FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

شہزادے کی سرگزشت

 

حصہ دوّم

 

 

               اقبال حسن خان

 

 

 

شہزادی کا چوتھا سوال:(گرم) حمام گرد آلود کی خبر لاؤ

 

اُن کے سامنے سوال رکھا اور اُنہیں غور و فکر کے سمندر کا شناور پایا۔ چراغ کا جن مجھے پہنچا کے شتابی اپنے گھر کو نکل لیا اور کل صبح آنے کا وعدہ کر گیا۔ مجھے چراغ کے جن پہ کچھ شبہ ہوا تھا کہ وہ کسی شغل قابل نفریں میں مبتلا ہو چکا ہے لیکن پھر اُس کی عمر دیکھتا تو خاموش ہو جاتا تھا کہ ہم انسانوں میں چالیس کے بعد آدمی کو عیالدار، پچاس کے بعد عمر دار اور ساٹھ کے بعد بالکل ہی مردار گِنا جاتا ہے۔ جنوں کے بارے میں اُس وقت تک میری معلومات اتنی نہ تھیں۔ شک کی گرہ کو دل میں ایک طرف باندھا اور ہم اُس سوال پہ غور کرنے لگے۔ توتے شہزادے نے تجویز پیش کی کہ اس سوال کو انگوٹھی کے جن کے سامنے بھی پیش کیا جاوے۔ چنانچہ انگوٹھی رگڑی تو جن جماہیاں لیتا انگوٹھی سے برامد ہوا۔ اس سستی کا سبب وہ یہ بتاتا تھا کہ اُسے ہم اپنی ہم مشربی میں شامل نہ کرتے تھے لیکن اس کی بھی ایک وجہ تھی۔ انگوٹھی کے جن نے چند روز قبل حالت سُکرمیں انسانوں والی حرکات شروع کر دیں تھیں یعنی بازار میں کھلے عام لوگوں کو ستر بینی کی دعوت دے رہا تھا اور ایسا کام کرنے کے واسطے جو ابتدائی مراحل طے کرنا ہوتے ہیں ، طے کر چکا تھا۔ میں نے سزاً اُسے زیادہ سے زیادہ وقت انگوٹھی میں مقید رکھنا شروع کر دیا تھا لیکن اب جو کام پڑا تو طوعاً و کرہاً باہر آنے کی دعوت دی۔ وزیر زادہ اُس ٍ نا ہنجار کی کسالت کا سبب سمجھا اور دو جام پے در پے پلائے تو بارے ہوش میں آیا۔ جن نے ساری بات بغور سنی اور پہلے تو اپنی اُس رکیک حرکت کی معافی کا طلب گار ہوا کہ جو اُس سے بیچ چوک میں سر زد ہوئی تھی اور جب اس نوع کا پروانہ حاصل کر چکا تو یوں گویا ہوا کہ اے آقا میں اُس سرزمین سے واقف ہوں کہ جہاں یہ حمام واقع ہے لیکن اس کا راستہ از حد دشوار گزار ہے اور وہاں قدم قدم پہ بلیات و کتیات کی صورت میں ایسی مخلوق بستی ہے کہ نطق اُس کے بیان سے عاجز ہے لیکن آپ کے سوال کا تعلق چونکہ اُس سر زمین سے ہے اور میں انگوٹھی کا جن ہوں کہ جس کا کام ہی خدمت بجا لانا ہے، چنانچہ میں ہر خدمت کے واسطے آمادہ و تیار ہوں۔ باتیں کرتا جاتا تھا اور ہماری محویت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جام پہ جام لنڈھاتا تھا، نوبت با ایں جا رسید کہ جب انگوٹھی میں واپس جانے کا وقت آیا تو لڑکھڑایا اور وہیں قالین پہ ڈھیر ہو گیا۔

صبح سامان رسد جمع کیا اور وزیر زادے کی ملکہ سے جو کہ اب اُس کی جورو بھی تھی، رخصت ہوئے۔ چراغ کے جن کو حاضر کیا اور اُس کے شانوں پہ سوار ہو کے اُس سر زمین کی سرحد پہ پہنچے کہ جہاں سے ہمیں گھوڑوں پہ سوار ہو کے جانا تھا کہ وہاں کے طلسم میں نہ کوئی جن اُڑ سکتا تھا اور نہ ہی وہاں پریزادوں کا کوئی کام تھا۔ اُس سر زمین میں سفر کرنے کا قاعدہ بھی عجیب پایا کہ گھوڑوں کی دُم کی جانب منہ کر کے کے سفر کرنا لازمی تھا اور یہ پابندی دو سو فرسخ تک تھی۔ انگوٹھی اور چراغ کے جنوں کو اُن کے مقررہ مقامات میں بند کیا کہ آگے کا سفر ہوائی بھی ہوسکتا اور اپنے گھوڑے اُس بحر ظلمات میں ڈال دئیے۔ چونکہ اُس سر زمین میں اُڑنے کی پابندی تھی چنانچہ ہمارا توتا شہزادہ ، وزیر زادے کے کندھے پہ بیٹھا سفر طے کرتا تھا۔ گھوڑوں کی دلی مراد بر آئی تھی، سفر بھی کرتے تھے اور اُن گھوڑیوں کے دل پسند تذکرے میں بھی مشغول تھے کہ جن سے اس سفر کے دوران آشنائیاں رکھے ہوئے تھے۔ پہلی شام ایک مقام پُر فضا دیکھ کے مزید سفر کا ارادہ ترک کیا اور چونکہ یہاں تازہ خوراک کی دستیابی مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر نا ممکن تھی ، چنانچہ اپنی اپنی خرجیوں سے نان خشک نکال کے کھایا اور پانی پی کے شکر باری تعالیٰ ادا کیا۔ ہم ابھی کھانے سے فارغ ہوئے تھے کہ جنگل میں ایک نغمہ دل شکن کی صدا گونجی۔ اس بیابان میں ہم تھے یا وہ طلسمات کہ جن کے بارے میں فقط سنا تھا اور جن سے آمنا سامنا بھی نہ ہو ا تھا چنانچہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکتے تھے۔ لیکن جلد ہی یہ حیرت رفع ہو گئی اور ذخیرے سے ایک پری رُو عورت ظاہر ہوئی کہ جو سر تا پیر زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور یہ گانا وہی گاتی تھی۔ چونکہ یہ جنگل ہر نوع و فرع کی طلسمات سے بھرا ہوا سنا تھا ، اس لئے اُس کی شکل اور حلیہ کو دیکھ کر ہم اسے بھی طلسمات کا شاخسانہ سمجھے اور اُس کی جانب سے نظریں پھیر لیں۔ تس پہ وہ مہ لقا زنجیریں جھنجھناتی ہمارے قریب آئی اور رو کے فریاد کرنے لگی۔ میرا دل پسیجا اور میں نے ساری احتیاط کو بالائے طاق رکھ کے پوچھا کہ اے بی بی تُو کون ہے اور اس حال میں کاہے کو مبتلا ہوئی ہے۔ تس پہ وہ بارے سکون سے ہوئی اور بولی۔ میں حمام گرد آلود کے جن کی قید میں ہوں اور اس حال کو اُسی نابکار کے ہاتھوں پہنچی ہوں اور یہ میری قید کا تیسرا سال ہے اور میں نے اس عرصے میں تم پہلے آدم زاد دِکھے ہو اور یوں بھی کہا کہ مجھے اس عذاب سے کوئی آدم زادہ ہی نجات دلا سکتا ہے۔

حمام گرد آلود چونکہ ہماری منزل تھا اور اس پا بہ زنجیر عورت نے بھی حمام گرد آلود کا تذکر ہ کیا تھا چنانچہ ہماری کئی چیزیں مثلاً کان، سر کے بال اور رونگٹے وغیرہ بیک کھڑے ہو گئے اور ہم اُس میں دلچسپی لینے پہ مجبور ہوئے اور اُس سے اپنا قصہ سنانے کو کہا تس پہ وہ یوں بولی۔ صاحبو میں ملک دانش آباد کے ایک تاجر کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میرا باپ رئیس التجار کہلاتا ہے اور جتنا مال دساور کو جاتا ہے اُتنا ہی وہاں سے آتا ہے اور وہ کئی ملکوں کے لمبے لمبے سفر اپنے ذاتی بیڑے پہ کرتا ہے۔ میرا باپ جب بھی سفر سے لوٹتا تھا تو میرے لئے کسی نہ کسی ملک کی سوغات لاتا تھا۔ ایک دفعہ سفر سے لوٹا تو میرے لئے سفید رنگ کی ایک بلی لایا۔ وہ بلی مجھے بڑی مرغوب تھی اور میں دن رات اُسے اپنے ساتھ چپکائے پھرتی تھی اور فقط سوتے وقت ہی جدا کرتی تھی۔ میری اُس بلی سے محبت اتنی بڑھی کہ جب گھریں میری شادی کے تذکرے ہوئے تو میں نے اپنی اماں اور باوا سے کہہ دیا کہ میرے ساتھ یہ بلی بھی میرے سسرال جائے گی، اس بات پہ سبھی ہنستے تھے۔ وہ بلی بھی مجھ سے اُتنی ہی مانوس تھی اور میرے سوا کسی کے ہاتھ سے کھاتی تھی، نہ پیتی تھی۔ ایک روز جبکہ میں گھر میں اکیلی تھی، دروازے پہ کسی نے دستک دی۔ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک بھجنگ فقیر دروازے پہ کھڑا ہے۔ میں نے اُسے کچھ خیر خیرات دی تو وہ ہنس کے بولا۔ میں جانتا ہوں کہ تیری شادی ہونے والی ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تیری ہونے والی ساس اول درجے کی کٹنی اور چنڈالنی ہے اور وہ تجھے اُس گھر میں ہنسی خوشی بستا نہیں دیکھے گی۔ میں اس قبیل کی باتیں پہلے بھی اپنے گھر میں سن چکی تھی، چنانچہ میں ڈر گئی اور جی میں کہا کہ یہ کوئی ضرور بڑا ہی پہنچا ہوا ولی ہے اور اُس سے مدد کی طالب ہوئی۔ تس پہ وہ نگوڑا بولا۔ تُو مجھے اپنے سر کا ایک بال دے دے کہ میں اُس پہ رات کو ایسا عمل کروں گا کہ تُو ہر غم سے ہمیشہ کو نچنت ہو جاوے گی۔ میں چاہتی تھی کہ اُسے اپنے سر کا بال دوں لیکن اُسی وقت میری کنیز گھر آ گئی اور مجھ سے دروازے سے ہٹ کے یہ قصہ پوچھا اور میرے بتانے پہ کہ یہ فقیر میرے سرکا بال مانگتا ہے، بولی۔ اے بی۔ دیوانی ہوئی ہو۔ میں نے سنا ہے کہ آج کل اس روپ بہروپ میں جادو گر پھر رہے ہیں۔ خبر دار ایساکبھی نہ کرنا۔ تس پہ میں نے اُسے اپنی شادی کے بعد کے واقعات کا اُس فقیر کا عالم ہونا بتلایا۔ کنیز بڑی ہوشیار تھی، چنانچہ اُس نے ہرن کی کھال کے بنے ، فرش پہ پڑے غالیچے سے ایک بال توڑا کہ میرے بالوں کی طرح سنہرا تھا اور دے کے بولی۔ یہ اُس فقیر کو دے آؤ کہ ہماری ڈیوڑھی سے ٹلے۔ چنانچہ میں نے وہ بال اُس فقیر کو دے دیا۔ میں اس بات کو بھول بھال گئی۔ جب رات آدھی اِدھر اور آدھی اُدھر ہوئی تو شور سے میری آنکھ کھلی ، کیا دیکھتی ہوں کہ فرش پہ پڑا غالیچہ فرش سے اُٹھ اُٹھ کے دروازے سے ٹکریں مارتا ہے۔ میں یہ منظر دیکھ کے ڈر گئی اور برابر کے کمرے میں سوئی اپنی کنیز کو بلوایا۔ کنیز نے یہ منظر دیکھا تو بولی۔ اے بی ، میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ موا کوئی جادو گر تھا۔ اب وہ کہیں بیٹھا عمل کر رہا ہے اور اگر یہ بال تمہارے سر کا ہوتا تو تم کبھی کا دروازہ کھول کے گھر سے نکل کے اُس پاکھنڈی کے پاس پہنچ گئی ہوتیں اور وہ نجانے تمہارا کیا حشر کرتا۔ حالانکہ اُس بد ذات کی نیت اور عمل کو مد نظر رکھ کے دیکھو تو حشر کی صراحت کرنے کی مطلقاً حاجت نہیں ہے۔ یہ غالیچہ چونکہ دروازہ نہیں کھول سکتا اس واسطے دروازے سے ٹکریں مار تا ہے۔ تس پہ میں نے کہا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے تو وہ کنیز بولی۔ ہمیں دروازے کھول کے اس غالیچے کا پیچھا کرنا چاہئے اور ساتھ سپاہیوں کو لینا چاہئے کہ وہ موذی جہاں بھی ہو، اُسے گرفتار کر کے صبح قاضی کی عدالت میں پیش کریں کہ اپنے کئے کی سزا پاوے۔ چنانچہ میں نے اپنے باپ کو خبر کی اور اُنہوں نے ویسا ہی کیا۔ دروازہ کھلتے ہی غالیچہ آگے اور ہم اُس کے پیچھے روانہ ہوئے۔ گھر سے کوئی تین کوس پہ ایک ویرانے میں وہ خبیث بیٹھا تھا اور سامنے آگ جلائے کچھ پڑھتا تھا اور زمین سے خاک اُٹھا اُٹھا کے آگ میں ڈالے جا رہا تھا۔ غالیچہ اُس کے قدموں میں گرا تو وہ حیران ہوا اور پھر خود سے کہنے لگا کہ مجھ سے چھل کرنے والی ، اب میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ دیکھتی رہ۔ پھر ایسے زور سے بنکارا کہ پیڑوں پہ بیٹھے پکھیرو ڈر کے اُڑ گئے۔ چاہتا تھا کہ خاک پہ کچھ پڑھ کے اُسے سپرد آتش کرے اور اپنے کسی نئے جادوگری حیلے کو کام میں لاوے کہ میرا باپ اور سپاہی اُس کے سر پہ پہنچ گئے اور ملعون کی مشکیں کس لیں۔ صبح اُسے قاضی کی عدالت میں پیش کیا اور ساری حکایت بھی گوش گزار کی۔ قاضی نے اُسے موت کی سزا دی اور دوپہر سے پہلے اُسے سولی پہ لٹکا دیا گیا۔

دس بارہ روز بعد میری شادی تھی، اس لئے میں اپنی خوشیوں میں سب بھول بھال گئی۔ شادی سے دو روز پہلے میں گھر کی چھت پہ بال کھولے سُکھا رہی تھی کہ اچانک تیز ہوا چلی اور ابھی میں نیچے اُترنے کا ارادہ جی میں باندھ ہی تھی کہ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کالا کوا کہ جس کے بدن پہ بڑے بڑے بال تھے، میرے سامنے والی منڈیر پہ آن بیٹھا اور آدمیوں کی سی آواز میں بولا۔ میں وہی ہوں کہ جسے تُو نے دھوکہ دیا تھا۔ میں جن ہوں اور ہم جن اپنی جان اپنے ساتھ لئے نہیں پھرتے۔ تم لوگوں نے جسے سولی دی تھی وہ میرا ایک بہروپ تھا۔ میری جان اس کوے میں ہے جو اس وقت تیرے سامنے بیٹھا ہے۔ میں تیری شادی نہیں ہونے دوں گا اور تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ میں چاہتی تھی کہ چیخوں مگر آواز میرے حلق سے نہیں نکلتی تھی۔ اُسی وقت میری سفید بلی چھت پہ آئی اور اُس موذی پہ جھپٹی۔ وہ موذی بلی کے ڈر سے اِدھر اُدھر اُڑنے لگا پھر دیوار پہ بیٹھ کے بولا۔ شہزادے ، میری تجھ سے کوئی لڑائی نہیں۔ میں فقط اس آدم زادی پہ عاشق ہوں اور اسے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ تس پہ میری بلی مردانہ آواز میں بولی۔ دفع ہو جا نا ہنجار ورنہ جلا کے خاک کر دوں گا۔ جن ہنسا اور بولا۔ کس برتے پہ ایسی باتیں کرتے ہو، تم تو خود راندہ درگاہ ہو۔ بلی ایک بار پھر اُس پہ جھپٹی تو وہ نا ہنجار بھرا مار کے اُڑ گیا۔ میں حیران و ششدر کھڑی تھی۔ تس پہ بلی میرے قریب آئی اور بولی۔ تم گھبرائیو مت۔ اپنے کمرے میں چلو۔ میں تمہیں ساری بات بتلاتا ہوں۔

اُس رات جب میں سارے کاموں سے فراغت پا کے کمرے میں آئی اور دروازہ اچھی طرح اندر سے بند کر لیا تو بلی نے کہا۔ میں اب اپنے اصلی روپ میں آ رہا ہوں۔ تجھے واجب ہے کہ نہ ڈرے گی اور نہ چیخے گی۔ یہ کہتے ہی بلی ایک خوب رو مرد میں تبدیل ہوئی۔ میں نے اتنا حسین مرد اس سے پہلے دیکھا تھا نہ سنا تھا چنانچہ بار بار اپنی اُنگلیوں کو کاٹ کے خود کو یقین دلاتی تھی کہ میں عالم رویا میں نہیں ہوں۔ چیخنے چلانے کا تو کیا مذکور میں اُس کی صورت پہ شتابی عاشق ہوئی اور اُسے اپنے پہلو سے بھِڑا کے بٹھا لیا۔ یہ سلوک دیکھ کے وہ خوش ہوا اور بولا۔ میں ملک جنات کا شہزادہ ہوں اور میرے باپ نے مجھ سے ذرا سی ناچاقی پہ خفا ہوکے مجھے پچاس برس کے واسطے اپنی مملکت سے بے دخل کر دیا ہے۔ میں بلی کے روپ میں بھٹک رہا تھا کہ ملک شام کے ایک تاجر زادے نے مجھے خرید لیا۔ وہ مجھے بہت تنگ کرتا تھا اور ایسی محبت و موانست سے پیش نہ آتا تھا جیسے تُو پیش آتی ہے۔ ایک روز وہ مجھے بازار میں فروخت کے واسطے لایا جہاں تیرے باپ نے مجھے خرید لیا۔ تیرے حسن سلوک نے مجھے تیر ا گرویدہ کر دیا اور اب میں نے ٹھانی ہے کہ میں کبھی تجھ سے جدائی اختیار نہ کروں گا ، حالانکہ میرے باپ کی دی ہوئی مدت بس اب ختم ہوا ہی چاہتی ہے۔ اے طلعت رُو، میں جن ہوں اور تُو آدم زادی مگر میں سچ کہتا ہوں کہ میں تجھ پہ جی جان سے عاشق ہو چکا ہوں جب سے تیری شادی کی بات چیت چلی ہے، ہمہ وقت دل کو مسوسے تجھے دیکھا کرتا ہوں اور میری حالت اُن مرغ و ماہی کی سی ہے کہ انگاروں پہ بھنتا اور فریاد بھی نہیں کر سکتا۔

میں پہلی نظر میں اُس پہ فدا و فریفتہ ہو چکی تھی اور اب اُس کی جدائی کا سوچتی تو قلق سے بے حال ہوئی جاتی تھی، چنانچہ اُس سے بولی۔ اے میرے عاشق سنتی ہوں کہ جن دلوں کا بھید جان لیتے ہیں ، تُو یقیناً جان گیا ہو گا کہ میں کس طور تجھ پہ مر مٹی ہوں۔ تس پہ وہ نفی میں زور زورسے سر ہلانے لگا اور بولا۔ یہ سب باتیں تم انسانوں کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ دلوں کے بھید بس وہی جانتا ہے کہ جس نے مجھے جن اور تجھے انس بنایا۔ وہ بصیر و سمیع اور علیم ہے۔ ہم جنات بھی انسانوں کی طرح بس اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا ہمیں سکھلایا گیا ہے۔ یہ پاکھنڈ بھی انسانوں کی ایجاد ہے۔ ہم بس اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا اُس نے ہمیں بتا دیا ہے، نہ رتی بھر زیادہ نہ ماشہ بھر کم۔ مگر جانی، میں تیرے چہرے سے پڑھ سکتا ہوں کہ تُو کیسے میری محبت میں سوختہ ہے اور یہی حال اِدھر بھی ہے مگر کیا کیجئے کہ تیرے والدین تیری نسبت ٹھہرا چکے ہیں اور اب اگر تُو انکار کرتی ہے تو تیرا باپ کچھ کھا کے سو رہے گا اور میں ایسا کبھی نہ چاہوں گا کہ وہ کیسا عاشق کہ اپنی مطلب براری کے واسطے معشوق یا اُس کے لواحقین کو ناحق پریشانی میں ڈالے۔ چنانچہ کچھ اور سوچ ورنہ میری جدائی کا دُکھ سہہ کہ پھر یہی میرا مقدر بھی ہو گا۔ تس میں نے کہا اگر تُو مجھ سے اتنا ہی پیار کرتا تھا تو تجھے واجب تھے کہ میری بات پکی ہونے سے پہلے اس روپ آتا اور جو بھی تیرے جی میں تھا اُس کا اظہار کرتا تو وہ رو رو کے یوں گویا ہوا کہ جانی، مجھے پہ جو جو پابندیاں تھیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ میں ایک وقت مقرر سے پہلے کسی اور شباہت میں خود کو نہیں ڈھال سکتا تھا۔ میں نے یہ عذر قبول کیا اور حسرت سے ٹُکر ٹُکر اپنے عاشق کو دیکھتی رہی، اُس نے بھی جواباً یہی عمل جاری رکھا۔

میں سوائے منہ لپیٹ کے رونے کے اور کوئی راستہ نہ جانتی تھی چنانچہ یہی کیا کی۔ اُدھر گھر میں نوبت رکھ دی گئی تھی اور شادیانوں کا دن رات اہتمام رہتا تھا اِدھر میں اپنی جراحت میں پھنکی جاتی تھی۔ ہر رات میں اپنے کمرے کے دروازے بند کرتی اور میرا عاشق جن، بلی سے انسان کی کایا کلپ کر لیتا اور ہم ایک دوسرے کے حال پہ آنسو بہاتے۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وہ مرد کہ جس سے میری نسبت ٹھہری تھی، میرے باپ سے جہیز میں دساور کو بھیجے جانے والا ایک بحری بیڑہ مانگنے لگا۔ پہلے تو میرا باپ اسے مذاق سمجھا کہ اِتا زیادہ جہیز کسی نے دیا تھا اور نہ کسی نے لیا تھا لیکن جب وہ اور اُس کے عزیز منہ بھر بھر تقاضہ کرنے لگے تو میرے باپ کا ما تھا ٹھنکا۔ یہ بات مجھ سے چھپانے کی کوشش کی گئی مگر میری انا کہ مجھے دل و جان سے چاہتی تھی، مجھے سب خبر پہنچائے جاتی تھی۔ پھر ایک روز نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُس طرف سے یہ شرط نہ ماننے کی صورت میں یہ رشتہ توڑنے کی دھمکی ملی۔ میرا باپ اس صدمے سے بستر سے لگ گیا اور ماں دن رات آنسو بہاتی تھی۔ میں نے اپنے عاشق جن سے مشورہ کیا تو وہ بولا۔ جانی میں سر دست اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ تیرے ہونے والے سسرالیوں کو گھر سمیت دریا برد کر دوں مگر یہ خون ناحق ہو گا اور مجھے روز محشر اس کا جواب دینا ہو گا لیکن اگر یوں تیری تسلی ہوتی ہے تو میں اس پہ بھی تیار ہوں کہ تیرے واسطے تا ابد آتش میں پھونکا جاؤں۔ میں ایسا ہرگز نہ چاہتی تھی اور شاید اللہ کو میری اور میرے عاشق جن کی یہی ادا پسند آئی اور اُن لالچیوں نے خود ہی رشتہ توڑ دیا۔

میرا باپ منہ چھپاتا پھرتا تھا۔ میرے باپ کا ایک اُستاد تھا کہ بچپن میں جس سے میرے باپ نے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔ وہ اُسی شہر میں آباد تھا۔ جب میرے باپ کی بیماری اور اُس کے سبب سے واقف ہوا تو ایک رات میرے باپ کے پاس آیا اور یوں گویا ہوا۔ میں تجھے بڑا زیرک مرد سمجھتا تھا اور میرا خیال تھا کہ تجھ میں حوصلہ بھی ہو گا۔ تُو کس سبب سے خلق خدا سے منہ چھپاتا پھرتا ہے۔ تیری بیٹی نہ گھر سے بھاگی کہ تُو شرمندہ ہو اور نہ اُس نے بے نکاح کا بچہ جنا کہ تیرے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا۔ یہ شرمندگی تو اُن کو ہونا چاہئے کہ جنہوں نے اتنی خوبصورت اور خوش سیرت بچی پہ اُس مال کو ترجیح دی کہ جس کی ناپائیداری روز روشن کی طرح سب پہ عیاں ہے۔ اے عزیز یاد رکھ۔ لڑکی والوں کا ہاتھ ہمیشہ اُوپر ہوتا ہے کہ کہ نعم و ناز میں پلی بچی غیروں کے سپرد کرتے ہیں اور یہی نہیں دنیا کے ایک غلط دستور کے بموجب اُن کے پوٹے بھی بھرتے ہیں۔ اور مجھے ہمیشہ اُن بے حیاؤں پہ حیرت ہوتی ہے جو گھوڑوں اور اونٹوں پہ اسباب لدوا کے فخریہ اُسے اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔ اگر وہ اتنے ہی فقٹے ہوتے ہیں تو اُنہیں بیٹوں کو بیاہنے کی کیا حاجت ہے۔ چنانچہ تُو نچنت ہو جا اور اپنی بیٹی کے واسطے لالچیوں میں نہیں ، خدا ترسوں میں کوئی بر تلاش کر اور اگر خود کو ایسا کرنے سے معذور پاتا ہے تو پھر مجھے اجازت دے کہ جو کروں گا تیرے بھلے کو کروں گا۔

یہ گفتگو میرے باپ کو خوش آئی اور وہ بھلا چنگا ہو کے بستر سے اُٹھ گیا۔ میرے باپ کے اُستاد نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ جو جو بھی اس قصے سے واقف ہوتا تھا وہ لڑکے والوں کو نکو بناتا تھا اور میرے باپ کو مبارک باد یاں دیتا تھا کہ اُس کی بیٹی لُنگاروں سے بچ گئی۔ صاحبو اس واقعے کے بعد میں اور میرا عاشق جن بہت خوش تھے چنانچہ ہم نے طے کیا کہ جن انسانی روپ میں میرے باپ سے میرا رشتہ طلب کرے۔ چونکہ میرے عاشق کو جتی مدت کے واسطے اُس کے باپ نے دربدر کیا تھا ، وہ اب ختم ہی ہوا چاہتی تھی، تو وہ اپنے گھر کو لوٹ گیا اور اپنے باپ کو دست بستہ اپنی رُوداد سنا کے اُس سے ملتمس ہوا کہ وہ میرے باپ سے میرا رشتہ مانگے۔ چنانچہ اُس کا دل پسیجا اور وہ جنوں کی ایک جماعت لے کے، کہ انسانی روپ میں تھی، میرے باپ کے پاس رشتہ لے کر آ گیا۔ اُنہوں نے خود کو کسی ملک کا امیر التجار بتلایا اور میرے باپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور میرا رشتہ منظور کر کے ایک دفعہ پھر گھر میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ خوشی کے مارے میرے پاؤں زمین پہ نہ ٹکتے تھے کہ وہ موذی اپنا وار کرنے میں کامیاب ہوا۔

میں اپنی شادی سے تین روز پہلے نہا کے گھر کی چھت پہ بال سکھا رہی تھی اور اُن میں کنگھا بھی کرتی جاتی تھی کہ کسی کام سے نیچے گئی۔ واپس لوٹی تو دیکھا کہ ایک کالا کوا وہ کنگھا منہ میں لئے اُڑا ہی چاہتا ہے۔ میں ہائیں ہائیں کرتی رہ گئی اور وہ موا کنگھا اپنی چونچ میں دبائے اُڑ گیا۔ خیر میں نے دوسرے کنگھے سے اپنے بال سنوارے اور اُس رات جب میں اپنے کمرے میں سو رہی تھی، میرا جی بری طرح گھبرایا اور چاہا کہ دیواروں سے ٹکریں ماروں۔ میرا جثہ ایک ایسی گرمی سے پھنکا جاتا تھا کہ جس کے بیان سے نطق کو عاجز پاتی ہوں۔ میں نے دروازہ کھولا اور پھر یوں لگا جیسے کوئی مجھے اُڑائے لئے جاتا ہے۔ دربان نے جو مجھے یوں بغیر پردے کے باہر جاتا دیکھا تو دوڑ کے میرے باپ کو جگایا۔ میرا باپ سمجھا کہ میں ضرور ہی کسی دھِگڑے سے ملنے کے واسطے رات کے اس پہر گھر سے نکلی ہوں ، چنانچہ اُس نے پانچ سات تلوار بردار سپاہی ساتھ لیے اور میرا پیچھا کرنے لگا۔ صلاح یہ ٹھہری تھی کہ اگر میں کسی یار سے ملنے جا رہی ہوں توہم دونوں کے قتلے کر کے وہیں کہیں دبا دئیے جائیں گے۔ لیکن وہاں تو قصہ ہی کچھ اور تھا۔ جب میرا باپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا تو وہ خبیث جادوگر آگ میں اپنا عمل کرتا پایا گیا۔ میرا باپ اور سپاہی یہ معاملہ دیکھ کے بھونچکے رہ گئے اور چونکہ وہ پہلے بھی یہ ماجرا دیکھ چکے تھے اس لئے میرے باپ نے مجھے مظلوم جانا اور تلواریں سونتے اُس نابکار کے قریب پہنچ گئے۔ ایک سپاہی نے ٹھوکر مار کے وہ آگ بجھا دی کہ جس پہ وہ اپنا منحوس عمل کئے جاتا تھا۔ آگے بجھتے ہی میں جیسے ہوش میں آ گئی اور اپنے تئیں بے رِدا، بے برقعہ اتنے مردوں میں پایا تو شرم سے کٹنے لگی۔ میرا باپ چاہتا تھا کہ اُس مردود کے ٹکڑے کر دے مگر اُس نے خود کو جادو کے وار سے بچا لیا اور ہنس کے بولا۔ اے تاجر زادے۔ اب بھی وقت ہے، اپنی بیٹی کو مجھ سے بیاہ دے وگرنہ پورا خاندان برباد کر دوں گا۔ جو جو سپاہی اُس پہ وار کرتا تھا، وہیں پتھر کا ہو جاتا تھا۔ میں ڈری کہ وہ یہی حشر میرے باپ کا بھی نہ کرے مگر اُسی وقت کسی گزرتے ہوئے جن نے یہ ماجرا دیکھا اور میرے عاشق کو کوہ قاف میں خبر دی۔ وہ اُسی وقت جنات کا پرا لئے روانہ ہوا۔ مگر وہ موذی اپنا وار کر چکا تھا۔ اُس نے میرے بدن پہ کچھ پڑھ کے پھونکا اور یہ زنجیریں جو تم دیکھتے ہو، میرے بدن سے لپٹ گئیں۔ پھر ایک آندھی چلی اور میں نے خود کو اس جنگل میں پایا۔ اب وہ مردود ہر روز میرے پاس آتا ہے اور مجھے گناہ کے بدلے رہا کرنے کو کہتا ہے۔ اے صاحبو میں ان زنجیروں کے طلسم میں اگر ایک ہفتہ اور رہی تو مر جاؤں گی۔ میرا عاشق جن اور اُس کے ہم وطن ہر رات آتے اور ہو ا میں ٹنگے ٹنگے مجھے دلاسہ تسلی دے جاتے ہیں کہ وہ بھی اس جادو کے آگے بے بس ہیں۔ میں نے اپنی کہہ دی ، اب اگر تم میں سے کوئی میری مدد کرے اور مجھے اس طلسم سے نجات دلا دے تو اُس کی دنیا اور آخرت کی سرخروئی کے واسطے دعا کروں گی۔

یہ داستان سن کے ہم سب کے دل اور آنکھیں ایک ساتھ بھر آئیں۔ ہم اپنے کام کو نکلے تھے مگر یہ شیوہ مردانگی نہ تھا کہ ایک بے بس اور مجبور عورت کو یوں بیابان میں چھوڑ کے اپنی راہ لیتے، چنانچہ سوچ و بچار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔ تم سب اس ذخیرے میں چھپ جاؤ کہ اُس نابکار کے آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے اور تمہیں دیکھے گا تو نقصان پہنچائے بغیر نہ مانے گا۔ چنانچہ ہم بمع اپنے اسباب ایک ذخیرے کی آڑ لے لی۔ عین اُس کے بموجب کہ جیسا اُس ماہ رو نے کہا تھا، تھوڑی دیر آندھی چلی اور وہ مردود گر د و غبار میں سے ظاہر ہوا۔ ایسا بد صورت و بد صوت ہم میں سے کسی نے پہلے نہ دیکھا تھا۔ وہ ماہ رو کے قریب گیا اور بولا۔ اگر تُو میری نہیں مانے گی تو جان لے کہ کامل چھے روز میں یہ زنجیریں اژدہے بن کے تیرے اس خوبصورت بدن کو کھا جائیں گی اور پھر تُو استخواں کا ڈھیر ہو گی کہ جس کی طرف کوئی دیکھے گا تو عبرت سے دیکھے گا۔ میری بات مان لے اور اگر تجھے میرے حلیے سے خوف آتا ہے تو جس روپ میں کہہ میں آنے کو تیار ہوں۔ تس پہ انگوٹھی کے جن نے میرے کان میں کہا۔ اے آقا اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اس مہ لقا کے کان میں کوئی ایسی بات کہوں کہ جو اُس کے حق میں نافع ہو۔ کچھ تو جن کا اس وقت کان میں بات کرنا اور دوسرے اُس بد بخت کے دانتوں کی بو، میں نے غصے سے کہا۔ کچھ بھی کر نابکار۔ اس عورت کو اس عذاب سے نجات دلا۔ تس پہ جن نے وہیں سے اپنی تھوتھنی لمبی کی اور عورت کے کان تک پہنچا اور کان میں پتہ نہیں کیا کہا کہ وہ مسکرائی اور ادا و ناز سے اُس ناہنجار جادو گر سے بولی۔ میں نے تیری بات پہ غور کیا ہے اور تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہتا مگر جانی مجھے تیرے اس روپ سے ڈر لگتا ہے۔ میرے سامنے کسی شہزادے کے روپ میں آ اور میرے تن سے یہ زنجیریں جدا کر کے اپنے من کی مراد پا۔ تس بیان پہ وہ کچھ حیران ہوا اور پھر ہنس کے کہنے لگا۔ اب تُو راہ پہ آئی ہے۔ اگر پہلے دن ہی میری بات مان لیتی تو اس کھکھیڑسے کیوں گزرتی۔

چنانچہ وہ زمین پہ لوٹا اور ایک خوبصورت شہزادہ بنا اُس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ چونکہ وہ ہر وقت وہ کوا اپنے ساتھ رکھتا تھا کہ جس میں اُس کی جان بند ہوتی تھی، اس لئے کوے کا پنجرہ ایک پیڑ پہ ٹانگ دیا۔ اُس نے شتابی کچھ پڑھ کے پھونکا اور زنجیریں مٹی کی ہو کے عورت کے بدن سے جدا ہو گئیں۔ انگوٹھی کے جن نے ایک بار پھر اپنی تھوتھنی لمبی کر کے عورت کے کان سے ملائی اور کچھ کہا۔ تس پہ وہ مسکرائی اور بولی۔ تو جادو گر بعد میں اور مرد پہلے ہے۔ تو نے سنا نہیں کہ شراب ، عملِ فلاں کو دو آتشہ کرتی ہے تو جانی کہیں سے شراب مہیا کر کہ اس کے بغیر لمحات عیش مٹی ہو جاتے ہیں۔ وہ نا بکار سرخوشی سے بولا۔ ابھی لے اور ہاتھ بڑھایا تو ہاتھ میں خوش رنگ شراب کی کُلھیا تھمی دِکھی۔ چنانچہ وہیں گھانس پہ بیٹھ گیا اور غٹا غٹ آدھی کلھیا پی کے بولا۔ اب دیر مت کر کہ میری آتش شوق خود مجھی کو بھلسائے ڈالتی ہے۔ وہ بے چاری بار بار اُس طرف دیکھتی تھی کہ جدھر ہم چھپے ہوئے تھے۔ تس پہ جن نابکار نے ایک بار پھر اپنی تھوتھنی لمبی کر کے اُس کے کان میں کچھ کہا۔ وہ مسکرائی اور اُس نا ہنجار جادوگر کی گودی میں گر گئی۔ وہ اوامرِ پیش از فعل ناگفتنی میں مشغول ہوا اور جب بے خبر ہو گیا اور چاہتا تھا کہ تاجر زادی کو ایسی حالت میں لاوے کہ جس میں وہ پیدا ہوئی تھی اور خود بھی اسی عمل سے گزرے تو ہمارے جن نے ہاتھ بڑھا کے اُس کوے کو دبوچ لیا کہ جس میں اُس اسفل پیشہ کی جان تھی۔ وہ تڑپ کے اُٹھ بیٹھا اور کوے کو ناپید پایا تو بنکارتا ہوا پھر اپنی اصلی جون میں آ گیا اور چیخ کے بولا۔ حرافہ، چنڈالنی میں تیرے چھل کو سمجھ گیا۔ سچ بول اس جگہ اور کونسا دھِگڑا چھپا رکھا ہے۔ تس پہ ہم سب جن کے ہمراہ اُس خبیث پہ ظاہر ہوئے۔ جن بولا۔ مجھے پہچانتا ہے۔ مجھے پانے کو تُو نے پانچ سال کنوئیں میں اُلٹا لٹک کے عمل کیا تھا اور نا کامیاب رہا تھا۔ وہ بولا میں تجھے خوب پہچانتا ہوں۔ تُو مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ تس پہ جن نے کہا۔ اس وقت وہ کوا میری دسترس میں ہے کہ جس میں تیری جان ہے۔ ابھی اس جنگل کو طلسم سے آزاد کر ورنہ میں اس کی گردن مسوستا ہوں۔ وہ کم ذات ڈر گیا اور پڑھ کے کچھ پھونکا تو جنگل میں

ٹھنڈی ہوا چلنے لگی کہ جیسی ایسے مقامات پہ چلا کرتی ہے اور درختوں پہ پتھر بنے بیٹھے طیور گانے، چہچہانے اور اُڑنے گے۔ تاجر زادی بھاگ کے ہماری پناہ میں آ گئی۔ وہ خبیث جن سے بولا۔ میں نے تیری شرط پوری کر دی۔ اب میرا کوا میرے حوالے کر۔ تس پہ جن ہنسا اور بولا۔ میں مسلمان نہیں جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا جاتا ہے اور پھر بھی اُسی میں اُنگلی گھسیڑے جاتا ہے۔ تیرا میرا پرانا حساب ابھی باقی ہے۔ میں تجھے تڑپا تڑپا کے ماروں گا۔

چنانچہ جن نے کوے کی ایک ٹانگ توڑی تو اُس مردود کی بھی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ وہ ایک ٹانگ پہ اُچھلتا اور فریاد کرتا تھا۔ جن نے دوسری ٹانگ بھی توڑ دی۔ وہ چاہتا تھا کہ کچھ پڑھ کے پھونکے مگر جن نے کوے کی زبان نکال دی اور پھر اُس کی دونوں آنکھیں پھوڑ دیں۔ جب وہ نابکار لنگڑا، اندھا اور گونگا ہو گیا تو جن نے مجھ سے اجازت طلب کی اور میری منشا پا کے کوے کی گردن مسوس دی۔ وہ خبیث وہیں تڑپ کے ٹھنڈا ہو گیا۔ وہ مہ لقا خوشی سے دیوانی ہوئی جاتی تھی۔ اُسی وقت آسمان پہ جنوں کا پرا نمودار ہوا اور خلا میں لٹک گیا تو وہ چلا چلا کے بولی۔ جانی جنگل سے طلسم ختم ہو گیا ہے۔ تم نیچے آ جاؤ۔ چنانچہ اُس کے عاشق سمیت جتنے بھی جن تھے، نیچے اُترے۔ وزیر زادے نے ساری حکایت کہہ سنائی۔ ماہ لقا کا عاشق جن ممنون ہوا اور ایک مہر دے کے بولا۔ جب کبھی ضرورت پڑے۔ اسے اپنے سر کے بالوں سے رگڑنا میں فوری کمک بھیج دوں گا۔ اب مجھے اجازت دو کہ میں شتابی اپنی معشوقہ کو وطن لے جا کے اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن وہ بولی۔ ذری ٹھہر جاؤ کہ میں ان سے حمام گرد آلود کا رستہ انہیں دکھانے کا وعدہ کر چکی ہوں۔ وہ جن تو بد بخت مارا گیا مگر اُس کے حمام میں تین شہزادیاں ابھی تک قید ہیں اور ایک جن اُن کی چوکیداری پہ مامور ہے، اور اُنہیں کوئی آدم زاد ہی وہاں سے رہائی دلوا سکتا ہے۔ چنانچہ اُس نے ہمیں حمام کی راہ و نقشہ سمجھایا اور خود اپنے ہونے والے خصم کے ہمراہ مائل پرواز ہوئی۔

وہ رات ہم نے اُسی جنگل میں بسر کی اور گجر دم اُٹھ کے روانہ ہوئے۔ راستہ ہموار اور موسم خوش گوار تھا اس لئے ہم منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے جاتے تھے۔ توتا شہزادہ ہمارے آگے اُڑتا اور آگے کی خبر ہمیں پہنچاتا تھا۔ اس حالت میں تین روز گزر گئے اور ہم اس رستے کو آفتوں سے خالی سمجھ کے بے خوف سفر کرتے رہے۔ مگر ہم نہ جانتے تھے کہ ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے، ووں ووں ایک طلسم ہمیں گھیرے جا رہا تھا۔

ایک روز دوپہر کو میری اور وزیر زادے کی نظر ایک دُناب ہرن پہ پڑی کہ دُوب چرتا تھا۔ شکار کے جانور کا گوشت کھائے مدت ہو گئی تھی۔ صلاح ٹھہری کہ اس کا شکار کیجئے اور اس کے تازہ گوشت سے لذت کام و دہن دوبالا کیجئے۔ چنانچہ میں نے ترکش سے تیر نکالا اور کمان میں رکھ کے جو اُس ہرن کی جانب پھینکا ہے تو سیدھا اُس کی ٹانگ میں ترازو ہو گیا مگر وہ ہرن گرا نہیں بلکہ ایک جانب کو بھاگنے لگا۔ وزیر زادہ ہائیں ہائیں کرتا رہ گیا مگر میں نے اپنا گھوڑا اُس کے تعاقب میں ڈال دیا۔ وزیر زادہ بہ امر مجبوری میرا پیچھا کرنے لگا۔ میں ہرن کے جسم سے بہنے والے خون سے اُس کا سراغ پاتا اور گھوڑے کو بگٹٹ بھگائے جاتا تھا کہ ہرن اچانک ایک جگہ رک گیا۔

میں شتابی گھوڑے سے اُترا اور چاہتا تھا کہ مردار ہونے سے پہلے ذبح کروں کہ ہرن ایک زنِ طرحدار میں تبدیل ہوا اور گھانس پہ گرکے لوٹنے لگا۔ میں یہ ماجرا دیکھ کے بھونچکا رہ گیا اور خود پہ نفرین بھیجی کہ میں نے کسی عورت پہ تیر چلا دیا تھا۔ عورت کے قریب پہنچا تو اُسے لوٹتا اور زخمی حالت میں پایا۔ میرا تیر ابھی تک اُس کی ٹانگ میں ترازو تھا، اُسے کھینچ کے نکالا اور خرجی سے سامان جراحت نکال کے اُس کی مرہم پٹی کی۔ اتنے میں وزیر زادہ بھی آن پہنچا اور یہ معاملہ دیکھ کے اپنی اُنگلیاں بوجہ حیرت کاٹنے لگا۔ کار ضروری سے فارغ ہوکے میں اُس عورت سے مخاطب ہوا اور اُس کے زخمی ہونے کو سراسر اپنا قصور اور نادانی بتلایا۔ بجائے دُوت دَہک کرنے کے وہ مسکرائی اور بولی۔ اے آدم زادے۔ اس میں تیری کوئی تقصیر نہیں۔ میری غلطی تھی کہ آج ہرن کا روپ دھارن کئے پھرتی تھی۔ میں قوم اجنہ میں سے ہوں اور اپنے باپ کی طرف سے اس جنگل کی عملداری میرے سپرد ہے۔ تُو اور تیرے ساتھی تین روز سے برابر اس جنگل میں آگے بڑھے جاتے ہو اور میں تمہاری ایک ایک حرکت پہ نظر رکھتی ہوں۔ چاہتی تو پہلے ہی روز تجھے اور تیرے ساتھیوں کو فنا کر دیتی مگر کیا کروں شومیِ قسمت آدم زادوں سے میرا ایک کام آن پڑا ہے۔ اگر میں اس وقت اپنے زخمی ہونے کی اطلاع اپنے باپ کو دے دوں تو تم سب کو زمین سے دُور کسی ویران سیارے میں قید کروا دے اور اس سے پہلے تمہاری آنکھوں میں دغدغاتی سلائی بھی پھروا دے۔ دیکھ میں تجھ پہ اور تیرے اس ساتھی پہ رحم کر رہی ہوں تو اُمید ہے کہ تُو میری بات ضرور سنے گا اور مانے گا بھی۔ میرا خصم کہ جو قوم اجنہ میں سے ہی ہے ، مگر مجھے اُس کی صحبت ذرا بھی خوش نہیں آتی۔ علاوہ اس کے ایک دھِگڑا بھی رکھتی ہوں جو میری آنکھوں کا نور اور دل کا سُرورہے۔ میرے خصم کو میرے یار کے بارے میں سب پتہ ہے اور اُس نے اُسے تین شہزادیوں والے حمام گرد آلود میں قید کر وا دیا ہے۔ اُس کے چھِٹنے کی شرط یہ ٹھہری ہے کہ کوئی آدم زادہ حمام کے باہر جو سفید پتھر لگا ہے ، اُسے اپنے خون سے ایسا دھوئے کہ پتھر کا رنگ ابیض سے احمر ہو جاوے۔ تم دو جی ہو۔ اگر میں اپنے باپ سے تمہاری شکایت کرتی ہوں تو پھر دونوں جانوں سے جاتے ہو اور اگر میری مانتے ہو تو پھر ایک تو ضرور ہی بچ رہے گا۔ فیصلہ تم پہ چھوڑتی ہوں۔ اور اگر تم یہ سوچے بیٹھے ہو کہ آدم زادوں والا کوئی چھل فریب کر کے مجھے دھوکہ دینے میں کامران رہو گے تو یہ تمہاری بھول ہے کہ اس جنگل پہ میری عملداری ہے اور یہاں کے سب جاندار میرے حکم کے تابع ہیں۔ یقین نہیں تو یہ دیکھو۔ اُس حرافہ نے یہ کہا اور ایک غیر انسانی آواز نکالی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ تین شیرسر جھکائے چلے آ رہے ہیں کہ صورتیں جن کی زن مریدوں کی سی تھیں۔ وہ اُن میں سے ایک کے پیٹ پہ کھڑی ہوئی اور پھر اُس نے ایک اور آواز نکالی تو کتنے ہی کالے سانپ اور اژگر رینگتے آئے اور اُس کے چاروں طرف گھیرا ڈال لیا۔ پھر اُس چنڈالنی نے اُن میں جو سب سے جاں لیوا دِکھتا تھا، اُسے اُٹھا کے اپنے گلے میں ڈال لیا۔ یہ منظر دیکھ کے وزیر زادے کا گھوڑا بے ہوش ہو گیا اور وزیر زادہ اُس پہ سے دھم سے نیچے لڑھک گیا۔ میں نے اپنے گھوڑے کی طرف نظر کی۔ وہ بھی اسی نوع کی تیاری کرتا دِکھتا تھا، چنانچہ اُس (عورت)سے ملتمس ہوا کہ ہمیں چند ثانیے سوچنے کی مہلت مرحمت ہو۔ وہ مان گئی اور میں اور وزیر زادہ اُس سے چند قدم دُور جا کے مسکوٹ کرنے لگے۔ وزیر زادہ کہ ہم جلیسِ صادق تھا، مصر ہوا کہ اُس پتھر کو وہ اپنے لہو سے رنگ دار کرے گا۔ میری طبیعت اتنی بڑی قربانی لینا گوارا نہ کرتی تھی، چنانچہ میں نے اُسے اپنی جان نہ دینے کو قائل کرنا چاہا اور خود کو پیش کیا۔

ہم میں بحث ہو ہی رہی تھی کہ کیا دیکھتا ہوں کہ انگوٹھی کا جن ، اپنی غائب ہونے والی کل دبائے ہمارے بیچ میں آن اُترا اور بولا۔ صاحبو میں یہسارا واقعہ سن چکا ہوں۔ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی خصم پہ دھِگڑا رکھنے والیوں کی شہرت کا پرچا ہر سُو لگ جاتا ہے اور اس بلا سے چھٹکارہ ممکن نہیں لیکن اس کا ایک راستہ ہے۔ چراغ والے جن کو حاضر کیا جائے کہ اِس کا یار اُس کا یار جانی ہے اور دونوں ایک زمانے میں جب وہ ایک ہی جادوگر کے غلام تھے، اکٹھے چرس سے شغل کیا کرتے تھے۔ جن یہ کہہ کر شتابی غائب ہوا کہ اس رنڈی کی نظروں سے پوشیدہ رہنے کو میں اپنی جو کل دبائے ہوئے ہوں ، وہ اب اور نہیں دبتی کہ وہ مقام ناگفتنی اور زیر لباس واقع ہے، چنانچہ مجھے اجازت دیجئے۔ میں اور توتا وہ سامنے والے پیڑ کی آڑ سے یہ سارا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

اُس مال زادی کے سامنے کمر بند سے چراغ کھولنا اور رگڑنا کار دارد تھا چنانچہ میں اُس سے گویا ہوا کہ شدت بول سے میرا مثانہ پھٹا جاتا ہے اور اگر اجازت ہو تو وہ سامنے والے پیڑ کی آڑ میں اس مشکل کا دفاع کر لوں۔ وہ میرے بھًرے میں آ گئی اور میں نے ازار بند کھولا اور یوں بن گیا جیسے وہی کچھ کر رہا ہوں کہ جس کی اجازت پائی تھی، چراغ کو ایک پتھر پہ رگڑا تو جن برامد ہوا اور مجھے اس حالت میں دیکھ کے توبہ تِلا کرنے لگا اور بولا۔ مجھے میں ہزار خرابیاں ہیں مگر میں ذوقِ لواطت رکھنے والوں پہ لعنت بھیجتا ہوں۔ میں اس کا عامل ہوں نہ معمول۔ میں نے اُس بد بخت کو بمشکل سمجھایا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ تس پہ وہ نابکار مسکرانے لگا اور بولا۔ آقا ستر بینی کبھی میرا ذوق نہیں رہا لیکن بوجوہ اس وقت کرنی پڑی ہے اور جو دیکھا ہے ، نہ دیکھتا تو اچھا ہوتا اور پھر کسی حکیم کا پتہ بتانے پہ آمادہ ہوا۔

اُس وقت میری جان پہ بنی ہوئی تھی اور موت سامنے دِکھ رہی تھی اور میں جن کے معائنے کے بعد اُس کی رائے سننے اور سوالات کے جوابات دینے سے خود کو قاصر پاتا تھا چنانچہ گویا ہوا۔ اے غلام جن۔ میں نے اس وقت اپنے اعضائے رئیسہ خفی کے بارے تیری رائے لینے کو تجھے یہاں نہیں بلوایا اور جو بھی مشکل آن پڑی تھی، اُس کے بارے میں مختصراً بتلایا۔ تس وہ جن ہنسا اور بولا۔ وہ سچ کہتی ہے اور اس کا یار اپنا بھی یار ہے اور مدتوں سے غائب ہے۔ اگر وہ حمام گرد آلود میں بند ہے تو میں اُسے بغیر کسی خونی قربانی کے وہاں سے نجات دلوا دوں گا مگر اس کے لئے میری ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ مجھے تین مہینے کی رخصت عطا کی جاوے گی۔ میں اُس وقت گھبرایا ہوا تھا۔ اُس نابکار کی شرط ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا چنانچہ تین مہینے کی رخصت ازاربند باندھتے باندھتے منظور کی۔ جن فوراً ہی غائب ہو گیا اور میں اُس حرافہ کی جانب لوٹا۔ وہ میری صورت دیکھ کے بولی۔ کیوں صاحب اب کیا کہتے ہو۔ میں نے کہا۔ میں نے دوران عملِ اخراج اس بارے میں سوچا ہے اور ابھی یہ طے نہیں کیا کہ ہم دونوں میں کون خون دے گا مگر یہ طے کر لیا ہے کہ تیری شرط ضرور ہی پوری کی جاوے گی۔ چنانچہ وہ چنڈالنی ہنسی اور بولی۔ ٹھیک ہے۔ اب اس رستے چلے جاؤ۔ تمہیں اس جنگل میں کوئی نہ روکے گا اور ہاں اگر میری شرط پوری نہ ہوئی تو پھر یہ زخمی ٹانگ لئے اپنے باوا جانی کے پاس چلی جاؤں گی اور اس کے بعد جو ہوئے گا، اُس سے تمہیں پہلے ہی آگاہ و مطلع کر چکی ہوں۔ یہ کہا اور دھول بن کے ہوا میں اُڑ گئی۔

وزیر زادے نے بے ہوش گھوڑے کو ہوش میں لانے کا ہر جتن کیا مگر وہ عالم بے ہوشی سے رجوع ہی نہ کرتا تھا تس پہ چراغ کے جن نے اُس کے کان میں کچھ کہا اور گھوڑا فوراً ہی ہشاش بشاس ہوکے اُٹھ بیٹھا۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ جن نے اُس کے کان میں کہا تھا کہ حضت مکر و چھل ایک طرف رکھئے ورنہ سو گز اُوپر لے جا کے چھوڑ دوں گا۔ اب ہماری مشکل کا حل چراغ والے جن کے ہاتھ میں تھا اور وہ ہمیں بے فکر ہونے کو کہے جا رہا تھا۔ تین دن اور تین رات مسلسل سفر کرنے کے بعد ہم (گرم) حمام گرد آلود کی عمارت کے سامنے پہنچ گئے۔

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا والا معاملہ نکلا۔ ایک حقیر سی عمارت تھی جو بری طرح گرد آلود تھی۔ گرم ہونے کا شائبہ یوں ہوتا تھا کہ اُس کی چھت پہ لگے ایک پتھریلے بمبے سے مسلسل دھواں نکل رہا تھا۔ وہ پتھر البتہ بہت بڑا اور صاف ستھرا تھا کہ جس کو اپنے لہو سے رنگنے کو وہ ڈائن ہم سے کہہ چکی تھی۔ تھکے ہوئے تھے ، چنانچہ باقی کا کام کل پہ چھوڑا اور گھوڑوں کو آزاد کر کے خود کھا پی کے سورہے۔ اگلی صبح کہ ابھی طیور اپنے رزق کی تلاش میں نہ نکلے تھے اور نسیم اپنے آخری دموں پہ تھی، ہم اُٹھ بیٹھے۔ حمام اُسی حالت میں تھا۔ ہماری اطلاع کے مطابق حمام میں ایک بد کردار جن اور تین شہزادیاں قید تھیں۔ مجھے حمام کے اندر کی خبر لانی تھی لیکن اُس میں داخلہ خون کی قربانی سے مشروط ٹھہرایا گیا تھا۔ چراغ رگڑا تو جن ندارد۔ چراغ کے اندر جھانک کے دیکھا تو وہ بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ چراغ کا جن اچانک وارد ہوا اور قدرے زود رنجی سے بولا۔ صاحب میں کل سے چراغ میں گیا ہی نہیں ہوں ، آپ ناحق اسے رگڑے جاتے ہیں۔ کچھ جانتے بھی ہیں کہ یہ چراغ رگڑنے سے غلام کے بدن کا کونسا حصہ متاثر ہوتا ہے۔ تہذیب مانع ہے ورنہ ابھی دکھا دیتا۔ جن کی سر زنش سے میں شرمندہ ہوا اور اُس سے پوچھا کہ اب تک کی اُس کار گزاری کیا ہے۔ تس پہ جن بولا۔ وہ حرامزادی خواہ مخواہ اُس حرامی کے لئے مری جا رہی ہے، اُس نے تینوں شہزادیوں کے ساتھ مل کے حمام کو وہ حمام بنا دیا ہے جس کے بارے میں آپ آدم زادوں نے ایک لذیذ محاورہ بھی گھڑ رکھا ہے۔ پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا۔ انسانوں کا بھی جواب نہیں۔ ایسے ایسے محاورے گھڑ رکھے ہیں کہ جن کا کھِرا ڈھونڈنے نکلو تو وہ سب ازار بندی (ناجائز و لذیذ) تعلقات پہ ہی ختم ہو تے ہیں۔ جن کا یہ لسانی حوالہ مجھے ذرا بھی خوش نہ آیا اور میں نے اُس کو ڈانٹ کے کہا۔ ابے گیدی تو اس وقت نقادوں کی سی باتیں کیوں کر رہا ہے۔ محاورے زمین سے پھوٹتے اور سینوں میں پرورش پا کے صدیوں میں رائج ہوتے ہیں۔ تس پہ جن ہنسا اور بولا۔ اپنے آقاؤں کو تلخ جواب دینا ہمارے مسلک میں حرام ہے مگر حضور سچ تو یہ ہے کہ انسان نے اپنی نصف بہتر یعنی آدم زادیوں کے حوالے سے وہ وہ محاورے گھڑ رکھے ہیں کہ گھوڑے بھی سنیں تو شرما جائیں۔ دونوں گھوڑوں نے یہ بات سنی تو زور زور سے ہنہنائے گویا جن کی تائید کر رہے ہوں۔ جن بولا۔ حضور جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ انسان نے محاوروں ہی میں نہیں ، حقیقی زندگی میں بھی کہ جسے روز مرہ کہئے، آدم کی بیٹی کو بازار کی شئے بنا دیا ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ شدت گفتگو کے دوران جن کے لبوں سے تھوک اُڑنے کو تھا اور گردن کی رگیں پھول چکی تھیں ، آنکھوں کے ڈھیلے باہر آ چکے تھے، یعنی وہ اس وقت اپنے رویئے سے علمائے کرام لگ رہا تھا ، چنانچہ میں نے بات کا رخ اصل مقصد کی جانب موڑا اور یوں گویا ہوا۔ اے لعین تُو نے اُس کام کا کیا کِیا کہ جس پہ تجھے مامور کیا گیا تھا۔ جن ترنت اپنی اصلی حالت میں واپس آیا اور مسکرا کے بولا۔ آقا مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ دیکھنا ہے تو میرے ہمراہ حمام گرد آلود کے اندر تشریف لے چلئے۔

چنانچہ میں جن کی ہمرہی میں حمام کے اندر داخل ہوا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حمام اندر سے بھی ویسا ہی تھا، جیسے باہر سے تھا، یعنی گرد آلود۔ ایک کمرے سے ہنسی اور چیخوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں۔ جن نے دروازہ کھولا تو اندر وہی منظر تھا کہ جس کی کچھ صراحت جن کر چکا تھا۔ وہ جن کہ جس کے لئے وہ جنی ایک انسان کا خون بہانا چاہتی تھی، تین عورتوں کے ساتھ (بے) داد عیش دے رہا تھا اور ہمیں دیکھ کے اُس نے فقط تکلفاً اتنا کہا۔ یار دروازہ تو کھٹکھٹا دیتے۔ تینوں عورتوں نے یہ بھی نہ کہا۔ تس پہ چراغ کے جن نے اُسے جنی کی خواہش سے آگاہ کیا۔ بد (خر؟)مست جن بولا۔ اچھا! وہ؟ ہاں ہاں خوب جانتا ہوں چنڈالنی کو اور اُسی کی وجہ سے یار یہاں عیش کر رہے ہیں۔ یہ کہا اور ہنسا اور بولا۔ اُس کے خصم نے مجھے یہاں خود بھجوایا ہے اور اُس چنڈالنی کے سامنے میری رہائی کی شرط کا خفیہ شوشہ چھوڑا ہے کہ نہ کبھی آدم زادہ ملے گا اور نہ اُس کا خون بہے گا اور نہ میں یہاں سے نکلوں گا۔ حالانکہ میں ہر روز یہاں سے حکیمی دوا لینے ایک شہر کو جاتا ہوں۔ تس پہ ہمارا جن حسرت سے بولا۔ خوب صاحب خوب۔ بالا بالا حکیمی دواؤں کے مزے لے رہے ہو۔ اپنے یار تمہیں دکھائی نہیں دئیے۔ بھلا ہمیں بھی تو کسی حکیم کا نام پتہ بتلائیے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ در کار ہائے سیاہ معشوق کے سامنے سیاہ رُو ہوا جاتا ہوں۔ تس پہ وہ ہنسا اور ایک ملک کا نام لے کے بولا۔ نام پتے کی کیا ضرورت ہے۔ اُس ملک میں داخل ہوتے ہی تمہیں ہر دیوار، درخت، مکان اور عمارت پہ اس نوع کے امراض اور ان کے شافی علاج کی تحریریں دکھائی دیں گی۔ کسی کے پاس بھی چلے جانا۔ سوچتا ہوں کہ اتنے حکما اس مرض کا علاج کرنے کو وہاں کیوں جمع ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں وہاں کی ساری مردانہ آبادی اس عارضے کی شکار ہے۔ جن نے یہ الفاظ بہت صراحت سے ، واضح اور ٹھیٹ جنسی قسم کی گفتگو میں ادا کئے تھے، جنہیں میں بر بنائے تہذیب کسی اور طرح ادا کر رہا ہوں۔ چنانچہ ہم نے جن کو اُس کے (خوش مست) حال پہ چھوڑا اور حمام سے باہر آئے۔ اب چونکہ واپسی کا سفر درپیش تھا اس واسطے اپنے گھوڑوں پہ زین کسی ، چراغ کے جن کو تین ماہ کی رخصت عطا کی اور واپسی کی راہ لی۔

ہم جانتے تھے کہ وہ جنگل رستے میں پڑے گا اور وہ حرامزادی ہماری منتظر بیٹھی ہو گی۔ وہی ہوا۔ ابھی ہم نے آدھا رستہ بھی طے نہ کیا ہو گا کہ وہ ظاہر ہوئی اور ہم دونوں کو دیکھا تو دانت نکوس کے بولی۔ میں جانتی تھی کہ تم مجھ سے چھل کرو گے۔ جب میرا یار مجھ تک نہ پہنچا تو میں اُسی وقت سمجھ گئی تھی کہ تم نے قربانی نہیں دی چنانچہ اب مرنے کو تیار ہو جاؤ۔ اس کے بعد چاہتی تھی کہ کچھ پڑھ کے پھونکے لیکن وزیر زادہ اُس سے یوں مخاطب ہوا۔ تُو جو سمجھ رہی ہے، وہ بالکل غلط ہے۔ یاد رکھ جو عورت اپنے خصم پہ یار پالے پھرتی ہے وہ کبھی کامران نہیں ہوتی۔ اصل بات یوں ہے کہ تیرا یار تین تین معشوق بغل میں دابے پھرتا ہے اور اُسے تیرا نام بھی یاد نہیں۔ پھر سارا ماجرا کہہ کے یوں گویا ہوا۔ اگر وہ پتھر واقعی انسانی خون مانگتا تھا تو ہم خون دئیے بغیر اُس حمام میں کیسے داخل ہو گئے۔ تیرا خصم تیرے یار سے مل گیا ہے اور اُن دونوں نے تجھے نکو بنا کے ذلیل کیا ہے۔ تیرے پاس تو جادو کی طاقت ہے۔ اگر ہمیں جھوٹا سمجھتی ہے تو خود جا کے دیکھ لے کہ وہ اس وقت بھی خوش مستیوں میں مشغول ہے اور اگر پھر بھی نہیں مانتی تو بلا لے اپنے باوا کو۔ ہم نے بھی نتھنیاں اور چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ مگر جیسا کے خصم پہ دھِگڑا پالنے والی عورتوں کا دستور ہے کہ وہ یار کے سِوا کسی پہ یقین نہیں کرتیں۔ اُس نے بھی ہماری بات نہ مانی اور لگی اوندھے سیدھے اشارے کرنے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ چاروں طر سے پانی کی اُونچی اُونچی لہریں اُٹھیں اور آن کی آن میں اتنا جل تھل ہوا کہ ہم دونوں گھوڑوں سمیت اُس گرداب میں غرق ہونے لگے کہ جو اُس چنڈالنی نے پیدا کیا تھا۔ جن اور توتا شہزادہ ہو ا میں تھے اس لئے محفوظ رہے اور ہمیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کئے۔ اس مصیبت سے ہمیں چراغ والا جن نجات دلا سکتا تھا مگر وہ مردود ابھی ابھی چھٹی لے کے گیا تھا اور تین مہینے سے پہلے اُس کی واپسی کی کوئی صورت بھی نہ تھی۔ قسمت تھی کہ اُس عالم میں مجھے ملکہ جل کی دی ہوئی انگوٹھی یاد آئی۔ اُس نے کہا تھا کہ کیسا ہی پانی ہو، اس انگوٹھی کو اُس میں ڈبو دینا، وہ تمہاری راہ سے ہٹ جاوے گا۔ میں نے انگوٹھی اپنی پگڑی کے بلوں میں رکھی تھی چنانچہ انگوٹھی نکالی اور پانی میں ڈبو دی۔ اُسی وقت پانی غائب ہو گیا اور ہم نے خود کو چٹیل میدان میں کھڑے پایا۔ اُسی وقت دو گانہ شکر کا ادا کیا۔ وہ حرافہ کہ ایک طرف کھڑی تماشہ دیکھتی تھی، غرا کے بولی۔ تم سمجھتے ہو کہ میرا جادو بے اثر ہو گیا ہے۔ یہ لو۔ یہ کہا اور اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں اُٹھا کے کچھ پڑھنے لگی۔ ایک ایسا طوفان اُسی وقت چلا کہ ہمیں اُس میں اُڑ جانے کا احتمال قوی لگنے لگا۔ قریب تھا کہ طوفان ہمیں اپنے ساتھ سمت نامعلوم کو لے جاتا کہ اُسی وقت بزرگ سفید پوش اپنے گھوڑے پہ سمت غیب سے آیا اور اپنی چھڑی ہوا میں چلانے لگا۔ جوں جوں اُس کی چھڑی ہوا کو کاٹتی تھی، ووں ووں طوفان کی شدت میں کمی ہوتی جاتی تھی۔ وہ چنڈالنی ڈری اور جب بزرگ سفید پوش کو دیکھا تو چیختی چلاتی وہاں سے بھاگی۔ میں نے اُس وقت بزرگ سفید پوش کو اپنے قریب پایا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بزرگ سفید پوش نے بتلایا کہ وہ دو دن سے بھوکا ہے اور یہ بھی کہ اُسے ، اُس کی زوجہ نے ، کہ جس کے ساتھ اُس نے پسند کی شادی کی تھی، اپنے بھائیوں کی مدد و اعانت سے گھر سے نکال دیا ہے۔ ہم نے جن کو حکم دیا کہ وہ بزرگ سفید پوش کے اکل و شراب کا بندوبست کرے۔ جب جن جانے لگا تو بزرگ سفید پوش نے شرما کے نہاری لانے کی اور بغیر شرمائے ولایتی شراب کی دو بوتلیں لانے کی بھی فرمائش کی، حالانکہ نہاری کھا کے جو نیند آتی ہے وہ شراب پینے سے بھی نہیں آتی۔ میں نے سوچا کہ جب وطن عزیز کو لوٹوں گا اور ابا جی کی وفات (انشا اللہ) کے بعد تخت نشین ہوں گا تو نہاری پر بھی وہی حد جاری کرواؤں گا جو وطن عزیز میں غریب لوگوں کے پینے پلانے پہ ہے کہ اپنی اثر پذیری میں یہ کھاجا شراب سے کسی طور کم نہیں۔

بزرگ سفید پوش کی داستان سنگین تھی۔ اُس کے سالوں نے اُس کی کمزوری یعنی اُس کی زوجہ کی آڑ لے کر اُس سے کئی (ناجائز)مطالبات منوائے تھے جن میں اُس کے گھر قیام کی اجازت لینا بھی شامل تھی۔ یہی غلطی سب سے عظیم تھی کہ جس کو کرنے کے بعد بزرگ سفید پوش اب چُوتڑ پیٹتا تھا مگر اب پچھتائے کیا ہوت والا معاملہ تھا۔ اُس کے سالوں نے جب یہ دیکھا کہ بہنوئی مفرطِ جماع ہے تو لگے اور اکڑنے۔ محلے میں کوتوال شہر کی بھین بھی رہتی تھی، جس کی دو بیٹیاں ایسی بے کہی تھیں کہ دودھ آگے کو نکال کے چلتی تھیں۔ بزرگ سفید پوش کا چھوٹا سالا، اُن میں جو بڑی تھی اُس پہ عاشق ہو گیا۔ وہ بھی ایسی کُٹنی تھی کہ دن میں ایک یار بلاتی تھی تو رات میں دوسرے سے راز و نیاز کرتی تھی۔ سالے کے کان میں بھِنک پڑی کہ یہ چنڈالنی میرے ساتھ چھل و فریب کا معاملہ کرتی ہے، چنانچہ جی میں ٹھانی کہ چنڈالنی کی ناک کاٹ لوں کہ آئندہ کے واسطے ایسیوں کے کان ہو جاویں۔ چنانچہ جب مقررہ رات کو ملاقات کو گیا اور وہ اُس سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگی تو اس نے لباس میں چھپی قرولی نکالی اور چاہتا تھا کہ ناک کاٹے مگر وہ حرافہ سمجھدار نکلی اور لگی شور مچانے کہ لوگو، دوڑیو، بچائیو، یہ موا میری (بچی کھچی)عزت کے در پے ہے۔ چنانچہ سالا رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ دو دن تو اس حال میں بندی خانے میں پڑا رہا کہ کسی نے جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا کہ میاں تمہارے منہ میں کَے دانت ہیں ؟تیسرے روز جب گھر والوں کو پتہ چلا تو بز رگ سفید پوش کی زوجہ اُسے مجبور کرنے لگی کہ میرے بھائی کو کسی طرح چھڑواؤ کہ تمہاری تو جنوں بھوتوں تک سے دوستی ہے۔ بزرگ سفید پوش نے جواب دیا کہ اے میری نصف بہتر کہ اب بہتر کہنے میں تکلف ہے کہ شادی کے دو چار سال بعد ہر مردِ شریف کے ساتھ ہونا امرِ لازم ہے، یہ سچ ہے کہ میرے کنے ایسے رسوخ ہیں مگر یہ بھی تو دیکھ کہ تیرا بھائی کس جرم میں زندان گیا ہے۔ میں اس چوتیا پنتھی میں ہرگز نہیں پڑنے کا۔ اُس وقت تو وہ چپکی ہو رہی مگر جب رات ہوئی اور بزرگ سفید پوش نے رجوع کرنا چاہا تو وہ تڑخ کے بولی۔ کان کھول کے سن لو جی۔ یہ لپا چھپی اب میں نہیں کرنے کی۔ غضب خدا کا میرا بھائی دروغہ زندان کے آدمیوں کے دن رات جوتے کھائے اور تمہیں عیش و عشرت کی پڑی ہے۔ پہلے میرے بھائی کی ضمانت کرواؤ پھر کچھ اور سوچنا۔ یہ بیان بزرگ سفید پوش کی غیرت و حمیت پہ تازیانہ تھا، چنانچہ اُسی وقت خود کو بچھونے سے جدا کیا اور زندان پہنچا تو پتہ چلا کہ اس معاملے کی مدعیہ کوتوال شہر کی بھانجی ہے اور کوتوال، بزرگ سفید پوش کے سالے کو کیفر (بد) کردار تک پہنچانے میں ذاتی دلچسپی لے رہا ہے اور یہ عقدہ اتنی آسانی سے کھلنے کا نہیں کہ جتنا وہ گھر سے سوچ کے آیا ہے۔ سپاہیوں کا منہ بھر کے بڑی مشکل سے سالے تک پہنچا تو اُسے پیٹ کے بل لیٹا پایا کہ اس دوران اُس کے مقامِ زیرِ پشت و متعلق پہ دن رات بذریعہ درہ چرمی مشق ستم کی جاتی رہی تھی۔ سالے نے بہنوئی کو دیکھا تو جیسا کہ شہدوں کا دستورہے کہ مصیبت کے وقت رونا دھونا اور معافی تلافی کرتے ہیں ، پیروں میں گر پڑ کے معافی مانگی اور مرے ہوئے والدین کی روحوں کو اپنی قسموں اور توبہ تلا میں شامل کر کے وعدہ کیا کہ وہ اب کبھی ایسی کسی رنڈی کے ساتھ ملوث نہ ہو گا کہ جس میں معشوقہ کوئی کا رشتہ دار خویشِ خسرواں ہو۔ چنانچہ سالے کو تسلی دی اور باہر آ کے سپاہیوں سے مشورہ کیا کہ صاحبو تم لوگ گھر کے بھیدی ہو اور مشورہ دینے میں طاق بھی۔ میرے سالے کی مصیبت کا کوئی علاج ڈھونڈو ورنہ جو سلوک تم اُس کے ساتھ روا رکھتے ہو، اُس کے نتیجے میں وہ کسی ناگفتنی مقام پہ بلبل کی سی صورت اختیار کئے جاتا ہے۔ سپاہی کہ کوتوال کے سلوک سے عاجز تھے بولے۔ اے بزرگ سفید پوش ہم خود اُس چنڈالنی کے عاشقوں سے نمٹتے نمٹتے گلے گلے آ چکے ہیں۔ اُس کا پیشہ ہی یہ ٹھہرا ہے کہ ہر روز نئے نئے یار کرتی اور پھر اُن پہ کوئی الزام لگوا کے ماموں کے سپرد کر دیتی ہے کہ وہ اُن کو ہم سے پٹوائے اور ہمارے گناہوں میں اضافہ ہو۔ تس پہ بزرگ سفید پوش نے رشوت وغیرہ کے سلسلے میں ارادہ جنبانی کیا تو دروغہ زندان، کہ باریش تھا اور نماز کا سیاہ گٹا اس اُمید پہ اپنی پیشانی پہ رکھتا تھا، کہ قبر میں روشنی اور یوم حشر پہچان کے کام آوے گا ، کانوں کو ہاتھ لگا کے بولا۔ یاروں نے آج تک رشوت کے پیسے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ضرورت مند جیب میں ڈال دیتے ہیں اور یونہی گھر جاتا ہوں جہاں زوجہ جیب سے نکال لیتی ہے تو کم از کم اس الزام سے خود کو بری الذمہ سمجھتا ہوں کہ مرتشی ہوں جبکہ میں اس پیسے کو چھوتا تک نہیں۔ یہ منطق بزرگ سفیدپوش کی سمجھ میں نہ آئی۔ بہر حال اُس نے دو اشرفیاں نذر کرنے کی کوشش کی تو صاحب، تس پہ وہ مرد باریش تو ہتھے سے اُکھڑ گیا اور اسے اپنے عہدے اور ذات، ہر دو کی سُبکی و توہین جانا اور کچھ ایسے تاثرات کا اظہار کرنے لگا جیسے بزرگ سفید پوش کو سالے کا زندان میں پڑوسی بنانا چاہتا ہو اور اُسے بھی اُسی سلوک کا مستحق گردانتا ہو کہ جس سے بزرگ سفید پوش کا سالا گزر رہا تھا۔ چنانچہ بزرگ سفید پوش ڈرا اور بتدریج دروغہ زنداں کے واسطے رشوت کی اُس رقم میں اضافہ کرتا رہا جسے موخر الذکر رشوت کے بجائے کبھی تحفہ، کبھی نذر اور کبھی کچھ اور کہتا تھا اور ساتھ ہی بزرگ سفیدپوش کو ہدایت بھی کرتا جاتا تھا کہ وہ چونکہ اسے رشوت سمجھ کر گناہ کا مرتکب نہیں ہو نا چاہتا لہٰذا بزرگ سفید پوش بھی اپنی نیت پاک رکھے اور اسے رشوت گردان کے گناہ کا وبال اپنے گلے میں نہ ڈالے۔ الغرض اس عجیب و غریب منطق کو فرض کر کے جب دونوں احساس گناہ کے بوجھ سے ہلکے ہو چکے تو دروغہ زندان نے بزرگ سفید پوش کے سالے کی رہائی کا حکم دیا اور ساتھ ہی اُس سے کچھ ایسی زبان درازی کی کہ جس سے اُس(سالے) کی ماں کا فاحشہ ہونا تو ثابت ہوا ہی ، مذکورہ حیوانات وغیرہ کے ساتھ بھی ملوث پائی گئی۔

بزرگ سفید پوش جب سالے کو لے کر گھر پہنچا تو اُس کی زوجہ نے اُس (اپنے بھائی) کی بلائیں لیں اور اُس پر دو کالے بکروں کا صدقہ دیا اور بجائے سرزنش کرنے کے اُسے یوں بڑھاوا دیا کہ جب تک اُس کا بہنوئی سلامت ہے ، اُسے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تس پہ بزرگ سفید پوش نے اپنی زوجہ سے صاف کہہ دیا کہ وہ بار بار ایسے حرام الدہر قسم کے آدمی کی ضمانت بذریعہ رشوت نہیں کروانے کا۔ تس پہ بات بڑھی اور نوبت ایں جا رسید کہ بزرگ سفید پوش کی زوجہ نے کھڑے کھڑے اُسے گھر سے نکال دیا۔

بزرگ سفید پوش کی حکایت سننے کے بعد ہم سب نے عبرت پکڑی اور پہلی دفعہ جورو کا بھائی ایک طرف والی مثال عملاً ہماری سمجھ میں آئی۔ چونکہ ماہ نور کے سوال کا جواب مل چکا تھا اس لئے میں اُس کے پاس جانا چاہتا تھا۔ بزرگ سفید پوش نے اس جنگل سے نکلنے کا عندیہ و مشورہ دیا کہ کچھ ہی دیر میں یہاں ہوائی مخلوق کا غلبہ ہوا چاہتا تھا اور ہم سب سے آنکھیں بند کرنے کو کہا۔ چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا اور جب آنکھیں کھولیں تو خود کو ایک سر سبز میدان میں پایا جہاں نیلا پانی لہریں لے رہا تھا۔ ابھی ہم اپنی حیرت اور گھوڑے اپنی کھُجلی رفع کر ہی رہے تھے کہ بزرگ سفید پوش ہری دوب پہ لیٹ گیا اور ہم سے گفتگو شروع کرنے سے پیشتر اپنے گھوڑے سے یوں مخاطب ہوا۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ دونوں گھوڑے غائب ہو جانے اور ہوا میں اُڑنے کا منتر جاننے کو مرے جا رہے ہیں ، تجھے ان سے یاری کی اجازت ہے لیکن اگر تُو نے انہیں ان دونوں میں سے کسی کو ، کوئی بھی منتر بتلایا تو میں تیرے ساتھ وہ سلوک کروں گا کہ تیرے نابدان مدتوں کو بے کار ہو جاویں گے۔ گھوڑے کو یہ سرزنش نما نصیحت کر کے بولا۔ صاحبو یہ دُرست ہے کہ میں ایک شادی شدہ شخص ہوں اور میری بیوی (با دلِ نخواستہ)مجھے مُفرطِ جماع ہونے کا طعنہ بھی دیتی ہے جو بالکل دُرست ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ اس وقت میں جس آزادی اور سکون سے گزر رہا ہوں وہ میرا دل ہی جانتا ہے مگر اُس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ جسے کہتے کٹتا ہوں ، تو ایساکیا کیجئے کہ نکاح ثانی کے واسطے کوئی غیر مدخولہ و ناکتخدا دوشیزہ مہیا ہو جاوے۔ میں آپ لوگوں کی صلاح چاہتا ہوں۔ تس پہ گھوڑوں نے قہقہہ لگایا جس میں بزرگ سفید پوش کا گھوڑا بھی شامل تھا۔ ہم سب بھی ہنسے تو انگوٹھی کا جن بولا۔ اے بزرگ سفید پوش۔ لگتا ہے کہ تُو اپنی ادھیڑ عمر سے گزر رہا ہے اور میں اسے انسانوں کی زندگی کا سب سے نازک دور سمجھتا ہوں ، کس واسطے کہ اس عمر میں انسانوں کو اپنی عورت ہلا ہل اور پرائی قند لگنے لگتی ہے۔ تیرا قصہ بھی ایسا ہی ہے۔ خصم اور عورت میں چھوٹی موٹی رنجشیں ہونی ضروری ہیں کہ صلح ہونے پہ محبت بڑھ جاتی ہے مگردوسری شادی کا سوچنے والے ہمیشہ سرپہ ہاتھ رکھ کے روتے ہیں۔ جہاں تک تیرے سالوں کا تعلق ہے تو تجھے یہ سب رشتہ کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ میں پہلی نظر میں ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ اول درجے کے شہدے، مفتری، متفنی ، اُچھال چھکے، رِدھالے کے لٹھ اور دھینگڑے ہیں مگراُس وقت تجھ پہ وہ نشہ سوار تھا کہ جو خمارِ گندم کے ست سے نکلا ہے، چنانچہ تُو غچا کھا گیا۔ اور اب تُو غلطی پہ غلطی کر رہا ہے۔ تُو نے سنا ہو گا کہ نانی نے خصم کیا، بُرا کیا، کر کے چھوڑ دیا اور بُرا کیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو بزرگ سفید پوش جن کی اس ہرزہ سرائی میں ڈوبی ہوئی گفتگو کا وہ جواب دیتا کہ جن سارا جن پنا بھول جاتا مگر چونکہ بات سچی تھی، اس لئے وہ محض آہِ سرد بھرا کیا۔ میں نے اس کے بعد اجازت لی اور جن پہ سوار ہو کے اپنی معشوقہ کے دربار میں بار یاب ہوا اور اُسے سوال کا جواب دیا اور شافی پا کے اگلا سوال طلب کیا جو کچھ یوں تھا۔

 

شہزاد ی کا پانچواں سوال:اناروں کے باغ کی شہزادی کا قصہ کیا ہے؟

 

صاحبو جس وقت میں یہ سوال لے کے اُس بیابان میں اپنے دوستوں کے پاس جن کی کمر سے اُترا اور اُسے اکل و شراب لانے کے واسطے روانہ کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بزرگ سفید پوش کے تینوں سالے اور زوجہ وہاں پہلے ہی سے ڈٹی ہوئی ہے۔ چونکہ بزرگ سفید پوش کے نکاح کے سلسلے میں ہم سبھی کوششیں کر چکے تھے اور اُس کے سالے ہمارے ساتھ بادہ نوشی کر کے اپنی اصلیت بھی ہم پہ کھول چکے تھے، اس واسطے تعارف کا مرحلہ نہیں آیا۔ وہ سبھی بزرگ سفید پوش کو ساتھ لے جانے کو آئے تھے اور سالے تھے کہ بار بار کانوں اور ناک کو ہاتھ لگا کے توبہ کا بصری تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر اُن کے چہرے اور آنکھیں صاف کہے دیتی تھیں کہ وہ جو کر رہے تھے، در حقیقت اُن کا اُس پہ عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بزرگ سفید پوش کہ ہر معاملے میں زیرک و دانا تھا، اپنی عورت کے سامنے بالکل چغد و گاؤدی بنا اُس سے راز و نیاز کئے جاتا تھا۔ جن فواکہات لئے حاضر ہوا جس پر بزرگ سفید پوش کے سالے مر بھکوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور ہمارے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ مجبوراً ہاتھ کھینچ لیا۔

بزرگ سفید پوش نے بعد ازاں اپنی زوجہ کو اپنے گھوڑے پہ بٹھلایا اور سالوں کو بذریعہ جن بھجوانے کا کہہ کے اور ہمیں ایک( نیم فحش )اشارہ ، کہ نصف زوجہ کی جانب تھا، کر کے فی الفور غائب ہو گیا۔

ہم اُس کے تینوں سالوں کو اپنے سروں سے جلد از جلد ٹال دینا چاہتے تھے مگر اُس کے بڑے سالے نے ایک ایسی فاحشہ کا قصہ چھیڑ دیا کہ جو اُس (بڑے سالے) کے بقول اُس پہ جان چھڑکتی تھی۔ وہ اُن لُترے مردوں کی طرح اپنی فتوحات کی زیٹ اُڑا رہا تھا کہ جن کی تمنائیں اُن کے جھوٹ میں چیخ چیخ کے بول رہی ہوتی ہیں۔ جب اُن کے جانے کا کوئی ارادہ نہ پایا تو جن کو اشارہ کیا جس نے اُن کی گدیوں میں ہاتھ دے کے اُنہیں اپنی پیٹھ پہ سوار کیا اور ترنت اُڑ گیا۔ ہم نیم شکم تھے چنانچہ صبر کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ پاتے تھے لیکن انگوٹھی کا جن کہ عقل و دانش میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتا تھا، واپسی میں ہمارے واسطے کھانے پینے کو لے آیا۔ کھا پی کے ہم شہزادی ماہ نور کے سوال پہ غور کرنے لگے اور پہر رات گزر گئی اور کچھ سمجھ میں نہ آیا توسو گئے اور اگلی صبح بیدار ہوئے تو ، توتے شہزادے کو غائب پایا۔ توتے شہزادے کا معمول تھا کہ وہ ہر صبح ہمارے بیدار ہونے سے پیشتر ہراول کے طور پر اُڑ جایا کرتا تھا اور آگے کی سرزمین کی خبر ہمیں پہنچایا کرتا تھا۔

پہر دن گزر گیا اور توتے شہزادے کی واپسی نہ ہوئی تو میرے دل میں اندیشوں نے اور دماغ میں وسوسوں نے جگہ بنانی شروع کر دی کہ اِتنی دیر اُس نے کبھی نہ کی تھی۔ وزیر زادے کو بھی مشوش پایا۔ جن کو انگوٹھی سے نکالا اور مشورے کے طالب ہوئے۔ جن پہ گئی رات کی شراب کا خمار ابھی گہرا تھا چنانچہ اُسے اِملی کھانے کا مشورہ دیا اور بارے وہ کچھ سوچنے کے قابل ہوا تو آگے کی خبر لانے کو روانہ ہوا۔ ابھی ہم نے گھوڑوں پہ ساز بھی نہ ڈالے تھے کہ جن کی واپسی ہو گئی۔ اُس نے پہلے تو اُس تالاب سے پانی پیا کہ جس کے کنارے ہم پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے پھر یو ں گویا ہوا۔ صاحبو آپ کے پاس سے اُڑ کے میں جب میں فضا میں پہنچا تو سوچا کہ شہزادہ کہاں جا سکتا ہے۔ ناگہاں دل میں گمان آیا کہ کہیں اُس کی سوتیلی ماں نے کہ اصل رنڈی ہے، اُسے کسی جادوئی حیلے سے ضرر پہنچانے کی کوشش تو نہیں کی۔ میں بَھرا مار کے اُدھر ہی کو اُڑ گیا۔ اُس کے شہر میں پہنچا تو انسانوں سے زیادہ بت پائے۔ قدم قدم پہ انسانی بت لگے ہوئے تھے۔ میں جن ہوکے یہ اسرار نہ سمجھ پایا تو ایک جگہ رک کے تماشہ دیکھنے لگا۔ پھر میں انسانی بھیس میں لوگوں میں شامل ہوا اور ایک مردِ جوان سے کہ زیرک بھی لگتا تھا پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ تس پہ وہ مرد زیرک بولا۔ تجھے پتہ نہیں ؟تُو گاؤنٹی ہے یا مسافر؟یہاں تو مہینوں سے یہ اُفتاد ہم پہ ٹوٹی ہوئی ہے۔ تس پہ میں نے کہا۔ میں نے تجھے مرد زیرک سمجھ کے تجھ سے یہ سوال کرا ہے کہ بزرگوں سے سنا ہے کہ مرد دانش مند اُسی کو جانئے کہ جتنی بات پوچھی جاوے ، اُتنا ہی جواب دیوے۔ تس پہ وہ شرمندہ ہوا اور بولا۔ اے اجنبی۔ جب سے ہمارا شہزادہ گُما ہے ، ہمارا بادشاہ بیمار ہے اور ہمارے ملک کا کاروبار ملکہ چلاتی ہے۔ مگر یہ اُس کے بس کی بات نہیں چنانچہ ملک کا نظام بد حال اور عوام مفلوک الحال ہو چکے ہیں۔ اب کچھ دنوں سے ملکہ نے اپنے بھائی کو اپنی اعانت کے واسطے بلوا لیا ہے۔ وہ یک چشم بڑا پہنچا ہوا جادو گر ہے اور اگر کسی جگہ نا ہوتگی کے سبب لوگوں کو بغاوت پہ آمادہ پاتا ہے، تو ایسی پھونک مارتا ہے کہ وہ وہیں پتھر کے ہو جاتے ہیں ، چنانچہ یہ جو تُو جا بجا پتھر کے بت دیکھتا ہے۔ یہ سب ایک دن میری تیری طرح کے جیتے جاگتے ، ہنستے بولتے انسان تھے۔ اس قصے میں جو عبرت تھی، میں اُس سے کانپ گیا۔ پھر پوچھا اے مرد زیرک۔ میں دیکھتا ہوں کہ خلقت شہر ایک طرف کو رواں ہے، یہ کیا قصہ ہے۔ تس پہ وہ بولا۔ وہ مردود کہ ملکہ کا بھائی ہے اور ملک کے معاملات چلاتا ہے، ہر مہینے کی آخری جمعرات دربار کرتا ہے اور بھوکی رعایا میں سے تنومند نوجوان اپنے محل کی تعمیر کے واسطے چُنتا ہے۔ ہم سب آج اسی لئے محل کی طرف رواں ہیں کہ وہ یک چشم نابکار ہم میں سے بیگار کو نوجوان چُنے۔ یہ کہہ کہ وہ آگے بڑھ گیا۔ آقا زادے اُس وقت مجھے محسوس ہو ا کہ میرے شانے پہ کوئی بوجھ ہے۔ اُدھر نگاہ کی تو اپنے شہزادے توتے کو اپنے کندھے پہ بیٹھا پایا۔ چاہتا تھا کہ کہوں کہ صاحب تمہاری تلاش میں کنوئیں جھنکوائے جا رہے ہیں اور تم اِدھر مزے سے بیٹھے ہو مگر توتے نے میرے کان میں کہا کہ چپکے رہو اور میرے ساتھ کسی ویران جگہ پہ چلو۔ چنانچہ میں اُس کے ساتھ ایک گلی میں سٹک گیا تب شہزادے توتے نے کہا۔ اے انگوٹھی کے جن۔ جب رات سب سو گئے اور میں بھی سونے کی کوشش کر رہا تھا تو اچانک اپنے سامنے ایک سبز پوش بزرگ کو پایا کہ خواجہ خضر اور     میرے پرانے مہربان ہیں۔ اُنہوں نے مجھے مخاطب کر کے میرے ملک کے سبھی حالات بتلائے اور یہ بھی کہا کہ آج کے دن میں ایک ایسی گھڑی آیا چاہتی ہے کہ جب تجھ سے اُس چنڈالنی کا کرایا ہوا طلسم باطل ہو جاوے گا اور تُو انسانی جُون میں لوٹ کے مزے سے بادشاہی کرے گا۔ چنانچہ وہ یہ مژدہ دے کے غائب ہو گئے۔ وقت کم تھا اس لئے میں تم میں سے کسی کو بتلائے بغیر اِدھر کو پرواز کر آیا۔ میں جانتا تھا کہ میری جدائی تم سب کوکس قدر شاق گزرتی ہو گی مگر اے بردار اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ پاتا تھا۔ تس پہ میں نے شہزادے توتے سے پوچھا کہ اب تیرا کیا ارادہ ہے اور میں کیسے تیرے کام آ سکتا ہوں۔ وہ بولا۔ یہ سب مجھے خواجہ خضر نہیں بتلایا۔ بس اس جگہ پہنچنے کا حکم صادر کر کے غائب ہو گئے۔ اب میں تقدیر پہ شاکر ہو کے انتظار کر رہا ہوں کہ دیکھئے پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ تُو اس مجمعے میں اتفاقاً کم اور اپنی حماقت کی وجہ سے زیادہ نظر آ گیا کہ انسانی بھیس میں ہونے کے باوجود تیری کھوپڑی پہ تیرے سینگ ابھی تک استادہ ہیں اور تُو صاف چغد دکھائی دیتا ہے۔ تس پہ میں شرمندہ ہوا اور سینگ فی الفور غائب کئے اور شہزادے کو اُس کے ملک کا احوال مکمل سنانا چاہا مگراُس نے اسے تضیع اوقات قرار دیا اور مجھے بتلایا کہ وہ اس قصے سے بخوبی آگاہ ہے۔ پھر صلاح ٹھہری کہ شاہی محل کی جانب چلئے اور وہاں جو تماشہ لگنے والا ہے اُس کا ملاحظہ خود کیجئے۔

اب اُدھر کی سنو۔ وہ ملعون اپنے جادو کے زور سے معلوم کر چکا تھا کہ اس سلطنت کا وارث و حقدار حیطہ ملک میں وارد ہو چکا ہے اور کس شکل میں ہے۔ چنانچہ اُس نے اپنے سارے موکلات حاضر کئے اور اُنہیں توتے شہزادے کی تلاش میں کنوئیں جھانکنے کو کہا۔ اِدھر میں اور شہزادہ توتا ان حالات سے بے خبر، عام مجمعے میں شامل ہوکے شاہی محل کی جانب بڑھے جاتے تھے کہ اچانک وہ آلہ جو جنوں کے بدن میں جادو معلوم کرنے کے واسطے لگا ہوتا ہے، پھڑکنے لگا۔ تس پہ میں ہشیار ہوا اور سمجھ گیا کہ کسی جادو گر کا کوئی موکل ہمارے قریب پہنچا ہی جاتا ہے، چنانچہ خود کو غائب کیا لیکن شہزادے توتے کو غائب نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ نابکار موکل بُو لیتا قریب آ گیا اور چاہتا تھا کہ شہزادے کی گردن پکڑ کے اُسے مسوس دے، تب میں نے ایک آتشیں گرز نکال کے اُس کے اُس مقام پہ مارا کہ جو کسی انسان کے ایسے مقام پہ لگ جاوے تو دنوں اوندھا پڑا رہوے۔ وہ موذی چلاتا ہوا بھاگا اور کہتا جاتا تھا کہ میں سمجھ گیا ہوں کہ تُو کون ہے۔ میں نے شہزادے توتے سے کہا کہ اب شتابی یہاں سے نکلنے کی کوئی ترکیب سوچو کہ انگوٹھی میں رہتے رہتے مجھے عرق النسا کا عارضہ لا حق ہو چکا ہے اور میں دو چار بلاؤں سے اکیلا نہیں لڑ سکتا۔ مگر وہاں ہجوم اس قدر تھا کہ بھاگنا کارِ دارد تھا، چنانچہ میں ایک اژدہا بنا اور لوگوں کے پیروں میں لوٹنے لگا۔ تس پہ ہجوم شِغال بن گیا اور کوئی اِدھر کو دوڑا اور کوئی اُدھر کو اور ہم نہایت ہی رسان سے مجمع سے دُور ہو گئے۔ بارے اطمینان سے ہوئے اور غور کیا تو جانا کہ چونکہ شہزادے کی آمد کی اطلاع اُس مردود کو مل چکی ہے اور اب وہ نیا وار کرنے کو آمادہ و تیار ہو گا۔ ابھی ہم اسی حیض بیض میں تھے کہ خواجہ خضر ظاہر ہوئے اور اس سے پہلے کہ وہ ہماری مشکل کا حل ہمیں بتلاتے میں نے ایک ایسا سوال اُن سے کرا کہ جو مدتوں سے میرے دل کی پھانس بنا ہوا تھا کہ اُنہیں خواجہ کیوں کہتے ہیں اور کیا وہ کشمیری ہیں اور کیا وہ بھی سبز چائے کے ساتھ کلچے کھاتے ہیں اور گونگلو گوشت کے سالن سے اُنہیں اُنس ہے اور رات کے ماحضر میں لوبیا چاول اُنہیں بھی مرغوب ہیں اور کیا وہ بھی برسوں سے کچھ کایاں و پُرکار لوگوں کے ہاتھوں نکو بن رہے ہیں اور اس ٹوپی کے نیچے وہ بھی فارغ البال ہیں۔ تس پہ وہ مسکرائے اور بولے۔ تُو انسانوں سے زیادہ فارغ جن ہے کہ ایسی بے سروپا باتیں سوچتا ہے۔ میں نے عرض کی کہ حضت، ابھی کچھ دنوں سے مصروف ہوا ہوں ورنہ انگوٹھی میں پڑا پڑا اپنے دماغ کو شیطان کے کارخانے میں ڈھال چکا تھا۔ اُنہوں نے مسکرا کر کچھ پڑھا اور توتے شہزادے پہ پھونکا تو وہ اپنی اصل صورت میں واپس آ گیا اور چاہتا تھا کہ اس خوشی میں خواجہ خضر سے گلے ملے مگر وہ طرح دے گئے تو شہزادہ میری جانب گھوما اور گلے لگ کے فوراً ہی خود کو مجھ سے جدا کیا اور میں اس کا سبب سمجھ گیا کہ مجھے نہائے تین مہینے گزر چکے ہیں۔ پھر خواجہ خضر یوں گویا ہوئے۔ شہزادے اب جبکہ تُو حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے جادو کے پھیر سے نکل چکا ہے تو اب تجھ پہ اُس خبیث اور اپنی سوتیلی ماں کا مقابلہ کرنا فرض ہو چکا ہے۔ جو میرا کام تھا میں نے پورا کیا۔ اتنا کہا اور غائب ہونے کا ارادہ جی میں باندھ ہی رہے تھے کہ شہزادہ توتا بولا۔ اے بھولوں کو رستہ دکھلانے والے کی حیثیت سے مشہور ہستی۔ میں نہتا ، اس ٹٹر ٹوں جن کے برتے پہ بھلا کیا کر لوں گا تو کچھ ایسا کیجئے کہ میں اُن دونوں کو قرار واقعی سزا دینے میں کامیاب ہو جاؤں۔ باوجود اس کے، کہ خواجہ خضر آدھے غائب ہو چکے تھے، کمال لطافت سے دوبارہ ظاہر ہوئے اور ایک تعویذ کہ چاندی کا لگتا تھا، شہزادے کے بازو پہ باندھا اور فرمایا۔ اب تجھ پہ دنیا کے کسی جادو کا اثر نہیں ہو گا۔ بس اس تعویذ کو وقت جماع و بادہ نوشی خود سے جدا رکھیو۔ سبب اس کا یہ بتلایا کہ اس تعویذ کے طابع موکل فقط شہدوں اور کنجروں کا مقابلہ کرنے کو چُنے گئے ہیں اور یک چشم جادوگر اور تیری سوتیلی ماں کا تعلق انہی ذاتوں سے ہے۔ اگر تُو مذکورہ دونوں افعال خوش کن کے دوران یہ تعویذ اپنے بازو سے باندھے رہے گا تو تجھے شراب کا گھونٹ تک نصیب نہ ہو گا اور تیری منکوحہ عمر بھر تیری صورت نہ دیکھے گی۔ میں ترنت اس جواب میں مضمر نصیحت کو سمجھ گیا اور خواجہ خضر مسکراتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ تس پہ میں نے شہزادے کو آنکھ ماری اور اپنے لُنگارے پن کا واضح ثبوت فراہم کیا۔

شہزادے نے تعویذ کو چوما اور میری معیت میں سوئے شاہی محل روانہ ہوا۔ چونکہ وہ ظاہر و غیر پوشیدہ تھا، چنانچہ چندمنحوس صورت موکلوں نے ہمیں گھیر لیا اور چاہتے تھے کہ ہم پر حملہ آور ہوں مگر تعویذ سے نکلنے والی شعاعیں اُن کے حق میں صاعقہ صفت ثابت ہوئیں اور وہ چیختے چلاتے اُدھر ہی کو بھاگے کہ جدھر سے آئے تھے۔ ہم شاہی محل کے دربار پہنچے تو دیکھا کہ وہ نابکار کہ یک چشم ہونے کی وجہ سے مزید نابکار لگ رہا تھا، شاہی تخت پہ براجمان ہے اور شہزادے کی سوتیلی ماں کہ صورت سے چنڈالنی نہ لگتی تھی، مگر تھی، اُسے جام پہ جام بنا کے دیتی تھی اور وہ بے حیا بلا تکلف حلق سے اُتارتا تھا۔ ہم مجمعے میں شامل ہو گئے تو وہ یوں گویا ہوا۔ شہر والو۔ صلاح ٹھہری ہے کہ آج تمہیں حقیقت حال سے آگاہ و مطلع کر دیا جائے کہ اُن کے بھی کان ہو جاویں کہ جو میرے خلاف بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں اور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں سامری جادو گر کا شاگرد رشید ہوں اور شامون میرا نام ہے۔ تمہارے شہزادے کو غائب کر چکا ہوں اور بادشاہ کو ایسی بیماری میں مبتلا کہ اُسے کسی سے کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ یہ ملکہ میری بھین ہے اور ہم دونوں نے اس مملکت پہ قبضہ کرنے کو جو چال چلی تھی، وہ چِت پڑی ہے اور آج سے میں اس تخت اور تاج کا مالک ہوں اور اپنی بادشاہی کا اعلان کرتا ہوں۔ تم میں سے جن جن نے میرے اس ارادے کی تنسیخ کا خیال بھی اپنے جی میں باندھا، وہ پتھر کا ہو جاوے گا، جیسا کہ تم شہر بھر میں اپنی چشم بینا سے ہر روز ملاحظہ کرتے ہو۔ میں سامری کا چیلہ ہوں اور سامری شیطان کا چیلہ تھا چنانچہ آج سے ملک میں شراب، زنا، جوئے، رشوت، غیبت، جھوٹ، چھل، مکر، فریب اور اسی قبیل کے دوسرے کاموں کی اجازت تمہیں بخوشی مرحمت کرتا ہوں اور ان سب کاموں کے واسطے شاہی سرپرستی کا اعلان بھی کرتا ہوں۔ قاضی کا محکمہ ختم کرتا ہوں اور زندان خانوں کو کلال خانوں میں تبدیل کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ اغوا کی عام اجازت ہے اور زنا بالجبر، کرنے پہ شاہی خزانے سے اس جرات رندانہ کے واسطے انعام مقرر کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہمیں کاروبار حکومت چلانے کو نئے خون کی ضرورت ہے اس لئے پچاس برس سے اُوپر کے تمام بڈھوں کا قتل عام کچھ تو شاہی فوج کے سپرد کیا جاتا ہے اور کچھ عوام کے۔ اُنہیں اپنے گھوڑوں کی سموں تلے کچل کے اُن کے سر شاہی دربار میں پیش کرنے والوں کو خصوصی انعامات ملیں گے۔ نکاح کے دستور پہ خط تنسیخ پھیرتا ہوں اور اس کو اتنا مشکل بناتا ہوں کہ یہ امر محال ہو جائے۔ بصورتِ دِگر کے واسطے البتہ حکومت ہر قسم کی سہولیات مہیا کرے گی اور اس سلسلے میں شہر کی ہر سرائے کے نام حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے کہ وہ مشکوک زن و مرد کو اپنے ہاں قیام کی صورت میں حکومت کے خرچ پہ مئے ناب مہیا کرنے کے پابند ہوں گے تاکہ اس فعل کو ویسے سر انجام دیا جا سکے کہ جیسا انجام دینے کا حق ہے۔

غرض اُس دیوث نے ہر وہ حکم صادر کیا کہ جس سے شیطان خوش ہو سکتا تھا اور بعد ازاں جام پہ جام لنڈھانے لگا۔ صاحبو ایسے احکام سننے کے باوجود اُس کے سامنے کھڑا مجمع ٹُک ٹُک دیدم ، دم نہ کشیدم کی عملی تفسیر و تصویر بنا کھڑا تھا جو میرے لئے باعث حیرت بھی تھا اور باعث عبرت بھی۔ تب میں نے غور کیا تو پایا کہ شہزادے توتے کی قوم بالکل ہی مردہ نہ تھی، وہ بے سمت تھی اور اُسے کسی رہبر کامل کی تلاش تھی۔ اس کا ثبوت اُس وقت ملا کہ جب یہ احکامات سننے کے بعد شہزادے توتے کے شاہی خون نے جو ش مارا اور وہ آگے بڑھ کے بولا۔ ابے او نابکار، او نطفہ نا تحقیق، او خبث باطن کے پروردہ، او ازار بندی ناطے سے شہر بھر کے رشتہ دار اور او خصم پہ دھِگڑے رکھنے والی کی اولاد، یہ کیا بکتا ہے۔ تُو نہیں جانتا اس سلطنت کو قائم کرنے والے میرے آبا شراب کو موت اور زنا کو موت سمجھتے تھے۔ شاہی محلات کی خواتین باغ میں بھی نقاب لگائے جاتی تھیں کہ چرند پرند بھی اُن کے تئیں نا محرم تھے اور گدھوں گھوڑوں اور اُس قبیل کے دوسرے حیوانات کو ، کہ کوشش کے باوجود بھی اپنی ستر پوشی، عالمِ نعوظ و غیر میں نہیں کر سکتے ، جامہ زیریں پہنانے کا دستور تھا اور کیا تجھے علم نہیں کہ ا یک گھوڑے کو میرے دادا مرحوم و مغفور نے محض اس واسطے فی الفور آختہ کروا دیا تھا کہ اُس نے اُن کی ایک کنیز کو دیکھ کے دوسرے گھوڑے کو آنکھ مار ی تھی اور بعد میں پچھتائے تھے کہ وہ مال زادی اُسی گھوڑے پہ مامور سائیس کے ساتھ نکل لی تھی!

بہر حال جو تُو کہتا ہے، میں ہرگز نہ ہونے دوں گا۔ میں وہی شہزادہ ہوں کہ جسے تُو بار بار اپنے جادو کی مشق ستم کا نشانہ بناتا ہے مگر اب تیرا کوئی وار کاری نہیں ہونے کا۔ یہ کہا اور رعایا کی طرف پلٹا۔ رعایا نے جو شہزادے کو اپنے بیچ پایا تو لگی نعرے لگانے۔ تس پہ شہزادہ بگڑ گیا اور بولا۔ نہ صاحب یہ نعرے بازی اب نہیں چلنے کی۔ کچھ ایسا کیجئے کہ جس سے عمل کی خوشبو پھوٹتی ہو۔ زندہ باد مردہ باد کا وقت ہوا ہو چکا۔ میں اس خبیث سے اس مملکت کو چھڑانے کے واسطے آیا ہوں۔ میرا ساتھ کون کون دے گا۔ تس پہ ایک بوڑھا کہ جس کے موئے زہار تک (اندازہ ً)سفید ہو چکے تھے اور آواز اتنی ٹوٹی ہوئی تھی کہ اقساط میں کانوں تک پہنچتی تھی یوں گویا ہوا۔ اے شہزادے میں نے تجھے پہچان لیا ہے مگر تُو اس خبیث سے واقف نہیں ہے۔ جو جو اس سے اختلاف کی جرات کرے گا، پتھر کے بت میں تبدیل ہو جاوے گا۔ تس پہ شہزادہ مسکرایا اور خواجہ خضر کا تعویذ سامنے کر کے بولا۔ اب ایسا نہیں ہو گا کہ میں اس نابکار کے جادو کا شافی توڑ اپنے ہمراہ لایا ہوں۔ یہ کہا اور تعویذ اُس ملعون کے سامنے کیا۔ صاحبو سچ کہتا ہوں کہ تعویذ سے ایسی غضبناک شعاعیں پھوٹی ہیں کہ میں ، جسے ان قبیل کے کاموں میں پڑے عمر گزر گئی ہے، ایک لحظے کو چکرا گیا۔ اُس خبیث نے کچھ پڑھنے کی کوشش کی مگراُسی لمحے اُس کے منہ کو لقوہ مار گیا۔ وہ ڈائن کہ میری سوتیلی ماں اور اس سارے فساد کی موجد اور شری عورت تھی، ایک طرف کو بھاگی مگر شعاعوں نے پیچھا کر کے اُسے بھی گرا دیا۔ ہجوم نعرے مارتا تھا۔ توتے شہزادے نے لات مار کے اُس خبیث کو تخت سے گرا دیا۔ میں نے دیکھا کہ اُس کے جادو کے موکل آسمانوں کو بھاگتے اور ایسے پادتے تھے جیسا ایسے موقعوں پہ پادنے کا حق ہے۔ یہ طلسم ختم ہوتے ہی جتنے بھی انسان بت بن گئے تھے اپنی اصل صورتوں میں آ گئے اور جھک جھک کے دوگانہ باری تعالیٰ کے حضور میں ادا کرنے لگے۔ اُن دونوں کو دروغہ زندان کے حوالے کر کے شہزادہ اپنے باپ کے حضور پہنچا کہ جو جادو کا اثر ختم ہونے کے باعث ہٹا کٹا ہو گیا تھا اور اپنی خدمت پہ مامور ایک کنیز پہ دست درازی کرنے کو ہی تھا۔ باپ بیٹا ملے تو دونوں کے آنسو دھل دھل بہتے تھے۔ صاحبو میں جن ہوں شاید میرا اندازہ غلط ہو مگر شہزادہ اپنے باپ کی اس عمدہ اور فوری صحتیابی پر کچھ مشوش دکھائی دیتا تھا۔

ایک ساعت بعد دربار منعقد ہوا اور اُس خبیث کو سزائے موت ہوئی۔ بادشاہ چاہتا تھا کہ اُس چنڈالنی کو معاف کر دے مگر بیٹے کی آنکھیں دیکھ کے خاموش ہو رہا اور بعد میں مجھے بتایا کہ حرامزادی کچھ افعال خلوت میں ایسی ماہرہ و طاق ہے کہ اپنا ثانی نہیں رکھتی اسی واسطے اسے اتنی بڑی تقصیر کے باوجود سزادینے پہ جی نہیں مانتا۔ بہر حال اُس چنڈالنی کا سر مونڈ کے اور اُس کے ہاتھ میں جھانکڑ دے کے شاہی باغات میں کوے ہنکنی کر کے بھجوا دیا۔ اب شہزادہ بارے سکون سے ہے اور بار بار کہتا تھا کہ مجھے یہ پھل اپنی اُس سیوا کا ملا ہے جو میں نے اپنے یاروں کی کی ہے، کس واسطے کہ بزرگ کہہ گئے ہیں کر سیوا، کھا میوہ۔ صاحبو اب شہزادے نے آپ سے چند روز کی رخصت مانگی ہے کہ بگڑے ہوئے حالات اپنے باوا کے ساتھ مل کے سنوارے اور پھر آپ سے آن ملے۔

جن سے یہ حکات لذیذ سن کے ہم سب خوش ہوئے اور جن سے اُس روز شراب و کباب کا خصوصی اہتمام کرنے کو کہا۔ صلاح یہ ٹھہری کہ توتے شہزادے کا انتظار کرنے کے بجائے ہم اپنے سفر پہ روانہ ہوں اور میری معشوقہ کے اگلے سوال کا جواب شتابی ڈھونڈنے کی کوشش کریں جو کہ یہ تھا کہ انار باغ کی شہزادی کا کیا قصہ ہے۔ جن نے مزید پندرہ روز انگوٹھی سے باہر رہنے کی مہلت ملنے کی شرط پہ بتایا کہ اس سوال کا جواب مشرق کی جانب سفر میں مضمر ہے چنانچہ ہم دونوں نے اپنے گھوڑے اُسی سمت پہ ڈال دئیے۔ تین چار روز کا سفر بارے سکون سے گزرا لیکن توتے شہزادے کی عدم موجودگی کی بنا پر ہم آگے کے حالات سے باخبر ہونے سے قاصر رہے۔ پانچویں روز کہ موسم دل خشک کن تھا، باد صبا ہلکورے لے رہی تھی اور طیور خوش نوا اپنے اپنے گیت گاتے ہمارے سروں سے گزر رہے تھے، ہم ایک بلا میں گرفتار ہو گئے۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ دوپہر کا وقت کہ ہم نے قیلولہ کے واسطے مقرر کیا تھا، جب سر پہ پہنچا تو ہم دونوں ایک شجر سایہ دار کے نیچے گھوڑوں کو کھانے پینے کے واسطے کھول کے خود بھی بیٹھے کہ موخر الذکر مرحلے سے خود کو گزاریں۔ ابھی ہم نے اناج پہ دانت بھی نہ لگایا تھا کہ چاروں طرف سے، گھوڑوں پہ سوار زنانِ خوش اشکال و بد اطوار نے ہمیں گھیر لیا۔ وہ سب کی سب باریک نقابیں لگائے ہوئے تھیں مگر حسن کا وہ عالم کے چھن چھن کے باہر آتا تھا۔ میں اور وزیر زادہ سمجھے کہ شاید یہ نئی وضع کا ڈاکوؤں کا گروہ ہے جو اس سر زمین پہ پایا جاتا ہے مگر جب وہ کہ اُن کی افسر لگتی تھی، کڑک کے بولی۔ تم کون ہو اور اس سرزمین پہ قدم رکھنے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی تو ہم سمجھے کہ یہ تو ماجرا ہی کچھ اور تھا۔ جن اُس وقت تھوڑی دیر کی رخصت لے کے اپنے کسی ذاتی کام سے گیا ہوا تھا چنانچہ وزیر زادے نے کسی کمک کی اُمید نہ رکھتے ہوئے دست بستہ عرض کی کہ اے افسر خوباں ، ہم بے کس مسافر، پردیسی اور بے وطن ہیں اور ہمارا اس سرزمین سے اس کے علاوہ اور کوئی تعلق نہیں کہ ہم یہاں سے گزر کے اپنی منزل مقصود تک پہنچنا چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے کہ جو کچھ یوں ہے کہ انار باغ کی شہزادی کا کیا قصہ ہے۔ تس پہ وہ مہ لقا مسکرائی اور اپنی ساتھنوں کو دیکھ کے بولی۔ میں نگوڑی پہلی دفعہ ایسا کڈھب سوال سن رہی ہوں اور پھر بولی۔ یہ سوال تم سے بھلا کس نے پورا کرنے کے واسطے کہا ہے۔ تس پہ میں نے اُسے شہزادی ماہ نور سے اپنا تعلق بتلایا اور یہ بھی کہ اُس نے میرے حبالہ عقد میں آنے کے واسطے سات سوالوں کی شرط رکھی ہے اور یہ اُسی سلسلہ کا ایک سوال ہے۔ وہ سوچ میں پڑی اور بولی۔ اے اجنبی تیری صورت پہ ہر وہ عورت فریفتہ ہو سکتی ہے کہ جس میں جمال پسندی کی ایک ہلکی سی رمق بھی ہو، تُو چاہے تو حسینوں کے پرے تیری خلوت کی چاہ میں خود کو تجھ پہ قربان کر سکتے ہیں۔ تُو اپنا وقت ان سوالوں میں کیوں ضائع کر رہا ہے۔ تب میں نے عرض کی کہ اے شاہ شمائلاں ، تُو ٹھیک کہتی ہو گی مگر یار شہزادی ماہ نور کو دل دے چکے ہیں اور قول بھی دے دیا ہے اور تُو نے سنا ہی ہو گا کہ قول سے پھر جانے والے مرد کہلانے کے مستحق ہرگز نہیں ہو سکتے اس لئے ہماری راہ سے ہٹ جا اور ہمیں آگے جانے دے۔ وہ کہ بحث پہ آمادہ دکھائی دیتی تھی، بولی۔ اے مرد ناداں تُو جسے محبت کہتا ہے میں اُس کے مطالب و معنی تجھے سمجھائے دیتی ہوں۔ یہ محبت نہیں آرزوئے وصال ہے کہ جب تُو اُس گھونٹ پی لیوے گا، بعد ازاں تیرے دل سے یہ ساری کُلفت جاتی رہے گی۔ یہ عورت اور مرد کا جو تعلق ہے اس میں خلوت بڑا کمال کردار ادا کرتی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ ایک مرد کے واسطے عورت کی اور ایک عورت کے واسطے مرد کی محبت کا دراصل کیا مطلب ہوتا ہے۔ قصہ وہی ناگفتنی ہے جسے کوئی کہتا ہے کوئی نہیں کہتا مگر یہی حقیقت ہے تو ایسا کیوں نہ کیجئے کہ اس جنگل میں منگل کیجئے اور مجھے اپنی خلوت کی راز دار سمجھ کے میرے ساتھ بھی دو گھڑیاں داد عیش دیجئے۔ میں نے معاملہ کسی اور طرف جاتے دیکھا تو ماہ نور کی محبت نے دل میں کچوکا لگایا اور میں اُس پری رُو سے ذرا سختی سے یوں گویا ہوا۔ بے شک تیرا حسن و شباب بے مثال ہے بلکہ اگر میں کھُل کے کہوں کہ تیرے اور تیری ساتھنوں کے معلقات مدورکسی بھی مرد کو حالت نعوظ میں لانے کے واسطے کافی سے زیادہ ہیں تو جھوٹ نہ ہو گا مگر یار اپنا دل کسی کو دے چکے ہیں اور ایسا کوئی فعل کر کے خود کو اُن مردوں میں شمار نہیں کروا سکتے کہ جن کا دل کسی اور عورت کے ساتھ ہوتا ہے اور (بد) نیت کسی اور کے ساتھ۔ یہ کلام سننا تھا کہ اُس کی آتش غضب بھڑک اُٹھی اور زیر نقاب جہاں سے پہلے حسن کی ضو لہریں لیتی تھی، غیض کی چنگاریاں چھوٹنے لگیں اور وہ کڑک کے اپنی ساتھنوں سے بولی۔ مشکیں کس لو ان دونوں کی اور گھسیٹتی ہوئی شاہی محل تک لاؤ۔ صاحبو ہم نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر عورت ذات پہ ہاتھ ہی نہ اُٹھتا تھا چنانچہ دونوں ، منفی گھوڑوں کے گرفتار ہوئے اور وہ ہمیں رسیوں سے باندھ کے سوئے شاہی محل روانہ ہوئیں۔ میں گھسٹتا جاتا تھا اور دعا کرتا جاتا تھا کہ شاہی محل بہت زیادہ دُور نہ ہو کہ زمین پہ گھسٹنے کی ایک حد ہوتی ہے اور یہ دعا بھی کرتا تھا کہ حوصلہ و شکیبائی کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہوں۔ اپنے یار وزیر زادے کی سمت نگاہ کی تو اُسے بھی اسی کشمکش میں پایا۔ گھوڑے البتہ مزے سے دلکی چلتے اور ہمیں دیکھتے تو منہ اُدھر کو پھیر لیتے تھے اور اغلب یہی تھا کہ مسکراتے بھی ہوں گے۔

شاہی محل قریب تھا۔ وہ ہمیں وہاں کے بَندی خانے لے گئیں اور دروغہ کے سپرد کیا۔ دروغہ کہ ایک حبشی اور کندہ نا تراش قسم کا شخص تھا، ہمیں دیکھ کے مسکرایا اور ایک ایک لات رسید کر کے ہمیں داخل زنداں کیا۔ ہم پہ کڑا پہرہ تھا۔ جب رات ہوئی اور اندھیرا اتنا گھور ہوا کہ ہم ایک دوسرے کی چمکتی آنکھوں کے سوا کچھ نہ دیکھ سکتے تھے تو ایک ایک رکابی سالن کی اور ایک سینی میں دو دو روٹیاں لئے ایک مدقوق سپاہی داخلِ زندان ہوا۔ اُس کے ایک ہاتھ میں شمع تھی کہ جس میں جلنے والا کثیر المقاصد روغن ، یقیناسانڈے کا تھا کہ اُس کی بُو چاروں اطراف میں پھیلی ہوئی تھی۔ ایک ٹھِلیا پانی کی بھی تھی۔ ہم نے چار و ناچار وہ کھانا زہر مار کیا اور ٹھلیا سے پانی پی کے شکر باری تعالیٰ کا ادا کیا۔ وہ مدقوق غلام کہ اوروں سے کچھ الگ تھا، سرگوشی میں بولا۔ چپکے پڑے رہو۔ میں ایک ساعت بعد پھر آؤں گا اور تمہیں یہاں سے نکالنے کی کوئی ترکیب کروں گا۔ ہم مارے حیرت کے اُسے تکتے تھے۔ وہ شمع اور کھانے کے برتن سمیٹ کے روانہ ہوا اور میں اور وزیر زادہ اُس زندان میں دیوار سے پشت لگائے کسی معجزے کے منتظر رہے۔ مجھے جن پہ غصہ آ رہا تھا کہ میں نے انگوٹھی رگڑ رگڑ کے آدھی کر دی تھی مگر وہ نابکار نجانے کس کونے میں دبکا بیٹھا تھا کہ حاضر ہوکے ہی نہ دیتا تھا۔ الغرض جب رات بھیگ گئی تو وہ مدقوق نوجوان سپاہی پھر وہی شمع اُٹھائے زندان خانے میں داخل ہوا اور بولا۔ میں دروغہ زندان کو تاڑ کی شراب کے دو ادھے پلا کے آیا ہوں اور مستعد سپاہیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ہے۔ اُنہیں انٹا غفیل ہونے میں ابھی وقت لگے گا ، تم گھبرائیو مت۔ حوصلہ رکھیو۔ یہ بات کہہ کے چپکا ہو کے بیٹھ رہا۔ مجھے دلچسپی ہوئی کہ اُس سے اُس کے حالات پوچھوں اور اس ملک کے حالات دریافت کروں چنانچہ اُسے کریدا۔ تس پہ وہ ایک سرد آہ بھر کے بولا۔ صاحبو میں سیستان کے بادشاہ کا اکلوتا فرزند ہوں اور نام میرا شیر افگن ہے۔ میرے باپ کی علاوہ میری ماں کے تین اور جوروئیں بھی تھیں۔ وہ چاہتا تو اور نکاح بھی کر سکتا تھا کہ ہمت زر اور طاقت جماع دونوں میں خود کفیل تھا مگر پاس شریعت بھی کوئی چیز ہے چنانچہ جب چوتھی کی ضرورت محسوس کرتا کسی ایک کو طلاق دے دیتا۔ اب اسے اُس کی قدرت کہئے کہ صبح دم دروازہ خاور کھولتا اور شام کو طلعت بےمثال طلوع کرتا ہے اور ہر رات اپنی خلقت کا پوٹا بھرتا اور کسی کو بھوکا نہیں سُلاتا اور چرندوں پرندوں اور اس خاک مشت کو جسے آدمی کہتے ہیں ، اگلے روز پھر پیٹ بھر کھلاتا ہے، کہ میری ماں کے علاوہ اور کوئی دوسری عورت کبھی حاملہ نہ ہوئی اور میرا ورود اس دنیا میں شہزادہ بن کے ہوا۔ میرے باپ کی دوسری عورتیں اس سبب سے میری ماں سے جلتی کڑھتی تھیں اور اُن کا یہی سلوک میرے ساتھ تھا مگر میں اُس وقت نہ سمجھتا تھا۔ میں سات برس کا ہوا اور میری رسم بسم اللہ ادا کی گئی اور جب میں سونے کے قلم سے چاندی کی تختی پہ باری تعالیٰ کا نام لکھ چکا اور مبارک سلامت شور تھما تو میرے باپ نے میری ولی عہدی کا اعلان فرما دیا اور ساتھ ہی میری ماں کو ایک خلعت طلائی عطا کیا کہ جو مادر ملکہ کے واسطے ہمارے خاندان میں صدیوں سے مخصوص چلا آتا تھا۔ میری ماں کی سوتنوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو سر جوڑ کے بیٹھیں کہ اور ایک دوسری سے کہنے لگیں کہ ایسا کیا کیجئے کہ ہمارے مشترکہ خصم کی یہ آرزو پایہ تکمیل کو نہ پہنچے اور اُس کی یہ مراد بر نہ آوے کہ اس چنڈالنی کا بیٹا بادشاہی کرے اور شہزادگی کے مزے لُوٹے چنانچہ اُنہوں نے طے کیا کہ وہ مجھے اس قابل نہ چھوڑیں گی کہ میں بعد از مرگ پدر، ملک بانی کروں۔ میں اُس وقت کودک ناداں اور طفل مکتب تھا اور کسی بھی عیاری و مکاری کو سمجھنے سے عاری بھی۔

میرے باپ کی تینوں جوروئیں علیحدہ علیحدہ محلوں میں رہتی تھیں اور میں اپنی ماں کے ہمراہ اپنے محل میں۔ چنانچہ اُن عورتوں نے مجھے باری باری اپنے پاس بلانا شروع کر دیا اور مجھ سے کہنے لگیں کہ تم ہماری آنکھ کے تارے اور اس راج کے دُلارے ہو مگر ہم تم میں ایک کمی پاتی ہیں کہ تمہارے شوق نہ تو شہزادوں والے ہیں اور نہ عادات اُن کی سی کہ جنہیں آگے چل کے بادشاہی کرنا ہوتی ہے۔ میں ان باتوں سے حیران ہوتا اور پوچھتا کہ مجھے بھی بتلاؤ کہ شہزادے اور بادشاہ کیسے ہوتے ہیں۔ تس پہ اُن میں سے ایک کہ پکی عمر کی تھی بولی۔ کل آئیو میں تجھے سب بتلا دوں گی۔ اپنے اتالیق سے فراغت پا کے میں اگلی صبح اُس کے وہاں پہنچا تو عجیب ماجرا دیکھا۔ اُس نے میری خاطر گنجفہ ، شطرنج اور بتیسی کی بساط ایک طرف بچھوا رکھی تھی تو ایک کونے میں کنکووں کا ڈھیر لگا تھا اور اُس پہ رنگ رنگ مانجھے الگ سے چرخیوں میں تھے۔ اعلیٰ قسم کی افیون کہ خوش رنگ کلھیوں میں تھی، ایک اور طرف دھری تھی۔ میں یہ سب سامان دیکھ کے حیران رہ گیا تو وہ حرافہ بولی۔ یہ تو کچھ نہیں ، میں تجھے ہر اُس فن میں ماہر و طاق کرا دوں گی کہ جو شہزادوں کے واسطے مخصوص ہیں اور پھر ایک کنیز طرحدار کو حکم دیا کہ شہزادے کو ایک کلھیا سے افیون پیش کی جاوے۔ صاحبو میں نے افیون کا ایک گھونٹ بھرا اور اُسی وقت میری آنکھیں اور نصیب بند ہونا شروع ہو گئے۔ اُس نشے میں جو لطافت اور ذائقہ اور اُس کے بعد کے مراحل میں جو چاشنی اور مزہ تھا وہ آج بھی میری زبان پہ جیتا ہے۔ بعد ازاں اُس نے اپنے ایک حبشی غلام کو بلوایا کہ چوسر کا ماہر اور نامور گنجفہ باز تھا ، کہ مجھے اس کھیل سے رُو شناس کرائے۔ اُس نابکار نے مجھے ایسے ڈھنگ سے یہ کھیل کھیلنا سکھایا کہ چند ہی روز میں ان کھیلوں میں مجھ سا ماہر اور کوئی نہ رہا۔ پھر وہ بولی۔ اپنی اماں سے کچھ نہ کہیو کہ وہ جلاپے میں مجھ نگوڑی کی شکایت بادشاہ سلامت سے کر دے گی اور یہ بھی سن اگر تُو نے میر ی نہ مانی تو پھر اس شربت سے بھی محروم کر دوں گی اور مزے مزے کے ان کھیلوں سے بھی۔

میں نادان تھا اس واسطے اُس کو قول دے آیا کہ جیساتُو کہے گی میں ویسا ہی کروں گا۔ اب میں وقت کا زیادہ حصہ اُس کے محل میں گزارنے لگا۔ اُس نے مشہور کنکوے بازوں کو اپنے محل میں بلوا کے مجھے پیچ لڑانے کی تربیت بھی اس ڈھنگ سے دلوائی کہ میں اس فن میں طاق ہو گیا اور ڈھیل اور کھینچ دونوں قسم کے پیچوں میں مہارتِ تامہ حاصل کر لی۔ صاحبو ابھی اُس حرافہ کا جی مجھے برباد کرنے سے بھر ا نہ تھا، چنانچہ اُس نے اپنے محل میں رنگ و رامش کی محفلیں بپا کرنی شروع کیں۔ میری اُٹھتی جوانی تھی چنانچہ اُس نے اسی عمر کی نوچیاں ناچنے گانے اور عشووں غمزوں کے واسطے بلونا شروع کیں جن کے ناز و ادا اور رقص و سرود کا جادو میرے سر چڑھ کے بولنے لگا۔ میرا جی تعلیم و تربیت سے اُچاٹ ہو گیا اور میں ہمہ وقت رنگ و چنگ میں گم رہنے لگا۔ جب میرے اتالیقوں نے میری شکایت میری ماں کو پہنچائی تو اُس کے کان کھڑے ہوئے اور اُس نے اپنی ایک راز دار کنیز کو اس امر پہ مامور کیا کہ میرے شب و روز کی خبر مکمل اُسے پہنچاوے۔ کنیز جو میرے شب و روز سے واقف ہوئی تو الغیاث الغیاث کہتی میری ماں کی خدمت میں پہنچی اور سارا ماجرا اُس کے گوش گزار کیا۔ میری ماں کف افسوس ملتی اور کہتی تھی کہ ہائے میرے بچے کو میری سوتنوں نے کیسا برباد کیا مگر اس ڈرسے کہ میرا باپ اُن تینوں کو اپنی چہیتیاں رکھتا تھا، اُن کا نام لینے سے مجتنب ہوئی اور فقط میری شکایت کی۔ جب میرا باپ میری ماں سے ملا تو عین ساعتِ خوش افعال میں ، میری ماں نے میرے باپ کو میرے بارے میں بتلا کے اُس کا عیش گنڈیر کر دیا۔ میرا باپ یہ سُن کے سُن رہ گیا کیونکہ وہ مجھے عنقریب غنیم کے مقابلے میں بھجوانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اُسی وقت دربار آراستہ کیا اور میرے دونوں اتالیقوں کو کہ ایک میری کتابی اور دوسرا اکتسابی تعلیم و تربیت پر مامور تھا اپنے روبرو کروا کے اُن کا زن و بچہ کولہو میں پلوانے اور اُنہیں ہاتھی کے پاؤں تلے کچلوانے کے احکام صادر کئے۔ وہ دونوں رحم رحم چلانے لگے اور یوں عرض گزاشت ہوئے کہ بادشاہ تُو ہم سے قسم لے لے جو ہم شہزادے کی اس بربادی میں ذرہ برابر بھی حصہ دار ہوں اور جو بھی بربادی اُس کی ہوئی ہے وہ اُس کی سوتیلی ماؤں کے سبب ہوئی ہے اور ہم اپنا کام پورا کرتے رہے ہیں ، چنانچہ تُو شہزادے کا امتحان لے اور اگر ہمارے کام میں شمہ برابر بھی ہمیں غفلت کا ذمہ دار پاوے گا تو پھر جو سزا تُو دے گا ہمیں قبول ہو گی۔ میرے باپ کا وزیر کہ میرے دادا کے وقت سے اس عہدے پہ متمکن چلا آتا تھا اور بوجہ پیری بولنے اور چلنے میں جسے قدرے تکلف تھا مگر طبیعت کا چونچال تھا اور حال ہی میں ساتواں نکاح ایک ایسی ناکتخدا سے کر چکا تھا کہ جو اُسے بوجوہ، طعنوں سے مارے ڈالتی تھی۔ یوں گویا ہوا۔

اے بادشاہ بے شک تُو اس وقت اس تخت پہ جو سریر آرا ہے تو اس کی وجہ تیرے نصیب کے ساتھ ساتھ تیری عقل و فہم اور دانش و تدبر بھی ہے۔ تُو زن اور رن دونوں کو فتح کرنے کا ڈھنگ جانتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیری طلاقت کے آگے میرا نطق عاجز ہے مگر اجازت ہو تو میں شہزادے سے سوالات کروں اور چونکہ تُو اس وقت شدت غیض سے بے حال ہے اور اس عالم میں عقل سے متعلق سوالات کرنا تیرے لئے عبث ہے کہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ غصہ دانش کو کھا جاتا ہے۔ اس خوشامد بھری گفتگو کو سننے کے بعد میرے باپ نے اجازت مرحمت کی۔ تس پہ وہ بزرگ بولا۔ شہزادے گھر بگاڑنے والی عورت کی نشانیاں بتلا۔ میں نے جواب میں کہا۔ اے وزیر گھر بگاڑنے والی عورت کو اُس کے ناخنوں سے دیکھنا چاہئے۔ وہ سستی کی بنا پہ اپنے ناخن نہیں کاٹتی کہ جو اُس کے خصم میں اکراہ پیدا کرنے کا سببِ اول ہوا کرتا ہے کہ وہ اُنہیں ہاتھوں سے اُسے کھلاتی پلاتی ہے۔ وہ سوتی بھی بہت ہے اور بہت زیادہ سونا تساہل کا سبب بنتا ہے چنانچہ ایسی عورتوں کے گھر اور بچے گندے رہتے ہیں۔ کوئی بچہ پیدائشی طور پر غبی اور کند ذہن نہیں ہوتا، ماں کی تربیت اُنہیں ایسا کر دیتی ہے۔ آرام طلبی ایسی عورتوں کو فربہ کر دیتی ہے اور اُن کے پیٹ اور معلقاتِ متعلقِ ہٰذا ، یکساں ہو جاتے ہیں جو اُن کی دلکشی کی نفی کرتے ہیں۔ ایسی عورت پھوہڑ ہوتی ہے اور گھر سے زیادہ اپنے چہرے کو خوبصورت رکھنے کی کوشش کرتی اور سونے سے پہلے بھی مِسی کی دھڑی جماتی اور پان کا بیڑہ منہ میں رکھتی ہے جو ے دوران بُو کا سبب بنتا اور میاں کو تکلیف دیتا ہے۔ ایسی عورت کانوں کی کچی اور زبان کی تیز ہوتی ہے۔ چنانچہ اپنے دشمنوں میں اضافہ کرتی ہے۔ اپنے خصم کی ایک ایک حرکت پہ نظر رکھتی اور اُس کی زندگی حرام کر دیتی ہے۔ بے شک اے وزیر۔ بعضے بعضے مرد بھی ہاتھی کے پاؤں تلے کچل دئیے جانے کے قابل ہوتے ہیں کہ اپنی زوجہ کے گھر میں ہونے کے باوجود، گلیوں میں منہ کالا کرتے پھرتے ہیں لیکن عموماً اس کا سبب بیویاں ہی ہوتی ہیں۔ پھوہڑ عورت ساس نندوں کی برائی خصم کے آگے اور خصم کی برائی اول الذکر عورتوں کے آگے کرتی ہے۔ تُو نے سنا ہی ہو گا کہ گھٹنے پیٹ کی طرف مڑتے ہیں ، چنانچہ جب وہ دونوں ملتے ہیں تو پھوہڑ عورت لُتری قرار پاتی ہے۔ ایسی عورت اپنے خصم کے راز محلے دارنیوں میں اس نصیحت کے ساتھ افشا کرتی ہے کہ دیکھو بھین کسی سے کہیو مت۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے کہ یہ راز، راز ہی رہیں گے اور اس طرح اپنے میاں کے پوتڑے چوراہے میں دھوتی ہے۔ ایسی عورت بیوقوف بھی حد درجہ کی ہوتی ہے اور اپنی مشکلوں کو میاں سے مشورہ کر کے حل کرنے کے بجائے ادھ ننگے، نوسرباز اور ملعون قسم کے بھِک منگوں کی مدد مانگتی اور اپنے میاں کی حق حلال کی کمائی سے اُن مسٹنڈوں کی پرورش کرتی ہے۔ پھر میں نے کہا۔ اے وزیر۔ میرے اتالیق نے مجھے ان عورتوں کی خلوت کے حالات سے بھی آگاہ کیا ہے لیکن چونکہ اس محفل میں میرا باپ بھی موجود ہے، اس واسطے اُس کے ذکر سے اجتناب کرتا ہوں ورنہ وہ باب لذیذ ہے اور حکایتِ طویل و لذیذ تر ہے۔ اور اگر اس وقت تُو شرع میں کیا شرم ، جیسی کُڈھب مثال کا گھونگھٹ کاڑھ کے مجھے مجبور کرے گا تو پھر میں جو کہوں گا اُس سے حاضرین محفل کو شرمندگی کے سِوا اور کچھ ہاتھ نہ آوے گا۔ چنانچہ وزیر نے میرے باپ کو دیکھا جس نے اس موضوع سے پہلو تہی کرنے کو کہا۔

پھر وزیر گویا ہوا کہ اے شہزادے اُن عورتوں کا بیان کر کہ جنہیں سُگھڑاپے میں ید طولیٰ حاصل ہوتا ہے۔ تس پہ میں نے یوں جواب دیا۔ اے وزیر ایسی عورت جس مرد کو ملتی ہے، مانو اُسے زمین پہ جنت مل جاتی ہے۔ ایسی عورت خوب صاف ستھری ہوتی ہے اور اپنے میاں اور بچوں کو بھی ویسا ہی رکھتی ہے۔ وہ اچھے کھانوں کو میاں کے پیٹ میں اُتارتی اور ایسے اُس کے دل میں خود اُتر جاتی ہے۔ میاں کے گھر لوٹنے سے پہلے خود کو سنوارتی اور غسل کر کے لباس پاکیزہ زیب تن کرتی ہے۔ میاں کے لئے پان کی گلوری اُس کے دل پسند مسالوں کے ہمراہ تیار کرتی ہے۔ اپنی چٹیا میں صاف ستھرا موباف ڈالتی اور مسی کی دھڑی ہونٹوں پہ اور افشاں مانگ میں بھرتی ہے۔ تیل پھلیل کا خاص خیال رکھتی ہے۔ میاں کے گھر کے لباس کو کمر بند و پیٹی سے تیار کر کے اُس کے واسطے رکھتی ہے۔ اُس کے پاپوش کو جھاڑتی پونچھتی ہے۔ جب وہ گھر میں آتا ہے تو اپنی پریشانیاں اپنی ہنسی میں چھپاتی ہے نہ کہ پھوہڑ عورت کی طرح دروازے سے ہی پریشانیوں کا پنڈارہ کھول دیتی ہے۔ جب وہ کھا پی کے نچنت ہو جاتا ہے تو بڑی رسان سے اُس سے اپنے دل کا حال کہتی اور پریشانی کا ذکر کرتے میں بھی مسکراتی اور بار بار کہتی ہے کہ مولا کا فضل رہا تو ہم اس مشکل سے نکل جاویں گے۔ جبکہ پھوہڑ عورت بار بار کہتی ہے کہ ہائے اب کیا ہوئے گا اور میاں کو اور بھی پریشان کرتی ہے۔ سُگھڑ عورت بار بار کہتی ہے کہ تم فکر مت کرنا۔ اور مشکلوں سے نکل گئے تو اس سے بھی نکل جاؤ گے اور اس طرح مرد کو سوچنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ پھوہڑ عورت سارا لباس تبدیل کرتی مگر انگیا میلی پہنتی ہے جب کہ سُگھڑ اس طرف خاص توجہ دیتی ہے۔ اے وزیر۔ اگر اجازت ہو تو حد ادب عبور کروں اور ایسی عورت کے افعال و اعمال شبینہ کا احوال بھی کہوں ؟میرے باپ نے انکار کیا تو وزیر بولا۔ اے شہزادے میں تیرے جوابوں کو کافی اور اطمینان بخش پاتا ہوں اور ان اتالیقوں پہ تیرے باپ نے موت کا جو پھندہ کساہے، اُسے ڈھیلا دیکھتا ہوں۔ اب میں تجھ سے ملک بانی کے بارے میں سوال کرتا ہوں۔ باد شاہ کی خصوصیات بیان کر۔ تس پہ میں نے کہا اے وزیر۔ بادشاہ میں سب سے پہلی خوبی تو یہ ہونی چاہئے کہ وہ سَیر چشم ہو۔ اُس کی رعایا کے نصیب میں اُس پالن ہار نے جو لکھا ہے، اُسے پہ نگاہ اور دانت نہ رکھے۔ دوسری خوبی یہ ہونی چاہئے کہ وہ بہادر ہو۔ تیسری خوبی یہ ہونی چاہئے کہ با ادب ہو۔ چوتھی خوبی یہ ہو کہ کانوں کا کچا نہ ہو۔ بادشاہ وقت پہ بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ اُس کی سوچ اُس کے احکام میں ڈھلتی اور حکومت کرنے کا انداز اختیار کرتی ہے۔ اگر بادشاہ کی سوچ دُرست نہ ہو گی تو حکومت کرنے کے انداز میں کجی ہو گی۔ بادشاہ وقت کو رعایا کے واسطے مثال بننا چاہئے۔ اُسے اپنے وزیروں مشیروں پہ اپنی اولاد سے بھی زیادہ کڑی نگاہ رکھنی چاہئے۔ تُو نے نوشیرواں عادل بادشاہ کا قصہ تو سنا ہو گا کہ اُس نے اپنے جیش کے ایک سردار سے مفت میں لیا ہوا انڈا جو اُس کے نام پہ لیا گیا تھا، رعایا کو واپس کر وا دیا تھا کہ اگر میں آج یہ انڈا مفت لے لوں گا تو میری فوج کل کو مرغیوں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے مواشی پہ بھی مفت میں ہاتھ صاف کر دے گی۔ بادشاہ کو چاہئے کہ اپنے اوقات کے تین حصے کرے۔ ایک میں سوئے۔ دوسرے میں اللہ کا شکر بادشاہی کی نعمت کے واسطے ادا کرے اور تیسرے میں خلق خدا کی خدمت کرے۔ اور اُس پہ واجب ہے کہ سونے اور شکر کرنے سے زیادہ وقت خلق خدا کی خدمت کو دے کیونکہ اے وزیر۔ حق تعالیٰ نے پانچ وقت کی نمازوں کے جو ادا کرنے کا وقت دیا ہے اُس میں ایک ساعت سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ باقی کی ساری ساعتیں آرام اور خدمت کے واسطے انسانوں کو عطا کی گئی ہیں۔ چنانچہ طے ہوا کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ بادشاہ وقت محض جاہ و جلال اور تخت آرائی کے لئے نہیں ہوتا۔ نہ اُسے یہ درجہ باری تعالیٰ کی جانب سے نمائش کے اسفل جذبے کی تسکین کے واسطے تفویض ہوتا ہے۔ بادشاہی ایک امتحان ہے اور اس کی پوچھ گچھ بڑی سخت ہو گی کہ سلطانوں کا سلطان جو رحیم بھی ہے اور عادل بھی، اپنی یہ خصوصیات اُن سب میں بدرجہ اتم دیکھنا چاہتا ہے کہ جنہیں اُس نے بادشاہی کے تاج سے سرافراز کیا ہے۔ اگر کہے تو بادشاہی کے رموز اور گُر آگے بھی بیان کروں۔ وزیر نے میرے باپ کو دیکھا جو بہت خوش دِکھتا تھا۔ بارے یہ سب بیان ہو چکا تو میرے باپ نے اتالیقوں کی توصیف کی اور اُن کے منہ جواہر سے بھرنے کا حکم صادر کیا۔ میرا ایک اتالیق جو لالچی تھا، زیادہ منہ کھول بیٹھا اور ایک ہیرا اُس کے حلق میں پھنس گیا جو شاہی حکیم نے بدقت نکال کے ، چپکے سے جیب میں رکھ لیا اور میرے باپ سے یوں گویا ہوا کہ بادشاہ سلامتہیرا اس کے پیٹ میں چلا گیا ہے اور وقت اخراج نکل جاوے گا۔ میرا باپ اتالیقوں کی طرف سے مطمئن ہوا تو اُس نے تخلیے کا حکم صادر کیا اور جب ہم دونوں تنہا ہوئے تو اُس نے مجھ سے میرے مشاغل دِگر کے بارے میں استفسار کیا ، تس پہ میں نے اُسے بتلایا کہ میں کون کون سے مشاغل میں مبتلا ہوں ، تو اُس نے دُرہ نکال کے ، میری پشت و مفاصل پہ اُس کا بے محابا استعمال کیا اور میری تینوں سوتیلی ماؤں سے، اپنے اُن پُر تشدد تعلقات کے ارادے کا اعلان کرنے لگا جو اظہر من الشمس تھے اور جن کی مزیدکسی صراحت کی ضرورت نہ تھی۔ یہی نہیں اُس نے اُن تینوں کے بارے میں اپنے جنسی انکشافات کا دائرہ اُن کی ماؤں اور باپوں تک پھیلایا اور ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ اُس حیوان کی اولادیں ہیں کہ جو انسان کا وفا دار ہونے کی تہمت اُٹھائے پھرنے کے باوجود حقارت سے پکارا اور رکھا جاتا ہے اور سردیوں میں تندوروں کے قریب اور گرمیوں میں نالیوں میں پایا جاتا ہے۔

تس کے بعد اُس نے میری تینوں سوتیلی ماؤں کے سر منڈوا کے اُن کے ہاتھوں میں جھانکڑ دئیے اور اُنہیں شاہی محل کے باغ میں کوے ہنکنیوں کے عہدے تفویض کر دئیے اور مجھے اپنے محل کے ایک گوشے میں قید کر دیا۔ صاحبو میری قید کو چوتھا مہینہ تھا اور افیون کا گھونٹ یا گانجے کا دھواں میرے لئے عنقا و ہما ہو چکا تھا اور علاوہ بریں میں نوچیوں اور رنڈیوں کا گانا سننے کو بھی ہُڑک رہا تھا کہ ایک دن اپنے بندی خانے کے روشن دان میں ایک پرندِ خوش نوا کو، کہ جس کا رنگ بھی ویسا ہی تھا، بیٹھے پایا۔ میری حیرت دو چند ہو گئی جب اُس نے مجھ سے انسانی آواز و لہجے میں کلام کیا۔ وہ پرند ہر روز آتا اور مجھے حکایات دل خوش کن سنایا کرتا۔ میں اب اُس سے مانوس ہو چکا تھا اوراس قید میں دل بستگی کے اس سامان کو باری تعالیٰ کی نعمت گردانتا تھا۔ ایک روز وہ پرندہ نہ آیا تو میں اُس کی یاد میں دل گرفتہ ہوا۔ اگلے روز جب وہ حسب معمول روشن دان پہ بیٹھا تو میں نے کہا کیوں صاحب۔ اس غیر حاضری کی وجہ کیا تھی اور کیا تمہیں پتہ نہیں کہ ہم سے ، تم سے راہ کی جو صورت پیدا ہو چکی ہے، اُس میں خلل ہماری جان لے سکتا ہے۔ تس پہ وہ پرندہ بولا۔ اے بادشاہ زادے۔ میں نے آج تلک تجھ سے جو نہ کہا۔ وہ آج کہے دیتا ہوں۔ میں ملک شام کی شہزادی فلک ناز کی اردلی میں رہتا ہوں اور بہت پریشان ہوں کہ شہزادی ایک جادوگر جن کے

طلسم کی اسیر ہو چکی ہے۔ پرند یہ کہہ کہ خاموش ہوا۔ مجھے اس قصے سے دل چسپی پیدا ہوئی اور میں نے کہا۔ اے مونس و ہمدم۔ آگے کی کیوں نہیں کہتا کہ میں سننے کو مرا جاتا ہوں۔

تس پہ وہ بولا۔ اے ولی نعمت۔ پار سال کی بات ہے ، شہزادی نہا دھوکے ، اُجلے لباس میں محل کی چھت پہ کھڑی اپنے بال سنوارتی تھی کہ وہاں سے جنوں کا ا یک پرا گزرا۔ اس میں ایک جن کہ بذریعہ جادو گری ، شورہ پشتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، شہزادی کو دیکھ کے عاشق و فریفتہ ہوا اور شتابی محل کی چھت پہ اُتر کے شہزادی سے لگاوٹ کی باتیں کرنے لگا۔ شہزادی کہ پابند صوم و صلواۃ ہے، نامحرم کو دیکھ کے گھونگھٹ کاڑھ کے کھڑی ہو گئی اور بولی۔ پرے ہٹ موئے۔ تُو ہے کون اور ایسے درانہ ہماری خلوت میں کیوں گھساچلا آیا ہے اور میری کنیزوں نگوڑیوں کو کیا ڈھائی گھڑیا سونگھ گیا ہے ، جو مجھے اکیلی کو محل کی چھت پہ چھوڑ گئی ہیں۔ تس پہ وہ مردود ہنسا اور بولا۔ میں نے تیرے سارے محل پہ نیند طاری کر دی ہے اور وہ اب اُسی وقت جگیں گی جب یاروں کا نخل تمنا ہرا ہو کے لہلہانے لگے گا، پھر بے شرمی سے یوں بھی بولا کہ لہلہانے تو تجھے دیکھتے ہی لگا تھا، تُو راضی ہو تو ہرا بھی ہو جائے۔ شہزادی نے جب دیکھا کہ یہ نابکار تو بالکل صاف ہی آنکھوں میں گھسا جاتا ہے، تو تالی بجا کے بولی۔ ارے کوئی ہے جو اس پلید کو باوا جانی کے حضور میں پیش کرے کہ وہ شاہی جلاد سے کہہ کے اس کے قتلے کروائیں اور چیل کووں کو کھلوائیں۔ وہ جن کہ ڈھیٹ تو تھا ہی، رذیل و اسفل بھی تھا، شہزادی کے قریب ہوا اور بولا۔ جانی ایک ساعت کو میری آغوش میں آ جا ، تس کے بعد جو تیرا جی چاہے کریو اور میں جو کہہ چکا ہوں کہ اس وقت تیرے محل میں ہر ذی روح نیند میں مبتلا ہے اور اُن کے جگنے میں ابھی بڑی دیر پڑی ہے۔

شہزادی کو تب یاد آیا کہ اُس کی پیدائش جن بزرگ کی دعاؤں سے ہوئی تھی، اُن نے اُس کی ماں کو ایک تعویذ کہ سونے میں مُغرق تھا، دیا تھا اور کہا تھا کہ مصیبت کے وقت اس کی تاثیر اپنا ثانی نہیں رکھتی اور یہ کہ بچی ہر وقت اسے انگیا میں رکھے۔ چنانچہ شہزادی نے انگیا میں سے ذرا سا (تعویذ) باہر نکال کے اُس مفتری کو دکھایا تو اُس کے دونوں ہاتھ شل ہو گئے۔ وہ ملعون سمجھ گیا کہ یہ وار کاری ہے۔ چنانچہ بنکارتا ہوا اُڑا اور ابھی محل کے مینار پہ ہی پہنچا تھا کہ چیخ کے بولا۔ سن شہزادی میں جاتا ہوں مگر ایک عمل تیرے واسطے ایسا کئے جاتا ہوں کہ جو بھی ترا دُلہا ہو گا ، اُسے شب زفاف خون کی قے آوے گی اور وہ تجھ سے رجوع کرنے سے پہلے ہی داعی اجل کو لبیک کہوے گا۔ جب وہ ملعون دفع ہو گیا تو کنیزیں شہزادی کے پاس گئیں اور اُسے ملول و مشوش پایا۔ شہزادی کہ زیرک و فہیم تھی، اس بات کا کسی سے مذکور کئے بغیر ہی اپنی خواب گاہ کو لوٹ گئی اور چھپر کھٹ پہ لیٹ کے اس قصے کے بارے میں سوچنے لگی۔ ابھی دو مہینے ہی ہوئے تھے کہ اُس کی بات نیشا پور کے شہزادے گلفام سے ٹھہری تھی اور اس طرف جہیز بھی بننے لگا تھا اور شہزادی کے پدر نے سونے چاندی کے ڈھیر اپنی بیٹی کو دینے کے واسطے لگا دئیے تھے۔

شہزادی کہ مجھ سے التفاتِ خاص رکھتی ہے اور سونے سے پہلے مجھ سے کسی نہ کسی ملک کی حکایتِ لذیذ ضرور ہی سنا کرتی ہے، اُس رات جب تا دیر جاگتی اور اپنے مقدر پہ ٹسوے بہاتی رہی تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے پوچھا۔ اے مہربان شہزادی، ایساکیاہوا ہے کہ آج رات تُو نے کسی قصے کی فرمائش نہ کی اور بستر پہ پڑی یوں کروٹیں بدلتی ہے کہ کبھی آڑی، کبھی ترچھی اور کبھی بینڈی ہوتی ہے۔

تس پہ وہ یوں گویا ہوئی کہ اے میرے ہم جلیس و انیس پرندے، تُو میرا ایسا رفیق ہے کہ تجھ سے میرا کچھ بھی چھپا نہیں۔ تُو میرے ظاہر و باطن سے واقف ہے اور تجھے حیوان جان کے میں تیرے سامنے پوشاک بھی تبدیل کر لیتی ہوں اور تُو ٹُکر ٹُکر دیکھتا رہتا اور بظاہر تو معصوم ہی بنا رہتا ہے، اندر کا حال اُسے پتہ ہے کہ جس کے قبضہ قدرت میں ہم دونوں کی جان ہے۔ اور پھر وہ واقعہ سنانے لگی کہ جس سے آج محل کی چھت پہ گزری تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مجھے اُس متفنی جن کی دھمکی مارے ڈالتی ہے کہ جادو میں یکتا اور صورت سے نطفۂ نا تحقیق دکھلائی پڑتا ہے۔ اے عزیز۔ تجھے پتہ ہے کہ میں دو مہینے بعد بیاہی جاؤں گی اور اگر وہ نابکار سچ کہتا تھا تو میرا خصم اُن لمحاتِ عیش کی آرزو لئے واصل حق ہو گا کہ جن کی آرزو میں بھی پوشیدہ رکھتی ہوں۔ چنانچہ میرے تڑپنے کا سبب یہ ہے۔

صاحبو میں یہ حکایت سن کے چپکا ہو رہا تو پرندہ بولا میں ایک نا تواں پرند ہوں کہ جو گا سکتا ہے، رو سکتا ہے مگر اپنی مالکہ کے کسی درد کا درماں نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اب جبکہ تجھے یہ داستان سنا چکا، بارے خود کو ہلکا محسوس کرتا ہوں مگر اے عزیز اپنی مالکہ کو دیکھتا ہوں تو دل لہو لہو ہوا جاتا ہے کہ اُس کے چاند سے چہرے پہ دو دن میں کیسی زردی ہویدا ہوئی ہے اور اُس کی ہنسی خوشی کیسی کافور ہوئی ہے۔ مجھ سے اور شہزادی سے جو تعلق خاطر ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مشکل کو کہ عقدہ لاینحل ہے، کیسے حل کروں ؟

پرند کی یہ داستان خونچکاں سنی تو میری آنکھیں بھر آئیں اور دل پارہ پارہ ہو گیا۔ میں جی سے چاہتا تھا کہ اُس کی مدد کروں مگر میں خود اسیر و مقید تھا، چنانچہ یوں گویا ہوا۔ تُو دیکھ سکتا ہے کہ میں کس حال میں مبتلا ہوں۔ میں شہزادہ ہوں اور حرب و ضرب کے فن سے واقف بھی اور میرے اتالیقوں نے مجھے جن بھوت پلید سے نمٹنے کو کچھ جنتر منتر بھی سکھلائے ہیں اور شاید میں اُس نا ہنجار جن کا مقابلہ کرسکوں ، مگر اسیری آڑے آتی ہے۔ میری بات سن کے پرند کی آنکھیں چمکیں اور وہ بولا۔ اگر تُو واقعی میری شہزادی کی مدد کرنا چاہتا ہے تو پھر مجھے بھی اپنی مدد پہ مستعد پاوے گا۔ مجھے فقط یہ بتلا دے کہ اس بندی خانے کی چابیاں کس کے پاس ہوتی ہیں۔ اس بعد یاروں کا کام شروع ہو گا اور تُو شتابی اس قید سے رہائی پاوے گا۔

چونکہ مجھے علم تھا کہ بندی خانے کی چابیاں کس شخص کے پاس ہوتی ہیں ، چنانچہ میں نے اُس کا حلیہ پرند کے سامنے بیان کر دیا اور وہ کہ فہیم و ذکی تھا، سمجھ گیا اور جب رات ہوئی تو وہ اپنے وطن کو نہ لَوٹا بلکہ منتظر رہا کہ بندی خانے کے سپاہی سو جائیں۔ پھر اُسے جیسے ہی موقع ملا اُس نے چابیاں مجھے لا کے دیں اور میری رہائی کا منتظر ہوا۔ میں نے تالا کھولا اور آزاد ہوکے محل سے باہر آ گیا اور اس سے پہلے شاہی اصطبل سے ایک گھوڑا کہ رفتار میں مثل براق کے تھا، اپنے واسطے کھولتا لایا۔ بعد ازاں اُس سے یوں گویا ہوا۔ اے مہربان پرند۔ میں کچھ نہیں جانتا کہ اُس متفنی جن کو کہاں تلاش کروں لیکن پھر بھی خدا کے سہارے روانہ ہوتا ہوں۔ تجھ سے ایک التجا ہے کہ چونکہ تُو طاقتِ پرواز رکھتا ہے تو میری خبرگیری کرتا رہیو اور مجھ بیکس کو دانے پانی کو پوچھتا رہیو۔ پرند نے وعدہ کیا اور میں اٹکل سے شمال کی جانب روانہ ہوا۔

صاحبو میرا گھوڑا منزلیں مارتا جاتا تھا اور میں ایک سمت نامعلوم کو اُمید موہوم کے سہارے بڑھتا جاتا تھا۔ جب اُس روز کا سورج شام سے گلے ملا اور میں تھک ہار کے گھوڑے کو ایک پیڑ کے نیچے باندھ کے کھانے پینے کے واسطے پرند کا منتظر ہوا تو جگر شق کرنے دینے والی ایک سدا سنی۔ کوئی بار بار کہتا ہے۔ ارے کوئی ہے جو میرے سر کو میرے شانوں پہ رکھے۔ میں تلوار کے قبضے پہ ہاتھ رکھے آواز کی سمت روانہ ہوا تو دیکھا کہ سبز لباس میں ایک ایسا شخص میرے سامنے ہے کہ جس نے اپنا سردونوں ہاتھوں میں اُٹھا رکھا ہے اور فریاد کرتا ہے۔ میں یہ ماجرا دیکھ کے سُن رہ گیا۔ تس پہ وہ بولا۔ تُو جو بھی ہے مجھ سے مت ڈر۔ میں شہید ہوں اور کافروں سے لڑتے ہوئے ایسا ہوا ہوں۔ میرا سر میرے شانوں پہ رکھدے اور پھر خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھ۔ چنانچہ میں نے اُس مرد شہید کے کہنے کے مطابق عمل کیا۔ سر شانوں پہ رکھا جانا تھا کہ وہ مسکرایا اور میری کمر تھپک کے بولا۔ تُو غازی مردوں میں شمار ہو گیا۔ یہ تیرا امتحان تھا اور میں خواجہ خضر ہوں کہ بھٹکوں کو راہ دکھلانے کی ذمہ داری مجھے تفویض کی گئی ہے۔ میں تیری منزل اور مقصد سے بخوبی واقف ہوں۔ تُو اس وقت طلسمات سے بھرے جنگل میں سفر کر رہا ہے۔ اس میں قدم قدم پہ تجھے وہ دیکھنے اور سننے کو ملے گا کہ اس سے پہلے کبھی تو نے دیکھا اور نہ ہی سنا ہو گا۔ ایک نصیحت کرتا ہوں۔ اسے پلے سے باندھ لے گا تو کامل چار روز کے سفر کے بعد اُس متفنی جن کو ایسے پاوے گا کہ وہ سوتا ہو گا اور تُو اپنی تلوار سے اُس کی گردن اُس کے شانوں سے با آسانی جدا کر دے گا اور اگر میری نصیحت پہ عمل نہ کیا تو زبوں حالی تیرا مقدر ہو گی۔ نصیحت یہ ہے کہ تجھے اس راہ میں کسی ہی حسین عورت ملے، اُس سے بچیو۔ وہ ہر طرح کے حیلے کرے گی۔ سو سو رنگ کے جال تجھ پہ پھینکے گی مگر تیرے لئے اُسے ٹھوکر مار کے آگے بڑھنا لازم ہو گا۔ مجھے اب خود سے رخصت دے کہ ایک شہزادہ اپنی ڈائن صفت سوتیلی ماں اور اُس کے جادوگر بھائی سے اپنی مملکت واپس لینے جا رہا ہے اور مجھے اُس کی مدد کرنی ہے۔ اور ہاں کل سے ایک بزرگ ہر شام تیرے واسطے دو روٹیاں ، گائے کا گوشت اور کوری ٹھِلیا میں ٹھنڈا پانی لئے آویں گے۔ اُن سے سلام کے علاوہ کلام نہ کرنا کہ وہ اس قابل نہیں۔ یہ کہا اور خواجہ خضر کھڑے کھڑے غائب ہو گئے۔

صاحبو اگلے دن میں سفر کرتا رہا اور کسی طلسم سے واسطہ نہ پڑا۔ شام کو بزرگ میرے واسطے کھانے پینے کا سامان لائے اور برتن خالی ہونے کے انتظار میں چپ شاہ کا روزہ رکھ کے بیٹھ گئے، جاتے وقت مجھ سے فقط اتنا کہا کہ کل گوشت کا ناغہ ہے اس واسطے تجھے اور گھوڑے کو فوجی لنگر کا کھانا ملے گا، یعنی چنے کی دال اور اے عزیز یہ جو تُو کھاتے وقت چپڑ چپڑ کی آوازیں پیدا کرتا ہے، یہ سماعت پہ ثقیل و گراں گزرتی ہیں ، ان سے پرہیز کر۔ اس کے بعد بھی کچھ بڑبڑایا کئے اور خواجہ خضر کی بات بالکل دُرست ثابت ہوئی کہ وہ کلام کرنے کے قابل نہ تھے اور اُن بڈھوں میں سے تھے کہ جو ساری عمر حماقت کے سمندر کی غواصی کرنے کے بعد، آخر عمر میں عقلمندی کے پھریرے لہرانے لگتے ہیں۔

اگلی صبح میں ابھی دو کوس بھی نہ چلا ہوں گا کہ ایک شجر سایہ دار کے نیچے چند ، چنڈو بازوں کو دیکھا کہ اس شدت سے کش لگاتے تھے کہ شعلہ اُن کی دستاروں سے اُوپر تلک جاتا تھا۔ مجھے کئی مہینے سے چرس و چنڈو نہیں ملی تھی چنانچہ اِس دل خوش کن بُو نے دل و جاں کو تر و تازہ کر دیا اور میں دو کش لگانے کو ہُڑکنے لگا۔ گھوڑا اُن کے قریب جا کے روکا اور نیچے اُترا۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی اُن میں سے ایک کہ سب کا سرخیل لگتا تھا، اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے مجھ دیکھ کے بولا۔ خوش آمدید اے اجنبی اور ساتھ ہی سب سے بڑا حقہ مجھے تھما دیا۔ میں نے اس شدت کا کش لگایا کہ پہلے چلم دغدغائی ، پھر پھٹی گئی اور پھر میرا مُوت نکل گیا۔ یہ نشے کا سب سے اسفل رد عمل ہوتا ہے مگر کیا کیجئے۔ غرض دو گھڑی اُن کے ساتھ بیٹھا اور مزید سفر کے قابل نہ رہا اور نیم بے ہوش پڑا رہا۔ یہ عقدہ مجھ پہ اُن نابکاروں کی گفتگو سے کھلا کہ وہ ٹھگ تھے اور اس طور مسافروں کو لُوٹنا اُن کا پیشہ ٹھہرا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے میرے گھوڑے، میرے اسباب پہ تو قبضہ کیا ہی، میرا لباس بھی اُتار کے چلتے بنے۔ جب ہلنے کے قابل ہوا اور خود پہ نظر پڑی تو شرم سے کٹا جاتا تھا۔ اُسی حال میں اُکڑوں چلتا ایک درخت کے قریب گیا اور وہاں سے چوڑے چوڑے پتے توڑ کے ستر پوشی کی۔ مگر اُس لباس میں ایک ساعت بھی نہ رہ سکا کہ چیونٹیوں نے ایسی ایسی جگہ کاٹا تھا کہ ہر شئے سُوج کے کُپا ہو گئی تھی۔ تفصیل اس اجمال کی بیان کرنے میں تہذیب مانع ہے۔ اپنا آگا پیچھا ہاتھوں سے چھپاتا، خوار و زبوں جنگل میں چلا جاتا تھا کہ ایک جگہ سے کسی مطربہ کے گانے کی آواز کان میں پڑی۔ آوا زکی سیدھ میں چلا اور درختوں کی آڑ سے دیکھا تو بند آنکھوں ، کھلی زلفوں اور بعد کے تجربے کے بموجب ویسی ہی عادات والی ایک پری پیکر کو پانی کے کنارے گاتے پایا۔ اُس کی صورت پہ وہ ملاحت، چہرے پہ وہ صباحت اور بعد کے تجربے کے بموجب دل میں وہ شقاوت تھی کہ جس کا ذکر کبھی سنا نہ دیکھا۔ صاحبو کوئی اور وقت اور موقع ہوتا تو اُس صورت اور صورتحال کو دیکھ کے میں کسی مجرمانہ فعل کا فوری ارتکاب کر بیٹھتا مگر یہاں (عیوب؟) برہنگی چھپانے کے لالے پڑے ہوئے تھے اور ہر چیز چیونٹیوں کے کاٹنے کے سبب ویسی ہو چکی تھی کہ جس کا ذکر کر چکا ہوں۔ خود کو دیکھتا اور اپنی حالت پہ تُف تُف کرتا تھا۔ چنانچہ بہت دیر تک خاموشی سے (حسینہ کو) دیکھا کیا۔

وہ ایک ماہرہ و شاطرہ جادوگرنی چڑیل تھی، آنکھیں کھول کے یوں مخاطب ہوئی کہ اے اجنبی میں تیری (بد)نیت اور تیرے حلیے دونوں سے کماحقہٗ واقف ہوں اور چونکہ اس طرح تو میرے مقابل آتے جھجکتا ہے ، چنانچہ اپنی باہنی طرف دیکھ اور وہاں جو بھی ملتا ہے، زیب تن کر کے میرے قریب آ کہ تجھے قرب حسن کی آنچ سے بھِلساؤں۔ میں نے اپنی باہنی طرف نگاہ کی تو ایک خلعت فاخرہ ایک شاخ پہ ٹنگی پائی، چنانچہ شتابی اُس میں داخل ہوا اور بوجوہ کمر کا پٹکا ڈھیلا چھوڑ دیا۔

اُس کے قریب پہنچا تو وہ مسکرائی اور میرے بیٹھنے کے واسطے اپنے پہلو میں جگہ بنانے کو ایک طرف سرک گئی۔ صاحبو کیا بیان کروں کہ اُس کے مشکبار پنڈے سے کیسی خوشبو کی لپٹیں آ رہی تھیں اور جوں جوں وہ مجھ سے قریب ہوتی تھی، ووں ووں میں خود کو عالم نعوظ میں آتا محسوس کرتا تھا۔ ابھی میں نے اُس کا ہاتھ ہی ہاتھ میں لیا تھا، کہ خواجہ خضر ایک درخت کے پیچھے سے نمودار ہوئے اور دونوں ہاتھوں سے مجھے آگے بڑھنے کو منع کرنے لگے۔ میں نے کچھ نہ سمجھنے کا عندیہ دینے کی کوشش کی تو اُنہوں نے بات کو واضح کرنے کے واسطے مروجہ و واضح فحش اشارے تک کئے مگر تِیرہ بختی میرے واسطے لکھی جا چکی تھی، چنانچہ اُن کی طرف سے اِدھر میں نے نگاہ پھیری، اُدھر اُنہوں نے داڑھی پہ ہاتھ پھیرا اور تجھ پہ خدا کی مار قسم کی کوئی بات کہہ کے شتابی غائب ہوئے۔

میں اور وہ حسینہ کامل چار ساعتوں تک وہاں عیش و عشرت میں مشغول رہے۔ تس کے بعد وہ دوپٹہ اوڑھ کے اور اپنے موباف کو باندھ کے بولی۔ جانی اب میں اپنی اصل صورت میں آنا چاہتی ہوں کہ اس صورت میں زیادہ دیر رہنا اب میرے بس میں نہیں۔ میں نے ہنس کے کہا۔ تم جس صورت میں بھی آؤ، یاروں کو قبول ہو۔ چنانچہ وہ زمین پہ لوٹی اور جب کھڑی ہوئی ہے تو ا یک بڑدَتی چڑیل کے روپ میں تھی کہ جس کے جھونٹے سانپ بنے لہرا رہے تھے اور چھاتیوں سے زہر کے فوارے اُبل رہے تھے۔ آواز ایسی کہ جیسے خر وہ کر رہے ہوں ، کہ جس کے لئے اُن کی مستی مشہور ہے۔ آنکھیں پیچھے کو پھری ہوئی اور پیر بھی اُسی حالت میں۔ ننگ دھڑنگ جسم موئے زِہارسے بھرا ہوا۔ میں بے ہوش ہوا چاہتا تھا لیکن اُس نے یہ کہہ کے باز رکھا کہ تُو پہلے میری سن لے۔ پھر شوق سے بے ہوش ہو جیو۔ پھر اپنے دانت نکوس کے بولی۔ اے اجنبی میں جانتی ہوں کہ تُو کس کام سے نکلا ہے اور یہ بھی کہ تجھے ایک بزرگ نے میرے طلسم سے ہشیار رہنے کو بھی کہا تھا۔ مگر تجھے پھانسنا میری مجبوری تھی کہ میں سامری جادو گر کی بد دعا اور سحر، ہر دو کی اسیر ہوں اور اُس وقت تلک رہوں گی کہ جب تلک تین جوان آدم زادوں کی بھینٹ اُس کی تصویر کے سامنے نہ دے لوں گی۔ تُو نچنت ہو جا۔ ابھی میں تجھے نہیں مار سکتی، کس واسطے کہ ابھی مجھے دو آدم زادوں کا اور انتظام کر نا ہے۔ یہ کہہ کے ہنسی اور میں شتابی بے ہوش ہو گیا۔

ہوش میں آیا تو اپنے تئیں اُس کے محل میں پایا۔ اب اُس نے مجھے بندی خانے میں سپاہی لگوا دیا ہے۔ اور یہ جتنی مخلوق تم اِدھر دیکھتے ہو، سب ہوائی ہے۔ وہ عورتیں بھی جو تمہیں گرفتار کر کے لائی تھیں۔ فقط یہ دروغہ زندان اورسپاہی چونکہ جوانی کی حد پار کر چکے ہیں ، اس لئے بے فکر ہیں۔ یہ سب اپنے اپنے ملکوں کے بھگوڑے مجرم ہیں اور اس چنڈالنی کے امن میں خوش ہیں۔ تو صاحبو اب جبکہ ہم تین نوجوان آدم زادے اس جگہ جمع ہو گئے ہیں تو وہ ضرور ہی کل سویرے ہم تینوں کے قتلے کروا دے گی اور جیسا کہ اُس نے مجھے بتایا ہے، اپنے اُستاد کی بد دعا سے نجات حاصل کر لے گی۔ میں نے جب سے یہ پایا ہے کہ اُس کی خواہش کے بموجب تین آدم زادے اُس حرامزادی کو میسر آ گئے ہیں ، تو مجھے اپنی قضا اپنے سر پہ کھیلتی محسوس ہو رہی ہے اور تبھی سے کثرتِ براز میں مبتلا ہوں۔

یہ قصہ سن کے میرے اور وزیر زادے کے ہاتھوں سے کچھ نہیں اُڑا کیونکہ ہمارے ہاتھوں میں سوائے غلامی کی زنجیروں کے اور کچھ تھا ہی نہیں۔ چنانچہ اُس احمق شہزادے سے کہا کہ تُو ہمیں یہاں سے نکالنے کا جتن کر۔ ہم خواجہ خضر سے واقفیت نکال لیں گے اور تیری معافی کا پروانہ بھی دلوا دیں گے۔ علاوہ ازیں ہمارے دو جن بھی غلام ہیں۔ ایک رخصت پہ ہے مگر دوسرا بھی اتنا گیا گزرا نہیں اور اس وقت شاید اس سبب سے حاضر نہیں ہو پا رہا کہ وہ اس محل کے حیطہ پہ کئے گئے جادو کے سبب معذور و قاصر ہے۔ اور جا کے خبر لا کہ وہ منحوس صورت دروغہ زندان بمع سپاہیوں کے کس حالت میں ہے۔ چنانچہ وہ گیا اور جب لوٹا تو اُس کے ہاتھ میں بندی خانے کی چابیاں جھنجھنا رہی تھیں۔ اُس نے ہماری زنجیریں کھولیں اور ہمیں لیتا ہوا چپکے سے بندی خانے سے نکل آیا۔

ہمارا اندازہ دُرست تھا۔ جن محل کے باہر بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ وہ صراحت کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر اس کا وقت نہ تھا، چنانچہ اُسے شتابی یہاں سے نکلنے کو کہا اور اُس کی کمر پہ تین آدمی بمشکل سوار ہوئے۔ جن ابھی اُڑا ہی تھا کہ گھوڑے ہائیں ہائیں کرتے دوڑتے دکھائے دئیے۔

جن کو اُتارا اور اُن نابکاروں کو بھی سوار کیا اور جن نے ہمیں جنگل کے پار اُتار دیا۔ میں نے جل پریوں کی ملکہ کی دی ہوئی انگوٹھی سے حصار کھینچا اور اُس میں پڑ رہے کہ ہمیں اُس مال زادی کی طرف سے شر کا ہنوز خطرہ تھا جو باطل ثابت ہوا۔

اگلی صبح یہ بحث چھڑ گئی کہ صاحب پہلے اپنے سوال کا جواب ڈھونڈا جائے یا شہزادے شیر افگن نے جس پرند سے شہزادی فلک ناز کی مدد کا وعدہ کیا ہے، اُسے پورا کیا جائے۔ وزیر زادہ کہ اُن مردان حُر میں سے ہے کہ دوسروں کی مدد و اعانت پہ ہمیشہ مستعد و چوکس رہا کرتے ہیں ، بولا۔ آقا زادے۔ تجربے نے بتلایا ہے کہ جو دوسروں کی مدد پہ آمادہ ہوتا اور اس سلسلے میں دوڑ دھوپ کرتا ہے، اُسے خدائی مدد ضرور حاصل ہوتی ہے، چنانچہ چاہئے کہ اس مظلوم و مجبور شہزادے کی مدد کی جائے اور اسے اس کے دوست پرند کے سامنے شرمساری سے بچایا جانا چاہئے۔ جن اسباب شراب و اکل لے کے لوٹا تو اُس کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ جن مسکرایا اور بولا۔ میں اُس مفتری سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اُسے فقط ایک ہی منتر آتا ہے کہ خوب رُو زنانِ جن و انس کو دہلا کے اپنے ڈھب پہ لے آتا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اُس شہزادی کے میاں کے مشاغلِ شبِ زفاف میں ہرگز حارج نہ ہو گا البتہ اس دوران شہزادی فلک ناز کو دھمکاتا ضرور رہے گا۔ انگوٹھی کا جن چونکہ میری نگاہ میں کسی مثالی کردار کا حامل نہ تھا چنانچہ میں اس توجیہ سے مطمئن نہ ہوا تس پہ جن مسکرایا اور بولا۔ اگر مجھ بےکس کی بات دُرست تسلیم کرنے میں تامل ہے تو ابھی اس کا ثبوت پیش کئے دیتا ہوں۔ چونکہ میں اُس کا مدتوں سے واقف ہوں اور کئی سو سال پہلے میں اور وہ شاہ جنات کے زندان خانے میں ایک ناگفتنی جرم میں سزا کاٹ چکے ہیں اور ابھی تک ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں ، چنانچہ میں اُس سے ابھی گفتگو کرتا ہوں اور آپ کوسنوائے بھی دیتا ہوں۔ ایک کرم میرے حال پہ یہ کیجئے کہ اس گفتگو کے دوران خاموشی اختیار کرے رہئے۔

چنانچہ خلا میں دیکھ کے کسی سے بولنے لگا اور جواب میں ہم نے ایک منحوس آواز ، کہ درد زہ میں مبتلاکسی گھوڑی کی آواز سے مشابہ تھی سنی۔ ہمارے جن سے اُس جن کی گفتگو میں شہزادی فلک ناز کا ذکر بھی آیا تو وہ منحوس ہنس کے بولا۔ میں نے شہزادی کو یوں یوں ڈرا رکھا ہے حالانکہ تم تو جانتے ہی ہو کہ یاروں کو ایک ہی منتر آتا ہے بلکہ اب یہ بھی کافی نہیں رہا کہ منتروں پہ تحقیق کرنے والے جادو گراس میں بہت سی ترمیمات کر کے اسے تقریباً متروک قرار دے چکے ہیں۔ تس پہ ہماری مزید تشفی کے واسطے ہمارے جن نے بار بار اُس سے کہلوایا کہ وہ شہزادی فلک ناز کو کوئی ضرر تو نہیں پہنچائے گا اور جواب انکار میں سن کے بارے میری تسلی ہوئی۔ شہزادہ شیر افگن یہ گفتگو سن کے خوش ہوا اور اپنے وطن جانے کی اجازت مانگنے لگا۔

ابھی ہم کھا پی کے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ بزرگ سفید پوش وارد ہو گیا اور ایک بوتل پی اور دوسری اپنے جبے کی جیب میں رکھ کے زیر لب، داشتہ آید بکار کہہ کے مسکرانے لگا اور شہزادے شیر افگن سے مخاطب ہوا کہ تیرا باپ تیری جدائی میں گھلا جاتا ہے اور تیری گمشدگی کی بنا پہ خون کے آٹھ آٹھ آنسو بہاتا ہے۔ وہ پرند کہ جس نے تجھے شہزادی کی مدد کے واسطے آمادہ کیا تھا، ہر روز تیرا انتظار کرتا ہے۔ تجھے میں (بد) ذات خود وہاں پہنچانے کا ذمہ لیتا ہوں ، مگر یاروں کو اپنے مشاغل میں مت بھول جائیو۔ یہ کہہ کے بزرگ سفید پوش نے ہم سب کو دیکھ کے ہلکی سی آنکھ ماری اور میرا منہ فرط حیرت سے یہ بھانپ کے کھل گیا کہ بزرگ سفید پوش دختر رز کا خوگر تو ہوا ہی تھا، اب وہ چنڈو خانے کے جملہ اسبابِ نشہ (و ذلت)آور ی کے واسطے بھی ہُڑک رہا تھا، چنانچہ اُسے سمجھانے کی کوشش کی تو بھڑک گیا اور بولا۔ صاحب آپ میرے باپ بننے کی کوشش مت کیجئے۔ میں اپنے کاموں کے سلسلے میں دنیا بھر کی خاک پھانکتا پھرتا ہوں۔ ذرا سادھواں بھلا میرا کیا بگاڑ لے گا اور اس بدبخت سے جو منہ سے لگی اور چھٹتی نہیں ، یہ نشے کہیں بہتر ہیں کہ اِنہیں کرنے والا فقط اپنی مادر و خواہر ایک کرتا ہے، حکومت وقت کے خلاف (بجا) نعرہ زنی کر کے قید و بند میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اور غور کیجئے تو کون کافر ہے کہ کسی نشے میں مبتلا نہیں۔ کہیں مال و منال کا نشہ ہے تو کہیں جاہ و جلال کا نشہ ہے، کہیں ارتکاز قوت کا نشہ ہے تو کہیں زعم شجاعت کا نشہ ہے، کوئی رنگ و نسل کے نشے میں چُور ہے تو کوئی زبان و علاقے میں مخمور ہے، کسی کو زعم عبادت کا نشہ ہے تو کسی کو کفر و بغاوت کا نشہ ہے۔ اور صاحب پیتا ہر کوئی ہے کہ تخلیق آدم کے خمیر میں یہ جبلت (علت؟)رکھ دی گئی تھی۔ پینے پلانے والوں کو انگیخت وہی دیتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ میری مراد حضرت ناصح سے ہے۔ اور میرا منہ نہ کھلوائیے۔ وہ کونسے کم ہیں۔ بے وقت کے پند ناصحانہ کا اپنا نشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ زباندانی کے گُرز میں لپیٹ کے میرے اعتراض کو جب میرے سر پہ مار چکا تو بزرگ سفید پوش، شہزادے شیر افگن کو اپنے گھوڑے پہ اپنے آگے بٹھا کے روانہ ہوا اور سبب اس کا یہ بتلایا کہ جس کو عزیز جانتا ہوں ، اُسے گھوڑے پہ اسی جگہ بٹھلاتا ہوں۔ تم نے کبھی مجھے بیوی کو اس جگہ بٹھلاتے دیکھا؟

ہمارا انگوٹھی کا جن کہ بزرگ سفید پوش سے، اُس کے جملہ عیوب کے باوجود ، ہمیشہ سے متاثر تھا، ملتمس ہوا کہ اُسے بھی تجربتہً اس نوع کا کوئی نشہ کرنے کی اجازت مرحمت ہو۔ پھر اُس نے اس سلسلے میں ایک طبی عذر بھی تراشنے کی کوشش کی کہ شراب اُس کی دشمنِ قوتِ باہ اور سببِ نا طاقتی در کارہائے سیاہ بن رہی تھی۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ حضت جب تک آپ میری غلامی میں ہیں ، میں یہ بدبُو دار نشہ برداشت نہیں کروں گا اور اگر آپ نے مجھ سے چھپ کے یہ فعل سر انجام دینے کی کوشش کی تو چھپا نہ رہے گا کہ عشق، مشک اور کھانسی خشک کی طرح چرس کی بُو میلوں دُور سے خود بولتی ہے کہ بوئے یار می آید۔ چنانچہ جن شرمندہ ہوا اور اُس وقت تک اس نشے سے مجتنب رہنے کا وعدہ کیا، جب تک وہ میری مصاحبی میں تھا۔ مگر وہ اول درجے کا عیار و سیہ باطن تھا۔

اگلی صبح ہم اس سوال کے جواب کو کھوجنے کی غرض سے گھوڑوں پہ سوار ہوئے کہ انار باغ کی شہزادی کا قصہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہ ہونے کے سبب، اٹکل سے ایک سمت چلے جاتے تھے کہ ایک مقام پر جنگل گھنا ہونا شروع ہوا اور پھراس قدر گھنا ہو گیا ہے کہ سورج کی روشنی نہ پہنچ پانے کے سبب ایک شب تار ہم پہ نا وقت اُتری۔ (گھوڑے) اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کے چلتے اور پاؤں اوندھی سیدھی جگہ پڑنے پہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے تھے۔ میں نے یہ پانے کو کہیں وہ میری شان میں گستاخی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے، کان لگا کے سننے کی کوشش کی مگر وہ اپنی نصیبوں کو ہی روتے تھے۔ میں وزیر زادے سے کہنے کو تھا کہ صاحب رستہ بدل کے دیکھئے کہ کیا ظہور میں آتا ہے کہ ایک پرندہ ہمارے سروں سے یہ کہتا گزر گیا کہ اے مسافرو ، تم اگر اس جنگل سے بخیر گزر گئے تو اپنے من کی مراد پا لو گے۔ یہ کلام سننا تھا کہ ہزارہا اندیشہ ہائے دُور دراز پھن کاڑھے میرے سامنے کھڑے ہو گئے۔

پھر اچانک اُس انگوٹھی کا خیال آیا کہ جو جل پریوں کی ملکہ نے دی تھی۔ صاحبو میں نے کمر بند سے بندھی وہ انگوٹھی جیسے ہی کھولی ، مانو ایک اور سورج نکل آیا۔ ہر شئے روشن ہو گئی۔ اب روشنی میں جو دِکھا وہ اتنا خوفناک تھا کہ مجھے اخراج بول کی ضرورت فوری طور پہ پیش آئی۔ وزیر زادے کا پتہ نہیں لیکن گھوڑے دھل دھل مُوتنے لگے۔ ہر درخت سے ایسے بوم لٹکے ہوئے تھے کہ جن کے قد اونٹوں کے برابر تھے۔ ایک چوہا میرے سامنے سے گزرا کہ گدھے کے برابرجس کا قد ہو گا۔ وہاں بلیاں شیروں کے برابر اور شیر پتہ نہیں کس کے برابر تھے کہ ابھی تک کوئی نظر سے نہیں گزرا تھا۔ صاحبو چیونٹیاں ہمارے مرغوں جتنی اور مرغے بکریوں برابر عام پائے جاتے تھے۔ ہم شکر باری تعالیٰ کا ادا کرتے تھے کہ اُن موذیوں میں سے کسی نے ہم سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا اور اپنے رستے چلتے رہے۔ جنگل تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا اور گھوڑوں کے قدم من من بھر کے ہو چکے تھے۔ میرے گھوڑے نے تو صاف کہہ دیا کہ آقا زادے۔ میں بھر پایا ایسے سفر سے کہ جس میں قدم قدم پہ بلائیں دبوچنے کو کھڑی ہیں اور آفات ہیں کہ باراں کی صورت آسمان سے برستی ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ اس ہرزہ سرائی کا جواب دوں مگر بولنا چاہا تو شدت پیاس سے ہونٹوں کو جڑا اور زبان کو مائل بہ لکنت پایا ، چنانچہ چِپکے ہونٹوں کے سبب بھی چُپکا رہا۔

ابھی تھوڑا سا سفر مزید طے ہوا ہو گا کہ پیڑ چھدرے ہوئے اور سورج کی روشنی جہاں تہاں سے ہویدا ہونے لگی۔ اُسی روشنی میں دیکھا کہ ایک مردِ جواں کہ اپنے حلیے سے ہم تم جیسا آدم زادہ ہی لگتا تھا، ایک درخت کی آڑ میں کھڑا فحش اشارے کرتا ہے۔ یہ دیکھ کے میرا شاہی خون جوش میں آیا اور قریب تھا کہ قرولی نکال کے اُس کے دل میں بھونک دوں کہ دیکھا کہ دانتوں میں کمر بند پکڑے کھڑا ہے اور یوں اشارے کرتا ہے کہ جیسے کہہ رہا ہو کہ کوئی ہے ، جو کمر بند باندھ دے۔ یہ ماجرا عجب دیکھ کے میں نے وزیر زادے سے کہا کہ اُس کی مدد کرے۔ وزیر زادے نے منہ اُدھر کو پھیر کے اُس کی مدد کی اور ساتھ ہی گویا ہوا کہ اے مرد(نا)معقول یہ کیا حرکت تھی۔ تس پہ وہ جواں گریہ و زاری کرنے لگا اور بولا۔ صاحبو میرے دونوں ہاتھوں کو دیکھو کہ شل ہیں اور فقط ایک حد تک اُنہیں ہِلا سکتا ہوں۔ وزیر زادے نے معائنہ کیا تو اُس کے ہاتھوں کو ویسا ہی پایا کہ جیسا کہ وہ کہتا تھا۔ ابھی ہم اُس سے کچھ اور پوچھنے کو تھے کہ ایک جیسا زلزلہ آ گیا اور زمین بھی دہلی۔ وہ ہم سے یہ کہتا ہوا کہ میرے ساتھ اس درخت کے پیچھے چھپ جاؤ ایک درخت کے پیچھے جا چھپا۔ ہم بھی اُس کے مقلد ہوئے۔ پیڑ کی آڑ سے دیکھا کہ ایک ننگ دھڑنگ جن، آدم بو آدم بو کہتا ہمارے قریب سے گزرا جاتا ہے۔ خیر جب وہ مردود ہمیں بہ سبب برہنگی گناہگار کر کے پیڑوں کی آڑ میں گم ہو گیا تو ہم نے اُس لُنجے سے پوچھا کہ اس جگہ سے نکلنے کی کوئی صورت ہے۔ تس پہ وہ بولا۔ صاحبو چھے مہینے سے اُوپر ہوتے ہیں ، میں یہاں قید ہوں اور میں تم سے یہاں سے نکلنے کی راہ پوچھتا ہوں ، تم مجھ بیکس سے پوچھتے ہو؟

ابھی ہم اُس کی بات کا جواب ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ انگوٹھی کے جن نے انگوٹھی کھٹکھٹائی اور جب باہر نکلا تو آس پاس دیکھ کے چکرا گیا اور قدرے ترشی سے بولا۔ واہ صاحب واہ۔ یہ آپ کہاں پھنس گئے۔ اگر اس جانب آنا ہی تھا تو مجھ حقیر سے پوچھ ہی لیا ہوتا۔ میں جن کی تلخی کو پی کے بولا۔ ہوا سو ہوا۔ مردود اب یہاں سے نکلنے کی کوئی ترکیب کر اور یہ کونسی جگہ ہے۔ تس پہ جن پریشانی سے بولا۔ یہ سرزمین بڑوں کی سرزمین کہلاتی ہے۔ یہاں کے بادشاہ نے کسی بزرگ سے گستاخی کی تھی تو اُنہی کی بد دعا سے اِن کی (اِس سر زمین کی) ہر شئے بڑی ہو گئی ہے اور اس کے سبب سے یہاں کی مخلوق ہر وقت کھاتی رہتی ہے مگر بھوک ہے کہ جوع الکلب اور جوع البقرسے بھی گزر گئی ہے۔ اور اے ولی نعمت۔ یہ جنگل کبھی آدھی زمین پہ پھیلا ہوا تھا ، اب سکڑ کے اتنا سا رہ گیا ہے۔ میری مانئے تو یہاں سے نکلنے کی ترکیب کیجئے۔ تس پہ میں نے کہا تو ہمیں یہاں سے لے چل۔ چنانچہ جن کو تینوں آدمیوں اور گھوڑوں سے زیر بار کیا۔ جن کو اُڑنے میں تکلف تھا۔ اُس کا سبب دریافت کیا تو وہ نابکار بولا۔ آقا مجھے شراب نے ایسے ادھ موا کر دیا ہے کہ جیسا کرنے کا حق ہے۔ نا طاقتی اس درجے کو پہنچی ہوئی ہے کہ اپنی جگہ سے اُڑنا محال ہے اور جب تک کوس دو کوس دوڑ نہ لوں ، قوت پرواز مجتمع کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ گھنا جنگل ہے اور اپنی جگہ سے سیدھا اُٹھنا کار دارد ہے۔ اس بحث کے اختتام سے پہلے کیا دیکھتا ہوں کہ سات آٹھ چڑیلیں ، ہاتھوں میں تلواریں لئے، ہماری سمت بڑھی چلی آتی ہیں۔ جن بھی اس کا چشم دید گواہ تھا، مگر زمین پہ پڑا ٹُکر ٹُکر دیکھا کیا۔ تس پہ وزیر زادے نے کہا۔ اے آقا زادے۔ یہ نا ہنجار مصیبت کی اس گھڑی میں ، اس بہانے آپ سے گانجہ اور چانڈو پینے کی اجازت مانگتا ہے۔ اجازت مرحمت ہو کہ یہ پرواز کرے ورنہ ان چڑیلوں کا ارادہ وہی ہے کہ جس کی توقع اُن سے میں اور آپ کرتے ہیں۔ جن اس دوران، ہم بہو بیٹیاں کیا جانیں کی تفسیر بنا چپکا پڑا رہا۔ تس پہ میں نے اُس خبیث کو محدود مقدار میں منشیات کے استعمال کی اجازت دی اور وہ نابکار کہ کچھ وقت پیشتر اپنی نا طاقتی کا رونا رو تا اور لخلخاتا تھا، زقند بھر کے فضا میں بلند ہو گیا اور طویل ا لقامت چڑیلوں کے ہاتھ سوائے ہزیمت کے اور کچھ نہ آیا۔

ہمارا نیا ساتھی کہ طلسم سے نکلتے ہی جس کے دونوں ہاتھ صحتیاب ہو گئے تھے اور وہ اُن سے برابر اور بد تمیزی سے اپنی ہر وہ جگہ کھجلا رہا تھا کہ جہاں تک اُس کے ہاتھ پہنچ سکتے تھے، ایک شہر کے آثار دیکھ کے رِریانے لگا کہ جن سے کہو کہ میرے شہر میں اُترے کہ آپ کی خدمت کرنے اور معشوقہ سے ملنے کے واسطے تڑپتا ہوں اور وہ دیکھئے میرے شہر کے آثار بھی دکھلائی پڑ رہے ہیں۔ وزیر زادے سے مشورہ کیا تو اُسے اس تجویز سے متفق پایا چنانچہ جن کو اپنے نئے ساتھی کی ہدایات پہ عمل کرنے کا حکم دیا۔

ابھی تک ہم اپنے ساتھی کے نام اور حیثیت سے واقف نہ ہوئے تھے مگر اُس کے اشارے پہ جب جن ایک جگہ اُترا اور میں نے خلقت سے راز داری کے سبب، اُسے انگوٹھی میں بند کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے وہاں جم غفیر جمع ہو گیا اور سب ہمارا شہزادہ زندہ باد کے نعرے لگانے لگے ، تب ہم سمجھے کہ یہ شخص جسے ہم اُس آسیب زدہ جنگل سے چھڑا کے لائے تھے، اس قلمرو کا شہزادہ تھا۔ چنانچہ وہ ہمیں اپنے ساتھ شاہی محل میں لے گیا اور ہمارے واسطے شاہی مہمان خانہ کھلو ا کے ہمیں ٹھہرا تے وقت غلاموں سے کہہ گیا کہ یہ میرے خاص مہمان ہیں اور اگر میں نے ان کی خدمت میں کسی قسم کی کمی پائی تو اپنے ہاتھ سے تمہیں قتل کروں گا۔ گھوڑوں کو شاہی اصطبل میں بھجوا دیا گیا۔

پہر رات گزری اور ہم کھا پی کے چاہتے تھے کہ بچھونوں پہ دراز ہوں کہ شہزادہ لوٹا اور معذرت خواہ ہوا کہ اُس کے والدین جو اُس کی گمشدگی سے شدت گریہ کے باعث اپنی آنکھوں کو مثل دیدہ یعقوب کر چکے تھے، اُس سے ملنے کو کیسے بے تاب تھے۔ پھر اُس نے اشارہ کیا اور ہمارے سامنے پیمانے گردش کرنے لگے۔ ساقی بھی ایسے کہ بے پئے ہی نشہ ہوا جاتا تھا۔ ہم سُرور و سکون سے گزرنے لگے تو شہزادے نے کہ جس کا نام سلطان اعظم تھا اپنی کہانی کچھ یوں سنائی۔

صاحبو جیسا کہ تم نے ملاحظہ کر لیا کہ میں ا س سلطنت کا ولی عہد ہوں۔ مجھ سے پیشتر میرے تین بھائی اور ہوئے جو صغر سِنی میں ہی واصل حق ہو گئے۔ میرا باپ کہ جسے موروثی سلطنت کے وارث کی فکر کھائے جاتی تھی، اس امر کے باعث ہر وقت متفکر اور مشوش رہتا تھا۔ بارے میری ماں نے اُسے ایک اور اولاد کی خوشخبری دی تو اُس کی فکر میں یہ سوچ کہ اضافہ ہوا کہ جانے یہ بچہ بھی بچے گا یا نہیں۔ میرے والدین نے ملک کی کوئی درگاہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں اس آرزو کے واسطے پیدل حاضری نہ دی ہو۔ ایک روز جبکہ میرا باپ دربار کرتا تھا اور بے دلی سے فیصلے کر رہا تھا کہ دروازے پہ ایک فقیر وارد ہوا کہ فقط ایک ہی کپڑے میں ملبوس تھا اور اُسی سے بالائی اور زیریں بدن کی پردہ پوشی کرتا تھا۔ دربانوں نے اُس کی ہیئت کذائی کے پیش نظر اُسے دربار میں باریاب ہونے سے روکا تو وہ بولا۔ میں اپنی کسی غرض کے سبب تمہارے بادشاہ سے ملنے کے واسطے نہیں آیا۔ میرے ملنے میں بادشاہ کی ہی غرض مضمر و پوشیدہ ہے۔ یہ کلام سنا تو سپاہیوں کا دروغہ میرے باپ کے حضور میں پیش ہوا اور جو واقعہ پیش آیا تھا سنایا۔ میرا باپ فوراً ہی اُس فقیر کو پیش کرنے کا حکم دے کے اُس کی آمد کا منتظر ہوا۔ جب فقیر میرے باپ کے روبرو ہوا تو بولا۔ اے بادشاہ۔ میں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ تیرے فرزند زیادہ دنوں تک نہیں جیتے مگر اب کی بار جو تیری عورت حاملہ ہے تو وہ بچہ بچ سکتا ہے مگر اُسے بھی خطرہ ہے تاآنکہ تو اپنے اُن افعال و اعمال پر توجہ نہ دے کہ جنہیں تیرے فرائض میں شمار کیا جاتا ہے۔ تس پہ میرا باپ بولا۔ تُو یقیناً کوئی بہت ہی پہنچا ہوا ولی ہے کہ جو کہا سچ کہا اور یہ جو میری زوجہ کے حاملہ ہونے والی بات ہے تو اس سے میں واقف ہوں یا میرا خدا۔ تو اے بزرگ مجھے کچھ نصیحت کیجئے کہ اولاد کی آرزو میں مرا جاتا ہوں اور اپنے چمنستان کو اُس کے بغیر سُونا پاتا ہوں۔ نیز یہ بھی بتلائیے کہ وہ کونسے اوامر ہیں کہ جنہیں اختیار کے میں اپنے نخلِ تمنا پہ برگ و بار دیکھ سکتا ہوں۔ تس پہ وہ فقیر مسکرایا اور بولا اے بادشاہ اب تجھ سے جو کہنے جا رہا ہوں ، تو تجھے واجب ہے کہ اسے پندِ توبیخ نہ سمجھے اور دل میں میرے واسطے کینہ نہ پالے کہ اہل حشم نصیحت کو اپنی چِڑ سمجھتے ہیں۔ میرے باپ نے وعدہ کیا تو وہ مرد پیر بولا۔

اے بادشاہ، تیرا حال اس وقت دنیا کے اور بادشاہوں سے مختلف نہیں کہ فقط بادشاہی کرتا ہے۔ تُو نے کبھی سوچا کہ اُس کردگار نے کہ تجھے بادشاہ اور مجھے کیوں فقیر بنایا ہے، امارت کی یہ کرسی تجھے کیوں عطا کی ہے۔ اگر تُو یہ سمجھتا ہے کہ یہ عزت افزائی تیرے مقدر میں اس واسطے لکھ دی گئی ہے کہ تُو خدا کے نزدیک برگزیدہ یا پسندیدہ ٹھہرا تھا تو یہ تیری بھول ہے۔ یہ امارت تیرے امتحان کے واسطے تجھے دی گئی ہے۔ اس سے اُس پالن ہار کو یہ مقصود تھا کہ تجھے عیش و طیش میں آزمائے۔

یہ جو رعایا جو تیرے گمان میں دن رات تیری عزت افزائی کرتی اور تجھے اُمید بھری نظروں سے دیکھتی اور تیرے حق میں جھولیاں پھیلا پھیلا کے دعائیں کرتی ہے، ایسی ہے نہیں کہ جیسا تجھے تیرے چاپلوس بتلاتے ہیں۔ اے بادشاہ۔ تیرا اصل کام یہاں اتنے خدمت گاروں میں بیٹھ کے حکم چلانے پہ ختم نہیں ہوتا۔ میں تیرے ملک میں کوئی پندرہ روز سے ہوں۔ تیری رعایا مفلوک حال، تیرے امیر مرفع الحال اور تیری فوج ظالم اور قانون شکن ہے۔ تجھے ابھی مفلسوں کی بد دعا کا انداز ہ نہیں ہے۔ وہ جو اس وقت تیرے گرد جمع ہیں اور فقط وہ سننے کے عادی ہیں جو تُو کہتا ہے اور وہ کہنے کے عادی ہیں جو تُو سننا چاہتا ہے، میٹھی چھریاں ہیں جو تیری رعایا میں نفرت کا سبب اور تیری آخرت کے حق میں کانٹے بو رہے ہیں۔ اے بادشاہ۔ یاد رکھ اقتدار گُڑ سے بھرا تھال ہے کہ جب انسان کو نصیب ہوتا ہے تو چیونٹیاں اور مکھیاں ساتھ لاتا ہے۔ تو جو سمجھدار اور خوف خدا کے حامل حکمران ہوتے ہیں ، وہ اس تھال کو ایسی جگہ رکھتے ہیں کہ جہاں وہ چیونٹیوں اور مکھیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اور یہ چیونٹیاں اور مکھیاں چاپلوس، خوشامدی اور جی حضوریوں کا وہ ٹولہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں پایا جاتا ہے۔ میری تجھے پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ ان سے نجات حاصل کر۔

اے بادشاہ۔ اقتدار کے سنگھاسن میں کانٹے اور تاج میں انگارے بھرے ہوتے ہیں اور یہ کانٹے اور انگارے وہ حکمران بعد از موت ساتھ لے جاتا ہے کہ جسے ان کا احساس نہیں ہونے دیا جاتا۔ تُو پوری کوشش بھی کر لے تو اپنے ملک سے بھوک، ننگ اور جہالت ختم نہیں کر سکتاکہ تجھے اپنی رعایا سے دُوری کی وجہ سے اُن کی تکلیفوں کا احساس ہی نہیں۔ تیرے لئے لازم ہے کہ تُو بچشم خود اُن کے مصائب کا ملاحظہ کرے۔ بادشاہ طبیب کی طرح ہوتا ہے جو فقط حال سن کے مریض کی دوا تجویز نہیں کرتا، اُس کی نبض اور قارورہ دیکھ کے مرض کا اندازہ کرتا اور اُس کے مطابق علاج کرتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تیرے دربار کا حیطہ شروع ہوتے ہی، تیرے محافظوں کی فوج کھڑی ملتی ہے جو ہر کہ و مہ کو تجھ سے ملنے کی راہ میں حارج و مزاحم ہوتی ہے۔ اور تجھ سے وہی مل پاتے ہیں کہ جن کے کنے رسوخ ہے اور یاد رکھ یہ تیرے اقتدار کی وہ چیونٹیاں اور مکھیاں ہیں کہ جو وقت پڑنے پہ اپنے اپنے بھرے پوٹوں کے ساتھ تجھے پہچاننے سے بھی انکار کر دیں گے۔

اے بادشاہ۔ میں تیرے لباس کو فاخرہ، تیرے تاج کو ضو فشاں اور تیری ہر انگشت میں لعل و جواہر دیکھتا ہوں۔ اور تیرے درباری اور تُو اُس طور کا طعام اپنے پیٹوں میں بھرتے ہو کہ جن کے نام بھی تیری رعایا نے نہیں سنے ہوں گے۔ کیا تیری رعایا میں سبھی ایسا لباس پہنتے ہیں ، ایسا کھانا کھاتے ہیں اور اُسی اطمینان سے سوتے ہیں کہ جس اطمینان سے تُو سوتا ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر میں تجھے اُس عذاب کی خبر سناتا ہوں کہ جسے عذاب الیم کہا گیا ہے۔ میں نے تیرے شہروں کی گلیوں کوچوں میں زر دار کے لئے اور ، اور نادار کے لئے اور، انصاف اور قانون کا میزان پایا ہے۔ یاد رکھ اس کاحساب بھی تجھ سے لیا جائے گا۔

اے بادشاہ۔ یہ سچ ہے کہ رعایا میں کچھ مفتری اور متفنی بھی ہو تے ہیں لیکن پایا یہ گیا ہے کہ اس دنیا کے لوگوں کی اکثریت اچھوں پہ مشتمل ہے اور یہ فقط مٹھی بھر لوگ ہیں کہ اُن کی زندگیاں بھی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ انہیں ختم کرنا چنداں مشکل نہیں لیکن تیرے دربار میں رسوخ رکھنے والے اُن کی پشت بانی کرتے اور اُنہیں اور مضبوط بناتے ہیں۔ انصاف کا معیار امیروں غریبوں کے لئے یکساں کر دے ، پھر دیکھ کہ تجھ پہ خدا کی رحمتیں کیسے نازل ہوتی ہیں۔

اور اے بادشاہ۔ ایک نصیحت آخر میں اور کرتا ہوں۔ تیرے ملک میں حرامکاری اپنے عروج پہ ہے کہ تُو نے ان حرامزادوں کی باتوں میں آ کر کہ تُو جنہیں اپنے مشیر کہتا اور اپنے دست و بازو سمجھتا ہے، مملکت میں زنا کو آسان اور نکاح کو مشکل کر دیا ہے۔ یہ خرابی جہاں عورت کی تکریم کی راہ میں رکاوٹ ہے وہیں تیرے نامہ اعمال پہ ایک سیاہ دھبہ بھی ہے۔ مقتدر اعلیٰ یہ باتیں نہیں سوچے گا تو پھر اور کون سوچے گا، چنانچہ تجھ پہ واجب ہے کہ نکاح کو ایسے رواج دے کہ کوئی حائضہ بے نکاحی نہ رہے کہ یہ عین ثواب ہے۔

تیری آرزو ہے کہ تیرے بعد تیری اولاد اس ملک پہ بادشاہی کرے، کیا تُو اتنی تمناؤں ، آرزوؤں اور دعاؤں سے پیدا ہونے والی اپنی اولاد کے گلے میں انگاروں کا یہ طوق ڈالنا چاہتا ہے جو تُو اپنی میراث میں چھوڑے گا؟اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرا بیٹا ایسے بادشاہی کرے کہ جیسے تُو بادشاہی کرتا ہے کہ میں تیرے اور رعایا کے درمیان خدا کو موجود نہیں پاتا ہوں ، تو تُو بے اولاد ہی اچھا لیکن اگر میری باتیں تیری سمجھ میں آ گئی ہیں اور تُو اُن پہ عمل کرنے کا وعدہ بھی کرتا تو پھر میں تجھے ایک ہونہار اور فرماں بردار فرزند کی خو ش خبری دیتا ہوں کہ جس کی بادشاہی اس ملک پہ مدتوں قائم رہے گی، دوسری صورت میں تُو شاہی قبرستان میں ایک اور قبر تیار رکھ۔

فقیر یہ کہہ کے خاموش ہوا۔ میرے باپ کا یہ حال کہ روتا جاتا اور فقیر کی باتوں پہ سر اثبات میں ہلاتا جاتا تھا۔ میرے باپ نے غور کیا تو فقیر کو حق پہ پایا۔ فقیر یہ سب کہہ کہ میرے باپ کو دیکھا کیا اور پھر بولا۔ تیرے فرزند کے بارے میں ایک نصیحت تجھے اور کرتا ہوں۔ ہر مہینے، کہ چاند کی سترہویں تاریخ ہو گی اور وہ اُتار پہ ہو گا ، اپنے بیٹے کو محل سے باہر مت جانے دیجیو اور یہ عمل برابر پچیس برس کی عمر تک اُسے جاری رکھنا ہے۔ سبب اس کا یہ بتلاتا ہوں کہ تیری زوجہ پہ اُس کے بچپن سے ایک جن عاشق ہے اور وہی تیرے بچوں کی گردنیں مسوس دیتا ہے۔ اب اگر تُو میری نصیحت کے بموجب عمل کرے گا تو تیری زوجہ اُس شری سے محفوظ رہے گی کہ خلقِ خدا کی دعائیں تیرے اور اُس کے ساتھ ہوں گی ، مگر وہ برابر پچیس برس تک تیرے بیٹے کو مارنے کی کوشش کرے گا۔ یہ کہا اور بھرے دربار میں سب کی آنکھوں کے سامنے وہ پیر مرد دھواں بنے بغیر غائب ہو گیا۔

میرے باپ نے اُسی وقت سے اُس فقیر کی نصیحت کے بموجب انداز حکمرانی اختیار کر لیا۔ اپنے بدن پہ موجود خلعت فاخرہ(لباس زیریں کی نفی کر کے) وہیں اُتار دی اور تاج ہوا میں اُچھالا اور اُس سے نکلے جواہرات کو شاہی خزانے میں جمع کروا دیا۔ اپنے امیروں اور اہل حشم کو ایسے انداز سے چھانٹا کہ جو اُن میں خوف خدا رکھنے والے تھے، اُنہیں باقی رکھا اور دیگر کو ساری مراعات واپس لے کے اپنے اپنے گھروں کو روانہ کیا۔ حیطہ محل سے پہرہ ہٹوا دیا اور رعایا کی شکایات اور مشکلات خود سننے لگا۔ شاہی دسترخوان پہ آٹھویں روز گوشت پکانے اور ایسے کھانے تیار کرنے کے واسطے حکم دیا کہ جن سے نفخ کی صورت پیدا نہ ہو اور اتنے کاسرِ ریح بھی نہ ہوں کہ وضو برقرار رکھنا امر ناممکن میں شمار ہونے لگے۔ مملکت کے علما کو طلب کیا اور اُن کے وزن کرائے اور اُن میں سے جن کی گردنیں اتنی موٹی پائی گئیں کہ کاٹنے کے واسطے دو تلواروں کی ضرورت پڑے اور شکم اتنے بڑے کہ رکوع و سجود میں اشکال پائے جانے کا خدشہ ہو، اُنہیں برطرف کر دیا گیا اور وجہ اس کی یہ بتلائی گئی کہ یہ کیسے خشیۃ اُللہ کا دعویٰ کرتے ہیں۔ خوف کسی کا بھی ہو، وہ پیٹوں اور گردنوں کو اتنا فربہ نہیں ہونے دیتا، پھر اللہ کا خوف! چنانچہ اُنہیں وقت دیا گیا کہ وہ اپنے اجسام و اعمال پر توجہ دیں اور زباندانی کے زور پہ رعایا کو بیوقوف بنانے کی کوشش نہ کریں۔ تبلیغ اور جہاد کے واسطے ریاست کی منظوری ضروری قرار پائی۔ یہی احکام کوتوالی کے محکمے کے لئے بھی جاری ہوئے اور کوتوالوں سمیت سبھی کے اوزان کرائے گئے۔

میرے باپ نے کسی سیاسی ضرورت کے تحت شراب نوشی پر مکمل پابند عائد کر دی تھی مگر شاہی محل ، خسروان اور خویش خسروان اس سے مبرا قرار دئیے گئے تھے ، چنانچہ رعایا نے اس کے متبادِل نشے ڈھونڈ لئے تھے جن کا نتیجہ یہ نکلا تھا وہ ایسے موذی نشوں میں مبتلا ہو گئی تھی کہ نہ جیتوں میں تھی نہ مرتوں میں۔ چنانچہ صاف ستھری نبید کی کشید کے واسطے شاہی احکامات جاری ہوئے مگر ساتھ ہی اس کے حرام ہونے اور پینے والے کو عذاب الیم کے خوف سے موثر انداز میں آگاہ کرانے کا بندوبست بھی ہوا۔ اس سے عوام میں جو نشہ کرنا چاہتے تھے، گناہ کے مرتکب ضرور ہوئے مگر اُس عبرت سے بچ گئے کہ جس میں مبتلا تھے۔ ساتھ ہی شراب سے توبہ کرنے اور مجتنب ہونے والوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کا اہتمام بھی کیا گیا۔ میرا باپ شراب کا مخالف ہوا اور یہ ساری کھکھیڑ اُن کے واسطے کی گئی کہ اگر شراب جیسا نشہ چھوڑنا بھی چاہیں تو اُس مصیبت سے نہ گزریں کہ جو غیر از شراب والے نشے چھوڑنے والوں پہ نازل ہوتی ہے۔

پھر میرے باپ نے جتنی قابلیت، جتنی محنت اور اُتنے معاوضے کا اعلان کیا اور اس طرح اُس لعنت سے نجات پائی کہ کسان ہر روز چلچلاتی دھوپ میں کام کر کے حقیر معاوضہ پاتا تھا اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھا زمین کا مالک محض اپنی ملکیت کی بنا پر اُس کا حق مارتا اور بے کار پڑا سارا دن اوندھا سیدھا لیٹا پادتا رہتا تھا۔ ساری بڑی جاگیریں چھوٹے چھوٹے قطعات میں تبدیل کر کےکسانوں میں بانٹ دی گئیں اور یوں اُن کی خوش حالی کا بندوبست کر دیا گیا۔ پھر میرے باپ نے حساب لگوایا کہ ایک آدمی کے رہنے، سونے، آرام کرنے کے واسطے کتنی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ حساب کر کے فی کنبہ کی ضرورت کا اندازہ کیا گیا اور اُسی حساب سے اُن کو رہنے کی جگہ دی گئی۔ ایسے یہ نا انصافی اپنے انجام کو پہنچی کہ دس دس بچوں کے ساتھ رہنے والے ایک کمرے میں اور فقط دو یا تین افراد پہ مشتمل کنبہ پندرہ سے بیس کمروں کے محلوں میں رہتا تھا۔

عدل و انصاف کے محکمے میں قاضی وہ لوگ چنے گئے کہ جن کی بارے میں رعایا خو ش ظنی رکھتی تھی۔ ایسے لوگ کبھی چھپے ہوئے نہیں ہوتے۔ ہر فرقے اور مذہب کے ماننے والوں کے یقین اور عقیدے کے مطابق انصاف کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ وہ لوگ کہ جن کا عقیدہ بادشاہ سے مختلف تھا، اُنہیں زیادہ عزت اور مراعات دی گئیں۔ فوج کہ میرے باپ کی بد انتظامی کے سبب شیر ہوئی جاتی تھی اور جب چاہتی اپنا انصاف خود کرنا شروع کرتی تھی، اُس کو غازی، شہید کے القاب دینے پہ پابندی لگی اور اس کے کام کو جہاد کے بجائے ایک پیشہ قرار دیا گیا۔ ا لغرض جب انصاف کا ہر سُو دور دورہ ہو گیا تو میرے باپ نے بارے اطمینان کا سانس لیا اور اپنے لئے شاہی خزانے سے گزارے لائق روزینہ مقرر کروا لیا۔ یہ دیکھا تو اُس کے مقربین بھی ایسا کرنے پہ مجبور ہوئے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں امن، چین اور اطمینان کی ہوا چلنے لگی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسے مفتری، متفنی اور سیاہ رو بالکل ہی ختم ہو گئے مگر وہ جو کرتے تھے، چھپ کے اور ڈر ک کے کرتے تھے کہ اُنہیں قانون کا خوف اور انصاف کی بے رحم تلوار اپنی شہ رگ سے بھِڑی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ ظلم اور گناہ سر عام کرنے اور اُس پہ فخر و مباہات کا اظہار کرنے کے دن ہوا ہوئے اور لوگ خوشحالی میں بسر کرنے اور چین کی بنسریاں با آوازِ بلند بجانے لگے اور بادشاہ کے حق میں دعا گو بھی۔

جب میری پیدائش ہوئی تو جشن کا شاہی سطح پر کوئی اہتمام نہ کیا گیا۔ رعایا نے جو شادیانے بجائے وہ اُن کے من کی خوشی کے غماز تھے۔ جب میں کسی قابل ہوا اور میری رسم بسم اللہ ادا کرنے کے بعد میری کتابی اور اکتسابی تعلیم شروع ہوئی تو میرا باپ میری خفتہ صلاحیتوں کو دیکھ کے پھولا نہ سماتا تھا۔ میری مسیں بھیگیں اور میں اُسی سال تعلیم سے فارغ ہوا مگر میری تربیت ایک بوڑھا اتالیق برابر کئے جاتا تھا۔ بس اُنہی دنوں وہ واقعہ پیش آیا کہ جس کے انجام پہ تم نے مجھے جنگل میں پایا۔

میں جنگل میں ایک ہرن کا تعاقب کرتا اپنے ساتھیوں سے بچھڑا اور پیاس کی شدت سے نڈھال بھٹکتا تھا۔ گرمی تھی کہ مارے ڈالتی تھی اور لُو تھی کہ اُدھیڑے ڈالتی تھی۔ اسی عالم میں چلا جاتا تھا اور اپنے گھوڑے کی حالت دیکھتا تھا کہ پیاس کی شدت میں بھی مجھ جیسے ڈھ، و کو لادے چلا جاتا تھا۔ بارے اپنے تئیں شرم آئی اور جی میں کہا کہ صاحب یہ کہاں کا انصاف ہے۔ بنانے والے نے اگر اُسے حیوان اور تمہیں انسان بنایا ہے اور تم اس عالم عطش میں بھی اُس پہ چڑھے چڑھے پھرو ہو اور وہ چونکہ بے زبان ہے اس لئے یہ فرض کرو ہو کہ وہ جی میں کچھ کہتا نہیں ہو گا۔ چنانچہ گھوڑے کو اپنے بار سے سبک کیا اور لگام پکڑے چلنے لگا۔

ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ انار کا ایک باغ دکھلائی دیا کہ اُس کے ایک گوشے میں ایک جھونپڑا بھی تھا۔ میری وہ کیفیت کہ سوکھے دھانوں میں پانی پڑا۔ میں شتابی اس اُمید میں آگے بڑھا کہ یہاں سے پانی تو مل ہی جاوے گا۔ چنانچہ جب باغ کے دروازے پہ پہنچا تو ایک بوڑھے کسان کو ایک شجرِسایہ دار میں بیٹھا پایا کہ اپنے سامنے ناریل کا حقہ رکھے مزے سے کھینچے جاتا تھا۔ مجھے اندر آتا دیکھا تو جلدی سے اُٹھا اور گھوڑے کی لگام پکڑ کے اُسے ایک طرف باندھا اور مجھے کوئی زر دار جان کے خدمت پوچھنے لگا۔ میں نے اُس پہ یہ ظاہر نہیں کیا کہ میں کوئی شہزادہ ہوں ، اور پانی پینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ابھی میری بات منہ ہی میں تھی کہ اُس کی بیٹی وارد ہو گئی۔ صاحبو کیا کہوں۔ کیا حُسن تھا، کیا ادا تھی اور کیا حیا تھی۔ میں پیاس بھول کے قدرت کی اُس صنعت کو دیکھتا اور عش عش کرتا تھا۔ کسان کے کہنے پہ وہ حسینہ لپ جھپ میرے واسطے اناروں کا رس کہ اُسی باغ کے تھے، لائی اور مجھے پیش کیا۔ اُس کے پدر نے کہ پیرانہ سالی کے باعث قدرے لنگڑا کے بھی چلتا تھا، میرے گھوڑے کو ناند بھر کے پانی پلایا۔ جب ہم دونوں سَیر ہو چکے تو بڈھا کسی کام کے سلسلے میں معذرت کر کے چلا گیا اور میں اُس حسینہ کے ساتھ تنہا رہ گیا۔ میں جی میں سوچتا تھا کہ یا کردگار، میرے باپ کی سلطنت میں ایسے ایسے دُر نایاب پڑے ہیں اور میں لاعلم ہوں۔ جب تیسرا پہر ہوا تو وہ بولی۔ اجی شام ہونے کو ہے۔ تمہارا کوئی گھر در بھی ہے کہ نہیں اور تم شکلاً اچھے بھلے سمجھ دار آدمی لگتے ہو، یہ موئے شہزادوں والے شوق کیوں پالے ہوئے ہو کہ سارا سارا دن بے زبان جانوروں کے پیچھے تیر کمان لئے واہی تباہی پھرتے ہیں۔ تس میں مسکرایا اور بولا۔ تمہی آنکو کہ تم مجھ سے زیادہ سمجھدار دِکھتی ہو۔ وہ ناک پہ اُنگلی رکھ کے بولی۔ اے نوج۔ میں کہاں سے سمجھدار دِکھتی ہوں۔ میرے باوا کہتے ہیں کہ تُو جس گھر جائے گی، گھر کا گھروا کر دے گی۔ میں اُس کی معصوم باتوں پہ ہنستا اور جس قدر گفتگو وہ مجھ سے کرتی جاتی تھی، اُسی قدر میرا دل اُس کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا۔

غرض شام ہونے لگی اور چراغ میں بتی پڑنے کا وقت آ گیا اور میں جب نہ ٹلا تو وہ سمجھ گئی کہ میرا شب باشی کا ارادہ ہے۔ پھر کچھ سوچ کے بولی۔ دیکھو جی۔ اگر تمہیں رات سے دن یہی کرنا ہے تو بتا دو کہ تمہارے لئے بھی دو روٹیاں ڈال دوں اور علیحدہ سے بچھونے کی کھکھیڑ کروں۔ میں اُس وقت تک اُسے دل دے چکا تھا اور یہ راز اُس پہ ظاہر کر دینا چاہتا تھا چنانچہ میں نے کہا۔ میں تو ساری عمر اب یہاں سے نہیں جانے کا کہ میرا دل اب تیرا ہو گیا ہے اور اے حسینہ سن۔ میں تیری زلف کا اسیر ہو چکا ہوں اور تجھ سے خواہش نکاح رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آنے والی ساری عمر تیرے ساتھ گزرے۔ وہ بولی۔ تُو جو بھی ہے مجھے بہت اچھا لگا ہے اور بعینہ یہی خواہش میری بھی ہے مگر میری جان بچپن سے ایک فضیحتے میں ہے کہ رات ہو گی تو تجھے بتلاؤں گی۔

اتنے میں بڈھا کسان بھی اپنے کاموں سے فراغت پا کے آ گیا اور مجھے وہاں بدستور موجود پا کے ملتمس ہوا کہ میں ، اب جہاں بھی مجھے جانا ہے، صبح ہی جاؤں کہ رات ہوتے ہی جنگل کا سفر خطر ناک ہو جاتا ہے۔ میں تو پہلے ہی سے نیت کئے بیٹھا تھا چنانچہ اُس پہ اپنے دل کا حال ظاہر کئے بغیر ہاں کر دی۔ جب رات گہری ہوئی تو انار دانے کی چٹنی ، دو روٹیاں اور پانی کی کوری ٹھلیا لئے وہ آن موجود ہوئی اور مجھے بڑی محبت سے کھاتا دیکھتی رہی۔ ابھی آسمان کا چاند وسط میں بھی نہ آیا تھا کہ وہ برتن باسن دھو کے آ گئی اور بولی۔ اب ڈرنے کی کوئی بات نہیں کہ باوا کو افیون گھول کے دیتی آئی ہوں۔ اب کہہ جو بھی تجھے کہنا ہے۔ میں نے کہا۔ مجھے جو کہنا تھا ، کہہ چکا اب تُو کہہ کہ وہ فضیحتے والی کیا بات تھی۔

اُس نے اپنا قصہ یوں سنایا۔ میں اس کسان کی سگی بیٹی نہیں۔ بلکہ میرا اس کا کوئی بھی رشتہ نہیں ہے۔ میں چاند نگر کے بادشاہ کی بیٹی ہوں اور یہاں بن باس کاٹ رہی ہوں۔ جب میں پیدا ہوئی تو میرے باپ کو شاہی نجومیوں نے بتلا دیا تھا کہ یہ لڑکی اپنے ساتھ ایک آسیب لے کے پیدا ہو گی اور جب کامل بارہ برس کی ہو گی تو وہ آسیب ظاہر ہو گا اور جب جوان ہو گی تووہ اس سے شادی کر لے گا اور اگر تم انکار کرو گے تو اس سلطنت سے بھی جاؤ گے اور بیٹی سے بھی۔ تس پہ میرے باپ نے کہا۔ ایسی کوئی صورت ہے کہ میری بیٹی اور میری سلطنت اُس موذی سے محفوظ رہے تو اُن میں جو سب سے عمر دار تھا۔ بولا اے بادشاہ اس کی ایک ہی صورت ہے کہ تیری بیٹی فلاں ملک کے فلاں جنگل میں واقع ایک انار کے باغ کے مالک کے گھر میں پرورش پائے اور جب بارہ برس کی ہو تو وہاں پہنچا دی جائے۔ وہ کسان بے اولاد ہے اور بیوی اُس کی مر چکی ہے۔ ہم ایسی صورت کریں گے کہ اُسے خواب میں دکھلائی دے کے بشارت دے دیں گے کہ تجھے اپنے باغ میں پڑی ایک لڑکی ملے گی اور تُو اُسے اپنی بیٹی بنا کے پالے گا۔ اُسے کامل پچاس برس کی عمر تک وہاں رہنا ہو گا، ہاں البتہ اس دوران وہ موذی آسیب اگر مارا جائے تو پھر وہ آزاد ہو گی۔

چنانچہ جب سب طے ہو گیا تو میرے والدین نے کلیجے پہ پتھر رکھ کے مجھے رخصت کیا اور اس کسان نے مجھے عطیہ خداوندی سمجھ کے قبول کر لیا۔ میں اس کی بیٹی بن کے یہاں رہتی ہوں مگر فضیحتا یہ ہو گیا ہے کہ اُس مردار آسیب کو کہ ایک دیو کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اس جگہ کا علم ہو گیا ہے اور یہ بات اُسے میرے باپ کے باغی جادوگروں میں سے ایک نے بتلائی ہے۔ وہ ہر مہینے کی سترہویں تاریخ کو یہاں آتا ہے اور چونکہ یہ جگہ مجھے اُس کے جادو کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کے واسطے بتلائی گئی ہے چنانچہ ہوا میں ٹنگے ٹنگے دھمکا کے چلا جاتا ہے۔ میں یہاں پڑی پڑی بڈھی ہو جاؤں گی اور ہمیشہ باکرہ و غیر مدخولہ رہوں گی کیونکہ وہ دیو میرے ہونے والے خصم کو مار دے گا اور جانی یہی نہیں ، پچاس برس بعد کسی کے ہاتھ آئی بھی تو فقط ہاتھ پیر دبانے کی خدمت کے علاوہ اور کسی کام کی نہ رہوں گی۔ صراحت اس بات کی کرتے کٹتی ہوں اور تُو صورت سے زیرک و دانا لگتا ہے، چنانچہ تھوڑے کہے کہ زیادہ جان۔ جب سے تجھے دیکھا ہے، تیری صورت کی اسیر ہوئی ہوں اور تجھ سے نکاح اور مراحل بعد از سے گزرنے کے واسطے بے چین ہوں اور جو بھی ماجرا تھا ، میں نے تجھ سے بیان کر دیا۔ اب اگر تُو خود کو اتنا جواں مرد پاتا ہے کہ اُس دیو کی چُٹیا کاٹ لے کہ اُسی میں اُس مردود کی جان ہے تو مجھے پا سکتا ہے، ورنہ آج سے میں بھی تارے گنوں گی اور تُو بھی گننا کہ عاشقوں معشوقوں کے واسطے یہ کام مقدر کر دیا گیا ہے۔

میں اُس کا قصہ سُن کے سُن رہ گیا۔ اگر میں اُس نابکار کے مقابلے پہ آمادہ بھی ہو جاتا تو یہ وہ تاریخ تھی کہ جس کے لئے میری پیدائش کی نوید دینے والے بزرگ نے میرے باپ کو بتلا دیا تھا اور کہا تھا کہ کامل پچیس برس تک اس تاریخ کو محل سے باہر جانے سے میری جان کو خطرہ ہو سکتا تھا اور میری معشوقہ بھی یہی کہتی تھی کہ وہ نا مراد ہر مہینے کی سترہ ہی تاریخ کو اُسے ڈرانے دھمکانے کے واسطے آیا کرتا تھا۔ وہ یوں بھی بولی کہ میں جب تک اس حیطہ باغ میں ہوں ، اُس نابکار کے ستم سے محفوظ ہوں اور جونہی یہاں سے باہر قدم رکھوں گی وہ مجھے اُچک لے گا اور پھر کہیں بھی لے جائے، نکاح کرے ، نہ کرے، یہ سب اُس کی منشا پہ ہو گا۔ میں جانتا تھا کہ اُس خبیث کی (بد) نیت کیا تھی کہ نکاح کرنے والے یوں دُند نہیں مچاتے۔

الغرض جب پوہ پھٹنے کو ہوئی اور وہ مجھ سے رخصت ہونے لگی تو میں نے اُسے اپنے بارے میں بتلایا۔ میں نے کہا۔ سن اے جان من۔ میں اس ملک کا شہزادہ اور ولی عہد ہوں اور یہ میرا نام ہے۔ یہ سچ ہے کہ (انشا اللہ) اپنے باوا کے انتقال کے بعد مجھی کو عنان حکومت سنبھالنی اور بادشاہ بننا ہے مگر اب سے میں تیرا غلام ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ تجھے اُس موذی سے نجات دلانے کو کوئی نہ کوئی جتن ضرور کروں گا اور اُس وقت تک چھپر کھٹ پہ سونے اور غسل کو اپنے پہ حرام سمجھوں گا۔ یہ کہا اور اُس کے(اُس کی خواہشِ پوشیدہ کے عین مطابق) چٹاخ چٹاخ دو بوسے لے کے گھر کو روانہ ہوا۔

صاحبو میرا وقت پہ پہنچنا بہت سوں کی جانیں بچا گیا کہ میرے باپ نے میری رات بھر کی گمشدگی کے سلسلے میں جس جس پہ شک کیا تھا، اُنہیں پھانسی دینے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ میں محل پہنچ گیا اور دوگانہ ادا کیا کہ میری وجہ سے کتنی ہی جانیں بچ گئیں۔ میری ماں نے گیارہ اشرفیوں کی شیرینی تقسیم کی اور میرے ہاتھ تلے گزار کے اتنے ہی کالے بکرے صدقہ کئے کہ دافع بلیات ہوتے ہیں۔ حالانکہ میں اُن بکروں کے حق میں بلا ثابت ہوا تھا۔

الغرض اُس دن کے بعد سے میں ہر وقت اسی فکر میں غلطاں رہنے لگا کہ اپنی معشوقہ کو اُس دیو کے چنگل سے کیسے نجات دلواؤں۔ اس فکر میں میرا کھانا پینا چھُٹ گیا۔ جب سے میرے باپ نے اپنے ملک کو امن آباد بنایا تھا ، ہم وہی کھاتے تھے جو ایک عام آدمی کھاتا تھا اور وہی پہنتے تھے جو ایک عام آدمی پہنتا تھا۔ صاحبو، کسی کی صورت بادشاہوں والی نہیں ہوتی، فقط حلیہ اور رعب داب اُسے ایسا بنا کے پیش کرتا ہے، چنانچہ میرے باپ نے جب سادگی اختیار کی تو وہ بالکل ایک عام آدمی لگتا تھا اور جب ایک عام آدمی اُسے دیکھتا تو خوش ہوتا تھا کہ بادشاہ میری شباہت اور حلیے کا ہے۔ میرے باپ نے اپنے ساتھ محافظ رکھنا چھوڑ دئیے تھے کہ وہ رعایا میں مرغوب و مقبول تھا اور رعایا خود اُس کی حفاظت کرتی تھی۔ چنانچہ میرے باپ کے پاس عام لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اُنہی میں وہ مردِ درویش بھی تھا کہ جس نے مجھے دیکھا اور میرے راز عشق کو پا لیا۔

میں اپنے باپ کے اردل میں بیٹھا تھا کہ وہ شخص کسی کام سے آیا اور جب رخصت ہونے لگا تو مجھ سے یوں گویا ہوا۔ شہزادے میں تیری آنکھوں کی بے قراری اور ہاتھوں کے اضطراب سے پاتا ہوں کہ تیرے خرمن دل پہ عشق کی بجلی گر چکی ہے اور تُو اپنے محبوب کو پانے کو دن رات تڑپا کرتا ہے۔ یہ کلام میرے باپ نے سنا تو اُس کے کان کھڑے ہوئے اور مجھ سے اس واقعے کی شہادت چاہی تو میں نے جو بھی پیش آیا تھا کہہ سنا یا اور کہ بھی کہہ دیا کہ اگر وہ حسینہ میری زوجیت میں نہ آئی تو پھر مجھے سدا کا کنوارہ ہی سمجھئے کہ میں اُس سے شادی کرنے کا مصمم ارادہ اپنے جی میں باندھ چکا ہوں۔

میرے باپ کو یہ سن کے گونہ خوشی ہوئی کہ وہ کسی ملک کی شہزادی تھی لیکن ساتھ ہی یہ جان کے مضطرب بھی ہوا کہ وہ خبیث دیو عین اُس تاریخ کو آتا تھا جس میں محل سے میرے باہر نکلنے کی مناہی وہ بزرگ کر چکا تھا ، چنانچہ وزیر سے مشورہ کیا کہ ایسی صورت میں کیا کیا جانا چاہئے۔ میرے باپ کا وزیر کہ ابھی تک سلامت اور چونچال ہے، بولا۔ ولی نعمت۔ بے شک یہ ایسا مرض ہے کہ سبھی صغار و کبار کبھی نہ کبھی اس میں مبتلا ہوتے ہیں اور س کا علاج سوائے وصل یار کے اور کچھ نہیں لیکن جب تلک ہمارا شہزادہ پچیس برس کا نہیں ہو جاتا ، احتیاط لازم ہے اور اے بادشاہ تُو کل اُس مراثی کو دربار میں حاضر کر کہ جو شہر بھر کے لوگوں کے خاندانوں کے احوال لکھتا ہے کہ جس میں موت، پیدائش، شادی اور عمر غرض کہ ہر قسم کا احوال تاریخ وار درج ہوتا ہے اور اُس سے شہزادے کی عمر کا احوال پوچھ۔

میرے باپ کو یہ تجویز بہت خوش آئی۔ چنانچہ اگلے روز مراثی کو حاضر کرا جس نے شاہی محل سمیت ملک بھر کے لوگوں کے متذکرہ بالا حسابات لکھ چھوڑے تھے۔ مراثی نے میرے باپ کو مبارکباد دی اور بتلایا کہ شہزادہ تو پچھلے برس ہی پچیس برس کا ہو چکا ہے اور آپ اب تلک حفاظت کی جو کھکھیڑ پالے ہوئے ہیں ، اُس سے گزرئیے اور شہزادے پر ممنوعہ تاریخ پہ شکار و سیر اور شاہی محل سے باہر جانے کی جو پابندی ہے اُسے شتابی اُٹھوائیے۔ چنانچہ میں نچنت ہوا اور اپنے باپ سے اُس دیو سے مقابلے کی اجازت چاہی کہ جو میری قراۃ العین کی عصمت پاشی کے درپے تھا۔

میں مقررہ تاریخ کو اپنے چند جا نثار ساتھیوں کے ساتھ اُس جنگل میں پہنچ گیا اور اُنہیں مسلح و پوشیدہ کر کے خود دربارحُسن میں بار یاب ہوا۔ اُس وقت تلک بڈھا کسان افیون کے گھونٹ بھر چکا تھا اور بے سُدھ تھا۔ میری معشوقہ سے میری ملاقات ہوئی اور جب راز و نیاز ہو چکے تو میں اُس موذی کے آنے کا منتظر ہوا۔ چاند اپنے اُتار پہ تھا اور میں اپنی پیدائش سے اب تک چونکہ اس نظارے سے محروم رہا تھا ، چنانچہ اُس میں کھویا ہوا تھا۔ جب اُس نابکار کے آنے میں کچھ ہی دقیقے باقی ہوں گے کہ میری محبوبہ بولی۔ وہ چاند کی طرف سے آئے گا اور وہ سامنے والے درخت کی چوٹی پہ ٹنگ کے مجھ سے زبان درازی کرے گا۔ وہ ذات کا بھنڈیلا ہے اور جو زبان بولتا ہے وہ ہمیں تمہیں کبھی خوش نہیں آ سکتی، چنانچہ تمہیں واجب ہے کہ اپنے غصے کو قابو میں رکھیو۔ غصے میں آدمی اپنے حواسوں میں نہیں رہتا ، سیانے کہہ گئے ہیں کہ غصے میں سارے لوازمات کہ کھانا ، پینا اور جماع سر فہرست ہیں ، ضرر کے سوا اور کچھ نہیں دیتے۔

وہ مجھے نصیحت کر کے ابھی چپکی ہی ہوئی تھی کہ چاند کی طرف سے وہ منحوس اُڑتا ہوا زمین کی طرف آیا اور ایک درخت پہ ٹنگ کے بولا۔ حرامزادی برابر بارہ برس سے تیرے دیدار کو آتا ہوں۔ مانتی کیوں نہیں اور آج اپنے ساتھ یہ کونسا نیا دھِگڑا بٹھا رکھا ہے۔ یہ کلام غیر نرم و نازک سنا تو شاہی خون جوش میں آیا اور چاہتا تھا کہ پکار کے کہوں کہ ابے او گیدی۔ پیڑ پہ ٹنگا ٹنگا کیا زیٹ اُڑا رہا ہے، اگر یک پدر ہے تو نیچے آ مگر میری معشوقہ منع کر چکی تھی، اس واسطے صبر کے گھونٹ بھرا کیا۔ مگر وہ شرافت کو کمزوری سمجھا اور اپنی زبان سے غلاظت کے وہ وہ وار کئے کہ شیطان کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسے وہاں سے دُور بھاگا ہو گا۔ پھر میں نے اپنی معشوقہ سے کہا کہ تم اسے میٹھی میٹھی باتوں میں لگاؤ ، میں اس کثیر الپدر کی چٹیا قابو کر کے اُسے اپنی قرولی سے کاٹنے کا کوئی جتن کرتا ہوں کہ اسی میں اس مردود کی جان ہے۔ اتنے میں میرے ساتھیوں میں سے کسی کا تیر سناتا ہوا آیا اور اُس موذی کے ایسی جگہ لگا کہ بیان کی تہذیب اجازت نہیں دیتی۔ خون کے شراٹے چھٹ گئے۔ وہ شدت تکلیف سے دہرا ہوا اوراُس کی چٹیا کہ اُس کی کمر پہ لہراتی تھی، اتنی نیچی ہوئی کہ میں نے پکڑ کے کاٹ ڈالی۔ چٹیا کا کٹنا تھا کہ وہ موذی اڑڑا دھم سے پیڑ سے نیچے گرا اور میں چونکہ پیڑ کے عین نیچے کھڑا تھا ، بمشکل بچا مگر اُس خون کی ایک چھینٹ مجھ پہ پڑ گئی۔ وہ دیوث اُس جنگل کا باسی تھا کہ جہاں سے آپ نے مجھے بازیاب کرا ہے، چنانچہ مرتے مرتے بھی وار کر گیا اور میرے دونوں ہاتھ شل ہوئے اور میں نے پلک جھپکتے میں خود کو اُس جنگل میں پایا۔ ان چھے مہینوں میں ، میں نے خود کو کیسے اُس جنگل کی مخلوق سے بچایا ، یہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا۔ اس کرم کے لئے جو تم نے میرے حال پہ کرا ہے، مجھے ہمیشہ ممنون پاؤ گے۔

شہزادے کا قصہ ختم ہوا تو صبح کی اذان ہو رہی تھی، چنانچہ وہ یہ کہتا ہوا اُٹھ گیا کہ کل میرا باپ ، میری بارات لے کے میری معشوق کو میرے رشتہ مناکحت میں باندھنے کو روانہ ہو گا، آپ سے شرکت کی استدعا ہے۔ چنانچہ دوسرے دن نکاح ہوا اور ہم سب اُس کی معشوق کی ڈولی لئے شاہی محل آئے۔ اگلے دن شہزادے نے گواہی دی کہ وہ جملہ مراحل بعد از نکاح سے سُرخرو نکلا ہے، چنانچہ اسباب تناول، کہ فواکہات و مشروبات کے سو کچھ نہ تھے، کو ہاتھ لگایا۔ شہزادہ اپنی جورو کے ساتھ اُس کے ملک کو روانہ ہوا اور ہم جن کی کمر پہ سوارہوئے کہ شہزادی کے سوال کا جواب اُسے پہنچانا تھا۔

وزیر زادہ بضد ہوا کہ اب کی بار میں اُسے بھی اپنے معشوق کی سرزمین دکھلاؤں ، تس پہ گھوڑے بھی اڑ گئے کہ صاحب خود جہانِ دگر میں پھرتے اور عیش و طرب سے گزرتے ہو اور آفات رہ گئی ہیں تو وہ ہمیں کو بھگتنا پڑتی ہیں تو اس بار ایسا کیوں نہ کیجئے کہ ہمیں بھی ساتھ لئے چلئے کہ خدا کی اس دنیا کو کبھی تو خوف و خطر کے بغیر ملاحظہ کریں۔ غور کیا تو اس بات کو دُرست پایا اور وزیر زادے سمیت اُن نابکاروں کو بھی جن کی پشت پہ سوار کیا لیکن رستے میں صاف کہا کہ میں بوجوہ تم میں سے کسی سے اپنی معشوقہ کو ملوا نہیں سکتاکہ ایک تو وہ پابند شرع ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ، چاہے گھوڑا ہی کیوں نہ ہو، میں اپنی مخطوبہ کوکسی نا محرم کے روبرو نہیں کر سکتا۔ تس پہ گھوڑوں نے کہ جن کے (داغدار) ماضی کا میں چشم دید گواہ تھا ، سوائے آہ سرد بھرنے کے اور کچھ نہ کیا۔

اپنی محبوبہ دل نواز سے ملا اور سوال کا جواب دُرست پانے کی رسید لی اور اگلا سوال حاصل کر کے رسید دی اور اپنے ساتھیوں میں واپس پہنچا۔ جس مقام پہ میں وزیر زادے اور گھوڑوں کو جن کے ہمراہ چھوڑ گیا تھا، اُنہیں وہیں پایا۔ جن انٹا غفیل تھا تو پہلے اُس ہلایا، پھر جھنجھوڑا، پھر گالیاں دیں ، پھر مارا ، یعنی وہ سبھی طریقے اختیار کئے کہ جو ایسے نشے کرنے والوں کے واسطے واجب ہیں ، تو کہیں جا کے وہ رذیل نیند سے جاگا۔ اس نومِ خوابِ خرگوش نما کی وجہ دریافت کی تو وزیر زادہ یوں گویا ہوا کہ اے ولی نعمت۔ اسے آپ نے خود ہی تو منشیات کے استعمال کی اجازت دی تھی، چنانچہ کہیں سے افیون پھانک آیا ہے اور فرصت کے اوقات کے علاوہ بھی مستی کی نیند سوتا ہے۔ جن ہاتھ جوڑ کے عرض گزاشت ہوا کہ وہ اس تقصیر کی معافی چاہتا ہے اور چونکہ اُس نے افیون کو انتہائی اسفل نشہ پایا ہے، چنانچہ وہ اس کے ایک ہی بار کے استعمال کے بعد اس سے تائب و مجتنب ہو چکا ہے کہ اس میدان میں علاج تنگی داماں کے وسیع امکانات ہنوز باقی ہیں۔ یہ گفتگو کہ غیر اثر پذیری میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھی، کر کے جن اوندھا ہوا اور ہم اُس کی کمر پہ سوار ہوئے۔ جن اُڑا چلا جاتا تھا کہ وزیر زادے نے مجھ سے اُس چھٹے سوال کے بارے میں دریافت کیا جو میری معشوقہ ماہ نور نے مجھے دیا تھا۔ میں نے سوال والا رقعہ نکال کے دیکھا تو لکھا تھا۔

شہزادی کا چھٹا سوال: سفید عذاب میں مبتلا قوم کی خبر لاؤ

یہ سوال اپنی نوعیت میں پہلے سوالوں سے کچھ مختلف نہ تھا اور ہم بڑی دیر اس کی بناوٹ پر غور کرتے رہے۔ چونکہ ہمیں قطعی علم نہ تھا کہ اس سوال کا جواب کہاں سے ملے گا، اس واسطے جن کی کمر پہ سوار سفر سمتِ نامعلوم کی جانب کرتے رہے۔ اچانک جن ہوا میں لہرایا اور میں سمجھ گیا کہ وہ کمبخت سورہا تھا، قرولی سے اُس کی کمر میں کچوکے دے کے اُسے ہشیار کیا۔ جن نجانے کیا سمجھا، ترنت ہی ایک گھاٹی میں اُتر گیا۔ چاروں طرف پہاڑ اور سبزہ تھا اور پانی بھی لہریں لے رہا تھا۔ خورشید جہاں تاب پہاڑیوں کے پیچھے چھپنے کو تھا چنانچہ طے ہوا کہ آج کی رات اسی جگہ قیام کیجئے۔ جن کو کھانے پینے کے واسطے کچھ لانے کے واسطے بھیجا اور گھوڑوں کو کہ، ابھی تک میری معشوق کی سرزمین کی اپنی ذات کی مونثوں کا ذکر حسرت سے کرتے تھے، کھانے پینے کےواسطے چھوڑ دیا۔

میں اور وزیر زادہ غسل کر کے ابھی فرغل اور پگڑیاں پہن ہی رہے تھے کہ ایک گھوڑے کو قریب اُترتے دیکھا۔ پہچانا تو اپنا حبیب لبیب بزرگ سفید پوش تھا کہ گھبرایا ہوا تھا۔ میں سمجھا کہ ضرور ہی اس کی چنڈالنی زوجہ نے اسے ضیق کیا ہو گا یا پھر خاطف صفت سالے گھر سے کچھ اُٹھا کے لے گئے ہوں گے، لیکن وہ قریب آیا اور اتنی جلدی میں تھا کہ معمول کی طرح السلام’علیکم تک نہ کہا اور گویا ہوا۔ تمہیں اس جگہ رُکنے کا مشورہ کس نے دیا۔ تمہیں علم نہیں کہ اس سرزمین کا چپہ چپہ زیرِاثرِاشرارواسرارِ نادیدہ ہے اورسورج ڈوبنے کے بعد یہاں آدم خور عفریتوں کا راج ہو جاتا ہے تو یہاں سے فوراً نکلنے کی کوئی صورت کیجئے۔ یہ کہہ کے چاہتا تھا کہ فوراً غائب ہو مگر وزیر زادہ اُس کے گھوڑے کی پونچھ سے لٹک گیا اور یوں گویا ہوا کہ اے بزرگ سفید پوش۔ ہمارا جن ہمارے واسطے اکل و شراب کا بندوبست کرنے گیا ہے اور ہم فی الوقت سفر کا کوئی تیز تر ذریعہ نہیں رکھتے۔ تم بھی اگر غائب ہو گئے اور جن کسی وجہ سے متاخر ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔ تم سے یہ اُمید نہ تھی کہ ہمیں دہلا کے یوں سٹکنے کی کوشش کرو گے۔ گھوڑوں نے بھی گفتگو سن لی تھی اور ہمارے پہلو میں کھڑے لرز رہے تھے بلکہ وزیر زادے کے گھوڑے کا تو مُوت بھی خطا ہو چکا تھا۔ تس پہ بزرگ سفید پوش مسکرایا اور بولا۔ اے وزیر زادے۔ تُو سچ کہتا ہے۔ لیکن میں تم میں سے فقط ایک کو اپنے ہمراہ لے جا سکتا ہوں کہ میرے گھوڑے کی گنجائش اس سے زیادہ کی بوجوہ متحمل نہیں ہو سکتی۔ وزیر زادہ کہ یارِ جانثار ہے چاہتا تھا کہ ایک بار پھر قربانی دے اور مجھے بزرگ سفید پوش کے گھوڑے پہ سوار کر ادے، مگر غیرت آڑے آئی اور میں نے بھی انکار کر دیا۔ تس پہ بزرگ سفید پوش مسکرایا اور پہاڑی کی چوٹی کی جانب اشارہ کیا جہاں سے چھ ہاتھوں اور تین سروں والی مخلوق نیچے اُترتی دکھلائی دی۔ یہ ماجرا دیکھ کے میرے گھوڑے نے بھی وزیر زادے کے گھوڑے کی تقلید کی اور صاحبو سچ تو یہ ہے مجھے بھی اخراج بول کی شدت سے ضرورت پیش آئی۔

تس پہ میں نے بزرگ سفید پوش سے کہا۔ اے بزرگ کہ تُو ہر آڑے وقت میں ہمارے ایسے کام آیا کہ جیسے کام آنے کا حق ہے تو کیا ہمیں ان بلاؤں پہ کہ تیزی سے آگے بڑھی چلی آتی ہیں ، چھوڑ کے اپنی راہ لے گا۔ بزرگ سفید پوش یہ کلام سن کے جوش میں آ گیا اور بولا۔ ہرگز نہیں اور اپنا عمامہ کہ ہر وقت باندھے رہتا تھا، اُتار کے زمین پہ پھینکا اور بولا۔ گھوڑوں سمیت اس پہ چڑھ جاؤ اور پرواز کرو۔ سوار ہونے سے پیشتر میں نے دیکھا کہ بزرگ سفید پوش کے سر کے بال ایسے اُڑے ہوئے تھے کہ منہ گردن تک دھوتا ہو گا۔ بہر حال یہ وقت ان فروعات میں پڑنے کا نہیں تھا، چنانچہ ہم اُس کپڑے پہ کہ قدرے چھوٹا پڑتا تھا، سوار ہوئے اور عنقریب تھا کہ وہ منحوس اشرار ہمیں دبوچتے، فضا میں بلند ہو گئے۔

جن ہمیں راستے میں ملا۔ ملا کیا ہم اُس بد بخت سے ٹکراتے ٹکراتے بچے کہ اُس وقت تک اندھیرا ہو چکا تھا مگر اتنا بھی نہ تھا کہ کسی حادثے کا خطرہ ہو تا۔ یہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ کمبخت کہ منشیات کا رسیا ہو چکا تھا، مزے سے کش لگاتا اور پرواز کرتا تھا۔ وہ گیدی کہ ہمارا غلام تھا اور نشے سے لگا اور چُور بھی ہمیں بالکل نہ پہچانا اور زبانِ بازاری پہ اُتر آیا۔ تس پہ میرا شاہی لہو جوش مارنے لگا اور چاہتا تھا کہ ترکش سے تیر نکال کے اُس پر چھوڑوں مگر وزیر زادے نے سمجھایا کہ وہ کمبخت تو نشے میں ہے، آپ تو حواسوں میں ہیں ، چنانچہ ارادہ ملتوی کیا اور انگوٹھی رگڑی تو وہ گھوما اور ہمیں پہچان کے معذرت خواہ ہوا اور پھر ہمارے ساتھ اُڑنے لگا۔

بزرگ سفید پوش کہ پوشیدہ اُڑتا تھا، ظاہر ہوا اور دُور سے چمکتی روشنیوں کی جانب اشارہ کر کے بولا۔ سفید عذاب میں مبتلا قوم اسی ملک میں رہتی ہے۔ اب تم جانو اور تمہارا کام۔ میں چاہتا تو تمہیں دنوں ان نا ہنجار گھوڑوں کی پیٹھ پہ سفر کراتا اور تمہیں طرح طرح کے آسیبوں کا سامنا کراتا مگر میں خانگی جھگڑوں میں اتنا پھنس چکا ہوں کہ بار بار حاضر نہیں ہو سکتا ، لہٰذا تمہارے کام کو مختصر کر کے اب میں رخصت ہوتا ہوں۔ اب ہم زمین سے لگے لگے سفر کر رہے تھے، چنانچہ اُس نے اپنے عمامے کا کپڑا ہمارے نیچے سے کھینچ لیا اور ہم دونوں گھوڑوں سمیت ہری دوب پہ گرے۔ بزرگ سفید پوش یہ عامیانہ مذاق کر کے رخصت ہوا۔ ہم نے جن کے لائے ہوئے سامانِ خورد و نوش سے پیٹ بھرا اور چاہتے تھے کہ وہیں بسرام کریں کہ ہماری مصیبتیں شروع ہو گئیں۔

ابھی میں اور وزیر زادہ جن کی لائی ہوئی وہ نبید کہ جسے ہمارا یار کلال فقط شاہی محفلوں کے واسطے کشید کیا کرتا تھا، کے آخری گھونٹوں پہ تھے اور جن ہم سے دُور بیٹھا ایک ناریل کے حقے میں اپنی کہیں سے لائی ہوئی بھنگ بھر رہا تھا کہ مجھے اُس مردود پہ غصہ آیا کہ یقیناً نشے کی ذلالتوں میں سے ایک تھی، چنانچہ ارادہ کیا کہ اُسے انگوٹھی میں بند کروں ، جب دیکھا کہ جن دو چار گہرے کش لگا کے نشے میں ادھ موا ہو چکا ہے اور پائجامہ اُتارنے کے درپے ہے تو انگوٹھی کو زور سے رگڑا کہ اُس مردود کو زیادہ سے زیادہ تکلیف ہو، مگرصاحبواس وقت اندازہ نہ کر سکا اور انگوٹھی اُلٹی رگڑ دی۔ جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے کہ انگوٹھی اُلٹی رگڑنے کی صورت میں ، انگوٹھی رگڑنے والے کو رگڑنے کا استحقاق بہر حال جن کے پاس محفوظ تھا، چنانچہ جن اُٹھا اور چاہتا تھا کہ ہم پہر حملہ آور ہو مگر زیادتی نشہ کے باعث ایسا نہ کر سکا اور وہیں لہرا کے دھڑام سے گر گیا۔

ابھی میں جن کو عبرت بھری نگاہ سے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہاں ایک سی پوشاکیں پہنے دو آدمی وارد ہو گئے۔ جن کے حلیے چڑیماروں جیسے اور شکلیں بھی ویسی ہی تھیں۔ ہمیں مصروف دیکھا تو اُن میں سے ایک زیٹ اُڑانے لگا کہ وہ سرکاری آدمی ہیں اور ہمیں کوتوالی لے جانے کو آئے ہیں۔ ہم حیران کہ ہمیں کس جرم میں کوتوالی لے جایا جا رہا ہے۔ وزیر زادے نے میرا تعارف کراتے ہوئے بتلایا کہ وہ حدِ ادب کاپاس کریں کہ میں شہزادہ ہوں۔ تس پہ وہ دونوں کہ پان کھائے ہوئے تھے، چمگادڑوں کے سے منہ کھول کے ہنسے اور اُن میں سے ایک بولا کہ ہمارے ہاں ایسے شہزادے ٹکے سیر ملتے ہیں۔ اس گستاخانہ جواب پہ میں چاہتا تھا کہ اپنی قرولی اُس کے دل میں بھونک دوں مگر وزیر زادے نے میرا ہاتھ پکڑ کے روکا اور بولا۔ ولی نعمت۔ یہ ایک اجنبی سرزمین ہے اور چونکہ یہاں آپ کو کوئی نہیں پہچانتا اور ہم ایک کارِ ضروریہ کے واسطے در بدر ہو رہے ہیں ، اس واسطے خاموشی بہترین چارہ ہے۔ چنانچہ میں خاموش ہو گیا لیکن شدت غیض سے دیر تک کانپا کیا۔ پھر اُن میں سے ایک نے ہماری شراب کی کلھیا اُٹھائی اور اُسے سُونگھ کے بولا۔ یہ تم نے کہاں سے لی۔ یہاں کی تو نہیں لگتی نہیں۔ پھر اُن میں سے ایک نے قرولی نکال لی اور بولا۔ تمہیں کوتوالی چلنا ہو گا کہ تمہارا معاملہ یاروں کی سمجھ سے باہر ہے اور پھر جن کا منہ سونگھا اور ناریل کا حقہ اُس کے قریب پایا تو چمگادڑ جیسا منہ ایک بار پھر کھولا اور بولا اس شہر میں کھلم کھلا نشہ کرنا ممنوع ہے، چھپ کے جو چاہو کر لو اور اے کمبختو جب چھپ کے کرنے کی اجازت ہے اور ہم اُس سے چشم پوشی بھی کرتے ہیں تو پھر یہ درانہ حرکات کیوں۔ تس پہ وزیر زادے نے جن سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور چونکہ وزیر زادہ اس فضیحتے کو جلدی نبیڑنا چاہتا تھا، بولا۔ چلو تم جہاں کہو گے ہم چلنے کو تیار ہیں ، چنانچہ جن کو وہیں چھوڑا کہ کمبخت چلنے پھرنے سے معذور تھا اور وہ اپنے گھوڑوں پہ اور ہم اپنے گھوڑوں پہ کوتوالی پہنچے۔ کوتوالی ویسی ہی تھی، جیسی وطن عزیز میں ہوا کرتی ہے مگر بد انتظامی ہر طرف پھوہڑ عورت کے گھر کی سی دکھائی دیتی تھی۔

خیر وہ ہمیں لئے لئے کوتوال کے سامنے پیش ہوئے۔ کوتوال اُس وقت شاید اپنی زوجہ سے جھائیں جھائیں کر کے آ رہا تھا۔ ہمیں دیکھا تو کڑک کے بولا۔ یہ کون ہیں اور انہیں کس خطا میں بندی بنایا ہے۔ تس پہ اُن میں سے ایک کہ صورت ہی سے کثیر الپدر لگتا تھا، ہم سے لی ہوئی کُلھیا شتابی کوتوال کے آگے رکھ کے بولا۔ حضور سرِ عام شراب پی کے دُند مچاتے تھے۔ یہ صریح جھوٹ تھا۔ ہم قطعاً اُن شرابیوں میں سے نہ تھے کہ جو شراب پی کے ازاربند کھول دیتے ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کے اُس رذیل کے منہ پہ رپٹ جو مارا ہے تو لڑکھڑاتا ہوا دیوار سے جا لگا۔ کوتوال ہائیں ہائیں کرتا اُٹھا اور مجھے وزیر زادے نے اُس اسفل ذات کے دوبارہ قریب جانے سے روکا۔ کوتوال ڈپٹ کے بولا۔ کیوں جی، تم کہاں کے ایسے شہزادے ہو کہ سرکاری آدمی سے دھول دھپا کرتے ہو۔ تس پہ وزیر زادہ بولا۔ اے کوتوال۔ یہ شہزادے ہی ہیں اور ہمارے ولی نعمت ہیں اور پھر مختصراً اپنا احوال بیان کیا۔ کوتوال خاموشی سے سنا کیا اور پھر کلھیا اُٹھا کے سونگھی اور یوں گویا ہوا۔ پہلے چھوڑ دیتا مگر اب نہ چھوڑوں گا کہ تُو نے اس وقت جو قصہ بیان کیا ہے، وہ سوائے پیشہ ور شرابیوں کے اور کوئی بیان نہیں کر سکتا۔ چنانچہ سپاہیوں سے گویا ہوا۔ انہیں بندی خانے میں ڈال دو اور سویرے قاضی کے سامنے پیش کرو کہ ان پہ جو شرعی حد ہے نافذ کرے چنانچہ صاحبو ہمیں ایک ایک ایسے کمرے میں کہ مُوت کی سڑاند اور کھراند جس کے گوشے گوشے سے ٹپکی پڑتی تھی، بند کر دیا گیا۔ قریب کے کسی کمرے میں غالباً کسی مجرم پہ تشدد ہو رہا تھا اور مختلف آوازیں کسی مجرم کی رشتہ دار عورتوں سے کبھی اپنا اور کبھی کتوں کا رشتہ جوڑ رہی تھیں۔ جب پہر رات گزر گئی اور ہمیں کسی نے نہ پوچھا تو میں نے وزیر زادے سے کہا۔ میں نے اتنے اسفل مقامات کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس دنیا میں ہوتے ہوں گے اور اے وزیر زادے۔ اب تیری کیا صلاح ہے۔ تس پہ وہ بولا۔ ولی نعمت۔ جن کو تو ہم کسے می پرسد کے عالم میں چھوڑ آئے ہیں اور میں سر دست یہ بھی نہیں کہہ سکتاکہ وہ مردود اب بھی ہم پہ حملہ آور ہو گا یا نہیں لیکن اِس انگوٹھی کے بارے میں پریزادوں کی شہزادی نے آپ کو جو بتلایا تھا ، بالکل دُرست تھا۔ چنانچہ اے شہزادے۔ اب ہمارے پاس دافع بلیات، اور اگر اس بندی خانے کے عملے کو مدِ نظر رکھ کے بات کروں تو کُتیات، فقط جل پریوں کی ملکہ کی دی ہوئی انگوٹھی رہ گئی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ اسے استعمال کیا جائے۔ چنانچہ میں نے انگوٹھی نکال کے ہر طرف گھما کے دیکھ لی مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ اکل و شراب کے جزو لا ینفک اخراج کی منزل کو پہنچے جاتے تھے، چنانچہ ایک ٹہلتے ہوئے سپاہی کو اپنی ضرورت بتلائی۔ وہ خبیث ایک اشرفی کے بدلے میری مشکل آسان کرنے پہ آمادہ ہو۔ اگلی بار جب میں ضرورت سے دو چار ہوا تو وہی وزیر زادے کی بھی ضرورت تھی ، چنانچہ اُس نے ڈیڑھ اشرفی میں دونوں کا بھگتان کرا دیا۔

ہم دونوں بندی خانے کی سلاخیں پکڑے کھڑے ایک تماشہ دیکھتے کہ جو مجرم بھی لائے جاتے ، وہ ایک ساعت کے بعدہنستے مسکراتے بندی خانے سے نکل جاتے تھے۔ تس پہ میں متردد ہوا اور وزیر زادے سے کہا۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ ہم دونوں کے علاوہ ، یہاں جو بھی ایسے آتا ہے کہ سپاہی اُسے مارتے پیٹتے لاتے اور بعدساعت ہنستے مسکراتے رخصت کرتے ہیں۔ وزیر زادے نے اُس مردود سے کہ ہماری نگہبانی کرتا تھا اور ہم سے ڈیڑھ اشرفی کارِ غلیظ کے وصول کر چکا تھا، اس کا سبب دریافت کیا، تس وہ ہنسا اور پوچھنے لگا کہ ہم پہلے کتنی مرتبہ بندی خانے کی سیر کر چکے ہیں اور جب ہم نے اُسے بتلایا کہ یہ پہلی بار ہے تو وہ اور ہنسا اور بولا۔ تبھی تم یہاں کے قاعدے قانون سے واقف نہیں۔ ہم نے قاعدہ قانون دریافت کیا تو اُس نے کہا۔ دس دس اشرفیاں ڈھیلی کرو تو یار ابھی تمہیں یہاں سے رہائی کا پروانہ دلوا سکتے ہیں۔ چنانچہ میں نے اپنی ہمیانی سے اُس خبیث کو دس اشرفیاں فی فرد کے حساب سے ادا کر دیں۔ وہ چند دقیقوں کو کہیں گیا اور لوٹا تو بندی خانے کی جھنجھناتی چابیاں اُس کے ہاتھ میں تھیں ، ترنت تالا کھولا اور ہمیں آزاد کر دیا۔ گھوڑوں کو ہمارے حوالے کرنے کی ایک ایک اشرفی علیحدہ سے وصول کی۔ اور بولا اسے ہمارے ہاں ”شرحی” حد کہتے ہیں اور ایک طرف کو دفعان ہو گیا۔

ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ خبیث صبح کوتوال کو کیا جواب دے گا لیکن حیرت کو کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھا اور شتابی اُس مقام کو پہنچے کہ جہاں جن کو چھوڑا تھا۔ جن وہاں سے ندارد تھا اور اُس کا حقہ بھی۔ وزیر زادے نے مجھ سے انگوٹھی رگڑنے کو کہا۔ جن قدرے تاخیر سے یوں حاضر ہوا کہ اُس کے ایک بازو اور سر پہ پٹیاں بندھی تھی اور ہولے ہولے کراہتا بھی تھا۔ اُس سے اُس کی اس حالت کا سبب پوچھا تو بولا۔ آقا آپ نے انگوٹھی رگڑی اور میں نے آپ پہ حملہ کیا مگر بوجو ہ میں اُس حملے میں کامیاب نہ ہوسکا اور جو جن ایسا کرنے میں ناکام رہے ، شاہ جنات کے موکل اُسی وقت اُس کو لے جاتے اور سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اب آپ چاہیں تو انگوٹھی جس طرف سے چاہیں رگڑیں۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یوں بھی ملتمس ہوا کہ مجھے انگوٹھی میں جانے اور پندرہ روز کی رخصت بوجہ بیماری عطا کی جاوے کہ مجھے اُن موکلوں نے جہاں جہاں زد و کوب کیا ہے، وہ صرف طبیب کو ہی بتلا سکتا ہوں۔

چنانچہ جن کو انگوٹھی میں بند کیا اور ہم دونوں اُس اجنبی شہر کی رات میں اپنے گھوڑوں پہ سوار چل دئیے۔ ابھی ہم نے دو کوس کا فاصلہ بھی طے نہ کیا ہو گا کہ رستے میں ایک خوبرو عورت آ گئی۔ چاندنی ہر سو چھٹکی ہوئی تھی اس لئے ہمارے لئے یہ انداز ہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ ایک حسین عورت تھی۔ اُس کے پنڈے سے خوشبو کی لپٹیں بھی آ رہی تھیں۔ میں اُسے آسیب سمجھا اور چاہتا تھا کہ اس کا کوئی توڑ کروں مگر جب اُس کے پیروں پہ نظر پڑی تو اُنہیں عام انسانوں کی طرح پایا اور آنکھوں کی پتلیاں بھی جنوں کی سی ، یعنی ترچھی نہ تھیں۔ وزیر زادے نے کہا۔ اے عورت تُو کون ہے اور ہمارا رستہ کس واسطے روکتی ہے۔ تس پہ وہ بولی۔ اے ولی نعمت۔ میں تمہیں اپنے گھر شب باشی کی دعوت دیتی ہوں اور یہ بھی بتلاتی ہوں کہ وہاں ہر قسم کے عیش و آرام کا بندوبست تم جیسے مسافروں کے واسطے میں نے مہیا کر چھوڑا ہے۔ ہم دونوں اس نعمت غیر مترقبہ پہ جی ہی جی میں حیران ہوتے تھے کہ ہم اپنے جی میں کسی سرائے میں قیام کا ارادہ باندھ کے روانہ ہوئے تھے۔ چنانچہ اُس سے استفسار کیا کہ وہ کسی سرائے کی مالکہ ہے، تس پہ وہ ہنسی اور بولی۔ ہاں وہ جگہ جہاں مسافر رات بھر قیام کرتے اور صبح اپنی راہ لیتے ہیں ، سرائے نہیں تو اور پھر کیا کہلاوے گی۔ میرے پیچھے چلے آئیے کہ بندی کا گھر یہاں سے کچھ زیادہ دُور نہیں۔

چنانچہ اُس کے گھر پہنچے۔ اُس کے ایک اشارے پہ ایک غلام نے ہمارے گھوڑوں کو ہم سے لیا۔ اُس نے ہمیں ایک آراستہ پیراستہ کمرے میں بٹھلایا اور کمسِن کنیزیں ہمارے واسطے شراب لائیں اور ہمارے پہلو میں بیٹھ کے ہمیں جام بھر بھرکے دیتی تھیں۔ جب پہر رات گزری تو وہ عورت پھر آئی اور بولی۔ آپ کے واسطے آرام دہ بچھونے تیار ہیں اور اے آقاؤ آپ ان میں سے جو بھی لڑکی کہ اپنی مثال آپ ہے، فقط بیس اشرفیوں کے عوض اپنے ساتھ شب باشی کو لے جا سکتے ہیں۔

تب ہماری سمجھ میں آیا کہ یہ مال زادی کوئی قحبہ خانہ چلاتی ہے۔ چنانچہ میں نے غضب ناک ہوکے کہا۔ اے فاحشہ، تجھے خوف سَعیر بھی نہیں کہ یوں گناہوں کی پوٹ بنی پھرتی ہے۔ تس پہ وہ بولی۔ اے عزیز۔ میں یہ کام کسی شوق سے نہیں کرتی اور نہ ہی یہ لڑکیاں اس کی خوگر و شائق ہیں۔ مجبوری آدمی سے سب کچھ کراتی ہے۔ اگر تم چاہو تو میں شب خوانی کروں اور وہ سب بیان کروں کہ جس کے سبب میں ایسا کرنے پہ مجبور ہوئی۔ ہماری طرف سے اجازت پا کے وہ بولی۔ اے صاحبو۔ یہ سرزمین کہ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سفید عذاب کی چَپیٹ میں ہے۔ ایک گلرنگ ، گلگوں ، گل رخ سرزمین ہے۔ یہاں کے چشمے موتی اُگلتے اور ہوا سے شراب چُواتی لگتی ہے۔ زمین ایسی کہ چاندی بوؤ تو سونا کاٹ لو۔ شجر ایسے پھل دار کہ اپنے وزن سے خود ہی ٹوٹے پڑتے ہیں۔ ۔ لوگ ایسے حسین کہ پریزاد یہاں سے گزرتے اور اُنگلیاں کاٹتے ہیں۔ پہاڑ اپنی نعمتیں لُٹانے کو پھٹے پڑتے اور زمین اپنی شفقت کی چھاتیاں دودھ اور شہد سے چھلکاتی ہے۔ ہو ا چلتی ہے تو نیند آنے لگتی ہے۔ سورج نکلتا ہے تو اپنی تمازت گھر چھوڑ آتا ہے۔ چاند اپنا پورا چہرہ کبھی نہیں دکھاتا کہ یہاں کے حسین اُس کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ اُڑتی خاک میں سونے کے ذرے اور چلتی ہوا میں باراں کے موتی ہوتے ہیں۔ غرض کہ اس سر زمین کو بنانے والے نے اور سب زمینوں کی طرح نہیں بنایا بلکہ یہ کام سب سے آخر میں کیا کہ لمحات فرصت میں اس کی تخلیق ہوئی۔ مگر اس سرزمین پہ ننگ، جہل، نحوست، آزارِ نوع بہ نوع اور بھوک عام ہے اور یہ تب سے ہے جب سے اِس سرزمین پہ سفید عذاب نازل ہوا ہے۔ یہاں قانون کاغذ کا ٹکڑا اور انصاف یکطرفہ ہے کہ وہ فقط خواص کے حق میں اپنا پلڑا جھکاتا ہے۔ اُس علمِ بے فیض کی بہتات ہے جو بولی لگا کے بکتا ہے، اور ایسے عالم کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جو من مرضی کے اجتہاد کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ عبادات ریا کاری کا دوسرا نام ہے۔ دعا کرتے وقت خدا کا تصور عنقا ہے۔ ہر نماز کے بعد یہاں کے لوگ جن کی تباہی اور بربادی کی دعائیں کرتے اُنہی سے کبھی قرض اور کبھی بھیک لے کے اپنا کام چلاتے ہیں۔ جن کو دن رات گالیوں پہ رکھتے ہیں ، اُنہی کی سی زیست کرنے کی آرزو میں مرے جاتے ہیں۔ بادشاہوں کو انجانے خوف نے گھیر رکھا ہے چنانچہ وہ رعایا سے دُور اور فسق و فجور کو حق بادشاہت سمجھتے ہیں۔ خویش خسرواں دندناتے پھرتے ہیں۔ رعایا مفلوک الحال ہے اور اُس سے کسی نے کبھی نہیں پوچھا کہ میاں تمہارے منہ میں کَے دانت ہیں ؟

صاحبو یہاں کے حکمران سپہ سالار سے لرزاں رہتے ہیں اور فوج کا یہ حال ہے کہ اپنے ہی ملک کو بار بار فتح کرتی اور بغلیں بجاتی ہے۔ اور ملکوں میں طوائف الملوکی ہوتی ہو گی، مگر یہاں دلا الملوکی عام ہے۔ سوچوں میں بعد المشرقین کا یہ عالم ہے کہ ایک طبقہ جسے زندگی کا ڈھنگ سمجھتا ہے ، دوسرا اُسے دوزخ کے رستے سے تعبیر کرتا ہے۔ رواجوں اور رسوم کو مذہب کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

جس کا جی چاہتا ہے، بزور شمشیر تبلیغ کرنے لگتا ہے۔ جوانوں کو بھٹکانے کے سبھی لوازمات گھروں کے اندر مہیا کر دئیے گئے ہیں۔ محنت کو جرم اور حرام خوری کو صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ آدھی آبادی رشوت دیتی اور آدھی لیتی ہے اور پھر خدا سے شکوہ بہ لب رہتی ہے کہ اُس کی دعائیں مقبول نہیں ٹھہرتیں۔ بھیک مانگنے کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے اور عمل کرنے کو گناہ۔ خسروان اور خویش خسروان قرض کی مے پیتے اور فاقہ مستی سے دُور ہیں کہ اُس کے واسطے رعایا حاضر ہے۔ اس تمہید کے بعد اپنا قصہ کہتی ہوں۔ یہ جو تینوں لڑکیاں تم دیکھتے ہو اور جن کے منہ سے دودھ کی بو ہنوز آتی ہے، میری بیٹیاں ہیں۔ میرا خصم ایک ایسا بد اندیش آدمی تھا کہ اس سفید عذاب پہ دن رات کڑھا کرتا اور تبدیلی کی باتیں کیا کرتا تھا۔ اُس کا ایک چھوٹا سا کاروبار تھا کہ گھوڑے دساور سے منگواتا، اُن کی پرداخت کرتا اور پھر امرا کے ہاتھ بیچا کرتا تھا۔ وہ امرا کے خلاف شدت کی گفتگو کیا کرتا اور اُنہیں ساری خرابیوں کی جڑ قرار دیتا تھا۔ ایک بار ایک رئیس کا بیٹا اُس سے ایک گھوڑا خریدنے کے واسطے آیا اور قیمت پہ تکرار کی۔ میرے میاں نے کہ بد زبانی کا خوگر تھا، جب بولنا شروع کیا تو بادشاہ کو بھی گفتگو میں لپیٹ لیا۔ خیر اُس وقت تو وہ امیر زادہ خاموش ہو کے چلا گیا مگر رات ہوئی تو ہمارے گھر کو آگ لگا دی اور گھوڑے کھول کے لے گئے۔ میرے میاں کو تلواروں پہ رکھ لیا۔ وہ چاہتے تھے کہ مجھے اور میری بیٹیوں کو بھی ساتھ لے جائیں مگر میں اپنی بیٹیوں کو لئے ، کہیں پوشیدہ ہو گئی تھی اس لئے اُن ظالموں سے محفوظ رہی۔ مگر یہ جو میری منجھلی بیٹی تم دیکھتے ہو کہ حسن میں یکتا ہے، اسے تلاش کرنے کے واسطے کنوئیں جھنکوائے گئے۔ میں اس شہر میں آ گئی۔ تین جوان بیٹیوں کو لئے ماری ماری پھرتی رہی۔ ہر کوئی امداد کی قیمت مقرر کرتا تھا۔ جب یہ حال ہوا کہ ہمارے تن کے کپڑے چیتھڑوں سے بدل گئے اور پیٹ کمرسے لگ گئے اور ہماری ہڈیاں گنے جانے کے قابل ہو گئیں تو ہم چاروں ماں بیٹیوں نے مر جانے کا فیصلہ کر لیا اور دریا کے کنارے اسی نیت سے پہنچیں۔ تب میری بڑی بیٹی کہ تمہارے سامنے بیٹھی آنسو بہاتی ہے ، یوں گویا ہوئی کہ اس بزدلی اور کم ہمتی کی موت مرنے کے بجائے ہم اُن سے انتقام بھی تو لے سکتی ہیں کہ جن کے ہاتھوں ہم اس انجام کو پہنچی ہیں۔ چنانچہ ہم نے اُس رات سے یہ معمول بنا لیا کہ کسی امیر زادے کو پھانستیں ، اُسے شراب پلا کے لوٹتیں اور گھر کے کنوئیں میں دھکا دے دیتی ہیں۔ چنانچہ میری تینوں بیٹیاں عزت ما آب اور باکرہ و غیر مدخولہ ہیں اور جو کوئی ان سے نکاح کرے گا اس بات کی گواہی دیوے گا۔ تم چونکہ اجنبی تھے اس واسطے میں نے اپنی کہانی تم سے کہہ دی۔ اب تم کہو چیونٹی پاؤں تلے آ جائے تو کیا کرے؟

عورت نے اپنی کہانی ختم کی تو میں نے ہمیانی سے ایک ہزار اشرفیاں نکال کے اُسے دیں اور یوں گویا ہوا۔ اے عورت ، بے شک جب کہیں انصاف نہ ملے تو لوگ اپنا انصاف خود کرنے لگتے ہیں ، کہیں قانون نہ ہو تو اپنا قانون آپ تشکیل دے لیتے ہیں اور جب عزت پہ حرف آئے تو اُسے بچانے کو کوئی بھی رستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ دُرست نہیں۔ یہ رقم رکھ اور اس سے اپنی بیٹیوں کی با عزت طریق پہ شادی کر اور اپنے لئے بھی کوئی خصم ڈھونڈ کہ تُو بھی ابھی تک حائضہ دِکھتی ہے۔ اور اپنی بیٹیوں کے یہاں سے لے جا کہ ہم اس مکان میں کچھ روز قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جب یہاں جس کام سے آئے ہیں ، اُس سے فارغ ہو جاویں گے تو اس مکان کو بیچ کے جتنے بھی دام ملیں گے تجھے پہنچا دیں گے اور تُو اس بات کی مطلق فکر نہ کر کہ ہم تجھے کیسے ڈھونڈیں گے کہ ہمارے پاس کا اس کابندوبست ہے۔ چنانچہ وہ عورت صبح دم دعائیں دیتی اپنی بیٹیوں کے ہمراہ وہاں سے چلی گئی اور ہم سفید عذاب کا جائزہ لینے شہر کی طرف روانہ ہوئے اور شہر کو کچھ یوں پایا۔

بلا شبہ وہ سرزمین ویسی ہی خوبیوں سے متصف تھی جیسا کہ اُس عفیفہ نے بیان کیا تھا مگر کچھ باتیں ہمارے لئے ایسی باعث حیرت تھیں کہ میں اور وزیر زادہ حیرت سے اُنگلیاں کاٹتے تھے۔ وہاں کے نمازی ، خانہ خدا سے نکلتے ہی اپنے اپنے کاروباروں میں بدنیتی اور بد دیانتی کے مرتکب ہو جاتے تھے۔ کذب ، بہتان اور ایسے بہت سے کام وہاں لوگ بہ آسانی کر لیتے تھے کہ جن پہ حد جاری ہو سکتی تھی۔ سب سے حیرت کا مقام یہ تھا کہ وہاں کے لوگ اپنی زبان میں اجنبی ملکوں کی زبان کے الفاظ شامل کر کے بولتے تھے۔ یہ کام طبقات افضل اور اسفل دونوں کوشش سے کرتے تھے اور مذاق کی سی صورت پیدا ہو جاتی تھی۔ گناہوں کو رواج میں شامل کر کے فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے۔ قانون شکنی پہ فخر کرتے اور قانون کی پاسداری کرنے والوں کا تمسخر اُڑاتے تھے۔ وہاں کے علما محض اس شبہ کی بنیاد پہ کہ کہیں حرامکاری ہو رہی ہے، بہت بڑا غفیر جمع کر کے اُس گھر کو آگ لگوا دیتے اور ملزمان کو محض قیاس آرائی کی بنیاد پہ ناک کان ہاتھ پاؤں سے محروم کر دیتے اور رسیاں باندھ کے رستوں پہ گھسیٹا کرتے تھے مگر ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، قانون شکنی، اعلانیہ مظالم، حکومتی جبر اور دیگر خرابیوں کو دیکھ کے دم نہ کشیدم کی عملی تفسیر و تصویر بن جایا کرتے تھے اور منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں کی سی صورتیں بنا لیا کرتے تھے!

حکومتی محکموں میں صرف وہی کامران رہتا تھا جو اہلکاروں کو رشوت دیتا تھا۔ رشوت ملک کا سب سے طاقتور ستون قرار پایا تھا کہ اُس کے بل پہ مجرم دندناتے پھرتے اور پیشگی اطلاع دے کے جرم کیا کرتے تھے۔ عدالت میں انصاف سر عام نیلام ہوتا ہم نے وہیں دیکھا۔ اتنی زرخیز زمین کے لوگ بھیک مانگتے وہیں ملے۔ ہر کسی کو فقط اُس چار دیواری سے محبت تھی کہ جسے وہ اپنا گھر کہتا ہے۔ وہ سر زمین کہ جس پہ اُس کا گھر تھا اُس کے لئے اجنبی ٹھہری تھی کہ لوگ اپنے گھروں سے گندگی نکال کے بلا تکلف اُس سرزمین پہ پھینک دیا کرتے تھے۔ عوام اس حد تک باغی کہ بنے بنائے رستوں کو توڑ کے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق ڈھال لیا کرتے تھے اور خواص اتنے بے پروا کہ ایسی جگہوں سے آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے گزر جایا کرتے تھے۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ اس سرزمین پہ وہ سرخ آندھی اب تک کیوں نہ چلی کہ جس کی وعیدایسی قوموں کے واسطے بہت پہلے آ چکی ہے۔ میں اور وزیر زادہ یہ سب دیکھتے اور حیرت کے سمندر میں غواصی کرتے تھے مگر سبب سمجھ میں نہ آتا تھا۔

تبھی ایک کلال خانے میں کہ جہاں ہم چھپ کے شراب پینے کے واسطے گئے تھے، ہمیں وہ بزرگ سپید ریش ملا کہ جس کے کہنے پہ درِ میکدہ یہ کہہ کے وا ہوا تھا کہ ؎ مانگی ہے اک بزرگ تہجد گزار نے۔ کلال خانے میں کھوا سے کھوا چھلتا تھا مگر ہمیں اُس بزرگ کے قریب بیٹھنے کی جگہ وافر دکھائی دی اور ہم وہیں بیٹھ گئے۔ سلام دعا کے بعد بزرگ نے ہمارے وہاں آنے کا سبب دریافت کیا۔ تس پہ ہم حیران ہوئے کہ کلال خانے میں جانے کا بھلا اور دوسرا کیا سبب ہوسکتا تھا۔ اور یہ جان کے ہم وہاں شراب پینے کے واسطے گئے تھے، بزرگ نے پند و نصائح کے وہ سارے در وا کر دئیے کہ جانے کب سے بند کئے بیٹھا تھا۔ ہم ششدر و حیران ہوتے تھے کہ یہ کیسا شخص تھا کہ شراب پیتا جاتا تھا اور اُس سے مجتنب ہونے کا وعظ بھی کرتا تھا۔ ہم نے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو وہ بزرگ بولا۔ اے جوانو۔ یہ سچ ہے کہ میں جو کر رہا ہوں ، اُس کے پیش نظر مجھے یہ نہیں کہنا چاہئے اور جو کہہ رہا ہوں اُس کے مد نظر مجھے یہ نہیں کرنا چاہئے مگر میں مجبور ہوں کہ اس سر زمین کا دستور ہی یہی ہے۔ تس پہ وزیر زادے نے کہا۔ اے بزرگ سپید ریش۔ جب سے ہمارا اس سرزمین میں ورود ہوا ہے، ہم نے مارے حیرت کے اپنی انگلیاں کاٹ کاٹ کے آدھی کر لی ہیں۔ یہ کیسی سرزمین ہے کہ جہاں عمل اور قول میں اتنا بڑا تضاد ہے۔ وہ بزرگ اس سوال پہ مسکرایا اور تلچھٹ کو ایک بڑے گھونٹ کی صورت حلق سے اُتار کے بولا۔ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔ اگر تم شراب پینے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتے، تو مجھ عاصی کے غریب خانے پہ چلو کہ یہاں تھوڑی دیر میں چھاپہ پڑنے والا ہے اور یہ سب شرابی دو دو روز کے واسطے خود پہ ”شرحی” حد نافذ کروانے والے ہیں کہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کا یہ طریق کامیاب یہاں مروج و کامیاب ہے۔ ہم کچھ نہ سمجھے البتہ بزرگ سپید ریش کے ساتھ اُس کے گھر کو روانہ ہوئے۔

بزرگ سپید ریش کہ ایک گدھے پہ سوار تھا اور گدھا چلنے میں سست تھا چنانچہ جب ہم اُس کے گھر کو پہنچے تو چراغوں میں بتی پڑ چکی تھی۔ گھروں کی کھڑکیوں سے روشنی باہر آ رہی تھی، گلیاں البتہ تاریک تھیں کہ روغن کا تو کیا سوال، لوگ وہاں سے چراغ تک اُتار کے لے جا چکے تھے۔ بزرگ سپید پوش کا غلام کہ طبیعت بھی جس نے چراغ صفت پائی تھی، بزرگ سپید ریش کے ساتھ مہمانوں کو دیکھ کے بھڑک گیا اور بولا۔ کیا مجھے امشب ان مہمانوں کے نخرے بھی برداشت کرنے پڑیں گے۔ صاف کہے دیتا ہوں صاحب۔ مجھ سے اب یہ کام نہیں ہونے کا۔ مجھے کسی بازار میں بیچ کے دام کیوں نہیں کھرے کر لیتے کہ مجھ سے اب اس گھر کی ذلتیں نہیں سہی جاتیں۔ ہم کہ کلام سنتے اور بچی کھچی اُنگلیوں کو حیرت سے کاٹنے کا ارادہ بار بار ملتوی کرتے تھے۔ تس پہ وہ بزرگ مسکرایا اور لگا غلام کی خوشامد یں کرنے۔ غلام بڑی مشکلوں کے بعد قہوے کا فنجان بنانے اور ہمیں پیش کرنے پہ آمادہ ہوا۔

بارے رات کا پہلا پہر شروع ہوا تو بزرگ سپید ریش نے شب خوانی شروع کری۔ اے عزیز۔ میرا نام معز الدین ہے اور یہ جو مملکت تم دیکھتے ہو، اس پہ میرے باپ دادا اپنے باپ دادا کے وقت سے حکمرانی کرتے تھے۔ مجھے اپنی نوجوانی تک کا زمانہ یا دہے کہ رعایا اتنے امن میں رہتی تھی گھروں میں دروازے لگانے کا دستور نہیں تھا اور جو ایسا کرتا تھا، بادشاہ کے کارندے اُس کی مشکیں کس کے دربار میں پیش کر دیا کرتے تھے کہ اُسے بادشاہ کے انتظام و انصرام پہ شبہے کا مجرم گردانا جاتا تھا۔ دل کی چوری کے سوا کسی چوری کا احتمال نہیں تھا۔ آنکھوں کے رستے لُٹنے کے علاوہ، کوئی نہیں لُٹتا تھا۔ چنانچہ اس نوع کی چوریاں اور ڈاکے عام تھے اور اس کی سزا نکاح اور بعد ازاں ناکح و منکوحہ کی کثرت اولاد کے حیلے خود بخود بھگت جایا کرتی تھی۔

اُس زمانے میں سادگی زیست کا جزو لاینفک تھی، چنانچہ بادشاہ بھی خط و غسل کا ہفتہ وار اہتمام کیا کرتا تھا، گرمیوں کے موسم میں بادشاہ کے پاس سے خوئے سلطانی کے ساتھ ساتھ سڑے ہوئے مٹھے کی بد بو بھی آیا کرتی تھی جو طبیعتوں میں تنغض اور بادشاہ سے تنفر کا سبب ہوا کرتی تھی۔ رسم و رواج بھی سادہ تھے۔ بیٹیوں کو جہیز میں بس وہ کپڑے دئیے جاتے تھے کہ جنہیں وہ پہن سکتیں۔ اُس دور میں شادی کے قیمتی کپڑے ایک ہی بار استعمال کر کے ہمیشہ کو تگ دینے کا دستور رواج نہیں پایا تھا۔ غریب دال چٹنی اور امیر مرغ و ماہی بے شک کھاتے تھے مگر اس کا اظہار کرنا رکاکت و کارِاسفل میں شمار کیا جاتا تھا۔ باد شاہ قیمتی پوشاک پہ ایک معمولی چادر ڈال کے بیٹھتا کہ جو اُس سے کمتر درجے پہ باری تعالیٰ نے فائز کئے ہیں ، اپنے تئیں ایسا نہ محسوس کریں۔

شرفا کا دستور تھا کہ کتنے ہی متمول کیوں نہ ہوں ، محلے میں اپنے گھر کی دوسری منزل اس واسطے تعمیر نہ کرتے تھے کہ پڑوسیوں کو حسرت و نا ہوتگی کا احساس نہ ہو۔ امیر غریب سبھی ایک ہی محلے میں رہتے اور ایک ہی قبرستان میں دفن ہوتے تھے۔ اُس زمانے میں ایک دوجے کی خبر گیری کا یہ عالم تھا کہ کوئی رات کو بھوکا نہ سوتا تھا۔ مال و زر کو ذاتی کاوش کا نتیجہ نہیں ، مبدائے کائنات کی دین سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہ کی طرف سے مشاطائیں مقرر تھیں کہ شہر کی بالغ و عاقل، قابل نکاح لڑکیوں کی خبر رکھتیں اور اگر ان خوبیوں کے با وصف کوئی لڑکی کنواری پائی جاتی تو اُس کی خبر بادشاہ کو پہنچاتیں اور نکاح میں تاخیر کا باعث اگر عُسرت ہوتی تو شاہی خزانے سے امداد جاری کر دی جاتی۔ انصاف کا یہ عالم تھا کہ مجرم تیسرے دن سزا پا جاتا تھا۔ قاضی متشرع اور خشیت اللہ کی زندہ تصویر ہوتے تھے۔ عزیزو۔ یہ سب اُس سادگی کی بنا پہ تھا جو اس ملک میں جاری و ساری تھی۔ پھر اس ملک پہ سفید عذاب نازل ہوا۔ اُس کا قصہ بھی سن لو۔

جیسا کہ دستور ہے کہ ہر اچھائی برائی اُوپر سے نازل ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک روز ایک سفید فام باشندہ کہ صورت سے ہی حرام الدہر اور کثیر الپدر لگتا تھا ، بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور چند ایسے جادو کے کرتب دکھلائے کہ بادشاہ اور درباری حد درجہ محظوظ ہوئے اُس نابکار نے بعد ازاں درخواست کی کہ اُسے چند روز کے واسطے اس ملک میں مقیم رہنے اور رعایا کو بھی اس تماشے سے لطف اندوز کروانے کا موقع مرحمت فرمایا جاوے۔ بادشاہ مان گیا۔ تس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُس مردود کی مفلسی کا یہ عالم تھا کہ اُس کی زوجہ جو لباس پہنے ہوئے تھی، وہ گھٹنوں تک تھا۔ چنانچہ وہ سفید فام ملک کے طُول و عرض میں گھومنے اور تماشے دکھانے لگا۔ الغرض چند روز اسی کیفیت میں گزرے تو دربار میں حاضر ہوکے یوں ملتمس ہوا کہ پردیسی ہوں ، مفلس ہوں اور میرا جو بھی حال ہے وہ حضور سے پوشیدہ نہیں۔ غریب الوطنی میں اپنوں کی یاد ستاتی ہے، تو کیا ہی اچھا ہو کہ حضور مجھے اور میری عورت کو اپنے عزیزوں کو یہاں بلوانے اور اپنے سایہ عاطفت میں رہنے کی اجازت مرحمت فرماویں کہ وطن میں دانے دانے کو محتاج زیست کرتے ہیں۔ بادشاہ تس پہ خوشی سے راضی ہوا اور سفید فاموں کی ایک کھیپ یہاں وارد ہو گئی۔

الغرض چند برس یوں ہی گزرے۔ ہوتے ہوتے سفید فاموں کی وہ پونگ بھی جوان ہو گئی کہ جو یہاں عالم شیر خوارگی میں آئے تھے یا یہاں جنے گئے تھے۔ جب تعداد بڑھی تو بادشاہ سے کہنے لگے کہ اے بادشاہ۔ تیرے اور ہمارے ملک کے لوگوں کے دستور جدا ہیں ، زبان جدا ہے اور مذہب بھی جدا۔ تو ایسا کیوں نہ کیجئے کہ ہمارے رہنے کے واسطے ایک علیحدہ جگہ مختص کیجئے کہ اپنی مرضی کریں۔ بادشاہ کو یہ تجویز ماننے میں کوئی امر مانع نہ ہوا اور اُن کے واسطے ایک علیحدہ زمین کا ٹکڑا مختص کیا کہ اپنی مرضی کے گھر تعمیر کریں۔ جب اُن کے بچے جوان ہوئے تو بادشاہ مر گیا اور اُس کی جگہ اُس کا ولی عہد کہ میرا دادا تھا، بادشاہ ہوا۔ اُس نے بھی سفید فاموں سے مروت و مہربانی کا سلوک روا رکھا۔ سفید فاموں میں کچھ ایسے قابل و جوہر یکتا تھے کہ بادشاہ کے دربار اور پھر اُس کے مزاج میں دخیل ہو گئے اور ایسے تماشے دکھانے اور ایسی حکایات سنانے لگے کہ بادشاہ ہر روز اگلے روز سے زیادہ خود کو اُن کا گرویدہ پاتا تھا۔ پھر وہ بادشاہ سے کہنے لگے کہ اے بادشاہ کہ تُو ہم پہ ہماری ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے اور ہم جی جان سے چاہتے ہیں کہ تیری خدمت میں اپنی جانیں تک دیں تو ایسا کیوں نہ کیجئے کہ ہمیں ہمارے وطن سے جو جو لوگ اپنے فن میں ماہر ہیں ، اُنہیں یہاں بلوانے کی اجازت دیجئے کہ جو کمیاں یہاں کے انتظام و انصرام میں پائی جاتی ہیں اُن کو بھی دُرست کریں اور تیری فوج میں شامل ہوکے اپنا لہو بھی تیری نذر کر کے اُن مہربانیوں کا قرض بے باق کریں کہ جو تُو اور تیرے بزرگ ہمیں دیتے رہے ہیں۔

میرے دادا کو یہ تجویز خوش آئی اور اُنہیں ایسا کرنے کا حکم دیا۔ میرے دادا کا وزیر کہ میرے پر دادا کے وقت سے اس عہدے پہ متمکن تھا اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ایک ذہن رسا رکھتا تھا اس تجویز پر دبی زبان سے شکوہ بہ لب ہوا تو میرے دادا کے کان بھرے گئے اور وزیر کو سبکدوش کر کے اُس کی جگہ ایک سفید فام کو وزیر مقرر کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ پھر اے عزیزو۔ اُس سفید فام وزیر کو ہر شئے میں کیڑے دکھائی دینے لگے، چنانچہ ایک روز جبکہ بادشاہ کو مشفق و مہربان پایا تو یوں گویا ہوا کہ اے عالی نسب۔ اب جبکہ تُو میری خواہش کے بر عکس اور اپنی خواہش کے بموجب مجھے اس عہدے پہ سرافراز کر ہی چکا ہے، تو چاہتا ہوں کہ اس نظام میں جو جو خرابیاں پاتا ہوں اور چشم بینا سے ان خرابیوں کی بنا پہ تیری سلطنت اور حکومت کو خطرے میں دیکھتا ہوں ، اُنہیں دُور کرنے کی ٍسعی و کاوش کروں۔ میرے دادا نے اپنے نمک خوار کو حق نمک یوں ادا کرتے دیکھا تو اپنے انتخاب پہ فخر و انبساط سے پھولا نہ سمایا اور سفید فام کو اجازت مرحمت کی تُو اپنی مرضی کر اور جب سارا نظام درست ہو جاوے تو مجھے اطلاع کر کہ ما بدولت اس بدلے ہوئے نظام کو ملاحظہ کر کے تجھے سونے چاندی میں تولیں گے۔ تس پہ وہ گویا ہوا۔ بادشاہ، تیرے ملک میں یہ نظام صدیوں سے مروج چلا آتا ہے اور اسے بدلنے کی کوشش میں بہت سے اوامر مانع ہوں گے تو ایسا کیجئے کہ اس نوع کا ایک فرمان جاری کیجئے کہ میرے راستے میں کوئی اڑچن نہ ہو۔ بادشاہ نے اُسی وقت شاہی کاتب کو طلب کر کے ، اس نوع کا فرمان تحریر کروایا اور اپنے سفید فام وزیر کے حوالے کیا اور خود نچنت ہو کے بادشاہی کرنے لگا۔

اب اِدھر کی سنو۔ وہ ملعون کہ نظام کی تبدیلی کے واسطے ایک لمبا چوڑا محضر نامہ اپنے لوگوں کی مرضی سے تحریر کر چکا تھا، اُس پہ عامل ہوا اور سب سے پہلے سادگی پہ معترض ہوا۔ اُس نے میرے دادا کو بتلایا کہ آپ اتنی بڑی سلطنت پہ فرماں روائی کرتے ہیں اور لاکھوں کی رعایا ہے لیکن یہ محل آپ کے شایاں نہیں چنانچہ صلاح ہے کہ اس محل کو ڈھا کے اسی مقام پہ ایک نئے محل کی تعمیر کی جاوے کہ جو بادشاہوں کے رہن سہن کے عین مطابق ہو۔ اور جب باہر کے ملکوں کی سفارتیں آویں تو وہ ولی نعمت کی شان دیکھ کے رعب میں آ جاویں اور اپنے جی میں کوئی ایسا ویسا خیال نہ لاویں۔ میرا دادا اس خیال سے خوش ہوا اور وزیر کو کچھ انعام اکرام دے کے بولا۔ اے وزیر۔ میں تجھے اپنا اور اس سلطنت کا سچا خیر خواہ پاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ جب تک میری بادشاہی ہے، تیرے سوا اور کسی کو وزارت کی کرسی پہ متمکن نہ دیکھوں ، چنانچہ اے وزیر۔ میں عارضی طور پہ کہیں اور اُٹھا جاتا ہوں ، تو اس محل کو ڈھا کے ایک نیا محل اپنی منشا کے مطابق ایسا تعمیر کر کہ جس کی کوئی مثال کسی نے سنی ہو، نہ ثانی کسی نے دیکھا ہو۔

چنانچہ میرا داد ا اپنے واسطے ایک عارضی انتظام کر کے رہنے لگا اور وزیر پرانے محل کو ڈھا کے نئے محل کی تعمیر میں مصروف ہوا۔ چونکہ وہ بادشاہ سے فرمان جاری کروا چکا تھا کہ اُس کے کسی فعل و عمل میں کوئی حارج و مانع نہ ہو گا، چنانچہ اپنی مرضی سے کام کرواتا اور جو خوش آتا اُس کے مطابق کرتا۔ جب محل آدھا بن گیا تو ایک روز بادشاہ کے دربار میں ایک مفلوک الحال کسان پیش ہوا۔ کسان دہائی دے رہا تھا، تس پہ بادشاہ نے اُس کے گریہ کا سبب پوچھا تو وہ کسان یوں گویا ہوا کہ اے بادشاہ۔

میں تیرے دادا کے زمانے میں بچہ تھا، تیرے باپ کے زمانے میں جوان اور اب تیرے زمانے میں پیری کے آزار سے گزرتا ہوں مگر جو آفت مجھ پہ اب ٹوٹی ہے، کبھی دیکھی نہ سنی۔ تس پہ میرا دادا بولا۔ جلدی بیان کر۔ اگر تجھ پہ ظلم ہوا ہے تو تجھے پورا انصاف ملے گا۔ وہ کسان بولا۔ اے بادشاہ۔ مجھ پہ کسی اور نے نہیں تیرے وزیر اور اُس کے کارندوں نے ظلم ڈھایا ہے اور مجھی پہ نہیں ، تیری رعایا جس جس کونے میں بستی ہے وہ سبھی اس عذاب سے دوچار ہیں۔

بادشاہ یہ سن کر ششدر ہوا اور چاہتا تھا کہ حیرت سے اُنگلیاں کاٹے مگر ارادہ ملتوی کر کے بولا۔ میرا وزیر ، میرے رتنوں میں سب سے قابل جوہر ہے، میں تیری کسی بات کا اعتبار نہیں کرتا اور اے بوڑھے۔ تجھے ضرور ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ تس پہ وہ گویا ہوا۔ اے بادشاہ۔ اگر تُو میری نہیں سنتا تو نہ سن۔ ذرا اپنے محل کی کھڑکی کھول اور ننگوں بھوکوں کا وہ انبوہ عظیم دیکھ جو تیرے در پہ فریاد کناں ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے کھڑکی کھولی تو بڈھے کو حق پہ پایا۔ وہاں ننگوں بھوکوں کا ہجوم کھڑا تھا اور بعضے بعضے اُن میں ایسے تھے کہ اپنی شرمگاہوں کو فقط ہاتھوں سے چھپائے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کے بادشاہ کا شاہی لہو جوش میں آ گیا اور شتابی کوتوال کو حکم دیا کہ وزیر کی مشکیں کس کے ہمارے حضور پیش کیا جائے۔

سپاہی ، وزیر کی مشکیں کسے دربار میں پیش ہوئے تو بادشاہ کے غیض کا یہ عالم تھا کہ بھوکے شیر کا کچھار میں کیا ہوتا ہو گا۔ چنانچہ اُسی وقت وزیر سے اس کے ظلم کا سبب پوچھا۔ تس پہ وزیر مسکرایا اور بولا۔ بادشاہ سلامت ، اتنی اجازت چاہتا ہوں کہ جو عرض کروں ، تخلیے میں کروں ، چنانچہ جب دونوں اکیلے ہوئے تو وزیر بولا۔ سن اے بادشاہ۔ نئے محل کی تعمیر کوڑیوں سے نہیں ، روپوں سے کرتا ہوں اور روپیہ پیدا کرنے کا میرے پاس اور کوئی ذریعہ نہ تھا تو ان کسانوں سے جو شاہی لگان وصول کرنے کا رواج تھا، اُسے فقط دگنا کر دیا ہے۔ اس میں میری کوئی تقصیر نہیں۔ خدا کی زمین کا دستور ہے کہ اُس پہ جتنی محنت کرو گے، وہ تمہیں اتنا ہی پھل دے گی۔ مانا میں ذرا سا زیادہ محصول لیتا ہوں مگر تیرے کسان نکھٹو ہیں۔ چاہیں تو ذرا سی محنت زیادہ کر کے اُسی زمین سے اتنا پیدا کر سکتے ہیں کہ خود بھی کھائیں اور اولاد کو بھی کھلائیں۔ اور اے بادشاہ۔ اگر اجازت ہو تو کچھ اور بھی عرض کروں۔ جب میرا دادا اجازت مرحمت کر چکا تو وہ لعین بولا۔ ان کسانوں کی اتنی جرات ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ تجھ سے شکوہ بہ لب ہوتے، میں اس پردہ زنگاری کی آڑ میں کوئی اور ہی معشوق دیکھتا ہوں اور وہ تیرے چچا زاد کے اور کوئی نہیں ہو سکتاکہ ملک میں بغاوت کی ہوا اس واسطے چلواتا ہے کہ تجھے معزول کر کے خود کو تخت شاہی پہ سریر آرا کرے۔

غرض اس نوع کی بہت سی باتیں اُس نے کیں اور میرے دادا کو اس پہ قائل کرنے میں کامران رہا کہ اُس کی رعایا سراسر غلطی پہ ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے پہلے تو اُس کسان کو دروں سے پٹوایا کہ جو فریاد لایا تھا اور پھر سپاہیوں کو حکم دیا کہ محل کے باہر جمع انبوہ کو وہ سزا دیں کہ جو ایک باغی کے واسطے مقرر تھی، چنانچہ سپاہی نہتے بھوکوں ننگوں پہ ٹوٹ پڑے اور یکطرفہ شمشیر زنی کرنے لگے۔ انجام کار بہت سے وہیں کھیت رہے۔

میرے دادا نے اپنے چچا زاد پہ توجہ کی اور اُس کی مشکیں کسوا کے اُسے دربار میں حاضر کروایا۔ میرے دادا کا چچا زاد نئے محل کی تعمیر پر معترض تھا اور اس سلسلے میں میرے دادا سے تخلیے میں بہت کچھ کہہ سن چکا تھا ، چنانچہ اُس روز جب میرے دادا نے اُسے پکڑوا کے بلوایا تو وہ شتابی سمجھ گیا کہ ماجرا کیا تھا۔ میرے دادا نے اُس پہ بغاوت کا الزام لگایا اور یوں بھی گویا ہوا کہ مجھے تجھ سے اس حرام خوری کی اُمید نہ تھی۔ چونکہ وہ بے قصور تھا اس لئے بے باکانہ بولا۔ اے برادر عزیز۔ یہ دُرست ہے کہ میں تیرے اس نئے محل کی تعمیر کو پسند نہیں کرتا لیکن میں نے کبھی بغاوت کا خیال اپنے جی میں نہیں پالا۔ اور اے بادشاہ۔ تُو جو یہ نیا محل اپنے سفید فام وزیر کے کہنے پہ بناتا ہے اور تیر ا سفید فام وزیر جیسے تیری رعایا سے محصول وصول کرتا ہے، تو تُو اس محل کی نیو غریبوں کے خون پہ کھڑی کر رہا ہے اور اے بادشاہ۔ یاد رکھ ظلم پہ کھڑی عمارت بہت جلد ڈھے جاتی ہے۔ میرے دادا نے اسے بھی اپنے خلاف جانا اور اُسے زن بچے سمیت اگلی صبح تک اپنی سلطنت سے نکل جانے کا فرمان جاری کیا۔

اب سفید فام وزیر کھل کے کھیلا اور جوں جوں محل کی تعمیر آگے بڑھتی تھی، ووں ووں اُس کے مظالم بڑھتے تھے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ جب کسانوں کے پاس کھانے کو دانہ اور پہننے کو کپڑا نہ رہا تو اُن میں سے بہت سوں نے چپکے چپکے ملک چھوڑ نا شروع کر دیا۔ اگلے برس مملکت میں کھانے کو غلہ نہ رہا تو بادشاہ کو فکر ہوئی۔ تس پہ اُس کا وزیر بولا۔ اے بادشاہ جب تلک میں زندہ ہوں تجھے کسی قسم کی فکر کی ضرورت نہیں اور میں اس مشکل کا حل رکھتا ہوں ، بس شاہی خزانے سے رقم نکال کے مجھے دیجئے۔ چنانچہ بادشاہ نے ویسا ہی کیا اور سفید فام وزیر نے بڑے بڑے بیڑوں پہ اپنے ملک سے اناج منگوا کے اُس کے ڈھیر لگوا دئیے۔ بادشاہ وزیر سے خوش ہوا اور اصلی مروارید کا ہار کہ ہر وقت پہنے رہتا تھا، وزیر کی نذر کیا۔

چنانچہ عزیزو اب یہ معمول ہو گیا کہ جب بھی غلے کی کمی ہوتی، سفید فام وزیر اپنے ملک سے منگوا دیتا۔ ایک روز بادشاہ کا وہ رتن کہ جس کے پاس خزانے کی چابیاں تھیں ، میرے دادا کے دربار میں حاضر ہوا اور بولا۔ اے بادشاہ۔ چاہتا ہوں کہ تُو مجھے میرے فرائض سے سبکدوش کر دے کہ اب یہاں میرے کرنے کا کوئی کام باقی نہیں رہا۔ تس پہ میرا دادا حیرت سے بولا۔ یہ کیا بکتا ہے۔ میں نے تجھے شاہی خزانے کی نگہبانی کے واسطے مقرر کیا اور تجھ سے بڑھ کے میں کسی کو اس عہدے کا اہل نہیں پاتا۔ تو وہ بولا۔ اے بادشاہ۔ کونسا خزانہ۔ کیسا خزانہ۔ تیرا جتنا خزانہ تھا وہ سب دساورسے غلہ منگوانے پہ اُٹھ گیا اور اب خزانے میں بلیاں غراتی اور کتے لوٹتے ہیں۔ تس پہ میرا دادا ششدر رہ گیا اور بولا۔ ہمارے آبا و اجداد جو اتنا بڑا خزانہ چھوڑ گئے تھے، وہ تُو نے لُٹا دیا۔ تو وہ رتن کہ پائی پائی کا حساب اُس نے اپنی کتابوں میں لکھ چھوڑا تھا، بولا۔ بادشاہ مجھ پہ الزام لگانے سے پہلے ان بہی کھاتوں کو دیکھ لے۔ چونکہ میرا دادا پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا، چنانچہ ایک اور رتن سے کہا جس نے شتابی حساب دیکھ کے بتایا کہ یہ شخص جو کہتا ہے، اُس میں سر مُو فرق نہیں۔ تس پہ میرا دادا ہر وہ چیز پکڑ کے بیٹھ گیا کہ جس کا پکڑا جانا ایسے موقعوں پہ لازم ہے، یعنی دل، جگر اور سر وغیرہ۔

الغرض جب شام ہوئی اور سفید فام وزیر میرے دادا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُسے محل کی تعمیر کے بارے میں پنی اُس روز کی کارکردگی بتانے لگا تو اُس نے میرے دادا کو ملول پایا۔ تس پہ بولا۔ باد شاہ سلامت۔ کیا بات ہے کہ میں مزاج دشمناں کو آج نا ساز پاتا ہوں۔ تو میرے دادا نے اُسے ساری رُو دادا سنائی۔ وہ ہنسا اور بولا۔ اے بادشاہ۔ جب تلک میں تیرا وزیر ہوں ، خوشیاں تیرا نصیب اور رنج و الم میرا مقدر ہے۔ یہ معمولی سی پریشانی ہے۔ حکم کر کہ تیرے خزانے کو ویسے ہی لبا لب کروا دوں کہ جیسے وہ پہلے تھا۔ تس پہ میرا دادا حیرت سے اُس کا منہ تکنے لگا اور بولا۔ بے شک میں نے تجھے ہر غم میں اپنا ساتھی ، اور ہر خوشی میں اپنا رفیق پایا ہے ، مگر اے وزیر یہ کیسے ممکن ہے۔ چنانچہ اُس نے میرے دادا سے کہا کہ وہ اپنے وطن میں ایسے زر داروں کو جانتا ہے کہ وہ یہ مشکل چٹکی بجاتے میں حل کر سکتے ہیں لیکن اُن کی ایک شرط ہو گی۔ میرے دادا نے جب وہ شرط دریافت کی تو وہ بولا۔ ہمارے پاس بہت سی زمین روہڑ پڑی ہے کہ جس کا کوئی مصرف نہیں۔ تو ایسا کیوں نہ کیجئے کہ وہ زمین اُن لعینوں کے منہ پہ اس رقم کے عوض مارئیے اور ٹھاٹھ سے خزانہ پُر کروائیے۔ بادشاہ کو ایسا کرنے میں ذرا تامل ہوا تو وہ بولا۔ یہ سوچنے کا وقت نہیں اے بادشاہ۔ اگر جیب خالی ہو گی تو پھر میں اگلے برس کے غلے کا بندوبست کرنے سے عاجز رہوں گا اور ملک میں قحط کی صورت ہو گی۔

چنانچہ میرا دادا اس ترکیب پہ راضی ہوا اور شاہی خزانے میں ضرورت کے واسطے روپیہ جمع کرا دیا گیا۔ جب وہ زمین اُس وزیر کے ہموطنوں کے قبضے میں چلی گئی تو اُنہوں نے اپنے وطن سے اپنے کارندے بلوا لئے اور اُس زمین کو ٹھاٹھ سے آباد کیا۔ پھر جب اگلے برس خزانہ خالی ہوا تو اسی طریق پہ پُر کروایا گیا۔ پھر تو اے عزیزو یہ معمول بن گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ آدھے سے زیادہ ملک پہ اُن اجنبیوں کا قبضہ ہو گیا کہ جن کا جد یہاں تماشہ دکھلانے کے واسطے آیا تھا۔ آدھا ملک سفید فاموں کو دے کے میرا دادا مرگیا اور اُس کے بعد میرا باپ بادشاہ ہوا کہ بے چینی سے ولی عہدی کرتا تھا اور باپ کے مرنے کا دن رات منتظر رہتا تھا۔

چنانچہ ایک روز وزیر بولا۔ اے بادشاہ میں چاہتا ہوں کہ تُو اپنے طریق میں تبدیلی لا کہ وقت تبدیل ہو گیا ہے اور اس ملک میں دوسری مملکتوں کے سفرا کا آنا جانا عام ہے۔ جب اُس نے اُس سے اس امر کی صراحت چاہی تو وہ بولا۔ یہ تُو اور تیرے درباری جو پوشاکیں پہنتے ہو یہ گئے وقت کی باتیں ہو گئی ہیں۔ اپنی پوشاکوں کو تبدیل کرو کہ تم ان میں مسخرے لگتے ہو۔ تمہارے درباری سے لے کر خاکروب تک جھِلنگے پہنتے ہیں۔ بادشاہ، درباریوں اور غلاموں کے لباس میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے۔ میرے باپ کے دل کو وزیر کی بات لگی اور اُس نے ساری سلطنت میں لباس حسب مراتب پہننے کا حکم جاری کیا۔ چنانچہ اے عزیزو۔ باد شاہ نے وزیر کے کہنے پہ اس حکم کو آگے بڑھایا اور کسانوں کے واسطے تہہ بند اور بنیان اور غلاموں کے واسطے فقط تہہ بند لباس مقرر کیا۔ پھر وزیر گویا ہوا۔ اے بادشاہ۔ میں چاہتا ہوں کہ تیری رعایا کے لوگ وہ زبان سیکھیں کہ جسے سفید فام بولتے ہیں کہ اُنہیں اُن سے کاروبار کرتے ہوئے دقتوں کا سامنا ہوتا ہے اور کئی دفعہ بنولوں کی سُوت ہوئی جاتی ہے۔ اُسے یہ تجویز پسند آئی اور مملکت میں حکم جاری کروایا کہ رعایا سفید فاموں کی زبان سیکھے، چنانچہ اس پر عمل درآمد کا فرمان جاری ہوا۔

کئی برس ایسے گزرے اور رعایا غیر ملکیوں سے معاملات اُنہی کی زبان میں کرنے لگی۔ پھر بادشاہ نے ایک تبدیلی دیکھی کہ رعایا میں بہت سے لوگ اجنبیوں کا لباس پہننے اور اُنہی کے سے حلیے بنا کے گھومنے لگے۔ وہاں ایسوں کی بھی کمی نہ تھی کہ فقط اجنبیوں کی زبان بولتے اور اپنی اولاد کو ایسا کرتے دیکھتے تو پھولے نہ سماتے۔ میرے باپ کو سفید فام وزیر نے اچھی طرح باور کروا دیا تھا کہ یہ سب کرنا اُس کی عزت کا سبب اور اُس کے زمانے کے ساتھ چلنے کی نشانی ہے۔

میرے ملک کے لوگ سادہ اور دُکھ سُکھ میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے اور اپنی مشکلوں کی مشکل کشائی کے واسطے اپنے اپنے عقیدے کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ پھر اجنبیوں کے مدرسوں میں بچوں کو بتایا جانے لگا کہ دعا مانگنا ، بھیک مانگنے کے مترادف ہے، چنانچہ دعا مانگنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کام کرنا چاہئے۔ یہ چلن عام ہوا اور لوگوں کا اعتبار خدا سے اُٹھنے لگا۔ پھر جوانوں کا ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوا کہ جو خدا کو ماننے میں متامل تھا اور بحث کر کے ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ خدا کا وجود شک والی بات ہے۔ میرے باپ کو جاسوسوں نے اس نوع کی اطلاعات پہنچائیں تو میرا باپ جز بز ہوا اور وزیر کو بلوا کے اُس سے اس کا سبب جاننا چاہا۔ تس پہ وزیر بولا۔ اے بادشاہ۔ تیرے خیالات دقیانوسی ہیں۔ یہ نئے زمانے کے لوگ ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ تُو ان کے ساتھ زیادہ دُور نہیں چل سکے گا۔ تس پہ میرے باپ کا غیض فلک کو چھونے لگا اور وزیر کے قتل کا حکم صادر کیا۔ یہ خبر وزیر کے ہم وطنوں کو پہنچی تو ایک فوج لے کے شاہی محل کی طرف دوڑے۔ تب میرے باپ کو علم ہوا کہ وہ ملعون چپکے چپکے اپنی فوج بھی ترتیب دے چکے تھے۔ چنانچہ میرے باپ نے مقابلہ کیا لیکن بری طرح ہارا اور یوں مملکت پہ سفید فاموں کا قبضہ ہو گیا۔ میرے باپ کی آنکھوں میں دغدغاتی سلائی پھروا کے اُسے مکے مدینے بھجوا دیا گیا کہ وہاں جاروب کشی کرے اور اپنی عاقبت کی فکر کرے اور مجھے تخت شاہی پہ بٹھا دیا گیا۔ جس رات میں تخت شاہی پہ بیٹھا وزیر مجھ سے ملنے آیا اور بولا۔ اے عزیز۔ اب جبکہ تُو اپنے باپ کی جگہ سنبھال چکا ہے اور اُن نا عاقبت اندیشیوں سے بھی واقف ہو چکا ہے کہ جو تیرے باپ نے روا رکھیں اور اپنے انجام کو پہنچا تو میں اُمید کرتا ہوں کہ تُو اُنہیں دہرا کے دنیا کے واسطے عبرت ناک انجام کا سبب خود کو نہیں بنائے گا۔

اے عزیز۔ اب میں تجھے چند نصیحتیں کرتا ہوں کہ اگر اُن پہ عمل پیرا ہو گا تو چین سے بادشاہی کرے گا اور اگر اِس سے رُو گردانی کرے گا تو نہ اس ملک سے آگ ختم ہوئی ہے اور نہ لوہے کی وہ سلائیاں کہ جنہیں دغدغا کے آنکھوں میں پھیرتے ہیں۔ چنانچہ جو کہتا ہوں اُسے غور سے سن اور اگر اُس کے موجب عمل کرے گا تو مجھے ہمیشہ اپنا ہمدرد پاوے گا۔ اس ملک پہ تیرا وہی حکم چلے گا جو دراصل تجھے میں دوں گا اور میں وہ حکم خود نہیں دوں گا بلکہ میرا وہ بادشاہ دے گا کہ سمندر پار حکمرانی کرتا ہے۔ یہ طے ہو چکا ہے کہ تیرے آبا اول درجے کے احمق اور کوڑھ تھے کہ ٹکے بندھے نظام کو میٹھی باتوں میں آ کے خود ہی لات مار کے گرا دیا۔ یاد رکھ اے عزیز۔ کسی بھی ملک کی سب سے قیمتی دولت اُس کی رعایا ہوتی ہے، تیرے بزرگوں نے اس دولت کو بے جا لُٹایا اور ہمارے محتاج ہوئے۔ دوسری دولت یقین ہوتی ہے۔ تیرے بزرگوں کو اپنی ذات پہ یقین نہیں تھا کیونکہ یقین رعایا کی قربت سے پیدا ہوتا ہے اور میں نے تیرے بزرگوں کو رعایا سے دُور کر دیا تھا۔ تجھے بھی ایسا ہی کرنا ہے۔ دیکھتا ہوں کہ میرے مقرر کردہ اتالیق سے ہماری زبان سیکھنے کے با وجود تُو اپنے ملک کی مضحکہ خیز زبان بولتا ہے۔ یاد رکھ رعایا کے دلوں میں اپنا خوف بٹھانا ہے تو خود کو اُن سے الگ ثابت کر اور اس کے لئے وہ زبان اختیار کر کہ جو اُن میں سے بیشتر کی سمجھ میں نہ آتی ہو۔ میں نے حکم جاری کر دیا ہے کہ اب سے کاروبارِ حکومت ہماری زبان میں ہوا کرے گا۔ اس طرح مشکل کا حل ڈھونڈنے والے پہلے تو اس مشکل میں پڑیں گے کہ اپنی فریاد کوکیسے آگے پہنچائیں اور اس طرح اتنے اُلجھیں گے کہ بغاوت کا کبھی نہ سوچ سکیں گے اور تُو ٹھاٹھ سے بادشاہی کرے گا۔

اپنے اطوار ایسا بنا کہ تُو رعایا میں سے لگنے کے بجائے خدا کا خاص فرستادہ لگے۔ دو چار نسلوں کے بعد لوگ تجھے اوتار سمجھنے لگیں گے اور تجھے ہر غلطی اور ہر تقصیر سے بالا سمجھا جانے لگے گا۔ کوشش کر کہ تیرے مقربین بھی تجھ جیسا حلیہ اور تجھ جیسی زبان اختیار کریں گے کیونکہ کاروبار حیات میں آگے بڑھنے کے واسطے یہ از بس لازم ہو گا کہ اُنہیں تجھ جیسے ڈھنگ آتے ہوں۔ یاد رکھ رعایا ہمیشہ اُن کی نقل کرتی ہے کہ جنہیں وہ خود سے بر تر پاتی ہے۔ دیکھتا ہوں کہ تیرے ملک کے لوگ مذہب کی طرف بہت دھیان رکھتے ہیں۔ تُو اُن کے بیچ جا کے نمازیں پڑھتا اور اُن کے ساتھ ہِل ہِل کے دعائیں مانگتا ہے۔ اس مشق کو خیر باد کہہ کہ تُو اُن سے اعلیٰ اور برتر ہے۔

اے بادشاہ۔ میں تیری بادشاہت کو طویل تر دیکھنے کے واسطے ، ملک میں ایک نیا نظام رائج کر رہا ہوں۔ ملک کا تصور زمین اور آدمیوں سے ہوتا ہے۔ آدمی زمین پہ کسی بھی قسم کا کام کرتا ہے تو جینے کے حیلے پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں نے آدمیوں کو پہلے، دوسرے ، تیسرے اور چوتھے درجے میں بانٹنے کے واسطے نظام تشکیل دے لیا ہے۔ اب ہر آدمی برابر ہے، والا نظام باطل قرار دیا جا چکا ہے۔

میں نے اس سرزمین کو نواب، جاگیر دار، زمیندار اور کاشتکار کے نظام میں بانٹنے کا حکم دے دیا ہے۔ اب یہ نظام کچھ یوں جاری ہووے گا کہ بادشاہ ہمیں جواب دہ ہو گا، نواب، بادشاہ کو جواب دہ ہو گا، جاگیر دار نواب کو جواب دہ ہو وے گا، زمیندار جاگیردار کو جواب دہ ہو وے گا اور کاشتکار ، زمیندار کو جواب دہ ہو وے گا۔ اور محاصل کی وصولی اسی ترتیب سے ہو گی اور ہم کو جو بھی وصول کرنا ہو گا ، تجھی سے کریں گے اور اس کے بدلے تجھے اور تیری حکومت کو حفاظت مہیا کریں گے۔ اگر تُو یہ ساری باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر چکا ہے اور ان پر عمل کرنے کا خود کو خوگر بنانے کا تہیہ بھی کر چکا ہے تو مجھے بتلا ورنہ میں کسی اور بادشاہ کا بندوبست کروں۔ چنانچہ میں نے ان ذلیل شرائط پہ بادشاہی قبول کر لی۔

صاحبو۔ جیسا کہ اُس سفید فام وزیر نے کہا تھا، میں اُس کی مانتا اور ٹھاٹھ سے حکومت کرتا تھا۔ چونکہ مجھے رعایا سے دُور ہونے کا مشورہ دیا گیا تھا، درباری خاص قسم کے لوگ چنے گئے تھے، چنانچہ دربار اور شاہی محل میں سکون، عشرت اور امن کا دو ر دورہ تھا اور میں اپنے ملک کی رعایا کو بھی ویسے ہی امن چین کی بنسری بجاتا دیکھ سکتا تھا۔ اس طرح کئی برس گزر گئے۔ وزیر کاغذ لاتا اور میں اُن پہ شاہی مہر لگا دیتا تھا۔ میں پڑھا لکھا تھا مگر اُس شخص کو پا کر اطمینان کی گزارتا تھا کہ جو میری خاطر سارے دُکھ بھوگ رہا تھا اور میں مزے سے شہنشاہی کرتا تھا۔

ایک روز میں شاہی باغ کی سیر کرتا تھا اور نوع نوع کے گل ہائے رنگا رنگ پر، بنانے والے کی صناعی کی داد دیتا اور اپنی پانچویں بیوی سے اُن کے بارے میں گفتگو کرتا تھا کہ شاہی باغ کا مالی میرے روبرو ہوا۔ حالانکہ یہ حکم بڑی سختی سے دیا گیا تھا کہ بادشاہ کے باغ کی سیر کے وقت کوئی اسفل ذات باغ میں موجود نہ رہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ مالی کسی جھاڑی کے پیچھے چھپا تھا کہ میرے دو بدو ہو سکے۔ میں نے برسوں بعد رعایا میں سے کسی کو دیکھا تھا، چنانچہ میں ڈر گیا۔ پھر میں نے مالی سے کڑک کے پوچھا۔ اے نابکار ، تُو کون ہے اور ایسے کیسے درانہ بادشاہ وقت کے سامنے چلا آتا ہے اور تیرے ملبوس کی بُو نے ما بدولت کی ساری سیر کا مزہ گنڈیر کر دیا ہے اور کیا تُو دیکھتا نہیں ، میری ملکہ اس سبب سے بے ہوش ہوئی چاہتی ہے۔ تُو خود جاتا ہے یا محافظوں میں سے کسی کو بلواؤں کہ تجھے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور کل صبح تجھ سمیت تیرا زن و بچہ کولہو میں پِلوا دیں۔

تس پہ وہ ہنسا اور بولا۔ سن بادشاہ۔ چونکہ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ اب جو میں کہنے والا ہوں اُس کے بعد موت میرا مقدر ہو چکی ہے اور چونکہ مجھے اب اس دنیا سے جانا ہی ہے تو سوچا کہ تجھے تیری اور تیری حکومت کی اصلیت بتا دوں۔ یہ جو تُو اپنے تئیں بادشاہی کرتا ہے، یہ بادشاہی تجھے سفید فاموں کی دی ہوئی بھیک ہے جس پہ تُو پھولا نہیں سماتا۔ تُو نے کبھی محل کی کھڑکی سے باہر جھانک کے دیکھا ہے کہ تیری رعایا کس حال میں ہے۔ اس کا ایک نمونہ تو میں ہی تیرے سامنے کھڑا ہوں کہ خود کو تیرے اور تیری ملکہ کے سامنے برہنہ ہونے سے بچانے کو ان چیتھڑوں میں سمٹا جاتا ہوں۔ اے بادشاہ۔ محل کی کھڑکی سے باہر جھانک تجھے ننگوں بھوکوں کا ایک ہجوم دکھائی دے گا۔ اور اے ظل سبحانی۔ تیرے ملک کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ لوگ بیمار، لاچار، مجبور، ننگے ، بھوکے اور دست بد دعا تیری بربادی کے واسطے اُٹھائے ہوئے ہیں۔ اسفل، عہدے پا کے حوصلہ مند ہو چکے اور شریفوں کی پگڑیاں پیروں میں اُچھالتے ہیں۔ عدالتوں میں انصاف کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ تیرے باپ دادا کے مقررہ کردہ قاضیوں کو گھر میں بٹھا دیا گیا اور انصاف کا پیمانہ کہ سفید فام وزیر کا بنایا ہوا چھلکتا ہے۔ رعایا آدھے پیٹ کھاتی ہے چنانچہ اُن کے پیٹ ، کمروں سے لگ گئے ہیں۔ آنکھوں سے فراغت کی چمک مٹ چکی ہے۔ لوگ جوان بیٹیوں کی شادیاں نہیں کر سکتے چنانچہ اُن سمیت اندھے کنوؤں میں کود کے جانیں دے رہے ہیں۔ فوج کو اپنا روزگار خود پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ لوگوں نے اپنا لباس، اپنا دین، اپنی اقدار اور اپنی زبان تک چھوڑ دی ہے اور اے بادشاہ یہ سب اُس سفید عذاب کی بدولت مسلط ہوا ہے جسے اس ملک میں تیرے جہنم آشیانی بزرگوں نے رواج دیا۔

مجھے کہنے دے اے بادشاہ کہ جب تک تیرے بزرگ اپنی راتیں رنڈیوں اور کسبیوں کی محفلوں میں گزارنے کے بجائے گھوڑوں کی پیٹھ پہ گزارا کرتے تھے، رعایا چین سے سوتی تھی۔ تیرے بزرگ اپنے فیصلے ذہن رسا سے کرتے اور پھر اُن کی حفاظت تلوار سے کیا کرتے تھے کہ وہ محتاج نہ تھے۔ آج تُو سفید فام وزیر کا قدم قدم پہ محتاج ہے۔ رعایا تجھے کوستی اور تیرے بزرگوں کی قبروں پہ جوتے مارتی ہے۔ مجھے جو کہنا تھا، میں کہہ چکا۔ اب دیر نہ کر ، شاہی جلاد کو بلوا کہ میری گردن مارے اور میں اُس آزار سے چھوٹوں کہ جس میں تجھ جیسے بادشاہ کی وجہ سے مبتلا ہوں۔

میں اُس کی باتیں سنتا اور خود کو نفرین کرتا تھا۔ یہی حال میری ملکہ کا بھی تھا، چنانچہ جی میں ایک ارادہ باندھا اور اُسی وقت محل واپس روانہ ہوا اور سفید فام وزیر کو طلب کیا۔ بے وقت طلبی پہ چیں بجبیں وزیر حاضر ہوا اور بد تمیزی سے بولا۔ ہمارے ملک میں ہر کام کا ایک وقت مقرر اور قاعدہ متعین ہے، مجھے یہ بے وقت طلبی پسند نہیں آئی کہ میری بھی ایک ذاتی زندگی ہے، بہر حال اے بادشاہ۔ جلدی کہہ تجھے جو بھی کہنا ہے۔ مجھے یہ انداز گفتگو بالکل خوش نہ آیا اور میں ڈپٹ کے بولا۔ حد ادب۔ تُو شاید جانتا نہیں کہ کس سے مخاطب ہے۔ میں بادشاہ ہوں اور اس ملک پہ میرا حکم اور اُس حکم پہ میری مہر چلتی ہے۔ ارے کوئی ہے جو اس نا فرمان کی مشکیں کسے۔ تس پہ وہ ہنسا اور بولا۔ بادشاہ، تُو واقعی بڑا بادشاہ ہے۔ کونسا حکم اور کیسی مہر؟ اس ملک پہ میرے بادشاہ کا حکم اور مہر تیری چلتی ہے۔ اور سوچتا ہوں کہ اب یہ فضیحتا بھی ختم کر دوں کہ مجھ سے اب یہ ٹنٹا سہا نہیں چاہتا کہ ہر روز تیرے دربار میں حاضری دے کے شاہی فرامین پہ تیری مہریں لگواتا پھروں۔ میں چاہتا تھا کہ اس گستاخانہ بیان پہ مردود کی گردن اُڑوا دوں ، چنانچہ غلاموں سے کہا کہ اس مردود کی گردن سے اسی وقت وہی سلوک کریں کہ جیسا مذکور ہو چکا ہے۔ مگر میرے حکم کے باوجود غلام اپنی جگہ سے نہ ہلے بلکہ دو ایک تو منہ پھیر کے مسکرائے بھی۔ تب مجھے پتہ چلا کہ میں بادشاہ نہ تھا، مٹی کا مادھو تھا۔

سفید فام وزیر نے تب کہا۔ سن اے بادشاہ۔ تُو اُس معاہدے سے رُو گردانی کر رہا ہے کہ جو میرے اور تیرے درمیان ہوا تھا، چنانچہ اب میں اپنی مرضی کرنے میں مختار ہوں۔ مجھے حیرت ہے کہ تُو کیسا بادشاہ ہے کہ وقت کی اتنی نزاکت بھی نہیں سمجھتا۔ ہم تجھے اور تیری رعایا کو کھانے کو دیتے ہیں۔ ہمارا بادشاہ معمولی سود پہ ہر برس تجھے لاکھوں روپے اور اشرفیاں دیتا ہے۔ تیری رعایا کے لوگ ہمارے ملک جانے کو مرے جاتے ہیں اور اس نوع کی ہزاروں درخواستیں میرے پاس ہر روز آتی ہیں۔ وہ ہمارے رنگ میں رنگے گئے ہیں اور اُن میں ایک ایسی نسل پیدا ہو چکی ہے جسے اپنی روایات، اقدار ، دین اور زبان سے کوئی دلچسپی نہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں ہم اپنی جان سے عزیز رکھتے ہیں اور انہیں اشرافیہ کا نام دے چکے ہیں۔ رہ گئے عام لوگ تو وہ عسرت کے ہاتھوں مجبور و بے بس ہیں کہ اپنی جانوں اور عزتوں کے خوف سے چپکے رہتے ہیں۔ تیری فوج ہمارے ساتھ ہے۔ سن اے بادشاہ۔ تجھ پہ وہ وقت آ چکا ہے کہ تیرے لوگوں کے دل اور تلواریں ، ہر دو ہمارے ساتھ ہیں۔ چنانچہ صلاح ٹھہری ہے کہ کل سے تجھے ایک وظیفہ خوار کی حیثیت حاصل ہو گی اور اس ملک پہ مہر اور حکم دونوں ، میرے بادشاہ کا چلے گا۔

چنانچہ صاحبو اگلی صبح سفید فاموں کے فرستادے آئے اور مجھے اُس اسباب کے ساتھ کہ جو وہ چاہتے تھے، اس گھر میں ڈال گئے۔ بُرا وقت تنہا نہیں آتا ، چنانچہ پہلے میرے بیٹے میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ پھر بیویاں اور پھر بیٹیاں۔ اب میں ہوں اور یہ وفادار غلام کہ اچھے وقتوں کا ساتھی ہے اور میرے ساتھ زیست کرنے کا خوگر بھی۔ ملک کا یہ حال ہے کہ سفید فاموں نے میرے خاندان کا ایک شغال صفت شخص برائے نام بٹھا رکھا ہے۔ ملک قرضے پہ چل رہا ہے اور قرضہ رُلا رُلا کے اور ذلیل کر کر کے دیتے ہیں۔ میں دن رات غرقِ مئے ناب رہتا ہوں۔

اے عزیزو۔ ہماری تباہی اُس دن سے ہمارا مقدر کر دی گئی تھی کہ جس دن ہمارے بزرگوں نے سادگی چھوڑی۔ رعایا میں اُن کی دیکھا دیکھی لالچ اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا رواج در آیا۔ چنانچہ اب یہ حال کہ جو دو کمروں کے گھر میں رہ سکتا ہے، حویلی بنانے کو مرا جاتا ہے۔ جو پہلے خچر اور ٹٹو کی استطاعت نہیں رکھتا تھا، شکرم کی تمنا میں گھلتا ہے۔ جو دن رات ایک ہی پوشاک میں ملبوس رہتا تھا، اب رات اور دن کے واسطے علیحدہ پوشاکوں کے حصول میں سرگرداں ہے۔ نوجوانوں سے محنت کی عادت اُٹھ گئی ہے۔ بوڑھوں سے قناعت کی بُو عنقا ہے۔ عورتیں دن رات اپنے مردوں کو کسی بھی طریق سے اپنی آمدن میں اضافے کی تحریک کو انگیخت دینے میں مصروف ہیں۔ ملک میں زمین، لوگ، درخت، موسم سبھی کچھ ہے۔ برکت نہیں ہے کہ برکت کا دارومدار نیت پہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ زمین سفید آسیب کی چپیٹ میں ہے کہ یہاں زمین، لوگ، موسم ، پانی سبھی کچھ ہے مگر دانے دانے کو محتاج لوگ سفید فاموں کو دیکھتے ہیں۔ بادشاہ جو بھی ہوتا ہے، وہ اللہ کو نہیں ، سفید فاموں کو راضی رکھنے کو مرا جاتا ہے، چنانچہ اللہ نے بھی نظریں پھیر لی ہیں اور جس کی طرف سے اللہ نظریں پھیر لے وہ بھلا کیا پنپ سکتا ہے؟

سپید ریش نے آخری گھونٹ بھرا اور پھر اپنے حواسوں میں نہ رہ سکا اور وہیں بے ہوش ہو گیا۔ میں اور وزیر زادہ عبر ت سے اُس کے حال پہ تُف تُف کرتے تھے۔ ہم اُس عذابوں بھری سرزمین سے جلد از جلد نکل جانا چاہتے تھے اس لئے گھوڑوں پہ سوار ہوئے اور اُنہیں سرپٹ دوڑایا۔ گھر پہنچے اور بارے آرام کیا اور انگوٹھی رگڑ کے جن کو حاضر کیا۔ جن کہ ابھی تک پٹیاں باندھے ہوئے تھا مگر صورت سے چونچال لگتا تھا، بیماروں کی سی صورت بنانے کی کوشش کرنے لگا تو اُس کی رخصت منسوخ کی اور اُسے ، شہزادی ماہ نور کے وطن چلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب جن نے دیکھا کہ اب کوئی حیلہ کار گر نہ ہو گا تو پٹیاں اُتار کے ایک طرف پھینکیں اور کانوں کی لووں تک ڈھٹائی سے مسکرایا۔ وزیر زادے کو اپنے ساتھ سوار کیا اور جن کو وہ گھر اچھی طرح یاد رکھنے کا کہہ کے سوئے منزل مقصود روانہ ہوا۔ شہزادی کو سوال کا جواب پہنچایا اور بارے اطمینان سے ہوا کہ شہزادی نے جواب دُرست قرار دے کے اگلا سوال میرے ہاتھ میں تھمایا۔ شراب دیدار سے ٹُک جی کو شاد کیا اور جن سے خود کو ایک جنگل میں اُتارنے کو کہا۔ جن گھر بیچنے کے ارادےسے روانہ ہوا اور میں اور وزیر زادہ ٹھنڈے پیڑوں کے نیچے پڑ گئے۔ جن نے واپسی میں نوید دی کہ وہ گھر دس ہزار اشرفیوں میں بیچ کے اشرفیاں اُس عورت کو پہنچا نے میں کامران رہا کہ جو اب اپنی بچیوں کے ساتھ مزے سے کسی اور شہر میں رہتی تھی۔ اور جن سے اپنے لئے بھی کوئی خصم ڈھونڈنے کو کہتی تھی۔چنانچہ جن کو اس خوشی میں اکل و شراب کا بندوبست کرنے کا حکم دیا اور وزیر زادے کے ساتھ شہزادی کے اگلے سوال پہ غور کرنے میں مصروف ہوا کہ جو کچھ یوں تھا:

شہزادی کا ساتواں سوال: ایک بار (جھانک کے) دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہمت نہیں

 

اگلی صبح اِدھر خورشید جہاں تاب اپنے سفر کو نکلا، اُدھر ہم بھی اسی کام کو نکلے۔ صبح کے چلے، دوپہر کو ٹک آرام کیا اور پھر چلے تو شام ہونے کو آئی تو خود کو ایک ایسی سرزمین میں پایا کہ جس کی ہر شئے اُلٹی تھی۔ ہر درخت کی جڑ سوئے فلک اور پھِننگ سوئے زمین تھی۔ پرندے اُلٹے اُڑتے اور جانور اُلٹے چلتے تھے۔ ہوا کا ہمیں اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ دِکھتی نہیں تھی۔ میں اور وزیر زادہ حیران تھے کہ ہم کس سر زمین میں وارد ہو گئے تھے کہ رنج و محن میں ڈوبی کسی مرد کی آواز سنائی دی کہ فراقیہ و المیہ اشعار گاتا اور جس کا لحن ایسے سوز میں ڈوبا ہوا تھا کہ کوئی غم حسین میں کیا مرثیہ خوانی کرتا ہو گا۔ چنانچہ سوئے آواز روانہ ہوئے۔ ایک پیڑ کی شاخوں سے کہ اوروں کی طرح اُلٹا تھا، ایک نوجوان کو اُسی حالت میں لٹکے پایا کہ جس میں وہاں کی ہر شئے تھی اور جس کا بار بار مذکور عبث ہے۔ چنانچہ وزیر زادہ اُس کے قریب پہنچا اور اُس سے حال دریافت کیا۔ تس پہ وہ اُلٹا لٹکا جوان بولا۔ اے اجنبی تُو کون ہے اور اس سرزمین میں کیسے آ گیا ہے اور کیا تجھے کسی نے نہیں بتلایا تھا کہ یہ سرزمین آسیب و سحر کے اثر میں ہے۔ تس پہ وزیر زادہ بولا۔ ہم اجنبی ہیں اور شہزادی ماہ نور کے سات سوال پورے کرنے کو گھر سے نکلے ہیں کہ میرے ولی نعمت اُن کو پورا کر کے اُسے حبالہ نکاح میں لاویں۔ تُو کون ہے اور اس حال کو کیونکر پہنچا۔ اور کیا ہی اچھا ہو کہ اگر میں تیری مدد کروں اور تجھے سیدھا کر دوں۔ تس پہ نوجوان نے شدت سے اپنے دونوں ہاتھ نفی میں ہلائے اور ملتجیانہ بولا۔ ایسا سوچیو بھی مت ورنہ مجھی سا ہو جائے گا۔ اگر میری سننی ہے تو سامنے پتھر پہ بیٹھ جا اور سن۔ پھر اُس نے عبرت نگاہ اور گوش نیوش والی بات کی۔

صاحبو میں یہاں سے ہزاروں فرسخ دُور ایک ملک کا رہنے والا ہوں۔ باپ میرا وہاں کا امیر التجار اور اپنے کام میں ایسا مشاق و ماہر کہ خاک سے سونا نکالتا ہے۔ میرے علاوہ میرا ایک سوتیلا بھائی اور بھی ہے اور اُس کا قصہ بھی سن لو۔ میں شیر خوارگی کے عالم میں تھا کہ میری ماں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ میرا باپ کہ لمبے لمبے سفر کرتا تھا اور گھر میں مہمان کی سی بسر کرتا تھا، میری پرورش کے سبب مشوش و دلگیر رہتا تھا۔ چنانچہ ایک روز اُس نے اپنی اس پریشانی کا مذکور اپنے ایک دوست سے کیا کہ گھر کی روٹی کم اور باہر کی زیادہ کھاتا ہوں کہ کسب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی عورت مل جاوے کہ میرے فرزند کو اپنا سمجھ کے پالے اور اُس کی مادر حقیقی سے بڑھ کے پرداخت کرے۔ تس پہ وہ مرد ہمدرد گویا ہوا ہے کہ اے میرے عزیز۔ میرا ایک دوست ہے کہ جس پہ خدا کے بعد سب سے زیادہ بھروسہ کرتا ہوں ، اگر تیری اجازت ہو تو اُس کی دختر سے تیری شادی کی بات چلاؤں کہ باکرہ ہے اور اس کے علاوہ حسن سیرت و حسن تدبیر میں اپنی ثانیہ نہیں رکھتی۔ چنانچہ میرے باپ کی اجازت پا کے اُس نے اپنے دوست سے رجوع کیا اور جب ساری بات میرے باپ کے ڈھب کی کر چکا تو اُس کو رضامند پایا اور میرے باپ کا نکاح میری سوتیلی ماں سے ہو گیا۔

میرا باپ کہ جسے ہر وقت کوئی نہ کوئی سفر در پیش رہتا تھا، ایک روز مجھ سے رخصت ہوا اور جانے سے پہلے اپنی زوجہ سے بولا۔ جانی یہ بچہ میرا نور چشم ہے اور میں اسے تیرے اور خدا کے سپرد کئے جاتا ہوں۔ میری واپسی میں اب ایک سال لگے یا زیادہ، چاہتا ہوں کہ جب لوٹوں تو اسے ایسے ہی خرم پاؤں کہ جیسے چھوڑے جاتا ہوں۔ میری سوتیلی ماں نے تس پہ صاد کیا اور میرا باپ نچنت ہوکے اپنے سفر پہ روانہ ہو گیا۔ چنانچہ میری ماں نے اُس کے سافر ہونے کے بعد میری پرداخت شروع کی۔

میرے باپ کوسفر در سفر پیش آیا اور وہ کئی سالوں تک گھر سے مفقود رہا ، البتہ اپنی خیریت اور گھر چلانے کے واسطے معقول رقم برابر میری ماں کو بھجوائے جاتا تھا۔ میرے باپ کے جانے سے پہلے چونکہ میری ماں حاملہ قرار پا چکی تھی، لہٰذا اُس کے وہاں ایک لڑکا میرے باپ کی غیر موجودگی میں پیدا ہوا کہ صورت میں میرا ذرا بھی ہمسر نہ تھا اور طبیعت کا اتنا ضدی کہ ذرا ذرا سی بات پہ غلاموں کی کھال اُدھیڑ دیتا تھا۔

لڑکے کی پیدائش کے بعد میری ماں نے اپنا سارا دھیان اُس کی طرف کر دیا اور مجھے نظر انداز کرنے لگی۔ یہاں تک بھی مجھے قبول تھا مگر جب اُن دونوں نے مجھ سے غلاموں کا سا سلوک کرنا شروع کیا تو میں نے تس پہ دُند مچایا۔ میرا بھائی اور میری ماں مجھ پہ ظلم کرنے لگے اور دو دو دن کھانے کو روٹی نہ دیتے۔ میری ماں ہر وقت اپنے نصیب کو روتی کہ اُس کے باپ نے اُس کی شادی کہاں کر دی تھی۔ حالانکہ صاحبو سچ تو یہ ہے کہ اُس کو میرے باپ کے گھر میں ہر نعمت میسر تھی، نوکر چاکر، باندیاں کنیزیں اور مغلانیاں۔ وہ سونے کے چھپر کھٹ پہ سوتی اور دودھ اور شہد کی نہر اُس کے آگے بہتی تھی۔ وہ ہر وقت مجھے کوسنے دیتی اور یوں دھمکاتی کہ تیرا باپ جس دن سفر سے آ گیا میں اُسی دن تجھے اُس کے کہہ کے گھر سے نکلوا دوں گی۔

پھر کوئی دس برس بعد میرے باپ کی واپسی ہوئی۔ وہ قیمتی تحفوں سے لدا پھندا لوٹا تھا۔ اپنے ایک اور بیٹے کو پا کے شاد تھا اور میری ماں کو اس کے انعام میں اُس نے سونے میں تولا۔ میری ماں کہ جیسا وہ مجھ سے کہہ چکی تھی، ہمہ وقت میرے باپ کے کان میرے خلاف بھرتی اور اس میں شمہ برابر کوتاہی نہ کرتی۔ میرا باپ مدتوں بعد گھر لوٹا تھا۔ گھر کی روٹی کھاتا اور گھر کی عورت کے ساتھ رہتا تھا۔ میری سوتیلی ماں اس امر سے بخوبی واقف تھی کہ دنیا میں دو ہی طریقے ہیں کہ جن سے مرد کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے اور اُس سے من مرضی کروائی جا سکتی ہے، یعنی زبان اور فلان، چنانچہ وہ دونوں طریقوں کو کام میں لائی اور میرے باپ کو بن مول کا غلام بنا لیا۔

میرا باپ کہ پہلے میری محبت کا دم بھرتا تھا، اب میں اُس کی آنکھوں کا ٹھیکرا ٹھہرا۔ وہ اُٹھتے جوتی، بیٹھتے لات کا سلوک مجھ سے روا رکھنے لگا اور علانیہ مجھ سے بیزاری کا اظہار اس کے سوا تھا۔ صاحبو وہ دن میرے لئے بڑی سختی کے تھے۔ ماں کی شہ پہ باپ معمولی قصور پہ غلاموں سے میری مشکیں کسوا دیتا اور اپنی نگرانی میں قمچیوں سے پٹواتا۔ میرے بدن پہ بدھیاں پڑ جاتیں اور لہو وہاں نیلا ہوکے جم جاتا۔ جب میں نے تسلسل کے ساتھ یہ سلوک دیکھا تو جی میں ٹھانی کہ اب یہاں سے کہیں منہ کالا کیجئے کہ اگر یہی سلوک کچھ روز اور رہا تو وہ جان ہی نہ رہے گی کہ جس پہ میرا باپ، اپنی عورت کے کہنے میں آ کے دن رات مظالم کی حد سے گزرتا تھا۔

ابھی میں اس عقوبت خانے کو خیر باد کہنے کی ترکیبیں ہی سوچ رہا تھا کہ ایک ایسا واقعہ پیش آ گیا کہ مجھے گھر سے وقت سے پہلے بھاگنا پڑا۔ میرا باپ اس سفر سے لوٹا تو اپنے ساتھ ایک کنیز بھی لایا تھا کہ حُسن و جمال میں یگانہ تھی۔ میرا باپ اُسے عزیز رکھتا تھا اور بجائے بیٹی کے سمجھتا تھا۔ ایک روز میرا سوتیلا بھائی کہ شروع عمر ہی سے لُنگاروں کی صحبت بد میں پڑ گیا تھا، تنہائی پا کے اُس کنیز کے درپے ہوا اور چاہتا تھا کہ اُسے مدخولہ کرے۔ وہ چیخنے چلانے لگی کہ باکرہ و غیر مدخولہ ہونے کے علاوہ پابند شرع بھی تھی۔ میں عین وقت پہ پہنچ گیا اور اس طرح اُس کی عزت بچائی۔ تس پہ میرے بھائی نے مجھ پہ حملہ آور ہوکے مجھے زخمی کیا اور اپنی ماں کے ساتھ مل کے باپ کے یوں کان بھرے کہ سارا الزام مجھی کو دینے لگا۔ مجھے اطمینان تھا کہ کنیز میرے حق میں گواہی دیوے گی۔ مگر صاحب جب اُس نے منہ بھر کے سارا الزام سے مجھی بےکس کو دیا تو میرا باپ شدت غیض سے کانپنے لگا اور چاہتا تھا کہ تلوار سے میرے ٹکڑے کر دے، مگر وہ کنیز کہ کسی وجہ سے مجھے الزام دے رہی تھی، یوں گویا ہوئی کہ اے تاجر۔ بے شک تیرے بیٹے نے مجھ سے زیادتی کی کوشش کی لیکن میں اسے اللہ رسول کے نام پہ معاف کرتی ہوں کہ عفو و درگزر کرنے والوں کا بڑا مقام بتلایا گیا ہے۔ ہاں اب اس کا اس گھر میں رہنا کسی طور مناسب نہیں جانتی تو کیا ہی اچھا ہو کہ تُو اسے گھر سے نکال کے میری طرف سےنچنت ہو جاوے۔ چنانچہ میری ماں نے کہ میں پہلے ہی اُس کی آنکھ کا ناسور ٹھہرا تھا، اس صلاح پہ اپنی خوشی کا اظہار کیا اور میرے باپ نے تن کے کپڑوں میں مجھے گھر سے نکال دیا۔

میں چلتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا اور اس پچھتاوے سے اپنے چوتڑ پیٹتا تھا کہ میں نے کاہے کو دخل در نا معقولات کیا اور اُس کا یہ بدلہ پایا۔ میں ریشمی بچھونوں پہ سونے کا عادی اور خوان ہائے رنگ رنگ سے چکھوتیاں کرنے کا خوگر تھا، اب ننگے پاؤں ، گرم خاک پہ چلتا اور جگہ جگہ رک کے اپنے تلووں کو ملتا تھا۔ غرض اسی صورت گرتا پڑتا چلا جاتا تھا۔ بھوک آنتوں میں قراقرِ مسلسل کا باعث بنی ہوئی تھی اور کلیجہ بار بار منہ کو آتا تھا۔ ایک سرائے نظر پڑی جہاں سے روٹی پکنے کی خوشبو آتی تھی ، اُدھر ہی کو ہو لیا۔

بھٹیارن اور اُس کا میاں خدا ترس تھے کہ مجھے روٹی دی۔ میں دال چٹنی سے روٹی کھاتا تھا اور اُن کے لئے میری آنکھوں سے تشکر کے اشک بہتے تھے۔ غرض کھا پی کے فارغ ہوا تو طبیعت نے گوارا نہ کیا کہ بھگ منگوں کی طرح اپنی راہ لوں۔ چنانچہ برتن باسن دھونے میں بھٹیارن کا ہاتھ بٹایا اور یوں خود پہ اکل و شراب حلال کیا۔ کھُرے پلنگ پہ سونے لیٹا تو نیند آنکھوں سے کوسوں دُور تھی، اُسی حالت میں سو گیا۔ ابھی آنکھ ہی لگی تھی کہ خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا کہ جن کی سپید ریش ناف کو چھوتی تھی، داہنے ہاتھ میں ہزار دانوں کی تسبیح سلیمانی اور باہنے میں وضو کا لوٹا تھا، میرے بالیں کھڑے مسکراتے تھے۔ پھر یوں گویا ہوئے کہ اے نوجوان ہم جانتے ہیں کہ تُو کس قسم کے حالات سے دو چار ہے اور اپنی ماں ، باپ اور سوتیلے بھائی کے ساتھ ساتھ اُس ماہ رُو کے لئے بھی دل میں کینہ پالے پھرتا ہے کہ جس نے تیرے احسان کا بدلہ تجھ پہ الزام لگا کے دیا۔ لیکن اُس نے جو کیا وہ ہماری منشا سے کیا کہ تیرے صبر کی آزمائش ہو اور ابھی یہ تیری آزمائش کی پہلی منزل ہے اور چونکہ تُو ابھی تک راضی برضا رہا ہے، چنانچہ ابھی تجھ پہ کچھ آزمائشیں اور بھی آویں گی اور اگر تُو اُن میں بھی پورا اُترا تو پھر تجھ سے دوسرا خوش نصیب اور کوئی دُوجا نہ ہو گا۔

بزرگ یہ کہہ کر میرے عالم رویا سے روانہ ہوئے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ اگلی صبح خراسان کے تاجروں کا ایک قافلہ سرائے میں اُترا۔ وہ اپنا اسباب اچھے منافع میں بیچ کے اپنے وطن کو لوٹتے تھے۔ میں نے جی لگا کے اُن کے سردار کی ایسی خدمت کی کہ وہ حسرت سے بولا۔ کاش ایسا غلام میرے پاس ہوتا اور بھٹیارن سے میرے دام آنکنے لگا۔ تس پہ بھٹیارن نے اُسے بتلایا کہ میں زر خرید نہیں ہوں اور کل رات سے یہاں مقیم ہوں۔ سردار میرے حالات دریافت کرنے لگا اور جب پایا کہ میں سچا ہوں تو مجھے اپنے ساتھ خراسان چلنے کو کہنے لگا۔ میرا یہاں کون تھا، چنانچہ صاحبو میں اُس کے ساتھ ، اُس کی مصاحبت میں سوئے خراسان روانہ ہوا۔

ہمیں سفر کرتے تیسرا روز تھا کہ قافلے پہ ڈاکوؤں نے حملہ کر کے قتال کیا۔ قافلے والوں نے بھی جوابی کارروائی کی۔ ڈاکوؤں کے سردار نے ، ہمارے سالار کی گردن پہ تلوار رکھ کے قتال بند کرنے کو کہا۔ میں اُس وقت قریب ہی کھڑا تھا۔ اور کوئی راہ نہ پا کے میں نے زمین سے خاک اُٹھا کے اُس نابکار کی آنکھوں میں اُلیچ دی۔ وہ اندھا ہوا اور لگا آہ و بکا کرنے۔ میں نے موقع پا کے اُس جہنمی کی گردن تن سے جدا کر دی اور اُسے وہیں پہنچا دیا کہ جہاں جانے کا وہ سزاوار تھا۔ اُس کے ساتھی بھاگ نکلے۔ چنانچہ اس واقعے کے بعد میں قافلے کے سردار کے ساتھ ساتھ اوروں کی نگاہ میں بھی مقبول و مرغوب ٹھہرا۔

جس روز ہم خراسان پہنچے ہیں ، وہ بزرگ پھر میرے خواب میں وارد ہوئے اور یوں فرمایا کہ تجھ پہ اسی رات ایک آزمائش اور بھیجی جا رہی ہے، اُمید ہے تُو اُس میں کامران رہے گا۔ میری آنکھ کھلی اور میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ سردار کا ایک غلام کہ جس نابکار کا نام جواہر تھا، کمرے میں وارد ہوا اور مجھ سے یوں گویا ہوا کہ اے نوجوان ایسی ترکیب بتاتا ہوں کہ تُو آج ہی رات زر دار ہو جاوے گا اور یاروں کو بھی اتنا ملے گا کہ ٹھاٹھ سے گزرے گی۔ میں ششدر و حیران تھا۔ میں نے وہ ترکیب پوچھی تس وہ بولا۔ جس کمرے میں تُو ٹھہرا ہوا ہے۔ اس میں بیش قیمت ہیروں کی ایک تھیلیا بھی ہے اور اسی پلنگ کے نیچے ہے کہ جس پہ تُو سوتا ہے۔ میں محل کے پہریداروں کو مصر کی نبید کے نشے میں دھت کر آیا ہوں۔ تو ایسا کیوں نہ کیجئے کہ وہ مال نکال کے اُس کے بخرے کیجئے اور تُو اپنی راہ لے اور میں اپنی۔

وہ سچ کہتا تھا۔ میں سرخ ہیروں کو، کہ بلاشبہ بیش قیمت تھے، بچشم خود دیکھ چکا تھا اور سردار سے یوں بھی سن چکا تھا کہ وہ یہ ہیرے بادشاہ کی نذر کرنا چاہتا تھا۔ جی میں آئی کہ اس بد بخت کی گردن ابھی اُڑا دوں۔ شیطان لعین نے بہکایا کہ آپ کے خونی رشتے آپ کی جان کے درپے ہوئے ہیں ، یہ سردار تو پھر ایک اجنبی ہے۔ اس ملعون کی بات مان لیجئے اور معمولی سی مقدار ہیروں کی اس کے منہ پہ مار کے روانہ ہوئیے۔ مگر پھر اُس لطف و اکرام کا خیال دامنگیر ہوتا تھا کہ جو مجھ سے سردار نے روا رکھا تھا، چنانچہ شدید حیض بیض میں تھا۔ ناگاہ اپنا خواب یاد آیا اور میں نے اُس مردود کو دھتکار دیا۔ ابھی وہ کمرے سے نکلا بھی نہ تھا کہ سردار اور اُس کی بیوی کمرے میں وارد ہوئے اور سردار یوں گویا ہوا۔ جب سے تُو میرے ساتھ آیا ہے، میری بیوی تجھے اپنا داماد بنانے کو مری جاتی ہے اور اس وقت جو بھی ہوا ہے، وہ ہم نے تیرے آزمانے کی خاطر کیا تھا، چنانچہ اے نوجوان تُو اس امتحان میں پورا اُترا اور بے شک اس قابل ہے کہ اس ملک کے رئیس التجار کی بیٹی سے عقد کرے اور بعد میرے مرنے کے، کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، میرے مال و زر پہ عیش کرے اور اگر میلان تجارت کا رکھتا ہے، تو اس میں اضافہ کرے۔ میں نے غلام کی طرف دیکھا تواُس نابکار کو ہنستا پایا۔

چنانچہ شادی کا دن مقرر ہوا اور میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا اور وہ جو سنا تھا کہ سفر وسیلہ ظفر ہے، اُسے اپنی آنکھوں سے سچا ہوتا پایا۔ میری شادی میں چند روز باقی تھے کہ ایک روز میری مخطوبہ نے مجھے اپنی کنیز کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ مجھ سے فلاں رات پائیں باغ میں ملئے کہ کچھ ایسی باتیں تمہارے گوش گزار کرنی ضروری سمجھتی ہوں کہ جن کا جاننا تمہارے واسطے از بس ضروری ہے۔ چنانچہ اُسی کنیز کی اعانت سے وقت مقررہ پہ پائیں باغ میں پہنچا تو وہ ایسے گویا ہوئی۔ سن اے نوجوان۔ بے شک تُو اپنی صورت سے کسی خاندانی لگتا ہے اور ایماندار بھی ہے کہ میرے باپ نے تجھے آزمایا اور تُو اُس آزمائش میں پورا اُترا۔ جیسا کہ تُو جانتا ہے کہ شادی کے واسطے محبت ضروری ہوتی ہے اور یہ کام فقط بچے پیدا کرنے پہ ختم نہیں ہوتا۔ اب میں تجھ سے وہ سچ کہتی ہوں کہ جو دل میں چھپائے پھرتی ہوں ، کہ اظہار کروں اور میرے باپ کو علم ہو تو سنکھیا کھا کے سو رہے۔ میں اس ملک کے وزیر زادے سے پیار کرتی ہوں اور وہ بھی یہی کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی کہ وزیر زادے کے خاندان سے میرے باپ کی دشمنی ہے اور میرا باپ اُس سے میری شادی کرنے کے بجائے مجھے کسی اندھے کنوئیں میں دھکیل کے زیادہ خوش ہو گا۔ چنانچہ اگر تُو اس رشتے سے انکار کر دے تو کچھ روز کو میری شادی ٹل جائے گی اور میں وزیر زادے کے سے مل کے کوئی راہ نکالوں گی۔

میں اُس کی بات سن کے سُن رہ گیا۔ وہ میری ہونے والی منکوحہ تھی اور میں شادی کے ارمان لئے پھرتا تھا۔ چنانچہ میں نے دل پہ ممکنہ ہجر کا بھاری پتھر رکھا اور اُس سے یوں گویا ہوا۔ تُو نے اس وقت یہ بات کہہ کے بے شک میرے دل کو پارہ پارہ کر دیا ہے کہ جب سے تجھ سے رشتے کی بات پکی ہوئی ہے، تجھ سے نکاح اور ارمانِ شب زفاف کی جراحت میں پھنکا جاتا ہوں۔ لیکن اگر تقدیر کو یہی منظور تھا تو کیا کیجئے۔ میں کل ہی تیرے باپ کو اس رشتے سے منع کر دوں گا۔ یہ کہا اور میں واپس چلا آیا۔ چاہتا تھا کہ سو جاؤں مگر انگاروں پہ لوٹتا تھا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وہی غلام کہ جس کا نام جواہر تھا اور جوسوداگرکا منہ چڑھا تھا کسی کام سے میرے وہاں آیا اور مجھے یوں بے چین دیکھا تو سبب پوچھنے لگا۔ میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر جو بھی واردات گزری تھی اُسے کہہ سنائی۔ تس پہ پہلے تو وہ رنجور ہوا پھر گریہ کرنے لگا اور بار بار کہتا تھا کہ صاحبزادی نے اپنے اور اپنے باپ کے ساتھ زیادتی کی۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو وہ بولا۔ ولی نعمت۔ وہ جس کو اپنا عاشق بتلاتی ہے، ایسا دل پھینک سنا نہ دیکھا۔ اس گھر سے پہلے میں اُسی کا غلام تھا اور اُس کی جلوت و خلوت کے سبھی حالات سے بخوبی واقف ہوں۔ وہ صورت کا مرغوب ہے اور گفتگو کرنے کے فن میں طاق۔ زنانِ شہر کو اپنے ڈھب پہ لانے کا گُر ایسا جانتا ہے کہ باید و شاید۔ چنانچہ اگر صاحبزادی اُسی ملعون کا ذکر کرتی ہیں تو اس گھر کی عزت خاک ہوئی جانیئے۔

میں اُس غلام کی باتیں سنتا اور میرے دل کو کوئی اپنی مٹھیوں میں لے کے مسوستا تھا، چنانچہ میں نے اُس سے کہا۔ اے غلام، تجھے فہم و ذکا میں اوروں سے بڑھ کر پاتا ہوں کہ تیری اپنے آقا کے لئے ہمدردی یقیناً آب زر سے لکھنے کے قابل ہے اور تُو ضرور ہی اس کا صلہ آخرت میں پاوے گا۔ اور سچ کہتا ہوں کہ میں اپنی ہونے والی زوجہ کی صورت پہ مر مٹا ہوں اور اُسے کسی اور کی آغوش کی زینت بنتے دیکھنا نا قابل برداشت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تُو مجھے مرغ و ماہی کی مثال بنا ہجر کے انگاروں پہ لوٹتا دیکھتا ہے تو ایسا کیا کیجئے کہ اُس کا دل اُس نابکار کی جانب سے پھِر جاوے کہ شریفوں کی عزتیں ٹکے کی کرتا پھرتا ہے۔ تس وہ غلام سوچ میں ڈوب گیا اور جب اس سمندر کی خوب غواصی کر چکا تو یوں بولا۔

آقا وہ نابکار اس وقت بھی ناؤ نوش اور عیش و عشرت میں ڈوبا پڑا ہو گا اور کیا ہی اچھا ہو کہ صاحبزادی کو یہ سب اپنی آنکھوں سے دکھاؤں اور اپنے کانوں سے سنواؤں۔ میں اُس کے محل کے سبھی وہ راستے جانتا ہوں کہ جو خفیہ ہیں اور وہ بھی کہ جو نہیں ہیں۔ چنانچہ اگر اجازت ہو تو یہ کر گزروں۔ مجھے غلام کی تجویز خوش آئی چنانچہ اُسی وقت ایک کنیز کے ہاتھ کہ میری خدمت پہ مامور تھی، اپنی مخطوبہ کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ وہ اس وقت آنے میں ہچر مچر کرنے لگی اور اسے میری بد نیت کا شاخسانہ سمجھی۔ تس پہ میں نے کنیزسے کہلوایا کہ میں کوئی ایسی بات کرنا چاہتا ہوں کہ جو تیرے آشنا سے متعلق ہے۔ یہ سننا تھا کہ شتابی دوڑی آئی اور آتے ہی بولی ایسی بھی کونسی بات تھی کہ مجھ نگوڑی کو اس وقت بچھونے سے جدا کیا۔ تس پہ میں نے اُس کے سامنے غلام کی تجویز رکھی تووہ ڈھِلمِل یقین کے ساتھ بولی۔ اگر تُجھے سچا پایا تو اپنے باپ کے صُلب کو بٹا نہ لگاؤں گی اور تجھ سے نکاح کر کے ساری عمر تیری باندی بن کے گزاروں گی اور اگر اس میں شمہ برابر بھی جھوٹ پایا تو اپنے یار سے کہہ کے وہیں تیرے قتلے کرواؤں گی اور اس غلام کے بھی۔

قصہ مختصر اپنی کنیز کو ساتھ لئے ہمارے ہمراہ وزیر زادے کے محل کو روانہ ہوئی۔ غلام کہ محل کے اندرون و بیرون سے خوب آگاہ تھا، ہمیں لئے چلا جاتا تھا اور لگتا تھا کہ رستہ اُس کے پیروں تلے خوب دبا ہوا تھا۔ چنانچہ ہم وزیر زادے کے عشرت کدے تک بغیر کسی کی آنکھوں میں آئے پہنچے اور ستائر کے پیچھے خود کو پوشیدہ کیا۔ وہ اُس وقت عیش و مستی میں ڈوبا ہوا تھا، دو نوچیاں ناچتی تھیں اور دو اُس کے گلے کا ہار بنی جام پہ جام بناتی اور پلاتی تھیں۔ میری مخطوبہ نے یہ دیکھا تو اپنے گال پیٹنے لگی اور بار بار کہتی تھی کہ بعضی بعضی باتیں ، آنکھوں سے دیکھی بھی ، بے حقیقت ہوتی ہیں۔ تس پہ وہ فہیم غلام بولا۔ صاحبزادی مجھ سے اور وزیر زادے سے راہ ہے، اگر منشا اس کے مطابق ہو تو میں کانوں سے جو بھی حقیقت ہے ، سنوا دوں۔ وہ مانی تو غلام، وزیر زادے کے سامنے حاضر ہوا اور کورنش بجا لایا۔ اُس نے جو بعد مدت کے اُسے رو برو پایا تو خوش ہوا اور احوال پوچھنے لگا۔ تس پہ غلام عیاری سے بولا۔ صاحب، اُسی گھرکی روٹیاں کھاتا ہوں کہ جہاں دل دئیے بیٹھے ہو۔ تس پہ وہ ملعون ہنسا اور بولا۔ صراحت کر تو کچھ سمجھوں بھی، یار تو آدھے شہر کو دل دئیے بیٹھے ہیں اور پھر بوجہ نشہ خود کو سوچنے سے قاصر پاتا ہوں۔ تو غلام نے جو بھی بات تھی، کھول کے بیان کی تو وہ ہنسا اور بولا۔ ہاں وہ امیر التجار کی احمق بیٹی ہے۔ اپنے تئیں خود کو افسر خوباں سمجھتی ہے۔ میں تو ایسیوں کو جوتی کی نوک پہ رکھتا ہوں۔

بس اُس وقت کا انتظار ہے کہ ایک دفعہ میری آغوش میں آ جائے کہ جی کو شاد کروں۔ پھر کون عاشق اور کہاں کا عشق۔ یہ کہا اور زور سے ہنسا۔ اُس کی گود میں بیٹھی نوچیاں بھی یہ کلام سن کے ہنستی تھیں۔

میری مخطوبہ یہ سنتی اور ہاتھ ملتی تھی کہ ہائے میں کس ملعون کو عاشق صادق سمجھ بیٹھی۔ پھر صبر نہ ہوا تو اپنی جگہ سے نکلی اور میں ہائیں ہائیں کرتا رہ گیا مگر وہ اُس ملعون کے سر پہ پہنچی اور گرج کے بولی۔ کیوں جی۔ تم نے کیا سمجھ کے مجھ پہ ڈورے ڈالے تھے۔ اب اس کا انجام جو ہو گا وہ بھی بھگتنا۔ تب وہ نابکار سمجھ گیا کہ اصل ماجرا کیا تھا مگر وہ بلا کا ڈھیٹ تھا۔ ذرا بھی نہ گھبرایا اور بولا۔ جانی تُو اگر حقیقت جان ہی چکی ہے تو اپنا جی کیوں میلا کرتی ہے۔ میرے ساتھ بیٹھ اور دو گھڑی جی کو شاد کر کہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔ یہ کہا اور شراب کا جو جام اپنے لبوں تک لے جایا چاہتا تھا، میری مخطوبہ کو پیش کیا۔ اُس نے کہ شدت غیض سے تھر تھر کانپتی تھی، جام اُس کے ہاتھ سے لے کہ اُس کے سر پہ مار دیا اور اپنے لباس میں چھپا پیش قبض نکال کے ایسا بھونکا کہ اُس ملعون کی ایک آنکھ فی الفور ڈھیلے سے نکل کے بہہ گئی۔ وہ درد سے تڑپتا اور کہتا تھا کہ ارے کوئی ہے جو اس ڈائن کو گرفتار کرے کہ سویرے بادشاہ سلامت کے حضور پیش کروں۔ تس پہ غلام بولا۔ صاحبزادی جو ہونا تھا ہو چکا، اب یہاں سے گھر کو چلنے کی تدبیر کیجئے۔ چنانچہ ہم وہاں سے واپس گھر کو روانہ ہوئے۔ رستے بھر میری مخطوبہ کا یہ عالم تھا کہ بار بار کف افسوس کو ملتی تھی کہ میں نے تو مردود کی گردن پہ وار کیا تھا، فقط آنکھ ہی کیوں پھوٹی؟

میں غلام کے ہمراہ گھر پہنچا تو یہ فکر دامنگیر اور یہ خیال مارے ڈالتا تھا کہ اُس مردود کی آنکھ پھوڑنے کے جرم میں میری مخطوبہ کی طلبی شاہی دربار میں ہو گی اور بادشاہ کہ پابند شرع تھا، یوں انصاف کرے گا کہ اُس کی بھی ایک آنکھ پھُڑوا دے گا مگراُس فہیم غلام نے یہ کہہ کے میری تسلی کی کہ آپ نچنت ہو کے سو جاویں۔ وہ ایسی جرات کبھی نہیں کرے گا کہ ایسے وہ جو چھپ کے ہر رات منہ کالا کرتا اور آخرت کا عذاب سمیٹتا ہے ، اُس کا بھانڈہ بھی پھوٹ سکتا ہے۔ چنانچہ مجھے بارے سکون ہوا۔

اب اُدھر کی سنو۔ وہ چرغینا کہ اب یک چشم ہوکے اپنا سارا وہ حُسن میٹ چکا تھا کہ جس کے بل پہ شریف زادیوں کو پھانستا اور اُن سے منہ کالا کر کے، اُنہیں رولن سمجھ کے گھورے پہ ڈال دیتا تھا، ایک جادو گر سے رسم و راہ رکھتا تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنے انجام کو پہنچا اور دیکھا کہ اب اُس کے تلوں میں تیل نہیں رہا تو اُس سے ملتمس ہوا کہ مجھ پہ ظلم کرنے والی کو ایسی سزا دو کہ مثال بن جاوے۔ چنانچہ وہ جادو گر اُس وقت تو چپکا رہا لیکن جی میں سوچتا تھا کہ میرے یار پہ جو اُفتاد پڑی ہے تو اس کا بدلہ لینے کو کوئی خاص گُر ایساآزمایئے کہ وہ عورت کہیں کی نہ رہے۔ چنانچہ دو چار روز سوچ کے ایک ترکیب ایسی اُس جادوگر کی سمجھ میں آئی کہ خود کو بار بار شاباش دیتا ہوا اُس ملعون کے پاس پہنچا اور جو بھی سوچا تھا بیان کیا۔ تس پہ وزیر زادہ خوش ہوا اور بولا۔ اپنے جاسوسوں سے سنتا ہوں کہ اُس کے باپ نے اُس چنڈالنی کی نسبت کسی نطفہ نا تحقیق سے طے کر دی ہے، عین شادی والے روز کچھ ایسا ہو جائے کہ عبرت کا سامان جس میں وافر ہو۔ وہ خبیث کہ صورت سے دشمنِ جنابِ امیر لگتا تھا، بولا تم دیکھتے رہو کہ میں کیا کرتا ہوں۔

چنانچہ شادی کا روز آن پہنچا اور جب قاضی مجھے ناکح اور اُسے منکوحہ بنا چکا تو میرے سسر نے ایک عظیم دعوت کی اور ایسے ایسے کھانے پکوائے کہ لوگوں کے پیٹ بھر گئے مگر نیت نہ بھرتی تھی۔ جب تنہائی ہوئی اور میں اپنی زوجہ کے پاس گیا اور نیت باندھی ، کہ متاہلانہ زندگی کے فرائض میں سے، ایک کو تو فوری طور پہ پورا کروں تو میری زوجہ سے پوشیدہ وہی بزرگ ظاہر ہوئے کہ جو اب سے پہلے دو مرتبہ مجھے آزمائشوں کے حوالے سے دہلا چکے تھے اور یوں گویا ہوئے تجھ پہ آخری آزمائش آیا چاہتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس عورت کو اِمشب ہاتھ مت لگائیو وگرنہ تم دونوں بیس برس کے واسطے جدا کر دئیے جاؤ گے۔

یہ کہا اور شتابی غائب ہوئے۔ میں رنج و محن میں ڈوبا ایک طرف کو بیٹھ گیا اور جی ہی جی میں گریہ کناں ہوا۔ یہ حالت دیکھی تو میری زوجہ بولی۔ میں نگوڑی جانتی ہوں کہ تمہاری نظروں میں ابھی تک طالحہ ٹھہرتی ہوں مگر تمہارے سر کی قسم میرا اُس ملعون سے جو بھی تعلق تھا، وہ فقط زبانی کلامی تھا اور اُس نے مجھے کبھی چھوا تک نہ تھا۔ اور یہ جو تم مجھ سے ہٹ کے بیٹھے ہو تو اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں پاتی۔ تس پہ میں نے کہا۔ جانی تُو جو سوچتی ہے وہ شمہ برابر سچ نہیں اور پھر بزرگ سپید ریش کی آمد اور جو اُس نے کہا تھا، وہ بیان کیا۔ تس پہ وہ ہنسی اور بولی۔ اے چلو۔ تم سابیوقوف اور کوئی دوجا ہو گا کہ خواب کی بات پہ یقین کئے بیٹھے ہو او ر اب ہم سے تم سے جو راہ ہے کہ جس کی شرع اجازت دیتا ہے، اُسے کھوٹی کرنے پہ تُلے ہو۔ یہ کہا اور سیج پہ اوندھی پڑ کے گریہ کرنے لگی۔ میں تس پہ بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا تو بولی۔ سچ کہتی ہوں کہ اگر تم نے مجھ سے اسی وقت مروت وموانست کا سلوک نہ کیا تو ہیرے کی یہ انگوٹھی چاٹ لوں گی۔ یہ کہا اور میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے تڑپ کے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا۔ جانی ، میں ہرگز تجھ سے بد گمان نہیں ہوں اور جو کیا وہ تیرے اور اپنے بھلے کو کیا۔ چنانچہ اب ساری عمر تُو خود کو مجھ سے جدا نہ پاوے گی۔

یہ کلام کر کے چاہتا تھا کہ جو ارادہ تھا ، اُسے تکملے تک پہنچانے کے واسطے جو بھی ضروری اوامر تھے، اُن سے گزروں کہ اُسی وقت ایک تیز آندھی ایسی چلی کہ سُدھ بُدھ نہ رہی اور جب بارے ہوش آیا تو خود کو اس جنگل میں اس حالت میں پایا کہ جس حالت میں تم مجھ کو دیکھتے ہو۔ اور اے عزیزو مجھے اُس خبیث وزیر زادے نے اُس ملعون جادو گر کے سحر میں بندھوا کے یہاں پھنکوا دیا ہے۔ اس واقعے کو کامل دو برس گزر چکے ہیں۔ وہ خبیث جادو گر ہر روز یہاں آتا اور میری حالت پہ خنداں زن ہوتا ہے۔ مجھے یہاں برابر اٹھارہ برس اور رہنا ہے اور میں نہیں جانتا کہ میری بیوی کس حال میں ہے اور اگر اٹھارہ برس بعد ملی بھی تو پھر کس کام کی کہ تم دونوں سے اس کی صراحت کرتے کٹتا ہوں۔

یہ کہا اور پھر شدت سے گریہ کناں ہوا۔ میں اور وزیر زادہ اُس کی یہ حالت دیکھتے اور پھر فلک کو دیکھتے تھے اور اُس کے حق میں اُسے بدستور کجی پہ آمادہ پاتے تھے۔ ابھی ہم اُس کی حالت پہ افسوس کرنے سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ بزرگ سفیدپوش وارد ہوا۔ اس کے ہاتھوں میں شیرینی کا دونا تھا جس میں گرم گرم امرتیاں یوں اٹا اٹ بھری تھیں کہ ہنوز دھواں اُٹھتا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ بزرگ سفید پوش کو اس نوجوان کے واقعے سے آگاہ کریں۔ تس پہ وہ بولا۔ میں یہ سارا قصہ جانتا ہوں۔ تم امرتیاں کھاؤ کہ میں آج بہت خوش ہوں اور نکاح ثانی سے آزاد ہو چکا ہوں۔ اور چونکہ تم لوگوں کو اپنا سچا ہمدرد پاتا ہوں اس واسطے یہ خبر سب سے پہلے تمہیں سنا رہا ہوں۔ چونکہ اُس وقت تک میں نے نکاح اول بھی نہ کیا تھا، اس واسطے مجھے بزرگ سفید پوش کی یہ بات خوش نہ آئی لیکن بعد از نکاح کے تجربے نے بتلایا کہ چند کلیوں پہ قناعت کرنے والے چغد ِ محض نہیں ہوتے۔ وزیر زادہ کہ نوجوان کو لٹکنے کی حالت میں چند امرتیاں کھلا چکا تھا، لوٹا تو بزرگ سفید پوش سے یوں گویا ہوا کہ تمہیں تمہاری طلاق کا واسطہ اس نوجوان کے واسطے کچھ کرو۔ چنانچہ بزرگ سفید پوش سوچ میں گم ہوا اور بازیابی پہ بولا۔ اس سرزمین کو سحر نے اپنے اثر سے پچیس پچیس منزل کی مسافت تک شمالاً، جنوباً، شرقاً، غرباً، عموداً اور اُفقاً اُلٹا کر دیا ہے۔ اور کیا تم نے نہیں دیکھا ، جب میں اپنے گھوڑے پہ یہاں وارد ہوا تو میری اور گھوڑے کی ٹانگوں کا رخ ایک ناگفتنی حالت سے کس قدر مماثل تھا؟چنانچہ میں اس سحر کا کوئی توڑ سوچتا ہوں۔ اس پہ جس جادو گر نے اپنا سحر آزمایا ہے وہ یہاں سے بہت دُور ایک ویران کنوئیں میں اپنے شیطان اُستاد کی ہڈیوں کی زیارت کے واسطے جاتا ہے اور اس وقت وہیں موجود ہے۔ اور اگر اُسے اُسی کنویں میں بند کر دیا جائے تو اُس کا سحر بے اثر ہو سکتا ہے مگر یہ کام میں اس لئے نہیں کر سکتاکہ میرا گھوڑا بوجہ مرض فتق ، تیز اُڑنے سے قاصر ہے اور انگوٹھی کا جن بھی یہ کام سر انجام دینے سے عاری ہو گا کہ وہ گانجے کے زیر اثر رہتا ہے۔ چنانچہ تمہیں چراغ والے جن کو حاضر کرنا ہو گا۔

میں نے چراغ اپنے کمر بند سے کھولا اور رگڑا تو جن شتابی اس حالت میں حاضر ہوا کہ اُسی کی سی(بد) شکل و صورت کی ایک جنی اُس کی بغل میں تھی اور جو آب جُو میں اُسی کی طرح غرق لگتی تھی، بار بار اُس پہ ڈھیتی اور جس کی حالت ، تیری صبح کہہ رہی ہے والے اُس شعر کے مطلب، معانی اور مقاصد سبھی یوں بیان کر رہی تھی ، کہ اگر نثر میں ہوتا تو شاعر فحش نگاری کے الزام میں حبس دوام کی سزا پا سکتا تھا۔

چنانچہ بزرگ سفید پوش نے جن کو ڈانٹنے کی سعی کی تو تس پہ وہ تڑخ کے بولا۔ واہ صاحب مجھی بے کس پہ بگڑتے ہو اور ہمارا یہ احسان نہیں مانتے کہ تمہارے نکاح ثانی اور اُس کے انجام سے اول و آخر تک آگاہ ہونے کے باوجود یاروں نے کسی کو اس کی ہوا نہیں لگنے دی حالانکہ کوئی حونق بھی پیش گوئی کر سکتا تھا کہ دو کشتیوں میں پیر رکھنے والے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ پھر جن نے کہ اپنا عیش گنڈیر ہونے کے سبب جھونجل میں تھا، کشتیوں اور پیر کی ایسی تشریح کی جو ہمارے لُنگارے گھوڑوں کے واسطے باعث تفنن اور بزرگ سفید پوش کے واسطے باعث خجالت ہوئی۔

پھر جن میری طرف متوجہ ہوا اور بولا۔ آپ میری مجبوری دیکھتے ہیں ، جس حالت میں تھا اُسی میں چلا آیا ہوں اور صورت یہ ہے کہ معشوق میرے تئیں لٹکا ہوا ہے چنانچہ آپ ہی فرمائیے کہ اس حالت میں ، میں کوئی بھی کام معقول طور پہ کیسے سر انجام دے سکتاہوں لیکن صاحب، چراغ کا غلام ہوں اور مالک کو انکار میرے مسلک میں جائز نہیں اور نہ ہی اُن مسلمانوں کا سا ہوں جو اللہ اور رسول کے نام پہ جان دے سکتے ہیں ، مگر اُن کی مانتے نہیں ، چنانچہ منافق نہ ہونے پہ باری تعالیٰ کا شکر ادا کرتا اور کچھ سوچتا ہوں۔ پھر چند دقیقوں کو آنکھیں بند کیں اور جب کھولیں تو مسکرا رہا تھا۔ تب یوں گویا ہوا۔ بے شک اس وقت اُس ظالم کو ایک کنوئیں میں دیکھتا ہوں کہ اگر وہاں بند کر دوں تو ابد تک نہ نکل پاوے گا۔ چنانچہ میں نے اُسے حکم دیا اور کہا کہ اگر بھروسہ کرتا ہے تو اپنی معشوق کو ہمارے سپرد کر اور اس کام کو سر انجام دے۔ تس پہ وہ مسکرایا اور بولا۔ صاحب اس کا میں کچھ نہ بگاڑ سکا، آپ کیا کر لیں گے۔ ہماری خفیہ صلاحیتوں پہ یہ غیر نرم و نازک تبصرہ کر کے مائل پرواز ہوا، پھر کچھ سوچا اور یکدم غائب ہو گیا تو بزرگ سفید پوش نے کہ ابھی تک طنز کے زخم چاٹتا تھا ہمیں بتلایا کہ جب کسی جن کو شتابی کوئی امر سر انجام دینا ہوتا ہے تو وہ بجائے اُڑنے کے غائب ہو جاتا ہے۔ بارے اطمینان سے ہوئے اور بزرگ سفید پوش سے اُس کے نکاحِ ثانی اور طلاق کا ماجرا پوچھا تو وہ یوں گویا ہوا۔ صاحبو اتنے دنوں سے ہم سے تم سے راہ ہے اور سوائے چند ایک کے، کہ جن کا تمہیں بتلانا پُر از خطرات سمجھتا ہوں ، تم میری زندگی کے ہر گوشے سے واقف ہو۔ میں اپنی زوجہ اول سے زیادہ اُس کے بھائیوں کے ستم کا نخچیر ہوں کہ ہر روز کوئی نیا گل کھلاتے اور بیوی کے کہنے پہ مجھی حرماں نصیب کو اُن کی گلو خلاصی کروانی پڑتی ہے، چنانچہ آدھے سے زیادہ اندوختہ رشوتوں اور متعلقہ اُمور پہ اُٹھ چکا ہے۔ عزت کا یہ عالم ہے کہ کسی کے در پہ سفارش لے کے جاتا ہوں ، تو دربانوں سے دھکے دلوا کے نکلوایا جاتا ہوں۔ اس کام کے سوا اور کوئی کام بھی نہیں آتا چنانچہ جز وقتی کام کی تلاش میں تھا تو ایک ایسے بزرگ کا پتہ چلا کہ ہر روز شمشان گھاٹ میں بیٹھ کے چلہ کاٹتا اور بھتنوں کو زیر اثر لا کے اُن سے کام لینے کا شائق ہے۔ چنانچہ اُس کے پاس پہنچا اور اپنا تعارف کروایا اور ایک بھتنے کے کان اینٹھے اور ذرا سا تشدد کیا اور اُس کا غلام بنوا دیا۔ وہ بزرگ متاثر ہوا اور جب اُس بھتنے سے چھوٹے موٹے کام لینے لگا تو مجھ سے خوش ہو کے بولا کہ مانگ کیا مانگتا ہے۔ میں اُس وقت اُسی کے گھر ملنے کو گیا ہوا تھا کہ اُس کی دختر (بر خود) نیک اختر میرے واسطے فواکہات لئے وارد ہوئی اور مجھے (ترچھی نظروں سے) دیکھنے لگی۔ میں نے نک سک اور معلقاتِ مدور، کہ مراحلِ بعد از نکاح کا اہم جزو ہیں ، کا خورد بینی جائزہ لیا اورتسلی بخش پائے تو(شیطانی ) مسکراہٹ کے ساتھ ایک آنکھ میچی۔ تس پہ اُس نے بے کہی لڑکیوں کی طرح ایک ایسی حرکتِ قبیح کی اپنے پاؤں دیکھنے سے قاصر ہوئی۔ چنانچہ میں اُس بزرگ سے یوں ملتمس ہوا کہ اگر تُو نے مجھے اجازت دے ہی دی ہے تو پھر میں تجھ سے تیری بیٹی بغرضِ نکاح مانگتا ہوں۔ تس پہ وہ بزرگ نیم (؟)رضا مندی سے بولا۔ تُو پہلی ملاقات میں اتنی بڑی چیز مانگتا ہے؟ سوچ لے۔ تو میں یوں عرض گزاشت ہوا کہ اے بزرگ ، جو بھی مانگتا ہوں تیری اجازت سے مانگتا ہوں اور اب جیسی بھی ہو گی، اُسے اپنا مقدر تسلیم کر لوں گا۔ چنانچہ بزرگ نے (اطمینان کی) ایک طویل سانس لی اور بولا۔ اے بزرگ سفید پوش ، میں نے یہ امانت(پُر از خیانت) تیرے سپرد کی بلکہ اسی وقت کی، چنانچہ چار شریف آدمی اگر لا سکتا ہے تو ابھی لے آ اور اسے رخصت کر کے لے جا۔ آدمیوں کا حصول اُس وقت امرِ محال تھا، چنانچہ میں اِدھر اُدھر سے چار جن آدمیوں کی صورت میں لے گیا اور اُنہی میں سے ایک خبیث نے میرا (غلط سلط) نکاح پڑھایا اور میں ایک جن دوست کے گھر مقیم ہو کے عشرت میں بسر کرنے لگا۔

صاحبو میری زوجہ (بظاہر) مجھ پہ مری مٹی جاتی تھی اور میں جی ہی جی میں خوش ہوتا تھا کہ اس (بزعم خود ادھیڑ) عمر میں بھی کوئی توایسی ہے کہ جو مجھ پہ واری صدقے جاتی ہے۔ چنانچہ دن رات اشغال دل پسند میں رات کو دن اور دن کو رات سمجھا کیا اور چاہتا تھا کہ یہ خوش وقتی جاری رہے مگر صاحب جن کا نوکر ہوں اُن کے کام سر پہ کھڑے تھے ، اور کچھ تو اس نوعیت کے تھے کہ میری فوری توجہ کے متقاضی تھے ، چنانچہ جب زوجہ سے تذکرہ کیا تو بولی۔ اے نوج۔ مجھے ان جنوں پہ اکیلا چھوڑے جاتے ہو۔ میں نگوڑی تو ڈر سے ہی مر جاؤں گی۔ تمہاری بات اور ہے کہ ان کے ساتھ اُڑے اُڑے پھرتے ہو۔ نہ بابا نہ۔ تم جو کام چاہو کرو۔ مجھے میرے باوا کے گھر چھوڑ دو۔ میں نے غور کیا تو اُس کی بات کو دُرست پایا چنانچہ اُسے اُس کے باپ کے گھر پہنچایا اور اپنے کاموں سے نکلا۔ کاموں کی نوعیت کچھ یوں تھی کہ ایک ملک میں ایک ملکہ کہ وزیر سے آشنائی رکھتی تھی، اپنے خصم کو شراب میں ہلاہل پلائے دیتی تھی، اُس کی سر کوبی ضروری تھی اور اس واسطے اُس کے میاں کو سچائی سے آگاہ کرنا تھا۔ ایک دوسرا مقدمہ اس طور کا تھا کہ ایک شری بادشاہ، سپہ سالار کو غنیم کے مقابلے میں بھجوا کے اُس کی جورو پہ نظر رکھے ہوئے تھا، اُس کی ناگفتنی قوت کو سلب کرنا تھا۔ چنانچہ میں روانہ ہوا اور اپنی زوجہ سے کہتا گیا کہ فجر سے قبل نہ لوٹوں گا۔

اب اُدھر کی سنو۔ اِدھر میں اپنے کاموں سے نکلا، اُدھر اُس چنڈالنی نے کہ، خصم پہ(ایک؟) دھگڑا رکھتی تھی ، اپنے یار کو بلوا لیا۔ میں بے کس اپنے کاموں کو نمٹا کے لوٹا تو گھوڑے کو چھت پہ اُتارا اور ہوا دان کو اندھیرے میں روشن پایا تو تجسس نے گدگدایا کہ صاحب دیکھئے تو سہی کہ رات کے اس پہر کیا ماجرا ہے جو میری جُروا سوتی نہیں۔ چنانچہ ہوا دان سے جو جھانکا ہے تو پہلے آنکھوں میں اندھیر ا اور پھر خون اُتر آیا۔ میری زوجہ ایک لم ڈھینگ، کالے حبشی کی گودی میں پڑی اُس کی دلداریاں کرتی تھی۔ آنکھوں پہ یقین نہ آیا مگر یقین کے سوا دوسرا چارہ بھی نہ پایا۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دونوں میں سے کس کے قتلے پہلے کروں کہ وہ نابکار ہنس کے بولا۔ سنتا ہوں کہ یہ جو نیا اُوت تو نے اب کی پھانسا ہے، جادو ٹونے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اور جہان بھر کے دیو جن اُس کے واقف ہیں ، تو ایسا کیوں نہ کیجئے کہ یاروں کے واسطے کسی پوشیدہ خزانے کا پتہ لیجئے کہ یار بھی ٹھاٹھ سے بسر کریں۔ یہ سنا تو وہ مکارہ ہنسی اور بولی۔ اجی تم دیکھتے رہو۔ میں کون کون سے فائدے اُٹھاتی ہوں۔ پھر بولی۔ اُس کے آنے کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تیرے اور میرے دل میں جو جو ارمان ہیں وہ پورے کر لیں۔ تس پہ وہ دونوں بے حیائی میں مصروف ہوئے۔

میں اُن کے قتلے کرنے کے واسطے تلوار کمرے سے کھول چکا تھا کہ ایک از کار رفتہ قسم کا جن مجھے ڈھونڈتا ہوا، مکان کی چھت پہ وارد ہوا اور مجھے روشندان پہ اوندھا دیکھا تو چپکے سے شامل نظارہ ہوا۔ دیکھتا جاتا اور سسکاریاں لیتا تھا۔ بارے میری طرف دیکھا تو مجھے سُوکھے اُسترے سے سر منڈاتے پایا۔ حیرت سے بولا۔ کیا سبب ہے کہ تمہیں اس لذیذ نظارے سے لطف اندوز ہوتا نہیں پاتا۔ یہ دیکھ کے بھی طبیعت جولانی پہ مائل نہیں تو ایک حکیم کا پتہ دیتا ہوں۔ تس پہ میں نے سارا ماجرا اُس کے گوش گزار کیا اور دونوں کے قتل کا جو ارادہ اپنے جی میں باندھا تھا اُس سے بھی آگاہ کیا۔ وہ جن کہ فہیم و زیرک تھا، یوں بولا۔ اے بزرگ سفید پوش، میں تو تجھے آج تلک مکار و پُر کار پاتا تھا مگر تُو عوام الناس میں سے نکلا کہ ایسا کچھ ہونے کا شبہ بھی پاتے ہیں تو بے دریغ قتال پہ اُتر آتے ہیں اور اپنی بدنامی کے اشتہار گلی و کوچہ میں لگاتے ہیں۔ تس پہ میں نے کہا۔ یہ اچھی کہی صاحب۔ اُدھر میری خواب گاہ میں وہ ملعون میری زوجہ کی کپاس کے بنولے کئے دیتا ہے اور آپ پندِ نصاح کھول کے بیٹھے ہیں۔ تس پہ وہ جن ہنسا اور بولا۔ سن اے بزرگ سفید پوش۔ سفیدپوشوں کو ایسی عورتوں کو فوراً طلاق دے کے کسی نیک باطن عورت سے نکاح پڑھوانا چاہئے۔ ایسی عورت کہ خصم پہ یار بھی پالتی ہے، ایک بھلے سے فعل کی تَونس میں مبتلا ہوتی ہے۔ چنانچہ ابھی جا اور اُسے طلاق دے اور اپنی یہ تلوار مجھے دیتا جا کہ غصہ حرام ہے اور حرام خوری پہ اُترا آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے۔

صاحبو میں کمرے میں وارد ہوا تو اُنہیں (قریب سے ملاحظہ کرنے پر) انتہائی(ناگفتنی) قابل اعتراض حالت میں پایا اور چاہا کہ فوراً ہی طلاق دے دوں مگر پابند شرع ہوں کہ غصے کی حالت میں طلاق کا واقع نہ ہونا میرے علم میں تھا۔ چنانچہ غیض سے خود کو سبک کرنے کے واسطے پہلے تو اُن دونوں سے اپنے ( متشدد)ازار بندی رشتوں کا اعلان کیا مگر پھر اس پر کو کافی نہ پا کر ہر قسم کا اسفل پیشہ اس میں شامل کیا۔ تس پہ بھی اطمینان نہ ہوا تو ہر نوع کا (حلال و مُردار) حیوان بھی جوڑا اور طرفین کے خاندانوں کی ہر حائضہ و قابل نکاح عورت کو اس میں ملوث کیا۔ غصے کی حالت میں بھی یہ احتیاط ملحوظ خاطر رکھی کہ اول الذکر فاعلین اور موخر الذکر مفعولین میں شامل رہیں۔ بارے غصہ ٹھنڈا ہوا تو اُس چنڈالنی کو اُسی وقت طلاق ، بمع ہزار اشرفی کے دی اور اُس کے یار کے زیرِ پشت مقام پہ اپنی داہنی لات سے ضربِ شدید لگا کے اُسے دنوں تک چِت لیٹنے اور ہر نوع کی حرامکاری سے معذور کیا۔ جب یہ مرحلہ طے ہوا تو میری خوشی دیدنی تھی۔ اسی خوشی میں ایک حلوائی کی دکان سے یہ شیرینی خریدی اور تمہارے واسطے لیتا آیا۔

بزرگ سفید پوش ابھی اپنی داستان ختم ہی کی تھی کہ ہمارے اطراف کی ہر شئے سیدھی ہو گئی۔ تس پہ بزرگ سفید پوش بولا۔ چراغ کا جن اپنے مقصد میں کامران رہا اور اس جنگل سے اُس خبیث کے سحر کے منحوس اثرات زائل ہوئے۔ اور اے شہزادے۔ مبارک ہو کہ تجھے اب اپنے اس سوال کا جواب بھی مل گیا کہ ایک بار (جھانک) کے دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہمت نہیں کہ یہی جواب شہزادی ماہ نور کے سوال کا جواب ٹھہرا تھا۔ جن شتابی لوٹا اور اپنی کمر کا پٹکا ڈھیلا کرتا پایا گیا جو اُس کارِ نا مکمل کو تکملے تک پہنچانے کے ارادے کا بصری اظہار تھا کہ ہمارے پاس آنے سے پہلے، وہ جس کو سر انجام دیا ہی چاہتا تھا۔ چنانچہ اُس نے اپنے نیم مدہوش معشوق کو بغل میں دابا اور ہمیں اپنی اکلوتی آنکھ مار کے روانہ ہوا۔

میں نے انگوٹھی رگڑی تو انگوٹھی کا جن انگڑائیاں اور جماہیاں لیتا برامد ہوا اور کان کھجاتے ہوئے کاہلی سے بولا۔ حکم میرے آقا۔ چنانچہ اُسے حکم دیا کہ تاجر زادے کو اُس کے وطن پہنچا دے اور اُس حرام خور وزیر زادے کی خبر بھی لیتا آوے کہ جس کے سبب وہ بیکس اس احوال سے دوچار ہوا تھا۔ چنانچہ جن روانہ ہوا اور بزرگ سفید پوش نے (پہلی بار) اپنے خرچ پہ لائی ہوئی شراب سے ہماری تواضع کی اور اس امر کو مد نظر رکھا کہ اُس کے گھونٹ ہم سے بڑے ہوں۔

جن واپس لوٹا تو ایک بار پھر توبہ کا بصری تاثر کانوں اور ناک کو ہاتھوں سے چھو کر دے رہا تھا۔ جب اُس نے یہ عمل کافی دیر تک جاری رکھا تو میں نے کِٹکِٹا کے کہا۔ ابے او گیدی۔ منہ سے کیوں نہیں پھوٹتا۔ تس پہ جن بیٹھا اور ہماری اجازت کی بغیر بچی کھچی کھینچ کے بولا میں جب اُس شخص کو لے کے اُس کے وطن میں وارد ہوا اور اُس کے حکم کے بموجب پہلے اسے اُس شورہ پشت وزیر زادے کے محل میں لے گیا کہ جسے اس کی زوجہ بذریعہ قرولی یک چشم کر چکی تھی۔ وہ ملعون بہ سبب اپنے گناہوں کے لقوے کی چپیٹ میں آ چکا ہے اور ہر قسم کے افعال شنیع کہ جن میں دن رات مدہوش رہا کرتا تھا، اُس سے چھُٹ چکے ہیں۔ چنانچہ اُسے بے ضرر پا کے میں تاجر زادے کو اُس کے محل میں لے گیا۔ اُس کی آمد کے ساتھ ہی خوشی و شادمانی کا ایسا غلغلہ ہوا ہے کہ الا اماں۔ اُس کے سسرنے فوراً ہی نوبت رکھوا دی اور اطراف میں منادی کر وا دی گئی کہ ہمارے داماد کے لوٹنے کی خوشی میں دس روز جوانب کے یتیم، یسیر، بے کس و محتاج ہمارے ہاں سے کھائیں گے۔ چنانچہ میں نے اجازت چاہی اور اُسے خوشی سے نہال چھوڑ کے آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ سفر طویل تھا اس لئے اگر اجازت ہو تو میں چنداں آرام کر لوں۔ ساتھ ہی اُس نے بزرگ سفید پوش کو، اپنے نیفے سے کوئی کالی شئے نکال کے دکھائی اور پُر از معانی اشارہ کیا۔ میں سمجھ گیا کہ کمبخت لوٹتے ہوئے کہیں سے گانجہ لے آیا ہے۔ بزرگ سفید پوش یہ اشارہ پاتے ہی ہڑکنے لگا۔ چونکہ میں اور وزیر زادہ اس نشے سے متنفر و مجتنب تھے، لہٰذا اُن سے اتنی دُور چلے گئے کہ اُس کے دُودِ مقئی کی بُو ہم تک نہ پہنچے۔

اگلی صبح میں نے اپنی معشوق دل نواز کی حاضری کو مقرر کی اور جن کو ، کہ ابھی تک شب گزشتہ کے نشے سے چُور تھا، ساتھ لئے دربار حسن میں حاضر ہوا اور سوال کا جواب پیش کیا۔ اُس نے سوال کے جواب کو اپنے پاس دھرے جوابات سے ملایا اور مبارک باد دی اور حسب سابق ایک رات وہاں گزارنے کی پیش کش کی لیکن مجھے اپنے ہونے والے سسر کی نگاہوں میں ، قبل از نکاح ، سسرال کے پھیرے مارنے والے دامادوں کی لئے جو نفرت پائی جاتی ہے، وہ دکھائی دی چنانچہ میں مجتنب رہا اور واپس لوٹا۔ روانگی سے پیشتر میری نور العین نے مجھے جو اگلا سوال دیا تھا ، وہ ضمنی تھا لیکن جواب دینا ضروری تھا۔

شہزادی کا آخری (ضمنی) سوالخر گوشوں کی سرزمین کی خبر لاؤ غور کیا تو اس سوال کو بھی اپنے تئیں بناوٹ میں ویسا ہی ادق پایا کہ جیسا اب سے پہلے کے سوالوں کو پایا تھا۔ چنانچہ طے ہوا کہ صاحب اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ گھوڑوں پہ سوار ہو کے ، قرعہ اندازی سے طے کئے ہوئے راستے پہ گھوڑوں کو (بے لگام) چھوڑ دیا جائے، چنانچہ یہی کیا۔ ہم دونوں گھوڑوں کو سرپٹ بھگائے جاتے تھے اور فقط کھانے پینے اور گھوڑوں کے گھانس چارے کے واسطے قیام کرتے تھے۔ کامل پندرہ روز یوں ہی سفر کیا۔ ایک شام جبکہ گھوڑے تکان سے چُور اور ہم مزید سفر سے خود کو مجبور پاتے تھے، ایک مقام کہ جہاں طائرانِ خوش گلو فضا کو نغمہ بار کرتے تھے اور پانی ایسا کہ قلقل و مینا کا سماں باندھتا تھا ، پایا۔ گھوڑوں سے اُتر پڑے اور ارادہ باندھا کہ امشب یہیں قیام کیجئے۔ بارے منہ ہاتھ دھو کے خود کو گرد سفر سے سبک کیا اور جن کو حاضر کرا کہ ہمارے واسطے کھانے پینے کا حیلہ کرے۔ ابھی جن کو گئے ایک ساعت بھی نہ گزری تھی اور وزیر زادہ مِسمار و ہتھوڑا لئے خیمہ گاڑنے کی فکر کر رہا تھا، کہ ایک ایسی سیاہ آندھی چلی ہے کہ الحفیظ۔ دونوں گھوڑے پناہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑتے تھے، وزیر زادہ مع خیموں کے فضا میں بلند ہوا اور ایک اُونچی ٹہنی سے لپٹا فریاد کناں دکھائی دیا۔ میرا اپنا یہ حال کہ ملبوس شدت صرصر سے منہ کو آتا اور برہنگی کا سبب بنتا تھا۔ کہاں تو نسیمِ نرم رَو چلتی تھی، کہاں اب طوفانِ بلا خیز ہمیں گھیرے ہوئے تھا۔

بارے ہوا کی شدت میں کمی ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چُڑیل کے جس کے جھونٹے کوڑے بنے اُس کی سوکھی چمرخ چھاتیوں سے لپٹے ہوئے تھے، منہ سے آگ کی لپٹیں اُگلتی ، آنکھوں کو اُلٹا پھراتی اور دونوں ہاتھوں سے سینہ کوبی کرتی ظاہر ہوئی اور کڑک کے یوں بولی۔ دیکھتی ہوں کہ تم دونوں آدم زادے اس سر زمین کو باوا کی جاگیر جانے روندتے چلے آتے ہو۔ حیف تمہاری ماؤں کے مقدر پہ کہ اُنہوں نے تمہیں اسی واسطے جنا تھا کہ میرے شکم کی آگ ٹھنڈی کرو۔ سو سال سے بھوکی اس جنگل میں بھٹکتی ہوں اور اپنے سحر سے اس سر زمین کو ایسا دلکش و دل پسند بنا دیا ہے کہ تم جیسے نادان کھچے چلے آتے ہیں۔ یہ کہا اور چاہتی تھی کہ ہاتھ بڑھا کے وزیر زادے کو کہ ابھی تک شاخ بلند پہ ٹنگا فریاد کر تا تھا، اپنے پنجہ خوں ناب میں جکڑے کہ میں نے فوراً کمر بند سے بندھا چراغ کھول کے رگڑ دیا۔ جن شتابی حاضر ہوا اور یہ ماجرا دیکھ کے کسی صراحت کا ملتمس ہوئے بغیر وزیر زادے کو شاخ سے اُتار کے اپنے عقب میں کیا اور ڈپٹ کے بولا۔ تُو جانتی نہیں کہ یہ میرے آقا ہیں اور تُو بھول گئی کہ میں نے ساڑھے چار ہزار سال پہلے تجھے اُس نابکار ہامون جادو گر کی قید سے رہائی دلوائی تھی؟ تس پہ وہ ڈائن مسکرائی اور لگی ہمارے جن سے دل بستگی کی باتیں کرنے اور ہم سے اُس نے جو شکم پُری کا ارادہ کیا تھا، اُسے فسخ کر کے بولی۔ اے نوج۔ مجھ نگوڑی کو کیا خبر تھی کہ یہ دونوں آدم زادے تمہارے اپنے آدمی ہیں۔ تس پہ جن نے مجھے اور وزیر زادے کو بارے اطمینان سے ایک مقام پہ بٹھلایا اور بولا۔ آقا یہ کُٹنی نام کی چڑیل ہے اور ان جوانب میں جو چڑیلیں بستی ہیں ، اُن سب میں خوش شکل ہے۔ چنانچہ اب جبکہ میں آ چکا ہوں ، آپ متفکر نہ ہوئیے اور اطمینان خاطر رکھئے کہ یہ اب آپ کو کسی قسم کا گزند نہیں پہنچاوے گی کہ میری احسان مند ہے۔ ہامون جادو گر اس کی عزت کے درپے تھا جب میں نے اسے بہ حفاظت اُس کے چنگل سے بچایا تھا اور بعد ازاں خود مراحلِ متلذذسے بہ وسیلہ مرافقتِ بالرضا گزرا تھا۔ میں جن کا بیان سنتا اور بحر حیرت میں غواصی کرتا تھا کہ اس صورت و ہئیت کی چڑیل سے فعلِ فُلاں کا تصور ہی میرے واسطے امرِ محال تھا۔ مگر اُن دونوں کا ایک دوسرے سے اختلاطِ باہم اور اُس چنڈالنی کو بار بار جن پہ فرطِ محبت سے ڈَھیتا دیکھتا تھا تو یقین کے سِوا چارہ نہ پاتا تھا۔

وہ دونوں ہمارے اور ہمارے گھوڑوں کی عین موجودگی میں راز و نیاز میں مشغول ہوئے اور جن جب اُس سے کسی روزِ ابر و شبِ مہتاب میں پھر ملنے کا وعدہ لے چکا تو وہ دفع ہوئی اور جن ہماری طرف متوجہ ہوا۔ اُس کی رخصت کی مدت ختم ہوا چاہتی تھی، چنانچہ اُس نے کہا۔ آقا دیکھتا ہوں کہ تم اس نئے سوال کے واسطے متردد و مشوش ہو، حالانکہ میری رخصت میں چند ایام باقی ہیں ، مگر اتنے دنوں میں تم سے اُنسیت ہو گئی ہے اور تم میرے سابقہ مالکان سے نسبتاً کم کمینگی کے درجے پہ فائز ہو اور آج تک تم نے مجھ سے فقط شراب کی فرمائش کی ہے، کباب کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا ، چنانچہ تم سے میری محبت بڑھتی جاتی ہے اور چاہتا ہوں کہ تمہارے واسطے اس جنگل میں منگل کا انتظام کروں۔ جب ہم نے اس کلام کی صراحت چاہی تو جن کو دلالی کے ارادے پہ مستعدپا یا۔ وزیر زادہ چونکہ متاہلانہ زندگی کا خوگر ہو چکا تھا اس واسطے توبہ تلا کرنے لگا اور میں شہزادی ماہ نور کے سوا کسی اور کو ہاتھ لگانے کو گناہ کبیرہ جانتا تھا، اس سبب سے ہم نے جن کی حوصلہ شکنی کی۔ گھوڑے البتہ ایک دوسرے کو دیکھ کے ہنہنایا کئے کہ وہ ظاہر اور باطنی ، دونوں کے قسم کے خبث میں مبتلا تھے۔ چنانچہ جن سے کہا کہ وہ اس بد راہی کی تحریص و ترغیب کے بجائے اگر ہمارا سوال حل کرنے میں ہماری مدد کرے تو ہم زیادہ خوش ہوں گے۔

ابھی گفتگو یہیں تلک پہنچی تھی کہ انگوٹھی کا جن اکل و شراب لئے آ گیا اور جب ہم کھانے کو بیٹھے تو یہ خوش خبری سنانے لگا کہ وہ خرگوشوں کی سرزمین کا محل وقوع دیکھتا آیا ہے۔ مگر تین روز گھوڑوں پہ سفر کرنے کے بعد ہی ہم اُسے یا چراغ کے جن کو بطور سواری استعمال کر پائیں گے کہ وہاں کا رستہ اس کا متقاضی تھا اور سبب اس کا یہ بتلاتا تھا کہ راہ میں قدم قدم پہ جو ہجر و شجر بکھرے پڑے تھے، سب کے سب آسیب زدہ تھے اور جن کی پرواز میں مانع و حارج بھی ہو سکتے تھے۔ چنانچہ جب چراغ کا جن ایک چھوٹا درخت توڑ کے خلال کرنے لگا اور انگوٹھی کا جن ہم سے ذرا دُوری پہ جا کے اپنے دھواں دھار نشے میں بد مست ہوا ، میں اور وزیر زادہ اگلے روز کے سفر کی فکر میں محو ہوئے۔

ایک جن انگوٹھی میں اور دوسرا چراغ میں بند کر کے ہم منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے جاتے تھے۔ تیسرا روز کہ ہمارا گھوڑوں کی پشت پہ سفر کا آخری روز تھا، جو ہمیں نصف گزرنے پہ اُس وقت پتہ چلا جب پیٹ میں قراقر شروع ہوئی۔ چنانچہ ایک مقام مناسب دیکھ کے گھوڑوں کو اپنے بوجھ سے سبک کیا اور پانی کے کنارے پڑاؤ کے ارادے سے اُتر پڑے۔ میں چاہتا تھا کہ پانی میں اُتر کے مشام جاں کو تازہ کروں چنانچہ غسل کیا اور ابھی غذا ہاتھ ہی لگایا تھا کہ جنگل سے رنج و محن میں ڈوبی مردانہ آواز سنائی دی۔ کوئی یوں فراقیہ اشعار پڑھتا تھا کہ جس سے دل پہ ہاتھ پڑتا تھا۔ چنانچہ وزیر زادے کو حکم دیا کہ اس آواز کا منبع تلاش کرے۔ وزیر زادہ ابھی کمر سے تلوار باندھ ہی رہا تھا ، کہ وہ جوان ظاہر ہوا کہ ہڈیوں کا ہار تھا۔ چہرے پہ زردی کھنڈی دُور سے اُس کی نا طاقتی کا اظہار کرتی تھی اور آنکھوں کی جگہ فقط دو گڈھے نمایا ں تھے۔ ہمارے قریب پہنچا اور فراقیہ اشعار کا آخری بند پڑھا اور قوت کے جواب دینے پہ بے سُدھ پڑ رہا۔

وزیر زادے نے اُس کے حلق میں پانی کے قطرے ٹپکائے مگر اس عالم میں بھی وہ شراب کی کُلھیا کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ چنانچہ جب آب رز اُس کے حلق میں چوائی گئی تو قدرے بحال صورت کے ساتھ اُٹھ بیٹھا اور شراب کے ملنے کی جگہ کے بارے میں تفصیل سے دریافت کیا۔ کہاں تو یہ حالت کہ قدم قدم پہ ڈَھیتا تھا اور کہاں یہ صورت کہ شراب کے سوا اور کوئی کلام نہ کرتا تھا۔ میرے کہنے پہ وزیر زادے نے اُسے چشک کا تحفہ دیا۔ بارے کھا پی کے چونچال ہوا تو یوں گویا ہوا۔

صاحبو میں خرگوشوں کی سرزمین کا رہنے والا ہوں۔ وہ سرزمین گوناگوں تحائف ایزدی سے مالا مال ہے۔ پانی نہیں ، چشموں سے شراب اُبلتی ہے۔ پھل وہاں کا ایسا رسدار کہ ہوا بوجھل چلتی ہے، اُس دیس میں باراں کا کیا کام، ہاں بس موتی برستے ہیں ، حسین ایسے کہ ایک دوسرے کو دیکھ کے اُنگلیاں کاٹتے ہیں ، چنانچہ دستانے پہننے کا دستور عام ہے کہ حفاظت رہے۔ سورج، پیشانیوں پہ طلوع ہوتا اور چاند چہروں میں رویت کرتا ہے چنانچہ اس پہ کوئی جھگڑا نہیں اور میرے دیس کے مولوی بارے سکون سے ہیں۔ شفق ماتھوں پہ اُترتی ہے اور رات زلفوں کے سوا اور کہیں پناہ نہیں پاتی۔

میرا باپ وہاں کے بادشاہ کا وزیر ہے اور خوش تدبیری و خوش معاملگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ بادشاہ کا ایسا وفادار کہ اُس کا بس نہیں چلتا ورنہ ظل الٰہی کہ جگہ وہ کام بھی کر گزرے کہ جن کے کرنے کا حق صرف بادشاہ کا ہے اور میں تفاصیل اس امر کی بیان نہ کروں گا کہ اس میں کتنے ہی کارہائے نا گفتنی بھی شامل ہے۔ خوش تدبیر ایسا کہ بادشاہ کے ماتھے کی لکیروں سے اُس کی فکر پڑھتا اور حسن و خوبی سے اُسے رفع کرتا ہے۔ غرض کہ میرا باپ اُس مملکت کا وہ ستون ہے کہ اگر وہ نہ ہوتا تو بادشاہ کے واسطے ملک گیری ایک امرِ محال سے کم نہ ہوتی۔

صاحبو میرے وزیر باپ نے ملک میں ایسا قاعدہ قانون مروج کر رکھا ہے کہ بادشاہ نچنت ہو کے بادشاہی کرتا ہے۔ اُس کے سب دشمنوں کی زبانیں گنگ اور کان پٹ ہیں۔ کوئی اُس کے خلاف کچھ کہتا اور نہ سنتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ملک میں وہ مفتری اور فتنہ سازنہیں پائے جاتے کہ ہر حکومت وقت میں (بجا) کیڑے نکالتے اور حکومت کو شرمندہ کرنے کی (ناکام) کوشش کرتے ہیں۔ کوتوال کا محکمہ تو ہے مگر وہاں ہر وقت چَین کی بنسیاں بجتی ہیں کہ ہمارے ہاں چوری ڈاکے کو مشیت ایزدی سمجھ کے قبول کر لیا گیا ہے۔ ڈاکو جب کسی کو لُوٹتے ہیں ساتھ ہی مطلع بھی کر دیتے ہیں کہ اگر بادشاہ تلک فریاد پہنچائی یا کوئی ایسی حرکت کی کہ جس سے ہماری طرف اشارہ بھی اس نوع کے جرم کا ثابت ہوا تو پھر اگلی دفعہ جو ہو گا اُس کے واسطے تیار رہیو۔ صرف یہی نہیں ، ہمارے ملک کا طبقہ اُمرا اس سلسلے میں پوری طرح متحرک و عامل ہے۔ چھوٹی موٹی چوریاں کسی خاطر میں نہیں لائی جاتیں اور اُن کا مذکور کر کے لوگ شرمندہ ہونے کے بجائے پردہ پوشی کو زیادہ سہل جانتے ہیں۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو طبقہ اُمرا کی مکمل سر پرستی حاصل ہے کہ وہ بھی رعایا ہیں اور روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر کی رعایت شعری کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

شراب کی مکمل بندش ہے مگر جب چاہو، جہاں سے چاہو، مل جاتی ہے۔ شراب پہ پابندی کسی احمق نے لگائی تھی کہ شراب مائع ہے اور مائع چاہے پانی ہو یا شراب، اپنی سطح برابر رکھنے کو بہتی ہے اور جب بہتی ہے تو پھر بے تحاشہ بہتی ہے، چنانچہ آب رز کو آب رواں میں تبدیل ہوتے تم ہمارے ہاں ہی دیکھو گے۔ یہی حال قحبہ خانوں کا ہے۔ پہلے شہر بھر کی رنڈیاں ایک کونے میں سمٹی سکڑی پڑی تھیں ، مگر پھر میرے باپ نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ یہ کلنگ، سیاہی، بد نمائی کا داغ ہے اور چاہئے کہ اسے مٹا دیں۔ چنانچہ طوائفوں کے محلے بند کر دئیے گئے۔ اے عزیزو، تم جوان ہو، تمہاری صحت خفیہ بھی عمدہ لگتی ہے، تم سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ یہ دنیا کا سب سے قدیم کاروبار ہے اور اسے کبھی بند نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ طوائفیں ہر شہر میں پھیل گئیں اور اُنہوں نے نئے نئے کاموں اور ناموں سے اپنے کاروبار شروع کر دئیے۔ اس وقت ہمارا ملک اس معاملے میں نہ صرف خود کفیل ہے، بلکہ نوچیوں اور رنڈیوں کی کھیپیں دساور کو بھی بھجوائی جاتی ہیں۔ اس سے ایک طرف تو ہمارے ملک کا نام روشن ہوتا ہے، اور دوسری طرف وہ جب لوٹتی ہیں تو زر و جواہر سے لدی پھندی ہوتی ہیں۔ شراب و زنا پر سرکاری پا بندی سے محکمہ کوتوالی کی مالی پریشانیاں رفع ہو گئی ہیں اور یہ فائدے میرا باپ جب بادشاہ کو بتلاتا ہے تو وہ پھولے نہیں سماتا۔

میرے باپ کا خیال ہے کہ زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے اور رعایا کو اُس کا ساتھ دینا چاہئے۔ چنانچہ شاہراہوں سے چلنے کے تمام قاعدے قوانین ختم کر دئیے گئے ہیں۔ اپنی سواری آگے نکالنے کو تم کوئی بھی طریق اختیار کر سکتے ہو۔ سرکاری سطح پراس کی حوصلہ افزائی کرنے کو محکمہ کوتوالی کے پرداز قدم قدم پہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر چوک میں ایک صندوقچی لٹکی ہوتی ہے اوررستہ استعمال کرنے والے حسب توفیق اُس میں اس واسطے کچھ نہ کچھ ڈالتے رہتے ہیں ، کہ محکمے کے لوگوں کے ساتھ بھی پیٹ لگے ہوئے ہیں۔

میرے باپ نے دیکھا کہ لوگ بادشاہ کی طرف سے مقرر کردہ محاصل ایمانداری سے شاہی خزانے میں جمع نہیں کرواتے، چنانچہ اُن کی سر کوبی کے واسطے، سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو مقرر کر دیا گیا ہے۔ کام چھوٹا ہو یا بڑا، اب کوئی مائی کا لعل ان اہلکاروں کی مٹھی گرم کئے بغیر اپنا کام نہیں نکلوا سکتا۔ بعضے بعضے نا عاقبت اندیش اسے رشوت بھی کہتے ہیں ، مگر نہیں صاحب۔ بادشاہ اور رعایا پابند شرع ہیں ، چنانچہ ایسا الزام لگانے والوں پہ حد نافذ کی جاتی ہے۔ اسے مختلف نام دئیے گئے ہیں جن میں ‘چا پانی’ یا ‘مک مکا’ کی اصطلاحات زبانِ زد خاص و عام و مقبول ہیں اور ہم بجا طور پہ فخر کر سکتے ہیں کہ یہ اصطلاحات دنیا کی کسی لغت میں نہیں پائی جاتیں اور ہمیِں ان کے موجد و مستعمل ہیں اور ہماری اس خوبی کو دنیا کا بڑے سے بڑا مدمغ بھی تسلیم کرتا ہے۔

یہی نہیں ، زباندانی کے سلسلے میں ہم نے وہ وہ کار نامے سر انجام دئیے ہیں کہ ہم خود انگشت بدنداں ہیں۔ مثلاً ایک جرم (جو وطن عزیز میں عام ہے ) زنا بالجبر ہے۔ اس کے بارے میں تذکرہ کرنے والے ہر مہ و کہ نے اپنی مرضی، منشا اور نیت کے مطابق ایسے الفاظ ترتیب دے چھوڑے ہیں کہ جن کے استعمال میں اطلاع سے زیادہ حسرت کا پہلو مضمر ہوتا ہے۔ اور اس واقعے کے بیانیہ انداز کی تہہ میں یہ خواہش شدت سے انگڑائی لیتی دِکھتی ہے کہ کاش میں وہ مجرم ہوتا۔ پھر ہمارے ہاں اپنی زبان کو خالص کر کے بولنے کو ایسا عیب تصور کیا جاتا ہے کہ باید و شاید۔ ترقی کی یہ صورت شاہی محل سے غریب کی کٹیا تک جاری و ساری ہے اور اب تو الا ماشا اللہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ایک فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنی زبان ایسی نہیں جانتے کہ جیسا جاننے کا حق ہے۔

میرے باپ نے ایسا دستور ترتیب دیا ہے کہ چور فقط اُنہی کو گردانا جاتا ہے کہ جو چھوٹی چوری کریں۔ وہی کبھی کبھار پکڑے جاتے اورسزا پاتے ہیں۔ سرکاری خزانے کو مختلف حیلوں سے سیندھ لگانے والے، سرکاری رقوم قرض لے کر واپس نہ کرنے والے، سرکاری تعمیرات میں مقررہ رقم کا فقط دس پندرہ فی صد استعمال کرنے والے، سرکاری جائیداد پہ قبضہ کرنے والے وغیرہ چوری کے الزام سے مستثنیٰ ہیں۔ یعنی چوری پہ سزا نہیں ، چھوٹی چوری پہ سزا ہے۔ یہ طریق بہت مقبول اور حوصلہ افزا ہے اور اس پر ہرسال، پارسال سے بڑھ کے ترقی کرتا جاتا ہے۔

شاہی دربار میں اُمرا کو درجہ بدرجہ بٹھانے کا دستور ہے اور اس سلسلے میں خاندانی نجابت، شرافت اور شہرت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جو جتنا بڑا زر دار ہے، وہ اُتنا ہی بڑا عہدہ پاتا ہے اور اُسی سہولت سے قرب ظل الہٰی مستفیض ہوتا ہے۔ چنانچہ دربار شاہی میں ایسوں کا کال نہیں اور اسی وجہ سے کاروبار مملکت میں اُچھال چھکے، شہدے، مفتری، لُنگارے اور نفس پرست عام ہیں۔ اور چونکہ میرا باپ رعایا کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے چنانچہ وہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ جس علاقے کا ہرن ہوتا ہے، اُسی علاقے کے کتوں کے قابو آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتے جی بھر کے ہرنوں کا شکار کرتے ہیں۔

میرے باپ نے ایسا طریقہ بھی مروج کر دیا ہے کہ سرکاری اہل کار زیادہ وقت اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ اور یہ بلا سبب نہیں کہ وہ ایسا بہت کچھ دیکھنے سے بچ جاتے ہیں کہ جو دیکھنے کی شرع میں اجازت نہیں اورایسے بہت کچھ وہ بھی نہیں دیکھ پاتے کہ جو دیکھنا چاہئے۔ مگر صاحبو، ہم تم اس پہ اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں کہ رموز مملکت خویش اور خسروان خویش سے بہتر کون جانتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی مصیبت کا درماں شروع میں کر دینے کی روایت ہمارے ہاں پنپ ہی نہیں سکی۔ کسی علاقے میں کچھ ایسا ہو جائے کہ جو نہیں ہونا چاہئے تو طرح دینے کی روایت اُس وقت تک عام ہے جب تک سیلابِ بلا سبھی کچھ بہا کے نہ جائے اور پھر اس عذر کا سہارا لیا جاتا ہے کہ جب جب جو جو ہونا، تب تب سو سو ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کی لغت میں اس کے لئے ایک اور لفظ بھی مروج اور مقبول ہے اور وہ لفظ ہے، مٹی پاؤ۔ صاحبو اپنے وطن کو لوٹو تو لفظوں کا یہ تحفہ ضرور ہی ساتھ لے جانا۔

شراب اور زنا کی طرح ، وطن عزیز میں جوئے پہ بھی پابندی ہے مگر چوری کی طرح یہ بھی چھوٹے موٹے جوئے پہ ہے۔ اگر چند حضرات کسی خفیہ مقام پہ چند اشرفیوں یا دیناروں سے اپنا منہ کالا کر رہے ہوں ، تو بے شک یہ جرم نا قابل معافی ہے لیکن یہی کام اگر گھڑ دوڑ کے مقام پہ ڈنکے کی چوٹ کیا جائے تو اس کی مدح میں شاہی دربار تک رطب ا للسان ہوتا ہے۔ اور ایسے جواریوں کو خلعت شاہی اور دستار فضیلت سے سر افراز کیا جاتا ہے۔

میرے باپ نے ایسے قوانین عام کر چھوڑے ہیں کہ جن سے عورتوں کی فتنہ گری و سامانی پر براہ راست زد پڑتی ہے۔ ہم عورتوں کو اُن کی اوقات میں رکھتے ہیں اور اس معاملے میں ایسے ضابطے تحریر کر دئیے گئے ہیں اور خوش اطواری و اسلوبی رو بہ عمل ہیں کہ اگر کسی نابینا عورت کو زنا بالجبر کے نتیجے میں حمل قرار پا جائے تو وہ قابلِ گردن زدنی ٹھہرتی ہے۔ اوراُس کے قصور وار ہونے کو یہی غلطی کافی تصور کی جاتی ہے کہ وہ بوقت وقوعہ پذیر ی جرم، مجرموں کو پہچان نہ پائی اور گناہ کی پوٹ لئے فریاد کرتی پھرتی ہے۔ یہی نہیں صاحبو۔ ہمارے ہاں وہ عورتیں بھی محفوظ نہیں کہ جو بینا ہیں۔ اُن کو بھی اس فعل کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور فریاد کرنے پہ وہ قابل نفرین ٹھہرتی ہیں۔ ہمارے ہاں مرد ، عورتوں سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ کسی گلی، کوچہ، بازار، رستے سے گزرنے والی عورت ، چاہے وہ ماں کی عمر کی ہو، بھین کی عمر کی ہو یا بیٹی کی عمر، ہمارے مردوں کی محبت بھری نگاہوں سے نہیں بچ سکتی۔ یہ محبت کس قسم کی ہوتی ہے، اس کے بیان کی تہذیب اجازت نہیں دیتی کہ ہاتھوں کا احوال مفصل بیان کروں۔

میرے باپ کا خیال ہے کہ رعایا کو کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں ملنا چاہئے کہ اس طرح اُن میں بغاوت و سرکشی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اس امر کا خصوصی بندوبست کر دیا گیا ہے کہ لوگ آدھے پیٹ روٹی کھائیں۔ تس پہ بھی اگر کچھ مفتری سر اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو اُس کے لئے ایک خصوصی محکمہ قائم کر دیا گیا ہے جو ایسے مفسدوں کو روئے زمین سے غائب کر دیتا ہے اور اُن کے لواحقین تو عذاب مسلسل میں مبتلا رہتے ہی ہیں ، دوسروں کے بھی کان ہو جاتے ہیں۔

میرے باپ کے خیال میں ملکی معاملات چلانے کے اہل صرف وہی ہیں کہ جن کے خزانے لبا لب بھرے ہوئے ہیں اور جوسوائے دولت پیدا کرنے کے اور کچھ بھی سوچنے سے معذور و قاصر ہیں ، چنانچہ وہی خویش خسروان ٹھہرتے ہیں۔ ایسے لوگ کہ جن کے سروں میں سودائے دانش وری سمایا ہوتا ہے، قابل گردن زدنی ٹھہرتے ہیں۔ حقوق صرف اُن کے تسلیم کئے جاتے ہیں جو اُنہیں تسلیم کروانے کا گُر جانتے ہیں۔ فرائض ادا کرنے کی سزا وار صرف رعایا ہے۔ چنانچہ اس طرح بہت عمدہ طریق، وضع پا کر کامیابی سے جاری و ساری ہے۔

میرا باپ بہت بڑا نباضِ فطرتِ انسانی ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ سیر و تفریح رعایا کا حق ہے مگر وہ اُنہیں یہ حق نہیں دیتا کہ ایسے مقامات پہ جمع ہو کے لوگ حکومت کے خلاف بے سروپا باتیں کرتے ہیں ، چنانچہ باغوں ، میدانوں اور اس قبیل کے دوسرے تفریحی مقامات پہ یا تو پابندی لگا دی گئی ہے یا اُن میں داخلے کے واسطے دینار سرخ کی اتنی قیمت رکھ دی گئی ہے کہ وہ غریب آدمی کی استطاعت سے باہر ہے۔ یہی نہیں اس قسم کے مقامات کی مستقل بیخ کنی کے واسطے وہاں عمارات بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس کا ایک زر کَش پہلو یہ نکلا ہے کہ سو دو سو آدمی رعایا کے جمع ہوکے ، کسی نوچی کو تفریح کے نام پہ رات بھر نچواتے اور خود کو لٹواتے ہیں اور صبح کوتوال کے آدمیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوکے اگلے دو دن بندی خانوں میں زیر پشت مقام پہ دُرے کھاتے اور کچھ دے دلا کے نجات پاتے ہیں۔ چنانچہ برائی کی بیخ کنی کا یہ کثیر المقاصد انداز تم ہمارے ہاں ہی دیکھو گے۔

دربارِ شاہی میں مذہبی پیشواؤں کے واسطے بھی کرسی لگی ہوئی ہے۔ یہ پیشوا اپنی صحت اور حلیے سے دُور سے پہچانے جاتے ہیں اور ان میں سے کسی کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی گردن، کمر، توند، اور چوتڑ ”علمائی” پیمانے کے مقرر معیار سے کم رکھے، چنانچہ یہ حضرات اس طرف خاص توجہ دیتے اور اپنی صحت کا مقرر کردہ شاہی معیار برقرار رکھنے کو ہر جتن کرتے ہیں۔ یہ حضرات سب سے زیادہ مصروف زندگی گزارتے اور دن رات مذہب کی خدمت کے واسطے کوشاں رہتے ہیں۔ ان کے ہرکارے مساجد کے دورے کرتے اور لوگوں کے لباس اُن کے ٹخنوں تک ماپتے ہیں ، یہی حال داڑھیوں کی لمبائی کا بھی ہے۔

ان حضرات نے مومنوں کے حلیوں کا ایک اجتہادی پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔ ان کے مطابق مومن کو سر منڈا ہونا چاہئے، داڑھی ناف تک ہو اور مونچھوں کے بغیر ہو۔ شلوار کی اُونچائی ٹخنوں تک ہو، قمیص کی نیچائی بھی اول الذکر مقام تک ہو، پیروں میں کھڑاویں ہوں تو فبہا ورنہ بغیر موزوں کے جوتے پہننے ضروری ہیں۔ روزمرہ گفتگو میں استعمال ہونے والے عربی الفاظ دُرست مخرج سے ادا کرتا ہو اور اس میں اس حد تک غلو کی اجازت ہے کہ عِلم کو غِلم کہے۔ ہر بے پردہ عورت کو فاحشہ کہے اور دل سے بھی ایسا جانے۔ بچیوں کو چھے سات برس کی عمر سے پردہ کرائے۔ اُنہیں مذہبی کتابیں فقط رٹنے کی اجازت ہو کہ اُن کا ثواب ہی اتنا ہو جاتا ہے کہ مطالب و معانی و تشریح جاننے کی مطلق حاجت نہیں ہوتی۔ ساٹھ برس کے بڈھے سے چودہ پندرہ سالہ بچی کا نکاح عین مذہب قرار دے اور اس سلسلے میں لڑکی کی مرضی جاننے کے اصرار کو کفر گردانے۔

دنیوی ترقی کو کفر سمجھے اور مومن کا مستقبل فقط آخرت کو قرار دے اور یہ ہرگز نہ سوچے کہ کفارسے پیچھے رہ جانے پہ اُن سے بھیک مانگ کے کھانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو گا۔ اس سلسلے کی ساری ذمہ داری اللہ میاں پہ ڈالے اور عین وقت جہاد میں ، سجدے میں گر کے فرشتوں کی مدد و اعانت کا خواستگار ہو۔ اپنے اپنے فرقے کی ترقی و ترویج کے واسطے لباس اور پگڑیوں کے رنگ مختلف رکھے۔ دوسرے فرقے کو زندیق قرار دے اور فقط اپنے فرقے کو جنت کا حقدار جانے کا مکلف گردانے اور اس واسطے اپنا زورِ خطابت صرف کرے۔

مذہب کے موٹے موٹے اور انتہائی سادہ اُصولوں کو ایسی پُر کاری سے ادق بنا دے کہ اُس کے لئے مختلف ناموں سے مسائل کی ضخیم کتابیں ضبط تحریر میں آ جاویں اور بادِ شکم جیسے فطری عمل کو ایک لاینحل مسئلہ قرار دے اور کتابوں میں اس پر سَیر حاصل بحث کرے۔ شرع میں کیا شرم ، جیسی کڈھب مثال کا گھونگھٹ نکال کے مذہبی کتابوں میں معاملاتِ زَنا و شوئی پہ کھل کے اظہار کرے اور اس کے واسطے عضو تناسل، فرج اور منی جیسے الفاظ کا بے محابا استعمال کرے۔ مقدار نجاست اور دھبوں کی طوالت و کثافت پہ ڈٹ کے بحث کرے اور عین وقت اتصال میں کون کون سی احتیاطیں بروئے کار لانی چاہئیں ، اُن کو صراحت سے بیان کرے۔ اس سلسلے میں بزرگوں کے طور طریق اپنانے پہ لوگوں کو مائل کرے اور اس سوال کی فکر ہرگز نہ کرے کہ وہ کونسے بزرگ تھے جو اس عمل سے گزر کے اُس کی تفاصیل اگلی صبح عام کیا کرتے تھے؟ایسے سوالات اُٹھانے والوں کو جہنمی قرار دے۔ دواؤں سے زیادہ دعاؤں پہ یقین رکھے اور ہر گاؤں ، قریہ اور غرفے میں ایسے کارخانے قائم کرے کہ جن میں چادروں اور پھولوں سے ہمہ وقت ڈھکی ہوئی ایک قبر دولت اُگلتی ہو۔ صاحب مزار کو اپنے اقارب میں سے قرار دے اور وہاں کی مٹی ، قریب اُبلنے والے چشمے اور دیوں کے باقی بچ رہنے والے تیل کو ذریعہ شفا قرار دے اور یوں وفات پا جانے والے متوفیوں کے انجام کو رضائے الٰہی قرار دے کے مفتریوں اور حاسدوں کی سر کوبی کرے۔ سالانہ چندہ وصول کرنے کو عرس کی تقریبات کی بڑے پیمانے پر اشتہاری مہم چلائے اور ممکن ہو تو مزار کے اطراف ناچ گانے اور اور میلے ٹھیلے کی تقریبات بھی منعقد کرے کہ اجانب کی طوائفوں اور اُن کے متعلقین کی کشائش رزق کی مزار پہ مانگی گئی دعائیں مقبول اور معجزہ صاحب مزار ٹھہریں۔

صاحبو مذہبی پیشواؤں کی مصروفیات اتنی ہیں کہ نطق بیان سے عاجز ہے، چنانچہ یہ لوگ رعایا کی دنیا و آخرت سنوارنے کو ہمہ وقت کوشاں ہیں اور چونکہ رعایا کو اُس کے گناہ گار ہونے کا یقین دلانے کے درجے اولیٰ پہ فائز ہونے کے ساتھ ساتھ روز آخر اُس کی نجات کی اُمید بھی ہیں ، اس واسطے رعایا میں مقبول ٹھہرتے ہیں۔ ان حضرات کی دن رات کی کوششوں سے رعایا خود کو پرلے درجے کا عاصی سمجھتی ہے اور اسی واسطے ان کی دعاؤں کی محتاج رہتی ہے۔ یہ حضرات اپنی اس خوبی کا فائدہ اُٹھا کر شاہی دربار کے واسطے ایسے کئی فرائض بھی (مناسب حق محنت کے بدلے) سر انجام دیتے ہیں کہ اگر دُرست معنوں میں اجتہاد کا در وا ہوتا تو یہ سب پشت سے گردن کاٹے جانے کی سزا کے مستوجب ٹھہرتے۔

اتنا بیان کر کے نوجوان نے کُلھیا سے بچی کھچی شراب بھی حلق میں اُنڈیلی اور پھر سلسلہ کلام یوں جاری رکھا۔ میں نے اپنی سرزمین کا ذکر کہ خرگوشوں کی سرزمین کہلاتی ہے، تم سے مفصل اس مارے بیان کیا کہ مجھے کل رات جن بزرگ نے آج میرے دور ابتلا کا آخری دن بتلایا تھا، یہ بھی کہا تھا کہ تیری نجات جن کے ہاتھوں ہو گی، وہ دو نوجوان ہیں کہ اُن میں سے ایک شادی کر چکا ہے اور دوسرا اس مرحلے کو گزرنے کی خاطر مرا جاتا ہے، تُو اُنہیں خرگوشوں کی سرزمین تک سفر کی کھکھیڑ سے بچانے کو وہ سب بتا دیجو کہ جو وہ وہاں خود جا کے دیکھیں گے۔ چنانچہ میں نے تفصیل اس اجمال کی تمہارے گوش گزار کر دی۔ رہا یہ سوال کہ میرے وطن کو خرگوشوں کی سرزمین کیوں کہتے ہیں تو میری زمین کے لوگ ہمہ وقت اُس خواب غفلت میں رہتے ہیں کہ جس کے واسطے خرگوش بدنام ہیں۔ خرگوش ایک اور بھی بھلی سی علت کی بنا پر مشہور ہیں کہ ہمہ وقت بقائے نسل کی انتھک کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور یہی عمل میری قوم کا بھی ہے، یعنی ہر دو چونکہ یکساں خوبیوں سے متصف ہیں ، چنانچہ خرگوشوں کی سرزمین کی پھبتی میرے وطن کی لوگوں پہ خوب پھبتی ہے۔

اب تم سے اُس مصیبت کا احوال کہتا ہوں کہ جس کے سبب تم مجھے وزیر محل کی راحت سے دُور اس ویرانے میں ، اس حال میں پاتے ہو۔ صاحبو میں اپنے باپ کے جاری و وضع کردہ طریق پہ زیست کرتا اور بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ، کے مقولے کو اپنے لئے مناسب پاتا تھا کہ ایک روز میری ملاقات ایک مرد قلندر سے ہوئی کہ عجب مرد تھا۔ نمازیں پڑھتا مگر چھپاتا تھا، روزے رکھتا مگر پوشیدہ رکھتا تھا، ہاتھ اتنا فراخ کہ جو کماتا تھا، اپنے عیال کا خرچ رکھ کے اُسی روز مستحقین پہ خرچ کر ڈالتا تھا اور دولت کو سینت کے رکھنے والوں کے نطفے میں فے نکالتا تھا۔ محنت جی توڑ کے کرتا تب معاوضے کو خود پہ حلال سمجھتا تھا۔ سچ بولتا اور دوسروں سے بھی اس کی توقع کرتا تھا۔ ایک بیوی پہ قانع تھا اور عورت کا احترام غلو کی حد تک کرتا تھا۔ اچھی بات پہ کھل کے ہنستا اور بری بات کی ڈٹ کے توبیخ کرتا تھا۔ چور، کو چور سمجھتا اور بڑے اور چھوٹے چور کو یکساں مجرم گردانتا تھا۔ رشوت لینے اور دینے والے، دونوں پہ لعنت بھیجتا تھا۔ خود شراب سے مجتنب تھا اور اس فعل کی حوصلہ افزائی ہرگز نہ کرتا تھا مگر شراب پینے والوں کے ساتھ بے تکلف اُٹھتا بیٹھتا تھا اور اُن پر زبردستی اور سختی نہ کرتا تھا کہ اُنہیں اُن کے فعل کا ذمہ دار خود سمجھتا تھا۔ اسی طرح کسی کو پانچ وقت نماز پڑھنے کی تلقین بھی نہ کرتا کہ اسے بھی عقل مندوں پر الفاظ ضائع کرنے کے مترادف گردانتا تھا۔ شرابیوں کبابیوں سے اچھے تعلقات رکھتا تھا اور اس امر پہ معترضین کو ہنس کے ٹال دیا کرتا تھا۔ مذہب کی اُن فروعات سے بیزاری کا اظہار کرتا تھا کہ جن کا تعلق مذہب سے زیادہ علاقائی روایات اور رسوم سے ہوتا ہے۔ مذہب کو ایک انتہائی ذاتی معاملہ سمجھتا تھا اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پر سختی سے عامل تھا۔ وہ ایمانداری سے سمجھتا تھا کہ ہر مذہب کو اس دنیا سے رُوشناس کرانے کا مقصد اس مبدائے کائنات کے قریں اپنی عبادت کرانے سے زیادہ ، اپنی مخلوق کو ایک دوسرے کے ہاتھوں راحت پہنچانا ہے، چنانچہ اس سلسلے میں مثال سے واضح کرتا کہ عبادات کا وقت بہت کم اور خدماتِ انسانیہ کا وقت بہت زیادہ اسی مقصد کے واسطے مقرر کیا گیا ہے۔

علما کی موٹی گردنوں اور فربہ اندامی پر اعتراض کرتا اور اُنہیں خشیت اللہ سے دُوری کا سبب بتلایا کرتا کہ کسی بھی قسم کے خوف میں مبتلا انسان پر اتنی تہہ در تہہ چربی چڑھنا امر ناممکن ہے اور پھر جسے اللہ کے خوف کا دعویٰ ہو، وہ اتنا مچرب کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی طرح علما کی خسروان مملکت اور خویش خسروان کے درباروں میں حاضری پر معترض ہوتا تھا کہ اہلِ اللہ کا دربار نوردی سے کیا مطلب؟

عزیز و ، میرے مراسم جوں جوں اس مرد قلندر سے بڑھے، اُس کی باتوں اور عمل کی نقل کرنے کو جی چاہا اور جب یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ میں نے ایک غلام کو بوجہ بیماری طویل رخصت دی اور ایک کنیز کی بیٹی کی شادی میں بہ نفس نفیس شامل ہوا اور رستوں سے رعایا کے ننگے بھوکوں کو اپنے محل لا کر اُن کے اکل و شراب پر خصوصی توجہ دینے لگا تو میرے باپ اور اقربا کے کان کھڑے ہوئے اور مجھ سے خوئے امارت جاتی دیکھ کے اُن میں تشویش و اضطراب دوڑ گیا۔ چنانچہ میرے باپ نے جاسوس مقرر کئے کہ میرے شب و روز کی خبریں برابر اُسے پہنچاتے رہویں اور یہ جان کر کہ میں کسی ایسے شخص کی قربت میں رہتا ہوں کہ جس کے اعمال مشکوک قرار پاتے ہیں ، میرے باپ نے میرے یار کی مشکیں کسو ا کے اُسے اگلی صبح بادشاہ کے حضور پیش کیا کہ اُس کے جو بھی افعال ہیں اُن کی صراحت اُسی کی زبانی ہو اور اگر قصور وار پایا جاوے تو سولی پہ لٹکایا جاوے۔

چنانچہ دربار میں سب، جب اپنے اپنے درجہ مراتب کے مطابق بیٹھ گئے تو بادشاہ کے اشارے پہ میرے باپ نے اُس سے پہلا سوال کیا کہ وہ صدیوں سے مروج اور کامیاب اور کارگر طریق سلطانی کے خلاف کیوں باتیں اور عمل کرتا ہے۔ تس پہ وہ مسکرایا اور بولا۔ اے وزیر، تُو جسے مروج اور کامیاب طریق سلطانی کہتا ہے، میں اُسے فقط مروج گردانتا ہوں اور اس کو ہرگز کامیاب نہیں کہہ سکتاکہ کامیاب طریق سلطانی میں ہر بھوکے کو روٹی، ہر ننگے کو کپڑا، ہر بیمار کو علاج، ہر بے گھر کو چھت اور ہر خوف زدہ کو امن فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تُو کس منہ سے اس طریق کو کامیاب کہتا ہے کہ جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کو اُسی کیفیت سے دو چار ماں ، بیچنے کے واسطے بازار میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ جہاں کپڑے کی ناہوتگی کے سبب جوان بچیاں اپنے پنڈوں کو اپنے ہاتھوں میں چھپاتی پھرتی ہیں ، جہاں بیمار بغیر علاج کے دم توڑ رہے ہیں ، جہاں ایک بارش کے بعد لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور جہاں خوف کا یہ عالم ہے لوگ اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں ، چنانچہ اے وزیر میں اس طریق سلطانی کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔

بادشاہ چاہتا تھا کہ اُس کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلوا دے اور اُسی ساعت اُس کے زن و بچہ کو کوہلو میں پِلوا دے مگر میرے باپ کے اشارے پہ توقف کیا۔ میرے باپ نے دوسرا سوال پوچھا۔ اے باغی و مفتری، تیرا مذہب کے بارے میں کیا خیال ہے۔ تُو دہریہ ہے یا زندیق یا خدا کا باغی ہے؟ اُسے مانتا ہے اور اگر مانتا ہے تو تیرے عقائد کیا ہیں اور کیا تُو بادشاہِ وقت کو اللہ کی طرف سے خلق خدا پہ مقرر کیا ہوا اپنا نائب نہیں مانتا۔ تس پہ وہ مرد قلندر مسکرایا اور بولا۔ اے وزیر۔ میں زندیق ہوں نہ دہریہ اور اس نوع کا خیال تیرے ذہن میں اپنے بارے میں آنا انتہائی درجے کی تیری رکاکت پاتا ہوں۔ میں خدا کو ویسے ہی مانتا ہوں کہ جیسا اُس کے ماننے کا حق ہے۔ میں اُسے ابتدا اور انتہا دونوں کا رب تسلیم کرتا ہوں۔ اور میرا ایمان غیب پہ بھی ہے اور آخرت پہ بھی، اور اُس کے بھیجے ہوئے نبیوں پہ بھی ، اور حیات بعد الموت پہ بھی اور فرشتوں اور کتابوں پہ بھی مگر میں بہت معذرت کے ساتھ عرض گزاشت ہوتا ہوں کہ میرا اور تیرا اور تیرے بادشاہ کا اور یہ جو موٹے چوتڑوں والے نام نہاد علما تیرے بادشاہ کے زانو سے زانو بھِڑائے بیٹھے ہیں ، ان کا، خدا جدا ہے۔

اے وزیر۔ ان کا خدا اگر وہی ہے جو میرا بھی ہے تو یہ سچ کیوں نہیں بولتے، کلمۃ حق کہتے ان کے کی ٹانگیں کیوں کانپتی ہیں ، سچ کی گواہی دیتے ان کی جان کیوں نکلی جاتی ہے۔ دوسروں کی محنت سے اپنا حق، مذہب کے نام پہ نکالتے انہیں موت اور شرم کیوں نہیں آتی۔ یہ کیسے اللہ والے ہیں کہ ان کی چکتیاں دُناب دنبوں سے مشابہ اور گردنوں اکڑ سوروں جیسی ہیں۔ یہ اپنے اعمال کے بجائے اپنی پوشاکوں سے اس بات کا اعلان کیوں کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے برگزیدہ ہیں۔ اور اے وزیر۔ ان میں سے کتنے ایسے ہیں کہ جن کی راتیں اللہ کے ذکر سے مہکتی اور دن اُس کے خوف سے محتاط گزرتے ہیں۔ میں تجھے بتلاتا ہوں کہ وہ کونسا خدا ہے کہ جس کا ماننے والا میں ہوں۔ وہ خدا وہ ہے کہ جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا، اور جب کچھ نہ ہو گا تو وہ ہو گا۔ ان خبیثوں نے بندے اور اللہ کے درمیان اپنے مقاصد اور مطالب کے اتنے دبیز پردے ٹانگ دئیے ہیں اور بے یقینی اور یقین کے درمیان خلق اللہ کو کھڑا کر کے ایسی دھول اُڑائی ہے کہ جس میں سے سب دکھائی دیتا ہے، خدا دکھائی نہیں دیتا۔

اے وزیر، میرا خدا وہ ہے کہ جس نے مجھے جرات دی ہے کہ میں تیرے اور اس بادشاہ کے سامنے کھڑا ، یہ جانتے ہوئے بھی کلمۃ الحق کہتا ہوں کہ جس کے ایک اشارے پہ یہ منحوس شکلوں والے حبشی غلام میری گردن تن سے جدا کر سکتے ہیں۔ تیرے ان علما میں سے کسی میں اتنی جرات ہے۔

اے وزیر۔ میرا خدا ان علما کی طرح ہونٹوں پہ نہیں ، میرے دل میں رہتا ہے۔ میں اُسے خودسے اتنا قریب محسوس کرتا ہوں کہ ہمہ وقت اُس کی خوشبو میں ڈوبا رہتا ہوں۔ اپنی نمازوں میں اُسے سامنے دیکھتا اور اپنی خلوت میں اُس کی نگاہوں میں خود کو پاتا اور گناہوں سے مجتنب رہتا ہوں۔ اور اے وزیر۔ جو کماتا ہوں ، وہ اُسے بطور قرض دیتا اور اُس قرض کو یوم آخر بطور جزا بمع سُود حسنہ کے وصول کرنے پہ خود کو پُر اُمید پاتا ہوں۔

اے وزیر، میرا ایمان کامل ہے کہ خدا نے دنیا میں جتنے بھی مذاہب بھیجے، اُن سے اُسے اپنی تعریف و توصیف ہرگز مقصود نہ تھی کہ وہ ہر قسم کی تعریف و توصیف سے اس واسطے مبرا ہے کہ اُس کے سوا اور کسی کی تعریف و توصیف ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ اپنی مخلوق کو کہ جسے اُس نے سب سے اشرف جان کے خلق کیا، اپنے جیسے دوسروں انسانوں کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرتا دیکھنا چاہتا ہے کہ یوم انکار، شیطان لعین نے خدا سے کہا تھا کہ تُو فتنہ و فساد کا پُتلا تخلیق کرتا ہے۔ تس پہ خدا نے اُس سے کہا تھا کہ ان میں جو میرے خاص بندے ہوں گے وہ تجھ ملعون کے بہکاوے میں نہ آویں گے اور میں اُنہیں ہر قسم کے حالات میں رکھ کے آزماؤں گا۔ تو اے وزیر۔ جب کوئی انسان کسی دوسرے سے بھلی بات کرتا ہے یا اُس کے واسطے اپنی جان جوکھم میں ڈالتا ہے تو ہر چند کہ وہ اُس وقت سجدے میں نہیں ہوتا، مگر خدا کا مقرب ہوتا ہے۔

اور اے وزیر یہ جو علما اس وقت اس دربار میں بیٹھے اور میری عقوبت کے واسطے سزائیں سوچتے ہیں ، ان سے پوچھ کہ ان میں سے کتنوں نے اپنے پڑوس کے دروازے کھٹکھٹا کے وہاں رہنے والی بیواؤں سے اُن کے یتیم بچوں کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اُنہوں نے کھانا کھایا یا پھر بھوکے سوتے ہیں ؟ان میں سے کتنے ایسے اللہ کے نام پہ دیتے ہیں کہ دوجے ہاتھ کو خبر نہ ہو؟

مرد قلندر خاموش ہو ا تو علما نے بیک وقت کھڑے اور زبان سے بادشاہ کے حضور میں عرض گزاری کہ ایسے مفسد اور مفتری کا زمین پہ ایک ساعت بھی رہنا گناہ ہے چنانچہ اے بادشاہ اسے فوری طور پہ شاہی جلاد کے سپرد کر کہ ہمارے عقائد کی کپاس کے بنولے کئے دیتا ہے۔ اور پھر یوں بھی کہا کہ اے بادشاہ ہم نے نسلوں کی محنت سے لوگوں میں خدا کا جو تصور اُجاگر کیا ہے ، یہ اُس کے خلاف باتیں کرتا اور ایک سے زیادہ خدا بتلاتا ہے کہ ہمارا خدا اس کے خدا سے جُدا ہے، چنانچہ اب یہ فیصلہ سنانے میں دیر نہ کیجئے۔ تس پہ میرے باپ نے مناسب جانا کہ مرد کی قلندر کی جو بھی رائے اپنے اور بادشاہ کے بارے میں ہے، وہ بھی جان لے۔ تو وہ مرد قلندر بولا۔ اے بادشاہ، تجھے یہ عزت اور خلعت خدا نے اس واسطے نہیں دی کہ تُو اُس کی نگاہوں میں مقبول و مرغوب ٹھہرا تھا یا اُس نے روز ازل تجھ سے اس کا وعدہ کیا تھا، یا پھر تُو کسی ایسے نطفے سے جنا گیا تھا کہ جس کا مقدر ہی بادشاہی کرنا ٹھہرا تھا۔ تُو جو آج اس تخت شاہی پہ بیٹھ کے ، اپنے گرد موجود ان خوشامدیوں کے انبوہ سے اپنی جھوٹی تعریفیں سنتا ہے، تجھے اس کا حساب دینا ہو گا۔ اے بادشاہ۔ اگر یہ خلعت اور تخت و تاج نہ ہو تو تجھ میں اور ایک نانبائی میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں ہی یکساں مقامات اخراج رکھتے ہو۔ اپنی جوروؤں کے ساتھ سوتے ہو اور سانس لیتے ہو۔ اے بادشاہ تیری جورو بھی بچہ ویسے ہی پیدا کرتی ہے جیسے کسی بھنگی بھشتی کی جورو۔ تجھے بھی وہی بیماریاں لگتی ہیں جو کسی اسفل پیشہ کو لگتی ہیں ، چنانچہ طے ہوا کہ تُو بھی مٹی کا بنا ہوا ، ویسا ہی حقیر پتلا ہے جو اپنی سانسیں پوری کر کے مٹی میں جانے والا ہے۔ اس واسطے اگر تُو خود کو کسی بھی طرح عام آدمی سے اُونچے درجے پہ فائز گردانتا ہے، تو تُو احمق ہے کہ اُس میں اور تجھے میں فقط اس خلعت و تاج کا فرق ہے۔ اور اے بادشاہ۔ اگر تُو حیات بعد الموت پہ یقین رکھتا ہے تو اس بات پہ بھی یقین رکھ کہ تجھے عام آدمی کے مقابلے میں کڑے حساب کتاب سے گزرنا ہو گا کہ تُو صاحب اختیار ہے اور وہ نہیں۔ اور اے بادشاہ۔ اس وقت جو تُو شاہی کرتا ہے، اس میں تیری اپنی قابلیت اور اہلیت کا شمہ برابر بھی حصہ نہیں اور نہ تو کسی ایسے کسب میں کمال رکھتا ہے کہ جس کے بدلے تجھے یہ شاہی ودیعت ہوئی ہے۔ تیرا باپ اور پھر اُس کا باپ بادشاہ تھے، چنانچہ تجھے یہ وراثت میں ملی ہوئی شاہی ہے۔ اور اے بادشاہ۔ وراثت پہ اکڑنا شریفوں کا شیوہ نہیں۔ ہاں اگر تُو نے اپنی محنت، قابلیت اور دیانت سے یہ شاہی مرتبہ حاصل کیا ہوتا تو تُو واقعی بادشاہ کہلانے کا سزاوار تھا۔

اے بادشاہ۔ تُو اگر خود کو خدا کا نائب گردانتا ہے تو پھر اتنے خوف کے عالم میں کیوں رہتا ہے۔ اگر تجھے اس بات پہ یقین نہیں کہ مارنے والے سے بچانے والا قوی تر ہے تو پھر مجھے تیرے ایمان میں شبہ ہے۔ اور اگر تُو خدا کا خاص بندہ ہوتا تو تجھے خدا سے زیادہ ان شہدوں ، مفتریوں اور متفنی سازشیوں کے سہارے کی ضرورت نہ ہوتی۔ میں تجھے بتاتا ہوں کہ تُو کیوں خوفزدہ ہے۔ اس واسطے کہ تُو ظالم ہے اور ظالم وہ ہوتا ہے کہ اپنے بارے میں سوچے۔ تجھے اپنی کروڑوں رعایا سے زیادہ اپنی جان کی فکر رہتی ہے۔ چنانچہ اے بادشاہ ، تُو بادشاہی کے قابل نہیں کہ میں تیرے ملک کے جیسے بھی حالات پاتا ہوں ، تیرے سامنے بیان کر چکا ہوں۔

یہ بیان سننا تھا کہ اہل دربار بیک زبان بولے کہ بادشاہ سلامت۔ اس ہرزہ سرائی کے واسطے اس باغی خدا اور ظل الہٰی کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلنے یا اس کے گناہ گار وجود کو فصیل سے نیچے پھینکنے کے احکامات فوراً جاری کئے جاویں۔ تس پہ سپہ لار آگے بڑھا اور چاہتا تھا کہ مرد قلندر کی مشکیں کسے لیکن بادشاہ نے روکا اور کہا۔ اے موت کے طلبگار۔ تُو میری فوج کے بارے میں کیسے خیالات رکھتا ہے۔ تس پہ مرد قلندر مسکرایا اور بولا۔ اے بادشاہ۔ تیری فوج دو طبقات میں بٹی دیکھتا ہوں۔ ایک تو وہ ہیں تیری اس سلطنت کے واسطے جان ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جنہوں نے فوج کو ایسی کان بنا دیا ہے کہ جس سے اُن کے واسطے ہیرے موتی ہر روز نکلتے ہیں۔ تیری فوج کی اشرافیہ کا رہن سہن، طور طریقے، برتاؤ سبھاؤ ایساہے کہ اُن میں خوئے دلاوری سے زیادہ چاہِ زر ہے۔ تُو نے کبھی ان کے گھر دیکھے ہیں ، ان کی زیست کرنے کے ڈھنگ پہ نظر کی ہے، ان کے روز و شب کے مشاغل سے آگاہ ہوا ہے۔ ان کے دل زر کی محبت سے لبریز اور وطن کی محبت سے خالی ہو چکے ہیں۔ یہ جب فوج کی نوکری سے خالی ہوتے ہیں تو دساور کو چلے جاتے ہیں یا پھر کوئی اتنا بڑا کاروبار کھول لیتے ہیں کہ باید و شاید۔ تُو نے کبھی ان سے پوچھا کہ اپنے مشاہرے سے ، اپنے بچوں کو پالنے پوسنے اور شادی بیاہ کرنے کے بعد، وہ کونسا رستہ تھا کہ تمہارے پاس اتنا روپیہ پس انداز ہوا کہ اب شاہی طور طریقے سے زیست کرتے ہو؟ لیکن تجھ میں پوچھنے کی ہمت نہیں ہے کہ تجھے ہمہ وقت اپنے سپہ سالار کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کو فتح نہ کر لے۔ چنانچہ جو بھی حقیقت تھی، میں نے کہہ دی۔

صاحبو مرد قلندر یہ کہہ کے چپکا ہوا تو دربار میں زلزلہ آ گیا۔ ہر درباری چاہتا ہے کہ اُس کے قتلے کر کے اُسی وقت اُس کی بوٹیاں چیلوں کووں کو ڈلوا دے۔ کم از کم سزا جو اُس کے واسطے مقرر ہونے کی سفارش کی جا رہی تھی، وہ اُس کو زندہ ، بھوکے شیروں کے آگے ڈلوانے کی تھی۔ چنانچہ اُس کے واسطے یہی سزا مناسب جان کے اگلے روز شہر میں منادی کروا دی گئی کہ رعایا اُس کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پھر کسی کو کلمۃ الحق کہنے کی جرات نہ ہو۔

میں چونکہ اُس کے ساتھ ہی دربار میں حاضر کرایا گیا تھا ، چنانچہ میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ بادشاہ، میرا باپ کہ وزیر بھی تھا، درباری، سب کے چہروں پہ تمام تر رسوخ کے باوجود ایک طرح کی زردی کھنڈی ہوئی تھی۔ اُس مجلس میں اگر کوئی مطمئن تھا تو مرد قلندر تھا۔ جب یہ حال سب کا دیکھا تو وہ ایک بار پھر گویا ہوا۔ سن اے بادشاہ۔ میں تیرے اور تیرے حواریوں کے چہرے فق پاتا ہوں۔ اور اس کا سبب بھی جانتا ہوں۔ جن لوگوں میں بڑے جاگیریں ، دولت کے ڈھیر اور خاندانی نام و نمود پیدا کرنے کا شوق رواج پا جائے پھر وہ موت سے بھی ڈرتے ہیں اور اُن حالات سے بھی کہ جو اُن سے سب چھین سکتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کے حیرت ہوتی ہے کہ تم سب موت سے ڈرتے ہو۔ اے بادشاہ اور اُس کے حواریو۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اس زمین پہ تم سے بھی بڑے زور آور لوگ تھے، تم سے بھی زیادہ جاگیریں جن کی تھیں ، تم سے بھی بڑے نام جن کے تھے مگر وہ آج مٹی میں یوں مٹی ہو چکے ہیں کہ اُن کے نام ہی فقط کتابوں میں ملتے ہیں۔ تو پھر تمہیں اس بات کا یقین کیوں ہے کہ تم کبھی نہ مرو گے اور یہ جاگیریں اور یہ نام نمود سدا باقی رہے گا۔

اگر تم ایسا گمان کرتے ہو تو پرلے درجے کے احمق ہو اور احمقوں کے ہاتھ کسی قوم کی باگ ڈور آ جائے تو پھر اُس قوم کے واسطے فقط دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

اے بادشاہ اور اُس کے حواریو۔ تم لوگ نقصان سے اتنے خوفزدہ کیوں رہتے ہو؟ کیا تم یہ سب محل، جاگیریں اور غلام اپنے ساتھ لے کے اپنی ماؤں کی فرجوں سے برامد ہوئے تھے کہ جن پہ آج اکڑتے ہو؟ یہ سب پالن ہار نے تمہیں دیا ہے اور اگر وہ واپس لیتا ہے تو اس میں پریشانی والی کونسی بات ہے۔ چنانچہ میرے پاس جو بھی ہے، اُسی کا دیا ہوا ہے اور میں اس پہ مطمئن اور قانع ہوں اور یہ سب واپس کرنے کو ہمہ وقت مستعد بھی رہتا ہوں کہ میں فقیر ہوں اور دینے والا امیر۔ فقیر کا امیر کے سامنے کیا زور؟ چنانچہ میں راضی برضا رہتا ہوں اور اسی واسطے مجھے اطمینان قلب کی وہ دولت نصیب ہوئی ہے کہ جسے نفس مطمئنہ کہا گیا ہے۔ دیکھتا ہوں تم میں سے کسی کے پاس وہ دولت نہیں ، تبھی خوف کے مارے تم سب کے سب زرد ہوئے جاتے ہو۔ اور اے بادشاہ۔ میں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، میں نے فقط کلمۃ الحق کہا ہے اور تیرے اور تیرے حواریوں کے پائجامے گیلے ہو گئے ہیں مگر تُو نے کبھی اُس وقت کے بارے میں سوچا کہ جو تیری اور ان کی عمریں دیکھتے ہوئے ، زیادہ دُور نہیں ، کہ جب تجھ سے ، انسان تو دُور، اُس بھوکے کتے کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا، جو تیری سلطنت میں رہتا تھا۔ تُو اُن یتیم بچوں کی کفالت کے بارے میں کیا جواب دے گا کہ جن کی بھوکی مائیں خالی ہنڈیوں میں ڈوئی چلا کے اُنہیں پھسلاتی ہیں ؟ اُن جوان بچیوں کے لئے تیرے پاس نا انصافی کا کیا جواز ہو گا کہ جنہیں تیرے پشت بانوں نے سر بازار لُوٹا؟اُن بیماروں کے لئے تُو کیا کہے گا کہ جن کے علاج کی رقم تُو نے اس دربار کی تزئین پہ خرچ کر دی؟چنانچہ اے بادشاہ۔ میں دیکھتا ہوں کہ تُو اور تیرے یہ حواری جہنم کی ڈاٹ کے سوا ، رب کے ہاں کوئی مقام نہ پاؤ گے۔

یہ کہا اور خاموش ہو رہا۔ بادشاہ کے حکم کے بموجب اگلے دن اُسے پاگل ہاتھی کی ٹانگ سے باندھ کے شہر بھر میں گھسیٹا گیا اور بعد ازاں اُس کی لاش چیلوں کووں کی ضیافت کے واسطے ایک اونچے پہاڑ پہ رکھ دی گئی۔ میں نے جب سچ کہنے والے کا یہ انجام دیکھا تو مجھے بادشاہ، وزیر کہ میرا باپ بھی تھا اور اُن سب سے نفرت ہو گئی کہ جو تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود پیر تسمہ پا کی صورت رعایا کے سروں پہ سوار تھے۔ چنانچہ میں نے خفیہ اُن سب کو تلاش کیا کہ جو مرد قلندر کی مجلسوں میں میرے ہم نشین ہوا کرتے تھے اور ہم بادشاہ وقت اور میرے باپ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوئے۔ ہم بتدریج رعایا میں بھی راہ پا گئے مگر یہ دیکھ کے میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ لوگ ہماری باتیں غور سے سنتے، اتفاق میں سر ہلاتے اور عمل کرنے کا وقت آتا تو شِغال بن جاتے۔ اُن میں مسلسل ظلم سہنے اور کچھ نہ کہنے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی اور وہ اس نظام کو اتنا مضبوط سمجھنے لگے تھے کہ اگر اللہ براہ راست ، زمین پہ اُتر کے اُن سے حقیقت حال کہتا تو وہ تسلیم کرنے میں ہچر مچر کرتے۔

یہ بات اُن کے تصور سے بعید تھی کہ اُن پہ، اُن جیسا کوئی حاکم ہو سکتا تھا۔ وہ حاکمیت کا حق فقط اُن کا سمجھتے تھے کہ جو پشت در پشت سے رئیس ہوں یا جن کی نسل در نسل حاکموں پر مشتمل ہو۔ اُن کے واسطے یہ امر حیرت و استعجاب کا باعث تھا کہ کوئی عام آدمی ، کسی گلی، رستے یا گندی بستی سے اُٹھ کے اُن کی مرضی سے اُن پر حاکم ہو سکتا تھا۔ وہ یہ سب سنتے اور ہنستے اور گھروں کو جا کے سو رہتے تھے۔ علما نے تقدیر کے لفظ کے وہ معنی و مطالب اُنہیں سمجھا دئیے تھے کہ وہ اس لفظ کے خلاف ایک لفظ سننا گوارہ نہ کرتے تھے اور ہر ظلم کو اسی لفظ سے جوڑ کے اطمینان سے بیٹھ جاتے تھے۔ اُن کی سمجھ میں یہ سادہ سی بات نہیں آتی تھی کہ اُن کو پیدا کرنے والا ، تقدیر کا پلڑا مسلسل اُن کے حکمرانوں کے حق میں کیوں جھکائے رہتا ہے؟ چنانچہ صاحبو۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے اپنی سی کر کے دیکھ لی، مگر اُنہیں ماننا تھا ، نہ مانے۔ پھر کسی نے میرے باپ کو بتلایا کہ میں بادشاہ وقت اور اُس کے نظام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوں ، چنانچہ میرے باپ نے ، کہ بادشاہ سے بڑھ کے بادشاہ کا ہمدرد ہے، میری مشکیں کسوا کے مجھے اپنے دربار میں حاضر کروایا اور مجھ سے سبب اس بغاوت کا دریافت کرنے لگا۔ تس پہ میں نے، مرد قلندر کی سنت کے بموجب بادشاہ، اُس کی حکومت اور طرز حکمرانی سے بیزاری کا اظہار کیا اور یوں خود کو باغی و مفتری اور فتنہ ساز ثابت کیا۔

چنانچہ میرا باپ چاہتا تھا کہ مجھے سزا دے اور اس سزا میں کسی پاگل ہاتھی کو بھی ملوث کرے۔ تس پہ میری ماں رحم کی خواستگار ہوئی اور مجھے مرنے کے واسطے اس جنگل میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ آج چالیس روز ہوتے ہیں کہ میں اس جنگل میں خوار و زبوں پھرتا ہوں۔ جو ملتا ہے کھا لیتا ہوں اور اپنے وطن کی یاد میں فراقیہ اشعار پڑھتا ہوں۔ تس پہ ہم نے اُس سے پوچھا کہ ہم اُس کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں تو وہ نوجوان بولا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے وطن پہ قابض مفتریوں ، مفسدوں اور متفنیوں کے خلاف ایک جیش تیار کروں اور اُنہیں کماحقہٗ سزا دوں مگر اس کے واسطے وسائل کہاں سے مہیا کروں۔ چنانچہ میں نے اور وزیر زادے نے کہ، اب اپنی جورو کے ملک کا بادشاہ بننے میں کسی اڑچن کو مزاحم نہ پاتا تھا، اُس کی مدد پر مستعدی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں ہم نے اُس نوجوان کو ساتھ لیا اور میں جن کی کمر پہ سوار ہوکے، بمع ہمراہیاں سوئے ملک مقصود روانہ ہوا۔

صاحبو، میں سارے سوالات کے جوابات، بمع ایک سوال ضمنی کے ، تلاش کر کے شہزادی کے حضور پیش کر چکا تھا اور اب اُس کو حبالہ نکاح میں لانے کے واسطے مستعد و تیار تھا، چنانچہ اس قصے کو مختصر کرتا ہوں کہ کیسے وہ پری رُو میرے عقد میں آئی اور میں ناکح اور وہ منکوحہ بنی۔ اسی پہ یہ داستان ختم کرتا ہوں مگر ایک ذاتی تجربہ ضرور بیان کرتا ہوں کہ جب تک چاند فلک نیلگوں کی وسعت بے کنار میں ہوتا ہے، اچھا لگتا ہے۔ مگر جب وہ آپ کی گودی میں آ جائے اور روزانہ آنے لگے، بیزار کرتا ہے۔ تھوڑے کہے کو بہت جانو صاحبو اور مجھے یہ قصہ ختم کرنے کی اجازت مرحمت کرو۔

٭٭٭

ماخذ:

https://www.facebook.com/groups/urduafsane/775646045823102/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید