FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی باتیں

 

 

               ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

 

 

 

 

گفتگو

 

بچے اور کہانی دونوں لازم و ملزوم رہے ہیں، ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک کہانی انسان کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔ تجسس، تحقیق، کھوج، تلاش اور جستجو انسانی سرشت میں داخل ہیں اور انسانی ذہن کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کہانی کہنا قدیم ترین فنون میں سے ایک کہ قصہ گوئی کی عادت اور روایت دنیا کے ہر خطے کی تہذیب میں موجود رہی ہے اور کہانی کی سب سے بڑی صفت، اب کیا ہو گا، پھر کیا ہوا، کہانی کون سا موڑ کاٹے گی، کردار کیا رخ ادا کریں گے۔ ہر مذہبی تاریخی و تہذیبی داستان کے پیچھے یہی تجسس، یہی جستجو کار فرما رہی۔

حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیما ن علیہ السلام خدا کے برگزیدہ بندے اور نبی ہیں۔ ان کی ذات با صفات سے بے شمار معجزات منسوب ہیں۔ مافوق العادت واقعات، اشیا، روحانی تجربے، کراماتی واقعے، کرشماتی موڑ سبھی حیرت انگیز ہیں اور انسانی فطرت میں موجود ذوقِ تجسس کو مزید بڑھاتے ہیں۔

ان کی سوانح حیات کا جائزہ لینے کا سبب، یا اس تحریر کا جواز، اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ ہماری نئی نسل جو کمپیوٹر اور ٹی۔ وی کے سامنے سے اٹھتی ہی نہیں اور وہاں بھی وہ جنوں، روحوں اور ان کرداروں کی متلاشی رہتی ہے، جو غیر معمولی واقعات انجام دیتے ہیں، انھیں اپنی تاریخ، تہذیب اور مذہب سے آگاہ کیا جائے اور خدا کے ان برگزیدہ بندوں کو اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں عطا کی تھیں، ان سے متعارف کرایا جائے اور بچے کہانی سننے پڑھنے کے تجسس اور شوق میں اپنے انبیاء علیہ السلام کی ذات و صفات سے آگاہ ہو جائیں اور یہ الہامی کلام چھوٹے چھوٹے واقعات اور قصص کی صورت میں تخیل اور جذبے میں اس طرح رچ بس جائے کہ شعوری و غیر شعوری طور پر نئی نسل کی سیرت و مزاج کی تشکیل و تعمیر میں معاون ثابت ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی اقدار کے احیا کی آرزو ہی اقدار حیاتِ اسلامی کی بقا کی ضمانت ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے متعلق تمام تر بنیادی مواد قرآن پاک کے تراجم اور مختلف تفاسیر سے اخذ کیا گیا ہے۔ بچے جب اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ قرآن کریم محض ایک بہت مقدس کتاب ہی نہیں کہ جسے چوم کر، آنکھوں سے لگا کر طاق پر سجا دیا جائے نہ ہی یہ کوئی قوانین و اصول و نظریات کا ایسا ذخیرہ ہے کہ جس میں سوائے گنہگاروں کو لعنت و ملامت اور دوزخ کی وعید اور نیکوکاروں کو جنت کی نوید دی گئی ہے بلکہ اس میں چھوٹے بڑے واقعات سے، قصے کہانیوں سے بھی زندگی گزارنے کے اہم اصول و ضوابط نہایت متاثر کن اور دلنشیں انداز میں سمجھائے گئے ہیں۔

میں نے کوشش کی کہ بچوں کے لیے اللہ کے ان برگزیدہ نبیوں کی زندگی کے حالات و واقعات، عام فہم، رواں اور سلیس انداز میں تحریر کیے جائیں، اگر انھیں کہیں کوئی لفظ مشکل نظر آتا ہے تو اس کے لیے لغت کے استعمال کی عادت اپنائیں۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد ممکن ہے کہ بچے اپنے نبیوں اور اسلامی تاریخ کے بارے میں مزید جاننے کے خواہش مند ہوں، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ہم اپنی اس کوشش میں خود کوکامیاب تصور کریں گے۔

آخر میں شکر اس ربِ کریم کا جس نے یہ توفیق بخشی اور شکریہ جناب علامہ قاری نور حسین، ناظمِ اعلیٰ جامعہ مسجد بہارِ مدینہ، کا جنھوں نے اس کوشش کو سراہا۔ دانش، آمنہ، ماریہ، سرمد اور فارد کی بھی شکر گزار ہوں کہ ان کے حصے کا پیشتر وقت یہ کتابیں اور کمپیوٹر لے جاتے ہیں، شاہد صاحب کا شکریہ ادا نہیں کرسکتی کہ دورانِ تحریر ان کے صائب مشورے اور بعد از تحریر ؍ کمپوزنگ کتاب کی صوری ہیئت ان ہی کی مرہونِ منت ہے۔ عائشہ، ایمان، عرش مان، رائم، عثمان، ریان، سنان، عریشا، عمائر، نوفل، نافع، ایان اور رِوا اس نئی نسل کے نمائندے ہیں، جن سے ہم دینی و دنیاوی فلاح کی امید رکھے ہوئے ہیں اور امید ہی زندگی کا دوسرا نام ہے۔

 

قرۃ العین طاہرہ

۲۵ اپریل   ۲۰۱۱؁ء

۷مارچ۲۰۱۵ء

 

 

 

 

حضرت داؤد علیہ السلام

 

غیر معمولی، ناقابلِ فہم اور ناقابل وثوق بیانات و واقعات کو کشف کہا جاتا ہے، کرشمہ بھی، کرامات بھی اور معجزات بھی، لیکن ان تمام ان ہونی باتوں کو ہم ایک مقام پر نہیں رکھ سکتے کہ کشف، کرامات تو اللہ کے نیک بندوں، ولیوں، قُطبوں سے متعلق ہو سکتے ہیں لیکن معجزہ صرف اور صرف اللہ کی ذات اور اس کے نبیوں تک محدود ہے۔ ہم جو روز مرہ گفتگو میں اس لفظ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، یہ احتیاط کا متقاضی ہے۔ کشف و کرامات اور معجزے ان داستانوں کا جزو لاینفک ہیں۔ اساطیری داستانیں ہوں یا دیو مالائی، سبھی میں ان کا عمل دخل ہے۔ اسلامی داستانیں، دیومالائی داستانوں سے مماثل کم اور مختلف زیادہ ہیں۔ دیو مالائی کہانیوں میں دیوی دیوتا، خیر و شر اور نیکی بدی کی کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں جبکہ اسلامی داستانوں میں مشیت ایزدی کا بیان ہے۔ بنی اسرائیل نے دیوی دیوتاؤں کی کہانیوں کو مشیت ایزدی میں تبدیل کر دیا۔ ان کی قوم برگزیدہ اور منتخب بندوں سے مالامال تھی۔ اسلامی داستانوں پر بھی ان اسرائیلی قصوں کا اثر نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حقائق کو واضح کیا جائے۔

٭٭٭

بنی اسرائیل کی رشدو ہدایت کے لیے تورات نازل کی جا چکی تھی لیکن قوم شریعتِ موسوی کو فراموش کر کے راہ ہدایت سے بھٹک چکی تھی اللہ نے راہِ ہدایت کے لیے زبور نازل فرمائی۔ زبور کے لغوی معنوں میں سے ایک پارے اور ٹکڑے کے ہیں۔ اس کا ایک مطلب شیر بھی ہے۔ زبور تختی یا کتاب لکھنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ عربی شاعری میں زبور اور زُبر کتابت، کتاب اور تختی کے معنوں میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔

بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو منتخب فرمایا اور انھیں زبور کا تحفہ عطا کیا۔ زبور، حمد و ثنائے کبریا سے معمور تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام علیہ السلام کو ایک معجزہ یہ بھی عطا ہوا تھا کہ آپ مکمل زبور کی تلاوت اتنی مختصر مدت میں کر لیتے تھے کہ جتنی دیر میں گھوڑے پر زین کسی جاتی ہے۔ یوں آپ کا یہ معجزہ حرکتِ زبان سے تعلق رکھتا ہے۔

٭٭٭

حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ جب آپ تلاوت فرماتے تو اس لحن کے باعث پرندے و جانور تک وجد میں آ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ترتیل کا حکم عطا کیا تھا، جس کے باعث پہاڑ اور پرندے ان کی خوش الحان قرأت میں آواز سے آواز ملا کر پڑھنے پر مجبور ہو جاتے۔ آپ کی آواز میں وہ نغمگی، مٹھاس اور ایسا زیر و بم تھا کہ شجر و حجر سبھی کو متاثر کرتا تھا۔ ہوا میں اُڑتے ہوئے پرندے رُک جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہاڑ بھی صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرنے پر مامور تھے۔ کائنات کا ہر ذرہ حمد و ثنا کرتا ہے بے شک ہم نہ سمجھ سکیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک رات صحابیِ رسول حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ تلاوت کلام پاک کر رہے تھے۔ رسول کریمﷺ دیر تک سنتے رہے پھر خوش ہو کر فرمایا کہ آج مجھے لحن داؤد علیہ السلام کا کچھ حصہ مل گیا ہے۔

٭٭٭

حضرت داؤد علیہ السلا م سے پہلے بنی اسرائیل میں یہ سلسلہ قائم تھا کہ حکومت ایک خاندان اور نبوت ورسالت کسی دوسرے خاندان سے وابستہ ہوتی تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد میں یہودا کا گھرانا نبوت اور افراہم کا خاندان حکومت و سلطنت سے سرفراز تھا۔ حضرت شمویل کے عہد میں لوٹ مار اور حملہ آوروں کا زور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ بنی اسرائیل نے آپ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ اپنے بیٹوں کے بجائے کہ وہ شرائط بادشاہت پر پورے نہیں اترتے، کسی اور کو بادشاہ مقرر کر دیجیے، جو ظالموں کا مقابلہ کرنے کی طاقت و قوت رکھتا ہو۔ بنی اسرائیل کے اصرار پر آپ نے طالوت نامی شخص کو بادشاہ مقرر کیا جو بہت بہادر و جری تھا جس نے نہایت سمجھداری سے مجاہدین کا انتخاب کیا جو دشمن سے مقابلہ کے لیے آگے بڑھا۔

ابھی مجاہدین میدانِ جنگ تک نہ پہنچے تھے کہ راستے میں ایک نہر آ گئی۔ گرمی کا موسم تھا، سبھی پیاسے ہو رہے تھے، طالوت نے اپنے مجاہدین کی صبر و برداشت اور ہمت و حوصلہ آزمانے کی خاطر حکم دیا کہ کوئی بھی ایک چلو سے زیادہ پانی نہ پیے۔ چند ایک کے سوا سبھی نے حکم عدولی کی۔

’’ پھر جب طالوت فوجیں لے کر باہر نکلا تو اس نے کہا یقیناً اللہ تم کو ایک نہر سے آزمائے گا جس نے اس کا پانی پی لیا وہ میرا نہیں، اور جس نے اس کے پانی کو نہ چکھا وہ میرا ہے مگر ہاں جو اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ پھر ان میں سے سوائے چند کے سب نے اس سے پانی پی لیا۔ ‘‘ ۱ ؎

لشکر میدانِ جنگ پہنچا، وہ جنھوں نے جی بھر کر پانی پیا تھا، خود میں مقابلے کی طاقت نہ پا کر الگ ہو گئے کہ یہاں ان کا مقابلہ جالوت نامی بہت قوی و دیو ہیکل شخص سے تھا۔ لشکر بھی اس کا بہت بڑا تھا۔ طالوت کے مٹھی بھر مجاہدین کو جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی، جالوت اور اس کے لشکر سے خوفزدہ ہونا چاہیے تھا لیکن انھوں نے کہا کہ حق باطل پر غالب آتا رہا ہے۔ قلیل مجاہدین نے کفار کی کثیر تعداد پر فتح پائی ہے۔ ۲؎

٭٭٭

فلسطین کا حکمران جالوت اپنی طاقت اور کثیر لشکر کے زعم میں بنی اسرائیل کو ہر صورت میں غلام بنانے پرتیار تھا۔ طالوت مقابلے کی سکت نہ رکھتا تھا اور پریشان تھا۔ مجلسِ مشاورت بلوائی گئی اور وہاں یہ تجویز منظور کی گئی کہ بنی اسرائیل کا جو جوان جالوت سے مقابلہ کر کے اسے ہلاک کرے گا، اسے نہ صرف نصف سلطنت کا مالک بنا دیا جائے گا بلکہ سردار طالوت اپنی خوبصورت بیٹی عنیاہ کی شادی بھی اس سے کر دیں گے، یہی زمانہ تھا کہ جب بنی شموئیل کو بشارت ہوئی تھی کہ یسیٰ ( طبقاتِ ناصری میں یہ نام انسااور قصص الانبیا میں ایشا درج ہے ) کا چھوٹا بیٹا، طالوت کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کا حکمران ہو گا اور اس سے بڑھ کر ایک اور اعزاز اس کا منتظر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے نبوت کے لیے بھی اسی کو منتخب فرمایا ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام مستقبل کے اس خوب صورت لیکن ذمہ دار دور سے بے خبر جنگلوں میں بھیڑ بکریاں چراتے رہے اور ساتھ ساتھ اپنے دل پسند مشغلے میں بھی محو رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام فلاخن چلانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کے پاس ہمہ وقت ایک لاٹھی، فلا خن اور ایک تھیلی میں چھوٹے چھوٹے پتھر ہوا کرتے تھے۔  ان کے فن نشانہ بازی میں مہارت کا علم بنی اسرائیل کو بھی تھا، وہ کہا کرتے تھے داؤد علیہ السلام کے فلاخن کا نشانہ بننے والی چیز ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ ان کی بہادری کے قصے بھی مشہور تھے یہ بات بھی عام تھی کہ وہ جنگل میں شیر پر سواری کیا کرتے تھے۔

٭٭٭

ایک روز وہ بکریوں کو لے کر جنگل کی طرف جا رہے تھے کہ ایک پتھر سے آواز آئی، اے داؤد میں وہ پتھر ہوں جس سے حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے دشمن کو قتل کیا تھا، مجھے اٹھا لیجیے۔ میں کسی دن آپ کے بھی کام آؤں گا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی حیرت فطری امر تھا، بہرحال وہ پتھر کی فرمائش رد نہ کرسکے اور اسے اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈال لیا۔ اسی راستہ پر چند قدم چلے ہوں گے کہ ایک اور پتھر نے صدا دی، میں موسیٰ علیہ السلام کا پتھر ہوں میں وہ پتھر ہوں جس سے انھوں نے اپنے اور اپنے خدا کے دشمن کو ہلاک کیا تھا، مجھے اٹھا لیجیے، کسی روز میری ضرورت آپ کو بھی پڑ سکتی ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام حیرت زدہ تھے کہ ایک عرصے سے ان کا جنگل میں آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن کبھی ایسا نہ ہوا جو کچھ آج ہو رہا ہے۔ اسی فکر میں وہ چلے جا رہے تھے کہ ایک اور پتھر کی آواز نے انھیں رکنے پر مجبور کیا۔

اے داؤد علیہ السلام، میں اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا پتھر ہوں، میں ہی وہ پتھر ہوں جس سے آپ جالوت کا خاتمہ کر کے سلطنت ہی نہیں نبوت کے بھی حقدار ہوں گے۔ آپ پر حیرت وا ستعجاب کی کیفیت تو یقیناً طاری تھی لیکن آپ خوف زدہ نہ تھے۔ آپ نے وہ تیسرا پتھر بھی اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈال لیا، ابھی وہ پتھر بقیہ دو پتھروں سے ٹکرایا ہی تھا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے دیکھتے ہی دیکھتے تینوں پتھر ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک بڑے پتھر کی شکل اختیار کر گئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام ان معجزوں سے اندازہ لگا چکے تھے کہ اللہ ان کے سپرد کوئی اہم ذمہ داری کرنا چاہتا ہے۔ اس تحیر کی فضا کو قائم ہوئے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ بادشاہ طالوت کی جانب سے کی جانے والی پیش کش کی آواز ان کے کان میں بھی پڑی، منادی کرنے والا ایک ہی اعلان بار بار دہرائے جا رہا تھا۔

اعلان سنتے ہی انھیں پتھروں کی گفتگو یاد آئی اور وہ فوراً ہی بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور اسے بتایا کہ میں ہی وہ نوجوان ہوں جو جالوت کو قتل کر کے اس کا سر آپ کے قدموں میں لا رکھے گا، ہاں آپ کو بھی اپنے وعدے کا پاس کرنا ہو گا، حضرت داؤد علیہ السلام کے لہجے میں ایسی فیصلہ کن قوت موجود تھی کہ بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص جو کہہ رہا ہے، ضرور کر دکھائے گا۔ اس نے کہا مجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔ تم جہاد کی تیاری کرو۔

٭٭٭

بنی اسرائیل اور جالوت کی فوج ایک وادی میں جمع ہو رہی تھی۔ جالوت کا عظیم لشکر اور جنگی ساز و سامان اور گھوڑوں کی تعداد، طالوت کے لشکر کی ہمت پست کرنے کے لیے کافی تھے لیکن طالوت اپنے مجاہدین کی ہمت بڑھا رہا تھا۔ جالوت، طالوت کے مقابلے میں کم عمر بھی تھا، قد آور بھی اور زبر دست ڈیل ڈول کا مالک بھی۔ اس کا سارا جسم پیتل کی ز رہ نے محفوظ کر رکھا تھا، سر پر بھی پیتل ہی کا مضبوط خود پہن رکھا تھا، اس کے پورے جسم میں صرف آنکھیں ہی کھلی تھیں باقی تمام جسم دھاتوں کے نہ ٹوٹنے والے حصار میں مقید تھا۔ ۳ ؎

جالوت کے قد و قامت اور لباس کی تفصیل یوں بتائی جاتی ہے۔ ’’ اس کا قد چھ ہاتھ اور ایک بالشت تھا، اور اس کے سر پر پیتل کا خود تھا، اور وہ پیتل ہی کی زرہ پہنے ہوئے تھا۔ جو تول میں پانچ ہزار پیتل کی مثقال کے برابر تھا اور اس کی ٹانگوں پر پیتل کے دو ساق پوش تھے اور اس کے دونوں شانوں کے درمیان پیتل کی ایک برچھی تھی۔ اس کے بھالے کی چھڑ ایسی تھی جیسے جولاہے کا شہتیر اور اس کے نیزے کا پھل چھ سو مثقال لوہے کا تھا۔ ۴ ؎

میدانِ جنگ پہنچ کر جالوت نے للکارا۔

’’ کوئی ہے جو میرا مقابلہ کر نے کی جرات کرے اور مجھے ہلاک کر کے اپنے بادشاہ کی طرف سے اعلان کیے گئے انعام کا حقدار ٹھہرے۔ ‘‘

جالوت کا حلیہ اور پھر دبنگ آواز، کسی میں اس للکار کا جواب دینے کی جرات نہ ہوئی۔ جالوت نے چند مرتبہ، اپنی بات دہرائی اور جواب نہ پآ کر اکڑتا ہوا واپس ہوا، یہی وہ لمحہ ہے کہ طالوت کے لشکر میں ہلچل پیدا ہوئی، لشکر کی پچھلی صفوں سے ایک نوجوان، جس کا جسم زرہ سے آزاد اور سر خول سے بے نیاز تھا، سامنے آیا اور جالوت کو للکارا، جالوت اس نوجوان کو دیکھ کر ہنسا، کیا میں کوئی کتا ہوں جو تو ایک لاٹھی لیے میرے مقابل آیا ہے، حضرت داؤد علیہ السلام کا جواب یہی تھا کہ ہاں میرے نزدیک تیری حیثیت ایک کتے سے زیادہ نہیں ہے۔ تیرے لیے میری یہ لاٹھی کافی ہے۔ جالوت کا غصے سے پاگل ہو جانا، ان ہونی بات نہ تھی، اس نے بہت برا بھلا کہنا شروع کیا، حضرت داؤد علیہ السلام اطمینان سے سنتے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ حق کی باطل پر فتح ان ہی کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے، خود پر اعتماد اور اللہ پر یقین نے انھیں جر ات عطا کی، وہ مسکراتے ہوئے جالوت کی جانب بڑھتے گئے، خاموشی سے تھیلے سے پتھر نکالا، فلاخن میں رکھا اور مہارت کے ساتھ اس کے ماتھے کا نشانہ لے ڈالا۔ ۵ ؎

خدا کی قدرت سے ہوا کا ایک جھونکا ایسا آیا کہ جالوت کا وزنی خود جس کا وزن اسی سیر اور طبقات ناصری کے مو ء لف و مترجم غلام رسول مہر کے مطابق ساٹھ سیر تھا، ایسے اڑ گیا جیسے ایک سوکھا پتا اڑتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا فلاخن سے پھینکا گیا پتھر فضا میں ہی تین حصوں میں منقسم ہو گیا دو ٹکڑے دائیں بائیں جانب سے نکلے اور تیسرا، عین پیشانی کے درمیان لگا اور پیشانی چیر کر دوسری جانب سے نکل گیا۔ جالوت کے گھوڑے سے گرتے ہی حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کا سر تن سے جدا کیا اور طالوت کے پاس لے گئے۔ ۶ ؎

یعنی جالوت کے دعووں کا پول کھلنے میں لمحہ بھر نہ لگا، فلسطینی فوج اچانک بازی پلٹتے دیکھ کر سراسیمگی کا شکار ہوئی۔ خود بنی اسرائیل بھی نہ جان پائے کہ اس ایک لمحے میں کیا ہو گیا ہے، لیکن جلد ہی معاملے کی تہ تک پہنچ گئے اور ایک نئی قوت کے ساتھ دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور فلسطینیوں کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا۔

٭٭٭

طالوت نے اپنا وعدہ نبھایا، آدھی سلطنت عطا کی اور بیٹی کی شادی آپ علیہ السلام سے کر دی۔ تمام بنی اسرائیل حضرت داؤد علیہ السلام کی بہادری اور عدل و انصاف کی وجہ سے بہت عزت کرتے تھے۔ حکومت کے نظم و نسق میں بہتری کے لیے انھوں نے کچھ ایسے اصول و ضوابط تشکیل دیے جو مملکت کی مضبوطی اور عوام کی فلاح و بہبود سے تعلق رکھتے تھے، عوام جان گئے کہ اب انھیں جو حکمران میسر آیا ہے وہ ان کا بہی خواہ ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی مقبولیت، اعلیٰ انتظامیہ ہی نہیں خود طالوت کی نگاہوں میں بھی کھٹکنے لگی، طالوت نے آپ کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا، لیکن وہ اس کے اپنے بیٹے یوتن کی وجہ سے ناکام ہو گیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ احسان فراموشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے علم میں یہ بات آئی تو انھیں بہت افسوس ہوا، ان کی بیوی عنیاہ بھی باپ کی اس حرکت سے شرمندہ تھی۔ اس نے آپ کے دل سے اس افسوس ناک صورت حال کو مٹانے کی کوشش کی، آپ وقتی طور پر راضی ہو گئے لیکن آپ جان چکے تھے کہ یہ سلطنت و بادشاہت آپ کی زندگی کا مقصد نہیں ہو سکتا، ایک روز آپ نے خاموشی کے ساتھ سب کچھ چھوڑ کر گمنامی کی زندگی میں قدم رکھا۔ بنی اسرائیل اپنے بادشاہ کی اس حرکت سے ناراض تھے، طالوت کی بادشاہت ختم ہوئی تو بیٹے یوتن نے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔ عنیاہ بھی آپ کی جدائی کے صدمے سے جانبر نہ ہو سکی۔

بنی اسرائیل آپ علیہ السلام کی تلاش میں سرگرداں تھے آخر انھوں نے آپ کو پا لیا۔ ان کے مجبور کرنے پر آپ ان کی سلطنت کی ذمہ داری سنبھالنے پر راضی ہوئے۔ دین اور دنیا کے کارو بار ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ ۷؎

٭٭٭

اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی صلاحیت اور استعداد سے بڑھ کر ذمہ داریاں نہیں سونپتا، لیکن جو اہل ہوتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے دی گئی امانتوں کا بار نہایت خندہ پیشانی سے اٹھاتے ہیں اور خود کو ان ذمہ داریوں کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انعامات و اکرام بھی ظرف کے مطابق ہی عطا کرتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر اللہ کی طرف سے سونپی گئی نبوت و بادشاہت کی ذمہ داریوں اور اس کی عطا کی گئی نعمتوں پر ہمیشہ رب ذوالجلال و الاکرام کے شکر گزار رہے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمیشہ مصروفِ عمل رہے۔ آپ کی حکمت و دانائی کے سبب آپ کی سلطنت بہت وسیع ہو گئی تھی۔

آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے آپ کا سلسلۂ نسب گیارہ پشتوں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔

٭٭٭

حضرت داؤد علیہ السلام کے حلیہ، شکل و صورت اور کردار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شخصیت انتہائی مسحور کن تھی، حسین و متناسب خد و خال کی بنا پر، دیکھنے والوں کو بھلے لگتے پھر سرخ و سفید رنگت، نیلی آنکھیں متاثر کرتی تھیں۔

٭٭٭

حضرت داؤد علیہ السلام علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم کی نو سورتوں میں سولہ مرتبہ آیا ہے بعض مقامات پر مختصراً اور بعض جگہ تفصیل سے۔ چنانچہ سورہ البقرہ، النسائ، المائدہ، الانعام، الاسرائ، الانبیاء، النمل، السبا اور ص میں آپ کے حالات و واقعات اور رشد و ہدایت کا بیان ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے۔

ترجمہ: ’’ اور ہم نے اس (داؤد علیہ السلام) کو مضبوط ملک عطا کیا اور حکمت سے نوازا۔ اور حق و باطل کے فیصلے کی قوت عطا کی‘‘۔ ۸ ؎

ترجمہ: ’’اللہ نے ان کو حکومت بھی عطا کی اور حکمت (نبوت)بھی اپنی مرضی سے جو چاہا سکھایا             ۔ ‘‘ ۹؎

٭٭٭

عام نبیوں اور رسولوں میں حضرت آدم علیہ السلام کے علاوہ صرف حضرت داؤد علیہ السلام ہی وہ پیغمبر ہیں کہ جنھیں قرآن کریم میں ’’خلیفہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت داؤد علیہ السلام کی ایک نسبت اور بھی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓرقم طراز ہیں :

’’نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا۔ عالم بالا میں جب آدم علیہ السلام کی صلب سے ان کی ذریت کو نکال کر پیش کیا گیا تو انھوں نے ایک خوبصورت چمکتی ہوئی پیشانی والے شخص کو دیکھ کر دریافت کیا۔ پروردگار یہ کون شخص ہے؟ جواب ملا۔ تمہاری ذریت میں سے بہت بعد میں آنے والی ہستی داؤد علیہ السلام ہے حضرت آدم نے عرض کیا اس کی عمر کیا مقرر کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا کہ ساٹھ سال۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا۔ الہٰی میں اپنی عمر کے چالیس سال اس نوجوان کو بخشتا ہوں۔ مگر جب حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت آ پہنچا تو حضرت آدم علیہ السلام نے ملک الموت سے کہا ابھی تو میری عمر کے چالیس سال باقی ہیں۔ فرشتہ ء موت نے کہا۔ آپ بھول گئے۔ آپ نے اس قدر حصۂ عمر اپنے ایک بیٹے داؤد علیہ السلام کو بخش دیا ہے۔ ‘‘ ۱۰ ؎

٭٭٭

یوں حضرت داؤد علیہ السلام کی ذات پر، اس دنیا میں آنے سے پیشتر ہی انعامات و اکرام کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور آپ نے خود کو ان نعمتوں کا اہل ثابت کیا۔ آپ کے ذمے رسالت و نبوت اور حکومت و سلطنت ہر دو فرائض تھے۔ نظام حکومت و سلطنت کو درست انداز میں چلانے کے لیے شعور و ادراک کے ساتھ ساتھ شجاعت و جرأت کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اوصاف بھی آپ کو عطا کیے ہیں آپ کے عہد میں فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ علیہ السلام اللہ کی جانب سے دیے گئے۔ احکامات پر پورے طور سے عمل پیرا رہے کہ خدا کی ہدایت تھی کہ چونکہ ہم نے آپ کو زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے۔ اس لیے آپ کا بنیادی کام حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور اس کام کے لیے خواہشات نفسانی کو رد کرتے ہوئے یومِ حساب کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہو گا۔ یعنی امورِ سلطنت کی بجا آوری میں امانت و دیانت کا لحاظ رکھنا اور خدا کا خوف اور آخرت کی فکر رکھنا لازم ٹھہرا۔ جب نظامِ سلطنت خدا کے احکامات کے مطابق چلایا جا رہا ہو، وحی کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو آپ علیہ السلام کی ہیبت، رعب و دبدبہ اور شان و شوکت سے انکار ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کیے گئے فیصلوں سے انحراف کی جرأت جن و بشر میں سے کسی کو نہ تھی۔

٭٭٭

شہر ایلیا دریا کے کنارے آباد تھا، اللہ تعالیٰ نے وہاں کے رہنے والوں کے صبر کا امتحان لینے کی غرض سے ان پر یہ پابندی لگائی کہ وہ ہفتے کے تمام دن مچھلی کا شکار کرسکتے ہیں سوائے ہفتے کے دن کے۔ شہر والوں کے لیے یہ شرط معمولی تھی لیکن جلد ہی انھیں اندازہ ہو گیا کہ مچھلیاں تو بہت ہوشیار ہیں۔ ہفتے کے چھ دن مچھیرے جال لگائے بیٹھے رہتے ہیں، لیکن کسی کے جال یا کانٹے میں ایک مچھلی بھی نہ پھنستی۔ اب تو وہ بہت پریشان ہوئے، کھانے کو نہ بیچنے کو مچھلی ہاتھ آتی، ان کی حالت روز بروز بری ہوتی جا رہی تھی۔ آخر شہر ایلیا کے دانا بزرگ سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک حل ڈھونڈ نکالا۔ اب ہر جمعے کی شام وہ ساحل پر گڑھے کھود ڈالتے اور دریا تک نالیاں بنا لیتے۔ ہفتے کے روز مچھلیاں پانی کے ساتھ ان گڑھوں میں آ کر پھنس جاتیں، ماہی گیر نالیاں بند کر دیتے اور اتوار کو انھیں پکڑ کر کھاتے اور فروخت کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چالیس سال تک یہ نافرمانی کرتے رہے۔ اللہ نے چونکہ انھیں چھوٹ دی ہوئی تھی اس لیے وہ اسے حق سمجھتے رہے، یہاں تک کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ آ پہنچا، آپ نے انھیں روکنے کی بہت کوشش کی، انھیں عذابِ الٰہی سے ڈرایا لیکن وہ باز نہ آئے۔

’’ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی تھی ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی تھی۔ ۱۱ ؎

احکامات الٰہی کی نافرمانی، بلکہ خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش، مقصد صرف ذاتی فائدہ حاصل کرنا تھا، لیکن اس کا انجام کیا ہوا۔

’’ پھر جس کام سے انھیں منع کیا گیا وہ اس کام میں حد سے بڑھ گئے تو ہم نے ان کو کہا کہ تم ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ۔‘‘ ۱۲؎

مچھلی کے گوشت نے ان کے پیٹ میں ایسی اذیت ناک صورت پیدا کی کہ ان کی جلد نے بندروں کے کھال کی شکل اختیار کی اور ان کی صورتیں بندروں کی شکل میں بدل گئیں لیکن اس طرح کہ ہر مرد، عورت اور بچہ پہچانا جاتا تھا کہ کون ہے۔ بوڑھے لوگ سور کی شکل میں دکھائی دینے لگے، کہا جاتا ہے کہ یہ پوری قوم تین دن کے اندر اندر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ختم ہوئی۱۳ ؎

٭٭٭

ایک صفت اور بھی ایسی تھی کہ جس کی تعریف آنحضورﷺ نے خود کی۔ آپﷺ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی ہے اور سب سے پسندیدہ روزے داؤد علیہ السلام کے ہیں۔ وہ آدھی رات سوتے، ایک تہائی رات عبادت کرتے اور پھر رات کے چھٹے حصے میں سو جاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہو جاتا تو فرار اختیار نہ فرماتے تھے۔ بلاشبہ وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ ‘‘ ۱۴ ؎

٭٭٭

عبادت و ریاضت سے لگاؤ اس قدر تھا کہ ان کی شعوری کوشش تھی کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں وہ خود یا ان کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد عبادت میں مشغول رہے۔ یعنی کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے کہ جس میں وہ یا ان کے گھرانے کا کوئی فرد مصروف عبادت نہ ہو۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی نظام الاوقات مرتب کر رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ان کے دل میں احساسِ فخر جاگا اور اپنی اور اپنے گھرانے کی عبادت گزاری پر خوش ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ توفیقِ عبادت بھی میری ہی عطا کی ہوئی ہے۔ میری مدد شامل نہ ہو تو یہ تیرے بس میں نہیں۔ پھر ایسا ہوا بھی کہ ایک دفعہ جب آپ اپنے نظام الاوقات کے مطابق عبادت میں مصروف تھے اور آپ کے خاندان کے کسی اور فرد کی عبادت کا وقت نہ تھا۔ آپ کی عبادت گاہ میں ناگاہ دو اشخاص دیوار پھاند کر آ گئے۔ آپ گھبرا گئے لیکن انھوں نے کہا کہ ہم اپنے ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے اس بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں جبکہ میرے پاس صرف ایک ہے۔ یہ زبردستی مجھ سے میری دنبی لینا چاہتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تری دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کے لیے تجھ سے مانگتا ہے۔ بے شک ظلم کرتا ہے۔ یہ وقت آپ کی عبادت کا تھا نہ کہ عدالت لگانے کا۔ آپ نے صرف مدعی کا بیان سنا اور فیصلہ سنا دیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ مقدمہ معمولی نوعیت کا تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس کا کیا فیصلہ ہو گا۔ پھر اتنا اہم بھی نہ تھا کہ فریق دیوار پھاند کر عبادت گاہ میں آ گئے۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام جان گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے تھے جو آپ کا امتحان لینے آئے تھے۔

ترجمہ: ’’پس انھوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کی اور سجدے میں گر پڑے اور رجوع ہوئے۔ ‘‘ ۱۵؎

یہاں حضرت کا استغفار جو مذکور ہے اس کا پسِ منظر اسرائیلیات کی وضاحتوں میں یہ آیا ہے کہ یہ تمام واقعہ علامتی پس منظر رکھتا ہے، ، حضرت داؤد علیہ السلام کے دل میں کسی خواہش نے سر اٹھایا جو ایک نبی کے شایانِ شان نہ تھی، اُدھر جب ان کا دھیان گیا تو آپ نے توبہ و استغفار کی۔

نبی گناہوں سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں پھر بھی استغفار طلب کرتے رہتے ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام بھی خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کا شکر اور اس کی عطا کردہ ذمہ داریوں سے احسن طریقوں سے سبکدوش ہونے کو اپنی صلاحیت و طاقت نہیں بتاتے بلکہ اسے بھی خدا کا انعام اور اس کی مدد تصور کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ استغفار پسندیدہ عمل ہے اس لیے سر بسجود ہو کر مغفرت طلب کرتے ہیں اور حق و باطل کے درمیان فیصلے کی قوت کو بھی اس کی عطا جانتے ہیں۔

’’ اے داؤد علیہ السلا م ہم نے مقرر کیا ہے آپ کو نائب زمین میں پس فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی وہ بہکادے گی تمھیں راہِ خدا سے۔ بے شک جو لوگ بھٹک جاتے ہیں راہِ خدا سے ان کے لیے سخت عذاب ہے…‘‘۱۶؎

یہاں حضرت داؤد علیہ السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ تم کسی شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے کہ یہ سلطنت تمھیں ورثے میں مل گئی ہے۔  یہ اللہ کا فضل و کرم ہے، اس کا شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم رعایا کے فیصلے عدل و انصاف کے مطابق کرو۔ ۱۷؎

٭٭٭

ایک مرتبہ دو اشخاص ایک بیل پر حقِ ملکیت کا مقدمہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فیصلے کے لیے دوسرے دن انھیں طلب کیا۔ رات کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویٰ دار کو قتل کر دیا جائے۔ صبح جب دونوں حاضر ہوئے تو آپ نے مدعی کو قتل کا حکم سنا دیا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ بیل بھی میرا اور سزائے موت بھی مجھے ہی سنائی جا رہی ہے۔ بہرحال وہ جان گیا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی کے ذریعے اصل واقعے کا علم ہو چکا ہے چنانچہ اسے صحیح بات بتانا ہی پڑی کہ آج رات میں نے مدعی علیہ کے باپ کو دھوکے سے قتل کر دیا۔ پس اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کے قتل کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ اس واقعے کے بعد بنی اسرائیل کے ہر شخص پر آپ کی ہیبت اور بڑھ گئی کہ سبھی پہلے ہی آپ کی فراست اور عقل و شعور کے قائل تھے۔

ترجمہ: ’’اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور اسے حکمت دی تھی اور بات کا فیصلہ کرنا‘‘     ۱۸؎

ترجمہ:’’ اور بے شک ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور بخشی‘‘ ۱۹؎

٭٭٭

پیغمبروں کی شان رہی ہے کہ وہ بیت المال سے اپنی خدمات کا معاوضہ یا وظیفہ لینا جائز ہونے کے باوجود مناسب نہیں سمجھتے۔ آپ نے اللہ سے کسبِ حلال کی درخواست کی کہ اے اللہ تعالیٰ میرے لیے کوئی ایسا ذریعہ بنا کہ جس میں، میں اپنے ہاتھ کی کمائی سے رزق حلال حاصل کر سکوں اور دیگر فرائض منصبی زیادہ توجہ کے ساتھ ادا کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعا قبول فرمائی اور آپ کے لیے آسانیاں پیدا کر دیں۔

اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام بھیس بدل کر رعایا سے ملتے اور ان سے ان کے حاکم کے متعلق سوال کیا کرتے کہ ان کا بادشاہ کیسا انسان ہے۔ اپنی رعایا کی خبر گیری کرتا ہے یا نہیں۔ عوام اپنے بادشاہ کی تعریفیں کرتے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ آپ کے سوال کے جواب میں ایک آدمی نے اور دوسری روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ایک فرشتے نے جو انسان کی شکل میں تھا، جواب دیا کہ انسان تو اچھا ہے لیکن ایک خامی ہے۔ خامی پوچھی گئی۔ جوا ب ملا، اپنا اور اہل خانہ کا بوجھ بیت المال پر ڈالے ہوئے ہے، وہیں سے اپنی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے جی کو یہ بات لگی۔ گریہ و زاری اور استغفار کے دوران میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے کہ مجھے کوئی ایسا ہنر سکھا دے کہ میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکوں، اور پھر اللہ نے اپنا کرم ایک معجزے کی صورت میں ظاہر کیا۔

ترجمہ: ’’اور ہم نے داؤد علیہ السلام علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا۔ بنا زرہیں کشادہ اور اندازہ سے جوڑ کڑیاں اور تم جو کچھ کرتے ہو، میں اس کو دیکھتا ہوں۔ ‘‘    ۲۰؎

٭٭٭

آلاتِ حرب کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔ لوہا اس صنعت کا بنیادی جزو ہے۔ انھیں سامانِ جنگ تیار کرنے کا علم بھی عطا کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ زرہ کے موجد حضرت داؤد علیہ السلام ہی تھے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ حضرت داؤد علیہ السلام صاحب اعجاز تھے کیونکہ زرہ بنانے کے فن کی نعمت انھیں اللہ کی طرف سے ودیعت کی گئی تھی۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کی صنعت وحی کے ذریعے سکھائی گئی تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کواس لوہے کو بھٹی میں گرم کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اللہ نے ان کے لیے لوہے کو اتنا نرم کر دیا کہ جتنا چاہتے اس کھینچ لیتے، جہاں ضرورت ہوتی موڑ لیتے۔

یہ فضیلت بھی انھیں حاصل تھی کہ اتنی باریک نازک لیکن مضبوط اور پائدار ایک تناسب کے ساتھ کڑیاں جوڑ کر زرہیں بنائیں کہ جنھیں پہن کر سپاہی نہایت آسانی سے میدانِ جنگ میں اپنے فرائض انجام دے لیتا اور دشمن کے وار سے محفوظ رہتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام دن میں ایک زرہ بناتے جو چھ ہزار میں فروخت ہو جاتی، دو ہزار اپنے گھر کے اخراجات کے لیے رکھ لیتے اور باقی چار ہزار مستحقین میں تقسیم کر دیتے۔

یوں حضرت داؤد علیہ السلام نے اتنی عظیم الشان سلطنت کے ہوتے ہوئے بھی بیت المال سے اپنی خدمات کا معاوضہ لینے کا حق رکھنے کے باوجود محنت و مزدوری سے اپنا گزارا کیا اور اسی پر قانع رہے۔

٭٭٭

قرآنِ حکیم میں ’’ صاحبِ قوت‘‘ کا لقب، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے برتا گیا ہے، حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے بھی یہی لقب استعمال کیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان قوتوں سے کون سی قوتیں مراد ہیں۔ اس کا جواب یوں ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد جسمانی قوت ہے کہ جس کا مظاہرہ انھوں نے جنگِ جالوت کے دوران میں کیا تھا، قوتِ فیصلہ بھی مراد ہو سکتی ہے اور قوتِ گفتار بھی کہ آپ فیصلہ کن تقریر کیا کرتے تھے، فوجی و سیاسی قوت بھی ہوسکتی ہے کہ جس کی بنا پر آپ نے مشرکین پر فتح پائی اور عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی اور اپنے آبائی دطن فلسطین کو بھی آزاد کروایا، اخلاقی طاقت بھی اس میں شامل ہو سکتی ہے کہ جس کی بنا پر آپ نے عظیم الشان سلطنت ہوتے ہوئے بھی اپنے لیے ہاتھ کی کمائی پر انحصار کیا روحانی قوت بھی مراد ہو سکتی ہے کہ انسانوں کے علاوہ جن بھی آپ کے تابع تھے۔ عبادت کی طاقت اور حوصلہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ شدید مصروفیت کے عالم میں بھی آپ ایک دن روزہ رکھتے ایک دن افطار کرتے اور ایک تہائی رات عبادت کے لیے وقف تھی۔ امام بخاری   رحمۃ اللہ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابو دردا ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے حضور پاکﷺ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت داؤد علیہ السلام انسانوں میں سب سے بڑے عبادت گزار بندے تھے۔ ۲۱ ؎

٭٭٭

آپ سو سال تک بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت میں مصروف رہے۔ بنی اسرائیل پر حکومت کی مدت بعض مقامات پر چالیس سال اور بعض جگہ ستر سال رقم ہے۔

’’اور داؤد علیہ السلام بن ایش نے سارے اسرائیل پر سلطنت کی اور وہ عرصہ جس میں اس نے اسرائیل پر سلطنت کی چالیس برس کا تھا۔ اس نے جبرون میں سات برس اور یروشلم میں پینتیس برس سلطنت کی اور اس نے بڑھاپے میں خوب عمر رسیدہ ہو کر اور دولت و عزت سے وفات پائی‘‘        ۲۲؎

حضرت داؤد علیہ السلام کی اصل عمر ایک سو ستر سال تھی۔ ۲۳ ؎

٭٭٭

حضرت داؤد علیہ السلام جب گھر سے باہر جاتے تو دروازے بند کر جاتے اور کوئی بغیر اجازت گھر میں داخل نہ ہو سکتا تھا۔ ایک روز آپ باہر تشریف لے گئے۔ اچانک ان کی ایک زوجہ محترمہ نے دیکھا کہ گھر کے درمیان ایک صاحب کھڑے ہیں، حیران ہوئیں، دیگر اہل خانہ کو بلایا۔ اتنے میں حضرت داؤد علیہ السلام باہر تشریف لائے۔ اجنبی کو گھر میں بلا اجازت کھڑے دیکھا تو پوچھا کہ تم کون ہو اور بند دروازے سے کیسے اندر آ گئے۔ اس نے کہا جب مجھے آنا ہوتا ہے تو کوئی دروازہ، کوئی رکاوٹ نہیں رہتی اور نہ ہی کسی کا بلند رتبہ میرے پیش نظر ہوتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام جان گئے کہ ملک الموت آن پہنچا ہے اور یہی وقت مرگ ان کے نصیب میں لکھا ہے۔ یہ بہت مبارک ہفتے کا دن تھا۔ آپ نے جان، جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ سورج نکل آیا۔ دھوپ آپ علیہ السلام کے جسدِ خاکی پر آگئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو حکم دیا کہ سایہ کر دیں۔ تمام پرندوں نے اس طرح پر پھیلائے کہ چھاؤں ہو گئی بلکہ اندھیرا محسوس ہونے لگا۔

عام لوگوں علاوہ چالیس ہزار راہب آپ کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے۔

آپ علیہ السلام کا مدفن صہیون میں ہے، جہاں آپ کے آبا و اجداد بھی مدفون ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

حضرت سلیمان علیہ السلام

 

حضرت داؤد علیہ السلام کے انتقال کے وقت، ایک روایت کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمر پچیس سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حکومت دونوں میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو حضرت داؤد علیہ السلام کا جانشین بنایا۔ یوں نبوت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت بھی ان کے قبضے میں آ گئی۔

ترجمہ: ’’اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔ ‘‘۲۴؎

یہاں وراثت سے مراد مال و دولت اور حکومت و سلطنت نہیں ہے، کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کی واحد اولاد نہ تھے۔ ان کی سو بیویاں تھیں ان سے اولادیں بھی تھیں اور حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کے انیس بیٹوں کا ذکر ملتا ہے۔ اگر وراثت سے مراد مال و دولت، جائداد اور سلطنت ہے تو پھر انیس کے انیس بیٹے وارث ٹھہرتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخصیص باقی نہ رہتی۔ اب چونکہ یہاں وارث ہونے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے تو وہ علم اور نبوت ہی کی وراثت ہو سکتی ہے۔ (وان العلماء ورثۃ الأنبیاء)بے شک علما ہی انبیا کے وارث ہوا کرتے ہیں (علم کے)پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ انبیا کی وفات کے بعد ان کی اولاد ان کے مال و دولت کی وارث نہیں ہوتی بلکہ تمام مال و اسباب مساکین و فقرا کا حق سمجھتے ہوئے خدا کے نام پر صدقہ کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ انبیاء کے مال کی میراث تقسیم نہیں ہوا کرتی۔ رسول پاکﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ہم جماعت انبیا ہیں۔ ہمارے ورثے بٹا نہیں کرتے۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں، صدقہ ہے۔

٭٭٭

حضرت سلیمان کا سلسلہء نسب یہودا( اولاد یعقوب کے واسطے سے حضرت یعقوب سے جا ملتا ہے۔ قرآن پاک میں انھیں اولاد ابراہیم میں شمار کیا ہے۔

حافظ ابنِ عساکر نے آپ کے نسب نامے کی تفصیل یوں بیان کی ہے:

’’سلیمان بن داؤد بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عیمنا ذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوب بن اسیاق بن ابراہیم۔ ‘‘ ۲۵؎

آپ کی والدہ کے متعلق کتابیں اور مفسرین خاموش ہیں۔ ایک حدیثِ رسول مقبولﷺ سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے فرمایا کہ بیٹا رات بھر سوتے نہ رہا کرو، زیادہ سونا انسان کو روزِ حشر اعمالِ خیر سے محتاج بنا دیتا ہے۔ ۲۶؎

٭٭٭

حضرت داؤد علیہ السلام اس امر سے آگاہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو علم و دانش، ذکاوت و خطابت اور مقدمات کے فیصلے کی صلاحیت بچپن ہی سے عطا کر دی تھی۔ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے چند سوالات پوچھے کہ سب سے اچھی چیز کیا ہے؟ جواب ملا۔ ’’ایمان‘‘ بُری چیز کے استفسار کے جواب میں عرض کیا کہ ’’کفر‘‘ میٹھی چیز کے جواب میں ’’خدا کی رحمت‘‘ اور ٹھنڈک والی چیز کون سی ہے کا جواب دیا گیا کہ ’’خدا تعالیٰ کا لوگوں سے درگزر کرنا اور انسانوں کا ایک دوسرے کو معاف کر دینا‘‘۔ جوابات سن کر حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’سلیمان اللہ کے نبی ہیں ‘‘ بچپن ہی سے حضرت داؤد علیہ السلام امورِ سلطنت اور نظامِ حکومت کے اہم فیصلوں میں انھیں شریک رکھتے اور اہم امور مقدموں میں بھی آپ علیہ السلام سے مدد و مشورہ لیا کرتے۔

٭٭٭

حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد حکومت میں ایک شخص کے باغ میں ایک گلہ بان کی بکریاں گھس گئیں۔ مالک مقدمہ لے کر حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آیا کہ اس کی بکریوں نے میرا باغ اجاڑ دیا ہے۔ آپ مقامِ وقوعہ پر گئے۔ نقصان کا اندازہ لگایا۔ اس کی قیمت گلہ بان کے ریوڑ کے برابر ہوئی۔ چنانچہ آپ نے فیصلہ کیا کہ گلہ بان اپنی تمام بکریاں بطور تاوان باغ والے کے سپرد کر دے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام جن کی عمر اس وقت صرف گیارہ برس تھی۔ یہ فیصلہ سن چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ایک اور فیصلہ ہو سکتا ہے جو فریقین کے حق میں اس سے زیادہ بہتر ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلایا اور اس سے بہتر فیصلے کے متعلق پوچھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمام بکریاں باغ والے کے سپرد کر دی جائیں تاکہ وہ ان سے دودھ اور اُون وغیرہ حاصل کر کے فائدہ اٹھاتا رہے اور باغ بکریوں والے کو دے دیا جائے کہ وہ ازسرِ نو اسے کاشت کرے۔ اس کی دیکھ بھال کرے یہاں تک کہ اس میں پھل آ جائے اور اس حالت میں ہو جائے کہ جس میں بکریوں نے اس کا نقصان کیا تھا۔ اس وقت باغ واپس باغ والے کو دے دیا جائے اور بکریاں گلہ بان کو لوٹا دی جائیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ پسند کیا۔ دیکھا جائے تو حضرت داؤد علیہ السلام کی قوتِ فیصلہ اور علم و دانش پر حضرت سلیمان علیہ السلام اس کم عمری میں، اس وقت ان کی عمر صرف گیارہ برس تھی، فوقیت لے گئے۔ خدا کا واضح ترین انعام علم تھا، جو حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو ودیعت کیا گیا تھا۔ ۲۷؎

٭٭٭

امام بخاری سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ دو عورتیں کسی سفر میں تھیں۔ دونوں کے شیر خوار بچے ان کے ہمراہ تھے۔ راستے میں ایک عورت کے بچے کو بھیڑیا لے گیا۔ اب اس ایک بچے پر دونوں عورتیں حقِ ملکیت جتانے لگیں۔ مقدمہ حضرت داؤد علیہ السلام علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے ’’فصل قضایا‘‘ کے اصول پر مقدمہ کی روداد سن کر فیصلہ بڑی کے حق میں دے دیا کہ بظاہر بچہ بڑی کے قبضے میں تھا اور چھوٹی اس کے خلاف کوئی گواہی بھی پیش نہ کر سکی تھی۔ مقدمہ کا فیصلہ سن کر باہر نکلیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے معاملہ دریافت کیا۔ آپ نے قصہ سن کر چھری لانے کا حکم دیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں ایک بڑی کے اور دوسرا چھوٹی کے حوالے کر دیا جائے۔ بڑی نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کیا لیکن چھوٹی فیصلہ سن کر چیخنے چلانے لگی کہ بچے کے دو ٹکڑے نہ کرو۔ بڑی ہی کو دے دو۔ کم از کم بچہ زندہ تو رہے۔ یوں سب کو یقین ہو گیا کہ بچہ چھوٹی کا ہے اور بچہ اسے ہی دے دیا گیا۔ ۲۸؎

٭٭٭

حضرت سلیمان نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی :

اے پروردگار مجھ کو بخش دے اور مجھ کو ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کے لیے بھی میسر نہ ہو، بے شک تو بہت دینے والا ہے۔ ۲۹؎

بار گاہِ ایزدی میں ان کی دعا قبول ہوئی۔ جیسی حکومت انھیں بخشی گئی کسی کو ایسی نصیب نہ ہوئی۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے : ایک روز آں حضورﷺ نے فر مایا کہ گذشتہ شب میں عبادت میں مصروف تھا کہ ایک سرکش جن نے بہت کوشش کی مجھے میری نماز سے بھٹکا دے۔ اللہ کی مہربانی سے میں نے اس پر قابو پا لیا اور پکڑ کر چاہا کہ اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دوں تا کہ تم سب اسے دن میں آ کر دیکھ سکو، معاً مجھے حضرت سلیمان کی دعا یاد آگئی کہ جس میں انھوں نے خدا سے درخواست کی تھی کہ مجھے ایسی حکومت عطا کر جو مجھ سے پہلے اور بعد کسی کو نہ عطا کی گئی ہو۔ اس کا خیال آتے ہی میں نے اسے لعنت ملامت کر کے چھوڑ دیا۔ ۳۰؎

ہ روایت ابو دردا ء ؓ سے یوں منسوب ہے :

نبی کریمﷺ نماز پڑھا رہے تھے کہ ہم مقتدیوں نے سنا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں، میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں، آپ نے یہ بات تین مرتبہ کہی اور دورانِ نماز ہی ہاتھ آگے کو یوں بڑھایا، جیسے کسی کو پکڑنا چاہتے ہوں، نماز سے فراغت کے بعد ہم نے اس امر پر تعجب کا اظہار کیا تو فرمایا، ’’ اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا شعلہ لے کر آیا تھا کہ میرے چہرے کو جھلسا دے، تب میں نے تین بار کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں اور تجھ پر خدا کی لعنت بھیجتا ہوں۔ تین بار کہنے پر بھی وہ پیچھے نہ ہٹا تو میں نے چاہا کے اسے قابو کر کے ستون سے باندھ دوں۔ اگر حضرت سلمان علیہ السلام نے وہ دعا نہ کی ہوتی تو صبح کو وہ بندھا ہوا ملتا اور مدینے کے بچے اس سے کھیل رہے ہوتے۔ ۳۱ ؎

حضرت سلیمان علیہ السلام کی انفرادی خصوصیت و فضیلت یہ بھی تھی کہ وہ نہ صرف انسانوں بلکہ جنات، حیوانات، چرند پرند حتیٰ کہ ہوا پر بھی حکمران تھے۔

آپ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ پرندوں کی بولیاں سمجھتے بھی تھے اور ان سے باتیں بھی کیا کرتے تھے اس عظیم الشان نعمت کو آیت اللہ، یعنی اللہ کی نشانی کہا گیا ہے خود حضرت سلیمان اسے ’’ فضلِ مبین ‘‘کہتے ہیں۔

٭٭٭

حضرت سلیمان کا لشکر اِن مخلوقات سے ترتیب پاتا۔ ان تمام اصناف کو بلحاظ جنس الگ الگ گروہ میں منقسم کیا جاتا۔ شیاطین کا گروہ، جنوں کا گروہ، انسانوں کا گروہ، حیوانات کا گروہ اور پرندوں کا گروہ۔ یہ سب اپنے اپنے مقام پر نظم و ضبط اور ترتیبِ صف کے اعتبار سے موجود رہتے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود کسی جنس کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ اپنے رتبے یا درجے کے خلاف آگے پیچھے ہونے کے جرم کا مرتکب ہو۔ شاہی لشکر کے یہ تمام اراکین فرماں بردار و اطاعت گزار بندوں کی طرح اپنی قطار میں موجود رہتے۔ جب آپ کا لشکر روانہ ہوتا تو انسان آپ کے سب سے قریب رہتے۔ پھر جن قطار بنا کر کھڑے ہوتے اور پرندوں کے جھنڈ آپ کے سر پر سایہ کیے رہتے۔ سب کی جگہ مقرر تھی اور اگر کوئی موجود نہ ہوتا تو آپ کو فوراً خبر ہو جاتی۔

٭٭٭

ایک مرتبہ آپ کے لشکر کا گزر ایک وادی سے ہوا۔ جو وادیِ نملہ کہلاتی تھی۔ نملہ کی یہ وادی عسقلان کے قریب ہے۔ ابن بطوطہ کے مطابق یہ وادی صبرون و عسقلان کے درمیان ہے، بعض مفسرین اسے ملکِ شام کی وادی بتاتے ہیں۔ اسی بنا پر قرآن کی سورۃ کا نام ’’نمل‘‘ رکھا گیا ہے۔ جب یہ لشکر اس وادی کے قریب پہنچا تو وہاں بہت سی چیونٹیاں موجود تھیں۔ ملکہ چیونٹی یا شاہ مُور نے اپنی ساتھی چیونٹیوں سے کہا کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر کو کیا معلوم کہ ہم اتنی بڑی تعداد میں اس وادی میں رینگ رہی ہیں۔ سلیمان علیہ السلام اور ان کا لشکر ہمیں اپنے قدموں تلے روند ہی نہ ڈالیں اور انھیں اس کا احساس نہ ہو۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی وہ تقریر تین میل کے فاصلے سے سن لی تھی، جو وہ اپنی قوم کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے بچانے کے لیے کر رہی تھی۔ حقیر ترین حشرات الارض میں سے ایک نسل چیونٹیوں کے سربراہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی قوم کو ہر خطرے سے خبر دار کرے اور اپنی حفاظت کی تدبیر کرے۔ گویا حقیر ترین مخلوقات چیونٹی، بھڑ اور شہد کی مکھی اشرف المخلوقات کو نظم و ضبط کا درس دے رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا نظام حکومت اور شعبہ دفاع اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ انسان نے ان سے اسرار و رموزِ سلطنت سیکھے ہیں۔ فوج کی ترتیب و تنظیم اور عہدے بھی وہیں سے اخذ کیے ہیں۔ ان کے مختلف گروہوں کو مختلف فرائض سونپے جاتے ہیں۔ ان کا نظام پیچیدہ ہے، لیکن ترتیب کے ساتھ مرتب ہوتا ہے۔ یہ متذکرہ شاہ مور یا ملکہ چیونٹی تھوڑا سا لنگڑا کر چلتی تھی۔

یہ بھی دلچسپ سوال ہے جو حضرت قتادہؓ نے کوفہ آ نے پر ایک محفل میں امام ابوحنیفہ سے، جو اس وقت کم عمر ہی تھے، پوچھا کہ یہ چیونٹی مونث تھی یا مذکر، انھوں نے جواب دیا۔ ’’ مونث‘‘ انھوں نے کہا تمھیں کیسے علم ہوا، انھوں نے فرمایا ’’ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ قالت نملۃ‘‘ اگر ’’قال نملۃ‘‘ ہوتا تو معلوم ہو جاتا کہ مذکر ہے۔ ۳۲؎

کچھ محققین کے مطابق یہ چیونٹی مکھیوں کی طرح پَربھی رکھتی تھی۔ اس موقع پر بھی اسرائیلی داستانوں اور یہودی تمثیلوں میں فرق ہے کہ جن کے مطابق ان چیونٹیوں کا قد ’’بھیڑ‘‘ کے برابر تھا، جبکہ قرآن کریم میں واضح طور پر ارشاد ہے کہ وہ اتنی چھوٹی تھیں کہ شاہ مور کو یہ کہنا پڑا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر تمھیں کچل ڈالے اور انھیں خبر بھی نہ ہو۔

٭٭٭

یہ معجزہ تو ایک نبی کی شان ہے کہ اسے عام بندوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہاں حیران کن امر یہ ہے کہ حشرات الارض میں سب سے عاجز، بے بس و لاچار مخلوق کو یہ کیسے علم ہوا کہ ایک بہت بڑا لشکر آ رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے لشکر کی آمد کا علم تھا بلکہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ عظیم الشان لشکر حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہے جس سے بچنے کے لیے اس نے اپنی قوم کو خبردار کیا۔ آزمائش اور مصیبت کے وقت چھوٹی سے چھوٹی مخلوق بھی اپنے سے لاکھوں گنا بڑی مخلوق کے مقابلے پر آ جاتی ہے۔ ممولے کو شہباز سے لڑا دیتی ہے۔ حقیر چیونٹیاں متحد ہو کر خطرناک اژدہے کو تڑپا تڑپا کر مار دیتی ہیں اور اگر کسی وقت اشرف المخلوقات بھی اسے تنگ کرے تو وہ اسے ایسے زور سے کاٹتی ہیں کہ وہ بلبلا اٹھتا ہے تو اس ننھی منی مخلوق چیونٹی کو بھی اللہ نے کیسی حکمت و دانائی بخشی۔ رہا یہ سوال کہ کیا جانوروں پرندوں کی بھی زبانیں یا بولیاں ہوا کرتی ہیں کہ جو انھیں آپس میں معاملات کے طے کرنے میں مدد دیتی ہیں تو اس کا واضح جواب ارشاد باری تعالیٰ میں موجود ہے کہ زمین کا ہر جانور اور فضا کا ہر پرندہ تمہاری مانند اقوام ہیں۔

٭٭٭

یہ بات عیاں ہے کہ کسی بھی قوم میں ربط و ضبط اور میل جول میں زبان ایک اہم کردار ادا کرتی ہے کہ اس کے بغیر کوئی مخلوق دوسرے کی بات ہی نہیں سمجھ سکتی۔ جانوروں، حشرات اور پرندوں کی سیکڑوں اقسام ہیں، جو اپنا مدعا اپنی بولی میں بیان کر دیتے ہیں۔ یہ علم حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور نبی پاکﷺ کو عطا کیا گیا تھا کہ وہ ان کی آپس کی گفتگو سمجھ لیا کرتے تھے۔ اعتراض کرنے والوں نے تو یہاں تک کہا کہ اس زمانے میں پرندے، جانور، حشرات اور انسان ایک زبان بولتے تھے۔ ان کے اس بے معنی اعتراض کا کیا جواب دیا جائے کہ اگر ایسا تھا تو حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت داؤد علیہ السلام کا اس میں کیا کمال ہوا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ خصوصیت تھی کہ ان کے لیے یہ آوازیں ایک ناطق انسان کی باتوں کی طرح تھیں۔ اب یہ خیال کرنا کہ وہ اپنے اندازے اور قیاس کے مطابق پرندوں کے منہ سے نکلی ہوئی آواز سے مطلب اخذ کر لیا کرتے تھے، درست نہ ہو گا کیونکہ یہ بات تو سبھی جانوروں، پرندوں سے پیار کرنے والے، ان کے قریب رہنے والے، جان ہی لیتے ہیں کہ اس وقت اس کی آواز کا مفہوم کیا ہے۔ جانور، پرندہ اس وقت بھوکا ہے، پیاسا ہے، یا خوشی و مسرت کا اظہار کر رہا ہے یا اپنے مالک کو دیکھ کر وفاداری کا یقین دلا رہا ہے۔ دشمن کو دیکھ کر خوفزدہ ہے یا اس سے بچاؤ کی تدبیر کر رہا ہے۔ یوں جانوروں کی بولیاں مختلف کیفیات کی صورت میں اندازے سے سمجھ لی جاتی ہیں، اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا تو پھر قرآن پاک میں اس کی اتنی فضیلت کیوں بیان کی جاتی۔ اس لیے یہ خیال درست نہیں کہ وہ پرندوں کی حرکات و سکنات یا آواز کے زیر و بم سے ان کے مقصد کے متعلق قیاس کر لیا کرتے تھے۔ نطق کے لیے آواز کا ہونا ضروری ہے جو چرندوں پرندوں کے پاس ہے۔ صوت اور صوت کا زیرو بم، نشیب و فراز بھی ان کے ہاں موجود ہے۔ فرق آواز اور قوت گویائی کا ہے۔ عام انسان کے لیے پرندوں کی آواز صرف صوت ہے اور اُسے وہ قوت گویائی سے محروم معلوم ہوتے ہیں۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ قوتِ گویائی صرف انسان کو دی گئی ہے۔

٭٭٭

اس واقعے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے شاہ مور؍ ملکہ مور سے گفت و شنید کی اسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنی رعایا پر کیا اسی طرح مہربانی کرتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ ان کی خوشی میری خوشی ہے۔ ان کا غم میرا غم ہے۔ کہیں بھی کوئی چیونٹی مر جائے تو میں اسے اٹھا کر لاتا ہوں۔ شاہِ مور نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی عقل و فہم دی ہے۔ بے شک اشرف المخلوقات سے کم پھر بھی میری بادشاہی تمہاری بادشاہی سے بہتر ہے۔ تم نے کہا تھا کہ اے اللہ مجھ کو ایسی حکومت عطا کر جو میرے سوا کسی اور کو میسر نہ ہو۔ اس سوال سے منفرد ہونے کی خواہش ظاہر ہوتی ہے

شاہ مور نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے پوچھا ’’ آپ کی انگوٹھی میں جو نگینہ لگا ہے اس میں کیا راز ہے۔ ‘‘

آپؐ نے فرمایا۔ ’’ میں نہیں جانتا‘‘

تو اس نے کہا ’’ خدا نے آپ کو جووسیع و عریض سلطنت و بادشاہت عطا کی ہے۔ وہ ایک نگینے کے برابر اہمیت رکھتی ہے تاکہ آپ اس بات سے آگاہ ہو جائیں کہ دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ ‘‘

پھر پوچھا’’ آپ کے لیے ہوا کو مسخر کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’ مجھے علم نہیں۔ ‘‘ تو اس نے کہا۔ ’’ اس لیے کہ مرنے کے بعد آپ کو دنیا ہوا جیسی ہلکی معلوم ہو گی۔ ‘‘ پھر اس نے پوچھا کہ تم سلیمان کے معنی جانتے ہو۔ آپ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو جواب دیا۔ ’’ سلیمان کے معنی ہیں کہ دنیا کی زندگی پربھروسا مت کر، موت قریب ہے اس کی طرف توجہ کر۔ ‘‘ آپ شاہِ مور کی دانائی کے معترف ہوئے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام جب رخصت ہونے لگے تو اس نے کہا کہ میں ایسے جانے نہ دوں گا۔ آپ اور آپ کا لشکر میرا مہمان ہے۔ آج یہیں کھانا تناول فرمائیے۔ اس کے اصرار پر آپ علیہ السلام مان گئے۔ ذرا ہی دیر میں دعوت کا انتظام ہو گیا۔ شاہ مور نے ٹڈی کی ایک ران آپ کے سامنے رکھ دی۔ آپ ہنس پڑے۔ ’’میں اور میرا لشکر اور یہ ران‘‘۔ شاہ مور نے کہا بسم اللہ کیجیے۔ آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے لشکر نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا اور خدا کی قدرت سے ران پھر بھی بچ گئی۔

٭٭٭

منطق الطیر کا یہ علم حضور اکرمﷺ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو ودیعت کیا گیا تھا:

ترجمہ: ’’اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔ اور اس نے کہا۔ اے لوگو! ہم کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے دیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ بہت ہی واضح فضل ہے۔ ‘‘ ۳۳؎

 

٭٭٭

حضرت سلیمان پرندوں کی آواز سن کر اپنے ہمراہیوں کو بتا دیا کرتے تھے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، ایک دفعہ مور کی پیہو پیہو کی پکار کا مطلب انھوں نے یہ بتایا کہ یہ کہہ رہا ہے ’’ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ‘‘ ہد ہد کہہ رہا ہے ’’ اے گنہگارو اللہ سے مغفرت طلب کرو‘‘ سیاہ رنگ کے لمبے بازوؤں والے پرندے خطاف کی آواز سن کر کہا کہ یہ کہہ رہا ہے ’’ نیکی کرو تاکہ آگے جا کر ان کی جزا ملے۔ ‘‘ قمری یہ تسبیح پڑھ رہی ہے ’’ سبحان ربی ا لاعلیٰ‘‘ چیل خبر دار کر رہی ہے’’ رب کے سوا ہر چیز فانی ہے۔ ‘‘ تیتر کہہ رہا ہے ’’ جو خاموش رہا وہ فائدے میں رہا ‘‘ مرغ کہہ رہا ہے ’’ اے غافلو خدا کو یاد کرو‘‘ گدھ انسان کو متنبہ کر رہا ہے’’ اے انسان تو کتنا زندہ رہ لے گا تیرا انجام موت ہی ہے ‘‘ مینڈک کہہ رہا ہے ’’ سبحان ربی القدوس۔ ‘‘

غرض حضرت سلیمان دورانِ سفر اکثر اپنے ساتھیوں کو بتاتے رہتے کہ کون سا پرندہ یا جانور کیا کہہ رہا ہے۔ ۳۴؎

٭٭٭

ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں کچھ عرصہ تک بارش نہ ہوئی۔ کھیتیاں جلنے لگیں۔ نہریں خشک ہو گئیں حضرت سلیمان علیہ السلام نمازِ استسقاء کے لیے اپنی امت کے ہمراہ باہر میدان کی طرف نکلے۔ اتنے میں ایک چیونٹی نظر آئی جو الٹی لیٹی ہوئی تھی۔ آسمان کی طرف پاؤں اٹھائے اللہ سے التجا کر رہی تھی کہ ہم تیری ادنیٰ مخلوق ہیں اور تیری نظر کرم کے سوالی ہیں۔ اگر بارش نہ ہوئی تو ہم سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اس بے چارگی کی ہلاکت سے بچا لے۔ یہ نحیف و نزار بے چارگی و بے بسی میں ڈوبی آواز حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچی تو آپ علیہ السلام نے اپنی امت سے فرمایا کہ واپس چلو۔ ہمارے اس مسئلے کو اس کمزور ترین مخلوق نے حل کر دیا ہے۔

خدا کی حقیر ترین مخلوق کی مثال دینا ہو تو چیونٹی کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ مخلوق اپنی فہم و ذکاوت، وقت کی اہمیت سے آگاہی اور کاموں کی تقسیم کی بنا پر بعض اوقات اشرف المخلوقات سے بھی بڑھ کر دکھائی دیتی ہے۔

حضرت ابنِ عطیہ رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چیونٹی ذہین و عقلمند جانور ہے۔ اس کے سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے زمین کے اندر اور اوپر ہر شے کا اندازہ کر لیتی ہے۔ دانے جمع کرنے میں بے حد محنت و مشقت سے کام لیتی ہے اور جو دانہ اٹھا لاتی ہے اسے فوراً دو ٹکڑے کر دیتی ہے کہ وہ اگ نہ سکے۔ دھنیا اور مسور کے چار ٹکڑے کر دیتی ہے کہ اسے علم ہے دو ٹکڑے کرنے پر وہ اگ سکتا ہے۔ سردی کے زمانے کے لیے اپنی خوراک کا ذخیرہ کر لیتی ہے۔ علمِ حیوانات کے ماہر بھی اس کی فہم و فراست کے قائل ہیں، انسانوں کی طرح اس کی قوم میں خادم بھی شامل ہیں اور سپاہی بھی۔ کھیتی باڑی بھی جانتی ہے، غلے کو احتیاط سے تہ خانوں میں محفوظ رکھتی ہے۔ اس کی قوم میں جاگیر دار بھی ہوتے ہیں اور کارکن بھی۔ تہ خانے میں محفوظ غلہ اگر نمی یا رطوبت کی وجہ سے خراب ہونے لگے تو تمام چیونٹیاں ا سے تہ خانے سے باہر نکال کر دھوپ لگواتی اور پھر سے محفوظ کر لیتی ہیں۔ ۳۵؎

٭٭٭

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میں تیری ساری مخلوق کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مخلوق بے حساب ہے۔ تم کھِلا نہ پاؤ گے، لیکن حضرت سلیمان کے اصرار پر اجازت دے دی گئی۔ جگہ کے انتخاب صفائی اور انتظام و انصرام میں آٹھ ماہ لگے۔ قصص الانبیاء کے مطابق ساٹھ لاکھ دیگیں، ہر ایک ستر گز لمبی چوڑی جبکہ جامع التواریخ میں دو ہزار سات سو دیگیں جن کا طول و عرض ہزار گز تھا۔ لگن تالابوں کی طرح کے بنائے گئے۔ ہزار ہا گائیں ذبح کی گئیں۔ شاندار کھانا تیار ہوا۔ تمام مخلوق مدعو تھی کہ ایک مچھلی نے دریا سے سر نکال کر کھانے کی فرمائش کی۔ اسے انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔ لیکن اس نے کہا میں بہت بھوکی ہوں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ کیا فرق پڑتا ہے کھا لے۔ مچھلی نے اجازت ملتے ہی سارا کھانا ایک لقمہ میں ختم کیا اور کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے۔ میں روزانہ تین لقمے کھاتی ہوں۔ یہ تو ایک لقمہ ہے۔ میں تو تمھاری دعوت میں بھوکی ہی رہی۔ جب تم کھلا نہ سکتے تھے تو لوگوں کو کیوں اتنی تکلیف دی۔ یہ سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام لرز گئے۔ روزی دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ استغفارکرنے لگے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام تمام مخلوقِ خدا کی دعوت کی خواہش رکھتے تھے، لیکن اپنا یہ حال تھا کہ خود گھر کا سارا کھانا ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے۔ ذریعہ ء معاش زنبیل ( بڑا تھیلا)سینا تھا، اس کو بیچ کر اپنا خرچ پورا کیا کرتے۔ جَو خرید کر لاتے، خود چکی پر پیستے۔ روٹی پکاتے اور کھاتے۔ ان کی عادت تھی کہ ہر شام بیت المقدس میں غریب و مسکین روزہ داروں کے ساتھ روزہ افطار کرتے۔ وہ اس بات پر ہمیشہ شکر گزار رہتے کہ یا اللہ تیرا کتنا کرم ہے کہ میں درویشوں کے ساتھ درویش اور بادشاہوں کے ساتھ بادشاہ ہوں اور پیغمبروں میں بھی شامل ہوں۔

٭٭٭

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بھوک نے بہت ستایا ہوا تھا، بے تاب ہو کر ایک دروازے پر دستک دے کر کہا کہ میں مسافر ہوں، مہمان ہوں اور بھوکا ہوں۔ خاتون نے انکار کیا کہ میں آپ کو گھر میں نہیں بلا سکتی، جب میرے شوہر روزگار سے واپس آئیں گے تب آپ کو کھانا کھلا دیا جائے گا، میں البتہ یہ کر سکتی ہوں کہ میرے باغ میں آپ یہ وقت گزار لیں۔ آپ باغ میں جا کر انتظار کرنے لگے، اسی کیفیت میں نیند نے آ لیا۔ باغ میں ایک ناگ کا بسیرا تھا، وہ آیا اور آپ کی حفاظت کے لیے، آپ کے گرد چکر لگانے لگا۔ شوہر باغ کے قریب سے گزراتو یہ نظارہ دیکھ کر حیران رہ گیا، گھر آ کر بیوی سے ماجرا دریافت کیا۔ عورت نے ساری بات کہہ سنائی، شوہر اجنبی مہمان کو لینے باغ پہنچا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خوف ناک اور انتہائی زہریلا ناگ اب بھی ان کے قریب اس طرح موجود ہے جیسے کسی قیمتی خزانے کی حفاظت کر رہا ہو۔ جب آپ جاگے تو ناگ نہایت خاموشی سے اپنے بل کی طرف چلا گیا۔ آدمی جان گیا کہ اجنبی کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔ وہ آپ کو گھر لے گیا، بہت عزت سے تین دن مہمان داری کی۔

٭٭٭

اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بے مثل و بے نظیر حکومت عطا کی اور نبوت سے سرفراز کیا۔ بادشاہت و نبوت نعمت بھی ہے اور ذمہ داری بھی جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کی مدد و اعانت سے بخوبی نبا ہی۔ ایک مرتبہ آپ کا دربار لگا تھا۔ سبھی جن و بشر وحوش و طیور حاضر تھے کہ آپ کو کسی کی کمی کا احساس ہوا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

ترجمہ: ’’یہ کیا بات ہے کہ میں ہُد ہُد کو نہیں دیکھتا۔ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے۔ یقیناً میں اسے ایسی سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا۔ یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے‘‘             ۳۶؎

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جانوروں، پرندوں، جنوں اور انسانوں کا ایک مہیب لشکر، اس میں ایک چھوٹے سے پرندے ہُد ہُد کے نہ ہونے سے بھی آپ آگاہ ہیں، پھر یہ کہ شاہانہ انداز میں یہ کہنا کہ اگر وہ واقعی موجود نہیں ہے تو میں اسے سزا دوں گا۔ پھر ان سزاؤں کا ذکر جو وہ اُسے دے سکتے تھے۔ یہ بیان اس لیے بھی کہ دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو اور پھر شاہانہ انداز کے ساتھ ساتھ ایک نبی کا مطمع نظر بھی کہ اگر اپنی غیر حاضری کا کوئی جواز پیش کرتا ہے، تو وہ قابلِ معافی ہے۔

ابھی اس کی غیر حاضری کا ذکر ہو ہی رہا تھا کہ ہُد ہُد پہنچ گیا۔ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا کہ میں ایک ایسی خبر لایا ہوں جو آپ کے لیے بالکل نئی ہو گی اور وہ خبر ملک سبا سے متعلق ہے۔

سبا ایک شخص کے نام پر قوم تھی اور یہ ایک مقام کا نام بھی تھا۔ یہاں سبا سے مراد ملک ہی ہے جو جزیرہ عرب کے جنوب میں ہے۔ پھر قحطانی نسل کی ایک مشہور شاخ سبا ہے۔ بعض روایتوں میں عبدالشمس نام کا شخص اپنے قبیلے کا جدِ امجد تھا جو سبا لقب امتیاز کرتا تھا۔ یہ شخص بہت بہادر تھا اور زبردست جنگی فتوحات کے نتیجے میں اس نے سبا حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس کا زمانۂ عروج ۱۱۰۰ء؁ ق۔ م ہے اور اس کا ذکر زبور میں بھی موجود ہے۔ سبا کی حکومت کا اصل مرکز عرب کے جنوبی حصے یمن کے مشرقی علاقہ میں تھا اور دارالحکومت کا نام مارب تھا۔ آہستہ آہستہ اس کا دائرہ وسیع ہو کر مغرب میں حضر موت تک وسیع ہو گیا۔ دوسری جانب افریقہ تک اس کا دائرہ اثر پھیل گیا۔ سلطنت سبا نے یمن اور اطراف یمن میں مضبوط قلعے بنا لیے۔ سبا کی مختلف شاخیں تھیں جو بعد ازاں یمن کو مرکز بنا کر ایک عظیم الشان سلطنت کی صورت میں سامنے آئیں۔ سبا کے حکمران ملوکِ سبا کے لقب سے مشہور ہیں اور ملوک سبا کا آخری دور ۵۵ ق۔ م ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی نسل کے لیے دعا کی کہ سبا کا سونا اسے دیا جائے۔ یہ دعا قبول ہوئی۔ ملکہ سبا نے ۹۵۰ قبل مسیح، حاضرِ دربار ہو کر سونا چاندی نذر کیا، بلکہ مسلمان ہو کر اپنی حکومت بھی سلیمان علیہ السلام کے سپرد کر دی۔

ہُد ہُد نے سچی خبر کی اطلاع یوں دی کہ ملک سبا کی حکمران ایک عورت ہے۔ جس کا نام بلقیس بنت شرجیل ہے۔ ہُد ہُد کے لیے یہ امر باعثِ حیرت تھا کہ عورت ایک عظیم الشان سلطنت کی حکمران ہے۔ ہُد ہُد بڑے ڈرامائی انداز میں روداد بیان کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سب کا دھیان اس قصے کی طرف چلا جائے اور اس کی غیر حاضری کا سوال پسِ پشت جا پڑے اور اس کی گفتگو کا انداز ایسا تھا کہ بادشاہ بھی دیگر اہلِ دربار کے ساتھ ساتھ اس کی بات سننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہُد ہُد بتاتا ہے کہ وہ ایک نہایت ذہین خوبصورت عورت ہے۔ اس کا باپ شرجیل بن مالک یمن کا بادشاہ تھا۔ ابن جریج کے مطابق باپ کا نام ذی شرح اور ماں کا نام بلتعہ تھا۔ حضرت قتادہ ؓکہتے ہیں کہ اس کی ماں جنیہ عورت تھی۔ اس کے قدم کا پچھلا حصہ چوپائے کے کھر جیسا تھا۔ اس کی ماں کا نام فارعہ تھا۔ ملکہ بلقیس سبا اعلیٰ درجے کی ذہین مدبر اور دور اندیش حکمران خاتون ہے جو مصلحت پسند بھی ہے اور حالات کو سنبھالنے کا شعور بھی رکھتی ہے۔

٭٭٭

قرآن حکیم میں ملکہ سبا کا نام موجود نہیں ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ وہ سلطنت سبا یمن، حبشہ یا شمالی عرب کے کس حصے سے آئی۔ بلقیس، اسرائیلی داستانوں میں رقم ہے۔ وہ ایک عظیم الشان محل میں رہتی ہے۔ اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے۔ سونے سے منڈھا ہوا۔ مروارید و جواہرات سے سجا ہوا طول ۸۰ ہاتھ عرض ۴۰ ہاتھ اور اونچائی ۳۰ ہاتھ۔ سرخ و سبز یاقوت و زمرد جڑے ہوئے ہیں، جو اس کی عظمت، عیش و ثروت اور صنعت و فن کی ترقی کا عمدہ نمونہ ہے۔

ہُد ہُد نے تخت کے بیان میں کسی قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کیونکہ ملکہ بلقیس سبا کے محل کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ وہاں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہ تھی۔ اس کے مشیر وزیروں کی تعداد ۳۱۲ ہے، جن کے تابع بارہ ہزار سردار قوم ہیں اور ہر ہر سردار کے تابع ایک ایک لاکھ سوار، پیادہ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ملکہ اور اس کی قوم بے دین ہے اور آفتاب پرست ہے، چنانچہ میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا۔ شیطان نے انھیں بھلائی کی راہ سے روک رکھا ہے۔ یعنی وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو جائز ہے۔ اس لیے وہ راہِ ہدایت پر نہیں آتے کہ اس اللہ کو سجدہ کریں جو زمین و آسمان کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے۔ آسمان سے بارش برساتا ہے اور زمین سے چھپے ہوئے خزانے نباتات و معدنیات کی صورت میں ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ چھپایا جاتا ہے یا ظاہر کیا جاتا ہے۔ وہ سبھی سے آگاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے۔

حضرت سلیمان اپنی رعایا کے بظاہر ایک معمولی فرد، ہُد ہُد کے منہ سے اللہ کی وحدانیت کے بارے میں سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ ہُد ہُد نے توحید کے متعلق وعظ کیا اور شرک کو رد کیا۔ اللہ کی عظمت بیان کی۔ حضرت سلیمان جان گئے کہ یہ ہُد ہُد دیگر صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ادراک و فہم اور ایمان و یقین کی قوت بھی رکھتا ہے۔

ہُد ہُد خیر کی طرف بلانے والا۔ غیر اللہ کو سجدے سے روکنے والا، اس لیے اس کے قتل کی ممانعت کی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُد ہد اور صرو یعنی لٹورا کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔

حضرت سلیما ن ہُد ہُد کا ملکہ بلقیس سبا اور اس کی قوم کے متعلق بیان سن کر کہنے لگے کہ اب مجھے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ تو سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے۔ میرے اس خط کو لے جا کر ملکہ بلقیس کو دے دے اور پھر ان کے پاس سے ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ ہُد ہُد اس خط کو اپنی چونچ میں دبا کر اڑا اور ملکہ بلقیس سبا کے محل میں پہنچ گیا۔ ملکہ اس وقت خلوت خانہ میں تھی۔ ہُد ہُد نے نہایت خاموشی اور احتیاط کے ساتھ خط اس کے سامنے اس طرح ڈالا کہ وہ جان نہ پائی کہ خط کہاں سے آیا ہے۔ کون لایا ہے۔ اپنی گود میں پڑے خط کو دیکھ کر وہ متعجب بھی ہوئی اور خوفزدہ بھی لیکن اتنا اندازہ اسے ضرور ہو گیا کہ یہ کوئی عام خط نہیں ہے۔ خط معزز و مکرم ہے کیونکہ اس پر مہر بھی لگی ہوئی ہے۔ اس خط میں، خط لکھنے کے تمام اصول برتے گئے تھے۔ خط لکھنے کے لیے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ خط کا آغاز ہی اس طرح ہو کہ خط لکھنے والے کا نام پتہ مکتوب الیہ کے علم میں آ جائے کہ اسے کسی نے خط لکھا ہے۔ پھر اہم بات یہ کہ خط کا آغاز اللہ تعالیٰ کے پاک اور بابرکت نام سے کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے پہلے کسی نے خط میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں آپﷺ کے ہمراہ جا رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں جو مجھ سے پہلے سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے بعد کسی نبی پر نہیں اتری۔ میں نے استفسار کیا وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘

خط مختصر لیکن بلیغ انداز میں تحریر کیا گیا تھا۔ خط سے شاہانہ انداز ہی نہیں پیغمبرانہ شان بھی ظاہر ہوتی تھی۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ابتدا اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ سرکشی چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کرو۔ یہ کسی بادشاہ کا ہی نہیں بلکہ پیغمبر کا دعوت نامہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔ ملکہ عقل مند تھی۔ معاملات کو کس طرح طے کیا جائے، بخوبی جانتی تھی۔ وہ با اختیار بھی تھی اس کا فیصلہ اس کے اہل دربار کے لیے رد کرنا ممکن نہ تھا۔ پھر بھی اس نے مصلحتاً اپنا فیصلہ سنانے کے بجائے اہلِ دربار سے مشورہ ضروری جانا۔ چنانچہ اپنے تمام سرداروں کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ اے سردارو! میری طرف ایک بہت ہی اہم اور وقعت والا خط ڈالا گیا ہے۔ جس میں مسلمان ہونے اور تابع فرمان بننے کی دعوت دی گئی ہے۔ تم سب جانتے ہو کہ میں کوئی فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی۔ تم رائے دو کہ ہمیں کیآ کرنا چاہیے۔ تمام اہل دربار نے جواب دیا۔

’’ ہمارے پاس طاقت و قوت کی کمی نہیں اسلحہ اور سامان حرب بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ہم بہادر و شجاع بھی ہیں۔ میدان جنگ میں نہایت جرأت، پامردی کے ساتھ لڑتے ہیں۔ اس لیے ہمیں خوف زدہ ہونے یا جھکنے کی ضرورت نہیں، ہماری طاقت مسلم ہے۔ ہم ہر قسم کے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ اب جو آپ کا حکم ہو۔ ہم آپ کے فرماں بردار ہیں۔ ‘‘

ملکہ بلقیس سبا خط سے اندازہ کر چکی تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے اس کے لشکر کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر جنگ کی نوبت آئی تو تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اس نے اپنے سرداروں سے کہا

’’ جب بیرونی حملہ آور کسی بستی پر حملہ کرتے ہیں تو اسے اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ وہاں کے با عزت لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔ اپنا رعب و دبدبہ اور شان و شوکت قائم کرنے کے لیے ہر تدبیر کی جاتی ہے۔ قتل و غارت گری کی انتہا کر دی جاتی ہے۔ کھیتیاں جلا دی جاتی ہیں۔ گھر ویران کر دیے جاتے ہیں۔ رعایا کو مفلوج کر دیا جاتا ہے، سپاہیوں کو قیدی بنا لیا جاتا ہے، کیوں نہ کوشش کی جائے کہ اس عمل سے بچا جائے۔ ‘‘

اس کا طریقہ یوں نکلا کہ فیصلہ کیا گیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں گراں بہا ہدیے اور تحائف بھیجے جائیں۔ اس سے ملکہ کا مقصود یہ بھی تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی آزمائش بھی ہو جائے گی۔ اگر وہ تحائف لے کر راضی ہو گئے تو یہ اس امر کی علامت ہو گی کہ وہ ایک بادشاہ ہیں اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے دنیوی وسائل کام دے سکیں گے اور اگر وہ واقعی نبی ہیں تو ان تحائف کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ ہو گی۔ ان کا ہدیہ قبول نہ کرنا اس امر کی طرف اشارہ ہو گا کہ ہمیں بھی اطاعت کیے بغیر چارہ نہیں۔

ملکہ نے تحائف تیار کرائے۔ ان تحائف کی تفصیلات مختلف مقامات پر مختلف درج کی گئی ہیں۔ اسرائیلی روایات کے مطابق سونے کی اینٹیں، جواہرات اور قیمتی برتن تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک سو غلام اور ایک سو کنیزیں بھی ہمراہ تھیں۔ کنیزیں مردانہ اور غلام زنانہ لباس میں ملبوس تھے۔ مطلوب اس سے یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کی جائے۔ اگر وہ پہچان لیتے ہیں تو نبی ہیں ورنہ محض ایک بادشاہ۔ جب یہ تحائف ملکہ بلقیس سبا کے قاصد لے کر آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے تمام مہمانوں کو وضو کر کے تازہ دم ہونے کے لیے کہا۔ لڑکیوں نے برتن سے پانی بہا کر ہاتھ دھوئے جبکہ لڑکوں نے برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا۔ یوں آپ پہچان گئے کہ اول الذکر لڑکیاں اور ثانی الذکر لڑکے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک گروہ نے کہنیوں سے ہاتھ دھونا شروع کیے اور انگلیوں تک آیا، جبکہ دوسرے گروہ نے انگلیوں سے شروع ہو کر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے۔ بہرحال حضرت سلیمان نے دونوں کو الگ الگ پہچان لیا۔ اسرائیلی روایات کے مطابق ملکہ بلقیس سبا نے اپنے خط میں چند آزمائشی سوالات بھی کیے تھے۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ملکہ نے ایک برتن بھی بھیجا جس کے لیے فرمائش تھی کہ اسے ایسے پانی سے بھرا جائے جو زمین کا ہو نہ آسمان کا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی فرمائش یوں پوری کی کہ گھوڑے دوڑائے اور ان کے پسینے کے قطرے اس برتن میں جمع کروا دیے۔

٭٭٭

ملکہ سبا نے حضرت سلیمان کے لیے کچھ اور بھی آزمائشیں تیار کی تھیں، اپنے غلاموں سے کہا تھا کہ یہ ایک موتی، جس میں سوراخ نہیں ہے، ان کی خدمت میں پیش کرنا کہ اس میں جنوں اور انسانوں کی مدد کے بغیر دھاگا ڈال دیں۔ دوسرے موتی میں سوراخ ٹیڑھا ہے، اس میں بھی دھاگا ڈالنا ممکن نہیں، انھیں کہنا کہ اس میں دھاگا ڈال کر دکھائیں۔ اگر وہ ان سوالوں کو احمقانہ یا ناممکن سمجھ کر غصے میں آ گیا تو وہ ایک عام بادشاہ ہو گا اور اگر اس کا روّ یہ متحمل اور خوشگوار رہا تو جان لینا کہ وہ معمولی بادشاہ نہیں بلکہ نبی ہے، پھر اس کی بات توجہ سے سننا۔ قاصد حاضر ہوئے۔ آپ نے ڈبیا طلب کی، اس نے کہا کھولنے سے پہلے بتائیے، اس میں کیا ہے۔ حضرت جبرئیل نے مدد کی آپ نے فرمایا :

’’ ایک موتی بغیر سوراخ کے، ایک موتی ٹیڑھے سوراخ والا ‘‘

’’ ان دو نوں میں دھاگاڈال دو۔ ‘‘

آپ نے اپنے درباریوں سے فرمایا، موتی میں سوراخ کون کرے گا، دیمک نے یہ کام اپنے ذمے لیا، اپنے منہ میں ایک بال لیا اور موتی میں ایک سرے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گیا۔ آپ نے دیمک سے خوش ہو کر فرمایا، تمھاری کوئی حاجت ہو تو بیان کرو۔ اس نے کہا ’’ اے نبی، میرا رزق درختوں میں کر دے۔ ‘‘ آپ نے اس کی فرمائش پوری کی۔ پھر آپ نے ٹیڑھے سوراخ والے موتی کو سامنے رکھا اور کہا کہ اس میں دھاگا کون ڈالے گا، ، سفید کیڑے نے بڑھ کر کہا میں یہ کام کروں گا، ، اس نے دھاگا اپنے منہ میں لیا اور ایک طرف سے جا کر دوسرے سے نکل گیا۔ آپ نے اس کیڑے سے اس کی حاجت پوچھی، اس نے کہا۔ اے اللہ کے نبی، میرا رزق پھلوں میں رکھ دو۔ اس کی فرمائش بھی رہتی دنیا تک کے لیے پوری کر دی گئی۔ ۳۷ ؎

قاصد تو اس سے پہلے ہی آپ سے مرعوب ہو چکے تھے، جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے قاصدوں کے استقبال کے لیے دربار سے نوفر سخ یعنی کوئی تیس میل کی مسافت میں سونے چاندی کی اینٹوں کے فرش بنانے کا حکم دیا۔ راستے میں دونوں طرف عجیب الخلقت جانوروں کو کھڑا کر دیا۔ دربار کو بھی از سرِ نو ترتیب دیا۔ اپنے تخت کے دائیں بائیں چار چار ہزار سونے کی کرسیاں، ایک طرف علما اور دانشوروں کے لیے، دوسری جانب وزرا اور عمال سلطنت کے لیے بچھا دی گئیں، چنانچہ جب قاصد آئے تو انھوں نے سونے کی اینٹوں پر جانوروں کو کھڑا دیکھا۔ آگے آگے طیور کی قطاریں تھی۔ پھر جنات کی صفیں تھیں۔ وہ راستے میں ہی حیرت زدہ ہو گئے تھے۔ دربار پہنچے تو وہاں کی شان و شوکت دیکھ کر دنگ رہ گئے اور جب حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو شاہانہ کروفر کے باوجود آپ علیہ السلام خندہ پیشانی سے پیش آئے۔

٭٭٭

قاصدوں نے بیش قیمت تحائف نذر کیے تو آپ نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہے۔ یہ مال ودولت میرے لیے بے معنی ہے۔ تم مجھے یہ بے وقعت اور معمولی تحائف دے رہے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت سے سرفراز کیا ہے، پھر جنوں پرندوں اور ہواؤں کو میرے لیے مسخر کیا ہے۔ میری بادشاہت کی شان و شوکت تم دیکھ ہی رہے ہو۔ اس دنیاوی سازو سامان کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تم اپنے یہ تحائف واپس لے جاؤ اور ایک خطرناک انجام کا انتظار کرو۔ میں انسانوں ہی کی نہیں بلکہ جنوں اور پرندوں کی فوجیں لے کر حملہ آور ہوں گا، جن کا تم مقابلہ نہ کر پاؤ گے۔ تم اپنے ہدیے پر فخر کرو اور اسے اپنے ہمراہ لے کر لوٹ جاؤ۔

قاصد حیران و مبہوت ہو کر واپس ہوئے۔ حضرت سلیمان کے دربار کے احوال کے علاوہ ان کا اعلانِ جنگ بھی ملکہ کو سنا دیا۔ ملکہ جان گئی تھی کہ وہ بادشاہ کے علاوہ نبی بھی ہیں اور اللہ کے نبی اور رسول سے لڑنا گویا اللہ سے مقابلہ کرنا ہے۔ جس کی جرأت ہم میں نہیں ہے۔

ملکہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضری دینے کا فیصلہ کیا۔  کہا جاتا ہے کہ اس نے بارہ ہزار سردار منتخب کیے جن کے تحت ایک ایک لاکھ سپاہی تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دور سے غبار اٹھتا دیکھا تو جان گئے کہ ملکہ بلقیس سبا اپنے ساتھیوں کے ساتھ آ رہی ہے اور مطیع ہو کر آ رہی ہے۔ اس وقت وہ محل سے تین میل کے فاصلے پر تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ وہ میرے دربار کی شان و شوکت کے ساتھ ساتھ پیغمبرانہ معجزہ بھی دیکھ لے۔ اس لیے آپ نے اپنی اس مجلس میں کہ جہاں آپ صبح سے دوپہر تک مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے تھے اور جہاں جن و انس سبھی شریک ہوا کرتے تھے، فرمایا کہ کیا ملکہ بلقیس سبا کا تخت جس کے بیش قیمت اور نادر ہونے کی بہت شہرت ہے، ملکہ کے میرے دربار میں پہنچنے سے پہلے کوئی یہاں لا سکتا ہے کیونکہ جب وہ یہاں آ جائے گی، ایمان لے آئے گی پھر اس کا مال ہم پر حرام ہو جائے گا۔

بہرحال ایک طاقتور اور سرکش جن جو ایک بڑے پہاڑ جتنی جسامت رکھتا تھا۔ وہ بول پڑا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کا دربار برخاست کرنے سے پہلے اس تخت کو اٹھا کر یہاں لا سکتا ہوں۔ پھر آپ جانتے ہیں کہ میں بہت امانت دار ہوں۔ ا س ہیرے جواہرات سے مزین تخت سے کوئی چیز چراؤں گا نہیں۔

ظاہر ہے کہ جن انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتیں رکھتا ہے۔ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ بیت المقدس سے مآرب (یمن) جائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ دو چار گھنٹوں میں طے کر کے تخت یہاں پہنچائے اور تخت بھی کوئی عام معمولی نہیں۔ نہایت وسیع و عریض اور وزنی جسے اٹھانا فردِ واحد کے بس کی بات نہیں اور پھر تخت بھی وہ جو ملکہ نے سب سے زیادہ حفاظت کے ساتھ سات شاہی محلات کے وسط میں ایک محفوظ محل میں مقفل کر رکھا تھا۔ جہاں خود اس کے لوگوں کی رسائی ممکن نہ تھی۔

مجلس شوریٰ میں موجود ایک شخص بول اٹھا، یہ وہ شخص تھا کہ جسے کتاب کا علم عطا کیا گیا تھا کہ آپ کے پلک جھپکنے سے بیشتر میں تخت، آپ کی خدمت میں حاضر کر سکتا ہوں۔ یہاں چند سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں یہ کون شخص تھا؟ کتاب کون سی تھی؟ علم کیا تھا؟ بعض افراد کا خیال ہے کہ یہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ’’ علم سے نوازا تھا‘‘ اور وہ معجزہ دکھا سکتے تھے۔ بعض مقامات پر اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقرب صحابی بتایا گیا ہے۔ اس کا نام آصف بن برخیا درج ہے، جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے معتمد خاص اور وزیر تھے اور نسل انسانی سے تعلق رکھتے تھے۔ ۳۸؎

ابن عباس ؓ کے مطابق آپ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کاتب تھے، آپ کے خالہ زاد تھے، ولی اللہ تھے اور اسم اعظم جانتے تھے۔ کتاب کا علم سے مراد غالباً اسم اعظم کا علم ہے یعنی تورات اور بعض کے نزدیک اس علم سے مراد درباری رجسٹر اور سرکاری دفتر مراد ہے۔ یعنی آصف برخیا کو ہدایا کے دفتر کے امین ہونے کی وجہ سے یہ علم تھا کہ وہ تخت محل کے کسی حصے میں محفوظ ہے۔

یہ بات البتہ ہو سکتی ہے کہ اللہ نے انھیں کرامت بخشی تھی کہ جس کے سبب انھوں نے جن کی مختصر مہلت کو بھی طویل جانا اور کہا کہ میں پلک جھپکنے میں تخت حاضر کر سکتا ہوں، چنانچہ لمحہ بھر بعد ہی حضرت سلیمان علیہ السلام نے تخت اپنے سامنے موجود پایا۔ تمام اہلِ دربار حیرت زدہ رہ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جس کرسی پر پاؤں رکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام تخت شاہی پر چڑھے تھے اس کے نیچے سے بلقیس سبا کا تخت نکل آیا تو آپ نے فرمایاکہ یہ میرے رب کا فضل ہے جو مجھے آزمانا چاہتا ہے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا بے پروا رہتا ہوں۔ لمحہ بھر میں تخت کی یہاں موجودگی میں میرا یا آصف برخیا کا کوئی کمال نہیں۔ یہ سب اسی کی عطا ہے۔ بہرحال تخت پہنچ گیا۔ آپ علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس تخت کی ہئیت تھوڑی بہت تبدیلی کر دی جائے۔ کچھ ہیرے جواہرات بدل دو۔ رنگ و روغن تبدیل کر دو تاکہ جب وہ یہاں پہنچے تو دیکھا جائے کہ آیا وہ اپنے تخت کو پہچانتی ہے۔ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ نہیں کہ یہ تخت اسی کا ہے۔ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر وہ راہِ ہدایت پاتی ہے یا نہیں۔

ملکہ بلقیس سبا دربار سلیمان میں حاضر ہوئی۔ وہ اپنی طرف سے بڑی شان و شوکت اور فخر و ناز کے ساتھ اونٹوں کے ایک قافلے کے ساتھ جس پر عود و عنبر، خوشبویات لدی تھیں، بہت سا سونا اور ہیرے جواہرات لے کر یروشلم آئی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچی تو یقیناً یہ امر اس کے لیے حیران کن تھا کہ اس کے سامنے موجود تخت تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اس کا اپنا تھا۔ مگر یہ یہاں کیسے آ گیا؟…..کہاں یروشلم، کہاں سبا کا علاقہ، اس کا محل، اس کے محافظ اور کہاں کڑے پہرے میں اس کا تخت۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس شدید پہرے کے باوجود تخت یہاں بیت المقدس میں … حضرت سلیمان علیہ السلام کے دارالسلطنت میں ….. اسے یہاں کون لا سکتا ہے….. کون لایا ہے۔ وہ ابھی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوال کیا کہ کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے؟ ملکہ بلقیس سبا واضح جواب دینے کی قدرت نہ رکھتی تھی۔ مبہم انداز میں بولی۔ گویا یہ وہی تخت ہے یعنی نہ انکار کیا نہ اقرار۔      محتاط جواب دے دیا اور یوں گویا ہوئی کہ ہم تو اس کرامت سے پہلے ہی آپ کی نبوت کے قائل ہو چکے تھے اور وہ جو مشکل سوالات کے جوابات کے حصول کے لیے آئی تھی، سبھی جوابات اسے عطا کیے گئے۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ کیسا ہے۔ یہ ایسا سوال تھا کہ آپ سجدے میں گر پڑے اور خدا تعالیٰ سے فریاد کی کہ اس نے ایسا سوال پوچھ لیا ہے کہ جس کا جواب میں تجھ سے دریافت کرنے کی جرأت نہیں پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے فکر ہو جاؤ۔ تمہارا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ آپ علیہ السلام سجدے سے اٹھے تو آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم نے کیا سوال کیا تھا۔ سبھی سوال فراموش کر چکے تھے۔ اب حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ نبوت کے معجزے تو وہ دیکھ چکی ہے۔ اب اسے ظاہری سلطنت اور جاہ و جلال بھی دکھا دیا جائے۔ ملکہ بلقیس سبا کی آمد کی خبر سن کر آپ جنوں کو ایک ایسے محل کی تعمیر کا حکم دے چکے تھے جو شیشے کی چمک لیے ہوئے تھا اور صنعت و حرفت کا بے مثل نمونہ۔ محل میں داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا حوض تیار کیا گیا تھا۔ جس میں پانی بھرا گیا تھا۔ اس پانی میں مچھلیاں اور دیگر آبی جانور موجود تھے۔ شفاف آبگینوں اور شیشوں سے اتنا خوبصورت فرش بنایا گیا تھا جو دیکھنے میں تالاب معلوم ہوتا تھا۔ وہ محل میں داخل ہونے لگی تو غیر ارادی طور پر پائنچے اٹھا لیے کہ کہیں اس کا لباس گیلا نہ ہو جائے۔ یعنی وہ بلور کے فرش کو پانی سمجھی۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے اب ملکہ نے اس محل کو، اس کے دسترخوان کی نعمتوں کو، اس کے ملازموں کو وحوش و طیور اور جن و انس کی اطاعت و فرماں برداری کو اور آپ علیہ السلام کی حکمت و نبوت کے کرشموں کو دیکھا تو اس کے ہوش جاتے رہے۔ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ شان و شوکت دیکھی تو اپنا محل اپنی سلطنت ہیچ نظر آنے لگی۔ اسے اپنا وہ محل جو نہایت وسیع و عریض، فنِ تعمیر کا نادر نمونہ تھا، حقیر نظر آنے لگا۔ اس محل کے مغربی و مشرقی حصے میں تین سو ساٹھ، تین سو ساٹھ طاق تھے اور ہر طاق اس انداز سے بنایا گیا تھا کہ ہر روز ایک طاق سے سورج طلوع ہوتا اور مغرب میں اس کے عین سامنے کے طاق سے غروب ہوتا اور دوسرے دن اس سے اگلے طاق سے طلوع ہوتا اور مغربی سمت اگلے طاق میں غروب ہوتا۔ چڑھتے ڈوبتے سورج کی پرستش، ان کا مذہب تھی۔ وہ اپنے محل کو دنیا کے عجائبات میں شمار کرتی رہی تھی، لیکن یہاں جو کچھ اس نے دیکھا تو کہنے پر مجبور ہو گئی کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے ترے کاموں اور تری حکمت کے بارے میں اپنے ملک میں سُنی تھی۔ میں نے ان پر بھی یقین نہ کیا تھا جب تک کہ میں نے یہاں آ کر خود نہ دیکھ لیا۔ بلکہ مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا۔ تیری شان و عظمت تو اس سے کہیں زیادہ ہے جو مجھے معلوم ہوئی تھی۔

ملکہ بلقیس سبا ذہانت و فطانت میں بے مثل تھی۔ وہ جان چکی تھی کہ اس شان و شوکت کا اظہار صرف اس لیے نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے بلکہ اس معجزانہ قدرت کا اظہار اس امر کی جانب اشارہ ہے، اس ہستی کی طرف بلاوا ہے کہ جو ہر چیز پر قادر ہے۔ یوں وہ اپنے شرک پر نادم ہوئی اور اقرار کیا کہ میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے رب کی فرماں بردار اور مطیع ہوتی ہوں۔

واضح رہے کہ اس دور میں عام رواج تھا کہ بادشاہ کا مذہب عوام کا مذہب ہوتا تھا۔ اس لیے ملکہ بلقیس سبا کے ایمان لانے کے ساتھ ہی اس کی پوری قوم بھی بہت ممکن ہے کہ ایمان لے آئی ہو۔

ملکہ بلقیس سبا کے ایمان لانے کے واقعے کے بعد کی تفصیل قرآن پاک میں موجود نہیں۔ مختلف روایات و تفاسیر اور اسرائیلی روایات میں رقم ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس سبا سے نکاح کر لیا تھا، لیکن اسے اس کے ملک پر برقرار رکھا تھا۔ چنانچہ اس کا قیام یمن میں ہی تھا۔ وہاں آپ نے ملکہ سبا کو تین شاندار محل تعمیر کروا کے دیے تھے۔ آپ علیہ السلام ہر ماہ تین روز وہاں قیام فرماتے۔ اہلِ حبشہ، ملکہ سبا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

 

               ہُد ہُد بحیثیت مہندس

 

مہندس عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی علمِ ہندسہ کا عالم اور ماہر اقلیدس کے ہیں۔ اس کے علاوہ نجومی اور جوتشی کو بھی مہندس کہا جاتا ہے۔ پرندوں کے متعلق عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فہم و شعور اور ادراک سے محروم ہوتے ہیں، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہُد ہُد، اشرف المخلوقات کی سی عقل اور شعورو ادراک رکھتا تھا۔ معاملہ فہمی، سلیقہ مندی اور احکامات کی تکمیل اس کے خاص اوصاف میں سے تھے۔ اس کی دیگر ذمہ داریوں میں سے ایک یہ فرض بھی اسے سونپا گیا تھا کہ دورانِ سفر جب پانی کی ضرورت ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی بصارت عطا کی تھی کہ جس زمین میں پانی ہوتا۔ وہ دور سے دیکھ کر بتا دیتا۔ تختِ شاہی وہیں اتارا جاتا۔ جہاں ہُد ہُد نشان بتاتا۔ پھر وہاں سے زمین کھود کر پانی نکال لیا جاتا اور ضرورت پوری کر لی جاتی۔ اسے یہ بھی علم ہوتا تھا کہ پانی کتنی کھدائی کرنے کے بعد نکلے گا۔ اسے زمین کے اندر کا پانی ایسے دکھائی دیتا، جیسا کہ زمین کے اوپر کی چیزیں دکھائی دیتی ہیں، اسی لیے مختلف مفسرین نے اسے مہندس پرندے کا نام دیا ہے۔

 

               نقش سلیمان علیہ السلام

 

حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جس پر اللہ کا نام کندہ تھا۔ جب آپ علیہ السلام غسل خانے جاتے تو وہ انگوٹھی اپنی بیوی جرادہ یا بعض روایات کے مطابق اپنی خادمہ امینہ کی حفاظت میں دے جاتے۔ ایک روز آپ غسل کے لیے تشریف لے گئے تو صخرہ نام کا شیطان جو آپ کا بہت مخالف تھا۔ وہ آپ کی شکل میں آیا اور آ پ کی بیوی سے انگوٹھی لے لی۔ انگوٹھی کا آپ سے جدا ہونا تھا کہ تخت و تاج اور سلطنت سبھی کچھ آپ کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ سب چیزوں پر شیطان کا قبضہ ہو گیا۔ آپ نہایت پریشانی کے عالم میں محل سے نکل گئے۔ اس شیطان نے چالیس دن حکومت کی۔ اصول و ضوابط اور احکام میں تبدیلی نے علما اور دیگر اہلِ دربار و اہل خانہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ سلیمان علیہ السلام نہیں اور اگر سلیمان علیہ السلام ہی ہیں تو کیا ان کا شعور و ادراک درست کام کر رہا ہے۔ علما نے اس کا حل یہ نکالا کہ تخت کے اردگرد تورات کھول کر بیٹھ گئے اور کلامِ الہٰی کی تلاوت شروع کر دی۔ شیطان کے چہار جانب خدا کا کلام پڑھنے سے وہ تیزی سے بھاگ نکلا اور انگوٹھی سمندر میں پھینک دی۔ ادھر سلیمان علیہ السلام چلتے چلتے مچھیروں کی بستی کی طرف جا نکلے تھے اور مچھیرے کے ہاں ملازمت کر لی۔ دن بھر کے کام کاج کے بعد اجرت کے طور پر آپ کو دو مچھلیاں دی جاتیں۔ ایک روزآپ علیہ السلام بھوک سے بے حال ہو رہے تھے جلدی سے مچھلی صاف کرنے کے لیے اس کا پیٹ چاک کیا تو مچھلی کے پیٹ سے انگوٹھی نکل آئی۔ انگوٹھی کا ملنا تھا کہ اسی لمحہ پرندوں کے جھنڈ نے آ کر آپ پر سایہ کر لیا۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ عوام و خواص نے آپ علیہ السلام کو پہچان لیا اور معذرت طلب کی۔ بہرحال آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش جانا۔

٭٭٭

صدیوں پرانے تختِ سلیمان کی جدید ارتقائی صورت ہم آج کے تیز ترین خلائی راکٹوں اور جیٹ طیاروں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

مختلف تفاسیر اور اسرائیلی روایتوں میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ اورنگ سلیمان، تختِ سلیمان یا کرسی ء سلیمان کے متعلق تفسیر ابنِ کثیر میں رقم ہے کہ یہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا تھا۔ قیمتی ہیرے جواہرات، یاقوت اصل فیروزہ اور زمرد سے سجا ہوا تھا۔ چاروں طرف سونے کی اینٹوں سے حاشیہ بنا ہوا تھا۔ چاروں کونوں پر چاندی کے درخت اور سونے کی ڈالیاں تھیں۔ پتے زمرد کے تھے۔ خوشے موتیوں سے لدے ہوئے تھے جو انگوروں کے خوشوں سے مماثل تھے۔ ہر درخت پر طوطی اور مور موجود تھے۔ بعض مقامات پر سونے کے گدھ کی موجودگی بھی بیان کی گئی ہے۔ تختِ سلیمان کے حدود اربعہ کا تعین بھی کچھ آسان نہیں۔ بعض مقامات پر اس کی لمبائی تین سو کوس بتائی گئی ہے۔

تخت کی سجاوٹ اور طول و عرض کے سلسلے میں جو مختلف روایتیں بیان کی گئی ہیں ان میں مبالغہ بلکہ غلوسے کام لیا گیا محسوس ہوتا ہے۔

قرآن پاک میں اس کی حقیقت یوں واضح کی گئی ہے کہ جب آپ تخت شاہی پر قدم رکھتے تو وہ ہیبت سے حرکت میں آ جاتا۔ ہوا کو حکم دیتے۔ ہوا اُسے لے اُڑتی اور جہاں پہنچانے کا حکم دیا جاتا وہاں پہنچا دیتی۔ دوران سفر پرندوں کے جھنڈ پورے تخت پر اپنے پروں کا سایہ کیے رکھتے۔ شام سے یمن اور یمن سے شام ایک ماہ کی مسافت پر تھا، لیکن یہ تخت آدھے دن میں لے جاتا۔

٭٭٭

’’ہم نے داؤد کو سلیمان نامی فرزند عطا فرمایا۔ جو بہت خوب بندے تھے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ جب شام کے وقت ان کے سامنے خاص تیز دوڑنے والے گھوڑے پیش کیے گئے تو کہنے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی۔ یہاں تک کہ سورج پردے میں چھپ گیا۔ تو بولے کہ ان کو واپس لاؤ۔ پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ ‘‘ ۳۹ ؎

حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ ء بادشاہت میں ان کے سامنے شاہی اصطبل کے گھوڑے پیش کیے گئے۔ جہاد کی غرض سے پرورش کیے گئے ان گھوڑوں کی بہت دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ ایک قول کے مطابق ان کی تعداد بیس تھی۔ بعض روایات میں ان کی تعداد ایک ہزار ہے۔ ابراہیم تمیمی نے ا ن کی تعداد بیس ہزار بتائی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام ان گھوڑوں کے قدو قامت اور صحت دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور انھیں دیکھنے میں اس حد تک محو ہوئے کہ عصر کی نماز، وظیفے یا دُعا کا وقت نکل گیا۔ جب انھیں اس بات کا احساس ہوا تو بہت پشیمان ہوئے۔ اسی غم و غصے کی حالت میں دوبارہ گھوڑے منگوائے اور تمام گھوڑے ذبح کر دیے جو اس کوتاہی کا سبب بنے تھے کہ میں ایسی چیز اپنے پاس رکھنا ہی نہیں چاہتا، جو مجھے خدا کی یاد بھلا دے، چنانچہ ان کی کوچیں کاٹ دی گئیں۔ ان کی گردنیں مار دی گئیں۔ اللہ کی رضا اور محبت کے لیے بہترین گھوڑے، اظہارِ ندامت میں ذبح کرنے پر اللہ کو ان کی قربانی پسند آئی اور انھوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک اور ایسے انعام سے نوازا جو صرف انھی سے مخصوص ہے، یعنی ہوا ان کے لیے مسخر کی گئی۔ دوسری روایت جو حضرت حسن بصریؒ سے منسوب ہے، وہ یہ ہے کہ گھوڑوں کی دیکھ بھال میں نماز عصر ذہن سے محو ہو گئی۔ جب وقت نکل گیا تب یاد آیا۔ گھوڑوں کو اصطبل سے دوبارہ منگوایا اور ان کی گردنوں پر، پنڈلیوں پر ہولے ہولے مارنا شروع کیا اور فرمایا کہ آئندہ تم اللہ کی یاد میں مخل نہ ہونا۔

تیسری روایت عبداللہ بن عباس سے ہے، جہاں نماز عصر کے قضا ہونے کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑوں کا معائنہ کیا اور انھیں بہترین حالت میں پایا تو خوش ہو کر فرمایا کہ ان گھوڑوں سے میری محبت ایسی مالی محبت میں شامل ہے جو اللہ ہی کی یاد کا ایک حصہ ہے۔ گھوڑوں کے جانے کے بعد انھیں واپس بلایا تو صرف اس خیال سے کہ وہ جہاد میں شریک ہوں گے تو آلات جہاد سے مانوس کرنے کے لیے یہ آلات و ہتھیار ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر پھیرنے لگے کہ کہیں وقتِ جہاد، نامانوسیت کی بنا پر وہ ان سے خوفزدہ نہ ہو جائیں۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنی غفلت پر افسوس ہوا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا استغفار قبول ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں گھوڑوں سے کہیں زیادہ بہتر اور تیز رفتار سواری ہوا کی عطا فرما دی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا گیا تھا، جس کی مدد سے وہ جہاں چاہتے بہت جلد بغیر کسی مشکل اور مشقت کے آسانی سے پہنچ جاتے تھے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ پہاڑوں اور پرندوں کو ان کے لیے مسخر کر دیا گیا تھا۔ یعنی جب داؤد علیہ السلام تلاوت فرماتے تو پہاڑ اور پرندے خود بخود ان کی آواز میں آواز ملا کر تلاوت کرنے لگتے۔ ان کے حکم کے منتظر نہ رہتے، جبکہ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہوا کو مسخر کیا۔ ہوا ان کے حکم کے تابع تھی۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہیں جانا ہوتا، ہوا کو حکم دیا جاتا وہ وہاں پہنچا دیتی۔ جہاں آپ علیہ السلام اترنا چاہتے وہاں اتار دیتی۔ جب آپ علیہ السلام واپسی کا حکم دیتے آپ علیہ السلام کو مطلوبہ جگہ پہنچا دیتی۔

اورنگِ سلیمان یعنی تختِ سلیمان بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ایک بڑا انعام تھا۔ بعد کے قصہ کہانیوں میں اس نے جادوئی قالین کی صورت اختیار کر لی جو لمحوں میں مرکزی کردار کو اس کے مطلوبہ مقام پر پہنچا دیا کرتا۔ آج کی ترقی یافتہ سائنسی دنیا میں اس کی جگہ برق رفتار ہوائی جہازوں نے لے لی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا حکم ملتے ہی ہوا، اس عظیم الشان تخت کو لے اُڑتی اور جہاں پہنچانے کا حکم ہوتا، وہاں جا کر اتار دیتی۔ یہ ہوائی تخت صبح سے دوپہر تک ایک مہینے کی مسافت طے کر لیتا تھا اور دوپہر سے شام تک ایک مہینے کی۔ یعنی ایک دن میں وہ دو ماہ کی مسافت طے کر لیا کرتا تھا۔

ایک اہم صفت اس ہوا کی یہ تھی کہ یہ ہوا سخت اور تیز بھی تھی اور نرم اور ہلکی بھی۔ یہ دونوں متضاد صفات اس میں یکجا کر دی گئی تھیں۔ ہوا اپنی ذات میں بہت تیز اور سخت تھی۔ جس کے باعث مہینوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کر لیتی لیکن نرم ایسی کہ فضا میں گردوغبار اور تلاطم پیدا نہ ہوا کرتا۔ تخت ہوا کے زور پر روانہ ہوتا لیکن پرندے اس کی شدت سے محفوظ رہتے۔

امام رازیؒ کے مطابق حضرت سلیمان ایک مرتبہ شدید علیل ہوئے۔ حالت اس قدر غیر ہوئی کہ تخت پر بٹھائے گئے تو جسم بے روح معلوم ہو رہا تھا۔ جب اللہ نے انھیں صحت عطا کی تو انھوں نے پہلے اپنی مغفرت طلب کی اور پھر بے چارگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ دُعا کی۔

’’اور بے شک ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ڈال دیا ہم نے اس کی کرسی پر ایک جسم پھر وہ اللہ کی جانب رجوع ہوا۔ کہا اے پروردگار میری مغفرت کر اور مجھے ایسی بادشاہت عطا کر کہ میرے بعد کسی کے شایانِ شان نہ ہو۔ بے شک تو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔ ‘‘ ۴۰؎

 

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعا قبول کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سے انعامات اور اعزازات سے نوازا۔ وہ معجزے عطا کیے کہ جن کے سبب آپ علیہ السلام نے بنی نوع جن و انس کے لیے بے شمار مفید و تعمیری کام سرانجام دیے۔

’’ہم نے سمندروں کی بادِ تند سلیمان کے لیے مسخر کر دی تھی۔ ‘‘ ۴۱؎

ظاہر ہے یہ وہ عہد ہے کہ جب دخانی جہاز ابھی ایجاد نہ ہوئے تھے۔ سفر کا ذریعہ بالعموم خشکی کے جانور اونٹ گھوڑے تھے، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کو تسخیر ہوا کا معجزہ عطا ہوا تو بڑے بڑے بادبانی جہاز چلنے لگے۔ یوں سمندری ہوائیں بار برداری اور نقل و حرکت کے لیے مدد گار ثابت ہونے لگیں۔ بحری سیر و سفر کا ذریعہ یہی ہوائیں بنیں، جو مختلف سمتوں میں چلتی تھیں، جس طرح گھڑی کی سوئیاں ایک معین رفتار سے چلنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح ان ہواؤں کے اوقات کار اور سمتیں بھی معین تھیں، جن میں کبھی فرق نہ آیا۔ یہ بحری ہوائیں اتنی تندو تیز تھیں کہ بڑے بڑے بحری جہازوں کو لہروں کے دوش پر ادھر سے اُدھر اپنی متعین جگہ پر نہایت آسانی سے پہنچا دیتی تھیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہی وہ پہلے فرد تھے کہ جنھوں نے بحری سفر کا ذریعہ دریافت کیا اور اس سے مملکت کی فلاح و بہبود کا کام لیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں ہندوستان اور مغربی جزائر تک تجارتی آمدورفت کا ایسا سلسلہ بن گیا تھا کہ جس سے ملکی تجارت کو بہت وسعت ملی اور درآمدات و برآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ فلسطین کے مغرب و شمال میں بحرِ متوسط اور جنوب میں بحر احمر موجود ہے۔ ان دونوں سمتوں کے درمیان جہازوں کے سفر کے لیے متضاد سمتوں سے چلنے والی ہوائیں سفر آسان کر دیتیں۔

٭٭٭

حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بنی اسرائیل نے اپنی تحریف شدہ کتابوں میں جو الزام تراشیاں کیں اور بہتان لگائے، قرآن کریم میں ان کی واضح تردید کی گئی ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی معصومیت، عظمت، نیکی اور پاکیزگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو خدا کی طرف سے جو معجزے عطا ہوئے تھے۔ وہ صلاحیتیں اور استعداد جن سے تمام انسان محروم تھے، خدا نے انھیں بخش دی تھیں۔ قوم شیطان نے بنی اسرائیل کو راہ سے بھٹکانے کے لیے یہ الزام عائد کیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نعوذ باللہ جادو گر تھے۔ سحر اور ٹونے کے زور پر وہ اتنا عرصہ شاندار حکومت کرتے رہے۔ شیطان نے جنوں اور انسانوں کو طرح طرح کے بہکاوے دیے۔ جادو کے نئے نئے انداز سکھائے اور انھیں کتابی صورت میں بھی ترتیب دیا۔ نتیجتاً بنی اسرائیل تورات و زبور کو پسِ پشت ڈال کر اس جادو کی کتاب کو الہامی کتاب سمجھنے لگے۔ جادو سیکھنے اور سکھانے کا عمل تیز تر ہوتا گیا۔ وہ جو اہل شعور تھے، اہلِ ایمان تھے۔ انھوں نے اپنی قوم کو اس خرافات سے باز رکھنے کی کوشش کی تو انھوں نے جواب دیا کہ اس علم کو غلط کیسے کہا جا سکتا ہے، جو حضرت سلیمان علیہ السلام کا سکھایا ہوا ہے اور اسی علم کے زور پر وہ جن و انس اور وحوش و طیور پر اتنی شان سے حکومت کر گئے۔ ان خرافات کا آغاز حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں ہی ہو چکا تھا۔ یہ بات بھی پھیلا دی گئی تھی کہ جن علم غیب کے مالک ہیں، جبکہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے۔ جب یہ بات مشہور ہو گئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیاطین کی تمام تحریروں کو حاصل کر کے اپنے عظیم الشان تخت کے نیچے دفن کر دیا تاکہ کوئی اُن تک پہنچ نہ سکے اور وہاں سے انھیں نکالا نہ جا سکے۔ ساتھ ہی حضرت سلیمان علیہ السلام نے اعلان کیا کہ جو جنوں کو علمِ غیب کا جاننے والا مانے گا اور جادو پر عمل کرے گا، وہ واجب القتل ہے۔ اسی اثنا میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ شیاطین کو آزادی مل گئی۔ انھوں نے بغیر خوف کے وہ پلندہ جو جادو سے متعلق ان کے تخت کے نیچے دفن تھا، نکال لیا اور مشہور کر دیا کہ یہ دیکھو یہ جادو کا علم ہمارا نہیں بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہے اور اسی کے زور پر وہ ہواؤں کو تسخیر کرتے، جنوں کو تابع رکھتے اور پرندوں سے گفتگو کر لیا کرتے تھے۔ یوں شیاطین نے جادو کے برحق ہونے کا جواز پیدا کر لیا۔ اب ایسے میں کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور دیگر کوئی نبی ان کی راہِ ہدایت کے لیے ابھی سامنے نہیں آیا۔ قوم کے بگڑنے کے امکانات بڑھتے جا رہے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی آزمائش کے لیے بابل کے مقام پر ہاروت و ماروت نام کے دو فرشتے نازل کیے۔ یہ دونوں فرشتے جادو کے علم میں اور علوی علم الاسرار یعنی اسمائے صفات الہٰی کے علم میں فرق بتاتے تھے۔ جب وہ بنی اسرائیل پر علوی علم الاسرار کے معنی و مفاہیم واضح کر دیتے تو کہتے کہ اب جبکہ تم حق و باطل کا فرق جان چکے ہو۔ اب اگر تم اللہ کے علم کو نظر انداز کر کے سحر کی طرف راغب ہو گے تو پھر یقینی طور پر کفر کے مرتکب ہو گے، لیکن بنی اسرائیل کی فطرت، اپنی روایات پر قائم رہی اور حق کو باطل کے ساتھ ملانے لگی۔ وہ بنی اسرائیل کو یہ کہہ کر جادو سکھاتے کہ تم سیکھنا چاہتے ہو تو ضرور سیکھو۔ مگر تم اسے سیکھو گے، اس پر عمل کرو گے تو کافر ہو جاؤ گے اور جب بنی اسرائیل اصرار کرتے تو انھیں وہ مشہور جادو سکھا دیتے جس کے باعث شوہر اور بیوی میں تفریق ہو جاتی اور لڑائی جھگڑے بڑھنے لگتے۔

اسرائیلی روایات میں یہ بات یوں بیان کی جاتی ہے کہ ہاروت و ماروت نامی فرشتوں نے اللہ کے سامنے اس کی مخلوق جو تمام مخلوقات میں اشرف ہے، کا مذاق اڑایا کہ یہ انسان تیری کیسی مخلوق ہے کہ تیری عطا کی ہوئی نعمتوں کے بدلے شکر اور اطاعت و عبادت کرنے کی بجائے تیری نافرمانی کرتی ہے۔ اللہ کو یہ انداز پسند نہ آیا۔ اس نے کہا کہ دنیا جگہ ہی ایسی ہے۔ اگر تم دنیا میں ہوتے تو تم بھی یہی کچھ کرتے۔

فرشتوں نے خود پر اعتماد ظاہر کیا اور کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔ تب دنیا کی آزمائش گاہ میں ان دونوں کو اتارا گیا۔ یہاں وہ ایک حسین عورت زہرہ کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ اس نے شراب نوشی، بت پرستی اور قتل و غارت گری، شرطِ دوستی رکھی۔ جس پر انھوں نے یہ تمام کام کیے۔ زہرہ نے ان سے آسمان کی طرف پرواز کرنے کا اسمِ اعظم سیکھا۔ اسے پڑھ کر وہ آسمان پر چلی گئی اور یہ دونوں فرشتے خدا کے عذاب سے بچ نہ سکے اور بابل کے کنویں میں قید الٹے لٹکے ہوئے ہیں اور جادو سیکھنے والوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ تمام تفصیلات بنی اسرائیل نے گھڑی ہیں جبکہ قرآن پاک میں صرف اتنا بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر جادو کی نسبت الزام تراشی کی ہے جبکہ یہ کام شیاطین کا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا نہ تھا۔

٭٭٭

اللہ تعالیٰ نے اجنہ کو وہ قوت و طاقت عطا کی ہے جس کے باعث وہ سخت سے سخت کام سر انجام دے لیتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب یہ ارادہ کیا کہ ہیکل کے ارد گرد ایک شہر بسایا جائے اور ہیکل کی تعمیر بھی از سرِ نو شایانِ شان طریقے سے کی جائے۔ تعمیر شہر اور ہیکل کے لیے بیش قیمت بھاری پتھروں کی ضرورت تھی۔ یہ کام جن ہی کر سکتے تھے۔ آمدو رفت کے وسائل کے بغیر وہ یہ بھاری اور قیمتی پتھر دور دراز سے اکٹھے کر کے لاتے اور تعمیر شہر اور ہیکل میں صرف کرتے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام فنِ تعمیر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ پر شکوہ عمارات، عظیم الشان قلعے اور عبادت گاہوں کے لیے ضروری تھا کہ ان کی پائداری و استحکام میں کوئی شبہ نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تعمیرات کی مضبوطی کے لیے گارے چونے کے بجائے پگھلی ہوئی دھات استعمال کرنا چاہتے تھے، لیکن اتنی بڑی تعداد میں دھات کہاں سے میسر آئے پھر اسے پگھلایا کیسے جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے آسانی پیدا کی اور انھیں پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے عطا کیے۔ والد کے ہاتھ میں لوہا موم ہو جاتا تھا اور فرزند کو پگھلے ہوئے تانبے کے ذخیرے مل گئے کہ تانبا پگھلانا بھی آسان نہیں اور پھر یہ گرم بھی نہ تھا، تاکہ آسانی سے اس سے برتن اور دوسرے آلات بنا لیے جائیں۔ یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان چشموں سے آگاہ کیا، جن کا تانبا پانی کی طرح مائع حالت میں تھا۔ اس سے پہلے یہ چشمے کسی کے علم میں نہ تھے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایات ہے کہ یہ چشمہ اتنی دور جاری ہوا، جس کی مسافت تین دن اور تین رات میں طے ہو سکے۔ یہ چشمے یمن میں تھے۔ حضرت عابدؓ سے روایات ہے کہ یمن سے جاری اس چشمے سے تین دن اور تین رات کی مسافت تک، پگھلا ہوا تانبا بہتا رہا۔

٭٭٭

حضرت سلیمان کی فن تعمیر سے دلچسپی نے ان کی رعایا کو رہائشی سہولتیں مہیا کیں۔ آپ نے کئی شہر بنائے اور بسائے، چنانچہ تاریخ میں آپ کے آباد کیے گئے شہروں میں ملو، حاصور، مجدد، غرتر، بیت حوران، بعلوت اور تدمور کا ذکر ملتا ہے۔ وہ حفاظتی نقطہء نگاہ سے ہر شہر کی فصیل یا شہرپناہ ضرور بنواتے پھر ان عمارات پر نقاشی کا کام بھی دیکھنے کے قابل ہوتا، پوری پوری دیواروں پر شیروں، بیلوں اور فرشتوں کی تمثیلیں بنائی جاتیں، جو اپنی مثال آپ ہوتیں۔ ۲ ؎ ۴۔

٭٭٭

حضرت قتادہؒ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بیت المقدس کی تعمیر کا حکم ہوا تو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ لوہے کی آواز سنی نہ جائے۔ آپ نے کئی تدابیر کیں جو ناکام رہیں۔ تعمیراتی شور اٹھتا ہی رہا۔ آپ نے سنا کہ سمندر میں ضحر نام کا شیطان ہے جو یہ ترکیب بتا سکتا ہے۔ آپ نے نقشِ سلیمان سے اس کے کندھوں کے درمیان مہر لگائی یہ بے بس ہو کر آپ کا حکم بجا لانے پر مجبور ہو گیا۔

مولوی چراغ علی اس کی توجیہ کسی اور انداز سے کرتے ہیں۔ ’’… جبل لبنان کے رہنے والے جن اس وجہ سے کہلائے کہ عربی میں جنان پہاڑ کو بھی کہتے ہیں … اس کے علاوہ جو چیز نظر نہ آئے اس کو بھی جن کہتے ہیں اور چونکہ یہ سب آدمی بنی اسرائیل سے غائب لبنان کے پہاڑ پر لکڑی اور پتھر کا کام کرتے تھے اور وہاں سے بنے بنائے پتھر اور ترشی ہوئی لکڑیاں بھیجتے تھے اور بیت القدس کے مقام پر نہ ہتھوڑے کی آواز سنی گئی اور نہ پھاؤڑے کی، اس لیے بھی ان کو جن کہنا درست ہوا۔ ‘‘ ۴۳؎

٭٭٭

کہا جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی تعمیر حضرت سلیمان کے عہد میں انھی کی زیرِ نگرانی ہوئی، لیکن یہ درست نہیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی اور عرصۂ دراز کے بعد جب ان کے نشان بھی معدوم ہو گئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے خدا کے حکم سے مسجد اور شہر کو از سرِ نو بسایا۔ ’’ایک اور روایت کے مطابق بیت المقدس کی تعمیر بھی حضرت ابراہیم کے ذریعے بیت اللہ کی تعمیر سے چالیس سال بعد ہوئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو بیت المقدس کی تعمیر کی یہ بھی بیت اللہ کی طرح نئی اور ابتدائی تعمیر نہ تھی۔ بلکہ سلیمان علیہ السلام نے بنائے ابراہیمی پر اس کی تجدید کی ہے‘‘۔ ۴۴ ؎

یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے تعمیر کردہ خانہ کعبہ کو ہزاروں صدیوں بعد، جب اس کے نشانات غائب ہو چکے تھے، اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے دوبارہ بنایا اور بسایا۔

٭٭٭

حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ان پر شکوہ عمارات کی تعمیر میں سرکش اور باغی جن بے چون و چرا ہمہ وقت مصروف عمل رہتے۔

ترجمہ: ’’اور شیطان (سرکش جنوں ) میں سے ہم نے مسخر کر دیے جو اس سلیمان علیہ السلام کے لیے سمندروں میں غوطے مارتے یعنی بیش قیمت بحری اشیا نکالتے اور اس کے علاوہ اور بہت سے کام انجام دیتے اور ہم ان کے لیے نگہبان و نگراں تھے۔ ‘‘ ۴۵ ؎

حضرت سلیمان علیہ السلام جو کام چاہتے ان جنوں سے لیتے، جو جن اپنی سرکشی کی عادت کی بنا پر ان کا حکم ماننے سے انکار کرتا فوراً آگ میں بھسم کر دیا جاتا۔ بے شک جنات آگ سے بنے ہیں، مگر خالص اور تیز آگ انھیں بھی جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

ترجمہ: ’’ اور جنوں میں سے وہ تھے جو اس کے سامنے خدمات انجام دیتے۔ اس کے پروردگار کے حکم سے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کرے۔ ہم اس کو دوزخ کا عذاب چکھائیں گے۔ وہ اس کے لیے بتاتے جو کچھ وہ (سلیمان علیہ السلام ) چاہتا تھا۔ قلعوں کی تعمیر، ہتھیار اور تصاویر اور بڑے بڑے لگن جو حوض کی مانند تھے اور بڑی بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں۔ اے آلِ داؤد علیہ السلام! شکر گزاری کے کام کرو۔ میرے بندوں میں سے تم سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘ ۴۶ ؎

٭٭٭

حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر بہت بڑا تھا۔ جن بہت بڑے حوض تعمیر کرتے جس میں پانی موجود رہتا۔ پھر بڑی بڑی دیگیں بناتے جو اتنی وزنی تھیں کہ ہلائی نہ جا سکیں، ممکن ہے کہ یہ دیگیں اور چولھے پتھروں، چٹانوں کو تراش کر جن بناتے ہوں تاکہ ان میں اتنی بڑی فوج کے لیے کھانا تیار کیا جا سکے۔

آلِ داؤد علیہ السلام قولاً اور فعلاً دونوں طرح اللہ کا شکر ادا کرتی۔ یہ حضرت داؤد علیہ السلام ہی کا حصہ تھا کہ انھوں نے اپنے اہل و عیال میں نفل نماز کی تقسیم اس طرح کی تھی کہ ان کے گھر میں ہر لمحہ کوئی نہ کوئی فرد مصروفِ عبادت ہوتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام دونوں کو ہی خدا نے اپنے بہت سے انعامات سے نوازا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت سخت اجسام کو موم کر دیا جیسے کہ پہاڑ اور لوہا، جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ان لطیف اجسام کو مفتوح کر دیا جو دکھائی بھی نہ دے سکیں۔ مثلاً ہوا، جنات وغیرہ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جہاں حضرت داؤد علیہ السلام کے قائم کردہ علمی، مذہبی، معاشرتی احکام و روایات کی پاسداری کی اور انھیں آگے بڑھایا وہیں ان کی تشنہ خواہشات کی تکمیل بھی کی اور ان میں سب سے اہم بیت المقدّس کی تعمیر کی خواہش تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنے لیے ایک گھر بنانے کا حکم دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی تو وحی نازل ہوئی کہ تم نے میرے گھر سے پہلے اپنا گھر بنا لیا۔ آپ نے فوراً ہی تعمیر مسجد کے لیے کام شروع کر دیا، بنیادیں بھری گئیں۔ دیواریں کھڑی کی گئیں لیکن جب تمام دیواریں مکمل ہو گئیں تو اچانک کھڑی دیواروں کا ایک تہائی حصہ گر گیا۔ آپ نے اللہ سے فریاد کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ مسجد کی تعمیر تیرے نصیب میں نہیں۔ آپ غمزدہ ہوئے تو یہ نوید دی گئی کہ اسے تیرا بیٹا سلیمان علیہ السلام مکمل کرے گا۔

٭٭٭

بیت الَمَقدِس، یعنی پاک مقدس گھر، مسلمانوں کا قبلۂ اول، حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد اس شہر میں رکھی کہ جسے بیشتر انبیا کی سر زمین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یروشلم، جو تینوں الہامی مذاہب کے ماننے والوں یعنی عیسائی یہودی اور مسلمانوں کے لیے بے حد قابلِ احترام ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے یہاں ۳۳ برس تک نظامِ حکومت سنبھالے رکھا، اگرچہ آپ کا زیادہ تر دور پر آشوب رہا۔ جنگ و جدل کا بازار بھی گرم رہا لیکن ایک فائدہ یہ ہوا کہ اسرائیلی جو تفرقوں میں بٹے، ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے۔ بیرونی دشمنوں سے مقابلے کے لیے آپس کے اختلافات بھلا کر متحد ہو گئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی خواہش تھی کہ ان میں اتحاد و یگانگت بڑھانے کے لیے ایک عظیم الشان عبادت گاہ کا قیام ضروری ہے کہ جہاں یہ تمام اکٹھے عبادت کریں۔ اسرائیلی روایات کے مطابق انھیں خواب میں اشارہ دیا گیا تھا کہ ان کی آرزو ضرور پوری ہو گی لیکن ان کے بیٹے سلیمان کے دورِ حکومت میں، چنانچہ اسی مقام پر جسے حضرت داؤد علیہ السلام منتخب کر گئے تھے۔ تعمیر مسجد کا کام شروع کیا گیا۔

’’ جب سلیمان نے بیت القدس ( مسجد اقصیٰ) بنانے کی تیاری کی تو حیرام بادشاہ صور کو کہلا بھیجا کہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی جو مراد بیت المقدس بنانے کی تھی وہ تو لڑائیوں کے شغل کی وجہ سے پوری نہیں ہونے پائی مگر اب میں چاہتا ہوں کہ اس کو پورا کروں۔ میری قوم میں صیدانیوں کی طرح لکڑی کاٹنے کے کام جاننے والے نہیں ہیں، چنانچہ حیرام نے ایک مردِ عارف بھیجا جو معدنیات کے کام اور نقاشی وغیرہ میں استاد تھا… اور اپنے لڑکوں کو اجازت دی کہ جبل لبنان سے دریا تک ازر اور سرو کی لکڑیاں پہنچا دیں۔ ۴۷ ؎

مدتِ تعمیر میں البتہ اختلاف ہے۔ بعض مقامات پر درج ہے کہ ہیکل کی تعمیر میں تیرہ برس صرف ہوئے۔

قصص القرآن میں عرصہ تعمیر سات سال بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس بات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے کہ تعمیر میں کتنے نفوس شامل تھے۔ کیا صرف جن میں شامل تھے یا جن و انس دونوں نے اس کی تعمیر میں کام کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق تیس ہزار نفر (جن و انس) اس کام میں مسلسل مصروف رہے تب کہیں جا کر یہ عمارت مکمل ہوئی۔

اسرائیلی روایات کے مطابق دو لاکھ افراد اس کی تعمیر میں مصروف عمل رہے۔ تورات میں کئی مقامات پر ان تعمیری خدمات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

’’اور یہی باعث ہے جس سے سلیمان بادشاہ نے لوگوں کی بیگار لی کہ خداوند کا گھر (مسجد اور شہر یروشلم) اور اپنا قصر (قصرِ سلیمان) اور (شہر) ملو اور یروشلم کی شہر پناہ…..اس کے سرداروں کے شہر بنائے اور جو کچھ سلیمان کی تمنا تھی سو یروشلم میں اور لبنان میں اور اپنی مملکت کی ساری زمین میں بنائے‘‘۴۸؎

٭٭٭

اس کی مثال یوں لی جا سکتی ہے کہ جیسے برِ صغیر میں مغل بادشاہوں کا دورِ حکومت بڑا شاندار رہا۔ لیکن شاہ جہاں نے فن تعمیر کے حوالے سے بڑا کام کیا اور انجینئر بادشاہ کے لقب سے مشہور ہوا، اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے فنِ تعمیر میں دلچسپی کے باعث ایسی عظیم الشان عمارات اور شہر تعمیر کیے اور بستیاں بسائیں جو انھی سے مخصوص ہیں۔ صرف بیت المقدس کا ہی تذکرہ کیا جائے تو اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

بیت المقدّس جو ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور تھا، بائیبل کے مطابق فن تعمیر کا ایسا عظیم الشان شاہکار تھا جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی لیکن اس دنیا کا دستور ہے کہ جو آیا اسے جانا ضرور ہے، جو بنا ہے اسے فنا ہونا ہے۔ بیت المقدس بھی اپنی تمام تر مضبوطی پائداری اور شاہانہ استحکام کے باوجود امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں بنتا، بگڑتا، مٹتا اور پھر بنتا رہا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل اپنی پرانی روش پر آ گئے۔ بت پرستی پھر رواج پا گئی اور ساتھ ہی تمام برائیاں بھی عود آئیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بیٹے رجعام کی تخت نشینی کو پانچ سال ہوئے تھے کہ شاہِ مصر نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی سے تمام نایاب و قیمتی اشیا بھی سمیٹ لے گیا۔ ۷۴۰ قبل مسیح میں پھر ہیکل سلیمانی سے تورات و دیگر صحائف غائب ہوئے۔ ہیکل میں موجود تابوت سکینہ ایسا غائب ہوا کہ جس کا علم آج تک نہ ہو سکا۔ جواہر التفسیر اور دائرۃ المعارف کے مطابق تابوتِ سکینہ اور حضرت موسیٰ کا عصا بحیرہ طبریہ میں ہے اور قیامت کے قریب دونوں کا ظہور ہو گا۔

۵۳۹ قبل مسیح میں شاہ ایران نے فتح کے بعد یہودیوں کو اپنے وطن یروشلم جانے کی اجازت دی تو ہیکل دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن ۶۳ ق۔ م میں روسی شہنشاہ نے شہر پر قبضہ کر کے ہیکل کو پھر تباہ و برباد کر دیا۔ ہیرودِ اعظم کے دور میں بیت المقدس کی عظمت بحال ہوئی۔ ۷۰ء ؁میں اسے آتش زنی سے بہت نقصان پہنچا۔ ۱۳۵ء ؁میں دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن رومی برداشت نہ کر سکے۔ انھوں نے ہل چلوا دیے۔ ۱۳۶ء؁ میں اسے پھر تعمیر کیا گیا۔ اس کی تباہی کے بعد یہاں غلاظت کے سوا کچھ نہ تھا۔

٭٭٭

دین اسلام کے ظہور کے بعد حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں اکثر انبیا اسی سرزمین پر مبعوث ہوئے۔ بیت المقدس کے کھنڈرات پر آپ ؓنے ایک سادہ سی مسجد تعمیر کرائی اور وہ مقام تلاش کیے جہاں سے آپﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے اور اپنے ہاتھوں سے صفائی کی۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی اور آپؓ نے نماز پڑھائی۔

یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں مذاہب کے لیے اس مقام کی عظمت اور عقیدت ڈھکی چھپی نہیں۔ حضورِ اکرمﷺ نے اس مقام کی فضیلت اس طرح بیان کی ہے کہ مسجد حرام مکہ مکرمہ، مسجدِ نبوی، مدینہ منورہ کے بعد اگر کوئی تیسرا سفرِ زیارت جائز ہے تو وہ مسجد اقصیٰ کا ہے۔ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب ۲۵ ہزار نمازوں کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا قبلۂ اول کہ حضورﷺ ہجرت کے بعد سترہ ماہ تک اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، امامت کراتے رہے۔ دورانِ نماز ہی، آپ کی خواہش کے مطابق قبلہ کا رخ خانہ کعبہ کی جانب کر دیا گیا۔ معراج کے لیے بھی آپ اسی مقام سے عرشِ بریں پر لے جائے گئے تھے۔ یہیں آپ نے سابقہ انبیائے کرام علیہ السلام کی نماز کی امامت کروائی تھی۔ ہیکل سلیمانی یا بیت المقدس، جِسے مسلمان مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے نام سے اور یہودی بیت اللحم کے نام سے پکارتے ہیں۔ موجودہ تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبد المالک بن مروان نے ۶۹۰ء میں شروع کرائی۔ عموماً مسجد اقصیٰ سے مراد پورا رقبہ حرم لیا جاتا ہے۔ بیت المقدس کے خاص خاص مقامات کا مختصر ذکر تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اس مقام کی اہمیت کیا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے ان کے پیروکاروں نے اسے کسی انداز میں تعمیر کیا تھا۔

٭٭٭

مسجد اقصیٰ بیت المقدس کے جنوب مشرقی گوشے میں واقع ہے۔ اس کی عمارت بہت وسیع ہے۔ سنگ مر مر سے تعمیر کردہ اس مسجد کے پندرہ دروازے ہیں۔

بیت القدس میں استعمال ہونے والی لکڑیاں کوہِ لبنان پر تراشی جاتیں اور بیت المقدس بھیجی جاتیں۔ سنگ تراش بھی تعمیر کے لیے بڑے بڑے پتھروں کی وہیں تراش خراش کرتے اور پھر شہر لاتے، حضرت سلیمان نے پائداری کے خیال سے بہت گہری بنیادیں کھدوائیں، تمام عمارت میں سنگِ مرمر استعمال کیا، سرو کے شہتیر اور تختے کام میں لائے گئے، دیواروں اور چھتوں کو سونے کی چادروں سے منڈھ دیا گیا۔ ہیکل کے اندرونی حصے کو مقدس کمرہ قرار دیا گیا اور یہاں تابوتِ سکینہ محفوظ کیا گیا، ہیکل کے دروازے پر سونے کی چادریں چڑھا دی گئیں، یہاں بچوں کی معلومات کے لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ تابوتِ سکینہ کا مختصر تعارف کرا دیا جائے۔

سورہ البقرہ میں بیان ہے ’’ خدا کی طرف سے اس بادشاہ ہو نے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمھیں واپس مل جائے گا، جس میں تمھارے رب کی طرف سے تمھارے سکونِ قلب کا سامان ہے، جس میں آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں اور جس کو فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں۔ ‘‘ ۴۹؎

اس کی تفسیر میں سید ابو الاعلٰی مودودی تفہیم القرآن میں رقم طراز ہیں۔

’’ بائبل کا بیان اس باب میں قرآن سے کسی حد تک مختلف ہے۔ تاہم اس سے اصل واقعہ کی تفصیلات پر کافی روشنی پڑتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق جسے بنی اسرائیل اصطلاحاً ’’ عید کا صندوق ‘‘ کہتے تھے۔ ایک لڑائی کے موقع پر فلسطینی مشرکین نے اسے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا، لیکن یہ مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا، وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں آخر کار انھوں نے اسے خوف کے مارے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا، غالباً اسی معاملے کی طرف قرآن ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت و ہ صندوق، فرشتوں کی حفاظت میں تھا، کیونکہ کہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے، رہا یہ ارشاد ’’ اس صندوق میں تمھارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے‘‘ بائبل کے بیان سے اس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اس کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے، جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پوری قوم کی ہمت ٹوٹ گئی اور ہر اسرائیلی یہ خیال کرنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے پھر گئی ہے اور اب ہمارے برے دن آ گئے ہیں۔ پس اس صندوق کا واپس آنا اس قوم کے لیے بڑی تقویتِ قلب کا موجب تھا اور یہ ایک ذریعہ تھا جس سے ان کی ٹوٹی ہوئی ہمتیں پھر بندھ سکتی تھیں۔

’’ آل موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات‘‘ جو اس صندوق میں رکھے ہوئے تھے ان سے مراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں جو طورِ سینا پر اللہ نے حضرت موسیٰ کو دی تھیں، اس کے علاوہ تورات کا اصل نسخہ بھی اس میں تھا جسے حضرت موسیٰ نے خود لکھوا کر بنی لادی کے سپرد کیا تھا۔ نیز ایک بوتل میں من بھر کر اس میں رکھ دیا گیا تھا تا کہ آئندہ نسلیں اللہ کے اس احسان کو یاد کریں جو صحرا میں ان کے باپ دادا پر کیا گیا تھا۔ اور غالباً حضرت موسیٰ کا وہ عصا بھی اس کے اندر تھا جو خدا کے عظیم الشان معجزات کا مظہر تھا۔ ‘‘ ۵۰؎

تابوتِ سکینہ کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت آدم کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ اس میں تمام پیغمبروں کی شبیہیں اور گھروں کے نمونے تھے۔ حضرت آدم نے حضرت شیث سے نو رِ محمدیﷺ کی حفاظت کے لیے ایک عہد نامہ تحریر کرایا تھا۔ وہ اس میں محفوظ کیا گیا تھا، نسل در نسل ہوتا، ہوتا تابوتِ سکینہ حضرت موسیٰ تک پہنچا، اس میں تبرکات رکھے جاتے، اس میں تورات کی تختیاں، حضرت ہارون کا عمامہ، حضرت موسیٰ کے نعلینِ مبارک اور لباس، من و سلویٰ کے دور کی بچی ہوئی ترنجین، اور چند کلمات موجود تھے جو پریشانی کے عالم میں پڑھے جاتے تھے۔ تین گز طول اور دو گز عرض پر محیط تابوتِ سکینہ کو برکت کے لیے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دورانِ جنگ آگے رکھتے اور فتح یاب ہوتے، حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں، یہ صندوق ان سے چھینا گیا، قوم عمالقہ کے قبضے میں تابوت آیا لیکن وہ اس کے اہل نہ تھے۔ بت خانے میں رکھا تو ان کے بت تباہ و برباد ہونے لگے۔ آدمی مرنے لگے، یکے بعد دیگرے پانچ شہر تباہ ہوئے تو خوف زدہ ہو کر بیل گاڑیوں پر لاد کر بیلوں کو ہنکا دیا گیا۔ تابوت حضرت شموئیل تک پہنچا، حضرت سلیمان نے اسے بیت القدس میں اسے نہایت حفاظت سے رکھا، بیت القدس کی تباہی کے دوران میں دوسرے ساز و سامان کے ساتھ اسے بھی لوٹ لیا گیا۔

بیت القدس کے دیگر اہم مقامات کی تفصیل کچھ یوں ہے،

قبۃ الصخرہ، خانہ ء کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد اس زمین پر مسلمانوں کے لیے مقدس تر ین مقام ہے۔ اس چٹانی مقام سے کئی روایات وابستہ ہیں۔

ایک یہ کہ ظہور حضرت آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال قبل فرشتے اس کا طواف کر چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طوفانِ نوح کے بعد آپ علیہ السلام کی کشتی یہاں آ کر ٹھہری تھی۔ بعض کے نزدیک یہ زمین کا حصہ نہیں بلکہ جنت سے بھیجی ہوئی چٹان ہے اس لیے بیت الجنت بھی کہلاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیامت کے روز صورِ اسرافیل اسی مقام سے پھونکا جائے گا۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد میں یہودی یہاں قربانیاں دیا کرتے تھے اور آسمان سے برسنے والی آگ اسے جلا کر راکھ کر دیتی تھی، جو اسی امر کی علامت تھی کہ قربانی قبول ہوئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں یہ بارہ ہزار ہاتھ بلند تھا صندل کی لکڑی سے بنے ہوئے اس معبد میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے لعل و زمرد اور یاقوت جڑوائے تھے جو بعد ازاں بختِ نصر کے ہاتھوں پامال ہوئے۔ حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ ایک مدت تک صخرہ ہی کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ کے حکم پر انھوں نے مسجد الحرام کو اپنا قبلہ بنا لیا۔

مغارۃ الارواح اسی چٹان کے نیچے ایک غار ہے۔ جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی قبر بھی ہے۔ یہاں ایک کنواں بھی تھا جسے بعد ازاں بند کر دیا گیا۔ مختلف انبیاء مثلاً حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام علیہ السلام کی جائے عبادت کو محرابوں سے مخصوص کیا گیا ہے۔ مقام النبی وہ جگہ ہے کہ جہاں آپﷺ نے نوافل ادا کیے۔ موئے مبارکﷺ اور نقش پائے مبارکﷺ بھی یہاں محفوظ ہیں۔

قبۃ السلسلہ، حرم شریف کے وسط میں اونچا چبوترہ۔ مشرق میں مقامِ عبادت خضر علیہ السلام۔ شمالی جانب قبۃ النبی اور مقام جبرائیل اور چٹان کے برابر میں قبۃ المعراج ہے۔

مہد مسیح۔ عہد قدیم سے یہاں ایک پنگوڑا زمین میں گڑا ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پنگوڑا کہلاتا ہے۔ اس کے جنوب میں اصطبل سلیمان علیہ السلام ہے۔ کرسی سلیمان علیہ السلام ایک بلند چٹان کی صورت میں موجود ہے۔ سلیمان علیہ السلام کا مصلیٰ وہ مقام ہے کہ جہاں تعمیر ہیکل کے دوران میں آپ فیصلے فرماتے تھے اور عبادت کیا کرتے تھے۔

روضۂ سلیمان علیہ السلام، جالی دار کھڑکیوں والا وہ کمرہ جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام مدفون ہیں۔

دیوار براق وہ مقام کہ جہاں معراج کی شب آپﷺ نے براق باندھا تھا۔

دیوار گریہ کے متعلق یہودیوں کا خیال ہے کہ وہ ہیکل سلیمانی کی باقیات میں سے ہے وہ یہاں آ کر گریہ و زاری کرتے ہیں۔

بیت المقدس میں ایک مقام ایسا بھی ہے کہ جس کا تحریکِ پاکستان سے براہ راست تعلق ہے۔

مسجد صخرہ کے سامنے مغرب کی طرف ایک بند کمرے میں، مزار مولانا محمد علی جو ہر ہے۔

جنوں کے ہاتھوں تعمیر کرائے گئے بیت المقدس کی ناقدری و پامالی انسانوں کے ہاتھوں کیسے کیسے ہو رہی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

قاضی بدرالدین شبلی حنفی کی تحقیق کے مطابق جنات سے خدمت لینے کا کام سب سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام نے باذن اللہ بطور معجزہ کے کیا ہے۔

٭٭٭

بیت القدس کے اہم مقامات کے نام درج ذیل ہیں۔ ۱۔ قبۃ الصخرہ۔ ۲۔ قبۃ السلسلہ ۳۔ قبۃ المعراج ۴۔ قبۃ النبی ۵۔ قبۃ الارواح ۶۔ قبۃ الخضرالمیجا ۷۔ قبۃ سلیمان ۸۔ کھلا منبر ۹۔ تخت سلیمان۱۰۔ مہدعیسیٰ ۱۱۔ اصطبل سلیمان ۱۲۔ مسجد الاقصیٰ ۱۳۔ باب النبیؐ ۱۴۔ باب المغاریہ ۱۵۔ باب السلسلہ ۱۶۔ باب المطارہ (بارش) ۱۷۔ باب القطانین ۱۸۔ باب الحدید ۱۹۔ باب المناظر ۲۰۔ باب الزوایا ۲۱۔ باب الغواز ۲۲۔ باب السقر ۲۳۔ باب التوبہ ۲۴۔ باب الاسباط ۲۵۔ باب الذہب ۲۶۔ باب القدیم ۲۷۔ اکہرا دروازہ۔ ۲۸۔ تہرہ دروازہ ۲۹۔ دوہرہ دروازہ ۳۰۔ ۱۹۱۸ء قبل ترک افواج کا مستقر ۳۱۔ یہودیوں کا مقام گریہ۔ ۵۱؎

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات بھی ان کی زندگی کی طرح عمومی انداز لیے ہوئے نہ تھی۔ انھوں نے نہایت فعال زندگی گزاری اور آخری سانسوں تک مصروف عمل رہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ملک الموت کی آمد کے بعد بھی آپ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول رہے تو کچھ غلط نہیں۔ دین اور دنیا ساتھ ساتھ اسلام اسی کا درس دیتا ہے کہ ترک دنیا یا رہبانیت اسلام میں ممنوع ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ بھی تھے اور پیغمبر بھی۔ دونوں ذمہ داریاں ہمیشہ بطریق احسن پوری کیں۔ پیغام اجل آیا اس وقت بھی آپ عصا زیرِ زنخداں رکھے عبادت میں مصروف تھے اور ساتھ ہی ساتھ ہیکل سلیمان کی تعمیر میں مصروف سرکش جنوں کی نگرانی بھی کر رہے تھے۔ اسی حالت میں آپ کی روح اس جسدِ خاکی سے عالم بالا کی جانب سفر کرتی ہے لیکن یوں کہ آپ کا جسم عصا کے سہارے اسی طرح موجود رہتا ہے۔ جن آپ کو مصروف عبادت محسوس کرتے ہیں اور اپنے تفویض کردہ فرائض بڑی مستعدی سے انجام دیتے رہتے ہیں۔ جن غیب کا حال نہ جانتے تھے۔ حتیٰ کہ سامنے کی بات بھی ان پر واضح نہ ہو سکی۔ اگر انھیں وقت پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا علم ہو جاتا تو تعمیر رک جاتی۔ وہ بھاگ اٹھتے کیونکہ اپنی تمام تر سرکشی کے باوجود وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہ کرتے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے جن انھیں آنکھ بھر کر دیکھ نہ سکتے تھے۔ پھر باہر سے وہ اپنے عصا کے سہارے جمے ہوئے عبادت میں مشغول دکھائی دیتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو زندہ سمجھ کر سال بھر تک کام میں مصروف رہے۔ بیت المقدس کی تعمیر کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے گھن کے کیڑے کو عصا پر مسلط کر لیا۔ دابۃ الارض یعنی اس دیمک نے لکڑی کو کھوکھلا کر دیا۔ عصا گری تو حضرت سلیمان علیہ السلام کا جسد خاکی بھی زمین پر آ رہا۔ یوں وہ جنات جو غیب کا علم جاننے کا دعویٰ کرتے تھے۔ سال بھر تک مشقت میں پڑے رہے۔

موت کی مدت معلوم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ایک لکڑی پر دیمک چھوڑی گئی ایک دن اور رات میں دیمک نے جتنی لکڑی کو کھا لیا اس سے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ پوری عصا کو کھوکھلا کرنے میں انھیں ایک سال لگا ہو گا۔

٭٭٭

اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں ملک الموت نے آ کر اطلاع دی کہ بس یہی چند ساعتیں باقی رہ گئی ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی خیال سے کہ جن اس تعمیر کو نامکمل حالت میں نہ چھوڑ دیں اور پھر نہ جانے کون کب اسے مکمل کرائے۔ آپ نے جنوں کو شیشے کا ایک کمرہ بنانے کا حکم دیا۔ اور خود اس بے در کے کمرے میں بند ہو کر اپنی عصا کے سہارے کھڑے ہو کر عبادت میں مشغول ہو گئے اور اسی حالت میں آپ کی روح پرواز کر گئی۔ تقریباً ایک سال تک آپ یونہی کھڑے رہے۔ جن انھیں مصروف عبادت سمجھ کر مصروف کار رہے۔ ادھر تعمیر مکمل ہوئی۔ ادھر عصا کو دیمک نے چاٹ کر خاک کر دیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام زمین پر گر گئے۔ تب جنوں کو ہوش آیا کہ وہ تو عرصہ ہوا انتقال کر چکے تھے پھر خواہ مخواہ اتنی صعوبت اٹھائی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ اکثر سال دو سال کے لیے بیت المقدس میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ آخری مرتبہ بھی آپ بیت المقدس میں عبادت میں مصروف تھے۔ روزانہ صبح ایک درخت اگتا۔ آپ اس سے اسی کا نام اور فوائد دریافت فرماتے۔ وہ اپنے خصائص اور نام بتایا کرتا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اسی سے کام لیتے۔ ایک روز ایک درخت نمودار ہوا جس نے اپنا نام خروبہ بتایا اور کام یہ بتایا کہ مسجد کی ویرانی میرا مقصد ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے جیتے جی تو یہ مسجد ویران نہ ہو گی۔ آپ نے اسے ایک ویرانے میں لگا دیا۔ صحن مسجد میں خود عصا کے سہارے عبادت میں مشغول ہو گئے اور دعا مانگی کہ خدایا میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسانوں کو یقین ہو جائے کہ جنوں کا علم غیب جاننے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت سے انسانوں نے جان لیا کہ جن غیب کا علم نہیں جانتے ورنہ وہ اتنی مشقت کیوں سہتے۔

اور یہ بھی معجزہ ہی ہے کہ آپ کی وفات کے ایک سال بعد تک جن اس خیال سے کہ آپ ان کی نگرانی کر رہے ہیں، تعمیر میں مصروف رہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ ظاہر ہے عمارت بڑی تھی، عظیم الشان تھی۔ اصل تعمیر مکمل ہونے کے بعد بھی عرصہ تک کوئی نہ کوئی کام نکل آتا ہے جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ آپ علیہ السلام کی وفات کے ایک برس بعد تک جن انھیں کس قدر نامکمل کاموں کو مکمل کرتے رہے ہوں گے۔

٭٭٭

امام نسائی ؒ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب حضرت سلیمان تعمیر سے فارغ ہوئے تو خدا کی بارگاہ میں جو دعائیں کیں وہ مقبول ہوئیں۔

’’بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہونے پر سلیمان علیہ السلام نے بطور شکرانہ کے بارہ ہزار گائیں، بیل اور بیس ہزار بکریوں کی قربانی کر کے لوگوں کو دعوتِ عام دی اور اس دن کی خوشی منائی اور صخرۂ بیت المقدس پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگیں۔ ’’یا اللہ آپ نے ہی مجھے یہ قوت اور وسائل عطا فرمائے جن سے تعمیر بیت المقدس مکمل ہوئی تو یا اللہ مجھے اس کی بھی توفیق دیجیے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں اور مجھے اپنے دین پر وفات دیجیے اور ہدایت کے بعد میرے دل میں کجی نہ ڈالیے، جو شخص اس مسجد میں داخل ہو میں اس کے لیے پانچ چیزیں مانگتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ جو گنہگار توبہ کرنے کے لیے اس مسجد میں داخل ہو تو آپ اس کی توبہ قبول فرمائیں ….. خوف و خطر سے بچنے کے لیے داخل ہو آپ اس کو امن دے دیں ….. جو بیمار ہو اس کی شفا عطا فرمائیں …..جو فقیر داخل ہو اس کو غنی کر دیں ….. جو اس میں داخل ہو آپ اپنی نظر عنایت اس پر رکھیں۔ ۵۲؎

٭٭٭

حضرت سلیمان علیہ السلام نے خدا کے عطا کردہ علم و حکمت، بادشاہت نبوت کی بنا پر قوم یہود کی کایا پلٹ دی اور ان کے تدبر سے ایک عظیم الشان معجزاتی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمرانی میں بلاشبہ یہودیوں کا یہ عہد، عہدِ زریں کہلایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں یہودی سلطنت کی وسعت، استحکام و پائداری اور عظمت عروج پر تھی۔ اسی عہد میں ’’ہیکل‘‘ تعمیر کیا گیا جو فنِ تعمیر کا ایک عظیم الشان نمونہ تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں صرف فولاد ہی نہیں دیگر دھاتوں کی صنعتوں نے بھی بہت ترقی کی۔ چنانچہ ایلا میں تانبا پگھلانے کا ایک بہت بڑا کارخانہ قائم ہوا۔

٭٭٭

چالیس سال کی حکومت کے بعد ۹۷۵ ق۔ م میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ وفات کے بعد آپ کا بیٹا رجعام تخت نشین ہوا، اس نے سترہ سال حکومت کی۔ اسرائیلی سلطنت دو حصوں میں منقسم ہوئی۔ آپس کی چپقلش، خود غرضیوں اور عاقبت نا اندیشیوں نے قوم یہود کو منتشر کر کے رکھ دیا۔

وفات کے وقت آپ علیہ السلام کی عمر ۵۳سال سے کچھ اوپر تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات اور آپﷺ کی ولادت کے درمیان ایک ہزار سات سو یا ایک ہزار چار سو سال کا فاصلہ ہے۔

آپ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار نعمتوں کی فراوانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ خدا کے شکر گزار بندوں میں سے تھے۔

ترجمہ: ’’اے مرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کیں اور اس بات کی توفیق دے کہ میں ایسے اچھے اعمال کروں جو تیری رضا کا باعث ہوں اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر دے۔ ‘‘۵۳ ؎

اس عظیم الشان سلطنت شاہانہ کروفر اور نبوت کے اعجاز کے بے شمار انعامات و کرامات سے مالامال ہونے کے باوجود اور اس اجازت کے با وصف اس دولت کے صرف کرنے کے سلسلے میں آپ علیہ السلام سے کوئی پُرسش نہ ہو گی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سلطنت کا ایک پیسہ بھی اپنی ذات پر صرف نہ کرتے بلکہ اپنی گزر بسر کے لیے ٹوکریاں بنا کر فروخت کرتے۔

یہ شان ایک نبی کی ہو سکتی ہے کسی دنیا دار بادشاہ کی نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی عبادت و ریاضت اور شکر گزاری کے سبب ’’ نعم العبد ‘‘ یعنی بہت خوب بندہ کا لقب عطا کیا۔ ۵۴؎

ثقافتی، تہذیبی، مذہبی، سماجی و معاشرتی تلمیحات کسی بھی زبان کے شعر و ادب کے لیے گراں قدر   سرمایہ ہوتی ہیں۔ تلمیحات کا تعلق اجتماعی حافظے سے ہوتا ہے اور چند ایک الفاظ کے استعمال سے پورا واقعہ واضح ہو جاتا ہے اور جس تناظر میں بات کی جا رہی ہے ، باآسانی سمجھی جا سکتی ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب تلمیحات اردو شعر وادب میں ابتدا ہی سے مروج رہی ہیں چنانچہ لحنِ داؤدی، نغمۂ داؤدی، نقشِ سلیمان،  اورنگِ سلیمان، تختِ سلیمان،  خاتمِ سلیمان، ہدیہ ء مور بہ سلیمان اور ملکہ بلقیس سبا وغیرہ مستعمل ہیں۔

٭٭

 

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔         القرآن، ۲:۲۴۹

۲۔      تہامی، ص ۴۶

۳۔      ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص ۲۷۲ تا ۲۷۶

۴۔        مہر، غلام رسول، ص ۸۹

۵۔        ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص ۲۷۲ تا ۲۷۶

۶۔        مہر، غلام رسول، ص ۸۲

۷۔        ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص ۲۷۲ تا ۲۷۶

۸۔       القرآن، ص: ۲۰

۹۔         القرآن، البقرہ:۲:۲۵۲

۱۰۔       ا محمد حفیظ الرحمن سینوہاروی، مولانا، ص ۹۲

۱۱۔       القرآن، المائدہ:۷۸

۱۲۔       القرآن، الاعراف: ۱۶۶

۱۳۔      عبد العزیز ہزاروی، مولانا ص ۵۶۸۔ ۵۶۹

۱۴۔      محمد شفیع، مولانا، ص ۴۹۶

۱۵۔      القرآن، ص: ۲۴

۱۶۔       القرآن، ص:۲۶

۱۷۔     قاضی عبد الرزاق، ص۲۰۶

۱۸۔       القرآن، ص: ۲۰

۱۹۔       القرآن، بنی اسرائیل : ۵۵

۲۰۔     القرآن، سبا:۱۱۔ ۱۰

۲۱۔       عبد الرحمن، مولانا، ص ۳۶

۲۲۔      حفیظ الرحمن سیوہاروی، مولانا، ص ۹۳

۲۳۔     مہر، ص ۸۳

۲۴۔     القرآن (۳۸: ۳۰)

۲۵۔     عطا اللہ ساجد مولانا، ص ۵۷۲

۲۶۔     عبد الرحمن، مولانا، ص ۳۷۔ ۳۸

۲۷۔      عطا اللہ ساجد، مولانا، ص ۵۸۷

۲۸۔      عطا اللہ ساجد، مولانا، ص ۵۸۷

۲۹۔      القرآن، ص :۲۵

۳۰۔     مولانا عبد الرحمن، مولانا، ص ۴۱۔ ۴۲

۳۱۔      عطا اللہ ساجد، ص ۵۸۶

۳۲۔     قاضی عبد الرزاق، ص ۲۱۴

۳۳۔     القرآن، النمل: ۱۶

۳۴۔    قاضی عبد الرزاق،  حافظ قاضی ص ۲۰۹

۳۵۔     عبد الرحمن، مولانا، ہدایت کے چراغ۔ سیرت انبیائے کرام، ص ۸۴۔ ۸۵

۳۶۔      القرآن، النمل:۲۱۔ ۲۰

۳۷۔    عبد الرزاق، حافظ قاضی، تذکرۃ الانبیا، ص ۲۲۸۔ ۲۲۹

۳۸۔   غلام نبی بن عنایت اللہ، ص ۳۶۹

۳۹۔     القرآن، ص:۳۳۔ ۳۰

۴۰۔     القرآن، ص: ۳۵۔ ۳۴

۴۱۔       القرآن ص:۳۶

۴۲۔      چراغ علی، مولوی،  ص ۱۵۶

۴۳۔     ایضاً ص ۱۵۴

۴۴۔    معارف القرآن جلد دوم ص ۱۱۶

۴۵۔    القرآن، الانبیا:۸۲

۴۶۔     القرآن، سبا: ۱۳۔ ۱۲

۴۷۔    چراغ علی، مولوی، ص ۱۵۲۔ ۱۵۳

۴۸۔     قصص القرآن، ص ۱۱۰۔ ۱۱۱

۴۹۔      القرآن، البقرہ:۲۴۸

۵۰۔      تفہیم القرآن، جلد اول ص ۱۸۹

۵۱۔       شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص۴۰۹

۵۲۔      معارف القرآن جلد ہفتم‘ ص۔ ۲۷۶

۵۳۔    القرآن، النمل: ۱۹

۵۴۔     تہامی، ص ۵۳

 

کتابیات

 

۱۔         آزاد، ابوالکلام، سن ندارد، ’’انبیائے کرام‘‘، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز۔

۲۔        ابنِ کثیر، علامہ’’تفسیر ابنِ کثیر‘‘، کراچی، نور محمد کارخانہ تجارت، آرام باغ۔

۳۔      تہامی، محمد صدیق، ۲۰۱۰ء ’’ رسولوں کی کہانی‘‘، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن۔

۴۔        چراغ علی، مولوی، ۱۹۱۰ء ’’ اعظم الکلام‘‘ آگرہ، مطبع مفیدِ عام۔

۵۔        عطا اللہ ساجد، مولانا، سن ندارد، ’’ قصص الانبیا ‘‘ لاہور، دار السلام۔

۶۔       عبد ا لرزاق بتھرالوی حطاروی، سن ندارد، ’’ تذکرۃ الا نبیا، ‘‘ راولپنڈی، مکتبہ ضیائیہ۔

۷۔       عبد الرحمٰن، مولانا محمد، ۱۹۹۰ئ، ’’ ہدایت کے چراغ، سیرت انبیائے کرام‘‘، لاہور، ادارہ ء اسلامیات

۸۔        عبد العزیز ہزاروی، مولانا سن ندارد، قصص الانبیا، لاہور مکتبہ ء العلم۔

۸۔        غلام مرتضیٰ، ڈاکٹر ۱۹۹۸ء ’’انوار القرآن‘‘، ڈاکٹر غلام مرتضیٰ، سروسز بک کلب۔

۹۔         غلام نبی بن عنایت اللہ راجنپوری، مولانا، سن ندارد’’قصص الانبیاء‘‘، مولانا غلام نبی بن عنایت اللہ                  راجنپوری، کتب خانہ شان اسلام لاہور۔

۱۰۔       قطب شہید، سید، مترجم میاں منظور احمد’’تفسیر فی ظلال القرآن‘‘، لاہور، اسلامی اکادمی، اردو بازار۔

۱۱۔        قاسم محمود، سید، مرتب ۷۷۔ ۱۹۷۶ء ’’شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا‘‘، لاہور، مکتبۂ شاہکار۔

۱۲۔       محمد جونا گڑھی، مولانا/ صلاح الدین یوسف، ’’قرآنِ کریم ترجمہ و تفسیر‘‘ مولانا محمد جونا گڑھی/ صلاح                       الدین یوسف، شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس۔

۱۳۔       محمد حفیظ الرحمن سیوہاروی، مولانا، ترجمہ:’’قصص القرآن ‘‘(حصہ دوم) کراچی، دارالاشاعت مولوی         مسافر خانہ، اردو بازار۔

۱۴۔       محمد شفیع، مولانا ۱۹۸۳ئ’’معارف القرآن ‘‘(جلد ہشتم‘ ہفتم )، کراچی، ادارہ المعارف۔

۱۵۔      منہاج سراج، مترجم غلام رسول مہر۱۹۷۵ء ’’ طبقاتِ ناصری ‘‘ لاہور، مرکزی اردو بورڈ۔

۱۶۔       سیارہ ڈائجسٹ، انبیائے کرام نمبر، سن ندارد، مدیر امجد رو ء ف خان لاہور

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر قرۃالعین طاہر ہ

 

ڈاکٹر قرۃالعین طاہر ہ کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے ہے۔ جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے کی سند درجہ اول، دوسر ی پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ ۱۹۹۹ء میں انھیں جامعہ پنجاب لاہور سے ڈاکٹر سہیل احمد خان کی نگرانی میں ’’حفیظ ہوشیارپوری، بیسو یں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھنے پر پی ایچ۔ ڈی کی سند عطا کی گئی۔

گذشتہ بیس سال سے تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ انٹر نیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد،  ایف جی کالج برائے خواتین ایف ۲/۷ اور وفاقی اردو یونی ورسٹی سے وابستگی رہی ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی اعزازی پروفیسر اور ایم فل اور پی ایچ۔ ڈی کی گائیڈ ہیں۔ مجلس نصاب سازی کی رکن بھی ہیں۔

۱۹۷۶ء سے ادبی رسائل میں لکھنا شروع کیا۔ تحقیق اور تنقید سے متعلق ۱۵۰ سے زائد مضامین و مقالہ جات مختلف قومی و بین الاقوامی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

خاموشی اور مستقل مزاجی سے اردو زبان و ادب کی ترویج و فروغ میں کوشاں ہیں اور تحقیق و تنقید کے میدان خار دار میں مصروف عمل بھی۔ ان کی کاوشوں کا اعتراف ملکی اور غیر ملکی سطح پر کیا گیا ہے۔

پاکستان یونائیٹڈ ایسو سی ایشن کی جانب سے انھیں پونا ایوارڈ ۲۰۰۶ء بھی دیا گیا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مترجم مصنفہ نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید