FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 شام کی نظمیں

                   ترنم ریاض

جمع و ترتیب: ارشد خالد اعجاز عبید

ماخذ: عکاس انٹر نیشنل اسلام آباد کتاب ۱۷

 

 

پردیس کا شہر

یہ سرمئی بادلوں کے سائے،

 یہ شام کی تازہ تازہ سی رت

یہ گاڑیوں کی کئی قطاریں

یہ باغ میں سیر کرتے جوڑے

یہ بچوں کے قہقہے سریلے

وہ دور سے کوکتی کویلیا

یہ عکس پانی میں بجلیوں کا

چہار جانب ہے شادمانی

 مگر میں ہوں بے قرار مضطر

نہیں ہے اس شہر میں مرا گھر

٭٭٭

 

عیاشی

محبوب کی مانند اٹھلائے

معشوق کی صورت شرمائے

ہریالی کا آنچل اوڑھے

ہر شاخ ہوا میں رقصاں ہے

میں پیار بھری نظروں سے انھیں

مسکاتی دیکھے جاتی ہوں

شاموں میں پیڑوں کو تکنا

 ہے میری نظر کی عیاشی

٭٭٭

 

پتوں کے سائے

شام کے ڈھلتے، اترنے کے لئے کوشاں

ہوا کرتی ہے جب جب مخملیں شب

باغ کے اطراف پھیلے سب گھروں کی بتیاں

جلتی ہیں اک کے بعد اک اک

ایسے میں پتوں کے سائے کھڑکیوں کے لمبے شیشوں پر

سمیٹے اپنا سارا حسن مجھ کو دیکھ کر گویا

 خوشی سے مسکراتے ہیں ، جہانِ دل سجاتے ہیں

٭٭٭

 

شفق گوں سبزہ

بڑی تکلیف تھی تحریر کو منزل پہ لانے میں

تناؤ کا عجب اک جال سا پھیلا تھا چہرے پر

کھنچے تھے ابروؤں میں سیدھے خط

 پیشانی پر آڑی لکیریں تھیں

خمیدہ ہوتے گاہے لب

کبھی مژگاں الجھ پڑتی تھیں با ہم!

گرا کر پردۂ چشم اپنی آنکھوں پر

 غر ق ہو جاتی سوچوں میں

 کہ افسانے میں دیوانے کا کیا انجام لکھوں ؟

اور اسی میں دوپہر ڈھل گئی

 نظر کھڑکی جانب جب اٹھی تو

  دیکھا شام آتی ہے عظمت سے

شجر، پتے عجب سے نور میں روشن ہیں

شامل ہیں بہت سے رنگ جس میں

قرمزی کرنوں نے

سبزے کو شفق گوں سا منعکس کر کے

ملکوتی فضا میں ڈھال کر

میری نگاہوں تک بڑی عجلت سے لایا ہے

میں اس کو دیکھنے میں گر نہ کچھ پل خود کو گم کرتی

تو ماتھے کے شکن چہرے پہ چھایا یہ تناؤ

 بے سکوں آنکھیں

سبھی مل کر میرے دل کو بجھا دیتے

٭٭٭

 

میڈیٹیشن

(Meditation)

کچھ نہ سوچوں

میں کچھ نہیں سوچوں

یوں ہی کھڑکی سے شام کو دیکھوں

پر سکوں آسماں خموش درخت

سرمئی روشنی، ہوا، یہ سکوں

اپنی نس نس میں منتقل کر لوں

دل کی دھڑکن کو روک دوں کچھ پل

ایک دفعہ پلک نہیں جھپکوں

یوں ہی بیٹھی رہوں جو بے جنبش،

روح پھر رب سے بات کرتی ہے

کتنے ہی کام ساتھ کرتی ہے

٭٭٭

شام کا سحر

ابھی پرچھائیاں اونچے درختوں کی،

جدا لگتی ہیں رنگِ آسماں سے،

ذرا پہلے گیا ہے اِک پرندہ باغ کی جانب

اُدھر سے آنے والے ایک طیّارے کی رنگیں بتیاں ،

 روشن نہیں اتنی

وہ نکلی ہیں سبھی چمگادڑیں اپنے ٹھکانوں سے

بڑا مبہم سا آیا ہے نظر،  زہرا فلک کے بیچ،

ٹی کوزی کے نیچے  ہے گرم اب بھی بچا پانی

کسی نے مجھ کو اندر سے نہیں آواز بھی دی

میں

ذرا برآمدے میں اور رہ لوں

فسوں میں شام کے، پُرواسی بہہ لوں

٭٭٭

شرمیلی خاموشی

 شام کی شرمیلی چپ کو

روح میں محسوس کرتے

کام میں مصروف ہیں  ہم دوپہر سے

دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں گہری گہری سبز شاخوں کو

جو بیٹھی ہیں خموشی سے

کئے خم گردنیں اپنی

کسی دلہن کی صورت

سر پہ اوڑھے آسماں کی سرمئی چنری

ستارے جس میں ٹانکے جا رہے ہیں

ہم اپنے اس تصور پر خود ہی مسکا رہے  ہیں

 ٭٭٭

 

برسات کی خشک شام

سنہرے سبز پتے،

سرمئی نیلا سا، نارنجی  بہ مائل سرخ  رنگ آسماں

خوشبو ہو امیں بھیگی سوندھی سی

ابھی سورج ڈھلا ہی ہے

خنک کمرے کی ساری کھڑکیوں کو بند کر کے

جھانکنا شیشوں کے اندر سے

خوش آگیں مشغلہ ہے

٭٭٭

 

شام کی بارش

کون سے کوہ کی آڑ  میں  لی خورشید نے جا کر آج پناہ

چو طرفہ یلغار سی کی ہے ابر نے بھی تا حدِ نظر

دھیمے چلتے کالے بادل، اڑتی سی اجلی بدلی

رقصاں رقصاں جھلک دکھا کر رہ جاتی ہے برق کبھی

پتوں کے جھرمٹ میں سائے کجلائے شرمائے سے

پھول حلیمی سے سرخم اور کلیاں کچھ شرمائی سیں

دانستہ بارش میں اڑتے پھرتے آوارہ طائر

یہاں وہاں بیٹھے کتنے بھیگیں چپ چاپ سے خوش ہو کر

بجلی کی مانوس کڑک، شہ زور گرج یہ بادل کی

اب کے ہم نے کتنی دھوپیں اس موسم کی راہ تکی

٭٭٭

 

کوئی بات کرو

منہ بسورے یہ شام کھڑکی پر

آن بیٹھی ہے دو پہر ہی سے

دل کہ جیسے خزاں زدہ پتہ

ٹوٹنے کو ہے،

 کوئی بات کرو!

 ٭٭٭

 

چپکے چپکے رویا جائے

شام بجھی سی، پنچھی چپ،

سینے کے اندر سنّاٹا

اور روح میں نغمے غم آگیں

دل کے سب زخموں کو اشکوں سے دھویا جائے

کچھ لمحوں کو چپکے چپکے رویا جائے

٭٭٭

 

شامِ  تنہا

شامِ  تنہا یونہی چپ چاپ اندھیرے لے کر

گھر کے اندر ہی چلی آئی ہے

بتیاں گُل کئے ہم بیٹھے رہے

شام کو اور کچھ اداس کریں

رنج اور غم کو پاس پاس کریں

 ٭٭٭

 

آبائی گھر

ماتمی شام اتر آئی ہے پھر بام تلک

گھر کی تنہائی کو بہلائے کوئی کیسے بھلا

اپنے خوابوں کے تعاقب میں گئے اس کے مکیں

منتظر ہیں یہ نگاہیں کہ ہیں بجھتے سے دئے

راہ تکنے کے لئے کوئی بچے گا کب تک

پھر یہ دیواریں بھی ڈھے جائیں گی۔

٭٭٭

 

ضروری بات

نیلی نیلی شام کی خاموشیوں کے بیچ

کیا سرگوشیاں سی کرتے ہیں شاخوں سے یہ پتے

جھکا ہے گُل کلی کے رخ پہ ساری خوشبوئیں لے کر

بکھیرے زلف، سورج کی طرف چل دی ہے اک بدلی

ہوا  اٹھکیلیاں کرتی ہے رُک رُک کر درختوں سے

زمیں کو آسماں نے لے لیا اپنی پناہوں میں

تم آ جاتے اگر گھر آج جلدی،

مجھ کو بھی تم سے ضروری بات کرنا تھی!

٭٭٭

 

منتظر ہے شام

دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر

 شکستہ پَرسی نا اُمید،  اشک آنکھوں میں بھر کر

 اس طرح ساکت نہ بیٹھو اک جگہ پر

 کانچ کو پتھر کی سنگت میں ہی رہنا ہو

تو اک رستہ یہ ہے

وہ فاصلوں کو درمیاں رکھے

سنو!

 یہ زیست ایسی شے نہیں مل پائے گی پھر

دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر

چلو ہلکے سے رنگوں کی لپیٹو اوڑھنی

برآمدے میں اس سے کھیلیں گی ہوائیں کا سنی،

 پھر جامنی سی روشنی اوڑھائے گی اک مخملیں چادر

مقیش اس میں ستارے ٹانکنے اتریں گے،

 دیکھو!

 زندگی کا اور اک دن ہے گزرنے کو، اٹھو تو

 دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر

٭٭٭

 

ہزار شعر

 شام تجھ پر ہزار شعر کہوں

 دل کو پھر بھی قرار آتا نہیں

 یہ ترا حسن یہ حلیمی تری

 تیری  خاموشیاں  یہ معنی خیز

دن سمیٹے تو اپنے آنچل میں

کیسے پل پل بکھیر دیتی ہے رنگ

اور اندھیرے میں ڈوب جانے کو

 تیرا کچھ ہی گھڑی کا نرم وجود

خوشبوئیں گھولتا  فضاؤں میں

دوش پر یوں اڑے ہواؤں کے

جیسے تجھ کو سوائے الفت کے

اور کچھ بھی نہیں سجھا ئی دے

کس قدر پرسکون لگتے ہیں

آ کے تیری پناہ میں یہ شجر

سر بلند ی یہ کوہساروں کی

 ہوئی واضح شفق میں تیرے سبب

ہو گئے نغمہ ریزسب طائر

جانے کب میں بھی گنگنانے لگی

٭٭٭

ماخذ:

عکاس انٹر نیشنل: کتاب ۱۷

اسلام آباد

تدوین اور ای بک کی تشکیل:  اعجاز عبید