فہرست مضامین
- شِکن شِکن چہرہ
- انتساب
- کبھی تو کوئی پڑھے گا لکھا ہوا میرا
- ساحری دَر شاعری
- اطہر شکیلؔ اپنے کلام کے سیاق و سباق میں
- ’’سمندر اور سلوٹیں ‘‘
- یہی وہ مطلع ہے
- شاعری اصلاً بالطبع ہے
- نعتِ پاکﷺ
- فضاؤں میں چھڑک دیتے ہیں خوشبو، بولنے والے
- تبسّم، قہقہے، شعلہ بیانی چھین لی تم نے
- ضرب کتنی ہی بھاری ہو بکھرا نہ کر
- نظر کا زاویہ بدلا ہوا ہے
- ابنِ آدم ہوں، آدمی نہ کہو!
- زندگی کی کوئی سِلوٹ کب مِرے قابو میں تھی
- بچھڑے جو اُن سے درد کا دریا وہ مَوج زَن ہُوا
- چاند کے پار کہیں میرا بسیرا ہوتا
- تسلّی ہو نہ ہو، لیکن بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں
- یوں چشمِ انتظار سے آنسو نکل پڑے
- واقفوں کے درمیاں ہی بے نشاں ہو جائیں گے
- اس جہاں کی طرح مِٹنے والی نہ ہو
- راحت کا کوئی لمحہ مِرے پیار میں لے آ
- جلتے ہوئے سَروں کا سمندر ہے سامنے
- کوچے کوچے میں ہے چپ، گھر گھر میں سنّاٹا ہُوا
- بھری ہوں حوصلوں سے جو فضائیں کام آتی ہیں
- یہ ہَوا روز ہی چھوٗ کر ترے گیسو آئے
- کبھی غنچے میں ڈھلتا ہے، کبھی دلبر میں ڈھلتا ہے
- اک سبب ترکِ تعلق کا مہیّا کرتے !
- نغمگی کی تصویریں، اُس کے لب بناتے ہیں
- سر میں آشفتگی تو تھی اے دوست
- تازگی نکلتی ہے، چاندنی نکلتی ہے
- چاہت کا سامنا ہے، مروّت کا سامنا
- ربطِ یاراں چاہئے، لطفِ عزیزاں چاہئے
- ان آئنوں میں اب کوئی چہرہ نہ سوچنا
- غیرت نہیں رہتی ہے، مروّت نہیں رہتی
- دیکھا جو گُل بدن تجھے، شاخِ ثمر لچک گئی
- ماں
- مقابلے میں جو کَل کر بلا کے نکلا تھا
- خشک ہوائیں ایسی آئیں، انکُر پھوٹے سوکھ گئے
- ہر نظارے سے کوئی اور نظارہ نکلا
- وہ شخص خواب تھا آیا، چلا گیا چپ چاپ
- مت مجھ سے زندگی کا پوچھو سوال یاراں
- تم سے کبھی اپنوں کی بھلائی نہیں ہوتی
- یہ تو نہیں ہر درد کو سہنا نہیں سیکھا
- کب تک یہ ترے ہاتھ کا خنجر نہ جھکے گا
- نہ آشفتگی کر، نہ دل بستگی کر
- یہ سچ ہے کہ دنیا میں جنّت نہ ہو گی
- ہر بار نئے روپ میں ڈھلنا نہیں آتا
- وقت اپنا بھی گنوانے کے لئے ہو جیسے
- کیسے ہو یقیں گھر کے دریچے نہ گریں گے
- بیاباں بیاباں بھٹکنا بھی سیکھ
- یوں تو دونوں میں کچھ خاص رشتہ نہیں
- اس کی چاہت دبی دبی سی رہی
- با توں میں یوں آئے کہ تھا جادو بھرا لہجہ ترا
- تھا بے بسی میں اُن کو قیامت کا سامنا
- نہ محلوں نہ آرام خانوں میں ہے
- گھر اپنے سرِ شام پلٹ آئیے صاحب
- اپنا عالم دیکھئے جب اس کا چہرہ دیکھئے
- جہاں میں تغیّر یہ کیسا ہوا
- ہر روز سُن رہا ہوں میں دستک عذاب کی
- پاس میرے ترا ہونا، نہیں ہونا کیا ہے
- امیدیں تو دیتی ہیں دھوکا ہمیشہ
- کچھ تو تشفّیِ دلِ نا کام بھیجئے
- قریہ در قریہ سفر کے سلسلے بھی کم نہیں
- ہمیں تیرگی اب نہ گھیرے کہو
- وابستگی، خلوص، محبت کہاں گئی
- ہوئی گفتگو دل کی دل سے تو جانا
- توقع ہے، رب کا کرم اور ہے
- احساسِ ہجر، بار نہیں رہ گیا مجھے
- زمانے ! نہ یوں صبح لا، شام لا
- تری یاد کے گُل مہکنے لگے
- بے لوث تعلق بھی تو ملتا نہیں ہمدم
- یہ مشغلہ بھی کم نہیں دشمن کے واسطے
- نکلے تری نظر سے اشارے کئی کئی
- کہا تھا کس نے تم سے، تم زمانے سے وفا کرنا
- منتشر چنگاریوں کو کہکشاں لکھ جائیے
- زمانہ ہی بدلا ہے، ہم کیا کریں
- آ کے وہ رہزنوں کے ڈیرے سے
- کل تک جو مجھ میں سچ تھا وہ کیسا بدل گیا
- زیرِ زمیں سفر کیا، اور سوٗئے آسماں گیا
- بیگانگی میں پوچھ نہ کیسے بہل کے آئے
- حقیقت کو میری فسانہ نہ کرنا
- سرِ رہ سلام و دعا تو نہ چھوڑ
- اک خوف ہے دلوں کو مسلسل لگا ہوا
- تیور تھے کل تلک جو تمھارے، کہاں گئے
- موجوں کے لئے ہے، نہ کنارے کے لئے ہے
- بے رشتہ جو لگتا ہے تو رشتہ بھی وہی ہے
- انسان کا ہر قول تو سچّا نہیں ہوتا
- چاند ہے، چاند کے چہرے پہ ضیاء بھی کچھ ہے
- زلفوں کی اک گھٹا وہ کبھی کی گزر گئی
- ادب کی خسارے میں جا گیر ہے
- یوں نہ ہر دم مِرے گمان میں آ
شِکن شِکن چہرہ
(دوسرا مجموعۂ کلام)
بچھڑے جو اُن سے دَرد کا دَریا وہ مَوج زَن ہوا
آنکھیں لہو، لہو، ہوئیں، چہرہ شِکن شِکن ہوا
اطہر شکیلؔ نگینوی
اب تمہارا نام لکھ لوں گر اجازت دو مجھے
لکھ چکا اپنا فسانہ، اِس کو عنواں چاہئے
انتساب
عظیم المرتبت ڈاکٹر وسیم اقبال صدیقی صدر شعبۂ اُردو کرشن گوپال ڈگری کالج نگینہ
کے نام جن کی دی ہوئی مسلسل تحریک اور دعاؤں کا نتیجہ ہے ’’شکن شکن چہرہ‘‘
اور اِس سے پہلی کتاب ’’سمندر اور سِلوٹیں ‘‘ بھی
اطہر شکیلؔ نگینوی
نہ آنسو کام آتے ہیں نہ آہیں کام آتی ہیں
جو منزل کی جہت دے دیں وہ راہیں کام آتی ہیں
بھروسہ اس قدر اچھا نہیں پتوار پر مانجھی
یہ طوفاں ہے یہاں مضبوط بانہیں کام آتی ہیں
منوّر راناؔ
کبھی تو کوئی پڑھے گا لکھا ہوا میرا
سائنس کی بے انتہا ترقی کے باوجود غزل کی آبیاری کے لئے آج بھی خونِ جگر کی ضرورت پڑتی ہے ۔ صنفِ غزل کی حدّت کو برقرار رکھنے کے لئے آج بھی نو جوان خون کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اُردو جسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے اس لشکر میں ہمیشہ نوجوانوں کی صفیں سینہ سپر رہتی ہیں ۔ بڑے بوڑھوں سے یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ عورت، کھیتی اور شاعری پر دسترس کے لئے جوان ہونا ضروری ہے ۔
اطہر شکیلؔ نہ صرف یہ کہ نوجوان ہیں، بلکہ تمام تہذیبی علامتوں سے آشنا بھی ہیں ۔ شاعری ابھی تک ان کے نزدیک ہنر ہے ۔ ابھی تک انھوں نے اسے پیشہ نہیں بنایا ہے ۔ شعر کہتے وقت ان کے پیش نظر مشاعرہ نہیں، بلکہ ادب ہوتا ہے ۔ مسائل سے نظریں ملاتے وقت ان کی آنکھوں کی چمک اور بڑھ جاتی ہے ۔ کوچۂ ادب سے گذرتے وقت کوئی شاعر جب اپنے چہرے اور احساس پر سنجیدگی کی دھوپ سجائے رہتا ہو، تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ شہسوار ادب کی ریس میں دور تک جانے کی ہمّت رکھتا ہے ۔
ادبی طور پر بے انتہا مالامال ہونے کے باوجود بجنور کو علاقائی تعصب کی بنیاد پر کسی دبستانِ ادب کے سر ٹیفکٹ سے سرفراز نہ کیا گیا ہو لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی کنویں پر میٹھے پانی کا بورڈ نہیں لگا یا گیا لیکن تشنہ لبوں کی سیرابی ایسے کنوؤں کی گواہ بن جاتی ہے ۔ اطہر شکیلؔ بھی بجنور کی مردُم خیز اور ادب نواز تحصیل نگینہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اپنے لب و لہجے کو اُردو زبان کی شیرینی میں ڈبو کر، فکر کو اپنی عمر کے تجربے کی بھٹی میں تپا کر، لفظوں کو شائستگی کی آنچ سے گذار کر، جب غزل کا روپ دیتے ہیں، تو ان کی غزل میں ایک عام آدمی کی دھڑکن کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وہ عقاب کی نگاہ، کبوتر کی معصومیت اور فاختہ کی دردمند کوک کو غزل کے ایوان میں داخل کر رہے ہیں ۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں انھیں اعتبار کا وہ درجہ حاصل ہو جائے گا۔ جس کے لئے لوگ ساری زندگی کو شاں رہتے ہیں ۔ یوں بھی کسی نوجوان کا تہذیبی طور پر مالامال ہونا اس کی با وقار بزرگی کی نشاندہی کرتا ہے ۔
اطہر شکیلؔ بھی اپنے ہم عمر نوجوانوں کی طرح تنقیدی رویّے کے ستائے ہوئے ہیں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اطہر یا ان کے اور بھی بہت سے ہم عصر یا ہم عمر اُردو شاعری کے لئے انعام اللہ خاں یقیںؔ ثابت ہوں گے ۔ لیکن اُردو کی تاریخ گواہ ہے کہ انصاف تو اس مقتول کے ساتھ بھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن تخلیق کار کو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ۔ کیونکہ زندگی وہی اچھی، جو مسائل سے جوجھ رہی ہو۔ ہر چند کہ ہم جس اخلاقی قلاشی اور کاروباری سوچ سے گذر رہے ہیں اس میں ادب تخلیق کرنا کارِ بے مصرف معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ایوانِ ادب ہمیشہ ایسے ہی سر پھروں سے آباد رہا ہے ۔ جو اپنی زبان اور اپنے ادب کے سلسلے میں قیس و فرہاد سے زیادہ جذباتی اور با ہمّت رہے ہیں ۔
اطہر شکیلؔ شاعری کے ذریعے آپ کے دلوں تک پہنچنے کے لئے بیقرار ہیں ۔ آیئے ہم اور آپ مل کر نئی نسل کے اس شاعر کا استقبال کریں اور اس کے اچھے شعروں کی پذیرائی کریں ۔ اور عرفان صدیقی کا یہ شعر بھی اس کی نذر کرتے چلیں ۔
کبھی تو کوئی پڑھے گا لکھا ہوا میرا
کبھی تو کام یہ شوقِ فضول بھی دے گا
منوّر راناؔ
کلکتہ مغربی بنگال
اپریل ۲۰۰۶ ء
باسمہ تعالیٰ
بیناؔ بجنوری
ساحری دَر شاعری
میں جس شاعر کا ذکر کرنے جا رہا ہوں اُس کی حیثیت گُلستانِ شاعری میں ایک گلِ نو شگفتہ کی ہے، اِس گُل کی مہک نے پورے ہندوستان کو اپنے حصار میں لے لیا اور ایسا لگتا ہے کہ اس کی خوشبو جلد ہی پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لے گی، اللہ پاک اس کی عمر میں برکتوں کے ساتھ اضافہ فرمائے ۔ آمین۔
یہ شخصیت اطہر شکیلؔ کی ہے جو نگینہ ضلع بجنور کے باشندہ ہے ان کا کھِلتا مُسکراتا چہرہ اپنے اندر وہ مقناطیسیت رکھتا ہے کہ اپنے مقابل کو چشمِ زدن میں اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ اللہ پاک کا خصوصی عطیہ لحنِ داؤدی بھی پایا ہے جو کلام کو دو آتشہ بنا دیتا ہے انہی نِسبتوں کے، باعث کلام بھی نہایت دلکش اور جملہ احسان و اوصاف سے آراستہ ہے ۔ بقول غالبؔ۔
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے
میں نے بغور مطالعہ کیا یوں تو کوئی کلام بجز کلامِ الہٰی کے تنقید سے بالاتر نہیں ہے چنانچہ ان کے یہاں بھی کچھ خامیاں ضرور ہوں گی جن پر میری نگاہ نہیں پہنچی لیکن مجموعی اعتبار سے کلام بہر نوع قابلِ ستائش ہے ۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنی بات کو نہایت سادگی مگر شائستگی سے روز مرّہ کی زبان میں جدید و قدیم کے اِمتزاج کے ساتھ چابک دستی سے مشکل اور اہم مضامین کو بڑی آسانی سے بیان کر جاتے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ اِس دورِ قحط الرجال میں اس شاعر اور اس کی شاعری کو جو ساحری کا مترادف ہے گلزارِ شعر و ادب میں اگر ایک خوبصورت اضافہ نہ کہوں تو زیادتی ہو گی۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک ہی شعر میں اِنسانی زندگی کی عمومی کیفیت کو بڑی سُبک روی سے بیان کر دیا ہے ۔
زندگی کے معنی کیا جال رہگذاروں کا
اک گلی سے آگے پھر اِک گلی نکلتی ہے
ایک جگہ ساتھی کو عجب انداز سے حوصلہ دیتے ہیں ۔
رات کا لی سہی ہاتھ میں ہاتھ دے
گھر سے باہر نکل خوف اتنا نہ کر
زبانِ اُردو کے اِنحطاط و زوال کی طرف شاعر کی نگاہ کس قدر تیز ہے اور اندازِ بیان کتنا اچھوتا ہے کہ جس قدر داد دی جائے کم ہے ۔
خط کو پڑھوانے چلا آیا پڑوسی تھا مِرا
صاف ستھری اک عبارت تھی مگر اُردو میں تھی
حسنِ تمثیل ملاحظہ فرمائیں :۔
کتنی جھیلوں کو سکھا دیتا ہے سورج اطہرؔ
تیز ہو درد تو آنسو نہیں آیا کرتے
شبِ فراق میں صحیح کیفیت جو ایک عاشقِ زار کی ہو سکتی ہے کس خوبی سے بیان کی ہے ملاحظہ فرمائیں :۔
آس ہے نہ وعدہ ہے پھر بھی سوتے سوتے ہم
اِک ذرا سی آہٹ پر چونک چونک جاتے ہیں
تغزّل ملاحظہ کریں :۔
سرخوشی میں دیکھا تھا ایک دن ترا چہرہ
اب بھی میری آنکھوں میں چاند جگمگاتے ہیں
انسانی زندگی کے سلسلے میں ہر شاعر نے کچھ نہ کچھ کہا ہے ۔ اسلامی فلسفۂ حیات سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو اطہر شکیلؔ کا شعر سب پر حاوی ہے :۔
راز کون سمجھا ہے زندگی کا اطہرؔ جی
سب ندی میں کاغذ کی کشتیاں بہاتے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ اطہرؔ میاں نے جس مضمون کو شعر کے سانچہ میں ڈھالا ہے ادائیگی کا حق کمال کی حد تک بیباق کر دیا ہے ۔ میں ایمانداری سے بلا جھجک یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ دوسرا مجموعۂ کلام جو زیر طبع ہے جس کو انھوں نے ’’شِکن شِکن چہرہ‘‘ کا نام دیا ہے قبولِ عام حاصل کریگا اِنشا ء اللہ۔
بیناؔبجنوری
ستمبر ۲۰۰۶ ء
محمد عرفان نگینوی
اطہر شکیلؔ اپنے کلام کے سیاق و سباق میں
آج کا زمانہ دولت و ثروت اور شہرت و عزّت کی دوڑ دھوپ اور معرکہ آرائی کا زمانہ ہے آج کی دنیا ہالی وڈ Hollywoodاور بالی وڈ Bollywood کی گلیمر اور چکا چوند کی دنیا ہے ۔ آج کے دور میں وہی ادب اور فنون زندہ رہ سکتے ہیں جو شہرتِ عام اور بقائے دوام کی کسوٹی پر پورے اتر سکیں، اس آرائش و نمائش کے دور نے ایک نئے کلچر کو ترتیب دیا ہے جس کو ہم چشم و گوش یعنی دیکھنے اور دکھانے، سننے اور سنانے کے کلچر سے تعبیر کر سکتے ہیں اور آرائش و نمائش کے اس پورے تصور کو Audio -Visual کی دور رس اصطلاح کے حوالے سے بیان کر سکتے ہیں ۔ audio -Visualسے عام طور پر بڑے اسکرین اور چھوٹے اسکرین والی دنیا کو تصور کیا جا سکتا ہے اور اُن لوگوں کو بڑے رشک اور حسرت و تمنا سے دیکھا جاتا ہے جو audio -visualوالے اسکرینوں پر چھائے رہتے ہیں ۔ لیکن اِس مقابلہ بازی اور مسابقت والی کش مکش اور صلہ آزمائی سے اکثر لوگ بے خبر رہتے ہیں جو قبولیت عام اور بقائے دوام کے میدان میں قدم رکھنے والوں کو پیش آتی رہتی ہے ۔Hollywoodاور Bollywood کی گلیمر اپنی جگہ لاجواب اور بے مثال مانی جاتی ہے اور audio -visualاور چھوٹے بڑے اسکرینوں پر رونمائی کرنے والے ہیروز Heroesاور ہیروئینوں Heroinesکی برابری اگر کسی نے کی ہے تو وہ کرکٹ کی شہرت اور گلیمر ہے جس کے Heroesکے اپنے چاہنے والے اور Fansہوا کرتے ہیں ۔ اب اس گلیمر اس شہرت و عظمت، اس قبولیت و مقبولیت کی برابری اگر کسی چیز نے کی ہے وہ اُردو مشاعرے ہیں جہاں مشاعرے کے اسٹیج کے Heroesاور Heroinesکی اپنی گلیمر اپنی شہرت و عظمت اور اپنی ہی چکا چوندھ ہوا کرتی ہے اور جسے ناظرین و سامعین اس ذوق و شوق اور اُسی حیرت و حسرت سے دیکھتے ہیں جس کو چھوٹے بڑے اسکرینوں کی شہرت و مقبولیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
مشاعرہ کے اسٹیج پر پہلی دفعہ تو کوئی انسان کسی کی سفارش و گذارش سے پہنچ سکتا ہے لیکن پہلے مشاعرہ کے بعد دوسرے مشاعرے اور پھر تیسرے مشاعرے اور کسی طرح آگے آنے والے مشاعروں کے سلسلوں میں شرکت شاعر کی اپنی کمالPerformance آرائی اور اس مقابلہ بازی Competitionاور مسابقت Raceمیں دوڑتے رہنے کی واقفیت شاعر کے اپنے لگاتار مظاہروں پر ہی منحصر ہے، جو شاعر کو اپنے کلام کو عوام کے مسائل کی فہم و فراست اور اُن مسائل کو بہتر سے بہتر انداز سے پیش کرنے پر منحصر ہوتی ہے اِن مقابلہ بازیوں اور مسابقتوں میں مستقل طور پر شریک رہنے والا انسان واقعی کوئی سچ مچ کا بڑا شاعر ہی ہو سکتا ہے اور یہ عظمت و شہرت ہمیں اپنے مشاعروں کے ایک نووارد نوجوان شاعر اطہر شکیلؔ نگینوی میں پوری طرح جلوہ گر نظر آتی ہے جو آل انڈیا مشاعروں میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک محض اس لئے بلائے جاتے ہیں کیونکہ وہ غمِ زمانہ سے واقف ہیں اور کیونکہ ان کے اشعار عوام کے دلوں کی ایک غم انگیز داستان ہوتے ہیں جیسا کہ خود اطہر نے ایک جگہ کہا ہے :۔
میں غمِ زمانہ سے اے شکیلؔ واقف ہوں
میرے شعر لوگوں کی داستان ہوتے ہیں
ہم نے اطہر شکیلؔ صاحب کے سلسلے میں Bollywoodاور چھوٹے بڑے اسکرین اور میڈیائیAudio -Visualکی دنیا کا ذکر کیا جس کی تصدیق جناب نداؔ فاضلی نے اطہر شکیلؔ کی ذہانت و ریاضت کو حوصلہ افزا الفاظ سے نواز کر کی ہے اور یہ بات سب پر ظاہر ہے کہ جناب نداؔ فاضلی شعر و ادب کے حوالے سے عوام الناس اور گلیمر کی دنیا کے درمیان کی ایک اہم کڑی ہیں ۔
اسی طرح مشاعروں کے گلیمر کے ایک اور Heroجناب انور جلال پوری نے بھی جناب اطہر شکیلؔ صاحب کی اس تخلیقی صلاحیت اور اخلاقی برتری کے اُس عظیم پیمانے کا ذکر کیا ہے جس کے بغیر اس مقابلہ بازی اور مسابقت کی دوڑ دھوپ میں کسی شاعر کا موجود رہنا ممکن ہی نہیں ۔ اِسی طرح جس ضلع یعنی ضلع بجنور سے جناب اطہر شکیلؔ کا تعلق ہے اس ضلع میں نئی شاعری کے باوا آدم جناب نشتر خانقاہی نے بھی اطہر شکیلؔ میں اُن تین فضائل و شمائل یعنی (۱) فکر (۲) جذبہ اور (۳) احساس کا ذکر کیا ہے جن کے بغیر کسی شاعر کا اصلی اور مکمل استحقاقِ شاعری ہی نا ممکن ہے ۔ ہم نے مشاعروں کے اسٹیج کی دنیا میں ایک مسابقت یعنی Competitionکا تذکرہ کیا آج یہ مسابقت خود زندگی اور زندہ رہنے کی ایک شرط بن گئی ہے جیسا کہ خود اطہر شکیلؔ کہتے ہیں :۔
خواہشیں، امتحاں، کشش، کوشش
یوں بسر ہم نے زندگانی کی
جناب انورؔ جلال پوری نے جس اخلاقی بر تری کا ذکر کیا، حالانکہ اس کا مطلب Moral Courageسے ہے لیکن اصطلاحِ عوام میں اخلاقی برتری کا جو مطلب لیا جاتا ہے اس کی ایک جھلک اطہر شکیلؔ کے اس شعر میں خوشبو کی طرح موجود ہے ۔
لاکھ اوروں نے بدزبانی کی
عادتاً میں نے گُل فشانی کی
اطہر شکیلؔ کے یہاں خیرو شر، حق و باطل، روشنی و تیرگی کے حوالوں سے بڑے تیکھے استعارے ملتے ہیں جن کے بل بوتے پر اطہر شکیلؔ کے اشعار ہزار بلاؤں کے باوجود ایک تند و توانا چراغ کی طرح روشن نظر آتے ہیں :۔
دنیا کے ظلم، جورو تشدّد کہ مفلسی
تنہا کھڑا ہوں اتنی بلاؤں کے سامنے
اطہر شکیلؔ آج کل رہنماؤں کو مانجھی کی اصطلاح کے ذریعہ ایک مزید فعالیت کا پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں :۔
بھروسا اس قدر اچھا نہیں پتوار پر، مانجھی
یہ طوفاں ہے، یہاں مضبوط بانہیں کام آتی ہیں
یہاں پتوار، مانجھی، طوفان اور مضبوط بانہوں کے استعاروں سے جو کام نکلتا نظر آ رہا ہے وہ شاید دوسرے الفاظ کے بس کا نہ تھا۔ اسی طرح Human Capacity انسانی امکان اور Divine Helpآسمانی استمداد کو ذہن میں رکھ کر ایک اور موثر پیغام بہم پہنچاتے ہیں مثلاً :
دعا کرنے سے کب سوکھی زمیں پر فصل اُگتی ہے
عمل کے بعد ہی اطہرؔ دعائیں کام آتی ہیں
اطہر شکیلؔ کے مندرجہ بالا اشعار شاعر اور زندگی، کی فہم و بصیرت کو جس طرح پیش کرتے ہیں اس کی مزید تشریح و تفسیر اس شعر سے پر زور انداز میں ہوتی ہے اور زندگی کی اتنی بے کراں تصویر شاید ہی کسی نے پیش کی ہو، شعر حاضر ہے :۔
زندگی کے معنی کیا، جال رہ گذاروں کا
اک گلی سے آگے پھر اک گلی نکلتی ہے
آخر میں ہم اطہر شکیلؔ کو ایک عظیم بحرِ بیکراں کے کنارے مشاہدہ کرتے دیکھتے ہیں جو بحرِ بیکراں اُن کے باہر موجیں مارتا نظر آتا ہے اسی طرح اُن کے اندر بھی اُس کی طوفان خیزیاں اطہر شکیلؔ سے ایک کے بعد دوسرا شعر کہلواتی چلی جاتی ہیں اور اطہر شکیلؔ یہ مشاہدہ کرتے ہوئے ہمیں ایک عالم حیرت میں چھوڑتے چلے جاتے ہیں :
غضب کی سِلوٹیں پڑتی ہیں سطحِ آب پر اطہرؔ
سمندر لمحہ لمحہ کرب کے عالم میں رہتا ہے
محمد عرفان نگینوی، صدر شعبۂ انگریزی اسلامیہ کالج بریلی
ستمبر ۲۰۰۶ ء
محمد قاسم صدیقی
وائس چانسلر جامعۂ اُردو علی گڑھ
’’سمندر اور سلوٹیں ‘‘
’’سمندر اور سلوٹیں ‘‘ نوجوان شاعر اطہر شکیلؔ کا مجموعۂ کلام ہے ۔ یہ غزلوں کا خوب صورت گلدستہ ہے ۔ اطہر شکیلؔ کا تعلق نگینہ سے ہے اور نگینہ ہمیشہ سے ادبی، سیاسی و سماجی مرکز رہا ہے ۔ جس میں محمد عرفان نگینوی مصنّف طرزِ غالبؔ اور دسترس نیز دیگر شعری مجموعے و تنقیدی تصانیف سے قطع نظر رفعت سروشؔ جیسے اعلا پائے کے شعرا نے اس بستی کا نام روشن کیا ۔ اب اطہر شکیلؔ صاحب کے کاندھوں پر یہ بوجھ آ پڑا ہے اور انھوں نے اپنے خوبصورت اشعار سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ نگینہ کا نام اسی تواتر سے روشن رکھیں گے ۔
اطہر شکیلؔ کا پیرایۂ بیان، تخلیق اور فکر اُن کی شاعری کی انفرادیت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ اُن کی شاعری میں قدیم اور جدید دونوں کا سنگم ہے، فکر، احساس اور جذبہ کا گہرا اثر و ادراک ہے ۔ ان کے اندازِ بیان اظہارِ خیال لفظیات اور موضوعات میں نیا پن بھی ہے اور اس کے ساتھ تیکھا پن بھی جذبے کا بے باکانہ اظہار کوئی معمولی بات نہیں ۔ جدید اور قدیم کی بحث میں نہ اُلجھ کر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ قدیم روایات سے یکسر رشتہ منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ ردّ و قبول اِنسانی سرشت کا حصّہ ہے ۔ ذہن سماج سے بنتا ہے اور سماج میں تبدیلیاں ہونا ناگزیر ہیں ۔ اطہر شکیلؔ اس ردّ و قبول کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں اور اُنھیں سماجی تبدیلیوں کا خوب شعور ہے ۔ اُن کا فکری پیرایۂ بیان سنجیدہ بھی ہے اور پختہ بھی، اپنے تاثرات اور دلی کیفیات کو شعر میں ڈھالنے کا فن انھیں آتا ہے اُن کے مندرجہ ذیل اشعار اُن کی شعری بوطیقا کے مظہر ہیں :۔
وہ تو سب کو عزیز رکھتا تھا
زد میں شعلوں کی اُس کا گھر کیوں ہے
٭
دوستی اُس نے دفعتاً کی تھی
بے وفائی بھی ناگہانی کی
شعر کی روانی دیکھئے، اسی کو زبان کا شعر کہا جاتا ہے :۔
گھر میں رہتے ہیں ہم مگر یہ بھی
ایک صورت ہے بے مکانی کی
آج شہروں میں بے مکانی کا منظر عام ہے ۔
لوگ لمحوں میں پرکھ لیتے ہیں سب کچھ اطہرؔ
غم کو دنیا کی نگاہوں سے بچائے رکھنا
٭
چھوڑ کر قصّۂ اسلاف یہ بہتر ہے کہ اب
اپنے کردار سے تاریخ بنائی جائے
شاعر کھلی آنکھوں سے زمانے کے بدلتے مناظر اور اپنے دور کی پرچھائیاں دیکھ رہا ہے اور اُسے غزل کے پیکر میں ڈھال رہا ہے ۔
بے شک یہ کائنات تغیّر پذیر ہے
منظر بدل رہے ہیں نگاہوں کے سامنے
٭
قدم پلکوں کی حد سے آنسو ؤ! باہر نہ رکھ دینا
کہ مر جائیں گے ہم ان کو اگر رسوا کیا تم نے
محمد قاسم صدّیقی، وائس چانسلر، جامعہ اردو، علی گڑھ
جون ۲۰۰۶ ء
یہی وہ مطلع ہے
فضاؤں میں چھڑک دیتے ہیں خوشبو بولنے والے
جہاں کچھ لوگ مل جاتے ہیں اردو بولنے والے
یہی وہ مطلع ہے جس نے مجھے اطہر شکیلؔؔ کی شاعری کی طرف متوجہ کیا، مجھے محسوس ہوا کہ یہ شاعر اُردو ادب کو مزید مالا مال کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ پھر اطہر شکیلؔ کے مجموعۂ کلام ’’سمندر اور سلوٹیں ‘‘ کے مطالعہ سے میرے اِس خیال کو مزید تقویت ملی۔
لبوں سے پھول برستے ہیں گفتگو بن کر
الگ جہانِ سخن سے لگا سخن اُس کا
روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تجربات کے پل صراط پر چلنا آسان نہیں اور اطہر شکیلؔ اِس مشکل کام کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں :۔
روکتا ہے کون ہر لغزش سے پہلے میرے پاؤں
ذات کے اندر مِری میرا نگہباں کون ہے
روایات اور تجربات کے درمیان سفر کرنے والا یہ البیلا شاعر تعلق خاطر کی نزاکتوں سے بہ حسن و خوبی گذر جانے کا ہنر جانتا ہے ۔
اطہر شکیلؔ کی نظر محصور نہیں ہے وہ دنیا کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُسے شعری پیکر میں ڈھالنے کے فن سے بھی کماحقہ‘ آشنا ہیں ۔
آگ اپنا، پرایا نہیں دیکھتی
گھر کسی کا جلا نے کی ضد چھوڑ دے
اطہر شکیلؔ فکر آمیز پُر گو شاعر ہیں، مستقبل میں اُن کی شاعرانہ طرحداری اور ہنر مندی میں اضافہ ہو گا ایسا میرا یقین ہے ۔
ساحل سحری نینی تالی
یکم اکتوبر ۲۰۰۴ ء
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عزیز الرحمٰن
سابق وزیرِ قانون و انصاف(اتّر پردیش)
شاعری اصلاً بالطبع ہے
شاعری اصلاً بالطبع ہے ۔ لیکن کسب سے یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے مگر دونوں کا فرق واضح رہیگا۔ شاعر کا درجہ کافی بلند ہے بقدرِ علم اور تجربہ کی وسعت ترقی پذیر ہے ۔ ظاہر ہے جو کسی خوبی اور برائی پر تنقید کرنا چاہے اسے جس چیز پر وہ تنقید کر رہا ہو اُس سے بلند ہونا ضروری ہے ۔ میں نہ شاعر، نہ تنقید نگار اطہر شکیلؔؔ صاحب میرے ہم وطن ہیں اور مجھے ان سے ملاقات کا فخر حاصل ہے ماشا اللہ شائستہ مزاج ہیں اور شاعری کا ذوق ہی نہیں رکھتے بلکہ فطرتاً شاعر ہیں جتنے زیادہ علم کے مالک اور تجربہ کار ہوں گے شاعری میں کمال تک پہنچ سکتے ہیں ان کی ایک غزل جس کے چھ شعر ہیں اور سب قابلِ قدر ہیں ۔ زبان اور خیال دونوں کے اعتبار سے بڑے سے بڑے شاعر کے لئے یہ دونوں شعر قابلِ تحسین ہیں :۔
جنگ میں کردار اور تلوار دونوں شرط ہیں
چھوٹ جائے ایک بھی تو سر نگوں باطل نہ ہو
ایک بنیادی اور انمٹ سچّائی ہے جس کا یہ بیان ہے اور ایک ادراکی قانونِ قدرت اور حقیقت کا بیان اس طور نظم ہوا ہے :۔
وہ محبت لائقِ معراج ہو سکتی نہیں
جس محبت میں ترا خونِ جگر شامل نہ ہو
مزید دیکھئے ایک گہری حقیقت اور واضح معنوی درجہ کا بیان کن الفاظ میں ادا ہوا ہے :
سورج کے جیسا تو بھی اُتر غم کی رات میں
رہتے نہیں اندھیرے شعاعوں کے سامنے
اس شعر کی تعریف سے کونسی زبان قاصر رہ سکتی ہے ۔
سامنے اُن کے جھکا کرتی ہے دنیا اطہرؔ
رب کے آگے سرِ تسلیم جو خَم رکھتے ہیں
یقیناً یہ اشعار اشارہ کرتے ہیں ۔
با لائے سرش زہوشمندی
می تا فت ستارۂ بلندی
عزیز الرحمٰن
سابق وزیرِ قانون و انصاف (اتّر پردیش)
۱۰؍ستمبر ۲۰۰۴ ء
نعتِ پاکﷺ
کچھ ہے یہ ارضِ پاک، نہ یہ آسماں حضورؐ
قدموں میں آپؐ کے تھے مکاں، لامکاں حضورؐ
کم تر ہیں کائنات کی ساری تجلّیاں
روشن ہیں رُوئے پاکؐ سے دونوں جہاں حضورؐ
بابِ حرم کے بعد نہیں کچھ مِرے لئے
منزل ہے میری آخری، یہ آستاں حضورؐ
دنیا بھی اُس کے ساتھ ہے، جنّت بھی اُس کی ہے
جس بے نوا پہ آپؐ ہوئے مہر باں حضورؐ
محروم رہبری سے رہا ہو جو آپؐ کی
منزل کبھی نہ پائے گا وہ کارواں حضورؐ
اظہار پاکے آپؐ کی آو ازِ پاک میں
قرآں کا حرف حرف ہوا جاوداں حضورؐ
دِل سے یہی دعا ہے کہ مدحت میں آپؐ کی
اطہرؔ کبھی ہو کاش سراپا زباں حضورؐ
فضاؤں میں چھڑک دیتے ہیں خوشبو، بولنے والے
جہاں کچھ لوگ مِل جاتے ہیں اُردو بولنے والے
یہ وَرثہ ہند کا اردو زباں پہچان ہے جن کی
کہاں سمجھیں گے اِس کو یہ من و تو‘، بولنے والے
میسّر ہیں ہمیں دن رات نغمے بھی تجلّی بھی
ہمارے گھر سے وابستہ ہیں اُردو بولنے والے
چھلک جائیں تو کہہ دیتے ہیں ساری داستاں دل کی
ہمیں معلوم ہے، ہوتے ہیں آنسو بولنے والے
شبِ غم ایک سنّاٹا زمیں سے آسماں تک تھا
ستارے سننے والے تھے نہ جگنو بولنے والے
میسّر کس کو اب روشن ضمیری ہے یہاں اطہرؔ
بہت پھرتے ہیں گو بستی میں یا ہوٗ بولنے والے
تبسّم، قہقہے، شعلہ بیانی چھین لی تم نے
مِرے ہونٹوں سے کیوں میری کہانی چھین لی تم نے
کبھی ترکِ تعلق پر تاسّف بھی تمھیں ہو گا
چلو اچھّا ہوا یہ خوش گمانی چھین لی تم نے
ہے لہجے کے حسیں دھیمے بہاؤ میں تسلسل بھی
مجھے حیرت ہے دریا سے روانی چھین لی تم نے
لبوں سے گفتگو میں پھول جھڑنے پر لگا ہم کو
گلابوں سے چمن میں گُل فشانی چھین لی تم نے
مجھے اِتنا بتا دو بس اگر تم سچ کے قائل ہو
مِرے ہونٹوں سے پھر کیوں حق بیانی چھین لی تم نے
کبھی رختِ سفر چھینا تھا بیکس راہ گیروں کا
دلوں سے اب اُمیدِ کامرانی چھین لی تم نے
نہیں آتے ہو پہلے کی طرح اطہرؔ کے خوابوں میں
وہی آنکھیں ہیں لیکن مہربانی چھین لی تم نے
ضرب کتنی ہی بھاری ہو بکھرا نہ کر
مِثلِ آہن بنا، خود کو شیشہ نہ کرخ
رات کالی سہی، ہاتھ میں ہاتھ دے
گھر سے باہر نکل، خوف اتنا نہ کر
مان بھی لے یہ گل دان شیشے کا ہے
اُس کے وعدے پہ اتنا بھروسا نہ کر
کام کی چیز ہے تازہ کاری مگر
دل میں جو زخم ہیں اُن کو تازہ نہ کر
بس تاسّف میں غوطہ زنی اور کیا
اپنا دل اِس زمانے میں دریا نہ کر
درد لا حاصلی کا ملے گا تجھے
دسترس میں نہ ہو تو تمنّا نہ کر
اُس سے جرأت اگر ہو تو کہنا شکیلؔ
عشق کر، عاشقی کا دکھاوا نہ کر
نظر کا زاویہ بدلا ہوا ہے
سمجھنے سے وہ کب اپنا ہوا ہے
بجی ہے فون کی گھنٹی تو مجھ کو
تری آواز کا دھوکا ہوا ہے
چلے آؤ کہ بیلے کھِل رہے ہیں
ابھی موسم وہیں ٹھہرا ہوا ہے
مِری آنکھوں پہ رکھ دو اپنا آنچل
پگھل کر دِل مِرا دریا ہوا ہے
عجب سوکھا پڑا ہے اب کی رُت میں
سمندر تھا جو کل صحرا ہوا ہے
نہ چُٹکی لے کے تم اطہرؔ کو بولو
غمِ دنیا کا یہ مارا ہوا ہے
ابنِ آدم ہوں، آدمی نہ کہو!
سانس لینے کو زندگی نہ کہو
دل میں دیکھو کہ نور کتنا ہے
ہر اُجالے کو روشنی نہ کہو
لفظ کی تہہ میں گتھّیاں ہیں بہت
سیدھی با توں کو سادگی نہ کہو
شعر کی روح تو ہے فنکاری
نثرِ سادہ کو شاعری نہ کہو
منزلیں ڈھونڈنے سے ملتی ہیں
گوشہ گیری کو نارسی نہ کہو
راستے کی دعا، سلام، مِلن
رسمِ دنیا کو دوستی نہ کہو
کون سنتا ہے شہر میں اطہرؔ
حالِ دل اپنا اب کبھی نہ کہو
زندگی کی کوئی سِلوٹ کب مِرے قابو میں تھی
اک شِکن بستر میں دیکھی، اک شِکن گیسو میں تھی
خط کو پڑھوانے چلا آیا پڑوسی تھا مِرا
صاف ستھری اک عبارت تھی مگر اُردو میں تھی
سوچ کر اب بھی مہک اٹھتا ہے میرا روم روم
کیا عجب تاثیر تیرے جسم کی خوشبو میں تھی
دونوں مِل کر سامنا کرتے تو دشمن ہار تا
اتنی قوّت تو ابھی تیرے مِرے بازو میں تھی
آنکھ سے تیری گرا ہے اور جلا ہے دل مِرا
آگ یہ کیسی خدا جانے ترے آنسو میں تھی
تھی شبِ تاریک میں اطہرؔ دلاسے کا سبب
سوچئے تو کتنی ننھی روشنی جگنو میں تھی
بچھڑے جو اُن سے درد کا دریا وہ مَوج زَن ہُوا
آنکھیں لہو، لہو، ہوئیں، چہرہ شِکن شِکن ہُوا
اب کے جنوں کی شورشیں پہلے سے مختلف ہوئیں
تارِ شکستہ بج اٹھے، چاک نہ پیرہن ہُوا
عشق ہویا کہ دوستی، دونوں ہی عارضی ہوئے
جرم فریب تھا کبھی، اب تو یہ اک چلن ہُوا
ان کا تبسمِ حسیں، حاصلِ فصلِ گُل بھی ہے
پھولوں کی انجمن ہُوا، کلیوں کا بانکپن ہُوا
تیری مِری کثافتیں کیا کیا تباہ کر گئی
خلا دھوئیں سے بھر گیا، کہرا چمن چمن گیا
جب بھی غزل سَرا ہُوا اطہرِؔ بے نوا کبھی
بات زمیں زمیں چلی، ذکر گگن گگن ہُوا
چاند کے پار کہیں میرا بسیرا ہوتا
یہ زمیں کیا ہے، یہ آکاش بھی میرا ہوتا
کتنا آسان تھا پھر صدیاں بِتا لینا بھی
ایک ہی پل کے لئے کاش وہ میرا ہوتا
اب اندھیرے کی مِرے گھر میں شکایت کیسی
تم نے آنگن میں مِرے چاند بکھیرا ہوتا
صرف کپڑوں نے چھپا لی ہے حقیقت اُس کی
راہبر وہ نہیں ہوتا تو لٹیرا ہوتا
اب صباحت پہ بھی ہوتا ہے سیاہی کا گماں
تم مِرے ساتھ جو ہوتے تو سویرا ہوتا
بال کھولے ہوئے وہ آ گئے، اچھّا ہے شکیلؔ
یوں نہ آتے تو یہ بادل نہ گھنیرا ہوتا
تسلّی ہو نہ ہو، لیکن بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں
بہت پیاسے ہیں جو خوابوں میں دریا ڈھونڈ لیتے ہیں
جگہ کی قید سے آزاد ہے آوارگی اِن کی
جنوں والے تو بستی میں بھی صحرا ڈھونڈ لیتے ہیں
انھیں رستہ دکھاتے ہیں ستارے ہوں کہ ہوں جگنو
جو را توں کے مسافر ہیں اُجالا ڈھونڈ لیتے ہیں
محبت کے جو بندے ہیں اُنھیں دنیا سے کیا مطلب
جنھیں دنیا کی خواہش ہے وہ دنیا ڈھونڈ لیتے ہیں
تصوّر سے ترے اکثر سجا لیتے ہیں شاموں کو
برائے دِل لگی اک دوست اپنا ڈھونڈ لیتے ہیں
مخالف بند کر دیتے ہیں جب اک راہ اطہرؔ جی
نئی راہوں سے ہم اک اور رستہ ڈھونڈ لیتے ہیں
یوں چشمِ انتظار سے آنسو نکل پڑے
جیسے تلاشِ مُشک میں آہو نکل پڑے
وہ ہجر میں بکھیر کے گیسو نکل پڑے
یہ سُن کے میری آنکھ سے آنسو نکل پڑے
جاگے تو اُس کے ساتھ شگوفے کھِلیں ہزار
سوئے تو روم روم سے خوشبو نکل پڑے
یہ سوچ کر بھی میں نے ہٹائی نہیں نظر
شیشے کہ اس فریم سے کب تو نکل پڑے
تکرار ہم نے چھوڑ کے تعمیلِ حکم کی
اِس میں بھی اختلاف کے پہلو نکل پڑے
قسمت کی یاوری نے ہمیں یوں بچا لیا
موجوں کی گود سے کئی بازو نکل پڑے
تنہائیوں میں یادوں کی شمعیں سی جل اٹھیں
پھیلی سیاہ رات تو جگنو نکل پڑے
اِس کی طرف سے اور نہ غفلت کرو شکیلؔؔ
مجبور ہوکے گھر سے نہ اُردو نکل پڑے
واقفوں کے درمیاں ہی بے نشاں ہو جائیں گے
ہم بھی کیا اس شہر میں اُردو زباں ہو جائیں گے
تم کبھی آ کر تو دیکھو میرے مسکن کی طرف
راستے کے سنگ ریزے کہکشاں ہو جائیں گے
پالنے میں دل کے بہلا کر سُلایا ہے اِنھیں
حال مت پوچھو مِرا صدمے جواں ہو جائیں گے
بڑھ چلیں گے ہم بھی کل انجان رستے کی طرف
سب مسافر ایک دن بے کارواں ہو جائیں گے
تم بھی بَن جاؤ گے اک بھولا فسانہ ایک دن
اک نہ اک دن دوست ہم بھی داستاں ہو جائیں گے
سر سے اک دن ماں کا سایہ چھین لے گا آسماں
کیا خبر تھی ہم بھی اطہرؔ بے اماں ہو جائیں گے
اس جہاں کی طرح مِٹنے والی نہ ہو
مَر کے جنّت ملے، تو خیالی نہ ہو
دکھ بھری رات میں یہ دعا دو مجھے
نیند آئے تو خوابوں سے خالی نہ ہو
ہاتھ سڑکوں پہ سائل کا پھیلے نہیں
کاش کوئی کسی کا سوالی نہ ہو
پھول ہاتھوں میں بچّوں کے مَسلے ہوئے
دل کے جذبوں کی یوں پائمالی نہ ہو
جس کا مشکل سے کوئی بھروسا کرے
پیار کی بات اتنی نرالی نہ ہو
اُن سے ملنے کی وہ رات اطہر شکیلؔ
لَوٹ آئے مگر ڈھلنے والی نہ ہو
راحت کا کوئی لمحہ مِرے پیار میں لے آ
اک چاند بہلنے کو شبِ تار میں لے آ
اب مرنے پہ مجبور کریں غیرت و افلاس
ہے پاس جو ایمان تو بازار میں لے آ
یہ کیسی لچک ہے ترے ایمان و عمل میں
اٹھ پختگی عزم کو کردار میں لے آ
تو حسن کو مت جنسِ تجارت کی طرح مان
مت بدعتِ تہذیب کو معیار میں لے آ
نیت کے بِنا کوئی بھی وعدہ نہیں سچآ
کچھ اپنا ارادہ بھی تو اقرار میں لے آ
دل جس کی تپش سے ترا بے چین ہے اطہرؔ
اب فکر کی اس آگ کو اظہار میں لے آ
جلتے ہوئے سَروں کا سمندر ہے سامنے
روزِ حساب جیسا ہی منظر ہے سامنے
اِن قاتلوں کو چاہئے کتنے سَروں کی بھینٹ
قاتل وہی ہے، پھر وہی خنجر ہے سامنے
کمرے میں بے چراغ بھی روشن ہوئی ہے رات
چہرہ ہے یا کہ مہرِ منوّر ہے سامنے
تجھ پر ہی ختم ہوتا ہے ہر ایک راستہ
گزروں میں جس طرف سے ترا گھر ہے سامنے
نفرت کے ریگ زار میں بھٹکو نہ دوستو!
چلتے چلو کہ پیار کا ساگر ہے سامنے
کس شہرِ بے اماں میں چلے آئے ہو شکیلؔ
جب بھی نظر اٹھاؤ ستمگر ہے سامنے
کوچے کوچے میں ہے چپ، گھر گھر میں سنّاٹا ہُوا
مجھ سے کچھ مت پوچھئے اس شہر میں کیا کیا ہُوا
اپنے لوگوں میں بھی اپنے پن کا جذبہ اب کہاں
آدمی اب بھیڑ میں رہتے ہوئے تنہا ہُوا
موسموں نے گو، ترے خط کی عبارت چاٹ لی
اب بھی ہے محفوظ لیکن پھول اک سوکھا ہُوا
میرا تجھ کو چاند کہنا ہی غلط تھا غالباً
تجھ کو تو معلوم ہی تھا چاند کب کس کا ہُوا
آج تک ہے یاد آنکھوں کو وہ منظر دل نشیں
باغ کی چنچل ہَوا، آنچل ترا اُڑتا ہُوا
عکسِ جاناں سے گراں تھی جس کی فرقت اے شکیلؔ
اب لئے بیٹھے ہیں ہم وہ آئنہ ٹوٹا ہُوا
بھری ہوں حوصلوں سے جو فضائیں کام آتی ہیں
وگرنہ آندھیوں میں کب ردائیں کام آتی ہیں
کبھی وہ دور بھی ہو گا، مگر اب تو یہ دیکھا ہے
محبت میں بہ مشکل ہی وفائیں کام آتی ہیں
کہاں ہم تم ملے تھے، کس طرح شامیں گزاری تھیں
شبِ ہجراں میں یادوں کی ہوائیں کام آتی ہیں
جو اپنے حق کو بڑھ کر چھین لے جینا اسی کا ہے
بھلا کب زندگی میں التجائیں کام آتی ہیں
دعا کرنے سے کب سوکھی زمیں پر فصل اُگتی ہے
عمل کے بعد ہی اطہرؔ دعائیں کام آتی ہیں
یہ ہَوا روز ہی چھوٗ کر ترے گیسو آئے
کاش یوں بھی ہو اچانک ہی کبھی تو آئے
سچ تو یہ ہے کہ مِرے کان مہک اٹھتے ہیں
فون سے بھی تری آواز کی خوشبو آئے
یوں لگا جیسے کہ آفاق مِری گود میں ہیں
میرے بازو میں کبھی جب ترے بازو آئے
یہ تو ہے تولنے والوں کے اشاروں کی غلام
کاش دنیا میں کوئی اور ترازو آئے
رونقیں سب ترے جانے سے ہوئی ہیں کافور
شاخ پر پھول نہ دیوار پہ جگنو آئے
اُس کے جانے سے ہوا ایسا میں ششدر کہ کبھی
لب پہ فریاد نہ پھر آنکھ میں آنسو آئے
جب بھی تہذیب و تمدّن پہ چھڑے بحث کہیں
بزم میں بال بکھیرے ہوئے اُردو آئے
اُس پری زاد کو شیشے میں اتاریں کیسے
ہم سے اطہرؔ نہ عمل آئے نہ جادو آئے
کبھی غنچے میں ڈھلتا ہے، کبھی دلبر میں ڈھلتا ہے
بس اک تیرا تصوّر خواب کے منظر میں ڈھلتا ہے
تجھے جب گھر کی زینت بنتے دیکھا تو یقیں آیا
اُجالا کس طرح اے جاں ترے پیکر میں ڈھلتا ہے
فقط پانی کا اک قطرہ نہیں ہے آنکھ کا آنسو
کبھی موتی میں ڈھلتا ہے، کبھی ساگر میں ڈھلتا ہے
تغیّر ہے زمانے کا کہ یہ انسان کا اک دِل
کبھی شیشے میں ڈھلتا تھا تو اب پتھّر میں ڈھلتا ہے
سحر کی روشنی رہتی ہے ہر شب اس کے آنگن میں
مگر یہ شام کا سورج ہمارے گھر میں ڈھلتا ہے
یہ سورج لاکھ باہر دھوپ برساتا پھرے اطہرؔ
اُجالا میرے باطن کا مِرے ساغر میں ڈھلتا ہے
اک سبب ترکِ تعلق کا مہیّا کرتے !
ہم کو کیا ملتا کبھی تم سے جو شکوہ کرتے
جن کو چاہا ہے بہت جان سے بڑھ کر اپنی
کاش وہ بھی تو کبھی میری تمنّا کرتے
کرچیاں عہدِ تعلق کی لئے بیٹھا ہوں
تم تو کہتے تھے کہ وعدہ نہیں توڑا کرتے
گھر کے آنگن میں اُجالا نہیں ٹھہرا افسوس
عمر گزری ہے ہر اک شب کو سویرا کرتے
اک وہی روپ وہی وضع لئے پھرتے ہیں
وقت کے ساتھ کبھی ہم بھی تو بدلا کرتے
کوئی خفّت بھی نہیں، کوئی تاسّف بھی نہیں
مطمئن لوگ ہیں ایمان کا سودا کرتے
کتنی جھیلوں کو سکھا دیتا ہے سورج اطہرؔ
تیز ہو درد تو آنسو نہیں آیا کرتے
نغمگی کی تصویریں، اُس کے لب بناتے ہیں
چھوٗ کے اُس کے پیکر کو رنگ جاگ جاتے ہیں
ہجر کی کٹھن راتیں ہم تو یوں بِتاتے ہیں
اک دیا جلاتے ہیں، اک دیا بجھاتے ہیں
سر خوشی میں دیکھا تھا ایک دن ترا چہرہ
اب بھی میری آنکھوں میں چاند جگمگاتے ہیں
آس ہے نہ وعدہ ہے، پھر بھی سوتے سوتے ہم
اک زرا سی آہٹ پر چونک چونک جاتے ہیں
رہروی بھی لازم ہے، لازمی اقامت بھی
منزلیں بھی آتی ہیں، راستے بھی آتے ہیں
کاوشِ مسلسل سے زندگی سنورتی ہے
جو نہیں گنواتے کچھ، کیا کبھی وہ پاتے ہیں
راز کون سمجھا ہے زندگی کا اطہرؔ جی
سب ندی میں کاغذ کی کشتیاں بہاتے ہیں
سر میں آشفتگی تو تھی اے دوست
گھر نے فرصت نہ دی کبھی اے دوست
عرصۂ عمر بڑھ گیا جتنا
زندگی پیار سے سجی اے دوست
تیری آنکھوں میں تیرے چہرے پر
کی ہے قدرت نے شاعری اے دوست
تیری صحبت نہیں میسّر اب
میری آنکھوں میں ہے نمی اے دوست
زندہ ہوں پر سمجھ نہیں پایا
کس کو کہتے ہیں زندگی اے دوست
تیری بے مہریوں نے سمجھایا
ایسے آتی ہے آگہی اے دوست
گر ملیں فرصتیں تو اطہرؔ کو
یاد کرنا کبھی کبھی اے دوست
تازگی نکلتی ہے، چاندنی نکلتی ہے
اُس کے نرم لہجے سے نغمگی نکلتی ہے
زندگی کے معنی کیا، جال رہگزاروں کا
اک گلی سے آگے پھر، اک گلی نکلتی ہے
دوستی ملمّع ہے دوستوں کے چہروں پر
دوستی کے پردے میں دشمنی نکلتی ہے
کون سیر ہوتا ہے، واہمہ ہے سیرابی
جام خالی ہوتے ہی تشنگی نکلتی ہے
اُس کی طرح داری کا حال کیا بیاں کیجیے
سادگی کے پردے سے، دلکشی نکلتی ہے
آدمی سمندر ہے، بیکراں تمنّا کا
آرزو جسے کہیِ، کیا کبھی نکلتی ہے
سرزمینِ ہستی کا صدق ہے شکیلؔ اتنا
پھول ایک جھڑتا ہے، اک کلی نکلتی ہے
چاہت کا سامنا ہے، مروّت کا سامنا
مشکل بہت ہے اپنی ہی عادت کا سامنا
شہروں میں بود و باش، مگر خوف یہ بھی ہے
کرنا پڑے ہمیں نہ ہلاکت کا سامنا
کب ہم کو اس زمین پہ آ کے اماں ملی
غربت کا سامنا، کبھی ہجرت کا سامنا
پہنچے ہیں کیسے کوچۂ جاناں نہ پوچھئے
تھا ہر قدم پہ ہم کو اذیّت کا سامنا
مَر مَر کے جی رہے ہیں تجھے ہم تو زندگی
مدّت سے کر رہے ہیں قیامت کا سامنا
جیتیں گی ایک روز ہماری محبتیں
اطہرؔ محبتوں سے ہے نفرت کا سامنا
ربطِ یاراں چاہئے، لطفِ عزیزاں چاہئے
زندگی میں کچھ نہ کچھ راحت کا ساماں چاہئے
وقت دونوں مل رہے ہیں جھٹپٹا بڑھنے لگا
چاند سے چہرے پہ اب زلفِ پریشاں چاہئے
بس گئی ہیں جنگلوں میں بستیاں ہی بستیاں
ہم سے آشفتہ مزاجوں کو بیاباں چاہئے
بے کشش سڑکوں پہ آوارہ پھریں تو کیوں پھریں
سیر کرنے کے لئے کوئے نگاراں چاہئے
اب تمہارا نام لکھ لوں گر اجازت دو مجھے
لکھ چکا اپنا فسانہ، اِس کو عنواں چاہئے
آنچ دیتے موسموں میں جشنِ مَے کیا ہو شکیلؔ
جام و مینا کے لئے تو ابرِ باراں چاہئے
ان آئنوں میں اب کوئی چہرہ نہ سوچنا
ہے رائگاں سَراب میں دریا نہ سوچنا
پانی چھپا ہوا ہے وہاں بھی زمین میں
صحرا جو خشک ہے اُسے پیاسا نہ سوچنا
گردش پہ آفتاب کی چھاؤں ہے منحصر
ٹھہرا رہے گا پیڑ کا سایہ نہ سوچنا
یادیں جو دل پہ نقش ہوں مٹتیں ہیں کیا کبھی
ہم تم کو بھول جائیں گے ایسا نہ سوچنا
بے جا تکلّفات سے بہتر ہے صاف گوئی
مِلنا اگر نہ ہو تو بہانہ نہ سوچنا
جو بھی ہے اِس زمین پہ اِس کو میاں شکیلؔ
اپنا ہی سوچنا ہے پرایا نہ سوچنا
غیرت نہیں رہتی ہے، مروّت نہیں رہتی
آتی ہے جو دولت تو شرافت نہیں رہتی
گر ہو نہ عقیدت تو قیادت نہیں رہتی
بھولی جو پیمبر کو وہ امّت نہیں رہتی
رہتا ہے اُن آنکھوں میں طلسمات کا عالم
چاہت نہیں رہتی ہے محبت نہیں رہتی
تعمیر کو کردار کی، ایماں سے سنوارو
ورنہ یہ عمارت تو سلامت نہیں رہتی
کس عشق میں کھوج اپنے سکوں کی نہیں شامل
کِس پیار کی بنیاد ضرورت نہیں رہتی
لفظوں کو برتنے کا ہنر سیکھ لو اطہرؔ
الفاظ کی جدّت کبھی جدّت نہیں رہتی
دیکھا جو گُل بدن تجھے، شاخِ ثمر لچک گئی
چھوٗ کر ترے لباس کو موجِ صبا مہک گئی
چمکا جو میرے رُوبرو وہ چاند اک زمین کا
میرے قدم ٹھٹک گئے، میری نظر بہک گئی
کہنے کو شب ہے ہجر کی، لیکن ترے خیال سے
دل میں بھی نور بھر گیا، بجلی سی اک چمک گئی
موسم ہے بے حسی کا یہ، اِس میں ہے قحط عشق کا
آنکھوں سے گر نمی گئی، سینے سے بھی کسک گئی
زحمت تھی احتیاط بھی، چہرہ خفا خفا سا تھا
جب بھی ذرا ہوا چلی چنری ڈھلک ڈھلک گئی
کاہش جو تھی چلی گئی، جو ٹیس تھی رہی نہیں
زخموں کی فصل دیکھئے اب کے خزاں میں پک گئی
ماں
درد بچّوں کا کیا کیا نہ سہتی ہے ماں
سوکھی روٹی کو پکوان کہتی ہے ماں
یوں ہی تیار ہوتی نہیں نسلِ نو
جھیل بَن بَن کے آنکھوں سے بہتی ہے ماں
کِس کو معلوم ہیں عظمتیں ماؤں کی
لاکھ صدمے ہوں خاموش رہتی ہے ماں
جس کے آنگن میں کھیلا تھا بچپن مِرا
خامشی تیرے بعد اس میں رہتی ہے ماں
چاند گہتا ہے مدّت میں اک آدھ بار
گھر کے آنگن میں ہر روز گہتی ہے ماں
وقت کی دھوپ کا مجھکو کیا ڈر شکیلؔ
سایہ بَن کر مِرے ساتھ رہتی ہے ماں
مقابلے میں جو کَل کر بلا کے نکلا تھا
وہ شخص صرف سہارے خدا کے نکلا تھا
لگا کہ تیرے سِوا کچھ نہیں ہے یاد مجھے
میں گھر سے تیری محبت بھُلا کے نکلا تھا
وہ پاک لہجہ ترا بھولتا نہیں جو کبھی
محبتوں کی ندی میں نہا کے نکلا تھا
تو کھِل گیا تھا مِرے گھر میں چاندنی کی طرح
کبھی یہ چاند تجھے بھی جگا کے نکلا تھا
وہ خوشبوؤں سے ترا نام لکھ گیا دل پر
وہ ایک جھونکا جو تجھ میں سما کے نکلا تھا
لگا تھا ہم کو کسی کا بھَلا سا نام شکیلؔ
وہ لفظ ساتھ جو تیری دعا کے نکلا تھا
خشک ہوائیں ایسی آئیں، انکُر پھوٹے سوکھ گئے
کھیتی میری سوکھ گئی ہے، میگھ تمہارے سوکھ گئے
را توں را توں سینچا ہم نے اشکوں کی بوچھاروں سے
اور دن دن بھر روپا جن کو خواب وہ سارے سوکھ گئے
برگد، پیپل سب کی بانہیں میری جیسی خالی ہیں
اب کے ساون سوکھا گزرا، اچھّے اچھّے سوکھ گئے
دیکھ کبھی پردیس سے آ کر میری بنجر آنکھوں میں
کتنی ندیاں خشک ہوئی ہیں، کتنے جھرنے سوکھ گئے
آنکھوں سے اب روٹھ گئے ہیں میری ٹھنڈے ٹھنڈے خواب
تپتی رُت یوں آ کر ٹھہری، ڈالی پتّے سوکھ گئے
روتے من کو دھیر بندھانے کوئی نہ آیا اطہرؔ جی
اشکوں سے رو مال ہمارے جب تب بھیگے سوکھ گئے
ہر نظارے سے کوئی اور نظارہ نکلا
ڈوبتا دیکھ کے سورج کو ستارا نکلا
کون آئے گا یہاں، کون پکارے گا تجھے
سو بھی جا شمع بجھی، صبح کا تارا نکلا
کون کہتا ہے کہ پتّھر میں نہیں ہے احساس
سنگ پر چوٹ پڑی ہے تو شرارا نکلا
دِل میں محفوظ تو رکھا تھا کلی کی مانند
نکہتِ گُل کی طرح عشق ہمارا نکلا
جس کو ہم بھولنا آسان سمجھ بیٹھے تھے
بس وہی شخص ہمیں جان سے پیارا نکلا
ڈوب کر دور اُفق میں، ہے دریچے سے طلوع
ایک ہی رات میں، اک چاند دوبارہ نکلا
کٹ کے گرتا رہا سیلاب کی زد سے اطہرؔ
کتنا کمزور یہ دریا کا کنارا نکلا
وہ شخص خواب تھا آیا، چلا گیا چپ چاپ
دل و دماغ پہ میرے وہ چھا گیا چپ چاپ
وفا کا لفظ لکھا اور مٹا کے چھوڑ دیا
مجھے وہ میرا نتیجہ بتا گیا چپ چاپ
اُسی مہک سے مہکتی ہیں رات بھر سانسیں
وہ اک گلاب جو دِل میں بسا گیا چپ چاپ
تپش نے دھوپ کی جھلسا دیا ہے جب بھی بدن
وہ ابر بن کے مِرے سر پہ چھا گیا چپ چاپ
نہ قربتوں کا نشاں ہے نہ دوریوں کا سُراغ
وہ مجھ سے اپنا تعلق بتا گیا چپ چاپ
یہ حکم مجھ کو ملا تھا کہ اُس کا نام نہ لوں
شکیلؔ زہر یہ میں بھی تو کھا گیا چپ چاپ
مت مجھ سے زندگی کا پوچھو سوال یاراں
ہر شب وہی اذیّت، ہر دن وبال یاراں
گھر سے کہیں نکلنا خطرہ بنا ہے اب تو
کیا گشتِ کوٗئے جاناں، کیسا وصال یاراں
پس ماندگی پہ ماں کی کرتی ہے طنز بیٹی
دیکھا تھا کب کسی نے ایسا زوال یاراں
دیتے ہیں روز دھوکے، کرتے ہیں روز وعدے
اس کو عروج کہئے یا ہے زوال یاراں
ہے فکر اپنی اپنی، ہے درد اپنا اپنا
کس کو رہا ہے اب کے کس کا خیال یاراں
کالونیاں نہیں ہیں، ہیں حادثوں کے جنگل
اب شہر میں ہے رہنا کتنا محال یاراں
رسمِ جنوں ہے زندہ اطہر شکیلؔ مجھ سے
لاؤ تو تم کہیں سے میری مثال یاراں
تم سے کبھی اپنوں کی بھلائی نہیں ہوتی
ہم سے مگر انگشت نمائی نہیں ہوتی
تنہائی کا جنگل جو نہیں ہے تو کہاں ہے
کہنے سے جہاں بات پرائی نہیں ہوتی
نمرود ہو، شدّاد ہو، فرعونِ زماں ہو
سچ یہ ہے کہ بندے سے خدائی نہیں ہوتی
بھُولے سے بھی اک لفظ تسلّی کا نہ مانگے
خوددار ہے دل اس سے گدائی نہیں ہوتی
اُس ہاتھ میں ہوتی نہیں برکت کبھی اطہرؔ
جس ہاتھ میں محنت کی کمائی نہیں ہوتی
یہ تو نہیں ہر درد کو سہنا نہیں سیکھا
ہاں دیدۂ بیتاب نے بہنا نہیں سیکھا
مت ہم کو رِجھا بحرِ زر و مال! کہ ہم نے
دریا کی طرح ڈھال پہ بہنا نہیں سیکھا
پڑھنا تمہیں آیا نہیں چہرے کو ابھی تک
اور حالِ دروں ہم نے بھی کہنا نہیں سیکھا
شعلہ، کبھی شبنم، کبھی شیشہ، تو کبھی سنگ
انسان نے اک حال میں رہنا نہیں سیکھا
پروانوں نے اس عشق میں سیکھا تو بہت کچھ
بس نور کی بوچھار کو سہنا نہیں سیکھا
اظہارِ تمنا سے میں ڈرتا نہیں اطہرؔ
دل نے مِرے انکار کو سہنا نہیں سیکھا
کب تک یہ ترے ہاتھ کا خنجر نہ جھکے گا
کٹ جائے گا مقتل میں مِرا سر نہ جھکے گا
اک بار ترے در پہ جھکا ہے سو جھکا ہے
خود دار ہے دیوانہ، یہ در در نہ جھکے گا
میداں میں نظر آئے گا اک خون کا دریا
فولاد کا لشکر ہے یہ لشکر نہ جھکے گا
کیوں مجھ کو جھکا لینے کے درپے ہے زمانہ
سر میرا کسی اور کے در پر نہ جھکے گا
دیکھے ہیں بہت اس نے رعونت کے مظاہر
اطہرؔ نہ جھکا ہے کبھی اطہرؔ نہ جھکے گا
نہ آشفتگی کر، نہ دل بستگی کر
گزار عمرِ باقی کو اب ہونٹ سی کر
ابھی جانور ہوں شِکم بھر نے والا
خدا و ندِ عالم مجھے آدمی کر
یہ دنیا ہے اس کو غنیمت سمجھ تو
یہاں زندگی کی طرح زندگی کر
زمینوں میں اپنی ستارے اگا لے
لہو سے گلستاں سجا، روشنی کر
سفر ہے یہ مخدوش منزل سے پہلے
قیام اس ڈگر پر نہ تو اجنبی کر
بہت وقت نازک ہے اطہر شکیلؔ اب
نہ دشت و بیاباں میں آوارگی کر
یہ سچ ہے کہ دنیا میں جنّت نہ ہو گی
اگر ابنِ آدم کی قیمت نہ ہو گی
ہر اک گھر میں سامانِ راحت تو ہو گا
مگر زندگانی میں راحت نہ ہو گی
سیاست کے زہریلے گُل تو کھِلیں گے
زمیں پر مگر آدمیت نہ ہو گی
یہاں قول اب یہ غلط ہو گیا ہے
قیامت سے پہلے قیامت نہ ہو گی
محبت کے فقرے، مروّت کے جملے
تخاطب میں لیکن صداقت نہ ہو گی
نمائش رہے گی، دکھا وا رہے گا
عبادت میں لیکن عبادت نہ ہو گی
ادا ہو سکے گا نہ حق شاعری کا
سخن میں جو اطہرؔ حقیقت نہ ہو گی
ہر بار نئے روپ میں ڈھلنا نہیں آتا
موسم کی طرح ہم کو بدلنا نہیں آتا
بیساکھیاں درکار اگر ہیں تو انھیں ہیں
خود اپنے سہارے جنھیں چلنا نہیں آتا
یہ آگ محبت کی بجھی ہے نہ بجھے گی
سورج سا ہمیں شام کو ڈھلنا نہیں آتا
وحشت میں بھی ہم چاک گریباں نہیں کرتے
کچھ یوں ہے ہمیں حد سے نکلنا نہیں آتا
چاہا ہے ترا وصل مگر ضد تو نہیں کی
بچوں کی طرح ہمکو مچلنا نہیں آتا
یہ سوچ کے افراط سے پیتے نہیں اطہرؔ
مستی میں ابھی ہم سے سنبھلنا نہیں آتا
وقت اپنا بھی گنوانے کے لئے ہو جیسے
اب تو ہر یاد بھلا نے کے لئے ہو جیسے
سیپ کی گود میں موتی نہیں بننے والا
یہ جو آنسو ہے بہانے کے لئے ہو جیسے
خوش مزاجی میں چھپی ہے تری ظاہر داری
یہ دکھا وا بھی زمانے کے لئے ہو جیسے
پاس کچھ ہو تو گنوانے کا مجھے خوف بھی ہو
تیری دنیا مِرے پانے کے لئے ہو جیسے
دُکھ کا موسم تو ہمیشہ نہیں رہنے والا
جو خزاں آئی ہے جانے کے لئے ہو جیسے
خود سے اب روٹھ کے یوں بیٹھ گیا ہے اطہرؔ
کوئی اس کو بھی منا نے کے لئے ہو جیسے
کیسے ہو یقیں گھر کے دریچے نہ گریں گے
برسات جو آئے گی تو اولے نہ گریں گے
قدموں میں جو بچپن کے تھا میدان بھی چھینا
ایسے میں بھلا چھت سے یہ بچّی نہ گریں گے ؟
سورج کی تپش سے بھی حفاظت ہے ضروری
جھلسیں گے تو کیا پیٹر سے پتّی نہ گریں گے
کیوں دھوپ میں لیتے ہو ببولوں کا سہارا
بے برگ درختوں سے تو سائے نہ گریں گے
چوٹی پہ پہنچ کر بھی پھسل جاتا ہے انساں
پربت کی بلندی سے پرندے نہ گریں گے
کیا زیست میں وہ رات کبھی آئے گی جانم
جب ٹوٹ کے آکاش سے تارے نہ گریں گے
محتاط بنا دیتی ہے پیری ہمیں اطہرؔ
بچّی ہیں تو کیوں جیب سے پیسے نہ گریں گے
بیاباں بیاباں بھٹکنا بھی سیکھ
ٹھکانہ جو مِل جائے تھکنا بھی سیکھ
فقط خشک ٹہنی سے سختی نہ لے
ہری ڈال سے کچھ لچکنا بھی سیکھ
کلی بن کے کھِل جا مِرے ذہن میں
دلِ زخم خوردہ مہکنا بھی سیکھ
نہ چپ چاپ یوں شمع پر جان دے
پتنگے مچلنا، چمکنا، بھی سیکھ
پرندے بتا سر گر انی ہے کیوں
درونِ قفس اب چہکنا بھی سیکھ
شرر کی طرح گر جیا بھی تو کیا
لپٹ بن کے اطہرؔ بھڑ کنا بھی سیکھ
یوں تو دونوں میں کچھ خاص رشتہ نہیں
چاند پھیکا ہے گر پاس تارا نہیں
کِس کو رخصت کیا کس کا ہوں منتظر
ایک موسم گیا ایک لوٹا نہیں
یہ الگ بات زندہ نہیں رہ سکا
زندگی میں نے تجھ کو بھلا یا نہیں
چھت کے نیچے بھی ہے جوں تپش دھوپ کی
ماں مِرے سر پہ اب تیرا سایہ نہیں
کون طاقت کبھی اس کو خَم کر سکی
یہ مِرا سر ہے کٹتا ہے جھکتا نہیں
اعتماد اُس کی با توں پہ پھر کیوں کیا
جب کہ اپنا بھی اطہرؔ بھروسا نہیں
اس کی چاہت دبی دبی سی رہی
بَن کے خوشبو گلاب کی سی رہی
اقربا یاد آئے ہم کو بہت
عید میں اب کے بے کلی سی رہی
سانس لی ہم نے احتیاط کے ساتھ
زندگی بھی تو زندگی سی رہی
خواب روشن تھا کس کا آنکھوں میں
رات بھر دل میں روشنی سی رہی
شہر برہم تھا حال کیا لکھتے
ذہن میں اب کے برہمی سی رہی
جب نہ منزل ملی تو ہم سمجھے
کیوں مسافت میں گمرہی سی رہی
تھی جو اطہرؔ کی بود و باش نہ پوچھ
گھر میں رہ کر بھی بے گھَری سی رہی
با توں میں یوں آئے کہ تھا جادو بھرا لہجہ ترا
دھوکا دیا تو نے اسے جو شخص تھا اپنا ترا
ایسی کشش دیکھی نہ تھی اتنی چمک پہلے نہ تھی
اِس آسماں کے چاند کو چمکا گیا چہرہ ترا
رِم جھِم میں جیسے صبح کی کویل کہیں کوٗ کے کوئی
یوں بارشوں میں رنگ کی بھیگا ہوا لہجہ ترا
میں کہہ سکوں اپنا اِنہیں اتنا کہاں مقدور ہے
گلشن ترے، صحرا ترا، پربت ترے، دریا ترا
تھی سر سے پاؤں تک دعاء اے ماں تو اپنے آپ میں
دنیا سے کب کی جا چکی اب تک بھی ہے سایہ ترا
مالک کی خوبی درگزر بندوں کی طینت لغزشیں
میرے خدا تو رحم کر اطہرؔ بھی ہے بندہ ترا
{سونامی کے سانحے پر }
تھا بے بسی میں اُن کو قیامت کا سامنا
آفت کا سامنا تھا اذیّت کا سامنا
کچھ اُن کے دل سے پوچھیے کیسا تھا قہر وہ
کرنا پڑا ہے جن کو ہلا کت کا سامنا
لہریں عتاب میں تھیں زمیں زلزلے میں تھی
طوفان تھا کہ موت کی ہیبت کا سامنا
ہے دشت ہی نصیب نہ تنہائیاں نصیب
اب کے ہے جن کو اک نئی ہجرت کا سامنا
ارضِ خدا پہ کب سے ہے آدم کی نسل کو
ہر گام ہر نفس نئی آفت کا سامنا
اطہرؔ کسی کا ہاتھ مِلا دوسرے سے جب
آسان ہو گیا ہے مصیبت کا سامنا
نہ محلوں نہ آرام خانوں میں ہے
خدا ہے تو ہم خستہ جانوں میں ہے
ہمیں عصرِ حاضر میں ڈھونڈو نہ تم
ہمارا پتا داستانوں میں ہے
یہ کِن وسوسوں میں پھنسے ہیں مکیں
یہ کیسی اُداسی مکانوں میں ہے
کسی کا نہیں ہے دعا گو کوئی
رقابت بہت خاندانوں میں ہے
نہاں باغبانوں کے دل میں جو تھی
وہی آگ اب آشیانوں میں ہے
شکاری سنبھالے ہوئے ہیں کماں
کبوتر ابھی تک اڑانوں میں ہے
زمیں پر اترنا تھا اطہرؔ جسے
وہ جنت ابھی تک گمانوں میں ہے
گھر اپنے سرِ شام پلٹ آئیے صاحب
مخدوش ہوں راہیں تو کہاں جائیے صاحب
ٹوٹیں جو کھلونے تو بلک اُٹھتے ہیں بچّی
یہ دل ہے اِسے توڑ کے مت جائیے صاحب
بارش سے نہ آ پائے گی اب تازگی اِن میں
مرجھائی سی کلیوں کو کھلا جائیے صاحب
اب اگلے مراحل پہ بھی دینی ہے توجہ
بیتی ہوئی با توں کو نہ دہرائیے صاحب
میں بَن کی نہیں آگ کہ بجھنا نہ ہو آساں
اک دیپ ہوں پھونکوں سے بجھا جائیے صاحب
جینے کی طرح آج بھی جیتا نہیں اطہرؔ
جینے کا ہنر اِس کو سکھا جائیے صاحب
اپنا عالم دیکھئے جب اس کا چہرہ دیکھئے
نیند گر آ جائے تو اک اور دنیا دیکھئے
یوں تو پہلے بھی بچھڑتے تھے مگر ایسا نہ تھا
اس کا چہرہ یاد آئے جس کا چہرہ دیکھئے
پہلے دل ٹوٹے تھے لیکن اب کے گھر ٹوٹے بہت
شہر کو ویران ہوتے اور کتنا دیکھئے
آدمی کا آدمی ہی کرتے جاتے ہیں شکار
اپنے کمرے سے نکل کر یہ تماشا دیکھئے
اِس اندھیری رات میں یہ آگ یہ لپٹوں کا عکس
آسماں بھی سُرخ ہے بستی کا جلنا دیکھئے
آپ سے اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہنا شکیلؔ
جو ملے بہتر ہے بس، مت اپنے جیسا دیکھئے
جہاں میں تغیّر یہ کیسا ہوا
جو اپنا تھا وہ بھی پرایا ہوا
ابھی تک تصوّر میں محفوظ ہے
وہ خوشبو سے آنچل مہکتا ہوا
جہنّم میں دنیا کی رہتے ہوئے
میں خوابوں کی جنّت سجاتا ہوا
غلط ہے کسی کو جو الزام دوں
غمِ دل ہے میرا خریدا ہوا
مٹے سب مسائل ترے دھیان سے
ترا دھیان دل کا مداوا ہوا
بس اک پَل کا ملنا ہے کافی شکیلؔ
سدا کو یہاں کون کس کا ہوا
ہر روز سُن رہا ہوں میں دستک عذاب کی
بارود کے ہے ڈھیر پہ بستی جناب کی
وہ مجھ سے کر رہے ہیں مسائل پہ گفتگو
ہمّت مجھے نہیں ہے سوال و جواب کی
اب عمر ڈھل رہی ہے تو آتا ہے یہ خیال
کیوں عاشقی میں ہم نے جوانی خراب کی
اُس کے بدن کی مستیاں اللہ کی پناہ
ہو جائے جیسے زندہ صُراحی شراب کی
اُن سے ملے تھے بانہوں میں بانہیں لیے ہوئے
دہراؤں کیا انھیں کہ یہ باتیں ہیں خواب کی
تحفے میں اُس نے پھول دیا تھا مجھے شکیلؔ
اب تک ہے سانس سانس میں خوشبو گلاب کی
پاس میرے ترا ہونا، نہیں ہونا کیا ہے
رات کیا چیز ہے، مت پوچھ، سویرا کیا ہے
کچھ نہ پاؤ گے مِرے لب پہ خموشی کے سوا
تم اگر پوچھ کے دیکھو کہ تمنّا کیا ہے
دونوں اک چوٹ سے پھوٹے ہیں تمہیں کیا معلوم
اشک آنکھوں میں تو پتھر میں شرارا کیا ہے
ساتھ سورج کے بدلتا ہے دِشائیں اپنی
تیری دیوار کے سائے میں بسیرا کیا ہے
کتنے اسرارِ زمانہ ملے پنہاں تم میں
تم سے مل کر میں یہ سمجھا ہوں کہ دنیا کیا ہے
رات بھر سیر میں کرتا رہا جنّت کی شکیلؔ
دن میں کچھ صاف نہ تھا خواب میں دیکھا کیا ہے
امیدیں تو دیتی ہیں دھوکا ہمیشہ
سمجھنا نہ تم ان کو اپنا ہمیشہ
ہوا خشک کتنی ہی ندیوں کا پانی
بہا پھر بھی آنکھوں کا دریا ہمیشہ
بدلتے رہے ہیں ہوا کی طرح سب
کسی کو کسی کا نہ پایا ہمیشہ
زمیں پُر سکوں ہو، جہاں پُر سکوں ہو
رہا میرے دل میں یہ سپنا ہمیشہ
بڑھا میں تمہاری طرف تو عجب کیا
سمندر سے ملتا ہے دریا ہمیشہ
میسّر نہ اطہرؔ ہوا لمس اُس کا
نظر میں رہا جو سراپا ہمیشہ
کچھ تو تشفّیِ دلِ نا کام بھیجئے
خط بھیجئے تو پیار کا پیغام بھیجئے
جھلسا رہی ہے کب سے جوانی کی دوپہر
زلفوں کے سائے میں بھی کوئی شام بھیجئے
محرومیوں کی پیاس سے جلنے لگا ہے جسم
اب تو مَئے خلوص کا اک جام بھیجئے
ہر امتحاں کے بعد نتیجہ ضرور ہے
مجھ کو بھی میرے عشق کا انجام بھیجئے
اک عمر ہو گئی ہے تڑپتے ہوئے شکیلؔ
آرام بھیجئے، مجھے آرام بھیجئے
قریہ در قریہ سفر کے سلسلے بھی کم نہیں
کارواں گر کم نہیں تو راستے بھی کم نہیں
وہ نہیں آئے، نہیں آئیں گے یہ مانا مگر
دل کے بہلانے کو ان کے تذکرے بھی کم نہیں
قربتوں میں اس نئی رُت کی، نیا دیکھا چلن
ہم بغل ہیں دوست لیکن فاصلے بھی کم نہیں
سچ ہے یہ ہم آپ کے شاکی بھی ہیں، ممنون بھی
دل میں شکرانے بھی ہیں، شکوے گِلے بھی کم نہیں
کیوں بھٹکتے ہیں گلی کوچہ میں کس سے پوچھئے
شہرِ محبوباں میں ہم سے سر پھرے بھی کم نہیں
آنکھ سے اوجھل ہے اب بھی راستہ اطہر شکیلؔ
کیسا گہرا ہے اندھیرا پو پھٹے بھی کم نہیں
ہمیں تیرگی اب نہ گھیرے کہو
اُجالوں کو تیرے نہ میرے کہو
گھروں میں گھڑی دو گھڑی سو لئے
اِنھیں گھر نہیں شب بسیرے کہو
فضاؤں میں پہلے ہی طاری ہے رات
کوئی اب نہ زلفیں بکھیرے کہو
یہ موسم کسی کے نہیں ہیں، انھیں
نہ اپنے بتاؤ نہ میرے کہو
نہ روکے رُکے گی طلوعِ سحر
رہیں گے کہاں تک اندھیرے کہو
جو اب تم ہو اطہرؔ تو کل دوسرا
گھرانوں کو دو دن کے ڈیرے کہو
وابستگی، خلوص، محبت کہاں گئی
اگلوں کے ساتھ تھی جو روایت کہاں گئی
آسا ئشیں ہی کم ہیں نہ آسانیاں ہی کم
لیکن گھروں میں تھی جو شرافت کہاں گئی
ملتے ہیں خوش دلی سے یہاں آج بھی تو لوگ
کل تک جو تھی دلوں میں محبت کہاں گئی
رنجش کا، دشمنی کا بھی، معیار تھا یہاں
خوش وضع تھی جو کل وہ عداوت کہاں گئی
کل تک تو دُوریوں میں بھی نزدیکیاں سی تھیں
وہ ربط کیا ہُوا، وہ قرابت کہاں گئی
خود غرضیوں کی رُت میں یہ کیا پوچھنا شکیلؔ
اے شہرِ نا شناس! محبت کہاں گئی
ہوئی گفتگو دل کی دل سے تو جانا
انھیں ان کے دل میں ہی اترے تو جانا
لٹیرے کئی گھات میں ہیں ہمارے
شریفوں کی بستی سے گزرے تو جانا
مروّت کا موسم سفر کر چکا ہے
ترے شہر کی حد میں پہنچے تو جانا
گھروں کے چراغوں کی قیمت ہے کتنی
اندھیرے جو راہوں کے دیکھے تو جانا
تقابل تری دلکشی کا نہیں ہے
حسینوں کے جھرمٹ میں بیٹھے تو جانا
ہے طفلی سے پہلے بلوغت کا عالم
کھلونوں سے بچّی نہ بہلے تو جانا
یہ ہے لَمس کس کا، مہک کس کی اطہرؔ
شگوفے کھِلے پھول مہکے تو جانا
توقع ہے، رب کا کرم اور ہے
تمنّائے دیدِ صنم اور ہے
وہ جلّاد، بستی، نہ تھی آخری
ابھی ایک شہرِ ستم اور ہے
تھکن کس لئے ہے رہِ دوست میں
کہ منزل تو بس دو قدم اور ہے
بدن کی یہ چاہت، وہ دل کی طلب
خدا اور ہے، یہ صنم اور ہے
ابھی کر رہے ہیں یہ سیرِ زمیں
مگر ایک سیرِ عدم اور ہے
سُنا ہے کہ جس کی سحر ہی نہیں
مقدّر میں وہ شامِ غم اور ہے
جو اطہرؔ کو دیکھو تو معلوم ہو
فقیروں کا جاہ و حشم اور ہے
احساسِ ہجر، بار نہیں رہ گیا مجھے
خوابوں سے اس کے پیار نہیں رہ گیا مجھے
شیشہ مِرے یقین کا ٹوٹا ہے اتنی بار
دنیا کا اعتبار نہیں رہ گیا مجھے
لگنے لگا ہے ہجر کی تنہائیوں میں دِل
اب اس کا انتظار نہیں رہ گیا مجھے
وعدے کی شام تک تو رکھوں خود کو پُر سکوں
اتنا بھی تو قرار نہیں رہ گیا مجھے
مت پوچھئے کہ جھیلی ہیں کتنی اذیتیں
خوفِ صلیب و دار نہیں رہ گیا مجھے
یکساں لگیں بہار و خزاں ان دنوں شکیلؔ
اب انتظارِ یار نہیں رہ گیا مجھے
زمانے ! نہ یوں صبح لا، شام لا
کبھی تو فراغت کے ایّام لا
ہَوا اُس نگر سے نہ خالی گزر
محبت بھرا کوئی پیغام لا
دریچوں میں تاروں کی چادر تو ہے
کوئی چاند چہرہ سرِ بام لا
میں تنہا ہوں اے میرے لب کی فغاں
اُسے اب بُلا کر پسِ شام لا
کٹے گی نہ بیکار ہجراں کی رُت
کوئی مشغلہ دے، کوئی کام لا
میں مدّت سے پیاسا ہوں اطہر شکیلؔ
ارے ساقیا! جام لا! جام لا
تری یاد کے گُل مہکنے لگے
تصوّر میں بادل ہمکنے لگے
دکھوں کا مداوا کیا وقت نے
خلش تھم گئی زخم پکنے لگے
عیاں ہو رہی ہے صداقت تری
نگاہوں سے پردے سر کنے لگے
مہک اس کی لائی ہے کیسا نشہ
قدم بے پیے ہی بہکنے لگے
نئے راستوں سے بڑھیں مشکلیں
بہت سے مسافر بھٹکنے لگے
اچانک چراغوں کو کیا ہو گیا
سرِ شام ہی سے بھڑکنے لگے
ہوئی شب تو یادیں بھی نکھریں شکیلؔ
اندھیرے میں تارے چمکنے لگے
بے لوث تعلق بھی تو ملتا نہیں ہمدم
اک ماں کے سِوا کوئی کسی کا نہیں ہمدم
تھی تم سے توقع تو تمنّا کے سہارے
اب دل میں مِرے کوئی تمنّا نہیں ہمدم
تارا ہی بھلا ہے جو چمکتا ہے مسلسل
جگنو کا اُجالا تو اُجالا نہیں ہمدم
لفظوں میں نہیں کھوٹ، اگر ہے تو دلوں میں
یہ سچ ہے کہ ہر آدمی سچّا نہیں ہمدم
ہر چوٹ کو دنیا کی سہے جاتا ہے چپ چاپ
شیشہ ہے مگر دل ابھی ٹوٹا نہیں ہمدم
کہتے ہیں جسے زخم محبت کے مفسّر
ہر دل میں مگر پھول یہ کھِلتا نہیں ہمدم
آنکھوں میں بسا ہے کبھی خوابوں میں بسا ہے
اب تک تجھے اطہرؔ نے بھلایا نہیں ہمدم
یہ مشغلہ بھی کم نہیں دشمن کے واسطے
پھندا بُنے گا پھر مِری گردن کے واسطے
تن پر کہیں کہیں سے پھٹا ایک پیرہن
وَردان بَن گیا ہے بھکارن کے واسطے
جھولے اُداس رُت ہے پشیماں ترے بغیر
نغمے کہاں سے لاؤں میں ساون کے واسطے
ان کی دکاں سے کیسے بِکے نفرتوں کا زہر
یہ مسئلہ ہے شیخ و برہمن کے واسطے
فرعونیت مٹانے کو موسیٰ ؑ ہے لازمی
اک رامؔ بھی تو چاہئے راونؔ کے واسطے
ان بستیوں کو چھوڑ کہیں دُور جا بسیں
سجتی یہاں چتائیں ہیں دلہن کے واسطے
بادل اسی پہ دیکھئے برسا نہیں ابھی
دھرتی ترس رہی ہے جو ساون کے واسطے
صحرا میں عاشقی کے وہ رونق نہیں شکیلؔ
وحشی ہزار چاہئیں اس بَن کے واسطے
نکلے تری نظر سے اشارے کئی کئی
مفہوم دل میں آئے ہمارے کئی کئی
تنہائیوں میں آ گئی جب بھی تمہاری یاد
آنکھوں میں جھلملائے ستارے کئی کئی
جس زاوئیے سے دیکھئے وہ حُسنِ بے مثال
منظر کئی کئی ہیں نظارے کئی کئی
کیسے بھُلا سکیں گے مِلن کی وہ ساعتیں
دیکھے ہیں ہم نے رنگ تمہارے کئی کئی
کوئی نہیں تھا آپ سا، ہم نے تمام رات
آنگن میں دل کے چاند اتارے کئی کئی
اب تجھ سے کیا بتائیں کہ قربت میں تیری دوست
جیون میں سانس، سانس ہیں پیارے کئی کئی
کشتی کبھی بہائی تو دیکھا یہ ماجرا
دریا شکیلؔ ایک تھا دھارے کئی کئی
کہا تھا کس نے تم سے، تم زمانے سے وفا کرنا
اگر کی ہے تو اب بے سود ہے، شکوہ گلہ کرنا
بلند و پست تو چلتے ہی رہتے ہیں روابط میں
کبھی تلخی بھی آئی ہو تو اُس کو یاد کیا کرنا
خدا جانے محبت کی یہ کس منزل پہ آ پہنچے
سراپا التجا رہنا نہ عرضِ مدّعا کرنا
مَحلِّ گفتگو کچھ بھی ہو، موضوعِ سخن کچھ ہو
ہمیں تو اک نہ اک حیلے تمہارا تذکرہ کرنا
بھُلا دو تم اگر مجھکو بھُلا دینے پہ قادر ہو
تمہیں آساں نہ ہو گا دل سے یادوں کو جُدا کرنا
شکیلؔ آخر خدا جانے یہ کس دنیا کے راہی ہیں
نہ رستے کی خبر لینا، نہ منزل کا پتا کرنا
منتشر چنگاریوں کو کہکشاں لکھ جائیے
اب دھوئیں کے بادلوں کو آسماں لکھ جائیے
کس طرح کس نے نباہی ہے یہاں رسمِ وفا
اپنی اپنی زندگی کی داستاں لکھ جائیے
ہجر کی شب کا المیہ اور کیا اس کے سوا
درد کو قائم تو اشکوں کو رواں لکھ جائیے
دل لگانے کا صلہ دنیا میں کب کس کو مِلا
کاروبارِ عشق کا حاصل زیاں لکھ جائیے
جس قدر ممکن ہو دنیا کی حقیقت جان کر
اس حقیقت کو حقیقت کا گماں لکھ جائیے
کیا خبر ہے کوئی آئے ڈھونڈنے والا شکیلؔ
لوحِ ہستی پر کچھ اپنا بھی نشاں لکھ جائیے
زمانہ ہی بدلا ہے، ہم کیا کریں
تمہارے بدلنے کا غم کیا کریں
اٹھیں اب خدا کو پکاریں ذرا
صنم، اے صنم، اے صنم کیا کریں
تعارف ہے دوزخ سے جنت سے بھی
مریں بھی تو سیرِ عدم کیا کریں
قدم دَر قدم حادثے حادثے
سفر کو چلے ہیں تو غم کیا کریں
تحفّظ کو اک گھر تو عزّت کا رزق
ضرورت کو اب اس سے کم کیا کریں
ندامت ہے اب اُن کے رخ پر شکیلؔ
ہم ایسے میں ذکرِ ستم کیا کریں
آ کے وہ رہزنوں کے ڈیرے سے
راہبر بَن گیا لٹیرے سے
دیکھ ننھے چراغ کی جرأت
لڑتا ہے صبح تک اندھیرے سے
ڈھونڈ کر دیکھ لے نہیں ہوں میں
شہر میں گو بہت ہیں میرے سے
شامِ وعدہ گزر گئی اور میں
در پہ بیٹھا رہا سویرے سے
مجھ پہ برسے بِنا ہوئے رخصت
یوں وہ بادل تو تھے گھنیرے سے
شہر کے رہبروں میں اطہرؔ جی
کچھ مداری ہیں، کچھ سپیرے سے
کل تک جو مجھ میں سچ تھا وہ کیسا بدل گیا
آئینہ ہے وہی مِرا چہرہ بدل گیا
کچھ روز کے سفر سے میں آیا ہوں لَوٹ کر
اتنے دنوں میں شہر کا نقشہ بدل گیا
ماحول بھی وہی ہے، وہی ہیں فضائیں بھی
سچ تو یہ ہے کہ آپ کا شیدا بدل گیا
پردیس سے جو آیا وہ ناکام لَوٹ کر
گھر بھر کا اس کے ساتھ رویّہ بدل گیا
اب وہ محبتیں ہیں، نہ ویسی رفاقتیں
مجھ کو یہ لگ رہا ہے زمانہ بدل گیا
اِس سچ کو ماننے میں تکلّف نہیں شکیلؔ
دنیا کے ساتھ دل بھی ہمارا بدل گیا
زیرِ زمیں سفر کیا، اور سوٗئے آسماں گیا
اطہرؔ تری تلاش میں جانے کہاں کہاں گیا
کہنہ محل کے ڈھیر پہ بیٹھے ہیں ہم بحال مست
سب سے بڑا زیاں یہ ہے، دل سے غمِ زیاں گیا
منظر سبھی فنا ہوئے، موسم سبھی بدل گئے
پہلے جو تھی فضا گئی، پہلے جو تھا سماں گیا
پھیلے ہوئے خلاؤں میں خالی کھڑا ہے آدمی
پہلے فقط یقیں گیا، اب کے مگر گماں گیا
پہلی سی ہجرتیں نہیں، پہلا سا وصل بھی نہیں
جذبہ جو ہم میں تھا کبھی تو ہی بتا کہاں گیا
ممکن نہیں کہ آہ کا اس پر اثر ذرا نہ ہو
اب کے تو آگ وہ لگی کہ دُور تک دھواں گیا
بیگانگی میں پوچھ نہ کیسے بہل کے آئے
جنگل کی بود و باش میں سپنے محل کے آئے
حسّاس آدمی کا نہیں ہے یہ شہرِ سنگ
اِس سمت جو بھی آئے وہ پتھر میں ڈھل کے آئے
یہ رہنما ہیں یا کہ مداری، خبر نہیں
کپڑوں کے ساتھ اپنے جو چہرے بدل کے آئے
مایوسیوں میں ڈھل گئی تعبیر کی امید
اب آنسوؤں کے رُوپ میں سپنے پگھل کے آئے
بد نام ہو چکی ہے بہت عاشقی کی راہ
اب اس گلی میں آئے جو اطہرؔ سنبھل کے آئے
حقیقت کو میری فسانہ نہ کرنا
مجھے وقفِ عہدِ گزشتہ نہ کرنا
بالآخر ندامت ہو انجام جس کا
کبھی کوئی ایسا بہانہ نہ کرنا
اُسے دور جانا تھا جا بھی چکا وہ
اب اشکوں کو نذرِ زمانہ نہ کرنا
وفاؤں کے بدلے ملا ہے تغافل
حماقت یہ اب شاعرانہ نہ کرنا
رہے طبع میں ابنِ آدم کی خُو بوُ
عبادت میں خود کو فرشتہ نہ کرنا
وہ ظالم بہت یاد آئے گا اطہرؔ
کبھی اب یہاں دوستانہ نہ کرنا
سرِ رہ سلام و دعا تو نہ چھوڑ
تعلق کا یہ سلسلہ تو نہ چھوڑ
روش اپنی حوّا کی بیٹی سمجھ
دوپٹّہ تو چھُوٹا، حیا تو نہ چھوڑ
دعا ہے توقع کی روحِ رواں
عمل کر عمل میں دعا تو نہ چھوڑ
عقیدہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں
عبادت تو چھوڑی، خدا تو نہ چھوڑ
صداؤں کو کچھ سوز باطن کا دے
فغاں ہے، اِسے نار سا تو نہ چھوڑ
جُڑا رہ شکیلؔ اپنے آغاز سے
نہایت میں جا، ابتدا تو نہ چھوڑ
اک خوف ہے دلوں کو مسلسل لگا ہوا
ہر شہر کے قریب ہے مقتل لگا ہوا
پوچھا کیا کہ ہو گئی ہجراں کی رُت تمام
پر بت کی چوٹیوں سے وہ بادل لگا ہوا
کیا چیز ہے نہ پوچھئے وہ پیکرِ طِلسم
ماتھے پہ چاند، آنکھوں میں کاجل لگا ہوا
پرچھائیں ساتھ ساتھ ہے میرے اِدھر اُدھر
لگتا ہے جیسے پیچھے ہے پاگل لگا ہوا
جائیں تو بچ کے جائیں کہاں عافیت پسند
ہے بستیوں کی گھات میں جنگل لگا ہوا
نوچا ہے پھول کس نے کوئی جانتا نہیں
اک سانحہ ہے شاخ پہ ڈنٹھل لگا ہوا
اطہر شکیلؔ آج بھی خوابوں میں ہے وہی
شانے پہ زلف سینے سے آنچل لگا ہوا
تیور تھے کل تلک جو تمھارے، کہاں گئے
اِن پتھروں میں تھے جو شرارے کہاں گئے
کم تر کی کیا بساط ہے بر تر کے سامنے
سورج اُگا تو چاند ستارے کہاں گئے
گاؤں کا سبزہ زار، ندی، چاندنی، شجر
منظر کہاں گئے وہ نظارے کہاں گئے
ماں تھی تو خاندان کے رشتے تھے برقرار
اب تک جو تھے عزیز ہمارے کہاں گئے
تھے تابناک قلب و نظر جن سے کل تلک
وہ روشنی وہ نور کے دھارے کہاں گئے
گہری گھٹا میں پوچھ رہے ہو شکیلؔ تم
خالی ہے آسمان ستارے کہاں گئے
موجوں کے لئے ہے، نہ کنارے کے لئے ہے
جو کچھ بھی ہے خطرہ، وہ سفینے کے لئے ہے
یہ ٹھیک ہے نکلے ہو بہت لمبے سفر پر
توشہ بھی کوئی ساتھ میں رستے کے لئے ہے
ہم، آپ، سمجھتے ہیں اِسے فخر کا موضوع
تاریخ تو ماضی کو سمجھنے کے لئے ہے
یہ فیصلہ کرنا ہے ہمیں دوستو، سوچو!
کیا آدمی جو کچھ بھی ہے پیسے کے لئے ہے
نیکی جو کوئی ہے، تو ہے الفاظ کی حد تک
کردار کی مت پوچھ یہ کہنے کے لئے ہے
اے کاش تری بات سمجھ جائیں ترے لوگ
اطہرؔ یہ غزل تیری قبیلے کے لئے ہے
بے رشتہ جو لگتا ہے تو رشتہ بھی وہی ہے
نکلا جو پرایا، مِرا اپنا بھی وہی ہے
اک تو ہی نہیں، دِل بھی، تمنّا بھی وہی ہے
آغوش میں مہتاب کی تارا بھی وہی ہے
باطن میں ہو بد لاؤ تو ہم کہہ نہیں سکتے
آنکھیں بھی وہی ہیں ترا چہرہ بھی وہی ہے
ہم اہلِ جنوں تجھ سے توقع بھی کریں کیا
ویسے ہی شب و روز ہیں دنیا بھی وہی ہے
اک چاند ہی ایسا ہے کہ نکلا نہیں اب تک
منظر ہے وہی شب کا، دریچہ بھی وہی ہے
کچھ اور نہیں اس کے سوا میرا المیہ
ہوں جس کو پرایا، مِرا اپنا بھی وہی ہے
سچ یہ ہے کہ جاتا رہا مانجھی کا بھروسا
اطہرؔ وہی کشتی بھی ہے، دریا بھی وہی ہے
انسان کا ہر قول تو سچّا نہیں ہوتا
ہر شخص جو اپنا ہے وہ اپنا نہیں ہوتا
سوکھی ہوئی ہڈی پہ جھگڑتا نہ شب و روز
اے کاش یہ انساں سَگِ دنیا نہیں ہوتا
رفتار علامت ہے یہاں جہدِ بقا کی
ٹھہرا ہوا پانی کبھی دریا نہیں ہوتا
آنکھوں میں جو آنسو ہیں تو کیا دیکھیں گی منظر
چھایا جو ہو کہرا تو سویرا نہیں ہوتا
تکمیل تو اس ذاتِ مقدّس کو ہے اطہرؔ
یہ خواب کسی کا بھی ہو سچا نہیں ہوتا
چاند ہے، چاند کے چہرے پہ ضیاء بھی کچھ ہے
رات کے پاس اندھیرے کے سوا بھی کچھ ہے
صرف پانی کے ہیں قطرے تو اثر بھی کیا ہو
تیرے اشکوں میں بتا رنگِ حنا بھی کچھ ہے
کم سے کم اس کی مہک لے کے تو آئی ہے یہاں
صرف گیسو ہی نہیں، موجِ ہوا بھی کچھ ہے
میں محبت کو اطاعت نہیں کہنے والا
کچھ ترا حسن جو ہے میری اَنا بھی کچھ ہے
پاس تھا وہ تو سبھی اس میں سمٹ آیا تھا
اس سے چھُٹ کر یہ لگا اس کے سِوا بھی کچھ ہے
عاجزی میری یہ کہتی ہے خدا سے اطہرؔ
بے نیازی ہے تری، میری دعا بھی کچھ ہے
زلفوں کی اک گھٹا وہ کبھی کی گزر گئی
آنکھوں کو میری دے کے اداسی گزر گئی
کیسی وہ چاندنی تھی کہ آئی، گزر گئی
آنگن میں ایک رات نہ ٹھہری، گزر گئی
دھندلا گیا ہے گرد میں چہرہ وہ چاند سا
رستے میں دھُول چھوڑ کے گاڑی گزر گئی
خوابوں کی رات ہو کہ ہو عرصہ فراق کا
اب جتنی بھی گذر گئی،، اچھّی گزر گئی
آنے سے زد میں بچ گئی پکّے گھروں کی چھت
چھپّر اُڑا کے سر پھری آندھی گزر گئی
اک گُل بدن نے راہ کو گلزار کر دیا
خوشبو بکھیر تی ہوئی لڑ کی گزر گئی
چہرے کا اک گلاب تھا آنکھوں کے سامنے
پَل بھر کی وہ بہار کبھی کی گزر گئی
پختہ نہیں تھا جن کا تعلق زمین سے
وہ سب شجر اکھاڑ کے آندھی گزر گئی
یہ زندگی ہے جھیل ہی لیتی ہے ہر عذاب
آخر شکیلؔ ہجر کی شب بھی گزر گئی
ادب کی خسارے میں جا گیر ہے
اگر چہ یہ غالبؔ ہے، وہ میرؔ ہے
ہوا ہے یہ انسان آزاد کب
نظر میں نظر یوں کی زنجیر ہے
وہ دیکھے ہے تنکا مِری آنکھ میں
وہی آنکھ میں جس کی شہتیر ہے
خدا جانے اب کیا ہو صورت تری
مِرے پاس پہلے کی تصویر ہے
ثمر کچھ ملے بھی تو کیسے ملے
دعاؤں میں شدّت نہ تاثیر ہے
ابھر تا ہے نیندوں میں چہرہ ترا
سنا ہے کہ خوابوں کی تعبیر ہے
مجھے کاش وہ پڑھ سکے اے شکیلؔ
مِرا حال چہرے پہ تحریر ہے
یوں نہ ہر دم مِرے گمان میں آ
زندگی بن کے میری جان میں آ
ہو اندھیرے کی رہ نور دی ختم
لے کے روشن یقیں گمان میں آ
کر رسائی مِرے نشانے تک
تیر بَن کے مِری کمان میں آ
مجھ پہ وا ماندگی سی طاری ہے
تازگی بَن کے پھر تھکان میں آ
یہ فضائیں اداس ہیں کب سے
نغمہ بَن کے مِری زبان میں آ
یوں نہ ہو ماورا تصوّر سے
میرے لفظوں میں آ، بیان میں آ
لکھ کے اطہرؔ امَر کرے تجھ کو
بَن کے کردار، داستان میں آ
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید