فہرست مضامین
شاعراتِ ارضِ پاک(حصہ دوم)
(جامع ایڈیشن)
(100 شاعرات پر تنقیدی مضامین اور منتخب کلام)
شبیر ناقِدؔ
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
اُن اہلِ قلم و اہلِ دل شاعرات کے نام!
جنہوں نے بقائے خاصہ و قرطاس کے ذریعے
شعر و ادب کی بہترین خدمت انجام دی
ایک اور سنگِ میل
ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ
(فاتح منزل، تونسہ شریف)
کارِ تخلیق ہر چند کہ کارِ دشوار ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل عمل، عملِ تنقید ہے۔ تنقید سے مراد ایک معاملے یا مسئلے کو نقد و جرح کی چھلنی سے گزارنا ہے۔ اس کے لیے عمیق تجربے اور وسیع تر شعور کی ضرورت ہے جس کے لیے گہری بصیرت و فراست درکار ہے۔ تخلیقی جوہر سے آگاہی اور مہارتِ تامہ اس کے لیے ناگزیر ہے۔ شبیر ناقِدؔ اس نسبت سے لائقِ مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ایسے ادق میدانوں میں قدم رکھا اور پھر اپنا فرضِ منصبی بہ حسن و خوبی نبھا کر دکھایا۔
شاعری کے حوالے سے ایک مستحکم رائے قائم کرنا اور کسی فن پارے کو میزانِ عدل میں تولنا کسی صادق انسان کا کام ہے۔ مزید برآں اس سے آگے بڑھ کر کسی فنی کاوش کی جانچ پرکھ اور زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ شاعری اور وہ بھی صنفِ نازک سے صادر ہونے والی اس کی جہتوں کا تعین اور اس کے حسن و قبیح کی نشان دہی گویا خود کو پل صراط سے گزارنے کا عمل ہے اور یہ ناقد جی کا کمال ہے کہ وہ ایسی دشوار گزار گھاٹیوں سے بطریق احسن گزر جاتے ہیں۔ سچ بھی کہہ جاتے ہیں اور کڑواب ھی نہیں لگتا۔ حالانکہ عربی میں مثل مشہور ہے: الحقُّ مُرٌّ … ولو کان دُرٌّ … یعنی: حق تلخ ہوتا ہے چاہے جوہر ہی کیوں نہ ہو
شاعراتِ ارضِ پاک کے حوالے سے سلسلۂ کتب شبیر ناقد نے تحریر کیا اور شاعر علی شاعر نے اسے زیورِ طباعت سے آراستہ کیا۔ یقیناً ایک ادبی کارنامہ ہے۔ خصوصاً ایک ایسے طبقے کی نسبت سے قلم اُٹھانا جسے عموماً تذکروں اور تبصروں سے محروم رکھا گیا ہو۔ اس کے لیے صلاحِ عام اور التفاتِ تمام کے در باز کرنا یقیناً عزم الامور میں سے ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شبیر ناقِدؔ نے بڑی عرق ریزی سے کام کیا ہے۔ تیشۂ تنقید سے بھی کام لیا ہے اور کسی کو احساسِ محرومیت بھی نہیں ہونے دیا۔ یہی ہوتا ہے، ایک پختہ کار نقاد کا اندازِ سعی۔ اسے کہتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ جہاں کہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی نوبت آئی، دل کھول کر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسادیے اور جہاں کہیں فہمائش کا موقع آیا تو اس سے بھی پوری چابک دستی سے عہدہ بر آ ہوئے۔ بہرحال یہ ان کی معاملہ فہمی، ادب شناسی، نکتہ سنجی اور ژرف نگاہی کے کرشمے ہیں۔
شاعراتِ ارضِ پاک جامع ایڈیشن (حصہ دوم) کی اشاعت ادبی دنیا میں ایک اور گراں قدر اضافہ ہے جسے نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا رہے گا۔ نسائی نقدِ فن کی ایک اور سعیِ محمود ہے جس سے شاعر علی شاعر ایک بار پھر ہدیۂ تبریک کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ یوں ہی یہ مساعیِ جمیلہ جاری و ساری رہیں:
ہم یونہی نظریں بچھائے منتظر رہیں
اور تم آتے رہو، جاتے رہو، آتے رہو
٭٭٭
آر اے قمرؔ کی رجائی شاعری
بیم و رجا دو الگ الگ جذبات و احساسات کا نام ہے یعنی یہ دو مختلف و متضاد مکتب فکر ہیں بیم نا امیدی اور رجا امید سے عبارت ہے مقولہ مشہور ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے تجربات و مشاہدات سے یہ امر مسلمہ ہے کہ رجائی انداز فکر رکھنے والے لوگ کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں آج ہم لاہور سے تعلق رکھنے والی شاعرہ آر اے قمر کی شاعری کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کے ہاں دیگر موضوعات کے پہلو بہ پہلو رجائی عوامل کی بہار سمانی بھی موجود ہے اس وقت ان کا مجموعہ کلام خواب تعبیر ہو نہیں سکتے مطبوعہ 2015ء ہمارے زیر تجزیہ ہے جس مین زیادہ تر غزلیات شامل ہیں اور کچھ نظمیاتِ منشور بھی شامل ہیں۔
اگر رومانوی حوالے سے بات کی جائے تو محبوب ہی ان کے لیے جوازِ حیات ہے اور زندگی کی شمعیں بھی اس سے فروزاں ہوتی ہیں ان کے ہاں ظلم و زیادتی کرنے والوں کے لیے بھی نرم گوشہ موجود ہے اور ان سے بہتر امید و توقعات وابستہ رکھتی ہیں مجازی حوالے سے وہ اپنے محبوب سے بھی نیک شگون رکھتی ہیں کہ وہ اسے رسوا نہیں کرے گا بلکہ اس کا بھرم رکھے گا وہ خوابوں کے سہارے جیون بتانے کا فن جانتی ہیں اور یہی خواب ان کے لیے انبساطِ حیات کا جواز ہیں اس لیے وہ مسلسل خواب دیکھنا چاہتی ہیں وہ مصائب و آلام کے ہجومِ بے اماں میں بھی رجا کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر لیتی ہیں اور مستقبل کے حوالے سے بہتر توقعات رکھتی ہیں ان کے مذکورہ مجموعہ کلام سے منتخب اشعار زینتِ قرطاس ہیں:
تیری خبر ملنے لگے تیرا پتہ ملنے لگے
تو زندگی کو زندگی کا راستہ ملنے لگے
٭
وہ جس نے گھر سے بے گھر کر دیا
اسے اس دل میں ہم نے گھر دیا
٭
وہ مجھے ٹوٹ کر گرنے نہ دے گا
کسی سے حال دل کہنے نہ دے گا
٭
کسی کے خواب پھر آنے لگے ہیں
ہم اپنے دل کو بہلانے لگے ہیں
٭
وہ سُہانا خواب ہے اس خواب کو
دیکھتے رہنے کی عادت ہو گئی
٭
جسے کھو دیا تھا طلب کے سفر میں
پھر اس کو ہی پانے کی کوشش کریں گے
یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ بھی آر اے قمر کو میدانِ فکر و فن میں فزوں تر ریاضتیں درکار ہیں اگر ان کا انہماک روبہ ارتقا رہا تو ان سے بہتر توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
٭٭٭
آر اے قمرؔ
(لاہور)
ساری دنیا تلاش کی میں نے
تجھ سا دیکھا نہیں کوئی میں نے
جس طرح حق ہے اس کے کرنے کا
اس طرح کی ہے بندگی میں نے
اشک آنکھوں میں بے پناہ رکھے
دل میں رکھی ہے دوستی میں نے
بے وفائی کا اس سے کیا شکوہ؟
اس نے ہر گز نہیں یہ کی میں نے
جن کے مندر میں دیوتا رکھا
سجدے میں یہ جبیں رکھی میں نے
٭٭٭
٭
دیارِ خوبرو تک آ گئے ہیں
تمہاری جستجو تک آ گئے ہیں
ترے کوچے سے نکلے جو فسانے
کسی کی آبرو تک آ گئے ہیں
دکھوں کے سلسلے بڑھنے لگے ہیں
ہم ان کی آرزو تک آ گئے ہیں
خموشی کو شکست فاش ہو گی
فسانے گفتگو تک آ گئے ہیں
نمازِ عشق ادا ہونے لگی ہے
قمرؔ ہم بھی وضو تک آ گئے ہیں
٭٭٭
آسناتھ کنولؔ نسائی احساسات کی شاعرہ
خالقِ ارض و سما نے حضرتِ انسان کو اشرف المخلوق بنایا ہے اور اسے مسجودِ ملائک ٹھہرایا ہے کیوں کہ یہ عقل و بصیرت، فہم و فراست، دانش و حکمت اور جذبات و احساسات سے مرصع ہے اس پر طرہ یہ کہ اسے اظہار کے وسیلے ودیعت کیے گئے ہیں انسان چاہے وہ مرد ہے یا عورت وہ حساس ہوتا ہے مرد چونکہ قوی الجسم ہے اس لیے وہ عورت کی نسبت کم حساس ہوتا ہے صنفِ نازک اپنی جسمانی نزاکتوں کے ساتھ ساتھ فکری طور پر بہت حساس ہوتی ہے ایسے معاشرے جہاں عورتوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں وہاں حوا کی بیٹی اپنی سماجی محرومیوں کے باعث بہت زیادہ حساسیت رکھتی ہے اس لیے کہ اُس کے بس میں کچھ نہیں ہوتا وہ صرف سوچ سکتی ہے اور آزادانہ طور پر اظہار سے بھی محروم ہوتی ہے یہی احساسات ہمیں آسناتھ کنول کے کلام میں نظر آتے ہیں کیونکہ وہ بھی مشرقی تہذیب کی پروردہ ہیں جہاں عورت کو مساوی حقوق نہیں دیے جاتے آج ہم اُن کے اوّلین شعری مجموعہ ’’پانیوں کا پھول‘‘ میں سے منتخب غزلیہ اشعار اور منظومات کے اقتباسات مذکورہ موضوع کے تناظر میں برائے تجزیہ پیش کریں گے مجموعہ ہٰذا کا نام جدید، علامتی اور استعاراتی نوعیت کا حامل ہے جس سے اُن کی جودتِ طبع کی غمازی ہوتی ہے کتابِ ہٰذا کی طباعت 2003ء میں عمل میں آئی۔
صنفِ نازک طبعی اعتبار سے محبت اور نفرت دونوں حوالوں سے شدت کی حامل ہوتی ہے اس کی چاہت بھی مثالی ہوتی ہے اور اس کی کدورت بھی بھرپور ہوتی ہے اس کے جذبوں کی تمازت اس کے بہت زیادہ حساس ہونے کی علامت ہے وہ ٹوٹ کر الفت کا دم بھرتی ہے اور مر مٹ کر نفرت بھی نبھاتی ہے آسناتھ کنول کے ہاں بھی محبوب کا تصور ایک جابر مرد کے طور پر سامنے آیا ہے اور اُن کا کردار وفا کی دیوی کے طور پر اُجاگر ہوا ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کے چار اشعار ملاحظہ ہوں:
تو مجھے ملتا رہا نا آشناؤں کی طرح
نام تیرا میرے لب پہ تھا دعاؤں کی طرح
چشمِ نم میں ایسا حیرت ناک منظر جم گیا
وہ کسی کے ساتھ تھا میری وفاؤں کی طرح
جب ملا مجھ سے تو بکھرا آرزوؤں کا وجود
وہ مرے گلشن میں اُترا تھا ہواؤں کی طرح
بھول جانے کی تجھے کوشش بہت کی تھی مگر
تو رہا ہے دل کی دھڑکن میں صداؤں کی طرح
ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں عورت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہ اپنے آپ کو ایک اجنبی دنیا میں محسوس کرتی ہے ہر طرف اُسے ہوس کے مہیب سائے نظر آتے ہیں اس لیے وہ شدید قسم کے احساسِ تنہائی کا شکار ہے کہیں بھی اُسے جائے اماں نظر نہیں آتی اپنائیت کا احساس معدوم ہے خود غرضی اور مطلب پرستی نے بہت بھیانک صورت اختیار کر لی ہے نفسا نفسی کا عالم ہے جس نے بہت سے مصائب و آلام اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے جس سے صنفِ نازک کو امنِ ہستی پامال ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انھیں خیالات سے مرصع اُن کی غزل کے پانچ اشعار اربابِ ذوق کی نظر ہیں:
میں اکیلی ہی کھڑی ہوں دوستوں کے درمیاں
راستے گرچہ کھلے ہیں راستوں کے درمیاں
وہ جو کل تک کہہ رہے تھے جان بھی دے دیں گے ہم
رہ گئے ہیں آج پھنس کر الجھنوں کے درمیاں
توڑ کر رشتہ وفا کا اُس نے بھی یہ کہہ دیا
ہم نہ مل کے چل سکیں گے مشکلوں کے درمیاں
داغ کیسے لگ رہے ہیں دامنِ ہستی پہ آج؟
یہ صلہ مجھ کو ملا ہے دلبروں کے درمیاں
بعض اوقات زبان کے تلخ و ترش الفاظ وجودِ ہستی پر چھید کر دیتے ہیں جس سے زندگی کا تمام حسن مفقود ہو جاتا ہے جب ایک دوسرے کا احترام ختم ہو جائے تو آپس کی محبت و موانست معدوم ہو جاتی ہے اور خود پرستی کی جڑیں گہری ہو جاتی ہیں اسی حوالے سے وہ یوں گویا ہیں:
زباں کے تیر نے چھیدا ہے دل کی ہستی کو
مٹا کے رکھ دیا اُس نے حسین بستی کو
تری نگاہ میں میرا وقار کچھ بھی نہیں
میں کیسے بھول سکوں تیری خود پرستی کو
محبت میں جب ہوس کا عمل دخل شروع ہوتا ہے تو اس پاکیزہ جذبے کا تقدس خاک میں مل جاتا ہے اس کی رونق و رعنائی ماند پڑ جاتی ہے پھر چاہت رسوائی کا روپ دھار لیتی ہے بقولِ راقم الحروف:
ہوس نے بنائی ہیں سب داستانیں
اسی راہ میں لوگ پاگل ہوئے ہیں
انھیں خیالات کا اظہار ذرا آسناتھ کنول کی زبانی سنتے ہیں:
کتنی آسانی سے پھیلائے ہوس کے دائرے
میری چاہت کو بھی رُسوا کر دیا
اُن کے ہاں رجائی افکار بھی بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں۔ ایک عزم ہے، ایک حوصلہ ہے جو چٹان کی مانند ہے چاہے جتنی تیز آندھیاں ہوں وہ ہر حال میں وفا کے دیپ جلاتی ہیں:
کوئی خدشہ نہ رکھ ہواؤں کا
ہاں وفا کا دیا جلا تو سہی
عورت ایک ضبط کا استعارہ ہوتی ہے دنیا کے ہر دُکھ درد کو اپنے ہونٹ سی کر برداشت کرتی ہے وہ آہ و فغاں سے بے نیاز ہوتی ہے یہی اصل میں رازِ حیات ہے یہی رازِ ہستی ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کے دو اشعار لائقِ توجہ ہیں:
تنہا رہنا سیکھ لیا ہے
یہ دُکھ سیکھ لیا ہے
دنیا سے ہر زخم چھپا کر
زندہ رہنا سیکھ لیا ہے
اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اُن کا پیرایۂ اظہار انتہائی سادہ و شستہ ہے انھوں نے مفرد اور رواں دواں بحور میں خامہ فرسائی کی ہے کہیں کہیں زحافات کا استعمال بھی بخوبی پایا جاتا ہے اُن کی غزل میں تغزل بھرپور انداز میں جلوہ ریز ہے۔
اُن کے ہاں نسائی جذبے پاک اور پوتر صورت میں پائے جاتے ہیں جن سے اُن کے جذبات کے تقدس کا اندازہ ہوتا ہے اُن کی نظم ’’لڑکی‘‘ میں نسائی احساسات کی جھلک دیکھتے ہیں:
ٹھنڈے میٹھے جذبوں والی لڑکی ہے
سیدھے سادے رستوں پر وہ چلتی ہے
اس نے کب احسان کیا ہے دنیا پر؟
دنیا پھر بھی اس کی دید کو ترسی ہے
ہر اک زخم چھپایا دنیا داروں سے
خود ہی پیار کی دھرتی پر وہ برسی ہے
وہ سماج میں عورت کے مقام و مرتبے سے آشنا ہیں اور اُنھیں اس کے مصائب و آلام کا مکمل ادراک ہے وہ معاشرے میں عورت کے کردار اور اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اُن کے کلام میں صنفِ نازک کی زندگی کی تمام تر داستاں رقم ہے انھوں نے عورت کے مسائل کو اُجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اسی کوشش کا عکس اُن کی نظم ’’میں صحرا کی عورت ہوں‘‘ کے مختصر اقتباس میں آپ کے ذوقِ طبع کی نظر ہے:
میں صحرا کی عورت ہوں
دس دس کوس کے فاصلے سے
پانی بھر کر لاتی ہوں
اُن کے کلام کے مطالعہ سے یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں نسوانی احساسات بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں۔ اگر لسانی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو اُنھوں نے ابلاغ پر زیادہ زور دیا ہے اسی لیے اُن کا نقطۂ نگاہ واضح طور پر سامنے آیا ہے اگر اسی ذوق و شوق سے اُن کا شعری سفر جاری رہا تو وہ دنیائے سخن میں اپنی واضح پہچان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
٭٭٭
آسناتھ کنولؔ
(لاہور)
انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے
بے وفا ہونے سے پہلے سوچ لے
بندگی مجھ کو تو راس آ جائے گی
تو خدا ہونے سے پہلے سوچ لے
کاسۂ ہمت نہ خالی ہو کبھی
تو گدا ہونے سے پہلے سوچ لے
ہاں محبت عمر بھر کا روگ ہے
مبتلا ہونے سے پہلے سوچ لے
بچ رہے کچھ تیرے میرے درمیاں
فاصلہ ہونے سے پہلے سوچ لے
زندگی اک ساز ہے لیکن کنولؔ
بے صدا ہونے سے پہلے سوچ لے
٭
تیرے احسان سے ڈر لگتا ہے
دل کو طوفان سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو کافر نہ کہیں کر دے یہ
تیرے ایمان سے ڈر لگتا ہے
پالتی ہوں میں پرندے گھر میں
مجھ کو انسان سے ڈر لگتا ہے
چاہتیں جرم نہ ہو جائیں کہیں
عہد و پیمان سے ڈر لگتا ہے
چھوڑ جائے نہ کہیں رستے میں
دل کے مہمان سے ڈر لگتا ہے
زہر آلود ہوائیں ہیں کنولؔ
اب گلستان سے ڈر لگتا ہے
٭٭٭
آمنہ عالم کی نظم نگاری
کسی بھی شاعر کی فکری وسعت کا اندازہ اُس کی نظم سے لگایا جا سکتا ہے کیونکہ غزل اختصار و جامعیت کا امتزاج ہوتی ہے جبکہ نظم خیالات کے پھیلاؤ کی حامل ہوتی ہے نظم ایک سمندر ہے ایک بحرِ بیکراں ہے غزل ہو یا نظم محض ہیئت کی بنیاد پر پروان نہیں چڑھتی بلکہ تخیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے بھرپور تخیل کی بدولت نظم میں جاذبیت پیدا ہوتی ہے تاثر سے لبریز نظم ہی قاری کو اپنے حصار میں لینے میں کامیاب ہوتی ہے اگر ہم آمنہ عالم کی نظم نگاری کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے اعلیٰ پائے کی نظم تخلیق کی ہے انھوں نے مسدس، مخمس، مثمن، معریٰ، نظم آزاد اور غزل کی ہیئت میں نظمیں کہی ہیں اُن کی افتادِ طبع زیادہ تر پابند شاعری کی طرف مائل ہے جو اُن کے فنی جوہر کی غماز ہے طوالت کے اعتبار سے اُنھوں نے طویل اور درمیانے درجے کی نظمیں کہی ہیں آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’خوشبو سے لکھی فرد‘‘ کے نظمیہ اقتباسات کا فکری و فنی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
عرفانِ ذات اور عرفانِ خالقِ کائنات معرفت کی منازل ہوتی ہیں معرفت کا ادراک افکار کی رفعت کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے جس کا اظہار حمد، نعت اور مناجات کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ آمنہ عالم بھی انھیں احساسات سے مرصع ہیں اس لیے اُن کے ہاں حمد، نعت اور مناجات کا سلسلہ ملتا ہے اُن کی فکر پر مذہبی اثرات غالب ہیں اس لیے انھوں نے متعدد قرآنی سورتوں کے منظوم تراجم بھی کیے ہیں اُن کی حمد رفعتِ تخیل کی حامل ہے جو اپنے اندر مناجات کا رنگ بھی سموئے ہوئے اُن کی حمد کے تین اشعار نذرِ قارئین ہیں:
کبھی یقیں کو گمان کر دے کبھی گماں کو یقین کر دے
بس ایک کن سے جو چاہے پل میں وہ خالقِ عالمین کر دے
میں ایک ذرہ ہوں بے حقیقت وجود ہے بس تری بدولت
تو چاہے تیرہ نصیب رکھے تو چاہے ماہِ مبیں کر دے
اُن کا پیرایۂ اظہار بھرپور تاثر کا حامل ہے اُن کے جذبوں میں شدت و حدت شامل ہے۔ زبان و بیان پر انھیں قدرت حاصل ہے۔
ماں سے محبت ایک فطری تقاضا ہے ممتا کی یادیں تا حیات انسان کی شریکِ سفر رہتی ہیں ماں خلوص و وفا کا استعارہ ہوتی ہے روئے ارض پر اگر کوئی ہستی زیادہ پیار کرنے والی ہے تو وہ ماں ہے اس پیکرِ شیریں سے وہ اپنی موانست کا اظہار یوں کرتی ہیں:
گال پہ میرے ماں کا بوسہ، آج تلک بھی تازہ ہے
گونج رہے ہیں لوری بن کرمیٹھے بول فضاؤں میں
اُن کے قلم میں بلا کی روانی اور جولانی پائی جاتی ہے ایک خلوص اور چاشنی ہے جس سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے اور اُسے کہیں بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا اُن کے موضوعات وسعت کے حامل ہیں جن کے باعث اُن کے ہاں جزئیات نگاری پائی جاتی ہے اُن کے رومانوی افکار میں گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے جس کی بدولت قاری کو محبت کی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اُن کی نظم ’’محبت سے تہی دل‘‘ کا نصف اوّل ملاحظہ کریں:
محبت چاندنی بھی روشنی بھی ہے
محبت نغمگی بھی ہے شاعری بھی ہے
محبت آگہی بھی زندگی بھی ہے
محبت ہے خدائی، بندگی بھی ہے
خمیر انسان کا اُٹھا ہے اک چٹکی محبت سے
پگھل سکتے ہیں پربت اس حرارت سے
کوئی جذبہ نہیں افضل محبت سے
نظر تم مت چُرانا اس صداقت سے
محبت ایک آفاقی حقیقت ہے
یہاں پر زندگی کو محبت کی ضرورت ہے
محبت بے تقاضا ہے محبت بے محابہ ہے
محبت سے تہی دل اک خرابہ ہے
جہاں سنسان گلیاں ہیں
جہاں ویران رستے ہیں
جہاں ہیں خوف کے جالے
جہاں آسیب بستے ہیں
اُن کے کلام میں فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے وہ ابلاغ پر زور دیتی ہیں اُن کا اسلوب شستہ اور رواں ہے وہ فکری و فنی اسرار و رموز سے آشنا ہیں اُن کا شعری شعور اُن کی فنی بلوغت پر دلالت کرتا ہے اُن کے تنقیدی ادراکات کی جھلک اُن کی نظم ’’شاعری کیا مانگتی ہے‘‘ کے دو اقتباسات میں دیکھتے ہیں:
شاعری ایک نیا طرزِ ادا مانگتی ہے
مختلف سے کسی لہجے کی دعا مانگتی ہے
زخمِ دل مانگتی ہے اس کی دوا مانگتی ہے
یعنی امید کا اک جلتا دیا مانگتی ہے
ہر قلم کار سے یہ فکرِ رسا مانگتی ہے
شاعری میرؔ سا پھر آج خدا مانگتی ہے
قلب و اذہان پہ اک کیف سماں مانگتی ہے
زاویے فکر کے یہ حسنِ بیاں مانگتی ہے
اپنے اظہار کو یہ علمِ بیاں مانگتی ہے
ساتھ ہی اس کے لطافت کی زباں مانگتی ہے
تازہ تازہ سی زمینوں پہ مکاں مانگتی ہے
یہ تصرف کے لیے ایک جہاں مانگتی ہے
وہ اپنی نظم میں اپنے موضوع کی وسعت کا احاطہ کرنے کا فن جانتی ہیں اس لیے اُن کے ہاں بھرپور انداز میں جزئیات نگاری پائی جاتی ہے جس کی بدولت قاری کے ذہن میں مناظر اُجاگر ہو جاتے ہیں اور وہ اُسے اپنی رودادِ حیات سمجھ لیتا ہے اُن کی منظومات حقیقی زندگی کی عکاس ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ادب برائے زندگی کی قائل ہیں اُن کی نظم ’’کتابِ ہستی‘‘ کے دو اقتباسات نذرِ قارئین ہیں:
یہ پیری میں یادوں کے اوراق سے
اُبھرتے ہیں ذہنوں پہ ماضی کے باب
جو لکھو تو دفتر کے دفتر سیاہ
جو سوچو تو پل میں مرتب کتاب
وہ پہلے ورق پر
ہیں دھندلی سی یادیں
وہ جھولے کی پینگیں
وہ لوری کی تانیں
وہ گڑیا کی شادی
وہ تتلی کا پیچھا
وہ بادل وہ بارش
وہ جگنو کی خواہش
وہ مٹتی اُبھرتی سی بچپن کی یادیں
ہیں دھندلی سی یادیں
مذکورہ نظم میں انھوں نے عہدِ طفلی کی تمام داستان دُہرا دی ہے جس میں بچپن کے تمام رنگ پورے جوش و جذبے کے ساتھ موجود ہیں۔
اُن کے کلام میں ترقی پسند افکار بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ انقلاب کی خواہاں ہیں وہ ایک انقلابی تبدیلی چاہتی ہیں۔ وہ نظام کو مثبت خطوط پر استوار کرنے کی متمنّی ہیں جس سے مفلوک الحال طبقے سے اُن کی ہمدردی کا اندازہ ہوتا ہے اس حوالے سے اُن کی نظم ’’انقلاب کی آہٹ‘‘ کے دو اقتباس نذرِ قارئین ہیں:
اقتدار بدلیں گے انتظام بدلیں گے
جو لہو پہ پلتا ہے وہ نظام بدلیں گے
جس میں ہو ریا کاری وہ امام بدلیں گے
راستے سنواریں گے گام گام بدلیں گے
اختیارِ آقا کو اب غلام بدلیں گے
اپنی قسمتوں کو اب خود عوام بدلیں گے
٭
دین دب گیا آخر ریت اور رواجوں میں
قوم بٹ گئی ساری ان گنت سماجوں میں
بھر گئی ہیں غربت سے تلخیاں مزاجوں میں
بِک رہے ہیں جسم و جاں چند سیر ناجوں میں
ان کی قدر بدلی تو ان کے دام بدلیں گے
اپنی قسمتوں کو اب خود عوام بدلیں گے
یہ تو اُن کی منظومات کی چند جھلکیاں تھیں جو ہم نے پیش کی ان کے علاوہ بھی اُن کی بے شمار نظمیں ہیں جو حوالے کا استحقاق رکھتی ہیں اُن کی دیگر نظموں میں اُمید، تجلیِ خیال، آنکھیں، سونامی، محبت جاوداں ہے اور نسلِ رائیگاں بھرپور قسم کی نظمیں ہیں اگر اُن کی نظم کا سفر تواتر سے جاری رہا تو اُن کی نظم انھیں ساحر لدھیانوی اور ن م راشد کی صف میں شامل کر دے گی۔
٭٭٭
آمنہ عالم
(کراچی)
درد کی آگ کو ہوا دی جائے
عشق کو ہجر کی دعا دی جائے
اک وہی ہے پکار سننے والا
آخری سانس تک صدا دی جائے
رقتِ قلب میں کسر ہے باقی
رنج کی آنچ کچھ بڑھا دی جائے
دل پہ تحریر جو لہو سے لکھی تھی
حکم آیا ہے سب مٹا دی جائے
وصل میں جسم ہو رہا ہے حائل
سو یہ دیوار اب گرا دی جائے
روح یہ روح سے چلی ہے ملنے
راہِ افلاک تک سجا دی جائے
تعزیت کر کے جا چکے ہیں آنسو
یہ صفِ غم بھی کیا اٹھا دی جائے؟
٭
لرزے قدم پہ اس کے کرم سے گئے سنبھل
دیتا ہے وہ ہی خاک کو اکسیر میں بدل
ماحول سے خفا ہے نہ تقدیر کا گلہ
کیچڑ کے باوجود بھی پاکیزہ ہے کنول
ہنستا ملا گلاب وہ کانٹوں کے درمیاں
لب پر شکایتیں ہیں نہ ماتھے پہ اس کے بل
شکوہ کبھی نہ آب نے حالات کا کیا
پتھر کو خود ہی توڑ کے چشمے گئے ابل
دیکھا کرے وہ شوق سے بس منزلوں کے خواب
جس کا نہیں ہو اپنے ارادے پہ کچھ عمل
ممکن نہیں کہ حشر تلک کھل سکے یہ آنکھ
اک ایسی نیند آنکھ کو دے جائے گی اجل
٭٭٭
آصفہ نشاطؔ کا سخن معاملاتِ شوق کے تناظر میں
دنیائے شعر میں کچھ موضوعات ایسے ہیں اگر اُن کا وجود معدوم ہو جائے تو شاعری بے جان بے روح اور سپاٹ ہو کر رہ جائے قارئین کا حجم سُکڑ کر رہ جائے ان موضوعات میں معرفت و مجاز اور رومان کے معاملات شامل ہیں اگر جہانِ سخن میں ان کی جلوہ سامانی نہ ہو تو شاعری کو شاعری کہتے ہوئے عار محسوس ہو شاعری اگرچہ لغوی اعتبار سے شعور سے عبارت سمجھی جاتی ہے لیکن اس میں عقل و خرد کی بجائے جنوں کی عمل داری زیادہ ہوتی ہے اس لیے طبقۂ سخنوراں کو حلقۂ جنوں کیشاں کہا جاتا ہے کیونکہ شعرائے کرام پاسدارِ شعور ہونے کی نسبت اہلِ دل زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کا جھکاؤ جنوں کی طرف فزوں تر ہوتا ہے اگرچہ جدید تنقیدی روش میں خرد کو بہت فوقیت دی گئی ہے مگر جہانِ شعر میں دل اور دل کے معاملات کی راج دھانی قائم رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ناقدانِ فن خرد کی طرف مائل ہوتے ہیں جبکہ اہلِ سخن پاسدارِ جنوں ہوتے ہیں اگر شاعری کو کلاسیکی تنقیدی و تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا بنیادی مقصد تفریحِ طبع سے جس کی اہمیت و فوقیت کسی بھی عہد میں کم ہوتی ہوئی نہیں دکھائی دیتی معرفت و مجاز، رومان، محبت ایسے موضوعات ہیں جن سے تفریحِ طبع کے وسیع تر مقاصد وابستہ ہیں اس لیے انھیں معاملاتِ شوق سے منسوب سمجھا جاتا ہے عہدِ موجود میں بھی جمہور قارئین تسکینِ طبع کے لیے شاعری سے رجوع کرتے ہیں اس لیے معاملاتِ شوق کی اہمیت کسی بھی دور میں ماند ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی آصفہ نشاطؔ کے سخن میں بھی مجاز اور رومان کے وسیع تر شواہد ملتے ہیں اس لیے اُن کے ہاں خوش گواریِ طبع اور شگفتگیِ طبع کے وسیع تر امکانات موجود ہیں ان کا بنیادی تعلق پشاور خیبر پختونخواہ سے ہے اس وقت وہ امریکہ میں مقیم ہیں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کیا بعد ازاں ان کی شادی ہو گئی اور امریکہ چلی گئیں امریکہ کی ادبی محافل میں تواتر سے شرکت کرتی رہتی ہیں ایک شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک افسانہ نگار بھی ہیں مگر ان کا شعری حوالہ نسبتاً وقیع نوعیت کا ہے۔ ان کا کلام اور افسانے ادبی جرائد میں چھپتے رہتے ہیں اس وقت ان کا شعری مجموعہ ’’سورج سے شکایت‘‘ مطبوعہ اکتوبر 2009ء ہمارے پیشِ نظر ہے جس میں حمد و نعت، غزل، آزاد نظم اور نظمِ منثور شامل ہیں نظمِ منثور کے زمرے کی حامل وہ نظمیں جو عروضی تلازمات کے استخدام سے عاری ہیں اُن کے مذکورہ مجموعہ کے ثُلث کی غزلیات کے اشعارِ منتخبہ کا تنقیدی مطالعہ موضوعاتی تناظر میں زینتِ قرطاس ہے۔
آصفہ نشاطؔ کے ہاں رازدارانہ معاملات کا بیان بھی سادگی و صفائی کے پیرائے میں پایا جاتا ہے ان کے وجدان شعر میں شوق و ضبط کی پیوند کاری حسیں اظہار کی حامل ہے جس سے اُن کی اظہاری جسارتیں بھی اظہر من الشمس ہوتی ہیں اُن کا شعری پیرایہ بھرپور محبت کا غمّاز ہے چاہے جانے کی آرزو شدید نوعیت کی حامل ہے شدتِ احساس اور زورِ بیان کی مقتضیات کا اہتمام بخوبی ملتا ہے احساسِ خود محبوبی جو نسائی شاعری کا ایک اہم فکری تلازمہ ہے اپنائیت و جاذبیت کے انداز میں جلوہ گر نظر آتا ہے کسی مسیحا صفت دلربا کی بازیافت کا عمل بھی اُن کے افکارِ سخن کا حصہ ہے جس کے سبب زیست اُجاڑ پن کا شکار معلوم ہوتی ہے محبوب کا تنقیدی رویّہ اُن کے لیے اداؤں کا روپ دھارے ہوئے ہے محبوب کی جفا اور وفا کا عمل بھی امتزاجی کوائف رکھتا ہے جس سے گومگو اور کشمکش کی کیفیات جنم لیتی ہیں اُن کے نزدیک محبت ایک پوتر جذبہ ہے محبت نگاری کا قرینہ اُن کے ہاں منظر نگاری اور تمثیلاتی انداز میں ملتا ہے جس کی بدولت فکری تشنگی گریز پا معلوم ہوتی ہے رومانوی روئیوں میں وہ کھوٹ کی قائل نہیں ہیں کیونکہ وہ لوبھ اور لالچ کے سماجی خبائث سے ماورا ہیں اُنھیں اپنی محبت پر یقین ہے اس لیے وہ اس جذبے کو جا بجا باور کراتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جس کی بدولت دعووں کا جواز جنم لیتا ہے متضاد النوع روئیوں کو وہ انتہائی چابکدستی سے پیش کرتی ہیں اس لیے اُن کے سخن کا مطالعہ قاری کے لیے خوشگواریِ طبع اور شگفتگیِ طبع کا سامان مہیا کرتا ہے اُن کے ہاں دوہرے روئیوں کی بھرپور عکاسی پائی جاتی ہے۔
آصفہ نشاطؔ کے سخن میں ہجر کی آنچ شدید نوعیت کی ہے محبت کے حوالے سے کچھ خلافِ توقع کیفیات بھی پائی جاتی ہیں اس لیے شکوہ و شکایت کی حکایت بھی فطری انداز میں ملتی ہے تمثیلاتی نادرہ کاری بھی اُن کے سخن کا ایک وصفِ خاص ہے اور معاملہ بندی کا حسن بھی ہے ابھی اُنھیں فکری و فنی حوالے سے ترفع درکار ہے مسلسل ریاض فکر و فن کی بدولت اُن کے کلام میں مزید معیار اور نکھار آشکار ہو گا اُن کے مذکورہ شعری مجموعہ سے چند شعر اشتہادات نذرِ قارئین ہیں:
وہ انتہائے شوق تھی یا ابتدائے ضبط
تنہائی میں بھی ہاتھ لگایا نہیں مجھے
٭
مری یاد میں تو نڈھال ہو تو کمال ہو
تجھے بس مرا ہی خیال ہو تو کمال ہو
٭
کبھی یوں بھی ہو کہ بلک بلک کے تو رو پڑے
مرے شعر پڑھ کے یہ حال ہو تو کمال ہو
٭
کوئی تو آئے بن کے خریدار سامنے
اُجڑا سا کیوں پڑا ہے یہ بازار سامنے
٭
اس برس تحفے میں اُس نے آئینہ بھیجا مجھے
میرے خد و خال کا یہ تجزیہ بھیجا مجھے
٭
بڑی ادا سے گریز کرتا ہے جس تعلق سے وہ ہمیشہ
بڑے جتن سے وہی تعلق بحال کرتی ہیں میری آنکھیں
٭
کچا گھڑا ہوا رات ہو، دریا کا پاٹ ہو
اپنی محبتوں میں سیاست نہیں رہی
٭
مرے بغیر وہ پتوار تھام کر دیکھے
مجھے وہ چھوڑ کے دریا کے پار جائے تو
٭
نیک نامی کی اُس کو آس بہت
پھر بھی رہتا ہے میرے پاس بہت
میرا قاتل بہت مہذب ہے
دیکھنے میں بھی خوش لباس بہت
٭
اُسے چھین کر کوئی لے گیا مرے پاس کچھ بھی رہا نہیں
بڑا جاں گُسل ہے یہ سانحہ مرے ساتھ پہلے ہوا نہیں
٭
یہ کیا ہوا مجھے صبر کیوں نہیں آتا؟
رفیق ہوتے ہوئے راز داں ہوتے ہوئے
٭
ترا وجود شبنمی
میں بیل سی لپٹ گئی
٭٭٭
آصفہ نشاطؔ
(پشاور)
٭
مجھے بھی حوصلہ اتنا مگر خدا نے دیا
مٹا رہا تھا مرا نام وہ، مٹانے دیا
مجھے چراغ جلانا تھا میں جلا کے رہی
جو سچ کہوں تو مجھے یہ ہنر ہوا نے دیا
کوئی حساب بھی رکھا نہیں عداوت کا
کسی نے سنگ اُٹھایا، اُسے اُٹھانے دیا
مجھے ملے گی جو فرصت تو کھل کے رولوں گی
اُسے تو دل ہی دکھانا تھا سو دُکھانے دیا
کوئی سوال کرے گا تو کیا بتاؤں گی؟
خوشی کے ساتھ بہت غم بھی بے وفا نے دیا
میں روشنی میں بدل جاؤں گی خبر تھی مجھے
اُسے تو دل ہی جلانا تھا، دل جلانے دیا
٭
کوئی صدا دے مجھے، ہے کوئی صدا دے مجھے
میں کھو گئی ہوں کہاں، ہے کوئی بتا دے مجھے؟
پلٹ کے دیکھوں نہ ساری خدائی، وہ چہرہ
کوئی دکھا دے مجھے، ہے کوئی دکھا دے مجھے
میں کھو چکی ہوں وہ موقع، جسے نہ کھونا تھا
کوئی سزا دے مجھے، ہے کوئی سزا دے مجھے
بھٹک رہی ہوں مجھے معرفت کی مَئے دے دے
کوئی پلا دے مجھے، ہے کوئی پلا دے مجھے
دواؤں سے میں بہت دور جاچکی ہوں اب
کوئی دعا دے مجھے، ہے کوئی دعا دے مجھے
میں بال کھولے ہوئے رقص کرتی آ جاؤں
کوئی بتا دے مجھے، ہے کوئی بتا دے مجھے
٭٭٭
اداؔ جعفری کی جدت آمیز شاعری
طویل المیعاد مشاطگیِ سخن کے بعد کسی سخن گستر کے ادراکات میں کچھ نیا کہنے کی دھن اجاگر ہوتی ہے یہ صورتِ حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ریاضِ شعر کی بدولت اظہاری پیمانے ارتقائی سفر طے کرنے کے بعد جدت و ندرت سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اظہاری پیمانوں کی اصطلاح جامع نوعیت کی ہے جس میں من الحیث المجوع فکری و فنی معاملات دخیل ہیں یہ عرق ریزی وہ بسیط مسافت ہے جس سے وہ سخنور گزرتا ہے جو اکتسابِ فکر و فن میں آگے بڑھتا ہے وہی گلشنِ شعر و سخن کی معتبر انداز میں آبیاری کرتا ہے جس کے باعث قارئینِ شعر و ادب اور اربابِ نقد و نظر کو اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنے میں کسی نوع کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس کا سبب یہ ہے کہ اس کی کشید جاں اس سلسلے میں معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہے آج ہم عصرِ حاضر کی سینئر شاعرہ اداؔ جعفری(جسے اداؔ بدایونی بھی کہتے ہیں) کی سخن سنجی کے حوالے رقمطراز ہیں۔ ان کے پانچویں شعری مجموعہ ’’حرفِ شناسائی‘‘ مطبوعہ 1999ء کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار برائے تجزیہ شامل شذرہ ہیں۔ مجموعۂ ہٰذا میں زیادہ تر غزلیات اور آزاد نظمیات ہیں۔ واضح رہے کہ قبل ازیں چھپنے والے مجموعوں کے نام مع سنِ طباعت حسبِ ذیل ہیں:
1۔ میں ساز ڈھونڈتی رہی مطبوعہ 1956ء
2۔ شہرِ درد مطبوعہ 1967ء
3۔ غزالاں تم تو واقف ہو مطبوعہ 1972ء
4۔ ساز سخن بہانہ ہے مطبوعہ 1982ء
علاوہ ازیں ’’موسم موسم‘‘ سے موسوم ان کی کلیات بھی اپریل 2002ء میں منصہ شہود پر آئی جس میں ’’سفر باقی ہے‘‘ کے عنوان سے ان کا چھٹا شعری مجموعہ بھی کلیاتِ ہٰذا کا حصہ ہے جس کے حوالے سے یہ جانکاری دی گئی ہے کہ یہ کلام پہلی بار شامل کیا گیا ہے یعنی ’’سفر باقی ہے‘‘ کے نام سے ان کی کوئی علیحدہ کتاب نہیں شائع ہوئی۔
ان کی ایک غزل کے تین اشعار لائقِ اعتنا ہیں:
ایک آئینہ روبرو ہے ابھی
اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی
وہی خانہ بدوش اُمیدیں
وہی بے صبر دل کی خو ہے ابھی
ورنہ انسان مر گیا ہوتا
کوئی بے نام جستجو ہے ابھی
شعرِ اوّل ایک جمالیاتی اور رومانوی حوالہ خود میں سموئے ہوئے ہے آئینے کا خوشبو سے تکلم فکری اعتبار سے جدت اظہار پر دال ہے شعرِ ثانی میں امیدوں کی کشاں کشاں مسافت کی روداد ہے جس میں حسرتوں کا جہان آباد ہے زندگی کا حقیقی منظر نامہ پیش کر رہا ہے خواہشوں کا مستقل مستقرنہ ہونا بھی عدم طمانیت کا مظہر ہے شعرِ ثالث میں انسان کا زندگی کرنے کا مذکور ہے زندہ رہنے کی خواہش ہی اس پیکرِ خاکی کو محوِ تگ و تاز رکھتی ہے۔ آخری شعر میں جہدِ پیہم کا درسِ بلیغ کار فرما ہے جیسے راقم الحروف اپنی نظم ’’جد و جہد‘‘ میں گویا ہیں:
مجھے کچھ سانس لینے دو
مجھے کچھ اور جینا ہے
ابھی آشائیں زندہ ہیں
ابھی ارمان باقی ہیں
ابھی تک میں نہیں ہارا
ابھی تک جنگ جاری ہے
غزل کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں:
مرے آنسوؤں نے بجھائی تھی مری تشنگی
اسی برگزید سحاب میں مجھے دیکھنا
وہی ایک لمحۂ دید تھا کہ رکا رہا
مرے روز و شب کے حساب میں مجھے دیکھنا
آنسو کتھارسس کا معتبر حوالہ ہوتے ہیں جو ذات کے تزکیہ و تطہیر کے لیے ناگزیر ہے برگزیدہ سحاب کا استعارہ اور ترکیب اسلوبیاتی جدت کی تمثیل ہے انسانی شخصیت و افکار کی برہان قاطع ہے کہ جو احتسابِ عمل کے لیے پیش کر دی جائے اسے مقامِ اعتبار گردانا جاتا ہے اس سلسلے میں اداؔ بدایونی بہتر انداز میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ان کی غزل کا مقطع قابلِ غور ہے:
ادا حصار سے باہر قدم تو رکھنا تھا
کہ وقت پاس ہے گزرا نظر بچاتے ہوئے
نسائی لب و لہجہ میں اس نوع کا اظہار ترقی پسند افکار کی علامت ہے اور ایک فطری جمود سے انحراف کی دلیل بھی ہے جو طبقۂ اناث کے سخن میں شاذ ہی کہیں مشاہدہ کی جا سکتی ہے ادا جعفری کے کلام میں فکر کے نئے زاویوں کی جھلک ملتی ہے۔
غزل کا ایک شعر آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہے:
ہوا کے سامنے شاخِ گلاب جیسی ہو
جھکو تو سر کو اُٹھانے کا بھی ہنر رکھنا
شعرِ ہٰذا میں زندگی کرنے کی عمیق جا نکاری ملتی ہے مصلحت کا درس بھی ہے جسارتوں کی داستاں بھی ہے جس میں طمانیت کی ایک پور فضا پائی جاتی ہے اور ان کے تجربات و مشاہدات کا عکس جمیل بھی نمو پاش ہو رہا ہے آموزش کا بسیط انداز شعرِ مذکور میں پایا جاتا ہے۔
بقول راقم الحروف:
زمانہ تم کو نہ روند ڈالے یہ ڈر ہے مجھ کو
تم اپنی ہستی میں ہر طرح کا کمال رکھنا
غزل کے تین اشعار زیب قرطاس ہیں:
بچھی ہوئی بساطِ کائنات ہے
جو کھو گئی وہ صرف اپنی ذات ہے
اب آئینوں میں اپنا عکس بھی کہاں؟
کہ دل سے آنکھ تک طویل رات ہے
اُچٹ چلی ہے چاندنی کی نیند بھی
ہمارا درد مژدۂ حیات ہے
اداؔ کا اندازِ فکر میرؔ سے موضوعاتی مماثلت رکھتا ہے ایک حزن و ملال کی فضا ہے جو محیطِ سخن ہے مطلع میں کائناتی اور ذاتی حوالے کو شعر کے مختصر پیمانے کا حصہ بنایا گیا ہے جس سے ان کی سوچ کا نزولی ارتقاء آشکار ہوا ہے اجتماعی اور انفرادی حوالہ سامنے آیا ہے ان کی سوچ کے زاویّے کائنات سے شروع ہوتے ہیں جو ذات پر آ کر منتج ہوتے ہیں یعنی ان کے نزدیک ذات آخری اور حتمی اکائی ہے تحلیلِ نفسی کے شواہد بھی فکرو نظر کو خیرہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں دل سے چشم تک رات کا طویل ہونا جہاں دروں کی تیرہ شبی سے عبارت ہے وہاں جدت آمیز اظہار بھی ہے اور نزولی طرزِ فکر کی دلیل بھی ہے کیونکہ روایتی طرزِ فکر میں یہ مسافت آنکھ سے شروع ہوتی ہے اور دل پر اختتام پذیر ہو جاتی ہے درد کو مژدۂ حیات کہنا پھر چاندنی کی نیند کا اُچٹنا غم کے دائرے کا آفاقی پھیلاؤ ہے۔
غزل کے مقطع میں ان کا رجائی امکان ملاحظہ کریں:
کسی یقیں کا اجالا، کسی گماں کی کرن
اداؔ تلاش کرو حرفِ معتبر کوئی
ان کے ذہنی کینوس پر صرف حزن و الم کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ کہیں رجا کی کرنیں بھی ضو پاشیاں کر رہی ہیں جن میں ہمت و حوصلے کو بھر پور طریقے سے ابھارا گیا ہے گویا ان کے کلام کا حاصل صرف یاسیت و قنوطیت نہیں بلکہ رجائیت بھی ہے۔ ان دو عوامل کاپایا جانا قاری کے لیے زندگی کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔
الغرض اداؔ جعفری نے دشتِ شعر و سخن میں جدید افکار کی آبیاری کی ہے اور اس گوہرِ مقصود کو پانے میں کامیاب ہوئی ہیں جو کسی سخن گستر کی منزل سے تعبیر کیا جاتا ہے اقلیمِ سخن کے ہر عہد کی تاریخ میں انھیں معتبر انداز میں یاد رکھا جائے گا:
جو تڑپ تمھیں کسی آئینے میں نہ مل سکے
تو پھر آئینے کے جواب میں مجھے دیکھنا
٭٭٭
اداؔ جعفری
(کراچی)
اس قدر تو نہ تھا لا گماں راستہ
رہ گیا پھر نہ جانے کہاں راستہ؟
آشنا بھی رہا، اجنبی سا بھی ہے
گھر کا نا مہرباں، مہرباں راستہ
دور تو وادیِ لالہ و گل نہیں
آ گیا ہے مگر درمیاں راستہ
ساتھ دیتی رہیں دل کی تنہائیاں
بن گیا کارواں قصہ خواں راستہ
رنج کے مرحلے طئے ہمی سے ہوئے
ہم سے پہلے رہا بے نشاں راستہ
دھول آئے راستوں سے ذرا دور رہی
ہے ہمیں تو کہیں آسماں راستہ
اک نگاہِ شناسا کو ترسے بہت
بے خبر راہ رو، بے زباں راستہ
٭
کسی کا انتظار تھا مری طرح
زمانہ بے قرار تھا مری طرح
طلوعِ درد ہی سحر کا رنگ ہے
سحر کو اعتبار تھا مری طرح
مری نگاہِ آرزو کی حد نہ تھی
سو وہ بھی بے شمار تھا مری طرح
مقابلہ ہواؤں سے جو ہو تو ہو
گلوں کو اختیار تھا مری طرح
نہ جانے کس کی جستجو لیے پھرا؟
جو چار سو غبار تھا مری طرح
بدلتے موسموں کے ہیر پھیر میں
گلاب خار خار تھا مری طرح
٭٭٭
اسماء نازؔ وارثی کا عام فہم کلام
زبان و بیان کی ترقی و تدریج کی بدولت اسا لیبی ارتقا کا عمل بھی واضح طور پر اجاگر ہوا ہے جس سے لسانیاتی پر توں کی واضح نشاندہی ہوئی ہے ادب کے دیگر شعبوں کی بدولت اسالیب کو حیرت انگیز نوعیت کا فروغ میسر آیا ہے حتیٰ کہ تنقیدی اعتبار سے اسلوبیاتی تنقید کو ایک دبستان کا درجہ حاصل ہو چکا ہے اب تخلیقات کو اسلوبیاتی تناظر میں جا نجا اور پر کھا جانے لگا ہے جمہور متقدمین و متوسطین و متاخرین شعرا و ادبا اور اہلِ نقد و نظر کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آسان اور عام فہم کلام ابلاغیت سے معمور ہوتا ہے اگر ادب کو افادیت و مقصدیت کی نسبت سے دیکھا جائے تو ابلاغیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ سہل نگاری کا تاثر براہِ راست، زود فہم اور دیر پا ہوتا ہے اقلیمِ سخن میں میں عام فہم سخن سنجی کی خوبصورت روایت موجود ہے ہم نے جب اسما نازؔ وارثی کے کلام کا مطالعہ کیا تو انہیں اس حسیں روایت کا امین پایا ابھی تک ان کے دو شعری مجموعے منظرِ عام پر آ کر قبولیتِ عام کی سند پا چکے ہیں۔ ان کے مؤخر الطباعت شعری مجموعہ ’’متاعِ درد‘‘ مطبوعہ فروری 2014ء کی منتخب غزلیات کے اشعارِ منتخبہ بطور استشہادات برائے تجزیات شاملِ شذرہ ہیں۔
ان کی غزل کے تین اشعار لائق توجہ ہیں:
بتوں کے شہر سے گزرے تو یہ عقدہ کھلا
یہاں ہر ایک ہی اک خوف سے سہما ہوا ہے
نہ ہوتا عشق دنیا میں تو پھر کچھ بھی نہ ہوتا
یہ کاروبارِ دنیا عشق پر ہی چل رہا ہے
سرِ تسلیم خم کرنے میں جو مانع ہے تجھ کو
تری عظمت نہیں نادان یہ تیری انا ہے
اسماء ناز وارثی کی مدعا نگاری سلیس نگاری سے مربوط ہے شعرِ اول بیک وقت عصری بے حسی اور عصری آشوب کے حوالے سے ہے ان کے کلام میں ایہام گوئی کے شواہد بھی ملتے ہیں وہ عشق کو تگ و تاز حیات و کائنات کا سر چشمہ گردانتی ہیں یہی جا نکاری ان کے شعرِ ثانی میں کار فرما ہے وہ عاجزی و انکساری کو ہی سراپا عظمت سمجھتی ہیں وہ جھوٹی اور ابلیسی انا کی مذمت کرتی ہیں۔ جنون و خرد کی دو دنیاؤں میں جنوں کی طرف ان کا واضح جھکاؤ نظر آتا ہے جو ایک روایتی طرزِ فکر کا نتیجہ ہے:
وسوسے اور تشکک تو محض عقل کو تھے
دل تو یک سوہی تھا محور پہ زمیں کی مانند
شعرا کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ پاسدارِ جنوں رہے ہیں اس لئے اہلِ سخن کو جنوں پیشہ سے بھی موسوم کیا جاتا رہا ہے مذکورہ شعر میں بھی اسی موضوع کی بازگشت سنائی دیتی ہے قلبی استحکام و قناعت اور یک سوئی بات کی گئی ہے غم کے پہلو بہ پہلو طربیہ تاثرات بھی ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں جو ایک رجائی حوالے کا درجہ بھی رکھتے ہیں:
غموں کو بھول جانا چاہتا ہے
یہ دل بھی گنگنا چاہتا ہے
ان کا سخن زندہ دلی کے احساسات سے مرصع ہے جس میں زندگی کی رونق و رعنائی واضح طور پر محسوس ہوتی ہے انہوں نے کہیں بھی اپنے اسلوب کو گنجلک اور دقیق نہیں ہونے دیا ان کا پیرایۂ اظہار سلیس نگاری کی قرینہ کاری سے دھلا ہوا ہے عند البیان رومان نگاری کی واضح جھلک بھی محسوس کی جا سکتی ہے:
کرم اس کے بد اندازِ ستم ہیں
مجھے کندن بنانا چاہتا ہے
شعرِ مذکور میں ایک عمیق رجائی اور طربیہ احساس کار فرما ہے جو ان کی وسیع الظرفی کی برہانِ قاطع ہے۔ مزید براں ستم گر محبوب کی مشقِ ستم کو اس کا حوالۂ کرم گردانا گیا ہے انہوں نے عصری بے حسی کو بھی موضوعِ بیان بنایا ہے:
ہے گرمیِ خیال نہ احساس نہ خلوص
انسان ہیں کہ مورتیاں جیسے برف کی
ان کے ہاں عصری روئیوں کی واژگوئی و سنگینی بھی بھر پور انداز میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے جو ایک تنقیدی طرزِ فکر کا بالواسطہ اظہار ہے معاشرتی اصلاح کا جذبہ بھی ان کے سخن میں پایا جاتا ہے عشق ان کے مستقل و توانا فکری حوالے کا درجہ رکھتا ہے:
نہ راہبر کی جستجو نہ فکر زادِ راہ کی
دیارِ شوق ہے عجب یہ راستہ کچھ اور ہے
عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو دنیا و مافیہا سے بے نیاز و بے خبر کر دیتا ہے جو اس کی طرفگی کی دلیل ہے اس کے جوش و خروش کا حوالہ ہے اس لئے نہ راہبر کی محتاجی رہتی ہے اور نہ زادِ راہِ فکر کی طلب ہوتی ہے۔ یہ عشق کی بے نیازی کا عالم ہے بقول حسرت موہانی:
دونوں عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
کیونکہ عشق احساس سودوزیاں سے ماورا ایک حقیقت کا نام ہے ہجر کے کرب کو وہ عقبیٰ کی عافیت کا سبب گردانتی ہیں:
وہ دوزخ سے بھی محفوظ ہو گا
جہنم ہجر کا جو سہہ چکا ہے
پشیمانی ادھورے خواب یادیں
ہر اک جیون کی بس اتنی کتھا ہے
ان کے افکار نادر النظیر بھی ہیں اور طرفگیِ سخن کا مظہر بھی ہیں مجموعی طور پر انہیں حزن و ملال اور محرومی و حسرت کے عوامل حیات کے منظر نامے پر چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس سے ان کے تلخ و ترش تجربات و مشاہدات کی غمازی ہوتی ہے۔
مشمولہ توضیحات و استخراجات اس امر کے شاہد ہیں کہ اسما ناز وارثی کا کلام عام فہم اور اثر آفرینی کے خصائص سے مالا مال ہے تاہم انہیں ابھی فکر و فن کی بالیدگی مطلوب ہے وسیع تر مشاطگیِ عروسِ سخن کے باعث ان کی سخن سنجی کے مزید معتبر ہونے کی قوی امید کی جا سکتی ہے تاہم ان کا شعری ارتقا کا سفر حوصلہ افزا ہے۔
٭٭٭
اسماء نازؔ وارثی
(کراچی)
٭
اب کہاں وہ انجمن آرائیاں
رہ گئیں یادوں کی بس پرچھائیاں
بزمِ دل اجڑے تو صدیاں ہو گئیں
آج تک روتی ہیں وہ انگنائیاں
دل میں اس کی یاد ہے آٹھوں پہر
جگمگاتی ہیں مری تنہائیاں
عشق خود ہی رہ نما بن جائے گا
رنگ لائیں گی مری سچائیاں
اپنے گھر میں، میں اکیلی تو نہیں
ساتھ رہتی ہیں مری تنہائیاں
نازؔ عجلت میں نہ کیجیے فیصلے
جانچیے دل کی ذرا گہرائیاں
٭
نظامِ ہست کا حاصل تو ہو گا
اگر ماضی ہے مستقبل تو ہو گا
اگر سچے ہیں نظروں کے نشانے
تو پھر رقصِ دلِ بسمل تو ہو گا
کہیں تو کشتیِ جاں آ کے ٹھہرے
سمندر کا کوئی ساحل تو ہو گا
محبت معتبر ہو کر رہے گی
ہلالِ نو، مہِ کامل تو ہو گا
انہیں جنت نہ خوش آئے گی تنہا
کہ تڑپانے کو وہاں دل تو ہو گا
٭٭٭
الویراؔ علی کا بے ساختہ پن
اقلیمِ فکر جذبات و احساسات، افکار و تخیلات اور حسیات و کیفیات سے عبارت ہے مذکورہ امور شعور اور لاشعور سے مربوط ہیں جنھیں فطری اور غیر فطری اندازِ فکر سے موسوم کیا جاتا ہے ایسے خیالات جن کا تعلق انسانی فہم و ذکا سے براہِ راست نوعیت کا ہو تو اُنھیں برجستگی و بے ساختگی سے معنون کیا جا سکتا ہے جن میں انسان کی کسبی کاوشیں تند و تیز انداز میں دخیل ہوتی ہیں پیمانۂ شعر میں بے ساختگی کا عنصر قاری کو جلد اور حیران کن انداز میں متوجہ کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے معقولیت و پذیرائی کا معتبر سبب گردانا جاتا ہے بہت کم شعرا و شاعرات میں یہ وصف فکر پایا جاتا ہے انھیں مقامِ اعتبار کی حامل شخصیات میں ایک نام الویراؔ علی کا بھی ہے جنھوں نے اپنی سخن سنجی کے باعث قارئین شعر کو حیرت انگیز انداز میں متوجہ کرایا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شعر گوئی کو نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا ہے ان کا تعلق لاہور سے ہے ان کا اولین شعری مجموعہ ’’برگِ دل‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۳ء ہمارے زیر نظر ہے کتابِ ہٰذا کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر سید شبیہ الحسن اور اسلم کولسری جیسی معتبر ادبی شخصیات کی آرا کتابِ ہٰذا کا حصہ ہیں۔
معروف نقاد ڈاکٹر سید شبیہ الحسن رقم طراز ہیں:
’’الویراؔ کی شاعری میں غمِ دوراں بھی ہے اور غمِ جاناں بھی مگر اظہارِ غم میں ایک تہذیب ہے در اصل یہ تہذیب اُن کی مہذب شخصیت کی غماز ہے وہ اپنے غموں پر دوسری شاعرات کی طرح نہ چیختی ہیں اور نہ برہمی کا اظہار کرتی ہیں ان کے اظہارِ غم میں بھی ایک سلیقہ ہے جو اُن کی عمر بھر کی ریاضت کا ثمر ہے۔‘‘
مشہور شاعر اسلم کولسری کچھ یوں گویا ہیں:
’’الویرا نے زندگی کو جس ڈھب سے دیکھا شاعری کرتے ہوئے اُسی احساس کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا اس مجموعے میں محبت کا موضوع تو ہے ہی دیگر مسائل و معاملات بھی اُن کی شاعری میں در آتے ہیں اس طرح مجموعہ خیالات کی یکسانیت کا شکار نہیں ہوا یہ تنوع اور رنگارنگی قاری کو اُکتاہٹ سے بچائے رکھتی ہے الویراؔ نے اپنے تجربات کو نئے اور مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔‘‘
الویراؔ علی کے شعری کینوس میں بے ساختہ پن وفور سے ملتا ہے ان کے مذکورہ مجموعہ کے نصف اوّل کی منتخب غزلیات کے اشعارِ منتخبہ متذکرہ موضوع کی نسبت سے مع استخراجات شاملِ شذرہ ہیں کتابِ ہٰذا میں غزلیات و پابند نظمیات، آزاد نظم، نظم معریٰ اور نظمِ منشور شامل ہیں اُن کی کچھ نظمیات قطعات یاد و بیتی کی ہیئت میں ہیں اور کچھ بیت یا فرد کی صورت میں ہیں جو کسی نہ کسی سرنامے کے تحت ہیں۔
اُن کے بے ساختہ پن کے حوالے سے غزل کے تین اشعار نذرِ قارئین ہیں:
پتھر کھنگالنے میں مری عمر کٹ گئی
خود کو سنبھالنے میں مری عمر کٹ گئی
اس نے تو پھول پھینکے تھے میری طرف مگر
کانٹے نکالنے میں مری عمر کٹ گئی
کیا جانے میرے دل میں وہ اُترا تھا کب سے؟
دل سے نکالنے میں مری عمر کٹ گئی
الویراؔ کا بے ساختہ پن اُن کے اظہار کی بے تکلفی سے مربوط ہے جس میں کسی نوع کے تصنع اور بناوٹ کا گماں نہیں گزرتا جو خالصتاً فطری طرزِ فکر کا نتیجہ ہے اُن کے سخن میں اُن کے سوانحی کوائف کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں زیست کے مصائب و آلام بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں محبت کے حوالے سے طربیہ اور حُزنیہ تاثرات بھی اپنی ایک خاص بہار دکھا رہے ہیں رومان کی واژ گونی، فسوں کاری، بے سکونی، سنگینی اور جنوں خیز معاملات کا برملا اظہار ہے مگر کہیں کہیں محبوب سے مفر کے حوالے سے بھی جوازات ملتے ہیں:
بے بس ہو کر گھائل ہو کر دل برداشتہ ہو کر
توڑ لیا ہے میں نے اُن سے ناطہ کچھ دن پہلے
اُن کے سخن میں فکری حوالے سے فطری انسانی خصائص بھی ملتے ہیں جیسے غصہ اور برہمی کا وصفِ انسانی ہے کلاسیکی شاعری میں محبوب کے حوالے سے غصے اور برہمی کا کوئی جواز نہیں ملتا جبکہ عصری شاعری میں یہ ایک تنقیدی اور جدید انسانی رویہ ہے جو اظہار کی بے ساختگی سے مربوط ہے مگر اُن کے ہاں محبوب کے حوالے سے وارفتگی اور بے خودی کے شواہد بھی ملتے ہیں:
تیرے سُندر سپنوں میں کھو جاؤں کیا؟
گھائل تیری حالت میں ہو جاؤں کیا؟
کس نے کہا تو میرا ہو کے بتا جیون؟
اتنا بتا دے میں تیری ہو جاؤں کیا؟
جاناں کب میں خود سے ملنا چاہتی ہوں
کھو کر تجھ میں اور ذرا کھو جاؤں کیا؟
عند البیان افکار و موضوعات میں تنوع ہے جو اُن کی متلون مزاجی کی دلیل ہے انھوں نے بھرپور نوعیت کی رومان نگاری بھی کی ہے اور رومانوی حوالے سے تمام تر روایتی و فکری تقاضے پورے کیے ہیں جسے نسائی اور داخلی اظہار پر محمول بھی کیا جا سکتا ہے:
بیتے ہوئے لمحے مجھے سونے نہیں دیتے
خواب و خیال اُن کے مجھے سونے نہیں دیتے
اُن کی سخن سازی تخیلاتی اعتبار سے عمیق حسیات سے عبارت ہے جس سے اُن کے ادراکاتی کینوس کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے عند البیان انسان دوستی کے مظاہر بھی ملتے ہیں جو اُن کی ترقی پسند فکر کی غمازی کرتے ہیں:
ایسے نہیں دلاتے احساس کمتری کا
لبریز ہو نہ جائے پیمانہ زندگی کا
فطری طور پر چاہے جانے کی آرزو ہر کسی میں ہوتی ہے لیکن صنفِ نازک جس میں احساسِ جمال، احساسِ خود محبوبی اور چاہے جانے کی خواہش فزوں تر ہوتی ہے جسے وہ اپنا فطری حق بھی گردانتی ہیں اسی تناظر میں بے ساختہ اسلوبِ بیاں کی حامل اُن کی ایک غزل ہدیۂ قارئین ہے:
میں تجھے اپنی لگوں ایسی نظر سے دیکھ تو
ریت ہوں چاندی لگوں ایسی نظر سے دیکھ تو
میں تو کانٹوں میں بسی تھی سوکھی ٹہنی کی طرح
پھول کی ڈالی لگوں ایسی نظر سے دیکھ تو
موسمِ گل یا خزاں ہو دھوپ ہو یا چھاؤں ہو
میں تجھے اچھی لگوں ایسی نظر سے دیکھ تو
رُخ کنول مُرجھا گیا بالوں میں اُتری چاندنی
پھر بھی پھولوں سی لگوں ایسی نظر سے دیکھ تو
مشمولہ استشہادات و استخراجات کی بدولت یہ بات انتہائی تیقن سے کی جا سکتی ہے کہ اُن کا کلام بیان کے بے ساختہ پن سے منسوب ہے قلبی و ذہنی تخیلات کا بے تکلّفانہ اظہار ہے جسے اُن کی خود اعتمادی پر مہمیز کیا جا سکتا ہے انھوں نے انتہائی سادہ و شستہ اسلوب میں مدعا نگاری کی ہے مفرد و محذوف بحور میں بطریقِ احسن سخن سنجی کی ہے مزید فکری و فنی ریاضت کے باعث اُن کے شعری ادراکات کے وسیع تر ہونے کے روشن امکانات ہیں جن کے لیے اُنھیں فزوں تر عرق ریزی درکار ہے۔
٭٭٭
الویراؔ علی
(لاہور)
٭
تو خود سے ہی کچھ کہنے دے
مجھے اپنے آپ میں رہنے دے
مرا درد بہت بے درد ہوا
اسے میرے ساتھ ہی بہنے دے
اے ماہِ شب غم، آج ذرا
مجھے اپنی آنکھ میں رہنے دے
آنکھیں کم ہیں، بحرِ دل کو
کسی اور طرف ہی بہنے دے
الویراؔ ہے غم کا سراپا
غم اس کو اپنا سہنے دے
٭
سُندر سندر سپنوں میں کھو لینے دو
آج مجھے بس تھوڑا سا سو لینے دو
اُن کے نام کا اوڑھوں کفن اور مر جاؤں
مجھ کو کچھ ایسے اُن کی ہو لینے دو
گردِ حیات سے اپنے میلے آنچل کو
اُن کے کرم کے زم زم سے دھو لینے دو
اُن کی یاد کے کاندھے پر ہی سر رکھ کر
آج مجھے تم جی بھر کے رو لینے دو
مجھ کو اُن کی راہوں میں یوں رُل کھُل کے
بیج وفا کے اور ذرا بو لینے دو
کوئی دُکھتی صدا ہی بتلا کر الویراؔ کو
جی اُن کا جاں ہی سے موہ تو لینے دو
٭٭٭
انمول گوہرؔ کی رومان آمیز شاعری
نسائی شاعری عموماً داخلی احساسات و واردات سے منسوب ہوا کرتی ہے جس میں جنوں آمیزی فزوں تر اور خرد آموزی کم ہوا کرتی ہے سماجی ادراکات بھی کہیں کہیں جھانکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور عصری روئیوں کی بازگشت بھی سنی جا سکتی ہے ان تمام تر موضوعات کے باوجود رومانی جذبوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے آج ہم انمول گوہرؔ کی شاعری کو میزان تنقید پر پرکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس وقت ان کا چوتھا شعری مجموعہ ’’ہم نے لفظوں میں زندگی رکھ دی‘‘ مطبوعہ جنوری 2016ء ہمارے روبرو ہے جس میں غزلیات و آزاد نظمیات شامل ہیں ہم ان کی غزلیات کے اشعارِ منتخبہ کو انتقادی حاشیہ آرائی کے ساتھ پیش کریں گے مجموعہ ہٰذا کا نام مصرع کی صورت میں ہونے کے باعث فنی پختگی سے عاری ہے کیونکہ کتابِ شعر کے نام کی نفسیات میں یہ امر بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ مختصر اور جامع ہو نیز شاعری کے مجموعی تاثر کی نمائندگی کرنے والا ہو مذکورہ بالا نام ان خصوصیات سے عاری ہے۔
ان کی شاعری میں رومان جذبوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے رومانویت ان کی شاعری کی روحِ رواں ہے محبت کے حوالے سے ان کے ہاں پیش رفت پائی جاتی ہے ان کے نزدیک محبت باعثِ تخریب نہیں بلکہ باعثِ تعمیر ہے ان کی غزل کا مطلع اور مقطع ملاحظہ کریں:
نہ جانے کون سے سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہے دل
محبت میں بہت آگے نکلتا جا رہا ہے دل
غمِ جاناں میں دل کاتو بکھر جانا ہی ممکن تھا
مگر حیران ہوں گوہرؔ سنبھلتا جا رہا ہے دل
پریم کا پوتر جذبہ ان کی رومانی اساس ہے اس لیے وہ اپنے گرد محبوب کے حصار کو مضبوط و مستحکم سمجھتی ہیں محبوب کے درشن کو وہ نمازِ الفت قرار دیتی ہیں نماز الفت کا مرکب اضافی بھی خود میں بے پناہ اپنائیت رکھتا ہے جو ان کی اسلوبیاتی نادرہ کاری کا مظہر ہے:
گرد میرے حصار تیرا ہے
اور تیرے سوا کدھر جاؤں؟
دید تیری نمازِ الفت ہے
ہو رہی ہے قضا کدھر جاؤں؟
محبت کو وہ اپنا امام و پیشوا مانتی ہیں اور مسلسل فروغِ محبت کا فریضہ انجام دیتی ہیں دنیا داری اور دنیا دارانہ روئیوں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کے ہاں مادیت کی مذمت اور روحانیت کا ارتقا ملتا ہے جو ان کی رومان پروری کی بہت بڑی دلیل ہے:
کی محبت کے ہاتھ پر بیعت
پھر بسائے نگر محبت کے
محبت کو وہ سرمایہ حیات گردانتی ہیں اور محبت کا جواب محبت سے دینے کی قائل ہیں محبت کے حوالے سے ان کے ہاں ایک خود سپردگی کا عنصر پایا جاتا ہے:
میرے دل میں بھی ایک چاہت ہے
عمر بھر کی وہی ریاضت ہے
پوچھ لے وہ اگر محبت سے
میں بھی کہہ دوں کہ ہاں محبت ہے
مجھ کو میری تلاش ہے گوہرؔ
آج مجھ کو مری ضرورت ہے
محبت کے حوالے سے ان کے ہاں ملال جذبے بھی وفور سے پائے جاتے ہیں اس کے باوجود بھی وہ اپنے تمام تر مسائل کا حل بھی محبت میں تلاش کرتی ہیں:
سانس چلتا رہے دعا کرنا
غم ہوئے ہیں عطا محبت کے
دل کی تیرہ شبی نہیں جاتی
اس میں سورج اگا محبت کے
ان کے نزدیک محبت بقائے حیات کا سرچشمہ ہے محبت کے بغیر زندگی کا تصور بہت بھیانک ہے وہ سمجھتی ہیں کہ سانسوں کی ڈوری کا چلنا محبت ہی کا مرہون منت ہے:
بجھ ہی جاتا چراغ ہستی کا
یہ محبت نہ گر ہوئی ہوتی
یہ ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ انمول گوہر کے سخن میں محبتوں کا فروغ اور مروتوں کے نمو کا جذبہ کارفرما ہے مگر ابھی انہیں فکری و فنی بالیدگی کی ضرورت ہے اگر ان کا شعری سفر یوں ہی ذوق و شوق سے جاری رہا تو ان کے سخن سے ایک نیا نکھار آشکار ہو گا۔
٭٭٭
انمول گوہرؔ
(لاہور)
٭
مجھے جو مجھ سے رہائی دے گا
وہ آپ مجھ میں دکھائی دے گا
ہر ایک کہنا نہ دل کا مانو
یہ سر پھرا ہے جدائی دے گا
یہ عشق میرے حصار میں ہے
یہ دل سے دل تک رسائی دے گا
کسی دیوانے کو مت ستانا
وہ روزِ محشر دہائی دے گا
بلا کا چہرہ شناس ہے وہ
سبھی کو شرفِ گدائی دے گا
مجھے بھی گوہرؔ کبھی خوشی کا
کوئی تو مژدہ سنائی دے گا
٭
٭
محبت کے نگر میں ہوں
میں اپنے ہی اثر میں ہوں
ابھی منزل کا مت پوچھو
ابھی تو میں سفر میں ہوں
مجھے اب جیتنا ہو گا
میں دشمن کی نظر میں ہوں
کوئی آواز دے مجھ کو
میں سوچوں کے بھنور میں ہوں
مجھے لگتا ہے میں گوہرؔ
ازل سے خیر و شر میں ہوں
٭٭٭
نا مکمل
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں