FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

شاد عارفی حیات و جہات

 

جلد اوّل

 

                مرتبہ: فیروز مظفر

 

 

نوٹ

 

اس کتاب میں سے تین طویل مضامین کو علیحدہ ای بکس کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے

۱۔ ایک اور گنجا فرشتہ ۔۔۔  اکبر علی خاں عرشی زادہ

۲۔ شاد عارفی: ایک تعارف ۔۔  سلطان اشرف

۳۔ شاد عارفی: فن اور شخصیت ۔۔ عروج زیدی

 

 

 

 

 

تلخیِ گفتار کی تائید میں خطرہ ہے شادؔ

ڈر رہا ہے مجھ پہ ہر نقاّدِ فن لکھتا ہوا

 

 

 

 

 

عرضِ مرتب

 

شادؔ عارفی نے اپنی زندگی کے چونسٹھ برس بیشتر بے روزگاری اور عسرت کے عالم میں بسر کیے۔ خود داری کا وہ عالم کہ کسی سے مدد طلب کرنا تو کجا، کوئی اپنے طور پر معاونت کرنا چاہتا تو شادؔ اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا دیتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی افتاد طبع کے حامل شاعر کو پریشانیاں تا عمر گھیرے رہیں۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد ہی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ کوئی اولاد بھی نہیں تھی اس لیے ان کی بدنصیبیوں کا بڑا چرچا رہا۔

شادؔ عارفی زندگی بھر کڑوا سچ بولتے اور لکھتے رہے۔ اپنی نظموں، غزلوں، رباعیات و قطعات اور نثری نگارشات میں موصوف نے والیِ ریاست اور ہم وطن رؤسا کے مظالم، بے انصافیوں اور خام کاریوں کو ہدفِ ملامت بنایا اور سماج کے گھناؤنے پہلوؤں کو اُجاگر کیا جس کے نتیجے میں انھیں حکمرانِ وقت کی خفگی اور صاحبانِ اقتدار کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا اور زندگی بھر بے روز گاری و افلاس کا دُکھ جھیلتے رہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور مکاتیب میں معاصر ادبی صورت حال کے حقیقت پسندانہ جائزے پیش کیے اور بڑے بڑے ناقدین و عمائدینِ ادب کی دھاندلیوں اور ادبی گھپلوں پر طنز کے تیر چلائے جس کا خمیازہ انھیں نقادوں کی بے اعتنائیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا اور سب سے بڑا ظلم اس البیلے اور منفرد شاعر کے ساتھ یہ ہوا کہ اُن کی زندگی میں مرحوم کا کوئی مجموعۂ کلام شائع نہ ہو سکا۔

شادؔ عارفی نے اکتوبر ۱۹۶۲ء تا جنوری ۱۹۶۴ء میرے پاپا (والد محترم پروفیسر مظفر حنفی) کی تقریباً ڈیڑھ سو غزلوں پر اصلاح دی تھی۔ حقِ شاگردی ادا کرنے کے لیے تا حال وہ شادؔ عارفی سے متعلق نو کتابیں لگھ چکے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد پاپا ( مظفر حنفی صاحب) نے نہ صرف کلیات شادؔ عارفی اور باقیات شادؔ کی اشاعت کا بندوبست کیا بلکہ تابڑ توڑ سات آٹھ کتابیں اپنے استاد کے فن اور شخصیت کے بارے میں شائع کیں شادؔ کی وفات کے چند سال بعد ہی ان کی حیات اور خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جو مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے وسیلے سے منظر عام پر آیا۔ حال ہی میں کلکتہ یونیورسٹی نے ان کے مکاتیب پر تحقیقی کام کے لیے یاسمین اختر کو ڈاکٹریٹ تفویض کی ہے۔ میں تو شادؔ عارفی کو اس لیے بھی خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ انھیں خلیل الرحمان اعظمی، محب عارفی، مسعود اشعر، مظفر حنفی اور عبدالباری ( شبنم سبحانی) جیسے نامور شاگرد نصیب ہوئے مزید بر آں شادؔ عارفی کی نگارشات ہندوستان کی متعدد یونیورسٹیوں کے نصابات میں شامل ہیں۔

۸؍ فروری ۲۰۱۴ء کو شادؔ عارفی کے انتقال کو پچاس سال پورے ہوئے تو والد صاحب نے جوش و خروش کے ساتھ مرحوم استاد کی پچاسویں برسی منانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ دو تین رسالوں کے شادؔ عارفی نمبر مرتب کیے، متعدد ماہناموں میں ان کے بارے میں گوشے شائع کرائے اور درجنوں اخبارات میں اپنے استاد کی فکر و فن پر مضامین کی اشاعت کا بندوبست کیا اور اب اُن کے شعری کلیات کی تدوینِ نو میں منہمک ہیں۔

کبرِ سنی میں زیادہ کام کرتے ہوئے پاپا کی صحت اکثر بگڑ جاتی ہے اور آنکھوں پر بھی بوجھ پڑتا ہے مزید بر آں شاد عارفی کی شخصیت اور کلام سے مجھے بھی عقیدت مندانہ محبت ہے اس لیے میں نے پاپا کی اجازت سے ’شاد عارفی : حیات و جہات‘ کی ترتیب کا بیڑا اٹھایا اور اُن کی رہنمائی اور سرپرستی میں اس کام کو مکمل کیا ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ پیش نظر مجموعۂ مضامین میں ہر مکتبِ فکر کے نئے اور پرانے لکھنے والوں نے شادؔ عارفی کی حیات اور اُن کے ادبی کارناموں کی جہات و انفرادیت پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ پا پا کی ہدایت کے مطابق میں نے ایسے مضامین میں بھی مجموعے میں شامل کیے ہیں جن میں شادؔ کی شخصیت اور تحریروں کے کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ عموماً اپنے خلاف لکھنے والوں کو نقاد معاف نہیں کرتے اور مرنے کے بعد حساب چکانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی مثال مجموعے میں شامل ظ۔ انصاری اور اکبر علی خاں عرشی زادہ کی تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (شادؔ نے ظوئے اور عرشی زادہ کے خام پہلوؤں پر سخت گرفت کی تھی) لیکن اعلیٰ ظرفی کی شہادتیں بھی کتاب میں شامل ابر اؔحسنی اور فرمان فتح پوری کے مضامین کی شکل میں موجود ہیں ( شادؔ عارفی نے کئی امور پر مختلف رسالوں میں ابر اؔحسنی اور نیازؔ فتح پوری سے ادبی معرکے سر کیے تھے۔ ) ان تحریروں سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے ان پہلوؤں کو بھی ملحوظ رکھنا ہو گا۔

امید ہے کہ ایک نو مشق کی اس کاوش کو توجہ کا مستحق سمجھا جائے گا اور جدیدیت کے پیش رو، صاحب طرز اور منفرد شاعر کو اس کا واجب مقام تفویض کیا جائے گا۔

۱۲؍ اپریل ۲۰۱۴ء

خاکسار

فیروز مظفر

D/40 پہلی منزل

بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی۔ ۲۵

 

 

 

 

 

                محشر عنایتی

 

شادؔ عارفی : مزاجی اعتبار سے

 

۱۹۲۲ء کے ابتدائی مہینے تھے جب کہ میں نے مشاعروں میں شرکت کا آغاز کیا۔ رام پور کے دوسرے شعراء کے دوش بہ دوش میں نے احمد علی خاں شادؔ عارفی کو بھی دیکھا۔ وہ مجھ سے ہر اعتبار سے سینئر تھے۔ چند ہی سال میں ان کے میرے درمیان کافی رابطہ قائم ہو گیا اور ۱۹۳۰ء سے ۳۶۔ ۱۹۳۵ء تک میں اور وہ کسی منظم بزم کے تو نہیں مگر ایک گروپ اور ایک پارٹی کے ممبر رہے۔ یہ پارٹی میرے ساتھ ساتھ شادؔ عارفی، راز یزدانی مرحوم، منے میاں صابرؔ اور دوسرے چند احباب پر مشتمل تھی۔ ہم سب روزانہ کافی وقت ساتھ گزارتے، ساتھ ہی مشاعروں میں جاتے اور کبھی کبھی ساتھ بیٹھ کر شعر بھی کہتے، اس طرح ہم سب کو ایک دوسرے کی طبیعت مزاج اور رجحان کا بہ خوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ چونکہ اس وقت بات صرف شادؔ صاحب پر ہونی ہے تو وہ جہاں بے حد سنجیدہ و نازک مزاج تھے وہیں بہت زیادہ سادہ دل بھی تھے۔ سادہ دلی سے میری مراد ہے کہ وہ ہر کسی کی ہر بات کا فوراً یقین کر لیتے اور اس یقین میں ذہنی فکر و استدلال کو دخل نہ ہوتا، یعنی یہ نہیں سوچتے تھے کہ کہنے والا جس کے سلسلے میں جو بات کہہ رہا ہے وہ میرا دوست ہے یا دشمن، اور بات جس سے منسوب کی جا رہی ہے وہ کہہ بھی سکتا ہے یا نہیں۔ دوسرا رخ اس سادہ دلی کا یہ بھی تھا کہ کوئی بات سن کر جس کی طرف سے وہ بھڑک جاتے تھے دوسرے وقت اس سے بات ہونے پر جلد ہی راضی و خوش ہو جاتے۔ یہی سبب تھا کہ اُن کے احباب کبھی دور اور کبھی قریب ہو جاتے۔

۳۶۔ ۱۹۳۵ء کے بعد حالات زندگی نے ہمہ وقت کی صحبتوں میں انتشار پیدا کر دیا اور اب ملاقاتوں کا سلسلہ گاہ بہ گاہ کی منزل میں پہنچ گیا اس طرح ہم میں کچھ دوری بھی ہوتی گئی اور ساتھ ہی باہمی چشمک کا سانحہ بھی رونما ہو گیا۔ جہاں شاعرانہ حیثیت سے شادؔ صاحب کی ذات گرامی خصوصی اہمیت کی حامل قرار پائی وہیں راز یزدانی، منے میاں صابر اور مجھ کو بھی سراہا جانے لگا۔ اس مقام پر پہنچ کر اندازہ ہوا کہ شادؔ صاحب کو شاید یہ صورت حالات پسند و مرغوب نہیں تھی اور ان کی افتاد مزاج بسا اوقات کافی کھنچاؤ اور تنا تنی کا باعث قرار پا گئی اگرچہ یہ صورت زیادہ پائدار نہیں رہتی تھی پھر بھی ہم ایک دوسرے سے دور اور الگ الگ ضرور ہوتے گئے، یقینی طور پر یہ نوعیت اچھی اور پسندیدہ نہیں کہی جا سکتی۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔ مجھے معاف کیا جائے اس تمام سے میرا مقصد جناب شادؔ کی شاعرانہ عظمت و اہمیت سے انحراف ہرگز نہیں چونکہ ان کے سلسلے میں اظہار خیال کا موقع دیا گیا ہے اور میں بے لاگ تنقید و تبصرہ کا حامی ہوں اس لیے مجھے ان کی مزاجی کیفیات کے سلسلے میں بعض تلخ حقائق کے اظہار کی جرأت ہوئی ویسے ان کی شاعرانہ عظمت و اہمیت کا قائل میں اُن کی حیات میں بھی ان کے قریب تر احباب سے زیادہ تھا اور آج بھی شاید کسی سے کم نہیں ہوں۔ شادؔ آج دنیا میں نہیں ہیں اور میں ان کے سوگ میں آنکھیں پُر نم کیے بیٹھا ہوں، وہ میرے نوجوانی کے دور میں دوست اور ساتھی تھے، ان کے سلسلے میں کسی غلط بات کے اعادے کی جسارت اور میں۔ الامان والحفیظ۔

خیر جس وقت ہماری شاعری کا ابتدائی دور تھا اور ہم سب ساتھ ساتھ اور دوش بدوش تھے اس وقت بھی شاد شاعرانہ حیثیت سے کافی ممتاز تھے۔ وہ عامیانہ مذاق شاعری سے دور رہتے، ’’ لکیر کے فقیر ‘‘بنے رہنا ان کے لیے قابل نفرت ہی بات تھی۔ ان کی طبیعت کی وہ اُپج جو بعد میں منظرِ عام پر آ کر ان کی ملک گیر شہرت اور انفرادیت کا سبب قرار پائی وہ ابتدائی دور سے ہی رونما تھی اور وہ اس انداز کے شعر کہا کرتے تھے :

کسی کی محفل میں بے بلائے پہنچنے والے کو کیا کہوں میں

اگر اسی کا ہے نام عزت تو ایسی عزت پہ میں نے تھوکا

یہ ان کا نیچر تھا، شاعری ہی میں نہیں زندگی میں بھی۔ وہ ہر ایک کے سامنے صاف گوئی سے نہیں چوکتے تھے، کیسی ہی کڑوی بات ہوتی وہ نہایت جرأت و بے باکی کے ساتھ کہہ دیتے، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اس سلسلے میں وہ جس قدر دلیر تھے، موجودہ دور میں اتنے دلیر افراد شاذونادر ہی ملیں گے۔ ان کی ساری عمر پریشان حالی، عسرت اور احباب سے بناؤ بگاڑ کا اصل راز اور یقینی سبب ان کی صاف بیانی جسے بڑے لوگ تو بڑے ہی لوگ ہوتے ہیں معمولی افراد اور اپنے قریبی اعزاء و احباب بھی پسندو گوارا نہیں کر سکتے۔ یہ ان کی ایسی صفت تھی اور ان کی طبیعت کا خاصہ ہی نہیں ایسا انمول جوہر تھا جو کسی کسی کی ہی قسمت بنا کرتا ہے، ان کی ساری پریشانی اور ان کی مفلوک الحال کتنی پُر شوکت و با وقار ہو جاتی ہے جب اس خصوصی جوہر کا تصور کیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے تو اپنی زندگی ہی میں اس قسم کے اکثر اشعار کہہ کر:

ہم تھے سوئے نذر تگ و تاز معیشت

اب کون حریف رسن و دار رہا ہے

………

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا

………

میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شادؔ

دال ملتی ہے جیل خانے میں

………

ہے تو احمق چونکہ عالی شان کاشانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے

………

گیت گاتے ہیں قفس منزل میں ہم

کوستے جاتے ہیں لیکن دل میں ہم

………

دنیا سے انتقام لے لیا یا یوں کہیے کہ دل کا بوجھ ہلکا کر لیا تھا، لیکن دنیا کی یہ خامی اجاگر ہو گئی کہ آج کے دور میں صاف گوئی کے سلسلے میں دلیری و مردانگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی ان اوصاف کو اپنائے گا تو وہ کتنا بڑا اور کیسا ہی فنکار ہو اسے ننگا بھی رہنا پڑے گا اور بھوکا بھی۔

مجھے اس صحبت میں شادؔ کی شاعرانہ حیثیت کے متعلق کچھ زیادہ کہنا نہیں۔ وہ ایک حقیقت ہے جسے سب کو تسلیم کرنا ہی پڑا ہے۔ انھوں نے غزل کا جواسلوب اختیار کر کے ایک نیا روپ دیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ میں تو زیادہ تر ان کی مزاجی کیفیات کا اظہار چاہتا ہوں اور اس لیے کہ شعر و ادب کے ناقدین ان کیفیات سے واقف نہیں ہو سکتے وہ رام پور سے دور دراز کے رہنے والے ہوں گے۔ انھیں شادؔ صاحب سے نہ زیادہ ملتے رہنے کا اتفاق ہوا ہو گا اور نہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے رہنے کا۔ شاعرانہ عظمت کا لوہا منوانے کے لیے تو چند اشعار ہی کافی ہوتے ہیں نہ کہ بے شمار اشعار اور کثیر التعداد غزلیں، اور مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ شادؔ نے بے شمار ایسے اشعار اور بڑی کافی تعداد میں ایسی غزلیں چھوڑی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اب اس اچھوتے انداز کا کیا جواب ہے :

ایسی شراب جس کی زمانے کو بو نہ آئے

میری نظر کسی کے تبسم کو چھو نہ جائے

آپ کو کتنی اذیت ہو گی

میں اگر آپ کی باتوں میں نہ آؤں

وارفتگیِ شوق میں طوفان آ گیا

اب میرے ہاتھ جس کا گریبان آ گیا

عمر بکر کی شرارتوں پر، جو زید کو بزم سے اٹھا دیں

بتائیے ان کی اس روش پر جو سر نہ پیٹیں تو مسکرا دیں ؟

جب وہ انتہائی جد و جہد کی سکت نہیں پاتے تو مایوس نہیں ہوتے بلکہ افراد کو للکار کر بڑے اعتماد کے ساتھ اُبھارتے ہیں :

سعی انفرادی بھی نقش چھوڑ جاتی ہے

بچھ گیا ہے منزل تک نقش رہ گزاروں کا

ایسے ہی جب اُن کے اظہار حال غم پر بھی کوئی توجہ نہیں کرتا تو اس میں اپنی تسکین کا کتنا خوبصورت پہلو نکال لیتے ہیں :

کسی کے حسنِ سماعت پہ چوٹ ہے یہ بھی

کہ ہم فسانۂ غم بار بار کہتے ہیں

وغیرہ وغیرہ، یہ مثالیں تو اس دور کی ہیں جب وہ ترقی و شہرت کی راہ پر بڑی آن بان کے ساتھ گامزن تھے۔ ان کے اُس دور کی مثال ملاحظہ ہو جب کہ وہ رام پور سے باہر روشناس نہیں تھے اور جو ان کی شاعری کا ابتدائی دور کہا جا سکتا ہے :

بٹھائے دیتا ہے یہ کہہ کے واقف منزل

کہ راستے میں مجھے کوئی کارواں نہ ملا

ترے قدموں پہ موزوں ہے مرا سر

جہاں جو چیز ہے بے جا نہیں ہے

ہاں تو میں نے ابتدا ہی میں نازک مزاج اور سادہ دل کہا تھا جس کی مختصر سی تشریح بھی کی تھی ان کیفیات کے سلسلے میں مفصل واقعات کے اعادے کی تو گنجائش نہیں مختصراً تین چار واقعات ضرور بیان کروں گا جو میرے اور جناب شادؔ مرحوم کے درمیان پیش آئے۔

ایک مرتبہ جب کہ شاد صاحب اپنے ذاتی مکان واقع محلہ کھنڈ سار کہنہ میں رہا کرتے تھے، میں ایک روز سہ پہر کے وقت سائیکل پر بازار جا رہا تھا، وہ اپنے دروازے پر کھڑے تھے۔ مجھے روک لیا کافی دیر ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے، میں چلا گیا اور جب نصف گھنٹے بعدواپس آیا تو بھی وہیں موجودتھے۔ میں ابھی تقریباً پچیس قدم فاصلے پر تھا، مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیا، قریب آ کر میں نے سلام علیک کی، کوئی جواب نہیں۔ میں حیرت و استعجاب کے عالم میں چلا گیا۔ دوسرے تیسرے دن تحقیق پر پتہ چلا کہ میرے جانے کے بعد کسی نے ان سے یہ کہہ دیا کہ آپ اُن سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہیں اور یہ آپ کے مطلع پر اعتراض کر رہے تھے، کس مطلع پر کیا اعتراض کیا ہے اس تفصیل میں جائے بغیر ناراض ہو گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد ایک مشاعرہ ہونے والا تھا، میں اور شادؔ صاحب تھوڑے ہی آگے پیچھے پہنچے، صاحب مشاعرہ سے میرے کافی تعلقات تھے اور کچھ رشتہ بھی ہوتا تھا، وہ پانوں کا خاص دان اور سگرٹ کا ڈبّہ پہلے میرے سامنے لائے زاں بعد شاد صاحب کے پاس لے کر گئے۔ اس پر شادؔ صاحب بھڑک اُٹھے، اپنے شاگردوں کو لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور جانے لگے سبب پوچھا تو فرمایا مجھے ذلیل کیا گیا، جب کسی طرح نہیں رُکتے تھے تو میں نے قریب پہنچ کر ان کا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ آپ میرے بڑے ہیں مجھ سے کہیں اچھے شاعر ہیں آپ کے چلے جانے سے ان کا مشاعرہ صفر ہو کر رہ جائے گا۔ یہ غلطی ان سے بر بنائے رشتہ داری ہو گئی اور ہاں آپ سے میرے سلسلے میں جس نے جو کچھ کہا ہے وہ افترا ہے اگر آپ کے کسی شاگرد نے کہا ہے تو وہ خیرخواہی کا اظہار کر کے آپ کی بیش از بیش توجہ سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر کسی دوسرے شخص نے کہا ہے تو وہ ہم دو پرانے دوستوں کو ملتے نہیں دیکھنا چاہتا اور ہمارا مذاق اڑانا اس کا مقصد ہے۔ اس کے بعد شاد صاحب راضی ہو گئے اور اب وہ میرے وہی ۱۹۳۰ء تا ۱۹۳۶ء والے دوست تھے۔

نمائش رام پور کا مشاعرہ ہونے والا تھا، انتظام حسب سابق مجھ سے متعلق تھا، کچھ شعراء نے میرے خلاف محاذ بنایا اور بھڑکا کر شادؔ صاحب کو بھی مجھ سے ناراض کر دیا۔ اب شادؔ صاحب اس محاذ کے سرغنہ تھے۔ اسی دوران ماڈل مانٹگمری اسکول میں کوئی تقریب ہوئی، میں گیا، شاد صاحب اور میرے مخالف محاذ کے چند بانی بھی، ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے ہاتھ ملایا، کچھ دیر بات چیت کی۔ شاد صاحب کچھ فاصلے سے دیکھ رہے تھے اور چونکہ وہ جزوی اختلاف کے قائل نہیں تھے، حسب عادت سلام و علیک تک ترک کر چکے تھے۔ اتفاقاً کسی ضرورت سے میں ہال کے باہر آیا میرے پیچھے پیچھے شادؔ صاحب بھی آئے۔ قریب پہنچتے ہی مجھ سے ہاتھ ملا کر لپٹ گئے اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگے۔ یہ سب بد معاش ہیں مجھے بھڑکا کر تمھارا مخالف بنا دیا اور آپ ہاتھ ملاتے اور باتیں کرتے ہیں۔ تم میرے دوست ہو اور اب سے میں تمھارے ساتھ ہوں۔

اُن کے سانحہ ارتحال سے چند ہی سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے نمائش کا مشاعرہ پڑھوایا اور یہ حقیقت ہے کہ اس سال میں انتظامی امور سے بالکل غیر متعلق تھا، مگر چند صاحبان اس غیر تعلقی کو غلط بتا کر ناراض ہو گئے تھے اور شادؔ صاحب کو بھی ناراض کر دیا تھا۔ مشاعرے سے دوسرے روز عارف عباسی صاحب سے ملنے میں پریمی صاحب کے مکان پر پہنچا۔ اتفاق سے وہاں صحبت سخن برپا تھی، سب ہی ناراض اصحاب اور چند ان کے علاوہ شعرائے رام پور موجود تھے، عارفؔ عباسی اور عمر انصاری صاحبان بھی تھے۔ میں چوں کہ مدعو نہیں تھا، واپس ہونا چاہا، مگر نا ممکن ہو گیا۔ جب ایک شاعر نے غزل ختم کی تو شاد صاحب نے بلند آواز میں فرمایا جب کہ وہ میرے برابر ہی بیٹھے تھے کہ میں غزل نہیں سناؤں گا، یہاں محشر صاحب موجود ہیں اور میں ان کے سامنے سنا کر اپنے اشعار کی توہین نہیں چاہتا۔ محفل میں سناٹا چھا گیا۔ تھوڑے سکوت کے بعد میں نے گفتگو کا آغاز کیا اور مجملاً حالات بیان کرتے ہوئے سب کے سامنے ہی ہر ایک کی مشاعرے میں عدم مشارکت کا سبب بھی بتایا۔ حالات میرے علم میں تھے، میں نے دیکھا چند صاحبان جھینپ کر سر بہ گریباں ہو گئے اور شاد صاحب نے میرے گلے میں ہاتھ ڈال لیا، نہایت خندہ پیشانی سے خود بھی اپنا کلام سنایا اور جب میں نے پڑھا تو میری پیٹھ تھپک تھپک کر تعریف کرتے تھے۔ میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا رہا اور اس میں کامیاب بھی رہا کہ شادؔ صاحب سے میرا ایسا الجھاؤ نہ ہو جو منظر عام پر آئے اور اخبارات و رسائل تک میں اس کی نوبت آ جائے۔ ایک مرتبہ رازؔ یزدانی سے بہ سلسلہ شاعری الجھاؤ ہو گیا اور بات سخت قسم کے خطوط و اخبارات تک پہنچ گئی۔ مگر اس صورت حال کو مناسب نہ سمجھتے ہوئے، منے میاں صابرؔ نے دونوں کو اپنے یہاں بلا کر مصالحت و صفائی کرا دی۔ اس کے کچھ ہی د ن بعد رام پور کے ایک ایسے نوجوان شاعر سے الجھاؤ بڑھ گیا، جو شاد صاحب کے مرتبہ و منزل سے کہیں کم بلکہ ان کے شاگردوں کے برابر تھے۔ اخبارات وغیرہ میں اعتراضات و جوابات کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ مجھے یہ بات از حد گراں گزری، ایک روز میں شادؔ صاحب کے مکان پہنچ گیا، اس وقت شاید ان کے ایک شاگرد بھی موجودتھے۔ کون تھے یہ یاد نہیں رہا۔ میں نے شادؔ صاحب کو بری طرح جھاڑا کہ آپ اب اپنے مرتبہ و منزل سے بھی دور ہو گئے۔ آپ خودشناس بھی نہیں رہے، اتنے نیچے گر گئے کہ لڑکے بالوں کو اپنے برابر کا بنا لیا۔ ان سے آپ کا جھگڑا چل رہا ہے، وہ آپ پر اور آپ ان پر اعتراض کر کے گندگی اچھال رہے ہیں۔ بیرونی ارباب ادب یہ دیکھیں گے تو آپ کی وقعت ان کی نظر میں کیا رہ جائے گی۔ آپ ادراک و احساس کی دنیا سے بالکل ہی بیگانہ ہو گئے۔ وغیرہ وغیرہ۔ شاد خاموشی کے ساتھ بہ غور سنتے رہے۔ جب میں ذرا ٹھہرا تو کہنے لگے تم نے میری آنکھیں کھول دیں۔ مجھے سوتے سے چونکا دیا، میرے پاس بیٹھنے والوں نے بھڑکا کر یہ صورت پیدا کرا دی۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب یا آئندہ ہرگز اس قسم کا ارتکاب نہ کروں گا اور آج ہی سے اس جاریہ بحث کو بھی ترک کرتا ہوں میرے دوست۔ کہہ کر لپٹ گئے۔ یہ تھے جناب شادؔ عارفی (مرحوم) مزاجی اعتبار سے … ہائے شادؔ!

٭٭٭

 

 

                ابرا حسنی گھنوری

 

فن کار

 

جناب شاد عارفی رامپوری، اللہ ان کی روح کو آغوش رحمت میں جگہ دے، دل کے بہت اچھے انسان تھے، اگر ان کو ضرورت سے زیادہ سیدھا کہوں تو بالکل بے جا نہ ہو گا۔ وہ بندۂ یقین تھے، کوئی کچھ کہہ دے وہ ضرور یقین کر لیتے تھے، یقین کے ساتھ فوراً عمل بھی شروع ہو جاتا تھا۔ ان کے اس سیدھے پن سے ان کے قریب رہ کر ان کے دماغ سے فائدہ اٹھانے والے اپنی کسی غرض کی تکمیل کے لیے اِدھر اُدھر کی جھوٹی باتیں کہہ کر ایک کو دوسرے سے برہم کراتے رہتے تھے اور پھر معتوب کا کوئی داؤں چل جاتا تو وہ پہلے سازشی کو اُسی داؤں پر چت کر دیتا اور باری باری سے یہ مشغلہ عمر بھر ہمیشہ جاری رہا۔ بتائیے اس سے زیادہ مرحوم کی سادہ دلی کا اور کیا ثبوت ہو گا۔

میں نے مرحوم کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔ ۵ سال میں انھیں کے شہر رامپور میں رہا ہوں اور ۶ ماہ کامل تو وہ اور میں ایک ہی مقصد ادبی کے تحت بالکل قریب رہے ہیں۔ میں نے اُن کی اس سادگی و خوش اعتمادی پر توجہ بھی دلائی ہے مگر ’’ عادت اور وہ بھی عمر بھر کی عادت‘‘ کہاں چھوٹ سکتی ہے اور اسی سیدھے پن نے انھیں کافی تکلیفیں بھی پہنچائیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ قابلِ قدر تھے اور غصّہ کے مقابلہ میں مہربانیوں کے مستحق تھے۔

وہ جب شاعری میں بات کرنے پر آتے تو اس کی پروا کبھی نہ کرتے کہ میرا مقابل کن طاقتوں اور اختیار کا مالک ہے جو کچھ کہنا ہوتا صاف صاف کہتے اور ایسی تیز کہتے کہ اس کے دل میں ناسور ڈال دے جو کبھی اچھا نہیں ہوا کرتا ہے اور پھر اس کے تلخ نتائج کو وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ان کی لغت میں مصلحت و مروت کے الفاظ نہیں تھے۔ میں اس کو ان کی سادہ مزاجی پر ہی محمول کرتا ہوں۔

وہ منکسر بھی انتہائی تھے جب موڈ درست ہوتا تو اپنے بڑے سے بڑے مخالف سے اس طرح ملتے جیسے کبھی کوئی بات ہی نہیں ہوئی اور اس کی راہ میں آنکھیں بچھا دیتے ہر ہر حرکت سے خلوص، فدائیت اور یگانگی کا نمایاں مظاہرہ ہوتا جس میں تصنع بناوٹ یا نمائش کا شائبہ بھی نہ ہوتا اور یہ ان کے سچے مومن ہونے کی کھلی نشانی تھی۔

اہلِ شہر ان کے کلام کے ہمیشہ مداح رہے۔ جب ان کے پڑھنے کی باری آتی تو لوگ سنبھل سنبھل کر بیٹھ جاتے اور دل کھول کر داد دیتے حالانکہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ بہت بُرا پڑھتے تھے تو یہ بات غلط نہ ہو گی مگر دیگر شہروں کے بر خلاف رامپور کی یہ خصوصیت ہے کہ وہاں کے خواص و عوام صرف شعر سنتے ہیں، گانے یا فن کارانہ طور پر پڑھنے سے ہرگز متاثر نہیں ہوتے اگر شعر اچھا ہے تو آپ خواہ کتنا ہی برا پڑھتے ہوں آپ کو بھرپور داد ضرور ملے گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کا شعری مذاق بہت نکھرا ستھراہے کیوں نہ ہو صدیوں سے وہاں معتمد شعراء کی پذیرائی ہوتی رہی ہے اور خود اہل شہر کا دلچسپ مشغلہ شاعری رہا ہے۔

مرحوم کا رنگ کلام منفرد تھا روایتی شاعری سے غالباً انھیں واسطہ نہیں رہا۔ وہ قدرت کی جانب سے مخصوص خیال اور مخصوص مزاج لے کر آئے تھے۔ اُن کی طنز بڑی نکیلی اور بہت با سلیقہ ہوتی تھی وہ اس انداز سے بات کہتے تھے جہاں دوسروں کا خیال مشکل ہی سے پہنچتا ہے یہی طنز ان کا مخصوص رنگ ہے۔

آئیے ان کے کچھ اشعار آپ کو سنادوں۔ وہ لکھتے ہیں :

چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی

شیخ صاحب ہیں، میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

حضرات شیوخ کی بدکرداری پر کتنی بھرپور ضرب ہے ایک ہی ٹکڑے ’’ شیخ صاحب ہیں ‘‘ میں معانی کو اس طرح سمو دیا ہے کہ ان حضرات کی پوری زندگی سامنے آ جاتی ہے اور تفصیل کے ساتھ دوسرے ٹکڑے میں یہ بتا دیا ہے کہ مسلمان بہت بلند کردار اور صالح ہوتا ہے اس کا لحاظ ضروری ہے اور یہ شیخ اور مولانا قسم کے لوگ ! ان سے کیا پردہ و حجاب، یہ تو خود شریکِ دور رہنے والے لوگوں میں ہیں۔ وہ جب اس طنز میں کوئی تشبیہ دیتے ہیں تو کلیجہ نوچ لیتے ہیں اور جس کے سر پر یہ ٹوپی فٹ آ جاتی ہے وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

سیاست حاضرہ کا کتنا صحیح نقشہ کھینچا ہے اور مثال وہ شاہکارانہ دی ہے کہ جس کا جواب نہیں۔ فن شاعری میں ایک چیز اہم مقام رکھتی ہے کہ تمھیں جو منظر پیش کرنا ہو اس کے لیے ایسے الفاظ تلاش کرو کہ صحیح نقشہ نگاہ کے سامنے آ جائے اور جو جذبات نفرت یا محبت کے تم ابھارنا چاہتے ہو وہ خود ابھر آئیں یہ شعر ایسا ہی ہے میں اس کی زیادہ تشریح کرنا اپنے عقیدہ کے خلاف جانتا ہوں۔ شاد مرحوم متروکات کی پابندی نہیں کرتے تھے وہ ان چیزوں کے مقابلہ میں مضمون کو اہمیت دیتے تھے۔ ’’ہاں ‘‘ اور ’’ مت‘‘ اسی لیے شعر میں استعمال کیے گئے جن کو سب سمجھتے ہیں اگر وہ ان الفاظ کی جگہ دوسرے لفظ لاتے تو شاید شعر میں یہ زور نہ رہتا۔

وہاں  بہاروں کی باغبانوں سے سازشیں بارور نہ ہوں گی

جہاں خزاں نے اٹھا دیا ہو سوال کانٹوں کی آبرو کا

یہ شعر طنز میں تو نہیں ہے مگر بات کتنی سچی ہے۔ یہ کلیہ ہے کہ بڑا وہ جس کے ساتھ چھوٹے ہوں چمن وہ جس میں ہر طرح کے پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوں اگر ایسا نہیں تو چمن، چمن کی تعریف ہی میں نہیں آتا پھر بہار و باغباں کسی بھی قسم کی سازشیں کریں یا پروگرام مرتب کریں تو بے نتیجہ ہیں۔ شکستِ ناروا کی بہت سے شاعر اب بھی پروا نہیں کرتے ہیں۔

اسے جس حال میں سجدہ کیا ہے

اسے اللہ بہتر جانتا ہے

یہ شعر انسانی مجبوری کا زندہ نمونہ ہے بعض اوقات وہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہانسان اپنی خودی و خود داری کی قربانی دینے پر اپنے ضمیر کے خلاف آمادہ ہو جاتا ہے یہی عالم اس شعر سے ہویدا ہے۔ شعر کا ماحول ایسا بنا دیا ہے کہ شعر کو غزل کا شعر بھی کہہ سکتے ہیں اور سیاست پر بھی منطبق کر سکتے ہیں اور یہ شاعر کی کہنہ مشقی ہوتی ہے جو شعر کو ذو معنی بنا دے۔

ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا

جس نے مجھ کو گھور کے دیکھا میں نے اس کو ہنس کر دیکھا

طنز کو لوگ مؤنث استعمال کرتے ہیں اس سے مرحوم کے نفسیاتی مطالعہ کا بھرپور اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا مخالف اگر آپ کو عنادانہ کڑی نظروں سے دیکھے اور آپ اُسے دیکھ کر مسکرا کر چلتے ہوں تو یہ تبسم اس کے سخت دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔

جھپٹ پڑیں نہ کہیں دن میں مشعلیں لے کر

عوام کو نہ سجھاؤ کہ روشنی کم ہے

اس شعر میں عوام کے جہل اور ان کی بھیڑ چال پر نیز ان کے مکار رہنماؤں پر وار کیا ہے جو عوام کی بے خبری سے فائدہ اٹھا کر ان سے غلط کام کراتے رہتے ہیں۔ لڑاتے اور کٹواتے رہتے ہیں اور عوام کو یہ بھی بتایا ہے کہ تم جو اُن رہنماؤں، مولویوں، پنڈتوں کے پاس اپنی عقل رہن رکھ چکے ہو اور انھیں کے خود غرضانہ اشاروں پر ناچتے ہو کبھی اپنی عقل سے خود بھی سوچا کرو کیونکہ خدا نے عقل تمھیں بھی دی ہے اور اس لیے دی ہے کہ اس سے کام لو۔ شعر بڑے اچھے انداز سے کہا ہے :

اکھڑنے لگی ظالموں کی ہوا

ٹھہرنے لگے لوگ بسمل کے پاس

یہ شعر بھی وسیع مطالعۂ نفسیات کا شاہد ہے یہی ہوتا ہے کہ جب ظالم اپنے ظلم کے زور پر کسی بے گناہ کو سخت مجروح یا مردہ کر دیتے ہیں تو پھر انھیں ظالموں کے ضمیر ان پر ملامت کرتے ہیں۔ راہگیر بسمل کے پاس ٹھہر کر اُس کے حالت پوچھتے ہیں اور اس کو بے قصور پا کر ظالموں کے خلاف نفرت و انتقام کے جذبات ابھر آتے ہیں اور ظالموں کی پول کھل جاتی ہے۔ بعض اوقات تو یہی عوام ظالموں کا نشان پردۂ ہستی سے مٹا دیتے ہیں، ہماری نگاہ کے سامنے ایسے بہت سے واقعات ہیں، اسی مضمون کا ایک شعر اپنا بھی پیش کر دوں :

یہاں تک ظلم سہ اُٹھیں نگاہیں تجھ پہ عالم کی

پھر اس کے بعد بازوئے ستم میں دم نہیں ہوتا

میرے نغمے نہ سمجھنے والے

سب سمجھتے ہیں مگر بنتے ہیں

یہ طنز بھی ہے اور ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ ہے جو شاد صاحب کے اشعار پر اہمال کا الزام لگاتے تھے :

ہر ساغر کے بعد عموماً مجھ کو یہ احساس ہوا ہے

جیسے کوئی بھول ہوئی ہے جیسے کوئی جرم کیا ہے

انسان خطا اور بھول کا مرکب ہے اس سے خطا و گناہ ضرور ہوں گے گناہ کے بعد جو منزل آتی ہے اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں اول انسان اپنی کامیابی پر مسرور ہوتا ہے اور یہ مسرت اس کی شاہد ہے کہ اس کا ضمیر مر چکا ہے۔ دوسری صورت غور اور احساسِ ندامت کی ہے اور یہ علامت اس کی ہے کہ اس کا ضمیر زندہ ہے اور اس لوہے سے اچھی تلوار بن سکتی ہے۔ شاہ صاحب مرحوم کمیونسٹ تھے۔ کمیونسٹ پارٹی ن کو اپنا شاعر کہتی تھی مگر یہ میرے علم میں ہے کہ انھوں نے کمیونسٹ تحقیق یا عقیدہ کے خلاف ہمیشہ خدا کی ہستی کا اقرار کیا اور پیغمبر اسلام کی عظمت ان کے دل میں جا گزیں تھی۔ اس شعر سے ان کی اسی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ورنہ جن کے نزدیک کوئی جزاء و سزا کا مالک ہی نہیں وہ تو جو کچھ کریں گے اپنے نفس کی لذت یا مقصد کی تکمیل کے لیے کریں گے اور حصول لذت و مقصد ان کی مسرت ہی کا باعث ہو گا، انھیں اپنی بھول یا خطا کا احساس ہی کیوں ہو گا۔

انگلیاں اس کی مرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ

ہاتھ چھوڑے نہ بنے جام گرائے نہ بنے

شاد صاحب جب غزل کا شعر کہتے تھے تو اس میں بھی بڑی ندرت ہوتی تھی۔ یہ شعر غزل کا ہے اور اسی قبیل کا ہے :

صدائے ناقوسِ بت کدہ پر گرفت کا مشورہ نہ دیجے

جو مانعِ بندگی نہیں ہے یہاں کوئی برہمن ہمارا

یہ شعر ان فتنہ جو اور شریر علماء کو ایک ’ چپت ‘ ہے جو مسلمانوں کو فساد پر ابھار کر انھیں برباد کراتے رہتے ہیں اور یہ حساب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے بزرگان خدا کو ان لوگوں کی تنگ نظری اور تعصب نے ہلاک و تباہ کرایا اور دنیا کو جہنم بنا دیا۔ آخر اس کا جواز ان کے پاس کیا ہے کہ تم عبادت کرو تو وہ صحیح ہے اور دوسرے اپنی اپنی شریعت کو سب کی طرح جاوداں سمجھ کر اپنے طریقہ پر عبادت کریں تو وہ ناجائز اور قابل سزا ہے جب کہ یہ ہر امت کا مزاج رہا ہے کہ اس نے اپنے ہی دین کو دائمی سمجھا۔ حالانکہ لکل اُمّۃٍ اجل اور ولکل اجل کتاب ( ہر امت کی ایک میعاد ہوتی ہے اور ہر میعاد کے لیے ایک کتاب ہوتی ہے ) کے متعلق رسالتیں بدلتی رہیں اور لوگ نئے رسول کا انکار کرتے رہے۔ مگر ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ( خدا کی سنت نہیں بدلا کرتی) اور خدا کسی کے غلط عقائد کا ہرگز پابند نہیں ہوتا، وقت آنے پر وہ اپنی شریعت ضرور بھیجتا ہے۔ پس جب ایک حمام میں سبھی ننگے ہیں تو اس فتنہ انگیزی سے کیا فائدہ سب کو اپنے اپنے طور پر عبادت کرنے دو۔

جناب شیخ ہی اب رہ گئے ہیں لے دے کر

گئے وہ دن کہ کسی برہمن پہ چوٹ کروں

کتنی حقیقت ہے اس شعر میں کہ سبحان اللہ۔ لاریب یہ وہی شیخ ہیں جن کے متعلق رسولؐ نے فرمایا: علماء سوء دجالۃ القوم ( برے عالم ہی قوم کے دجال ہیں ) گویا وہ فرضی دجال کوئی چیز نہیں دجال یہی بزرگ لوگ ہیں اور جب نگاہ غور سے ان کے اعمال و کردار اور مشاغل کا مطالعہ کیا جائے گا تو ہو بہو ایسا ہی پائیے گا جب رسول نے فرمایا تو رسول کی بات غلط نہیں ہو سکتی۔ ان بزرگوں کے سلسلے میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔

اور جب یہ حضرات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں جنھوں نے اپنے کرتوتوں سے برہمنوں کو مات دے دی ہے تو پھر ہم ان کو وہ مقام کیوں نہ دیں جو برہمنوں کو دیا کرتے تھے۔

جنابِ شیخ سیاست کے پھیر میں پڑ کر

بُتانِ دیر کو پروردگار کہتے ہیں

سیاست کچھ ملکی ہی نہیں ہوتی اس کے ہزار رنگ ہوتے ہیں۔ علماء کی بڑی سیاست شیعہ، سنّی، وہابی، قادیانی، اہلِ قرآن، اہلِ حدیث اور ایسے ہی تقریباً ڈیڑھ دو سو اسلامی فرقوں کو آپس میں لڑانا، جہلا کو اپنا آلۂ کار بنانا، انھیں مقدمات اور جراحت و فساد کی تباہی میں مبتلا کر کے اپنی خدائی قائم رکھنا ہے اور ان دینی جنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے، ان بے دینوں کو جو یہ نہیں جانتے کہ دین کہتے کسے ہیں ان میں سے ہزار میں ۹۹۹ کو صحیح نماز بھی یاد نہ ہو گی اور ممکن ہے آدھوں کو سرے سے یاد ہی نہ ہو انھیں مجاہد بنا کر جہاد کا حکم دیا جاتا ہے اور مر جانے پر شہادت کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے۔ کاش ان سے کوئی یہ پوچھتا کہ حضور جہاد کا حکم تو صرف خلیفۃالمسلمین ہی دے سکتا ہے۔ یہ آپ بیچ میں حکم دینے والے کہاں سے کود پڑے اور خلافت کا خدا نے خاتمہ کر دیا۔ شاد صاحب نے انھیں ناواقفانِ دین کو بُت کہا ہے جن کو مولوی خدا سمجھتا ہے اور جن کے بل بوتے پر اپنی کرسی سنبھالے بیٹھا ہے :

شراب و شاہد کے تذکرے اُن سے چھین لیجے تو کیا کریں گے

شراب و شاہد کے تذکروں تک ہی جن کی جادو بیانیاں ہیں

یہ چوٹ ہے ان شاعروں پر جو زلف محبوب اور اس کے سُرمہ، مسّی نیز شراب و ساقی کے مضامین سے ہنوز آگے نہیں بڑھے اور انھیں تذکروں کو دہراتے رہنا ان کے علاوہ حیات و ضروریات انسانی کے متعلق کچھ نہ کہنا جن کی کائنات ہے اس سے یہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ میں اذکار محبت اور تبلیغ الفت سے منع کر رہا ہوں لاریب محبت دنیا کی بڑی ضرورت ہے مگر صرف محبت ہی سب کچھ نہیں، زندگی کی دوسری ضروریات بھی انسان کو لاحق ہوتی رہتی ہیں۔

درِ گلشن پہ ستم ایجادو

’’ راستہ بند ہے ‘‘ یہ لکھوا دو

یہ اُن لوگوں کو ایک تلخ جام ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور اگرچہ جمہوری حکومت کا اعلان ہے مگر وہ حرکات کرتے رہتے ہیں جن کی تفصیل ایک خونیں داستان ہے اور وہ جس کو ڈکٹیٹر شپ سمجھ رہے ہیں :

ہر غلط بات پر بھی ہاتھ اٹھاؤ

یہ نمائندگی نہیں شرماؤ

غور کیجیے بڑے بڑے وفاداری اور فائدہ پہنچانے کے وعدے کر کے جو ہم سے ووٹوں کی بھیک مانگ کر حکومت میں پہنچے ہیں کیا وہ یہی نہیں کرتے جو شادؔ صاحب نے کہا ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر ہمارے لیے بڑے غور کا مقام آ جاتا ہے۔

جناب شادؔ مرحوم نے ایسے بہت سے شعر کہے ہیں جن کا بہت تھوڑا نمونہ میں نے بیش کیا ہے۔ یقیناً آپ اس کتاب میں ان کے دیگر عمدہ شعر ملاحظہ فرمائیں گے۔ جیساکہ میں نے ابتدا میں عرض کیا وہ اپنے رنگ میں بہت پختہ گو تھے اور بڑی بر محل بات کہتے تھے اللہ اپنی رحمت کاملہ کے صدقے میں ان کی روح کو مقام اعلیٰ مرحمت فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

                خلیل الرحمن اعظمی

 

شاد عارفی کی یاد میں

 

شاد عارفی اردو کے ان شاعروں میں ہیں جن پر مضمون لکھنا خطرے سے خالی نہیں۔ میں ان چند خوش قسمت لوگوں میں ہوں جنھیں مرحوم کو بہت قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا ہے۔ وہ ایک انوکھی اور نرالی شخصیت کے مالک تھے اور ان کے اندر بعض ایسی ادائیں تھیں جو محض انھیں سے مخصوص تھیں۔ جن لوگو ں کو ان سے سرسری طور پر ایک آدھ بار ملنے یا ان سے باتیں کرنے کا اتفاق ہوا ہو گا وہ ممکن ہے ان کے بارے میں کچھ اچھی رائے نہ رکھتے ہوں اور ان کی ’’بے دماغی‘‘ یا ’’بد دماغی‘‘ کے شکوہ سنج ہوں۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ طبعاً ایک خود دار اور غیرت مند شخص تھے۔ ان کی ذات میں ایسا کھرا پن تھا جو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ وہ اپنے ماحول اور اپنے زمانے کی غلاظتوں کو گوارا نہیں کر پاتے تھے اور مصلحت کی خاطر بھی تصنّع، ریاکاری اور زمانہ سازی سے کام نہیں لے پاتے تھے۔ ان کی اس افتادِ طبع نے انھیں بڑی ٹھوکریں کھلوائیں وہ جتنی ٹھوکریں کھاتے تھے ان کی اکڑ اور بڑھتی جاتی تھی۔ ان کی باتوں میں ایسا تیکھا پن آ گیا تھا جسے سن کر بے اختیار یگانہؔ کا یہ مصرع ذہن میں گونجنے لگتا ہے :

غم کھاتے کھاتے منہ کا مزہ تک بگڑ گیا

لیکن جہاں تک میں انھیں سمجھ سکا ہوں ان میں یگانہؔ کی سی انانیت اور خود پرستی نہ تھی اور نہ وہ مردم بیزار تھے۔ ان کے احباب اور شاگرد اس کی گواہی دے سکتے ہیں کہ مرحوم طبعاً بہت معصوم اور بھولے بھالے تھے۔ ان کا روٹھنا اور بہت جلد من جانا بالکل بچوں کاسا ہوتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے بے حد محبت کرتے تھے اور ان کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ وہ خلوت پسند اور بند بند سے آدمی بھی نہیں تھے اور نہ اپنے بارے میں زیادہ باتیں کرتے تھے۔ میں نے انھیں اپنی شاعری کے متعلق عام لوگوں سے گفتگو کرتے کبھی نہیں دیکھا اور نہ وہ اپنا دکھڑا ہر ایک سے رونا پسند کرتے تھے۔ بلکہ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ جس زمانے میں وہ فاقہ مستی کی زندگی گزار رہے تھے اور ان کو پے بہ پے کئی صدموں سے دوچار ہونا پڑا تھا اس وقت بھی میں نے انھیں شگفتہ پایا۔ ان کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں اور ان کو ایسے ایسے واقعات، لطیفے، ادبی چٹکلے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ایسی تجربے کی باتیں معلوم تھیں اور ان کو اس مزے سے سناتے تھے کہ ان کے پاس بیٹھنے والے کبھی ان سے بور نہیں ہوتے تھے۔ اتفاق سے مجھے رام پور جانے اور وہاں مہینوں اپنی چھٹیاں گزارنے کے مواقع ملے ہیں۔ ان کے شاگرد جاوید کمال میرے عزیز دوست ہیں، انھیں کی وساطت سے ۱۹۴۹ء میں شاد صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی اور میں شاد صاحب کا اتنا گرویدہ ہو گیا تھا کہ ان سے بار بار ملنے کو جی چاہتا۔ اس کی ایک ترکیب تو ہم لوگوں نے یہ نکالی تھی کہ کسی بہانے ان کو علی گڑھ بلائیں اور پھر ان کو مہینے میں کئی دن روکے رکھیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ چھٹیوں میں سب دوست احباس رام پور جائیں۔ ۵۰ء اور ۵۱ء کی گرمیوں کی چھٹیاں میں نے رام پور میں گزاریں۔ اس وقت ان کے ملنے والوں اور ان کے قریبی دوستوں اور شاگردوں میں رشید احمد خاں مخمور۔ ہادی مصطفے آبادی۔ مسعود اشعر۔ رام ناتھ نازاں۔ امتیاز علی کھنڈارا۔ صدیق خاں اور قیصر خاں وغیرہ تھے۔ ان میں سب لوگ شاعر نہیں تھے۔ کھنڈارا صاحب مصور ہیں۔ صدیق خاں جوتے کے کاریگر تھے لیکن یہ سب شاد صاحب پر جان چھڑکتے تھے۔ شام کو چار پانچ بجے سب لوگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر مل بیٹھتے تھے۔ یہ بیٹھک کبھی کبھی جاوید کمال کے گھر پر لیکن عام طور پر قلعے کے لان پر ہوتی تھی اور رات کے بارہ بارہ بجے تک گپ شپ رہتی تھی۔ میں نے اس زمانے میں یہ بھی محسوس کیا کہ شاد صاحب فن پر بڑی اچھی نظر رکھتے ہیں اور الفاظ کی پرکھ کا انھیں ایسا ملکہ ہے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم لوگوں پر ترقی پسندی کا بھوت سوار تھا۔ دوچار شاعروں کو چھوڑ کر پرانے شاعروں کے بارے میں براہ راست ہم نے کوئی رائے قائم نہیں کی تھی بلکہ ادھر اُدھر کے مضامین پڑھ کر ان سے نفرت کرنے کو ہی روشن خیالی کی دلیل سمجھتے تھے۔ شاد صاحب باتوں باتوں میں ذوق، داغ، امیر مینائی اور نظام رام پوری وغیرہ کے ایسے ایسے شعر سناتے اور ان کے نکات بیان کرتے کہ ہم لوگوں کو قائل ہونا پڑتا۔ ذوق اور داغ جیسے شاعروں کی طرف سے ہم لوگوں کو جو تعصب تھا اس کو کم کرنے میں شاد صاحب کی ان صحبتوں کا بڑا ہاتھ ہے لیکن یہ عجیب بات تھی کہ وہ پرانی شاعری کے اس طرح قائل نہیں تھے جس طرح قدامت پسند اور روایت زدہ شعرا یا اساتذہ ہوتے ہیں وہ روایتی شاعروں، مشاعرے بازوں، تُک بندوں اور استادی کا ڈھونگ رچانے والوں سے بہت چڑتے تھے اور ان کے شعروں کی تشریح اس انوکھے انداز سے کرتے تھے کہ ہم لوگ مارے ہنسی کے لوٹنے لگتے۔ اس سلسلے میں وہ فحش لطیفوں اور گالی گلوچ سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ ان کے بہت سے اشعار ہیں جو پیروڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اشعار میں ابتذال اور پھکڑ پن ہوتا تھا۔ ان کی حیثیت پرائیویٹ ہوتی تھی اور وہ محض بے تکلف دوستوں اور شاگردوں تک محدود رکھے جاتے تھے۔ شوکت تھانوی نے قدیر لکھنوی کی شاعری کے بارے میں ’’شیش محل‘‘ میں ایک دلچسپ فقرہ لکھا ہے جسے شاد صاحب اپنے شاگردوں کو اکثر سناتے تھے اور اس کا مقصد محض یہ تھا کہ روایتی شاعری سے دامن بچانا چاہیے۔ شوکت نے لکھا ہے کہ قدیر کو حضرت موسیٰ سے جو عقیدت ہے وہ میں نے کسی بڑے سے بڑے یہودی میں نہیں دیکھی وہ اس لیے کہ ان کی ہر غزل میں دو ایک شعر موسیٰ اور طور کے بارے میں ضرور ہوتے ہیں۔ ‘‘جو لوگ صیاد، قفس اور آشیاں کو محض غزل کا مضمون سمجھ کر باندھتے ہیں ان کا مذاق اڑانے کے لیے شاد صاحب نے ایک شعر کہہ رکھا تھا۔

انھیں ہمراہ لیتا جا ذرا ٹکیا بنا لینا

ارے صیاد دو انڈے بھی رکھے ہیں نشیمن میں

ہاں تو بات میں نے یہاں سے شروع کی تھی کہ ان پر مضمون لکھنا خطرے سے خالی نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ شاد صاحب کو خود اس کا اندازہ تھا کہ ان کی نظم اور غزل دونوں کی ساخت، ان کی فضا، ان کا ذائقہ، اور ان کا ڈکشن اردو کی مروجہ شاعری اور سکّہ بند نظم اور غزل سے خاصی حد تک مختلف ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنے ذوق کی نئے سرے سے تربیت کرنی پڑے گی۔ وہ سمجھتے تھے کہ میری شاعری اس قسم کی ہے جس پر تنقید و تبصرہ اس انداز سے نہیں ہوسکتا جیسا کہ میر، غالب، حالی، اقبال، جوش، حسرت، فانی، جگر یا موجودہ دور کے جدید اور ترقی پسند شعرا پر ہوسکتا ہے۔ ان کی شاعری کا رشتہ اگر ملتا ہے تو سودا، نظیر، انشا اور اکبر سے لیکن ان شعرا پر جو تنقیدیں اس وقت نئے انداز میں لکھی گئی تھیں ان تنقیدوں میں ان کے مواد اور اس کی سماجی معنویت اور افادیت کو زیادہ زیر بحث لایا گیا تھا۔ شاد صاحب کا اپنے بارے میں خیال تھا کہ ان کی شاعری پر اگر اس انداز سے لکھا گیا تو ان کے مخصوص طرز کی انفرادیت نمایاں نہ ہوسکے گی اور اگر یہ بات پیدا نہ ہوئی تو ان کی نظموں اور غزلوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہ تنقید عام پڑھنے والو ں کی رہبری نہیں کرسکتی۔ شاد صاحب کو میں نے دیکھا کہ وہ اس بات سے آزردہ نہیں ہوتے تھے کہ ان پر نقاد کیوں نہیں لکھتے ہیں بلکہ وہ اس پر خوش ہوتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’میں ان کے قابو میں نہیں آنے کا۔ ‘‘ وہ جب عبادت بریلوی وغیرہ کے مضامین میں اپنا نام دیکھتے اور یہ بھی کہ دس پانچ شاعروں کے ساتھ ساتھ انھیں بھی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے تو بڑی موٹی سی گالی دے کر اس تنقید کا مذاق اڑاتے۔ وہ تشریحی تنقید اور فہرست سازی کے بے حد مخالف تھے۔ میں نے اپنے مضامین کا مجموعہ ’’فکر و فن‘‘ شائع کیا تو اس کے دیباچے میں ان نقادوں کا ذکر کیا جن سے میں نے کسی زمانے میں استفادہ کیا ہے، اس فہرست میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا نام بھی تھا۔ شاد صاحب اس بات پر بہت ناراض ہوئے اور ایک خط میں مجھے ڈانٹ پلائی اور سید عبداللہ کے خلاف اپنا غصہ خوب اتارا۔ اسی زمانے کا ایک اور واقعہ مجھے نہیں بھولتا۔ ایک نوجوان نقاد نے جو اچھے خاص مشہور ہیں اور اس زمانے میں بھی ان کے مضامین سبھی رسالوں میں پابندی سے چھپا کرتے تھے، شاد صاحب کو ایک خط لکھا کہ میں آپ کی شاعری کا بڑا معترف ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ آپ کے کلام پر ایک تفصیلی مضمون لکھوں تاکہ موجودہ دور کے لوگ آپ کی شاعرانہ اہمیت سے واقف ہوں لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ کے جو جو مجموعے چھپ چکے ہوں، یا جن جن رسائل میں آپ کی خاص خاص نظمیں ہوں وہ مجھے عاریتاً بھیج دیں۔ ‘‘ شاد صاحب نے اس خط کا جواب یہ دیا کہ ’’میاں صاحبزادے تم نے کتابیں اور رسالے حاصل کرنے کی خوب ترکیب نکالی۔ یاد رکھو میں ان شاعروں میں نہیں ہوں جو اپنی تعریف میں مضمون لکھوا کر خوش ہوتے ہیں۔ لکھنے والوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ میری شاعری کے بارے میں اپنے طور پر جو چاہیں لکھیں یا بُری بھلی جو رائے چاہیں قائم کریں لیکن اس بات کا مجھ سے کیا سروکار۔ مجھے اپنے اوپر مضمون وضمون نہیں لکھوانا ہے۔ ‘‘ انھوں نے اس خط کا ذکر ہم لوگوں سے کیا تو بڑی ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا۔ افسوس اس لیے کہ انھیں نقاد کے دو ایک مضمون اردو شاعری کے نئے رجحانات پر پچھلے دنوں میری نظر سے گزرے تھے جن میں ان کی شاعری کا مذاق اڑا یا گیا تھا اور اسے معمولی  تک بندی اور پھکڑ پن کے درجے پر رکھا گیا تھا۔ اصل میں شاد صاحب کے خط سے وہ چڑ گئے اور انھوں نے اپنی رائے بدل دی۔ شاد صاحب کو جب میں نے یہ بات بتائی تو خوب ہنسے اور کہا ’’میرا کیا بگڑا۔ یہ شخص کبھی اچھا نقاد نہیں بن سکتا۔ جو اپنی رائے کے سلسلے میں ایسا ڈھلمل یقین ہو اسے نقاّدی سے کیا واسطہ۔ ‘‘

شاد صاحب کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ جلد کسی کو اپنا شاگرد نہیں بناتے تھے۔ بہت خوشامد در آمد سے اگر کسی نوجوان شاعر نے انھیں راضی بھی کر لیا تو اس کی توقعات پوری نہیں ہوتی تھیں اور وہ بھاگ کھڑا ہوتا تھا۔ اصل میں وہ استاد قسم کے شاعروں کے خلاف تھے۔ رام پور کے کئی استاد ایسے تھے جو شاگردوں کو مصرع طرح دے کر یا اساتذہ کی زمینوں میں غزلیں لکھواتے، ان غزلوں پر اس طرح اصلاح دیتے کہ شاگرد کے سب شعروں کا قالب یکسر تبدیل ہو جاتا۔ دس شعر کی غزل ہے تو پانچ شعر استاد نے خود کہہ کر ڈال دیے۔ اگر شاگرد کا شعر مقبول ہو گیا تو اب اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ یہ شعر تو اصل میں میرا ہے جو میں نے اپنے شاگرد کی غزل میں کہہ کر ڈال دیا تھا۔ اس زمانے میں کہیں سے یہ بحث اٹھی کہ ایک شعر میرؔ سے غلط منسوب ہو گیا ہے۔ میر کے دیوان یا کسی تذکرے میں اس کا سراغ نہیں ملتا۔ شعر یہ ہے۔

وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

جب بڑی بحث کے بعد اس شعر کا کوئی دعوے دار نہ ملا تو رام پور کے ایک استاد نے ’’نگار‘‘ میں یہ خط لکھا کہ یہ شعر دراصل میرا ہے جو میں نے اپنے ایک شاگرد فکرؔ رام پوری کی غزل میں مقطع کی صورت میں کہہ کر شامل کر دیا تھا اور یوں تھا:

وہ آئے بزم میں اتنا تو فکر نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اس خط کے جواب میں غالباً رفیق مارہروی نے ایک مضمون لکھا جس میں اس شعر کو طیشؔ مارہروی کی ملکیت بتایا گیا اور کہا گیا کہ ان کی یہ غزل حسرت موہانی کے رسالہ اردوئے معلی میں ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ شاد صاحب اس طرح کے استادوں کی ذہنیت پر بہت برہم ہوتے تھے۔ ان کے جو لوگ شاگرد ہوتے ان سے وہ شروع ہی میں جتا دیا کرتے تھے کہ جو جی میں آئے لکھو اور جس رنگ میں جی چاہے لکھو۔ میں زبان و بیان کی خامیوں کی طرف اشارہ کر دوں گا۔ درست خود تمھیں کو کرنا ہو گا۔ اگر میں کوئی لفظ تجویز کروں گا تو اس کا ماننا تمھارے لیے ضروری نہیں۔ شاد صاحب کی اس طریق کار نے مجھے بہت متاثر کیا اور میں نے ایک مرتبہ ان سے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی اپنا شاگرد بنا لیجیے۔ پہلے تو وہ انکار کرتے رہے۔ کہا تمھیں اصلاح کی ضرورت نہیں۔ تمھارا مطالعہ بہت اچھا ہے اس کی روشنی میں خود اپنے کلام پر بار بار نظر ثانی کیا کرو۔ لیکن جب میں بہت بضد ہوا تو کہنے لگے اچھا اپنی بیاض لاؤ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب وہ علی گڑھ میں ہی جاوید کے یہاں مقیم تھے۔ بیاض لائی گئی۔ شاد صاحب نے غزلوں اور نظموں کو پڑھنا شروع کیا اور ان پر اس طرح اصلاح دینی شروع کی کہ جس شعر میں ان کو سقم نظر آتا وہ ہم سب کو سناتے اور اس میں جس قسم کا جھول ہوتا اس کو ظاہر کرتے۔ پھر ہر شخص سے اپنی رائے پوچھتے۔ ایسا بھی ہوتا کہ شاد صاحب جس چیز کو عیب قرار دے رہے ہیں ہم میں سے کسی اور نے کہا کہ نہیں شاد صاحب یہ تو اس کا حسن ہے، یہی تو وہ نکتہ ہے جس سے شعر میں جان پڑ گئی ہے۔ پہلے تو وہ خوب جھک جھک کرتے لیکن آخر کار مان جاتے ’’اچھا یہ ہے تو ٹھیک ہے۔ ‘‘ غرض ان کی کچھ اصلاحیں تو قبول کی جاتیں اور کچھ کو ہم لوگ ماننے سے انکار کر دیتے۔ میرے پاس وہ بیاض اب بھی کہیں رکھی ہو گی جس پر شاد صاحب نے خود اپنے قلم بہت سی غلطیاں اور خامیاں درست کی ہیں۔ بعد میں کچھ غزلیں میں نے خطوں کے ذریعہ بھیجیں۔ ان پر شاد صاحب نے اپنے خطوں میں بڑے دلچسپ انداز میں تبصرے کیے ہیں اور اصلاحیں تجویز کی ہیں۔ میں نے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا کہ کچھ اصلاحوں کو تو قبول کر لیتا اور کچھ اصلاحوں کے بارے میں پھر انھیں لکھتا تھا اور اپنا نقطۂ نظر ظاہر کرتا تھا۔ افسوس ہے کہ وہ خطوط اس وقت میرے پاس نہیں ہیں۔ ایک زمانے میں محمد طفیل مدیر ’’نقوش‘‘ نے انھیں نقوش کے مکاتیب نمبر میں شامل کرنے کے لیے لے لیا تھا اس وقت شاد صاحب زندہ تھے۔ نقوش نے جو مکاتیب نمبر شائع کیا اس میں مرحوم ادیبوں کے خطوط کو زیادہ اہمیت دی گئی اور زندہ لوگوں کے خط کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھے گئے۔ اب نہ جانے ان کا کیا حشر ہوا۔

شاد صاحب کی زندگی میں ہی کئی بار میں نے سوچا کہ ان پر کوئی مضمون لکھوں۔ لیکن ہمت نہیں پڑی۔ میں جانتا تھا کہ اس سے شاد صاحب کی توقعات پوری نہ ہوں گی اور پھر وہ مجھے بڑی ڈانٹ پلائیں گے۔ ایسی بات نہیں کہ وہ تعریف چاہتے تھے بلکہ یہ چاہتے تھے کہ ان کی شاعری کے اس پہلو کو اجاگر کیا جائے جو انھیں سے مخصوص تھا اور جسے ایک اعتبار سے خاص ان کی ایجاد سمجھنا چاہیے۔ اس پہلو سے عہدہ برآ ہونے کا عام طور پر وہ کم ہی لوگوں کو اہل سمجھتے تھے۔ کہتے تھے نقاد فارمولے بنا کر لکھتے ہیں۔ بنی بنائی خصوصیات میں شاعر کو فٹ کرتے ہیں۔ دوسروں کے یہاں جو محاسن ہیں وہی ہر شاعر کے یہاں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ محاسن ملتے ہیں تو تعریف کرتے ہیں نہیں ملتے تو شاعر کا عیب گردانتے ہیں۔ کہتے تھے میرؔا جی نے میری کچھ نظموں کے تجزیے ’’ادبی دنیا‘‘ میں کیے تھے۔ آدمی ذہین تھا اور دور کی کوڑی لاتا تھا لیکن میں نے اسے لکھا کہ ’’خدا کے بندے یہ میرے یہاں فرائڈ وغیرہ کو کیا ڈھونڈتا ہے اور اپنے مطلب کی باتیں میری نظموں سے کیوں نکالتا ہے۔ میری نظم کی تہہ تک پہنچنا تمھارے بس کی بات نہیں۔ ‘‘ البتہ اس سلسلے میں ایک شخص کے قائل تھے کہتے تھے میری نظمو ں کو رشید خاں (رشید احمد خاں مخمور۔ شاد صاحب کے دوست) خوب سمجھتے ہیں۔ ان سے زیادہ مجھے سمجھنے والا کوئی نہیں لیکن وہ مضمون نہیں لکھتے اور شاعری ترک کر کے اب جماعت اسلامی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ کہتے تھے جماعت والوں نے رام پور میں بڑی گڑبڑ مچا رکھی ہے۔ اچھے خاصے معقول لوگوں کو پھانس لیا ہے۔ کہاں رشید خاں جیسا خوش مذاق اور کہاں یہ ملاٹے۔ پھر کہتے مجاز ٹھیک کہتا تھا آدمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔

جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں خود شاد صاحب کی نظر میں ان کا مخصوص آرٹ ان کی شاعری کا ڈرامائی اسلوب تھا۔ ان کا خیال تھا کہ انھوں نے شاعری کو بیانیہ اور نا تراشیدہ پیرائے سے نکال کر ایک ایسی شکل دے دی ہے جہاں حقیقت پر اظہار خیال نہیں ہوتا بلکہ ٹھوس اور چلتی پھرتی تصویر دکھائی جاتی ہے اور اسے ایسے زاویے سے پیش کیا جاتا ہے کہ شاعر کا نقطۂ نظر ظاہر ہو جائے۔ ان کی نظموں میں زیادہ تر کردار نگاری ہے۔ وہ کردار کا بے لاگ معروضی مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ سماج کی کسی حقیقت کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی نظمیں عام طور پر مکالموں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ ان مکالموں میں روز مرہ کی زبان استعمال ہوتی ہے اور خالص گھریلو فضا، مجلسی رنگ یا گلی کوچے اور بازار کا ماحول ہوتا ہے۔ اس فضا اور ماحول کو پیش کرنے اور ان کرداروں کو جیتا جاگتا بنانے کے لیے شاد صاحب نے جو جو الفاظ استعمال کیے ہیں اور جس جس ڈھنگ سے کیے ہیں ان کی مثال بہت مشکل سے ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آدھ بند بلکہ بعض مرتبہ ایک دو مصرعے پڑھنے کے بعد ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ شاد صاحب کی نظم ہے۔ خود شاد صاحب کو اپنی جن نظموں پر ناز تھا وہ ’’ساس‘‘، ’’بیٹے کی شادی‘‘، ’’دلال‘‘، ’’دھوبن‘‘، ’’ غمازہ‘‘، ’’دیہاتی لاری‘‘، ’’پرانا کوٹ‘‘، ’’ پیر دہقاں ‘‘، ’’ٹکڑے گدے ‘‘، ’’رنگیلے راجہ کی موت‘‘، ’’پرانا قلعہ‘‘، ’’ان اونچے اونچے محلوں میں ‘‘، ’’پروڈیوسر‘‘، ’’شوفر‘‘، ’’مہترانی‘‘ اور ’’مشورہ‘‘ وغیرہ کے قبیل کی تھیں۔ ان نظموں کی ہیئت، ان کی ٹکنیک، بندوں کی ترتیب خود شاد صاحب کی ایجاد کردہ ہوتی تھی۔ شاد صاحب انگریزی شاعری سے نہ متاثر تھے اور نہ زیادہ واقف۔ اس لیے ہیئت کا تجربہ انھوں نے مغربی اثرات کے تحت نہیں کیا ہے بلکہ یہ خود ان کی ذاتی اُپج تھی۔ وہ اپنے موضوع اور طرز فکر کے اعتبارسے نظم کا سانچہ اور اس کا اسلوب خود وضع کرتے تھے۔ اس لیے ان کے یہاں لہجے کا تنوع بھی بہت ہے چونکہ ان کے یہاں مختلف طبقوں کے کردار ہیں اس لیے ان کی لفظیات بھی مختلف قسم کی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی بڑی قدرت تھی۔ انھوں نے جتنے نئے الفاظ اور محاورے اردو نظم اور غزل کو دیے ہیں اس کی مثال موجودہ دور میں نہیں مل سکتی البتہ پرانی شاعری میں انشا، نظیر اور اس کے بعد اکبر ان کی برادری کے شاعر معلوم ہوتے ہیں۔ آخری زمانے میں انھوں نے ’’آپ کی تعریف‘‘ کے عنوان سے منظوم خاکوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ہر خاکہ مختصر ہوتا تھا لیکن اس مختصر پیرائے میں اس کردار کا طنزیہ پہلو اجاگر ہو  جاتا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک ہزار کرداروں پر لکھوں گا۔ افسوس ہے کہ ان کی صحت نے جواب دے دیا ورنہ یہ نظم اردو شاعری میں اپنے طرز کی بے مثال چیز ہوتی۔ اس کے جو حصے اِدھر اُدھر رسالوں میں چھپے انھیں دیکھ کر شاد صاحب کی بے پناہ صلاحیت اور خداداد ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شاد صاحب کی شاعری کے سلسلے میں سودا، نظیر یا اکبر کا نام لینے سے یہ ہرگز گمان نہیں ہونا چاہیے کہ شاد صاحب ان کی طرح کے شاعر تھے۔ دراصل شاد صاحب تو ہجو کے شاعر تھے نہ ظرافت کے۔ سودا کے طنز میں ہجویہ عنصر اور اکبر کے طنز میں ظریفانہ عنصر زیادہ حاوی ہے۔ شاد صاحب کو میں خالص طنز نگار شاعر مانتا ہوں۔ ان کی نظمیں پڑھ کر ہنسنے کا موقع نہیں ملتا۔ یہ نظمیں اپنے اندر المیہ پہلو زیادہ رکھتی ہیں اور چند نظموں کو چھوڑ کر زیادہ تر شاد صاحب کے کرداروں کے اندر ہمیں خود اپنی یا اپنے قریب کے لوگوں کی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ شاد صاحب کے کردار اشخاص نہیں ٹائپ ہیں اور یہ ٹائپ، محض شاد صاحب کے فنی طریق کار کی وجہ سے بن گئے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر نظموں کے کردار اپنا مادی وجود بھی رکھتے تھے اور شاد صاحب کے قریبی جاننے والے ان کے ناموں سے واقف ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ’’رنگیلے راجہ کی موت‘‘ کے پردے میں شاد صاحب نے ختم ہوتی ہوئی جاگیرداری کی عکاسی نہیں کی ہے یا ’’پرانا قلعہ‘‘ ان کے یہاں زوال آمادہ تہذیب کی علامت نہیں بن گیا ہے۔

شاد صاحب طبعاً ترقی پسند تھے۔ انھیں ترقی پسند تحریک سے ہمدردی تھی لیکن ان لوگوں سے وہ خوش نہیں تھے جنھوں نے فیشن کے طور پر ترقی پسندی اختیار کی تھی اور نام و نمود کی خاطر اس تحریک میں آ گئے تھے۔ کہتے تھے ان کے قول و فعل میں تضاد ہے، ان کے دل میں خلوص اور عوام کا سچا درد نہیں ہے۔ ایک زمانے میں ترقی پسند شاعروں کو بین اقوامی شاعری کا بڑا خبط تھا اور ہر شاعر ایران، مصر، کوریا، چین، انڈونیشیا، ملایا، ٹیونس وغیرہ پر نظمیں لکھنا اپنا فریضہ خیال کرتا تھا۔ ’’شاہراہ‘‘ والے خاص طور پر ایسی نظموں کو اہمیت دیتے تھے۔ شاد صاحب نے اس شاعری کے بارے میں ایک بار کہا کہ یہ ’’شعرا ایران و مصر پر اس طرح نظمیں لکھ رہے ہیں جیسے گھر پر سب خیریت ہے۔ ‘‘غالباً یہ فقرہ انھوں نے اس خط میں بھی لکھا تھا جو ’’سویرا‘‘ کے اڈیٹر کے نام تھا اور اس رسالے میں شائع ہوا تھا۔ ترقی پسند تحریک پر ان کے بعض اعتراضات سن کر جب وہ لوگ ان کو اپنانے کی کوشش کرتے جو اس تحریک کے مخالف تھے تو شاد صاحب انھیں بھی جھاڑ پلاتے تھے۔ یہ شعر اسی زمانے کا ہے :

مجھے اے شاد ان رجعت پسندوں سے تو کیا لینا

کرے گی یاد مستقبل کی تہذیب جواں مجھ کو

وہ واقعی مستقبل کے شاعر تھے۔ ان کو سمجھنا اور ان سے استفادہ کرنا ان کے ہم عصروں سے زیادہ نئی نسل کے لوگوں کی قسمت میں لکھا تھا۔

شاد صاحب کی ایک خصوصیت ان کے ذہن کی زر خیزی اور ان کی پُر گوئی تھی۔ انھیں میں نے کبھی یہ کہتے نہیں سنا کہ آج کل شعر نہیں ہو رہے ہیں یا یہ کہ فلاں فلاں پریشانیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکا۔ ان سے زیادہ اس دور کے شاید ہی کسی شاعر نے غربت و افلاس، بے کاری و بے روزگاری، بیماری و آزاری اور عزیز و اقارب کی طوطا چشمی کے مزے چکھے ہوں گے لیکن شاد صاحب کی راہ میں یہ چیزیں حائل نہیں ہوئیں بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ اس سے ان کی شاعری نے مثبت اثر قبول کیا۔ ان کے فن پر شاید اسی وجہ سے دھار آئی اور ان کے طنزیاتی آرٹ کو نکھرنے کا موقع ملا۔ عام طور پر جو شاعر پُر گو اور بسیار گو ہوتے ہیں وہ اپنے فن کی سطح اور اس کے معیار کو برقرار نہیں رکھ پاتے۔ ان کے یہاں تکرار اور اعادہ ہوتا ہے یا محض لفظی کھیل۔ شاد صاحب کے یہاں یہ بات نہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو کبھی دہرایا نہیں۔ ان کے پاس نت نئے موضوعات اور مسائل ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کوئی موضوع بذات خود شاعرانہ یا غیر شاعرانہ نہیں ہوتا اسے شعر بنانا خود شاعر کا کام ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ شاد صاحب نے جن جن موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں ان کے بارے میں عام شاعروں کا ذہن بھی نہیں جا سکتا۔ بعض داخلیت زدہ شعرا اور تغزل کا پرانا ذوق رکھنے والے ان کے کلام پر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ ایک صاحب کو میں نے اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ صاحب یہ بھی کوئی شاعری ہے۔ ’’نمک سالن میں اتنا تیز توبہ ‘‘یا ’’جانتی ہیں انا میں کون سنہ کی پیدا ہوں۔ ‘‘ ایسے لوگوں پر مجھے اکثر ترس آتا ہے اس لیے کہ ان کا شعری ذوق بہت ہی محدود اور ان کی طبیعت میں بے سرا پن ہے۔ میں خود اس قسم کی شاعری کا اپنے آپ کو اہل نہیں پاتا لیکن شاد صاحب کے یہ مصرعے میرے ذہن کے سامنے ایسی تصویریں کھڑی کر دیتے ہیں کہ ان کی مصوری پر بے ساختہ منہ سے واہ نکل جاتی ہے۔

شاد صاحب کا مجموعہ کلام ان کی زندگی میں کبھی ڈھنگ سے شائع نہیں ہوسکا بہت پہلے ’’سماج ‘‘ کے نام سے کچھ نظمیں ان کے دوست رشید خاں نے اپنے خرچ سے چھپوائی تھیں لیکن اس کی کتابت و طباعت بہت ناقص تھی۔ بعد میں مکتبہ اردو لاہور اور سویرا والوں نے کتنی بار چاہا کہ ان کا مجموعہ چھاپیں لیکن جھگڑا اس بات پر تھا کہ وہ اپنے گون کی بعض چیزیں چن لینا چاہتے تھے۔ شاد صاحب کو اصرار تھا کہ یا تو سب کلام چھاپو یا انتخاب وہ خود کریں۔ اس پر پبلشر راضی نہیں ہوتے تھے کیونکہ شاد صاحب کا اپنا انتخاب انھیں پسند نہیں آتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے انجمن ترقی اردو سے ان کے انتخاب کی بات چیت طے کی یہ انتخاب ۶۴ صفحوں پر مشتمل تھا اور شاد صاحب نے خود کیا تھا۔ جب اس کا مسودہ لٹریری کمیٹی کے سامنے گیا تو اراکین نے کہا کہ انتخاب دوبارہ کیا جائے کیونکہ اس میں شاد صاحب کا بہترین کلام نہیں ہے۔ شاد صاحب کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو بڑے برہم ہوئے اور انجمن کو بڑے سخت خط لکھے اور لکھا کہ مجھے اپنا انتخاب چھپوانا منظور نہیں ہے۔ آخر میں نے انھیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ مجھے اجازت دے دیں کہ میں یہ انتخاب کر دوں۔ شاد صاحب چونکہ مجھے عزیز رکھتے تھے اور انھیں مجھ پر تھوڑا سا بھروسا تھا اس لیے راضی ہو گئے۔ اس زمانے میں مجھے لکھا تھا کہ میرے انتخاب کلام کی اشاعت کانی لڑکی کا بیاہ ہو گیا۔ یہ فقرہ بھی شاد صاحب ہی کہہ سکتے تھے۔

شاد صاحب کن کن باتوں کو یاد کیا جائے۔ جب بھی ان کے بارے میں سوچتا ہوں میر کا یہ شعر ذہن میں گونجنے لگتا ہے :

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کہ میر سے صحبت نہیں رہی

اور پھر میرؔ ہی کا ایک اور شعر:

تری چال ٹیڑھی تری بات روکھی

تجھے میر سمجھا ہے یاں کم کسو نے

٭٭٭

 

 

 

 

                طاہرہ اختر

 

 

شادؔ عارفی: میرے ماموں

 

ایک دن اپنے پُرانے کاغذوں کو اُلٹ پلٹ رہی تھی کہ لڈّن ماموں کا یہ خط ملا ( ہم سب شادؔ صاحب کو اسی نام سے پکارتے تھے )۔

عزیزم طاہرہ۔ دعائیں

خدا سے اُمید ہے کہ تم سب خیریت سے ہو گے۔ اگر سِکھ شاگرد سعالین دے گیا ہو تو  بھائی کو دے دو۔ اور ہاں۔ ضروری کام یہ ہے کہ عزیزم قیصر خاں صاحب سے کہہ کر مقصود بھائی کی دُکان سے پیسہ رکھنے والا چھوٹا بٹوہ، مگر چمڑے کا ہو، سیلولائڈ وغیرہ بالکل نہ ہو، صرف چمڑے کا، زیادہ بڑا بھی نہ ہو، اگر مقصود بھائی کے ہاں نہ ہو تو پھر کسی دوسری دکان سے لے کر رکھ لیں میں منگا لوں گا، فی الحال ایک روپیہ بھیج رہا ہوں، اور جتنے پیسے پڑیں گے، بھجوا دوں گا، بہت ضرورت ہے اگر میں خود جاؤں تو رکشا کے پیسے دینے پڑیں گے۔ اس لیے قیصر خان کو تکلیف دے رہا ہوں۔ چھوٹا سا چمڑے کا بٹوہ!          زیادہ دعا:۔

شادؔ عارفی

خط پڑھ کر آنکھوں میں آنسوآ گئے اور پُرانے واقعات ایک ایک کر کے ذہن کے پردے پر آنے لگے کتنا اعتماد رکھتے تھے وہ میرے اوپر۔ اپنی تکلیف کا مجھ سے بے تکلف اظہار کر دیتے یا لکھ بھیجتے۔ جب کوئی شاگرد گھر گرہستی سے تعلق رکھنے والی کوئی چیز اُن کے لیے لاتا تو وہ مجھے دے دیتے۔ اُن کی دی ہوئی بہت سی چیزیں اب بھی ان کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔ نہ صرف مجھ سے بلکہ میرے بچوں سے بھی انھیں دلی لگاؤ تھا۔ میری بچی کا نام شائستہ اُنھیں کا رکھا ہوا ہے۔ بچے کا نام اکبر تجویز کیا تھا۔ کہتے تھے کہ اکبر نام کے کسی شخص کو کبھی پریشان حال نہیں دیکھا، اس نام میں برکت ہے۔

لڈّن ماموں کے انتقال کی خبر مجھے پیلی بھیت میں ملی اس سے کچھ ہی دن پہلے لڈّن ماموں کا خط آیا تھا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’’طاہرہ! پیلی بھیت میں خالص شہد ملتا ہے۔ تھوڑا سا خرید کر بھیج دو۔ ‘‘میں نے فوراً شہد رام پور بھیجا اور اس کے چند روز بعد ہی اُن کے انتقال کی منحوس خبر ملی۔ ہندو پاک کا مشہور شاعر اور عظیم فنکار ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس وقت ان سے وابستہ سیکڑوں باتیں ذہن میں آ رہی ہیں مگر جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانا مشکل، پھر لڈن ماموں جیسی سنگلاخ شخصیت پر قلم اٹھانا مشکل تر کام ہے۔

عزیز دار ہونے کے ساتھ ساتھ ہم اُن کے پڑوسی بھی تھے، دونوں گھروں کے بیچ کھڑکی تھی، بچپن کی باتوں پر وقت نے پردہ ڈال دیا ہے۔ جب ہوش سنبھالا تو لڈّن ماموں کی شاعری کا عروج تھا۔ بھائی جان (میرے بڑے بھائی) کو موسیقی سے لگاؤ ہے اور خدا نے انھیں اچھی آواز بھی عطا کی ہے۔ بھائی جان اکثر گنگناتے۔ لڈّن ماموں دیوار کے پیچھے سے آواز دیتے۔ ’’ اشفاق! اسی دھُن میں شعر لکھو ’’ بھائی جان فوراً نوٹ بک نکال لاتے۔ لڈن ماموں بولتے اور بھائی جان لکھتے :

کبھی کوئی کرم، کوئی عنایت ہو بھی جاتی ہے

کبھی بیتابیِِ دل عین راحت ہو بھی جاتی ہے

وہی صدمات؟ یارو نے سے فرصت ہو بھی جاتی ہے

وہی حالات؟ یا صاحب سلامت ہو بھی جاتی ہے

کبھی کوئی گھٹا ایسی بھی اُٹھتی ہے کہ بہہ چلیے

کبھی جام و سبو کی ہم سے خدمت ہو بھی جاتی ہے

ہماری بندگی پابندِ کعبہ ہے نہ بُت خانہ

جسارت چاہیے سجدوں پہ قدرت ہو بھی جاتی ہے

نہ کہنا خرمنِ پندار پر بجلی نہیں گرتی

نہ رہنا اس بھروسے میں، محبت ہو بھی جاتی ہے

رو پہلی چاندنی میں شادؔ شامل ہے دھندلکا بھی

مسرت نذر انجامِ مسرت ہو بھی جاتی ہے

یہ سلسلہ بہت دنوں تک چلتا رہا اور اسی طرح بھائی جان کی نوٹ بک میں اُن کی دھنوں میں بولے ہوئے لڈّن ماموں کے گیتوں اور غزلوں کا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا۔ ان غزلوں اور گیتوں میں سے شاید بہت سے شائع بھی نہیں ہوئے ہیں۔

لطیف بھائی، بھائی جان کو وائلن سکھانے آتے، کبھی کبھی رات کو موسیقی کی مختصر سی صحبت ہوتی۔ لڈّن ماموں بھی آتے اور بھائی جان سے اپنی غزل گانے کی فرمائش کرتے شاید انھیں بھی غزل بہت پسند تھی۔ بھائی جان اپنی لوچ دار آواز میں گاتے :

کبھی کوئی کرم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور کبھی اُن کا کوئی گیت گاتے۔ اس طرح کی خوشگوار بیٹھکیں اکثر ہوتیں۔ لڈّن ماموں کے بھرپور قہقہے اور یار دوستوں پر چسپاں کیے ہوئے موزوں فقرے محفل میں گرما گرمی پیدا کر دیتے۔

ہر ذی شعور نوجوان کی طرح لڈن ماموں بھی اپنا گھر بسا کر رہنا چاہتے تھے مگر سرمایہ دارانہ معاشرے میں شرافت اور اعلیٰ خاندان کے لیے دولت کا ہونا ضروری ہے۔ کہتے یہی ہیں کہ ہمیں شریف اور خاندان کا لڑکا چاہیے لیکن تحت الشعور میں ہوتا ہے ’’ ہمیں دولت مند لڑکا چاہیے ‘‘جب لڈن ماموں کو نوکری مل گئی تو اُن کی شادی رام پور کے ایک شریف مگر غریب خاندان کی لڑکی سے کر دی گئی۔ شادی کے سلسلے میں مولانا عبد الحنان( جو اُن کے قریبی عزیز دار تھے ) کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔ شادی بھی انھیں کے مکان سے ہوئی اور شادی کے بعد کچھ عرصے تک لڈن ماموں اُن کے مکان کے بالائی حصے پر رہتے رہے اُن کو شریف اور وفا شعار بیوی مل گئی تھی مگر اہل کمال، قدرت کی ستم ظریفی کا شکار ہوتے آئے ہیں، لڈن ماموں میں کسی کی ماتحتی میں نوکری کرنے کی قطعاً صلاحیت نہیں تھی۔ اُن کی اپنے افسروں سے کبھی نہیں بنتی تھی۔ نوکری ختم ہونے کے بعد بیچاری بیوی کو بڑی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا اسے پتہ ہی نہ چلا کہ شوہر کے گھر کا عیش کیا ہوتا ہے۔ اتفاق سے بیمار پڑ گئی، علاج کے لیے روپیہ درکار تھا، مرض بڑھتا گیا جس نے دِق کی شکل اختیار کر لی اور ایک ڈیڑھ سال کے اندر ہی اُس کا انتقال ہو گیا اور لڈن ماموں ’’ آپا‘‘ ( اپنی والدہ) کے ساتھ رہتے رہے۔

آپا کے انتقال کے بعد بہت دنوں تک لڈن ماموں اپنے گھر میں اکیلے رہے۔ تنہائی کے احساس کو دور کرنے کے لیے کبوتر پال رکھے تھے۔ ایک بار انھوں نے خود کہا تھا کہ کبوتروں کی وجہ سے گھر کی تنہائی محسوس نہیں ہوتی۔ کبوتروں کی قسموں، اُن کی عادتوں، بیماریوں وغیرہ کے متعلق اُنھیں کافی معلومات تھیں۔ کبوتر بازی کے علاوہ پتنگ بازی سے بھی شوق تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ بچے، جوانوں کے ساتھ جوان اور بوڑھوں کے ساتھ بوڑھے بن جاتے تھے۔ لیکن لڈن ماموں کی صحت دن بدن گرنے لگی تھی۔ وہ دائم المریض تھے پھر معاش کے وسیلے سے بھی محدود ہو گئے تھے۔ اس لیے لڈن ماموں نے اپنا گھر بھائی جان کے ہاتھ چھ سو روپے میں فروخت کر دیا۔ محل وقوع کے لحاظ سے مکان کی قیمت زیادہ تھی، دوسرے لوگ انھیں زیادہ روپیہ بھی دینا چاہتے تھے لیکن لڈن ماموں نے اس لگاؤ اور تعلق کی وجہ سے جو انھیں بھائی جان سے تھا، اپنا مکان انھیں کے ہاتھ فروخت کیا۔ عدالت میں مکان کے کاغذ کی رجسٹری کرا دی اور وہ چھ سو روپے بھی بھائی جان کے پاس بطور امانت رکھ دیے کہ ان میں سے پندرہ روپیہ ماہوار کے حساب سے کھانے کے منہا کرتے رہیں، اور خود بھائی کے مکان میں باہر والے کمرے میں رہنے لگے۔ میں شادی کے بعد اسی محلے میں اپنے پھوپھا کرامت علی خاں صاحب ( مرحوم) کے مکان میں رہتی تھی۔ لڈن ماموں سہ پہر کو میرے ہاں آ کر چائے پیتے اور اسی وقت وہ مجھ سے خاندانی معاملات، عزیزوں، دوستوں، شہر کے معاملات اور اپنے شاگردوں کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ کبھی کبھی اپنی نئی غزل بھی سناتے تھے۔ ان سے بات چیت کرنے میں بڑا لطف آتا تھا۔ اُن سے مِل کر کبھی کوئی اپنے کو بور محسوس نہیں کرتا تھا۔ بڑے مزے کے فقرے چسپاں کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے۔ ’’ آج میں نے ضامن صاحب۱؎ کے دانت کھٹے کر دیے، پھر انھوں نے اپنی وہ غزل سنائی جو روزنامہ ’’ ناظم ‘‘ میں شائع کرائی تھی اور جس کا مطلع تھا:

اُن کے مداح اس زمانے میں

جیسے کُتّے قصائی خانے میں

پھر ایک صاحب کا نام لے کر کہنے لگے کہ’’ ضامن صاحب میری شاعری پر تنقید کر رہے تھے اس لیے میں نے ان پر بھرپور وار کر دیا۔ یار لوگ بھی خوب ہیں۔ منشی جی ۲؎سے لگائی بجھائی کی ہے کہ شادؔ نے یہ غزل آپ کے خلاف کہی ہے حالانکہ میں نے اس میں نواب صاحب اور ضامن صاحب پر چوٹیں کی ہیں۔ ‘‘

۱؎   نواب رام پور کے درباری شاعر

۲ ؎  منشی مجید قریشی، رام پور کے ایک رئیس

لڈن ماموں کی شاعری کی جان بھی یہی چوٹ کرنا ہے۔ یہ اُن کا سب سے بڑا شاعرانہ حربہ ہے۔ اس حربے سے انھوں نے اپنے دل کی سلگتی ہوئی آگ کو بجھانے کی کوشش کی ہے۔ اسی حربے سے انھوں نے سماج سے انتقام لیا ہے اور اس زد میں اپنے پرائے سبھی آئے ہیں :

آئی ہیں مرے طنز کی چھینٹیں تو سبھی پر

یہ کیا کہ فقط آپ بُرا مان رہے ہیں

چوٹ کرنے میں وہ چوکتے نہیں تھے جہاں کہیں اُنھیں لوچ دکھائی دیتا، وار کر دیتے تھے اور لوگ اسی لیے اُن سے ناراض ہو جاتے تھے۔ جو لوگ لڈن ماموں کو شاعر اور فنکار کے علاوہ دوست، رشتہ دار یا سرکاری ملازم کی حیثیت سے دیکھتے انھیں سخت مایوسی ہوتی تھی۔ وہ بگڑ بھی جاتے تھے اور لڈن ماموں کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتے تھے مگر وہ چوٹ کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔

کچھ دنوں لڈّن ماموں نے اسٹیٹ پریس میں بھی کام کیا تھا مگر پریس کے افسرِ اعلیٰ کی کسی کمزوری پر یہ رباعی لکھ دی:

کسی مشین کے پُرزے اگر غلط ہو جائیں

تو فور مین کی نالائقی کو کیا کہیے

یہاں یہ خُو ہے کہ حق پر اٹھائیے آواز

وہاں یہ ضد ہے کہ جو کچھ کہیں بجا کہیے

انجام ظاہر تھا۔ ملازمت سے الگ کر دیے گئے۔ پھر سکریٹریٹ میں ملازمت کی مگر وہاں سکریٹری صاحب پر ’’ مہترانی‘‘ نظم کا وار کیا جس کا آخری بند تھا:

اری سنتی ہے، بیرا دو روپے انعام لایا ہے

مگر وہ کون خدمت ہے یہ جس کے دام لایا ہے

ستمبر میں اضافہ کے لیے پیغام لایا ہے

افسر بالا کی کمزوریوں کو طشت از بام کر کے کوئی ماتحت پنپ نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ لڈن ماموں کو ہر جگہ ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔

در اصل میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ لڈّن ماموں اپنی شاعری کے ذریعے ہر ایک پر طنز کرتے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے اپنے خاندان تک کے لوگوں کو بھی نہیں بخشا۔ خود اپنے خاندان پر انھوں نے بڑی گہری چوٹیں کی ہیں خصوصاً رام پور کی نمائش پر لکھی ہوئی نظموں میں انھوں نے اپنے خاندان اور محلے پر وار کیا ہے۔ ایک دن شام کو آئے اور کہنے لگے : ’’طاہرہ! آج میں نے ایک نئی غزل کہی ہے۔ پھر مطلع پڑھا، جس کا پہلا مصرع یاد ہے ’’ ہمارے محلے کے یہ دو گھرانے ‘‘ …میں نے برجستہ یہ پوچھا۔ یہ دو گھرانے کون سے ہیں ؟… کہنے لگے … ’’ایک لڈن لاری والے کا اور دوسرا مسیحا کا۔ ‘‘ اُن کا یہ کہنا مجھ کو بہت ہی نا گوار گزرا اور میں نے کہا۔ ’’ لڈن ماموں ! ایک بات عرض کروں اگر بُرا نہ مانیں۔ ‘‘ کہنے لگے۔ ’’ کہو ‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ آپ مردوں مردوں کی آپس میں دشمنی نہ معلوم کیوں چلتی رہتی ہے مگر اس میں ہم عورتوں کا کیا قصور ہے، آپ ایمانداری سے بتائیں کہ مسیحا صاحب کے گھرانے کی لڑکیاں کیا واقعی اتنی بُری ہیں جیسا کہ آپ ظاہر کرتے ہیں۔ سوچیے اُن لڑکیوں کے مستقبل پر آپ کے بیباکانہ طنز کا کیا اثر پڑے گا؟ ‘‘لڈن ماموں کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر بولے۔ ’’ اچھا آج کے بعد خاندان کی لڑکیوں پر نہیں لکھوں گا‘‘ اور واقعی یہ وعدہ انھوں نے مرتے دم تک نبھایا حالانکہ مردوں پر چو ٹ کرتے رہے۔

لڈن ماموں بڑے نازک مزاج اور زود حس تھے۔ ذرا سی بات پر بگڑ جاتے تھے، ساتھ ہی ساتھ کانوں کے بھی بڑے کچے تھے اگر کوئی کسی کی برائی کرتا تو اس پر جلد ہی یقین کر لیتے تھے مگر دل کے بڑے صاف تھے جس سے ناراض ہوتے اگر وہ اُن سے صفائی کر لیتا تو اُن کا دل اُس کی طرف سے بالکل صاف ہو جاتا تھا۔ شاگردوں میں صابر خاں عارفی ( مرحوم) کو بہت چاہتے تھے اور صابرؔ خاں بھی اُن کا بہت خیال کرتے تھے اور ان کی ناز برداری کرتے تھے جب بھائی جان سے کسی بات پر ناراض ہو گئے تو فدا احمد ماموں ( اپنے بھتیجے ) کے یہاں چلے گئے، وہاں سے ناراض ہو کر بہت دنوں تک صابر خاں کے ساتھ رہے پھر وہاں سے بھی ٹِن کھا کر الیاسی آپا ( بھتیجی) کے یہاں آ گئے اور وہیں پر آخری دم تک رہے۔

لڈّن ماموں کٹّر سنی مسلمان تھے، اللہ رسول کے دل سے قائل تھے مگر مذہب کی باہری پابندیوں سے آزاد تھے انھیں مسجد میں بہت ہی کم دیکھا گیا مگر درود و وظائف کے قائل تھے۔ میت والے گھر کا کھانا کبھی نہیں کھاتے تھے یہاں تک کہ جب سعید اللہ ماموں (لڈن ماموں کے حقیقی بھائی) کا انتقال ہوا تو آپ دو تین دن تک گھر سے غائب رہے لوگ اُن کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا رہے کچھ لوگ انھیں کمیونسٹ بھی کہتے تھے، بہت دنوں تک حکومت نے بھی انھیں مشتبہ نظروں سے دیکھا جس کا اظہار ایک مقطع میں اس طرح کیا ہے :

میں فدائے پنجتن ہوں شادؔ، لیکن میرے دوست

اس عقیدے پر اڑے ہیں، پانچویں کالم میں ہوں !

صحت ہمیشہ سے خراب رہی۔ دمے کا مرض تھا، انگریزی علاج سے نفرت تھی، انجکشن کے سخت خلاف تھے مگر جب وہ بھائی جان کے پاس رہتے تھے تو دمہ کا شدید حملہ ہوا اور زندگی خطرے میں پڑ گئی۔ قیصر صاحب ( میرے شوہر) نے سرکاری اسپتال سے ڈاکٹر مکرجی کو بلا کر دکھایا۔ ڈاکٹر صاحب کو شادؔ صاحب سے ہمدردی ہو گئی اور انھوں نے بہت توجہ سے علاج کیا۔ ایکسرے لیا گیا اور تجویز ہوا کہ انھیں تپ دق کا حملہ ہوا ہے اور بہت احتیاط سے علاج کی ضرورت ہے۔ اسٹرٹپومائیسین کے انجکشن تجویز کیے، سگرٹ، بیڑی کو منع کیا۔ یہ سب باتیں لڈن ماموں کے مزاج کے خلاف تھیں مگر حیرت ہے کہ لڈن ماموں نے بڑی احتیاط سے علاج کرایا۔ انجکشن بھی لگوائے اور بیڑی ایک دم چھوڑ دی حالانکہ اس سے پہلے لڈن ماموں مسلسل بیڑی پینے کے عادی تھے۔ رات کواس قدر بیڑیاں پیتے کہ صبح کو چار پائی کے چاروں طرف جلی ہوئی بیڑیوں کے ٹکڑے ہی ٹکڑے نظر آتے تھے۔ انجکشن خود تاکید کر کے لگواتے لہٰذا کچھ دنوں میں انھیں اس مرض سے کافی چھٹکارا مل گیا مگر اس سلسلے میں جو عمدہ غذا اور تازہ ہوا کی ضرورت ہوتی ہے وہ انھیں کبھی میسر نہ ہوئی۔ بیڑی چھوڑنے اور انجکشن لگوانے کی بات سے لڈن ماموں کے بارے میں ایک حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ وہ یہ کہ انھیں زندگی بہت پیاری تھی۔ وہ اس دنیا میں اور رہنا چاہتے تھے۔ جن لوگوں نے لڈن ماموں کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ لڈن ماموں ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے مگر اس ڈھانچے میں زندہ رہنے کی ایک حیرت انگیز تڑپ تھی۔ انھیں ایسی زندگی سے پیار تھا جو خود اُنکے لیے وبالِ جان بنی ہوئی تھی وہ ایسے سماج میں زندہ رہنا چاہتے تھے جس میں خود اُنکا دم گھٹتا رہتا تھا۔ وہ ایسے معاشرے سے پیار کرتے تھے جو اُن کے فن کو سراہتے ہوئے بھی اُن کی جان کے در پے تھا اور ا انھیں فکر معاش سے آزادی نہیں دے سکتا تھا مگر انھوں نے کبھی شکایت نہیں کی، زندگی سے بیزار نہیں ہوئے، کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ وہ سماج کے بارے میں ایک صحت مند نظریہ رکھتے تھے۔ سماج کی فرسودہ، خود فریب رسم و رواج کو توڑ کر ایک صحت مندسماج کی تعمیر، ان کا مطمح نظر تھا، مگر سماج سے ہٹ کر سوچنا آسان کام نہیں۔ یہ کام پیغمبروں کا ہے یا قلندروں کا۔ لڈن ماموں میں قلندرانہ شان تھی وہ اللہ پر توکل رکھ کر زندگی کی محرومیوں اور ناکامیوں سے مقابلہ کرتے رہتے تھے۔ زخم پر زخم کھائے مگر ہنستے رہے۔ انھوں نے شاعری کو اپنی زندگی کی تلخیوں سے فرار کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ شاعری کے ذریعہ زندگی کی حقیقتوں کا پردہ چاک کیا۔ سیاسی اور سماجی ناخداؤں کی پول کھولی۔ جن حقیقتوں کو لوگ محسوس کرتے لیکن زبان سے کہتے ڈرتے تھے، وہ لڈن ماموں نے اپنی شاعری کے ذریعہ کہہ دیں۔ انھوں نے سماج کی بے ہودگیوں اور ہٹ دھرمیوں کا پردہ چاک کیا اور گفتہ و ناگفتہ بہ حقیقتوں کا بے باکانہ اظہار کیا۔ حالانکہ انھیں اپنی بے باکانہ اور آزادانہ تنقید کی سزا دی گئی۔ اُن پر روزی روٹی کے دروازے بند کر دیے گئے لیکن وہ کہتے ہیں :

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

جِس کی لاٹھی اُسی کی بھینس ہے آج

کیا اِسی کو کہیں گے جنتا راج

ہم خدا کے ہیں، وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا

اور اخبار میں اعلان ضرورت دیں گے

لڈن ماموں کے شاگردوں کا دائرہ کافی وسیع تھا۔ اُن کے شاگردوں میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے۔ رام پور میں اُن کے کئی سکھ شاگرد ہو گئے تو انھوں نے لڈن ماموں کو گرو گوبند سنگھ کے جلوس میں مدعو کیا۔ رام پور میں گرو گوبند سنگھ کا جلوس بہت شان سے نکلتا ہے۔ لڈن ماموں برابر اس میں شریک ہوتے تھے۔ ان کے شاگرد انھیں ایک سجے ہوئے ٹرک کے بالائی حصے پر بٹھاتے تھے۔ ان کے گلے میں ہار بھی ڈالتے۔ اس شرکت پر بہت سے لوگوں کو اعتراض بھی تھا اور کچھ منچلے لوگوں نے لڈن ماموں پر چوٹیں بھی کیں لیکن انھوں نے لوگوں کی پھبتیوں پر کبھی توجہ نہ دی اور وہ برابر اس قسم کے جلوس اور جلسوں میں شریک ہوتے رہے۔ اس واقعہ سے اُن کی وسیع النظری اور آزاد منشی کا پتہ چلتا ہے۔

آخر وقت میں اُن کی گزر اوقات شاگردوں کی مالی امداد سے ہوتی تھی یا کچھ معاوضہ اُن کی نظموں اور غزلوں کی اشاعت سے مل جاتا تھا۔ شہر کے رئیسوں میں صرف منشی مجید کی تعریف کرتے تھے۔ کئی بار مجھ سے اُن کے بارے میں ایسے واقعات بیان کیے جو منشی جی کے اعلیٰ کردار کو ظاہر کرتے تھے مگر غلط فہمی اُن کے بارے میں بھی ہو جاتی تھی۔ لڈن ماموں کہتے کہ منشی جی بہت خوبیوں کے انسان ہیں۔ مگر ان کے حالی موالی انھیں بہکا دیتے ہیں۔ منشی جی بھی لڈن ماموں کی بڑی عزت کرتے تھے اور ان کی مدد بھی کرتے تھے۔ اس طرح انتہائی افلاس اور تنگدستی کی حالت میں زندگی گزار کر یہ عظیم فنکار ۸؍ فروری ۱۹۶۴ء کو اس دنیا سے سدھار گیا۔

مرتے وقت تک لڈن ماموں کے دل میں ایک چُبھن رہی کہ شاعر، ادیب اور فنکار کی حیثیت سے جو درجہ سماج میں انھیں ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا۔ ان سے کم درجہ کے فنکاروں کو حکومت نے نواز ا مگر انھیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ رام پور والوں کی ذہنیت ہے کہ اپنے ابھرتے ہوئے لوگوں کے پیر پکڑ کر نیچے گھسیٹتے ہیں۔ انھوں نے خود لکھا ہے :

تغافلِ کمالِ فن مزاجِ رام پور ہے

تو مجھ سے بے رُخی میں بزم دوست بے قصور ہے

مگر یہ عظیم فنکار کبھی بھلا یا نہیں جا سکے گا۔ کبھی تو ادب نواز اور غیر جانبدار مؤرخ اس شاعر کے ساتھ انصاف سے کام لے گا:

کریں گی یاد مجھے شادؔ کل نئی قدریں

جو آج رسم و رواجِ کہن پہ چوٹ کروں

٭٭٭

 

 

 

                مسعود اشعرؔ

 

 

کٹی پتنگ!

 

کسی حکیم نے شادؔ عارفی کو اختلاج قلب کا علاج یہ بتایا تھا کہ پتنگیں اڑایا کرو اور کبوتر بازی سے شوق کرو۔ ان کا اختلاجِ قلب تو واقعی دور ہو گیا لیکن آسمان پر نگاہیں جمانے کی عادت ایسی پڑی کہ پھر نیچے نہیں دیکھا۔ شادؔ صاحب کے لیے یہ عظمت کی دلیل بھی تھی اور خطرے کا الارم بھی۔ انھوں نے شاعری میں جو رنگ برنگی پتنگیں اڑائیں اور جو بڑے بڑے تکّل کاٹے، اسی نے انھیں اردو کا ممتاز اور منفرد شاعر بنا دیا مگر تعلقات اور دوستی پرکھنے میں وہ جو ’’ مندا استاد‘‘کا شیشہ پلایا ہوا مانجھا استعمال کرتے رہے اس نے خدا جانے کتنے دوستوں کی پتنگیں کنّے سے کاٹیں اور کتنے ہی تعلقات کی ڈور ہتّھے سے توڑ ڈالی!

آج شادؔ صاحب خوشی اور نا خوشی کی حدود سے بہت آگے جا چکے ہیں لیکن اس وقت بھی اُن کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں اور پھر انھیں منانے کے لیے دس پندرہ خط لکھنے پڑیں۔ البتہ ان کی طبیعت میں اکھڑ پن کے ساتھ جو خالص پٹھانوں والی سادگی تھی اس سے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ وہ لاکھ ناراض ہو جائیں جب ایک مرتبہ سامنے پہنچ کر سلام کر لیا تووہ پھر خوش ہو جائیں گے۔

چچا میاں ( رشید احمد خاں ) سے اُن کی بہت گہری دوستی تھی۔ جب تک پتنگ بازی کا شوق زوروں پر رہا، رشید احمد خاں کا بڑے بڑے پہیوں والا لکڑی کا صندوق دو دو ہاتھ برابر پتنگوں، کنکوؤں اور تکلوں سے بھرا رہتا۔ مانجھے اور سادی کی یہ بڑی بڑی چرخیاں ان کے کمرے میں اس طرح لٹکی ہوتیں جیسے مندا استاد کی ساری دوکان یہیں اٹھ آئی ہے۔ پولیس لائن کے پاس پتنگ لڑانے کے میچ ہوتے۔ بڑے بڑے استادوں اور مشہور مشہور اکھاڑوں سے مقابلے ہوتے۔ دن رات گھیر مقبول احمد خاں ( گھیر بمعنی احاطہ) ہوتا اور شادؔ عارفی۔ شاعری میں بھی غالباً رشید احمد خاں اُن کے سب سے بڑے مدّاح تھے کہ شادؔ صاحب کے پاس آنے والے ہندوستان بھر کے رسائل اور کتابیں ان کی ہی الماریوں کی زینت بنتیں۔ رشید احمد خاں اور محمد احمد خاں نے ہی دوستوں کے ساتھ مل کر کتابوں کی دوکان کھولنے کی ناکام کوشش بھی کر ڈالی حتیٰ کہ شادؔ صاحب کا مجموعہ ’’ سماج‘‘ ( جو ان سب کی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ڈھنگ کی کتاب بھی نہیں بن سکا اور اب تک گھر کی الماری میں بھرا ہوا ہے ) بھی رشید احمد خاں نے ہی شائع کیا۔ لیکن نجانے کیا ہوا کہ دوستوں کی یہ ٹکڑی بکھر گئی۔ اس وقت ہم یہ معلوم کرنے کی جرأت تو نہیں کر سکتے تھے کہ ایسا کیوں ہوا لیکن اب کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بات ضرور تھی۔

گھیر مقبول احمد خاں میں بیٹھک کے چبوترے پر ہر شام سات آدمیوں کی محفل جمتی شادؔ عارفی، سحرؔ رام پوری، ماسٹر یوسف خاں فلکؔ، ماسٹر سلطان خاں، فضل احمد خاں، محمد احمد خاں اور رشید خاں ( مخمورؔ) شام سے جو یہ لوگ میز کے گرد سر جھکا کر بیٹھتے تو آدھی رات تک اسی طرح بیٹھے رہتے۔ کبھی کبھی کسی طرف سے شہ کا نعرہ بلند ہوتا تو تھوڑے سے قہقہے سنائی دیتے یا کسی کو مات ہو جاتی تو اِدھر اُدھر کی باتیں ہو جاتیں، ورنہ نہ سوائے محمد احمد خاں کے حقے کی گڑ گڑاہٹ کے اور کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔ ایک آدھ دن ایسا بھی آتا کہ شعر و شاعری شطرنج کی جگہ لے لیتی اور رات گئے تک ’’ واہ واہ کیا کہنے ہیں ‘‘ یا سحرؔ صاحب کے ترنم سے گلی گونجتی رہتی۔ خاندانی روایات کے مطابق ہم اپنے بڑوں کے دوستوں کو سلام تو کر سکتے تھے، ان سے بات نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے نہ تو ہم نے کبھی اُن کی شاعری سنی اور نہ کسی کو قریب سے پہچانا۔ البتہ ہمیں سحرؔ صاحب بہت پسندتھے اور شاد صاحب سخت نا پسند۔ ہم کبھی پانی پلانے یا پان دینے بیٹھک میں جاتے تو سحر صاحب تو ہم سے بات کر لیتے لیکن شادؔ صاحب کبھی منہ نہ لگاتے اس کے علاوہ سحرؔ صاحب میں شاعروں والی ساری باتیں بھی تھیں، گردن پر لہراتے لمبے لمبے بال، کپڑے پہننے کا خالص شاعرانہ انداز، ویسی ہی چال ڈھال اور پھر پڑھتے اتنا اچھا تھے کہ ہم گھر کے اندر سے سُن کر بھی محض ترنم سے خوش ہوتے رہتے۔ شادؔ صاحب میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ اول تووہ کسی کو منہ بہت کم لگاتے تھے۔ دوسرے صورت شکل بالکل شاعرانہ نہیں تھی۔ سر پر بال بیماری کے سبب پہلے ہی بہت کم تھے۔ کپڑوں میں بھی کبھی شاعرانہ تعلی سے کام نہیں لیا اور شعر پڑھنا تو اُنہیں آخر عمر تک نہیں آیا۔ اپنے ٹھیٹ رامپوری لہجے میں ایسے نظم سناتے جیسے کسی کو خط پڑھ کر سُنا رہے ہوں۔

پھر ہماری گلی سونی ہو گئی اور ہم نے رسائل پڑھنا شروع کر دیے اور شادؔ صاحب کی نظمیں ہمیں اچھی لگنے لگیں یہاں تک کہ ہم نے ’’ مہترانی‘‘، ’’ دھوبی‘‘، ’’ برات‘‘ اور ’’ دیہاتی بس‘‘وغیرہ نظمیں زبانی یاد کر لیں۔ ہم اس قسم کی نظمیں ایک دوسرے کو سنا کر خوب چٹخارے لیتے :

ٹھہر او مست و بے پروا یہ کیا جھاڑو لگائی ہے

کہ ہر ہر ہاتھ پر قربان دیدے کے صفائی ہے

یا پھر:

ساقیِ دہلی میں دیکھی تو نے میری نظم ’’ یاد‘‘

یعنی حاصل ہے تجھے میری وفا کا اعتماد

ضبطِ غم پائندہ باد و ربط باہم زندہ باد

پھر خطوں میں ’مجھ کو بھولے تو نہیں ؟‘سے کیا مراد؟

لیکن شادؔ صاحب ہماری گلی سے دور چلے گئے تھے اور اب وہ اِدھر آتے بھی نہیں تھے۔ رشید احمد خاں نے زمینیں سنبھال لی تھیں، سحرؔ صاحب اس زمانے کے نوجوانوں کے ہیرو بن گئے تھے اور اپنی اپنی پارٹی بنا لی تھی۔ شادؔ عارفی ان میں سے کسی پارٹی یا کسی گروپ میں نہیں تھے۔ شہر میں استادانِ سخن نے جو اکھاڑے بنا رکھے تھے، شادؔ صاحب کا ان سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ بڑے بڑے آل انڈیا قسم کے مشاعرے ہوتے لیکن شاد صاحب کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ صرف رسالوں میں نظر آتے تھے۔ ہمیں بڑی حیرت ہوتی کہ شادؔ عارفی جیسا شاعر مشاعروں میں کیوں نہیں بلایا جاتا۔ بعد میں پتہ چلا کہ چونکہ شادؔ صاحب کے مانجھے کی کاٹ کوئی برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لیے تمام استادانِ سخن نے ان کے خلاف متحدہ محاذ بنا رکھا تھا۔ اس زمانے کے استادوں میں محشر عنایتی، منے میاں صابر، رازؔ یزدانی اور استاد رشید وغیرہ تھے۔ شادؔ صاحب نہ صرف یہ کہ ان کی استادی کو تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی شاعری کو بھی قابل توجہ نہیں گردانتے تھے حالانکہ ایک زمانہ میں ان میں سے بہت سے حضرات شادؔ صاحب سے مل کر اکھاڑے مارتے رہے تھے مگر شادؔ صاحب کی منہ پھٹ طبیعت  نے انھیں دشمن بنا دیا تھا۔ ان میں سے کئی استادوں کے بارے میں شادؔ صاحب کی رائے کچھ اس قسم کی تھی کہ اگر ان سے کوئی اچھا شعر سر زد ہو گیا تو شادؔ صاحب وہیں کہہ دیتے تھے ’’ رپٹ میں ( اتفاق سے ) ہو گیا ہو گا۔ ‘‘ دوسری طرف ان استادوں کی سمجھ میں شادؔ کی شاعری بھی نہیں آتی تھی۔ پھر یہ حضرات شہر کے معززین میں شمار ہوتے تھے، بھلا وہ اس قسم کے شعر کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ:

بیسوا ہو کہ طوائف کہ ٹکے ہائی ہو

سامنے آئے جو شلوار بھی دھلوائی ہو

چنانچہ ان استادوں کے ساتھ شہر کے سارے معززین شادؔ سے ناراض ہو گئے۔ نواب صاحب پہلے ہی ناراض تھے کہ شادؔ نے ریاست کے قانون کے خلاف کانگریس کی تنظیم میں حصہ لیا تھا اور نواب صاحب کے خلاف سول نا فرمانی میں شریک ہوئے تھے۔ معززین اس لیے ناراض تھے کہ ایک تووہ ان کی تقریبات میں غزل پڑھنے نہیں جاتے تھے دوسرے ان کی نظموں کا موضوع اکثر و بیشتر انھیں کا حدود اربعہ ہوتا تھا۔ ان کی سوسائٹی میں جو ایک گھناؤنا تضاد موجود تھا، شاد عارفی نے اس کا مطالعہ اُس وقت کیا تھا جب وہ ان کے بچوں کی ٹیوشنیں کرتے تھے۔ پھر انھوں نے ان تاریک گوشوں کی پردہ دری کرنا شروع کر دی جن پر مخمل کے دبیز پردے پڑے رہتے تھے، یہی بات ناراضی اور نا خوشی کا باعث بنی۔ پھر تو کوئی معزز شخص شادؔ صاحب کو اپنی محفل میں نہیں بلاتا تھا کہ منہ پھٹ آدمی ہے کہیں ایسی ویسی بات نہ کر بیٹھے۔ اس کا تجربہ آزادی سے کچھ عرصہ قبل یا بعد، ایک محفل میں ہو بھی گیا۔ نواب صاحب نے خاص ’’ باغ پیلیس ‘‘ میں مشاعرہ کی نشست کی۔ شادؔ صاحب اگرچہ وہاں نہیں جاتے تھے لیکن شاید نواب صاحب اس زمانے میں اُن کی شہرت کی وجہ سے ان سے خوش تھے یا پھر مصاحبوں نے سفارش کی اور شادؔ صاحب کو بھی یار لوگ پکڑ لے گئے ( غالباً اس زمانے میں جوشؔ صاحب بھی رام پور آ گئے تھے اور نواب صاحب کے یہاں مقیم تھے ) شادؔ نے وہاں جس قسم کی نظمیں سنائیں اس کے  بعد پھر کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ شادؔ صاحب کو شاد باغ لے جاتا!

ہم بڑے ہوئے تو شاد صاحب سے ملنے کا شوق ہوا، مگر بچپن کا ڈر دل میں بیٹھا ہوا تھا اس لیے ہمت نہیں پڑی کہ خود جا کر اُن سے مل لیتے۔ اس زمانے میں اُن کے شاگرد ہادیؔ مصطفی آبادی کا شہر میں بہت چرچا تھا۔ اس کی نظم ’’ گستاخی‘‘کی دھوم مچی ہوئی تھی اور وہ خوب مشاعرے لوٹ رہا تھا۔ ہم نے پہلے اس سے تعلقات بڑھائے اور اس کے توسط سے شادؔ صاحب سے ملاقات کی۔ پہلی ملاقات میں ایک تو ہمارا ڈر موجود تھا، دوسرے شادؔ صاحب نے بھی شاید رشید خاں کا بھتیجا ہونے کی وجہ سے اپنی بزرگی برقرار رکھی۔ پہلے تو بڑی بے توجہی سے کہنے لگے۔ ’’اچھا اچھا…رشید خاں کے بھتیجے ہو‘‘، پھر آسمان پر کبوتروں کی اس ٹکڑی پر نگاہیں گاڑ دیں جو انھوں نے ابھی بھرّا مار کر اڑائی تھی۔ اس ملاقات نے ہمیں بڑا مایوس کیا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور برابر ملتے رہے۔ پھر معلوم ہوا کہ شادؔ صاحب تو بلا کے خوش مزاج انسان ہیں۔ کبھی منہ بسورتے نظر نہیں آئے۔ لڑائی بھی لڑتے ہیں تو قہقہے لگا کر۔ دوسروں پر چوٹیں بھی کرتے ہیں تو اتنے شگفتہ انداز میں کہ سننے والا بے ساختہ ہنس پڑے۔ ان کے اپنے چند خاص الفاظ تھے جنھیں وہ عام طور پر استعمال کرتے تھے۔ ایک تھا ’’ گھاس لیٹ‘‘ جو سندھ میں مٹی کے تیل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شاد صاحب اسے بے وقعت اور معمولی کے معنی میں استعمال کرتے تھے۔ ’’ فلاں شعر رپٹ میں ہو گیا‘‘ یعنی وہ شاعر اس قابل نہیں کہ ایسا شعر کہتا، اتفاق سے اس سے یہ شعر سرزدہو گیا ہے۔ اگر چہ اُن کے مزاج کے اکھڑ پن کو دیکھتے ہوئے یہ خوش طبعی عجیب سی لگتی لیکن طبیعت میں کڑوا پن انھیں زندگی نے دیا تھا اور خوش مزاجی اُن کی جبلت میں شامل تھی۔

جس زمانے میں ہم نے شادؔ صاحب سے ملاقاتیں شروع کیں، وہ کھنڈر سار کہنہ میں ایک ایسے گھر میں رہتے تھے جو کچی مٹی کے ردوں پر کھپڑیل ڈال کر بنایا گیا تھا۔ چھوٹا سا صحن، اس سے چھوٹا دالان اور نہایت مختصر سا کمرہ، اس میں ان کے ساتھ اُن کی بوڑھی والدہ اور کبوتر رہتے تھے۔ والدہ کی خدمت میں انھوں نے اپنی ساری زندگی گزار دی۔ والدہ اگرچہ ایک زمانہ سے کانوں اور آنکھوں سے معذور تھیں لیکن اُن کا انتقال ایک سو سال سے بھی زیادہ کی عمر میں ہوا۔ گھر کے باہر بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ سامنے ایک آرا مشین تھی، جہاں جا کر ہم بیٹھ جاتے۔ اگر مشین بند ہو جاتی تو بات چیت ہو جاتی ورنہ لکڑی کٹنے کی آواز ہماری آوازوں پر غالب آ جاتی اور ہم یونہی تھوڑی دیر بیٹھ کر چلے آتے۔ شاد صاحب اس زمانے اسٹیٹ پریس میں پروف ریڈر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ لوہارو سے پنشن آ جاتی تھی۔ لشٹم پشٹم کام چل رہا تھا۔ اپنے بھتیجے نبّو کو بیٹا بنا لیا تھا کہ کبوتروں کے ساتھ وہ بھی تسکین کا ایک ذریعہ تھا لیکن آزادی کے ساتھ ریاست ختم ہو گئی اور ریاست کے خاتمے کے ساتھ اسٹیٹ پریس کی ضرورت بھی باقی نہ رہی۔ شادؔ بے روزگار ہو گئے۔ ملازمت کے زمانے میں ہی انھوں نے اپنی والدہ کی خوشی بھی پوری کر ڈالی تھی کہ چالیس برس کی عمر میں شادی کر لی یہ اُن کی زندگی کا شاید سب سے زیادہ آسائش کا دور تھا۔ انھوں نے اپنے آپ کو اس زمانے میں ہلکا پھلکامحسوس کیا۔ مکان بھی تبدیل کر لیا۔ زیادہ آرام دہ مکان میں اُٹھ آئے۔ زندگی میں تھوڑا بہت سکون سا نظر آنے لگا۔ لیکن روزگار کی طرح بیوی بھی بہت جلدی ساتھ چھوڑ گئی۔ مشکل سے ایک سال ساتھ دیا اور پھر مر گئی۔ اب پھر گھر میں والدہ اور کبوتر رہ گئے۔ نبّو بھی اپنا بچہ تو نہیں تھا کہ ہمیشہ ساتھ رہتا، وہ بھی بڑا ہو گیا اور ماں باپ نے اپنے پاس بُلا لیا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد شادؔ صاحب یہ بھی بھول گئے کہ کبھی ان کی شادی بھی ہوئی تھی یا نہیں۔

اس وقت تک شاد صاحب کے گرد شہر کے نو جوانوں کا ایک بڑا طبقہ جمع ہو گیا تھا اور انھیں مشاعروں میں گھسیٹنا شروع کر دیا تھا۔ انھیں دنوں ہم نے فرسودہ غزلوں کے مشاعروں سے تنگ آ کر ایک ’’مناظمہ‘‘ کرانے کی ٹھانی۔ شادؔ صاحب کو اس میں آگے رکھا۔ شاہد عشقی اور ہادیؔ مصطفی آبادی اس میں پیش پیش تھے۔ بعض ایسے نوجوان شاعر بھی تھے جو شادؔ صاحب کے مخالف استادوں کے شاگرد تھے لیکن شادؔ صاحب نے بڑی فراخدلی کے ساتھ ان کی بھی حوصلہ افزائی کی، اس مشاعرے کا صدر شادؔ عارفی کو ہونا چاہیے تھا۔ لیکن انھوں نے اس میں بھی اجتہاد کرایا اور ہندی کے ایک شاعر کلیان چندر ششی کو اس کا صدر بنا دیا۔ بہت دن تک اس مناظمہ کی دھوم رہی اور اس میں جس قسم کی نظمیں پڑھی گئی تھیں، ان سے استادوں کی ناراضی بڑھ گئی۔ رامپور میں شاید یہ پہلا مشاعرہ تھا جہاں آزاد نظم نہ صرف خاموشی سے سنی گئی بلکہ اسے داد بھی ملی۔ شادؔ صاحب نے کبھی آزاد نظم نہیں کہی لیکن اس میں اپنے شاگردوں کی ہمیشہ ہمت بڑھائی۔

شادؔ صاحب نے جس قسم کے خالص جاگیردارانہ ماحول میں آنکھ کھولی تھی، اس میں انھیں منشی امیر اللہ تسلیمؔ سے زیادہ بڑا شاعر نہیں بننا چاہئے تھا۔ اس ماحول میں جاگیر داری نظام کی تمام خرابیاں اور خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں حتیٰ کہ ۱۹۴۵ء تک کسی قسم کی ترقی پسندانہ بات کہنا وہاں جرم سمجھا جاتا تھا لیکن پتنگ بازی اور کبوتر بازی کے شوق نے جہاں ان سے آسمان کی طرف نظریں جمائے رکھنے کا تقاضا کیا وہاں ان کی خداداد صلاحیتوں نے انھیں ہمیشہ بلند پردازی کی طرف مائل رکھا اور وہ اپنے لیے الگ راستے بناتے رہے۔ اگرچہ ایسے افغانی النسل تھے کہ رام پور میں ان کی دوسری نسل تھی لیکن وہ ٹھیٹ رامپوری تھے۔ وہی عادات و اطوار، وہی لب و لہجہ برقرار رکھا( جو پٹھانوں میں ہر جگہ ایک ہی جیسا ہے ) انھوں نے اپنی شاعری میں بھی وہی لب و لہجہ رکھا حتیٰ کہ بڑی آزادی کے ساتھ شعروں میں ایسے الفاظ استعمال کیے جو خالص علاقائی تھے اور اس علاقہ کے باہر لوگ بالکل نہیں سمجھ سکتے یہ اُن خوداعتمادی کی دلیل بھی تھی۔ مثلاً:

ناصح جو غلط بین و غلط کار رہا ہے

آنکھوں سے ’ ترپ‘‘ ذہن سے نادار رہا ہے

یا پھر:

’’ دھنگنا‘‘ دے کر چھوڑ دیا ہے

یوں بھی ملتی ہے آزادی

یہاں لفظ ’’ ترپ‘‘ اور ’’دھنگنا‘‘ دونوں الفاظ ایسے ہیں جو شایداس علاقہ کے باہر اگر سیاق و سباق سے ہی سمجھ میں آ جائیں تو آ جائیں ورنہ ان کا اصل مفہوم کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ ترپ اگرچہ تاش کے ’’ ترُپ‘‘ سے نکلا ہے لیکن یہاں اس کا مطلب ’’ محروم‘‘ ہے اور محروم بھی استہزائیہ معنی میں۔ ’’دھنگنا‘‘ رسّی کے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو گھوڑے یا کسی مویشی کے گلے دونوں پاؤں میں باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ گھاس چرتے چرتے بھاگ نہ جائے۔ بظاہر وہ آزاد ہوتا ہے لیکن اگلی دو ٹانگوں پر اُچھل کر اِدھر اُدھر گھوم پھر سکتا ہے لیکن نہ تو بھاگ سکتا ہے اور نہ زیادہ دور جا سکتا ہے۔ شادؔ صاحب نے اُردو شاعری کو اس قسم کے کتنے الفاظ اور کتنی نئی تراکیب دیں اس کا فیصلہ تو نقادہی کر سکتے ہیں لیکن اپنی نجی زندگی میں وہ جس طرح نئے نئے الفاظ اور ترکیبیں تراشتے تھے انھیں شاید کوئی یاد نہیں رکھ سکے گا البتہ اُن کی نظمیں اور آخر زمانے کی غزلیں بڑی حد تک ان کے طرز تکلم کی ترجمانی کرتی ہیں۔

شادؔ صاحب نے معاشرہ کے ایک ہزار کرداروں کو اپنی نظموں میں بے نقاب کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بظاہر یہ بڑی غیر شاعرانہ سی بات معلوم ہوتی ہے ( اور اس شعوری کوشش نے واقعی شادؔ صاحب کی غزلوں کو بالخصوص نقصان بھی پہنچایا) لیکن شادؔ نے جِس طرح زندگی گزاری تھی اُس کے مد نظر یہ اعلان حق بجانب نظر آتا ہے۔ اُنھیں زندگی نے سوائے تلخیوں، ناکامیوں اور محرومیوں کے اور کچھ نہیں دیا تھا انھیں کس نے دھوکا نہیں دیا۔ ان کے نام نہاد مداح انھیں فریب دیتے رہے۔ پبلشروں نے انھیں عمر بھر دھوکا دیا حتیٰ کہ زندگی نے بھی آخر تک انھیں بھول بھلیوں میں ہی رکھا۔ اسی لیے انھوں نے لوگوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تھا اور جب ان کے سامنے لوگ کسی قسم کا وعدہ کرتے تھے تو وہ اسی وقت سمجھ جاتے تھے کہ یہ دھوکا دیا جا رہا ہے ( اس بے اعتمادی کی وجہ سے وہ کانوں کے کچے بھی ہو گئے تھے چنانچہ کسی کے کہنے پر اپنے عزیز ترین شاگردوں سے بھی ناراض ہو جاتے تھے ) اُن کے اندر بلا کا کڑوا پن اور جھلاہٹ آ گئی تھی۔ یہی تلخی انھوں نے تھوڑی سی شگفتگی کے سا تھ اپنی شاعری کو عطا کر دی۔ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے شاعری نہیں کرتے تھے۔ شوق کے لیے بھی نو جوانی میں شاعری کی ہو تو کی ہو پھر ذوق ہی ایسا نہیں رہا تھا۔ دراصل وہ شاعری کے ذریعے اپنے دل کا غبار نکالتے تھے اور سچی بات کرنے کی ہمت اور جرأت رکھتے تھے۔ ریاست کے زمانے میں کبھی نواب صاحب سے نہیں ڈرے اور آزاد بھارت میں کبھی کانگریس حکام کے سامنے آنکھ نیچی کر کے بات نہیں کی۔ جبل پور میں جب ہولناک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو یہ شادؔ ہی تھا جس نے ان فسادات کو ہندوستانی مسلمانوں کے مصائب کی علامت بنا کر ’’ ابھی جبل پور جل رہا ہے ‘‘ جیسی عظیم نظم لکھی۔ اس کے علاوہ بھی اپنی نظموں اور غزلوں میں مسلمانوں کی زبوں حالی کو ہی موضوع بناتے رہے۔

زندگی کی تلخیوں نے جہاں ان کے مزاج میں کڑوا پن پیدا کیا تھا وہاں ان میں ’’ انا‘‘ بھی بہت زیادہ پیدا کر دی تھی اور یہی ’’انا‘‘ ان کے نقصان کا باعث بنی۔ کوئی دوست ان کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ کوئی شاگرد زیادہ عرصہ اُن کے ساتھ نہیں ٹِک سکا۔ حتیٰ کہ یہی انا تھی جس نے آج تک اُن کا کوئی مجموعہ چھپنے نہیں دیا۔ بظاہر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ شادؔ جیسے پُر گو شاعر کا، جس نے چالیس پینتالیس سال شاعری کی ہو، ایک بھی قابلِ ذکر مجموعۂ کلام نہیں چھپا لیکن ایک طرف شادؔ کی انا تھی اور دوسری طرف پبلشروں کی کاروباری ذہنیت۔ شادؔ ایسا کوئی سرکاری افسر یا اثر و رسوخ والا آدمی تو تھا نہیں کہ اس کے نٹ کھٹ ہونے کے باوجود پبلشر خوشی سے اُس کے دس پندرہ مجموعے چھاپ دیتے اور نہ اس حلقے میں اتنا اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ صرف اس کی شہرت تھی جس کے باعث ۴۶ء سے مختلف پبلشروں نے اس کے مجموعے چھاپنے کے وعدے شروع کیے اور اس کی موت تک یہ وعدے محض وعدے ہی رہے۔ شادؔ عارفی کا قصور یہ تھا کہ وہ  اپنی شرائط کے مطابق چھپوانا چاہتے تھے۔ کئی ناشروں نے شرائط مان بھی لیں لیکن معلوم نہیں کون سی کاروباری مصلحت ان کے آڑے آئی کہ کتاب نہیں چھپ سکی۔ آخر میں لاہور کے سب سے زیادہ خوبصورت کتابیں چھاپنے والے ادارے نے رنگا رنگ نظموں کا مجموعہ چھاپنے کا اعلان کر دیا لیکن شادؔ کے جیتے جی اس کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی کہ وہ اپنی آنکھوں سے اُسے دیکھ لیتا کئی سال تک وہ لاہور کراچی میں لوگوں کو لکھتا رہا کہ وہ مجموعہ ادارہ والوں سے کہہ کر چھپوا دو مگر ادارہ والوں نے غالباً مصلحت نہیں سمجھی اور اب تک وہ مسودہ اسی طرح محفوظ ہے۔

۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۵ء تک شادؔ صاحب کے متعلق صرف ان کے خطوط یا دوستوں کے خطوں سے معلومات حاصل ہوتی رہیں۔ ۱۹۵۵ء میں جب میں پاکستان سے رامپور گیا تو دیکھا کہ شادؔ عارفی اب وہ پہلے جیسا شادؔ ہی نہیں ہے۔ روایتی استادوں کی طرح انھوں نے بھی شاگردوں کا جم غفیر اپنے گرد جمع کر لیا ہے۔ اپنے ذہین اور لائق شاگردوں سے اس لیے ناراض ہو گئے ہیں کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے۔ بیماری نے یہ حال کر دیا ہے کہ چار پائی پر ہر وقت پڑے رہتے ہیں۔ منہ سے حقے کی نَے لگی ہے اور نیچے فرش پر پچیسی ( غالباً چوسر) کھیلنے والے شاگردوں کو مشورے دے رہے ہیں۔ شاگردوں میں بھی کوئی ہادیؔ مصطفی آبادی اور جاوید کمال نہیں ہے، وہ لوگ ہیں جنھیں کسی زمانے میں خود بھی قریب نہیں آنے دیتے تھے۔

اس عرصہ میں وہ زندگی کی مزید ناکامیوں کے تجربے کر چکے تھے لوہارو سے ملنے والی والدہ کی پنشن ہند ہو جانے کے بعد انھوں نے تحصیل سوار میں ملازمت کر لی تھی لیکن وہاں کی آب و ہوا نے مستقل ملیریا کر دیا جس کی وجہ سے وہاں سے تبادلہ کی درخواست کی۔ آفس سپرنٹنڈنٹ نے اس شرط پر تبادلے کا وعدہ کیا کہ اُسے تین سو روپے رشوت کے دیے جائیں۔ شادؔ صاحب بھلا ایسی بات کہاں سن سکتے تھے اسی وقت اس کی ناک پر استعفیٰ مار کر چلے آئے۔ آخر وقت تک اپنے پراویڈنٹ فنڈ کے لیے لڑتے رہے لیکن آڈیٹر جنرل نے ایک نہیں سنی۔ والدہ کا انتقال بھی اسی عرصہ میں ہو گیا تھا اگرچہ ان کی خدمت شادؔ صاحب کرتے تھے لیکن بہرحال وہ ایک سہارا تھیں اب وہ بھی نہیں رہیں۔ کبوتر بازی اور پتنگ بازی طاقت کے ساتھ ہی ختم ہو چکی تھی۔ اب وہ خود ایک کٹی ہوئی پتنگ تھے جس نے چاہا پکڑ لیا اور جب چاہا چھوڑ دیا، ان کی ڈور اب کسی کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ کبھی وہ محلہ بیریاں میں تھے تو کبھی مزار شاہ دلی صاحب کے قریب جس نے ہاتھ پکڑا اسی کے ساتھ ہو لیے ( بہر حال قابل قدر ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس زمانے میں اُن کا ہاتھ پکڑا)۔

۱۹۶۳ء میں مجھے اُن کا جو آخری خط ملا اس کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ اب شادؔ صاحب ہمارے ہاتھ سے گئے۔ لکھا تھا:

’’ زندہ ہوں مگر دوسروں کے رحم و کرم پر۔ صبح مل گئی تو شام کی فکر۔ والدہ کے مرنے پر مکان بیچ کر اُن کا کفن دفن کر دیا۔ اشعرؔ تعجب کرو گے کہ شہر کے اندر چودہ مکان کرائے کے لے کر ٹھوکریں کھا رہا ہوں۔ اس وقت ایسے مکان میں مقیم ہوں جس کی چھت آسمان ہے۔ ایسا ٹین پڑا ہوا ہے جس میں ہزاروں سوراخ ہیں جو رات کو ستاروں کی طرح چمکتے ہیں اور اُن میں سے اوس ٹپکتی رہتی ہے باہر بارش آدھ گھنٹے تو اندر دو گھنٹے ٹپکا لگا رہتا ہے۔ ایک مقطع کا دوسرا مصرعہ سنو جو اسی کیفیت کا حامل ہے :

آدھے بستر پر لیٹا ہوں آدھا بستر بھیگ چکا ہے

اس غزل کا مقطع بھی سُن لو:

آج میں جس گھر میں رہتا ہوں میرؔ کے گھر سے بڑھا ہوا ہے

باہر بارش بیت چکی ہے اندر ٹپکا لگا ہوا ہے

انھوں نے لکھا کہ ملیریا کے ساتھ سانس کا بھی عارضہ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے رامپور کے چند نوجوانوں نے اُن کی جوبلی منانے کا پروگرام بنایا تھا۔ شادؔ صاحب نے اسی خط میں لکھا :

’’ رام پور کے کچھ ادب دوست میری جوبلی منا رہے تھے میں نے انھیں لکھا کہ میرے کفن دفن کا انتظام بھی کر دو۔ انھوں نے ڈاکٹر کا انتظام کر دیا۔ ‘‘

یہ واقعہ ۱۹۶۲ء کا تھا اور شاد صاحب کی زندگی انھیں ۱۹۶۴ء تک کٹی پتنگ کی طرح اڑائے پھری۔ انھوں نے اس حالت میں بھی نظمیں اور غزلیں کہیں اور اس زور شور سے کہیں کہ کہیں یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ بیماری نے ان کے تیور بجھا دیے ہیں۔ وہی جارحانہ انداز، وہی طنز کے تیز نشتر۔ بلکہ اس زمانے کی شاعری میں جھلاہٹ زیادہ ہی ہو گئی تھی۔

اور پھر شاد مر گیا۔ ایک روز پاکستان کے اخباروں میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی کہ شادؔ عارفی طویل علالت کے بعد رحلت کر گئے۔ اب کسی کو کیا پتہ کہ ان کی بیماری کتنی طویل تھی اور انھوں نے بھی کبھی اس بیماری کو بیماری نہیں بننے دیا بلکہ ہمیشہ اُس کا تمسخر اڑایا اور آسمانوں کی بلندیوں سے خراج حاصل کرنے والا شادؔ آخر تک یہی کہتا رہا:

صحرا کو گلستاں کہتا ہوں، بجلی کو تجلی کہتا ہوں

سو معنی پیدا ہوتے ہیں اتنی بے معنی کہتا ہوں

اور پھر:

ہم تھے سو ہوئے نذر تگ و تازِ معیشت

اب کون حریفِ رسن و دار رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

                سلطان اشرف

 

 

شادؔ عارفی:ایک انٹرویو

 

’’ شادؔ صاحب ! آپ کی عمر کتنی ہو گی؟‘‘

’’ بھئی مجھے صحیح تو نہیں معلوم لیکن میری والدہ بتایا کرتی تھی کہ ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۳ء کے کسی درمیانی سال میں میری پیدائش ہوئی تھی، زیادہ بوڑھا ہونا کوئی بھی پسند نہیں کرتا اس لیے میں بھی ۱۹۰۳ء کی موافقت میں ہوں۔ آپ میری عمر کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے آپ بھی ۱۹۰۳ء میرا سنہ پیدائش مان لیجیے۔ ‘‘

’’ شادؔ صاحب ! مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں تو اکثر آپ کا ایک مصرعہ دہرا دیا کرتا ہوں اور اس وقت بھی وہی مصرعہ بغیر کسی طنز کے آپ کے لیے دہرانا چاہتا ہوں :

شباب ہے تو آپ پر، جوان ہیں تو آپ ہیں

میں اس مصرع کو یہ معنی لے کر دہراتا ہوں کہ آپ کا فن آج بھی جوان ہے۔ شباب سے بھرپور ہے، اس میں نکھار پیدا ہو چکا ہے۔ جسم کے اعتبار سے آپ نہ پہلے عظیم الجثہ تھے نہ آج ہیں بلکہ آج تو حالت بہت ہی گری ہوئی ہے۔ لیکن اس جسمانی انحطاط نے آپ کی شاعری میں یک گونہ تلخی کے احساس کو اور تیز کر دیا ہے۔ رام پور کے کسی دل جلے نے غالباً آپ کی تلخی کا شکار ہو کر آپ کی زمین ہی میں آپ کا مذاق اُڑانے کی کوشش کی تھی لیکن مذاق حقیقت میں سچائی اور صداقت کا آئنہ دار ہے :

غزل میں رام پور کے پٹھان ہیں تو آپ ہیں !‘‘

’’ سلطان میاں ! آپ مجھ سے سیدھی سادی باتیں کیجیے۔ میں یہ منطقی باتیں نہیں سننا چاہتا۔ یہ میں بہت سن چکا ہوں۔ آپ یہ بتلائیے کہ آخر آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ آپ کے آنے کی غرض و غایت کیا ہے ؟ میں مختصر بات چیت کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اس وقت اور بھی ضروری کام کرنا ہیں۔ میں آپ سے زیادہ دیر بات چیت نہیں کر سکتا۔‘‘

’’شاد صاحب! اگر آپ ویسے ہی مجھ سے ناراض ہیں تو میں آپ سے کچھ معلوم کرنا نہیں چاہتا میں اب جاتا ہوں، آپ شوق سے اپنے دوسرے کام کیجیے گا۔ ‘‘

’’ بھئی! اس میں ناراض ہونے کی بات نہیں۔ میں پریشان ہو گیا ہوں، آخر انسان ہوں کوئی مشین تو نہیں ہوں جو ہر وقت کام کرتا ہوں پھر مشین کو تو کبھی کبھار تیل بھی مل جاتا ہے لیکن یہاں تووہ بھی نہیں۔ اپنے مطلب کی ہر کوئی کہتا ہے لیکن میری کوئی نہیں سنتا، کوئی کہتا ہے شاد صاحب تازہ غزل بھیج دیجیے۔ کسی کو تازہ نظم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی سوانح عمری مانگتا ہے۔ کسی کو اپنے سالنامے کے لیے فوٹو کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی اپنے پیرو مرشد کے انتقال کے بعد قطعۂ تاریخ کہلوانا چاہتا ہے، کسی کے بھائی کی شادی شادمانی کے سہرے کی وجہ سے رُکی ہوئی ہے۔ کوئی کتاب پر رائے مانگتا ہے۔ کوئی آ کر کہتا ہے پروفیسر ستار انصاری صاحب کو ایک سفارشی خط لکھ دیجیے، آپ کے ان سے اچھے خاصے مراسم ہیں، وہ یونیورسٹی میں داخلہ کرانے میں مدد فرما دیں گے۔ غرضیکہ شادؔ عارفی کی جان مصیبت میں ہے لیکن کسی کو خبر نہیں۔ اُن کو اپنی فرمائشوں سے مطلب، فرمائشیں بھی کیسی؟ذرا آپ بھی سن لیں، اگرچہ میں تھکا ہوا تو بہت کافی ہوں لیکن آپ کو سنا ہی دوں، کیونکہ آپ تو ویسے ہی ناراض ہوئے جا رہے ہیں، بعض لوگ ایسی بچکانہ باتیں کر گزرتے ہیں کہ مجھے ہنسی آ جاتی ہے اور بعض اوقات غصّہ بھی آتا ہے، مثلاً ایک مہربان رانا گڑھ سے مجموعہ کلام کا صرف ٹائٹل بھیج کر شادؔ عارفی ے اظہار خیال چاہتے ہیں ! کیا اظہار خیال کروں ؟اگر صرف ٹائٹل ہی مجموعہ ہوتا ہے تو لعنت ایسے مجموعے پر۔ شادؔ عارفی ایسے مجموعے پر کچھ آئیں بائیں شائیں نہیں ہانک سکتا۔ ویسے اگر وہ پسند فرمائیں تو شادؔ عارفی کہہ سکتا ہے … صاحب کی شاعری صرف ٹائٹل کی شاعری ہے اور ٹائٹل امونیم سلفیٹ اور یوریا کا مکسچر ہے۔ کہیے میری رائے پسند آئی یا نہیں۔ اگر پسند آ گئی تو سبحان اللہ، اُن کا مجموعہ بے بھاؤ بکے گا۔ اور اگر نا پسند ہو تو شادؔ عارفی پر دس ہزار گالیاں۔ سمجھ میں نہیں آتا لوگ اس قدر ’’ عقلمند‘‘ کیوں ہو گئے ہیں اور سنیے۔ ایک ایڈیٹر صاحب نے لکھا تھا’’ آپ کی شاعری کا ہمیشہ معترف رہا ہوں لیکن آپ اپنی کوئی چیز ماہنامہ ’’ محبوب‘‘ کے لیے کبھی نہیں بھیجتے۔ کیا بات ہے ؟ از راہِ کرم اب اس خط کو پا کر کوئی غزل، کوئی نظم روانہ فرمائیے۔ محبوب نوازی ہو گی۔ ‘‘ لیجیے یک نہ شد دو شد، محبوب نوازی کی بھی ایک ہی رہی۔ شادؔ بیچارہ بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی نہیں کر سکا کیونکہ اس کی مالی حالت اس قابل نہیں ہے۔ اب یہ محبوب نوازی کس طرح جائز اور صحیح ہو سکتی ہے۔ محبوب تو اپنی ضرورت کی تمام ہی چیزیں طلب کرے گا۔ شادؔ عارفی بے چارے کا اتنا ’’بوتا‘‘ کہاں۔ پھر بھی ایڈیٹر صاحب کو دو غزلیں بھیج دیں۔ ارشاد ہوا ’’ آپ کے ترکش کا ایک تیر کام کر گیا۔ ‘‘ ارے بھائی شادؔ عارفی کیا شیخ سعدیؔ جیسا عظیم شاعر ہے ؟ جو بیک وقت شعر و شاعری سے بھی آراستہ اور تیر و کمان سے بھی لیس اور کبھی کبھار تیغ و تبر بھی ہاتھ میں تھام لے۔ شادؔ عارفی بیچارے کا تو کھانستے کھانستے بُرا حال ہے، اُس میں کہاں دم جو وہ تیر و کمان یا تیغ و تبر استعمال کر سکے۔ ان ایڈیٹر لوگوں کے بھی عجیب عجیب کارنامے ہیں، پہلے محبوب پیش فرمایا۔ اب تیر کمان ہاتھ میں تھما دیا۔ گویا کہ اب شادؔ عارفی اپنی شاعری کا دیوالہ ہی پیٹ دے گا۔ خیر صاحب غزل چھاپ دی گئی۔ کوئی معاوضہ نہیں، پرچہ ضرور بھیج دیا۔ کتنا بڑا کرم تھا۔ لیکن پرچہ بھی صرف اسی ماہ کا جس میں شادؔ عارفی کی غزل چھپی۔ اس کے بعد کوئی ضرورت نہیں آخر ضرورت بھی کیا تھی۔ شادؔ کو تو اپنے کلام سے پیار ہے اس کو اور شاعروں کے کلام سے کب محبت ہو سکتی ہے۔ وہ تو بد دماغ ہے، لوگوں کی پگڑیاں اُچھالتا ہے۔ دیگر لوگوں کی تخلیقات سے اُسے کب پیار ہو سکتا ہے۔ اتفاق سے دو مہینے بعد اسی رسالے کا سالنامہ شائع ہوتا ہے۔ شاد صاحب لکھتے ہیں ’’ بھئی اس بڑے محبوب کی تو زیارت کرائیے۔ ‘‘جواب آتا ہے ’’ اہل رام پور کٹّر قسم کے مذہبی لوگ ہیں، آپ بھی یقیناً ان سے مختلف نہیں ہوں گے، اس وجہ سے آپ کو سالنامہ نہیں بھیجا۔ ‘‘ سن لیا آپ نے ! شاد ابھی تک بچہ ہے اُن کا پرچہ دیکھ کر بھٹک ہی تو جاتا۔ بڑا کرم فرمایا جناب نے !۔ تیسرے ایڈیٹر صاحب کہتے ہیں۔ ’’شادؔ صاحب! آپ نے ہندوستان اور پاکستان میں ڈنکا بجا دیا ہے ( کس چیز  کا ڈنکا بجا دیا ہے، کچھ پتہ نہیں ) لیکن ادارہ ’’داغدار‘‘ ابھی تک آپ کا تعاون نہیں حاصل کر سکا۔ اگر ادارہ داغدار کو آپ کا تعاون حاصل ہو جائے تو سرمایہ داروں کے منہ پر تھوکا جا سکتا ہے۔ ‘‘ کیا خوب مصرعہ لگایا ہے۔ ایڈیٹر صاحب ’’ داغدار‘‘ نے گویا کہ شادؔ عارفی سرمایہ داروں کے منہ پر تھوکنے والا ہو گیا۔ ’’ آخ تھو!؟‘‘ یہ ضرور ہے کہ شادؔ عارفی سرمایہ پرستی کے خلاف ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سرمایہ داروں کے منہ پر تھوکے۔ وہ ایسی غیر اخلاقی اور غیر ادبی حرکت کو کبھی جائز نہیں سمجھتا، وہ سرمایہ کی تقسیم جائز اور مناسب اخلاقی طریقے پر چاہتا ہے۔ وہ تشدد کا قطعاً حامی نہیں۔ اس مقطع سے مزید روشنی پڑ سکتی ہے :

شاد حاصل ہے جسے غم سے فراغ کامل

کیوں یہ چاہوں کہ خدا اس کو پریشاں کر دے

ان ایڈیٹر لوگوں کی یہ بے سر و پا باتیں الگ پریشان کر دیتی ہیں۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کے بعد منشی طوفانِ سخن اور کشمیری لعل جی روزانہ کان کھانے الگ آ جاتے ہیں۔ میں سخت پریشان ہوں اس حالت سے، مگر اس سے چھٹکارا کس طرح پاؤں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ کبھی کبھار غصہ آ جاتا ہے۔ کھری کھری سنا دیتا ہوں۔ لوگ ناراض ہو جاتے ہیں، لیکن میرا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کوئی ایک پیسہ کا سلوک کرنے کا روادار نہیں۔ جس کو دیکھو دماغ کا تیل خرچ کرانے والا نکلے گا۔ لیکن یہ چاہو کہ کبھی شاد عارفی کو روپیہ کی کوئی چیز لا کر دے دے تو ایسا کوئی نہیں دیکھنا۔ خشک باتیں ہر ایک سے کرا لو کوئی تکلف نہیں۔ منطقی باتوں کرا لو کوئی عذر نہیں۔ جھوٹی سچی تعریف کرالو، کبھی زبان نہیں تھکے گی۔ مجھے ہندوستان پاکستان کا سب سے بڑا شاعر بنایا جائے گا۔ لیکن یہ بڑائی میرے کس کام کی۔ میں ایسا خشک بڑائی کا کیا کروں ؟ تم نے بھی میرے سر پر تاج رکھ دیا تھا، کانٹوں بھرا تاج۔ میں منع کرتا تھا، ’’جوہر ۱؎‘‘میں مطالعے مجھ سے مت لکھواؤ، لیکن تم نہیں مانے۔ یہ لڑائی کا گھر مجھ سے آٹھ مہینے تک چمٹا رہا۔ لوگوں نے میرا ناک میں دم کر دیا، ’’ تعریفوں کے پُل‘‘ باندھ دیے۔ لیکن مجھے ان تعریفوں سے کیا فائدہ ہوا؟ سوائے اس کے کہ جو دوست تھے وہ دشمن ہو گئے بعض ’’ علم دوست‘‘ حضرات نے گالیوں بھرے  خط بھی بھیجے، کسی معترضہ نے ادارۂ ’’ جوہر‘‘ کو لکھا یہ شادؔ عارفی کون بدتمیز شاعر ہے، ذرا اس کا اتا پتا تو لکھیے میں اس کو تمیز سکھانا چاہتی ہوں۔ کیا خوب۔ شادؔ عارفی اُن کا غلام جو ٹھہرا۔ میں نے صرف تمھاری وجہ سے یہ کانٹوں بھرا تاج زیب سر کیے رکھا حالانکہ مجھے اس کانٹوں بھرے تاج سے بہت تکلیف پہنچ رہی تھی۔ میری شاعری کا الگ دیوالہ پٹ رہا تھا، مطالعے لکھنے کی وجہ سے اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ شعر کہتا۔ میرے شاگرد الگ ناراض تھے کہ آخر اس جوہر سے کیا فائدہ۔ پھر ایک دن کشفیؔ کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ سلطان اپنے گروپ کا آدمی نہیں۔

۱؎ راقم الحروف ( سلطان اشرف) وصی اقبال اور مسرت حسین آزاد نے مل کر ادارہ فروغ اردو کی جانب سے پندرہ روزہ اخبار ’’ جوہر‘‘ نکالا تھا جو آٹھ ماہ چل کر بند ہو گیا۔ (س۔ ا)

’’ ارے جب ہی تو میں کہتا تھا سلطان آخر اس قدر گھل مل کیوں رہا ہے کشفی!تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ آنے دو سلطان کو وہ وہ سناؤں گا کہ سلطان بھی یاد کرے گا۔ ‘‘

کھٹ۔ کھٹ!

’’ کون؟‘‘

’’ جی! میں سلطان‘‘

’’ اچھا آیا۔ ‘‘ لپک جھپک شاد صاحب! باہر تشریف لائے۔ ’’آپ کیوں آئے ہیں ؟

’’ جوہر‘‘ کے مطالعے لکھوانے۔ ‘‘

’’ جی۔ کیا فرمایا؟’جوہر‘ کے مطالعے لکھوانے ! جی میں نہیں جانتا کون جوہر کیسا جوہری۔ میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں۔ میں آپ کے ادارے سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔ جائیے۔ میں آپ کا کوئی کام نہیں کر سکوں گا۔ ‘‘

اور شادؔ صاحب یہ جا وہ جا!

’’ شادؔ صاحب! ذرا سنیے تو!‘‘

’’ میرے پاس ٹائم نہیں ہے ‘‘ (انگریزی کا کوئی بھی لفظ شادؔ صاحب جب ہی بولتے ہیں جب وہ غصّے میں ہوں )۔

دس منٹ، پندرہ منٹ، تیس منٹ۔ شادؔ صاحب کا کوئی پتہ نہیں۔ آخر کار جھک مار کر مکان کو رخصت لیکن دل میں یہ کوفت کہ شاد صاحب عجیب آدمی ہیں۔ واقعی قیوم نظرؔ نے شادؔ صاحب کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا وہ ٹھیک ہی تھا۔ اب چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے شاد صاحب سے کبھی نہیں ملوں گا انھوں نے سمجھا کیا ہے۔ چاہے ’’ جوہر‘‘ کو بند ہی کیوں نہ کر دینا پڑے لیکن اب ان سے مطالعے بھی نہیں لکھواؤں گا۔

دس دن بعد ایم۔ ارشادؔ سے کہا ’’بھئی معلوم نہیں سلطان میاں نے آنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ میرا خیال ہے وہ اس دن کی گفتگو سے کچھ ناراض ہو گئے۔ اگر آپ کو ملیں تو کہہ دیجیے گا بھئی میں نے تو تمھیں کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ ‘‘

کچھ دن بعد جب ایم۔ ارشاد صاحب شاد صاحب سے ملے تو شاد صاحب نے پوچھا۔ ’’ کیا سلطان ملا تھا؟‘‘

انھوں نے کہا۔ ’’ جی ہاں ملا تھا۔ وہ آپ سے ناراض ہے، وہ کہتا ہے شادؔ صاحب نے  میری توہین کی ہے۔ ‘‘

’’ ارے بھئی! مجھ سے جیسی چاہو قسم لے لو جو میں نے اس کو ذرا بھی برا بھلا کہا ہو۔ میں نے تو ایک لفظ بھی برا نہیں کہا۔ کیا بتاؤں جس دن یہ واقعہ ہوا تھا اس دن سلطان کے آنے سے کچھ پہلے، ’’ اشعر افغانی‘‘ جو پہلے میرا شاگرد تھا، ایک نوجوان کو لے کر آیا۔ علیک سلیک کے بعد معلوم ہوا کہ آپ ایڈیٹر’’ صبح و شام‘‘ جناب ’’ مدہوش رام نگری‘‘ ہیں۔ بات چیت ہوتی رہی، کچھ دیر بعد فرمائش ہوئی۔ ’’ شادؔ صاحب کچھ سنوائیے۔ ‘‘ میں نے کہا ’’ آپ بھی تو کچھ سنوائیے۔ ‘‘کہنے لگے۔ ’’ شاد صاحب! میں شاعری وائری تو کرتا نہیں، میں تو آپ کا کلام سننا چاہتا ہوں۔ ‘‘

خیر صاحب! حیل و حجت کے بعد یہ سوچتے ہوئے کہ پردیسی آدمی ہے معلوم نہیں دل میں کیا خیال کرے، میں نے غزل سنانا شروع کی۔ واہ وا سبحا ن اللہ کے شور میں پہلی غزل دب کر رہ گئی۔ دوسری غزل کی فرمائش کی گئی، وہ بھی پوری کی۔ اب فرمایا نظم بھی سنائیے۔ خیر صاحب، نظم بھی سنائی۔ بہت پسند فرمائی، کہنے لگے۔ ’’ شاد صاحب! میں نے آپ کی بہت تعریف سنی تھی، میں تو اشتیاق رکھتا تھا آپ سے ملنے کا۔ آپ تو شادؔ صاحب واقعی شاگرد رشید، استاد ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’ جی!‘‘ اس میں کیا شک ہے ؟‘‘ فوراً ہی خیال شیخ سعدیؔ کے قطعہ کے مطلع کی طرف گیا:

تامرد سخن نہ گفتہ باشد      عیب و ہنرش نہفتہ باشد

میں نے اپنی ایک طویل نظم ’’ آپ کی تعریف‘‘ میں ایک خاکہ انھیں ایڈیٹر صاحب کا پیش کیا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرما لیں :

یہ صحافی ہیں پرائے ہاتھ پر

ہو نہ جائے مطبع و اخبار ضبط

قوم کی خدمت کو فرماتے ہیں خبط

دعویِٰ علم ہجا کیا کیا غلط

سر بسر انشا غلط، املا غلط

نثر ہے ان کو کسی چڑیا کا نام

شعر، جیسے آشیانے زیرِ دام

جس طرح اندھا کسی فٹ پاتھ پر

یہ صحافی ہیں پرائے ہاتھ پر

اس واقعہ نے موڈ تو خراب کر ہی دیا تھا، رہی سہی کسر منشی جی کے آدمی نے پوری کر دی۔ اس نے منشی جی کا پرچہ لا کر دیا۔ لکھا تھا، شاد صاحب! آپ میرے پیر و مرشد حضرت عبداللہ شاہ صاحب کا قطعہ تاریخ لکھ دیجیے، ممنون ہوں گا۔ خط پڑھنے کے بعد مانو میرے تن بدن میں آگ لگ ہی تو گئی۔ یہ وہی تو منشی جی ہیں جن کو میں نے لکھا تھا کہ کرائے کے مکانوں میں پھرتے پھرتے ایسا تنگ آ گیا ہوں کہ چاہتا ہوں اپنے آبائی مکان کو ٹھیک کرا لوں آپ مبلغ دو سو روپیہ بطور قرض مجھ کو دے دیں تاکہ مکان ٹھیک کرا لوں، لیکن اس بات کو کئی سال گزر گئے۔ منشی جی نے کوئی سانس تک نہیں لی۔ اب شادؔ عارفی کی یاد آئی، کیونکہ اب اپنا کام پڑ گیا تھا۔ اے سبحان اللہ! شادؔ عارفی بھوکا مر رہا ہو تو اُن کو خبر نہیں۔ شادؔ عارفی ٹوٹے ہوئے مکان میں جاگ جاگ کر راتیں گزار رہا ہو تب اُن کی بلا جانے۔ شادؔ عارفی ایک ماہ تک موت و زیست کی درمیانی حالت تک پہنچ گیا تب ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ مگر واہ ری خود غرضی، اپنے مطلب کی بات پیش کرتے ہوئے پھر بھی کوئی جھجک نہیں کیا خوب۔ قطعہ تاریخ چاہیے۔ شاد عارفی شاید انسان نہیں کوئی پتھر کا بُت ہے، جس کو نہ کسی بات کا احساس ہوسکتا ہے نہ اس کی ضرورتیں ہیں۔ اسی الجھن میں بیٹھا تھا کہ سلطان آ گیا ہو سکتا ہے اس جھلّاہٹ میں میرے منھ سے کوئی لفظ نکل گیا ہو سلطان میاں سے کہہ دینا، بھائی میں تو تمھاری عزت کرتا ہوں، تمھاری غیر موجودگی میں بھی تعریف ہی کرتا رہتا ہوں۔ تم مجھ سے کیوں ناراض ہو گئے ہو۔ ‘‘

تھوڑی کھینچا تانی کے بعد قصہ ختم۔ میل ملاپ ہو گیا۔ آمد و رفت بھی شروع ہو گئی۔ اب پھر وہی سلطان اور وہی شاد صاحب۔ اکثر اکثر پوری ملاقاتیں، زیادہ تر ’’ نیم ملاقات‘‘ ( خط و کتابت) ہوتی رہی۔ اس درمیان معاملات بنتے رہے، بگڑتے رہے، بالکل ختم نہیں ہوئے۔

ایک دن میں نے شاد صاحب سے کہا۔ شادؔ صاحب! میں آپ کی شخصیت اور فن پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ آپ کے فن پر اور شخصیت پر کچھ نیا مواد پیش کروں، روا روی میں کچھ لکھنا چاہوں تو بغیر کسی مدد کے اب بھی لکھ سکتا ہوں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ میں جو باتیں ظاہر کروں بالکل نئی ہوں۔ ‘‘

کہنے لگے۔ ’’ اجی چھوڑو بھی اس شخصیت اور فن کے جھنجھٹ کو۔ اپنی بوٹیاں کیوں نچوانے کی فکر میں ہو۔ شہر میں رہنا بھی دو بھر ہو جائے گا اور شہر سے باہر کے واقعات اگر بتلاؤں گا تو باہر والے مجھ پر اور تم پر ہزاروں گالیاں دے ڈالیں گے۔ شہر والوں میں بقول فتح اللہ خاں میں زٹل شاعر ہوں۔ تم ہی بتاؤ ایک زٹل شاعر کی شخصیت بھی زٹل ہی ہو سکتی ہے۔ بیرونِ شہر سلطان، عقیل، شمیم، کریم قسم کے مرکب نام کا کوئی شاعر ادیب جو باپ کی شاعری کے بل بوتے پر ادب کا ٹھیکہ دار بننا چاہتا ہے۔ ناراض ہو کر کہہ دے گا۔ شادؔ عارفی کی شاعری کیا بلا ہے، پھر بھی ہر رسالے میں موجود، لیجیے زٹل شاعر کی شخصیت پر ایک زٹل قسم کے مضمون نگار سلطان اشرف نے کیا تھوپا ہے ؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’ شاد صاحب! آپ بھی کن لوگوں کی باتوں کا خیال کرتے ہیں۔ ایسی باتیں تو وہی آدمی کہتے ہیں جو صفر ہوتے ہیں یا جو ادب کی رفتار کا صحیح انداز نہیں کر پاتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال تو اس بجو جیسی ہے جو اونٹ کو دیکھ کر چھوٹی سی چھاڑی میں اپنا منہ چھپا کر سمجھتا ہے اب وہ بالکل اوجھل ہو گیا ہے۔ لیکن ادب میں یہ باتیں کہاں چل سکتی ہیں۔ آپ ان نا دہند لوگوں کی باتوں کی پروا کیوں کرتے ہیں۔ مستقبل کا مؤرخ ان نا دہند لوگوں کی غلط بیانی کا پردہ چاک کر کے رکھ دے گا۔ آپ نے اپنی غزل کے ایک مقطع میں اس طرف اشارہ بھی تو کیا ہے :

مجھے اے شادؔ ان رجعت پسندوں سے تو کیا لینا

کرے گی یادمستقبل کی تہذیب جواں مجھ کو

فرمایا۔ ’’ بھائی میں تو ان باتوں کا بہت کم خیال کرتا ہوں۔ لیکن آخر انسان ہوں، خیال آ ہی جاتا ہے، کوئی پیالہ و ساغر تو نہیں ہوں۔ آپ لکھنا ہی چاہتے ہیں تو شوق سے لکھ سکتے ہیں۔ لیکن آپ کہاں تک لکھیں گے، میری سوانح حیات کا احاطہ کرنا تو ٹیڑھی کھیر ہے اس لیے کہ اس میں جلیبی کے سے پھیر اور ’کیف خلقت‘‘ کے اتنے موڑ اور الجھنیں اور ایسے نشیب و فراز ہیں کہ سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے۔ ‘‘

میں نے کہا۔ ’’ شاد صاحب! آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میں سوال قائم کرتا جاتا ہوں آپ جواب دیتے جائیے گا۔ میں نوٹ کرتا جاؤں گا۔ ‘‘

کہنے لگے۔ ’’ آج نہیں کسی اور دن پر رکھیے۔ ‘‘

’’ بہت اچھا۔ رخصت!‘‘

تین دن کے بعد پہنچا۔ دیکھا مکان میں تمام سامان بے ترتیبی کے ساتھ پھیلا پڑا ہے، معلوم کیا۔

’’ شاد صاحب! یہ کیا معاملہ ہے ؟‘‘

کہنے لگے۔ ’’ سلطان میاں ہمیں یہاں سے بھی اُٹھ جانے کا نوٹس مل گیا ہے۔ ‘‘

میں نے کہا۔ ’’ ایسی کیا بات ہوئی؟ آپ نے اُس روز کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا، ایک دم ایسا کیوں ہوا؟ پھر آج کل تو برسات ہے، کوئی بھی مالک مکان کسی بھی کرایہ دار سے مکان نہیں خالی کرا سکتا؟‘‘

’’ سلطان بات یہ ہے کہ مکان جن صاحب کا ہے اُن کے بھائی باہر سے آ گئے ہیں ان کو مکان کی ضرورت ہے، شریف آدمی ہیں، اس لیے میں بھی مکان خالی کیے دے رہا ہوں ‘‘ میں نے کہا …’’ یہ کیسی شرافت ہے، آپ جیسی شخصیت کو بھری برسات میں ’’ گھر بدر‘‘ کیا جا رہا ہے۔ کیا کوئی شریف آدمی کسی شریف آدمی سے ایسا سلوک کر سکتا ہے۔ ‘‘

کہنے لگے : ’’ اس میں ان کا تصور نہیں و یہ در اصل میرے مقدر کی خوبی ہے جو اس طرح در بدر مارا مارا پھر رہا ہوں۔ میری زندگی کا یہ بڑا المیہ ہے۔ ایک تو ملازمت مستقل مزاجی کے ساتھ نہیں کر سکا۔ دوسرے جب سے آبائی مکان فروخت ہوا، یہ اٹھارواں مکان تبدیل کر رہا ہوں۔ اس طرح جلد جلد مکانوں کی تبدیلی سے لوگ الگ پریشان ہوتے ہیں، مجھے الگ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاک بھی گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ بعض ’’شریف ڈاکیے ‘‘جو بڑھیا مال دیکھتے ہیں اس گڑبڑ میں نہایت صفائی کے ساتھ ہاتھ صاف کر جاتے ہیں، بعد میں مجھے جب اس گڑ بڑ کا پتہ چلتا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں، محمد طفیل مدیر’’ نقوش‘‘ لاہور نے میرے اس طرح جلد جلد پتے کی تبدیلی سے تنگ آ کر مجھے لکھ دیا تھا۔

’’ شادؔ صاحب! خدا کے لیے آپ میرے اوپر رحم کھائیے اس قدر جلد مکان مت تبدیل کیجیے۔ آپ کی اس قدر تبدیلیِ مکان سے تو یہ پتہ چلتا ہے شاید آپ خانہ بدوش شاعر ہیں۔ ‘‘

بھائی اس بیچارے کو کیا معلوم شادؔ عارفی کس حال میں ہے۔ اس کو میری حالت کا صحیح علم ہو جائے تو وہ شاید میرے لیے ایک فنڈ کھولنے کو تیار ہو جائے گا۔ لیکن میری خود داری اس بات کو گوارا نہیں کرتی۔ بھوکا رہنا پسند ہے لیکن ذلّت کے ساتھ کسی سے کچھ لینا پسند نہیں۔ آج تک میں نے کسی کا ایسا احسان لینا پسند نہیں کیا جو میرے لیے باعث شرمندگی ہو۔ میرے شاگردوں میں سے بعض نے میرے ساتھ بہت سلوک کیے ہیں مگر وہ شاگردی استادی کا معاملہ اور واسطہ ہے کوئی خیرات نہیں۔

اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اپنا مکان بنوا لوں گا تاکہ یہ روز روز کا چکّر ختم ہو۔ سوچا تھا میرے مجموعہ ’’ رخِ گیسو‘‘ کا معاوضہ جب مجھے ملے گا اس سے مکان بنوا لوں گا لیکن ’’مشرق‘‘ کراچی کا ایڈیٹر اس قدر خود غرض اور مکار نکلا کہ بغیر ڈکار لیے میرا پورا مجموعہ ہضم کر گیا۔ جب تک میں نے مجموعہ نہیں بھیجا تھا، خوشامد کرتا تھا۔ ‘‘ شادؔ  صاحب ! اپنی عشقیہ غزلوں نظموں کا مجموعہ فوراً بھیج دیجیے ایشیا پبلیکشنز کی جانب سے آپ کا مجموعہ بہت اچھے انداز میں چھاپنا چاہتا ہوں۔ بہت زیادہ معاوضہ دوں گا دوسرا دے نہیں سکتا۔ میں دھوکے میں آ گیا۔ مجموعہ بھیج دیا۔ اب ایک مہینہ گزرا۔ دو مہینے گزرے، تین سال گزرنے کو آئے، کوئی جواب نہیں۔ کوئی مرنے جینے کی خبر نہیں۔ آخر کار مجبور ہو کر میں نے صہباؔ لکھنوی، مدیر ’’ افکار‘‘ ( کراچی) کو ایک خط لکھا کہ ذرا اس ’’مشرق‘‘ کے نا دہند ایڈیٹر کی خیر خبر تو لکھو، کیا وہ زندہ ہے یا مر گیا؟ اس کے بعد تمام باتیں تفصیل سے صہباؔ لکھنوی کو لکھ دی تھیں ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اگر اس نے مجموعہ نہیں واپس کیا تو انجمن مصنفین کو براہِ راست خط لکھ کر ایڈیٹر ’’ مشرق‘‘ کی تمام پول کھول دوں گا۔ جب صہباؔ نے اُسے میرا خط دِکھایا تو بہت ڈرا۔ ہاتھ پیر جوڑ کر کہنے لگا، بھائی خدا کے لیے شاد صاحب کوسمجھا کر لکھ دینا کہ وہ انجمن مصنفین کو خط نہ لکھیں، میں بہت جلد ان کا مجموعہ چھاپ رہا ہوں۔ اگر انھوں نے شکایتی خط لکھ دیا تو میں سرکاری ملازم ہوں۔ ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ خیر صاحب میں نے صبر کیا مگر ابھی تک صبر کا پھل میٹھا مجھ کو نہیں مل سکا۔ وہی کڑواہٹ ہے اگر اس کڑواہٹ میں اُس کی شکایت میں کچھ لکھ دوں تو کیا ہو گا؟ تم ہی بتاؤ میرے منہ سے اُس کے خلاف کیا کچھ نہیں نکل سکتا۔ لوگ سمجھتے ہیں میں مغرور ہو گیا ہوں۔ بد دماغ ہوں، بعض مجھے مجنوں و فرہاد سے الگ ایک اور خطاب دے چکے ہیں ’’ مت کٹا۔ ‘‘ جی ہاں۔ شادؔ عارفی مت کٹا تو ہے ہی، اس نے اپنی ضرورتوں کا اظہار کیوں کر دیا۔ ہوا کھاتا اور جیتا، کسی بھی ظلم اور ستم پر اُف یا آہ نہ کرتا تب شادؔ عارفی عقلمند ہوتا!

’’ سلطان میاں ! بعض اوقات ان باتوں کو سن کر سوچنے لگتا ہوں اس شاعری وائری  کو چھوڑ بھی دوں۔ آخر کیا فائدہ اس شاعری سے جس کا حاصل صفر ہو۔ کیا فائدہ اس فن کی خدمت کرنے سے جس کے قدر داں بد ذوق ہو چکے ہوں۔ جہاں فنکار کی قدر و قیمت کا معیار سست اور گرا ہوا ہو، ایسے ماحول میں شاعری کرنے سے فائدہ؟

’’سلطان میاں ! مجھے بڑا افسوس ہوا تھا جب میں نے کسی رسالے میں خواجہ احمد عباس کا مضمون ’’ کرشن چندر کی کہانی، خواجہ احمد عباس کی زبانی‘‘ پڑھا تھا۔ اس میں خواجہ نے بتایا تھا کہ کرشن چندر کے پاس گرم کوٹ نہیں ہے۔ بتائیے یہ اس افسانہ نگار کا حال ہے جو نہ صرف ہندوستان بھر میں مشہور ہے بلکہ جس کی شہرت پاکستان اور روس تک پہنچی ہوئی ہے اس کی تنگدستی کا یہ عالم۔ فن کار کی زبوں حالی اور پھر اس سے شوخ چیزوں کی فرمائش۔ یہ کیا مذاق ہے ؟ یہ فنکار کی قدردانی ہے ؟ میں سمجھتا ہوں یہ فن کا مذاق اڑانا ہے، فنکار کا منہ چڑانا ہے، کرشن چندر کے پاس گرم کوٹ نہیں ہے، میرے پاس مکان نہیں ہے، چلو معاملہ برابر ہوا۔ کرشن جاڑے میں سردی سے ٹھٹھر کر مر جائے گا اور میں اس بے گھری کے چکّر میں کھانستے کھانستے مر جاؤں گا، پھر لوگوں کو قدر آئے گی اور کیا معلوم لوگ قدر کرتے بھی ہیں یا نہیں اور پھر اس قدر سے فائدہ بھی کیا ؟ زندگی میں فنکار کے ساتھ غیر اخلاقی اور غیر ادبی سلوک روا رکھا جائے۔ مرنے کے بعداس کی قدر افزائی کرنے سے اس کو کیا فائدہ؟ زندگی میں تو وہ حقیقی مسرتوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ لوگ میری شاعری کی تلخی پر مجھ سے ناراض ہوتے ہیں، لیکن اونچے اونچے محلوں میں رہنے والے میری حالت کا کیا اندازہ کر سکتے ہیں ؟ میں کیوں اس قدر تیز اور گرم چیزیں لکھتا ہوں۔ ان کو عیش و عشرت کے تمام سامان مہیا ہیں۔ وہ تصور میں بھی میرے بارے میں کبھی نہیں سوچ سکتے کہ میں کس مقام سے کس حال میں شاعری کرتا ہوں، اُن کو کیا پتہ؟ ان کو شوخ کلام چاہیے جس پر وہ داد ( جس کو میں بیداد تصور کرتا ہوں ) کے خشک ڈونگرے برسا دیں اور بس!

’’ میرے ساتھ میرے دوستوں، رشتہ داروں اور ساتھیوں نے جو ظلم و ستم کیے ہیں اگر میں وہ تمام تفصیل سے بتا دوں تو تم بھی میرے ظرف پر عش عش کر اٹھو گے لیکن آخر کار انسان ہوں، صبر و ضبط کا دامن کب تک تھامے رہ سکتا ہوں۔ کبھی کبھی اُبل ہی پڑتا ہوں۔ سلطان میاں ! میں آپ سے سچائی کے ساتھ کہہ رہا ہوں اگر میری بھتیجی الیاسی میر اس قدر ساتھ نہیں دیتی تو میں کبھی کا ملک عدم کو پہنچ گیا ہوتا۔ وہ برابر پندرہ سولہ سال سے میری پریشانیوں میں شریک ہے۔ ‘‘

’’ شاد صاحب! ‘‘ میں نے کہا۔ ’’ آپ کی زندگی واقعی بڑی پہلو دار ہے، آپ نے بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں مجھے اس کا بھی کسی قدر علم ہے لیکن مجھے یہ کہنے دیجیے کہ آپ کے فن کو جِلا ان مصائب نے ہی بخشی ہے۔ فن کار کا فن جب ہی جِلا پاتا ہے جب وہ معاشرے کی بھٹی میں تپ چکا ہو،  نئی نئی راہیں تب ہی سامنے آتی ہیں، جب دنیاوی معاملات کے سرد و گرم سے گزرا جاتا ہے۔ شخصیت میں اتار چڑھاؤ پیدا ہونے کے بعد ہی شخصیت بنتی ہے۔ آپ ان تمام معاملات سے گزر چکے ہیں۔ اس لیے آپ کی شخصیت بہت ہی پہلو دار ہے، لیکن آپ کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد جہاں ماحول سے بیزاری کا ثبوت ملتا ہے، وہیں ایسی چیزیں بھی ملتی ہیں جہاں آپ کو پیار کرنے کو دل چاہتا ہے۔ یہ فرق کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ ضرور ہے کہ آپ کے ساتھ سماج نے برا سلوک کیا ہے اور اسی وجہ سے آپ کی گفتار اور اشعار میں تلخی بھی پیدا ہوئی لیکن آپ کی ابتدائی شاعری کو دیکھنے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت ابتداء سے اس قسم کی بن گئی تھی۔ ‘‘

’’ سلطان صاحب! آپ کا سوال کچھ الجھا ہوا ہے۔ اس کے کئی پہلو ہیں۔ تاہم میں اس کے آخری حصے کو مَس کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا یہ خیال بالکل صحیح ہے۔ میری شاعری جس ماحول میں پروان چڑھی وہ گھُٹا ہوا ماحول تھا اور میں اس گھٹن سے بیزار تھا۔ کھُلی آب و ہوا پسند کرنے والا، گھٹے ہوئے ماحول میں رہنا کیسے پسند کر سکتا ہے۔ اس لیے میں نے بھی اس ماحول سے بیزاری کا اظہار کیا۔ چاپلوسی مجھے قطعی پسند نہیں۔ میں نے اپنے ایک شعر میں اس طرف اس طرح اشارہ کیا ہے :

اغیار کی فطرت ہی ’’ درست‘‘ اور ’’ بجا ‘‘ ہے

اور ہم سے غلط بات پہ ’’ جی ہاں ‘‘ نہیں ہوتا

میری ان ہی صاف بیانیوں نے لوگوں کو مجھ سے بد ظن کر دیا ہے۔ میں حقیقتوں کو بے نقاب کر دیتا ہوں۔ لوگ منہ بناتے رہیں، بنائیں، میں کیوں ڈروں ؟ لوگوں نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ میرے پڑوس میں کچی شراب بکتی تھی۔ میں اس ماحول کو پسند نہیں کرتا تھا۔ میں نے اس ماحول سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے نظم لکھ دی:

مرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے !

’’ جب دوسرے محلے میں گیا، وہاں کے لوگوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس محلے میں بعض شیطان سیرت فرشتہ صورت انسان رہتے ہیں جن کے گھرانوں سے ’’ فیض عام‘‘ جاری تھا، گناہوں کی دوکانداری’’ کالے برقعوں ‘‘ کی آڑ میں جاری تھی۔ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ میں نے کہہ دیا:

مرے محلے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری

سلطان ! میں کیا آنکھیں بند کر لوں۔ دل کو کیوں کر مجبور کروں، قلم کا گلا حقیقت کے اظہار پر کیوں گھوٹوں ؟ میرے بھتیجے نے اپنی بیوی اور ساس کے کہنے میں آ کر میرے ساتھ بدسلوکی کی، میں نے اس کو بھی نہیں بخشا:’’ زن مرید شوہر‘‘ میں تمام بخار نکال ڈالا۔ ‘‘

’’ شاد صاحب! مجھے یہ تمام باتیں تسلیم۔ یہ بھی تسلیم کہ آپ نے کسی بھی واقعہ کے اظہار سے گریز اختیار کیا ہو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی کچھ دیر پہلے سوال کیا تھا کہ آپ کے فن کا مطالعہ کرنے کے بعد جہاں ماحول سے بیزاری کے ثبوت ملتے ہیں وہیں ایسے اشارے بھی ملتے ہیں کہ آپ کو پیار کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں اس کو سیدھے سادے الفاظ میں یوں واضح کر دوں، آپ کے مجموعے ’’ سماج ‘‘ کی بعض نظمیں دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے جنسِ لطیف سے محبت ضرور کی ہے، کیا میرا یہ خیال صحیح ہے ؟‘‘

’’ بھائی یہ قصہ بہت طویل ہے، پھر اس کو چھیڑنے سے کوئی نتیجہ بھی نہیں۔ کیا فائدہ اپنی رسوائی کے ساتھ دوسرے کی رسوائی کا سامان بھی مہیا کر دیا جائے۔ میں نے آج تک اگرچہ حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے، یہی نہیں کہ دوسروں پر نکتہ جینی کی ہو یا ان کے ’’ پس پردہ‘‘ کا حال معلوم کیا ہو بلکہ اپنی بھی بہت سی حقیقتوں سے پردہ اُٹھا دیا ہے لیکن آدمی کی بعض کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اُن کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا اس لیے اگر اس قصے کو نہ چھیڑو تو اچھا ہے۔ ‘‘

’’ تو شاد صاحب! اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ جرأت گفتار تو رکھتے ہیں لیکن اظہار واقعہ کی جرأت غالباً نہیں رکھتے۔ یہ کیا بات ہوئی؟ جب آپ دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں، دوسروں کے کمزور پہلو پس پردہ سے پیش پردہ فرمانے سے گریز نہیں کرتے تو پھر آپ میں اتنی جرأت بھی ہونی چاہیے کہ اپنے کمزور پہلوؤں کو بھی ظاہر کر سکیں۔ ‘‘

’’ سلطان، اس پہلو کو چھپانے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نخواستہ میں یہ خطرہ محسوس کر رہا ہوں کہ میرے دشمن مجھے اس پہلو سے بدنام کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ میرے دشمن تو اس معاملے میں بہت پہلے مجھے کافی بدنام کر چکے ہیں۔ کہاں تک بتاؤں۔ میرا تو دل پھُنکا ہوا ہے تم نہیں مانتے تو لو سُن لو، ان لوگوں کی کارستانیوں کے دو ایک ذکر۔ پھر میں تمھیں جنسِ لطیف سے محبت کی کہانی بھی سنا دوں گا۔

’’ میرے دشمنوں نے جب یہ دیکھا کہ شادؔ عارفی اب شاعری کے میدان میں تو اُن کے بس کا نہیں تو انھوں نے آپس میں مِسکوٹ کر کے یہ طے کیا کہ شادؔ عارفی کی ٹیوشنوں پر ہاتھ صاف کیا جائے تاکہ وہ بھوکا مرنے لگے اور اُنکے ہاتھ پیر جوڑے۔ یہ طے کرنے کے بعد ان لوگوں نے پتہ چلایا کہ شادؔ عارفی کہاں کہاں پڑھاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کا پہلا حربہ یہ تھا کہ میں ایک محلہ میں ایک لڑکی کو پڑھانے جاتا تھا جو خورشید گرلز اسکول میں پڑھتی تھی۔ یارانِ خوں آشام نے بدنام کرنے کے لیے یہ چال چلی کہ خط پر خط اور تحفے مثلاً رومال وغیرہ اس لڑکی کو بھیجنا شروع کیے۔ ان تحفوں کے ساتھ جو خط یا پرچہ ہوتا اس پر واضح حرفوں میں شادؔ عارفی لکھ دیتے۔ ایسا اس وجہ سے کیا جاتا کہ خورشید گرلس اسکول کی ہیڈ مسٹرس ( جو ناصر مسعود صاحب کونسل سکریٹری کی بیوی تھیں ) شاد عارفی کا نام دیکھ کر خط کھول کر دیکھ لیں اور اپنے شوہر سے شکایت کر کے شاد عارفی کو اسٹیٹ پریس کی ملازمت سے علیحدہ کرا دیں۔ لیکن قدرت جس کو با عزت رکھنا پسند کرے اس کو بے عزت کون کر سکتا ہے۔ با الفاظِ دیگر کبیرؔ کے الفاظ میں :

’’ جا کو راکھے سائیاں، مار سکے نا کوئے ‘‘

ذلت کا منہ حریفوں کو دیکھنا پڑا۔ اس کے بعد ان روباہ خصلت انسان نما حیوانوں نے شادؔ عارفی پر ایک بھرپور وار اور کیا۔ اب کے حملہ سخت تھا۔ چال یہ چلی گئی کہ رامپور میں مارچ کے مہینے میں نمائش لگتی ہے وہاں سے کچھ رومال خریدے گئے، ان کو کڑھوایا گیا۔ رومالوں پر نام شادؔ عارفی لکھوایا گیا، دوکاندار سے کیش میمو  شادؔ عارفی کے نام کا لیا گیا۔ پھر خط لکھا گیا کہ میں آپ کی لڑکی سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ میرا اس کے بغیر برا حال ہے، محبت کی نشانی کے بطور یہ رومال بھیج رہا ہوں، کیش میمو بھی حاضر ہے تحقیق و تفتیش ہوئی، مگر معلوم نہیں کون سی نیکی کام آ گئی، بال بال بچ گیا۔ یہ باتیں میں نے اس وجہ سے بتلا دیں تاکہ آپ کو میری زندگی اور شخصیت کی الجھنوں کا کچھ اندازہ ہو جائے اور مزید کچھ روشنی پڑ جائے۔ اب میں آپ کے سوال کی روشنی میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ میں نے جنسِ لطیف سے محبت ضرور کی ہے اور ایک بار نہیں، دو بار۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پیشتر اپنے مشاہدات اور نظریۂ محبت کی بابت بھی کچھ ظاہر کرتا چلوں۔

’’ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ محبت صرف ایک بار ہوتی ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ محبت دو اور چار مرتبہ بھی ہو سکتی ہے اور اسی شدت کے ساتھ جیسی پہلی محبت میں پائی جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ ان محبتوں میں خباثت اور گندگی شامل نہیں ہونا چاہیے۔ محبوبہ کے صرف ہاتھ چومنے تک معاملہ رہے تو محبت کی پاکیزگی میں فرق نہیں آتا۔ بوسہ بظاہر کوئی بھاری لغزش نہیں مگر میں احترامِ حسن اور محبت کی پاکیزگی کے تحت اسے بھی روا نہیں سمجھتا کیونکہ اس کے بعد ’’لے ‘‘آگے بڑھتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی نشہ ایک ہفتہ بعد ایک مقدار سے نہیں رہ سکتا، اس لیے افیون کھانے اور بھنگ شراب پینے والے مقدار میں ( کیفیت پیدا کرنے کے لیے ) اضافہ کرتے ہیں۔ یونہی بوسہ کے بعد خواہشات حیوانی آگے بڑھتی ہیں اس لیے بوسہ میرے مذہب میں عین کفر ہے۔ میں نے اپنی غزل کے ایک مطلع میں اس خیال کا اظہار اس طرح کیا ہے :

احترام جلوہ چینی یہ بھی کچھ تھوڑا نہیں

آنکھ نے جس پھول کو دیکھا اُسے توڑا نہیں

اس خیال کو ایک دوسری غزل کے مطلع میں اس طرح کہا:

عشق بانہیں مروڑنے میں نہیں

شاعری پھول توڑنے میں نہیں

پہلی محبت مجھے اپنے خاندان کے ایک دور کی رشتہ دار لڑکی سے ہوئی۔ یہ محبت ساتھ کھیلنے سے ( بلوغت سے قبل) پیدا ہوئی اور دس برس تک چلتی رہی لیکن میری تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی شادی دوسری جگہ ہوئی۔ لڑکی کا خاندان اپنی خامی کی وجہ سے ذرا حقیر تھا، میل جول ضرور تھا لیکن یہ شادی ممنوعِ خاندان تھی۔ اس ناکامی کا ذہن پر برا اثر پڑا۔ تین سال تک دیوانگی طاری رہی۔ اس ناکامی کے نتیجے میں کئی غزلیں اور کئی نظمیں کہیں۔ میری نظم ’’ فسانۂ ناتمام‘‘ جو میرے مجموعہ ’’ سماج‘‘ میں شامل ہے اور اسی ذیل میں دوسری نظم’’ سماج‘‘ ( جو مجموعہ کا نا م بھی ہے ) یہ دونوں نظمیں محبت کی ناکامی پر بہت کافی روشنی ڈال رہی ہیں۔ میری پہلی محبت جو ساتھ کھیلنے سے شروع ہوئی تھی اس کا عکس اپنے اس مقطع میں بھی پیش کر دیا ہے :

’’ ساتھ کھیلے ‘‘ کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں

جب اس پہلی محبت نے میرا برا حال کر دیا تو میں نے اپنے استاد حکیم عمّی میاں سے اس کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ مشورہ دیا کہ میں کسی دوسری جگہ محبت کرنے کی کوشش کروں۔ مگر زبردستی کی محبت کس طرح ممکن تھی؟میرے خاندان میں اگرچہ تین چار قبول صورت لڑکیاں موجود تھیں، میں اگر چاہتا تو میری شادی ہو سکتی تھی لیکن دل پر تو وہ حاوی ہو چکی تھی۔ کوئی دوسری صورت ہی نظر میں نہیں جچتی تھی۔ جب کوشش کے باوجود دوسری جگہ دل نہیں لگ سکا تو دوبارہ حکیم عمی میاں ( مرحوم) سے عرض کیا انھوں نے کہا تم پتنگ بازی بھی تو کرتے تھے، اب ڈوب کر پتنگ بازی شروع کر دو۔ عمّی میاں کے اس مشورے کے بعد پتنگ بازی شروع کی۔ پتنگ کے پیچ لڑانے کے لیے کبھی ’’ بتو رسہ کا میدان‘‘ کبھی’’ کوسی کا ڈبرا‘‘ کبھی ’’ پجایا‘‘ (پژاوہ) تک جا کر پتنگ کے پیچ لڑائے یہاں تک کہ ’’ ماسٹر پتنگ باز‘‘ مشہور ہوا۔ یہ شغل تین سال تک چلتا رہا۔ ذیلی طور پر کبوتر بازی کا شوق بھی شروع کر دیا تھا۔ ان مشاغل نے کافی غم غلط کیا۔ ادھر ٹیوشنوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ایک دن اپنے محلے میں اپنی ایک ٹیوشن پر جا رہا تھا۔ سامنے کے مکان سے ایک لڑکی نکل کر پاس سے گزری۔ اس کے لیے دل میں کچھ کشش پیدا ہوئی۔ اب جب بھی روزانہ اس گلی میں جاتا۔ اس سے مڈبھیڑ ضرور ہو جاتی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس لڑکی کے والد نے بحیثیت ٹیچر ملازم رکھ لیا۔ اب دوری کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ درس ادب کے ساتھ ہی ساتھ درسِ عشق بھی چلنے لگا لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ محبوبہ کے ہاتھ چومنے تک۔ بوسہ کی نوبت کبھی نہیں آئی کیونکہ اس کو میں ’’ عین کفر‘‘ تصور کرتا ہوں۔ غرض کہ یہ سلسلہ چلتے چلتے اب اس منزل تک پہنچ گیا تھا کہ لڑکی میرے ساتھ بھاگنے تک پر آمادہ تھی۔ میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔ ’’ شاد صاحب! اس کے کیا اسباب تھے ؟کیا آپ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتے تھے یا اور کوئی بات تھی۔ ؟‘‘

کہنے لگے۔ ’’ بات در اصل یہ تھی کہ اس لڑکی کے باپ بھائی کے اخلاق سے میں متاثر تھا۔ ( اس لڑکی کے ایک عزیز نے مجھے اس قدر قریب دیکھ کراس کے باپ اور بھائی سے کہا تھا تم نے ایک مسلمان کو اس قدر قریب کر لیا ہے جب یہ تمھاری لڑکیوں میں سے کسی کو لے بھاگے گاتواس غلطی پر تمھیں افسوس ہو گا) ان لوگوں نے جواب دیا تھا تمھارا یہ خیال غلط ہے۔ شادؔ عارفی شریف آدمی ہے وہ ایسی ذلیل حرکت کبھی نہیں کر سکتا۔ در اصل اپنی شرافت سے زیادہ ایک مسلمان کے کردار پر دھبہ آتا تھا، اس وجہ سے اس لڑکی کی خواہش کا احترام نہیں کر سکا۔ اس لڑکی کی شادی کو اگرچہ ایک مدّت گزر گئی ہے لیکن محبت کا ڈور ا آج تک چل رہا ہے، وہ منقطع نہیں ہوا ہے۔ میری پہلی محبوبہ بھی ابھی تک بقید حیات ہے۔ وہ بھی میری عزت کرتی ہے، میرا کلام پڑھتی ہے، خوش ہوتی ہے کیونکہ اس کی تصویر میرے کلام میں ملتی ہے۔ ‘‘

’’شادؔ صاحب! آپ کی زندگی بھی عجیب زندگی ہے۔ کہیں سماج نے روڑے اٹکائے اور کہیں آپ کی بلند کرداری مانع آئی۔ غرض کہ آپ جنسِ لطیف کی حقیقی محبت سے غالباً آشنا نہیں ہوسکے۔ ‘‘

’’ نہیں ایسا تو نہیں ہوا۔ کیونکہ چالیس سال کی عمر میں میں نے والدہ کے آنکھوں سے مجبور ہو جانے کے بعد شادی بھی کی تھی اور وہ عورت مجھے واقعی جان و دل سے عزیز تھی لیکن وہ صرف ڈیڑھ سال زندہ رہ سکی اور اس کے بعد مجھے اس خار زار میں یکہ و تنہا چھوڑ کی رخصت ہو گئی۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ میں ایک ناکام انسان ہوں، میری مایوسیوں کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں، لیکن میں مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی غلط بات نہیں کی، کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔ محبت ضرور کی ہے۔ سماج چاہے اس کو برا سمجھے یا اچھا، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ میرا اپنا ذاتی فعل اور فیصلہ ہے۔ اس ذیل میں سماج اپنی رائے کا جس طرح اظہار کرنا چاہے کرے۔

’’ باتوں کی رو میں یہ بتانا بھولے جاتا ہوں کہ پہلی محبت کے مقابلے میں اس محبت نے مجھے زیادہ نظمیں دیں ’’ گنگا اشنان‘‘، دسہرہ اشنان‘‘، ’’ ہولی‘‘، ’’ دیوالی‘‘، ’’ واپسی‘‘ سب اسی محبت کے سلسلے کی کڑیاں ملاتی ہیں۔ ان نظموں کے علاوہ غزلوں کے متفرق اشعار میں بھی اس معاشقے کی جھلکیاں ملتی ہیں، کہیں کہیں صحیح نام بھی دے دیا ہے۔ زیادہ تر فرضی نام ’’ نجمہ‘‘ نظم کیا، اسی نام کے ذریعہ اُس تک اپنے جذبات پہنچائے ہیں۔

’’ یہ ہے میری ناکام محبتوں کی داستان جس کو جتنا بھی چاہو دراز تر کر لو۔ سلطان میاں یہ چند واقعات ہیں میری زندگی کی کہانی کے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو ذہن میں دبے پڑے ہیں اور شاید اسی طرح دبے ہی پڑے رہیں گے کیوں کہ اب زندگی کا بھی کیا بھروسہ ہے۔

’’ مذکورہ بالا حالات میں آخر میں کسی پر شک و شبہ کرتا ہوں تو کیا گناہ کرتا ہوں۔ لوگوں نے مجھے اس قدر دھوکے دیے ہیں کہ اب میں ان کے سائے سے بھی گھبراتا ہوں۔ مجھ پر اس قدر ستم توڑے گئے ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ دولت مجھے نہیں چاہئے نہ جھوٹی عزت اور شہرت۔ لیکن سچی عزت اور خلوص کا بھوکا ہوں اس کو چاہتا ہوں۔ لیکن مجھے کوئی آدمی نہیں ملتا۔ جو خلوص دے سکے، سچی محبت دے سکے۔ جو بھی ملا مطلب کا بندہ ملا۔ میرے شاگرد تو مطلب کے بندے بھی نہیں وہ تو بندۂ خدا۱؎ نکلے۔ میرے دشمنوں نے مجھے ہر طرح ناکام و نا مراد کرانے کی کوششیں کیں مگر ہمیشہ منھ کی کھاتے رہے، میں نے ہمیشہ منہ توڑ جواب دیئے۔ دشمنوں کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا اگر میرے دشمن میرے ساتھ اس طرح دعا نہ کرتے مکر و فریب کے جال نہ پھیلاتے۔ مجھے ذہنی چرکے نہ دیتے تومیں اس مقام کو کبھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ زلف کو زنجیر کہتا ہوتا، محبوب کی کمر تلاش کرتا ہوتا، غرض کہ اگلی وحشتوں میں مبتلا ہوتا۔ یہ تمام کچھ ان دشمنوں کی دشمن نما دوستی کا نتیجہ ہے۔ میرے دشمن اگرچہ اب ہار چکے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ تھکے ہوئے راہی کی طرح بیٹھے ہیں، میں منزل کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتا جا رہا ہوں۔ اب منزل کچھ زیادہ دور نہیں، میں جلد ہی اپنی منزل پا لوں گا۔ وہ منزل جو حقیقی منزل ہے۔ خدا میرا خاتمہ بخیر کرے۔ آمین!‘‘

٭٭٭

۱؎ شاد صاحب کو بمبئی سے ایک صاحب نے اطلاع دی تھی کہ اُن کا ایک شاگرد بمبئی کے کچھ اخبارات میں ’’ بندۂ عبد اللہ‘‘ کے فرضی نام سے ان کے خلاف مضامین لکھتا رہا ہے۔ (س ا)

 

 

 

                ایم پاشا

 

 

بٹن کا چاقو

 

اپنے بعض ادیب دوستوں کے پے در پے تقاضوں سے تنگ آ کر شادؔ عارفی کا کیریکٹر اسکیچ لکھنے بیٹھا ہوں مگر لطف کی بات یہ ہے کہ میں ان شادؔ عارفی کو بالکل نہیں جانتا جن کا مجھے کیریکٹر اسکیچ لکھنا ہے۔

اگر شخصیت ایک ہو اور واقعات بہت سے تو ایک افسانہ نگار کے لیے ان واقعات کی صحیح کڑیاں ملانا بہت مشکل بات نہیں ہاں البتہ جب شخصیتیں بہت ہوں اور واقعات سرے سے آخر تک وہی تو بڑی الجھن پیدا ہو جاتی ہے اور افسانہ نگار اپنے اندر انتہائی یکسوئی اور اطمینان پیدا کر لینے کے باوجود بھی چکرا جاتا ہے۔ چنانچہ جب اپنے ذہن کی افسردگی اور بے اطمینانی کو قدرے کم کر کے شادؔ عارفی کے بارے میں غور کرتا ہوں تو لا تعداد شادؔ عارفی نہ جانے کہاں سے میرے ذہن میں سمٹ آتے ہیں، کبھی وہ شادؔ عارفی جو ہند و پاک کے عظیم طنز نگار اور صاحبِ طرز شاعر ہیں اور جنھوں نے لکھنا شروع کیا تو ایشیا پبلشرز والوں کی ’’ آزاد نظم‘‘ کے مطابق درباروں میں زلزلے آ گئے۔ مسندوں میں آگ لگ گئی اور خواجگی نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ان بڑے میاں پر کچھ لکھنا اپنے بس کی بات نہیں جو شاعر تو کیا ایک اچھے خاصے آتش فشاں انسان ہیں۔ کبھی وہ شادؔ عارفی جو معمولی کھانے پینے سے نبٹنے کے بعد بقیہ روٹی کے ٹکڑے اپنے ارد گرد بیٹھی ہوئی چڑیوں کو کھلا رہے ہیں اور چہرے پر ایک انجانے جذبہ کے تحت روشنی اور نور ہے۔ کبھی وہ شادؔ عارفی جو ادبی مسائل کا بڑی دلچسپی اور اعتماد کے لہجہ میں حل پیش کر رہے ہیں اور یہ محسوس تک نہیں ہونے دیتے کہ ادبی مسائل کو حل کرنے کے لیے ذہن کی بھی کوئی قوت استعمال کی جاتی ہے یا آدمی صرف چابی کے ذریعہ بولتا رہتا ہے اور کبھی وہ شادؔ عارفی جو اپنے بے تکے ملاقاتیوں کی زبانی محلہ اور شہر کے غیر ادبی واقعات سن کر ان واقعات سے متعلق کرداروں کو یہ موٹی موٹی بغیر ردیف قافیے کی گالیاں دے رہے ہیں اور مطمئن ہیں۔ کبھی وہ شادؔ عارفی جو مسلسل قہقہے لگانا جانتے ہیں اور کبھی وہ شادؔ عارفی جو ہٹ دھرم ہیں کبوتر باز پتنگ باز، لڈّن ماموں، پاپا، احمد علی خاں، ہوّا اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ میں تمام شادؔ عارفیوں کو مخاطب کر کے جب آہستہ سے یہ کہتا ہوں آپ لوگوں میں سے مجھے صرف وہ شاد عارفی چاہئیں جن کا مجھے کیریکٹر ساسکیچ لکھنا ہے۔ باقیوں کی مجھے فی الحال کوئی ضرورت نہیں تو سب کے سب بغیر ایک لفظ کہے اور ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے تیزی سے میرے ذہن سے باہر چلے جاتے ہیں اور جب میں دوبارہ التجا کرتا ہوں تو شادؔ عارفیوں کی لمبی چوڑی قطار۔ وہی ہم صورت شادؔ عارفیوں کا سلسلہ، اللہ رے یک جہتی اور اتحاد۔ دیکھو تو سب کو، سوچو تو سب کے بارے میں ورنہ سب چلے۔ بہر حال آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ کے شادؔ عارفی کے نقوش کہاں کہاں ابھرے ہیں میں تو تھک چکا۔

بہت دنوں کی غالباً ۱۹۵۰ء کی بات ہے کہ میں نے ڈان اسٹوڈیو کے باہر ایک اسٹول پر بیٹھ کر نہ جانے کیا سوچتے ہوئے ایک دُبلے پتلے اور مختصر سے آدمی کو دیکھا جو گرم پاجامہ قمیص، جواہر کوٹ اور ٹوپی پہنے تھا اور جس کی پُر اسرار آنکھوں پر سستے سے فریم کا ایک چشمہ بھی چڑھا ہوا تھا۔ داڑھی مونچھیں سرے سے صاف اور اس طرح صاف گویا ’’ بال صفا چہرہ‘‘ ہے۔ میرا خیال تھا کہ اکثر دکانوں پر وقت گزاری کے لیے جو بے فکرے بیٹھ کر ہر آتے جاتے کی خام کاریوں پر تبصرے کر کے اپنے لیے جنت میں گھر بناتے رہتے ہیں، یہ والا شخص بھی ان میں سے کوئی ہو گا۔  چنانچہ بغیر سلام ولام کیے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اسٹوڈیو کے اندر گھس گیا۔ میرا ارادہ فوٹو بنوانے کا تھا اور اس فوٹو کے سلسلے میں اپنے ایک پائلٹ دوست سے کئی بار کافی چپ چپ قسم کی خط بازی بھی ہو چکی تھی۔ بہر حال میں کرسی پر جم کر بیٹھ گیا اور قریب تھا کہ فوٹو گرافر ریڈی کہتا کہ وہی باہر اسٹول پر بیٹھے ہوئے بڑے میاں آہستہ سے پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوئے۔ نزدیک کھڑے ہو کر مجھے سر سے پاؤں تک گھورا، یعنی میرا معائنہ کیا اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ’’ آپ کا پوز بہت عمدہ رہے گا لیکن ذرا اس ٹائی کو درست کر لیجیے۔ ‘‘ میں نے گھوم کر حقارت آلود نگاہوں سے ان کو دیکھا۔ ان کے ہونٹوں پر چپکی ہوئی مخصوص مسکرہٹ اور مسکراہٹ میں چھپے ہوئے گہرے طنز کو دیکھا اور مجھے یہ بھی ڈر لگا کہ اگر میں چپ رہا تو بہت ممکن ہے یہ بڑے میاں مجھے اناڑی سمجھ کر مجھ سے کہہ بیٹھیں ’’ آ پ کا یہ پوز بہت عمدہ رہے گا اگر آپ اپنی قمیص اتار کر سر سے لپیٹ لیں ‘‘۔ ’’ آپ کا پوز بہت عمدہ رہے گا اگر آپ اپنے بال برابر کے سیلون میں منڈوا آئیں ‘‘۔ ’’ آپ کا پوز بہت عمدہ رہے گا اگر آپ اسٹوڈیو کے اندر ناچنا شروع کر دیں۔ ‘‘ وغیرہ۔ چنانچہ میں نے غرّانے اور بولنے کے ملے جلے لہجہ میں جواب دیا ’’ چچا میاں ذرا قریب آ کر اپنے مبارک ہاتھوں سے اس مانگے کی ٹائی کو درست کر دیجیے۔ ‘‘ چچا میاں میرا جواب سن کر مسکرائے۔ پھر سنجیدہ ہو گئے پھر مسکرائے اور پھر جلدی سے آگے بڑھ کر بڑے مشفقانہ انداز سے ٹائی کو ہلانے جلانے لگے۔

اس کے بعد، اور شاید چار سال بعد فروغ اردو کے سالانہ اجتماع میں میں نے ڈائس کے قریب اعصابی کمزور ی کی بنا پر سردی سے کپکپاتے ہوئے ان ہی چچا میاں کو بہ حیثیت شادؔ عارفی کے دوبارہ دیکھا۔ ان دنوں وہ کچھ بیمار بھی تھے اور محض کچھ لوگوں کی دل جوئی اور ادبی جلسہ ہونے کی وجہ سے چار و ناچار چلے آئے تھے۔ مجھ پر شاد صاحب کی تواضع کا فرض صرف اس لیے عائد نہیں ہو رہا تھا کہ وہ میرے نظریے کے ما تحت ایک عظیم شاعر تھے بلکہ بحیثیت سکریٹری بھی مجھے اُن کی تکالیف کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ لہٰذا ڈرتے ڈرتے چادر لے کر ان کے قریب گیا اور وہ چادر اڑھا دی یا دوسرے اور سیدھے سادے الفاظ میں ان پر پھینک دی اس قدر کپکپاہٹ اور علالت کے باوجود انھوں نے اپنے مخصوص انداز کا شکریہ ادا کر ہی دیا۔ جلسہ کے خاتمہ پر جب شادؔ صاحب اپنے گھر جانے کے لیے رکشا پر سوار ہونے لگے تو ورکنگ باڈی کے کچھ ممبران نے مجھ سے تقاضے کرنا شروع کیے کہ میں کم از کم شاد صاحب سے ہاتھ ملاؤں کیونکہ انھوں نے تنظیم اور میرا افسانہ سننے کے بعد مستقبل کے بارے میں کئی پیشین گوئیاں کی ہیں اور کافی متاثر ہوئے ہیں لیکن کیونکہ میں شادؔ صاحب کا شکریہ سننے کے بعد والی کیفیت پر دوسرے کسی جذبہ کو اس وقت تک حاوی نہیں کر پایا تھا اس لیے ایک آدھ منٹ تک ہاں ہوں کرتا رہا بالآخر مجھے شادؔ صاحب کے پاس جانا پڑا اور یہ دیکھ کر بڑی کوفت ہوئی کہ اس وقت شادؔ صاحب کے جملوں میں طنز اور ہمت شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی اور ہمدردانہ جذبات کار فرما تھے۔

پھر یوں ہوا کہ اجتماع کے بعد اور ہفتوں بعد جمیل اختر مجھے کھینچ کر شادؔ صاحب کے مکان تک لے گیا، جو میرے مکان سے کافی دور اور خود مجھ سے بہت نزدیک ہے۔

ادھر مقامی گھاسلیٹ قسم کے شاعروں کا ایک گروپ اور وہ اڈیٹر جو ہاتھ پاؤں چلا کر معیاری اور غیر معیاری رسائل کے اڈیٹر بنے ہیں اور پچھتر فی صدی چغد ہیں، شاد صاحب کو ٹنّی، ہٹ دھرم اور بہت جلد نروس ہو جانے والا شاعر سمجھتے ہیں اس کی وجہ چاہے یہ ہو کہ شادؔ صاحب نے کبھی بڑی سے بڑی طاغوتی طاقت کے سامنے بھی اس لیے سر نہیں جھکایا کہ ان کے اس رویے سے ان کے فن کی آسودگی اور حسن ختم ہو جاتا اور وہ ’’ آپ کی تعریف‘‘، ’’ مہترانی‘‘  ’’شوفر‘‘، ’’ پرانا قلعہ‘‘ اور ایسی ہی لا تعداد شہکار نظمیں ہر گز ہرگز تخلیق نہیں کر پاتے اور چاہے یہ کہ وہ موجودہ دور کے بیشتر شاعروں کی طرح کسی ایسے گروپ سے وابستہ نہیں جہاں جھک مارنا بھی فرمانے میں ہو مگر مجھے شادؔ صاحب کے ٹنّی اور ہٹ دھرم ہونے پر ہمیشہ سے نہیں تو دو چار سال پیچھے سے ضرور اعتراض رہا ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ اگر ان کے سامنے بیٹھ کر کوئی شخص خود اپنے متعلق یہ کہے کہ وہ ٹنّی، ہٹ دھرم اور بہت جلد نروس ہو جانے والا شخص ہے تو شادؔ عارفی بڑے خلوص سے اس کی پیٹھ میں ٹھونگا مار کر کہہ دیں گے ’’ جاؤ بڑے میاں اپنے گھر کی راہ پکڑو یہاں منہ کا مزا خراب کرنے کیوں چلے آئے ؟‘‘

وہ غصہ اور جھنجھلاہٹ کے بالکل قائل نہیں۔ ان کو آسودہ قہقہوں سے پیار ہے۔ یہ ان لوگوں کا شادؔ پر انتہائی ظلم ہے جو ان کے حالات احساسات اور مزاج کو سمجھے بغیر کسی ایک واقعہ سے متاثر ہو کر ان کے خلاف سرگوشیاں شروع کر دیتے ہیں اور ان کی یہی سر گوشیاں غیر اہم واقعات کو اہم بنا دیتی ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ شادؔ عارفی کی خفگی ہر حال میں جائز ہی ہوتی ہے ممکن ہے وہ دوسروں کے کہنے سننے یا محض غلط قیاسات کی بنا پر کسی مخصوص شخص کے بارے میں اپنے رویے یکبارگی بدل لیتے ہوں لیکن احساسات کی شدت اور کمی شاعر کی نفسیاتی کسوٹی ہے جس پر اس کا فن، اس کی زندگی اور اس کا مستقبل پرکھا جاتا ہے۔ غیر حساس شخص کبھی بھی بڑا شاعر اور بڑا ادیب نہیں بن سکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم متاثر ہو کر کسی فقرے یا کسی سازش کو محسوس تو کر لیں مگر مصلحت  اور دور اندیشی کے ما تحت اپنے حریف کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی راہ میں کیلے کے چھلکے بچھا دیں تاکہ وہ شخص جب ان پر سے گزرے تو اس کا پاؤں پھسل جائے۔ جب پاؤں پھسلے تو وہ دھڑام سے گرے، جب وہ دھڑام سے گرے تو لوگ اس پر ہنسیں اور جب لوگ اس پر ہنسیں تو وہ شرمندہ ہو اور ہم سامنے آ کر اس سے کہیں ’’ میں نے کہا نمستے شریمان جی!‘‘ مگر معاف کیجیے ایسے تمام شاعروں کے لیے میرا حقیر مشورہ یہی ہے کہ اس طرح جھک مارنے کے بجائے اگر وہ پاکستان جا کر فلم انڈسٹری میں اپنی سی کوشش کریں تو اس سے وہاں کی فلم انڈسٹری کا بھی بھلا ہو جائے گا اور ان بے چاروں کی صحت بھی درست ہو جائے گی۔ شادؔ صاحب حساس ہیں اگر وہ حساس نہیں ہوتے اور ان کے دل میں کیلے کے چھلکے بچھا کر کسی شخص کو ذلیل کرنے کا جذبہ پیدا ہو سکتا تو وہ آج شادؔ عارفی کے بجائے رام پور کے بنے کچھوے ہوتے جس پر مضمون لکھ کر اپنا وقت ضائع کرنا کسی مسخرے کا کام تھا۔

خلیل الرحمن اعظمی نے ۱۴؍ جولائی ۱۹۵۶ء کے ایک خط میں شاد صاحب کو لکھا ہے :

’’ آپ سے مستقل خط و کتابت کی توفیق آج تک مجھے نہ ہو سکی اس تسایل کی وجہ میری اپنی کاہلی اور لا ابالی پن ہے جہاں تک آپ کی خیر و عافیت اور صحت و مشاغل کا تعلق ہے، اس کی اطلاع برابر ملتی رہتی ہے اور روزانہ کی صحبتوں میں آپ کی شاعری اور شاعری سے زیادہ شخصیت، تجربات و مشاہدات، بزرگانہ شفقت، دوست نوازی اور وسیع انسانی ہمدردی نیز بذلہ سنجی کا ذکر رہتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ آپ کے اقوالِ زریں سے لے کر گالی گلوج تک ہم لوگوں کے لیے تبرک کی حیثیت رکھتے ہیں، خط و کتابت کا سلسلہ ہوتا تو آپ سے استفادہ کرنے کا زیادہ موقع ملتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اب تک نہ سہی اب سے آپ اگر پسند کریں تو میرے خطوط کے جواب میں کچھ نہ کچھ لکھ دیا کریں۔

معرکۂ شادؔ کی پوری داستان مجھے معلوم ہے بہتر ہے کہ آپ اس سلسلہ میں اب بالکل خاموش ہو جائیں آپ اب اُن منزلوں میں ہیں جہاں عفو و در گزر رہی آپ کے شایانِ شان ہے اگرچہ آپ جیسے طنز نگار سے ہر وقت خدشہ لگا رہتا ہے لیکن مناسب یہی ہے کہ براہِ راست مخاطب کرنے کے بجائے ان تجربات و احساسات سے اپنے فن میں کام لیں تو مفید ہو گا۔ یہ لوگ ایک طرح سے شکریے کے مستحق ہیں کہ یہ آپ کو برابر حرکت و عمل کا پیغام دیتے رہتے ہیں۔ ‘‘

ٹنی اور ہٹ دھرم کی بات نکلی ہے تو دو ایک واقعے اور سنیے :

جن دنوں شادؔ صاحب اپنی، اپنی والدہ، اپنے بھانجے اور ( بھائی  کے مرنے کے بعد) اپنی بھابی اور ان کے بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی جد ا جہد کر رہے تھے ان ہی دنوں ان کی آستینوں میں کچھ ایسے سانپ بھی پیدا ہو گئے جو بہ ظاہر ان کے دوست مگر پس پردہ ایسی کارروائیوں میں مصروف تھے جن کے ذریعے شادؔ صاحب کا مثالی کردار تباہ ہو جائے اور وہ اخبار کی ملازمت سے بر طرف کر دیے جائیں۔ جس کے بعد ان کا چانس تھا چنانچہ سب سے پہلے ان کی ایک شاگردہ کے نام رومانی خط لکھ کر خورشید گرلز اسکول ( اب انٹر کالج) بھیجا گیا۔ جس میں شادؔ صاحب کی ایک نظم بھی شامل تھی۔ خوش قسمتی کہیے کہ رام پور کے ایک بڑے آفیسر کی بیگم ان دنوں خورشید گرلز اسکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں اور انھوں نے نہ صرف اپنے شوہر کی زبانی شادؔ عارفی صاحب کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا بلکہ ایک بار وہ خود بھی ان سے ملنے ان کے مکان پر آ چکی تھیں۔ جب وہ خط ان کے ہاتھوں میں پہنچا تو اسے لڑکی کو دینے کے بجائے اپنے شوہر کے لیے ایک تحفہ، ایک نئی چیز کے طور پر اسکول سے اپنے ساتھ لیتی آئیں۔ شوہر بھی کچھ نوٹ بک قسم کا واقع ہوا تھا، اس نے خط کو جیب میں رکھنے کے بعد آہستہ سے ’شی شی شت‘ کر دیا جس کا مطلب تھا بیگم نارنگی کی طرح ایک دم گول مٹول ہو جا ؤ اور شاد عارفی پر نگاہ رکھو۔ دوسرے دن، تیسرے دن، چوتھے دن، رومانی خط اسکول آتے رہے۔ بیگم گول مٹول رہیں، شاد صاحب اپنی شاگردہ کو پڑھاتے رہے اور اس بے چاری کو یہ بھی علم نہ ہوا کہ اس کے مولوی ٹائپ استاد زندگی کے بنیادی مسائل حل کرنے کی جد و جہد کر رہے ہیں۔ انھوں نے ڈیوٹی کو ہمیشہ ڈیوٹی سمجھا ہے اور اس ڈیوٹی کی خاطر انھوں نے جوشؔ ملیح آبادی کے رام پور آنے پر شعر و شاعری کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے اسے یہ بھی پتہ نہ چلا کہ اسکول کے پتے پر بہت سے خط اس کو بھجوائے جا چکے ہیں۔ اس کو کیا خود شاد صاحب کو بھی اس وقت پتہ چلا جب نارنگی کے چھلکے اُدھڑ چکے تھے۔

دوسرا حملہ اس سے بھی زیادہ خطرناک تھا کیونکہ اس بار گرلز اسکول کی طالبہ اور دوسری اغیرہ وغیرہ وغیرہ قسم کی عورتوں کے بجائے ایک بہت بڑے مہاشے کی بیٹی کو زد میں لے آیا تھا جس کی آنکھیں بند کرنے کا مطلب، شاد عارفی کو جیل میں بند کر دو، بھی ہو سکتا تھا، بے چاری شاد عارفی سے اپنے معاشقہ کی اطلاع اور نمائش میں خریدے ہوئے رومالوں کی بابت یہ پڑھ کر بہت سٹ پٹائی کہ وہ اس کے محبوب شاد عارفی نے خریدے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے پاس علی گڑھ کی دکان کا کیش میمو نہیں۔ ساری مشنری حرکت میں آ گئی۔ کوتوال، تھانیدار، سی آئی ڈی کا عملہ شاد صاحب کو دبوچنے کے لیے اگلے پاؤں پھیلا کر دُم ہلا رہا ہے اور شاد صاحب معاملہ کی نوعیت سے لا علمی کی بنا پر دکانوں سے سودا سلف خریدتے پھر رہے ہیں۔ بہر حال دو چار دن کی مسلسل انکوائری کے بعد مہاشے بھی خود بخود سمجھ دار بن گئے اور اس بار بھی شاد صاحب کو اپنی پارسائی کا ڈھول نہیں پیٹنا پڑا ہاں البتہ ان کو اپنی آستینوں میں چھپے ہوئے سانپ ضرور دکھائی دے گئے جن کو انھوں نے باہر نکالتے ہوئے بڑے پیار سے کہا ’’ یار یہاں کیوں سہمے بیٹھے ہو تم کسی دوسرے کو بھی ٹٹولو نا۔ ہمیں ذرا تم سے ڈر لگنے لگا ہے۔ ‘‘

ایسے ہی ایک بار جب شاد صاحب نے لڑکوں کو پڑھانے کے لیے اپنے گھر پر ہی ایک چھوٹا سا اسکول قائم کر رکھا تھا اور ان کے اسکول میں نصیر تانگے والے سے لے کر افضل خاں زمیندار کے لڑکوں تک تمام اچھے برے طالب علم شامل ہو گئے تھے، کہ ایک صاحب نے کچھ عرصے تک دل بہلانے کے لیے شادؔ صاحب کے ایک خوبصورت شاگرد کو ٹانچ لیا لیکن کیوں کہ اس کی پشت پر اس کے دولت مند باپ کے علاوہ شادؔ صاحب ایسے گھاگھ ( بقول بیگم حماد عباسی) ماسٹر کا بھی ہاتھ تھا اور وہ یہ بھی سمجھ رہا تھا کہ اگر ماسٹر صاحب کو قلاقند کھلائے بغیر ہی اپنے پینتروں پر گھومنا شروع کر دیا تو ممکن ہے کہ پاؤں مونچ جائے اس لیے وہ صاحب صابن سے منہ ہاتھ دھو کر ماسٹر صاحب کے پاس ہندی کی ایک پستک کے ساتھ پڑھنے تشریف لے آئے لیکن اس احتیاط کے باوجود ماسٹر صاحب کو ان کے کٹے ہوئے سینگ دکھائی دے گئے اور وہ یہ بھی سمجھ گئے کہ یہ شخص پڑھنے پڑھانے کے ارادے سے نہیں، محض چھوٹا آ، بڑا آ، کرنے یہاں آ گیا ہے۔ وہ ایک لمحہ کے لیے پس و پیش میں مبتلا ہوئے، ان کے سکڑے ہوئے کان جھانکے، ہونٹوں سے ٹپکتی ہوئی رال دیکھی اور پھر کھکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’ ارے واہ استاد یہ کیوں نہیں کہتے کہ تمھاری پُستک کے نیچے غلیل بھی چھپی ہوئی ہے۔ جاؤ میاں کھیتوں میں جا کر پرند تاکو۔ یہاں تم غلّہ مار کر کسی کو زخمی کر دو گے اور مجھے زخم دیکھ کر خواہ مخواہ بخار آ جائے گا۔ ‘‘

شادؔ صاحب کی رومانی زندگی دو عورتوں سے وابستہ رہی ہے انھوں نے اپنی پہلی محبوبہ سے صرف اتنی سی بات پر ناراض ہو کر اپنے نو سال کے ذہنی تعلقات منقطع کر لیے تھے کہ ان کے پہنچنے پر وہ سوتی کیوں رہی۔ سونا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ ہر انسان دن کی مسلسل اور اکتا دینے والی مصروفیتوں کے بعد ایک فطری تقاضے کے زیر اثر رات میں سونے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر رات کے اس ابتدائی حصہ میں سونا ضرور مہا پاپ ہے جب ایک حساس عاشق اپنے گھر والوں کو مشاعرہ کی ٹیپ دے کر ہر روز باقاعدگی سے ملنے اس کے گھر پیدل آتا ہو۔ اس کے اس نخرے کا مطلب ایک خود دار شاعر ہی تو سمجھ سکتا ہے۔ ’’ بس اب دل بھر گیا تجھ سے ‘‘ یا دوسری صورت میں اگر شاعر معتدل مزاج اور گل و بلبل پر شعر فرمانے والا واقع ہوا ہے تو وہ اس ایک بات سے باتیں بنا ڈالتا بلکہ صبح تک اس کے برابر زمین پر بیٹھ کر اس کی بے نیازیوں کے شکوے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتا مگر یہاں تو معاملہ ہی بر عکس ہے یعنی ناک پر مکھی بیٹھی تو ناک ہی کاٹ ڈالی جائے۔

گنانے لگے آپ جن کی مثالیں یہ صبر و تحمل انھیں کو مبارک

جو توہینِ بزم طرب جھیل جائے مرے محترم وہ مرا دل نہیں ہے

اس لیے آپ اگٹے قدموں وہاں سے چلے آئے۔ اس حادثہ سے شادؔ صاحب کی زندگی میں ایک عجیب سا طوفان بھی امڈ آیا۔ لا اُبالیت، رونا، سسکنا، کبوتر بازی، پتنگ بازی اور نہ جانے کیا کیا ( شراب ہرگز نہیں۔ کاش نئی پود کے شاعر اختر شیرانی، جگر، میرا جی اور منٹو وغیرہ سے متاثر ہو کر شراب پینے کے بجائے شادؔ عارفی کی طرح ناریل اور گھی سے کھچڑیاں کھانا شروع کر دیں ) اور بات صرف اتنی تھی کہ وہ سوئی کیوں۔ اب تو آپ کو بھی یقین کر لینا چاہیے کہ شاد عارفی ٹنی ہٹ دھرم ہیں شادؔ صاحب بھی تو اسے اپنا ٹنی پن ہی سمجھتے ہیں۔ لیکن در اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ سوئی کیوں بلکہ بات یہاں سے چلتی ہے کہ وہ اپنی ماں کی ایک جذباتی لغزش کی وجہ سے اپنی ذات سے ہٹ کر ایک ایسی لڑکی بن گئی تھی جس کو شادؔ صاحب کی والدہ ہرگز پسند نہیں کرتی تھیں اور ان کی تمنا تھی کہ وہ اپنے لاڈلے کے لیے ایک سستی لڑکی کے بجائے محلوں کی ایسی شہزادی کو بیاہ کر لائیں گے جو ان کے مکان کو قہقہوں سے پاٹ دے جس کی موجودگی میں ان کو بجلی جلانے کی ضرورت نہ پڑے۔ شاد؎ صاحب کو اپنی ضعیف ماں کے ان ترقی پسندانہ رجحانات کا بخوبی علم تھا اور ان کی محبوبہ بھی اپنی خیالی ساس کی زبان سے ایسے کورے فقرے سن کر قطعی طور پر مایوس ہو چکی تھی۔ چنانچہ شادؔ صاحب کے سامنے اب صرف دو راہیں تھیں پہلی یہ کہ وہ اپنی ماں کے احساس کو ٹھیس لگا کر اپنی اس محبوبہ سے شادی کر لیں جس کو وہ نو سال سے مسلسل دلاسے دیتے رہے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ اپنی ماں کے ارمانوں کی خاطر اپنے مستقبل کا سنہرا فریم خود اپنے ہاتھوں سے توڑ کر اپنے آپ کو ماں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔

ان حالات نے شادؔ صاحب کو عجیب طرح کی الجھن میں مبتلا کر دیا تھا دوسری طرف ان کی محبوبہ تھی جس نے مایوس ہو کر اپنے رویوں میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں شروع کر دیں اور بات یہاں تک بڑھی کہ وہ ان کی اہمیت فراموش کر کے سونے کے مقررہ وقت سے پہلے بہت پہلے ہی سو گئی۔ شادؔ صاحب جو پہلے ہی ایک الجھن میں مبتلا تھے اپنے اندر سلگتے ہوئے احساسات کے سامنے اپنی کمزور محبوبہ کی اس اچانک بے نیازی سے جھلّا کر ایک دم پیچھے کی طرف پلٹ پڑے اور ان کے اس جذباتی فیصلے نے انھیں دوسری راہ پر چلنے کے ارادے اور اس سے وابستہ تلخ کامیوں سے خود بخود نجات دلا کر اپنی ماں کی خواہشات کے قدموں پر لا کھڑا کیا اور یہ بہر حال ان کی اپنی شکست تھی۔ اس طرح اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو آلام ورتھر اور شادؔ عارفی کی زندگیوں میں یہی فرق ملے گا کہ پہلا اپنی محبوبہ کے دل میں سوز و تپش اور جذب و انہماک نہ پا کر خود کشی کر بیٹھا جس نے اس کی اپنی زندگی کو ایک مستقل عذاب بنا رکھا تھا اور دوسرا ایک تعمیری پہلو لے کر طنز نگار کی حیثیت سے ادب کے لیے زندہ رہا۔ رہی دوسری محبوبہ تارا، اس کا تذکرہ اگرچہ شادؔ عارفی کی بعض نظموں میں جا بہ جا ملتا ہے مگر میں اس کے رومان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ تارا نے شادؔ عارفی کے لیے چاہے پاپڑ بیلے ہوں چاہے پوریاں، مگر مجھے یقین ہے کہ ان پاپڑوں اور پوریوں میں اس کے منہ سے ٹپکی ہوئی رال کا بھی کچھ حصہ ضرور شامل ہو گا۔ اس کے بعد شادؔ صاحب کی شادی ان کی ماں کی مرضی کے مطابق ایک ضلع دار صاحب کی بیٹی سے طے ہو گئی۔ آپ کے خُسر آپ سے ملنے یعنی اپنی گھر والی عورتوں کے بھیجنے پر اپنے ہونے والے داماد کا رنگ و روپ دیکھنے جب پریس تشریف لائے تو شادؔ نے اپنی ٹوپی کا اگلا حصہ ذرا پیچھے کر کے اپنے کچھ سفید بال دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’ دیکھیے میں اب بڈھا ہو چلا ہوں، سر کے بال بھی سفید ہونے لگے اس لیے خوب دیکھ کے اپنی بیٹی کی شادی رچائیے گا۔ ‘‘

میں یہ لکھنا بھول گیا تھا کہ شادی کے سلسلے میں شادؔ صاحب کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ ان کی دُلہن اُن سے اُنیس ہو اور اس کی تعلیم بھی معمولی ہو۔

شرط یہ تھی مری بیوی نہ ہو بی۔ اے نہ مڈل

گھر گرہستی میں کہاں جبر و مقالہ کی کھپت

شوربوں کے لیے بیکار سمندر کی نپت

نئی تعلیم کا منشا ہے کہ سونے پہ نِکل

لیکن بیوی میں دوسری جملہ حقوق قسم کی خوبیوں کے علاوہ دو خاص کوتاہیاں بھی موجود تھیں پہلی یہ کہ وہ شاد صاحب کے نزدیک محض بچی تھی اور دوسری اور آخری یہ کہ وہ مذہبی ماحول کی پروردہ ہونے کی وجہ سے ان دنوں ممتاز شیریں وغیرہ کے خطوط پر بُری طرح نظر رکھنے لگی حتیٰ کہ اس پر شادؔ صاحب کی مجنونیت کا راز بھی ان کی شریف بھابی صاحبہ کے ذریعہ فاش ہو گیا اور نتیجہ کے طور پر وہ شاد صاحب کی اس نگوڑی شاعری سے تنگ آ کر ان کو کسی طرح ممتاز شیریں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے لگی اور کوشش کرتے کرتے شادی سے ڈیڑھ دو سال بعد شادؔ صاحب کی تسکین کا آخری سہارا بھی ان سے چھن گیا۔ جس وقت بیوی کا جنازہ قبر میں اتارا جا رہا تھا تو پوسٹ مین نے ’’ ادب لطیف ‘‘ کا تازہ شمارہ ان کو لا کر دیا جس میں ان کی ایک نمائندہ نظم ’’ التوا سے اجراء تک‘‘ شامل تھی اور جس میں بیوی کا کردار بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا۔ شاید اسی لیے طاہرہ اختر نے بیوی کی موت کو شادؔ صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ کہا ہے اور درست ہی کہا ہے۔

سونے کے معاملہ میں شاد صاحب انگریزی اصول کے پابند ہیں ہاں البتہ جب کوئی مشاعرہ وغیرہ ہوتا ہے اور وہ مشاعرہ بھی مخالف گروپ کی ٹکر کا ہو ( واضح رہے کہ یہ مخالف گروپ، ان عوامی اور گھاسلیٹ شاعروں کا گروپ ہے جن میں سے کوئی ایک شاعر بھی شادؔ صاحب کے پلے کا تو کیا ان کے شاگردوں کے پلے کا بھی نہیں ہے مگر مخالف گروپ شادؔ صاحب کو اپنے برابر کا سمجھتا ہے اور شاد صاحب مخالف گروپ کی اہمیت کو نہ جانے کیوں تسلیم کرتے ہیں ) تو شادؔ صاحب کو رات بھر جاگنے میں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ انھوں نے جاگنے کی با قاعدہ پریکٹس بھی شروع کر دی ہے۔ اربابِ ادب کی پندرہ روزہ نشستوں کے موقع پر وہ رت جگا مناتے ہیں اور اس میں کسی قدر دن جگا بھی شامل ہو جاتا ہے۔ تاش ہے ہی ایسا موذی کھیل۔ اور وہ بھی نماز کے تخت پر۔ چاروں طرف کر سیاں پڑی ہیں۔ شاگردوں کی ٹیم جمع ہے اور شادؔ صاحب نہلے پر دہلا لگا رہے ہیں۔ ایک دن میں نے بہت ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’حضرت آپ اس قدر معروف شاعر ہیں پھر بھلا آپ کا کوئی ریڈیو پروگرام کیوں نہیں ہوتا؟‘‘ فرمانے لگے ’’ ایک کیا بیس پروگرام مل جائیں مگر میری شرطیں ذرا سخت ہیں یعنی میں پہلی نظم کے دو ہزار روپیہ مانگتا ہوں اور سنسر کی پخ کو نہیں مانتا۔ ‘‘ ایک واقعہ سنیے پچھلے سال میرے محلہ کے ایک مرحوم حکیم صاحب نے خیر و عافیت کے ساتھ جنت پہنچنے پر اپنے پڑوسی فرخ شاہ لالہ کو بشارت دی کہ میں تم لوگوں میں یعنی تم بے ہودہ لوگوں میں رہ کر پچاس سال کی طویل عمر کے باوجود اپنے آپ کو بہ حیثیت ایک پیر کے کبھی واضح نہ کر سکا لیکن اب جب کہ میں جنت میں ہوں، تم لوگوں کو چاہیے کہ محلہ اور شہر میں میری کرامتوں کی الٹی سیدھی تشہیر کرو اور میری قبر کو مزار بنا کر ہر سال ایک شاندار عرس بھی مناؤ اس سے تمھیں یہ فائدہ بھی ہو گا کہ الائچی دانوں کی جو دکان تم دوسرے عرسوں میں لیے لیے پھرتے ہو وہ یہاں میری مزار پر لگا لینا، خاصی بِکری اور فائدہ ہو گا۔ چنانچہ عرس کا اعلان کر دیا گیا اور اس عرس میں یہ خصوصیت بھی رہی کہ مشاعرہ ہو گا۔ عرس کی مجلسِ انتظامیہ اس سلسلے میں مجھ سے ملی اور شادؔ صاحب کو کسی طور پر راضی کرنے پر اصرار کیا۔ میں چونکہ ادیبوں کی اس میٹنگ میں شریک تھا جس میں شاعروں کے اس رویے پر سخت تنقید کی گئی تھی کہ وہ جگہ جگہ مشاعرے کرتے پھرتے ہیں اور ادب کو بدنام کرتے ہیں۔ ختنہ ہے تو مشاعرہ، شادی ہے تو مشاعرہ، دکان چالو ہوئی تو مشاعرہ وغیرہ۔ اس میٹنگ میں میں نے بھی تقریر کی تھی اس لیے ڈر گیا اور صاف انکار کر دیا کہ شادؔ صاحب کو منانا میرے بس کا کام نہیں۔ ان سے میرے تعلقات ضرور ہیں مگر ان کی حد اس قدر آگے نہیں کہ میں ان کی دانستہ تذلیل کے درپے ہو جاؤں۔ مایوس ہو کر مجلسِ انتظامیہ نے مشاعرے کا پروگرام ملتوی کر دیا۔ میں ادارہ اردو کی نشست میں چلا گیا وہاں معلوم ہوا کہ عرس میں مشاعرہ ہو رہا ہے اور وہ بھی شادؔ صاحب کی صدارت میں۔ مجھ پر کوئی خاص ردِّ عمل نہیں ہوا جیسے میں اس خبر کو پہلے بھی کہیں سن چکا ہوں۔ کاوشؔ صاحب اور میں نے طے کیا کہ چل کر ذرا دور سے شادؔ صاحب کے مشاعرے کا رنگ دیکھا جائے۔ ادارے کے دفتر سے باہر نکلے ہی تھے کہ عرس سے ایک صاحب سائیکل تیز دوڑاتے ہوئے ہم تک پہنچے۔ چلیے چلیے۔ اور گھیر لیے گئے۔ پروگرام کی ترتیب اس طرح تھی۔ چار بیت، غزل، غزل چار بیت، رضائی میں لپٹا ہوا شاعر، کالی شیروانی کا شاعر، شاد صاحب چار بیت، چار بیت، شاد صاحب۔ اور پھر فلمی گیت۔ اور شاد صاحب سے شکایت کی تو فرمایا۔ چلنے دو یار یوں بھی چلتا ہے۔

جھلکیاں

آپ شادؔ عارفی۔ ہند و پاکستان کے عظیم طنز نگار اور صاحبِ طرز شاعر جو رام پور کو کم از کم سو سال تک میسر نہیں آسکتا۔

آپ شادؔ عارفی عرف لڈّن ماموں۔ محلہ کے بچوں کو دلچسپ کہانیاں سنا کر ان کو اپنا دوست بنانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں اور بچوں کی محبوب شخصیت ہیں۔

آپ شاد عارفی ریڈیو پروگرام اگر چاہیں تو ایک چھوڑ بیس مل جائیں لیکن پروگرام کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ پہلی نظم کے دو ہزار روپے ملنے چاہئیں اور اس لیے ملنے چاہئیں کہ حسرتؔ موہانی کو بھی پہلی غزل کے تقریباً اتنے ہی روپے ملے تھے۔ اور دوسری شرط یہ کہ سنسر کی کوئی قید نہیں ہونی چاہیے۔

آپ شادؔ عارفی۔ ابھی آپ سنیں کہ فلاں شخص سے شادؔ  صاحب بہت سخت ناراض ہو گئے ہیں۔ آپ تصدیق کے لیے سائیکل اٹھائیے۔ سائیکل مت اٹھائیے پیدل پہنچئے تو آپ کو یہ سن کر کوئی حیرت نہ ہونا چاہیے کہ در اصل غلطی اس کی نہیں تھی کسی دوسرے شخص کی تھی اس لیے معاف کر دیا گیا ہے۔

آپ شادؔ عارفی۔ جوشؔ اچھا شاعر ہے۔ آپ تائید کیجیے۔ جوشؔ برا شاعر ہے۔ اس کی آپ کو تائید نہیں کرنی چاہیے۔ ورنہ جوشؔ خواہ مخواہ اچھا شاعر بن جائے گا۔

آپ شادؔ عارفی۔ ہائی اسکول پاس، ہائی پروفنیشی اِن اردو، ہندی مڈل، منشی کامل۔ طب میں حکیم عمّی میاں کے شاگرد۔ باقی تمام ذہانت کے بل بوتے۔ جتنی نوکریاں ملیں اور مطمئن نہ ہو کر چھوڑیں اتنی اگر آج کے ایم اے پاس سو نو جوانوں کو بھی پانچ سال کی مسلسل جد و جہد سے مل جائیں تو سمجھیے کہ ملک ترقی کر چکا ہے۔

آپ شادؔ عارفی۔ ایک بہترین دوست، بہترین انسان، بہترین بزرگ، بہترین استاد اور بہترین نہ جانے کیا کیا۔

آپ شادؔ عارفی۔ مگر میں ان شاد عارفی کو بالکل نہیں جانتا اور ان کا ہی میں کیریکٹر اسکیچ لکھنا چاہتا ہوں۔

مگر یوں بھی چلنے دو، یوں بھی چلتا ہے

( یہ خاکہ شادؔ عارفی کی زندگی میں لکھا گیا تھا)

٭٭٭

 

 

 

 

                مظفر حنفی

 

استاد مرحوم

 

وہ دس فروری سن چونسٹھ کی ایسی ہی ایک شام تھی جیسی عام سی شامیں ہوتی ہیں، طبیعت میں کچھ الجھن سی تھی دفتر سے معمول کے خلاف ساڑھے پانچ بجے ہی اُٹھ آیا۔ گھر پر طبیعت نہ لگی تو حضرت کوثرؔ چاندپوری کے ہاں پہنچ گیا کہ شاید اُن کی باتوں سے کچھ جی بہلے حالانکہ یہ بھی خلاف معمول ہی تھا۔ عام طور پر اُن سے تعطیل کے دن اس اہتمام سے ملتا ہوں کہ چھ بجنے سے قبل اُٹھ لوں کیونکہ اس کے بعد اُن کی سیر کا پروگرام ہوتا ہے۔ حسبِ دستور کوثرؔ صاحب بیحد خلوص کے ساتھ پیش آئے، گفتگو چھڑی تو زیادہ تر ناقدین کا جانبدارانہ رویہ زیر بحث رہا۔ نجانے کیوں انھوں نے اچانک شادؔ صاحب کی خیریت پوچھی اور میں انھیں بتلا ہی رہا تھا کہ وہ بدستور بیمار ہیں کہ پردے کے پیچھے سے اُن کے صاحبزادے نے چونک کر کہا:

’’ شادؔ صاحب کا تو انتقال ہو گیا…!‘‘

مجھے نہیں معلوم کوثر صاحب نے کس طور پر محسوس کیا میرے اپنے اندر نہ تو کوئی چیز ٹوٹی نہ اپنی روح کے کسی حصے کے مر جانے کا احساس ہوا نہ دل پر کوئی ٹھیس سی لگی بالکل یوں معلوم ہوا جیسے یہ خبر بہت پرانی ہے اور واقعی خبر تھی بھی بیحدباسی۔ مقامی اخبارات ندیم و افکار دیکھنے سے پتہ چلا شاد صاحب ۸؍ فروری  ۶۴ء؁ کی شام کو ہی چل بسے تھے۔ ظاہر ہے وہ کسی ریاست کے سابق حکمراں، کسی پارٹی کے لیڈر، کسی کارخانے کے مالک، کسی کھیل کے چمپئین اور کسی اعلیٰ عہدیدار کے عزیز نہ تھے کوئی فلم ایکٹر بھی نہ تھے کہ اُن کی موت کی خبر فوراً ملک کے نمایاں اخبارات میں شائع کی جاتی یا ریڈیو سے اعلان کیا جاتا۔ چنانچہ اپنی حماقت پر افسوس بھی ہوا کہ میں شادؔ عارفی صاحب کی صحت کے لیے جو ۸؍ فروری کو ہی آنجہانی ہو چکے تھے، ۹ فروری کی رات میں دعائیں مانگ رہا تھا۔ کوثرؔ صاحب بڑے پُر خلوص اور جذباتی انداز میں شادؔ صاحب کی عظمت و انفرادیت کا ذکر کر رہے تھے اور میں اندر ہی اندر کھول رہا تھا۔ یہ کیسا عظیم شخص تھا جس نے زمانے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

باہر نکلا تو بھوپال کی شاہراہ سلطانیہ روڈ اپنے شباب پر تھی، جگمگاتی ہوئی دوکانیں سیلانیوں کی ریل پیل، چہلیں، قہقہے اور وہ سب کچھ جس سے زندگی کے سمندر میں حرکت کا احساس ہوتا ہے، سوچناچاہاکہ لہریں تو ٹوٹتی اور بنتی رہتی ہیں کسی ایک لہر کے ٹوٹ جانے سے سمندر پر سکوت طاری ہو جانے کی توقع ہی نہ کرنی چاہیے لیکن اس خیال سے بھی تسکین نہیں ہوئی فوراً یاد آیا کہ پچھلے دنوں معاشرے کی ایک قطعی غیر اہم شخصیت کے اُٹھ جانے پر بازار میں سناٹا سا طاری تھا۔ پھر شادؔ عارفی پر غصہ آیا، اور معاشرے کی اصلاح کا غم اپنے سینے میں لیے پھریے، آج سماج نے اپنی بے حسی سے ثابت کر دیا کہ اُسے آپ جیسے اصلاح پسندوں کی ضرورت نہیں۔ واحد پریمی کے شو روم پر حضرات شفاؔ گوالیاری، عشرتؔ قادری، کاملؔ بہزادی اور محمود الحسینی ( مدیر ندیم) مل گئے اس حادثے پر سبھی جذباتی ہو رہے تھے سبھی مغموم تھے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے یہ پانچ افراداس شہر کے اپنے جیسے دس بیس اور افراد کے ساتھ مل کر معاشرے کے خلوص کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ڈھائی تین لاکھ کی بستی میں خلوص کی نمائندگی بیس پچیس افراد کریں تو کُل میں جُزو کا تناسب کتنا غیر متوازن سا محسوس ہوتا ہے کیا اتنے سے خلوص پر اتنا بڑا سماج ٹکا ہوا ہے ؟ابھی کچھ دن قبل ہی، کسی لیڈر کی موت پر نہیں صرف اس کے استقبال کے لیے پندرہ بیس ہزار لوگ ایک جگہ جمع ہوئے تھے۔ کیا وہ بھی ان کا خلوص تھا؟ شادؔ عارفی اُسے ’’مصلحتِ وقت‘‘ کہتے تھے یعنی مصلحت برابر پندرہ بیس ہزار اور خلوص برابر ہے پندرہ بیس کے۔ سوال بے حد الجھا ہوا ہے، آسانی سے حل نہ ہو گا۔

اس رات ڈیڑھ بجے تک اِدھر اُدھر آوارہ گردی کے بعد گھر لوٹا دماغ اینڈے بینڈے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا ہزار کوشش کے باوجود نیند نہیں آ رہی تھی۔ دو تین بار شادؔ عارفی صاحب کی موت پر اپنے تاثرات مضمون کی شکل میں قلمبند کرنے کی کوشش کی، بوجھ دل پر کم اور دماغ پر زیادہ تھا اس لیے ہر بار کڑوی تیکھی نظم تو ہو گئی نثر میں ایک سطر بھی نہ لکھ سکا۔ دوسرے دن ادارہ مرکز ادب اور ادارہ صبح ادب کی طرف سے شادؔ صاحب کے انتقال کے سلسلے میں تعزیتی نشستیں ہوئیں۔ حاضرین میں اُن اصحاب کے ساتھ جن کا ذکر اوپر کر چکا ہوں کئی اور نو جوان شریک تھے تیسرے دن بھی اسی قسم کی ایک نشست انجمن نوجوان مصنفین کی جانب سے ہوئی وفاؔ صدیقی، فضل تابشؔ، شمیم احمد، قاسمؔ نیازی، شررؔ بھوپالی، واحد علی بانگے اور کئی دوسرے نوجوان شاعر اور ادیب مل کر شادؔ عارفی کے متعلق سوچتے رہے اظہار افسوس کرتے رہے پھر اخبارات و رسائل کے ذریعے مختلف مقامات پر ہونے والے تعزیتی جلسوں کا علم بھی ہوتا رہا اندازہ کیا کہ سوچنے سمجھنے والے ہر اُس حلقے میں جہاں صاف گوئی، خلوص اور حقیقت کو بھی کچھ اہمیت دی جاتی ہے، شادؔ صاحب کی آواز پہنچتی رہی ہے۔ اُنھیں یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ایسی بات بھی نہیں۔ آخر مرنے کا بھی کوئی معقول جواز ہونا چاہیے۔ شادؔ عارفی کو بے وقت مرنے کی کیوں سوجھی؟ مختلف اوقات میں مختلف باتیں ذہن میں آئیں، منتشر منتشر سے خیالات جن پر جذباتیت حاوی تھی ایسے میں کچھ لکھنے کی کوشش کی لیکن بات دو اور نظموں سے آگے پھر بھی نہ بڑھی۔

اب کہ ’’ نگار‘‘ رام پور شادؔ عارفی نمبر نکال رہا ہے جس کے لیے میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھوں۔ شادؔ عارفی صاحب کے انتقال کو ایک ماہ سے زیادہ مدّت گزر چکی ہے۔ اس عرصے میں میں ایک آنسو بھی تو اُن کی موت پر نہیں بہا سکاہوں، غصے اور جھلاہٹ کا لاوا سا میرے اندر ہی اندر ابلتا رہا ہے آنسوؤں نے یہ غبار دھو دیا ہوتا تو شاید میں کوئی واضح تصویر شادؔ صاحب کی آپ کے سامنے پیش کر سکتا، ابھی تو یہ ممکن نہیں۔ منتشر اور غیر مربوط سے خیالات کا ایک سلسلہ ہے اور اُس الجھاؤ کو ختم کرنے کا یہی ایک ذریعہ سمجھ میں آیا ہے کہ فی الحال اپنی ذہنی کیفیت بغیر کسی رنگ آمیزی کے آپ کے سامنے رکھ دوں، سلیقے کی باتیں بعد میں ہوتی رہیں گی۔

یوں تو وہ چالیس پینتالیس سال سے لکھ رہے تھے لیکن شادؔ عارفی کی تخالیق نے مجھے ۴۸ء  ؁سے اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ہندو پاک کے تمام سہ ماہی، دو ماہی اور ماہانہ جریدوں کے ساتھ ساتھ روز ناموں اور ہفت روزہ پرچوں میں ایک ہی شاعر اپنا مخصوص رنگ برقرار رکھتے ہوئے نئی تخالیق کے ساتھ کیسے چھپ لیتا ہے۔ ان پرچوں میں معیاری علمی و ادبی رسائل بھی تھے تفریحی لٹریچر پیش کرنے والے کثیر الاشاعت رسائل بھی اور رسمی و فصلی پرچے بھی، شادؔ عارفی صاحب کبھی کسی خاص گروپ سے متعلق نہیں رہے اُن کا اپنا ایک نظریہ تھا جس پر وہ زندگی بھر کا ر بند رہے اور یہی وجہ ہے کہ آج اُن کی کمی افکار، سویرا، نقوش، ادبِ لطیف اور شاعر جیسے پرچے بھی محسوس کر رہے ہیں اور تحریک، تخلیق، جام نو جیسے رسالے بھی اسی قسم کے اور بھی کئی رسائل ہیں جنھیں شادؔ صاحب کی قلمی معاونت حاصل تھی۔ ہر اچھا پرچہ اپنی ایک پالیسی رکھتا ہے اور لکھنے والے اپنی چیزیں بھیجنے سے قبل پرچے کی پالیسی اور نظریہ سے مطابقت پر ضرور سوچ لیتے ہیں اردو ادب میں گنتی کے چند شاعرایسے ہوں گے جن کے ہاں سوچنے کا اپنا ایک علیٰحدہ نظریہ اور بات کہنے کا اپنا خالص لہجہ ہو اور اس کے باوجود مختلف گروپ کے پرچوں میں بیک وقت یکساں مقبول رہے ہوں۔ شادؔ  صاحب کا نظریہ ہر پرچے کی پالیسی پر بھاری پڑتا تھا!

ندرتِ ادا شادؔ صاحب کے نزدیک شعر کی جان تھی۔ وہ خود اپنی ذات میں بھی بڑی ندرت اور انفرادیت رکھتے تھے۔ ان سے آپ کا غائبانہ تعارف ہویا شخصی ملاقات یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک بار اُن سے واسطہ پڑنے کے بعد آپ محسوس نہ کریں کہ یہ شخص عام لوگوں سے الگ ہٹ کر ہے، میں نے ۵۹ء میں کھنڈوہ سے ادبی ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ جاری کیا تو شادؔ صاحب کو بھی لکھنے کی دعوت دی۔ اس ادارے کے لیٹر پیڈ اور خطوط پر نام کی مطابقت سے یہ مصرعہ چھپا ہوتا تھا:            ’’ نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے ‘‘

چند دن بعد دفتر پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ حسن رضاؔ اور حسن بشیر ( اراکین ادارہ ) مُنہ پھلائے بیٹھے ہیں دریافت حال پر بپھر گئے پہلے شادؔ عارفی صاحب کو مغلظات سنائی گئیں پھر مجھے اُن کا مداح ہونے کے جرم میں مطعون کیا گیا اور بعد ازاں شاد صاحب کا خط میرے مُنہ پر مار دیا گیا الفاظ میں کفایت اور لفظوں میں بچت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا:

محترمی۔ السلام علیکم

فرمائش نامہ ملا۔ تعمیل کے لیے یہ غزل حاضر ہے اگر چھاپ سکیں، نہ چھاپیں تب بھی مجھے اطلاع ضرور دیں، میں جواب کا منتظر ہوں اور بس وہی رسمی الفاظ ( کہ مزاج بخیر ہو گا)                شاد عارفی

ساتھ ہی ایک سان پر چڑھی ہوئی غزل منسلک تھی ذرا چند شعر ملاحظہ فرمائیے :

گھروں کو آگ لگاؤ کہ روشنی کم ہے

یہیں سے بات بناؤ کہ روشنی کم ہے

کہیں جھپٹ نہ پڑیں دن میں مشعلیں لے کر

عوام کو نہ سجھاؤ کہ روشنی کم ہے

روا نہیں کہ کسی ڈوبتے ستارے کو

چراغِ راہ بناؤ کہ روشنی کم ہے

ذرا پہنچ کے تو دیکھو سواد منزل تک

تم اس خبر پہ نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے

یہ شاعرانِ غلط ہیں کہیں گے اک دن شادؔ

ہمیں چراغ دکھاؤ کہ روشنی کم ہے

غرض کہ تمام غزل میں ادارہ نئے چراغ کا موٹو ’’ نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے ‘‘ ادھیڑ کر رکھ دیا گیا تھا۔ نہ پوچھیے کہ کن مراحل سے گزر کر میں اپنے ساتھیوں کو اس غزل کی اشاعت کے لیے رضا مند کر سکا۔ کھرّے پن اور صاف گوئی کی ایک حد ہوتی ہے اور اکثر مصلحتوں سے مصالحت کرنی پڑتی ہے۔ شادؔ صاحب سے بس یہی نہیں ہوتا تھا۔ اگر میں شادؔ عارفی کی بلند قامتی سے واقف نہ ہوتا تو بحیثیت مدیر نئے چراغ اُن کے بارے میں قطعی غلط رائے قائم کرتا اس سلسلے کا ایک اور خط ملاحظہ فرمائیے :

مکرم و محترم۔ السلام علیکم

کل ۱۶؍ اپریل کو نئے چراغ کا شمارہ ملا۔ شکریہ اور اطلاع حاضر ہے۔ اس مرتبہ کتابت میں غلطیاں آٹے میں نمک کی جگہ نمک میں آٹے کے مانند ہیں بعض اشعار اور نثر کی سطریں کچھ اس طرح بے ربط ہیں جیسے سیلاب نے جگہ جگہ سے ریل کی پٹری اکھیڑ کر رکھ دی ہو اب بیٹھے حل کرتے رہیے شمع کے مہمل معمّے۔ مگر آپ اس مثال سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں کہ جب شمع نے غلط معموں کے ذریعہ لاکھوں روپیہ پیدا کر لیا تو نئے چراغ کو شمع پر فوقیت حاصل رہے گی۔ نہیں اس طرح آنکھوں میں خاک جھونک کر نئے چراغ کی جوت نہ جگائیں۔ ابرا حسنی کا تنقیدی مشورہ قطعاً غلط ہے میں نے اس میں جوتم پیزار ہوتے دیکھی ہے۔ حیرت ہے ابرا حسنی اس سلسلے میں اپنی غلطیوں کو بھول گئے جو اُن سے آئے دن سرزد ہوتی رہتی ہیں، جنھیں قمرؔ مراد آبادی طشت از بام کر چکا ہے۔                    شادؔ عارفی

مرحوم کی ندرت پسند طبیعت کے تعلق سے نئے چراغ کے بارے میں ایک بات اور کہتا چلوں۔ یہ پرچہ عام رسالوں کے سائز کے بجائے کتابی سائزپر آتا تھا کچھ لوگوں نے اعتراضات کیے، بحث چلی، فیصلہ شادؔ عارفی نے فرما دیا۔ اور اپنے مخصوص انداز میں فرمایا:

’’… جس لنکا میں سب باون گز کے ہوں وہاں انفرادیت کی دو صورتیں افراط و تفریط ممکن ہیں۔ تیسری صورت کے سلسلے میں ہمیں مستقبل سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی مگر بحث حال سے وابستہ ہے۔ بہ حالت موجودہ نئے چراغ کا سائز ۳۰ گز والی خصوصیت بلکہ انفرادیت کا حامل ہے پھر میں نہیں سمجھتا کہ اس کو ۵۲ گز والے رسائل مثلاً نگار، شاہراہ، پگڈنڈی، راہی اور کچھ دوسرے رسائل کا ہم قد بنا کر اس کی انفرادیت کیوں ضائع کی جائے۔ اس طرح نئے چراغ کی لَو بڑھا کر آپ نے اُسے دوسرے رسائل میں ضم کر دیا تو ظاہر ہے اُس کی انفرادیت کو ٹھیس لگے گی۔ اب رہا ۷۰ گز والا معاملہ تو جب آپ کے پاس بقول غالبؔ مرحوم گرہ میں مال آ جائے تو اًسے جہازی بلکہ سند باد جہازی سائز میں نکالیے ورنہ بحالت موجودہ چلنے دیجیے۔ ‘‘

اسی طرح ایک بار اس رسالے میں ایک عام سا اشتہار دیکھ کر ناراض ہو گئے، تیور دیکھیے :

’’… اس مرتبہ مجھے آپ سے خلاف معمول شکایت ہے میرا مطلب ہے اس مرتبہ میں آپ سے ناراض ہونے کی حد تک پہنچ گیا ہوں …بات کچھ بھی نہیں میں جس رسالے میں اس کے مفت حاصل کرنے کی ترکیب یا خاص نمبر مفت حاصل کرنے کا تیر بہدف نسخہ یا اعلان دیکھتا ہوں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ کسی رسالے کی اس سے زیادہ بے حرمتی نہیں ہو سکتی کہ وہ سرمۂ مفت نظر بن جائے۔ امید کہ آپ میری خاطر اس قسم کا اعلان حذف فرمائیں گے۔ ‘‘

نئے چراغ میں ابرا حسنی اور شادؔ عارفی کے درمیان ایک بہت معمولی سی بات پر چل گئی۔ ابرؔ صاحب اپنے شاگردوں کی فوج لے کر میدان میں اُتر آئے اُن کے خطوط مدیر ان کے نام آتے تو اُن پر ’’ نجی‘‘ اور ’’ برائے اشاعت‘‘ قسم کے لیبل ہوتے، شادؔ عارفی چومکھی لڑے اور کبھی کسی خط کی اشاعت کے لیے منع نہیں کیا۔ اُن کا ظاہر بالکل ویسا تھا جیسا اُن کا باطن۔ ایسے لوگ دوست کم پیدا کرتے ہیں دشمن زیادہ بناتے ہیں چنانچہ یہی ہوا بھی۔ زندگی بھر اُن کی لوگوں سے چلتی رہی۔ رامپور خاص میں اُن کے مخالفین کی تعداد کم نہ تھی باہر بھی مختلف مقامات پر مختلف اشخاص سے اُن کی چلتی ہی رہی، ابراؔ حسنی، اختر انصاری اکبر آبادی، مجروحؔ سلطان پوری، اثرؔ لکھنوی، جوش ملیح آبادی، نیاز فتحپوری اور نجانے کتنے ادیبوں اور شاعروں سے اُن کی پٹ نہیں سکی۔ غلطی اگر اُن کی نگاہ میں آ جائے تو چشم پوشی کرنا اُن کی فطرت ہی میں داخل نہ تھا بخشنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ ایک لطیفہ سنتے چلیے۔

موصوف دہلی کے کسی بڑے ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ حضرت جوشؔ ملیح آبادی اور اختر شیرانی مرحوم بھی وہیں ٹھیرے تھے ایک دن مؤخر الذکر دونوں شاعر نشے میں دھت پاجامے کندھوں پر ڈالے گیلری میں ٹہلتے نظر آ گئے۔ اب وہ شادؔ عارفی ہی کیا جو ایسے مواقع پر خاموش رہ جائیں۔ ڈنڈا لے کر کمرے سے باہر آ گئے وہ تو خیر گزری کی منیجر نے پکڑ کر خوشامد شروع کر دی حکم ہوا انھیں بتلا دو ہم رامپوری ہیں مار بیٹھیں گے اگر پھر اس حالت میں نظر آئے۔

۱۹۶۰ء میں حالات ایسے پیش آئے کہ ’’ نئے چراغ‘‘ بند کر کے مجھے ملازمت کرنی پڑی۔ شادؔ صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ایک دن ہندی کے ایک پبلشر نے تذکرہ کیا کہ وہ موجودہ دور کے اردو کے نمائندہ شاعروں کا منتخب کلام ہندی میں چھاپنا چاہتے ہیں میں نے شادؔ صاحب کو اس سلسلے میں اپنی دو نمائندہ غزلیں بھیجنے کے لیے خط لکھا تو جواب ملا یہ نئے چراغ کی بات نہیں جسے غزلیں مفت بھیج دی جائیں۔ اس پبلشر سے پچاس روپیہ بھجوا دو غزلیں بھیج دوں گا۔ میں خفیف ہو کر بیٹھ رہا اور کرتا بھی کیا!

دہلی سے ۱۹۶۲ء میں تخلیق کا خاص نمبر شائع ہوا۔ اُس میں شادؔ عارفی کا ایک خط بھی شامل اشاعت تھا صرف یہ ایک خط پڑھ کر کوئی عام آدمی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ شادؔ عارفی کس طرح مصلحتوں کو ٹھکرا کر دو ٹوک بات کہنے کے عادی تھے۔ اس سے قبل میں نے اُن کی نظم ’’جبلپور جل رہا ہے ‘‘ بھی دیکھی تھی۔ اِدھر اُدھر اُن کے ’’ رہنمایانِ وطن چوٹی کے انسانوں میں ہیں ‘‘ قسم کی غزلیں بھی دیکھی تھیں، نہ جانے کیوں مجھے یہ وہم گزرا کہ شاد صاحب متعصب ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے اس مسئلے پر انھیں خاصے بزرگانہ انداز میں وقیع دلائل کے ساتھ ایک بیحد طویل خط لکھا لیکن جب جواب آیا تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ خط میں تفصیل سے ظلم اور اُس کی نوعیت پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ظلم کسی خاص پہلو سے کیا جا رہا ہو تو اُسے کسی مصلحت یا غلط سمجھے جانے کے خوف سے برداشت نہیں کرنا چاہیے ورنہ احتجاج کے معنی ہی بدل جائیں گے۔ ہندو نے مسلمان پر ظلم کیا ہو یا مسلمان نے ہندو پر، ظلم آخر ظلم ہے اور کھل کر احتجاج کرنا چاہیے کہ یہاں ظالم ہندو ہے اور اس جگہ ظلم مسلمان نے کیا ہے، گول مول باتوں سے وار ہلکا ہو جاتا ہے اور ظلم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔

میں جو قبل ازیں شاعری میں استادی شاگردی کا قائل نہ تھا مندرجہ بالا مفصل خط ملنے کے بعد کچھ اتنا متاثر ہوا کہ انھیں خط لکھ کر شاگرد ہونے کی درخواست کی جواب میں انھوں نے لکھا کہ وہ اس جھمیلے میں کم پڑتے ہیں۔ میں ویسے ہی مشورہ کر لیا کروں تو بہتر ہے باقاعدہ شاگردی کے لیے مجھے اسی روپیہ یکمشت اور بعد میں بیالیس روپیہ سالانہ چندہ ادا کرنا ہو گا۔ میری حالت سقیم تھی اپنی پریشانیاں انھیں لکھ بھیجیں اور آخری حربے کے طور پر یہ بھی لکھا کہ نا منظوری کی صورت میں، میں ابراؔ حسنی یا نوحؔ ناروی کا شاگرد بھی بن سکتا ہوں ! جواب میں آنے والے خط کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ یہ چڑچڑا ضدی، کھرّا، تلخ گو اور انا پسند شاعر اپنے اندر کتنا نازک دل رکھتا تھا۔

عزیزم حنفی!    دعائیں

تمھارا مفصل لفافہ ملا۔ میرا دل بھر آیا اور میں اپنی مصیبتیں بھول گیا۔ ان حالات میں میں تم سے اپنا رونا نہیں رو سکتا تم اسی طرح لفافے کے اندر لفافہ رکھ کر اصلاح کرا سکتے ہو۔ میں نے تمھیں اپنا شاگرد تسلیم کر لیا۔ اعلان وعلان کی ضرورت نہیں۔ ’’ بزمِ ارباب ادب‘‘ میرے شاگردوں کی مشہور بزم ہے اب تم بھی اُس کے رُکن سمجھے جاؤ گے …

دعا گو

شادؔ عارفی

یہ اگست ۱۹۶۲ء کا خط ہے اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں شادؔ صاحب نے میری تقریباً ڈیڑھ سو غزلوں پر اصلاح دی ہے اُن کے طریقہ اصلاح پر پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جتنا کچھ لوگ اپنے عام استادوں سے دس سال میں حاصل کرتے ہوں گے اُتنا میرے اُستاد نے مجھے اس قلیل سی مدت میں عطا کیا ہے۔ وہ بچا چھپا کر رکھنا جانتے ہی نہیں تھے۔ یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ میں نے انھیں غزلیں بھیجی ہوں اور وہ دیر سے واپس آئی ہوں۔ آٹھ دس پندرہ اور بعض اوقات بیس غزلیں ایک ساتھ بھیجی گئیں اور وہ اسی ہفتے بعد اصلاح واپس آ گئیں وہ انتہا پسند تھے چنانچہ اس معاملے کی انتہا دیکھیے انتقال سے تقریباً پندرہ بیس دن قبل میں نے اُن کی خدمت میں بیک وقت بیس غزلیں اصلاح کے لیے روانہ کیں چند دن بعد روزنامہ دعوت میں اُن کے شدید بیمار ہونے کی خبر پڑھی تو بیحد ندامت محسوس کی اور خط لکھا کہ غزلوں پر اصلاح کے لیے فکر مند نہ ہوں جلدی نہیں ہے اور یقین کیجیے انتقال سے صرف آٹھ دن قبل وہ بیسوں غزلیں اصلاح ہو کر میرے پاس آ گئیں جب کہ اُن کے تمام جسم پر ورم تھا اور ڈاکٹروں نے ہلنے جلنے سے منع کر رکھا تھا۔

شادؔ صاحب کے فن پر مجھ سے بہتر افراد تفصیل سے لکھ رہے ہیں اور پھر بحیثیت شاگرد اُن کے فن پر چلتی پھرتی باتیں کرنے کا مجھے حق بھی نہیں پہنچتا پھر بھی اس مسلمہ حقیقت کو دہرانا غلط بھی نہ ہو گا کہ موصوف اردو شاعری میں ایک مخصوص طرز کے موجد تھے اور گنتی کے اُن چند شاعروں میں تھے جو اپنے لہجے سے پہچانے جاتے ہیں اُن کے حالات زندگی اول تا آخر کچھ اس قسم کے رہے کہ مزاج کیا تلخی اُن کی روح میں رچ بس گئی تھی۔ اس کے باوجود اُن کے اشعار میں خدایا مذہب پر کوئی طنزیہ شعر تو کیا کہیں گُستاخی کا پہلو بھی نہیں نکلتا بلکہ بسا اوقات میں اپنے اشعار میں خدا و مذہب یا بزرگان دین کے سلسلے میں شوخ لہجہ اپنانے پر اُن سے پھٹکار سُن چکا ہوں۔ اپنے شاگرد کے ہاں اس قسم کا کوئی خیال دیکھ کروہ کچھ اتنے تلخ ہو جاتے تھے کہ بسا اوقات نہ صرف وہ شعر، بلکہ پوری غزل اور کبھی کبھی پوری کی پوری غزلوں کی کھیپ کٹ کر آتی تھی اور اُسے ’’ دریا برد‘‘ کرنے کا حکم صادر ہوتا تھا۔ بات صرف یہیں ختم نہ ہو جاتی تھی۔ میں اُن کے ایسے شاگردوں میں تھا جنھیں اجازت تھی کہ بغیر دکھلائے ہوئے بھی وہ چیزیں جن میں کوئی الجھاؤ محسوس نہ ہو، براہِ راست شائع کرا سکتے تھے، پھر بھی موصوف کی نگاہ سے ہماری چیزیں بچ نکلتی ہوں یہ ناممکن سا تھا۔ غزل یا نظم کہیں بھی شائع ہو اور اس میں کوئی بھی قابل اعتراض بات رہ گئی ہو تو سب سے پہلے شادؔ صاحب کا خط آتا تھا فلاں غزل میں جو فلاں پرچے میں شائع ہوئی ہے فلاں فلاں اشعار میں مذہب سے بغاوت کا پہلو نکلتا ہے جو کفر ہے، وغیرہ وغیرہ۔

افسوس مجھے کبھی رام پور جانے کا اتفاق نہیں ہوا، ایک بار ارادہ کیا تو استاد مرحوم نے کچھ ایسے پیرائے میں منع کر دیا کہ پھر جرأت نہ کر سکا اور وہ خود رام پور سے کم ہی نکلتے تھے۔ اپنے بارے میں بھی وہ تفصیل سے بہت ہی کم لکھتے تھے اس کے باوجود اُن کے حالاتِ زندگی اظہر من الشمس ہیں وہ ہمیشہ اور ہر دور میں ظلم کے مخالف اور سماج کے باغی رہے۔ نوابین کے زمانۂ اقتدار میں ان کی ریاست میں رہتے ہوئے انھوں نے اُن کی مخالفت میں نظمیں لکھیں۔ انگریزوں کے زمانۂ عروج میں وہ نیشلسٹ اور کانگریسی رہے اور کانگریسی دورَ حکومت میں بھی وہ حکمران طبقہ کی خامیوں پر طنز کرتے رہے نتیجہ کے طور پر ان کی خاندانی پنشن بند ہوئی، اچھی ملازمت نہ ملی، مکان بِکا، استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے، پراویڈنٹ فنڈ سے محروم کر دیے گئے حتیٰ کہ رام پور خاص میں اُن کے مداح کم اور مخالف زیادہ پیدا ہو گئے۔ تمام عمر وہ سکون کو ترستے رہے اور مخالفتوں کے طوفان کا سامنا کرتے رہے، کبھی انھیں اچھا کھانے، ٹھکانے سے رہنے اور سلیقے سے زندگی گزارنے کا موقع زمانے نے نہیں دیا لیکن بجائے اس کے کہ زمانے سے مصالحت کر لیتے، وہ اس قسم کے اشعار کہہ کر زمانے کو اشتعال دلاتے رہے۔

میں دنیا پر طنز کروں گا

دنیا میرے کیوں در پے ہو

لاکھوں ہیں ہم سب بیچارے

اے شہزادو تم سب کے ہو

ہم سے اس قسم کی امید نہ رکھے دنیا

ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں

پئے تحسین وطن طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

ہم بیچارے کس گنتی میں نیچی چولی نیچی بات

اونچے شملے والے ہم پر وار کریں اوچھا تو کیا

آپ کے تیور بتاتے ہیں برا من مانیے

آپ سے کوئی اصولی کام ہونے سے رہا

مجھ پہ اُس جفا خو کی ہر نظر ادھوری ہے

پہر بھی مدّعا کامل پھر بھی بات پوری ہے

جو چاہتے ہیں ہمیں بے قرار فرمائیں

کہیں وہ خود نہ ستارے شمار فرمائیں

بجائے اس کے ہمیں آپ کچھ سہارا دیں

حضور اپنے قدم استوار فرمائیں

اُس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

دیکھا آپ نے، یہ اور اس قسم کے ہزاروں اشعار اُس شخص نے کہے ہیں جس کے رہنے کا کوئی ٹھکانہ تھا نہ بسرا اوقات کا کوئی معقول ذریعہ، زمانہ جس کا دشمن تھا اور ارباب سیاست جس کی طرف سے مجرمانہ حد تک تغافل برت رہے تھے، ظاہر ہے ایسے حالات میں ایک عام آدمی بیحد قنوطی اور یاس پسند ہو جائے گا اُس کے اشعار میں سوز و گداز تو ہو سکتا ہے زندگی سے فرار کا جذبہ بھی در آئے تو تعجب نہیں لیکن حیرت تو اس بات کی ہے کہ زمانے کی مخالفت اور سخت حالات نے اُسے اور زیادہ تلخ گو، بے باک، باریک بیں اور دو ٹوک بات کہنا کا عادی بنا دیا۔

۱۹۶۲ء میں صولت لائبریری میں جشنِ شادؔ منایا گیا تھا اور حامد علی خاں آف ریواڑی نے شادؔ عارفی کے تمام کلام کی اشاعت کے اخراجات کا اعلان بھی کیا تھا، پھر معلوم ہوا بات ٹل گئی اور انجمن ترقی اردو ہند کی توجہ اس طرف مبذول کی گئی جہاں اس سلسلے میں غور تو کیا گیا، لیکن جہاں تک میرے علم کا تعلق ہے معاملہ اب تک معلق ہے۔ ارباب اقتدار نے کبھی شادؔ عارفی کے متعلق غور کرنے کی زحمت گوارا نہ فرمائی۔ یہ تمام باتیں صرف اس لیے سامنے آئیں کہ شاد صاحب خوشامد پسند نہ تھے۔ اردو شاعری کا صحیح ذوق رکھنے والے اس غیور، منفرد، البیلے اور طنز گو شاعر کی بلند قامتی سے بہت پہلے واقف ہو چکے تھے جس کا کوئی ایک بھی مجموعہ کلام آج تک منظر عام پر نہیں آسکا۔ کھل کر کہنے دیجیے کہ آج کے وثیقہ یاب فنکاروں میں پچھتر فیصد سے زائد ایسے ہیں جن کا کام حکومت کی امداد کے بغیر بھی چل سکتا تھا، انھیں امداد کیوں دی گئی اس پر اعتراض نہیں، شکوہ صرف شادؔ صاحب سے ہے وسائل اختیار کرنے، مصلحت سے کام لینے سے اس حد تک کیوں گریز کیا کہ انجام کار انھیں مرنا پڑا۔

مختلف دوست، اعزا اور ادارے مختلف اوقات میں انھیں مشورے دیتے رہے کہ رام پور میں رہ کر ناقدری اور مصیبت کا سامنا کرتے رہنے کے بجائے وہ ہجرت کر جائیں تو اُنہیں آرام عزت صحت دولت سب کچھ نصیب ہو سکتا ہے اور جواب میں انھوں نے ہمیشہ کچھ ایسی باتیں کہیں :

منتظر ہے پاکستان اور میں نہ جاؤں گا

برہمن کے مصرع پر طبع آزماؤں گا

چاہتا ہوں بھارت کا نام اور اونچا ہو

سوچتا ہوں مسجد سے جوتیاں چراؤں گا

………

وطن کی اس سرزمیں کو اے شادؔ کون سے دل سے چھوڑ دیں ہم

وطن کی جس سرزمیں پہ گزرا ہے دور دار و رسن ہمارا

………

واعظ کہتا ہے جنت میں بے ایمان نہیں جائے گا

لیکن شادؔ مسلماں ہو کر پاکستان نہیں جائے گا

………

میں جذبات کی رو میں جانے کس کس طرح بہک رہا ہوں اتنا کچھ لکھنے کے بعد دیکھتا ہوں کہ کسی ایک جذبے کی وضاحت بھی تو نہیں کر سکا۔ میرے اندر غم و غصے کا جو لاوا سا شادؔ عارفی کی موت کے بعد سے اُبل رہا ہے اُس میں ذرا سی بھی تو تخفیف نہیں ہوئی۔ رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ میرے عظیم استاد ابھی زندگی سے بیزار نہیں ہوئے تھے۔ زمانہ انھیں مسلسل مارنے کی کوشش کرتا رہا اور آخر اس نے انھیں موت سے ہمکنار کر دیا لیکن وہ کیسے تھے جو اس طرح چپ چاپ مر گئے، یہ تو کسی عظمت کی دلیل نہیں ہے۔ کبھی کبھی اس قسم کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ موصوف سے ذاتی ملاقات یا رشتہ تو تھا نہیں، اُن کے فن کا وسیلہ درمیان تھا اُن کی تحریروں کے واسطے سے میں اُن تک پہنچا تھا پھر آج لڈن خاں کے انتقال پر آنسو کیوں ضائع کیے جائیں۔ آنکھوں کے پاس کوئی خزانہ تو ہے نہیں۔ رہا اُن کا فن اور اُن کی تحریریں وہ تتر بتر سہی لیکن ہمارے درمیان موجود ہیں۔ مرنے والے کو تو زندہ نہیں کیا جا سکتا البتہ اُن کا کلام بھی اگر زمانے کی دستبرد کی نذر ہو گیا تو رونے ہی نہیں ڈوب مرنے کی بات ہو گی۔ یہ سب کچھ سوچتے رہنے کے باوجود دل میں ایک خلش سی ہے، طبیعت مسلسل بے چین رہتی ہے۔ شاد صاحب ! آپ سے یہ اُمید تو نہ تھی کہ آنسوؤں سے بھی محروم کر دیجیے گا۔ معاف کیجیے طبیعت اُلجھ رہی ہے اب میں اور زیادہ نہ لکھ سکوں گا!

(فروری ۱۹۶۴ء)

٭٭٭

 

 

                اختر انصاری دہلوی

 

شاد عارفی کا فن

 

 

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شاد صاحب کا کلام ۱۹۳۲ء یا ۱۹۳۳ء کے آس پاس اردو کے موقر جرائد میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اس وقت کے اہم اور سر بر آوردہ ادبی رسائل ہمایوں، ادبی دنیا، نگار، جامعہ، ساقی، معارف اور زمانہ تھے۔ نیرنگِ خیال اپنے عروج کی آخری منزلوں میں تھا اور کچھ ہی دنوں کے بعد زوال کی حدود میں داخل ہو گیا۔ ان میں سے اکثر یا بعض رسائل میں شاد صاحب کی غزلیں (اور نظمیں بھی) خاصے تسلسل کے ساتھ شائع ہوا کیں۔ اس زمانے میں جن شعرا کا کلام باقاعدگی یا بے قاعدگی کے ساتھ ادبی رسائل کے ذریعے منظر عام پر آتا تھا ان میں ایک طرف تو غزل کے ان مجددین کے علاوہ (حسرتؔ، فانیؔ، اصغرؔ، جگرؔ اور یگانہؔ) روایتی تغزل کے علم بردار بیخود دہلوی، سائل دہلوی، عزیز لکھنوی، آسی الدنی، احسن مارہروی، آرزو لکھنوی، وحشت کلکتوی، ناطق گلاؤٹھوی، ثاقب کانپوری، عیاں میرٹھی، بیان یزدانی، مانی جائسی، جوش ملسیانی، آرزو لکھنوی، سیماب اور جعفر علی خاں اثرؔ تھے، اور دوسری طرف کسی قدر بعد میں آنے والے شاعرو ں کی ایک کھیپ تھی جن میں اکثر غزل گو بھی تھے اور نظم نگار بھی۔ جوشؔ کی مسلسل غزل ابھی پورے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آئی تھی اور وہ آج کی طرح اس وقت بھی بنیادی طور پر نظم کے شاعر خیال کیے جاتے تھے۔ جوش کے علاوہ تلوک چند محروم، حفیظ، ساغر، اختر شیرانی، روش، احسان دانش، عدم، علی اختر حیدر آبادی، فراق گورکھپوری، ن۔ م۔ راشد نوجوان اور نوجوان تر نسل کے وہ شاعر تھے جو اس دور کی دنیائے رسائل پر قابض و متصرف تھے۔ ان ناموں کے علاوہ کچھ اور بھی نام ہیں جو حافظے کے افق سے جھانکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جن کو آج دنیائے ادب بظاہر بالکل بھلا چکی ہے اور وہ گمنامی کے بحر نا پیدا کنار میں غرق ہو کر خبرش بازنیامد کی عملی تفسیر و تعبیر بن چکے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو وقت کی اس سرحد پر بھی معلوم و معروف لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں، لیکن یا تو اس وجہ سے کہ بعد میں ان کی توجہ شاعری کی طرف کم ہو گئی یا شاید اس بنا پر کہ وہ شاعرانہ حیثیت سے زندہ رہنے کا مسلسل ثبوت دینے سے قاصر رہے۔ ان کی شہرت بڑی حد تک کجلا جاچکی ہے۔ گویا ان کا وہ حال ہوا جس کا ذکر برسوں پہلے میں نے اپنی تصنیف ’’ایک ادبی ڈائری‘‘ میں کیا تھا۔ میں نے لکھا تھا کہ اگر کوئی مصنف اپنی تحریروں کی اشاعت کے ذریعے باقاعدگی کے ساتھ اپنی زندگی کا ثبوت نہ دیتا رہے تو اس کو بہت جلد بھلا دیا جاتا ہے اور اگر کوئی مصنف دو چار برس یا اس سے بھی زیادہ کی طویل خاموشی اختیار کرے تو اس کو مردہ تصور کر لیا جاتا ہے اور چاہے اس نے کتنا ہی اچھا کام کیوں نہ کیا ہو کوئی اس کا نام تک نہیں لیتا۔ پھر ان مصنفوں کا تو ذکر ہی کیا جو بیچارے سچ مچ مر جاتے ہیں۔ اگر ان کے پسماندگان میں کچھ ایسے لوگ نہیں ہیں جو مسلسل ان کے نام کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں تو ادبی حلقے ان کو نہایت آسانی کے ساتھ اور قطعی طور پر فراموش کر دیتے ہیں۔ بہرحال اس زمانے میں جس کا میں ذکر کر رہا ہوں، مذکورہ بالا معروف شاعروں کے علاوہ اور بھی کتنے ہی شاعر ایسے تھے جن کا کلام ادبی رسائل کی زینت بنتا تھا اور کم سے کم اس وقت کے جانے پہچانے بلکہ نامور و مقبول شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان میں سے چند کے نام بغیر کسی ترتیب اور بغیر کسی گروہی تقسیم کے لکھتا ہوں : اختر جونا گڑھی، مسعود علی ذوقی، جگت موہن لال رواں، خاں احمد حسین خاں، باسط بسوانی، محوی لکھنوی، نجم گیلانی، اثر صہبائی، جلال الدین اکبر، صدق جائسی، حکیم آزاد انصاری، غلام مصطفیٰ تبسم، مخمور اکبر آبادی، جگر بریلوی، طالب الٰہ آبادی، محمود اسرائیلی، عبداللطیف تپش، نجم ندوی، عندلیب شادانی، ہری چند اختر، ماہر القادری، فاخر ہریانوی، کرپال سنگھ بیدار، عباس بیگ محشر، عبدالعزیز فطرت، مقبول حسین احمد پوری، وقار انبالوی، علی منظور حیدر آبادی، عابد لاہوری، امر چند قیس جالندھری، سعید احمد اعجاز، نذیر احمد خاں مرغوب، آرزو جلیلی، مراتب علی تائب، باقی صدیقی، محشر رام پوری، ضیا فتح آبادی، الطاف مشہدی، اکبر حیدری، نذیر مرزا برلاس، حفیظ ہوشیارپوری، زیبا ردولوی، روشن نکودری، سراج الدین ظفر، لطیف انور گورداسپوری، عطاء اللہ کلیم، مظفر حسین شمیم، نشتر جالندھری، تابش صدیقی، رام جوایا خنداں، مسعود شاہد۔ ان میں سے کچھ محض غزل گو تھے، کچھ نرے نظم نگار۔ اور کچھ نظم و غزل دونوں میدانوں میں طبع آزمائی کرتے تھے۔

مجموعی حیثیت سے اس دور کو نظم کا دور سمجھا جاتا تھا اور یہ خیال عام تھا۔ گو اس کی کارفرمائی بہت واضح طور پر نہیں بلکہ کسی قدر مبہم شکل میں ذہنوں کی زیریں سطح تک محدود تھی کہ غزل کے زمانے گئے اور غزل کہنے والے ’’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو‘‘ کے مصداق اگر غزل کہنے پر مصر ہیں تو بے شک کہا کریں اور بے شک لکیر پیٹا کریں لیکن اُن کی وضع داری اور وظیفہ خوانی سے کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ بات وہی تھی جو میں اوپر کہہ آیا ہوں۔ غالب کی قد آور کوہ پیکر شخصیت کے پس منظر میں اس دور کے غزل نگار بالشتیے معلوم ہوتے تھے اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ یہ بیچارے آخر کہاں تک زور لگائیں گے اور کس بوتے پر ایورسٹ کی اس چوٹی کو جس کا نام غالبؔ ہے چھونے یا زیر کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس وقت تک غالب کے بارے میں بھی اردو تنقید کی بصیرت بے حد محدود تھی اور غالب کے خلاف آواز اٹھانے والوں اور اس کے کلام کو سوختی و  دریدنی قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ مثال کے طور پر نیاز فتح پوری نے اپنے رسالے میں غالب کے خلاف ایک اچھی خاصی مہم چلا رکھی تھی اور غالب ہی کے ایک ٹٹ پونجیے ہم عصر، مومن، کو غالب سے برتر و فائق ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ گو یہ بھی ہے کہ آگے چل کر اپنے آخری ایام میں، انھوں نے اس بے مثال تنقیدی شعور کی روشنی میں جس کا وہ عمر بھر ثبوت دیتے رہے اپنی غیر معتدل رائے پر نظر ثانی کی اور غالب کو اس کا حق دینے کی کوشش بروئے کار لائے۔ ان سب باتوں کے باوجود یعنی غالب دشمن رجحانات کے با وصف اور غالب کی عظمت کا صحیح و کلی شعور نہ ہونے پر بھی غالب کو ایک بڑا شاعر خیال کیا جاتا تھا۔ اصغر اور فانی کا کلام پورے طور پر روشناس دنیائے ادب ہو چکا تھا لیکن یہ دونوں بھی ابھی اس حیثیت اور مقام سے محروم تھے جو آگے چل کر ان کے حصے میں آیا۔ وجہ یہ کہ اس وقت تک غزل کو اس کی رمزیت، علامیت، گہری داخلیت اور تہ نشین اندرونیت کی روشنی میں دیکھنے کا رجحان پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ بہت بعد کی چیز ہے جس نے اچھے اور تازہ فکر شاعروں کے کلام میں نئی تہوں، نئی گونجوں، نئی گہرائیوں اور نئی معنویتوں کا سراغ لگانے کی خدمت انجام دی اور اس وقت یہ شعور ناپید تھا اور حالی نے غزل کی شکست و ریخت کے بارے میں جو مشورے دیے تھے وہ بلا چون و چرا تسلیم کیے جاتے تھے اور عظمت اللہ خاں مرحوم کا نعرہ کہ غزل کی گردن بلا تکلف مار دی جائے، ذہنوں میں بالکل تازہ تھا۔ مختصر یہ کہ غزل ایک قدیم، فرسودہ، رواجی، رسمی اور تقلیدی صنفِ سخن سمجھی جاتی تھی اور غزل کہنا بے وقت کی راگنی الاپنے کے مترادف خیال کیا جاتا تھا۔

باقی رہے نظم نگار شعراء، تو میرا خیال ہے کہ شاید غزل لکھنے والوں کی بہ نسبت یہ زیادہ اہمیت اور تعزز کے مستحق خیال کیے جاتے تھے۔ حالی، محمد حسین آزاد، شبلی، اسماعیل میرٹھی اور سلیم پانی پتی کی ابتدائی پختہ و نا پختہ کوششوں کے بعد اقبال، سرور جہان آبادی، نادر کاکوروی، چکبستؔ، صفی لکھنوی، مہاراج بہادر برق دہلوی، شوق قدوائی اور پنڈت کیفی وغیرہ نے اردو میں نظم نگاری کی بنیادوں کو مضبوط کیا تھا اور ایک زندہ و متحرک روایت کی تشکیل کی تھی چنانچہ جوش، حفیظ، اختر شیرانی اور وہ تمام لکھنے والے جو ان کے پیش روؤں یا پس روؤں میں شمار ہوتے تھے موضوعاتی نظمو ں کی تخلیق میں خاصی سرگرمی کے ساتھ منہمک تھے اور ان کی منظری، محاکاتی، بیانیہ، روائی، قومیاتی اور غنائی تخلیقات، اساتذہ غزل کی رسمی تخلیقات سے کچھ زیادہ ہی اعتنا حاصل کرتی تھیں۔

پھر ان تمام جوان و معمر، نوجوان و جوان تر اور جدید و جدید تر شعرا کے کلام کے پہلو بہ پہلو شاد عارفی مرحوم کا کلام آج سے پینتیس چھتیس سال پہلے رسالوں کی زینت بننا شروع ہوا تو یہ تو میں ہرگز نہیں کہوں گا کہ اس کا انداز سے جدا اور رنگ روپ سب سے نرالا تھا۔ یہ بھی نہیں کہ وہ اتنا منفرد اسلوب تھا کہ اس کو پہچاننے اور دوسروں کے کلام سے متمائز کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ اس میں کچھ نیا پن ضرور تھا۔ شاد صاحب کی آواز اس وقت کے منارِ بابل کی آوازوں میں اپنا ایک مخصوص آہنگ ضرور رکھتی تھی۔ یہ آہنگ اس وقت کے عام اور معتاد آہنگ سے کسی قدر جداگانہ ضرور تھا۔ ایک خوشگوار سا کھردرا پن، ایک گوارہ قسم کا اکھڑ پن، ایک بے تکلف اور بے جھپک اسلوب گفتار، ایک خفیف سا تحیر پیدا کرنے والی تازگی، ابلاغ و ترسیل کا ایک براہ راست انداز اور ایک واشگاف قسم کا طرز تخاطب۔ یہ اس نئی آواز کے اوصاف تھے۔ جو بہت چونکا دینے والے نہ سہی، جاذبِ توجہ یقیناً تھے۔

اس وقت شاد مرحوم کا جو کلام میرے سامنے ہے اس میں ایک غزل یہ بھی ہے :

چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں

مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں

فریب تخئیل سے میں ایسے ہزار نقشے جما چکا ہوں

حقیقتاً میرا سر ہے زانو پہ تیرے یا خواب دیکھتا ہوں

پیام آیا ہے تم مکاں سے کہیں نہ جانا میں آ رہا ہوں

میں اس عنایت کو سوچتا ہوں خدا کی قدرت کو دیکھتا ہوں

ہر ایک کہتا ہے اوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی

کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں

حسیں ہو تم، آپ کی بلا سے پری ہو تم، آپ کی دعا سے

جواب ملتا ہے سخت لہجے میں ان سے جو بات پوچھتا ہوں

ہلال اور بدر کے تقابل نے محوِ حیرت بنا دیا ہے

وہ عید کا چاند دیکھتے ہیں میں ان کی صورت کو دیکھتا ہوں

شراب، ساقی، صراحی، مے خانہ قابلِ قدر ہوں، مجھے کیا

کسی کی آنکھوں کے سرخ ڈوروں سے پی کے مخمور ہو رہا ہوں

میں کیا کہوں گا وہ کیا سنیں گے وہ کیا کہیں گے میں کیا سنوں گا

اسی تذبذب میں شادؔ میں ان کے در پہ ڈر ڈر کے جا رہا ہوں

مجھے یاد آتا ہے کہ یہ غزل ۱۹۳۳ء یا اس کے لگ بھگ ادبی دنیا (لاہور)) میں شائع ہوئی تھی اور اس کا ایک شعر (پانچواں ) مجھے آج تک لفظ بہ لفظ یاد رہا اور اس طویل مدت کے دوران میں میں نے اس کو اکثر اپنے ذہن میں دہرایا بھی۔ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی بہت اچھوتی وضع کا شعر تھا، بلکہ شاید انھیں اوصاف کی بنا پر جن کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا اور یہ غزل بھی میں نے یہاں اس لیے نقل نہیں کی کہ وہ کوئی بڑی معرکہ آرا غزل ہے۔ اس میں نہ تو کوئی فلسفیانہ تفکر ہے، نہ زندگی کے گہرے تجربات کی ترجمانی، نہ حیات و کائنات کے بارے میں کوئی خاص نقطۂ نظر اور نہ کوئی بے خودانہ سرمستی یا سرمستانہ بے خودی، مگر مذکورہ اوصاف بلاشبہ واضح طور پر پائے جاتے ہیں اور اسی لیے یہ اگر اپنی اشاعت کے وقت ایک ابھرتے ہوئے شاعر کے خاص رنگ کی نمائندگی کرتی تھی تو آج بھی اسی زاویۂ نگاہ سے مطالعہ کیے جانے کی متقاضی ہے۔ اور ہاں اس ضمن میں آج کے پڑھنے والوں اور تیس چالیس سال پہلے کے قارئین کا فرق بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔ اس زمانے کے پڑھنے والوں کے لیے تو یہ غزل یقینا اوصاف کی حامل تھی جن کا میں نے ذکر کیا لیکن جہاں تک آج کے پڑھنے والوں کا تعلق ہے، ہوسکتا ہے کہ ان کو اس سے وہ تاثر نہ ملے۔ اس واسطے کہ وہ دنیائے شعر و ادب کے ان تہلکات سے گزر چکے ہیں جن کا اُس زمانے کے پڑھنے والے تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کیسی کیسی ہولنا ک جدتیں، کس قیامت کی آزادیاں کس قہر کی بے باکیاں، اور سب بے مقصد و بے غایت، لاحاصل و لاطائل! روا رکھی گئی ہیں۔ علم و ادب کی دنیا میں شعر کی دنیا میں، اور حد یہ ہے کہ غزل کی دنیا میں ! اور یہ سب جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ اگر کسی وقت یہ بھول جائیں کہ تیس چالیس سال پہلے جدت و اختراعیت کا کیا مفہوم تھا تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔

شاد صاحب کا کلام اپنے مخصوص رنگ و آہنگ اور مخصوص طرز و روش کا نمائندہ بن کر برابر منظر عام پر آتا رہا۔ ۱۹۳۷ء کی ایک اور غزل دیکھیے۔ یہ بھی ادبی دنیا (لاہور) میں شائع ہوئی تھی۔

سلامت اگر عشقِ ایذا طلب ہے

یہی رنج دائم رہے گا جو اب ہے

بجا! خواہشِ دید بے جا ہے لیکن

جو ہم چاہتے ہیں وہ ہوتا ہی کب ہے

تغافل تجاہل سے آتا ہے عاجز

مرا کچھ نہ کہنا بھی حسنِ طلب ہے

مجھے دیکھ کر مسکرادینے والے

محبت مسبّب، محبت سبب ہے

تنعّم، تبسّم، تکلّم، ترنم

محبت! محبت کی دنیا عجب ہے

وہی ہم وہی اضطرابِ جدائی

سکونِ تمنّا نہ جب تھا نہ اب ہے

یہی اختیاراتِ ہستی ہیں یارب!

نہ مرنے پہ قدرت نہ جینے کا ڈھب ہے

اٹھاتا ہوں روئے حقیقت سے پردہ

مری شاعری شادؔ جانِ ادب ہے

اردو غزل کے روایتی اسالیب کے پس منظر میں اس مخصوص اسلوب کا جائزہ لیا جائے تو اس کی اصل حقیقت واضح ہوتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ یہ دراصل غزل کے قدیم اور روایتی علائم و رموز سے روگردانی تھی جو اس شکل میں ظاہر ہوئی۔ گویا بات صرف اس قدر تھی کہ شاعر نے غزل کی مخصوص رمزیت اور ایمائیت کو ترک کر کے مطالب کی بلاواسطہ اور براہ راست ترجمانی کے فن کو اپنایا تھا۔ ترک و اختیار اور حک و ترمیم کے اسی عمل کی بدولت وہ اوصاف پیدا ہوئے جن کا میں نے اوپر کیا، یعنی لہجے میں ایک تحیر زا تازگی، ایک بے جھپک اندازِ گفتگو، ایک واشگاف قسم کا طرزِ تخاطب وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اس عمل میں شاعر نے اگر کچھ پایا تو بہت کچھ کھویا بھی۔ اس نے غزل کی شعری روایت کے اہم ترین اجزا سے دست بردار ہو کر غزل کی مخصوص علامات، کنایات اور تمثیلات و مجازات کے ساتھ ان کی تمام معنوی دلالتوں، ذہنی متعلقات اور تصوراتی لوازمات سے اپنے آپ محروم کر لیا اور ا سے غزل کا آرٹ بھی اُس پہلو داری سے محروم ہو گیا جو شاید اس کا بہترین وصف رہا تھا۔ یہ بالکل ایسی بات ہوئی جیسے کوئی اپنے جائزہ قیمتی ورثے کی طرف سے بطَیب خاطر اور بلا جبر و اکراہ منہ موڑ لے۔ مگر دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس میراث کی بدولت انسان خود کو پا بہ زنجیر محسوس کرے اس میراث سے چھٹکارا پا لینا ہی اچھا ہوتا ہے۔

میرا یہ کہنا ہے شاد عارفی جس رنگِ سخن کے ساتھ بزم ادب میں داخل ہوئے تھے ان کی تازگی اور نئے پن کا راز دراصل غزل کے روایتی علامتی اسلوب سے علاحدگی اور بے تعلقی میں تھا۔ اس بنیادی تغیر کے سایے میں شاد عارفی کی غزلیہ شاعری پھلی پھولی اور پروان چڑھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں دوسرے عناصر بھی جگہ پاتے گئے۔ شاد صاحب کی انانیت اور مزاج کی شوریدگی نے ان کے کلام میں ایک تلخ حقیقت نگاری کے انداز کو جنم دیا۔ ان کی فطری جرأت، بے باکی اور صاف گوئی نے اس رنگ کو کچھ اور تیز کیا۔ طبیعت کی جھلاّہٹ اور برافروختگی سے کبھی تلخ گفتاری اور کبھی تضحیک، تمسخر اور استہزا کے اوصاف پیدا ہوئے۔ اور یہی چیز جب فن کے سانچوں میں ڈھل گئی تو کبھی محض شوخی و خوش طبعی کبھی بذلہ سنجی اور کبھی طنز کے روپ میں ظاہر ہوئی۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ شاعر کا سماجی احساس برابر بیدار رہا۔ ایک گہرے اجتماعی شعور اور سماجی مقصدیت کے اصول پر وہ ہمیشہ کاربند رہا۔

کوئی مجھ سے پوچھے کہ شاد عارفی کی غزل کا نمایاں ترین وصف یا رجحان کیا ہے۔ تو میں جواب میں ’’سماجی مقصدیت‘‘ ہی کا ذکر کروں گا۔ وہ عمر بھر اپنے ماحول اور گردو پیش کے سیاسی، معاشی اور جنسیاتی کوائف سے متاثر ہوتے رہے اور اسی اکھاڑ پچھاڑ میں اپنا وقت پورا کر گئے۔ مطلب یہ کہ سماجی مقصدیت کی پیروی اگر ان کے کلام میں توانائی اور برجستگی اور تابندگی کے اوصاف پیدا کرتی ہے تو ان کے افکار کو ایک گونہ محدودیت کا شکار بھی بناتی ہے۔ وہ ماحول اور اس سے پیدا ہونے والے تاثرات کے گھیرے سے بہت کم باہر نکلتے ہیں۔ حیات و کائنات، خالق و مخلوق، معاش و معاد، مکان و لامکاں، زمان و لازماں اور وجود و شہود جیسے مسائل ان کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے۔ کسی مفکرانہ نظام کا ان کے یہاں پتا نہیں چلتا۔ کوئی مربوط و ہمہ گیر فلسفۂ حیات ان کی شاعری سے برآمد نہیں ہوتا۔ ہر شاعر سے ان چیزوں کی توقع کی بھی نہیں جا سکتی لیکن پھر ماحول کی عکاسی میں بھی وہ تنقید سے زیادہ محض رائے زنی پر اکتفا کرتے ہیں۔ وہ ماحول کے نقاد نہیں ہیں، محض مبصر ہیں۔ غالباً انھیں امور کی بنا پر ان کی شاعری عظمت کی حدود کو چھونے سے قاصر رہتی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ روز افزوں شہرت و مقبولیت اور شاعرانہ حیثیت کے استحکام سے شاعر میں خود اعتمادی کا احساس اس درجہ بالیدہ ہو جاتا ہے کہ وہ مناسب حدوں سے متجاوز ہونے اور اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں بھی تامل محسوس نہیں کرتا۔ یعنی پورے اطمینان اور بڑے فخر کے ساتھ مبتذل نوائی اور قافیہ پیمائی بلکہ تُک بندی پر اتر آتا ہے۔ شاد عارفی کا کلام بھی اس نوع کے ابتذال سے خالی نہیں۔ ان کی مخصوص لَے کبھی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ان کے ساز کے سُر بعض اوقات اتنے اونچے ہو جاتے ہیں کہ ایک دل خراش آہنگ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ غزل کے آرٹ کوVulgarise کیا جا رہا ہے۔

بہرحال شاد عارفی کی عمر بھر کی شاعرانہ مشق، ذہنی ریاضت اور خارجی عملی تجربات کے معمل سے غزلیہ شاعری کا جو مخصوص اسلو ب ڈھل کر نکلا وہ ایک قابلِ قدر اور جان دار اسلوب تھا جس نے پڑھنے والوں کو بھی متاثر کیا اور شعر کہنے والوں کو بھی۔ چنانچہ اس کے اچھے اور بُرے، صحیح و غلط اور مثبت و منفی اثرات ان کے پس روؤں کے کلام میں بآسانی دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ میں ذیل میں شاد صاحب کی ایک پوری غزل نقل کرتا ہوں جو میرے خیال میں ان کے مخصوص اسلوب اور اس کے مختلف خصائص کی مکمل نمائندگی کرتی ہے :

لا اے ساقی! تیری جے ہو

کوئی بھی پینے کی شے ہو

اردی ہو بہمن ہو، دے ہو

سب موسم اچھے ہیں، مَے ہو

گلشن میں صیاد کے ہاتھوں

جو انجام بھی ہوتا ہے، ہو

ہم آخر ہمت کیوں ہاریں

ہو ناکامی، پے در پے ہو

لاکھوں ہیں ہم سب بیچارے

اے شہزادو! تم سب کے ہو

ذہنی طور پہ اترے شحنو!

تم اب تک بھی جم ہو، کَے ہو

میں دنیا پر طنز کروں گا

دنیا میرے کیوں در پے ہو؟

ہم اس کے پابند نہیں ہیں

ساغر ہو، مینا ہو، مئے ہو؟

شاد مجھے یہ دھن رہتی ہے

اپنا نغمہ، اپنی لَے ہو

جی چاہتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے شاد صاحب کے کچھ اور نمائندہ اشعار پیش کروں۔ ملاحظہ ہوں۔

کب اور کس جا، کس عالم میں، کتنے دن تک یاد نہیں کچھ

ذہنی کاوش بتلاتی ہے میرا تیرا ساتھ رہا ہے

آپ کو ہر الفت راس آئی، آئی ہو گی لیکن سنیے

میں نے تو جب پھول چنے ہیں کانٹوں میں دامن الجھا ہے

آج بھی معنی دے جاتی ہیں برق و باراں سی تشبیہیں

میں نے رو کر نظم کہی تھی تو نے ہنس کر شعر کہا ہے

——————————

گلچیں کو شگوفوں کو تجارت سے غرض ہے

اندھوں کے لیے جلوۂ جاناں نہیں ہوتا

تحصیل معانی ہو کہ ہو تکملۂ فن

آسان سمجھ لینے سے آساں نہیں ہوتا

بنتا نہیں تصویر دکھانے سے مصور

اشعار سنانے سے غزل خواں نہیں ہوتا

——————————

ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا

جس نے مجھ کو گھور کے دیکھا میں نے اس کو ہنس کر دیکھا

چور کی داڑھی میں تنکے کا منظر اکثر اکثر دیکھا

میرے رہزن کے فقرے پر راہنما نے مڑ کر دیکھا

——————————

لوچ دینے کے لیے تلخیِ معروضات کو

سوئے افسانہ گھما دیتے ہیں سیدھی بات کو

ہم اجالے کے پجاری تم اندھیرے کے دھنی

دن میں ذرّے جگمگاتے ہیں ستارے رات کو

بیکسوں پر طنز کے پتھر تو بھاری چیز ہیں

ٹھیس پھولوں سے پہنچ جاتی ہے احساسات کو

وہ ہمیں تلقین فرماتے ہیں ایسے مشورے

جیسے اندھوں سے کہا جائے کہ بائیں ہاتھ کو

رہنماؤں سے تمیزِ نور و ظلمت مٹ گئی

دھوپ کی عینک لگائے پھر رہے ہیں رات کو

——————————

اے تو کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر

تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشیں پر

——————————

اٹھ گئی اس کی نظر میں جو مقابل سے اٹھا

ورنہ اٹھنے کے لیے غیر بھی محفل سے اٹھا

ہاتھ میں جام اٹھانا تو بڑی بات نہیں

کوئی پتھر کوئی کانٹا رہِ محفل سے اٹھا

قربِ ساحل کے تکبر میں جو کشتی ڈوبی

کوئی چھوٹا سا بگولہ بھی نہ ساحل سے اٹھا

شیخ پر ہاتھ اٹھانے کے نہیں ہم قائل

ہاتھ اٹھانے کی جو ٹھانی ہے تو باطل سے اٹھا

——————————

مسکرا لیجے ہمارے حال پر جی کھول کر

حال کی تبدیلیوں کا نام مستقبل بھی ہے

کیا ضمانت ہے نہ ہو گا از قبیلِ سنگ و خشت

فرض کردم آپ کے سینے کے اندر دل بھی ہے

——————————

صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا

اور اخبار میں اعلانِ ضرورت دیں گے

کیا تعجب ہے کہ تیشوں کی طرف بڑھ جائیں

لوگ ہاتھوں کو سوالوں سے جو مہلت دیں گے

مجھ کو چوری کی سہولت بھی نہ دیں گے اے شاد

وہ جو کہتے ہیں کہ جینے کی ضمانت دیں گے

——————————

خواص پڑ کے سو رہے، عوام اٹھ کے چل پڑے

جلے چراغ بجھ گئے، بجھے چراغ جل پڑے

یہ زلفِ پُر شکن نہیں، یہ ابروؤں کے خم نہیں

نکل نہ پائیں گے کبھی اگر دلوں میں بل پڑے

——————————

پئے تحسینِ وطن طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

ہم سے اس طرح کی امید نہ رکھے دنیا

ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں

——————————

اس جائزے میں میں نے اردو شاعری کے جس دور کو مد نظر رکھا ہے اس دور کے کتنے ہی شاعر ایسے ہیں جنھوں نے اپنی شاعری کا آغاز نظم نگاری سے کیا، گو آخر آخر ان کی تان غزل پر ٹوٹی۔ روش صدیقی اور عدم بہت نمایاں مثالیں ہیں۔ شاد عارفی بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، وہ اوّلاً نظم نگار اور ثانیاً غزل گو شاعر تھے اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نظم نگاری کے باب میں ان کا اسلوب بڑا جاندار اور خاصا چونکا دینے والا تھا۔ اس اسلوب کو اگر اردو نظم کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو دلچسپ حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔ حالی کے اصلاحی منصوبے کا بنیادی و مرکزی خیال یہ تھا کہ شاعری کو رسمی و تقلیدی عناصر سے پاک اور روایتی افکار و  اسالیب کی گرفت سے آزاد کیا جائے اور بندھے ٹکے خیالی مضامین کے غلبہ و اقتدار کو ختم کر کے زندگی کے ٹھوس، مادی اور اصلی حقائق کو وہ اہمیت دی جائے جس کے وہ درحقیقت مستحق ہیں۔ چنانچہ حالی سے لے کر جوش تک کی شاعری پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ اردو نظم کا یہ پورا سفر ماورائیت سے ارضیت کی طرف، تخئیلیت سے واقعیت کی طرف، اور روایت پسندی سے تجدد و بغاوت کی طرف حرکت کا دوسرا نام ہے۔ نظم کا قافلہ جوں جو ں آگے بڑھتا ہے داخلیت بتدریج کم اور خارجیت اُسی نسبت سے زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے (یہ یاد دلاتا چلوں کہ داخلیت اور خارجیت کا اس طرح ذکر کرنا محض ایک پیرایۂ بیان ہے ورنہ شاعری درحقیقت خارجی حالات کے داخلی رد عمل کو گرفت میں لانے کا نام ہے ) آزاد، حالی، شبلی، اور اسماعیل میرٹھی کی نظموں میں جو خارجیت ہے اس سے کچھ زیادہ ٹھوس خارجیت چکبست اور اقبال کی نظموں میں ملتی ہے۔ سرور جہاں آبادی اور نادر کاکوروی کی رومان انگیز خارجیت کچھ اور بھی آگے کی چیز ہے۔ عظمت اللہ خاں اور شوق قدوائی کی نظموں کی ٹھیٹھ ہندوستانیت میں یہ خارجیت ایک قدم اور آگے بڑھاتی ہے۔ پھر اختر شیرانی کی رومانیت جس خارجیت کے سہارے چلتی ہے وہ بھی پچھلی خارجیت کا محض تسلسل نہیں بلکہ اس کا ارتقائی روپ ہے اور بالآخر خارجیت کا یہ تدریجی ارتقا جوش کی شاعری کے بے شمار، متنوع اور گو نا گوں خارجی موضوعات میں بظاہر اپنی انتہا کو پہنچتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد شاد عارفی کی نظموں پر نظر ڈالیے۔ نہ صرف موضوعات، بلکہ الفاظ، زبان، انداز بیان، طرزِ فکر، طرزِ احساس، طرزِ گفتار کے لحاظ سے یہ نظمیں کسی پرانے یا مروجہ اسلوب کا اعادہ نہیں، ایک نئے ذاتی اسلوب کا واضح اعلان اور ایک تازہ تر آہنگ کو رائج کرنے کی واضح کوشش معلوم ہوتی ہیں جس چیز کو میں خارجیت کہتا رہا ہوں اور جو حالیہ امریکی محاورے میں Down to earth approach کہی جاتی ہے وہ چیز شاد عارفی کی نظموں میں ایک نئی آن بان کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ہولی، ملازمہ، شوفر، مال روڈ جیسے موضوعات سے ہم ان کی نظموں میں دو چار ہوتے ہیں۔ باقاعدہ مثالوں کی نہ ضرورت ہے نہ گنجایش۔ کہیں کہیں سے چند ٹکڑے ان کی نظموں کے نقل کرتا ہوں جن سے ان کا اسلوب ابھر کر سامنے آتا ہے :

یہ طنزِ آقا کہ پانچ بجتے ہیں، چائے تیار کیوں نہیں ہے ؟

ابھی اٹھی ہوں، سے ہم کو مطلب؟ سحر سے بیدار کیوں نہیں ہے ؟

تتر بتر ہیں لباس و بستر، تجھے سروکار کیوں نہیں ہے ؟

بھری ہیں کیوں گھنگھنیاں سی منہ میں ؟ زبانِ اقرار کیوں نہیں ہے ؟

یہ جس کے لچھّن یہ جس کے کرتوت ہوں، خطا وار کیوں نہیں ہے ؟

تجھے ہماری عنایتِ چشم پوش کا ہل بنا چکی ہے !

———————

آنکھ دُکھنے کا تعلق شاعری سے کچھ نہیں

ہوں نہ عذرِ لنگ سے واقف تو ہم کر لیں یقیں

آئے ہیں پیدل تو خالی ہاتھ جاتے کہیں

———————

میری عادت پان سو ڈنٹر سات سو مگری کے ہاتھ

بعد ازاں بیسن کی روٹی چھاچھ اور مکھن کے ساتھ

چائے  بسکٹ پیسٹری کالے کر سٹانوں کی بات!

میرے گھر لڑکا ہوا ہے اُس کا اک اچھا سا نام

ہو سنہ ہجری کے اندر عیسوی کا التزام

جیسے خسرو کی پہیلی یا امانتؔ کا کلام

———————

کر رہا ہے تین دن سے بندہ جس لڑکی پہ کام

اس تغافل کیش کی الفت میں سونا ہے حرام

چند شعر ایسے کہ طے پا جائیں پیغام و سلام

میرا افسر جا رہا ہے، رخصتی اشعار کچھ

جس طرح گیندے کے گجرے جیسے جھوٹے ہار کچھ

اور اس ڈھب سے سمجھ پائے نہ وہ مکار کچھ

———————

آ رہا ہے اُس کی بدلی پر جو نینی تال سے

بیچتا تھا خوانچے میں سیب، آڑو، فالسے

سنتے ہیں پایا ہے یہ رتبہ گھریلو چال سے

———————

خود ہی کرتا ہے معطل خود ہی کرتا ہے اپیل

تھوپتا رہتا ہے عملے پر خطائے بے دلیل

سو روپے، اک مرغ، اک بوتل، بحالی کی سبیل

———————

’’کھٹ کھٹ‘‘ کون؟ صبیحہ! کیسے ؟ یونہی! کوئی کام نہیں ‘‘

’’پچھلی رات، بھیانک گیرج، کیا کچھ ہو انجام ۔۔ نہیں !‘‘

’’میرا ذمہ، میں بھگتوں گی، تم پر کچھ الزام نہیں ‘‘

اس نے اس کے عارضِ گل فام پر صندل ملا

اس نے اس کے حسن مے آشام پر کاجل ملا

سخت چوٹی پر گلابی رنگ پڑ کر بہ گیا

نرم آڑی مانگ میں سیندور بھر کر رہ گیا

میری جانب آئی پھر اس میں سے اک آفت جمال

جس پہ ظاہر تھا میری چشم تماشائی کا حال

آ گئی جب بھاگ کر بچنے کی حد تک وہ شریر

مل لیا مجھ کو دکھا کر اپنے چہرے پر عبیر

شاد عارفی نظریاتی سطح پر ترقی پسند ادب کی تحریک کے ساتھ نہیں تھے۔ غالباً انھوں نے اس تحریک کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھنے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی لیکن عملاً ان کی شاعری ترقی پسند ادب کے معیاروں پر پوری اترتی تھی اور ان کی تخلیقات مزاج و منہاج کے لحاظ سے کسی با شعور ترقی پسند شاعر کی تخلیقات معلوم ہوتی تھیں۔ وجہ یہ کہ ان کے مطالعے کا رخ صحیح اور ان کے فکر کی سمت و رفتار عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اور سماجی ارتقا کے مطالبات سے ہم کنار تھی۔ وہ شاعری کو سماج اور زندگی سے الگ نہیں سمجھتے تھے۔ شاعرانہ فکر کا مقصد ان کے نزدیک لاشعوری اور نیم شعوری جذبات کی کیچڑ اور دلدل میں غوطے لگانا نہیں، زندگی کو اعلا انسانی اقدار کی روشنی میں جانچنا، پرکھنا، سجانا اور سنوارنا تھا۔ میرا ذہن پھر اپنی تصنیف ’’ایک ادبی ڈائری‘‘ کی طرف جاتا ہے۔ میں نے ۱۹۴۲ء کے ایک اندراج میں عام نقادوں کی بے بصری اور کور ذہنی کا رونا روتے ہوئے اس دور کے چند اہم شاعروں کا ذکر کیا تھا جو اپنی اہمیت اور قدر و قیمت کے باوجود تقلید زدہ نقادوں کی بے توجہی کا شکار تھے۔ اسی ضمن میں میں نے شاد عارفی اور ان کی شاعری پر بھی اظہارِ خیال کیا تھا۔ میرے الفاظ تھے۔ ’’شاد عارفی بھی ان شاعروں میں ہیں جو درجۂ اول کے شاعر ہوتے ہوئے بھی نقادوں کی نگاہِ التفات سے محروم ہیں، صرف اس لیے کہ اب تک کسی بڑے نقاد نے اپنے اشاروں پر چلنے والے دوسرے نقادوں کو ان کی طرف متوجہ نہیں کیا۔ ان کا قصور صرف اس قدر ہے کہ وہ شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈہ کرنا نہیں جانتے۔ انھوں نے اپنے آپ کو کسی با اثر گروہ Cliqueکے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔ نہ مشاعروں میں جا جا کر گلے بازی کی۔ ان کا کلام برسوں سے کافی تسلسل کے ساتھ رسائل میں شائع ہو رہا ہے۔ ان کی نظموں میں جہاں موضوعات کی جدت پائی جاتی ہے وہاں اسلوب کا انوکھا پن بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ترقی پسند رجحانات سے بھی وہ بیگانہ نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی بعض نظمیں ترقی پسند آرٹ کے نہایت عمدہ نمونے پیش کرتی ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ نقادانِ سخن کے تغافل کا شکار ہیں۔ ‘‘ یاد رہے کہ یہ الفاظ تیس سال پہلے لکھے گئے تھے۔

شاد صاحب کی غزلوں اور نظموں کا جائزہ لینے کے بعد ان کے قطعات و رباعیات کے بارے میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ رباعی سے تو وہ عہدہ برآ نہیں ہوسکے، کیونکہ اس دور میں کامیاب رباعی نگاری کا مطلب یہ ہے کہ اس قدیم اور حد درجہ منفرد صنفِ سخن کے انداز و آداب اور لب و لہجہ کو بر قرار رکھتے ہوئے اس کے ذریعے جدید فکر کی ترجمانی کی جائے۔ بسا اوقات یہ ممکن نہیں ہوتا اور شاعر کا وار صاف خالی جاتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جو رباعیاں وجود میں آتی ہیں وہ یا تو اساتذۂ قدیم کی رباعیوں کا چربہ معلوم ہوتی ہیں یا پھر مخصوص بحر کی پابندی کے علاوہ ان میں رباعی کی کوئی دوسری خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ باقی رہے شاد صاحب کے قطعات، تو ان میں جگہ جگہ ان کا معروف طنزیہ اسلوب اور مطالعے کا مخصوص انداز جھلک دکھائے بغیر نہیں رہتا مثلاً:

نقشِ قدم کے بدلے آنسو بو جاؤں تو اچھا ہے

جاتے جاتے درسِ عبرت ہو جاؤں تو اچھا ہے

کھلنے والے پھولوں کی تعریفیں کرنا لاحاصل

گلشن کی ہنستی کلیوں پر رو جاؤں تو اچھا ہے

یوں سہارا دے رہے ہیں عام لوگوں کو خواص

روشنی دیتا ہے جیسے ٹوٹ کر تارا کبھی

ڈوبنے والے کو ساحل سے اگر آواز دیں

ڈوبنے سے بچ نہیں سکتا وہ بے چارہ کبھی

———————

یہ تغزل کے پرستار پرانے شاعر

زلف کو عارضِ گلنار پہ دیتے ہیں شرف

اس کا مطلب ہے جوانوں کو وہ اپنے ہمراہ

روشنی سے لیے جاتے ہیں اندھیروں کی طرف

———————

اس کی محفل میں شکووں کا عادی کوئی کان نہیں

ہر فریادی چھوڑ رہا ہے تیر غلط انداز پر

اس بت سے ماحول کی الجھن کہنے سے کیا حاصل شادؔ

احمق ہی آوازیں دے گا قفل پڑے دروازے پر

شاد صاحب کے ذخیرۂ شعری میں اس نوع اور اس معیار کے قطعات موجود ہونے کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ انھوں نے اس صنف پر کچھ زیادہ توجہ صرف نہیں کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قطعات و رباعیات کے بارے میں ان کا وہی رویہ رہا جو ہمارے پرانے غزل گو اساتذہ کا تھا جن کی بہترین کاوشیں تو غزل کو سر انجام کرنے میں صرف ہوتی تھیں اور رباعی یا قطعہ محض ضمناً یا چلتے چلاتے موزوں کیا جاتا تھا۔

میں چلتے چلاتے یہ کہنا چاہوں گا کہ شاد صاحب کی غزلیات ہی کو ان کی کل کائنات سمجھ لینا اور جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے اس بات کی رٹ لگائے رکھنا کہ شاد عارفی نے اردو غزل کو ایک نیا موڑ دیا اور ایک نیا آہنگ عطا کیا، کوئی صحیح تنقیدی روش نہیں ہے۔ صحت نقد کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان کی پوری شاعری کو ایک جامع و مربوط اکائی تصور کیا جائے اور غزلوں کے ساتھ ان کے کلام کے دوسرے اجزا خصوصاً نظموں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے ان کی شعری خدمات پر کوئی حکم لگایا جائے۔ میری ناچیز رائے میں ان کے مخصوص شعری مزاج کا اظہار جس طرح ان کی غزلیات میں ہوا اسی طرح اور اسی قوت و شدت کے ساتھ ان کی نظموں میں بھی ہوا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                آل احمد سرورؔ

 

شادؔ عارفی کی انفرادیت

 

آخر شادؔ عارفی ہم سے رخصت ہو گئے۔ یوں تو بہت دن سے ان کی صحت خراب تھی اور مالی حالت تو کبھی اچھی نہ تھی مگر حال ہی میں ان کی طویل علالت تشویش ناک صورت اختیار کر گئی اور ۱۱؍ فروری ۶۴ء کے اخباروں سے ان کے انتقال کی خبر ملی۔

شادؔ عارفی بڑے البیلے شاعر تھے۔ نہایت غیرت مند، خود دار، بڑے پکّے محبِ وطن، آزادی و جمہوریت کے دلدادہ، ترقی پسند خیالات رکھنے والے، بول چال کی زبان کے امکانات کو اور واضح کرنے والے، سماج کے فاسد مادہ پر نشتر زنی کرنے والے۔ اپنے رنگ کے منفرد اور اپنے طرز کے انوکھے۔ جدید اردو شاعری کو کئی غیر فانی نظمیں بخشنے والے شاعر سے آخر ہم محروم ہو گئے۔

شادؔ عارفی فن پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی کچھ لغزشوں میں بھی ایک ’’رمز جنوں ‘‘ تھا، مشاعروں میں تو بہت کم شریک ہوئے مگر اردو کے ہر اچھے رسالے اور جدید اردو شاعری کے ہر اچھے انتخاب میں انھیں نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔ کچھ عرصہ ہوا ان کے کلام کا انتخاب انجمن ترقی اردو ( ہند) نے شائع کیا تھا۔ رام پور کے کچھ پر جوش اور مخلص نو جوانوں نے ان کے کلام کی اشاعت کا پروگرام بنایا تھا۔ شاعر تو یہ حسرت لیے ہوئے رخصت ہو گیا مگر اس کی شاعری کی معنویت اور تاثیر باقی رہے گی۔

دیکھنا ہے شادؔ کا مجموعۂ کلام کب منظرِ عام پر آتا ہے۔

…………

چند روز ہوئے  ’ایک تھا شاعر‘ کے نام سے شادؔ عارفی کے فن اور شخصیت پر مظفر حنفی کی مرتب کی ہوئی ایک کتاب پڑھی۔ مظفر حنفی کو شاد سے بڑی عقیدت ہے اور انھوں نے بڑی کاوش سے ان کے متعلق بہت سے مضامین جمع کیے ہیں اور ان کے خطوط بھی جو دستیاب ہو سکے یکجا کر دیے ہیں اس طرح کتاب دلچسپ بھی ہو گئی ہے اور بصیرت افروز بھی۔ شادؔ کی انفرادیت کو سمجھنے کے لیے اور بیسویں صدی کی اردو شاعری میں ان کا درجہ متعین کرنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ یقیناً مفید ہو گا۔

شادؔ عارفی ایک منفرد اور صاحبِ طرز شاعر تھے۔ زمانے نے ان کے ساتھ بہت ستم کیے۔ وہ مالی پریشانی اور نا قدری دونوں کے شکار رہے پھر رام پور جیسے شہر میں جہاں جاگیردارانہ ماحول اب بھی باقی ہے، ایک آزاد مرد کے لیے اپنی آن بان کے ساتھ گزار دینا یوں بھی بہت مشکل تھا وہ ایک محبِ وطن اور روشن خیال آدمی تھے اور ایک بلندسماجی اور اخلاقی آدرش رکھتے تھے۔ اوروں کی طرح انھوں نے بھی آزادی اور مساوات کے خواب دیکھے تھے اور پھر ان خوابوں کو چکنا چور ہوتے دیکھ کر چیخ اٹھے تھے انھوں نے اپنے گرد و پیش کی ذہنی اور معاشرتی بیماریوں پر بھر پور طنز کی۔ رام پور ادب اور فن کا گہوارہ رہا ہے، انھیں ایک جاندار اور نکیلی زبان ملی تھی۔ چنانچہ انھوں نے اس بانکی زبان سے جس میں بول چال اور چلن کی ساری طاقت سما گئی ہے، سماج کی خرابیوں پر وار کیا۔ یہ شعر دیکھیے:

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

………

ہم خدا کے ہیں، وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابر گوہر بار کا

………

ہے تو احمق، چونکہ عالی شان کاشانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے

سینک سکتے ہیں آپ بھی آنکھیں

جل رہے ہیں نشیمنوں کے الاؤ

مہر چاہیے اتنا جو ادا نہ ہو پائے

روز خانہ جنگی ہو فیصلہ نہ ہو پائے

یہاں چراغ تلے لوٹ ہے اندھیرا ہے

کہاں چراغ جلانے کی بات کرتا ہوں

شادؔ کے یہاں صرف سماج کی خرابیوں پر طنز ہی نہیں ہے محبت اور نفسیات انسانی کی سچی تصویریں بھی ہیں اور انھیں ایک ایسے تیور اور بانکپن سے پیش کیا گیا ہے کہ فوراً ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں :

جذبۂ محبت کو تیرِ بے خطا پایا

میں نے جب اسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا

اک بھینی بے نام سی خوشبو

شامل ہے ہونٹوں کے رس میں

تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی

لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیا کرے کوئی

شادؔ پر جو مضامین لکھے گئے ہیں ان میں اس بات کا رونا بہت رویا گیا ہے کہ سماج نے شادؔ کی قدر نہ کی۔ حالانکہ بات بہت صاف ہے۔ حریت فکر اور آزادیِ رائے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک شخص سماج پر طنز کرے اور سماج اسے سر پر بٹھائے۔ ہاں اہلِ نظر اور دیدہ ور اس شخص کی خوبیوں کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں اور دوسروں پر اس کی عظمت واضح کرتے ہیں۔ وہ جاگیردارانہ سماج جس میں شادؔ نے آنکھیں کھولی تھیں اوپری روغن کا قائل تھا۔ اندر لکڑی گھنی ہوئی تھی۔ ظاہر داری، منافقت، دربار داری اور خوشامد اس کا مزاج بن گئے تھے۔ شادؔ اس ماحول سے باغی تھے۔ انھیں اس نفرت کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ شادؔ کی عظمت یہ ہے کہ انھوں نے اس بغاوت کو ایک تیکھے اور منفرد اسلوب کا روپ دیا۔ انھوں نے بول چال کی زبان کے امکانات کو بڑی خوبی سے واضح کر دیا۔ ان پر جو مضامین لکھے گئے ہیں وہ مجموعی طور پر ان کی بہت سی خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہیں، مگر در اصل ان کے خطوں کی زیادہ اہمیت ہے۔ ان خطوں میں شادؔ کی شخصیت بڑی روشن ہے۔ وہ بہر حال پٹھان تھے۔ مالی پریشانیوں کے باوجود وہ چومکھی لڑتے رہے۔ زندگی سے انھیں برابر پیار رہا، اور اپنی طنز کے تیروں سے اور اپنی نشتر کی سی تیزی رکھنے والی زبان سے اس زندگی پر وار بھی کرتے رہے اور ایک معنی میں اس پر فتح بھی پاتے رہے۔ یہ خط بڑے مزے کے خط ہیں معمولی باتوں اور فرمائشوں میں بھی ایک لطف ہے۔ ان میں ان کی زود رنج اور بد گمان طبیعت کا بھی بڑا سچا نقشہ مل جاتا ہے اور ان کے بھولے پن اور سادگی کا بھی اور ان کی مار کاٹ کا بھی۔ خطوں کے مطالعے سے ان کے ان اشعار کا لطف اور بڑھ جاتا ہے۔

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

پئے تحسینِ وطن طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

غالبؔ کے شعر نام سے میرے سنا کے دیکھ

پھر اعتراضِ ناقدِ فن آزما کے دیکھ

منتظر ہے پاکستان اور میں نہ جاؤں گا

برہمن کے مصرعے پر طبع آزماؤں گا

چاہتا ہوں بھارت کا نام اور اونچا ہو

سوچتا ہوں مسجد سے جوتیاں چراؤں گا

شادؔ نے نیازؔ اور جوشؔ کا جس طرح اپنے خطوں میں ذکر کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی سے مرعوب ہونے والے آدمی نہ تھے۔ شادؔ ہر معرکے میں حق پر نہیں ہوتے تھے۔ کبھی کبھی رائی کا پہاڑ بھی بنا لیتے تھے اور ذرا سی بات پر بد گمان بھی ہو جاتے تھے۔ انھوں نے زمانے کے ہاتھوں اتنے زخم کھائے تھے کہ وہ کسی نئے آدمی کو غلط سمجھنے کے لیے گویا ادھار کھائے بیٹھے رہتے تھے مگر غور سے دیکھا جائے تو وہ بڑے صاف سچے اور بے ریا آدمی تھے اور بڑے بانکے اور نکیلے شاعر۔ ان کی نظموں اور غزلوں دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ کئی نظموں میں انھوں نے ہماری معاشرت کی بعض خرابیوں پر اس طرح طنز کی ہے کہ یہ مرقعے غیر فانی ہو گئے ہیں۔ جو لوگ شاعری کی زبان اور بال چال کی زبان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھتے ہیں، انھیں شادؔ کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ شادؔ نے بول چال کی زبان کی طاقت اور شعریت کو جس طرح اجاگر کیا ہے اور جس طرح بقول ایذرا پاؤنڈ ’’ حقیقی نفسیات‘‘ کو زبان دی ہے اسے جدید اردو شاعری ہمیشہ یاد رکھے گی۔ انھوں نے غلط نہیں کہا ہے :

اب اربابِ طریقت جانیں

میں نے مے خانے سے لا دی

٭٭٭

 

 

 

                فرمان فتح پوری

 

شاد عارفی: ایک طنز نگار غزل گو

 

اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت نئی نہیں، بہت پُرانی ہے۔ ہجو، شہر آشوب، ریختی اور واسوخت کی صورت میں، یہ روایت پہلے سے چلی آ رہی تھی۔ حالیؔ اور اکبرؔ کے وقت اس میں قطعہ، مثنوی اور جدید نظم بھی شامل ہو گئی لیکن غزل بحیثیت مجموعی حسن و عشق کا قصہ ہی رہی، قصہ جھوٹا نہ سہی سچا سہی۔

اس سے انکار نہیں کہ غزل میں بھی متصوفانہ خیالات کے سہارے واعظ و ناصح اور زاہد و شیخ پر چوٹ کرنے کی مثالیں ملتی ہیں لیکن اول تو یہ چوٹیں طنز کے نہیں، عموماً ظرافت و شوخی کے دائرے میں آتی ہیں، دوسرے یہ کہ بلحاظ موضوع یہ دائرہ بہت مختصر ہے اور اس میں تکرار، تقلید اور روایتی اسلوب نے ایسا پھیکا پن پیدا کر دیا ہے کہ بسا اوقات اس سے لطف اٹھانے کے بجائے ہماری طبیعتیں منغض ہو جاتی ہیں۔ رہی سچی اور سنجیدہ طنز نگاری سو اس کا کام غزل سے لیا ہی نہیں گیا۔ حالانکہ اس کے کنایاتی اور رمزیہ اسلوب میں طنز کے نشتر توڑنے کی سب سے زیادہ صلاحیت تھی، لیکن مشکل یہ ہے کہ غزل کی اس صلاحیت سے ہمہ شمہ نہیں ایک بلند مرتبہ اور باصلاحیت شاعر ہی کام لے سکتا ہے۔

مجھے اردو غزل کی پوری تاریخ میں صرف دو ہی ایسے نام نظر آتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے غزل سے با مقصد اور سنجیدہ طنز نگاری کا بھرپور کام لیا ہے۔ میری مراد مرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب اور شاد عارفیؔ سے ہے۔ دونوں نسلاً پٹھان ہیں اور دونوں کو شاعری سے زیادہ آبا و اجداد کے پیشہ سپہ گری پر ناز ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زبان و طرزِ بیان سے تیغ جوہر دار کا کام لینے اور اپنے مد مقابل پر بے محابا وار کرنے سے نہیں چوکتے۔ پہلے غالب کے طنز کی چند مثالیں دیکھیے :

تیشہ بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد

سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود تھا

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لیے

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلی نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

ہم کو منظور تنک ظرفیِ منصور نہیں

زندگی اپنی جو اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسد

وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

شنیدۂ کہ بہ آتش بہ سوخت ابراہیم

بہ بیں کہ بے شرر و شعلہ می توانم سوخت

ان اشعار میں غالب کے طنز کا اسلوب بظاہر روایتی اور بے مقصد معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ ہر طنز کے پسِ پشت اصلاح کا کوئی نہ کوئی جذبہ ضرور کارفرما ہے۔ یہ جذبہ کسی سماجی فلسفہ یا نظریۂ حیات سے مربوط و منظم نہ سہی اور ایسا ہونا اس وقت ممکن بھی نہیں تھا پھر بھی یہ جذبہ اتنا پتا ضرور دیتا ہے کہ شاعر اپنے گردو پیش اور مامضی و ماحضر سے مطمئن نہیں ہے۔ اس کی انانیت اور آزادہ روی زندگی کو اس سے بھی زیادہ کشادہ اور خوشگوار فضا میں سانس لینے اور مستقبل کو ماضی و حال کے مقابلے میں روشن تر دیکھنے کی متمنی ہے۔ شاد عارفی کے طرزِ کلام کی بھی تقریباً یہی صورت ہے۔ ان کا طنزیہ لہجہ کہیں کہیں غالب کے لہجے سے بہت قریب ہو گیا ہے، اتنا قریب کہ دونوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شاد عارفی نے یہ جو کہا ہے کہ:

غالب کے شعر نام سے میرے سنا کے دیکھ

پھر اعتراضِ ناقدِ فن آزما کے دیکھ

بے سبب نہیں کہا۔ لیکن دو باتیں شاد عارفی کے طنزیہ لہجے کو بالکل الگ کر دیتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اوپر غالب کے شعروں کے ذریعے جس طنزیہ لہجے کی نشان دہی کی گئی ہے وہ غالب کے اسلوب کا ایک جزو ہے اور شاد عارفی کے طنز کا دائرہ، اندازِ نظر اور موضوع ہر اعتبار سے غالب کے مقابلے میں وسیع، با مقصد اور بہت واضح ہے۔

جن لوگوں نے شاد عارفی کے کلام کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے وہ گواہی دیں گے کہ سماجی زندگی کا کوئی خام پہلو ان کے طنز کے نشانے سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ ان کے طنز کی ہمہ گیری پر سوداؔ کا یہ شعر بے ساختہ یاد آیا:

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں

لیکن اس سلسلے میں سودا کے شعر کا سہارا کیوں لیجیے، اپنے طنزیہ لہجہ کی وسعت کی صراحت خود شاد عارفی نے اس طور پر کر دی ہے :

آتی ہیں مرے طنز کی چھینٹیں تو سبھی پر

یہ کیا کہ فقط آپ بُرا مان رہے ہیں

عظمتِ فن کی روایات کو مرنے نہ دیا

شعر سے بچ کے کوئی ظلم گزرنے نہ دیا

یہ محض ان کا دعوا نہیں ہے۔ اس دعوے کا ثبوت ان کی ہر غزل سے ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے ماحول اور اپنے عہد کی ہر کج روی، ہر کمزوری، ہر ناہمواری، ہر بے اعتدالی، ہر بد نظمی، ہر بے مہری اور ہر بے راہ روی کو رنگ و نسل اور مذہب کے تعصبات سے بلند تر ہو کر اپنے طنز خاص کا نشانہ بنایا ہے۔ ذیل کے چند اشعار دیکھیے :

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

———————

چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی

شیخ صاحب ہیں، میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

———————

زندگی پر دلیر ہیں وہ لوگ

مقبروں سے جو لے رہے ہیں خراج

———————

رنگ کو دھوپ کھا گئی، بو کو ہوا اڑا گئی

کہیے اس اعتبار سے آئی بہار یا گئی

———————

آج کل راتیں بڑی ہیں، اس لیے دن گھٹ گئے

تھے کبھی ہم لوگ بھی شایانِ شانِ کوئے دوست

———————

برابر ہیں فغانِ درد و نغمہ

یہ آزادی نہیں تو اور کیا ہے

———————

اصطلاحاً بُرے کو بھلا کہہ دیا

یعنی گالی نہ دی رہنما کہہ دیا

———————

ہے تو احمق کیونکہ عالیشان کاشانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے

———————

جشن آزادی جمہور پہ لاتا ہے دلیل

کو بکو شہر میں چندے سے چراغاں ہونا

———————

جن کی ذہنیتیں ہیں رہینِ کجی

جانتے ہیں مجھے ترقی نہ سجی

فکر ہر کس بقدر ہمت اوست

بھینس کے آگے بین مجھ سے نہ بجی

———————

جنھیں حقیقت بیان کرنا خلافِ آئین مصلحت ہے

سمجھ رہے ہیں معاشرے میں الگ تغزل کی مملکت ہے

جبھی تو ان شاعروں کو سن کر گماں گزرتا ہے ایسے خط کا

لکھا ہو جس میں سوائے فاقہ، وطن میں ہے سب خیرو عافیت ہے

———————

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان اشعار میں شاد عارفی نے طنزیہ لہجے کو الفاظ و تراکیب کی شعبدہ گری یا کنایات و استعارات کی مدد سے جنم نہیں دیا بلکہ ایک خاص نقطۂ نظر سے واشگاف انداز میں اپنے عہد کے بعض رجحانات پر براہ راست وار کیا ہے۔ چونکہ شاد عارفی کی شخصیت ڈھکی چھپی، ٹیڑھی ترچھی یا مبہم و پیچیدہ نہیں بلکہ سیدھی، صاف کھلی ہوئی اور سادہ ہے، اس لیے ان کا فن بھی، جسے ان کی شخصیت کا عکس کہنا چاہیے، اپنے اندر کوئی ایچ پیچ نہیں رکھتا اور نہایت سادگی و بے باکی سے اپنے حریف کو طنز کا ہدف بناتا ہے۔ اب آپ ان کے فکر و فن کی اس سادگی و بے باکی کو سچائی کا نام دیجیے یا کھرے پن کا، بات ایک ہی ہے۔ ریاکاری، تلبیس، خوشامد، دروغ گوئی اور داؤ پیچ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں، جس طرح دیکھتے ہیں اور جو اثر قبول کرتے ہیں اسے فکرِ فردا یا مصلحتِ وقت کو بالائے طاق رکھ کر کسی طرح کی رو رعایت کیے بغیر من و عن بیان کر دیتے ہیں :

یہی ہے شاد میں سب سے بڑا عیب

وہی لکھتا ہے جو کچھ دیکھتا ہے

پیٹھ پیچھے جو کہا تھا وہ کہا منہ پر بھی

فکرِ فردا نے صداقت سے مکرنے نہ دیا

پئے تحسینِ وطن، طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

ہم سے اس طرح کی امید نہ رکھے دنیا

ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں

ان کی یہی صاف گوئی اور حقیقت نگاری جس میں حق بیان کی تلخی بہرحال ہوتی ہے، کہیں ان کی غزل میں ڈھل کر تلوار اور کہیں تلوار کے لیے ڈھال بن گئی ہے۔

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

اور اسی نے ان کی غزل کے لب و لہجہ کو دوسرے غزل گو اردو شعرا کے لہجے سے الگ کر دیا ہے۔ اتنا الگ کہ آپ انھیں کسی خاص گروہ سے منسلک نہیں کرسکتے۔ ان کی آواز میر، نظیر، غالب اور یگانہ کی طرح اردو غزل کی تاریخ میں یکسر انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ آواز سچائی کی تلخی، اور لہجے کی کرختگی کے سبب اس مصلحت کیش و ریا کار دنیا میں کچھ زیادہ مقبول نہ ہوسکی۔ لوگو ں نے انھیں سنا لیکن اس طرح گویا سنا ہی نہیں۔ اب ناقدروں کو اپنی کم ذوقی اور شاد ناشناسی کا احساس ضرور ہو رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                سلامؔ مچھلی شہری

 

 

ایسے لوگ کہاں !

 

شادؔ عارفی کی شاعری سے میں اچھی طرح اس زمانہ میں واقف ہوا جب میرا جی مرحوم نے غالباً ’ادبی دنیا‘ میں نظموں پر تشریحی نوٹ لکھنا شروع کیے۔ یہ نوٹ بڑے جاندار ہوتے تھے۔ میرا جی اپنے مخصوص انداز میں شاعر کی تحلیلِ نفسی کیا کرتے تھے، مگر اس کے لیے صرف نظموں میں داخلی شہادتیں تلاش کرتے تھے۔ شاعر کی نجی زندگی سے انھیں کم سروکار ہوتا تھا۔ ان تشریحی نوٹوں میں طبّی معائنے کا پہلو زیادہ ہوتا تھا۔ اور پھر اسی طبی معائنے کی بنیاد پر تحسین یا تنقید کی جاتی تھی۔ بڑا اچھا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بعد میں مع نظموں کے تشریحی نوٹ کتابی شکل میں شائع بھی ہوئے تھے۔ کتاب کا نام تھا ’’ اس نظم میں ‘‘۔ اس کتاب میں میری نظموں کے ساتھ شاد صاحب کی بھی نظمیں شامل تھیں جہاں تک مجھے یاد آتا ہے اُس میں شاد صاحب کی دو نظمیں شامل تھیں۔ ایک تو ’’ شکار ‘‘ تھی دوسری غالباً ’’ دسہرا اشنان‘‘۔ یہ تھا شاد صاحب سے میرا پہلا شعری تعارف۔ اس پہلے ہی تعارف میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ شاعر بے پناہ طنزیہ صلاحیتوں کا مالک ہے اور یہ کہ اسے اپنے گرد و پیش کے سماجی نظام سے ایک طرح کی آتشیں بے اطمینان ین ہے اس بے اطمینانی کے کینوس کا بھی مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک ویسی ریاست کی درباری سیاست اور اس کی انحطاط زدگی کا کینوس ہے۔ اس کینوس پر اس نے جو تصویریں ابھاریں وہ تینس کی کریہہ تصویریں تھیں۔ ان تصویروں میں جاگیردارانہ نظام کی پوری تھکن اور اعضاء شکنی نمایاں تھی۔ وہ تھکن اور اعضا شکنی جو سستے داموں کی طوائفیں اپنی پوری ہیئتی بد صورتی اور ملبوسی شکنوں کے ساتھ صبح کو محسوس کرتی ہیں۔ ان کی بیشتر نظمیں ایک تہذیبی بساط کی شام کی منظر کشی کرتی ہیں۔ وہ تہذیب جو غروب ہو رہی ہے۔ بعد میں میرا یہ تاثراس وقت اور بھی گہرا ہو گیا جب میں نے ان کی نظمیں ’’رنگیلے راجہ کی موت‘‘، ’’ مہترانی‘‘، ’’اندھیر نگری‘‘ اور ’’ شوفر‘‘ وغیرہ پڑھیں۔ یہ سب کی سب تلخ موڈ کی پیدا وار تھیں۔ مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اُن نظموں کی ڈرامائی ٹیکنیک تھی، کبھی کبھی تو مجھے یہ محسوس ہوا گویا یہ نظمیں ایک طویل ڈرامے کے مختلف مناظر ہوں۔ ان مناظر میں ایک طرح کی داخلی وحدت ہے۔ اپنے چھوٹے سے معاشرے کو انھوں نے جس طرح سمجھاہے اور اسے جو عمومیت بخشی ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔ نہ جانے کیوں جب میں شادؔ صاحب کو رام پور کے سیاسی اور تہذیبی پس منظر میں رکھ کر دیکھتا ہوں تو مجھے فرانس کے مشہور طنز نگار Voltaireکا خیال آتا ہے جس نے فرانس کی انحطاط زدہ شہنشاہی تہذیب پر تازیانے لگائے تھے جس کے بارے میں وہاں کے بادشاہ لوئی نے کہا تھا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے فرانس کو تباہ کیا اس کے بارے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ مشہور ہے کہ جب لوئی چہارم کا انتقال ہوا تو دوسرا لوئی بحیثیت جا نشین کے سامنے آیا مگر چونکہ ابھی نو عمر تھا اس وجہ سے فرانس کی عنان حکومت ایک نگراں کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس وقت پیرس کی زندگی ایک بہت بڑے انتشار سے دوچار تھی نگراں حکومت کو اخراجات میں کمی کرنے کا خیال آیا اور اُس نے شاہی اصطبل کے آدھے گھوڑے بیچ دیے۔ Voltaire کو گھوڑوں کی فروخت کی اطلاع ملی تو اس نے طنزاً کہا کہ اس سے زیادہ معقول بات تو یہ ہوتی کہ اُن آدھے گدھوں کو بر طرف کر دیا جاتا جو شاہی دربار کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ Voltaire کا یہ جملہ جب نگراں حکومت تک پہنچا تووہ بہت برافروختہ ہوا اور اس نے Voltaireسے بڑی سنجیدگی سے پوچھا کہ تم کہو تو تمھیں میں ایک ایسی چیز دکھا دوں جواب سے پہلے تم نے نہیں دیکھی۔ والنٹیئر نے سوال کیا کہ وہ کیا چیز ہے تو نگراں نے بڑی تمکنت سے کہا کہ وہ چیز جو میں تمھیں دکھانا چاہتا ہوں Bastilleکے جیل خانے کا اندرونی حصہ ہے اور واقعتاً والٹیئرکو دوسرے دن ہی جیل بھیج دیا گیا۔ رہا ہونے کے بعد والنٹیئر نے پھر امراء پر طنز شروع کر دیا ایک محفل میں اس نے ایک فرانسیسی امیر سے گستاخانہ انداز میں گفتگو کی جس کا اس پر بہت ناخوشگوار اثر پڑا اور اس نے چند غنڈوں کو بلوا کر والنٹیئر کی پٹائی کا حکم دے دیا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ غنڈوں کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ اس کے سر پر ضرب نہ لگائیں۔ اس لیے کہ ممکن ہے کہ اس کا ذہن کوئی اچھی بات سوچ سکے۔ مجھے والنٹیئر اور شادؔ کی زندگی میں حیرت انگیز حد تک مشابہت محسوس ہوتی ہے مجھے اس کا تو علم نہیں ہے کہ انھیں جیل بھی بھیجا گیا یا نہیں یا ان کی کبھی پٹائی بھی ہوئی یا نہیں لیکن وہ جس انداز سے رام پور کے درباری امراء سے الجھتے رہے اس کا انجام یہی کچھ ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ شادؔ صاحب نے اُن کی زوال آمادہ زندگی پر بڑی کاری ضربیں لگائی تھیں۔ والنٹیئر کی طرح اُن کا بھی حربہ طنز تھا اور انھوں نے والنٹیئر ہی کی طرح بے باکی سے ریاستی زندگی کی بے اصولیوں کو بے نقاب کیا۔ انھیں خود اپنے شعری منصب کا احساس تھا:

ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا

جس نے مجھ کو گھور کے دیکھا میں نے اُس کو ہنس کر دیکھا

جب ار باب مدح و تغزل لطف کی بھکشا مانگ رہے تھے

میں نے تاج و چتر شہی کی جانب ہاتھ بڑھا کر دیکھا

انھوں نے اپنے ایک شعر میں درباری سیاست کا یوں نقشہ کھینچا ہے :

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

طنز ہمیشہ فن کاروں کے ہاتھ میں اصلاحی حربے کی حیثیت رکھتا ہے مگر شادؔ کا طنز اصلاحی سے کہیں زیادہ انقلابی ہے۔ اصلاح تو وہ طنز نگار کرتا ہے جو رجعتی ہوتا ہے مثلاً اکبرؔ کا نقطۂ نظر اصلاحی تھا وہ سماج کو نئی تہذیب کے انقلابی اثرات سے بچانا چاہتے تھے۔ شاد کی نگاہیں اس انقلاب کے شاہین کے بال و پر دیکھ لیتی ہیں جو جاگیر دارانہ نظام کو ختم کر کے رہے گا وہ اس انقلاب کا مذ۱ق نہیں اُڑاتے بلکہ اس کا مشتاق نگاہوں سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس انقلاب کے قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں۔

یقیں کیجیے انقلاباتِ ہستی

محلاّت کے سائے سائے کھڑے ہیں

………

اِک انقلاب دیکھ رہا ہوں چمن چمن

میری نظر جہاں ہے تمھاری نظر نہیں

شادؔ کی حیثیت اپنے مخصوص سماجی نظام میں طائرِ پیش رس کی رہی ہے۔ انھیں اس بات کا احساس رہا ہے کہ وہ جس نظام کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں اس کی عمر بڑی مختصر ہے چنانچہ وہ چاہتے ہیں کہ جلد ہی وہ تہذیبی اور جمہوری انقلاب آ جائے اور فرسودہ نظام کو اس کی موت سے ہمکنار کر دے۔ شادؔ کا طنز اس حیثیت سے تعمیری بھی ہے اور تخریبی بھی۔ تعمیری اس حیثیت سے کہ وہ نئے نظام کے مزاج کی نقش گری کرتی ہے اور تخریبی اس لحاظ سے کہ وہ زوال آمادہ تہذیب کو جلد سے جلد مٹا دینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک شعر میں اپنے طنز کے مزاج اور مقصد کو واضح کیا ہے۔

پئے تحسینِ وطن طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

شاد نے عموماً اپنی طنزیاتی سرگرمیوں کے لیے غزل کا فارم اختیار کیا ہے میرے خیال میں شاد کا مزاج اپنے اکھڑ پن کی وجہ سے غنائی نہیں تھا ان میں ڈرامہ نگار کی معروضیت تھی اسی وجہ سے وہ غزل گو کی حیثیت سے کچھ زیادہ کامیاب نہ تھے۔ ان کے جوہر اُن نظموں میں کھلتے ہیں جو طنزیاتی اور ڈرامائی ہیں پھر بھی انھوں نے غزل کی مروّجہ علامتوں کے ذریعہ بعض سیاسی مسائل پر اپنے ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے :

مجھے آج کانٹوں کا منھ چومنے دو

بہاروں کا رخ دیکھ کر کہہ رہا ہوں

………

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا

………

سینک سکتے ہیں آپ بھی آنکھیں

جل رہے ہیں نشیمنوں کے الاؤ

………

تیری فطرت ہی جلانا ہے مگر برقِ چمن

کچھ نشیمن وہ جلائے ہیں کہ جی جانے ہے

ہمارے ادب کا والنٹیئر جو ایک شعلے کی طرح ساری عمر بڑی غیرت اور بے باکی سے نظام کہنہ کے درو دیوار پر لپکتا رہا آخر کو اپنی ساری تندی اور بے جگری کے ساتھ ۸؍ فروری ۱۹۶۴ء کو بجھ گیا۔ مگر اس شعلہ کی گرمی آج بھی جوان ہے :

شادؔ ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں

ایسے لوگ کہاں ہوتے تھے ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

                میراجی

 

 

کلامِ شاد کا تجزیہ

 

جبر و قدر

 

گھیر لی تھی ہم نے کتوں سے جہاں ہرنوں کی ڈار

تھے اُسی اوجھل میں تیتر محوِ ذکرِ کردگار

شام کو گھر کی طرف پلٹے بہ ایں قول و قرار

کل سحر کے وقت کھیلا جائے گا ان کا شکار

سب کو چن چن کر فنا کے گھاٹ اتارا جائے گا

سر نکالا نیستاں سے جس نے، مارا جائے گا

ایک ساعت بھی نہ گزری تھی ابھی بارش رُکے

ہو کے ٹھنڈے ابر کے ٹکڑے زمیں پر جھک پڑے

رات میں بلّی کی آنکھیں تھیں کہ برقی قمقمے

بھاپ بنتی تھی نفس کی آمد و شد، کہر سے

یوں جلن محسوس ہوتی تھی پلک ملنے کے ساتھ

جیسے چھو جاتے ہیں آنکھوں کو کبھی مرچوں کے ہاتھ

کھا کے سردی منہ سے ہر بندوق دیتی تھی دھواں

اوس میں ڈوبے ہوئے گنوّں کا ناروں پر گماں

بوٹ اور جیبوں میں ٹھٹری جا رہی تھیں انگلیاں

پھر بھی اس شیخی میں تھی مصروف ہر اکڑی زباں

ہم شکاری ہیں شکاری اور سردی کا سوال

ایک اوچھا سا تصور، ایک ادنیٰ سا خیال

جا رہے تھے کیفِ خود بینی میں ہم مخمور سے

شہر سے باہر ہوئے دو چار اُس مغرور سے

آدمی اندھا نظر آتا ہے جس کو دور سے

جس کی خود مختاریاں بیزار ہیں مجبور سے

جس کو رہتی ہے غریبوں سے تمنائے ادب

ظلم بیجا جس کو واجب، جس کو نخوت مستجب

پھر نظر آئی وہ موٹر کبک سیر و موج رنگ

جس کا پردہ دستِ کافوری میں اک گوشے پہ تنگ

تھا کبھی حاضر کبھی غائب شباب شوخ و شنگ

مسکراتی تھی حیا پر بے حجابی کی اُمنگ

تہ بہ تہ غارہ نگاہِ جلوہ بیں پر بار تھا

حسن سے زائد فریبِ حسن کا پرچار تھا

پا پیادہ پھر کئی جوڑے ملے آتے ہوئے

مشرقی رسم چہل قدمی سے کتراتے ہوئے

گھر میں پائیں باغ جنگل کی ہوا کھاتے ہوئے

سر بہ سر مغرب کی نقالی پہ اٹھلاتے ہوئے

کثرتِ بادہ سے ہر شب خوابِ نوشیں میں خلل

یہ ہوا کھانا مگر اس نقصِ صحت کا بدل

ہم سے آگے جا رہا تھا گاؤ ں کا وہ نوجواں

جس کی سرگرمی پہ برساتا ہے اولے آسماں

جس کا خرمن پھونکتی ہے فطرتِ نامہرباں

دودھ جس کی گائے کا جاتا ہے پٹواری کے ہاں

جس کے بیلوں کو کبھی مہلت نہیں بیگار سے

جس کو چھٹکارا نہیں شیطان کی پھٹکار سے

عاملِ دیہات دورے پر اُسی کا میہماں

مرغ و مسکہ نوش گرداور اُسی کا میہماں

شحنۂ بے رزق و بے بستر اُسی کا میہماں

شہر کا ہر ہیٹ، ہر موٹر اُسی کا میہماں

ہر وبالِ ضلع اس کے مال، اس کی جان پر

صادق و الحق طویلے کی بلا بندر کے سر

دھوپ چمکی تھی کہ ہم نے تیتروں کو جالیا

پے بہ پے اتنے ہوئے فائر کہ جنگل کی گونج اٹھا

جان دی اس نے زمیں پر، وہ ہوا میں چل بسا

ایک بیچارے کے بازو پہ گرے دھڑ وہ گرا

ظالموں کی دل لگی تکمیل پاتی ہے یونہی

بے ضرر مخلوق کو دنیا ستاتی ہے یونہی

(شاد عارفی)

یہ نظم بظاہر چند شکاری دوستوں کے ایک ہنگامی مشغلے کا بیان ہے لیکن اصل میں شاعر اس معمولی واقعے میں قانونِ قدرت کی کارفرمائی کا شائبہ پاتا ہے بلکہ اس کا ذہن غور کرتے ہوئے پلٹا کھا کر گویا جوش کے الفاظ میں یہ سوچنے لگتا ہے کہ:

یہ کیوں دریا دلی کے ساتھ ہر خوں ریز طاقت کو

مشیّت کی طرف سے اِذنِ قتلِ عام ہے ساقی

یہ تو ہوا نظم کا خیالی پہلو، اب اس کے بیان کی طرف آئیے کیونکہ اس نظم میں بیان اور طرزِ ادا ہی نے ایک عام خیال میں خاص دلکشی پیدا کر دی ہے۔ اصل نظم پہلے اور آخری بند میں ختم ہو جاتی ہے، یا یوں کہیے کہ یہ دو بند اس ہنگامے کے بیان پر محیط ہیں جس سے خیال کو تحریک ہوئی اور ان دونوں ٹکڑوں سے جو نتیجہ شاعر کو اخذ کرنا ہے اسے مدلل بنانے کے لیے درمیانی بند موجود ہیں۔ پہلے بند کا مضمون آخری بند سے ایک روز پہلے کا بیان کر رہا ہے اور صرف ایک ارادے کا اظہار کرتے ہوئے بظاہر فالتو معلوم ہوتا ہے۔ گویا دوسرے بند سے اگر نظم شروع کی جاتی تو بھی ترجمانی میں کوئی فرق نہ پڑتا۔ لیکن اگر ہم ذرا سا غور کریں تو موجودہ صورت، نفسیاتی لحاظ سے بہتر تاثر کی محرک ہے۔ پہلے بند سے قاری کے ذہن میں ایک خیال سا بیٹھ جاتا ہے کہ ہاں، کل ہم شکار کو جائیں گے۔ شکار کو جائیں گے تو کیا ہو گا؟ شکار ہو گا اور کیا ہوسکتا ہے۔ لیکن جب دوسرے روز صبح سویرے منہ اندھیرے شکار کو نکلتے ہیں تو راستے میں بہت سی باتیں دکھائی دیتی ہیں۔ جوں جوں شہر سے دور ہوتے جاتے ہیں، مختلف منظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ کبھی سیر کرتے ہوئے جوڑے پیادہ پا، کبھی موٹر میں اُمرا اور ان کی عشرت پرستیوں کے شبانہ ہمدم، کبھی کوئی غریب کسان کام پر جاتا ہوا۔ شاعر شکاری ہے، اس کے ذہن میں اس وقت شکار کا خیال جما ہوا ہے۔ اس کی توجہ مرکوز ہے، اس لیے ہر معمولی سی معمولی بات بھی اس کے لیے فکر انگیز ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ان تمام مناظر پر غور کرتا ہوا ان کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کے تنوع سے اسے دنیا کی نا انصافی اور انسانیت کے مختلف پہلوؤں کا بُعد یاد آ جاتا ہے۔ مجبوری اور مختاری، بندگی اور بے چارگی کا فلسفہ اسے زندگی کے ہر شعبے میں عمل پیرا محسوس ہوتا ہے اور اس کے اس نظریے کو آخری بند کا منظر تقویت پہنچاتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ وہ چلتے ہوئے جو تضاد، جبر اور نا انصافی کے مختلف مرقعے دیکھتا ہے ان سے اسے ٹوہ ہوتی ہے کہ آخر اس افراط اور تفریط کا باعث کیا ہے۔ اور پھر آخری بند کے منظر پر پہنچ کر وہ جان گیا ہے کہ قانونِ قدرت ہی کچھ ایسا ہے کہ زبردست کے لیے اس دنیا میں فتح بھی ہے اور آرام بھی۔

بعض جگہ فنکار ہمیں منظر کے بالکل رو برو کر دیتا ہے ’’بوٹ اور جیبوں میں ٹھٹری جا رہی تھیں انگلیاں، شکاری گویا مجسم ہو کر نگاہو ں میں آ جاتے ہیں۔ ’’پا پیادہ پھر کئی جوڑے ملے آتے ہوئے۔ ‘‘ اس مصرع میں دیکھیے کہ ایک مسلسل حرکت کرتی ہوئی تصویر نظر آتی ہے۔ پہلے بند میں :

گھیر لی تھی ہم نے کتّوں سے جہاں ہرنوں کی ڈار

ایک ہی مصرع میں تمام منظر کی وسعت سما گئی ہے اور اس لحاظ سے آخری بند کو بھی دیکھیے۔ پہلے مصرعوں میں حرکت اور عمل کا جو ہنگامہ قلم بند ہوا ہے اس کو آخری شعر کی سنجیدگی اور اچانک پن خود اپنے تضاد سے انتہائی بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ آخری شعر گویا ایک پتھر ہے جسے کسی نے کھینچ مارا ہے اور جو فہم کی گرفت کے سر پر آ لگتا ہے۔

 

دسہرا اشنان

 

اے شادؔ آج صبح زمانے کے واسطے

پُروا سنک رہی تھی سُلانے کے واسطے

یہ نظم آئی مجھ کو جگانے کے واسطے

چادرنسیمِ منظرِ فطرت نے کھینچ لی

آنکھوں سے نیند سیر کی عادت نے کھینچ لی

بستر چبھا سمٹ کے اٹھانے کے واسطے

بے اختیار اٹھ کے چلا میں کدھر؟ اُدھر

دیوانہ وار اٹھ کے چلا میں کدھر؟ اُدھر

جاتی ہے وہ جدھر سے نہانے کے واسطے

اس پُل نے جس پہ مل کے گزرتے ہیں راستے

دریا عبور کر کے بکھرتے ہیں راستے

روکا ہے ’’اس‘‘ کو راہ دکھانے کے واسطے

چلتا ہوا ہجوم ہے سیلابِ کم خروش

آنکھوں میں کیف، عزم پرستش، زباں خموش

جیون پوترتا میں سجانے کے واسطے

حُسنِ نظر نواز بھی جنسِ فضول بھی

شمشادِ نونہال بھی، بوڑھے ببول بھی

انجامِ کِشتِ عمر بتانے کے واسطے

دس بیس اُن میں آنکھ مچولی کے رات دن

چھ سات چھپ کے ہاتھ نہ آنے کے سال و سن

دو چار منتظر چھوئے جانے کے واسطے

مندر کے رو برو یہ پرستانِ خرام

ہے جس میں پیش پیش مری شوخیِ کلام

کوشش میں اپنی جان جتانے کے واسطے

اب پاس آ چکی ہے یہ تمثیل کہکشاں

اب مجھ کو بھانپتا ہے یہ انبوہِ مہوشاں

میری نظر سے لُطف اٹھانے کے واسطے

سر ڈھک لیے گئے تو ہوئیں ساریاں درست

سینوں پہ سلوٹوں کو پریشاں لباس چست

ہر ’’کوندنی‘‘ پہ ہاتھ گھمانے کے واسطے

گھٹنوں کو جھول دے کے چھپائی ہیں پنڈلیاں

پھر بھی نظر نوازِی ساقِ غزل فشاں

مضمونِ بے پناہ سجھانے کے واسطے

جس کے لبوں پہ شرح تبسم وہ مثنوی

جس کی جبیں پہ قشقۂ ابہام بے خودی

کہتی ہے مجھ سے گھاٹ پہ آنے کے واسطے

وہ گھاٹ جس کا ریت ہمیں فرشِ انجمن

وہ پاٹ جس کے گیت محبت پہ نغمہ زن

وہ ’’جھاؤ‘‘ میل جول چھپانے کے واسطے

وہ ناؤ رہ گئی جو کنارے پہ ٹوٹ کے

ریتی میں دب چکی ہے جو پانی سے چھوٹ کے

کافی ہے ولولوں میں بہانے کے واسطے

جھڑ بیریوں کی آڑ میں میلے کی حد سے دور

پہنچا ہوں اس امید میں آئے گی وہ ضرور

کھو جائے گی کہیں مجھے پانے کے واسطے

پلٹے گی جب کہے گی سبھوں سے کہ تھک گئی

میلے کی بھیڑ بھاڑ میں رستہ بھٹک گئی

چہرہ اُداس بات بتانے کے واسطے

وہ طرزِ گفتگو کہ بہانہ نہ کھلے سکے

مژگاں پہ وہ نمی کہ بناوٹ نہ دھل سکے

شبہوں کو سو یقین دلانے کے واسطے

جالے لگے ہوئے ہیں ابھی آستین پر

رفتار سُست سُست، نگاہیں زمین پر

پہنچی وہ یا نہیں۔ یہ بتانے کے واسطے

(شاد عارفی)

یہ نظم ایک تصویر ہے، لیکن اس تصویر میں نمایاں افراد صرف دو ہیں۔ اس کے باوجود یہ اجتماع کی نمائندگی کر رہی ہے۔ عنوان ہی دیکھیے۔ ’دسہرا اشنان‘ اس قسم کے اجتماع میلے ٹھیلے جہاں ایک ملک ایک قوم کو چند لمحوں کے لیے روز مرہ کی زندگی سے نجات دیتے ہیں، وہیں اکثر و بیشتر بعض افراد کے لیے رومان انگیز بھی بن جاتے ہیں، اس نظم میں ایسے ہی ایک رومان کا بیان ہے۔

نظم کا قصہ واضح ہے اس لیے چند اور باتوں کی طرف توجہ کیجیے۔ پہلے بند کی ردیف کا استعمال آخر تک قائم ہے جس نے اگرچہ نظم میں ایک چوکھٹے کی سی باقاعدگی پیدا کر دی ہے لیکن اس کی پابندی سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونا ہر کسی کا کام نہ تھا۔ شاعر اپنے مفہوم کی ترجمانی میں یا تصویر کے بیان میں بے روک نہیں چلتا، مبادا کہیں فن کی بات میں محو ہو کر اصل سے تطابق نہ رہے۔ اسی لیے ’’چلتا ہوا ہجوم‘‘ طوفانِ بے پایاں نہیں ہے ’’سیلاب کم خروش‘‘ ہے۔

اُس پُل نے جس پہ مل کے گزرتے ہیں راستے

دریا عبور کر کے بکھرتے ہیں راستے ‘‘

ان مصرعوں کو دیکھیے، نہ صرف ایک بے حد بکھرا ہوا منظر دوسطروں میں آ گیا ہے بلکہ راستوں میں بھی گویا جان پڑ گئی ہے۔ بیان کی یہ خوبی ایک اور بند میں ایک نئی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ جس کی جدت پڑھنے والے کے لبوں پر ایک تبسم پیدا کرسکتی ہے، بتانِ حشر خرام کا جو جھرمٹ شاعر کی نگاہ میں آتا ہے، اس میں عمر کا تنوع جلوہ گر ہے۔ دس بیس بچیاں ہیں لیکن شاعر کی نظر میں وہ بچیاں نہیں بلکہ ’’آنکھ مچولی کے رات دن ہیں ‘‘ چھ سات ایسی ہیں جو بچیاں تو نہیں لیکن الّھڑ ہیں۔ انھیں احساسِ جوانی تو ہے لیکن ان کی آرزوئیں ابھی پوری طرح بیدار نہیں ہو پائیں، یہ بھی ’’چھپ کے ہاتھ نہ آنے کے سال و سن‘‘ سے گزر رہی ہیں اور دو چار ایسی بھی ہیں جو ’’چھوئے جانے کے واسطے منتظر ہیں ‘‘ انھیں میں شاعر کی ’’شوخیِ کلام‘‘ بھی ہے۔

منظر آغاز میں پُروا کی متانت کے ساتھ یا یوں کہیے کہ ایک نقطے سے شروع ہوتا ہے اور پھر یہ نقطہ پھیلتے پھیلتے ’’پل کے رستوں تک‘‘ ایک غیر معین شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس غیر معین شکل میں ایک بڑا دھبہ ’’پرستانِ خوش خرام‘‘ کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور اس دھبے کا تجزیہ آخر اسے بھی شاعر کی ’’شوخیِ کلام‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ایک چھوٹا سا دلکش نقطہ بنا دیتا ہے۔ اب یہاں سے یہ نقطہ پھیل کر مختلف خطوط کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ کوئی خط جھول دیے ہوئے گھٹنوں سے ہوتا ہوا چھپی ہوئی پنڈلیوں تک جا پہنچتا ہے۔ کوئی خط ’’شوخیِ کلام‘‘ کے ’’قشقۂ ابہام بیخودی‘‘ کو جا چھوتا ہے۔ کوئی خط گھاٹ اور پھر ’’جھاؤ‘‘ کی خبر لاتا ہے، اور پھر یہ خطوط بھی گویا آپس میں الجھ جاتے ہیں جب یہ الجھن مٹتی ہے تو پھر ایک ہی نقطہ ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ یہ نقطہ ایک فرد ہے جس کی رفتار سُست ہے اور جس کی نگاہیں زمین کی طرف مرکوز، اور اس کی یہ دونوں کیفیتیں ہی اس کے دل کی خوب خوب ترجمانی کر رہی ہیں۔

اسی آخری بند میں آستین پر لگے ہوئے جالے نہ صرف کنائے کی خوبی کے حامل ہیں بلکہ فن کار کے گہرے مشاہدے کے ساتھ ساتھ نظم کے ہیرو کی کامیابی کا اشارہ کرتے ہوئے ذہن کو خلوت کے دل پسند حالات کی طرف بھی مائل کر دیتے ہیں اور ذہن سوچنے لگتا ہے کہ ان جھاڑیوں میں جن کی ٹہنیاں مکڑی کے تانے بانے سنبھالے رہتی ہیں کیا ہوا ہو گا اور کیا نہ ہوا ہو گا۔

فلم کا سین پھر بدلتا ہے، لیکن اس دفعہ تصویر محدود نہیں ہے۔ ایک نقطے سے چل کر ایک ایسا خط بناتی ہے جو اگرچہ انجام تک نمایاں رہتا ہے مگر انجام کے بعد بھی نظم کی اشاعت اس خط کو ایک دھندلی سی لکیر بنا دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                شفاؔ گوالیاری

 

 

اصلاحِ شادؔ

 

حضرتِ شاد عارفی مرحوم ادبی دنیا میں کئی حیثیتوں، کئی خصوصیات اور کئی کمالات کے حامل تھے جن میں دو خصوصیات نمایاں اور درخشاں تھیں یعنی جہانِ شاعری میں طنز نگاری کے بادشاہ اور فنی مملکت میں مصلح و رہبر۔ شادؔ نمبر میں مرحوم کے ہر کمال کے ہر رُخ کو مختلف اہل قلم حضرات اور ارباب نقد و نظر اُجاگر فرمائیں گے میں نے موصوف کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت پر خامہ فرسائی کر کے گویا سورج کو چراغ دکھانے کی کوشش کی ہے، اور وہ ہے ان کی قوت اصلاح۔

یہ تو تسلیم شدہ ہے کہ جس طرح ہر پڑھا لکھا شاعر نہیں ہو سکتا جب تک اس کی فطرت میں موزونیت ودیعت نہ کر دی گئی ہو، اسی طرح ہر شاعر خواہ کتنا ہی عظیم ہو، مصلح نہیں ہوسکتا تاوقتے کہ اصلاحی جوہر فطری و جبلّی نہ ہوں آج سیکڑوں شاعر ایسے موجود ہیں، جو شاعری میں تو بڑے بڑے منصبوں کے وارث ہیں مگر فن سے اس قدر دور اور نا بلد ہیں کہ دوسروں کی اصلاح تو کیا خود اپنے محاسن و معائب کو نہیں پرکھ سکتے۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ فن حاصل بھی کرنا چاہتے ہیں تو نہیں کر سکتے اس لیے کہ اُن کی فطرت میں وہ جوہر موجود نہیں ہوتا اور اکثر ایسے ہیں کہ سرے سے فن کو لغو اور مہمل چیز خیال کرتے ہیں اور اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، کہتے ہیں کہ ہم تو فطری شاعر ہیں۔ جذباتی شاعر ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں کسی فنی ضابطے قاعدے سے سروکار ہی نہیں ہے اور نہ فطری شاعر کو اس کی ضرورت ہے۔ بعض کا دعویٰ ہے کہ شاعری میں صرف اپنا خیال ظاہر ہو جائے بس کافی ہے بیان و زبان یا فنی ضابطے قاعدے کی کوئی ضرورت نہیں، حالانکہ ان کی یہ سب سخن پروری ہے ورنہ یہ بات تو خود بھی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ گڈھا کھودنے تک کے اصول اور قواعد ہیں۔ ذرا چوک ہو جائے کہ ہاتھ پاؤں زخمی ہو سکتا ہے تو پھر شاعری جیسے نازک اور اہم علم و فن کے اصول کیوں نہ ہوں بہت سے شعراء حضرات تو ستم بالائے ستم یہ فرماتے ہیں کہ علم و فن اور قواعد و عروض وغیرہ سے خود بے بہرہ اور محروم ہوتے ہوئے دوسروں کی اصلاح بھی فرمانے لگتے ہیں گویا خود تو برباد اور گمراہ ہو ہی رہے ہیں اُن بھولے بھالوں کو بھی ٹھکانے لگا دیتے ہیں اور آج کل تو اس بیماری کا بہت زور ہے۔ رات کو ایک شخص اچھا خاصا سویا ہے صبح کو دیکھیے تو وہ شاعر ہے اور دوسری صبح استاد ہے۔ یہ لوگ کیا سمجھیں کہ صرف شاعری ہی لوہے کے چنے چبانے سے زیادہ مشکل ہے پوری زندگی صرف ہونے کے بعد اگر کوئی کامیاب شاعر بن جائے تو بھی یہ سودا ارزاں ہے چہ جائیکہ استادی ! بس جس طرح شاعری کو بزعم خود آسان بنا لیا ہے اسی طرح اصلاح کو کھیل سمجھ لیا ہے۔ جب اس موضوع پر گفتگو کا موقع آتا ہے تو طرح طرح کی الٹی سیدھی تاویلات سے اپنی کمزوریاں اور بوگس پن چھپانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کٹ حجتی کرتے ہیں مگر دل میں خجل ہوتے ہیں بہر حال کہاں تک رونا رویا جائے آہ۔ جس فن شریف، اور عروسِ زبان کو بزرگوں نے اپنے خونِ جگر سے جمال و جلال، اور رنگ و نور بخش کر دُلہن بنایا اور سجایا تھا اُس زبان کو کس بے دردی سے تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ ان اساتدۂ ادب و شعر اور مصلحین کرام نے شاعری کی نوک پلک کو اس طرح سنوارا کہ چمن سا جگمگاتا اور لہلہاتا چھوڑا تھا۔ رفتہ رفتہ اُس کی چمک دمک میں کمی ہوتی جا رہی ہے اور آج لب دم نظر آ رہی ہے۔ حضرت شادؔ عارفی شاگردوں کی اصلاح اس قدر با خبری اور چابکدستی سے کرتے تھے کہ ذرا سا بھی سقم خیال، بیان زبان کا نہیں چھوڑتے تھے اور ہر جہتی اصلاح کرتے تھے۔ بقول حالیؔ شعر وہی ہے جس کی چاروں چول برابر ہوں مثالاً میں سب اساتذہ (مصلحین)کی تو نہیں چند کی اصلاح پیش کرتا ہوں جواب سے کچھ سال پیشتر کے مصلحین تھے جس سے اندازہ ہو گا کہ یہ صاحب کمال کس قدر توجہ سے اصلاح کرتے تھے۔

شعر نشترؔ  ؎

ساقی جو میکدے میں تجلی کا نور تھا

موج شراب کیا، شرر برق طور تھا

اصلاح جلیل مانکپوری :

’’ میخانے میں جو نور کا ساقی ظہور تھا

موجِ شراب کیا شررِ برق طور تھا‘‘

( توجیہ) نور و ظہور، دو لفظوں نے مل کر ایک طرح کی موسیقی پیدا کر دی اور مصرعہ کتنا خوبصورت ہو گیا۔

شعر ارشدی:

’’ حال تو نامہ بر مرا تو نے اُسے سُنا دیا

یہ بھی تو کچھ بتا مجھے اُس نے جواب کیا دیا‘‘

اصلاح قمر بدایونی : حال تو راز داں مرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

(تو جیہ) نامہ بر حال نہیں سنانا، اس کا کام صرف نامہ لے جانے کا ہے۔ دیکھی آپ نے وجہ اصلاح ؟

شعر عاجز بیتھوی:

’’ جذب الفت دیکھیے آخر نہ ان سے ضبط ہوا

وہ پریشاں ہو گئے سُن کر پریشانی مری‘‘

اصلاح مولانا احسن مارہروی: جذب الفت دیکھیے آخر ہوا اُن سے نہ ضبط

( توجیہ) مصرعہ ساقط البحر تھا۔

شعر الطاف:

’’ دلِ بے تاب سیدھی سانس یا رب لے نہیں سکتا

قیامت ڈھا چکیں ان کی ادائیں حسن والوں کی‘‘

اصلاح نوحؔ ناروی:۔ ۔ ڈھا گئیں۔ ۔

( توجیہ) ڈھا گئیں فصیح تھا : حالانکہ کوئی خاص غلطی نہ تھی مگر فاضل استاد نے اتنا سا جھول بھی گوارا نہ کیا۔ یہ تھی ان با کمالوں کی نکتہ رسی اور حدِّ احتیاطِ زبان۔

شعر احمرؔ رنگونی:

’’ آیا عجیب شان سے میں بزم یار میں

ہمراہ اک ہجومِ تمنا لیے ہوئے ‘‘

اصلاح وحشتؔ کلکتوی: ’’ آیا ہوں بزم یار میں کس کرّو فر سے میں

( توجیہ) کرّو فر سے ہجوم کی معنویت میں قوت پیدا کر دی۔ گو شعر اصل بے عیب تھا مگر کتنی ترقی ہو گئی۔

شعر شوقؔ سندیلوی:

’’ ہم جُرم وفا کے ہیں گنہگار

جو ظلم ہونا روا نہیں ہے ‘‘

اصلاح آرزو لکھنوی:  ہاں جرم وفا ہوا ہے ہم سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

( توجیہ) لفظ جُرم زائد تھا۔ ’’ ہم وفا کے گنہگار ہیں ‘‘ یا’’ ہم مجرم وفا ہیں ‘‘ ہونا چاہیے۔

شعر صاحبزادہ واثقؔ ٹونکی:

’’ بنائے جا رہے ہیں نقش لاکھوں

یہ کس کا دل بنایا جا رہا ہے ‘‘

اصلاح علامہ سیماب اکبر آبادی:

’’ مٹائے جا رہے ہیں نقش لاکھوں

یہ کس کا دل بنایا جا رہا ہے ‘‘

اصل شعر اپنی جگہ نہ صرف صحیح بلکہ بلند تھا مگر صرف ایک لفظ کو بدل کر معنویت کو بلند تر کر دیا۔

اسی قسم کے اور بھی متعدد مصلحین اُس دور اور اُس عہد کے تھے مگر اس وقت پوری فہرست پیش کرنی مقصود نہیں ہے۔ نمونے کے لیے چند حضرات جو سامنے آ گئے۔ لکھ دیے گیے ہیں۔

بتانا یہ مقصود تھا کہ متذکرہ اساتذۂ وقت نے کس قدر محنت و کاوش سے شاعری کو صاف پاک کیا ہے لیکن جتنا جتنا زمانہ گزرتا جا رہا ہے اُتنی اُتنی اس کی روشنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ دور میں یعنی مذکورہ بالا اساتذہ و مصلحین کے بعد والے اس دور میں حضرت شادؔ عارفی کا دم بہت غنیمت تھا، وہ فطری اور بلند شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت با شعور و باخبر اور نکتہ سنج و نکتہ رس مصلحِ شعر بھی تھے اور بزرگوں کی امانت اصلاح کو بڑی مستعدی سے سنبھالے ہوئے تھے۔ خود تو صحیح تھے ہی لیکن ماہر فن ہونے کی وجہ سے اصلاح کے جوہر بھی بہت چمکدار تھے۔ اصلاح بھی کئی قسم کی ہوتی ہے ’ ’آل ٹال‘‘ کی بھی اصلاح ہوتی ہے۔ موٹی موٹی غلطیاں نکال دینے والی اصلاح بھی ہوتی ہے۔ صرف خیال کو بلند کرنے یا صرف بیان اور زبان کو موثر بنانے والی بھی اور ایک ہمہ جہتی و ہمہ گیر اصلاح ہوتی ہے جو ہر لحاظ سے شعر کو بلند تر اور موثر و وجد آفریں بنا دیتی ہے اور عموماً ایک آدھ لفظ کی لوٹ پھیر یا تبدیلی سے شعریت و معنویت بیان و زبان فنون گری کو آسمان پر پہنچا دیتی ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر دی ہوئی اساتذہ کی اصلاحوں میں بتایا ہے۔ موخرالذکر خوبیوں کے مصلحین میں سے شادؔ صاحب کا بھی شمار تھا۔ ہر چند کہ ان کے شاگرد مختصر تھے مگر ہر شاگرد کی اصلاح اس توجہ سے کرتے تھے کہ اُس کے ایک ایک لفظ پر نظر ہوتی تھی اور کوئی معمولی سی غلطی بھی شعر میں نہیں رہنے پاتی تھی۔

یوں تو اُن کے ایسے بہت سے شاگرد ہوں گے جو ارشد تلامذہ کہے جا سکتے ہوں مگر میں دو چار حضرات سے واقف ہوں مثلاً حضرات اکبر علی خاں، شاعر ندیم( مالک، مدیر’’ نگار‘‘ رام پور)، سلطان اشرف، فضا کوثری، جاوید کمال، ہادی مصطفیٰ آبادی اور مظفر حنفی وغیرہ۔

ان حضرات کو بھی صرف اتنا ہی جانتا ہوں کہ ان کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ بعض حضرات کا کلام (منظوم و منثور) بھی نظر سے گزرتا رہا ہے۔ مگر علاوہ مظفر حنفی کے کسی کے کلام پر شادؔ صاحب کی اصلاح دیکھنے میں نہ آسکی۔ میں نے اس سعادت کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہا لیکن مظفر صاحب موصوف چونکہ کافی عرصہ سے بھوپال میں ہیں اور میرے کرم فرما ہیں مجھ پر عنایت فرماتے ہیں۔ ہر چند کہ مجھ سے کافی خورد ہیں مگر اُن کے بے پایاں خلوص کی بنا پر اُن کو بڑا سمجھنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی مہربانی سے کچھ اصلاحیں شادؔ صاحب کی دیکھنے میں آئیں اور میں معترفِ شنیدہ سے ’’ معترف دیدہ‘‘ ہو گیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مظفر صاحب کی غزلیات پر موصوف کی اصلاحیں دیکھیں۔ کس قدر دیدہ ریزی، نکتہ آفرینی اور باریک بینی سے اصلاحیں دی ہیں کہ بے ساختہ مرحبا زبان سے نکلتا ہے جس طرح کی مظفر صاحب کی غزلوں پر اصلاحیں دیکھنے میں آئیں۔ یقیناً دیگر وابستگان کی اصلاحوں میں بھی یہی گل کھلائے ہوں گے۔ دیگ میں سے ایک چاول ٹٹولتے ہیں، پوری دیگ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اب میں چند اصلاحیں شادؔ صاحب کی مظفر صاحب کی غزلیات پر جو دی گئی ہیں، پیش کرتا ہوں تاکہ موصوف کے اصلاحی کمالات کا اندازہ ہو سکے اور تشنگانِ شعر و ادب اور شائقینِ اصلاح سے مستفیض و محظوظ ہو سکیں۔

مظفر صاحب بالکل شادؔ صاحب کے رنگ میں ڈوب کر شعر کہتے ہیں اور بہت خوب کہتے ہیں۔ اُن کے اُستادِ محترم نے بھی اصلاحی کاغذ کے حاشیے پر کئی جگہ اس کا اعتراف کیا ہے اور پوری پوری غزلیات پر کہیں ایک کہیں دو اور کہیں تین صاد کیے ہیں جو مصلحین اور اساتذہ اچھے، بہت اچھے اور بہت زیادہ اچھے شعر پر لگا دیتے ہیں۔

جہاں جہاں اصلاح کی ہے وہاں حیرت میں ڈالنے والی اصلاح ہے وہی ایک ایک لفظ کی اُلٹ پھیر سے شعر کو عرش پر پہنچا دیا ہے اور معمولی سی خامی بھی فوراً پکڑ لی ہے بہر حال میں ذرا سا موضوع سے ہٹ گیا ہوں مظفر صاحب پر نقد و نظر کرنے لگا مگر ضمنی طور پر یہ ذکر ناگزیر تھا۔

میں شادؔ صاحب کی اصلاحات عالیہ ذیل میں پیش کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں :

( کوئی خاص توجیہ نہیں کروں گا آپ خود سمجھ لیں گے )

شعر:   یہ صلہ ہے تیری  جفاؤں  کا

لے رہے ہیں تری بلائیں ہم

اصلاح: تیری زلفوں کا  آسرا  لے کر

’’      ’’      ’’

بلائیں  لینے کے لیے زلفوں کا استعمال کتنا بر محل و مناسب ہے۔

شعر:      ہر قدم پر ایک پابندی لگا دی ہے جہاں

سوچنے پر کوئی پابندی لگاتے جائیے

اصلاح:           ’’   ’’      ’’

’’       ’’    بھی کوئی ٹھپہ  ’’      ’’

دونوں مصرعوں میں پابندی نا مناسب تھا دوسرے مصرعہ میں بھی کی خاص ضرورت تھی لفظ ’’ٹھپہ ‘‘ نے طنز کو تیز تر کر دیا۔

…………

شعر:   پھر ادھر ساقی نہ آیا ایک پیمانے کے بعد

میں بہت پچھتا رہا ہوں بزم میں آنے کے بعد

اصلاح:  ’’     ’’      ’’

’’      ’’       ’’  ہاتھ پھیلانے کے بعد

اہل نظر ضرور اس اصلاح کی داد دیں گے صرف ذرا سی تبدیلی نے شعر کو کتنا بلند کر دیا۔

………

شعر:   عشق کی وادی میں عمرِ جاوداں کے باوجود

خضر صرف جستجوئے راہِ منزل ہو گیا

اصلاح:  ’’     ’’      ’’    واسطے

’’  محوِ  ’’   ’’      ’’

ایک لفظ کی تبدیلی نے شعر کو کیا سے کیا بنا دیا۔

………

شعر:     جنھیں پسند نہیں ہے یہاں زباں بندی

وہ بار بار سلاخوں میں بند ہوتے ہیں

اصلاح:   ’’    ’’     شیوۂ  ’’   ’’

وہ درد مند ’’      ’’     ’’     ’’

لفظ یہاں زائد تھا اور بار بار بھی زیادہ مناسب نہ تھا۔ دو لفظ بدلنے سے شعر پاک ہو کر بلند ہو گیا۔

………

شعر:   شکار کر نہیں پاتے جو آسمانوں پر

وہی غریب اسیر کمند ہوتے ہیں

اصلاح:   ’’    ’’      ’’   کو

’’       ’’      ’’     ’’

پر کو بدل کر کو کر دیا اس تبدیلی سے مفہوم شعر کا کہاں پہنچ گیا ارباب نظر سے پوشیدہ نہیں۔

………

شعر:       عرض ہوتا ہے، طول ہوتا ہے

بات کا بھی اصول ہوتا ہے

اصلاح:     ’’         ’’      ’’

داستاں میں ’’   ’’

تبدیلی کی وجہ ظاہر ہے۔

شعر:   بات بنتی  ہو مسکرانے  سے

اُس جگہ غم فضول ہوتا ہے

اصلاح: جس جگہ قہقہوں کا موقع  ہو

’’       ’’      ’’

مصرع اولیٰ میں لفظ شرط کی خامی تھی جبکہ مصرعہ ثانی میں جزا ’’ اُس جگہ‘‘ موجود ہے اصلاح میں لفظ شرط ’’ جس جگہ‘‘ رکھ کر اس عیب کو نکال دیا۔

………

شعر:   نظر  انداز    اُنھیں   مت   کیجے

وہ  بڑے  اہلِ  نظر  بنتے  ہیں

اصلاح: جن کی آنکھوں پہ پڑے ہیں پردے

’’ ’’      ’’      ’’

شعر نظم کا سا معلوم ہوتا تھا ضمیر نہیں تھی۔ یہ پتہ نہیں لگتا کن کو نظر انداز مت کیجیے اور کون اہلِ نظر بنتے ہیں۔ اصلاح سے نہ صرف یہ عیب دور ہو گیا بلکہ شعر طنز کا ایک حسین شاہکار ہو گیا۔ سبحان اللہ!

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر، جنہوں نے اصل کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید