عقاب نا معلوم میں نے بڑی مشکل سے روٹی کا ٹکڑا حلق سے نیچے اتارا اور چمچہ ایک طرف رکھ دیا۔ چٹائی کا نیا ہیٹ کیل سے نیچے اتارا۔ میری امی نے یہ ہیٹ اس وقت خریدا تھا جب انھوں نے مجھے گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ "مراد جان!” نانی امّاں نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔ میں رُک گیا۔ "کیوں، کہاں چلے نواسے؟” "نانا کے پاس باغیچے میں۔” میں نے جواب دیا۔ "ہیں، اس گرمی میں! ارے بیٹا! ابھی گھر میں بیٹھو نا۔ تم ٹھہرے شہر کے رہنے والے، گرمی کی عادت کہاں؟ اور سورج بڑا ظالم ہوتا ہے ان لوگوں کے لیے جنھیں اس کی عادت نہ ہو۔ اگر جانا ہی ہو تو شام کو خنکی ہونے پر چلے جانا اور ہاں نانا کا کھانا بھی لے جانا۔” میں نے ناگواری سے ہیٹ اتار کر رکھا اور بیٹھ گیا۔ یوں تو مجھے اپنی نانی سے بہت محبت ہے اور ہمیشہ ان کا کہنا بھی مانتا ہوں مگر مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا جب کوئی مجھے ننھا بچہ سمجھتا ہے اور خاص طور پر اس وقت یہ بڑا ناگوار گزرتا ہے جب مجھے فضول باتوں سے ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور تو اور، ہماری نانی امّاں نے سورج کو ہی ہَوّا بنا دیا! میں مانتا ہوں کہ نانی کے لیے یہ سمجھنا ذرا مشکل ہے کہ میں اب وہ پرانا مراد نہیں رہا جس کو امّی ابّا اپنے ساتھ لایا کرتے تھے۔ میں اب چوتھی جماعت میں آ گیا ہوں۔ جب امی مجھے اکیلا بھیجنے میں ہچکچا رہی تھیں تو معلوم ہے ابّا نے کیا کہا تھا؟ "مراد اب بڑا ہو گیا ہے، اس کو اکیلے جانے دو اور ہم ایک ہفتے بعد پہنچ جائیں گے۔ آخر وہ شہر میں اپنی چھٹیاں کیوں برباد کرے؟” خیر یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ چھٹیاں کیسے برباد کی جا سکتی ہیں، لیکن میں ابا کی اس بات سے بہت خوش ہوا۔ یہ سچ ہے کہ رحمت کو چھوڑتے ہوئے کچھ افسوس بھی ہوا مگر وہ بھی بہت جلد پانئیر کیمپ چلا جائے گا۔ ہم ابا کے ساتھ ٹیکسی میں اسٹیشن آئے، انھوں نے مجھے ریل گاڑی میں بٹھا دیا اور چلے گئے، گھنٹہ بھر کا راستہ تھا۔ البتہ جب اسٹیشن آنے والا تھا جہاں مجھے اترنا تھا تو ایک بڑی بی نے بےکار دخل دیتے ہوئے فرمایا: "ارے ہاں، جلدی کرو بیٹا! تمھیں یہاں اترنا ہے اور ہاں، دیکھو ذرا احتیاط سے!” مجھے بہت غصہ آیا۔ یہ امی صاحبہ کی حرکت تھی جنھوں نے ان محترمہ سے درخواست کی تھی کہ وہ اترنے میں میری مدد کریں۔ گویا میں خود نہیں اتر سکتا تھا! سچ پوچھیے تو سب بوڑھی عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ مگر بوڑھے مرد مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو میں نانا کے پاس جانے کو بےقرار تھا۔ ان کے ساتھ بڑا مزہ آتا ہے۔ ان کے قصے کہانیوں کا سلسلہ تو برابر ہی چلتا رہتا ہے جب کہ نانی اماں دن دن بھر مصروف رہتی ہیں۔ گھر کے کام کاج میں لگی رہتی ہیں اور شام تک تھک کر چور ہو جاتی ہیں، اسی لیے مزے کے قصے کہانیاں نہیں سنا سکتی ہیں۔ اگرچہ جاننے کو وہ بھی کچھ کم نہیں جانتی ہیں۔ نانی نے ایک بھرا ہوا پیالہ میرے پاس لا کر رکھا۔ میں کہنا چاہتا تھا کہ میرا پیٹ پھٹا جا رہا ہے، میں تین گھنٹے سے کچھ نہ کچھ کھائے جا رہا ہوں، لیکن چپ رہا۔ مجھے یاد آ گیا امی نے کتنی تاکید کی تھی کہ نانی کا کہنا ماننا، انھیں خفا نہ کرنا۔ "لو مراد بیٹا، پی لو۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ گرمی میں بہت فرحت بخشتا ہے۔” نانی نے کہا۔ "یہ دہی کی لسی ہے، برف کے ساتھ۔” "کیا سچ مچ بہت سے لوگ اس بد بخت گرمی کی نذر ہو چکے ہیں؟” میں نے دل ہی دل میں سوچا اور پیالہ اٹھا کر بے دلی سے ہونٹوں سے لگا لیا۔ ارے واہ! یہ لسی تو بڑی مزیدار نکلی اور میں غٹا غٹ کر کے پورا پیالہ چڑھا گیا۔ "جی ہاں! میری نانی اماں کو معلوم ہے کہ تواضع کس چیز سے کرنی چاہیے۔” میں نے فخر سے سوچا۔ "کیوں! کیا دل نہیں لگ رہا میرے منے کا ہمارے یہاں؟” وہ کہنے لگیں۔ "جی نہیں، ٹھیک تو۔۔۔۔” "کہو تو جرا کل کو بلا لوں؟ اس کے ساتھ کھیل لینا” "یہ جراکل کون ہے؟” "پڑوسی کا بچہ ہے۔” نانی نے کچھ سوچ کر کہا۔ "شرارتوں میں تو اس کا جواب نہیں مگر ویسے برا لڑکا نہیں ہے۔” وہ جنگلے کے قریب گئیں، دونوں ہاتھوں سے منہ کے قریب پیالہ سا بنا کر آواز لگائی: "جراکل! اے جراکل!” "کیا بات ہے؟” پتلی سی تیز آواز سنائی دی اور آواز سے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ جواب کس نے دیا، لڑکے نے یا لڑکی نے۔ "ادھر آؤ بیٹا! دیکھو میرا نواسہ مراد آیا ہے۔ آؤ اس کے ساتھ کھیلو۔” برابر کے احاطے سے جواب نہیں ملا۔ لیکن ایک سیکنڈ کے اندر جنگلے کے اوپر چمکتی ہوئی سی کوئی چیز نظر آئی جیسے سورج میں شیشہ۔ دیکھا تو یہ جراکل کی منڈی ہوئی چندیا تھی! مجھے لگا جیسے میں نے اس لڑکے کو کہیں دیکھا ہے۔ اس کی بہت بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔ شروع میں وہ احتیاط سے ادھر ادھر گھومتی رہیں اور پھر ڈھٹائی سے مجھ پر جم گئیں۔ میرے نئے ہیٹ کو خاص کر دیر تک گھورتی رہیں، پھر بند ہو گئیں، صرف لکیریں رہ گئیں۔ "ہنسنے کی کیا بات ہے؟” میں نے خفگی سے پوچھا۔ "کیوں! تمھیں یاد نہیں رہا اسٹیشن پر اپنا کارنامہ؟” "نہیں۔۔۔ مجھے یاد نہیں۔۔” "اچھا! تو جناب کو کچھ یاد نہیں ہے؟ کیوں! چوکیدار نے کان کس کے مروڑے تھے؟” "میں کیا جانوں۔۔۔؟” میں نے دھیرے سے کہا اور جلدی سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ خوش قسمتی سے نانی باورچی خانے میں واپس چلی گئی تھیں۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ "اچھا بتاؤ کیا چاہتے ہو؟ میں تمھارے پاس یہاں آؤں یا نہیں؟” جراکل نے اپنی تیز آواز میں پوچھا۔ "ہاں کود آؤ۔” میں نے جلدی سے جواب دیا۔ اگر جراکل کو ایسی ہی آواز میں بولنے کی عادت ہے تب تو نانی سب کچھ سن لیں گی۔ باورچی خانے میں کیا، تاشقند میں بھی یہ آواز پہنچ جائے گی۔ "جنگلہ پھلانگ کر نہیں آ سکتا۔ جراکل نے کہا اور فوراً ہی سرگوشی میں بولا، "ایسا کرنے پر ایک بار تمھاری نانی نے میرا کان بھی یوں مروڑ ڈالا تھا کہ بس۔ اپنے دانت اور منڈی چندیا چمکاتا ہوا جراکل جنگلے کے پیچھے غائب ہو گیا۔ اب مجھے رتی برابر بھی شک نہیں رہا کہ یہ وہی لڑکا ہے جس نے میرے کان کا قصور معاف کروایا تھا۔ ظاہر ہے میں نے اسے فوراً ہی پہچان لیا ہوتا اگر اس کی یہ احمقانہ ہنسی دھوکا نہ دیتی۔ پہلے رحمت بھی یونہی ہنستا تھا۔ جراکل بھی یوں بے وقوفوں کی طرح ہنسنا چھوڑ دے تو بہترین لڑکا نکلے گا۔ ہاں سچ اگر وہ نہ ہوتا تو شاید میرے کان غصہ ور بوڑھے چوکیدار کے ہاتھ میں نظر آتے۔ ۔ ۔ اصل میں ہوا یہ کہ جب ریل گاڑی اسٹیشن پر پہنچی تو میں اس خوش فہمی میں تھا کہ پلیٹ فارم پر لوگوں کا بڑا مجمع ہو گا، سب بڑے احترام سے میرا استقبال کریں گے۔ مجھے افسوس تھا تو بس یہی کہ اس وقت رحمت اور میرے دوست میرا یہ استقبال دیکھنے کو وہاں نہیں ہوں گے۔ لیکن جب میں گاڑی سے نیچے اُترا، اٍدھر اُدھر نظر ڈالی تو دُور دُور تک کوئی دکھائی نہ دیا۔ ایک سوکھے مارے بھورے کتّے کے علاوہ جو بیکاری میں کوڑے کرکٹ کے ٹین میں منہ ڈالے کچھ سونگھ رہا تھا۔ غضب کی گرمی پڑ رہی تھی۔ مانو زمین آسمان بھٹی میں جھلس رہے ہوں۔ میں کتّے کو دھتکار کر پانی کے نل کے پاس آیا، قمیض اتار کر نلکا کھولا اور پانی کے نیچے جھکا۔ پانی اگرچہ خاصا گرم تھا تب بھی کچھ جان میں جان آئی۔ ابھی میں قمیض پہن رہا تھا کہ اتنے میں چوکیدار آتا دکھائی دیا۔ چلتے چلتے وہ رنگ برنگی لپٹی ہوئی جھنڈیاں کینوس کے ایک تھیلے میں ٹھونستا جا رہا تھا۔ پھر بوڑھے کی نظر میرے اُوپر سے یوں گزر گئی گویا میرا وہاں کوئی وجود ہی نہ ہو۔ وہ جمائی لیتا ہوا اپنی کوٹھری میں داخل ہو گیا۔ وہاں سے ایک پنجرہ لیے باہر نکلا جس پر ململ کا کپڑا ڈھکا ہوا تھا۔ پنجرے کو دروازے کے ہُک پر لٹکا کر چوکیدار کوٹھری میں واپس لَوٹ گیا۔ پنجرے کے اندر کوئی پرندہ پھُدک رہا تھا اور کپڑے پر چونچ مار رہا تھا۔ میں پرندہ دیکھنے کو بے قرار ہو گیا۔ میں نے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر گردن تان کر دیکھنا چاہا، مگر کپڑے نے کچھ دیکھنے نہ دیا۔ ۔ ۔ پر میں تو تجسس کے مارے مرا جا رہا تھا۔ میں نے احتیاطاً کوٹھری کے کھلے دروازے میں سے اندر جھانک کر دیکھا۔ چوکیدار تختوں کو جوڑ کر بنائے ہوئے بنچ پر لیٹا اونگھ رہا تھا۔ باہر لکڑی کے بکسوں کا ڈھیر لگا تھا، میں وہاں سے دو بکس کھینچ کر پنجرے کے پاس لایا اور انھیں اُوپر تلے رکھ کر ان پر چڑھ گیا۔ میں کپڑا ہٹا کر پنجرے میں جھانک کر دیکھنا چاہتا تھا کہ بکس ہلنے لگے اور میرے پیروں تلے سے پھسل گئے۔ میں نے ہاتھ پھیلا کر پنجرہ پکڑ لیا۔ کوئی چیز پنجرے کے اندر سے پھدک کر باہر نکلی، پر پھڑپھڑائے، مجھے بجلی کے پنکھے کی تیز ہوا کا سا احساس ہوا اور میں دھڑام سے نیچے گر پڑا۔ ظاہر ہے شور سنتے ہی بوڑھا باہر نکل آیا اور پھر میرا کان اس کے ہاتھ میں تھا۔ اگرچہ اس نے میرا کان زور سے نہیں کھینچا تھا مگر میں ڈر گیا اور عین اسی وقت فرشتہ رحمت، میری جان بچانے والا لڑکا جراکل نمودار ہوا۔ یہ حضرت ایک عنابی مائل بھورے گدھے پر سوار تھے۔ "ارے، ارے۔ ۔ ۔ دادا اوئی آغا، کیا کیا اس لڑکے نے جو بچارے کی یوں خاطر تواضع ہو رہی ہے؟” اس نے بڑے مزے میں چوکیدار کو مخاطب کیا۔ اس کی آنکھوں کی جگہ صرف دو لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔ "یہ لڑکا۔ ۔ ۔ یہ بچارا!” چوکیدار نے ایک منٹ کو میرے کان چھوڑ کر انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، "ہاں، اس لڑکے کی ایسی ہی خاطر تواضع ہونی چاہیے جو یہاں نہیں چاہیے وہاں اپنی ناک گھساتا ہو!۔ ۔ ۔ اور میاں، تم بھی سن لو کان کھول کر، بہتر یہی ہو گا کہ تم بھی جگہ بے جگہ اپنی ناک نہ گھساؤ۔” میں نے اپنا جلتا ہوا کان سہلایا اور سر پر پیر رکھ کر بھاگا وہاں سے۔ اسٹیشن سے گاؤں تک آدھے راستے پر پہنچ کر ہی میں نے بھاگنا بند کیا۔ "خیر کوئی بات نہیں۔” میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ "اگر میں نانا سے کہوں تو وہ اس چوکیدار کو ایک نہیں جتنے چاہو، جیسے چاہو، پرندے پکڑ کر دے سکتے ہیں۔ ” یہ سوچ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔۔ ۔ اور گھر پہنچ کر نانی کو دیکھتے ہی یہ واقعہ میرے ذہن سے رفو چکر ہو گیا۔ اب جراکل نے پھر سے اس کی یاد دلا دی اور میرے دل میں کھلبلی سی مچ گئی۔ "کہیں میں نے کسی قیمتی بٹیر کو تو پنجرے سے نہیں اڑا دیا؟ تب تو کوئی پرندہ اس کی جگہ نہیں لے سکے گا!” "آؤ! گدھے پو سواری کریں۔” جراکل نے مشورہ دیا، پھر مجھے دیکھ کر بولا۔ "ارے پریشان کیوں ہوتے ہو، وہ تو مجھے یقین ہے، اڑ کر کب کا واپس آ گیا ہو گا۔” "وہ کون؟” "کیا مطلب کون؟ عقاب۔۔ اور کون!” "اوہو! تو کیا پنجرے میں عقاب تھا؟” "ہاں اور کیا۔ ویسے سچ پوچھو تو وہ عقاب نہیں۔ عین مین ہوائی جہاز ہے! ارے گاؤں بھر میں اور کسی کے پاس ایسا عقاب نہیں ہے۔” "اچھا بتاؤ! جراکل، کیا تم نے خود دیکھا ہے؟ وہ واقعی واپس آ گیا ہے؟” "دیکھا تو نہیں ہے مگر وہ جائے گا کہاں؟” جراکل نے حیرت سے جواب دیا۔ "وہ تو پالتو عقاب ہے۔ وہ بلاشبہ اپنے پنجرے میں واپس آ جائے گا۔ اگر تمھیں میری بات کا یقین نہیں ہے تو چلو چل کر دیکھ لو۔” "نانی جانے کی اجازت نہیں دیں گی۔” "کیوں؟” "وہ کہتی ہیں کہ دھوپ میں گھومنا اچھا نہیں ہے۔” "اچھا ٹھہرو۔” یہ کہہ کر جراکل باورچی خانے کی طرف غائب ہو گیا۔ پھر آن کی آن میں واپس آیا۔ "چلو!” اس نے خوش ہو کر کہا۔” اجازت مل گئی۔” میں نے اپنا ہیٹ اٹھا لیا۔ "اچھا دیکھو صرف سائے میں کھیلنا۔ ٹھیک ہے، جراکل؟” نانی نے پیچھے سے آواز لگائی۔ "ہاں! ظاہر ہے۔” جراکل نے پیچھے مڑے بغیر ہی جواب دیا۔ "ہم کوئی پاگل ہیں جو دھوپ میں کھیلیں!” پھر ہم سڑک پر نکل آئے۔ سورج درختوں کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ بے رنگ، بے جان پتے ٹہنیوں سے لٹک رہے تھے۔ دریا کے کنارے چند گائیں چر رہی تھیں۔ ایک ٹرک تیزی سے پل سے گزر کر بائیں طرف مڑ گیا۔ "یہ نیا ٹرک ہے۔” جراکل نے اطلاع دی۔ "کچھ ہی دن ہوئے ہمارے پنچائتی فارم میں آیا ہے۔ اگر گاڑی ادھر سے گزرتی تو ذرا چڈھی ہی مانگ لیتے۔ خیر جناب، کوئی بات نہیں۔ تم ذرا انتظار کرو، میں ابھی لے کر آیا اپنی گاڑی۔” ایک منٹ بعد وہ اپنی "گاڑی” اپنا عنابی مائل بھورا گدھا لے آیا۔ "لو ذرا پکڑنا۔” اس نے مجھے لگام تھماتے ہوئے کہا۔ پھر جھک کر اپنی پتلون گھٹنوں گھٹنوں تک چڑھائی اور بولا۔ "چلو چلتے ہیں۔” یہ کہہ کر ذرا سا پیچھے ہٹا، دوڑتا ہوا آیا، ایک چھلانگ لگائی اور پھرتی سے گدھے کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھا۔ پھر میں بڑی مشکل سے گدھے پر سوار ہوا اور گرتے گرتے بچا کیونکہ میں ابھی اچھی طرح بیٹھا بھی نہیں تھا کہ گدھے صاحب تیزی سے دریا کی طرف بھاگنے لگے۔ "دیکھا” دوسرے گئیر میں جا رہا ہے!” جراکل خوشی سے چلایا۔ "اجی، گدھا نہیں، ہیلے کوپٹر ہے، ہیلے کوپٹر! اور کوئی معمولی نہیں، بڑا عالم و فاضل ہے! دادا وائی آغا کے گھر تک پہنچتے ہی رک جاتا ہے، فوراً اپنے کھروں سے بریک لگاتا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ وہاں اسے اکثر کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔” "دادا وائی آغا؟۔۔ تمھارا مطلب ہے۔۔۔۔؟” "ہاں یار، وہی جو تمھارا کان جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ ان کی ایک بیٹی ہے۔ پر جانتے ہو، بڑی چڑچڑی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر وقت اس کو مچھر کاٹتے رہتے ہوں۔” وہ ہنسا اور کچھ اجنبی سی آوازیں آلاپنے لگا: میں چٹانوں کے درمیان گھوما کیا اور برف میں میری قلفی جمی لیکن مشکل کے ہر ہر گھنٹے میں اے روشنی، اے روشنی! جراکل گاتے گاتے ٹانگیں ہلاتا جا رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح فلم میں خواجہ نصر الدین ہلاتے ہیں۔ پھر وہ گانا بند کر کے قہقہے مارنے لگا۔ "تم کیوں ہنس رہے ہو؟” میں نے اس کی آستین پکڑ کر کھینچی۔ "ڈرو نہیں، تم پر نہیں ہنس رہا ہوں۔ یونہی یاد آ گیا۔ صبح جب میں اسٹیشن جا رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں، دادا وائی آغا کی بیٹی جمیلہ دریا کے کنارے بیٹھی ہوئی کپڑے دھو رہی ہے۔ میں گدھے سے اتر کر دبے پاؤں اس کے پیچھے گیا اور اس زور کی چیخ ماری کہ وہ اچھل پڑی اور دھڑام سے پانی میں گر پڑی!” یہ کہہ کر جراکل پھر ہنسنے لگا اور گدھا جیسے اشارہ پا کر اور بھی تیز تیز چلنے لگا۔ کچھ دیر بعد جراکل نے مجھے اپنے دو کبوتروں کے بدلے میں یہ گدھا حاصل کرنے کا قصہ سنایا، اور بتایا کہ اب وہ بدھو لڑکا روز اس کے گھر کے چکر لگاتا ہے، اپنا گدھا واپس لوٹانے کے لیے منت سماجت کرتا ہے۔ لیکن میں نے اس سے کہہ دیا کہ ایک بار زبان دے کر کیسے پھر جا سکتا ہے۔ پھر ذرا دیر بعد کہنے لگا کہ وہ اونچے سے اونچے درخت سے دریا میں چھلانگ لگا سکتا ہے اور گھپ اندھیرے میں بھی بتا سکتا ہے کہ بہترین پکا ہوا تربوز کونسا ہے۔ "سچ! اگر چاہو تو میں تم کو بھی یہ گر سکھا سکتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ پھر قہقہے مارنے لگا۔ عین اسی وقت ہماری”گاڑی” یعنی ہمارے گدھے نے اچانک بریک لگایا۔ "میں نے کہا نہیں تھا کہ یہ بڑا عالم فاضل گدھا ہے۔” یہ کہہ کر جراکل زور سے پکارا: "جمیلہ! ارے او جمیلہ!” "کیوں، کیا بات ہے؟” جنگلے کے پیچھے سے غصے میں بھری آواز آئی۔ "جاؤ،کچھ چارا لاؤ۔ میرا گدھا بھٹے نوش فرمانا چاہتا ہے۔” "میں کیا نوکر ہوں تمھاری؟ ٹھیرو ذرا، ابھی الاپار کو چھوڑتی ہوں باہر، وہ تمھاری اور تمھارے گدھے کی ٹانگیں کچی نہ چبا ڈالے تو بات نہیں!” "دیکھ لیا؟” جراکل نے میری طرف مڑ کے کہا۔ "بہت بدتمیز لڑکی ہے۔ غصے کا بھوت سوار ہو گیا تو اپنے خونخوار کتے کو چھوڑنے سے باز نہیں رہے گی!” پھر جراکل نہ جانے کیا سوچ کر درخت پر چڑھنے لگا۔ "تم یہیں ٹھہرو!” اس نے کہا۔ میں حیران تھا کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتا ہے،معاملہ کیا ہے؟ یہ اسی وقت میرے پلے پڑا جب اس نے وہ رسی کھول ڈالی جو احاطے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک درخت سے بندھی ہوئی تھی۔ "چلو اب چلتے ہیں!” جراکل للکارا اور اس نے سیٹی بجائی۔ رسی پر لٹکے ہوئے سارے کپڑے پھڑپھڑا کر جنگلے کے پیچھے غائب ہو گئے۔ احاطے سے لڑکی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ "تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس بیچاری نے اتنی محنت سے کپڑے دھوئے اور تم نے۔۔۔۔؟” میں گدھے سے اتر کر جراکل کی طرف بڑھا۔ "تو کیا ہوا؟ اگر وہ میرے بیچارے گدھے کو کچھ کھانے کو دے دیتی تو مر تو نہ جاتی!” "یہ اس کا اپنا معاملہ ہے۔ چاہے دے، چاہے نہ دے!” "اچھا، تو مطلب ہے، جناب میرے خلاف ہیں کیوں؟ اور۔ ۔۔۔ میں بھی کتنا احمق ہوں، تمھاری خاطر اتنا کچھ کیا۔” "میری خاطر؟” "ہاں اور کیا نہیں! عقاب کو کس نے پنجرے سے اڑایا تھا؟ تم نے۔۔ کون نانی کے گھر بیٹھا بور ہو رہا تھا؟ تم۔۔۔۔ اور کس نے تم پر ترس کھایا کون تمھاری مدد کو آیا؟ میں!” اس نے پیشانی پر ہتھیلی مار کر دہرایا۔ "ہاں میں جراکل!” میں ابھی کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ جنگلے کا دروازہ چرچرایا اور جمیلہ کا سر باہر نکلا۔ "عقاب گھر واپس آ گیا ہے، وہ دیکھو پنجرے میں بیٹھا ہے۔” جراکل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ "کیا میں نے نہیں کہا تھا؟” وہ بولا۔ "چلو مراد، اندر چل کر دیکھیں۔ جمیلہ تمہارا الاپار تو بندھا ہوا ہے نا؟” "ہاں اندر آ جاؤ، ڈرو نہیں۔” جمیلہ نے اتنا کہہ کر اسے اندر آنے دیا، لیکن جب میں نے اس کے پیچھے اندر جانا چاہا تو دروازہ ٹھیک میری ناک کے سامنے بند ہو گیا۔ میں حیرت سے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔یہ بھی خوب رہا! جمیلہ کو تنگ کیا جراکل نے، اور سزا دے رہی ہے وہ مجھے! "آں ہاں، پکڑے گئے جناب!” احاطے سے لڑکی کی آواز آئی اور اب اس کی آواز میں جیت کی خوشی جھلک رہی تھی۔ میں یہ جاننے کو بے قرار تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے درز میں سے جھانک کر دیکھا۔ جراکل دروازے سے کچھ ہی دور کھڑا تھا اور ایک بہت بڑا کتا اس کی ٹانگوں کے قریب نیم دراز تھا۔ جراکل کے ذرا سے ہلتے ہی وہ بھیانک آواز میں بھونکنے لگتا۔ بھاگنے کی ترکیبیں مت سوچو۔۔۔۔ ۔ ایسا کاٹے گا کہ نانی یاد آ جائے گی۔” جمیلہ نے دھمکی دی۔ "مذاق چھوڑو، ہٹاؤ اس چیز کو یہاں سے، میں جا رہا ہوں۔” "میں مذاق نہیں کر رہی ہوں۔ یہ لو پکڑو!” جمیلہ نے تھیلا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ "سب کپڑے اٹھا اٹھا کر تھیلے میں جمع کرو۔” "واہ، واہ! کیا کہنا، جواب نہیں آپ کا!” جراکل نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیا۔ "اٹھانا چاہتی ہو تو خود اٹھا لو۔” "نہیں اٹھاؤ گے تم؟ الا پار!” کتے نے پہلے مالکن کی طرف دیکھا، پھر جراکل پر نظر ڈالی،اٹھ کر بیٹھ گیا اور خوفناک آواز میں غرایا۔ "کیوں، نہیں اٹھاؤ گے کپڑے؟” جراکل غصے سے تھیلا اس کے ہاتھ سے چھین کر ایک طرف کو ہو گیا۔کتا اپنی جگہ سے ہلا نہیں مگر جراکل کی ہر ہر حرکت پر اس کی نظریں تھیں۔ "لو سنبھالو اپنے کپڑے، بڑی مالکن بنی ہو!”یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھا۔ "کدھر چلے؟” جمیلہ نے پوچھا۔ "تمہیں کیا مطلب؟ تم نے کپڑے سمیٹنے کو کہا تھا، سو میں نے سمیٹ دیئےاور اب میں آزادی سے جا سکتا ہوں۔” "ابھی نہیں جا سکتے۔”جمیلہ نے اس کے ہاتھ میں صابن کا ایک ٹکڑا تھماتے ہوئے کہا۔ "جاؤ، دریا پر جا کر سب کپڑے نئے سرے سے دھو کر لاؤ۔” "پاگل ہو گئی ہو کیا؟” جراکل چلایا۔ "تم کیا چاہتی ہو کہ میں تمھیں جان سے مار ڈالوں؟” "کوشش تو کر کے دیکھو، الاپار تمھاری بوٹی بوٹی نوچ ڈالے گا۔” اپنا نام سن کر کتا پھر غرایا۔ جراکل نے ڈر کر صابن ہاتھ میں لے لیا۔ "اچھا ٹھیک ہے، چلو۔” وہ بڑبڑایا۔ "نہیں! تم خود جاؤ۔ میں آج ایک بار دھلائی کر چکی ہوں، اب تم کوشش کرو۔ گھنٹہ بھر دھلائی کرنے کے بعد شاید جناب کی عقل شریف میں آ جائے کہ دھلائی کرنا آسان کام نہیں ہے!” جراکل کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے شاید یہ سوچا کہ اگر جمیلہ ساتھ نہیں جا رہی ہے تو کتا بھی نہیں جائے گا۔ اگر کتا نہیں گیا تو تھیلا کہیں جھاڑیوں میں پھینک کر وہ چلتا بنے گا۔ لیکن کتے نے جیسے اس کا خیال بھانپ لیا۔ کیونکہ سب سے پہلے وہی دروازے سے باہر نکلا۔ "مگر اس مخلوق چیز کو یہیں رکھو! وہاں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” جراکل نے۔۔۔۔ بے پروائی کے انداز میں تجویز پیش کی۔ "جی نہیں! یہ مخلوق تمھارے ساتھ ضرور جائے گی۔” جمیلہ نے ہنس کر جواب دیا۔ "الاپار! اس کے ساتھ جاؤ اور اچھی طرح نظر رکھنا اس پر۔ سنا تم نے! الاپار؟” الاپار نے تھیلے کے سرے کو دانتوں میں پکڑا اور دریا کی طرف کھینچنے لگا۔ جراکل نے تعجب سے کتے کی طرف دیکھا اور جلدی سے تھیلا اٹھا لیا۔ کس قدر حیرت انگیز کتا ہے! بالکل سرحد پر پہرہ دینے والے کتے کی طرح! ایسا کتا تو کسی جاسوس کو بھی سونگھ سکتا ہے، پکڑ سکتا ہے۔ کتنا عقل مند ہے؟ اور سچ پوچھیے تو یہاں جدھر دیکھو، سب ہی جانور تربیت یافتہ ہیں۔۔۔۔ کیا عقاب، کیا گدھا اور کیا کتا؟ سبھی سدھے ہوئے ہیں! "اچھا تو یہی سہی، جانے کو میں چلا جاتا ہوں۔” جراکل بولا۔ "لیکن واپس آ کر تمھاری ٹھکائی نہ کی تو میرا نام جراکل نہیں۔” اس نے دھمکی دی اور میری طرف مڑ کر کہا۔ "چلو مراد۔” "مراد بھی نہیں جائے گا۔” "تمھیں مراد سے کیا مطلب؟” جراکل آپے سے باہر ہو کر چلایا۔ "اس کا تو کوئی قصور نہیں!” "مجھے معلوم ہے، اس کا کوئی قصور نہیں ہے، مگر میں اس سے درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ وہ رسی درخت سے باندھ دے اور ہاں! یہ بھی کہ وہ عنابی مائل بھورا جانور بھی اس کے اصل مالک تک پہنچا آئے۔ مگر تم جاؤ! تمھاری یہاں کوئی ضرورت نہیں ہے۔” جراکل اداسی سے دریا کی طرف چل پڑا۔ اس کے پیچھے پیچھے بڑے رعب داب سے کتا قدم اٹھا رہا تھا۔ جراکل کو غالباً اپنی ننگی پنڈلیوں پر اس کا سانس بھی محسوس ہو رہا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت اس کی حالت کسی طرح بھی قابل رشک نہیں تھی۔ جمیلہ کی درخواست پر میں نے سب کام کر دیے۔ یہاں تک کہ اس بھورے عنابی گدھے کو بھی اس کے مالک کے پاس چھوڑ آیا۔ پر جراکل ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔ میں واپس آیا تو جمیلہ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ "بڑے زور و شور سے دھلائی ہو رہی ہے۔” اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ "میں جا کر دیکھ آئی ہوں۔ اتنے سلیقے سے دھو رہا ہے کہ لڑکیوں کو بھی رشک آ جائے۔” "وہ کوئی ایسا برا لڑکا تو نہیں ہے۔” میں نے سوچا۔ "تم عقاب دیکھنا چاہتے ہو؟” یہ کہہ کر اس نے مجھے دیکھا اور بے اختیار ہنس پڑی۔ "ارے ڈرو نہیں، الاپار تو اس وقت دریا پر ہے اور یوں بھی میرے خیال میں تم کوئی آفت کا پرکالا بھی نہیں ہو۔” جراکل آدھے گھنٹے بعد واپس لوٹا۔ اس کے ساتھ الاپار بڑے مزے سے چلا آ رہا تھا۔ "جراکل دور سے ہی چلایا۔ "منٹ بھر کو آرام کا سانس نہیں لینے دیا۔ برابر میری پیٹھ پر اپنی ناک سے کچوکے دیتا رہا۔” جمیلہ کے پاس پہنچ کر اس نے تھیلا زمین پر پٹخ دیا، "لو سنبھالو اپنے کپڑے،چڑیل۔” "جلدی نہ کرو، ذرا دیکھ تو لوں۔ اچھی طرح دھوئے ہیں کہ نہیں۔ آہاں دیکھو! اس قمیض کو بالکل نہیں نچوڑا۔ تم نے شاید اسے آخر میں دھویا ہو گا اور بڑی جلدی میں ہو گے۔ ارے حضرت! جانتے نہیں ہو جلدی کا کام شیطان کا۔ لو! اسے اچھی طرح نچوڑو۔” جراکل نے بلا چوں و چرا قمیض لے لی اور اسے نچوڑا۔ "الاپار، اب تم اپنی جگہ پر جاؤ۔” جمیلہ نے کتے کو آواز دی۔ جراکل نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہاتھ پونچھے اور مڑ کر دروازے کی طرف بڑھا۔ "میں سچ مچ اس کی ٹھکائی کرتا۔” اس نے باہر نکل کر کہا۔ "مگر ترس آ گیا۔ یونہی بچاری دکھیا رہتی ہے۔ کچھ دن پہلے اس کی ماں مر گئی ہے۔۔۔ سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے اسے۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ دھلائی بھی اور کھانا پکانا بھی۔” "سچ کہتے ہو! بیچاری کے لیے شاید کافی مشکل ہو گا۔” "ہاں اور کیا؟” جراکل نے یہ کہہ کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جمیلہ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ مختصر سی، دبلی پتلی لڑکی اور اس کی آنکھوں میں بڑی اداسی اور تھکن تھی۔ "جراکل۔ ۔۔۔ ۔” اس نے دھیرے سے آواز دی۔۔ "تم نے مجھے مار ڈالنے کی قسم کھائی تھی اور میں جانتی ہوں کہ جب کہا ہے تو تم یقیناً ایسا کرو گے بھی تو بہتر یہ ہو گا کہ تم ابھی مار ڈالو مجھے۔” جراکل نے مڑ کر ہاتھ سے اشارہ کیا: "خیر، چھوڑو اب۔۔۔ ” "تو پھر تمہیں اب کس نام سے پکارا جائے؟” جمیلہ نے خوش ہو کر سوال کیا۔ "جراکل اور کس نام سے!” جراکل نے بڑے فخر سے جواب دیا اور مسکرانے لگا۔ "جراکل نام کیا برا ہے؟ جر۔ ۔۔۔ جانتی ہو، اس کے معنی ہیں۔۔۔۔ دوست!” ہاں واقعی! کیا برا نام ہے میرے نئے دوست کا؟ ٭٭٭ ٭٭٭ ٹائپنگ: سیدہ شگفتہ ، مقدس پروف ریڈنگ: سید زلفی، اعجاز عبید ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید