FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

صرف ایک سگریٹ

 

 

 

                راجندر سنگھ بیدی

 

 

 

 

 

 

سنت رام کی آنکھ کھُلی تو اس وقت چار بجے تھے، صبح کے۔

ساتھ کے بستر پہ دھوبن سو رہی تھی— ایک پہلو پہ۔ دھوبن سنت رام اپنی بیوی کو کہتا تھا۔ اس کا نام اچھا بھلا دیبی تھا، لیکن سنت رام اسے اسی نام سے پکارتا تھا کیوں کہ وہ لانڈری میں کپڑوں کی دھُلائی کے بہت خلاف تھی۔ گھر میں نوکر چاکر، پرماتما کا دیا سب ہوتے سوتے وہ رومال سے لے کر بھاری بھاری چادریں تک گھر ہی میں دھوتی تھی۔ جب تھک جاتی تو سب سے لڑتی اور لانڈری کے خرچ سے بہت مہنگی پڑتی۔ پھر رات کو سونے سے پہلے وہ ہمیشہ دبائے جانے کی فرمایش کچھ اس انداز سے کرتی کہ فرمایش اور حکم میں کچھ فرق ہی نہ رہتا۔ دبانے کی اس مصیبت سے سنت رام تو کیا، دھوبن کے بچّوں تک کو چڑ تھی۔ کوئی پانچ نہیں تو حد دس منٹ دبوائے لیکن یہ کیا کہ کوئی گھنٹے بھر سے ادھر چھوڑنے کا نام ہی نہ لے۔ عجیب تماشا ہوتا تھا۔ آخر دبانے والے کو خود بے دم ہو کر لیٹ جانا پڑتا تھا۔ ایک دن بڑی بیٹی لاڈو کے ساتھ یہی معاملہ تو ہوا۔ ماں کو دبانے کے بعد وہ ہانپتی ہوئی پلنگ کے ایک طرف جا گری اور بولی ——اب تم مجھے دبا دو، ممّی!

پھر اس دبنے دبوانے کے سلسلے میں ایک اور بڑی مصیبت تھی۔ دھوبن کو پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ اسے درد کہاں ہو رہا ہے۔ جہاں ہاتھ رکھو، درد ہمیشہ اس سے تھوڑا پرے ہوتا تھا۔ اور یوں جگہ ڈھنڈواتے ڈھنڈواتے، وہ سارا بدن دبوا لیتی تھی۔ کوئی کہے یہ اس کی چالاکی تھی، تو ایسی بات نہیں۔ اُسے واقعی پتہ نہ چلتا تھا اور آخر یہ فیصلہ ہوتا کہ سارا بدن دُکھ رہا ہے۔ اچھا، دھوبن کو دبوانے کا ہی نہیں، دبانے کا بھی شوق تھا۔ اشارہ تو کرو اور وہ تیار۔ البتہ یہ کام اس سے کوئی کم ہی کرواتا تھا کیونکہ اس کا ہاتھ کیا تھا، مستری کی پکڑ تھی جس سے وہ اچھے بھلے آدمی کے نٹ بولٹ کستی اور اس کی ڈھبری ٹائیٹ کر دیتی تھی۔ اس کے بازوؤں کی گرفت نہ صرف مردانہ، بلکہ پہلوانانہ تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ آدمی کو نہیں دبا رہی ، کوئی بیڈ کور نچوڑ رہی ہے۔ سنت رام تو اس کے دھوبی پاٹے سے بہت گھبراتا تھا۔ دھوبن —— ہاں، سنت رام نے اس کا یہ نام اس لیے بھی رکھا تھا کہ بچپن میں اس کو سیر بین میں بارہ من کی دھوبن دیکھی تھی جو نیم برہنہ حالت میں پہلو پہ لیٹی، ہاتھ میں مور کے پروں والا پنکھا لیے ایک بھر پور عورت معلوم ہوتی تھی۔ سیربین والا اپنے ڈبّے پہ گھنگھرو بجاتا ہوا گلی میں آتا تھا اور آواز دیتا تھا۔ پیرس کی رات دیکھو، اپنی بارات دیکھو… اور پھر ٹیون بدل کر— دھوبن دیکھو بارہ من کی، گوری چٹّی آہا تن کی— آہا!… اور سب بچّے ماؤں سے ایک ایک پیسہ لاکر اس جادو کے بکس والے کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اپنا چہرہ اور آنکھیں سیربین میں ٹھونس دیتے تھے اور نظاروں سے پورا پورا لطف اُٹھاتے تھے۔ پیرس، بارات، سفید ریچھ، سرکس کے جوکر کے بعد جب دھوبن آتی تھی تو بچّوں کو کچھ پتہ نہ چلتا تھا ۔ وہ سوچتے دھوبن کیوں اس بکس میں قید کر رکھی ہے؟ مہینہ پہلے بھی وہ ایسے ہی لیٹی ہوئی تھی اور آج بھی لیٹی ہوئی ہے۔ ایک پہلو پہ لیٹے لیٹے کیا وہ تھک نہیں جاتی؟ دھوبن ایک نا محسوس طریقے سے بچّوں کو اچھی لگتی تھی۔ وہ دماغ میں گھس جاتی تھی اور کہیں پندرہ بیس برس کے بعد باہر نکلتی۔

ساتھ کے کمرے میں لاڈو، سنت رام کی مشدود (اُس کی لغت میں شادی شدہ) لڑکی جو ایک روز پہلے اپنی سسرال سے آئی تھی، سو رہی تھی۔ کچھ ایسی بے خبری میں، جیسے اس کا کوئی میاں ہی نہ ہو۔ اس کا منھ کھلا ہوا تھا کیونکہ رات کے پہلے پہر کمینے بابی، اس کے بچّے نے اُسے سونے ہی نہ دیا تھا، اور جب اسے نیند آئی تو سانس لینے کے لیے زیادہ ہوا کی ضرورت پڑی۔ لاڈو جیسے شادی کے چھ برس پہلے تھی، ویسے ہی اب بھی تھی۔ بات کرنے میں منھ سے پانی کی پھوار سننے والے کے منھ پر پڑتی تھی۔ جیسے وہ روٹھتی، ویسے ہی من بھی جاتی۔ سنت رام اور دھوبن کو یہی فکر تھی، یہ اِتّی بھولی بیٹی ہماری بسے گی کیسے؟ اسے کوئی مشکل پسند میاں مل گیا تو مصیبت ہو گی۔ لیکن اسے میاں جو ملا، تو اُس نے کوئی شرط ہی نہ پیش کی اور نہ اب پیش کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا تھا۔ اِدھر اس گھر میں ماں باپ کی ناچاقی، اُدھر لاڈو کی سسرال میں والدین کی کثرتِ محبت یا ایسے ہی دنیا کے مشترک ڈر نے دونوں میاں بیوی کو ایک مضبوط رشتے میں باندھ رکھا تھا۔ بہادر دونوں اتنے تھے کہ گھر میں چوہا نکل آنے پر بھی چیختے چلاّتے۔ ایک دوسرے کی پناہ ڈھونڈنے لگتے تھے۔ سنت رام ان کے چڑیا کا سا دل رکھنے پر بہت خوش تھا، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ بہت سے منفی جذبے زندگی کے لیے کتنے اچھے ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈر، کنجوسی، شرم وغیرہ۔ لیکن یہ ڈر تو اَولادوں تک منتقل ہو رہا تھا۔ لاڈو کے ساتھ اس کا  مُنّا بابی سویا ہوا تھا — ماں کے گلے میں بانہہ ڈال کر۔ جب ذرا نیند کھلتی تو اس کے کان ملنے لگتا، جانے یہ کیا عادت تھی اس کی، جسے صرف اس کی ماں ہی برداشت کرسکتی تھی۔ سنت رام نے جب بھی محبت کے جذبے سے معمور ہو کر دوہتے کو ساتھ سلایا ، تو تھوڑی ہی دیر میں گھبرا کر اُسے اُٹھاتے ہوئے پھر اس کی ماں کے ساتھ ڈال دیا۔ سوتے میں بانہہ گلے میں ڈالنے کی بات اتنی نہ تھی، البتہ جب وہ اپنے لجلجے ہاتھوں سے کان مسلنے لگتا تو عجیب سی گدگدی ہوتی اور کبھی یوں معلوم ہونے لگتا، جیسے کوئی کنکول کان میں گھس رہی ہے۔

چھوٹے دو بچّے ، لڑکا اور لڑکی اپنے ماموں کے ہاں گُڑ گاؤں گئے ہوئے تھے۔ ان کے بستر خالی پڑے ہوئے بیکاری کے عالم میں پڑے چھت کو تکا کرتے۔ بڑا پال یہیں تھا، جس کے خرّاٹے سُنائی دے رہے تھے۔ کیسے دیکھتے دیکھتے وہ بڑا ہو گیا تھا، اور سنت رام کے تسلّط سے نکل گیا تھا۔ پہلے سنت رام اسے اس کی غلطی پر ڈانٹتا تھا تو وہ مختلف طریقوں سے احتجاج کرتا تھا۔ ماں سے لڑنے لگتا، چائے کی پیالی اُٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیتا ،لیکن اب وہ باپ کی ڈانٹ کے بعد خاموش رہتا تھا، جو بات سنت رام کو اور بھی کھل جاتی۔ سنت رام چاہتا تھا کہ وہ اس کی بات کا جواب دے اور جب وہ کہیں جواب دے دیتا، تو سنت رام اور بھی آگ بگولا ہو اُٹھتا۔ وہ چاہتا تھا بیٹا اس کی بات کا جواب دے اور نہیں بھی چاہتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ آخر وہ چاہتا کیا تھا؟   سنت رام نے اپنے بیٹے پال کے سلسلے میں اپنی زندگی کا آخری چانٹا کوئی چھ برس پہلے مارا تھا،جو اب تک گھس چکا تھا۔ اب تو وہ اس سے ڈرنے لگا تھا۔ آج بھی پال حسب معمول رات کے دو بجے آیا تھا، ڈپلومیٹ کے دو چار پیگ لگاکر۔ وہسکی کی اصلی مہک تو گھر کے لوگوں نے نیند میں گزاردی تھی لیکن اب بھی اس کے اُلٹے سانس میں سے بو آ رہی تھی۔

پال چھبیس ستائیس برس کا ایک دُبلا پتلا نوجوان تھا۔ اندر ہی اندر کڑھتے، کھولتے رہنے سے اس کے بدن پہ بوٹی نہ آتی تھی۔ اس کے باوجود چہرے کی بناوٹ، اور مونچھوں کی ہلکی سی تحریر کے ساتھ وہ مرد کے طور پر قابلِ قبول تھا۔ عورتیں اسے بہت پسند کرتی تھیں کیونکہ وہ بچّوں کو بہت پسند کرتا تھا۔ کردار کے اعتبار سے پال اُمنگ بھرا تھا اور جاہ طلب بھی۔ اس میں اَنا بے انتہا تھی۔ یہ اَنا جس کی وجہ سے اس کی ناک کے نتھنے پھٹے جاتے تھے اور وہ بڑے زوردار طریقے سے اپنے آپ کو پال آنند کے نام سے متعارف کراتا تھا ،جیسے وہ کوئی روایت ہو۔ یہ روایت اس نے کہاں سے پائی تھی؟ اپنے باپ، سنت رام ہی سے نا، جو ایک بہت بڑی ایڈورٹائیزنگ ایجنسی کا مالک تھا اور جس نے اپنے بیٹے کو شہزادے کی طرح سے پالا تھا۔ اس کی ماں دھوبن سے چوری چوری رقمیں دی تھیں اور اس عمل میں اپنی بیوی سے اپنے تعلقات خراب کر لیے تھے۔ پھر اس نے پال کو عافیت کی چھت دی تھی— ایک ایسے مکان کی چھت، جس میں تین بیڈروم تھے اور ایک شاندار ڈرائنگ روم ،جس میں استادوں کی پینٹنگ تھیں۔ پھر دن میں دو دو بار بدلنے کے لیے کپڑے۔ یہ سب اپنے باپ سے لے کر وہ کیوں اُسے بھول گیا تھا؟ صرف یہی نہیں، اس سے نفرت کرنے لگا تھا اور یوں پاس سے گزر جاتا تھا، جیسے وہ اس کا باپ نہیں، کوئی کرسی ہو۔ اگر حکومت نے کوئی نیا قانون پاس کر دیا جس سے کمپنی فیل ہو گئی، تو اس میں سنت رام کا کیا قصور؟ زندگی میں نفع ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ یہ کیا مطلب کہ نفع کے وقت تو سب شریک ہو جائیں اور نقصان کے وقت نہ صرف الگ ہو بیٹھیں، بلکہ گالیاں بھی دیں؟ لیکن اس میں پال کا زیادہ قصور نہ تھا۔ وہ آج کل کے زمانے کا لڑکا تھا اور صرف اسی شخص کی عزت کرسکتا تھا جس کے پاس پیسہ ہو، یا اس کے ڈھیر سارے پیسے بنانے، بلڈنگیں کھڑی کرنے اور اِمپالا کار خریدنے کا امکان ہو۔ ایک بار سنت رام کے سوال پہ پال نے یہ بات کہہ بھی دی، جس سے بوڑھے کو بہت ٹھیس لگی۔ اس کے اندر کیا کچھ ٹوٹ گیا، اس کا اسے خود بھی اندازہ نہ تھا۔ اس کا کتنا جی چاہا تھا کہ وہ کہیں چوری چاری کر کے، ڈاکہ ڈال کے یا بینک ہولڈاَپ کر کے لاکھ روپئے بنائے اور اس بیٹے کے پانو میں پھینک کر اس کی اور اس کی ماں کی نظروں میں اپنی کھوئی توقیر پھر سے حاصل کرسکے۔ لیکن لاکھ روپیہ کھلے کھلے نہیں، شاطرانہ ڈاکے سے بنتا ہے، جس کی استعداد سنت رام میں نہ تھی۔ جب خسارہ ہوا تھا تو دھوبن یا لاڈو یا پال میں سے کسی نے اتنا بھی تو نہ کہا—— اے جی، یا پپاّ، کوئی بات نہیں، ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ جی میلا کیوں کرتے ہیں؟ جیسے کھویا ہے، ایسے ہی پا بھی لیا جائے گا۔ جو پیسہ بنانے نکلتے ہیں، کھو بھی دیتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر نقصان اُٹھانے والا بے وقوف ہوتا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی، جیسے ہر پیسہ بنانے والا عقل مند ہوتا ہے۔ کیوں سب نے اسے بوڑھا اور سٹھیایا ہوا سمجھ لیا اور بیسیوں بار اس کی طرف دیکھے بغیر پاس سے گزر گئے تھے اور اسے یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ اس دنیا میں اکیلا ہے؟ اس کا تو یہی مطلب ہوا نا کہ اگر پھر سے اس کی مالی حالت اچھی ہو جائے، تو وہ ان گزری ہوئی باتوں کو دل میں رکھ کر ایک ہنٹر ہاتھ میں پکڑ لے اور کسی بھی عنایت سے پہلے بیوی اور بچّوں کو مار مار کر نیلا کر دے۔ نہیں؟ یہ شوہر اور باپ کا کرتویہ نہیں۔ لیکن یہ کیوں سمجھ لیا جائے کہ باپ کا کرتو یہ پیار دینا ہی ہے، لینا نہیں۔ گویا اسے پیار کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ پیار کی ضرورت کیسے نہیں ہوتی؟ ایک سال کے بچّے کو ہوتی ہے، تو سو سال کے بوڑھے کو بھی۔ اور تو اور اپنے کاکرنپئیل جمّی کو بھی ہوتی ہے جو اس وقت کہیں اپنے ڈربے میں پڑا سو رہا ہے اور بیچ بیچ میں کہیں سے کوئی آواز آنے پہ بھونک اُٹھتا ہے۔ کیسے پیار کی نظریں اس کی نظروں سے ملتی ہیں، تو ایک پیغام اس کے دماغ سے دم تک چلا جاتا ہے جو کہ نہ صرف خود بے تحاشا ہلتی ہے، بلکہ سارے بدن کو بھی ہلا ڈالتی ہے۔ جس دن اسے کوئی ایسی نظروں سے نہ دیکھے، وہ کھانا چھوڑ دیتا ہے۔ گویا کہہ رہا ہے، میں بھوکا رہ سکتا ہوں، لیکن پیار کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور یہاں دھوبن لاڈو، پال نے اسے جمّی کے برابر بھی نہ سمجھا تھا۔

شاید یہ سب اس لیے تھا کہ سنت رام نے زندگی میں صرف دینا ہی سیکھا تھا۔ اور اب یہ اس کی عادت ہو گئی تھی۔ وہ جب دیتا تھا تو جیتا تھا۔ لینے میں اس کی روحانی موت واقع ہو جاتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا اسے کاروبار می خسارے کا اتنا غم نہیں، جتنا اس بات کا ہے کہ اب وہ دے نہیں سکتا۔ اور جب گھر کے لوگ چپکے میں پاس سے گزر جاتے تھے، تو وہ ان کی خاموشی کا عجیب اُلٹا سیدھا مطلب نکالتا تھا۔ وہ نہ جانتا تھا کہ لینے والوں کو بھی عادت پڑسکتی ہے— لینے کی۔ پھر دنیا بذاتِ خود ایک سامراجی عمل ہے جو لینے والوں، محکوموں کو تباہ و برباد کر ڈالتا ہے۔ اس سلسلے میں سنت رام بہت سفّاک واقع ہوا تھا۔ اس نے کئی بار اُدھار لے کر بھی بیوی بچّوں کو تحفے دیے ،جو اُنھوں نے لے کر رکھ لیے اور بے شعوری کی کھڑکیوں میں سے باہر جھانکنے لگے۔ کسی نے شکریے کا ایک لفظ بھی تو نہ کہا اور نہ تشکّر کی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ سب نے کتنے کمینے اور بزدلانہ طریقے سے اپنی محبت روک لی تھی، یا شاید سنت رام کو اپنے گھاٹے کا اس قدر احساس ہو گیا تھا کہ گھر کے لوگوں کی نگاہوں میں اسے اپنے لیے تحقیر کے سوا اور کچھ دکھائی ہی نہ دیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب وہ اپنے لیے نفرت اور تحقیر ہی کو پسند کرنے لگا ہے اور اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی حالتِ زار پہ چند آنسو نہ بہا لے…

دھوبن کی چوبیس گھنٹے کی نیگنگ اور نصیحتوں کی سنت رام کو اتنی پروا نہ تھی، کیوں کہ وہ   اَن پڑھ اور بے زبان ہونے کے ساتھ محنتی بہت تھی اور اپنی صفائی پسند طبیعت سے بہت سی چیزوں کی تلافی کر دیتی تھی، لیکن ایک رات بڈھے پیار کے لمحوں میں اس نے ہونٹ چُرا لیے کیوں کہ سنت رام کے منھ سے سگریٹ کی بو آتی تھی۔ لیکن وہ تو بچپن ہی سے سگریٹ پیتا تھا۔ اب، صدیوں کے بعد یہ بو کیسی؟ شاید وہ اسی خسارے کی بو تھی یا شاید دھوبن بوڑھی ہو گئی تھی اور ٹھنڈی اور خشک، کیوں کہ یہ جوانی اور اس کی گرمی ہی ہے جس میں بُو اُڑ جاتی ہے اور روئے زمین کی سب خوشبوؤں پہ چھا جاتی ہے۔ لیکن اگر دھوبن ٹھنڈی اور خشک اور بوڑھی ہو گئی تھی، تو وہ خود بھی تو جوان نہ رہا تھا۔ سنت رام! کیوں اسے اس عمر میں ہونٹوں کی طلب تھی؟ بوڑھے اور بے کیف ہونٹوں کی، جن میں رس نام کو نہ تھا۔ ان پہ تو صرف جلی کٹی تھیں اور کوسنے، جن کے سوا اور کچھ آ ہی نہ سکتا تھا۔ دھوبن سیدھی سادی اور نادان عورت تو یہ بھی نہ جانتی تھی کہ جب ہونٹ چُرا لیے جائیں تو مرد پہ کیا بیت جاتی ہے؟ سنت رام انہی کی تلاش میں رل کر ان ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ جا رکھتے ہیں، جن پہ سوائے نجاست کے اور کچھ نہیں ہوتا۔

یا شاید دھوبن، سیربین کی دھوبن پہ ’مینوپاز‘ چلا آیا تھا اور اس نے پہلو بدل لیا تھا اور یا اپنے سیج سے اُٹھ کر، مورپنکھ کو ہاتھ سے پھینکتی ہوئی، دیکھنے والوں کی طرف سے منھ موڑ کر بیٹھ گئی تھی۔ نہ وہ جادو کے ڈبّے والا رہا تھا اور نہ وہ معصوم دیکھنے والے۔ یا خود سنت رام پہ وہ وقت چلا آیا تھا، جب کہ جوانی ایک بار پھر عود کر آتی ہے اور آدمی کئی بار بدنامی سے بال بال بچتا ہے۔ پہلے کی سی طاقت کے ساتھ شعور اور تجربہ بھی شامل ہو جاتے ہیں اور ایک پختگی اور رسیدگی پا جانے سے انسان خود ہی اپنے آپ میں تعفّن پیدا کر لیتا ہے اور تھوڑے پانی والے پوکھر کی کیچ میں بھینس کی طرح لوٹنے لگتا ہے، یا غالباً اس کی وجہ بھی وہی گھاٹا تھی، جو سنت رام نے اپنے کاروبار میں کھایا تھا اور مالی طور پر اپنے آپ کو غیر محفوظ پانے کا احساس، محبت میں غیر محفوظ ہونے کے احساس میں بدل کر رہ گیا تھا۔

لاڈو کی تو خیر کوئی بات ہی نہ تھی۔ وہ تو بیاہی برس گئی اور اپنے گھر جا بسی۔ وہ تو اب ’بابل کے آنگن کی چڑیا‘ تھی جو کہیں بھولے ہوئے دانوں کو چُنتی ہوئی اُڑ جاتی تھی، لیکن پال تو یہیں تھا اور اسے یہیں رہنا تھا—اسی گھر میں، اسی چھت کے تلے، جہاں اُسے بہو کو لانا اور اسے بسانا تھا۔ کہیں اور گھر لے لینے سے تو باپ کے گھر کی چھت نہیں بدلتی۔ وہ کیوں چند باتوں کو نہیں سمجھتااور یا سمجھنا ہی نہیں چاہتا؟ کیوں اس کے پاس اپنے بہن بھائیوں، اپنے ماں باپ کے لیے چند منٹ بھی نہ تھے؟ امریکن فرم میں اگزکٹو ہو جانے سے کیا وہ کوئی خدا ہو گیا تھا؟ کیوں وہ اس فرم کے ذریعے سے پرائیوٹ کنٹریکٹ لینے اور یوں پیسہ پیدا کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتا تھا۔ وہ کبھی تو باپ سے بات کرتا۔ وہ اس سے پیسے تو نہ مانگتا تھا۔ وہ تو فقط یہی چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا اس کے پاس بیٹھے۔ وہ تین جسم اکٹھے ہوں، جو ایک دوسرے سے نکلے ہیں۔ بدن، صرف بدن کا لمس ہو۔ یہ نہ بھی ہو تو آنکھیں ملیں ،جو باپ ہی پہ نہیں، آبا و اجداد پہ گئی ہیں۔ پاس بیٹھ کر وہ آج کی نئی تعلیم کی باتیں کرے، جس سے پرانے بہت پڑھے لکھے آدمی بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ کچھ ان کی دنیا کا پتہ چلے، کچھ اپنی دنیا انھیں دکھائی جا سکے۔ اس سے سیکھیں اور اسے بتا بھی سکیں کہ صرف تعلیم ہی بس نہیں، تجربہ بھی ضروری ہے اور چند حالات میں جیمز بانڈ کے علم سے بہت اوپر ہوتا ہے۔ وہ کبھی، کچھ تو مانگے اور کچھ نہیں تو مشورہ ہی سہی۔ کیوں وہ ایکا ایکی اس قدر خود مختار اور بے نیاز ہو گیا تھا؟ یہ دلیل کافی نہیں کہ وہ بڑا ہو کر، اب ماں باپ پہ کسی قسم کا بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ بوجھ ہی کی بات ہے تو وہ اب بھی بوجھ ہے۔ کیسے کپڑے اُتار کر دھوبن کے سامنے پھینک جاتا ہے اور چونکہ گھر میں کچھ پیسے دیتا ہے اس لیے ماں ماں ہی نہیں رہی، سچ مچ دھوبن ہو گئی؟ گھر میں بیسیوں مہمان آتے جاتے ہیں۔ انھیں ایرپورٹ سے لینا یا گاڑی پر چھوڑنے جانا ،صرف ماں باپ ہی کا فرض ہے؟ اور کچھ نہیں تو لاڈو ہی کو لینے، ملنے چلا جائے۔ وہ اپنی بیٹی ہے تو اس کی بھی بہن ہے۔ اگر پال یہ سب حرکتیں ناسمجھی کے عالم میں کرتا تو کوئی بات نہ تھی۔ لیکن وہ تو بلا کا ذہین تھا اور ایک پل میں ہر معاملے کی تہ تک پہنچ جاتا تھا۔ پار سال جب ایک نہایت امیر باپ کی اکلوتی بیٹی سے اس کا رشتہ ہونے کی بات چلی تو کھٹ سے اس نے انکار کر دیا اور بولا — دس سال مجھے آپ کے چکّر سے نکلنے میں لگے ہیں، پپّا! آپ چاہتے ہیں میں اور دس سال ایک امیر کی اکلوتی بیٹی کے چکّر سے نکلنے میں گزار دوں؟

کتنے پتے کی بات تھی۔ سنت رام تو اسے سُن کر چکت ہو گیا تھا۔ اسے اس بات کا گورو بھی ہوا کہ وہ میرا بیٹا ہونے کے ناطے بہت خوددار بھی واقع ہوا ہے اور افسوس بھی۔ افسوس اس لیے کہ باپ کے چکّر سے نکلنے کا مطلب؟ کیا بیٹا باپ کے چکّر سے نکل سکتا ہے، یا باپ بیٹے کے چکّر سے؟ کیا وہ ایک دوسرے سے کبھی الگ نہ ہو سکنے والا حصّہ نہیں؟ کیا براعظموں کا فاصلہ ہونے پہ بھی وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے ہیں؟ آخر وہ کون اندھا ہے، جسے وہ دوڑ دکھائی نہیں دیتی جو باپ بیٹے سے وقتی طور پر یا ہمیشہ کے لیے جدا ہوتے ہوئے اپنے پیچھے چھوڑتا اور چھوڑتا ہی چلا جاتا ہے؟ بیٹا چاہے باپ کے جانے کے بعد یہی کہے کہ میرا باپ نالایق آدمی تھا، ہزاروں کا قرض مجھ پہ چھوڑ کے چلتا بنا۔ اس پہ بھی تعلق تو رہتا ہی ہے نا؟ نالایق باپ اور لایق بیٹے کاتعلق۔ میں تو مر ہی نہیں سکتا، جب تک اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑ کر نہ جاؤں۔ ایسا ہوا تو ان کی ماں دھوبن تو مجھے وہاں، خدا کے گھر تک نہ چھوڑے گی اور میری روح کا تولیہ تک نچوڑ ڈالے گی۔ لیکن میرے ماں باپ نے میرے لیے کیا چھوڑا تھا؟ اس پہ بھی ان کی عزّت میرے دل میں کبھی کم نہ ہوئی۔ کیا پیسہ اور جائداد چھوڑنے ہی سے کوئی باپ کہلانے کا مستحق ہوتا ہے؟ یہ بات تو اعداد و شمار ہی سے غلط ہے۔ ایک باپ مقروض مرتا ہے، جب ہی دوسرا جائداد بنا سکتا ہے نا؟ خیر، میرا تو ابھی تغلق روڈ پر ایک بنگلہ ہے۔ کیا ہوا گھاٹے کے بعد اس پہ تھوڑا پیسہ لے لیا؟ کیا میں اتنا ہی گیا گزرا ہوں کہ مرنے سے پہلے اس کا رہن بھی نہ چھڑا سکوں؟ پھر گانو جگ دل میں زمین ہے، دو سو بیگھ، جس میں سے کچھ بڑوں کی ہے اور کچھ میں نے اپنے پیسے سے بنائی ہے۔ کیا یہ میری ہمت نہیں کہ اتنی مصیبت آ پڑنے پہ بھی میں نے اس کا ایک انچ نہیں بیچا؟ میں نے اس لیے نہیں بیچا ناکہ میرے پُرکھوں کی روح کو تکلیف نہ ہو اور میرے بیٹے مجھے کوسنے نہ دیں۔ پھر بیمہ ہے۔ بہت ٹوٹ آئی تو خودکشی کر کے بیوی بچّوں کو پیسہ دلوا سکتا ہوں۔ جبھی سنت رام کو اپنا باپ یاد آیا اور اس کی موت کا وقت، جس میں صدمے کی انتہا تھی اور اس کے بیچ ایک عجیب سی پُراسرار خوشی بھی کہ اب جو بھی اچھا بُرا کریں گے، اپنا کریں گے۔ اور پال کے سلسلے میں اس بات نے سنت رام کو ایک عجیب طریقے سے مکت کر دیا۔ آخر کون بیٹا ہے، جو اپنے دماغ کے کسی کونے میں اپنے باپ کی موت کی خواہش لیے نہ بیٹھا ہو؟

سنت رام کو ایک عجیب سے سکون کا احساس ہوا۔ ساتھ کے کمرے میں آ کر اس نے زیرو پاور والا بلب جلایا اور اس کی مدھم سی روشنی میں لاڈو، اس کے بچّے بابی اور پھر پال کا چہرہ دیکھا اور کچھ دیر کھڑا دیکھتا رہا۔ وہ اپنے بیٹے میں جی رہا تھا اور پھر اپنے پوتے، پڑپوتے میں…

جبھی سنت رام کو ایک سگریٹ کی طلب ہوئی۔

ارے یار! سگریٹ بھی کیا چیز ہے۔ جس نے بھی اسے ایجاد کیا، حد کر دی۔ کیا ایک ننھّاسا رفیق زندگی کا، جو آپ کے تنہا لمحوں میں کسی دوسرے کے موجود ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے اور اس کے نام سے آپ کبھی اکیلا نہیں محسوس کرتے۔ بلکہ وہ خود زندگی ہے، جس کا ایک کنارہ خود زندگی ہی کی طرح دھیرے دھیرے سلگتا اور دوسرا موت کے منھ یا منھ کی موت میں پڑا ہوتا ہے۔ وہ آپ کی ہر سانس کے ساتھ جیتا اور مرتا ہوا خود راکھ ہو جاتا ہے، لیکن آپ کے بکھرے ہوئے خیالوں کو ایک نقطے پہ سمیٹ لاتا ہے۔ آپ چند ایسے راز سمجھ چکے ہوتے ہیں، جن کے بعد اور کچھ سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ لوگ کہتے ہیں، اس سے کینسر ہو جاتا ہے— ہوا کرے… جو لوگ سگریٹ نہیں پیتے ،وہ کون سی خضر کی حیات جیتے ہیں؟ دنیا کے ہر بشر کو آخر کوئی نہ کوئی بہانہ تو موت کو دینا ہے۔ سگریٹ کا بہانہ کیوں نہ ہو؟

رات جب سنت رام گھر لوٹا تو سگریٹ لانا بھول گیا تھا اور اُس وقت ساڑھے چار بجے دکانیں بند تھیں اور سنت رام کی طلب کھلی جو کھلتی ہی جا رہی تھی۔ سامنے بیٹے پال کے سگریٹوں کا پیکٹ پڑا تھا، جس کے اوپر ماچس رکھی تھی۔ پال شہزادہ ہونے کے کارن اسٹیٹ ایکسپریس سے ادھر سگریٹ ہی نہ پیتا تھا۔ حالاں کہ اس کے باپ، سنت رام کو چار مینار سے لے کر قینچی اور گولڈ فلیک تک سب چلتے تھے۔ اسٹیٹ ایکسپریس پی لوں؟ کیا ضرورت ہے؟ کیا میں چھ ساڑھے چھ بجے تک انتظار نہیں کرسکتا ،جب کہ پان بیڑی کی دکانیں کھلنے لگتی ہیں؟ لیکن اگر انتظار کرنے دے تو پھر وہ سگریٹ نہیں، دودھ کا گلاس ہوا۔ سنت رام کا ہاتھ پیکٹ کی طرف لپک گیا۔ زیرو پاور کے بلب کی روشنی میں اس نے دیکھا، پیکٹ میں صرف دو ہی سگریٹ تھے۔ ایک تو باتھ روم کے لیے چاہیے ہی تھا اور دوسرا؟ کیا پتہ ایک سگریٹ سے اس کا کام نہ چلتا ہو اور دوسرے کی بھی ضرورت محسوس ہو۔ اُس وقت نہیں تو شیو کے بعد سہی۔ یا ناشتے کے بعد۔ اس علاقے میں اسٹیٹ ایکسپریس کہاں ملتے ہیں، جو اڑا لینے کے بعد نو دس بجے سے پہلے چوری چپکے رکھ دیے جائیں، جب کہ پال اُٹھتا تھا۔ رکھ بھی کیسے دیے جائیں، کیوں کہ ان سگریٹوں کے لیے    کناٹ پلیس جانا اور آنا پڑتا تھا۔ جس کا مطلب تھا آدھا گیلن پٹرول پھونک دینا— ایک سگریٹ کے لیے! اس سے اچھا ہے کہ چھ ساڑھے چھ بجے تک انتظار کر لیا جائے۔

لیکن صاحب، سگریٹ جب بلاتا ہے تو اتنی زور کی آواز دیتا ہے کہ کانوں کے پردے پھٹ جاتے ہیں۔ وہ آواز پینے والوں کو سنائی نہیں دیتی۔ اُن کے کان سُر میں نہیں ہوتے نا۔ کیوں نہ بھیکو، اپنے نوکر سے سگریٹ لے لیا جائے؟ وہ تو بیڑی پیتا ہے۔ بیڑی ہی سہی۔ لیکن بھیکو کو اس کی کمبھ کرن کی نیند سے جگانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ پورا پہاڑ کھودو اور پھر اس سے ایک کنکر کی فرمایش کرو ،کیوں کہ بھیکو ہمیشہ ہڑبڑا کر، کیا ہوا کیا ،کہتا ہوا اُٹھتا تھا ،جس سے گھر کے سب لوگ جگ جاتے تھے۔ اس کمینے کی نیند بدعنوانیوں کی وجہ سے کبھی نہ پکتی تھی۔ ارے ہاں باہر چوکیدار بھی تو ہے۔ سنت رام نے دروازہ کھول کر جھانکا اور بتیوں کی روشنی میں اِدھر اُدھر دیکھا۔ چوکیدار کا کہیں تخم بھی نظر نہ آتا تھا۔ پونے پانچ بجے تھے اور وہ اپنی سمجھ میں پانچ بجا کر، اپنی ڈیوٹی پوری کرتے ہوئے کسی چور کے ساتھ جا سویا تھا۔ بیکار ہی ہم لوگ اسے پیسے دیتے تھے۔ کون سا ڈاکہ پڑنے والا تھا، جب کہ سامنے پولس کی چوکی تھی؟ بھیکو، چوکیدار یا چوکی کے کسی سنتری سے بیڑی مانگنے سے تو یہی اچھا ہے کہ اپنے بیٹے کا اسٹیٹ ایکسپریس پیا جائے۔ اسے بُرا تو لگے گا مگر جو ہو گا، دیکھا جائے گا…

چنانچہ سنت رام نے پیکٹ اُٹھایا اور ایک سگریٹ نکال کر سُلگایا۔ ایک ہی کش سے  سنت رام کا اضطرار آدھا رہ گیا تھا۔دوسرے کش سے ایک چوتھائی۔ اس حساب سے تو تیسرے چوتھے کش سے پوری تسلّی ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن سگریٹ کا بھی عجیب حساب کتاب ہوتا ہے، جیسے اضطرار کا اپنا لاجک۔ چوتھے کش کے بعد اضطرار کے کم ہونے کی رفتار گھٹ جاتی ہے اور سگریٹ کے جلنے کی زیادہ۔ بہرحال بہت مزہ آیا۔ اسٹیٹ ایکسپریس اتنا اسٹرانگ سگریٹ تو نہیں جتنا چار مینار ، مگر اچھا ہے۔

پورا سگریٹ پی چکنے کے بعد سنت رام کو محسوس ہوا کہ اس نے بُرا کیا۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے ایک سگریٹ کے بغیر نہ رہ سکتا تھا؟ نہیں۔ جوانی میں آدمی اپنے حواس پہ قابو رکھ سکتا ہے، بڑھاپے میں نہیں۔ آخر بیٹے کا سگریٹ پیا ہے نا؟ مجھے خوشی ہونی چاہیے اور اگر وہ میرا بیٹا ہے تو اسے بھی کیسا مزا آیا۔ چھوٹی چوری میں بہت مزہ ہوتا ہے۔ جبھی بابی کے بڑبڑانے کی آواز آئی۔ ماروں گا، میں تم کو ماروں گا۔ وہ خواب میں کسی سے لڑ رہا تھا؟ لاڈو نے آدھے سوئے، آدھے جاگے عالم میں اسے تھپکنا شروع کیا۔ سو جا بابی، سوجا۔ بابی سو گیا اور وہ بھی سو گئی۔ پال کو کچھ پتہ نہ تھا۔ اس کے خرّاٹے تو جا چکے تھے۔ البتہ ناک میں کوئی چیز اڑے ہونے کے کارن سیٹی سی بج رہی تھی۔ جبھی اندر سے دھوبن کی آواز آئی۔

’’سگریٹ پی رہے ہو؟‘‘

’’ہاں۔‘‘ سنت رام نے وہیں سے کہا۔

جس کے جواب میں وہ بولی ’’صبح صبح شروع ہو جاتے ہو۔ دن تو چڑھنے دو… یوں کلیجہ جلانے سے بیمار ہو گے کہ نہیں ہو گے؟

سنت رام نے دل ہی دل میں کہا— میری بیماری کی جیسے بہت پروا ہے۔ یہ گھر کے لوگ، جب پروا کرنی ہوتی ہے تو نہیں کرتے اور جب نہیں کرنی ہوتی تو کرنے لگتے ہیں۔ اس نے اندر کے کمرے کی طرف منھ کر کے صرف اتنا کہا ’’تم سو جاؤ، ابھی سوا پانچ ہوئے ہیں۔‘‘

دھوبن کی آواز اس انگڑائی میں چھن کر آئی ’’نہیں مجھے ہیٹر لگانا ہے، پانی گرم کرنا ہے۔ بہت کپڑوں کا ڈھیر ہے…‘‘

جبھی دھوبن کے اُٹھنے کی آواز آئی۔ ہاں صاحب، جب عورتیں اُٹھتی ہیں تو وہ اس بات کا رکھ رکھاؤ نہیں کرتیں کہ کھٹ پٹ سے کوئی ڈسٹرب ہو گا۔ وہ بستر کی چادر کو چھانٹ رہی تھی، جیسے اس پہ کہیں ریت آ پڑی ہو۔ پھر الماری کی کیَں سنائی دی اور اس میں سے دودھ کے لیے پیسے نکلے۔ پھر سینڈل کی کھٹ کھٹ جو برسوں پہلے اچھی لگتی اور دماغ میں فتور پیدا کرتی تھی، اب یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے ہتھوڑے پڑ رہے ہیں۔

چادر چھانٹتے ہوئے دھوبن کی آواز آئی — ’’اوف ، اوف … دماغ جل گیا ہے، سگریٹ کی بو سے۔‘‘

’’اچھا اچھا‘‘ سنت رام نے کہا ’’تمھیں بو آتی رہتی ہے۔‘‘

دھوبن کو واقعی بہت بو آتی تھی جو غالباً عمر کا تقاضہ تھا۔ چوتھے کمرے میں کوئی سگریٹ پِیے، اسے وہیں سے پتہ چل جاتا تھا۔ ایسے ہی وہسکی شراب کا، چاہے کسی نے صرف چکھا ہی ہوا ہو۔ اس کی کنجوسی، اس کے اخلاقی طور پر اچھا ہونے نے گھر کے سب لوگوں کو چور بنا دیا تھا۔ سب بے حال ہو کر علتیں کرتے اور پھر انھیں چھپانے کی کوشش کرتے تھے، لیکن دھوبن سے کوئی چھپا نہ سکتا تھا۔ کئی بار ایسا ہی ہوا کہ آپ نے باہر نکل کر، بالکنی پر جا کر سگریٹ سُلگایا ،لیکن جب مُڑ کر دیکھا تو دھوبن موجود، جس سے سگریٹ کا مزہ ہی جاتا رہا۔ اس کی اس روک ٹوک نے پال میں بغاوت کا جذبہ پیدا کر دیا تھا۔ اب وہ کھلے بندوں سگریٹ پیتا تھا۔ بلکہ اس نے اسکاچ کی ایک بوتل گھر ہی میں لا رکھی تھی۔ باہر سے آنے پر جب اسے محسوس ہوتا، شراب کم پڑی ہے تو ایک آدھ پیگ گھر ہی میں لگا لیتا۔ ماں سے اس کی کئی بار لڑائی ہوئی تھی۔ دھوبن آخر اس سے ہار گئی تھی۔ اس نے کہا بھی تو اتنا— ’’میرا کیا ہے؟ جو آئے گی، اپنی قسمت کو روئے گی۔‘‘

سگریٹ!… دراصل مرد اور عورت کے مرد کی بو کو ایک ہونا چاہیے، ورنہ سب تباہ ہو جاتا ہے۔ اس تباہی کے کارن سنت رام نے اپنی ٹائپسٹ ڈولی کو پہلے سگریٹ پلا لیا تھا!

پال اُٹھے گا تو کیا کہے گا؟ یوں ایک سگریٹ پی لینے میں تو کوئی بات نہیں، لیکن کسی عمل، کسی ذائقے کا تکمیل نہ پانا  بُرا ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے دو محبت کرنے والوں میں کوئی تیسرا آ جائے۔ پھر پال کئی باتوں میں کس قدر کمینہ ہے۔ ایک بار اس کا جوتا پہن لیا تو وہ کتنا  جُز بُز ہوا تھا۔ اس نے جوتے کو یکسر پھینک ہی دیا اور کہنے لگا ، میرے اور پپّا کے پیر ایک ہیں کیا؟ اب یہ کھل گیا ہے اور میرے کام کا نہیں۔ سنت رام کو بہت دُکھ ہوا۔ اور ایک بار بیٹے کا جوتا پہن لیا تو کیا ہو گیا؟ بیسیوں بار اس نے میرا چپل پہنا ہے، میں نے تو کچھ نہیں کہا ہے۔ اُلٹا مجھے خوشی ہوئی، اس احساس کے ساتھ،میرے بیٹے نے میرا جوتا پہنا ہے۔ اور بڑوں کا یہ کہن بھی دماغ میں آیا کہ جب باپ کا جوتا بیٹے کو برابر آ جائے تو پھر اسے کچھ نہیں کہتے۔ چنانچہ جب سے میں نے سب کہناسننا چھوڑ دیا۔ نہیں ایک بار اس نے کسی اسمگلر سے امریکی جرکن خریدی تھی، جو مجھے بہت اچھی لگی۔ پال کو بھی بہت اچھی لگی تھی، جبھی تو اس نے خریدی۔ لیکن، میں ہمیشہ کی طرح اپنے بڑھاپے کے کارن، اپنے پہننے کے جذبے کو روک نہ سکا۔ چنانچہ میں نے پہن لی۔ اس کے رنگ بڑے  شوخ و شنگ تھے اور مجھے اسے پہننے میں بہت مزا آیا۔ لیکن پہلے تو دھوبن نے میرے مزے کو کرکرا کیا۔ وہ مجھے دیکھ کر ہنس دی۔

’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

وہ اندر ہی اندر اپنی ہنسی دبائے ہوئے بولی۔ ’’کچھ نہیں…‘‘ اور پھر وہ رہ بھی نہ سکی اور کہنے لگی——کیسے گھوم رہے ہو، جیسے دیسی مرغا مرغی کے گرد گھومتا ہے!‘‘

یہ جذبات کا دھوبی پٹرہ تھا۔ خیر—

لیکن رہی سہی کسر پال نے ہی پوری کر دی۔ میں نے اپنا شوق پورا کرنے کے بعد اس جرکن کو بڑی احتیاط سے وارڈروب میں ٹانگ دیا۔ لیکن صبح ہی تو پال جرکن کو میرے پاس لے آیا اور بولا —— ’’پپّا ! آپ ہی اسے پہن لیجیے۔‘‘

میں نے مجرمانہ انداز سے کہا ’’کیوں—تم کیوں نہیں پہنتے؟‘‘

’’یہ میرے کام کا نہیں رہا۔‘‘وہ بولا ’’دیکھتے نہیں آپ کا پیٹ بڑا ہے۔ آپ کے پہننے سے الاسٹک چلا گیا ہے، اس کا۔‘‘

مجھے بے حد غصہ آیا اور میں اس پہ برس پڑا۔ میں نے کہا، میں تمھارا باپ ہوں۔ جرکن پہن لی اور تمھارا نقصان کر دیا؟ تم نے سیکڑوں نہیں ہزاروں بار میرا نقصان کیا ہے۔ میں نے کبھی تمھیں کچھ کہا ہے؟ اُلٹا میں خوش ہوا ہوں۔ چلو یوں کہہ لو کہ باہر سے ناراضی کا ثبوت دیا ہے لیکن اندر سے میں کتنا خوش تھا؟ تم سیکڑوں بار میری قمیص، میرا جوتا پہن گئے ہو۔ میں نے یہی کہا— ’’میرا بیٹا، میرے کپڑے پہنتا ہے اور تم نے اسی طرح اس دن تین گھوڑے والی بوسکی قمیص میرے منھ پہ دے ماری۔ تم نہایت کمینے، نہایت بے شرم آدمی ہو۔

بجائے اس کے کہ پال کو افسوس ہو، وہ میرے ساتھ دلیل بازی پر اُترآیا ’’آپ پان کھاتے ہیں‘‘ وہ کہنے لگا— ’’اور اس کا کوئی نہ کوئی چھینٹا اس پہ پڑ جاتا ہے۔ کیا وہ قمیص پھر میرے پہننے کے لائق رہتی ہے؟‘‘

ان دنوں بھی لاڈو یہاں، اپنے مائیکے آئی ہوئی تھی۔ اس جھگڑے میں وہ بھی پاس آ کھڑی ہوئی اور بول اُٹھی ’’پپّا بالکل میری طرح ہیں…‘‘

اِن دنوں چھوٹے دونوں بھی، جو اس وقت اپنے ماموں کے ہاں گڑ گاؤں گئے ہوئے تھے، یہیں تھے۔ چھٹکی بھیکو کی مدد سے بستر کی سلوٹیں نکالتی ہوئی بولی— ’’ہاں! بات کرتے ہیں تو لاڈو دیدی کی طرح منھ کی ساری پھوار سامنے والے پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ تماشا اس وقت ہوتا ہے جب کہیں پپّا اور لاڈو آپس میں بات کر رہے ہوں، تو۔‘‘

لاڈو ہنس رہی تھی۔ دوسرے سب سن رہے تھے۔ نہ چاہنے کے باوجود میرے چہرے پہ بھی مسکراہٹ چلی آئی تھی۔ بات سنجیدہ رہی تھی اور نہ مضحک۔ میں نے ٹالتے ہوئے کہا بھی تو اتنا— ’’ہاں آخر لاڈو کا باپ ہوں نا، اس پہ گیا ہوں۔‘‘

اور تو اور، چھوٹا ومن بھی ہنس رہا تھا، نجلیوں کی طرح۔ پھیپھڑے پیدائشی طور پر کمزور ہونے کے کارن وہ کبھی کھل کے نہ ہنسا— ’’ہی ہی، پان کھاتے ہیں نا پپّا‘‘ اس نے کہا ’’تو قمیص پہ سامنے تو لگتا ہی ہے، لیکن پیٹھ پہ نہ جانے کیسے لگتا ہے؟‘‘ یہ سب سمجھتے تھے، میں پان منھ سے تو کھاتا ہی نہیں، قمیص سے کھاتا ہوں۔ اس پہ طرفہ دھوبن منظر پہ چلی آئی۔ میرا خیال تھا ،ماں ہونے کے ناطے وہ باپ کا پکش لے گی، لیکن صاحب، اِس نے اُلٹا بیٹے بیٹیوں کی تائید شروع کر دی۔ ’’کیا پوچھتے ہو ان کا؟‘‘ وہ بولی— ’’بالکل بابی ہیں دوسرے۔ کھانا کھائیں گے تو سالن کُرتے پہ گرا ہو گا، لکھنے بیٹھیں گے تو سیاہی۔ میں ان کا کروں کیا؟ پتہ تو مجھے چلتا ہے نا، دھوتے دھوتے جس کے ہاتھ رہ جاتے ہیں، پر میری قسمت۔ عمر گزر گئی میری، ان کے داغ نکالتے نکالتے…‘‘

صرف ایک بابی رہ گیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بانس تھا، جس سے وہ ’’بڈھا بابا‘‘ کو بھگا رہا تھا ’’ماروں گا‘‘ وہ خلا میں خیالی دشمن کو خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے اس کا بڈھا بابا، اس کا خیالی دشمن میں ہوں۔ پھر جمّی کے بھونکنے کی آواز آئی، جسے آپ اتفاقیہ بات کہہ لیجیے۔ بھیکو بجلی کا بل چکانے چلا گیا تھا، ورنہ وہ اپنی مگھی بولی میں کہتا ’’ہم میاں بی بی کا جھگڑا میں نا ہیں پر بو‘‘ اور یہ بات اور بھی میرے خلاف ہو جاتی۔ گھر بھر میرا دشمن ہو گیا تھا۔ ایسا پہلے تو نہ تھا، چند برس پہلے۔ جب سے مجھے کاروبار میں گھاٹا پڑا ہے، دنیا ہی بدل گئی ہے۔ کسی کو میری بات ہی پسند نہیں۔ یا شاید میں بوڑھا ہو گیا ہوں، اس لیے سب کو بُرا لگتا ہوں۔ مجھے ان کے سامنے ٹل جانا چاہیے۔ اس دنیا سے ٹل جانا چاہیے لیکن میں جاؤں تو کہاں جاؤں؟ میں نے اس گھر، ان لوگوں پہ اپنی جان بھی وار دی۔ نہ کسی کلب کا ممبر ہوا، نہ ریس کورس پہ گیا۔ یہ تو یہ، کوئی پکچر بھی ڈھب سے نہ دیکھی۔ کام، کام اور کام۔ تفریح کے لیے ایک لمحہ نہیں۔ اسی لیے میں ذہنی طور پر بیمار ہو گیا ہوں۔ شاید پاگل۔ پاگل نہیں تو سنکی ضرور ہوں۔ کبھی پاگل، یا سنکی کو پتہ چلا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اسے تو صرف دوسرے جانتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی شکلوں سے اپنی شکل کا پتہ چلتا ہے۔ نہیں، یہ بات نہیں۔ خدا، کسی کو خسارہ نہ ہو۔ جوانی میں جو ہونا ہے ہو جائے، لیکن اس ڈھلتی عمر میں نہیں، جب کہ مدافعت کی ساری قوتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ بچّوں کا فادر امیج گڑبڑ ہو جاتا ہے، اور بیوی کا بھی…

پال آٹھ بجے اُٹھ گیا تھا۔ اسے اُٹھتے دیکھ کر سنت رام سنسنا گیا۔ ڈرنے کی ایک نشانی یہ ہے کہ آدمی سامنے یا دل میں کہنے لگے، میں کسی سے ڈرتا ہوں؟ سنت رام پہ اچھی طرح واضح ہو چکا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے ڈرتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا، معاملے کو اس سطح پر لے آئے، جس سے بیٹا یہ کہے کہ میں اس گھر میں نہیں رہوں گا۔ پال تو چاہتا تھا ایسا موقع پیدا ہو … کوئی سُنے تو ہنسے۔ بیٹے کا ایک، صرف ایک سگریٹ پی لینے سے اتنا ڈر اور اتنی ذہنی بک بک؟

چائے سے پہلے پال نے باپ کی طرف دیکھا اور معمول کی نمسکار کی، جس کے جواب میں سنت رام نے سر ہلا دیا اور اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔ وہ چاہتا تھا کہ پال دوسری طرف دیکھے تو وہ اس کی طرف تکے۔ لیکن پال نے برابر اپنا منھ باپ کی طرف کر رکھا تھا، جس سے گھبرا کر سنت رام نے اپنا چہرہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے پیچھے چھپا لیا۔ پھر اسے تھوڑا ہٹا کر دیکھا تو پال سڑک سڑک چائے پی رہا تھا، جس کے بعد اس نے کھٹ سے پیالی پرچ میں رکھی۔ پھر وہ سگریٹ کا پیکٹ تھامے باتھ روم کی طرف نکل گیا۔

اب تک تو سب ٹھیک تھا۔ پال نے پیکٹ کھول کر نہیں دیکھا تھا نا۔ جب وہ باتھ روم جائے گا، تب اسے پتہ چلے گا۔ اور سنت رام بیٹے کے باہر آنے اور اس کا چہرہ دیکھنے کے لیے یوں ہی اِدھر اُدھر ہوتا رہا۔ دھوبن نے کہا — نہاؤ گے نہیں؟ تو جواب میں جھلاتے ہوئے سنت رام نے جواب دیا… تمھیں نہانے کی پڑی ہے۔ ایک ہی بار نہاؤں گا۔

دھوبن حیرانی سے سنت رام کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر اس کی ہنکار کو معمول کی لایعنی سمجھ کر ناشتے کے دھندے میں مشغول ہو گئی۔

تھوڑی دیر میں پال باتھ روم سے آیا تو اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ ما تھا کچھ اور پیچھے ہٹ گیا تھا۔ وہ واش بیسن میں جلدی جلدی اپنے ہاتھ صابن سے دھو رہا تھا۔ اتنی جلدی کیا تھی؟ کیوں وہ جلدی بھاگ جانا چاہتا تھا؟ سامنے اس نے آئینے میں اپنے چہرے کی طرف دیکھا۔ منھ سے جھاگ لپٹ رہے تھے۔ نہیں، ہاتھ دھوتے ہوئے جھاگ اُڑ کر چہرے پہ چلے آئے تھے۔ چونکہ ابھی صابن سے اَٹے تھے، اس لیے اس نے کُرتے کے بازو سے جھاگ کو پونچھ دیا اور پھر اپنا چہرہ دیکھنے لگا، اس کے نتھنے پھول رہے تھے۔ دوسروں کو دیکھ کر نتھنے پھُلانا تو سمجھ میں آتا تھا لیکن اپنے آپ کو دیکھ کر نہیں۔ ہاتھ دھوتے ہوئے پال لوٹا تو دھوبن نے آواز دی — ’’رات تم پھر پی کر آئے تھے؟‘‘

پال نے کوئی جواب نہ دیا۔ صرف اتنا کہا ’’ہاں، آج پھر پینے والا ہوں۔‘‘

دھوبن تن گئی۔ وہ ایسی دبنے والی تھوڑی تھی؟ اس نے صاف کہہ دیا—آج پی کر آئے تو میں دروازے میں قدم نہ رکھنے دوں گی، جس کے جواب میں پال نے کہا—آنا کون چاہتا ہے، اس جیل خانے میں؟ میں نے پہلے ہی گولف لنکس میں ایک کمرہ دیکھا ہے۔ پھر دھوبن کی پائیدار آواز آئی۔ نکل جاؤ ابھی نکل جاؤ، جس سے سنت رام کی جان نکل گئی۔

’’دیبی‘‘ سنت رام نے کڑک کر کہا ’’کیا کہتی ہو، یہ گھر تمھارا ہے؟‘‘

اسی پنچم میں دھوبن نے جواب دیا ’’ہاں میرا ہے، جانا ہے تو جائے۔ تم بھی جانا چاہتے ہو تو جاؤ، بھلا ہو تم باپ بیٹوں کا، جنھوں نے جینا سکھا دیا‘‘ اور پھر وہ رونے لگی…

سنت رام اسی بات سے تو ڈرتا آیا تھا کہ ایسا موقع نہ آئے۔ بیٹے کی بدعنوانیوں کو دیکھ دیکھ کر وہ اندر سے کڑھتا رہتا تھا ،لیکن باہر سے کچھ نہ کہتا تھا۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہوتا ہے، چلے جاؤ، مگر پھر واپس آ جاؤ کہنا مشکل۔ پال کے باقی کام کی رفتار اور بھی تیز ہو گئی۔ وہ جلدی جلدی شیو بنا رہا تھا اور اپنی ٹھوڑی پر بے شمار قط لگا رہا تھا اور خون پونچھ رہا تھا۔ اس نے ماں کو ایسا جواب کیوں دیا؟ وہ ماں کو اُلٹی سیدھی کہتا تھا، تو سنت رام کو تکلیف ہوتی تھی اور ماں اسے کچھ کہتی، تو اذیّت۔ لیکن ماں بیٹے کا رشتہ زیادہ قدرتی تھا، جس سے وہ ایک دوسرے کو سُن سُنا کر پھر ایک ہو جاتے تھے، مگر آج پال کا انداز یہی تھا کہ وہ جائے گا تو پھر نہیں آئے گا…

’’آنا کون چاہتا ہے، اس جیل خانے میں؟‘‘— اس کا کیا مطلب۔ پال کچھ نہیں کہہ رہا تھا، لیکن اندر سے محسوس کر رہا تھا کہ اس گھر میں آنے کا کیا فائدہ، جہاں کوئی چیز اپنی نہ رہ سکے۔ جوتا، نہ جرکن اور نہ سگریٹ۔ پھر پال جلدی جلدی نہایا، اور کپڑے پہنتے ہوئے باپ کے پاس سے گزر گیا۔ سنت رام نے اسے بلانے کی کوشش کی ،لیکن اس نے آناکانی کر دی۔ اخبار بھی اُٹھا کر نہ دیکھا اس نے، اور اسٹیٹ ایکسپریس کا سگریٹ پوری نفرت سے کھڑکی کے باہر پھینکتا ہوا وہ نکلنے لگا۔ دھوبن تو اس سے لڑ بیٹھی تھی، اس لیے اس نے بیٹے کو ناشتے کے لیے بھی نہ پوچھا۔ سنت رام نے اسے روکنے کی کوشش کی اور آواز دی— ’’بیٹا ناشتہ تو کر لو۔‘‘

’’نہیں‘‘ پال نے مصمم جواب دیا اور باہر نکل گیا۔ جس انداز سے اس نے پیچھے زور سے دروازہ بند کیا تھا، اس سے روح تک میں تشنج پیدا ہو گیا۔

پال کے جاتے ہی دھوبن اور سنت رام میں ٹھن گئی۔ وہ تو اسے صرف اس فضیحتے کے سلسلے میں مطعون کر رہا تھا، لیکن دھوبن ایک طرف روئے جا رہی تھی اور دوسری طرف کوسنے دے رہی تھی۔ اسی سلسلے میں وہ نئے پُرانے سب دفتر کھول بیٹھی۔ اس کی باتوں سے تو ایسا پتہ چلتا تھا کہ اس گھر میں آ کر اس نے کبھی کوئی سکھ ہی نہیں دیکھا۔ وہ بہت پھوٹی قسمت والی تھی ،حالاں کہ    سنت رام سمجھتا تھا کہ اس دنیا کا کوئی سکھ نہیں جو اس نے بیوی کو نہ دیا ہو۔ اور اگر دُکھ ہی دیکھا ہے تو ساتھ اس نے بھی تو دیکھا ہ۔ لیکن، بیوی نہ صرف اپنے بلکہ پوری اولاد کو تباہ و برباد کرنے کا ذمہ دار  سنت رام کو ٹھہرا رہی تھی۔وہ کہہ رہی تھی، پہلے یتیم بھائی بہنوں کے سلسلے میں مجھے ڈانٹتے، لڑتے جھگڑتے رہے میرے ساتھ۔ پھر دوست مجھ پر لاد دیے۔ ایک ہاتھ سے بچّہ کھلا رہی ہوں اور دوسرے سے روٹیاں پکا رہی ہوں ان بڑکٹوں کے لیے۔ اب قصائی اولاد کے حوالے کر دیا۔ اتنی چھوٹ دے دی، پیسے کپڑے کی، جس سے وہ نالائق نکل آئے سب کے سب۔ اور اب بیٹے کی یہ ہمّت کہ وہ تمھارے ہوتے سوتے مجھے آنکھیں دکھائے۔

سنت رام حملے کے بجائے مدافعت پہ اُتر آیا۔ واقعی وہ کیا تھا جو بیوی کو بچّوں سے نہ بچا سکتا تھا اور نہ بچّوں کو بیوی سے۔ جب تک لاڈو بھی جگ گئی اور آنکھیں پونچھتے ہوئے منظر کو دیکھنے لگی۔ کاش وہ تھوڑی دیر پہلے اُٹھ جاتی اور اپنے بھائی کو جانے سے روک لیتی۔ وہ میرا بیٹا ہے تو اس کا بھی تو بھائی ہے۔ لیکن ماں کو روتے دیکھ کر وہ اس کی طرف ہو گئی۔ بظاہر اس نے ماں ہی کو چُپ کرنے کے لیے کہا اور سنت رام کی طرف دیکھا صرف۔ لیکن اس کے دیکھنے ہی میں کیا کچھ نہ تھا، جس سے سنت رام کے اور بھی اوسان خطا ہو گئے۔ اور اس کے بعد وہ بچّے کو سنبھالنے لگی اور گھر میں اپنے میاں کو ٹیلیفون کرنے تاکہ وہ آئے اور اسے لے جائے۔ اس کے بعد ایک خاموشی سی چھا گئی، جس میں دھوبن کے سسکنے کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ یہ خاموشی … لاڈو اور دوسرے بچّوں نے بھی تو یہ سمجھ لیا تھا کہ روز کا معاملہ ہے، کون اس پہ سر دھُنے؟ یہ کیا میرا ہی معاملہ تھا؟    سنت رام نے سوچا۔ گھر کے کسی اور بشر کا نہیں؟ پال تو پہلے ہی سے بھرا بیٹھا تھا۔ ماں کے بات کرنے سے پہلے۔ دھوبن کی بات تو صرف ایک بہانہ ہو گئی۔ وہ چاہتا تھا پال کو کوئی سا بھی بہانہ دے، لیکن اس نے نہیں تو اس کی ماں نے اسے دے دیا۔ کیونکہ وہ جل بھن گیا تھا۔ پیکٹ میں صرف ایک ہی سگریٹ پاکر…

سنت رام دفتر میں داخل ہوا تو اس نے کسی کے علیک سلیک کا جواب نہ دیا۔ لیکن ان لوگوں کو کیا پروا تھی؟ آج صاحب کا موڈ اچھا نہیں، کسی نے کہا۔ پھر، دوسری طرف سے آواز آئی۔ اچھا کب ہوتا ہے؟

کیبن میں داخل ہوتے ہی چپراسی چندو سے سنت رام نے سگریٹ کا پیکٹ منگوایا۔ چندو ہمیشہ پہلے ہی سگریٹ خرید کر رکھتا تھا۔ وہ اپنی جیب سے دام خرچ کر دیتا اور جب مالک سے مل جاتے تو جیب میں ڈال لیتا۔ سنت رام نے اپنا کوٹ ٹانگا۔ پیکٹ پر سے کاغذ پھاڑا، سگریٹ نکالا، سُلگایا اور کام کرنے بیٹھ گیا۔ لیکن آج سنت رام کا جی کام میں نہ تھا۔ ایک شدید ڈر نے اس کے  جسم و ذہن کو ماؤف کر دیا تھا۔ اس نے گھومنے والی کرسی پہ پیچھے ہٹتے ہوئے اپنی ٹانگیں میز پر رکھیں اور سگریٹ کے دوچار لمبے لمبے کش لگاتے ہوئے سوچنے لگا۔ میں نے کیسے تباہ کر دیا ہے، گھر کے لوگوں کو؟ بیوی اور بچّوں کو؟ میں معمّر ہونے کے باوجود پڑھتے رہنے کی وجہ سے آج کل کے زمانے  کا ہوں۔ میں نے شوہر اور باپ بننے کی بجائے، ان سے دوستی رکھنے کی کوشش کی۔ شاید یہی قصور تو نہیں میرا؟ میں نے ایسی باتیں کیں جو پرانے خیال کے باپ نہیں کرتے۔ جب وہ کالج جا رہی تھی تو میں نے کہا تھا— وہاں مخلوط تعلیم ہے لاڈو۔ وہاں لڑکیاں بھی ہوں گی اور لڑکے بھی۔ اور لڑکے قریب ہونے کی کوشش کریں گے۔ آج کل ہماری معاشرت میں ایک نئی چیز آ گئی ہے جسے گڈ ٹائیم کہتے ہیں۔ گڈ ٹائیم ہے، لیکن مرد اور عورت میں جو بنیادی فرق ہے، اسے تم مت بھولنا۔ مرد پہ کوئی ذمہ داری نہیں بشرطِ کہ وہ اپنے اخلاق، اپنی تہذیب سے اُسے قبول نہ کرے، لیکن عورت پہ بہت ہے کیوں کہ بچّہ اُسے اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں عورتیں نہ صرف قدامت پرست ہیں بلکہ ان سے تقاضہ کیا جاتا ہے، قدامت پرستی کا۔ اور یہ ٹھیک ہے، انھیں کبھی اپنے آپ کو ایسے مرد کے حوالے نہیں کرنا چاہیے، جو اس کی اور اس کے بچّوں کی ذمے داری قبول نہ کرے۔

دھوئیں کے مرغولے میں سنت رام کو اس وقت کا بیٹی کا چہرہ یاد آیا۔ وہ  بِڑبِڑ باپ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کچھ سمجھ رہی تھی اور کچھ بھی نہیں۔ شاید وہ سوچتی تھی — پپّا یہ آج کیا لے بیٹھے ہیں؟ اِس بات کو آج کل کے زمانے کی ہر عورت، ہر لڑکی سمجھتی ہے۔ پپّا کتنے پرانے خیالات کے ہیں؟ اگر میں پرانے خیالات کا ہوں تو روز یہ قصّے کیا سنتا ہوں؟ یہ تو ایک ایسی بات ہے جو بدھ کے زمانے میں بھی کہی جانی چاہیے تھی۔ اور آج کے زمانے میں بھی۔ کیا انسان مشق اور غلطی ہی سے سیکھتا ہے؟ لیکن اس کا نتیجہ اچھا ہی نکلا۔ جہاں اس محلّے کے دوسرے بچّوں نے بدعنوانیاں کیں، وہاں میرے بچّوں نے نہیں۔ کم از کم لڑکیوں نے نہیں۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا جو میں نے انھیں دی، تو پھر یہ تباہی کیسی؟ پال پچیس برس کا ہو گیا تھا جب میں نے براہ راست اس سے پوچھا کہ اسے عورت کے سلسلے میں کوئی تجربہ ہوا ہے؟ چونکہ وہ بیٹا ہونے کے علاوہ میرا دوست تھا، اس نے سب کچھ کہہ دیا۔ اب مجھے اس بات کی فکر پڑ گئی کہ وہ تجربہ کامیاب ہوا یا نہیں کیونکہ جنسی فعل ایک بہت بڑی ذمّے داری کی چیز ہے۔ اس میں کوئی سی بھی غلطی پوری زندگی پر چھا سکتی ہے۔ اسی لیے تو مرد عورت کے بیچ صحبت اور شادی کی چاردیواری کا تحفظ لازمی ہے۔ لیکن پال بھی میری طرف بڑبڑ دیکھ رہا تھا اور شاید جی ہی جی میں ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھا—ہونہہ! ذمّے داری !… پپّا انیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ لیکن یہ طے تھا کہ بہت سی باتیں وہ نہ جانتا تھا اور میں نے اس کے دماغی جالے اور پھپھوند اتار دیں اور اسے اس قابل بنایا کہ وہ دنیا اور اس کے حالات کا مقابلہ کرسکے، اور آج اس بیٹے نے، اس کا ایک سگریٹ پی جانے سے منھ موڑ لیا مجھ سے!

نہیں، ہو سکتا ہے معمول کی طرح وہ کسی اپنی ہی دھُن میں ہو اور جلدی گھر سے باہر نکل گیا ہو۔ فرق یہی ہے نا کہ پہلے وہ دس کے قریب جاتا تھا اور آج ساڑھے نو بجے نکل گیا تھا… کل میری ایک فرم سے لاکھ روپئے کی ڈیل ہونے والی ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اگر پال خفا بھی ہو گیا ہے، تو راضی ہو جائے گا۔ پھر سب مل کر کلّو کے پہاڑ پر جانے کا پروگرام بنائیں گے۔

لیکن، ایک سگریٹ…صرف ایک سگریٹ…

سنت رام کا خون بار بار کھول اُٹھتا تھا، جیسے اس نے بیٹے کو معاف نہ کیا ہو، خود کو معاف نہ کیا ہو۔ مگر جو باپ، بیٹے سے نفرت کرتا ہے، اپنے آپ سے نفرت کرتا ہے،تو اُس کا اُلٹ بھی درست ہے کہ جو بیٹا باپ سے نفرت کرتا ہے وہ اپنے آپ سے نفرت کرتا ہے۔ پال دراصل باپ سے نفرت نہیں کرتا تھا، خود سے نفرت کرتا تھا کیونکہ مقابلے کی اس دنیا میں جب تک وہ باپ سے آگے نہیں نکل جائے گا، خود کو معاف نہیں کرے گا وہ باپ سے محبت اس وقت کرسکے گا، جب وہ اسے نالائق اور بے وقوف ثابت کر دے…

سنت رام نے گھنٹی پہ ہاتھ مارا اور چندو سے کہا—— ’’مس ڈولی کو بلاؤ۔‘‘

ڈولی اندر آئی۔ آج اس نے بالوں کے پرم بنوا رکھے تھے اور چُست بلاؤز کے ساتھ ایک سفید رنگ کی ساری لپیٹ رکھی تھی، کیونکہ سنت رام کو سفید رنگ بہت پسند تھا۔ لیکن سنت رام نے ڈھب سے اس کی طرف نہ دیکھا۔ ڈولی جانتی تھی، آج کل بوس کٹا لٹا سا رہتا ہے۔ اس نے بھی دنوں سے بزنس کا انداز اختیار کر رکھا تھا۔ یہ تو اس کا کرم تھا کہ ایک بڈھے آدمی سے باتیں کرتی تھی۔ وہ کام کرتی تو پیسے لیتی تھی۔ بیچ میں وافر باتیں کیسی؟

اندر آنے کے بعد جب ڈولی نے ’یس سر‘ کہا تو سنت رام نے چھچھلتی ہوئی نظر اس پہ ڈالی اور اپنے آپ کو کہنے سے روک لیا کہ تم بہت خوبصورت لگتی ہو، ڈولی!

لیکن ، ایک لمحے کے لیے اس کا دل جو کہیں بھی چھٹکارہ پانے کے لیے تڑپ رہا تھا، ڈولی کے خوبصورت بالوں میں اَٹک گیا۔ یہ عورتیں بھی خوب ہیں۔ اگر مرد کا دل سیدھے بہاؤ میں نہ بہے، تو اُسے لہروں اور اُس کے ہچکولوں میں ڈبو دو۔ مگر سنت رام نے جلد ہی اپنی آنکھیں اس طوفانی بہاؤ اور پیچھے کے بھنور سے ہٹا لیں اور دائیں طرف درکشاسو کے کیلنڈر کو دیکھنے لگا ،جیسے اسے کوئی تاریخ دیکھنا ہو۔ ایسی حرکتوں کو عورت خوب سمجھتی ہے اور اپنی نظریں اپنے شکار پر گاڑے رہتی ہے۔ مرد جانتا ہے کہ اس نے عورت کی آنکھوں میں دیکھا تو گیا، اس لیے وہ پرے سے اور پرے سے پرے دیکھنے اور بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کب تک؟ آخر منٹ کے سوویں حصّے کے لیے وہ مجبوری اور بے اختیاری کے عالم میں پھر اس کی طرف دیکھ لیتا ہے اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جس میں اس کی آخری پھڑپھڑاہٹ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔

سنت رام نے ڈولی سے پوچھا— ’’پرکنز کہاں ہے آج کل؟‘‘

—پرکنز ڈولی کا بھائی تھا، جاہن پرکنز۔

’’یہیں ہے‘‘  ڈولی نے جواب دیا اور تھوڑا مسکرانے کی کوشش کی۔ وہ سنت رام کے اس سوال کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں سے سمجھتی تھی، جو مطلب پہ آنے سے پہلے مرد ہمیشہ کرتا ہے۔ لیکن وہ تو سخت بزنس کا عمل جاری رکھنا چاہتی تھی۔ آخر کوئی مذاق ہے؟ جب چاہے بلا لو۔ جب چاہے جھٹک دو، اتنے دنوں تک بات بھی نہ کی۔ دیکھا تک نہیں اور گزر گئے اور آج ایکا ایکی پرکنز یاد آیا ہے!

لیکن ڈولی بھی کب تک بزنس کا انداز رکھ سکتی تھی۔

سنت رام نے ڈولی کو نادانی کے عالم میں سگریٹ پیش کر دیا۔ ایک لہر سی ڈولی کے بدن میں دوڑ گئی جو اس کے بالوں کے پرم سے زیادہ مضطرب تھی۔ اس نے اپنے بڑھتے ہوئے ہاتھ روک دیے اور بولی ’’نو تھینکس‘‘ اور پھر غصّے اور شکایت سے اس کی چھاتیاں اوپر نیچے ہونے لگیں۔ سنت رام نے اس کی نظروں میں اپنی نظریں گاڑتے ہوئے ایک رونے سے انداز میں کہا— ’’ڈولی …‘‘

ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سنت رام کہنے جا رہا ہے ——دنیا نے میرے ساتھ یہ سب کیا ہے۔ گھر کے لوگوں نے کیا ہے۔ ایک تم تھیں جو ایک معمولی سے ’ریز‘ کے لیے مجھے التفات کا دھوکا دے سکتی تھیں اور تم نے دھوکا دیا اور وہ مجھے ایسی محبت کی جو سچّی محبت سے کہیں اوپر ہوتی ہے۔ اس میں وہ فرق تھا جو اصلی بوسے اور چوری کے بوسے میں فرق ہوتا ہے۔جس میں پچھلا لاکھ روپئے کا گھاٹا اور آنے والا لاکھ روپئے کا نفع بڑے خوبصورت طریقے سے ایک دوسرے میں حل ہو جاتے ہیں… ڈولی نے سنت رام کی طرف دیکھا، ورنہ وہ اور بھی بوڑھا ہو جاتا اور اسے ایک کی جگہ کئی اور گھاٹے پڑ جاتے، جن سے وہ خود بھی بے کار ہو جاتی۔ اس نے اپنے رحم کی تہوں سے سوچا، جو اس کی ماں تھا، اور دنیا بھر کے مردوں کی ماں، چاہے وہ جوان ہوں یا بوڑھے پھر ’آل رائیٹ‘ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ سگریٹ کی طرف بڑھایا۔ سنت رام نے لائیٹر جلا کر ڈولی کا سگریٹ سلگایا۔ ڈولی نے کش لگا کر، دھواں چھوڑتے ہوئے ایسی ہی سگریٹ کی طرف دیکھتی ہوئی سنت رام کی طرف بڑھی…

جبھی سنت رام نے کہا ’’پرکنز شہر میں ہے تو اسے کہو …‘‘

ڈولی وہیں رُک گئی اور اس کی طرف دیکھنے لگی تاکہ وہ اپنا فقرہ مکمل کر لے——   سنت رام نے کہا — ’’مجھے اسٹیٹ ایکسپریس کا ایک کارٹن لادے، پیسے پھر دے دوں گا۔‘‘

’’آل رائیٹ‘‘ ڈولی نے کہا اور پیچھے ہٹتی ہوئی وہ کیبن سے باہر نکل گئی۔

سنت رام گھر پہنچا تو کارٹن کی قلعہ بندی کے باوجود وہ دوڑ رہا تھا۔ ایک نہیں، بیسیوں واہمے دامن گیر تھے، اس کے، جن کے بارے میں وہ دھوبن یا لاڈو سے نہ کہہ سکتا تھا۔ اس کے پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی پال چلا آیا۔ سنت رام کے بدن میں جو کپکپی پیدا ہو رہی تھی، بند ہو گئی۔ بلکہ ایک عجیب طرح کے سکون، نرمی اور گرمی کا احساس ہوا اُسے، جیسے سردیوں میں کوئی کمرے کے اندر بخاری جلا دے، لیکن پھر وہی ڈر اس کے جسم و ذہن کا احاطہ کرنے لگا——کہیں اپنے کپڑے لتّے اٹھانے اور گولف لنکس کے کمرے میں منتقل ہو جانے کے لیے تو نہیں آیا، پال؟ مگر اس بات کے تو کوئی آثار نظر نہ آتے تھے۔ پھر وہ آج جلدی کیوں چلا آیا تھا؟ وہ تو کبھی نہ لوٹا تھا رات کے ایک دو بجے سے پہلے!

کیا وہ اچھا بیٹا ہو گیا تھا؟ لیکن اچھا بیٹا ہونے کے باوجود وہ  چُپ کیوں تھا؟ وہ لاڈو کے ساتھ بات کرسکتا تھا۔ اور نہیں تو بالی کے ساتھ کھیل سکتا تھا۔ کمینہ، کس قدر بغض سے بھرا ہوا تھا اس کا سینہ۔ لیکن پال نے کوئی کپڑے وپڑے اکٹھے نہ کیے۔ وہ ایک منٹ کے لیے اپنے کمرے کی طرف گیا اور پھر باپ کی طرف آیا اور جیب میں سے ایک پیکٹ نکال کر پپّا کو پیش کر دیا۔ سنت رام نے دیکھا اور پوچھا— ’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’رشین سوبرائن۔‘‘

رشین سوبرائین سگریٹ… اور پورا پیکٹ؟ خون سنت رام کے کانوں اور آنکھوں تک آنے لگا—ایک سگریٹ تو کیا پی لیا ہے اس کا۔ اس کے عوض پورا پیکٹ لا کے دے رہا ہے۔ جوتا مار رہا ہے۔ ایک طریقے سے سنت رام نے پیکٹ اٹھایا اور پورے زور سے پال کے منھ پر کھینچ مارا۔

’’لچّے، شہدے، حرامی‘‘ سنت رام کہہ رہا تھا ’’تو کیا سمجھتا ہے، میں اپنے سگریٹ بھی خرید نہیں سکتا؟ تجھے خرید کر نہیں دے سکتا؟ اتنا تو نہیں مرا ہوں، جتنا تو سمجھتا ہے۔ ابھی تو تیرے ایسے سو کمینوں کو خرید کے رکھ لوں اور جیب میں ڈال کے چل دوں… باسٹرڈ!

پال کی کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ ہونٹ پہ رکھ لیا، جس پہ پیکٹ کے لگنے سے ایک کٹ سا چلا آیا تھا اور خون کا ایک نقطہ سا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے کہا بھی تو صرف اتنا— ’’پپّا!‘‘

لاڈو بیڈ روم سے دوڑی ہوئی آئی اور اس نے بھی اتنا سا کہا— ’’پپّا!‘‘ پھر دھوبن مڑتی ہوئی بولی— ’’کیا ہوا جی؟‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘ سنت رام نے سب کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا ’’مجھے اس بلّے سے اپنا حساب برابر کر لینے دو۔ بہت دیر ہو گئی اسے ٹھکے ہوئے…‘‘ پھر اپنے بیٹے کے چہرے پہ خون کا قطرہ دیکھ کر سنت رام اور ڈر گیا، اور بھی وحشت ناک ہو گیا کیوں کہ بیٹے کا خون دیکھنا کوئی آسان بات نہیں۔ دیکھنے والے کو بظاہر وہ بیٹے کا خون معلوم ہوتا ہے لیکن خون اس کا ہوتا ہے، جس کا وہ خون ہے… اور بھی آگے لپکتے ہوئے منھ پہ کف لاتے ہوئے سنت رام کہہ رہا تھا — ’’میں تجھے جان سے ماردوں گا، آج ۔ چھوڑ دو ، چھوڑ دو مجھے— یہ بھی ایک مثال ہو جانے دو۔ مادر… میں نے تجھے کیا نہیں دیا؟ تو باہر پنجاب پڑھنے کے لیے گیا تو چار سو روپئے مہینہ بھیجتا رہا۔ پھر تو وہاں سے بھاگ آیا اور میرے دوست نے دو برس تجھے اپنے ہاں رکھا اور تجھے تعلیم دی۔ میری وجہ سے اس نے تجھے اپنے ہاں رکھا، ورنہ تجھے کون پوچھتا ہے——چیتھڑے کو؟ اور پھر بھی پیسے بھیجتا رہا۔ میرے بیٹے کو تکلیف نہ ہو۔ اور تو اس سے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جاتا، ہر قسم کی بد معاشیاں کرتا رہا۔ تیرے اپنے بکنے کے مطابق تیرے دوست تجھے شہزادہ کہتے تھے ،کیوں کہ تو باپ کے مال پہ عیش کرتا تھا۔ پھر تو نے بی. اے میں کمپارٹمنٹ کی اور امتحان کو پورا نہ کیا ،کیوں کہ تو ہندی میں فیل ہو گیا تھا۔ ہندی بھی کوئی بات تھی بھلا؟ میں نے کتنی بار تجھ سے منّتیں کیں کہ ایک مضمون ہے، پاس کر لے لیکن تجھے اس سے چڑ ہو گئی۔ پھر بھی میں نے تجھے گھر رکھا اور روٹیاں کھلاتا رہا۔ ہوتا کسی باہر کے ملک میں تو اٹھارواں پھاندتے ہی ،باپ تیرے چوتڑ پر لات مارتا اور باہر نکال دیتا۔ یہ اپنا ہی ملک ہے جس میں اس قسم کی چوتیا پنتھی چلتی ہے… جب تیری جیب میں پیسے نہیں ہوتے تھے تو میں تیری ماں کی چوری سے دس بیس پچاس ڈال دیتا تھا اور آج یہ اسی کے کارن ہے کہ وہ مجھے آنکھیں دکھاتی ہے اور کہتی ہے میں نے اپنی اولاد کو تباہ و برباد کر دیا۔ تیری وجہ سے میں نے اپنی زندگی تباہ و برباد کر لی۔ یہ تیرا ہی فقرہ ہے نا کہ میری ماں جس قسم کی عورت ہے، اس سے اچھا تو میرا باپ کوئی داشتہ رکھ لے… بول، کہا نہیں تو نے؟ جو بیٹا ماں کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے، وہ باپ کی بابت کیا کہے گا؟ روز تو ماں کو گالی دیتا ہوا نکل جاتا ہے اور جانتا ہے وہ گالی کسے پڑتی ہے؟ وہ تجھے گالی دیتی ہے تو گالی کسے پڑتی ہے؟ کیا اس گھر میں کوئی مالک نہیں، کوئی باپ نہیں؟ کیا ہوا جو ایک بار، زندگی میں صرف ایک بار گھاٹا پڑ گیا۔ میں نے لاکھ روپیہ گنوایا ہے تو آج ہی لاکھ روپئے کا کانٹریکٹ کیا ہے، جس میں سے کچھ نہیں تو تیس پینتیس ہزار بچ جائیں گے۔ جب تو تیری ماں بھی خوش ہو گی اور یہ لاڈو بھی، جو اس دن باپ کی بجائے مجھے انکل کہہ گئی اور تو بھی خوش ہو گا اور فخر سے میرا نام لے گا۔ میرے پاس ہو ہو کر بیٹھے گا اور باتیں کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن میں … میں تم سب کو سمجھ گیا ہوں۔ منھ تک نہ لگاؤں گا کسی کو …‘‘

پال کے ہونٹ پھڑکنے لگے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا بھی تو صرف اتنا۔ ’’پر پپّا، میں نے کیا کیا ہے؟‘‘

’’تم نے؟‘‘ سنت رام اور بھی بلند آواز سے چیخا ’’تم نے مجھے گالی دی ہے، جو کسی نے نہیں دی۔ کسی کی ہمّت ہی نہیں پڑی۔ سب جانتے ہیں نا، میں خالی ہاتھوں سے ان کی بوٹیاں اُڑا دوں گا۔ تیری یہ ہمّت کہ ایک سگریٹ تیرا پی جانے سے تو پورا پیکٹ میرے منھ پر دے مارے؟‘‘

’’ایک سگریٹ؟‘‘ پال نے کہا۔

’’ہاں‘‘ سنت رام نے کہا۔ ’’تجھے پتہ چل گیا نا، میں نے تیرا ایک اسٹیٹ ایکسپریس صبح پی لیا تھا…‘‘

’’نہیں… مجھے تو کچھ نہیں معلوم۔‘‘

اس سے پہلے کہ سنت رام جو کانپ رہا تھا، نیچے گر جاتا، بیٹے نے بڑھ کر تھام لیا اور اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور کہنے لگا… ’’معاف کر دو، مجھے معاف کر دو، پپّا!‘‘

اگلے روز سنت رام حسبِ معمول صبح کے چار بجے اُٹھ گیا تھا۔ اسے پھر سگریٹ کی طلب ہوئی۔ دھوبن کو ڈسٹرب کیے بغیر وہ ساتھ کے کمرے میں چلا آیا جہاں پال، لاڈو اور اس کا بچّہ بابی سوئے ہوئے تھے۔ سنت رام نے زیرو پاور کا بلب جلایا اور ان کی طرف دیکھنے لگا۔ ہلکی سی مدھم روشنی میں وہ سب فرشتے معلوم ہو رہے تھے —ایک سے ایک حسین اور خوبصورت اور خوشبودار۔ آج بالی کی بانہہ ماں کے گلے میں نہ تھی۔ وہ آزاد اور بے فکر سو رہا تھا۔

سنت رام نے سوچا—کالج بھیجنے سے پہلے میں نے اس بچّی کو لیکچر دیا تھا۔ لیکن اگر یہ کوئی بے راہ روی کرتی تو کیا میں اسے سڑک پہ پھینک دیتا؟ پال کا تجربہ ناکام ہوتا تو میں اسے زندگی کا کھیل نہ سکھاتا؟ یہ اخلاق… یہ تہذیب، سب باتیں ہیں یہ اور یہاں سے باہر کے سب بچّے جو کھیلتے ہیں، گرتے ہیں، پھر اُٹھ کر کھیلنے لگتے ہیں… دھوبن؟… دھوبن بے وقوف ہے، وہ نہیں جانتی کچھ—سوائے کپڑے دھونے کے…

سنت رام نے اسٹیٹ ایکسپریس کا کارٹن نکالا اور اسے اپنے بیٹے کے سرہانے رکھ دیا۔ رات اس جھگڑے کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کو دے ہی نہ سکا تھا۔ چلو، یہ اور بھی اچھا ہوا۔ جاگے گا تو ایک دم پورا کارٹن پاکر کتنا خوش ہو گا … پھر سنت رام نے بیٹے کے دیے ہوئے رشین سوبرائن کے پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکالا، اسے جلایا اور دھوئیں کے بڑے بڑے کش چھوڑے۔ زیرو پاور کے بلب کی روشنی پہلے ہی کچھ نہیں ہوتی، اس پہ دھوئیں نے اور بھی منظر کو دھندلا دیا تھا اور بچّے فرشتوںسے بھی زیادہ حسین لگنے لگے تھے۔ سنت رام کا جی چاہا کہ وہ آگے بڑھ کر پال کا چہرہ چوم لے، لیکن کہتے ہیں، سوتے میں بچّے کا چہرہ نہیں چومتے۔ جانے کیوں؟ اس وقت تو سنت رام نے یہی سوچا کہ اگر اس نے ایسی حرکت کی تو وہ جگ جائیں گے…

سوبرائن کے چوتھے کش میں کوئی نشہ تھا یا شاید سنت رام کی آنکھیں بیٹے کی شراب سے چڑھ گئی تھیں۔ اس نے دھواں صاف کرتے ہوئے ایک بار پھر سب کی طرف دیکھا اور پھر پرارتھنا کے لیے پوجا کے کمرے کی طرف چل دیا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید