادی خصوصیات کا تذکرہ ہے اور انسان کی کچھ خصوصیات انسان نہیں انسان تو ہزاروں خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ ہاں ان تعریفوں کو انسان کو حیوان ثابت کرنے کی کوششیں ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ کوششیں بھی ناکام کوششیں قرار پائیں اس لئے کہ جدید تحقیقات سے ثابت ہو گیا کہ انسان کا کبھی کسی حیوانی نسل سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ انسان ابتداء سے انسان ہی ہے۔ لہذا یہ تعریفیں انسانی تعریفیں ہیں ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں انسانی تعریفوں میں انسان کی کوئی صحیح تعریف بھی موجود ہے اور اگر ہے تو پھر صحیح تعریف کا تعین کیسے ہو گا۔
AURA کی دریافت اور جدید تحقیقات کے نتیجے میں اب انسان کی تعریف کا رخ بدل گیا۔ لہذا انسان کو حیوان یا فقط مادی جسم کہنے والے کہنے لگے کہ انسان اپنے جسم سے عظیم تر ایک چیز ہے اور اس پیمانہ خاکی سے باہر چھلک رہا ہے۔
لہذا اب اس سوال کی کوئی اہمیت یا حقیقت نہیں ہے کہ انسان حیوان ہے یا نہیں بلکہ آج یہ سوال اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ
آخر انسان کیسے کیسے اور کتنے اجسام کا کیسا مجموعہ ہے۔؟
14۔ انسان کیسا مجموعہ ہے ؟
ہزاروں برس سے آج تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ آخر انسان کیسا مجموعہ ہے۔ ہر دور میں روح و جسم کا بھی تذکرہ ہوتا رہا اور آج بھی سائنسدان سائنسی طریقوں سے اس کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں اور اُلجھ رہے ہیں۔ اور آج بھی یہ سوال جوں کا توں ہمارے سامنے موجود ہے کہ آخر !
انسان کتنے اور کیسے کیسے اجسام کا کیسا مجموعہ ہے؟
اور آخر اس کے اندر کتنے اور کیسے کیسے نظام کام کر رہے ہیں۔ جتنا انسان اپنے اندر جھانک کر دیکھتا ہے اتنا ہی الجھتا چلاجا رہا ہے۔ اور ہزاروں برس سے انسان اسی الجھن میں مبتلا ہے مثلاً
یونانی فلسفیوں نے انسان کو دو نظاموں یا دو جسموں کا مجموعہ قرار دیا تھا یعنی انہوں نے انسان کو جسم و ذہن کا مجموعہ قرار دیا۔ یونانی فلسفی ذہن اور روح میں امتیاز نہیں برتتے تھے اور ذہن کو روح سے تشبیہ دیتے تھے۔ لہذا ذہن سے ان کی مراد روح ہوتی تھی یعنی یونانی فلسفیوں کے مطابق انسان "روح و جسم کا مجموعہ ہے "اگرچہ یونانیوں نے انسان کو دو نظاموں یعنی روح و جسم کا مجموعہ قرار دیا لیکن غیر اختیاری طور پر انہوں نے ایک تیسری سمت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ مثلاً سقراط نے روح و جسم کے علاوہ ذات اور نفس کا بھی تذکرہ کیا جب کہ ارسطو نے دو روحوں، روح حیوانی اور روح انسانی کا تذکرہ کیا۔ افلاطون کی تحریروں میں بھی نفس کا تفصیلی تذکرہ ہے۔ یعنی یونانی فلسفی اپنے مذہبی عقیدوں یا روحانی مشاہدات و تجربات کی بدولت کسی نہ کسی حد تک کچھ نظاموں سے آگاہ تو تھے لیکن وہ انہیں صحیح طو ر پر شناخت نہیں کر پائے۔ وہ انسان کو دو نظاموں کا مجموعہ بھی قرار دیتے ہیں اور غیر اختیاری طور پر کسی تیسری سمت کسی تیسرے نظام کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ یونانیوں کی طرح آج کے جدید محقق بھی انسان کو دو نظاموں جسمانی اور اثیری کا مجموعہ قرار دیتے ہیں جب کہ وہ انسان کے اندر محض دو نظام نہیں بلکہ ایک نیا ہی جہان دریافت کر بیٹھے ہیں۔ جس کی تعداد کا تعین بھی نہیں کر پائے ہیں آج تک۔
جب کہ مسلمانوں نے انسان کو تین نظاموں کا مجموعہ قرار دیا یعنی انسان تین جسم یا تین روحوں سے مرکب ہے اسے انہوں نے تین کرنٹ بھی کہا۔ اور انسان کو روح نفس و جسم کا مجموعہ قرار دیا۔
مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور عیسائی اقوام میں بھی روح و نفس کا تصور پایا جاتا ہے اور دونوں کی مذہبی کتابوں میں روح و نفس کا تذکرہ موجود ہے لیکن مذہبی کتابوں کی اطلاعات کو کسی نے سمجھنے کی زحمت نہیں کی جب کہ کلاسیکل لٹریچر میں ہمیں کہیں نہ کہیں کچھ معلومات مل ہی جاتی ہیں مثلاً Kabbalah (esoteric jewish mysticism) کے کام Zohar کے مطابق انسان سے وابستہ تین اجسام کا سراغ ملتا ہے۔
(1) Nefesh. (2) Ruach. (3) Neshama
قدیم چینیوں نے بھی مادی جسم کے علاوہ دو مزید اجسام کا تذکرہ کیا جسے انہوں نے 1. P.O. 2. HUN کہا۔
قدیم مصریوں نے بھی مادی جسم کے علاوہ دو مزید اجسام کا تذکرہ کیا انہوں نے ان اجسام کو بع اور کع کے نام سے پکارا جب کہ مختلف عقائد میں دو اجسام کے تذکرے کے علاوہ ہمیں مختلف النوع قسم کے عقائد بھی ملتے ہیں۔
مثلاً ایک وسیع پیمانے پر عقیدہ کی حیثیت رکھنے والا آواگون کا نظریہ یا عقیدہ ہے۔ جس کے مطابق انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتا ہے۔ دوسرے جنم میں اسے ایک دوسرا جسم ملتا ہے وہ جسم انسانی، حیوانی بلکہ نباتاتی بھی ہو سکتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یعنی ایک جسم ختم ہوتا ہے تو دوسرے جنم میں انسان کو کوئی دوسرا جسم دے کر دوبارہ زندگی دے دی جاتی ہے۔
اس حساب سے تو یہ اندازہ لگا نا دشوار ہے کہ انسان کتنے اور کیسے کیسے نظاموں کا مجموعہ ہے۔ اس عقیدے کے حساب سے تو ہر انسان کے بارے میں الگ حساب لگانا ہو گا کہ اس انسان کو کتنے اور کیسے کیسے جنم ملے کبھی وہ کسی سبزی کے روپ میں ظاہر ہوا کبھی جانور کبھی درخت اور کبھی کسی اور روپ میں۔ لہذا یہ حساب کتاب انسانی بس کا نہیں ہے۔
قدیم ادوار میں یونانی، رومی، ہندو اور عیسائی اقوام میں ان کی مذہبی شخصیات کی تصاویر اور مجسموں میں مادی جسم کے علاوہ ان کا ہیولا بھی دکھایا جاتا تھا جسے انگریزی میں ہالو Halo قدیم یونانی میں AURA اور لاطینی میں AUREOLA کہا جاتا تھا۔ جس کا تذکرہ صدیوں سے ہو رہا تھا آج اسی AURA کی جدید سائنسی دریافت بھی ہو گئی اور اس انسان کے باطنی لطیف وجود AURA کے اندر مزید سات اجسام (Subtle Bodies) بھی دریافت کر لئے گئے ہر سات اجسام کے سات مختلف لیول اور سب لیول ہوتے ہیں۔ سائنسدان AURA کے اندر چکراز کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ سات بنیادی چکراز ہوتے ہیں جب کہ سات کے علاوہ بھی AURA میں مزید چکراز دریافت ہوئے ہیں۔ یعنی جدید تحقیقات کے مطابق تو دو، تین یا سات نظاموں سے بھی کہیں زیادہ نظام انسان کے اندر دریافت ہو چکے ہیں اور یہ دریافتیں ابھی جاری ہیں۔
آج انسان، انسان کے اندر Subtle Bodies, Chakras, AURA کا مشاہدہ تو کر رہا ہے لیکن اجسام کے چکر کو سمجھ نہیں پا رہا اور اس اجسام کے چکر کو کچھ لوگ آواگون سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ سات جنموں سات جسموں اور انسان سے وابستہ اجسام میں مماثلت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ آواگون کے عقیدے دو نظاموں ، تین نظاموں یا جدید دریافتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کوئی مماثلت نہیں۔
آخر انسان کے مادی جسم سے کتنے اور کیسے کیسے اجسام یا نظام وابستہ ہیں وہ ان نت نئے اجسام اور نظاموں کے چکر میں بری طرح الجھ چکا ہے اور اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انسان کیسا مجموعہ ہے ؟اور آج تک انسان مجموعی انسان کی تعریف کا تعین کیوں نہیں کر سکا؟
آج پہلی مرتبہ اپنے نئے نظریات میں انہی سوالوں کے جوابات دیں گے ان الجھنوں کو دور کر کے
(1) انسان کے انفرادی اجزاء کو متعارف کروائیں گے۔
(2) اور مجموعی انسان کی تعریف بھی کریں گے۔
اور وضاحت کے ساتھ بتائیں گے کہ انسان کتنے اور کیسے کیسے اجسام یا نظاموں کا مجموعہ ہے۔
تاریخی سوالات میں ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ انسان کی تعریف کیا ہے اب ہم اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انسان کی نئے نظریات کے ذریعے اصل تعریف کرتے ہیں۔
نئے نظریات
15۔ انسان کی اصل تعریف
نظریہ نمبر(۱):۔ (انسان جسم، روح اور نفس کا مجموعہ ہے۔)
جسم +روح + نفس = انسان
صدیوں سے موضوعِ انسان پر کام ہو رہا ہے اور انسان کی بے شمار تعریفیں بھی کی گئی ہیں۔ ہر دور میں روح، نفس اور جسم بھی موضوع بحث رہے ہیں لیکن یہ تمام بحث بے نتیجہ رہی ہے۔ ماضی میں بھی محض ایک بار یہ دعویٰ کیا گیا کہ انسان روح، نفس و جسم کا مجموعہ ہے لیکن ہزاروں برس میں فقط اتنا کہ دینا انسانی تعریف کے زمرے میں نہیں آتا۔ اب اگر ہم نے یہاں یہ کہا ہے کہ انسان روح، نفس جسم کا مجموعہ ہے تو اب ہم اس تعریف کی مسلسل وضاحت کریں گے۔ انسان کے ہر انفرادی جز کی تعریف کریں گے اور مجموعی انسان کی تعریف کریں گے۔
۱۔ روح کی انفرادی شناخت قائم کریں گے، روح کی تعریف تعارف اور مسلسل وضاحت کریں گے مادی جسم سے اس کا ربط قائم کریں گے
۲۔ نفس کی اصل شناخت قائم کریں گے اس کا تفصیلی تعارف پیش کریں گے ورنہ آج سے پہلے نفس کی صحیح تعریف ہی نہیں کی جا سکی اور آج نفس بے بنیاد مفروضہ تعریفوں کے ساتھ موجود ہے۔
مادی جسم کا علم بھی روح و نفس کے تعارف و تعریف سے مکمل ہو گا ورنہ آج سے پہلے روح و نفس سے ناواقفیت کے سبب مادی جسم کا علم بھی ادھورا تھا۔
پھر ہر روح، نفس جسم کو مربوط کر کے مجموعی انسان کی تعریف کریں گے تب جا کر یہ تعریف مکمل ہو گی کہ انسان روح نفس جسم کا مجموعہ ہے اور یہی ہو گی انسان کی تعریف اور یہی ہو گا انسان کا علم اور انسان کی ایسی مجموعی تعریف پہلی مرتبہ ہو رہی ہے۔
ورنہ آج سے پہلے مجموعی انسان کی کوئی تعریف سامنے نہیں آ سکی کہیں صرف روح پہ کام ہوا ہے تو بے نتیجہ روح کی شناخت تک ممکن نہ ہو سکی۔ کہیں نفس پہ کام ہوا ہے تو مفروضوں پے کہیں محض جسم و روح پہ ادھورا کام ہوا بھی تو ایسے کہ چند ماورائی قصے اکھٹے کر کے ان کی اپنے اپنے عقیدوں کے مطابق تجزیے و تخمینے لگا کر الٹے سیدھے نتائج برآمد کر لئے جاتے ہیں جو کہ طریقہ ہی غلط ہے۔
انسان روح، نفس و جسم کا مجموعہ ہے اور کبھی بھی انسان پہ اس مجموعی حیثیت میں سنجیدہ کام نہیں ہوا۔ لہذا ماضی میں انسانی کام کی پوری تاریخ میں انسان پہ جو بھی کام ہوا نتائج برآمد نہیں ہو سکتے یا غلط کوششوں سے صحیح نتائج برآمد نہیں ہو سکتے یہی وجہ ہے کہ آج تک انسان کی تعریف سامنے نہیں آ سکی۔
تمام تر تعصبات کو بالائے طاق رکھ دیجئے اور آئیے دیکھیئے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ آخر انسان ہے کیا؟
باب نمبر۲: مادی جسم
16۔ مادی جسم
عام روز مرہ اور سائنس کی زبان میں جسم گوشت پوست کے وجود کا نام ہے جو چند گرام کے نطفہ سے وجود میں آتا ہے۔ سائنس کے مطابق انسانی جسم 156 عناصر سے مرکب ہے انسانی مادی وجود میں وہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں۔ دل جگر گردے ، رگ پٹھوں کے علاوہ انسان کے اندر بے شمار مادی و برقی نظام کام کر رہے ہیں انسان کائنات کی پیچیدہ ترین مشینری ہے۔ اور آج ہم اس تمام نظام سے واقف ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کہ ہم انسانی اعضاء، عناصر، عوامل سب سے واقف ہیں پھر بھی ہم ان سب کو صحیح مقداروں اور تناسب سے اکٹھا کر کے انسانی شکل دینے سے قاصر ہیں۔ نہ ہی ہم خلیوں کو مربوط کر کے جسم تخلیق کر سکتے ہیں۔ مٹی سے بت تو بنا لیا جاتا ہے کینوس پر تصویر تو بنا لی جاتی ہے۔ لیکن یہ انسان نہیں بے جان و بے حرکت ہیں ان میں انسانوں کی سی حرکت اور انسانی خصوصیات پیدا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ روبوٹ بھی انسان کے ہم پلہ نہیں وہ محض مشین ہے۔ جب کہ سائنسدان کلون انسان تیار کر کے اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ اس نے از خود انسان تیار کر لئے۔ جب کہ یہ کلوننگ سے تیار شدہ انسان کسی بھی اعتبار سے اصل انسان کے ہم پلہ نہیں اور نہ ہی ہو سکتے ہیں۔ بحر حال یہ ہر لحاظ سے منفرد خون و گوشت، عضلات، رگ پٹھوں خلیوں و عناصر کا مجموعہ جسم مادی جب موت کا شکار ہوتا ہے تو یہ انتہائی پیچیدہ متحرک مشینری یکلخت غیر متحرک ہو جاتی ہے۔ اور پھر موت کے بعد کچھ ہی دنوں میں یہ متحرک وجود مٹی میں مل کر مٹی ہی کا حصہ بن جاتا ہے۔ اب شناخت مشکل ہے کہ مٹی کونسی ہے اور جسمانی ذرات کونسے ہیں۔ پورا وجود جو جسمانی صورت میں موجود تھا چند ہی دنوں میں اس کا وجود بھی نہ رہا کیوں ؟ یہی انسانی مادی جسم کی حقیقت ہے ، ہڈیاں خون، گوشت، دماغ پورے وجود کی حقیقت یہ ہے کہ پورے وجود کا نشان مٹ جاتا ہے فقط موت کی صورت میں پورا انسان مٹی ہو جاتا ہے۔ بظاہر نظر آنے والا وجود درحقیقت اسی مٹی (مادہ ) ہی کی ایک شکل تھا یعنی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ اسی مٹی کے وجود اسی حضرتِ انسان کے دم قدم سے ہیں دنیا کے تمام تر کاروبار۔
مادی جسم کے بارے میں سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ جسم ایک نطفے سے خود بخود صحیح و سالم انسان بن جاتا ہے مزید یہ کہ جسمانی نظام کی اندرونی و بیرونی انتہائی پیچیدہ حرکت و عمل بھی خود کار ہے۔ اگر میں یہ کہہ دوں کہ سوئی کا بنانے والا کوئی نہیں ہے بلکہ یہ خود بخود بن گئی ہے تو یہ بات ہر عقلمند کے لیے ناقابل قبول ہو گی جب ہر جاننے والا یہ جان سکتا ہے کہ ایک سوئی تک خود نہیں بن سکتی تو آپ کی سمجھ میں یہ بات کیوں سما گئی ہے کہ دنیا کی سب سے پیچیدہ مشینری مادی جسم خود بخود بن جاتا ہے ا اور کوئی اس کا بنانے والا اور ڈیزائن کرنے والا نہیں ہے۔ اور یہ کیسے آج تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے پیچیدہ مشینری کی اندرونی و بیرونی انتہائی پیچیدہ حرکت و عمل محض خود کار ہے۔ سائنسدان مادی جسم کے اندرونی و بیرونی نظاموں کی تو بڑی وضاحت کرتے ہیں، یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ کیا شے ہے جس سے یہ مشینری خود کار متحرک ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں کہ یہ انتہائی متحرک پیچیدہ مشینری محض موت کی صورت کیسے یکلخت پتھر سے بھی زیادہ بے جان اور بے حرکت ہو جاتی ہے۔ تمام تر دماغی، جسمانی صلاحیتوں کے باوجود ایک تندرست و توانا متحرک وجود کیسے یکلخت ہی موت کے سبب بے جان بے حرکت ہو جاتا ہے کیسے ایک عظیم الشان انسان چند دنوں میں ہی مٹی میں مل کر بے نشان ہو جاتا ہے ؟کہ پورے وجود کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ سوال یہ ہے کہ
کیسے جسمانی مشینری کی اندرونی و بیرونی حرکات خود کار ہیں۔؟
وہ کیا شے ہے جس کی موجودگی سے مادی جسم زندہ و متحرک ہے۔؟
وہ کیا شے ہے جس کی غیر موجودگی سے جسم جسم ہی نہ رہا بے نشان ہو گیا؟
کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے۔؟
اب اگرچہ ان سوالوں کے جواب میں کچھ لوگ انسانی جسم کی زندگی اور حرکت و عمل کا سبب روح کو سمجھنے لگے ہیں لیکن وہ اس کا نہ تو اعتراف کرتے ہیں نہ ہی انہیں روح پر یقین ہے اس لیے کہ روح ان کے لیے ایک معمہ ہے اس لیے کہ بے تحاشا تحقیق کے باوجود بھی وہ روح کو شناخت نہیں کر پائے لہذا آج بھی مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے والے بلا تعامل یہ کہتے ہیں کہ جسمانی نظام میں روح جیسی کسی شے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر جسمانی نظام میں روح کا کوئی عمل دخل نہیں تو پھر ان تمام سوالوں کے کیا جواب ہیں۔؟ ظاہر ہے روح کا انکار کرنے والے مادی جسم سے متعلق ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے۔ اب میں اس کتاب میں انہیں برسوں کے تشنہ سوالوں کے جوابات دوں گی۔
اگرچہ مادی جسم پر بے تحاشا سائنسی کام ہو چکا ہے اور مزید جاری ہے لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ روح کے تذکرے کے بغیر مادی جسم کا علم نا مکمل ہے۔ اس لیے کہ روح ہے تو جسم ہے روح نہیں تو جسم بھی نہیں ہے۔ اور اس بات کے تو سائنسی شواہد میسر آ گئے ہیں کہ انسان محض جسم نہیں ہے اور انسان کے باطنی لطیف وجود کی نہ صرف تصویر کشی کر لی گئی ہے بلکہ اس پر کافی تحقیق اور تجربات بھی ہو رہے ہیں۔ اگرچہ انسان کا باطن ابھی اسرار میں ہی لپٹا ہوا ہے اور غیر واضح ہے پھر بھی آج انسان کو صرف جسم نہیں بلکہ روح و جسم یعنی دو نظاموں ظاہری و باطنی کا مجموعہ تصور کیا جا رہا ہے۔
جب کہ یہاں میں نے انسان کو دو نہیں بلکہ تین نظاموں یعنی روح، نفس، جسم کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ تین نظاموں کا ذکر بھی ماضی میں ایک آدھ بار ہو چکا ہے لیکن محض اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے اب میں نے جو یہاں انسان کو روح، نفس، جسم کا مجموعہ کہا ہے تو اب میں اس نظریے کی مسلسل وضاحت کروں گی اور مادی جسم کی روح و نفس سے تعلق کی مسلسل وضاحت کروں گی۔ لہذا کچھ لوگ یہ کہ رہے ہیں کہ مادی جسم میں روح کی کوئی گنجائش نہیں جب کہ میں اب یہاں مادی جسم کا تذکرہ نہ صرف روح کے حوالے سے کروں گی بلکہ میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ انسان محض مادی جسم یا روح ہی نہیں بلکہ انسان کے اندر ایک نفس بھی ہے۔ یہ نام تو اگر چہ سب نے سن رکھا ہے اور سب بڑھ چڑھ کر اس کا تذکرہ بھی کرتے ہیں لیکن در حقیقت نفس ہے کیا یہ کوئی نہیں جانتا۔
لہذا روح سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ نفس کیا ہے اور انسانی جسم میں نفس کا کیا عمل دخل ہے۔
باب نمبر۳: نفس AURA
کل نفس ذائقتہ الموت
(ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے )
17۔ نفس
پچھلے صفحات میں ہم جائزہ لے آئے ہیں کہ ماضی کے ہر دور میں نفس کا تذکرہ ہوا ہے آج بھی نفس، نفسیات پر بے تحاشا مواد کتابیں، علوم موجود ہیں اور اب تو نفسیاتی تجربہ گاہیں بھی قائم ہیں، نفسیات دان بھی بہت ہیں۔
لیکن یہ خود نفس کیا ہے؟
ہزاروں برس سے آج تک نفس یا نفسیات کو مطالعہ ذہنی تصور کیا جاتا ہے نفسیات میں انسان کا کردار، شخصیت، خیالات، احساسات، خواہشات موضوع بحث رہے ہیں نفسیاتی ماہرین انسان کے بعض پیچیدہ نفسانی یا نفسیاتی مسائل پر مختلف حوالوں سے تجزیے اور جانچ پڑتال کرتے رہے ہیں اور نفسیات دانوں کے خیال میں یہی ہے نفسیات۔ اور نفسیات دانوں کے یہ خیالات سو فیصد غلط ہیں۔ درحقیقت آج تک نفس کو کوئی خیال کوئی خواہش تصور کیا جاتا رہا ہے ، خواہش بھی نفسانی خواہش، اور یہ نفس کی مفروضہ تعریف ہے۔
درحقیقت یہ تعریف نفس کی تعریف ہی نہیں یہ محض مفروضہ ہے کہ نفس کوئی خیال کوئی احساس، کردار یا خواہش ہے ، ذہن بھی نفس نہیں۔ نفس کی آج تک تعریف کی ہی نہیں گئی۔ اسی مفروضہ اور غلط تعریف پہ نفس اور نفس کے علوم کی بنیاد ہے یعنی نفس کے موجودہ علوم مفروضہ علوم ہیں۔
اگر نفس ذہن، کردار یا خواہش نہیں تو پھر نفس کیا ہے؟
۔18نفس کیا ہے؟
سوال۔ نفس کیا ہے؟
آئیے اس تاریخی سوال کا صحیح جواب دیتے ہیں۔
نفس کا تصور ہر دور ہر عقیدے میں پایا جاتا ہے۔ ہر دور میں نفس کی تعریف بھی کی گئی ہے اور ہر دور میں ہمیشہ ہی نفس کی غلط تعریف کی گئی ہے آج تک نفس کی شناخت نہیں ہو پائی کہ آیا یہ نفس جس کا اتنا چرچا ہے۔ یہ ہے کیا؟
دراصل نفس ایک مذہبی اطلاع ہے۔ جسے کبھی بھی سمجھا نہیں گیا۔ ہر دور کا انسان نفس سے متعارف تو ہے لیکن نفس سے لاعلمی کے سبب آج تک وہ نفس کی نفس کے طور پر شناخت نہیں کر پایا۔ لہذا نفس سے لاعلمی اور نفس کی شناخت نہ ہو سکنے کی سبب آج ہم ایک ہی نفس سے دو مختلف حیثیتوں میں متعارف ہیں۔
(1)۔ نفس
(2)۔ اصل نفس
(۱)۔ نفس
ہر دور کے انسان نے نفس کو خواہش قرار دیا ہے خواہش بھی محض نفسانی خواہش۔ اور ہر دور کا انسان نفس سے اسی حیثیت میں متعارف رہا ہے۔ اور آج نفس کی اسی حیثیت میں بے تحاشا تعریف کی جاتی ہے ، بے تحاشا کتابیں لکھی جاتی ہیں، نفسیاتی علاج کئے جاتے ہیں، نفسیاتی معالجوں کے ڈھیر موجود ہیں اور آج نفس ایک نفسیاتی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن یہ نفس جس پر بے تحاشا کام ہو رہا ہے کتابیں لکھی جا رہیں ہیں کیا یہ نفس محض مفروضہ خواہش ہے۔؟ جی نہیں۔
نفس کسی خواہش کا نام نہیں ہے۔ ہاں خواہش اور نفسانی خواہش نفس کی بے تحاشا خصوصیات میں سے محض دو خصوصیات ہیں نفس اپنی تمام تر خصوصیات سے منفرد ایک الگ شے ہے۔ ہر دور کے لوگوں نے نفس کی یہی مفروضہ تعریف کی ہے۔ لیکن یہ تعریف نفس کی تعریف نہیں ہے۔ آج نفس کے تمام موجودہ علوم میں نفس کا تذکرہ ہی موجود نہیں۔ یہ تمام علوم جو نفس کے عنوان کے ساتھ آج موجود ہیں دراصل نفس کے علوم نہیں ہیں۔ ہم آج جس حیثیت میں نفس سے متعارف ہیں وہ نفس ہے ہی نہیں۔
تو پھر اصل نفس کیا ہے؟
(2) اصل نفس
اصل نفس سے بھی ہر دور کا انسان متعارف رہا ہے۔ نفس کا یہ تعارف بہت ہی مخصوص اور محدود طبقہ تک محدود رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہمیں اصل نفس کا کوئی ایک آدھا ہی تبصرہ ملتا ہے۔ اس مخصوص اور محدود تعارف کے باوجود انسان نفس سے نہ صرف متعارف رہا ہے بلکہ اسے شناخت بھی کرتا رہا ہے بلکہ اس کی خصوصیات سے بھی کسی حد تک واقف رہا ہے۔ اور یہ واقفیت آج کا انسان بھی رکھتا ہے۔ لیکن ہر دور کا انسان اور آج کا انسان اصل نفس سے واقفیت کے باوجود اصل نفس کو نفس کے طور پر شناخت نہیں کرتا۔
ہر دور کے انسان نے اصل نفس کو ہمیشہ دیگر ناموں سے پکارا ہے جب کہ نفس کی تعریف نفس کی شناخت نفس ہی کے نام سے ہونی ضروری ہے تاکہ انسانی تعریف میں موجود بے تحاشا ابہام کا خاتمہ ہو۔ اور انسانی تعریف ممکن ہو سکے۔ جیسا کے میں نے بتایا کہ نفس مذہبی آفاقی اطلاع ہے جو ہر آسمانی مذہب نے انسان کو دی ہے، اور ہر مذہب کی اس آسمانی اطلاع نفس کو ہر مذہب کے انسانوں نے سمجھنے میں غلطی کی
مثلاً ٹی وی پر ایک نامور عالم ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے خطاب میں کہہ رہے تھے۔
ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ کائناتی اطلاع ہے۔
اس کا ترجمہ انہوں نے انگلش میں یوں کیا۔ (Every Soul Shall be died) یعنی ہر روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ ترجمہ غلط ہے۔
نفس کا ترجمہ روح کیا گیا جب کہ نفس اور روح میں امتیازی فرق موجود ہے اور ترجمہ کرنے والے عالم اور فاضل اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے۔
ترجمہ یہ کیا جا رہا ہے کہ ہر روح کو مرنا ہے جب کہ روح نہیں مرتی۔ یہ غلط ترجمہ ہے صحیح عبارت یعنی نفس کا ترجمہ نفس ہی ہو گا تب یہ ترجمہ صحیح ہو گا
۔ لہذا اصل کائناتی عبارت یہ ہے کہ نفس مر جاتے ہیں۔
لہذا ایسی غلطیاں موجود ہیں
۱۔ آسمانی کتابوں کے تراجم میں بھی
۲۔ روح و نفس کے کاموں میں بھی
۳۔ عام روز مرہ زندگی میں بھی
۴۔ اور ہر سطح پر یہ غلطیاں کی جاتی ہیں روح و نفس سے لاعلمی کے سبب لہذا
۵۔ نہ تو ہم ان مذہبی اطلاعات یعنی روح و نفس سے واقف ہیں
۶۔ جو روح و نفس سے واقف ہیں وہ ان تمام میں امتیاز نہیں رکھتے
۷۔ جو کوئی ایک آدھا ماہر ان تمام میں امتیاز برت سکتا ہے وہ ان تمام کو امتیازی حیثیت میں شناخت نہیں کر سکتا لہذا
۹۔ جنہوں نے ایک آدھ بار انہیں انفرادی حیثیت میں شناخت کیا ہے وہ ان روح و انفاس کی تعریف سے معذوری کا اظہار کرتے ہیں۔ لہذا
ہر دور میں نفس کا تذکرہ تو موجود ہے آج تک نفس پر بے تحاشا کام ہوا ہے بے شمار کتابیں بے شمار مواد نفس پر موجود ہے لیکن یہ تمام کام ردی ہے خیالی پلاؤ اور محض مفروضے ہیں کیونکہ نفس کے ان تمام علوم میں کہیں بھی نفس موجود نہیں۔ نفس کے علوم میں نفس کا ذکر ہی نہیں۔ آج نفس کے نام سے جو علوم مروج ہیں وہ نفسی علوم ہی نہیں
ہاں نفس کے علوم کے علاوہ کچھ خاص لوگ ہر دور میں نفس سے واقف رہے ہیں لیکن اصل نفس کو لوگ نفس کے طور پر شناخت ہی نہیں کرتے اگرچہ جانتے اور پہچانتے ہیں لیکن بطور نفس نہیں بلکہ وہ اسے دیگر ناموں سے پکارتے ہیں۔ یہ غلطی صدیوں سے ہر دور میں کی جا رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس مفروضہ حیثیت میں تو موجود ہے لیکن اصل نفس کو آج تک بحیثیت نفس انفرادی حیثیت میں شناخت ہی نہیں کیا گیا لہذا ہزاروں برس سے نفس پہ کام ہونے کے باوجود نتائج صفر ہیں۔
جب آج آپ نفس سے واقف نہیں اسے شناخت نہیں کر پائے تو پھر نفس اور نفسیات کے بے تحاشا علوم کا کیا جواز ہے۔ آج نفس کے تمام موجودہ علوم بے بنیاد اور مفروضہ علوم ہیں
تمام ادوار کے ہر قسم کے کام کے باوجود ابھی تک ہم نفس سے ناواقف ہیں اور آج بھی یہ سوال جوں کا توں ہمارے سامنے موجود ہے کہ نفس کیا ہے ؟
نتیجہ کیا نکلا؟
۱۔ نفس کا تصور ہر دور ہر عقیدے میں پایا جاتا ہے۔
۲۔ نفس کو خواہش یا نفسانی خواہش تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ نفس محض خواہش نہیں۔
۳۔ نفس کے تمام موجودہ علوم میں نفس کا تذکرہ ہی نہیں
۴۔ لہذا نفس کے موجودہ علوم مفروضہ علوم ہیں
۵۔ اصل نفس سے بھی ہر دور کے لوگ واقف رہے ہیں لیکن بطور نفس نہیں۔
۶۔ نفس کو دیگر ناموں سے شناخت کیا جاتا ہے
۷۔ نفس کو آج تک انفرادی حیثیت میں شناخت نہیں کیا گیا۔
۹۔ نفس کے بعض اجزاء کو روح کے حصے تصور کیا جاتا ہے۔
۱۰۔ نفس مذہبی اصطلاح ہے جسے سمجھنے میں غلطی کی گئی۔
۱۱۔ مفروضہ نفس آج علمی حیثیت میں موجود ہے جب کہ اصل نفس بھی دیگر ناموں کے ساتھ علمی حیثت رکھتا ہے۔
۱۲۔ یعنی ایک ہی شے (نفس) کے آج ہمارے پاس دو مختلف اور متضاد علوم موجود ہیں۔
یہ بڑی غلطی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تک نفس مفروضہ تعریفوں کے ساتھ تو موجود ہے لیکن نفس کی اصل شناخت نہیں ہو سکی۔ آئیے آج نفس کو مفروضہ قیاس آرائیوں سے مبرا کر کے نفس کو دیگر ناموں کے بجائے اس کے اصل نام سے پکاریں اس کی اصل شناخت قائم کریں تاکہ علوم میں موجود بے تحاشا ابہام کا خاتمہ ہو۔ اب ہم نفس کی انفرادی شناخت قائم کریں گے اور نفس کو بطور نفس متعارف کروائیں گے اس کی تعریف و خصوصیات بیان کریں گے اور مادی جسم سے اس کا ربط قائم کریں گے۔ نفس کی بطور نفس شناخت ہو گی تو انسانی علوم میں موجودہ ابہام کا خاتمہ ہو گا۔
19۔ نفس کی تعریف
نظریہ نمبر:۔ ﴿2﴾﴿نفس سے مراد اجسام ہیں۔ مادی جسم + لطیف باطنی اجسام = نفس﴾
انسانی شخصیت کا ہر پیمانہ نفس ہے۔ یہ ہے نفس کی صحیح تعریف جو آج کی جا رہی ہے۔
اجسام انسانی شخصیت کا اظہار اس کے لباس ہیں۔ لہذ ا انسان کا ہر وہ جسم جس میں انسان موجود ہے نفس ہے۔ یعنی ہم جدید تحقیقات کی بدولت آج ایک انسان کے جتنے بھی اجسام(اورا، چکراز، سبٹل باڈیز وغیرہ وغیرہ) سے واقف ہیں اور وہ اجسام بھی جن سے ابھی ہم واقف نہیں ہو پائے وہ سب نفس ہیں۔ ان تمام اجسام کا اصل آفاقی نام نفس ہے۔
لہذا نفس سے مراد کوئی خواہش، یا ذہن یا کوئی پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ مادی جسم اور لطیف اجسام کے مجموعے کو نفس کہتے ہیں۔ مادی جسم سمیت ہر جسم نفس ہی کہلائے گا۔ یعنی ہر قسم کا جسم چاہے مادی ہو یا لطیف وہ نفس ہے۔ یہ ہے نفس کی اصل آفاقی تعریف۔ جب کہ روح ان تمام طرح کے اجسام سے الگ شے ہے۔
نفس کی مروجہ مفروضہ تعریف سے قطع نظر نفس کے لطیف اجسام سے بھی ہر دور کے لوگ واقف رہے ہیں ( جس کا تذکرہ ہم پچھلے ابواب میں کر آئے ہیں ) لیکن ہر دور کے لوگوں نے نفس کے لطیف اجسام کو نفس کے طور پر شناخت نہیں کیا بلکہ ہر دور کے لوگوں نے اپنے ذاتی علم یا مشاہدے کی روشنی میں ان لطیف اجسام کو
(1)۔ یا تو روح کے طور پر شناخت کیا۔
(2)۔ یا ان لطیف اجسام کو روح کے حصے قرار دیا۔
لہذا یہ لطیف اجسام نہ تو روح ہیں ، نہ ہی روح کے حصے بلکہ یہ تمام لطیف اجسام نفس ہیں۔
انسان کے ظاہر اور باطن سے وابستہ تمام اجسام نفس ہیں۔ اور اجسام کو نفس کہا جاتا ہے۔ جب کہ ماضی میں اور آج بھی لطیف اجسام کا مشاہدہ کرنے والے ان لطیف اجسام کو روح یا روح کے حصے سمجھتے اور بتاتے رہے ہیں۔ اور نفس کو کوئی نفسیاتی مسئلہ بتایا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب یہاں میں نے وضاحت کر دی ہے کہ نفس کوئی مفروضہ نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ جسم ہے۔ لہذا یہاں یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ
۱۔ کوئی لطیف جسم روح نہیں ہے۔
۲۔ لطیف اجسام روح کے حصے نہیں ہیں۔
۳۔ یہ تمام اجسام نفس ہیں۔
۴۔ لہذا نفس کوئی خواہش یا نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے۔ لہذا نفس کی پچھلی تمام مروجہ تعریفیں غلط ہیں۔
۵۔ ان تمام اجسام کا اصل آفاقی نام نفس ہے۔
لہذا اس آفاقی اطلاع یعنی نفس میں تمام ادوار کے صوفیوں، سوامیوں، فلسفیوں، سائنسدانوں نے جو غلط اضافے کر کے اس اطلاع کو خلط ملط کیا تھا۔ اب یہاں نفس کی صحیح شناخت قائم کر کے ہم نے صدیوں کے اس ابہام کو دور کر دیا ہے۔
20۔ نفس (باطنی اجسام)کے نام
مادی جسم اور لطیف اجسام جسم ہونے کے سبب سب نفس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس لئے کہ انسان مختلف اوقات میں مختلف اجسام استعمال کرتا ہے لہذا ہر جسم وہ لطیف جسم ہو یا مادی انسانی شخصیت کا اظہار ہے۔ ہر جسم انسانی شخصیت کا پیمانہ ہے
ہر جسم نفس ہے لیکن ہر جسم کا اپنا ایک انفرادی نام بھی ہے۔ مثلاً ظاہری جسم کو مادی جسم کہا جاتا ہے اسی طرح لطیف اجسام کے نام بھی ہیں۔ لیکن ان میں ایک بنیادی نفس(جسم) بھی ہے۔ جس کا نام بھی نفس ہی ہے۔ اور اسی بنیادی نفس کو یہاں ہم نفس کے نام سے پکاریں گے۔ اب یہاں ہم اس بنیادی نفس کو انفرادی حیثیت میں شناخت کرتے ہیں کہ جس کا نام بھی نفس ہی ہے
21۔ بنیادی نفس کونسا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿3﴾۔ ﴿در حقیقت AURA ہی اصل بنیادی نفس ہے۔ ﴾
درحقیقت AURA ہی بنیادی نفس ہے اور نفس کے اس بنیادی جسم کا نام بھی نفس ہی ہے اور آج
اسی لطیف جسم کو ہم نفس کے نام سے پُکاریں گے۔ جب کہ
۱۔ آج نفس کے ایک جسم نفس کو ہم AURA کے نام سے جانتے ہیں اور
۲۔ نفس کے دیگر اجسام کو روح یا پھر روح کے حصے کہا جاتا ہے۔ جبکہ
۲۔ آج نفس کو بطورِ نفس تو کوئی نہیں جانتا لیکن نفس کا آفاقی نام لے کر اس کی مفروضہ تعریفیں کر لیں گئیں ہیں او آج نفس کو ہم اسی مفروضہ حیثیت میں جانتے ہیں اور اسی حیثیت میں نفس کے الگ علوم بھی موجود ہیں۔
جب کہ آج ہمارے پا س AURA کا بھی علم موجود ہے۔ اور اس پر سائنسی تحقیقات ہو رہی ہیں ، کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ یعنی ایک ہی نفس تین مختلف حیثیتوں میں آج ہمارے پاس باقاعدہ علوم کی صورت میں موجود ہے۔ جب کہ اسی نفس کو ماضی میں دیگر ناموں سے یعنی روح یا روح کے حصوں ، روح حیوانی یا انسانی وغیرہ وغیرہ سے پکارا جاتا رہا ہے۔
یعنی ماضی میں بھی نفس ہمیشہ دو مختلف اور متضاد حیثیتوں میں موجود رہا ہے۔ اور آج نفس تین علوم کی صورت میں موجود ہے۔
آج بھی کر لین فوٹو گرافی (Kirlian Photography) کے ذریعے اگرچہ AURA کی تصویر کشی کر لی گئی ہے اور اس کے اعمال و خصوصیات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کتابیں لکھی جا رہی ہیں تجربات کئیے جا رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک اسے نفس کے طور پر شناخت نہیں کیا گیا بلکہ وہ اسے روح یا روح کا کوئی حصہ تصور کرتے ہیں حتیٰ کے ان میں سے اکثر روح کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں لیکن روح کو روح کے طور پر شناخت نہیں کرتے۔
مادی جسم کی تمام تر خصوصیات اور حرکت و عمل کا ذمہ دار اسی AURA کو قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔
روح کے بغیر AURA کے تقاضے بے معنی ہیں۔ روح کے بغیر AURA میں کوئی تقاضا نہیں ابھر سکتا بلکہ روح کے بغیر خود AURA کا کوئی وجود نہیں۔
درحقیقت جسم میں تقاضوں کے جنم لینے کا ایک تسلسل ہے مادی جسم کی بظاہر حرکت و عمل باطنی طویل سلسلے سے جڑی ہوئی ہے۔ جیسے ایک بلب روشن ہے تو خود بخود نہیں بلکہ یہ بجلی کے ایک طویل سلسلے کا نتیجہ ہے۔
ایسے ہی مادی جسم کی حرکت و عمل روح + نفس + مادی جسم کے ذریعے ایک طویل کائناتی تسلسل کا حصہ ہے۔ اس طویل تسلسل میں نفس کا کیا کردار ہے ، نفس کی کیا انفرادیت ہے یہاں ہم اسی کی وضاحت کریں گے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر مخلوق نہ صرف اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہے بلکہ اس کا اصل نام بھی ہے۔ لہذا انفرادی شناخت اور اصل نام کی اہمیت کسی بھی علم میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ سائنس کے طالب علم یہ بات جانتے ہیں۔ اگر میرے دس زبانوں میں دس مختلف نام ہوں گے اور میرا تذکرہ دس مختلف زبانوں میں دس ناموں سے ہو گا تو یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ یہ ایک فرد کا تذکرہ ہے یا دس مختلف افراد کا۔ اسی طرح نفس آفاقی لفظ اور آفاقی اطلاع ہے جو ہر مذہب کے انسانوں کو ملی اور ان سب نے اس اطلاع کو سمجھنے میں غلطی کی اگر تھوڑی سی سنجیدہ علمی کوشش کی جاتی تو یہ غلطی نہ ہوتی۔ لیکن کبھی بھی کسی نے روح و نفس کی آفاقی اطلاعات پہ کبھی کان نہیں دھرے اور یہی وجوہات ہیں جو آج ان علوم میں اس قدر پیچیدگی ہے۔
یہاں نفس اور نفس کے تمام لطیف اجسام کی انفرادی شناخت سے یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ
۱۔ تمام لطیف اجسام روح یا روح کے حصے نہیں ہیں
۲۔ بلکہ وہ اجسام ہیں نفس کے اجسام۔
۳۔ نفس کے تمام اجسام اپنی انفرادی حیثیت اپنا انفرادی تشخص اپنا انفرادی جسم اور اپنا انفرادی نام بھی رکھتے ہیں۔
لہذا AURA نفس کا ایک جسم ہے۔ اور اس کا انفرادی نام بھی نفس ہی ہے
ابھی ہم مزید لطیف اجسام کی انفرادی شناخت قائم کریں گے اور روح کی تعریف کریں گے تو یہ ماضی کے سنگین مسائل اور ان کے حل کھل کر سامنے آ جائیں گے۔
22۔ نفس ( AURA) جسم ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿4﴾۔ ﴿AURA ایک جسم ہے۔ ﴾
22AURA مادی جسم ہی کی طرح ایک جسم ہے۔ جب کہ ماضی میں نفس کے اس جسم اورا AURAکو اس کی لطافت کے سبب روح یا روح کا حصہ تصور کیا جاتا تھا۔
لیکن جس طرح مادی جسم عناصر کا مجموعہ ہے اور مادے سے متشکل ہے اس طرح AURA مادی جسم نہیں ہے اس جسم کا فارمولہ مختلف ہے یہ کسی اور شے سے بنا ہے جس طرح مادی جسم روح کا مظہر یا لباس ہے اسی طرح AURA بھی روح کا مظہر یا لباس ہے یعنی AURA بھی مادی جسم کی طرح فقط روح کا ایک جسم ہے AURA روح کے اظہار کا ایک اور ذریعہ ہے۔ یعنی انسانی شخصیت کا ایک پیمانہ ہے یہ نفس
یہ ہے تو مادی جسم ہی کی طرح پورا وجود لیکن ساخت اور ہئیت میں مختلف ہے۔ مادی جسم کا تعلق مادی دنیا سے ہے لہذا مادی جسم عناصر سے مرکب وجود ہے تو AURA ایک دوسری فضا کے عناصر سے مرکب جسم ہے۔
23۔ روشنی کا جسم
نظریہ نمبر:۔ ﴿5﴾۔ ﴿نفس (AURA) روشنی کا جسم ہے۔ ﴾
نفس کا یہ جسم ایک قسم کی روشنی کا جسم ہے۔ جس طرح مادی جسم ہے بالکل اسی طرح AURA جسم ہے مادی جسم مادی عناصر کا مجموعہ ہے تو AURA رنگ و روشنی سے مرکب ایک وجود ہے۔ مکمل وجود۔
جب اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو یہ رنگوں کے چکروں کی صورت میں نظر آتا ہے گیس کی صورت میں دھوئیں کی مانند۔ یہ گیس یہ دھواں دراصل روشنی (بجلی ) ہے یہ گیس کا جسم دراصل روشنی کا جسم ہے روشنی کے عناصر یا خصوصیات ہیں جن کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
مادی جسم کی تمام تر حرکت و عمل کا دارومدار اسی روشنی کے جسم پر ہے یہ روشنی کا جسم مادی جسم کی تمام تر خصوصیات کا حامل تو ہے لیکن اس کی اپنی ذاتی خصوصیات بھی ہیں۔
انسان مادی جسم کو بھی استعمال کرتا ہے اور اس روشنی کے جسم کو بھی استعمال کرتا ہے۔ جیسے ہم اپنی مرضی سے مادی جسم کو استعمال میں لا سکتے ہیں ایسے ہی ہم روشنی کے جسم کو بھی استعمال میں لا سکتے ہیں۔ جو عمل ہم مادی جسم میں رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ وہی عمل ہم روشنی کے جسم کے ساتھ ہزاروں گناہ برق رفتاری سے کر سکتے ہیں روشنی کا جسم مادی جسم سے خصوصیات میں ہزاروں گناہ بڑھ کر ہے۔
24۔ نفس( AURA) حرکی قوت ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿6﴾۔ ﴿نفس (AURA) جسم کی حرکی قوت ہے یا AURA جسم کا فیول ہے۔ ﴾
سب جانتے ہیں کہ ہر حرکت کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا ہے جیسے مشین بجلی گیس یا پیٹرول سے چلتی ہے ، پین سیاہی سے کار پیٹرول یا گیس سے یعنی ہر قسم کی مشینری حرکت کے لئے کسی نہ کسی فیول کی محتاج ہے۔
اسی طرح مادی جسم بھی کسی مشین کی طرح حرکت کے لئے کسی فیول کا محتاج ہے یا مادی جسم کی حرکت کسی فیول کے سبب ہے یونہی خود بخود نہیں ہے۔ یعنی مادی جسم کی حرکت و عمل کا سبب بھی ایک فیول ایک حرکی قوت ہے۔ یہ حرکی قوت جسم کی بجلی یا گیس ہے جو اسے متحرک رکھتی ہے۔
یہ گیس یا بجلی جسم میں ہو تو جسم چلتی پھرتی متحرک مشینری کی مانند ہے اور یہ بجلی یا گیس جسم میں نہ ہو تو انسان ایک بے حرکت وجود ہے۔
اسی بجلی اسی گیس کو ہم نفس(AURA) کہتے ہیں۔
25۔ جسم کی زندگی
نظریہ نمبر:۔ ﴿7﴾۔ ﴿نفس (AURA) مادی جسم کی زندگی اور موت کا سبب نہیں۔ ﴾
AURA یعنی نفس مادی جسم کی حرکی قوت یا فیول تو ہے۔ مادی جسم کی حرکت و عمل نفس( AURA) ہی کی بدولت ہے اگر نفس( AURA )جسم میں ہو تو جسم حرکت و عمل کرتا ہے اگر نفس( AURA) جسم میں نہ ہو تو جسم بے حرکت ہوتا ہے۔ لیکن یہ نفس(AURA)جسم کی زندگی نہیں ہے۔ نفس( AURA) کی غیر موجودگی سے موت واقع نہیں ہوتی نفس(AURA) کی غیر موجودگی سے جسم بے حرکت تو ہو سکتا ہے لیکن جسم پے موت واقع نہیں ہوتی
AURA(نفس )جسم کی حرکت و عمل کا سبب تو ہے لیکن مادی جسم کی زندگی اور موت کا دارومدار نفس( AURA )پر نہیں ہے اس کی غیر موجودگی سے موت واقع نہیں ہوتی اگرچہ وہ جسم بے حرکت ہو جائے لیکن زندہ رہے گا اس کی مثال نیند یا کوما کی کیفیت ہے۔ کہ انسان بے حرکت بے عمل ہوتا ہے مادی جسم کسی مردے کی طرح ہی بے حس و حرکت پڑا ہوتا ہے لیکن وہ زندہ ہوتا ہے۔
AURA کی معطلی سے انسان کسی مردہ کی طرح بے جان تو ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی زندہ ہوتا ہے مرتا نہیں۔ دراصل آج تک تحقیق کرنے والے AURA کو ہی آخری حقیقت سمجھتے رہے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔
AURA کی مادی جسم میں موجودگی زندگی نہیں فقط حرکت ہے اور نہ ہی مادی جسم AURA کی معطلی سے موت کا شکار ہوتا ہے۔
یعنی نفس (AURA)مادی جسم کی حرکت و عمل کا سبب تو ہے۔ لیکن مادی جسم میں زندگی و موت کا سبب نہیں ہے۔ مادی جسم کی حرکت نفس ہے تو مادی جسم میں زندگی و موت کا سبب روح ہے
AURA)-26 ( کے اجسام
نظریہ نمبر:۔ ﴿8 ﴾ ﴿AURA فقط ایک مکمل جسم ہے۔ ﴾
روشنی کا جسم مادی جسم کی طرح ایک جسم ہے اور مکمل جسم ہے۔ AURA کا مشاہدہ کرنے والے اسے رنگوں کے سات تیز رفتار چکروں کی صورت میں بھی دیکھتے ہیں یا مزید مشاہدہ کرنے سے اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ AURA کے اندر مزید اجسام ہیں۔ یہ دراصل AURA کا سسٹم ہے جسے ہم نے AURA کے طور پر شناخت کیا ہے
جب ہم انسان کو ایکسرے مشین سے دیکھیں تو ہمیں اس کے اندرونی اعضاء نظر آتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مادی جسم کے اندر رنگ برنگے چھوٹے بڑے جسم یا مزید مخلوقات ہیں بلکہ ہم ان اعضاء کو جسم کے اعضاء اور جسم کی خصوصیات کے طور پر شناخت کرتے ہیں اور تمام اعضاء و خصوصیات کے مجموعے کو جسم کہتے ہیں۔
اسی طرح سات رنگوں کے چکروں کا مجموعہ دراصل AURA ہے سات چکر، رنگ، روشنی، گیس یہ سب دراصل اس جسم یعنی AURA کے مرکبات ہیں خصوصیات ہیں جن کا مجموعہ ہے یہ جسم یعنی AURA۔ یہ ہمارے مشاہدے کی باریک بینی ہے کہ ہم اس جسم کی الگ الگ خصوصیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جب ہم اس کو یکجا کر کے مجسم حالت میں دیکھیں گے تو یہ مادی جسم کی طرح مکمل جسم ہے روشنی کا جسم۔
مثلاً جب ہم مادی جسم کو ایکسرے مشین سے دیکھیں گے تو وہ کچھ اور نظر آئے گا اور عام نظر سے محض جسم۔ اسی طرح روشنی کا جسم جو ہمارے مشاہدے میں ہے وہ بھی خاص روشنی سے ہی ہمارے مشاہدے میں ہے جب کہ عام روشنی میں وہ نظر نہیں آتا۔
اسی طرح خاص روشنی کا مہیج گھٹا بڑھا کر ہم اس روشنی کے جسم کا ایسے ہی مشاہدہ کر سکتے ہیں جیسے مادی جسم کا عام نظر اور ایکسرے مشین سے کرتے ہیں۔ AURA جسم ہی ہے بس فرق ہماری نظر کا ہے۔ اور ابھی ہم اسے جانتے نہیں لاعلمی بھی ہماری نظر میں حائل ہے۔ چاند سورج دور سے روشنی کے گولے نظر آتے ہیں لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ فقط روشنی کے چھوٹے چھوٹے گولے نہیں ہیں بلکہ ہماری زمین کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑے بڑے اجسام ہیں۔ لہذا فرق دیکھنے کا ہے جسم کا نہیں۔ اور فرق لاعلمی کا ہے۔
لہذا AURA کو ہم باریک بینی سے دیکھیں یا عام نظر سے وہ ایک جسم ہی ہے لیکن وہ روشنی کا جسم ہے اور اس جسم کا مطالعہ ہمیں مادی جسم کے وسیع و عریض مطالعے سے بھی زیادہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ جسم مادی جسم سے خصوصیات میں ہزاروں گُنا بڑھ کر ہے۔
27۔ جسمانی اعمال کا سبب
نظریہ نمبر:۔ ﴿9﴾۔ ﴿نفس (AURA) جسمانی اعمال کا سبب ہے۔ ﴾
انسان اعمال یعنی صفات و حرکات کا نام ہے اور جسم ان اعمال کا عملی مظاہرہ یعنی جسم میں حرکت و عمل کا سبب AURA ہے۔ جسم کی حرکت تو AURA کی بدولت ہی ہے لیکن ہمارے تمام جسمانی اعمال بھی AURA کی بدولت ہیں۔
مثلاً بھوک لگی ہے۔ یہ ایک اطلاع ہے۔ لیکن اس اطلاع کو AURA مادی جسم تک بھوک کے احساس کے ساتھ منتقل کرتا ہے اور انسانی جسم کے اندر بھوک کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ انسان یہ سوچتا ہے مجھے بھوک لگی ہے اب مجھے اٹھ کر کھانا گرم کرنا چاہیے اور کھانا چاہیے۔ انسان کا یہ سوچنا AURA کا سوچنا ہے۔ AURA کے اس ترغیبی پروگرام پر جسم میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور AURA کی مسلسل ہدایت پر جسم عمل پیرا ہوتا ہے یوں انسان کھانا کھاتا ہے۔
ایک اور مثال سے ہم اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ مثلاً
نیند آ رہی ہے۔ یہ ایک اطلاع ہے اب انسان کو جمائیاں آ رہی ہیں جسم نیند کا متقاضی ہے لیکن AURA کا پروگرام سونے کا نہیں ہے لہذا وہ جسم کو ٹی وی کے پسندیدہ پروگرام کی طرف متوجہ کرتا ہے یعنی مجھے ابھی نہیں سونا اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنا ہے لہذا جسم نیند کی اطلاع کے برعکس AURA کی ہدایت کے مطابق عمل کرتا ہے اور ٹی وی دیکھتا ہے۔
ہم زندگی میں جتنے بھی کام کرتے ہیں جتنے بھی اعمال کرتے ہیں جتنے بھی کارنامے سرانجام دیتے ہیں یہ سب AURA کے ترغیبی پروگرام ہیں ہمارا کھانا پینا، چلنا، عمل کرنا بڑے بڑے کام کرنا اچھائی برائی کرنا یہ سب AURA کے پروگرام ہیں جنہیں وہ جسم کے ذریعے عملی جامہ پہناتا ہے یعنی ہمارے ہر عمل کا سبب AURA ہے۔
28۔ جسمانی اعمال کی اطلاعات
نظریہ نمبر :۔ ﴿10﴾۔ ﴿جسمانی اعمال کی اطلاعات AURA کی اطلاعات نہیں ہیں۔ ﴾
مثلاً بھوک لگی ہے یہ اطلاع ہے لیکن یہ AURA کی اطلاع نہیں ہے AURA فقط اس اطلاع کو عملی جامہ پہناتا ہے یا نہیں پہناتا ہے یعنی AURA کی مرضی پہ منحصر ہے کہ وہ اس اطلاع کا ترغیبی پروگرام بھیج کر جسم کو کھانے کے عملی مظاہرے پر مجبور کرے یا اس اطلاع کو رد کر کے کھانے کا پروگرام ملتوی کر دے۔
AURA پر تحقیقات تجربات اور مشاہدے کرنے والے یہ بات تو کسی حد تک جانتے ہیں کہ انسانی زندگی کے تمام تقاضے جسمانی تقاضے نہیں ہیں بلکہ یہ AURA کے تقاضے ہیں لیکن ان تقاضوں کا منبع ان تقاضوں کی ہدایت کہاں سے آ رہی ہیں ہمارے اعمال کی اطلاعات کہاں سے آ رہی ہیں یہ کوئی نہیں جانتا اور اسی لاعلمی کے سبب آج تک AURA کو ہی ان اطلاعات کا منبع سمجھا جاتا رہا ہے اور تمام تقاضوں کا سبب اور اصل AURA کو ہی قرار دیا جاتا رہا ہے حالانکہ یہ غلطی ہے۔ AURA تو یہ اطلاعات خود وصول کرتا ہے ہاں عمل کرنا یا عمل نہ کرنا یہ اختیار AURA ہی کے پاس ہے۔ لیکن اگر یہ اطلاعات کا پروگرام یا جسمانی اعمال کی اطلاعات AURA کو موصول نہ ہوں تو AURA کے تمام اختیارات بے کار محض ہیں یعنی AURA کے تمام تر اختیارات و اعمال محض اطلاعات کے محتاج ہیں۔ جن کا منبع AURA نہیں ہے۔
کھانا، پینا، رونا، ہنسنا، مرنا، جینا اور ہماری زندگی کے تمام اعمال اطلاعات کا نتیجہ ہیں۔ یہ اطلاعات کیا ہیں اور ان کا منبع کیا ہے اس کا تفصیلی ذکر آئے گا۔
AURA-29 زمان و مکان کا پابند
نظریہ نمبر:۔ ﴿11﴾۔ ﴿نفس (AURA) زمان و مکان کا پابند ہے۔ ﴾
AURA کی برق رفتاری کے سبب یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ یہ شاید زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ بھی زمان و مکان کا پابند ہے۔
یہ مادی جسم کے مقابلے میں ہزاروں گنا تیز رفتار ہے۔ AURA کی رفتار روشنی کی رفتار ہے۔
AURA پلک جھپکتے میں فاصلوں کی اُڑان بھرتا ہے لیکن پھر بھی زمان و مکان کا پابند ہے وہ مہینوں کا سفر پلک جھپکتے میں اور دنوں کا سفر سیکنڈوں میں طے کرتا ہے لیکن اس سفر میں اسے وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ AURA کی اُڑان کو ہم خواب میں محسوس کر سکتے ہیں ہم خواب میں خود کو اُڑتے دیکھتے ہیں۔
AURA حدود و قیود کا پابند ہے اس کی رسائی کائنات کے ہر گوشے تک نہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ زمین سے آسمان تک پلک جھپکنے میں جا پہنچے۔ AURA ہر جگہ نہیں جا سکتا۔
جس طرح ہمارا مادی جسم حدود و قیود کا پابند ہے اسی طرح AURA بھی حدود و قیود کا پابند ہے مادی جسم زمین پر چلتا ہے تو AURA فضا میں پرواز کرتا ہے لیکن یہ ہر فضا کا مسافر نہیں۔ مادی جسم دنیا تک محدود ہے تو AURA روشنی کی وسیع دنیا کا مسافر ہے اور لمبی اُڑانیں بھرتا پھرتا ہے AURA کی دنیا مادی جسم کی دنیا سے بہت بڑی اور وسیع ہے لیکن AURA بھی اپنی ہی دنیا اپنی ہی فضا کا قیدی ہے۔
جیسے ہر شخص اپنی مالی استطاعت کے مطابق سفر کر سکتا ہے کوئی اپنے شہر تک ہی محدود رہتا ہے کوئی اتنی مالی استطاعت رکھتا ہے کہ پورے ملک میں گھومتا ہے کچھ پوری دنیا میں گھومتے ہیں کچھ دنیا سے باہر بھی ہو آتے ہیں۔ یعنی چاند وغیرہ پر۔
ابھی ہم سورج پر جانے کی استطاعت نہیں رکھتے کیونکہ ہمارا یہ خیال ہے کہ سورج دہکتا ہوا آگ کا گولا ہے جو ہمیں جلا دے گا۔ بالکل اسی طرح AURA بھی کچھ حدود و قیود کا پابند ہے وہ ہر جگہ نہیں جا سکتا انسان مادی جسم کے ساتھ مادی زندگی بسر کرتا ہے تو AURA کے ذریعے روشنی کی دنیا سے متعارف ہوتا ہے۔ AURA روشنی کی دنیا کا مسافر ہے اس کے ذریعے ہم روشنی کی دنیا میں سفر و بسر کرتے ہیں۔
AURA کائنات کی تاروں سے جڑا کچھ آگے تو نکلا ہے لیکن وقت کی قید میں ہی ہے یہ روشنی کی دنیا کا مسافر ہے اس کی پرواز روشنی کی فضاء (Gases) تک محدود ہے جب کہ ہماری کائنات مختلف قسم کی فضاؤں مختلف دنیاؤں سے بھری پڑی ہے جن تک AURA کی پہنچ نہیں۔
AURA کی صلاحیتیں مادی جسم سے ہزاروں گناہ بڑھ کر ہیں لیکن یہ ہزاروں گناہ صلاحیتیں بھی محدود صلاحیتیں ہیں۔ لامحدود نہیں ہیں۔
لہذاAURA زمان و مکان کا پابند ہے۔
30۔ اعمال کے اثرات
نظریہ نمبر:۔ ﴿12﴾۔ ﴿پہلے AURA کی روشنی متاثر ہوتی ہے پھر اس کے اثرات مادی جسم پر ظاہر ہوتے ہیں۔ ﴾
مادی جسم کے اعمال کا اثر پہلے AURA پر پڑتا ہے پھر مادی جسم پر ظاہر ہوتا ہے یعنی AURA کا تغیر و تبدل مادی جسم پر ظاہر ہوتا ہے جسے ہم ذہنی یا جسمانی بیماری، کمزوری یا صحت مندی کہتے ہیں۔
AURA روشنی کا جسم ہمارے مادی جسم کا فیول ہے ہم جو بھی حرکت و عمل کرتے ہیں وہ AURA ہی کے تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کی تکمیل میں AURA کی روشنیاں اور رنگ صرف ہوتا ہے۔
سات چکراز جو پہیے کی طرح تیزی سے چکر کھاتے ہیں۔ یہ AURA کی روشنی ہے اور یہ روشنی کا بہاؤ ہے۔ AURA چونکہ روشنی کا جسم ہے یہ روشنی کا بہاؤ AURA کے جسم میں ایسے ہی ہے جیسے ہمارے مادی جسم میں خون کا بہاؤ۔
جیسے جذبات یا خوشی یا غم میں ہمارے خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے ایسے ہی ہماری کیفیات کا روشنی کے بہاؤ پر اثر پڑتا ہے۔ روشنی کے بہاؤ میں کمی بیشی ہمارے مادی جسم کے اعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
ہم جو بھی کام سرانجام دیتے ہیں ویسی اور اتنی ہی روشنی اور رنگ استعمال میں آتے ہیں۔ اگر یہ عام روٹین کے مطابق نہ ہوں کم یا زیادہ ہوں تو روشنی کے بہاؤ میں تیزی یا سستی یا رکاوٹ آ جاتی ہے۔ یعنی براہِ راست فرق AURA کی روشنی کے بہاؤ پر پڑتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے جذباتی کیفیت میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور خوشی کے وقت طمانیت کا احساس جنم لیتا ہے۔
AURA جو ساخت تبدیل کرتا ہے کبھی پھیلتا ہے کبھی سکڑتا ہے لگاتار اس کی حالت میں جو تبدیلی ہوتی رہتی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس وجود کی روشنیاں اور رنگ مختلف قسم کے جسمانی اعمال میں صرف ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اس جسم میں مسلسل تغیر و تبدل ہو رہا ہے۔ AURA مسلسل مادی جسم کی تحریک میں استعمال ہو رہا ہے اور جسم اسی فیول AURA کی بدولت با عمل اور متحرک ہے۔
پہلے AURA کی روشنی صر ف ہوتی ہے اس میں تغیر و تبدل ہوتا ہے پھر اس کے اثرات خوشی غم یا بیماری کی صورت مادی جسم پر ظاہر ہوتے ہیں۔ (عمل کے ذریعے )
AURA.-31 روح نہیں
نظریہ نمبر:۔ ﴿13﴾۔ ﴿نفس (AURA) روح نہیں ہے۔ ﴾
نفس (AURA) کا تجربہ و مشاہدہ کرنے والے آج تک اسے ہی روح تصور کرتے آئے ہیں۔ وہ AURA کو ہی جسم لطیف، اصل جسم یا انسان کا اصل تشخص قرار دیتے رہے ہیں اور ان سب( جسم لطیف، اصل جسم یا انسان کا اصل )سے ان کی مراد روح ہوتی ہے۔ جب کہ روح ان سب سے علیحدہ ایک شے ہے۔ لہذا
نفس (AURA) روح نہیں ہے !
AURA کو روح کے طور پر پیش کرنے والے روح کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں لیکن انہوں نے روح کو روح کے طور پر شناخت نہیں کیا۔ یا اگر صدیوں برسوں میں کبھی کسی نے روح کو الگ پہچان کر اسے ہی اصل تشخص قرار دے بھی دیا ہے تو وہ کبھی خود بھی اسے نہ تو سمجھ سکے ہیں نہ ہی اس کی کوئی تعریف کر سکے ہیں۔ عموماً
۱۔ نفس (AURA)کو روح کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔
۲۔ جب کہ روح کو روح کے طور پر شناخت نہیں کیا جاتا۔
روح کا مشاہدہ کرنے والے جب AURA کو اصل جسم یا اصل تشخص کہتے ہیں اور روح کو بھی اصل کہتے ہیں تو ایسا کہتے ہوئے وہ خود اپنی تضاد بیانی میں الجھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ جو روح ہے اس کی تعریف ممکن نہیں۔
بہر حال (AURA) روح نہیں ہے !جیسا کہ ماضی میں اسے کہا جاتا رہا ہے۔
32۔ نور کا جسم
نظریہ نمبر:۔ ﴿14﴾۔ ﴿نوری جسم ایک اور لطیف ترین جسم ہے لیکن یہ بھی روح نہیں۔ یہ بھی نفس کا ایک جسم ہے۔ ﴾
تجربہ و مشاہدہ کرنے والے AURA کے ساتھ اور نورانی اجسام Chakras کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ یا تو اسے AURA یا Chakras کہہ دیتے ہیں اور اسے بھی AURA ہی کا کوئی جسم یا حصہ تصور کرتے ہیں یا الگ سے شناخت کرتے ہیں تب بھی وہ AURA کو یا مزید دوسرے مشاہدہ میں آنے والے مزید لطیف اجسام کو اصل تشخص یعنی روح قرار دیتے ہیں۔ یہ سب غلطیاں لاعلمی کے سبب کی جاتی ہیں۔
نور کا جسم نفس کا تیسرا جسم ہے۔ ۱۔ مادی جسم، ۲۔ AURA(نفس )، ۳۔ نور کا جسم۔
نوری جسم بھی مادی جسم اور اورا کی طرح اپنی انفرادی شناخت رکھتا ہے۔ نور کا جسم علیحدہ سے ایک جسم ہے جیسے کہ مادی جسم ہے یا AURA ہے۔ جس طرح AURA مادی جسم سے لطافت میں زیادہ ہے رفتار اور خصوصیات میں زیادہ ہے اسی طرح نورانی وجود بھی AURA کی نسبت زیادہ برق رفتار ہے۔
AURAمادی جسم سے ہزاروں گناہ زیادہ برق رفتار ہے تو نورانی جسم AURA سے بھی لاکھوں گنا زیادہ برق رفتار ہے۔ لیکن یہ انتہائی برق رفتار جسم بھی زمان و مکان کی قید سے آزاد نہیں۔ AURA روشنی کی دنیا کا مسافر ہے تو نوری جسم ایک اور مزید لطیف نورانی فضا کا مسافر ہے AURA روشنی کا وجود ہے تو نورانی جسم نور کا وجود ہے۔ روح مادی دنیا میں مادی جسم کے ساتھ نمودار ہوتی ہے تو روشنی کی فضا میں روشنی کے جسم کے ساتھ اور اس سے ذرا اور بلند نور کی دنیا میں نورانی جسم کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔
33۔ مزید اجسام
نظریہ نمبر:۔ ﴿15﴾۔ ﴿مادی جسم، نفس (AURA)، نور ی جسم کے علاوہ مزید اجسام بھی ہیں۔ ﴾
AURA کے علاوہ بھی مزید لطیف اجسام انسان سے وابستہ ہیں۔ یہ مزید لطیف اجسام علیحدہ سے نفس کے مزید اجسام ہیں۔
ماضی میں ان لطیف اجسام کو روح یا روح کے حصے تصور کیا جاتا تھا یہ نہ تو روح ہیں نہ روح کے حصے ہر جسم دوسرے جسم سے الگ اور منفرد جسم ہے۔ جیسے مادی جسم ہے یہ مادی خصوصیات کا حامل ہے ، نفس AURA بھی ایک جسم ہے اور یہ مادی جسم سے الگ منفرد خصوصیات کا حامل ہے جب کہ نور کا جسم الگ اور منفرد جسم ہے۔
اسی طرح اور بہت سے اجسام ہیں اور وہ الگ سے اجسام ہیں ہر جسم منفرد جسم ہے۔ اپنا انفرادی تشخص اپنا انفرادی نام رکھتا ہے۔
مادی جسم کے علاوہ جن لطیف اجسام کا آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں اور جن کا ابھی ہم مشاہدہ تجربہ اور علم نہیں رکھتے وہ سب اجسام نفس اور نفس کے اجسام ہیں۔ ہر جسم نفس کا جسم ہے۔ ہر جسم نفس ہے۔ انسان مادی جسم میں رہتے ہوئے غیر اختیاری طور پہ تو ان اجسام کو استعمال کر ہی رہا ہے لیکن انسان مادی جسم کے علاوہ ہر جسم کو انفرادی طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے اور انسان جس جسم میں بھی ہو وہ جسم فقط اس کی شخصیت کا اظہار ہے ، اس کا لباس اور پیمانہ ہے۔ اور انسانی شخصیت کا ہر پیمانہ نفس ہے۔ یعنی خود انسان ہے۔
34۔ اجسام کی تعداد
نظریہ نمبر۔ ﴿16﴾۔ ﴿کائنات میں جتنے نظام ہیں اتنے ہی اجسام ہیں۔ ﴾
ہماری کائنات میں ہماری کہکشاں کی طرح کتنی کہکشائیں ہیں ہمارے نظام شمسی کی طرح کتنے آباد اور کتنے غیر آباد نظام ہیں ہم نہیں جانتے یا ہم شمار نہیں کر سکتے اگرچہ اندازے تخمینے تو لگائے جاتے ہیں۔ کائنات کتنی وسیع ہے ابھی تو ہم اس کی وسعت کا ہی اندازہ نہیں کر پائے جب کہ مزید کائناتیں بھی ہیں جنہیں ہم جانتے ہی نہیں جو ہماری نظر سے ابھی تک اوجھل ہیں۔ ابھی ہمارے تجربے حتیٰ کہ ہمارے ادراک کی حد بھی کم ہے۔ لیکن جتنے بھی نظام ہیں جتنی بھی دنیائیں ہیں جتنی بھی فضائیں ہیں ایک روح اتنے ہی اجسام تشکیل دے سکتی ہے۔ روح کائنات کی مسافر ہے۔ وہ کائنات میں مختلف قسم کی دنیاؤں اور مختلف قسم کی فضاؤں میں سفر کرتی ہے اور جس فضا سے گزرتی ہے یا جس فضا میں داخل ہوتی ہے وہاں بسیرا کرتی ہے (یعنی عارضی قیام) تو اسی فضا کے عناصر یا ایٹمز کی مناسبت سے ویسا ہی اسی فضا کے عناصر سے بنا لباس جسم اوڑھ لیتی ہے۔
ایسا روح اس وقت تک کرتی ہے جب تک وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے۔
روح کی منزل کیا ہے ؟ وہ کتنی، اور کیسی فضاؤں میں سفر کرتی ہے اور خود کیا ہے اس کا ذکر آگے آئے گا۔
35۔ مادی دنیا میں اجسام کی تعداد
نظریہ نمبر:۔ ﴿17﴾۔ ﴿مادی دنیا میں ایک عام انسان بیک وقت تین جسم استعمال کرتا ہے۔ ﴾
(1)۔ مادی جسم۔
(2)۔ AURA روشنی کا جسم۔
(3)۔ نور کا جسم۔
جب کہ خاص روحانی لوگوں کے تین سے زیادہ جسم بھی ہوتے ہیں اور وہ ان کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اور روحانی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں۔ ان کے یہ روحانی اجسام روحانی ریاضتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
دراصل انسان کی صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں وہ بہت سے جسم استعمال میں لا سکتا ہے بہت سے کارنامے سر انجام دے سکتا ہے۔ تمام کائنات اس کے سامنے مسخر ہے لیکن اپنے آپ اپنی صلاحیتوں سے ناواقفیت کے سبب وہ مجبور بنا ہوا ہے فقط تین جسم استعمال کرتا ہے اور یہ استعمال بھی وہ اختیاری طور پر نہیں بلکہ غیر اختیاری طور پر کرتا ہے۔
یہ اس کا قدرتی عمل ہے جو خود بخود مکمل ہو رہا ہے۔ ورنہ عام انسان تو ان تین اجسام کی موجودگی سے بھی بے خبر ہے اور اسی بے خبری میں ان کا انکار بھی کرتا رہتا ہے لہذا اختیاری طور پر ان تین اجسام کا استعمال تو بہت دور کی بات ہے۔
مادی جسم کے استعمال سے تو ہم واقف ہیں جب کہ باقی دو اجسام روحانی دنیا سے انسان کے رابطے کا ذریعہ ہیں۔
36۔ انسان کائنات سے مربوط ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿18﴾۔ ﴿ نفس (اجسام) کے ذریعے انسان کائنات سے مربوط ہے۔ ﴾
نفس کے مختلف اجسام کے ذریعے انسان تمام عالموں سے براہِ راست مربوط ہے۔ مثلاً
۱۔ مادی جسم
نظریہ نمبر 18B:۔ مادی جسم کے ذریعے انسان مادی دنیا سے مربوط ہے۔
مادی جسم مادی دنیا کا باسی ہے۔ لہذا روح مادی عناصر کے اشتراک سے مادی جسم ترتیب دیتی ہے۔ یہ مادی جسم مادی عناصر سے مرکب مادی دنیا کے لحاظ سے مادی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اور مادی زندگی مادی دنیا میں بسر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہذا روح مادی دنیا میں رہنے کے لئے مادی جسم اوڑھ لیتی ہے۔ اور مادی دنیا میں کچھ وقت گزارتی ہے۔ آج چونکہ ہم مادی جسم کا کافی علم رکھتے ہیں لہذا مادی جسم کی ہئیت ساخت سے کافی حد تک آگاہ ہیں۔ لیکن انسان کے لئے کائنات بنی ہے اور انسان پوری کائنات سے مربوط ہے لہذا انسان محض مادی جسم نہیں بلکہ اس کے اور بھی لطیف اجسام ہیں جو انسان کے کائنات سے رابطے کا ذریعہ ہیں۔ لہذا انسان محض مادی دنیا کا قیدی نہیں بلکہ وہ پوری کائنات سے جُڑا ہے۔
۲۔ نفس ( AURA)
نظریہ نمبر:۔ ﴿19﴾۔ ﴿AURA انسان کو روشنی کی دنیا (عالم برزخ) سے مربوط رکھتا ہے۔ ﴾
AURA انسان کو مادی دنیا کے علاوہ اس دنیا سے بھی مسلسل مربوط رکھتا ہے جس دنیا میں انسان مادی جسم سے مفارقت کے بعد جائے گا اور وہاں کچھ عرصہ اسی جسم AURA کے سہارے ٹھہرے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم مادی دنیا میں مادی جسم کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔
روشنی کے وجود کے ذریعے انسان روشنی کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ AURA کے ذریعے انسان روشنی کی دنیا سے بھی مسلسل مربوط ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ اس رابطے سے انجان بنا ہوا ہے لیکن پھر بھی وہ اس رابطے کو جانتا اور محسوس کرتا ہے اپنے خوابوں کے ذریعے۔ جب مادی جسم سو جاتا ہے تو نفس متحرک ہو جاتا ہے اور ہم نفس کی اس نقل و حرکت کو محسوس کرتے ہیں خوابوں کے ذریعے۔ خواب میں ہم AURAکو متحرک دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنے مادی جسم کو اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ اپنے AURAکا استعمال کرنا بھی جانتے ہیں وہ لوگ بیداری میں ہی AURAکے ذریعے روشنی کی دنیا میں سفر کرتے ہیں نقل و حرکت کرتے ہیں اور اس روشنی کے جسم اس کے اعمال و افعال اور روشنی کی دنیا سے واقف ہوتے ہیں۔ لہذا روشنی کی دنیا میں حرکت و عمل اور رہائش کے لئے ہمیں روشنی کے وجود کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا روح روشنی کی دنیا سے روشنی کے عناصر سے روشنی کا وجود تیار کرتی ہے۔ لہذا روشنی کی دنیا میں سفر کرنے کے لئے انسان روشنی کا وجود استعمال کرتا ہے۔
لہذا AURA مادی دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو روشنی کی دنیا سے بھی مربوط رکھتا ہے اور اس روشنی کی دنیا (عالم برزخ) سے رابطے کی روداد کو ہم نیند کی حالت میں خواب کی صورت میں برا ہِ راست دیکھتے ہیں۔
لہذا AURA مادی دنیا میں رہتے ہوئے بھی روشنی کی دنیا سے رابطے کا ذریعہ ہے۔
۳۔ نور کا جسم
نظریہ نمبر:۔ ﴿ 20﴾۔ ﴿نور کا جسم انسان کو مادی دنیا میں رہتے ہوئے نور کی دنیا سے مربوط رکھتا ہے۔ ﴾
یہ فضا حقیقی فضا ہے اسے عالم آخرت کی صورت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس رابطے کی روداد کو بھی ہم خواب کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ نور کا جسم روح نور کی فضا سے نور کے عناصر سے تیار کرتی ہے اور یہ جسم نور کی دنیا میں گزر بسر کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ اسی طرح روح جس فضا میں قیام کرتی ہے اسی فضا کے تعامل سے اپنے لئے ویسا ہی جسم تیار کر لیتی ہے۔ مادی فضا میں مادی جسم، روشنی کی فضا سے روشنی کا جسم اور نور کی فضا میں نور کا جسم اور اس کے علاوہ کائناتوں میں وہ جہاں بھی جس بھی سیارے پہ بسیرا کرتی ہے اس فضا سے ویسا ہی جسم تیار کر لیتی ہے اور ہر جسم دوسرے جسم سے منفرد جسم ہے ہر اعتبار سے لہذا ہر جسم اور روح کے مجموعے کو ہی ہم انسان کہتے ہیں۔ لہذا ان تین جسموں یعنی مادی جسم کے ذریعے انسان مادی دنیا، AURAیعنی روشنی کے جسم کے ذریعے انسان روشنی کی دنیا(عالمِ برزخ)اور نور کے جسم کے ذریعے انسان عالمِ آخرت سے مسلسل مربوط رہتا ہے۔ ان دونوں رابطوں کو ہم خواب کے ذریعے محسوس کرتے ہیں یعنی روشنی کے وجود کو نقل و حرکت کرتے دیکھتے ہیں اور نور کے جسم کے ذریعے اپنے مُردہ عزیزو اقارب سے رابطے میں ہوتے ہیں۔ یعنی ان تین اجسام کے ذریعے انسان مادی دنیا میں رہتے ہوئے بھی مسلسل پوری کائنات سے مربوط ہے۔
37۔ زندگی کی صورتیں
نظریہ نمبر:۔ ﴿21﴾۔ ﴿ہر زمین پر زندگی موجود ہے ، ہر زمین پر زندگی کی طرزیں مختلف ہیں، پوری کائنات زندگی سے معمور ہے۔ اور انسان پوری کائنات میں رہنے بسنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ ﴾
لہذا یہ نظریہ فضول ہے کہ انسانی زندگی کے لئے زمین ہی موضوع سیارہ ہے۔
ہر زمین ہر سیارے پر زندگی کے تقاضے مختلف ہیں اور زندگی کی شکلیں مختلف ہیں، مخلوقات مختلف ہیں، مخلوقات کی ساخت مختلف ہے۔
درحقیقت ہر زمین پر اسی زمین کی ماحول کی مناسبت سے زندگی قائم ہے لہذا ہر زمین پر زندگی کی طرزیں مختلف ہیں اور انہیں طرزوں کی مناسبت سے ہر زمین پر مخلوقات کی ساخت بھی مختلف ہے۔ یعنی ہر زمین پر اس کی فضاء کی مناسبت سے اسی فضاء کے عناصر سے ترتیب یافتہ مخلوقات موجود ہیں۔
یعنی کائنات کے ہر سیارے پر مختلف طرزوں پر مشتمل زندگی موجود ہے۔ بلکہ ہر سیارے پہ اسی کی مناسبت سے مخصوص مخلوق آباد ہے۔
لیکن محض انسان وہ ہستی ہے جو پُوری کائنات میں کائنات کے ہر سیارے پر رہنے بسنے ، سفر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یعنی انسانی زندگی کے لئے بھی محض زمینی سیارہ ہی موضوع جگہ نہیں ہے جیسا کہ سائنسدان بتاتے ہیں۔
لہذا انسان محض مادی زمین کے لئے مخصوص نہیں انسان کے لئے پوری کائنات ہے ، جہاں چاہے ، جب چاہے جائے جہاں چاہے رہے جہاں چاہے بسے یہ انسان کی مرضی اس کا اختیار ہے۔
38۔ اجسام کا تشخص
نظریہ نمبر:۔ ﴿22﴾۔ ﴿ ہر جسم منفرد جسم ہے اور اپنا انفرادی تشخص رکھتا ہے۔ ﴾
روح اور نفس (تمام اجسام) اپنا اپنا انفرادی تشخص تو رکھتے ہی ہیں۔ اس کے علاوہ نفس کا ہر جسم اپنا انفرادی تشخص بھی رکھتا ہے۔ ہر وجود کی اہمیت، ہیئت اور خصوصیات دوسرے وجود سے مختلف اور منفرد ہیں۔ مثلاً
۱۔ مادی جسم: مادی جسم سے تو ہم واقف ہی ہیں یہ مادی عناصر سے مرکب مادی وجود ہے مادی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لئے یہ موزوں جسم حرکت و عمل سے مخصوص ہے مادی جسم کی ہیت، ساخت خصوصیات سے ہم آگاہ ہیں ہی۔
۲۔ AURA: جس طرح مادی جسم منفرد ہے اسی طرح AURA بھی اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے مادی جسم کا ہمارے پاس بہت زیادہ علم ہے۔ مادی جسم کی خصوصیات سے تو ہم آگاہ ہیں ہی لیکن AURA تو اپنی انفرادی خصوصیات میں مادی جسم سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ جس طرح مادی دنیا میں انسان کا وجود مادی ہے تو روشنی کی دنیا میں انسان کا وجود AURA ہے۔ اور اپنی انفرادیت میں مادی جسم سے ہزاروں گناہ بڑھ کر ہے۔
۱۔ مثلاً AURA روشنی کا جسم ہے اور یہ روشنی یا بجلی
۲۔ مادی جسم کی حرکی قوت ہے۔
۳۔ مادی جسم کے اعمال و افعال کا سبب ہے۔
۴۔ مادی جسم سے ہزاروں گناہ برق رفتار ہے ،
۵۔ AURA انسان کو روشنی کی دنیا (عالم برزخ) سے مربوط رکھتا ہے۔
یہاں ہم نے اس روشنی کے جسم کی محض چند انفرادی خصوصیات کا ذکر کیا ہے ورنہ
یہ روشنی کا جسم اعمال و خصوصیات میں مادی جسم سے ہزاروں گُنا بڑھ کر ہے لہذا اس جسم کا علم بھی مادی جسم سے وسیع تر ہے جس کا اب آغاز ہو رہا ہے۔
۳۔ نور کا جسم
نور کا جسم بھی منفرد جسم ہے اور اپنی انفرادی خصوصیات میں روشنی کے جسم سے بھی لاکھوں گناہ بڑھ کر ہے۔
نور کا جسم انسان کو نور کی دنیا (عالمِ آخرت)سے مربوط رکھتا ہے۔
نور کا جسم بھی اپنی ساخت، خصوصیات میں منفرد ہے۔
اسی طرح جتنی بھی دنیائیں ہیں جتنے بھی اجسام ہیں ہرجسم منفرد جسم ہے۔
یہاں ہم نے اجسام (نفس) کا مختصر ترین تعارف کروایا ہے۔ ورنہ یہ وہ موضوع ہے کہ جس کا یہاں ہم نے آغاز تو کر دیا ہے لیکن کیا اس کا اختتام بھی ہے؟
اس کی مثال مادی جسم سے ہی لے لیجئے مادی جسم سے متعلق آج ہمارے پاس اتنے علوم ہیں کہ جس کا شمار بھی نہیں جب کہ مادی جسم باقی کے لطیف اجسام کے مقابلے میں ایک مختصر موضوع ہے۔
جب کہ باقی کے لطیف اجسام تو ساخت اور خصوصیات میں مادی جسم سے ہزاروں لاکھوں گناہ بڑے موضوعات ہیں۔ لہذا خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ یہ لطیف اجسام کتنے بڑے علمی موضوعات ہیں۔ ہم نے تو یہاں آج ان کا مختصر تعارف پیش کیا ہے کہ یہ بھی موجود ہیں انہیں بھی تو دیکھئیے۔ یہاں ہم نے صرف ان گمنام اجسام کو متعارف کروایا ہے۔ ابھی تو یہ صرف منظر عام پر آئے ہیں۔ علمی کام تحقیق و تجربات تو ان پر ابھی ہوں گے۔
39۔ اجسام کی اہمیت
نظریہ نمبر:۔ ﴿23﴾۔ ﴿اجسام ہی انسان کا اصل تشخص ترتیب دیتے ہیں۔ ﴾
ہر انسان وہ اچھا ہے یا برا ایک خاص کردار ایک خاص شخصیت ہے اور یہ خاص شخصیت ترتیب دیتا ہے نفس یعنی اجسام۔ لہذا اجسام ہی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
روح ابتداء سے انتہا تک ایک مکمل تشخص مکمل پروگرام ہے اور یہ روح انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا مکمل تحریری پروگرام ہے۔ اب یہ تیار شدہ انسانی پروگرام ایک مکمل سادہ انسان ہے ایک معصوم انسان۔
اب اس سادہ پروگرام یعنی انسان میں اچھے یا برے کاموں سے نفس( اجسام) اپنے ذاتی ارادے سے ترمیم و اضافہ کر رہے ہیں۔ لہذا اجسام کے اچھے یا برے اعمال کی وجہ سے انسانی پروگرام میں ترمیم یا اضافہ ہو گا لہذا اجسام کے اچھے اعمال کی وجہ سے اب یہ انسان اچھا انسان ہو گا۔ یا اجسام کے برے اعمال کی وجہ سے یہ انسان برا انسان ہو جائے گا۔
یعنی انسانی پروگرام میں رد و بدل کر رہے ہیں اجسام کے ذاتی اعمال اور یہی اجسام کے اعمال سے تیار کردہ پروگرام حتمی صورت اختیار کرے گا۔ یعنی انسان کی اگلی زندگی کا تمام تر انحصار اجسام کی موجودہ اچھی یا بری کارکردگی پر منحصر ہے۔
لہذا انسان پیدائشی طور پر ایک سادہ پروگرام ہے جس میں ترمیم و اضافہ کر کے اجسام اس پر اچھا انسان یا برا انسان کا لیبل لگا رہے ہیں۔ یعنی انسان کا اصل تشخص ترتیب دے رہے ہیں اجسام(نفس) اپنے ذاتی ارادے سے لہذا اجسام کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
40۔ اجسام کی حقیقت
نظریہ نمبر:۔ ﴿24﴾۔ ﴿تمام اجسام مفروضہ ہیں۔ ﴾
اجسام کی بے انتہا صلاحیتوں تمام تر خوبیوں اور بے تحاشا اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اجسام کی تمام تر خوبیوں اور اہمیت کے باوجود اجسام کی کوئی حقیقت نہیں۔ تمام اجسام مفروضہ ہیں۔ جیسے کہ خواب جسے ہم نیند میں دیکھ تو رہے ہیں لیکن آنکھ کھلی تو سارا منظر غائب۔ کیا یہ جھوٹ ہے؟
تو پھر بتائیے کہ حقیقت میں چلتا پھرتا بے پناہ صلاحیتوں کا مالک نامور انسان بے حرکت، بے نشان کیسے ہو جاتا ہے۔ ایک جیتا جاگتا انسان بھولا بسرا خواب کیسے ہو جاتا ہے۔
درحقیقت تمام اجسام مختلف مقداروں کے مرکبات کا مجموعہ ہیں اور ان تمام مرکبات کی عرصہ حیات محدود ہے۔ جیسے یہ مرکب ہوتے ہیں ویسے ہی منتشر بھی ہو جاتے ہیں جب ان مرکبات میں سے روح خارج ہو جاتی ہے یہ بے حرکت، منتشر اور بے نشان ہو جاتے ہیں کوئی پتھر کوئی چٹان اپنے وجود میں کسی ایک آدھے وجود کو بطور عبرت محفوظ کر لے تو ہمیں کوئی فوسل کوئی نشانی میسر آ جاتی ہے کہ یہاں پہلے کبھی کوئی وجود بھی تھا یہ چند برائے نام نشانیاں بھی قدرت برائے عبرت چھوڑ دیتی ہے ورنہ تو کسی تیس مار خان کا نشان بھی نہیں بچتا۔ روح کے بغیر ان تمام اجسام کی کوئی حقیقت نہیں اگر ہے تو بتائیے کہ ایک مخصوص مدت کے بعد یہ تمام کہاں چلے جاتے ہیں، کیوں بے نشان ہو جاتے ہیں ؟ جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ وہ کیا شے تھی جو ان اجسام میں اپنا اظہار کر رہی تھی۔ وہ کیا تھی جو ان وجودوں کو موجود رکھ رہی تھی اور جس کی غیر موجودگی سے جسم کا وجود ہی نہ رہا دراصل ان تمام تر اجسام کی اصل کچھ اور ہے۔ اور تمام تر اہمیت کے باوجود بذاتِ خود یہ اجسام مفروضہ ہیں۔
41۔ تمام اجسام فانی ہیں
نظریہ نمبر:۔ ﴿25﴾۔ ﴿ تمام اجسام مر جاتے ہیں (فنا ہو جاتے ہیں )۔ ﴾
مادی جسم ہو یا کوئی بھی لطیف سے لطیف جسم سب اجسام اپنی مدت حیات پوری کر کے مر جاتے ہیں کوئی بھی لطیف سے لطیف جسم غیر فانی نہیں۔
ہر لطیف سے لطیف جسم فانی ہے۔
جیسے مادی جسم دنیا میں ایک مخصوص مدت بسر کرتا ہے پھر موت کا شکار ہو کر بے نشان ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح تمام لطیف اجسام بھی فانی ہیں چاہے وہ AURA ہو یا نور کا جسم یا کوئی اور اس سے بھی لطیف جسم یا اجسام سب فانی ہیں مر جاتے ہیں۔ جب کہ ماضی میں لطیف اجسام کو روح تصور کیا جاتا تھا اور روح سمجھ کر ان اجسام کو غیر فانی تصور کیا جاتا تھا جب کہ آج یہاں ہم نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ تمام لطیف اجسام روح نہیں نفس ہیں اور تمام لطیف اجسام بھی اپنی مدت میعاد پوری کر کے مادی جسم کی طرح مر جاتے ہیں
لہذا تمام تر لطیف اجسام مرکبات ہیں، فانی ہیں۔
42۔ اصل جسم
نظریہ نمبر :۔ ﴿26﴾۔ ﴿ کوئی جسم اصل جسم نہیں یا اجسام کی کوئی اصل نہیں۔ ﴾
آج تک تمام تحقیق و تجربات کرنے والے لطیف اجسام کو روح کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں لہذا ان کے مطابق انسان کا اصل اور غیر فانی تشخص یہی لطیف جسم ہوتا ہے۔ اور اس اصل اور غیر فانی تشخص سے ان کی مراد روح ہوتی ہے۔ اور روح سے ان کی مراد جسم لطیف ہوتی ہے۔ یعنی وہ روح کو جسمِ لطیف بتاتے ہیں اور اس جسمِ لطیف( یا ان کے خیال سے روح )کو وہ غیر فانی کہتے ہیں۔ کیونکہ ہمیشہ انہوں نے روح کو جسم لطیف کی صورت میں دیکھا سوچا یا محسوس کیا ہے جب کہ جسم کوئی بھی ہو کتنا بھی لطیف ہو وہ محض روح کا لباس ہے لہذا بذات خود اجسام کی کوئی اصل نہیں۔
43۔ انسان کی اصل
نظریہ نمبر:۔ ﴿27﴾۔ ﴿انسان کی اصل روح ہے تمام تر اجسام کی اصل روح ہے۔ ﴾
تمامتر اجسام موت کا شکار ہو جاتے ہیں چاہے وہ مادی جسم ہو یا کوئی لطیف یا لطیف ترین جسم ہو سب نفس( اجسام )مر جاتے ہیں ( ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ) جب کہ انسان ان تمام اجسام کی موت کے بعد بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ بلکہ اجسام کی موت کے بعد انسان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے انسان جسم میں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک پنجرے میں قید ہے۔ جسم سے آزادی کے بعد وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک آزاد پرندہ جو اس سے پہلے پنجرے میں قید تھا۔
اجسام تو مفروضے ہیں مر جاتے ہیں جب کہ روح نہیں مرتی! لہذا انسان کی اصل اس کی روح ہے۔ لہذا
44۔ لطیف اجسام
نظریہ نمبر:۔ ﴿28﴾۔ ﴿لہذا لطیف اجسام نہ تو روح ہیں نہ روح کے حصے بلکہ یہ محض اجسام ہیں۔ نفس کے اجسام﴾
جب کہ ماضی میں لطیف اجسام کو یا تو روح سمجھ لیا جاتا تھا یا روح کے حصے۔ یہاں ہم نے مادی جسم کے علاوہ لطیف اجسام کا ذکر کیا ہے اور ان کا علیحدہ علیحدہ تشخص اجاگر کرنے کی ابتدائی کوشش بھی کی ہے لہذا لطیف اجسام سے مراد وہ تمام اجسام ہیں جو مادی جسم کے بعد روح مختلف فضاؤں میں تیار کرتی ہے لہذا مادی جسم کے علاوہ تمام تر باطنی اجسام لطیف اجسام ہیں۔ یہ روح نہیں بلکہ جسم ہیں۔ (جب کہ روح کچھ اور شے ہے ) جن میں سے ایک یا دو آج ہمارے مشاہدے میں بھی ہیں جب کہ یہاں میں نے مزید اجسام کا بھی ذکر کیا ہے۔ جب کہ ماضی میں تمام تر اجسام کو لطیف اجسام کہا گیا یا ماورائی مخلوق یا باطنی مخلوق کہا گیا ہے۔ ماضی میں ان باطنی لطیف اجسام کو روح یا روح کے حصے قرار دیا جا تا رہا ہے جب کہ یہاں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ باطنی لطیف اجسام
(1)۔ نہ تو روح ہیں۔
(2)۔ نہ ہی یہ باطنی لطیف اجسام روح کے حصے ہیں۔
(3)۔ یہ تمام تر لطیف اجسام نفس ہیں۔
(4)۔ جن میں بنیادی نفس (AURA ) ہے۔
لہذا اب یہاں تک پہنچ کر ہم نے بڑی تفصیلاً وضاحت کر دی ہے کہ نفس کوئی مفروضہ نفسانی خواہش نہیں ہے۔ بلکہ نفس سے مُراد اجسام ہیں لطیف اجسام اور ہم نے نفس کی شناخت کے علاوہ اس کے دیگر اجسام کی بھی بالترتیب وضاحت کر دی ہے۔ اور آج یہاں نفس سے متعلق تمام تر مفروضات کی نفی کر کے نفس کی اصل تعریف اور تعارف پیش کر دیا ہے۔
اب نفس کی تعریف ہو چکنے کے بعد انسانی باطن کی درج، ذیل صورت ہمارے سامنے آ رہی ہے۔
45۔ انسانی باطن
نظریہ نمبر:۔ ﴿29﴾۔ ﴿باطن مجموعہ ہے روح و نفس کا۔ یعنی روح + نفس (تمام تر لطیف اجسام )=باطن﴾
یعنی انسان کا ظاہر اس کا مادی جسم ہے تو اس کا باطن روح و نفس پہ مشتمل ہے۔
ظاہری مادی جسم سے تو ہم واقف ہی ہیں جب کہ کچھ روحانی لوگ ماضی میں انسانی باطن کا بھی مشاہدہ کرتے آئے ہیں اور وہ باطن سے لاعلمی کے سبب ہر لطیف جسم کو روح قرار دیتے رہے ہیں۔ ہر جسم کو وہ روح کہنے کے بجائے ایک جسم کو روح اور باقی اجسام کو روح کے حصے کہتے رہے۔
جب کہ یہاں ہم نے یہ وضاحت کی ہے کہ جنہیں ماضی میں روح یا روح کے حصے بتایا جاتا رہا ہے وہ روح اور اس کے حصے نہیں ہیں روح تو کوئی اور ہی شے ہے جب کہ یہ تمام تر لطیف اجسام ہیں جنہیں نفس کہا جاتا ہے یا پھر یوں کہنا چاہیے کہ ان تمام تر لطیف اجسام کا اصل نام نفس ہے۔ ظاہری مادی جسم سے تو ہم واقف ہیں اب باطنی لطیف اجسام کی بھی یہاں ہم نے تعریف اور تعارف پیش کر دیا۔ لہذا اب مجموعی انسان کی تعریف کچھ یوں سامنے آئی ہے۔
46۔ مجموعی انسان
نظریہ نمبر۔ ﴿30﴾۔ انسان کا ظاہر و باطن۔ یعنی مجموعی انسان
۱۔ ظاہر=مادی جسم
۲۔ باطن =نفس (تمامتر اجسام)+روح
لہذا انسان مجموعہ ہے : ماد ی جسم +روح+نفس (تمامتر اجسام)=انسان
مادی جسم کو تو ہم آج سائنسی حیثیت میں شناخت کرتے ہیں۔
نفس کی بھی یہاں ہم نے انفرادی شناخت قائم کر دی۔
لیکن ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ روح کیا ہے۔ ماضی میں نفس کے لطیف اجسام کو روح اور اس کے حصے تصور کیا جاتا رہا ہے جب کہ یہ لطیف اجسام روح نہیں نفس ہیں۔
روح تو ان تمام تر اجسام سے الگ شے ہے !(روح کیا ہے اس کا ذکر آگے آئے گا)چلیے فی الحال آج یہاں اجسام کا مسئلہ تو حل ہوا۔
47۔ اجسام کا مسئلہ
نفس کی انفرادی شناخت تعارف اور تعریف ہو گئی چلیے اجسام کا مسئلہ تو حل ہوا۔ ہزاروں برس سے لوگ اسی مسئلے میں الجھے ہوئے تھے۔ ماضی کے ہر دور کے لوگ تین یا سات اجسام کا تذکرہ تو کرتے رہے اور آج بھی کرتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی ان تین یا سات اجسام کا مطلب نہیں سمجھے وہ ان اجسام کا مشاہدہ تو کر رہے تھے لیکن ان تین یا سات اجسام کے چکر میں بُری طرح الجھ گئے تھے اور اپنی اس اُلجھن کو آواگون جیسے قدیم نظریے سے تشبیہ دے کر سُلجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ماضی میں وہ ہر لطیف جسم کو روح اور اس کے حصے کہتے رہے ہیں۔
لیکن وہ یہ بھی فیصلہ نہیں کر پائے کہ ان اجسام میں سے روح کونسی ہے۔
اور وہ یہ بھی جان لیتے ہیں کہ ان اجسام میں سے روح کوئی بھی نہیں۔
اسے علیحدہ سے بھی جان لیتے ہیں اور جان لینے کے بعد پھر روح کو روح کے طور پر شناخت نہیں کرتے۔
پھر لطیف اجسام کو ہی روح اور روح کے حصے کہتے ہیں۔
روح کو ناقابل تقسیم بھی کہتے ہیں ساتھ ہی اسے حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہیں
اور جب خود ہی اپنی تضاد بیانیوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ جو روح ہے دراصل معمہ ہے جو حل طلب نہیں۔
ماضی اور حال کا انسان اپنے باطن کا مشاہدہ تو کرتا رہا لیکن کبھی بھی اسے سمجھ نہیں پایا اور نہ ہی سمجھا پایا اور لطیف اجسام کے چکر میں ہی الجھا رہا لہذا لطیف اجسام کو روح بھی کہتا رہا اور روح کے حصے بھی اور ان اجسام کو انسان کے دوسرے جنموں سے بھی تشبیہ دیتا رہا۔
لہذا یہاں ہم نے یہ اجسام کی گتھی سلجھائی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ :۔
۱۔ تمام لطیف اجسام روح نہیں ہیں۔
۲۔ نہ ہی یہ روح کے حصے ہیں۔
۳۔ بلکہ مادی جسم کی طرح انسان کے مزید باطنی لطیف اجسام بھی ہیں۔
۴۔ تمام لطیف اجسام روح کے میڈیم یا لباس ہیں۔
۵۔ اور انسان اپنے ان مختلف قسم کے اجسام کے ذریعے پوری کائنات اور اس کے نوع بہ نوع سیاروں سے مربوط ہے۔
۶۔ تمام اجسام فانی ہیں (مر جاتے ہیں )۔
۷۔ نفس مذہبی اطلاع ہے جس کی آج یہاں ہم نے صحیح تعریف کر دی ہے۔
۹۔ لہذا تمام اجسام نفس (لطیف اجسام +مادی جسم) ہیں۔ اور
۱۰۔ تمام تر اجسام کا اصل نام نفس ہے جو مذاہب نے ان باطنی اجسام کو بخشا تھا۔
۱۱۔ اجسام کی اصل روح ہے۔
۱۲۔ تمام تر اجسام زندگی کا سبب نہیں۔
۱۳۔ جسم کی اطلاعات کا سبب اجسام نہیں۔
۱۴۔ انسانی باطن مجموعہ ہے۔
روح + نفس (تمام لطیف اجسام) کا
۱۵۔ جب کہ انسان مجموعہ ہے۔
مادی جسم + روح + نفس (تمام اجسام )
لہذا یہاں اجسام کا مسئلہ حل ہوا نفس کی شناخت ہو گئی لیکن ابھی انسان کی تعریف مکمل نہیں ہوئی ابھی محض نفس کی شناخت ہوئی ہے ابھی روح کی شناخت باقی ہے۔ اور روح کی شناخت اور تعریف اور تعارف کے بغیر انسان کی تعریف مکمل نہیں ہو سکتی۔
آیئے روح کی شناخت قائم کر کے اس کی تعریف اور تعارف کرتے ہیں۔
باب نمبر۴: روح (SOUL)
قُل الرّ وح مِن اَمرِ رَبّی
کہہ دیجیے روح رب کا حکم ہے۔
48۔ مختلف ادوار میں روح کی علمی حیثیت
اگرچہ روح کو غیر مرئی کہہ کر علم کی حدود سے خارج کر دیا گیا تھا پھر بھی مختلف ادوار میں روح کا تذکرہ ہوتا رہا ہے۔ روح پر ہر دور میں فکری، تجرباتی، تحقیقی ہر طرح کا بہت کام ہونے کے باوجود روح کی تعریف یا شناخت تک نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ روح کا علم کسی بھی دور میں علمی میدان میں نہ اُتر سکا لہذا یہ تذکرہ فقط عقائد تک محدود رہ گیا۔ علمی حیثیت میں پہلی دفعہ روح کو یونانی فلسفیوں نے متعارف کروایا۔
(۱)۔ یونانی فلسفی
لیکن یونانی فلسفیوں کی تعریفیں ( جن کا ابتدائی صفحات میں تذکرہ موجودہ ہے ) پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ
(1) ان کی تعریفیں عقیدوں سے متاثرہ تعریفیں ہیں۔
(2) یا وہ یہ احساس رکھتے تھے کہ بدن کے علاوہ بھی کوئی شے ہے جو بدن کی زندگی کا سبب ہے۔
(۳)۔ افلاطون کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ و ہ کچھ روحانی مشاہدات اور تجربات بھی رکھتے تھے۔
ارسطو ( 322 – 384ق م) نے علم الروح (Psychology) کے نام سے جو کتاب لکھی تھی وہ بھی ظاہر ہے اسی قسم کے نظریات یا عقیدوں پر مبنی ہو گی لیکن اب تو اس کتاب یا کتابچے کا فقط تذکرہ ہی باقی ہے (وہ کتاب اب موجود نہیں )۔ یعنی یونانی فلسفی روح کا بہت ہی ابتدائی عقلی احساس رکھتے تھے کہ کوئی روح بھی ہے جو بدن کی زندگی ہے ، وہ روح کیا ہے؟ اس کے اعمال و افعال کیا ہیں۔؟ وہ نہیں جانتے تھے۔ روح سے اس مختصر تعارف کی وجہ ان کے عقیدے رہے ہونگے یا وہ فکری و عقلی احساس جو ہر صاحبِ عقل کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے بہر حال ہم اس ابتدائی عقلی احساس کو روح کا علم قرار نہیں دے سکتے۔ یونانی فلسفی روح کی تعریف یا شناخت نہ کر سکے لیکن ان کا یہ کام روح کے علم کی طرف ایک راست قدم ضرور تھا۔ ہاں اگر یونانیوں کے آغاز کردہ اس علم پر مزید علمی پیشقدمی ہوتی تو پھر یونانیوں سے آغاز کر کے یہ علم آج اپنے عروج پر ہوتا۔ مگر افسوس ایسا ہو نہیں پایا۔ یونانی فلسفیوں کے روح سے متعلق اس مبہم عقلی احساس کو ان کے بعد آنے والے مادہ پرستوں نے جھٹلا دیا۔ یونانی فلسفیوں کے بعد آنے والے یہ مادہ پرست تھے سائنسدان۔
(۲)۔ سائنسدان
یونانی فلسفیوں کے بعد منظر عام پر آئے سائنسدان۔ اور یہ سائنسدان یونانی فلسفیوں کی علمی فکر سے پھوٹے تھے۔ ان سائنسدانوں نے یونانی فلسفیوں کی فکر پر تجربات کی بنیاد رکھی۔ ان سائنسدانوں نے یونانی فلسفیوں کے روح سے متعلق اپنی پسند کے نظریات تو رکھ لئے جنہیں انہوں نے ذہن، کردار، نفس جیسے نئے نئے عنوانات کے ساتھ پیش کیا اور ان نظریات کی اصل ماخذ یعنی روح کا انکار کر دیا۔ اور صرف اتنا ہی نہیں ان سائنسدانوں نے روح کو غیر مرئی قرار دے کر روح کو علم کی فہرست سے ہی خارج کر دیا۔ یعنی روح کے اعمال و افعال کو تو دیگر ناموں سے قبول کر لیا اور روح کے اعمال و افعال سے روح کو خارج کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ روح غیر مرئی ہے تجربے کی زد میں نہیں آتی لہذا اس کا علم سے تعلق نہیں۔ انہوں نے ہر حقیقت کی بنیاد تجربے کو قرار دیا اور جو سامنے کی حقیقت بھی ان کے ناقص تجربات کی زد میں آنے سے رہ گئی اسے انہوں نے جھٹلا دیا۔ سائنسدانوں کی اس سطحی سوچ نے روح کے علم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور اسی رویہ سے روح کے علم پر صدیوں کی گرد چڑھ گئی۔ لہذا سائنس دانوں نے یونانی فلسفیوں کے روح سے متعلق نظریات کو
۱۔ دیگر عنوانات مثلاً ذہن، کردار، نفس، شعور، لاشعور اور سائیکالوجی وغیرہ کے ساتھ پیش کیا۔
۲۔ اور روح کے ان اعمال و افعال سے روح کو خارج کر دیا۔
(۳)۔ مسلمان
مسلمانوں نے پہلے تمام ادوار کے مقابلے میں روح پر سب سے زیادہ سیر حاصل اور سب سے بہترین فکری و عملی بحث کی انہوں نے پہلی مرتبہ نہ صرف روح، نفس اور جسم کا غیر سائنسی دور میں سائنسی انداز میں تذکرہ کیا لیکن یہ ابتداء تھی اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے تھا لیکن مسلمانوں نے اس کام کو علمی یا عملی تجرباتی سطح پر لانے کی کوئی کوشش نہیں کی اگر کرتے تو یہ معاملہ اب تک سلجھ چکا ہوتا۔ اگرچہ مسلمانوں کا کام بہترین کام ہے۔ لیکن یہ کام کوئی علمی پیشرفت نہیں بلکہ انتہائی ابتدائی کام ہے۔ اور تمام کاموں کی طرح بے نتیجہ کام ہے۔
(۴)۔ جدید تحقیقات
انیسویں صدی میں روح پھر ابھر کر سامنے آئی اور روح پر بھرپور طریقے سے سائنسی انداز میں تحقیق و تجربات اور تجزیات ہوئے۔ اور یہ تحقیق و تجربات کرنے والے سائنسدان، فلاسفرز، ڈاکٹر اور محققین ہیں لہذا روح کو وہم یا غیر مرئی کہنے والے ہی آج روح پر باقاعدہ علمی فکری سائنسی جانچ پڑتال لیبارٹریوں میں کر رہے ہیں۔ لیکن سینکڑوں برسوں کی تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسان کے باطن کی دریافت تو ہو گئی یہ تو ثابت ہو گیا کہ کوئی روح بھی ہے AURA کی بھی تصویر کشی کر لی گئی۔ لیکن ابھی تک سائنسدان اس جہان باطن سے متعارف نہیں ہو پائے۔ روح کیا ہے ؟ ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہوا روح کی نہ تو کوئی انفرادی شناخت ہو سکی ہے نہ ہی کوئی حتمی تعریف سامنے آئی ہے۔ اگرچہ آج روحانی واقعات و تجربات پر بے تحاشا تحقیق و تجربات کئے جا رہے ہیں روح پہ بے تحاشا مواد موجود ہے لیکن آج بھی ماضی کی طرح جدید محقق یہی کہتے نظر آ رہے ہیں کہ روح کی تعریف ممکن نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے یہ جاننے کے لئے ہم مختلف ادوار میں کی جانے والی روح کی مختلف اور بہترین تعریفوں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ (جن کا تفصیلی تذکرہ ابتدائی صفحات میں ہو چکا ہے )۔
49۔ روح کی تعریفیں
کچھ لوگوں نے روح کی تعریف کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور یہ کوشش بہت ہی مختصر ہے۔ لہذا ہزاروں برسوں کے کام سے مجھے روح کی چند ہی تعریفیں ملیں ہیں۔ اور ان چند روح کی تعریفوں میں سے زیادہ تر تو روح کی تعریفیں ہیں ہی نہیں۔ ہاں یہ تعریفیں محض روح کی تعریف کی کوششیں ضرور ہیں۔ مادی جسم کے علاوہ بھی کچھ ہے کیا اتنا کہہ دینا اتنا سمجھ لینا کافی ہے ہرگز نہیں۔ روح، سپرٹ، ہمزاد، AURA وغیرہ وغیرہ۔ کیا اتنا کہہ دینا کافی ہے۔ کیا یہ روح کی تعریف ہے؟ ہرگز نہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہزاروں برس کے ادوار میں جو روح کی چند مختصر تعریفیں کی گئی ہیں ان تمام تر تعریفوں میں سے ایک آدھ تعریف صحیح تعریف بھی ہے۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے ان میں سے وہ ایک صحیح تعریف کونسی ہے۔ اتنی متضاد تعریفوں میں سے صحیح تعریف کا اندازہ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور ایسا کون کرے گا۔ ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو روح کا نہ صرف علم رکھتا ہے بلکہ روح کو پورے طور پر شناخت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن روح کے علم کی پوری تاریخ کا جائزہ لے لیجئے ایسا کوئی بھی نہیں عام لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ کوئی روح بھی ہوتی ہے۔ جو جانتے ہیں وہ اس کا مشاہدہ نہیں کرتے جو مشاہدہ کرتے ہیں وہ اسے روح کے طور پر شناخت نہیں کرتے جو اسے روح کے طور پر شناخت کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں یہ جو روح ہے اس کی تعریف ممکن نہیں یا اس روح کی تعریف کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان تمام تعریفوں میں سے ایک تعریف روح کی تعریف ہے بھی تو وہ تعریف دراصل تعریف کے معیار پر بھی پوری نہیں اُترتی۔ لہذا اگر ہم یہاں یہ کہہ بھی دیں کہ فلاں فلسفی نے روح کی صحیح تعریف کی تھی تو یہ ماضی کی ایک آدھ صحیح تعریف محض روح کی تعریف کی انتہائی ابتدائی کوشش ہے۔ لیکن یہ انتہائی ابتدائی کوشش نہ تو روح کی تعریف ہے نہ ہی یہ کوئی روح کا علم کہلا سکتی ہیں۔
لہذا یہ تمام تر تعریفیں محض روح کی تعریف کی انتہائی ابتدائی کوششیں ہیں جو ظاہر ہے کامیاب نہیں رہیں۔
یعنی ہزاروں برسوں سے روح پر ایک مخصوص طبقے میں کام ہو رہا ہے مشاہدات و تجربات بھی کئے جاتے ہیں حتیٰ کی روح کا مشاہدہ و تجربہ بھی کیا جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اسے دیکھنے جاننے کے باوجود آج تک کوئی اس کی تعریف تک نہیں کر سکا۔ روح کی یہ ہزاروں برس کی تعریفیں یہاں ہم نے جمع کی ہیں آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں۔
(1)۔ انیکسا غورث کا خیال ہے کہ روح ایک ایسی قوت ہے جو (حیوانات و نباتات) ہر جاندار اشیاء کے درمیان جاری و ساری ہے۔
(2)۔ دمقراط نے کہا روح چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذروں پر مشتمل ہے
(3)۔ ارسطو نے کہا کہ یہ ایک ایسی اکائی ہے جو فی ذاتہ مکمل ہے
(4)۔ برطانیہ کے رابن فرامین نے روح کو متحرک یادداشت قرار دیا۔
(5)۔ ڈبلیو ایچ مائرز کے خیال میں جسمانی شخصیت کے علاوہ بھی ایک شخصیت ہے جو مادی جسم سے زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے یہ موت کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔
(6)۔ ڈاکٹر ریمنڈ موڈی نے کہا کہ انسان محض مادی جسم نہیں بلکہ ایک اور سمت یا مکمل ذات ہے جسے نفس SOUL، یا ادراک جو بھی کہیں وہ ہے ضرور۔
(7)یونانیوں نے روح کو ذہن قرار دیا۔ یونانی فلسفیوں نے دو روحوں۔ (i)روح حیوانی اور (ii)روح انسانی کا تذکرہ بھی کیا۔
(8)۔ مصر کے قدیم باشندوں نے بع اور کع کا تذکرہ کیا۔
(9)۔ بدھسٹ، سکھ، ہندو روح کو رب کا حصہ قرار دیتے ہیں اور روح کو آتما اور رب کو پرماتما کہتے ہیں۔
(10)۔ مصر کے قدیم باشندوں نے بع اور کع کا تذکرہ کیا۔
(11)۔ ۔ قدیم چینیوں نے پو P.O اور ہن HUNکا ذکر کیا۔
(12)۔ یہودیوں نے تین روحوں (i)۔ NEFESH، (ii)۔ RUACHاور (iii) NESHAMAکا ذکر کیا
(13)اکثر مفکرین مثلاً ارسطو، امام غزالی، خواجہ شمس الدین عظیمی، شاہ ولی اللہ وغیرہ نے روح کو تین حصوں (i) روح حیوانی (ii) روح انسانی (iii) روح اعظم میں تقسیم کیا۔
(14)۔ امام مالک، ابو اسحق نے کہا کہ یہ جسم ہی کی طرح مکمل نورانی صورت یا جسم لطیف ہے۔
(15)شاہ ولی اللہ نے روح کو روحِ یقظہ، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور نورانی نقطہ کہا
16)۔ علامہ حافظ ابن القیم نے نفس اور روح کو ایک ہی شے قرار دیا۔
(17)۔ داتا گنج بخش نے کہا کہ روح ایک جنس اور باقی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے۔
(18)۔ الکندی نے کہا روح ایک سادہ غیر فانی و غیر مرکب ہے۔ ۔
(19)۔ کسی نے روح کو لاشعور یا تحت لاشعور قرار دیا۔
(20)۔ کسی نے اسے ایتھری جسم یا اسٹرول پروجیکشن کہا۔
(21)۔ کسی نے روح کو ماورائی مخلوق قرار دیا۔
(22)۔ کسی نے کہا کہ مرنے کے بعد شخصیت کا کچھ حصہ باقی رہ جاتا ہے جو ان کے خیال میں روح یا (Spirit) ہے۔
کسی نے اسے روشنی یا نور کہا۔ کسی نے اسے برقی رو یا کرنٹ کہا۔ کسی نے کہا روح جوہر ہے جس کا تعلق بدن سے ہے
(23)۔ سائنسدانوں نے بھی کر لین فوٹوگرافی سے ایک لطیف وجود کی تصویر کشی کی ہے جسے انہوں نے ” AURA ” کہا ہے۔ اور AURA کے اندر مزید سات اجسام Subtle Bodiesکا اور چکراز کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
50۔ اب آپ کی کیا رائے ہے؟
یہاں ہم نے مختلف ادوار کے مشہور و معروف مفکروں سائنسدانوں محققوں کی رائے پیش کی۔ یہ تمام روح کی رنگ برنگی مختلف اور متضاد تعریفیں پڑھنے کے بعد اب، روح کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟ ظاہر ہے کچھ بھی نہیں اتنی رنگ برنگی اور متضاد تعریفیں پڑھنے کے بعد ظاہر ہے سمجھ تو کچھ نہیں آ سکتا ہاں انسان الجھن کا شکار ضرور ہو جاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر
روح ہے کیا؟ ہے بھی یا نہیں۔
یہ تو بالآخر اس کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن اس الجھن کے بعد روح کے بارے میں ڈھیروں کتابیں اور تفصیلات کے مطالعے کے بعد بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مادی جسم کے علاوہ بھی کچھ ہے جسے انسان پھر بالآخر مجبور ہو کر اپنے عقیدے ہی کے مطابق نام دینے پر مجبور ہے۔ لہذا کبھی وہ اسے روح کہتا ہے کبھی سپرٹ کبھی AURA کبھی نورانی وجود کبھی ہمزاد کبھی ایتھری جسم کبھی آسٹرل باڈی کبھی کرما کبھی چکراز وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ!
51۔ تمام تعریفوں کا نتیجہ
آج تک کی جدید تحقیق اور صدیوں پر مشتمل تمام تر تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا روح کا مطالعہ کر کے صرف آپ ہی نہیں الجھے حد تو یہ ہے جنہوں نے روح پر تجربات کئے ہیں جنہوں نے مشاہدے کئے ہیں جنہوں نے سویوں برس کی تحقیق لیبارٹریوں میں کی ہے وہ بھی اسی کشمکش کا شکار ہیں جس کا کہ آپ۔ صدیوں برس کی تحقیق اور آج کے برس ہا برس کے تجربات و مشاہدات کے بعد ماہرین، محققین، سائنسدانوں کی بھی وہی رائے ہے جو ابتداء کے یونانیوں کی تھی یعنی مادی جسم کے علاوہ بھی کچھ ہے اور یہ کچھ کیا ہے ؟ یہ ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے جس پہ کہ سبھی کی متفقہ رائے یہ ہے کہ اس روح کی تعریف ممکن نہیں۔ لہذا صدیوں کی تمام تر تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلا کہ روح کی تعریف ممکن نہیں۔
52۔ روح کی تعریف ممکن نہیں
روح پر ہزاروں برسوں سے کام ہو رہا ہے۔ ہر دور کے مخصوص روحانی لوگ روح کا مشاہدہ بھی کرتے آئے ہیں۔ اور آج بھی روح کا تجربہ و مشاہدہ کرنے والے لوگ موجود ہیں لیکن آج تک نہ تو روح کی انفرادی شناخت ممکن ہوئی ہے نہ ہی اس کی کوئی تعریف ہی سامنے آ سکی ہے۔ لہذا
۱۔ عام لوگ تو روح کو جانتے ہی نہیں۔
۲۔ جو جانتے ہیں وہ اسے انفرادی حیثیت میں شناخت نہیں کرتے۔
۳۔ جو شناخت کرتے ہیں وہ بھی اس کی تعریف نہیں کر سکتے۔
۱۸۸۲ء میں لنڈن میں ایک کمیٹی بنی اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ روح اور اس کے متعلقہ مسائل پر بحث کی جائے۔ اس کمیٹی میں یورپ کے ممتاز علماء اور سائنسدان شامل تھے۔ یہ کمیٹی تیس سال قائم رہی اور اس مدت میں اس نے حاضراتِ ارواح کے مختلف واقعات کی جانچ پڑتال کی اور چالیس ضخیم جلدوں میں اپنے تاثرات کو شائع کیا۔ چالیس سال کی چھان پھٹک کے بعد کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ انسان کی جسمانی شخصیت کے علاوہ ایک اور شخصیت بھی ہے جو گوشت پوست کے جسم سے کہیں زیادہ مکمل اور اعلیٰ و ارفع ہے۔ یہی اعلیٰ و ارفع شخصیت موت کے بعد قائم اور برقرار رہتی ہے۔
مثلاً ڈبلیوایچ مائزر (Frederic. W.H. Myers) نے اپنی کتاب
Human Personality and its survival of bodily death میں سینکڑوں پراسرار واقعات، حادثات، تجربات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے سپرٹ (Spirit) کہتے ہیں۔
ڈاکٹر ریمنڈ موڈی (1975) نے اپنی کتاب لائف آفٹر لائف میں مر کر زندہ ہونے والے ڈیڑھ سو افراد کے بیانات پر سائنسی تجربات و تجزیات کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ انسان محض مادی وجود نہیں بلکہ ایک اور سمت یا مکمل ذات ہے جسے نفس، Soul یا ادراک جو بھی کہیں وہ ہے ضرور۔
برطانیہ کے رابن فرامین کہتے ہیں ان تجربات میں کیسی ہی غلطی کیوں نہ معلوم ہوتی ہو انہیں رد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہزاروں لوگ جو روحانی تجربات سے گزرنے کا دعویٰ کرتے ہیں سب خبطی یا جھوٹے تو نہیں ہو سکتے صرف برطانیہ میں ہر دس میں سے ایک شخص کو اس طرح کے تجربات ہوئے ہیں۔ روحیں کیا ہیں ؟ یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ایک متحرک یادداشت ہیں اور روح نہیں ہیں۔ یہ ایسی یادداشت ہیں جو انسان کے مرنے کے بعد رہ جاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں ایسے لوگ جو روحانی صلاحیتوں کے مالک ہیں انہیں دیکھ یا سن سکتے ہیں۔ جب یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی روح کسی شخص کو خطرے سے بچا دیتی ہے یا اسے کوئی اہم معلومات مہیا کرتی ہے تو یہ اس شخص کا تحت الشعور ہوتا ہے جو یہ تصور پیدا کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی کے مطابق روح ہمیشہ پردے میں رہتی ہے اور خود کو کسی نہ کسی لباس یا حجاب میں ظاہر کرتی ہے۔ روح کے بارے میں جتنے تذکرے ملتے ہیں اور جن لوگوں نے روح کی تعریف بیان کی ہے انہوں نے روح کو کسی نہ کسی شکل و صورت میں ہی بیان کیا ہے مثلاً روشنی، نور وغیرہ وغیرہ روشنی بھی ایک شکل ہے نور کی بھی ایک تعریف ہے۔ فی الواقع روح کیا ہے؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟ اس کو واضع طور پر بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
آج لاکھوں لوگ مُراقبہ و مشاہدہ کرتے ہیں لہذا مشاہدہ کرنے والے بھی جب روح کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ یہ جو روح ہے اس کی تعریف ممکن نہیں۔ برسوں کی فکر برسوں کی تحقیق برسوں کے تجربات و مشاہدات کا نتیجہ کیا نکلا؟ مشاہدوں تجربوں کے بعد بڑی سوچ و بچار کے بعد بالآخر سب فلسفیوں سب سائنسدانوں سب روحانی عالموں کا متفقہ فیصلہ یہی ہے کہ
یہ جو روح ہے اس کی تعریف ممکن نہیں۔ !
53۔ روح کی تعریف کیوں ممکن نہیں
روح جو ہم خود ہیں کیا ہم خود کو نہیں جان سکتے۔؟ کیا ہماری اصل ہماری روح کی یعنی ہماری اپنی تعریف ممکن نہیں۔؟روح کی تعریف عین ممکن ہے نا ممکن کا لفظ بے کار ہے۔ سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج تک روح کی صحیح تعریف کا اور خود روح کا تعین نہیں ہو سکا۔ آئیے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ آج تک روح کی تعریف کیوں نہیں ہو سکی۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج تک روح پر تحقیق و تجربات کرنے والوں نے روح کو اس کے واضع انفرادی تشخص کے ساتھ کبھی شناخت ہی نہیں کیا صدیوں سے روح پر تحقیق کرنے والوں نے کبھی روح کی تعریف کی ہی نہیں وہ مختلف اجسام اور ہیولوں کو روح کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ روح کا علم رکھتے ہی نہیں تھے روح کو جانتے ہی نہیں تھے سویوں برس کے لیبارٹریوں میں تجربات اور مشاہدات کے بعد بھی وہ روح کو شناخت کر ہی نہیں پائے۔ روح کی تمام تعریفوں میں چند تعریفیں ایسی ہیں جو صحیح ہیں قابل غور ہیں لیکن ان انتہائی ابتدائی چند الفاظ کو ہم روح کا علم یا روح کی تعریف نہیں کہہ سکتے
روح کی تعریف آج تک کیوں نہیں ہو سکی کیا غلطی کرتے رہے ہیں روح پر تجربات کرنے والے آج ہم اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے بعد روح پر باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر لیبارٹری میں بہت کام ہوا ہے لیکن چونکہ روح مشاہدے میں نہیں لہذا یہ بنیادی غلطیاں سبھی کرتے رہے ہیں۔ وہ بنیادی غلطیاں مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ کسی نے روح کو انفرادی حیثیت میں شناخت نہیں کیا۔ لہذا وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ روح کیا ہے اور روح سے اسی لاعلمی کے سبب
۲۔ پچھلے تمام محقق انسان کے باطنی لطیف اجسام یعنی نفس کو روح کے طور پر پیش کرتے رہے۔
اگرچہ وہ روح کو جسمِ لطیف کہنا چاہتے تھے لیکن درحقیقت وہ اجسام کے چکر میں بُری طرح اُلجھ گئے۔ !لہذا یہاں ہم نے دو غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔
۱۔ روح کی شناخت۔
۲۔ اجسام کا چکر۔
روح کی شناخت
روح کی آج تک انفرادی شناخت تو نہ ہو سکی لیکن اس بے شناخت فرضی روح کے لئے مختلف اقوام میں مختلف نام ضرور رائج ہیں آیئے ان بہت سارے ناموں میں سے روح کو اور اس کے اصل نام کو شناخت کریں
54۔ روح کے نام
بع، کع، ذہن یا روح، نفس، روح حیوانی، روح انسانی، روح اعظم، NEFSH، RUACH، NESHAMA، SPIRIT، ، SELF، JIVA، ATMAN یا آتما SOUL قدیم یونانی اسی لفظ کو زندہAlive))کے لئے استعمال کرتے تھے لہذا ویسٹرن فلاسفرز کے خیال میں بھی لفظ SOULاور Aliveness ہم معنی ہیں۔
پو PO، ہنHU، اورا AURA، سبٹیل باڈیز Subtle Bodies، چکرازChakras ، جسم لطیف، جوہر، روشنی، نور، نقطہ، لاشعور، تحت لاشعور، متحرک یادداشت، ایتھری جسم، اسٹرول پروجیکشن، ماورائی مخلوق، اعلیٰ و ارفع شخصیت، برقی رو یا کرنٹ، وغیرہ وغیرہ۔
سائنسدانوں نے بھی کر لین فوٹو گرافی (Karlain Photography) کے ذریعے ایک روشنی کے وجود (AURA) کی تصوری کشی کی ہے۔ اکثر لوگ اسے ہی روح قرار دیتے ہیں
55۔ یہ سب نام کیا ہیں
(1) کیا یہ سب روح کے نام ہیں؟
(2) یا یہ مختلف اجسام کے مختلف نام ہیں، اگر یہ مختلف ہیں تو پھر ان تمام کی انفرادی شناخت کا کیا معیار ہے ؟
(3) یا یہ سب نام روح کے حصوں کے نام ہیں ؟
(4) یا ان سب ناموں میں سے کوئی ایک نام روح کا ہے ؟
(5) اگر ان میں سے کوئی ایک روح ہے تو وہ کونسی ہے ؟
جو نام ہم نے یہاں اکھٹے کئے ہیں یہ نام عموماً روح کے بارے میں معلومات رکھنے والے روح ہی کے لئے مختلف زبانوں یا عقیدوں کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
(1) لیکن یہ سب نام روح کے نام نہیں ہیں۔
(2) ان میں زیادہ تر نام تو روح کے لئے استعمال کیئے گئے ہیں لیکن روح کو شناخت کیئے بغیر۔ فرضی نام۔
(3) یہ روح کے حصے بھی نہیں ہیں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔
(4) دراصل یہ انسانی باطن کے مختلف اجسام کے مختلف نام ہیں جنہیں مشاہدہ کرنے والے روح کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام لطیف اجسام نہ تو روح ہیں نہ ہی روح کے حصے۔
(5) ان ناموں میں ایک آدھ نام اور ایک آدھ تعریف روح کی بھی ہے لیکن روح کو روح کے طور پر شناخت نہیں کیا جاتا۔
اور ان تمام غلطیوں کا سبب ہے باطن سے لاعلمی۔
ہم روح کا علم نہیں رکھتے لہذا اس کو شناخت نہیں کر پاتے۔ دوسرے ہم اپنے باطن کا علم بھی نہیں رکھتے لہذا روح کے علاوہ تمام اجسام کو بھی روح کے طور پر شناخت کرتے ہیں اور روح کو روح کے طور پر شناخت ہی نہیں کر پاتے آج تک ان تمام ناموں میں سے روح کی شناخت ممکن نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ ہم اتنے ناموں میں اسے شناخت نہیں کر سکتے اور اس شناخت نہ کر سکنے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
(1)۔ روح سے لاعلمی۔
(2)۔ باطن سے لاعلمی۔
56۔ باطن سے لاعلمی
جس طرح ایٹم کے اندر ایک وسیع جہان دریافت ہو چکا ہے اور مزید دریافتیں جاری ہیں۔ اسی طرح اتفاقاً آج سائنسدانوں نے اپنے اندر جھانک کر اپنے باطن کا بھی مشاہدہ کر لیا ہے۔ اور وہ اپنے اندر آباد اس وسیع جہان کو دیکھ کر حیران ہو رہا ہے جس کی دریافت تو ہو گئی ہے لیکن شناخت ہونا باقی ہے۔ ویسے تو جہان باطن کا مشاہدہ کرنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور آج بھی ہیں لیکن آج جہان باطن کی دریافت جدید سائنسی طریقوں سے بھی ہو گئی یعنی حجت تمام ہوئی مادہ پرستوں کی۔ ان کی یہ ضد تھی کہ ایسی چیز کو کیوں مانیں جو نظر نہیں آتی۔ بہر حال باطن کا مشاہدہ کرنے والے جب مشاہدہ کرتے ہیں تو دو غلطیاں کرتے ہیں
(1) وہ باطن کے تمام لطیف اجسام کو روح یا روح کے حصوں کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔
(2) وہ ان تمام میں سے روح کو شناخت نہیں کر پاتے۔
یا وہ انسان کے لطیف اجسام کو AURA ، چکراز، یا سبٹل باڈیز کا نام دے دیتے ہیں۔ یہ تمام سنگین خطائیں ہیں۔ یعنی مشاہدہ کرنے والے جہان باطن کا مشاہدہ تو کر رہے ہیں لیکن وہ اسے شناخت نہیں کر پائے اور اسے بری طرح خلط ملط کر کے رکھ دیا ہے۔ اور سب نے اسے مختلف ناموں سے پکارا ہے جس سے یہ معاملہ سلجھ نہیں رہا مزید الجھ رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ روح کے یا باطن کے جتنے نام بیان ہوئے ہیں کیا انسان کے اندر اتنے ہی نظام کام کر رہے ہیں اور باطن کا مشاہدہ کرنے کے باوجود وہی صدیوں کے سوال جوں کے توں حل طلب ہیں کہ ان میں سے روح کونسی ہے کیا یہ سب روح اور اس کے حصے ہیں تو جواب ہے نہیں۔ تو پھر یہ سب لطیف اجسام کیا ہیں ؟ اور ان تمام تر ناموں کی اصل کیا ہے ؟مثلاً میں روبینہ نازلی ہوں اگر فارسی میں مجھے کسی اور نام سے پکارا جائے عربی میں اور انگلش میں اور یعنی چالیس زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارا جائے یا تذکرہ کیا جائے تو پھر یہ اندازہ کرنا محال ہے کہ یہ تذکرہ ایک فرد کا ہے یا 40 افراد کا اور یہ تمام چالیس تذکرے علیحدہ علیحدہ تذکرے تصور کیئے جائیں گے جن کا باہم ربط قائم کرنا ناممکن ہے۔
یہی حال ہوا ہے روح کا اور انسان کے باطن کا اور ان کے ناموں کا۔ انسان کا باطن اور روح ایسی شے ہے کہ ہر ایک وجود ہر شے کا انفرادی تشخص قائم ہونا
ضروری ہے ہر ایک کا مخصوص نام ہونا ضروری ہے جبھی یہ مسئلہ حل ہو گا۔
(1)۔ ابھی مسئلہ یہ ہے کہ ہم روح کی شناخت نہیں رکھتے نفس کو نہیں جانتے باطنی اجسام کی انفرادی شناخت نہیں رکھتے اور مزید یہ کہ ؛
(2)۔ ان تمام کے نام ہر شخص نے الگ الگ زبان میں الگ الگ رکھ لئے ہیں اور ؛
(3)۔ مزید یہ کہ ہر روح و نفس و لطیف اجسام کے ناموں کو ایک ہی فہرست میں روح کے نام کے طور پردرج کر دیا ہے۔
اب کرنا یہ ہے کہ:۔
(1)۔ ہر روح، نفس و لطیف اجسام کی الگ الگ انفرادی شناخت قائم کرنی ہے۔
(2)۔ ان کے ناموں یا صحیح ناموں کا تعین کرنا ہے۔
(3)۔ ان تمام کا باہمی ربط قائم کرنا ہے۔
۔ ان تمام کی حیثیت کا تعین کر کے ان کی صحیح تعریف اور تعارف پیش کرنا ہے۔
(5)۔ ان تمام کو مربوط کر کے ہی مجموعی انسان کی تعریف ممکن ہو سکے گی۔
روح اور باطنی اجسام کے قدیم اور مخصوص نام ہیں اور ان تمام کو انفرادی و اجتماعی حیثیت میں شناخت کر کے ہی یہ پیچیدہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔
57۔ اجسام کا چکر
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے تمام مفکر تجزیہ نگار فلسفی روحانیت سے وابستہ افراد حتیٰ کے جنہوں نے خود روح کا مشاہدہ کیا ہے وہ بھی مختلف اجسام کے چکر میں پھنس گئے ہیں۔ وہ روح نفس اور جسم کی گتھی کو سلجھا نہیں سکے ہیں اگرچہ وہ تینوں کا تذکرہ کرتے رہے ہیں کبھی وہ روح کا ذکر کرتے ہیں کبھی روشنیوں کے جسم کا کبھی نور کے جسم کا کبھی ہمزاد کا ابھی تک وہ اجسام کی اس تکون کو سلجھا نہیں سکے ہیں وہ
۱۔ نہ تو ان اجسام کا کوئی باہم ربط قائم کر سکے ہیں اور نہ ہی ان کی الگ الگ توضیح و تشریح کر سکے ہیں ایک طرف تو وہ تین چار یا سات اجسام لطیف کا تذکرہ کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف جب وہ
۲۔ روح کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان میں سے ہر جسمِ لطیف کو روح کہتے نظر آتے ہیں۔ جب وہ AURA کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اسے ہی انسان کا اصل تشخص یا روح قرار دیتے ہیں جب وہ نورانی وجود کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اسے ہی روح قرار دیتے ہیں۔
۳۔ اور جب روح کو دیکھتے ہیں تو اسے بھی روح قرار دیتے ہیں۔
۴۔ روح کو ناقابلِ تقسیم قرار دیتے ہیں۔
۵۔ پھر لطیف اجسام کو روح کے حصے بھی کہتے ہیں۔
ایسا کرتے ہوئے وہ خود اپنی تضاد بیانی میں الجھ جاتے ہیں جب اس گورکھ دھندے کو سمجھ نہیں پاتے تو کہہ دیتے ہیں کہ روح کی تعریف ممکن نہیں نہ تو وہ روح کو واضع شناخت کے ساتھ پہچان پائے ہیں نہ ہی وہ ان تین یا سات اجسام کی صحیح توضیح و تشریح ہی کر پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روح کی صحیح تعریف نہیں کر پاتے جس نے کوشش کی وہ کامیاب نہیں ہوا اگرچہ اس نے مشاہدہ ہی کیوں نہ کیا ہو وہ روح کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔
پہلے تو روح و جسم کا ہی مسئلہ تھا لیکن آج روح پر تجربات کرنے والوں نے روح نفس، جسم کے علاوہ جن، فرشتے ، شیطان اور دیگر مخلوقات کو خلط ملط کر کے فقط ایک نام دے دیا یعنی ماورائی مخلوق۔ دراصل وہ ان تمام مخلوقات کا مشاہدہ تو کرتے ہیں ان پر تجربات تو کرتے ہیں تجزیے اور تخمینے تو لگاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو وہ ان تمام مخلوقات یا مختلف اجسام میں کوئی تمیز ہی رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ان تمام مخلوقات کا کوئی علم ہے یہی ہے اصل مسئلہ پچھلے اور آج تک کے تمام مفکروں نے سائنسدانوں نے تمام مخلوقات کو خلط ملط کر کے آج اسے ایک گھمبیر مسئلہ بنادیا ہے۔ (اب بتا کونسے دھاگے کو جدا کس سے کریں )۔ وہ یہ کام تو نہیں کر سکتے ہاں یہ ضرور کہہ دیتے ہیں کہ وہ جو روح ہے اس کی تعریف ممکن نہیں یہ بذات خود ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ روح جو ہم خود ہیں ہماری تعریف ممکن نہیں۔
اب ذرا ہم بڑا زور لگا کے بڑی کوشش کر کے روح کو اس ماوراء کے صدیوں بڑے ڈھیر سے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ہیں ایسی ہی کوششیں ہمیں باقی مخلوقات کے لئے بھی کرنا ہوں گی جب تک ہم کسی شے کے بارے میں جانتے ہی نہیں کسی بھی واقعے کا تجزیہ جانچ پڑتال تو آپ نے کر لی لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ ڈھیروں مخلوق میں سے یہ کس کی کارستانی ہے تو یہ تجزیے یہ جانچ پڑتال محض خیالی پلاؤ ہیں یا ہوا میں تیر چلانے کے مترادف دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک روح کی نشاندہی نہیں ہو سکی ہے روح کی جتنی بھی تعریفیں ہیں وہ سبھی غلط ہیں۔ روح کی تعریف اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے ہم اجسام لطیف کی صحیح تعریف کریں اور اجسام کے گھمبیر چکر کو سلجھائیں اس کے بعد روح کی انفرادی شناخت قائم کریں تبھی روح کی تعریف ممکن ہے۔
58۔ اجسام کا مسئلہ حل ہو چکا
لہذا پچھلے صفحات میں ہم یہ وضاحت نفس کے عنوان کے تحت کر آئے ہیں کہ:
(1) تمام تر لطیف اجسام روح نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ لطیف اجسام روح کے حصے ہیں
(2) تمام تر لطیف اجسام محض جسم ہیں مادی جسم کی طرح۔ لیکن مادی جسم سے مختلف۔
(3) اور تمام اجسام نفس کے زمرے میں آتے ہیں۔
آئیے اب روح کو انفرادی حیثیت میں شناخت کریں اور روح کی تعریف اور تعارف پیش کریں۔
روح: نئے نظریات
سوال نمبر۔ روح کیا ہے؟
اس سوال کا جواب نئے نظریات کے ذریعے دیا جاتا ہے۔
59۔ روح کی تعریف
بڑے بڑے روحانی ماہر فلسفی، دانشور روح کی تعریف سے معذوری کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ کچھ بڑے مفکروں کی جو روح سے متعلق چند تعریفیں ہمیں میسر ہیں وہ تعریف کے معیار پر بھی پوری نہیں اترتیں نہ ہی وہ روح کی تعریفیں ہیں۔ حتیٰ کے آج روحانیت کے بڑے بڑے ادارے قائم ہیں، کروڑوں لوگ ان اداروں سے وابستہ ہیں مراقبہ کے ذریعے روح کا مشاہدہ کرنے والے بھی موجود ہیں لیکن یہ سب روحانیت کے دعوے دار بڑے روحانی ماہرین بھی آج تک روح کی تعریف نہیں کر پائے کہ آخر یہ روح ہے کیا؟
روح کیا ہے ؟ یہاں ہم چند الفاظ میں روح کی تعریف کریں گے جس کو ہم روح کا فارمولہ کہیں گے اور پھر ہم ان چند الفاظ یعنی روح کے فار مولے کی مسلسل وضاحت کریں گے تب جا کر روح کی تعریف ممکن ہو گی۔
60۔ روح کیا ہے ؟
نظریہ نمبر:۔ ﴿31﴾۔ ﴿روح جسم نہیں ہے۔ ﴾
نفس AURA روح نہیں ہے۔
نور کا جسم روح نہیں ہے۔
کوئی بھی لطیف جسم روح نہیں ہے۔
روح جسم ہے ہی نہیں۔
یعنی انسان کی اصل اس کی روح جسم نہیں ہے۔
جب کہ ماضی میں ہمیشہ روح کو جسمِ لطیف کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے جسم تو مرجاتے ہیں فنا ہو جاتے ہیں اجسام کا تو نام و نشان نہیں رہتا چاہے وہ مادی جسم ہو یا کوئی بھی لطیف سے لطیف جسم ہو سب فنا ہو جاتے ہیں۔ لیکن انسان اپنی تمام تر خصوصیات، احساسات، جذبات، شخصیت سمیت جوں کا توں موجود رہتا ہے۔ بغیر کسی جسم کے ! کیسے؟ کیونکر ! انسان اور جسم لازم و ملزوم ہیں۔ انسان نے خود کو ہمیشہ مجسم ہی تصور کیا ہے لہذا
انسان بغیر جسم کے بھی موجود ہو سکتا ہے
انسان کے لیے یہ تصور ہی ناقابل فہم ہے کہ اس کا کوئی جسم نہ ہو اور وہ پھر بھی موجود ہو۔ یہی عجیب تصور کبھی انسان کے ذہن میں نہیں سما سکا۔ یہی وجہ ہے روح کی تعریف نہ ہو سکنے کی لہذا جب بھی انسان نے بغیر جسم کے اپنا یعنی اپنی روح کا مشاہدہ کیا تو وہ روح کو دیکھنے اور پہچاننے کے باوجود کبھی روح کی تعریف نہیں کر سکا۔ انسان جسم کے بغیر روح کے طور پر کبھی خود کو متعارف نہیں کروا پایا۔ کیونکہ اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی کبھی اس کے ذہن نے قبول نہیں کیا کہ انسان جسم کے بغیر بھی موجود ہو سکتا ہے۔
دراصل مادی جسم یا لطیف اجسام تو انسان کے لباس ہیں پنجرے ہیں جن میں یہ انسان قید ہے۔ اجسام سے چھٹکارا پا کر ہی انسان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہوتا ہے وہی انسان جسے ہم مادی جسم کے روپ میں دیکھتے ہیں سوچتے سمجھتے اور جانتے ہیں وہی مادی جسم والا انسان بغیر جسم کے بھی جوں کا توں موجود ہے اسی کو ہم روح کہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ انسان کی روح کیا ہے جو جسم کے بغیر بھی موجود ہے۔
61۔ روح و اجسام
نظریہ نمبر:۔ ﴿32﴾۔ ﴿پس روح و اجسام الگ الگ ہیں۔ ﴾
(1) تمام تر لطیف اجسام نہ تو روح ہیں نہ ہی روح کے حصے۔
(2) تمام تر اجسام نفس کے زمرے میں آتے ہیں یا اجسام نفس ہیں۔
(3) روح اجسام سے مختلف شے ہے۔
(4) پس روح و اجسام الگ الگ منفرد ہیں۔
روح مادی جسم یا لطیف اجسام سے یکسر الگ اور منفرد شے ہے اور اجسام بھی الگ الگ اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ روح کی شناخت اور اس کی صحیح تعریف میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی یہ رہی ہے کہ روح کو اجسام لطیف کے طور پر شناخت کیا جاتا رہا ہے۔ جب کہ تمام تر اجسام مختصر المدت اور فانی ہیں۔ ان لطیف اجسام کے مشاہدے تجربے کرنے والے ان مختلف لطیف اجسام کی کبھی کوئی واضع توضیح و تشریح نہیں کر پائے لہذا ان اجسام کے چکر میں ہی الجھ گئے لہذا آگے کیسے بڑھتے۔ کیسے روح کو شناخت کرتے جب وہ کبھی ان مختلف النوع لطیف اجسام کا مطلب ہی نہیں سمجھ پائے اور انہیں ہی روح اور روح کے حصے قرار دے کر خود ہی اپنی تضاد بیانی میں الجھتے رہے ایک طرف روح کو ناقابل تقسیم کہہ کر پھر اس کے تین یا سات حصے بھی گنوا دیتے تھے لہذا وہ اجسام جو فانی ہیں انہیں روح کے طور پر پیش کر کے روح کی تعریف کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تو بھلا روح کی تعریف کیسے ممکن تھی۔
آئیے ماضی کے سارے ابہامات کو دور کر کے روح کی تعریف کرتے ہیں۔
62۔ روح کا فارمولہ
نمبر:ِ۔ ﴿33﴾۔ روح کیا ہے ؟ روح کی تعریف کرنے کے لئے یہاں میں چند الفاظ میں روح کا دس نکاتی فارمولہ بیان کرتی ہوں۔ پھر اس فارمولے کی مسلسل وضاحت کروں گی تب جا کر روح کی تعریف مکمل ہو گی۔ لہذا روح کا دس نکاتی فارمولہ درجِ ذیل ہے۔
روح
i
نکتہ ہے
i
یہ نکتہ انرجی ہے
i
انرجی زندگی ہے
i
زندگی مرتب پروگرام ہے
i
مرتب پروگرام متحرک ہے
i
حرکت ارتعاش کے سبب ہے
i
ارتعاش ایک آواز کا ہے
i
آواز ایک حکم ہے
i
حکم خالق کائنات کا ہے
i
یہ حکم مسلسل نشر ہو رہا ہے
یہاں ہم نے روح کی تعریف دس نکاتی فارمولے کے ذریعے کی ہے
سادہ لفظوں میں ہم اس دس نکاتی فارمولے کو یا روح کی تعریف کو یوں بیان کریں گے یا روح کی تعریف کو سادہ لفظوں میں بیان کرنے کے لئے ہمیں یہ کہنا ہو گا کہ
"روح خالق کائنات کا حکم ہے ”
اب ہم اس دس نکاتی فارمولے کی مسلسل وضاحت کریں گے۔ کہ یہ روح یا یہ نکتہ کیا ہے ؟ انرجی کیا ہے ؟ زندگی کیا ہے؟ مرتب پروگرام سے کیا مراد ہے ؟ ارتعاش کیا ہے ؟ حرکت کیا ہے ؟ آواز کیا ہے ؟ حکم کیا ہے؟ خالق کائنات کا حکم کیا ہے ؟ اور یہ خالق کائنات کا حکم کیسے انسان کی صورت اختیار کر رہا ہے
اس دس نکاتی فارمولے کی مسلسل وضاحت کے بعد انسانی کام کی تاریخ میں پہلی مرتبہ روح کی تعریف مکمل ہو گی۔ نہ صرف روح کی تعریف ہو گی بلکہ انسان بھی کھل کر اپنے واضع تشخص کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے گا۔
آئیے روح کی تعریف کرنے کے لئے اب اس د س نکاتی فارمولے کی مسلسل وضاحت کرتے ہیں۔
۱۔ روح نکتہ ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿34﴾۔ ﴿روح ایک نکتہ ہے۔ ﴾
روح ایک ایسا انتہائی چھوٹا وجود ہے جو ہماری مادی آنکھ سے اوجھل ہے نکتے سے ہماری کیا مراد ہے اور انسان کی اصل روح کو آخر ہم نے نکتہ کیوں کہا ہے ؟ اس کی وضاحت ہم ایک مشہور، سادہ اور عام مثال سے کرتے ہیں۔
اگر آپ کسی باریک پین سے سادہ سفید صفحے کے اوپر ایک نقطہ لگائیں پھر کسی سے پوچھیں آپ کو اس صفحے پر کیا نظر آ رہا ہے ؟ تو وہ جواب میں کہے گا کہ مجھے تو اس صفحے پر کچھ نظر نہیں آ رہا یہ سادہ صفحہ ہے۔ یہ جواب اس نے اس لئے دیا کہ وہ صفحے پر نقطے کی موجودگی سے ناواقف ہے اور اسی ناواقفیت کی وجہ سے صفحے پر موجود انتہائی چھوٹا نقطہ اس کو نظر نہیں آ رہا جب کہ آپ صفحے پر نقطے کی موجودگی اور مقام سے واقف ہیں لہذا جانتے ہیں کہ صفحے پر نقطہ موجود ہے۔
روح بھی ایسے ہی نکتے کی مانند وجود ہے اور یہ انتہائی چھوٹا وجود مادی آنکھ سے اوجھل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت نے اپنی روح کو نہیں دیکھا اور چونکہ ہم اپنی روح کو نہیں دیکھ پاتے لہذا اسے جانتے ہی نہیں یعنی ہماری خود سے اپنی روح سے ناواقفیت کی ایک بڑی وجہ یہی نہ دیکھ پانا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ( روحانی مشقوں وغیرہ کی بدولت ) روح کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن وہ بیچارے روح کا مشاہدہ تو کرتے ہیں لیکن اسے روح کے طور پر شناخت نہیں کر پاتے۔ بعض اس نکتے کو انسان کے اصل تشخص کے طور پر شناخت کرتے بھی ہیں تو وہ کبھی اسے بیان نہیں کر پائے وہ کبھی بھی اس نکتے کو اصل انسان قرار نہیں دے پائے۔ کیونکہ ان کے ذہن نے کبھی اس حقیقت کو قبول نہیں کیا کہ انسان بغیر جسم کے ایک ننھے نکتے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔
روح سے ناواقف لوگ تو سادہ صفحے پر نقطے کی طرح روح کی موجودگی تک سے بے خبر ہیں۔ نہ جاننے والوں کو اس کا کچھ علم ہے نہ ہی وہ انہیں نظر آ رہی ہے و ہ تو اس کا نام بھی نہیں جانتے اور اسے وہم تصور کر کے جاننا بھی توہم پرستی تصور کرتے ہیں یعنی خود کو جاننے کو توہم پرستی قرار دیتے ہیں لہذا روح جس کا عام طور پر تصور بھی محال ہے ایسا لا معلوم اور پیچیدہ مسئلہ ہے کہ عام آدمی کے نزدیک جسکا کوئی حل نہیں۔ لیکن جنہیں یہ نظر آ رہی ہے وہ بھی حیران ہیں روح کا مشاہدہ اور تجربہ کرنے والوں کے لئے بھی یہ سمجھنا یا سوچنا بہت مشکل ہے کہ یہ نکتہ انسان کی اصل کیونکر ہے ؟یہی نکتہ روح جو عام نظر و فہم سے پوشیدہ ہے اور دیدۂ بینا کے سامنے ہوتے ہوئے بھی فہم سے ماوراء۔ یہی ننھا وجود روح انسان کی اصل ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتا۔ یہی روح مادی جسم اور لطیف اجسام تیار کرتی ہے یہی اجسام کو مربوط کر کے انسانی صورت دیتی ہے۔ تمام اجسام مفروضے اور یہی روح حقیقت ہے۔ یعنی روح اصل ہے تو باقی انسان اسی روح کی مفروضہ شکل۔ اب یہ تو فیصلہ ہو گیا کہ
روح مادی جسم کی مانند جسم نہیں ہے۔ نہ ہی لطیف اجسام روح یا روح کے حصے ہیں۔ روح جسم ہے ہی نہیں بلکہ روح ایک انتہائی چھوٹا وجود ہے۔
جسے ہم نے یہاں نکتے سے تشبیہہ دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ نکتہ کیا ہے؟
سب سے چھوٹا وجود
نظریہ نمبر:۔ ﴿35﴾۔ ﴿یہ نکتہ روح سب سے چھوٹا وجود ہے۔ ﴾
روح کائنات کا سب سے چھوٹا وجود ہے لیکن یہ نہ تو ذرہ ہے نہ ہی جسم۔
کافی عرصہ تک سائنسدان ایٹم کو سب سے چھوٹا ذرہ قرار دیتے رہے ہیں۔ جب ایٹم کو سب سے چھوٹا ذرہ سمجھا جاتا تھا تو اس سب سے چھوٹے ذرے سے مراد یہ تھی کہ اب یہ وجود ناقابل تقسیم ہے۔ ایٹم کا مطلب ہی نہ تقسیم ہونے والا ہے۔ لیکن ایٹم کے بعد الیکٹران، پروٹان، فوٹان وغیرہ کی دریافت سے یہ نظریہ غلط ثابت ہو گیا۔ ایٹم اور آج تک دریافت ہونے والے تمام ذرات تقسیم در تقسیم دریافت ہو رہے ہیں۔
یہ تمام بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے ذرات دراصل انرجی اور ماس پر مشتمل ہیں۔
اور ہر وہ ذرہ جو انرجی اور مادہ پر مشتمل ہو وہ تقسیم ہونے والا ذرہ ہے چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا ذرہ کیوں نہ ہو۔
یہ تقسیم صرف روح پر آ کر ختم ہوتی ہے روح ہی وہ سب سے چھوٹی شے ہے جو ناقابل تقسیم ہے۔ روح کے علاوہ باقی ہر وجود تقسیم ہو جاتا ہے۔ ہر وجود کی ابتداء یہی روح کرتی ہے اور ہر وجود تقسیم در تقسیم جو باقی بچتا ہے وہ یہی روح ہے۔
روح ہی وہ شے ہے جو نہ تو تقسیم ہوتی ہے اور نہ ہی ختم ہوتی ہے۔ لیکن یہ روح ذرہ نہیں کیونکہ اس میں مادہ نہیں ہے اسی لئے ہم نے روح کو نکتے سے تشبیہہ دی تھی۔ اگر روح مادہ نہیں تو پھر روح جسے ہم نے یہاں نکتہ کہا ہے کیا ہے۔
۲۔ یہ نکتہ انرجی ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿36﴾۔ ﴿روح انرجی ہے۔ ﴾
روح کائنات کا سب سے چھوٹا وجود فقط انرجی ہے۔
اس کے علاوہ کائنات کا ہر وجود ماس اور انرجی پر مشتمل ہے جب کہ روح فقط انرجی ہے۔ روح ہر قسم کے تعاملات سے پاک ہے اسی لئے ہم نے روح کو نکتے سے تشبیہہ دی تھی اسے ذرہ نہیں کہا۔
کائنات کے ہر وجود کی طرح انسان بھی ماس (مادی جسم) اور انرجی (روح) کا مجموعہ ہے۔
یہ انرجی کیا ہے اس کا تفصیلی تذکرہ آگے آئے گا۔ لیکن یہ جو روح کو ہم نے یہاں انرجی کہا ہے تو یہ وہ انرجی ہرگز نہیں ہے کہ انرجی کی جن تمام تر حیثیتوں سے ہم آج واقف ہیں۔
یہ انرجی یعنی روح انرجی کی تمام تر قسموں سے الگ ایک شے ہے۔
۳۔ انر جی زندگی ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿37﴾۔ ﴿انرجی یعنی روح زندگی ہے۔ ﴾
یعنی روح انرجی ہے اور یہ انرجی ہی جسم یا اجسام کی زندگی ہے۔
AURA مادی جسم کے لئے فیول کی مانند ہے۔ جب تک AURA جسم میں موجود ہے مادی جسم متحرک ہے۔ جب یہ AURA (نفس) مادی جسم سے چلا جاتا ہے تو مادی جسم بے حرکت ہو جا تا ہے لیکن مرتا نہیں لیکن یہ جسم اب چونکہ روح کی اطلاعات کے مظاہرے کے قابل نہیں رہا لہذا روح اس جسم کو چھوڑ دیتی ہے اور روح کے چھوڑنے سے یہ جسم مردہ ہوتا ہے۔
یعنی جسم کی حرکتAURAہے تو جسم کی زندگی روح ہے۔
مادی جسم ہوں یا لطیف اجسام روح کی موجودگی سے موجود ہیں۔ ۔ یعنی
ہر وجود روح کی وجہ سے موجود ہے۔ ہر وجود کی زندگی یہی انرجی یعنی روح ہے۔ یعنی زندگی روح ہے۔
روح کی تعریف میں ہم نے بتایا تھا کہ روح ایک نکتہ ہے نکتہ انرجی ہے اور یہ انرجی ہی زندگی ہے اور یہ زندگی ایک مرتب پروگرام ہے اب ہم جائزہ لیں گے کہ زندگی کیسے ایک مرتب پروگرام ہے
۴۔ زندگی مرتب پروگرام ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿38﴾۔ ﴿زندگی یعنی روح مرتب پروگرام ہے۔ ﴾
یعنی روح ماضی، حال اور مستقبل کا مرتب پروگرام ہے۔ روح ہارڈ ڈسک ہے جس میں انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا تمام پروگرام محفوظ ہے۔
یہ انتہائی چھوٹا وجود روح نہ صرف جسم یا اجسام کی زندگی ہے بلکہ یہ وجود بے انتہاء خصوصیات کا حامل ہے۔ اس ننھے وجود روح میں انسان کے ماضی حال اور مستقبل کا تمام پروگرام محفوظ ہے۔ یعنی روح ایک مائیکروفلم ہے جس میں انسان کا پورا ڈیٹا محفوظ ہے۔ انسان کا ماضی، حال اور مستقبل کیا ہے اسے مادی و لطیف اجسام کی صورت میں کیا کیا اعمال کرنے ہیں ہر ہر حرکت اور ہر ہر انسانی عمل کی مکمل تفصیل اس انتہائی چھوٹے وجود میں موجود ہے۔
مادی اور لطیف اجسام (نفس) روح کے اسی مرتب پروگرام کی اطلاعات کی روشنی میں عمل کرتے ہیں۔
یعنی اجسام کی حرکت و عمل روح کی اطلاعات کا نتیجہ ہیں۔
لہذا اجسام کی ہر ہر حرکت روح میں مرتب ہے یا انسان کا ماضی حال اور مستقبل ایک مرتب پروگرام ہے جو روح میں محفوظ ہے۔
۵۔ پروگرام متحرک ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿39﴾۔ ﴿یہ مرتب پروگرام (روح ) متحرک ہے۔ ﴾
انسان کا ماضی، حال، مستقبل کا ریکارڈ ساکت نہیں بلکہ متحرک پروگرام ہے۔
بھوک لگی ہے ، سونا ہے، جاگنا ہے، رونا ہے، مرنا، جینا یہ سب روح کا مرتب پروگرام ہے۔ جو اجسام کی صورت میں حرکت پذیر ہے۔ اسی مرتب پروگرام کی حرکت کے عملی مظاہرے کو ہم ماضی، حال اور مستقبل کہتے ہیں اور اسی مرتب پروگرام پر عمل در آمد کی صورت کو حرکت، عمل یا اعمال کہتے ہیں۔
اعمال
نظریہ نمبر:۔ ﴿40﴾۔ ﴿حرکت اعمال ہیں۔ ﴾
انسان اعمال یعنی صفات و حرکات کا نام ہے اور ان حرکات و صفات کا مظاہرہ جسم کرتا ہے اور ہمارے ان تمام اعمال کا دار و مدار روح کی اطلاعات پر مبنی ہے
یعنی ہماری عملی زندگی روح کی اطلاعات پر مبنی ہے پہلے ہر عمل کی اطلاع آ تی ہے پھر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ لہذا اعمال روح کی اطلاعات پر مبنی ہیں۔
مثلاً بھوک کا احساس روح کی اطلاع ہے۔ یہ اطلاع روح کی طرف سے موصول ہوتی ہے تبھی کھانا کھانے کا عمل واقع ہوتا ہے۔ جب کہ عمل کی عمل پذیری بھی اسی روح پہ ہی موقوف ہے۔ یعنی حرکت کا سبب بھی روح ہے اور عمل کا سبب بھی روح ہے اور یہ حرکت و عمل زندگی کی خصوصیات ہیں جب کہ زندگی کا سبب بھی روح ہی ہے۔ لیکن یہ حرکت کیسے جنم لے رہی ہے۔
۶۔ حرکت کا سبب ارتعاش ہے
نمبر:۔ ﴿41﴾۔ ﴿ ایک غیر معمولی ارتعاش کے ذریعے حرکت پیدا ہو رہی ہے۔ ﴾
ابھی روح کی تعریف میں یہ وضاحت جاری ہے کہ روح ایک نکتہ ہے یہ نکتہ انرجی ہے۔ انرجی زندگی ہے ، زندگی مرتب پروگرام ہے اور یہ مرتب پروگرام متحرک ہے۔ اور اس مرتب پروگرام کی حرکت کا سبب ایک ارتعاش ہے۔ اور مرتب پروگرام میں یہ ارتعاش ایک آواز سے جنم لے رہا ہے۔
۷۔ ارتعاش آواز کا ہے
نظریہ نمبر۔ ﴿42﴾۔ ﴿ارتعاش ایک آواز سے پیدا ہو رہا ہے۔ ﴾
نظریہ نمبر۔ ﴿43﴾۔ ﴿انرجی، حرکت، زندگی تینوں آواز کی مختلف صورتیں ہیں۔ ﴾
نظریہ نمبر۔ ﴿44﴾۔ ﴿کائنات اور اس کی تمام تر موجودات(بشمول انسان)اسی آواز کی پیداوار ہیں۔ ﴾
یعنی آواز ہی وہ توانائی ہے جو لہروں کی صورت میں پوری کائنات میں پھیل رہی ہے۔ یعنی آواز ہی انرجی(روح)ہے آواز ہی حرکت آواز ہی زندگی ہے۔
ایک آواز سے انرجی (حرکت +زندگی)نے جنم لیا اور یہی آواز مسلسل حرکت و عمل کا بھی سبب ہے۔ انرجی(روح) جو مرتب پروگرام کی صورت میں موجود ہے اسی غیر معمولی آواز سے مرتعش اور متحرک ہو رہی ہے۔ ایک غیر معمولی آواز ہے جس نے ایسا ارتعاش پیدا کر رکھا ہے کہ ہر شے مسلسل متحرک ہے اور متحرک رہنے پر مجبور ہے۔ یعنی ایک آواز ہے جو توانائی کی لہروں کی صورت میں پوری کائنات میں پھیل رہی ہے۔ اسی آواز سے انرجی پیدا ہو کر لہروں کی صورت پھیل رہی ہے یہی انرجی کی لہریں زندگی اور اس کی حرکت ہیں۔ کیا واقعی ایک آواز انرجی زندگی اور اس کی حر کت ہو سکتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے ؟ایک آواز کائنات کی حرکت اور زندگی ہے کیا اس بات کا کوئی تجرباتی ثبوت بھی ہو سکتا ہے۔ کیا کبھی ہم اس ارتعاش اس آواز کو سن سکتے ہیں۔ جی ہاں اس کتاب میں موجود باقی تمام نئے نظریات کی طرح یہاں مجھے یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ مستقبل میں شاید سائنس اس آواز کو سننے کی اہلیت حاصل کر لے۔ اس لئے کہ اگرچہ ابھی تک ہم نہیں جان پائے ہیں کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کی زندگی اور مسلسل حرکت محض ایک آواز ہے، اس لا علمی کے باوجود آج ہم کائنات کی زندگی یعنی اس آواز کو سُننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس آواز کے ذریعے پیدا ہونے والے ارتعاش، حرکت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی کائنات اور اس کی موجودات بشمول انسان اور ظاہر حرکات کو تو ہم دیکھتے اور جانتے ہی ہیں لیکن اس کائناتی موجودگی، زندگی اور حرکت کی وجہ یعنی آواز کو بھی ہم کئی طرح سے سننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
۱۔ ہم اس آواز کو کئی روحانی مشقوں کے ذریعے تو سن ہی سکتے ہیں۔
۲۔ لیکن اب ہم اس آواز کا تجرباتی ثبوت بھی رکھتے ہیں۔
لہذا 1962ء میں اس آواز کو سن لیا گیا۔
امریکہ کی بیل ٹیلی فون لیبارٹری (Bell Telephone Laboratory) کے دو سائنسدانوں کا کام خلاء کی طرف سے آنے والی ریڈیائی لہروں کو پکڑنا اور ان کو سمجھنا تھا۔ ان لہروں میں ایک ایسی بھی آواز تھی جو ہر سمت سے برابر اور مسلسل آ رہی تھی وہ اپنے (Aerials) جدھر بھی کرتے اس میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ اب یہ ہر سمت سے آتی مسلسل آواز تو ہم نے سن لی تجرباتی ثبوت تو ہمیں مل گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آواز کس کی ہے ؟کیسی ہے ؟ اس کا منبع کیا ہے ؟ یہ آواز کیا ہے ؟
۸۔ یہ آواز ایک حکم ہے
نظریہ نمبر۔ ﴿45﴾۔ ﴿یہ آواز ایک حکم ہے۔ ﴾
یہی حکم وہ انرجی ہے جو لہروں کی صورت میں پوری کائنات میں پھیل رہی ہے۔
حکم ہی وہ آواز ہے جو انرجی اور ارتعاش پیدا کر رہی ہے اسی حکم میں وہ تمام انرجی (کائناتی پروگرام)ہے جسے ہم کائنات یا انسان کی زندگی یا روح کہتے ہیں۔
یعنی انسانی روح انرجی ہے اور یہ انرجی دراصل ایک حکم ہے اسی حکم کے اندر ہی وہ انرجی ہے جو انسان یا کائنات کی زندگی کا مرتب پروگرام ہے۔ یعنی انسان حال، ماضی، مستقبل میں جو بھی اعمال سرانجام دے رہا ہے وہ اسی روح (حکم ) کا پروگرام ہے یہی حکم ہی وہ پروگرام ہے جو کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کو حرکت کا پروگرام دے رہا ہے اور متحرک کر رہا ہے۔ یعنی کائناتی حرکت و عمل ایک مرتب پروگرام ہے جو ایک حکم ہے۔ یعنی حکم کائناتی حرکت و عمل کا مرتب پروگرام ہے۔ یہ کوئی انہونی یا نا قا بلِ یقین بات نہیں ہے۔ اس کی سادہ سی مثال کمپیوٹر ہے۔ کمپیوٹر میں پروگرام فیڈ ہے اور کمپیوٹر اسی منتخب پروگرام کے تحت خودکار متحرک ہے۔ یعنی کمپیوٹر اپنے مخصوص مرتب پروگرام کے حکم کا غلام ہے یعنی پروگرام حکم ہے۔
ایسے ہی کائنات (اور کائنات کی تمام تر موجودات بشمول انسان )کی خود کار حرکت حکم(مرتب پروگرام)کے تحت ہے
یہ حکم کی شدت پذیری ہے کہ تمام کائنات اور اس کی موجودات مسلسل حرکت و عمل پر مجبور ہے اور کائنات کا ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا وجود اسی حکم کا محتاج ہے یہی حکم کائنات اور اس کی تمام تر موجودات (بشمول انسان )کی حرکت و عمل کا مکمل مرتب پروگرام ہے۔ لہذا کائنات اور اس کی تمام تر موجودات(بشمول انسان)اسی حکم(مرتب پروگرام) کے مطابق مسلسل متحرک ہیں۔ یہ حکم کیا ہے جو پوری کائنات کو مسلسل حرکت میں رکھے ہوئے ہے۔
کس کا حکم ہے یہ؟
۹۔ خالق کاحکم
نمبر۔ ﴿46﴾۔ ﴿یہ حکم خالق کا ہے۔ ﴾
کائنات اور کائنات کی تمام تر موجودات کا وجود ایک ہی خالق کے ایک ہی حکم کا پروگرام ہے۔
یا خالق کا ایک ہی حکم پوری کائنات کی حرکت کا تسلسل ہے ، یا سادہ الفاظ میں ہمیں یوں کہنا ہو گا کہ
کائنات اور اس کی تمام تر موجودات مالک کائنات کے حکم سے متحرک ہیں۔ پوری کائنات میں ایک ہی حکم جاری و ساری ہے ہر ذرے کی حرکت کا قانون ایک ہی قانون ہے اور اسی خالق کے حکم کے زیر اثر ہے۔
کائنات کا کوئی بھی حصہ ایک مالک کی ملکیت نہ ہو تو وہ حکم سے باہر ہو جائے گا اور کائنات کا ہر وجود ایک ہی مالک کی ملکیت ہے اور اسی مالک کے حکم کے زیر اثر کام کر رہا ہے۔ خالق کا حکم کیا ہے اس کی وضاحت ہم ایک مثال سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکم حاکم سے نسبت رکھتا ہے۔ کسی بھی شخص کے حکم کو یا دھمکی کو ہم حکم قرار نہیں دے سکتے۔ حکم کی مخصوص ساخت ہے جو حاکم سے منسوب ہے۔ مثلاً اگر ایک نوکر اپنے مالک کو حکم دے کہ آج سے میں نے تمہیں ملکیت سے خارج کیا تو ہم اسے حکم نہیں کہیں گے نہ ہی یہ حکم ہے نہ ہی اس حکم کے کوئی اثرات مرتب ہوں گے لہذا اس حکم کے بعد بھی مالک اور اس کی حیثیت برقرار رہے گی۔ کیونکہ نوکر ایک بے قوت شخص ہے اور ملکیت خود مالک کی لہذا نوکر کے اس حکم سے مالک اپنی ملکیت و اختیار سے خارج نہیں ہو سکتا اس لیے کہ نوکر نہ تو کوئی قوت رکھتا ہے نہ اختیار لہذا اس کا حکم بے اثر ہے۔
جب کہ مالک جو ملکیت کا اختیار رکھتا ہے صاحب اختیار حاکم ہے۔ لہذا جب حاکم نے حکم صادر کیا ! کہ میں نے آج سے تمہیں نوکری سے برخواست کیا تو اس حکم کے اثرات فوراً ظاہر ہوں گے اس حکم کے تحت نوکر نوکری سے برخواست ہو جائے گا۔ یہ ہے صاحب اختیار حاکم کے حکم کے اثرات۔ اسی قانون کے تحت یہ کائنات اور اس کا ہر وجود (بشمول انسان) ایک خالق کے حکم کے زیر اثر ہیں۔ لہذا
پوری کائنات مالک کائنات کے حکم سے حرکت پذیر ہے وہ مالک جو پوری کائنات کا اختیار رکھتا ہے۔ یعنی اس کائنات کو وہی ہستی مسلسل متحرک رکھ سکتی ہے جو اس کی مالک و مختار ہے۔ یعنی کائنات خالق کے حکم سے متحرک ہے اور انسانی حرکت بھی اس حکم کا اثر ہے۔ اب جاننا یہ ہے کہ یہ حکم کیسے کائنات کو متحرک کر رہا ہے۔
۱۰۔ یہ حکم مسلسل نشر ہو رہا ہے
نظریہ نمبر۔ ﴿47﴾۔ ﴿یہ حکم مسلسل جاری و ساری ہے نشر ہو رہا ہے۔ ﴾
یہ حکم ایک مرتب پروگرام ہے اور یہ ریکارڈ پروگرام خالق کے حکم کے مطابق مسلسل کام کر رہا ہے۔ لہذا پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات اسی پروگرام کے مطابق مسلسل منظم و متحرک ہیں۔ جیسے کمپیوٹر کے اندر مکمل پروگرام فیڈ ہوتا ہے اور وہ اسی پروگرام کے مطابق پوری بلڈنگ کو خودکار کنٹرول کرتا ہے۔ اسی طرح خالق کے پروگرام (حکم )کے مطابق پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان خالق کے حکم سے مسلسل منظم و متحرک ہیں۔ لہذا حکم ہی حرکی قوت ہے
63۔ حرکی قوت
نظریہ نمبر:۔ ﴿48﴾۔ ﴿خالق کا حکم ہی کائنات کی حرکی قوت ہے۔ ﴾
لہذا خالق کا حکم کائنات اور اس کی موجودات کو مسلسل حرکت و عمل کا پروگرام دے رہا ہے۔
یعنی کائنات اور اس کی تمام موجودات کی حرکت کا سبب ایک ہی بڑی زبردست طاقتور ہستی ہے۔
سائنس بھی برسوں کی تحقیق و جستجو کے بعد آج اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ پوری کائنات کسی ایک ہی قوت کا مظاہرہ ہے۔ اس کائنات کا نظام اتنا منظم، اتنا مربوط، اتنا پیچیدہ اور اتنا مکمل ہے کہ دو طاقتیں ایسے منظم سسٹم کو نہ بنا سکتی ہیں نہ ہی دو طاقتیں ایسے پراسرار نظم و ضبط کو برقرار رکھ سکتی ہیں ذرا سی غلطی پورے سسٹم کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ یہ نتیجہ سائنسدانوں نے برسوں کی تحقیق و تجربات و مشاہدات کے بعد نکالا ہے کہ کائنات کا یہ نظم و ضبط کسی ایک ہی بہت بڑی قوت کا تابع ہو سکتا ہے۔ وہ قوت کیا ہے ؟ کیسے یہ کائنات ایک قوت کے تابع ہے ابھی یہ محض مفروضہ ہے ابھی یہ سوال حل طلب ہیں۔ وہ مفروضہ جو سائنسدانوں نے قائم کیا ہے یا کسی بھی صاحب علم و عقل کی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ کائنات کی حرکت کا سبب ایک قوت ہے اب ہم اسی مفروضے کو لے کر آگے بڑھیں گے۔
ایک قوت کی یہ حرکت کیا ہے اور کیسے ہے۔ یہاں ہم نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ حرکت(کائناتی حرکت) خالق کے حکم سے ہے اور محض حکم سے حرکت کیسے ممکن ہے اس کی وضاحت ہم ایک ادنیٰ زمینی مثال سے کرتے ہیں۔
مثال:۔ مشہور ٹیلی پیتھسٹ "جیری بلوم” چائنا گیا۔ وہاں ایک ہوٹل میں چائے پینے بیٹھ گیا۔ سامنے دیوار پر ایک اژدھا کی بڑی تصویر لگی تھی جیری کو شرارت سوجھی اس نے آس پاس بیٹھے لوگوں کو ہراساں کرنے کے لئے ذہنی رو سے اژدھا کو حرکت کرنے کا حکم دیا۔ اژدھا میں حرکت پیدا ہوئی تو آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ ڈر گئے۔
ذہنی رو سے مادی اشیاء کو حرکت دینے کے عمل کو سائیکوکینس (Psychokenesis) کہتے ہیں اس لفظ کا عام مخفف (P.K) ہے۔
ٹیلی پیتھی کی مشقیں کرنے والے بہت سے حضرات میں سے محض چند بہت ہی اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ٹیلی پیتھسٹ کو یہ صلاحیت مدتوں کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی ہے کہ وہ فریم میں لگی تصویر ( یا بعض مادی اشیاء ) کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔ لیکن یہ ماہر تصویر میں مستقل حرکت پیدا نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی انسان اس تصویر میں مسلسل حرکت پیدا کر دے تو وہ تصویر سے زندوں میں شمار ہو جائے گی۔ عمر بھر کی ریاضت مشقت کے بعد بھی ماہر کی استعداد محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ کسی بے جان شے میں محض چند سیکنڈ کی وقتی حرکت پیدا کر دے۔
ایک انسان کا حکم کسی مادی شے کو وقتی طور پر متحرک کر سکتا ہے لہذا
ایسا ہی حکم(حرکی قوت) ہے خالق کا اور خالق کے حکم میں وہ شدت ہے جو پوری کائنات کو مسلسل حرکت پر مجبور رکھتی ہے۔
جیسے ٹیلی پیتھسٹ کے الفاظ تصویر میں وقتی حرکت پیدا کر سکتے ہیں۔ تو خالق کے الفاظ میں وہ قوت وہ شدت ہے جو پوری کائنات کو مسلسل متحرک رکھے ہوئے ہے یہ فرق ہے بے اختیار انسان اور با اختیار خالق کا۔
اگر یہ قوت اور اس کے حکم کی شدت نہ ہو تو ہر شے بشمول انسان پتھر کی طرح بے جان ہوں بلکہ ان کا وجود ہی نہ رہے۔
لہذا ایک بے جان کائنات (بشمول انسان) کو خالق کا حکم مسلسل حرکت میں رکھے ہوئے ہے۔ اور پوری کائنات کو مسلسل حرکت میں وہی ہستی رکھ سکتی ہے جو پوری کائنات کی مالک ہو۔
لہذا خالق کا حکم ہی حرکی قوت ہے۔ اور یہ حرکت مسلسل ہے۔ اور خالق کے اسی حکم کو یہاں ہم نے روح کہا ہے۔ یعنی روح خالق کا حکم ہے۔
64۔ روح کی قوت
نمبر:۔ ﴿49﴾۔ ﴿لہذا روح بذات خود انرجی نہیں بلکہ یہ کائناتی تسلسل ہے خالق کے حکم کا۔ ﴾
روح بذات خود قوت (انرجی) نہیں بلکہ روح کی بھی قوت ہے۔
ہم اب جان گئے ہیں کہ روح بذات خود ایک انرجی ہے قوت ہے جسم کی زندگی ہے یہ انرجی (روح) جسم میں ہے تو جسم جسم ہے زندہ ہے یہ جسم میں نہیں تو جسم مردہ ہے جسم جسم ہی نہیں۔ ہماری پوری زندگی اس روح کا پروگرام ہے۔ ہمارا سونا، جاگنا، مرنا، جینا، ماضی، حال مستقبل غرض ہر حرکت و عمل روح کا پروگرام ہے روح کی اطلاعات ہیں لیکن انرجی کے اس سب سے چھوٹے وجود روح کے پاس یہ انرجی یہ معلومات کہاں سے آئیں۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ چھوٹا وجود خود بخود اتنا پاورفل ہے یہ انرجی بذات خود انرجی ہے۔
اسی طرح ہر جاندار یا انسان میں اس کا فیول AURA جسم کو متحرک رکھتا ہے لیکن یہ انرجی کا منبع نہیں۔ AURA جسم کا فیول ہے روح جسم کی زندگی روح ایک انرجی ایک قوت ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ۔ ایک بلب روشن ہو تو یہ اس کی ذاتی روشنی نہیں بلکہ یہ ایک طویل برقی سلسلے سے جڑا ہوا ہے یہ بلب کی روشنی اسی طویل سلسلے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح روح بھی ایک طویل برقی سسٹم حکم سے جڑی ہوئی ہے۔ لہذا حکم جو کہ حرکی قوت بھی ہے یہ حکم ایک باقاعدہ برقی سسٹم ہے۔
65۔ برقی سسٹم
نظریہ نمبر:۔ ﴿50﴾۔ ﴿حکم ایک برقی سسٹم ہے۔ ﴾
کمرے میں ایک بلب روشنی بکھیر رہا ہے اگر کوئی یہ کہہ دے کہ یہ بلب تو خود بخود روشن ہے اور یہ بلب کی ذاتی روشنی ہے تو آپ ایسے شخص کو یقیناً احمق قرار دیں گے جو قبل از مسیح کے کسی دور سے اٹھ آیا ہے جسے کچھ معلوم ہی نہیں۔ جب کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے اپنے گھر کے اندر بجلی کے تاروں کا جال بچھا ہوا ہے مین بورڈ لگا ہے جس کا بٹن آن کرنے سے پورے گھر میں بجلی کی سپلائی شروع ہو جاتی ہے اور گھر کی سب اشیاء فریج، ٹی وی، استری میں بجلی دوڑ جاتی ہے اور یہ سب اشیاء متحرک ہو جاتی ہیں اور مین سوئچ آف کرنے سے یہ حرکت رک جاتی ہے۔ یہ بجلی مین بورڈ میں سے بھی نہیں پھوٹ رہی بلکہ بجلی کی تاروں اور کھمبوں کے وسیع سلسلے کے ذریعے آپ کے گھر تک پہنچ رہی ہے۔ اور یہ تاریں کھمبے بھی بجلی کا منبع نہیں ہیں بلکہ یہ بجلی پیچھے کہیں مین پاور اسٹیشن سے آ رہی ہے یا پھوٹ رہی ہے۔ یعنی بجلی کی سپلائی کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اسی طویل سلسلے کے تحت آپ کے گھر میں روشنی ہے ہر شے متحرک ہے اور اسی روشنی میں آپ ہر شے کا نظارہ کر رہے ہیں با لکل اسی برقی سسٹم کی طرح ایک مین پاور اسٹیشن سے انرجی پوری کائنات کو سپلائی ہو رہی ہے یہ بھی بجلی کی تاروں کی طرح ایک طویل سلسلہ ہے جو کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ اسی طویل سلسلے کے تحت ایک مین پاور اسٹیشن سے حرکی قوت یعنی حکم (روشنی + انرجی +پروگرام) کائنات کے ہر وجود بشمول انسان کو پہنچ رہا ہے یا انرجی پوری کائنات کو سپلائی ہو رہی ہے جس سے کائنات کا ہر وجود متحرک ہے عمل کر رہا ہے۔ اور اسی سلسلے کے تحت کائنات کا ہر وجود بشمول انسان متحرک ہے۔ پاور اسٹیشن سے ساری کائنات ایک برقی سسٹم سے جڑی ہوئی ہے اور پاور اسٹیشن سے کائنات کے ہر وجود کو انرجی کی ایک مخصوص مقدار پہنچ رہی ہے نہ زیادہ نہ کم۔
66۔ پاور اسٹیشن
نمبر:۔ ﴿51﴾۔ ﴿پاور اسٹیشن انرجی کا منبع ہے۔ ﴾
پاور اسٹیشن سے مراد وہ واحد قوت (خالق ) ہے جو پوری کائنات کو اپنی آواز کے ذریعے اپنے محض ایک حکم سے متحرک رکھے ہوئے ہے۔ وہ واحد قوت کیا ہے اس کی ماہیت کا اندازہ کرنا مشکل ہے (بندہ ادراک نہیں کر سکتا خالق ہی ادراک بن جاتا ہے)۔
پاور اسٹیشن انرجی کا منبع ہے اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں۔ مثلاً ایک اندھیرا کمرا ہے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر اسی کمرے میں ایک بلب روشن کر دیا جائے تو آپ کمرے کی ایک ایک چیز کو دیکھ سکتے ہیں، سب کو الگ الگ شناخت کر سکتے ہیں اسی روشنی یا بجلی سے تمام چیزوں کو متحرک بھی کر سکتے ہیں۔ یہی روشنی بند ہو جائے تو کچھ نظر نہیں آئے گا کسی چیز کی شناخت ممکن نہیں سب کچھ ساکت ہے۔ جیسے کچھ ہے ہی نہیں۔ یہی مثال ہے پاور اسٹیشن کی، وہاں سے ایک طویل سلسلہ کے تحت روشنیوں کا اخراج ہو رہا ہے جس سے ؛
(1) کائنات اور اس کی تمام موجودات موجود اور متحرک ہیں۔
(2) ہر شے نظر آ رہی ہے۔
(3) ہر شے کا تشخص واضح ہے ، شناخت ممکن ہے۔
یہ حرکت کا کائناتی سلسلہ ایک حکم کے ذریعے مسلسل جاری و ساری ہے۔
67۔ روح خالق کا حکم ہے
نمبر:۔ ﴿52﴾۔ ﴿لہذا روح درحقیقت ایک حکم )پروگرام)ہے ، خالق کا حکم!﴾
یہاں آ کر اب روح کی تعریف یا شناخت مکمل ہوتی ہے۔ روح کی مسلسل تعریف ہم نے یہ کی ہے کہ روح ایک نکتہ ہے ، یہ نکتہ انرجی ہے ، انرجی زندگی ہے تمام تر اجسام کی اور یہ زندگی ہی حرکت و عمل کا مکمل مرتب پروگرام ہے جو روح میں محفوظ ہے یعنی یہ پروگرام ساکت نہیں متحرک ہے۔ اور حرکت کا سبب ارتعاش ہے اور ارتعاش ایک آواز سے پیدا ہو رہا ہے اور آواز خالق کائنات کی ہے۔ یہ حکم ہی حرکی قوت ہے اور حرکی قوت ایک کائناتی برقی سسٹم کا نتیجہ ہے اور یہ برقی سسٹم پاور اسٹیشن(خالق) سے مربوط ہے۔
یعنی اگر آپ روح کو دیکھنا چاہیں تو یہ انرجی کا انتہائی چھوٹا وجود ہزار کوششوں کے بعد ایک نکتے کی مانند نظر آئے گا جب کہ یہی انتہائی چھوٹا وجود جو ناقابل تقسیم انرجی ہے لیکن یہ وہ انرجی نہیں ہے جس انرجی کی تمام تر اقسام سے آج ہم واقف ہیں۔ یہی انرجی اجسام کی زندگی ہے یہی انرجی اجسام ترتیب دیتی ہے اسی انرجی یعنی روح کے اندر اجسام کے تمام تر حرکت و اعمال کا پروگرام محفوظ ہے یعنی انسان کا ماضی، حال، مستقبل روح کا مرتب پروگرام ہے جس پہ تمام اجسام اپنی مرضی سے عمل کر رہے ہیں۔ اور یہ مرتب پروگرام اجسام کے حرکت و عمل کے ذریعے متحرک ہے اور اسے متحرک کرنے والی بھی یہی روح ہے۔ اور حرکت برقی سسٹم ہے اور اس حرکت کا سبب ارتعاش ہے جو لہروں کی صورت میں سفر کر رہا ہے۔ اور یہ ارتعاش ایک مسلسل آواز سے جنم لے رہا ہے اور یہ آواز خالق کائنات کی ہے۔ سادہ الفاظ میں روح خالق کا حکم ہے۔ اور زندگی، حرکت، اعمال سب حکم کی خصوصیات ہیں۔ لہذا ثابت ہو گیا کہ روح ہی اجسام کی زندگی ہے۔
روح ہی حرکت و عمل کا پروگرام ہے۔ اور یہ روح خالق کا حکم ہے۔ قُل الرّ وح مِن اَمرِربی۔ ترجمہ۔ کہہ دیجیے روح رب کا حکم ہے۔
68۔ انسانوں میں حکم کی خصوصیات
نمبر:۔ ﴿53﴾۔ ﴿انسانوں میں حکم کی خصوصیت کائناتی حکم(انسان کی اپنی روح) کی بدولت ہے۔ ﴾
روح خالق کا کائناتی حکم ہے اور ہر انسان کے اندر روح موجود ہے لہذا ہر وہ انسان جو اپنی روح کا استعمال جانتا ہے وہ حکم کی خصوصیات استعمال کر سکتا ہے۔
مثلاً حکم کی ایک خصوصیت یہاں ہم نے حرکت بیان کی ہے۔ اور خالق کے حکم سے کائنات مسلسل حرکت میں ہے۔ جب کہ انسان خالق کے حکم کی طرح کسی شے کو مسلسل متحرک نہیں رکھ سکتا۔ لہذا انسان کے حکم کی خصوصیت محدود ہے۔
انسان کے اندر یہی کائناتی حکم کی خصوصیت یعنی روح موجود ہے یہی وجہ ہے کہ انسان بعض بے حرکت اشیاء کو حرکت دے سکتا ہے۔ اور یہ حکم کی صلاحیت بعض انسانوں میں دیکھنے میں آتی بھی ہے لیکن خالق اور انسان کے حکم میں وہی فرق ہے جو صاحب اختیار اور بے اختیار شخص کے حکم میں ہو سکتا ہے۔ خالق کے حکم سے کائنات مسلسل متحرک ہے تو انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کر کے بھی محض شعبدے ہی دکھا سکتا ہے۔ جیسے جیری بلوم نے ذہنی رو سے تصویری اژدھے کو وقتی حرکت دے کر دکھایا تھا۔
آج روح کی اس قوت حکم کو ذہنی قوت قرار دیا گیا ہے۔ اور اس ذہنی قوت کوسائیکوکائناسس (Psychokinesis) یعنی P.K کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق۔ یہ خیال کہ قوت ہزار ہا اقسام کی لہریں اور توانائیاں ہیں جو ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی ہیں۔ اس قوت کو استعمال کرنے کے لئے انہیں یکساں توانائی کے گچھوں میں باندھنا پڑتا ہے اس توانائی کی مدد سے نظر آنے والی چیزوں کے الیکٹرونز کو بغیر گرم کئے نرم بنایا جا سکتا ہے موڑا، توڑا جا سکتا ہے ، حرکت دی جا سکتی ہے۔ مثلاً برطانوی نوجوان یوری گیلر (Urigeller) بی بی سی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں ذہنی قوت کے ذریعے کانٹے چمچے موڑتا ہوا دکھایا گیا حتیٰ کہ اس نے کیمرے کو گھورا تو گھروں کے اندر سامنے لے کر بیٹھے ہوئے چھری کانٹوں کو بھی دوہرا ہوتے دیکھا گیا۔
ایسے ہی حکمMind Power کے کارنامے دکھاتا ہوا نظر آتا ہے "کرس اینجل ” وہ بھی اپنی ذہنی قوت سے کبھی ہوا میں اڑتا ہے کبھی پانی پہ چلتا ہے کبھی غائب ہو جاتا ہے۔
دنیا میں ایسے بہت سے لوگ آج بھی موجود ہیں جو اپنی روح کی طاقت کو استعمال کر کے ہرے درخت کو سکھا دیتے ہیں رکے ہوئے دریا کو چلا دیتے ہیں کسی چیز کو چھوئے بغیر موڑ دیتے ہیں یا پھر ہوا میں معلق کر دیتے ہیں۔ ان میں سابقہ سویت یونین کی نینا کلاجینا (Nina Kulagina) ، کیلیفورنیا (امریکہ ) کے ٹیڈ او ونز(Ted Owens) ، لندن انگلینڈ کی اسٹیلاسی (Stella C) اور کیمبرج (انگلینڈ ) کے میتھیو میننگ(Mathew Manning) ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے پاس مذہبی کتابوں میں بھی روحانی بزرگوں کے کمالات اور پیغمبروں کے معجزے درج ہیں جن میں یہ خصوصیات دیکھنے میں آتی ہیں۔ کہ وہ مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے۔ خالق کے حکم سے مٹی کے پرندوں میں جان ڈال دیتے تھے۔ ہرے درخت کو سکھا دیتے تھے۔ چاند کو دولخت کر دیا، سورج کو پھیر دیا یا درخت کو حکم دیا تو وہ جڑوں سمیت چلا آیا۔
ہپناٹزم کے ماہر اپنے معمول کو ہپناٹائز کر کے جو بھی حکم یا ہدایت دیتے ہیں بیدار ہونے پر معمول مقررہ وقت پر وہی کام کرتا ہے۔ عام لوگ بھی مسلسل ریاضت سے اپنی روح کو استعمال میں لا کر شعبدے تو دکھا ہی سکتے ہیں۔ انسانوں میں حکم کی ہر مثال چھوٹی مثال ہے۔ یہ خالق کے حکم کے مقابل نہیں خالق کا حکم بہت بڑا حکم ہے جس سے بے انتہاء بڑی کائنات مسلسل متحرک ہے۔ خالق کائنات کے علاوہ حکم کی ایسی خصوصیت کسی میں موجود نہیں اور نہ پائی جا سکتی ہے بے شک کچھ مردوں کو زندہ کرنے کی مثال ہی کیوں نہ ہو۔ یہ صلاحیت بھی کچھ پیغمبروں یا ولیوں کو دی گئی اور ایسا وہ کرتے تھے مگر خالق کے حکم سے یعنی ایکسٹرا صلاحیتوں کے ذریعے۔ یہاں ہم نے حکم کی کچھ زمینی مثالیں تحریر کی ہیں ایسی مثالوں کے ڈھیر موجود ہیں لیکن ان چند مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد حکم کی اثر پذیری کا ثبوت فراہم کرنا ہے ورنہ لوگ بے دھڑک انکار کر دیتے ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے یا ایسا بھی کبھی ہوا ہے۔ تو لہذا یہاں ہم نے حکم کا جو فلسفہ بیان کیا ہے یہ انوکھا ضرور ہے لیکن پھر بھی اس کی دنیاوی مثالیں موجود ہیں۔
لہذا اب یہاں حکم کی مختصر تعریف اور تعارف کے ساتھ ہی روح کی وہ تعریف مکمل ہوئی۔ جو ہم نے روح کیا ہے ؟ کے عنوان سے شروع کی تھی لہذا ہم نے یہاں روح کی انفرادی شناخت قائم کرتے ہوئے روح کی ماہیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ؛
روح ایک نکتہ ہے یہ نکتہ انرجی ہے ، انرجی زندگی ہے ، زندگی ایک مرتب پروگرام ہے ، یہ مرتب پروگرام متحرک ہے ، حرکت ارتعاش کے سبب ہے یہ ارتعاش ایک آواز کا ہے اور آواز ایک حکم ہے اور حکم خالق کائنات کا ہے اور یہ خالق کائنات کا حکم مین پاور اسٹیشن سے نشر ہوا ہے اور ایک طویل سلسلے کے تحت اس مین پاور اسٹیشن سے مسلسل مربوط بھی ہے تبھی انسان اور کائنات ایک پروگرام کے تحت منظم و متحرک اور مجسم ہے۔ یہی روح جسم میں زندگی بھی جسم میں حرکت و عمل کا سبب ہے۔ یہی روح اجسام بھی تخلیق کر رہی ہے جسم ہیں تو روح کی وجہ سے انسان کی موجود گی اس کی حرکت و عمل سب کچھ خالق کائنات کے حکم سے ہے اور اس حکم کا وہ ہر لمحہ تابع ہے یہ سلسلہ جہاں ٹوٹتا ہے وہیں انسان وجود سے عدم ہو جاتا ہے۔
یہاں آ کر اب روح کی تعریف قدرے مکمل ہوئی ہے لیکن محض تعریف ہوئی ہے تعارف ابھی باقی ہے جس کا تذکرہ آگے آئے گا۔ اگر روح کی اس طویل اور پیچیدہ تعریف کو ہم سادہ چند لفظوں میں بیان کریں تو ہمیں یہ کہنا ہو گا کہ
روح خالق کائنات کا حکم ہے۔
باب نمبر ۵ : تخلیق
کائنات کے پہلے انسان (آدم)کی تخلیق کے مراحل
69۔ پہلا انسان
پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے نمودار ہوا؟
اگرچہ اس سوال پر صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب صدیوں کی تحقیق و تجربات کے باوجود آج تک کسی بھی قسم کے ماہرین نہیں دے پائے ہیں۔
درحقیقت انسانی تخلیق کے حوالے سے سائنسدانوں، محققوں ، فلاسفروں کو کوئی ایسا سرا نہیں ملتا جہاں سے وہ آغاز کریں۔ صرف اور صرف مذاہب ہیں جو ابتدائی انسان کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرتے ہیں اس کے علاوہ ابتداء کے انسان کے بارے میں ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ معلومات نہیں ہے۔ اور جدید سائنسی نظریات کی بنیاد بھی مذہبی معلومات ہی ہیں۔ لہذا انسان کی ابتداء سے متعلق جو چند مفروضہ نظریات ہمیں ملتے ہیں اگرچہ انہیں سائنسی نظریات کہہ دیا جاتا ہے جب کہ یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ یہ نظریات نہ صرف یہ کہ غلط مفروضے ہیں بلکہ مذاہب سے مستعار لئے گئے ہیں۔ ( جیسے کہ ارتقائی نظریات)اگرچہ ان نظریات کا ماخذ مذہبی اطلاعات ہیں لیکن یہ مذہبی اطلاعات غلط نہیں ہیں بلکہ اس کتاب میں ہم نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ۔
(1) انسان پر ہو رہے تمام تر مختلف اور متضاد کاموں کا بنیادی فلسفہ مذاہب سے مستعار لیا گیا۔
(2) یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ اکثر مذہبی آسمانی کتابوں میں زمینی انسانی ترمیم و اضافے کر دیئے گئے لہذا اکثر مذہبی اطلاعات اپنی اصل حالت میں نہیں ہیں۔
(3) تیسرے صحیح مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں بھی غلطی کی گئی اور اسی غلطی سے غلط نتائج اخذ کئے گئے۔
اور یہی غلط نتائج آج انسان کے مختلف اور متضاد علوم کی صورت میں موجود ہیں۔ انہی بنیادی غلطیوں کے سبب فی زمانہ انسان پہ جتنے بھی ارتقاء، روح، نفس، جسم کے حوالے سے سائنسی و غیر سائنسی کام ہو رہے ہیں وہ سب کے سب بے نتیجہ کام ہیں۔ ہر موضوع پر انفرادی حیثیت میں صدیوں سے کام ہونے کے باوجود نہ تو انسان کے انفرادی اجزاء روح، نفس کی شناخت ہی ہو سکی نہ ہی آج تک مجموعی انسان کی حیثیت کا تعین ہو سکا۔
۱۔ لہذا جب تک انسان کے انفرادی اجسام کی شناخت نہیں ہوتی تب تک انسان کی مجموعی حیثیت کا تعین کر نا ممکن نہیں۔ اور
۲۔ جب تک مجموعی انسان کی دریافت مکمل نہیں ہوتی تب تک انسان کی تخلیق کا اندازہ لگانا نا ممکن ہے۔
جب کہ ہم یہاں انسان کی تخلیق کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے تمام تر قدیم و جدید کاموں کے برعکس ہم نے اس کتاب میں نہ صرف انسان کے انفرادی اجسام و اجزاء کا انکشاف کیا ہے بلکہ ہر انفرادی جز کی شناخت قائم کی ہے ان تمام کی خصوصیات اور اعمال بھی بیان کئے ہیں اور مادی جسم سے ان تمام تر باطنی اجسام کے تعلق کی وضاحت بھی کی ہے لہذا پہلے ہر انفرادی جز کی شناخت کے بعد مجموعی انسان کی تعریف کی ہے۔ در حقیقت
انسان کے ہر انفرادی جسم کی شناخت اور انسانی مجموعے (روح، نفس، جسم)کے تعین کے بعد اب ہم انسانی تخلیق کا سراغ لگانے کے قابل ہوئے ہیں لہذا اب ہم انسانی تخلیق کا سراغ لگانے کی سمت راست قدم اٹھا سکتے ہیں۔
70۔ انسان کی تخلیق
نظریہ نمبر:۔ ﴿54﴾۔ ﴿ انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ﴾
انسان کا کبھی بھی کسی بھی قسم کا ارتقاء نہیں ہوا بلکہ انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔
اگرچہ ہر قسم کے سائنسی شواہد ارتقاء کی مسلسل نفی اور تخلیق کی گواہی دے رہے ہیں اس کے باوجود ارتقاء پرست تخلیق کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور نہ ہی وہ ارتقائی نظریات سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ جب کہ انسان پہ ہو رہے دیگر روح و نفس کے کام بھی بے تحاشا الجھ گئے ہیں اور آج تک بے نتیجہ ہیں آج تک روح نفس کی ہی شناخت نہیں ہوئی لہذا ماضی کے تمام تر محقق اس نہج تک پہنچے ہی نہیں کہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ انسان کی تخلیق ہوئی ہے یا نہیں۔
DNA کی دریافت اور دیگر سائنسی ذرائع سے اگرچہ تخلیق کی سائنسی شہادتیں مل رہی ہیں لیکن پھر بھی یہ معمہ حل نہیں ہوتا کہ اگر بفرض محال انسان کی تخلیق ہوئی تھی تو آخر کیسے ہوئی تھی؟
لہذا ہمیشہ یہ سوال حل طلب ہی رہا کہ پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے نمودار ہوا؟
یہاں ہم نے ارتقائی نظریات ( کہ انسان کی ابتداء پانی میں یک خلوی جرثومے کے طور پر ہوئی ہے نیز انسان بوزنے سے پروان چڑھا ہے ) کی نفی کرتے ہوئے انسان کی تخلیق کا دعویٰ کیا ہے تو انسانی تخلیقی عمل کی وضاحت بھی کرنے جا رہے ہیں۔
71۔ منفرد تخلیق
نظریہ نمبر:۔ ﴿55﴾۔ ﴿ انسان ہر نوع(اور کائنات) سے منفرد تخلیق ہے۔ ﴾
انسان ہر نوع سے منفرد تخلیق ہے یہ نہ تو کسی نوع سے ارتقاء یافتہ ہے نہ ہی کائناتی تخلیقی سلسلے کا حصہ ہے۔ بلکہ انسان انفرادی حیثیت میں تخلیق ہوا ہے۔ اس کے بعد انسانی جسمانی ساخت اور ضروریات کے حساب سے کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کی تخلیق عمل میں لائی گئی۔
ڈارونی فلسفے کے مطابق تو انسان بوزنے سے پروان چڑھا لہذا انسان کو عرصہ دراز تک دیگر حیوانات میں منفرد حیوان بتایا جاتا رہا اور انسان کی دیگر حیوانات میں انفرادیت یہ بیان کی جاتی تھی کہ وہ بولتا ہے سوچتا ہے سیاسی و معاشرتی ہے۔ لیکن جب انسان کے باطنی روحانی تشخص AURA کی دریافت ہو گئی تو لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ انسان کا جسم تو کسی نہ کسی طریقے سے ارتقاء یافتہ ہی ہے جب کہ انسان کی انفرادیت اس کا باطنی روحانی تشخص ہے۔
لیکن یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ انسان نہ صرف جسمانی طور پر منفرد ہے بلکہ روحانی طور پر بھی منفرد ہے۔ اور ہر حالت میں انسان اپنی انفرادیت برقرار رکھتا ہے۔ اور کسی قسم کے ارتقاء سے انسان کا تعلق نہیں ہے۔ لہذا پہلے انسانی تخلیق کا منصوبہ مکمل ہوا پھر اس کی جسمانی ضروریات کے حساب سے کائنات اور اس کی موجودات کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔ لہذا
(1) پہلے انسان کی تخلیق ہوئی۔ پھر(انسانی ساخت و ضروریات کے حساب سے )
(2) انسان کے لئے کائنات کی تخلیق ہوئی۔
72۔ پیدائش اور تخلیق میں فرق
نظریہ نمبر:۔ ﴿56﴾۔ ﴿صرف کائنات کا پہلا انسان تخلیق ہوا ہے۔ باقی نوعِ انسانی تخلیق کے عمل سے نہیں گزری۔ بلکہ پیدا ہوئی ہے۔ ﴾
پیدائش اور تخلیق میں واضح فرق موجود ہے جب کہ عموماً اس فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔
۱۔ پیدائش
پوری نوعِ انسانی پیدا ہوئی ہے ، ہر انسان پیدا ہوتا ہے یا پیدائش کے عمل سے گزرا ہے۔ لہذا نوع انسانی نوعی تسلسل کا حصہ ہے نہ کہ ارتقاء یافتہ پیدائش کا مرحلہ نو ماہ کے عرصے پہ مشتمل مرحلہ ہے۔ جو ماں کی کوکھ میں مکمل ہوتا ہے۔ اور پہلے انسان کے علاوہ کائنات کے ہر انسان کا جسم اسی پیدائشی مرحلے سے گزرتا ہے۔ سائنسی ترقی کی بدولت ہر انسان کی پیدائش کے عمل سے تو آج ہم واقف ہو چکے ہیں۔ لیکن ابھی سائنسدان انسان کی تخلیق کا راز نہیں جان پائے لہذا یہاں ہم ہر انسانی جسم کی پیدائش نہیں بلکہ کائنات کے پہلے انسان کی تخلیق کا انکشاف کر رہے ہیں۔
۲۔ تخلیق
صرف ایک اور سب سے پہلے انسان کی )منفرد(تخلیق ہوئی ہے۔
پیدائش اور تخلیق کے عمل میں فرق ہے پہلا انسان ہر پیدا ہونے والے انسان کی طرح پیدا نہیں ہوا بلکہ پہلے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ پہلا انسان تخلیق کے مختلف پیچیدہ اور طویل مراحل سے گزر کر جسمانی صورت میں ظاہر ہوا۔ لیکن ان تخلیقی مراحل سے مراد ہرگز کوئی ارتقاء نہیں ہے۔ جس طرح فیکٹری میں کوئی پرزہ کوئی مشین تکمیل کے مختلف مراحل سے گزرتی ہے یا ماں کے پیٹ میں بچہ ایک نطفہ سے آغاز کر کے مختلف مراحل سے گزرتا بچہ کی صورت نمودار ہوتا ہے بالکل اسی طرح پہلا انسان تخلیق کے بعض مراحل سے گزرا تھا۔ لیکن پہلے انسان کے تخلیقی مراحل اور ہر انسان کے پیدائشی مراحل میں فرق ہے۔ سائنس کی بدولت آج ہر انسان کی پیدائش کے عمل سے تو سب واقف ہیں لیکن پہلے انسان کی منفرد تخلیق کا تذکرہ آج پہلی مرتبہ ہم کرنے جا رہے ہیں۔
چونکہ ہم یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ انسان محض مادی جسم نہیں بلکہ یہ باطن بھی رکھتا ہے لہذا انسان روح، نفس اور جسم کا مجموعہ ہے۔ اور ان سب انسانی اجزاء کی شناخت اور علم کے بغیر انسانی تخلیق کا سُراغ لگانا ناممکن تھا لہذا ان سب کو جاننے کے بعد اب ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ انسانی تخلیق کی وضاحت کر سکیں لہذا اب یہاں ہم یہ وضاحت کریں گے کہ یہ مجموعی انسان کیسے درجہ بدرجہ تخلیقی مراحل سے دوچار ہوا ہے۔
73۔ تخلیقی مراحل
نظریہ نمبر:۔ ﴿57﴾۔ ﴿ انسانی تخلیق کا عمل تین ادوار یا تین بڑے مراحل پر مشتمل ہے۔﴾
یعنی پہلا انسان تخلیق کے تین مختلف ادوار سے گزرا ہے۔ وہ تین ادوار درج ذیل ہیں :
(1) ارواح کی پیدائش۔
(2) نفوس کی تخلیق۔
(3) مادی جسم کی تخلیق۔
جب ہر روح، نفس و جسم کی تخلیق مکمل ہو گئی تو تمام کو یکجا کر دیا گیا۔ یوں انسان کی تخلیق مکمل ہوئی اور انسان جیتی جان ہوا۔ اب ہم یہاں یہ وضاحت کریں گے کہ یہ تین ادوار پہ مشتمل تخلیقی عمل کیسے انجام پایا۔ پہلے انسان کی تخلیق باقاعدہ فارمولے کے تحت انجام پائی۔ اسی طرح ہر پیدا ہونے والا شخص بھی باقاعدہ فارمولے کے تحت پیدائشی عمل سے گزرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر انسان انسان ہی ہوتا ہے اور دوسرے انسان سے مشابہت بھی رکھتا ہے۔ ہر پیدا ہونے والے شخص کے پیدائشی فارمولے اور پہلے انسان کے تخلیقی فارمولے میں فرق ہے۔ لہذا
۱۔ ہر پیدا ہونے والا مخصوص پیدائشی فارمولے سے پیدا ہوتا ہے اور
۲۔ پہلا انسان منفرد تخلیقی فارمولے سے منظرِ عام پر آیا
ہر انسان کے پیدائشی فارمولے کا ذکر ہم پیدائش کے عنوان سے کریں گے۔
لیکن پہلے اب ہم یہاں پہلے انسان کے تخلیقی فارمولے کی وضاحت کریں گے۔ لہذا تین ادوار پہ مشتمل انسانی تخلیق کا عمل درجِ ذیل تخلیقی فارمولے کے تحت تکمیل کو پہنچا۔
74۔ تخلیقی فارمولہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿58﴾۔ ﴿روح(انرجی، پروگرام، خالق کا حکم) نے پہلا جسم ترتیب دیا۔
آسان الفاظ میں اس کو یوں کہیں گے کہ خالق نے پہلا جسم ترتیب دیا یا خالق کے حکم (جسمانی تخلیق کا مکمل پروگرام )سے پہلا جسم با لترتیب ترتیب پا گیا۔
روح کی تعریف میں ہم نے یہ وضاحت کی تھی کہ روح واحد انرجی ہے جو کہ ربّ کا حکم ہے۔ یہی روح جسمانی تخلیق و ترتیب کا مکمل پروگرام بھی ہے لہذا یہی واحد انرجی، خالق کا حکم یا روح کائنات کے پہلے انسان کا جسم ترتیب دے رہی ہے۔ یعنی روح ہی وہ فارمولہ ہے جو جسم ترتیب دے رہا ہے۔ جیسے کمپیوٹر اپنے پروگرام کے مطابق خود کار طریقے سے کام کرتا ہے۔ یعنی سادہ لفظوں میں ہمیں یوں کہنا ہو گا کہ خالق نے خود کائنات کے پہلے انسان کا جسم ترتیب دیا۔ اب ہمیں یہ جاننا ہے کہ کیسے واحد انرجی یعنی روح رب کے حکم (مرتب پروگرام) کے مطابق یا مخصوص فارمولے کے تحت کائنات کا پہلا جسم ترتیب دے رہی ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے یہاں ہم ایک تخلیقی فارمولہ پیش کرتے ہیں۔ پھر اس فارمولے کی مسلسل وضاحت کریں گے تب پہلے انسان کی تخلیق کے عمل کی تعریف مکمل ہو گی۔
پہلے انسان کا تخلیقی فارمولہ
۱۔ واحد انرجی سے
i
۲۔ تمام تر ارواح کی پیدائش
i
۳۔ نفوس کی تخلیق
i
۴۔ پہلے مادی جسم کی تخلیق
i
۵۔ روح و جسم کا اجتماع
i
پہلا مکمل انسان
اب ہم اس پانچ نکاتی فارمولے کی مسلسل وضاحت کریں گے جس سے یہ واضع ہو گا کہ واحد انرجی(روح، رب کا حکم، پروگرام) سے کیسے کائنات کا پہلا جسم تخلیق ہوا۔ اور ایک جسم ایک فردِ واحد(نفسِ واحدہ)سے کیسے پوری نوعِ انسانی نے جنم لیا۔
جیسا کہ پچھلے صفحات میں ہم وضاحت کے ساتھ بیان کر آئے ہیں کہ انسان روح، نفس (لطیف اجسام) اور مادی جسم کا مجموعہ ہے یعنی انسان بہت سے مختلف اقسام کے جسموں (مادی و لطیف) اور بہت سے نظاموں کا مجموعہ ہے یعنی ایک مادی جسم ہے تو ایک باطن ہے اور انسانی باطن ایک انوکھا جہان ہے جس میں انسان پوری کائنات سمیٹے بیٹھا ہے۔ لہذا اس عجیب و غریب انسانی شخصیت کی ابتدائی تخلیق کا بیان کوئی چھو منتر نہیں بلکہ یہ بیان دراصل بگ بینگ (Big Bang) کا بیان ہے۔
ہم ہر روز پیدا ہوتے ہوئے بچوں کو بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن انسان کی تخلیق کا عمل پیدائش کے عمل کی طرح محض نو ماہ کا چلہ بھی نہیں۔ بلکہ انسان کی تخلیق ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے جو بہت سے مراحل اور ان مراحل کے بہت سے مدارج پہ مشتمل ہے یعنی انسانی تخلیق ایک وسیع و عریض موضوع نہیں بلکہ ایک وسیع و عریض علم ہے۔
لہذا یہاں ہم نے اس تخلیق کے وسیع و عریض موضوع کا آغاز ایک تخلیقی فارمولے سے کر دیا ہے اب اس فارمولے کی مسلسل وضاحت ہو گی بہت سا تحقیقی، سائنسی کام ہو گا۔ تبھی جا کر کائنات کے پہلے انسان (روح + نفس (لطیف اجسام) + مادی جسم) کی تخلیق کی قدرے وضاحت ہو پائے گی۔ تبھی یہ راز کھلے گا کہ پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے نمودار ہوا۔
بہر حال آج ہم اس کام کی بنیاد رکھ کر اس کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ واحد پانچ نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے اس کی مسلسل وضاحت کرتے ہیں۔
۱۔ واحد انرجی سے تخلیق کا آغاز
پہلا مرحلہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿59﴾۔ ﴿واحد انرجی سے تخلیق کا آغاز ہوا۔ ﴾
ابتداً فقط واحد انرجی تھی۔ اور یہی واحد انرجی کائنات اور کائنات کے پہلے انسان اور تمام تر انسانوں کا تخلیقی مادہ ہے۔
لہذا ڈارون اور ماضی کے تمام سائنسدانوں کے وہ نظریات مفروضہ نظریات ہیں جن کا خیال ہے کہ انسان کا تخلیقی مادہ کوئی یک خلوی جرثومہ ہے نہ ہی حیات پانی میں شروع ہوئی۔
حیات کا مادہ ، مادہ ہے ہی نہیں۔
حیات کا مادہ "انرجی "ہے
وہ بھی ہر قسم کی انرجیوں سے منفرد "واحد انرجی” ہے۔ جو ہر قسم کے تعاملات سے پاک ہے۔
پانی اور یک خلوی جرثومہ یا نفسِ واحدہ حیات کے دیگر مراحل تو ہیں لیکن حیات کا آغاز پانی میں یا کسی بھی جرثومے سے نہیں ہوا
بلکہ حیات کا آغاز انرجی سے ہوا۔ ابتداً کچھ بھی نہیں تھا نہ پانی نہ جرثومہ نہ کچھ اور ابتداً فقط واحد انرجی تھی۔ ہر کثافت سے پاک غیر مرکب فقط واحد انرجی۔ اسی واحد انرجی نے حیات کا آغاز کیا۔
کیسے؟
۲۔ ارواح کی پیدائش
دوسرا مرحلہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿60﴾۔ ﴿ واحد انرجی یکلخت منتشر ہوئی اور تمام تر ارواح کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ﴾
یعنی ایک ہی دھماکے سے یکلخت منتشر ہو کر واحد انرجی نے کائنات کے تمام تر انسانوں کی ارواح کی صورت اختیار کر لی۔ لہذا واحد انرجی کے اس انتشار سے ہر انسان کی انفرادی روح نے جنم لیا۔
ہر روح ہر انسان کا انفرادی پروگرام ہے جو فقط واحد انرجی کے انتشار سے یکلخت موجود ہو گیا۔ واحد انرجی سے تمام تر ارواح کی پیدائش اور پہلے انسان کی تخلیق سے لے کر آخری انسان کی پیدائش تک کا عمل فشن (Fission) کا عمل ہے۔
لہذا انسانی تخلیق کا ایک مرحلہ مکمل ہوا یعنی ارواح کی پیدائش مکمل ہوئی۔ اب واحد انرجی سے آغاز کر کے ابتدائی انسان کی تخلیق کا عمل ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ لہذا اگلا مرحلہ ہے نفس کی تخلیق۔
۳۔ نفس کی تخلیق
تخلیق کا تیسرا مرحلہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿61﴾۔ ﴿ ارواح نے نفوس (لطیف اجسام)یعنی انسانی باطن کو ترتیب دیا۔ ﴾
۱۔ واحد انرجی نے جب یکلخت منتشر ہو کر نفوذ کیا تو تمام تر ارواح کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
۲۔ پہلے منتشر ہوئی پھر ایک دوسرے سے دوبارہ مرکب ہوئی تو اس مرکب سے نور کا وجود ہوا اور روح کے پروگرام کے مطابق نور کے لطیف ذرات ترتیب دے کر نورانی لطیف جسم تیار کیا گیا لہذا لطیف نورانی جسم وجود میں آیا۔ یا روح کے پروگرام کے مطابق نور کے لطیف ذرات ترتیب دے کر نورانی لطیف جسم تیار کیا گیا۔ لہذا نور کے جسم کی تکمیل ہوئی۔
(iii)واحد انرجی مزید مرکب ہوئی تو روشنی وجود میں آئی اور روح کے پروگرام کے مطابق روشنی کے ذرات اکھٹے کر کے روشنی کا جسم ترتیب دیا۔ یوں روشنی کے جسم (AURA) کی تخلیق عمل میں آئی۔
لہذا نفس(انسانی باطن) کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا لہذا نفس کی صورت یہ بنی۔
نفس کی صورت =روشنی کا جسم + نور کا جم = نفس(انسانی باطن)
لہذا انسان کی تخلیق کے دو مرحلے مکمل ہوئے یعنی ارواح کی تخلیق اور نفوس کی تخلیق۔ یوں انسانی باطن کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔ اب اگلا مرحلہ ہے پہلے انسان کے مادی جسم کی تخلیق کا۔
75۔ انسان پیدائش سے پہلے
نظریہ نمبر:۔ ﴿62﴾۔ ﴿ انسان مادی جسم کی پیدائش سے پہلے بھی موجود تھا۔ ﴾
انسان سے مراد اس کا اصل یعنی روح ہے اور یہ روح ایک مرتب پروگرام ہے جس میں انسان کی ہر ہر حرکت اور ہرہر عمل ریکارڈ ہے اور انسان مادی جسم سے پہلے روح (اور نفس)مرتب ریکارڈ کی صورت میں موجود تھا۔
ہماری پوری شخصیت ہر حرکت و عمل پہلے سے مرتب ریکارڈ شدہ پروگرام ہے یعنی ہم جو کچھ ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں یا جو ہو چکا یا جو ہو گا سب کچھ کی تفصیل پہلے سے کسی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
یعنی ہمیں بھوک لگی ہے ہاتھ حرکت کر رہے ہیں ذہن کام کر رہا ہے تو یہ تمام حرکات پہلے سے ترتیب شدہ پروگرام ہیں۔
یعنی ہر وجود کا عمل اور آج جو بھی عملی مظاہرے ہو رہے ہیں یہ پہلے سے طے شدہ پروگرام پہ عمل درآمد ہو رہا ہے یعنی ریکارڈ فلم جب پردہ زندگی پر متحرک ہوتی ہے تو اس تحریک کو ہم زندگی کہتے ہیں۔
یعنی جتنی بھی موجودات ہیں وہ پہلے کہیں اور ہیں اور وہاں سے بہ ترتیب مادی صورت میں وجود میں آ رہی ہیں۔
یعنی انسان آج جو مادی صورت میں موجود ہے اور حرکت و عمل کر رہا ہے تو اس کی موجودگی اور حرکت و عمل اسی ترتیب شدہ پروگرام کے تحت ہے۔ یعنی جسم میں آنے سے پہلے انسان محض ترتیب شدہ خصوصیات کا پروگرام تھا لیکن جسم میں اس پروگرام کی منتقلی سے اس پروگرام میں تحریک پیدا ہوئی اور عمل وجود میں آیا اور انسان کا ارادہ اس میں شامل ہو گیا۔
لہذا انسان کی تخلیق کے مراحل میں پہلے۔
کائنات کی تمام تر ارواح کی پیدائش ہوئی۔
پھر نفوس کی تخلیق ہوئی۔
یعنی کسی بھی مادی جسم کی پیدائش سے پہلے تمام تر انسانوں کے باطن ترتیب پا چکے تھے۔
اب یہی تمام تر باطن یکے بعد دیگرے مادی جسم کے قالب میں ڈھلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
لہذا تمام تر انسانوں کے باطن تو ترتیب پا چکے ہیں لیکن یہ باطن ابھی عالم ارواح میں ہیں۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ باطن کیسے زمینی سیارے پر اتر کر یکے بعد دیگرے مادی اجسام کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
اور کیسے باطن(روح +نفس(لطیف اجسام) نے پہلا جسم تیار کیا۔
اور پہلا مادی جسم ( آدم ) کیسے تخلیق پایا۔ پہلے مادی جسم کی تخلیق اور ہر انسان کی پیدائش کا عمل مختلف عمل ہے لہذا ہر انسان کی پیدائش کے ذکر سے پہلے ہم پہلے انسان کی منفرد تخلیق کا تاریخی تذکرہ کر رہے ہیں اور یہ تذکرہ اب چوتھے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ لہذا چوتھا مرحلہ ہے
۴۔ پہلے مادی جسم ( آدم ) کی تخلیق
تخلیق کا چوتھا مرحلہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿63﴾۔ ﴿ پہلا مادی جسم زمینی مٹی کے ذرات سے پودے کی طرح تخلیق کیا گیا۔ ﴾
صرف کائنات کے سب سے پہلے انسان کے جسم کو خصوصی طور پر تیار کیا گیا یعنی تخلیق کیا گیا باقی تمام تر انسان پیدائش کے عمل سے گذرے ہیں لہذا پہلا جسم زمینی مٹی کے ذرات سے پودے کی طرح تخلیق کیا گیا۔ لہذا پہلے انسان کے مادی جسم کی تخلیق اور تمام تر انسانوں کے مادی جسم کی پیدائش میں فرق ہے۔
جیسے ماں کے پیٹ میں محض نطفے سے پورا بچہ تخلیق پا جاتا ہے بالکل ایسے ہی ابتدائی انسان کا جسم زمینی عناصر کو ترتیب دے کر تیار کیا گیا۔ لیکن نطفے سے ماں کے جسم میں پیدائش کا عمل اور زمینی عناصر سے جسم کی تیاری کا عمل دو بالکل مختلف عمل ہیں۔
زمینی عناصر سے مادی جسم کی تیاری کا عمل ایسا ہے جیسے کسی گلاس فیکٹری کے اندر ریت کے ذرات کو مختلف مراحل سے گزار کر شیشہ بنا دیا جاتا ہے۔ روح وہ بیج اور فارمولہ یعنی انسانی جسمانی تحلیق کا مکمل پروگرام تھا جس کے عین مطابق پورا انسان وجود میں آیا۔ اسی روح میں جسم کی تکمیل کا تمام پروگرام موجود تھا لہذا اسی پروگرام کے مطابق روح نے مٹی کے ذرات اکھٹے کر کے بلڈنگ بلاکس کی طرح جسم ترتیب دے دیا روح خالق کا حکم ہے یعنی خالق نے خود اپنے حکم (تخلیق کا مکمل پروگرام)سے زمینی مٹی کے ذرات کو مختلف حالتوں میں مختلف مراحل سے گزار کر ایک بہترین جسمانی صورت میں ڈھال دیا۔ مٹی میں پانی ملایا گوندھا، خشک کیا، جلایا، سکھایا، حتیٰ کے مٹی کے ذرات سے ایک بہت ہی خوبصورت جسم تیار کر دیا۔ روح وہ بیج اور فارمولہ تھا جس کے عین مطابق پورے انسانی وجود کا تخلیقی عمل مکمل ہوا۔ اسی روح میں جسم کی تکمیل کا تمام پروگرام موجود تھا۔
یعنی پہلے انسان (آدم علیہ السلام) زمینی پیداوار ہیں جیسے پودے، درخت وغیرہ فقط ایک بیج کی مدد سے زمین سے اگتے ہیں اسی طرح فقط انرجی (یعنی روح) سے آغاز کر کے پورا انسان تیار کر دیا گیا۔ یعنی
واحد انرجی سے تکمیل کو پہنچا پہلا انسان اور اسی پہلے ایک انسان سے بنے ہیں تمام انسان۔
یعنی تمام انسانوں کا مادہ واحد انرجی ہے۔
واحد انرجی سے آغاز ہوا اسی سے روح بنی پھر اسی انرجی سے نفس اسی سے پانی اسی سے مٹی اور یہ سب مرحلہ وار بڑی ترتیب سے تخلیق ہوئے ہیں۔ لہذا نفس واحدہ سے بنے انسان میں روح بھی ہے نفس بھی اس میں پانی بھی ہے اس کا جسم مٹی سے بھی بنا ہے۔ اور اسی انسان کی جسمانی پیدائش نطفے سے ہوئی ہے۔ انہی ترتیب وار اطلاعات کو جب سمجھنے کے بجائے بے ترتیب کر دیا گیا تو معاملہ الجھ گیا لہذا کسی نے انسانی تخلیق کا تذکرہ کیا تو کہہ دیا کہ انسان پانی سے بنا ہے کسی نے کہہ دیا نفسِ واحدہ سے بنا ہے کسی نے جرثومہ کہا تو کسی نے مٹی جب کہ یہاں آج ہم نے ان غلط فہمیوں کو دور کر کے یہ وضاحت کر دی ہے کہ انسان محض پانی یا محض مٹی یا محض جرثومے سے نہیں بنا بلکہ انسانی تخلیق کے عمل میں یہ تمام عناصر پانی مٹی، جرثومے، مرحلہ وار استعمال ہوئے ہیں۔ یہ تمام اس کے تخلیقی مراحل ہیں اور یہاں ہم نے ان تخلیقی مراحل کو ترتیب وار بیان بھی کر دیا ہے اب ہم نے یہاں اس ترتیب کو درست کر دیا ہے۔ لہذا واحد انرجی سے آغاز کر کے تمام تر ارواح کی پیدائش عمل میں آئی اور منتشر واحد انرجی ایک نئے انداز سے مرکب ہوئی تو اس سے نور بنا اور نور سے نور کا جسم پھر واحد انرجی نے ایک اور مرکب شکل روشنی کی اختیار کی تو اس روشنی کے ذرات سے روشنی کا جسم تیار کیا گیا لہذا نفوس کی پیدائش کے بعد واحد انرجی ہی کی ایک اور مرکب شکل مادی ذرات سے مادی جسم کی تکمیل کا طویل مرحلہ بھی مکمل ہوا اب پہلے انسان کا مادی جسم بھی تخلیق پا گیا اب یہ جسم تو تیار ہے۔ لہذا تخلیق کے اس مرحلے میں اب ارواح کی پیدائش کا مرحلہ بھی مکمل ہوا نفوس بھی تخلیق پا گئے اور اب پہلا انسانی جسم بھی طویل مراحل طے کر کے تیار ہو چکا ہے۔ اب انسان کا ظاہر مادی جسم اور باطن کا تخلیقی عمل مکمل ہو اب انسان کی موجودہ صورت درج ذیل ہے
باطن =روح+نفس(لطیف اجسام)
ظاہر=مادی جسم
انسان کا ظاہر و باطن مکمل ہوا یعنی مجموعی انسانی تخلیق کا عمل مکمل ہو چکا ہے لیکن ابھی انسان مکمل نہیں ہوا ابھی ایک مر حلہ باقی ہے۔
۵۔ روح و جسم کا اجتماع
تخلیق کا پانچواں مرحلہ
نظریہ نمبر۔ ﴿64﴾۔ ﴿تیار و تخلیق شدہ مادی جسم و روح(باطنی اجسام یا نفس)کو یک جان کر دیا گیا اور یوں پہلے انسان کی تخلیق کا عمل تکمیل کو پہنچا اور انسان جیتی جان ہوا۔ ﴾
اب اس پہلے انسانی جسم میں خالق نے اپنی روح (یعنی اپنے حکم (پروگرام)سے تیار کردہ انسانی باطن) پھونک دی۔ یعنی تخلیق شدہ روح (باطن) و جسم کو یکجا کر دیا۔ جس کی شکل یوں بنی۔
مادی جسم + روح (باطن) = انسان
اور یوں روح (نفس (لطیف اجسام)+مادی جسم کے اجتماع سے انسان مکمل ہوا اور متحرک ہوا۔ یہ ہے پہلا تیارانسان یعنی تمام انسانوں کے باپ آدم۔ اور یہی ہے کائنات کا وہ واحد انسان (نفسِ واحدہ)جس سے نوعِ انسانی نے آغاز کیا اور تمام نوعِ انسانی اسی نفسِ واحدہ یعنی ایک پہلے انسان آدم کی اولاد ہیں۔ یہ پہلا انسان طویل تخلیقی مراحل سے گزر کر مکمل انسانی صورت میں اب موجود ہے متحرک ہے یہ انسان ہر نوع سے ہر لحاظ سے منفرد اور مکمل انسان ہے یہ کوئی مفروضہ حیوان نہیں بلکہ کائنات کی سب سے منفرد اور محترم تخلیق انسان ہے۔ اور اس منفرد تخلیق میں کسی ارتقاء کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں پہنچ کر اب پہلے انسان کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔ یہ ہے کائنات کا پہلا مکمل انسان۔
76۔ پہلا جوڑا
اسی پہلے انسان سے اس کا جوڑا یعنی ایک عورت (حضرتِ حوا) کی پیدائش ہوئی۔ لہذا حضرتِ حوا کی پیدائش کے ساتھ پہلا جوڑا مکمل ہوا
پہلے جوڑے کی تخلیق کے بعد اب تخلیقی عمل مکمل ہوا۔ اس پہلے جوڑے کے علاوہ کوئی انسان تخلیق نہیں ہوا تخلیقی عمل سے بس یہ پہلا جوڑا ہی گزرا ہے باقی سب انسان پیدائش کے عمل سے پیدا ہوتے ہیں
پہلے آدم کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔
پھر حوا کو پیدا کیا گیا۔
یوں پہلا انسانی جوڑا مکمل ہوا۔
پہلے انسان اور پہلے جوڑے کی انفرادیت یہ ہے کہ
پہلا جوڑا تخلیق کیا گیا خصوصی طور پر جب کہ اس کے علاوہ تمام تر انسان پیدائش کے طریقے سے پیدا ہوتے ہیں۔
(2) دوسری انفرادیت یہ ہے کہ تمام تر انسانوں کا باطن خالق کے ہاں تخلیق ہوئے جب کہ جسم زمین پر پیدائش کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔ جب کہ پہلے انسان کا جسم بھی خالق نے خود جنت میں تیار کیا۔
لہذا پہلا انسانی جوڑا روئے زمین پر نہیں بلکہ جنت میں نمودار ہوا جو خالصتاً خالق کی ذاتی انفرادی تخلیق ہے۔ یہ کسی نوع سے نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں تخلیق کیا گیا۔
یہ پہلا جوڑا تیار ہو گیا تو اسے زمین پر اتار دیا گیا۔
زمین سے ہی اس پہلے جوڑے کے مادی ذرات اکھٹے کیے گئے تھے۔ یعنی انسانی جسم مادی ہے تو روح حقیقی لہذا انسانی تخلیق کا عمل تو مکمل ہوا۔ اب اگلا مرحلہ ہے "پیدائش”کا۔
77۔ پیدائش کا آغاز
نظریہ نمبر:۔ ﴿65﴾۔ ﴿کائنات کے پہلے جوڑے سے پیدائش کے عمل کا آغاز ہوا لہذا نوعی تسلسل قائم ہوا۔ ﴾
پہلے جوڑے سے پیدائش کے عمل کا آغاز ہوا۔ اور اسی پہلے جوڑے کے اختلاط سے نوع انسانی کا آغاز ہوا اور نوعی تسلسل قائم ہوا۔ لہذا صرف پہلا جوڑا تخلیقی عمل سے گزرا جب کہ باقی نوعِ انسانی کی تخلیق نہیں ہوئی بلکہ باقی تمام انسان اسی واحد جوڑے کی نسل ہیں اب اس پہلے جوڑے کی تخلیق کے بعد انسان تخلیق نہیں ہوتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں
لہذا آج زمین پر موجود تمام تر انسان خالق کے تخلیق کردہ واحد جوڑے کی نسل ہیں۔ یعنی تمام انسانوں کی اصل ایک (پہلا انسان(واحد انرجی) ہے۔
78۔ نفسِ واحدہ
نفس واحدہ وہ کائناتی مذہبی اطلاع ہے جس پر تمام تر انسانی فلسفوں کی بنیاد ہے لیکن اس مذہبی اطلاع کو سمجھنے میں غلطی کی گئی اور اسی غلطی سے غلط نظریات نے جنم لیا۔ آج یہاں جدید نظریات کے ذریعے ہم نے ماضی کی ان غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے لہذا یہاں ہم نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ نفس واحدہ کا مطلب ہے ایک جان، اور نفس واحدہ سے مذاہب کی مراد دو حقیقتیں ہیں۔
(1) واحد انرجی۔
(2) پہلا انسان۔
نفس واحدہ سے مراد واحد انرجی بھی ہے جس سے کہ تمام تر انسان بنے ہیں۔ اور نفس واحدہ سے مراد پہلا انسان (آدم) بھی ہے کہ تمام انسان اسی کی نسل سے ہیں۔ لہذا اسی پہلے انسان کی اولاد ہے تمام نوع انسانی لیکن آدم کے علاوہ ہر بچہ ماں کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے اور یہ نوعی تسلسل آدم سے شروع ہو کر آخری انسان تک جائے گا اور اس نوعی تسلسل کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکی کبھی بھی۔ ہاں خالق جب چاہے پوری انسانیت کو یکلخت نابود کر دے۔
79۔ تخلیقی ترتیب
یہاں ہم نے پہلے انسان کی مرحلہ وار تخلیق کا تذکرہ کیا ہے۔ لہذا کائنات کے پہلے انسان کی تخلیق کی مندرجہ ذیل ترتیب ہمارے سامنے آئی ہے۔
واحد انرجی منتشر ہوئی اور
i
تمام تر ارواح کی صورت میں ظاہر ہوئی
i
نفوس کی تخلیق ہوئی
i
پہلے مادی جسم کی تخلیق ہوئی
i
روح (نفس )و جسم کا اجتماع ہوا= پہلا انسان مکمل ہوا
i
حوا کی پیدائش = کائنات کا پہلا جوڑا مکمل ہوا
i
پیدائش کے ذریعے نوعی تسلسل کا قیام عمل میں آیا
اس ترتیب کا خلاصہ یہ ہے۔
(1) واحد انرجی:۔ ابتداً کچھ بھی نہیں تھا لہذا خالق کا حکم یعنی واحد انرجی متحرک ہوئی منتشر ہوئی اور تمام تر ارواح کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اب یہی روح وہ فارمولہ ہے جو انسان کے ظاہر و باطن کی تخلیق کا مکمل فارمولہ ہے لہذا روح (خالق کا حکم(ٖپروگرام)کے اس فارمولے کے مطابق
(2)۔ روشنی کے ذرات سے نفوس کو ترتیب دیا گیا لہذا نفوس کی تخلیق مکمل ہوئی۔
(3) مادی ذرات سے مادی جسم ترتیب دیا گیا۔ یہ ہے پہلے انسان کا جسم لیکن یہ جسم انسان نہیں محض جسم ہے بے حرکت جسم۔
(4) اب اس مکمل تیار جسم اور روح (اور انسانی باطن یانفس) کو مادی جسم سے مربوط کر دیا گیا۔ یعنی تخلیق شدہ جسم میں پہلے سے تیار روح پھونک دی گئی اور انسان جیتی جان ہوا۔
(5) آدم کے ساتھ ان کا جوڑا یعنی حوا کو پیدا کیا گیا۔
(6) پہلا جوڑا مکمل ہو گیا یہ پہلا جوڑا پیدا نہیں ہوا بلکہ خاص تخلیقی مراحل سے گزر کر خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے۔
(7) اب اس جوڑے سے پیدائش کے عمل کا آغاز ہوا۔ یعنی نوعی تسلسل قائم ہوا۔ یعنی اب
انسان تخلیق نہیں ہوتے (پہلے انسان کی طرح) بلکہ جوڑے کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔ اور موجودہ نوع انسانی اسی جوڑے کی نسل ہیں۔
اور آدم تمام انسانوں کے باپ ہیں۔
اور تمام انسانوں کی اصل (آدم، واحد انرجی) ایک ہی ہے۔
یہ نتائج جو ہم نے برسوں کی تحقیق کے بعد حاصل کئے ہیں مذہبی اطلاعات کی سو فیصد تصدیق کر رہے ہیں۔ لہذا برسوں کی تحقیقات کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ہماری تحقیقات جہاں جہاں صحیح ہیں وہاں وہاں مذہبی اطلاعات سے مطابقت رکھتی ہیں۔
٭٭٭
مصنفہ کی اجازت اور تشکر کے ساتھ
پروف ریڈنگ، اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
HAQIQI TOOR PAR AIK BARII KAWISH HAY. AAP NAY BARRI MAHNAT KI HAY. HATS OFF FOR YOU