FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

 

 

                عظیم بیگ چغتائی

 

حصہ سوم

جمع و ترتیب: محمد امین، اعجاز عبید

پیشکش: اردو محفل

http://urduweb.org/mehfil

 

 

 

 

 

 

 

 

چاول

 

گذشتہ جولائی کا ذکر ہے کہ ایک عجیب شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ حضرت ایک کمپنی کے ٹریولنگ ایجنٹ ہیں۔ اپنی تجارت کے سلسلے میں یہاں آئے۔ ایک اور صاحب ڈاک بنگلے میں ٹھہرے تھے جن سے ملاقات ہوئی اور ان کی وجہ سے آپ سے بھی تعارف حاصل ہوا۔ میں نے دونوں حضرات کو کھانے پر مدعو کیا، اول تو انہوں نے انکار کیا لیکن بعد میں راضی ہو گئے۔ مگر کہنے لگے "ایک شرط پر۔ . میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ چاول میز پر نہ آئیں۔ میں وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ قسم ہے۔ زیادہ میں پوچھنا بھی نہ چاہتا تھا۔

میں نے اس دعوت میں دو ایک اور احباب کو بھی مدعو کیا۔ اور ان میں سے ایک صاحب اسی روز راستے میں ملے۔ کہنے لگے۔ "مجھے سخت پیچش ہے ، میں نہیں آؤں گا۔ ” لیکن میں نے ان سے وعدہ لے لیا کہ کیا مضائقہ ہے ویسے ہی آ جانا اور وقت کی پابندی کا تقاضا کر دیا۔

چنانچہ یہ حضرت جو پہنچے ہیں تو سب کھانا کھا رہے تھے۔ آپ بھی آ گئے اور آتے ہی میز پر ڈٹ گئے۔ میں سمجھا تھا کہ آپ کھانا کھائیں گے کہ اتنے میں ان کے نوکر نہیں جو ساتھ تھے ، تولیے میں سے نکال کر ایک پلیٹ چاولوں کی اور دہی کا پیالہ رکھ دیا!

چاول میز پر آنا تھا کہ میرے عجیب و غریب مہمان کی نظر پلٹ پر پڑی۔ ایک دلدوز چیخ اور تڑپ کے ساتھ یہ اپنی جگہ سے اُچھل کر گویا دور گرے۔ ایسے کہ معلوم ہو ان کے گولی لگی اور چکرا کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ساری محفل ایک دم سے برہم ہو گئی اور ہم سب حیران و پریشان ان کے گرد جمع ہوئے۔ بمشکل ان کے ہوش بجا ہوئے تو انہوں نے یہی کہا "ہٹاؤ۔ ہٹاؤ اس پلیٹ کو۔ ” اور یہ کہہ کر بغیر کہے ہوئے جانے لگے۔ روکے نہ رکتے تھے۔ میں نے جب انتہا سے زیادہ خوشامد کی اور معافی مانگی اور اپنی بدقسمتی پر حد سے زیادہ تاسف کیا تو بمشکل رکے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ کھانے کے لئے اب کوئی اصرار نہ کرے۔ بمشکل ان کو راضی کیا۔ چاولوں کی پلیٹ ہٹا دی گئی۔ دراصل بات یہ ہوئی کہ ان پیچش زدہ دوست کو ڈاکٹر نے دہی خشکہ بتایا تھا۔ گھر دیر سے پہنچے۔ ادھر میرا تقاضا تھا کہ وقت پر پہنچنا تکلف برطرف یہ سوچا کہ کھانا کھاتا ہوں تو دیر ہو جائے گی لہذا کیوں نہ اپنا کھانا ساتھ ہی لیتا چلوں۔ اب جو کچھ بھی ہوا۔ وہ ہوا لیکن یہ معمہ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر چاول دیکھتے ہی ان کی یہ حالت کیسے ہو گئی۔

کھانا تو انہوں نے نہیں کھایا، لیکن ساتھ ضرور بیٹھے رہے۔ لازمی تھا کہ ان سے معافی مانگتے ہوئے اس غیر معمولی بات کا سبب دریافت کا جائے۔ کھانے کے بعد ان کی حالت جب بالکل ٹھیک ہو گئی اور وہ پیشتر کی طرح ہنسنے بولنے لگے تو ہم سب نے ان کو مجبور کیا کہ وجہ بتائیں۔ انہوں نے زیادہ انکار نہیں کیا اور اپنا عجیب و غریب قصہ بیان کیا۔ ۔ ۔ جس میں سے چند باتیں چھوڑ کر قصے کے پیرائے میں جس طرح انہوں نے بیان کیا میں آپ کو بتاتا ہوں۔

انہوں نے سگرٹ سلگا کر نہایت ہی آہستہ اور سنجیدہ لہجے میں اپنا قصہ اس طرح شروع کیا۔

 

                (۱)

 

یہ جب کا ذکر ہے کہ میں چھوٹا سا تھا مگر مجھے سب یاد ہے۔ ایسی اچھی طرح گویا کل کی بات ہے اور جب کبھی کسی دلہن کو دیکھتا ہوں تو وہی سین پیش نظر ہو جاتا ہے۔

جس وقت بچوں نے سنا کہ دلہن آ گئی تو برات کی دھما چوکڑی میں ایک عجیب و غریب قابل قدر اضافہ ہو گیا۔ ایک بچے صاحب اپنے والدہ کا دودھ نوش فرما رہے تھے۔ انہوں نے سنا تو وہ بھی لپکیں اور ان بچے صاحب کو اپنے "ڈنر” کے التوا پر سخت غصہ آیا۔ ماں نے بچے کو وہیں چھوڑا جو سہی تو وہ بکھر گیا۔ ایک گھونسا اس کو مار کر وہ اسے اٹھا کر دوڑیں دلہن کی طرف۔ باقی بچے سب کے سب دروازے کی طرف دوڑے ، ان میں میں بھی تھا۔ اسی سلسلے میں دو چار بچے واللہ اعلم کس وجہ سے پٹ گئے اور بعض نے یونہی بیزاری ظاہر کر کے رونا شروع کیا۔ ہم سب الگ ہٹا دیئے گئے۔ تب ہم نے دیکھا کہ دلہن اتاری گئی۔ وہ کتنی شرمیلی اور پیاری چیز تھی۔ جھکی نہیں بلکہ گری جا رہی تھی۔ زرق برق لباس میں سے اس کے گورے گورے مہندی سے رنگے ہوئے سرخ ہاتھ دکھائی دے رہے تھے اور خوشبو سے وہ مہک رہی تھی۔ عمر میں میں نے پہلی دفعہ یہ دلہن دیکھی۔

 

                (۲)

 

اسی دلہن کو دیکھنے ہم دوسرے دن گئے۔

کیا دیکھتے ہیں کہ دلہن زرق برق کپڑے پہنے بیٹھی ہے۔ مارے شرم کے جھکی جا رہی ہے۔ دراصل اس پر بڑا سخت وقت تھا۔ اردگرد کی عورتیں رونمائی کر رہی تھیں۔ دلہن کے سامنے ایک ادھیڑ عمر کی بی بی بیٹھی تھیں اور ہر دیکھنے والی کے لئے دلہن کا گھونگھٹ اٹھا دیتی تھیں۔ ایک چاند سا کھل کر چھپ جاتا تھا۔ آپس میں عورتیں دلہن کی صورت شکل اور بالخصوص اس کی شرم کی تعریف کر رہی تھیں۔ اس وقت ہم دو بچے کھڑے دیکھ رہے تھے۔ میری ساتھی نے کہا۔ "ہماری آپا بھی دلہن بنی تھیں۔ ” مجھے سخت حیرت ہوئی اور میں نے اس کی بہن کے دلہن بننے کے حادثے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ تو بہت ہی کالی اور بدصورت تھیں۔ دلہن ایسی نہیں ہوتی۔

اس کے بعد ایک بی بی سے ہم نے دلہن دیکھنے کو کہا۔ وہ بہت خوش تھیں اور انہوں نے بڑی خوشی سے دلہن کو دکھایا۔

میں نے مسہری کے پاس آ کر دیکھا۔ دلہن نے اپنی بند آنکھوں کو شرم سے ذرا جنبش دی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ میں نے جھانک کر اسے اچھی طرح دیکھا اور اس کی صورت شکل اس قدر بھولی اور شرمیلی تھی کہ میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ مجھے یہ دلہن بے حد پسند آئی۔ اور میں ہٹا ہی ہوں کہ گونگے چچا آ گئے۔ یہ گونگے چچا دولہا کے رشتے کے چچا تھے۔ شادی کے سبب یہ بھی اس وقت نئے کپڑے پہنے تھے۔ یہ بھی دلہن کو دیکھنے آئے اور انگلی اٹھا کر بولے "اپو۔ ۔ ۔ پائے۔ ۔ ۔ پاء۔ ۔ ۔ ” یعنی ہم بھی دلہن کو دیکھیں گے مگر عورتوں نے انہیں جھڑک کر ہٹا دیا۔ کسی نے خفگی سے بھویں سکیڑیں، کسی نے چہرہ بنایا اور یہ لوٹ گئے نہ یہ سن سکتے تھے اور سوا "ہع۔ ہع” کے کچھ بول سکتے تھے۔

 

                (۳)

 

میں ادھر سے چلا آیا۔ تھوڑی دیر دوسری طرف کھیلتا رہا پھر اندر گیا۔ سب عورتیں اپنے کام میں لگی تھیں اور دلہن برآمدے میں اپنے کمرے کے سامنے اکیلی بیٹھی تھی۔ اس کا خوبصورت چہرہ آدھے کے قریب کھلا تھا اور میں دور ہی سے دیکھ رہا تھا کہ اس نے ایک دم سے اپنا منہ چھپا لیا۔ دیکھتا ہوں تو گونگے چچا، یہ دیوانے سے تو تھے ہی "پا۔ ۔ ۔ پاعے۔ ۔ ۔ ” کہہ کر مسکرائے اور سیدھے چلے دلہن کی طرف۔

اب لطف دیکھئے کہ دلہن کی مسہری کے پاس پہنچ کر آپ نہ صرف بے تکلفی سے بیٹھ گئے ، مگر گُڑی مُڑی دلہن کا گھونگھٹ اس آزادی سے اٹھانے لگے جیسے رونمائی کے وقت اٹھایا جا رہا تھا۔ ۔

دلہن سخت گھبرائی مگر یہ نہ مانے اور دلہن سے بولے۔ "پا۔ ۔ ۔ پاء۔ ۔ ۔ پاعے۔ ۔ ۔ ۔ ”

دلہن نے سخت گھبراہٹ میں ادھر ادھر گھونگٹ ہی میں سے غالباً امداد کے لئے دیکھا اور جب یہ نہ مانے تو اس نے "ہوں” کر کے ہاتھ سے ان کو روکا۔ مگر یہ بھلا کاہے کو مانتے خندہ فرما کر "پا۔ پاپاپا۔ ۔ ۔ ہے۔ ۔ ۔ چ۔ ۔ ۔ ۔ ” کر کے اور بھی زیادہ منہمک ہوئے۔ چشم زدن میں دلہن دونوں ہاتھوں سے پنجہ لڑانے لگی۔ وہ ان کے دونوں ہاتھ پکڑتی۔ باوجود گھونگٹ نکلا ہونے کے مردانہ وار ان کے ہاتھ پکڑتی ہے اور یہ "چ۔ ۔ ۔ پا۔ ۔ ۔ چ۔ ۔ ۔ ” کر کے چھڑا کر گھونگٹ الٹتے ہیں، کہ میں اتنے میں گھبرا گیا۔ میں نے پکارا۔ "دیکھو، یہ گونگے چچا دلہن کو مار رہے ہیں۔ ”

میری آواز کے ساتھ ہی "چ۔ ۔ ۔ ہع پا ہع۔ ۔ ۔ ” کی آواز عورتوں کے کان میں بھی پہنچ گئی اور وہاں سے دو تین عورتیں اس سین کو دیکھ کر چیختی چنگھاڑتی جوتیاں چھوڑ چھاڑ کے دوڑیں۔ انہوں نے آ کر گونگے چچا کو جھٹک پھینکا۔ دھکے دے کر ایسا غل مچایا کہ بیچارے .ہع۔ ہع” کر کے دھکے کھاتے نکل گئے۔ عورتوں نے بڑی دیر تک غل مچایا۔

 

                (۴)

 

ایک دو روز بعد میں پھر جو پہنچا تو دلہن اپنے کمرے میں تھی۔ میں نے جھانک کے دیکھا تو سچ مچ حیرت کی وجہ سے سکتہ میں رہ گیا۔ وہی شرمیلی دلہن انتہائی، انتہائی شرارت کی تصویر بنی اپنے میاں کی جیب سے نہ معلوم کیا چیز زبردستی چھین رہی تھی اور وہ مارے ہنسی کے بے حال ہو کر چارپائی پر پیچھے ہٹتے ہٹتے لیٹ گئے تھے۔ مگر اس شوخ و شنگ دلہن نے نہ چھوڑا۔ اس کا دوپٹہ بھی سر سے سرگ گیا تھا اور مارے خوشی کے چہرہ چمک رہا تھا۔ دونوں ہنس رہے تھے۔ میں اس شرمیلی دلہن کے اس رویے سے ایسا گھبرایا کہ دلہن نے مجھے دیکھا ہی تھا کہ میں وہاں سے بھاگا۔ میری دانست میں دلہن کو ایسا ہر گز نہ کرنا چاہیے تھا۔ میں اس کی بے باکی پر سخت متحیر تھا۔

 

                (۵)

 

دوسرے ہی دن دبے پاؤں میں پھر جو پہنچا اور جھانک کے اس خوبصورت اور شرمیلی دلہن کو دیکھا کہ اس کا میاں آئینے کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہے اور یہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آئینے میں دیکھ رہی ہے۔ میں دلہن کے چہرے کی شگفتگی اور انداز کی دلکشی دیکھ کر حیران سا ہو گیا کہ آئینے میں میری اس کی آنکھیں چار ہوئیں، مجھے دیکھتے ہی وہ چونک پڑی اور "کون ہے !” جو کہا تو میں بدحواس ہو کر ایسا بھاگا کہ گھر پر آ کر رکا۔ میں دلہن کے بارے میں قطعی رائے قائم کر چکا تھا کہ یہ بہت ہی بری ہے۔

 

                (۶)

 

تین چار روز ادھر کا رخ نہ کیا۔ پھر جو گیا تو ادھر ادھر گھوم کر دلہن کے کمرے کے پاس جو پہنچا تو دلہن نے مجھے کمرے میں سے دیکھا اس کا روشن اور پر نور چہرہ کھلا ہوا تھا اور اس نے مسکراتے ہوئے مجھے انگلی سے آنے کو اشارہ کیا۔ میں کھڑا دیکھتا رہا۔ وہ برابر اشارہ کرتی رہی حتیٰ کہ میں اس کی طرف گیا۔ مگر کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا۔ "اندر آؤ۔ ” میں نہ گیا۔ تو اٹھی اور ادھر ادھر جھانک کر ایک دم سے لپک کر مجھے پکڑ لیا۔ میں نے زیادہ زور نہ لگایا اور شرماتا ہوا گردن نیچی کر کے کھڑا ہو گیا۔ اس نے میرا نام وغیرہ پوچھ کر مجھ سے بار بار آنے کی وجہ دریافت کی اور جب میں کچھ نہ بتا سکا تو مجھ سے کہنے لگی کہ "اب جو تم ادھر آئے تو تمہارے کان کاٹ لوں گی۔ بھاگو یہاں سے۔ ۔ ۔ لانا چاقو۔ ” اور جناب یہ سنتے ہی میں کانوں پر ہاتھ رکھ کر جو بھاگا ہوں تو گھر جا کر دم لیا۔ یہ کوئی لکھنؤ کے رہنے والے لوگ تھے۔ ملازم پیشہ تھے اور اس کے ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد یہ لوگ نہ معلوم کدھر چلے گئے۔ دلہن اور اس کا خیال بچپن کی ایک بھولی بسری یاد ہو کر رہ گئی۔ جب میں نے اس دلہن کو دیکھا ہے اس وقت اس کی عمر تخمیناً سولہ یا سترہ برس کی تھی اور میری عمر شاید پانچ برس کی ہو گی۔

 

                (۷)

 

لیکن ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے کہ ایک عجیب معاملہ پیش آیا۔

اسٹیشن کا نام بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کہاں جا رہا تھا یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ میں بالتفصیل کوئی بات نہ بتاؤں گا۔ ریل گاڑی جو پلیٹ فارم پر آئی ہے تو میں قریب ہی کھڑا تھا۔ گاڑی باوجودیکہ رکنے والی تھی لیکن رفتار پھر بھی تیز تھی۔ مختلف ڈبے سامنے سے گزر رہے تھے۔ تیزی سے انٹر کلاس میرے سامنے سے گزرا۔ کھڑکی میں ایک نو عمر عورت کا چہرہ سیاہ رنگ کے برقعے میں مگر بالکل کھلا ہوا میرے سامنے ہی سے تیزی سے گزرا۔ میرے منہ نے نکلا۔ "ارے !” کیونکہ یہ واقعہ تھا کہ یہ حسین و جمیل چہرہ اسی دلہن کا تھا جسے دیکھے ہوئے آج بیس سال ہو چکے تھے ! حالانکہ ایک جھپکی سی میں نے دیکھی لیکن اس چہرے کا حسن و جمال کچھ ایسا تھا کہ بیس برس گزر گئے تھے لیکن میں نے فوراً پہچان لیا۔ میں اس کو ایک عجیب و غریب نظر کی غلطی سمجھا۔ مگر اسی طرف چلا کیونکہ مجھے بھی اسی درجے میں بیٹھنا تھا۔

اس درجے میں چار پانچ مرد بھی تھے اور یہ نو عمر خاتون ایک کونے سے لگی بیٹھی تھی، ایک ٹرنک تھا اور ایک مختصر بستر۔ جس پر وہ اس وقت کونے میں منہ دیئے بیٹھی تھی۔

اندازے سے معلوم کر کے مجھے حیرت ہوئی کہ ان مردوں میں سے کوئی بھی اس کا ساتھی نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ مردانہ انٹر میں وہ کیوں بیٹھی تھی۔

 

                (۷)

 

کوئی تین اسٹیشن گزرنے کے بعد ڈبے میں سوا میرے اور اس کے کوئی بھی نہ رہ گیا اور اس دوران میں میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ کیونکہ اگلے ہی اسٹیشن پر میں نے اتر کر جو اس کو دوبارہ دیکھا تو اور بھی مغالطہ ہوا! وہی نقشہ۔ رنگ و روپ سب سہی معلوم ہوا جو میں نے بیس برس ہوئے دیکھا تھا لیکن عمر اس کی بھی سولہ یا سترہ برس کی تھی اور یہ سبب ہے کہ دونوں صورتوں میں کچھ فرق نہ تھا۔

میں جب اکیلا رہ گیا تو میں نے قطعی ارادہ کیا کہ اس سے بات چیت کروں۔ اس نے برقعے سے اپنا چہرہ اچھی طرح چھپا لیا تھا۔ میں بغیر کسی بہانہ تلاش کئے اٹھ کر اس بنچ پر آ گیا جو اس کے سامنے ہی تھی۔ اس نے میری نقل و حرکت کو غالباً خوف سے دیکھا تو میں نے کہا :

"محترمہ آپ گھبرائیں نہیں۔ غالباً میں آپ کو جانتا ہوں۔ معاف کیجئے گا میں آپ کو دیکھ کر سخت حیران ہوں کہ غالباً یہی صورت شکل میں نے اب سے بیس برس پہلے دیکھی تھی۔ وہ غالباً آپ کی والدہ ہوں گی۔ ۔ ۔ ”

اس نے گھبرا کر کہا۔ "آپ میری والدہ کو جانتے ہیں! کون تھیں وہ؟ کہاں ہیں؟۔ ۔ ۔ ”

میں نے واقعہ بتایا کہ مجھے سوا اس کے کچھ یاد نہیں کہ پڑوس میں ایک دلہن کو دیکھنے گیا تھا۔ نہ یہ معلوم کہ اس دلہن کے شوہر کا کیا نام تھا۔ وہ مجسم بے کل ہو گئی۔

"کیا آپ معلوم کر سکتے ہیں؟۔ ۔ ۔ کسی طرح معلوم کر سکتے ہیں کہ میرے باپ کا نام۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ جن کو آپ بتاتے ہیں کہ آپ کے پڑوس میں رہتے تھے ان کا نام اور پتہ کیا تھا؟۔ ۔ ۔ ”

میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ ” میں آپ کے سوالات سے سوا اس کے کیا سمجھوں کہ آپ۔ ۔ ۔ آپ کو خود کیوں نہیں معلوم۔ ”

اس نے برقعہ کا نقاب ذرا سا ہٹاتے ہوئے ٹھنڈی سانس لے کر کہا :

"جی ہاں۔ مجھے اپنے ماں باپ کا نام نہیں معلوم۔ خود اپنا اصلی نام نہیں معلوم۔ مجھے چھوٹی سے عمر میں گھر سے کوئی فقیر چرا لایا۔ وہ مجھے لئے لئے پھرا جب اس جگہ آیا جہاں سے میں آ رہی ہوں تو مر گیا اور کسی نہ کسی طرح مجھے ایک بیوہ نے لے لیا اور اپنی لڑکی کی طرح پرورش کیا۔ جب میں بڑی ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے ماں باپ نہ معلوم کون ہیں۔ ان بیوہ کا پرسوں انتقال ہو گیا۔ اور ان کے آوارہ بھتیجوں کی کشمکش سے بچنے کے لئے میں وہاں سے بھاگی ہوں۔ ۔ ۔ اور اسی وجہ سے مردانہ درجے میں بیٹھی ہوں۔ ”

"اور آپ کہاں جا رہی ہیں؟”

"ان بیوہ کے ایک دور کے رشتے کے بھائی کے یہاں۔ ”

"وہاں تو کشمکش نہ ہو گی؟”

خاموش۔ اور پھر اپنا سوال کر دیا۔ "آپ نے بتایا نہیں کہ آپ ان کا نام معلوم کر سکتے ہیں جو آپ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ شاید وہی میرے باپ ہوں۔ آپ کا پورا قصہ سن کر تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔ کیا آپ اب اگر ان کو دیکھیں تو پہچان لیں۔ ”

میں نے جواب دیا۔ "جی نہیں۔ مجھے ان کی صورت شکل کا خیال تک نہیں لیکن نام اور پتہ ان کا غالباً معلوم ہو سکتا ہے۔ میرے والد تو انتقال کر چکے تھے۔ ماموں صاحب کے ساتھ میں رہتا تھا اور اب ماموں صاحب بھی زندہ نہیں اور اس جگہ سے ماموں صاحب بھی سال بھر بعد چلے آئے۔ لیکن میری دانست میں محلے میں جا کر مکان والوں سے پتہ چل سکتا ہے۔ ”

"تو آپ پتہ لگا سکتے ہیں؟”

"وہاں خاص طور پر جاؤں تو غالباً پتہ چل سکتا ہے۔ ”

"مگر۔ ۔ ۔ ”

وہ کہتے کہتے رک گئی۔

"میں نے کہا۔ "ممکن ہے مجھے دھوکا ہوا ہو۔ ۔ ۔ ”

گھبرا کر اور ناامید ہو کر اس نے کہا۔ "آپ نے تو کہا کہ آپ کے پڑوس میں۔ ۔ ۔ ”

میں نے کہا۔ "نہیں نہیں۔ یہ میرا مطلب نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کی صورت شکل میں مجھے دھوکہ ہوا ہو۔ ”

اس نے گھبرا کر کہا۔ "مگر آپ نے فرمایا کہ بالکل میری ماں سے۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ ان کی صورت سے ملتی ہے۔ ۔ ۔ ”

"خیال ہے میرا۔ ” میں نے کہا۔ "ممکن ہے مجھ سے غلطی ہوئی ہو۔ آپ کی صورت شکل ان سے ملتی جلتی نہ ہو۔ ۔ ۔ ”

"مگر آپ تو کہتے ہیں کہ ان کی صورت مجھے یاد ہے۔ ۔ ۔ مگر ہاں بہت دن ہو گئے ہیں۔ ”

میں نے کہا۔ "ان کی صورت شکل تو ایسی یاد ہے کہ دل پر گویا نقش ہے۔ ۔ ۔ ”

بات کاٹ کر خوش ہو کر وہ بولی "تو پھر تو غلطی نہیں ہو سکتی۔ ”

میں نے کہا "جہاں تک ان کی صورت کا سوال ہے بے شک غلطی نہیں ہو سکتی مگر۔ ۔ ۔ ”

میں رک گیا۔ غالباً وہ سمجھ گئی۔ مجھے چنداں غرض نہ تھی، لہذا میں بھی چپ ہی رہا۔ مگر حالت اس کی قابل رحم تھی۔ جب میں نہ بولا تو ہار کر وہ خود بولی۔

"آپ کوشش کر دیں۔ ۔ ۔ شاید وہ میری ماں ہو جن کو آپ نے دیکھا۔ میں عمر بھر اس احسان کو نہ بھولوں گی۔ ”

اس کی آواز میں غم تھا۔ میں خود مشکوک تھا۔ ممکن ہے مجھ سے غلطی ہوئی۔ محض ذرا سی مشابہت پر دوڑ پڑنا۔

میں نے کہا۔ "محترمہ۔ محض ذرا سی مشابہت پر دوڑ پڑنا اور وہ بھی محض ایک جھلک دیکھنے کے بعد، میں نہیں کہہ سکتا کہ کہاں تک حق بجانب ہے۔ رہ گیا میری خدمت کا سوال تو میں اس کے لئے بھی حاضر ہوں مگر مجھے شبہ ہے کہ ممکن ہے کہ۔ ۔ ۔ ”

"آپ اپنا شبہ۔ ۔ ۔ ”

میں نے کہا۔ "مجھے خود لحاظ معلوم ہوتا ہے ، میں نے آپ کو غور سے نہیں دیکھا ہے۔ ۔ ۔ ”

اس نے غمناک لہجے میں کہا۔ "میں اپنی ماں اور باپ کا پتہ لگانے کے لئے جب بول رہی ہوں۔ ۔ ۔ ” وہ رک گئی۔ پھر اس نے ٹھہر کر کہا۔ "آپ مجھے اچھی طرح دیکھ لیجئے۔ ” گھٹی ہوئی آواز اور غمناک لہجے میں کہا۔

اب میں اس انتظار میں کہ یہ خود نقاب روئے روشن سے اٹھائیں لیکن زخم پر زخم پہنچانا مناسب نہ معلوم ہوا اور میں یہ کہتے ہوئے۔

"معاف کیجئے گا۔ ۔ ۔ ”

نقاب چہرے سے آہستہ سے ہٹا کر ایک طرف کر دیا۔ ایک دم سے معصوم نظریں جھک گئیں اور میں حیرت زدہ ہو کر رہ گیا۔ ہو بہو وہی تصویر تھی۔ ذرہ بھر فرق نہیں۔ وہی رنگ اور روپ۔ وہی ناک اور نقشہ۔ چہرے کی چمک اور دمک سب کی سب وہی۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ میرے دیکھتے دیکھتے معصوم آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اور بڑی بڑی مگر شرمیلی پلکوں پر دو موٹے موٹے آنسو لٹکنے لگے۔ میرا دل پگھل گیا۔ میں نے فوراً نقاب چھوڑ دیا اور کہا۔ "میں گارنٹی کرتا ہوں کہ وہ آپ می ماں تھیں، اگر وہ زندہ ہیں تو میں آپ کو ان سے ملانے کا ذمہ لیتا ہوں مگر۔ ۔ ۔ ”

"مگر۔ ۔ ۔ ” اس نے گھبرا کر کہا۔

میں نے کہا۔ "یہ بتائیے آپ جا کہاں رہی ہیں؟ وہاں آپ کو تکلیف تو نہ ہو گی۔ ”

"میں بتا تو چکی۔ ” اس نے رک کر کہا۔ "بہت ممکن ہے وہ نہ رکھیں۔ ”

میں نے کہا۔ "آپ کی شادی ابھی نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ تو پھر آپ کہاں رہیں گی؟”

اس نے سر کے اشارے سے نفی میں جواب دیا اور کچھ نہ بولی۔

میں نے کہا۔ "میں ڈیڑھ سو روپے کا نوکر ہوں۔ میری شادی بھی ابھی نہیں ہوئی ہے اور آپ خود کہتی ہیں کہ آپ کا کوئی نہیں۔ کیا ہم اور آپ ایک دوسرے کے شریک حیات نہ ہو جائیں۔ پھر آپ میرے ساتھ زیادہ آزادی سے رہ سکتی ہیں۔ ہم دونوں مل کر ڈھونڈ لیں گے۔ یعنی آپ بھی میرے ستھ ہوں تو بہتر ہے۔ ۔ ۔ ”

میں صحیح عرض کرتا ہوں کہ اس نے غور سے میری طرف دیکھا۔ پھر سر جھکا لیا اور کہا۔

"میرا کوئی نہیں ہے۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپ ہو گئی۔

میں جس کام سے جا رہا تھا اس کو ملتوی کیا۔ رخصت کی توسیع کے لئے اگلے اسٹیشن پر تار دیا۔ سفر وہیں کا وہیں روک دیا۔ شب کو وہیں ہم دونوں کا عین مسافرت میں ڈاک بنگلے میں نکاح ہو گیا۔ ایک مجسٹریٹ صاحب کو میں نے اپنے کاغذات دکھا کر حال بتا کر اپنی شناخت کے بارے میں مطمئن کر دیا۔ اب میں کیا عرض کروں کہ میری بیوی کا اپنے والدین سے ملنے کے لئے کیا حال ہو رہا تھا۔

اب میں شہر میں پہنچا تو محلے یاد نہیں۔ تانگے والے نے کہا کہاں لے چلوں تو میں نے کہا "جہاں تیرا جی چاہے۔ ” ہم دونوں میاں بیوی تانگے پر اور اب ہر محلے میں پوچھتے پھرتے ہیں کہ فلاں صاحب یعنی میرے ماموں اب سے بیس برس پہلے تو یہاں نہیں رہتے تھے۔ ہوتے ہوتے آخر کو جب وہ محلہ آیا تو میں نے مسجد دیکھتے ہی پہچان لیا۔ اور تانگہ ادھر ادھر گھمایا تو بچپن میں جن گلیوں میں کھیلا تھا وہ شناخت کر لیں اور چشم زدن میں ہمارا تانگہ اس گھر کے سامنے آ کر رک گیا جس میں اب سے بیس برس پہلے میں نے دلہن کو دیکھا تھا۔

خدا کی پناہ۔ میری بیوی دیوانی ہو گئی مارے خوشی کے اس کا برا حال ہو گیا حالانکہ گھر ملنے سے عزیز کا ملنا لازمی تو نہ تھا۔

دریافت پر معلوم ہوا کہ اس مکان میں کرایہ دار صاحب ہیں اور مالک مالکن "وہاں” رہتے ہیں۔ "وہاں” جو گئے تو معلوم ہوا کہ مالک مکان مر گئے۔ ان کے لڑکے تھے ، انہوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم۔ ایک پڑوسی کا نام بتایا کہ بڈھے ہیں، ان سے پوچھو۔ پھر واپس لوٹے تو ایک بڑے میاں ملے اور انہوں نے کہا کہ ہاں اس مکان میں اب سے بیس برس پیشتر ایک ڈاک خانے کے انسپکٹر رہتے تھے ، ان کی شادی بھی ہوئی تھی مگر نام معلوم نہیں۔ یہاں سے اب ڈاک خانے دوڑے ، معلوم ہوا کہ "فرض کیجیے ” ان کا نام محمد خاں تھا۔ سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات ہیں۔ اور آج کل لاہور میں ہیں۔ ایک دوسرے کلرک بولے لاہور میں اب نہیں ہیں بلکہ پہلے تھے اور قبل از وقت پنشن لے کر اپنے وطن کے شہر میں۔ ۔ ۔ بیمہ کمپنی کا بزنس کرتے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کو تار دیا جائے تو جواب دیں۔ بیمہ کمپنی کا نام نہیں معلوم۔ اتنا ہی کافی تھا۔ وہیں کے وہیں میں نے پنشنر سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات و حال بیمہ ایجنٹ کا پتہ کر کے بذریعہ جوابی تار ان سے پوچھا۔ "کیا آپ کی کوئی لڑکی تو گم نہیں ہوئی تھی۔ ” تار ارجنٹ دیا اور وہیں کے وہیں بیٹھ کے لگے انتظار کرنے۔

مگر دو تین گھنٹے گزر گئے اور تار کا جواب نہ آیا تب پوسٹ ماسٹر کو جوابی تار دیا کہ جواب دو تار کہاں گیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ "وہ صاحب” کوئٹہ میں ہیں لہذا تار ان کو بصیغہ ڈاک بھیجے ہیں۔ ہم نے دوسرا تار دیا کہ جس پتے پر بھیجتے ہو اس سے ہمیں مطلع کرو۔ پتہ معلوم ہوا تو اب ہم نے اسی مضمون کا تار کوئٹے کے پتے پر دیا۔ اور پھر لگے انتظار کرنے۔ اور اسی دن کا ذکر ہے کہ دوپہر کے کھانے پر ہمارے سامنے چاول آئے تو میری بیوی نے نفرت سے کہا۔ "ہٹاؤ ان کم بختوں کو۔ ” میں نے کہا۔ "کیوں؟” تو منہ بنا کر بولی۔ "برے لگتے ہیں مجھے اس وقت۔ ۔ ۔ کم بخت کیڑے سے !” اور ایسے برے لگے کہ ہٹا دیئے۔

ہمیں انتظار زیادہ نہ کرنا پڑا۔ تار کا جواب آیا کہ۔ "ہاں، (یعنی کھو گئی تھی) کہاں ہے اور تم کون ہو؟”

خدا کی پناہ! خوشی کے میری بیوی دیوانی ہو کر مجھ سے چمٹ گئی۔ محبت کے مارے اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر دبا لیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ خوشی کی زیادتی کے سبب اس نے بولا نہ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں محبت اور شکریے کے آنسو تھے۔ وہ میری کتنی شکر گزار تھی! اس کو کتنی خوشی تھی، اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔

میں نے فوراً تار دیا کہ "میں اس لڑکی کا شوہر ہوں اور وہ لڑکی یہاں ہے۔ ”

یہ تار دے کر ہم ڈاک بنگلہ آئے اور گاڑی کا وقت جو معلوم کیا اور گھڑی جو دیکھی تو کوئٹہ جانے والی گاڑی تیار ہو رہی تھی۔ دس منٹ گاڑی میں باقی تھے ظاہر ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ فوراً اسٹیشن روانہ ہو گئے۔ اپنی روانگی کا تار دینا ضروری تھا۔ ڈاک خانہ جا نہ سکتے تھے۔ لہذا اسٹیشن پہنچ کر میں نے تار دیا کہ "ہم آتے ہیں” اور فوراً روانہ ہو گئے۔ میں عرض نہیں کر سکتا کہ میری بیوی کا خوشی کے مارے کیا حال تھا۔ حماقت تو دیکھئے کہ خوشی کی جلدی میں پہلے والے تار میں یہ لکھنا ہی بھول گئے کہ ہم آ رہے ہیں۔

راستے میں کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا سوائے ایک چھوٹے سے واقعے کے جو کچھ قابل ذکر بھی نہیں۔

ہمیں۔ ۔ ۔ اسٹیشن پر گاڑی بدلنا تھی اور آدھ گھنٹے سے زائد انتظار دوسری گاڑی کا کرنا تھا۔ جلدی اس قدر تھی کہ میں نے ایک کنارے بینچ کے پاس ہی ٹرنک اور بستر رکھ اس پر بیوی کو بٹھا دیا اور خود لگا ٹہلنے۔

اسٹیشن پر آپ سمجھیں ہر قسم کے آدمی آتے ہیں۔ میں جو واپس آیا تو میری بیوی نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے دیکھا۔ "دیکھا تم نے اس کم بخت کو بدتمیز کہیں کا” میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ نہ صرف آس پاس منڈلا رہا ہے بلکہ گھورتا ہے۔ میں نے مزاحاً کہا۔ "ظالم تو چیز ہی ایسی ہے۔ ” اور پھر ادھر چل دیا۔ مگر اب دور سے جو میں نے دیکھا تو وہی حضرت لوٹے واپس اور پھر نہایت بدتمیزی سے میری بیوی کو اس طرح گھورنے لگے کہ معلوم ہو اخبار پڑھ رہے ہیں اور پھر تھوڑی دور چل کر لوٹے اور پھر دوسری طرف سے واپس ہو کر لوٹے اس طرح کہ مجھے سخت برا معلوم ہوا۔ یہاں پردے کا سوال نہیں، سوال بدتمیزی کا تھا۔ اتنے میں آپ بنچ پر بیٹھ کر سچ مچ اس طرح گھورنے لگے کہ منہ کے سامنے تو اخبار ہے مگر آنکھیں ہیں کہ برقعے کی طرف اور وہ بھی اس بد تمیزی کے ساتھ کہ عرض نہیں کر سکتا۔

میں اس شخص کی بدتمیزی پر جل بھن کر خاک ہی تو ہو گیا اور لپکتا ہوا آیا اور آتے ہی میں نے کہا۔

"شرم نہیں آتی آپ کو۔ ۔ ۔ مسلمان ہو کر آپ۔ ۔ ۔ ” بھنا کر میں نے دیکھا۔ "کیا آپ اس بنچ پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ۔ ۔ ” میں نے سامنے والی بنچ کی طرف اشارہ کیا۔

"معاف کیجئے گا۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ”

ایک دم سے گاڑی آ گئی اور قلی نے اسباب اٹھایا اور ہم چل دیئے مگر یہ بدتمیز دیکھتا ہی رہا۔

ہم کوئٹہ پہنچے ہیں تو مارے خوشی کے ہمارا برا حال ہو گیا۔ لیکن تعجب تو جب ہوا کہ کوئی بھی صورت ایسی نظر نہ آئی جو ہماری متلاشی یا منتظر ہو۔ بہت کچھ ادھر ادھر دیکھا مگر کوئی صورت کسی کو منتظر نہ معلوم ہوئی۔ اسٹیشن پر تار کے بارے میں دریافت کیا معلوم ہوا کہ ریلوے محکمہ کوئی گارنٹی دیر یا جلدی کی نہیں کرتا۔ ممکن ہے کہ ابھی تک نہ پہنچا ہو۔ خیر ہمیں پتہ تو معلوم ہی تھا۔ اب میری بیوی کا یہ عالم تھا کہ ماں باپ سے ملنے کی خوشی میں اس کے دل میں درد سا ہوتا تھا۔ اس کی صورت، اس کی شکل، اس کی زبان۔ قصہ مختصر وہ مجسم شکریہ بنی ہوئی تھی۔

قصہ کو مختصر کر کے عرض ہے کہ ہم گھر جو پہنچے تو سناٹا۔ صرف ایک نوکرانی تھی اور باہر ایک نوکر۔ یہ دونوں ہی خوشی سے باؤلے ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ ہمارا پہلا تار ملتے ہی ارجنٹ تار دے دیا کہ "ہم آتے ہیں” اور چونکہ گاڑی تیار تھی اور ماں باپ بیٹی کے لئے بے تاب تھے لہذا فوراً چل دیئے۔

میری بیوی ایک ٹھنڈی سانس لے کر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ اسی وقت اندازہ لگایا کہ گاڑی کس اسٹیشن پر ہو گی اور اس اسٹیشن ماسٹر کی معرفت تار دیا اور ایک تار جہاں سے ہم آئے تھے وہاں کے پتہ پر دیا۔ اب پریشانی تو یہ تھی کہ وہ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ ہم ٹھہرے کہاں تھے۔ ہم تو ڈاک بنگلے میں تھے۔ لہذا ڈاک بنگلے ہی کی معرفت تار دیا۔ اب اتفاق تو دیکھئے کہ کھانا جو سامنے آیا تو چاول! میری بیوی نے پھر اسی طرح نفرت سے کہا کہ "ہٹاؤ! انہیں سامنے سے۔ ۔ ۔ کیڑے سے ہیں۔ ۔ ۔ ” حالانکہ معلوم ہوا کہ چاولوں سے اسے رغبت تھی مگر نہ معلوم کیوں۔ شاید سفر وغیرہ کے سبب برے معلوم ہوئے۔

میری بیوی نوکرانی سے باتیں کرنے لگی۔ معلوم ہوا کہ سوا میری بیوی کے ان کے کوئی اولا د نہیں۔ ایک جوان بیٹا تھا، وہ سال بھر ہوا مر گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تار ملتے ہی میری ساس کا عجیب وارفتگی کا سا عالم ہو گیا تھا۔ بیتاب تھیں کہ اپنی بیٹی کے پاس کیسے پر لگا کر پہنچ جاؤں۔ میری بیوی کا بھی سن کر وہی حال ہوا۔ حد یہ کہ آنسو جاری ہیں اور اپنی ماں اور باپ کی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر اس نے وارفتگی کے عالم میں چومنا شروع کیا۔ ہر بات دیوانوں کی سی تھی۔

ہم کوئٹہ کوئی رات کے نو بجے پہنچے ہوں گے اور اسی بات چیت میں گیارہ بج گئے۔ نوکرانی اور نوکر چلے گئے اور ہم دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔

ہاں یہ کہنا بھول گیا کہ ایک تار اور ہم نے دلوایا تھا۔ یہ تار ڈاک بنگلے کے نوکر کے نام دیا تھا کہ اسٹیشن پر جا کر تم فلاں فلاں نام کے شخص سے ملو اور کہہ دو کہ ہم یہاں ہیں۔ اس کے عوض ہم نے انعام دینے کا وعدہ کیا تھا۔ رات کے بارہ بجے اور ہم دراصل انتظار کر رہے تھے کہ شاید اس تار کا جواب آتا ہو۔

میں نے بیوی سے کہا بھی کہ سو جاؤ مگر اسے نیند کہاں۔ ہم اسی طرح باتیں کیا کئے اور وقت گزرتا گیا۔

کمرہ بجلی کی روشنی سے جگمگا رہا تھا اور میری بیوی رہ رہ کر اپنی خوش قسمتی پر خوش ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، آنکھوں میں محبت کا نور تھا۔ چہرے پر ایک دلربا لرزش تھی آواز میں ایک دلکش ترنم تھا۔ جذبات کا یہ حال کہ نوجوان سینے میں معلوم ہو کہ محبت کا ایک طوفان بند ہے جس کے مد و جزر کے سبب کبھی تو وہ آنکھوں اور چہرے پر عجیب و غریب لرزش پیدا کر کے عجیب طرح سانس لیتی تھی اور کبھی خاموش سی ہو جاتی اور میں دیکھتا کہ شادمانی سے آنکھوں میں ایک دلربا جنبش ہے۔ میں اس کے سینے کو دیکھتا تھا کہ کس طرح جذبات محبت کے سبب دب دب کر ابھر رہے ہیں۔

"یا میرے اللہ!” اس نے اپنے چہرے پر عجیب و غریب چمک پیدا کر کے کہا۔ "میرا کیا حال ہو گا جب ملوں گی۔ ” اور اتنا کہہ کر اس نے ایک عجیب انداز سے اپنی گردن جھکائی اور آہستہ آہستہ میری طرف جھکتے ہوئے میرے سینے پر محبت سے سر رکھ دیا۔ اس کا محبت آمیز دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے محبت سے کلیجے سے لگا لیا۔ اس کے چہرے کی طرف دیکھا اس نے اپنی مخمور آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے عجیب انداز سے مسکراہٹ کو روکتے ہوئے آنکھیں جھپکا کر کہا "جان” اور میری گردن میں ہاتھ حمائل کر کے میرے دل میں گھسنے کی کوشش کی۔ میں نے بے اختیار ہو کر اس کی پیشانی پر ایک بوسہ دیا ہے کہ ہم دونوں چونک پڑے ! یہ کیا! ہیں! ایک دل ہلا دینے والی ہیبت ناک گرج تھی۔ زمین کا خوفناک دیوتا گڑگڑا رہا تھا۔ ہماری سمجھ میں بھی نہ آیا تھا کہ کیا ہوا کہ قیامت آ گئی۔ ایک ہیبت ناک گرج کے ساتھ مکان کی چھت گری میری بیوی کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ صور اسرافیل پھونک دیا گیا تھا اور قیامت کا شور تھا کہ الامان! نکلتے نکلتے کمرے سے مکان کی دیوار گری اور میری آنکھوں کے سامنے میری جان سے زیادہ عزیز اور دلربا بیوی کے تن نازنین پر ایک دیوار کا حصہ گرا۔ ایک چیخ تو اس کے منہ سے نکلی اور بس۔ میں نے ایک قدم آگے بڑھایا ہی تھا کہ میرے اوپر پتھروں کی بارش ہوئی مگر میں نکل کر ایک میدان میں آ گیا جو برابر کے وسیع مکان کے گرنے سے بن گیا۔ ایک شور قیامت برپا تھا اور چیخ پکار کے سبب کچھ سنائی نہ دیتا تھا اور زمین سچ مچ ایسی چیخ رہی تھی کہ ساری فضا ہل رہی تھی۔ زمین کے خوفناک ہونکارے کی صدا! ہاں! ہاں! ہاں! ہاں! ایک سناٹے کا شور تھا کہ چیخ جو رعد کی ہولناک گرج میں جا کر معدوم ہو جاتی تھی۔

میں اور دو آدمی اور ایک جگہ محفوظ تھے۔

خدا کی پناہ! کیا ہیبت ناک سین تھا جب صبح ہوئی۔ زلزلے کی تباہ کاریاں ہمارے سامنے تھیں۔ زلزلے کے خفیف جھٹکے برابر آ رہے تھے۔ سارا شہر کھنڈر پڑا تھا۔ میں نے ہمت کر کے جا کر دیکھا۔ خدا کی پناہ! میرا دل مسل کر رہ گیا۔ میں نے دیکھا کہ میری جان و ایمان، میری پیاری بیوی کی لاش پڑی تھی۔ اس کا نصف بدن کچل کر رہ گیا تھا جس جانکنی سے اس کا دم نکلا ہو گا اس کے آثار اس کے چہرے پر تھے جو کبھی دلکشی اور حسن و جوانی کا مرکز تھا۔ جس پر کبھی عشق و محبت کا نور غلطاں رہتا تھا! "آہ” میرے سینے سے نکلی اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ نوکر اور نوکرانی تلاش بیکار تھی۔ مگر میں اپنے محبوب کی لاش کیسے چھوڑ سکتا تھا۔

جس طرح بن پڑا میں شام تک اپنی دلربا بیوی کی لاش نکال کر باہر لے گیا۔ مکان شہر کے کنارے ہی پر تھا۔ میں لاشے کو لئے بیٹھا ہی تھا کہ فوج کے گورے آئے اور میری مدد کی۔

اس محبت کی پڑیا کو روتے دھوتے اسی حالت میں میں نے اپنے ہاتھ سے فوجی امداد سے سپرد خاک کیا اور گھنٹوں سر پکڑے وہیں بیٹھا رہا کہ ہائے اس مایہ خوبی کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔

پیش نظر جو کچھ بھی تھا اس کا عشر عشیر آپ نے اخباروں میں پڑھا ہو گا۔ لاشوں کی بھرمار، زخمیوں کی چیخ پکار، الامان کیا سین تھا۔ میرا سر پھر گیا الہٰی کدھر جاؤں اور کدھر نہ جاؤں۔ شکستہ قبر میرا مرکز تھی اور فوج کے گورے سپاہی کھانے کو دیتے تھے۔ لا وارثوں کا ایک جم غفیر تھا کس لاپرواہی سے لوگ لاشوں اور زخمیوں سے بے نیاز تھے ! سوال یہ تھا کہ میں کہاں جاؤں۔ سب کا ہجوم فوج کے سپاہیوں کی طرف تھا اور جو ماں اور باپ تھے تو وہ تھے۔

پانچویں دن کا ذکر ہے کہ میں فوجی کیمپ سے قبر کی طرف جا رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے ایک شناسا چلے آ رہے ہیں۔ دماغ کا یہ حال کہ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کون ہے اور کہاں دیکھا تھا۔ وہ خود رک گیا۔ سیاہ خضاب کی ہوئی داڑھی۔ ستواں ناک۔ گورا رنگ۔ آنکھوں میں حیرانی اور پریشانی۔ مجھے دیکھ کر رک گیا۔ میں خود رک گیا اور حواس بجا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا۔ "السلام علیکم۔ ” میں نے جواب دیا۔

"آپ کون ہیں؟”

وہ بولے۔ "میں۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ وہ آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسٹیشن پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

"اوہو۔ ” میں نے پہچانتے ہوئے کہا۔ "معاف کیجیے گا۔ یہ کہہ کر میں چلا یہ وہ حضرت تھے جو میری بیوی کو گھور رہے تھے۔

ایک دم سے وہ بولے۔ "سنیے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کا نام کیا ہے ؟”

میں نے بتایا۔ جس کے سنتے ہی وہ دیوانہ وار چمٹ پڑے۔ "عائشہ کہاں ہے ؟”

میں نے کہا "کون عائشہ؟” اس لیے کہ میری بیوی کا نام عائشہ نہیں تھا۔

"میری بیٹی۔ ” انہوں نے کہا۔ "میرا نام محمد خان ہے۔ ۔ ۔ ۔ ”

"ارے !” میرے منہ سے نکلا۔ یہ واقعہ تھا کہ یہ میری خسر تھے۔ میں نے سب حال کہا۔ معلوم ہوا کہ بد قسمت باپ نے بیٹی کو دیکھ لیا تھا اور چونکہ بیٹی اپنی ماں کی سچ مچ کی تصویر تھی لہٰذا غیر معمولی شباہت کے سبب بیچارے اپنی بیٹی کو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے اور چاہتے تھے کہ اچھی طرح دیکھ لیں اور اپنی بیوی کو شبہ مٹانے کی غرض سے لانے ہی والے تھے کہ میں نے آ کر لتاڑا۔ ان کی بیوی ویٹنگ روم میں بیٹھی تھیں۔

ہا میرے اللہ! میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ور میں نے اس نا مراد نا شاد لڑکی کا قصۂ غم سنایا، آہ! وہ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے کسی تڑپتی تھی۔ باپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہہ رہا تھا۔ میں نے اس قدر تکلیف دہ باتیں کاہے کو کبھی سنی ہوں گی۔ قبل اس کے کہ قبر پر کے چلوں، انہوں نے مجھ س کہا کہ میں اپنی خوش دامن کے پاس چلوں! کون؟ وہی دلہن جس کو میں نے بیس برس پہلے دیکھا تھا۔

میں عرض نہیں کر سکتا کہ میرا کیا حال ہوا اور ان کا کیا حال ہوا۔ میں نے دیکھا کہ چشمِ زدن میں ان کے چہرے پر بڑھاپا آ گیا۔ میں نے یاد دلایا کہ میں کون ہوں اور غم کی ماری نے مجھے بیتاب ہو کر سینے سے لگا لیا، گھنٹوں وہ رویا کیں اور میں تسلی دیتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ میں بغیر اپنی بیٹی کو دیکھے زندہ نہیں رہ سکتی۔ سوال یہ تھا کہ اب کیسی ممکن ہے۔

رات کا سناٹا۔ ہو کا عالم تھا۔ قدم قدم پر قبریں تھیں اور دور تک میدان چلا گیا تھا۔ فاصلے پر ریلیف والوں کی چہل پہل لالٹینوں کی جنبشوں سے عیاں تھی۔ میں نے تیزی سے مٹی ہٹانا شروع کی۔ بیگار کا کام تھا۔ چشمِ زدن میں مٹی ہٹ گئی اور لکڑیاں ہٹا کر میں نے غار کی طرف دیکھا۔ باوجود تعفن کے میں اندر اتر گیا۔ میرے خسر بجلی کی ٹارچ ساتھ لائے تھے۔ وہ میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے قبر کے اندر روشن کی۔ چہرے پر روشنی ہوئی۔ بجلی کی تیز روشنی میں ایک دم سے میں نے اس نازنین کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اس کی ناک اور منہ پر چاول سے سفید سفید رکھے دکھائی دئے۔ غور سے جو دیکھتا ہوں تو الامان! میرے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ کیڑے ناک اور منہ میں بجبجا رہے تھے ! میں بد حواس ہو کر ایک دم قبر کے باہر اچھلا ہوں کہ ایک چیخ کے ساتھ میری خوش دامن اندر گریں۔ لیکن میں جو سر پر پیر رکھ کر بھاگا ہوں تو میرے خسر نے روکا۔ میرے ہوش بجا نہ تھے اور میں بھاگ آیا اور ایسا بھاگا ہوں کہ پچھلے مہینے جو ذرا ہوش ٹھیک ہوئے تہ اپنے خسر سے ملنے گیا، ان کے وطن میں۔ دیکھوں تو چہرہ ہونق! مجھ سے ملے تو نہ دعا نہ سلام بولے۔ "بل۔ ۔ ۔ ۔ لی!” میں غور سے دیکھا۔ نوکر نے کہا۔ دماغ خراب ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ میری خوش دامن جو قبر میں گریں تو پھر نہ نکلیں۔ مر چکی تھیں۔ اور ماں بیٹیاں ایک ہی قبر میں سو گئیں۔ وہاں سے یہ لوٹے تو دیوانے ہو گئے۔

میں ٹھنڈی سانسیں لیتا واپس آیا۔ شکر ہے خدا کا زندہ ہوں۔ لیکن حال یہ ہے کہ چاول اگر کھانے میں آ جائیں تو معاً وہی قبر کا سین سامنے آ جاتا ہے۔ منہ سے ایک چیخ نکلتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کیڑے بجبجا رہے ہیں۔ ویسے دماغ ٹھیک ہے۔ دنیا کے کاروبار کرتا ہوں اور میری اس کمزوری کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔ لیکن عرض نہیں کر سکتا۔ اپنی بیوی کی چند روزہ صحبت کی یاد میرے دل سے کبھی محو نہ ہو گی۔ میرا اس کا ساتھ محض چند روزہ رہا لیکن اپنی لا فانی محبت کا نقش میرے دل پر چھوڑ گئی۔ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے وہ کیسی بیتاب تھی اور کیسی بے چین تھی! بس یہ سمجھ لیجیے کہ پانی کے باہر کو کبھی مچھلی دیکھ لیتا ہوں تو وہی حالت پیشِ نظر ہو جاتی ہے اور صدمے مجھے اس کا ہے کہ حیف ڈس حیف وہ ناکام ہو گئی۔ جوانی اور ناکام محبت! میں سر دھنتا ہوں۔ جب اس امر ہر غور کرتا ہوں کہ تقدیر کی خوبی تو دیکھیے کہ ماں باپ اور بیٹی تینوں کے تینوں ماہی بے آب، ایک ہی جگہ جمع تھے اور نہ مل سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

نیکی جرم ہے

 

پہلے میں کہتا تھا کہ نیکی کرنا کوئی جرم نہیں لیکن اب کہتا ہوں کہ نیکی کرنا جرم ہے اور وہ بھی قابلِ دست اندازیِ پولیس۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم احمق ہو اور میں کہتا ہوں کہ تم! لہٰذا اب میں اپنا قصہ سنا کر آپ کی عقل کا بھی امتحان لیتا ہوں۔

 

                (۱)

 

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں اسکول سے واپس گھر آ رہا تھا۔ یہ جب کا ذکر ہے کہ میری عمر بارہ یا تیرہ سال کی ہو گی۔ ایک کنویں پر سے گزر ہوا۔ دہ تین عورتیں پانی گھر رہی تھیں۔ آپس میں ہنس بول رہی تھیں۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ ان میں سے ایک عورت پر نظر پڑی۔ اور وہ گڑ کر رہ گئی۔ ایسی کہ رفتار اہستہ پڑ گئی۔ دیکھ تو رہا یوں کنویں کی طرف اور دل آگے کی طرف رہا ہوں۔ ایک دم سے رک گیا۔ کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ عمر کا یہ پہلا تجربہ تھا، اس سے پہلے کبھی کسی عورت میں مجھے دلچسپی نظر نہیں آئی تھی اور میں حیرت زدہ کھڑا دیکھ رہا تھا۔

قد میں کتنی دلکشی تھی اور ہر جنبش سے ایک سرکشی عیاں تھی۔ سڈول بازو، پھنسی ہوئی نیم آستین سے بغاوت کر رہا تھا۔ اعضاء کی ہر جنبش میں رعنائی کی جلوہ گری اور ایک دلکش لچک تھی۔ رنگ اور روپ میں جوانی چمک رہی تھی۔

میں قریب آیا، پانی پینے کے لیے اور چپ کھڑا دیکھنے لگا۔ اب صرف ایک عورت اور تھی اور میں اور آگے بڑھا۔ میں نے پانی مانگا۔ دوسری عورت اپنا ڈول اٹھا چکی تھی، رسی کا لچھا بنا رہی تھی لہٰذا وہ کچھ نہ بولی اور اپنا گھڑا بھر کر چلتی ہوئی۔ اب میں کھڑا قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنا ٹین کا ڈول بھرا۔ مجھ سے میری ذات پوچھی۔ میں غافل سا اس کے چہرے میں ڈوبا ہوا دلربا لرزشوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے بتایا اور کہا "کائستھ ہوں۔ ”

میں نے چلو سے پانی پینا شروع کیا مگر نظر اس کے چہرے پر جو کہ قرب تھا۔ اس کے رخسار کے باریک روئیں روشنی میں سنہری رنگ کے ذروں کی طرح لرز رہے تھے۔ میں نے انکار نہیں کیا اور کل ڈول کا پانی خرچ ہو گیا۔ اور میں بدستور چلّو بنائے اسے گھور رہا تھا حالانکہ چلّو اور ڈول خالی! وہ برابر مجھے دیکھ رہی تھی اور پیاس بھر پانی پی کر مجھے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ خواہ ہاتھ اٹھا کر خواہ سر سے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں کل ڈول پی گیا۔ اس نے میری حماقت کو نا پسند کر کے سر کو صرف جنبش دی۔

میں کچھ بھی نہ بولا اور وہیں کا وہیں کھڑا دیکھتا رہا۔ مجھے ہٹ جانا چاہیے تھا۔ لہٰذا س نے مجھ سے قدرے ترش روئی سے کہا۔ "ہوں! کیا دیکھتا ہے ؟”

میں بھلا کیا جواب دیتا۔ کیا کہہ دیتا کہ تیرے چہرے کو دیکھتا ہوں اور چہرے میں جوانی اور رعنائی کی جلوہ آرائی دیکھتا یوں، میں ہٹ آیا تھا۔ بستہ بغل میں لیے کھڑا دیکھتا رہا تھا۔ وہ گھڑے بھر چکی تھی اور ڈول سنبھال کر رسی کا لچھا بان رہی تھی اور میں اس کی کلائی کی جنبش کو دیکھ رہا تھا، رسی کے ہر چکر پر ایک سی حرکت تھی۔ کس قدر دلچسپ کہ اس کلائی کی لچک سے بدن کو ہلکی سے جنبش ہوتی تھی۔ ایسی کہ معلوم ہو کہ دلکشی اور رعنائی کا چھلکتا ہوتا جام ہے۔

جب وہ چلی تو مجھے گویا کھینچتی ہوئی۔ میں اس کے ساتھ پھر واپس اسکول کی طرف چلنے لگا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی کلائی کے خم پر نظریں جمائے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلا۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور میں خاموش تھا۔ "تو کہاں جا رہا ہے ؟” اس نے مجھ سے پوچھا۔ "۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا دیکھتا ہے ؟” میں نے سادگی سے کہہ دیا "تمہیں دیکھ رہا ہوں” وہ اپنے خوبصورت لبوں کو قدرے حیرت سے جنبش دے کر بولی۔ "مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! ہشت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! بھاگ!”

میں خاموش ہو گیا اور نظریں نیچی کر لیں اور قدرے پیچھے رہ گیا۔ مگر نہیں۔ میں تو ساتھ ہی چلوں گا۔ اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ وہ مجھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہوئی اور میں اس پر نظریں جمائے۔ وہ گھر میں اپنے داخل ہوئی تو میں فاصلہ پر رک گیا۔ وہ غائب ہو گئی اور میں چلنے کو ہوا کہ وہ دروازے پر آئی اور اس نے پھر مجھے کھڑے دیکھا۔ دیکھ کر وہ واپس چلی گئی اور میں تھوڑی دیر انتظار کر کے واپس چلا آیا۔

گھنٹوں اس کے دلربا چہرے کا نقش سامنے رہا، گھنٹوں اس کے بدن کی جنبش سینما کی فلم کی طرح پیشِ نظر رہیں۔ اس کی عمر قریب بیس بائیس سال کی تھی۔

 

                (۲)

 

اس دن سے میرا دستور ہو گیا کہ میں کنویں پر پانی جرور پیتا۔ اسکول کا آخری گھنٹہ بڑی بے صبری سے کٹتا۔ کنویں پر وہ ضرور ملتی۔ اگر نہ ملتی تو میں کچھ دیر ٹھہر جاتا۔ اور بہت جلد میرے دل میں یہ احساس ہونے لگا کہ شاید میرے انتظار میں بیٹھی ہو۔

کبھی کبھار دو چار باتیں ہوئیں۔ یہ ایک اچھے گھرانے کی بیوہ برہمن تھی جو بہت چھوٹی عمر میں بیوہ ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

(آگے کا اسکین میں کٹا ہوا ہے۔ )

میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا اور نہ کبھی زیادہ بات چیت کی۔ مگر چپکے چپکے دل میں اس کا نقش برابر گہرا ہوتا چلا گیا۔

میرا معمول تھا کہ پانی پی کر کھڑا رہتا اور اس پیکرِ جمال کو دیکھتا رہتا۔ وہ جانتی تھی میں اس کا مستقل طور پر "دیکھنے والا” ہوں۔ یہ بھی غالباً جانتی ہی ہو گی کہ دیکھنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

دس مہینے اسی طرح گزرے ہوں گے کہ رامجی کے مندر کے میلے پر گیا۔ عورتوں کا بے حد ہجوم تھا۔ شام کے وقت مجمع سے علیحدہ ہو کر میں ایک طرف ہو گیا۔ سامنے دور تک دھندلکے کا سماں تھا اور سورج ڈوب چکا تھا۔ تاریکی بڑھ رہی تھی۔ در اصل میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا تھا اور اس جگہ سے دیکھ رہا تھا کہ سارا میلہ نظر کے سامنے تھا۔ لیکن کوئی نظر نہ پڑا اور اب کوئی امید نہ تھی کہ ساتھی مل جائیں، لہٰذا میں اٹھا اور چلنے کو ہوا کہ بائیں طرف سے ایک آہٹ ہوئی اور کیا دیکھتا ہوں کہ محبوب سامنے تھا۔

دیکھتے ہی میرا عجیب حال ہو گیا۔ وہ خود رک گئی۔ میں کھڑا ہو گیا۔ دھندلکا تھا لہٰذا ذرا قریب بڑھا۔ وہ بھی قدرے قریب آئی۔ اس نے سر جھکا کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عجیب تمسخر آمیز انداز سے مسکرا کر دیکھا اور کہا۔ "کیوں جی تم مجھے روز کیوں دیکھتے ہو؟”

میں نے شرم سے نظریں نیچی کر لیں اور اس نے اور بھی مسکرا کر پھر وہی سوال کیا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا اور میلے کو شور و غل اور ڈوبتی ہوئی دھندلی سی روشنی میں اس کی چمکیلی آنکھیں اندھیرے میں ایک عجیب رنگینی کے ساتھ تیرتی ہوئی معلوم پوئیں۔ میں نے زور کا ایک سانس لے کر کہا۔ "بائی جی میں تم کو روز دیکھتا ہوں اور جب نہیں دیکھتا تو پریشان رہتا ہوں۔ ”

میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی۔ وہ مسکرا کر بولی۔ "کیوں؟”

میں نے کہا۔ "تم سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ تم سے بات چیت کرنے کو، تم سے جی چاہتا ہے کہ روز ملوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

اس نے خوش ہو کر کہا۔ ” پھر تم کیوں نہیں ملتے ، تم نے میرا گھر دیکھا ہے۔ ”

میں نے کہا۔ "ہاں دیکھا ہے۔ کیا میں وہاں ملنے آ سکتا ہوں؟”

اس نے کہا "تم ضرور آنا۔ ”

اس کے بعد ہم دونوں دور تک سات ساتھ باتیں کرتے چلے گئے اور پھر وہ اپنی ساتھ والیوں کے پاس چلی گئی۔

دوسرے روز سے میں زیادہ خوش تھا۔ میرا دل کہیں سے کہیں پہنچا۔ یہ معلوم ہوا کہ دل میں امنگ ہے۔ بڑی خوشی سے ہم دونوں ملتے۔ میں اس کے گھر جاتا اور گھنٹوں بیٹھ رہتا۔ پڑھنے لکھنے سے جی اچاٹ ہو چکا تھا۔ بائی جی کے مکان پر ایک ماں تھی اور بوڑھا ماموں اور ایک مجھ سے بھی کم عمر بھائی۔

 

                (۳)

 

دو مہینے کے اندر اندر ہم دونوں میں گہری محبت ہو گئی مگر ذات پات کے بندھنوں کے سبب زبان بند تھی۔

ایک دن جب کہ زچ آ چکا تھا، میں نے دل کا مطلب کھول دیا۔ وہ جانتی ہی تھی۔ یہ نا ممکن تھا لیکن میں نے ایک دن کہہ دیا کہ "بائی تیرے بغیر میری زندگی مشکل ہے۔ ”

وہ جانتی تھی۔ مگر اول تو وہ بیوہ اور پھر وہ برہمن اور میں کائستھ۔ مگر نہیں۔ عشق و محبت کے قوانین اور ہیں۔

میں نے تجویز کی کہ کیوں نہ ہم دونوں لاہور چلیے چلیں اور وہاں سماج میں داخل ہو کر قاعدے اور قانون کی رو سے شادی کر لیں۔ یہ ممکن ہے اور جائز بھی ہے۔ مگر سوال یہ تھا کہ پھر اپنے شہر میں کیوں کر آئیں گے۔ بھلا کیسے منہ دکھائیں گے۔

لیکن کچھ دن بعد از خود یہ بھی سوال جاتا رہا۔ عشق و محبت کی ضروریات بھی کوئی چیز ہیں۔ بائی نے اپنے گھر سے اور میں نے اپنے گھر سے روپیہ زیور جو ہاتھ لگا چرا لیا اور اصطلاحِ عام میں ہم دونوں "بھاگ گئے ” اور پنجاب پہنچ کر ہم نے شادی کر لی۔

یہ شادی کیسی تھی۔ بس نہ پوچھیے۔ عرصے تک یہی معلوم ہوا کہ شرابِ محبت کے نشے میں طور ہم دونوں ہوا میں جھول رہے ہیں! لیکن افسوس روپیہ ہمارا تُھڑ رہا تھا اور تلاشِ معاش کی خلجان ایک خوفناک بھوت بن کر سامنے آ رہا تھا۔

تلاشِ معاش کی لیے بہت سرگرداں ہونا پڑا۔ لیکن پھر ایک مہاجن کے لڑکے کو انگریزی پڑھانے کی نوکری مجھے مل گئی اور شریمتی جی کھانا پکانے کا کام کرنے لگیں۔ ہم دونوں بہت خوش تھے اور کبھی بھول کر بھی گھر کا رخ نہ کیا۔

لیکن بہت جلد دشواریوں کا سامنا ہوا۔ میری عمر ہی کیا تھی۔ نہ تجربہ تھا نہ عقل تھی اور اسی کشمکش میں تنگی ترشی سے دس سال گزر گئے۔ اب اس عرصے کی روئیداد بھی سن لیجیے۔

سال بھر کے اندر ہی اندر شریمتی جی کا کچھ اور ہی رویہ ہو گیا۔ محبت بدستوور تھی، مگر مجھے پہلے تو جھڑکنا شروع کیا اور پھر مارنا شروع کر دیا۔ ہاتھ کھلنے کی دیر تھی کہ بات بات پر میں پٹنے لگا اور بہت جلد میری حیثیت ایک غلام کی سی ہو گئی اور یہی دستور برابر جاری رہا۔

پھر ستم تو یہ تھا اس دوران میں روزگار بھی ٹھیک لگ گیا تھا۔ تین بچے بھی ہو گئے تھے اور ظلم یہ کہ بچوں کے سامنے میں پٹتا تھا۔ بچوں نے پہلے تو ڈرنا لیکن بعد میں ہنسنا شروع کیا۔ ظاہر ہے کہ صورتِ حال کس طرح میرے لیے تکلیف دہ ہو گئی۔ آپ کہیں گے کہ میں پٹ کیسے گیا۔ عرض ہے کہ کوئی راضی خوشی مار نہیں کھانا۔ کمزور جوتیاں کاڑھتا ہے۔ دو ایک دفعہ میں نے زور آزمائی کی اور شکست کھائی۔ شریمتی جی کی نہ صرف تندرستی بہت اچھی تھی بلکہ قد اور ہاتھ پیر مجھ سے سوائے کیا ڈیوڑھے تھے۔

تین سال بعد میرا گھر گھر آنا جانا بھی ہو گیا تھا مگر میں حتیٰ الوسع منہ چھپاتا تھا۔ برادری باہر آدمی کو کون منہ لگاتا ہے۔

 

                (۴)

 

جس وقت کا میں ذکر کر رہا ہوں، حالات نا گفتہ بہ ہو چکے تھے۔ روز کی مار پیٹ سے تنگ آ گیا تھا کہ ایک دن محض ذرا دیر سے گھر آنے پر میں اتنا پٹا کہ پڑوسن نے آ کر بچایا۔ ہڈی پسلی میری ایک کر دی گئی اور اس روز مجھے شریمتی جی سے نفرت ہو گئی اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا تدبیر کروں۔

لیکن ابھی سوچنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک دن صبح تڑکے مجھے لکڑی اور جوتیوں سے مارا اور بچے قہقہے لگاتے رہے۔ انتہا ہو چکی تھی لہٰذا میں نے کچھ طے کر لیا۔

ایک خط اپنے بڑے بھائی کو لکھا کہ میرے بچوں کا خیال رکھنا اور میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں اور پھر یہ طے کیا کہ اس ظالم عورت کو قتل کر کے خود بھی اپنے آپ کو آج ہی ہلاک کر دوں گا۔ مگر واہ رے بھائی کہ جگہ سے جنبش تک نہ کی۔

شام کا جھٹپٹا وقت تھا اور ہمارے گائ کے رہنے کا باڑہ پچھواڑے تھا۔ گائے دوہنے کو شریمتی جی اکیلی آتی جاتی تھی اور یہی موقعہ تھا۔

قتل کرنا اور پھر وہ بھی بیوی کو ذرا مشکل کام ہے اور ممکن ہے کہ عین موقع پر میں رک جاتا مگر شریمتی جی نے گائے دوہنے جانے سے کچھ ہی قبل مجھے ذرا سی بات پر مار کر اور بھی اندھا کر دیا۔

دیوار کے پاس کانٹوں کی ایک جھاڑی تھی۔ اس کی آڑ میں چھپ گیا اور جونہی شریمتی جی قریب سے گزری ہیں میں نے بے خبری میں پیچھے سے پشت پر داہنی طرف بھرپور چاقو کا ہاتھ دیا۔ ہی ایک بڑا سا چاقو تھا جو میں نے آج ہی گھر میں دیکھا تھا۔ ان کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ برتن ہاتھ سے گر گیا لیکن انہوں نے مڑ کر میرا مقابلہ کیا۔ میں دو وار اور کیے مگر یہ انہوں نے ہاتھوں پرو روکے لیکن میں نے ان پر اس زور سے حملہ کیا کہ گرا دیا اور گراتے ہی سینے پر چڑھ کر سچ مچ شریمتی جی کو ذبح کرنے لگا اور وہ برابر اپنے دونوں ہاتھوں سے گلا بچا رہی تھیں کہ ان کی آواز سن کر ایک پڑوسی برہمن آ نکلا اور اس نے میرے اوپر حملہ کر کے شریمتی جی کو چھڑایا۔ میں نے دیکھا کہ اب معاملہ بگڑا۔ لہٰذا میں نے اس مہاراج پر حملہ کیا۔ مگر مہاراج طاقت میں مجھ سے چوگنے تھے۔ میرے چاقو کے دو وار انہوں نے بہادری سے ہاتھوں پر لیے اور تیسرے وار پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے نا امید ہو کر دوسرے ہاتھ میں چاقو لے کر اپنا خاتمہ کرنا چاہا اور جب تک مجھے مہاراج پکڑیں میں اپنے گلے کو پوری طرح زخمی کر چکا تھا۔ اتنے میں اور دو چار آدمی آوازیں سن کر دوڑے آئے شریمتی جی پڑی دم توڑ رہی تھیں اور میرا بھی ایک دم سے سر چکرایا اور میں نے اپنے کو گرتے ہوئے محسوس کیا۔

 

                (۵)

 

اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی ہے تو میں نے اپنے کو ہسپتال میں پایا۔ پولیس والے سرہانے تھے اور بیان کے لیے مصر۔ میں نے بیان دینے سے قطعی انکار کر دیا۔

اسی ہسپتال کے زنانے وارڈ میں شریمتی جی موت اور زیست کے مراحل طے کر رہی تھیں۔

میں نے اپنے بیان بعد میں بھی نہ دیے لیکن شریمتی جی نے تیسرے روز بالکل صحیح صحیح بیان دے دیے۔

میں تو مہینہ بھر کے اندر ہی اندر اچھا پو کر پولیس کی حوالات میں پہنچا۔ لیکن شریمتی جی تین مہینے ہسپتال میں رہیں، اور جب وہ اچھی ہو گئیں تو ہمارا مقدمی عدالت میں آیا۔

پہلی ہی پیشی پر شریمتی جی سے میری ملاقات ہوئی۔ بس اتنی کہ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ میں نے نظریں نیچی کر لیں۔ وہ گواہ اور مستغیث تھیں اور میں ملزم۔ ہتھکڑی بیڑی پہنے عدالت کے باہر بیٹھا تھا۔ میں جب کبھی بھی سر اٹھا کر دیکھتا شریمتی جی کو اپنی طرف دیکھتا پاتا۔ دن بھر ہم بیٹھے رہے اور مقدمے کی پیشی دوسرے ضروری مقدمات کے سبب نہ ہو سکی۔ شریمتی جی کی آنکھوں سے نفرت اور انتقام کی چنگاریاں سی اڑتی معلوم ہوتی تھیں۔

دوسرے دن بھی پیشی نہ ہوئی اور شریمتی جی مجھے اسی طرح دیکھتی رہیں۔ آج ان کے ساتھ بڑا لڑکا بھی تھا۔ ماں بیٹے مجھے دور ہی سے دیکھتے رہے۔ میں وقتاً فوقتاً سر اٹھا کر دیکھ لیتا تھا، ورنہ سر جھکائے اپنی قسمت کے نوشتے کا منتظر تھا۔

دو دن ہمارا مقدمہ ملتوی رہا اور تیسرے دن چالان پیش کر دیا تھا اور میرے خلاف اقدامِ قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔

کارروائی عدالت کے وکیلِ سرکار کی مختصر تقریر سے شروع ہوئی۔ پہلے گواہ مقدمے کے ہیرو دیوی لال مہاراج پڑوسی تھے۔ انہوں نے بیان دیا کہ کس طرح انہوں نے مجھے شریمتی جی کو قتل کرتے دیکھا۔ آلۂ حرب شناخت کر کے بتایا کہ ان کا ہے ، جو شریمتی جی ان کی بہن سے مانگ لائی تھیں۔ اسی سے ضربات پہنچائی گئیں اور چھڑوانے لگے تو میں نے ان کو زخمی کیا اور پھر خود کشی کی کوشش کی۔ مجھ سے پوچھا کیا کہ جرح کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ میں نے جرح کرنے سے انکار کر دیا۔

دوسری گواہ خود شریمتی جی تھیں۔ عدالت میں وہ داخل ہوئیں تو انہوں نے میری طرف دیکھا۔ چہرے پر ضرورت سے زیادہ سنجیدگی تھی اور ضرورت سے زیادہ مغموم معلوم ہوتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چہرے سے ابھی ابھی آنسو پونچھے ہیں۔ وہ بالکل خاموش گواہی کے لیے بڑھیں اور ان کے بیان شروع ہوئے :

"ملزم حاضرِ عدالت میرا میاں ہے۔ میری اس کی شادی ہوئی ہے۔ فلاں فلاں تاریخ کو میں زخمی ہوئی۔ حملہ آور میرا شوہر، حاضرِ عدالت، نہیں تھا، بلکہ (دیوی لال کی طرف انگلی اٹھا کر) اس نے مجھے چاقو سے زخمی کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

"ہیں! ہیں!” گھبرا کر وکیلِ سرکار نے کہا۔ "کیا کہا تم نے ؟”

شریمتی جی نے سنجیدگی سے کہا۔ "میں نے یہ کہا کہ مجھے پنڈت دیوی لال نے قتل کرنے کی کوشش کی اور مجھے میرے شوہر ملزم حاضرِ عدالت نے بچانا چاہا تو دیوی لال نے اسے بھی زخمی کیا۔ ”

سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پنڈت دیوی لال جی خواہ مخواہ حواس باختہ ہو گئے اور بطورِ احتجاج بوکھلا کر لگے بکنے مگر خاموش کر دیے گئے۔ پھر جرح شروع ہوئی۔ ادھر ادھر کے سوالات پوچھ کر آخر میں مجسٹریڑ نے پوچھا۔

مجسٹریٹ: "تم نے ہسپتال میں اپنے بیان میں جو یہ بات لکھائی کہ اپنے میاں کو مارتی تھیں، تو کیا یہ بھی غلط ہے ؟”

شریمتی: "بچوں کو مارنے کا لکھایا ہو گا۔ قطعی غلط ہے۔ ”

مجسٹریٹ نے شریمتی جی کا بیان لے کر ایشری اور رام پال پڑوسیوں کے بیان لیے ، دونوں نے اس کی تصدیق کی کہ جب ہم آئے تو ملزم اور اس کی بیوی بری طرح زخمی تھے اور چاقو دیوی لال کے ہاتھ میں تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ پہلے ہی سے تھا یا انہوں نے ملزم کے ہاتھ سے چھینا تھا۔

مجسٹریٹ نے میرا بیان لیا۔ مجھے جھوٹ سے بھلا کیا تعلق۔ میں نے بھی شریمتی جی کے بیان کی تائید کر دی۔ اس کے بعد پنڈت دیوی لال کی طرف خونی نظر ڈالی اور بیانِ مکرر کے لیے طلب کیا۔ پنڈت جی آنکھیں پھاڑتے قسمیں کھاتے گواہ کے کٹہرے میں آئے اور مجسٹریٹ کے سوالات کا ان کو جواب دینا پڑا۔

"آلۂ ضرب یعنی چاقو میرا ہے جو ملزم کی بیوی میری بہن سے عاریتاً مانگ کر لائی تھی۔ میری بیوی مر چکی ہے ، دوسری بیوی کی تلاش ہے۔ بیوی ملنے میں دو ہزار روپیہ خرچ کی ضرورت ہے ، لڑکی والوں کو دینا پڑتا ہے اسی وجہ سے بغیر بیوی کے بیٹھا ہوں۔ ملزم کی بیوی جس ذات کی ہے ، اس میں میری شادی ہو سکتی ہے۔ میں نے ملزم کی بیوی سے کبھی مذاق نہیں کیا اور کبھی اس سے یہ نہیں کہا کہ میری ہو جا۔ میں ذات کا برہمن ہوں۔ ملزم نے بھرپور میرے سینے پر چاقو کے وار کیے مگر ہاتھوں میں سوا معمولی خراش کے اور زخم نہیں آیا اور وہ وار میں نے روک لیے۔ ملزم نے اپنے الٹے ہاتھ سے خود کو زخمی کیا تو میں اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکا حالانکہ وہ میرے قابو میں تھا اور میں اس کا سیدھا ہاتھ پکڑے تھا۔ سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ میں چاقو لیتے وقت بھی میں ملزم سے نہ چھین سکا۔ جو وار اس نے اپنے اوپر کیے وہی وار ملزم میرے اوپر کر سکتا تھا۔ جن میں سے ایک وار ضرور سینے پر پڑ سکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ”

اس کے بعد ہی مجسٹریٹ نے میرا بیان لیا۔ میں نے شریمتی جی کے بیان کی تصدیق کی۔ مجسٹریٹ نے وکیلِ سرکار سے کہا کہ وجہ ظاہر کرو کہ کیوں نہ مقدمہ عدمِ ثبوت میں خارج ہو۔

وکیلِ سرکار نے بحث میں کہا کہ ملزم کی بیوی ملزم سے مل گئی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ اپنے میاں سے وقوعے کی تاریخ سے اب تک مل بھی نہیں سکی۔

مجسٹریٹ نے بحث سماعت کر کے کہا کہ باہر ٹھہریں۔ آدھ گھنٹے بعد مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ "مقدمہ عدمِ ثبوت میں خارج اور ملزم رہا کیا جائے ، پولیس کی تفتیشی کارروائی قابلِ رحم ہے۔ دیوی لال کا معاملہ مقدمۂ ہٰذا میں تنقیح طلب نہیں لہٰذا اس کے بارے میں ہم کوئی ریمارک پاس نہیں کر سکتے۔ مگر اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ خود پولیس اور دیوی لال کی پوزیشن سخت مشکوک ہے اور پولیس کو واضح رہے کہ مقدمۂ ہٰذا عدمِ وقوعہ میں خارج نہیں ہوا بلکہ عدمِ ثبوت میں خارج ہوتا ہے اور سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ جرم کس نے کیا۔ دیوی لال کا ہمیں یقین نہیں، وہ جھوٹا گواہ ہے اور معاملات سطح پر نہیں آئے۔ امنِ عامہ اور انصاف کی خاطر پولیس اگر چاہے تو دیوی لال کے مقدمے میں تفتیش کر سکی ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ملزم کی مضروب بیوی کا دیدہ و دانستہ ہسپتال میں مجسٹریٹ کے روبرو بیان لینے کے عوض بلا کسی وجہ کے پولیس نے خود ہی بیان لینے پر اکتفا کیا اور دیوی لال دورانِ تفتیش پیش پیش رہا تو پولیس اور دیوی لال دونوں کی پوزیشن قابلِ رحم اور قابلِ تنقید ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ”

میں رہا ہو کر شریمتی جی کے بہت دیر بعد گھر پہنچا۔ شریمتی جی پر نظر پڑی، منہ پھلائے بیٹھی تھیں مجھ سے کچھ نہ بولیں۔ مگر چشمِ زدن میں جھپٹ کر وہ میرے اوپر پل پڑیں اور قبل اس کے کہ کچھ کہیں، انہوں نے ایک اڑھائی درجن جوتے میری چاند پر گن دیے اور جوتا پھینک کے چارپائی پر بیٹھ کر اپنا منہ دوپٹے سے چھپا کر جو رونا شروع کیا ہے تو ہچکی بندھ گئی۔ میں نے ہاتھ جوڑے ، پیر پکڑے ، تب جا کر بڑی مشکل سے راضی ہوئیں۔

 

                (۶)

 

پنڈت دیوی لال کا حال سنیے۔ پولیس نے ان کو وہیں کا وہیں عدالت میں دھر لیا اور ضمانت پر بھی نہ چھوڑا۔ اچھر ہمارے گھر پر جو لعنت بھیجنے والوں کا ہجوم ہوا تو شریمتی جی نے دروازے بند کر لیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آدھے محلے کے آدمی پنڈت جی کو مجرم کہنے لگے اور ہم نے دروازہ کھول دیا۔

پولیس نے چالان پیش کر دیا۔ پنڈت جی کے دشمنوں اور مخالفوں نے جو خود ان کی ہی برادری کے تھے اب پوری چشم دید شہادت پیش کر دی ، دو تین آدمیوں نے کہا کہ ہم سے خود شریمتی جی نے شکایت کی تھی کہ دیبی لال مجھے چھیڑتا ہے اور قتل کرنے کو کہتا ہے اور دو تین آدمیوں نے کہہ دیا کہ ہم نے خود اپنی آنکھ سے دیبی لال کو شریمتی جی پر حملہ کرتے دیکھا۔ نتیجہ یہ کہ پنڈت جی کو سات سال قید سخت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا ہوئی۔ جو باوجود اپیل ہائیکورٹ تک بحال رہی۔ در اصل پنڈت جی نے کام ہی ایسا کیا تھا اور وہ تھے بھی اس کے مستحق۔

مگر مصیبت تو دیکھیے۔ خطا پنڈت جی کریں اور بھگتیں ہم! شریمتی جی نے جو خبر سنی کے پنڈت دیبی لال کو سزا ہو گئی تو ان کے اوپر بجلی سی گری۔ سکتے میں پڑ گئیں۔ چہرے پر مردنی چھا گئی اور خاموش چہرے پر دو موٹ موٹے آنسو ڈھلک آئے۔ اور یہ تھی پنڈت دیبی لال کی نیکی اور احسان کی اصل قیمت۔ اس دن شریمتی جی نے مارے رنج و غم کے کھانا نہیں کھایا۔ یہاں تک خیر غنیمت تھا۔ لیکن میرے ایک ذرا سے سوال پر جو بگڑیں تو مجھے مارا اور دیبی لال کا حوالہ دے کر خوب مارا۔ اتنا کہ جتنا نہیں چاہیے تھا۔ قصہ مختصر ساری بھڑاس مجھ پر نکال لی۔ اب رہ گئے دینی لال جی تو انہوں نے اپنی نیکی کی سزا پائی۔ وہ تھے بھی اس لائق۔ اب فیصلہ آپ نے ہاتھ ہے۔

نتیجہ

دیوی لال جی جیل میں ہیں۔ جرمانے میں گھر کا زیور اسباب نیلام ہو گیا۔ سنتے ہیں کہ جیل کاٹ کر آئیں گے تو برادری سے خارج کیے جائیں گے۔ ہمیں تو اس مقدمے کے اصل نتیجے سے بحث ہے اور وہ یہ کہ:

"اب خوب پٹتے ہیں اور چوں نہیں کرتے ”

اور بر ملا کہتے ہیں کہ:

"نیکی کرنا جرم ہے !” اور وہ بھی قابلِ دست اندازیِ پولیس!!

٭٭٭

 

 

رنگروٹ کی بیوی

 

جنگ کے آخری زمانے میں جو کشمکش میدانِ جنگ پر ہو گی اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ ڈسٹرکٹ رکروٹنگ افسر یعنی ضلع کے سپاہی بھرتی کرنے والے افسر کے یہاں گشتی چٹھی آ گئی کہ کم قد کے سپاہی بھرتی کر لیے جائیں اور یہ واقعہ ہے کہ اس زمانہ میں اکثر ایسے سپاہی بھرتی کر کے بھیجے گئے کہ اگر کوئی آدمی ان کے ایک چانٹا مار دیتا تو غش کھا جاتے۔ یہ سپاہی مختلف چھاؤنیوں میں چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد لڑائی پر بھیج دیے جاتے۔

رنگروٹ اس طرح پر بھرتی ہوئے تھے کہ زمینداروں اور تعلقہ داروں سے حسبِ حیثیت رنگروٹ طلب کیے جاتے تھے۔ مگر رنگروٹ نا پید تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ رنگروٹ سو روپے فی کس کے حساب سے بھی نہیں ملتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں ایک عجیب تجارت ہو رہی تھی یعنی رنگروٹ سپلائی کرنے کے ٹھیکیدار پیدا ہو گئے تھے۔ جب رنگروٹ نہیں ملتے تھے اور زمیندار لوگ گورنمنٹ کی خوشنودی کے لیے رنگروٹ دینا چاہتے تھے تو وہ ٹھیکیداروں کو آرڈر دیتے تھے اور یہ لوگ زمیندار کی طرف سے رنگروٹ داخل کر دیتے تھے۔

 

                (۱)

 

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں دفتر میں بیٹھا ہوا روزانہ کا کام کر رہا تھا کہ ایک ٹھیکے دار ایک نوجوان کو لے کر آیا، اس نوجوان کی عمر کوئی اٹھارہ یا بیس برس کی ہو گی۔ چہرے سے شرافت عیاں تھی، معلوم ہوا راجپوت ہے۔ گندمی رنگ تھا اور چھریرا مگر سپاہیانہ بدن تھا۔ ٹھیکے دار نے میرے کان میں چپکے سے کہا کہ یہ رنگروٹ فلاں زمیندار کی طرف سے ہے۔ شاید اس نوجوان لڑکے نے یہ سن لیا، اس نے مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھا، پھر ٹھیکے دار کی طرف دیکھا۔ اور مجھ سے کہا ” میں از خود اپنی مرضی سے لڑائی پر جانے کے لیے آیا ہوں۔ میں کسی کی طرف سے نہیں جا رہا ہوں اور نہ میں روپے کے لالچ میں آیا ہوں اور نہ روپیہ لینا چاہتا ہوں۔ یہ مجھ کو چالیس روپے دیتے تھے اور کہتے رہے کہ بھرتی ہوتے وقت یہ کہہ دینا کہ فلاں زمیندار کی طرف سے ہم آئے ہیں، میں نے کہ نا منظور کر دیا اور آپ بھی نوٹ کر لیں کہ میں کسی کی طرف سے نہیں آیا اور اگر مجھ کو اس میں دھوکہ دیا جائے گا تو میں بھرتی نہیں ہوتا۔”

یہ بھلا مجھے کس طرح منظور تھا کہ ایسے رنگروٹ کو ہاتھ سے نکل جانے دوں۔ میں نے اس کا اطمینان کرا دیا، خوانچہ والا پاؤ بھر مٹھائی کا دونہ لے کر آیا اور میں نے کہا کہ ایک دونہ مٹھائی کا اور لاؤ۔ لڑکے سے میں نے کہا کہ صبح کا وقت ہے تم مٹھائی کھا لو، کچھ تکلف کے بعد اس نے مٹھائی کھا لی۔ دفتر ایک بڑی کوٹھی میں تھا، جس میں متعدد کمروں کے علاوہ زنان خانہ بھی تھا۔ بڑا بھاری صحن تھا اور زنان خانے کی دیوار کے اندر متعدد کمرے ملازمین وغیرہ کے لیے تھے۔ اس زنان خانے میں اب رنگروٹ رکھے جاتے تھے تاکہ وہ باہر کے بھڑکانے والوں سے نہ مل سکیں اور علیحدہ رہیں، میں نے امر سنگھ کو (یہ نام اس نوجوان کا تھا) اندر بھجوا دیا اور جلد سے جلد اسپتال بھیج ک ڈاکٹری معائنہ کرا کر اس کے کاغذات مرتب کر لیے۔ ضلع کے رکروٹنگ افسر کو سپاہی بھرتی کرنے کی اجازت نہیں ہے ، قلی البتہ بھرتی کر سکتا تھا۔ دوسرے روز صبح کو رکروٹنگ افسر آنے والا تھا جس کے روبرو بھرتی ہونے والے سپاہی پیش کیا کرتا تھا اور وہ بھرتی کر لیتا تھا۔ اس سلسلے میں بھرتی کا قانون بھی ناظرین کو بتا دینا چاہتا ہوں۔ سپاہی جب بھرتی ہو جاتا ہے اور نشانیِ انگوٹھا یا دستخط فارم پُر کر دیتا ہے تو وہ گورنمنٹ سے عہد کر لیتا ہے کہ میں ملازمت سے نہ بھاگوں گا اور جہاں گورنمنٹ بھیجے گی وہاں جاؤں گا اور اگر اس کے خلاف کروں تو سزا دی جائے۔ لہٰذا بعد دستخط کر دینے کے اگر کوئی سپاہی بھاگے تو فوج سے بھاگا کہلاتا ہے اور فوجی قانون کے مطابق اس کو گولی تک سے اڑایا جا سکتا ہے (حالانکہ یہ ہندوستان میں کہیں نہیں ہوا) لہٰذا ہم لوگ بھرتی کرنے والے رنگروٹ کو عوام سے اس وقت تک بچائے رکھتے تھے جب تک وہ بھرتی نہ ہوا ہو۔ بھرتی کرتے وقت کم از کم میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیں جہاں رنگروٹوں کو دھوکا دیا گیا ہو۔ اس سے صاف صاف کہہ دیا جاتا تھا اور برضا و رغبت وہ دستخط کرتے تھے۔ میرے ضلع میں اور نیز دوسرے اضلاع میں جہاں تک میرا علم ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ معاہدے کے فارم کو بغیر سمجھائے ہوئے نشانِ انگوٹھا یا دستخط لیے ہوں۔ جنہوں نے ایسا کیا، غلط کیا اور گورنمنٹ کے حکم کے خلاف کیا۔

 

                (۲)

 

شام کو رکروٹنگ افسر کا میرے نام تار آ گیا کہ رنگروٹ روکے رکھوں۔ میں بجائے کل کے دو روز بعد آؤں گا۔ مجھے گونہ تشویش ہوئی کیوں کہ جب بہت سے رنگروٹ جمع ہو جاتے تھے تو ان کے عزیز و رشتہ دار آ کر ان سے ملنا چاہتے تھے اور اکثر ان کو بہکاتے تھے ، ہا اکثر اپنے کسی عزیز کو تلاش کرنے آتے تھے ، جو گھر سے لڑ کر چلا آیا کو اور پھر اگر اس کو پا جاتے تو راضی کر کے واپس لے جاتے تھے ، یہاں یہ دستور تھا کہ ہر کس و نا کس سے کہہ دیا جاتا کہ یہاں تمہارا کوئی عزیز نہیں آیا، مگر بعض ایسے ہوتے تھے کہ تاک میں لگے رہتے اور موقعہ پا کر دیکھ لیتے۔

دوسرے روز صبح کو ایک ٹٹو پر بیٹھے ہوئے ایک زمیندار نما دیہاتی صاحب تشریف لائے۔ حالانکہ حلیہ سے بالکل گنوار معلوم ہوتے تھے ، مگر شین قاف ضرورت سے زیادہ درست تھا، بہت جلد معلوم ہو گیا کہ یہ امر سنگھ کے باپ ہیں، زمیندار ہیں اور آنیریری منصفی میں نامزد ہیں۔ امر سنگھ کی اپنی سوتیلی ماں سے ہمیشہ لڑائی رہتی ہے۔ امر سنگھ پڑھنا چاہتا ہے ، لیکن سوتیلی ماں پڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کے گھر کی زمینداری تھوڑی سی تھی اور امر سنگھ کی زادی بڑے گھر میں ہوئی جہاں سوا امر سنگھ کی بیوی کے اور کوئی مالک نہیں۔ امر سنگھ کی بیوی کی بھی اپنے شوہر کی سوتیلی ماں سے نہیں بنتی۔ ابھی حال میں بڑی لڑائی ہوئی، جس میں زیادتی امر سنگھ کی بیوی کی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امر سنگھ کی بیوی اپنے گھر چلی گئی اور امر سنگھ دوسرے ہی روز سے غائب ہے ، شاید وہ لڑائی پر جانے کی بیت سے یہاں آیا ہو گا۔ یہ سب سن کر اس کا یہ جواب دیا گیا کہ امر سنگھ یا امر سنگھ کے حلیے کے کسی نوجوان سے لاعلمی ظاہر کی گئی، بلکہ یہ کہا گیا کہ اس عمر کا لڑکا تو یہاں آج پندرہ دن سے نہیں آیا اور اگر آتا بھی تو وہ واپس کر دیا جاتا کیوں کہ اتنی عمر والا لیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ ٹھاکر صاحب نے کہا کہ اگر آیا بھی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ہم راجپوت ہیں، لڑنا مرنا ہمارا کام ہے۔ اگر مجھ سے اجازت لے کر جاتا تو کیا میں منع کر دیتا۔ یہاں ان سے کہا گیا کہ بے شک آپ ایسے ہی ہیں مگر کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ یہاں آیا ہوتا اور آپ ایسے جنگجو اور گورنمنٹ کے خیر خواہ سے اس امر کو خواہ مخواہ چھپایا جاتا۔ ٹھاکر صاحب بے نیل و مرام واپس چلے گئے۔ یہاں تو روز ہی ک دستور تھا کہ ایسے دو چار آدمی آتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ کوئی نئی بات نہ تھے اور آئی گئی ہو گئی۔

 

                (۳)

 

اتفاق کی بات ہے کہ شام ہی کو رکروٹنگ افسر صاحب آ گئے ان کے روبرو علاوہ رنگروٹوں کے امر سنگھ بھی پیش ہوا اور بھرتی کر لیا گیا۔ وہ پڑھا لکھا تھا، آٹھویں جماعت تک گورنمنٹ اسکول میں پڑھ چکا تھا۔ اس نے معاہدہ کے فارم کو خود غور سے پڑھا اور دستخط کر دیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس کو معمولی سی حرارت ہو گئی۔ لہٰذا اور رنگروٹ تو جھانسی بھیج دیے گئے لیکن وہ رہ گیا۔ شام کو سول سرجن صاحب کو بلا کر میں نے اس کو دکھایا، معمولی دوا دے کر چلے گئے ، مگر یہ کہہ گئے کہ اسے دو ایک روز سفر نہ کرنا چاہیے۔

دوسرے دن کا ذکر ہے کہ صبح آٹھ بجے ہوں گے میں دفتر میں بیٹھا تھا اور کچھ لوگ جو کاروبار سے آئے تھے ان سے گفتگو کر رہا تھا کہ میری نظر بنگلے کے پھاٹک پر پڑی۔ ایک سیاہ فام ادھیڑ عمر کے گنوار کے ساتھ کوئی عورت کھڑی تھی۔ میں نے غور بھی نہ کیا کہ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی گنوار ایک بھرتی کرنے والے سپاہی سے کچھ باتیں کر رہا ہے۔ فوراً میں نے دریافت کیا کہ کیا ہے ، سپاہی آگے آہا اور اس نے کہا کہ "یہ نائی ہے اور امر سنگھ کو پوچھتا ہے اور میں نے کہہ دیا کہ ہم نہیں جانتے کون امر سنگھ۔” یہ سن کر میں چپ ہو رہا کہ سپاہی اسے ٹال دے گا اور کام میں لگ گیا۔ میں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کہاں گیا اور کدھر گیا۔ جب ذرا بھیڑ بھاڑ کم ہوئی اور میں تنہا رہ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی نائی مع اس عورت کے چلا آ رہا ہے۔ وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ امر سنگھ یہاں ضرور آیا ہے اس کو چھوڑ دیجیے۔ نائی کے ساتھ امر سنگھ کی بیوی تھی۔ یہ نوجوان لڑکی مجھ کو معلوم ہی ہو چکا تھا کہ بڑے زمیندار کی لڑکی ہے۔ اس طرح اس کا نائی کے ساتھ اپنے شوہر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ظاہر کرتا تھا کہ غیر معمولی واقعات گھر پر ضرور واقع ہوئے ہوں گے۔ ورنہ اودھ کے راجپوت زمینداروں کی لڑکیاں اس طرح نہیں نکلا کرتیں تاوقتیکہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہ ہو گیا ہو۔ لڑکی سفید چادر اوڑھے تھی اور آدھے سے زیادہ اپنا منہ چھپائے تھی۔ جتنا چہرہ کھلا تھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ کہ کسی اچھے خاندان کی ہے۔ نائی نے نہ معلوم کہاں کہاں کی باتیں اور گھریلو قصے سنا کر کہا کہ امر سنگھ کو چھوڑ دیجیے۔ جب ہر طرح سے نائی کو چپراسی نے منع کر دیا اور وہ نہ مانا تو چپراسی نے اس کو ڈپٹا۔اتنے میں وہ لڑکی میری میز کے سامنے آ کر بیٹھ گئی اور اس نے میرے قدموں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اپنے پاؤں کچھ اوپر کیے کچھ بوکھلایا پھر کرسی گھسیٹ کر ذرا الگ ہو کر میں نے کہا۔ نیک بخت تو چلی جا تیرا آدمی یہاں نہیں ہے۔ اس نے عجیب معصومیت سے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا، ایسے کہ میں اپنی دروغ گوئی پر اندر ہی اندر پانی ہو گیا۔ ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ میں کسی پر بیٹھا تھا، وہ زمین پر، میں جھوٹ بول رہا تھا، وہ سچ کہہ رہی تھی اور خوشامد کر رہی تھی۔ میں روٹی کمانے کے لیے اس کے شوہر کو لڑائی پر بھجوا رہا تھا اور کوشاں تھا کہ وہ اس سے مل نہ سکے اور وہ اپنے شوہر پر فنا ہونے کو گھر سے نکلی تھی۔ معاً مجھے خیال گزرا کہ میں ذلیل ہوں یا یہ۔ قبل اس کے کہ اس کا تصفیہ میرا ضمیر کرے ، سپاہی نے ڈانٹ کر نائی سے کہا کہ تو کیوں نہیں ہٹا لے جاتا۔ یہاں کوئی امر سنگھ نہیں آیا ہے۔ مگر وہ خدا کی بندی بھلا کاہے کو ہٹتی، اس کی آنکھوں میں دو ایک آنسو آ کر رہ گئے ، اس نے آنکھیں پونچھیں اور ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی، وہ زبان سے نہیں بولتی تھی کیونکہ نائی بولتا جا رہا تھا وہ صرف ایکٹنگ کر رہی تھی۔

فوجی حکم بھی عجیب عجیب آتے تھے۔ منجملہ اور احکام کے یہ بھی تھا کہ اگر دفتر میں کسی سلسلے میں بھی کوئی شخص آئے تو اس کو پاؤ بھر مٹھائی بغیر پوچھے گچھے دے دو۔ اگر ماہوار مٹھائی کا خرچ کم ہوتا تو اعتراض آتا۔ حلوائی کا آدمی تاک میں رہتا تھا، وہ دو دونے لے کر بڑھا اور اس نے نائی کو دے دئے۔ میں نے لڑکی سے کہا نیک بخت تو جا کر کچھ کھا پی لے اور واپس اپنے گھر چلی جا تیرا شوہر یہاں نہیں ہے۔ جب ہر طرح اس کو مایوسی ہو گئی یا یوں کہئے کہ نائی نے اس بیکار بحث کو مٹھائی کی وجہ سے التوا میں ڈالنا ضروری سمجھا تو وہ درخت کے نیچے مع لڑکی کے جا بیٹھا اور مٹھائی کھانے لگا۔ حالانکہ درخت کے نیچے ایک بڑی دری بچھی ہوئی تھی مگر لڑکی دری پر نہ بیٹھی بلکہ زمین پر بیٹھی اور نہ اس نے مٹھائی کھائی۔ دونوں حصوں پر نائی ہاتھ مارتا رہا۔ میں نے کہا کہ لڑکی نے چپراسی سے کہلوایا کہ لڑکی سے کہو دری پر بیٹھ جائے ، اور کچھ کھا پی کر جائے۔ سپاہی سے نائی نے کہا کہ لڑکی نے غلے کی قسم سے چیز کھانے اور فرش پر بیٹھنے کی قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک اپنے خاوند کو نہ تلاش کر لا گئی گی، نہ فرش پر سوئے گی اور نہ اناج کی قسم سے کچھ کھائے گی۔ لہٰذا وہ نہیں کھا سکتی۔ مجھ کو سخت تعجب ہوا اور میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ نائی سے باتیں کر رہی تھی اور زمین سے تنکا اٹھا کر کرید رہی تھی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نظر باغ کی طرف اٹھی، وہ ایسی تڑپ کر اٹھی، گویا بجلی تھی تیر کی طرح ادھر دوڑی، میں نے کھڑے ہو کر دیکھا، سن سے ہو گیا! کیا دیکھتا ہوں امر سنگھ کے ہاتھ میں لوٹا ہے اور اس کی بیوی اس کو پکڑے کھڑی ہے !

چشم زدن میں ایک ہلڑ سا ہو گیا، ایک آدمی کو میں نے بنگلے کے پھاٹک کی طرف دوڑایا کہ کسی تماشائی کو اندر نہ آنے دے۔ سپاہی اور دوسرے آدمی دوڑ کر وہاں پہنچے۔ میں برآمدے سے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔ لڑکی کچھ زور زور سے بول رہی تھی۔ ایک ہاتھ امر سنگھ کا اس کی بیوی کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا سپاہی کے ہاتھ میں جو چھڑانا چاہتا تھا۔ امر سنگھ بت کی طرح خاموش تھا، اس کو میرے پاس لائے۔ لڑکی کا پردہ سب رخصت تھا۔ وہ غصہ میں کانپ رہی تھی۔ قریب آ کر اس نے ایک نفرت بھری نگاہ میرے اوپر ڈالی۔ میں کٹ ہی تو گیا۔ اس نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا۔ میں نہیں چھوڑوں گی۔ میں نے یہاں یہ منظر پیش ہونا مناسب نہ خیال کیا سمجھا بجھا کر بڑی مشکل سے میاں بیوی دونوں کو کوٹھی کے زنان خانہ میں بھیجا اور سب سے کہہ دیا کہ ان دونوں کو چھوڑ دو۔ میں نے دور سے دیکھا کہ وہ امر سنگھ کا ہاتھ اب بھی پکڑے تھی اور نائی بھی کھڑا تھا، وہ اپنے شوہر سے کچھ باتیں کر رہی تھی۔ اب میں اس فکر میں تھا کہ اس معاملے کو کس طرح سلجھاؤں۔ امر سنگھ بھرتی ہو چکا تھا، اور بھاگ بھی نہ سکتا تھا۔ اگر بھاگتا بھی تو خود ذمہ دار ہوتا اور سزا کو پہنچتا مگر کچھ میری ذمہ داری بھی تھی۔ اگر کوئی رنگروٹ بھرتی ہو رہا ہو یا بھرتی ہو چکا ہو اور اس کے عزیز و اقارب آ کر دفتر کے احاطے میں روئیں یا چلائیں تو ا س سے بڑا خراب اثر پڑتا تھا۔ ہر کس و ناکس بلا سوچے سمجھے یہی کہتا کہ دیکھو رنگروٹ زبردستی پکڑ پکڑ کر بھیجے جا رہے ہیں۔ اکثر ایس ہوتا کہ رنگروٹ حالانکہ اپنی مرضی سے بھرتی ہوتا مگر خود رونے چلانے لگتا۔ لہٰذا سب یہی کہتے کہ اس کو دھوکے سے بھرتی کر لیا ہے۔ اس سے بھرتی کے کام میں بڑا خلل پڑتا تھا۔ بھرتی کی تحریک بدنام تو تھی ہی اور بھی بدنام نہ ہونے کا ڈر تھا۔ لہٰذا محکمے کے یہ احکام تھے کہ اس قسم کے سین دفتر میں یا دفتر کے گرد و پیش ہرگز ہرگز نہ پیش آئیں اور اس کا میں ذمہ دار تھا۔ جب کبھی ایسا موقعہ آتا میرے ہاتھ پیر پھول جاتے۔ اسی طرح یہ بھی احکام تھے کہ سڑک یا اسٹیشن پر بھی اس قسم کا کوئی واقعہ نہ ہونا چاہیے۔ ان سب باتوں پر غور کرنے کے بعد میں امر سنگھ کے پاس پہنچا، اس کی بیوی نے ایک حقارت آمیز نظر میری طرف ڈال کر اپنے خاوند کا کرتا پکڑ لیا، گویا کہ میں اس کو بھگائے لئے جاتا تھا۔ میں نے اس کی بیوی کو مخاطب کر کے کہا کہ اب امر سنگھ بغیر لڑائی پر جائے نہیں رک سکتا۔ اور پھر امر سنگھ سے میں نے کہا کہ۔ تمہیں خود اپنی بیوی کو سمجھانا چاہیے۔ تم خود پڑھے لکھے ہو اور قانون قاعدے سے واقف ہو۔ تم جانتے ہو کہ کسی طرح تم اب نہیں رک سکتے۔ امر سنگھ نے کہا کہ۔ میں ابھی سب سمجھا چکا ہوں اور اس کو بتا چکا ہوں۔ میں نے کہا۔ تو اب پھر یہ کیا کہتی ہیں؟ وہ خود بول اٹھی۔ کہ میں یہ کہتی ہوں کہ میں کوئی قانون قاعدہ نہیں جانتی اور میں آج ہی ان کو گھر لے جاؤں گی، دیکھو تو کون روکنے والا ہے۔ جو روکتا ہے اپنی اور اس کی جان ایک کر دوں گی۔

اس کی نظروں سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ جو کہہ رہی ہے وہی کرے گی بھی۔ میں نے اس سے نرمی سے کہا کہ تم غلطی پر ہو۔ اگر واقعی اپنے خاوند کو چھڑانا چاہتی ہو تو جو میں بتاؤں وہ کرو۔ اس معصوم نے کہا۔ وہ کیا۔ ادھر میں نے دغا بازی سے کام لیتے ہوئے کہ تم بڑے افسر کو ایک عرضی دو اور اس میں یہ لکھو کہ میرے گھر پر کوئی دوسرا کام سنبھالنے والا نہیں۔ میرے میاں کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے عوض میں ایک رنگروٹ دوں گی۔ یہ سن کر وہ خوش ہوئی اور امر سنگھ نے مشکوک نگاہوں سے میری طرف دیکھ کر کہا۔ کیا کوئی ایسا قاعدہ ہے ؟ میں نے اس کو بھی دھوکا دیتے ہوئے گا کہ کوئی خاص قاعدہ تو نہیں ہے۔ مگر میں سفارش کے ساتھ تمہاری بیوی عرضی آگے بڑھا دوں گا۔ اس نے پھر مجھ سے کہا کہ میں یہ رنگروٹ کہاں سے لاؤں گی۔ وہ بولی۔ دو سو روپیہ خرچ کر دوں گی۔ پھر میں نے کہا۔ جب تک تمہاری عرضی کا جواب نہ آئے۔ امر سنگھ یہیں رہے گا اور ویسے بھی اس کو ڈاکٹر نے دو تین روز کے لیے آرام کرنے کو کہا ہے۔

یہ کہہ کر میں نے دفتر کے رسوئی والے کو کہہ دیا کہ امر سنگھ اور اس کی بیوی کے لیے بہت اچھا کھانا پکائے ، مگر اس نے منظور نہ کیا اور آٹا دال لے کر خود پکایا کھایا۔

 

                (۴)

 

جب کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کسی رنگروٹ کے رشتے دار یا عزیز و اقارب دفتر میں اس سے ملنے آتے تھے تو جب وہ رخصت ہوتا تھا تو بہت روتے اور غل مچاتے تھے اور اس کی ترکیب میں نے یہ کی تھی کہ اسٹیشن ماسٹر کو لکھ دیا تھا کہ آج ہمارے رنگروٹ جائیں گے اگر ضرورت ہو تو گاڑی دو تین منٹ تک نہ چھوڑنا۔ ہر جگہ فوجی حکم چل رہا ہوتا تھا اور اسٹیشن ماسٹر میرا حکم نہ ٹال سکتا تھا، ادھر یہ انتظام ہو جاتا تھا اور ادھر کسی رئیس کا موٹر کار منگوا لیا کرتا اور ایک دم سے رنگروٹوں کو اس میں بٹھا کر ایسے وقت گھڑی دیکھ کر روانہ کرتا کہ گاڑی چھوٹنے کو ہوتی۔ رنگروٹ فوراً بیٹھ جاتے۔ ایک آدمی جو پہلے سے چلا جاتا تھا فوجی پاس تیار کرا لیتا تھا۔ جب تک رنگروٹ کے رشتے دار پہنچیں۔گاڑی چھوٹ جاتی تھی اور اس طرح رونے دھونے کا سین اسٹیشن پر نہ ہونے پاتا تھا۔ عزیز رشتہ دار رو پیٹ کر چلے جاتے تھے۔ میں نے امر سنگھ کے لیے بھی یہی تجویز کیا۔ موٹر کا انتظام کر لیا اور اسٹیشن ماسٹر کو رقعہ لکھ دیا۔ اس کا جواب بھی آ گیا کہ تین منٹ گاڑی روک لوں گا۔

شام کو موٹر کار آ کر کھڑی ہو گئی۔ امر سنگھ کی بیوی کو شبہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ دوپہر ہی کو اس کی طرف سے میں عرضی لکھ چکا تھا۔ پھر بھی وہ امر سنگھ کے ساتھ آنے لگی۔ میں نے کہا کہ میں کچھ باتیں کر رہا ہوں۔ ننگے پیر بغیر ٹوپی پہنے اور کوٹ پہنے کہیں وہ بھاگا تھوڑی جاتا ہے۔ یہ کہہ کر میں اس سے باتیں کرنے لگا۔ گھڑی دیکھتا جاتا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ گاڑی چھوٹنے کا وقت گذر گیا تو میں نے بغیر کچھ کہے سنے موٹر میں بٹھا دیا۔ اس غیور نوجوان نے معاملہ سمجھ کر میری طرف دیکھا، عجیب طرح دیکھا۔ وہ گویا اس برتاؤ پر مجھ سے شاکی تھا۔ مگر واہ رے ہمت اور آن کہ چوں تک کی۔ اس کی جگہ شاید میں یا اور کوئی ہوتا تو نہ جاتا۔ مگر وہاں اس کو سوچنے کی مہلت تک نہ ملی، موٹر یہ جا وہ جا۔ میرے کمرے سے غائب ہونے سے اور امر سنگھ کے واپس نہ ہونے سے اس کی بیوی چونک سی پڑی اور چشم زدن میں میں نے دیکھا کہ وہ موٹر کے پیچھے چیختی چلی جا رہی ہے۔ بھلا کہاں موٹر اور کہاں ایک پیدل لڑکی۔ موٹر وہاں پہنچ بھی گئی، مگر ایک عجیب ہی لطیفہ رہا۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ اب امر سنگھ تو چلا ہی گیا، صرف اس کی بیوی کو بھگتنا رہ جائے گا، اس سے میں کہہ دوں گا کہ تیرا خاوند جھانسی گیا، لہٰذا وہ وہاں چلی جائے گیا اور قصہ ختم ہو جائے گا۔

تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ موٹر چلا آ رہا ہے اور لطف یہ کہ امر سنگھ اور اس کی بیوی مع سپاہیوں کے واپس! میں بہت سٹپٹایا مگر موٹر کا دروازہ کھول کر اردلی اترا اور اس نے مجھ سے کہا کہ ٹرین آج ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہے اور ابھی آئی بھی نہیں ہے۔ یہ وہاں پہنچ گئی اور قبل اس کے وہ غل مچاتی میں اس کو بٹھا واپس لے آیا اور اس سے کہہ دیا کہ امر سنگھ ہوا کھانے نکالا گیا تھا۔ وہ چپکی غصہ میں اپنے میاں کے کرتے کا دامن پکڑے اندر چلی گئی۔ وہ ضرورت سے زیادہ سمجھ دار اور ہوشیار لڑکی تھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اس ہوا خوری سے کیا مطلب تھا۔ اب وہ امر سنگھ کا گویا پہرہ دے رہی تھی اور مجھے تو گویا نظروں نظروں میں ہی کھائے جاتی تھی۔ میں نے امر سنگھ کو علیحدگی میں (اسے کمرے میں جس میں وہ تھا اور جس کا ایک دروازہ تھا اور دروازے پر اس کی بیوی تھی) سمجھایا کہ۔ آخر اس کا کیا نتیجہ ہو گا۔ اس نے کہا۔ میں تیار ہوں۔ قول ہار چکا ہوں اور چلنے کو تیار ہوں مگر بیوی آخر بیوی ہی ہے۔ میں سمجھا چکا۔ آپ اور سمجھا لیجئے۔ مگر عورت ذات اور پھر میری بیوی، اس کے ساتھ زبردستی یا ہاتھا پائی نہ ہو۔ میں چلنے کو تیار ہوں، کیونکہ جانتا ہوں کہ اب کوئی دوسری راہ نہیں۔

اس کو آمادہ پا کر میں چلا آیا۔ کچھ مطمئن سا تھا۔ مگر یہ خوب جانتا تھا کہ اب موٹر والا داؤں بھی چلے گا۔

آپ کو تعجب ہو گا جب میں آپ سے کہوں کہ یہی موٹر والا داؤں چل گیا۔ ایک موٹر آیا۔ اس میں خود بیٹھا اور امر سنگھ اور اس کی بیوی کو بٹھایا۔ امر سنگھ کی بیوی عرضی کے سلسلہ میں گویا جا رہے تھے۔ موٹر ایک جگہ راستہ میں رک گیا، کچھ بگڑ گیا ہے۔ اب میں اترا۔ ذرا امر سنگھ دیکھنا تو سہی۔ وہ بھی نیچے اتر آیا۔ دوسرا موٹر فوراً آ پہنچا۔ امر سنگھ کو اس میں بٹھا کر اور اس کی بیوی کو چلاتا ہوا اور پہلی موٹر میں چھوڑ کر سیدھا اسٹیشن پہنچا۔ گاڑی تیار تھی۔ فوراً روانہ کر دیا۔

اب امر سنگھ کی بیوی سے میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ جھانسی سے اپنے میاں کو چھڑا لا۔ وہ صلواتیں اس نے مجھے سنائیں کہ اب تک یاد ہیں۔ روٹی پیٹتی چلی گئی۔ میں اب مطمئن تھا اور کئی باتوں پر غور کر رہا تھا، ایک تو اس عجیب سرد مہری پر جو امر سنگھ اپنی بیوی کے ساتھ میرے سامنے برتنے پر مجبور ہو جاتا تھا اور دوسرے اس با ہمت لڑکی پر۔ امر سنگھ کی ظاہرا سرد مہری کی تو شاید یہ وجہ ہو کہ امر سنگھ قبل بھری ہونے کے اور نیز بھرتی ہونے کے وقت پر جو پر شکوہ الفاظ میرے سامنے کہہ چکا تھا وہ ایسے تھے کہ نہ جانے کے خیال ہی سے میرے سامنے امر سنگھ کی آنکھیں نیچی ہو جاتی تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کہا وہ کر دکھاؤں اور کر دکھایا۔

بات آئی گئی ہو گئی، اور بھرتی کی بھیڑ بھاڑ میں ایسے سینکڑوں ہی واقعے ہوتے رہتے تھے۔ لہٰذا یہ واقعہ کچھ روز بعد خود ہی فراموش ہو گیا۔

 

                (۵)

 

چار مہینہ کا عرصہ گذر چکا تھا۔ میں دفتر میں بیٹھا ہوا سر جھکائے کچھ کاغذات دیکھ رہا تھا کہ کوئی سامنے آیا۔ میں نے سر تک نہ اٹھایا اسی طرح مشغول رہا۔ فراغت پا کر سر اٹھا کر جو دیکھتا ہوں تو ایک فوجی وردی پہنے نوجوان سپاہی سامنے کھڑا ہے ، فوراً اس نے فوجی طریقہ پر سلام کیا، وہ مسکرا رہا تھا کیونکہ یہ وہی امر سنگھ تھا اور لطف یہ کہ اس کی بیوی بھی اس کے قریب ہی پیچھے کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر بھی مسرت اور مسکراہٹ تھی۔ میں متعجب ہو کر۔ ہیں امر سنگھ! تم یہاں کہاں۔ جواب میں اس نے ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا۔ میں نے کھولا اور کرسی کے تکیہ پر تعجب سے ٹک گیا۔ کیونکہ یہ کاغذ ڈسچارج سرٹیفیکٹ تھا۔ گھٹنے کی ناقابل تشخیص بیماری کی وجہ سے امر سنگھ ڈسچارج کر دیا گیا۔ وہ میرے دفتر میں اپنے ڈسچارج کا اندراج کرانے آیا تھا۔ میں نے امر سنگھ سے پوچھا کہ تمہارے گھٹنے میں کیا تکلیف ہو گئی۔ اس نے کہا۔ صاحب کہاں کی تکلیف اور کیسی بیماری۔ پیشتر سے دوگنا کھاتا ہوں اور چوکنا مضبوط اور چاق و چوبند ہوں۔ میں نے پوچھا۔ پھر یہ کیسے ؟ اس نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ یہ مجھے چھڑا لائی۔ ناممکن ہے۔ میں نے کہا۔ آج کل کے زمانے میں ایک ایک رنگروٹ گورنمنٹ ہزاروں خرچ کر رہی ہے۔ آخر کیسے چھڑا لائی۔ امر سنگھ نے کہا اسے سے پچھ لیجئے۔ چنانچہ اس نے سارا واقعہ شروع سے اخیر تک سنادیا۔

پہلے تو وہ گھر گئی وہاں سے کافی روپیہ لیا اور اپنے خاندان کی روایات کو ٹھوکر مار کر نائی کو اپنے ساتھ لے کر سیدھی جھانسی پہنچی۔ وہاں معلوم ہوا کہ اس طرف رنگروٹ مہو چھاؤنی بھیجے جاتے ہیں، مہو پہنچی اور ایک پجاری کے یہاں ٹھہر کر نائی کو فوجی کیمپ کی طرف امر سنگھ کو ڈھونڈنے بھیجا۔ اس کی وہاں تک رسائی ناممکن تھی۔ زیادہ سے زیادہ ہ یہ کرسکتا تھا کہ خوانچہ والے ، یکے والے ، دھوبی، بھنگی، بہشتی سے یہ پوچھ لے کہ امر سنگھ تو یہاں نہیں ہے۔ وہ ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ یہاں ہزاروں لاکھوں سپاہی ہیں، ایک نہیں بلکہ سینکرڑوں امر سنگھ ہیں۔ جب چار چھ دن بڈھے نائی کو گھومتے پھرتے ہو گئے تو خود امر سنگھ کی بیوی تلاش کرنے نائی کو لے کر نکلی، وہ ساتھ ہوتی اور ہرکس و ناکس سے امر سنگھ کا پتہ دریافت ہوتا۔ نہ معلوم کتنے امر سنگھ نکلے۔ فوجی قواعد کے وقت دور سے کھڑی ہو کر ہزاروں رنگروٹوں میں سے اپنے میاں کو پہچاننے کی کوشش کرتی۔ مگر بے سود۔ لیکن ایک روز اپنے شوہر کو دور سے قواعد کرتے دیکھ ہی لیا۔ نڈر ہو کر وہ دوڑی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ مل سکے ، سب رنگروٹ بھیڑ کی صورت میں مل کر بھاگتے ہوئے قواعد کرتے نہ معلوم کدھر نکل گئے۔ مگر اب تو اس کو پتہ چل گیا تھا۔ ایک ایک بارک میں اپنا آدمی بھیج کر سراغ لگوایا اور بالآخر پتہ چلا ہی لیا۔ مگر امر سنگھ اب یہاں سے بھاگ نہ سکتا تھا۔ وہ پوشیدہ طور سے اپنی بیوی سے بڑی مشکل سے ملا اور اس نے کہا کہ افسر کمانڈنگ اگر چاہے تو مجھ کو چھوڑ سکتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا اور یہ سیدھی افسر کمانڈنگ کے بنگلے پر پہنچی۔ ایسے ایسے نہ معلوم کتنے وہاں اسی قسم کی درخواست لے کر آتے تھے اور واپس جاتے تھے ، لیکن وہ اور تھے یہ اور تھی۔ اس نے افسر کمانڈنگ سے دوبدو اپنے میاں کے بارہ میں گفتگو کی، اور پھر اس پیرایہ میں کہ وہ دنگ رہ گیا مگر اس نے اس کو صاف جواب دیا۔ مگر یہ کب ماننے والی تھی۔ سر ہو گئی۔ بنگلہ کے کنارے سڑک پر ہی اس نے ڈیرہ ڈال دیا، اس کو تنگ کر مارا۔ اس کے ساتھیوں کو اور دوستوں کو اس کی میم کو پریشان کر مارا۔ دن رات کا تقاضا تھا اور یہی کہتی تھی کہ یہاں سے نہ ٹلوں گی۔ پندرہ روز اس کو اسی طرح گذر گئے اور جب اس کا نتیجہ نہ نکلا تو یہ پاگل سی ہو گئی۔ دیوانہ وار افسر کمانڈنگ پر دوڑتی اور اس کو پکڑ کر اس کی خوشامد کرتی، ایک روز اس نے افسر کمانڈنگ کی میم کو پکڑ لیا اور کہا کہ خواہ مجھے کاٹ ڈالو اب تمہیں نہ چھوڑوں گی۔ دھمکی کو یہ شمار میں نہ لائی اور اس قدر روئی پیٹی کہ اس میم کا دل موم ہو گیا اور اس نے وعدہ کر لیا۔ قصہ مختصر میم نے اپنے شوہر سے نہ معلوم کس کس طرح سفارش کر کے ڈاکٹری معائنہ کرا کے امر سنگھ کو برخاست کروا ہی دیا۔ افسر کمانڈنگ اور نیز تمام دوسرے افسروں کی بیویاں جو افسر کمانڈنگ کی بیوی سے ملنے آتی تھیں سب نے اس کی سفارش کی اور اسی وجہ سے امر سنگھ چھوٹ کر آ گیا۔

یہ قصہ سن کر اس نا تجربہ کار پردے میں بیٹھنے والی مگر دلیر لڑکی پر بے حد تعجب ہوا اور کس قدر ارادے کی پختگی وہ افسر کمانڈنگ سے یہی کہتی تھی کہ یا تو میرے میاں کو چھوڑو اور یا مجھے بھی اس کے ساتھ بھیج دو۔

میں نے امر سنگھ کو مبارکباد دی اور کہا، جاؤ، اب مزے سے رہو۔ صرف ایک فوٹو کی میں نے درخواست کی اور دونوں میاں بیوی کو کھڑا کر کے ان کا ایک فوٹو لے لیا تاکہ یادگار رہے۔

امر سنگھ چلا گیا، لیکن بعد میں وہ عرصے تک بھرتی کا کام کرتا رہا۔ لڑائی ختم ہو گئی اور تمام اسباب جنگ تتر بتر ہو گئے۔ میں نہ معلوم کہاں سے کہاں پہنچا۔ اب صرف میرے پاس ان دونوں میاں بیوی کا ایک بوسیدہ سا فوٹو رہ گیا ہے۔ جو اکثر اس شوہر پرست بیوی کی یاد دلاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بھاگ گئی

 

                (۱)

 

منشی فراست علی ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے مگر اپنی محنت سے صاحب دولت بن گئے۔ دوسرے بھائی احمد نے کچھ نہ کیا بلکہ جو کمایا وہ اڑایا۔ ہمیشہ غریب کے غریب ہی رہے۔ خدا کی قدرت کہ لڑکا ہوا تو وہ بھی ایسا ہی ہوا۔ منشی فراست علی کا اپنا کنبہ بالکل مختصر تھا۔ ایک بیوی اور ایک لڑکی اور خود، گھر پر ایک سے دو ہونے کے لیے اپنے ایک دور کے عزیز کے لڑکے کو جو یتیم تھا لڑکی کو قرآن اردو اور فارسی پڑھانے کو رکھ لیا تھا۔

عائشہ پر خدا نے سال بھر کے اندر وہ مصیبت ڈالی جو کسی پر نہ پڑے۔ ماں بیمار پڑی اور دس دن میں رخصت۔ تین چار ماہ بعد منشی فراست علی کی پرانی شکایت یعنی دمے کی بیماری نے ایسا زور باندھا کہ جوں جوں علاج کیا، مرض بڑھتا ہی گیا۔ اور چار پانچ مہینے کے قلیل عرصے میں انتقال کر گئے۔ جائیداد جو کچھ تھی، وہ بھائی اور لڑکی کے حصہ میں آئی۔ لڑکی کا جائز ولی اب سوائے چچا کے کوئی نہ تھا۔ چچا کے گھر پہنچ کر اس نے اور ہی رنگ دیکھا۔ چچا کا لڑکا جو جوان تھا اور تحصیل میں چپراسی تھا مگر حال یہ تھا کہ کچھ عرصے سے بیکار تھا۔ کیونکہ وہاں سے برخاست ہو چکا تھا۔ بیوی کو مار مار کر اس نے وہ برا حال کیا کہ غریب اپنے باپ کے گھر چلی گئی۔

جب کبھی آتی خواہ مخواہ ماری جاتی۔ شراب کی بھی عادت اور عموماً رات کے گیارہ بجے سے کبھی بیشتر گھر میں نہ آتا تھا، باپ بیچارہ خود پریشان تھا کہ کیا کروں، اکلوتا لڑکا تھا۔ جو کچھ بھی کما کر لاتا، بیوی کو دیتا اور لڑکے کا یہ حال کہ ماں سے سب کچھ لے لیتا، غرض عائشہ نے گھر کی وہ حالت دیکھی جو کبھی سننے میں بھی نہ آئی تھی۔ گھر کا کام کاج کرتے کرتے وہ پست ہو جاتی تھی مگر پھر بھی چچی ناراض ہی رہتی۔ جب سے وہ آئی تھی اس کو پیسہ کوڑی کبھی کچھ نہ ملا۔ باپ کے زمانے کے کپڑے پھٹنے کو آئے مگر چچا چچی نے کچھ پرواہ نہ کی۔

ایک روز رات کے گیارہ بجے جب وہ سو رہی تھی اس کی چچی نے اس کو جگایا اور آواز دے کر کہا کہ اٹھ کر کھانا دے دو۔ وہ سمجھ گئی کے میاں فاروق علی آ پہنچے۔ کھانا لے کر گئی تو بے حد خفا ہوئے کہ ٹھنڈا ہے ، دوڑتی ہوئی بیچاری باورچی خانہ میں گئی، آگ جلائی اور اس شرابی کے لیے کھانا گرم کیا۔ کھانا گرم کر کے سامنے رکھا اور پینے کے لیے پانی لا کر رکھا۔ کھانا عمدہ پکا ہوا تھا اور میاں فاروق اس وقت ترنگ میں تھے ، کہنے لگے کہ "عائشہ یہ کھانا کس نے پکایا ہے۔”

عائشہ نے کہا۔ ” میں نے ہی پکایا ہے۔”

فاروق نے چپکے سے کہا۔” تب تو تم بڑی ہوشیار لڑکی ہو میں اب دوسری شادی تمہارے ساتھ ہی کروں گا۔”

عائشہ اب پندرہ برس کی لڑکی تھی، اس نے کبھی یہ لفظ کاہے کو سنے تھے۔ ایک سناٹے میں آ گئی، بدن سے پسینہ جاری ہو گیا اور فوراً وہاں سے سیدھی اپنے پلنگ پر پہنچی۔ روتے روتے سو گئی، رات کو اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک بلا اس کی طرف پنجہ پھیلا کر بڑھ رہی ہے ، اس کا بدن مکڑی کا سا ہے اور قد ہاتھی کا سا اور منہ فاروق کا سا۔ مارے ڈر کے سوتے ہی میں اس کی زور سے چیخ نکل گئی۔ چچی گھبرا کر پکاری کہ "عائشہ کیا ہے۔” عائشہ نے کہا کچھ نہیں، میں نے خواب دیکھا تھا اور ڈر گئی۔

عائشہ کو فاروق کی صورت سے نفرت ہو گئی تھی۔ وہ اس سے اس طرح ڈرتی تھی جیسے قصائی سے جانور ڈرتے ہیں۔

 

                (۲)

 

عزیزداری میں ایک موت ہو گئی تھی اور عائشہ کی چچی کو پرسے میں جانا تھا۔ چچا کھانا کھا کر کچہری چلے گئے۔ چچی نے کہا کہ ” میں تم کو نہیں لے جا سکتی کیونکہ تمہارے نہ پیر میں ٹھیک جوتا ہے اور نہ کپڑے۔ تم گھر پر ہی رہو۔ فاروق آئے تو اس کو کھانا کھلا دینا۔”

عائشہ کا سنتے ہی دم نکل گیا، اس نے دبی زبان سے کچھ کہنا چاہا مگر چچی نے کہا۔” نہیں میں تم کو نہیں لے جاؤں گی۔”

چچی کے چلے جانے کے بعد عائشہ کی عجیب حالت تھی۔ دروازے کی طرف کھٹکا سنتی اور سہم جاتی، اس کا ڈر کے مارے برا حال تھا۔ بارہ بج گئے اور ایک بجنے کو آیا مگر فاروق کا پتہ نہ تھا۔ وہ بہت خوش تھی کہ آج وہ نہیں آئے گا کیونکہ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ صبح کا گیا ہوا بس رات کے بارہ ہی بجے آتا تھا۔ اس کو قدرے اطمینان ہو چلا تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے تخت پر لا کر کھانا قرینے سے رکھ دیا۔ پینے کا پانی اور لوٹا بھی لا کر رکھ دیا تاکہ اگر کہیں وہ آ جائے تو سب چیزیں موجود پائے اور مجھ کو سامنے نہ جانا پڑے۔

دل میں عائشہ نے کہا۔” آج وہ نہیں آئے گا۔” اٹھی اور وضو کر کے اپنی کوٹھری میں ظہر کی نماز پڑھنے لگی۔ نماز پڑھتے میں اس کو محض شبہ سا ہوا کہ کچھ دروازہ پر آہٹ ہوئی۔ مگر یہ محض اس کا خیال تھا کیونکہ انتظار کرنے کے بعد اس نے پھر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ وہ نماز پڑھ ہی رہی تھی کہ پیچھے سے فاروق کی آواز آئی کہ "کب تک نماز پڑھو گی۔” یہ آواز گویا ایک مصیبت تھی۔ عائشہ کو نماز پڑھنا مشکل ہو گیا۔ اس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بس اب کسی بلا نے مجھے پیچھے سے پکڑا۔ جوں توں کر کے نماز ختم کی، پیچھے مڑ کر دیکھا تو فاروق کے چہرے پر ایک عجیب شیطانی مسکراہٹ تھی۔ عائشہ نے دل مضبوط کیا اور نرمی سے کہا۔ ” آپ کا کھانا وہاں تخت پر رکھا ہے۔”

فاروق نے ہنس کر کہا۔” یہ تو میں بھی جانتا ہوں مگر جب تک خود پہنچ کر نہ کھلاؤ گی میں کیسے کھاؤں گا۔”

عائشہ پریشان ہو گئی اور سٹ پٹا گئی۔اس کی زبان یاوری نہ کرتی تھی اور اس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا صدمے سے بے ہوش ہونے والی ہے۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ کہہ سکے ، فاروق نے پھر کہا۔ "تم تو بڑی اچھی لڑکی ہو۔ ذرا باہر نکلو کم از کم کھانا تو گرم ہی کر دو۔”

عائشہ خاموشی سے کوٹھری سے نکلی اور دیوار سے لگی گئی تاکہ فاروق سے کافی فاصلہ رہے ، باہر نکل گئی اور کھانا گرم کر لائی۔ فاروق نے کھانا کھاتے میں پھر کھانے کی تعریف کرنا شروع کی مگر عائشہ دور بیٹھی رہی اور اس کا جواب تو جواب منہ تک موڑ کر نہ دیکھا۔ کھانا کھانے کے بعد فاروق نے آواز دے کر کہا کہ ” پان تو لاؤ۔”

عائشہ نے کہا۔” میں نے پیشتر ہی بنا کر رکھ دیا ہے۔”

فاروق نے پھر شرارت سے کہا۔” یہ تو مجھ کو بھی معلوم ہے کہ ایک سوکھا پان سا بنا ہوا رکھا ہے۔ مگر میں تو تازہ پان کھاؤں گا۔”

عائشہ پر پھر بجلی سی گری۔ مگر اٹھی اور پان لگا کر لائی۔ بجائے فاروق کے ہاتھ میں دینے کے اس نے بائیں ہاتھ سے پان کی تھالی اٹھانی چاہی تاکہ پان رکھنے کے لیے اس کو زیادہ نہ جھکنا پڑے۔ ایک دم نے فاروق نے بایاں ہاتھ پکڑ لیا اور منہ کھول کر کہا کہ "پان میرے منہ میں رکھ دو۔”

عائشہ نے پان والا ہاتھ پیچھے کر لیا اور رو کر کہا۔” چھوڑ دیجئے۔” اس کی عجیب حالت تھی۔ مگر اب بجائے ڈر کے اس کو غصہ آ رہا تھا۔ بہت کچھ اس نے زور لگایا مگر فاروق کے آہنی پنجہ سے رہائی نا ممکن تھی۔ وہ ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ” دیکھیں بھئی اس لڑکی میں کتنا زور ہے۔” یہ کہنا اور بھی تازیانہ کا کام کرتا تھا۔ مجبور ہو کر غریب زمین پر بیٹھ گئی اور منہ چھپا کر رونے لگی۔ پیچھے سے ہاتھ جو آگے آیا تو پان بدستور اس کے ہاتھ میں تھا۔ منہ چھپایا ہوا تھا۔ فاروق نے چپکے سے منہ بڑھا کر پان دانت سے پکڑ لیا۔ ایک دم سے عائشہ نے گھبرا کر پان کو اس طرح چھوڑا جیسے کہ کوئی دھوکے میں کیڑا مکوڑا اٹھا لیتا ہے اور پھر گھبرا کر چھوڑ دیتا ہے ، فاروق نے پان کو منہ میں سنبھالتے ہوئے کہا ” اچھا اب ہم تم کو چھوڑ دیتے ہیں مگر ایک بات سن لو۔” عائشہ سسکیاں لے کر رو رہی تھی اور کچھ جواب نہ دیتی تھی، بڑی مشکل سے عائشہ نے آنکھیں چار کیں اور رو کر کہا۔ ” آپ مجھے کیوں پریشان کرتے ہیں۔”

فاروق نے کہا۔ ” تم میری بات سن لو، میں تم کو چھوڑ ے دیتا ہوں۔”

عائشہ نے آنسو پونچھ کر متانت سے کہا۔” کہیے کیا کہتے ہیں۔”

فاروق نے مسکرا کر کہا۔” تم بتاؤ تو سہی کہ میں کیسا ہوں تم مجھ سے شادی کرنے پر رضامند ہو ؟”

عائشہ کا سارا بدن اب غصہ سے کانپنے لگی اور ڈرنے کے بجائے اب اس پر غصہ طاری تھا۔ اس کا منہ مارے غصے کے لال ہو گیا اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ” آپ مجھ سے اس قسم کی باتیں کیوں کرتے ہیں؟”

فاروق نے برجستہ جواب دیا کہ "اس لیے کہ اب اماں نے طے کر لیا ہے کہ میری شادی تمہارے ساتھ ہو جائے۔” عائشہ نے زور سے ہاتھ کو جھٹکا دیا اور چھڑا کر بھاگی۔

اپنی کوٹھڑی کی طرف دوڑی مگر فاروق اس کو بھلا کب چھوڑنے والا تھا۔ ” یہ کیا بدتمیزی۔” غضب ناک ہو کر فاروق نے کہا۔ تڑپ کر وہ بھی اٹھا مگر چارپائی کی رسی میں پاؤں الجھ کر منہ کے بل گرا۔ اتنے میں عائشہ اپنی کوٹھڑی میں تھی اور چاہتی تھی کہ دروازہ کو بند کرے کہ فاروق آ پہنچا اور دروازہ کو زور سے دھکا دیا مگر عائشہ میں اس وقت بلا کی طاقت آ گئی تھی، اس نے بھی خوب زور لگایا دروازہ کھلا جاتا تھا کہ اس نے ایک اینٹ کا ٹکڑا اٹھا کر اس بیدردی سے فاروق کی انگلیوں پر مارا کہ وہ تڑپ گیا۔ عائشہ نے دروازہ بند کر لیا۔ فاروق باہر کھڑا ہوا بل کھا رہا تھا اور اب اس نے عائشہ کو گالیاں دینی شروع کیں اور کہا کہ اس کا مزہ شادی کے بعد تجھ کو چکھاؤں گا۔ عائشہ اس کی گالیاں اور بدزبانی سن کر سہم گئی۔ کیونکہ وہ عائشہ کو ایسی گالیاں دے رہا تھا جیسی وہ اپنی بیوی کو دیا کرتا تھا۔

 

                (۳)

 

اس واقعہ کے بعد عائشہ کو فاروق ایسی نظروں سے دیکھتا تھا کہ معلوم ہو کہ بس کھا جائے گا۔ اس کی انگلیاں دو مہینہ تک دکھا کیں۔ اور مرہم پٹی ہوا کی، کیونکہ انگلی کی ہڈی کچلی گئی تھی۔

اسی دوران میں عائشہ کو اس خبر کی تصدیق ہوئی جو اس نے اس روز فاروق کی زبانی سنی تھی۔ ایک روز اس نے اپنی کوٹھڑی میں سے چچا اور چچی کی باتیں سن لیں۔ چچا کی یہ مرضی تھی کہ فاروق کے ساتھ عائشہ کی شادی جلد کر دی جائے۔ اس طرح بھائی مرحوم کی پوری کی پوری جائیداد قبضہ میں آ جائے گی، یہ بھی تجویز تھی کہ پہلی بیوی کو فاروق طلاق دے دے۔

اس روز سے عائشہ کا برا حال تھا، وہ دن رات اسی فکر میں رہتی تھی کہ آخر اب کیا ہو گا۔ سوائے چچا اور ایک ماموں کے اس کا اس دنیا میں کوئی نہ تھا اور چچا چچی کی باتوں کو اس نے ایک روز اور سن لیا تو اس کو معلوم ہوا کہ ا س کے ماموں کو بھی اس رشتے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دن اور رات اب عائشہ یہی دعائیں مانگتی تھی کہ اے خدا تو مجھ کو جلد موت دے۔ موت کا تو ذکر ہی کیا۔ اس کو چھینک تک نہ آتی تھی۔ کچھ عرصے سے چچی کا رویہ بھی بدلا ہوا تھا۔ چچی اب بجائے درشتی کے نرمی سے بات کرتی تھیں۔ بات بات پر چمکارتی تھیں۔ کپڑے بھی اب ڈھنگ کے ہو گئے تھے۔ مگر یہاں عائشہ کی حالت ہی عجیب تھی۔ ا س کو چچی کی وہ سخت کلامی یاد آتی تھی اور کہتی تھی کہ کاش وہی اب بھی جاری رہتی۔ اس کو پھٹے اور پرانے کپڑے منظور تھے مگر عمدہ کپڑے اس شرط پر قطعی نا منظور تھے۔ آدھی آدھی رات اسی پیچ و تاب میں گزر جاتی تھی کہ الہٰی آخر کیا ہو گا اور کیونکر اس آنے والی مصیبت سے جان چھوٹے گی۔

مگر آنے والی مصیبت تیزی اور تیقن کے ساتھ آ رہی تھی۔ وہ دن بھی قریب پہنچے کہ اس کو اپنی شادی کے کپڑے خود ہی سینے پڑے ، اٹھتے بیٹھتے محبت میں آ کر کبھی کبھی چچی کی زبان سے اس بارے میں جو الفاظ نکل جاتے ، وہ تیر ہو کر لگتے تھے اور اپنی کوٹھڑی میں جا کر عائشہ گھنٹوں روتی تھی۔ مگر یہ سب بے سود تھا۔ شادی کی تیاریاں برابر ہو رہی تھیں۔ فاروق نے پہلی بیوی کو طلاق بھی دے دی تھی۔ چچی اس کو اب فاروق کے سامنے بھی نہیں آنے دیتی تھیں۔ لیکن اس سے عائشہ خوش نہ تھی۔

اسی دوران میں ایک موقعہ پھر ایسا آ گیا کہ فاروق کو عائشہ کے ساتھ تنہائی میں باتیں کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اس کینہ ور شیطان نے دانت پیس کر کہا کہ ” اب تجھ کو تیری شرارت کا مزہ چکھاؤں گا۔” بجائے اس کے کہ عائشہ خاموش رہتی۔ اس نے جل کر کہا۔” قبل اس کے کہ وہ دن آئے میں اس دنیا ہی میں نہ ہوں گی۔ مجھ کو تمہاری صورت سے نفرت ہے۔” اس سے زیادہ گفتگو نہ ہو سکی کیونکہ ماں کے پیر کے آہٹ سن کر فاروق ہٹ گیا۔ آخرش شادی کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی اور دن گنے جانے لگے۔ عائشہ کی نہ تو کوئی سہیلی تھی اور نہ کوئی ہمجولی۔ اور یہ بھی اچھا ہوا۔ ایک ایک دن کر کے آخر دن ختم ہوئے اور وہ دن آئے کہ گانے اور بجانے کی آواز نے گھر کو سر پر اٹھا لیا۔ سارا گھر مہمانوں سے بھر گیا۔ عائشہ اپنی کوٹھڑی میں دلہن بنی ہوئی بیٹھی تھی۔ اس نے چار روز سے مطلق کچھ نہ کھایا تھا اور دن اور رات روتی تھی۔ نکاح والی رات کو اس کا عجب حال تھا اس نے ایک پڑیا میں شیشہ پیس کر رکھا تھا کہ یہ کھا لوں گی، مگر عین وقت پر وہ پڑیا ایسی کھوئی کہ نہ ملی۔ اس کی آنکھوں میں دنیا اب اندھیری تھی۔ رات کے گیارہ یا بارہ بجے ہوں گے ، وہ ایک دم اٹھی۔ کچھ لوگوں کو غافل پایا اور کچھ لوگوں کو لا پرواہ۔ وہ سیدھی پاخانہ میں پہنچی اور نہ معلوم کس مشکل سے دیوار پر چڑھ کر اپنے کو اس طرف گرا دیا۔ دیوار کچھ اونچی نہ تھی اور اس کے خفیف سی چوٹ لگی، وہ اٹھی اور چادر کو اس نے سنبھال کر اوڑھا۔ اس کو معلوم تھا کہ محلے میں فلاں طرف کنواں ہے ، وہ سیدھی اسی طرف چلی مگر کنوئیں پر آدمی تھے۔ اب اس کی یہ حالت تھی کہ اس کا قدم نہ اٹھتا تھا۔ مردوں کو دور ہی سے دیکھ کر وہ سہمی جاتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر پکڑی گئی تو کیا حشر ہو گا۔ وہ سامنے سے آتے ہوئے مرد سے بچنے کے لیے ایک گلی میں مڑی اور سیدھی چلی گئی۔ خوش قسمتی سے ایک مکان سے ایک ضعیفہ نکلی اور وہ بھی اسی طرف چلی جدھر عائشہ جا رہی تھی۔

بڑھیا نے یونہی پوچھا کہ ” بوا تم کہاں جا رہی ہو؟”

عائشہ نے ذرا گھبرا کر کہا۔” تم کہاں جا رہی ہو؟”

بڑھیا نے کہا۔” بیٹا میں تو کھاری کنوئیں جا رہی ہوں۔”

فوراً عائشہ کو یاد آیا کہ صدیق حسن کا مکان بھی کھاری کنوئیں پر ہے۔ یہ صدیق حسن وہ لڑکا تھا جو عائشہ کو قرآن پڑھایا کرتا تھا۔ اس کو یتیم سمجھ کر عائشہ کے باپ نے گھر پر رکھ لیا تھا۔ آج کل صدیق حسن نے اپنے محلے میں ایک مکتب کھول لیا تھا۔ جس میں وہ محلہ کے لڑکوں کو اردو فارسی وغیرہ پڑھایا کرتا تھا۔ عائشہ کو معاً خیال گزرا کہ صدیق تو بہت اچھا لڑکا تھا، شاید وہ میری مدد کرے۔ اس خیال کے آتے ہی بغیر سوچے سمجھے عائشہ نے بڑھیا سے کہہ دیا کہ ” میں بھی وہیں جا رہی ہوں۔”

بڑھیا نے کہا ” وہاں کہاں جا رہی ہو۔” عائشہ نے ذرا رکتے ہوئے کہا۔” کیا تم مولوی صدیق کا گھر جانتی ہو؟” بڑھیا نے کہا ” ہاں میں جانتی ہوں۔ کیا تم ان کے ہاں جا رہی ہو۔ ان کے یہاں تو کوئی عورت ہی نہیں، وہ اکیلے ہیں۔” عائشہ نے کہا ” ہاں وہ اکیلے ہیں مگر میرے وہ عزیز ہیں اور میری ماں آج وہاں گئی ہیں تم مجھ کو ان کا مکان بتا دینا تو مجھ کو دقت نہ پڑے گی۔

عائشہ تھوڑی دیر تک تو دروازہ کی کنڈی پکڑے کھڑی رہی۔ گلی میں سناٹا تھا۔ اس نے ہمت کر کے کنڈی کو کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد اندر سے آواز آئی کہ کون ہے۔ اس کا جواب بھی عائشہ نے کنڈی کھٹکھٹا کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان شخص مولوی صورت ایک چراغ لیے ہوئے عائشہ کی طرف عجیب طرح سے دیکھ رہا تھا۔

” تم کون ہو! تم کون ہو!!!” اس نے پریشان ہو کر عائشہ سے پوچھا۔ لیکن عائشہ نے بجائے جواب دینے کے دروازہ پر پیر رکھا، صدیق ایک طرف کو ہو گیا اور عائشہ چادر سے لپٹی ہوئی مکان کے اندر داخل ہو گئی۔ سیدھی وہ برآمدہ میں پہنچ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔ مولوی کا عجیب حال تھا۔ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اور وہ جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔ اب اس کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ اندر آئے مگر عائشہ نے آواز دے کر کہا۔ آپ اندر آ جائیے۔ وہ اب بھی نہیں پہچانا کہ کون ہے۔ قریب آ کر کتبہ کی آڑ میں وہ کھڑا ہو گیا اور چراغ رکھ دیا۔ دونوں طرف خاموشی رہی لیکن پھر صدیق نے پوچھا کہ ” تم کون ہو۔ مجھ کو جلدی بتاؤ۔ میں سخت پریشان ہوں۔”

عائشہ نے دبی زبان سے کہا۔” صدیق تم مجھ کو بھول گئے ! میں بدنصیب عائشہ ہوں۔”

"ارے یہ تم ہو۔” یہ کہہ کر صدیق ششدر رہ گیا۔ لیکن پھر بولا۔” مگر آج تو۔۔۔ آخر یہ بات کیا ہے کچھ تو کہو۔”

عائشہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔” صدیق! میں تمہارے گھر پناہ لینے آئی ہوں۔” یہ کہہ کر اور رو رو کر اس نے سارا قصہ شروع سے اخیر تک سنا ڈالا۔ صدیق بجائے اس کے کہ پناہ اور امداد کا وعدہ کرتا اس کو نصیحت کرنے لگا۔ مگر عائشہ کی آہ و زاری اور پریشانی اب اس درجہ پہنچ گئی تھی کہ وہ ہر مصیبت کے لیے تیار تھی۔ اس نے اپنے کو صدیق کے قدموں میں ڈال دیا اور گھبرا کر کہا۔ ” میری مدد کرو۔” صدیق گھبرا گیا۔ اس کو عائشہ کے باپ نے اپنے بیٹے کی طرح رکھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے اور اس نے عائشہ سے کہا کہ ” میں غریب تمہاری کس طرح مدد کر سکتا ہوں، میں ہر طرح تیار ہوں۔”

عائشہ نے پھر ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ” اچھا جو تم میری مدد پر تیار ہو تو میری مدد کرو۔۔۔ میں عمر بھر تمہاری زر خرید لونڈی کی طرح خدمت کروں گی۔ تم خیال کرو گے کہ میں بے حیا ہوں مگر میری بیچارگی اور مصیبت کو۔۔۔ دیکھو۔ تم میرے ساتھ کھیلے ہو، تم نے مجھ کو پڑھایا ہے۔ تم ہی مجھ کو اس مصیبت سے بچاؤ۔”

صدیق کچھ کہنے کو تھا کہ عائشہ نے پھر زور دے کر کہا ” کل نہیں بلکہ ابھی ابھی صبح ہونے سے پہلے ، ورنہ میری جان کی خیر نہیں ہے۔”

القصہ صدیق سے ہاتھ پاؤں جوڑ کر عائشہ نے ہاں کہلوا کر ہی چھوڑ ا، صدیق اپنے محلے کے ایک بزرگ کے پاس گیا۔ اور ان سے سب حال کہہ دیا اور ان کی صلاح پر عمل کیا۔

رات ہی رات میں بلکہ اسی وقت قاضی کو بلا کر گواہوں کی موجودگی میں صدیق نے عائشہ سے نکاح کر لیا۔

عائشہ کے گھر ظاہر ہی ہے کہ کیا کچھ ہلڑ ہوا ہو گا۔ عجیب تہلکہ مچا۔ دولہا میاں اور دولہا کے باپ اور تمام عزیز و اقارب سب پریشان اور شرمندہ تھے۔ ایک عجیب ہی معاملہ درپیش تھا۔ نتیجہ اس کا مقدمہ بازی ہوئی۔ فیصلہ عائشہ کے حق میں ہوا۔ اس کے حصے کی جائیداد اس کو دلوائی گئی۔ صدیق کی قسمت کے دن بھی پھر گئے۔سو سوا سو روپے مہینے کی جائیداد بیوی کو ملی اور چین سے زندگی بسر ہونے لگی، لیکن عائشہ گو خوش تھی مگر دنیا یہی کہتی تھی کہ "بے حیا بھاگ گئی۔” تمام عزیز و اقارب ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئے ، کوئی اس کا روادار نہیں کہ اس کو اپنے یہاں بلائے یا اس کے یہاں جائے۔ وہ بہترین بیوی ہے تو ہوا کرے۔ اس کی وجہ سے خاندان کی ناک کٹ گئی اور عزت خاک میں مل گئی۔ اب خود ذرا انصاف کیجئے اور غور کیجئے کہ یہ ناپاک جملہ ” بے حیا بھاگ گئی” کہاں تک درست ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تیمار داری

 

 

پانچ چھ سال انگلستان میں رہ کر میں واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ کچھ دن تک تو نتیجے کا انتظار رہا۔ اور خوب ملک کی سیر کی۔ اب ارادہ ہو رہا تھا کہ کیوں نہ یورپ کے مشہور ممالک کی پہلی اور آخری مرتبہ سیر کی جائے۔ والد صاحب روپیہ جس تنگ دلی سے بھیجتے تھے اس کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ہم پانچ بھائی ہیں اور آخر سب کو ہی ولایت دیکھنا تھا۔ میں نے چلنے سے پہلے لندن سے والد صاحب کو تار دیا کہ بس اب سو پونڈ اور بھیج دیجئے پھر نہ مانگیں گے ، اس کا جواب خفگی کا تار آیا کہ نہیں بھیجیں گے۔ ادھر سے میں نے جواب دیا کہ خاکسار بغیر سو پونڈ کے آ ہی نہیں سکتا۔ مجبور ہے۔ حساب گھر آ کر دے گا۔ مجبوراً سو پونڈ ہمیں بھیجے گئے۔ ہم نے بیٹھ کر خوب لمبا چوڑا جتنا بھی ہماری وسعت میں تھا، یورپ کی سیر کا پروگرام بنایا اور جلد سے جلد اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ لندن سے پیرس اور وہاں سے برلن اور پھر وہاں سے ویانا، سوئزر لینڈ اور اٹلی کی سیر کرتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچے یہاں سے مصر پہنچ کر تمام عجائبات دیکھے اور پھر اسکندریہ سے سیدھے بیٹھ کر بمبئی کی راہ لی۔

اس سیر سپاٹے میں اتنا روپیہ خرچ ہوا کہ ہم نے جو حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ بمبئی پہنچ کر ہمارے پاس بمشکل اتنا رہ جائے گا کہ گھر تک کے کرائے کے لیے کافی ہو سکے۔ لہذا یہ سوچا کہ بمبئی میں زیادہ قیام نہ کریں گے۔

 

                (۱)

 

جہاز بمبئی پہنچا تو اترنے چڑھنے کے جھنجھٹ سے فارغ ہو کر ایک تھرڈ کلاس ہوٹل میں پہنچے۔ ہوٹل پہنچ کر جیب سے روپیہ کا بٹوا جو نکالا تو غائب۔ ٹامس کک سے اپنا کل روپیہ خرچ کر کے قریب پینتیس روپے زائد لے چکے تھے اور اب اپنے پاس ایک کوڑی تک نہ تھی۔ خیال کیا کہ والد صاحب کو تار دے کر منگا لیں۔ ہوٹل کے مالک سے موٹر والے کا کرایہ دلوایا۔ اور انہیں سے دام لے کر والد صاحب کو تار دیا کہ بمبئی آ گیا ہوں اور روپیہ کا بٹوا کھو گیا۔ براہ کرم پچاس روپیہ بذریعہ تار فوراً روانہ فرمائیے۔ وہاں والد صاحب کی بس جان ہی تو جل گئی۔ کیونکہ سو پونڈ کے علاوہ کرایہ وغیرہ بھی لے چکا تھا۔ اور شام تک کچھ تار کا جواب نہ آیا۔ شام کو ٹہلنے چلا گیا۔ پاس کوڑی نہ تھی۔ کچھ جی الجھ سا رہا تھا۔ دیر تک سمندر کے کنارے بیٹھا رہا۔ یہی سوچا کیا کہ دیکھو تو والد صاحب کی کفایت شعاری کہ کسی بھائی کو بمبئی ہمیں لینے تک کو نہ بھیجا اور نہ کوئی رشتہ دار آیا اور پھر یہ کہ روپیہ تار سے منگوایا تب بھی نہ بھیجا۔ رات گئے ہوٹل واپس آیا۔ سر میں کچھ خفیف سا درد تھا، صبح آنکھ کھلی تو حرارت تھی۔ اس پر غلطی یہ کی کہ حسب عادت نہا لیا۔ اخبار پڑھتے پڑھتے ہی تیز بخار آ گیا اور رات تک بخار کی تیزی میں بیہوش سا ہو گیا۔ ہوٹل والے نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر کو بلواؤ۔ مگر جب میں نے کہا کہ”میرے پاس روپیہ نہیں ہے تو اس نے کہا کہ ہم روپیہ نہیں سے سکتے۔” میں نے کہا کہا”آپ ایک جوابی تار میری طرف سے والد صاحب کو اس پتے پر بھیج دیجئے اور اس میں لکھ دیجئے کہ میں بیمار ہوں۔ جلد سو روپیہ بھیج دیں۔” یہ تار دیا گیا۔ ادھر والد صاحب کا حال سنئے۔ تار جو پہنچا تو کہنے لگے کہ "یہ دیکھو ابھی تو تار دیا کہ بٹوا کھو گیا۔ اور اب یہ لکھتا ہے۔” جواب دیا کہ "روپیہ تو بڑی چیز ہے۔ ایک کوڑی نہ بھیجی جائے گی۔ خواہ آؤ خواہ بمبئی میں ہی پڑے رہو۔” نہیں کہہ سکتا میرا کیا حال ہوا۔ یہ میں سوچ رہا تھا کہ اپنی گھڑی فروخت کر دوں گا لیکن بخار کی شدت نے یہ حالت کر دی کہ مجھے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ ہوٹل والے نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے خیراتی ہسپتال پہنچانے کی فکر کی۔ اسباب اپنے قبضے میں رکھ کر مجھے غشی کے عالم میں ہسپتال پہنچا دیا گیا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کہاں تھا اور کہاں آ گیا۔ دراصل مجھے میعادی بخار ہو گیا تھا۔

 

                (۲)

 

دوسرے دن رات بھر اتنا تو یاد ہے کہ نہ معلوم کیا بکا کیا۔ صبح کو ذرا طبعیت ٹھکانے جو ہوئی تو میں نے معلوم کیا کہ ہسپتال میں ہوں۔ جنرل وارڈ یعنی عام وارڈ میں ایک لوہے کے پلنگ پر ہسپتال کے کپڑے پہنے پڑا تھا کہ اتنے میں ایک کم رو سانولے رنگ کی نرس آئی، اس نے حرارت وغیرہ دیکھی، میں نے اس اسے اپنے آنے کی تفصیل دریافت کی، اس نے سب قصہ سنایا کہ کس طرح ہوٹل والے نے بھجوایا ہے۔ مجھے سخٹ غصہ آ رہا تھا۔ اور میں نے بھی جھنجھلاہٹ میں طے کر لیا کہ اب والد صاحب کو کچھ نہ لکھوں گا۔ چنانچہ نرس سے میں نے کہا کہ "بڑی مہربانی ہو اگر میرا اسباب ہوٹل سے منگا کر مجھے آپ بجائے خیراتی وارڈ کے پرائیویٹ بورڈ میں بھرتی کرا دیں اور یہ کہ میرے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہے۔ لہذا میں چاہتا ہوں کہ میرے بکس میں ایک سونے کی گھڑی کی زنجیر رکھی ہے۔ اس کو نکال کر کسی طرح فروخت کرا دیں اور ہوٹل کا بل ادا کر دیں اور بقیہ روپیہ میری دوا اور علاج پرائیویٹ وارڈ کا ایک الگ کمرہ لے کر خرچ کیا جائے۔” حالانکہ یہ اس کی ڈیوٹی نہیں تھی۔ لیکن اس نے ہوٹل والے کو کہلا بھیجا اور میرا اسباب بھی آ گیا اور ہم پرائیویٹ وارڈ میں بھی آ گئے۔ اب میں نے غور کیا کہ اپنے بکس کی کنجی تو دی ہی نہیں تھی، زنجیر فروخت کو کر یہ روپیہ کہاں سے آیا۔ نرس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ "میں نے اپنے پاس سے دیا ہے۔ آپ اطمینان سے دے دیجیئے گا۔” میں نے اس ہمدردی کا شکریہ ادا کیا اور کنجی دے کر پھر تاکید کی کہ زنجیر نکلوا لیجئے۔ اس نے کنجی واپس کر سی اور کہا کہ "ابھی مجھ کو زنجیر کے فروخت کرانے کی فرصت نہیں ہے۔”

جس کمرہ میں اب میں آیا۔ یہ ایک چھوٹا مگر بڑا صاف ستھرا تھا۔ نرس خاص طور پر تیمار داری کر رہی تھی لیکن دو چار ہی روز میں مرض نے کچھ صورت ہی دوسری اختیار کر لی۔ مرض کا وہ زور ہوا کہ کروٹ لینا بھی ناممکن ہو گیا۔ اور دو تین ہی روز میں غشی یا ہذیان کی حالت میں وقت گزرتا تھا، مگر نرس بیچاری دن رات ایسی تیمار داری کر رہی تھی کہ اگر یہ نہ ہوتی تو شاید ہم مر چکے ہوتے۔ دوا کے وقت دوا دینا اور غذا کے وقت غذا دینا ضروریات کا خیال رکھنا اور بار بار گندے کپڑے بدلنا غرض ساری خدمت یہی انجام دیتی تھی۔ رات کو جب کبھی میری آنکھ کھلتی تو ا سکو جھکا پاتا اور بڑی ہمدردی سے یہ حال پوچھتی اور پھر گھنٹوں سر دباتی اور بے کلی کو دور کرتی۔ اس حالت میں میں نے بار بار اس ے زنجیر کا تقاضا کیا۔ لیکن وہ ٹال ٹال دیتی۔ میں نے کہا کہ "آخر یہ خرچ کہاں سے چل رہا ہے۔”

اس کا نام میری تھا اور اس نے کہا "میں نے اپنے پاس سے دیا ہے۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ میں خود آپ کی زنجیر خرید لوں گی۔”

"اسے ابھی نکالو۔” میں نے کرب کی حالت میں کہا۔ "ابھی نکالو ابھی نکالو۔”

میری نے کنجی لی اور بکس کھول کر زنجیر نکالی۔”یہ کتنے کی ہو گی؟” میں نے پوچھا۔

میری نے مسکرا کر کہا "آپ کو معلوم ہونا چاہیے، جتنے میں آپ نے کریدی ہے آپ مجھے دیجیے۔”

میں نے کہا۔ "سسٹر تم کیوں اتنے دام دو، جتنی قیمت لگے ، اتنی دے دو۔”

مگر مجھ کو تو فرصت نہیں کہ خود لے جا کر اس کی قیمت معلوم کروں اور دوسرے پر مجھے اعتبار نہیں۔ جتنے میں آپ نے کریدی ہے۔ اتنے دام مجھ سے لے لیجئے اور اگر اس سے کم کی ہو تو بعد میں مجھےَ واپس کر دیجئے گا۔” یہ کہتی ہوئی وہ میرے پاس آئی اور اس نے میرے ماتھے پر سے بال ہٹاتے ہوئے کہا۔ "آپ متفکر نہ ہوں۔ آپ کو باتیں نہ کرنا چاہیے۔”

اس کی ہمدردی کا میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور کہا۔ "روپوں کے حساب سے میں نے تین سو میں لی تھی۔ تم کو دو سو میں دوں گا۔ اگر اس سے کم دام لگیں گے تو واپس کر دوں گا۔”

"مجھے منظور ہے۔ میں نے لے لی۔ اب تم خاموش ہو جاؤ۔” یہ کہہ کر اس نے زنجیر اپنی جیب میں رکھ لی اور کہا۔ "میں تمہارے اخراجات کا حساب رکھتی جا رہی ہوں۔ جتنا کچھ بچے کا وہ تمہیں واپس کر دوں گی۔ اب تو تم بات نہ کرو۔”

میں کچھ بولنے ہی کو تھا کہ اس نے میرے منہ کو آہستہ سے اپنے ہاتھ سے بند کر دہا اور مسکرا کر کہا۔ "تم اچھے مریض ہو۔ بس بات نہ کرو۔ چپ ہو جاؤ۔”

میں چپ ہو گیا۔ بخار بے چین کر رہا تھا اور میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی طرف بڑھا کر پکڑ لیا اور اس کو دیر تک اپنے بائیں ہاتھ میں دابے رہا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ میری پیشانی اور سر سہلاتی رہی اور میں سو گیا۔

 

                (۳)

 

رات کو عجیب حال ہوا۔ بیہوشی کی حالت میں نہ معلوم کتنی دیر ہذیان کی سی حالت رہی۔ اتنا خیال ہے کہ بار بار اٹھتا تھا اور میری اور ایک اور نرس پکڑ پکڑ کر رکھتی تھیں۔ آج بجائے ایک کے دو نرسیں تھیں۔ میری کی ڈیوٹی ختم ہو جاتی تھی مگر جب بھی وہ نہ جاتی تھی، بخار کی تیزی میں یہ دونوں پکڑ پکڑ کر لٹاتی تھیں۔ کبھی ہوش سا آ جاتا تھا اور کبھی پھر وہی بیہوشی اور بکنا اور اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کرنا۔ ایک دم سے زور دے کر میں اٹھ بیٹھا کہ میری نے سنبھال کر لٹایا۔ وہ پٹی پر بیٹھی ہوئی تھی تاکہ میں اٹھنے نہ پاؤں۔ اس نے چارپائی کی دوسری پٹہ پکڑ رکھی تھی اور خالی ہاتھ سے وہ میرا ماتھا صاف کر رہی تھی۔ دوسری نرس نے کپڑا برف میں بھگو کر سر اور پریشانی پر رکھ دیا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک دم سے دماغ میں ٹھنڈک پہنچی۔ آنکھیں تھوڑی دیر میں کھل سی گئیں۔ میری بدستور پٹی پکڑے ہوئے میرا سیدھا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں ایسے لئے بیٹھی تھی کہ اس کا سیدھا ہاتھ میرے اوپر سے گزر کر پٹی پکڑے ہوئے تھا، فی الفور دوسری نرس نے کوئی دوا مجھ کو دی۔ جو میں نے ہوش میں پی لی۔ ذرا دیر بعد وہ نرس میری سے یہ کہہ کر چلی گئی کہ”دیکھو یہ اٹھنے نہ پائیں، برابر موجود رہنا اور سر کا کپڑا ٹھنڈا کر کے بدلنا۔”

یہ دوا شاید نیند لانے کے لیے دی گئی تھی۔ تھوڑی سی دیر میں نیند کا غلبہ سا ہونے لگا۔ میری اسی طرح جھکی ہوئی میری آنکھوں کو دیکھ رہی تھی، اس کا سر بالکل سینے پر تھا۔ وہ شاید یہ دیکھ رہی تھی کہ میں آیا سو رہا ہوں یا جاگ رہا ہوں۔ میں نے ذرا آنکھیں کھولیں تو اس نے آہستہ سے کہا۔”سو جاؤ۔” اور یہ کہتے ہوئے اپنے بائیں ہاتھ سے میری آنکھیں ڈھک دیں۔ شاید میں فوراً سو گیا ہوں گا۔

ابھی صبح نہ ہوئی تھی کہ میری آنکھ کھلی۔ میری اسی طرح بیٹھی تھی۔ مگر ا س کا سر میرے سینہ پر ٹھوڑی کے پاس ہی رکھا تھا اور وہ غافل سو رہی تھی۔ کئی دن سے برابر جاگ رہی تھی اور آج تو رات بھر اسی طرح اس کی گزر گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بیٹھے بیٹھے اس کو نیند آ گئی اور سر وہیں کا وہیں گر گیا۔ بخار اب بھی تیز تھا۔ مگر نیند لینے سے اور سر پر برف رکھنے سے ضرور اچھا اثر ہوا تھا۔ میں نے ہمدردی سے اس غریب کے چہرے کو دیکھا اور دل میں میں نے اس کی تیمار داری اور محنت کا اعتراف کیا۔ بوجہ کمزوری اور بخار کے دراصل اس کے سر کا بوجھ میرے سینہ پر سخت گراں گزر رہا تھا۔ مگر میں چونکہ اس وقت بالکل ہوش میں تھا۔ لہذا میرا جی نہ چاہتا تھا کہ اس غریب کو آنکھ جھپکانے کا آرام بھی نہ لینے دوں۔ جو شخص رات دن جاگتا رہے ، اس کو تو سولی پر بھی نیند آ جاتی ہے نہ کہ ایسے موقع پر۔ میں نے اس کو رہنے دیا۔ لیکن نہیں بیان کر سکتا کہ تھوڑی ہی دیر بعد میرا تکلیف کے مارے کیا حال ہونے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دراصل اس کی تھوڑی ہی دیر ہوئی ہو گی اور میری آنکھ بھی قبل از وقت شاید اس کے سر کے بوجھ سے گھبرا کر کھل گئی۔ قصہ مختصر وہ بیچاری کچھ آرام نہ کر پائی اور مجبور ہو کر میں نے ارادہ کیا کہ اس کو جگا دوں۔ مگر کس طرح جگاؤں، بہتر صورت یہ معلوم ہوئی کہ تھوڑا سا کلبلانا چاہیے۔ چنانچہ یہی ہوا مگر وہ تو گویا گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔ کیونکہ اس کو کئی دن سے متواتر سونا ہی نہ ملا تھا۔ جو وقت اس کو ڈیوٹی سے الگ ملتا تھا وہ میری تیمار داری میں صرف کر دیتی تھی، جب مجھے زیادہ بے چینی ہوئی اور برداشت نہ ہو سکی تو میں نے آہستہ سے اپنا سیدھا ہاتھ اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور اس کو ذرا اوپر کو کیا۔ مگر وہ بے طرح غافل تھی۔ تکلیف سے پریشان ہو کر آخر کو میں نے اسی طرح اسے ہوشیار کیا۔ وہ ایک دم سے چونک پڑی اور گھبراہٹ اور جلدی میں کہنے لگی:

"میں سو گئی۔ مجھے نیند آ گئی۔ معاف کیجے گا۔” وہ کچھ شرمائی ہوئی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی اور میرا ہاتھ اور ماتھا دیکھ کر کہا۔”آپ کو نیند آ رہی ہو تو سو جائیے۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے اس بدتمیزی سے سو کر آپ کو جگا دیا۔ آپ کو اس سے تکلیف پہنچی، معاف کیجئے گا۔”

میں نے کہا۔ "نہیں مجھ کو کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچی۔”

میری نے پھر کہا۔ "کیا بتاؤں میری آنکھیں نیند کی وجہ سے درد کر رہی تھیں اور مجھے پتا بھی نہیں کہ کب میرا سر آپ کے اوپر گر گیا۔”

"آپ جا کر سورئیے ، میری طبعیت بہت ہلکی ہے۔” میں نے آرام سے کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ "اس پر لیٹ جائیے۔”

وہ آرام کرسی کی طرف چلی اور مسکر کر کہنے لگی۔”آپ اٹھ کے تو نہیں بھاگیں گے ؟ رات کو آنے بہت کوشش کی ہے۔ مگر شکر ہے کہ آج آپ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔”

میں نے شکریے کے لہجے میں کہا۔ خدا آپ کو اس ہمدردی کا نیک بدلہ دے۔ جو آپ نے میرے ساتھ کی ہے اور کر رہی ہیں۔”

میری نے میری طرف غور سے دیکھ کر کہا:

"جو آتا ہے ہمیں دعائیں دیتا ہے۔ آپ اب خاموش ہو جائیے۔”

مجھ کو واقعی کچھ تکان سی معلوم ہو رہی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ میں تجھے کوری دعائیں نہیں دوں گا۔ پانچ سو روپیہ بھی تیری ہمدردی کے صلہ دوں گا۔ میں نے دل میں پھر سوچا واقعی دنیا بھی کیا ہے۔ نقد کوئی نہیں دیتا اور صرف دعائیں دے کر اور زبانی جمع خرچ کر کے چلے جاتے ہیں۔

دوسرے روز طبعیت میں کچھ سکون تھا۔ مگر جوڑ جوڑ میں اور سارے بدن میں میٹھا میٹھا درد ہو رہا تھا۔ میری نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا اور کہا "شکر ہے کہ بخار آج آپ کو کم ہے۔”

میں نے کہا۔”کتنا ہے ؟”

میری نے مسکر ا کر کہا۔ "مریض کو یہ باتیں بتائی نہیں جاتیں، ڈاکٹر صاحب کی سخت تاکید ہے۔| یہ کہہ کر اس نے سرہانے سے نقشے کی تختی لی اور اس پر اندراج کیا۔ اور پھر کہا۔ "آج آپ کی طبعیت بہت اچھی ہے۔”

میں نے کمزور آواز میں کہا۔”میں بدن کے درد کے مارے مرا جا رہا ہوں۔”

"کیا زور سے ہو رہا ہے ؟” میری نے پوچھا۔

"زور سے نہیں ہو رہا بلکہ میٹھا میٹھا درد اس طرح ہو رہا ہے کہ بیان میں نہیں آ سکتا اور خاص کر ہاتھ پیروں میں۔” یہ سن کر وہ قریب آ گئی اور میرا ہاتھ لے کر انگلیوں کی پوروں سے آہستہ آہستہ دبانا شروع کیا بلکہ سہلانا شروع کیا۔”اس طرح آپ کو آرام اور سکون ملے گا۔” اس نے آہستہ آہستہ انگلیوں کو اس طرح بازو اور ہاتھوں پر چلاتے ہوئے کہا جیسے کوئی ہار مونیم کو دھیرے دھیرے مگر ذرا دباؤ سے بجائے۔ اس لے بعد آہستہ آسہتہ سہلا کر مالش سی کرتی رہی اس کے بعد وہ اٹھ کر پائنتی کی طرف گئی اور میرے پیروں کو دبانا چاہا۔ میں نے فورا اپنا پیر گھسیٹ کیا اور کہا”نہیں نہیں سسٹر یہ نہیں ہو گا۔” پاؤں کھینچنے سے ا س کو وہاں بیٹھنے کی جگہ مل گئی اور اس نے بیٹھتے ہوئے کہا:

"آپ کے ساتھ کچھ مجھے خصوصیت نہیں ہے۔ مریض کی تکلیف ڈاکٹر اور نرسوں کے لیے باعث تکلیف ہے۔ مجھے اپنی تکلیف میں کمی محسوس ہو گی۔” یہ کہہ کر اس نے پاؤں آہستہ سے گھسیٹ کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ حالانکہ میں برابر نہیں نہیں کرتا رہا۔ مگر اس نے ایک نہ سنی اور بڑی دیر تک باوجود میرے مسلسل اور بار بار کے اعتراض کے اسی طرح میرے پیر بڑی محنت اور ہمدردی سے دباتی رہی، حتی کہ مجھے نیند آ گئی۔

اس کے بعد اس کا روز کا دستورہو گیا کہ میرے ہر طرح سے منع کرنے پر بھی وہ میرے ہاتھ اور سر برابر دابا کرتی۔ اور میں دل میں یہی سوچتا تھا کہ پانچ سو روپے اس کی محنت کا صلہ کم ہوں گے ، لہذا اپنی سونے کی گھڑی بھی دوں گا۔

 

                (۴)

 

اس بیماری سے مجھے یہ پتا چلا کہ گھر پر علاج کرانے اور اسپتال میں رہ کر علاج کرانے میں کیا فرق ہے۔ وقت پر دوا اور وقت پر نپی تلی غذا نہ زائد نہ کم اور پھر وقت مقررہ پر علاوہ اس کے سخت بیماری کی حالت میں بھی روزانہ وقت مقررہ پر غسل اور پھر صفائی، یہ چیزیں ایسی تھیں کہ دوا بھی ان کے آگے کوئی چیز نہیں۔ پھر اس پر تیمار داری۔ غرض بخار جاتا رہا اور محض کمزوری رہ گئی۔ اس حالت میں اگر وقت مقررہ پر پاخانہ نہ آنا تو فورا اس کی تدبیر ہوتی، سن میں چار مرتبہ چڑیا کی سی غذا ملتی تھی او ر ہر وقت بھول لگی رہتی تھی۔ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ بھوک سے آدمی تندرست ہو سکتا ہے ، مگر مر نہیں سکتا۔ یہ کہتے تھے اور ستم یہ کہ اس پر عمل کراتے تھے۔ میری اسی طرح میری خدمت کر رہی تھی۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ میری اب میرے ہاتھ کی انگلیاں داب رہی تھی کہ اتنے میں اسٹاف نرس آ گئی۔ میری اٹھنے لگی تو اس نے اشارہ سے منع کیا کہ بیٹھی رہو، بڑے اخلاق سے اس نے میرا حال پوچھا اور پھر مذاق کی باتیں ادھر ادھر کی کرتی جا رہی تھی۔ ہوتے ہوتے میں نے میری کی ہمدردی اور تیمار داری کا قصہ چھیڑ دیا۔ اسٹاف اسی طرح ہنس ہنس کے باتیں کرتی جاتی تھی کہ بولی۔ "میری! مریض بھی تمہارا کہیں ویسا ہی نہ نکلے۔” میری نے اسٹاف کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھا۔ پھر نظر الگ کر لی۔ اور کچھ نہ بولی لیکن کچھ بے چین سی ضرور معلوم ہوئی کہ اسٹاف نے پھر کہا کہ "میری!کیوں!بولتی کیوں نہیں۔ کہیں یہ مریض بھی ویسا ہی نہ نکلے ،”

میں نے کہا۔”کیسا؟”

اسٹاف میری کی طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھی اور اس نے مجھ سے اشارہ کر کے کہا۔

"میری سے پوچھو۔ میری سے پوچھو۔”

"کیوں سسٹر کیسا مریض۔ اس سے مطلب کیا ہے ؟” میں نے میری سے دریافت کیا۔

اسٹاف نے گلاس کو الگ رکھتے ہوئے قہقہہ لگایا۔ "شرما گئی، میری شرما گئی۔ یہ مریض ویسا نہیں ہے ، میری ہر مریض کی بڑی خدمت کرتی ہے اور انہیں بھولتی بھی نہیں ہے۔ بلکہ ان کو خطوں۔۔۔۔”

میری نے کہا۔ "خدا کے لیے اسٹاف صاحبہ رہنے دیجیے۔ آپ کیوں مجھے۔۔۔۔”

"اچھا جاتی ہوں۔ میں جاتی ہوں،” اسٹاف نے کہا۔ وہ کھڑی ہوئی اور میری کے گال پر محبت میں ہلکے سے دو انگلیوں سے طمانچہ مار کر کہا۔ "بے وقوف لڑکی۔” یہ کہہ کر اسٹاف چلی گئی۔

میری نے جاتی ہوئی اسٹاف کو دیکھا۔ پھر دوسری طرف منہ کر لیا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے آخر اور مریض کیسے تھے ، تاکہ میں اندازہ لگا سکوں کہ میں خود کیسا ہوں۔ میں نے میری سے کہا۔”سسٹر،سسٹر۔” اس نے جھٹ سے رومال سے منہ پوچھتے ہوئے کہا:

"کہیے !کیا ہے ؟” میں نے اسغریب کو غور دے دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس نے کچھ آنسو پونچھ ڈالے اور بقیہ ضبط کر لیے۔ مجھے اپنے ہمدرد کو اس طرح غمناک دیکھ کر بہت صدمہ ہوا۔ میں نے متاثر ہو کر کہا۔ "سسٹر یہاں آؤ تم کچھ رنجیدہ معلوم ہوتی ہو۔”وہ کچھ نہ بولی اور اسہ طرح گردن نیچی کیے بیٹھی رہی کہ میں نے پھر کہا۔”سسٹر یہاں بیٹھو۔” وہ آ کرکرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ بے حد مغموم معلوم ہوتی تھی۔ میں اس کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا "کیا بات تھی۔ اسٹاف کیا کہہ رہی تھی؟”

"کچھ نہیں وہ مذاق کرتی رہتی ہیں۔” میری نے کہا۔

میں نے اس کا ہاتھ دبا کر کہا۔ "شاید یہ مذاق نہیں تھا۔ یہ تو کچھ اور تھا آخر میرا ذکر کیوں آیا۔ میں ویسا نہیں ہوں جیسے تمہارے پہلے مریض تھے۔ اس سے کیا مطلب؟ وہ کیسے تھے اور کون تھے۔”

"آپ رہنے دیجیئے۔” ایک ٹھنڈی سانس بھر کر میری نے کہا۔ "میں فلک کی ستائی ہوئی ہوں، نہیں آپ ویسے ہر گز نہیں ہیں، آپ بہت شریف اور اچھے آدمی ہیں۔”

"وہ کیسے تھے ؟” میں نے پوچھا،

"بے ایمان اور دغا باز تھے۔” میری نے کچھ رک کر کہا،

"کیا بے ایمانی کی؟”

"نہیں کچھ بے ایمانی نہیں کی۔ ان کی کچھ خطا نہیں۔ میری قسمت ہی ایسی ہے۔” میری نے درد بھری آواز میں کہا۔

میں اس غریب کی شکل دیکھ رہا تھا، وہ رنج و غم کی تصویر ہو رہی تھی۔ میں نے متعجب ہو کر کہا۔”آخر معاملہ کیا ہے ؟شاید۔۔۔ شاید انہوں نے آپ سے وعدہ خلافی۔۔۔۔”

"اور پھر مجھ سے معافی مانگ کر شکریہ ادا کر کے چلے گئے۔” میری نے کہا۔

"سسٹر تم میری ہمدرد ہو اور میں تم سے ہمدردی کروں گا کیونکہ دراصل تم نے ہی میری جان بچائی ہے ، میرا خیال ہے تم بتا دو گی۔ کیا سب نے ہی ایسا کیا؟”

"جی ہاں تین آدمیوں نے۔”

"آخر کیوں؟”

"اس لیے کہ میں بدصورت ہوں اور کالی ہوں اور غریب ہوں اور آگے پیچھے میرے اس دنیا میں کوئی نہیں۔ جو مجھ سے ہمدردی یا اخلاص سے پیش آئے۔”

"تم بدصورت ہر گز نہیں ہو اور نہ کالی ہو۔” میں نے اخلاقاً کہا "سسٹر یہ تم سے کس نے کہا۔ تم تو بہت اچھی لڑکی ہو۔”

مہرے ہاتھ کی انگلیاں اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ اپنا اور میرا ہاتھ اسی طرح میرے سینہ پر رکھ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ کیا مطلب ہے۔ لیکن پھر میں نے کہا "سسٹر تم سے کس نے کہا کہ تم بدصورت ہو۔”

اس نے پھر کوئی جواب نہ دیا۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ نظر نیچی کئے مغموم سی بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی انگلیاں میری انگلیوں سے نکالتے ہوئے کہا”مجھے جانے دیجئے۔” اور یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے جھٹ سے ہاتھ پکڑ کے پھر اسی طرح انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں اور کہا "نہیں تم بیٹھو۔” اس نے میری طرف سے پیٹھ موڑ لی اور بایاں ہاتھ اپنے منہ پر لے گئی۔ "ارے یہ کیا۔۔ یہ کیا! سسٹر تم کیوں مغموم ہو۔ یہ کیوں؟” یہ کہہ کر میں نے اس کو اپنے برابر پلنگ پر بٹھا لیا اور وہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھی۔ میں نے جلدی سے اس کا ہاتھ منہ پر سے ہٹانے کی کوشش کی اور ہمدردی سے کہا۔ "تم کیوں رنج کرتی ہو۔ تمہیں کیا تکلیف ہے ؟” اس نے رومال سے منہ پونچھتے ہوئے کہا:

"میرا دل کٹا جا رہا ہے۔ خدا کے واسطے مجھے اس وقت چلا جانے دیجئے۔” یہ کہہ کر وہ جانے لگی۔ میں نے بھی مناسب نہ سمجھا کہ اس کو روکوں۔ وہ سیدھی اپنے کوارٹر کی طرف چلی گئی۔

میں اب دل ہی دل میں اس غریب لڑکی کی حالت پر غور کر رہا تھا۔ اس کا دنیا میں کوئی نہ تھا۔ جن کے ساتھ اس نے ہمدردی کی تھی انہوں نے خواہ مخواہ اس کو دھوکہ دے کر اس کا دل توڑ دیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی میں دنیا میں سب سے بدصورت لڑکی ہوں اور مجھ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کس طرح اس نے میری خدمت کی تھی۔ میں نے غور کیا کہ کس طرح دن اور رات اس نے میرا پیشاب اور پاخانہ اٹھایا اور کس طرح لونڈیوں کی طرح میری خدمت کی۔ یہ سب اس کی سرگزشت میں داخل ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ بھی ایسا برتاؤ کر چکی تھی جس کا اس کو کیا کچھ صلہ مل چکا تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ نرسوں کی وارڈ کی خادمہ آئی اور نے مجھے دو خط دئیے کہ یہ مس صاحبہ نے دئیے ہیں۔ میں نے خط لیتے ہوئے کہا۔ "وہ کیا کر رہی ہیں؟”

"وہ تو بڑی بری طرح رو رہی ہیں اور بستر میں منہ دئیے بیٹھی ہیں۔”

"کیوں رو رہی ہیں؟” میں نے پوچھا۔

اس نے ہنس کر کہا۔ ” آپ کو نہیں معلوم؟ وہ تو اکثر رویا کرتی ہیں۔ ان کی شادی دو تین جگہ لگ لگ کے چھوٹ گئی ہے اور ان کی ساتھ والیاں سب یہی کہہ کر ان کو چھیڑتی ہیں کہ اب تیری شادی کہیں نہ ہو گی اور تو کالی اور بد صورت ہے۔”

میں نے کہا”مذاق میں کہتی ہوں گی۔”

"جی ہاں! مگر ان کو خواہ مخواہ دق کرنے سے انہیں سب باتیں یاد آ جاتی ہیں کہ کس طرح انہیں کئی دفعہ دھوکا ہوا۔” اور یہ کہہ کر اس نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کس طرح ایک مریض آیا اور اس کی انہوں نے خدمت کی اور کس طرح خود ہی اس نے ان سے شادی کی درخواست کی اور پھر کس طرح ان کی ایک دوسری نرس دوست سے اس نے ان کو چھوڑ کر شادی کر لی۔ ایک اور شخص آیا جس کو انہوں نے مصیبت کے وقت روپیہ پیسہ بھی دیا۔ اور پھر اس نے بھی چھوڑ دیا اور پھر ایک اور آیا جو عرصے تک خط و کتابت کرتا رہا اور پھر اس نے بھی وعدہ خلافی کی۔

وہ یہ بیان کر کے چلی گئی۔ میں خط پڑھنے لگا۔ ایک تو بہن کا تھا جس میں یہ سبب لکھا تھا کہ کس طرح والد صاحب خفا ہیں کہ پہلے تو یہ بہانہ کیا کہ بٹوا کھو گیا اور پھر یہ بہانہ کیا کہ بیمار ہو گیا۔ یہ خط میری بیماری کے زمانے میں آئے تھے اور ڈاکٹر صاحب کے حکم سے کھول کر پڑھ لئے گئے تھے۔ لیکن مجھے اب ملے تھے۔کیونکہ بیماری کے زمانے میں خط مریض کو نہیں دیتے میں نے دل میں کہا کہ نہ بھیجیں خرچ ،میں بھی اب کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے گھر نہ جاؤں گا، تھوڑی دیر پانی حالت پر غور کرتا رہا اور پھر میری کی حالت پر غور کرتا رہا۔ پھر سو گیا۔

 

                (۵)

 

میں سو کر اٹھا ہی تھا کہ میری پہنچی۔ اس کے چہرے سے بشاشت ٹپک رہی تھی۔ اس نے آتے ہی مزاج پوچھا اور میرا منہ دھلانے کے لیے جگ اور صابون اٹھایا۔ میں منع کرتا رہا مگر وہ نہ مانی۔ میں نے ہاتھ منہ دھویا۔ پھر باتیں کرنے لگا۔ وہ اس وقت بہت خوش تھی۔ کرسی گھسیٹ کر بالکل میرے پلنگ کے قریب بیٹھ گئی اور میری انگلیاں چٹخا کر باتیں کر رہی تھی۔ کہنے لگی "تم اب کل پرسوں تک کسی پہاڑ پر جانے کا انتظام کر لو۔”

میں نے کہا”تم سب قصہ سن چکی ہو۔ میرے پاس روپیہ ہی نہیں ہے۔ زنجیر کے روپوں میں سے ساٹھ روپیہ تم نے کہا تھا اور رہ گئے ہیں۔”

"مگر تمہاری تندرستی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔” میری نے کہا۔

"مگر مجبوری ہے بلکہ میں سوچ رہا ہوں کہ گھر تو جاؤں گا نہیں۔ آخر کہاں جاؤں اور کیوں کر خرچ چلے گا۔”

میری نے کہا۔”تم ضرور پہاڑ جاؤ، روپیہ مجھے سے لے لینا۔ پھر جب ہو تو دے دینا۔”

میں نے متحیر ہو کر شکریہ کے لہجہ میں کہا۔ "سسٹر تم کیسی باتیں کرتی ہو! تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟”

"کیوں؟” میری نے کہا۔”تم پھر واپس کر دینا۔”

"معلوم ہوتا ہے تم بڑی روپے والی ہو۔” میں نے ہنس کر کہا۔

"میرے پاس تیرہ سو روپیہ ہے ،” میری نے بھی مسکرا کر کہا۔

میں نے کہا کہ "میں روپیہ لے کر غائب ہو جاؤں تو کیا کرو گی؟”

"کچھ پروا نہیں۔” میری نے کہا۔ "تم سے بدتر لوگ لے کر چلے گئے۔ نہیں تم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ تم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔”

"کیوں؟” میں نے پوچھا،” تم کو کیا خبر میں کیسا ہوں؟”

"میرا دل گواہی دیتا ہے۔” میری نے کہا، "تم ضرور مجھ سے روپیہ لو۔ تمہاری تندرستی کے لیے از حد ضروری ہے۔”

میں اس غریب کی طرف غور سے دیکھنے لگا اور مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ کہہ رہی ہے۔ واقعی دل سے کہہ رہی ہے۔ وہ پھر بولی۔ "بولو کیا ہرج ہے ؟ میں نے تمہاری تیمار داری کی ہے کہ بس میں ہی جانتی ہوں اور تم بالکل تندرست نہ ہوئے تو میری محنت ادھوری رہ جائے گی تم کو لینا پڑے گا۔”

"ایک شرط پر۔” میں نے میری سے کہا۔

"وہ کیا؟” اس نے مسکر ا کر کہا۔

"وہ یہ کہ تم کو دوگنا واپس لینا پڑے گا۔” میں نے کہا،

"مجھے منظور ہے۔ اب بولو؟”

"مجھے بھی منظور ہے۔ مگر یاد رکھنا میں مذاق نہیں کرتا۔”

"میں نے پانچ سو روپیہ ڈاک خانہ سے کل ہی نکلوا کر رکھ لیا ہے۔ لے آؤں۔ یہ کہہ کر وہ دوڑتی ہوئی گئی اور میں اس کو روکتا ہی رہا، ذرا دیر بعد وہ آ گئی اور نوٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے۔ میری کی اس وقت عجیب حالت تھی مجھ کو اول تو سخت شرمندگی سی تھی اور پھر نہ معلوم کس سوچ میں تھا وہ اسی طرح بیٹھ گئی۔ میں نے سنجیدگی سے اس سے کہا "تم نے اس خوفناک مرض سے میری جان بچائی ہے۔” یہ کہہ کر میں نے شکریے کے طور پر اس کا ہاتھ دبایا اور دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور کہا "اور پھر اتنا روپیہ دے رہی ہو، میں قسم کھا کر کہتا ہوں اس کا دوگنا تم کو لینا پڑے گا۔”

"میں نے کہہ دیا نہ کہ میں لے لوں گی۔ بس اب جھگڑا کیا رہا۔”

میری نے مسکرا کر کہا۔ جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے اور لے لے گی۔

میں نے میری سے اس کا ہاتھ پکڑ کر غور سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ "میری! خفا تو نہیں ہو گی۔ ایک بات کہتا ہوں۔ وہ یہ کہ تم سے جو شادی کرے گا وہ بڑا خوش قسمت ہو گا۔”

"آپ اس کا ذکر نہ کیجیئے۔” میری نے ایک دم سنجیدہ ہو کر مغموم لہجہ میں کہا۔

"آخر کیوں میری؟” میں نے اس سے کہا۔ "آخر کیوں بتاؤ تو سہی۔”

میری نے پھر مغموم ہو کر کہا "آپ خود جانتے ہیں۔”

"بیوقوف لڑکی۔” میں نے کہا۔ "تم کیوں مغموم رہتی ہو؟ تم یہ سمجھتی ہو کہ کیا اب تم سے کوئی شادی نہ کرے گا؟”

"میں اس لئے ہرگز مغموم نہیں رہتی۔ آپ میرے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ میں تو یہ کہتی ہوں کہ میرا کوئی نہیں ہے جو میری خوشی اور غم کا شریک ہو۔” یہ کہنے میں اس کی آواز کچھ بیٹھ گئی، میرا دل پسیج گیا اور میں نے کہا "میری اگر دنیا میں تمہارا کوئی نہیں تو میں آج سے تمہارے لئے موجود ہوں۔ تم مجھے اپنا سمجھو۔ بولو مجھے اپنا سمجھو گی۔ تم آج سے میری ہو جاؤ۔”

وہ پھر کچھ نہ بولی۔ بلکہ میری طرف عجیب معصومیت سے دیکھنے لگی، اس کی نظریں کہتی تھیں کہ وہ دل میں کہہ رہی تھی کہ میں اس کو دفع الوقتی کے لئے خوش کر رہا ہوں۔ میں دل کی بات سمجھ گیا اور میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹ کر آہستہ سے اس کے کان کے پاس اپنا منہ کر کے کہا۔ "میری تم مجھ سے شادی کر لو تو میری قسمت بن جائے۔” وہ ایک دم سے چونک سی پڑی اور کہنے لگی۔

"نہیں نہیں، تم ضرورت سے زیادہ اچھے ہو۔ تم سے دوستی منقطع نہ کروں گی۔”

میں نے اور متاثر ہو کر کہا "تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ میری میں سچ کہتا ہوں۔ تم نے میری جان بچائی ہے اور ایسی خدمت کی ہے کہ مجھے زر خرید بنا لیا ہے۔ میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا اور کبھی دل میلا نہ ہونے دوں گا۔”

"نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔” میری نے کہا۔

"کیوں؟”

"تم مجھے چھوڑ دو گے۔”

"ہرگز نہیں بلکہ۔۔۔ ”

"تمہارے ماں باپ چھڑا دیں گے۔ نہیں نہیں میں ایسا یقین نہیں کرتی۔ تم میرا دل نہ دکھاؤ۔ بس میرے ہمدرد دوست رہو۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی۔”

میں پریشان سا ہو گیا اور بے تاب ہو کر میں نے اس کو اپنی طرف کر کے کہا۔ "کیوں مجھے دیوانہ کئے دیتی ہو۔ میں بغیر تمہارے زندہ نہیں رہ سکتا اور۔۔۔ ”

"خدا کے واسطے !” اس نے کھڑے ہو کر کہا۔ "میرے زخمی دل کو مت چھیڑو۔۔۔ اچھا تم پہلے خوب سوچ لو اور مجھے اس وقت جانے دو۔” یہ کہہ کر وہ۔۔۔ ہاتھ چھڑا کر سیدھی چلی گئی اور مجھ کو ایک عجیب حال میں چھوڑ گئی۔ میں واقعی اس کم رو لڑکی کے لئے اپنے دل میں ایک عجیب جگہ محسوس کر رہا تھا اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر اس نے انکار کر دیا تو میری زندگی تلخ ہو جائے گی۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ اسٹاف آئی اور اس نے مجھ سے کہا۔ "کیا معاملہ ہے ؟”

"کیوں؟ کیا ہوا۔” میں نے کہا۔

اسٹاف نے مسکرا کر دیکھا "میری رو رہی ہے اور کہتی ہے کہ میری قسمت خراب ہے۔”

"کیا ہوا، آخر کچھ تو کہئے۔”

اسٹاف نے مسکرا کر کہا۔ "وہ کہتی ہے کہ یہ مریض بھی ویسا ہی نکلا اور ویسی ہی باتیں کرتا ہے۔”

میں نے کچھ جھنجھلا کر کہا۔ "ان کا خیال غلط ہے۔”

اسٹاف نے کہا۔ "مسٹر آپ برا نہ مانئے گا، بہتر ہے کہ آپ اس قسم کی باتیں نہ کریں۔ کیا آپ واقعی اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا محض اس کو چھیڑ کر کھلونا بنا رہے ہیں۔”

میں نے کچھ برا مان کر کہا۔ "آپ میری محسنہ ہیں اور آپ مجاز ہیں کہ جو کچھ بھی سخت و سست الفاظ چاہیں مجھے کہہ لیں۔”

"تو پھر آپ کو چاہئے کہ شریف آدمی کا سا وعدہ کریں نہیں بلکہ کل ہی اس سے باضابطہ نکاح کر لیں ورنہ خوامخواہ اس کو۔۔۔۔”

"میں ابھی تیار ہوں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ کو یا ان کو خوامخواہ میری طرف سے شک ہوا۔”

اسٹاف نے کہا۔ "آپ بے انصافی کر رہے ہیں۔ میرا یا اس کا شبہ حق بجانب ہے۔ دراصل وہ ایک بہت غریب لڑکی ہے۔ جس کے پاس خوبصورت نہیں۔ لہٰذا جب آپ کا سا شخص اس سے کہے تو ضرور وہ یہی سمجھے گی کہ خوامخواہ کا اس سے مذاق کر رہے ہیں۔ وہ بھگتے ہوئے ہے اور اس کو تجربہ ہے۔”

"ٹھیک، ٹھیک، ان کا شبہ حق بجانب ہے۔ مگر میں آپ سے بالکل صحیح عرض کرتا ہوں کہ مجھے خوبصورتی یا حسن قطعی درکار نہیں۔ مجھے وہ بے حد پسند ہے۔”

"میں ابھی جا کر بھیجتی ہوں۔” یہ کہتی ہوئی وہ چلی گئی۔

 

                (۶)

 

"میری! یہاں آؤ۔” میں نے اسے دروازے پر دیکھ کر کہا، وہ آئی اور میں نے اس کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ "میں تمہیں بھلا دھوکہ دوں گا بولو کیا میں تمہیں دھوکا دوں گا۔” میں نے با اصرار پوچھا۔

"نہیں۔” اس نے آہستہ سے کہا۔

"پھر مجھ سے شادی کرنے میں تمہیں کیوں انکار ہے۔” میں نے پوچھا۔

"اس لئے کہ میں غریب ہوں۔ آپ امیر ہیں۔ میں کالی ہوں۔ بدصورت ہوں اور آپ کو خدا نے روپیہ پیسہ شکل اور صورت۔۔۔ ” میں نے اس کا منہ اپنے ہاتھ سے بند کر دیا اور کہا "خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کرو، میں تم کو اپنی آنکھوں پر رکھوں گا، کبھی تم کو رنج نہ پہنچاؤں گا اور ہمیشہ تمہاری خدمت کروں گا۔” وہ رو رہی تھی، میں نے اس کو گلے سے لگا لیا اور ہزاروں قسمیں کھا کھا کر اس کو خوشامد سے خاموش کر کے راضی کیا۔

 

                (۷)

 

میری سے شادی کرنے کے بعد میں کوہ آبو گیا۔ وہ بھی ساتھ تھی۔ قسمت کی خوبی دو مہینے کے اندر ہی اندر ریلوے انجینئرنگ محکمہ میں مجھ کو ملازمت مل گئی۔

گھر بھی جانا ہو گیا اور والدہ صاحبہ اور والد صاحب سے بھی ملنا ہو گیا، مگر ایک مصیبت درپیش ہے۔ دنیا کے زور پڑ چکے اور پڑ رہے ہیں کہ میری کو چھوڑ دو۔ والدہ صاحبہ سے بات چیت ہو کر خاتمہ رسید ہوا کہ "مجھے دوزخ میں جانا منظور ہے اور آپ کے سب احکام منظور ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میری چھوٹ جائے۔”والدہ صاحبہ خفا ہیں اور کہہ چکی ہیں کہ تیرا منہ اس وقت تک نہ دیکھوں گی جب تک اس عیسائی لڑکی کو چھوڑ کر دوسری جگہ شادی نہ کرے گا۔ جہاں وہ طے کر چکی ہیں۔

یہ سب کچھ ہے مگر میرا خیال ہے کہ اگر میری سی بیوی مجھ کو نہ ملتی تو زندگی ہیچ ہوتی۔ جو خدا کو اپنے بندوں کی عبادت سے لطف آتا ہو گا وہ مجھے کو اپنی بیوی کی خدمت اور محبت سے حاصل ہے۔ اگر کسی کو دیکھنا ہو کہ خدائے مجازی کون ہے تو وہ مجھے اور پھر میرے پرستار کو دیکھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

قصاص

 

بازار سے سودا لے کر گھر چلا تو نہ معلوم کیوں دل دھڑک رہا تھا۔ گلی کے موڑ پر پہنچا تو منہ میں پان کڑوا ہو گیا۔ تیزی سے گھر کے قریب جو آیا تو گھر میں سے شیون کی آواز آئی، کلیجہ منہ کو آ گیا۔ ہانپتا کانپتا گھر میں گھسا۔ ایک طرف بھاوج کو زمین پر پچھاڑیں کھاتے دیکھا، دوسری طرف بڑھیا ماں غش کھائے زمین پر پڑی تھیں۔ چھوٹا بھائی چارپائی پر پڑا تھا۔ اس کے گلے سے جوانی کا خون ایسے بہہ رہا تھا جیسے پرنالہ۔ تمام چارپائی خون سے تر بتر تھی۔ سرخ و سفید چہرہ مٹی کی طرح پیلا ہو رہا تھا۔ میں نے ہائے کا نعرہ مارا اور گرتے گرتے بچا۔ بھائی نے آنکھیں کھولیں مردہ آواز سے کہا "بھیا” اور ہاتھ اٹھا دیئے۔ میں بچہ کی طرح چھوٹے بھائی پر گر کر چپٹ گیا، اور اس نے کمزور ہاتھوں سے مجھے چپٹانے کی کوشش کی "تجھے کس نے قتل کیا ہے ؟” میں نے بیتاب ہو کر اس کے خون آلود چہرے پر اپنا منہ ملتے ہوئے کہا "تجھے کس نے قتل کیا ہے ” خشک زبان ہونٹوں پر پھیر کر اس نے کہا "عبدالجبار۔۔۔ ” اس کی بیوہ ہاں بیوہ ہی تھی، کیونکہ وہ مرنے والا تھا، اس کے خشک ہونٹوں کو پانی سے تر کر رہی تھی۔

چشم زدن میں نزع کا عالم تھا۔ جوان کڑیل میرے سامنے دم توڑ رہا تھا۔ "تیری جوان موت کا میں بدلہ لوں گا۔” سینہ پیٹ کر میں نے کہا "تیرے قاتل کو میں ماروں گا۔” بھائی کے چہرے پر گویا مسکراہٹ سی آئی۔ اس نے ایک نظر اپنی بیوی کی طرف ڈالی، ہاتھ اٹھانا چاہا تو روح پرواز کر گئی۔ ادھر میں پچھاڑ کھا کر گرا۔

 

                (۱)

 

جوان بھائی کی موت اور بھائی بھی کیسا جیسے شیر کا بچہ اور یوں ظالم کی تلوار کا شکار ہو جائے۔ میرے لئے دنیا اندھیر ہو گئی۔ عبدالجبار کا نام تو میں نے سنا تھا مگر دیکھا نہ تھا۔ کم بخت چور اور کمینہ تھا۔ پیشہ ور بدمعاش تھا، کسی دشمن نے سو پچاس دے کر قتل کروا دیا یا پھر اس نے بدلہ لیا، کیونکہ بھائی نے اس کو اسی ہفتے بدزبانی کی پاداش میں خوب مارا تھا۔ دروازے پر آیا آواز دے کر مقتول کو بلایا۔ بات چیت کی، دو چار ساتھی بھی تھے۔ پان لینے کے لئے مرحوم نے جو پیٹھ پھیری تو تلوار کا شہ رگ پر ایسا ظالم نے ہاتھ دیا کہ آدھی گردن تک تلوار در آئی۔ بمشکل ہاتھ سے اپنی گردن سنبھال کر غریب چارپائی پر آ پڑا اور حال زار سنایا۔

بھاوج اور ماں کا جو حال تھا مجھ سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ قاتل ریاست سے بھاگ چکا تھا۔ ماں نے کھانا چھوڑ دیا اور بھاوج نے بھی چھوڑ دیا۔ میں نے دونوں سے کہا کہ تم کھاؤ میں بھائی کے خون کا بدلہ لوں گا۔ ماں نے کہا بیٹا اگر تو بھائی کے خون کا بدلہ لینے میں مارا بھی جائے تو بھی میرا دل ٹھنڈا ہو جائے گا، میں نے کہا اماں میں بغیر بدلہ لئے نہ مانوں گا، تم اطمینان رکھو۔

جبار ایسا غائب ہوا کہ اس کا پتہ نہ چلا۔ ریاست کی طرف سے سرکار مرحوم نواب کلب علی خاں بہادر نے گورنمنٹ میں لکھا اور ملزم کا حلیہ جاری کرا دیا گیا۔ ماں کا غم بالکل تازہ تھا اور وہ تڑپتی تھیں اور یہی کہتی تھیں کہ بیٹا تو اپنے بھائی کے خون کا بدلہ کب لے گا۔ غرض سارے گھر کی زندگی جوش انتقام کی وجہ سے تلخ تھی۔ جب سال بھر گذر گیا تو میں نے اماں سے رخصت طلب کی کہ میں قاتل کو خود ڈھونڈنے جاؤں گا۔ اماں نے دعائیں دے کر رخصت کیا۔ میں رامپور سے سیدھا بریلی پہنچا۔ میں نے کپتان صاحب سے کہا کہ میں پولیس کی نوکری کرنا چاہتا ہوں اس لئے کہ بھائی کے قاتل کا سراغ لگاؤں۔ میری طرف تعجب سے کپتان صاحب نے دیکھا۔ میں نے ماں اور بھاوج کا حال سنایا کہ ماں اور بھاوج نے قسم کھا لی ہے کہ کبھی خوش نہ ہوں گی جب تک قاتل سزا کو نہ پہنچے گا۔ دنیا کے عیش حرام ہیں۔ گھر کے گذر کا کوئی سہارا نہیں، سوا اس کے کہ اندوختہ بیچ بیچ کر جو کی روٹی اور چٹنی کھائیں۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس نے میری باتیں دلچسپی سے نیں اور مجھ کو خفیہ کام سپرد کرنے کا وعدہ کیا اور دس روپیہ ماہوار اور خرچہ پولیس سے دلوانے کا اقرار کیا۔

 

                (۲)

 

سال بھر کے عرصے میں میں نے خفیہ پولیس میں نام پیدا کر لیا۔ تین قاتلوں کا سراغ لگایا۔ خونی ملزم کے پیچھے میں اس طرح ہاتھ دھو کر پڑتا کہ جیسے میرے بھائی کا قاتل یہی ہے۔ ان میں سے ایک قاتل کو تو پکڑنے میں میں نے بائیں بازو میں گولی کھائی لیکن میں نے موذی کو جانے نہ دیا۔ پولیس سے مجھے پانچ سو روپیہ انعام ملا۔ دراصل مجھ کو جگہ جگہ بھیجا جاتا تھا اور جس جگہ میں جاتا اپنے بھائی کے قاتل کا حلیہ جیب میں رکھتا۔ مجھے اس کا حلیہ یاد تھا بلکہ حفظ تھا، کیونکہ بلا مبالغہ میں ہر شخص کو اسی نیت سے دیکھتا تھا کہ کہیں میرے بھائی کا قاتل تو نہیں ہے ، قاتل کے حلیہ میں لکھا تھا کہ اس کی بائیں طرف کنپٹی کے قریب ماتھے پر ابرو کے بالکل ہی پاس ایک چاندنی کی چونی کے برابر بالوں کا زائد گچھا ہے جو گھنا ہوا مثل ابرو کے ہے اور میری سراغ رسانی کا دارومدار گویا اسی پر تھا کیونکہ میں نے شکل تو دیکھی نہ تھی۔

سال بھر اور گذر گیا لیکن قاتل کا پتہ نہ لگنا تھا نہ لگا۔ جب گھر پر آتا تو بھائی کے خونی کپڑے ماں میرے سامنے ڈال دیتیں اور کہتیں کہ "کم بخت تو کیا کر رہا ہے ، دیکھ تو بھائی کا خون قصاص طلب کر رہا ہے اور خون کی سرخی ماند ہونے کی بجائے روز بروز تیز ہوتی جا رہی ہے۔” میں بھلا کیا کہتا۔ یہی کہتا تھا کہ اگر زندہ ہوں تو قاتل کو پکڑوں گا۔ اماں نے قسم کھا لی کہ دنیا کی کوئی چیز نہ کھاؤں گی سوا جو کی روٹی اور چٹنی کے اور بھاوج کی بھی یہی قسم تھی۔ لہٰذا میری جو بھی سنتا کہ میں اسی وجہ سے دنیا چھوڑے بیٹھا ہوں وہ تعجب نہ کرتا۔

 

                (۳)

 

ایک ملزم کی تلاش میں مجھے سارا پنجاب اور راجپوتانہ گھومنا پڑا اور پھر اپنے صوبہ کے بھی تمام ضلعوں کا گشت کیا مگر سب بیکار۔ اٹاوہ کاسٹیشن آیا تو مجھے خیال ہوا کہ اس چھوٹی سی جگہ کو بھی دیکھ ہی لوں۔ رات کو میں وہیں مقیم ہوا اور صبح اٹھ کر بازار اور محلوں کا گشت لگایا۔ گرمی کا زمانہ تھا کوئی دس گیارہ بجے تک گشت لگانے سے شل ہو گیا۔ شہر کی اس بڑی سڑک پر جا رہا تھا جو سیدھی اسٹیشن سے آتی ہے۔ ایک پیپل کا درخت تھا، قریب ہی پوجا پاٹ کا سامان رکھا تھا۔ مگر یہاں ٹھنڈک تھی اور میں بیٹھ گیا کہ ذرا سستا لوں۔ چبوترے پر اکڑوں بیٹھا ہوا گھٹنوں پر ہاتھ رکھے منہ چھپائے آنکھیں بند کئے نہ معلوم کیا سوچ رہا تھا کہ اونگھ گیا اور خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ بھائی کہہ رہا ہے کہ "بھیا تم نے وعدہ کیا تھا کہ میرے خون کا بدلہ لو گے ، اطمینان سے پڑے سو رہے ہو۔” میں نے چاہا کہ بھائی سے دوڑ کر چپٹ جاؤں کہ جاگ پڑا اور گرتے گرتے بچا۔ میں دامن جھاڑ کر کر اٹھ کھڑا ہوا۔ بھائی کی شکل دیکھ کر بیتاب ہو گیا تھا۔ بے اختیار دو آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے ٹھنڈی سانس کھینچی اور رومال سے آنسو پونچھے اپنے راستے پر چل دیا۔ مشکل سے دس بیس ہی قدم گیا ہوں گا کہ سامنے سے ایک یکہ لڑکھڑاتا چلا آ رہا تھا۔ اس پر تین آدمی علاوہ یکہ بان کے بیٹھے ہوئے تھے۔ یکہ قریب جو آیا تو دیکھتا ہوں کہ یکہ بان کی ابرو پر بالکل ویسا ہی بالوں کا گچھا ہے جیسا کہ میرے بھائی کے قاتل کے حلیہ میں درج تھا۔ میں چونک پڑا مگر فوراً ہی مایوس ہو گیا کیونکہ یہ تو ہندو تھا۔ جس کی بڑی سی چوٹی تھی وہ دھوتی باندھے ہوئے تھا۔ یکہ نکل کر مشکل سے دس قدم گیا ہو گا کہ میں نے زور سے پکارا "جبار۔” یکہ بان نے مڑ کر فوراً دیکھا۔ رامپور والے کی صورت شکل نہیں چھپتی اور پھر جبار تو مجھے پہچانتا ہی ہو گا۔ فوراً ادھر وہ یکے سے کود کر بھاگا اور ادھر میں اس کے پیچھے ڈانٹ کر لپکا۔ لینا! پکڑنا! خونی! قاتل! میری زبان سے نکل رہا تھا اور میں گلیوں میں اس کے پیچھے چلا۔ ا س کے ہاتھ میں چمکتا ہوا چاقو تھا اور لوگ راستہ چھوڑ کر الگ ہو جاتے اور کوئی ہمت نہ کرتا۔ کچھ فاصلے پر جا کر میں نے اس کو جالیا اور للکار کر میں نے کہا کہ خبردار جاتا کہاں ہے۔ لوٹ کر فوراً اس نے میرے سینہ پر چاقو کا وار کیا۔ میں نے بائیں ہاتھ سے روکا۔ چاقو میری ہتھیلی کاٹتا نکل گیا مگر میں نے نہ چھوڑا۔ دوسرے ہاتھ سے ایک مکا اس کے منہ پر دیا اور چشم زدن میں اس کا چاقو چھین کر اس کو دے مارا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں اور میں نے اس کا گلا گھونٹنا شروع کیا اور عجب نہیں کہ وہیں اس کو مار ڈالتا اگر کہیں پولیس والا نہ آ جاتا۔ اس کو پولیس والا بھی جانتا تھا اور طرفداری کرنے لگا۔ مگر میں نے اس کو نہ چھوڑا اور کہا کہ اسے کوتوالی لے چلو۔ جبار سے میں نے کہا کہ تو نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے۔ اب تجھے ڈونگر پور کے دروازے پر ذبح کروں گا۔

کوتوالی پہنچ کر میں نے اس کو پولیس کے سپرد کرایا اور اس کا حلیہ وغیرہ دکھایا اور خود کو بتایا کہ کون ہوں۔ جبار گویا مردہ سا ہو گیا تھا۔ اپنے ساتھ لے جا کر میں نے اس کو جیلر کے سپرد کرایا اور اس کی رسید لے کر سیدھا گھر پہنچا۔ اماں سے مارے خوشی کے لپٹ گیا اور ان کو حال سنایا۔ مارے خوشی کے اماں اور بھاوج کی باچھیں کھل گئیں۔

 

                (۴)

 

رامپور پولیس کی حراست میں جبار آیا۔ مقدمہ قاضی صاحب کی عدالت کے سامنے پیش ہوا۔ وہاں سے فیصلہ میرے حق میں ہوا۔ یعنی یہ کہ میرا جی چاہے اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں اور جی چاہے روپیہ لے کر چھوڑ دوں۔ میں خوشی خوشی گھر آیا اور فیصلہ سنایا۔ آبدیدہ ہو کر اماں نے گلے سے لگایا اور کہا کہ میرے سامنے جبار کو قتل کر کے میری آنکھیں روشن کرنا۔ روپیہ لے کر اس موذی کو چھوڑ دینے کا تو سوال ہی نہ تھا۔

مجھے گھر پہنچے زیادہ دیر نہ گذری تھی۔ عزیز و اقارب مبارکباد دے رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا۔ مجھ سے تنہائی میں کچھ جبار کے بارے میں کہنا چاہتا تھا۔ میں اسے بات چیت کرنے کے لئے علیحدہ ایک جگہ لے آیا۔ اس نے اپنا نام وغیرہ بتا کر کہا کہ میں فلاں رئیس کے پاس سے آیا ہوں۔ اس نے کہا کہ روپیہ لے کر جبار کو چھوڑ دو۔ میں نے حقارت آمیز لہجے میں ٹکا سا جواب دیا۔ اس نے ایک ہزار سے بولی شروع کی اور دس ہزار پر جا کر ختم کی۔ دراصل اس رئیس نے جبار کی ماں کا دودھ پیا تھا۔ میں ہر لالچ ٹھکرا دیا اور وہ اپنا سا منہ لے کر چلا گیا۔

شام تک قاصدوں کا تانتا بندھا رہا اور روپے کے علاوہ اب دھمکی بھی دی جانے لگی کہ اگر تم نہ مانے تو خود تمہاری جان کی خیر نہیں۔ رات گئے تک گفت و شنید کرنے کے بعد مجھ کو اپنی جان کا پورا خطرہ ہو گیا کہ ضروری جاتی رہے گی، اس لئے کہ جبار کے بھائی نے قسم کھائی کہ اگر تم نے روپیہ لے کر نہ چھوڑا تو میں تمہیں مار ڈالوں گا۔ ان سب باتوں کا میرے پاس بس ایک ہی جواب تھا اور وہ یہ کہ میں دم توڑتے بھائی سے وعدہ کر چکا ہوں اور پھر ماں سے وعدہ الگ ہے۔ اس کے بعد اما ں کو راضی کرنے کے لئے عورتیں آئیں۔ دس ہزار اور ایک گاؤں ورنہ میری جان کی خیر نہیں، یہ شرائط میرے اور میری ماں کے سامنے پیش کی گئیں۔ مگر سب بے سود۔ "چاہے میری جان رہے چاہے جائے میں نہ مانوں گا۔” یہ تو میرا جواب تھا۔ "ساری دنیا کی دولت میرے آگے رکھ دو مگر میرا دل ٹھنڈا نہ ہو گا۔ جب تک اپنے بیٹے کے قاتل کی لاش نہ دیکھ لوں۔” یہ جواب میری ماں کا تھا۔

 

                (۵)

 

صبح تڑکے میں اٹھا۔آج گھر میں خوشی تھی۔ پالکی کو میں نے رات ہی کو کہہ دیا تھا۔ صبح کہار آ گئے اور فوج کے سپاہی بھی تھے۔ ماں اور بھاوج کو میں نے پالکی میں سوار کرایا۔ خود ساتھ ہو لیا۔ میری تلوار میرے پاس تھی جس کو میں نے خوب اچھی طرح تیز کرایا تھا۔ اندیشہ تھا کہ مقتل میں پہنچنے سے پہلے ہی کہیں جبار کے بھائی بند یا اس کے دودھ شریک بھائی رئیس کے آدمی میرا خاتمہ نہ کر دیں، اس لئے میرے ساتھ سپاہی تھے۔ پالکی کے ساتھ میں ڈونگر پور دروازہ یعنی مقتل میں پہنچا۔ یہاں فوج کی کمپنی کا انتظام تھا۔ میرے بھائی کا قاتل میرے سپرد کر دیا گیا۔ چاروں طرف ہزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ ہر چہار طرف سے آواز کر رہی تھی "معاف کر دو۔” "معاف کر دو۔” جبار کی مشکیں کسی ہوئی تھیں۔ میں نے اس کی گردن پکڑ کر کہا۔ "چل بیچ میں آ۔” وہ رو رہا تھا۔ "بھیا معاف کر دو۔ خدا کے و اسطے رحم کرو۔ معاف کر دو۔ معاف کر دو۔” یہ کہہ کر وہ لیٹ گیا۔ مگر میرے دل میں رحم کہاں! میں نے اور سپاہیوں نے اس کو کھینچا اور بیچ مقتل میں گھیسٹ کر میں اس کو لے آیا۔ پالکی میرے سامنے کچھ فاصلہ پر رکھی تھی جس میں سے ماں اور بھاوج یہ سب دیکھ رہی تھیں۔ گھسیٹ کر میں نے اس کو اوندھا کیا مگر وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ "ارے مجھے معاف کر دو۔ خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔” گڑگڑا کر جبار نے کہا۔ میں نے گھسیٹتے ہوئے تلوار چمکا کر کہا۔ "میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔” مجمع سے آواز آئی۔ "معاف کر دو۔ معاف کر دو۔۔۔ ” پالکی میں سے والدہ صاحبہ پکاریں۔ "ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔۔۔ ” جبار نے پالکی طرف منہ کر کے گڑگڑا کر کہا۔ "میرے اوپر رحم کرو۔” والدہ صاحبہ چیخ کر پکاریں۔ "یہ رحم کا موقعہ نہیں ہے۔ انصاف کا وقت ہے۔” میں نے پھر جبار کو پکڑا اور کہا۔ "جبار اب سیدھی طرح آؤ ورنہ تلوار چلاتا ہوں۔” مجمع میں سے کوئی لقندرا چلایا۔ "ارے بیٹا مرے کیوں جاتے ہو۔”

ہو ہو! ہو ہو! کر کے جبار لرز کر رو رہا تھا۔ آنسو اور زبان خشک۔ چہرہ بھیانک۔ "ارے بھیا۔۔۔ ہو ہو! ہو ہو! ارے بھیا۔۔۔ ارے مجھے بچاؤ۔۔۔ ” جبار نے لرزتے ہوئے کہا۔ میں نے کہا "جبار تم کتے کی موت مرنا چاہتے ہو؟ مرنا اول مرنا آخر۔ اب یا تو کندے پر ماتھا رکھ دو ورنہ مجبوراً بکرے کی طرح ذبح کر دوں گا۔ اس میں بہت دکھ ہو گا۔”

یہ کہہ کر میں نے لکڑی کا کندہ آگے کیا۔ اس کی گردن پکڑ کر سجدہ میں جھکا کر کندے پر رکھ دی اور کہا آنکھیں بند کر لو۔ جبار نے ماتھا کندے پر رکھا ہی تھا کہ مجمع سے کوئی شریر چلایا۔ "ہیں ہیں۔ ارے بچا گردن۔۔۔ ” جبار نے "ارے۔۔۔ ” کہہ کر سر تیزی سے اٹھا لیا۔ والدہ صاحبہ نے پالکی میں سے چیخ کر کہا۔”جلدی کرو۔” میں نے جل کر کہا۔ "تو یوں نہیں مانے گا۔۔۔ ” یہ کہہ کر میں نے تلوار کی نوک اس کی گردن میں چبھو کر سر کے بال پکڑ کر، گھسیٹ کر ماتھا اس کا کندے پر ٹکا دیا۔ تلوار کی نوک گردن پر تھی کہ اٹھنے نہ پائے۔ میں نے کہا "جبار کلمہ پڑھو۔ ”

اتنا کہہ کر میں نے پالکی کی طرف نظر ڈالی۔ پھرتی سے بالوں پر سے پیر ہٹایا اور پوری قوت سے جو تلوار کا دو ہتڑ دیا تو تلوار گردن کو کاٹ کر زمین میں در آئی۔ مرغ بسمل کی طرح تڑپ کر جسم نے ایک خون کے فوارے کے ساتھ پلٹا کھایا۔ سر کٹ کر علیحدہ گرا۔ لبوں پر تھرتھراہٹ اور آنکھوں میں ایک دفع پھڑکن ہوئی۔ مارے خوشی کے میرا دم رک گیا اور میں پالکی کی طرف دوڑا اور ماں کے قدم پکڑ لئے۔ انہوں نے دیوانہ وار مجھے گلے سے لگا لیا۔

 

                (۶)

 

گھر پر جو پہنچا تو ماں کا خوشی کے مارے عجیب حال تھا۔ بار بار وہ میرا سر چوم رہی تھیں اور بلائیں لے رہی تھیں۔ آج اتنے عرصے بعد گھر میں خوشی اور رونق نظر آئی تھی۔ دوست مبارکباد دے رہے تھے اور خوش تھے اور بھائی کا بچہ تو گویا عید منا رہا تھا۔ جس کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ خون کا بدلہ لینے سے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ شاید اس کے سوا ضائع شدہ جان کی کوئی تلافی ہی نہیں۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بھائی کی موت کا رنج اور صدمہ اور کلفت سب دور ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ بھائی جی اٹھا۔ بھائی کی موت کا صدمہ آج تک ہے مگر وہ غم نہیں رہا۔ اگر بھائی کی جدائی کا خیال آتا ہے تو فوراً ساتھ ہی بدلہ لینے کی خوشی سے دل عجیب راحت پاتا ہے حتیٰ کہ لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ یہی حال مرتے دم تک ماں کا رہا۔ کس خوشی سے بھائی کے خون کے بدلے کا وہ ذکر کرتی تھیں اور مجھے لاکھوں دعائیں دیتی تھیں۔ ناممکن تھا کہ بیٹے کی موت کا ذکر کر کے رنجیدہ ہونے کے بعد بدلہ لینے کا ذکر کر کے خوش نہ ہو جائیں۔ افسوس کہ اب قصاص کا رواج اٹھ گیا اور مقتول کی ماں یا بیوی کے زخم دل کا مرہم ہی نہیں رہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پارہ

 

میں کمرے میں داخل ہوا تو مجھ تو سخت تعجب ہوا۔ کیونکہ بجائے ایک پیر صورت یا صوفی منش کے وہاں تو ایک اور ہی صورت تھی۔ کتری ہوئی خشخاشی داڑھی۔ سر پر انگریزی بال، ایک کرتہ اور واسکٹ پہنے ہوئے شاہ صاحب بیٹھے تھے۔ میرے دوست نے چپکے سے میرے بازو کو دبا کر ایفائے وعدہ چاہا۔ مجبوراً میں نے سلام کیا اور بڑھ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دئیے۔ میاں صاحب نے ہاتھ بڑھ دیا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کے بعد ہاتھ کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگایا اور مؤدبانہ آ کر بیٹھ گیا۔ میاں صاحب کسی دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے اور میں نے ان کو غور سے دیکھا۔ چہرے سے مولویت کی بجائے متانت اور شرافت زیادہ عیاں تھی۔ گندی مائل بہ سفید رنگ تھا۔ آنکھ ناک نقشہ وغیرہ نہایت سبک۔ عمر مشکل سے ۳۵ یا ۴۰ سال ہو گی۔ یہ میرے ایک دوست کے پیر تھے اور مجھے ان سے ملنے کی بڑھی تمنا تھی۔ آنکھوں میں میاں کے ایک عجیب چمک اور تیزی تھی۔ جو میں برابر دیکھ رہا تھا۔ وہ ہاتھوں سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہوئے۔ میرے دوست نے میرا تعارف کرایا اور میں نے پھر اٹھ کر ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔

"کہیئے آپ کی شادی ہو گئی ہے۔” میاں صاحب نے مجھ سے بے تکلفی کے لہجہ میں پوچھا۔

میں نے عرض کیا "جی نہیں۔”

"ارے !” میاں صاحب نے کہا۔ "بھئی ذرا لانا۔ ”

ایک مرید صاحب دوڑ کے ایک لمبا سا رجسٹر لے آئے۔ "ادھر آئیے ” میاں صاحب نے کہا "اور کھسک آئیے اجی صاحب۔۔۔۔” کہہ کر مجھے گھسیٹ کر مسند پر اپنے پاس بٹھا لیا نظر اٹھا کر سامعین سے کہا۔ "اچھا تو پھر آپ۔۔۔۔” لوگ سمجھ گئے اور فوراً "بہت اچھا” کہہ کر چلے گئے۔ کچھ دوسرے کمرہ میں چلے گئے کچھ بالکل چلے گئے۔ میں نے تعجب سے ان لوگوں کی طرف نظر ڈالی۔ ان میں اکثر داڑھی منڈے نوجوان متمول معلوم ہوتے تھے۔ میں سخت چکر میں تھا کہ الہٰی یہ کیا معاملہ ہے۔ میاں نے رجسٹر میں سے کچھ چھوٹی سی چیز نکالی اور میرے کندھے پر دوسرا ہاتھ رکھ کر کہا "کہیئے کیا رائے ہے ؟” میں نے تصویر کی طرف دیکھا اور سخت تعجب سے پھر میاں کی طرف دیکھا اور پھر تصویر کی طرف دیکھا کیونکہ میاں کے ہاتھ میں دراصل ایک چھوٹی سی تصویر تھی۔ یہ ایک نہایت ہی حسین و جمیل لڑکی تھی۔ نیچے اس کے لکھا تھا "پارہ۔”

اتنے میں میرے مشفق دوست نے بھی جھک کر اس تصویر کو دیکھ لیا اور فوراً بولے۔ "ارے میاں یہ آپ ان کو کیوں دکھاتے ہیں؟”

"چپ” میاں نے گھور کر میرے دوست سے کہا اور پھر مجھ سے کہا "بولو پسند ہے ؟”

میں عجیب چکر میں تھا۔ کیا یہی تمام زہد و تقویٰ ہے جس کی میں نے اپنے دوست سے اتنی تعریف سنی تھی۔ میں نے میاں سے کہا۔ "صاحب میں سمجھا نہیں۔”

"خوب!” تم اتنی سی بات نہیں سمجھے۔ لو اب سنو۔ اس لڑکی سے شادی کرو گے یا نہیں؟”

"آخر اس سے مطلب کیا ہے ؟ معاف کیجئے گا میں۔۔۔۔”

"عزیزم۔۔۔۔ آہا اب مجھے معلوم ہوا شاید تم سے کسی نے یہ کہہ دیا ہے کہ میں بڑا زاہد و عابد اور پرہیزگار صوفی اور مشہور پیر ہوں۔ جس کے ہزاروں مرید ہیں۔ لا حول ولا قوۃ۔ کیا تم مرید ہونے آئے ہو؟ اگر ایسا ہے تو اس پر تو بھیجو لعنت۔ سن لو۔ مجھ سے تو دوستوں کی سی باتیں کرو۔ بے تکلف ہو کر بتاؤ کہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟”

"جی نہیں۔ ” میں نے کہا۔

"بس بہت ٹھیک جواب ہے۔” میاں نے کہا۔ "اب ایک بات تم سے پوچھتا ہوں وہ یہ کہ کیا بتا سکتے ہو کیوں نہیں کرنا چاہتے۔ دیکھو بے تکلفی سے جواب دینا۔”

"صاحب میں پڑھ رہا ہوں۔ شادی کیسی۔۔” میں نے کہا۔

"پڑھنے سے اور شادی سے کوئی تعلق نہیں۔ خوب پڑھیئے مگر شادی بھی کیجئے پھر ایسی خوبصورت لڑکی نہیں ملے گی۔ آئندہ آپ کو اختیار ہے۔” میاں صاحب نے عجیب انداز سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

مجھے معاً خیال آیا کہ یہ مسخرا پن تو نہیں ہو رہا ہے۔ اس خیال میں آنا تھا کہ میاں نے ایک دم سے لپک کر میری کلائی پکڑ لی کہ میں چونک سا پڑا اور کہا۔ "ہیں۔ کیا میں مسخرا ہوں!”

"جی نہیں” میری زبان سے فوراً نکلا۔ میں نے آنکھیں چار کیں اور پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ ان کی آنکھوں میں بجلی تھی۔ میں حیرت میں تھا کہ میرے دل کا حال ان کو کس طرح معلوم ہو گیا۔ میاں ایک دم سے بولے "اچھا اس قصے کو جانے دو” یہ کہہ کر انہوں نے تصویر اس کتاب میں بند کر دی اور تکیہ لگا کر کچھ دراز سے ہوئے۔ میرے معاملات میں بڑی دلچسپی لی اور کرید کرید کر گھر کا حال پوچھتے رہے۔ پھر بولے "تو آپ کے سگا بہن بھائی کوئی نہیں۔ والد اور سوتیلی والدہ ہیں۔”

"جی ہاں” میں نے کہا۔ رہ رہ کر میں ان عجیب آنکھوں کی تیزی اور بجلی پر غور کر رہا تھا کہ یا الہٰی وہ کیا باتھ تھی۔

"رنڈیوں سے تو آپ کو نفرت ہو گی۔” میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا۔

"بیشک۔” میں نے عرض کیا۔

"اچھا” میاں نے میرے دوست کی طرف دیکھ کر کہا۔ "بھئی تم ہی بتاؤ۔ ان سب کو مار ڈالنا بہتر ہے یا یہ کہ ان کا پیشہ چھڑا دیا جائے۔”

"پیشہ چھوڑ دیں تو اچھا ہے۔” میں نے اور میرے دوست نے ہم زبان ہو کر کہا۔

"پھر کریں کیا” میاں نے کہا۔ "نکاح کر کے کسی بھلے آدمی کے ساتھ زندگی گذار دیں۔ کیا ہی اچھی بات ہو۔”

"بے شک۔” میں نے کہا۔

"مگر ایک بڑی دقت پیش آئے گی۔” میاں صاحب مسکر کر بولے "بالفرض رنڈیاں توبہ کر کے نکاح کرنا چاہیں تو زیادہ تر ان کو ایسے خاوند میسر آئیں گے جو بگڑے ہوئے رئیس ہیں اور کوڑی پاس نہیں رکھتے اور جن کا مقصد سوا اس کے کچھ نہیں کہ تھوڑے دن میں رنڈی کا روپیہ پیسہ کھا کر طلاق دے کر الگ کریں۔”

"یہ آپ کا خیال بالکل صحیح ہے۔” میں نے کہا "واقعی یہی ہو۔”

"آپ تو ماشاء اللہ تعلیم یافتہ ہیں۔” میاں صاحب نے مجھ سے کہا "کوئی اس کی ترکیب نکالئے۔”

"میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔” میں نے عرض کیا۔

"بس! یہیں ختم۔” میاں صاحب مسکر کر بولے۔ "ارے میاں مجھے دیکھو میں جاہل آدمی ہوں مگر میں نے ایک تدبیر سوچی ہے اور وہ یہ کہ اس کا علاج تعلیم یافتہ طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی وہ لوگ جو محسوس کر سکیں کہ ایک نوجوان لڑکی سے عصمت فروشی کا پیشہ چھڑانا کیسا ثواب کا کام ہے اور دراصل قومی ملکی اور مذہبی کام یہی ہے۔ ایسے لوگ جو فخر کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ "یہ میں ہوں اور مجھ کو فخر ہے کہ میں ملک اور قوم کی ایک نوجوان لڑکی کو دنیاوی دوزخ میں سے نکال کر بہشت میں لا کھڑا کیا۔ کیا اپنی قوم کی ایک نوجوان لڑکی کو اس طرح بچانا ایک ایسا کام نہیں ہے کہ جس پر ایک شخص فخر کر سکے۔”

"بے شک ضرور ہے۔” میں نے کہا۔

"خدا مجھے معاف کرے۔” میاں نے کہا۔ "کیوں صاحب آپ ہر سال حج کر آئے اور وہ گھنٹے روزانہ صبح وظیفے میں صرف کرتے ہیں اور پنج وقتہ نماز بھی با وظیفہ پڑھتے ہیں اور میں ہوں کہ دن رات رنڈیوں میں گھومتا ہوں۔ مگر محض اس نیت سے کہ کسی طرح ان کا پیشہ چھڑا کر ان کو راہ راست پر لے آؤں اور ہر سال نہیں بلکہ ہر مہینے ایک رنڈی کا پیشہ چھڑا کر اس کو قرینے سے بیوی بنا کر بٹھا دینے کا انتظام کر دیتا ہوں۔ اب بتائیے کہ آپ کا جنت میں جانے کا زیادہ حق ہے یا میرا۔”

میاں صاحب کی ان باتوں میں عجیب ہی اثر تھا۔ میں آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔ ان میں بجلی بالکل اس طرح باتیں کرنے میں چمک رہی تھی جیسے سیاہ بادلوں میں رہ رہ کر بجلی کی شکن پڑا کرتی ہے۔ میں نے کہا۔

"میاں صاحب، جنت میں جانے کے ایسی صورت میں آپ قطعی مستحق ہوئے۔”

"وہ لوگ جو رنڈیوں کی صورت سے بھاگتے ہیں۔” میاں تیز ہو کر اٹھ بیٹھے اور کہا "وہ اللہ والے جو بدمعاشوں اور رنڈیوں کے نام سے متنفر ہیں اور ان سے دور ہی دور رہتے ہیں کیا خاک بدمعاشوں اور رنڈیوں کی اصلاح کریں گے۔ ارے میں تو یہ کہتا ہوں کہ جسے کوڑھیوں کا علاج کرنا ہے اسے چاہیئے کوڑھیوں کے زخم دھوئے۔ جو رنڈیوں کی اصلاح کرنا چاہتا ہے اسے ان سے محبت کرنا چاہیئے نہ کہ نفرت۔ قوم کے جسم کا ایک حصہ کوڑھی ہو گیا ہے۔ کیا اس کا یہی علاج ہے جو ہمارے اللہ والے لوگ کر رہے ہیں۔”

میں کیا بتاؤں کہ ان الفاظ میں کتنا زور تھا۔ آنکھوں کی بجلی عجیب طرح چمک چمک کر گفتگو کو موثر بنا رہی تھی۔ میں کچھ کہنے کو ہوا کہ میاں صاحب کے کان میں کسی نے آ کر کچھ کہا۔ فوراً وہ زور سے بولے الحمد اللہ۔ یہ ان کی زبان سے مشکل ہی سے نکلا ہو گا کہ سامنے کے دروازے سے ایک نوجوان خوبصورت لڑکی سفید چادر اوڑھے آئی۔ میاں صاحب کو دیکھ کر تیر کی طرح ان کی طرف دوڑی اور فوراً ان کے پاؤں پکڑ کر اس نے اپنا سر رکھ دیا۔ میاں صاحب نے فوراً لڑکی کی پیٹھ ٹھوکنا شروع کی وہ اٹھی اور اس نے ایک صندوقچی میاں کے قدموں میں رکھ کر کہا۔ "حضور یہ قبول کریں۔”

"قبول کر لیا۔ جیتی رہو۔” یہ کہہ کر میاں نے اس صندوقچی کا ڈھکنا کھولا۔ سونے کے زیور سے یہ بھر ہوا تھا۔ "کوئی ہے۔” میاں نے آواز دی اور چشم زدن میں ایک آدمی آیا اس کو انہوں نے بکس دے دیا۔ ہم سب اٹھ کر چلے آئے اور وہ لڑکی اور میاں صاحب دیر تک باتیں کرے رہے۔

 

                (۲)

 

"کہو بھئی ہمارا پیر و مرشد کیسا ہے ؟” ہمارے دوست نے کہا۔

"میں تو قائل ہو گیا۔” میں نے کہا۔ "واقعی عجیب ہی آدمی تھا۔ مگر تم نے اس سے پہلے کبھی اس بات کا تذکرہ نہ کیا۔”

"سن رات اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کسی رنڈی کی شادی کرا دوں۔” دوست نے کہا۔ "وہ تصویر بھی کسی رنڈی کی تھی جو مجھے دکھائی تھی” میں نے اپنے دوست سے پوچھا۔

"ہاں! اور وہ جود ان کی منظور نظر ہے۔ مگر کہتے ہیں کہ میں ذرا اپنے تئیں سزا دوں گا اور کسی دوسرے سے اس کی شادی کراؤں گا۔”

میں نے تعجب سے کہا کہ "آخر رنڈیاں راضی کیسے ہو جاتی ہیں۔”

انہوں نے کہا۔ "بس یہی تو ایک راز ہے اور عجیب کرامات ہے۔ یہ جو آئی ہے اس سے مفصل کیفیت پوچھنا۔ بعض تو ایسی ہیں کہ بس ان کا ہاتھ پکڑ کر کہہ دیا اور وہ مان جاتی ہیں اور پھر دنیا ایک طرف ہو جائے مگر وہ نہیں بدلتیں۔”

میں بغل والے کمرے میں بیٹھا اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا کہ وہ لڑکی آئی اور اس نے کہا "میاں نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ دونوں کے ساتھ بیٹھ کر دل بہلاؤں۔” میں نے مسکرا کر کہا۔ "آئیے آئیے۔ بیٹھئے۔” وہ بیٹھی ہی تھی کہ ایک کشتی میں چائے آئی اور ہم تینوں نے مزے سے چائے پینا شروع کی۔

آپ پہلے تو اپنا نام بتائیے۔” میں نے اس لڑکی سے کہا۔ "اور پھر اپنا قصہ سنائیے کہ آخر کیونکر آپ کو میاں کی مریدی کی توفیق ہوئی۔”

"میرا نام زہرہ ہے اور یہ کہ میں کیسے میاں کے قدموں میں آ گئی تو اس کا جواب تو یہ ہے کہ بس میری قسمت ہی میں یہ سعادت لکھی تھی۔”

ہم دونوں اس جواب سے قطعاً مطمئن نہ ہوئے اور بالآخر اس کو قصہ سنانا پڑا:

"شام کے چار بجے میاں میرے یہاں پہنچے۔ بالکل اکیلے تھے۔ صرف ہاتھ میں ایک ہینڈ بیگ تھا۔ آتے ہی میری ماں سے میرے بارہ میں باتیں کرتے رہے۔ تھوڑی ہی دیر میں میری ماں میرے پاس آئیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ شخص آج رات کو رہیں گے۔ میں نے غور سے دیکھا۔ میاں ایک چھوٹا کوٹ اور چوڑی دار پاجامہ اور ترکی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ اپنا ہینڈ بیگ رکھ کر بازار چلے گئے اور رات کے دس بجے کے قریب کھانا کھا کر آئے تھے۔ سیدھے کمرے میں آئے۔ میں پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ کوٹ وغیرہ اتر کر رکھ دیا اور دروازہ بند کر کے مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ میرے اوپر ان کی باتوں کا کیسا اثر پڑا۔ کیونکہ میں تو بالکل ہی دوسری قسم کی باتوں کی عادی ہو رہی تھی اور یہ مجھ سے باتیں کر رہے تھے کہ میری ماں کیسی ہیں زیادہ سخت تو نہیں ہیں۔ عید کو کیا ہوتا ہے۔ محرم میں کیا ہوتا ہے۔ گیارہویں کو کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھنے لگ گئے۔ میں بڑے تعجب میں تھی کہ یا اللہ آج یہ کون آیا ہے جو میرے کمرہ میں اس طرح کر رہا ہے۔ نماز پڑھنے کے بعد وظیفہ شروع کر دیا اور وہ ایسا کہ ختم ہی نہ ہوا۔ گھنٹوں میں دیکھا کی اور دل میں سوچ رہی تھی کہ یہ بھی عجیب آدمی ہیں۔ میں انتظار کرتے کرتے سو گئی۔ میری آنکھ جو کھلی تو میرے کان میں کچھ آواز آئی۔ میری طرف پیٹھ کئے ہوئے اسی طرح بیٹھے دعا مانگ رہے تھے۔ میں نے کان لگا کر چپکے سے کچھ سننے کی کوشش کی۔ کئی الفاظ سنے مگر مطلب نہ نکلا کہ آخر کو ایک جملہ میں نے سن لیا انہوں نے کہا "یا خدا تو اس لڑکی کو نیک ہدایت دے۔” میں سناٹے میں آ گئی کہ کہیں یہ وہ تو نہیں ہیں جن کے بارے میں ایک روز میں سن چکی تھی کہ ایک نظر میں رنڈی کا پیشہ چھڑا دیتے ہیں۔ یہ تذکرہ میری ماں ایک روز کر رہی تھیں اور میں قطعی سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ وہی میاں صاحب تو نہیں جن سے تمام رنڈیاں اپنی لڑکیوں کو بچاتی پھرتی ہیں۔ اب میرے دل میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے کہ دیکھو تو ایک یہ ہیں کہ رات بھر خدا کی عبادت میں گزری اور میرے لئے دعا کر رہے ہیں اور ایک میں ہوں کہ روزانہ برا کام کرتی ہوں۔ میرے دل کی عجیب ہی حالت ہو گئی اور بڑی دیر تک اپنی حالت پر افسوس کرتی رہی۔ میری آنکھ پھر لگ گئی اور صبح ہو گئی۔ میاں نے اسی جگہ نماز پڑھی۔ نماز پڑھ کر وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا "خدا تجھے نیک ہدایت دے۔” یہ کہہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے جو نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو بس اپنے کو ان کی لونڈی پایا۔ اٹھ کر فوراً میں نے پاؤں پکڑ لئے۔ مجھے دعا دے کر روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ میری دن پھر حالت خراب رہی اور میری ماں سخت متفکر ہوئیں کہ یہ تجھے کیا ہو گیا ہے۔ شام کو انہیں نہ معلوم کس ذریعہ سے معلوم ہو گیا کہ میاں صاحب میرے ساتھ رہ گئے۔ انہوں نے سر پیٹ لیا اور مجھ سے کیفیت دریافت کی۔ میں نے اقبال کیا اور اپنا ارادہ ظاہر کر دیا۔ میاں صاحب نے میری خبر تک اس روز سے نہ لی مگر میرا یہ حال تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر میاں صاحب کے پاس نہ جاؤں گی تو مر جاؤں گی۔ آج چوتھے مہینے میں اپنی ماں سے عدالت کی امداد سے رہائی حاصل کر کے ماں کو روتا پیٹتا چھوڑ آئی ہوں۔”

یہ قصہ سن کر میں تو دنگ رہ گیا۔

 

                (۳)

 

میاں صاحب نے شام کو مجھے وہ رجسٹر دکھایا۔ ہر صفحہ پر ایک رنڈی کی تصویر تھی اور تمام حالات تھے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اتنی رنڈیاں آج پیشہ چھوڑنے کو تیار ہیں۔ اگر کوئی ان (ص۔۳۲۶) سے شادی کرے۔ مجھ سے انہوں نے حالانکہ ایک لفظ نہ کہا کہ تو بھی ان میں سے کسی سے شادی کر لے مگر میں ان کے ہر لفظ سے عجیب موثر پیرائے میں یہی آواز گویا اندرونی طور پر سن رہا تھا اور برابر اندرونی طور پر ہی انکار کر رہا تھا کہ مجھے نفرت آ رہی تھی۔

اب میرا دستور ہو گیا کہ روزانہ ان کے یہاں صبح جاتا۔ چوتھے روز ان کا اسباب بندھ رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ "تمہاری چھٹیاں ہیں۔ تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں بہار کی سیر کراؤں گا۔” میں جواب دینے ہی کو تھا کہ وہ بولے کہ "سفر خرچ نہ میرا خرچ ہو گا نہ تمہارا اور نہ تم کو کسی سامان ہی کی ضرورت ہے۔” قصہ مختصر میں راضی ہو گیا اور شام کی گاڑی سے میں نے میاں صاحب کے ساتھ صوبہ بہار کا رخ کیا۔ وہ رنڈی جو آئی تھی اپنی منزل مقصود پر پہنچ چکی تھی۔ یعنی اس کا دوسرے ہی روز نکاح بھی انہوں نے کر دیا اور اس کے زیور اس کو واپس کر دئے۔

 

                (۴)

 

ایک کمرہ نہایت ہی عمدہ جھاڑ فانوس اور فرش اور پردوں سے سجا ہوا ہے اور لکھنؤ کی تمام تمیز اور سلیقہ کا نمونہ بن رہا ہے۔ طرح طرح کی تصویریں اور سامان آرائش و ریاست سے یہ کمرہ مزین تھا اور اس میں ایک نو عمر خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ ایک دم سے برابر والے کمرے سے کچھ آوازیں آئیں اور یہ چپکے سے اٹھی اور کان لگا کر سننے لگی۔یہ لکھنؤ کی حسین ترین رنڈیوں میں سے تھی۔ برابر والے کمرے میں وہ باتیں ہو رہی تھیں جن کے سننے کے لئے یہ بے حد مشتاق تھی، محض اس وجہ سے کہ وہ باتیں ایسی تھیں کہ اس کی ماں اور نانی اس سے پوشیدہ رکھنا چاہتی تھیں۔

بڑی دیر تک وہ باتیں سنا کی، اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر ایسے بھی کیا خوفناک میاں صاحب ہیں جن سے اس کو اس طرح چھپایا جا رہا ہے۔ دراصل یہاں یہی باتیں ہو رہی تھیں۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا بھی کیا ہے کہ بھلا ایک نظر ملاتے ہی وہ مرید کر کے پیشہ چھڑا دیتے ہیں۔ اس کو یقین نہ آیا کہ بھلا کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ مگر وہ واقعات اڑتے اڑتے سن چکی تھی۔ غرض وہ بڑھ چکر میں تھی کہ آخر بھلا وہ کیسے پیر ہیں کہ ایک نظر میں لڑکی کا دل قبضے میں کر لیتے ہیں۔ اس نے دل میں کہا کہ اگر وہ اسیے ہیں تو واقعی بڑے بزرگ ہوں گے۔ ساتھ ہی اس کو ماننا بھی پڑ رہا تھا کہ ہیں تو ضرور ورنہ اس کو چار پانچ مہینے سے کیوں اس طرح چھپا چھپا کر رکھا جا رہا ہے۔ ایک طرح وہ اب خود ہی ان پری صاحب کو دیکھنا چاہتی تھی جن کے بارے میں وہ سن رہی تھی کہ میری تاک میںاس طرح لگے ہوئے کہ موقع پڑے اور اپنا کر لیں۔ وہ باتیں سن رہی تھی کہ پیچھے سے اس کی نانی نے آ کر اس کی گردن پکڑی اور کہا "کم بخت پھر وہی باتیں سن رہی ہے دیکھ لیجیو تجھے پکڑ کر لے ہی جائے گا۔”

وہ نانی سے گردن چھڑا کر کہنے لگی۔ "تمہاری تو عقل خراب ہو گئی ہے اور اماں بھی الٹی الٹی باتیں کرتی ہیں۔ خواہ مخواہ مجھے پریشان کرنے سے کیا فائدہ۔ کیا میں بچہ ہوں جو کسی مولوی کے کہنے میں آ جاؤ ں گی۔” اتنے میں ماں بھی آ گئی اور اس نے ڈانٹا۔ یہ ماں اور نانی سے لڑنے لگی اور اس نے منہ بنا کر کہا۔ "ایسے ایسے مولوی نہ معلوم کتنے پھرے ہیں۔”

ماں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ” اری چل رہنے بھی دے۔ خدا وہ دن نہ لائے اگر کہیں اس نے دیکھ بھی لیا تو دیوانی ہو جائے گی۔ اس کی آنکھ میں نہ معلوم کہاں کا زہر بھرا ہے کہ بیسیوں کو اس نے پاگل کر دیا۔”

اس کے بعد بھی اس نے کئی مرتبہ اپنی ماں اور نانی کو میاں صاحب کی باتیں کرتے سنا۔ وہ دونوں اس بات کی قائل تھیں کہ اگر میاں صاحب کی نظر چار ہو گئی تو بس وہ قابو میں کر لیں گے اور حتیٰ الامکان وہ اس سے علیٰحدہ چپکے چپکے یہ باتیں کیا کرتی تھیں۔

 

                (۵)

 

میاں صاحب کے ساتھ میں نے کئی شہروں کا دورہ بہار اور اڑیسہ میں کیا، وہاں کے تذکروں کی یہاں ضرورت نہیں۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میاں صاحب کا سب سے بڑا مشن یہی تھا کہ رنڈیوں کی اصلاح۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس تار آیا انہوں نے کھول کر مجھ سے پڑھوایا۔ لکھنؤ سے کسی احمد نامی شخص نے دیا تھا اور اس میں صرف یہ تحریر تھا کہ "پرسوں شام تک لکھنؤ پہنچ جائیے۔” "لو میاں چلو ذرا لکھنؤ چلیں۔” میاں نے مجھ سے کہا اور اسی روز ہم روانہ ہو گئے۔

جب لکھنؤ کا اسٹیشن آنے میں تھوڑی ہی دیر رہ گئی تو میاں نے مجھ سے کہا "میاں ذرا زنجیر تو کھینچو” میں نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا اور پوچھنے ہی کو تھا کہ انہوں نے پھر کہا "جلدی کھینچو” میں نے فوراً زنجیر کھینچی اور ریل رک گئی۔ رات کے کوئی دس بجے ہوں گے۔ فوراً گارڈ وغیرہ آئے۔ میاں نے جیب سے پچاس روپے کے نوٹ نکال کر دئیے کہ جرمانے کا تصفیہ کرو۔ اسباب ویسے ہی کچھ نہ تھا۔ حالانکہ جاڑے کے دن تھے مگر میاں صاحب کے پاس صرف ایک کمبل اور ایک ہینڈ بیگ تھا اور بڑا سا اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ میں نے پچاس روپے جرمانہ دے کر وجہ بیان کی کہ یہاں ہیں اترنا ہے۔ چنانچہ ٹکٹ وغیرہ دے کر اتر گئے۔ مشکل سے پانچ منٹ گزرنے پائے تھے کہ دو آدمی نظر پڑے۔ ان میں سے ایک احمد تھا جس نے تار دیا تھا۔ اس نے بڑھ کر میاں کے ہاتھ چومے اور بغیر بات چیت کئے ہوئے دوسرے آدمی کو موٹر لینے دوڑایا۔

میاں نے اس سے پوچھا "ٹھیک موقعہ ہے ؟”

اس نے کہا۔ "جی ہاں۔ جج صاحب کے یہاں آج مجرا ہے۔ سنا ہے کہ وہ تو پارہ کو نکالتی ہی نہ تھی لیکن جب اس نے خوب تحقیق کر لیا کہ آپ بہار میں دورہ کر رہے ہیں اور آ ہی نہیں سکتے تب کہیں جا کر پانچ سو روپے لے کر راضی ہوئی ہے۔”

میاں نے تعجب سے کہا "پانچ سو روپیہ!”

"جی ہاں پانچ سو روپیہ۔” احمد نے کہا۔ اور پھر دونوں اسٹیشنوں پر کل سے اپنے آدمی تعینات کر دئیے ہیں کہ آپ کو دیکھتے رہیں۔ علاوہ اس کے جہاں ناچ ہو رہا ہے وہاں دروازے پر اس نے علیحدہ اپنے دو آدمی تعینات کر دیئے ہیں کہ کہیں آپ نہ آ جائیں۔”

"اللہ مالک ہے۔” میاں صاحب نے کہا۔ "وہ کچھ نہیں کر سکتی” اتنے میں موٹر آ گئی اور ہم لوگ لکھنؤ کی طرف روانہ ہوئے۔

ٹھیک امین آباد پہنچ کر میاں صاحب نے موٹر رکوائی اور اتر کر مجھ سے کہا تم جاؤ۔ میں احمد کے ساتھ ایک مکان پر گیا۔ احمد نے کہا میاں پارہ کا ناچ دیکھنے جا رہے ہیں۔ نہ معلوم میاں صاحب تنہا کہاں گئے۔ میں نے احمد کے ساتھ کھانا کھایا اور ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد احمد نے کہا اب آپ بھی چلئے۔

دروازے پر احمد نے دکھایا کہ یہ دیکھئے پارہ کی ماں کے آدمی پہرہ دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کہیں اندر نہ چلے جائیں۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ ایک بڑے رئیس کا عالیشان دیوان خانہ تھا۔ صحن میں بڑا سا شامیانہ تھا۔ جہاں گیس کی روشنی کے مارے دن سا ہو رہا تھا۔ ہم اندر پہنچے۔ میں نے دیکھا کہ وہی لڑکی گا رہی ہے جس کی کہ میاں نے تصویر دکھائی تھی۔ واقعی بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی اور خوب گا رہی تھی۔ "وہ بیٹھے ہیں۔” احمد نے انگلی سے بتایا۔ واقعی میاں اگلی صف میں گردن جھکائے اپنے بائیں ہاتھ سے ماتھے کو پکڑے ہوئے گانا بڑے انہماک سے سن رہے تھے۔ میں احمد کے ساتھ آہستہ آہستہ بائیں طرف سے آ کر ایک ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے میاں بالکل قریب ہی تھے۔ ہر کس و ناکس کی نظریں اس حیسن لڑکی پر تھیں جو غضب کا گا رہی تھیں۔ میاں کی عجیب ہی حالت تھی، اسی طرح ہاتھ رکھے رکھے دو بج گئے۔ اتنے میں پارہ نے نعتیہ غزلیں شروع کیں، وہ گاتی رہی ار میاں صاحب نے جنبش تک نہ کی کہ اتنے میں اس نے قوالی کے سر میں ساز کے ساتھ بڑے زور سے عجیب ہی انداز سے مناقب شروع کئے :

گفتگو ان کی کلام اللہ سے ملتی ہوئی           ہر ادا ان کی رسول اللہ سے ملتی ہوئی

یہ پڑھ کر اس نے ٹیپ کا بند جو پورے سوز کے ساتھ کہا ؏

علی نام کر دی بہ ملک عجم          بسوئے غریب و امیر آمدی

تو میاں کا ایک دم سے داہنا ہاتھ اونچا اٹھ گیا۔ اس میں ایک دس روپے کا نوٹ تھا۔ پارہ نے آ   کر لے لیا اور ٹیپ کے بند کی تکرار شروع کر دی۔ میاں اسی طرح اوور کوٹ میں ڈھکے چھپے بائیں ہاتھ سے ماتھا پکڑے سر جھکائے بیٹھے تھے اورجیسے ہی وہ زور میں آ کر کہتی تھی۔ "علی نام کر دی بہ ملک عجم، بسوئے امیر و غریب آمدی” تو میاں جنبش میں آ جاتے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد پکار کر کہتے تھے "ماشاء اللہ” اور نوٹ نکال کر اسی طرح دیتے تھے۔ ذرا سی دیر میں نہ معلوم انہوں نے کتنے نوٹ دے ڈالے ، اہل دل اور قوالی سننے والے چشتیہ سلسلے کے جو لوگ بھی تھے وہ سر ہلا ہلا کر آگے بڑھنا شروع ہوئے اور وہ لوگ جن کو اس بند سے لطف حاصل نہ ہوتا تھا وہ تنگ آ کر اٹھنے لگ گئے۔ ہوتے ہوتے میاں کے روپے ختم ہو گئے تو انہوں نے اپنا رومال پارہ کو دے دیا وہ بھی آداب محفل سے واقف تھی۔ حالانکہ معمولی تھا مگر احترام سے اس نے لے کر سر پر رکھ لیا جیسا کہ قاعدہ ہے۔ یہ دیکھ کر کہ ایک اہل دل کے پاس روپیہ ختم ہو گیا قدر دان لوگ میاں کے سامنے روپیہ پیش کرنے لگے اور وہ اٹھا اٹھا کر اسی طرح پارہ کو دینے لگے۔ ذرا سی ہی دیر میں ایک عجیب سماں ہو گیا۔ ناچ رنگ کی محفل قوالی کی محفل ہو گئی، رہ رہ کر یہی ٹیپ کا بند فضا میں گونج رہا تھا کہ "علی نام کر دی بہ ملک عجم، بسوئے غریب و امیر آمدی” اور چونکہ روپیہ بے طرح مل رہا تھا لہٰذا پارہ کا اور نیز سازندوں کا دل بڑھا ہوا تھا۔ ہوتے ہوتے وہ وقت آیا کہ میاں نے اپنی سونے کی گھڑی مع زنجیر کے پارہ کو دے دی۔ اب وہ رہ رہ کر ہاتھ کی پشت کو فرش پر سر ہلا ہلا کر مارتے تھے۔ تمام لوگ ان کو دیکھ رہے تھے۔ مگر ان کا چہرہ گلو بند اور ہاتھ سے ڈھکا ہوا تھا صاف نہ دکھائی دیتا تھا۔ اسی وجہ سے پارہ کی ماں جو سامنے ہی بیٹھی تھی میاں کو پہچان نہ سکی۔ اتنے میں میاں نے جوش میں آ کر اپنے سیدھے ہاتھ کی انگلی پارہ کے سامنے پیش کر دی جس میں قیمتی سونے کی انگوٹھی تھی۔ وہ کچھ جھجکی کہ انہوں نے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔ وہ اسی طرح گاتی آئی اور انگوٹھی اتار کر لے گئی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ جو اس نے زور سے ٹیپ کا بند کہا تو میاں نے کروٹ بدلی "یا علی” کہہ کر گلو بند اٹھا کر پھینک دیا اور کوٹ بیٹھے ہی بیٹھے اتارنے لگے۔ کچھ دقت ہوئی۔ میں فوراً لپک کر پہنچ گیا اور میں نے اتر کر پارہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے اپنی قیمتی پشواز کے اوپر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کوٹ پہن لیا۔ میاں اب منہ کھولے ہوئے پارہ کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ ماشاءاللہ وہ بڑے زوروں میں گا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ یکایک پارہ کی ماں کی نظر میاں صاحب پر پڑی، اس کا چہرہ فق ہو گیا اور وہ سکتے کے عالم میں تھی۔ ذرا دیر بعد سنبھلی اور اپنے برابر والے سازندے سے کچھ کہا۔ اس نے اس سے کہا اور اس نے اس سے کہا۔ غرض کانا پھوسی ہونے لگی اور یہاں پارہ کو خبر بھی نہیں کہ جو میرے گانے کی تعریفیں کر رہا ہے وہی خطرناک میاں صاحب ہے۔ نتیجہ اس کاناپھوسی کا یہ ہوا کہ ساز اور باجہ میں فرق پڑا۔ پارہ نے مڑ کر پیچھے دیکھا، اس کی اپنی ماں سے آنکھیں چار ہوئیں۔

ماں کی اس نے عجیب ہی حالت دیکھی۔ اس نے پارہ سے صرف اتنا کہا ” میاں ” پارہ نے ایک تم سے خاموش ہو کر میاں کی طرف دیکھا۔ ایک دم سے اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ کیونکہ میاں نے بھی بھرپور اس کو دیکھا اور ان کی آنکھوں کی بجلی کا سحر کام کر گیا اور وہ ایک دم سے تڑپ کر اٹھے بسم اللہ کہہ کر انہوں نے پارہ کا ہاتھ پکڑ لیا وہ مسحور اور مبہوت تھی۔ لوگ دیکھتے کے دیکھتے ہی رہے اور وہ ہاتھ پکڑ کے سیدھے ان رئیس کی زنانے کی ڈیوڑھی کی طرف اس کو لے گئے۔ ساری محفل ایک سکتہ کے عالم میں تھی۔ زنانہ ڈیوڑھی کے دروازہ پر جا کر انہوں نے اس سے نرمی سے کہا” آج تو شریف ہو گئی” یہ کہہ کر سیدھے تیزی سے نکلے باہر چلے گئے۔ میں پیچھے پیچھے پہنچا۔ جھٹ سے تانگہ لیا اور یہ جاہ وہ جا۔ میں تماشا دیکھنے احمد کے ساتھ وہیں رہ گیا۔

 

                (۶ )

 

پارہ زنان خانے میں گھس گئی اور کسی طرح نہ نکلی۔ وہ یہی کہتی تھی کہ میں اپنی ماں کے پاس نہ جاؤں گی۔ ساری محفل درہم برہم ہو گئی اور لوگ دنگ تھے کہ الہٰی یہ کیا ماجرہ ہوا۔ صاحب خانہ عجیب چکر میں تھے۔ ان سے پارہ نے صاف کہہ دیا کہ میں آج سے یہ پیشہ چھوڑتی ہوں اور چاہے مجھے مار ڈالو میں اپنی ماں کے پاس نہ جاؤں گی اور نہ ماں کو یہاں آنے دوں گی۔ وہ ایک کمرے میں بند ہو گئی۔ حاضرین جلسہ میں جو بڑے بڑے لوگ تھے سب نے یہی کہا کہ بہتر ہے کہ اگر پیشہ چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے۔ پارہ کی ماں نے وہ دہائی اور ہائے توبہ مچائی کہ خدا کی پناہ۔ صاحب خانہ کے اوپر وہ مقدمہ چلانے کو کہتی تھی اور کہتی تھی کہ تم ابھی میری لڑکی کو واپس کر دو۔ مگر وہاں پارہ کی تو حالت ہی عبرتناک تھی وہ رہ رہی تھی اور کسی طرح نہ راضی ہوئی کہ ماں سے ملے۔

نتیجہ اس کا سوا اس کے کیا ہوسکتا تھا کہ راتوں رات پولیس اور مجسٹریٹ دوڑے۔ پارہ پولیس کی نگرانی میں دی گئی مگر وہیں رہی۔ آخر کو مقدمہ چلا۔ میاں صاحب نے جو کچھ واقعہ تھا بے کم و کاست بیان کر دیا کہ بے شک میں نے ہاتھ پکڑ کر زنان خانے میں کر دیا اور کہہ دیا کہ تو شریف ہو گئی۔ پارہ نے مجسٹریٹ کے روبرو اپنا پیشہ چھوڑنے کو کہا۔ مجسٹریٹ نے فورا پارہ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز اسی طرح ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ پارہ نے آ کر میاں کے قدم پکڑ لئے اور تمام زیور جو وہ ناچ والے روز پہنے ہوئے تھی میاں کی نذر کر دیا۔

میاں نے اس کو فورا زنان خانے میں لے لیا اور دوسرے روز اپنے نکاح کا اعلان کیا۔ نکاح میں کیا دیر لگتی ہے فورا چھوارے بانٹ دیئے گئے اور پھر عجیب پر عجیب یہ کہ فورا ہی طلاق دے کر کہ دیا کہ ” میری قسم پوری ہو گئی میں نے اپنے نفس سے صرف نکاح کا وعدہ کیا تھا سو پورا کیا۔”

 

                (۷ )

 

آج پارہ کا دوسرا نکاح ہو رہا تھا نہ معلوم کس کے ساتھ ہو گا سب لوگ جمع ہو گئے تو میاں نے اپنی نظر لوگوں پر دوڑائی۔ ان کی آنکھوں کی بجلی بڑی تیزی سے کوند رہی تھی۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ نظر پھرتے پھرتے میرے اوپر آ کر رک گئی۔ مجھ سے کہا کہو” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” میں نے فورا کہا اور پھر جو انہوں نے کہلانے کا سلسلہ شروع کیا تو پارہ کے نکاح کے ایجاب و قبول پر جا کر ختم کیا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ مجھ سے جو بات کہ رہے ہیں اس کے بارے میں اگر مجھ سے پیشتر رائے لیتے تو شاید میں انکار کر دیتا کیونکہ کچھ بھی ہو میں ایک رنڈی کو بیوی بنانا اور وہ بھی بغیر والد صاحب کی صلاح و مشورے کے ہر گز پسند نہ کرتا مگر وہاں تو سلسلہ ایسا شروع ہوا تھا کہ جس کی نگرانی دو تیز آنکھیں کر رہی تھیں کہ جن میں عجیب بجلی کا اثر تھا۔

خدا کی شان ہے کہ رہ رنڈی کی لڑکی بھی عجیب ہی نکلی۔ جو دیکھتا ہے وہ اس کو زاہد کی لڑکی کہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

خود مختار دوشیزہ

(انگلستان کی ایک جھلک )

 

"یہ کیا ہے ؟” میں نے دوسرا گلاس ختم کرتے ہوئے پوچھا۔ "بولتی نہیں یہ کیا ہے "….؟       اس کے سرخ ہونٹ دہکنے لگے ،سارہ چہرہ شرارت کے نور سے تلملا اٹھا ، صاف و شفاف چہرے پر سرخی جھلکنے لگی ، چہرہ مسرت آمیز جذبات کا آئینہ تھا۔ اس نے اپنے سرخی مائل سنہری بالوں کی خوبصورت اور پیچ در پیچ لٹ کو کان کے پاس کرتے ہوئے ساحرانہ انداز سے مسکراہٹ کو روکتے ہوئے ، آنکھوں کو جھپکاتے ہوئے ، اپنا سر میرے بالکل ہی قریب لا کر سر سے ملاتے ہوئے رازدارانہ –ساحرانہ-مکارانہ لہجہ میں ، کپکپاتی ہوئی آواز سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میرا بازو دباتے ہوئے اور خالی گلاس کو ایک اندازسے میری آنکھوں سے بچاتے ہوئے کہا:         "ہے نہیں …..پیارے احمق…ہے نہیں بلکہ تھا "!گلاس الٹا کر کے رکھ دیا اور واقعہ یہ ہے کہ گلاس خالی تھا –اس میں اس وقت کچھ بھی نہ تھا میں کہا:

"کیا تھا…..؟”

جاز کا نغمہ ! خدا پناہ قلب اور خون کو حرکت دینے والا۔ بیٹھے بٹھائے اس کی نپی تلی گت پر رگ رگ پھڑکتی ہے۔ ہم بال روم میں بیٹھے ہوئے تھے سامنے پری وشوں کا مجمع ہر ایک اپنے محبوب کے ساتھ حرکت میں تھا۔ پوئٹری آف موشن (Poetry of motion) جس کو ہمارے یہاں ناچ یا رقص کی ذلیل اصطلاح سے یاد کرتے ہیں ! نہیں جانتے کہ جس وقت حرکات و سکنات نظام شعری کے ماتحت فن عروض و قوافی کی پابندی کے ساتھ راگنی کا ساتھ دیتے ہیں تو نتیجہ کتنا شیریں اور ہوش ربا ہوتا ہے :

میرے سوال کا جواب اس نے یہ دیا کہ "جاز” کے دلربا ترنم کے ساتھ ساتھ وہ گانے لگی۔ اس قدر آہستہ کہ سوائے ایک ہلکے ترنم کے میں بھی کچھ نہ سن سکا۔ ایک ہلکی سی جھنجھناہٹ تھی ، مسکراہٹ سے چہرہ دمک رہا تھا ، آنکھوں میں غضب کی چمک تھی۔ یہ کمبخت ایک قسم کی ہلکی شراب تھی۔ جس کا دوسرا گلاس میں ختم کر چکا تھا۔ شراب خود کہہ دیتی ہے کہ میں شراب ہوں۔ پہلے گلاس تک میں تو مجھے کہنے کو شبہ تھا دوسرے گلاس پر یقین مگر تجاہل عارفانہ سے کام لینا پڑا۔ وہ جانتی تھی کہ میں نے کبھی شراب نہیں پی اور نہ کبھی پیوں گا۔

بہت جلد کمرے کا سین ایک رنگین و متزلزل خوب معلوم ہونے لگا۔ میرے حسین ہمدم کی خوبصورت تصویر آنکھوں کے ذریعے دل میں گھستی معلوم ہوئی۔ میرے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھا۔ وہ میرے سر سے سر جوڑے گویا میری آنکھوں میں غوطہ کھائے بیٹھی تھی۔ عطر سے مہک رہی۔ اس کی گرم گرم سانس میرے لئے کیا تھی ! عجیب دلکش سماں تھا۔ سارا بال روم حسن اور نغمہ کے زور سے بھڑک رہا تھا۔ چشم زدن میں نغموں کی شیریں فضا میں بال روم جھومتا معلوم ہوا۔ بلور کی دلدوز برچھیاں نکلنے لگیں۔ ساز کے پردوں سے آتشیں لپٹ نکلتی معلوم ہوئی۔ میں نے اپنے دلنشیں دوست کو دیکھا اس کی خوبصورت اور نشیلی آنکھوں میں سرور تھا اور میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ جوانی ….. رعنائی ….چہرے پر اس کی خفیف مسکراہٹ کی لرزش تھی اور موجوں سینہ نغمے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ دب دب کر ابھر رہا تھا۔

آہ! میں نے کہا۔ "پیارے دوست۔” تم کس قدر دلچسپ ہو۔ اس نے مسکرا کر کہا۔

"واقعی "!

میں نے کہا۔ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔

میر ا یہ کہنا تھا کہ گویا وہ مجھے جھپٹ لے گئی۔ ایکدم سے میرے کمر میں ہاتھ ڈالا "جاز” کی گت پر از خود ہم دونوں گویا ایک دوسرے کے آغوش میں ….آہا آہا!….رکتے ہوئے ! تلملاتے ! اچھلتے ہوئے گنگناتے چلے ، گٹار کی نغموں پر ….بنجو کے تاروں پر ….لرزش سے جھنجھناتے چلے ….. تھرکتے ہوئے …جھناجھن پر پنجہ جھٹکتے …. سر کو پٹختے ہوئے …کشاکش میں کاندھے رگڑتے ہوئے … کپڑوں کی جھم جھم …..چہروں کی چم چم … دمکتے ہوئے ….چمکتے ہوئے …نور کی چتونوں سے جھپکتے …! متحرک …متزلزل … لرزاں ! رقصاں ! افتاں ! خیزاں ! ساز کے ساتھ گٹکریاں کھاتے گرہ لگاتے زندہ دلوں کے متزلزل و متلاطم سمندر کے ہوشربا زیرو بم میں گم ہو گئے ….اللہ رے بیخودی ! الامان ! خدا محفوظ رکھے ! خون میں حرکت ! جی میں حرکت ! دل میں حرکت ! دماغ میں حرکت ! خیال میں حرکت! خود مجسم حرکت۔ رقص نہیں بلکہ حرکت کا خون "جیز” کا قوی اور مضبوط دل نغمے کی طاقتور شہ رگ کے ذریعے ہر دھڑکن کے ساتھ پھینک رہا تھا۔ جو موجیں سی مارتا ہر شخص کو حرکت دیتا تھا۔ اسی دھڑکن سے ایک جنبش پیہم تھی! جنبش ! نغمہ ! حرکت ! رقص! رقص! سارا ہال روم مع ہمارے جھوم رہا تھا اور یہ حرکت کس قدر پر کیف کس قدر شیریں کس قدر دلربا اور دلکش تھی!… کیا کہنا ہے مشرق میں الو بولتا ہے۔ مغرب میں کیا ہے ! ہندیوں سے یعنی ہم سے پوچھئے نہیں بلکہ کسی مولوی سے سہی کہ سجدہ کدھر منہ کر کے کریں ……

انگلستان کی جما دینے والی سردی تھی۔ غلیظ کہر اور ابر۔ کوئی بھلا مانس باہر نہیں نکل سکتا۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ میں آتشدان کے سامنے بیٹھا صاحب خانہ سے دلچسپ باتیں کر رہا تھا۔ باتیں۔

معلوم ہوا کہ صاحب باہر مجھ سے ملنے آئے ہیں۔ اندر نہیں آتے۔ بس کھڑے کھڑے مل لین گے۔ میں نے کہا کون ہے تو معلوم ہوا کوئی بڈھا خبطی۔ میری زبان سے نکلا۔ "بڈھا” اور میں اٹھا۔

کوئی ساٹھ برس یا حد پینسٹھ کی عمر ہو گی ، کتّھئ رنگ کا سوٹ پہنے ایک طوفان زدہ نائٹ کیپ۔ چہرہ سرخ مگر ناک اور بھی سرخ انگارہ، مونچھیں سفید مگر پائپ کے تمباکو کے دھوئیں نے بھورا کر دیا تھا۔ پتلون ٹانگوں سے مع مبالغہ ڈیڑھ گز بڑا۔ جس کی وجہ سے معلوم ہوا کہ اس شخص کی ہر ٹانگ میں کئی گھٹنے ہیں ، نہ سہی یہ تو کم از کم گھٹنے کا محل وقوع تو معلوم کرنے میں قطعی دشواری ہو۔ آنکھیں نیلی۔ چہرہ باوجود بڑھاپے کے خوبصورت۔ ناک و نقشہ بھی پاکیزہ۔ کشیدہ قامت چہرہ۔

نہایت ہی رکھائی سے بات چیت ہوئی۔ بڑے میاں نے میرے نام کی مجھ سے تصدیق چاہی اور میں نے اثبات میں جواب دیا تو ذرا چہرہ کو سنجیدہ بنا کر انہوں نے انتہائی "انگلش”سادگی سے کہا (جو کچھ کہا میں اس کا ترجمہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ورنہ اصل لطف تو انگریزی ہی میں ممکن تھا ) خیر وہ بولے :

لک ہیئر بوائے۔ "تمہاری محبوبہ کون ہے ؟ کیا میں اس کا نام معلوم کر سکتا ہوں ؟

میں حقیقت کی تہہ کو پہنچ گیا۔ میں نے کہا۔ "جناب من۔ معاف کیجئے گا۔ میری کوئی محبوبہ نہیں۔ ہاں میری دوست ملنے والی کئی خوبصورت لڑکیاں ہیں۔” ان میں کوئی خاص بھی ہے "!

میں نے مکاری سے کہا۔” سب خاص ہیں۔ ”

"اولڈ بوائے "۔ بڑے میاں جھلا کر بولے۔ "میں بھی کبھی تمہاری طرح نوجوان تھا اور … اور… مکار بھی۔ تمہاری ملنے والیوں میں کوئی سب سے زیادہ خوبصورت بھی ہو گی۔ ”

میں نے عیاری سے کہا۔ "کوئی کسی کو خوبصورت خیال کرتا ہے اور کوئی کسی کو یہ تو اپنی اپنی نظر ہے۔ ”

بڑے میں جھلا کر بولے : میں ادھر ادھر باتیں نہیں کروں گا۔ سن لو کان کھول کر۔ میں ایملی کا باپ ہوں ….”

بات کاٹ کر میں نے تصنّع سے کہا۔ ” اوہو! آپ میری پیاری دوست کے باپ مسٹر الیٹ ہیں میں بے حد خوش ہوا۔ جناب کی خدمت میں نیاز ….”

بڑے میاں خفا ہو کر بولے "تم ….تم اس کے ساتھ ساتھ گھومے شبستانوں میں ….رات گئے تک”

"معاف کیجئے گا۔ معاف کیجئے گا۔” میں نے کہا۔ "جی۔ جی۔ وہ میرے ساتھ ساتھ گھومتی ہیں۔ یہی مطلب ہے جناب کا نا …..؟”

تم اسے جگہ جگہ لے جاتے ہو۔ ”

میں نے کہا۔ "غالباً وہ مجھے جگہ جگہ لے جاتی ہیں۔ میں نے انہیں نہیں لے جاتا۔ یہ آپ نے کیسے فرمایا؟ میں انکے ساتھ پھرتا ہوں یا وہ ؟ وہ مجھے لے جاتی ہیں یا میں ؟

بڑے میاں بولے۔ "خیر بات ایک ہی ہے تو مطلب یہ ہے کہ میں یہ ہرگز نہیں پسند کرتا کہ میری لڑکی بغیر میری اجازت کے اجنبی لڑکوں کے ساتھ آزادی سے رات گئے تک گھومتی رہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ تم سے ملے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم اسے جگہ جگہ لئے پھرو۔ ابھی مجھے کل ہی معلوم ہوا کہ ایک رقص کے جلسے میں وہ ضرورت سے زیادہ آزادی کے ساتھ تمہارے گلے میں باہیں ڈالے کھڑی تھی…..ناقابل برداشت ہے۔ ”

میں نے کہا”جناب من۔ میں آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ آپ اگر اپنی صاحبزادی کو روکنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ آپ خود انہیں سے کہیئے۔ غالباً آپ کا حق ان پر زائد ہے کہ وہ آپ کے احکام کی پابندی ہوں۔ معاف کیجئے میرے اوپر آپ کا حکم برادری لازمی نہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ وہ مجھ سے نہ ملیں اور اپنے ساتھ مجھے جگہ جگہ نہ لئے پھریں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ تجربہ کار ہو کر مجھے دبانا چاہتے ہیں خود آپ کی لڑکی جب نہیں مانتی تو کیونکر آپ حکم کی تعمیل پر مجھ کو مجبور کیا جا سکتا ہوں۔”

بڑے میاں جل کر بولے۔ "مگر تم اس کے ساتھ یہ حرکتیں جاری نہیں رکھ سکتے۔ تم میری بھولی بھالی لڑکی کو آوارہ کر دو گے۔”

میں نے جل کر کہا۔ "قبلہ من میں کالا ہوں یا کہ وہ ؟ میں خوبصورت ہوں کہ وہ ؟میں انکو بگاڑ سکتاہوں یا وہ مجھے ؟ مجھے وہ احمق بنا سکتی ہیں یا میں ان کو ؟ میں بھولا ہوں یا وہ ؟ میں قابل الزام ہوں یا وہ …..؟ دیکھئے اور انصاف کیجئے …..؟

یہ کہہ کر میں نے اپنے چچا صاحب قبلہ کا خط ان بڑے میاں کے ہاتھ میں دیا۔ رفیق چچا جن کی صاحبزادی کے دست حق پرست پر مجھ کو ابھی ایمان لانا باقی تھا یہ خط انگریزی میں تھا۔ اس میں کیا لکھا ہو گا! اپنے ہونے والے داماد کو ایک شخص کیا لکھ سکتا ہے۔ جبکہ داماد ولایت میں ہو۔ اگر ان انگریز بڑے میاں کی حسین و دلربا صاحبزادی بھولی بھالی اور معصوم تھیں تو یہ خاکسار اپنے شفیق چچا کی نظروں میں معصوم تر تھا۔ چچا صاحب قبلہ کو بیحد اندیشہ تھا کہ یہ ناز نینان فرنگ مجھ بھولے بھالے اور معصوم نوجوان کو آوارہ نہ بنا دیں۔ ان کی چالاکیاں ، عیاریاں، فریب کاریاں ایسی ہیں کہ یہ مغربی تیتریاں مجھے آوارہ کر دیں گی۔ لہٰذا مجھے ان سے بچنا چاہیئے۔

اس بڈھے انگریز نے سب کا سب خط غور سے پڑھا۔ پائپ منہ سے نکال کر کرسی پر پیر رکھتے ہوئے بولا۔ "آہم ….م …م ” بھویں چڑھائیں۔ مجھ سے پوچھا۔ "یہ کون ہیں "؟

میں نے جواب دیا۔ "یہ میرے چچا ہیں۔ ”

"تو کیا یہ سب یورپین لڑکیوں کو ایسا ہی سمجھتے ہیں "؟

"میں کیا جانوں ” میں نے بے پروائی سے کہا۔

"مگر کیا یہ بہتر نہیں کہ تم ایملی سے اب نہ ملو۔ اب تو اور بھی نہ ملو۔ ”

میں نے کہا …. "بالفاظ دیگر وہ مجھ سے نہ ملیں۔ تو آپ ان کو بتا کے کہہ دیں کہ وہ مجھ سے نہ ملیں او ر نہ مجھے جگہ جگہ لئے پھریں ورنہ آپ کا کیا خیال ہے …. بالفرض میرے چچا آپ کی پیاری صاحبزادی کو لکھیں !…” آپ تو جانتے ہیں کہ وہ میری عزیز ترین دوست ہیں۔ میرا ان کا یہ رشتہ نہیں کہ میں ان سے یہ کہوں کہ ” …. بات کاٹ کر وہ بولے :

"تم ہندوستانی لوگ ….”

میں خاموش رہا۔

وہ بولے۔ ” ہم لوگ ہندوستانیوں کو قطعی پسند نہیں کرتے۔ ”

"اور ہندوستان کو "؟

"ہندوستان بھی ناپسند ہے۔ ”

"اور پھر ہماری چھاتی پر سوار ہو۔ جان چھوڑ دو نا ہماری ….”

بات کاٹ کر بولے۔ "کتنے ہندوستانی ہماری لڑکیوں سے میل رکھتے ہیں اور محبت کرتے ہیں اور پھر کتنے ان میں سے شادی کی نیت رکھتے ہیں اور پھر کتنے ان میں سے شادی کرتے ہیں۔ شاید دس فیصد ی بھی ہماری لڑکیوں سے شادی نہیں کرتے۔ ارادہ ہی شادی کا نہیں رکھتے۔ پھر ایسی صورت میں ہماری لڑکیوں سے کیوں ملتے ہیں اور پھر وہ بھی کیسے ؟ جیسے تم میری ایملی سے ملتے ہو… سخت قابل اعتراض ….قابل نفرت ….ناقابل برداشت …کان کھول کر سن لو۔ یہ صورت حال نہ رہنی چاہیئے میں سب سن چکا۔ بہتر ہے کہ آیندہ تم ایملی سے ساتھ نہ نظر پڑو….”…”بالفاظ دیگر وہ میرے ساتھ نظر نہ پڑیں۔ قطعی …ٹھیک …اس کا مناسب انتظام فرمائیں۔ ”

"مائی لیڈ…”برہم کر بڈھے نے کہا۔ "تم جوان ہو اور میں بوڑھا ہوں ورنہ ابھی تم کو معلوم ہو جاتا کہ راستی کیا ہوتی ہے۔ تم جذبات کا خیال نہیں کرتے۔ ایک بھولی بھالی لڑکی کو خراب کرنے کے درپے ہو ….”

میں نے برا مان کر کہا۔ ” غالباً اس قسم کے الفاظ سننے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ قابل احترام بزرگ۔ آپ بچہ نہیں ہیں نہ آپ کی بچی بچہ ہے ، وہ تعلیم یافتہ ہے ، پڑھی لکھی ہے۔ آزاد ہے۔ خود مختار ہے۔ اپنا برا بھلا خود بہتر جانتی ہے۔ آپ نے اس کو سمجھایا اچھا کیا۔ نہیں مانتی ؟ وہ خود جانے ،آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کی صاحبزادی صاحبہ ماشاءاللہ نہ صرف نوجوان اور خوبصورت ہیں بلکہ نہایت ہی سمجھدار۔ ہوشیار۔ عقلمند اور صائب الرائے ہیں۔ احمق نہیں ہیں اور اگر ہیں تو نہ میرے بس کی بات نہ آپ کے۔ یہ بھی آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ میرے اوپر آپ کا زور نہیں چل سکتا۔ میں اپنے فعل کا خود مختار ہوں۔ آپ کو کوئی حق نہیں کہ مجھ سے ایسی باتیں کریں۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ براہ کرم جائیے اور معاملات پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔ ”

بڑے میاں کی حالت یہ سن کر غیر ہو گئی۔ بے بسی نے غصے کو دبانے پر مجبور کیا۔ ہونٹ چبا کر رہ گئے۔ تاؤ کھا کر رہ گئے۔ گھٹ کر رہ گئے۔کہنے لگے "والٹر آئے گا تب وہ تم ہندوستانی طریقے پر معاملہ فہمی کرے گا اور جب ہی تم راہ راست پر آؤ گے۔ ”

میں نے کہا۔ "خوش آمدید۔ خوش آمدید۔مسٹر والٹر کو خوش آمدید میں ہمیشہ معاملہ فہمی کے لئے تیار ہوں۔ ”

"غالباً تم اس کو تکلیف ہی کا خیال نہ کرو گے۔”

"اوہ "! میں نے معذرت کو قبول کرتے ہوئے کہا۔ "ہرگز نہیں …ہرگز نہیں …”

"خدا حافظ….”

"خدا حافظ….”

مجھے غالباً اس انگریز بڈھے سے ہمدردی تھی۔ ایک گونہ تکلف کے ساتھ اپنی کرخت اور گٹھیاوی ٹانگوں سے چلا جار ہا تھا دھواں چھوڑتا ہوا میں اس کو دیکھتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ سڑک پر کہرے کے دھند میں غائب ہو گیا۔

واقعے کے کوئی دو ہفتہ بعد کا ذکر ہے کہ ایملی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے میں پارک کی طرف جا رہا تھا۔ ایکدم سے ہمارا راستہ ایک تنومند نوجوان نے سامنے سے روک لیا۔ ایملی ایک دم سے ذرا پیچھے ہو گئی۔ یہ شخص نہایت ہی وجیہہ۔ متناسب الاعضا، دھاری دار وضع دار سوٹ پہنے ذرہ ترچھی ٹوپی لگائے اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ لڑکی کی طرف انگلی اٹھا کر مجھ سے بولا:

"تم جانتے ہو یہ تمہاری ساتھی لڑکی کون ہے ؟ … تم جانتے ہو کہ یہ تمہارے ساتھ کون احمق لڑکی ہے ؟…..(رک کر) میرے بہن ہے ”

میں نے کہا۔ "تو پھر میں کیا کروں ” ؟

"میں کیا کروں ؟ … ! کیا میں بتاؤں کہ تمہیں کیا کرنا چاہیئے "؟

"بہتر ہے۔ ” میں نے کہا۔ گو میں خود جانتا ہوں ” (میں نے طنزیہ لہجے میں کہا) "مگر ہاں آپ بتائیں اور ضرور بتائیں۔ ”

” تم اس وقت اسے کہاں لئے جاتے ہو” ؟ وہ چیخ کر بولا۔

میں نے کہا ” بالفاظ دیگر یہ مجھے اس وقت کہاں لئے جا رہی ہیں ….؟ شاید یہ خود بتا سکتیں۔”

"یہ فرض آپ کا ہے نہ کہ اس احمق لڑکی کا۔ ” وہ ذرا زور دے کر بولا۔

میں نے کہا "جناب من ! مجھے اپنے تمام فرائض کا نہ صرف علم بلکہ احساس بھی ہے اور غالباً ان فرائض کی سبکدوشی کے بار گراں سے آپ کے کندھوں کو دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ….

ویسے آپ کی مرضی مگر غالباً ہم دونوں اس موقعے پر کوئی عملی "بدمزگی ” کے خوشگوار امکان پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ”

” مگر آپ ہر واضع ہو جانا چاہیئے کہ یہ بیوقوف لڑکی میری چھوٹی بہن ہے ”

میں نہ کہا ” واضح ہو گیا۔”

"اچھا۔ تو پھر میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم اسے روز کیوں لئے پھرتے ہو۔ ”

"پھر وہی "!میں نے کہا۔ "بالفاظ دیگر یہ مجھے روز کیوں لئے پھرتی ہیں ؟شاید کہ یہ خود بتاسکیں۔ ”

وہ بولے۔”اچھا یوں ہی سہی تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ "(منہ بگاڑ کر )۔

میں نے کہا۔ ” میں دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آئندہ آپ قابل نفرت ہندوستانیوں سے بات بھی نہ کریں بلکہ اسی دم اس پر عمل در آمد کریں۔ کیا آپ ایسا نہ کریں گے "؟

وہ تیز ہو کر ہولے۔” لک ہیئر (ادھر دیکھو ) میں اس قسم کی گفتگو کا عادی نہیں ہوں۔ بس خیریت اسی میں ہے …. یہ راستہ ہے واپسی کا (انگلی اٹھا کر )سیدھے تیر کی طرح بھاگ جاؤ….

کوئک مارچ! بھاگو”

اس کی غصے سے آنکھیں لال ہو گئیں۔ نوجوان انگریزسخت غضبناک تھا۔ مگر خوش قسمتی سے انگریز جتنا مضبوط اور توانا ہوتا ہے اسی مناسبت سے "وہسکی ” بھی پئے رہتا ہے۔ یہ انگریز بھی تھے اور مضبوط بھی۔ پھر میں بھی مٹی کا بنا ہوا نہیں تھا۔ مگر حق اس کی طرف تھا۔ میں حتّیٰ الوسع دینا ہی چاہتا تھا۔ لہٰذا میں نے بد مستی انکی برداشت کی اور کہا:

"مائی لارڈ۔ آپ کا زور بیان سر آنکھوں پر۔ مگر کیا میں عرض نہیں کر سکتا کہ ان الفاظ کو آپ واپس لیں۔ بجائے مجھے حکم دینے کے بہتر ہے کہ آپ اپنی دلچسپ اور شیریں بہن کو حکم دیں کہ

وہ آپ کے ساتھ چلی جائیں۔ یہ سیدھا راستہ ہے …”

"میں یہیں کھڑا رہتا۔ تنہا کھڑا رہنا زیادہ پسند کرونگا۔ آپ جائیں دونوں بھائی بہن کوئک مارچ ….”

یہ بات ان کے انگریزی دماغ میں آ گئی اور فورا بہن سے بولے :

"کم آن ایملی۔”

بہن صاحبہ خاموش رہیں۔ مگر ایک قدم اور پرے ہٹ گئیں۔

"ڈونٹ بی سیلی ….. ” (احمق پن نہ کرو) وہ بولے۔

بہن ہولی "کانٹ یولگ ٹو یور اون افیرس "(کیا تم خود اپنے معاملات میں مشغول ہونا پسند نہ کرو گے "(بہ نسبت اس کے کہ میرے معاملات میں دخل دو )۔

تن کر بولے۔ ” اب زیادہ احمق نہ بنو … شمپین پی پی کر مد ہوش ہو کر حبشیوں کے ساتھ ناچنا قطعی قابل اعتراض ہے۔ ”

برہم ہو کر بہن ہولی۔ ذرا چیخ کر۔ "کانٹ یو لک ٹو یور اون لیوی الون ” (مجھے چھوڑو اور اپنے معاملات دیکھو)”

بہن سے شکست کھا کر اب بھائی صاحب بہادر میری طرف پھر متوجہ ہوئے۔ بولے "غالباً اب تم کچھ ٹھوس او ر مادی چیز پسند کرو گے ” اپنی مٹھی کا گھونسا بناتے ہوئے سرہلا کر بولا:

میں نے کہا۔ "ضرور۔ مادی بھی اور غیر فانی بھی۔ ”

اتنا کہ کر میں اڑنگا لگانے کے امکان کی طرف متوجہ ہوا۔

غضبناک انگریز نے کچکچا کر گھونسا مارا۔ ایک دو۔ تین۔ پہلا خالی گیا۔ دوسرا میرے کندھے پر اوچھا سا لگا۔ تیسرا اس کی بہن نے پکڑ لیا اور وہ بھائی سے لپٹ پڑی۔ میرے اور اپنے بھائی کے بیچ میں آ گئی۔ اس کے بھائی کا قابل اعتراض رویہ دراصل ایک انگریز دوشیزہ کی غیور طبیعت کے لئے نا قابل برداشت تھا۔ خود غور فرمائیے۔ کیا اس کے نوجوان ملنے والوں کا یہی حشر ہونا چاہیئے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انگلش سوسائٹی کا نظام ہی برہم ہو جائے گا۔ ہر عاشق شادی سے قبل دوران کورٹ شپ ہی میں پٹ جائے ! یہ پروگرام تو سخت "آن انگلش ” ہوا۔ اس نے بگڑ کر بھائی سے کہا:

"والٹر۔ یہ ناقابل برداشت ہے۔ بس۔ خبردار جو میرے معاملات میں دخل دیا۔”

"مت بکو تم” بھائی نے پیر پٹخ کر کہا”۔۔۔ یہ کالا حبشی۔۔۔ پھر تم کون؟ بہن چمک کر بولی۔

کیوں۔ کیا تم ایمانداری سے کہہ سکتے ہو کہ تم سے تمہاری محبوبہ کے باپ نے کتنی دفعہ تاکید سے کہا ہے کہ میری لڑکی سے نہ ملو۔

تو پھر؟ والٹر نے کہا۔

کیا تم نے اس یہودی صفت ہونے والے خسر سے یہی نہیں کہہ دیا کہ منع کر لو اپنی لڑکی کو اور کیا وہ مان گئی؟ کیا وہ اب تم سے نہیں ملتی۔ کیا وہ تمہاری زوجہ نہیں بنے گی؟ کیا تمہارا ہونے والا خسر تم سے ہار نہیں گیا؟

والٹر نے کہا۔ پھر تمہارا کیا مطلب ہے ؟

مطلب میرا یہ ہے کہ تم جاؤ یہاں سے۔

والٹر نے کہا۔ تمہارے اس سیاہ فام دوست (یعنی خاکسار) کا سر پھاڑنے سے قبل؟

میں نے احتجاج بلند کیا۔ تم اپنے بھائی کو منع کرو۔ باوجود یکہ اس سے بھی زیادہ توہین آمیز الفاظ سننے کے لئے میں تیار تھا، لیکن میں نے ایملی سے کہا۔ میں اب برداست نہیں کرسکتا۔

والٹر نے میری جانب حقارت آمیز نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ میں اپنی بہن کو ایک سیاہ فام انسان کے ساتھ معاشقہ کرتے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ میرے لئے تو یہ ناقابل برداشت ہے۔

تیز ہو کر ایملی بولی۔ والٹر تم اپنی زبان کو روکو۔ میں ہرگز کسی سے معاشقہ نہیں کرتی اور کروں تو مجھے کوئی روک نہیں سکتا۔ میں تمہاری طرح ریا کار نہیں ہوں۔ میں معاشقہ کرونگی تو مجھے کس کا ڈر ہے۔ بہتر ہے کہ تم اپنی زبان کو لگام دو۔ میرا کوئی عزیز دوست لازمی نہیں میرا عاشق بھی ہو اور اگر بالفرض ہو بھی ت تم درمیان میں نہ پڑو۔

والٹر نے کہا۔ تمہارا کالا جنگلی دوست۔۔۔

میں تڑپ کر تیزی سے آگے بڑھا۔ گویا حملہ کرونگا۔ مگر ایملی نے مجھے روک لیا۔ اس نے جھلا کر بھائی سے کہا۔ تمہاری عقل میں کچھ فتور ہے۔ والٹر تم اپنی وہسکی میں پانی زیادہ ملا کر پیا کرو۔ بہتری اب اسی میں ہے کہ تم جاؤ اپنے راستی۔ لو ہم خود جاتے ہیں۔

ہم دونوں اس لڑاکا والٹر کو وہیں چھوڑ کر واپس چلے۔ وہ خاموش کھڑا رہا۔ جیب میں ہاتھ ڈالے۔ وہسکی کی ترنگ میں کھڑا جھوم رہا تھا۔ ہمیں دونوں کو جاتے دیکھتا رہا۔ مڑ مڑ کر ہم نے اسے دیکھا اور ہنسے اور ہنس ہنس کر اسے دیکھا۔ قہقہے لگائے۔ جب ذرا دور نکل گئے تو ایک دفعہ پھر مڑ کر دیکھا۔ ایک دم سے ایملی رک گئی۔ مڑ کر اس نے پکارا۔

والٹر۔ والٹر۔ صلح کرتے ہو۔ صلح۔ صلح کرتے ہو؟

سر ہلا کر والٹر نے کہا۔ نو۔ (انگلی کے جھٹکے سے اپنی بیزاری ظاہر کرتے ہوئے )

ایملی نے کہا۔ میں تمہاری منگیتر کے باپ کو کنجوس نہ کہوں گی۔

والٹر نے کہا۔ نو۔

والٹر دوبارہ سوچو۔ صلح کرتے ہو۔

والٹر نے پھر وہی جواب دیا۔ نو۔۔۔۔و۔۔۔۔و بھاگ جاؤ۔

ایملی نے کہا۔ میں پھر سے (والٹر کی منگیتر کو) ہر جگہ چھپکلی کہوں گی۔

والٹر نے گھبرا کر کہا۔ تم ہرگز ایسا نہیں کرسکتیں۔ (آگے بڑھ کر) تم اسے کئی آدمیوں کے سامنے خوبصورت تسلیم کر چکی ہو۔ وعدہ کر چکی ہو کہ چھپکلی نہ کہو گی۔ اس کی شہادت موجود ہے۔

مگر میں اسے چھپکلی ضرور کہوں گی۔

والٹر آگے کو بڑھتے ہوئے۔ تمہاری اس ناشائستہ حرکت سے اس کے نازک دل کو صدمہ پہنچنے کا سخت اندیشہ ہے۔ تم ہرگز ایسا نہیں کرسکتیں۔ بھلا سوچو تو اس کا باپ کیا کہے گا۔ دل میں وہ کیا سوچے گی۔

مگر میں اسے چھپکلی ضرور کہوں گی۔۔۔ اس کے باپ کو منحوس اور کنجوس کہوں گی۔

والٹر اور آگے بڑھ چکا تھا۔ کہنے لگا۔ میری پیاری بہن۔ کیا تو ابھی ابھی صلح کرنے کو نہیں کہہ رہی تھی۔ یہ تجھے کیا ہو گیا؟

پیارے والٹر صلح کرتے ہو؟

تم لڑے کب تھے ؟ والٹر نے کہا۔

میری طرف اشارہ کر کے ایملی نے والٹر سے کہا۔ پیارے بھائی۔ کیا تم میرے دوست سے تعارف حاصل نہ کرو گے۔

افوہ! انگریز کی سارہ لوحی یا شراب کے نشے ، ان دونوں میں سے ایک پر ضرور قربان جائیے ! یہ مسخرا والٹر مجھ سے سچ مچ صاف دل ہو کر مصافحہ کر رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا واقع اس کا دل کینہ سے پاک تھا۔

غالباً ہم بہترین دوست ہیں۔ چلتے ہوئے والٹر نے کہا۔

اوہو! میں نے کہا قطعی۔ اس میں شک کی گنجائش کسی طرف سے نہیں۔ ایملی نے بھائی سے کہا۔ غالباً ہم دونوں خود مختار اور سمجھدار ہیں اور اپنے معاملات کو خود بہتر سمجھتے ہیں۔

والٹر نے اس کو تسلیم کیا۔

والٹر اپنی راہ چلا گیا اور ہم۔ ہم دونوں؟ نہ پوچھئے جی میں آتا تھا کہ اس دلچسپ واقعی کی نوعیت پر غور کریں اور قلا بازیاں کھائیں۔ سیدھے ہم دونوں ہوٹل پہنچے ناشتہ کیا اور پھر وہاں سے ایک جوئے گھر کے مشاغل کو بنظرِ اتحسان دیکھتے ہوئے بال روم کے دروازے تک تو اپنے پیروں پر رہے اور پھر اندر داخل ہوتے ہیں "جاز” کے نغموں کی حرکت کی وجہ سے سر کے بل۔۔۔!

٭٭٭

 

 

 

زنبور

 

                (ا)

 

سنا کرتے تھے کہ پائیریا ایسا موذی مرض ہے کہ جس دانت میں ہو جائے اس کے پاس والے کی خیریت نہیں۔ پہلے تو ہم یہ سمجھا کرتے تھے کہ یہ ڈاکٹر لوگ یونہی ڈراتے ہیں لیکن ذاتی تجربے سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں کا کہنا بالکل صحیح ہے اور اب میں اگر دیکھتا ہوں کہ کسی دوست کے دانت میں پائیریا ہو گیا تو یہی کہتا ہوں کہ بھیا بچاؤ اس کے پاس والے دانت کو۔

 

                (۲)

 

میں کالج میں پڑھتا تھا کہ مجھے پائیریا ہو گیا۔ وہ ایسے کہ مجھے خبر تک بھی نہ ہونے آئی اور اس مرض نے آ کر میری ایک اچھی خاصی داڑھ کو زیر کر لیا۔ پہلے تو اس ڈاڑھ میں کبھی کبھار ٹیس ہوئی، خون نکلا اور کبھی بادی پانی نکلا اور کہنی سوج گئی اور پھر آپ ہی اچھی ہو گئی، لیکن پھر ایک روز با ضابطہ اس میں درد اٹھا، بورڈنگ میں رہتا تھا پہلے تو پروا نہ کی، شفا خانہ سے دوا منگا کر لگائی، کلی غرارے کئے لیکن جب تکلیف زیادہ ہوئی تو تیسرے دن کالج کے ہسپتال جانا پڑا۔

کسی زمانے میں آگرے میں ڈاکٹر بنانے کا اچھا کارخانہ تھا، تھوڑا بہت انگریزی پڑھا کوئی ہاتھ لگ جاتا تو اسے دواؤں اور بیماریوں کے انگریزی نام یاد کرا کے خوب سمجھا دیتے کہ دوا اور مرض دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن جب یقین ہو جتا کہ طالب علم مرض میں دوا کے بجائے مرض نہیں تجویز کرے گا تب اس کا نام ڈاکٹر رکھ دیا جاتا تھا۔ اسی قسم کے یہاں ایک پرانے ڈاکٹر صاحب تھے ، میں کیا بتاؤں حلیہ سمجھ میں نہیں آتا۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ تاش کے پتے سب کے سب پانی بھری بالٹی میں ڈال دیجئے ، تھوڑی دیر بعد جب خوب بھیگ جائیں تو چڑی کا بادشاہ لیکر دھوپ میں سکھا لیجئے (سایے میں نہیں) اور عین اس کی ناک کی پھنگی پر عینک اور لگا دیجئے۔ سوکھے ساکھے ڈاڑھی چڑھائے کہنے کو ڈاکٹر اور دیکھنے میں سچ مچ چھوٹی ہڑ، مگر بلا کے تیز، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے ، منہ پھاڑو۔ میں نے منہ پھاڑ دیا اور وہ دیکھنے لگے۔ مگر دراصل میں تو منہ پھاڑے تھا اور وہ دیکھ رہے تھے میری عینک۔ سر ہلا کر بولے۔ یہ کمانی کتنے کی ہے۔ میں نے منہ پھاڑے ہی جواب دیا۔

ڈیغ غوپیہ بولے۔ بہ۔ بہ بس دیکھ لیا۔ حالانکہ واقعہ ہے کہ دیکھتا کون مسخرا ہے۔ اگر مریض وہمی نہ ہوں تو اصل پوچھئے تو دیکھا بھالی میں دھرا کیا ہے۔ حکیم صاحبان ہی کونسا تیر مار لیتے ہیں دیکھ کر اور ہسپتالوں میں اگر مریض علاج سے پہلے دیکھے جانے لگیں تو غالباً ہر ڈاکٹر اس کام کے لئے محکمے سے دو تین نئے کمپونڈر مانگنے پر مجبور ہو۔

ڈاکٹر صاحب نے حضرت کمپونڈر سے پکار کر کہا۔ ارے بھئی یہ ان کے دوا لگا دو۔ یہ خبر نہیں کہ دو روز سے یہی مرکب لگایا جا رہا ہے اور ڈاڑھ ہے کہ کسی کل چین نہیں لیتی۔ چنانچہ میں نے جب ڈاکٹر صاحب سے یہ عذر کیا تو انہوں نے ٹھہرنے کو کہا کہ ابھی آیا۔

ڈاکٹر صاحب نے پانچ منٹ کے بعد درد کافور کرنے والے نسخہ کا ذکر کیا تو میں خوش ہوا لیکن جب معلوم ہوا کہ ڈاڑھ اکھیڑ دی جائے گی تو میں راضی نہ ہوا، ڈاکٹر صاحب نے پھر مجھ سے کہا منہ پھاڑو۔ میں اسٹول پر بیٹھا تھا اور وہ کھڑے تھے ، دو ایک دفعہ ایسے دیکھا، معلومہ وا ابھی منہ میں گھس جائیں گے م پھر اپنی انگلی دال کر میری ڈاڑھ دیکھی۔ سر ہلا کر انگلی دھوتے ہوئے بولے۔ بس اس کی تو ایک دوا ہے۔۔ مرے ایک بھی ساتھ تھے ، چنانچہ انہوں نے بھی مجھے ورغلانا شروع کیا کہ میں راضی ہو جاؤں مگر میں راضی نہ ہوا، ڈاکٹر صاحب نے اکھڑوانے کے فوائد پر لیکچر دینا شروع کیا اور کہنے لگے کہ خود آپ کے شیخ الرئیس قانون میں لکھ گئے ہیں کہ دانت کا بہترین ہی نہیں بلکہ علاج ہی یہ ہے کہ اسے اکھڑ وا ڈالو۔ میں نے اس کا یہ جواب دیا اول تو میری ڈاڑھ میں سخت درد ہو رہا ہے اور جلد علاج ہونا چاہیے وہ شیخ الرئیس تو وہ قطعی میرے نہیں ہیں اور بالفرض اگر میرے ہوں تب بھی یہ حماقت ہم سے نہیں ہونے کی۔

مگر میں نے عرض کیا ناکہ ڈاکٹر صاحب بڑے تیز تھے فوراً انہوں نے ایک عجیب و غریب قصہ شروع کر دیا کہنے لگے کہ پرانے زمانے میں جب جالینوس بقراط وغیرہ سب کے سب بڑے بڑے حکیم زندہ تھے تو سب نے مل کر صلاح کی کہ موت کا علاج سوچنا چاہیے۔ چنانچہ سب حکیموں نے طب کی موٹی موٹی کتابیں دیکھ بھال کر ایک زبردست نسخہ تیار کیا۔ جو عرصے کی جانچ پڑتال اور ترمیم و تنسیخ کے بعد ٹھیک قرار دیا گیا۔ اس نسخے میں لاکھوں دوائیں اور جڑی بوٹیاں شامل تھیں اور عرصے تھے گھوٹا چھانی ہوتی رہی۔ آخرش ایک دن وہ تیار ہو گیا۔ تجویز یہ تھی کہ چھ مہینے تک مختلف عرقوں میں یہ بھگویا جائے گا اور جب ٹھیک خمیر اٹھ آئے گا تب اس کو پکایا جائے گا۔ اس غرض کے لیے حکیموں نے جنگل میں ایک زبردست دیگ نصب کی جس میں سب دوائیاں بھگو دی گئیں اور کئی حکیم دن رات اس کی نگرانی پر تعینات کر دئے گئے۔

میں نے درد سے بیتاب ہو کر کہا۔ مگر ڈاکٹر صاحب میں تو درد سے مر رہا ہوں۔

ڈاکٹر صاحب نے فورا بات کاٹ کر جواب دیا۔ میں وہ دوا آپ کو بتا رہا ہوں جو دنیا میں بہترین ہے۔۔ خیر سنئے اور دیکھئے کہ ابھی ابھی اس قصے کو ختم ہوتے ہی آپ کا درد جاتا رہے گا۔ قصہ مختصر جب یہ تمام ادویات بھیگ چکیں اور خمیر ٹھیک آ گیا تب حکیموں نے آ کر دواؤں کو جانچا اور طے کیا کہ فلاں دن فلاں وقت دیگ کے نیچے آگ روشن کر دی جائے ، چنانچہ آگ روشن کر دی گئی جو مدت دراز تک دن رات مشتعل رہی، باری باری بڑے بڑے حکیم دن رات پہرہ دیتے تھے ، اور نگرانی کرتے تھے۔

جب آگ روشن ہوئے عرصہ ہو گیا تو سب حکیم جمع ہوئے انہوں نے دوا کا قوام جانچا اور معلوم کر لیا کہ اگر اتنی آنچ دیں تو فلاں دن جا کر یہ ادویات کشتہ ہو جائیں گی۔ اور وہ دن چاند کی چودھویں رات کا ہو گا۔ دراصل اس عظیم الشان دیگچے کے ڈھکنے میں ایک سوراخ بھاپ نکلنے کے لئے تھا۔ اب دواؤں کا زور حکیموں کی کرامات کہیے کہ دواؤں کی روح کشتہ ہو کر اس سوراخ میں نکلنے والی تھی اور اس سے موت کی دوا پوچھنا تھی۔

 

                (۳)

 

جب دواؤں کے کشتہ ہونے کا وقت قریب آیا اور بھاپ کے بجائے دیگ کے ڈھکنے سے سوختہ ادویات کے دھوئیں کے بھبکے نکلنے لگے اور وقت قریب پہنچا تو حکیموں کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ روح نہ نکل جائے اور ہم رہ جائیں۔ لہٰذا بڑے بڑے حکیم پہرہ پر مقرر ہوئے۔ سب باری باری پہرہ دیتے تھے آخر کو چاند کی چودھویں رات آئی۔

رات کا سناٹا تھا۔ چودھویں رات کا چاند جنگل میں کھیت کر رہا تھا۔ ایک بڑا زبردست حکیم دیگ پر پہرہ دے رہا تھا۔ باقی حکیم فاصلے پر پڑے بے خبر سو رہے تھے کیونکہ اپنی ڈیوٹی اور پہرے سے تھکے ہوئے تھے۔ دیگ میں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا اور ہر لحظہ یہی انتظار تھا کہ اب چڑیا نکلے اور کب چڑیا نکلے۔ حکیم کی آنکھ دیگ کے اوپر سوراخ کی طرف تھی۔ حکیم انتہا سے زیادہ اپنی ڈیوٹی کا خیال رکھتا تھا مگر بد قسمتی سے آپ سے کہیں زیادہ اس کی ڈاڑھ میں خود درد ہو رہا تھا۔

اچھا۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ پھر اس کی بجائے کوئی دوسرا حکیم کیوں نہ تعینات کیا گیا؟

ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ چونکہ اس کی ڈاڑھ میں آپ کی طرح سخت درد ہو رہا تھا، بلکہ آپ سے بھی زیادہ اور نیند کوسوں دور تھی لہٰذا حکیموں نے یہ سوچا کہ بہتر ہے انکو ویسے بھی نیند نہیں آ رہی اور بے کلی میں گھوم رہے ہیں پہرہ چوکی اچھال دیں، ورنہ اندیشہ تھا کہ اگر کوئی دوسرا حکیم تعینات کیا گیا اور عین موقع پر اس کو نیند آ گئی تو برسوں کی محنت رائگاں جائے گی۔

خیر۔ مطلب یہ کہ حکیم جی پہرہ دے رہے تھے۔ مگر واہ رے استقلال، آنکھ دیگ پر تھی کہ یکایک دیگ میں پہلے سناٹا ہوا، پھر سوراخ، پھر پھڑپھڑاہٹ ہوئی۔ ایک زریں طوطی چہک کر دیگ کے سوراخ سے نکلی اور دیگ کے گر چرخ مار کر بلند ہو کر اس نے حکیم سے پوچھا۔ کس مرض کی دوا پوچھتا ہے ؟ بدقسمتی سے یہ وقت تھا کہ حکیم جی کی ڈاڑھ کے درد کی زیادتی تھی۔ جلدی میں حکیم جی کے منہ سے وہی نکل گیا کہ ڈاڑھ کے درد کی دوا۔

طوطی نے چہک کر جواب دیا۔ "زنبور” اور یہ لاثانی دوا بتاتے ہی جل کر راکھ ہو کر گر پڑی۔ اب یہاں یہ کہ حکیم کو کیا کہنا چاہیے اور کیا کہا گیا یہ کہ دوسرے حکیموں نے جب سنا ہو گا تو ان کو پیٹ کر دھر دیا ہو گا، اس سے ہمیں بحث نہیں یہاں تو یہ بتانا مقصود ہے کہ برادرم دانب کے ہر مرض کی دوا یہی ہے اسی حکیم کے وقت سے چلی آ رہی ہے اور یہی بہترین دوا ہے۔ سب سے برا اعتراض آپ کا یہ تھا کہ طب یونانی اس اصول کو نہیں مانتی کہ علاج کے بدلے وہ عضو ہی ختم کر دو، اب میں نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ نسخہ طب قدیم ہی کا ہے۔۔ لائیے اکھاڑ دوں ڈاڑھ۔ ورنہ کہیے تو پھر لیپا پوتی کر دوں۔

میں نے جو ان سے پوچھا کہ صاحب "لیپا پوتی” کا کیا مطلب تو معلوم ہوا کہ اس سے یہ مطلب ہے کہ مسوڑے اور دانت صاف ہو رہے ہیں میل نکالا جا رہا ہے۔ نشتر دئے جا رہے ہیں۔ انجکشن دیئے جا رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ کا وہ کل علاج جس سے پائیریا اچھا ہو جاتا ہے۔

میں نے "لیپا پوتی” پسند کی۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً گرم پانی تیار کرایا اتنے میں "لیپا پوتی” کے اوزار اور دوائیاں بھی آ گئیں۔ پھریریاں، پٹیاں، موچنے اور طرح طرح کے چمکتے ہوئے درجنوں اواز، برابر کی میز پر رکھ دئے گئے۔

اس لیپا پوتی کی ابتدا نیم گرم پانی کی کلیوں سے ہوئی جس میں کنوئیں میں ڈالنے والی لال دوا گھلی ہوئی تھی۔ میں ایک نیچی سی کرسی پر منہ پھاڑ کر اس لئے بٹھا دیا گیا کہ ہسپتال کی چھت دیکھتا رہوں اور لیپا پوتی شروع ہو گئی۔

میرے منہ کے اندر متعدد پھریریاں آ رہی تھیں جا رہی تھیں۔ طرح طرح کی چمکتی ہوئی سلائیاں، قینچیاں، موچنے اور اسی قسم کے حضرات کی آمدورفت سرعت کے ساتھ جاری تھی، میں اس طرح اطمینان میں کہ کیا کہنا ہے ڈاکٹری کا۔ ہر کام کے لئے الگ اوزار علیحدہ ہے ، قدم قدم پر نیا اوزار منہ میں آتا، اس طرف دھیان بھی تھا کہ کون اوزار کیسا ہے اور کون کیسا۔ نتیجہ اس بیخبری میں میرے منہ میں ڈاڑھ اکھاڑنے والا زنبور ڈال دیا۔ میں نے اسے دیکھ لیا مگر خطرے سے اور ڈاکٹر کی نیت سے اس وقت باخبر ہوا جب اس نالائق زنبور کے خوفناک جبڑے میری ڈاڑھ گرفت میں لے رہے تھے۔ گھبرا کر میرے منہ سے "غاآ۔۔۔ قسم کی آواز نکلی بلکہ پوری نکلنے بھی نہ پائی کہ ایک عظیم الشان چٹاخا سا ہوا، یہ معلوم ہوا کسی نے جبڑے میں ایک گولی لگا دی جس سے دماغ تک ہل گیا۔ ایک ڈاکٹر کے دو ڈاکٹر نظر آ گئے ، ایک نہایت ہیبت ناک اور عظیم الشان "عو۔و۔و۔ع” کرتا ہوا میں کھڑا ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب شادان و فرحاں اس کے ہاتھ میں وہ موذی زنبور اور زنبور کے جبڑوں میں میری عزیزی ڈاڑھ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میرا پہلا دانت اس طرح ضائع ہوا لیکن میری دانست میں یہ قصہ نا مکمل رہ جائے گا۔ اگر میں اس قصہ کو یہیں چھوڑ دوں۔

ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر کہا۔دیکھا۔ ایک ذرا سی تکلیف کے ڈر سے اتنی تکلیف اٹھا رہے تھے۔ یہ دیکھو۔ (ڈاڑھ کی جڑ دکھا کر) اب کہا گیا درد؟ کہیے۔

میں کچھ عرض نہیں کرسکتا کہ اس ظالم ڈاکٹر نے میرے ساتھ کیا ستم کیا۔ سمجھ نہ آیا کہ پہلے خون تھوکوں یا قسمت کو روؤں یا اس ڈاکٹر کو خود ایک ڈاکٹر کا محتاج کر دوں۔ مگر توبہ کیجئے تن بدن میں رعشہ، تھوکنے سے فرصت کہاں مگر کچھ بھی ہو میں نے جل کر اور دہاڑ کر کہا۔

۔۔۔ ارے او اولی ڈاکٹر۔۔ مریضوں کے دشمن۔ یہ کیا غضب کیا۔۔۔ (آخ تھوہ) میری دکھتی ہوئی ڈاڑھ کی جگہ کوئی اور اکھاڑ لی! درد تو جوں کا توں نہیں بلکہ دوگنا چوگنا ہو رہا ہے۔

اور حضرت یہ واقعہ تھا کہ اس آدمی نما ڈاکٹر نے گڑبڑ سڑبڑ برابر والی بھلی چنگی جمی جمائی تندرست ڈاڑھ پکڑ لی! دکھتی ہوئی ڈاڑھ کے بدلے ! ادھر میرا منہ پھٹا ہوا اور میں گھسی ہوئی ایک سڑانسی یعنی زنبور اس سے پہلے کہ میں یہ کہہ سکوں کہ ظالم اس ڈاڑھ میں بالکل درد نہیں تو اسے چھوڑ وہ غریب اکھڑ چکی تھی۔

اب خود سوچئے ، ڈاکٹر سے لڑتا کیا خاک۔ خون ہے کہ نکلا چلا آ رہا ہے ، دو علاج کی اور بھی سخت ضرورت پڑ گئی۔ ہمارے اوپر تو یہ دقت اور ڈاکٹر صاحب ہیں کہ قائل ہی نہیں ہوتے۔ دراصل دکھ والی ڈاڑھ جس میں پائیریا حلول کر گیا ہے جوں کی توں موجود ہے۔ بڑی مشکل سے جب یقین دلایا تو فرماتے ہیں۔ اوہو! مگر لاؤ اب اسے اکھیڑ دوں۔ ماشاءاللہ میں نے کہا۔

مجھے بخشئے کچھ ہی ہو یہ ثابت ہو گیا کہ پائیریا ایسا مرض ہے جس دانت میں ہو جائے اس کے پاس والے دانت کی خیریت نہیں ہے ، جس میں پائیریا ہو وہ موجود اور قریب والی ڈاڑھ غائب!

اس کے بعد میں دانت اکھڑوانے کے بے حد خلاف ہو گیا اور تہیہ کر لیا کہ ہرگز ہرگز دانت نہ اکھڑواؤں گا۔ لیکن باوجود اس کے آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میرے منہ میں کئی مصنوعی دانت ہیں۔ درحالیکہ میں ان میں سے قطعی نہیں ہوں جو محض شوق اور فیشن کی خاطر مصنوعی داتن لگائے پھرتے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ دور سے ہی آپ کہہ دیں کہ ان حضرات نے اپنی عقل ڈاڑھ اکھڑوا ڈالی ہے۔

 

                (۴)

 

مندرجہ بالا واقعات سن کر کم از کم آپ اس بات کے قائل ہو گئے ہونگے کہ ان دانت والے ڈاکٹروں سے ذرا بچنا چاہیے اور یہ پائیریا بڑا موذی مرض ہے اور اس کا علاج کرانے میں بڑی احتیاط لازمی ہے ورنہ دانت جاتا رہتا ہے۔ (حضرت قبلہ) دوران علاج میں خاص توجہ فرمائیں۔ ذرا دیکھ بھال کر اوزار کو منہ میں جانے دیں۔ یہ بھی کمبخت گوروں کی فوج کی طرح سب ایک شکل کے معلوم ہوتے ہیں۔ درحالیکہ ان میں کچھ تو بے حد معصوم ہوتے ہیں مگر ان کو دانت کے قریب جانے بھی نہ دینا چاہیے۔ اگر لاپروائی برتی تو حضرت، بقول کے انسان کی نیت بدلتے کیا دیر لگتی ہے گو یہ امر مسلمہ ہے کہ ڈاکٹر پھر ڈاکٹر ہے مگر بڑی حد تک چونکہ وہ انسان سے بھی ملتا جلتا ہوتا ہے لہٰذا قابل اعتبار نہیں۔ کیا خبر اس کی نیت بدل جائے۔

اس واقعہ کے بعد اس "دردناک” ڈاڑھ کے علاج کی مجھے فکر ہوئی۔ اس کی "لیپا پوتی” کا اعلیٰ انتظام کیا۔ مدتوں علاج ہوتا رہا اور علا بھی ایسا کار آمد و مفید کہ ایک چھوڑ دن دفعہ ہوشیار ڈاکٹروں نے پائیریا اچھا کر دیا، اس سے زیادہ اور کیا کامیابی ہوسکتی ہے۔ تمام دانت صاف کروائے مسوڑھوں میں نشتر اور انجکشن دئے گئے۔ دہرہ دون سے ویکسین کا خاص انجکشن تیار ہو کر آیا، کلیوں اور غراروں کے ایسے عجیب و غریب پروگرام بنے کہ مقصد حیات کلی غرارہ ہو گیا۔ جب دیکھو ایک انتظام اور نظام کے ساتھ برش اور دوا ہاتھ میں لیے کھڑے منہ چڑاتے رہے ہیں۔ حلق میں بدبو دار دوائیں ڈال کر "میں” کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ پان کھانا نہ صرف چھوڑ دیا گیا، بلکہ پان کھانے والوں کو دق کیا گیا۔ قصہ مختصر ایک آفت برپا کر دی۔ پائیریا کے علاج میں وہ پابندی اوقات اور وہ ریاض کہ اگر بجائے دوسرے طرف توجہ کرتا تو جنت اور اس کی سلطنت بیک وقت مل جاتی۔ جب تک یہ طوفان بپا رہے اس کی بھی فرصت رہی کہ بحث کر کے ثابت کر دیں کہ پائیریا اچھا ہو گیا اور اس خوش فہمی میں ذرا ڈھیل پڑی نہیں کہ پائیریا جوں کا توں پھر موجود، نتیجہ یہ کہ آخرش معلوم ہو ہی گیا کہ اس لیپا پوتی سے پائیریا اچھا کرنا بھی ایک عیاشی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ رئیسوں کا ایک شوق ہے۔ چنانچہ قیمتی وقت اور صحت ضائع کرنے کے معلوم ہوا کہ طبی چڑیا نے جو دیگ سے نکل کر کہا تھا وہ سچ تھا اور دانت کی دوا سوائے "زنبور” کے کچھ نہیں جب ہی تو شیخ الرئیس نے بھی اپنے قانون میں یہی لکھ دیا، جب یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچ گئی کہ پائیریا کا علاج سوائے "زنبور” کے کچھ نہیں تو ایک نئی بات کا پتہ چلا۔ وہ یہ کہ یہ امر بخوبی واضح ہو گیا کہ اگر دانت اکھڑنے میں تکلیف نہ ہو تو پائیریا کے مریض اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے دانت چھوڑ ایک سرے سے ناک تک اکھڑوا ڈالیں۔ چنانچہ سوال یہ درپیش ہوا کہ کوئی دنیا میں ایسی ترکیب کہ اکھڑ بھی جائے اور درد بھی مطلق نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ ایک نہیں بہت سی ترکیبیں ہیں لیکن میرے تجربے سے معلوم ہوا کہ سوائے ایک تدبیر کے اور دوسری نہیں۔ عرض کرتا ہوں۔

معلوم ہوا کہ کوکین کا انجکشن لگوا لو تب بھی درد نہیں ہوتا۔ کسی نے کہا ایک گیس ہوتا ہے اس سے درد نہی ہوتا۔ کسی نے بہت غور سے سب حال سن کر درد کے وجود ہی سے انکار کر دیا اور کہا یونہی اکھڑ والو۔ اسی سلسلے میں دہلی کے ایک عزیز دوست نے قصہ کو یوں مختصر کر دیا کہ لکھا "دہلی آ جاؤ۔ حسب دلخواہ کے کام بن جائے گا۔”

دہلی کا کیا کہنا۔ وہاں ایک سے ایک بڑا "دانت والا” ڈاکٹر موجود ہے۔ ایک صاحب کے بارے میں سنا کہ دانت ایسے اکھیڑتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا اور دانت اکھڑ جاتا ہے۔ مگر فیس زیادہ ہے۔ ہم نے دل میں سوچا کیا مضائقہ ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں چلے گئے۔

 

                (۵)

 

دروازے ہی پر لکھا تھا کہ بغیر درد کے دانت علیحدہ کرنے کے ماہر ہیں۔ یہاں باچھیں کل گئیں اور پہنچے تو وہ ٹھاٹ اور انتظام کہ دیکھا کیجئے۔ انتہا سے زیادہ نفیس کمرہ جو دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ ایک بڑی گول میز تھی جس پر انگریزی اخبار پڑے تھے۔ ارد گرد ریشم کے گدوں کی کرسیاں، ریشمی پردے لٹک رہے تھے۔ دو تین حضرات بیٹھے تھے۔ میں برابر کمرے میں ڈاکٹر صاحب کا "میدان جنگ” تھا۔ ایک بابو نما نوکر نے خفیہ طور پر کہا "ڈاکٹر صاحب۔۔ "انگلی ای، میں سمجھ گیا کہ کسی کے ساتھ مشغول ہیں۔

میں اور میرے دوست بیٹھ گئے۔ دو حضرات اور بیٹھے تھے۔ ایک تو دوغلے یوروپین۔ روپیہ میں دو آنہ بھر انگریز اور دوسرے ایک انگلش خاتون قریب بیس برس کی عمر ہو گی۔ انتہا سے زیادہ بھولی صورت، جاذب نگاہ، دلفریب مگر سادہ لباس زیب تن کئے ایک کان میں لمبا سا ہیرے کا آویزہ، ننگے سر، سنہری بال، ہاتھ میں ایک مصور رسالہ تھا جو وہ بغور دیکھ رہی تھیں۔ میری نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ کوئی مصری رسالہ ہے (عربی کا) جس کی تصویریں وہ بغیر عبارت سمجھیں دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے میری طرف استفسارانہ نظر ڈالی اور رسالہ میری طرف کر دیا اور کہا "غالباً آپ اسے سمجھ سکتے ہوں گے۔ "قصہ مختصر ہم دونوں اس رسالہ کو دیکھ رہے تھے۔ اتنی عربی تو میں بھی جانتا ہوں کہ تصویریں سمجھ سکتا۔ اسی دوران میں سامنے والے دو آنہ بھر انگریز نے بعد معافی چاہنے کے ہم سب صاحبان سے پوچھا کہ کیا کبھی ہم میں سے کسی دانت بھی اکھڑ وایا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ خود اکھڑوانے آئے تھے۔ اب ہم تینوں میں باتیں جو ہوئیں تو معلوم ہوا کہ ایک سے ایک زیادہ ڈرپوک ہے ار اس جگہ سب اسی لئے آئے ہیں کہ درد نہ ہو۔ میں نے اپنے دانت اکھیڑے جانے کا قصہ سنایا۔ دانت اکھڑنے کی تکلیفیں بتائیں کہ اتنے میں ڈاکٹر صاحب آ گئے۔ کسی کی "لیپا پوتی کر رہے تھے ، ان کو رخصت کیا اور اب ہماری باری آئی۔ ان دونوں حضرات کو ڈاکٹر صاحب دیکھ چکے تھے۔ دانت اکھیڑنے کی فیس بھی لے چکے تھے اور یہ دونوں صرف اپنی باری کے منتظر تھے۔ ڈاکٹر نے اب مجھے کمرہ میں لے جا کر دیکھا۔ معلوم ہوا کہ میرے چار دانت اکھیڑے جائیں گے ، جس کی فیس بارہ روپے ہوئے۔ میں نے روپے گن کر دئے اور پھر اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا۔ اور وہ روپے بس دو آنے بھر انگریز اب دانت اکھڑوانے چلے۔ اب میں اور خاتون صاحبہ اس کی منتظر کہ دیکھیں ان کے کتنا درد ہوتا ہے۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ کمرے سے ایک درد ناک لرزتی ہوئی صدا آئی۔ آہ۔۔۔ہ۔۔۔او۔۔۔وو۔۔۔غ۔۔۔ "اب میں چوکنا ہوا! کیا یہ واقعہ نہ تھا کہ ان حضرت کے سخت درد ہو رہا تھا۔ ارد گرد کے حالات۔ کمرہ وغیرہ اور غیر معمولی خاموسی کو دیکھتے ہی درد نہ ہونے کا راز سمجھ آ گیا۔ معلوم ہوا کہ کتنا ہی درد کیوں نہ ہو ضبط کرنا پڑے گا اور یہ جگہ تو غل مچانے کے لیے سخت ناموزوں ہے ، کم از کم مجھ سے تو ایسی حالت میں قطعی غل نہیں مچایا جا سکتا۔ اب سمجھ آیا کہ درد نہ ہونے کا یہ راز ہے۔ ڈاکٹر ساحب کے مطب کی خاموشی اور شائستگی نہ تو غل مچانے دے گی اور نہ یہ کہنے دے گی کہ صاحب ہمارے تو درد ہوا، آدھی فیس واپس لاؤ۔

میں نے ان خاتون صاحبہ کے روبرو ایک زریں تجویز پیش کی۔ وہ یہ کہ کیا وجہ جو ہم اور آپ دونوں دانت اکھڑوانے کے خیال سے باز آئیں اور فیس واپس لے کر چلتے بنیں۔ اول تو اس امر پر میرے دوست خفا ہوئے اور پھر ڈاکٹر صاحب ان مس صاحبہ کی مزاج پرسی کو آ گئے۔ وہ دو آنے بھر انگریز اپنے کلے پر رومال رکھے نکلے۔ میں نے جو چپکے سے حال پوچھا تو مسکرا کر کہنے لگے۔ آپ تو دانت اکھڑ وا چکے ہیں۔ یہ کہتے نکلے چلے گئے۔

اب میں ذرا چوکنا ہوا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ باز آیا میں اس دانت اکھڑوانے سے انہوں نے مجھے لتاڑا اور اطمینان دلایا کہ اتنے میں برابر والے کمرے سے ایسی آواز آئی کہ میں نے سب سے پہلے گھبرا کر میز پر اس عربی رسالہ کو دیکھا۔ کیونکہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ خاتون موصوف شاید برابر والے کمرہ میں دانت نہیں اکھڑوا رہی بلکہ عربی پڑھ رہی ہیں۔ درحالیکہ وہ رسالہ تو نہیں لے گئی تھیں اور دانت ہی اکھڑوا رہی تھیں، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پردے کا کونہ اٹھا کر بڑھ کر جھانک کر دیکھا۔ کیا عرض کروں چہرہ تکلیف کی تمازت سے سرخ انگارہ۔ جس طرح بچے کے منہ سے دودھ پونچھا جاتا ہے ڈاکٹر خون کو اس کے منہ سے روئی کے گالوں سے پونچھ رہا تھا۔ میں الٹے پاؤں پھرا۔ آ کر بیٹھ گیا۔ مضطرب اور بے چین۔ باہر کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا، دوست سے کہا ابھی آتا ہوں، ضرورت سے فارغ ہو آؤں۔ دو دو سیڑھیاں کر کے نیچے اترا اور پھر جو وہاں سے پیر سر پر دھر کے بھاگا ہوں تو مڑ کر نہ دیکھا، سیدھا گھر آ کر دم لیا۔ کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد میرے دوست آئے۔ بے حد خفا۔ ایسے میان سے باہر۔ جو منہ میں آیا مجھے سنا ڈالا۔ ادھر میرا یہ حال کہ فیس گئی اور کچھ پروہ نہیں جان تو چھوٹی۔

 

                (۶)

 

دو تین دن تک مختلف ڈاکٹروں کا امتحان لیا لیکن طبیعت مطمئن نہ ہوئی کہ ایک اور ہی معاملہ پیش آیا۔

میرے دوست ایک روز بازار سے آئے تو ایک عجیب و غریب امریکن ایجاد کا ذکر کیا، بجلی کی قوت سے ایسے دانت نکالے جاتے ہیں کہ قطی درد نہیں ہوتا۔ یہ امریکن ایجاد حال ہی میں لاؤنچ ہوئی ہے اور دہلی میں صرف ایک جگہ ہے ، مگر فیس بہت زیادہ یعنی فی دانت سات روپیہ۔

طے ہوا کہ شام ہی کو چل کر اسے دیکھیں گے۔ یہ بھی طے ہو گیا کہ بس اسی ڈاکٹر سے اکھڑ وائیں گے۔

ان ڈاکٹر کے یہاں پہنچے اور اس عجیب و غریب آلہ کو دیکھا۔ ایک کرسی کے آگے میز تھی اس پر یہ آلہ رکھا ہوا تھا۔ بجلی کے پنکھے کی سی ڈوری تھی جو دیوار میں فاصلے پر نصب تھی اور اس ڈوری کے سرے پر ایک پیتل کا ولائتی لٹو لگا تھا۔ جس میں ایک بلور کی موٹی سی سلاخ تھی، اس پر پیتل کا دبیز خول چڑھا ہوا تھا۔ یہ سلاخ میز پر رکھی تھی۔ دانت اکھڑ وانے والا اس سلاخ کو دونوں گمٹھیوں میں لے کر زور سے دباتا تھا۔ جتنا بھی زور سے دبائے اتنا ہی درد ہونے کا امکان جاتا رہتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے بڑے لوگوں کے سرٹیفیکٹ دکھائے جنہوں نے اس آلہ کو استعمال کیا تھا۔ میں نے پڑھے تو معلوم ہوا کہ اب اس سے بہتر کوئی تدبیر ناممکن ہے۔ فوراً راضی ہو گیا کہ ابھی ابھی میرے دانت اکھاڑ دو۔

 

                (۷)

 

میں نے کرسی پر بیٹھ کر سلاخ کو مضبوطی سے دونوں مٹھیوں سے پکڑا اور ڈاکٹر صاحب نے کہا اسے روز سے بھینچئے اور خود دانت اکھاڑنے کا زنبور لے کر آگے بڑھے۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور پوری قوت سے سلاخ کو بھینچا۔ ڈاکٹر صاحب نے ذرا تنک کر کہا کہ "واہ جناب آپ اس آلہ کا قصور بتائیں گے اور زور سے بھینچئے اور زور۔۔۔ اور زور سے۔”

اب میں نے اس سلاخ کو اتنے زور سے بھینچا کہ میرے تن بدن میں رعشہ سا آ گیا۔ رگ رگ ہے کہ دھ رہے ہے اور ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ "اور زور سے۔۔۔ اور زور سے۔۔۔۔”

اب میرا یہ حال کہ اپنی وقت کا آخری زور تک لگائے دے رہا ہوں، بدل کی تمام جسمانی قوتیں ہیں کہ اسی سلاخ پر آ کر ختم ہو رہی ہیں۔ بیٹھا بیٹھا ہانپ کانپ رہا ہوں۔ جب میری شہزوری شباب پر پہنچ کر قائم ہو گئی تو ڈاکٹر صاحب نے دیکھا اور کہا۔ "ہاں بس اسی حال پر قائم رہیے گا۔” یہ کہہ کر آگے بڑھے۔ میں نے منہ کھولا اور انہوں نے کہا۔ "ہاں۔ لگائے زور۔۔۔ ون۔۔۔ ٹو۔۔۔”

میں نے ایک آخری اور عظیم الشان جدو جہد کے ساتھ اپنی روح تک کا زور اس سلاخ کو دبانے پر لگایا۔ ایسا کہ ایک دم سے میں لرز اٹھا۔ ادھر ڈاکٹر صاحب نے کہا۔۔۔ ہت تیری۔

ڈاڑھ اکھڑ چکی تھی۔ میں نے مٹھیاں ڈھیلی کر دیں مگر انگلیاں جوں کی توں رہ گئی تھیں۔ میری تن بدن کی چولیں ڈھیلی ہو گئیں تھیں۔ میں پس ہو کر ہانپ رہا تھا۔ رہ گیا درد تو درد قطعی نہیں ہوا تھا۔ قطعی نہیں۔

میں نے راضی خوشی چاروں دانت اکھڑوا ڈالے اور اس امریکن ایجاد سے بے حد خوش ہوا اور نہایت ہی زور دار سرٹیفیکٹ ڈاکٹر صاحب کو دیا اور فی دانت سات روپیہ کے حساب سے فیس ادا کی۔ مگر میں دیکھ رہا تھا کہ نہ صرف میرے دوست بلکہ خود ڈاکٹر صاحب اور دو ایک حضرات جو وہاں یہ کاروائی دیکھ رہے تھے مجھے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا "آپ کے ساتھ خاص رعایت ہے اور صرف تین روپے فی دانت چارج ہو گا۔” یہ کہہ کر باقی روپے واپس کر دئیے اور اس پر میرے دوست نے فرمائشی قہقہہ لگایا۔

میں احمقوں کی طرح دیکھ رہا ہوں سب ہنس رہے تھے ، دریافت پر آخرش وجہ معلوم ہوئی کہ اس آلہ کی ڈوری میں نہ تو بجلی کا تار تھا اور نہ اس میں برقی رو آسکتی تھی۔ میں نے غور ہی نہ کیا۔ سامنے والی دیوار پر بجلی کے تاروں سے علیحدہ اس ڈوری کا دوسرا سرا دیوار میں یونہی ایک لکڑی میں لگایا ہوا تھا۔ نہ بجلی نہ وجلی۔ خالی خولی ایک پیتل کی سلاخ پکڑے میں دہر دہر کے دبا رہا تھا۔ اس خیال میں کہ اس کے ذریعے بجلی کی ایک عجیب و غریب رو سلاخ دبانے سے میرے جسم میں آ رہی ہے لاحول ولا قوۃ۔ احمق بھی تو نہیں ہوں، پھر کیسے دھوکہ میں آ گیا۔

لاحول ولا قوۃ۔ احمقوں کی طرح خفت کی ہنسی ہنس رہا ہوں اب دانت اکھڑنے پر غور جو کرتا ہوں تو ایسا خیال ہوتا ہے کہ درد ہوتا ہے کہ درد ہوا تھا۔ مگر کتنا اور کیسا؟ کچھ پتہ نہیں۔ وہ شہ زوری کر رہا تھا کہ قطعی خیال نہیں رہا۔

معلوم ہوا کہ یہ آلہ ان ڈاکٹر صاحب نے خود ایجاد کیا ہے ، ان لوگوں کے لئے جو نہ صرف دانت اکھڑوانے سے ڈرتے ہیں بلکہ دوست احباب کا اس سلسلے میں میری طرح ناطقہ بند کر دیتے ہیں۔ ان کو یہ سزا دی جاتی ہے کہ بغیر کوکین انجکشن کے ان کے دانت چٹک لئے جاتے ہیں۔

ان ڈاکٹر صاحب کا مطب گھنٹہ گھر کے آس پاس ہے جہاں یہ عجیب و غریب آلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پائیریا کا علاج میری طرح کرانا چاہیے یا نہیں، مگر کم از کم ایسے بھی ہوسکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کرکٹ میچ

 

 

                (۱)

 

کرکٹ میچ پر آج کل برسات کر موسم میں کوئی مضمون لکھنا "بے فصلی” سی چیز ہے ، بالخصوص جبکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کرکٹ کے واہیات میچوں کا حال لکھنا اور انکی خبریں چھاپتے چھاپتے اخبار والوں نے پبلک کو پست کر دیا اور پھر اب تو ایم سی سی والے بھی ہندوستان سے "آؤٹ” ہو گئے ورنہ بہت ممکن ہے کہ یہ مضمون اگر کچھ پہلے شائع ہوتا تو ہمارے ہندوستانی کھلاڑی کرکٹ کا ایک ایسا گر جان جاتے کہ ایک مقابلے میں ایم سی سی کی عقل راہ پر آ جاتی۔

بہت ممکن ہے کہ آپ سوچیں کہ یہ ایک مضمون نگار غریب کیا جانے کرکٹ اور کرکٹ کی باتیں! مگر عرض ہے ، اکثر میدان کارزار میں لٹھ کام آتے ہیں اور تلواریں دھری رہ جاتی ہیں اور پھر میں کرکٹ میں ایسا گمنام یا اناڑی بھی تو نہیں، مجھے تسلیم ہے کہ اسکول کی ٹیم کے کپتان سے ہمیشہ پیش از پیش رہا۔ کالج میں پہنچ کر وزیر علی اور نذیر علی کا کلاس فیلو رہا۔ سینکڑوں میچ دیکھ ڈالے ، رن گن ڈالے ، امپائروں کی غلطیاں نکالیں، ولایتی بلوں میں خرابیاں نکالیں، بلکہ ایک تو چرا لیا، علی گڑھ میں جب ایم سی، سی والے آئے تو گلیکن کے سامنے ایک میچ کا چیلنج دیا اور اگر منظور کر لیتے تو اپنی شکست کو عمر بھر نہ بھولتے ، قصہ مختصر کرکٹ کی فضا میں رہا بڑھا اور پلا اور محض اپنی جدت سے کرکٹ میں وہ ترکیب دریافت کی جس سے میچ ہارنے کا امکان ہی جاتا رہا، ایک نہیں اسی ترکیب سے دس میچ کھیلے اور جیتے ہیں، خود ہم نے !

 

                (۲)

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو کپتان صاحب سے دوڑ دھوپ کر کے مل ملا کر کسی نہ کسی طرح ایک میچ گوروں سے طے کر آئے۔ یہ گورے تو ویسے بھی میچ کے بھوکے ہوتے ہیں۔ اس میچ میں کپتان صاحب نے نہ تو ہمیں کھلاڑیوں میں شامل کیا اور نہ "مد فاضل” میں رکھا جو ہر جگہ گھس گھس کر میچ دیکھتے ، رن گنتے ، بلے تولتے ، یا اس طرح خصوصیت جتاتے اور ریفریشمنٹ کے انتظامات میں بھی پیش از پیش ہوتے ہیں، گوروں کی فوج کی طرف سے میچ کا خاصا انتظام تھا، حد یہ کہ ایک خیمے میں ریفریشمنٹ کے بہانے سے نہ معلوم کیا یار لوگ "ریشم” اور "کلابتون” اڑایا کیے اور ہم "ناتوان” دیکھا کیے ! یعنی ہم اور ہمارے دوست واقعی دور سے معمولی میچ دیکھنے والوں کی طرح میچ کو سچ مچ "دیکھتے ” ہی رہ گئے۔ نتیجہ ہمارے اسکول دوڑتے دوڑتے اور "پدتے پدتے ” سویرا ہو گیا۔ کھلاڑیوں کا گوروں نے فشار نکال دیا، ایک سے ایک تگڑا وہاں گورا موجود، ایسا کہ ادھر گیند پہنچی نہیں کہ اس نے "بنی” کر دی۔ قصہ مختصر لڑکوں کو رپٹا مارا، جتنا کھلایا تھا سب وصول کر لیا، پھر عنایت سمجھئے جو گوں نے بخش دیا، کیونکہ ان کے رن اتنے ہو گئے تھے کہ آگے کھیل کی ضرورت ہی نہ رہی، کئی وکٹ اور بہت سے رنوں سے اسکول کی ٹیم ہاری۔

میچ کا انتظام اور ریفریشمنٹ وغیرہ کا انتظام ایسا نہ تھا کہ اس کی دلکشی اور سہانی یاد کسی نیک اور پاک دل طالب علم کے معصوم دل سے محو ہو سکے۔ چنانچہ ہمیں بھی فکر پرا کہ کسی طرح ان گوروں سے میچ کریں۔

چنانچہ ہم اس تاک میں تھے کہ ایک روز اسی رجمنٹ کا گورا ہمارے بنگلے کی طرف نکل کر آیا۔ یہ رجمنٹ ہائیلنڈرز کا تھا، اس گورے کے ساتھ ایک کتا تھا اور ہمارے یہاں بلا مبالغہ اچھے سے اچھے کتے موجود تھے اور کتوں کے ڈاکٹر اور قدردان نہیں بلکہ عاشق زار بھائی صاحب بھی موجود۔ کچھ تو کتا پسند اور کچھ گورا پسند، لہذا گورے صاحب کو روکنے کا بہانہ ہاتھ آیا۔ نتیجہ یہ کہ بہت جلد قبلہ گورے صاحب بنگلے میں مختصر لان پر بیٹھے کتوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ یہاں اپنا یہ حال کہ باتیں تو کتوں کی ہو رہی ہیں مگر جی ہے کہ پرا ہے میچ کے ریفریشمنٹ میں گورے صاحب کو کرکٹ کے ڈول پر لانا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ کرکٹ کے قطعی شوقین نہیں، سوڈا برف سے ان کی خاطر مدارت کی، ان کے یہاں کتے دیکھنے آنے کا وعدہ کیا اور یہ بھی برسیل تذکرہ عرض کر دیا کہ میچ کا معاملہ بھی وہیں طر کر لیں گے۔

دو چار بعد رجمنٹ میں جو پہنچے تو یا تو اس بیہودہ گورے کا ہم نام بھول گئے یا دس بیس گورے اسی نام کے موجود تھے۔ پتہ لگا کر پہنچے جو سہی تو اسی نام کا ایک سخت بدتمیز گورا ملا، جو ہمیں دیکھتے ہی آنکھیں مٹکانے لگا اور انگلیاں نچانے لگا اور اس کے ساتھی لگے قہقہہ اڑانے پھر آگے ہمت نہ پڑی جو اس منحوس کی تلاش میں کسی اور بھی "خراب” گورے سے ملتے۔

باضابطہ ٹائپ شدہ چیلنج ایک فرضی کلب کے کپتان کی طرف سے لائے تھے کیونکہ کسی رجمنٹ سے میچ طے کرنا معمولی بات نہیں۔ گھنٹوں ادھر سے ادھر دوڑے ، درجنوں افسروں اور نہ معلوم کن کن سے ملے اور نتیجہ یہ کہ جواب بالصواب نہ ملا۔ خط پر پتے لکھ کر چھوڑ آئے کہ اس پتہ پر ہم مطلع ہوں۔

بات گئی گزری سی ہو گئی کہ دس پندرہ دن بعد ایک اطلاع نامہ آیا کہ ہم فلاں دن میچ کے لیے تیار ہیں، فوراً ہم رجمنٹ پہنچے اور میچ منظور کر لیا، ایک شرط پر۔ وہ یہ کہ کھیل کا سامان دوسری ٹیم اسی روز ایک اور جگہ لے جائے گی، لہذا سامان وغیرہ آپ کا ہی رہے گا، دراصل یہاں یہ حال تھا کہ ٹوٹا بلا چھوڑ "اسکورنگ” پنسل تک نہ تھی، گوروں کے یہاں قاعدہ ہے کہ روز تو وہاں قواعد پریڈ اور اسی قسم کے فضول دھندے رہتے ہیں میچ کے لیے خاص طور پر دن نکالا جاتا ہے ، ساری رجمنٹ کی چھٹی ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ ہم سے وقت پر پہنچنے کا بھی اشارہ کر دیا گا۔ یہ معاملہ جو طے کر کے ہم آئے ہیں تو یار دوست مارے خوشی کی دیوانے ہو گئے ، ناچنے لگے اور یہ حال کہ تمام کے تمام دوست میچ کھیلنے کو تیار! ایسے ایسے اناڑی کہ گیند کھیلنے سے پیشتر ہی آؤٹ ہو جائیں۔ بڑ مشکل سے ہم نے انتخاب کیا اور گہری دوستی ہی مجبور معیار قرار دیا۔ ایک صاحب کو محض اس وجہ سے رکھنا پرا کہ انہوں نے دو سوٹ دوسرے کھلاڑیوں کو دینے کا وعدہ کیا، دراصل یہ بے حد ضروری تھا کہ ہم ٹھاٹ سے جائیں، ایک موٹر کرایہ کیا اور اتنے قبل ز وقت ہم پہنچے ہیں کہ سوائے مزدوروں اور خلاصیوں کے کوئی نہ تھا۔ موٹر پر آنا بیکار گیا، اس دوران میں سب آپس میں پرتھوی راج کی فوج کی طرح ایک دوسرے سے عہد و پیمان کرتے رہے کہ نے حد اچھا کھیلیں گئ، جب تک جان میں جان ہے اور بلا ہاتھ میں ہے گیند کو وکٹ کے قریب بھی نہ جانے دیں گے خواہ کتنے ہی زور سے گیند آتی ہو گی، ہر گز ہر گز کریز نہ چھوڑیں گے۔ دراصل سو تین ایسے ہی تھے ان سے قسمیں لیں۔

 

                (۳)

 

بہت جلد خدائے عزوجل نے مہربانی کی اور میدان بھر گیا، سینکڑوں گورے بقول کسے !گورے پہ گورا” اور میمیں اور ادھر ادھر کے لوگ آ جمع ہوئے ، پہلے کا سا مجمع ہو گیا اور انتظام وہ زور دار کہ ریفیرشمنٹ کے خیمہ کی طرف دیکھ کر ہم لوگ آپس میں جب آنکھ کا اشارہ کر کے مسکراتے تو اندر سے دل کھینچنے لگتا، کھانا بھی کون منحوس کھا کر آیا، کسی نے کہا کہ بھیا میں دو بسکت کھا کر آیا ہوں، کوئی روٹی کا ایک ٹکڑا کھا کر اوپر سے بہت سا پانی پی کر آیا تھا۔ میں نے صرف ایک انڈے پر اکتفا کی تھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ ڈٹ کر کھایا ہو کہ یاد کریں گورے بھی کہ آئی تھی کوئی ٹیم کرکٹ کھیلنے۔ میچ تھا گوروں سے کوئی مذاق تھوڑی تھا۔

ہم آپ سے صحیح عرض کرتے ہیں کہ سہم ہی تو گئے جب گوروں کے کپتان نے کہا کہ ٹاس!” گویا یہ طے ہو کہ کون پہلے کھیلے ، ہم نے کہا کہ جیسا ہم عرض کر چکے ہیں عموماً ہم دو میچ کھیلتے ہیں، اس میں ہم پہلے کھیل لیں اور دوسرے میچ میں آپ پہلے کھیل لیجیئے گا، ایک گورے نے چون و چرا کی تو ہم نے کہا "صاحب ہم لوگ آخر کو ہندوستانی اور وہمی آدمی ہیں، شگون اور استخارہ سے کام چلاتے ہیں اگر اس کے خلاف ہوا تو اپنے عقیدے کے بموجب نہ صرف ہم ہار جائیں گے بلکہ اور کسی افتاد سے سابقہ پرے گا۔” شگون اور استخارہ کے پاکیزہ اصول جب ان بے وقوف گوروں کو سمجھائے تو وہ بہت ہنسے اور راضی ہو گئے۔

جلدی جلدی اور چپکے چپکے میں نے کھلاڑیوں کو قسمیں دے دے کر تاکید کی کہ دیکھو گڑبڑ نہ ہونے پائے ، ڈرنا مت، ڈٹ کے کھیلنا وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے دو گھٹیا قسم کے کھلاڑی بلا لے کر میدان میں تالیوں کی گونج میں اترے۔ یہ دونوں دیکھنے میں بڑے عمدہ کھلاڑی معلوم ہوتے تھے ، مگر اصلیت یہ تھی کہ گلی ڈنڈے سے آگے کچھ نہ جانتے تھے۔ تیار ہو کر کھڑے ہوئے ، ادھر گیند جو آئی تو ان کا وعدہ تھا کہ بالکل نہ ڈروں گا۔ چنانچہ وعدہ پورا کیا انہوں نے اور وہ کس کے ہٹ لگایا کہ اگر گیند پر بلا پڑ جاتا تو تارا ہو جاتی، مگر وہ تو کمبخت وکٹ اڑا لے گئی، انہیں پہلے ہی سے سیکھا دیا گیا تھا اور باوجود آؤٹ ہونے کے اپنی جگی سے نہ ہٹے ، پوچھا تو کہنے لگے یہ تو "ٹرائل بال” تھی۔ گورے فوراً راضی ہو گئے مگر یہ حضرت تیسر گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ دو خالی نکل گئیں۔

چوتھا شخص جو ہمارا پہنچا ہے تو اس نے گوروں کو پریشان کر دیا۔ اچھا کھلاڑی تھا، ساتھی بھی اچھا ملا، چو طرفہ ہٹ لگائے اور کسی طرح گوروں کے قبضے میں نہیں آیا تاوقتیکہ اس نے چونیتیس رنز نہ لیے ، کل ملا کر ہمارے رنز پچاس کے پہنچے تھے کہ یہ خاکی پتلا اٹھا، یار لوگوں کو سکھا دیا تھا، اس واسطے خوب چئیرز دیے گئے اور میں اس ٹھاٹھ سے "کریز” پر پہنچا ہوں کہ بس دیکھا ہی کیجیئے ، پہنچتے ہی اول تو میں نے چاروں طرف ایسے نظر دوڑائی گویا یہ دیکھ رہا ہوں کہ کس گورے کو زیادہ دوڑانا چاہیے ، دیکھ بھاک کے بعد میں نے کریز ناپی، اس کے بعد ان کے امپائر سے بڑی شان کے ساتھ سینٹر مانگا، اپنے امپائر کو بھی آنکھ ماری وہ بھی پہنچا اور انتظام میں شریک ہو کر اس نے سائنٹیفک طریقے پر غلطی نکال کر نئے سنٹر کی تصدیق کی اور وہ بھی اچھی جانچ پڑتال کے بعد کہ غالباً لوگ تنگ آ گئے ہوں گے ، اس کے بعد رومال جو میں "پویلین” میں قصداً چھوڑ آیا تھا وہ مانگا، فوراً ایک سدھایا ہوا ساتھی بگٹٹ لیے دوڑا آیا، اب جو دیکھتا ہوں تو سامنے گوروں کا خطرناک "بولر” ایک گٹھا ہوا، انتہا سے زیادہ سرخ اور سخت مضبوط، خود گیند کی طرح گول مول گورا تھا، جو اس زور سے بھنا کر گیند پھینکتا تھا کہ معلوم ہو میکسم گن کا گولا ہے کہ چلا آ رہا ہے ! میں نے اس بدتمیز کو دیکھا کہ چلا وہ ادھر سے گیند لے کر اور ادھر قبل اس کے ہاتھ سے گیند چھوٹے میں "ناٹ ریڈی” کہہ کر کریز کو چھوڑ کر پرے ہٹ گیا، گیند بیچ کا وکٹ اڑائے چلی گئی۔ میں نے معذرت کی، کچھ نہیں ایسا بھی ہوتا ہے۔ میں نے اس طرح سے گیند کی رفتار بھی معلوم کر لی۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں لگ گئی یہ گیند میرے سر پر تب کیا ہو گا۔ دل نے کہا کہ بھیا مرزا کھیل گیا چولہے میں۔ یہ گیند نہیں گولا ہے جسے ایک موذی پھینک رہا ہے۔ سب کپتانی دھری رہ جائے گی جو پھوٹ گیا سر تو ریفرشمنٹ کے خیمہ کے بجائے یہی نا معقول گورے تمہیں خالی پیٹ ملٹری ہسپتال نہ پہنچا دیں گے اور پھر کیک پیسٹری کے بجائے صرف کھاری سوڈا ہاتھ آئے گا۔

چنانچہ ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے بادل ناخواستہ گیند پھینکنے کی اجازت دی، دل دھڑکنے لگا، منہ بنا کر اور بدن کو جھٹکا دے کر وہ کمبخت لپکا ہے کہ گیند تو اس کے پاتھ سے چھوٹتے نظر آئی، میں نے کچکچا کر بلا مضبوط پکڑ لیا تھا اور اٹھا کر ہٹ لگانے کے امکان پر غور کرنے ہی کو تھا کہ "کھٹکا” ہوا، میں چونک پڑا، کیا اوٹ ہو گیا! مگر نہیں گیند بلے پر پڑی تھی۔ لوگوں نے نعرہائے تحسین بلند کیے۔ "ویل پلیڈ” "ویل ڈن” "ویل ججڈ” ان معقول آوازوں کے ساتھ ہی "اوور” ختم ہو گیا۔ اب دوسرے کھلاڑی کی باری تھی، ان کا ویسے ہی دم سوکھ رہا تھا، ادھر میں نے ان سے کہا "اسٹڈی” ادھر تڑ سے وکٹ ان کا غائب۔

نیا کھلاڑی آیا اس نے بھگتان بھگتا ہی تھا کہ میرا نمبر آیا۔ میں نے دل میں کہا کہ اگر یہ اوور کھیل لیے خیریت سے تو پھر ایک سرے سے کرکٹ ہی کھیلنا کم کر دیں گے ، ادھر بولر جھومتا چلا اور ادھر میں نے دل میں سوچا کہ گیند یا تو میری طرف آئے گی یا وکٹوں کی طرف، اگر ہٹ نہ لگا تو کیا ہے گیند بھی تو نہ لگے گی۔ بس یہ دیکھنا ہے کہ گیند خود اپنی طرف تو نہیں آ رہی دراصل کرکٹ کا یہی گر ہے۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں تیار ہو گیا۔ ادھر سے گیند جو آئی دندناتی ہوئی تو صحیح عرض کرتا ہوں کہ جس وقت بولر کے ہاتھ سے چھوٹی ہے میرا قطعی ارادہ نہیں کہ اس پر باؤنڈری لگا دوں گا کیونکہ وہ وکٹ کی طرف آ رہی تھی، مگر جب تک گیند آدھی مسافت طے کرے میں”چوٹ پھینٹ” کے امکان پر غور کر چکا تھا، وکٹوں کی طرف!۔۔ میری طرف!۔۔۔ وکٹ محفوظ! مگر نہیں وہ تو دونوں طرف آتی ہوئی معلوم ہوئی، وکٹ گئے چولہے میں، کوئی چارہ کار نہ تھا سوائے اس کے کہ استغفار پڑھ کر آنکھ میچ کے بلے کی ڈھال بناتے ہوئے جگہ سے "نوبال” کہہ کر اچھل کر دور گروں۔ اس کاروائی میں بلے کی جگہ میرے پیر نے لی اور اس پر زور سے گیند لگی اور اسدر میں "نوبال” کہہ کر پھاند چکا تھا۔ سکھایا پڑھایا امپائر اپنا تھا، دونوں طرف سے اپیل ہوئی، ہماری طرف والے بولے "ناٹ آؤٹ” امپائر بھی بول اٹھا "ناٹ آؤٹ” گورے بھنا کر رہ گئے۔ قاعدہ اچھا ہے جو امپائر کہے وہ سچ اور ہم نے تو اپنے امپائر سے کہہ دیا تھا کہ اگر تمہاری وہاں کسی نے کرکری کی تو حسب دستور جھگڑا کر کے میچ بند کر دیں گے ،اب دوسری گیند جو آئی تو میری ہمت قلابازی کھا رہی تھی، آنکھ میچ کے یا علی کہہ کہ جو ہٹ بڑھ کر دیا تو بلا خالی اور گیند شانے کو چاٹتی ہوئی توپی اڑا لے گئی۔ میں پھر چیخا "نوبال” مگر کچھ فائدہ نہ ہو، اب سوائے جان پر کھیل جانے کے چارہ نہ تھا، اس کے بعد پھر جو گیند آئی تو کیا عرض کروں جانچ تول کر ہٹ لگایا، نشانہ بھی صحیح بیٹھا مگر وکٹ غائب، بس یہ معلوم ہو۔۔۔۔ میرے بعد پھر جو باقی بچے وہ بہت برا کھیلے ، ڈر کے مارے کریز پھاند پھاند پڑے ، ادھر ادھر کی جاتی گیندوں کو مردانہ وار ران اور پشت پر لیا جو سیدھی آئی وکٹ لیے چلی گئی کل ہمارے ساٹھ ستر رن کے قریب ہوئے اور سب آؤٹ۔ ہم بھی اس حماقت سے چھٹی پا کر خوش ہوئے کہ چلو اب اصل کھیل شروع ہر گا ریفیشنمٹ والا، اب دیکھیں یہاں کون کون ہٹ اور باؤنڈری لگاتا ہے۔

 

                (۴)

 

ناشتے کی میزوں پر گھمسان کا معرکہ رہا۔ گورے خود بے تکلف اور ہم سب بے تکلف اور مزید برآں بھوکے ، الم غلم جو سامنے آیا پار کیا۔ بعض چیزیں تو اس گڑبڑ کے عالم میں کھائیں کہ نمک ڈالنا بھول گئے اور بعض کا ذائقہ یاد نہ رہا۔ دل کو سمجھا لیا کہ بھئی انگریزی کھانے پھیکے میٹھے تو ہوتے ہی ہیں۔ میں خود پورا ایک کیک کھا گیا۔ گوروں نے بمشکل فی کس اتنا کھایا ہو گا کہ اس کا چوکنا ہمارے یہاں اس شخص نے کھایا جس نے سب سے کم کھایا، اس پر چائے اور پان کے بجائے نارنگیاں، غرض وہ ڈٹ کر کھایا کہ اب "باقی پھر” مگر ہمیں تو میچ کھیلنا اور جیتنا بھی تھا۔

عرض ہے کہ یہ خاکسار وکٹ کیپری میں قدرے ماہر ہے ، لہذا جب گوروں کی کھیلنے کی باری آئی تو ان فرائض کا بار گراں اپنے ہی کندھوں پر رکھا۔ اپنے کھلاڑیوں کو قرینے کھڑا کیا، کسی کو خواہ مخواہ ذرا سا ادھر ہٹایا کسی کی جگہ بدلی، اس کے بعد بندہ نہایت ہی ہوشیاری سے بڑی شان کے ساتھ اپنے اہم فرائض میں مصروف ہو گیا۔

ہماری طرف سے پہلی ہی گیند آئی ہے کہ غدر مچ گیا ، گوروں نے کس کر ہٹ لگایا،ہت اوچھا پرا اور بڑا عمدہ "سلپ” نکلا، ایسا کہ گیند اٹھ گئی اور سیدھے ہمارے ایک ہوشیار کھلاڑی کے سینہ کی طرف ایک بہترین "کیچ” کا امکان لیے ہوئے آئی مگر کھلاڑی ایک ہوشیار ٹھہرا۔ صاف بچا گیا۔ سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور گیند اوپر سے نکل گئی اور پرے گری۔ لپک کر ہمارے ایک بہادر نے کی، گورا رن کر رہا تھا، لہذا انہوں نے زور سے وکٹ کیپر یعنی میری طرف پھینکی تا کہ میں وکٹ میں مار دوں۔ اب میرے پاس جو گیند آئی تو اول تو بہت قریب ہی قریب سے پھینکی تھی اور پھر اس زور سے پھینکی تھی کہ الامان لہذا قصداً اور غیر قصداً گیند مجھ سے نکل گئی اور میں اپنی ڈیوٹی چھوڑ چھاڑ کر ایک نعرہ مار کر گیند کے پیچھے ! مگر مجھ سے پہلے ایک اور ہمارے کھلاڑی نے اٹھا لی اور زور سے جو وکٹوں کی طرف پھینکی یا ماری ہے تو وہ گولی کی طرح وکٹوں سے کچھ فاصلے سے ہو کر نکلی چلی گئی۔ وہاں روکتا کون۔ میں تو یہاں تھا۔ اب میں پھر لوٹا اور بجائے وکٹوں پر رکنے کے گیند کی طرف دوڑا، وہیں گیند دور جا چکی تھی، ایک صاحب نے اٹھا کر مجھے دی۔ میں نے دیکھا کہ میری جگہ ایک اور ہمارے کھلاڑی آ گئے ہیں اور گیند کے منتظر ہیں کہ پہنچے تو وکٹوں کو گرا دیں، لہذا میں نے اپنی پوری قوت سے گیند ان کی طرف پھینکی، انہوں نے ویسے ے و بڑی تیاری کی تھی لیکن جب گیند قریب آئی تو آدمی یہ بھی سمجھدار تھے صاف اپنے پیر بچانے کے لیے اچھل گئے اور پھر گیند نکلی چلی گئی اور اس درمیان ورے ہیں کہ زنازن، رن پہ رن! میں پھر گیند کی طرف لپکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارے دو کھلاڑیوں کے درمیان سے گیند نکل گئی ہے۔ ایک نے اپنی جگہ تڑپ کر کہا "امان لینا”۔۔۔ دوسرے نے کہا۔ "چہ خوش! اپنی بلا میرے سر،خود کیوں نہیں دوڑتے ” میں کپتان تھا، عزت ہمارے ہاتھ تھی، دوڑ کر گیند کو پکڑ ورنہ باؤنڈری ہو جاتی، مگر اب گھوم کر جو دیکھتے ہیں تو دس بارہ اور ہو جاتے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو گیند ہاتھ میں لیے لپکتا آیا، دونوں کھلاڑی اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر میری طرف آ گئے ، تیور پر ان کے بل تھے ، ایک گورے نے بڑھ کر مجھ سے کہا "وہٹ از گوئینگ آن کیپٹن” بجائے جواب کے میں نے گیند کو وکٹ پر چھواتے ہوئے امپائر سے پوچھا "ہاؤزٹ امپائر” ہمارا امپائر بولو "آؤٹ” اس پر پیویلین سے ایک شور سا ہوا، ہم خود قاعدہ قانون سے واقف اگر تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ ہم قصداً رن بنانے کا غنیم موقع دے رہے تھے تو اس کے یہ معنی تو نہیں کہ رن کرنے والے رن کرتے کرتے نہ صرف رک جائیں بلکہ ادھر ادھر افیونیوں کی طرح گھومنے لگیں، خود ان کے امپائر سے ہم نے بھی کہلوا لیا کہ کھلاڑی آؤٹ ہو گیا، بحث اور حجت تک نوبت پہنچی، ہم نے بھی کہا کہ صاحب ہم بہترین فیلڈنگ کر رہے ہیں، آپ رن کیے جائیے ، آپ کو ہماری فیلڈنگ سے کیا بحث۔ چاہے ہم زیادہ رن بنوائیں یا تھوڑے آپ کون؟ آپ کو رن کرنے سے مطلب۔ چنانچہ اب جو گورے صاحبان کھیلنے کھڑے ہوئے ہیں تو ہماری فیلڈنگ کا رنگ ہی اور تھا، وہ کھلاڑی جو "ہٹ” پر تھا جب میں تاش لایا تھا اور کنارے بیٹھا "باؤنڈری مین” کے ساتھ "چائنس” کھیل رہا تھا، جو کھلاڑی "آف” پر تھا وہ ہاتھ نچا نچا کر گنگنا رہا تھا "موٹر کا پہیہ تیز سیاں ہم نہیں بیٹھیں گے !۔۔۔ موٹر کا۔۔۔ "لانگ وکٹ کیپر” بیٹھا ہوا تھا، پوچھا کیوں، تو بولا، ہم ادھر سے گیند ہر گز نہ جانے دیں گے ، تمہاری بلا سے بیٹھیں یا لیٹیں۔۔ باقی جو ان سے زیادہ مستعد تھے وہ بجائے علیحدہ علیحدہ کھڑے ہونے کے باتیں کرنے کے لیے دو دو اکٹھے کھڑے تھے یا لیٹے تھے۔ کچھ مونگ پھلیاں ٹھونگ رہے تھے ، کھا اتنا لیا تھا کہ چلنا مشکل تھا، فیلڈ کی یہ حالت اور ادھر ہمارا بولر بار بار کھلاڑیوں کو پکار کر کہہ رہا تھا کہ "ریڈی پلیز” اور ادھر میں بھی اپنے "مڈگارڈ” ٹانگوں پر چڑھائے "یس۔۔۔۔۔ یس۔۔۔۔۔” کہہ رہا تھا اور ادھر گورے صاحبان بجائے کھیل کے حجت اور بحث پر آمادہ! آگ بگولا ہو کر مجھ سے گورے نے کہا "تمہارا کیا مطلب ہے ؟ "اور ہمارے دو مستعد کھلاڑیوں کی طرف انگلی اٹھائی جو اس وقت بڑی تندہی سے پنجہ لڑا رہے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ ہمارے کھلاڑی دراصل اپنی ذمہ داری کوب سمجھتے ہیں، آپ کو تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں، ہماری ٹیم ایک جگہ نہیں سینکڑوں جگہ سے جیت کر آئی ہے ، قصہ مختصر میں نے اور ہمارے بولر نے تقاضا کر کر کے گورے کو راضی کیا، ہمارے بولر نے قصداً گیندیں بچا بچا کر دینی شروع کیں ، ایسی کہ گورے کے پیچھے سے نکلی چلی جائے۔ چوتھی گیند گورے نے بڑھ کر کس کر ٹھونک دی اور اسی پر ہم جیت گئے۔

گیند میں ہٹ جو لگا اور میں نے جو کہا ہے کہ "لینا” تو اب ہمارے کھلاڑیوں کی مستعدی ملاحظہ کیجیئے کہ جو جہاں تھا وہیں سے دوڑ پڑا! گیند کی طرف! اور وہ بھی اس قدر بے تحاشا کہ بس دیکھا ہی کیجیئے ، مگر گیند چونکہ آگے جا چکی تھی اور دوڑنے والوں نے قدرے دوسری سمت اختیار کی تھی لہذا بہت جلد وہاں سے لوگ پکارے "ہمیں نہیں ملتی” اور پھر فوراً ہی یہ روح فرسا پیغام آیا کہ "کھو گئی” انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ سن کر ہمارے بولر نے نعرہ مارا۔۔۔۔ "کھو گئی”۔۔۔ اب گوروں کی حماقت ملاحظہ ہو کہ رن نہیں کرتے ، میں نے ہاتھ جھٹک کر ترغیب سی "گو آن سر۔۔۔ رن آن” پیویلین سے قہقہے بلند ہوئے اور سینکڑوں آدمی چلائے "رن آن، رن آن” مگر توبہ کیجے گڑبڑ ہو گئی تمام لوگ پویلین پر سے اتر پڑے ، ان میں سے کچھ غصہ تھے لیکن باقی ہنس رہے تھے۔ مگر خود کھلاڑی گورے آگ بگولا ہو رہے تھے ، سوائے دو تین کھلاڑیوں کے جو میری پیٹھ ٹھونک کر کہنے لگے "ویل پلیڈ کیپٹن” اور میں حجت کر رہا تھا کہ آپ لوگ کیوں کھیل بند کیے دیتے ہیں، ہمارے سب کھلاڑی آن موجود ہوئے ، بحث شروع ہو گئی، جن دو گوروں نے رن کیے تھے ان کا میمیں اور لڑکیاں مذاق اڑا رہی تھیں کہ خود اپنی حماقت پر انہیں ہنسی آنے لگی، بہتیرا ہم نے کہا کہ کھیلو مگر گورے نہ مانے۔ جب کسی طرح راضی نہ ہوئے تو ہم نے امپائر سے "رول مانگا”

نتیجہ یہ کہ ہم قریب پچاس ساٹھ رن سے جیتے اور بوجہ فریق مخالف کے نہ کھیلنے کے میچ ختم ہو گیا۔

اس کامیاب میچ کے بعد ہم نے کانپور میں دو تین اسی طرح کے میچ کھیل ڈالے حتی کہ ایک میچ میں زد و کوب تک کی نوبت پہنچی، پھر تو یہ دستور ہو گیا کہ جو بھی ٹاس جیتا وہ میچ بھی جیت گیا۔ پھر جب علی گڑھ میں ایم ، سی،سی کا میچ ہوا تو نہ صرف ایک ٹیم تیار کر لی تھی بلکہ ہماری ٹیم کے سرپرست اعلی اور دوسرے احباب ایک ہزار تک روپیہ بھی ایم،سی،سی کو دینے کو تیار تھے اور میں اس سلسلہ میں کچھ دوڑا دہوپا، مگر گلیگن نے وقت کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے انکار کر دیا ورنہ ہم صحیح کہتے ہیں کہ اس میدان پر ان کو شکست دیتے جس جگہ انہوں نے ہماری یونیورسٹی کو شکست دی تھی۔

٭٭٭

ٹائپنگ: مقدس حیات، شمشاد احمد خان، ذیشان حیدر، ذو القرنین ، وجیہہ، محمد امین، فہیم اسلم اور دوسرے اراکینِ اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید