فہرست مضامین
شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں
حصہ سوم
انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
فیصلہ
اس نے گھڑی میں وقت دیکھنے کی کوشش کی۔ کمرے میں آتی ہلکی چاندنی میں اس نے اندازہ لگایا کہ رات کے تین بجے چکے تھے۔ نیند آنکھوں سے غائب تھی اور اس کا دماغ بوجھل ہو گیا تھا۔ اس نے زبردستی آنکھیں بند کرنی چاہیں تو الٹے آنکھوں میں درد اور دماغ بھاری ہو رہا تھا۔ دل میں عجیب و غریب اشکال بننے لگیں۔ اس نے دوبارہ سے آنکھیں کھول دیں۔ چاروں اطراف سناٹا تھا، فقط چھت کے پنکھے کا شور تھا۔ اس نے بے چینی سے کروٹ بدلی، اسے کچھ دکھتا محسوس ہو ا۔ اس کے بعد وہ چت لیٹ گیا اور چھت کی جانب دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھیں تیز گھومتے پنکھے میں اٹک کر الجھ گئیں۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا دل تیز گھومتے پنکھے کے ساتھ گھوم رہا ہے، تیز تیز، بہت تیز۔ وہ گھبرا کر ایک دم سے اٹھ بیٹھا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھر آئیں۔ وہ کھاٹ سے اٹھ کر کمرے کے دروازے پر آ کھڑا ہوا۔ سامنے والی کھاٹ پر اس کی بوڑھی ماں اور چھوٹی بہن سوئے ہوئے تھے۔ نیند میں اس کی بہن عذرا کے ہونٹوں پر ایک انجان معصوم مسکراہٹ تھی۔ اس نے ماں کی جانب دیکھا، جس کے چہرے پر عمر سے زیادہ دکھوں اور تکلیفوں کے نشان پڑ گئے تھے۔ کچھ دیر تک وہ ماں کے چہرے میں دیکھتا رہا۔ اس کا دل بھر آیا اور نظریں گھما دیں۔ وہ کمرے میں لوٹ کر اپنی کھاٹ پر آ گرا۔
’’ہے خدایا! میں کیا کروں۔۔ کیا کروں۔‘‘ اس نے اپنے دل میں مچی ہلچل سے تنگ آ کر خود سے کہا۔ ’’آخر میں کون سا فیصلہ لوں! نازاں کے لئے اپنی ماں اور اپنا گھر چھوڑ دوں! اس ماں کو چھوڑ دوں، جس نے مجھے اپنی زندگی کا ضامن سمجھا ہے! یا میں اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ دوں! مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں۔‘‘ اس نے اپنا چہرہ بازو میں چھپا دیا۔ اس کا دل سوچ سوچ کر، تھک کر سن پڑ گیا تھا، لیکن کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پایا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے فیصلہ کرنے کی قوت ختم ہو چکی تھی۔ لیکن آخر اسے فیصلہ لینا تھا، کسی ایک نتیجے پر پہنچنا تھا۔ وہ اپنے پیار کے لئے اپنی ماں کو چھوڑے یا اپنی ماں کے لئے اپنے پیار کو چھوڑے! ہارون کے لئے، اس وقت، یہ فیصلہ زندگی اور موت کے فیصلے سے کم نہیں تھا۔ لیکن نہیں، کیسی موت اور کیسی زندگی؟ ماں جس نے ہارون کو اپنی زندگی دی تھی، اپنا خون پسینہ دیا تھا، ایسی ماں، جس کے پیار میں سمندر کی گہرائی ہو، اسے وہ کیسے چھوڑ سکتا تھا! دوسری اور نازاں تھی، جو اس کی ویران اور خشک زندگی میں پھولوں کی بہار لے کر آئی تھی، جس نے اس کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ آخر وہ کسے چھوڑے! اس کا دل کولہو کے بیل کی طرح گھوم پھر کر دوبارہ سے اسی جگہ آ کر کھڑا ہو جاتا تھا، آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ راستہ دونوں جانب سے بند تھا، وہ جیسے راستے کے درمیان میں الجھا الجھا اور اچنبھے میں کھڑا تھا۔
کل شام کو نازاں کی ماں نے اسے بلایا تھا، وہ ہارون سے کچھ بہت ضروری باتیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے کہا، ’’تمہیں میری باتیں شاید عجیب لگیں، لیکن حالات کچھ ایسے ہیں کہ تم سے صاف صاف باتیں کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ویسے تو یہ باتیں لڑکے اور لڑکی کے رشتے داروں کے درمیان ہوتی ہیں، لیکن ان باتوں پر فیصلہ تمہیں ہی لینا ہے، اس لئے میں تم سے صاف صاف باتیں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
ہارون نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ’’میں پوری توجہ سے سن رہا ہوں، آپ کہئے۔‘‘
نازان کی ماں نے سنجیدہ ہو کر کہا، ’’ہارون! تمہیں تو پتہ ہے کہ اس گھر میں صرف ہم دو عورت ذات رہتی ہیں۔ خدا کے سوا ہمارا اور کوئی نہیں۔ ہم ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ایک دوجے کی خیر خبر رکھتے ہیں۔ نازان کے والد کے گزر جانے کے بعد ہم دونوں ماں بیٹی بے سہارا ہو گئی تھیں۔ اس وقت نازاں پانچ سال کی تھی۔ میں نے اکیلے ہی حالات کا سامنا کیا۔ مشین پر کپڑے سی کر، تکلیفیں سہہ کر گزر بسر کیا اور نازاں کو پالا۔ میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد نازاں کی زندگی کو سنوارنا تھا اور اب نازاں ہی میرا سہارا ہے۔‘‘ اس نے ہارون پر نظریں گڑا کر کہا، ’’تم ہی بتاؤ! کیا میں اپنی زندگی کا سہارا دوسرے کے حوالے کر دوں! اس عمر میں میں اوروں کے دروازوں پر دھکے کھا کر مر جاؤں!‘‘ نازاں کی ماں چپ ہو گئی۔ ہارون کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر کیا کہے!
نازان کی ماں پھر سے بولی، ’’میں نہیں چاہتی کہ نازاں اپنی زندگی مجھ پر قربان کر دے۔ نہیں نہیں، نازاں کی خوشی کے لئے میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں فقط اتنا چاہتی ہوں کہ وہ شادی کرے، میرے ساتھ اس گھر میں رہے۔ اگر تم مجھے خود غرض سمجھتے ہو تو بھلے سمجھو، لیکن میرے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘
تبھی ہارون نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا، ’’نہیں خالہ، میں آپ کی مجبوریوں کو سمجھتا ہوں۔‘‘ لیکن اس کی بھی تو کچھ مجبوریاں تھیں۔ اس کے دل میں طوفان مچ گیا تھا۔
ہارون اب تمہارے فیصلہ کی ضرورت ہے۔‘‘ نازاں کے ماں کی آواز تھی۔
ہارون الجھ گیا، پھر اس نے کہا، ’’مجھے کچھ سوچنے کا وقت دیجیے، خالہ۔‘‘
نازان کی ماں اس کی الجھن کو سمجھ گئی۔ ’’شاید تم جلدی فیصلہ نہیں لے پاؤ۔ اس لئے تم کچھ وقت ٹھنڈے دل دماغ سے سوچو۔ جلدی کئے گئے جذباتی فیصلے آگے چل کرمسئلہ کرتے ہیں۔ تم اپنے رشتے داروں سے بھی مشورہ کرو۔ یہ بہت ہی کٹھن معاملہ ہے، بیٹے۔‘‘
ہارون اس سے رخصت لے کر باہر آیا۔ آنگن میں باورچی خانے کے دروازے پر نازاں پیٹھ ٹکا کر کھڑی تھی۔ وہ کتنی ہی دیر تک اس ایک ہی جگہ پر کھڑی، درد سہہ رہی تھی۔ ہارون کو دیکھ کر اس نے سر جھکا دیا۔ ہارون اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ ’’نازاں!‘‘ اس نے گھٹے لہجے میں بلایا۔ نازاں نے آنکھوں کے پوروں پر اٹکے آنسوؤں کو چھپانے کے لئے چہرہ دوسری جانب گھما لیا۔ ہارون کے دل نے چاہا کہ آگے بڑھ کر نازاں کے آنسو پونچھے۔ اس نے فقط ایک قدم بڑھایا اور پھر اس کے بعد پتھر بن گیا۔ ’’مجھے کیا حق ہے نازاں کے آنسو پونچھنے کا۔‘‘ اس نے سوچا، وہ کتنا بے بس تھا، کتنا لاچار تھا۔ جیسے کوئی معذور تھا، جس کے بس میں کچھ نہ تھا۔ وہ فقط اتنا بھی نہیں کہہ پا رہا تھا، ’’مت رو، نازو مت رو۔‘‘ لیکن یہ بات بیکار اور روکھی لگتی۔ شخص جب کچھ اور نہیں کر سکتا ہے، تب فقط رو سکتا ہے۔ رونا، بے بسی اور لاچاری کا اور کچھ نہ کر پانے کا اظہار ہے۔ اسے ایسا لگا اگر وہ اور کچھ دیر تک وہاں کھڑا رہا تو منجمد ہو کر پتھر بن جائے گا۔ اس نے ایک لمبی سانس لی اور اس کے منہ سے نکلا، ’’دل چھوٹا مت کر نازو، کچھ نہ کچھ اچھا ہو جائے گا۔‘‘ اور اس کے بعد وہ تیزی سے باہر نکل گیا، جیسے زیادہ دیر تک وہاں رکنے سے ڈرتا ہو۔ ’’لیکن اگر میں پتھر بن جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا میرے لئے۔ کم سے کم اس طرح تکلیف تو نہیں سہتا۔ اگر میں فقط پتھر ہوتا اور کچھ نہ ہوتا۔‘‘ ہارون نے سوچا۔
کروٹ بدل کر اس نے کمرے کے باہر دیکھا۔ افق پر ہلکی ہلکی سفیدی چھا رہی تھی۔ ایک پل کے لئے بھی اس کی آنکھ نہیں لگی تھی۔ ’’جلدی ہی ماں بیدار ہو گی اور مجھے اٹھا دیکھ کر پریشان ہو گی۔‘‘ ہارون نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ماں بیکار میں پریشان ہو جائے۔ اسکواپنی ماں سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ اپنی ماں کی تھوڑی بھی تکلیف برداشت نہیں کر پاتا تھا۔ اس کی ماں بیمار ہوتی تھی تو وہ ماں سے زیادہ پریشان ہو جاتا تھا۔ بچپن سے ہی اس کا ایسا مزاج تھا کہ جب بھی اس کی ماں بیمار ہوتی تھی تو وہ اتنا الجھن میں پڑ جاتا تھا کہ اسے کوئی بات اچھی نہیں لگتی تھی۔ پہلے تو کھیل چھوڑ کر ماں کے پاس جا بیٹھتا تھا۔ ماں سے اس کی یہ پریشانی دیکھی نہیں جاتی تھی اور وہ اسے زبردستی کھیلنے کے لئے بھیج دیتی تھی، لیکن کھیل میں اس کا دل نہیں لگتا تھا، تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کھیل چھوڑ کر وہ ماں کو دیکھنے آتا تھا کہ اب کیسی ہے۔ قریب کھڑا ہو کر پوچھتا تھا، ’’ماں! اچھی بھلی ہو؟‘‘ اس کی ماں مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتی ’’ہاں بابا! اچھی بھلی ہوں، توُ جا کر کھیل۔‘‘ اس کے ننھے معصوم دل میں پتہ نہیں یہ خیال کیسے آتا تھا کہ اگر ماں مر گئی تو۔! وہ رونے لگتا تھا اور سوچتا تھا کہ میں بھی ماں کے ساتھ مر جاؤں گا۔
جب وہ سوچنے سمجھنے کے لائق ہوا، تب اسے پتہ چلا کہ ماں سے اس کا لگاؤ اتنا زیادہ کیوں تھا؟ اس کی ماں بہت دکھی تھی۔ شادی ہونے کے بعد، سوائے دکھوں اور تکلیفوں کے، اسے اور کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ اس کی زندگی میں کوئی خوشی آئی بھی تھی تو بجلی کی روشنی کی طرح، نہیں تو گھپ اندھیرا ہی تھا۔ جیسے ہی وہ پرائے گھر میں آئی، ویسے ہی گھر کے لوگوں کے ساتھ اس کی نہیں بنی۔ اس کا شوہر، جو گھر میں خود کو بے بس مانتا تھا، اس نے اس لاچاری اور بے بسی میں ہارون کی ماں کو بھی شریک بنا دیا۔ جب ہارون بڑا ہوا، تب اسے اپنی ماں زمین کی مانند لگی تھی، جس نے پتہ نہیں کیسے کیسے دکھ اور کیسی کیسی تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ لیکن زمین کی مانند گوں گی بن کر، سب کچھ برداشت کرتی گئی۔ اس کی ماں کا دل لکڑی میں لگی دیمک کی طرح کھوکھلا ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی اس کے غمزدہ اور مرجھائے دل میں صبر کا لامحدود سمندر سمایا ہوا تھا، جس کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔ ہارون کا کومل ننھا وجود اس کے لئے سب سے بڑی امید تھی۔ وہ زندہ تھی تو فقط ہارون کے لئے، ہارون اس کے جینے کا ذریعہ تھا۔
ہارون، ماں کے پیار اور محنت کے سبب اس لائق بنا تھا کہ وہ نہ صرف اپنا، لیکن اپنے گھر کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔ اب جبکہ اس کی ماں کے سب دکھ درد دور ہو گئے تھے، اس کے دل کی تمنائیں پوری ہوئی تھیں، تب ہارون اپنی خوشیوں کے سبب اسے چھوڑ دینے کا فیصلہ لے رہا تھا۔
‘میں جو اپنی ماں کی معمولی بیماری پر پریشان ہو جاتا ہوں، اپنی ماں کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر، ایک پرائے گھر میں رہ سکوں گا؟‘‘ ہارون نے خود سے پوچھا۔
’’ہارون، بیٹے ہارون!‘‘ ماں اسے بلا رہی تھی۔ وہ چپ چاپ لیٹا رہا۔ وہ ماں کو جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس وقت اچانک اسے خیال آیا، ’’کیا میں اوروں کے لئے اپنی زندگی تباہ کر دوں، اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ دوں! نہیں، اب میں بچہ نہیں رہا۔ اپنی زندگی اور مستقبل کا خود ذمے دار ہوں۔ میں نے نازو سے وعدہ کیا تھا کہ میں ساری دنیا کو چھوڑ سکتا ہوں، لیکن اسے نہیں۔ میں اپنا وعدہ ضرور نبھاؤں گا۔‘‘
’’ہارون، او بیٹے ہارون!‘‘ ماں اسے ابھی تک بلا رہی تھی۔ ہارون کو ماں کے بلاوے پر طیش آ گیا۔
’’کیا ہوا ماں! نیند خراب کر دی۔‘‘ اس نے چڑ کر کہا۔
’’بیٹے، دیر ہو گئی ہے۔ آفس بھی جانا ہے کہ نہیں۔‘‘ ماں کو اس کے چڑنے پر تعجب ہوا۔
’’نہیں، آج آفس نہیں جاؤں گا۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’خیر تو ہے، کیا ہوا ہے دشمنوں کی طبیعت کو؟‘‘ ماں پریشان ہو گئی۔
’’کچھ نہیں ماں، رات کو نیند نہیں آئی ہے، اس لئے سردرد ہے۔‘‘ ہارون کو اپنے رویے پر شرمندگی محسوس ہوئی اور اس نے اپنے لہجے کو نرم بنانے کی کوشش کی، ’’تھوڑی دیر سوؤں گا تو طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘
ماں اسے بے قرار نظروں سے دیکھتے چلی گئی، تب ہارون کو احساس ہوا کہ اس نے ماں سے سرد رویہ اپنایا ہے۔ زندگی میں پہلی بار اس نے اپنی ماں سے روکھا برتاؤ کیا ہے۔ وہ خود کو قصوروار ماننے لگا۔
’’لیکن آخر میں کروں کیا! کیا کروں! مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘‘ ان سوالوں سے پریشان ہو کر آخرکار وہ کھاٹ سے اترا اور برش کرنے کے بعد واپس آ کر کھاٹ پر آ بیٹھا۔ ہارون کی چھوٹی بہن عذرا چائے کی پیالی لے آ اس کے سامنے کھڑی ہوئی۔ ہارون نے آنکھیں اوپر نہیں اٹھائیں اور چپ چاپ اس کے ہاتھ سے پیالی لے چائے پینے لگا۔
’’بھائی! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ عذرا نے اس سے پوچھا۔
ہارون نے اوپر نگاہ اٹھائی۔ عذرا اور اس کی ماں پریشان ہو کر اسے دیکھ رہی تھیں۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ بیکار پریشان ہو رہی ہیں۔‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کرتے کہا۔ ماں اور عذرا کو اس کی بات پر یقین نہیں ہوا۔ اس کا تھکا اور پیلا زرد چہرہ صاف گواہی دے رہا تھا۔ ہارون نے سوچا ماں کو سب کچھ بتا دے۔
’’ماں! کل نازو کی ماں نے مجھے بلایا تھا۔‘‘
’’پھر کیا کہا؟‘‘ ماں نے اس سے پوچھا۔
’’وہ چاہتی ہے کہ میں نازو سے شادی کرنے کے بعد اس کے گھر میں، ان کے ساتھ رہوں۔‘‘
اسکی ماں کے ہونٹوں پر ایک افسردہ مسکراہٹ ابھر آئی، ’’پگلے، تم نے خود کو اس بات کے لئے بیکار ہی پریشان کیا ہے۔ تم سمجھ رہے تھے کہ میں تمہیں اجازت نہیں دوں گی! تمہاری خوشی میں ہی تو ہماری خوشی ہے۔ ہم نے تمہیں سنبھال کر اس لئے بڑا نہیں کیا ہے کہ تمہاری خوشیاں چھینیں۔ تم آج ہی جا کر نازوں کی ماں کو ’’ہاں‘‘ کہہ کر آؤ۔‘‘ شاید وہ اپنے جذبات کو اندر ہی اندر دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔
ہارون کے گلے میں کچھ اٹک گیا۔ جیسے ہی وہ اسے نگل کر نیچے اتارنے کی کوشش کرتا ویسے ہی وہ اوپر چڑھ آتا۔ اس وقت اسے عذرا کی آواز سنائی دی، ’’بھائی، کیا تم ہمیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے!‘‘
جیسے کوئی دھماکہ ہوا، جس نے ہارون کے پورے وجود کو ہلا دیا۔ وہ ٹوٹ گیا تھا۔
’’عذرا!‘‘ گلے میں کچھ پھنسا ہوا بھار نیچے اتر گیا اور ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی۔ اس نے اپنی بہن کو پیار سے گلے لگایا۔ اسے ایسا محسوس ہوا، جیسے اس نے اپنے وجود کو ٹوٹنے سے بچا لیا تھا۔
٭٭٭
مجروح قہقہے
میں نے ہاتھوں پر مہندی رکھنی نہیں چاہی، لیکن سبھی رشتے داروں نے زور دیا ہوا تھا۔ انہیں میرے انکار کرنے پر تعجب ہوا تھا۔ ’’بہن، یہ کیسا لڑکا ہے، مہندی رکھنے نہیں دے رہا! مہندی کے بغیر کیسی شادی!‘‘ سبھی چھوٹے بڑے رشتے داروں نے زبردستی گدی پر بٹھایا تھا۔ تبھی اچانک شور مچ گیا۔ ’’شمع آ رہی ہے۔ ارے، شمع آئی ہے۔‘‘
دل ہچکولے کھا گیا۔ اندر کا خلا مزید گہرا ہو گیا۔
’’پتہ نہیں شوہر نے اسے کیسے چھوڑا!‘‘ ماں نے کہا اور سبھی عورتیں باہر دوڑیں۔ لمحے بھر کیلئے میں اکیلا ہو گیا اور چاہا کہ گدی سے اتر کر چلا جاؤں۔
’’بہن، ہمیں امید ہی نہیں تھی کہ تم آؤ گی!‘‘
’’ارے، اچھا ہوا جو آئیں، چل کر دولہا کے ہاتھوں پر مہندی رکھو۔‘‘
میں نے اس کی آواز نہیں سنی، لیکن لگا کہ وہ بہانے بنا رہی تھی۔ جب سبھی عورتیں لوٹنے لگیں، تو اس وقت لائٹ چلی گئی۔ شاید یہ اچھا ہی ہوا تھا۔ اتنے سارے لوگوں کے درمیان اور اس حال میں، میں اسے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ جب میں اسے دیکھنا چاہتا تھا اس بات کو دس سال ہو گئے۔ اب وہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر کیا محسوس کرے گی! یہ سب میں اتنے لوگوں کے درمیان جاننا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن دل میں کرب کی لہر اٹھ رہی تھی۔
کسی نے جلدی جلدی سے موم بتی جلائی تھی۔ عورتوں نے اسے لا کر میرے آگے بٹھا دیا۔ ’’بھائی صاحب، ہاتھ سیدھے کیجئے تو شمع مہندی رکھے۔‘‘ کسی نے کہا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے کئے۔ شمع نے تھالی سے مہندی لے کر میرے ہاتھوں پر لگائی۔ مجھے لگا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے یا شاید میرے بھی ہاتھ کانپ رہے تھے۔
عورتیں کوئی گیت گنگنا رہی تھیں۔ میں نے اندھیرے میں اسے دیکھنا چاہا۔ اس کا جسم کچھ بھر گیا تھا۔
’’شمع تم اتنی خوبصورت کیوں ہو، جو لوگ فقط تمہارا ظاہری روپ ہی دیکھتے رہیں؟‘‘
’’کیوں، میں اندر سے کیا اتنی کالی ہوں کیا؟‘‘
آسمان تک اٹھتے میرے قہقہے۔
’’تم اتنے بڑے قہقہے لگاتے ہو کہ پڑوسی بھی سنتے ہیں۔‘‘
’’تمہارے قہقہے تو جیسے دبے ہوئے ہیں!‘‘
’’تو بھی لوگ تو بس تمہارے قہقہوں کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’شمع، قہقہے دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک خوشی، بے فکری کے ہوتے ہیں اور دوسرے غم کے، اندر کے کرب کو چھپانے کیلئے ہوتے ہیں۔‘‘
’’یہ اطلاع دینے کے لئے بہت شکریہ۔‘‘ اس نے ہنستے کہا۔ ’’بھلا ان میں سے صاحب کے قہقہے کس طرح کے ہیں؟‘‘
شمع نے ہتھیلی کے پچھلے حصے سے جلدی سے آنکھیں پونچھ لیں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہاتھوں پر پوری مہندی نہیں لگی تھی۔ پھر تو پتہ نہیں کون کون مہندی لگانے لگیں۔ تب تک لائٹ بھی آ چکی تھی، لیکن شمع عورتوں کی بھیڑ میں کھو گئی۔
میری آنکھیں ڈر ڈر کر عورتوں کی بھیڑ میں اسے ڈھونڈنے لگیں – لیکن وہ تو دس سال پہلے ہی کھو گئی تھی۔
’’تمہارے انٹرویو کا کیا ہوا؟‘‘
’’ابھی تک پتہ نہیں چلا ہے۔‘‘
’’اور اس سے پہلے جو انٹرویو ہوا تھا؟‘‘
’’مجھے نہیں لیا۔‘‘
’’ابھی جو انٹرویو دیا ہے، اس سے کوئی امید ہے؟‘‘
’’اس میں بھی امید کم ہے۔‘‘
’’کیوں بھلا، ان کی تم سے کوئی دشمنی ہے کیا؟‘‘
’’تم کیا سمجھتی ہو کہ میں انٹرویو میں پاس نہیں ہوتا؟‘‘
’’خیر، میں ایسا نہیں کہوں گی کہ تم بالکل گئے گزرے ہو۔‘‘ وہ ہنسنے لگی، لیکن میں مسکرا بھی نہیں پایا۔
’’تمہیں پتہ ہے کہ سفارش کے بغیر کوئی نوکری نہیں ملتی ہے۔ میرے پاس کون سی سفارش ہے، جو امید رکھوں؟‘‘
’’یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟‘‘
’’کون سا سلسلہ؟‘‘
’’انٹرویو کا۔ آخر کوئی نتیجہ بھی نکلے گا یا۔‘‘
’’میرے بس میں ہوتا تو کب کا نوکری لے کر بیٹھا ہوتا۔ کہیں تم اس سلسلے سے تنگ تو نہیں آ گئی ہو؟‘‘
’’یہ بات تم سوچ سکتے ہو! میں تو کسی بھی حالت میں تنگ نہیں ہو سکتی، لیکن۔‘‘
’’لیکن کیا؟ دیکھو شمع، مجھے تمہاری یہ بات اچھی نہیں لگتی ہے۔ تم مجھ سے کوئی بھی بات چھپاتی ہو تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ جو کچھ ہے مجھے صاف صاف بتاؤ۔‘‘
’’تم شروع سے ہی بے وقوف ہو۔ میں تم سے کوئی بات کیوں چھپاؤں گی؟ میں نہیں چاہتی کہ تمہیں ادھر ادھر کی بیکار باتیں کر کے پریشان کروں۔ تمہارے لئے بے روزگاری کیا کم پریشانی ہے؟‘‘
’’چاچا صاحب پریشان ہو گئے ہوں گے۔ یہی بات ہے نہ؟‘‘
شمع خاموش رہی۔
یہ بات میں بھی محسوس کرتا ہوں۔ لیکن میں چاچا کو الزام نہیں دے رہا۔ وہ بے روزگار شخص کا بوجھ کب تک اٹھاتے رہیں گے۔ بیروزگار بیٹے سے تو والدین بھی تنگ آ جاتے ہیں۔ یہ بھی چاچا کی مہربانی ہے کہ مجھے اتنے عرصے تک اپنے گھر میں جگہ دی ہے، ورنہ کراچی جیسے مہنگے شہر میں، میں کہاں رہ پاتا۔ بس، ہفتے کے بعد آخری انٹرویو دے کر میں اپنے گھر چلا جاؤں گا۔‘‘
میں نہیں چاہتا تھا کہ شمع مجھے جھوٹی تسلیاں دے۔ اگر وہ کچھ کہتی تو اس کے الفاظ مجھے رسمی اور بے مطلب لگتے۔ وہ چپ چاپ بے بسی سے مجھے دیکھتی رہی۔
شمع میری خالہ کی لڑکی تھی۔ اس کا شوہر اناج کا بیوپاری تھا اور اونچی پہنچ والا شخص تھا۔ اس کے اتنے تعلقات تھے کہ اگر وہ تھوڑی کوشش کرتا تو کوئی چھوٹی موٹی نوکری مجھے آسانی سے مل جاتی۔ لیکن وہ گھر سے اتنا لگاؤ نہیں رکھتا تھا اور مزاج کا بھی کٹھور ہونے کے سبب، میں اسے کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکا۔ خالہ کی تو سنتا ہی نہیں تھا۔ کبھی کبھی میرے سامنے آ جاتا تھا تو پوچھتا، ’’کیا حال ہے، کیا ہوا تمہارا؟‘‘ اور میں جواب دیتا، ’’ابھی تک تو کچھ نہیں ہوا ہے۔‘‘ وہ آگے بڑھ جاتا تھا۔
میں گاؤں چلا گیا۔ ماں اور بابا نے انکار کر دیا کہ جب تک اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوتے، تب تک شمع کے رشتے داروں سے بات چیت کرنے نہیں جائیں گے۔ ’’ہم اپنا پیٹ مشکل سے بھر پاتے ہیں اور پرائی لڑکی کو مشکل میں ڈالیں۔‘‘
اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مجھے کافی وقت لگ گیا اور شمع کی شادی ہو گئی۔ ایک بڑا بیوپاری جس کا بیرون ملک بھی کاروبار تھا، شمع کے والد کا دوست تھا اور چالیس سالوں تک کنوارا رہا تھا۔ شمع سے شادی کرنے کے بعد وہ گھر گرہستھی والا ہو گیا۔
میں ہاتھوں پر سے مہندی اتار کر واپس تھالی میں رکھنے لگا۔ ایک عورت نے دیکھ لیا۔
’’ارے بھائی صاحب، یہ کیا کر رہے ہیں، ابھی تو رنگ لگا ہی نہیں ہو گا!‘‘
’’مجھے ہاتھ لال نہیں کرنے ہیں۔ آپ نے اپنی بات رکھ لی، اب میری مرضی۔‘‘
’’بھائی، لڑکا ہے، کیا ہے؟ ایسا تو ہم نے کہیں نہیں دیکھا۔‘‘
عورتوں کو میرے رویہ پر تعجب ہو رہا تھا۔
میں ہاتھوں پر سے مہندی ہٹا کر گھر سے باہر نکل گیا۔ باہر رشتے دار تھے، چھوٹے بڑے اور جان پہچان والے تھے۔ میرے اور رشتے داروں کے بیچ کا پل مجھے ہمیشہ شکستہ لگا۔ ان کے درمیان بیٹھ کر باتیں کرنے کا میرا کبھی بھی دل نہیں ہوا ہے۔ میں جہاں تک پڑھا، یہ ہی وہ رشتے دار تھے جو میرے ماں باپ پر ہنستے تھے، ٹوکتے رہے کہ یہ کیا پڑھ کر اپنے گھر والوں کو کھلائے گا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد کلرکی یا ماسٹری دلانے کے لئے انھیں رشتے داروں سے گذارش کرتا رہتا تھا اور مجھے بے روزگار دیکھ کر، پریشانی میں بھٹکتا دیکھ کر خوش ہو کر مسکراتے رہتے تھے۔ انہوں نے تو کبھی مجھ سے ہمدردی کے دو لفظ بھی نہیں کہے، لیکن اس سارے ہجوم میں، جس نے مجھ سے ہمدردی دکھانی چاہی، جس نے میرے دکھ میں شامل ہونا چاہا، اسے بھی اچھا نہیں لگا۔ ان رشتے داروں نے ہی تو مجھے بے پناہ دکھوں کے ریگستان میں پھینک دیا تھا۔ اور میں اس ریگستان میں کسی منزل تک پہنچنے کے لئے بھٹکتا رہ گیا۔
باہر آ کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ تڑپتے دل کو قرار نہ باہر ملتا ہے نہ گھر میں۔ مجھے دیکھ کر سبھی بے فکری سے تھوڑا دور ہٹ کر، مسکرا کر باتیں کرنے لگے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا باتیں کر رہے تھے اور میں کیا بات کر رہا تھا۔ میں پھر سے گھر لوٹ آیا۔ عورتوں کا شور شرابہ تھا۔ میں کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ ڈپریشن بڑھ گیا تھا اور سر بھاری ہو گیا تھا۔ مجھے لگا کہ یہ سب بیکار ہے۔ سروائیو کرنے کے لئے میں نے جو کوشش کی تھی، وہ بیکار تھی۔ اندھیرے کمرے میں، میں نے خود کو پرکھنا چاہا۔ میرے وجود کی خاص خصوصیات غم، مایوسیاں اور ناکامیاں تھیں، جو پوری زندگی کا حاصل تھیں۔ میری ذات میں کچھ کھوٹ تھے۔ کوئی پرانا کھوٹ تھا۔ یہ کھوٹ کون سا تھا؟ اس کی بنیاد کہاں پر تھی؟ مجھے اپنی ناسمجھی پر ہنسی آ گئی۔
’’شمع، کوئی سیانا کہتا ہے کہ جس شخص سے آپ دل کی گہرائیوں تک پیار کرتے ہیں، اس کی بھلائی کی بات سوچیں، اس کی بہتری کیلئے سوچیں۔‘‘
’’پھر تم نے میری بھلائی اور بہتری کے لئے کیا سوچا ہے؟‘‘ اس نے ہنستے پوچھا۔
’’یہی کہ میرے ساتھ تم خوش نہیں رہ پاؤ گی۔‘‘
کچھ دیر تک وہ مجھے دیکھتی رہی۔ پھر جب وہ بولی تو اس کا لہجہ دکھ بھرا تھا۔
’’یہ تم نے کیسے سمجھا؟‘‘
’’مجھ سے تمہیں کیا سکھ ملے گا؟ تمہیں سکھی رکھنا اور تمہیں خوشیاں دینے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’میں اندھی نہیں ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ خوشیاں اور سکھ تمہارے پاس نہیں ہیں۔ میں نے تمہارے دکھوں اور امیدوں کو اپنا کرنا چاہا ہے۔ یہ اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو اور پاگل پنے کی باتیں سوچنا چھوڑ دو۔‘‘
لیکن میں پہلے سے بھی زیادہ پاگل پنے کی باتیں سوچنے لگا ہوں۔ اگر مجھے شمع کا ساتھ ملتا تو شاید میرے وجود کا کھوٹ نکل جاتا۔ شمع میرے لئے بڑی امید ہوتی، میرا سہارا ہوتی۔ وہ مجھے کبھی تھکنے نہ دیتی۔ اس نے شادی سے پہلے شیشہ کھا کر خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ سن کر میں نے پاگلوں کی طرح قہقہے لگائے تھے اور اس کے بعد رو پڑا تھا۔
باہر بہت شور شرابہ تھا اور اندر کمرے میں اندھیرا تھا۔ میں کہیں بھی نہیں تھا۔ میں نے خود کو ڈھونڈنا چاہا، لیکن اندھیرا میرے وجود کی مانند کبھی نہ بھرنے والے کھوٹ اور دکھوں جیسا لا محدود تھا، گہرا اور پھیلا ہوا تھا۔ چاروں جانب اندھیرا دور دور تک، جہاں تک نظریں جائیں، پھیلتا جا رہا تھا۔ میں نے ہاتھ پیر اٹھانے چاہے، چیخنا چاہا، لیکن اندھیرا مزید گہرا، مزید بوجھل ہوتا گیا۔۔ ۔
اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ ایک پل کے لئے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ دیئے۔ پتہ نہیں کس نے بٹن نیچے کیا تھا۔ آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے تو سامنے شمع کھڑی تھی۔
’’اندھیرے میں کیا دیکھ رہے تھے؟‘‘
’’خود کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘
’’بچہ چپ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ خالہ نے کہا الماری میں کھلونے پڑے ہیں، وہ دوں تو شاید چپ ہو جائے۔ کہتا ہے کہ پاپا کار میں بٹھا کر گھمائے۔ اب یہاں اس کا باپ کہاں ہے، جو اسے گھمائے۔‘‘
’’کیوں غفار صاحب نہیں آئے؟‘‘
’’نہیں، بہت مصروف تھا۔ اِف یو ڈونٹ مائنڈ، میں بچے کو یہاں لے آؤں، ہو سکتا ہے کھلونوں سے بہل کر سو جائے۔ باہر شور میں تو اسے نیند نہیں آئے گی۔‘‘
’’یہ تم کہہ رہی ہو کہ میں مائنڈ کروں گا!‘‘ وہ مسکرا کر باہر چلی گئی اور چھوٹے بچے کو لے کر اندر آ گئی۔
’’چاچا کو سلام کر۔‘‘ ڈھائی تین سال کے خوبصورت اور تندرست بچے نے میری جانب غور سے دیکھا۔ شمع نے اسے نیچے بٹھا کر الماری میں سے کھلونے نکال کر اس کے آگے رکھے۔ وہ بھی اس کے ساتھ کھیلنے بیٹھ گیا۔ میں کھاٹ پر بیٹھ کر دونوں کو دیکھنے لگا۔ بچہ کھیل سے بہل گیا اور اس کے بعد وہ خود ہی کھیلنے لگا۔ شمع کرسی پر چڑھ بیٹھی۔
’’بچے کا کون سا نمبر ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تیسرا نمبر۔ اس سے بڑی بہن اور ایک بھائی ہے۔‘‘
’’وہ نہیں آئے کیا؟‘‘
’’نہیں، اپنی دادی کے گھر گئے ہیں۔‘‘
’’غفار صاحب نے تمہیں خوشی سے جانے دیا یا۔‘‘
’’اس نے مجھے کہیں بھی جانے سے روکا نہیں ہے۔ اسے تو فرصت ہوتی نہیں ہے، زیادہ تر باہر رہتا ہے۔ الٹے کہہ دیا ہے کہ کہیں بھی جانا چاہوں تو جا سکتی ہوں۔ لیکن میرا دل نہیں مانتا ہے کہیں جانے کے لئے۔‘‘
’’اکیلی ہونے کے سبب۔‘‘
اس نے میری جانب دیکھا اور چپ رہی۔ شاید جواب سوچ رہی تھی، پھر میں نے دوسرا سوال پوچھا۔
’’تم خوش اور مطمئن ہو؟‘‘
ایک پل کے اس کی نظریں پتھرا کر خلاؤں میں کھو گئیں۔ میں نے سوچا کہ مجھے ایسا سوال نہیں پوچھنا چاہئے تھا۔
آخر وہ بولی اور اس کا لہجہ سنجیدگی بھرا تھا، ’’ہم دونوں میں بیس سالوں کا فرق ہے۔ میں دلی طرح پر اسے قبول نہیں کر پائی، لیکن بعد میں، میں سب بھول گئی۔ وہ میرے تین بچوں کا باپ ہے۔ میں اس کی عزت کرتی ہوں اور انسان گزرے ہوئے کل کیلئے کب تک ماتم مناتا رہے گا، وہ بھی تب، جب سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ ہو۔‘‘
میں بولا، ’’مجھے افسوس ہے۔ ایسے بے تکے سوال پوچھنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں، ایسا نہیں ہے، بہرحال ہم پرائے نہیں ہیں، جو ایک دوسرے کا حال بھی جان نہ سکیں۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔ ’’میں اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش اور مطمئن ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ مجھے خوش رکھنے کی بہت کوشش کرتا ہے۔ اب جب شادی کی دعوت ملی تو اس نے ہی زور دیا تھا شریک ہونے کے لئے۔‘‘
’’تم خود نہیں آنا چاہتی تھی؟‘‘
’’میں خود؟ میں نہیں چاہتی تو نہیں آتی۔ میں نے خود چاہا تھا کہ دیکھوں کہ اتنے سالوں کے بعد کیا ہوا ہے۔ تم میں کتنی تبدیلی آئی ہے، اور کیا نہیں آئی ہے اور تمہارا انتخاب کیسا ہے؟‘‘
’’انتخاب اوروں کا ہے، میں نے فقط ’’ہاں‘‘ کی ہے۔ خیر، تمہیں کیسی لگی؟‘‘
’’ایک بات پوچھوں؟ تم ایک ایسی لڑکی سے شادی کیوں کر رہے ہو جو ان پڑھ ہے، بالکل گھریلو ٹائپ کی ہے۔‘‘
’’اسکے کئی اسباب ہیں، جن میں میرے والدین کی خواہش کا بھی بڑا دخل ہے۔ ان گھریلو باتوں اور دوسروں کی خواہشات کو چھوڑ کر اگر تم یہ جاننا چاہتی ہو کہ اس میں میری کون سی کنسیڈریشن ہے تو شاید واضح کچھ بھی نہ بتا پاؤں۔‘‘ میں چپ ہو گیا تھا۔ خود کو سمیٹ کر ایک جگہ لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’تمہیں ہارنے کے بعد، میں نے جو ذہنی اذیت جھیلی ہے، اس نے مجھے شاید اوروں کی پسند والا بنا دیا ہے۔ اس لئے میں پوری طرح سے ہارنا چاہتا ہوں۔ یہ شادی بھی میری ہار ہے۔ دوسری بات، میں اکیلا اور تنہا رہنا چاہتا ہوں اور یہ لڑکی میرے اکیلے پن میں دخل نہیں دے گی۔‘‘
’’تم غلطی کر رہے ہو۔ یہ بات آگے چل کر تمہیں مزید غمزدہ کرے گی۔ تمہیں ایسی لڑکی چننی چاہئے تھی، جو ذہنی طور پر تمہیں سمجھ سکے۔ تمہاری دلیلیں تو مجھے سمجھ میں ہی نہیں آ رہیں۔‘‘
’’یہ میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ میں تمہارے سوالوں کا جواب واضح انداز میں نہیں دے پاؤں گا۔‘‘
بچہ اب کھلونوں سے تنگ آ گیا تھا اور غنودگی میں لگ رہا تھا۔ شمع نے اسے اٹھا کر اپنی گود میں لٹایا۔
’’تم اسے پیار دے پاؤ گے؟‘‘ اچانک اس نے پوچھا۔
’’پیار؟ میرے جیسے لوگوں کے پاس لا محدود پیار ہوتا ہے۔ پھر اگر دل نے چاہا تو پورا پیار الٹ دیتے ہیں اور کہیں دل نے انکار کیا تو اتنے کٹھور ہو جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑاکنجوس بھی سامنا نہ کر پائے۔‘‘
’’اگر وہ تمہیں اپنا پورا پیار دے دے؟‘‘
’’دیکھتے ہیں! ڈیٹ ڈپینڈس۔‘‘
وہ ہنسنے لگی، ’’خدا بیچاری پر رحم کرے۔‘‘
’’اور اس کے ساتھ مجھ پر بھی۔‘‘
’’تم نے خود پر رحم نہیں کیا ہے تو خدا تم پر کیا رحم کرے گا؟‘‘
اتنی بڑی لعنت! میں ڈر گیا۔
’’لڑکے کو نیند آ رہی ہے۔ اب میں چلتی ہوں۔‘‘ وہ بچے کو اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر چلی گئی۔
جب شور شرابہ ختم ہو جاتا ہے اور سبھی لوگ چلے جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے طوفان باد و باراں کے بعد اچانک خاموشی اور حبس ہو گیا ہو۔ یہ سکون اور اکیلا پن کتنا انوکھا اور ڈراؤنا ہوتا ہے۔ یہ طوفان جو میری وجہ سے تھا، جس میں میری مرضی شامل نہیں تھی، لیکن اس کا شکار میں ہی بنا تھا۔ اس نے ہر چیز کو توڑ پھوڑ کر جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ شمع نے کہا تھا، ’’تم غلطی کر رہے ہو۔‘‘ میں سچ مچ غلطی کر رہا تھا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ سب میں نے نہیں چاہا تھا۔ مجھے فقط جسم نہیں چاہئے تھا۔ ہم دونوں ایک ہی کھاٹ پر لیٹے ہوئے تھے اور پتہ نہیں کتنے دور تھے۔ میں نے کوشش کی تھی کہ دونوں کے درمیان کھڑی، ان دیکھی دیوار کو توڑ دوں۔
’’تم اتنی چپ کیوں ہو؟‘‘
’’بس۔‘‘
’’پھر کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’تمہیں شاید ابھی تک دکھ ہے؟‘‘
وہ خاموش رہی۔
’’رشتے داروں سے بچھڑنے کا دکھ ابھی تک ہے؟‘‘
’’اوں، ہوں۔‘‘
’’اپنوں سے لگاؤ تو ضرور ہو گا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’باپ سے زیادہ لگاؤ ہے یا ماں سے؟‘‘
’’دونوں سے۔‘‘
’’تو بھی دونوں میں سے ایک سے ضرور زیادہ ہو گا۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘
’’اچھا تمہیں تمہاری ماں زیادہ پیار کرتی ہے یا باپ؟‘‘
’’دونوں۔‘‘
’’تمہیں یہاں سکھ ملتا ہے؟ گھٹن تو محسوس نہیں ہوتی؟‘‘
’’اوں ہوں۔‘‘
’’ویسے تم گھر میں کیا کرتی تھیں؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ نہیں کیا؟ پورا دن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایک ہی جگہ پر تو نہیں بیٹھی ہو گی۔ ضرور کوئی کام کاج یا کسی وقت تفریح کرتی ہو گی؟‘‘
’’گھر کا کام۔‘‘
’’کون سا کام؟ کھانا پکاتی تھیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’نہیں! تم نے کبھی کچھ پکایا نہیں تھا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تمہاری سہیلیاں ہوں گی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جب تم نے ان سے رخصت لی تھی، تب روئی ہوں گی؟‘‘
وہ چپ۔
’’کیوں، نیند آ رہی ہے یا طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟‘‘
’’اوں ہوں۔‘‘
کچھ دنوں کے بعد۔
میں باہر سے آ رہا تھا۔ کمرے میں سے میری بیوی اور اس کی سہیلی کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں ٹھٹک کر دروازے کے باہر کھڑا ہو گیا۔
’’اچھا یہ بتاؤ کہ ان کے ساتھ خوش تو ہو؟‘‘ سہیلی نے اس سے پوچھا۔
’’خوش کیا رہوں گی۔ باپ جتنا تو ہے۔‘‘ اس نے چڑ کر کہا اور دونوں قہقہے لگانے لگیں۔ میں نے چاہا کہ میں بھی قہقہے لگاؤں بلند بلند، لیکن ان کے قہقہے آسمان کی سمت اڑ رہے تھے اور میرے قہقہے تھک کر، مجروح ہو کر نیچے گر جاتے تھے۔
٭٭٭
ٹوکنا
’’تم اب پہلے جیسے نہیں رہے ہو۔‘‘
(اور اس نے سوچا کیا واقعی پہلے جیسا نہیں رہا تھا! )
’’کیا ہو گیا ہے مجھے؟‘‘
’’تم بدل گئے ہو۔ تم وہی نہیں رہے۔‘‘
(اور اس نے سوچا کیا ہو گیا ہے اسے! )
’’لیکن میں تو وہی ہوں۔ مجھے تو خود میں کوئی بدلاؤ نظر نہیں آ رہا۔‘‘
’’تمہیں کیسے نظر آئے گا! تمہیں تو یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ تم میں کتنا بدلاؤ ہوتا جا رہا ہے۔ میں کافی وقت سے دیکھ رہی تھی کہ اب پہلے جیسے نہیں رہے ہو۔‘‘
اسے کوفت ہوئی اس بات پر۔ وہ کون سا بدلاؤ تھا جس کا اندازہ اسے نہیں ہوا تھا۔ اس نے اپنی کوفت چھپاتے پوچھا، ’’نہیں صائمہ، یہ تمہارا وہم ہے۔ مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان ہر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ انسان تو انسان ہے، لیکن دنیا کی کوئی بھی چیز ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ انسان تو وقت اور حالات کے زیر اثر ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ شخص میں کچھ بدلاؤ لازمی آتے ہیں۔ اگر کوئی بات ہے تو یہی ہو سکتی ہے۔‘‘ اسے لگا وہ روکھے انداز میں یہ سب کہہ گیا تھا۔
’’میں نہیں جانتی۔ ایسی باتیں کر کے مجھے الجھایا مت کرو۔ مجھے تمہارے رویے میں بدلاؤ محسوس ہوا ہے۔ بس۔‘‘ صائمہ نے غصے سے کہا۔
اسے صائمہ کے غصے سے ہمیشہ ڈر لگتا تھا۔ غصے میں وہ کوئی دوسری صائمہ لگتی تھی۔ اتنی دور جیسے کبھی قریب نہ رہی ہو۔ زیادہ غصے میں اسے دورہ پڑ جاتا تھا اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ جاتی تھی۔ شدید غصے میں وہ رو پڑتی تھی۔
اس نے کوشش کی کہ بات نہ بڑھے، اس نے ٹھنڈے لہجے میں کہا، ’’اچھا تم ہی بتاؤ، میں کیسے بدل گیا ہوں؟‘‘
’’تمہیں نیند سے فرصت ملے تو پتہ چلے۔ شخص کی فقط جسمانی ضرورتیں نہیں ہوتی ہیں، ذہنی ضرورتیں بھی ہوتی ہیں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ تم مجھ سے ملتے ہو فقط جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے، اس کے بعد تم ایسے سو جاتے ہو، جیسے تمہارا مجھ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے کچھ بتاؤ، مجھ سے باتیں کرتے رہو، لیکن نیند تمہیں چھوڑے تب نہ! پہلے تو پوری پوری رات تک تمہیں جھپکی بھی نہیں آتی تھی اور اب رات کے دو بجے کے بعد تم دھڑام سے گر پڑتے ہو!‘‘ اس کا غصہ بڑھتا گیا۔ ’’بس پیاس پوری ہوئی! تم کون سا روز روز آتے ہو میرے پاس۔ مہینے میں فقط ایک دو بار تو ملتے ہو، اس میں بھی تمہیں نیند زیادہ پیاری لگتی ہے۔‘‘
(اور اس نے سوچا، جب تم نہیں تھیں تو نیند بھی نہیں تھی)۔
’’تمہیں پتہ ہے کہ پہلے میں نیند کی گولیاں لیتا تھا، نہیں تو پوری رات جاگتے تڑپتے گذارتا تھا۔‘‘
’’ہاں پتہ ہے۔ تم نے ہی بتایا تھا۔ پھر اب کیا ہو گیا ہے تمہیں؟‘‘
’’تمہیں یہ بھی پتہ ہے کہ گولیاں کھانے کے بعد جو نیند آتی تھی اس میں، میں تڑپتا اور چلاتا تھا۔‘‘
صائمہ نے چڑ کر اسے دیکھا۔
’’ہاں ہاں، پتہ ہے مجھے۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
(اور اس نے سوچا، میں کیا کہنا چاہتا ہوں! )
تبھی اسے کچھ یاد آیا۔
صائمہ جب پہلی بار اس کے کمرے میں آئی تھی تو اس نے کہا تھا، ’’میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ آپ کا کمرہ کیسا ہے؟‘‘ اور پھر یہاں وہاں دیکھ کر ہنستے کہا تھا، ’’کمرہ تو پوری لائبریری ہے۔ ان الماریوں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں کیا؟ مجھے چڑ ہے اس بات پر۔‘‘ اس نے الماری کے پاس جا کر اس کے دروازے بند کرنے چاہے۔ اچانک اس کی نظر الماری میں رکھی نیند کی گولیوں کی شیشی پر جا پڑی۔ اس نے شیشی اٹھائی اور اس کی جانب دیکھا۔
’’یہ گولیاں آپ کھاتے ہیں؟‘‘ صائمہ تعجب سے کہا۔
’’نہیں، میرے پاس جو مہمان آتا ہے، اسے کھلاتا ہوں۔‘‘ اس نے بات ہنسی میں اڑانی چاہی۔
’’دیکھئے، میں سنجیدہ ہوں۔ مجھے سچ بتائیے۔ آپ کھاتے ہیں یہ گولیاں؟‘‘
’’صاف ہے میں ہی کھاتا ہوں گا۔‘‘ وہ ابھی بھی مذاق کے موڈ میں تھا۔
’’کیوں؟ آپ کو کیا ضرورت ہے ان کی؟‘‘
’’آپ کو کیا لگتا ہے کہ مجھے شوق ہے ایسی گولیاں کھانے کا۔‘‘ وہ ہنسنے لگا۔
’’نیند کی گولیاں تو وہ لوگ کھاتے ہیں، جنہیں نیند نہیں آتی ہے۔ لیکن آپ یہ گولیاں کب سے کھاتے رہے ہیں؟‘‘ وہ کمرے میں موجود اکلوتی پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ شیشی اس کے ہاتھ میں ہی تھی۔
وہ کھڑکی کے پاس ٹیک لگا کر کھڑا رہا۔
میں ان گولیوں کا عادی نہیں ہوں۔ یاد نہیں کہ کتنے سال ہوئے ہیں، جب مجھے راتوں کو جاگنے کی بیماری ہو گئی، تب میں نے پرواہ نہیں کی۔ نیند نہیں آئے تو نہ آئے، راتوں کو جاگنا، دوستوں کے ساتھ بھٹکنا اور ملنے جلنے کا بھی ایک اپنا چارم ہوتا ہے۔ لیکن پانچ چھ سال ہوئے تو یہ، یہ چارم بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب نیند نہیں آتی تو طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ مجبوری میں میں نے یہ گولیاں لینی شروع کیں۔ لیکن یہ گولیاں میں روز نہیں کھاتا۔ کبھی کبھی جب ڈپریشن حد سے زیادہ ہو جاتا ہے اور دماغ کی نسیں پھٹنے لگتی ہیں۔ تب مجبوری میں یہ گولیاں کھاتا ہوں۔‘‘
’’لیکن آخر کیوں؟ آپ تو بالکل نارمل لگتے ہیں، اتنے ڈپریشن کا کوئی سبب؟‘‘
تب وہ ہنسا تھا اور بڑے بڑے قہقہے لگائے تھے۔ صائمہ نے پہلے تو اسے تعجب سے دیکھا اور پھر اس کے ساتھ ہنسنے لگی۔
’’میں نے ایسی کون سی ہنسی کی بات کی؟‘‘ صائمہ نے ہنستے پوچھا۔
’’تم سوال وکیلوں جیسے کرتی ہو۔ ایک بات کہوں، اگر تم ایل ایل بی کرو تم ایک کامیاب وکیل بن سکتی ہو۔‘‘
’’اس بات پر تم نے اتنے قہقہے لگائے۔‘‘ وہ چڑ گئی۔
تب اسے خیال آیا کہ صائمہ کا چڑنا بہت پیارا تھا اور اس نے چاہا کہ اٹھ کر اس کا منہ چوم لے۔
’’نہیں بھائی، مجھے ہنسی اس بات پر آئی کہ تمہیں بالکل نارمل لگتا ہوں۔ کوئی بھی شخص نارمل نہیں ہوتا اور اگر میں نارمل ہوتا تو پھر آرام سے سویا نہ ہوتا۔‘‘
’’آرام کیوں نہیں ہے؟ کون سی کمی ہے، آپ کی زندگی میں؟‘‘
’’آدمی جو کچھ چاہتا ہے وہ سب تو اسے نہیں ملتا ہے، لیکن کچھ تو بہت بدنصیب ہوتے ہیں، انہیں تو بالکل کچھ بھی نہیں ملتا۔ ملتے ہیں تو فقط دکھ، فقط اکیلا پن جو کیڑوں کی طرح دل پر چپکے رہتے ہیں۔ کوئی وقت آتا ہے، جب یہ سب برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ کمرے میں پڑے لوہے کے کھاٹ پر بیٹھ گیا تھا۔
’’آپ نے تو شادی بھی کی تھی، پھر تو آپ اکیلے نہ تھے!‘‘
’’شخص ہجوم میں بھی خود کو تنہا کیوں محسوس کرتا ہے؟ میں راستے سے کسی کو بھی پکڑ کر اس کمرے میں لا کر بٹھا دوں تو کیا میرا اکیلا پن دور ہو جائے گا؟ ایسے تو اور زیادہ بے چینی ہو گی۔ ایسی موجودگی تو دوہری مصیبت ہے، اس سے تو اچھا یہ اکیلا پن ہے۔‘‘
’’اور نیند کی گولیاں۔‘‘ صائمہ نے اس کی سنجیدگی کو توڑنا چاہا۔
’’ہاں، نیند کی گولیاں زیادہ اچھا ہے۔‘‘
’’آپ یہ گولیاں چھوڑ نہیں سکتے؟‘‘
’’مجھے کوئی شوق نہیں ان گولیوں کا۔‘‘
’’تو پھر وعدہ کیجئے کہ آج کے بعد یہ گولیاں اپنے پاس نہیں رکھیں گے۔‘‘
وہ کچھ دیر تک صائمہ کو دیکھتا رہا۔
’’دیکھ کیا رہے ہیں؟ میرا اتنا بھی حق نہیں ہے آپ پر؟ میرے لئے اتنی بھی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے!‘‘
’’میں تمہارا حق مانتا ہوں۔‘‘ اور وہ ہنسا۔
’’ٹھیک ہے، آئندہ سے میں یہ گولیاں نہیں کھاؤں گا۔‘‘
اس نے دیکھا کہ صائمہ کی پشت اس کی جانب تھی۔ اس نے آواز دی۔ لیکن صائمہ ہلی بھی نہیں، اس نے کندھا ہلا کر کہا، ’’صائمہ، میری جانب دیکھ۔‘‘
’’چھوڑو، مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘ صائمہ نے اس کے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کی۔
اس نے زبردستی کھینچ کر صائمہ کا چہرہ اپنی طرف کیا۔
’’نہیں، مجھے پتہ ہے کہ تمہیں نیند نہیں آ رہی ہے، دیکھ صائمہ، بلاوجہ غصے میں آ کر اپنا خون مت جلاؤ۔‘‘
’’تمہیں تو بہت پرواہ ہے میری۔ تم اتنی دیر تک کہاں تھے؟‘‘
’’تمہارے پاس ہی تو تھا۔‘‘
’’تمہارے پاس ہی تو تھا!‘‘ صائمہ نے غصے میں نقل کی۔ ’’میرے پاس تو فقط تمہارا بدن ہے۔ دماغی طور پر تم پتہ نہیں کہاں تھے!‘‘ (اور اس نے چاہا کہ اٹھ کر چلا جائے۔ )
’’تم اتنی شکی کیوں ہو گئی ہو! بھئی، میں یہیں پر تھا۔‘‘
’’تم یہاں تھے! جھوٹ کیوں بول رہے ہو، تم اتنی دیر تک کیا سوچ رہے تھے؟‘‘
’’کوئی خاص بات نہیں تھی۔‘‘ اس نے تنگ ہو کر کہا۔
’’خاص بات نہیں تھی، تو عام بات ہی بتاؤ کون سی تھی؟‘‘
’’میں پانی پی کر آؤں۔‘‘ اس نے اٹھ کر باہر جانے کی کوشش کی۔ صائمہ نے اسے کھینچ کر پھر سے لٹا دیا۔
’’پہلے مجھے بتاؤ کہ تم کیا سوچ رہے تھے؟‘‘
’ ‘ جہنم۔‘‘ اس کی کوفت باہر دھماکے سے آئی۔
’’میرا اندازہ صحیح نکلا، تم یہی سوچ رہے تھے کہ اس مصیبت میں کیوں آ پھنسا ہوں، جو نیند بھی نہیں کرنے دے رہی۔‘‘
’’او صائمہ خدا کے لئے! تمہیں کیا ہوا ہے، تم ایسی باتیں کیوں کہہ رہی ہو، جو میں کبھی سوچتا بھی نہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں، تم تو بڑے معصوم ہو۔ اب سو جاؤ، شاباش۔‘‘ صائمہ نے پچکار کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ’’تمہاری آنکھیں پھر سے بند ہو رہی ہیں۔‘‘ صائمہ نے اس سے دور ہٹتے کہا۔
وہ بھی چپ چاپ لیٹا رہا غصے سے۔
(اور اس نے سوچا، یہ مجھے اتنا غلط کیوں سمجھ رہی ہے! )
کافی دیر بیت جانے کے بعد بھی صائمہ میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔ اسے پتہ تھا کہ صائمہ کو جلدی نیند آ جاتی تھی۔
ویسے تو وہ روٹھتی بھی تھی تو مناتی بھی خود تھی اور کہتی تھی، ’’تم میں تھوڑی بھی شرم نہیں، غصہ بھی میرے اوپر، تو مناؤں بھی میں تمہیں۔‘‘ لیکن اس بار اسے لگا کہ صائمہ زیادہ غصے میں تھی۔
اس نے اپنا چہرہ صائمہ کے کندھے پر رکھا اور کہا، ’’کیا ہے بھئی! انسان اتنا روٹھتا ہے کیا؟‘‘ اس نے صائمہ کا کندھا کھینچ کر اس کا رخ اپنی طرف کرنا چاہا۔
’’چھوڑو مجھے، میں سوئی ہوئی ہوں۔‘‘ صائمہ نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی۔
’’تمہیں چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گا۔‘‘
صائمہ نے ایک دم سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور پھر تپ کر کہا، ’’کیوں، تمہارے لئے تو یہ نئی بات نہیں ہے، تمہارے لئے تو یہ آسان بات ہے۔‘‘
’’تمہیں چھوڑنا چاہتا تو میں یہاں نہ ہوتا۔‘‘
’’یہ تم اپنا منہ دھوکر آؤ کہ کوئی تمہیں چھوڑ دے گا ایسا کرنے کے لئے۔۔‘‘
اسے ہنسی آ گئی اور اس نے دیکھا کہ صائمہ بھی ہنس پڑی تھی۔
’’میرے پاس ہو کر بھی پتہ نہیں تم کہاں ہوتے ہو! یا تو سوئے رہتے ہو یا پتہ نہیں کیا سوچتے رہتے ہو!‘‘ اس نے روٹھے لہجے میں کہا۔
’’تمہیں مجھ پر یقین نہیں؟‘‘
’’تم پر یقین! مجھے تمہارے کاموں کا پہلے ہی پتہ ہے۔‘‘ صائمہ نے دوسری جانب کروٹ بدلنے کی کوشش کی، لیکن اس نے اسے کھینچ کر اپنے قریب کر لیا۔
’’رہنے دو اب۔‘‘ اس نے منانے کے لئے کہا۔
’’مجھے زہر لگتی ہے تمہاری یہ بکواس۔ میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ مجھے ایسا مت کہا کر۔ یہ کوئی طریقہ ہے منانے کا!‘‘ صائمہ نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی، لیکن اس نے اسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
’’اچھا بابا معافی، توبہ کی میں نے۔‘‘
’’دل سے کہتے ہو۔‘‘
’’ہاں، سچے دل سے۔‘‘
’’ایک دم گندے۔‘‘
(اور اس نے زبردستی سوچا، مجھے چاہئے۔ )
اور اس کے بعد وہ سما گئے ایک دوجے میں۔
٭٭٭
آخر بہار آئے گی
ہمارا ایک باغیچہ ہے، اجڑا اور ویران باغیچہ۔ لیکن کسی وقت، بڑے بزرگ کہتے تھے، ہمارا باغیچہ اتنا ہرا بھرا اور آباد تھا جیسے بہشت۔ باغیچے کے بیچ میں صاف ٹھنڈے پانی کا ایک تالاب تھا، جس میں ہنس تیرتے رہتے تھے۔ ہمارے باغیچے کی خوب صورتی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے تھکے ماندے، بھوکے پیاسے مسافر یہاں آ کر اپنی تھکان مٹاتے تھے، میٹھے رسیلے پھل کھا کر، تالاب کا ٹھنڈا پانی پی کر آرام کرتے تھے۔ ہم بھائی ایسی باتیں سن کر کہتے ہیں، کاش! ہم بھی اس وقت ہوتے۔ میرا دل غم سے بھر اٹھتا ہے۔ ایسے خوبصورت باغیچے کی خوب صورتی آخر کیوں چھن گئی؟ میں پورا پورا دن اس ویران باغیچے میں بیٹھ کر یہی سوچتا رہتا ہوں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس سنسان اور ویرانی سے بھی بہت پیار ہے۔ اس کی خوب صورتی اور چمک کے خیالوں میں بھی اتنی کشش ہے کہ انسان دیکھتا ہی رہ جائے۔ اس کے سوکھے، پرانے پیڑوں میں بھی اتنا اپنا پن ہوتا ہے، جیسے ہمارے بڑے بزرگ رشتے دار۔ کاش، ان پیڑوں کی زبان ہوتی تو میں ان سے پوچھتا،
’’یہ کیا غضب ہوا! باغیچے کی خوب صورتی اور چمک کو کس خزاں نے جلا ڈالا! یہاں خوبصورت پیارے پرندے رہتے ہوں گے۔ کوئل کی کو کو، موروں کا رقص، ہنسوں کا شور، یہ سب کہاں گئے؟‘‘ لیکن افسوس کہ پیڑوں کی زبان نہیں ہے، ہوا، ان سے ٹکرا کر ٹھنڈی سانسیں لے کر نکل جاتی ہے۔ میرے سوالوں کا جواب فقط کوؤں کی کائیں کائیں ہے، گدھوں کی رینکیں ہیں اور چمگادڑوں کی ڈراؤنی چیخیں ہیں۔ جب بھی میں باغیچے میں آتا ہوں تو ایک کافی بوڑھے پیڑ کے پاس جا کر بیٹھتا ہوں۔ اس کے چوڑے تنے سے پیٹھ ٹکا کر، لیٹ کر، اپنے باغیچے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ کبھی کبھی نیند آ جاتی ہے تو عجیب عجیب خواب دیکھتا ہوں۔ ایک عجیب بات ہے، گرمی کے موسم میں، تیز گرمیوں میں بھی، جب شخص اس ویران باغیچے میں آتا ہے تو تر و تازہ ہو جاتا ہے۔ میں تو تیز گرمی اور گھٹن کے دنوں میں کئی کئی دنوں تک اس بڑے پرانے پیڑ سے پیٹھ ٹکا کر بیٹھا رہتا ہوں۔ میرا اس بوڑھے پیڑ کے ساتھ ایک عجیب دلی لگاؤ ہو گیا ہے۔
ایک دن ایسے ہی آنکھیں بند کر کے، خیالوں ہی خیالوں میں باغیچے کو ہرا بھرا اور آباد ہوتا دیکھ رہا تھا۔ جہاں تک نظر جا رہی تھی، وہاں تک ہریالی چھائی ہوئی تھی، جس میں مور جھوم اور ناچ رہے تھے۔ سوکھے پیڑ ہرے ہو کر بھر گئے تھے۔ کوئل کے میٹھے میٹھے گیت مجھے لولی دینے لگے۔
تبھی اچانک جنوب کی سمت سے ایک طوفان آیا۔ فقط دھند اور تاریکی نظر آ رہی تھی۔ وقفہ آیا تو میں نے دیکھا، کوؤں اور گدھوں کا ایک جھنڈ تھا، جو پل بھر میں خوبصورت، ہرے بھرے باغیچے پر کیڑوں کی طرح چھا گیا۔ کوئل کے گیت، کوؤں کی کائیں کائیں کے شور تلے دب کر بند ہو گئے۔ مور ڈر کر کہیں جا کر چھپ گئے اور ہنس ہمیشہ کے لئے اڑ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے باغیچے کی پوری خوب صورتی اور چمک دمک برباد ہو گئی۔ میں اس بوڑھے پیڑ کے پاس حیران و پریشان کھڑا تھا۔ تبھی اچانک کہیں سے کوئی مور بولا۔ اس کی للکار میں ایسی بہادری اور جوش تھا کہ میرا رواں رواں کانپ اٹھا۔ کوؤں کی کائیں کائیں، گدھوں کا رینکنا، پل بھر کے لئے بند ہو گئے، کون تھا وہ مور!
’’ابھی تک بہادر مور زندہ ہیں، ابھی تک ریگستان سے للکار سنائی رہی ہے۔‘‘
میں نے ہڑبڑا کر پیچھے دیکھا۔ یہ تو وہی پرانا پیڑ باتیں کر رہا تھا۔ میں نے دوڑ کر اس کے چوڑے تنے کو گلے لگایا۔ اس نے پیار بھرے لہجے میں کہا، ’’گھبراؤ مت بیٹے! ہمت مت ہارو، واقعی یہ تمہارے لئے ایک نئی مصیبت ہے۔ میں نے تو اس باغیچے پر کئی بڑی بڑی مصیبتیں گرتے دیکھی ہیں، لیکن وہ سب آخر کار غائب ہو گئیں۔ یہ باغیچہ لاجواب ہے بیٹے۔‘‘
میں نے کہا، ’’مجھے اس باغیچے کے بارے میں کچھ بتائیے، بابا۔ اس پر کون سی مصیبتیں گریں۔‘‘
اس نے جواب دیا، ’’میں تمہیں ضرور بتاؤں گا، بیٹے۔ یہ کہانی ایک بہت ہی اچھی ذہین گروہ کی ایک بے حد دکھ بھری کہانی ہے۔ دنیا کا ایسا کوئی بھی ظلم ستم اور ڈر نہیں ہے جو اس میں نہ ہو، اس کے باوجود بھی یہ ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والی کہانی ہے۔ اس لاجواب باغیچے کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب دنیا وجود میں آئی۔ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ یہاں پر ایک خوبصورت اور ہری بھری چراگاہ تھی، جس میں کئی بڑے گھنے جنگل، ہرے بھرے میدان اور ایک خوبصورت ندی تھی، جس کا پانی آب حیات کی مثل تھا۔ یہ چراگاہ اس وقت بھی اتنی ہی آباد تھی، جب ساری دنیا پر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اس وقت کی بات ہے، کچھ پرندوں کے جھنڈ اڑتے اڑتے، وہاں سے گذرے۔ ان کو یہ چراگاہ اتنی اچھی لگی کہ آگے جانے کا ارادہ موخر کر کے، اس کو ہی اپنا وطن بنا کر رہ گئے۔ یہ پرندے بہت ہوشیار اور محنتی تھے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا، کہ جب ہم اس چراگاہ کو اپنا وطن بنا ہی چکے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ اسے یوں خوبصورت بنائیں کہ دنیا دیکھتی رہ جائے اور اچنبھے میں پڑ جائے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک کھلے میدان پر ایک بہت ہی عجیب طرح کا باغیچہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ پرندوں نے جانے کہاں کہاں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کے پھل پھولوں، پیڑ پودوں کے بیج اکٹھے کئے۔ ان کے لگاتار کوششوں اور جذبے سے دیکھتے ہی دیکھتے اس چراگاہ پر ایک بے حد خوبصورت اور تعجب میں ڈالنے والا باغیچہ نمودار ہو گیا۔ اس کے بعد باغیچے کے ایک حصے میں انہوں نے ایک ایسا خوبصورت چمن بنایا، جس کا آج تک دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ پوری دنیا میں اس انوکھے چمن کی شہرت ہونے لگی۔ نہ جانے کہاں کہاں سے پرندے اس باغیچے کو دیکھنے کے لئے، پھل، پھول، شہد کھانے اور بھونرے رس پینے کے لئے آتے تھے۔ وہ دور اس چراگاہ کے عروج کا دور تھا۔ تب سورج یہیں سے طلوع ہوتا تھا اور یہیں سے روشنی تمام دنیا میں پھیلتی تھی۔ دور دور سے دنیا بھر کے پرندے یہاں آ کر یہاں کے پرندوں سے فیض پاتے تھے۔ وہ ان کے نرم مزاج اور عقلمندی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ آج جو دنیا میں سکون، عقل، تعلیم اور خوب صورتی دیکھ رہے ہو، وہ سب پہلے یہیں کی پیدا وار ہے اور یہیں سے پوری دنیا میں پھیلے۔ اور تمام تہذیب اور جذبوں کے ساتھ ناچنا، گانا، جشن منانے میں بھی دوسرے پرندے، یہاں کے پرندوں جیسے نہیں تھے۔ لیکن یہاں کے سبھی پرندے تفریق اور لڑائی جھگڑوں سے اتنے دور تھے کہ دوسرے پرندے انہیں نرم مزاج پرندے کہہ کر بلاتے ہی تھے! ان کے پاس پیار کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ کاش، پوری دنیا کے پرندے ایسے ہوتے!‘‘
’’دنیا میں کچھ پرندے ایسے بھی تھے جو پیار محبت کے دشمن تھے، فقط بھٹکنے اور لڑنے جھگڑنے کے علاوہ انہیں کچھ آتا نہیں تھا۔ بنانے، سدھارنے کے بدلے انہیں توڑنا، بگاڑنا زیادہ پسند تھا۔ ایک بار، دور سے کچھ ایسے ہی بھٹکنے والے، بے گھر اور لڑاکو پرندے بھٹکتے بھٹکتے اس باغیچے کے اوپر آ منڈرائے۔ باغیچے کے سکون اور چین، پیار محبت والے ماحول میں لڑائی جھگڑا اور تباہی مچ گئی۔ نرم مزاج پرندوں نے کبھی بھی لڑائی نہیں دیکھی تھی۔ نہ ہی انہیں کچھ پتہ تھا کہ لڑائی کیسے لڑتے ہیں۔ بھٹکنے والے پرندوں کا تو لڑائی جھگڑے اور جھگڑافساد میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے آتے ہی باغیچے کے انمول اور خوبصورت چمن کو تباہ کر دیا۔ نرم مزاج پرندوں نے سالوں کی محنت اور جذبے سے جو باغیچہ بنایا تھا، وہ سب ان خانہ بدوش پرندوں نے توڑ پھوڑ ڈالا، الٹے نرم مزاج پرندوں کو بھٹکنے والے کہہ کر پکارا!‘‘
’’خوشیوں کے سب خزانے لٹ گئے۔ چراگاہ کی رونق اجڑ گئی۔ جو پہلی پہلی روشنی یہاں سے پھوٹی تھی، وہ پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی۔ باغیچے کی عزت کا سورج اترا تو پھر پتہ نہیں کہاں جا کر نکلنے لگا۔ کبھی کبھی بھولے بھٹکے سورج وہاں سے گزرتا تو نرم مزاج پرندے خوشی سے رقس کرتے نہیں تھکتے تھے۔ لیکن ان کی خوشی لمحے بھر کی ہوتی تھی۔ اچانک سورج کو پتہ نہیں کیسے کیسے بھیانک سیاہ بادل ڈھک دیتے تھے۔ پھر وہی گھپ اندھیرا۔
’’وقت چلتا گیا۔ باغیچہ وہی تھا، لیکن پھر کبھی بلند مقام پر نہیں پہنچا۔ باغیچے کی باگ ڈور ہنسوں کے پاس تھی۔ وہ بہت بہادر اور سچے تھے۔ آزادی، ہمت اور بہادری، نام، عزت سے ان کا لہو رنگا ہوا تھا۔ باغیچے کی محبت اور آزادی کا جذبہ تو سبھی پرندوں کے روئیں روئیں میں سمایا ہوا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی پرائے لوگوں کی غلامی کو نہیں قبول کیا تھا۔ جب تک ان کے بدن میں سانسیں باقی تھیں، وہ وطن کے دشمنوں کا سامنا کرتے رہتے تھے۔ کئی تیز ہوائیں، طوفان اور جھٹکے سہتے رہے۔ گرمیاں آئیں اس کے بعد خزاں آئی تو باغیچے کے سبھی پتے جل گئے، لیکن سبھی پرندے بہار کے موسم میں اکٹھے ہو کر جشن مناتے تھے۔ کوئل میٹھے سروں میں راگ الاپتی تھیں اور دوسرے چھوٹے چھوٹے پرندے ناچتے رہتے تھے۔ ان کے میٹھے رسیلے راگ سن کر دوسری جگہوں کے پرندے ان سے جلتے رہتے تھے۔ کچھ تو ان کے باغیچے پر قبضے کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ کتنے ہی پرائے باغیچے کی خوب صورتی دیکھ کر وہاں جانے کے لئے بے قرار رہتے تھے اور کچھ اس کو لوٹ کر لوٹ جاتے تھے۔ کچھ وہیں پر رہ جاتے تھے اور ان کا لوٹنے کا دل نہیں کرتا تھا۔‘‘
’’یہاں سے کافی دور بعض پرندے رہتے تھے۔ ان کو دوسرے پرندوں کے ملکوں پر قبضہ کرنے کا بہت لالچ رہتا تھا۔ بہانے بنا کر پرائے ممالک پر حملہ کر کے قبضہ کر لیتے تھے۔ جب ان کی نظر اس باغیچے پر پڑی تو اسے بھی ہتھیانے کے لئے منصوبے بنانے لگے۔ پھر ایک بار کوئی بہانہ بنا کر انہوں نے دو تین بار حملہ کر دیا۔ لیکن بہادر پرندوں کے آگے ان کی ایک نہیں چلی۔ ان کے آگے ٹھہر نہیں پائے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک بڑا لشکر لے کر حملہ کر دیا۔ خانہ بدوش پرندوں کی چڑھائی کے بعد نرم مزاج پرندوں نے ایسی دوسری بھیانک لشکر کشی دیکھی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پورا باغیچہ بادلوں سے بھر گیا ہو۔ بعض بھیانک آوازیں کرتے ہوئے آئے۔ نرم مزاج پرندوں نے آگے بڑھ کر سامنا کیا۔ وار کے اوپر وار کیا، گردنیں الگ ہو گئیں، دھڑ تڑپنے لگے۔ دن گزر گیا، شام ہو گئی۔ تب جیسے غلامی کی رات آ گئی۔ باغیچے پر بازوں کا قبضہ ہو گیا۔
’’پھر بھی وقت گزرتا گیا۔ کئی موسم آئے، لیکن بہار کے آنے پر جیسے بندش پڑ گئی تھی۔ بہار تو فقط آزاد ماحول میں ہی آتی ہے۔ باغیچہ ویسے ہی اجڑا اجڑا اور ویران رہا۔ اب تو ہر کوئی لڑاکو مگرمچھ بن کر آ گیا ہے۔ ایک بار لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوا تو لگاتار چلتا ہی رہا۔ پہلے والے لٹیرے کمزور ہو رہے تھے تو ان کی جگہ دوسرے آ رہے تھے۔ جیسے کہ باغیچہ بازار میں رکھی کوئی شے تھی، جسے جو چاہے لوٹ کر لے جائے! باغیچہ ان بے رحموں کے قبضے میں ہو گیا، جن میں پرائے ہی پرائے تھے، باغیچے سے ان کا تعلق فقط لوٹ مار تک ہی تھا۔ زمانوں تک نرم دل پرندے غلامی کا طوق اپنی گردن سے نکال نہیں پائے۔ جن میں منہ میں فقط پیار کے بول ہوتے تھے، جو باہر سے آئے ہر مہمان کی دل کھول کر آؤ بھگت کرتے تھے، وہ بغیر کسی قصور کے صدیوں تک بربریت کے دکھ اور تکلیف میں ڈوبے رہے۔‘‘
’’ہنسوں کی طاقت تو بالکل ہی ختم ہو چکی تھی۔ وہ محدود تعداد میں آ گئے تھے۔ اب باغیچے کے پرندوں میں فقط مور ہی ایسے تھے، جن سے امیدیں جڑی تھیں۔ غیروں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے، آزادی اور خود داری کو قائم رکھنے کے لئے وہ جد و جہد کرتے رہے۔ موروں میں کئی ایسے جوان پیدا ہوئے، جنہوں نے گردن کی پرواہ کئے بغیر، آزادی کے لئے لڑاکو سے جنگ کی اور خوشی خوشی قربان ہوئے۔ جب کوئی جوان مور وطن پر قربان ہو کر آزادی لاتا، تو تھوڑے وقت کے لئے ہی سہی، آزادی اپنے دامن میں خوشی اور خوب صورتی کے خزانے بھر کر آتی تھی۔ کتنی خوشی اور احساسات بھرا ماحول ہوتا تھا۔ آ ہا! ایسا کوئی دل نہیں ہوتا تھا۔ جو لا محدود خوشی سے جھومتا نہ ہو۔ لیکن افسوس، ان جوان موروں کے وارثوں نے باری باری سے تخت اور تاج کے لئے آپس میں لڑتے اپنے ہاتھوں سے ہی دشمنوں کو باغیچے پر قبضے کا موقع دے دیا۔ اس کے بعد تو باغیچے کے لئے دوبارہ غیروں کی غلامی کا راستہ کھل جاتا تھا۔‘‘
’’رہ رہ کر باغیچے پر ایک کے بعد ایک، بڑی بڑی مصیبتیں آتی رہیں۔ ان لگاتار دھچکوں اور مار کے سبب، بدنصیب باغیچہ ایسی مصیبتوں سے گھر جاتا تھا کہ اس کا زندہ رہنا بھی ایک کرشمہ، ایک معجزہ ہی تھا۔ تمہیں میں کیا بتاؤں کہ اس باغیچے نے کیا کیا نہیں برداشت کیا ہے! اسی باغیچے کی گودھلی پر ابدال کا شکرا، نامراد اور مردار خان شکرا، آگ اور لہو کی ندیاں بہاتے ہوئے چھا گئے تھے۔ ان کی بھیانک چونچیں اور خونی پنجے معصوم پرندوں کے لہو میں ڈوب گئے تھے۔ مردار خان، جہاں سے گزرتا، وہاں ڈر کے مارے افرا تفری پھیل جاتی تھی۔ وہ گھونسلے کے گھونسلے تباہ کر دیتا تھا۔ ایسی تباہی تو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تو باغیچے میں ایسا بھیانک قحط پڑا کہ بوڑھے پرندوں نے تو کیا، پیڑوں نے بھی اپنے جنم سے لے کر نہ دیکھا، نہ سنا تھا۔ جو باغیچہ پوری دنیا کے لئے امن اور سلامتی کا مقام تھا، اس کا گھونسلا لٹ کر ویران بن گیا۔ نرم دل پرندوں کے ساتھ پہلے ہی کم ظلم نہیں ہوا تھا، لیکن اب تو باغیچے پر جو بجلی گری تھی، اس کی آگ میں وہ کبھی بھی ٹھیک طرح سے جی نہ پائے۔‘‘
اچانک رات کے سناٹے اور خاموشی میں کسی گدھ نے بھیانک چیخ بلند کی۔ جواب میں کہیں سے کسی الو نے صدا لگا کر جیسے گدھ کی خوشامد کرتے ہاں میں ہاں ملائی۔ بوڑھا پیڑ خاموش ہو گیا تھا۔ ہوا اس کی جانب سے سائیں سائیں کرتی اور ٹھنڈی آہیں بھرتی، نکل رہ تھی۔ میرا دل بھر آیا۔ کہنا چاہا، ’’پھر کیا ہوا بابا۔‘‘ لیکن گلے میں کچھ اٹک گیا تھا، آواز نکل نہیں پائی۔ اس نے ایک لمبی سانس لی، پھر خود ہی کہا، ’’آج انہیں نرم دل پرندوں کو کہا جاتا ہے کہ تم سست اور نیند میں ہو۔ ڈرپوک اور جاہل ہو، تمہارا لہو ٹھنڈا ہے۔ لیکن کسی نے ان کے ماضی میں بھی جھانک کر دیکھا ہے! لگاتار برستی بارش کے مانند، ان پر جو مصیبتیں آئیں، جو نقصان ہوا، ان کے بارے میں کسی نے سوچا ہے! کسی نے یہ بھی خیال کیا ہے کہ آخر ان میں ایسی کون سی قوت ہے، جس کے سبب اتنی بڑی مصیبتوں اور نقصانوں کے بعد بھی وہ زندہ ہیں! اس زمین کی مٹی کچھ اس طرح مضبوطی سے جمی ہوئی ہے کہ ہزاروں طوفانوں اور زلزلوں کے باوجود بھی اکھڑی نہیں ہے۔ شاید انہیں سست اور مخمور پرندوں کے حوصلے، جستجو اور کوششوں کے سبب، باغیچے کے عزت کی جڑیں اتنی نیچے چلی گئی ہیں جو ان کو دنیا کی کوئی ہستی مٹا نہیں سکتی۔‘‘ اس نے پیار بھرے لہجے میں کہا، ’’تم تھک تو نہیں گئے ہو، بیٹے!‘‘
میں نے ایک دم کہا، ’’نہیں بابا، نیند تو میری آنکھوں سے اتنی دور ہے، جتنی اس باغیچے سے بہار۔‘‘
اس نے بات شروع کرتے کہا، ’’مردار شکرے کی تباہی کے بعد ایسا لگ رہا تھا، جیسے باغیچے سے کوئی سات سروں والا عفریت نکل گیا ہو۔ چاروں جانب فقط صحرا اور ویرانی تھی۔ دنیا ہے ہریالی اور خوشیوں کی، ویرانی اور ریت سے اس کا کیا! لیکن نرم دل پرندوں کا تو باغیچے سے جنم جنم کا ناطہ تھا۔ انہوں نے کہا، ’’جس دھرتی پر ہم پیدا ہوئے اور پلے بڑے ہیں، جہاں پر ہمارے سنگی ساتھی اور رشتے دار سوکھے پیڑوں میں بھی گھونسلا بنا کر بیٹھے ہوں، جس کے لئے ہمارے بڑے بزرگ جنگجوؤں نے سر کی قربانی دی، جس سے ہمیں کافی پانی ملتا ہو، اس کے لئے فقط جاہل، بے ایمان اور بے غیرتوں کو ہی محبت نہیں ہو گی۔ ہم اپنے جان سے پیارے باغیچے میں پھر سے ہریالی اور خوشیاں لائیں گے اور اس کی آزادی کے دشمنوں کی ہم آنکھیں نکال دیں گے۔ اس کے بعد وہ ویرانی سے بھری آزادی کو گلے لگا کر باغیچے کو سنوارنے میں لگ گئے۔ باغیچہ اجڑا، ویران اور لگاتار جنگوں کا مارا تھا، لیکن آزاد تو تھا۔!‘‘
’’دنیا میں آزادی سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں ہے۔ غلامی کی روٹی سے آزادی کی بھوک بھلی۔ آزادی، روشن سویرا ہے تو غلامی، اندھیری رات۔ بیچارے نرم دل پرندے، چار دن آزاد رہنے کے بعد پھر سے غلامی کی رات گزارتے تھے۔ لیکن وہ چار دنوں کی آزادی کو بھی بیکار نہیں گنواتے تھے۔ وہ غلامی کے سبھی نشان مٹا کر آزادی کی ہریالی اور خوشیاں لا دیتے تھے۔ اب بھی جب ان کو موقع ملا تو ہر کوئی اپنے آزاد باغیچے کو سجانے، سنوارنے میں لگ گیا۔ اس وقت بہت دور سے سمندر دیس کے پرندے، پوری دنیا گھومتے گھومتے اس باغیچے میں آ پہنچے۔ اسے سفید سمندری پرندے کہا جاتا تھا۔ وہ کاروبار کرتے تھے۔ کہیں کی چیزیں نہ جانے کہاں کہاں لے جاتے تھے۔ جب وہ باغیچے میں آئے تو باغیچے کی چیزیں دیکھ کر وہیں پر رہ کر امیروں سے کاروبار کرنے کی اجازت مانگی۔ امیروں نے باغیچوں کی بھلائی دیکھ کر ان کو رہنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد تو وہ بڑھتے ہی چلے گئے۔ وہ نہ صرف باغیچے میں، لیکن آس پاس کے باہری پرندوں کے ملکوں میں بھی پھیل گئے۔ سفید پرندے کافی موقع پرست، چالاک اور چالباز اور خراب نیت والے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی چالبازی سے کام لے کر ذات پات اور نفرت کے بیج بونے شروع کر دیئے۔ اس طرح کچھ پرندوں کے دیسوں پر قبضہ کر کے بھی بیٹھ گئے۔ باغیچے کے امیروں کو جب یہ پتہ لگا تو ان کے کان کھڑے ہو گئے۔ لیکن سفید پرندوں نے ان کے سامنے قسم کھا کر، وعدے اور سمجھوتے کر کے انہیں چپ کرا دیا۔ دن بدن وہ قوت پکڑتے گئے اور آس پاس کے ممالک اپنے قبضے میں کرتے گئے۔ آخر باغیچے کے پرندوں سے بھی آن بھڑے۔ تبھی باغیچے کے امیروں نے شرمندہ ہو کر کہا کہ اپنے گلے میں خود ہی ناگ باندھ دیا۔ باغیچے کے پرندوں نے بڑی مصیبتوں کے بعد آزادی کے چار دن سکھ چین سے گزارے تھے۔ غلامی تو جونک کی مانند ان کا پورا خون پی چکی تھی۔ لیکن پھر بھی انہوں نے کہا، ’’یہ دھرتی ہماری ماں ہے، اس دھرتی سے ہی ہمارا باغیچہ پھوٹ نکلا ہے۔ اس میں سے کئی سو رنگین اور خوشبودار پھول اگے ہیں، اس ماں کو ہم پرایوں کے حوالے کیسے کر دیں!‘‘ وہ اپنی باقی بچی قوت کے ساتھ ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ دنیا میں احسان کا بدلہ کتنا برا دیا جاتا ہے۔ نرم دل پرندوں کو کیا پتہ تھا کہ ہم سانپوں کو دودھ پلا کر بڑا کر رہے ہیں۔ آج وہ ہی ان سے ان کا پیارا باغیچہ چھیننے کے لئے جنگ کرنے آئے تھے۔‘‘
’’ایک مجاہد مور نے زور کا نعرہ لگایا، ’’مر جائیں گے لیکن باغیچہ نہیں دیں گے۔‘‘ اس کے بعد بھیانک جنگ چھڑ گئی۔ سفید پرندوں کے جنگی طریقے اتنا چالبازی بھرے تھے کہ نرم دل پرندوں کو اس کا پتہ ہی نہ تھا۔ پھر بھی وہ گردن کی فکر چھوڑ اس بہادری سے لڑے کہ خود سفید پرندوں کو بھی یہ کہنا پڑا، ’’یہ تو اس طرح لڑ رہے ہیں جیسے کہ ان کی جان سے پیاری بھی کوئی دوسری چیز ہے، جسے بچانا ان کی زندگی سے بھی زیادہ اہم ہے۔‘‘ جب سفید پرندوں نے دیکھا کہ ان کے جوش اور جذبے کے آگے ہم ضرور ہار جائیں گے، تب انہوں نے سنگ دلی اور دغا بازی سے کام لیا۔ جان بوجھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ نرم دل پرندوں کی فوج ان کی چال میں آ گئی اور آخرکار وہ سفید پرندوں کا شکار بن گئے۔ اس کے ساتھ ہی باغیچے کی آزادی بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔‘‘
اسی وقت ریگستان سے مور کی موہنی اور بلند آواز آئی۔ جیسے کہہ کہہ رہا ہو، ’’غلط ہے۔ باغیچے کی آزادی کوئی بھی ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کر سکتا۔‘‘
بوڑھا پیڑ جو مور کی آواز پر خاموش ہو گیا تھا، اس نے کہا، ’’اب میں گرنے کے کنارے پر ہوں، لیکن اس مور کی چیخیں ہی مجھے گرنے سے روک کر کھڑی ہیں۔ سوچتا ہوں، کیا حقیقتاً ہم سے آزادی ہمیشہ کے لئے چھن چکی ہے۔ پھر زندہ رہنے سے کیا فائدہ! اس وقت اس مور کی آوازیں میری کمزور جڑوں کے لئے بڑا دلاسا بن کر آتی ہیں۔‘‘
’’اب چاروں اطراف سفید پرندوں کی عملداری تھی۔ کئی صدیوں تک ان کا حکم چلا اور معصوم پرندوں کو بہت لوٹا۔ ان کا بچھایا ہوا نفرت کا جال مضبوط ہو گیا تھا۔ اس کے بعد تو ایسا طوفان آیا کہ کیا سے کیا ہو گیا۔ زمانہ ہی بدل گیا، پرندے ہی مٹ گئے۔ پیار، محبت اور آزادی کا جذبہ دھیرے دھیرے غائب ہوتا گیا۔ وہ نرم دل پرندے، جو کسی بھی چیز سے اتنی نفرت نہیں کرتے تھے، جتنی غلامی سے کرتے تھے، ان میں سے بہتوں نے غلامی کے پنجرے کو خوشی سے قبول کر لیا! شاید ایسا ہونا ہی تھا۔ صدیوں سے ان پر جو گزری تھی، اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔
غلامی میں انہوں نے جو کئی سال گزارے تھے، اس نے ان کے دل و دماغ کو بھی زنک لگا دیا تھا۔ ان میں سے کئی ایسے غدار پیدا ہوئے جنہوں نے خود کو غلامی میں مضبوط کر کے نئے راجاؤں کی خوشامد اور سمجھوتے کر کے بڑے بڑے فائدہ حاصل کئے۔ ان میں حب الوطنی اور غیرت کی کسی قسم کی علامات نہیں تھیں۔ ان میں فقط خوشامد اور دم ہلانے جیسی قابل مذمت خرابیوں در آئی تھیں۔ وہ اپنے مالکوں کو خوش کرنے کے لئے غریب، معصوم پرندوں کا خون اور گوشت پیش کرتے تھے۔ افسوس! غریبوں کی محنت پر عیش کرنے والے اور اپنے مالکوں کے آگے غرض کی خاطر دم ہلانا اور فقط خوشامد کرنے والے ان پرندوں نے، کچھ ٹکڑوں کے لئے اپنی پوری غیرت، حمیت اور آزادی ہمیشہ کے لئے بیچ دی۔ آج معصوم پرندوں کے یہ لہو چوسنے والے بھی اتنے ہی دشمن ہیں جتنے باہری تھے۔
’’اس وقت باغیچے اور باہری دنیا کے پرندوں کے چار اہم طبقات تھے۔ باغیچے کے خاص پرندے تو مور اور ہنس تھے۔ قریب کے دیسوں میں کوا، گدھ اور دوسرے پرندے رہتے تھے۔ باغیچے کے علاوہ ایک اور دیس بھی تھا، جہاں پر ایک بہت بڑا تالاب تھا اور وہاں باغیچے سے بھی زیادہ ہنس رہتے تھے۔ لیکن باغیچے کے ہنسوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ باغیچے کے وجود میں آنے سے لے کر وہاں رہتے آئے تھے۔ باغیچہ ہی ان کی ماں تھی اور باغیچے کے پرندے ان کے بھائی۔ اگر باغیچے کی قوت مور تھے تو اس کی عقل اور دماغ ہنس تھے۔ موروں اور ہنسوں کا رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ نہ ٹوٹنے کے برابر تھا۔ لیکن سفید پرندوں کی چالبازی اور سنگ دلی نے ان میں نفرت کے بیج بو دیئے۔ سفید پرندوں کو ڈر تھا کہ اگر وہ ساتھ مل کر ان کے خلاف کھڑے ہو گئے تو ہمیں یہاں سے بھگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے موروں سے کہا کہ آپ کے اصلی رشتے دار اور ہم خیال کوئے اور گدھ ہیں، ہنس آپ کے دشمن ہیں! سفید پرندے اس بات میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے صدیوں کا تعلق تڑوا دیا، لیکن ان کا راج بھی زیادہ دیر تک ٹک نہ سکا۔ پرندوں میں ان کے خلاف نفرت اور مزاحمت دن بدن بڑھتی گئی۔ اور کوئی چارہ نہ دیکھ کر انہوں نے آزادی دینا قبول کیا۔ لیکن آخر میں جاتے وقت بھی حسد اور غصے کی وجہ سے آس پاس کے سبھی دیسوں کے پرندوں کو آپس میں ہمیشہ کے لئے لڑوا کر، ایک دوسرے کا دشمن بنا کر گئے۔ اس کے بعد تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی، اس نے آزادی کے نام پر کمزور اور معصوم پرندوں کے اوپر لاٹھی کے زور پر راج کیا۔‘‘
پرانے پیڑ کی آواز دھیمی پڑتی گئی۔ ہوا بالکل بند ہو گئی تھی۔ اس کی خاموشی سے ڈر کر میں نے اچانک پوچھا، ’’بابا، کیا اس کے بعد نرم دل پرندوں کو بھی آزادی مل گئی؟‘‘
کتنی ہی دیر تک مجھے اس کی آواز سمجھ میں نہیں آئی۔ اس کے لہجے میں اتنا درد اور تکلیف تھی کہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ جاتے۔ میں نے توجہ سے کان لگا کر سنا۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’ایسی آزادی آئی جو غلامی سے بھی بدتر تھی۔ گدھوں اور کوؤں نے موروں کو کہا کہ ہم ایک دوسرے کے رشتے دار اور ایک ہی سوچ والے ہیں! ہمیں ایک ساتھ رہنا چاہئے۔ ہنس دوسرے مذہب کے ہیں، ان کو باغیچے سے نکال دو تو وہ جا کر اپنے بھائیوں کے ساتھ رہیں۔ سیدھے سادے مور ان کی باتوں میں آ گئے۔ کبھی کبھی کسی منحوس گھڑی میں عقل اور دل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ جس باغیچے کو سنوارنے میں ہنسوں نے اپنا لہو دیا تھا، سجایا تھا، اس کو چھوڑتے وقت ان کے دل کا کیا حال ہوا ہو گا! وہ روتے روتے، اپنا پیارا باغیچہ، اپنے گھونسلے، اپنی پیارا خوبصورت دریا چھوڑ گئے۔ ان کی جگہ جھوٹے آ گئے اور پلک جھپکتے ہی باغیچے کا ماحول بدل گیا۔ جہاں میٹھے سر گونجتے تھے وہاں کوؤں کی کائیں کائیں کا شور ہو گیا۔ نرم دل پرندوں نے آنے والوں کا استقبال کرتے، انہیں اپنے بنے بنائے گھونسلے رہنے کے لئے دیئے اور ان سے جو کچھ بن پایا ان کے لئے کیا۔ ان کا خوبصورت صاف ستھرا باغیچہ پورا گندہ ہو گیا۔ تو بھی وہ کچھ نہیں بولے۔ ایک دن گدھوں اور کوؤں نے کوئی سازش کرتے موروں سے کہا، ’’ہم آپس میں بھائی ہیں، اس لئے ہماری ہر کوئی چیز دونوں کی ہونی چاہئے۔ ہم ایک ہیں اس لئے ہمیں ایک ہو کر رہنا چاہئے۔‘‘ ایسا کرتے کرتے وہ موروں سے سب کچھ چھینتے گئے۔ کچھ وقت گزرا تو پھر کہا، ’’آپ سب گنوار، سست اور کمزور ہو، آپ سے سرکار کا کاروبار نہیں چل پائے گا۔ کوئے بہت ہوشیار اور سیانے ہیں، گدھ بہت طاقتور ہیں، اس لئے حکومت ان کو ہی چلانی چاہئے۔‘‘ اس کے بعد گدھوں نے باغیچے کو اپنے کنگال اور ویران، ریگستان سے ملا لیا۔
’’مور اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ ایک لفظ بھی بول نہیں پائے۔ کوؤں اور گدھوں کے دل میں جو آیا کرتے گئے۔ ایک دن کوؤں نے حکم دیا کہ ‘ہماری کائیں کائیں بہت ہی آسان اور ہر کسی کی سمجھ میں آ سکنے والی ہے، اس لئے باغیچے میں کائیں کائیں کے علاوہ اور کسی زبان کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کے بعد مور اپنی زبان کو ختم کر کے کائیں کائیں میں باتیں کریں۔‘‘
’’ہنس تو پہلے ہی چلے گئے تھے۔ لیکن مور اپنے ہی باغیچے میں بے گھر ہو گئے۔ ان سے اور سب کچھ تو چھن گیا تھا، لیکن اب تو ان کی زبان بھی بند ہو گئی۔ بے غیرت اور خوشامدی مور، جو اچھے پرندوں کے آگے دم ہلاتے رہتے تھے، انہوں نے تو اپنے فائدہ کے لئے، اسی طرح سے سر جھکا کر جی حضوری کی، باقی غیرت مندوں کے لئے عزت کے ساتھ جان بچانا بھی کٹھن ہو گیا۔
’’وہ پہلے والا باغیچہ تو جیسے آنکھوں سے ہی اوجھل ہو گیا تھا۔ اس کو دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئی ہیں، روح چیختی ہے، لیکن کسے کہیں؟ کس سے شکایت کریں؟ گدھ پورا دن باغیچے کے اوپر منڈراتے رہتے ہیں کہ کوئی مور ہاتھ لگے تو اسے کھا کر ختم کریں۔ گدھوں کی خونی چیخوں اور کوؤں کے شور میں موروں کا جینا حرام ہو گیا۔ مور بھاگ کر جنگل میں جا چھپے۔ ہماری روح، موروں کی میٹھی آوازوں کے لئے ترستی رہتی ہے۔ سوچتے ہیں کہ اگر روح ایسے ہی ترستے ترستے مر گئی تو جڑیں کیسے بچیں گی! وہ بھی جل کر خاک ہو جائیں گی اور ہم سب گر جائیں گے۔ لیکن کبھی کبھی رات کے سناٹے میں ریگستان سے ایک دیوانے مور کی آواز ہماری پیاسی اور ترستی روح کے لئے آب شفا بن کر آتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ دیوانہ مور کون ہے؟ اس ریگستان میں کیوں بیٹھا ہے؟ شاید باغیچے کی روح کا ہے۔ اس کی بہادر اور جوش سے بھری آوازیں سن کر ہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں، ’’ابھی بھی ریگستان سے آواز آتی ہے۔ ابھی تک سبھی مور نہیں مرے ہیں۔‘‘ یہ سوچ کر ایک دوسرے کو دلاسا دیتے ہیں کہ قدرت نے اس باغیچے کا ماضی بہت ہی شاندار کیا تھا، کبھی نہ کبھی اس کا مستقبل بھی ویسا ہی روشن ہو گا۔‘‘
اچانک اس وقت کائیں کائیں کا زوردار شور اٹھا اور بوڑھے پیڑ کی آواز اس کائیں کائیں میں دب گئی۔
میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ مجھے کتنی ہی دیر تک ہوش ہی نہ تھا۔ دل پر ایسے بھیانک خواب کا ابھی تک اثر تھا۔ میں نے ڈوبتی آواز میں کہا، ’’پھر کیا ہوا بابا! تم چپ کیوں ہو گئے۔ مجھے بتاؤ نہ! پھر کیا ہوا؟ ۔۔ تم چپ کیوں ہو۔‘‘ کوؤں کی کائیں کائیں میرے کان کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ میں نے چاروں جانب گھور کر دیکھا۔ سورج کا پوری تمازت ختم ہو چکی تھی، اندھیری رات آنے والی تھی۔ مجھے سوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ میرے اوپر پرانے سوکھے پیڑ پر کوؤں کا ایک جھنڈ کائیں کائیں کا شور کر رہا تھا۔ کہیں دور پتہ نہیں کیوں گدھوں کا جھنڈ لگا ہوا تھا۔ وہ اڑتے، بھیانک چیخ پکار مچا رہے تھے۔ میں نے پیڑوں کی جانب دیکھا، ہر ایک پیڑ پر تین تین، چار چار گدھ بیٹھے تھے! اس وقت میرے کانوں میں موروں کی پر اسرار آوازیں گونجنے لگیں، ’’آسمان گرج گرج کر آخر برسے گا۔ دھرتی تپ تپ کر آخر پھٹے گی۔ اور اے لاجواب باغیچے! آخر تم آباد اور ہرے بھرے بنو گے۔‘‘
٭٭٭
افق پر ہوا اجالا
باپ کے سامنے جا کر دھیرے سے کہا، ’’بابا۔‘‘
اس نے کاغذ پر سے نظریں اٹھا کر میری جانب دیکھا۔
میں الجھ گیا کہ کیا کہوں۔ ہچکچاتے ہوئے کہا، ’’میں آپ سے اجازت لینے آیا ہوں۔‘‘
اس نے تعجب سے کہا، ’’کس بات کی اجازت؟‘‘
میں نے کہا، ’’میں بزدل کہلوانا نہیں چاہتا۔ میری عمر کے ساتھی ملک کی قسمت بدلنے کیلئے اپنے وطن پر جان نچھاور کرنے کیلئے اپنی زندگی نثار کر چکے ہیں۔ ایسے وقت میں میں کیسے گھر میں چھپ کر بیٹھ جاؤں!‘‘
’’پھر تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
میری ہچکچاہٹ ختم ہو چکی تھی۔ ’’میں بھی اپنی جان اپنے وطن کے لئے قربان کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تم!‘‘ اس نے ہنسی روک دی، لیکن ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھی بھی پھیلی ہوئی تھی۔ ’’پہلے تم اپنا بدن اور طاقت دیکھو، اس کے بعد ایسی باتیں کرنا! میں جانتا ہوں تم جیسے نوجوانوں میں فقط تھوڑے عرصے کا جوش ہے۔ عمر اور وقت کے ساتھ یہ جوش ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت میں ہمارے اندر لڑنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ صدیوں کی غلامی اور ڈاکوؤں کی لوٹ مار نے، ہماری ہمت کو جونک بن کر چوس لیا ہے۔ باقی تم جیسے جوشیلے نوجوان تو ہر عہد میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور انہوں نے کون سا تیر مارا ہے! اپنے ملک کی قسمت بدلنے کے لئے سروں کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، مجھے تم میں ایسے نوجوان نظر نہیں آ رہے۔ جب تک ہمارے نوجوانوں میں ہمت اور بیداری پیدا نہیں ہوتی، ان کے دل وطن کی محبت میں تپ کر سونا نہیں بنتے ہیں، تب تک کچھ نہیں ہو گا، بیٹے۔ کچھ نہیں ہو گا۔‘‘ اس کا لہجہ دھیما ہوتا گیا، چہرے پر مایوسی کی لکیریں ابھر آئیں۔
میں نے کہا، ’’بابا، اگر ہمارے ملک کے باپ آپ جیسے ہوں گے، تو پھر ان کی اولادیں کیوں نہیں وطن کیلئے قربان ہوں گی! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو بیداری آج کے نوجوانوں میں نمودار ہوئی ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہمارا جوش فقط لمحے بھر کا ابال نہیں ہے۔ ہم فقط اپنے ملک کیلئے جینے کا عہد کر چکے ہیں۔‘‘
اسکی آنکھوں میں چمک آ گئی، ’’ہاں، یہ ایک نازک دور ہے، اگر ہم ابھی بیدار نہیں ہوئے تو پھر کبھی اٹھ نہیں پائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ سبھی اپنی قربانی دے کر ملک میں بیداری کی لہر لا دیں۔ لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ ہم بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ تعلیم اور تہذیب کی بہت ہی کمی ہے، اس لئے وطن کی عزت اور غیرت میں کمی ہے۔ اس کے لئے آپ کو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘
میں نے کہا، ’’ہم سب کچھ کریں گے۔ اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو اس کے لئے ہمیں ہر قربانی دینی پڑے گی۔ ہم اپنے ہی ملک میں پرائے ہوتے جا رہے ہیں، آخر ہم بے موت مر جائیں گے، ماضی بن جائیں گے۔ یہ کون سمجھے گا! ہم کمزور ہی سہی، لیکن ہمارے دل کتنے بڑے ہیں، اس کی غیروں کو کیا خبر!‘‘
بابا سنجیدہ ہو گیا، کہا، ’’بالکل، دلوں کے ابال کے آگے کوئی بھی بند آج تک بندھ نہیں پایا ہے۔ قید کی زنجیروں کو آخر ٹوٹنا ہی ہے۔ کاش تمہارا کا لہواس غریب ستائے ہوئے وطن کی زمین کو سینچے، یہ پھول پودے اگائے جس کی خوشبو پوری دنیا میں پھیل جائے۔ میں تمہیں روک کر ایک بزدل باپ کہلوانا نہیں چاہتا۔ لیکن دیکھو، اپنی ماں کے بارے میں جو کچھ سوچو، ہمدردی سے سوچنا۔ وطن کیلئے اولاد کی قربانی دینے میں مائیں زیادہ بہادر ہوتی ہیں، لیکن وقت اور حالات نے ماؤں کو یہ سبق دیا ہی نہیں ہے۔ انہیں اپنی اولاد سے حد سے زیادہ پیار ہوتا ہے، اس لئے تمہاری ماں شاید تمہیں جانے نہ دے۔‘‘
’’میں ماں کو مناؤں گا۔‘‘
کسی بڑی الجھن اور خیال کے سبب ماں کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ میں سمجھ گیا۔ میں نے قریب جا کر اسے گلے لگاتے کہا، ’’ماں۔‘‘
اسکے سوکھے ہونٹ ہلنے لگے۔ اس نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ ماں کے سینے سے لگ کر میری روح ایک زبردست سکون سے بھر گئی۔ اس وقت مجھے ایسا لگا جیسے میں ابھی تک دودھ پیتا بچہ ہوں اور ماں کے سینے سے لگ کر سب کچھ بھول چکا تھا۔
مجھے محسوس ہوا کہ ماں رو رہی تھی۔ شاید اس نے بابا اور میری باتیں سن لی تھیں۔
’’میں تمہیں جانے نہیں دوں گی۔ میرا حال دیکھ رہے ہو، میں پہلے ہی مر چکی ہوں۔ اگر تمہیں جانا ہے تو مجھے پوری طرح سے مار دے پھر جا۔‘‘
بیچاری ماں! پتہ نہیں کیوں ہماری غریب مائیں اتنی دکھی ہوتی ہیں۔ ان کی پوری زندگی مالی پریشانیوں، اولاد کے مستقبل کی فکر اور گھر کے کبھی نہ ختم ہونے والے کاموں میں گزر جاتی ہے۔ زیادہ دکھ برداشت کرنے کے سبب ہی وہ حد سے زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔ پیار تو ان کی مٹی اور جان میں سمایا رہتا ہے، کیونکہ ہم سبھی کی دھرتی ماں کے روئین روئیں میں لا محدود پیار سمایا ہوا ہے۔
میں نے کہا، ’’ماں، سندھ ہم سب کی ماں ہے اور وہ اولاد کمینی ہے، جو ماں کو تکلیفوں میں دیکھ کر بھی منہ چھپا کر بیٹھی ہو۔ ایسی اولاد بے غیرت ہے، جو اپنے ماں کے دودھ کی لاج نہیں رکھتی۔ ماں، ہم سے ہمارے سبھی حق چھین لئے گئے ہیں۔ ہماری ماں کو جیل میں قید کر کے رکھا گیا ہے اور ہم سبھی نیند میں جا کر انجان بن گئے ہیں۔‘‘
اس نے کہا، ’’بیٹے، کاش خدا بچوں کو کوئی کٹھن دن نہ دکھائے، کاش جماعت محفوظ ہو، باقی چھوٹے موٹے سکھوں دکھوں سے ہماری زندگی کٹ جائے گی، خدا کا شکر ہے۔‘‘
’’ماں، تمہارے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا جائے، ان کی زبان کاٹ کر پھینک دی جائے، تب بھی تم ایسا ہی کہو گی! تم سمجھتی کیوں نہیں، کہ ہمارے اوپر کیا بیت رہی ہے۔‘‘
ماں نے غصے سے کہا، ’’تم پڑھے لکھوں کی باتیں ہم گنوار کہاں سمجھ پاتے ہیں۔‘‘
ماں نے جیسے مجھے زور سے طمانچہ مار دیا۔ انہیں ان پڑھ اور گنوار بنا کر رکھنے میں کس کا قصور ہے؟ کتنا بد نصیب ہے وہ وطن جس کی مائیں ان پڑھ ہیں۔
میں نے اسے گلے لگاتے کہا، ’’ماں تمہیں پتہ ہے کہ ہمارے وطن پر ہمیشہ پرائے دیسوں کا قبضہ رہا ہے، جو ہمیں لوٹتے کھسوٹتے آئے ہیں۔ شاید ہمیں بھی اس غلامی کی عادت پڑ گئی ہے، نہیں تو اتنے وقت تک اپنے وطن کو غلامی میں کیسے رہنے دیتے۔ ماں، مجھے جتنا تم سے پیار ہے، اتنا ہی اپنے وطن سے ہے۔ جس دیس میں پلا بڑا ہوا ہوں، جس دھرتی کا میں نے دودھ پیا ہے، وہ بھی تو میری ماں ہے۔ کیا اس کا میرے اوپر کوئی حق نہیں ہے؟‘‘
’’بیٹے، ہمارا نصیب ہی ایسا ہے تو ہم کیا کریں؟‘‘
’’نہیں ماں، نصیب بھی ہمت سے بدل جاتا ہے۔ طاقت اور زور زبردستی سے دنیا کے کئی دیسوں کو غلام بنا کر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا، لیکن ان دیسوں کے جوانوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی۔‘‘
ماں نے تنگ ہو کر کہا، ’’میرا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میری خوشی، میری آنکھیں تم بچے ہو، تمہارے بغیر میں اندھی ہوں، اس سے زیادہ مجھے اور کچھ پتہ نہیں۔‘‘ اس کر آنکھیں پھر سے بھر آئیں۔
میں اور کچھ نہ کہہ سکا۔ میں جانتا تھا کہ ماں کا کوئی قصور نہیں۔ سارا قصور اس وقت اور حالات کا ہے، جب عورتوں کو گھر کے کام کاج کی مشین بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ وہ اندھی رسمیں، رواج اور خیالات، جنہیں ہمارے دیس کی خاصیت سمجھا جاتا ہے، اس نے ہم پر کتنا ستم کیا ہے۔ جن ماؤں کو تعلیم سے بہت دور جہالت کے لا محدود اندھیرے میں بند کر کے رکھا گیا ہے، وہ اپنی اولاد کو کون سی تعلیم، کون سا سبق دیں گی! میں نے چاہا کہ چیخ کر کہوں، ’’ماں، ہمارے دیس کا نصیب آپ کے دودھ اور آپ کی لولی میں ہے۔ اگر تم نے اپنا دودھ بزدل اولاد پر نہیں گنوایا اور اپنی اولادوں کو ایسی لولی نہیں دی، جس میں شیر کی گرج ہو تو ہم دوسرا ‘موہن جودڑو‘ بن جائیں گے۔ ہمیں جینے مرنے کا سبق دو ماں۔‘‘ لیکن میرے آگے لا محدود اور گہرا اندھیرا چھا گیا، جس میں دور دور تک جہاں تک نظر جا رہی تھی وہاں تک روشنی کی ایک معمولی کرن بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ تبھی مجھے محسوس ہوا کہ میں مر چکا ہوں۔ ہم سب مر چکے ہیں، کھنڈر بن گئے ہیں۔ وقت کے ساتھ بدلے لوگ نفرت اور طنزیہ نظروں سے ہمیں دیکھ کر ایک دم سے چہرہ گھما لیتے ہیں۔ میرے دل میں اپنے دیس کی وہ پرانی تہذیبیں گھومنے لگیں، جو اپنے وقت میں کافی ترقی یافتہ ہوئی تھیں، لیکن آج وقت نے انہیں کئی سو صدیاں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ موہن کے شہر کی ترقی یافتہ تہذیب نے آج موہن جودڑو کی مانند کھنڈر بن چکی ہے۔ کیا ہم بھی۔ کیا ہم بھی۔
میرے چاروں اور اندھیرا اور جہالت کا عفریت پر پھیلا کر کھڑا ہو گیا اور اس کے ڈر سے امید کا پرندہ تڑپ تڑپ کر سانس چھوڑنے لگا۔ پتہ نہیں کب میں ماں کے یہاں سے اٹھ کر اندر کمرے میں آ کر بیٹھ گیا تھا۔ کچھ کھٹکھٹانے کی آواز پر جاگ کر دیکھا تو میری چھوٹی بہن دروازے پر کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر چاہا، زور سے کہوں، ’’اب تم آئی ہو، رونے دھونے! یہ آنسوؤں کی زنجیریں ہماری تہذیب کو مردہ بنا دیں گی۔ اب مجھ میں زیادہ آنسو دیکھنے کی طاقت نہیں ہے۔‘‘ لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں، وہ اندر چلی آئی۔ اندر آ کر تھرتھراتی آواز میں کہا، ’’میں نے سمجھا تھا کہ میرا بھائی ’دودا ‘ ہے، لیکن آج پتہ چلا کہ تم’ چنیسر ‘ ہو، بھائی۔‘‘
میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، چیخ کر کہا، ’’باگھی!‘‘
جذبات میں اس کا گلا بھر آیا۔ نظریں نیچے کر کے کہا، ’’مجھے معاف کرنا بھائی، پتہ نہیں میں تمہیں کیا کہہ گئی۔ لیکن میں نے تمہیں پتہ نہیں کیا سمجھا تھا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ تمہاری دل بھی اتنا کمزور ہے کہ ماں کے آنسو دیکھ کر ہمت ہار بیٹھو گے۔‘‘
تبھی خوشی سے اٹھ کر اسے گلے لگا کر کہا، ’’میری چھوٹی گڑیا بہن! مجھے اس سے بھی زیادہ سخت لفظ کہہ۔ تیرے ان لفظوں سے تیرے بھائیوں کا لہو کھول اٹھے گا، آفرین میری بہن!‘‘
اس پل مجھے احساس ہوا کہ میری امید کا پرندہ پر پھڑپھڑا کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اندھیرے کا عفریت کسی زبردست طاقت سے ڈر کر بھاگنے لگا تھا۔
میں نے کہا، ’’باگھی، مجھے ایک بات بتا، اگر تمہارا بھائی دیس کے لئے قربان ہو جائے تو تم خوش ہو گی نہ!‘‘
اس نے جوش سے کہا، ’’بیشک بھائی، لاکھ بار خوش ہوں گی۔ دیس کے آگے بیٹوں اور بھائیوں کے جان کی قیمت کچھ نہیں ہے۔ مجھے چنیسر جیسے بیٹوں اور بھائیوں سے نفرت ہے، بھائی۔‘‘
’’میری باگھی بہن، یقین کر، تیرا بھائی ’دو دو‘ ثابت ہو گا۔‘‘
اس وقت میرے دل میں ایسی لاکھوں باگھیاں اور کل کی مائیں تھیں، جو اپنے دادوں جیسے بیٹوں کو مسکراتے موت کا سبق پڑھا رہی تھیں اور کہیں دور افق پر اجالا ہونے لگا۔
٭٭٭
آئینوں کی مانند خواب
کچھ کچھ سپنے بھی آئینے کی مانند ہوتے ہیں اور اس میں انسان کو اپنا حقیقی اور بچھڑا روپ دیکھ کر عجیب لگتا ہے۔ ایسے خواب مردہ دل کے تہہ خانے سے ایک چنگاری کی مانند اٹھتے ہیں۔ کبھی تو سطح پر پہنچنے سے پہلے ہی خاک ہو جاتے ہیں اور کبھی شعلے آگ بھڑکا دیتے ہیں، لیکن جب ہم ایسے آئینے جیسے خوابوں میں اپنا گنوایا ہوا شاندار ماضی دیکھتے ہیں تو حال کے زنگ لگے، غلام خیالوں پر پھیکا پڑنے کے بدلے آئینے پر غصہ ہوتے ہیں اور اسے توڑ دیتے ہیں۔ رات کو میں نے بھی ایک ایسا ہی آئینہ دیکھا اور وہ ابھی تک میرے سامنے ہے۔
میں ایک کھنڈر بن گئے شہر میں کھڑا تھا۔ چاروں اطراف ویرانی اور سناٹا چھایا تھا۔ شہر کی گلی گلی میں اس کی شان اور شاندار ماضی کے مدھم نشان موجود تھے۔ عالیشان لیکن ڈھے گئی جگہوں میں گیدڑ، لکڑ بگھے، ناگ اور بچھو بیٹھے نظر آئے۔ میں ڈرتا ہوا، چھپتا چھپتا ایک کھلے میدان میں آ پہنچا۔ حیران رہ گیا۔ زمین پر چاروں جانب لاشیں بکھری تھیں۔ شاید جنگ کا میدان تھا اور خون ابھی بھی تازہ تھا۔ میں ڈر گیا۔ میں نے لاشوں کی طرف دیکھا۔ سب کے چہروں پر عجیب مسکراہٹ تھی۔ سبھی چہرے پھول کی طرح کھلے تھے، پھر بھی وہ شیر کی مانند لگ رہے تھے۔ اپنی بزدلی پر میرا چہرہ شرم سے جھک گیا۔ سبھی چہرے مجھے جانے پہچانے لگے۔ ہر کسی کو گھور گھور کر دیکھتے میں آگے بڑھتا گیا۔
’’یہ کون ہے! یہ تو مجھے جانا پہچانا لگ رہا ہے۔ کتنا اپنا پن ہے اس میں۔‘‘ لیکن کسی کا بھی نام میرے ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ میں حیران، پریشان اور ہکا بکا ہو کر وہیں گھومتا رہا۔ اچانک میری نظر ایک کم عمر نوجوان پر پڑی۔ میری روح کھنچی۔ کسی انجان قوت کے زیر اثر ہو کر اس کے تن درست و مضبوط بازو پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ فقط چھونے کی دیر تھی۔ وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے روشن ماتھے پر ذرا بھی بل نہیں پڑا، چہرے پر وہی لاجواب مسکراہٹ اور جوش پھیلا تھا۔
’’تم یہاں کیسے آ گئے، بھائی!‘‘ اس نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’میں۔ میں۔ مجھے پتہ نہیں! لیکن یہ سبھی کون ہیں؟‘‘
’’تم انھیں نہیں پہچانتے! کتنے تعجب کی بات ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’مجھے چہرے تو جانے پہچانے لگ رہے ہیں، لیکن پتہ نہیں کیوں ان کے نام دماغ میں نہیں آ رہے۔‘‘
’’تم سندھی نہیں ہو کیا!‘‘
’’میں سندھی ہوں یقین کرو، میں سندھی ہوں۔‘‘
اس نے پھر سے پوچھا، ’’تم سندھی ہو اس کے بعد بھی انہیں نہیں پہچانتے، شاید سندھ میں تم کبھی نہیں رہے ہو!‘‘
میں نے کہا، ’’میں سندھ میں ہی پلا بڑا ہوا ہوں، پوری زندگی سندھ کا دانہ کھایا ہے اور سندھو کا پانی پیا ہے۔ میرا دل سندھ کی چیزوں سے ہی جڑا ہے۔‘‘
تب وہ بالکل حیران رہ گیا، ’’کیا ہو گیا ہے آپ سب کو! کون سی مصیبت آئی ہے آپ پر! یہاں آئے مجھے تھوڑا ہی وقت ہوا ہے، کیا اتنی دیر میں میری ذات، میرا دیس اتنا بدل گیا کہ ان سے ان کے جنگجو ’دو دو‘‘ اور دریا خان غائب ہو چکے ہیں۔‘‘
اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر ایک جانب کھینچتے ہوئے کہا، ’’یہاں آؤ، اسے پہچانتے ہو۔‘‘ اس نے ایک بہادر جوان کی سمت اشارہ کیا۔
’’شاید۔ لیکن مجھے اس کا نام یاد نہیں آ رہا۔‘‘
اسکے منہ سے لگ بھگ چیخ نکل گئی، ’’آپ نے ہوشو کو بھی بھلا دیا! میرے خواب میں بھی نہیں تھا کہ میری قوم ایسی ہو جائے گی۔‘‘ کچھ وقت پہلے اس کے چہرے پر، جو لاجواب مسکراہٹ اور خوشی پھیلی ہوئی تھی اس کی چمک کم ہو گئی۔
’’مجھے پہچانتے ہو؟‘‘
’’تم!‘‘ میں نے دماغ پر زور دیا، ’’ہاں، لیکن۔‘‘ میرا سر نیچے جھک گیا، اس کے منہ سے کچھ نہ نکلا، فقط مجھے دیکھتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا، ’’میرا نام ہیموں ہے۔‘‘
میں نے فوراً کہا، ’’ہیموں! کیوں نہیں، ہیموں کے بارے میں تو ہم اسکولوں اور کالجوں کی تاریخ میں پڑھتے ہیں، ہیموں نے اکبر مغل بادشاہ سے پانی پت کے میدان میں جنگ کی تھی۔‘‘
اسکے منہ سے قہقہہ نکل گیا، میں بہت شرمسار ہوا۔
’’اسکا سندھ سے کیا تعلق! آپ کو اسکولوں اور کالجوں میں سندھ کی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی کیا، میں ہیموں کالانی کا ذکر کر رہا ہوں، جو سندھی تھا۔ غاصب انگریزوں سے سندھ کو آزاد کرانے کے لئے، اپنے ہم عمر نوجوانوں سندھی طلباء کی تنظیم کے ساتھ جد و جہد میں حصہ لیا تھا۔ سکھر میں ریل کی پٹریوں کو اکھاڑ کر ریل گاڑی گرانے کے الزام میں انگریزوں نے اسے پھانسی پر لٹکایا تھا۔‘‘ وہ چپ ہو گیا، لیکن میرے اندر کوئی سوئی چیز جاگ گئی تھی اور کہہ رہی تھی، یہ تو وہ ہیموں ہے، جسے انگریزوں نے کہا تھا کہ ’’تم فقط ہم سے معافی مانگو اور وعدہ کرو کہ آگے سے آزادی کی جد و جہد میں حصہ نہیں لو گے تو تمہاری نوجوانی پر رحم کھا کر تمہیں آزاد کر دیں گے۔ لیکن اس نے جواب دیا کہ دیس کے لئے ایسی لاکھوں نوجوانیاں قربان۔ اگر مجھے آزاد کیا گیا تو میں کبھی بھی بزدل اور غدار بن کر غلامی کی بیڑیاں پہن کر نہیں بیٹھوں گا۔‘‘ وہ ہنستے ہنستے پھانسی چڑھ گیا اور اس ہیموں کو ہم نے بھلا دیا!
شرم سے میری گردن نیچے جھک گئی۔ ’’سندھ کے لوگوں نے شاید تمہیں اس لئے بھلا دیا، کیونکہ تم ہندو تھے۔‘‘
لیکن اس نے میری بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں بڑبڑا رہا تھا۔ اچانک اس نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے میرے گلے کو کھینچ کر کہا، ’’میں اپنا سندھ تم لوگوں کے حوالے کر گیا تھا، میرا دیس کہاں ہے۔ میرے بعد تو تم سب بھی ڈر کر اور تھک کر سو گئے۔ مجھے جواب دو۔ جواب دو۔‘‘ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نے مجھے زور سے دھکا دیا اور میں منہ کے بل جا گرا۔
آئینہ ابھی تک میرے سامنے ہے۔ میں اس میں گھور گھور کر خود کو دیکھ رہا ہوں، پتہ نہیں کیوں میں ابھی تک اس میں خود کو پہچان نہیں پایا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں خود کو پہچاننے سے پہلے آئینہ ٹوٹ نہ جائے اور خواب ٹوٹ کر بکھر نہ جائیں۔
٭٭٭
آزادی
ایک طوطا آزاد اور کھلے آسمان میں اڑتا کسی گھر پر آ بیٹھا۔ اچانک اس کی نظر آنگن میں ٹنگے پنجرے میں بند طوطے پر جا پڑی۔ اپنے ایک بھائی کو قید میں دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوا۔ قریب آ کر، دکھ بھرے لہجے میں کہا، ’’قدرت نے ہمیں آزاد رہنے کے لئے پیدا کیا ہے، لیکن یہ کتنا بڑا ظلم ہے، جو پرندے پھنسانے والا شخص ہمارے بنیادی حق چھین کر ہمیں اس طرح غلامی کے پنجرے میں قید کر دیتا ہے۔‘‘
غلام طوطے نے کہا، ’’یہ لفظ تو پرندے پھنسانے والے شخص استعمال کرتے ہیں۔‘‘
آزاد طوطے نے کہا، ’’انکی غلامی میں رہ کر تم ایسے لفظ سیکھ گئے ہو۔ میرے جیسے آزاد طوطے کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرا دل تو ایک بھائی کو قید میں دیکھ کر دکھی ہو رہا ہے۔ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس پنجرے کو توڑ کر تمہیں آزاد کراؤں گا۔‘‘
غلام طوطا بھڑک کر پنجرے سے چیخا، ’’بند کرو اپنی یہ بکواس! میں اس پنجرے کا اٹوٹ، کبھی نہ الگ ہونے والا ایک حصہ ہوں۔ تم آزادی اور بغاوت کے نام پر میرے جیسے نمک حلال طوطوں کو بھڑکا کر استعمال کرنا چاہتے ہو۔ اتنے خوبصورت پنجرے کو کیسے ٹوٹنے دیں گے۔ کیسے ٹوٹنے دیں گے!‘‘
آزاد طوطے کے منہ سے ایک بڑا قہقہہ نکل گیا، اس نے کہا، ’’دوست، آزاد زندگی کا ایک دن، غلام زندگی کے سو سالوں سے زیادہ اچھا ہے اور جو آزادی کی خاطر قربان نہیں ہوتا، وہ ہماری برادری کا نہیں ہے۔ تم تو نمک حلالی کے نام پر اپنے مالکوں کے اشارے پر بولتے ہو، ناچتے گاتے ہو۔ میرے بھائی، تمہارا دل غلامی کے رنگ میں رنگ چکا ہے۔ تم پنجرے کی گھٹن اور بدبو دار بو کے اتنے عادی ہو چکے ہو کہ فقط آزادی کی بات کا ہلکا جھٹکا بھی تمہیں بہت تکلیف پہنچا رہا ہے! مبارک ہو تمہیں ایسے پنجرے کی سلاخیں، ہماری منزل تو آزاد ماحول میں ہے۔‘‘
غلام طوطے نے تنگ آ کر کہا، ’’اچھا اچھا، گھٹن اور بدبو دار بو اس خوبصورت پنجرے کا اپنا مسئلہ ہے، تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بڑا آیا ہے آزادی دلانے، بس بکواس کرنے اور یہاں وہاں بھٹکنے کے علاوہ تم اور کیا کرتے ہو! آپ سب جاہل ہو، نکمّے ہو، کاہل ہو، کام چور ہو، چلے جاؤ یہاں سے، ہوں۔‘‘ اس کے بعد وہ آنکھیں بند کر کے، کندھے اچکا کر جھپکیاں لینے لگا۔ آزاد طوطے کی آنکھوں سے آنسو گر پڑے اور پھر وہ آزاد ماحول میں اڑ گیا۔
٭٭٭
الجھی لکیریں
وہ اپنا دایاں ہاتھ ٹیبل پر کے کنارے پر رکھ کر ہتھیلی کو دیکھنے لگا۔ میں نے یہ بات نوٹ کی تھی کہ وہ جب چپ رہتا تھا تو زیادہ تر اپنی ہتھیلیوں کو دیکھتا رہتا تھا۔ ایک بار میں نے اس سے پوچھا تھا، ’’تم اپنی ہتھیلیوں میں کیا دیکھتے رہتے ہو؟‘‘
’’لکیریں۔‘‘
’’لکیریں! پامسٹری جانتے ہو کیا؟‘‘
’’نہیں۔ پامسٹری جانتا ہوتا تو اوروں کے ہاتھ نہیں دیکھتا۔‘‘ اور وہ تھوڑا ہنسا۔ ’’ورنہ تمہارا ہاتھ بھی دیکھتا۔‘‘
’’یہ تم اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں کیا دیکھتے رہتے ہو، جبکہ تمہیں کچھ معلوم بھی نہیں؟‘‘
اس نے اپنے دونوں ہاتھ الٹے کر کے میرے آگے ٹیبل پر رکھے۔
’’ان ہاتھوں میں تمہیں کوئی خاص بات نظر آتی ہے؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
اسکے ہاتھوں کی لکیریں بہت زیادہ، گہری اور الجھی ہوئی تھیں۔ میں نے کچھ نہیں کہا، بس اس کی طرف دیکھا۔
’’ایک پامسٹ نے مجھے کہا تھا کہ تمہاری لکیریں الجھی ہوئی ہیں اور میں یہ لکیریں اس لئے دیکھتا ہوں، کیونکہ مجھے ان میں عجیب شکلیں نظر آتی ہیں۔ یہ لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں اور مجھے کراس نظر آتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ میرے نصیب پر بھی کراس لگے ہوئے ہیں۔‘‘
ہوٹل میں ہم دونوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔ وہ پہلی بار یونیورسٹی کے باہر کسی جگہ پر مجھ سے ملا تھا۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ اچانک اس نے پوچھا۔
میں الجھ گئی۔ کہنا چاہا کہ میں تمہارے ہی بارے میں سوچ رہی تھی، لیکن کہہ نہیں پائی۔
’’کچھ نہیں، ایسے ہی بیٹھی تھی۔‘‘
ان سے دونوں کہنیاں ٹیبل پر رکھ کر ٹھنڈی ہتھیلیوں کے پیالے تک لایا اور میری آنکھوں میں دیکھتے کہا، ’’تمہیں مجھ میں ایسی کیا خاص بات نظر آئی جو تم میری جانب متوجہ ہو کر یہاں پر آئیں۔ باقی لڑکیاں تو میری بور کمپنی اور بور وجود سے دور بھاگتی ہیں۔‘‘
مجھے کوئی جواب نہیں سوجھا۔ وہ اور لوگوں سے الگ تھا، نرالا تھا، شاید اس لئے۔
’’تم تھوڑے عجیب ہو!‘‘
’’عجیب!‘‘ وہ ہنسا۔ دوسرے معنوں میں، میں تمہارے لئے ایک راز ہوں، جسے تم حل کرنا چاہتی ہو۔ لیکن جب تم سب کچھ جان جاؤ گی، تب میں تمہارے لئے اسرار نہیں رہوں گا۔ اور تب۔ تب تمہاری دلچسپی، پریشانی میں بدل جائے گی اور تم تنگ ہو جاؤ گی۔‘‘ اس کی آنکھوں کی اداسی مزید گہری ہو گئی۔ وہ خالی کپ میں چمچ گھمانے لگا۔
’’تمہاری یہی باتیں جو عجیب ہیں۔‘‘ میں نے کچھ کہنے کے لئے بات کی۔
’’ثمینہ، مجھ میں کوئی بھی عجیب اور خاص بات نہیں ہے۔ تم تھوڑا دھیان لگا کر دیکھو گی تو تمہیں میرے جیسے اور بھی کئی لوگ نظر آئیں گے، جنہیں دنیا میں فقط تکلیفوں کے اور کچھ نہیں ملا۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ خود کو چھپا سکتے ہیں اور کچھ لوگ میرے جیسے ہوتے ہیں جو چھپا نہیں سکتے ہیں۔ میں ایک چوٹ کھایا اور ہارا ہوا انسان ہوں۔ جب چھوٹا تھا تو اپنی ہم عمروں کے ہاتھوں مار کھا کر روتا ہوا گھر آتا تھا۔ گھر پر ماں اپنے بیروزگار شوہر اور سخت مزاج ساس کی کسر مجھ پر نکالتی تھی۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا، ہونق اور بزدل ہوتا گیا۔ دنیا کے ہاتھوں میں نے ہمیشہ مار کھائی ہے۔ مجھ میں مقابلہ کرنے کی قوت نہیں ہے۔ مجھ میں کچھ بھی نہیں اور جب تمہیں پتہ چلے گا کہ میں اندر سے کتنا کھوکھلا ہوں، تب تم بھی کنارہ کر کے چلی جاؤ گی۔‘‘
’’پہلے کون چلا گیا ہے؟‘‘
’’پہلے؟‘‘ اور میری طرف دیکھے بنا کہا، ’’میری زندگی میں کون آئے گا! اگر کوئی بھول کر آ بھی گیا تو جھانک کر، ویرانی سے ڈر کر چلا جائے گا۔‘‘
مجھے لگا کہ وہ بات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
’’ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پکنک کا پروگرام بنا ہے، کینجھر جھیل پر تم چل رہے ہو نہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں۔ تمہیں پتہ ہے کہ میں ایسی باتوں میں حصہ نہیں لیتا۔‘‘
’’لیکن کیوں؟ اکیلے رہ رہ کر تو ڈپریشن کے مریض بن گئے ہو۔ اور لوگوں کے ساتھ وقت گزر جاتا ہے۔ اوروں کی کمپنی میں، کسی کی موجودگی میں آدمی اپنے آپ میں سے نکل آئے گا۔ تم تو نہ کسی دعوت میں آتے ہو، نہ کسی فنکشن میں۔ آخر تم نے اپنے آپ پر اکیلا پن حاوی کیوں کیا ہے؟‘‘
وہ کچھ دیر تک میری اور دیکھتا رہا۔
’’دیکھ ثمینہ، میں اپنی نجی زندگی میں کسی کا دخل برداشت نہیں کرتا۔ نہ ہی کسی کے قریب جاتا ہوں۔ تم نے میری جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اس کے لئے صد شکریہ۔ میں تمہیں اتنا بتا دوں کہ میرے لئے سارتر کے الفاظ میں، باقی سب لوگ جہنم ہیں۔‘‘ اس نے بیرے کو بلایا۔ بیرے نے تھوڑی دیر کی تو وہ چڑ گیا۔ اس نے اپنا طیش بیرے پر نکالنا چاہا۔
اسے ہمارے ڈپارٹمنٹ میں لیکچرار کی حیثیت سے آئے پانچ چھ مہینے ہو چکے تھے۔ ڈپارٹمنٹ کے سبھی ساتھی اسے پروفیسر کہ کر بلاتے تھے، اس لئے وہ سبھی لوگوں سے الگ تھلگ اور اکیلا رہتا تھا۔ کلاس لینے کے بعد باقی پورا وقت سیمینار لایبریری میں بیٹھ کر پڑھتا رہتا تھا۔ کوئی اس سے بات کرتا تو وہ اتنا اختصار میں جواب دیتا تھا کہ اس شخص کو اس سے کھل کر بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ پہلے پہلے ہمیں لگا کہ شاید وہ خود کو کچھ سمجھتا ہے۔ لیکن بعد میں اسے سب کریک کہنے لگے۔ لیکن مجھے لگا کہ وہ ایسا نہیں تھا جیسا وہ باہر سے نظر آتا تھا۔ یہ میرا تجسّس ہی تھا، جو مجھے اس کے نزدیک لے گیا۔ اس کے نزدیک ہونا اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ کسی کو نزدیک آنے ہی نہیں دیتا تھا۔ جیسے یہ اس کی زندگی کا اصول ہو۔ میں نے سمجھا کہ وہ بہت کٹھن شخص ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ اتنا ہی کٹھن تھا، جیسے ایک شرارتی بچہ اور جس کو منانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔
میں نے اسے منا لیا کہ وہ پکنک پر چلے گا اور یہ میرا وعدہ تھا کہ میں اس کے ساتھ ہی رہوں گی۔ ہمارے کچھ ساتھی کشتیوں میں بیٹھ کر کینجھر جھیل کی سیر کر رہے تھے اور کچھ کنارے پر بیٹھ کر ہنسی مذاق میں مشغول تھے۔ ہم اوروں سے دور جا کر بیٹھے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے کچھ ساتھی ہماری طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے، شاید ہمارے بارے میں باتیں کر کے مذاق اڑا رہے تھے۔ یہ اس نے بھی محسوس کیا۔
’’پہلے میں اکیلا تھا جس پر ہنستے تھے، اب دو ہو گئے ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور ایک بڑا قہقہہ لگایا۔ میں بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگی۔ جو ہماری جانب دیکھ کر ہنس رہے تھے، وہ خاموش ہو گئے۔ وہ خود کو ڈرپوک اور کمزور مانتا تھا۔ لیکن اس میں اتنی ہمت تھی کہ اوروں کی باتوں کو ہوا میں اڑا سکتا تھا اور ان پر ہنس سکتا تھا۔
’’تم بہت ہی مشکل سے کسی کو اپنے قریب آنے دیتے ہو، ایسا کیوں ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’کیوں تمہیں کوئی مشکل ہوئی؟‘‘
’’مشکل بات ہے! جب اپنے پر اتر آئی، تب جا کر صاحب نے کچھ دھیان دیا۔‘‘
وہ ہنسنے لگا اور پھر گمبھیر ہو کر کہا، ’’ثمینہ! یہ سچ نہیں ہے کہ میں کسی کو اپنے قریب آنے نہیں دیتا۔ بات یہ ہے کہ میں ایک ہی جگہ پر کھڑا ہوں، جہاں کوئی مجھے چھوڑ گیا تھا اور میں کسی کے قریب نہیں جا سکتا۔‘‘
’’وہ کون تھی؟‘‘
’’کیا تم سچ مچ جاننا چاہتی ہو؟‘‘
’’ہاں، اگر تمہیں برا نہ لگے۔‘‘ میں یہ دکھانا نہیں چاہتی تھی کہ میں یہ جاننے کے لئے کتنی بے قرار تھی۔ وہ کون تھی جو اس کی زندگی میں اتنا قریب آئی اور پھر کیوں اتنی دور چلی گئی!
’’اسکا نام۔ لیکن نام کا تم کیا کرو گی! بس، وہ میرا پہلا پیار تھی۔ وہ پہلا پیار جس کے نشان پوری زندگی قائم رہتے ہیں۔‘‘ وہ چپ ہو گیا۔ تھوڑی دیر تک انگلی سے سر کو رگڑنے لگا۔
’’میرے حالات ایسے تھے جو ہماری شادی نہیں ہو سکتی تھی۔ میں ابھی پڑھ رہا تھا۔ میری کوئی نوکری نہیں تھی۔ غریب شخص جب تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوتا تب تک گھر بنانا نا ممکن ہے۔ اس کے لئے اس کی ماں نے اتنا لمبا انتظار کرنا پسند نہیں کیا۔‘‘
’’لیکن خود اس نے کیا کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہی جو اس کی ماں نے اسے کہا۔‘‘
’’کمال ہے! یہ کیسا پیار تھا؟ اور تم اسے سینے سے لگا کر چل رہے ہو!‘‘ میں نے چڑتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ثمینہ، مجھے اس پیار میں آج بھی کوئی شک نہیں ہے۔ اس نے ایسا کیوں کیا وہ میں سمجھ سکتا ہوں۔ وہ بھی ایک غریب گھر کی لڑکی تھی۔ اس نے مجھ سے زیادہ غریبی، تکلیفیں دیکھی تھیں۔ شاید اس لئے وہ ایک اچھی اور بہتر زندگی گزارنا چاہتی تھی، جو میرے ساتھ ممکن نہیں تھی۔‘‘
’’اور اب اسے سب کچھ مہیا ہے؟‘‘
’’ہاں! کار، بنگلہ، زندگی کی ہر سہولت۔‘‘
’’اور تم اب بھی اسے چاہتے ہو؟‘‘ مجھے لگا کہ میں ایک وکیل کی طرح تفتیش کر رہی تھی اور وہ پرسکون ہو کر جواب دیتا رہا۔
’’وہ میری ناکامیوں اور خرابیوں کی نشانی ہے۔ میں اسے بھول نہیں پایا ہوں۔‘‘
مجھے اس پر اتنا غصہ آیا کہ خیال آیا کہ اسے چھوڑ کر دیگر ساتھیوں کی طرف چلی جاؤں۔ ہم دونوں کتنی ہی دیر تک چپ چاپ جھیل کے صاف پانی پر آسمان کی نیلاہٹ دیکھتے رہے۔ ہمارے باقی ساتھی خوش تھے، وہ ہنس رہے تھے اور ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ میں اس کے بارے میں سوچ رہی تھی، لیکن وہ کیا سوچ رہا تھا؟ شاید اس لڑکی کے بارے میں جو اس وقت اپنے بنگلے میں اپنے بچوں کے ساتھ شاداں بیٹھی ہو گی یا اپنے شوہر کے ساتھ گھوم رہی ہو گی اور قہقہے لگا رہی ہو گی اور جسے ایک پل کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا ہو گا کہ ایک پاگل شخص ابھی ابھی اس کی باتیں کر کے اس کی یاد میں گم ہو گیا ہے۔
’’اس لڑکی سے تمہارا پیار ایک پاگل کا پیار ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکل گیا۔ میں اپنے طیش کو دبا نہیں پائی۔
’’پاگل کا پیار!‘‘ اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’نہیں ثمینہ، یہ بات نہیں ہے۔ میں اوروں کی طرح نہیں ہوں، اس کا سبب یہ نہیں ہے۔ تم میرے ماضی سے واقف نہیں ہو۔ تمہیں پتہ نہیں ہے کہ میں نے زندگی میں کیا کیا برداشت کیا ہے۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو روٹی کے لئے گڑگڑاتے دیکھا ہے، نئے کپڑے کے لئے ترستا دیکھا ہے۔ اپنی بیمار ماں کو بغیر علاج کے تڑپتے اور محنت کرتے دیکھا ہے۔ جب میں میٹرک کے امتحان کا فارم بھر رہا تھا تو فقط پچاس روپوں کیلئے اپنے سبھی رشتے داروں کے آگے جھولی پھیلائی اور میری جھولی طعنوں اور دھتکاروں سے بھری گئی۔ میری ماں نے اپنے مرحوم رشتے داروں کی یاد میں رکھے اپنے جہیز کے کپڑے اور میری چھوٹی بہن کی کانوں کی سونے کی بالیوں کو بیچ کر فیس کے پیسے دیئے، اس کے بعد نوکری کے لئے پھر سے ان رشتے داروں کے دروازوں پر بھٹکتا رہا۔ یہ سبھی ذلتیں اور بے عزتیاں، زہر کے گھونٹ بن کر میرے اندر اکٹھے ہوتے گئے اور تم کہتی ہو کہ وہ بنگلے اور کار کی خاطر مجھے چھوڑ کر چلی گئی، پھر بھی میں اسے پیار کرتا رہا ہوں! اس نے بھی ذلتیں اور مایوسیاں دیکھی تھیں اور لڑکی ہونے کے سبب مجھ سے بھی زیادہ۔ وہ نیلام گھر میں رکھی ایک چیز تھی، جسے خرید نے کے لئے کالے کلوٹے اور اپاہج ساہوکار بڑی بڑی بولیاں لگا رہے تھے۔ پتہ نہیں کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کے لئے یا اپنے گھر والوں کے لئے بک گئی۔ میں اسے قصوروار کیسے کہہ سکتا ہوں۔ نہیں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے بھول گئی ہو اور میری یہ دعا ہے کہ وہ مجھے بھلا دے۔ کسی کی کمی، کسی کی گمشدگی، زندگی میں ایسا خلا پیدا کر دیتی ہے، جو پھر کبھی بھر نہیں پاتا ہے۔‘‘
میں بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، ’’کیا کوئی اور بھی یہ خلا نہیں بھر سکتا؟‘‘ اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔
’’ثمینہ، مجھے ایسے لوگ پسند ہیں جو ہمیشہ خوش رہتے ہوں، جو ہمیشہ ہنستے رہیں اور بے پرواہ ہوتے ہیں۔ مجھے ان پر رشک ہوتا ہے، لیکن میں ان سے جلتا نہیں ہوں، اس لئے انہیں نقصان پہچانا بھی نہیں چاہتا۔‘‘
’’کیا مطلب؟ میں نے تمہاری بات سمجھی نہیں!‘‘ میں سمجھ گئی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔
’’میں نہیں چاہتا کہ میری اداسیوں اور میری محرومیوں کا سایہ کسی اور پر پڑے۔‘‘ اس نے دھیرے اور بھاری لہجے میں کہا۔
پتہ نہیں کیوں اس کی بات پر میرا دل بھر آیا۔ میں نے دور دور جھیل کی سطح پر ہوا سے بننے والی پتلی لہروں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، ’’لیکن میں ان سبھی کو تم سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے اس کی جانب دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں وہی بے بسی تھی۔
’’نہیں ثمینہ، نہیں۔‘‘ اس کی آواز میں کچھ پریشانی تھی۔ ’’تم بلاوجہ مجھ پر ترس کھا رہی ہو۔ میں تمہارے لئے صحیح انسان نہیں ہوں۔ تم میرے ساتھ خوش نہیں رہ پاؤ گی۔‘‘ وہ رک گیا اور پھر چہرہ دوسری طرف کر کے ڈوبے لہجے میں کہا، ’’اور دوسری کوئی بھی لڑکی اس کی جگہ نہیں بھر سکتی۔‘‘
میں لڑکھڑاتے قدموں سے جانے لگی۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ مجھے روکے گا نہیں۔ میں اس کی کچھ نہیں تھی۔ وہ اتنا اکیلا تھا کہ کوئی بھی اس کا نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی وہ کسی کا ہو سکتا تھا۔ میں نے دور جا کر گردن گھما کر اسے دیکھا۔ وہ تالاب کی جانب منہ کر کے پتھر بنا کھڑا تھا اور مجھے پورا یقین تھا کہ وہ اب بھی میرے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا۔
دوسرے دن چوکیدار نے ایک بند لفافہ مجھے لا کر دیا۔ کھول کر دیکھا تو اس کا خط تھا۔ اس نے کل کے دن والے واقعے پر اپنے خیال کے مطابق کی گئی بد تمیزی پر معافی مانگی تھی اور لکھا تھا، ’’ایک پاگل، ایک سچ مچ کے جاندار شخص سے پیار نہیں کر سکتا۔ وہ تصویر سے ہی پیار کر سکتا ہے، جس سے وہ کچھ مانگنا نہیں چاہتا اور وہ تصویر جو اسے کچھ دے نہیں سکتی۔ اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ تصویر اس کے ساتھ پیار کرتی ہے یا نہیں، وہ پیار کرتا ہے اور یہی اس کے لئے کافی ہے۔‘‘
٭٭٭
درد کی لپٹ
فلم پوری ہو چکی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکے دے کر مکوڑوں کی طرح سرکتے ہوئے، جیسے بلوں سے باہر نکل رہے ہیں۔ سنیما کے اندر ایک اور ہجوم اندر جانے کے لئے بیقرار کھڑا ہے۔ زبردست بھیڑ ہے چاروں جانب، لیکن اس پورے میلے میں، میں بالکل اکیلا ہوں۔ اکیلے پن کے اس احساس کے سبب فلم میں بھی کوئی خاص مزہ نہیں آیا۔ فلم تو فقط وقت کاٹنے کے لئے دیکھی۔ وقت کا بھی اپنا مزاج ہے، اپنی چال ہے۔ کبھی تو ہوائی جہاز کی طرح اڑتا ہے، کبھی کچھوے کی طرح سرکتا رہتا ہے۔ ہوائی جہاز کی طرح اڑ اڑ کر کچھوے کی طرح سرکنے لگتا ہے، پھر اچانک کچھوے کی طرح سرک سرک کر ہوائی جہاز کی طرح اڑنے لگتا ہے۔ لیکن اس دوران پتہ نہیں کیسے کیسے بدلاؤ لا دیتا ہے۔ وقت نے مجھ میں اور روبی میں بھی کتنی تبدیلی لا دی ہے نہ؟ روبی کے ساتھ گزارے گئے پلوں کو جیٹ جہاز کی طرح اڑا لے گیا اور پیچھے دھوئیں کی لکیر بھی نہیں رہی ہے۔ میری زندگی جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھی، اتنی ہی سست رفتار سے اب سرک رہی ہے۔ وقت کاٹنے سے بھی نہیں کٹ رہا۔ بیکار وقت گزارنا بھی ایک مسئلہ ہے میرے لئے۔ فلم دیکھنے کا شوق مجھے نہیں تھا، لیکن فقط وقت کاٹنے کے لئے دیکھی تھی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہال میں اتنے لوگ ہوتے ہوئے بھی میں اکیلا ہوں۔ چاروں جانب اجنبی اور انجان چہرے، اندھیرے میں گھرے ہوئے، جن میں کسی بھی طرح کا اپنا پن نہیں ہوتا ہے۔ مجھے اپنوں میں ہی اپنا پن نظر نہیں آیا تو غیروں میں اپنا پن کہاں سے آئے۔ لیکن میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں۔ سوچ تو آگ کی لپٹ ہے، جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ اوہ! یہ کون گزر گئی میرے پاس سے۔ وہ تو نہیں تھی، روبی! نہیں وہ روبی نہیں تھی۔ شام کوسات بجے مجھے اس کے گھر جانا ہے۔ لیکن میں اس سے ملنے نہیں جا رہا ہوں۔ مجھے اس کی ماں سے ملنا ہے۔ یا اس بہانے اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہم آپس میں رشتے دار ہیں۔ لیکن رشتے دار ہوتے ہوئے بھی اب میرا روبی سے کیا تعلق! ہم ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن چکے ہیں – لیکن کبھی کسی وقت، جو اب نہیں رہا ہے، وہ میرے اتنے قریب تھی کہ اس کے دل کی دھڑکن سن سکتا تھا۔ اس کی تیز تیز گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتا تھا۔ وہ مجھ میں سے سانس لیتی تھی اور میں اس میں سے سانس لیتا تھا۔ لیکن آج۔ اس کی سانسوں کی خوشبو میں اور میرے حواسوں میں وقت نے ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔ مجھے یہ خلا قبول ہے، اس لئے کہ وقت جو کچھ دیتا ہے، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہم دونوں نے یہ فیصلہ قبول کر لیا ہے، خوشی سے نہ سہی، لیکن قبول کرنا ہی پڑا ہے۔ اب ہم دونوں کے درمیان ایک بڑی کھائی ہے جو پار نہیں کی جا سکتی۔ بھلا وقت کی کھائی کو کسی نے پار کیا ہے؟
سنیما سے نکلی بھیڑ بازار کی لا محدود ہجوم میں گھل گئی۔ میں تو جیسے ایک جنگل میں آ گیا ہوں۔ چاروں جانب شور ہے۔ جنگل کے جانور چیخ کر شور کر رہے ہیں۔ میری سانس اٹک رہی ہے۔ چاروں طرف گھٹن ہے۔ یہ لوگ جنگل کے جانور نہیں ہیں، سرکس کے سیکھے ہوئے جانور ہیں۔ اس طرح اچھل کر اور ناچ کرم کرتب دکھا رہے ہیں کہ میں ہی جنگلی جانور لگ رہا ہوں، جو ان سیکھے ہوئے جانوروں کے بیچ میں آ کر پھنسا ہوں۔ ’’ہا ہا ہا۔ ہو ہو۔ ہی ہی۔، پکڑو۔ مت چھوڑنا۔ چھوڑنا۔ ہو ہو۔‘‘ میں بھاگنا چاہتا ہوں، لیکن بھاگنے سے ڈرتا ہوں۔ سب میرے پیچھے بھاگیں گے۔ لیکن میں تو بیکار ہی ڈر رہا ہوں! مجھے کیا ہو گیا ہے! یہ میں کیا سوچ رہا تھا؟ اپنے آپ پر ہنسنا چاہئے۔ کبھی کبھی لوگوں کے دل میں کیسے عجیب خیال آتے ہیں نہ۔ دل چاہتا ہے کہ اپنے اس خیال پر قہقہہ لگاؤں، لیکن بیچ بازار میں اکیلے کھڑے ہو کر قہقہہ لگانا پاگلوں کا کام ہے۔ میں تو اکیلا ہوں، اس لئے قہقہہ نہیں لگا سکتا۔ یہ اکیلے پن کا احساس تو مجھے مار ڈالے گا۔ اکیلا پن انسان کا نصیب ہے، لیکن کسی کا ساتھ ملنے سے اکیلے پن کا احساس دب جاتا ہے۔ جب کسی کا ساتھ نہیں ہوتا تب اکیلا پن ایک زوردار حملہ کر دیتا ہے اور احساس پکا بن جاتا ہے۔ میں اس کے ساتھ کے بغیر جیسے اتنے بڑے گھنے جنگل میں اکیلا ہی اکیلا بھٹکتا رہا ہوں۔ روبی کا ساتھ تھا، کچھ ایک پل تھے، جو آنکھ جھپکنے جیسے گزر گئے۔
ایک دن ایک کتاب دیتے ہوئے روبی نے کہا، ’’یہ کہانی تو پڑھ کے دیکھو۔‘‘
اس کہانی میں ایک آدمی اپنی محبوبہ سے ایک ساتھ جینے مرنے کا وعدہ کر کے، پتہ نہیں کہاں چلا جاتا ہے ہمیشہ کے لئے۔ میں نے کہانی پڑھی، اس کی طرف دیکھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں میں ایک سوال ہے۔ وہ کچھ پوچھنے کے لئے بیتاب ہے۔ میں نے اٹھ کر اس کا منہ چوم لیا۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ آنکھیں بھر آتی ہیں تو چھلک پڑتی ہیں۔ میرے دل نے چاہا کہ اس کے آنسوؤں کو پی جاؤں۔ اس کے آنسو امرت ہیں، میں امر ہو جاؤں گا۔ ہمارا پیار امر ہو جائے گا۔ اس دنیا میں کوئی بھی چیز امر نہیں، مرنا، خاتمہ، موت اپنی جگہ پر اٹل حقیقت ہے، لیکن کبھی کبھی شخص ان سچائیوں سے بھاگ کر بیکار خیالوں کا سہارا لے کر ان کی حفاطت میں چلے جاتے ہیں۔ خود کو دھوکا دے کر خوش ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جب ذہنی دھوکے غبارے کے مانند پھٹ جاتے ہیں، تب بچوں کی طرح رونے لگتے ہیں۔ شاید ہم بھی انہیں لوگوں میں سے تھے۔
روبی نے مجھے کہا تھا، ’’یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ جن لوگوں کا آپس میں اتنا پیار ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی کیسے بن جاتے ہیں!‘‘
’’کاش یہ بات کبھی سمجھ بھی نہ پاؤ۔‘‘ میں نے فقط اتنا ہی کہا تھا۔ آج یہ جواب مجھے ہنسی جیسا لگ رہا ہے۔ کتنی ہی باتیں آگے چل کر اپنی اہمیت کھو کر ہنسی جیسی لگتی ہیں۔ کل کی سچائی، کل کا سچ، آج جھوٹ لگ رہا ہے۔ کسی بھی چیز کی کوئی بھی سچائی نہیں ہے، کوئی معنی نہیں ہے۔ سب دھوکا ہے، فریب ہے، بیکار اور بے مطلب ہے۔
اچانک ایک شخص نے مجھے دھکا دے کر دور کر دیا ہے اور میرے برابر سے ایک کار سائیں سے نکل گئی ہے۔
’’سنبھل کر چل بھائی، زندگی سے تنگ آ گئے ہو کیا؟‘‘ وہ شخص کہہ رہا ہے۔ میں فقط اس کی طرف دیکھتا ہوں۔ اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ آگے بڑھ جاتا ہوں۔ کیا ہو جاتا؟ وہ کار مجھے مار دیتی، ویسے ہی جیسے جوتے کے نیچے کیڑا روند دیا جاتا ہے۔ موت آدمی کے کتنا قریب ہے، ہر چیز سے دور، موت کے آگے آدمی بھی کیڑے جیسا ہی ہے۔ کبھی ہنستے کھلکھلاتے، کبھی روتے سسکتے چہرے، پل بھر میں پتھر بن جاتے ہیں۔ بس اتنی اہمیت ہے انسان کی! انسان جو عظیم ہے، وہ بھی موت کے آگے کتنا بے بس اور عاجز ہے۔ انسان مشین کی طرح ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں، اچانک کوئی پرزہ ٹوٹا تو مشین بیکار۔ آدمی اپنی بنی ہوئی چیز کی گارنٹی دے سکتا ہے، لیکن خود آدمی کو بنانے والے نے کوئی گارنٹی نہیں دی ہے۔
وعدے، جھوٹی گارنٹی کی طرح ہیں اور وعدوں کی بھلا اہمیت ہی کیا ہے! کبھی روبی اور میں نے کتنے وعدے کئے تھے، لیکن آج اس کا تعلق بس ماضی سے ہے۔ ہمارا پیار جو کل تک سچ تھا، آج اس کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ کل کچھ تھا، آج کچھ نہیں۔ لیکن پھر بھی دل تو کورا کاغذ ہے، کوئی لکیر پڑ گئی تو مٹے گی نہیں۔ مٹ بھی جائے، لیکن کاغذ کا کورا پن تو ختم ہو گیا۔
آج آؤ تو ان یادوں کے زہریلے گھونٹ، ساتھ مل کر پئیں، مل کر چسکیاں لیں۔ شاید اجنبیت کی کھڑی کی گئی دیوار کو ہٹا سکیں، چاہے کچھ پلوں کے لئے ہی سہی۔ لیکن اب ہو بھی کیا سکتا ہے! غیریت کی دیوار کتنی مضبوط ہے اور اسے گرانا، نہ میرے بس میں ہے اور نہ روبی کے بس میں۔
’’وقت بڑا ہی بے رحم ہے، روبی! ہمارے آگے وقت جیسے تیز طوفان کا بہاؤ ہے۔ اس طوفان کا سامنا کرنے کے لئے، ابھی ہم دونوں میں ہمت ہی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ کہیں اس بہاؤ میں بہتے، حالات کے دھکے کھاتے ایک دوسرے سے الگ ہو کر، غائب نہ ہو جائیں۔ ہم دونوں لاچار ہیں، روبی! انجانے میں ہی وقت کے ظلم کا شکار بن گئے۔ رشتے داروں کی پرانی دشمنیوں اور نفرتوں کے اتنے بڑے ڈھیر میں ہمارے پیار کو کہاں جگہ ملے گی؟ اگر وقت کی ریت سے ہمارے پیروں کے نشان مٹ گئے تو پوری عمر بھٹکتے رہ جائیں گے۔ سکون کے لئے ترسیں گے۔‘‘
اسکے ہونٹوں پر بس مسکراہٹ پھیل گئی اور اس کا چہرہ میرے منہ پر جھک گیا۔
میں نے کہا تھا، ’’مجھے اپنے سینے میں چھپا دو، میں ڈر رہا ہوں، روبی، میں ڈر رہا ہوں۔‘‘
اس نے اپنے بال کھول کر میرے چہرے پر پھیلا دئیے۔ اس کے بالوں کی چھاؤں تلے ابھی فقط ایک پل ہی گذرا ہو گا کہ وقت نے ایک تیز جھپٹا مار کر مجھے روبی سے الگ کر کے اکیلے پن کی کھائی میں دھکیل دیا۔ کون جانے اگلے پل کیا ہو گا! وقت کی اپنی چال ہے۔ ہر پل ایک نیا واقعہ ہے، ایک نئی سچائی ہے۔ خاندانی نفرتیں، پیڑ کی شاخوں کی طرح ہمارے پیار کو گھیر کر لے گئی اور ہم۔۔ ۔
وقت تیرے بغیر بھی گزر رہا ہے، لیکن زندگی ایک بوجھ بن گئی ہے۔ پھر بھی مجھے ڈھونا ہے۔ میں یہ بوجھ اکیلے ڈھو رہا ہوں۔ اگر تم ساتھ ہوتیں تو آج ایسا نہ ہوتا۔ پتہ نہیں تم کیسی ہوتیں – لیکن میں ایسا نہ ہوتا! !
پتہ نہیں کہاں آ پہنچا ہوں۔ دل کی اداس اور ویران راہ کے علاوہ مجھے اور کوئی راہ نہیں سوجھ رہی ہے۔ میں تو ایسے ہی چلا جا رہا ہوں، بھٹکتا بھٹکتا۔ بھٹکنا میرا نصیب ہے، میرا نصیب ہے، وقت کی ریت سے پیروں کے نشان مٹ گئے ہیں۔ میں تمہیں تو حاصل نہ کر سکا، لیکن خود کو ہی کھو بیٹھا۔
یہ گلی روبی کے گھر کی سمت جا رہی ہے۔ میں کئی سالوں کے بعد اس گلی میں آیا ہوں۔ پتہ نہیں کیوں، میرے دل پر کوئی بھاری چیز گر گئی ہے، کسی انجان ڈر کی وجہ سے دل دب گیا ہے۔ مجھے واپس چلے جانا چاہئے۔ یہاں ہر چیز میں ویرانی اور غیریت کا احساس ہو رہا ہے۔ آج روبی کے اپنے پن کا احسان نہیں جڑ رہا ہے، پھر آس پاس کی چیزیں اجنبی بن گئی ہیں تو کیا ہوا؟ لیکن میں یہاں آیا کیوں ہوں! اتنے سالوں کے بعد فقط یہ دیکھنے کے لئے کہ روبی کیسی ہے! کل روبی کی ماں ملی تھی اور اس نے مجھے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔ اس نے شاید تکلفاً کہا تھا اور میں نے سوچا کہ میں ایک بار ہو کر آؤں۔ اتنے دنوں کے بعد میں دیکھنا چاہتا تھا کہ روبی کیسی دکھ رہی ہے۔ میں نے ایسا کیوں چاہا۔ یہ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ شاید راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں دبی ہوئی ہیں۔
میں روبی کے سامنے جاؤں گا تو کیا بات کروں گا! وہ کیا سوچے گی کہ میں اس کے گھر کیوں آیا ہوں! اس نے خود کہا تھا کہ آئندہ سے ہمارا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں رہے گا اور میں اس کے گھر نہ آؤں۔ یہ اس کے والد کی مرضی تھی اور والد کی مرضی کے خلاف وہ سانس بھی نہیں لینا چاہتی تھی۔
میں دروازے پر کھڑا ہوں، پتہ نہیں کتنی دیر سے، لیکن حوصلہ نہیں ہو رہا ہے کہ گھنٹی کا بٹن دباؤں۔ دل کسی اجنبی سبب سے سکڑ رہا ہے۔
کسی نے آ کر دروازہ کھولا ہے۔ اوہ روبی! وہ سامنے کھڑی ہے۔ ایک پل کے لئے اس کے چہرے پر تعجب کا احساس ابھرا ہے۔ اسے پتہ ہو گا کہ میں آ رہا ہوں، پھر بھی! شاید اس نے سوچا ہو گا کہ میں نہیں آؤں گا۔
وہ مسکراتی ہے۔ مجھے یہ جبراً بکھیری ہوئی مسکراہٹ لگ رہی ہے۔ جواب میں مجھے بھی جبراً مسکرانا چاہئے، لیکن میرے بس کی بات نہیں ہے۔
’’آئیے۔ اندر آئیے۔‘‘ وہ ہٹ کر اندر آنے کے لئے راستہ دیتی ہے۔
’’ماں کو، ایک پڑوس کی عورت باہر لے کر گئی ہے۔ جا نہیں رہی تھی، لیکن اس عورت کا ضروری کام تھا۔ آپ کے لئے کہہ کر گئی ہے کہ آئیں تو بٹھا کر جوس پلانا۔‘‘
میرا دل زیادہ الجھتا جا رہا ہے۔ روبی سامنے کھڑی ہے۔ ہم دونوں چپ ہیں۔ میرے گلے میں جیسے کانٹے اٹک گئے تھے۔ وہ کچھ کہہ رہی ہے۔
’’آپ کھڑے کیوں ہیں؟ بیٹھتے ڈرتے ہیں کیا؟ میں آپ کو کھا نہیں جاؤں گی۔‘‘
میں خاموش ہوں۔
’’آپ بہت کمزور دکھ رہے ہیں۔ بیمار تھے کیا؟‘‘
میں چپ چاپ ہوں۔
’’آپ نے شاید نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے۔‘‘ وہ ہنستی ہے، پھیکی اور بے بس ہنسی۔
آخر کار میں بولتا ہوں، ’’آپ تو ماشاء اللہ بہت صحت مند دکھ رہی ہیں، جیسے کہ کبھی بیمار ہی نہ پڑی ہوں۔‘‘ مجھے اپنے لہجے میں کڑواہٹ محسوس ہوئی۔
وہ ہنستی ہے۔ میرے ہونٹوں پر فقط مسکراہٹ آتی ہے۔ وہ مسکراہٹ کتنی خراب ہو گی!
’’یہ ہونٹوں ہی ہو نٹوں میں کیا کہہ رہے ہیں؟ ہونٹوں میں کہنے کی آپ کی عادت ابھی تک نہیں گئی ہے۔‘‘
’’آپ کے کہنے کے مطابق، جسے بولنا نہیں آتا، وہ فقط ہونٹ ہلاتا ہے اور مجھے بات کرنا ابھی بھی نہیں آتا ہے۔‘‘
’’سوچنا تو آتا ہے!‘‘ وہ مجھے گھور کر دیکھتی ہے، جیسے کہہ کہہ رہی ہو کہ تم ذرا بھی نہیں بدلے۔
’’ہاں، میرے سدھرنے کی کوئی بھی امید نہیں ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکل جاتا ہے۔
’’جی؟‘‘ وہ حیرانی سے کہتی ہے۔
میں کوئی جواب نہیں دیتا۔ اب میں یہاں ایک پل کے لئے بھی نہیں بیٹھ سکتا۔ مجھے ماحول اوپری اور پرایا لگ رہا ہے! سب کچھ کھوکھلا ہے۔ ہم دونوں کا باتیں کرنا، دونوں کا مسکرانا۔ سب تکلفانہ ہے۔ یہاں میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں باہر جانا چاہتا ہوں۔ اچانک میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ بہانہ بنا کر باہر نکل آیا ہوں۔ لیکن باہر بھی ہوا نہیں ہے۔ گھٹن ہے۔ شام کا اندھیرا پھیلا ہوا ہے۔ ماحول دھندلا ہے، میرے دل کی طرح۔
٭٭٭
کالی رات، لہو بوندیں
’’اندھے ہو کیا؟‘‘ وہ اپنے کپڑوں کو ٹھیک کرتے مجھے غصے سے گھور رہا ہے۔ اندر جیسے آگ لگ گئی، لیکن خود کو سنبھال کر چلا جاتا ہوں۔ میری نظر شو کیس پر تھی، تو اچانک اس سے جا کر ٹکرا گیا۔ اس میں میرا کیا قصور؟ میں تو شو کیس میں رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہا تھا۔ سامنے آتے ہوئے لوگوں کو دیکھوں، یا شو کیس کو؟ بازار بہت ہی تنگ ہے۔ لوگوں کی اتنی بھیڑ سے مجھے سخت نفرت ہے۔ لیکن کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بھیڑ میں، میں خود کو اکیلا اور محفوظ سمجھتا ہوں۔ کئی لوگوں میں خود کو اکیلا سمجھنا کتنی عجیب بات ہے! کم لوگوں میں مجھے ڈر لگتا ہے اور سخت بے چینی محسوس کرتا ہوں۔ اتنی بھیڑ سے نفرت ہوتے ہوئے بھی، میں اپنے دل میں بڑی بڑی بلڈنگوں جتنے قہقہے لگاتا، مزے سے سرکتا جاتا ہوں۔ کوئی عورت پاس سے نکلتی ہے تو عجیب احساسات ابھرتے ہیں اور اسے چھونے کو جی کرتا ہے۔ لیکن عورتیں مجھ سے دور بھاگتی ہیں اور خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ شاید آگے کوئی رکاوٹ ہے اور لوگ آگے ہی نہیں بڑھتے۔ اتنے سارے لوگ مکوڑوں کی طرح بدحواس سرکتے جا رہے ہیں، جذباتی انداز سے ہر کوئی آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ لوگ دوکانوں میں چڑھ اور اتر رہے ہیں، لیکن میں تو فقط شو کیس دیکھنا چاہتا ہوں اور دیکھنا بھی میرے لئے کتنا کٹھن ہے۔ اوہ یہ بھیڑ! دل میں آ رہا تھا کہ میں بیل بن جاؤں اور سینگ تان کر دوڑ لگاؤں، پھر لوگ کیسے نہ ڈر کے مارے ادھر ادھر بھاگیں گے اور اپنی جان بچانے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے مار کر، لاتوں کے نیچے روندیں گے! میں سینگوں سے سبھی شو کیس توڑ کر، بند کی ہوئی چیزوں کو راستے پر گرا کر، پھیلا دوں، اگر کوئی بڑے پیٹ والا دیکھوں تو اپنے سینگ اس کے پیٹ میں گھسا دوں۔ ہا ہا ہا ہوہوہو۔ اپنے اس خیال پر مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ بہاؤ نے تنگ بازار سے نکال کر بڑے شاہی راستے پر لا دیا ہے۔ راستے کے فٹ پاتھ سے کاروں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ کاریں بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں، یہ ہر کوئی جانتا ہے اور یہ بھی کہ یہاں بڑے لوگ شاپنگ کے لئے آتے ہیں۔ ہر اس کار کو جانچ پرکھ کر دیکھتا ہوں، جو خوبصورت لگتی ہے۔ دور نئی لمبی کار میں ایک عورت بیٹھی ہے اکیلی۔ کار خوبصورت اور شاندار ہے۔ عورت بھی خوبصورت ہو گی۔ میں قریب جا کر اچھل پڑتا ہوں۔ کار میں وہ بیٹھی ہے! ابھی تک ویسی ہی خوبصورت اور کم عمر۔ اس نے بھی مجھے دیکھا ہے، اس کی آنکھوں میں کتنی حیرانگی ہے۔ اچانک کھڑکی سے منہ نکال کر، بھرپور غصے اور طیش سے کہتی ہے، ’’خونی! قاتل!‘‘
میں ڈر گیا ہوں۔ اس نے جیسے میرے آگے بم پھینک دیا ہے۔ بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کیا ہے۔ دل مضبوط کر کے، چہرے پر خوفناک مسکراہٹ پھیلا کر اس کے آگے جھک کر کہتا ہوں، ’’لیکن تم تو قتل ہونے سے بچ گئیں۔‘‘ وہ ڈر کر، ہٹ کر، کونے میں دبک کر بیٹھ جاتی ہے۔ میں نے اس کے پھینکے گئے پھٹے بم کے ٹکڑے اس کی جانب پھینکے ہیں اور دل خوشی سے پھول گیا ہے۔ میں جھومتا ہوا جانے لگتا ہوں۔ تھوڑا آگے چل کر پھر پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں۔ وہ ابھی تک میری طرف حیرانی سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہی ہے۔ لازمی ہی سمجھتی ہو گی کہ میں اپنا دماغی توازن کھو چکا ہوں۔ میرے جیسا کنگال آدمی اسے حاصل نہ کر سکا۔ نہیں، وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور گدرائی ہوئی ہے۔ اس نے مجھے پہچان لیا۔ میں تو ویسے کا ویسا ہی ہوں، الٹے زیادہ گیا گذرا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ مجھے کوئی نہ پہچانے۔ ان بڑے چوڑے راستوں پر یہی ڈر ہے کہ کہیں کوئی پہچان نہ لے۔ اس لئے زیادہ بھیڑ اور تنگ، مصیبت ہوتے ہوئے بھی میرے لئے حفاظت والی ہے یا شاید مجھے ویران اندھیری گلیاں اچھی لگتی ہیں اور میں اپنا شکار بھی تو ان ویران گلیوں میں آسانی سے کر سکتا ہوں۔ اس چوڑے راستے پر اتنی بھیڑ نہیں ہے۔ فقط ٹکڑیاں ہی ٹکڑیاں ہیں، دو تین کی ٹکڑی یا بھیڑ۔ مجھے ایسی ٹکڑیاں اچھی نہیں لگتیں۔ ہر کسی کو اکیلا اکیلا ہونا چاہئے میرے جیسا۔ پتہ نہیں ایسے کتنے لوگ ہوں گے، جو ٹکڑی میں خود کو اکیلا محسوس کرتے ہوں گے۔ ایسے چوڑے راستوں پر مجھے چلنا ہی نہیں چاہئے۔ کوئی پہچان لے گا تو! ویسے بھی میں دن دہاڑے بازار میں نہیں نکلتا۔ پورا دن اپنی قبر میں پڑا رہتا ہوں۔ فقط شام کو باہر نکلتا ہوں، فقط شو کیس جانچتا رہتا ہوں۔ یہ دیکھتا ہوں کہ کون سے شو کیس سے آج کون سی چیز نکلی ہے یا نئی رکھی ہوئی ہے۔ ایسے چوڑے راستے پر چلنا ٹھیک نہیں ہے، یہاں شوکیسوں کو دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ کہیں کوئی شخص پہچان نہ لے۔ لیکن میں بیکار ہی ڈر رہا ہوں۔ میری کسے خبر ہے؟ وہ سامنے والی اندھیری گلی ٹھیک ہے۔ میں وہاں گھوم کر جاتا ہوں۔ اوروں کو میری خبر نہیں ہے، لیکن وہ سب جانتی ہے۔ کتنی نفرت سے خونی اور قاتل کہا۔ مجھ سے ڈر گئی۔ ہا ہا ہا! ۔۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ اسے میرا شکریہ ادا کرنا چاہئے، نہیں تو ایسے چکر میں آ گئی تھی، کہ پوری زندگی پستی رہتی۔ پتہ نہیں کیوں اس کو قتل کرنا میرے دل نے نہیں مانا، اچھا ہوا، بچ گئی۔
میں نے اسے کتنا چاہا تھا، لیکن میری چاہت خونی تھی۔ میں نے شاید زندگی میں پہلی بار سچ کہا تھا۔ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ میں نے کچھ نہیں چھپایا، کتنے یقین سے اور کتنی امید سے۔ اس وقت میں نے چاہا کہ وہ پھر سے مجھے انسان بنائے، لیکن سچ کہنے کے باوجود، میں یہ اس سے اور اپنے آپ سے دھوکا کر رہا تھا۔ میں اسے کوئی خوشی نہیں دے پاتا۔ اس کی کوئی ضرورت، کوئی بھی خواہش پوری نہ کر پاتا۔ اسے میرے ساتھ قبرستان کی ویرانی میں رہنا پڑتا۔ وہ یہ سب سن کر ڈر گئی۔ ڈر کے مارے اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور زرد پڑ گئی اور رونے لگی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا کہہ کر چپ کراؤں۔ ایک قصوروار، جس نے اپنے سبھی قصور قبول کئے ہوں، اس لئے زیادہ کہا بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ جلدی ہی سمجھ گئی کہ یہ سب دھوکا ہے اور جال بچھا ہوا ہے۔ اس کے دل میں میرے لئے کتنی نفرت بھری ہوئی ہے۔ لیکن وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور کمسن ہے۔ اس کی آنکھوں میں سکون کی نیند ہے۔
میرے روئیں کھڑے ہو گئے ہیں۔ اس اندھیری اور ویران گلی میں مجھے کسی کی ہستی محسوس ہوتی ہے اور کسی کی آواز۔ ہوا بند ہے۔ گھٹن کے سبب سانس اکھڑ رہی ہے۔ میرے اندر نفرت اور غصے کی آگ جلنے لگتی ہے اور بلند ہو وہ آگ دماغ تک جا پہنچتی ہے۔ نسوں کے اندر خون زوروں سے دوڑ رہا ہے۔ میرے ہاتھوں کی انگلیاں کھنچ جاتی ہیں اور دانت ٹوٹ جاتے ہیں۔ ’’ذلیل! کمینہ!‘‘ اور پھر پل بھر میں وہ ہاتھ بجلی کی تیزی سے اس کی گردن کے چاروں جانب لپٹ جاتے ہیں۔ تیز سانسیں۔ ادھر ادھر تڑپنا۔ اور پھر حس و حرکت۔ میں دھیرے دھیرے چاروں اطراف گھور کر دیکھتا ہوں۔ دور دور تک ویرانی ہے۔ اس کی موت کی طرح۔ اس کی لاش کو اٹھا کر کندھے پر رکھتا ہوں اور اپنے قبرستان کی جانب تیز تیز چلتا ہوں۔ اسے قبرستان میں جا کر پھینکوں گا۔ اس میں کچھ بھی دقت نہیں ہے، پھر بھی میں بہت تھک گیا ہوں۔ دل زور زورسے دھک دھک کر رہا ہے۔ مجھے اپنے ماتھے پر پسینہ محسوس ہوتا ہے، لیکن ہاتھ لگا کر دیکھنے سے کیا فائدہ۔ ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ تیز کیسے چلوں؟ لیکن میں یہاں ایک پل بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ دماغ میں ابھی تک آگ لگی ہوئی ہے۔ عجیب بات ہے۔ یہ آگ قتل کرنے کے بعد بھی دھیمی نہیں ہوتی ہے، جب تک کہ میں اپنی قبر میں، کفن میں منہ چھپا کر نہ سو جاؤں۔ لعنت ہے، ٹانگوں میں کوئی طاقت ہی نہیں ہے؟ آخر کیا فائدہ، جہنم میں جائے۔ بدن میں طاقت ہی نہیں ہے۔ کندھے تو پہلے سے ہی جھکے ہوئے ہیں، یہ کھوکھلا بدن، قدم قدم پر گرنا اور ہر وقت گرنے کا ڈر۔ خوف کی بھی کوئی حد ہے۔ پھر یہ لاچار پیر۔ کوئی چھپا ہوا کیڑا میرے تمام بدن کو کھا چکا ہے اور سڑے ہوئے خون میں پتہ نہیں کیا کیا ملا ہوا ہے۔
اگر بلڈ بینک میں جا کر ڈاکٹر کو کہوں، ’’میں اپنا خون عطیہ کرنے آیا ہوں۔‘‘ وہ ٹیسٹ کے لئے میری نس سے سوئی کی مدد سے خون نکالنے کی کوشش کرے، تو میں بیہوش ہو کر گر پڑوں گا۔ بدن میں لہو کی ایک بوند بھی نہیں ہے، جو نکلے۔
دل ہی دل میں قہقہے لگاتا ہوں، مجھے دل میں قہقہے لگانا اچھا لگتا ہے۔ قہقہہ باہر نکلتا ہے تو کھوکھلا بدن بجنے لگتا ہے اور میں اپنے آپ کو کتنا عجیب لگتا ہوں۔ میں واقعی عجیب ہوں؟ بکواس ہے! کئی پہچان والے لوگ ایسا ہی کہتے ہیں۔ وہ بھی ایسا ہی کہتی تھی۔ یہ اوپری لوگ ہر وقت خود کو نارمل رکھنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ بیوقوفوں کو کیا پتہ کہ ہر شخص عجیب ہوتا ہے۔ مجھے ہر شخص ایسا ہی ملا ہے، جس پر دل ہنسنے کو کہتا ہے۔ مجھ میں اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ میں اوروں کے مقابلے میں خود پر ہنستا ہوں۔
ہوا بند ہے۔ گرمی بھی بہت ہے۔ میری تنگ قبر میں تو الٹا جہنم ہو گا۔ گرمی اور گھٹن سے سانس اٹکنے لگتی ہے۔ بدن کے انگ انگ سے پسینہ، گرم پانی کے تالاب کے فوارے کی طرح نکلتا ہی رہتا ہے۔ میں کب قبرستان پہنچوں گا؟ اس لاش کو تو ٹھکانے لگاؤں۔ یہ لاش اٹھا اٹھا کر میرے تو کندھے دکھ رہے ہیں، لیکن رہ بھی تو نہیں سکتا۔ وقت آتا ہے تو خود پر بس ہی نہیں چلتا۔ مجھے اس سے نفرت ہے! ان سب سے نفرت ہے۔ لیکن شاید مجھ میں وہ طاقت نہیں ہے جو اوروں کی طرح خود کو نارمل کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو جاؤں۔ شاید سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ آخر میں کس قصور کی سزا کاٹ رہا ہوں؟ یہ سب میں نہیں سہہ سکتا۔ انسان یا تو انسان ہو یا کولہو کا بیل، انسان کے ساتھ کولہو کے بیل جیسی حالت۔
میری سانس اٹک رہی ہے۔ میرا دل کر رہا ہے کہ اس دیوار پہ جا کر سر پٹکوں۔ میں چل رہا ہوں، یا وہیں کا وہیں کھڑا ہوں؟ لوگ تو فقط گھوم رہے ہیں اور دھکے کھا رہے ہیں۔ اس شہر میں دل بہلانے کے لئے کافی سامان ہیں۔ خود کو دھوکا دینے میں لوگوں نے پوری محنت کی ہے، شو کیس بھی سو فیصدی دھوکا ہیں۔ اندر رکھا گیا سامان نظر کا دھوکا ہے۔ میں نے انگلیوں سے ان چیزوں کو محسوس کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن انگلیاں بس سخت اور مضبوط شیشے کو محسوس کرتی ہیں۔ اس عجیب دھرتی کی ہر چیز عجیب ہے۔ دماغ سوچ سوچ کر تھک جائے گا، لیکن اسے کوئی بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ یہ جانتے ہوئے بھی دماغ سوچتا ہی جائے گا اور انسان پاگلوں کی طرح منہ کھول کر دماغ کی بکواس سنتا رہتا ہے، کیا پاگل پن ہے! ۔۔ بس، اب بہت ہوا، دماغ ہے یا مشین! نیند میں بھی جان نہیں چھوڑتا۔ اور خواب کیسے ہیں؟ سوچ کی پرچھائیاں ہی تو ہیں۔
چاروں جانب دھند چھائی ہوئی ہے۔ چاروں اطراف کافی دھواں ہے۔ دل گھبرا رہا ہے۔ یہ گلی کافی ویران ہے۔ ان میں سے آوارہ کتے نکلتے ہوں گے یا بھٹکتی روحیں یا پھر میرے جیسے خونی!
خونی، قاتل!
اوہ، یہ آواز کہاں سے آئی؟ میں ڈر گیا ہوں۔ میرے بدن کو لقوہ مار گیا ہے، کوئی نہیں۔ اس کے آواز کی بازگشت ہے شاید، جو ابھی تک میرے دماغ میں گھوم رہی ہے۔ مجھے اس کے ان لفظوں پر غصہ نہیں، کوئی دکھ نہیں۔ میں خود مانتا ہوں کہ میں خونی اور قاتل ہوں۔ اس کا فقط اتنا قصور ہے کہ اس نے یہ سچ میرے منہ پر کہہ دیا۔ اس سے پہلے شاید میں یہ سچ سہہ نہیں پاتا، لیکن اب اتنا تو کمزور اور لاچار ہو گیا ہوں کہ سچ کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ صرف مضبوط اور طاقتور انسان ہی اپنی بھرپور قوت سے سچ کو خارج کر سکتا ہے، پیروں کے نیچے مسل سکتا ہے، لیکن مجھے تو خود سچ مسل رہا ہے۔ مجھ میں سچ کو خارج کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے۔ مانتا ہوں کہ میں نے اب بھی ایک قتل کیا ہے اور لاش کو اپنے جھکے کندھوں پر لے کر، چھپتا چھپاتا جا رہا ہوں۔ سسیفس کی طرح، جسے پہاڑ ڈھونے کی بد دعا ملی تھی۔ مجھے شاید میرے نا کردہ اور نا معلوم قصوروں کے بدلے زندہ رہنے کی سزا دی گئی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟
میں چل چل کر تھک گیا ہوں۔ چل بھی رہا ہوں یا ایک ہی جگہ دھکے کھا رہا ہوں؟ راستہ کتنا لمبا ہے۔ میں دوڑنا چاہتا ہوں لیکن پیر آگے ہی نہیں بڑھ رہے، دوڑ بھی نہیں سکتا، خود پر اتنا بھی قابو نہیں ہے مجھ میں۔ یہ میں کہاں آ گیا ہوں؟ یہاں تو فقط گھپ اندھیرا ہے۔ یہ اندھیرا میرے تمام حواسوں پر چھاتا جا رہا ہے۔ یہ اندھیرا باہر ہے یا میرے پورے وجود میں ہے؟ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں، فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ یہ پتلی اندھیری گلی آخر کہاں جا کر ختم ہو گی؟ کہیں مجھ سے راہ چھوٹ تو نہیں گئی ہے؟ ایسا ہی ہے۔ چلتے چلتے جیسے پوری زندگی گزر گئی ہے، لیکن راستہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔ اب تو میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، یہ سرنگ جیسی گلی کہیں پر پوری بھی ہو گی یا نہیں؟ کیا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے؟ کوئی جواب نہیں۔ دل ساکت پڑ چکا ہے، میں خود کو گھسیٹتا ہوا، چلتا ہی رہوں گا۔ لیکن آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ اوہ، ہے میرے خدا، آخر منزل کہاں پر ہے؟
٭٭٭
کبھی نہ ختم ہونے والا اختتام
اور اس کے بعد تم نے کہا، لیکن خاموشی اتنی گہری تھی، اتنی گہری کہ سمندر کی گہرائیوں سے بھی زیادہ گہری، جس کا کوئی اختتام نہیں تھا، یہاں تک کہ سوئی کے گرنے سے بھی دھماکہ ہوتا۔ تبھی تم نے کہا، لیکن آواز گہرائی میں کھو گئی اور اس کے بعد کوئی سر تال نہیں ہو گا، سر کی مٹھاس نہیں ہو گی۔ ہوا کا اور پیڑوں کا اور سردی کے سوکھے پتوں کا ہو گا، سنسان سنگیت اور وعدے تھے بس، لفظوں کا کوئی مطلب نہیں ہے، مطلب ہے خاموشی کا اور وہاں پر کوئی کسی کا نہیں ہو گا۔ اکیلا پن ہمیشہ سے ہے اور ہر جگہ ہے، لیکن تم نے کہا تھا کہ راستہ ایک ہی ہے۔ پھر بھی قدم الگ تھے، قدموں کے نشان بھی الگ تھے، ہر کوئی الگ ہے اور جدا ہے۔
ہم ساتھ مل کر چلے تھے، کچھ وقت کے لئے دونوں کے قدم ایک تھے، تب ہم نے سمجھا تھا، غلط ہی سمجھا تھا کہ اسی راستے پر چلتے رہیں گے ہمیشہ کے لئے۔
تم مجھے بھلا تو نہیں دو گے۔
نہیں میں تمہیں بھول نہیں سکوں گا، کیوں، بھولنا میرے بس میں نہیں ہو گا اور تم سے میں بدلے میں یہ نہیں پوچھ رہا کہ تم مجھے بھولو گی تو نہیں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بھولنا تمہارے بس میں بھی نہیں ہو گا۔
میں نے تو بات کرنے کے لئے گفتگو کی تھی، یہ تو مجھے بھی پتہ تھا کہ سبھی باتیں، بے مطلب کی باتیں ہیں جن کو کہنا بیکار ہے اور یہ باتیں کرنے سے الٹا تکلیف ہوتی ہے، لیکن چپ رہنے سے دل بے چین ہو جاتا ہے۔
جب بھی ہم ساتھ ہوتے ہیں تو ہمارا دل بے چین رہتا ہے اور نس نس میں اذیت بھر جاتی ہے۔
یہی ہمارے پیار کا نصیب ہے، درد، درد، درد، درد۔
تم نے یہ لفظ ایک ہی بار کہا ہو گا، لیکن یہ درد میرے دل میں ہمیشہ جلتا رہتا ہے، جیسے کہ پورے وجود میں ہی گھنٹہ بج رہا ہے اور دھیرے دھیرے میں ٹوٹ کر ڈھتا جا رہا ہوں، کسی پرانی دیوار کی طرح جس کی چھت کب کی مخدوش ہو گئی ہو اور آس پاس کی دیواریں بھی گر چکی ہوں، فقط یہ اکیلی دیوار کہیں جا کر بچی ہے اور اس کی اینٹیں بھی دھیرے دھیرے بکھر رہی ہوں۔
جو لوگ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے اور اور جو لوگ ایک دوسرے کو نہیں چاہتے ہیں یا کبھی انہوں نے آپس میں پیار کیا بھی نہیں ہو گا تو بھی وہ ایک ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد ساتھ ہوتے ہوئے بھی، الگ الگ ہوتے ہیں۔
جو ایک دوجے کو چاہتے ہیں، وہ نہیں مل پاتے اور ملتے وہ ہیں، جنہوں نے ایک دوجے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ یہ سبھی باتیں ہیں مجبوری کی، کیونکہ فقط پیار کرنا ہی سب کچھ نہیں ہے، اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہے۔
اور یہ ’’اور بھی بہت کچھ‘‘ میرے پاس کبھی نہیں تھا، میرے پاس تھی توبس ایک خشک زندگی۔ یاد ہے تمہیں میں نے کہا تھا، میرے پاس تمہارے لئے بس یہ دو خالی ہاتھ ہیں، لیکن یہ بیکار ہاتھ ہیں، ہاتھوں کی سبھی لکیریں مٹی ہوئی ہیں۔ میرے پاس اور کچھ نہیں ہو گا، نہ ہی تاروں کی سیج ہو گی، نہ آنگن کے اوپر چاند ہو گا، جو ہو گا وہ فقط ایک اندھیرا غار ہو گا، جہاں سے نہ تم مجھے دیکھ پاؤ گی اور نہ ہی میں تمہیں دیکھ پاؤں گا، تم خود کو بھی ڈھونڈ نہیں پاؤ گی۔ مکڑی کے جالے میں قید، اندھیرے میں لٹک کر، ایک دوسرے کو تو کیا، خود کو بھی نہیں پہچان پائیں گے۔ تم کوئی سونے کی سیج ڈھونڈو، جہاں لان کے اوپر چاند ہو۔
اور اس کے بعد تم نے کہا تھا، لیکن جدائی نگل گئی، سب باتوں کو جو کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں تھیں، نہ ہی تھکنے والی تھیں، لامحدود۔۔ لیکن ہم جانتے تھے کہ بے مطلب باتیں تھیں اور بیکار باتیں تھیں، یا شاید بکواس تھیں۔
تم اتنا اداس کیوں رہتے ہو۔
اداسی میرے وجود میں ہے شروع سے، نسوں میں بہتے لہو کی طرح ہر وقت دوڑتی اور اس اداسی کے پاتال کا کوئی پتہ نہیں، الٹے رہ رہ کر بیقرار دل، اس میں سے ڈوبتا اور ابھرتا رہتا ہے۔
کہیں اس کا سبب میں تو نہیں۔
سبب میرے وجود میں ہے تم میں نہیں ہے، تم نے فقط اسے کھولا اور ظاہر کیا ہے۔
اور اس کے بعد تم نے کہا تھا، لیکن وہ راہیں تھیں، راہ قدم بناتی ہیں اور قدم الگ تھے، تم نے کہا، لیکن راہیں اکیلی ہیں، راہیں راہوں سے ملتی ہیں، ساتھ چلتی ہیں، ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں اور ہر راہ الگ ہے اور اکیلی ہے۔ راہوں کا کوئی اختتام نہیں ہے، صرف ایک گہری خاموشی اور پھر اس کے بعد کوئی سر ہو گا، سروں کی مٹھاس ہو گی، ہوا کا اور پیڑوں کا اور سردی کے سوکھے پتوں کا ہو گا، سنسان سنگیت۔۔ ۔
٭٭٭
ٹوٹتی دیواریں
دیواریں ڈھے رہی تھیں!
اپنے قیمتی کپڑوں کو سنبھالتے قریب آئی، تبھی انگلی اس کے ہونٹوں پر آئی۔
’’یہ تو ڈھے رہی ہیں۔‘‘
دیواریں چپ تھیں۔ دیواروں کی زبان کہاں ہے!
’’اچھا ہوا میں اس گھر میں نہیں آیا۔‘‘
ہاں
دیواریں
ڈھے
رہی
ہیں۔
دیواریں
ڈھے
رہی
ہیں۔
اس نے حیران ہو کر دیکھا۔ دیواروں نے بات نہیں کی تھی، بس ہوا کی سرسراہٹ تھی۔ دیواروں کی زبان کہاں ہے!
اینٹوں نے بکھرنا شروع کر دیا تھا۔ دروازہ، دیواروں میں سے اکھڑا ہوا تھا۔
’’اندر کوئی رہتا ہے کیا؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
کہیں سے بازگشت کی آواز کانوں تک پہنچی۔ یا ہوا کی سرسراہٹ تھی!
’’اندر فقط چمگادڑ ہوں گے، یا انسان ہوں گے؟ کوئی تو ہو گا۔ کوئی تو ہو گا۔‘‘ کوئی نہیں تھا، فقط ہوا کی سرسراہٹ تھی۔
’’اندر جا کر دیکھنا چاہئے، شاید کوئی ہو۔ آخر کیا ضرورت ہے؟ میں بس دیکھنا چاہتا تھا۔ ایسے ہی تجسّس میں پتہ کرنا چاہتا تھا۔ سالوں کے بعد کوئی یاد آتا ہے تو دیکھنے کو دل کرتا ہے، اس میں کیا ہے۔‘‘
ہاں
اس میں
ہے
ہی
کیا۔
اس میں
ہے
ہی
کیا۔
ایک ٹکڑا گر گیا اور دیوار ننگی ہو گئی۔ ’’یہ تو خطرناک ہے، کسی بھی وقت دیواریں ڈھے کر زمین پر گر پڑیں گی۔ اچھا ہوا میں اس میں نہیں رہا۔ ہے خدا، دیواریں ڈھے رہی ہیں! اندر کوئی رہتا ہے کیا؟ کپڑے خراب ہو جائیں گے اور دیواریں ڈھے رہی ہیں۔ نزدیک جانا ٹھیک نہیں۔‘‘
ہاں
نزدیک
جانا
ٹھیک
نہیں۔
آنا
ٹھیک
نہیں۔
’’کون بولا؟ دیواریں بولیں! لیکن دیواروں کی زبان کہاں۔‘‘
کنڈی بھی نہیں تھی، جس سے کھڑکاؤں۔ دروازہ دیوار سے اکھڑا ہوا تھا۔ گھر کی دہلیز بوڑھے کے منہ مانند تھی۔ اسے ہنسی آئی۔ دو تین اینٹیں کھسک کر گر گئیں۔
’’اندر بھوت ہوں گے، یہاں پر کوئی شخص کیسے رہ سکتا ہے۔ کنڈی بھی نہیں ہے۔‘‘
اس نے ایک پتھر اٹھا کر اندر پھینکا۔ اینٹوں کے گرنے کی آوازیں آئیں اور ہوا اوپر سے چلاتی چلی گئی۔ اس نے قیمتی کپڑوں کو سنبھالا۔
اینٹوں کا گرنا بند نہیں ہوا۔ ٹوٹنے کی آواز واضح تھی۔ اچانک اندر سے کوئی نکلا۔ آدمی تھا یا بھوت تھا۔ یا بھوتوں مانند آدمی تھا۔
کون ہے! کون ہے؟
بھوت کی، ڈوبتے دل جیسی چیخ۔ ڈرا ہوا بھوت! وہ ڈر گئی اور پیر پیچھے لوٹنے لگے۔ (پیر کافی پہلے، پیچھے ہٹ چکے تھے۔ )
’’میں آیا کیوں! میں تو فقط دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن آنا نہیں چاہئے تھا۔ اب کیا فائدہ؟‘‘
اب
کیا
فائدہ
اب۔
بھوت بڑھتا چلا آیا۔
یہاں پر کسی کا کیا کام ہے؟ یہاں تو کھنڈروں کی عزت بھی نہیں۔ یہاں پر کسی کا کیا کام ہے!
بھوت بڑھتا آیا۔
ڈرا ہوا دل پھڑپھڑایا۔
’’بھوت! ۔۔‘‘
اس نے بھاگنا چاہا۔ اس نے بھاگنا شروع کیا۔ ’’کس بھوت نے کاٹا تھا جو۔۔ ۔۔‘‘
وہ بھاگتی گئی، لوگوں کی بستی میں، حفاطت کے لئے۔ ہوا اوپر سے چلاتی چلی گئی۔ وہ دور نکل آئی، لیکن ٹوٹنے کی آواز ابھی تک سن رہی تھی اور دیواریں ڈھے رہی تھیں۔
٭٭٭
ہارے ہوئے شخص کی ڈائری
(یہ ڈائری مجھے ایک پارک میں پڑی ملی۔ ڈائری کافی پرانی تھی اور اس کے کافی صفحات پھٹے ہوئے تھے۔ ڈائری کے اوپر لکھا تھا کہ ’’میں تجھے ہار کر سب کچھ ہار گیا۔‘‘ لیکن اس میں کوئی ترتیب نہیں تھی۔ کتنی ہی ایسی باتیں لکھی ہوئی تھیں، جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ کم سے کم وہ مجھے سمجھ میں نہیں آئیں، اس لئے میں نے وہ یہاں نہیں لکھی ہیں۔ ڈائری میں کوئی تاریخ، کوئی سال نہیں ظاہر کیا گیا ہے۔ )
………
سب کچھ ایسے ہی شروع ہوتا ہے اور ایسے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ میں نے جینا مرنا نہیں دیکھا ہے۔ (یہ بات ایسی ہے کہ میں ہر گزرے پل کے ساتھ مر رہا ہوں )، لیکن شروعات کو ختم ہوتے دیکھا ہے اور ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ اگر کوئی غیر جذباتی فارمولا ہے تو یہ ہے۔ باقی سبھی فارمولے مصنوعی ہیں۔ انسان جسے اپنی زندگی سمجھ کر پیار کرے اور وہ زندگی ایک دن، اس سے اجنبیوں کی طرح ملے! اس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں ہو سکتی۔ جب سے وہ اجنبی بن گئی، تب سے میں خود سے اجنبی بن گیا ہوں۔ مجھ میں وہ کچھ رہا ہی نہیں ہے، جو کسی کو پیار دے سکوں۔ کچھ وقت پہلے ہی مجھے پتہ چلا کہ تم بہت روئی ہو۔ (میرے لئے! ) روئی وہ بھی تھی، لیکن اس نے روکر مجھے رلایا تھا۔ تم نے روکر مجھے دکھی کیا ہے (تمہارے لئے )۔ کاش میں تمہیں بتا پاتا۔ میں ایک ہارا ہوا شخص ہوں۔ لیکن سبھی باتیں بتائی نہیں جا سکتیں۔ اب میرے دل پر عجیب احساست چھائے ہوئے ہیں۔ احساس دکھ کے، پچھتاوے کے اور رہ رہ کر برف کی طرح جم جانے جیسی۔ میں تم سے نہیں ملنا چاہتا۔ میں نے جانا ہے کہ یہی بات ہے، جو مجھے تم سے ملنے سے روک رہی ہے۔ دوسری عجیب بات جو لہر کی طرح رہ رہ کر باقی احساسات پر چھانے لگتی ہے، وہ یہ ہے کہ تم نے مجھ سے پیار کر کے، مجھے اپنے ہی نظروں سے گرا دیا ہے۔ بدلے میں، میں تمہیں پیار نہیں کر سکتا، میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا اور اس لئے میں خود کو کٹھور سمجھ رہا ہوں۔ آج تو میں تھکا ہوا تھا۔ نیند آنکھوں میں اور دماغ میں زبردستی گھس رہی تھی۔ لیکن تمہاری بات سن کر وہ بھی لوٹ گئی۔ پتہ نہیں تم مجھے کیا سمجھتی ہو گی۔ چاہے اور کچھ بھی سمجھنا، لیکن یہ نہیں سمجھنا کہ میں پیار کرنے کے قابل ہوں۔ تمہارے دل کا بوجھ، آنسوؤں نے مٹا دیا ہو گا اور اب تمہیں میرے لئے خراب محسوس ہوتا ہو، بہت اچھا۔ شاید ایسا ہوا ہو۔ یہ سوچ کر میں خود کو آزاد محسوس کر رہا ہوں۔ لیکن شاید یہ بھی میرے خودغرض ہونے کا بڑا ثبوت ہے۔
………
کچھ لوگ خود ہی ٹریجڈی ہوتے ہیں۔
………
انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ آخر تک لڑتا رہے اور کبھی بھی ہار قبول نہیں کرے۔ لیکن کوئی کوئی ہار ایسی ہوتی ہے، جو پہلی ہی بار میں انسان کو توڑ پھوڑ دیتی ہے۔ جو شخص دل ہی دل میں میں ہار چکا ہو، وہ کسی بھی لڑائی میں کامیاب نہیں ہو گا۔
………
اڈوہی (لکڑی کو کھانے والا کیڑا) جیسے دکھ، چڑھ گئے چوٹی پر (شاہ)
………
تم اب کہاں ہو گی؟ کیا کر رہی ہو گی! خوش ہو گی یا اداس ہو گی! کبھی اچانک تمہیں یہ خیال بھی آتا ہو گا کہ کوئی تمہیں دل سے یاد کر رہا ہے۔ لیکن میری دعا ہے کہ تمہیں یہ خیال کبھی نہ آیا ہو۔ تم خوش رہو اور قہقہے لگاتی رہو۔ اپنے دل میں تمہیں قہقہے لگاتے دیکھ مجھے بہت سکون ملتا ہے۔
………
جب بھی میں تمہیں یاد آؤں گا تم یہی سوچتی ہو گی کہ یہ پاگل ابھی تک صرف خواب ہی دیکھتا ہو گا اور جب بھی تم مجھے یاد آؤ گی، رسوائیوں اور ناکامیوں کا بوجھ میرے لئے مزید بھاری ہو جائے گا۔
تم مجھے بھلا دینا۔ بالکل بھلا دینا۔ بھول کر بھی کبھی مجھے یاد نہ کرنا۔ تم مجھے یاد کرو گی تو اداس ہو جاؤ گی اور تمہارا چہرہ تو آئینہ ہے، جس میں تمہارا احساس اور جذبات صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ تم سے پوچھیں گے کہ تم اداس کیوں ہو اور اس اداسی کا سبب میں ہوں گا!
………
رات کو میں نے تمہیں خواب میں دیکھا۔ نیند میں بھی ڈر کا احساس تھا کہ تم مجھے پھر سے چھوڑ کر چلی جاؤ گی اور میں نے تمہیں کہا کہ ایک منٹ رکو۔ میں تمہیں اچھی طرح سے پرکھ کر دیکھنا چاہتا ہوں۔ تمہارے چہرے کو اپنے دل میں اتار دینا چاہتا ہوں۔ تم کہیں بھی رہو، لیکن ہمیشہ میرے دل میں ہی رہو گی۔
………
اگر میں تمہاری جھولی خوشیوں سے نہیں بھر سکتا، تو مجھے اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ تمہیں صرف دکھ دیتا رہوں۔
………
ریت کی طرح دوڑے من۔ (شاہ)
………
امید ایک لعنت بن گئی ہے میرے لئے۔
………
ساتھ ساتھ چلتے چلتے اچانک مجھ سے ہاتھ چھڑا کر پتہ نہیں کتنا آگے نکل گئی ہو۔ لیکن میں آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہوں، جہاں سے ہم بچھڑے تھے۔
………
کچھ لوگ اتنے بدنصیب کیوں ہوتے ہیں! کیا ان کے نصیب میں فقط بھٹکنا لکھا ہوتا ہے۔ ان کی کوئی منزل نہیں ہوتی ہے! آدمی جو کچھ سوچتا ہے، ہوتا اس کے بالکل متضاد ہے۔ میں نے جسے پوری عمر چاہا، وہ مجھے ملا بھی تو کس روپ میں! وہی نہ ختم ہونے والی بھاگ دوڑ۔ وہی بھٹکنا۔
………
میں جو بھی آئینہ دیکھتا ہوں اس میں مجھے تمہارا ہی چہرہ نظر آتا ہے۔ لیکن تم ہو کہاں؟
………
دل ہے یا بنجر کھیت! جس میں کوئی نہ کوئی خیال لاپرواہی سے، بنا روک ٹوک کے چلا آتا ہے۔
………
پیر پھٹ گئے ہیں۔ قدم قدم پر دل کی نسیں تن جاتی ہیں۔ پیر ہی فقط پتھر نہیں ہوئے ہیں، پورا وجود ہی پتھر بن گیا ہے۔ روح اس پتھر کے کولہو میں پس رہی ہے۔
………
میرے اندر بھی اتنا ہی اندھیرا ہے جتنا میرے کمرے میں۔
………
آج گھر جا کر کپڑے اتار کر کھاٹ پر پھینکے اور خود کو دیوار پر لگی کیل میں ٹانگ دیا۔
………
یہ کتنی لمبی گپھا ہے۔ اندھیرے میں ہاتھ لگا کر سرکتا جا رہا ہوں۔ میری سانس اٹک رہی ہے۔ بہت تھکا ہوا ہوں۔ بدن ٹوٹ رہا ہے۔ پور پور الگ ہو گیا ہے۔
٭٭٭
چاندنی اور آگ
ریلوے پلیٹ فارم پر ویرانی ہے۔ چند مسافر پلیٹ فارم پر پڑی بینچوں پر ٹانگیں پھیلا کر لیٹے ہوئے ہیں۔ قلی نیچے فرش پر بیٹھ کر، بیڑیوں کے کش لگا کر آسمان کو تک رہے ہیں۔ ایک خوانچے والے کے پاس بوڑھا بیمار کتا دم ہلا رہا ہے۔ خوانچے والا کتے کو دھتکار کر پھر سے اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ ٹی اسٹال پر کھڑا شخص کاؤنٹر پر کہنی ٹکا کر، کندھا جھکا کر نیم وا آنکھوں سے جمائیوں پر جمائیاں لے رہا ہے۔ ایک دو مسافر آتے ہیں، پلیٹ فارم پر لگی بڑی گھڑی کی طرف دیکھ کر، چپ چاپ کسی خالی پڑی بینچ پر کندھے جھکا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ میری نگاہیں بھی گھڑی کی سمت اٹھ جاتی ہیں۔ رات کے بارہ بجنے والے ہیں۔ میں پلیٹ فارم پر بے مقصد چکر لگا رہا ہوں۔ ماحول کتنا ویران اور سنسان ہے۔ آدھی رات ہو چکی ہے اور جیسے جیسے رات گہری ہوتی رہی ہے، ویسے ہی ویرانی اور اکیلے پن کا احساس دل پر چھاتا جا رہا ہے۔ اوپر آسمان میں چاند چمک رہا ہے اور نیچے زمین پر بلبوں کی تیز روشنی۔ تب بھی میرے دل میں اتنا اندھیرا کیوں ہے؟ ۔۔ ۔ میں خود کو ایسے سوال سے بچانے کے لئے ایک بینچ پر بیٹھے دو مسافروں کے ساتھ جا بیٹھتا ہوں۔ وہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئے ہیں۔ میں بھی گھٹن محسوس کر رہا ہوں۔ دو لوگوں کی گفتگو میں اڑنگا ڈالنا، کتنی بری بات ہے نہ! لیکن میں کیا کروں۔ تنہائی سے ڈرتا ہوں، اوپر سے لوگوں کے درمیان بیٹھتا ہوں تو پریشان لگتا ہوں۔ اکیلے پن کا احساس یہاں بھی ختم نہیں ہوتا۔ کیا کروں۔۔ سبھی چپ ہیں۔ دل چاہتا ہے چلا جاؤں، لیکن چاہ کر بھی اٹھ نہیں سکتا۔
ایک شخص خاموشی کو توڑنے کے خیال کے تحت، مجھ سے پوچھتا ہے۔
’’صاحب، یہ مسافر گاڑی آئے گی نہ!‘‘
میں جواب دیتا ہوں، ’’ہاں، پیسنجر گاڑی تو آئے گی۔‘‘
دوسرا کہتا ہے، ’’دور سے آتی ہے، اس لئے مسافر ٹانگیں پسار کر سوئے رہتے ہیں، سیٹ مشکل سے ملے گی!‘‘
’’اب کیسے بھی کر کے سفر کرنا ہے۔‘‘ جواب پہلے والے شخص نے دیا۔
پھر سے خاموشی چھا گئی۔ میں سوچ رہا تھا مجھے کہاں پہنچنا ہے۔ میری منزل کہاں ہے۔ ہم سب کی منزل کہاں ہے۔ ہماری زندگی ٹرین کی طرح پتہ نہیں ہمیں کہاں لے جا رہی ہے؟ آخری اسٹیشن پر موت کا بورڈ لگا ہوا ہے، جو دھند کی وجہ سے پڑھنے میں نہیں آ رہا۔ لیکن یہ سب سوچنے سے کیا فائدہ؟ لوگ تو خود کو سنہرے دھوکے دے کر ایسے جذبات کو دبا دیتے ہیں۔ ویسے زندگی بسر کرنے کا یہی ایک اچھا طریقہ ہے، ورنہ کوئی بھی شخص اس دنیا میں موت کے ڈر کی وجہ سے جی نہیں پائے گا۔
(لوگ خود کو بیوقوف بنا کر، پتہ نہیں کیا کیا کر دیتے ہیں! )
میں بھی خود کو کوئی نہ کوئی دھوکا دے کر اپنے حصے کی زندگی جینا چاہتا ہوں۔ لیکن خود کو کون سا دھوکا دوں! معاشرے کو سدھارنے کا ٹھیکہ لوں۔ زندگی عیش و آرام سے گزارنے کے لئے نوٹ کمانے کے طریقے ڈھونڈو۔ نہیں، میں ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک صاف ستھرے گھر میں، کسی کی حسین بانہوں میں، زلفوں کی چھاؤں کے نیچے۔۔ ۔ ہوں، شاعرانہ باتیں، سب بکواس۔
’’آج گاڑی لیٹ لگ رہی ہے۔‘‘ پاس بیٹھا شخص کچھ کہہ رہا ہے۔
’’ہاں، گاڑی لیٹ ہے۔‘‘ ایسا کہہ کر میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور پھر دھیرے دھیرے چلنے لگتا ہوں۔
میں پوری عمر کسی بڑے گھنے جنگل میں چلتا رہا ہوں۔ جنگل کے لا تعداد درخت تیز ہوا میں سرسراہٹ کر کے، پتہ نہیں کیا کہہ رہے ہیں۔ میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے، ان کے قریب سے چلا جا رہا ہوں، میرے چاروں جانب اکیلا پن اور ویرانی ہے۔ ہزاروں تمناؤں کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے کر چلتے چلتے تھک گیا ہوں۔ رہ رہ کر کوئی دبی ہوئی خواہش، اچانک ابھر کر سسکتی ہے تو جنگل کی ویرانی میں، میں اچھل پڑتا ہوں، دل ڈر جاتا ہے۔ امیدوں کی بستی ابھی مزید کتنی دور ہے؟
دوسرے پلیٹ فارم پر گاڑی آ رہی ہے۔ خوابیدہ پلیٹ فارم انگڑائی لے کر جاگ گیا ہے۔ مسافروں، قلیوں اور خوانچے والوں کی چہل پہل شروع ہو گئی ہے۔ میں بھی اس طرف چلا۔ گاڑی پلیٹ فارم پر آ کر کھڑی ہے۔ میرے بالکل سامنے والے کمپارٹمنٹ کی کھڑکی سے ایک بوڑھی عورت، ویران اور خالی نظروں سے باہر گھور رہی تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ شاید نیند میں سے اٹھی ہے، لیکن پھر بھی اس کی شکل پر کتنی عجیب ویرانی کے جذبات چھائے ہوئے ہیں۔ مجھے وہ کسی کھنڈر کے مانند لگی لیکن۔۔ ۔ یہ کھنڈر میرے ہی آگے آنے والا تھا۔ گھبرا کر منہ موڑ لیتا ہوں۔
میری گاڑی بھی آ گئی ہے۔ میں جلدی جلدی پلیٹ فارم کی طرف جاتا ہوں۔ گاڑی میں زیادہ بھیڑ نہیں ہے، لیکن سبھی سیٹیں بھری ہوئی ہیں۔ لوگ سیٹوں پر سوئے ہوئے ہیں، بیٹھنے کی بھی کوئی جگہ نہیں تھی۔ میں آگے بڑھتا گیا۔ انجن کے قریب پہنچا۔ انجن سے لگے کمپارٹمنٹ میں صرف ایک بوڑھی اور ایک لڑکا سوئے ہوئے تھے۔ پہلے کے دو مسافر بھی ادھر ہی چلے آ رہے ہیں۔ قریب آ کر، ایک کہتا ہے، ’’چڑھ جاؤ، چڑھ جاؤ، پورا ڈبہ خالی پڑا ہے۔‘‘ میں بھی اوروں کے ساتھ چڑھ کر ایک خالی سیٹ پر جا بیٹھتا ہوں۔
دوسرا مسافر سیٹ پر بیٹھتے کہتا ہے، ’’اسکے بعد اگر عورتیں آئیں تو اتر جائیں گے۔‘‘
’’ہمارے بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ بنا داڑھی کے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں، اس لئے ہم بھی عورتوں کے ساتھ بیٹھے تو کون سا گناہ ہوا۔‘‘ اس کا ساتھی اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
میں اس شخص سے پوچھتا ہوں، ’’کیوں، یہ زنانہ ڈبہ ہے کیا؟‘‘
’’آپ نے باہر لکھا نہیں دیکھا کیا؟ آئیے، دیکھئے۔‘‘ وہ مجھے باہر لے گیا اور میرے ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’خیر، کوئی بات نہیں، آدم کو بھی تو حوا کے سبب جنت سے نکلنا پڑا۔ ہم بھی اتر جائیں گے۔‘‘ ہم تینوں ہنسنے لگے۔
کالے برقعے میں ایک نوجوان عورت، ایک درمیانی عمر کے مرد کے ساتھ کمپارٹمنٹ میں چڑھی۔ ہم تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ عورت اور مرد چپ چاپ خالی سیٹ پر جا کر بیٹھتے ہیں۔
میرے ساتھ بیٹھا ایک مسافر بلاوجہ اس درمیانی عمر والے مرد کو کہتا ہے، ’’اصل میں یہ لیڈیز کمپارٹمنٹ ہے، لیکن اگر آپ کو کوئی اعتراض ہو تو ہم اتر جائیں؟‘‘
’’نہیں نہیں، آپ بیٹھ سکتے ہیں۔ سفر کا وقت ہے، گزر جائے گا۔‘‘ دھیرے دھیرے ادھر ادھر کی بیکار باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ نیچے سیٹ پر سوئی بوڑھی عورت شور ہونے پر جاگ کر آنکھیں پھاڑ کر ہمیں دیکھ رہی تھی، پھر منہ پھلا کر سو جاتی ہے۔
گاڑی چلنے لگی اور تھوڑی دیر بعد کھڑکی کی ہوا سے باریک نقاب اوپر اٹھ جاتا ہے۔ میرا پورا وجود ہی ڈر گیا، نگاہیں ڈر گئیں، ڈر کر ہٹ گئیں۔ ایسا لگا جیسے ہوا کا ٹھنڈا جھونکا روح کو چھوکر گزر گیا۔ وہ اپنے ساتھ بیٹھے مرد سے دھیرے دھیرے باتیں کر رہی ہے۔ اس کی آواز چھوٹے معصوم بچے مانند لگ رہی ہے۔
میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ باہر دھندلی چاندنی پھیلی ہے۔ آسمان میں بادل دوڑ رہے ہیں، چاند پورا نکلا ہوا ہے، لیکن جب کوئی بادل چاند کو ڈھک دیتا ہے تو چاندنی دھندلی ہو جاتی ہے۔ ابھی بھی ایک بڑے بادل نے چاند کو ڈھک دیا ہے۔ گاڑی جیسے کسی چیز سے ڈر کر شور کرتی ہوئی پہاڑوں کے درمیان سے سرپٹ دوڑتی جا رہی ہے۔ دھندلی دھندلی چاندنی میں یہ پہاڑ کتنے بھیانک دکھائی دے رہے ہیں! چاروں جانب خوفناک ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ کہیں میری بھٹکتی روح بھی ان خوفناک ویرانیوں میں غائب نہ ہو جائے۔ ڈر کر میں چہرہ اندر کر لیتا ہوں۔ نگاہیں اس کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور ایک دم ڈر کر ہٹ جاتی ہیں۔ جیسے چوری کرتے پکڑ لی گئی ہوں۔ میں کتاب لے کر پڑھنے لگتا ہوں، خالی خالی حروف ہیں، کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی، دل میں کچھ عجیب تصویریں دوڑ رہی ہیں۔ ڈبہ کسی جھولے کی طرح جھول رہا ہے لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ میں ڈر ڈر کر اس کی جانب دیکھتا ہوں۔ وہ سیٹ پر بستر بچھا کر لیٹ گئی ہے۔ سبھی مسافر سو گئے ہیں، فقط میں ہی جاگ رہا ہوں۔ نیند مجھ سے روٹھ گئی ہے۔ میں اس کی طرف دیکھنے لگتا ہوں۔ سیٹ پر سیدھا لیٹنے کے سبب اور تیز تیز سانسیں لینے کی وجہ سے، اس کا سینہ عجیب ڈھنگ سے اوپر نیچے ہو رہا ہے۔ اسے غیروں کے بیچ اس طرح نہیں سونا چاہئے۔ میرے حلق میں جیسے کوئی کانٹا چبھ گیا ہے۔ جتنا اسے نگل کر نیچے اتارنے کی کوشش کر رہا ہوں، اتنا ہی اوپر چڑھتا آ رہا ہے۔ اس کی آنکھیں، دو بند کلیوں کی طرح لگ رہی ہیں۔ اس کے لال اور سوکھے ہونٹوں پر ایک انجان مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔
اگر اسے پتہ چل جائے کہ ایک پرایا مرد اسے اس طرح گھور رہا ہے، تو۔ نہیں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ کسی پرائی عورت کو اس طرح لگاتار دیکھتے رہنا، بری حرکت ہے۔ اب میں اس کی جانب نہیں دیکھوں گا۔ میں اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہوں، اس کے بعد بھی اس کا خیال دل سے نہیں نکل رہا۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ چاہے میں جتنی بھی کوشش کروں، لیکن اس کا خیال دل سے نہیں نکال سکتا۔ میرے ہونٹ شعلوں کی مانند جل رہے ہیں، شاید کسی انجان آگ میں جل رہے ہیں۔ میں آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھتا ہوں۔ اس کے ہونٹ بھی جیسے شعلوں کی طرح لگ رہے ہیں۔ یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ میں گھبرا کر آنکھیں بند کر دیتا ہوں۔ لیکن آگ بڑھتی جا رہی ہے، شعلے بن کر، پورے بدن میں زہر کی طرح پھیلتی، جلاتی، توڑتی۔ وہ معصوم اور خمار بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگتی ہے۔
’’میں نے اپنی پوری زندگی تڑپتے ہوئے گزاری ہے۔ پتہ نہیں کتنے وقت تک میرا بدن پیاس کی آگ میں جلتا رہا ہے۔ مجھ سے وعدہ کرو، مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گے؟‘‘
’’میں تمہاری ہوں! تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔‘‘ میں اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیتا ہوں، لیکن ہونٹوں کی پیاس بجھنے کے بجائے مزید بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
’’دیکھو، تمہارے اور میرے ہونٹوں کی آگ آپس میں مل کر شعلہ بن رہی ہے۔ ہم دونوں اس میں جل کر خاک ہو جائیں گے اور پھر امر ہو جائیں گے۔‘‘
اوہ یہ کیا ہوا۔ میرا کھڑکی پر رکھا چہرہ کھڑکی سے جا ٹکرایا ہے۔ ہونٹ کٹھور اور ٹھنڈی لکڑی سے جا لگے ہیں اور پھٹ گئے ہیں۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی ہے۔ شاید کوئی اسٹیشن ہے۔ میں آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھتا ہوں۔ سبھی مسافر سوئے ہوئے ہیں، فقط بوڑھی جاگ رہی ہے۔ اسٹیشن دیکھ کر وہ اپنے لڑکے کو اٹھاتی ہے، لڑکا اٹھتا ہے۔ وہ بھی آواز پر جاگ گئی ہے۔ بوڑھی کو دیکھ کر پھر میری طرف دیکھتی ہے۔ میں گھبرا کر منہ پھیر لیتا ہوں۔ شاید اس نے میرے دل کا چور پکڑ لیا ہے۔ میں اب اس کی طرف نہیں دیکھوں گا۔ لیکن میرے ہونٹ۔ وہ تو ابھی تک شعلوں کی طرح جل رہے ہیں۔
میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ چاند پر سے بادل ہٹ گئے ہیں اور چاروں جانب دودھ جیسی چاندنی پھیلی ہے۔ ایک چاند باہر چمک رہا ہے، ایک گاڑی کے اندر ہے۔ لیکن دونوں چاند میری پہنچ سے بہت پرے ہیں۔ میں وہ چکور ہوں جس کے پر کترے ہوئے ہیں۔ یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ چاند پر پہنچنا میرے لئے نا ممکن ہے، لیکن چاند کو دیکھنا بھی میرے لئے گناہ ہے! پتہ نہیں کیوں چاند کو دیکھ کر اکیلے پن کا احساس زہر کی مانند میری نس نس میں دوڑنے لگتا ہے۔ میری پوری زندگی دکھوں کے صحرا میں گزری ہے۔ قدم قدم پر دکھ! دل کے خانے سے جب بھی کوئی خواہش، کوئی تمنا ابھری ہے، تو میں نے اسے مروڑ کر اپنے سینے میں دفن کر دیا ہو گا۔ کبھی کبھی یہ دفن کی گئی تمنائیں خوفناک قہقہے لگا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور اپنے تیز ناخنوں سے دل کے زخموں پر چڑھے کھرنڈ کو کرید کر لہولہان کر کے، نئے زخم پیدا کر دیتی ہیں، میں ان کو زبردستی مروڑ کر پھر سے سینے میں دفن کر دیتا ہوں۔ لیکن ان کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے، شاید ایک دن ان بوجھوں کے نیچے میں خود بھی دب جاؤں۔
ڈبے کے باہر بھی روشنی ہے اور اندر بھی روشنی ہے، لیکن پھر بھی میرے دل میں اتنا اندھیرا کیوں ہے! چاند باہر ریت کے ٹیلوں کو چمکا رہا ہے، لیکن میرے دل کی ویرانیوں کو نہیں چمکا پا رہا۔ دل کی ویرانیاں تو ان ریت کے ٹیلوں سے بھی زیادہ بھیانک ہیں۔ اندھیری رات میں ریت کے ٹیلے کتنے ڈراؤنے لگتے ہیں، لیکن چاندنی میں یہ کیسے چمک رہے ہیں! میرے نصیب میں تو فقط اندھیری راتیں ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ رات کی خاموشی، گاڑی کے شور اور چیخوں میں میرا سوال دب جاتا ہے۔ گاڑی سرکتی، گرجتی، گہری گہری، تیز تیز سانسیں لیتی کہاں بھاگتی جا رہی ہے۔ اس کا شور میرے حواسوں پر چھاتا جا رہا ہے، چاروں جانب شور ہے، کوئی کسی کی نہیں سن رہا۔ میرا کوئی نہیں! کوئی بھی تو نہیں۔ میں گھبرا کر اس کی طرف دیکھتا ہوں۔
اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے، اس کے نیند بھرے نین بھی جیسے مسکرا رہے ہیں۔ وہ ہلکی سی جمائی لے کر کروٹ بدل رہی ہے۔ اب تو رات کا آخری پہر ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے، جیسے رات کے آخری پہر میں کوئی گلاب کھل گیا ہے۔ دل چاہتا ہے، یہ گلاب دیکھتا رہوں اور وقت کا احساس ختم ہو جائے، گاڑی چلتی ہی رہی۔ گلاب کی ہلکی ہلکی مہک مجھ تک پہنچ رہی ہے۔ اس کی خوشبو مجھے اس کی طرف کھینچ رہی ہے۔ لیکن پھول لا تعداد کانٹوں میں گتھا ہوا ہے۔ میرا ہاتھ بڑھے گا تو لہولہان ہو جائے گا، کانٹے اسے پھول تک پہنچنے نہیں دیں گے، چھونے بھی نہیں دیں گے۔
اور لوگ بھی جاگ گئے ہیں اور اب سامان باندھ رہے ہیں، شاید آنے والے اسٹیشن پر اتر جائیں گے۔ کیا وہ بھی اتر جائے گی! میں اپنے اس خیال پر پھیکی مسکراہٹ بکھیرتا ہوں۔ اس کا اور میرا آخر رشتہ ہی کیا ہے! کچھ نہیں۔ نہیں۔ جلد ہی سورج نکلے گا اور آج کی رات فقط ایک خواب کی حیثیت اختیار کرے گی۔ وہ اب تیار ہو گئی ہے۔ اس کی آنکھیں ابھی تک کچی نیند میں ہیں۔ رہ رہ کر میری طرف دیکھ رہی ہے۔ میری طرف کیوں دیکھ رہی ہے؟ کچھ دیر بعد وہ چلی جائے گی۔ بھلے چلی جائے، لیکن میری طرف کیوں دیکھ رہی ہے! اسے میری طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔
چاندنی دھندلا گئی ہے، دھندلی چاندنی سے ویرانی برس رہی ہے، ریت کے ٹیلے پرانے کھنڈر لگ رہے ہیں۔ دور شہر کی روشنی نظر آ رہی ہے۔ لاکھوں کروڑوں بلب، ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔ وہ بڑی سی جمائی لے کر میری طرف دیکھتی ہے۔ اسے کیا ہو گیا ہے، میری طرف کیوں دیکھ رہی ہے؟ شاید ایسے ہی بلاوجہ دیکھ رہی ہو گی۔ گاڑی شہر کے ایک لوکل اسٹیشن پر آ کر رکی ہے۔ وہ اتر رہے ہیں۔ مجھے دوسرے لوکل اسٹیشن پر اترنا ہے۔ ویسے بھی میں شاید ان کے ساتھ نہ اتروں۔ وہ پلیٹ فارم پر کھڑی ہے۔ اب شاید آخری بار میری طرف دیکھے گی، اس کے بعد چلی جائے گی اور سمندر جیسے پھیلے شہر میں پتہ نہیں کہاں غائب ہو جائے گی۔ وہ اب جا رہے ہیں، وہ آخری بار پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھے گی۔ لیکن آخر کیوں دیکھے میری طرف! نہیں اسے ایک بار تو میری طرف دیکھنا چاہئے۔ آخری بار۔ اوہ! بھیانک آواز کہاں سے آئی؟ شاید کوئی انجن آواز کر رہا ہے، میری گاڑی بھی ایک بھیانک چیخ مار کر چلنے لگی ہے۔ ابھی ہی اسٹیشن کو چھوڑ کر آئی ہے۔ چاروں جانب بلبوں کی تیز روشنی ہے، پھر بھی میرے دل میں سیاہ تاریکی کیوں ہے! اوپر آسمان میں چاند کتنا بیچارہ لگ رہا ہے۔ ہلکا ہلکا اور دھندلا دھندلا! میں کھڑکی سے منہ نکال کر، آنکھیں بند کر کے چاند کی طرف دیکھتا ہوں اور ایک اکیلے گرم آنسو کی بوند، ہوا میں پتہ نہیں کہاں اڑ جاتی ہے۔
٭٭٭
آدھا بُنا سویٹر
جی میں آ رہا ہے، باہر نکل کر، زور سے چلا کر کہوں، ’’بند کرو یہ شور، یہ بینڈ باجے! آخر ایسے کیسے مار رہے ہو کسی کو۔‘‘ لیکن میں باہر نکل کر ہنستے، قہقہے لگاتے چہروں کی تپش برداشت نہیں کر پاتا۔ ایک یا دو لوگ مرتے ہیں تو مریں، اتنے لوگوں کے قہقہوں کو نہیں چھینا جا سکتا۔ لیکن کیا، ایک دو لوگوں کو اس طرح بینڈ باجوں سے مارا جا سکتا ہے؟ یہ کہاں کی انسانیت ہے! انسان کہیں کے بھی ہوں، مزاجاً وحشی کیوں ہوتے ہیں؟ میں اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالوں یا روئی ڈال لوں، لیکن دھڑکتے دل کے درد کو کیا روک سکتا ہوں!
آج صبح نہ چاہتے ہوئے بھی آفس گیا۔ آفس کے قریب آ کر، پیر بھی دل کی طرح گھبرانے لگے۔ تب واپس لوٹ گیا۔ پورا وقت یہاں وہاں بھٹکتا رہا۔ گھر جانا نہیں چاہتا تھا۔ گھر سے دور رہنا چاہتا تھا۔
لیکن چاہے کہیں پر بھی رہوں، دل ایک گہرے درد میں ڈوبتا جا رہا تھا۔ گھر پر آیا تو دیکھا، ماں کسی سوچ میں بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھ کر، ایک پل کے لئے اس کی آنکھوں میں ممتا کی چمک آئی، اس کے بعد چہرہ گھما لیا۔ پگلی، مجھ سے آنسو چھپا رہی ہے! گھر میں فقط وہی تھی، جو میرے درد کو سمجھتی تھی۔ بچپن میں ماسٹر جی سے یا کبھی کسی بچے سے پٹ کر آتا تھا تو اس کی گود میں منہ چھپا کر روتا تھا۔ اب مجھے گود میں لٹا کر وہ خود روئی تھی۔ لیکن نہیں، شاید میری آنکھوں سے بھی کچھ آنسو گرے تھے۔ میں نے نچلے ہونٹ کو زور سے کاٹ کر، آنسوؤں کو روک دیا تھا۔
ماں شادی میں نہیں جانا چاہتی تھی، میں نے ہی اسے زبردستی بھیجا۔ شادی سے کچھ دن پہلے ’’وہ‘‘ ہمارے گھر آئی تھی۔ گھر پر میں تھا اور ماں تھی۔ وہ دوڑ کر آ کر ماں کے گلے سے لگی، سسک کر رونے لگی۔ ماں بھی رو پڑی۔ میں نے منہ دوسری جانب پھیر لیا تھا۔ اس وقت میں جیسے کسی اپاہج کی طرح کرسی پر بیٹھا تھا، بے بس، بے بس۔ اس نے کہا، ’’خالہ، مجھے میرے رشتے دار زندہ دفن کر رہے ہیں۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی اب کبھی تمہارے پاس آ نہیں پاؤں گی۔ خالہ، کیا آخری بار تم مجھے دفنانے بھی نہیں آؤ گی؟‘‘ مجھے لگا، اس کا دل پھٹ پڑا تھا۔ جاتے وقت اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر عجیب رنگ، عجیب جذبات چڑھ اتر رہے تھے۔ ایک پل کے لئے اس کا چہرہ درد کے سبب دوگنا ہو گیا، اس کے بعد جیسے ہوا نکلے بال کی طرح پچک گیا اور وہ چنری میں منہ چھپا کر، دوڑتی چلی گئی۔ میرا منہ کڑواہٹ سے بھر گیا۔
میں اٹھ کر بیگ کھولتا ہوں۔ بیگ میں سے ایک خوبصورت آدھا بنا سویٹر نکالتا ہوں۔ کچھ دیر تک دیکھتا رہتا ہوں، اس کے بعد سویٹر میں منہ ڈال کر، کھاٹ پر لیٹ جاتا ہوں۔ سینے کے اندر دل گہرے درد میں ڈوب اور ابھر رہا ہے۔ یادیں تیر بن کر دل کو چیر رہی ہیں۔
’’یہ دیکھو!‘‘
’’کیا ہے؟‘‘
’’اون ہے۔‘‘
’’کس لئے؟‘‘
’’اون کس لئے ہوتا ہے؟‘‘
وہ مسکرائی۔ ’’مجھے پتہ نہیں، تم ہی بتاؤ۔‘‘
’’اس اون سے میرا سویٹر بنے گا۔‘‘
’’او! بھلے بنے۔ میں کیا کروں! مجھ سے اجازت لینی ہے کیا؟‘‘
’’ظاہر ہے۔ تمہاری مرضی کے بغیرکیسے بنے گا۔‘‘
’’اچھا بھئی، اجازت ہے۔ لیکن کسی لڑکی سے تو نہیں بنوا رہے؟ ایسی حالت میں اجازت نہیں ملے گی!‘‘
’’ناسمجھی کی بھی حد ہوتی ہے۔ میں تمہارے ہاتھوں کا بنا سویٹر پہننا چاہتا ہوں!‘‘
شاید وہ گھبرا گئی۔ ’’لیکن میں۔ لیکن میں۔‘‘
میں نے پھر سے کہا، ’’ہاں، خوشی، میں تمہارے خوبصورت ہاتھوں کا بنا سویٹر پہننا چاہتا ہوں۔‘‘ لیکن مجھے لگا، ناچتا دوڑتا وقت، اچانک کسی صدمے سے رک کر، بت بن گیا ہے۔
اس نے کہا، ’’میری مجبوریاں تم جانتے ہو۔ مجھ پر گھر میں کتنی پابندیاں ہیں! تمہیں پتہ ہے نہ کہ میں تم سے کیسے ملتی ہوں۔ اگر ہم ایک ہی پڑوس میں نہیں رہتے تو شاید میں تجھ سے مل بھی نہیں پاتی۔‘‘
میں نے رونی آواز میں کہا، ’’سب جانتا ہوں۔ تم صاف کیوں نہیں کہتیں کہ میرا سویٹر نہیں بناؤ گی۔‘‘
اس نے اپنے ہاتھوں میں میرا ہاتھ زور سے پکڑ کر کہا، ’’تم سمجھتے کیوں نہیں، رشو! میرے ہاتھوں کا بنا سویٹر ہمارے پیار کا اشتہار بن جائے گا۔‘‘
میں نے غصے سے جھٹکا دے کر، اپنا ہاتھ چھڑایا۔
’’میری بات کا غلط مطلب مت سمجھ، رشو! سویٹر جیسی چیز، پیار کے آگے حقیر ہے۔ میرے پیار کو ایسی حقیر چیز سے مت پرکھو۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ہم بدنام ہو جائیں گے۔ لوگوں کا تو تمہیں پتہ ہی ہے۔‘‘
میں نے اسی انداز سے کہا، ’’اچھا خوشی، تم میرے پیار میں بدنام نہ ہو۔ مجھ سے غلطی ہو گئی، معاف کرو۔‘‘
’’اوہ رشو! خدا کے لئے۔ دیکھو، مجھے دیر ہو گئی ہے۔ میں تمہارے لئے سویٹر بناؤں گی۔ باندی کا بس نہیں چلے گا! ۔۔ اچھا، ابھی جاتی ہوں۔‘‘
میں اسی طرح بیٹھا رہا۔ اس نے انگلی سے میرے تھوڑی کو اوپر کر کے کہا، ’’ادھر، میری طرف دیکھو! باپ رے، اتنا غصہ! بس، اب تو غصہ پھینک دو پیارے!‘‘
اس پل میں روٹھنے والے بچے کی طرح خوش ہو گیا تھا، جس کے آگے ہار مان لی گئی ہو۔
میں نے اسے بازو سے پکڑ کر، اپنی جانب کھینچ لیا۔ ’’خوشی، تم شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہو۔ مجھے اتنا مت ستایا کر، نہیں تو میں بالکل روٹھ جاؤں گا۔‘‘
’’اپنی خوشی سے روٹھ جاؤ گے، بتاؤ؟‘‘
’’اپنی خوشی سے کون روٹھنا چاہے گا۔ خوشی خود نہ روٹھ جائے۔‘‘
’’تمہارے بنا خوشی مر جائے گی۔‘‘
’’اوہ، خوشی! میری خوشی، میری خوشی! ۔۔‘‘
’’اب چھوڑ۔ باپ رے، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘
وہ اون لے کر چلی گئی۔
اسکے جانے کے بعد بھی میں کتنی دیر تک بولتا رہا ’’میری خوشی! ۔۔ میری خوشی! ۔۔‘‘
دل ہی دل میں کتنی ہی دیر تک بولتا رہتا ہوں، ’’میری خوشی، میری خوشی۔‘‘ لیکن اب دل خوشی سے پھولتا نہیں، جیسے سسک کر رو رہا ہے۔ چھن جانے کے احساس سے دل تڑپ اٹھتا ہے۔ مجھ سے میری خوشی چھن گئی، اب کیا حق ہے مجھے ’’میری خوشی‘‘ کہنے کا؟ جلد ہی دو تین لفظ ہمارے پیار کے لئے موت بن کر آئیں گے اور خوشی کو ایک بندھن میں جکڑ لیں گے۔
اگلی بار جب وہ آئی تو میں نے اس سے پوچھا، ’’خوشی، پہلے تو تم ڈر کی وجہ سے سویٹر نہیں بنا رہی تھی، اب کیسے بنا رہی ہو؟‘‘
میرے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا، ’’تمہارے لئے میں جان بھی دے سکتی ہوں۔‘‘
میں نے کہا، ’’میں تم سے پیار کرتا ہوں، مجھے تمہاری ضرورت ہے، تمہاری جان کی نہیں۔‘‘
اس بات پر ہم دونوں کتنی ہی دیر تک ہنستے رہے۔
’’میں چھپ چھپ کر سویٹر بنا رہی ہوں۔ شاید دیر لگ جائے۔‘‘
دل کو بہت بڑا صدمہ لگا۔ پیار اتنا زبردست گناہ ہے، جس پر اتنے پہرے! صدیاں گزر گئیں، لوگ کہاں سے کہاں جا پہنچے، لیکن ہمارے یہاں پیار کی وہی مجبوریاں، وہی پہرے!
میں نے کہا، ’’خوشی، ہم ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں، پھر اوروں کو کیا حق ہے ہمارے پیار پر غصہ ہو کر پہرہ لگانے کا! پیار اتنا بڑا گناہ ہے کیا، جو ہم اس طرح لوگوں سے چھپتے پھریں؟‘‘
اسکی نگاہیں میرے دل کو چھو رہی تھیں۔ جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ شاید اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہو گا۔ تب میں نے ہی کہا، ’’خوشی، پیار ایک خوبصورت خواب کی طرح تو نہیں، جو حقیقت کی روشنی کی تپش برداشت نہیں کر پاتا اور اس خواب کا انجام۔ خواب تو آخر خواب ہیں!‘‘
اس نے کہا، ’’آج تم اتنے جذباتی کیوں بن گئے ہو۔ میں ہی تمہارے خواب کا انجام ہوں۔ تمہیں یقین نہیں ہوتا کیا؟‘‘
شاید اس دن میں سچ مچ جذباتی بن گیا تھا۔ ’’پیار کا انجام ہمیشہ درد اور پچھتاوے کا احساس لے کر آتا ہے، اسی لئے میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں انجام انجام نہیں رہا تو۔؟‘‘ اس نے مجھے کیسے کیسے یقین دلائے۔ اس کی سچائی پر مجھے آج بھی کوئی شک نہیں۔ حالات سے ٹکرا کر سب یقین مر گئے۔ اس کا کیا قصور!
ایک دن اچانک ہی خوشی کی شادی کی بات بم کا دھماکہ بن کر آئی۔ دھماکے نے کچھ دیر کے لئے دل کو بے قابو کر دیا۔ جب دل سنبھلا، تو سچ مچ سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔
خوشی کے گھر والوں کو ایک سنہری موقع ملا تھا۔ اس لئے انہوں نے سوچنے میں وقت گنوانا نہیں چاہا۔ پیسوں کی چمک کے آگے سوچ کا کیا؟ ہاتھ مانگنے والے ساہوکار لوگ تھے، گاڑی اور بنگلوں والے تھے۔ اس سے زیادہ کیا سوچا جا سکتا ہے۔ یہی تو سوچ کی آخری حد ہے۔
ماں دنگ رہ گئی تھی۔ وہ تو خوشی کا ہاتھ مانگنے کے لئے ابھی سوچ ہی رہی تھی۔ یہ سن کر کہا، ’’ایسا کیسے ہو گا! یہ رشتے دار ہیں یا دشمن۔ پیسے دیکھ کر اندھے ہو گئے ہیں۔ کم سے کم لڑکی کی مرضی تو جان لیں۔ میں اس کی ماں کو سمجھاؤں گی۔ ہم غریب ہیں، لیکن خوشی کو آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں، گھر والوں کو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے؟‘‘
بیچاری سیدھی ماں! اس کی بات سن کر، پتہ نہیں کیوں میں غصے میں آ گیا، ’’تم تو پاگل ہو گئی ہو، ماں! اس کے رشتے دار تم سے زیادہ سمجھدار ہوں گے۔ بتاؤ، تمہارے پاس کیا ہے؟ تمہارے پاس بنگلہ نہیں، تمہارے پاس کار نہیں اور تمہارے پاس ہے ہی کیا؟ بنگلے اور کاریں چھوڑ کر، ایک کلرک کو اپنی لڑکی کون دینا چاہے گا! تم یہ کیوں بھول رہی ہو ماں، کہ تمہارا بیٹا فقط ایک کلرک ہے!‘‘
خوشی کی ماں نے بھی میری ماں کی بات کو ہنسی میں اڑا دیا تھا، ’’بھائی، رشتے دار لڑکی کے دشمن تو نہیں ہوتے۔ رشتے دار تو ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ لڑکی اچھے گھر میں جائے، ہمیشہ سکھی ہو، کبھی کوئی برا دن نہ دیکھے۔ ایسا گھر تو خوش نصیب لوگوں کو ملتا ہے۔ لڑکی پوری زندگی اچھا کھانا کھائے گی، اچھی طرح سے رہے گی۔‘‘
ایک دن وہ بھی آئی۔ آنکھوں میں آنسو تھے، ہونٹوں پر خاموشی۔
میں نے کہا، ’’اپنی شادی کا احوال دینے آئی ہو، خوشی!‘‘
وہ تڑپ اٹھی۔ آنسوؤں کا بند ٹوٹ پڑا اور وہ میرے اوپر ڈھے گئی۔
’’تم بھی مجھے ہی قصور وار ٹھہرا رہے ہو، رشو!‘‘
جس چیز کو انسان دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہو، جسے وہ فقط اپنا سمجھتا ہو، وہ چیز اس سے چھن جائے تو۔ خوشی تو میری روح کا حصہ تھی، میں نے اس کی نگاہوں میں اپنا پیار چھلکتا دیکھا تھا۔ اب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں میں کسی اور کو۔ سوچ میں ہی کتنی تکلیف بھری ہوئی ہے!
بھاری دل سے کہا، ’’نہیں خوشی، تمہیں الزام کیسے دوں گا۔ تمہارے چھن جانے کے احساس نے پتہ نہیں مجھ میں کتنا غصہ بھر دیا ہے۔ مجھے معاف کرنا خوشی، میں نے شاید تمہارا دل دکھایا ہے۔‘‘
وہ میرے سینے میں منہ چھپا کر سسکنے لگی۔
میں نے کہا، ’’میں اس آنسوؤں کے لائق نہیں ہوں، خوشی! مجھ میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ تمہارے آنسو ہی پونچھ سکوں۔ میری حیثیت والے لوگوں کو پیار کرنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی بھول کر ہی اس خواب کو دیکھتا ہے تو تم اس کا انجام کیوں بنتی ہو؟ سب کچھ دیکھتے سمجھتے بھی ایسی غلطی کر کے کیوں خود کو مصیبت میں ڈالتی ہو۔‘‘
اس نے میرے کندھوں کو ہلاتے کہا، ’’نہیں، رشو، نہیں۔ مجھے بنگلے اور گاڑیاں نہیں چاہئے، مجھے فقط تمہارا پیار چاہئے۔ میں تمہارے ساتھ جھونپڑی میں رہنے کے لئے بھی تیار ہوں۔ میں کون سا ساری عمر بنگلوں میں رہی ہوں۔‘‘
تبھی مجھے سویٹر یاد آ گیا اور ہونٹوں پر ایک کڑواہٹ بھری مسکراہٹ آئی ’’خوشی، ایک بات بتاؤ۔ تم میں اتنی ہمت ہے کہ تم سبھی رسموں رواجوں اور پابندیوں کی زنجیروں کو توڑ سکو؟ یہاں تو پیار بھی ڈر ڈر کر کیا جاتا ہے۔ بدنامی کے ڈر سے، تم ایک سویٹر تک نہیں بن سکتیں، تو اتنی ہمت کر پاؤ گی کہ گھر والوں کی مرضی ٹھکرا دو؟ ۔۔ بتاؤ، خوشی!‘‘
’’مجھے کہیں سے زہر ہی لا کر دے دو۔ میں اگر اور کچھ نہیں کر سکتی تو پیار کی خاطر جان تو دے سکتی ہوں!‘‘
’’پگلی، پیار کو جان نہیں چاہئے۔ زہر کھانے سے کیا تمہیں تمہارا پیار مل جائے گا؟ موت تو ہر چیز کا اختتام ہے۔ زندہ رہنا تمہیں بوجھ لگتا ہے، تو بھی اپنے حصے کی زندگی تمہیں جینی ہے۔ کون جانے، کبھی وقت زخموں پر مرہم رکھ کر انہیں بھر دے اور زندگی دوبارہ حسین بن جائے!‘‘
اس کی چیخ نکل گئی، ’’تم اتنا کٹھور کیوں بن گئے ہو، رشو!‘‘
میں کٹھور! دل کے زخم مسکرا پڑتے ہیں۔
یہ سویٹر گیلا کیوں ہو گیا ہے؟ سویٹر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر، اوپر اٹھا کر دیکھتا ہوں۔ آدھا بنا سویٹر کتنا عجیب لگ رہا ہے۔ جب پیار ہی اپنا پورا روپ نہیں پا سکا، تو اس کی ایک نشانی ادھوری رہ گئی تو کیا ہوا۔ سویٹر کے ساتھ آیا خط پھر سے کھول کر پڑھتا ہوں۔
’’رشو،
’’کیا، سچ مچ ہمارا پیار ایک سپنا ہی تھا؟ لیکن یہ سوال تو تم نے پوچھا تھا۔ میں نے تمہیں یقین دلایا تھا کہ میں تمہارے خواب کا انجام ہوں، لیکن میں نے بدنامی سے ڈر کر تمہارے سبھی خواب توڑ دیئے۔ میرے پیار نے تمہیں فقط زخموں کے اور دیا ہی کیا ہے۔ میں یہ جانتی ہوں کہ میرے چھن جانے کا احساس، تم میں نفرت پیدا کر سکتا ہے، لیکن زندگی سے بیزار نہیں بنا سکتا۔ مجھ میں بھی تم نے ہی تو جینے کا حوصلہ پیدا کیا تھا۔ تم نے کہا تھا، ’’کون جانے وقت کب زخموں پر مرہم رکھ کر بھر دے اور زندگی پھر سے حسین بن جائے۔‘‘ رشو، میں تمہیں دل کی گہرائیوں سے یہ دعا دیتی ہوں۔
’’تمہارا سویٹر ادھورا ہی رہ گیا اور میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اسے پورا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک گذارش ہے کہ یہ ادھورا سویٹر اس لڑکی کو مکمل کرنے کے لئے دینا، جو تمہاری زندگی کو حسین بنا کر تمہاری ہو جائے۔‘‘
٭٭٭
زندگی۔ تُور کا پیڑ!
یہاں آؤ، اس پتھر پر چڑھ کر بیٹھو۔ شام کے وقت تالاب کا نظارہ کتنا حسین لگتا ہے! سورج تھکے ہارے مسافر کی طرح سرکتا ہوا، پہاڑوں کے دوسری جانب جا رہا ہے۔ بہتے پانی میں نیلے آسمان کی پرچھائیں نے شام کو مٹمیلا اور دھندلا بنا دیا ہے، بادل بھی میلے ہیں۔ کیا کہتے ہو، ماحول کافی اداس اور ڈوبا ہوا ہے۔ ہو گا! مجھے تو شام کا یہ روپ بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس مٹمیلے نیلے پن میں غائب ہو گیا ہوں، میرا وجود اس شام سے الگ نہیں، لیکن میں بھی اس کا ایک حصہ ہوں، میری روح میلے پانی میں ڈبکیاں لگا رہی ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ بانہیں پھیلا کر، آنکھیں بند کر کے اس چکنے فرش جیسے پانی پر لیٹ جاؤں اور لہریں جھولے کی طرح مجھے جھلاتیں، اپنے ساتھ لے کر کہیں دور، بہت دور جا چھوڑیں۔ تمہیں میری باتوں پر تعجب ہو رہا ہے۔ میری عمر ایسی باتیں کرنے کے لائق نہیں ہے، یہ تو لاپرواہی اور مستی کا وقت ہوتا ہے۔ مجھے یہ احساس زہر سے بھرے خنجر کی طرح چبھ رہا ہے، لیکن اس میں کسی کا قصور نہیں ہے۔ یہ وقت سب سے زیادہ ہنگامے والا دور ہے اور شاید انتہا کے بہت قریب! انسان بیچارہ تو ہمیشہ سے کٹھ پتلی رہا ہے، لیکن اس وقت کٹھ پتلیوں کے کھیل میں بہت تیزی آ چکی ہے۔ اس قدر کہ انسان اپنے آپ سے بھی کھو گیا ہے۔ تم بور تو نہیں ہو رہے! میں جانتا ہوں کہ تم ضرور یہ کہو گے کہ نہیں تمہاری باتیں دلچسپ ہیں۔ میرے بھائی، یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ انسان کسی نہ کسی ڈر کی وجہ سے اپنے دل کی بات صاف صاف نہیں کہہ پاتا۔ بیچارہ انسان! نہیں بھائی، میں بات کو گھما نہیں رہا ہوں۔ آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ میں شام کے اس نظارے میں کھو کر پتہ نہیں کیا کیا کہہ گیا۔ ذہنی پریشانیاں اور الجھنیں تو آج کے انسان کے لئے اس وقت کے خاص تحفے ہیں۔
چاہے دنیا کی اور چیزیں کچھ لوگوں کے لئے زیادہ ہی نصیب ہوں اور کچھ ان کے لئے ترستے رہیں، لیکن ذہنی پریشانیاں اور الجھنوں کا تحفہ ہر انسان کو ملا ہوا ہے۔ میں بھی چاہے دنیا کے اور معاملات میں بدنصیب ہوں، لیکن اس تحفے کی میرے پاس کمی نہیں۔ تمہاری ہمدردی اور مہربانی کے لئے مہربانی، لیکن آخر میں تمہیں کیا بتاؤں! حقیقت میں مجھے اپنے بارے میں بتاتے کچھ عجیب محسوس ہو رہا ہے۔ آپ پہلے شخص ہیں، جو میری ذات میں اتنی دلچسپی لے رہے ہیں، نہیں تو میرے دوست مجھے ایک ایسا شخص سمجھتے ہیں، جو ان باتوں سے ابھی تک بے خبر اور انجان ہے۔ میں بچپن سے ہی دنیا کی زیادتیوں کا شکار بن گیا۔ میرا معصوم دل زخموں سے چور چور ہو گیا۔ میرے دل کا درد دھوئیں کی مانند اندر ہی اندر سسکتا اور گھٹتا رہا۔ بد قسمتی سے یہ دھواں کسی بھی طریقے سے باہر نہیں نکل پایا ہے۔ میں چالاک اور تیز نہیں ہوں، اس لئے اچھے دوست بنانے کی مجھ میں صلاحیت نہیں۔ میں کسی کے نزدیک جانا نہیں چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ شروعات کوئی اور کرے، شاید اسی لئے ہی وہ دوست مجھے فقط اپنے دل کا درد ہلکا کرنے کا ایک ذریعہ بھر ہی سمجھتا ہے۔ میں زیادہ باتیں کرنا نہیں جانتا، میرے دوست شاید زیادہ سننا نہیں جانتے ہیں۔ اس لئے وہ باتیں کرتے اور میں بس سنتا رہتا ہوں۔ مجھے باتیں کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا اور مجھے کچھ ہچکچاہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔ میں بہت ہی کم باتیں کرنے والا، شرمیلا اور کچھ کچھ خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہوں، اس لئے زیادہ تر لوگوں کو میرے بارے میں غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔ مجھ میں قدرتی صلاحیت نہیں جو کوئی بات صاف صاف کہہ پاؤں۔ کبھی کبھی میری شکایتیں اور مجھ سے ہوئی زیادتیاں بھی الٹے میرے ہی قصور بن جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے میں حد سے زیادہ جذباتی شخص ہوں اور متاثر بھی جلدی ہی ہو جاتا ہوں۔ قدرت نے مجھے اور تو کوئی خوبی نہیں دی ہے، فقط ایک جذباتی دل اور سوچ کے۔ کسی معمولی سی بات یا حرکت پر بھی سوچتا ہی رہتا ہوں، پچھتاتا ہی رہتا ہوں۔ یہ سوچ میرے دل پر ایک بوجھ اور ایک تکلیف بن جاتی ہے۔ سوچ نے مجھے جلا کر راکھ کر دیا ہے، اس کی اذیت جہنم سے کسی بھی حالت میں کم نہیں۔ کاش! قدرت مجھ سے سوچنے اور محسوس کرنے کی خاصیتیں چھین لے۔
بس بہت ہوا دوست، مجھے میرے مکڑی کے جالے جیسے ماضی پر نگاہ ڈالنے پر مجبور مت کرو۔ میرے ماضی اور حال میں فرق ہی کیا ہے۔ میں اس جال میں ایسا پھنس چکا ہوں کہ جتنا زیادہ چھڑانے کے لئے تڑپتا ہوں، اتنا ہی اور زیادہ پھنس جاتا ہوں۔ میری عمر کچھ زیادہ نہیں۔ لیکن اس عمر میں بھی، میں نے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ میں بہت جلدی، وقت کی چکی میں پس گیا۔ میں نے لاپرواہی اور جوانی کا وقت دیکھا ہی نہیں۔ میں جوانی کا مزہ نہیں لے پایا۔ ہے خدا، میں نے ابھی گلشن میں پیر ہی رکھا تھا کہ کانٹا چبھ گیا۔ تبھی میری زندگی میں جوانی کا طوفان اٹھا ہی تھا۔ میرے دل کی امنگوں نے ابھی اچھلنا شروع ہی کیا تھا اور اس کی بھی وہی حالت تھی۔ جاننا چاہتے ہو کہ وہ کون تھی! وہ میری ایک قریبی رشتے دار تھی۔ جب ہمیں سمجھ بھی نہیں تھی، کہ ہمارے رشتے داروں نے ہماری منگنی کر دی۔ اس کے بعد حالات ایسے بنے کہ ہمارے بڑوں کے آپس میں جھگڑے ہو گئے اور وہ گاؤں چھوڑ کر ایک بڑے شہر میں جا بسے۔ میرے دل میں فقط اس لڑکی کی یاد باقی تھی، جس کے ساتھ کھیلتے کھیلتے میں اسے مار کر بھاگ جاتا تھا۔ ماں کی جانب سے اس کے بارے میں باتیں سن کر میرے معصوم دل میں اسے دیکھنے کا بے پناہ اشتیاق جاگ اٹھا۔ ایک دن گھر میں کسی کو کچھ بتائے بغیر میں ادھر کے لئے نکلا۔ کافی وقت کے بعد اپنا ایک تعلق دار دیکھ کر انہوں نے مجھے بہت پیار دیا اور وہاں پر میں نے اسے دیکھا۔ پتہ نہیں کیوں، جب اس سے میری نگاہیں ملتی تھیں تو مجھے کچھ عجیب محسوس ہوتا تھا۔ پورے بدن میں جیسے کرنٹ دوڑ جاتا تھا اور میٹھی میٹھی گدگدی ہونے لگتی تھی۔ شروع شروع میں وہ ایک دم گھبرا اور شرما جاتی تھی۔ کافی وقت کے بعد وہ مجھ سے اچھی طرح باتیں کرنے لگی۔ پھر وہ معصومیت اور سادگی سے میری آنکھوں میں دیکھتی رہتی تھی۔ مجھے ایک عجیب سا لطف آتا تھا۔ جب اس کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ ہلنے لگتے تھے تو اچانک گھبرا کر نظریں ہٹا دیتی تھی۔ ویسے وہ بہت ہی باتونی تھی اور میں کافی سنجیدہ۔ لیکن اس کے ساتھ میں بھی باتونی اور ایک بچہ بن جاتا تھا۔ اس کے منہ سے ’’ارے ہاں‘‘ کہنے کا انداز میرے دل کو ایک عجیب لطف میں ڈبو دیتا تھا۔ وہ مجھے ’’گاؤدی‘‘ کہہ کر چڑانے کی کوشش کرتی تھی۔ اکثر میں غصے میں آ جاتا تھا، تو وہ ایک دم سنجیدہ بن جاتی تھی اور ایک عجیب پیارے ڈھنگ سے معافی مانگتی تھی، ’’غصے میں ہو؟ مجھ سے بھی غصہ ہو جاتے ہو، میری طرف تو دیکھ۔‘‘ اور میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس کی جھیل جیسی بڑی آنکھوں میں غوطہ لگا کر غائب ہو جاؤں۔
آخر تو مجھے گاؤں واپس لوٹنا تھا۔ جب اسے پتہ لگا کہ میں گاؤں جا رہا ہوں، تب اس کا گلاب جیسا چہرہ بجھ گیا۔ دوسری صبح اس کی تھکی اورسرخ آنکھیں دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ وہ رات گئے تک روتی رہی ہے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا، ’’لگتا ہے رات کو نیند نہیں آئی ہے، پوری رات روئی ہو۔‘‘
اسکے ہونٹوں پر ایک پھیکی مسکراہٹ آ گئی۔ کہا، ’’مجھے لگتا ہے تم بھی رات کو نہیں سوئے ہو، لیکن تمہیں تو گاؤں جانے کی خوشی میں نیند نہیں آئی ہو گی۔‘‘ میں اس کی آنکھوں کی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ جس وقت جا رہا تھا، تو وہ برتن مانجھ رہی تھی۔ اس کا سر نیچے جھکا ہوا تھا۔ قریب جا کر میں نے اسے بلایا۔ اس نے سر اوپر اٹھایا تو میں نے دیکھا، وہ رو رہی تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو بھری شراب کی طرح چھلک رہے تھے۔ کتنا زہر بھرا ہے، ان یادوں میں! مجھے ان گزرے پلوں سے، جنہیں عام طرح پر حسین اور رنگین پل کہا جاتا ہے، نفرت ہے۔ اب میں اس پیار کو بچکانہ اور بیوقوفی بھرا مانتا ہوں، لیکن پھر بھی اس زہر کو کسی بھی صورت میں خود میں سے نکال نہیں پایا ہوں۔ ہائے وقت کا یہ ستم! میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ شہری اور گاؤں کے ماحول کے سبب ہم میں اتنا بڑا فرق ہے۔ میرے گھر والے اس قابل نہیں تھے، جو ایسی لڑکی کو اپنے گھر میں لانے کے لئے فقط سوچ بھی سکیں۔
جب میں دوسری بار ان کے پاس گیا، تو گذشتہ تکلیف بھرا احساس ختم ہو چکا تھا۔ مجھے اپنی حیثیت کا احساس دلایا گیا۔ جیسے ایک بہت ہی حسین اور پیارا سپنا دیکھتے ہوئے، کسی نے مجھے نیند میں سے جگا ڈالا اور میں ہڑبڑا گیا۔ بیچارے اٹھانے والے کا کیا قصور! میں خود پر رو پڑا۔
حد سے زیادہ جذباتی ہونے کے سبب اپنے گھر کی مسائل اور آس پاس کا ماحول دیکھ کر میرے دل میں ایک طرح کی نفرت ابھرنے لگی۔ میں نے متوسط گھرانے کے ایک اچھی حیثیت والے گھر میں جنم لیا۔ تمہیں پتہ ہو گا کہ ایسے گھر کو معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے ان کے اپنے اصول ہوتے ہیں، جنہیں وہ کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑتے۔ میری دیکھ بھال بھی ایسے ماحول میں ہوئی۔ جب میں نے آنکھ کھولی تو میرا باپ ایک بڑا شخص تھا اور رشتے دار بھی بہت بڑے ساہوکار، بڑی جائیداد والے تھے۔ اس کے بعد زمانے کی گردش کے سبب حالات بدل گئے۔ لیکن مسائل اور خراب حالات کے باوجود ہم اپنی جھوٹی شان و شوکت کو قائم رکھتے آئے۔ میرے بچپن کی دیکھ بھال اور ہوش میں آنے کے بعد خود کو ایک اچھے خاندان کا شخص سمجھنا، آس پاس کا ماحول، فطری رجحان اور اس کے بعد خراب حالات ہوتے ہوئے بھی آرام سے گھر پر بیٹھے رہنا۔ ان سب باتوں نے مل کر میرے اوپر پتہ نہیں کیسے کیسے اثرات مرتب کئے۔ میں نے اپنے درجے کے لڑکوں کے درمیان اٹھنا بیٹھنا چاہا لیکن اس لائق نہیں تھا۔ بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد، نام برابر بھی نچلے طبقے کے افراد سے تعلق رکھنا اپنا قصور مانتے ہیں۔ میں تو جیسے زمین اور آسمان کے بیچ پھنسا ہوا تھا۔ جذباتی طور پر ان باتوں کا میرے اوپر بہت گہرا اثر ہوا۔ کبھی کبھی میں رو پڑتا تھا کہ ایسے گھر میں کیوں پیدا ہوا۔ اگر کسی غریب گھر میں جنم لیتا تو ذہنی طور سے بیدار طبقے کے مسائل سے تو چھوٹ جاتا۔ صحیح وجوہات تھیں، جن کے سبب خود سے، اپنے گھر سے اور بالائی طبقے کی جانب میری نفرت نے میرے دل میں گھر کر لیا۔
دوست، میں بھٹکا ہوا تھا تو مجھے ایک راہ نظر آئی۔ میں نے جذباتی بن کر سمجھا کہ یہی صحیح راہ ہے، اسی میں چھٹکارا ہے۔ وقت اور حالات نے مجھ پر کچھ نظریات منڈ دیئے۔ میں نے سوچا کہ آج کے معاشرہ میں میرے جیسے لاکھوں لوگ جلتے، سڑتے اور تڑپتے رہیں گے، جب تک کہ یہ رسم نہ بدل دی جائے۔ میں نے مقصد کو ہی سب سے اونچا سمجھا۔ پیار اور محبت کو ایک بیکار بات اور ظاہری جذباتیت سمجھنے لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ ذہنی عیاشی ہے، دنیا کی تلخ حقیقت سے دور ہے۔ پوری دنیا کا درد مجھ میں آ سمایا اور میں اپنی ذات کو بھول گیا۔ میرے پاس فقط دوربین تھی، جس سے میں دور دور تک دیکھ سکتا تھا، لیکن دوربین کے ساتھ مجھے مائکرواسکوپ مل نہ سکا، جس سے اپنے اندر بھی جھانک سکوں۔ حالات کے سبب میں اپنی ذات میں مقید ہو گیا۔ اصل میں میں ایک عملی انسان نہیں تھا، میرا مزاج اور رجحان ان نظریات کے متضاد تھا۔ میں نے تو روح کے سکون کے بارے میں سوچا تھا، لیکن سکون کہیں پر بھی نہیں ملا۔ میں تو جیسے پانی کی تلاش میں ریگستان میں بھٹک رہا تھا، ادھر ادھر دیکھتے، دور کچھ سفیدی دیکھ کر اس کی سمت بھاگتا رہا، لیکن فقط وہم کے مجھے کچھ نصیب نہیں ہوا۔ تب میں نے جانا کہ میری زندگی ریگستان میں کھڑے اس طرح کے پیڑ کی طرح ہے، جسے پانی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے، جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتا ہے اور جس میں کانٹوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔
نہیں مجھ میں اتنی سختیاں سہنے کی قوت نہیں، ہمت نہیں۔ میں جیسے ایک طوفان میں جکڑا ہوا ہوں، جس نے میرے سارے ہوش حواس غائب کر دیئے ہیں۔ جو دیر سے ہونا چاہئے تھا، وہ بہت جلدی ہو گیا۔ اس بے درد وقت نے میری اندر کی امنگوں کو دبا دیا، میری روح کی چیخوں کا گلا گھونٹ دیا۔
خدا؟ ۔۔ نہیں دوست مجھے تمہارے رحمدل خدا پر کوئی یقین نہیں رہا ہے۔ حقیقت میں حالات نے ہی مجھے مجبور کیا کہ ایسا سمجھوں۔ ہو سکتا ہے کہ میں بھٹکا ہوا ہوں، لیکن اس میں میرا کیا قصور! مجھے بھی زندہ رہنے کی خواہش ہے، مجھے بھی زندگی سے پیار ہے، چاہے میری زندگی بالکل خالی اور پرانی بوتل کی طرح ہو گئی ہے۔ میں رونا چاہتا ہوں لیکن رو بھی نہیں سکتا۔ میری ہچکیوں نے گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیا ہے۔ میں وہ زخم دیکھنا چاہتا ہوں، جو ایک چھوٹے سے وقت میں مجھے لگے۔ معاف کرنا، میں شاید کچھ جذباتی بن گیا۔ دوست، اس وقت میرے حالات ایک ہی جگہ ٹھہر گئے ہیں۔ اس بے رنگ دنیا نے مجھے اپنی زندگی سے ہی بور کر دیا ہے۔ میری روح اصل میں بھٹک رہی ہے اور میں نے جیسے اسے ایک ہی جگہ قید کر رکھا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک مسافر بن کر، بھٹکتا رہوں، گھومتا رہوں۔
٭٭٭
درد کی آواز
لوگوں کے مسکراہٹ بھرے چہرے ہیں، ہنسی کے فوارے ہیں اور قہقہوں کے جھرنے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہرے رنگ کے برآمدے میں کھیل رہے ہیں، چلا رہے ہیں۔ میں ان سبھی کو بے بسی بھری انداز سے دیکھ رہا ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں پر صرف بدن ہے اور روح دور کہیں آسمان میں ہے۔ ہاں، میرا دل کہاں ہے؟ دل کا کوئی ٹھکانہ نہیں، اس پر میرا بھی بس نہیں چل رہا، جو اسے ایک جگہ روک پاؤں۔ کاش! میرے دل پر میرا بس چلتا!
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ کہیں دور سے آواز آئی۔ میں ہڑبڑا کر اپنے آپ میں لوٹ آیا۔ میں اس کی طرف دیکھتا ہوں۔ وہ میرے پاس ہی بیٹھی ہے۔ پھر بھی اس کی آواز دور سے آیا کیوں لگا؟ جلد ہی وہ اپنی آواز کی طرح خود بھی دور ہو جائے گی۔ اور پھر اپنی آواز کے ساتھ غائب ہو جائے گی۔ دل کسی گہرے درد میں ڈوب رہا ہے۔ دل میں آ رہا ہے کہ چلاؤں۔
’’تم کچھ بولتے کیوں نہیں! میری سانس گھٹ رہی ہے۔‘‘ وہ لگ بھگ چلا کر کہتی ہے۔ اس کی گھورتی نگاہیں ایک ٹک مجھ میں گھسی ہوئی ہیں۔ کاش کہوں، اب بولنے کے لئے کچھ بچا ہی کیا ہے! لیکن ایسا کہہ نہیں پایا۔ اس کے بدلے کہتا ہوں، ’’تمہیں یاد ہے نسرین! تم نے جب پہلے داخلہ لیا تھا، تب تم کلاس میں کسی سے بات نہیں کرتی تھیں۔ ایک دن میں نے بھی تم سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں تم سے باتیں کرتا رہا، لیکن تم چپ کر کے بیٹھی رہیں۔ آخر میں نے چلا کر کہا تھا، ’’اوہ محترمہ آپ بولتی کیوں نہیں؟ کچھ تو بولو، میری تو اب سانس گھٹ رہی ہے!‘‘
اور اب بھی وہ کچھ نہیں بولتی۔ اس کے ہونٹوں پر فقط ایک اداس مسکراہٹ آ کر بکھر جاتی ہے۔ سامنے کھڑے پیڑ ہل ڈل رہے ہیں، ہوا ہے، پھر بھی مجھے گھٹن ہو رہی ہے۔ میں پیڑ کی ہلتی ڈلتی ٹہنیوں کو دیکھ رہا ہوں۔ ان ٹہنیوں کے اوپر پرندے اڑ رہے ہیں۔ میری یادیں بھی ان پرندوں کی طرح اڑتی کہیں کی کہیں پہنچ رہی ہیں۔
نسرین کو سب لڑکے اور لڑکیاں مغرور سمجھتے تھے۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔ حقیقت میں اس کے روکھے مزاج کو دیکھ کر کوئی اس سے بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ اس لئے کلاس کے لڑکے ہوں، چاہے لڑکیاں، اسے الگ الگ طریقوں سے تنگ کرتے تھے۔ صرف میں ہی ہمیشہ نسرین کا طرف لیتا تھا۔ اس کے چہرے پر اداسی کی گہری پرچھائیاں ہوتی تھیں، جس میں کسی انجانے دکھ کی لہریں چلتی تھیں۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ اور لوگ اسے بلاوجہ تنگ کریں، اس پر ہنسیں۔ کبھی کبھی میں ان سے لڑ بھی پڑتا تھا، تب وہ سب مل کر مجھے چڑاتے تھے کہ تمہاری نسرین کے ساتھ اتنی ہمدردی کیوں ہے؟ سچ مچ میں سوچتا تھا کہ میرا کیا جاتا ہے، میں کیوں اس کی جانب سے اوروں سے لڑتا پھروں؟ اگر وہ اتنی مغرور ہے کہ کسی سے بات بھی نہیں کرنا چاہتی تو پھر بھلے ہی اس سے مغروریت کا حساب لیا جائے۔ لیکن دل نہیں مانتا تھا، چپ رہنا اور کسی سے بات نہ کرنا قصور تو نہیں ہے۔ اور کیا کسی سے بات نہ کرنا مغروریت ہے؟ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ شروع شروع میں جب میں نے اس کے وجود میں دلچسپی لینی شروع کی تو اس کا دوسرا سبب کوئی بھی نہیں تھا، اس کو جاننے کے علاوہ۔ وہ سچ مچ بہت خوبصورت تھی۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنی خوب صورتی کی وجہ سے مغرور ہے۔ لیکن یہ بات مجھے دل سے نہیں لگ رہی تھی۔ ویسے وہاں پر کچھ لڑکیاں اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھیں۔
ایک دن اس نے خود ہی مجھ سے بات کی۔ بے حد سنجیدگی سے کہا کہ ’’مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
’’فرمائیے!‘‘
’’فرمانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ ایک گزارش ہے۔ مہربانی کر کے آپ میرے ساتھ ہمدردی کرنا چھوڑ دیجیے۔‘‘ وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی۔
’’میں کیوں آپ سے ہمدردی کروں گا! اگر اوروں کو آپ کے خلاف رائے دینے کا حق ہے، تو مجھے بھی ان کی مخالفت کرنے کا حق ہے۔ کیا آپ یہ مجھ سے چھیننا چاہتی ہیں؟‘‘
وہ خاموش رہی۔
’’آپ اوروں کو تو انکار نہیں کر رہیں، ان کو جیسے اچھا لگے کہتے پھریں، باقی آپ مجھے اکیلا دیکھ کر مجھ سے لڑنے آئی ہیں!‘‘
وہ چپ رہی۔
’’آخر آپ نے خود کو اتنا پر اسرار کیوں بنا رکھا ہے؟‘‘
وہ ساکت رہی۔
’’کہئے محترمہ! آپ بات کیوں نہیں کر رہیں، کچھ تو بولئے، میری تو اب سانس پھول رہی ہے!‘‘
اچانک اس کے ہونٹوں سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑا۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔ میں نے اسے پہلی بار ہنستے دیکھا تھا۔ ایسی میٹھی اور مدھر ہنسی، جس میں سنگیت بھرا ہو، میں نے پہلی بار سنی تھی شاید۔ اس نے ہنستے کہا، ’’کسی کے بات نہ کرنے سے بھی کبھی کسی کی سانس پھولتی ہے کیا؟‘‘
’’آپ نے اتنے وقت تک بات نہ کرنے کا ریکارڈ قائم کر کے پورے کلاس کی سانس پھلا رکھی ہے اور آپ کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے۔‘‘
’’سچ! اگر میرے چپ رہنے سے اوروں کو تکلیف پہنچی ہے، تو مجھے اس کا افسوس ہے۔‘‘
اسکے پچھتانے والے انداز پر مجھے ہنسی آ گئی۔
’’آپ کو پتہ ہے کہ کلاس کی آپ کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘
’’رائے کا تو مجھے پتہ نہیں، باقی یہ پتہ ہے کہ پوری کلاس میرے خلاف ہے اور آپ میری سائیڈ سے ان سے لڑتے رہتے ہیں۔‘‘ اس نے سادگی سے کہا۔
’’میری بات کو چھوڑئے۔ لڑکے اور لڑکیوں کی آپ کے بارے میں یہ پکی رائے ہے کہ آپ مغرور ہیں۔‘‘
’’کیا آپ بھی مجھے مغرور سمجھتے ہیں؟‘‘ اس نے الٹے مجھ سے سوال کیا اور میں الجھ گیا۔
’’آپ کے رویے سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’اگر آپ بھی اوروں کی رائے کو صحیح سمجھتے ہیں تو مجھ سے ہمدردی ظاہر کر کے، میرا سائیڈ کیوں لیتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا، ’’آپ نے غلط سمجھا ہے، پہلی بات تو میں آپ کے بات نہ کرنے اور چپ رہنے کا سبب غرور نہیں سمجھتا۔ چپ رہنے کا سبب کچھ تو ضرور ہو گا لیکن اس کا مطلب غرور نہیں۔ آپ کا کسی سے بات نہ کرنے کا دوسرا بھی ایک سبب سمجھا جا رہا ہے۔‘‘ میں چپ ہو گیا۔
’’کون سا؟‘‘ اس نے مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا۔
’’کچھ ایک کا خیال ہے کہ آپ اپنی خوب صورتی کے سبب مغرور ہیں۔‘‘ وہ شرما گئی اور کچھ کہا نہیں۔
’’لیکن مجھے اس بات پر بھی یقین نہیں ہے۔‘‘
’’توبہ! کیسی کیسی غلط باتیں مشہور ہو گئی ہیں۔‘‘ اس نے جیسے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔
’’ہو سکتا ہے، لوگ آپ کو غلط سمجھتے ہوں اور اس لئے آپ ان کو غلط سمجھ رہے ہوں۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب آپ نے میری ہمدردی کو غلط سمجھا ہے۔‘‘
وہ چپ رہی۔
’’آپ کا چپ شاہ کا روزہ پھر سے شروع ہو گیا ہے شاید۔‘‘ دونوں کا قہقہہ نکل گیا اور دور کھڑے لڑکے اور لڑکیاں ہمیں حیران ہو کر دیکھنے لگے۔
اسکے بعد وہ اب بھی اوروں سے زیادہ باتیں نہیں کرتی تھی، فقط مجھ سے وقت وقت پر باتیں کرتی رہتی تھی۔ اس نے مجھے اب تک اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا، نہ ہی میں نے اس پر زور دیا تھا۔ کچھ وقت بعد مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ نسرین کے وجود میں ایک کشش تھی، جس نے مجھے کھینچ کر اس کے قریب کر دیا تھا۔ یہ اس کی کشش ہی تھی، جس کے سبب اور لوگ بھی اس کے قریب آنا اور اس سے باتیں کرنا چاہتے تھے، لیکن نسرین کے روکھے رویے کے سبب کوئی بھی قریب نہ آ سکا اور اس وجہ سے ہی وہ اس کے مخالف بن گئے تھے۔ شاید وہ مجھ سے بھی جلنے لگے تھے۔ مجھے یہ سب پتہ چل گیا تھا۔ انہوں نے مجھے اور نسرین کو غلط سمجھا تھا۔ ہم دونوں کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں تھی، جسے غلط مفہوم دیا جائے۔ میں نے اپنے دل سے کئی بار پوچھا کہ کیا سچ مچ میں نسرین کو چاہتا ہوں، لیکن مجھے کوئی ٹھوس جواب نہیں ملا۔ میں الجھ گیا کہ آخر مجھے اس میں اتنی کشش کیوں محسوس ہو رہی ہے، جبکہ مجھے اس سے کوئی پیار نہیں ہے!
جس دن وہ کلاس میں نہیں آتی تھی، تو مجھے بہت الجھن اور اکیلا پن محسوس ہوتا تھا۔ زیادہ تر وہ غیر حاضر رہتی تھی۔ پھر جب آتی تھی، تب دیکھتا تھا کہ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔ لیکن میں یہ سمجھ سکتا تھا کہ وہ مسکراہٹ بھی کتنی اداس تھی۔ اس وقت مجھے یہ خیال آتا تھا کہ کہیں اس کے انجانے دکھ اور اداسی نے تو مجھے کھینچ کر اس کے قریب نہیں کر دیا۔ میری روح میں بھی تو بیابان کی پرچھائیاں تھیں۔ میں بھی تو اپنے آپ میں الجھا ہوا اور بے قرار تھا۔ میرے اندر میں بھی کسی گہری اذیت کی آوازیں تھیں، جو دل کو جھنجھوڑ رہی تھیں۔ حالات نے جونک کی طرح میری روح سے سارا خون چوس لیا تھا۔ اندر کوئی مٹھاس نہیں تھی، کوئی بھی موسیقی بھراسر نہیں تھا جو روح کی تاروں کو چھیڑ کر اس میں پھر سے رس کشید کرے۔ میں نے نسرین میں خود کو دیکھا تھا، جیسے وہ میرا آئینہ تھی۔ نسرین سے زیادہ ہمدردی مجھے اپنے آپ سے تھی، وہ تو فقط ایک ذریعہ تھی۔ میں نے کسی سے پیار کرنا نہیں چاہا۔ میں نے سمجھا تھا کہ میں کسی سے پیار کر ہی نہیں سکتا۔ پیار وہ لوگ کر سکتے ہیں، جن کو پیار کے خیال کے علاوہ اور کوئی خیال نہیں ہوتا۔ وہ جیسے پیدا ہی پیار کے لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں اس کے لئے پیدا نہیں ہوا تھا۔ میں فقط اپنے بوسیدہ دیمک لگے ہوئے گھر کا کھمبا بننے کے لئے پیدا ہوا تھا۔ میں نے اپنی خواہشات کو اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ کر مار دیا تھا۔ میں نے خود سے جنگ کی تھی۔ نسرین کو دیکھ کر مجھے لگا کہ وہ بھی خود سے جنگ کر رہی تھی۔ جب ہم دونوں ساتھ بیٹھتے تھے تو اپنے آپ میں اپنی اپنی جنگ لڑتے تھے۔ ہم نے کبھی بھی ایک دوسرے سے اپنے بارے میں نہیں پوچھا، لیکن اس کا زیادہ تر غیر حاضر رہنا مجھے کھٹکتا تھا۔ آخر میں نے اس سے اس کا سبب پوچھا۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ آناکانی کرے گی، کوئی بھی ٹھوس جواب نہیں دے گی، لیکن اس نے ٹھیک ٹھیک سیدھا جواب دیا۔
’’جب میرا چاچا شہر آتا ہے، تو میں پڑھنے نہیں آتی ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس، میرا چاچا نہیں چاہتا کہ میں زیادہ پڑھوں۔‘‘
’’لیکن آخر کیوں؟ تمہارے والد ہوتے ہوئے بھی تمہارا چاچا تمہیں پڑھنے سے کیوں روک رہا ہے؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ وقت تک دور دور دیکھتی رہی۔ اس کے چہرے پر اداسی کے سیاہ بادل چھا گئے تھے۔
’’کیا بات ہے نسرین! مجھے بتانے لائق بات نہیں ہے کیا؟‘‘
اس نے بے بسی سے مجھے دیکھا۔
’’میرے چاچا کے لڑکے سے میری منگنی ہو چکی ہے۔‘‘ اس نے زور لگا کر کہا۔ میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ دل کی پریشانی بڑھنے لگی، اس لئے بات کی۔
’’تمہارا منگیتر پڑھا لکھا ہے؟‘‘
’’میٹرک میں فیل ہونے کے بعد اس نے پڑھنا چھوڑ دیا۔ اب زمینداری کرتا ہے۔‘‘
’’تمہیں پسند ہے؟‘‘ مجھے اپنا یہ سوال عجیب لگا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پھر سر جھکا دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے خود ہی بولنا شروع کیا۔
’’میری منگنی تب ہوئی تھی، جب میں ابھی پیٹ میں ہی تھی۔‘‘ کچھ پل رک کر وہ جیسے دور دیکھتے ہوئے بولتی رہی، ’’ہمارے خاندان میں اپنوں سے باہر لڑکی کو نکالنا بدنامی اور شرم کی بات ہے۔ اس میں لڑکی کی پسند یا مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔ وہ چپ چاپ بغیر کچھ بولے سولی پر چڑھ جاتی ہیں۔‘‘
’’تمہارے ماں باپ تمہارے چاچا کی مرضی کے خلاف تمہیں کیسے پڑھا رہے ہیں؟‘‘
’’بہت گذارش کرنے اور سر پٹخنے کے بعد جا کر زیادہ پڑھنے کی اجازت ملی ہے، لیکن وہ بھی اس شرط پر کہ میں لڑکوں سے باتیں نہیں کروں گی۔‘‘
تو کیا ایک دن نسرین چلی جائے گی اور پھر کبھی نظر نہیں آئے گی! میرے دل کو صدمہ پہنچا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ مجھے نسرین سے بہت پیار ہے، لیکن اس پیار کا مجھے تب پتہ چلا، جب وہ رخصت ہونے کے کنارے پر پہنچ گیا۔ میں نے کبھی بھی نسرین کے سامنے پیار کا اظہار نہیں کیا تھا۔ پیار کا اظہار فقط زبان سے ہی نہیں کیا جاتا۔ آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں، آنکھیں کوئی بھی بات نہیں چھپاتی ہیں۔ آنکھیں آنکھوں سے باتیں کرتی ہیں اور وہ کچھ کہہ دیتی ہیں، جو منہ سے نہیں بولا جا سکتا۔ میں نے اس کی آئینے جیسی آنکھوں میں غوطہ لگا کر دیکھا تھا۔
اسکی آنکھوں میں پیار کی پرچھائیاں تھیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک گہرے درد کی دھند چھائی ہوئی تھی، اس کی آنکھوں میں، میں نے سب کچھ دیکھا تھا۔ شاید اس نے بھی سب کچھ دیکھا تھا، میری آنکھوں میں، ہمیں منہ سے کچھ بھی کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
امتحان میں کچھ دنوں کی تاخیر تھی، تو اچانک ہی نسرین کا کلاس میں آنا بند ہو گیا۔ لڑکے اور لڑکیوں نے اس کے نہ آنے کے بارے میں الگ الگ رائے دیں، بس میں ہی صحیح اندازہ لگا پایا کہ اس کا آنا کیوں بند ہو گیا ہے۔ کلاس میں اس کے بیٹھنے کی خالی جگہ کی طرف دیکھتے ہوئے دل گھبرانے لگتا تھا، میں آنکھیں بند کر دیتا تھا۔ وہ میرے سامنے آ کھڑی ہوتی، جیسے درد کے پاتال سے نکل کر اوپر آ جاتی تھی۔ اس کی ایسی حالت دیکھ کر میں سہہ نہیں پاتا تھا۔ شاید اس کی وہ حالت میرے اندر کے درد کی پرچھائیں تھی، جو نسرین کا روپ لے کر، نمودار ہوتی تھی۔ اچانک میں آنکھیں کھول دیتا تھا اور نگاہیں اس کی خالی جگہ سے ٹکرا جاتیں، ٹکرا کر جیسے زخمی ہو کر لوٹ آتی تھیں۔ اس وقت مجھے دل کسی انجان تکلیف میں دبتا، پستا محسوس ہوتا تھا۔ میں گھبرا کر اپنی کیفیت سے ڈر کر، اٹھ کر باہر چلا جاتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کا ایک مختصر خط مجھے ملا۔ وہ مجھ سے آخری بار ملنا چاہتی تھی۔ آخری بار! میں نے قہقہہ لگانا چاہا لیکن گلے میں گانٹھ پڑ گئی تھی۔
اور اب، اس وقت، وہ آخری بار میرے قریب بیٹھی ہے۔ لیکن کہاں ہے وہ، میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ وہ یہاں پر ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ یہاں پر نہیں ہو گی اور پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا، جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ لیکن تھا بھی کیا؟ کیا تھا؟ آخر ہمارا رشتہ کیا تھا آپس میں، جو آج آخری بار ملنے کے سبب ہم اتنے دکھی تھے۔ جس وقت وہ آئی تھی، اس وقت اس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ اداسی میں ڈوبی مسکراہٹ بھی نہیں، جیسے مسکراہٹ مر چکی تھی۔ پہلے میں نے ہی اس سے بات کی تھی۔
’’نسرین، پڑھنا چھوڑ دیا کیا؟‘‘
اس نے بس میری جانب دیکھا، جیسے کہتی ہو، ’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے!‘‘ وہ چپ چاپ بیٹھی ہے، اچانک سسک کر کہتی ہے، ’’میری شادی کا دن طے ہو چکا ہے۔‘‘
اسکا لہجہ رقیق اور سسکنے جیسا ہے، پھر بھی مجھے اپنے آگے دھماکے جیسا محسوس ہوا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اس بات کا کیا جواب دوں۔ دل میں آ رہا ہے کہ اسے مبارکباد دوں۔ لیکن یہ سمجھتے ہوئے کہ میں اس کے اوپر طعنہ کس رہا ہوں اور ہمدردی! لیکن میں کون ہوتا ہوں، اس سے ہمدردی کرنے والا۔
’’تم امتحان بھی نہیں دو گی؟‘‘
’’نہیں، میرا چاچا، بابا سے اس بات پر غصے میں آ گیا ہے کہ انہوں نے مجھے اس کے لڑکے سے زیادہ کیوں پڑھایا ہے۔ چاچا بہت بڑا زمیندار ہے، اس کے مقابلے میں ہم کم حیثیت والے ہیں، اس لئے بابا اسے ناراض کرنا نہیں چاہتے۔‘‘
میں کچھ نہیں پوچھتا، میرے پاس بات کرنے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ میں بات کرنا نہیں چاہتا، لیکن کیا بات کرنی چاہئے۔ مجھے کوئی بات نہیں سوجھ رہی، اندر کی الجھن کو ظاہر کرنے سے کیا فائدہ! ان کہی باتیں، ان کہی ہی رہیں تو اچھا۔ سب کچھ ختم ہو جانے کے بعد ان باتوں کی اہمیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔
’’کلاس کے لڑکے اور لڑکیاں میرے بارے میں اب بھی باتیں کرتے ہیں؟‘‘ اس کے ہونٹوں پر مردہ مسکراہٹ ہے۔
’’ان کے لئے تم اب بھی ایک راز ہی ہو۔‘‘ میں نے ایسے ہی کہہ دیا۔
’’ہاں اوروں کو کیا پڑی ہے جو ایک راز کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘
میں اس کی جانب دیکھتا ہوں۔ وہ فوراً منہ گھما دیتی ہے اور آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو چھپا کر پونچھتی ہے۔ پھر آنسوؤں کو پیتے ہوئے کہتی ہے۔
’’تم بھی مجھے اوروں کی طرح راز ہی سمجھتے۔ تم نے مجھے سمجھ کر کیوں خود کو دکھی کیا؟ کیوں دکھی کیا؟‘‘ وہ ہونٹ کو کاٹ کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔
ہوا بند ہے۔ میری سانس گھٹ رہی ہے۔ میں پیڑوں کی جانب دیکھتا ہوں، ٹہنیاں ہل رہی ہیں، لیکن پھر بھی ہوا نہیں ہے، چاروں جانب لا محدود دیواریں ہیں، جنہوں نے ہوا کو مقید کر رکھا ہے۔ سانس گھٹ رہی ہے۔ جیسے دل کسی مٹھی میں پستا جا رہا ہے۔ اوہ نسرین! نسرین۔۔ ۔ چیخ گلے میں آ کر تڑپنے لگی۔ میں فوراً اس کی جانب دیکھتا ہوں۔ اس کی جگہ خالی پڑی ہے، ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ کبھی وہاں پر تھی ہی نہیں۔
٭٭٭
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں