FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

سَمت

شمارہ ۶۲، اپریل تا جون ۲۰۲۴ء

مدیر

اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

اردو تحریر میں اردو کا پہلا ادبی جریدہ

سہ ماہی

سَمت

شمارہ ۶۲، اپریل تا جون ۲۰۲۴ء

مدیر: اعجاز عبید

سرورق عمل: مریم تسلیم کیانی

اداریہ

مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

لیجئے دیکھتے دیکھتے پھر نئے شمارے کا وقت آ گیا ہے، لیکن فلسطین کے حالات مزید دگردوں ہوتے جا رہے ہیں، اور ادھر وطن عزیز میں بھی سی۔ اے۔ اے کا بگل بجا دیا گیا ہے!! بس اللہ سے دعا ہے کہ ساری دنیا میں نہ صرف مسلمانوں پر ہونے والے مظالم، بلکہ ہر انسان پر ہر قسم کے ظلم کا خاتمہ  ہو جائے۔

پچھلی سہ ماہی میں ادب کی دنیا کئی جانے مانے ناموروں سے خالی ہو گئی۔ ماہر اقبالیات رفیع الدین ہاشمی اور شاعر منور رانا کو اس شمارے میں یاد کیا گیا ہے۔

اردو اب کے دونوں شہنشاہ غالبؔ اور اقبالؔ اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ ہر دو پر تحقیق اور مختلف زاویوں سے پرکھنے کے اپنے  شعبے غالبیات اور اقبالیات کہے جاتے ہیں۔ اور اس شعبے کے ماہرین ماہرین غالبیات اور اقبالیات کہلاتے ہیں۔ افسوس کہ فی زمانہ یہ دونوں شعبے اپنے ماہرین سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبالیات کے شاید آخری ماہر رفیع الدین ہاشمی کا دم غنیمت تھا۔ وہ بھی راہیِ ملک عدم ہو گئے۔

منور رانا (اور راحت اندوری بھی) کا شمار ان شاعروں میں تھا جنہوں نے جدید لہجے کو مشاعروں میں ہر دلعزیز بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ شاعری کے علاوہ ان کی نثر بھی بہت خوب تھی۔

ان دونوں مرحومین کی کچھ تخلیقات کا انتخاب بھی شامل ہے۔ افسوس کہ منور رانا کی نثر سے کوئی تخلیق شامل نہیں کی جا سکی۔

ان کے علاوہ دو مزید ہستیوں ، آواز کی دنیا کے پنکج ادھاس اور امین سیانی، کے انتقال سے بھی بر صغیر کے کئی افراد بالعموم اور ’سَمت‘ کے قارئین بالخصوص بھی غمگین ہوں گے۔ پنکج ادھاس اور جگجیت سنگھ نے ہندوستان میں غزل گائیکی کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ اگرچہ پنکج ادھاس کے دوسرے ہلکے پھلکے گیت زیادہ مشہور ہو گئے۔ ’چٹھی آئی ہے‘ گیت نے دولت کی خاطر دوسرے ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کے (اور پاکستانیوں کے بھی) دلوں کو چھو لیا تھا۔

امین سیانی ریڈیو کی آواز تھے۔ ریڈیو سیلون (بعد میں سری لنکا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا ویاپار وبھاگ یعنی کمرشیل سروس) سے ہر بدھ کو نشر ہونے والے بناکا گیت مالا (بعد میں سباکا، جب بناکا ٹوتھ پیسٹ کی کمپنی کا نام ہی بدل گیا) کی وجہ سے ہی ہمارے گھر میں بھی پہلا ریڈیو خریدا گیا تھا۔ (جسے ۱۹۶۹ میں علی گڑھ ہجرت کے بعد داغ مفارقت دینا پڑا۔ لیکن وہاں ٹرانزسٹر آگیا تھا اس زمانے میں!) اس پروگرام میں شامل سولہ عدد مشہور گیتوں کی شہرت کی ترتیب (بقول امین سیانی پائیدانوں کی ترتیب )کے علاوہ دلچسپی کی چیز امین سیانی کی گفتگو بھی ہوا کرتی تھی اور ان کی کھنک دار آواز بھی۔ افسوس کہ یہ دونوں آوازیں اب کبھی سنائی نہ دیں گی۔

اس شمارے کی معمول کی تخلیقات بھی امید ہے کہ پسند خاطر ہوں گی۔

ا۔ ع

عقیدت

حمد ۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

اذنِ ربی سے عنایت ہو گئی

حمد کہنے کی ریاضت ہو گئی

جب پکارا سن لیا اللہ نے

ملتفت گویا سماعت ہو گئی

جو بھٹکتے رہ گئے الٹے قدم

دور ان لوگوں سے جنت ہو گئی

زندگی صرفِ عبادت کیوں نہ ہو

بندگی سے پوری حاجت ہو گئی

٭٭٭

نعت رسولؐ ۔۔۔ ثاقب علوی

دکھلا کبھی مدینہ مرا دل اُجال کر

اے یادِ شہرِ طیبہ! مُجھے بھی نِہال کر

کچھ دیدنی ہو حال کہ دیکھیں وہ آ کے خود

اے کیفِ ہجر! آج مجھے یوں نڈھال کر

وہ زندگی تھی در پہ جو اُن کے بسر ہوئی

کیا زندگی ہے طیبہ کے وہ دن نکال کر

طیبہ سے رخصتی پہ ملا تھا جو دفعتاً

اے ساعتو! وہ کیف تو رکھنا سنبھال کر

کیا دن تھے جب پڑا تھا درِ مصطفیٰﷺ‌ پہ میں

اے لوحِ بخت! میرا وہ منصب بحال کر

اے کاش میں بھی عشقِ پیمبر میں جَل بُجھوں

میرے خدا! عطا مجھے سوزِ بلال کر

دنیا کی سروری کو سمجھتا ہوں ہیچ تر

خیرات اُن کے در کی میں جھولی میں ڈال کر

تیری طلب سے تجھ سے زیادہ ہیں با خبر

اے دل! یہاں دراز نہ دستِ سوال کر

اتنی تری مجال کہ لیتا ہے سانس تُو

ثاقب! ہے بارگاہِ ادب، کچھ خیال کر

٭٭٭

یاد رفتگاں

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ”تم سا کہاں دنیا میں“ ۔۔۔ ڈاکٹر محمد وسیم انجم

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن کے دوران اُردو زبان و ادب کے ساتھ اقبالیات کی کتب زیرِ مطالعہ رہیں۔ ایم فِل اقبالیات میں داخلہ ہونے کے بعد اسلام آباد کیمپس میں یکم دسمبر 1993ء میں ایک روزہ ورکشاپ منعقد ہوئی۔ ایم فِل کے دو سمسٹروں کے دوران اقبالیات کی بیشتر کتب کا مطالعہ اور کورس ورک کے دوران اسائنمنٹس کی تیاری اور ٹیوٹر صاحبان سے مسلسل روابط سے اقبالیات کے مطالعے میں وسعت آ گئی۔ دو سمسٹروں کے نتائج آنے کے بعد اور پہلی ورکشاپ کے ایک سال آٹھ ماہ بعد ہمارے بیج کے تمام محققین کو یونیورسٹی ہذا نے دوسری ورکشاپ کا ایک مراسلہ بھیجا کہ اس ورکشاپ میں تحقیقی خاکے اور کسی مطبوعہ کتاب پر ایک تبصرہ لکھ کر یکم جولائی تا 6 جولائی 1995ء حاضر ہوں۔ اس ورکشاپ میں پہلا لیکچر ”موضوع کا انتخاب اور تعین“ ڈاکٹر محمد صدیق شبلی، دوسرے دن لیکچر قائد اعظم یونیورسٹی سے ڈاکٹر وحید احمد نے تحقیق کے موضوع پر دیا۔ تیسرے دن ڈاکٹر رحیم بخش شاہین نے ایوانِ اقبال لاہور کے دورے کی تفصیلات کے ساتھ ”مقالے میں اقتباس“ کے استعمال پر لیکچر دیا۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر محمد صدیق شبلی نے ”حواشی اور تعلیقات“ پر پُر مغز لیکچر پیش کیا۔ چوتھے دن شعبہ اقبالیات کے اساتذہ کرام، معاونین اور محققین یونیورسٹی کی کوسٹر کے ذریعے کوہ مری کی سیر کرائی گئی۔ اس دورے میں اورنٹیل کالج لاہور سے آئے ہوئے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے مختلف موضوعات اور کتب کی ترسیل کے سلسلے میں 10 جنوری 1995ء سے خط و کتابت جاری تھی۔ الحمد اللہ اس ورکشاپ میں تفصیلی ملاقات بھی ہو گئی۔ ان کے ساتھ میری خط کتابت میرے ریکارڈ کے مطابق 10 جنوری 1995ء سے 18 ستمبر 2013ء تک جاری رہی۔ یہ خطوط میرے مجموعہ ”انجم نامہ“ اور ”یادگار خطوط“ میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین اور ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کی معیت میں کوسٹر کے ذریعے کوہ مری روانہ ہوئے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر شاہد اقبال کامران اس وقت یونیورسٹی ہذا سے ایم فِل اقبالیات کے موضوع ”اقبال درسیات پاکستان میں تحقیقی مطالعہ“ ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی کے زیر نگرانی 1991ء میں مکمل کر چکے تھے۔ یہ مقالہ ”اقبالیات درسی کتب میں“ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد نے کتابی شکل میں شائع کر دیا تھا۔ میں نے اسی کتاب پر تبصرہ ورکشاپ کے آخری دن پڑھا تھا جو بعد میں ماہنامہ افہام سیالکوٹ کے شمارہ اکتوبر 1992ء میں شائع ہو کر میری کتاب ”اقبالیاتی خاکے“ میں شامل ہے۔ ڈاکٹر شاہد اقبال کامران نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ”پاکستان میں اردو زبان و ادب کی درسیات و نصابات، تحقیقی جائزہ“ پر پی ایچ ڈی مقالہ ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی کی نگرانی میں مکمل کیا۔ ان کا زبانی امتحان 12 مارچ 2005ء کو منعقد ہوا۔ ان کے تحقیقی مقالے کے زبانی امتحان کے لیے برصغیر کے نامور محقق اور دانش ور پروفیسر ڈاکٹر قمر رئیس (دہلی یونیورسٹی) بھارت سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے اس مقالہ کو سراہا اور اس کے معیار کو اردو میں ہونے والی تحقیق سے چار گنا بہتر قرار دیا۔ اس مقالے کے زبانی امتحان کے ممتحن کے ساتھ بیرونی ممتحن پروفیسر ڈاکٹر قاضی افضال حسین صدر شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا بھی اسلام آباد میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں تشریف لائے ہوئے تھے اس کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے اپنے خطاب میں اس تحقیقی کام کو اردو درسیات و نصابات کے حوالے سے گزشتہ نصف صدی کا سب سے بڑا تحقیقی منصوبہ قرار دیتے ہوئے اس کے نتائج تحقیق کو ماہرین تعلیم اور درسی کتب کے مرتبین کے لیے اہم دستاویز قرار دیا ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسے کتابی شکل میں شائع ہونا چاہئے۔ 4 جولائی 1995ء کو کوسٹر گورنمنٹ کالج کوہ مری پہنچی جہاں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ”تحقیق اقبالیات کے مآخذ“ پر اپنا مقالہ پیش کیا جو 1996ء میں اقبال اکادمی سے شائع ہو گیا۔ اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔ ”علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات نے جولائی 1995ء کے پہلے ہفتے میں ایم فِل اقبالیات کے طلبہ و طالبات کے لیے اسلام آباد میں ایک ورکشاپ منعقد کی تھی۔ شعبے کی دعوت پر راقم نے ورکشاپ میں 4 جولائی کو ”تحقیق اقبالیات کے مآخذ“ کے موضوع پر ایک لیکچر دیا“۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تجویز پر ڈاکٹر رحیم بخش شاہین نے پی ایچ ڈی مقالے کے لیے ”مکاتیب اقبال کا تنقیدی جائزہ“ پر ایک تحقیقی خاکہ بنا کر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں جمع کرایا جہاں ان دنوں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صدر شعبہ اردو تھے۔ بعض وجوہ سے موضوع کی منظوری میں تاخیر ہوتی رہی تو ڈاکٹر رحیم بخش شاہین کچھ مایوس ہونے لگے تو دسمبر 1985ء میں اپنے نگران ڈاکٹر نجم الاسلام سے مشورے اور رہنمائی کے لیے حیدرآباد سندھ چلے گئے اور سندھ یونیورسٹی جامشورو سے 1988ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر رحیم بخش شاہین اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی گورنمنٹ کالج کوہ مری میں تعینات رہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے لیکچر کے دوران بتایا کہ وہ پچیس سال بعد اس کالج میں تشریف لائے ہیں۔ توسیعی لیکچر کے بعد محققین مختلف گروپوں میں تقسیم ہو کر کوہ مری کے حسین مناظر دیکھنے کے بعد مقر رہ وقت پر کوسٹر کے قریب پہنچ گئے۔ کوہ مری سے واپسی پر چھتر پارک میں پون گھنٹہ تفریح کے بعد یونیورسٹی پہنچے۔ ورکشاپ کے پانچویں دن محققین نے تبصرے پیش کیے۔ چھٹے اور آخری دن ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے لیکچر کے بعد ڈاکٹر صابر کلوروی نے ”دیباچہ، حوالہ جات اور کتابیات“ پر لیکچر پیش کیا اور محققین نے اپنے تحقیقی خاکے پیش کیے جن پر اساتذہ کرام نے اپنی تجاویز پیش کیں۔ میرے پیش شدہ خاکے اب میری کتاب ”اقبالیاتی خاکے“ میں شائع ہو چکے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ورکشاپ بڑی سودمند ثابت رہیں اور محققین کو ماہرینِ اقبالیات کے خطبات سے بہت سی نئی معلومات سے آگاہی ہوئی اور آئندہ ملاقاتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے تمام محققین کو اقبال اکادمی پاکستان کی رکنیت کے فارم تقسیم کیے۔ اس فارم کے تحت میں اقبال اکادمی پاکستان کا 1995ء سے کئی برس سالانہ ممبر رہنے کے بعد تا حیات ممبر بن گیا تھا۔ اس دوران اقبال اکادمی پاکستان کے مجلات ”اقبالیات“ اور ”اقبال ریویو“ بھی ملنے شروع ہو گئے۔ اقبال اکادمی پاکستان میں مجلس حاکمہ کے لیے دو ارکان کو ووٹ دینے کا حق بھی میسر آ گیا۔ ایک دفعہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر عبد القیوم اور ڈاکٹر وحید قریشی انتخاب میں شامل ہوئے تو میں نے دو ممبران کو ووٹ دے کر 26 جولائی 2005ء میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو خط لکھا۔

ڈاکٹر رحیم بخش کی رحلت کے بعد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ڈاکٹر شاہین سے عقیدت و محبت کے ساتھ میری صلاحیتوں کو نکھارنے اور ادبی کام میں مصروف رکھنے کے لیے ڈاکٹر رحیم بخش شاہین پر احباب سے مضامین لکھوانے اور مضامین کی جمع و تدوین کی طرف متوجہ کیا۔ ابھی اس مجموعہ پر کام جاری ہی تھا کہ ڈاکٹر شاہین کے گھر سے شعری بیاض بازیاب ہوئی تو تلاش و جستجو کا رخ ان کی بکھری ہوئی شاعری کی طرف ایسا ہوا کہ ڈاکٹر شاہین کی ایک شعری فائل اور اخبارات و رسائل سے شاعری اور اس کے متعلق نادر و نایاب تحریریں مل گئیں۔ جن کے بعض حصوں پر تاریخ کا اندراج بھی تھا۔ ان مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں کے مکمل حوالے اور حتی الوسع کوشش کے ساتھ زمانی اعتبار سے نامور ادباء و شعراء کے دیباچے لکھوا کر ”شہر جمال“ کے نام سے کل شاعری مرتب کر دی جس پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے 16 فروری 2002ء کے مکتوب میں تحریر کیا: ”میرے خیال میں ڈاکٹر رحیم بخش شاہین ایک خوش قسمت، محقق اور ادیب تھے۔ ایک تو اس اعتبار سے کہ انہوں نے ایک با مقصد زندگی گزاری۔ انہیں عمر بھر علم و ادب سے وابستگی رہی۔ سیکڑوں شاگردوں کے دلوں میں حصول علم کی شمع روشن کی اور ان میں سے بہتوں کو لکھنا پڑھنا اور تحقیق کرنا سکھایا۔ محمد وسیم انجم ان کے ایسے ہی شاگردوں میں شامل ہیں۔ مجھے خیال آتا ہے کہ شاہین اس اعتبار سے بھی خوش بخت ہیں کہ وسیم انجم اپنے مرحوم استاد کی یاد آوری کے لیے برابر کوشاں ہیں۔ انہوں نے پہلے تو ان کی شاعری کا مجموعہ ”شہر جمال“ مرتب اور شائع کیا اور اب زیر نظر مجموعہ مضامین شائع کر رہے ہیں۔ کسی مرحوم شخصیت کے بارے میں کچھ لکھوانا خود لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ انجم صاحب لائق مبارک ہیں کہ انہوں نے شاہین مرحوم کے بارے میں مضامین لکھوائے اور اب یہ مجموعہ تیار کر کے شائع کر رہے ہیں۔ “ ڈاکٹر صاحب چند مقالات ایسے بھی ہیں جو مختلف جگہوں پر ایک ہی موضوع سے لکھے گئے۔ چند مقالہ نگاروں نے ایم فل کے موضوع چھوڑ کر پی ایچ ڈی کے موضوع پر کام کر کے ڈگریاں لے لیں۔ لیکن ان کا ذکر بھی شامل ہو گیا ہے۔ بہت سے سکالر اپنے موضوع پر کام نہیں کر سکے اور مقر رہ میعاد ختم ہو گئی یا انہوں نے خود ہی تحقیق چھوڑ دی ہے، وہ بھی شامل کتاب ہیں۔ امید ہے آئندہ اشاعت میں یہ کمی بھی دور ہو جائے گی۔ ”کتابیات اقبال“ شائع ہو گئی ہے یا اشاعت کے مراحل میں ہے “۔ ”جامعات میں اردو تحقیق“ کے دوسرے ایڈیشن کے لیے ترامیم اور اضافے کر چکے تھے جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منتظر اشاعت ہے۔ ”کتابیات اقبال“ کا نیا ایڈیشن اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ (آئی آر ڈی) اسلام آباد سے ان کی رحلت سے پہلے 2023ء میں شائع ہو گیا ہے جو دنیا کی اکتالیس زبانوں میں چھ ہزار سے زائد کتب، رسائل اور تحقیقی مقالات پر مشتمل 1732 صفحات پر محیط ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے کئی یادگار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ملاقاتوں میں زیادہ عرصہ ہو جاتا تو خط لکھ دیتے یا ٹیلی فون کر دیتے تھے۔ اسلام آباد میں تشریف فرما ہوتے تو ٹیلی فون کے ذریعے مطلع کر دیتے اس طرح ان سے ملاقات ہو جاتی۔ اب ان کی وفات 25 جنوری 2024ء کے بعد سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ 26 جنوری کو تجہیز و تکفین میں ہمارے شاگرد رشید اور وفاقی جامعہ اردو میں پی ایچ ڈی کے محقق سید فاروق حسین شاہ شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنی پرنم آنکھوں کے ساتھ ایسی تفصیلات بیان کیں کہ میرے بھی آنسو نکل آئے۔ انہوں نے اس عظیم شخصیت کا نماز جنازہ پڑھنے کے ساتھ لحد مبارک میں اپنے مبارک ہاتھوں سے اُتارا اور یہ سعادت نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

٭٭

ماخذ: نوائے وقت

٭٭٭

مکاتیب رفیع الدین ہاشمی

نا معلوم قلم سے

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی شخصیت اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں، اقبالیات میں آپ کی گراں قدر خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا چکا ہے۔ پاکستان کے تمام اہم ادبی اداروں اور جامعات میں آپ کے خطبات اور کتابوں سے استفادے کا سلسلہ جاری ہے۔ مودودیات، نقد و اعتقاد، تالیف و تدوین، سفر نامہ نگاری اور خطوط نویسی میں آپ کا کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ طویل عرصہ شعبہ اردو، اورینٹل کالج سے بطور مدرس وابستہ رہے، اردو کانفرنسوں اور سیمی نارز میں شرکت کے لیے پاکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ملکوں کا سفر کیا، آپ کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اقبال شناسی اور تالیف و تحقیق کے علاوہ خطوط نویسی میں آپ کا نام بطور سند پیش کیا جاتا ہے، آپ کی جسٹس جاوید اقبال، انتظار حسین، جگن ناتھ آزاد، حکیم محمد سعید، عاشق حسین بٹالوی، غلام جیلانی برق، رشید حسن خان، مشفق خواجہ، محمد طفیل، ڈاکٹر سید عبد اللہ اور ڈاکٹر وحید قریشی سمیت درجنوں نابغوں سے خط و کتابت رہی، ان خطوط میں کئی اہم موضوعات اور کتب زیر بحث رہیں لہٰذا یہ خطوط اپنی جگہ ایک مستند تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر زیب النساء نے ان خطوط کو ’’مکاتیب رفیع الدین ہاشمی‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے، گزشتہ ہفتے یہ کتاب استادِ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے دستخط کے ساتھ مجھے ارسال فرمائی، میرے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی حیران کن تھا، کئی اہم کتابوں اور شخصیات سے تعارف اسی کتاب کے توسط سے ہوا، میں کچھ خط آپ کی بصارتوں کی نذر کرتا ہوں۔ انتظار حسین کے نام ۱۵ جنوری ۲۰۱۱ء کا ایک مکتوب ملاحظہ فرمائیں:

مکرمی جناب انتظار حسین صاحب!

آپ نے بہت دن پہلے مجھے ایک کتاب عنایت کی تھی، میں اس عرصے میں ذوق و شوق سے وقتاً فوقتاً مطالعہ کرتا رہا، یہ آپ کے پرانے کالموں کا مجموعہ ہے جنھیں میں ان کے اصل زمانہ اشاعت میں بھی پڑھ چکا تھا لیکن مکرر پڑھنے میں بھی ایک لطف محسوس ہوا۔ میں نے کئی مقامات پر نشانات لگائے، ان میں سے بعض اشعار بھی نشان زد کیے، خیال تھا کسی وقت آپ سے بات کروں گا یا خط لکھوں گا۔ ابھی یہ نوبت نہیں آئی تھی کہ آپ نے دوبارہ اردو کالم لکھنا شروع کر دیا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پہلے کالم کا عنوان تھا ’’کچھ میڈیائی اردو کے بارے میں‘‘۔ میرے لیے ایک تو خوشی کی بات یہ تھی کہ آپ نے دوبارہ اردو کالم لکھنا شروع کر دیا۔ اگرچہ ڈان میں آپ کا ہفتہ وار کالم بھی دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے اور ہمیں کم از کم مجھے تو خوشی ہے کہ ایک اردو والا انگریزی والوں تک اپنی بات پہنچا رہا ہے اور انگریزی والے اردو زبان اور شعر و ادب، اردو کتابوں اور اردو شعرا اردو کی ادبی صورت حال سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن صاحب! یہ آپ نے جو ’’میڈیائی اردو‘‘ کا ذکر چھیڑا تو میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ میڈیائی اردو کی ترکیب نہایت عمدہ اور برمحل ہے، اخبارات میں ہر روز میڈیائی اردو کے نمونے دیکھ دیکھ کر کیسی کوفت ہوتی ہے، بیان سے باہر ہے۔

والسلام۔

عاشق حسین بٹالوی کے نام ۱۴ نومبر ۱۹۷۲ء کو لکھے گئے ایک خط کا متن ملاحظہ کریں:

محترم جناب عاشق حسین بٹالوی صاحب، سلام مسنون!

مجھے آپ کی قابل قدر تصنیف ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ کا دوسرا ایڈیشن دیکھنے کا موقع ملا، اس قدر عمدہ تصنیف پر مبارک باد قبول فرمائیے۔ آپ نے مسلمانانِ پنجاب کے ایک خاص دور کے سیاسی اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز کو نہایت عمدگی، حسنِ ترتیب اور جامعیت کے ساتھ قلم بند کر دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے شاعر مشرق کے آخری دو سال کی سیاسی سرگرمیوں کی مفصل تاریخ نہایت واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ یقیناً یہ بڑا کارنامہ ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، آمین۔ کتاب کے صفحہ ۴۳۱۔ ۴۳۶ پر آپ نے اقبال کا فلسطین سے متعلق بیان نقل کیا ہے، یہ بیان لطیف احمد شروانی کی مرتبہ: ’’حرف اقبال ‘‘میں بھی شامل ہے مگر دونوں کے متن میں خاصا فرق ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں متن، انگریزی بیان سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔ ’’حرفِ اقبال‘‘ والا ترجمہ ناقص ہے اور بعض جگہ اختصار کر کے کچھ الفاظ و فقرے چھوڑ دیے گئے ہیں، البتہ اس کے ابتدا میں یہ عبارت درج ہے جو آپ کے ترجمے میں نہیں: ’’مجھے سخت افسوس ہے کہ میں اس جلسہ عام میں جو مسلمانانِ لاہور آج فلسطین رپورٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی غرض سے منعقد کر رہے ہیں، شمولیت نہیں کر سکتا۔‘‘ وضاحت طلب امر یہ ہے کہ اقبال کا اصل بیان انگریزی میں تھا یا اردو میں؟ اور اردو میں تھا تو آپ نے اسی اصل بیان کا متن اپنی کتاب میں شامل کیا ہے یا انگریزی ترجمے کا اردو ترجمہ کر کے شامل اشاعت کیا ہے؟ وضاحت فرما دیں تو از حد ممنون ہوں گا۔ راقم کو اقبال مرحوم اور ان کی شاعری اور ان کے افکار سے خاص دل چسپی ہے۔ اقبالیات سے متعلق اردو اور انگریزی میں دستیاب کتب (لٹریچر) کی ایک جامع اور مفصل ببلوگرافی بنا رہا ہوں، مقامی گورنمنٹ کالج میں لیکچرر ہوں۔ اگر آپ اقبال سے اپنی ملاقاتوں، محبتوں اور گفتگو کو قلم بند کر دیں تو ملت اسلامیہ پر یہ ایک احسانِ عظیم ہو گا، آپ کی مصروفیات کے باوجود آپ کی جانب سے مختصر ہی سہی، جواب کا متوقع ہوں۔

والسلام۔

ہاشمی صاحب کی طرف سے موصول ہونے والے مکاتیب انتہائی دل چسپ ہیں، دہلی یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس سے ۱۴ جون ۱۹۹۷ء کو مشفق خواجہ کے نام لکھا گیا خط بھی انتہائی اہم ہے، اس خط میں بڑی تفصیل سے سفرِ دہلی اور وہاں کے سیمی نارز کا ذکر کیا گیا ہے، یہ خط، خط کم، سفر نامہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ کتاب میں شامل ڈاکٹر ایوب صابر، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، فتح محمد ملک، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اور انوار حسن صدیقی کے نام خطوط بھی بہت اہم موضوعات اور سوالات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ علامہؒ مرحوم کے صاحب زادے جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ’’زندہ رود‘‘ کی اشاعت پر لکھے گئے خطوط بھی غیر معمولی ہیں، ان خطوط میں ’’زندہ رود‘‘ پر ہاشمی صاحب کی رائے سند کا درجہ رکھتی ہے۔

٭٭

ماخذ:

https://www.roznama92news.com/%D9%85%D8%A8-%D8%B1%D9%81-%D9%86-%D8%B4%D9%85%DB%8C

٭٭٭

اقبال کی نظم ’’شکوہ‘‘ ۔۔۔ رفیع الدین ہاشمی

تعارف اور پس منظر

’’شکوہ‘‘ انجمن حمایت اسلام لاہور کے چھبیسویں سالانہ جلسے میں پڑھی گئی جو اپریل ۱۹۱۱ء میں ریواز ہوسٹل، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت فقیر سیّد افتخار الدین نے کی تھی۔

ایک شاعر کی حیثیت سے علّٓامہ اقبال کی شہرت و مقبولیت میں انجمن کے جلسوں کو بڑا دخل ہے۔ ان جلسوں میں نظمیں پڑھنے کی ابتدا انھوں نے ۱۹۰۰ء میں کی( ’نالۂ یتیم‘)۔ ۱۹۰۱ء میں ’یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے‘، ۱۹۰۲ء میں ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘، ۱۹۰۳ء میں ’ابر گوہر بار‘ (فریادِ امت) اور ۱۹۰۴ء میں ’تصویر درد‘ پڑھی گئی۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال کوئی نظم نہ پڑ سکے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔

۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسے میں ’شکوہ‘ پڑھی۔ اس جلسے میں علّٓامہ کے والد محترم شیخ نور محمد بھی موجود تھے۔ انجمن کے جلسوں کے لیے اقبال جو نظم لکھتے، بالعموم اسے پہلے سے چھپوا لیا جاتا۔ نظموں کی یہ مطبوعہ کاپیاں جلسوں میں فروخت کی جاتیں اور اس کی آمدنی انجمن کو چندے کے طور پر دے دی جاتی مگر ’’شکوہ‘‘ پڑھنے سے پیشتر طبع نہیں کرائی گئی تھی۔ جلسے میں نظم پڑھنے سے پہلے اقبالؒ نے ایک قطعہ سنایا اور اس کے بعد ’شکوہ‘ خلاف معمول تحت اللفظ پڑھنا شروع کی۔ سامعین نے ترنم سے سنانے پر اصرار کیا کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنی نظمیں ترنّم ہی سے پڑھا کرتے تھے۔ اقبال نے جواب دیا: ’’یہ اسی طرح سنائی جائے گی کیونکہ میں بہتر جانتا ہوں کہ نظم پڑھنے کا کون سا طریقہ موزوں ہے‘‘۔ چنانچہ تحت اللفظ پڑھی گئی مگر بقول غلام رسول مہر: انداز اس درجہ دل آویز تھا کہ جن خوش نصیبوں نے سنی، وہ زندگی کے آخری لمحوں تک اسے نہ بھولیں گے۔ (سرودِ رفتہ: ص ۶) اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر لائے تھے، اس کے لیے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے ایک سو روپے کی پیش کش کی اور رقم ادا کر کے اصل نظم انجمن کو دے دی۔

علّٓامہ اقبال جب نظم پڑھ چکے تو ان کے ایک بڑے مدّاح اور قدر شناس خواجہ صمد آگے بڑھے اور جوش مسرت میں اپنا قیمتی دوشالا ان کے شانوں پر ڈال دیا۔ اقبال نے یہ دوشالا اسی وقت انجمن کے منتظمین کو دے دیا۔ اس کے بعد یہ یادگار اور متبرک دوشالا اس مجمع عام میں نیلام کیا گیا اور سب سے بڑی بولی ختم ہونے پر جو رقم وصول ہوئی، وہ انجمن حمایت اسلام کی تحویل میں دے دی گئی۔ (روزگار فقیر اول: ص ۱۲۳)

اقبال نے انجمن کے جلسے میں شکوہ جس شکل میں پڑھی تھی، بانگِ درا میں شامل کرتے وقت اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی گئی۔ مثلاً:

تیرھویں بند کے چوتھے مصرعے کی ابتدائی صورت یہ تھی:

تیرے قرآن کو سینے سے لگایا ہم نے

سترھویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طرح تھا:

طعنِ اغیار ہے، رسوائی و ناداری ہے

پچیسویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طرح تھا:

پھر پتنگوں کو مذاقِ تپش اندوزی دے

بانگِ دراکی اشاعت سے پہلے، یہ نظم مختلف رسالوں، مثلاً: پنجاب ریویو، مخزن، تمدن اور ادیب میں شائع ہوئی تھی۔ متعدد زبانوں (انگریزی، عربی، بنگالی، پنجابی) میں اس کے بہت سے تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ایک آرٹسٹ ضرار احمد کاظمی نے نظم کو مصور کر کے علّٓامہ کی خدمت میں پیش کیا جسے انھوں نے بہت پسند کیا اور مصور کے نام ایک مکتوب میں اس کی تعریف کی۔

’’شکوہ‘‘ کی تالیف (اوائل ۱۹۱۱ء) کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقے براہِ راست برطانوی تسلط میں تھے۔ ایران پر عملاً روسی، برطانوی اور کسی حد تک جرمن اثرات کی حکمرانی تھی۔ ادھر عرب نیشنلزم کے اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے۔ لارنس آف عریبیا جیسے لوگ بڑی سرگرمی سے اس کے لیے کام کر رہے تھے اور عرب، ترکوں کے خلاف آمادۂ بغاوت تھے۔ نوجوان ترکوں کی تحریک کے زیر اثر ترکی میں لادینیت اور تورانی قوم پرستی فروغ پار ہی تھی۔ اندرونی خلفشار کے علاوہ بیرونی طاقتیں عثمانی سلطنت کے لیے نت نئے مسائل کھڑے کر رہی تھیں۔ صہیونی، سلطنتِ عثمانیہ کی بربادی اور خاتمے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے۔ ہندی مسلمان یا تو کانگریس کے حاشیہ بردار تھے یا ان میں (الا ماشاء اللہ) Yours most obedient servant قسم کے رہنما پائے جاتے تھے جو مغرب سے بے حد مرعوب تھے اور سر سیّد تحریک کے زیر اثر وہ اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ اندازِ فکر رکھتے تھے۔ ملک پر انگریزوں کی سیاسی گرفت خاصی مضبوط تھی۔ ہندو ؤں کے دباؤ کی وجہ سے ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ سے مسلمانوں کو بے حد صدمہ ہوا اور ان کے اندر مایوسی کچھ اور بڑھ گئی۔

فکری جائزہ

موضوع کے اعتبار سے ’’شکوہ‘‘ بارگاہِ الٰہی میں دورِ حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اور یہ شکوہ بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت تو ہم ہیں: ’’کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں‘‘ (آغا حشر کاشمیری) مگر انعامات و نوازشات کی بارش غیر مسلموں پر ہو رہی ہے۔ گویا علّٓامہ اقبالؒ نے اس نظم میں عام مسلمانوں کے لاشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ معروف دانش ور، نقاد اور شاعر سلیم احمد (م: ۱۹۸۳ء) کے الفاظ میں: ’’ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوبؐ کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لیے خدا کی ساری نعمتوں کی سزاوار، اور دوسری طرف یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے۔ عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکراؤ سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو ’’شکوہ‘‘ کا موضوع ہے‘‘۔ (اقبال: ایک شاعر، ص ۸۹) اقبال کے اپنے الفاظ میں: ’’وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی، ظاہر کر دی گئی‘‘۔

سلسلۂ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ہم اس کا مطالعہ و تجزیہ کریں گے:

۱۔     تمہید: اظہارِ شکوہ کی توجیہ  بند ۱-۲

۲۔     امت مسلمہ کا کارنامہ            بند ۳-۱۳

۳۔     مسلمانوں کی حالتِ زبوں   بند ۱۴-۱۹

۴۔     حالتِ زبوں کی وجہ کیا ہے ؟      بند ۲۰- ۲۳

۵۔     کیفیتِ یاس و بیم        بند ۲۴-۲۶

۶۔     دعائیہ اختتام           بند ۲۷-۳۱

اظہارِ شکوہ کی توجیہ

نظم کے پہلے دو بند تمہیدی ہیں جن میں اظہارِ شکوہ کی توجیہ بیان کی گئی ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ بد حالی اور پستی پر اقبال کے ردّ عمل کا اظہار ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان انحطاط کی اس کیفیت کو پہنچ چکے ہیں کہ اس پر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملک کے اجتماعی مفاد سے بھی غداری کے مترادف ہے۔ اس موقع پر قصۂ درد سنانا اگرچہ خلافِ ادب ہے اور نالہ و فریاد کا یہ انداز گستاخی کی ذیل میں آتا ہے، مگر ہم ایسا کرنے پر مجبور ہیں …… خدا مجھے معاف کرے کہ میں (تسلیم و رضا کا رویّہ اختیار کرنے کے بجائے) اس سے شکوہ کرنے چلا ہوں …… کسی لمبے چوڑے پس منظر یا غیر ضروری طول طویل تمہید کے بغیر باری تعالیٰ سے براہِ راست گفت گو، اس اسلامی تصوّر پر مبنی ہے کہ بندہ اپنے خدا سے بلا واسطہ ہم کلام ہو سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا: وَقَالَ رَبُّکُمْ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (سورۃ المومن: ۴۰) تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔

واضح رہے کہ جملہ مذاہب میں یہ انفرادیت صرف اسلام ہی کو حاصل ہے۔ ورنہ ہندو مت اور نصرانیت میں پروہت اور پادری بندے اور خدا کے درمیان واسطہ بنتے ہیں۔ علّٓامہ اقبال اس رویّے پر احتجاج کرتے ہیں:

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

بد قسمتی سے مسلمانوں کے ہاں بھی اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو بندے اور خدا کے درمیان توسّل کا دعویٰ کر کے مذہبی اجارہ داری کے غیر اسلامی تصور کو فروغ دے رہا ہے۔ عابد علی عابد کہتے ہیں: ’’اقبال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرزِ تخاطب سے آشنا کرنا چاہتا ہے … اقبال نے شکوے کے پہلے دو بندوں ہی میں بات یا موضوعِ سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ بعد کی شکوہ سرائی اور گلہ مندی بالکل مو زوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے‘‘۔ (شکوہ، جوابِ شکوہ: ص ۱۱)

امت مسلمہ کا کارنامہ

تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہارِ خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ ۱۳ویں بند تک اقبال نے امت مسلمہ کے عظیم الشان کارناموں کا تذکرہ کر کے دنیا میں اس کی حیثیت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ سب سے پہلے (بند ۳ تا ۵) دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:

ا: خدا کی ذات ازل ہی سے جملہ سچائیوں سمیت موجود تھی۔

ب: بڑی بڑی قومیں (سلجوقی، تورانی، ساسانی، یونانی، یہودی، نصرانی) دنیا پر چھائی ہوئی تھیں اور ان میں سے بعض کی عظیم الشان سلطنتیں بھی قائم تھیں۔

ج: لوگ شجر و حجر کو معبود بنا کر شرک اور گمراہی و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے۔ گویا یہ پس منظر ہے امت مسلمہ کے بے نظیر کارناموں کا اور اس سے تاریخ کی اسٹیج پر مسلمانوں کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اور اب (بند ۶ تا ۱۳) ان کارناموں کا مفصل بیان ہوتا ہے۔

اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں یہ شرف صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ انھوں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز کونوں تک پہنچا دیا۔ روم و ایران کی فتح ان کا حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ ان کی محنت و کاوش اور ہمت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں ہر طرف جَآءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ کا سماں نظر آنے لگا۔ نظم کے اس حصے میں اقبال نے تاریخ اسلام کے جن ادوار و واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، مختصراً ان کی وضاحت ضروری ہے:

’’دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں‘‘ کا اشارہ سلطنت عثمانیہ کے اس دور کی طرف ہے۔ جب مسلمانوں کی سلطنت یونان، البانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔

پھر اس زمانے کا تصو ّر کیجیے جب اٹلی کے کچھ حصوں اور سپین پر بھی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان علاقوں میں جہاں آج کلیساؤں میں ناقوس بجتے ہیں، کبھی ہماری اذانیں گونجتی تھیں۔ اسی طرح افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کا علاقہ مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھا۔ ’’شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی‘‘ کی عملی تفسیر اس واقعے میں ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلم وفد کے قائد ربعی بن عامر، ایرانی سپہ سالار رستم سے گفت و شنید کے لیے اس کے دربار میں گئے تو ایرانیوں نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے دربار کو بڑے ساز و سامان سے سجا رکھا تھا۔ ربعی اپنے نیزے سے قیمتی قالین کو چھیدتے ہوئے درباری ہیبت سے بے پروا ہو کر تخت کے قریب جا پہنچے اور نیزہ زمین پر مارا جو قالین کو چھیدتا ہوا زمین میں گڑ گیا۔

ساتویں بند میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح سلطان محمود غزنوی کے عظیم الشان تاریخی کارنامے فتح سومنات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ محمود نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سومنات کے بت کو پاش پاش کر دیا اور کہا: ’’میں بت فروش کی بجائے بت شکن کہلانا پسند کروں گا‘‘۔ ایاز محمود کا چہیتا غلام تھا۔

درِ خیبر اکھاڑنے کا واقعہ (بند ۹) دورِ نبویؐ میں پیش آیا۔ خیبر یہودیوں کا قلعہ تھا جو حضورؐ کی سرکردگی میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ’’شہر قیصر‘‘ سے مراد قسطنطنیہ (موجودہ نام استامبول) ہے جو مسلمانوں نے سلطان محمد فاتح کی سرکردگی میں ۱۴۵۳ء میں فتح کیا۔ ایران کے مجوسی آگ کی پوجا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے ایران کو فتح کر کے مجوسیت کا خاتمہ کیا اور آتش کدۂ ایران کو ٹھنڈا کر دیا۔

بحر ظلمات سے مراد بحر اوقیانوس (Atlantic) ہے۔ ’’بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے‘‘ یہ اشارہ ہے اس معروف واقعے کی طرف جب ایک مسلمان مجاہد عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر اپنے گھوڑے کو بحر اوقیانوس میں ڈال دیا اور بڑی حسرت سے کہا: ’’خدایا اگر یہ بحر ذخّار درمیان میں حائل نہ ہوتا تو تیرے راستے میں جہاد کرتا ہوا اسی طرح آگے بڑھتا ہوا چلا جاتا‘‘۔ یہ جگہ مراکش میں شرف العقاب کے نام سے موسوم ہے۔

مسلمانوں کی حالتِ زبوں

امت مسلمہ کے درخشندہ ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے سلسلۂ خیال مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف مڑ جاتا ہے۔ یہاں اقبال نے دوسری قوموں سے ان کا موازنہ کر کے ان کی موجودہ حالت زبوں کو نمایاں کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان ہر جگہ ہی غیر مسلموں کے مقابلے میں حقیر، ذلیل اور رسوا ہیں۔ دوسری قومیں ان پر خندہ زن ہیں۔ نظم کے اس حصے میں صحیح معنوں میں گلے اور شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کی بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیواؤں پر پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں ؟۔ اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دنیا توحید کے نام لیواؤں سے خالی ہو جائے گی اور ڈھونڈے سے بھی ایسے عشاقانِ توحید کا سراغ نہیں ملے گا۔

حالتِ زبوں کی وجہ کیا ہے ؟

اب (آغاز بند ۲۰) اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ مسلمان آج بھی خدا کے نام لیوا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروکار ہیں۔ آج بھی ان کے دلوں میں اسلام کے بارے میں ایک زبردست جوش و جذبہ اور کیفیت عشق موجود ہے۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجود عنایات خداوندی سے محروم ہیں۔

نظم کے اس حصے میں (بند ۲۰- ۲۳) میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں۔ لیلیٰ، قیس، دشت و جبل، شورِ سلاسل، اور دیوانہ نظارۂ محمل کی تراکیب و تلمیحات مشہور تاریخی کردار قبیلۂ بنو عامر کے قیس مجنوں سے متعلق ہیں۔ روایت ہے کہ قیس بنی عامر لیلیٰ کے عشق میں دیوانہ ہو کر نجد کے صحراوں میں کی خاک چھانتا پھرتا تھا۔ شاعری میں بکثرت استعمال کے سبب ان تلمیحات کے مفاہیم و معانی میں بہت گہرائی اور وسعت پیدا ہو چکی ہے۔ اقبال کے بعض شارحین نے ’’نجد کے دشت و جبل میں رمِ آہو بھی وہی‘‘ میں ’’رمِ آہو‘‘ سے صفا مروہ کی سعی مراد لی ہے جو حج کا ایک رکن ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ آں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے جلیل القدر صحابی تھے۔ اویس قرنیؒ مشہور تابعی ہیں جنھیں اگرچہ آں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب نہ ہو سکی، مگر آپؐ سے غایت درجہ محبت و شیفتگی رکھتے تھے۔ ۳۷ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی ایک جنگ میں شہید ہوئے۔ حضرت بلالؓ حبشی آں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے برگزیدہ صحابی اور مؤذن رسولؐ تھے۔ شدید ترین دورِ ابتلا میں بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی اور وہ توحید پر قائم رہے۔ کفار انھیں دوپہر کے وقت تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے اور ترک اسلام پر زور دیتے مگر وہ اس حالت میں بھی اَحَدٌ اَحَدٌ پکارتے رہتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ عشق تھا۔ فاران، سعودی عرب میں واقع ایک پہاڑ کا نام ہے۔ ’’سرِ فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے‘‘ سے مراد ہے کہ دین کی تکمیل خطۂ عرب میں ہوئی۔ اشارہ ہے قرآن حکیم کی اس آیت کی طرف جس میں فرمایا گیا:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (سورۃ المائدہ: ۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

کیفیت یاس و بیم

۲۴ ویں بند سے اقبال کا لہجہ مائل بہ یاس ہے۔ یہ دو بند (۲۴، ۲۵) در اصل نظم کے اس حصے کا تتمّہ ہیں جس میں مسلمانوں کی حالتِ زبوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں شاعر نے مسلمانوں کی بدحالی، بے چارگی اور بے بسی کا ذکر ایک مایوسانہ انداز میں کیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہاں امید و بیم کی ایک کیفیت (بند ۲۶) بھی موجود ہے۔ شاعر معترف ہے کہ مایوسی اور تاریکی کے اس دور میں بھی مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی حرارت کی دبی دبی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے بے چین و مضطرب ہیں۔

اب اس حصے سے نظم خاتمے کی طرف چلتی ہے۔

دعائیہ اختتام

یاس و بیم کی اس صورت حال کا نتیجہ غیر یقینی ہے۔ مگر اقبال کی خواہش یہ ہے کہ دورِ حاضر کے مسلمانوں کے دل پھر دینی جوش و جذبے سے لبریز ہو جائیں۔ کوہ طور پر تجلیاتِ الٰہی پھر نازل ہوں کیونکہ طور، نورِ خدا کی آگ میں جلنے کے لیے بے تاب ہے یعنی مسلمان اسلامی شوکت و عروج کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ (طور جزیرہ نماسینا میں واقع ایک سلسلۂ کوہ کی ایک اونچی پہاڑی کا نام ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے۔) نظم کے آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ دعا کا یہ سلسلۂ خیال ۲۷ ویں شعر سے شروع ہو کر نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ امت مسلمہ کو جن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، اقبال ان کے حل کے لیے دعا گو ہیں۔ ’’امت مرحوم‘‘ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک قوم کے مردہ ہو چکے ہیں۔ ان کی حیثیت سلیمان علیہ السلام کے مقابلے میں ’’مورِ بے مایہ‘‘ کی سی ہے۔ شاعر کی آرزو ہے کہ یہ کم حیثیت اور فرومایہ قوم انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہو اور کارگہِ دنیا میں ترقی یافتہ اقوام جیسا بلند مقام حاصل کر لے۔ (قرآن پاک کی سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور چیونٹی کا قصہ مذکور ہے۔ ) ہند کے ’’دیر نشینوں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ہندی مسلمانوں نے اپنے بہت سے معاملات و معمولات اور ثقافت و تمدن میں ہندوؤں کے طور طریقوں اور رسوم و رواج کو اپنا لیا ہے۔

اقبال نے نظم کے اس آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشن اور خوش آیند ہو اور ہونا چاہیے مگر یہ نہیں کہا کہ ’’ہو گا‘‘۔ یعنی تیقن کے ساتھ امید نہیں دلائی کہ فی الواقع سنہرا مستقبل ان کا منتظر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کا دور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی پُر آشوب زمانہ تھا اور مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی حتمی پیش گوئی مشکل تھی۔ مجموعی طور پر حالات مایوس کن تھے۔ چند ماہ بعد ہی ستمبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کر کے مسلمانوں کو ایک اور چرکا لگایا۔ اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے ’’شکوہ‘‘ کرنا پڑا۔ مایوسی کا ایک انداز یہ ہے کہ:

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں

داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

یعنی مسلمانوں میں درد مند اہل دل شاذ ہیں اور احیائے اسلام کی پکار پر کوئی توجّہ ہی نہیں دیتا۔

اس حصے میں اقبال نے ’’بلبلِ تنہا‘‘ کا تذکرہ بھی کیا ہے جو اب تک محوِ ترنم ہے، وہ اپنی ’’بانگِ درا‘‘ سے اہل چمن کے دلوں کو چاک کر دینا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بلبل سے مراد اقبال کی اپنی ذات ہے۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اس عالم یاس میں بھی، مسلم نشأتِ ثانیہ اور احیائے دین کے لیے مجھ سے جو خدمت ہو سکتی ہے، اسے بجا لانے کے لیے کوشاں ہوں۔ اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا:

کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی

فنی تجزیہ

’’شکوہ‘‘ مسدس ترکیب بند ہیئت کے ۳۱ بندوں پر مشتمل ہے۔ بحر کا نام بحر رمل مثمن مخبون مقطوع ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فِعْلُنْ

اقبال کی طویل نظموں میں ’’شکوہ‘‘ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ پہلی طویل نظم ہے جس میں اقبال نے مسلمانوں کے دورِ عظمت و شوکت اور ان کی موجودہ زبوں حالی کو ایک ساتھ نہایت فن کارانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ انداز شکوے کا ہے اور شکوہ بھی اللہ سے۔ اردو کا شعری سرمایہ اس انداز سے بالکل نا آشنا تھا۔ بقول ماہر القادری:

اک نئی طرز، نئے باب کا آغاز کیا

شکوہ اللہ کا، اللہ سے بصد ناز کیا

شاعر نے نظم کا آغاز بہت سلیقے اور ہنر مندی سے کیا ہے۔ اصل موضوع پر آنے سے پہلے اقبال نے اظہارِ شکوہ کی توجیہ پہلے دو بندوں میں کر دی ہے تاکہ ایک نیا اور نادر موضوع اچانک سامنے آنے پر قاری کو جھٹکا محسوس نہ ہو۔

لہجے کا تنوع

کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکوہ کرنے والا اپنی معروضات پیش کرتے ہوئے، حسب ضرورت مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے شکوے کا لہجہ بھی متنوع ہے۔ کہیں عجز و نیاز مندی ہے، کہیں اپنی غیرت و انا کا احساس ہے، کہیں تندی و تلخی اور جوش ہے، کہیں تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں زاری و دعا کا انداز ہے۔

نفسیاتی حربے

اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نظم میں بعض مقامات پر نفسیاتی حربوں سے کام لیتے ہوئے ایک ہی بیان سے دہرا کام لیا ہے۔ ۱۵ ویں بند کے آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے، جہاں شاعر خدا سے اس کی بے اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ وہ کہتا ہے:

خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں ؟

اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں ؟

______

پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

______

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے

______

کیا ترے نام پر مرنے کا عوض خواری ہے ؟

اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجھوڑ کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ میرا نہیں، تمھارا مسئلہ ہے۔ نفسیاتی حربے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ بند ۱۶-۲۲ میں شاعر بظاہر خدا سے بے اعتنائی کا سبب پوچھ رہا ہے مگر بیان اور سوال کا انداز ایسا ہے کہ شکوہ کرنے والے کی اپنی کمزوریاں ظاہر ہو رہی ہیں، مثلاً: ’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب؟‘‘ کہتے ہوئے شکوہ کرنے والے کا حریص اور لالچی ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ اسی طرح: ’’طعن اغیار ہے، رسوائی ہے، ناداری ہے‘‘ سے پتا چلتا ہے کہ شاکی کو اپنی بد اعمالیوں اور خامیوں کا احساس نہیں اور نہ اٍس پر وہ شرمندہ ہے۔ اس کے لیے تو صرف لوگوں کی اٹھتی ہوئی انگلیاں وجہِ تکلیف بن رہی ہیں۔ شاکی کی ذہنی کیفیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک طرف تو اسے غیروں کے خزانے معمور ہونے پر کوئی شکایت نہیں۔ ’’یہ شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور‘‘ اور دوسری طرف وہ اپنے دل میں دولتِ دنیا کی حرص بھی رکھتا ہے ’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب‘‘۔

یہ اندازِ بیان در اصل مسلمانوں کے دل میں احساسِ زیاں اور غیرت ملی پیدا کرنے کی فن کارانہ کوشش ہے۔ نفسیاتی حربے کی ایک مثال ۲۲ ویں بند میں ملتی ہے۔ پہلے چار مصرعوں میں شاکی نے دبے دبے الفاظ میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے۔ مگر وہ اس اعتراف کا علانیہ اظہار نہیں کرتا اور کرے بھی تو کیسے ؟ اس طرح تو اس کا اپنا موقف کمزور ہو گا۔ لہٰذا وہ اپنی کمزوری سے توجّہ دوسری طرف منعطف کرانے کے لیے فوراً (نفسیاتی حربے سے کام لیتے ہوئے) مخاطب کو طعنہ دیتا ہے کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہر جائی ہو۔

تغزل

اقبال بھی دیگر ہم عصر شعرا کی طرح ابتدا میں ایک غزل گو شاعر تھے اور داغؔ سے باقاعدہ اصلاح لیتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی طبیعت غزل سے ہٹ کر نظم کی طرف مائل ہو تی گئی۔ فنی اعتبار سے غزل اور نظم میں واضح فرق ہے۔ مگر اقبال نے غزل گوئی سے دست کش ہونے کے باوجود غزل کی روح کو اپنی نظموں میں بھی برقرار رکھا۔

اقبال کی طبیعت کا شاعرانہ مزاج جسے غزل اور تغزل کے ساتھ ایک فطری مناسبت اور طبعی لگاؤ ہے، اس نظم میں بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ بعض مقامات پر اس کا اظہار بہت بھر پور ہے:

تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے

شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے

دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے

آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

بعض اشعار کو اگر نظم کے سیاق و سباق سے الگ کر کے دیکھا جائے تو وہ خالص غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں:

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں، تو بھی تو ہرجائی ہے

بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جُو بیٹھے

سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے

وادیِ نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا

قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا

ایجاز و بلاغت

’’شکوہ‘‘ کے بعض حصے، اشعار اور مصرعے ایجاز و بلاغت کا شاہ کار ہیں۔ تاریخ کے طول طویل ادوار، اہم واقعات و روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی خصوصیات کو بڑے بلیغ انداز میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، چند مثالیں:

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے ؟

شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سُر کِس نے ؟

بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

______

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

______

مور بے مایہ کو ہم دوشِ سلیماں ؑکر دے

٭چند محسناتِ شعر:

’’شکوہ‘‘ ہمہ پہلو حسن زبان و بیان کا شاہکار ہے۔ انتخاب الفاظ، بندش تراکیب، صنعت گری، حسن تشبیہ و استعارہ، مناسب بحر، موزوں قوافی، وسعت معانی اور زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب نظم اس قدر دل کش اور جذبہ انگیز ہے کہ قاری کے دل کو متاثر و متحرک کیے بغیر نہیں رہتی۔ مسلمانوں کی بدحالی و پستی کو حالیؔ نے بھی اپنی مسدس میں بیان کیا ہے مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تذکرے کا سپاٹ انداز اختیار کرنے کے بجائے شکوہ کا جدید انداز اختیار کیا ہے۔ اس جدتِ بیان نے ’’شکوہ‘‘ کو ایک یادگار نظم بنا دیا ہے۔ عابد علی عابد لکھتے ہیں:

’’اقبال کی طویل نظموں میں ’’شکوہ‘‘ کئی طرح سے اہم اور معنی خیز ہے۔ اس کی ساخت یا تشکیل میں اقبال نے پہلی بار اس صنعت گری کی ایک جھلک دکھائی ہے جسے بعد کی نظموں میں عروجِ کمال پر پہنچنا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس نظم میں محسنات شعر کا استعمال ایسی چابک دستی اور ہنر مندی سے ہوا ہے کہ پڑھنے والے کی توجّہ بیشتر مطالب ہی پر مرکوز رہتی ہے‘‘۔ (شکوہ، جوابِ شکوہ: ص۷)

الف: صنعت گری

۱: صنعت مراعاۃ النظیر: (ایسے الفاظ کا استعمال جن کو آپس میں سوائے تضاد کے کوئی اور نسبت ہو) :

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا، میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

۲۔ صنعتِ ترافق: (جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑہیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے) :

نقش، توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

۳۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے تمام یا زیادہ الفاظ کا ہم قافیہ ہونا):

کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدۂ ایراں کو

کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو

۴: صنعت تلمیح: (کسی مشہور واقعے، کہانی، انسان، آیتِ قرآنی یا فنی اصطلاح وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا) :

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

۵۔ صنعت طباق ایجابی: (دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہوں) :

آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈھ چراغِ رخِ زیبا لے کر

قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی

بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی

ب: تصویر کاری

تصویر کاری (Imagery) کی بہت سے مثالیں زیر مطالعہ نظم میں موجود ہیں:

آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز

قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

عہدِ گل ختم ہوا، ٹوٹ گیا سازِ چمن

اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن

ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک

اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

ج: تشبیہ

’’شکوہ‘‘ میں متعدد خوب صورت تشبیہیں ملتی ہیں مثلاً:

نظم کے ۲۷ ویں بند کے پہلے شعر میں، اقبال نے امت مسلمہ کو ’’مورِ بے مایہ‘‘ سے تشبیہ دی ہے جو حد درجہ بلیغ ہے۔ فی الواقع مسلمانوں کی حالت اس بے کس چیونٹی کی سی ہو چکی ہے جسے دنیا کی ہر قوم اور ہر گروہ جب چاہے، روندتا اور مسلتا ہوا گزر جائے۔ مسلمان چیونٹی کی مانند کوئی مزاحمت یا روک ٹوک نہیں کر سکتے۔

غرض ’’شکوہ‘‘ اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ہونے کے باوجود فنی خوبیوں اور شعری محاسن سے مالا مال ہے۔ عابد علی عابد اس کی وجہ یہ بناتے ہیں کہ ’’اقبالؒ کو آغازِ کار ہی میں ایسے ایسے اساتذہ کی صحبت میسر آئی جو مشرق کے اسلوب انتقاد کے ماہر تھے اور علوم شعری کے راز دار تھے۔ چنانچہ انھی کے فیضان سے اقبالؒ کو معانی، بیان اور بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کامل آگاہی ہو گئی اور اس کی یہی بصیرت تھی جو آخر ہر شعری کاوش میں صنعت گری کا روپ دھار کر نمودار ہوئی… اقبال کے کلام میں صنعت گری کا وہ اسلوب مخصوص بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو مشرقی علوم شعر ہی سے منسوب ہے اور مغربی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ کہیں کہیں دونوں میں ایسا امتزاج پیدا ہو گیا ہے کہ باید و شاید۔ (شکوہ، جوابِ شکوہ: ص۲۳-۲۴)

شکوہ کا ردّ عمل

’’شکوہ‘‘ بالکل انوکھی قسم کی نظم تھی، اس لیے ملک کے طول و عرض میں نہایت وسیع پیمانے پر مقبول ہوئی۔ علّٓامہ اقبال نے ایک موقع پر بتایا کہ کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں آ چکے ہیں (روداد ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن، ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء ص: ’’ب‘‘ بحوالہ: اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۸۳) عوام و خواص کی توجّہ کا مرکز بنتے ہی بہت جلد اس کا ردّ عمل سامنے آیا:

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

(سب سے اہم ردّ عمل تو خود اقبال کا تھا۔ جوابِ شکوہ کی شکل میں) عوام کا تأثر بالعموم پسندیدگی کا تھا، تاہم بعض حلقوں نے اسے خدا کے حضور گستاخی قرار دیا۔ ردّ عمل کے دونوں پہلوؤں کو مختلف شعرا نے منظوم صورت میں پیش کیا۔ جو نظمیں لکھی گئیں، ان کی کسی قدر تفصیل ڈاکٹر سید قمقام حسین جعفری کے مضمون ’’شکوہ اور جوابِ شکوہ‘‘ (ادبی دنیا: اپریل مئی ۱۹۷۱ء) میں دیکھی جا سکتی ہے۔

تمام جوابی نظموں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امت مسلمہ مذہب سے رو گردانی کے سبب موجودہ حالتِ زار کو پہنچی ہے۔ اب اصلاحِ احوال کی صورت یہی ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار کو درست کرے۔

شکوہ اور واسوخت

اردو کے قدیم واسوخت، حالی کی مسدّس ’’مد و جزر اسلام‘‘ اور اقبال کا ’’شکوہ‘‘ مسدس ہیئت میں لکھے گئے ہیں، تاہم ہیئت کی یکسانیت سے قطع نظر تینوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔

واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ میں ظاہری مماثلت بہت نمایاں ہے۔ لب و لہجے اور تنظیم و ترتیب کے اعتبار سے بھی شکوہ میں واسوخت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سر عبد القادر لکھتے ہیں: ’’ہم شکوۂ اقبال کو واسوخت ہی قرار دے سکتے ہیں۔ ہر چند کہ اقبال کا مخاطب محبوبِ حقیقی ہے اور ان کی شکوہ سنجی، حدود و قیود سے بہت ہی کم آگے بڑھی ہے لیکن نظم کے بناؤ سنگھار کے اعتبار سے واسوخت سے قریب ہے‘‘۔ (نذر اقبال: ص ۱۴۹)

سر عبد القادر نے آگے چل کر بعض مثالوں کے حوالے سے میرؔ کے واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ کی باہمی مماثلت دریافت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مجازی اور حقیقی محبوب کے اختلاف کے باوجود، مذکورہ بالا اشعار میں میرؔ اور اقبال کی لَے مل جاتی ہے۔ معنوی اعتبار سے وہ ایک دوسرے کے ضمیمے نظر آتے ہیں۔ (نذر اقبال: ص ۱۵۳)

اس میں شبہہ نہیں کہ میرؔ کے واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ کے بعض مصرعوں، اشعار اور کئی بندوں میں میرؔ اور اقبالؔ کے ہاں یکسانیت کا احساس ہوتا ہے۔ (ممکن ہے کہ شکوہ کی تشکیل و تحریر کے زمانے میں میرؔ کی واسوخت غیر شعوری طور پر اقبال کے ذہن پر اثر انداز ہوئی ہو۔ بہر حال اکابرِ ادب کے ہاں اس طرح کی مماثلتوں کا پایا جانا انوکھی بات نہیں) تاہم معنوی اعتبار سے ان میں نمایاں فرق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میرؔ محبوب مجازی سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں مخاطب ہوئے ہیں، قدرے تلخ و ترش لہجے میں اس سے برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اس سے علاحدگی اختیار کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ اقبال کے لیے یہ لہجہ اپنانا مشکل تھا۔ ان کا خطاب ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے اس لیے ’’شکوہ‘‘ میں انھوں نے احترام و تقدیس کی ایک خاص سطح برقرار رکھی ہے۔ مزید برآں میرؔ کی واسوخت ایک لحاظ سے شخصی جذبات و احساسات کا اظہار ہے (یہ الگ بات ہے کہ ان کی تعمیم بھی کی جا سکتی ہے) اور اس کی نوعیت ایک ذاتی واسوخت کی ہے۔ برعکس اس کے ’’شکوہ‘‘ کا موضوع اجتماعی ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی شخصی سوچ کے بجائے پوری امت مسلمہ کے ذہن کی عکاسی ہے۔

’’شکوہ‘‘ کی ہیئت روایتی ہے تاہم اپنی معنوی انفرادیت اور اسلوب کی ندرت کے اعتبار سے قدیم ادب میں ایسی شاعری کی مثال نہیں ملتی۔

’’شکوہ‘‘ ایک اعتبار سے امت مسلمہ کا مرثیہ ہے اور یہ امر قابلِ توجّہ ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کے لیے اقبالؔ نے مسلمہ طور پر اردو مرثیے کی روایتی ہیئت (مسدس) کا انتخاب کیا۔

٭٭

حواشی

۱۔ سلجوقی، ترکمانوں کے ایک سربرآوردہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ سلجوقیوں نے اسلام قبول کر لیا تو انھیں بہت عروج حاصل ہوا۔ عباسیوں کے زوال کے بعد سلجوقیوں نے ممالکِ اسلامیہ کے بیشتر حصے کو ایک مرکز پر جمع کیا۔ ان کا دورِ حکومت گیارھویں سے تیرھویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ طغرل، الپ ارسلان، ملک شاہ، محمد اور سنجر نامور حکمران گزرے ہیں جو سلاجقۂ عظام کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی حکومت دریائے سیحون سے دریائے فرات تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس علاقے میں سلجوقیوں کے عہد میں کامل امن و امان رہا۔ اسلامی دنیا نے علمی اعتبار سے اس عہد میں بہت ترقی کی۔ اس زمانے کے اکابر علم و ادب میں غزالی، رومی، عمر خیام، عبد القادر جیلانی، انوری، نظامی، خاقانی، زمخشری اور جریری شامل ہیں۔

۲۔ ساسانی خاندان نے ۲۲۶ء سے ۶۵۱ء تک ایران پر حکومت کی۔ نوشیرواں عادل، خسرو پرویز اور بہرام گور اسی خاندان کے بادشاہ تھے۔ آخری فرماں روا یزدجر سوم کے عہد میں مسلمانوں نے ایران فتح کر کے ساسانیوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

٭٭٭

ماخذ: کتاب ’’اقبال کی طویل نظمیں: توضیحی و تنقیدی مطالعہ‘‘

٭٭٭

علّامہ اقبال اور دانش حاضر ۔۔۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

ہمارے آج کے دانش وروں، خصوصاً ’روشن خیال‘ دانش وروں کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ پوری بیسویں صدی میں اقبال سے بڑا کوئی صاحب دانش نہیں تھا، اور دانش حاضر اور اس کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں سے بھی ان سے بڑھ کر کوئی واقف نہ تھا۔

اقبال کے ہاں ’عقل‘ اور ’دانش‘ مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور عقل کے کچھ محدود سے فوائد بھی علامہ نے بتائے ہیں، مگر اس مضمون میں ’دانشِ حاضر‘ کی ترکیب اُس دانش اور عقل عیار کے معنی و مفہوم میں استعمال کی گئی ہے، جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر

مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُنّاری

یا ؎

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

دانشِ حاضر کی ترکیب تو اقبال نے دوچار جگہ ہی استعمال کی ہے مگر زمانۂ حاضر، تہذیب حاضر، علم حاضر، دورِ حاضر، دانشِ فرنگ، سرمۂ افرنگ، عقلِ ذو فنوں، فکرِ خدا داد، فلسفہ و حکمت اور آزادیِ افکار جیسی تراکیب اور خرد، خبر، علم، ظن، تخمین عقل، دانش اور فرنگ جیسے الفاظ ان کے ہاں بکثرت ملتے ہیں۔ اگر ہم اس طرح کے اشعار کو نگاہ میں رکھیں:

برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ

فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری

______

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے

کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بَرّاقی

______

ڈھونڈھ رہا ہے فرنگ، عیشِ جہاں کا دوام

وائے تمنائے خام، وائے تمنائے خام

تو اندازہ ہو گا کہ وہ اُس تہذیب، طرز ِعمل اور فکر سے بے اطمینانی اور بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں جو عقل پرستی کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دانش حاضر کا شاخسانہ ہے اور جس کے بارے میں علامہ نے کہا:

عذاب دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں

کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل

صرف اقبال ہی نہیں، عہد اقبال کا ہر شخص دانشِ حاضر کے عذاب سے باخبر تھا بلکہ ما بعدِ اقبال عہد کی دنیا بھی اس عذاب کو بھگت رہی ہے اور جانے کب تک اس عذاب کی آگ میں جلتی رہے گی۔

دانشِ حاضر چالاکی و عیاری، مکاری و فریب کاری، پُرکاری و سخن سازی اور چرب زبانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ عہد حاضر میں دانشِ حاضر نے ساحر الموط کی سی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ جو لوگ اس کے فریب میں آ جاتے ہیں اور اس کے جال میں گرفتار ہو جاتے ہیں، عہدِ جدید کا یہ ساحر ان کے سامنے ایسے حسین و جمیل، چمکنے دمکنے اور نظر کو خیرہ کرنے والے بت تراش دیتا ہے کہ نوگرفتار، ان کی چکا چوند کے سامنے بے اختیار سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ ان بتوں میں چھوٹے بڑے، مختلف شکل و صورت کے اور کئی قسموں کے بہت سے بت شامل ہیں، مثلاً:

وطنیت اور قوم پرستی کا بت

دین و سیاست کی مغائرت کا بت

عقیدوں، روایات اور اقدار میں تشکیک اور ان سے بغاوت کا بت

مادہ پرستی اور فلزات پرستی کا بت

ملحدانہ سوشلزم کا بت

عوام کی حاکمیت کا بت

آزادیِ افکار کا بت

مرد و زن کی مساوات اور نام نہاد آزادی نسواں کا بت، وغیرہ۔

یہ سب معبودانِ فرنگی اُسی دانش حاضر کے تراشیدہ ہیں اور، میں بڑی معذرت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے بہت سے پاکستان ہی کے نہیں، مسلم دنیا کے دانش ور بھی( ادیب، صحافی خصوصاً کالم نگار، قلم کار، اساتذہ اور ایک نئی مخلوق جسے ’اینکر پرسن‘ کا نام دیا جاتا ہے، یہ سب)، اِلّا ماشاء اللہ اسی دانش حاضر کے پھندے میں گرفتار ہیں اور انھی معبودان فرنگی کے سامنے سجدہ ریز ہیں، جن سے بچنے کا علامہ اقبال نے مشورہ دیا تھا اور ان سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ بھی کی تھی مگر دانشِ حاضر کے بیچارے یہ نوگرفتار سمجھتے ہیں کہ ’وحیِ ولایت‘ کے ہر ہر حرف پر آمنّا و صدّقنا کہنا ہی زندگی میں کامیابی کی کلید ہے۔ یہاں مشکل تو یہ ہے کہ جن کی تعریف میں ہمارے دانش وَر رطب اللّساں ہیں، ان میں سے کسی ایک بت نے بھی بنی نوع انسان کی مسیحائی نہیں کی بلکہ اس کے برعکس سو سو طرح سے مرنے والی مخلوقِ خدا کو ہمیشہ بے اطمینانی اور بے حضوری اور بے یقینی اور محرومی ہی سے دوچار کیا ہے۔ دانش حاضر کے زائیدہ تمام فلسفوں، اِزموں، بتوں اور معبودوں نے انسان کے اعتماد …خدا پر ایمان، کائنات پر یقین، کسی مذہب پر (یعنی زندگی بسر کرنے کے لیے کسی ضابطے، راستے اور عقیدے پر) ایمان، اور انسان کا خود اپنے اوپر یقین اور اعتماد…دانش حاضر نے ان سب کو ٹھیس پہنچائی ہے، کمزور کیا ہے اور انسان کو تشکیک اور تذبذب میں مبتلا کیا ہے۔

علامہ فرماتے ہیں:

علمِ حاضر پیشِ آفل در سجود

شک بیفزود و یقیں از دل ربود

اور اسی لیے عصر حاضر کا انسان ’’بوعلی اندرغبارناقہ گم‘‘ کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔

علامہ اقبال نہایت دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ دانش حاضر نہ صرف خود گم کردہ راہ ہے بلکہ گمراہی پھیلاتی بھی ہے اور اس نے ایک دنیا کو راہِ راست سے بھٹکایا ہے۔ اس گمراہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دانش حاضر فیضانِ سماوی سے محروم ہے۔ اس نے مشرقی اقوام پر مغربی استعمار کی سامراجی گرفت کو مضبوط تر کرنے کا نا مسعود کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک دانش حاضر کے ڈانڈے ابلیس سے ملتے ہیں:

گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ

آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد

ابلیس کے علاوہ دوسری ہستی میکاولی کی ہے جسے دانش حاضر نے اپنا مرشد بنا رکھا ہے۔ اس ابلیسیت اور میکاولیت کی بنیاد پر دانش حاضر نے جو گل کھلائے، ہم اقبال کی وفات کے پون صدی بعد بھی اس کے ’’فیوض و برکات‘‘ کی زد سے باہر نہیں نکل سکے۔ عہد حاضر میں آزادی فکر، آزادی نسواں، مساوات مرد و زن، روا داری، دوستی، روشن خیالی اور نظریہ پاکستان کے مفہوم کے از سر نو تعین کے سلسلے میں سیکولرزم پر اصرار اور ایک خاص مفہوم اور پس منظر میں ’عوام کی عدالت‘ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور اس کی مقننہ اور عدلیہ سے بھی بالا تر قرار دینے کا نعرہ۔ یہ سب جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا، دانش حاضر کے زائیدہ مسائل اور امراض ہیں۔ عہد اقبال میں بھی یہ سب موجود تھے اور علامہ کو ان کا پورا ادراک تھا۔ اس کے بعض پہلوؤں کا اظہار انھوں نے ’بالِ جبریل‘ کی نظم ’’لینن‘‘ میں کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات

رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں

گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات

بیکاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

فرنگی مدنیت کی فتوحات کی پوری فہرست بہت طویل ہے۔ جنسی بے راہ روی نے کنواری ماؤں، نا جائز بچوں اور شادی کے رجحان میں بتدریج کمی کی منازل سے گزر کر فرنگی معاشرے کو خاندانی اکائی سے محروم اور خاندانی نظام کی تباہی سے دوچار کر دیا ہے اور اب دانش حاضر ہم جنس پرستی پر مصر ہے۔ جب دانشِ حاضر نے عالم انسانی کو اتنی ساری مہلک بیماریوں میں مبتلا کر دیا تو انسانیت کیسے پنپ سکتی ہے۔ اقبال نے خطبات میں ایک جگہ کہا ہے:

Believe me, Europe to-day is the greatest hindrance in the way of man’s ethical advancement

خیر، یہ تو فرنگی مدنیت کا ایک پہلو ہے۔ اس کا سب سے روشن اور قابل قدر چہرہ تو ’’یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت‘‘ قرار دیا جاتا تھا مگر اب مغرب کا علم و ہنر، تعلیم و تعلم، حکمت و حکومت اور تدبر و تفکر وغیرہ سب کچھ دانش حاضر سے مسموم ہو چکا ہے۔ اب علم ’تخمین و ظن‘ اور ’سراپا حجاب‘ بن چکا ہے۔ اقبال نے اس ظلمات اور ان فتنوں سے باخبر رہنے کی تلقین کی ہے۔

اے مسلماناں! فغاں از فتنہ ہائے علم و فن

اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب

خیال رہے کہ دانش حاضر کی زائیدہ بہت سی بیماریوں میں سے روشن خیالی کی بیماری، ہمارے ایک طبقے کو عہد اقبال ہی سے لاحق ہو چکی تھی۔ پنڈت نہرو کے ساتھ قادیانیت کے مسئلے پر قلمی مناقشے میں ایک جگہ اقبال نے لکھا ہے:

The so-called "enlightened” Muslim has seldom made an attempt to understand the real cultural significance of the idea of Finality in Islam and a process of slow and imperceptible Westernisation has further deprived him even of the instinct of self-preservation.

یہself-preservation سے محرومی کیا ہے؟ اس کی وضاحت علامہ نے مثنوی ’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ میں بایں الفاظ کی ہے:

اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد

می شناسی عصرِ ما با ما چہ کرد

عصرِ ما ما را زِ ما بیگانہ کرد

از جمالِ مصطفیٰؐ بیگانہ کرد

سوزِ او تا از میانِ سینہ رفت

جوہرِ آئینہ از آئینہ رفت

باطنِ ایں عصر را نشناختی

داوِ اوّل خویش را درباختی

علّامہ نے صرف تشخیصِ مرض ہی پر اکتفا نہیں کیا، دانش حاضر کی اس بیماری کا علاج بھی بتایا ہے اور وہ ہے: ع

اندر ایں کشور مقامِ خود شناس

پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ خود شناسی لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ کی طرف مراجعت ہی سے ممکن ہے اور یہی دانش حاضر کے زہر کا تریاق ہے۔ اسی مثنوی میں ایک جگہ کہتے ہیں:

نکتۂ می گویم از مردانِ حال

اُمتاں را لا جلال اِلَّا جمال

لا و اِلَّا احتسابِ کائنات

لا و اِلَّا فتحِ بابِ کائنات

ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف ونوں

حرکت از لا زاید از اِلَّا سکوں

تا نہ رمزِ لَا اِلَہ آید بدست

بند غیر اللہ را نتواں شکست

یہ رمز لَا اِلٰہ کیا ہے؟ اس کی وجہ علامہ نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ کے عنوان سے ضرب کلیم کی پہلی نظم میں بیان کی ہے۔ خیال رہے کہ ۱۹۳۶ء میں ضرب کلیم کی اشاعت کو اقبال نے دانش حاضر کے فتنے کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘ قرار دیا تھا __ یہ نظم خود شناسی کی وضاحت بھی ہے اور رمز لَا اِلٰہ کا مفہوم بھی کھولتی ہے __فرماتے ہیں:

خودی کا سرِّ نہاں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ

خودی ہے تیغ، فساں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری

نہ ہے زماں نہ مکاں، لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ

٭٭

ماخذ: جریدہ ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۲۱ء

٭٭٭

منور رانا _ ہم سے محبت کرنے والے روتے ہی رہ جائیں گے ۔۔۔ منصور الدین فریدی

منور رانا نہیں رہے۔ ہندوستان کی اردو شاعری کا ایک باب موت کی آغوش میں سمٹ گیا۔ ایک ایسا انسان جس نے کبھی فلمی چکنا چوند میں خود میں ’’شترو گھن سنہا‘‘ پایا تھا بلکہ خوشیوں کے شہر میں ’’شتروگھن سنہا آف کولکتہ‘‘ بھی کہلایا تھا۔ لیکن یہ قسمت تھی جس نے ایک ایسی انگڑائی لی کہ دنیا نے اسے ایک شاعر ’منور رانا ‘ کے طور پر جانا اور چاہا۔ خود منور رانا نے نہیں سوچا ہو گا کہ ان کا فلمی شوق انہیں فلمی پردے کے بجائے مشاعرے کے اسٹیج پر پہنچا دے گا۔ وہ انسان جو شتروگھن سنہا کے ساتھ مختلف فلمی ہستیوں کی آواز کی نقل کرنے کا ماہر تھا دنیا میں اپنی حساس شاعری کے لیے دل جیتے گا اور دماغ پر حاوی ہو جائے گا۔

وہ فلم زدہ نوجوان جب شاعری کے عروج پر پہنچا تو ایک ایسا شاعر نظر آیا جس کی شاعری مقدس رشتوں کی پاکیزگی اور احترام سے عبارت بنی۔ جس نے اپنی شاعری میں دنیا کے سب سے مقدس ’’ماں‘‘ کے رشتے کو جس انداز میں پیش کیا۔ اسے بھلایا نہیں جا سکے گا۔ شاعری کی دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ محبت کے جذبوں کا اظہار آسان نہیں ہوتا لیکن منور رانا نے اس جذبے کا بھی خوب اظہار کیا اور ہر ممکن موقعے پر ’’ماں‘‘ کے تصور کو نہایت خوبصورتی سے اپنے اشعار کے قالب میں ڈھالا۔ یہی وجہ ہے کہ منور رانا کو رشتے کے تعلق سے دل کی بات کہنے کے لیے جو مقبولیت حاصل ہوئی، ان کے معاصر شعرا میں کسی اور۔ کو نہیں مل سکی

دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن

ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے

ایک اور مقبول شعر ہے کہ۔–

لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے

میں اردو میں غزل کہتا ہوں ہندی مسکراتی ہے

ساہتہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ممتاز ادیب حقانی القاسمی کے بقول۔ ۔ منور رانا نے اپنی شاعری کے لیے ایک نئی بشارت دی اور یہی انسانی جذبہ اور احساس ان کی شاعری کو زندہ رہنے کی ضمانت عطا کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں سب سے بڑی لہر جو ہے وہ ہے انسانیت کی لہر وہی سورج، دہی روشنی وہی خوشبو، وہی پھول ہے جو انسانی وجود سے وابستہ ہیں۔ انسانی رشتے کی قطری خوشبو نے ہی ان کی شاعری کو تازگی تحرک، توانائی اور تمکنت عطا کی ہے۔ بقول ممتاز شاعر معین شاداب کہ۔ ۔ ان کے اشعار میں رشتوں کا حسن رہا، وہ ٹوٹتے بکھرتے بشری رابطوں کو جوڑتے رہے۔ وہ صارفیت کے اس عہد میں انسانی رشتوں کی قیمت نہیں، قدر طے کرتے رہے۔ محنت کشوں کے پسینے کو انہوں نے اپنے قلم کی روشنائی بنایا۔ منور رانا سماجی خرابیوں کے خلاف شکوہ نہیں احتجاج کرتے۔ حق و انصاف کی خاطر اقتدار سے ٹکر لیتے رہے۔

فلمی چکر کا خاتمہ

منور رانا اپنے دور جوانی میں شہر بھر میں توجہ کا مرکز تھے، اداکاری کا شوق انہیں قلم کار بنا رہا تھا تو اداکار بھی۔ انہوں نے ڈرامہ نگاری شروع کی۔ مختصر کہانیاں لکھیں۔ وہ ڈراموں کی طرف راغب ہو گئے۔ اس طرح 1971 میں انہوں نے اپنا پہلا ڈراما ’’جئے بنگلا دیش‘‘ کلکتہ کے ہومیوپیتھی کالج میں منعقدہ سہ لسانی ڈراما مقابلے کے لیے نہ صرف تحریر کیا بلکہ اس کی ہدایت کاری بھی انجام دی۔ جسے انعام یافتہ بھی قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ بالخصوص سجن کمار کی زیر ہدایت آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ ’’ آنکھ کا نشہ‘‘ میں بینی پرشاد کے مرکزی کردار میں ان کی اداکاری اتنی پسند کی گئی کہ اس ڈراما کے کئی کامیاب شوز منعقد کیے گئے۔ بالآخر انہوں نے فلم اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جوگندر کی ایک فلم ’’گیتا اور قرآن‘‘ کے لیے کہانی بھی لکھی۔ جس کا ٹائٹل بھی طے ہو گیا تھا لیکن کسی وجہ سے یہ فلم نہ بن سکی۔ اس ناکامی کے بعد منور رانا نے اداکاری اور ڈرامہ نگاری ترک کرنے کا فیصلے کیا تھا۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس میدان میں ان کی کامیابی مشکوک ہے

شتروگھن سنہا آف کلکتہ سے منور رانا تک

اہل کولکتہ جانتے ہیں کہ منور رانا کو شاعری نے کس انداز میں پر لگائے۔ فلمی چکر اور ڈرامہ نگاری کے چنگل سے آزاد ہونے کے بعد آٹھویں دہائی میں منور رانا نے قلم تو اٹھایا لیکن ڈرامہ نگاری کے لیے نہیں بلکہ شاعری کے لیے۔ ان کا خیال تھا کہ بنگال میں شاعری کا میدان ان کے لیے موزوں رہے گا۔ کیونکہ اس دور میں مشاعروں کی رونق بھی کسی فلمی محفل سے کم نہیں ہوتی تھی۔ غزل کو وسیلۂ اظہار بنانے کے ساتھ انہوں نے مشاعروں کی دنیا میں ’سید منور علی‘ نے خود کو ۷۰۔ ۱۹۶۹میں قلبی واردات، احساسات اور جذبات کی چنگاری سے ’’منور علی آتش‘‘ بن کر متعارف کرایا۔

میں نے اپنے اس دور میں منور رانا کو قریب سے دیکھا تھا، ان کا زکریا اسٹریٹ میں ’رانا ٹرانسپورٹ‘ تھا جو کہ خاندانی کام تھا۔، وہ اخبارات کے دفاتر میں بھی نظر آتے تھے اور اس وقت کے ممتاز صحافیوں کے ساتھ ان کے بہت اچھے مراسم ہو گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاعری کی شروعات میں منور رانا نے پروفیسر اعزازؔ افضل کو استاد بنایا تھا۔ جن کے بغیر بنگال کی تاریخ اردو ادب مکمل نہیں ہو سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ منور رانا نے اپنی شعلہ بیانی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اپنی عمر کے سولہویں سال میں پہلی نظم کہی جو محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق سال 1982 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ آگے چل کر منور رانا نے نازش پرتاپ گڑھی اور رازؔ الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدلا اور ’’منور علی شاداں‘‘ بن کر غزلیں کہنے لگے۔ بعد ازاں انہوں نے جب والی آسیؔ سے شرف تلمذ حاصل کیا تو ان کے مشورے سے 1977 میں ایک مرتبہ پھر اپنا تخلص بدلا اور ’’منورؔ رانا‘‘ بن گئے۔ اس طرح سید منور علی کو منور علی آتش سے منور علی شاداں ؔ اور پھر منور رانا بننے تک پورے نو سال کا عرصہ لگ گیا۔

شاعری کے ساتھ نثری ادب

ملک میں شاعری کے دیوانے بلاشبہ منور رانا کی شاعری میں ہی غرق رہے لیکن ان کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ شاعری کے علاوہ منور رانا کی ایک بڑی خصوصیت ان کی تیکھی، دھاردھار، لطیف و دل پذیر اور رواں دواں نثرنگاری بھی ہے۔ وہ اپنی خداداد شعری صلاحیتوں کی طرح نثر لکھنے پر بھی ید طولیٰ رکھنے والے ایسے قلم کار ہیں جو انشائیہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں بھی اپنے ہم عصر لکھنے والوں سے کہیں آگے ہیں۔ ان کے انشائیوں کے مجموعے بغیر نقشے کا مکان، سفید جنگلی کبوتر اور خاکوں کا مجموعہ ’’چہرے یاد رہتے ہیں‘‘ اردو نثری ادب میں کبھی فراموش نہ کی جانے ولی تخلیقات ہیں۔ منور رانا کئی اہم اداروں سے وابستہ رہے اور مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے جن میں اتر پردیش اردو اکادمی کے سابق صدر، والی آسی اکیڈمی کے چیئرمین اور رکن مجلس انتظامیہ مغربی بنگال اردو اکادمی جیسے اہم عہدے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اردو روزنامہ مسلم دنیا، لکھنؤ اور ہندی ہفت روزہ ’جن بیان‘ لکھنؤ کی ادارت سے منسلک رہے۔

تنازعہ ایک ایوارڈ واپسی کا

ان کی زندگی میں یوں تو ملک کا کوئی ایوارڈ ایسا نہیں تھا جو ان کی جھولی میں نہیں آیا ہو، مگر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ برائے اردو ادب 2014۔ کے ساتھ ایک تنازعہ جڑ گیا تھا جب 2015 میں ایک راست ٹیلی ویژن گفتگو کے دوران انہوں نے ملک میں عدم روا داری اور دیگر انعام واپس کرنے والوں کے جذبے کے خلاف انعام اور انعامی واپس کر دی۔ ساتھ ہی مستقبل میں کوئی سرکاری اعزاز لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

در حقیقت منور رانا نے شہرت اور مقبولیت کی جو بلندی پائی، وہ ہر کسی کے نصیب میں نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ منور رانا کو اپنے سیدھے سادے الفاظ اور عام فہم انداز بیان سے براہ راست لوگوں کے دلوں میں اتر جانے کا ہنر آتا تھا۔ ان کی غزلیں جذبے کی صداقت سب سے بڑی طاقت تھی۔ جن سے ان کی شعری اور فکری۔ شناخت میں انفرادیت کی جھلک بہت نمایاں ہوتی تھی۔

ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ۔ اسپتال آدمی کو زندہ رکھنے کی آخری کوشش کا نام ہے۔ ۔ ان کی زندگی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ بیماری نے ایسا جکڑا کہ منور رانا مشاعروں سے دور اور اسپتال کے قریب ہو گئے اور اب اس بیماری سے لڑتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے لیکن ان کی شاعری، ہی انہیں اس دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رکھے گی۔

ماخذ: آواز

٭٭٭

منور رانا۔ عمر بھر دھوپ میں پیڑ جلتا رہا ۔۔۔ علامہ اعجاز فرخ

ایک حقیقت افروز اور مایوس کن قول نے زندگی بھر آزردہ رکھا۔ یونان میں کسی فلسفی نے کہا تھا، شاید ارسطو نے یا افلاطون نے یا سقراط نے۔ اس نے کہا تھا ’’میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘ اس حقیقت کا اظہار میں نے بارہا کیا اور اس سچ پر جھٹلایا گیا۔ جھٹلانے کی وجہ نہ یہ قول ہے نہ میرا وجود بلکہ جھٹلانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر میرے اس سچ کو نہ جھٹلایا جائے تو میری صف میں وہ تمام اندھے جو رقص کی تعریف کر رہے ہیں۔ وہ تمام بہرے جو موسیقی کی نہ صرف داد دے رہیں بلکہ ان کی داد سر رس کا ساتواں در کھول رہی ہے۔ وہ گونگے جو ایوان خطابت میں اپنی خطابت کا رس گھول رہے ہیں اور وہ بونے جو قد آوروں کا قد ناپ رہے ہیں، وہ جاہل جن کی ماؤں نے اپنی محبت سے میرے نام کے جز کی طرح اپنی اولادوں کو علامہ کہا سب معرض بحث میں آ جائیں گے۔ میں تو تمام عمر اس عقدہ کشائی میں گم رہا کہ میں ہوں بھی یا نہیں مگر فرانسیسی مفکر Descartes جسے دیکارتے کہا جاتا ہے اس نے مشکل حل کر دی کہ میری فکر نے میرے وجود سے سرگوشی کی کہ ’’میں‘‘ ہوں۔ جب عالمی اردو کانفرنس کے حوالے سے مجھے ادب کی ان نامور ہستیوں پر لکھنے کے لئے کہا جاتا ہے تو میرا سراپا ایک عکس فریادی سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتا کہ کہاں شعر و ادب کی عظیم بلندیاں اور میری کوتاہ قامتی اور پھر اردو کے صنم کدے میں غزل جیسی کافر ادا جو عیاں بھی، نہاں بھی، پردہ نشین بھی، جلوہ افروز بھی، اس کی بحروں کی حشر سامانیاں۔ قوافی و ردیف کی قیامت خیز یاں، مضمون آفرینی کی توبہ شکن انگڑائیاں، صنائع کی قیامت خیزیاں۔ ایسے میں کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے۔

غزل میں دنیا سے محبت کے کچھ ادھ سنے راگ سنائی دیتے ہیں اور تمام حقیقی محسوسات اور وجدانی تجربات کی الگ الگ آوازیں ہوتی ہیں۔ شاعر کی انفرادیت ان محسوسات اور تجربات کی خلاقی میں ایک مرکزی عنصر ہے۔ ان محسوسات و تجربات کے بقیہ عناصر روایتوں اور ان فضاؤں کے ہاتھوں بنتے ہیں۔

منور رانا کی آواز جدید اردو غزل میں نئی اور منفرد آواز ہے۔ یہ آواز وجدانی ہوتے ہوئے بھی غیب سے نہیں اتری بلکہ زمینی آوازوں ہی کی مدد سے انہوں نے اپنی آواز تخلیق کی ہے۔

ان کی شاعری طرز احساس کے نئے تن انداز و آہنگ کی جدت کے با وصف کلاسیکی رنگ و آہنگ سے الگ نہیں ہو پائی۔ قدامت کی کوکھ سے ندرت خیال کو پیدا کرنے کا سلیقہ ان کے یہاں بڑے خوبصورت انداز سے ملتا ہے اور اس سلیقے سے انہوں نے اس طرح کام لیا ہے کہ اپنے سامنے کھڑی دنیا اور اس کے نشیب و فراز سے آنکھ ملائے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعرانہ نہج کی انفرادیت کو کسی نام سے موسوم کرنے کی کوشش کیجئے تو کوئی نام تو ذہن میں نہیں آتا لیکن بُعد یک قربت اور ہر قربت میں ایک بُعد کے ساتھ یہ احساس ضرور ملتا ہے کہ جس کو ٹوٹ کے چاہا اسے نہ کھویا ہے نہ پایا ہے۔ کبھی کسی شب کے سناٹے میں منور رانا کی شاعری کے لفظ تحلیل ہو جاتے ہیں جیسے آوازیں سناٹے میں بدل جاتی ہیں تو احساس کے شبستان میں کبھی روشنی اور کبھی جھلملاہٹ کی نرمی یہ سوچنے لگتی ہے کہ چراغ دل کو یہ کون جلائے ہے یہ کون بجھائے ہے۔

غزل کے بارے میں مولوی امداد امام اثر کی طرح یہ دعویٰ کرنا تو آسان ہے کہ ’’چوں کہ واردات قلبی اور کوائف ذہنی کی کوئی حد و انتہا نہیں اس لئے غزل کا دائرہ بھی محدود ہوتے ہوئے بھی انتہائی وسیع ہے‘‘ لیکن اس دائرے کو تنگنائے غزل میں اس طرح سمیٹنا کہ زندگی کے انتہائی مشکل مسائل اور عقدہ ہائے دشوار بھی طبع غزل پر بار نہ گزریں ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہے۔ ظاہر میں تو غزل اتنی آسان صنف دکھائی دیتی ہے کہ ہر مبتدی اسی سے اپنی شاعری شروع کرتا ہے اور یہ شیشہ بدن ہر جور و ستم سہہ جاتی ہے لیکن حقیقتاً غزل گوئی کا فن اس قدر دشوار ہے کہ ہر شاعر کو نمایاں مقام حاصل ہونا مشکل ہے۔ بقول غالب

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

آج غزل زندگی کی ہر تلخ حقیقت، ذہنی الجھن، دل کی دھڑکن، سماج کی پیچیدہ کیفیت اور روح کی بے تابی کی صورت گری میں پیش پیش ہے۔ استعارہ اگرچہ کہ بڑی حد تک معاون ثابت ہوتا ہے لیکن جب تک توفیق نہ ہو بس کی بات بھی نہیں ہے۔ منور رانا کوئی ضرورتاً شاعر نہیں ہیں وہ طبعاً بلکہ بہ اعتبار جبلت شاعر ہیں۔ آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کا معصوم بچپن ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ رہتا ہے۔ بچپن لاکھ غربت میں سہی منور رانا کی نظر میں راج سنگھاسن سے کم نہیں اور یہ حقیقت بھی ہے بال ہٹ اور راج ہٹ دونوں مقابلے میں کھڑے ہوں تو ہال ہٹ کے آگے راج ہٹ بھی سپر ڈال دیتی ہے۔ تریاہٹ کے آگے تو شاعر خود سپرد ہے اس لئے میں اسے موضوع نہیں بناؤں گا ویسے شاید دکن ہی کے کسی شاعر نے کہا ہے کہ

یہ ترا حسن عنایت ہے مری نظروں کی

ورنہ تو شعلہ رخ و شعلہ بدن کچھ بھی نہیں

کہہ نہیں سکتا کہ کیا یہ واقعی حقیقت ہے یا شاعر نے یگانہ کی طرح اپنے تفوق کے اظہار محض کی خاطر یہ شعر کہا ہے۔ اظہار تفوق اور انا کی خاطر تو اس قبیل کے شاعر کو انیس کے کلام پر اصلاح بھی دیتے دیکھا یہ جنون صنعت قد آوری ہے یا احساس کمتری اتنی نچلی سطح پر پہنچ کر تقد کرنا ایک لاحاصل سعی ہے۔ منور رانا ایک Self Made انسان ہیں۔ بچپن کے تعلق سے انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی ماں بتاتی تھی کہ انہیں سوکھے کی بیماری تھی، ماں کو یہ بتانے کی ضرورت کیا ہے در اصل ان کے اندر کا آدمی آج تک بیماری سے بھی اپنا رشتہ نباہتا آ رہا ہے۔ ان کی زندگی کا ہر کنواں خشک ہے۔ آرزو کا، دوستی کا، محبت کا، وفا داری کا، منور رانا جب ہنستے ہیں تو وہ در اصل اندر کا آدمی ہنستا ہے۔ ان کی ہنسی خود بقول ان کے ’’انشاء‘‘ کی کھوکھلی ہنسی اور ’’میر‘‘ کی خاموش اداسی سے ملتی جلتی ہے۔ ان کے موضوعات میں بچپن معصوم بھی ہے دلخراش بھی۔ پیوند کی طرح چمکتی ہوئی روشنی میں نظر آتے ہوئے بجھے بجھے چہرے، چہروں پر لکھی داستانیں۔ داستانوں میں چھپا ہوا ماضی، ماضی میں چھپا ہوا بچپن، جگنوؤں کو چنتا ہوا بچپن، تتلیوں کو پکڑتا ہوا بچپن، پیڑ کی شاخ سے جھولتا ہوا بچپن، کھلونوں کی دوکانوں کو تکتا ہوا بچپن، باپ کی گود میں ہنستا ہوا بچپن، ماں کا پھٹا آنچل اوڑھ کر سوتا ہوا بچپن، مدرسہ میں سپارے رٹتا ہوا بچپن، جھیل میں تیرتا ہوا بچپن، دھول مٹی سے سنورتا ہوا بچپن، شام کے وقت ننھے ننھے ہاتھوں سے دعا مانگتا ہوا بچپن، غلیل سے نشانے لگاتا ہوا بچپن، پتنگ کی ڈور سے الجھا ہوا بچپن۔ ریت بھی موجود ہے۔ ندی بھی گنگنا رہی ہے لیکن اس کے کنارے گھروندے بنانے والا بچپن چھن گیا جو دھوپ کو چاندنی سے زیادہ حسین کر دیتا ہے۔ منور رانا کو یہ احساس بھی شدید ہے کہ ماں نے تو اپنے آنچل میں بیٹے کو محفوظ رکھا لیکن غریبی کے تیز جھکڑوں نے ماں کے خوبصورت چہرے کو جھلسا جھلسا کر سانولا کر دیا۔ اسی لئے منور رانا کی شاعری میں ماں، بیٹا، بیٹی، بھائی، بہن، دوست، کثرت سے یہ موضوعات ملتے ہیں۔ ان کے نقاد ان موضوعات پر کہے ہوئے اشعار کو Emotional Blackmailing کہتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس کی وضاحت کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ آئن اسٹائن کی Theory of Relativity جب بہت مشہور ہوئی تو ایک دن کار میں سفر کرتے ہوئے اس کی پوتی نے اس سے پوچھا کہ میرے کالج کی سہیلیاں مجھ سے کہتی ہے کہ تمہارے دادا بہت بڑے آدمی ہیں۔ بہت مشہور اور بہت قابل احترام، لوگ ہر جگہ ان کی Theory of Relativity کی بات کرتے ہیں۔ پلیز کیا آپ مجھے بتلائیں گے کہ یہ Relativity کیا ہے۔ آئن اسٹائن نے مسکرا کر اس کی سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پھر اس کا ما تھا چوم کر کہا ’’جب میں تمہارے باپ سے پانچ منٹ بات کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ان سے ایک گھنٹے سے ہمکلام ہوں ہوں میں اور جب میں تم سے ایک گھنٹہ باتیں کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ ابھی دو پل بھی نہیں گزرے۔‘‘ نہیں معلوم آئن اسٹائن کیا کہہ رہا ہے۔ نہیں معلوم منور رانا غزل میں کیا کہتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ان کے نقادوں کی کیا رائے ہے۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو

مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا

تار پر بیٹھی ہوئی چڑیوں کو سوتا دیکھ کر

فرش پر سوتا ہوا بیٹا بہت اچھا لگا

پرانا پیڑ بزرگوں کی طرح ہوتا ہے

یہی بہت ہے کہ تازہ ہوائیں دیتا ہے

کسی کے پاس آتے ہیں تو دریا سوکھ جاتے ہیں

کسی کی ایڑیوں سے ریت میں چشمہ نکلتا ہے

اگرا سکول میں بچے ہوں گھر اچھا نہیں لگتا

پرندوں کے نہ ہونے سے شجر اچھا نہیں لگتا

کسی کو گھر ملا حصہ میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

کئی باتیں محبت سب کو بنیادی بتاتی ہے

جو پردادی بتاتی تھی وہی دادی بتاتی ہے

ہمیں حریفوں کی تعداد کیوں بتاتے ہو

ہمارے ساتھ بھی بیٹا جوان رہتا ہے

یاروں کو مسرت میری دولت پہ ہے لیکن

اک ماں ہے جو بس میری خوشی دیکھ کے خوش ہے

جو بھی دولت تھی وہ بچوں کے حوالے کر دی

جب تلک میں نہیں بیٹھوں یہ کھڑے رہتے ہیں

اب دیکھئے کون آئے جنازے کو اٹھانے

یوں تار تو میرے سبھی بیٹوں کو ملے گا

٭٭٭

کوچے میں ایک اور میر- منور رانا ۔۔۔ حقانی القاسمی

ہر اچھی شاعری میں ڈھائی اکشر ہوتے ہیں، منور رانا کی شاعری میں بھی ڈھائی اکشر ہی ہیں۔ ان کے پہلے اور دوسرے حرف کی تفہیم تو آسان ہے، مگر اس نصف حرف کے طلسمی اسرار کو سمجھنے کے لیے ذہن کی بہت ساری توانائیاں صرف کرنی پڑیں گی۔ اس نصف حرف کے پراسرار آہنگ کی جستجو ہر اس شخص کو کرنی چاہئے، جو منور رانا کے تخلیقی نظام اور طرزِ احساس کو ایک نئے زاویے اور نئے تناظر میں دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ روایتی تنقیدی طریقۂ کار سے الگ ہو کر ہی ان کے متن میں مضمر معانی کی تفہیم ecioietucs کی روشنی میں کی جائے، تو شاید زیادہ بہتر ہوگا؛ کیونکہ منور رانا کی شاعری میں بہت کچھ وہ ہے، جو دوسروں کی شاعری میں نہیں ہے۔

ان کی ’’تخلیقی روح‘‘ کو تنقید کے میکانکی تصور کے ذریعے سمجھنا مشکل ہے۔ ان کی شاعری کی تفہیم کے لیے صرف ادب ہی نہیں؛ بلکہ سائنس کی نئی شاخوں سے آگہی بھی ناگزیر ہے۔ ان کی شاعری کو آج کے ٹیکنالوجیکل ترقیات کے منفی اثرات کے تناظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ در اصل یہ پوری شاعری تخلیق اور ٹیکنالوجی کے مابین تناؤ اور کشمکش کی شاعری ہے۔ تخلیق کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کر دیا جائے، تو پھر تخلیق کی نہ صرف معنویت مجروح ہو گی بلکہ اس کا منشور بھی بدل جائے گا۔ منور رانا کی شاعری میں انسانی اقدار و اخلاقیات پر ٹیکنالوجی کے پڑنے والے منفی اثرات کے خلاف سخت تخلیقی ردِ عمل کا اظہار ملتا ہے۔ یہ مکمل طور پر انسانی احساس و اظہار کی شاعری ہے۔ urbanization اور industrialization کی تمام جہتوں کو سمجھے بغیر منور رانا کی شاعری کی معنویت روشن نہیں ہو سکتی۔ ان کی شاعری میں انہی چیزوں کے منفی اثرات اور نتائج سے آگہی کے آثار نمایاں ہیں۔ جہاں تک اربنائزیشن urbanization کی بات ہے، تو یہ ایک منفی فینامنا ہے۔

اس کی وجہ سے نہ صرف ذرائع کا استحصال ہوتا ہے بلکہ زرعی معیشت کا عدم استحکام، کثافت اور علاقائی توازن کا خاتمہ جیسے گمبھیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی اقدار اور ماحولیات کو بھی اس سے سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے، اس کی وجہ سے سماجی اور اقتصادی تضادات کی شکلیں بھی رونما ہوتی ہیں۔ چونکہ شہر ایک ٹیکنیکی نظام کا پابند ہوتا ہے، اس کا لے آؤٹ پلان بھی اس کی ایک علیحدہ شناخت کا مظہر ہوتا ہے۔ رہائشی زون کی تقسیم سے بھی شہری ذہنیت کی تفہیم ہو سکتی ہے۔ ان کی اپنی زبان اور اپنا کلچر ہوتا ہے، جہاں انسانی رشتے اور اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ بلاک، وارڈ اور کالونی میں تقسیم شدہ یہ شہر ایک نئے کلچر کا اشاریہ ہیں اور اس کی وجہ سے آبادیوں کے آپسی رشتے بھی مجروح ہوتے ہیں اور اب تو لفظِ شہر اپنے مفہوم اور معنی کے اعتبار سے بھی تنہائی، اجنبیت سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے، جس میں انسانی رشتوں کی حرارت یا حدت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور اس کے علاوہ بورزوائیت کو فروغ دینے میں شہروں کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ نیٹ ورک سٹی، پوسٹ ماڈرن سٹی کی موجودگی نے لوگوں کے ذہنی، اخلاقی رویے میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات بھی بدل دی ہیں۔ آج دنیا کے غریب ممالک میں طبقاتی تنازع مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان نہیں اور نہ ہی ملکی اور غیرملکی مفادات کے درمیان ہے ؛ بلکہ اصل تنازع شہری اور دیہی طبقات کے درمیان ہے اور یہ خلیج مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

منور رانا شہر اور دیہات کے تضادات کی تصویریں اپنی شاعری میں کھینچی ہیں اور اپنی تہذیبی جڑوں کی جستجو کے چراغ کو روشن رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں شہر سفاکیت کا استعارہ اور گاؤں معصومیت کی علامت ہے:

تمہارے شہر کی یہ رونقیں اچھی نہیں لگتیں

ہمیں جب گاؤں کے کچے گھروں کی یاد آتی ہے

بھیک سے تو بھوک اچھی گاؤں کو واپس چلو

شہر میں رہنے سے یہ بچہ برا ہو جائے گا

تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں

اتنا روئے تھے لپٹ کر در و دیوار سے ہم

شہر میں آ کے بہت دن رہے بیمار سے ہم

تمہارا کام ہے شہروں کو صحرا میں بدل دینا

ہمیں بنجر زمینوں کو حسیں کرنے کی عادت ہے

ان گھروں میں جہاں مٹی کے گھڑے رہتے ہیں

قد میں چھوٹے ہوں مگر لوگ بڑے رہتے ہیں

ابھی موجود ہے اس گاؤں کی مٹی میں خود داری

ابھی بیوہ کی غیرت سے مہاجن ہار جاتا ہے

خدا کے واسطے اے بے ضمیری گاؤں مت آنا

یہاں بھی لوگ مرتے ہیں مگر کردار زندہ ہے

انٹرنیٹ، گلوبلائزیشن نے سماجی، اخلاقی صورت حال کو اور بھی خطرناک بنا دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے جو منفی اثرات سامنے آئے ہیں، اس کی وجہ سے اخلاقی قدریں زوال کا شکار ہوئی ہیں۔ نہ صرف ٹیکنالوجی کی ترقیات نے روایتی اخلاقی اقدار کو چیلنج کیا ہے ؛ بلکہ اس کی وجہ سے انسانی جسموں میں بھی کیمیاوی آلودگی پیدا ہو گئی ہے۔ انسانی رابطے کا خاتمہ، اسٹرکچرل بے روزگاری اور کثافت کے منفی اثرات آج پورے سماج میں نظر آتے ہیں اور جدید دور کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانیت جراثیم کی ایک کالونی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ گویا ٹیکنالوجی نے انسان کا رشتہ فطرت سے منقطع کر دیا ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے سماج اور معاشیات کا تعین زمین اور زراعت سے ہوتا تھا اور اب صنعتی انقلاب اس کی وجہ سے زمین سے عوام کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ انڈسٹریلائزیشن کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے خاندانی اکائیFamily Unity کو تباہ و برباد کر دیا۔

منور رانا کی شاعری میں انڈسٹریلائزیشن صارفیت، بورزوائیت اور نو دولتیہ طبقہ کے خلاف شدید جذباتی رد عمل کا اظہار ملتا ہے۔ انہوں نے کمرشیلائزیشن (Commercialization) کے رویے کی وجہ سے نہ صرف پورے معاشرے کے بازار میں بدلنے کی روش پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے بلکہ بایو ٹیکنالوجی ایج میں انسان کے بازار میں تبدیل ہونے کے رویے کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے کہ بایو تکنالوجی) (Biotechnology نے انسانی جسم کو قابل فروخت تحقیقی مواد اور طبی پروڈکٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ میڈیکل کامرس میں انسانی اعضاء کی ڈیمانڈ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہماری اخلاقیات پر اقتصادیات حاوی ہو چکی ہے اور انسانی جسم بھی ’’متاع بازار‘‘ بن کر اپنا تقدس کھو چکا ہے۔ کنزیومر کلچر یا مارکیٹ کلچر کی وجہ سے ماحولیات، آب و ہوا اور قدرتی ذرائع پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ یہ کلچر صرف سماجی نظام کی شکست و ریخت کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس نے فرد کے ذہنی نظام کے ساتھ خاندانی قدریں بھی تبدیل کر دی ہیں۔ اتحاد کے بجائے انتشار کو جنم دیا ہے۔ مسابقت، مادیت پرستی اور بیگانگی کے رویہ کو فروغ دیا ہے۔ منور رانا نے اقتصادی مادیت(Economic Materialism)، کنزیومر کیپٹل ازم کے خلاف اپنی شاعری کو ایک مؤثر اور متحرک ذریعہ بنایا ہے۔

بدن کا کوئی بھی حصہ خرید سکتے ہو

میں اپنے جسم کو بازار کرنے والا ہوں

مرے بچے نامرادی میں جواں بھی ہو گئے

مری خواہش صرف بازاروں کو تکتی رہ گئی

نمائش پر بدن کی یوں کوئی تیار کیوں ہو گا

اگر سب گھر کے ہو جاتے تو یہ بازار کیوں ہوتا

شہرت ملی تو اس نے بھی لہجہ بدل دیا

دولت نے کتنے لوگوں کا شجرہ بدل دیا

وہ تو بیوی ہے جو دکھ سکھ میں بسر کرتی ہے

ورنہ بازار کی عورت تو محل مانگے ہے

ایک خواہش کے لیے کیا کیا بکا مت پوچھئے

مختصر یہ ہے کہ چادر ریشمی مہنگی پڑی

امیرِ شہر کی ہمدردیوں سے بچ کے رہو

یہ سر سے بوجھ نہیں سر اتار لیتا ہے

ہمیشہ ٹوٹتی سانسوں کی لے معلوم ہوتی ہے

امیرِ شہر کی دعوت میں قے معلوم ہوتی ہے

یوں ان سے ملتے ہوئے توہین ہو خود داری کی

ایسے بے فیض امیروں کی طرف کیا دیکھیں

خوش حالی میں سب ہوتے ہیں اونچی ذات

بھوکے ننگے لوگ ہریجن ہو جاتے ہیں

منور رانا کی شاعری اسی بدلتی دنیا کے منفی اثرات کے خلاف ایک تخلیقی رد عمل ہے۔ اربنائزیشن، کمرشیلائزیشن، گلوبلائزیشن اور انڈسٹریلائیزیشن کا دائرۂ اثر جوں جوں بڑھتا جائے گا منور رانا کی شاعری کی تاثیر و توانائی بھی بڑھتی جائے گی۔ urbanization اور دیگر تلازمات کے مکمل پروسیس کو سمجھے بغیر منور رانا کی شاعری کی معنویاتی جہتیں نہ منکشف ہو سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے فنی اور فکری اعماق کی تفہیم ممکن ہے۔ انہوں نے جس نظامِ فکر کو اپنا مطاف اور محور بنایا ہے وہ موجودہ دور کے گلوبلائزیشن کے نظام سے بالکل مختلف ہے۔ آج جبکہ ٹیکنالوجی نے انسانی ذہنوں سے اس کے خواب، اس کی یادیں، گم شدہ لمحے اور ماضی کو سلب کر لیا ہے، ایسے میں منور رانا کی شاعری میں گم شدہ لمحوں، چہروں اور اشیاء کو یاد کرنے کا عمل روشن ہے۔ یاد آفرینی کے اس عمل نے ان کی شاعری کو ایک نئی تعبیر عطا کی ہے۔ یاد ہی شاعری کو سانس عطا کرتی ہے اور ذہن کی زندگی اور تابندگی بھی Mnemosyne پر منحصر ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں خواب زندہ ہیں اور خوابوں کی گم شدگی کائنات کا ایک بڑا المیہ ہے۔ خوابوں کا کھو جانا شخصیت کو زوال سے آشنا کرتا ہے یا انہدامی مرحلے سے گزارتا ہے۔ ماضی، خواب اور یادیں منور رانا کے تخلیقی محرکات ہیں۔ منور رانا اپنے عنصر سے الگ یا جدا نہیں ہیں اسی لیے ان کی شناخت باقی ہے، پہچان قائم ہے۔ وہ اپنے اقدار سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ ان کے تخلیقی فکری نظام کے ساتھ روایت کی روشنی بھی ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں:

دیکھی ہے منور نے بزرگوں کی نشانی

دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہیں

روش بزرگوں کی شامل ہے میری گٹھی میں

ضرورتاً بھی سخی کی طرف نہیں دیکھا

بہت حسین سا اک باغ گھر کے نیچے ہے

مگر سکون پرانے شجر کے نیچے ہے

کوزہ گھروں کے گھر مسرت کہاں سے آئے

مٹی کے برتنوں کا زمانہ نہیں رہا

ہم ہیں گزرے وقت کی تہذیب کے روشن چراغ

فخر کر ارض وطن ہم آج تک دنیا میں ہیں

نئے کمروں میں اب چیزیں پرانی کون رکھتا ہے

پرندوں کے لیے صحرا میں پانی کون رکھتا ہے

ہمیں گرتی ہوئی دیوار کو تھامے رہے ورنہ

سلیقے سے بزرگوں کی نشانی کون رکھتا ہے

کہاں کی دوستی کیسی مروت کیا رواداری

نئی قدریں سبھی چیزیں پرانی چھین لیتی ہیں

منور رانا کی شاعری میں ماضی کی آہٹوں کے ساتھ آج کی تاریخ، تہذیب اور تصویر قید ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی ساخت اور انفرادی احساس کا روز نامچہ ہے جس میں ایک ایک لمحے کا حال درج ہے۔

عصری حسیت سے معمور اس شاعری میں جو پولٹیکل آئرنی ہے وہ ان کے داخلی احساس کی عکاسی ہی نہیں ہے بلکہ موجودہ سماجی و سیاسی سسٹم کے خلاف ایک ری ایکشن بھی ہے۔

فضا میں گھول دی ہیں نفرتیں اہلِ سیاست نے

مگر پانی کنویں سے آج تک میٹھا نکلتا ہے

بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا

کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دلّی مسکراتی ہے

طوائف کی طرح اپنی غلط کاری کے چہرے پر

حکومت مندر و مسجد کا پردہ ڈال دیتی ہے

یہ سنسد ہے یہاں آداب تھوڑے مختلف ہوں گے

یہاں جمہوریت جھوٹے کو سچا مان لیتی ہے

دنیا مرے کردار پہ شک کرنے لگے گی

اس خوف سے میں نے کبھی کھدر نہیں پہنا

اب مدرسے بھی ہیں تیرے شر سے ڈرے ہوئے

جائیں کہاں پرندے شجر سے ڈرے ہوئے

کمہلا دیے ہیں پھول سے چہرے فساد نے

معصومیت بھی ان نوکِ سناں تک پہنچ گئی

عدالتوں ہی میں جب لین دین ہونے لگیں

تمہی بتاؤ بے چارے وکیل کیا کریں

ہر اک خوشبو کا جھونکا ہمیں کافور لگتا ہے

کسی بھی شہر سے گزریں وہ بھاگلپور لگتا ہے

جسے بھی دیکھئے وہ خوف کی سولی پہ لٹکا ہے

ہمارے شہر کا ہر آدمی منصور لگتا ہے

یہ دیکھ کر پتنگیں بھی حیران رہ گئیں

اب تو چھتیں بھی ہندو مسلمان ہو گئیں

چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پر جان دیتے ہیں

بہت آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا

تمہارے شہر میں تاثیر سے خالی ہے یکجہتی

جہاں ہر روز دنگے ہوں وہاں گالی ہے یکجہتی

سیاست کی دکانوں میں محبت ڈھونڈتے کیوں ہو

یہ کھدر بیچنے والے ہیں کیا ریشم دکھائیں گے

منور رانا کے یہاں حیات و کائنات کے تضاد اور انتشار میں ایک ربط کی جستجو کا عمل روشن ہے۔ اس قوس قزح رنگ کی شاعری میں زندگی، سماج، مذہب اور اساطیر کی متضاد لہروں کا امتزاج ہے۔ منور رانا نے اپنی شاعری میں ان اساطیر، علامات اور تلمیحات کا استعمال کیا ہے جن سے نہ صرف ماضی روشن ہے بلکہ مستقبل کو بھی ان سے توانائی اور تحرک ملتا ہے۔ ماضی سے مستقبل کو مربوط کرنے کا یہ تخلیقی عمل بہت معتبر ہے اور کائنات کو ایک تسلسل میں دیکھنے کی روش بھی اس میں مضمر ہے۔ زمانہ بدل جاتا ہے مگر کردار کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتے ہیں۔ ماضی کے حوالے سے حال اور مستقبل کی علامات اور اساطیر کا یہ تخلیقی استعمال دیکھئے:

گوتم کی طرح گھر سے نکل کر نہیں جاتے

ہم رات میں چھپ کر کہیں باہر نہیں جاتے

دل وہ بستی ہے جہاں کوئی تمنا نہ ملی

میں وہ پنگھٹ ہوں جسے کوئی رادھا نہ ملی

ایک ہی آگ میں تا عمر جلے ہم دونوں

تم کو یوسف نہ ملا ہم کو زلیخا نہ ملی

میرا بن باس پہ جانے کا ارادہ تھا مگر

مجھ کو دنیا میں کہیں بھی کوئی سیتا نہ ملی

اس عہد کا کوفہ ہے میرا شہر بھی شاید

کوئی طرف دارِ منور نہیں نکلا

پھر چلا ہے کوئی وعدہ کو نبھانے کے لیے

یہ ندی پھر آج ایک کچا گھڑا کھا جائے گی

دیا ہے صحرا نوردی کا حکم جب مجھ کو

تو سوہنی کو بھی پنجاب سے نکالا جائے

ہر شخص مرے شہر میں دشمن کی طرح ہے

اب رام کا کردار بھی راون کی طرح ہے

ان کے ہر شعر میں باطنی احساس کا آہنگ ہے۔ احساس کی تمام رگوں میں انہوں نے اتر کر دیکھا ہے اس لیے ان کی شاعری میں حزنیہ رنگ آہنگ بھی ہے اور طربیہ لے بھی۔ انسانی وجود کے آہنگ سے آشنائی نے ان کی تخلیقی ٹکنیک اور کینوس کو وسعت عطا کی ہے۔

منور رانا کی شاعری میں پورے چاند کی رات روشن ہے۔ بانسری کی سریلی مدھر آواز ہے۔ کنول کے پھول ہیں۔ پریم کی روشنی ہے۔ محبت کا سورج ہے۔ باطن کے آہنگ سے ان کے احساس و اظہار کا آہنگ جڑا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں داخلی اور خارجی وجود کی وحدت اور ہم آہنگی ہے۔ ایک ہی تانت ہے جو بج رہی ہے۔ کبیر کی مانیں تو ان کی تخلیقی شخصیت انارکی طرح نہیں ہے جس کا باطن سفید اور ظاہر سرخ ہوتا ہے۔

اس اختصاصی دور میں منور رانا کی عوامی اور غیر اختصاصی شاعری کی بھی اپنی الگ ادا اور اسلوب ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ان تمام جذبات و احساسات کو پیش کیا ہے جو عوام سے جڑے ہوئے ہیں۔ عوام کے نفسی رجحانات اور رویے تک ان کی رسائی ہے اور عوامی سائیکی سے ان کی شاعری کا رشتہ بہت مضبوط ہے اس لیے ان کی شاعری میں نظیر اکبرآبادی کی طرح ایک اجتماعی کردار نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں گم ہوتے گاؤں اور غریب کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ گاؤں ان کی شاعری میں ایک رمز اور استعارہ ہے اور اسی کی تہہ میں ان کے ذہنی نظام کی جڑیں ہیں۔ ان کی شاعری میں زیادہ تر ایسے ہی تجربے بولتے ہیں اور مشاہدے مکالمہ کرتے ہیں۔ ایک ایک شعر میں کئی کہانیاں اور کئی حکایتیں چھپی ہوتی ہیں۔ ان کے اندر کا بچہ مرا نہیں، زندہ ہے۔ وہ ایک معصوم سا بچہ جو خاندان کی اکائی سے جڑا ہوا ہے اور ایک مربوط ذہن جس کے لیے خاندانی قدریں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ منور رانا کی شاعری میں ماں، بہن، بھائی، بیوی، بیٹی یہ سب زندہ کردار ہیں اور انہی کرداروں کے جذبوں اور احساسات کی کائنات پر ان کی پوری شاعری مشتمل ہے۔ چھوٹی بڑی حقیقتیں، تضادات اور کشمکش سے ان کی شاعری کی تشکیل ہوئی ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خیال کے خلوت کدے میں کوئی نہ کوئی طلسم ہو شربا کا ساحر یا شعبدہ باز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے قاری کا ذہن اور دل گداختگی کی کیفیت سے روشن ہوتا ہے۔ جانے ان کی شاعری میں ایسا کون سا موہنی منتر ہے کہ قاری اسیر اور وارفتہ ہو جاتا ہے۔

منور رانا کی شاعری میں عجب جادوئی سحر انگیزی ہے کہ انسانی ذہن اپنے حواس کے تمام دروازوں کو مقفل پاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ مشکل آن پڑتی ہے کہ قاری شعر کے مکمل معنوی وجود تک رسائی میں ناکام ہو جاتا ہے اور شاعری میں موجزن لہروں سے آشنا نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری اپنی تمام تر حسیاتی، معنویاتی وجود کے ساتھ روشن نہیں ہو پاتی۔ سب سے بڑی مصیبت منور رانا کی شاعری کی طلسمی کیفیت کو اپنی گرفت میں لینے کا ہے۔

منور رانا کا اپنا غزلیہ آہنگ ہے اور الگ ڈکشن بھی۔ لفظیات کی سطح پر بھی انہوں نے مقتدرہ یا اشرافیہ کی سوچ کا اثر قبول نہیں کیا بلکہ بہت سے بوسیدہ، کہنہ، فرسودہ لفظوں میں بھی زندگی کی رمق پیدا کر دی۔ لفظوں کو حیات نو بخشنا بھی ایک بڑا تخلیقی مجاہدہ ہے۔ انہوں نے لفظوں کی کراہ کو سمجھا ہے اسی لیے ان کے یہاں ایسے الفاظ بھی مل جاتے ہیں جو عصر حاضر کے شعری فرہنگ سے جلا وطن کر دیے گئے ہیں۔ زبان سے ہی نظریہ متحرک ہوتا ہے اس لیے زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ شاعری کو مختلف ساحلوں پر لفظوں کے سمندر کی ضرورت پڑتی ہے اور منور رانا نے زبان کی سطح پر بھی جستجو کے اس عمل کو روشن رکھا ہے۔

منور رانا نے تغزل کی خانقاہ میں نئے چراغ جلائے ہیں۔ وہ اجڑی ہوئی ویران خانقاہ جہاں جذبہ اور احساس کی مشعل روشن نہیں تھی جہاں کے در و دیوار سے وحشت ٹپکتی تھی، انہوں نے کائی زدہ احساسات سے الگ جذبہ و احساسات کی ایک مضطرب کائنات کی تشکیل کی اور عمومی تجربات کو نئے رنگ و آہنگ میں پیش کر کے تحیر کے چراغ جلائے اور یہی چراغ تحیر ان کے تخلیقی انفراد کا ضامن ہے۔

منور رانا کے بعض شعروں میں اس قدرpathos ہے کہ آنسوؤں کی بارش ہونے لگتی ہے اور ذہن کی زمیں نم ہو جاتی ہے۔ وہ المیہ احساسات کے بھی ایک اچھے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک داخلی وحدت ملتی ہے اور یہی وحدت ان کے احساس و اظہار کی اپنی الگ داخلی منطق کا مظہر ہے۔ انہوں نے انسانی وجود میں اس میلوڈی کو تلاش کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیق بہت سی باطنی لہروں اور خارجی ارتعاشات سے آشنا ہوئی ہے۔ یہی ارتعاشات انسانی ذہن کو نئی کیفیات سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان کی شاعری میں وہ چراغ لالہ ہے جس سے روشن ہے کوہ و دمن۔

احساس و اظہار کی سطح پر منور رانا نے نہایت شاداب تجربے کیے ہیں اور لفظیات کی سطح پر بھی توازن اور تناسب کا خیال رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں نہ زیادہ بارش کا احساس ہوتا ہے اور نہ زیادہ تیز دھوپ کا۔ لیکن سمندر کی طرح ان کے ذہن کی لہریں مضطرب اور بے قرار ہیں۔ انہیں اپنے وجود کی خوشبو کی خبر ہے اسی لیے وہ اپنی ذات میں اور اپنے وجود کے اندر بھی کائنات کی جستجو کرتے ہیں۔ خاص طور پر اس صوت سرمدی کی جستجو جس کی وجہ سے کائنات میں روشنی ہے۔

منور رانا ایک معمولی احساس کو بھی اپنے تخیل کی قوت اور جدت سے غیر معمولی وقوعے میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ قاری کو بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سامنے کی بات ہے مگر جب اس کے اسرار کی تہیں کھلتی ہیں تو دیدۂ حیراں وا ہو جاتے ہیں۔ منور رانا کا ایک شعر ہے:

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

یہ سامنے کا شعر ہے مگر اس میں معنی کی نہ جانے کتنی تہیں پوشیدہ ہیں۔ یہ دو قطبی تضادات کی بہترین تصویر و تعبیر بھی ہے۔ اس شعر کی صحیح معنویت انہی لوگوں پر منکشف ہو سکتی ہے جو نیند جیسے جادوئی فینومینا سے محروم ہیں اور جو اس کے لیے hypnotics کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ مختلف طرح کے امراض کے شکار ہوتے ہیں۔ وہ still nox، zolpiden، ambien اورbarbiturates اور دیگر خواب آور گولیاں استعمال کرتے ہیں پھر بھی فشار دم یا ذیابیطس کے مریض رہتے ہیں۔ یہ آج کے ماڈرن لائف اسٹائل اور بدلتی دنیا کی ایک بھیانک تصویر بھی ہے اور دوسری طرف اس غریب انسان کی تقدیر بھی جو تمام تر مشکلات کے باوجود نیند جیسی نعمت سے مالامال ہے۔ وہ مزدور ضرور ہے مگر مینیا Mania نہیں۔ وہ کسی طرح کے cataplexy یا narcolepsy یاfibromyalgia کا شکار نہیں ہے۔ نیند نہ آنے کی صورت میں جو بیماریاں انسانی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں، اگر ان تمام بیماریوں کے مہلک اثرات کی روشنی میں اس شعر کو پڑھا جائے تو اس کی معنویت نہ صرف روشن ہوتی ہے بلکہ یہ احساس ہو گا کہ تخلیق کار کے احساس کی سطح کتنی بلند اور کتنی جہتوں پر پھیلی ہوئی ہے۔

منور رانا کی شاعری میں انقلابی آہنگ، مزاحمتی رنگ اور وہ موج منصوری بھی ہے جس سے آج کے تخلیق کار محروم ہیں کہ زیادہ تر تخلیق کاروں کی رگوں میں کیڈمیم کی مقدار زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہر لمحہ ایک خوف یا بزدلی کی نفسیات کے زیر اثر رہتے ہیں مگر ایک سچا تخلیق کار کبھی بھی سچ بولنے سے پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ وہ سرِ دار بھی حرف حق بلند کرتا ہے۔ منور رانا کے یہاں بھی وہی شجاعت اور شہامت کی لہریں ملتی ہیں:

امیرِ شہر کو تلوار کرنے والا ہوں

میں جی حضوری سے انکار کرنے والا ہوں

میں بھی سقراط ہوں سچ بول دیا ہے میں نے

زہر سارا میرے ہونٹوں کے حوالے کر دو

جرأت سے ہر نتیجے کی پرواہ کیے بغیر

دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کیے بغیر

یہ دور احتجاج ہے خاموش مت رہو

حق بھی نہیں ملے گا تقاضا کیے بغیر

خانقاہوں سے نکل آؤ مثالِ شمشیر

صرف تقریر سے بخشش نہیں ہونے والی

قتل ہونا ہمیں منظور ہے لیکن راناؔ

ہم سے قاتل کی سفارش نہیں ہونے والی

وہ سربلند ہمیشہ خوشامدوں میں رہا

میں سر جھکائے رہا اور سرمدوں میں رہا

کہیں ہم سرفروشوں کو سلاخیں روک سکتی ہیں

کہو ظلِ الٰہی سے کہ زندانی پلٹتا ہے

Saint Pol Roux نے کہا تھا Poetry is the greatest force on Earth اور منور رانا نے زمین کی سب سے بڑی توانائی کا استعمال انسانیت کی تکریم اور احترام آدمیت کے لیے کیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسانی مستقبل کو تابناک بنانے کا کام کیا ہے کہ در اصل اس ترقی یافتہ تکنالوجی کے دور میں ثقافتی بحران کا حل شاعری ہی تلاش کر سکتی ہے۔ فطرت، تکنالوجی اور انسانی رشتوں کے مابین مفاہمت تخلیق کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ انہوں نے اپنے تخیل کی قوت کو ضائع ہونے سے بچا لیا ہے۔

انہیں احساس ہے کہ ماحولیاتی بحران کی وجہ سے تخیل کا بحران(crisis of imagination) جنم لیتا ہے اسی لیے انہوں نے انسانی تخیل اور ماحولیاتی حقیقت کے درمیان اس رشتے کی دریافت کی ہے جس کا عدم توازن کائنات کو نئی سطحوں پر بحران میں مبتلا کر سکتا ہے۔ طبعی ماحول کا انفرادی اور اجتماعی ادراک پر گہرا اثر پڑتا ہے اور منور رانا نے اپنی شاعری میں اس طبعی ماحول کی بہت ہی فنکارانہ انداز میں عکاسی کی ہے۔

انہوں نے اپنی شاعری کے لیے ایک نئی بشارت دی ہے اور یہی انسانی جذبہ اور احساس ان کی شاعری کو زندہ رہنے کی ضمانت عطا کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں سب سے بڑی لہر جو ہے وہ ہے انسانیت کی لہر۔ وہی سورج، وہی روشنی، وہی خوشبو، وہی پھول ہے جو انسانی وجود سے وابستہ ہیں۔ انسانی رشتے کی فطری خوشبو نے ہی ان کی شاعری کو تازگی، تحرک، توانائی اور تمکنت عطا کی ہے۔

https://www.urdu.awazthevoice.in/opinion-news/the-beautifulness-of-munawwar-rana-s-poetry-23016.html

٭٭٭

غزل میں ماں کی نغمہ سرائی کرنے والا شاعر ۔۔۔ معشوق احمد

اردو شاعری میں جو استجابت اور مرغوبیت صنف غزل نے پائی وہ کسی اور صنف کو نصیب نہ ہوئی۔ غزل میں ہر دور میں شعراء نے مختلف موضوعات کو کامیابی کے ساتھ برتا ہے۔ میر ہو یا غالب، اقبال ہو یا حسرت، جگر ہو یا فراز ہر شاعر نے عمدہ غزلوں کی تخلیق کے ساتھ ساتھ نئے موضوعات، تجربات، احساسات اور جذبات کو اس میں داخل کیا ہے۔ غزل صرف عورتوں سے باتیں کرنا یا محبوب کا تذکرہ کرنے تک محدود نہ رہی بلکہ اس میں تاریخ، فلسفہ، مذہب، روزمرہ کے مسائل غرض من کی دنیا سے لے کر سنسار کے معاملات تک کو جمال و کمال سے پیش کیا گیا۔

اردو شاعری میں تو ماں کا تذکرہ بہت سارے شعراء نے کیا ہے۔ کسی نے مثنوی میں اپنے ماں کو خراج تحسین پیش کیا تو کسی نے نظم میں اس ہستی کی عظمت کے گن گائے۔ کلاسیکی شعراء ہوں یا ادبی دنیا کے نئے منظر نامے پر ابھرنے والے شعراء کم و بیش ہر شاعر نے ماں کی عظمت، الفت، محبت اور تقدس کا اظہار اپنی شاعری میں کیا ہے لیکن اردو غزل میں کم ہی شعراء ایسے ہیں جنہوں نے ماں کے مقدس وجود کی مختلف جہات کو غزل میں برتا ہے۔

منور رانا ان شعراء میں ہیں جنہوں نے اردو غزل میں کثرت سے ماں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے یہاں غزلوں میں دیگر موضوعات کے علاوہ کثیر تعداد میں ایسے اشعار ہیں جن میں ماں جیسی متبرک ہستی کو موضوع بنا کر ان کیفیات و جذبات کا اظہار ملتا ہے جو ایک ماں کے دل میں اپنے بچوں کے تئیں موجزن ہوتے ہیں۔ اول اول میں تو ان کی اس جدت پر اعتراضات کیے گئے لیکن اعتراضات سے قطع نظر جن خوبیوں کے ساتھ انہوں ماں کے کیفیات، دعاؤں، عظمت، تقدس، بڑائی کا ذکر کیا اس کو سراہا گیا۔

منور رانا کے شعری مجموعے ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں چھپ کر منظر عام پر آئے ہیں۔ ان کے ہندی شعری مجموعوں میں غزل گاؤں (1981ء)، پیپل چھاؤں (1984ء)، مور پاؤں (1987ء)، سب اس کے لیے (1989ء)، نیم کے پھول (1991ء)، بدن سرائی (1996ء)، پھر کبیر (2007ء)، شادابہ (2012ء) اور سخن سرائی (2012ء) چھپ کر لوگوں میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے اردو کے شعری مجموعوں میں کہو ظل الٰہی سے (2000ء)، جنگلی پھول (2008ء) اور منور رانا کی سو غزلیں (2008ء) چھپ چکے ہیں۔

جو شعری مجموعے ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں چھپ چکے ہیں ان میں گھر اکیلا ہو گیا (2008ء)، ماں (2005ء)، نئے موسم کے پھول (2009ء) اور مہاجر نامہ (2010ء) شامل ہیں۔ شاعری کے علاوہ ان کی نثر میں بھی جان اور نیا پن ہے۔ ان کی شاعری کے دیوانے ان کی نثری کتابوں کو بھی سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ انہوں نے خوبصورت نثر، دلکش اسلوب اور حسین انداز میں جو بزرگوں کے مرقعے کھینچے وہ لاجواب ہیں۔ ان کی نثری تصانیف میں بغیر نقشے کا مکان (2000ء)، سفید جنگلی کبوتر (2005ء)، چہرے یاد رہتے ہیں (2008ء) اور تین شہروں کا چوتھا آدمی (2010ء) شامل ہیں۔

منور رانا کے مختلف شعری مجموعے جو منظر عام پر آئے ہیں ان میں ماں کے بارے میں اشعار ملتے ہیں لیکن ان کا ایک شعری مجموعہ ماں کے عنوان سے 2005ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب ”ہر اس بیٹے کے نام جسے ماں یاد ہے“ کے نام کی گئی ہے۔ اس مجموعے کی محور و مرکز ماں ہے اور پورے مجموعے میں ماں، بہن، بھائی کے رشتوں کو شاعری میں پرویا گیا ہے۔ شعراء جس دور میں غزل میں محبوب کی جدائی، وصال، بے وفائی، دنیوی مسائل اور سیاست کا ذکر کر رہے تھے اور سائنسی کی ایجادات سے لے کر معاشرے کے بدلتے ہوئے رویوں تک نئے نئے موضوعات کو غزل میں بیان کر رہے تھے وہیں منور رانا ماں کی عظمت، دعاؤں کا اثر، بیٹے کے تئیں شفقت، بچوں کی نگہداشت کرنے والی شخصیت کا بیان عمدہ پیرائے میں کر رہے تھے۔

انسانی رشتوں میں سب سے مقدس، پاکیزہ اور مضبوط رشتہ ماں کا ہے۔ ماں زمین پر اللہ کی رحمت خداوندی کا نمائندہ خاص ہے۔ ماں اپنے بچے کے لیے کیا نہیں کرتی خود تکالیف اٹھاتی ہے، دایہ بن کر بچے کی پرورش کرتی ہے، باورچن اور خادمہ کا روپ دھارن کر لیتی ہے تاکہ اپنے بچوں کا خیال اور نگہداشت کر سکے۔ اپنا پیٹ کاٹ کر بچے کی خوراک کا انتظام کرتی ہے۔ یوں ہی ماں کے پیروں تلے جنت نہیں ہے۔ اللہ نے قرآن میں تاکید کی ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔

ماں کا حق بہت زیادہ ہے۔ اللہ نے ان تکالیف کا بھی تذکرہ کیا ہے جو ماں اپنے بچے کے سلسلے میں برداشت کرتی ہے۔ ولادت کے وقت جان کنی کی مانند تکالیف سے دوچار ہوتی ہے، پیدائش کے بعد اسے دودھ پلاتی ہے، اس کی تربیت کرتی ہے، اس کے آرام کے خاطر اپنا آرام قربان کرتی ہے، اسی لیے ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے۔ اس دنیا میں سب سے بڑی نعمت ماں اور اس کی دعائیں ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام انظاکیہ سے شام جا رہے تھے۔ چلتے چلتے تھک گئے تو اللہ نے وحی فرمائی میرے کلیم اس پہاڑی وادی میں میرا ایک خاص بندہ ہے اس سے سواری طلب کر۔

آپ نے ایک بندے کو نماز پڑھتے دیکھا جب وہ فارغ ہوئے تو آپ نے کہا: اے خدا کے بندے مجھے سواری چاہیے۔ اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو بادل کا ٹکڑا آتا دکھائی دیا۔ اس نے کہا نیچے آ اور اس انسان کو یہ جہاں جانا چاہتا ہے پہنچا دے۔ حضرت موسی سوار ہوئے اور چل دیے۔ اللہ نے فرمایا اے میرے کلیم تمہیں معلوم ہے کہ اس کو یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا۔ میں نے اسے یہ مرتبہ اپنی ماں کی خدمت کے صلے میں دیا ہے۔ اس کی ماں نے بوقت اجل دعا مانگی تھی کہ الٰہی اس نے میری ضرورت کا خیال رکھا تیرے حضور میری دعا ہے کہ تجھ سے یہ جو بھی طلب کرے عطا فرمانا۔

اے موسی اگر یہ مجھ سے آسمان کو زمین پر الٹ دینے کی بھی درخواست کرے گا تو میں وہ بھی منظور کر لوں گا۔ منور رانا ماں کی عظمت، مرتبے اور اسلامی تعلیمات سے واقف نظر آتے ہیں۔ ماں کی عظمت کا بیان جو اسلامی تعلیمات میں در آیا ہے اس بنیاد پر ماں سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منور رانا نے ماں کی محبت، عقیدت، مرتبے، حرمت کی زرخیز زمین پر اپنی شاعری کا محل کھڑا کیا ہے۔

انسان میں کمیاں اور خامیاں ہو سکتی ہیں۔ چونکہ شاعر بھی انسان ہے خلاف قیاس نہیں کہ اس کے کلام میں بھی کمیاں اور خامیاں ہوں۔ کسی شاعر کے یہاں یہ دعوی نہیں ملتا کہ اس کا کلام حرف آخر ہے اور تمام فنی خامیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ ناقدین اور معترضین کسی بھی شاعر کے کلام پر اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ بعض اعتراضات حق بجانب ہوتے ہیں اور بعض مجذوب کی بڑ ثابت ہوتے ہیں۔ منور رانا جب غزل میں ماں کی پرستش اور اس کی عظمتوں اور محبتوں کو بیان کر رہے تھے تو ان پر بھی تنقید ہوئی اور یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنائے گئے کہ غزل کے معنی محبوب سے باتیں کرنا

ہیں، جس کے جواب میں وہ اپنے شعری مجموعے ماں میں ’اپنی بات‘ کے عنوان سے ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ۔

’’ہر خاص و عام لغت کے مطابق غزل کا مطلب محبوب سے باتیں کرنا ہے۔ اگر اسے سچ مان لیا جائے تو محبوب ’ماں‘ کیوں نہیں ہو سکتی! کیا دنیا کے سب سے مضبوط، سدا بہار اور پاکیزہ رشتے کو غزل بنانا گناہ ہے، کیا تقدس کے’پھول بستر‘ پر غزل کو سلانا جرم ہے۔ میری شاعری پر اکثر زیادہ پڑھے لکھے لوگ جذباتی استحصال کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ اگر اس سے درست مان لیا جائے تو پھر محبوب کے حسن و شباب، اس کے تن و توش، اس کے لب و رخسار، اس کے رخ و گیسو، اس کے سینے اور کمر کی پیمائش کو عیاشی کیوں نہیں کہا جاتا ہے۔

اگر میرے شعر emotional blackmailing ہیں تو پھر۔

’جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے‘

’موسی اب تو تیری وہ ماں بھی نہیں رہی جس کی دعائیں تجھے بچا لیا کرتی تھیں‘

’اگر مرد کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو ماں کے قدموں پر ہوتی‘

’میدان حشر میں تمہیں تمہاری ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا‘

جیسے جملے کیا بے معنی ہیں؟

میں پوری ایمانداری سے اس بات کا تحریری اقرار کرتا ہوں کہ میں دنیا کی سب سے مقدس اور عظیم رشتے کا پرچار صرف اس لئے کرتا ہوں کہ اگر میرے شعر پڑھ کر کوئی بھی بیٹا اپنی ماں کا خیال کرنے لگے، رشتوں کی نزاکت کا احترام کرنے لگے تو شاید اس کے اجر میں میرے کچھ گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔‘‘

(مجموعہ ماں۔ اپنی بات از منور رانا)

غزل کا دامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں ہر موضوع کو سمایا جا سکتا ہے شرط سلیقہ اور طریقہ ہے جس سے منور رانا واقف ہیں۔ اب محبوب کے لب و رخسار، گیسو و عارض، کمر، قد، ہجر و وصال، جدائی اور ملن کی روداد ہی غزل میں بیان نہیں ہوتی بلکہ اب تو غزل کے موضوعات میں ساری کائنات کے علاوہ ہماری، تمہاری بات بھی شامل ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ منور رانا نے دیگر موضوعات جن پر ان کے معاصرین خامہ فرسائی کر رہے تھے کو اپنی غزلوں میں نہیں برتا۔ غزل کے موضوعات کو وسعت دینے اور نئے نئے مضامین کو اچھے ڈھنگ سے برتنے میں منور رانا کا جواب نہیں۔ جہاں انہوں نے سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی مسائل کی عکاسی کی وہیں ایک خاص اضافہ موضوع کے اعتبار سے یہ کیا کہ ماں کے حوالے سے مختلف موضوعات جو بن سکتے تھے ان کو صفحہ قرطاس پر اتارا۔ ان کے چند اشعار دیکھیں جن میں دیگر موضوعات کو برتا گیا ہے۔

چمن میں گھومنے پھرنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں

ادھر ہرگز نہیں جانا ادھر صیاد رہتا ہے

صرف تاریخ بتانے کے لیے زندہ ہوں

اب مرا گھر میں بھی ہونا ہے کیلنڈر ہونا

آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہیے

عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہیے

ایرے غیرے لوگ بھی پڑھنے لگے ہیں ان دنوں

آپ کو عورت نہیں اخبار ہونا چاہیے

اب بڑے لوگوں سے اچھائی کی امید نہ کر

کیسے ممکن ہے کریلا کوئی میٹھا کر لے

خود اپنے ہی ہاتھوں کا لکھا کاٹ رہا ہوں

لے دیکھ لے دنیا میں پتا کاٹ رہا ہوں

خون رلوائے گی یہ جنگل پرستی ایک دن

سب چلے جائیں گے خالی کر کے بستی ایک دن

اللہ کی طرف سے خاص اور نرالا تحفہ ماں ہے۔ جس کی کوکھ سے عظیم، معتبر، بزرگ، نجیب اور افضل ترین انسانوں نے جنم لیا۔ اللہ کو جب اپنی رحمتوں، شفقتوں، عظمتوں اور رفعتوں کا جلوہ دکھانا مقصود ہوا تو انہوں نے ماں جیسی ہستی کا چناؤ کیا جو نہایت مہربان، شفیق اور محبت کی انتہائی پاکیزہ مثال کا مجسمہ ہے۔ اس کی آغوش درسگاہ ہے اور خوشنودی باعث نجات۔ دنیا کی کسی دوا میں وہ تاثیر نہیں جو اس کی دعا میں ہے۔ ہر دکھ کا مداوا، ہر پریشانی کا حل، ہر مصیبت کی نجات اور ہر کرب سے چھٹکارا اگر کوئی چیز دلا سکتی ہے تو وہ ماں کی دعا ہے۔

ہر مذہب میں اس کا احترام اور عظمت مسلم ہے۔ اس کی عزت و شرف، حرمت اور توقیر سے کسی کو انکار نہیں کہ یہ سراپا اخلاص اور محبت کا پیکر ہے۔ ماں ہی ہے جو اپنے اولاد کے لیے سو تکلیفیں اٹھاتی ہے۔ خود اذیت برداشت کرتی ہے لیکن اپنی اولاد کو ایذا میں نہیں دیکھ سکتی۔ اولاد کے لیے منتیں کرتی ہے، خدا کے حضور رو رو کر دعا کرتی ہے اور حتی الامکان کوشش کرتی ہے کہ اپنی اولاد کو غموں، مصیبتوں، پریشانیوں اور دھوپ چھاؤں سے محفوظ رکھ سکے۔

اس کی دعا میں اثر اور تاثیر ہے جو اولاد کی دنیا اور آخرت سنوارنے کی طاقت رکھتی ہے۔ واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے فرمایا کہ سمندر کی طرف جائیں۔ آپ نے اپنے وزیر حضرت آصف کو ساتھ لیا اور سمندر کے قریب پہنچے پر کچھ نظر نہ آیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے آصف کو حکم دیا کہ سمندر میں غوطہ لگائیں۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی تو انہیں سمندر میں عجیب و غریب گنبد نظر آیا۔ اس عمارت میں چار دروازے موتی، یاقوت، جواہر اور زبرجد کے بنے ہوئے پائے اور سبھی کھلے پڑے ہیں لیکن قطرہ بھر پانی بھی اندر نہیں جاتا۔

اس عمارت کے اندر ایک حسین و جمیل نوجوان عبادت میں مصروف پایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اس کے پاس گئے اور حال معلوم کیا۔ نوجوان نے بیان کیا کہ حضور میرا باپ اپاہج اور والدہ اندھی تھی۔ میں نے سات سال تک ان کی خوب خدمت کی۔ میری والدہ نے انتقال سے قبل میرے لیے دعا کی کہ الٰہی اس کو اپنی عبادت کے لیے طویل عمر عطا کر اور ایسی جگہ عطا کر جو نہ زمین میں ہو نہ آسمان میں۔ یہ سب ماں کی دعا کی برکت ہے۔

ہر بچے کو اپنی ماں سے لگاؤ ہوتا ہے اور ماں کا اپنے بچے سے انس و محبت رکھنا فطری ہے۔ ماں اپنے بچے پر جی جان وارتی ہے، اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت سے ہی اپنی دعاؤں کے سائے اس پر کیے رکھتی ہے۔ بچہ اٹھا کھڑا ہو جائے تو دعا اور بیٹھ جائے تو دعا، سفر پر جانا ہو یا کسی کام کی شروعات کرنی ہو ماں کی زبان دعائیں دیتے دیتے نہیں تھکتی۔

چونکہ ماں اپنے بچہ کی شفیق اور مہربان ہوتی ہے وہ اپنے اولاد کے لیے دل سے دعائیں کرتی ہے اور دل سے کی ہوئی دعائیں بارگاہ الٰہی میں جلدی قبول ہو جاتی ہیں۔ ماں کی دعا سے ہر مصیبت اور مشکل ٹل جاتی ہے۔ اولاد کی قسمت سنور جاتی ہے۔ ماں کی دعا اپنے بچے کے لیے برکتوں اور رحمتوں کے نزول کا سبب بنتی ہے۔ منور رانا نے اپنی غزلوں میں ان دعاؤں کو موضوع بنایا جو ماں اپنے اولاد کے لیے مختلف وقتوں میں کرتی ہے۔ ماں کی دعائیں مصیبتوں، حادثوں، بلاؤں اور تکلیفوں کے سامنے ڈٹ کر انہیں پسپا کرتی ہیں۔ یہ دعاؤں کا حصار ہر بلا اور مصیبت سے حفاظت کرتا ہے۔

بھیجے گئے فرشتے ہمارے بچاؤ میں

جب حادثات ماں کی دعا میں الجھ پڑے

جب کشتی میری سیلاب میں آ جاتی ہے

ماں دعا کرتے ہوئے خواب میں آ جاتی ہے

گھیر لینے کو مجھے جب بھی بلائیں آ گئیں

ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں آ گئیں

حادثوں کی گرد سے خود کو بچانے کے لیے

ماں ہم اپنے ساتھ بس تیری دعا لی جائیں گے

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ نہیں ہو گا

میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

ماں بچوں کی خوشی سے خوش اور ان کے غم سے غمگین ہوتی ہے۔ ماں کی حقیقی خوشی اپنے لخت جگر کو خوش اور پر مسرت دیکھ کر ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچے سے ناراض نہیں ہوتی نہ ہی اس کے لیے بددعا کرتی ہے۔ وہ اپنے سارے غم اپنے بچے کو دیکھ کر بھول جاتی ہے۔ منور رانا نے ان تمام کیفیات کو اپنے اشعار میں پرویا ہے جن کو ماں محسوس کرتی ہے جب اس کا بیٹا اس کے سامنے اور خوش و شادمان ہو۔ اس کی تھکن مسرت میں بدل جاتی ہے جب ماں اپنی اولاد کو دیکھتی ہے۔

دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن

ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے

مقدس مسکراہٹ ماں کے ہونٹوں پر لرزتی ہے

کسی بچے کا پہلا سپارا ختم ہوتا ہے

لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی

بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی

ماں سے گھر کی رونق ہوتی ہے۔ گھر میں چہل پہل اور حقیقی خوشی اسی سے ہے۔ وہ گھر پر رونق ہوتا ہے جس گھر میں ماں کی ممتا اور وجود ہو۔ وہ گھر غموں کے اندھیر سے دور اور خوشیوں کی روشنی سے قریب ہوتا ہے۔ ماں کے وجود سے گھر میں اجالا اور تابندگی ہوتی ہے۔ اولاد جب تک گھر نہیں لوٹتی ماں اس کے لیے دعا گو رہتی ہے۔

اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا

ماں نے آنکھیں کھول دی گھر میں اجالا ہو گیا

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا

میں جب تک گھر نہ لوٹوں ماں سجدے میں رہتی ہے

ماں کی دعائیں ڈھال بن کر ہی بچے کی حفاظت نہیں کرتی بلکہ خود ماں بھی اپنی اولاد کی ہر مصیبت سے حفاظت کرتی ہے۔ خود پریشانیاں سہتی ہے لیکن بچے کو اپنے آنچل میں چھپا کر ممتا کے سائے تلے آرام پہنچاتی ہے اور ہمیشہ اپنے اولاد کا ساتھ ہر دکھ سکھ میں دیتی ہے۔

ہوا دکھوں کی جب آئی خزاں کی طرح

مجھے چھپا لیا مٹی نے مری ماں کی طرح

اب بھی چلتی ہے جب آندھی کبھی غم کی رانا

ماں کی ممتا مجھے بانہوں میں چھپا لیتی ہے

مصیبت کے دنوں میں ماں ہمیشہ ساتھ رہتی ہے

پیمبر کیا پریشانی میں امت کو چھوڑ سکتا ہے۔

بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی شادیاں ہو جاتی ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ گھر تقسیم ہو جاتا ہے تو ماں اکثر چھوٹے بھائی کے حصے میں آتی ہے۔ یہ اس کے لیے رحمت کا سبب ہے اور باقی بھائیوں کے لیے طنز کہ۔

کسی کو گھر ملا حصہ میں یا کوئی مکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی

اولاد کو بھی اپنی ماں سے محبت اور شفقت ہوتی ہے۔ ماں کی صورت دیکھنا جنت کے دیدار کے برابر لگتا ہے۔ اس کیفیت کو منور رانا نے اس انداز میں بیان کیا کہ۔

مجھے بس اس لیے اچھی بہار لگتی ہے

کہ یہ بھی ماں کی طرح خوشگوار لگتی ہے

مختصر یہ کہ منور رانا نے اپنی شاعری کے ذریعے ماں کی ممتا، دعاؤں، کیفیات، جذبات اور رشتہ شفقت کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری کو پڑھ کر ماں سے عقیدت اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو ماں کی ممتا اور قربانیوں کو بھول گیا ہے اگر وہ ان کی شاعری کو پڑھے گا تو یقیناً وہ اپنے کیے پر پشیمان ہو گا۔ موجودہ دور میں جہاں ماں باپ کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے وہاں ایسی شاعری کی قدر و منزلت اور بڑھ جاتی ہے جو سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اخلاقی اقدار کا پرچار کرتی ہو۔

آنکھوں سے مانگنے لگے پانی وضو کا ہم

کاغذ پر جب بھی دیکھ لیا ’ماں‘ لکھا ہوا

٭٭٭

https://www.humsub.com.pk/410364/mashooq-ahmad-45

غزل کا معصوم اور مقدس چہرہ ۔۔۔ معین شاداب

منور رانا کا اپنا تخلیقی جغرافیہ اور اپنا شعری محاورہ ہے۔ ان کی شاعری اپنی دھرتی اور اپنا آکاش رکھتی ہے۔ ہندستانی زبان کے رنگ سے بھر پور ان کی غزل ’لوک غزل‘ کی مثال ہے، جو ہماری تہذیب اور معاشرت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔ منور راناکے سخن کے کئی حوالے ہیں، جو ہمیں غزل کے اس تازہ کار شاعر کی امتیازی شناخت کے اسباب تک پہنچاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں رشتوں کا حسن ہے، وہ ٹوٹتے بکھرتے بشری رابطوں کو جوڑتے ہیں۔ وہ صارفیت کے اس عہد میں انسانی رشتوں کی قیمت نہیں، قدر طے کرتے ہیں۔ محنت کشوں کے پسینے کو انھوں نے اپنے قلم کی روشنائی بنایا ہے۔ منور رانا سماجی خرابیوں کے خلاف شکوہ نہیں احتجاج کرتے ہیں۔ حق و انصاف کی خاطر اقتدار سے ٹکر لیتے ہیں، جد و جہد کرتے ہیں۔ درد کو محفوظ کرنے والی ان کی غزلوں میں اداسی تو ہے لیکن قنوطیت نہیں۔ وہ خوابوں کے نہیں امیدوں کی شاعر ہیں۔ اپنی برتی اور اپنی جی ہوئی منو رانا کی شاعری آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے درمیان کے فاصلے کو کم کرنا چاہتی ہے۔ وہ کسی خاص اہتمام سے شعر نہیں کہتے، بس اپنے دل کی بات لکھتے جاتے ہیں۔

منور رانا کی بڑی شناخت یہ ہے کہ انھوں نے بت ہزار شیوہ غزل کو وہ معصومیت اور تقدس بخشا ہے کہ وہ مہذب گھرانوں کی بہو بیٹی بن گئی ہے۔ غزل اپنی صدیوں پرانی روایت کے مطابق آج بھی صنف نازک سے مکالمہ کرتی ہے۔ لیکن یہ صنف نازک صرف محبوبہ کیوں؟ ماں، بیٹی، بہن یا بہو کیوں نہیں؟ منور رانا کی غزل اسی سوالیہ نشان کو تحلیل کرتی ہے۔

غزل وہ صنف نازک ہے جسے اپنی رفاقت سے

وہ محبوبہ بنا لیتا ہے میں بیٹی بناتا ہوں

یہ چڑیا بھی مری بیٹی سے کتنی ملتی جلتی ہے

کہیں بھی شاخ گل دیکھے تو جھولا ڈال دیتی ہے

کہیں پر دیس کی رنگینیوں میں کھو نہیں جانا

کس نے گھر سے چلتے وقت یہ وعدہ کرایا ہے

رو رہے تھے سب تو میں بھی پھوٹ کر رونے لگا

ورنہ مجھ کو بیٹیوں کی رخصتی اچھی لگی

کس دن کوئی رشتہ مری بہنوں کو ملے گا

کب نیند کا موسم مری آنکھوں کو ملے گا

اچھلتے کھیلتے بچپن میں بیٹا ڈھونڈتی ہو گی

تبھی تو دیکھ کر پوتے کو دادی مسکراتی ہے

بے لوث رشتوں کی خوبصورتی سے اپنے شعری کینوس کو سجانے والے منور رانا نے ’ماں‘ کے پاکیزہ موضوع کو اس قدر برتا ہے گویا انھوں نے اسے اپنے حق میں ’پیٹنٹ‘ کرا لیا ہے۔ انھوں نے مختلف زاویوں اور پہلوؤں سے ماں پر اتنے اشعار کہے ہیں کہ ان کی الگ سے پوری ایک کتاب بن گئی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں ماں کے چہرے کو محبت سے نہارتے نہارتے، اس کی جھریوں کی تلاوت کرتے کرتے غزل جنتی ہو گئی۔

کسی کو گھر ملا حصہ میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے رو دیتی ہے

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا

میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

منور رانا کی غزل، بچپن سے مکالمہ کرتی ہے۔ کسی ماں کی طرح بچوں کے دکھ سکھ میں شامل ہوتی ہے۔ یہ غزل جب بچوں کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہے، ان کے گال سہلاتی ہے تو فرشتوں کی مسکراہٹ بن جاتی ہے۔ گھر آنگن میں کھیلتے نونہال ہوں یا اسکول جاتے بچے، کارخانے کے دھویں کی صدا پر لبیک کہتا بچپن ہو یا ٹرین کے ڈبے میں جھاڑو لگاتے ننھے منّے ہاتھ، وضو کرتے بچے ہوں یا مسجد کی چٹائی پر سوتے فرشتے یا پھر آنکھوں میں جھلملاتی کھلونوں کی حسرت۔ بچوں کے لبوں کی مسکراہٹ ہو یا ان کی آنکھ کے آنسو۔ منور رانا کے اس قبیل کے تمام شعروں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے بچپن کا احترام، معصومیت کا تحفّظ۔ اس فکری پڑاؤ پر ان کی غزل ’’بچپن بچاؤ آندولن‘‘ سے کم نہیں لگتی۔

انگلیاں تھامے ہوئے بچے چلے اسکول سے

صبح ہوتے ہی پرندے چہچہانے لگ گئے

بہت زخمی تھے اس کے ہونٹ لیکن

وہ بچہ مسکرانا چاہتا تھا

دھواں بادل نہیں ہوتا کہ بچپن دوڑ پڑتا ہے

خوشی سے کون بچہ کارخانے تک پہنچتا ہے

فرشتے آ کے ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبے میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں

دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گرنے پائے

میں ہوں مرا بچہ ہے کھلونوں کی دکاں ہے

اب کوئی مرے پاس بہانہ بھی نہیں ہے

٭٭٭

https://www.qaumiawaz.com/poem/munawar-rana-innocent-and-holy-face-of-ghazal-moin-shadab

غزلیں ۔۔۔ منور رانا

کسی بھی چہرے کو دیکھو گلال ہوتا ہے

تمہارے شہر میں پتھر بھی لال ہوتا ہے

کبھی کبھی تو مرے گھر میں کچھ نہیں ہوتا

مگر جو ہوتا ہے رزقِ حلال ہوتا ہے

کسی حویلی کے اوپر سے مت گزر چڑیا

یہاں چھتیں نہیں ہوتی ہیں جال ہوتا ہے

میں شہرتوں کی بلندی پہ جا نہیں سکتا

جہاں عروج پہ پہنچو زوال ہوتا ہے

میں اپنے آپ کو سید تو لکھ نہیں سکتا

اذان دینے سے کوئی بلال ہوتا ہے

٭٭٭

ہاں اجازت ہے اگر کوئی کہانی اور ہے

ان کٹوروں میں ابھی تھوڑا سا پانی اور ہے

مذہبی مزدور سب بیٹھے ہیں ان کو کام دو

اک عمارت شہر میں کافی پرانی اور ہے

خامشی کب چیخ بن جائے کسے معلوم ہے

ظلم کر لو جب تلک یہ بے زبانی اور ہے

خشک پتے آنکھ میں چبھتے ہیں کانٹوں کی طرح

دشت میں پھرنا الگ ہے باغبانی اور ہے

پھر وہی اکتاہٹیں ہوں گی بدن چوپال میں

عمر کے قصے میں تھوڑی سی جوانی اور ہے

بس اسی احساس کی شدت نے بوڑھا کر دیا

ٹوٹے پھوٹے گھر میں اک لڑکی سیانی اور ہے

٭٭٭

کبھی تھکن کے اثر کا پتہ نہیں چلتا

وہ ساتھ ہو تو سفر کا پتہ نہیں چلتا

وہی ہوا کہ میں آنکھوں میں اس کی ڈوب گیا

وہ کہہ رہا تھا بھنور کا پتہ نہیں چلتا

الجھ کے رہ گیا سیلاب قریۂ دل سے

نہیں تو دیدۂ تر کا پتہ نہیں چلتا

اسے بھی کھڑکیاں کھولے زمانہ بیت گیا

مجھے بھی شام و سحر کا پتہ نہیں چلتا

یہ منصبوں کا علاقہ ہے اس لئے شائد

کسی کے نام سے گھر کا پتہ نہیں چلتا

٭٭٭

جرأت سے ہر نتیجے کی پروا کیے بغیر

دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کیے بغیر

یہ شہرِ احتجاج ہے خاموش مت رہو

حق بھی نہیں ملے گا تقاضہ کیے بغیر

پھر ایک امتحاں سے گزرنا ہے عشق کو

روتا ہے وہ بھی آنکھ کو میلا کیے بغیر

پتے ہوا کا جسم چھپاتے رہے مگر

مانی نہیں ہوا بھی برہنہ کیے بغیر

اب تک تو شہرِ دل کو بچائے ہیں ہم مگر

دیوانگی نہ مانے گی صحرا کیے بغیر

اس سے کہو کہ جھوٹ ہی بولے تو ٹھیک ہے

سچ بولتا نہ ہو کبھی نشّہ کیے بغیر

٭٭٭

میاں میں شیر ہوں شیروں کی غراہٹ نہیں جاتی

میں لہجہ نرم بھی کر لوں تو جھنجھلاہٹ نہیں جاتی

میں اک دن بے خیالی میں کہیں سچ بول بیٹھا تھا

میں کوشش کر چکا ہوں منہ کی کڑواہٹ نہیں جاتی

جہاں میں ہوں وہیں آواز دینا جرم ٹھہرا ہے

جہاں وہ ہے وہاں تک پاؤں کی آہٹ نہیں جاتی

محبت کا یہ جذبہ جب خدا کی دین ہے بھائی

تو میرے راستے سے کیوں یہ دنیا ہٹ نہیں جاتی

وہ مجھ سے بے تکلف ہو کے ملتا ہے مگر راناؔ

نہ جانے کیوں میرے چہرے سے گھبراہٹ نہیں جاتی

٭٭٭

جسے دشمن سمجھتا ہوں وہی اپنا نکلتا ہے

ہر اک پتھر سے میرے سر کا کچھ رشتہ نکلتا ہے

ڈرا دھمکا کے تم ہم سے وفا کرنے کو کہتے ہو

کہیں تلوار سے بھی پاؤں کا کانٹا نکلتا ہے؟

ذرا سا جھٹ پٹا ہوتے ہی چھپ جاتا ہے سورج بھی

مگر اک چاند ہے جو شب میں بھی تنہا نکلتا ہے

کسی کے پاس آتے ہیں تو دریا سوکھ جاتے ہیں

کسی کی ایڑیوں سے ریت میں چشمہ نکلتا ہے

فضا میں گھول دی ہیں نفرتیں اہل سیاست نے

مگر پانی کوئیں سے آج تک میٹھا نکلتا ہے

جسے بھی جرمِ غداری میں تم سب قتل کرتے ہو

اسی کی جیب سے کیوں ملک کا جھنڈا نکلتا ہے

دوائیں ماں کی پہنچانے کو میلوں میل آتی ہیں

کہ جب پردیس جانے کے لئے بیٹا نکلتا ہے

٭٭٭

بند کر کھیل تماشا ہمیں نیند آتی ہے

اب تو سو جانے دے دنیا ہمیں نیند آتی ہے

ڈوبتے چاند ستاروں نے کہا ہے ہم سے

تم ذرا جاگتے رہنا ہمیں نیند آتی ہے

دل کی خواہش کہ ترا راستہ دیکھا جائے

اور آنکھوں کا یہ کہنا ہمیں نیند آتی ہے

اپنی یادوں سے ہمیں اب تو رہائی دے دے

اب تو زنجیر نہ پہنا ہمیں نیند آتی ہے

چھاؤں پاتا ہے مسافر تو ٹھہر جاتا ہے

زلف کو ایسے نہ بکھرا ہمیں نیند آتی ہے

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ منور رانا

مہاجر نامہ

(پانچ سو اشعار کی اس مشہور غزل نما نظم سے کچھ اشعار کا انتخاب)

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں

تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے

کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں

نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں

پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی

وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی

کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں

پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے

نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں

جو اک پتلی سڑک اُنّاو سے موہان جاتی ہے

وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں

یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد

ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں

ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے

ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں ہجرت کی اس اندھی گپھا میں یاد آتا ہے

اجنتا چھوڑ آئے ہیں ایلورا چھوڑ آئے ہیں

سبھی تیوہار مل جل کر مناتے تھے وہاں جب تھے

دوالی چھوڑ آئے ہیں دسہرا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں سورج کی کرنیں اس لئے تکلیف دیتی ہیں

اودھ کی شام کاشی کا سویرا چھوڑ آئے ہیں

گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب

الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں

ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی

کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں

کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں

کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں

شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی

کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں

وہ برگد جس کے پیڑوں سے مہک آتی تھی پھولوں کی

اسی برگد میں ایک ہریل کا جوڑا چھوڑ آئے ہیں

ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے

کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں

بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی

وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں

یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی

کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں

ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر

کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بدبداتی تھیں

سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہو گی

ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں

یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے

مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں

ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی

میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں

وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے

کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں

اتار آئے مروت اور روا داری کا ہر چولا

جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں

جنابِ میر کا دیوان تو ہم ساتھ لے آئے

مگر ہم میر کے ماتھے کا قشقہ چھوڑ آئے ہیں

اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں

ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں

ہماری رشتے داری تو نہیں تھی، ہاں تعلق تھا

جو لکشمی چھوڑ آئے ہیں جو درگا چھوڑ آئے ہیں

۔ق۔

کل اک امرود والے سے یہ کہنا آ گیا ہم کو

جہاں سے آئے ہیں ہم اس کی بغیا چھوڑ آئے ہیں

وہ حیرت سے ہمیں تکتا رہا کچھ دیر پھر بولا

وہ سنگم کا علاقہ چھٹ گیا یا چھوڑ آئے ہیں

ابھی ہم سوچ میں گم تھے کہ اس سے کیا کہا جائے

ہمارے آنسوؤں نے راز کھولا چھوڑ آئے ہیں

۔۔۔

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا

مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر

تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں

تسلی کو کوئی کاغذ بھی ہم چپکا نہیں پائے

چراغِ دل کا شیشہ یوں ہی چٹخا چھوڑ آئے ہیں

سڑک بھی شیر شاہی آ گئی تقسیم کی زد میں

تجھے ہم کر کے ہندوستان چھوٹا چھوڑ آئے ہیں

ہنسی آتی ہے اپنی ہی ادا کاری پہ خود ہم کو

بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں

گزرتے وقت بازاروں میں اب بھی یاد آتا ہے

کسی کو اس کے کمرے میں سنورتا چھوڑ آئے ہیں

ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی

وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں

تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے

ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی

وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں

ہمیں مرنے سے پہلے سب کو یہ تاکید کرنا ہے

کسی کو مت بتا دینا کہ کیا کیا چھوڑ آئے ہیں

٭٭٭

اڑے کبوتر اڑے خیال

اک بوسیدہ مسجد میں

دیواروں محرابوں پر

اور کبھی چھت کی جانب

میری آنکھیں گھوم رہی ہیں

جانے کس کو ڈھونڈ رہی ہیں

میری آنکھیں رک جاتی ہیں

لوہے کے اس خالی ہک پر

جو خالی خالی نظروں سے

ہر اک چہرہ دیکھ رہا ہے

اک ایسے انسان کا شاید

جو اک پنکھا لے آئے گا

لائے گا اور دور کرے گا

مسجد کی بے سامانی کو

خالی ہک کی ویرانی پر

میں نے جب اس ہک کو دیکھا

میری ننھی پھول سی بیٹی

میری آنکھوں میں دوڑ آئی

بھولی ماں نے اس کی

اپنی پیاری راج دلاری بیٹی کے

دونوں کانوں کو

اپنے ہاتھوں سے چھید دیا ہے

پھولوں جیسے کانوں میں پھر

نیم کے تنکے ڈال دیے ہیں

امیدوں آسوں کے سہارے

دل ہی دل میں سوچ رہی ہے

جب ہم کو اللہ ہمارا

تھوڑا سا بھی پیسہ دے گا

بیٹی کے کانوں میں اس دن

بالیاں ہوں گی بندے ہوں گے

میں نے انتھک محنت کر کے

پنکھا ایک خرید لیا ہے

مسجد کے اس خالی ہک کو

میں نے پنکھا سونپ دیا ہے

ہک میں پنکھا دیکھ کے مجھ کو

ہوتا ہے محسوس کہ جیسے

میری بیٹی بالیاں پہنے

گھر کی چھت پر گھوم رہی ہے

٭٭٭

پتھر کے ہونٹ

کل رات

بارش سے جسم

اور آنسوؤں سے

چہرہ بھیگ رہا تھا

اس کے غم کی پردہ داری

شاید خدا بھی کرنا چاہتا تھا

لیکن دھوپ نکلنے کے بعد

جسم تو سوکھ گیا

لیکن آنکھوں نے

قدرت کا کہنا ماننے سے

بھی

انکار کر دیا

اس کے اداس

ہونٹ پتھر کے ہو گئے تھے

اور پتھر مسکرا نہیں سکتے

٭٭٭

گاہے گاہے باز خواں

دیباچہ ’پہلی بارش‘ ۔۔۔ باصر سلطان کاظمی

(1)

میں سکول میں پڑھتا تھا۔ نیا نیا شعر کہنا شروع کیا تھا۔ ایک محبوب مشغلہ پاپا کی غیر موجودگی میں، ان کے کمرے میں، ہر قسم کے نئے اور پرانے رسالے ’کھنگالنا‘ تھا (غیرنصابی کتابیں پڑھنے کا دور ابھی نہیں آیا تھا)۔ ایک روز ’نیا دور‘ کے دو مختلف شماروں میں پاپا کی کئی غزلیں ایک ساتھ ملیں۔ ان کے بارے میں انوکھی بات یہ تھی کہ یہ سب کی سب ایک ہی زمین میں تھیں۔ حیرت ہوئی کہ پاپا، جو ایک غزل میں ایک ہی قافیہ ایک سے زائد بار باندھنے سے گریز کرنے کو کہا کرتے تھے، خود ایک ہی زمین میں اتنی غزلیں لکھ گئے، اور کئی قافیے کئی کئی دفعہ استعمال کیے۔ اچنبھے کی دوسری بات یہ تھی کہ ان غزلوں کی زبان اتنی سادہ تھی کہ ’پہاڑ اور گلہری‘ اور ’گائے اور بکری‘ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی اور لب و لہجہ روزمرہ گفتگو کے اتنا قریب کہ لگتا تھا جیسے نثر کو اوزان کا پابند کر دیا گیا ہو۔ شعر کہنا بہت آسان دکھائی دینے لگا۔ کئی بار تو بے اختیار ہنسی بھی آ گئی:

سینے پر دو کالی کلیاں

پیٹ کی جھیل میں کنول کھلا تھا

پاپا ریڈیو سٹیشن سے لوٹے تو میں نے انھیں دیکھتے ہی کہا، ’’کچھ غزلیں پڑھیں آج۔ اوپر آپ کا نام تھا۔ آپ ہی کی ہیں؟‘‘

’’ہاں ہاں میری ہیں۔ بالکل میری۔— کیوں؟‘‘ انہوں نے رسالے دیکھتے ہوئے کہا اور سٹپٹا کر مجھے دیکھنے لگے۔ پہلے تو انھیں خیال ہوا کہ شاید میں مذاق کر رہا ہوں لیکن پھر مجھے انتہائی سنجیدہ پا کر انھیں تشویش ہونا شروع ہوئی کہ کل تک تو برخوردار بھلا چنگا تھا۔

’’بہت سیدھی سیدھی غزلیں ہیں۔— پھیکی پھیکی۔— کچھ زیادہ ہی آسان اور سادہ‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہنا شروع کیا۔ ’’کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔— بات نہیں بنی۔‘‘

اب سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ ناصر کاظمی سے یہ بات اور وہ بھی ’پہلی بارش‘ کے بارے میں، اس انداز سے۔— میں نے کہہ دی؟! پھر اپنی جہالت کو معصومیت کا نام دے کر دل کو تسلی دیتا ہوں۔ نابالغ، نماز روزے کے علاوہ بھی بہت سی پابندیوں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے حدود میں رہنا نا ممکن ہوتا ہے کیونکہ وہ حدود سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ جہاں تک بیباکی کا تعلق ہے تو ناواقفیت بھی اس کا اتنا ہی اہم منبع ہے جتنا کہ علم (اگرچہ جو جرأت لاعلمی سے پھوٹے وہ گستاخی اور ہٹ دھرمی کہلاتی ہے اور جو علم کے نتیجے میں پیدا ہو وہ خوداعتمادی اور یقین کی علامت خیال کی جاتی ہے)۔ پھر نابالغوں اور نا واقفوں کو ایک اور رعایت بھی تو حاصل ہے۔ علم کا باب وا کرنے کی ایک کلید بیباکی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جاننے اور سیکھنے میں شرم محسوس نہ کرو۔ پاپا بھی یہی تلقین کیا کرتے تھے۔ سوالوں کے جواب چاہو اور جواب سن کر سوال کرو۔ سوال کتنے ہی مضحکہ خیز اور بچگانہ کیوں نہ ہوں۔

تو ذکر تھا ’پہلی بارش‘ کی غزلوں کا۔ میری بات پر پاپا کا ردِ عمل ایسا تھا گویا وہ کچھ بتانے یا سمجھانے بلکہ کچھ بھی کہنے کو بے سود سمجھ رہے ہوں۔

مذکورہ واقعے کے کئی برس بعد اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے جب پاپا نے اپنا کلام اکٹھا کر کے ترتیب دینا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ایک ڈائری کے پہلے صفحے پر ’پہلی بارش‘ جلی حروف میں لکھا ہوا تھا اور اگلے اوراق میں ویسی ہی ہم زمین غزلیں۔ پاپا یہ غزلیں ایک پرانی ڈائری (جو میرے پاس اب بھی محفوظ ہے) سے نقل کر رہے تھے۔ اس پرانی ڈائری میں یہ غزلیں من و عن اسی طرح لکھی ہوئی تھیں جیسے میں رسالے میں پڑھ چکا تھا۔ مگر اب کئی اشعار قلم زد یا تبدیل کیے جا چکے تھے، کچھ نئے اشعار کا اضافہ کر دیا گیا تھا اور دو تین غزلیں خارج کر دی گئی تھیں۔ اب مجھے محسوس ہوا کہ یہ مجموعہ غزلوں کے ان مجموعوں سے بہت مختلف تھا جن سے میری آشنائی تھی۔ میں نے پاپا سے کہا کہ وہ اسے چھپوا کیوں نہیں دیتے تو ان کا جواب صرف اتنا تھا، ’’ابھی لوگ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘

پاپا اکثر ہم سے، ہماری عمر کے اس دور کے مطابق جس سے ہم گزر رہے ہوتے، سوال کیا کرتے، ہمارا امتحان لیا کرتے۔ ایک روز رات کو اپنے لکھنے پڑھنے کے اوقات میں مجھے بلایا اور کہا، ’’اس شعر کے کیا معنی تمھاری سمجھ میں آتے ہیں؟‘‘

دل کی صورت کا اک پتّہ

تیری ہتھیلی پر رکھا تھا

میں سوچنے لگا۔ پان کا پتّہ میرے ذہن میں آ رہا تھا لیکن غزل کے شعر کے معنی، ایک پہیلی کے حل کی طرح بتاتے ہوے ڈر لگ رہا تھا۔

’’دل کی صورت کا پتہ نہیں دیکھا کبھی؟‘‘

’’پان!‘‘ میں نے فوراً جواب دیا۔

’’ٹھیک۔ اب اس شعر کو دیکھو:

کاغذ کے دل میں چنگاری

خس کی زباں پر انگارہ تھا‘‘

’’سگریٹ۔ ماچس۔‘‘

’’خوب اب یہ شعر:

چاند کے دل میں جلتا سورج

سورج کے دل میں کانٹا تھا‘‘

یہ ’پہیلی‘ میں نہ بوجھ سکا۔ آخر انھوں نے خود ہی بتایا: ’فرائڈ انڈا‘۔

میں بہت محظوظ ہوا۔ ’’تو کیا یہ پہیلیاں ہیں؟‘‘

’’ہاں۔ پہیلیاں بھی۔‘‘ وہ مسکرانے لگے۔

یہ ’بھی‘ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ میرے لیے اہم سے اہم تر ہوتا چلا گیا۔ ہر شے اپنے علاوہ (یعنی جو کچھ وہ دکھائی دیتی ہے یا سمجھی جاتی ہے، اس کے علاوہ) اور ’بھی‘ بہت کچھ نظر آتی۔ پاپا کا یہ شعر ہر وقت ذہن میں پھرنے لگا:

پھول کو پھول کا نشاں جانو

چاند کو چاند سے اُدھر دیکھو

پھر ایک روز دل کی صورت کا پتّہ ایک ہتھیلی پر رکھا دیکھا۔ سر بکف لوگوں کے بارے میں تو سنا تھا، دل بدست بھی دیکھ لیا۔ پھر ’چاند‘ کے دل میں جلتا سورج، ’سورج‘ کے دل میں کانٹا، کاغذی پیکر کے دل میں چنگاری اور ’خس‘ کی زباں پر انگارہ بھی دیکھا۔ اب ان اشعار میں پہیلیاں کم اور کہانیاں زیادہ نظر آنے لگیں۔ میری حیرت کے صحرا میں ’پہلی بارش‘ سے نت نئے گل ہائے معانی کھِلے۔ جن باتوں پر پہلے ہنسی آتی تھی، اب آنسوؤں کے دریا بہتے۔ میر پر پاپا کا مضمون جو کبھی ’سویرا‘ میں شائع ہوا تھا (اور اب ان کے نثری مجموعے، خشک چشمے کے کنارے میں شائع ہوا ہے)، پڑھا۔ اس شعر: ’یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر/ اپنی ٹکی لگائے جاتا ہے‘ کے حوالے سے پاپا کی خیال آرائی پڑھ کر مجھے اپنا پہلی بار ’پہلی بارش‘ پڑھنا بہت یاد آیا۔ لکھتے ہیں: ’’بظاہر یہ شعر آدمی کے سستے اور عمومی جذبات کو اس قدر بر انگیختہ کر سکتا ہے کہ معقول قاری بھی ان کی رو میں بہہ کر اس طرح قہقہے لگانے لگے کہ اسے اپنے مبتذل ہونے پر کوئی شک نہ رہے، ردِ عمل کے طور پر ایسا معقول قاری بالکل ویران ہو سکتا ہے اور انھی ویران لمحوں میں یہ شعر اپنا آپا دکھاتا ہے۔ اس میں بھونڈے قہقہوں کی گونج کے ساتھ وہ المناک تجربہ اپنی پوری شدت کے ساتھ سمویا ہوا ہے جس پر دھاڑیں مار مار کر رویا بھی جا سکتا ہے۔‘‘

’پہلی بارش‘ دوبارہ، سہ بارہ پڑھی۔ یوں لگا جیسے کتاب اب سمجھ میں آ گئی۔ جس طرح کسی غزل کے اشعار اپنا جداگانہ وجود رکھتے ہوے بھی آپس میں کسی طور منسلک ہوتے ہیں اسی طرح ’پہلی بارش‘ کی غزلیں بھی انفرادی طور پر مکمل غزلیں ہونے کے ساتھ ساتھ مل کر ایک وحدت کو تشکیل دیتی دکھائی دیں۔ یہ وحدت طویل نظم کے قریب کی کوئی چیز معلوم دی۔ ہر غزل گویا اس نظم کا ایک بند تھی جس کے اشعار ایسے مربوط نظر آئے جیسے کسی زینے کے مدارج یا کسی منزل کے مراحل۔ ایسا محسوس ہوا گویا شاعر کوئی کہانی سنا رہا ہو۔ بار بار پڑھنے پر یہ کہانی واضح ہوتی چلی گئی۔

(2)

صدیوں پرانی روایت ہے کہ شعراء (مغربی و مشرقی) طویل نظم کی ابتدا خدا یا دیوی دیوتاؤں (اپنے اپنے ایمان یا اعتقاد کے مطابق) سے خطاب کر کے کرتے ہیں۔ ’پہلی بارش‘ اور روایتی طویل نظم کا ایک اور مشترک وصف، آغاز ہے:

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا

پہلے تیرا نام لکھا تھا

اس شعر کے بارے میں پاپا خود کہا کرتے تھے کہ اس کا شمار چند بہترین حمدیہ اشعار میں ہو گا۔

اس کے علاوہ پہلی غزل ’کہانی‘ کے ’مرکزی کردار‘ کا تعارف بھی ہے۔ شروع ہی میں پڑھنے والا جان لیتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیقی شخص کی کہانی ہے جو اللہ کو ماننے والا اور اس کی کتاب کا بغور مطالعہ کرنے والا ہے۔ اللہ ہی کے فرمان پر عمل کرتے ہوے وہ قرآنی آیات پڑھ کر اوندھے منہ گر نہیں جاتا (اندھا دھند ایمان نہیں لے آتا) بلکہ تدبر کرتا ہے اور غور و فکر کے ذریعے ان آیات کو اپنے رگ و پے کا حصہ بناتا ہے۔ وہ آدم کے مقام اور کائنات میں اس کے کردار سے بخوبی واقف ہے:

میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے

بارِ امانت سر پہ لیا تھا

میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو

جن و ملک نے سجدہ کیا تھا

یہ شخص نہ صرف اللہ سے سوال کرنے بلکہ شکوہ کرنے کی بھی جرأت رکھتا ہے:

تو نے کیوں مِرا ہاتھ نہ پکڑا

میں جب رستے سے بھٹکا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے

میں تِرے درشن کا پیاسا تھا

یہ اشعار غزلوں کے اس سلسلے میں بیان کی جانے والے کہانی کے موضوع کی طرف بھی ایک واضح اشارہ ہیں۔

یہاں اگر میں یہ کہوں کہ پاپا کی اپنی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ اپنے دعوے کی حمایت میں اُنہی کے دو بیانات درج کرتا ہوں۔ ’سویرا‘ کے ایک مذاکرے میں ’میرا ہمعصر‘ (مطبوعہ، ’خشک چشمے کے کنارے‘) کے تحت لکھتے ہیں، ’’۔۔ میں عصر کے قرآنی معانی پر توجہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ اب اگر سلیم احمد صاحب یہ اعتراض کریں کہ میں ادب کے معاملے میں قرآن مجید کو بیچ میں کیوں لاتا ہوں تو میری گزارش ہے کہ میں قرآن کو ادب سمجھ کر پڑھتا ہوں اور اپنی زبان کے بعض لفظوں کے اصل معانی پر اس لیے بھی زور دیتا ہوں کہ دورِ غلامی نے ہماری قومی علامتوں کا اس قدر مذاق اڑایا ہے کہ اب ہم ہر معاملے میں اہلِ مغرب کے دست نگر ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر مولوی، مولانا، حضرت، یہ الفاظ مغرب زدہ لوگوں کے لیے محض گالی یا پھبتی کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘

اپنی زندگی کے آخری ایام میں ٹیلیویژن کے لیے انتظار حسین کو انٹرویو دیتے ہوے، غزل سنانے کی فرمائش کیے جانے پر انھوں نے کہا: ’’۔۔ لایئے تمھیں کچھ شعر سنا دیتا ہوں۔ یہ غزل، اس میں تھوری سی خطابت ہے؛ مگر یہ ہے کہ بعض وجوہ سے مجھے پسند ہے؛ کہ طلوع و غروب کے مناظر ہیں؛ حیرت و عبرت، کہ دنیا میں کیا ہوتا ہے؛ کس طرح چیزیں ڈوبتی ہیں، ابھرتی ہیں؛ کس طرح صبح شامیں ہوتی ہیں؛ اور کچھ قرآنِ کریم کے پڑھنے والوں کے لیے بھی۔— یہ کچھ دو چار شعر میں عرض کر دیتا ہوں:

سازِ ہستی کی صدا غور سے سن

کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن

دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان

شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن

کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام

روح کے تار ہلا غور سے سن

یاس کی چھاؤں میں سونے والے

جاگ اور شورِ درا غور سے سن

کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال

شب گزیدوں کی دعا غور سے سن

کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں

کیا سناتی ہے صبا غور سے سن

برگِ آوارہ بھی اک مطرب ہے

طائرِ نغمہ سرا غور سے سن

دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے

میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن

(برگِ نے)

یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ شاعر کی شخصیت اور اس کے نظریات اور عقائد کی روشنی میں اس کے کلام کو دیکھنا، بے لاگ (objective) مطالعے کے تقاضوں کے خلاف ہے تو میں جواب میں پاپا ہی کے الفاظ پیش کروں گا۔ مذکورہ بالا انٹرویو ہی میں انھوں نے کہا تھا، ’’بات یہ ہے کہ جس طرح عطر کی شیشی آپ کھولتے ہیں تو خوشبو آپ کو آتی ہے؛ تو پھول اور باغ تو کہیں نظر نہیں آتے؛ تو شاعری میں میری، یہ تمام واقعات براہِ راست تو آپ کو نظر نہیں آئیں گے، البتہ یہ ہے کہ وہ جو یادیں ہیں، جو زمانہ تھا ہماری غلامی کا، اور جس میں ہم جینے کے لیے کوشش کر رہے تھے، ان کی تگ و دو کو میری شاعری کے آہنگ میں، رنگوں میں، لفظوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ آگے چل کر اس سوال کے جواب میں کہ تمھارا کمٹمنٹ (commitment) کیا ہے، انھوں نے کہا، ’’—- کمٹمنٹ، میں نے اس طرح بعض بیانات کی صورت میں تو شاید بہت کم کیا ہو، لیکن میرے کلام میں آپ کو۔— میرا تو خیال ہے کہ میں نے جو لفظ لکھا ہے وہ کمٹمنٹ سمجھ کر لکھا ہے۔ پاکستان کی پچیس سالہ تاریخ کو آپ دیکھیں اور میرے کلام کو دیکھیں تو ضرور اس میں وہ چیزیں دھڑکتی ہوئی نظر آئیں گی۔‘‘

سجاد باقر رضوی کی کتاب کے دیباچے، ’شہری فرہاد‘ میں وہ لکھتے ہیں، ’’شاعر کی شاعری اور اس کے نظریات کی ملاقات کسی مقام پر تو ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں باقاعدہ مثالیں تو مغرب کے ادب ہی میں ملیں گی لیکن اردو ادب بھی ایسی مثالوں سے خالی نہیں۔ میرؔ نے اپنے تذکرے میں، غالبؔ نے اپنے خطوط میں، حالیؔ نے مقدمہ شعر و شاعری میں، پھر ہمارے زمانے میں فراقؔ صاحب نے اپنے مضامین میں شاعری کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا عکس ان کی شاعری میں بھی موجود ہے۔— شاعر اپنے نظریات کو مسلسل تجربات، مشاہدات اور مطالعے کے بعد مرتب کرتا ہے اور شاعری میں انھیں ذائقہ بنا دیتا ہے۔ شاعر کا مطالعہ اور اس کے نظریات خام لوہے کی طرح ہوتے ہیں جو شعر میں دمِ شمشیر بن کر اپنا جوہر دکھاتا ہے۔‘‘

یہاں یہ باتیں، ممکن ہے کچھ لوگوں کو غیر متعلقہ لگیں لیکن میرے خیال میں ان کا ذہن نشین ہونا نہ صرف ’پہلی بارش‘ بلکہ ناصر کاظمی کی پوری شاعری کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔

(3)

وہ کوئی اپنے سوا ہو تو اس کا شکوہ کروں

جدائی اپنی ہے اور انتظار اپنا ہے

(دیوان)

’پہلی بارش‘ کے شاعر کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ انسان اس دنیا میں نہ صرف اکیلا آتا ہے اور یہاں سے اکیلا جاتا ہے، بلکہ وہ یہاں رہتا بھی اکیلا ہی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد، اپنے اندر جھانک کر، اپنی ذات کی مسلسل نشو و نما (یازکا) کرتے رہنے سے ہی وہ سکون کی منزل (یا جنّت) تک پہنچ سکتا ہے۔ انسان کی ضرورتیں اسے دوسروں کے پاس بھی لے جاتی ہیں اور ان سے جدا بھی کرتی ہیں۔ ہر تعلق اور دوستی کی ایک میعاد ہوتی ہے۔ یہ میعاد تمام عمر پر بھی محیط ہو سکتی ہے، بشرطیکہ فریقین ایک دوسرے کی نشو و نما میں اضافے کا باعث بنتے رہیں (اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اپنی نشو و نما کے لیے بھی کوشش کرتے رہیں۔ ظاہر ہے جو خود رک گیا، وہ کسی کو کیا آگے بڑھائے گا)۔ لیکن جب روز کے ملنے والے دوست ایک دوسرے کی نشو و نما میں مزید کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے تو ان کا ملنا کم ہونے لگتا ہے۔ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں:

دوست بچھڑتے جاتے ہیں

شوق لیے جاتا ہے دُور

(برگِ نے)

اب اُن سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ناصِر

وہ ہم نوا جو مِرے رتجگوں میں شامل تھے

(دیوان)

محبت کا معاملہ اس سے کچھ مختلف نہیں۔ محبوب کے بغیر ایک پل نہ جی سکنے والا، یوں بھی سوچتا ہے:

یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عُمر

جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

(دیوان)

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے

دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے

(دیوان)

اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ:

رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال

اُس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

(برگِ نے)

وہ رشتہ جو از خود، بتدریج اور غیر محسوس طور پر ٹوٹے؛ وہ دوستی جو اپنے تمام امکانات کو چھان ڈالے، Explore اور Exhaust کر لے، اس کا دکھ یا ملال نہیں ہوتا، لیکن جو تعلق ادھورا رہ جائے؛ درمیان میں کسی حادثے، رنجش، بدگمانی، غلط فہمی، رقابت یا ’ظالم سماج‘ کی وجہ سے منقطع ہو جائے، بہت تڑپاتا ہے:

کہاں ہے تو کہ تِرے انتظار میں اے دوست

تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے

(برگِ نے)

یاد آتا ہے روز و شب کوئی

ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی

(برگِ نے)

’پہلی بارش‘ کے آغاز میں کیفیت ’تو من شدی، من تو شدم‘ کے مصداق نظر آتی ہے۔ دو روحوں کا پیاسا بادل گرج گرج کر برستا ہے، دو یادوں کا چڑھتا دریا ایک ہی ساگر میں گرتا ہے اور دل کی کہانی کہتے کہتے رات کا آنچل بھیگ جاتا ہے۔ سفر کی رات خوشبو کے جھونکے کی مانند گزر جاتی ہے۔ دن کی ٹھنڈی دھوپ میں، ’’تیری ہلال سی انگلی پکڑے / میں کوسوں پیدل چلتا تھا‘‘ اور پچھلے پہر کے سناٹے میں، ’’تیرے سائے کی لہروں کو / میرا سایا کاٹ رہا تھا‘‘، غرض، ’’وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر / ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا‘‘، لیکن فراق کی منزل دور نہ تھی:

کیسی اندھیری شام تھی اس دن

بادل بھی گھر کر چھایا تھا

رات کی طوفانی بارش میں

تو مجھ سے ملنے آیا تھا

بھیگی بھیگی خاموشی میں

میں تِرے گھر تک ساتھ گیا تھا

ایک طویل سفر کا جھونکا

مجھ کو دُور لیے جاتا تھا

یہ کیسی خاموشی ہے؟ کیا باتیں ختم ہو گئیں؟ کیا تمام یادوں اور سپنوں کا تبادلہ ہو چکا؟ یا یہ باتوں کے درمیان محض ایک وقفہ ہے؟

یہ کیسا سفر ہے؟ غمِ روزگار کی مجبوری، زمانے کی عائد کردہ پابندی یا ذات کی داخلی احتیاج؟ اگلی غزل میں ان سارے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ مطلع میں ’دوبارہ‘ کا لفظ بہت اہم ہے۔ یہاں اس کا مطلب دوسری بار نہیں بلکہ ایک بامعنی (significant) وقفے کے بعد آنا ہے۔ گھر وہی، شام کا تارا وہی، رات وہی، سپنا وہی، مگر اب ’تیرے‘ لیے لمبی تان کر پہروں سونا ممکن ہے [اس کے برعکس ’’تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی‘‘ (غزل نمبر 2)]۔ ’مجھ‘ سے بے نیاز ہونے کے عمل میں یہ مقام آ چکا ہے۔ پھر اس نیند کو بھی’ ’ایک انوکھے وہم کا جھونکا‘‘ اُڑا اُڑا دیتا ہے اور ایک دن یہ، وہم ’تجھ‘ کو گھیر لیتا ہے اور ’تو‘، ’مجھ‘ کو سوتا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

لیکن یہ وہم کیا تھا؟ ایک نظر یہ یہ ہے کہ ہر خیال وہم ہوتا ہے۔— ’’یہ توہم کا کارخانہ ہے / یاں وہی ہے جو اعتبار کیا‘‘۔— جبکہ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو وہم بھی ایک خیال ہی ہوتا ہے۔ در اصل ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر بات کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی سے دُور ہونا چاہتے ہیں تو اُس کی باتوں کے وہی معانی ہماری سمجھ میں آتے ہیں جو ہمارے اور اس کے درمیان فاصلہ بڑھاتے ہوں (چاہے وہ ہمیں دل و جان سے چاہتا ہو) بصورتِ دیگر وہ معانی جو ہمیں اس کے قریب لے جاتے ہوں (خواہ وہ ہم سے کتنا ہی بیزار ہو)۔ اُس کے دل کی بات ہمیں بہت بعد میں پتا چلے گی۔ ’پہلی بارش‘ میں بھی آخری غزل میں ایک ایسا ہی انکشاف ملتا ہے:

تیرا قصور نہیں میرا تھا

میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا

اب میں سمجھا اب یاد آیا

تو اُس دن کیوں چپ چپ سا تھا

سو یہ اہم نہیں کہ یہ وہم کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ربط ٹوٹ چکا ہے۔ اس کا علم ابھی پوری طرح اس لیے نہیں ہوا کیونکہ جسمانی فاصلہ ابھی کم ہے۔ ایک مثال اس بات کی وضاحت کر سکے گی۔ اگر دو برابر کے پہیے، ایک ٹائی راڈ (tie-rod) سے جڑے، ایک ہموار اور سیدھے راستے پر چلے جا رہے ہوں اور یہ ٹائی راڈ ٹوٹ جائے (بغیر جھٹکے کے) تو تب بھی وہ ساتھ ساتھ اسی طرح چلتے جائیں گے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ ان کا آپس میں تعلق منقطع ہو چکا ہے۔ ذرا کہیں ناہموار سطح آئی اور یہ دونوں یا تو آپس میں ٹکرائے یا پھر مخالف سمتوں میں لڑھک کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوے۔ اگرچہ گھومتے گھومتے وہ دوبارہ بھی ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں لیکن ملنے کے لیے نہیں بلکہ پھر بچھڑنے کے لیے۔

دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ ’میری‘ کیفیت میں ہنوز کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ’تو‘ نے ممکن ہے خوب تجزیے اور غور و فکر کے بعد رختِ سفر باندھا ہو لیکن میرے خیال میں تجھے وہم ہی ہوا ہے۔ تیرے آنے پر میں ’تیرا‘ منتظر تھا اور ’وہی‘ سپنا دیکھ رہا تھا۔ تُو سو جاتا تو پہروں تجھے تکتا رہتا، تیری ایک صدا سنتے ہی گھبرا کر جاگ اٹھتا اور جب تک تجھ کو نیند نہ آ جاتی، تیرے پاس کھڑا رہتا؛ ماحول کو دلچسپ بنانے کی خاطر اور تیرے بیزار ہو جانے کے ڈر سے، نئی انوکھی بات سنا کر تیرا جی بہلاتا، اس آرزو میں اور اس امید پر کہ تیرے دل میں جانے کا خیال نہ آئے۔ میرے لیے وقت اتنی تیزی سے گزر گیا کہ ایک مہینہ ایک پل کے برابر محسوس ہوا۔ میرے لیے ابھی اس تعلق میں بہت کچھ باقی تھا، تیری طلب کم نہ ہوئی تھی، اسی لیے:

آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر

میں کتنا بے چین ہوا تھا

آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی

کل جہاں خوشبو کا پھیرا تھا

اگلی غزل ’میری‘ اور ’تیری‘ ان کیفیات کو مزید نمایاں کرتی ہے:

تجھ بِن گھر کتنا سُونا تھا

دیواروں سے ڈر لگتا تھا

بھُولی نہیں وہ شامِ جدائی

میں اُس روز بہت رویا تھا

تجھ کو جانے کی جلدی تھی

اور میں تجھ کو روک رہا تھا

’تجھ‘ سے بچھڑ کر ’میری‘ حالت غیر ہو جاتی ہے۔ طرح طرح کے خیال ستاتے ہیں۔ سناٹے میں کوئی دُور سے آوازیں دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ باہر کے مناظر کچھ کے کچھ دکھائی دیتے ہیں۔ نیند بھی خوف اور وسوسوں سے خالی نہیں ہوتی۔ بارھویں غزل میں ایسے ہی ایک فریبِ خیال (hallucination) یا ڈراؤنے خواب کا بیان ہے۔

تیرھویں غزل میں کہانی کا مرکزی کردار یا ’ہیرو‘ تنہائی کے آتش دان میں لکڑی کی طرح جلتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی خوشی اور تسکین کے لیے وہ اپنے سے باہر دیکھنے کا عادی اور محتاج ہے۔ ابھی اس نے اپنے اندر جھانکنا شروع نہیں کیا۔ اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ دوزخ اس مقام کو بھی کہتے ہیں جہاں فرد یا معاشرے کی نشو و نما رک جائے۔ اس وقت ’ہیرو‘ کی یہی کیفیت ہے۔ اسے جینا محال نظر آتا ہے۔— ’’دم ہونٹوں پر آ کے رُکا تھا / یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا۔‘‘ زندگی میں اس کی کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ اب اسے باہر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا:

میری آنکھیں بھی روتی تھیں

شام کا تارا بھی روتا تھا

گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں

چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا

لیکن خوش قسمتی سے اس کا دم نکل نہیں جاتا بلکہ حیات سے اس کا رشتہ بحال ہو جاتا ہے:

قیامت رہا اضطراب اُن کے غم میں

جگر پھر گیا رات ہونٹوں تک آ کر

(میرؔ)

جاں کنی کے عالم میں اسے دوزخ کی ایک واضح جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ’آگ کے سپنے‘ سے ’ایک رسیلے جرم کا چہرہ‘ نمودار ہوتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ زندگی جیسی نعمت سے لاپروائی برتنے کا مجرم بن رہا ہے۔ اسے اپنی وہ امکانی حالت نظر آتی ہے جو مسلسل، بے مقصد جلتے کڑھتے رہنے سے ہو سکتی ہے:

پیاسی لال لہو سی آنکھیں

رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا

بازو کھنچ کر تیر بنے تھے

جسم کماں کی طرح ہلتا تھا

ہڈی ہڈی صاف عیاں تھی

پیٹ کمر سے آن ملا تھا

وہم کی دیمک نے چہرے پر

مایوسی کا جال بُنا تھا

جلتی سانسوں کی گرمی سے

شیشۂ تن پگھلا جاتا تھا

مایوسی جہنم کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ لفظ ابلیس؛ ’بلس‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں، مایوسی۔ ’ابلیس‘ وہ جو مایوس ہو گیا۔ وہ آدم کے ارض پر خلیفہ بنائے جانے پر مایوس (disappoint) ہوا؛ اور جو خود مایوس ہو جائے وہ دوسروں کو بھی مایوس کرتا ہے، ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے؛ اور جنھیں اس سے پناہ نہ مل سکے، جو اس کے بہکاوے میں آ جائیں، ان کا مقدر بھی دوزخ ہے۔

’پہلی بارش‘ کا ہیرو اس انجام سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں جسمانی زندگی کی حدیں ختم ہونے لگتی ہیں اور موت دکھائی دینے لگتی ہے۔ سزا اور جزا کی منزل آ جاتی ہے۔ اسے حیات بعد الموت کا وجود محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ ڈر جاتا ہے۔ اسے زندگی کا وقفہ بہت غنیمت نظر آتا ہے۔ اس کے اندر جینے کی شدید خواہش اور طلب پیدا ہوتی ہے۔— ’’پیاسی کونجوں کے جنگل میں / میں پانی پینے اترا تھا۔‘‘

کونج یا قاز ایک ایسا پرندہ ہے جو موسمِ سرما میں گرم خطوں میں چلا آتا ہے۔ ان کے غول کے غول دریا کے کناروں پر ملتے ہیں اور یہ قطار باندھ کر اڑتے ہیں۔ گویا یہ حرارت اورپانی یعنی حیات کے لیے ناگزیر عناصر کا طالب اور متلاشی رہتا ہے۔ ایک تخلیقی آدمی کی زندگی بھی تلاش اور جستجو سے عبارت ہوتی ہے۔ نادیدہ کے درشن کی پیاس اور نا آفریدہ کی تخلیق کی لگن اسے سرگرداں پھراتی ہے۔ یہ دنیا اس کے لیے ’پیاسی کونجوں کا جنگل‘ ہے۔ کونجوں اور تخلیقی انسانوں کی ہم سفری اور ہم نوائی کا ذکر، ناصر کاظمی اور انتظار حسین کے مکالمے، ’نیا اسم‘ (مطبوعہ ’سویرا‘) کے پیش لفظ میں نہایت واضح اور بھرپور طور پر ملتا ہے:

’’جب چلتے چلتے ہنگامِ زوال آیا، دل نڈھال ہوا اور حال بے حال ہوا۔ ایک سوار نے سمندِ عزم کی باگ چھوڑی اور بولا کہ اس بیابان میں سفر بے اثر ہے، خاک پھانکنا بے ثمر ہے۔ خیال ترک کریں اور پلٹ کر بچھڑوں سے جا ملیں۔

ہم سفر بولا کہ جس راستے کو ہم نے چھوڑا وہ ہم پر بند ہوا۔ آگے کی راہیں کھلی ہیں، شوقِ سفر شرط ہے اور ہر قدم راستہ بھی ہے اور منزل بھی۔

انھوں نے باگیں سنبھالیں اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ اوپر تانبا آسمان، نیچے چٹیل میدان، سنسان بیابان، دھوپ میں جلتے بلتے پتھریلے ٹیلے، ریت کے رستے، اکا دکا بے برگ درخت، کوئی راہ گیر نظر نہ آیا کہ سراغ منزل کا لیتے اور پتا پانی کا پاتے۔ دُور کبھی دھول اڑتی نظر آتی تو خیال گزرتا کہ اس دشتِ بے آب میں اور مسافر بھی ہیں کہ اپنے طور کڑے کوسوں کا سفر کرتے ہیں۔

دن ڈھلنے لگا تو دلِ فزوں نڈھال ہوا۔ گلا پیاس سے خشک ہوا اور ابلق پسینے میں شرابور اور تھکن سے چور ہوے کہ اتنے میں سرپہ پیاسی آوازوں کی لکیر ہویدا ہوئی۔ دیکھا کہ قازوں کی ایک قطار ہے کہ قائیں قائیں چیختی ہے اور فضا میں تیرتی جاتی ہے۔ اس آواز کو انھوں نے غیب کی ندا جانا اور پانی کا پیغام سمجھا۔ گھوڑوں کو ایڑ دی اور قازوں کی ندا کے ہم رکاب یوں سرپٹ دوڑے کہ ابلقوں کی ٹاپوں سے دشت گونجا اور چنگاریاں اڑیں۔‘‘

یہ پیش لفظ مذکورہ غزل میں داخلے کا راستہ بن سکتا ہے۔ اس غزل میں آگ کے مقابلے میں پانی دکھائی دیتا ہے۔ جھلستے اور جلتے رہنے کے بعد یہ پانی اسے اتنا ٹھنڈا لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ دیر تک کانپتے رہتے ہیں۔ وہ پانی میں جھانکتا ہے تو اسے اپنے بھیتر کی گہرائیاں اور وسعتیں نظر آتی ہیں۔ اس کی آنکھیں جھانکتی ہی چلی جاتی ہیں۔ زندگی کے تقاضوں اور مرحلوں کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کا جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے۔ پانی اسے للکارتا ہے۔ پانی اتنا چپ چپ اور گم سم ہے گویا باتیں کر رہا ہو [(مجھ سے باتیں کرتی ہے / خاموشی تصویروں کی (دیوان)]۔ وہ پہلی بار اپنے آپ سے ہم کلام ہوتا ہے۔

اب وہ ایک نئے دیس میں اترتا ہے جہاں کا ’رنگ‘ (اس کے لیے) نیا ہے۔ یہاں ’دھرتی سے آکاش ملا تھا‘، جس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں ارض و سما کے قوانین میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے؛ وہ ایک دوسرے میں سرایت (interpenetrate)کرتے ہیں (انسانوں نے ارض و سما کو ہمیشہ بالکل الگ الگ اور ایک دوسرے سے لاتعلق قرار دیا ہے، حالانکہ ارض و سما کے بہت گہرے رشتے ہیں۔ ہر طرح کی نعمتوں کا نزول سما سے ارض پر ہوتا ہے)۔ یہاں انسانوں کے لیے نہ صرف افقی بلکہ عمودی یا ارتفاعی ترقی کے لامتناہی اور لا مسدود امکانات کھُلے ہیں۔ وہ جس حد تک چاہیں آگے جا سکتے ہیں اور جتنا چاہیں بلند ہو سکتے ہیں۔

یہاں دُور کے دریاؤں کا ’سونا‘، ہرے سمندر میں گرتا ہے۔ چلتی ندیاں ہیں اور گاتے نوکے۔ پانی کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ سارا شہر گویا نوکوں ہی میں بسا ہے۔ یہاں پانی اور زندگی واضح اور مکمل طور پر ایک ہو جاتے ہیں۔ شاید ’پانی‘ ہی کی طلب اسے یہاں لائی ہے۔ وہ ابھی تک تشنہ ہے۔— ’’ہنستا پانی، روتا پانی / مجھ کو آوازیں دیتا تھا۔‘‘ نئے دیس میں اترنا ایک نئے جیون کا آغاز کرنے کے مترادف لگتا ہے۔ ’وہ گھر‘، ’وہ رات‘ اور ’وہ سپنا‘ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ ’تیرا دھیان‘ مفلوج کرنے کی بجائے سہارا دیتا ہے۔ اسے زندگی کے دریا کی لہروں کا مقابلہ کرنے کی جرأت اور شکتی دیتا ہے۔— ’’تیرے دھیان کی کشتی لے کر/میں نے دریا پار کیا تھا۔‘‘

اس کے بعد وہ اک بستی میں اترتا ہے جو غالباً اسی نئے دیس میں ہے۔ سُرما ندی کے گھاٹ پہ جاڑے کا پہلا میلہ ہے۔ رقص و سرود کی محفل سجی ہے۔ کچھ یادیں اور کچھ خوشبو لے کر وہ اس بستی سے نکلتا ہے۔ لیکن:

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا

پھر تِری یاد نے گھیر لیا تھا

یاد آئی وہ پہلی بارش

جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا

یاد آئیں کچھ ایسی باتیں

میں جنھیں کب کا بھول چکا تھا

اگلی غزل میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا ’تیرے‘ شہر سے پھر گزر ہوتا ہے۔ ہوا اتنی تیز اور اداس ہوتی ہے کہ اس کا چراغِ دل بجھا جاتا ہے۔ اس کا دل ہنوز سُونا ہے اور تنہائی پیاسی۔ جنت ابھی دور ہے۔ اسی عالم میں ’تجھ‘ سے مشابہ ایک مسافر ریل چلنے پر اس کے مقابل آ بیٹھتا ہے۔ یہ مشابہت کچھ دیر کے لیے وجہِ تسکین بنتی ہے لیکن جدائی کا موڑ ہر سفر میں ہوتا ہے۔ ’تیری‘ طرح تیرا ’بدل‘ بھی بچھڑ جاتا ہے:

کوئی بھی ہمسفر نہ تھا شریکِ منزلِ جنوں

بہت ہوا تو رفتگان کا دھیان آ کے رہ گیا

(دیوان)

وہ شخص جس سے تعلق اپنی فطری انجام کو پہنچ کر ٹوٹا ہو، جس سے دوستی اپنے تمام امکانی مراحل طے کر چکی ہو، عرصۂ دراز کے بعد ملے تو ایک انجانی سی خوشی ہوتی ہے:

پھر ایک طویل ہجر کے بعد

صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر

(برگِ نے)

کوئی نیا موضوع نہ بھی چھڑے، کوئی نئی بات نہ بھی ہو، یادیں ہی تازہ ہو کر نئی بہار دکھا دیتی ہیں۔ ماضی اتنی قوت اور شدت سے رگ و پے میں داخل ہوتا ہے کہ مردہ لمحے زندہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا کوئی کھوئی ہوئی قیمتی متاع پھر مل گئی ہو۔ حالانکہ دل نے کبھی اس سے دوبارہ ملنے کی تمنا نہیں کی ہوتی، پھر بھی اس سے ملاقات ہونے پر ایسی خوشی ہوتی ہے جیسے کوئی خواہش پوری ہو گئی ہو۔ ظاہر ہے، اس سے جدا ہونے پر کوئی زخم لگا ہوتا تو اب ہرا ہوتا۔ یادوں کے پھول ہوتے ہیں، مہک اٹھتے ہیں۔

اس کے برعکس، عجیب بات ہے کہ ایسا شخص جس کے فراق میں آدمی ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتا رہا ہو، جس کی ایک جھلک دیکھنے کو آنکھیں پتھرا گئی ہوں، مل جائے تو رنج کم نہیں ہوتا۔ بقول حفیظ ہوشیارپوری:

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

’دیوان‘ میں بھی ایک شعر ہے:

تجھ سے مل کر بھی دل کو چین نہیں

درمیاں پھر وہی سوال پڑا

Heraclitus نے کتنا درست کہا ہے: ’’ہم ایک ہی دریا میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے۔‘‘ وقت ہر لحظہ ہم میں اور کائنات میں تبدیلیاں لاتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں پرانی قیود سے رہا کر کے نئے تقاضوں کی زنجیروں میں باندھ دیتا ہے۔ ہمارے شوق، حاجتیں، پسند نا پسند بدلتے رہتے ہیں مگر وہ تعلق جو ادھورا رہ جاتا ہے، ویسے کا ویسا رہتا ہے۔ جو دوست بچھڑ جاتا ہے، ہمیں اسی طرح یاد رہتا ہے جیسا کہ وہ تھا۔ وہ ہمارے ذہنوں میں پروان نہیں چڑھتا۔ چنانچہ جب ہم اس سے ملتے ہیں تو وہ حقیقت میں تو کچھ کا کچھ ہو چکا ہوتا ہے لیکن ہماری نظریں اُسی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں جس سے ہم جدا ہوے تھے۔ وہ کہیں ہو تو ملے۔ رنج اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ملنے کی جو ایک موہوم سی امید ہوتی ہے وہ بھی دم توڑ دیتی ہے۔ وہ مل کر بھی نہیں ملا:

کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے

بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے

(دیوان)

اب یہ اور بات ہے کہ ہم اس ملاقات میں دل کی تسلّی کے لیے بھی کوئی پہلو ڈھونڈ لیں:

دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا

ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

(دیوان)

مگر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ آمنا سامنا ملاقات نہیں کہلا سکتا اور اگر اسے ملاقات کہا بھی جائے تو بھی:

چاند نکلا تھا مگر رات نہ تھی پہلی سی

یہ ملاقات ملاقات نہ تھی پہلی سی

(دیوان)

اور دو چار بار ایسا ’آمنا سامنا‘ اور ہو جائے تو کیفیت بالآخر یہ ہو جاتی ہے:

برابر ہے ملنا نہ ملنا ترا

بچھڑنے کا تجھ سے قلق اب کہاں

(برگِ نَے)

’پہلی بارش‘ کے مرکزی کردار کو بھی ایسی ہی ایک اتفاقی اور غیر متوقع ’ملاقات‘ کا بھرپور تجربہ ہوتا ہے:

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا

یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

کتنی باتیں کی تھیں لیکن

ایک بات سے جی ڈرتا تھا

تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی

دل کا رنج تو دل میں رہا تھا

کسی پرانے وہم نے شاید

تجھ کو پھر بے چین کیا تھا

میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی

گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا

اک اجڑے سے اسٹیشن پر

تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا

تیرے ساتھ ترے ہمراہی

میرے ساتھ مرا رستا تھا

رنج تو ہے لیکن یہ خوشی ہے

اب کے سفر تِرے ساتھ کیا تھا

وہ ملاقات کی بدلی ہوئی نوعیت سے نہ صرف پوری طرح واقف ہو جاتا ہے بلکہ اسے قبول کر لیتا ہے اور محض کچھ دیر کی جسمانی ہمراہی کو غنیمت جانتا ہے۔ وہ جان چکا ہے کہ ہم سفری کی آرزو نہ صرف بے سود بلکہ باعثِ رنج بھی ہے۔

تعلق کی اصل نوعیت کا شعور، اپنی داخلی اور خارجی تبدیلیوں کا علم اور قبولیت اسے دوزخ سے مکمل طور پر نکال لیتے ہیں۔ اس آگہی کی بدولت اسے ’’جنت کا نقشہ‘‘ دکھائی دیتا ہے جہاں ہریالی ہی ہریالی ہے، نور ہی نور، رس ہی رس، مٹھاس ہی مٹھا س؛ جہاں کوئی وسوسے پیدا کرنے والا نہیں بلکہ ’’سایا سایا راہ نما‘‘ ہے۔ جہاں ’’گاتے پھول‘‘ ہیں اور ’’بلاتی شاخیں‘‘ ہیں اور ’’پتا پتا دستِ دعا ہے‘‘۔

اور یہ جنت اسے جلد ہی مل بھی جاتی ہے۔ تنہائی میں دریا دریا روتے ہوئے اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ ’’تنہائی کا تنہا سایا‘‘ دیر سے اس کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اسے خیال آتا ہے کہ جب سارے ساتھی چھوڑ گئے تھے تو تنہائی کا پھول کھلا تھا۔ تنہائی میں یادِ خدا بھی تھی اور خوف خدا بھی۔ تنہائی مخربِ عبادت بھی تھی اور منبر کا دیا بھی؛ اس کا پائے شکستہ بھی تھا اور دستِ دعا بھی۔ غرض اس کا سب کچھ تنہائی میں تھا، اس کا سب کچھ تنہائی تھی۔ وہ جنت جسے وہ باہر ڈھونڈ رہا تھا، اس کے دل میں چھپی تھی۔ وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ وہ تنہا تھا اور تنہا ہے۔ اس کے دل کی جنت تنہائی ہے۔

جنت کی دریافت اور حصول کے بعد وہ ’تجھ‘ سے اپنے تعلق کا ایک بار پھر جائزہ لیتا ہے۔ اب اسے یہ رشتہ اپنے صحیح رنگوں میں نظر آتا ہے۔ وہ اعتراف کرتا ہے کہ قصور اس کا ہی تھا جو وہ ’تجھ‘ کو اپنا سمجھا تھا۔ اب پتا چلا کہ’ ’وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا‘‘ حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ آخر میں وہ اپنی ’تقدیر‘ کو قبول کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے:

وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی

وہی ملا ہے جو لکھا تھا

دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ

تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا

کس کس بات کو روؤں ناصر

اپنا لہنا ہی اتنا تھا

لیکن اس سے یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ اس بات کا قائل ہے کہ کائنات میں ازل سے ابد تک جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے، لکھا جا چکا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی یا ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے پہلی ہی غزل میں کہا تھا، اور وہ بھی خدا کو مخاطب کر کے کہ وہ ایسا صبرِ صمیم ہے جس نے اپنی مرضی سے، اپنا اختیار استعمال کرتے ہوے بارِ امانت سر پہ لیا تھا۔ وہ جانوروں کی طرح ایک ہی بات کرنے پر، ایک ہی راہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں۔ اسے انتخاب کرنے کا استحقاق (privilege) حاصل ہے۔ وہ ایسا اسمِ عظیم ہے جس کو جِن و ملک نے سجدہ کیا تھا۔ اور جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’’جو پایا ہے وہ تیرا ہے / جو کھویا وہ بھی تیرا تھا‘‘، تو اس سے لاچاری کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے؛ انسان اس میں سے کچھ پا لیتا ہے، کچھ کھو دیتا ہے۔ اس کی خواہشوں کی تکمیل کا دار و مدار اس کے اپنے فیصلوں اور اپنی کوششوں پر ہے:

دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا

میں نے سفر موقوف کیا تھا

نئی انوکھی بات سنا کر

میں تیرا جی بہلاتا تھا

تجھ کو جانے کی جلدی تھی

اور میں تجھ کو روک رہا تھا

ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ

میں طوفانوں سے کھیلا تھا

انسان کے خیالات، اس کا اندازِ نظر، اس کی زندگی کو دوزخ بنا سکتے ہیں اور جنت بھی۔ جنت تلاش کرنے پر ملتی ہے:

وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی

میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا

اس کا نظریۂ تقدیر یہ ہے کہ ہر شے کی حدود ہوتی ہیں اور ان حدود سے جھگڑنا، انھیں توڑنے کی کوشش کرنا نہ صرف بے سود بلکہ مضر بھی ہے اور ان کو جاننے اور تسلیم کر لینے ہی میں فلاح ہے:

ان سے الجھ کر بھی کیا کرتا

تین تھے وہ اور میں تنہا تھا

میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی

گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا

اب تجھے کیا کیا یاد دلاؤں

اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا

دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ

تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا

’’وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی‘‘ سے مراد ہے کہ جو کچھ ہو سکتا تھا وہی ہوا ہے۔ عِلّت اور معلول میں ایک ناگزیر رشتہ ہوتا ہے۔ ’ ’وہی ملا ہے جو لکھا تھا ‘‘اور’ ’اپنا لہنا ہی اتنا تھا‘‘ کے معنی ہیں کہ جو بویا تھا وہی کاٹا، جو کیا تھا اس کاہی صلہ ملا۔ انسان کو ملی ہوئی صلاحیتوں کے کئی (مگر تعداد میں مقر ر) امتزاجات ممکن ہیں، مگر وہ ان میں سے ایک ہی کا انتخاب کر سکتا ہے اور کچھ چننے کے لیے بہت کچھ چھوڑنا بھی پڑتا ہے۔ انسان کا اختیار اس کی مجبوری بھی ہے اور اس کی مجبوری ہی میں اس کا اختیار مضمر ہے۔ زندگی ہر لحظہ چننے اور مسترد کرتے رہنے کا نام ہے لیکن انسان ایک بار فیصلہ کر لے اور اس کے مطابق عمل پیرا ہو تو پھر اس عمل کے عواقب کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ انتخاب سے پہلے آدمی کے سامنے کئی راہیں کھلی ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک پر چل نکلنے کے بعد باقی تمام اس کے لیے بند ہو جاتی ہیں۔ اب اگر بعد کو اسے یہ علم یا احساس ہو کہ اس کا فیصلہ غلط تھا، یا اسے چھوڑی ہوئی راہوں میں کشش محسوس ہونے لگے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجبور اور بے بس ہے۔ انسان ہر وقت ہر جگہ نہیں ہو سکتا۔ وہ سب کچھ کر نہیں سکتا، وہ سب کچھ ہو نہیں سکتا۔

(4)

آشنا درد سے ہونا تھا کسی طور ہمیں

تُو نہ مِلتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے

’پہلی بارش‘ محض دو اشخاص کے ملنے اور بچھڑنے کی کہانی نہیں ہے۔ ’میں‘ اور ’تو‘ علامتیں ہیں داخل اور خارج کی؛ نمائندے ہیں فرد اور معاشرے کے۔ ’’انسان کو معاشرے اور تنہائی دونوں کی ضرورت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے زوج ہیں یا اس کی زکا دونوں کی صحیح ترکیب ہی سے ممکن ہے۔ شاید اسی لیے انسان دوسرے انسان سے جدا ہو کر، تنہا ہو کر، رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں۔ وہاں وہ خود اپنے آپ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ وہاں ان کو عجیب عجیب باتیں سوجھتی ہیں جن تک ان کے شعور کی رسائی نہیں ہوتی۔ مارٹن لوتھر نے اس امر کا اعتراف کیا ہے۔ محبت کی پرورش کے لیے بھی تنہائی اور خاموشی کی ضرورت ہے۔‘‘ (اقتباس از ’ناصر کاظمی: ایک دھیان‘ از شیخ صلاح الدین)

لیکن عام آدمی تو تنہائی سے بھاگتا ہے۔ وہ اسیرِ بزم ہوتا ہے۔ ’’تنہائی عام آدمی کو اس لیے ڈراتی ہے کہ اس میں دنیا کے ہنگاموں کا شور ماند پڑ جاتا ہے اور کان خاموشی کا نغمہ سننے کی تاب نہیں لا پاتے، اس کے لیے دل کے کان کھولنے پڑتے ہیں۔ عام آدمی کو یہ عمل حالتِ نزع کے ممثل نظر آتا ہے۔ وہ گھبرا جاتا ہے، تنہائی سے نکل بھاگتا ہے اپنے آپ کو ہجوم میں گم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ (ایضاً)

چنانچہ خیالات اور جذبات کی پرورش کے لیے قدرت نے انسان کو لازماً بلکہ جبراً تنہائی اور خاموشی کے لمحات میں ڈالنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ حادثات، بیماریاں، پیاروں کا بچھڑنا وغیرہ، ایسے واقعات ہیں جو اسے درد سے آشنا کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف اور کٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔ لوگوں کی صحبت میں اس کا جی نہیں لگتا۔ بعض اوقات تو اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ درد اسے کانٹے کی طرح مسلسل، ہمہ وقت چبھتا رہتا ہے۔ زندگی بوجھل اور کٹھن ہو جاتی ہے۔ ایسے میں یا تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے اور موت کے راستے پر چل نکلتا ہے یا پھر اس کے اندر کا تخلیقی انسان جسے ناصر کاظمی ’شاعر‘ کہتے ہیں، بیدار ہوتا ہے؛ اس کی بہت سی خفتہ اور نہفتہ صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں، اور وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے:

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے

درد کی خامشی کا سخن پھول ہے

(دیوان)

ناصر کاظمی کے ہاں شاعری کے معنی بہت وسیع تھے۔ اپنے اسی آخری انٹرویو میں کہتے ہیں: ’’مجھے غزل، قطعہ، رباعی، آزاد نظم وغیرہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ تمھیں پتا ہے کہ شاعری صرف مصرعے لکھنے کا نام نہیں۔ شاعری تو ایک نقطۂ نظر ہے زندگی کو دیکھنے کا، چیزوں کو دیکھنے کا؛ ان کو موزوں طریقے سے بیان کرنے کا نام شاعری ہے۔‘‘ اسی گفتگو کا ایک اور ٹکڑا ملاحظہ ہو:

ناصر: آپ یہ دیکھیے کہ بعض لوگ مختلف شعبوں میں پڑے ہیں اور وہ شاعر ہیں، تخلیقی لوگ ہیں۔ ننھے ننھے مزدور۔— میں نے تو دفتروں میں بعض کلرکوں کو دیکھا ہے اور بعض ریڈیو میں، بعض ادھر اُدھر اور اداروں میں؛ وہ بڑے تخلیقی لوگ ہیں؛ وہ بڑے خاموش خادم ہیں۔ اس سے بڑا کون شاعر ہے۔— انجن ڈرائیور سے بڑا، جو کتنے ہزار اور کتنے سو مسافروں کو لاہور سے کراچی لے جاتا ہے اور کراچی سے واپس لاتا ہے۔ مجھے یہ آدمی بہت پسند ہے۔ اور ایک کانٹے والا، پھاٹک بند کرنے والا؛ یہ بھی شاعر ہیں، میری برادری کے لوگ۔ اپنا اپنا role ہے۔ آپ کو پتا ہے اگر وہ پھاٹک کھول دے، جب گاڑی آ رہی ہو، تو کیا قیامت آئے؟ بس شاعر کا بھی یہی کام ہے کہ کس وقت پھاٹک بند کرنا ہے؛ جب گاڑی گزرتی ہے، اس وقت۔

انتظار: لیکن ایسے شاعر بھی تو تم نے دیکھے ہوں گے کہ جب پھاٹک کو بند رہنا چاہیے، اس وقت کھول دیتے ہیں اور جب کھولنا چاہیے، بند کر دیتے ہیں۔

ناصر: کیونکہ وہ صرف اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ شاعر جو ہے وہ ساری انسانیت کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جب اوروں کا بھلا ہو گا تو اس کا اپنا بھلا خودبخود ہو گا۔‘‘

گویا انسان جو بھی، جہاں بھی ہو، تخلیقی ہو سکتا ہے؛ اسے تخلیقی ہونا چاہیے، یہی اس کی معراج ہے۔ لیکن اس معراج کو پانے کے لیے اسے تنہائی کے جوکھم سے گزرنا پڑے گا۔ ناصر کاظمی نے اپنے ایک ریڈیو فیچر، ’شاعر اور تنہائی‘ (مطبوعہ ’خشک چشمے کے کنارے‘) میں لکھا تھا: ’’روزِ ازل سے تنہائی شاعر کا مقدر ہے [یہاں مقدر سے مراد مجبوری نہیں بلکہ اس کے قرآنی معانی پر توجہ دینا ہو گی۔ ’’وَخلقَ کُلَّ شٗئیً فَقَدَّ رَہٗ تَقدِیرًا‘‘ (اللہ نے ہر شے پیدا کی اور اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ مقرر کر دیا)۔— ہر شے کے خواص اور امکانات اس کی تقدیر ہیں۔ اقبال کے ہاں بھی یہ لفظ انھیں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔] تخلیق کی لگن اسے خلوتوں میں لیے پھرتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انسانی تہذیب کا سورج تنہائی کے غاروں ہی سے طلوع ہوا۔ اس لیے تنہائی تخلیقی زندگی کے لیے ایک ناگزیر مرحلہ ہے۔ تخلیقی انسان زندگی کے لیے تنہائی کے دکھ اٹھاتا ہے اور جب اس بھری دنیا میں وہ اکیلا رہ جاتا ہے تو اپنے معبودِ حقیقی کے حضور یوں فریاد کرتا ہے:

تیری خدائی سے ہے میرے جُنوں کو گِلہ

اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو

انسان اپنے چار سو سے باہر نہیں نکل سکتا۔ آزادی انسان کی ازلی آرزو ہے لیکن تنہائی سے عہد نامہ کیے بغیر یہ آزادی ممکن نہیں۔

دنیا کی ہر شے تنہائی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اس عالم کی تمام مخلوقات تنہائی کے پردوں ہی میں نشو و نما پاتی ہیں۔ انسان شعور رکھتا ہے، اس لیے وہ تمام مخلوقات کے مقابلے میں سب سے زیادہ حساس ہے۔ شعور و آگہی کا یہ آشوب اسے آسمان و زمین کی وسعتوں میں حیران و سرگرداں لیے پھرتا ہے۔ شاعر کی تنہائیوں نے اس دنیا کے گوشے گوشے کو ایک حیاتِ تازہ بخشی ہے اور اس کی تنہائی کا یہ سفر ابد تک جاری رہے گا۔ ۔‘‘

’پہلی بارش‘ کے مرکزی کردار کی زندگی میں بھی ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب اس کے اندر کا شاعر بیدار ہوتا ہے اور اسے ایک نئی دنیا تخلیق کرنے پر؛ ایک نیا طرزِ زیست دریافت کرنے اور اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔— ’’پچھلی رات کی تیز ہوا میں / کورا کاغذ بول رہا تھا۔‘‘ وہ جب تک غیر تخلیقی زندگی بسر کرتا رہا، کمزور، خوف زدہ اور محتاج رہا؛ تنہائی اس کے لیے دوزخ تھی جس میں وہ ’’لکڑی کی طرح جلتا تھا‘‘، لیکن جب اسے شعور ملا، اس کا احساس جاگا، اس کے اندر تخلیقی سوتے پھوٹے، وہ قوی، جرأت مند اور خود مختار ہو گیا؛ اس نے اپنی جنت کو پا لیا، لیکن کہیں باہر نہیں بلکہ:

وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی

میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا

تنہائی مرے دل کی جنت

میں تنہا ہوں میں تنہا تھا

٭٭٭

ریورس گیئر ۔۔۔ سید رفیق حسین

نوٹ: مئی 1952۔ بحیرۂ بالٹِک کے کنارے آباد قصبے نینڈورف (Niendorf) میں جرمن ادیبوں کی ایک بعد از جنگ منڈلی ’گروپ 47‘ کی نشست جاری ہے۔ بیشتر مرد ادیبوں پر مشتمل اس محفل میں شمع ایک اکتیس سالہ عورت اِلسے آئخنگر (Ilse Aichinger) کے آگے آتی ہے اور وہ اپنی کہانی Spiegelgeschichte پڑھ کر حاضرین کو سناتی ہے (جس کا انگریزی ترجمہ آگے چل کر دو ناموں سے ہوتا ہے: Story in a Mirror اور A Story in Reverse)۔

اس کہانی میں زندگی کو اُلٹی سمت میں چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے، یعنی قبر سے پنگھوڑے کی طرف۔ واحد مخاطب (یعنی سیکنڈ پرسن) میں لکھی گئی اس کہانی کا مرکزی کردار (ایک عورت) موت سے بسترِ مرگ، وہاں سے اپنی صحتمند زندگی، بڑھاپے سے جوانی، اور پھر لڑکپن اور بچپن کی طرف سفر کرتی ہے اور آخرکار ناپیدا ہو کر عدم کا حصہ بن جاتی ہے۔ اِلسے آئخنگر نے اس نشست میں یہ کہانی سنا کر وہاں موجود نک چڑھے ادیبوں کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ جنگ عظیم کے اندوہناک واقعات سے گزرنے والے سماج کے لیے تو اس کہانی کی تخلیقی معنویت قابل فہم طور پر اثر انگیز تھی ہی، باقی دنیا کو بھی اس نے انسانی تقدیر اور تخیل کے معاملات کو نئے زاویے سے دیکھنے پر مائل کیا۔ اس کہانی کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اردو میں اس کا ترجمہ عالمی ادب کے پارکھ اور بے مثل مترجم محمد سلیم الرحمٰن نے ’اُلٹی کہانی‘ کے عنوان سے غالباً 1960 کی دہائی میں کیا۔

پچھلے مہینے دلّی میں نامور ادبی محقق عبد الرشید نے مجھے اطلاع دی کہ انھوں نے ماہنامہ ’ساقی‘ (مدیر: شاہد احمد دہلوی) کے 1930 کی دہائی کے کئی شماروں میں سید رفیق حسین کی کچھ ایسی تحریریں دریافت کی ہیں جو آج کے زیر اہتمام مجموعے ’آئینۂ حیرت‘ میں شامل نہیں۔ (انھوں نے اس مجموعے کے متن میں در آنے والی بہت سی غلطیوں کی بھی نشاندہی کی جو اصل پہلی اشاعت سے ملا کر نہ دیکھے جانے کے باعث ہوئیں۔ اب وہ میری درخواست پر اس مجموعے کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں۔) عبد الرشید کے دریافت کردہ ان نایاب متون میں مارچ 1939 کے ’ساقی‘ میں شائع ہوئی سید رفیق حسین کی ایک تحریر ’ریورس گیئر‘ کے عنوان سے شامل ہے جس نے مجھے نہایت خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ آپ کو بھی اس حیرت میں شریک ہونے کی دعوت ہے۔

اجمل کمال، مدیر ’آج‘

**

کس کو پڑی ہے کہ کوئی میری سُنے! ہائے، ظالم سمجھتے ہیں کہ بڈھا سٹھیا گیا ہے۔ افسوس، یہ دار المحن یونہی چلتا رہے گا۔ یہ دنیا رنج و غم و الم کا شکار ہی بنی رہے گی۔ انسانوں کی بستی وقفِ جور و ستم ہی رہے گی۔ مسکینوں پر ظلم ٹوٹتے ہی رہیں گے۔ گناہوں اور بدکاریوں کا دور دورہ یونہی رہے گا۔ افسوس کہ میری کوئی نہیں سنتا۔ بہتوں کو سمجھایا مگر کسی نے فکر نہ کی، یا جاتے ہی بھول گئے، عیش و عشرت کا شکار ہو گئے۔ ہاں، اب اُن کو کیا پڑی ہے! جن پر گزرتی ہے، گزرتی رہے۔ ان کی جانے بلا۔ افسوس، مجھے کوئی ہمدرد نسل انسان نہ ملا۔ ناظرین، آپ ہی کوشش کریں، کوئی من چلا ہمدردِ قوم راہیِ ملکِ عدم اگر مل جائے (مگر شرط یہ ہے کہ وضع قطع فردوسِ بریں کلاس کی سی ہو) تو اس سے میرا پیغام کہہ دیں۔ وہاں جا کر تھوڑا سا کام وہ کر دے، تمام دنیا پر احسان ہو گا۔ کام کچھ بھی نہیں، بالکل آسان ہے۔ وہاں پہنچ کر کسی دن ٹہلتا ٹہلتا پاور ہاؤس (Power House) چلا جائے۔ وہیں کہیں اس ہنڈولے کا گیئر بکس (Gear Box) ہے جو کہ ٹاپ اسپیڈ (Top Speed) میں پڑا ہوا ہے۔ ارے کون سی مشکل بات ہے! کوئی آہستہ سے اسے ریورس (Reverse) میں ڈال دے۔

خدا کی قسم، سب جھگڑے مٹ جائیں، چَین ہی چَین ہو جائے۔ دنیا اُلٹی چلنے لگ جائے، قدم بہ قدم جیسے آگے بڑھی تھی، پیچھے ہٹنے لگ جائے۔ سب جھگڑے چُک جائیں، گناہ پاپ مٹ جائیں، رنج و محن، جور و ستم نابود ہو جائیں۔ دنیا وہی رہے، دنیا کے گرم و سرد وہی رہیں، مگر خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، کھٹا اور میٹھا وہی رہے مگر تلخ کامی مٹ جائے۔ رنج رہیں مگر کُڑھنا نہ رہے۔ موت رہے مگر مرنا نہ رہے۔ ہائے، کیا ہی لطف آئیں! جنت کیا ہے؟ بے بھوک کا کھانا، بے دھوپ کا سایہ، بے خزاں کی بہار! بچّو، تمھاری جان کی قسم، دنیا جنت سے بڑھ جائے! ذرا دیکھو تو سہی، ہم ایسے بڈھے مجبوراً یہ شعر پڑھتے ہیں:

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

اور اگر دنیا الٹی چلنے لگ جائے تو یہ شعر نہ پڑھا کریں:

چشم مے گوں، چال مستانہ، شباب آنے کو ہے

اور کچھ دن ہیں کہ اس خُم میں شراب آنے کو ہے

چند دن میں اَدھیڑ ہوں، پھر جوان ہو جائیں اور آخر پھر ایک دفعہ شباب آ جائے۔ کسی دن میں کوڑے کے ڈھیر پر جا کر کھڑا ہوں۔ جونہی دور سے چٹکی اس پر کروں، ایک دانت اُس پر سے اٹھ کر چٹکی میں آ جائے۔ میں اُسے لیے ہوئے کمرے میں آؤں اور مزے سے لگا لوں۔ رفتہ رفتہ اُس کا ہلتا بند ہو جائے۔ باقی اور دانت بھی وقتاً فوقتاً اسی طرح واپس آ جائیں۔ سفید بال کم ہوتے ہوتے تمام سر کالا ہو جائے۔ آپ لوگوں کے واسطے بھی دیکھیے کتنے فائدے ہوں۔ اب یوں ہی سمجھیے کہ اتوار کے دن بارہ بجے سے خدا نہ کرے آپ کے بچّے صاحب طبیعت خراب کر کے آپ کو دھمکاتے ہیں۔ شام تک آپ کی بیوی صاحبہ پریشان ہو کر آپ کو ڈاکٹر کو لانے کے واسطے گھر سے دھکیلتی ہیں۔ آپ روانہ ہوتے ہیں۔ راستے میں ایک دوست کا مکان ملتا ہے۔ وہاں آپ برِج پر پکڑے جاتے ہیں۔ آپ بھی دل میں کہتے ہیں کہ اناپ شناپ کھاتا رہتا ہے، دست ہی تو آ رہے ہیں، صبح تک ٹھیک ہو جائے گا۔ اب آپ تاش میں لگ جاتے ہیں۔ چار آنے پوائنٹ کا کھیل ہو رہا ہے۔ ایک بجے رات کو جب آپ کی سب جیبیں خالی ہو جاتی ہیں تو آپ چونکتے ہیں۔ گھڑی دیکھتے ہیں، گھبرا کر گھر واپس آتے ہیں۔ یہاں معاملات برِج سے بھی زیادہ بگڑے ہوے نظر آتے ہیں۔ بچہ اب تک غذا کی پچکاریاں چھوڑ رہا ہے۔ گھر بھر جاگ رہا ہے۔ اب آپ سے کوئی بات تک نہیں کرتا۔ صبح ہوتے ہوتے، خدا نخواستہ خدا نخواستہ، شیطان کے کان بہرے، بچہ گڑی مڑی ہو جاتا ہے اور دن کے بارہ بجے تک آپ اُسے توپ کر واپس آتے ہیں۔ اچھا، اب یہیں تک رہنے دیجیے۔ یہ ٹاپ گیئر کا معاملہ ہے۔ اگر یہی حادثات ریورس گیئر میں وقوع پذیر ہوں تو کس قدر خوشگوار ہوں گے۔ پھر تصور کی دُوربین کا فوکس کیجیے۔ دن کے بارہ بجے آپ، مع احباب اور پڑوسیوں کے، تھوتھنی لٹکائے، شہر کے سُونے محلے میں تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں سے کھود کر بچے کو واپس لاتے ہیں۔ گھر میں رونا پیٹنا رہتا ہے، یہاں تک کہ شام ہونے لگتی ہے۔ آفتاب جس وقت مشرق کی طرف غروب ہونے لگتا ہے، رونا پیٹنا اس شدت سے ہوتا ہے کہ بچہ تھوڑی سی جنبش کرتا ہے، پھر کچھ اَور ہلتا ہے، پھر روتا ہے۔ اب وہی دستوں کی پچکاریاں چلنے لگتی ہیں۔ جوں جوں رات بڑھتی ہے، پریشانی کم ہوتی جاتی ہے۔ ایک بجے کے قریب آپ کپڑے پہن کر گھر سے نکل جاتے ہیں۔ اپنے دوستوں میں جا کرتا ش کھیلنے میں لگ جاتے ہیں۔ صبح سویرے، جب کہ سورج مغرب سے نکلتا ہوتا ہے، آپ جیبیں کھنکھناتے واپس آتے ہیں۔ آپ کی بیگم صاحبہ آپ سے بالکل راضی خوشی ہیں۔ بچہ اب بھی گندے کھیل میں مصروف ہے۔ دن کے بارہ بجتے بجتے اُس کا دل اس کھیل سے بھر جاتا ہے۔ کھٹولے سے اٹھ کر اَور کھیلوں میں لگ جاتا ہے۔ ہنسی خوشی گھر میں کھانا کھاتا ہے۔ چلو، تھوڑی دیر میں شام ہونے لگتی ہے۔ دن چھُپتے کی چائے اور ناشتہ آپ نوش فرما کر منھ دھوتے ہیں، سگریٹ پیتے ہوے چارپائی پر لیٹ جاتے ہیں، اور ابھی دھوپ ہی ہوتی ہے کہ سو جاتے ہیں۔

کہیے، کیسی رہی؟ بچہ آپ کا مُردہ سے زندہ ہوا، بیماری سے اچھا ہوا۔ خالی ہاتھ جوئے میں گئے، جیبیں کھنکھناتے واپس آئے۔ بیوی کا سب رنج اور غصہ کس مزے سے ختم ہوا۔ اجی اس الٹی چال میں تو روزبروز آپ کی اور اُن کی محبت بڑھتی ہی جائے گی، اب گھَٹنے کا کیا کام۔ کیا کہوں، بڈھا آدمی ہوں، میرے لیے زیب نہیں دیتا۔ بس اتنا کہتا ہوں کہ ایک دن وہ بھی آ جائے گا کہ اللہ رکّھے آپ دولھا ہوں گے اور وہ دلہن۔ کہیے، الٹی چال میں کیا لطف ہے! اب آپ کہتے ہوں گے کہ قبلہ، اس کے بعد ایک اور جو غضب ہے کہ پھر وہ جدا ہو جائیں گی۔ لوگ جمع ہوں گے، پلاؤ قورمہ اگل اگل کر دیگیں بھر بھر دیں گے۔ قاضی آ کر نکاح کی گتھی سُلجھا دے گا اور ہائے وہ ہمیشہ کے واسطے اپنے میکے چلی جائیں گی۔ ہاں، ٹھیک ہے، میاں صاحبزادے، بالکل درست ہے۔ مگر منچلا شباب جو اَب ہر دم لڑکپن ہی کی طرف رجوع ہو گا، تم کو اس جدائی کا قطعی غم نہ ہونے دے گا۔ تم اپنے لڑکپن کے طوفانِ سرور میں اس جدائی کو ہنس کر بھول جاؤ گے۔

میاں، یہ تو میری اور تمھاری زندگی کے معمولی واقعات ہیں، ذرا نگاہ اٹھا کر چاروں طرف دیکھو تو، کیا کیا تباہیاں پھیلی ہوئی ہیں، کیسے کیسے ظلم ہو رہے ہیں۔ کہیں بیوائیں گھٹ گھٹ کر روتی ہیں، کہیں مائیں رو رو کر نابینا ہوتی ہیں۔ کہیں بچے یتیم ہوتے ہیں، بے دودھ کے تڑپتے ہیں۔ بڈھوں کا سہارا اٹھ جاتا ہے، ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ اور پھر بے کسی تو دیکھیے، ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے ان مظلوموں پر ظلم ٹوٹتے ہیں اور پھر انھیں ہمیشہ کے لیے اُمید ہی کو خیرباد کہہ دینا پڑتا ہے … نہیں میاں، دنیا الٹی چلنا چاہیے۔ یہ سب مصیبتیں خوشیوں میں بدل جائیں گی، دنیا سے ہر برائی اٹھ جائے گی۔ جوا جوا نہ رہے گا، چوری چوری نہ رہے گی۔ جواری رات رات بھر جوا کھیلیں گے، لمبے لمبے داؤں لگائیں گے، لیکن جب اٹھیں گے مالِ طیّب ہی لے کر باہر نکلیں گے۔

چوری؟ چوری ایسے ہو گی کہ دن میں معمار آ کر ساہوکار کی دیوار میں نقب لگائیں گے، بلکہ ساہوکار صاحب خود کھڑے ہو کر معماروں سے نقب لگوائیں گے۔ رات کے سناٹے میں چور آ کر روپے اور زیور مناسب مقام پر رکھ کر سوکھی اینٹوں اور سوکھے گارے سے نقب کو اس خوش اسلوبی سے بند کر دیں گے کہ در اصل اصلی دیوار ہو جائے گی۔ واہ وا، ہاتھ چوم لیجیے ایسے چوروں کے! اجی اور تو اور، یہ ظالم قصائی واللہ پوجنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہر قصائی دن بھر اپنی دکان پر بیٹھے بیٹھے گاہکوں سے بوٹیاں لے لے کر، ان کو جوڑ جوڑ کر، بکروں کے ڈھانچے تیار کریں گے اور شام کی سہانی روشنی میں مذبح میں ان لاشوں کو لے جا کر اپنے خنجرِ مسیحائی سے اچھلتے کودتے بکرے کھڑے کر کے زندہ جانور لے آیا کریں گے۔

بھیا، اس الٹی چال کو جس پہلو سے دیکھو، خوشنما ہی خوشنما ہے۔ میں کہاں تک بیان کروں، تم خود ماشا اللہ سے سمجھدار ہو۔ دیکھو بھائی، آج رات کو جب اپنے پلنگ پر لیٹتا تو میرے کہنے سے ان مسئلوں پر بھی ہر پہلو سے غور کرنا۔ اول، مرغی اور انڈے کا مسئلہ۔ دوم، گیہوں اور کھیت کا مسئلہ۔ سوم، پیڑھی در پیڑھی کا مسئلہ۔ چہارم یہ کہ کیوں نہ اس عاجز خاکسار فلسفی عالم کی یادگار میں ایک میموریل یا اسٹیچو دہلی کے چاوڑی بازار میں کھڑا کیا جائے۔ خیر، یہ تو یونہی کہہ دیا، کیا میں جانتا نہیں، آپ لوگ خود قدر دان ہیں۔ یہ دماغ کے کیڑے نکال نکال کر کاغذ پر بچھاتا ہوں تو آپ ہی قدر دانوں کے واسطے۔ ہاں، تو اب دیکھیے۔ جب دنیا بگڑے ہوے ٹٹو کی طرح قدم بہ قدم پیچھے ہی ہٹنے لگ جائے گی تو عجب لطف آئیں گے۔ بندے کا مشغلہ بھی پُر لطف ہوا کرے گا۔ عینک لگائے، سر جھُکائے، سوچ سوچ کر، داڑھی کھجا کھجا کر، صفحۂ قرطاس سے اپنی تمام سیاہ کاریوں کو زبانِ قلم سے چاٹا کرے گا اور رجسٹر کے رجسٹر کورے کر کے دکاندار کو واپس کیا کرے گا۔ اجی صاحب، مجھی پر کیا منحصر ہے، وکیل موکلوں کی اصلی خدمت کیا کریں گے۔ ڈاکٹر، حکیم، اور خاص کر نیم حکیم تو خالص مسیحائی کیا کریں گے! قُرق امین حاتم زادے بن جائیں گے۔ اور تو اور، اسکول کے لونڈوں کی بھی مصیبت جائے گی۔ روز روز نئے نئے مشکل سے مشکل سبق یاد کرنے کے بجائے سب پڑھا لکھا بھُلاتے جانا کس قدر آسان ہو گا! برخوردار، میں کہاں تک اس کے فائدے بیان کروں۔ بس تم بھی میری طرح کوشاں رہو۔ کسی لیڈر منش، رقیق القلب، افشار الطبع، زاہد وضع کو تیار کرو کہ وہ جا کر یہ کام کر دے۔ جب ہزاروں سے کہو گے تو ایک تو کر ہی دے گا۔ اور میاں، جو میری کہو تو بے شک بڈھا تو میں بھی ہو گیا ہوں۔ مگر بھیا، اوّل تو یہاں سے جانے کو میرا جی ہی نہیں چاہتا ہے، اور اگر وہ کہتے ہیں، پا بدستِ دگرے، دست بدستِ دگرے، جانا ہی پڑے تو ساری عمر تو لوہار کی بھٹیوں، ڈھلائی کی بھٹیوں، بوائلروں کی بھٹیوں کی دیکھ بھال میں کٹی ہے، وہاں بھی بھٹیوں ہی کی دیکھ بھال کا کام سپرد ہو گا۔ اور بھئی، اگر بفرضِ محال، کسی غلطی سے بندے کو فردوسِ بریں میں بھیج دیا گیا تو پھر… پھر… پھر دیکھا جائے گا۔ وعدہ نہیں کرتا… وہ… یہ… اچھا، کہو تو کہہ دوں، مگر دیکھو، یہ بات کسی اور کو نہ معلوم ہو، تم ہی تک رہے۔ کان میں سنو۔ ارے بھیا، تب کون ہو گا جو ایک دفعہ وہاں پہنچ کر پھر گیئر کو ریورس میں بھی ڈال دے اور نتیجے میں ایک دن خود بھی حضرت آدم کی طرح واپس دھکیلا جائے۔ یارو، جو کہیں فرشتوں کی بھول چوک سے وہاں پہنچ گیا تو پھر تو میری بلا سے، ایسی ایسی ہزاروں دنیائیں ٹھوکریں کھاتی پھریں تو بھی میں ایسا کام نہ کروں گا کہ پھر وہ جگہ مجھ سے چھُوٹے۔ لو میاں، تم جانو تمھارا کام۔

٭٭٭

تشکر: اجمل کمال

مضامین

سفید فام جمالیات ۔۔۔ ناصر عباس نیر

سفید فام جمالیات، اثر و نفوذ کی کس بے مثال طاقت کی حامل ہوتی ہے، اکبر نے اسے شوخی و طنز سے پیش کیا ہے۔ پہلے شعر دیکھیے:

میری نصیحتوں کو سن کر وہ شوخ بولا

نیٹو کی کیا سند ہے، صاحب کہے تو مانوں

کلاسیکی اردو شاعری میں محبوب کو کئی صفاتی ناموں سے پکارا جاتا ہے: بت، کافر، ستم گر، قاتل اور شوخ۔ شوخی و شرارت اس کا شیوہ ہی نہیں، محبت کے اظہار کا ایک قرینہ بھی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی حیا میں بھی ایک شوخی ہوتی ہے (ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے /اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے: داغ)۔ اس کے پاس اظہار کے بے شمار قرینے اور اسالیب ہیں۔ شاید ہی کوئی کلاسیکی شاعر ہو، جس نے محبوب کی شوخی پر کوئی مضمون نہ باندھا ہو۔ 1۔ اکبر اس شوخ کی طبیعت میں ایک نئی اور عجب طرح کی شوخی دیکھتے ہیں۔ وہ پہلے عاشق کو سو طرح سے چھیڑا کرتا تھا؛ اپنی شوخیوں سے اس کی بے تابی کو بڑھایا کرتا تھا۔ عاشق کے سامنے رقیب سے اظہار عشق بھی کر لیا تھا، عاشق کو مجبور کرتا تھا کہ وہ اسے ملنے رقیب کی گلی میں پہنچے اور وہ بھی سر کے بل۔

2۔ محبوب کی گلی میں عاشق کا سامنا رقیب اور راستے میں ناصح سے ہوا کرتا تھا۔ اکبر کلاسیکی محبت کے اس ڈرامے میں ایک نئے کردار کو شامل ہوتے دیکھتے ہیں: صاحب۔ ناصح ایک ناپسندیدہ کردار ضرور تھا مگر غیر معتبر نہیں تھا۔ اب صاحب کے آنے سے، وہ اعتبار کے منصب سے معزول ہو گیا ہے۔ معشوق کی نگاہ ناز اس نئی حقیقت کو پا گئی ہے کہ عاشق اور ناصح، اب پہلے جیسے آزاد ہندوستانی نہیں رہے۔ ان کی’ قلب ماہیت‘ ہو گئی ہے۔ ان کی شناخت، کردار اور مرتبہ سب بدل گئے ہیں۔ وہ اب ’نیٹو‘ اور ’سبجیکٹ‘ ہیں۔

نیٹو صرف مقامی شخص نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا شخص ہے جو اپنی ہی زمین پر، اپنے ہی لوگوں، اور خود اپنی ذات کے آگے سند و اعتبار سے محروم ہو گیا ہے۔ سند، اب صرف صاحب یعنی گورے کی ہے۔ نیٹو کی ذات، شناخت اور اس کے نجی رشتوں کے لیے صاحب ہی کا کہا سند ہے۔ اکبر نے شوخی سے ضرور کام لیا ہے، مگر یہ انیسویں صدی کے ہندوستانیوں کا عام تجربہ تھا کہ بڑے سیاسی، تعلیمی مسائل سے لے کر نجی رشتوں تک، نیٹو غیر معتبر ہو گیا تھا۔ اس کا درجہ ایک ایسے وحشی، نیم مہذب یا بچے کی مانند تھا جسے یقین دلادیا گیا ہو کہ اس کے ماضی میں جو کچھ ہے، اس پر صرف ندامت ہی ظاہر کی جا سکتی ہے، اور وہ اپنے حال کو بہتر بنانے، اپنے سیاسی و تعلیمی نظام، اور اپنے ادب و آرٹ کے اخلاقی و جمالیات معیارات کا فیصلہ کرنے کی اہلیت سے محروم ہے۔ اس کی بقا گورے صاحب پر مسلسل انحصار میں ہے۔ نیٹو کے اس یقین کے بعد ہی، تہذیب آموزی کی اس تحریک (civilising mission) کو جائز قرار دیا جا سکتا تھا، جس کا مقصد نیٹو کو سدھانا تھا، نیز یورپی تعلیم، یورپی زبان، یورپی ادب اور یورپی آداب کو نیٹو کی روح میں پیوند کرنا تھا۔

اس بات کو کم ہی محسوس کیا گیا ہے کہ ’’نیٹو‘‘ نسل پرستانہ اصطلاح ہے، نہ صرف اپنے عمومی استعمال میں بلکہ اپنے لغوی معانی میں بھی نسل پرستانہ تلازمات کی حامل ہے۔ انگریزی میں لفظ نیٹو، فرانسیسی natif سے آیا ہے جس کے معانی فطری (natural)، پیدائشی(inborn)، وراثتی (hereditary) ہیں۔ فرانسیسی کا natif، لاطینی کے nativus سے ماخوذ ہے۔ اس کا مفہوم خلقی (innate)، اوّل روز سے موجود (produced by birth) ہونا ہے۔ پندرھویں صدی سے نیٹو کا لفظ کسی خاص جگہ پیدا ہونے، دیسی ہونے اور بیرونی (exotic) اور غیر ملکی (foreign) نہ ہونے کے مطالب میں استعمال ہونا شروع ہوا۔ اسی صدی میں، نیٹو کے مفہوم میں پابند ہونا (bound) اور محکومی میں پیدا ہونا(born in servitude or serfdom) شامل ہوئے۔ قدیم فرانسیسی میں naif کا لفظ ملتا ہے جس سے مراد وہ عورت ہے جو پیدائشی کنیز ہو۔

3۔ یہ ایک دل چسپ اتفاق ہے کہ نسل (race) کے مفاہیم میں بھی پیدائشی، خلقی اور وراثتی خصوصیات کا ہونا شامل ہے۔ یہ یورپی نسلی تفاخر ہی تھا، جس نے غیر یورپی محکوم لوگوں کے لیے نیٹو کی اصطلاح منتخب کی۔ نسل (race) کے لغوی معنی میں ’مخصوص ذائقوں کی شرابیں‘ بھی شامل ہے، اور یہیں سے، اس لفظ کے معنی میں کسی قبیلے، گروہ کے مخصوص اوصاف شامل ہوئے۔ تاہم عہد وسطیٰ میں، نسل کا لفظ ذات (caste) کے مفہوم میں استعمال ہونا شروع ہوا، اور اس سے مراد پودوں اور جانوروں کی پرورش تھا، اس کے بعد اسے اٹلی اور فرانس کے شرفا کے لیے برتا جانے لگا۔ صلیبی جنگوں کے بعد سے نسل کے مفہوم میں ’ثقافتی لسانی‘ (ethnic) عناصر شامل ہوئے، اور اسے پہلے مسلمانوں اور یہودیوں، پھر افریقی اور مقامی امریکیوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا اور اس میں ’خون کے ناخالص ہونے‘(impurity of blood) کا معنی شامل ہوا۔

4۔ یہ رائے قائم کی گئی کہ خون کا یہ ناخالص پن نسل در نسل برقرار رہتا ہے، اور اس بنا پر ہر نسل علاقائی و مقامی تصور کی گئی۔

نیٹو بھی ایک ایسی نسل ہے، جس کی خصوصیات علاقائی ہیں اور ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ اسی طرح سفید فام بھی ایک ایسی نسل ہے، جس کی علاقائی (یورپی) خصوصیات مستقل ہیں اور وہ پیڑھی در پیڑھی منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ چناں چہ جب ہندوستانیوں کو ہندوستانی، مسلمان، ہندو، سکھ، پارسی کے بجائے نیٹو کہا جاتا تو در اصل انھیں یورپی حکمران نسل سے جدا کیا جاتا۔ ہندوستان کے ان مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کے حامل انسانی گروہوں کو یکساں مقامی ومحکوم کی شناخت دی جاتی۔ اس نوع کی یکساں شناخت، حکمرانوں کو غیر معمولی سیاسی اختیار دیتی ہے۔ وہ یکساں شناخت کے متنوع انسانی گروہوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔

نیٹو ایک الگ شناختی زمرہ تھا جو سفید فام یورپیوں کے شناختی زمرے سے یکسر الگ تھا۔ نیٹو کا لفظ التباس سے بھر پور تھا۔ اپنے لغوی معانی میں، نیٹو مقامیت، زمین، اصل سے وابستہ شخص ہے مگر استعماریت کی پیدا کردہ تاریخی صورتِ حال میں یہی نیٹو اپنی ہی زمین پر اجنبی، اپنی دیسی شناخت سے کٹا ہوا اور اپنی اصل سے برگشتہ ہے۔ سفید فام یورپی، اپنی اصل کو، بیرونی جگہوں پر بھی جس شدت سے برقرار رکھتا ہے، اسی شدت سے نیٹو کو اپنی اصل سے برگشتہ رکھتا ہے۔ وہ اپنے سفید فام اور یورپی الاصل ہونے کی حقیقت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ وہ مقامی آبادی سے فاصلے پر رہتا ہے۔ نئے شہر بساتا ہے یا پرانے شہروں سے خاصے فاصلے پر اپنی اقامت گاہیں اور چھاؤنیاں تعمیر کرتا ہے۔ اپنے دفاتر، تعلیمی ادارے، لائبریریاں، تفریحی کلب، نیٹو کی آبادی سے کافی فاصلے پر قائم کرتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر ایک انتباہی نوٹ درج ہوتا ہے: یہاں ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ منع ہے۔ اس فاصلے کی منطق، جواز اور عملی ضرورت کو نسل پرستانہ پس منظر ہی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی یورپی، سفید فام نسل سے تعلق رکھتا ہے، اور وہ محض یورپی سفید فام ہونے کے باعث تمام کالے، گندمی، بھورے، سرخ نیٹو سے ممتاز وبرتر ہے۔ واضح رہے کہ نیٹو کی اجنبیت اور برگشتگی، خود اس کی کسی خلقی کمزوری کے سبب نہیں، سفید فام استعماری نظم کے باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں مقامیت کی بحالی (nativity) کے ضمن میں جو تحریکیں چلیں، وہ مقامی شخص کی اپنی مقامی زبان، ثقافت اور شناخت سے برگشتگی کے خاتمے کو اپنا منشور بناتی تھیں۔

قدیم اور عہد وسطیٰ کے حکمران دو دنیائیں تشکیل دیتے آئے ہیں: حکمرانوں، ان کے حلیفوں کی دنیا اور اپنے محکوموں کی دنیا۔ پہلی دنیا اپنے قلعوں، محلات، معابد، مقابر کی عظیم الشان عمارات اور باغات اور طرح طرح کے تعیشات سے پہچانی جاتی ہے۔ اس دنیا کی جگہ اور آبادی مختصر ہوتی ہے مگر زیر نگیں کے وسیع رقبے کے چپے چپے پر اسی دنیا کا حکم اور سکہ چلتا ہے۔ یہی زیر نگیں دنیا دوسری دنیا ہوتی ہے۔ ان دونوں دنیاؤں میں فاصلہ بھی موجود ہوا کرتا تھا، اور یہی فاصلہ در اصل محفوظ حکمرانی کو ممکن بناتا تھا۔ یورپی استعمار نے بھی دو دنیائیں تشکیل دیں۔ یورپی استعمار ہر معاملے میں اختراع سے کام لیتا تھا۔ دو دنیاؤں کی تشکیل میں بھی اس نے کئی اختراعات کیں۔ ان میں سب سے اہم اختراع نسل کو اپنے سیاسی تصور سے لے کر علمی، ادبی، ثقافتی، سائنسی و فلسفیانہ تصورات تک میں بروے کار لانا تھا۔ واضح رہے کہ نسل پر تفاخر اور نسل کی بنیاد پر امتیاز، یورپی استعمار کی اختراع نہیں تھے، انھیں باقاعدہ آئیڈیالوجی کا درجہ دینا اور اپنے علم و اقدار کی بنیاد میں شامل کرنا اختراع تھا۔

دوسرے، مختلف اور اجنبی لوگوں کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات انسان قدیم زمانے سے محسوس کرتا آیا ہے۔ اپنے خاندان سے باہر کے لوگ، آدمی کے لیے دوسرے، مختلف اور اجنبی رہے ہیں۔ خاندان توسیع پا کر قبیلہ بنا ہے۔ تاہم خاندان اور قبیلے میں ایک بنیادی فرق ہے۔ خاندان کو خون کا رشتہ یکجا رکھتا ہے، جب کہ قبیلے کی یکجائی کا انحصار ان کہانیوں، روایتوں اور قدروں پر ہوتا ہے، جن کی پاسداری کا ایک غیر تحریری حلف قبیلے کے سب افراد اٹھاتے ہیں۔ خاندان یا قبیلے کے دوسرے، مختلف اور اجنبی لوگوں کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات کی نوعیت دفاعی ہوتی ہے۔ آدمی کے لیے اپنی ہی نوع سب سے زیادہ معما رہی ہے۔ جانوروں کے ہر عمل کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے، آدمی کے عمل کی نہیں۔ چناں چہ قدیم زمانے میں خود سے مختلف آدمیوں سے، لوگ خوفزدہ ہوا کرتے تھے، اور انھیں ناپسند کرتے تھے اور ان سے دور رہا کرتے تھے۔ جب کبھی خود سے مختلف لوگوں سے سامنا ہوتا تو ان کا ٹھٹھا اڑایا جاتا اور انھیں دور بھگایا جاتا۔ نئے، مختلف، اجنبی آدمی کو اپنے قبیلے میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ جذبات آج بھی سب انسانوں میں کم یا زیادہ موجود ہیں۔ اجنبی سے خوف اور اس کے لیے ناپسندیدگی، آج بھی عام انسانی جذبہ ہے۔ نسل پرستی کی بنیاد خود اپنے خاندان، قبیلے کے ساتھ رہنے اور محفوظ رہنے کی جبلی خواہش تھی۔ البتہ نسل پر تفاخر اوراسے ایک نظریے کی صورت دینے کا سبب جبلی نہیں، سیاسی ہے۔ جبلی جذبہ اپنی خام صورت میں اتنا خطرناک صورت اختیار نہیں کرتا، جس قدر یہ سیاسی صورت اختیار کر کے مہلک ہو جاتا ہے۔

دوسروں کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات کا اظہار قدیم سے ہوتا رہا ہے۔ مثلاً یونانی، یونانیوں اور بربروں میں فرق کرتے تھے۔ بر بر سے مراد وہ لوگ تھے جو یونانی نہیں بول سکتے تھے، بڑبڑاتے تھے، بربر کرتے تھے۔ گویا یونانیوں کے یہاں لسانی تفاخر تھا۔ یہی تفاخر عربوں کے یہاں بھی تھا جو غیر عرب لوگوں کو عجمی یعنی گونگے کہا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ لسانی تفاخر میں علمی و ادبی تفاخر بھی شامل ہو جایا کرتا ہے۔ اسی لیے یونانیوں کے نزدیک وہ سب لوگ بربر تھے، جنھوں نے مدنیت کے آدرش (politikos) کو قبول نہیں کیا تھا اور مطلق العنان طرز حکمرانی کو ترجیح دی تھی۔

5۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یونانی نسل پرستانہ خیالات سے یکسر خالی تھے۔ رنگ کی بنیاد پر دوسروں کی شناخت کی ابتدائی مثالوں میں ایک مثال یونانیوں کے یہاں ملتی ہے۔ ایتھوپیا کا لفظ یونانی ہے، جس کا مفہوم ’جلے ہوئے چہرے والا‘ ہے۔ ایک دل چسپ مماثلت یہ ہے کہ عبرانی کا حام ch’m سے ماخوذ ہے۔ یہ لفظ بھی سیاہ اور جلے ہوئے کا مفہوم رکھتا ہے۔ حام، کنعان کا بیٹا تھا، جسے نوح نے بد دعا دی تھی کہ وہ آخر دم تک غلام رہے گا۔ بعد میں بائبل کے اس نظریے کو افریقی غلاموں کی غلامی کے لیے بہ طور دلیل استعمال کیا گیا ہے۔

اگرچہ رومیوں نے ایک سیاہ فام سپ ٹیموس سیوروس (Emperor Septmus Severus۔ ۱۹۳۔ ۲۱۱ء) کو اپنا بادشاہ بنایا تھا۔

6۔ مگر وہ مشرقیوں اور دوسری قوموں کو کمتر خیال کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے اکثر بڑے فاتحین، نسلی برتری کے زعم میں مبتلا رہے ہیں۔ مثلاً، ’’ چنگیز اور ہلاکو نے جب ایران اور بغداد کو تاراج کیا تو توسیع پسندی کے ان عزائم کے ساتھ ساتھ نسلی برتری کا مغالطہ بھی کارفرما تھا۔ دجلہ و فرات کے سواروں نے جب آج سے پانچ ہزار برس پہلے دریائے نیل کے کناروں کو روند ڈالا، اس وقت بھی ان کا یہی خیال تھا کہ وہ مصریوں سے برتر قوم ہیں۔ مغل، ترک اور ایرانی اپنے کو ایک دوسرے سے ہمیشہ برتر سمجھتے رہے۔ رومیوں نے سارے یورپ پر اپنا سکہ جمایا۔ سسرو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اپنے غلام بھی ہندوستان سے حاصل نہ کروکیوں کہ انگریز اس قابل ہی نہیں کہ وہ غلام بن سکیں‘‘۔

7۔ یونانی اور رومی یقین رکھتے تھے کہ لوگوں کے جسمانی اور ذہنی خد و خال، ان کی آب و ہوا اور جغرافیے کی پیداوار ہیں۔ جسم کی ساخت، جسمانی کمزوری یا طاقت، کردار کی سختی یا نرمی، ذہانت کی تیزی یا غبی پن، ذہن کی آزادی یا محکومانہ رویے، آب و ہوا اور جغرافیے سے وابستہ ہیں۔

8۔ اسی سے یہ فرق بھی پیدا ہوا کہ پہاڑوں پر رہنے والے ان گھڑ اور غیر سماجی رویوں کے حامل ہوتے ہیں، جب کہ میدانی علاقوں میں رہنے والے شہری اور متمدن ہوتے ہیں۔

9۔ اس طرح کے خیالات، سیاست اور علم کے رشتے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ سیاسی طاقت، مغلوب عوام اور کمزور ہمسائیوں سے متعلق ایسے بہت سے دعوے کرتی ہے، جنھیں مستند و معتبر باور کرانے کے لیے اپنے زمانے کی علمی زبان میں پیش کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ حقیقی علمی بنیادوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ان دعووں کے منطقی تجزیوں، میں ان دعووں کے تضادات فی الفور نظر آنے لگتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھیے، یونان وروم کے سب شہری ذہانت کی تیزی کے حامل نہیں تھے، حالاں کہ وہ ایک ہی قسم کی آب و ہوا میں پیدا ہوتے اور بڑے ہوتے تھے۔ وہاں غلام بھی تھے اور عورتیں بھی، جن کے بارے میں وہاں کے فلسفیوں کے خیالات آج مضحکہ خیز محسوس ہوتے ہیں۔ افلاطون جیسا فلسفی (وقت پر اپنے مکالمے میں)کہتا ہے کہ مرددوں کو خود دیوتاؤں نے پیدا کیا ہے اور انھیں روح عطا کی ہے۔ راست باز مرد زمین پر اپنی زندگی مکمل کر کے ستاروں کی دنیا میں پرواز کر جاتے ہیں، جب کہ بزدل اور گمراہ مرد اگلے جنم میں عورتیں بن جاتے ہیں۔ گویا عورت ہونا، عظمت و رفعت سے معز ولی ہے، اور ایک سزا ہے۔

رنگ کی بنیاد پر تفریق کی اوّلین مثال یونانیوں نے پیش کی، یہ ہندوستانی برہمن تھے جنھوں نے رنگ کی بنیاد پر سماجی شناخت کا کڑا نظام قائم کیا۔ ڈھائی ہزار قبل مسیح، ہندوستان میں وسط ایشیا و ایران سے آنے والے آریا چار سو برس تک مقامی ہندوستانیوں سے برسر پیکار رہے۔ انھوں نے مقامی ہندوستانیوں کے خلاف دو جنگیں لڑیں۔ عسکری اور ثقافتی۔ دونوں میں مقامی لوگوں کو شکست دی۔ سفید رنگ کے ان آریاؤں نے سیاہ اور سانولے رنگ کے دراوڑوں کو جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے مغلوب کرنے کی سب ممکنہ چالیں چلیں۔ ثقافتی محاذ پر ان کے سب سے مہلک ہتھیار کا نام ’ورن‘ تھا۔ انھوں نے ورن کو نسلی امتیاز اور علیحدگی (segregation) کی بنیاد بنایا۔ نسلی بنیاد پر علیحدگی کی بدترین صورتیں بھی ان آریاؤں نے وضع کیں۔ ’’ورن کے لفظی معنی رنگ کے ہیں اور پہلے پہل آریوں اور داسوں کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے، اسے استعمال کیا گیا‘‘

10۔ آریاؤں سے شکست کے بعد دراوڑ، اپنی زمین پر آزادانہ جینے کے اختیار ہی سے محروم نہیں ہوئے، اپنی انسانی شناخت، عزت و وقار سے بھی محروم ہوئے۔ انھیں، شودر، داس، عفریت، راکھشس قرار دیا گیا۔ اس زمانے کے نیٹو اور سبجیکٹ۔ ’’ورن سے رنگ کا اتنا گہرا تعلق تھا جب آگے چل کر چار ذاتوں کو عام طور پر چار ورن کہا جانے لگا تو ان سے چار الگ الگ رنگ بھی منسوب کیے گئے‘‘

11۔ یہ چار ذاتیں: برہمن، چھتری، ویش اور شودر تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان چار ورنوں کے علاوہ بھی کچھ مقامی باشندے تھے، جنھیں ورن کے اس نظام سے یکسر باہر رکھا گیا۔ وہ اپنی زمین پر موجود تھے مگر ثقافتی شناخت تو دور کی بات ہے، انسانی شناخت سے بھی محروم تھے۔ نسل پرستی جس علیحدگی کی قائل ہوتی ہے، یہ اس کی ایک انتہائی صورت تھی۔ چناں چہ یہ باشندے چاروں ورن کے لوگوں سے بد تر قرار دیے گئے تھے، حالاں کہ یہ اصلی مقامی باشندے تھے۔ ’’ ورن کے نظام میں چار طبقوں کا ذکر ہے، اچھوتوں کی اس میں جگہ نہیں ہے۔ لیکن ویدک ادب میں ایسے گروہوں جیسے ایوگوا، چنڈال، نشاد اور پال کس کے حوالے آئے ہیں، جو ورن سے باہر ہیں اور جن سے نفرت کی جاتی ہے ۔۔یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ چنڈال اور پال کس، یہ دونوں گروہ ملک کے اصلی باشندوں کے دو گروہ تھے، جن سے آریہ کسی خاص وجہ سے نفرت کرتے تھے۔

12۔ خاص وجہ یہ تھی کہ انھوں نے آریاؤں کی غارت گری کو قبول نہیں کیا تھا اور اس کے خلاف ہاتھ اٹھائے تھے اور آواز بلند کی تھی۔

ہندوستان میں چار ورن کا نظام کیسے قائم ہوا؟ مسعود عالم فلاحی کے مطابق، جن لوگوں نے صلح یا غداری کی، اور آریاؤں کی طرف سے جنگ لڑی، وہ چھتری قرار پائے۔ حکومت کا نظم و نسق انھوں نے سنبھالا۔ جو غیر جانب دار رہے، وہ ویش بنے، ان کے ذمے مویشی پالنا اور زراعت آیا۔ جنھوں نے صدیوں تک آریاؤں کے دانت کھٹے کیے۔ ان میں سے کئیوں کو مار دیا، باقیوں کو شودر غلام بنا لیا۔ ان کے آگے دو طبقے کیے: سچھوت اور اچھوت۔ سچھوت وہ تھے، جو کچھ عرصہ کے بعد غیر جانب دار ہو گئے، انھیں امن سے رہنے دیا گیا۔ کولی، مالی، دھنیا، جولاہہ۔ کمہار، ڈوم اسی درجہ میں آتے ہیں۔ جنھوں نے جنگ جاری رکھی، انھیں اچھوت کہا گیا۔ انھیں زندہ رہنے کے لیے مردہ جانوروں کا گوشت کھانا پڑا۔ آریاؤں نے انھیں پاخانہ اٹھانے، سور اور گدھے چرانے کا کام سونپا۔ جاٹ، بھنگی، چمار، کھٹک، پشاد، چنڈال اسی درجہ میں آتے ہیں۔ انھی میں ایک طبقہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ہار نہیں مانیں گے۔ وہ جنگل چلے گئے: ناگا، بھیل، سنتھال، جرایو، جو آج بھی آریوں سے نفرت کرتے ہیں۔

13۔ آریاؤں نے مقامی باشندوں کی ذلت و تحقیر کو دوام دینے کے لیے، اساطیر کی طاقت کا سہارا لیا۔ انھوں نے ذات پات کے نظام کو مقدس دیوتائی نظام ثابت کرنے کے لیے اپنے تخیل کی بہترین صلاحیتیں وقف کیں۔ مثلاً یہ اسطورہ وضع کی کہ ’’واسطے ترقی عالم کے مکھ سے برہمن کو اور بانہہ سے کشتری کو اور جانگھ سے ویش کو اور پاؤں سے شودر کو پیدا کیا‘‘۔

14۔ شودر چوں کہ برہما کے پاؤں سے پیدا ہوا ہے، اس لیے ذلت اس کی تقدیر ہے۔ منو سمرتی ہی میں لکھا ہے کہ برہمن کے نام میں منگل یعنی خوشی شامل ہے، چھتری کے نام میں بل یعنی طاقت، ویش کے نام میں دھن یعنی دولت شامل ہے، جب کہ شودر کے لفظ میں نندا یعنی تحقیر شامل ہونی چاہیے۔ نام، خطاب، عرف وغیرہ میں شامل ہونے والی خصوصیت کو ابدیت مل جایا کرتی ہے۔ شودر کے لفظ میں شامل تحقیر کو بھی ابدیت ملی ہوئی ہے جو ان سب افراد کی تقدیر، ان کی پیدائش کے ساتھ ہی طے کر دیتی ہے، جو شودروں کے گھر میں پیدا ہوتے ہیں۔ شودر کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ وہ برہمنوں سے دور رہے گا۔ مقدس وید پڑھ سکے گا، نہ سن سکے گا۔ اگر کبھی ایسی جسارت کرے گا تو بدترین سزا کا حقدار ہو گا؛ اس کے گلے میں گرم سلاخ ڈالی جا سکتی ہے، وہ زبان جلائی جا سکتی ہے جس سے وہ مقدس وید پڑھنے کی جسارت کرے گا۔ دولت جمع نہیں کر سکے گا۔ باقی ورنوں کے لوگ ایک دوسرے کو گالی دیں گے تو اس کا ڈنڈ ہو گا، شودر کو گالی دینے کا کوئی ڈنڈ نہیں۔ ایک بڑی تحقیر اس کی تقدیر کے فیصلے میں شامل کی گئی۔ باقی تینوں ورنوں کے لوگ دوسرا جنم لے سکتے ہیں، اور جینو پہن سکتے ہیں مگر شودر کے لیے کوئی دوسرا جنم نہیں۔ اس کا ایک ہی جنم ہے، جس کا ہر لمحہ سماجی علیحدگی کے جہنم میں گزرتا ہے۔ شودر نجات کے کسی تصور کے بغیر، پربھو کی طرف سے ایک ہی کرم کرنے کا مجاز ٹھہرایا گیا: باقی تینوں ورنوں کی خدمت و حفاظت کرنا، اور وہ بھی صلہ و ستائش کے بغیر۔ اقبال نے نانک کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شودوروں کی حالت کو بھی موضوع بنایا۔

آہ شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے

درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

ملک راج آنند کے ناول اچھوت میں باکھا، شودروں کی حالت کا نمائندہ کردار ہے۔

آریاؤں نے ورن کے نظام کو ویدوں اور منو سمرتی کے ذریعے دوام ہی نہیں بخشا، مقامی باشندوں کی مزاحمت کو فراموش کیا نہ معاف۔ انھیں نہ صرف داس، عفریت، راکھشس جیسے قابل نفرت نام دیے، بلکہ اپنی مقدس کتابوں میں اس نفرت کے اظہار میں کوئی قباحت محسوس نہ کی۔ رگ وید کے دوسرے منتر میں ہے: ’’اس راکشش (عفریت) کو مارنے والے دشمن (شودر) کے نگروں کو توڑنے والے اندر نے سبھی سیاہ فام داسی (شودر) عورتوں کو مار ڈالا‘‘۔

15۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ ورن کا نظام، نسلی امتیاز ہی کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، تاہم رفتہ رفتہ اس میں لچک پیدا ہوتی گئی۔ وہ جامد کی بجائے ایک حرکت پذیر نظام میں تبدیل ہو گیا۔ بقول ایم۔ این سرنواس:

ذات پات کا نظام کوئی ایسا جامد نظام نہیں ہے، جس میں کسی ذات کا مقام ہمیشہ کے لیے معین اور مقرر ہو۔ حرکت پذیری ہمیشہ ممکن رہی ہے۔ خصوصاً اس نظام کے وسطی حصے میں۔ ایک نیچی ذات، ایک دو نسلوں کے بعد سبزی خور بن کر اور شراب نوشی ترک کر کے اور اپنے رسوم و رواج اور عقائد کو سنسکرت تہذیب کے تابع کر کے اونچی پوزیشن حاصل کر سکتی ہے۔

16۔ رنگ کی بنیاد پر نسلی امتیاز کی دوسری کوشش زیادہ بڑی اور زیادہ منظم تھی۔ یہ کوشش یورپی حکمرانوں نے اپنی سیاسی طاقت میں اضافے اور توسیع پسندی کی خاطر کی۔ ان دونوں کوششوں میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ مثلاً رنگ کو تفریق کی بنیاد بنایا گیا اور پھر اس تفریق کی بنیاد پر سماجی شناختیں وضع کی گئیں اور سیاسی نظم و نسق ترتیب دیا گیا۔ اس اشتراک کا سبب، محض یہ نہیں ہے کہ برہمنوں کی مانند یورپی بھی آریائی نسل سے تھے، (اور دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ہندو برہمنوں سے ایک قدیمی رشتہ داری محسوس بھی کرتے تھے، مگر ان میں دوسروں کے خون کے مخلوط ہونے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ’اصل‘ سے دور ہونے کے باعث، اس رشتہ داری کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے)، اور سفید رنگ کے تھے، بلکہ اس لیے بھی کہ دونوں مکمل غلبہ چاہتے تھے: سیاسی، سماجی، ثقافتی، اخلاقی، لسانی۔

ہندوستان میں مسلمان بھی حملہ آور بن کر آئے، مگر انھوں نے نسلی امتیاز کو اپنی حاوی پالیسی اور باقاعدہ سیاسی آئیڈیالوجی نہیں بنایا۔ یعنی محض نسل کی بنیاد پر اپنے طرز حکومت کو تشکیل نہیں دیا۔ ان کے حافظے میں خطبہ حجۃ الوداع کا وہ حصہ ضرور رہا ہو گا جس میں کہا گیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر فوقیت نہیں۔ آدمی، اپنے عمل یعنی تقوے کے سبب فضیلت رکھتا ہے، اپنے رنگ و نسل کے باعث نہیں۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ اسلام نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے نسلی تفاخر اور امتیاز کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کو ضرور قبول کر لیا اور عربی، ایرانی، افغانی اور مغل نسل کے لوگوں کو وہی مرتبہ ملا جو باہر سے آنے والے آریاؤں کا تھا اور انھیں حکومتوں میں عہدے بھی ملتے رہے۔ تاہم دوسری طرف اسی ہندوستان میں غلاموں کو بادشاہ بھی بنایا گیا۔ قطب الدین ایبک سے سلطان شمس الدین التمش اور غیاث الدین بلبن خاندان غلاماں ہی سے تھے۔ ایک عجب بات یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کا آغاز کرنے والے بھی یہی ’غلام بادشاہ‘ تھے۔ ان کے عہد حکومت میں ’’نچلے طبقے کے کسی مسلمان کا خواجگی، مشرفی یا مدبری کے عہدوں پر تقرر نہیں ہو سکتا تھا‘‘۔

17۔ مکمل غلبے کے لیے، سفید فام یورپی حکمرانوں نے لازم سمجھا کہ نسلی تفریق کو باقاعدہ ایک آئیڈیالوجی کی صورت دی جائے۔ اگرچہ نسل پرستی کی اصطلاح ۱۹۳۰ کی دہائی میں وضع ہوئی مگر نسل پرستانہ روشیں عہد وسطیٰ سے دکھائی دیتی ہیں۔ عہد وسطیٰ یورپ میں تاریک عہد کہلاتا ہے، مگر اسی عہد میں وہ دور دراز کے بر اعظموں کو ’تاریک‘ تصور کر رہا تھا اور اس تاریکی میں کئی قسم کی فنتاسیاں وضع کر رہا تھا۔ ان سب فنتاسیوں اور اساطیر کی جہت نسل پرستانہ تھی۔ جو خطے یورپ سے طویل بحری فاصلوں پر موجود تھے، انھیں وحشی، دشمن، نیم بشر لوگوں کی آماج گاہ سمجھا جا رہا تھا۔ اسی دور میں یورپ کئی قسم کی خیالی مخلوقات کا تصور بھی کر رہا تھا، جن کا ایک حصہ انسانی اور دوسرا کسی جانور کا تھا؛ جیسے فنیکس، ساطر وغیرہ۔ سولھویں صدی کے دوسرے نصف کا آغاز، نسل پرستی کی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ آج یہ تصور کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے کہ ان دنوں انگلستان جیسا ملک آلوؤں، تمباکو اور چائے کے بغیر تھا۔ وہاں زندگی پھیکی، بے مزہ اور بے رونق تھی اور دوسری دنیائیں دریافت کرنے اور مسخر کرنے کا محرک تھی۔ سفید فام یورپی اپنے ملکوں سے دوسرے بر اعظموں میں خزانوں کی تلاش میں نکل رہے تھے۔ واپسی پروہ واقعی خزانے انگلستان لا رہے تھے۔ انھی دنوں جان لاک گنی سے افریقی غلام لے آیا۔ یہ ’انسانی خزانہ‘ آگے یورپ کی معاشی ترقی کا سبب بننے جا رہا تھا مگر خود افریقیوں کو جہنم کے سپرد کرنے جا رہا تھا۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی میں ’’لیورپول، برسٹل اور لندن سے جہاز چلتے، جن میں ٹیکسٹائل، بندوقیں، چھری کانٹے، شیشے، موتی، بیئر ہوتی۔ انھیں افریقی ساحلوں پر اتارا جاتا اور ان کے بدلے افریقی غلام واپس انگلستان لائے جاتے‘‘۔

18۔ چائے اور کافی بھی انگلستان پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے میٹھے کی طلب بھی بڑھا دی تھی۔ اس طلب کو افریقی غلاموں نے گنے کی کاشت میں اپنی جانیں کھپا کر پورا کیا۔ برطانیہ نے سترھویں صدی میں افریقن رائل کمپنی قائم کی، اور اس کے ساتھ ہی افریقی غلاموں کی باقاعدہ تجارت شروع کی۔ زرعی اور صنعتی اشیا کے ساتھ ساتھ افریقی غلاموں کی خرید و فروخت ہو رہی تھی۔ اس تجارت نے یہ خیال پختہ کیا کہ افریقی نیم بشر (half-human) ہیں، اور اس بنا پر کم تر ہیں۔ گویا سفید فام یورپیوں کے سینے میں کوئی اخلاقی کانٹا چبھتا تھا۔ افریقیوں کو نیم بشر قرار دے کر، انھیں جانوروں کی قبیل میں شمار کر کے، یہ کانٹا نکال دیا گیا۔ اس سے افریقی غلاموں کی تجارت، جائز تصور کی جانے لگی۔

19۔ سترھویں و اٹھارویں صدیوں میں کوئی بیس ملین کے قریب افریقی غلام بنا کر یورپ لائے گئے۔ جو غلام راستے میں مر جاتے، انھیں سمندر میں پھینک دیا جاتا۔ ان کی موت کا کوئی تاسف ہوتا نہ ان کے لیے کوئی آخری رسم ادا ہوتی۔ وہ اس طور غرق بحر ہوتے کہ ’’نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا‘‘۔ ان کے مالک، ان کے ضمن میں کسی بھی ذمہ داری کا تصور نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایک قابل فروخت شے تھے، اور جب فروخت کے قابل نہ رہتے تو انھیں کسی بھی شے کی مانند بس ٹھکانے لگا دیا جاتا۔ وہ داس اور شودر کی مانند تھے۔ اسی دوران، ان کے سلسلے میں کئی اساطیر وضع ہوئیں۔ مثلاً یہ کہ وہ نیم انسان تھے، انسانی ارتقا میں ایک قدم پیچھے تھے۔ وہ شہوت پرست تھے۔ افریقی مرد کا عضو تناسل سائز میں بڑا تصور کیا گیا تو حبشی عورت کے جنسی اعضا کو عام جنسی اعضا سے ممیز کیا گیا۔ ۱۸۱۵ء میں سارا بارٹمن نام کی ایک سیاہ فام عورت کی طبی جانچ کی گئی تاکہ وضاحت سے دیکھا جا سکے کہ سرین سمیت اعضائے تناسل کیسے ہیں۔ اس کی موت سے قبل اس کے جسم کی نمائش کی گئی تاکہ یورپ کے لوگ اس کے پھولے کولھوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

20۔ یہ سب اساطیر، اخلاقی کانٹا نکالنے کی سعی محسوس ہوتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا سیاہ فاموں کو نیم بشر قرار دینے سے یورپ انسانی تاریخ میں بھی اخلاقی بریت حاصل کر پایا؟ جواب ہے: نہیں۔ انھی سیاہ فام غلاموں کی نسل سے تعلق رکھنے والے اور سیاہ فام ثقافتی شناخت کی تحریک (Negritude) کے بانی، ایمی سیزارے (۱۹۱۳ء۔ ۲۰۰۸ء) نے انیس سو پچاس کی دہائی میں لکھا تھا ’’یورپ، عقل کے پیمانے، یا ضمیر کے پیمانے کے آگے اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہے۔ نیز وہ تہذیب جو اپنے اصولوں کو دھوکے اور مکاری کے لیے استعمال کرے، وہ ایک مرتی ہوئی تہذیب ہے‘‘۔

21۔ جو شخص یا قوم اپنا اخلاقی دفاع نہ کر سکے، اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں: معافی یا تاویلات۔ استعماری یورپ نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس نے تاویلات کی ہیں اور اس ضمن میں انسانی ذہن کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کو برتا گیا ہے۔ تاہم ان تاویلات کو چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ سیزارے کے بعد کو ٹونی موریسن نے ایک انٹرویو میں، سفید فام یورپیوں کو ضمیر کے کٹہرے میں کھڑے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر میں تم سے تمھاری نسل چھین لوں، تو تمھارے پاس کیا بچے گا؟ یہی چھوٹی سی ذات (little self)۔ تم نسل پرستی کے بغیر ہو کیا؟ تم میں کوئی خیر کا پہلو ہے؟ کیا اس کے بغیر تم طاقت ور ہو، چالاک ہو؟ کیا تم نسل پرستی کے بغیر خود کو پسند کرو گے؟‘‘۔

اٹھارویں صدی، نسل پرستی کی جدید اساطیر وضع کرنے کی صدی کہی جا سکتی ہے۔ اس سے پہلے سترھویں صدی میں شیکسپیئر اپنے ڈرامے اوتھیلو میں سیاہ فام اوتھیلو کو نفرت کا نشانہ بنا چکا تھا۔ اس ڈرامے میں ایاگو، باربینٹو سے کہتا ہے کہ اس کی بیٹی ڈیسڈیمونیا سیاہ فام اوتھیلو کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اوتھیلو کو وہ سیاہ مینڈھا (سیاہی جو شر کی علامت ہے) کہتا ہے اور ڈیسڈیمونیا کو ایک سفید بھیڑ۔ شیکسپیئر کے اکثر ڈرامے اس زمانے کی اساطیری کہانیوں پر مبنی تھے۔ ان کہانیوں میں کالے جادو سے متعلق کہانیاں بھی تھیں۔ جادو ٹونے (witchcraft)کے ذریعے، شر کی سیاہ قوتوں کو اپنے مقاصد میں بروے کار لایا جاتا تھا۔ شر، شیطان، عفریت، چڑیل، آسیب سب سیاہ تھے۔ کوئی دوسری شخصی، ذہنی، تخیلی خصوصیت نہیں، خود رنگ ان اساطیر کی بنیاد بنا۔ رنگ کو بنیادی اصول کا درجہ دیا گیا، جو اخلاقی اور جمالیاتی اقدار متعین کرتا ہے۔ سیاہ فامی خود اپنے آپ میں، کسی انسانی عمل و کردار کے بغیر، قباحت اور برائی کی حامل تھی۔ اسی طرح سفید فامی اپنے آ پ، کسی انسانی سعی کے بغیر، حسن، نیکی اور فضیلت کی حامل تھی۔ اٹھارویں صدی کے جمالیاتی مفکر ونکل مان(Winckelmann) نے چپٹی ناک کو بالخصوص قبیح قرار دیا۔ افریقی لوگ، ان کے خد و خال، ان کے اعمال سب حسن و اخلاق کے یورپی معیارات سے فروتر تھے۔ نیز یہ تصور کیا گیا کہ یونانیوں اور رومیوں کے یہاں انسانی جمال اپنی مثالی صورت میں موجود تھا

22۔ جدید یورپ نے یونانیوں اور رومیوں کو اپنے ثقافتی آباء و اجداد تصور کیا اور ان کے جمالیاتی معیارات کو رہنما بنایا۔

نسل پرستانہ اساطیر میں، سیاہی کو ’غیر‘ تصور کیا گیا۔ سیاہ رنگ اپنی حقیقی، مجازی، ممکنہ سب صورتوں میں، سفید رنگ کے لیے ’غیر‘ تھا۔ مثلاً اگر کالا جادو تھا تو سفید جادو بھی تھا۔ سفید جادو، خیر اور انصاف کی ان اقدار کے حصول کا ذریعہ تھا، جو عیسائیت سے مخصوص ہیں۔ یعنی سفید جادو مذہبی تعلیمات کے مطابق تھا۔ جب کہ کالا جادو، خدا کے سوا مافوق الفطری قوتوں سے استعانت طلب کرتا تھا، اس لیے کافرانہ تھا۔ سفید جادو کی غرض انسانیت سے تھی، جب کہ کالا جادو کی سب اغراض شخصی و نفسانی تھیں۔ شیکپیئر کے ڈرامے The Tempset میں پراسپیرسو سفید جادو کا ماہر ہے اور وہ اس کی مدد سے اپنی کھوئی ہوئی جاگیر، یعنی اپنا حق واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ سولھویں تا اٹھارویں صدی سیاہ فامی کو سفید فامی کا مکمل غیر بنانے کی صدیاں ہیں۔ اٹھارویں صدی ہی میں سیاہ فامی کی اساطیر کے لیے یورپی فلسفے نے اپنا کاندھا پیش کیا۔ فلسفہ اپنی نہاد میں ہر مفروضے کا منطقی تجزیہ کرتا ہے اور جدید یورپی فلسفے نے، بالخصوص ایمانوئیل کانٹ نے تو تنقید ہی کو فلسفے کا نام دیا۔ یعنی فلسفے کا کام چیزوں کا جواز پیش کرنا نہیں، ان کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔ آئرنی یہ ہے کہ اسی تنقیدی فلسفے کے امام کانٹ نے نسل پرستی کی یورپی اساطیر کو فلسفیانہ بنیادیں فراہم کیں۔ کانٹ سے پہلے ڈیوڈ ہیوم نسل پرستانہ خیالات پیش کر چکا تھا۔ اس نے فرانسیسی مؤرخ اور سیاسی مفکر مونتیسک (Montesquieu) کے اس نظریے کو تو ردّ کیا کہ طبیعی خد و خال انسانی کردار پر فیصلہ کن اثرانداز ہوتے ہیں۔ (واضح رہے یہ نظریہ یونانیوں کے یہاں پہلے سے موجود تھا اور ابن خلدون کے خیالات بھی اسی سے ملتے جلتے تھے۔ ابن خلدوں کے نزدیک انتہائی گرم اور انتہائی سرد اقالیم اخلاقِ انسانی پر اور اس کے نتیجے میں انسانی تمدن پر اثر انداز ہوتی ہیں اور کامل ترین تمدن صرف بلادِ معتدلہ میں پایا جاتا ہے۔

23۔ ہیوم نے یہ رائے دی کہ ہر قوم کے مخصوص اوصاف ہوتے ہیں، جن کا تعین وہاں کا نظام حکومت، دولت و غربت کی صورتِ حال اور عوامی معاملات کے نظم و نسق سے ہوتا ہے۔ صاف لفظوں میں وہ فطرت کی جبریت پر انسانی ارادے کو فوقیت دے رہا تھا۔ انسانی سماج کو تقدیر کے ہاتھوں یرغمال تصور کرنے کے بجائے، انسانی تدابیر سے ترتیب پانے والی ہیئت باور کرا رہا تھا۔ مگر یہی ہیوم قومی کردار کے سلسلے میں جس قدر منطقی اور مدلل فکر کا حامل تھا، سیاہ فام قوموں کے کردار کے سلسلے میں اسی قدر غیر منطقی اور سراسر متعصب تھا۔ اس نے اسی مشہور مقالے ’’کچھ قومی کردار کے بارے‘‘ (۱۷۴۸ء) کے حاشیے میں پانچ سال بعد لکھا کہ

میں اس بات کا یقین کرنے پر مائل ہوں کہ نیگرو اور عمومی طور پر انسانوں کی تمام انواع (کہ انسانوں کی چار یا پانچ قسمیں ہیں) سفید فاموں کے مقابلے میں فطری طور پر پست ہیں۔ سفید فاموں کے مقابلے میں کسی دوسرے رنگ کی کوئی انسانی نسل کبھی مہذب نہیں رہی، نہ کوئی [غیر سفید فام] فرد اپنے عمل یا فکر میں ممتاز ہوا ہے، نہ کوئی ان[غیر سفید فام لوگوں] میں فطین صنعت کار ہوا ہے، نہ فنون میں، نہ سائنسوں میں۔

24۔ نیگرو کے سلسلے میں وہ ’’نظام حکومت، دولت و غربت کی صورتِ حال، عوامی معاملات کے نظم و نسق‘‘ کے ان اصولوں کو یک قلم فراموش کر دیتا ہے جو قومی کردار کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہی فلسفے کی نفی و تردید کرتے ہوئے، مونتیسک کی اس رائے کو قبول کرتا محسوس ہوتا ہے جو انسانی کردار کی ذمہ داری طبیعی خد و خال پر عائد کرتا ہے۔ ہیوم کے نزدیک، سفید فاموں اور دوسری نسلوں کی ذہانت اور قوت اختراع میں یہ فرق مستقل اور یکساں تھا، اور فطرت ہی اس فرق کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ سفید فاموں کی سیاہ فاموں سے نفرت، ہیوم کی اس رائے میں مجسم ہو گئی ہے اور نفرت اپنے اظہار کے لیے اسی نوع کے خطابت آمیز پیرائے کو منتخب کرتی ہے۔ کانٹ کے یہاں ہیوم کی سی خطابت ہے نہ محاکماتی انداز مگر وہ انسانی نسلوں میں امتیاز رنگ ہی کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس نے اگرچہ چار انسانی نسلوں (سفید نسل، نیگرو، Hunnish یعنی منگول اور ہندوستانی (کا ذکر کیا مگر سفید اور سیاہ کو بنیادی نسلیں قرار دیتا ہے۔ وہ یکساں ابتدائی نسل میں یقین رکھتا تھا لیکن بعد میں ماحول، آب و ہوا اور جرثوموں سے پیدا ہونے والے امتیاز کو حتمی اور مطلق قرار دیتا ہے۔ نیز اس نے پرانے سٹریو ٹائپ کو از سر نو پیش کیا، جیسے یہ کہ نیگرو کی سخت بو، جس کا خاتمہ کسی طور نہیں ہوتا، اور سیاہ جلد کی سائنسی توجیہہ پیش کرنے کی سعی کی۔

25۔ کانٹ سیاہ فاموں سے متعلق سٹیریو ٹائپ کو خود اپنے وضع کردہ تنقیدی فلسفے کی رو سے نہیں پرکھتا۔ تسلیم کہ کوئی مصنف، خواہ وہ فلسفی ہی کیوں نہ ہو، اپنے ہر اظہار میں اپنی اساسی فکری شناخت کو برقرار نہیں رکھ پاتا، مگر وہ عام طور پر دو باتیں نہیں یاد رکھ پاتا۔ ایک یہ کہ اس کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ خود اس پر سب سے بڑا گواہ ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی اساسی شناخت ہی، اس کی جملہ تحریروں کے محاکمے کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔

فلسفے کے بعد یورپی سائنس میں بھی نسل پرستانہ خیالات پھیلے۔ انیسویں صدی نئی ایجادات، استعماریت کی غیر معمولی توسیع اور فطری و سماجی سائنسوں کے مثالی ارتقا کی صدی بھی ہے۔ جدید یورپی علوم، یورپی استعماریت کے توسیع و استحکام کے پہلو بہ پہلو فروغ پذیر ہوئے۔ ان علوم کو کئی مقامات پر استعماریت کو علمی بنیادیں استوار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ سائنسی علم کی manipulation ہے۔ اس کی اہم ترین مثال سائنسی نسل پرستی اور علم اصلاح نسل (Eugenics)ہے۔ جیسا کہ ہم واضح کر آئے ہیں، اٹھارویں صدی میں نسل پرستی، ایک متھ سے، فلسفے میں بدل چکی تھی، انیسویں صدی میں اسے سائنسی استناد فراہم کیا گیا۔ ۱۸۸۰ء سے ۱۹۳۰ء کا زمانہ سائنسی نسل پرستی کا ہے۔ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا، نسل پرستانہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی کتابوں The Origin of the Species اور The Descent of Man میں تمام نسل انسانی کو ایک ہی جد سے منسوب کیا تھا۔ ا س نے فطری انتخاب (natural selection)کے نظریے میں تبدیلیوں کے ذریعوں اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی بات ضرور کی۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا بیان کرتا ہے کہ انواع اپنی اصلاح، ایک حد تک کر سکتی ہیں۔ خود فطرت اور ان کا داخلی حیاتیاتی نظام، ان پر کچھ حدود عائد کرتا ہے۔ وہ ان حدود سے آگے نہیں جا سکتیں۔ سماجی ڈارون ازم میں یہ تصور مستعار لیا گیا۔ حیاتیاتی اصول کا اطلاق، سماجی دنیا پر کیا گیا۔ یہ رائے قائم کی گئی کہ جس طرح انواع اپنے ارتقا میں ایک حد سے آگے نہیں جا سکتیں، اس طرح سماج میں کچھ گروہوں کی سماجی حیثیت مستقل ہوتی ہے، یا ان میں اپنی اصلاح و ترقی کی نہایت محدود صلاحیت ہوتی ہے۔

26۔ حیاتیاتی ارتقا کے سائنسی اصول کو سماجی ارتقا کی وضاحت میں استعمال کرنے و الاہربرٹ سپنسر (۱۸۲۰۔ ۱۸۹۳) تھا، سماجی ڈارون ازم کا بانی۔ اس نے بقائے اصلح (survival of the fittest)کی اصطلاح گھڑی اور کہا کہ اسی کی مدد سے سفید فام قوموں نے فطری ضروریات سے ہم آہنگ ہو کر کم تر سیاہ فام نسلوں پر حکومت کی ہے۔

27۔ گویا سفید فام یورپی اشرافیہ، افریقا، ایشیا، آسٹریلیا، لاطینی امریکا کے لوگوں کو غلامی کی بدترین صورتوں کا شکار بنانے میں فطری طور پر حق بجانب ہے۔ اسی سائنسی نسل پرستی کو بعد میں جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ تاہم اسی یورپ میں کچھ لوگ ایسے موجود رہے ہیں، جنھوں نے سائنس کو سیاسی استعماری مقاصد کے لیے بروے لانے کی مخالفت کی۔ ۱۹۱۱ء میں کولمبیا یونیورسٹی کے ثقافتی بشریات کے ماہر فرانز بواس نے کہا کہ نسل، زبان اور کلچر میں کوئی تعلق نہیں۔ یعنی کوئی خاص نسل کوئی خاص کلچر پیدا نہیں کرتی، نہ کسی مخصوص زبان کی حامل ہوتی ہے۔ اس نے مزید یہ کہا کہ ابتدائی اور جدید انسان کے ذہن میں کوئی فرق نہیں۔

28۔ سائنسی نسل پرستی کی بنیادوں کو ’متعصبانہ‘ ثابت کرنے والوں میں فرانسیسی ماہر بشریات لیوی سٹراس بھی شامل ہے۔ اس نے و حشی اور جدید ذہن کی تقسیم کو بے بنیاد قرار دیا۔ وہ انسانی ذہن کے کچھ ساختیوں (structures) کو واضح کرتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تمام انساں یکساں ذہنی اعمال کو انجام دینے کے قابل ہیں۔

29۔ سائنسی نسل پرستی کو مغالطوں سے لبریز بیانیہ ثابت کرنے میں ایک اہم نام برطانوی جولین ہکسلے کا ہے۔ ہکسلے نے کہا کہ افریقیوں کو واحد نسل نہیں سمجھا جا سکتا؛ وہ مخلوط نسل ہیں۔ ۱۹۱۱ء ہی میں genotype اور phenotype کے فرق سے لوگ واقف ہوئے، اور نسل پرستی کی سائنسی بنیادوں پر ’سائنسی چوٹ‘ پڑی۔ جینو ٹائپ، کسی عضویے کے وراثتی امکانات کی وضاحت کرتا ہے۔ مثلاً کچھ جینز کبھی فعال نہیں ہوتے۔ باقی ایک مخصوص ماحول میں، مخصوص وقت پر فعال ہوتے ہیں۔ جینیاتی ساخت ہی یہ طے کرتی ہے کہ کس قدر ماحولیاتی تغیر، مختلف فینوٹائپ خصوصیات کا باعث بن سکتا ہے۔ فینو ٹائپ میں جلد کا رنگ، ناک کی ساخت وغیرہ شامل ہیں اور ان فینو ٹائپ کا کسی انسان کی شخصیت، اور امکانات سے کوئی تعلق نہیں۔

30۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سائنسی صداقتوں کے باوجود، نسل پرستانہ روش ختم نہیں ہوئی۔ مثلاً اصلاح نسل کا علم (Eugenics) آج بھی زیر بحث آتا ہے۔ اس کی بنیادیں قدیم ہیں۔ یونان میں رواج تھا کہ جب بچہ پیدا ہوتا تو اس کی صحت و تندرستی کا معائنہ ایک جماعت کرتی۔ اس کے زندہ رہنے یا پہاڑ سے زندہ پھینک دیے جانے کا فیصلہ یہی جماعت کرتی۔ اس علم کو سائنسی بنیاد فراہم کرنے میں ڈارون کے عم زاد فرانسس گیلٹن کا بنیادی کردار ہے۔ وہ اس خیال کا حامی رہا کہ اچھی نسل کا خون، اعلیٰ اوصاف کے انسان پیدا کر سکتا ہے۔ چناں چہ یہ خیال عام ہوا کہ سفید فام نسلوں کو سیاہ فام نسلوں سے مخلوط ہونے سے بچنا چاہیے، نیز صرف اعلیٰ نسل کے لوگوں کو باقی رہنے اور دنیا پر حکمرانی کا فطری حق ہے۔ امریکا کی بنیاد ہی میں نسل پرستی شامل ہے اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور دوسروں کی مساعی کے باوجود اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔

اساطیر، فلسفیانہ توجیہات اور سائنس، نسل پرستی کے گہرے متعصبانہ جذبات کو چھپانے اور جائز قرار دینے کا کام کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ عزیز احمد نے اپنی کتاب نسل اور سلطنت (۱۹۴۱ء) میں اس سوال اور کچھ دوسرے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ (عزیز احمد کے ناولوں: آگ، ایسی بلندی ایسی پستی، گریز کے علاوہ تنقیدی و تحقیقی کتب، جیسے ترقی پسند ادب، بر صغیر میں اسلامی کلچر، ہند و پاک میں اسلامی جدے دیت، اقبال کی نئی تشکیل کا ذکر تو خاصا ہوا ہے مگر اس کتاب کا نہیں ہوا۔) نسل پرستی اور سلطنت کا تعلق وقت کے ساتھ ساتھ کیسے بدلتا رہا ہے، اس کا تفصیلی تذکرہ بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔ عزیز احمد اس بات پر مسلسل زور دیتے ہیں کہ موجودہ انسانی نسلوں میں سے کوئی بھی خالص نسل نہیں ہے۔ سب انسانی نسلیں مخلوط ہیں۔ خالص نسل، صریحاً آئیڈیالوجی ہے؛ ایک پر فریب دعویٰ ہے، جس کے فریب کو تاریخ اور سائنس کی مدد سے چھپانے کی سعی کی جاتی ہے اور یہ سعی مطلقاً سیاسی ہے۔ اس بنا پر کسی بھی علم کو ’’خالص‘‘ قرار دینا آسان نہیں ہے اور کسی بھی ادب پارے کو بے غرض جمالیات کا مظہر کہنا دل گردے کا کام ہے۔ طاقت بھیس بدل بدل کر ان سب ذہنی و تخیلی مظاہر میں سرایت کر جاتی ہے۔ مکمل معروضیت کا دعویٰ رکھنے والے سائنسی علوم، اپنے کئی مفروضات کا مسالا سماجی دنیا میں جاری طاقت کی کش مکش سے حاصل کرتے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ لسانیات اور بشریات میں آریائی نسلی تصورات کس نفاست مگر کس گہرائی سے سرایت کر گئے ہیں۔ زبانوں کا سب سے ممتاز گروہ آریائی ہے۔ گویا جدید لسانیات، اپنی اصل میں نسل پرستانہ ہے۔ نسل پرستی کس طور دوسرے علوم میں سرایت کر گئی، اس کا اجمالی جائزہ عزیز احمد نے پیش کیا ہے:

لسانیات کو زبردستی انسانیات سے بھڑایا گیا۔ مذہبی دلائل پیش کیے گئے جو ذرا سی بھی سچی جرح کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ مابعد الطبیعیاتی تشریحیں کی گئیں۔ اخلاقیات اور نفسیات کا غلط استعمال کیا گیا۔ تاریخ کو اس قدر غلط طریقے پر لکھا گیا کہ اس کا اثر اس فن کی وقعت اور صحت پر پڑا اور اب کہیں جا کر تاریخ نگاری آہستہ آہستہ ان تعصبات کا پردہ چاک کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے جو انیسویں صدی میں ڈالا گیا تھا، معاشیات کی تقسیم شہنشاہیت کی بنیادوں پر دی گئی۔ علم حیاتیات کو توڑ مروڑ کر لال بجھکڑوں کی طرح نسل کے غلط نظریے قائم کیے گئے۔ قدم ترین نسلی، مذہبی، تمدنی تعصبات کو از سر نو ابھارا گیا۔ اور انتہا ہو گئی کہ علم نجوم کو بھی شہنشاہیت کے پروپگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔

31۔ انیسویں صدی میں آریائی نسلی تفاخر کو علمی کروفر کے ساتھ پیش کرنے والا میکس مولر تھا۔ اس کی نظر میں تاریخ ایک عظیم ڈراما ہے، جس کا کبیری ہیرو آریا ہے۔ اگرچہ تاریخ کے سٹیج پر آریا، سامی اور تورانی نسلوں کے بعد نمودار ہوئے ہیں مگر انھوں نے زندگی کے تمام عناصر کی ممکنہ حد تک نشو و نما کی ہے اور ان کا مشن ہے کہ وہ تہذیب، تجارت اور مذہب کی زنجیر کے ذریعے دنیا کے تمام حصوں کو جوڑ دے۔

32۔ عزیز احمد انیسویں صدی کی استعماریت کے لیے یورپی شہنشاہیت کی اصطلاح پسند کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ معاشی شہنشاہیت ہے، مگر یورپی حکمران اور ان کے ہم نوا مستشرق اس حقیقت کو چھپانے کی سعی کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی استعماریت کئی نقاب پہن کر کارفرما ہوتی ہے، لیکن اس نے یہ سب ’انداز دلربائی‘، انیسویں صدی کی استعماریت سے ورثے میں حاصل کیے ہیں۔ البتہ ان میں مسلسل جدت کی ہے، تاکہ اس کے وار پہلے سے کاری پڑیں مگر الزام کسی اور پر آئے۔ عزیز احمد کے مطابق ایشیا و افریقا میں یورپی شہنشاہی حکومتیں نسل پرستانہ تھیں، مگر اپنی معاشی جہت کی مانند اسے بھی چھپانے کا التزام کیا تھا۔ محکوم ملکوں میں تہذیب آموزی (civilising mission) کے جتنے بیانیے رائج ہوئے، جتنی انجمنیں، تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، ان سب کا مقصود، معاشی شہنشاہیت اور نسل پرستی پر پردہ ڈالنا تھا۔ عزیز احمد نے ایک اور بنیادی نکتے کو پیش کیا ہے جو مارکسی فکر سے اخذ محسوس ہوتا ہے۔ یہ کہ نو آبادیات سے چند یورپی طبقات براہر است فیض یاب ہوئے۔ انھی کے ملکوں کے کئی طبقات (یعنی وہاں کے عوام کالانعام) ان معاشی فوائد سے محروم رہے۔ اس اشرافی طبقے نے اپنی طبقاتی اغراض کو اپنے ہی ہم وطنوں کی محروم اکثریت سے اسی طرح چھپایا، جس طرح معاشی و نسل پرستانہ مقاصد کو محکوم ملکوں سے چھپایا۔

عزیز احمد کے اس تجزیے میں تین نکتے ہیں اور تینوں اہم۔ پہلا یہ کہ انیسویں صدی کی یورپی قوم پرستی میں وہی خدائی تفاخر ہے جسے وہ اپنی ’’خالص و برتر‘‘ نسل سے وابستہ کرتا ہے ؛ ہمچو ما دیگرے نیست۔ یعنی قوم پرستی و نسل پرستی میں ایک گہرا علمیاتی تعلق ہے۔ دوسرا یہ کہ قوم پرستی صرف نسل پرستانہ ہی نہیں، اشرافی تصور بھی ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ مقتدرہ کا تشکیل دیا ہوا، اس کے مقاصد کی نگہبانی کرنے والا تصور ہے۔ یہ عوام میں مشترک جذبات ابھارتا ہے، انھیں یک جا کرتا ہے ؛ ایک ’قوم‘ بناتا ہے۔ قوم کا مطلب ہی کچھ مشترک خصوصیات، مشترک تقدیسی و غیر تقدیسی علامتوں، مشترک کہانیوں، مشترک تاریخی سورماؤں (جن کے ساتھ مثالی، تخیلی خصوصیات وابستہ کی جاتی ہیں) کے سلسلے میں گہرے جذبات کا حامل ہونا ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ قوم کے جذبات کو لازماً ایک ہدف چاہیے۔ یہ ہدف وہی ہو گا جو اشرافیہ کے اغراض کی راہ میں رکاوٹ ہو گا۔ ’قوم‘ خود نہیں، ا س کے اشرافی نمائندے ہدف کا تعین کریں گے اور ’قوم‘ کی رائے تشکیل دینے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں کریں گے۔ جدید عہد کی قوم پرستی کی کوئی ایسی صورت تلاش کرنا مشکل ہے، جس کا کوئی دشمن نہ ہو۔ اکثر دشمن ایجاد کیے جاتے ہیں۔ یوں بھی انسانوں کا سمندر، جب قوم پرستانہ جذبات کے سبب ٹھاٹھیں مار رہا ہو تو اسے لازماً ایک ہدف چاہیے ؛ اندر، باہر کہیں بھی۔ کیا ہم جدید عہد میں کسی ایسی قوم کی نشان دہی کر سکتے ہیں، جو کسی ’غیر‘ کے بغیر اپنا اظہار کرتی ہو؟ یہ غیر کئی ناموں سے وجود رکھتا ہے: وحشی، اجڈ، راکھشس، دشمن، دہشت گرد، کافر، مسلمان وغیرہ۔

ہم جانتے ہیں کہ قومیت، ایک تشکیل ہے، جسے نسل، زبان، مذہب، جغرافیہ کی بنیاد پر وضع کیا گیا ہے۔ قوم پرستی کا استعماریت سے صرف زمانی تعلق ہی نہیں، فکری، آئیڈیالوجیائی تعلق بھی ہے۔ عزیز احمد کے بہ قول نسل پر مبنی قوم پرستی ہی نے قومی عزت نام کی چیز کو جنم دیا۔ قومی عزت کئی تصورات کا مجموعہ ہے مگر یہ ایک انسانی گروہ کے سب افراد کو کچھ مشترک جذبات میں شریک کرتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قوم کی بنیاد نسل ہو، جغرافیہ ہو، زبان ہو، مذہب ہو، کلچر یا پھر ایک سے زیادہ عناصر ہوں، وہاں قومی عزت کا تصور تشکیل دیا جاتا ہے۔ کچھ مخصوص جگہیں، شخصیات، متون، تاریخ کے کچھ زمانے، کچھ اقدار اس قومی عزت کی علامت بنا لی جاتی ہیں۔ جدید عہد کی بیشتر جنگیں قومی عزت کے نام پر لڑی گئی ہیں۔ ’’اگر کوئی مسلمان کسی اطالوی لڑکے کو بھگا لے جائے تو اطالیہ کو اس کا حق حاصل ہو جاتا ہے کہ طرابلس پر قبضہ کر لے۔ 33۔ ایک شخص سے بد سلوکی، پوری قوم سے بد سلوکی تصور کی جاتی ہے اور اس کا انتقام بھی پھر حریف قوم کے سب افراد سے بلا امتیاز لیا جاتا ہے۔ کیسا دل چسپ اتفاق ہے کہ نذیر احمد کے ناول ابن الوقت میں، جہاں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد کی صورتِ حال کا ذکر ہے، لکھا ہے کہ ’’ عام انگریز تو ابھی تک اس قدر غیظ و غضب میں بھرے ہوئے ہیں کہ اگر انگریز کے ایک قطرۂ خوں کے عوض ہندوستانیوں کے خون کی ندیاں بہا دی جائیں تو بھی ان کی پیاس نہ بجھے‘‘۔

34۔ انگریز اپنے خون کے ذریعے پوری انگریز نسل سے جڑے ہیں، اس لیے اس خون کا بدلہ، کالے خون کی ندیاں بہا کر لینے میں قباحت نہیں دیکھی جاتی۔

قوم کے تفاخر آمیز تصور کے سبب، کسی شخص کی انفرادیت باقی نہیں رہتی۔ وہ اس نیک نامی اور بدنامی دونوں میں برابر شریک تصور کیا جانے لگتا ہے اور سزا یا جزا پاتا ہے، جو اس کی قوم سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس کا کوئی عمل، ذاتی نہیں رہتا۔ وہ اپنی شخصی دنیا سے بالائی طور پر تشکیل دی گئی، تجریدی دنیا میں مقام رکھتا ہے۔ ایک شخص کی انتہا پسندانہ کار روائی کا الزام تمام مسلمان قوم پر آتا ہے۔ یا ایک مسلک کے فرد کا ذاتی فعل، پورے مسلک کو فعل سمجھا جانے لگتا ہے۔ کم و بیش یہی کچھ قدیم قبائلی معاشروں میں ہوا کرتا تھا۔ اسی سے ملتی جلتی بات نذیر احمد کے ابن الوقت میں بھی ہے، جسے قوم پرستی کے تحت لکھے گئے ابتدائی اردو ناولوں میں اہم مقام حاصل ہے۔

غدر سے پہلے بھی یہ عالم تھا کہ جو لوگ سواریوں پر تھے، ان کے نوکر چلاتے ہیں کہ ہٹو، بڑھو، بچو لیکن کون سنتا۔ ۔ اتنے میں سامنے سے ایک گورا نظر پڑا کہ اکیلا پیَپ پیتا ہوا سیدھا چلا آ رہا ہے اور لوگ ہیں کہ آپ سے آپ کائی کی طرح اس کے آگے سے پھٹتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے اس وقت خیال کیا تھا کہ یہ قومی تعزز کا اثر ہے شخصی تعزز پر۔ اگر قومی تعزز مستزاد ہو تو نورٌ علی نور۔ ورنہ بدون قومی تعزز کے شخصی تعزز اصلی عزت نہیں بلکہ عزت کا ملمع ہے۔

35۔ سفید نسل پرستی ایک آئیڈیالوجی تھی، اور سیاسی مقاصد کی حامل تھی۔ یہ آئیڈیالوجی اساطیر، فلسفے، سماجی علوم کے ساتھ فنون اور ادب میں بھی ظاہر ہوئی۔ اس آئیڈیالوجی کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ یہ طاقت کو محض ایک غلبہ آور قوت کے طور پر ہی نہیں، بلکہ ایک قدر بنا کر پیش کرتی ہے۔ طاقت ور ہونا، دوسروں پر اختیار رکھنا، خود اپنے آپ میں ایک قدر ہے۔ چوں کہ سفید فاموں کو غیر سفید قوموں پر مطلق اختیار حاصل ہے، ا س لیے وہ محض اپنی اسی حیثیت کے سبب تمام اعلیٰ انسانی اوصاف رکھتے ہیں۔ وہ سفید نسل سے تعلق رکھنے کے سبب ہی بلند اقبال ہیں، صاحب علم و نظر ہیں، شائستہ ہیں، مہذب ہیں۔ انھیں نیٹو اور ’پست قوموں‘ پر حکمرانی کا خدا ئی حق ہے۔ نیٹو کو جن پہلے حکمرانوں سے پالا پڑا تھا، ان میں سو خرابیاں تھیں مگر گوروں میں خوبیوں کے سوا کچھ نہیں۔ گورا یورپی، محض اپنے گورے یورپی ہونے کے سبب، فضیلت مآب ہے۔ جو فضیلت اس کی اعلیٰ نسل، فاتح قوم کو حاصل ہے، وہی اس کی شخصیت، اس کے علم و ادب، ثقافت کو بھی حاصل ہے۔ دیکھیے یہ آئیڈیالوجی کس طرح مختلف زمانوں کے ادب میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ رتن ناتھ سرشار کے فسانۂ آزاد کے آغاز میں آزاد اور چھمی جان کا مکالمہ ہے۔ سرشار نے بہ طور مصنف شاید ہی محسوس کیا ہو کہ وہ اپنے ناول کے آغاز میں نسل پرستی پر مبنی آئیڈیالوجی پیش کرنے جا رہے ہیں۔ یہ مکالمہ میاں آزاد اور نازک بدن چھمی جان کے درمیان ہے۔ چھمی جان کے استفسار پر آزاد اسے بتاتے ہیں کہ وہ پروفیسر لاک کا سنسکرت پر لیکچر سننے جا رہے ہیں۔ آزاد کے بہ قول یورپی لاک صاحب، زبان پاک سنسکرت کی اشرفیت سے آگاہ کرنے والے ہیں۔ گویا ایک گورا جب ہندوستانیوں کو ان کی زبانوں کا علم دیتا ہے تو وہی علم مستند ہوتا ہے۔ آزاد کے بہ قول وہ پروفیسر ’’بڑے مقدس، عالم یگانہ، یکتائے زمانہ مشہور دیار امصار ہیں، نیز طیب النفس، فخر بنی نوع انسان، بلیغ نکتہ دان، بزرگوار‘‘ ہیں۔ یہ سب خوبیاں ان میں اس لیے جمع ہیں کہ وہ یورپی ہیں، سفید نسل سے ہیں۔ چناں چہ میاں آزاد ھمی جان کو ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے لیے کلمات خرافات ادا نہیں کیے جا سکتے۔

36۔ دوسری طرف سیاہ فام ہونے کا مطلب ہی، ہر طرح کی خرافات کا مستقل نشانہ بننا ہے۔ اس امر کی کلاسیکی مثال، شیکسپیئر کا ڈراما اوتھیلو ہے، جس کا کچھ ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ اوتھیلو اگرچہ وینس کی ریاست میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، مگرایک سیاہ فام ہے۔ اس کا اعلیٰ عہدہ بھی اس کی سیاہ فامی کا داغ نہیں دھو سکتا۔ وہ ایک سفید فام برابان تیو (ڈیوک آف وینس)کی بیٹی ڈیسڈیمونیا کو بھگا لے جاتا ہے تو اوتھیلو ہی کا ماتحت ایاگو، برابان تیو کے گھر پہنچ کر اسے ملامت کرتا ہے۔

ایاگو: ذرا ہوش میں آئیے جناب۔ آپ کے گھر پر ڈاکا پڑا ہے۔ جلدی کیجیے اور اپنا چغہ پہن لیجیے۔ آپ کا دل توڑ دیا گیا ہے۔ آپ کی نصف جان غائب ہے۔ اسی وقت، اسی لمحے ایک کالا بڈھا مینڈھا، آپ کی سفید بھیڑ پر چڑھا ہوا ہے۔ خراٹے مارتے ہوئے شہریوں کو گھنٹے بجا بجا کر جگائیے۔ ورنی شیطان آپ کو چتھو بنا کر چھوڑے گا۔ میں کہتا ہوں، جاگیے، اٹھیے۔

37۔ اوتھیلو کے لیے ’کالا بڈھا مینڈھا‘ اور ڈیسڈیمونیا کے لیے سفید بھیڑ کے الفاظ سے نسل پرستانہ تعصب ٹپکتا صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سولھویں صدی کے یورپی تخیل میں بھی، سیاہ وسفید دنیائیں یکساں نہیں تھیں۔ سیاہ دنیا خود اپنے آپ میں ایک برائی تھی اور سفید دنیا محض سفید ہونے کے سبب، خیر کی حامل تھی۔ کالا بڈھا مینڈھا، اپنے کالے اور بھدے ہونے کے سبب قابل نفرت ہے، جب کہ سفید بھیڑ، اپنے سفید ہونے کے باعث معصوم ہے۔ اگرچہ ڈیسڈیمونیا اپنی مرضی سے، اوتھیلو کے ساتھ بھاگی ہے، مگر اس جرم کی ساری ذمہ داری اوتھیلو پر ہے۔ یورپی تخیل کو اس بات سے گھن آتی تھی کہ ایک ’کالا بڈھا مینڈھا‘ ایک سفید بھیڑ کی جنسی قربت حاصل کر سکتا ہے۔ یہ سفید نسل کی معصومیت اور خیر کی خصوصیت کو بھرشٹ کرنے کے مترادف ہے۔ چناں چہ اسی ڈرامے میں ایاگو آگے چل کر، ڈیسڈیموینا کے باپ سے کہتا ہے کہ ’’ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی لڑکی کا ایک عرب گھوڑے سے جوڑا لگانا چاہتے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے یہاں ایسی اولاد ہو جو آپ کو دیکھ کر ہنہنائے اور گھوڑے اور بچھڑے آپ کے بھائی بھتیجے ہوں‘‘۔

38۔ گویا سفید و سیاہ نسلوں کے اختلاط سے، آدمی نہیں جانور پیدا ہوں گے، اس لیے کہ سیاہ فام، آدمی نہیں، جانور ہے۔ سفید فام انسانوں کی دنیا میں ایک ایسا جانور جس سے کئی اور کام لیے جا سکتے ہیں مگر جس سے نسلی اختلاط ناقابل تصور ہے۔ نسلی اختلاط صرف، سفید نسل کے خالص پن ہی کو آلودہ نہیں کرتا، سفید فام نسل کے کچھ تصورات کو بھی گزند پہنچاتا ہے۔ ایک یہ کہ سفید فام نسل بھی ’نسائیت‘ (effeminacy) کی حامل ہوتی ہے، جسے خود اس نسل کا غیر یعنی سیاہ فام مسخر کر سکتا ہے۔ سفید فام نسل، اپنی شناخت میں ’نسائیت‘ کو کہیں جگہ نہیں دیتی۔ وہ جب اپنی شناخت کے اظہار کے لیے صنفی اصطلاحات کا سہارا لیتی ہے تو اپنے لیے مردانہ صفات، یعنی بہادری، شرافت، جرأت، متحمل مزاجی، ذہانت، اولوالعزمی، تفاخر کا انتخاب کرتی ہے۔ جب کہ ان کے مقابل تمام زنانہ صفات، جیسے: بزدلی، دھوکا، بے صبری، جذباتیت، اطاعت پسندی کو سیاہ فاموں اور استعمار زدوں سے مخصوص کرتی ہے۔ چناں چہ کسی گوری عورت کا کسی سیاہ فام سے جنسی اختلاط، سفید فام نسل کی شناخت میں نسائیت کی موجودگی اور قابل مسخر ہونے کی علامت ہے۔ سیاہ فام اس اختلاط سے گویا، سفید فام کی مردانہ برتری کے تصور کو پاش پاش کرتا ہے۔ نیز نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کی اس خصوصیت کہ ’’ طاقت ہی قدر ہے‘‘ کا پلڑا سیاہ فام کی جانب جھک جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نسل پرستی اور استعماری استحصال کے شکار تمام بے بس افراد، سفید فاموں کی نسائیت کو پہچانتے ہیں اور اسے زک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جنسی اختلاط کو سیاسی معنویت دینے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد کی نظم ’انتقام‘ اس کی اہم مثال ہے۔ اس نظم میں ایک گوری عورت سے جنسی اختلاط کا ذکر ہے۔ نظم کا متکلم (وہ شاعر بھی ہو سکتا ہے اور کوئی فرضی کردار بھی) اس عورت کے ساتھ رات بھر اختلاط کرتا ہے، اور اسے ’ارباب وطن کی بے بسی‘ کا انتقام کہتا ہے۔

اس کا چہرہ، اس کے خد و خال یاد آتے نہیں

ایک برہنہ جسم اب تک یاد ہے

اجنبی عورت کا جسم

میرے ’’ہونٹوں‘‘ نے لیا تھا رات بھر

جس سے ارباب وطن کی بے بسی کا انتقام

وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے

راشد نے اس نظم میں سفید فام، استعمار کار قوموں کی منطق کو انھی پر گویا الٹا دیا ہے۔ نسل پرستی اور قوم پرستی میں اور نسل پر مبنی قوم پرستی میں فرد کہیں وجود نہیں رکھتا۔ اس کی کوئی علیحدہ، خود اپنے عمل اور فکر سے تشکیل پانے والی شناخت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی نسل و قوم کی سب اچھی بری خصوصیات ہی نہیں، ان کے اعمال میں بھی شریک تصور ہوتا ہے۔ وہ اپنی نسل کے تفاخر و ذلت میں یکساں طور پر حصہ دار ہوتا ہے۔ چناں چہ ڈیسڈیمونیا ہو یا راشد کی اس نظم کی عورت، وہ ایک فرد نہیں ہے؛ ایسا فرد جو اپنی نسل و قوم سے جدا کوئی انسانی شناخت رکھتا ہو، بلکہ وہ نسلی شناخت کی وساطت سے، اس نسل کے تمام اعمال میں شریک سمجھا جاتا ہے۔ اسی منطق کے تحت ایک اجنبی قوم کی عورت سے رات بھر کے وصال کو ارباب وطن کی بے بسی کے انتقام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خود اس نظم کا متکلم بھی خود کو ایک فرد نہیں، ارباب وطن کا ایک نمائندہ سمجھتا ہے اور اپنے عمل کو انفرادی نہیں قومی قرار دیتا ہے۔ علاوہ ازیں سیاہ فام، غلام، نیٹو، غیر کا کسی سفید فام عورت سے جنسی تعلق، ’بہادر، ناقابلِ تسخیر، فاتح، نوبل یورپی‘ کی خواب گاہ میں سیندھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی نجی دنیا کے تقدس کو گویا سیاہی، برائی، شر کا حامل وجود آلودہ اور پامال کرتا ہے۔ ایاگو کا یہ کہنا ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ’’ہوش میں آئیے جناب۔ آپ کے گھر پر ڈاکا پڑا ہے‘‘۔ سولھویں صدی میں ایاگو کی یہ چیخ، اکیسویں صدی کے مغرب میں گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ نسل پرستی ختم نہیں ہوئی۔ بایں ہمہ راشد کی اس نظم پر یہ تنقید بجا ہے کہ انھیں بہ طور تخلیق کار نسل پرستی پر مبنی جس سٹیریو ٹائپ کو توڑنا چاہیے تھا، وہ اس کا شکار ہوئے ہیں۔ ایک تخلیق کار انسانی وجود پر مسلط کی گئی شناختوں کے مصائب بیان کرتا ہے، نہ کہ ان مصائب میں خود حصہ لیتا ہے یا اپنے کرداروں کو شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ ٹھیک اسی اصول کے تحت چنواچیبے، جوزف کونارڈ اور اس کے ناول قلب ظلمات پر تنقید کرتا ہے۔ اس ناول میں جس یورپی آرزو کا اظہار ہوا ہے، وہ یورپی نسل پرستانہ ہے۔ بہ قول اچیبے، اس ناول میں کونارڈ نے افریقا کو یورپ اور اس کی تہذیب کی کامل ضد کے طور پر پیش کیا ہے۔ ناول میں دریائے ٹیمز سے دریائے کانگو کی طرف مہم کا بیان ہے۔ ٹیمز اور کانگو کی دنیائیں یکسر الگ ہیں۔ ایک روشنی، جستجو، تسخیر کی علامت ہے، دوسرا تاریکی، انفعالیت اور غلامی میں ملفوف۔ اس ناول میں بھی یورپی اور حبشی عورت کا تقابل ملتا ہے۔ اچیبے کے مطابق: ان دو عورتوں کی طرف جوزف کونارڈ کے رویے کا فرق اس قدر راست انداز میں ظاہر ہوا ہے کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ان میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ یورپی عورت کو انسانی اظہار کا اہل سمجھا گیا ہے، جب کہ افریقی عورت کو اس سے محروم رکھا گیا ہے۔ کونارڈ کا مقصد یہ نہیں کہ وہ افریقا کی ’’بچگانہ روح‘‘ کو زبان سے نوازے۔ وہ زبان کی جگہ ’’غیر اخلاقی آوازوں کی متشدد بڑبڑ‘‘ افریقی عورت کے لیے منتخب کرتا ہے۔

39۔ گویا افریقی عورت، کامل زبان سے محروم ہے، وہ انسانی ارتقا کے اس ابتدائی مرحلے میں ہے، جہاں اس نے ابھی پوری طرح اظہار کرنا سیکھا ہے نہ اپنی وحشی جبلتوں کو مہذب صورت دینے کے قابل ہوئی ہے۔ فرانز فیین کے نزدیک، افریقی لوگوں کو ’’بچگانہ روح‘‘ کا حامل سمجھنا یا ان کا ترقی یافتہ زبان سے محروم ’’غیر اخلاقی آوازوں کی متشدد بڑ بڑ‘‘ کا حامل ہونا، افریقی حقیقت کا اظہار نہیں ہے، بلکہ یہ ایک یورپی تشکیل ہے۔ اس کے نزدیک سیاہ فام کی جس روح کا ذکر یورپی تحریروں میں کثرت سے ملتا ہے، وہ در اصل سفید آدمی کی کاری گری ہے۔ جس کی روح کوئی دوسرا تشکیل دے، وہ بہ قول فینن اپنی اصل میں بے ہست وجود ہے، یعنیnon-being ہے۔

40۔ کونارڈ کے یہاں تمام افریقی مردو عورت بھی بے ہست وجود ہیں۔

بے ہست وجود، انسانی تاریخ کا عظیم پیراڈاکس ہے۔ یہ وہی صورت ہے جو غالب نے بیان کی ہے: ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘۔ غیر سفید فام کا ہونا، در اصل اس کا نہیں ہونا ہے۔ وہ نہ تو اپنی زمین پر، اپنی زبان میں، اپنے ادب میں، اپنی کہانیوں اور ثقافت میں وجود رکھتا ہے اور نہ یورپ کے سفید فام تخیل میں۔ وہ ایک واہمہ ہے، ا یک بھوت ہے۔ اسے وجود حاصل کرنے کے لیے سفید فاموں کی زبان، ادب، آداب، تہذیبی اقدار سیکھنا پڑتی ہیں۔ ان کی تہذیب آموزی کا بوجھ سفید آدمی کے نازک کندھوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے غیر سفید فام خود کو ان کے اسی طرح سپرد کر دیتے ہیں، جس طرح کوئی عاشق خود کو محبوب کے سپرد کرتا ہے۔ اور یہ سپردگی کامل ہے۔ جسم، روح، تخیل (جن کی حیثیت واہموں سے زیادہ نہیں ہوتی) سب سفید فاموں کے سپرد کی جاتی ہے۔ اکبر کے طنزیہ اشعار میں اس جانب واضح اشارے ہیں۔

عقل سپرد ماسٹر، مال سپرد آنجناب

جان سپرد ڈاکٹر، روح سپردِ ڈارون

میرا قالب ہو قالب غربی

بھول جاؤں زبان بھی اپنی

چیز وہ ہے بنے جو یورپ میں

بات وہ ہے جو پانیر میں چھپے

یہ کہ طاقت ہی قدر ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ نسل پرستانہ آئیڈیالوجی بغیر کسی واسطے کے ظاہر ہوتی ہے اور ہر طرح کے تناظر سے آزاد ہوتی ہے۔

41۔ یہ اس عام اصول سے یکسر انحراف کرتی ہے، جس کے مطابق معنی، تناظر کے پابند ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں، سفید فام جمالیات اپنے معانی محض سفید فام ہونے ہی سے اخذ کرتی ہے۔ نیز سفید فام جمالیات محض اپنے آشکار ہونے سے، غیر سفید فاموں کے ادب کو از کار رفتہ بنا دیتی ہے ؛سفید فام کینن، خالص ادبی وجوہ کے بغیر، دیسی ادب کے لیے قابل تقلید بن جاتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں انجمن پنجاب کی تحریک نے بہ طور خاص خالص ادبی وجوہ کے بغیر وکٹوریائی ادبی اخلاقیات و جمالیات کو اردو میں رائج کرنے کی کوشش کی۔ جس نیچرل اور اخلاقی شاعری کی حمایت کی گئی، اس کی بہترین مثالیں پہلے ہی قلی قطب شاہ، میر تقی میر، میر حسن، نظیر اکبر آبادی اور دوسروں کے یہاں موجود تھیں۔ البتہ قومی شاعری اور قومی ادب، اردو کے لیے ایک نئی چیز تھی۔ اسی قومی ادب میں ہمیں نسل پرستی اور قوم پرستی کی آمیزش بیش از بیش ملتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس ناول میں بھی طاقت اور نسل و قوم سے عبارت آئیڈیالوجی ملتی ہے۔ انگریز ہونے کا مطلب، برتر ہونا ہے اور برتری بغیر سلطنت کے ممکن نہیں۔ نیز صرف حکمران انگریز نہیں، ایرا غیرا انگریز بھی قابل عزت ہے۔ ’’(ابن الوقت) نہایت وثوق کے ساتھ کھلم کھلا کہا کرتا کہ سلطنت ایک ضروری اور لازمی نتیجہ ہے، قوم کی برتری کا۔ ۔ پس وہ اپنی اس رائے کی بنیاد پر بے غرضانہ ہر انگریز کو اگرچہ گھٹیا، بے حیثیت یوریشین ہی کیوں نہ ہو، بڑی وقعت کی نظر سے دیکھتا‘‘ نیز ’’اپنی قوم اور قوم کی ہر چیز کی حقارت اور انگریز اور ان کی ہر بات کی وقعت پہلے سے اس کے ذہن میں مرتکز تھی۴۱‘‘۔ یہی صورت انگریزی زبان کی ہے۔ انگریزی محض نئے علوم کی زبان کے طور پر نہیں سفید حاکموں کی زبان کے طور پر رائج اور مقبول ہوئی۔ انگریزی کی برتری سے متعلق بھی جتنے بیانیے رائج ہوئے، وہ نسل پرستانہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم نے قبول کیے۔ اکبر کی شاعری کا محبوب ہی نیٹو کی سند نہیں مانتا تھا، سر سید بھی نیٹو کی جگہ ایک گورے لارڈ میکالے کی سند لاتے ہیں۔ چوں کہ نیٹو / ہندوستانی نسلاً کم تر ہیں اس لیے ان کی زبانیں بھی کم تر ہیں۔ ان کی ورنیکلر زبانیں نہ انھیں عزت دلا سکتی ہیں، نہ ترقی۔ اپنی مقامی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے سے خود اپنی قوم میں عزت نہیں مل سکتی۔ ابتدا میں سید احمد خاں ورنیکلر زبانوں میں یورپی علوم کے تراجم کے قائل تھے، مگر بعد میں وہ میکالے کے ہمنوا ہو گئے جو مشرق کی کلاسیکی اور ہندوستان کی ورنیکلر زبانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، اور انگریزی ہی میں تعلیم کے حامی تھے۔ سید احمد خاں بھی اس رائے کے حامی ہو گئے کہ دیسی زبانوں میں تراجم سے، اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی جا سکتی۔ گویا وہ یورپی متن کے خالص پن کو دیسی زبان میں مجروح ہوتا محسوس کرتے تھے۔ نیز وہ اس بات کے قائل محسوس ہوتے تھے کہ یورپی جدید علوم جس برتر علم و فضل، تہذیب واقدار سے عبارت ہیں، وہ غلاموں کی پس ماندہ زبانوں میں ظاہر ہو ہی نہیں سکتے۔ سید احمد خاں کی تاویلات پر نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کے سائے دیکھے جا سکتے ہیں:

…لارڈ میکالے نے اور اس زمانہ کی تعلیم کے بورڈ کے تمام ممبروں نے بالاتفاق اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہ لوگ جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، ان کی دماغی ترقی صرف بذریعہ ان زبانوں کے ہو سکتی ہے جن میں ورنیکلر داخل نہیں ہے …ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ادنیٰ درجہ کی تعلیم جیسے کہ اس زمانہ میں دیہاتی اور تحصیلی مکتبوں میں ہوتی ہے، ورنیکلر میں ہونی مفید ہے، مگر اس تعلیم سے قومی عزت حاصل نہیں ہو سکتی۔ قومی عزت اس وقت ہوتی ہے جب کہ قوم میں کثرت سے اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ اشخاص موجود ہوں اور وہ اس زمانہ میں نہ ورنیکلر ترجموں سے حاصل ہو سکتی ہے نہ عربی فارسی کے ذریعے سے۔ وہ صرف یورپین زبانوں کے ذریعے سے حاصل ہو سکتی ہے، خواہ وہ زبان انگریزی ہو فرانسیسی۔

42۔ انیسویں صدی کے اواخر میں انگریزی زبان، برصغیر میں نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کے فروغ اور پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بنی۔ بلاشبہ اس میں نئے علوم موجود تھے، اور نئے استعماری بندوبست نے ان کی ضرورت بھی پیدا کر دی تھی۔ اس بندوبست میں معاشی بقا کے لیے ان علوم کا سیکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ جو لوگ اس ضرورت کا احساس نہیں کر سکے تھے، وہ معاشی پس ماندگی اور سماجی طور پر راندہ ہونے کا شکار بہ یک وقت ہوئے۔ تاہم نئے علوم کا سوال اتنا سادہ نہیں تھا، جتنا عام طور پر اسے سمجھا گیا۔ یہ نئے علوم، نسل پرستی پر مبنی نوآبادیاتی نظام کے زمانے اور اس کے تحت ہندوستان پہنچ رہے تھے۔ یورپ کے نئے علم اور یورپی استعماریت میں معاون علم میں فرق کرنے کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو کم ہی محسوس کیا گیا۔ ہم انیسویں صدی میں ایسے کئی ادبی متون دیکھتے ہیں، جن میں ایک طرف نئے علم کی وکالت اس پر زور انداز میں کی گئی کہ اس کے استعماری رخ یا منشا کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا، دوسری طرف انگریزی زبان کو نئے علوم کے ساتھ یورپی تمدن کا مظہر سمجھ کر اس کی حمایت کی گئی۔ اور ترقی کے لیے صرف علوم نہیں، یورپی تمدن کو پورے کا پورا قبول کرنا لازم ٹھہرایا گیا۔ یعنی اگر آپ انگریزی پڑھتے ہیں تو صرف جدید علوم ہی کا دروازہ نہیں کھلتا، ان سب اقدار کو بھی آپ حاصل کر لیتے ہیں، جو سفید فام نسل پرستی نے اپنے لیے مخصوص کیا: خیالات میں آزادی، استقلال، حوصلہ مندی، علو ہمتی، فیاضی، ہمدردی، سچائی، راست بازی۔ بغیر انگریزی پڑھے، ان سے آپ گویا محروم رہتے ہیں۔ دیسی زبانیں، دیسی نسلوں کی مانند ان سب شائستہ اوصاف سے محروم ہیں۔ نذیر احمد کے ابن الوقت کا یہ حصہ دیکھیے:

انگریزی زبان کے رواج دینے سے ایک غرض تو علوم جدیدہ کا پھیلانا ہے اور دوسری غرض اور بھی ہے۔ یعنی عموماً انگریزی خیالات کا پھیلانا۔ اکیلے علوم جدیدہ سے کام چلنے والا نہیں۔ جب تک خیالات میں آزادی، ارادے میں استقلال، حوصلے میں وسعت، ہمت میں علو، دل میں فیاضی اور ہمدردی، بات میں سچائی، معاملات میں راست بازی یعنی انسان پورا پورا جنٹلمین نہ ہو اور وہ بدون انگریزی جاننے کے نہیں ہو سکتا۔ …رفارم جس کی ضرورت ہندوستان کی ترقی کے لیے ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہندوستانیوں کو انگریز بنایا جائے۔ خوراک میں پوشاک میں، زبان میں، عادات میں، طرز تمدن میں، خیالات میں ہر اک چیز میں۔

43۔ فرانز فینن نے لکھا ہے کہ سفید فام اپنی نو آبادیوں میں خود کو کبھی کم تر محسوس نہیں کرتا۔

44۔ جب کہ نیٹو خود کو اپنی ہی زمینوں پر، اپنے ہی ملک میں بیگانہ محسوس کرتے ہیں، بلکہ ذلت آمیز بیگانگی کا تجربہ کرتے ہیں۔ منٹو کے افسانے ’نیا قانون‘ میں اس موضوع کی طرف اشارے ہیں۔ اگرچہ اس افسانے کا موضوع ۱۹۳۵ء کے انڈیا ایکٹ سے عام ہندوستانیوں میں پیدا ہونے والی امید کا یک دم مایوسی میں بدلنا ہے، تاہم نئے قانون کی خوش خبری سن کر منگو کوچوان، اپنی زمین پر بیگانگی کے خاتمے کی امید کرتا ہے۔ گوروں نے اسے اب تک جس ذلت اور احساس بیگانگی میں مبتلا کیا ہے، وہ اس سے نجات کی امید کرتا ہے۔ وہ جیسے ہی نئے قانون کی خبر سنتا ہے، اس کے دل میں گوروں کے ہاتھوں اپنی ذلت کی سچائی پوری طرح روشن ہو جاتی ہے۔

استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی۔ اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ ہندستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں۔ اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں۔ مگر اس کے تنّفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اُسے متلی آ جاتی۔ نہ معلوم کیوں وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلّی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔

45۔ منگو کو سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اسے اس کی اپنی زمین پر باہر سے آنے والا گورا ذلیل کتا سمجھتا ہے۔ گورے نے اسے اس کی اپنی ہی زمین پر انسانی حیثیت سے محروم کر دیا ہے۔ منگو صرف گوروں کی معاشی وسیاسی پالیسیوں اور ان کے غاصب ہونے کے سبب ہی ناپسند نہیں کرتا، بلکہ وہ اس بات پر بھی دکھی ہے کہ اسے گورے ہر ہر قدم پر ذلت کا إحساس دلاتے ہیں۔ یعنی گوروں کا نسلی غرور، عام ہندوستانیوں کو ہر ہر پل کچوکے لگاتا ہے۔ منگو کے دل میں اسی لیے گورے رنگ ہی کے خلاف نفرت بھر گئی ہے۔ وہ گورے رنگ اور سرخ و سفید چہرے کو حسن کی علامت نہیں سمجھتا، بلکہ اسے کراہت آمیز محسوس کرتا ہے، جس سے اسے متلی محسوس ہوتی ہے۔ ایک اور جگہ منگو گوروں کو سفید چوہے بھی کہتا ہے۔ منگو کے کردار میں ایک طرف اپنے ہی وطن میں بیگانگی اور اس سے پیدا ہونے والی ذلت مجسم ہو گئی ہے، دوسری طرف اس بیگانگی اور ذلت کے خلاف تشدد آمیز ردّ عمل۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، نسلی تفاخر پر مبنی آئیڈیالوجی تناظر کے بغیر ہے، اس لیے ہر جگہ ایک ہی طرح سے کام کرتی ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی اور رضی عابدی نے اچھوت لوگوں کے ادب میں ایک دلت دیا پوار کی نظم شامل کی ہے، جو ایک خط کی صورت، لاس اینجلز سے بھیجی گئی ہے۔ اس میں بھی ہندوستانیوں کی کتوں کی مانند سمجھنے کا ذکر ہے اور نیگرو ہونا ایک گالی ہے۔

یہاں کے سٹورز میں ۔۔ہوٹلوں میں ۔۔۔ کلبوں میں

ہندوستانیوں اور کتوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے

’نیگرز، سیاہ فام‘ وہ مجھے یہ گالیاں دیتے ہیں

اور میرے دل کی گہرائیوں میں ہزاروں بچھو ڈنک مارنے لگتے ہیں

اسے پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگا

اب تم نے بھی وہ مزہ چکھ لیا جو ہم سہتے رہتے ہیں

یہاں اس ملک میں نسل در نسل

46۔ ذلت آمیز بیگانگی کے علاوہ، بیگانگی کی کچھ اور صورتیں بھی نو آبادیاتی باشندے تجربہ کرتے ہیں۔ انھیں وجودی بیگانگی کے مغربی تصور کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ مغربی وجودی بیگانگی، وجود کے مابعد الطبیعیاتی مرکز سے الگ ہو کر بے معنویت کا تجربہ کرنے سے عبارت ہے، جب کہ استعماری بیگانگی، اپنی ہی زمین پر، اپنی زمین سے، لینڈ سکیپ سے، کلچر سے، زبان سے، ادب سے بیگانہ ہونے اور اس سے پیدا ہونے والی بے معنویت ہے۔ حقیقی ذلت کے علاوہ بے معنویت۔ تاہم یہ دہری بے معنویت ہے۔ پہلی بے معنویت کو سفید فام علم، طرز حکمرانی، جمالیات سے دور کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس سے مزید بے معنویت جنم لیتی ہے۔ وہ اپنی زمین، اپنی زبان، اپنے کلچر سے ایک نیا فاصلہ پیدا کر لیتا ہے۔ یہ فاصلہ صرف ذہنی اور جذباتی نہیں ہوتا، بلکہ علمی اور ادراکی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اپنی زمین پر اپنی ثقافتی وجود سے بیگانگی کا آغاز کلچر کی یورپی تعریف کو تسلیم کرنے سے ہوتا ہے۔ یہ تعریف اس کے اپنے کلچر کو پہلے ہی روز در اصل ’ڈی کلچر‘ کر دیتی ہے۔ وہ جتنا یورپی کلچر کو قبول کرتا جاتا ہے، اپنے کلچر کے سلسلے میں شبہات اور حقارت کے جذبات پیدا کرتا جاتا ہے۔ دوسری طرف یورپی کلچر کو قبول کرنے میں خود اس کلچر کی نسل پرستانہ جہت حائل ہوتی ہے۔ وہ اپنے ذہن و حافظے کو یورپی خیالات سے معمور کر سکتا ہے، وہ یورپیوں کی مانند ان کی زبانیں بھی فرفر بول سکتا ہے، مگر اس کے رنگ کے فرق کے سبب، اسے یورپ اپنا حصہ نہیں بناتا۔ رنگ کا فرق اس قدر اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ مذہب کی تبدیلی کے باوجود بھی، سیاہ فامی ایک ابدی ملامت بنی رہتی ہے۔ مذہب مساوات، انسانی ہمدردی، مروت، رواداری کا درس دیتا ہے (اور ان اوصاف حسنہ ہی کا ترغیب آمیز بیان سن کر سیاہ فام عیسائیت قبول کرتے ہیں)، مگر سیاہ فاموں کو تبدیلی مذہب کے باوجود یہ مذہبی اخلاقی نعمتیں نصیب نہیں ہوتی۔ محض رنگ کے سبب، ان کی سفید فام مقتدر مذہبی گروہوں سے بیگانگی برقرار رہتی ہے۔ سیاہ فام لوگوں کی زندگی میں عیسائیت کا خدا بھی ایک مقتدر ہستی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے جو ان کی پست دنیا میں نہیں آتا، ان کی پکار کا جواب نہیں دیتا۔ خدا کے گھر میں سفید فام پادری کو توباعزت جگہ ملتی ہے، سیاہ فام عیسائی کی تو فریاد بھی نہیں سنی جاتی۔ ہم اس تحریر کا اختتام تنزانیہ کے سیاہ فام شاعرہیس ٹنگز ڈبلیو و آلو تھوجینڈو کی نظم ’خدا کو بتاؤ‘ پر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظم اس احساس کے تحت لکھی گئی ہے کہ خدا براہ راست سیاہ فام کی التجا نہیں سنتا۔ پادری ہی خدا تک اس کی بات پہنچا سکتا ہے۔ اس نظم میں آئرنی، شکوے، طنز کے عناصر یکجا ہوئے ہیں۔ نظم کی ایک ایک سطر میں سیاہ فام شخص کی روح کا وہ کرب سمٹ آیا ہے جس کا باعث نسلی امتیاز اور بیگانگی ہے۔ نیز یہ نظم سوال بھی اٹھاتی ہے کہ نسلی امتیاز میں خدا کس جانب ہوتا ہے؟

خدا کو بتاؤ

کہ میں نے اس کے ان بندوں کو گرجا گھر میں جاتے دیکھا ہے

اسے بتاؤ کہ میں نے اس کے پادری کو

انھیں نجات اور بخشش کی دعائیں دیتے دیکھا ہے

لیکن یہ پادری ان میں سے نہیں ہے

کیوں کہ وہ اس جہنم میں کبھی نہیں آئے گا

جہاں یہ مفلس اور کنگلے لوگ رہتے ہیں

اس کا پادری

امرا کی آبادی کی طرف روانہ ہو چکا ہے

جہاں امن، آرام اور جنت

انسانی محبت کے دکھ اور گناہ سے ماورا ہیں

اسے بتاؤ کہ

میں انسان کی روحانی تکلیف کے شدید احساس سے گزرا ہوں

اور میں نے اسے بارہا پکارا ہے

اسے بتاؤ

کہ میں نے اسے بہت تلاش کیا ہے لیکن وہ کہیں نہیں ملا

میں نے چلا چلا کر اسے آوازیں دی ہیں مگر اس نے جواب نہیں دیا

اسے بتاؤ

کہ میں نے عبادت گاہ میں خون رو رو کر اس سے التجائیں کی ہیں

لیکن اس نے ہماری طرف نگاہ نہیں کی

خدا کو بتاؤ، اسے بتاؤ

کہ وہ اپنے آسمانوں کے ابدی سکون سے نکلے اور اس جہنم میں آئے

ان کے لیے جو بیمار اور بے یارو مددگار ہیں

یہ اجڑے ہوئے اور بھلائے ہوئے لوگ اسے پکار رہے ہیں

اسے بتاؤ کہ یتیم، معذور عاشق اور خبطی سب اس کی چاہ میں سلگ رہے ہیں

خدا کو بتاؤ، خدارا بتاؤ

کہ اسے گرجا گھروں اور نئے طرز تعمیر کی شاندار عبادت گہوں میں

رہتے ہوئے بہت وقت ہو گیا ہے

اسے بتاؤ کہ پاک اور مقدس قربان گاہوں میں وہ بہت رہ چکا ہے

اے خدا، وہاں کوئی نہیں ہے

وہاں اس تیرے مقدس پادری کے سوا کوئی نہیں ہے!

خدا کو بتاؤ کہ وہ غریبوں کے محلوں کی طرف آئے

اسے بتاؤ کہ اب دیر کی گنجائش نہیں ہے۔

حواشی/حوالے:

1۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

مسجد میں اس نے ہم کو آنکھیں دکھا کے مارا

انھیں منظور اپنے زخمیوں کو دیکھ آنا تھا

(ابراہیم ذوق)

لپٹا کے شب وصل وہ اس شوخ کا کہنا

کافر کی شوخی دیکھو گھر میں خدا کے مارا

(مرزا غالب)

اٹھے تھے سیر گل کو دیکھنا شوخی بہانے کی

کچھ اور ہوس اس سے زیادہ تو نہیں ہے

(نظام رامپوری)

2۔ جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار

اے کاش جانتا نہ تیری رہ گذر کو میں

(مرزا غالب)

اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل

میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

(مومن)

3۔etymoline.com/word/native

4۔۔ فرانسسکو برتھن کورٹ(Francisco Bethencourt)، Racism: From the Crusades to the Twentieth Century، نیوجرسی، پرنسٹن یونیورسٹی پریس، ۲۰۱۳ء ۔ص ۳۱۔

5۔۔ علی رتناسی، Racism: A Very Short Introduction، نیویارک:اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ۲۰۰۷۔ص ۱۴ ۔

6۔۔ علی رتناسی، ص ۱۵ ۔

7۔۔ محمد عبد القادر عمادی، نسل اور نسلی امتیازات، نئی دہلی: ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۴ء۔ ص ۱۰۔۱۱۔

8۔۔ فرانسسکو برتھن کورٹ، Racism: From the Crusades to the Twentieth Century، متذکرہ بالا، ۴۰۔

9۔۔ برتھن کورٹ۔ ص 40۔

10۔۔ ایم این سرنواس، جدید ہندوستان میں ذات پات، (ترجمہ : شہباز حسین)، دہلی، نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، ۱۹۷۴ء۔۹۱۔۹۲۔

11۔۔ ایم این سرنواس، ص ۹۲۔

12۔۔ ایم این سر نواس، ص ۹۳ ۔

13۔۔ مسعود عالم فلاحی، ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان، (نئی دہلی، القاضی پرنٹر اینڈ پبلشر، ۲۰۰۷ء) ۴۲۔

14۔۔ منو سمرتی، (اردو ترجمہ سوامی لالہ سوامی دیال)، کان پور، مطبع فیض منبع منشی نول کشور، س ن ۔ ۸۔

15۔۔ مسعود عالم فلاحی، ص ۴۰۔

16۔۔ ایم این سرنواس، ص۶۴۔

17۔۔ مسعود عالم فلاحی، ص ۱۲۱۔

18۔۔ علی رتناسی، ص ۳۰۔

19۔۔ علی رتناسی، ص ۲۷۔

20۔۔ علی رتناسی، ص ۲۸۔

21۔۔ ایمی سیزارے، A Poetics of Anticolonialism، ترجمہ جوان پنکھم، (نیویارک، منتھلی نیویارک پریس، س ن)، ۳۱۔

22۔۔علی رتناسی، ص ۲۸۔

23۔۔ مولانا عبد السلام ندوی، ابنِ خلدون ۔ لاہور: گلوب پبلشرز، س ن۔ ص ۹۴۔

24۔۔ بہ حوالہ ایما نوئیل چکوودی ازی، (مدیر)، Race and the Enlightenment: A Reader، ۔میلڈن:بلیک ول پبلیشز، ۱۹۹۷ء۔ ص ۳۳۔

25۔۔ برتھن کورٹ، ص 35۔

26۔۔ لنڈے سے پریس مین، How Evolution was used to support Scientific Racism، ۔دی ٹرینیٹی پیپرز، ۲۰۱۱ء۔

27۔۔ علی رتناسی، Racism: A Very short Introduction، متذکرہ بالا، ۵۴۔

28۔۔ علی رتناسی، ص ۷۰۔

29۔۔ لیوی سٹراس، The Savage Mind، (ترجمہ جارج ویڈن فیلڈ)۔شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، ۱۹۶۲ء۔ ص ۱۲

30۔۔ علی رتناسی، ص ۷۱۔

31۔۔ عزیز احمد، نسل اور سلطنت ۔نئی دہلی : انجمن ترقی اردو، ۱۹۴۱ء۔ ص۱۰۳۔

32۔۔ جون ڈی کویکنبوس، (John D Quackenbos) Illustrated History of Ancient Literature، Oriental and Classical ۔ نیو یارک: ہارپر اینڈ برادرز۔1882۔ ص ۱۵۔

33۔۔ عزیز احمد، ص 103۔

34۔۔ نذیر احمد، ابن الوقت۔ دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ۱۹۸۰ء۔ص ۷۶۔

35۔۔ نذیر احمد، ص ۹۵۔

36۔۔ رتن ناتھ سرشار، فسانہ آزاد، جلد اوّل۔ نئی دہلی : ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۶ء۔ص۱۵۔

37۔۔ شیسکپیئر، آتھیلو، (ترجمہ سجاد ظہیر)۔ نئی دہلی: ساہتیہ اکادمی، ۱۹۶۶ء۔ ص ۱۵۔

38۔۔ شیسکپیئر، ۱۶۔۱۷۔

39۔۔ چنو اچیبے، An Image of Afric:Racism in Conard’s‘Heart of Darkness’۔میسا چیوسٹس ریویو، ۱۸، ۱۹۷۷۔ص ۲۵۵۔

40۔۔ جان ایم کانگ، Deconstructing the Ideology of White Aesthetics ۔مشی گن جرنل آف ریس اینڈ لا، ۱۹۹۷ء۔ص ۲۸۸۔

41۔۔ جان ایم کانگ، ص ۲۸۸۔

42۔۔ نذیر احمد، ص ۳۰۔

43۔۔ نذیر احمد، ص ۱۰۱۔

44۔۔ فرانز فینن، ص 67۔

45۔۔ سعادت حسن منٹو، منٹو راما، ۔لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء۔ ص ۷۰۸۔

46۔۔ مبارک علی، رضی عابدی، اچھوت لوگوں کا ادب۔لاہور: فکشن ہاؤس لاہور، ۱۹۹۴ء۔ ص ۱۰۲۔

47۔۔ امجد اسلام امجد(مترجم) کالے لوگوں کی روشن نظمیں۔لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۶ء۔ ص ۱۳ تا ۱۵۔

کتابیات:

امجد، امجد اسلام ۔(مترجم)۔ کالے لوگوں کی روشن نظمیں۔لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۶ء۔

احمد، عزیز ۔ نسل اور سلطنت ۔نئی دہلی : انجمن ترقی اردو، ۱۹۴۱ء۔

احمد، نذیر ۔ابن الوقت۔دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ۱۹۸۰ء۔

سرشار، رتن ناتھ۔ فسانہ آزاد، جلد اوّل۔نئی دہلی : ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۶ء۔

سری نواس، ایم این۔ جدید ہندوستان میں ذات پات (ترجمہ : شہباز حسین)۔ دہلی:نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، ۱۹۷۴ء۔

شیسکپیئر، ولیم۔آتھیلو، (ترجمہ سجاد ظہیر)۔نئی دہلی: ساہتیہ اکادمی، ۱۹۶۶ء۔

علی، مبارک ؛عابدی، رضی ۔ اچھوت لوگوں کا ادب۔لاہور: فکشن ہاؤس لاہور، ۱۹۹۴ء۔

عمادی، محمد عبد القادر عمادی ۔نسل اور نسلی امتیازات۔ نئی دہلی:ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۴ء۔

فلاحی، مسعود عالم ۔ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان ۔نئی دہلی :القاضی پرنٹر اینڈ پبلشر، ۲۰۰۷ء۔

منٹو، سعادت حسن۔ منٹو راما، ۔لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء۔

منو سمرتی، (اردو ترجمہ سوامی لالہ سوامی دیال)، کان پور، مطبع فیض منبع منشی نول کشور، س ن ۔

ندوی، عبد السلام ۔ ابنِ خلدون ۔ لاہور: گلوب پبلشرز، س ن۔

Www۔etymoline.com/word/native

Achebe، Chinua۔ An Image of Africa: Racism in Conrad’s Heart of Darkness، The Massachusetts Review، Volume 57، Number 1، Spring 2016، pp۔ 14-27

Ali، Ratnasi. Racism: A Very Short Introduction۔ New York: OUP، 2007۔

Bethencourt، Fransisco. Racism: From the Crusades to the Twentieth Century۔ New Jersey:Princeton University Press، 2013

Césaire، Aimé. Discourse on Colonialism۔ (Translated by Joan Pinkham)۔ NYU Press، Monthly Review Press، nd۔

Eze، Emmanuel Chukwudi (ed۔)۔ Race and the Enlightenment: A Reader۔ Blackwell، 1997۔

Kang، John M۔ Deconstructing the Ideology of White Aesthetics۔ Available at: https://repository۔law۔umich۔edu/mjrl/vol2/iss2/3

Levi-Strauss، Claude. The Savage Mind۔ (Translated by George Weidenfeld)۔ Chicago، Illinois: University of Chicago Press، 1962Pressman، Lindsay، "How Evolution was used to Support Scientific Racism”۔ The Trinity Papers (2011۔ present)، 2017۔

Quackenbos، John D۔ Illustrated history of ancient literature، oriental and classical۔ New York: Harper & Brothers، Publishers، 1882۔

٭٭٭

ناصر کاظمی کی غزلیات میں محاورات کا شعری طلسم۔ ایک جائزہ ۔۔۔ محسن خالد محسنؔ

شاعری ایک خدا داد صلاحیت ہے۔ اسے کسرت اور ریاضت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صلاحیت قدرت نے ودیعت کی ہے تو اس پر مشقت کی جا سکتی ہے۔ اسے تراش سنوار پر خوب سے خوب تر کی تلاش اور مصرعوں کی موزونی کے عمل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ شاعری کی محبوب ترین صنف غزل ہے جس میں لکھنا بظاہر آسان لیکن انتہائی مشکل کام ہے۔ شعرا اس صنف میں بڑے شوق سے طبع آزمائی کرتے ہیں۔ دو چار غزلیں کہتے ہیں پھر نظم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ نظم میں بھی ہوتے ہوتے بات آزاد نظم سے نثری نظم کی طرف جا نکلتی ہے جہاں اوزان و بحور کا کوئی التزام سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔

صنف غزل میں محمد قلی قطب سے میر تقی میر تک ہزاروں شعرا تذکروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں جنھوں نے اس صنف کو انسانی جذبات کے جملہ اظہار کے لائق بنایا۔ میر تقی میر نے تو اپنی ساری زندگی اس صنف کے نام کر دی۔ میر کے بعد داغ دہلوی کا نام کلاسیکی غزل کی سادہ، آسان، رواں اور سہل زبان کے حوالے سے آتا ہے جنھوں نے زبان کو اس کے تمام تر اسالیب کے ساتھ برتا جس میں تشبیہ، استعارہ، تلمیح، مجاز مرسل سمیت محاورات و روزمرہ کا فنی التزام بہت اعلیٰ طریق کا ملتا ہے۔ داغ دہلوی کے بعد زبان کی سادگی اور سلاست کو غزل میں برقرار رکھنے والے سر فہرست شاعر ناصر کاظمی ہیں۔

ناصر کاظمی کی غزل کی طلسم کاریاں ہوش رُبا ہیں۔ ناصر کاظمی کا شعری سرمایہ ہر طرح سے لائقِ تحسین ہے۔ ناصر کاظمی نے جدید اُردو غزل کو زبان کے تمام تر لوازمات کے ساتھ دیگر شعری اصناف کے مقابلے میں نہایت بلند مقام سے روشناس کروایا ہے۔ ناصر کاظمی نے چار شعری مجموعے برگِ نَے، دیوان، نشاطِ خواب اور پہلی بارش یادگار چھوڑے۔ ان شعری مجموعوں کی زبان اپنے عہد کی معیاری زبان کا اختصاص پیش کرتی ہے۔ ناصر کاظمی نے شعر کے پیرہن کو تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور محاورہ سے خوب سجایا ہے۔ داغ دہلوی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر شعر سے محاورہ نکال دیں تو شعر پھسپھسا رہ جاتا ہے، یہی رائے ناصر کاظمی کی غزلیات کے حوالے سے ان پر صادق آتی ہے۔

محاورہ اُردو زبان میں بہت زیادہ مستعمل ہے۔ محاورے کا عام بول چال کی زبان میں استعمال اس عام ہے کہ پوری بات محاورے کی زبان میں ادا ہو جاتی ہے۔ اُردو محاورات کے بکثرت استعمال کا نمونہ دیکھنا ہو تو میرؔ، غالب ؔاور داغ کے کلام کو دیکھ لیجیے۔ یہ محاورہ ہی ہے جس کی وجہ سے اُردو زبان کے شعر و ادب میں رچاؤ، مٹھاس اور چاشنی کا ذائقہ ملتا ہے۔ یہ ایک ایسی طرزِ فکر ہے جو نثری ادب میں عموماً اور شعری ادب میں خصوصاً پائی جاتی ہے۔ دُنیا کی کوئی بھی زبان محاورے سے خالی نہیں ہے۔

محاورے کے بغیر کوئی بھی فن پارہ ادب عالیہ میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ محاورے سے زبان کی تنومندی اور ارتقائی اوج متشکل ہوتی ہے۔ اس کے استعمال سے لفظوں کی کثیر الجہتی پرتیں کھُلتی ہیں اور کلام میں اختصار پیدا ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے زبان کی باریکی اور لطافت کے در وَا ہوتے ہیں۔ معنی کو الفاظ کے پیرہن میں سجا، سنوار کر پیش کرنے کا نام محاورہ ہے۔ مطالب کو سمندر کے کوزے میں بند کرنے کا نام محاورہ ہے۔ محاورہ زبان کے پھیلاؤ اور خیال کی وسعت پر گرفت کو مضبوط کرتا ہے۔ محاورہ کثیر الجہتی مطالب کو کم سے کم الفاظ میں بیان کو محاورہ کہا جاتا ہے۔

محاورے سبھی زبانوں میں ہوتے ہیں۔ لوگوں کی عوامی زبان اور مقامی لب و لہجے کی آمیزش سے زبانیں اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ اُردو زبان میں پُر اثر اور دیدہ زیب محاورات کا ایک ذخیرہ موجود ہے جو لوگوں کے رویوں کے پس منظر میں پہناں تاریخ کی سماجی حیثیت اور عوامی رجحان کا پتہ دیتا ہے۔ ان کے ذریعے لوگوں کی زندگی کے دُکھ، سکھ، خوشیاں، اذیتیں، خواہشیں، آرزوئیں، محرومیوں اور ناکامیوں اور نفسیاتی الجھنوں سمیت تہذیب و تمدن کی پرچلت کا اظہار ہوتا ہے۔

جہاں تک محاورے کی بُنت کا سوال ہے۔ محاورہ مصدر کی طرح ہوتا ہے جسے مصدر کی طرح (ن) لگا کر زمانے کے صیغے کے موجب جملے میں برتا جاتا ہے۔ جس طرح مشہور ہے۔ ’بازو ٹوٹیں‘۔ اس کو (ن) لگا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ’’دشمن کے ساتھ مل جانے سے لڑائی میں سلیم کے بازو ٹوٹ گئے ہیں‘‘۔

نثر میں محاورے کی بُنت کی مثالیں دیکھیں:

٭۔ ڈوبے کو سانس نہیں آیا۔ [اس میں ’’ڈوبے کو سانس نہیں آتا‘‘ محاورہ ہے۔]

٭۔ پکائی بھی کیا اور سوکھی کھائی۔ [اس میں ’’سوکھی کھانا‘‘ محاورہ ہے۔]

٭۔ اللہ ملائی جوڑی ایک اندھا ایک کوڑھی [اس میں ’’جوڑی ملانا‘‘ محاورہ ہے۔]

محاورے کا برجستہ اور شگفتہ ہونا در اصل مصدر کے برجستہ اور شگفتہ ہونے کا کمال ہے۔ اُردو محاورات کے لسانی تناظر اور تشکیلی عوامل پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جتنے بھی مصادر ہیں ان میں الفاظ کی ایک خاص ترتیب وضع کی گئی ہے۔ اس خاص ترتیب کی وجہ سے ان میں ایک طرح کی موزونیت کے ساتھ ایک خاص آہنگ اور لَے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جو رفتہ رفتہ مصدر سے مملو ہو کر اپنے وجود کو محاورے کے کینوس میں مدغم کر دیتا ہے۔ جہاں محاورے کا رنگ روپ اپنے کمال کو چھو لیتا ہے

زبان دُنیا کی وہ پہلی ایجاد ہے جسے انسان نے اپنے لیے ایجاد کیا ہے۔ سب سے پہلے انسان نے بولنا اور گفتگو کرنا سیکھا ہے۔ کہتے ہیں: ’ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے‘۔ مرورِ وقت کے ساتھ جیسے جیسے دُنیا ترقی کرتی گئی ویسے ویسے انسان اپنا ارتقائی سفر طے کرتا چلا گیا۔ بڑے بڑے بھاری الفاظ کی جگہ کومل، نازک، سادہ اور عام فہم الفاظ نے لے لی۔ صدیاں برسوں میں، برس مہینوں میں اور مہینے دنوں، گھنٹوں اور منٹوں میں ڈھل گئے۔ ہر چیز نے خود کو مختصر اور دیر پا کر لیا۔ پہلے بڑی بڑی نظمیں (مثنویاں) لکھنے کا رواج تھا اور اب جدید دور میں مثنوی کی جگہ مختصر آزاد نظم (ایک مصرعی نظم) نے لے لی۔ اس ایک مصرعی نظم میں با آسانی وہ بات کہی جا سکتی ہے جسے ایک ضخیم مثنوی میں کبھی کہا جاتا تھا۔

مثلاً: ’کلیجہ ٹھنڈا کرنا‘۔ اس میں ’کرنا‘ مصدر ہے۔ محاورے کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے بلکہ محاورہ یک مصرعی نظم سے بھی مختصر ہے۔ دو چار الفاظ میں لمبی چوڑی کہانی نما داستان کو سمیٹ کر بیان کر دیتا ہے۔ محاورے کا خاصا یہ ہے کہ اس کے استعمال سے زبان کا چہرہ حسیں اور جاذب نظر ہو جاتا ہے اور ابلاغ میں سمپورتا اور امیرتا، در آتی ہے۔

کلاسیکی اُردو شعرا کے کلام میں میرؔ، غالب اور داغؔ کے کلام کی خصوصیت اور پذیرائی کی وجہ ان گنت لسانی خوبیوں کے علاوہ محاوروں کا استعمال بھی ہے محاورے بڑے پُر اثر اور معنویت سے بھر پور ہیں جن میں ابلاغ کی ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ انھیں محاوروں کی وجہ سے میرؔ، غالبؔ اور داغؔ ؔ کے کلام کو امرتا اور دوام نصیب ہوا ہے۔ ان محاوروں کی یہ برکت ہے کہ کسی حاذق کو کوئی بات یا محاورہ سنایا جائے تو وہ فوراً میرؔ، غالبؔ اور داغؔ کا شعر سنا دے گا۔ میر، غالب اور داغ نے غزلیات میں محاورات کا استعمال کر کے گویا محاورہ کو ناقابلِ تردید سند فراہم کر دی ہے۔

ناصر کاظمی کی غزلیات میں محاورات کا شعری طلسم حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ ناصر کی کوئی ایک غزل ایسی نہیں جس میں محاورات کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔ ناصر کو محاورے بہت پسند تھے۔ شعر میں موضوع کی کیفیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ناصر محاورے کا انتخاب کرتے ہیں اور شعر میں اسے یوں کھپا دیتے ہیں کہ اگر محاورے کو شعر سے جز وقتی حذف کر کے دیکھا جائے تو پورا شعر بیکار اور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیں:

دل ترے بعد سو گیا ورنہ

شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سُنا اور کچھ نہ کہا

دل میں رہ گئی دل کی بات

اب تو رستوں میں خاک اُڑتی ہے

سب کرشمے تھے باغ میں گل کے

جدائیوں کے مرحلے بھی حُسن سے تہی نہ تھے

کبھی کبھی تو شوق آئنے دکھا کے رہ گیا

دم گھٹنے لگا ہے وضعِ غم سے

پھر زور سے قہقہہ لگاؤ

ناصر کاظمی اُداسی، تنہائی، آشفتہ سری اور یاسیت کے شاعر کہلائے جاتے ہیں۔ ایک شاعر کو چند کیفیات کے تخصیصی ترجمان کا نمائندہ قرار دینا شاعر کے ساتھ زیادتی والا رویّہ ہے۔ شاعر کبھی خوش مزاج اور یاسیت زدہ یعنی قنوطی نہیں ہوتا۔ شاعر پر جو کیفیت طاری ہوتی ہے ؛شاعر اُسے پوری ایمانداری کے ساتھ شعر میں بیان کر دیتا ہے۔ ناصر کا معاملہ بھی یہی ہے کہ ناصر نے ہجرت کا دُکھ سہا ہے۔ محبت میں ناکامی ہوئی ہے۔ زمانے نے دُکھ دئیے ہیں اور اپنوں غیروں کی بے مروتیوں سے دل بجھا ہے۔ یہ سبھی جذبات ناصر کی شاعری میں نشاط و خوشی و وصال و کیف آور مناظر سے زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ شاعر ہر طرح کی کیفیت، موضوع، خیال، خواہش، لمس، حدت، تڑپ اور شدت کو شاعری میں بیان کرتا ہے۔

ناصر کاظمی نے جدید اُردو غزل میں نت نئے تجربات کیے اور اس ویران گلستان کو اپنے شعری اسلوب سے گل گلزار کیا جس کا انھیں دعوا بھی تھا اور ناز بھی۔ ناصر کاظمی کے شعری مجموعے بر گِ نَے میں محاورات کے فنی التزام کو ناصر خصوصی دلچسپی سے لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ناصر کاظمی کے برگِ نَے کی غزلیات میں شامل محاورات کو غزلیات کے شعری مجموعے کی منطقی ترتیب کے مطابق فرہنگ ترتیب دی ہے جس سے زبان و بیان کے جملہ اسرار و رموز اور لوازماتِ شعری سے دلچسپی رکھنے والا قاری ناصر کے ہاں محاورات کے استعمال کے تنوع، وسعت اور بُنت کاری کا مطالعہ کر سکتا ہے۔

ذیل میں ترتیب دئیے محاورات کے مطالعے سے ناصر فہمی کا ایک نیا باب کھُلے گا جس سے ناصر کی غزلیات کو لسانی نکتہ نظر سے از سر نو تحقیق کرنے میں یہ عُنصر مہمیز کا کام کرے گا۔ ان محاورات کو شعری مجموعے کی جملہ غزلیات کی دی گئی ترتیب کے مطابق نکالا گیا ہے اور پورا شعر بطور حوالہ شامل کیا گیا ہے تاکہ شعر سے لطف اندوز بھی ہوا جائے اور شعر میں محاورے کے استعمال کے فنی حُسن سے بھی محظوظ ہوا جائے۔

وحشت ہونا:

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

برہم ہونا:

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اشکوں میں ڈھلنا:

جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ

اشکوں میں ڈھل گئی ہے تری صورت کبھی کبھی

قیامت گزرنا:

تیرے قریب رہ بھی دل مطمئن نہ تھا

گزری ہے مجھ پہ یہ قیامت کبھی کبھی

ہوش ہونا:

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا

یوں بھی گزر گئی شبِ فُرقت کبھی کبھی

کیا دن تھے :

کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی

یوں اپنا گھر بہار میں بھی ویراں نہ تھا کبھی

دن دکھانا:

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے

اک بار جو آئے پھر نہ آئے

ہوش میں آنا:

اُس پیکرِ ناز کا فسانہ

دل ہوش میں آئے تو سنائے

رونق ہونا:

رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ

لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ

دل سو جانا:

دل ترے بعد سو گیا ورنہ

شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ

آگ پھینکنا:

کلیاں جھلسی جاتی ہیں

سورج پھینک رہا ہے آگ

آگ لگنا:

دھوپ کی جلتی تانوں پر

دشتِ فلک سے لگ گئی آگ

خاک اُڑانا:

خاک اُڑاتے ہیں دن رات

مِیلوں پھیل گئے صحرا

کال پڑنا:

فصلیں جل کر راکھ ہوئیں

نگری نگری کال پڑا

کرن پھوٹنا: کیا خبر خاک ہی سے کوئی کرن پھوٹ پڑے

ذوقِ آوارگیِ دشت و بیاباں ہی سہی

جنگل ہوا:

بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم

وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں

تاب لانا:

کہاں تک تاب لائے ناتواں دل

کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں

آنکھ لگنا:

زلفوں کے دھیان میں لگی آنکھ

پُر کیف ہوا میں سو گئے ہم

چھلک کے رہ جانا:

بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی

چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے

ویرانے سُلگنا:

کہا ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست

تمام رات سُلگتے ہیں دل کے ویرانے

دل پہ گزرنا:

اُمیدِ پُرسشِ غم کس سے کیجئے ناصرؔ

جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے

دل کی دل میں رہ جانا:

کچھ نہ سُنا اور کچھ نہ کہا

دل میں رہ گئی دل کی بات

رات کٹنا:

یار کی نگری کوسوں دور

کیسے کٹے گی بھاری رات

ناصر کاظمی کے مذکورہ اشعار میں محاورات کا نظام دیکھیں۔ ناصر کس خوبصورتی سے محاورات کو شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔ آنکھ لگنا، ویرانے سلگنا، دل کی دل میں رہ جانا، تاب لانا ایسے محاورے ہیں جو بظاہر عام فہم اور سطحی معلوم ہوتے ہیں لیکن شعر کی بُنت میں ان کی دخل اندازی غیر معمولی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ ویرانے سلگنے والا محاورہ ناصر نے ضرورتِ شعری کے تحت خود وضع کیا ہے۔ شاعر کو یہ اختیار ہے کہ وہ ضرورتِ شعری کے تحت نئے الفاظ و محاورات وضع کر سکتا ہے۔ شاعری اوزان بحور کے تحت اپنا ایک نظام رکھتی ہے۔ نثر نگار اس صفت سے محروم ہوتے ہیں۔

آنکھیں برسنا:

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے

بہاروں میں اب کی نئے گُل کھِلے

گور کنارے پہنچنا:

پہنچے گور کنارے ہم

بس غمِ دوراں ہارے ہم

بیٹھ جانا:

سب کچھ ہار کے رستے میں

بیٹھ گئے دکھیارے ہم

سوال تڑپنا:

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر

مرے لیے کوئی شایانِ التماس نہیں

دل کانپنا:

ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اُٹھتا ہے

مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

آس مٹنا:

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے

بہت دنوں سے طبیعت مری اُداس نہیں

ڈیرے جمانا:

منزل نہ ملی تو قافلوں نے

رستے میں جما لیے ہیں ڈیرے

شام ہونا:

جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو

بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

اشک تھمنا:

رودادِ سفر نہ چھیڑ ناصرؔ

پھر اشک نہ تھم سکیں گے میری

دن پھرنا:

دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے

بوئے گل ہے سراغ میں گل کے

بہار آنا:

کیسی آئی بہار اب کے برس

بوئے خون ہے ایاغ میں گل کے

خاک اُڑنا:

اب تو رستوں میں خاک اُڑتی ہے

سب کرشمے تھے باغ میں گل کے

دم ہونا:

آنسوؤں کے دیے جلا ناصرؔ

دم نہیں اب چراغ میں گُل کے

اپنی سی کر گزرنا:

کوئی جیے یا مرے

تم اپنی سی کر گزرے

رنگ بھرنا:

دل میں تیری یادوں نے

کیسے کیسے رنگ بھرے

بات آنا:

یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی

لب پہ مشکل سے تری بات آئی

سوگ پھیلنا:

گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ

دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ

ناصر کاظمی نے جس انداز میں ہجرت کے تجربے کو بیان کیا ہے۔ یہ پیرایہ ان کے ہم عصر کے بالکل دکھائی نہین دیتا۔ سوگ پھیلنا، چوٹ کھانا، راس آنا، دل ڈوبنا ایسے محاورے ہیں جن سے ناصر کی محبت کا بھرم نظر آتا ہے اور دل پر محبت کی محرومی کی صاف چوٹ بھی دکھائی دیتی ہے۔ سوگ پھیلنے والے محاورے سے ناصر کی ہجرت کے وقت خون کی ہولی کی اذیت ناکی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ محاورہ سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ سماج میں ہونے والے تغیر کا جملہ احوال محاورے میں مقید ہوتا ہے۔ محاورے داستان کی طرح اپنے اندر سماج کی جملہ کارفرمائیوں کو احوال لیے ہوتا ہے جس سے اس سماج کی نفسیاتی رو کو تحلیل کر کے دیکھنے اور نتائج بر آمد کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

آنکھیں برسنا:

پھر جس کے تصور میں برسنے لگیں آنکھیں

وہ برہمی صحبت شب یاد رہے گی

چوٹ کھانا:

چوٹ کھائی ہے بار ہا لیکن

آج تو درد ہے عجب کوئی

پاؤں چلنا:

پاؤں چلنے لگی جلتی ہوئی ریت

دشت سے جب کوئی آہُو نکلا

آنکھوں میں کٹنا:

آنکھوں میں کٹی پہاڑ سی رات

سو جا دلِ بے قرار کچھ دیر

خمار رہنا:

پھر نغمہ و مے کی صحبتوں کا

آنکھوں میں رہا خمار کچھ دیر

راس آنا:

سائے کی طرح مرے ساتھ رہنے رنج و الم

گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو

دل ڈوبنا:

دھُوپ اُدھر ڈھلتی ہے دل ڈوبتا جاتا ہے اِدھر

آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی مجھ کو

کھینچ کر لانا:

شہرِ لاہور تری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

آئنے دکھانا:

جدائیوں کے مرحلے بھی حُسن سے تہی نہ تھے

کبھی کبھی تو شوق آئنے دکھا کے رہ گیا

قیامت گزرنا:

کسے خبر کہ عشق پر قیامتیں گزر گئیں

زمانہ اُس نگاہ کا فریب کھا کے رہ گیا

فریب کھانا:

کسے خبر کہ عشق پر قیامتیں گزر گئیں

زمانہ اُس نگاہ کا فریب کھا کے رہ گیا

راستے سجھانا:

چراغِ شامِ آرزو بھی جھلملا کے رہ گئے

ترا خیال راستے سجھا سجھا کے رہ گیا

زخم ہرے ہونا:

رنگ برسات نے بھرے کچھ تو

زخم دل کے ہوئے ہرے کچھ تو

جی بہلنا:

آؤ ناصرؔ کوئی غزل چھیڑیں

جی بہل جائے گا ارے کچھ تو

تنہائی جاگنا:

ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی

شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

خاک اُڑانا:

ٹھہر گیے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو

مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی

راس آنا:

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لے

یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

آنکھ بھر آنا:

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا

کہ اُس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

چونک پڑنا:

میں سوتے سوتے کئی بار چونک پڑا

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

آنچ آنا:

میں سوتے سوتے کئی بار چونک پڑا

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

رُسوائی ہونا:

پھر اُس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصرؔ

بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رُسوائی

ناز اُٹھانا:

بس اب تو ایک ہی دھُن ہے کہ نیند آ جائے

وہ دن کہاں کہ اُٹھائیں شبِ فراق کے ناز

ناصر کاظمی نے محبت کے جذبے کو جس عقیدت، شدت اور مروت سے غزل میں کھپایا ہے۔ یہ ان کا انفرادی وصف ہے۔ ناصر کے ہاں محبت جملہ جذبات کا سردار جذبہ ہے جس سے متاثر ہوئے اور اس میں مبتلا ہوئے بغیر زندگی کی معنویت کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ ناز اُٹھانا، پردہ اُٹھانا، نظر سے گزرنا، طلب ہونا، چونک پڑنا ایسے محاورے ہیں جن میں محبت کے سوز کو فراق کی وصلی آزردگی میں تحلیل ہو کر فنا ہو جانے کی جستجو میں ڈھلتے دیکھا جا سکتا ہے۔

پردہ اُٹھانا:

یہ بے سبب نہیں شام و سحر کے ہنگامے

اُٹھا رہا ہے کوئی پردہ ہائے راز و نیاز

نظر سے گزرنا:

پھر کئی لوگ نظر سے گزرے

پھر کوئی شہرِ طرف یاد آیا

چارا ملنا:

چلے چلو اِنھی گُمنام برف زاروں میں

عجب نہیں یہیں مل جائے درد کا چارا

طلب ہونا:

تیری زلفوں کا سبب ہے کوئی

آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی

آنچ آنا:

آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے

پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی

ہوش اُڑانا:

ہوش اُڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں

تیری بستی میں ہوں یا خوابِ طرب ہے کوئی

گیت بُننا:

گیت بُنتی ہے ترے شہر کی بھرپور ہوا

اجنبی میں ہی نہیں تو بھی عجب ہے کوئی

دن دکھانا:

خدا وہ دن نہ دکھائے تجھے کہ میری طرح

مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی

دم لے کے چلنا:

دن بھر تو چلے اب ذرا دم کے لے چلیں گے

اے ہم سفرو آج یہیں رات گزارو

سر دیوار سے مارنا:

یہ عالمِ وحشت ہے تو کچھ ہو ہی رہے گا

منزل نہ سہی سر کسی دیوار سے مارو

خاک اُڑنا:

خاک بھی اُڑ رہی ہے رستوں میں

آمدِ صبح کا سماں بھی ہے

رنگ اُڑنا:

رنگ بھی اُڑ رہا ہے پھولوں کا

غنچہ غنچہ شرر فشاں بھی ہے

آنکھیں برسنا:

بیٹھے بیٹھے برس پڑیں آنکھیں

کر گئی پھر کسی کی آس اُداس

رہ رہ کے یاد آنا:

کوئی رہ رہ کے یاد آتا ہے

لیے پھرتی ہے کوئی باس اُداس

آنکھ بھر کے دیکھنا:

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے

مزہ ملنا:

ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھُولیں گی

مزے ملے انھیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے

بیکار جاننا:

دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان

شب کے پروردوں میں ہے کیا غور سے سُن

ہاتھ کانوں سے اُٹھانا:

کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ

ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سُن

ناصر نے غزلیات میں دل، آنکھ، دھیان، محبت، رفتگاں، فرقت، وصال، ہجر، شب، جی، سوگ وغیرہ الفاظ کا بکثرت استعمال کیا ہے جس سے شعر کی فضا میں ایک طلسمی کیفیت کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ ناصر کے ہاں موضوع کی تکرار کے باوجود تازگی اور ندرت کا عنصر زائل نہیں ہوتا۔ ناصر کا قوتِ مشاہدہ محاورے کی بُنت میں غضب کا رنگ پیدا کرتا ہے جس سے معنی کی ترسیل میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

دل پر گزرنا:

کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر

تو بھی اے جانِ وفا غور سے سُن

آنکھ بھر آنا:

بھر آئے گی آنکھ بھی کسی دن

خالی نہیں صرفِ آہ میں رہنا

ہاتھ لگانا:

میں ہاتھ نہیں اُسے لگایا

اے بے گنہی گواہ رہنا

آنکھ رکھنا:

قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے

آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے

جھمکی دکھانا:

یک بیک آ کے دکھا دو جھمکی

کیوں پھراتے ہو پریشان مجھے

کان سُن ہونا:

سُن کے آوازۂ گل کچھ نہ سُنا

بس اُسی دن سے ہوئے کان مجھے

جی ٹھکانے نہ ہونا:

جی ٹھکانے نہیں جب سے ناصرؔ

شہر لگتا ہے بیاباں مجھے

صدمے گزرنا:

ہم پہ گزرے ہیں خزاں کے صدمے

ہم سے پوچھے کوئی افسانۂ گل

دم رہنا/عالم رہنا:

جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں

ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں

آنکھوں میں رہنا:

دل میں اک عمر جس نے شور کیا

وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں

رنگ جمنا:

کبھی دیکھی تھی اُس کی ایک جھلک

رنگ سا جم رہا ہے آنکھوں میں

سائیں سائیں کرنا:

دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

قلق ہونا:

برابر ہے ملنا نہ ملنا ترا

بچھڑنے کا تجھ سے قلق اب کہاں

دم گھٹنا:

دم گھٹنے لگا ہے وضعِ غم سے

پھر زور سے قہقہہ لگاؤ

بساط اُلٹنا:

پھر دل کی بساط الٹ نہ جائے

امید کی چال میں نہ آؤ

چال میں آنا:

پھر دل کی بساط الٹ نہ جائے

امید کی چال میں نہ آؤ

تارے گنوانا:

تارے گنوائے یا سحر دکھلائے

دیکھیے شامِ غم کہاں لے جائے

چراغ مرجھانا:

صبحِ نورس کا راگ سنتے ہی

شبِ گل کے چراغ مرجھائے

آنکھ بھر آنا:

آ کے منزل پہ آنکھ بھر آئی

سب مزہ رفتگاں نے چھین لیا

راس ہونا:

یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب

اس میں اندیشۂ جاں تھا پہلے

ڈیرے ڈالنا:

ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں

اُس طرف چشمہ رواں تھا پہلے

ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چوندیس

گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا

دل ٹپکنا:

دل ٹپکنے لگا ہے آنکھوں سے

اب کسے راز داں کرے کوئی

ناصر کاظمی نے دل کو دل کی راہ سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ دل بڑا بے ایمان اور حوصلہ شکن ہے۔ یہ کسی کی نہیں سُنتا۔ ناصر کے ہاں طبیعت کا رجحان دل کی آمادگی سے مشروط ہے۔ ناصر نے طبیعت کی روانی کو دل کی آمادگی سے متصل کر کے وصال کی لذت سے محظوظ ہونے کی جستجو کی ہے۔ ناصر کے ہاں محبت کے اتنے شیڈ موجود ہیں کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ ناصر نے محبوب کو طعن و ملامت کی بجائے شرمسار نگاہوں سے متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اوس برسنا، لہو سرد ہونا، رستہ دیکھنا، ڈیرے ڈالنا، یہ وہ محاورات ہیں جن کے شعر میں ڈھلنے سے محبت کی تفہیم آسان ہو گئی ہے۔

اوس برسنا:

صبح تک ہم نہ سو سکے ناصرؔ

رات بھر کتنی اوس برسی ہے

لہو سرد ہونا:

منزل کی ٹھنڈکوں نے لہو سرد کر دیا

جی سُست ہے کہ پاؤں چبھن کو ترس گئے

اندھیر ہونا:

اندھیر ہے کہ جلوۂ جاناں کے باوجود

کوچے نظر کے ایک کرن کو ترس گئے

رستہ دیکھنا:

اُس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا

عمر بھر جس کا راستا دیکھا

رنگ دکھلانا:

رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی

بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی

دل ٹھنڈا کر دینا:

درد کے جھونکوں نے اب کے دل ہی ٹھنڈا کر دیا

آگ برساتا تھا آگے دیدۂ خونبار بھی

آگ برسانا:

درد کے جھونکوں نے اب کے دل ہی ٹھنڈا کر دیا

آگ برساتا تھا آگے دیدۂ خونبار بھی

کرامات ہونا: مشکل ہے پھر ملیں کبھی یارانِ رفتگاں

تقدیر ہی سے اب یہ کرامات ہو تو ہو

ہوا لگنا:

بہت ہی سادہ ہے تُو اور زمانہ ہے عیار

خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے

رنگ دینا:

وہ رنگ دل کو دیے ہیں لہو کی گردش نے

نظر اُٹھاؤں تو دُنیا نگارخانہ لگے

کنارے لگنا:

عجیب خواب دکھاتے ہیں ناخدا ہم کو

غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے

رات ڈھلنا:

منہ لپیٹے پڑے ہو ناصرؔ

ہجر کی رات ڈھل ہی جائے گی

کمی آنا:

کیا کمی آ گئی وفاؤں میں

وہ اثر ہی نہیں دعاؤں میں

گھٹ کے مرنا:

گھٹ کے مر جاؤں گا اے صبحِ جمال

میں اندھیرے میں ہوں، آواز نہ دے

کام آنا:

زندگی اُس کے تصور میں کٹی

دُور رہ کر بھی وہی کام آیا

کال پڑنا:

کیسی گردش میں اب کے سال پڑا

جنگ سر سے ٹلی تو کال پڑا

مختصر یہ کہ ناصر کاظمی کی شعری فضا میں محاورات کا طلسمی رنگ شعر کی بُنت اور معنی کی ترسیل کو غضب کا قرینہ عطا کرتا ہے جس سے قاری اور تخلیق کار کے درمیان آگہی کا رشتہ اُستوار ہوتا ہے جس سے دل کی بات دل میں اُترتی ہے اور اثر کرتی ہے۔ ناصر کی غزلیات میں ہر رنگ موجود ہے اور ہر رنگ میں اتنے رنگ ہیں کہ پورا دیوان رنگینی سے مزین ہے۔

٭٭٭

نورین علی کے افسانے: آئینہ میں ارتعاش کا خواہش مند عکس ۔۔۔ رویندر جوگلیکر

بہت کم ایسا موقع آتا ہے جب افسانوی مجموعے کو پڑھتے ہوئے، افسانہ در افسانہ، متن اور افسانے کی فضا ہر افسانے میں اپنے تخلیقی جوہر کا بہتر سے بہتر مظاہرہ کرتی ہوئی نظر آتی ہو بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ان افسانوں میں موجود مختلف بیانوں کے درمیان ایک قسم کی باہمی جگل بندی گُونج رہی ہے۔ یہ جگل بندی ایک ہی وقت میں افسانے کے فن سے نسبت اختیار کی گئی افسانہ نگار کی آزاد روش اور موضوعات کے الغار کو ایسے ٹکروں میں دیکھنے کی صلاحیت، جہاں کردار کی اپنی ذات سالم بنی رہتی ہے لیکن اس کے گرد رقص کرتے احساسات میں اس سالمیت کے ریزے ریزے نظر آنے لگتے ہیں۔

نورین علی حق کے افسانوی مجموعے ’’تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ‘‘ کے افسانوں میں جو فن نمایا ہوا ہے اس کی نشان دہی کرتے ہوے مجھے ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے کہ میں ایک کمرے میں بیٹھا بلیک بورڈ پر لکھی عبارت کے ایک حصے کو جذب کر ر ہا ہوں کہ اچانک ایک نئی سمت سے عبارت کا ایک نیا حصہ پہلے والے حصے پر عائد ہو جاتا ہے۔ یہ عائد ہونا زاویے کی تبدیلی اور افسانے میں کردار کی اپنی جگہ کی مسلسل تلاش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے یہ عمل وہاں اختیار کیا گیا ہے کیوں کہ نور عین علی حق کا یہ بلیک بورڈ نہ صرف یہ کہ افسانے کے منظر کو قبول کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اثر کے وجود میں نہاں تشبیہات کو شک کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ ساتھ ہی افسانے کے اندر موجود جو صورت حال ہے، وہ کردار کے ذہنی عکس کو project کرنے کے الگ الگ زاویوں کو تحلیل کرنے کے ساتھ ہی ان سب کو ارتقاء کے نظام میں مسلسل مصروف کرنے میں مبتلا رہتی ہے۔

یہ وہ فور اً نظر آنے والی خاصیات ہیں جو آپ کو افسانے کے اندر اتر جانے کی دعوت دیتی ہیں اور پھر اکیلا چھوڑ دیتی ہیں، اس کے بعد بیانیہ افسانہ نگار کی نقطہ نظر اور کردار کے بیچ رفتہ رفتہ اپنی جگہ بناتا چلتا ہے۔ افسانہ کے خاتمے پر آپ کو یاد آتا ہے کہ تحریر تو مٹ گئی لیکن کیا اس تحریر کا عکس(امید کے مطابق) آپ کے ذہن میں اترا یا نہیں؟۔ ان افسانوں کی پڑھت مختلف جہات پر بار بار چلتی رہتی ہے۔ اب یہاں متن سے اخذ کیے گیے تاثر پر منحصر ہے کہ افسانے کی نئی تہہ نظر آ جائے لیکن شرط یہ ہے کہ قاری کو اپنے اندر پہلے والے قاری کو(یہاں پہلے والے قاری سے مراد متن کی ذہن میں پیدا کرد دی گئی فوری صورت حال ہے) ترک کر دینا ہو گا تبھی یقینی طور پر اپنے اصل معنی میں افسانہ اپنی گرہ کھولے گا۔

نور ین علی حق کی افسانہ نگاری کو اگر کسی ‘تعریف’ میں جذب کرنے کی کوشش کی جائے تو کہنا ہو گا کہ وہ سائنسی طریقہ کار کی روشنی میں نفسیاتی تجزیہ اور پڑتال کرتے ہیں۔ یہ دونوں صفات افسانہ نگار کی تخلیقی قوت کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جہان تک بیان اور موضوع کی بات ہے نور این علی حق ایسے افسانہ نگار ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ کرداروں کے ذہن میں مجردات، Abstractخیالوں اور متن کے درمیان ایک راہ کس طرح ہموار کی جائے کہ متن اس مجردات کا مظہر بن جائے۔ اور ساتھ ہی میرے خیال میں وہ اس بات پر بھی اسرار کرتے ہیں کہ اس عمل میں افسانے کا پورا منظر نامہ اُس فارم کو اختیار کر لے جو افسانے کی فطری اور تقریباً حتمی ساخت کی منزل بھی ہے۔

نورین علی کے اس فن کی نفسیات یہ ہے کہ مصنف کی منشا صاف ہو اور تشبیہ واضح ہو کہ جو آپ نے دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں کردار کی اپنی زندگی کے حال، ماضی اور مستقبل سے آپ پوری طرح واقف ہوں اور آگاہ بھی۔ ان افسانوں میں موجود تحریر کی یہ طاقت افسانہ نگار کو عاقل ہو کر تبدیلی کا خواہش مند، جدت پسند اور منطقی منصوبہ بند افسانہ نگار بناتی ہے۔ ایک مصنف کے لیے یہ محسوس کرنا آسان نہیں ہوتا کہ ان ساری تخلیقی قوتوں کے متحرک ہونے پر ایک تصادم بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے نجات پانا کوئی مقصد نہیں ہے لیکن تصادم کے اثر اور انجام سے افسانے کا معنوی پہلو ایک قسم کی سرابی کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس سراب سے نکلنے کی ذمہ واری تو بحر حال قاری کے حصے آتی ہے کیوں کہ وہی تو ہے جو افسانے کے متن سے سب سے زیادہ قریب تر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر افسانہ اس کے ذہن کو متحرک تو کرتا ہو لیکن منطقی پہلو تک اس کی پہنچ دشوار ہوتی ہوئی معلوم ہو تو افسانہ سمجھ لینے کے بھرم کے ساتھ خلا کی بے ترتیب صف بھی راہ پا جاتی ہے۔ خلا کی بے ترتیب صف کا یہ احساس ہی ”تشبیہ میں تقلیب” کا بیانیہ ہے جو اپنے معنی وجود کو پانے کے لیے مچل اٹھتا ہے۔ یہ جو بے چینی ہے وہ تشبیہ میں تقلیب کو بیان کرنے کی خواہش ہے میرے خیلا میں یہ اس مجموعہ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ ایک بحث طلب بات ہو سکتی ہے کہ ان افسانوں میں کرداروں کی جو تشکیل ہوئی ہے کیا وہ کسی تاریک گڈھے Blackhole کے اندر ہے جہاں اظہار کے روایتی نسخے اور طریقے منطقی سطح پر خارج ہو جاتے ہیں، غائب ہو جاتے ہیں، وہ بھی ٹھیک اپ کی نظروں کے سامنے جب سب کچھ روایتی روش پر چلتے ہوئے تو نظر آئے لیکن بیان اور اظہار کے کسی بھی سانچے سے انحراف بھی کرتا چلے۔ بعض دفعہ یہ محسوس ہو سکتا ا ہے کہ بیانیہ آوارہ ہو گیا ہے موضوع کی کششِ ثقل یا قوتِ ثقل کی وجہ سے ساکت سا ہو گیا ہے، یہ احساس در اصل وقتی ہوتا ہے کیوں کہ جیسے ہی بیان کیے گیے مسئلہ کا رمزیہ خلتا ہے آپ آزاد ہو جاتے ہیں اُن تمام زنجیروں سے جو ہمیں ہمارے نفس کو وراثت میں ملی ہوتی ہیں۔ یہ ہی وہ آزادی ہے جس کی تلاش اور خواہش میں ہم اپنے ”اصل” میں کوئی لطف لے پاتے ہیں، کسی فکری عمل کو انجام دے پاتے ہیں۔

اس مجموعے کے افسانے ارتقاء پذیر ہیں، اس معنی میں کہ یہ تیرہ افسانے تیرہ نقطے ہیں۔ یہ افسانے اس نقطے پر غور کرتے ہوئے تصدیق کرتے ہیں کہ حال کی تو حد ہو سکتی ہے لیکن مستقبل کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اصل میں سمجھے والی بات یہ ہے کہ مستقبل حال کی صلاحیت کا استعمال ہی نہیں کرتا بلک ساتھ ہی ساتھ وہ ہمارے تصور کی اڑان کو بھی مزید تقویت ادا کرتا ہے۔ سیاسی اور ثقافتی پیچیدگیوں کو ان افسانوں میں اسی سیاق و سباق میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مندرجہ بالا تفتیش کی روشنی میں اس مجموعے کے دو افسانوں کا مختصر احاطہ کرنا پسند کروں گا جو اس مضمون کا مطالبہ بھی معلوم ہوتا ہے اور حد بھی۔

یہ افسانے اس لیے چنے گئے ہیں کہ اپر جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کے مرکز میں یہ افسانے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور اس مجموعے کے گوہر بھی ہیں۔

۱۔ قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ

یہ افسانہ ہسپتال میں اپنے کمرے اور بستر پر کینسر کے مرض سے نبرد آزما ایک آدمی کا ہے۔ زندگی اوور موت کے درمیانی سرحدوں پر یہ افسانہ کھڑا ہوتا ہے جہان حیات اور مرغ کے مختلف لمحات آپس میں تحلیل ہوتے ہوئے افسانے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ معذور خواہشات کی دخل اندازی، حیات کی بہ معنی تقلیب میں بھٹکتی روداد اور دعا گو ذہن کی تین طرفہ جہت کے زیر اثر اس افسانے کا بیانیہ کردار کے اندر پوری کائنات کو دیکھنے کا چراغ بن جاتا ہے۔ بحران اور بکھرنے کے مسلسل عمل نے ذات کے شکستہ حالات کے ساتھ جو تجربہ کیا ہے اس نے پورے افسانے میں وجود کیAbsurdity کی تصویر بنا کر رکھ دی ہے، ساتھ ہی باہری دباؤں کی جال سازیوں کو برہنہ بھی کر دیا ہے۔ ایک ہی وقت میں تاریک اور روشن کونوں میں دھندلا جانے اور صاف صاف نظر آنے کی خاصیت اس افسانے کا مرکزی نقطہ ہے۔

میں پانی کے اتھاہ سلسلے کو دیکھے جا رہا ہوں، پانی کے بہاؤ اور اس کی تیز رو سے ایک خطر ناک آواز پیدا ہو رہی ہے، جیسے اسرافیل صور پھونک رہے ہوں۔ میں اداسی کے عالم میں پوری محویت لیکن ایک لا تعلقی کے ساتھ بہتے ہوئے پانی اور پیدا ہونے والی آواز کو شاید نظر انداز کر کے کہیں اور یا شاید کسی اور مقام پر خود کو کھڑا محسوس کر رہا ہوں۔ جمنا کی خس و خاشاک اور شہر کے کچرے تیزی کے سا تھ سطح آب پر بہتے ہوئے نگاہوں سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے تعقب میں مزید خس و خاشاک اور کچرے نگاہوں کے سامنے آتے جا رہے ہیں، ان کے ساتھ گرداب بھی ہیں، وہ بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ (ص: ۹)

شہر کی بد بو ذہن کو آلودہ کیے دے رہی ہے۔ بستیاں وہم کی چار دیواری میں قید ہیں جہاں کچھ بھی مثبت اندر نہیں آ سکتا۔ انسان کے گناہ اس کی سمجھ کو بھرم میں ڈال دیتے ہیں۔ روح کی اہمیت کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے اور بدن اہم سے اہم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کردار کی تشکیل ایک ایسے منصوبہ کی بنیاد پر کی گئی ہے جو ایک قسم کا رمزیہ ہے جہاں کردار دھیرے دھیرے اس رمزیہ کے سراغ قاری کے ساتھ برآمد کرتا چلتا ہے۔ کردار کی موت کا احساس قریب ہے لیکن یقیناً نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وہ انداز بیان ہے جو افسانے میں زبان کو پوری آزادی دیتا ہے۔

میرے بے مصرف وجود کے اندر سگریٹ کے دھوئیں کے پہنچتے ہی میری ناک، حلق، گلے اور سینے میں شاید جلن ہو رہی ہے، بائپسی کے لیے نکالے گئے گوشت کے ٹکڑے کی جگہ پر مجھے شدید ترین اور تڑپا دینے کی حد تک تکلیف ہو رہی ہے۔ میں اپنی توجہ ان تکالیف سے دور کر کے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگائے جا رہا ہوں۔ بنیادی طور پر برسوں کے طویل عرصے پر مشتمل قسطوں کی موت کے خلاف جابر و قاہر خدا کے سامنے میرا یہ علی الاعلان احتجاج ہے، بالکل اسی طرح جیسے مہاراشٹر، ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں نے حکومت کے کسان مخالف بل کے خلاف اپنے کھیتوں میں آگ لگا دی تھی، میں بھی قسطوں کی موت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے وجود کے ہر خوشہ گندم کو لا کر راکھ کر دینا چاہتا ہوں۔ (ص: ۱۲)

افسانے کے موضوع کو کوئی ایک شے نہیں بناتی، بلکہ واقعات کی چھوٹی چھوٹی فہرست ہیں جو افسانے میں موجود ہے۔ لیکن یہ فہرست کردار اور بیان کے درمیان کوئی ایسی اہم جانکاری نہیں دیتی جو کردار کے ذہن کا یقینی طور پر کو ئی سراغ ہو۔ بیان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ مصنف کی کوئی دخل اندازی نہیں ہے کہ افسانے میں سچ کہاں تک رموز کا تشبیہ ہے اور کہاں بیانیہ تقلیب پیدا کر رہا ہے یہ۔ ویسے بھی افسانے کا تجربہ رکھنے والی پڑھت کو ذہن میں ہر جگہ خلاصہ مطلوب بھی نہیں ہوتا۔

۲۔ خالی بوتل میں شراب

افسانے میں ترسیل کا مسئلہ افسانے میں بیان کیے گیے موضوع کے آس پاس گھومتا نظر آتا ہے، گویا افسانے کا محور ہی موضوع مان لیا جاتا ہے، بعض دفع ہوتا یہ ہے کہ افسانے کے تجزیہ میں فن اور جمالیات کے شعبوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے اسلوب کو افسانے کے موضوع کے ساتھ پہچان نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن مضمون اور اسلوب میں کوئی باہمی رشتہ لازمی ہو یہ کوئی ضروری نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ افسانے میں موضوع نیا سے نیا ہو لیکن ا س کے اسلوب میں کوئی خاص تخلیقی تجربہ موجود ہی نہ ہو۔ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ موضوع تو بہت عام سا ہو لیکن ا س اسلوب میں ایسا نیا تجربہ کیا گیا ہو کہ پرانے موضوع میں اب تک اندھیرے میں رہا کوئی پہلو نمایا ہو کر سامنے آ جائے۔ بے شک زماں اور مکاں کے مسلسل بدلتے ہوئے منظر نامے میں ایک حساس افسانہ نگار بہت کچھ نیا دیکھنے کا، سننے اور تجربے کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس لئے موضوع کے نئے پن کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے لیکن اصل ارتقا اسلوب میں ہی انجام پاتی ہے۔

یہ افسانہ بہت بڑے فلک پر ہمہ جہت موضوع کی مختلف طول و عرض کو اپنے اسلوب کے چلتے ایک سیدھی قطار میں باندھتا ہے۔ تجربہ اور تصور کو تحلیل کرتے ہوئے پورے بیانہ کو زندہ زبان میں پوری چابک دستی اور مرئیات کے ساتھ بیان کرنے میں نورین علی حق کا جواب نہیں۔ افسانے میں نیا پن اس وقت آتا ہے جب افسانہ نگار افسانے کو جیتا ہوا چلے۔ اپنی روداد کہنے کے لئے کردار کو اپنے ٖفیصلے کرنے، غلطیاں کرنے اور اپنی نفسیات کے بیچ الجھنے کا موقع دے۔ اسے جیتا جاگتا انسان ہونے کی چھوٹ دے۔ نور ین علی جانتے ہیں کہ اپنی بات کو نقطے اور حقائق کے ساتھ اظہار کا وسیلہ کیسے بنایا جائے۔

’’کئی بار مجھے خود محسوس ہوا کہ جب وہ اپنی آنکھیں جھکاتی یا مونگ پھلیوں کے چھلکوں کو ریزہ ریزہ کرتے ہوئے انہیں کھوئی کھوئی سی دیکھنے لگتی تو میرے اندر کوئی ٹھہاکے مار کر ہنستا، میری آنکھوں کا کبھی بایاں تو کبھی دایاں پپوٹا بند ہوتا اور خود ہی کھل جاتا۔ تبسم کی ہلکی لکیریں میرے چہرے پر تیر جاتیں۔ تبسم کی ان لکیروں کو میں دیکھ نہیں پا رہا ہوں مگر اندر کوئی ہے، جو مجھے یہ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایسے موقع پر یہ حرکتیں مجھ سے کون کراتا ہے، میں اکثر تنہائیوں میں ٹھہر کر سوچتا ہوں۔ آخر انسانیت کا یہ کون سا پیمانہ ہے، جو انسانوں سے بات کرتے ہوئے اندر اور باہم مختلف ہوتا ہے، اسے سنتے اور سوچتے ہوئے میں مونگ پھلیوں کے چھلکے گنگا میں ذرا زور لگا کر پھینکتا جا رہا ہوں‘‘ (ص؛۳۵)

’’چھلکے پانی پر پہنچتے ہی پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہتے چلے جا رہے ہیں۔ گنگا میں ایک قسم کا ٹھہراؤ ہے، گنگا ہولے ہولے بہہ رہی ہے، لوئی ہلکی پھلکی چیز بھی اس میں گرتی ہے تو اس کا ارتعاش اور ارتعاش اور اس سع پیدا ہونے والی لکیریں دور تک پھیلتی چلی جاتی ہیں، میں دیکھ رہا ہوں، ارتعاش کو دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہے، خواہ وہ زندگی میں ہو یا گنگا میں، یا ذہن و دل و دماغ میں اس کی بھی اپنی ایک منفرد سائکی ہوتی ہے، ارتعاش کا وجود زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، مثبت ہو یا منفی ارتعاش کا ہونا ناگزیر ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے اذہان کا ارتعاش گنگا کے پانی کی اوپری سطح پر تیار ہے یا گنگا میں ہونے والی ہلچل سے پیدا ہونے والا ارتعاش ہمارے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔‘‘ (ص: ۳۶)

افسانہ اپنے خاتمے کو لے کر بیتاب نہیں ہے بلکہ اس میں زندگی کے ایک ٹکرے کا بہاؤ ہے جو ایک پل کو بھی رکتا نہیں۔ کچھ راز ہیں، عشق، نفس، جبلیات کی کچھ تشبیہات ہیں جو قاری کے تجسس کو اور بھی بڑھا دیتیں ہیں۔ یقینی طور پر یہ افسانہ دونوں کرداروں کے درمیان بنے رابطے سے ذات میں پیدا ہوئے عبوری مرحلہ سے گزرتے ہوئے کرداروں کے اور بھی سنجیدہ ہونے کی کہانی ہے۔ اس افسانے میں مرکز میں ٹھہراؤ ہے، ٹھہراؤ کی زنجیر یں ہیں جو افسانے کو دلچسپ موڑ دیتی ہیں۔ افسانہ یہ منوانے میں کامیاب ہوتا ہے کہ آپ ایک زندگی کی پیمائش دوسری زندگی کے میزان پر نہیں کر سکتے۔

٭٭٭

درون پختون ۔۔۔ داؤد کاکڑ

یہ مئی 1989 کی بات ہے کہ میں چند دوستوں کے ساتھ بدرشی (نوشہرہ) میں ان کے گھر پہنچا۔ دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے عجیب گو مگو کی کیفیت کا شکار تھا کہ خدا جانے وہ مجھے پہچان بھی پائیں گے یا نہیں کہ میں پانچ برس کی طویل غیر حاضری کے بعد ان سے ملاقات کرنے جا رہا تھا۔ سفید بنیان اور شلوار میں ملبوس انھوں نے دروازہ کھولا تو مجھے پہلے سے خاصے لاغر لگے۔ انھوں نے حسب عادت بڑی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا۔ رسمی حال احوال کے دوران میں مجھے لگا کہ وہ شاید مجھے پہچان نہیں پائے لیکن چند منٹوں میں میرا یہ وسوسہ جاتا رہا جب انھوں نے مجھ سے امریکہ میں میرے شب و روز کا حال دریافت کیا۔ گھنٹہ بھر کی اس نشست میں انھوں نے مجھے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ان کی طویل نظم شائع ہو چکی تھی جس پر وہ خاصے مطمئن تھے۔ یہ میری سمندر خان سمندر سے آخری ملاقات تھی۔ چند ماہ بعد جنوری 1990 میں۔ مجھے میرے بھائی مسعود نے ان کی وفات کی خبر فون پر دی تھی۔

یہ غالباً ستر کی دھائی کا وسط تھا جب اباسین آرٹس کونسل پشاور کے زیرِ اہتمام کسی تقریب میں سمندر خان سمندر سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ یہ میرا ادبی حلقوں اور نشستوں میں آمدورفت کا ابتدائی زمانہ تھا اور ادبی بڑوں سے نئی نئی روشناسیاں تھی۔

درمیانہ قد، چھریری کاٹھ، سرخ و سفید رنگت، بالشت بھر کی ترشی ہوئی سفید داڑھی، سر پر روایتی کلاہ، آنکھوں پر نظر کی عینک، ہاتھ میں کھونٹی اور چہرے پر ایسا وقار اور بردبار سنجیدگی کہ دیکھنے والا پہلی نظر میں متاثر ہو جائے۔ اکثر و بیشتر ان کو سفید رنگ کی قمیص شلوار میں دیکھا۔ سردیوں میں شیروانی یا چغے کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی عمر سے متعلق ایک نہایت دلچسپ حقیقت بتاتا چلوں کہ ہر دن کی تاریخ ہی ان کی عمر تھی یعنی وہ یکم جنوری 1901 میں پیدا ہوئے تھے۔ یوں ہماری پہلی ملاقات کے وقت وہ ستر کے پیٹے میں تھے لیکن نہایت چاک و چو بند، قابل رشک صحت کے مالک تھے۔ کم گو اور کم خوراک تھے۔ صوم و صلواۃ کے پابند سچے اور کھرے مسلمان تھے۔ دین و مذہب کا ان کی زندگی میں بڑا عمل دخل تھا۔ لیکن زاہد خشک بھی نہیں تھے اور اس کبر سنی میں بھی زندہ دلی کا یہ عالم تھا ہر شام پشاور صدر کے پر رونق بازاروں میں چہل قدمی کرتے نظر آتے تھے۔ اکثر شام کو صدر روڈ اور ارباب روڈ کے سنگم پر صدر کے سب سے با رونق چوک میں جب نوجوان ٹولیوں میں بٹے اور سائیڈ واک کی ریلنگ سے لگے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو چوک کی چھوٹی سی مسجد کے بے در و دیوار صحن میں جو نماز کے علاوہ اوقات میں پارکنگ کا کام بھی دیتا تھا سب سے اگلی صف میں مو صوف مسجد کے شکستہ کمرے کی طرف پشت کیئے اور نمازیوں کی صفوں کی طرف منہ کیئے۔ ۔ سر اٹھائے بازار کا نظارہ کرنے میں محو نظر آتے اور ان کی یہ محویت اس وقت تک قائم رہتی جب تک نمازیوں کی صفیں کھڑی نہ ہو جاتیں۔ کبھی نوجوانوں کے من پسند گورا بازار(جناح سٹریٹ)کے عین وسط میں ایک گلی کی نکڑ پر کھڑے رنگ و خوشبو میں رچے بسے چہروں کی بلائیں لیتے پائے جاتے۔

حسن پرستی اور عاشقی ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف میں سے تھے۔ یہاں میں مختصراً چند ایسے واقعات کا ذکر کرتا ہوں جو ان کی شخصیت کا یہ پہلو اجاگر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ہم ان کی پرانی تصاویر چھانٹ رہے تھے۔ انیس یا بیس برس کی عمر کی اپنی ایک تصویر دکھا کر بولے کہ اپنی یہ تصویر دیکھ کر وہ خود اپنے آپ پر عاشق ہو گئے تھے۔ نوجوانی میں اپنی کزن کے عشق میں مبتلا ہوئے لیکن یہ عشق خاندانی اختلافات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جوانی ہی کے دور میں ایک ٹینس میچ کے دوران ایک خوبرو نوجوان ان کے دل میں اتر گیا جو بعد میں زندگی بھر ان کے قریب ترین دوستوں میں سے رہا۔ وہ نوجوان ریاست سوات کا ولی عہد میاں گل محمد جہانزیب تھا جو بعد میں والیِ سوات بنا۔ 1980 میں جب میں امریکہ چلا گیا او وہ جب تک پشاور میں رہے تو ان سے کچھ عرصہ تک خط و کتابت رہی۔ اپنے شروع کے کسی خط میں میں نے ٹلسا (Tulsa) کی ایک بوڑھی خاتون کا ذکر کرتے ہوئے اس کی تعریف لکھی کہ کس طرح اس خاتون نے میری بہت مدد کی تو اگلے خط میں انھوں نے لکھا کہ ’’ آپ نے بوڑھی انگریز خاتون کی سیرت سے متعلق بہت لکھا ہے جس کا مجھ پر بہت اچھا اثر ہوا ہے بلکہ یوں سمجھو کہ میں 80 برس کا بوڑھا اس ضعیف العمر بڑھیا کی سیرت پر عاشق ہو گیا ہوں ‘‘ یعنی ان کی حسن پرستی اور عاشقی اپنے وسیع تر معانی میں استعمال ہوتی تھی۔

حسن پرستی کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے تین اور نمایاں اوصاف تھے جن کے ذکر کے بغیر ان کی شخصیت کا خاکہ مکمل نہیں ہو سکتا۔

اول ان کی خود داری جس کے آگے وہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً شاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرتا چلوں جو انھوں نے مجھے سنایا تھا۔ جیسے کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ وادئ سوات کے والی میاں گل جہانزیب ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور وہ ہر سال موسم گرما میں سوات جا کر ان کے ساتھ مہینہ دو مہینے گزارا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران وہ والیِ سوات کے ساتھ ان کی گاڑی میں سیدو شریف سے بحرین جا رہے تھے دونوں دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ یکایک والی صاحب نے ڈرائیور کو کار روکنے کا حکم دیا۔ چاک و چوبند ڈرائیور نے حکم کی تعمیل کی۔ کار کے رکتے ہی والی صاحب نہایت عجلت کے ساتھ دروازہ کھول کر باہر نکلے اور گاڑی کی پشت کی جانب چلے گئے۔ سمندر خان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو تھوڑے فاصلے پر سڑک کے کنارے ایک فقیر بیٹھا ہوا تھا اور والی صاحب اسے کچھ دے رہے تھے۔ والی صاحب کی واپسی پر جب گاڑی دوبارہ اپنی منزل کی طرف رواں ہو گئی تو سمندر خان کے استفسار پر والی صاحب نے انہیں بتایا کہ ’یہ شخص نیچے پہاڑوں کے دامن میں ایک گاؤں میں رہتا ہے اور سال میں صرف ایک مرتبہ میرے لیئے اوپر سڑک پر آتا ہے‘۔ یہ جواب سن کر سمندر خان کے دل کو ٹھیس پہنچی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سالہا سال سے ان کا یہ معمول رہا تھا کہ وہ سال میں ایک دفعہ اپنے دوست سے ملنے سوات آتے تھے۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ایک سال میں دوسری مرتبہ آئے تھے۔ ان کی حساس طبیعت نے یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی کہ ہو نہ ہو والی صاحب موصوف نے انہی پر چوٹ کی ہے۔ اب ان کے لیئے وہاں رکنا نا ممکن تھا۔ انھوں نے وہ دن مشکل سے گزارا اور اگلے ہی دن پشاور واپس آ گئے اور سالہا سال پر محیط ان کا یہ معمول اختتام کو پہنچ گیا۔ کئی سالوں بعد ان کا حج کا ارادہ ہوا تو انھوں نے اپنے دوست میاں جہانزیب کو خط لکھا اور اپنے حج کے ارادے سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں لہٰذا جانے سے پیشتر مناسب ہے کہ اپنے ملنے ملانے والوں سے اپنی بخشش کروا لوں اور یہی وجہ میرے اس خط لکھنے کی ہے‘‘۔ والی صاحب کا جواب آیا کہ ’’جب تک آپ میرے پاس نہیں آئیں گے، میں آپ کو نہیں بخشوں گا‘‘۔ سمندر خان نے جواباً سوات نہ آنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے دوبارہ اپنی خواہش کا اظہار کیا لیکن والی صاحب اپنی بات پر مصر رہے اور انھیں مجبوراً سوات جانا پڑا۔ سالوں بعد دوستوں کی ملاقات ہوئی اور باتیں کھلیں تو والی صاحب نے قسم کھا کر انھیں یقین دلایا کہ اس فقیر سے متعلق جو کچھ بھی انھوں نے کہا تھا وہ حقیقت پر مبنی تھا اور وہ کسی طور ان کی ذات پر چوٹ نہیں تھی۔ یقین نہ ہو تو وہ خود اس فقیر کے گاؤں جا کر اس سے پوچھ سکتے ہیں۔ اگر وہ مجرم ہوئے تو سزا کے مستحق ورنہ انھیں اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ اوریوں برسوں بعد ان کا دل والی صاحب کی طرف سے صاف ہوا۔

پشاور صدر میں دو کمروں کے کوارٹر میں کم و بیش چالیس برس تک تنہا رہے۔ بیماری کی حالت میں تین تین دن تک بھوکے پیاسے رہے لیکن کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کیا۔

دوئم ان کی انتہا درجے کی نفاست پسندی تھی جو یوں تو ان کے پورے گھر میں نمایاں تھی لیکن وہ کمرہ جو ان کی مخصوص نشست گاہ تھا اس کے کونے کونے سے نفاست ٹپکتی تھی۔ چھوٹا سا مستطیل کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی دائیں جانب دیوار کے ساتھ لمبائی میں رکھی ہوئی تھیں۔ دو کرسیاں، دو میزیں اور ایک لوہے کا ٹرنک جو ان کے قلمی نسخوں سے بھرا ہوا تھا۔ چارپائی کے آگے رکھی ٹیبل پر پاکٹ بکس، چند قلم، سیاہی، پنسلیں، پیپر ویٹ اور ایک چھوٹا سا چاقو رکھا ہوتا تھا۔ چارپائی کے پیچھے دیوار میں پیوستہ دو بڑی الماریاں تھیں۔ ایک کتابوں کاپیوں سے اور دوسری روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی موٹی اشیاء سے بھری ہوئی تھیں۔ دیواروں پر کیلنڈر کے علاوہ ان کی کئی تصاویر چھوٹی بڑی فریموں میں آویزاں تھیں۔ انہی میں ان کے تمغات اور ایوارڈز بھی پلاسٹک میں لپٹے دیوار پر سجے ہوئے تھے۔ کارنس بھی مختلف النوع نوادرات سے اٹا پڑا تھا لیکن ہر چیز دھول دھپے سے پاک اور چمکتی دمکتی اور ایک خاص ترتیب کے ساتھ رکھی ہوتی۔ کمرے میں ہمیشہ پشت کے رخ جوتے چوکٹھ کے باہر اتار کر اندر داخل ہوتے تھے یوں ان کے ملنے والے بھی ان کی تقلید میں جوتے کمرے کے باہر اتار کر اندر قدم رکھتے تھے۔ کمرے کے اندر چارپائی ان کی مخصوص جگہ تھی۔

ان کی شخصیت کی تیسری بڑی خصوصیت ان کا غصہ تھا جو ان کے نام اور کلام ہی کی طرح مشہور تھا، تیز اور تند۔ اپنی اس خو سے وہ خود بھی بیزار تھے لیکن کچھ کرنے سے لاچار تھے۔ زود رنج اس قدر کہ جب غصے کے اظہار کا کوئی ذریعہ نہ ملتا تو دنوں تک خود ہی سے لڑتے جھگڑتے رہتے۔ ایسی غصیلی طبیعت کے با وصف بذلہ سنجی کا یہ عالم تھا کہ ساٹھ کی دھائی میں جب پاکستان میں ٹی وی براڈ کاسٹ کا آغاز ہوا تو انہیں ایک پشتو مشاعرے میں شرکت کی دعوت ملی۔ یہ ان کا ٹی وی اسٹیشن جانے کا پہلا اتفاق تھا۔ ریکارڈنگ سے پہلے میک اپ روم میں ان کی نوک پلک درست کرتے ہوئے میک اپ مین نے ان سے سوال کیا۔

آپ ریڈیو میں کام کرتے ہیں؟

جی میں ریڈیو میں کام کرتا ہوں۔

آپ وہاں کیا بجاتے ہیں؟

میں وہاں طبلہ بجاتا ہوں۔

ایک مرتبہ پاکستان نیشنل سنٹر پشاور صدر میں غالب کی یاد میں مشاعرے کا اہتمام تھا۔ اکثر و بیشتر شعراء نے حسبِ دستور غالب کی زمینوں میں اپنا کلام پیش کیا اور اس کا روایتی انداز میں اظہار بھی کیا۔ سمندر خان سمندر پوڈیم پر آئے اور یوں گویا ہوئے کہ ’’ اکثر شعراء کرام نے غالب کی زمینوں میں اپنا کلام پیش کیا۔ میں غالب کے آسمان میں اپنا کلام پیش کرتا ہوں ‘‘۔ رد عمل میں قہقہے بلند ہوئے تو غنودگی میں ڈوبے سامعین جاگ گئے۔

سمندر خان سمندر نے 1943 میں ریڈیو پاکستان پشاور بطور سکرپٹ رائٹر شمولیت اختیار کی اور کم و بیش چالیس برس تک ریڈیو سے منسلک رہے اور مقبول عام پروگرام ’ حجرہ‘ کے لیئے با قاعدگی کے ساتھ روزانہ ایک سکرپٹ لکھا۔ یوں تو ’حجرہ ‘کے تمام ریڈیائی کردار جن میں قاضی صاحب، ہدایت خان اور شاہ پسند خان وغیرہ شامل تھے نے بے تحاشا شہرت حاصل کی لیکن پائندہ خان نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ خود سمندر خان نے بھی ’حجرہ ‘ میں صدا کاری کے جوہر دکھائے۔ روزمرہ کے عام مسائل پر مبنی گفتگو کا یہ پروگرام کئی دہائیوں تک چلا اور اس قدر مقبول عام ہوا کہ لوگ حجرہ کے کرداروں سے ملنے ریڈیو اسٹیشن آتے۔ سمندر خان نے بیسیوں ڈرامے، فیچرز لکھے۔ ان کے ریڈیو کے دور کے ہم عصروں میں ن م راشد، امیر حمزہ خان شنواری، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، خاطر غزنوی اور تاج سعید جیسی شخصیات شامل ہیں۔

سمندر خان بلا کے زود نویس تھے۔ انھوں نے چھوٹی عمر میں لکھنا شروع کیا اور تا دم مرگ لکھتے رہے۔ ریڈیو کی کم و بیش چالیس برس کی نوکری میں تو انھوں جو لکھا وہ تو لکھا اس کے علاوہ انھوں نے 55 کتب نظم و نثر کی سپرد قلم کیں جن میں سے شاید بارہ کتب تو ان کی زندگی ہی میں شائع ہو چکی تھیں باقی کے مسودے اگر محفوظ ہیں تو ویسے ہی رکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے علامہ اقبال کی ’ اسرار خودی ‘اور ’رموز بے خودی ‘ کا پشتو ترجمہ بھی کیا جو بے حد مقبول ہوا اور پشتونوں میں جو لوگ فارسی زبان سے نابلد تھے انھیں علامہ کی شاعری پڑھنے کا موقع مل گیا۔ نوجوانی میں لکھے کم و بیش آٹھ نسخے شعور میں پختگی آئی تو نذرِ آتش کر دیئے لیکن بعد میں پشیمان ہوئے۔ اپنی تحریروں کی اشاعت کی فکر تو انھیں تھی لیکن ان کی سب سے بڑی خواہش اس طویل مثنوی کی اشاعت تھی جو انھوں نے چھتیس برسوں میں لکھی۔ کلمہ طیبہ کی تشریح و تفسیر پر مبنی یہ مثنوی ’’ دا توحید ترنگ ‘‘ ساٹھ ہزار پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ میں نے نظم کی طوالت کی وجہ تسمیہ پوچھی تو بولے کہ شاہنامہ فردوسی ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل نظم ہے اور وہ اس تعداد سے تجاوز کرنا چاہتے تھے۔ نظم کی اشاعت کے لیئے ایک کثیر رقم درکار تھی اور سمندر خان کی خواہش تھی کہ یہ نظم ان کی زندگی ہی میں شائع ہو جائے تو ان کی زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں انھوں نے مختلف ادوار حکومت میں کئی اعلیٰ عہدِ داروں سے بات کی لیکن سیاست دانوں کی روایتی بے حسی ہمیشہ آڑے آئی اور مثنوی سالہا سال تک ٹرنک میں بند رہی۔ آخر اس کار خیر کے لیئے پشتو اکیڈمی (پشاور یونیورسٹی) آگے بڑھی اور اشاعت کا سارا خرچہ اٹھایا۔ دس جلدوں پر مشتمل یہ طویل نظم 1984 اور 1986 کے دوران اشاعت پذیر ہوئی۔

سمندر خان سمندر صوتیاتی شاعری میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ انھوں نے چار عدد ایسی نظمیں تخلیق کیں جن کے پڑھنے سے ایک مخصوص صوتی کیفیت کا تاثر ابھرتا ہے۔ ان نظموں کی تخلیق کے پس منظر میں کار فرما تحریک Robert Southey کی وہ onomatopoetic نظم تھی جو اس نے 1820 میں “ The Cataract of Ladore “کے نام سے لکھی تھی۔ Cumbria، England میں واقع Lodore Falls پر لکھی گئی اس نظم میں الفاظ کا چناؤ اور ان کی نشست و برخاست اس کمال کی ہے کہ نظم کے پڑھنے سے جھرنے کے ترنم کا تاثر ابھرتا ہے۔ سمندر خان اس تحریک کا برملا اظہار کرتے تھے۔ 1945 اور 1963 کے دوران لکھی گئی ان نظموں کے موضوعات کچھ یوں ہیں، ’ برتگ ‘ (ارتقاء)، ’ ڈان ڈت ‘ (دھُنیّا)، ’ دا اسپرلی بیم ‘ (موسم بہار) اور پشتونوں کے روایتی خٹک ڈانس کی دھن پر لکھی ’’درون پختون‘‘ جو ان کی پہچان بن گئی۔

خٹک ڈانس پانچ مراحل پر مشتمل ہے اور اس کا ٹیمپو ڈھول کی تھاپ پر بتدریج بڑھتا ہوا اختتام کو پہنچتا ہے۔ اس نظم میں انھوں نے پختونوں کے کردار و اقدار کو بڑی تفصیل سے نظم کیا ہے۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے غیر ارادی طور پر ایک لے اور سر بنتی ہے۔ ریڈیو کے ادبی ماحول اور صدا کاری کے تجربات نے ان کے لب و لہجہ کو ایسی جلا بخشی کہ نظم پڑھتے وہ سماء باندھ دیتے تھے۔ اس طویل نظم نے شہرت دوام حاصل کیا۔ ان نظموں کو پڑھ کر پشتو زبان و بیاں پر ان کی قدرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ اور ان کا مناسب انتخاب اور برمحل استعمال ایک ایسا ہنر ہے جو اردو شاعری میں جوش ملیح آبادی کے ہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ پشتو ادب میں یہ خاصیت سمندر خان سمندر کی تخلیقات میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔

یہ غالباً 1979 کا زمانہ تھا جب ایک دن خدا جانے کیسے یہ بات میرے دل میں سمائی کہ کیوں نہ ان صوتیاتی نظموں کو ایک ہی کیسیٹ میں یکجا کر دیا جائے۔ اس وقت تک میں فقط ایک ہی نظم ’درون پختون ‘ سن چکا تھا اور بقیہ نظموں سے متعلق صرف سن رکھا تھا۔ اس کا اظہار میں نے سمندر خان سے کیا تو انہیں بھی یہ خیال پسند آیا۔ یوں 31 جنوری 1980 کو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق صبح دس بجے میں انھیں اپنے گھر لے آیا۔ گھر میں میرا کمرہ سب سے زیادہ خاموش اور پرسکون تھا۔ میں نے ٹیپ ریکارڈر ان کے سامنے رکھا اور انھوں نے یکے بعد دیگرے تین نظمیں معہ تعارف ریکارڈ کر لیں۔ وہ کیسیٹ میرے پاس آج بھی اسی طرح محفوظ ہے۔ ان کی چوتھی نظم ’برتگ ‘ کو ہم نے بعد میں ریکارڈ کرنے کے لئے اٹھا رکھا کہ انھیں عید میلاد النبی کے سلسلے میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں جانا تھا۔ ان نظموں کو وہ ’سمندری اصطلاح‘ میں مصوت نظموں کا نام دیتے تھے۔ سمندری اصطلاح یوں کہ لفظ مصوت اردو تحریروں میں مستعمل نہیں ہے اور یا پھر میری نظروں سے نہیں گزرا۔

پشتو شاعری پڑھنے اور سمجھنے والے قارئین اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ سمندر خان شاعری کی مروجہ اصناف کے ساتھ ساتھ نت نئی اختراعات اور تجربات بھی کرتے رہتے تھے۔ یہ 24 اپریل 1976 کی شام کا ذکر ہے کہ میں ان کے گھر میں موجود ان کے بے پایاں علم و فضل سے مستفید ہو رہا تھا کہ مغرب کی نماز سے فارغ ہوتے ہی بولے ‘ میں تمھیں ایک چیز دکھاتا ہوں ‘۔ پھر انہوں نے اپنی کتب اور مسودات سے بھرا لوہے کا صندوق کھولا اور اس میں سے پشتو گرامر اور شاعری کی صنعتوں پر لکھی ہوئی اپنی کتاب نکالی۔ اس کتاب سے انہوں مجھے ایک غزل سنائی جس کی خصوصیت یہ تھی کہ مقطع کے دوسرے مصرعے کے سوا کسی شعر میں بھی ہونٹ آپس میں نہیں ملتے تھے۔ اور اس بات کا عملی مظاہرہ انہوں نے اپنے ہونٹوں کے درمیان ماچس کی تیلی کو کھڑا کر کے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اور نظم یا غزل سنائی جس میں نقطوں والا کوئی لفظ نہیں تھا۔

تخلیق کے ضمن میں ان کی ایک بڑی عجیب اور انوکھی عادت تھی اور وہ یہ کہ کبھی کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر شعر نہیں کہتے تھے بلکہ یہ عمل ہمیشہ راہ چلتے میں ہوتا تھا۔ ایک نوٹ بک اور قلم اپنی جیب میں رکھتے۔ ریڈیو سٹیشن جو ان کی رہائش گاہ سے دو ڈھائی میل کے ٖفاصلے پر تھا اور جو وہ پیدل ہی طے کرتے تھے جاتے ہوئے یا واپس آتے ہوئے اور یا پھر شام کو صدر کے با رونق بازاروں میں چہل قدمی کرتے ہوئے ان کا ذہن ہمہ وقت تخلیق میں مصروف رہتا تھا۔ جہاں اور جس وقت کوئی مصرعہ یا شعر ہوا، وہی قدم روک کر جیب سے کاغذ قلم نکالتے اور خیال کو کاغذ پر رقم کر کے دونوں اشیاء جیب میں ڈالتے اور اپنی راہ لیتے۔ رات کو دن بھر میں جمع کیئے ہوئے اس خزانے کو بڑے اہتمام کے ساتھ مسودے کی کان میں سجا دیتے۔ وہ اپنی تخلیقات کی ہمیشہ دو نقول رکھتے تھے اور اپنے قلمی نسخے بڑی محنت اور نفاست سے لکھتے تھے اور ان کی با قاعدہ تزئین و آرائش کرتے تھے۔ وہ بلا کے خوش نویس بھی تھے اور ان کے قلمی نسخوں پر طبع شدہ کتابوں کا گمان ہوتا تھا۔ ان کے قلمی نسخے عجائب گھر میں رکھے جانے کے قابل تھے۔ ان کی وفات کے بعد میں اکثر و بیشتر ان خدا جانے ان کا کیا حال ہوا ۔

اپنی اس عادت کے بموجب پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ انھوں نے سنایا کہ جن دنوں وہ اپنے گاؤں بدرشی (نوشہرہ) میں مقیم تھے ان کا معمول تھا کہ شام کو چہل قدمی کے لیئے پہاڑوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ معمول کے مطابق دامن کوہ میں فطرت کی حسن کاریوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ایک رباعی ہو گئی۔ حسب عادت کاغذ قلم کے لیئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو دونوں اشیاء ندارد۔ بڑے پریشان ہوئے کہ گھر پہنچتے پہنچتے رباعی ذہن سے محو ہو جائے گی۔ عالم بے قراری میں ادھر ادھر پھرے کہ اچانک دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ چوڑی سطح کا ایک بڑا پتھر ڈھونڈا اور پہاڑی چاک لے کر پتھر پر رباعی نوٹ کی اور پتھر کاندھے پر اٹھا کر گھر لے آئے۔ ان کا گھر اس مقام سے قریباً دو میل کے فاصلے پر تھا اور پتھر کا وزن لگ بھگ بیس سیر تھا۔ وہ پتھر عرصے تک ان کے گھر میں مصالحہ پیسنے کے کام آتا رہا۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں انگریز راج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیئے کئی تحریکیں اور تنظیمیں سرگرم عمل تھیں جن میں ہر ہندستانی نے مقدور بھر حصہ لیا۔ سمندر خان سمندر نے بھی ان تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن میں قابل ذکر خان عبد الغفار خان کی ’خدائی خدمتگار‘ (سرخ پوش تحریک)، خاکسار تحریک اور مسلم لیگ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ جلسے جلوسوں کا دور تھا۔ سمندر خان انہی جلسے جلوسوں میں دھڑ لے سے انقلابی شاعری کرتے تھے اور عوام الناس کا لہو گرماتے تھے۔ انقلابی شاعری کی پاداش میں ایک مرتبہ ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری ہوئے لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آئے۔ اسی دور میں انہیں ملک الشعراء کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی ان کے ملی اور قومی نغموں نے خوب دھوم مچائی اور انھیں صدارتی تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کی بارہویں برسی پر 17 جنوری 2002 میں ان کی یاد میں ڈاک کے ٹکٹ کا اجراء ہوا۔

سیاسی ہمدردیوں اور سرگرمیوں سے قطع نظر ان کے خان عبد الغفار خان فیملی کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے جن کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے ایک دلچسپ اور تاریخی واقعہ سنایا۔ ایک مرتبہ وہ خان عبد الولی خان اور چند دوسرے دوستوں کے ساتھ بٹیر کے شکار پر تھے۔ بٹیر کے شکار کا طریقہ کا ریہ تھا کہ شکاری ہاتھوں میں بندوقیں اٹھائے اور ایک دوسرے سے چند قدموں کے فاصلے ایک دیوار بنا کر آگے بڑھتے تھے اور ان کی پیش قدمی کے نتیجے میں گندم کی اونچی فصل کے اندر دانہ چگتے بٹیر اڑتے تو شکاری ان اڑتے بٹیروں پر فائر کھول دیتے۔ چھرے ہوا میں پھیل کر کئی بٹیروں کا نشانہ بنا دیتے۔ اسی طرح کی ایک پیش قدمی کے دوران جب شکاریوں نے فائر کھولا تو سمندر خان نے دائیں جانب سے اڑنے والے بٹیروں کے جھنڈ کو نشانہ بنانے کے لیئے بندوق کا رخ اسی طرف موڑ کر فائر کر دیا۔ ایک چھرا ان کے دائیں جانب کے شکاری کی آنکھ میں جا لگا۔ وہ شکاری ولی خان تھے۔ ولی خان کی وہ آنکھ ضائع ہو گئی جو بعد میں پتھر کی آنکھ سے مشہور ہوئی۔

سمندر خان سمندر زندگی بھر طرح طرح کے ناخوشگوار حالات و مصائب کا شکار رہے۔ پیدا ہوتے ہی والدہ کو طلاق ہو گئی اور انھیں ان کی ماں سے چھین لیا گیا۔ ان کی شادی اپنی کزن سے ہوئی لیکن ازدواجی زندگی بھی باعث سکون نہ تھی۔ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے تو کم و بیش چالیس برس پشاور میں اکیلے رہے۔ ریڈیو سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب مسلسل بیماریوں نے انھیں اکیلے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا تو پشاور میں اپنا مکان فروخت کر کے وہ بچوں کے قریب اپنے گاؤں بدرشی منتقل ہو گئے لیکن بعد میں پچھتائے کہ یہاں بھی انھیں وہ سکون اور آرام نہ مل سکا جس کی توقع رکھتے تھے۔ بد قسمتی سے ان کی اولاد بھی ان کے کام نہ آئی۔ زندگی کے آخری چند سال انھوں نے تنہائی اور تکلیف میں گزارے۔ اپنے 31 مئی 1983 کے خط میں جو انھوں بدرشی سے ارسال کیا تھا، لکھتے ہیں کہ ’’آپ یہ پڑھ کر ضرور خفا ہوں گے کہ میں دنیاوی زندگی دوزخ میں گزار رہا ہوں‘‘۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے دو بیٹوں کے ذمہ تھا لیکن کبھی جب ناراضگی کی وجہ سے کھانا آنا بند ہو جاتا تو اگر تو ہمت ہوتی تو کچھ بنا کر کھا لیتے یا فروٹ پر گزارا کرتے ورنہ بھوکے پیٹ سو جاتے اور اس پر بھی صبر اور شکر کرتے۔

گزشتہ دہائیوں کی طرح ستر کی دہائی میں بھی پشاور صدر فنون لطیفہ سے متعلق لوگوں کا گڑھ تھا۔ سرِ شام ہی صدر کے مختلف کیفیز میں ادب و فن سے متعلقہ افراد کی محفلیں جمنا شروع ہو جاتی تھیں جو رات دس بجے تک رہتی تھیں۔ میری شامیں بھی صدر ہی میں گزرتی تھیں اور سمندر خان سمندر بھی صدر ہی میں رہائش پذیر تھے یوں ہفتے میں ایک دو مرتبہ ان سے ملاقات میرا معمول بن گیا۔ میں اکثر مغرب سے گھنٹہ دو پہلے ان کے گھر پہنچ جایا کرتا تھا۔ ان کی عادت تھی کہ مغرب کی نماز مسجد میں جا کر ادا کرتے تھے۔ نماز کے بعد ہم مال روڈ یا صدر روڈ پر تھوڑی دیر چہل قدمی کرتے اور پھر اندھیرا چھاتے ہی میں ان کے ساتھ گھر کے دروازے تک آتا۔ اس طرح میرا خاصا وقت ان کی صحبت میں گزرتا۔ اسی طرح ٹی وی پر جب کبھی ان سے متعلق کوئی پروگرام آ رہا ہوتا تو بھی میں وقت سے پہلے پہنچ جاتا اور پھر ہم کسی کم مصروف کیفے میں پہنچ جاتے جہاں ہم سکون سے پورا پروگرام بھی دیکھتے اور چائے وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوتے۔ اس دور کے پروگرامز میں پندرہ روزہ ’چہرے‘ بڑا مقبول تھا جس میں کسی ایک نامور شخصیت کا تعارف پیش کیا جاتا۔ یہ آدھ گھنٹے کا پروگرام ہوتا تھا۔ وہ شو مجھے خاص طور سے یاد ہے جو سمندر خان سمندر کی شخصیت پر مبنی تھا۔ ’چہرے‘ کا پورا لطف اٹھانے کے لئے میں انھیں صدر ہی کے ایک ہوٹل گلز کے ریسٹورانٹ میں لے گیا جو تھا تو نہایت چھوٹا لیکن بالکل خالی تھا۔ ہم نے وہ پروگرام بڑے سکون سے دیکھا۔ چائے اور شامی کباب بھی خوب انجوائے کئے۔ نشریات کے اختتام پر ہم اٹھے تو ہوٹل کا منیجر جو کہ ہوٹل کا مالک بھی تھا ہمارے پاس آیا اور بڑی گرم جوشی کے ساتھ سمندر خان سے مصافحہ کیا اور انھیں بتایا کہ اس کا والد ان کا بڑا دلدادہ اور پرستار تھا۔ پھر اس نے کمال مہربانی سے چائے وغیرہ کا معاوضہ نہیں لیا۔

1979 میں میری ٹرانسفر نیشنل بنک آف پاکستان کی مردان برانچ سے پشاور صدر ہو گئی تو مجھے سمندر خان کے مزید قریب آنے کے وافر مواقع میسر آئے اور میں اکثر و بیشتر لنچ بریک بھی ان کی صحبت میں گزارنے لگا۔ ان سے ملاقاتیں بڑھیں تو پشتو زبان و ادب کا چسکہ بھی بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں نے ان کی سچی کہانیوں پر مبنی کتاب ’پختنے‘ کا اردو ترجمہ کر ڈالا۔ ترجمہ کرتے ہوئے میرا یہ معمول بن گیا کہ جہاں جہاں مشکلات پیش آئیں، سیدھا ان کے پاس پہنچا اور انہوں نے ہمیشہ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ میری رہنمائی فرمائی اور یوں میں انجانے میں ان کی شاگردی میں آ گیا۔

’پختنے‘ کل بارہ کہانیوں پر مشتمل تھی لیکن کتاب میں صرف گیارہ کہانیاں شامل تھیں۔ ایک کہانی جو چارسدہ میں رونما ہونے والے ایک تاریخی واقعہ ’’بابڑہ کیس‘‘ سے متعلق تھی فضل حق شیدا کے مشورے پر انھوں نے شامل اشاعت نہیں کی تھی۔ میری خواہش پر انھوں نے وہ کہانی بھی مجھے ترجمہ کے لیئے دے دی تھی۔

انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک شام میں ان کے ہاں پہنچا تو اپنی نشستوں پر بیٹھتے ہی انھوں نے کہا کہ ’’میں تمہیں اپنی تازہ نظم سناتا ہوں‘‘ میں چونکا کہ یہ پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا تازہ کلام سنانا چاہتے تھے۔ نظم سنانے سے پہلے انھوں نے اس صنف کی تشریح کی جس کے تحت انھوں نے نظم لکھی تھی وہ صنف ’صنعت توشیح‘ کہلاتی ہے۔ نظم کل چھ اشعار یعنی بارہ مصرعوں پر مشتمل تھی۔ نظم کا موضوع وہ بے لوث محبت اور خلوص تھا جس کی توقع انسان اپنی اولاد اور دل کے قریب دوستوں سے رکھتا ہے لیکن وہ اس سے محروم تھے۔ اس کی بڑی وجہ تو یقیناً ان کی اپنی اولاد کی بے گانگی تھی لیکن اس میں ایک بڑا حصہ ان کے گرد پھیلے مطلب پرستوں کا بھی تھا۔ یہ محبت اور خلوص انھوں نے میرے روئیے میں محسوس کیا اور اسی کو انھوں نے نظم کیا۔ نظم کے ہر مصرعے کے پہلے ابجد ترتیب دینے پر میرا اصلی نام ’داؤد حسین عابد‘ بن گیا۔ قلمی نام میں نے بہت بعد میں اختیار کیا تھا۔ مجھے صحیح طرح سے یاد نہیں کہ میرا فوری ردِّ عمل کیا تھا لیکن آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ اعزاز میری بساط سے بہت بڑھ کر تھا۔

سمندر خان سمندر نے معرکوں سے بھر پور زندگی گذاری۔ نان و نفقہ کے حصول کے لیئے انھوں نے ہر قسم کی محنت و مشقت کی۔ کوچوانی کی، بیرا گیری کی، باورچی بنے، گورے کے ذاتی نوکر بنے اور ایک گورے کی شاگردی میں شعبدہ بازی بھی کی۔ وہ خود تو چند ابتدائی کلاسوں سے آگے نہ بڑھ سکے لیکن ان کی تحریروں اور تخلیقات پر طلباء نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور پروفیسر بنے۔ اس مضمون کا اختتام انہی کے ایک شعر پر کرتا ہوں کہ:

ترجمہ: حقیقت میں ہوں قطرہ۔۔۔اس لئے سمندر ہوں

٭٭٭

افسانے

پرندوں کی کہانی ۔۔۔ توصیف بریلوی

ساجد ابھی ناشتہ کرنے بیٹھا ہی تھا کہ اس کے سامنے ایک چڑیا آ کر میز پر بیٹھ گئی اور چیں …چیں … کرنے لگی۔ شاید وہ بھوکی تھی، یہی سوچ کر ساجد نے بریڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کی طرف ڈالے لیکن وہ پھرّ سے اڑ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ پھر آئی اور کبھی آنگن میں کھڑے درخت پرجا بیٹھتی اور کبھی دالان میں منڈلاتی۔ پتہ نہیں اس کو کس چیز کی تلاش تھی۔ ساجد نے ناشتہ کر لیا تھا لیکن اس دوران اس کی نظریں اس چڑیا کا تعاقب کرتی رہیں۔ اصل میں ساجد کو چڑیاں بہت پسند تھیں لیکن بچپن سے اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی تھی، کیونکہ وہ جب بھی کبھی طوطا یا کوئی اور چڑیا پالنے کی ضد کرتا تو ماں اس کو سمجھا دیتیں کہ بیٹا چڑیوں کو قید کرنا اچھا نہیں ہے، اگر تمہیں کوئی پکڑ کر قید کرے تو کیسا لگے گا…؟

اسی لیے اب تک وہ اپنا یہ شوق پورا نہ کر سکا تھا۔

’’ماں…! میں آفس جا رہا ہوں، اللہ حافظ!‘‘ ساجد نے اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا ناشتہ ٹھیک سے کر لیا نا؟‘‘ ماں نے بڑے پیار سے پوچھا، ’’ہاں ماں، اب میں چلتا ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے شام کو ملتے ہیں۔‘‘

’’سنئے بھائی جان…! شام کو ذرا جلدی آ جائیے گا۔‘‘ مدحت نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے، آ جاؤں گا لیکن بتاؤ تو سہی کیا بات ہے؟‘‘ ساجد نے سوالیہ نظروں سے مدحت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’بھائی جان وہ… وہ… میری فرینڈ کی شادی ہے تو شاپنگ کرنی ہے‘‘ کہتے ہوئے مدحت اندر دوڑ گئی۔

’’ٹھہر جا، ابھی بتاتا ہوں بہت شریر ہو گئی ہے۔ ماں … معلوم ہے آپ کو ابھی پچھلے مہینے ہی اس نے مجھے بے وقوف بنایا تھا۔ اپنی فرینڈ کی شادی کے نام پر میرا کریڈٹ کارڈ بے رحمی سے استعمال کیا تھا۔‘‘

’’مجھے سب معلوم ہے بیٹا لیکن اس بار وہ سچ کہہ رہی ہے اور تم فکر نہ کرو میں اس کو سمجھا دوں گی کہ اب وہ بڑی ہو گئی ہے اور شرارتیں نہ کیا کرے۔ اب تم آفس جاؤ تمہیں دیر ہو رہی ہے۔‘‘

’’ماں …! ماں …! کہاں ہیں آپ؟‘‘ آفس سے آتے ہی ساجد ماں کو پکارنے لگا۔

’’بھائی جان! ماں پڑوس میں سلمیٰ خالہ کے گھر گئی ہیں بس آتی ہی ہوں گی، آپ ہاتھ منھ دھوکر تازہ دم ہو جائیے میں آپ کی اسپیشل کافی بنا کر لاتی ہوں۔‘‘

مدحت کافی دے کر کچن میں چلی گئی اور ساجد کافی کی چسکیوں کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن پر بھی نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اسی اثنا میں دو چڑیاں پھر پھر کرتی آئیں، دونوں کی چونچ میں تنکے بھی تھے، جو کہ وہ روشن دان میں جمع کر رہی تھیں۔

اچھا… تو یہ بات ہے صبح جگہ کا انتخاب ہو رہا تھا، اب گھونسلہ تیار ہو رہا ہے، ان میں سے صبح جس کو دیکھا تھا وہ شاید یہ چڑیا تھی جو کہ دوسری والی سے تھوڑی بڑی دکھ رہی ہے، اس کا مطلب یہ چڑا ہے … اس چڑیا کا شوہر… سوچتے ہوئے ساجد مسکرایا۔

’’مدحت تمہیں پتہ ہے ہمارے گھر میں دو نئے مہمان آ گئے ہیں‘‘ ساجد نے مدحت کو ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہوئے کہا۔

’’جی بھائی جان آپ کے ان مہمانوں نے صبح سے ہی ناک میں دم کر رکھا ہے، یہ دیکھئے فرش پر تنکے بکھرے پڑے ہیں، صبح سے کئی بار صاف کر چکی ہوں، ان کو بھگانے کی کوشش بھی کی لیکن یہ بھاگی ہی نہیں‘‘ مدحت نے اپنی بیزاری ظاہر کی۔

’’لیکن اب ایسا نہ کرنا، ان کو آرام سے رہنے دو اور ان کے کھانے پینے کا بھی معقول انتظام کرو۔‘‘ ساجد نے مدحت کو حکم دیتے ہوئے کہا۔

’’بیٹا پہلے تو یہ خود اپنا ہی خیال رکھ لے …‘‘

’’ماں آپ…! کتنی دیر سے اپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ آئیے کھانا کھاتے ہیں۔‘‘

’’میرے پیارے بھائی جان شاید آپ بھول رہے ہیں کہ آپ مجھے شاپنگ مال لے جانے والے تھے …‘‘ مدحت نے یاد دلاتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا۔

’’اوہ… ہاں مجھے یاد ہے میں تو کھانا کھانے کے بعد خود ہی تمہیں لے جاتا، اپنی طرح بھلکڑ سمجھ رکھا ہے‘‘ ساجد نے بات بناتے ہوئے کہا۔

’’No Chance Brother… پہلے شاپنگ پھر کھانا اور اگر زیادہ بھوک لگ رہی ہو تو وہیں کچھ پِزّا وِزّا کھالیں گے، کیوں ماں …؟‘‘ مدحت نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور ساجد ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے بے بسی سے ماں کی طرف دیکھنے لگا۔

اگلی صبح ساجد نے ایک برتن میں پانی بھر کر کارنس پر رکھ دیا، روٹی کے ٹکڑے، چاول اور نمکین بھی فرش پر ڈال دئے۔ یہ سب دیکھ کر دونوں ماں بیٹی ہنسنے لگیں۔ کچھ ہی دنوں میں گھونسلے میں دو چھوٹے چھوٹے انڈے نمودار ہوئے، جس کو دیکھ کر ساجد بہت خوش ہوا، پھر ماں اور بہن کو بھی فوراً یہ خبر دی۔ دھیرے دھیرے پرندے کافی مانوس ہو گئے، اور وہ دن بھی آیا جب ان انڈوں سے بچے چیں چیں کرتے ہوئے نکلے۔ گھر میں سبھی خوش تھے، ساجد تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس دن ساجد شام کو جب گھر لوٹا تو ساتھ میں مٹھائی بھی لے کر آیا اور سبھی کا منہ میٹھا کرایا۔

’’بیٹا آج رانی کا فون آیا تھا‘‘ ماں نے جھجکتے ہوئے ساجد سے کہا۔ ’’ماں! میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں مجھے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ہے، پلیز…!‘‘ اتنا کہتے ہوئے ساجد اپنے روم میں چلا گیا۔ ماں کے دل میں بہت سے سوال تھے، بہت سی باتیں تھیں لیکن ساجد ان کو سنے بغیر ہی چلا گیا۔ ماں متفکر وہیں کھڑی کافی دیر تک خود سے باتیں کرتی رہی۔

اب بچوں کے اندر تھوڑی جان آ گئی تھی، اس لیے ان کی آوازوں میں اضافہ ہو گیا اور چیں … چیں … کی صدائیں گھر کے ہر کونے سے سنی جا سکتی تھیں۔ ساجد بہت خوش تھا اور وہ چڑیا کے پورے کنبہ کا کافی خیال رکھتا تھا اور اپنی بہن کو اکثر ہدایت دیتا رہتا تھا کہ میرے آفس جانے کے بعد بھی ان کو دانہ پانی برابر ڈالتی رہنا۔

ایک شام جب ساجد کافی کا لطف لے رہا تھا، ماں اور بہن رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔ اسی دوران چڑا کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور رفتار سے گھومتے ہوئے سیلنگ فین سے ٹکرا گیا۔ چڑا اس کی تاب نہ لا سکا اور پل بھر میں سب ختم۔ یہ دل خراش منظر دیکھ کر ساجد کی چیخ نکل پڑی، ’’ماں …!‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، مدحت اور ماں بھی مغموم تھیں اور چڑیا چڑے کے آس پاس پھدک پھدک کر مسلسل چیں چیں کیے جا رہی تھی، سب سے زیادہ غمگین تو وہی تھی۔

کافی دیر بعد ساجد نے چڑے کو اٹھا کر آنگن میں درخت کے پاس چھوٹے سے گڑھے میں دفنا دیا۔ جب وہ اسے دفنا رہا تھا تو چڑیا ساجد کو چونچ مار رہی تھی، بچے گھونسلے میں بھوک سے تڑپ رہے تھے اور چڑیا ابھی بھی ماتم کناں تھی۔

رات کافی ہو چکی تھی، ساجد ابھی بھی برآمدے میں ہراساں بیٹھا چڑیا اور اس کے بچوں کو دیکھ رہا تھا، چڑیا نے چہچہانا قدرے کم کر دیا تھا اور فرش پر بکھرے ہوئے دانے اٹھا کر بچوں کو کھلانے لگی۔ ’’بیٹا ساجد اب تم بھی کچھ کھا لو‘‘ ماں نے ساجد کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’نہیں ماں! میرا دل نہیں ہے، آپ دونوں کھا لیجئے۔‘‘

’’بیٹا آج آفس نہیں جانا ہے …؟ دیر ہو رہی ہے۔‘‘

’’نہیں ماں آج موڈ نہیں ہے۔‘‘ ساجد نے بیزاری سے کہا۔

’’کوئی بات نہیں بیٹا‘‘ ماں نے پیار سے اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

چڑیا باہر سے اڑتی ہوئی آئی، اس کے ساتھ میں دو چڑیاں اور تھیں شاید یہ اس کے کوئی رشتہ دار یا دوست ہوں گے۔ اب وہ دونوں چڑیاں جن میں ایک نر بھی تھا اس دکھیاری کے بچوں کو سنبھالنے میں اس کی مدد کر رہے تھے اور دانہ بھی لا کر کھلانے لگے۔ کچھ دیر تک سب ٹھیک رہا لیکن جب بچوں کی ماں اڑ کر باہر گئی تو چڑے نے اپنے ساتھ آئی چڑیا کو چونچ مارنا شروع کر دیا اور تب تک مارتا رہا جب تک کہ اس کو بھگا نہ دیا۔ ساجد یہ سب بڑے تجسس سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب بچوں کی ماں واپس آئی تو اس چڑے کو اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئی اور چڑے سے جا بھڑی۔ اس نے کسی بھی صورت میں یہ گوارہ نہ کیا اور چڑے کو گھونسلے سے نکال کر ہی چین کی سانس لی۔

ساجد کو سمجھتے ہوئے دیر نہ لگی کہ اس بدمعاش چڑے کی نیت میں کھوٹ تھی، وہ چڑیا کے شوہر کی جگہ لینا چاہتا تھا۔

سارا معاملہ سمجھنے کے بعد ساجد Flash Back میں چلا گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ماں نے ساجد کو روتا ہوا دیکھ کر سینے سے لگا لیا۔ ماں سے لپٹ کر خوب رویا، کچھ دیر بعد جب غبار آنسوؤں کے ذریعہ باہر نکل گیا اور وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا تب اس نے کہا، ’’ماں …! رانی کو واپس لے آئیے … میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ اس کو کسی بھی طرح منا لائیے آئندہ میں اس سے جھگڑا نہیں کروں گا۔ وہ صحیح تھی میں ہی غلط تھا۔‘‘

’’تم فکر نہ کرو بیٹا میں اس کو آج شام ہی لے آؤں گی، لیکن ساتھ میں تم بھی چلو گے۔ نہیں تو اسے ٹھیک نہیں لگے گا۔ وہ مائیکے میں رہ کر خوش نہیں ہے، فون پر وہ اپنے دل کا سارا حال بیان کرتی رہتی ہے۔‘‘

مدحت دور ہی سے بولی ’’بھائی جان…! بھابھی کو تو ہم لے آئیں گے لیکن آپ منھ میٹھا کرنے کے لیے کچھ مٹھائی لیتے آئیں۔‘‘

٭٭٭

پہلوان جی ۔۔۔ ایس۔ ایس۔ ساگر

میرے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہے۔ گزرے دنوں کو یاد کرنے کے لیے مجھے حال سے ماضی کی طرف کھُلنے والی کھڑکیوں کے پیچھے جھانکنا نہیں پڑتا۔ ان گنت چہرے مجھے ہر وقت ان جھروکوں سے جھانکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ لوگ بھی مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ ہر وقت فریم میں لگی تصویروں کی طرح ان جھروکوں میں کھڑے منتظرنظر آتے ہیں۔ مجھے دوسری طرف جھانک کر انہیں ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔ ان چہروں کی تصویریں ہر وقت ایک فلم کی طرح میرے ذہن کے پردے پر چلتی رہتی ہیں اور میں پل بھر کے لیے بھی ان سے جدا نہیں ہو تا۔ ان میں ہرعمر اور بناوٹ کے چہرے ہیں۔ گول مٹول، بیضوی، لمبوترے، مردانہ، زنانہ، بچگانہ اور عمر رسیدہ چہرے۔

اتنے سارے چہروں کے بیچ ایک چہرہ ایسا بھی ہے جو سب سے روشن دکھائی دیتا ہے اور تنہا پورے جھروکے کو گھیرے نظر آتا ہے۔ یہ چہرہ پہلوان جی کا ہے۔ اس چہرے کی انفرادیت کی وجہ صرف میرا پہلوان جی کے ساتھ گہرا جذباتی لگاؤ ہی نہیں بلکہ یہ اعجاز اس چہرے کے حجم کا بھی ہے جس کے باعث جھروکے میں کسی دوسرے چہرے کے نظر آنے کی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی۔ اکثر لوگ پہلوان جی کے ساتھ تصویر بنوانے سے کتراتے کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ انہیں تو بس پہلوان کے ساتھ چپک کر کھڑے ہونے کا تکلف ہی کرنا ہے۔ تصویر تو صرف پہلوان کی ہی آنی ہے۔

ان کا اصل نام تو کچھ اور تھا مگر وہ محلے میں پہلوان جی کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی ظاہری شخصیت میں ہمیشہ مجھے ایک عجیب طرح کی پراسراریت نظر آتی۔ گول بٹن جیسی آنکھیں، جو گھنی بھنوؤں کے بوجھ سے پوری طرح سے کھُلنے میں ہمیشہ ناکام رہا کرتیں۔ نیم وا آنکھوں سے جھانکتی سرخی، جو خواہ مخواہ پہلوان جی کی شخصیت کو بارعب بنانے پر تُلی رہتی۔ دو لمبی لمبی نیچے کو ڈھلکی ہوئی خوفناک مونچھیں، جو ذرا سی ہوا چلنے پر سانپوں کا رقص پیش کرنے لگتی تھیں۔

پہلوان جی ہمارے محلے میں ایک گلی کی نکّڑ پر واقع چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ گھر کے ماتھے پر لکڑی کی ایک بوسیدہ سی تختی آویزاں تھی جس پر ایک عبارت لکھی نظر آتی۔ ’آشیانۂ پہلوان‘۔ یہ دو لفظ ایک طرف تو پہلوان جی کے شاعرانہ ذوق کی تشہیر کرتے تھے تو دوسری طرف پڑھنے والوں پر خواہ مخواہ گھر کے مکین کی دھاک بٹھا دیتے۔ شروع میں تختی پر لکھی یہ تحریرمیری طبع نازک پر بڑی گراں گزرا کرتی۔ نجانے کیوں مجھے یہ محسوس ہونے لگتا جیسے کوئی شترمرغ کسی معصوم سی چڑیا کے نرم و نازک گھونسلے پر زبردستی آن بیٹھا ہو۔ مگر جب مجھے پہلوان جی سے ملنے کا موقع ملا تو ساری بد گمانی جاتی رہی۔ پتا چلا کہ پہلوان جی تو خود اپنے چوڑے چکلے سینے میں چڑیا کا دل رکھتے تھے۔

کہنے کو پہلوان جی کی سکونت ’آشیانۂ پہلوان‘ میں تھی مگر حقیقت میں وہ سارا دن اپنی بیٹھک کھولے گلی میں چارپائی بچھائے بیٹھے نظر آتے۔ شریک حیات کے مرنے کے بعد آشیانۂ پہلوان پر بیٹے اور بہو کا قبضہ تھا۔ پہلوان جی کے حصے میں بس ایک بیٹھک ہی آئی تھی جو زندگی کے گرم و سرد موسم میں ان کی ساتھی تھی۔ یوں تو ساری زندگی اکھاڑے میں گزارنے کے بعد پہلوان جی کپڑوں کے تکلف سے تقریباً بے نیاز ہو چکے تھے۔ سارا دن نیلے رنگ کا تہبند باندھے، ہاتھ میں حقہ تھامے وہ اپنی گلی کی نکڑ پر بیٹھے نظر آتے۔ اب تو پہلوان جی کی شخصیت اس گلی کی پہچان بن چکی تھی۔ جس دن وہ گلی میں نظر نہ آتے۔ گلی کے ایک دو مرد اپنے گھر کا راستہ بھول جاتے۔ چھیمو کا شوہر تو اس دن ضرور رستہ بھولتا اور ساتھ والی گلی میں جا کر رجو کے دروازے پر دستک دے ڈالتا۔ رجو دروازہ کھولتی تو اس کے گورے چٹے چہرے کو شرم سے گلابی ہوتا دیکھ کر اس کا دل باغ باغ ہو جاتا۔ دوسری طرف چھیمو کے جاسوس جب اس حادثے کی اطلاع اسے دیتے تو وہ جھولی پھیلا کر شوہر کو کوسنے کے ساتھ ساتھ پہلوان جی کی لمبی عمر کی دعائیں بھی مانگ ڈالتی جس کی موجودگی گلی کے مردوں کو راہ راست پر لے آتی تھی۔

سنا تھا کہ کسی زمانے میں پہلوان جی کا ڈنکا پورے شہر میں بجتا تھا۔ ان کی وجۂ شہرت یہ تھی کہ اپنی زندگی میں کوئی کُشتی ایسی نہ تھی جو پہلوان جی ہارے نہ ہوں۔ اس کے باوجود پہلوانی کا ایسا شوق کہ ہر چھوٹی بڑی کشتی کے اشتہاری پوسٹر پر پہلوان جی کا نام واضح لکھا نظر آتا۔ بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور انہیں اپنا استاد مانتے تھے۔ اور کیونکر نہ مانتے؟ آخر کو انہوں نے پہلوان جی کے پنڈے پر ہی تو اپنے ہاتھ رواں کیے تھے۔ پہلوان جی کا بے ڈول مگر پہاڑ جیسا پنڈا ان کے لیے تختۂ مشق نہ بنتا تو آج وہ بھی گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ پہلوان جی بھی اپنے ان شاگردوں کا نام بڑے فخر سے لیتے جنہوں نے ان کے پنڈے کو مجاز بنا کر حقیقی کامیابی کو پا لیا تھا اور بڑا نام کمایا تھا۔ ایک دن مجھے پہلوان جی کی بیٹھک اندر سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تو دیوار کی ایک کارنس پر سجی ان گنت ٹرافیوں اور میڈلز کو دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ اس کے بعد ایک عرصے تک حیرت و عقیدت کے بحر بیکراں میں غوطے کھانے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ یہ سب تو پہلوان جی کی فیکے کباڑیے سے دوستی کی نشانیاں ہیں۔

پہلوان جی سے میری باقاعدہ دوستی کا آغاز اس زمانے میں ہوا جب میں رقعہ بازی جیسے بد نامِ زمانہ کھیل کھیلنے کے لیے گھر کی چھت پر چلچلاتی دھوپ میں سارا دن جلا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے اس دن بھی اِسی کھیل کا مظاہرہ کرنے کے لیے میں چھت پر کسی کے انتظار میں کھڑا تھا۔ سامنے والی کھڑکی کو آہستہ سے کھلتے دیکھ کر میں نے جھٹ اپنی جیب سے ایک رقعہ نکال لیا۔ رقعے پر لکھی تحریر کے نیچے میں نے بڑی چاہت سے ایک دل بنایا تھا جس میں اپنے نام کے ساتھ کھڑکی والی کا نام جوڑ کر لکھا تھا۔ اور دردِ محبت کے اظہار کے لیے بڑی چابکدستی سے ایک عددتیر بھی عین اس دل کے وسط میں پیوست کر دیا تھا۔ اس پربھی دل عاشق کو قرار نہ آیا تو سرخ سیاہی سے اس زخمی دل سے خون کے چند قطرے بھی ٹپکا دیے۔ کھڑکی اب پوری طرح سے کھُل چکی تھی۔ میں نے فوراً دھاگے کی مدد سے رقعے کو ایک چھوٹی سی پنگ پانگ گیند کے اوپر لپیٹا اور اسے کھُلی کھڑکی کی طرف اچھال دیا۔ اب اسے قسمت کی سِتم ظریفی سمجھیے یا میری ناتجربہ کاری کہ گیند تو درِ محبوب کو چھو نے میں کامیاب رہی مگر میرا محبت نامہ گیند سے روٹھ کر الگ ہو گیا اور ہوا کے دوش پر رقص کرتا سیدھا نیچے گلی کی طرف چل نکلا۔ اس روح فرسا منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے سامنے والی کھڑکی دھڑ سے بند ہو گئی تھی۔ میں نے حواس باختہ ہو کر نیچے گلی میں جھانکا تو دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ نیچے گلی میں پہلوان جی چارپائی پر بیٹھے ہمارا رقعہ دونوں ہاتھوں میں تھامے اپنے مطالعے کا دیرینہ شوق پورا فرما رہے تھے۔ میں بھاگم بھاگ، سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے گلی میں پہنچا تو دیکھا کہ پہلوان جی رقعے کو الٹا پکڑے، اپنی عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے سے، اس پر لکھی تحریر کو پڑھنے کی انتھک اور جان توڑ کوشش میں لگے تھے۔ یہ دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ مجھے پاس آتا دیکھ کر پہلوان جی فوراً چہکے۔ ارے جمیل میاں! ذرا دیکھنا۔ اس کاغذ پر کون سی زبان لکھی ہے۔ بھئی! ہم سے تو پڑھا نہیں جا رہا۔ میں نے جھٹ کاغذ پہلوان جی کے ہاتھ سے چھین لیا۔ پہلوان جی! یہ آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔ اس پر پشتو لکھی ہے۔ میری بات پر پہلوان جی بولے۔ اچھا کوئی بات نہیں۔ میں اپنے بیٹے سے پڑھوا لوں گا۔ اسے پشتو آتی ہے۔ یہ کہہ کر پہلوان جی نے آناً فاناً کاغذ میرے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر خود اس پر لیٹ گئے۔ میں چار و ناچار بوجھل قدموں سے چلتا واپس چھت پر پہنچ گیا۔ دل ہی دل میں پہلوان جی کو برُا بھلا کہا۔ جو رقعے کو قارون کا خزانہ سمجھ کر اسے دبا کر بیٹھ گئے تھے۔ اب کیا کروں؟۔ دل میں سوچا۔ سوائے انتظار کے اب کوئی چارہ نہیں۔ پہلوان جی کے سونے کا انتظار کرنا چاہئے۔ اسی سوچ میں چھت پر بچھی چارپائی پر لیٹا تو خود کی آنکھ لگ گئی۔ خواب میں دیکھا کہ میں مرغا بنا ہوں اور پاس ہی ابا میاں ہاتھ میں کوئی کاغذ پکڑے غضب ناک نظروں سے مجھے گھورے چلے جا رہے ہیں۔ گھبرا کر اٹھا اور نیچے گلی میں جھانکا۔ پہلوان جی غائب تھے۔ چارپائی پر ان کی جگہ ان کا چھ سالہ پوتا احمد بیٹھا تھا۔ ذرا غور سے دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا۔ بچے کے ہاتھ میں میرا رقعہ تھا اور وہ اس سے جہاز بنانے کے تخلیقی کام میں مصروف تھا۔ جلدی سے بھاگتا ہوا میں پھر سے گلی میں پہنچا مگر اس بار ذرا تاخیر ہو گئی تھی۔ جہاز اپنی اڑان بھر چکا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہوا میں بلند ہوا اور سیدھا پہلوان جی کی چھت پر جا اترا۔ اسی وقت احمد کی ماں نے اسے پکارا اور وہ اندر بھاگ گیا۔ میں پریشان حال کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔

اسی اثناء میں اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ پلٹ کر دیکھا تو پہلوان جی چہرے پر ازلی مسکراہٹ سجائے مشفقانہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ہاتھ میں پکڑا ایک کاغذ لہراتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی، بولے۔ اسے ڈھونڈ رہے تھے برخوردار۔ میں نے غور کیا تو پتا چلا کہ ان کے ہاتھ میں میرا ہی محبت نامہ تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ احمد میاں کے ہاتھ میں کوئی دوسرا کاغذ تھا جسے میں اپنا رقعہ سمجھا تھا۔ پہلوان جی نے پیار سے مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھا لیا اور بولے۔ جمیل میاں! اگر کاغذ کی تحریر پشتو میں بھی ہوتی تو اسے سمجھنے کے لیے فقط اس پر بنا دل ہی کافی تھا۔ اسے دیکھ کر سارا مضمون سمجھ میں آ جاتا۔ میں نے چوری پکڑے جانے پر شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ وہ بولے۔ جمیل میاں! تم ابھی بچے ہو۔ تم کیا جانو محبت کیا ہوتی ہے۔ اور اگر ایک پل کو مان بھی لیں کہ تمہیں کسی سے سچی محبت ہو گئی ہے تو پھر یہ ڈھنڈورا کیسا۔ محبت کی نعمت تو خوش نصیبوں پر اترتی ہے اور اس کی تشہیر سے رب کی ناشکری ہوتی ہے۔ لو رکھو اسے۔ پہلوان جی نے رقعہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ جس دن سچی محبت ہو گی۔ یاد رکھنا! اُس دن تمہیں اِس رقعے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اور جمیل میاں! جس چیز پہ اختیار نہ ہو اس کا اتنا دعویٰ نہیں کرتے۔ اس روز نجانے پہلوان جی کی باتوں میں ایسا کیا تھا کہ میری سارا سارا دن چھت پر دھوپ میں جلنے سے جان چھوٹ گئی۔ ​

٭٭​

وقت کا پنچھی پر لگا کر اڑتا رہا۔ پھر ایسا ہوا کہ نوکری کے سلسلے میں مجھے ملک چھوڑ کر پردیس جانا پڑا۔ پیسہ کمانے کی دھُن سر پر سوار ہوئی تو رشتوں ناطوں کی دنیا سمٹتی چلی گئی۔ رابطے منقطع ہوتے گئے۔ دوستوں کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں قصۂ پارینہ بنتی چلی گئیں۔ اماں اور ابا کی وفات کے بعد تو جیسے وطن سے ناتا ہی ٹوٹ گیا۔ ایک چھوٹا بھائی تھا خلیل، جو مجھے وطن کی مٹی سے جوڑنے کی تگ ودو میں لگا رہتا۔ اس سے فون پر جب بھی بات ہوتی وہ محلے بھر کی خبریں مجھے سنا ڈالتا۔ میں ہوں ہاں کرتا رہتا یا کہہ دیتا مصروف ہوں، جلدی میں ہوں۔ وہ مایوس ہو کر فون رکھ دیتا۔ وہ چھوٹا تھا ناں۔ میری مجبوری کو نہیں سمجھتا تھا۔ میں بڑا تھا۔ مجھے بڑا ہونے کا بھرم بھی تو رکھنا تھا۔ پھر اسے کیسے کہہ دیتا کہ پردیس میں مجھے یادوں سے ڈر لگتا ہے۔

ایک دن خلافِ معمول صبح سویرے ہی خلیل کا فون آ گیا۔ بہت شور تھا مگر اس کی آواز نہیں تھی۔ میں گھبرا گیا۔ پھر اچانک اس کی آواز اُبھری۔ وہ مجھے رات کے شدید ترین زلزلے کی تباہ کاریوں کا احوال سنا رہا تھا۔ میں اس کی آواز میں چھپے دکھ اور کرب کو محسوس کر سکتا تھا۔ اپنی اور دیگر عزیز و اقارب کی خیریت کا بتا کر وہ کہنے لگا۔ محلے میں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں اور رہائشی مکان زمیں بوس ہو گئے ہیں۔ رات سے بارش بھی زوروں پر ہے۔ محلے کے سب لوگ ریسکیو ٹیموں کے شانہ بشانہ امدادی کاروائیوں میں لگے ہیں۔ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ جلد از جلد ملبے تلے دبے لوگوں کو نکال لیں۔ میں نے اسے اپنا خیال رکھنے کو کہا تو بولا۔ میری پرواہ نہ کریں بھیا۔ کاش! آپ اس وقت پہلوان جی کو دیکھ سکتے۔ ان کے جذبے کو محسوس کر سکتے۔ ہم نے بہت روکا مگر وہ ساری رات ہمارے ساتھ بارش میں بھیگتے رہے۔ پاگلوں کی طرح ملبے تلے دبے زخمیوں کو ڈھونڈ کر نکالتے رہے۔ مگر بھیا! ان کے ماتھے پر تھکن کی ایک بھی لکیر نہیں۔ وہ جذباتی ہو رہا تھا۔ میں اس سے ڈھیروں باتیں کرنا چاہتا تھا مگر اس دن وہ جلدی میں تھا، مصروف تھا۔ اس کا وقت بیحد قیمتی تھا۔ اس نے مختصر بات کی اور پھر سے آہوں اور سسکیوں کے شور میں گم ہو گیا تاکہ کسی مرتے کو بچا سکے۔

اس دن میں سارا دن بھوکا پیاسا بستر پر پڑا رہا۔ ایک پھانس سی تھی جو گلے میں اٹک گئی تھی جس کی وجہ سے ایک نوالہ بھی حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔ میرا خود ساختہ، خود فریبی کا خول ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیا تھا۔ خلیل کی محنت رنگ لے آئی تھی جو سالہا سال سے مجھے اپنے وطن کی مٹی سے اور اپنے لوگوں سے جوڑنے کی کوشش میں لگا تھا۔ رات ہو گئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ مجھے خود پر حیرت ہو رہی تھی کیونکہ اس رات پہلی بار مجھے یادوں سے ڈر نہیں لگا۔ میں یادوں کے سمندر میں ڈوب جانا چاہتا تھا۔ جی بھر کے گزرے وقت کو یاد کرنا چاہتا تھا۔ نجانے رات کا وہ کونسا پہر تھا جب خلیل کا فون پھر سے آ گیا۔ میں نے بے تابی سے اس کا حال دریافت کیا تو کہنے لگا۔ بھیا! میں ٹھیک ہوں۔ میں آپ کی پہلوان جی سے بات کرواتا ہوں۔ آپ ان کو ذرا سمجھائیں کہ کچھ دیر آرام کر لیں۔ ان کی صحت اچھی نہیں ہے۔ یہ ہماری نہیں سنتے۔ اس نے فون پہلوان جی کو تھما دیا۔ میں نے لمبی بات کرنا چاہی مگر دوسری طرف سے پہلوان جی نے جلدی سے میری بات کاٹ دی اور پر جوش انداز میں بولے۔ جمیل میاں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم میری پرواہ نہ کرو۔ یہاں بہت سے مرتے ہوئے لوگوں کو ہماری ضرورت ہے۔ میں اس وقت پیٹھ نہیں دکھا سکتا۔ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کشتی نہیں جیتی۔ مگر آج میں ہار نہیں مانوں گا۔ تم دعا کرنا۔ اس بار میں جیت کر دکھاؤں گا۔ دوسری طرف سے پہلوان نے فون بند کر دیا۔ اس کے بعد میرا فون پر خلیل سے رابطہ نہ ہو سکا۔ دو تین بار فون کیا مگر اس کا فون بند ملا۔ میں ویسے بھی ان لوگوں سے شرمندہ تھا۔ پردیس میں بیٹھ کر میں ان کی کوئی مدد نہیں کر پا رہا تھا۔ الٹا ان کا وقت ضائع کر رہا تھا جس میں وہ کسی مرتے ہوئے انسان کے کام آ سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے بھی رابطہ کرنے کی کوئی زیادہ کوشش نہیں کی۔

پھر ایک دن صبح سویرے خلیل کا فون آ گیا۔ سسکیوں بھری آواز میں اس نے بتایا کہ ’پہلوان جی مر گئے ہیں‘۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ یا۔ دوسری طرف خلیل کہہ رہا تھا۔ بھیا! پہلوان جی جیسا بہادر انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ستر سال کی عمر میں ان کا جذبہ نوجوانوں جیسا تھا۔ وہ لگا تار تین دن اور تین راتیں ہمارے ساتھ بارش میں بھیگتے رہے۔ مسلسل بخار کی حدت میں جلتے رہے مگر پھر بھی جذبے کے ساتھ ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالتے رہے۔ آخری بار انہوں نے ایک چار سال کے بچے کو ملبے سے نکالا تھا۔ جو معجزانہ طور پر بالکل صحیح سلامت تھا۔ وہ تین دن سے ملبے تلے دبا سانس لے رہا تھا۔ اس بچے کو میرے بازوؤں میں تھماتے ہوئے پہلوان جی کے پاؤں لڑکھڑا گئے تھے۔ پھر جب انہیں ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس میں ڈالا جا رہا تھا تو اسٹریچر پر لیٹے لیٹے انہوں نے یکدم میرا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اور جانتے ہیں بھیا! انہوں نے مسکراتے ہوئے کیا کہا تھا۔ کہنے لگے کہ جمیل میاں کو بتا دینا کہ میں نے زندگی کا آخری مقابلہ جیت لیا ہے۔ فون پر خلیل بھرائی ہوئی آواز میں بولے چلا جا رہا تھا۔ میں خاموش تھا۔ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ البتہ آنکھوں میں چھپے ڈھیروں آنسو تھے۔ جو اب پہلوان جی کی جیت کی خوشی میں پلکوں کے بند توڑ کر رخساروں پر بہنے کے لیے مچل رہے تھے۔

٭٭٭

ادھوری کہانی ۔۔۔ انور فرازؔ

میری بیٹی سیما کھانے کے ٹیبل پر میرے سامنے بیٹھی ہے۔ وہ کھاتی بھی جاتی ہے اور رسالہ بھی پڑھتی جاتی ہے۔ کھاتے کھاتے اسے کچھ نہ کچھ پڑھنے کی عادت ہے۔ زیادہ تر کہانیاں ہی پڑھتی ہے، پڑھنے کے بعد پڑھی ہوئی کہانی مجھے سناتی ہے۔ پھر مجھ سے کہانی پر میری رائے پوچھتی ہے۔ وہ جانتی ہے، مجھے کہانیاں سننے اور پڑھنے کا شوق ہے، اس لیے وہ مجھے کہانیاں سناتی ہے، اور پھر کہانی پر میری رائے پوچھتی ہے۔

’’واہ وا ۔۔۔! کتنی خوب صورت، کتنی پیاری کہانی ہے ڈیڈی!‘‘ وہ ایک دم اچھل پڑی ہے، میں اپنے کھانے میں مگن ہوں۔ اس نے رسالہ میرے سامنے کر دیا اور میں رسالے میں چھپی تصویر کو دیکھ رہا ہوں۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے کہانی ’خواب کی تکمیل‘ کی مصنفہ شالینی ۔ یہ وہی تصویر ہے جو سولہ سال سے میرے ذہن کے فریم میں آویزاں ہے، کہانی بھی وہی ہے جو میں نے اپنے دل میں سولہ سال سے دبائے رکھی ہے۔

اس کہانی کے کردار بھی وہی ہیں جو میری ادھوری کہانی کے ہیں۔ میں شالنی اور میری بیٹی سیما۔

میں تصویر کو غور سے دیکھ رہا ہوں۔ تصویر میں کی شالنی مجھے ماضی کے دروازے کھولتے ہوئے سولہ سال پہلے کے مقام پر لے آئی ہے۔ ۔!

میں شہر کے ایک باغ میں بیٹھا کچھ سوچ رہا ہوں۔ کچھ لکھ رہا ہوں۔ میں اپنا خالی وقت باغ کے اِس کونے میں گزارتا ہوں، میری بیوی دو سال کی بچی کو تنہا چھوڑ کر اس جہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی گئی، گھر میں اچھی ہے وہ کسی نا کسی طرح اسے سنبھالے ہوئے ہے، اور میں اپنی بیوی کی یادوں کو بھلانے کے لئے اس باغ کے کونے میں آ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ میں اپنا خالی وقت باغ کے اِس کونے میں گزارتا ہوں۔ گھر میں رہوں تو بچی کا رونا مجھ سے دیکھا نہیں جاتا، وہ اپنی ممّی کو یاد کر کے روتی رہتی ہے۔ میں نے اُسے سنبھالنے کے لئے ایک آیا بھی رکھ لی ہے، لیکن ایک آیا میں اور ماں میں فرق بچہ خوب جانتا ہے۔

زبان پر ممّی کی ہی رٹ رہتی ہے۔ لیکن آیا بہت اچھی ہے وہ کسی نا کسی طرح سے اُسے سنبھالے ہوئے ہے، اور میں اپنی بیوی کی یادوں کو بھلانے کے لیئے اس باغ کے کونے میں آ کر بیٹھ جاتا ہوں۔

’’کیا میں اس سیٹ پر بٹھ سکتی ہوں؟‘‘ ایک خوبصورت عورت نے آ کر مجھ سے پوچھا۔

’’ضرور بیٹھئے۔ ۔!‘‘ میں نے اسے بیٹھنے کے لیئے ذرا سی جگہ بنا دی اور پھر لکھنے میں مصروف ہو گیا ہوں۔

’’اگر میرا اندازہ غلط نہ ہو تو آپ رویندر ہیں!؟ اس نے کہا۔

میں اپنا نام سن کر ایک دم چونک پڑا ہوں۔۔۔۔ ’’آپ نے کس طرح جانا؟‘‘

’’میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ آپ ایک کہانی کار بھی ہیں۔ ۔ ۔!‘‘

اب میں سمجھ گیا ہوں، ضرور اس نے کسی رسالے میں میری تصویر دیکھی ہو گی، اس نے پھر کہا۔

’’شاید اس وقت بھی آپ کوئی کہانی لکھ رہے ہیں‘‘ وہ مجھ سے کہہ رہی ہے۔‘‘

’’ہاں۔۔۔کہانی لکھ کر دل کو بہلا رہا ہوں‘‘ اس نے میرے چہرے پر کی اُداسی کو نہیں دیکھا۔

’’کیا میں کہانی پڑھ سکتی ہوں؟‘‘ اس نے چند منٹوں کی دوستی میں فرمائش کر ڈالی۔ میں کہانی اس کی طرف بڑھا دیتا ہوں، اور جاتے ہوئے جوڑوں کو دیکھتا ہوں، مجھے اپنی بیوی یاد آ جاتی ہے۔ کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھتا ہوں۔ مجھے اپنی بیٹی یاد آ جاتی ہے اور آنکھ میں پانی بھر آتا ہے۔

’’کہانی کی ابتدا بہت اچھی ہے۔ ۔۔۔!‘‘ وہ کہہ رہی ہے ’’آپ کا یہی انداز مجھے بہت پسند ہے ۔۔۔ اور آپ کسی کے حسن کی تعریف بہت مختصر کرتے ہیں۔‘‘ وہ کہتی جا رہی ہے، میں خاموش اپنی سوچ میں بیٹھا ہوں۔ پھر میں نے کہا۔ ’’ہاں! میری کہانیوں میں یہ کمی آپ نے ضرور محسوس کی ہو گی۔ لیکن مری عملی زندگی میں اگر حسن میرے سامنے آ جائے تو میں اُس کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکتا۔‘‘

وہ یہ سن کر شرما سی گئی ’’آپ چھوٹے چھوٹے جملوں میں کافی چوٹ دے جاتے ہیں۔‘‘

میں نے کچھ نہیں کہا۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھی رہی، پھر جانے کے لیے کھڑی ہو گئی۔

’’تو میں چلوں!‘‘ اس نے جانے کی اجازت چاہی۔

’’اچھا۔۔۔لیکن اپنا نام تو بتاتی جائیے‘‘ میں نے کہا۔

’’شالنی‘‘ ۔۔۔۔۔ اس نے مختصر اپنا نام بتایا، پھر پوچھا ’’کیا آپ روز یہاں آتے ہیں؟‘‘

’’ہاں! خالی وقت میں اکثر آ جاتا ہوں۔‘‘ اور وہ چلی گئی۔

شالنی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، پھر وہ اکثر مجھ سے ملتی رہی۔ دن بیتتے رہے، ہماری ملاقاتیں بڑھتی رہیں۔ شالنی سے مل کر میں اپنی بیوی کی یادوں کو کچھ کم کر بیٹھا تھا اور مجھ میں پھر سے زندگی کو اپنانے کی چاہت آ گئی تھی۔

شالینی سے میری چاہت جب حد سے بڑھ گئی تو میں نے سوچا کہ اُس سے شادی کی بات کروں، لیکن ابھی تک اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ میں شادی شدہ ہوں اور میری ایک بچی بھی ہے۔ لیکن مجھے اس کے پیار پر بھروسہ تھا، میں سمجھتا تھا وہ مجھ سے شادی کے لیے تیار ہو جائے گی اور میری لڑکی کو اپنا لے گی۔ یہی سوچ کر میں نے اپنے دل کی بات بتانے کے لیے ہماری ملاقاتوں، ہماری باتوں اور ہماری پیار کی ایک کہانی بنائی، جس میں اپنی خواہش، اپنی چاہت بتا دی اور یہ بھی بتا دیا کہ میرے گھر مری دو سال کی بیٹی بھی ہے اور اس سے التجا کی میری محبت کو قبول کر لے، میری بیٹی کو اپنا لے اور اس ادھوری کہانی کو مکمل کر دے۔ شالینی نے یہ کہانی پڑھی، اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک رنگ جاتا تھا، پھر وہ چیخ پڑی۔ ’’نہیں رویندر، نہیں میں تم سے شادی نہیں کر سکتی، میں تم سے پیار ضرور کرتی ہوں، لیکن تمہاری ۔۔۔ بیٹی! نہیں نہیں میری ممتا صرف میری کوکھ سے جنم لینے والی بچی کے لیے ہو گی۔ میں اپنی ممتا کسی دوسرے کی بچی پر نچھاور نہیں کر سکتی۔ رویندر یہاں سے چلے جاؤ۔ مجھے بھول جاؤ، یہ کہانی مکمل نہیں ہو سکتی۔ میں تم سے شادی نہیں کر سکتی۔‘‘ وہ رو پڑی اور میں اپنے سینہ پر غموں کا پہاڑ رکھے، اپنی کہانی، ادھوری کہانی وہیں چھوڑ آتا ہوں۔

سولہ سال یوں ہی یادوں میں بیت جاتے ہیں۔ میں اب زندگی کے اس موڑ پر پہنچ گیا ہوں، جہاں چاہت کی حد ختم ہو جاتی ہے، جہاں ماضی بہت طویل نظر آتا ہے اور مُستقبل بہت مختصر۔۔!

’’ڈیڈی سنیے نا کہانی‘‘ ۔۔۔۔۔ میں اپنی بیٹی کی بات پر چونک پڑتا ہوں، اور وہ کہانی سنانے لگتی ہے۔ ۔ ۔

یہ وہی کہانی ہے جو میں نے سولہ سال پہلے شالنی کو لکھ کر دی تھی کہ وہ اس کہانی کو مکمل کر دے، میری بچی کو اپنا لے اور میرے پیار کو قبول کر لے۔ آج وہی کہانی میری بیٹی مجھے ہی سنا رہی تھی۔

’’۔۔۔ رویندر نے ہماری یہ کہانی لکھ کر میرے سامنے رکھ دی کہ میں اسے اپنا بنا لوں اور اس طرح ایک ادھوری کہانی پوری ہو جائے، لیکن میں نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا، کیوں کہ اس کی ایک بچی تھی، ہر عورت کی طرح میں نے یہی سپنا دیکھا تھا کہ میں بھی ایک بچہ کو جنم دوں اور اسے چاہوں، میں دوسرے کے بچہ کو کس طرح پیار دے سکتی تھی۔ میں نے رویندر کو شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اور پروفیسر کھنہ سے شادی کر لی تھی۔ شادی کئے پندرہ سال گزر چکے تھے لیکن میری گود ابھی تک بھری نہیں تھی، قدرت نے ایک بچی کو نہ اپنانے کا بدلا لے لیا تھا۔

میں بچہ کے لیے تڑپتی رہی آخر میں نے ہار مان کر دوسروں کے بچوں سے محبت شروع کر دی، اس شوق میں ایک اسکول کی ٹیچر بن گئی، یہاں دوسروں کے ہزاروں بچے ّ ہیں جنہیں میں اپنا سمجھنے کے لیے مجبور ہوں۔ اس طرح میں نے شکست کھا کر اپنے خواب کی تکمیل کر لی ہے۔ اپنی ممتا کو سکون پہنچا لیا ہے، لیکن اب سوچتی ہوں، اگر میں رویندر سے شادی کر لیتی، اس کی بیٹی کو اپنا لیتی، وہ ادھوری کہانی کو تکمیل تک پہنچا دیتی تو میرا خواب بہت پہلے پورا ہو جاتا۔ بہت پہلے مجھے سکون مل جاتا۔ بہت پہلے میں بچہ کا پیار پا لیتی، خواب کی تکمیل بہت پہلے ہو جاتی۔‘‘

’’کہیے ڈیڈی!! کہانی کیسی ہے۔۔؟‘‘ میری بیٹی مجھ سے پوچھ رہی ہے۔

میں اسے آہستہ سے کہتا ہوں ’’ایک سچی کہانی ہے ایک مکمل کہانی ہے۔ ۔!! پھر بھی ابھی تک ادھوری کہانی ہے۔!‘‘

میری بیٹی مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

٭٭٭

نظمیں

وہ ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

وہ صاحبانِ زر و مال کیا کسی کی نہ تھی

وہ اپنی مرضی سے سب کی تھی یا کسی کی نہ تھی

عجب عروج کی حامل زوال پر مائل

وہ خاکسار سہی، خاکِ پا کسی کی نہ تھی

وہ سائبان یقیناً تھی بے سہاروں کا

مگر وہ مستقلاً مٹھ سرا کسی کی نہ تھی

کمال یہ ہے کہ ہر بوالہوس کو دعویٰ تھا

وہ خوش مزاج تو اس کے سوا کسی کی نہ تھی

سب اپنی اپنی جگہ خوش گمان اُس کے لیے

وہ بدگمان مگر داشتہ کسی کی نہ تھی

یہ جاں نثار بھی خوش وقتیوں کے خو گر ہیں

وہ جانتی تھی کہ وہ تو بھلا کسی کی نہ تھی

سب ایک جوشِ بلا ہوش کے تھے مارے ہوئے

دوا کسی کی نہ تھی، مدعا کسی کی نہ تھی

ہر ایک شخص اُسے ہم نوا سمجھتا تھا

یہ اور بات کہ وہ ہم نوا کسی کی نہ تھی

وہ غیر یوسف و یوسف میں فرق کیا کرتی

کہ دل فریب زلیخا نما کسی کی نہ تھی

وہ اپنی ذات سے تھی بھوک پیاس کا لڈو

وہ جوئبارِ تنک ذائقہ کسی کی نہ تھی

کمال یہ تھا کہ تھی ماورائے عشق و ہوس

وہ نارسا بھی نہ تھی پارسا کسی کی نہ تھی

وہ خیر مقدمِ ہر خوش نظر پہ آمادہ

نڈر کچھ ایسی کہ پروا ذرا کسی کی نہ تھی

یتیم کر گئی کیا کیا گناہ گاروں کو

کہیں یہ کیسے کہ حاجت روا کسی کی نہ تھی

سب اُس کی ذات سے سیراب یوں تو ہوتے تھے

وہ ابتدا ہی سے تا انتہا کسی کی نہ تھی

اُسی کے چاہنے والے خدا کو سونپ آئے

کہ وہ سراپا دعا، بددعا کسی کی نہ تھی

اک ایسی ہستی ہوئی ہے ہر ایک بستی میں

جو دوست سب کی تھی دشمن ذرا کسی کی نہ تھی

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ حفیظ تبسم

ایک نادار ملک کی تاریخ

تاریخ بنائی نہیں جاتی

یہ خود بن جاتی ہے

قدیم داستان کی طرح

روٹی کی تلاش میں

ہم جنگل میں داخل ہوئے

جس کے کنارے فاختہ کے نشان والا پرچم نصب تھا

سالانہ تہوار کے دن

بادشاہ کے قصیدے

اور ملکہ کے لیے گیت گائے جاتے

جو کسی قومی شاعر نے نہیں لکھے تھے

اس کے باوجود

متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو کر چھپے

تخت کے چوتھے پائے میں

خوبصورت ترین لڑکی کے کپڑے اُتارے جاتے

جس کا نام

رواں سال کی رائے شماری میں درج نہیں ہوتا

اور ذبح کر دی جاتی تھی

یہ جانتے ہوئے بھی

کہ یہ رسم منسوخ ہو چکی ہے

رات دیر تک

خواب فروش لطیفے سنانا

اور وزیر مقدس حلف نامے میں ترمیم کرتے

نئے سال کے کیلنڈر پر

جب بادشاہ کے سرخ دستخط رسید ہوتے

تب تالیوں کی گونج میں

مذہب کے نام پر زندہ لوگ رقص کرتے

جو نہ پرہیز گار تھے نہ گناہ گار

یہ پوری تاریخ نہیں

ایک نادار ملک کی کہانی ہے

جو دنیا کے نقشے میں نہیں ملتا

٭٭٭

وہ سب رو رہے تھے

وہ سب رو رہے تھے

یادگار پر پھول چڑھا کر

اور فریم میں لگی تصویروں کے چہرے

سیاہ حاشیے سے

پسند کا پھول چومنے سے قاصر تھے

بوڑھے چہرے نے

ساتھ کی تصویر کو کہنی مارتے ہوئے کہا:

اتنے آنسو کہاں سے آئے

ہمارے دور میں ایسی دوکانیں نہیں تھیں

’’خاموش رہو‘‘

تقریب کے بعد بتاؤں گی

چھوٹے بچے نے

ساتھ کے فریم میں بیٹھے بچے سے کہا:

اتنے کھلونے کہاں سے آئے

ہمارے قصبے میں ایسی دوکانیں نہیں تھیں

’’خاموش رہو‘‘

ہمیں پہچان لیا جائے گا

تقریب کے اختتام پر

تصویریں عجائب گھر واپس لوٹیں

پھول اور کھلونے

انتظامیہ کے گھروں میں

حاشیے میں نیند جھولتی تصویریں

کئی ہفتے تبصرہ کرتی رہیں

وہ کون لوگ تھے

جو آنسو بہانے کے مقابلے میں شریک ہوئے

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ فرزانہ نیناں

چال

قیامت خیز ہیں غمزے

مری قسمت کے تاروں کے

کسی صورت مجھے وہ

چاند کا زیور

پہننے ہی نہیں دیتے

شبِ تاریک میں

اک سندری کی ماہتابی

ماند ہوتی جا رہی ہے!!!

٭٭٭

سیپ

گئے ہوئے کسی منظر سے

گھور جیسا پل

ٹپک کے آنکھوں سے جب بھی

گرا ہے ہاتھوں میں

گلے کی مالا بنا کر

میں پہنے رہتی ہوں

مری یہ خاک چمکدار ہونے لگتی ہے

کبھی جو روح میں تاریکیاں اتر آئیں

تو جھلملا کے اجالا کروں گی

تیرے لیئے۔۔۔

نجانے کتنے ذخیرے ہیں اس سمندر میں

میں سیپ ہوں

سبھی موتی سنبھال رکھتی ہوں ۔۔۔!!!

٭٭٭

باتوں کی نظم دہرائی جاتی رہے گی! (ٹرائلاجی) ۔۔۔ سدرۃ المنتہیٰ

ہم نے سوچا تھا ہم باتیں کریں گے

ہم نے سوچا تھا کہ ہم باتیں کریں گے

اور پھر باتوں کی تتلیاں اڑیں گی

باتوں کے پھول نکھریں گے

مگر آج کے دور میں جب بات شروع اخبار کے صفحے سے ہوتی یے

مجھے کئی لاشیں بکھری ہوئیں دریدہ نظر آئیں

تو ان پر منڈلاتے ہوئے چیل کوے پھڑپھڑانے لگے

اور باتوں کی آواز ان کے پھڑپھڑاتے پروں کے شور میں دب جاتی ہے

میں ایسے میں کیسے تمہاری میز پر آؤں

اور اپنے درد کیسے کھولوں۔۔

اور تمہارے درد کیسے سنوں

کہ ہمارے درد تو سسک کر مدھم ہو جاتے ہیں

مگر ناشتے کی میز پر اخبار چیختا ہے

تم نے اس میز کی داہنی طرف اپنا نئے ماڈل کا آئی فون رکھ دیا ہے

دیکھنا تھا ادھر ہی میرے خواب سوئے پڑے تھے

جو میں چائے کی پیالی کے پاس بھول آئی تھی

آج تک وہ آنسووں کا ایک قطرہ زندہ ہے

جو میری آنکھوں کے اندر ہی رہ گیا تھا

اور وہ کئی ان کہی باتیں بھی

جن سے تتلیاں اڑتی ہیں

جن سے پھول کھلتے ہیں

میں تمہیں بتاؤں وہ ساری باتیں میں نے کل باسی روٹی کے ڈبے میں رکھ دی ہیں

انہیں باس لگ گئی ہے

اور تتلیوں کے رنگ پھیکے ہو گئے ہیں

تمہاری میز پر رکھا اخبار ہر روز چیختا ہے

میں ہر روز تمہیں کچھ کہنے سے پہلے بھول جاتی ہوں

ہم نے سوچا تھا ہم باتیں کریں گے

باتوں سے پھول کھلیں گے

پھولوں پر تتلیاں آ کر بیٹھیں گیں

تمہاری میز پر اخبار چیختا ہے

میری شیلف کے بند خانے میں تتلی پھڑپھڑانے لگی ہے

میں نے شیلف کا خانہ کھول دیا ہے

تم اپنا اخبار تہہ کرو

اور سوچو کہ ہم نے آج کیا بات کرنی تھی

مجھے معلوم ہے ہم آج بھی وہ لمحہ بھول جائیں گے

تمہاری میز پر اخبار پڑا چیختا رہے گا

باتوں کے پھول

مرجھا گئے ہوں گے

٭٭

اب تم میری آنکھوں سے دیکھا کرنا!

چلو اب سو جائیں

رات بہت اندھیری ہو جاتی ہے

ٹھنڈ بڑھنے لگی ہے

باتیں فریزر کے خانے میں پڑی سوکھ گئی ہیں

ان پر ٹھنڈ پہرا دیتی ہے

میں نے ان کے لئے اس بار کوئی اوور کوٹ نہیں خریدا ہے

میرے کچن کے خالی ڈبے میں بھی حتی’ کہ ہر جگہ باتیں ہیں

اور میرے ہونٹوں کو چپ لگی ہے

تم نے آج بھی مجھ سے میری چپ کا شکوہ کر دیا

اور اپنے ناشتے کی میز پر نہیں دیکھا۔۔

میں تمہیں سال کے آخری دنوں میں آنکھیں بھیجوں گی

تم اب کے بعد میری آنکھوں سے دیکھا کرنا

تمہیں سب کچھ نظر آئے گا

وہ سب جو میں روزانہ دیکھتی ہوں

وہ تمہارے اخبار کی سرخی سے زیادہ گہرا ہے

اور دھندلا ہے

جو چیختا ہی نہیں

جو صرف سسکتا ہے

مجھے تمہارے اخبار کی چیخ پسند ہے

مگر میں چاہتی ہوں کہ تم میری سماعتوں سے باتوں کو سنو

اور محسوس کرو

کہ اس دنیا میں

درد کی

کتنی قسمیں رہتی ہیں

٭٭

مگر ہم آج کے بعد صرف ایک دوسرے کے لئے جئیں گے!

مجھے تمہارے سنڈے کا ہر روز انتظار رہتا ہے

تم اخباروں کے ڈھیر مت لایا کرو

میں تمہیں کتنی بار سمجھاؤں کہ خواب۔۔ ۔

میں تمہیں کتنی مرتبہ بتاؤں کہ تمہاری میز پر اخبار۔۔ ۔!

میں تمہیں کتنی بار لمحوں کا حساب سمجھاؤں۔۔

میری گھڑی کے کانٹے کا وقت بہت سست ہے

اور تمہاری گھڑی کو پر لگے ہوتے ہیں

میرا اتوار ایک مہینے کے بعد آتا ہے

اور تمہارا اتوار آ کر گزر بھی جاتا ہے

تمہارے کاموں کی فہرست لمبی ہے

میری تو زندگی ہی کام سے جڑی ہے

جس سے کانٹ چھانٹ کر میں نے اپنی باتیں نکالنی ہیں

ان کو صاف کر کے دھونا ہے

انہیں سکھانا ہے

اور پھر تمہارے سفری بیگ میں لگے کیمرے کے لینس سے

یا پھر تمہاری عینک میں لگے شیشوں والے فریم سے

یا پھر تمہاری جیب کے والیٹ کے کسی خانے میں

یا پھر تمہارے آئی فون کی دراز میں

رکھ دینی ہیں!

مگر میں جانتی ہوں باوجود اس کے

تمہیں میری باتیں زہر لگنے لگی ہیں

میں نے تمہارے بغیر۔۔ ۔ بد گمانیوں کے ڈھیر جمع کر لئے ہیں

اور تمہیں سچ سننے سے سخت نفرت ہونے لگی ہے

تمہیں صرف یہ سننا ہے کہ محبت آج بھی زندہ ہے

باوجود اس کے بھی تم نے محبت کی موت دیکھے بغیر اسے مرا ہوا پایا

تمہیں صرف زمانے کی مڈبھیڑ میں الجھ کر زمانوں کے جنتر منتر پڑھنے آتے ہیں

تمہیں صرف سننا ہے کہ میں تمہارے لئے مقید ہوں

تمہیں دنیا داری کے جھمیلوں سے فرصت نہیں

میرے پاس بھی کاموں کا انبار باریاں لگائے کھڑا ہے

مگر اس دھکم پیل میں نجانے کیوں

میرے اندر کی خواہشیں ہمیشہ خون مانگتی ہیں

کیونکہ مجھے تم سے صرف اتنا سننا ہے کہ ہفتے کی اس اتوار کو ہم تم ساتھ ناشتہ کریں گے

تم مجھے چار سال بعد دل کھول کر دیکھ لینا

اور مجھے پورا ایک گھنٹہ تمہاری بے سر و پا باتیں سننی ہیں

ہم آج کے بعد ایک دوسرے کے لئے جیا کریں گے!

صبح کی میز پر اخبار چیختا رہے گا

رات کے سرہانے دکھ سو چکے ہوں گے

شام کی سرخی ہمارے سروں پر سے گزر جائے گی

مگر ہم آج کے بعد صرف ایک دوسرے کے لئے جئیں گے

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ اقصیٰ گیلانی

میں خوبصورت ہوں!

والدین نے ریت

اساتذہ نے سیمنٹ

ریاست نے کنکر اور گدلا پانی

میرے ذہن میں ڈالا

ایک مضبوط بند باندھنے کے لیے

اتنا مضبوط جتنا ایٹم

دیوار چین اور اہرامِ مصر ہے

یہ مضبوط بند

میرے ذہن میں

زندگی کو داخل ہونے ہی نہیں دیتا

میں سمجھتی رہتی ہوں

دنیا بہت بری ہے

زندگی بہت بری ہے

اصل میں دنیا بری نہیں ہے

دنیا تو خوبصورت ہے

زندگی تو خوبصورت ہے

بری تو میں ہوں؟

میں بھی بری نہیں

برا تو ذہن ہے؟

ذہن بھی برا نہیں

پھر برا کیا ہے؟

برا تو وہ بند ہے

جس نے میرے بہاؤ کو روک کر

مجھے تعفن زدہ کر دیا ہے

محبت سے بالکل خالی

متشدد اور زنگ آلود

اب خود پہ

فکر کے بادلوں سے

محبت برسا رہی ہوں

اور

تب تک برساتی رہوں گی

جب تک سارا زنگ نہ اترے

جب تک گیان کا سیلاب

ہر بند

ہر دیوار

بہا کر نہ لا جائے

٭٭٭

لا = زندگی*

زندگی کبھی بھی مساوی نہیں رہتی

یہ تو پلکوں، سانسوں

اسٹاک مارکیٹ کے شئیرز

اور بٹ کوائن کے گراف کی طرح

ہمیشہ اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے

تیز رفتاری کے ساتھ

ایسے راستوں پہ لے جاتی ہے

جہاں سامنے کھائی نظر آتی ہے

گرنا ناگزیر ہوتا ہے

لیکن عین وقت پر

یہ ایسا موڑ مڑتی ہے

کہ ہمیں صحیح سلامت

کسی اور سمت لے جاتی ہے

اگر زندگی کی کتاب کا

ایک صفحہ ہنساتا ہے

تو اگلا ہی صفحہ رلا دیتا ہے

زندگی اتنی لا مساوی ہوتی ہے کہ

فلسفہ، تاریخ اور نفسیات سمیت

کوئی بھی انسانی علم

اب تک اس کی سمت کی

درست پیش گوئی نہیں کر پایا

—–

*اس نظم کا عنوان ن م راشد کی کتاب ’لا=انسان‘ سے ماخوذ ہے۔

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ ممتاز حسین

شہ رگ کا جکڑا کنگن یوں ٹوٹا

شہ رگ کا جکڑا کنگن یوں ٹوٹا

کہ نگاہ ساتویں آسمان کے تخت سے ٹکرائ

تھکی ماندی بصارت تب لوٹی

جب سورج گرہن کی نماز قضا ہوئی

ناف سے لٹکی آنت نے ان جل کو روک دیا

نیچے کا آسمان تو چراغوں سے آراستہ تھا

بھڑکتی آگ کا ثواب تھا یا عذاب تھا

جو اپنے ان داتا کی رگوں میں ثور پھونک رہا تھا

کیا تمہارے کانوں میں کوئی ڈر نہیں سنایا گیا

کیا تیری زبان کو جہنمیوں کے نیزوں سے نہیں پرویا گیا

گناہ کے انگاروں پے سڑاند چھوڑتا تیرا ثواب

بخشش کی چوکھٹ پے ہاتھ باندھے کھڑا ہے

اس کی سلطنت تو سارا کھیت ہے

جس میں تو دھنسا ہاتھ نکالے کھڑا ہے

سر پے بیٹھے کوے اپنی چونچوں سے

تیری آنکھیں نوچ رہے ہیں

کون ہے وہ جو تجھے روزی دے گا

کون ہے وہ جو تیری روزی روک لے گا

تو سرکش ہے تو اوندھا چلے گا

اندھا بن اور سجدہ کر اپنے ان داتا کو

پیشانی ٹیک قدموں پر جس نے تیرے سر پر

کان آنکھ اور ہونٹ چپکا دیے ہیں

٭٭٭

مجھے میرے ہاتھ واپس کر دو

مجھے میرے ہاتھ واپس کر دو

کیوں چبا ڈالے ہیں تم نے؟

تاکہ میں صرف اور صرف

تمہارے جوتوں کے تسموں

کا پھول گانٹھتا رہوں

تمہارے منافع کی سلک میں

سلک اگلتے میرے کشیدہ کار کیڑے

جو

میرے خون کی سرخ واہین ہے

جس کی چسکیاں تم لیتے رہو

بنتے رہو سلک کی تاروں میں

میری انگلیاں

تمہاری انگلیوں نے میری ہتھیلی کی تختہ مشق پر لکھی میری قسمت کا ماضی، حال، مستقبل نابود کر ڈالا

لکیریں جو میرے ہاتھ کی رگیں

پُتلی کے دھاگے جو تیرے

حکم کے یکے، غلام اور جوکر

ساڑھیاں کھولتے

تمہاری رکھیلوں کے مخملی ابھاروں

کو برہنہ کرنے کا بہانہ بناتے

میری انگلیوں سے رستی پیپ کے

سود خور کریڈٹ کارڈ کے ان داتا

اب تمہارے دانتوں کی ڈیٹ ایکسپائر ہو چکی ہے

مجھے میرے ہاتھ واپس کر دو

اب چبانے نہ دوں گا۔

٭٭٭

مانگے کا اجالا

گرگٹ ۔۔۔ انتون چیخوف/ پیغام آفاقی

پولیس کا داروغہ اوچمیلوف نیا اوور کوٹ پہنے، بغل میں ایک بنڈل دبائے بازار کے چوک سے گزر رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے لال بالوں والا پولیس کا ایک سپاہی ہاتھ میں ایک ٹوکری لیے لپکا چلا آ رہا تھا۔ ٹوکری ضبط کیے گئے کروندوں سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔ چاروں طرف خاموشی۔۔۔۔ چوک میں ایک بھی آدمی نہیں۔۔۔۔ بھوکے لوگوں کی طرح دکانوں اور شراب خانوں کے کھلے ہوئے دروازے خدا کی تخلیق کو اداسی بھری نگاہوں سے تاک رہے تھے، یہاں تک کہ کوئی بھکاری بھی آس پاس دکھائی نہیں دیتا تھا۔

’’اچھا! تو تو کاٹے گا؟ شیطان کہیں کا!‘‘ اوچمیلوف کے کانوں میں اچانک یہ آواز آئی، ’’پکڑ تو لو، چھوکرو! جانے نہ پائے! اب تو کاٹنا منع ہو گیا ہے! پکڑ لو! آ۔۔۔ آہ‘‘

کتے کی پیں پیں کی آواز سنائی دی۔ اوچمیلوف نے مڑ کر دیکھا کہ بیوپاری پچوگن کی لکڑی کی ٹال میں سے ایک کتا تین ٹانگوں سے بھاگتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ کلفدار چَھپی ہوئی قمیض پہنے، واسکٹ کے بٹن کھولے ایک آدمی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ کتے کے پیچھے لپکا اور اسے پکڑنے کی کوشش میں گرتے گرتے بھی کتے کی پچھلی ٹانگ پکڑ لی۔ کتے کی پیں پیں اور وہی چیخ ’جانے نہ پائے!‘ دوبارہ سنائی دی۔ اونگھتے ہوئے لوگ دکانوں سے باہر گردنیں نکال کر دیکھنے لگے، اور دیکھتے دیکھتے ایک بھیڑ ٹال کے پاس جمع ہو گئی، گویا زمین پھاڑ کر نکل آئی ہو۔

’’حضور! معلوم پڑتا ہے کہ کچھ جھگڑا فساد ہو رہا ہے!‘‘ سپاہی بولا۔

اوچمیلوف بائیں جانب مڑا اور بھیڑ کی طرف چل دیا۔ اس نے دیکھا کہ ٹال کے پھاٹک پر وہی آدمی کھڑا ہے۔ اس کی واسکٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ وہ اپنا داہنا ہاتھ اوپر اٹھائے، بھیڑ کو اپنی لہولہان انگلی دکھا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ اس کے نشیلے چہرے پر صاف لکھا ہوا ہو ’’ارے بدمعاش!‘‘ اور اس کی انگلی جیت کا جھنڈا ہے۔ اوچمیلوف نے اس شخص کو پہچان لیا۔ یہ سنار خُوکِن تھا۔ بھیڑ کے بیچوں بیچ اگلی ٹانگیں پھیلائے ملزم، سفید گرے ہاؤنڈ کا پلا، چھپا پڑا، اوپر سے نیچے تک کانپ رہا تھا۔ اس کا منہ نکیلا تھا اور پیٹھ پر پیلا داغ تھا۔ اس کی آنسو بھری آنکھوں میں مصیبت اور ڈر کی چھاپ تھی۔

’’یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے یہاں؟‘‘ اوچمیلوف نے کندھوں سے بھیڑ کو چیرتے ہوئے سوال کیا۔ ’’یہ انگلی کیوں اوپر اٹھائے ہو؟ کون چلا رہا تھا؟‘‘

’’حضور! میں چپ چاپ اپنی راہ جا رہا تھا، بالکل گائے کی طرح‘‘ خوکن نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر، کھانستے ہوئے کہنا شروع کیا، ’’مستری مِترِچ سے مجھے لکڑی کے بارے میں کچھ کام تھا۔ یکایک، نہ جانے کیوں، اس بدمعاش نے میری انگلی میں کاٹ لیا۔۔۔ حضور معاف کریں، پر میں کام کاجی آدمی ٹھہرا،۔۔۔۔ اور پھر ہمارا کام بھی بڑا پیچیدہ ہے۔ ایک ہفتے تک شاید میری انگلی کام کے لائق نہ ہو پائے گی۔ اس لیے مجھے ہرجانہ دلوا دیجیے۔ اور حضور، قانون میں بھی کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہم جانوروں کو چپ چاپ برداشت کرتے رہیں۔۔۔۔ اگر سبھی ایسے ہی کاٹنے لگیں، تب تو جینا دوبھر ہو جائے گا۔‘‘

’’ہوں۔۔ اچھا۔۔‘‘ اوچمیلوف نے گلا صاف کر کے، تیوریاں چڑھاتے ہوئے کہا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔۔ اچھا، یہ کتا ہے کس کا؟ میں اس معاملے کو یہیں نہیں چھوڑوں گا! کتوں کو کھلا چھوڑے رکھنے کے لیے میں ان لوگوں کو مزا چکھاؤں گا! جو لوگ قانون کے مطابق نہیں چلتے، انکے ساتھ اب سختی سے پیش آنا پڑے گا! ایسا جرمانہ ٹھوکوں گا کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ بدمعاش کہیں کے! میں اچھی طرح سکھا دوں گا کہ کتوں اور ہر طرح کے مویشیوں کو ایسے چھٹا چھوڑ دینے کا کیا مطلب ہے! میں اس کی عقل درست کر دوں گا، یلدرن!‘‘ سپاہی کو مخاطب کر کے داروغہ چلایا، ’’پتہ لگاؤ کہ یہ کتا ہے کس کا، اور رپورٹ تیار کرو! کتے کو فورا مروا دو! یہ شاید پاگل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں، یہ کتا کس کا ہے؟‘‘

’’شاید جنرل ژِگالوف کا ہو!‘‘ بھیڑ میں سے کسی نے کہا۔

’’جنرل ژگالوف کا؟ ہوں۔۔۔ یلدرن، ذرا میرا کوٹ تو اتارنا۔ اف، بڑی گرمی ہے۔۔۔۔ معلوم پڑتا ہے کہ بارش ہو گی۔ اچھا، ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے تمہیں کاٹا کیسے؟‘‘ اوچمیلوف خوکن کی جانب مڑا، ’’یہ تمہاری انگلی تک پہنچا کیسے؟ یہ ٹھہرا چھوٹا سا اور تم ہو پورے لمبے چوڑے۔ کسی کیل ویل سے انگلی چھیل لی ہو گی اور سوچا ہو گا کہ کتے کے سر منڈ کر ہرجانہ وصول کر لو۔ میں خوب سمجھتا ہوں۔ تمہارے جیسے بدمعاشوں کی تو میں نس نس پہچانتا ہوں!‘‘

’’اِس نے اُس کے منہ پر جلتی سگریٹ لگا دی تھی، حضور! یوں ہی مذاق میں اور یہ کتا بیوقوف تو ہے نہیں، اس نے کاٹ لیا۔ یہ شخص بڑا اوٹ پٹانگ ہے، حضور!‘‘

’’او بھینگے! جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ جب تو نے دیکھا نہیں، تو گپ کیوں مارتا ہے؟ اور سرکار تو خود سمجھدار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو اس کا فیصلہ عدالت کو کرنے دو۔ یہ قانون میں لکھا ہے۔۔۔۔ ہم سب اب برابر ہیں۔ خود میرا بھائی پولیس میں ہے۔۔۔۔ بتائے دیتا ہوں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘

’’بند کرو یہ بکواس!‘‘

’’نہیں، یہ جنرل صاحب کا کتا نہیں ہے‘‘ سپاہی نے سنجیدگی سے کہا، ’’ان کے پاس ایسا کوئی کتا ہے ہی نہیں، ان کے تو سبھی کتے شکاری پونڈر ہیں۔‘‘

’’تمہیں ٹھیک معلوم ہے؟‘‘

’’جی سرکار۔‘‘

’’میں بھی جانتا ہوں۔ جنرل صاحب کے سب کتے اچھی نسل کے ہیں، ایک سے ایک قیمتی کتا ہے ان کے پاس۔ اور یہ تو بالکل ایسا ویسا ہی ہے، دیکھو نا! بالکل مریل ہے۔ کون رکھے گا ایسا کتا؟ تم لوگوں کا دماغ تو خراب نہیں ہوا؟ اگر ایسا کتا ماسکو یا پیٹرسبرگ میں دکھائی دے تو جانتے ہو کیا ہو؟ قانون کی پروا کیے بنا، ایک منٹ میں اُس سے چھُٹی پالی جائے۔ خوکن! تمہیں چوٹ لگی ہے۔ تم اس معاملے کو یوں ہی مت ٹالو۔۔۔۔ ان لوگوں کو مزا چکھانا چاہیے۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔‘‘

’’لیکن ممکن ہے، یہ جنرل صاحب کا ہی ہو‘‘ سپاہی بڑبڑایا، ’’اس کے ماتھے پر تو لکھا نہیں ہے۔ جنرل صاحب کے احاطے میں میں نے کل بالکل ایسا ہی کتا دیکھا تھا۔‘‘

’’ہاں ہاں، جنرل صاحب کا تو ہے ہی!‘‘ بھیڑ میں سے کسی کی آواز آئی۔

’’ہوں۔۔۔ یلدرن، ذرا مجھے کوٹ تو پہنا دو۔ ابھی ہوا کا ایک جھونکا آیا تھا، مجھے سردی لگ رہی ہے۔ کتے کو جنرل صاحب کے یہاں لے جاؤ اور وہاں معلوم کرو۔ کہہ دینا کہ میں نے اِسے سڑک پر دیکھا تھا اور واپس بھجوایا ہے۔ اور ہاں، دیکھو، یہ کہہ دینا کہ اسے سڑک پر نہ نکلنے دیا کریں۔ معلوم نہیں، کتنا قیمتی کتا ہو اور اگر ہر بدمعاش اس کے منہ میں سگریٹ گھسیڑتا رہا تو کتا بہت جلدی تباہ ہو جائے گا۔ کتا بہت نازک جانور ہوتا ہے۔ اور تو ہاتھ نیچا کر، گدھا کہیں کا۔ اپنی گندی انگلی کیوں دکھا رہا ہے؟ سارا قصور تیرا ہی ہے۔‘‘

’’یہ جنرل صاحب کا باورچی آ رہا ہے، اس سے پوچھ لیا جائے۔ اے پروخور! ذرا ادھر تو آنا، بھائی۔ اس کتے کو دیکھنا، تمہارے یہاں کا تو نہیں ہے؟‘‘

’’واہ! ہمارے یہاں کبھی بھی ایسا کتا نہیں تھا۔‘‘

’’اس میں پوچھنے کی کیا بات تھی؟ بیکار وقت خراب کرنا ہے‘‘

اوچمیلوف نے کہا، ’’آوارہ کتا ہے، یہاں کھڑے کھڑے اس کے بارے میں بات کرنا وقت برباد کرنا ہے۔ تم سے کہا گیا ہے کہ آوارہ ہے تو آوارہ ہی سمجھو۔ مار ڈالو اور چھٹی پاؤ۔‘‘

’’ہمارا تو نہیں ہے‘‘ پروخور نے پھر آگے کہا، ’’یہ جنرل صاحب کے بھائی کا کتا ہے۔ ہمارے جنرل صاحب کو گرے ہاؤنڈ کے کے کتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، پر ان کے بھائی صاحب کو یہ نسل پسند ہے۔‘‘

’’کیا؟ جنرل صاحب کے بھائی آئے ہیں؟ ولاڈمیر ایوانِچ؟‘‘ اچنبھے سے اوچمیلوف بول اٹھا، اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ ’’ذرا سوچو تو! مجھے معلوم بھی نہیں۔ ابھی ٹھہریں گے کیا؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’واہ جی واہ! وہ اپنے بھائی سے ملنے آئے اور مجھے معلوم بھی نہیں کہ وہ آئے ہیں۔ تو یہ ان کا کتا ہے؟ بہت خوشی کی بات ہے۔ اسے لے جاؤ۔ کیسا پیارا ننہا سا منا سا کتا ہے۔ اِس کی انگلی پر جھپٹا تھا۔ بس بس، اب کانپو مت۔ غر۔۔۔ غر۔۔۔ شیطان غصے میں ہے۔۔۔ کتنا بڑھیا پلا ہے۔‘‘

پروخور نے کتے کو بلایا اور اسے اپنے ساتھ لے کر ٹال سے چل دیا۔ بھیڑ خوکن پر ہنسنے لگی۔

’’میں تجھے ٹھیک کر دوں گا۔‘‘ اوچمیلوف نے اسے دھمکایا اور اپنا لبادہ لپیٹتا ہوا بازار کے چوک کے بیچ اپنے راستے چلا گیا۔

٭٭٭

دلی ۔۔۔ اودے پرکاش

(ہندی سے، رسم الخط کی تبدیلی اور برائے نام ترجمہ: اعجاز عبید)

سنو کاریگر

سمندر کے کنارے

اکیلے ناریل کے پیڑ کی طرح ہے

ایک اکیلا آدمی اس شہر میں۔

سمندر کے اوپر اڑتی

ایک اکیلی چڑیا کا حلقوم ہے

ایک اکیلے آدمی کی آواز

کتنی بڑی بڑی عمارتیں ہیں دلی میں

ان گنت جگمگ جہاز

ڈگمگاتے ہیں چاروں سمت رات بھر

کہاں جا رہے ہوں گے ان میں بیٹھے بیوپاری

کتنے جواہرات لدے ہوں گے ان جہازوں میں

کتنے غلام

اپنی پگھلتی چربی کی تمازت میں

پتواروں پر تھک کر سو گئے ہوں گے۔

اوناسس! اوناسس!

یہاں تمہاری نگری میں

پھر سے ہے ایک اکیلا آدمی۔

٭٭٭

غزلیں

غزلیں ۔۔۔ عرفان ستار

محترم جلیل عالی صاحب کی زمین میں۔

یہی تنہائی کر سکتی ہے غم خواری ہماری

جو یوں چپ چاپ سہہ لیتی ہے بے زاری ہماری

تمہارے فیصلے، فتوے یہاں لاگو نہیں ہیں

جنوں کی سلطنت میں ہے عمل داری ہماری

ہماری کامیابی ہی ہمارا مسئلہ ہے

سمجھ میں کس کی آئے گی یہ دشواری ہماری

یہ کیسے دورِ بد ذوقی میں ہم نغمہ سرا ہیں

کوئی کرتا نہیں ہے ناز برداری ہماری

ابد تک سوئیں گے اس کو سزا دینے کی خاطر

تمہارے خواب کی دشمن ہے بیداری ہماری

طبیبانِ کرام آئے ہیں تو دیں گے دوا بھی

سمجھ میں جوں ہی آ جائے گی بیماری ہماری

کسی محفل میں ہم کو غم زدہ دیکھا ہے تم نے؟

تمہیں حیراں تو کرتی ہو گی عیاری ہماری

ذرا سی گفتگو میں لوگ کھل جاتے ہیں ہم پر

کسی کا بھی نہ چھوڑے گی سمجھ داری ہماری

کسی کا قرض ہم پر ہو تو جلدی سے بتا دے

مکمل ہو چکی ہے ورنہ تیاری ہماری

٭٭٭

یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا

یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا

تجھ کو معلوم نہیں ہے مری خواہش کیا ہے

مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا

ارتقا کیا تری قسمت میں نہیں لکھا ہے؟

اب تمنّا سے گزر میرا مقدّر ہو جا

بے حسی گر تری فطرت ہے تو ایسا کبھی کر

اپنے حق میں بھی کسی روز تُو پتھر ہو جا

اس سے پہلے تو غزل بھی تھی گریزاں مجھ سے

حالتِ دل تُو ذرا اور بھی ابتر ہو جا

میں جہاں پاؤں رکھوں واں سے بگولا اُٹھّے

ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا

اے مرے حرفِ سخن تُو مجھے حیراں کر دے

تُو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ فیصل عجمی

میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا

معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا

میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں

پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا

کبھی بھلایا کبھی یاد کر لیا اس کو

یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا

نہ جانے کس کو پکارا گلے لگا کے مجھے

مگر وہ میرا نہیں تھا جو نام اس نے لیا

بہار آئی تو پھولوں سے ان کی خوشبو لی

ہوا چلی تو ہوا سے خرام اس نے لیا

فنا نے کچھ نہیں مانگا سوال کرتے ہوئے

اسی ادا پہ خدا سے دوام اس نے لیا

٭٭٭

کچھ پرندے ہیں، نہیں پیڑ کے عادی وہ بھی

چھوڑ جائیں گے کسی روز یہ وادی وہ بھی

خواب میں کچھ در و دیوار بنا رکھے تھے

جانے کیا سوچ کے تعمیر گرا دی وہ بھی

میرے گھر میں نئی تصویر تھی اس چہرے کی

رنگ دیوار کا بدلا تو ہٹا دی وہ بھی

ایک کشتی تھی مسافر نہ تھے زندہ جس کے

آج سیلاب نے ساحل سے لگا دی وہ بھی

میں نے کچھ پھول بنائے تھے مٹا ڈالے ہیں

ایک تتلی بھی بنائی تھی اڑا دی وہ بھی

مجھ کو جادو نہیں آتا تھا پری سے سیکھا

بن گیا آپ بھی، پتھر کی بنا دی وہ بھی

میں نے اک راہ نکالی تھی زمانے سے الگ

تُو نے آتے ہی زمانے سے ملا دی وہ بھی

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ اسلم عمادی

بر سرِ عام ترے عشق کا دعوی کر کے۔۔!

ہم بڑے چین سے ہیں سب سے کنارا کر کے

آنکھیں چندھیا گئیں، گم ہو گئے احساس و حواس

اس نے لوٹا ہمیں جلووں سے اجالا کر کے

رات دن بن گئی، کیا جان جہاں ہے اپنا؟

زیست کی سمت بدل ڈالی اشارہ کر کے

یہی پتھر جو سر راہ پڑا تھا، کب سے

تو نے چمکا دیا اس کو بھی ستارہ کر کے

نہ شناسا کوئی اپنا، نہ کو ئی قدر شناس

ہم چلے کوچہ سے بے لطف گذارہ کر کے

وہی جو خفتہ سا جذبہ تھا ہمارے دل میں

کر دیا شوق نے یک لخت شرارہ کر کے

سچ ہے اسلم کہ یہ دنیا بھی ہے اک کرتب گھر

ہم چلے جائیں گے کچھ روز تماشا کر کے

٭٭٭

نہ جانے کیا ہوا، قابو میں اب مزاج نہیں

مری اداسی کا یوں بھی کوئی علاج نہیں

عجب یہ ہے کہ کیا میں نے اعتبار ترا

یہاں خلوص و وفا کا کوئی رواج نہیں

سوائے دید نہیں کوئی آرزو میری

سوائے عشق مرا کوئی کام کاج نہیں

دیارِ فکر کے حالات ہیں دگر گوں اب

یہ خطہ وہ ہے کہ جس پر کسی کا راج نہیں

بہت سے رنگ ہوئے غرق اس سیاہی میں

کہ روشنی کا اندھیرے سے امتزاج نہیں

یہ سوچتا ہوں، جو دل میں ہے اس سے کہہ ڈالوں

پہ وسوسہ یہ سکھا تا ہے، چھوڑو آج نہیں

مروتاٌ وہ ملا ہو گا، مجھ سے بھی اسلم

یہ اتفاق کوئی وجہِ ابتہاج نہیں!!

٭٭٭

غزل ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

حسن دیرینہ روایات کا پتلا پھونکا

اس نے آتے ہی مساوات کا پتلا پھونکا

گاؤں کی سادہ مزاجی کی خبر لی نہ گئی

شہر کیا آ گئے، دیہات کا پتلا پھونکا

غم آفاق کی ورنہ نہ خبر ہوتی کبھی

یوں مرے دل نے غم ذات کا پتلا پھونکا

جانے کس بات پہ موسم سے خفا تھی دھرتی

عین ساون میں ہی برسات کا پتلا پھونکا

غور سے اس نے سنی سب کی شکایت دن بھر

شام کو ساری شکایات کا پتلا پھونکا

دن کی بدحالی سے لڑتے رہے دن بھر آزرؔ

رات کے آتے ہی پھر رات کا پتلا پھونکا

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ علی تاصف

پیارے نحریر جاوید کی نذر

یوں تو اپنے تئیں تھے بہت با خبر کھلتے کھلتے کھلا اس حقیقت کا در ہائے افسوس ہم بے خبر ہی رہے بے خبر جائیں گے خواب رہ جائیں گے

در کھلا تو کھلا فلسفہ زیست کا کوئی کچھ بھی کہے ماجرا ہے یہی جانتے کچھ نہیں اک نہ اک دن سبھی مان کر جائیں گے خواب رہ جائیں گے

دائرے میں رہو قاعدے میں رہو یا خسارے بھرے فائدے میں رہو وہم ہے زعم ہے سب گماں ہے فقط اپنے نام آئے گا ایک دن ایک خط

کوئی حجت نہیں سر جھکائے چلو منہ چھپائے چلو کوئی چارہ نہیں اپنے وہم و گماں سے مکر جاؤ تم ہم مکر جائیں گے خواب رہ جائیں گے

سب کہا ان کہا ہو کے رہ جائے گا سب سنا ان سنا ہو کے رہ جائے گا، مثل الفاظ جو ہو چکے ہم ادا الغرض سب کا سب بے اثر جائے گا

شام ڈھل جائے گی رات کٹ جائے گی دن گزر جائے گا وا دریغا یونہی دیکھتے دیکھتے صورتِ برگ و گُل ہم بکھر جائیں گے خواب رہ جائیں گے

ایسے مد ہوش تھے جیسے بے ہوش تھے جان ہی کب سکے اس کہانی کا دکھ رائگانی کا دکھ اک ندا آئے گی سب دھرے کا دھرا ہائے رہ جائے گا

سارے موسم بدل جائیں گے بے دلی، سارے دریا اتر جائیں گے بے کلی، طے شدہ کچھ نہیں پھر کدھر جائیں گے پر جدھر جائیں گے خواب رہ جائیں گے

اے ہوس بس بھی کر بس بھی کر اے ہوس جان لے مختصر مختصر جان لے ایک دن سب یہاں سب یہاں ایک دن چھوڑ جانا ہے بس اس طرح جس طرح

مقتدر جائیں گے نامور جائیں گے معتبر جائیں گے تاجور جائیں گے کرّ و فر جائیں گے سب اگر جائیں گے سب مگر جائیں گے خواب رہ جائیں گے

اوّلش اوّلش ہم یہ سمجھے نہ تھے شوقِ پرواز میں رات دن ہم اُڑے آخرش یہ کھلا شوق رہ جائے گا پال و پر جائیں گے خواب رہ جائیں گے

زمزمے بھی گئے ہمہمے بھی گئے قہقہے بھی گئے چہچہے بھی گئے آپ تاصف میاں چشمِ نم آئے تھے چشمِ تر جائیں گے خواب رہ جائیں گے

٭٭٭

فشارِ خوں نہ اپنی ٹانگ اڑاتا

تو ایسے کیوں بھلا دل ہڑبڑاتا

پرندہ نو گرفتہ لگ رہا ہے

وگرنہ اس طرح کیا پھڑپھڑاتا

میں خود سے مل کے واپس آ رہا تھا

سراسیمہ ہراساں لڑکھڑاتا

کیے بیٹھا تھا چشم در مقفّل

مگر اک خواب آیا دھڑدھڑاتا

بہت مطعون کرتا ضبط میرا

اگر کچھ زیرِ لب ہی بڑبڑاتا

اگر جنبش میں دے پاتا بدن کو

تو پہلے بیڑیوں کو کھڑکھڑاتا

ملمّع سازیاں شامل نہ ہوتیں

میانِ داستاں کیوں گڑبڑاتا

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

عجیب پھیر ہے دیوار و در پھرے ہوئے ہیں

مرے پڑوس کے آدم نگر پھرے ہوئے ہیں

تمہارے شہر کے لوگوں سے کیسے بات کروں

تجھے نکال کے ساروں کے سر پھرے ہوئے ہیں

ہمارے بت بھی پڑے ہیں مراقبے میں یہاں

کئی خمار میں ہیں بیشتر پھرے ہوئے ہیں

ڈرے ہوئے تھے پرندوں کے سر پھٹے ہوئے تھے

دو چار چھوڑ کے اکثر کے پر پھرے ہوئے ہیں

بنی ہوئی ہے یہاں بھی خمار ساز فضا

دھمال کرتے ہوئے کچھ شجر پھرے ہوئے ہیں

ترے پیام میں جو خاص تھا مٹا ہوا تھا

ترے پیام کے زیر و زبر پھرے ہوئے ہیں

سمندروں نے یہاں ساحلوں سے تلخی کی ہے

یہی ہے آج کی تازہ خبر پھرے ہوئے ہیں

چمن میں بانٹ کے موسم رتیں چلی گئی ہیں

جو رہ گئے تھے کھڑے بے ثمر پھرے ہوئے ہیں

٭٭٭

مِری مان اے اخی! اچھی نہیں ہوتی

بہت سنجیدگی اچھی نہیں ہوتی

بہت دیوانگی اچھی نہیں ہوتی

مگر کیا واقعی اچھی نہیں ہوتی

ہمیں کیا زندگی کا تجربہ کم ہے

نہ ہوتی ہو بُری، اچھی نہیں ہوتی

ہر اک شے میں تری جلوہ گری توبہ

نظر جیسے بُری اچھی نہیں ہوتی

تری آنکھیں بہت کچھ بول دیتی ہیں

ادھوری خامشی اچھی نہیں ہوتی

بہت پابند مُلّانی سی لگتی ہے

غزل آزاد بھی اچھی نہیں ہوتی

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ فرحان محمد خان

میرے دل میں بھی اک یاد سی رہ گئی

ان کے پہلو میں بھی کچھ کمی رہ گئی

ایک بچہ جو دنیا کا باغی ہوا

ایک ماں جو اسے ڈانٹتی رہ گئی

گھر سے نکلے تو ہم پر کھلا بارہا

گھر کی دہلیز پر زندگی رہ گئی

زندگی بھر محبت ہی کرتے رہے

اور اس میں بھی شاید کمی رہ گئی

ایک بندِ قبا اپنی قسمت ہوا

اک گرہ جو کہ کھلتی ہوئی رہ گئی

اک محبت کہ محرومِ اظہار تھی

اک کلی باغ میں ادھ کھلی رہ گئی

ایک چہرہ جو آنکھوں میں اٹکا رہا

بات ایسی جو دل میں دبی رہ گئی

ایک تصویر ہے جس میں دو لوگ ہیں

زندگی میں یہی اک خوشی رہ گئی

کوئی رخصت ہوا، دل یہ کہنے لگا

اپنے حصے میں اب شام ہی رہ گئی

اس کو دعوی تھا مڑ کر نہیں دیکھنا

اور دیکھا تو پھر دیکھتی رہ گئی

چار یار اور اک چائے کی میز تھی

اب وہاں پر فقط میز ہی رہ گئی

٭٭٭

جو جس کے پریم میں ڈوبا ہے وہ اس کی مالا جپتا ہے

ہر ہیر کا اپنا رانجھا ہے ہر کرشن کی اپنی رادھا ہے

اپنا بھی انوکھا رشتہ ہے ہر بات پہ جھگڑا ہوتا ہے

میں عشق نگر کا پکھیرو ہوں وہ حسن نگر کی چڑیا ہے

ہر دل کی اپنی شریعت ہے ہر دل پہ صحیفہ اترا ہے

ہر شخص کے اپنے سجدے ہیں ہر شخص کی اپنی پوجا ہے

کچھ تال نہیں کچھ میل نہیں یہ عشق ہے حضرت کھیل نہی

میں کیسے آپ کو سمجھاؤں پروانہ کیوں آگ پہ بیٹھا ہے

یہ دیوانوں کی باتیں ہیں کیوں فرزانوں پر بھید کھلے

میں اس کے لبوں سے ہنستا ہوں وہ میری آنکھ سے روتا ہے

وہ جس کو دیکھ کے جینے کی ہر خواہش دھک دھک کرتی ہو

جیون کی بہتی گنگا میں اک آدھ ہی چہرہ ایسا ہے

تب کوئی کھلونا ٹوٹ گیا اب کوئی اپنا روٹھ گیا

ہر عمر کے اپنے سپنے ہیں ہر عمر کا اپنا جھگڑا ہے

یہ واعظ ہیں وہ صوفی ہے، یہ ملا ہیں وہ ملحد ہے

ہر شخص انا کا قیدی ہے ہر شخص کا اپنا پنجرا ہے

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ صابرہ امین

کب کوئی جیتا اسے ہے حکمت و تدبیر سے

جیت ہوتی ہے محبت میں فقط تقدیر سے

تجھ سے ملنا، تجھ کو پانا اب کہاں اپنا نصیب

ہم کیا کرتے ہیں باتیں بس تری تصویر سے

ہم کو ہم سے چھین کر تم نے سزا دی اس طرح

ہو گئے ہم خالی داماں ہائے اس تعزیر سے

رازِ الفت کھول کر ہم کس قدر پچھتا چکے

مضمحل ہیں زخمِ دل کی اس قدر تحقیر سے

اب تو خود سے بھی چھپائیں گے ہم اپنا حالِ دل

باز آئے ہم جنوں کی اس قدر تشہیر سے

خواب ہم نے تو بنے تھے چاہتوں کے، پیار کے

کیوں نہ ہوں اب ہم شکستہ اس الٹ تعبیر سے

پیار کی خوشبو کبھی کیا روک پایا ہے جہاں

تم ڈراتے ہو ہمیں کیوں طوق سے، زنجیر سے

ہم کو بھی جانے کی جلدی تھی یہ دنیا چھوڑ کر

اور وہ بھی ہم تلک پہنچے ذرا تاخیر سے

کر رہے تھے ہم دعائیں بھول جانے کی تمہیں

مستجابی کیسے ہوتی حرفِ بے تاثیر سے

داستاں سننے کو گرچہ اک زمانہ ساتھ ہے

ہم کہا کرتے ہیں دل کا حال اک تصویر سے

٭٭٭

عشق کا انسان سے گر واسطہ ہوتا نہیں

زیست کرنے کا جہاں میں کچھ مزا ہوتا نہیں

عاشقی کا درد تو سب کو عطا ہوتا نہیں

بس سبب یہ ہے کہ وہ ہم پر فدا ہوتا نہیں

پیار کرنا جرم بھی ہوتا مرے رب کے قریں

کوئی بھی پھر اس جہاں میں بے خطا ہوتا نہیں

اس کی بنیادوں میں ہے موجود ارمانوں کا خون

یوں تمھارے دل میں گھر اپنا بسا ہوتا نہیں

وصل کی خواہش ہمیں لے جائے گی کیا گور تک

وعدہ کرتے ہو مگر تم سے وفا ہوتا نہیں

پیار کی کشتی ڈبونے میں تمہارا ہاتھ ہے

جو خدا بن بیٹھے پھر وہ ناخدا ہوتا نہیں

کیا دکھا اس شخص میں چھوڑا ہمیں جس کے لیے

گر نہ اس کو دیکھتے ہم کو گلہ ہوتا نہیں

٭٭٭

انشائیہ

اسے نہ پڑھئے، پلیز! ۔۔۔ محمد اسد اللہ

براہ کرم اس مضمون کو نہ پڑھئے! یہ آپ کے کسی کام کا نہیں۔ اس رسالے میں آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے اور بھی عمدہ قسم کے پر مغز مضامین جمع کئے گیے ہیں، آپ ان سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔۔۔۔۔

ارے! آپ پڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اسے چھوڑ دیجئے پلیز، آ گے بڑھ جائیے۔ اسے نہ پڑھنے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا اور پڑھ کر بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا کام کیوں کیا جائے جس سے تضیعِ اوقات کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔ دنیا میں بے شمار ایسی کتابیں رسالے اور تحریریں ہیں جن کا مطالعہ انسان کے لئے بے حد نفع بخش ہے۔ بعض نگارشات انسان کو اندر تک جھنجھوڑ ڈالتی ہیں اور اس کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ یقین مانیے یہ اس قسم کی تحریر ہر گز نہیں ہے، آپ بلا وجہ اس میں اپنا سر نہ کھپائیں۔۔۔۔ آپ مانتے کیوں نہیں؟ ایک بار کہہ دیا کہ اسے نہ پڑھیں تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ کیا اس مضمون میں سر خاب کے پر لگے ہیں جو آپ پڑھتے چلے جا رہے ہیں!

بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شوقِ مطالعہ کے ہاتھوں آپ اتنے ہی بے بس ہیں تو دنیا میں پڑھنے کے لیے بے شمار چیزیں پڑی ہیں۔ اخباروں میں چھپی جھوٹی خبریں پڑھئیے، وہ سچی خبریں بھی پڑھئیے، جو ان اخباروں سے ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

سوشل میڈیا پر آئیے۔ واٹس ایپ میسیج دیکھئے۔ تھوک کے بھاؤ سے مبارکباد کے پیغامات، تحسین و آفرین کے روح افزا جملے، تعریفی کلمات، عیادت کے سندیسے، تعزیتی فقرے، گھٹیا لطیفے، نصیحتیں اور اقوالِ زرین، ملفوظاتِ حکمت، مظاہرِ حماقت وغیرہ دعوتِ مطالعہ دے رہے ہیں، وہاں اقبال اور غالب ؔکے نام کے ساتھ پیش کئے گئے وہ گھٹیا، بے تکے، پٹری سے اترے ہوئے بے وزن اشعار ملاحظہ فرمائیے جو ان عظیم شعرا کو ان کی حیات میں سنائے جاتے تو یقیناً ان کی تاریخ وفات کچھ اور پیچھے سرک جاتی۔

راستے پر آئیے اور رنگوں کی طرح بدلتے ہوئے ان شاہراہوں کے نام پڑھیئے، شہروں کے ناموں کے تغیرات سے عبرت حاصل کیجئے، اشتہارات، سائین بورڈ، ہدایات اور دیواروں پر لکھے جملوں کی بے بسی پڑھئیے مثلاً (اشتہاروں کے درمیان) یہاں اشتہار لگانا منع ہے، (کوڑے کے ڈھیر پر) یہاں کچرا ڈالنا منع ہے، (بدبو دار دیوار پر) یہاں پیشاب کرنا منع ہے، اور (ایسی ہی کسی دیوارِ قہقہہ پر طنزیہ تیور کے ساتھ) دیکھو دیکھو یہاں ایک گدھا۔۔۔، وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں آپ کے ذوقِ مطالعہ کی منتظر ہیں۔ بجلی پانی، وغیرہ کے بل، بنک کا پاس بک، رسوئی گیس کا ریکارڈ بک اور ان سب کو پڑھنے والوں کے ماتھے کی شکنیں وغیرہ۔ ان سب کو پڑھتے پڑھتے تھک جائیں تو لوگوں کے چہرے پڑھئے، زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے اس کا مطالعہ کیجئے، غرض پڑھنے پر آئیں تو یہاں ہزاروں چیزیں ہیں۔ خدارا اس ایک مضمون کو بخش دیجئے۔

جنابِ من! آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ صرف پڑھتے ہیں اور پڑھتے ہیں، سنتے کہاں ہیں، کتابیں اور مضامین آپ سے باتیں کرتی ہیں، کچھ کہنا چاہتی ہیں، آپ سے کچھ مانگتی ہیں مگر شاید کان پور میں ہڑتال ہے یا عقل کنواں (اکل کنواں) میں کرفیو لگا ہوا ہے، آپ کو صرف پڑھنے کا ہَوکا ہے۔ آپ کتابیں پڑھتے ہیں، ان کی بات سنتے کہاں ہیں۔ ہم، اتنی دیر سے کہے جا رہے ہیں کہ اسے نہ پڑھئیے مگر آپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اس تحریر میں مضمون جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں، جیسا کہ آج کل بیشتر مضامین میں ہوا کرتا ہے اور جو آپ اس قدر انہماک کے ساتھ پڑھ رہے ہیں یہ اس قبیل کی چیزوں میں بد ترین مضمون ہے۔ مذکورہ تحریروں پر اکثر کسی مضمون کا دھوکہ ہوتا ہے، اس مضمون میں وہ بھی نہیں ہے۔ اُن فالتو مضامین میں آخر تک ہر سطر پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے گویا آپ پیاز کے چھلکے اتار رہے ہیں، کچھ پانے کی امید کسی سراب کی طرح آپ کو آ گے بڑھنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے وعدوں کی طرح لگتا ہے آج نہیں تو کل کچھ ضرور حاصل ہو گا۔ مگر آخر میں پیاز یعنی مضمون کے ختم ہونے پر کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا سوائے ایک ناگوار بو کے جو پیاز چھیلنے کے بعد انگلیوں سے چمٹ جاتی ہے۔ تاہم لگتا ہے کہ جس چیز کی جستجو تھی وہ تو نہ ملی، بلکہ کچھ بھی نہ ملا مگر اس بہانے سے آپ نے دنیا دیکھ لی۔ اپنی ہٹ دھرمی کے سبب، بار بار روکنے کے باوجود جس نگارش کو آپ مسلسل پڑھے چلے جا رہے ہیں، اس سے آپ کو وہ احساس بھی حاصل نہیں ہو گا کیونکہ اس میں کچھ ہے ہی نہیں۔ سوائے روک ٹوک کے جو ہمارے اکثر مضامین میں ہوا کرتی ہے، مگر وہاں کچھ تو ہوتا ہے جس سے روکا جاتا ہے تاکہ آپ اپنے قدم روک لیں اور دنیا کا یا کم از کم آپ ہی کا بھلا ہو، یہاں آپ کو کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئے گی جسے اپنانے سے آپ کو خبر دار کیا جا رہا ہے، سوائے ایک مضمون کے جس کے مطالعے سے آپ کو منع کیا جا رہا ہے مگر آپ ایسے ڈھیٹ ہیں کہ بار بار دی جانے والی ہدایت کو نظر انداز کر کے اس طرح آگے چلے جا رہے ہیں جیسے۔۔۔ خیر اب ہم کیا کہیں!

آپ پڑھتے کیوں ہیں؟ اس سوال پر کبھی آپ نے غور کیا ہے؟

(بعض لوگ اتنا پڑھتے ہیں کہ ان کے پاس غور کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ یعنی کتابیں انھیں یہ موقع ہی نہیں دیتیں، بس خود سے چمٹائے رکھتی ہیں اور خود کو پڑھوائے چلی جاتی ہیں)

کچھ لوگ یہ کارِ خیر اس لیے انجام دیتے ہیں تاکہ با خبر رہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، جب سے اس کے بنانے والے نے ’ہو جا‘ کہہ کر اس پر پھونک ماری ہے یہاں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ کچھ لوگ با مقصد زندگی گزارنے کے عادی ہیں، وہ بنئے کا پوت بن گئے ہیں جو بغیر کچھ دیکھے کہیں گرتا بھی نہیں۔ اس قسم کے صاحبان صرف وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن کی افادیت اظہر من الشمس ہے مثلاً بینک پاس بک۔ اب دنیا میں ایسے لوگوں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ علم و ادب، فلسفہ، نفسیات وغیرہ کی کتابیں ان کے قیمتی معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ بعض لوگ صرف امتحان کی ان کتابوں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں جن کی مدد سے انھیں ڈگری حاصل کرنی ہے اس کے بعد وہ ان کتابوں کو کباڑی کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔

عام موضوعات کی کتابیں بھی عام آدمی کی طرح بے وقعت ہو کر رہ گئی ہیں۔ انھیں کوئی پوچھتا نہیں۔ علم تو علم ہے کہیں سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے کہ آپ بلا امتیاز کسی بھی قسم کی تحریر پڑھ جاتے ہیں۔ اب کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔

تاہم ان دنوں شائع ہونے والی سینکڑوں کتابوں کی طرح میں آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہتا۔ ان کتابوں کے مصنفیں وہ بازیگر ہیں جو قارئین کو کھلا دھوکہ دیتے ہیں۔ وہ نہ اپ کی اخلاقی یا روحانی تربیت کرتے ہیں، نہ حفاظت، نہ ہی کسی صنف میں طبع آزمائی کر کے اس کی آبیاری کرتے ہیں، نہ وہ آپ کی خدمت میں ایسی تخلیقات پیش کرتے ہیں جن سے طبیعت میں بالیدگی اور فرحت پیدا ہو، آپ کی شخصیت کسی نئے افق سے آشنا ہو۔ وہ صرف اس لیے لکھتے ہیں کہ انھیں ادبی دنیا میں ادیب اور قلم کار بن کر ابھرنا اور شہرت پانا ہے۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے نہ ہی میں ادب میں کوئی نئی ادبی صنف ایجاد کر کے اس ایجادِ بندہ کے زور پر مشہور ہونا چاہتا ہوں۔ میں تو بس یونہی آپ کا ظرف، جذبہ فرمانبرداری اور مطالعہ پر عمل درآمد کی صلاحیت آزمانے کے لیے اور اپنے صبر کا امتحان لینے کے لیے کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا ہوں۔

ہاں، تو بتائیے آپ مطالعہ کیوں کرتے ہیں؟

علم حاصل کرنے کے لیے؟ زندگی، دنیا، کائنات، لوگوں اور چیزوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے؟ یعنی اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے؟ (تاکہ لوگوں پر رعب ڈالا جا سکے اور انھیں نیچا دکھایا جا سکے، بعض لوگ تو صرف اتنا ہی اور ویسا ہی پڑھتے ہیں جس سے یہ مقصد حاصل ہو جائے) آپ کے مطالعے کا مقصد خود کو بہتر بنانا، سنوارنا، اچھا انسان بننا، دوسروں کو پڑھا کر ان مقاصد کا حاصل کرنا ہے یا بس ٹائم پاس کرنا؟ آج کل وقت گزاری کا اعلیٰ ترین آلہ سوشل میڈیا ہے اسی لئے لوگ فیس بک کو عام کتابوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ کتابوں میں عموماً کتابیں ہی ہوا کرتی ہیں۔ (اور کبھی کبھی وہ بھی نہیں ہوتیں) جبکہ فیس بک پری چہرہ اور بے پر کے چہروں سے بھرا پڑا ہے۔ وہاں یہ مسئلہ بھی نہیں کہ، ’تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں۔‘ اس کے علاوہ بھی وہاں اور بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اس کے بر عکس کتابیں چار دیواری میں بند محض ایک دقیانوسی قسم کی چیز بن کر رہ گئی ہیں۔ اب کتابوں کے دیوانے بہت کم رہ گئے ہیں اور جو ہیں وہ دیوانے ہی سمجھے جاتے ہیں۔ بعض لوگ کتابیں اور رسائل صرف اس لئے خریدتے ہیں تاکہ انھیں ڈرائینگ روم میں سجا کر اپنے شوقِ مطالعہ اور دانشوری کا اعلان کیا جائے اور یہاں ایسے فنکار بھی موجود ہیں جو خریدنے اور پڑھنے کی زحمت اٹھائے بغیر بھی یہ ڈھنڈورا پیٹ لیتے ہیں۔

دیکھئے، نا۔۔ نا۔۔ کہنے کے باوجود آپ یہاں تک چلے آئے۔ کیوں پڑھ رہے ہیں آپ! کیا آپ بھی دنیا کے ان بے شمار لوگوں میں سے ہیں جو بے سوچے سمجھے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ کتابیں چھوڑئیے، وہ بندگانِ خدا تو زندگی بھی ایسے گزارتے ہیں کہ بس جینا ہے، جی رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ کیا پڑھنا ہے اور کیوں۔ سچ ہی ہے، کتاب کوئی نماز تو ہے نہیں جس کے پڑھنے کے لیے با قاعدہ نیت کرنی پڑے۔ مثلاً: نیت کرتا ہوں میں، مطالعہ کی، اس کتاب کے، خاص واسطے انجینیرنگ کے امتحان کے، منھ میرا نوکری شریفہ کی طرف۔ اس قسم کی کتابیں ان الفاظ کی ادائیگی کے بغیر ہی پڑھی جاتی ہیں۔ ڈگری ملنے کے بعد پھر کوئی ان کی طرف ایک نگاہِ غلط انداز ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا۔ بلا وجہ کتاب یا رسائل خریدنا اور پھر انھیں سینت سنبھال کر رکھنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ ڈگری مل جائے تو لوگ (ایک ہی سانس میں) سب سے پہلے وہ کتابیں اور ٹھنڈی سانس چھوڑتے ہیں۔ انھیں ٹھکانے لگانے کے بعد وہ نوکری حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔

دنیا پڑھے لکھے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن میں سے بیشتر اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جیسے ان کے لیے کالا اکشر بھینس برابر ہو۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انھیں انسانیت، ادب، تہذیب اور شائستگی سے کوئی لگاؤ نہیں بلکہ خدا واسطے کا بیر ہے۔ واشنگ مشین سے نکلے ہوئے کپڑے یقیناً صاف ستھرے ہو سکتے ہیں، ہمارے تعلیمی نظام کے اگلے ہوئے افراد کا انسان ہونا ضروری نہیں ہے۔ غالبؔ نے اسی موقع کے لیے کہا تھا۔

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔

آخر اتنا پڑھ لکھ کر کیا ہوا۔ اسی لیے یہ عرض ہے کہ آپ جو اس مضمون کو صحیفۂ آسمانی سمجھ کر پڑھنے پر مصر ہیں، اگر اس سے دست بردار ہو جائیں تو قیامت نہیں آ جائے گی۔ قیامت سے یاد آیا کہ آسمانی کتابوں سے حروف کا اڑ جانا بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ ان دنوں یہ حال ہے زمینی کتابوں میں الفاظ کی بھر مار ہے مگر معانی مائلِ پرواز ہیں، لکھنے والے بے پر اڑانے لگے ہیں۔ یوں بھی ہر تحریر ادبِ عالیہ نہیں ہوتی اور جو آپ کے پیش نظر ہے وہ تو قطعی نہیں ہے۔ اس لئے براہ کرم اس سے صرفِ نظر کریں ہمارے علم و ادب کا بڑا حصہ اسی لائق ہے اور یہ مضمون بھی اس میں شامل ہے۔

یہ مضمون اگر آپ پہلی ہی تنبیہ پر چھوڑ دیتے تو میری خواہش ہوتی کہ آپ کے گلے میں فرمانبرداری کا ایک خوبصورت سا تمغا ڈال دوں مگر دنیا میں تمغا، انعام، اعزاز، معاوضہ وغیرہ یہ چیزیں ہی سب کچھ نہیں ہیں، اسی لئے مخلصین ان کی تمنا کے بغیر بھی بہت سے ہفت خواں طے کرتے ہیں۔ یہی مہم بذاتِ خود اس مہم جوئی کا حاصل ہوتی ہے۔ کبھی کشور کشائی ہمیں آمادہ سفر کرتی ہے اور کبھی کوئی سر کشی در در بھٹکاتی ہے۔ کچھ نہ ملنے میں بھی بہت کچھ مل جاتا ہے جو اس سفر کا حاصل ہوا کرتا ہے، کچھ نہیں تو عبرت یا تجربہ ہی سہی۔ افسوس! اس شوق مطالعہ سے آپ کو وہ بھی حاصل نہ ہوا۔ یقین آ گیا؟ میں غلط نہ تھا۔

آخر منع کرنے کے باوجود آپ نے کمالِ ڈھٹائی سے یہ پورا مضمون پڑھ ڈالا۔ آفرین!

خیر، کیا کریں، یہ پوری دنیا ہی چھوٹے بچوں کا ایک ایسا گھر بن گئی ہے جہاں لاکھ روکنے ٹوکنے کے باوجود بچے، جو ان کے جی میں آئے کر گزرتے ہیں، من مانی کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ کچھ ملے نہ ملے، دلی تمنا پوری ہو جاتی ہے اور چین اور سکون مل جاتا ہے۔

٭٭٭

طنز و مزاح

شوہر کیسے کیسے ۔۔۔ سلمیٰ یاسمین نجمی

شوہر حضرات بھی تو لوگوں کی ہی ایک قسم ہیں کیونکہ خواتین کی اکثریت کی گفتگو شوہروں کے قصیدوں یا فضیحتوں سے شروع ہو کر اس موضوع پر ختم ہوتی ہے۔ یہاں ہماری مراد شادی شدہ خواتین ہیں۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ہو، کوئی معاملہ ہو، بادہ و ساغر کی طرح بچے اور شوہر صاحب دھرے ہوتے ہیں اور ان کی رائے حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔ سقراط، بقراط سب ان کے شوہروں سے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ بھئی شوہر ان کے ہیں نکاح میں بندھی ہوئی ہیں مجبوری ہے۔ جو چاہیں انہیں سمجھیں مگر دوسروں نے کیا کیا ہے جو وہ بھی ایمان لائیں۔

ایک دوست ہیں ہماری۔ کہنے لگیں‘‘ بھئی میرے میاں تو چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا ہیں۔’’

’’کون سی والی؟ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا یا شاہکار بک والوں کی؟’’

’’وہ انسان ہیں کتاب نہیں۔ میں تو کہہ رہی تھی کہ دنیا کی تمام معلومات ان کی فنگر ٹپس پر ہوتی ہیں ملکی معاملات ہوں کہ بین الاقوامی، سیاست ہو یا معیشت، تاریخ ہو یا جغرافیہ یہاں تک کہ اسٹاک ایک چینج کے کریش کی وجوہات بلکہ راز بھی تمہیں بتا دیں گے، اور اسپورٹس میں تو خیر ان کی جان ہے۔ تم جو چاہو پوچھ لو۔‘‘

’’ہمیں کسوٹی کسوٹی کھیلنے کا کوئی شوق نہیں، نہ ہمارا تعلق ایف بی آئی سے ہے۔ تم ہی کان کھاؤ ان کے۔‘‘

’’سچ کہتی ہوں تم کوئی موضوع چھیڑ کر تو دیکھو۔ بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔‘‘

’’بھئی بخیے ادھیڑنا تو سب سے مشکل کام ہے۔ ہمیں تو زہر لگتا ہے۔ اس لیے ہم نے سینا پرونا سیکھا ہی نہیں۔ کون بخیے ادھیڑتا رہے اور ترپائیاں کرتا رہے۔ کیا وہ ترپائی کاج بٹن وغیرہ بھی کر لیتے ہیں؟؟‘‘

’’نا، کیا وہ درزی کی اولاد ہیں؟ ایک بہت بڑی کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔ سمجھیں تم۔‘‘

’’تو پھر بخیے کیوں ادھیڑتے ہیں۔؟‘‘ ہم نے معصومیت سے پوچھا۔

’’اللہ تم سے پوچھے تم تو بات کی کھال ادھیڑتی ہو۔‘‘ وہ خفا ہو گئیں۔

یہ آپ کو ادھیڑنے سے اتنی دلچسپی کیوں ہے کہ بے چارے بال کی بھی کھال لے کے آدھی کر دی ہے۔ ارے بھئی بال کی تو کھال اتاری جاتی ہے۔‘‘

’’خدا کے واسطے چپ ہو جاؤ۔ وہ چلائیں۔ اب کیا تم میری کھال اتارو گی۔‘‘

دوسری خاتون بولیں۔ ’’بھئی میرے میاں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ وہ محض گفتار کے غازی نہیں ہیں۔ عمل کرتے ہیں عمل۔ ہر فن مولا ہیں۔ دیوار میں کیل ٹھکوانی ہو، فیوز لگوانا ہو، فلش کی ٹنکی ٹھیک کروانی ہو، گیزر کا مزاج درست کرنا ہو۔ کسی کی خوشامد نہیں کرنی پڑتی۔ یہ سارے بکھیڑے وہی سنبھال لیتے ہیں۔‘‘

’’تو کیا آپ کے میاں کوئی پلمبر وغیرہ ہیں؟‘‘ کسی نے پوچھا۔

’’کیوں جی گھر کے کام کرنے سے کوئی پلمبر یا مستری بن جاتا ہے، کیا امریکہ یورپ میں سب کے میاں گاربیج کے تھیلے ڈھوتے نظر نہیں آتے، گھر میں ویکیوم وغیرہ بھی کرتے ہیں۔ کرتے ہیں یا نہیں؟؟‘‘

ہم نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’کیوں نہیں، کیوں نہیں‘‘

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی

یک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبعیت بھی

’’یہ حسرت صاحب کون ہیں؟ میرے میاں کا نام تو شفقت ہے اور میں نے یہ کب کہا کہ وہ چکی میں آٹا پیستے ہیں۔ یہ تم بھری محفل میں بیٹھ کر الٹی سیدھی نہ ہانکا کرو۔‘‘

ان کی ہمسائی بولیں۔ ’’تم نے تو بتایا تھا کہ ایک بار جو وہ کیل ٹھونکنے لگے تو اپنی آستین کا کف بھی ساتھ میں ٹھونک دیا۔‘‘

’’ہائے تو کیا وہ تصویر کی طرح دیوار سے لٹک گئے تھے۔‘‘

’’اللہ نہ کرے وہ کیوں لٹکتے۔ انہوں نے فوراً قمیص اتار دی۔ سو وہ لٹکی رہی۔ اصل میں ان کی نظر کمزور ہے۔ اس دن اپنی عینک کہیں رکھ کر بھول گئے تھے تو بغیر عینک کے ہی کیل ٹھونکنے لگے۔ ایک دو بار تو اپنے انگوٹھے پر بھی ہتھوڑی دے ماری۔‘‘

ان ہی ہمسائی نے پھر یاد دلایا۔ ’’ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی گل کھلاتے رہتے ہیں، ایک بار جو غسل خانے کا نلکا ٹھیک کرنے لگے تو پورا پائپ ہی اکھاڑ دیا۔ لو جی سارا گھر ہی جل تھل ہو گیا۔ قالین بھیگ گئے، بچوں کی کاپیاں، کتابیں اور جوتے تیرتے پھر رہے تھے۔‘‘

’’تو کیا ہو گیا۔ آخر کو بندہ بشر ہیں بھول چوک ہو جاتی ہے۔‘‘

’’اچھا جی اس دن تو تم نے اس بندہ بشر کے ایسے لتے لیے کہ تم سے جان چھڑا کر ہر فن مولا صاحب ایسے اڑنچھو ہوئے کہ شام کی خبر لائے۔

لو۔ کیسی ہمسائی ہے میری۔ تمہیں اور کوئی کام نہیں، سوائے میرے گھر کے اندر تاکا جھانکی کرنے اور کن سوئیاں لینے کے۔‘‘

’’لو جی اور سنو، اب جو تم پنچم سر میں میاں سے لڑو گی تو کان میں آواز تو آئے گی نا۔ میں کوئی بہری تو نہیں اور نہ سارا دن کان میں روئی ٹھونس کر بیٹھ سکتی ہوں۔ بھئی تم پیسے بچانے کا چکر چھوڑ کر اصلی پلمبر بلوا لیا کرو تاکہ تمہارے بہت سے مسائل حل ہو جایا کریں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم نے آج تم اپنے میاں سے تنکا دوہرا نہیں کروایا۔ وہ خیر سے ہمارے شوہر ہیں نوکر نہیں۔ ہم تو چائے ناشتہ تک ان کو بستر پر پہنچاتے ہیں۔ کپڑے استری کر کے غسل خانے میں لٹکا دیے۔ جوتے چمکا کر سامنے دھر دیے۔‘‘

’’اور منہ کون دھلاتا ہے؟‘‘ ہمسائی کی ہمسائی بولیں۔

’’اللہ نہ کرے، کوئی ہاتھ پیر سے معذور ہیں کیا اور فرض کیا۔ ہم منہ بھی دھلوا دیں تو ایسی کون سی آفت آ جائے گی۔ آخر چلمچی آفتابے کے دور میں دھلایا ہی جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شوہروں کے بڑے حقوق رکھے ہیں۔ خدمت گزار بیویاں سیدھی جنت میں جائیں گی۔‘‘

’’اچھی بیویوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ شوہروں کے پیر دھو دھو کر پیتی ہیں۔ کیا خیال ہے؟؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

’’اللہ نہ کرے کہ ہم کسی کے پاؤں دھو کر پئیں۔ انہوں نے ابکائی لی۔ دنیا میں خالی یہی مشروب رہ گیا ہے پینے کو۔‘‘

ان کی ہمسائی پھر بولیں۔ ’’سچ بتاؤ۔ یہ تم خدمت کس وقت کرتی ہو؟ سارا دن تو تیرا بازار کی خاک چھاننے یا تیرے میرے گھر کے چکر لگانے میں گزر جاتا ہے۔ جو باقی بچتا ہے وہ لگائی بجھائی بلکہ ’’لگائی‘‘ پر کٹتا ہے۔ بھئی ہم نے خود اپنی گناہ گار آنکھوں سے انہیں روٹی پکاتے دیکھا ہے۔‘‘

’’اوئی اللہ۔ کسی اور کو دیکھا ہو گا۔ وہ اور روٹی پکائیں۔ باؤلی تو نہیں ہو گئیں۔‘‘

’’تو کیا ان کا کوئی جڑواں بھائی بھی ہے؟ یا میاں کی کلوننگ کروائی ہے ایک شکل کے دو شوہر کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہم نے بیل دی، موصوف ایپرن باندھے چہرہ مبارک پر آٹے کا غازہ لگائے ہاتھ میں بیلنا پکڑے برآمد ہوئے۔ اب یہ حلیہ تو کسی روٹی پکانے والے کا ہی ہو سکتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ تم کہاں ہو؟ تو انہوں نے بیلنے سے اشارہ کیا۔ اگر ہم اچک کر پیچھے نہ ہو جاتے تو یقیناً ہماری ایک آدھ آنکھ اس بیلنے سے پھوٹ سکتی تھی۔ پھر انہوں نے یہ یاد کرنے کی کوشش کی کہ تم جن محترمہ کے گھر براجمان ہو، ان کا بھلا سا نام کیا ہے۔ بے خیالی میں اپنا ہاتھ سمجھ کر انہوں نے بیلنا اپنے صفا چٹ کوجیک نما سر پر دے مارا اور پھر دوسرے ہاتھ سے سر سہلاتے رہے انگلیوں پر لگا آٹا بے چارے سر پر چپک گیا۔ اسی بیلنے سے انہوں نے ایک بار اپنا کان اور دوسری بار اپنی پیٹھ کھجانے کی سعی ناکام فرمائی۔ اب تم خود بتاؤ کہ بیلنے سے روٹی بیلی جاتی ہے یا مقالہ لکھا جاتا ہے۔‘‘

’’توبہ استغفار۔ اگر کبھی بھولے بھٹکے پکا بھی لی تو کون سا گناہ ہو گیا۔ ہم گھر میں جو نہیں تھے۔ آخر پیٹ تو ہر بندہ بشر کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ بھوک لگ رہی ہو گی زور کی۔‘‘

’’ارے بھئی تم روٹی پکواؤ یا آٹا گندھواؤ، ہماری بلا سے۔ تمہارے میاں ہیں تم جانو، سچی بات پوچھو تو شکل سے بڑے مظلوم لگتے ہیں۔‘‘

’’تم چاہتی ہو کہ ظالم لگیں، تمہارے میاں کی طرح۔ آغا حشر کے ڈرامے صید ہوس کے جلاد کی طرح۔‘‘

انہوں نے ان کی بات نظر انداز کر دی اور بڑے معنی خیز انداز میں بولیں۔ ’’اب تم پوچھو انہیں دوسری مرتبہ ہم نے کہاں دیکھا۔‘‘

’’نا میں کوئی لال بھجکڑ ہوں جو بوجھوں ظاہر ہے بریلی کے بازار میں تو نہ دیکھا ہو گا۔‘‘

’’نہ جی نہ، بریلی کے بازار تک جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اب تو اتوار اور جمعہ بازار ہوتے ہیں۔ بستر پر چائے ناشتہ نوش فرمانے کی بجائے اک پھٹیچر سی چپل پہنے ہاتھ میں تھیلا لٹکائے ایک ایک آلو پیاز تمہارے لیے چن چن کر خرید رہے تھے۔‘‘

’’اب اتوار بازار میں وہ بالی(Bali) کا جوتا پہن کر جانے سے تو رہے۔ در اصل ان کی پسند بڑی منفرد اور اونچی ہے۔ کسی کا لایا ہوا گوشت، مرغی یا سبزی ان کو پسند نہیں آتی۔ خوب ٹھونک بجا کر اور چھانٹ کر لاتے ہیں۔‘‘

’’سبزی پھل خریدتے ہیں یا کسی کا رشتہ طے کرتے ہیں۔ حد ہو گئی۔ میں تو صرف اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ تم جمعہ اور اتوار بازار کے بڑے خلاف تھیں اور کہتی تھی کہ بھئی میں تو سب کچھ کورڈ مارکیٹ سے خریدتی ہوں بندہ دام زیادہ دے۔ پر چیز اچھی خریدے۔ اتوار بازاروں میں کون مارا مارا پھرے۔‘‘

’’آں جام شکستند و آں ساقی نہ ماند۔ کورڈ مارکیٹ ہی نہیں رہی۔ تو اب بے چارے اتوار بازار نہ جائیں۔ تو کیا لندن پیرس جائیں گے ہم نے ان کا ساتھ دیا۔‘‘

’’بس اب آئندہ سے میاں کی ناز برداریوں کے قصے سنانا بند کرو اور اللہ کے واسطے ان کے ہاتھ سے بیلن لے لو۔ کسی دن غصے میں آ کر تمہارے سر پر نہ دے ماریں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ چمپت ہو گئیں اور ہم ناز برداری کرنے والی خاتون سے ہجو سنتے رہے۔

٭٭

ایک چیز ہماری ناقص عقل میں نہیں آتی کہ بیگمات تو بڑی عمر میں بھی ماشا اللہ نک سک سے درست، چاند چہرہ ستارہ آنکھیں لگتی ہیں واکنگ اور ڈائٹنگ کر کر کے سلم سمارٹ۔ اس پر ان ہی کے درجے کے سلک کے سوٹ۔ شانوں پر پڑی قیمتی پشمینہ کی شالیں۔ ہم رنگ پرس اور جوتے۔ انگلیوں میں جگمگاتی انگوٹھیاں۔ باقاعدگی سے جم اور بیوٹی پارلرز کے چکر اور فیشل سے لائی گئی آپ اور پھر قیمتی کوسمیٹکس کے استعمال سے چھپائی گئی لکیریں۔ سنہری کمانیوں کی عینک یا لینس اور سنہرے رنگے بالوں میں پڑی اسٹریکس مگر جب ان کے شوہروں کو دیکھیں تو عبرت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں اپنی خستہ حالی کی وجہ سے وہ شوہر کم اور خانساماں، ڈرائیور یا چوکیدار لگتے ہیں۔ چلیے جی کچھ قدرت کی وجہ سے عطا میں کمی رہ گئی ہو گی۔

٭٭

کچھ عمر کا تقاضا بھی ہو گا مگر ہمارے نزدیک بیویوں کی بے توجہی کا اس میں بڑا عمل دخل ہے اپنے سے فرصت ہو تو غریب شوہر کا دھیان کریں۔ اکثر آپ کو ان ٹپ ٹاپ لیڈیز سے چند قدم پیچھے چلتا ہوا ایک ڈھیلا ڈھالا شخص نظر آئے گا یا تو وہ سوکھا امچور کی پھانک ہو گا۔ آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک، چھدرے چھدرے بال جو اکثر کھڑے ہی رہتے ہیں۔ سفاری سوٹ جسم پر لٹکا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ اچھے وقتوں میں بنا تھا جب آتش جواں تھا یا پھر اسی سوٹ یا شلوار قمیص واسکٹ میں پھنسا ہوا بندہ دکھائی دے گا۔ سر کے بال امتداد زمانہ کے ہاتھوں غائب۔ صفا چٹ میدان کے بعد عینک بار بار پھسل کر ناک کی پھنگ پر اٹک جاتی ہے۔ بیگم سے اتنا نہیں ہوتا کہ اس کی کمانیاں کسوا لیں یا فریم بدلوا لیں۔ تربوز نما پیٹ شرٹ سے باہر آنے کو بے قرار، بٹن بے چارے بمشکل اس کو تھامے ہوئے لڑھکتے چلے آ رہے ہیں۔ ایسے قابل رحم حلیے والے شوہروں کو دیکھ کر دل دکھنے لگتا ہے۔

اپنی طرف پھینکے ہیں گل بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی۔

بھئی اب اپنے سے کچھ بچے گا تو پھینکا جائے گا۔ ایک صاحبہ کے شوہر کے اوپر نیچے کے دو دو دانت غائب تھے۔ ہم نے کہا۔ ’’آپ نے اتنی قیمتی بتیسی فٹ کروا رکھی ہے، دو چار دانت میاں کے بھی لگوا دیتیں۔ تو کیا حرج تھا؟ بے چاروں کے نوالے اور الفاظ منہ سے نکل نکل بھاگتے ہیں۔‘‘

’’واہ بھئی واہ۔‘‘ وہ چمک کر بولیں۔ ’’دانت لگوا دوں۔ بال ٹرانسپلانٹ کرا دوں تا کہ کوئی شکارن جو شکار میں بیٹھی ہو، وہ آ کر جال ڈالے اور میرا میاں لے اڑے۔‘‘

ہم بڑے حیران ہوئے۔ یہ کیا بات ہوئی۔ خود سجی سنوری رہو اور ان کو برے حال میں رکھو۔

’’ہاں تو عورتوں کو تو کہا گیا ہے کہ اپنے شوہروں کے لیے سجیں بنیں۔ مردوں کو ایسا حکم کب دیا گیا ہے۔ مرد کی یہ عمر بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ وہ آسودہ حال ہو چکا ہوتا ہے۔ کار بنگلہ، بینک بیلنس سب موجود، چھوکریاں ایسے ہی مردوں کے لیے گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ میرے لیے کیا ضروری ہے کہ میں انہیں سجا سنوار کر رکھوں اور اپنا گھر برباد کروں۔ بس بھئی بس، بی لومڑی، بلی لنڈوری ہی بھلی۔‘‘

’’یہ آپ ہمیں لومڑی کہہ رہی ہیں وہ بھی لنڈوری۔‘‘

’’اصل میں، میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں بلکہ گر کی بات بتا رہی ہوں کہ اپنے شوہروں کا حلیہ خراب اور خستہ ہی رکھنا۔ نہ منہ میں دانت ہوں، نہ پیٹ میں آنت، تب ہی سکون سے زندگی گزار سکوں گی اور پھر جب ہمیں کوئی اعتراض نہیں تو کسی اور کو کیوں ہو؟‘‘

٭٭

خواتین کی ایک محفل تھی۔ خواتین حسبِ معمول اپنے شوہروں کے یا تو بخیے ادھیڑ رہی تھیں یا پھر قصیدے پڑھ رہی تھی۔ ایک خاتون بولیں۔

’’شکر ہے اللہ کا، شوہر کے معاملے میں، میں بڑی لکی (خوش قسمت) ہوں۔ میرے میاں انتہائی با وقار، سوبر اور ہینڈسم ہیں۔‘‘

دوسری نے پوچھا۔ ’’کیا یوسف ثانی ہیں؟‘‘

’’کم نہیں ہیں۔ بخدا عورتیں دیکھیں تو انگوٹھے کاٹ لیں۔ جل مریں۔‘‘

ایک اور نے پوچھا۔ ’’کس کے انگوٹھے۔؟‘‘

ساری عورتوں کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

’’خدا نخواستہ ہم کیوں کسی غیر مرد کی خاطر اپنے انگوٹھے کاٹ کر بیٹھ جائیں۔‘‘

’’اور تمہارے انگوٹھے کیسے سلامت ہیں؟ تم نے کیوں نہ کاٹے بی زلیخا!‘‘

ایک اور بولی ’’اگر تمہارے میاں یوسف ثانی ہیں تو ہمارے کیا کسی افریقہ کے جنگل سے پکڑ کر لائے گئے ہیں۔‘‘

’’تمہارے بچے دیکھ کر تو یہی شک ہوتا ہے۔‘‘ وہ پورے اطمینان سے بولیں۔

’’دیکھو زبان سنبھالو۔ اب تم بچوں تک پہنچ رہی ہو۔ کوئی ماں یہ برداشت نہیں کر سکتی۔ تم نے کبھی اپنے بچے دیکھے ہیں’بل بتوڑے ناسیں چوڑے۔‘‘‘

بڑی مشکل سے خواتین کو باہم لڑنے سے بچایا گیا۔ تقریب کا اختتام ہوا۔ ہم باہر نکلے تو سامنے ایک گاڑی میں ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر باہر نکل آئے۔

فاختی رنگ کے شلوار سوٹ میں ملبوس تھے۔

پیروں میں پلاسٹک کے چپل پہنے ہوئے۔ پسینہ بری طرح بہہ رہا تھا۔ گنجے سر پر سائیڈ سے چند لٹیں گھسیٹ گھساٹ کر چندیا پر چپکائی ہوئی تھیں۔ رنگ گہرا سانولا تھا۔ آنکھیں موٹے موٹے شیشوں میں سے جناتی سائز کی نظر آ رہی تھی۔ ایک لمحے کو تو ہم ڈر سے گئے۔

’’سنیے جی، ذرا بیگم سیف اللہ کو بلا دیں۔ گھنٹہ بھر ہو گیا انتظار کرتے۔

ہم الٹے پیروں پلٹے۔ ’’مسز سیف اللہ! آپ کا ڈرائیور بلا رہا ہے۔‘‘

’’ڈرائیور!‘‘ وہ ذرا کی ذرا حیران ہوئی ’’ہمارے پاس تو آجکل ڈرائیور ہے ہی نہیں۔‘‘

’’ایک مخنچو سا بندہ آپ کو بلا رہا تھا۔ ہم سمجھے ڈرائیور ہو گا۔‘‘

’’پتہ نہیں سیفی نے کس بد بخت کو بھیج دیا میں نے تو کہا تھا کہ خود لینے آئیں۔ میں نے شاپنگ کے لیے چین ون جانا تھا۔ جان چھڑانے کے لیے جانے کس کو بھجوا دیا۔ پتہ نہیں یہ شوہر لوگ بیویوں کی شاپنگ سے اتنا الرجک کیوں ہوتے ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھیں۔ ہم دونوں ساتھ ہی باہر نکلے اور وہ بے چارہ بد بخت ’’مخنچو‘‘ ہی وہ سوبر، ہینڈسم، با وقار، شوہر نامدار تھا جن کو دیکھ کر انگوٹھے کٹنے کا خدشہ تھا۔

’’آپ میرے شوہر کو مخنچو کہہ رہی تھیں۔‘‘ وہ دانت پیستے ہوئے دبی زبان میں بولیں۔

’’آپ نے بھی بد بخت کہا تھا۔‘‘

’’آپ نے نقشہ ہی ایسا کھینچا تھا۔‘‘

’’مگر آپ تو کہہ رہی تھیں کہ بڑے ہینڈسم، با وقار۔ ۔ ۔‘‘

انہوں نے بات کاٹی۔ ’’تو کیا اب پچپن ساٹھ سال کی عمر میں وہ راک ہڈسن دکھائی دیں گے۔ آپ کو شوہر اور شوفر میں فرق نظر نہیں آتا؟‘‘

’’اوہو، تو آپ ان کی جوانی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔‘‘

یہ قصہ ہے تب کا جب‌ آتش جواں تھا

’’یہ نامراد آتش کہاں سے آن ٹپکا۔ میرے میاں کا نام تو سیف ہے، سیف۔ آپ کی یہ عجیب منحوس عادت ہے نام بدلنے کی۔ بے چارے شفقت کو اس دن حسرت بنا دیا تھا۔ مخبوط الحواس تو پہلے ہی تھیں۔ اب خیر سے سٹھیانے کا مرض بھی لگ گیا ہے۔ خبردار رہنا، کل کلاں کو اپنے میاں کو کسی اور نام سے ہی نہ پکارنے لگنا۔‘‘

ان صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر اب چھلکنے لگا تھا۔

’’تمہاری یہ بک بک کب ختم ہو گی۔ میں تمہارا نوکر نہیں لگا ہوا جو اس سڑی گرمی میں بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں اور تم وہاں اے سی میں بیٹھی گپیں لڑاؤ۔ آئندہ ٹیکسی، رکشہ کرنا یا تانگا یا گدھا گاڑی۔ مجھے تو معاف ہی رکھنا۔‘‘

وہ جلدی سے اپنے با وقار شوہر کی گاڑی میں بیٹھیں اور گاڑی ایک فراٹے کے ساتھ چل پڑی۔

٭٭

اسی طرح ایک بار خواتین کلب کے ایک بینچ میں ایک خاتون اپنے شوہر کی ذہانت، لیاقت، دیانت، شجاعت، نجابت، شرافت اور حماقت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہی تھیں۔ حماقت تو ہم کہہ رہے ہیں، ورنہ وہ تو اس کو ان کی سادگی اور بھولا پن کہہ رہی تھیں کہ کس طرح تمام دوست احباب اور خاص طور پر سسرال والے ان کو الو بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ دنیا داری کی چالاکیاں انہیں نہیں آتیں۔ ان کی تعریفیں سن کر ہمارے تصور میں تو نسیم حجازی کے ناول کا کوئی ہیرو گھومنے لگا اور ہم ان کی قسمت پر کافی دیر تک رشک کرتے رہے اور سوچتے رہے کہ آخر ہماری اماں کو ایسا کوئی ہیرو کیوں دستیاب نہ ہو سکا۔

’’نام کیا ہے آپ کے شوہر کا؟‘‘

’’شہزادہ سلیم۔‘‘

’’ہائیں، یعنی جہانگیر۔‘‘ مارے حیرت کے ہم دم بخود رہ گئے۔

’’جہانگیر تو میرا بیٹا ہے جی۔‘‘

’’میں سمجھی نہیں۔ بیک وقت آپ بیوی اور اماں کیسے ہو سکتی ہیں۔؟‘‘

’’دماغ تو ٹھیک ہے آپ کا۔ نہ جانے کیا اول فول بک رہی ہیں۔‘‘

’’کیا یہ وہی شہزادہ سلیم ہیں جن کی انار کلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا تھا؟‘‘

’’یہ انار کلی کون محترمہ ہیں؟ یہ آپ کی کیا لگتی ہیں اور ان کا ہمارے میاں سے کیا تعلق ہے؟‘‘

’’دیکھیں نا، شہزادہ سلیم تو اکبر بادشاہ کا بیٹا تھا نا۔ مغل اعظم۔۔‘‘

وہ ہماری بات کاٹ کر بولیں۔ ’’اوہ تو آپ امتیاز علی تاج کے ڈرامے انار کلی کی بات کر رہی ہیں جو الحمرا میں لگا تھا۔ آپ کے خیال میں شہزادہ سلیم کا پارٹ میرے شوہر نے ادا کیا تھا؟ کیا ہمیں بھانڈ میراثی سمجھ رکھا ہے۔‘‘

’’توبہ استغفار۔ ویسے بھانڈ میراثی تو اب متروک ہو چکے۔ اب تو فنکار ہوتے ہیں۔ اصل میں ہم یہ پوچھنا چاہ رہے تھے اگر وہ مغل شہزادے نہیں ہیں تو پھر کس ملک کے شہزادے ہیں۔ ابنِ صفی کے پرنس آف ڈھمپ کی طرح کے تو نہیں ہیں۔‘‘

’’بی بی ان کا نام ہے یہ۔ آپ کو کوئی اعتراض ہے؟‘‘

’’بھئی ہمیں کیوں اعتراض ہونے لگا۔ بے شک شہنشاہ نام رکھیں یا غلام رکھیں، ہمیں کیا۔ البتہ شوہر شہزادوں سے زیادہ غلام زیادہ بہتر رہتے ہیں۔ دیکھیں نا پہلے آر سی مصحف میں دلہن اس وقت تک آنکھیں نہیں کھولتی تھی جب تک دلہا میاں یہ نہ کہتے تھے کہ بیوی آنکھیں کھولو میں تمہارا غلام۔‘‘

اتنے میں پانچ فٹ کے ایک منحنی سے صاحب شیروانی اور کھلے پائنچوں کے پاجامے میں ملبوس سلیم شاہی جوتی پہنے ہاتھ میں ایک نفیس سی چھڑی تھامے خراماں خراماں چلے آ رہے تھے مونچھیں کوب نوکیلی تھیں اور آنکھیں چمکیلی۔

’’لو وہ آ گئے ہمیں لینے۔‘‘ وہ چہک کر بولیں۔

’’تو یہ ہیں آپ کے شہزادہ سلیم۔ شرافت، نجابت اور شجاعت کے شاہکار۔‘‘

انہوں نے ہماری سنی ان سنی کی اور اپنے شہزادے کے ساتھ رفو چکر ہو گئیں۔

٭٭

یادش بخیر، ہماری ایک دوست تھیں، وہ کہا کرتی تھیں کہ ’’نوکر نوکرانیوں کو زیادہ دیر تک نہیں رکھنا چاہیے، ورنہ وہ، چوڑ، ہو کر سر چڑھ جاتے ہیں۔ بھئی میں تو چند ماہ بعد ہی اپنی کابینہ بدل ڈالتی ہوں۔‘‘

ایک دن بڑے غصے میں تھیں۔ ’’ببن کے ذمے صبح مجھے بیڈ ٹی دینا ہے۔ سارے دن میں بس ایک یہ کام اسے کرنا ہوتا ہے مگر کیا مجال کو کوئی ڈیوٹی نبھا سکے۔ میں صبح سے شام تک کولہوں کے بیل کی طرح لگی رہتی ہوں۔‘‘

’’بھئی بے شک تم اس وقت بہت غصے میں ہو مگر تذکیر و تانیث کا خیال تو رکھنا چاہیے۔ تم بیل کس طرح کہلائی جا سکتی ہو۔ کولہو کی گائے کہو۔ آخر کولہو میں گائے بھی تو جوتی جاتی ہو گی۔‘‘

’’میں اپنا مسئلہ تمہیں سنا رہی ہوں اور تم گائے بیل کے چکر میں پڑ گئیں۔ کیا منحوس عادت ہے تمہاری۔ اصل موضوع سے بھٹک کر غیر ضروری باتوں میں الجھ جاتی ہو۔ دیکھو نا فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے۔ کیا مجال جو اٹھائے۔ کانوں میں روئی ٹھونس کر بیٹھا رہتا ہے۔ میں ہی سو کام چھوڑ کر اٹھوں تو اٹھوں۔ پورا نواب زادہ ہے۔ ماں کے لاڈ پیار سے بگڑا ہوا میری قسمت میں لکھا ہوا تھا۔‘‘

’’تو بھئی بدل دو، تم سے کس نے کہا کہ ایسے نا ہنجار سے سر پھوڑو۔ دفع دور کرو۔‘‘

’’کیا کہا؟‘‘ انہوں نے ایک دلدوز چیخ ماری۔ ہم سہم کر رہ گئے۔

’’بدل دوں؟ تم نے اسے نا ہنجار کہا ہے؟‘‘

’’ہاں تو ایسے نا ہنجار کو ہڈ حرام نہ کہوں تو کیا ہز میجسٹی ببن میاں کہوں۔ خود ہی تو کہتی ہو کہ میں ہر چند ماہ بعد اپنی کابینہ بدل ڈالتی ہوں۔‘‘

’’کابینہ بدلتی ہوں، میاں تو نہیں بدلتی۔‘‘

ہائیں۔ حیرت سے ہمارا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

’’تو یہ تم اپنے میاں کا ذکر جمیل کر رہی تھی؟ ہم سمجھے کسی نوکر کا ذکر ہے۔ ہم کیا جانیں کہ یہ ببن کون حضرت ہیں۔ تمہارے میاں کا نام تو مرزا لال بیگ ہے۔‘‘

’’خدا تم سے سمجھے۔ اب تم نے میرے میاں کو تل چٹا بنا دیا۔ ان کا نام مرزا ہلال بیگ ہے۔ ہلال سمجھتی ہو نا۔ پہلی کا چاند۔ رہ گئی بات ببن کی تو یہ اس کی اماں کا رکھا ہوا نام ہے جو سب کے منہ پر چڑھ گیا ہے۔‘‘

’’جو بھی ہو شوہر اور نوکر کا فرق تو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ کچھ ادب اور لحاظ بھی ہونا چاہیے۔ یہ کیا کہ ایک تو نام لے کر پکارا جائے اور دوسرا، وہ آیا تھا، وہ گیا تھا، اس نے یہ کیا اس نے وہ کیا۔‘‘

’’اچھا تو اب میں اٹھارویں صدی کی عورتوں کی طرح شرما شرما کر، ان، کا ذکر کروں۔ ’’وہ‘‘ کہہ رہے تھے، ’’ان‘‘ کو ذرا بلا دیں۔ خود آواز دینی ہو تو کہوں ’’اجی سنتے ہو‘‘ یا پھر منے کے ابا، یا ’’چنی کے ابو‘‘ کہہ کر پکاروں۔ کیا مجھے وہ نیک پروین سمجھا ہے جو نکاح ٹوٹنے کے ڈر سے نماز میں سلام پھیرتے ہوئے بھی‌ ڈر کے مارے رحمت اللہ نہیں کہتی تھیں۔ بلکہ بڑے احترام سے کہتی تھی ’السلام علیکم منے کے ابا‘۔ ویسے بھی میرے منے میاں اب خیر سے بڑے ہو گئے ہیں تو بھئی میں تو ببن ہی کہوں گی۔‘‘

٭٭

اس طرح ہماری ایک ملنے والی تھیں۔ جب کوئی بات کرتی ٹیپ کے مصرع کی طرح ’’میرے میاں‘‘ کو درمیان میں گھسیٹ لاتیں۔ میاں کم اور پیر و مرشد زیادہ لگتے تھے۔ ہر بات ان کے حوالے سے کرتی تھیں۔

’’میرے میاں کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی شے نہیں۔‘‘

’’یہ تو بہت سے لوگ کہتے ہیں۔‘‘

’’کہتے ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ہر شخص بکاؤ مال ہے۔ صحیح قیمت لگاؤ اور خرید لو۔ کوئی چند ٹکوں میں بک جاتا ہے تو کوئی لاکھوں مگر بک جاتا ہے۔۔‘‘

کسی نے پوچھا۔ ’’اور انہوں نے اپنی قیمت کیا لگائی ہے۔؟‘‘

’’وہ تو انمول ہیں انمول۔ کوئی مائی کا لال انہیں خرید سکتا ہے؟‘‘

وہ بڑے فخر سے بولیں۔ ’’میرے میاں کہہ رہے تھے کہ ٹونی بلیئر اور بش بہت بڑے دہشت گرد ہیں۔‘‘

’’یہ بات تو نوم چومسکی نے کہی ہے۔‘‘ ہم ڈرتے ڈرتے بولے۔

’’کہی ہو گی، مجھ سے تو میرے میاں نے کہی ہے۔ میں کیا جانوں یہ نوم چومسکی یا چوسکی کون ہیں۔‘‘

’’ہو سکتا ہے نوم چومسکی کو آپ کے میاں ہی نے بتایا ہو۔‘‘ ہم نے فوراً اتفاق کر لیا۔

بہرحال ایک دن پتا چلا کہ ’’میرے میاں، نے دوسری شادی کر لی‘‘ تو ہم نے مشورہ دیا کہ ’’اب یہ مناسب نہ ہو گا کہ آپ میرے میاں کی بجائے ہمارے میاں کہنا شروع کر دیں۔‘‘ ہمارے اس بے ضرر سے مشورے پر تو وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں۔ انہوں نے ہمیں ایسے دیکھا جیسے زندہ ہی چبا جائیں گی۔

’’تم میرا مذاق اڑا رہی ہو۔ میرے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہو۔ اللہ کرے تمہارا میاں بھی دوسری بیاہ لائے، تب تمہیں آٹے دال کا بھاؤ پتہ چلے گا۔‘‘

گویا انہوں نے ہمیں پہلی چڑیل بنا دیا۔ واقعی آج تک دنیا میں کسی نے کسی کے نیک مشوروں پر عمل کیا ہے جو وہ کرتیں۔

٭٭

ہمیں ایک اور شوہر یاد آ رہے ہیں۔ بہت دنوں کی بات ہے۔ جب ہم شادی کے بعد نئے نئے لندن میں رہائش پذیر تھے تو ایک دفعہ ہماری ملاقات ایک خاتون سے ہوئی۔ انہوں نے چادر اوڑھی ہوئی تھی اور کان میں لمبے لمبے سونے کے بندے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر کہ وہ کہاں کی رہنے والی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرتارہ پورہ راولپنڈی کی۔ ہم سمجھے کہ وہ مسلمان ہیں لیکن جب بعد میں ان کے شوہر کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ سکھ ہیں۔ مگر بخدا سارا حلیہ اور طور طریقے مسلمانوں جیسے ہی لگ رہے تھے۔ ان کی شفقت کی وجہ سے دوستی کا سلسلہ چل پڑا۔ وہ کبھی کھبار ہم سے ملنے آ جاتی تھیں۔

آخر ایک دن ان کے اصرار پر ہم نے سوچا کہ ہم بھی چکر لگا لیں۔ ان کے گھر پر پہنچ کر ہم نے بیل دی۔

سردار صاحب نے دروازہ کھولا اور باہر جھانکنے لگے۔ ہم انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔‘‘ یا اللہ یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا۔ کل تک تو ایک چھوٹی سی داڑھی تھی اور آج وہ ناف سے نیچے تک لہرا رہی تھی۔ ناصرف داڑھی بلکہ گھنے لہریے بال بھی کمر سے نیچے کی خبر لا رہے تھے۔ پیروں میں لکڑی کی کھڑاویں تھیں اور ایک تہمد پہنا ہوا تھا۔ ہم تو سچی بات ہے کہ پہچان ہی نہ پائے، وہ بولے۔

’’اندر آ جاؤ پتری! تمہاری آنٹی کو بتاتا ہوں۔‘‘

اسی وقت دروازہ ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور پٹاخ سے بند ہو گیا۔ البتہ نصف داڑھی ہماری طرف رہ گئی۔ ظاہر ہے بقیہ نصف ان کے چہرہ مبارک پر ہی موجود ہونی چاہیے۔ اب وہ کھولنے کے لیے زور لگا رہے ادھر سے ہم مدد کر رہے تھے۔ مگر درمیان میں داڑھی کے پھنس جانے کی وجہ سے وہ سختی سے بند ہو گیا تھا۔ ادھر سے ہم، پش، کر رہے تھے اور ادھر سے وہ، پل، کر رہے تھے۔ ہم نے جو پوری قوت سے دھکا دیا تو دھڑاک سے دروازہ کھلا۔ داڑھی تو آزاد ہو گئی مگر کھڑاویں پھسل گئیں اور سردار صاحب چاروں شانے چت زمین پر گر گئے۔ شور سن کر آنٹی بھی تشریف لے آئیں۔ بمشکل بالوں کے ڈھیر میں سے انہیں برآمد کیا۔ کھڑاویں اتروائیں اور ان کے قدموں پر کھڑا کیا۔

وہ لنگڑاتے ہوئے کسی کمرے میں غائب ہو گئے اور ہم کچھ شرمندہ شرمندہ سے ان کے ساتھ کمرے میں ‌آ گئے۔ آنٹی ست نام کور بولیں۔

’’سو واری کہا ہے کہ کھڑاویں نہ پہنا کریں، پھسل جائیں گے۔ یہ امرتسر نہیں ہے لندن ہے۔،

’’اصل میں ان کی داڑھی پھنس گئی تھی دروازے میں۔‘‘

، یہ تو روز کا ہی چکر، جگہ جگہ پھنستی رہتی ہے۔ ایک بار تو جل بھی گئی تھی۔ کینڈل لائٹ ڈنر کا شوق ہوا تو میں نے کہہ دیا کہ سردار جی! ذرا موم بتیاں تو جلا دیں۔ موم بتیاں تو شودے کیا جلاتے، البتہ داڑھی جلا لی۔ یہ تو واہگورو کا کرم ہوا کہ منہ نہیں جل گیا۔ کوٹ، سویٹر اور واسکٹ کے بٹنوں سے اکثر مجھے ہی چھرانی پڑتی ہے۔‘‘

، مگر یہ داڑھی ایک دن میں کیسے اگ آئی کل تک تو نہیں تھی۔‘‘

، ایک دن میں‘‘ وہ حیران ہو کر بولیں۔‘‘ نہ جی نہ، یہ تو سدا سے ہے۔ باہر نکلتے ہوئے اسے لپیٹ لیتے ہیں‘‘

ہم نے آنٹی کی چوہے کی دم جیسی چوٹی پر نظر ڈالی۔

’’ماشا اللہ انکل کے بال تو کسی حسینہ کی طرح گھنے اور لمبے ہیں اور ابھی تک کالے سیاہ ہیں۔ اس کا راز کیا ہے؟ ہم نے رشک سے پوچھا۔

’’کیا کرنا ہے۔ اصل راز ہی یہی ہے کہ کچھ نہیں کرتے۔ ہمارے بال تو فکریں کر کر کے، غم کھا کھا کے جھڑ گئے ہیں۔ ان کا یہ ہے کہ‘‘ فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا’’ بڑی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ یہاں بھی لسی سے سر دھوتے ہیں۔ سر میں مکھن لگاتے ہیں۔ دہی انڈے بھی سر پر تھوپتے رہتے ہیں۔ میرے پاس اتنی فرصت کہاں۔ ساری دیہاڑ ہانڈی روٹی، صفائی ستھرائی میں گزر جاتی ہے۔

ہم بولے‘‘

داڑھی تو بڑھا لی سن کی سی

مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

’’ہیں، تو کیا مولوی مدن کی داڑھی سردار صاحب سے بھی لمبی تھی؟

’’اجی کہاں، ہم تو آپ کے سردار جی کو مولوی مدن کا خطاب دے رہے تھے۔ ان سے لمبی داڑھی کسی کی نہیں ہو سکتی۔ آپ مطمئن رہیں۔‘‘

اتنے میں سردار جی کی آواز آئی۔ ’’او نیک بختے، ونڈو شٹ کر دے۔ سی لگ رہا ہے۔ نالے ہاٹ ملک میں ایک انڈا پھینٹ کر دے۔ پتری کی کچھ خاطر بھی کی ہے یا خالی گپیں لگا رہی ہے۔ پھش فنگراں (fish fingers) فرائی کر دے ٹی شی بنا کر دے۔‘‘

تو یہ تھے آنٹی ست نام کور کے شوہر سردار جاگیر سنگھ۔‘‘

٭٭

اب قارئین یہی کہیں گے کہ دوسروں کے کچے چٹھے تو کھول دیے، یہ تو بتاؤ تمہارے شوہر کس کھیت کی مولی ہیں؟ یہاں ہمیں مولی پر اعتراض ہے۔ مولی مونث ہوتی ہے۔ اب اسے اگر مردوں کے لیے استعمال کیا جائے تو اس سے یقیناً مردانگی کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ مردوں کے لیے مختلف محاورے ہونے چاہیں۔ یعنی ’’ذرا دیکھیں تو تمہارے شوہر کس کھیت کے ٹنڈے، کدو، بینگن، شلجم یا آلو ہیں۔‘‘

اب اصغر خان کا نام بھٹو نے آلو رکھا تھا۔ مولی گاجر یا میتھی تو نہیں کہا تھا۔ بے چارے نواز شریف بھی کشمیری گونگلو کہلائے جاتے رہے۔ کشمیری ناشپاتی یا زعفران تو نہیں کہا کسی نے۔

بہر حال اتنا اطمینان ہم آپ کو ضرور دلاتے ہیں کہ وہ خیر سے ظاہری طور پر بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ماشاء اللہ دراز قد ہیں۔ نک سک سے درست ہیں۔ نہ موٹے ہیں نہ سینک سلائی ہیں۔ سر پر سفید چاندی جیسے بالوں کا ڈھیر ہے۔ داڑھی بھی ایسی ہی سفید جھاگ ہے، اس لیے اپنی عمر سے کئی برس بڑے لگتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں خضاب لگانا پسند نہیں۔ وہ اب سلور بلونڈ رہنا چاہتے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس لیے خواتین کو اکثر غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں۔

مثلاً ایک بار ایک ملنے والی تشریف لائیں تو پوچھنے لگیں۔ ’’آپ کے والد صاحب کب تشریف لائے؟‘‘

’’والد صاحب!‘‘ ہم حیران ہوئے۔ وہ جنت مکانی کہاں سے تشریف لے آئے؟

’’اوہ معاف کیجئے گا سسر ہوں گے۔ ماشا اللہ بڑے نورانی چہرے والے ہیں۔ ہم تو آپ پر رشک کر رہے تھے کہ ’ایسا ابا کہاں سے لبھا‘۔ یہ باہر لان میں ٹہل رہے ہیں۔‘‘

’’یہ آپ مسلسل ان کو میرا ابا بنائے دے رہی ہیں۔ کیا نکاح تڑوائیں گی میرا۔ وہ میرے شوہر ہیں بھئی، ذرا غور سے دیکھتیں تو صاف پتہ چل جاتا کہ شوہر ہیں یا کہ ابا۔‘‘

بہرحال تو ہم کہہ رہے تھے، ویسے تو ان میں ساری شوہرانہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں مگر ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا فلسفیانہ مزاج رکھتے ہیں اس فلسفی پروفیسر کی طرح جو بعض اوقات چھڑی کو بستر میں لٹکا کر خود دروازے کے پیچھے کھڑے ہو جاتے تھے یا ان پروفیسر کی طرح جنہیں جب بتایا گیا کہ ان کی بیوی بیمار ہیں تو وہ گھبرا کر دوڑ پڑے۔ تھوڑی دور جا کر یاد آیا کہ ان کی تو ابھی شادی ہی نہیں ہوئی۔

ہمارا میکہ سیالکوٹ میں ہے۔ ایک بار وہ ہمیں سیالکوٹ جانے کے لیے ٹرین پر سوار کرانے لئ گئے۔ اس زمانے میں لاہور اور سیالکوٹ کے درمیان بابو ٹرین چلتی تھی۔ دو بچوں اور سامان کے ساتھ ہم پلیٹ فارم پر پہنچے۔ انہوں نے ہمارا اٹیچی کیس اٹھایا اور لپک کر ڈبے میں چڑھ گئے۔ ہم سمجھے کہ ہمارے لیے جگہ کا بندوبست کرنے گئے ہیں۔ گاڑی نے وسل دی اور رینگنا شروع کر دیا۔ مارے گھبراہٹ کے ہمارے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔

اتنے میں جناب والا کا چہرہ کھڑکی میں نظر آیا۔ چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا انہوں نے ہاتھ ہلا کر ہمیں خدا حافظ کہا۔ ہم حیران و ششدر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ ہمارے بجائے وہ سیالکوٹ پہنچ گئے۔ اگلے روز اسی بابو ٹرین سے واپس آ کر بولے۔

’’عجیب بد حواس خاتون ہو، سیالکوٹ جانے کی بجائے اطمینان سے پلیٹ فارم پر کھڑی رہیں اور ہمیں گاڑی میں سوار کرا کر بھجوا دیا۔ نہ ہمارے پاس کوئی کپڑا نہ لتا۔ تمہارا کیا خیال تھا کہ تمہاری شلوار قمیص یا ساڑھی پہن کر پھروں گا یا تمہارے خیال میں پلیٹ فارم ہی سیالکوٹ جا رہا تھا جو وہاں گل محمد بنی کھڑی تھیں۔‘‘

’’ارے، یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘

’’تمہارے باوا کوتوال تھے۔ یہ تم نے کب سے کوتوالی شروع کر دی۔ اپنے شوہر کو چور کہہ رہی ہو! ہم نے کیا چرایا ہے، ذرا پتہ تو چلے۔‘‘

’’کیا نہیں چرایا۔ ہمارا ٹکٹ، ہمارا سفر، ہمارا اٹیچی کیس، ذہنی سکون۔ کمال ہے۔ ہمیں اسٹیشن پر بے یار و مددگار چھوڑ کر خود چمپت ہو گئے۔‘‘

’’تو بھئی، یہ بھی تمہارا فرض تھا کہ یاد دلاتیں کہ تمہیں جانا ہے، ہمیں نہیں۔‘‘

اسی طرح ایک مرتبہ ایک بچہ بیمار تھا۔ ہم دونوں اسے دکھانے ایک چائلڈ اسپیشلٹ کے پاس لے گئے۔ ویٹنگ روم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف ایک روتا ہوا بچہ کلیجے سے لگائے ٹہل ٹہل کر چپ کرا رہے ہیں۔

’’یہ کس کا بچہ پکڑ لائے؟‘‘ ہم نے دبی آواز میں پوچھا۔

’’کس کا بچہ؟ پاگل ہو گئی ہو، اپنا بلو ہے۔‘‘

’’اپنا تو نہیں نہ جانے کس کا بلو ہے۔ اپنا تو یہ میری گود میں سو رہا ہے۔‘‘

’’لاحول ولا قوۃ۔ تو پھر یہ کہاں سے آیا؟ بری طرح رو رہا تھا۔ میں نے مارے ہمدردی کے تم سے کہا کہ لاؤ مجھے دے دو، میں چپ کرائے دیتا ہوں۔‘‘

’’ہم سے نہیں۔ اس بلو کی اماں سے کہا ہو گا’’

’’بھئی وہ بھی تمہاری طرح کالے برقعہ میں تھیں۔ اب ہمیں کیا معلوم کہ اس کالے نقاب کے پیچھے کون جلوہ فرما ہے۔‘‘

’’تو کیا بلو نے بھی کالا برقعہ پہنا ہوا تھا؟ بیوی کی پہچان نہیں ہے تو کیا اپنا بچہ بھی نہیں پہچان سکتے۔ ساری برقعے والیاں آپ کے بلو کی اماں ہو گئیں۔ سارے کالے میرے باپ کے سالے۔ ہمیں تو کچھ دال میں کالا نظر آ رہا ہے۔ اب خدا کے لیے اس بلو کو اس کی ماں کے حوالے کر کے آئیں، اس سے پہلے کہ اغوا برائے تاوان کے الزام میں وہ آپ کو پکڑا دے۔‘‘

٭٭٭

اور یہ تو ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ شوہرِ محترم دفتر ایک پاؤں میں براؤن اور دوسرے میں سیاہ جوتا پہن کر سدھارے۔ واپس آئے تو ہماری نظر پڑی۔

’’یہ کیا تماشا بنا رکھا ہے آپ نے؟‘‘ ہم نے جوتوں کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے پیروں کی طرف دیکھا۔

’’ہیں۔ یہ ایک ٹانگ تو ہماری ہے دوسری کس کی ہے؟‘‘

’’یہ دوسری بھی بفضل خدا آپ کی ہی ہے۔ البتہ دوسرا جوتا مختلف ہے۔ لوگ ہنستے ہوں گے آپ پر۔ آپ دھیان کیوں نہیں کرتے۔‘‘

’’بھئی تمہارے جوتے پہن کر جاتا تو لوگ ضرور ہنستے۔ جوتے میرے ہیں۔ میں جس طرح چاہوں پہنوں۔ دو رنگ کے پہنوں یا ایک رنگ کے۔ کسی کو کیا؟‘‘

جیو جیسے چاہو جیو۔ یہی نعرہ نا آج کا۔

اور ایسی ہی حرکت موصوف نے ایک بڑے ڈنر کے موقعے پر کی۔ سیرینا میں بینکرز نے مدعو کیا ہوا تھا۔ سج دھج کے ہوٹل پہنچے۔ بیٹے کمال نے ان کا تعارف کراتے ہوئے یک لخت نیچے نگاہ ڈالی تو سٹ پٹا گیا کیونکہ چئیرمین صاحب غسل خانے کی چپل پہن کر آ گئے تھے۔

’’اچھا تو کیا کسی نے ہوٹل سے مجھے نکال دیا۔ لوگوں نے مجھ سے ملنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجھ سے ملنے آئے تھے یا میرے جوتوں سے۔ میرے ناچیز جوتے کوئی رام چندر جی کی کھڑاویں تو نہیں ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان پر شرمسار ہونا چھوڑو۔ دنیا میں شرمندہ ہونے کے لیے اور بڑے بڑے معاملات ہیں، پہلے ان پر تو اظہار شرمندگی کر لو۔‘‘

تو یہ ہیں ہمارے شوہر بلکہ نایاب گوہر۔ اے ماؤ، بہنو، بیٹیو! شوہر کی عزت تم سے ہے اور تمہاری عزت بھی شوہر سے ہے۔ تم ان کا لباس ہو اور وہ تمہارا۔ یہ بڑی بری بات ہے کہ ایک کا لباس تو شان دار اور خوش نما ہو اور دوسرے کا پھٹا پرانا۔

اللہ تعالیٰ سب سہاگنوں کا سہاگ سلامت رکھے (آمین)

٭٭٭

اردو ہے جس کا نام

اردو کی کہانی ۔۔۔ پروفیسر منیر احمد چودھری

کوئی ساڑھے سات سو برس ہوئے اردو نے ہندوستان کے ایک درویش فنکار امیر خسرو کے آنگن میں آنکھ کھولی تو اس بھلے انسان نے اس ننھی منی گڑیا کو ہندوی کا نام دیا۔ پھر اسے اپنی پیار بھری پہیلیوں کا پہناوا پہنایا، اس کے گلے میں گیتوں کی مالا ڈالی، بانہوں میں دوہے کے کنگن، ماتھے پہ مثنوی کا ٹیکا، کانوں میں قصیدے کی بالیاں۔ اور یہ سجی سجائی لاڈلی غزل کی اوڑھنی اوڑھے پیار کی لوریاں سنتی، کہہ مکرنی کے جھولے جھولتی بابل کے محل میں ہر سو اٹھکیلیاں کرتی پھرتی تھی۔ لیکن سنگ دل آسمان کتنے دن اس کی خوشیوں پہ چپ رہتا؟

ادھر امیر خسرو نے آنکھ موندی تو اس ننھی منی گڑیا کو اپنے ننھال حیدر آباد دکن جانا پڑا، ننھال میں یہ دکھنی کے نام سے پکاری جانے لگی۔ لیکن ابھی پہلے صدمے سے ہی نہ سنبھلی تھی کہ ننھال سے محرومی کے باعث گجرات کا سفر درپیش ہوا جہاں اسے گوجری کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ مقدر نے اس کے لیے کچھ ایسی ہی سختیاں لکھ دی تھیں کہ ٹکڑوں میں بٹی زندگی اٹھائے اس نو عمر بچی کو ایک بار پھر شمالی ہند واپس آنا پڑا، اکبر اعظم کا دور حکومت تھا۔ دلی والوں نے اس کی حالت زار کو ریختہ کا نام دیا۔ مقدر کی ستم رانیاں بڑھتی چلی گئیں اور یہ یتیم بچی شاہجہانی بازار میں کس مپرسی کے دن کاٹنے لگی۔ کسی نے کچھ بھی عطا کیا اسے ہنس کر قبول کرنا پڑا۔

مشرق وسطی کے کسی تاجر نے عربی کے الفاظ خیرات کر دیے، اصفہان سے آئے کسی امیر نے فارسی بندشیں جھولی میں ڈال دیں، کسی ہندو بنئیے نے ترس کھا کر بھاشا کا بھوجن عنایت کیا، کسی نے کشکول میں سنسکرت کے سکے پھینک دیے، کسی نے پنجابی کی تشبیہیں پکڑا دیں، کسی نے ترکی تراکیب بخش دیں، کسی نے گورمکھی کا محاورہ دیا، کسی نے کشمیری استعارہ اچھالا۔ حتیٰ کہ آتے جاتے گورے بھی ترس کھا کے کبھی پرتگالی، ولندیزی اور انگریزی کے حروف و الفاظ اس کے پلو میں ڈال جاتے۔ غرض جہاں سے جو ملا اس بد نصیب نے مسکینی کا صلہ سمجھ کے لے لیا۔ پس لشکریوں نے اس کا نام ہی اردو رکھ دیا۔

بے شک اس یتیم اور مسکین بچی نے اپنی غربت دکن، گجرات، دہلی، آگرہ اور لکھنو کی دربدری میں گزاری تھی لیکن جونہی جوانی میں قدم رکھا تو زبان دانی کی دنیا میں بڑی بڑی منچلی شریف زادیاں اس کے سامنے ماند پڑ گئیں۔

جب یہ پور پور محاورے کی مہندی رچائے، گلے میں بلاغت کی مالا لٹکائے، کلائیوں میں روز مرہ کے کنگن کھنکاتی، کانوں میں اعجاز کے جھمکے چمکاتی، اس کے عارض دریائے لطافت کی بہار، ابرو مثنوی گلزار نسیم کی تلوار، انکھڑیوں میں اشعار میر کے کجرے کی دھار، مژگاں میں فکر غالب کے تیر، لب لعلیں معانیِ مومن کے نخچیر، سلاست کا سرمہ مسی، فصاحت کے زر و زیور، تلمیحات کی کنگھی چوٹی، دزدیدہ نگاہ میں لف و نشر کے فسانے، ماتھے پہ کہاوتوں کی بندیا، مانگ میں تمثیلات کی افشاں، ناک میں نازک خیالی کی نتھنی، پیشانی پہ تشبیہ کا جھومر، غزلوں کے غمزے، ایجاز کے عشوے، جب یہ سندرتا کے سب ہتھیاروں سے لیس اشعار کی گلناری پوشاک پہنے، نثر کی جھلملاتی چنریا اوڑھے اظہار کی چلمن سے نکلتی تو بڑے بڑے زبان دان انگلیاں دانتوں میں دبائے کھڑے رہ جاتے۔

اس کا ناک نقشہ ہی کچھ ایسا تھا کہ جدھر سے گزری قافلے ٹھٹھک کر رک گئے۔ گلی کوچے میں نکلی تو راہ چلتے اپنی گفتگو میں محتاط ہوئے، دوکانوں اور مارکیٹوں میں گئی تو حساب کتاب میں رکھ رکھاؤ آ گیا، محلے کٹٹری میں ٹھہری تو روا داری نے رواج پایا۔ جامعہ اور مدرسے میں پہنچی تو شستگی اور شائستگی نے راہ پکڑی، مساجد میں گئی تو فصاحت و بلاغت کے دریا بہا ڈالے، قلعہ معلی میں پہنچی تو قصائد کے انبار لگا دیے، رزم گاہ میں اتری تو جوش و خروش کے طبل بج اٹھے، بزم میں جلوہ آرا ہوئی تو تمیز و تہذیب کی سرپرست ٹھہری، خوشی کی گھڑی آئی تو محفلوں کو نغمہ بار کر ڈالا، غموں نے دستک دی تو نوحہ و مرثیہ کے سیاہ علم لہرا دیے۔ اس کی برنائی کے ڈنکے چار دانگ عالم میں کچھ اس طرح بجے کہ اگر کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں فرنگی اس کے عشق میں مبتلا تھے تو لال قلعہ دہلی میں مغل شہزادے بھی اس کی یاد میں محو فغاں تھے

چنانچہ ایک چاہنے والے نے اعلان کیا کہ

ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا

ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں

تو دوسرے نے دعوی کیا کہ

سیکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں مگر

جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو

اور اساتذہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ

اپنے محبوب کی خاطر تھی خدا کو منظور

ورنہ قرآں بھی اترتا بہ زبان اردو

سبھی جانتے ہیں کہ یہ تو لوح ازل پہ تحریر کر دیا گیا ہے کہ جہاں حسن ہو گا وہاں حسد بھی ہو گا۔ پس جب مقبولیت کا عالم یہ ہوا تو لازم ٹھہرا کہ اس کی سوتیلی بہن "ہندی” بھی اس سے حسد میں مبتلا ہو۔ سو تاریخ کے اس دورا ہے پہ ہندی اردو تنازعے نے جنم لے لیا۔ بھاشا بولنے والوں نے کوشش کی کہ اسے درباروں، دفتروں اور مدرسوں سے نکال دیا جائے۔ تاہم اس مشکل گھڑی میں برصغیر کے مسلمان خم ٹھونک کر نکلے اور اپنی لاڈلی زبان کے حفاظت کے لیے کھڑے ہو گئے۔

وہ وقت تو کسی نہ کسی طرح ٹل گیا لیکن جب بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت ملی تو اردو زبان کے حصہ میں بھی ہجرت ہی آئی۔ اسے بھی سرحد پار دھکیل دیا گیا۔ یہاں تک بھی خیریت تھی لیکن جب یہ زبان اپنے ہی بچوں کے گھر پہنچی تو اس پہ جو بیتی وہ ناقابل بیان روداد ہے۔ اس نے بچپن سے جوانی تک در در کی ٹھوکریں کھائی تھیں لیکن اپنی اولاد کو تمیز و تہذیب سکھانے میں کچھ کوتاہی نہ برتی تھی لیکن دولت کی ہوس نے اور حصول زر کے آسان اور جلدی راستوں کی تلاش نے اس کے بچوں کو اپنے گھر کے سارے اصول اور سارے راستے بھلا دیے تھے۔

اس بے سہارا ماں بولی کو انگریزی نے دفتروں سے بے دخل کیا اور عربی نے مدرسوں سے نکال باہر کیا۔ علاقائی بولیوں نے گھروں سے دھکے دے کے باہر کیا تو گلیوں بازاروں میں آوارہ لہجوں (slang) نے اس پہ آوازے کسے۔ سائنس اور ٹکنالوجی نے عام آدمی کے ہاتھ میں موبائل تھمایا تو اس کے بجائے رومن اردو دل اور در کی مالکن بن بیٹھی۔

آج اگر اردو اپنے ہی گھر میں بن باس کاٹ رہی ہے تو اس کے بددعائے بچے بھی سب خوشیوں سے محروم ہیں۔ زندگی کبھی کندھوں کا بوجھ ہوتی تھی اب دل کا بوجھ ہو گئی ہے

سب ترے چاہنے والے ہیں، مرا کوئی نہیں

میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں۔

٭٭٭

کتابوں کی باتیں

مطالعہ

اختر رضا سلیمی کا ناول ’جندر‘ کابیانیہ ۔۔۔ علی رفاد فتیحی

اختر رضا سلیمی کا ناول ’جندر‘ جو 2017 میں شائع ہوا اور جسے UBL ایوارڈ سے نوازا گیا، عصری ادب میں ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ اس ناول کی پہچان اس وقت مزید بلند ہوئی جب حکومت ترکیہ نے اس ناول کو اپنی یونیورسٹی کی نصاب میں شامل کیا۔ یہ قدم اس ناول کی ادبی خوبیوں کا ایک با وقار اعتراف ہے۔

ناول جندر میں ’جندر‘ سے مراد پانی سے چلنے والی وہ پن چکی ہے، جسے ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جندر کو اس ناول کے بیانیہ کے تانے بانے میں بے حد سلیقہ سے بُنا گیا ہے۔ یہ ناول کے بیانیہ میں ایک دھندلی ہوتی تہذیب کے لیے ماتم کا کام کرتا ہے، جس میں ایک جندروئی (پن چکی والے) ولی خان کی پُر جوش کہانی کو شامل کیا گیا ہے۔ جندر ولی خان کے آباء و اجداد کے ذریعے قائم کی گئی تہذیب کے خاتمے کا گواہ ہے۔ سلیمی نے مہارت سے اس معدوم ہوتی دنیا کو زندہ کیا ہے اور ان قارئین کو جندر کی باریکیوں سے متعارف کرایا ہے، جو پہلے آٹا پیسنے کی اس روایتی تکنیک سے ناواقف تھے۔ ناول میں واضح طور پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح جدید ٹیکنالوجی ماضی کی تہذیبوں کو محض تصویروں میں محفوظ رکھتی ہے، جو روایتی خط و کتابت سے موبائل فون اور انٹرنیٹ کی ہر جگہ ارتقا کے مترادف ہے۔ کسی تہذیب کے معدوم ہونے کا اثر پیشہ ورانہ طور پر اس کے ساتھ جڑے ہوئے لوگ شدت سے محسوس کرتے ہیں، جن کے لیے ایک نئے دور کی شروعات ان کے وجود کے خلاف ہوتی ہے۔ تکنیکی ترقی اور ختم ہوتی ہوئی روایات کے درمیان تعلق ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے۔ ایک طرف، تکنیکی ترقی اکثر مثبت تبدیلیاں لاتی ہے، کارکردگی، مواصلات اور معیار زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ دوسری طرف، یہ بعض روایتی طریقوں، رسوم و رواج اور زندگی کے طریقوں کے زوال یا معدوم ہونے میں بھی حصہ ڈالتی ہے۔ یہاں کچھ اہم عوامل ہیں جو تکنیکی ترقی اور ختم ہونے والی روایات کے درمیان متحرک ہونے کو نمایاں کرتے ہیں۔ تکنیکی ترقی ثقافتی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے کیونکہ لوگ سوچنے، رہنے اور بات چیت کرنے کے نئے طریقے اپناتے ہیں۔ یہ بعض اوقات روایتی اقدار اور طریقوں کو ختم کر دیتی ہے۔ ٹیکنالوجی سرحدوں کے پار معلومات اور خیالات کے تیزی سے تبادلے کی سہولت فراہم کرتی ہے، جس سے عالمگیریت میں مدد ملتی ہے۔ اگرچہ یہ ثقافتی افزودگی کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ تبدیلیاں روایتی ذریعہ معاش اور پیشوں کو متروک ہونے کا سبب بن سکتی ہیں، جس سے بعض روایات کی پائیداری متاثر ہوتی ہے۔ تکنیکی ترقی اکثر شہر کاری کے ساتھ ہوتی ہے، جو لوگوں کو دیہی علاقوں سے دور کرتی ہے جہاں بہت سے روایتی طریقوں کی جڑیں گہری ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے لوگ شہری مراکز کی طرف جاتے ہیں، وہ اپنے ثقافتی ورثے سے دور ہوتے جاتے ہیں اور شہری طرز زندگی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بالآخر، تکنیکی ترقی کو اپنانے اور قیمتی روایات کے تحفظ کے درمیان توازن تلاش کرنا ایک پیچیدہ چیلنج ہے جس کے لیے ثقافتی، سماجی اور اقتصادی عوامل پر سوچ سمجھ کر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ناول کی طوالت کے باوجود، ناول کی طاقت اس کی زبردست بیانیہ میں ہے، جو ایک مضبوط گرفت کے ساتھ قارئین کو ابتدائی سطروں سے موہ لیتی ہے اور آبشار جیسے اختتام پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ سلیمی نے فنی طور پر موت کے فلسفے کی کھوج کی ہے، اسے زندگی کے لیے ایک لازم و ملزوم ساتھی کے طور پر پیش کیا ہے، جو وجود کے جوہر میں داخل ہے

اس ناول کا مرکزی کردار، ولی خان، ایک جندروئی (پن چکی والا) ہے جو جندر کو چلانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ ولی خان ناول کے بیانیہ میں کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ناول کی کہانی گاؤں سے ایک میل دور دریا کے کنارے جندر سے شروع ہوتی ہے، جہاں ولی خان اپنے بستر پر گردن تک، لحاف اوڑھے اس سوچ میں گم ہے کہ وہ شخص کون ہو گا جو میرے مرنے کے بعد گاؤں والوں تک اس کی موت کی خبر پہنچائے گا، اسی سوچ میں غرق ولی خان نے اپنی ساری زندگی اس جندر پر گزار دی۔ وہ کبھی کبھی اپنے ماضی کے واقعات کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا۔ اس کا بیٹا راحیل جو اسے چھوڑ کر شہر چلا جاتا ہے اور وہاں ایک اعلیٰ عہدے پر فائض ہو جاتا ہے، اور اپنے باپ کی جندروئی ہونے پر شرم محسوس کرتا ہے۔ ولی خان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا اور پھر ان کی پرورش ان کے والد نے کی، جنہوں نے اپنے بزرگوں کی لگائی ہوئی زمین پر کام کیا اور اپنی اور ولی خان کی کفالت کی۔ ولی خان ایک ایسا بچّہ ہے جس نے ماں کو نہیں دیکھا، کہ وہ اس کی پیدائش کے فوراً بعد ہی مر گئی تھی، مگر اس نے ماں کو جس طرح محسوس کیا، اس نے اس کی بقیہ زندگی کی شکل ڈھالی۔ ماں کی کوکھ میں سُنی ’’جندر‘‘ (بڑی پن چکّی) کی آواز جو اس کے ذہن پر ماں کی خوشبو اور آواز کی طرح یوں ثبت تھی کہ اس نے ماں کی گود، لوری، لمس اور خوشبو کی جگہ لے لی تھی۔ ایک ایسا خلا جو اس کی ذات کا حصّہ بن گیا تھا، جندر کی آواز نے، جسے وہ پیدائش سے پہلے سے سن رہا تھا، نہ صرف اس کے خالی پن کو گہرا کیا بلکہ اسے یوں پُر بھی کر دیا کہ اس آواز کی غیر موجودگی اس کے خالی پن کا مترادف بن گئی۔ ورثے میں ملی اس جندر کی آواز اُس کے لیے ایسی لوری بن گئی جس سے وہ عمر کے کسی حصّے میں الگ نہ ہو سکا یہاں تک کہ مرتے وقت بھی وہ اسی آواز کو سنتے ہوئے مر جانا چاہتا ہے۔ اس لازم و ملزوم تعلق کا احساس اسے شعور کی ابتدائی منزلیں طے کرتے ہوئے ہوتا ہے جب وہ گویا اپنی تحلیلِ نفسی کرتا ہے، خود آگاہی کے دور سے گزرتا ہے، اپنے لا شعور کو پہچانتا ہے اور اسے شعور کی سطح پر لے آتا ہے، یعنی خود شناسی کی منزل سے گزرتا ہے مگر صرف اس حد تک کہ وہ اپنی اس عادت یا مجبوری کا سدِّ باب نہیں کر پاتا یا شاید کرنا نہیں چاہتا مگر اس کے لیے دنیا سے کٹ جانا گوارا کر لیتا ہے۔ گویا وہ جندر اصل میں اس کا عشق بھی تھا اور اس کی مجبوری بھی یا دوسرے لفظوں میں وہ جندر ہی اس کا مقصدِ حیات بن گیا تھا جس کی وجہ سے اس نے عمر کا بیشتر حصّہ آبادی سے ہٹ کر گزار دیا۔ جب ولی خان میٹرک کرتا ہے تو اس کے والد کا بھی انتقال ہو جاتا ہے، پھر وہ پڑھائی چھوڑ کر اپنے موروثی جند رکو سنبھالنے بیٹھ جاتا ہے۔ ولی خان کو کتابیں پڑھنے کا بھی شوق تھا، وہ اپنے پسندیدہ روسی ادب کا ترجمہ بھی پڑھا کرتا تھا اور اپنے والد کے بھائ جمال دین کو سنایا کرتا تھا۔ اس ناول میں نہایت دلچسپ رنگوں کے اسٹروک ہیں، جو جدیدیت کا حصہ ہیں، لیکن ناول میں رنگوں کے کچھ اسٹروک اتنے جانے پہچانے نہیں لگتے۔ جندروئی (ولی خان) کی مطالعے میں دل چسپی ہے، اور بوڑھے قصہ گو (بابا جمال الدین) کو ناول سنانے میں ایک خاص مزہ آتا ہے۔ ’آگ کا دریا‘ اور ’اداس نسلیں‘ کا تذکرہ بھی ہوتا ہے، لیکن یہ ناول ہمیں ایک مختلف دور کی خاموشی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ناول جندر کا بیانیہ ہمیں قدیم دور کی حکایات کی طرح خود میں لپیٹا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ ہمیں ایک دیگر دنیا میں لے جاتا ہے، جہاں خاموشی ہر لفظ کی زبان ہوتی ہے اور قدیم زندگی کا چہرہ ہر صفحہ پر چھپا ہوتا ہے۔

ناول میں ایک لڑکی ہے جو سکول سے واپسی پر جندر کے پاس آتی ہے۔ اسے ادب کا شوق ہے اور باری باری اپنے بابا کو بھی ادبی کہانیاں سناتی ہے اور واپسی پر بابا جمال دین کے ساتھ گھر جاتی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد لڑکی نے ہچکچاتے ہوئے ولی خان سے شادی کر لی کیونکہ وہ ولی خان کو ایک آزاد آدمی سمجھتی جو کسی کا پابند نہیں تھا، لیکن شادی کے بعد ولی خان خود اسے بتاتا ہے کہ وہ جیندر کی آواز سنے بغیر سو نہیں سکتا۔ اور اگر اس کانٹے کی وجہ سے اسے سکون کے لمحات ملتے ہیں تو بچے کی پیدائش کے بعد اس کی بیوی اس سے الگ ہو کر گاؤں کے گھر میں رہنے لگتی ہے اور ولی خان اسے پیسے بھیجتا رہتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ دیہاتی لڑکی جو کہ ایک میٹرک کی طالبہ ہے اور ولی خان کے درمیان اپنے انداز میں دنیا سے لاتعلق فلسفیانہ اور ادبی گفتگو لمحہ بہ لمحہ ایک اجنبی ماحول بناتی ہے اور اس ماحول کو غیر یقینی بناتی ہے۔ اس گفتگو کا ادبی نقطہ نظر اور شعور اس پورے ماحول میں کچھ مختلف احساس کو متعارف کراتا ہے۔ ناول میں، ولی خان اس لڑکی کے ساتھ جو بعد میں اس کی بیوی بن جاتی ہے ناولوں کے بارے میں تجزیاتی گفتگو کرتا ہے، ان کا موازنہ قرۃ العین حیدر اور عبد اللہ حسین کے ناولوں سے کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مصنف اس ناول کے ذریعے اپنے آپ سے بات کر رہا ہے۔ زیر نظر ناول دونوں اہم ناولوں کے ہلکے پھلکے اثر کو ظاہر کرتا ہے، اور شاید مصنف کے ذہن میں یہ خیال اس گفتگو میں شامل تھا، جس کی عکاسی اس ادبی مکالمے میں ہوتی ہے۔ تاہم، وہ لڑکی اس کا مظہر بنی ہوئی ہے۔ مثالی کردار ہمیشہ برقرار رہتے ہیں اور دنیا کو نئی جہتوں کو متعارف کرانے کے لیے ایک منبع یا ماخذ بن جاتے ہیں۔

ولی خان کا بیٹا جوان ہو کر افسر بننے شہر جاتا ہے تو ماں کو ساتھ لے جاتا ہے اور کچھ عرصے بعد ماں کا انتقال ہو جاتا ہے۔ جب بھی بیٹا گاؤں جاتا اور باپ سے کہتا کہ میرے ساتھ شہر چلو اور یہ کام چھوڑ دو، میری توہین ہوتی ہے۔ ولی خان کی جندر کے کانٹے سے واقفیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بیر اسے سن کر خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ جب پینتالیس دن پہلے اس نے آخری چونگ جندر میں ڈالی تو وہ اس سوچ میں گم تھا کہ اب یہاں اور اب گاؤں میں بھی کون آئے۔ اس کے بیٹے راحیل نے بجلی کی چکی لگوائی ہے تاکہ اس کا باپ جندر کو چھوڑ کر گاؤں آ جائے لیکن اسے کیا خبر کہ اس نے اپنے باپ کا خون اپنے ہاتھوں سے بہایا ہے۔ خود شناسی کے اس سفر میں ولی خان کے ماضی کا پتہ لگاتا ہے، جو اس کے بیٹے راحیل کو درپیش معاشرتی فیصلوں کو ظاہر کرتا ہے، جو اپنے والد کے جندروئی سے خود کو دور کرتے ہوئے شہر میں ایک اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ولی خان کی زندگی جندر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اپنی تعلیم اور ادب سے محبت کے باوجود، ولی خان جندر کی تال کی ہم آہنگی سے بے حد پابند ہیں۔ ناول محبت کے موضوعات، سماجی توقعات، اور روایت کی ناقابل تسخیر کھینچ کو تلاش کرتا ہے۔ اپنی طوالت میں، ’جندر‘ اپنی منفرد موضوعاتی کھوج اور زبردست بیانیہ کے ذریعے اہمیت حاصل کرتا ہے۔ سلیمی کی تخلیق ایک ایسا ادبی جواہر ہے جو نہ صرف مرتی ہوئی تہذیب کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیتی ہے بلکہ قارئین کو ترقی کے ناقابل تسخیر اور معدوم ہوتی روایات کی تابناک بازگشت پر غور کرنے پر بھی اکساتی ہے۔

اختر رضا سلیمی کے ناول ’جندر‘ کا بیانیہ کہانی کہنے کی ایک مخصوص اور ارتعاش انگیز پیش کش ہے جو اپنی منفرد ساخت، واضح منظر کشی اور فلسفیانہ گہرائی کے ذریعے قارئین کو مسحور کر لیتا ہے۔ سلیمی نے اس ناول میں شعور کی رو کی ایک بیانیہ تکنیک کا استعمال کیا ہے جو بغیر کسی رکاوٹ کے ماضی اور حال کو ایک ساتھ باندھتا ہے، اوریادوں اور جذبات کی ایک ایسی ٹیپسٹری تخلیق کرتا ہے جو قاری کو ولی خان، جندروئی، اور پانی سے چلنے والی چکی، جندر سے اس کے تعلق کی پُر جوش کہانی میں گھیر لیتی ہے۔ "شعور کی رو” یا Stream of Consciousness ایک ایسا منفرد بیانیہ اسلوب ہے جو قارئین کو کرداروں کے پیچیدہ اور غیر فلٹر شدہ خیالات کے سفر پر لے جاتا ہے، اور قارئین کے ذہنوں میں ایک گہری اور فوری جھلک پیش کرتا ہے۔ بیانیہ کی اس تکنیک نے ادب کے ارتقاء میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، جس نے مصنفین کو انسانی شعور کی پیچیدگیوں کو تلاش کرنے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے۔ اس مضمون میں جندر میں شعور کے رو کے بیانیہ اسلوب، اس کی ابتدا، خصوصیات اور بیانیہ پر اس کے اثرات کی کھوج کی گئی ہے۔

"شعور کا رو ” کی اصطلاح سب سے پہلے 19ویں صدی کے آخر میں فلسفی اور ماہر نفسیات ولیم جیمز نے وضع کی تھی، جو کسی فرد کے ذہن میں خیالات کے مسلسل بہاؤ کا حوالہ دیتی ہے۔ تاہم، یہ 20 ویں صدی کے اوائل میں اس تصور نے ادب میں اپنا راستہ تلاش کیا۔ یہ اسلوب جیمز جوائس، ورجینیا وولف، اور ولیم فالکنر جیسے مصنفین کی طرف سے پیش کیا گیا، اور اس طرح شعور کا رو ایک انقلابی بیانیہ تکنیک بن گیا جس نے انسانی سوچ کی بے ساختہ اور اکثر افراتفری کی نوعیت کو پکڑنے کی کوشش کی۔ شعور کی رو ایک کردار کے خیالات کے مسلسل اور غیر منقطع بہاؤ کی خصوصیت ہے۔ جندر کے بیانیہ میں پیراگراف اور اوقاف کی روایتی ساخت کا فقدان ہے، جس طرح سے خیالات قدرتی طور پر ذہن میں آتے ہیں اسی طرح پیش کر دیے جاتے ہیں۔ جندر کا بیانیہ اکثر اندرونی یکجہتی کی شکل اختیار کرتا ہے، جہاں کردار اپنے اندرونی خیالات، احساسات اور رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ قارئین کو ایک کردار کے شعور تک براہ راست رسائی فراہم کرتا ہے، فوری اور قربت کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ شعور کی رو اکثر بکھرے ہوئے اور دہرائے جانے والے عناصر کو شامل کرتی ہے، جس طرح سے خیالات کو منقطع کیا جا سکتا ہے اور ذہن میں دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس ناول کا یہ اسلوب انسانی ادراک کے حقیقی جوہر کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، جہاں خیالات بظاہر بے ترتیب انداز میں سامنے آ سکتے ہیں اور دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں۔ شعور کی تکنیک کے دھارے کو استعمال کرنے والے اختر رضا سلیمی اکثر آزاد ایسوسی ایشن کا استعمال کرتے ہیں، روایتی منطق یا بیانیہ کی ساخت سے قطع نظر خیالات کو ایک سے دوسرے میں باضابطہ طور پر بہنے دیتے ہیں۔ یہ انسانی سوچ کی اجتماعی فطرت کا آئینہ دار ہے۔ شعور کی رو کے بیانیے کے سلسلے میں وقتی تبدیلیاں اور نان لائنر ٹائم لائنز عام ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کے واقعات آپس میں مل جاتے ہیں، جو یادداشت کی روانی اور وقت کے مختلف پوائنٹس کے درمیان بغیر کسی رکاوٹ کے حرکت کرنے کی دماغ کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس ناول میں شعور کی رو نفسیاتی حقیقت پسندی کی ایک شکل پیش کرتا ہے، کرداروں کو خام اور غیر فلٹر شدہ حالت میں پیش کرتا ہے۔ قارئین ایک کردار کے ذہن کے اندرونی کام کے بارے میں بصیرت حاصل کرتے ہیں، جس سے بیانیہ زیادہ مستند اور متعلقہ ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ اسلوب سبجیکٹیوٹی اور متعدد تناظر کی گہرائی سے کھوج کی اجازت دیتا ہے۔ مختلف کرداروں کے شعور میں جھانک کر مصنفین واقعات کی زیادہ جامع اور باریک بینی سے آگاہی پیش کر سکتے ہیں۔ شعور کا سلسلہ روایتی بیانیہ ڈھانچے اور لکیری کہانی سنانے کو چیلنج کرتا ہے۔ اس کی غیر روایتی شکل قارئین کو متن کے ساتھ فعال طور پر مشغول ہونے پر مجبور کرتی ہے، خیالات کے گڑبڑ سے معنی کو سمجھنا، بالکل اسی طرح ہے جیسے حقیقی انسانی شعور کو سمجھنے کا عمل

شعور کی روکے بیانیہ انداز نے ادبی منظر نامے کو ایک منفرد عینک فراہم کر کے نمایاں طور پر تقویت بخشی ہے جس کے ذریعے انسانی سوچ اور جذبات کی گہرائیوں کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ شعور کی فوری اور پیچیدگی کو پکڑنے کے ایک آلے کے طور پر، یہ مصنفین کو متاثر کرتا ہے اور قارئین کو مسحور کرتا ہے، جو ایک بھرپور اور عمیق ادبی تجربہ پیش کرتا ہے۔ اپنے غیر روایتی اندازِ فکر کے ذریعے، شعور کے دھارے نے نہ صرف جدید ادب کی رفتار کو تشکیل دیا ہے بلکہ کہانی سنانے کے امکانات کو بھی وسعت دی ہے۔ شعور کی رو میں بہتا ہوا یہ ناول، خیالات کا ایک دائرہ مکمل کر کے اپنے نقطۂ آغاز پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ولی خان (اپنی دانست میں) بسترِ مرگ پر لیٹا، موت کا منتظر ہے، خیالات کے گھیرے میں بار بار دور جاتا اور یوں ایک خاص مقام پر ٹھہرا ہوا وہ وقت کے سنگ ہائے میل ماپتا واپس اسی نقطے پر پلٹ پلٹ کر اپنی کہانی کو مکمل کرتا ہے۔ یہ واحد متکلّم کی آپ بیتی ہے جو بسترِ مرگ پر آنے والے وقت کا تجزیہ کرتے کرتے ماضی میں بہت پیچھے جا کر اپنی پوری کہانی سنا رہا ہے۔

’جندر‘ میں بیانیہ کے اسلوب کا ایک قابل ذکر پہلو سلیمی کا فلیش بیک اور خود شناسی کا ماہرانہ استعمال ہے۔ کہانی نہ صرف موجودہ لمحے میں سامنے آتی ہے بلکہ ولی خان کی یادوں کو بھی گھیرتی ہے، جو کردار اور جندر کے ساتھ اس کے تعلقات کو ایک بھرپور پس منظر فراہم کرتی ہے۔ یہ دوہرا وقتی تناظر بیانیہ میں تہوں کو جوڑتا ہے، جس سے قارئین ولی خان کی زندگی کی پیچیدگیوں اور جندروئی روایت کی ثقافتی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ ناول کا بیانیہ گیت کے معیار سے نشان زد ہے، سلیمی کی نثر اکثر شاعرانہ اظہار سے ملتی جلتی ہے۔ یہ اسٹائلسٹک انتخاب کہانی سنانے کے لیے ایک تال میل بہاؤ فراہم کرتا ہے، جو خود جندر کے مستقل مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ زبان استعاروں اور علامتوں سے مالا مال ہے، جو قاری کے لیے ایک عمیق تجربہ پیدا کرتی ہے۔ وضاحتی اقتباسات کے ذریعے، سلیمی جندر سے وابستہ مناظر، آوازوں اور جذبات کی تفصیلی تصویر کشی کرتے ہیں، سامعین کو داستان کے دل تک پہنچاتے ہیں۔

’’مجھے یقین ہے کہ جب پو پھٹے گی اور روشنی کی کرنیں دروازے کی درزوں سے اندر جھانکیں گی تو پانی سر سے گزر چکا ہو گا اور میری سانسوں کا زیر و بم، جو اس وقت جندر کی کوک اور ندی کے شور سے مل کے ایک کرب آمیز سماں باندھ رہا ہے، کائنات کیا تھاہ گہرائیوں میں گم ہو چکا ہو گا اور پیچھے صرف بہتے پانی کا شور اور جندر کی اداس کوک ہی رہ جائے گی؛ جو اس وقت تک سنائی دیتی رہے گی جب تک جندر کے پچھواڑے موجود، معدوم ہوتے راستے پر سے گزرتے ہوئے، کسی شخص کو اچانک میرا خیال نہ آ جائے اور وہ یوں ہی بغیر کسی پیشگی منصوبے کے، محض میرا اتا پتا کرنے جندر کے صحن کو اس اجاڑ راستے سے نلانے والے، سات قدمی زینے پر سے اترتا ہوا جندر کے دروازے تک نہ آ جائے۔‘‘

’’زندگی کے ہزار رنگ ہیں مگر موت کا ایک ہی رنگ ہے؛ سیاہ رنگ، جو زندگی کے تمام رنگوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ مجھے زندگی کے رنگوں کا شعور بعد میں ہوا۔ میں نے موت کے سیاہ رنگ کا شعور پہلے حاصل کیا۔‘‘

مزید برآں، سلیمی اپنی کہانیوں کے اثرات کو بڑھانے کے لیے چند منتخب افراد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کردار نگاری کے لیے ایک کم سے کم نقطہ نظر کا استعمال کرتے ہیں۔ مرکزی شخصیت، ولی خان، اس کلید کے طور پر کام کرتی ہے جس کے ذریعے بیانیہ سامنے آتا ہے، اور جان بوجھ کر کم کرداروں کا انتخاب ان کے تعلقات اور سماجی حرکیات کو مزید گہرائی سے تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

’’میں نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ موت آتی ہے تو انسان مر جاتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں موت کہیں باہر سے وارد نہیں ہوتی وہ زندگی کی سرشت میں شامل ہوتی ہے۔ جوں ہی کسی وجود میں زندگی ترتیب پاتی ہے، موت بھی اس میں پناہ حاصل کر لیتی ہے اور زندگی کو اس کے وجود سے باہر دھکیلنے کا عمل شروع کر دیتی ہے۔ جس وجود کی زندگی جتنی طاقت ور ہوتی ہے وہ اتنے ہی طویل عرصے تک وہاں قدم جمائے رکھتی ہے مگر کب تک؛ آخری فتح تو موت ہی کی ہوتی ہے۔ یہ میری موت، جو، اب میری زندگی پر فتح پانے والی ہے، اس نے کوششوں کا آغاز اسی وقت کر دیا تھا جب میں نے پہلا سانس لیا تھا۔ یوں میرا پہلا سانس اپنی موت کی طرف میرا پہلا قدم بھی تھا۔ شاید میری موت کو ابھی پندرہ بیس سال مزید تگ و دو کرنا پڑتی لیکن میرے بیٹے نے نہ صرف اس کا کام آسان کر دیا بلکہ ایک تہذیب کے انہدام میں بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔‘‘

کردار کی تصویر کشی میں یہ سادگی داستان کی جذباتی گونج کو تیز کرتے ہوئے ناول کے پیش کش میں معاون ہے۔ ’جندر‘ کا موضوع ناول کے تانے بانے میں مہارت سے بنے ہوئے ہیں۔ سلیمی زندگی، موت، اور وقت کے ناقابل تسخیر گزرنے کے بارے میں گہرے فلسفیانہ مظاہر پر روشنی ڈالتے ہیں۔

’’میرا یہاں اس طرح مرنا صرف ایک انسان کی نہیں، ایک تہذیب کی موت ہے۔ وہ تہذیب جس کی بنیاد انسان نے ہزاروں سال پہلے اس وقت رکھی تھی جب دنیا کے پہلے انسان نے بہتے پانی کی قوت کا اندازہ لگایا۔ جس طرح نوحؑ کا پیش رو، جس نے سب سے پہلے ہوا کی طاقت کا اندازہ لگا کر دنیا کی پہلی بادبانی کشتی تیار کی، یقیناً کسی ساحلی علاقے کا باسی تھا، اس طرح پانی کی طاقت کا اندازہ لگانے والا پہلا شخص میری طرح کوئی پہاڑیا ہی ہوا ہو گا؛ جو مال مویشی چرانے کسی جنگلی چراگاہ میں جاتا رہا ہو گا جہاں کسی پیاڑی آبشار سے پانی پیتے ہوئے اس پر پانی کی قوت کا راز منکشف ہو گیا ہو گا۔‘‘

جندر، تسلسل اور تبدیلی دونوں کی علامت ہے، زندگی کے چکر اور تہذیبوں کی عارضی نوعیت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ بیانیہ ولی خان کے تصورات کے ذریعے بنتا ہے، ایک فلسفیانہ گہرائی پیدا کرتا ہے جو قارئین کو کہانی کے وسیع تر مضمرات پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اختر رضا سلیمی کا بیانیہ اسلوب ’جندر‘ میں کہانی کہنے کے عناصر کا ایک شاندار امتزاج ہے جو ناول کو ایک مرتی ہوئی تہذیب کی محض کھوج سے آگے بڑھاتا ہے۔ فلیش بیکس، گیت کی نثر، مرصع خصوصیات اور فلسفیانہ گہرائی کا استعمال اجتماعی طور پر ایک ایسے بیانیے میں حصہ ڈالتا ہے جو قارئین کو فکری اور جذباتی سطحوں پر گونجتا ہے۔ ’جندر‘ ایک ایسی داستان تیار کرنے میں سلیمی کی مہارت کا ثبوت ہے جو نہ صرف ثقافتی طور پر گونجتا ہے بلکہ انسانی حالت کی کھوج میں عالمی سطح پر بھی مجبور ہے۔

اختر رضا سلیمی کی ’جندر‘ نہ صرف ایک مرتی ہوئی تہذیب کی ایک پُر جوش تحقیق ہے بلکہ اس میں لسانی اختراعات کی نمائش بھی ہے جو بیانیہ کو تقویت بخشتی ہے اور اسے ایک ادبی جواہر بناتی ہے۔ سلیمی کا ناول میں زبان کا ماہرانہ استعمال محض کہانی سنانے سے بالاتر ہے۔ یہ ثقافت، روایت اور انسانی تجربے کی باریکیوں کو پہچانے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔

’جندر‘ میں ایک قابل ذکر لسانی اختراع علاقائی اور ثقافتی عناصر کا ہنر مندانہ انضمام ہے۔ یہ ناول خطے کی لسانی باریکیوں پر مشتمل ہے، جس میں مقامی بولیوں اور محاوروں کو شامل کیا گیا ہے جو کرداروں اور ترتیبات میں صداقت کا اضافہ کرتے ہیں۔ یہ لسانی فراوانی نہ صرف قاری کو کہانی کے مخصوص ثقافتی ماحول میں لے جانے کا کام کرتی ہے بلکہ پڑھنے کے ایک زیادہ عمیق اور ساختی تجربے میں بھی حصہ ڈالتی ہے۔ زبان ادب کی جان ہے، اور اس کی حرکیات کہانی کے ارتقا کے لیے بہت ضروری ہے۔ لغوی جدت، نئے الفاظ اور تاثرات کا تعارف، افسانے کے بیانیہ کے منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ مضمون جندر میں لغوی جدت طرازی کی داستانی مطابقت کو تلاش کرتا ہے، اور اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ اختر رضا سلیمی کہانی سنانے کے تجربے کو بڑھانے کے لیے کس طرح تخلیقی طور پر زبان کا استعمال کرتے ہیں۔

لغوی جدت طرازی اختر رضا سلیمی کو اپنی وضاحتی طاقت کو مزید تقویت دینے کی اجازت دیتی ہے، جس سے وہ قارئین کے لیے واضح اور باریک تصویریں پینٹ کر سکتے ہیں۔ نئے الفاظ متعارف کروا کر یا موجودہ الفاظ کو دوبارہ پیش کرنے سے، اختر رضا سلیمی حسی تجربات، جذبات، اور ماحول کو جنم دیتے ہیں اورزیادہ عمیق بیانیہ کا کینوس تیار کرتے ہیں۔ زبان کے اختراعی انتخاب کردار کی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اختر رضا سلیمی انفرادی حروف کی آوازوں کو الگ کرنے کے لیے منفرد تاثرات، محاورات استعمال کر تے ہیں، یا حروف کے لحاظ سے مخصوص لغت بھی بناتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ناول میں صداقت شامل ہوتی ہے بلکہ کرداروں کے ساتھ قارئین کا تعلق بھی گہرا ہو جاتا ہے۔

’’مجھے اب بھی یقین ہے کہ اگر کوئی چونگ میسر آ جائے اور میں جندر کی وہی سریلی گونج دوبارہ سن سکوں تو میرا ماس، جو گزشتہ پینتالیس دنوں میں خالی گھومتے جندر کی کوک نے میری ہڈیوں سے علاحدہ کر دیا ہے، دوبارہ ہڈیوں سے جڑنا شروع ہو جائے گا، میری کھوئی ہوئی طاقت بحال ہونا شروع ہو جائے گی اور میں دوبارہ جی اٹھنے لگوں گا لیکن اب اس قسم کی کوئی امید بے کار ہے کہ اگر گاؤں میں لگی مشینی چکی، ابھی اور اسی لمحے، بھک سے اڑ جائے تو بھی راے کے اس آخری پہر میں کوئی یہاں آنے سے رہا اور ابھی کچھ دیر بعد جب پو پھٹے گی تو پانی سر سے گزر چکا ہو گا۔‘‘

’’میری معدوم ہوتی یادداشت میں، پینتالیس دن پہلے کا وہ لمحہ اب بھی پوری طرح نقش ہے، جب چونگ پیس کر جندر کی کیل اٹھاتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا تھا کہ میں اپنی اور جندر کی زندگی کی آخری چونگ پیس چکا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جب قیامت کے دن اٹھایا جاؤں گا تو میری یادداشت میں سب سے پہلے یہی منظر ابھرے گا۔‘‘

لغوی جدت ایک آئینہ کا کام کرتی ہے جو ثقافتی اور وقتی باریکیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اختر رضا سلیمی ایسے الفاظ یا فقرے متعارف کرتے ہیں جو کسی خاص دور کے zeitgeist کو سمیٹتے ہیں یا کسی مخصوص ثقافت کے جوہر کو حاصل کرتے ہیں۔ یہ لسانی ٹائم سٹیمپنگ افسانوی دنیا کی صداقت اور حقیقت پسندی کو بڑھاتا ہے۔ مثال کے طور پر جندر میں مستعمل الفاظ اردو قاری کو اجنبیت کا احساس دلاتے ہیں:

جندرآٹا چکی (پن چکی)

جندر کی کوکآٹا چکی کی آواز

چونگتھیلا

کھاراپن چکی میں دانہ ڈالنے کی جگہ

جندروئیپن چکی والا

وترزمین کی نمی

بوہادروازے

بکروٹے بکری کے بچے

اختراعی زبان کا تعارف پوری کہانی میں بدلتے ہوئے موضوعات اور نقشوں کو پہچانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہوتا ہے۔ نئی اصطلاحات بنا کر یا موجودہ اصطلاحات کو نئے معنی دے کر، اختر رضا سلیمی بیانیہ میں تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں، جو فکشن کے بنیادی پیغامات کی تشریح میں قارئین کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ لغوی اختراع اختر رضا سلیمی کو ابہام اور ذیلی متن کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں، اور بیانیہ کی معنوی تہہ داری میں اضافہ کرتے ہیں۔ علاقائ الفاظ کو متعدد مفہوم کے ساتھ متعارف کروا کر یا نیوولوجزم (Neologism) بنا کر، اختر رضا سلیمی قارئین کو تشریح اور رمز کشائ کے زیادہ فعال کردار میں مشغول کر تے ہیں، اور دریافت اور فکری مشغولیت کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔

جندر میں علاقائ لفظیات اور زبان کے اختراعی انتخاب لسانی گونج میں حصہ ڈالتے ہیں، اور بیانیہ کو یادگار اور مخصوص بناتے ہیں۔ قارئین اکثر اس افسانے کو یاد رکھتے ہیں جن کی گونج ان کو نئے الفاظ یا تاثرات سے متعارف کراتے ہیں۔ لسانی اختراعات ایک دیرپا اثر پیدا کرتے ہیں اور زبان اور کہانی کے جذباتی مرکز کے درمیان تعلق کو فروغ دیتے ہیں۔ ناول میں لغوی اختراع کی افسانوی مطابقت کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اختر رضا سلیمی عمیق، مستند، اور متحرک بیانیے تیار کرنے کے لیے زبان کی طاقت کا استعمال کرتے ہیں جو وقت اور ثقافت کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ لغوی جدت طرازی، جب درست طریقے سے استعمال ہوتی ہے، تو وضاحتی قوت کو بڑھاتی ہے، کردار کی نشو و نما میں مدد دیتی ہے، ثقافتی باریکیوں کو حاصل کرتی ہے، اور لسانی گونج کو فروغ دیتی ہے، جس سے بیانیہ بھرپور اور پائیدار نظر آتا ہے۔ بحیثیت قاری، ہم محض مبصر نہیں ہیں بلکہ اختر رضا سلیمی اور ان کے تخلیق کردہ الفاظ کے درمیان مسلسل ابھرتے ہوئے مکالمے میں سرگرم شریک رہتے ہیں۔

نیولوجزم یا لفظی اختراع کے ساتھ ساتھ سلیمی کا استعاراتی زبان کا استعمال ایک اور لسانی اختراع ہے جو بیانیہ کو ترسیلی قوت عطا کرتی ہے اور جندر، (پانی سے چلنے والی چکی)، ایک طاقتور علامت بن جاتی ہے جو زندگی کے بہاؤ کی نمائندگی کرتی ہے۔ سلیمی نے جندروئی کے طور پر ولی خان کے سفر کے جذباتی اور وجودی پہلوؤں کو بیان کرنے کے لیے استعاراتی تاثرات اور تمثیلی تصویر کشی کی ہے۔ یہ علامتی زبان ناول کو واقعات کی ایک سادہ تصویر کشی سے آگے بڑھاتی ہے، اس میں معنی کی تہوں کو شامل کرتی ہے جو قارئین کو متن کی گہری کھوج میں مشغول ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ناول میں علاقائی زبان اور ثقافت کا اثر نمایاں ہے۔ اردو زبان میں وسعت اور جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔ زندہ اور ترقی پسند زبانیں نئے الفاظ کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جندر کی بیانیہ ساخت کو بذات خود ایک لسانی اختراع قرار دیا جا سکتا ہے۔ ماضی اور حال کا ہموار تعامل، ایک غیر خطی بیانیہ کے ذریعے سہولت فراہم کرتا ہے، سلیمی کو ایک عارضی موزیک بنانے کی اجازت دیتے ہیں جو میموری کے پیچیدہ کاموں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ اسٹائلسٹک انتخاب نہ صرف زندگی کی چکراتی نوعیت کی عکاسی کرتا ہے، جیسا کہ جندر کی طرف سے علامت ہے، بلکہ روایتی خطی کہانی سنانے کو بھی چیلنج کرتی ہے، جو قارئین کو مزید عکاس اور خود شناسی انداز میں بیانیہ کی تشریح کی دعوت دیتی ہے۔ ’جندر‘ میں مکالمے کرداروں کے ثقافتی اور سماجی پس منظر کے بارے میں گہری آگاہی کے ساتھ تیار کیے گئے ہیں۔ سلیمی بولی جانے والی زبان میں صداقت پیدا کرتے ہیں، کرداروں کے لہجے اور بول چال کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں۔ یہ لسانی صداقت قاری کے کرداروں اور ان کی دنیا سے تعلق کو بڑھاتی ہے، قربت کا احساس پیدا کرتی ہے جو ناول کے جذباتی اثرات کے لیے اہم ہے۔ مزید یہ کہ سلیمی کا زبان کے ذریعے فلسفہ موت کی جستجو اپنے آپ میں ایک لسانی اختراع ہے۔ ناول میں اس خیال کو شامل کیا گیا ہے کہ موت صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک فلسفیانہ تصور ہے جو زندگی کو گھیرے ہوئے ہے۔ ولی خان کے غور و فکر اور خود شناسی کے ذریعے، سلیمی گہرے وجودی مظاہر کو بیان کرنے کے لیے زبان کا استعمال کرتے ہیں، جس سے بیانیے میں ایک فلسفیانہ پرت شامل ہوتی ہے۔

اختر رضا سلیمی کا ’جندر‘ نہ صرف اپنی زبردست بیانیہ بلکہ لسانی اختراعات کے لیے بھی نمایاں ہے جو متن کو گہرائی اور صداقت کے ساتھ متاثر کرتی ہے۔ علاقائی زبان کا انضمام، استعاراتی فراوانی، غیر خطی بیانیہ کی ساخت، اور زبان کے ذریعے فلسفیانہ تحقیق اجتماعی طور پر ناول کی ایک لسانی شاہکار کی حیثیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ’جندر‘ سلیمی کی زبان کو کہانی سنانے کے لیے ایک طاقتور ٹول کے طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے، روایتی بیانیے کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اور عصری ادب کے منظر نامے پر انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں۔

رضا سلیمی کی کہانی کا انتخاب کرتے ہوئے، ماحول، کردار، اور نقطہ نظر زندگی میں آتے ہیں، جو بیدار افراد کے تجربات کی عکاسی کرتے ہیں۔ کرداروں کے نفسیاتی تجزیے کا مطالعہ مصنف کی نفسیات میں گہری تجزیاتی بصیرت کا اضافہ کرتا ہے۔ مزید یہ کہ اس فکری سفر کے دوران ناول کا مرکزی کردار نہ صرف اپنا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اپنے والد اور بیوی کے نفسیاتی تجزیے میں بھی مصروف رہتا ہے۔ صرف واقعات پر انحصار کرنے کے بجائے، ناول اپنی تشریحات کے ذریعے ان کرداروں کے خیالات کی تصویر کشی کرتا ہے۔

ناول کے آخر میں انسانی سماج اور فکر پر صنعتی اثرات کی طرف ایک لطیف اشارہ ملتا ہے۔ یہ ہمیں صنعتی زندگی کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے میکانکی اثرات کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتا ہے اور ان کی طرف ایک سمجھدار نظر کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ ادب فکر کا سفر ہے۔ اس لیے مجھے یہ ناول اختر رضا سلیمی کا فکری اور داخلی سفر نظر آتا ہے۔ تحریر کا یہ انداز ان کے روحانی تجربات کی خواہش یا کسی سطح پر کسی ذاتی تجربے کی تصویر کشی کی نشاندہی کر تا نظر آتا ہے۔ متبادل طور پر، یہ ایک مخصوص آئیڈیلزم کا حوالہ ہو سکتا ہے جس میں ایک نئی دنیا یا جہت کی تلاش شامل ہے

گرچہ اختر رضا سلیمی کا ’جندر‘ بلاشبہ ایک ایسا بیانیہ پیش کرتا ہے، جس میں کہانی سنانے کے مختلف عناصر کو مہارت کے ساتھ جوڑ کر ایک بھرپور اور دلفریب بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے، لیکن یہ اسلوب چند خامیوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ داستانی تکنیک، نثر، کردار نگاری، اور موضوعاتی گہرائی کے باوجود، کچھ ایسے پہلو ہیں جنہیں مجموعی طور پر قرات کے تجربے میں محدودیت اور فشار کا باعث بنتا ہے۔

ناول کے بعض قارئین کے لیے ناول کی ایک قابل ذکر خامی سلیمی کے استعمال کردہ دوہرے وقتی نقطہ تک رسائ حاصل کرنے میں ممکنہ دشواری ہے۔ فلیش بیکس اور خود شناسی کا استعمال، داستان میں پرتوں کو جوڑتے ہوئے، ان لوگوں کے لیے دشواری کا احساس بھی پیدا کر سکتا ہے جو ایک خطی اور سیدھی کہانی سنانے کے انداز کو ترجیح دیتے ہیں۔ قارئین اپنے آپ کو ماضی اور حال کے درمیان مسلسل تبدیلیوں سے دشواری محسوس کر تے ہیں، اور ممکنہ طور پر یہ اندازہ بیان کہانی میں ڈوب جانے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور بیانیہ کے بہاؤ کو روکتے ہیں۔

ناول کے اسلوب میں شعریت، ان قارئین کے لیے ایک چیلنج پیش کرتا ہے جو زیادہ سیدھے اور جامع نثر کو ترجیح دیتے ہیں۔ سلیمی کا اسلوب شعریت، استعاروں اور علامتوں سے مالا مال ہے، جو بعض صورتوں میں ان لوگوں کے لیے دسواری کا سبب بنتا ہے جو براہ راست اور خطی بیانیہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ناول کا اسٹائلسٹک انتخاب، کچھ لوگوں کے لیے عمیق گہرائ رکھتا ہے، لیکن ان قارئین کو الگ کرتا ہے جو خود کو زیبائشی زبان میں الجھا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

مزید برآں، ناول میں کم کرداروں کا جان بوجھ کر انتخاب، اگرچہ جذباتی گونج کو تیز کرتا ہے، لیکن بعض قارئین کے لیے نقطہ نظر اور تجربات کے تنوع کو ممکنہ طور پر محدود کرتا ہے۔ کردار کی تصویر کشی میں یہ سادگی مجموعی بیانیہ میں حرکیات کی کمی کا باعث بن سکتی ہے، اور جو ان قارئین کے لیے کم پرکشش ہو جاتی ہے جو بہت سے تناظر اور آوازوں کی قدر کرتے ہیں۔

ناول میں، زندگی، موت، اور گزرتے وقت کے بارے میں گہرے فلسفیانہ مظاہر، بیانیہ میں گہرائی کا اضافہ کرتے ہیں لیکن، بعض قارئین کے لیے حد سے زیادہ تجریدی بن جاتے ہیں۔ ولی خان کے غور و فکر کے ذریعے دریافت کیے گئے پیچیدہ فلسفیانہ موضوعات کو بہت باطنی سمجھا جا سکتا ہے، جو ثقافتی اور سماجی حرکیات کی زیادہ قابل رسائی تلاش کرنے والوں کو ممکنہ طور پر الگ کر دیتے ہیں۔

آخر میں، جب کہ ’جندر‘ کہانی سنانے کے بہت سے پہلوؤں میں مہارت رکھتا ہے، بشمول بیانیہ تکنیک، نثری انداز، کردار نگاری، اور موضوعاتی گہرائی، اس کا دوہرا وقتی تناظر، شعری نثر، مرصع خصوصیت، اور تجریدی فلسفیانہ عکاسی بعض قارئین کے لیے چیلنجز کا باعث بن جاتے ہیں۔ سلیمی کا بیانیہ انداز، اگرچہ بہت سے قارئین کے لیے سحر انگیز ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ عالمی سطح پر اس کی گونج ان قارئین کو نہیں سنائی دے، جن کے ادبی ترجیحات قدرے مختلف ہیں۔

​٭٭٭

نجمہ منصور ’’نظم کی بارگاہ میں‘‘ ۔۔۔ نعیم گھمن

سرگودھا مردم خیز خطہ ہے۔ اس کی مٹی میں وفا و محبت کی خوشبو رچی بسی ہے۔ پنجاب کی روایتی وضع داری اور مروت کا جوبن سرگودھا کے ہر گوشے میں اپنے رنگ بکھیرتا ہے۔ سرگودھا کی علم دوستی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا جیسا ادب دوست اور ادب پرور انسان اسی شہر میں اپنی شمع علم فروزاں کیے ہوئے تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی صحبت میں بیٹھنے والوں میں میرے محسن ڈاکٹر طارق حبیب اور نجمہ منصور بھی شامل تھے۔ نجمہ منصور کی فکری آبیاری اور ذہنی بالیدگی میں وزیر آغا کی دانش کا بڑا کردار ہے۔ وزیر آغا کی بارگاہ سے فیض پانے والی نجمہ منصور عہد رواں میں نثری نظم کا معتبر حوالہ ہیں۔ ان کی نظموں پر طویل مضمون اس سے پہلے لکھ چکا ہوں۔ آج ان کی دوسری کتاب ’نظم کی بارگاہ میں‘ پر کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں۔ انہوں نے اس کتاب میں معروف نظم نگاروں کو خراج محبت پیش کیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی میدان میں سب سے مشکل کام اپنے ہم عصروں کو ماننا اور ان کی تعریف کرنا ہوتا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کا اپنا من موجی سلسلہ ہوتا ہے یہ اپنی مخصوص ترنگ میں رہتے ہیں اور اپنے عہد کے شعراء اور ادبیوں سے شکوہ کناں رہنا معمول کی کاروائی ہوتا ہے۔

نجمہ منصور نے جرات کی ہے اور اس مصنوعی دائرے کو توڑا ہے۔ انہوں نے اپنے ہم عصر جدید نظم نگاروں کی نظم کے انداز میں تعریف کی ہے۔ ان کی ان نظموں میں گہرا مشاہدہ اور نفسیاتی شعور دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جس شاعر کو نظم کے کوزے میں بند کیا ہے اور نظم میں اس شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کو سمونے کی کوشش کی ہے۔ ان پہلی نظم اپنے والد گرامی کے فراق کا مرثیہ محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے والد کی یادوں کو حرز جاں بنایا ہے۔ اپنے والد کی جدائی کے غم کو لفظوں میں بیان کیا ہے۔ درد اور غم کی کسک اک لفظ لفظ سے عیاں ہے۔

بابا جان!

سچ ہے کہ مر نے وا لوں کے سا تھ

کو ئی مرتا نہیں مگر

جب کو ئی بہتا پنا مر جاتا ہے تو

اس کی قبر دل کے اندر بن جاتی ہے

اس کے سوگ کا برگد

جسم و جان پر پھیل جاتا ہے

اس کی جدائی سینے پر دکھ درد کے ہنٹر برساتی ہے

اور اس کا پیار

ساون کی جھڑی بن کر آنکھوں سے برسنے لگتا ہے

ڈاکٹر وزیر آغا نجمہ منصور کے ادبی مرشد ہیں۔ جب بھی وزیر آغا کا نام آتا ہے تو ان کی نگاہیں تقدیس کے بوجھ سے جھک جاتی ہیں۔ وزیر آغا کا معمول تھا کہ جب کوئی نئی تخلیق کرتے تو اس سب سے پہلے نجمہ منصور اور اس کے دوستوں کو سناتے تھے۔ وزیر آغا جیسی شخصیت مثل پیڑ ہوتی ہے جس کی چھاؤں سے ہزاروں لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نجمہ منصور کی وزیر آغا کے لیے لکھی گئی نظم عقیدت و محبت پوری آب وتاب سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

وزیر آغا

آپ اس بارہ ماسی پیڑ جیسے تھے

جس کی برگ برگ شاخوں پر

پرندوں کی ڈاریں اترتیں تو

وہ ان کے سواگت کے لیے

اپنی نرمل کومل پتیاں بچھائے

یگوں تک کھڑا رہتا

ڈاکٹر معین نظامی عہد رواں کا طرح دار نظم گو شاعر ہے۔ خانقاہی پس منظر اور فارسی ادب کے استاد ہونے کی وجہ سے ان کی نظم نگاری دبی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی پہچان فارسی کے جید سکالر کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظم گوئی پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں لفظیات کا جو جال بنا ہے وہ موجودہ عہد کے نظم نگاروں کا میدان ہی نہیں۔ ان کی نظموں کا موضوعاتی تنوع، نفسیاتی پرتیں اور فنی مہارت اپنی مثال آپ ہے۔ نجمہ منصور نے ان کے خانقاہی پس منظر اور ان کی کتب کے نام بڑے ہی احسن انداز میں برتا ہے۔ میری دانست میں کتاب کی ترتیب میں معین نظامی صاحب کا پہلے ذکر آنا چاہیے تھی مگر نجمہ منصور نے اپنے تئیں بہتر ہی جانا ہو گا کہ کس کا ذکر کہاں کرنا ہے۔

معین نظامی!

تم خانقاہی نظام کا قدیم استعارہ ہو

تمہاری نظمیں طلسمات کی

تجسیم کا سچا آئینہ

جس میں

سفید بالوں والے درویش کی شبیہ صاف صاف دکھائی دیتی ہے

لگتا ہے

اس کی آنکھوں میں روشن لفظ

کسی مزار پر جلتے ننھے ننھے دئیے ہوں

جس کی لو سے پھوٹتی دودھیا روشنی سے

من کی درگاہ شرابور ہو جاتی ہے۔

منیر نیازی نے اپنی بیوی سے وصیت کی تھی کہ تم کسی مرد سے پردہ نہ کرنا مگر جب کشور ناہید آئے تو پردہ لازمی کرنا۔ ادبی حلقوں میں احمد بشیر کا خاکہ ’چھپن چھری‘ اور اس کو سن کر کشور ناہید کی دلدوز چیخ آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مردانہ وار زندگی گزرانے کا ہنر کشور ناہید کو آتا ہے۔ کشور ناہید گذشتہ کئی دہائیوں سے ادبی افق پر اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ ان کی ہڈ بیتی ’بری عورت کی کتھا‘ بہت معروف ہے۔ ان کی شاعری اور دیگر ادبی تخلیقات بھی ہمارے سماجی رویوں پر گہری طنز لیے ہوئے ہیں۔ نجمہ منصور نے ان کو اپنی نظم میں بڑے ہی عجب رنگ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

کشور ناہید!

سنو:

ایسا کرو

دکھوں کا سنیپ شاٹ لے کر

پھر سے

بری عورت کی نئی کتھا لکھو۔ ۔ یا

اس سے پہلے کہ لفظوں کی بینائی ختم ہو جائے

تمہیں لکھنی ہے

ایک نئی طویل نظم

عورت کی اشک شوئی کے لیے

اپنے لیے اور میرے لیے بھی!

گلزار جدید اردو نظم کا معتبر حوالہ ہے۔ اس کی جنم بھومی دینہ جہلم ہے۔ گلزار نے ساری زندگی اپنی مٹی سے محبت کی۔ اس نے اپنی راکھ بھی دریائے راوی میں بہانے کا عہد باندھا تھا۔ وہ جب بھی پاکستان آتے تو ان کے جوتے خود بخود پاوں سے الگ ہوتے جاتے اور وہ ننگے پاوں اپنے اجداد کی مٹی پر چلنے کو شرف گردانتے تھے۔ ہجرت کا کرب اور اس کے دکھ کو نجمہ منصور نے گلزار کی بپتا کے روپ میں بیان کیا ہے۔ اس نظم کو پڑھ انسان بے اختیار اداس ہو جاتا ہے کہ تقسیم نے برصغیر انسانوں کو کتنا مجبور و لاچار کر دیا تھا۔ جس کا اظہار وہ ہر وقت کرتے رہتے تھے۔

پیارے گلزار جی!

یاد کرو جب تم نے

ننگے پاؤں اپنی جنم بھومی پر قدم رکھا تھا

تو کئی سالوں پر محیط بوڑھا بچپن اور ٹوٹے کھلونے

جو کانٹوں بھری باڑ میں الجھے

لہولہان پڑے تھے

تم سے لپٹ گئے تھے

تم نے انھیں بڑے دلار سے گلے لگا کر

گودی میں اٹھا لیا تھا

اس لمحے

نیلا آسمان، سرمئی بادل

سونا رستہ، ریل کی سیٹی

شاہ بلوط کے پیڑ کے بالکل ساتھ

آدھ کھلی کھڑکی، گھر کے ایک تاریک گوشے میں

کسی بھیگی سانسیں

سب یک زبان بول اٹھے تھے

بیٹا تم نے واپس آنے میں اتنی دیر کر دی!

نجمہ منصور نے اپنے عہد کے نظم گو نصیر احمد ناصر کو احساسات کی زبان میں پیغام دیا ہے۔ اس نظم میں انہوں نے فطرتی حسن، کاسنی پھول اور گلدان جیسے الفاظ کو بڑی مہارت سے برتا ہے۔

نصیر احمد ناصر

میں تمہارے لیے

لکھنا چاہتی ہوں

ایک زندہ نظم

لیکن وہ نظم کاغذ پر نہیں اترتی

وہ نظم

میرے ذہن کے گلدان میں

کسی سجی سنوری لڑکی کی طرح

کاسنی پھولوں، میں لپٹی

کھل کھل جاتی ہے

اور کبھی

سلیٹی نیند اوڑھے

بے خوابی کی آکاس بیل پر

آنکھیں جھپکاتی مجھ پر ہنستی ہے

ڈاکٹر طارق حبیب سے میرا تعارف ’شبیہ‘ کے نظام الدین نمبر کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس رسالے کے حصول کے لیے میرے شعبہ کے استاد جاوید صاحب نے ان سے بات کروائی تھی۔ نجمہ منصور نے ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کیا۔ انسان جیسے جیسے اپنی عمر عزیز گزارتا چلا جاتا ہے اس کے ساتھ پرانی یادیں شدت سے آنکھ مچولی کرتی ہیں۔ اس نظم میں کچھ ایسی ہی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔

طارق حبیب!

دھندلی سی یاد ہے

وزیر آغا کی شام دوستاں میں

تم دکھ کا فرغل اوڑھے

آغا جی کی کسی نئی نظم کے پرت کھول رہے تھے

دو دہائیوں پر محیط رشتہ

جس پر احترام کی راکھی بندھی ہے

اب بوڑھا ہونے کو ہے

داغستان کے مشہور ادیب رسول حمزہ توف جس کی تحریریں پڑھ کر انسان داغستان کے حسین نظاروں میں کھو جاتا ہے۔ اس کو بھی نظمیہ انداز میں یاد کر کے نجمہ منصور نے اپنے شعری کینوس کو وسعت عطا کی ہے۔ اس نظم سے یہ بھی خبر ملتی یے کہ دیگر زبانوں کے جدید نظم نگاروں کے فن سے بھی نجمہ منصور کو خاصی شناسائی یے۔

رسول حمزہ توف!

تم شاعر ہو اور داغستان تمہارا وطن

جیسے ہی تم

لفظوں کی پٹاری کھولتے ہو

تو لفظ

پہاڑیوں پر اگنے والے نوکدار کانٹوں کی طرح

تمہاری پوروں میں چبھ جاتے ہیں

پھر تمہاری بیاض میں

یوں اگ آتے ہیں جیسے

خود رو پھولوں سی نظمیں

افضال احمد سید جدید نظم کا معتبر حوالہ ہیں۔ ان کا ذکر بھی نجمہ منصور نے کیا ہے بلکہ ان کی نفسیاتی الجھنیں بھی بیان کی ہیں

افضال احمد سید!

تم بنا ڈرے سہمے

اس شہر کے ہر چوراہے پر

آنکھوں پر پٹی باندھے

ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہو

لفظوں کے پیچھے، کتابوں کے پیچھے

وقت نے تمہیں بنایا یا تم نے وقت کو

یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں دیگر زبانوں کے مختلف شعراء کو بھی یاد رکھا یے جن میں اوکتاویو پاز۔ پابلو نیرودا۔ ناظم حکمت۔ فروغ فرخ زاد وغیرہ شامل ہیں۔

نجمہ منصور کی یہ کتاب ’نظم کی بارگاہ میں‘ منفرد اور نمایاں تخلیق یے۔ جس کی اک اک نظم اپنے عہد اور سماج کی عکاس ہے۔ انہوں نے مختصر نظموں کے ذریعے معروف نظم نگاروں کا عمدہ اور دلچسپ تعارف پیش کیا۔

٭٭٭

’’آگے ہو میخانے کے نکلو‘، فارحہ ارشد کی افسانوں کی کتاب ’مونتاژ‘ کے تناظر میں ۔۔۔ تنویر قاضی

میخانے کا ایک ماحول بن گیا ہے اس سے نسبت کریئے عہد بنایئے بادہ گُسار آتے جائیں گے ’مونتاژ‘ یہی سکھلا رہا ہے بہکا رہا ہے ’سُوئے میخانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں‘ کی کیفیت ہونے کو ہے۔

فارحہ بھیتر کہیں دبی بیٹھی کہانی کو طشت از بام لے آئی جو انقلاب آفرین ہے وہ بے بس کسمپرسی کے مارے کرداروں جن کی پھٹی پوشاک پر نمبر لکھے ہیں انہیں نام دینے کی سعی میں ہے ..

سرِ ورق ڈسٹربنگ ہے چُبھتا ہوا تیز کہیں باہر سے لایا ہوا اپنا اپنا نہ لگا کہ یہ آنکھیں اور ہونٹ ہمارے نہیں ہماری آنکھیں کیچ بھری گدلی اشک اشک ہیں ہونٹ پپڑی جمے بھدے جن پر کبھی اخروٹ دنداسہ نہ ملا گیا ہو۔ پاورٹی لائن جن کے اوپر سے ہو گزرتی ہے ان کی روٹی اور پانی تو مافیاز چوری کر گئے سو اگر یہ ٹائیٹل کسی این سی اے کے سٹوڈنٹ سے بنوا لیا جاتا تو کچھ نئی جہت اور نیا زاویہ دیتا۔ سر ورق بھیتر مواد کو گھیر نہ پایا کوئی اور زبان بولتا ہوا۔ ٹائیٹل خوابیدگی و بیگانگی کو سامنے لاتا جو اس افسانوں کی کتاب کا لُبِ لباب اور ایسینس ہے۔

انتساب مصنفہ نے بہت اچھا لکھا اپنے بابا اور ماں کو خراج دیا اس سے بہتر کیا ہو سکتا تھا یہاں شعر اس کی تاثیر کم کرتا دکھائی پڑتا ہے اسے اگلے صفحے پر لے جاتے تو بہتر ہوتا۔

فلیپ یا پیش لفظ اس کتاب کو ڈیمیج کر رہا ہے نقاد اپنی لینگوئج میں کچھ کہتا جاتا ہے جو پلے نہیں پڑ رہا اندر کہانی کی گھمبیرتا سِوا ہے یہ اُتھلا بیان ہے جو یہاں کہہ دیا گیا۔

اب آیئے فارحہ ارشد کی طرف۔ ان کے ہاں کچھ افسانے ایسے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو اِسی طرح الگ تھلگ کرتی ہیں۔ الگ تھلگ، قدرے اوپر اور زہر خند۔ جیسے وہ سارا تماشا دیکھ رہی ہوں جو وہ نہیں دیکھنا چاہتیں اور وہ دکھی ہو کر کسی اور طرف دیکھنے پر مجبور ہوں۔

بعض اوقات پڑھے بغیر بھی پیش لفظ لکھ دیئے جاتے ہیں۔ کبھی آپ ’اُفتادگانِ خاک‘ the wretched of The Earth کا سارترے کا لکھا پیش لفظ پڑھ لیں تو میری بات کو سمجھ پائیں گے جو کہنا چاہتا ہوں۔ جتنی درد مندی سے فرانز فینن نے لکھا اسی مناسبت اور گیرائی سے نقاد نے تعارف میں بات کی۔ کچھ لوگوں نے تو یہ مضمون لکھ کر رکھے ہوتے ہیں لاہور میں تو یہ رواج برسوں رہا۔ اس طرح کی لکھت سے قاری ذہن ہی کچھ اور بنا لیتا ہے کتاب بارے۔ سو میرے خیال میں کتاب پہلے پڑھی جائے۔

’مونتاژ‘ مائیکرو اور میکرو کے درمیان Equilibrium کا نام ہے۔ مصنفہ جانتی ہے کہ کیمرہ کہاں نزدیک رکھنا ہے اور کہاں دور۔ اُسے پاتال کی کائی اور عرش کنگرہ دیکھنے کی سکت ہے کہ وہ سلیبسی فیشنی صحافتی کہانی نہیں لکھتی۔ اور اصل تاریخ دان بھی فکشنسٹ ہوتا ہے وہ اس سیارے کو لیبارٹری کے سکیلیٹن (انسانی پنجر) کی طرح پرکھتے استعارے کا جوہر استعمال کرتی ہے۔ میلان کُندیرا نے شاید Immortality میں کہا تھا کسی فرد کا جوہر استعارے کی روشنی میں آشکار ہوتا ہے۔

سریلزم پینٹنگ کی مسافت سے فکشن میں بھی در آیا فارحہ کی کہانیوں کے بھیتر کی توڑ پھوڑ میں جس کی جھلک عمیق دِکھتی ہے۔ اجسام، تخیل اور کیفیت کو شکل دینا اور پھر بے شکلا کرنا یعنی تشکیل اور ردِ تشکیل کی کار فرمائی غیر محسوس طریق سے یہاں دیکھتے ہیں اور جدیدیت و مابعد جدیدیت کا پرتو تو ہر کہانی ساتھ لیے ہوءے ہے .مغرب سے امپورٹڈ آگاہی اور مقامی رَس بتاتا ہے کہ اس کا مطالعہ وسیع تر ہے .اِن شارٹ وہ ایک ماڈرن شارٹ سٹوری رائیٹر ہے۔

فارحہ کو اگر مختص نہ کیا جائے کہ وہ فلاں صدی کی کہانی کار ہے تو بہتر ہے کہ یہ صدی تو ابھی رواں ہے اور اس کے دو عشرے ہی گزرے ہیں۔ یا یہ کہا جائے کہ فلاں صف کی فنکارہ ہے تو بجا نہ ہو گا کہ اس طرح اس کا کینوس محدود ہونے کا اندیشہ ہے کہ وہاں لینڈ سکیپ وسیع تر ہونے کی گنجائش ہے وقت کے دھارے نے ایسیس کرنا ہے کہ اس نے ابھی صفیں ترتیب دینی ہیں۔

قدرے سینئر لکھاریوں کے ہاتھ کتاب تھما کر تصویر بنوانا مونتاژ کی قدر میں اضافہ نہیں کرتا۔ ایڈوائیزرز کے کم اعتماد ہونے کی غمازی ہے۔ یہ جیسچر اس یونیک فکشن کو ٹیک دیتا وقتی جذباتیت لگی جو کسی طور مصنفہ کے حق میں نہ جائے گی۔ ایسا کرنا کتاب بھیتر افسانے کی ساکھ کو مشکوک اور گدلا کرنا ہے۔

آئیں جراتِ رندانہ مختلف کہانیوں سے منفرد فکشن میں ڈھلی دیکھتے ہیں۔

’مٹی کے بُت کے کان میں کُن کہا جا رہا تھا اور وہ فیکُون کی صُورت اُٹھ کر بیٹھ گیا‘ (بی فار دی ایور آفٹر)

’اور اس عمر کے لڑکے اپنے غسل خانوں میں صابن کی چکیاں گھسا کر بڑھتے ہوئے ہارمونز کو پانیوں میں بہا رہے تھے‘ (زمیں زادہ)

’اُس نے اداسی سے سوچا پھر تو اس کا خدا بھی یقیناً آسمانوں میں اُس کی طرح کہیں کانپ رہا ہو گا۔ آہ بیچارہ خدا‘ (ڈھائی گز کمبل کا خدا)

’ایسی غضب کے روپ کی دھُوپ کہ چیل انڈا چھوڑے‘ (حویلی مہرداد کی ملکہ)

’تخیل تمہاری پوروں سے یوں نکلتا ہے جیسے جادوگر کے رو مال سے کبوتر‘ (بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ)

’خالی کوکھ تو اندام نہانی کو بھی گالی بنا دیتی ہے‘ (شریکا)

’نکاح سے لے کر چھ گھنٹے کی مسافت تک میں نے محبت کو اپنے تن من پر کسی وحی کی طرح اُترتے دیکھا‘ (دس گھنٹے کی محبت)

’پُر تشدد مگر جادوئی لمحات اُسے ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں پھینک رہے تھے۔ جسم چُور تھا لیکن مزید تھکن مانگتا تھا‘ (شب جائے کہ من بودم)

’جب بلاسٹ میں مجھے مارا گیا تو میں وہاں موجود نہ تھی پاس سے گزرتی ایک قبر دوسری سے کہہ رہی تھی‘ (آرکی ٹائپل کُڈھب کردار)

’فیصلے والوں کو جو بحث، ادب، زبان، کلچر، عقیدہ ناپسند ہوا اسے پسند کرنا تخریب کاری و غداری کے حاشیے میں آ سکتا ہے‘ (امیر صادقین۔ تم کہاں ہو)

’کرتوت کالے اس لیے ہوتے ہیں کہ یہ بھی کالے شہتوتوں کی طرح لذیذ ہوتے ہیں‘‘ (گرہن گاتھا)

’مہنگے لباس کی ریشمی سرسراہٹ میں انگلیاں تتلیاں بن گئیں اور قرار کی خواہشِ بے تابانہ کا رس نچوڑنے لگیں‘ (ان سکرپٹڈ)

’اس نے پھولوں کے جھنڈ کے بیچ ایسی دنیا بنائی جہاں تتلیوں کو سزا کے طور پر انسان بنا دیا گیا تھا‘

’یاد داشت سے جھانکتا جہان، ایک ایسی تصویر جس میں عورت خدا کو جنم دے رہی تھی‘ (ایک تصویر خدا کے بغیر)

’بی فار دی ایور آفٹر‘ جہاں چیزیں اپنی جگہ پر نہیں رہیں۔

جدلیاتی سطح پر ایک replacement کارفرما ہے جو بہت گہرے دبے نوحے میں رُلاتی ہے مقسوم ہوتے ہوئے بھی انسان کُرلاتا ہے آنسُوؤں میں بہتا چلا جاتا ہے۔

’’جو بھی اس گلی سے گزرتا اس سہ منزلہ عالیشان عمارت کی طرف متوجہ ہوئے بنا نہ رہتا۔ ایک چیز جو اس حویلی کو دوسرے گھروں سے ممتاز کرتی تھی وہ اس کا خوبصورت اور منفرد فن تھا‘‘

’’عمارت کی شان و شوکت سے نگاہ پھسل کر جب ان دکانوں پر رکتی تو یوں لگتا جیسے ایک خوبصورت قیمتی پوشاک پہن کر نک سک سے تیار ہوئی کسی ماہ پارہ نے پھٹے پرانے گندے سے جوتے پہن رکھے ہوں اونچی چھت والے برآمدوں کے محرابی دروازوں پر بنے لکڑی کے شہتیروں میں جب کبوتروں کی غُٹر غُوں سنائی دیتی تو ویرانی کا احساس سِوا ہونے لگتا‘‘

مسلسل مشقت کے بعد کا عزم بھی دیدنی ہے زہرا لال حسین سے کہتی ہے ’’جب تم مجھے سکھا دو گے نا تو ہم ٹائلز نما پچی کاری، شیشہ گری اور مینا کاری کے چھوٹے چھوٹے اقلیدی نمونوں کے ٹکڑے مختلف بڑی کمپنیوں کو فروخت کریں گے‘‘

ایک دن لال حسین اور زہرا بھی اس حویلی کے در و دیوار میں معدوم ہو جائیں گے جیسے ان سے پہلے پُرکھوں کی مٹی مٹی میں مل گئی اور دلوں میں تریڑیں ڈالتی مکینوں کی جو روح بھی ہے ازلی پہلی باقاعدہ مخلوق سے ملنے کو بے تاب۔

’اسیں کھڈیاں تے اُنے ہوئے لوک وے

تے لوکی ساڈا مُل لاوندے‘

اُس کی تحریر میں کہیں تکان، سانس اُکھڑنے اور ہانپنے کی رمق نظر نہیں آئی۔ یہاں عدسے کا بھی مسئلہ ہے جیسے گدھ کا دیکھنا اُسے چیزیں کئی گنا زیادہ بڑی کر کے دکھاتا ہے یعنی دھرتی کے قحط کی تصویریں کھینچتا رہتا ہے اور فوراً وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں بھوک کی آفت نے آن لیا ہو۔ فوٹو گرافر اپنے سسٹم کے ساتھ اور فارحہ اپنی کہانی کِٹ کے ساتھ وہاں آپریشن کرتی ہے۔ چاک گریباں والوں کے چاک اور نمایاں کرتی ہے۔ بیچ چوراہے اُدھیڑ بُن کرتی ہے۔ کرداروں کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے میں اس کی کہانیوں کے بھیتر کیریکٹرز کے توسط سے جاتا ہوں۔ ان کرداروں کا بھی فکشن میں عجیب کھیل ہے۔ مجھے بہت سے ایسے کردار ازبر ہیں جن کے ناولوں اور افسانوں کے نام تک بھول چکا ہوں۔ ’فکشن میں کرداروں کا کھیل‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھ چکا ہوں۔ آئیں کچھ کردار دیکھتے ہیں۔

’’وہ پوسٹ مارٹم کی انتظار گاہ سے بارہ دری میں دھرے ادھورے مجسمے کی طرف بھاگ رہی ہے بستی والوں نے بتایا اس کے محبوب مجسمہ ساز کو اس لئے غائب کر دیا گیا کہ وہ مجسمہ سازی کے اوزار نہیں قتل کے ہتھیاروں سے لیس باغی ہے۔‘‘

فارحہ ارشد کے افسانے ’دنانیر بلوچ‘ کا مجسمہ ایک کردار بن کر اپنی شبیہہ میں مِسنگ پرسنز کی کہانی کہتا ہے۔ مجسمہ چُپ ہے بے جان ہے لیکن ذرا غور سے تکیں اس کے ہونٹوں کے اخروٹ وا ہو رہے ہیں جیسے اس میں جان پڑ گئی ہو۔ جو جبر کی مرگ کتھا بھی سنائے گا۔ اس کہانی میں اصل کردار ادھورے مجسمے کا ہے جو بظاہر چُپ سادھے ہے مگر اس کا خالی پن بھید بھرا اور سُچل تاریخی حروف سے پُر ہے۔ یہ تسلسل ہے قفسی ماجرا سُناتا۔ ایک دن مجسمہ ساز مجسمے سے نئے سرے سے نمودار ہو گا۔ اپنی مخروطی اُنگلیاں مِٹی پر ثبت کِئے اپنے گُم شدہ سامان اور چھینے ہوئے لینڈ سکیپ کی تلاش میں۔

فارحہ ارشد کی ایک اور کہانی ’آدھی خود کشی‘ جس کا کیریکٹر سرد ہال ہے جس میں لاشیں پڑی ہیں اور محوِ گفتگو ہیں۔

’’یہ ایک سرد ہال ہے جہاں ہم سب مختلف نمبروں کی میزوں پر سفید کپڑے کے نیچے پڑے ہیں۔ ہماری شناخت ہمارے پاؤں کے انگوٹھوں میں پڑے دھاگے کے ساتھ لگی چِٹ پر ہماری میز کے نمبر تک رہ گئی ہے۔‘‘ میں خود کو بھی اسی ہال کا ایک بے روح مانس سمجھنے لگا ہوں۔ مجھے تو یہ سرد ہال انہی بیس لاکھ لوگوں کا مقتل لگتا ہے جو تقسیم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اسی کا تسلسل نئے سرد ہال بناتا چلا گیا۔ جن کے لئے نیا ملک بنا وہی مارے گئے اور ان کے افسوس کے لئے کوئی دری نہ بچھی، کوئی کمشن یا کمیٹی کیا بنتی۔ اس ہال کا ماحول ہمارے اطراف سے resemble کرتا ہے۔ پارٹیشن کی دی ہوئی منٹو کی کہانی ’کھول دو‘ کا سین دیکھ لیں اور آج کی بھوک، بربریت اور سرد مہری ایک جیسے یا پھر سِوا ہیں۔ جتنی بے تقصیر لاشیں یہاں گرائی جاتی ہیں منٹو کی ’موزیل‘ کے پُرزوں کے پسارے سے بھی ان کی برہنگی نہیں ڈھانپی جا سکتی۔ یہ سرد ہال کیوں کہ اپنی طرزِ تعمیر میں مستقل بے چہرگی، ڈر اور آسیب زدگی کی بھی علامت ہے اس لئے سٹیٹس کو والے اس کی حفاظت پر پکی نوکریوں کے سیکیورٹی گارڈز ایستادہ رکھتے ہیں۔ میں خود اس سرد ہال سے نہی نکل سکا۔ ہم اس کی خاموشی کی چیخیں سن کر اس کی جانب بھاگتے اس کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ پوسٹ مارٹم کروانے والی سفید چادریں اوڑھے میتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

یہ لوگ کیا اُسے سندِ قبولیت دیں گے ابھی جو خود سہارے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں یہ مصنفہ کی سادگی اور انکساری ہے کہ ان چاپلوسوں کو اتنا ویٹیج دے گئی وہ خود کہیں بہتر افسانہ نگار ہے میں نے اسے نقاد کے طور بھی گہری باتیں کرتے دیکھا۔

میری ٹیلی پیتھی میں عجیب منظر آیا کہ ایک بہت سطحی ذہن کے صاحب جھمکوں کی تعریف میں لگ گئے دوسرا پہلے والے کو سراہنے میں آگے جانے لگا بہت ridiculous بولیاں بولی جانے لگیں نتیجے میں لائیکس بھی آنے لگے۔ جھمکوں کی بات آگے بڑھاتے کوئی ایک اور کہنے لگا کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے۔ کس نے پہنائے ہیں یہ جھمکے۔ اور اس غیر سنجیدگی میں اور غریب ذہنیت کے مارے نالائق بھی ’لائک‘ کے ذریعے شامل ہوتے گئے یہ خرافات ایک بہت اعلی۔ سنجیدہ۔ اور خوبصورت افسانوں کی کتاب پر کچھ بیمار سوچ کے حامل مانسوں کی طرف سے تھیں۔ صحت مند باتیں کرنے کی بجائے جھمکوں سے بے جا حظ اٹھانا انتہائی گھٹیا اور لاغر رجحان کو ہوا دینا ہے۔ ابھی تک سوچ رہا ہوں یہ کیسی روش تھی کہ ہم لکھنے والے بھی عورت کو کماڈٹی ہی سمجھتے ہیں۔ یہی بات مذاق میں کسی بازار میں کی جاتی تو ان کو جوتے پڑتے۔ افسانوں اور ان کے بھیتر بات کرتے یہ جُگت بازی تو لچر سٹیج ڈراموں میں پھبتی ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ لکھاری سے متعلق بیچ کہیں گِلٹ، گرَج۔ تضحیک اور بے توقیری چھپائے بیٹھے تھے۔ It was so hopeless‘‘

’گرھن گاتھا‘ افسانہ بہت گیرائی سے لکھا گیا۔ مشکل موضوع تھا یہاں تجاوز اسے ڈیمیج کر سکتا تھا ’کُتا زبان نکالے کھڑا ہانپ رہا تھا‘ ’میری نظر اُن کے اُلٹے پائینچوں پر پڑی‘ کفائت لفظی سے کمال چابک دستی کو کام میں لایا گیا اور ایک یاد رہنے والی کہانی ہمارے سامنے لائی گئی۔ سیکس بھی دوسری ضروریات اور خواہشات کی طرح ہے۔ پیاس پر پانی کے مٹکے کی جانب جانا ہوتا ہے۔ اسے LUST نہ سمجھا جائے۔

مونتاژ میں Hybrid جگہ جگہ کوڑا پھینکتا پیش منظر کو دھُندلاتا ہے اور پھر اوپر سے کچرے کو آگ لگا دی جائے تو چلتے لوگوں کا سانس تو اُکھڑے گا۔ یہ اس دورِ ابتلا کی خاص دین کتاب کے اندرون براجمان ہے۔ مخلوط النسلی پہچان مٹاتی انفراد اور اجتماع دونوں سطحوں پر اپنا سیمینٹ کرتی ہاتھ میں کانڈی لِئے پھرتی ہے۔ دوغلا پن اس سوسائیٹی کا طرہ امتیاز ہے۔ دو چہروں کا معاشرہ اپنی بساند کے ساتھ ان کہانیوں میں پوٹی پوٹی ہگتا، تنفس اُکھیڑتا ہے، اپنائیت کے در بھِیڑتا ہے۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھُلا ۔غالب

اصل باتیں وہ ہوتی ہیں جو ہم کہہ نہیں پاتے۔ فسانہ نگار بھی بین السطور کچھ کہتا ہے، اسے باہر کیسے لایا جائے؟ ایسینس تو وہ ہے پُر مغز کونٹینٹ کو چھوڑ نقاد اِدھر اُدھر کی باتوں میں مگن رہے اپنی صلاحیت کے مطابق یا پھر فارحہ کے افسانوں کے نیچے گری جگالی جھاگ اُٹھانے کی کوشش میں ایک فیشنی سی رائے دیتے رہے۔ ہاں میری ٹیلی پیتھی میں محمود احمد قاضی اصغر ندیم سید اور زاہد حسن قدرے مختلف پیرائے میں مونتاژ کو جانچتے لگے۔ باقی لوگ تو جیسے ان افسانوں کو انشائیہ سمجھ کے پڑھتے رہے۔ کچھ ادبی بھیڈو بلا جواز ہوائی تعریف میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے نظر آئے۔ لِٹریچر میں زور نہیں ذہن لگتا ہے لکھاری کا اور نقاد کا بھی۔ تجاوز کہیں بھی ہو سوہنا نہیں لگتا۔ مونتاژ ایبنارمل توصیفی تجاوز اور عامیانہ جُگتوں کے درمیان اعلی فکشن مکدر ہو رہا ہے المیہ ہے۔ کسی کو افسانے پر بات ہی کرنا نہ آئی فوکس کیا ہوتا افسانہ اور اس کے مضمرات جو اس کتاب بھیتر بھید بنائے عیاں ہو رہے ہیں۔

افسانہ فارحہ کا passion ہے وہ اس کے بہت بھیتر جا چکی ہے اس کے لئے افسانہ لکھنا اتنا ضروری ہے جتنا پیاس بجھانا۔ اسے ہر وقت اپنی ادبی چھاگل میں H2O چاہیئے جو زندگی ہے، آدرش ہے۔ مطمع نظر ہے، نصب العین ہے، عشق ہے، کومٹمنٹ ہے، جو آکسیجن کی طرح اس کی کہانیوں میں پھیلے نظر آتے ہیں۔ قدرت اُس کو اِس AROMA کی اسیر رکھے۔ آدرشی تھوڑے گھمنڈی بھی ہوتے ہیں جینون لکھاری کا ایرو گینٹ ہونا ضروری ہے۔ وہ مُلتجی نہیں ہوتا، فرشی سلام نہیں کرتا، کسی کے زیرِ سایہ نہیں ہوتا، بچھ بچھ نہیں جاتا، ایٹ پار رہتا ہے، ’بے حد شکریہ‘ ’مؤدبانہ گزارش‘ ’سر جی سر جی‘ نہیں کہتا۔ اِس کے حضور اُس کے حضور، احترامات۔ تسلیمات۔ آداب عرض۔ سلام عرض، جُگ جُگ جیو، محبتیں، دعائیں سلامتی ہو وغیرہ وقت کا ضیاع اور غیر ضروری ہیں۔

مونتاژ چیخیں ہیں، آہ و بکا ہے، مرثیہ ہے، نوحہ ہے، وڈیرا شاہی، محلوں کی روح فرسا داستان، آستانوں سجادوں کی مسیحائی کے پچھواڑے بیگانگی کے بڑھاوے کی نشان دہی ہے۔ یہاں کہیں تخلیقیت کا دامن نہیں چھوٹتا۔ بہت سلیقگی سے اُفتادگانِ خاک کی بے بسی کی جنگ لڑی گئی کہ سوئے درد بھی جاگ اُٹھے۔ خوابیدہ درد کی ٹیسوں کو سننے کے لئے قوتِ سماعت باریک اور کشادہ آنکھیں درکار تھیں جو آج کے خود ساختہ نقادوں کے پاس نہیں ہیں کہ وہ ان کہانیوں کا تجزیہ کما حقہ کر سکیں۔ ان کہانیوں کے پیچھے بھی ملکیت کی گھناؤنی شکل کار فرما ہے جہاں انسانوں اور خصوصی طور پر سوانیوں کے بھاؤ گاجروں مولیوں کی طرح لگتے ہیں۔ منڈی کی کماڈٹی بن گئے لوگ مجھے یوں لگا بھیتر افسانے کہہ رہے ہوں۔ زمینی ملکیت کا اعلان ہی اس سیارے کی بے گھری، بھوک اور بے لباسی کے الھے زخموں پر پھاہے رکھ سکتا ہے۔ جہاں سب کے لئے ایک سے مواقع اور دولت کی ریشنل تقسیم ہو انسان انسانیت کے پنگھٹ پانی پئے اور ڈھور ڈنگر اپنے رھٹ کا آبِ شفاف۔ میں تو لکھاری ہی لیفٹ میں رہنے والے کو مانتا ہوں دوسرے سب آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ دامِ خالی دیکھا اس میں جا گھسے حیات وہاں گزار دی۔ فارحہ کی کہانیوں میں Monologue زیادہ ہے جو اس خلفشاری، تشنج زدہ چفیرے کی دین ہے۔

مژدہ اے ذوقِ اسیری کہ نظر آتا ہے

دامِ خالی قفسِ مُرغِ گرفتار کے پاس ۔۔۔ غالب

لیفٹ تو یہاں ہے نہیں، سلطان راہی اکیلا دبی آوازوں کی آواز بنا رہا جب وہ کہتا ’اوئے جاگیردارا‘ تو سینما ہال بب بب بب بب بب بب سے گونج اُٹھتا میں نے اُس کے جیسچرز۔ کھلونی، لُک اور لہجے سے فیوڈلز کو ڈرتے دیکھا ہے۔ یا پھر کسی حد تل الطاف حسین نے وڈیروں۔ رسہ گیروں۔ فرسودگی لبریز زمین دارانہ نظام پر ضربیں لگائیں۔ میں اسی لئے اس کی واپسی چاہتا ہوں۔ فکشن میں نظریاتی سطح پر ہم فکشنسٹس کو اُنگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ انور سجاد، سمیع آہوجہ، محمود احمد قاضی، اسلم سراج الدین، راشد جاوید احمد اور اب ان میں نپے تُلے تُرش اور کسیلے لہجے کے ساتھ فارحہ ارشد بھی شامل ہو گئی ہیں۔

’’اماں ھُومو نکھے کاری کرے ماریندا‘‘ کتنا بڑا المیہ ہے اتنے جدید دور میں عورت کا کاری ہونا۔ یہ حکومتوں۔ این جی اوز مذہبی ٹھیکیداروں کے منہ پر طمانچہ ہے، روایتوں کی بھینٹ چڑھتی سوانیاں اپنے پیروں کے نیچے جنت لِئے دہکتے کوئلوں پر چلاتے مار دی جاتی ہیں۔ یہ پنچایتی کھڑپینچ (مرد) جنت میں اعلی درجے کی دعائیں کرواتے ہیں۔ ایک جاہل مولوی سے جو انہیں سونے چاندی سے مزین دروازے سے گزرنے کی نوید دیتا ہے۔ بیمار معاشرے کا ڈاکٹر سانول بے تقصیر سُکھاں کے خیالوں میں در اندازی کرتا اسے کاری کروا دیتا ہے۔ یہ جھاڑیوں کا جگنو راہیں اور بھی تاریک کر جاتا ہے۔ یہ ایک بساند بھری رعونت کی بے چین کرتی کہانی ہے۔

ایک کہانی ہے ’امیر صادقین۔ تم کہاں ہو‘۔ میں تو اسے اس کتاب کی کہانیوں کی کہانی کہوں گا یہاں بیانیہ علامت اور تجرید کا ملگجا نہایت خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے۔ یہ ایک جدید تر لہجے کی کہانی ہے۔ لڑکی خود ہی امیر صادقین بنتی کئی جہتوں میں پھیلتی موجودہ صورت حال کو جوڑتے ہائی برڈ وار۔ فلاسفی، وحدت الوجود۔ شیزوفرینک شکل اور تاریخ کی مختلف سطحیں چھوتی، کہیں بائیوگرافک ٹچز بھی رکھتی ہے۔ حالانکہ یہ کہانی جس کا مرکز رومینس ہے، وہاں سے پھُوٹتی اپنے پاؤں پسارتی ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے۔ اس پیراگراف کے تناظر میں اسے دیکھتے ہیں

’’ایک اجتماعی قبر میرے دل میں بنی اور اس پر بیٹھ کر زار زار رونے لگی۔ زمین کی رگوں نے میرے قدموں کے نیچے سانسیں لینا شروع کر دیں اور پھر ان رگوں سے خون اُبلنا شروع ہوا اور میرا وجود اُس خون کی اونچی ہوتی لہر میں آنکھوں تک ڈوب گیا۔ سکوتِ مرگ ہر طرف چھانے لگا‘

’’تو شاہ بانو وہ آپ ہیں جو تاریخ کے اوراقِ پارینہ میں لکھی اپنی ہی کہانی سے خود باہر رہ گئیں‘‘۔

ہر کوئی تنہائی کے جمگھٹے اور ہجوم کی تنہائی میں کھو گیا۔ کہانی کی ہیروئن، امیر صادقین، اماں اور بنجر کولیکٹِو وزڈم اجتماعی قبروں کے مکین ٹھہڑے۔ کہانی کیا تھی در و دیوار جھُلاتا بھونچال تھا۔ ایک ملٹی لیئرڈ نپی تُلی یونیک کہانی۔ تا دیر نیند تو خراب کر دیتی ہے۔ یہاں قبریں، انسان، گدھ، بستی، قبرستان اور آدرش ایک سیدھ میں ہیں کسی تخصیص کے بغیر اپنی پہچان سے عاری ایک دوسرے میں اِک مِک ہوئے اپنی تجسیم ہونے سے ڈرتے ہوئے عجیب اضطراب میں ڈوبے ہوئے۔ منہ موڑے ہوا سے باتیں کرتے یا پھر خود کلامی سے ناطہ جوڑے۔ ’آر کی ٹائپل کُڈھب کردار‘ یہ زندہ بستی کا نقشہ ہے۔ آئیے دیکھیئے۔

’’بھوک لگی ہے‘‘ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اُس نے بائیں ہاتھ چلتے گدھ کی کھوپڑی والے کو بتایا۔ میری بھوک چھوٹے گوشت کی بُو سے اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ پاتال سے آسمان تک وہ اس جھرجھری کو اپنے پنجوں میں لے کر اُڑ سکتی ہے جو شہ رگ کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے‘‘

’’گدھ کی کھوپڑی والا سوچ رہا تھا۔ شہر اور شہرِ خموشاں ایک دوسرے سے مسابقت میں ہیں جہاں دوسرے والا نمایاں نظر آتا ہے۔‘‘

مسافت سے بھی اس نے بہت کچھ لیا اور بہت گنا زیادہ کر کے ہمیں لوٹایا اس کی آنکھوں کے کھیت زرخیز ہوئے اس سفر سے تو اسے اپنی دھرتی پر ظُلم و زیادتی کا درد سِوا ہوا . وہ ایک لحاظ سے Cosmopolitan person ہے وطن کے خوابوں کا تقابل جب دوسرے ملکوں سے کرتی ہے تو ایک کُرلاہٹ سی بھر لاتی ہے ہم سے شئیر کرتی. وہ ریسرچر کے طور قدیم کنوؤں میں گرے جانوروں کا پتہ دیتی ہے اب کوئی مزکورہ چیز وہیں پڑی رہنے دیں اور غلاظت اور بد بُو کا پرچار کرتے پھریں اور کہتے پھریں کہ دسیوں بوکے پانی نکال دیا ہے مگر بساند نہیں جانے کی۔ سٹیٹس کو برقرار رکھنا اسی کو کہتے ہیں جس کا اظہار فارحہ نے کڑوے کسیلے انداز میں جا بہ جا کیا۔ جو قابلِ تحسین ہے۔

’زمیں زادہ‘ کو چھوٹی آنکھوں نہیں دیکھا جا سکتا اس کی گیرائی کینوس وسیع تر کر جاتی ہے۔ یہ ایک زمین زادہ دہشت گردی کی بھیٹ چڑھتے لاکھوں مانسوں کا غم لئے زندگی کی بازی ہارتا ہے وہ پرائی جنگ میں اسی ہزار نہیں مرے بلکہ کئی لاکھ امیدوں کے گھر خاکستر ہوئے۔ ’’مگر ایسی برزخی کیفیتوں میں کیا سوچتے؟ جب خون سے مستقل صندل اور اگربتیوں کی زعفرانی خوشبو آتی ہو اور جن کے جسم ہی ان کی قبریں ہوں، قبریں بھی بھلا کبھی سوچتی ہیں‘‘ لیکن اس کیفیت میں بھی ’’وہ جس کے سر سے جنگلی کبوتروں کی خوشبو آتی تھی، اُسے کافور کی بُو نے بد حواس کر دیا‘‘ اور وہ زندگی کی مہک کے پیچھے بھاگتا تندور والی عورت کے ہاتھوں کی گندمی روٹی کا رسیا ٹرک کے پہیوں کی چرچراہٹ کا شکار ہو گیا۔ ایک موت سے بے شمار اموات ہوئیں جیسے مصنفہ نے مقتل سے گھر تک لہو لکیر کھینچ دی ہو ’’آہ وہ سیاہ سفر کا پہلا باغی‘‘

اُس کی آنکھیں مضافاتی اور دل شہری ہے وہ ایک دیسی لڑکی اور انگریز عورت ہے محقق کے طور چیزوں کو کھوجتی اسے لوگوں کے بھیتر دیکھنا اور نیند پینڈنگ کر کے ’’جدوں راتیں چا لوک آرام کر دے اسیں اُٹھ کے کار کماونے آں۔ ۔ پنڈ پنڈ پھرنا ہے زُہد ساڈا تے گھرو گھری الکھ جگاونے آں‘‘’ کی وارث شاہ کی صدا سے ملاپ کرنا آ گیا کہ رات میں تخلیقی لمحے زیادہ میسر آتے ہیں۔ وژن بہتر ہو جاتا ہے۔

دو طرح کے فکشنسٹ ہیں۔ ایک اکہرے اور سطحی پن کا شکار اور دوسرے بھیتر اور دیوار کے اُدھر دیکھنے والے، منظر سے نیا منظر بنانے والے۔ فارحہ دوسری والی افسانہ نگار ہے۔ گلی میں اپنی ایک گلی بناتی شہر میں ایک اور شہر تعمیر کرتی۔ کہیں اسے تعمیر شدہ بستی کی بربادی کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ وہ لیپا پوتی ایک حد تک کرتی ہے۔ اصل کو قائم رکھتے ہوئے روح تک جاتی ہے، جہاں ’آدھی خود کُشی‘ کہانی اسے بلا رہی تھی۔ فارحہ قاری کو ابہام کے گرداب میں گو مگو کی حالت میں چھوڑ اِدھر اُدھر نہیں ہو جاتی بلکہ وقوعہ سے کہانی اور کہانی سے افسانہ بناتی ترسیل کرتی ہے اور پھر اسی طرح واپسی پر ترتیب سے reconciliation کرتی ہے انجام تک abstract کا بھرم رکھتے ہوئے۔

ایسا لگا فارحہ نے کسی حویلی میں گری ہوئی سیلفی ہمیں دکھا دی ہو۔ بہت ہوش رُبا مُکھو اور بوڑھے زمین دار کی سیلفی جس میں ملکہ کی اُٹھان اور بوڑھے کا بھدا پن چھپ نہ سکا اور ان حویلیوں کا کھوکھلا پن عیاں ہوتا ہی چلا گیا۔ منظر کھینچنا مصنفہ کو آتا ہے جس میں ریڈر بہے چلا جاتا ہے۔ وہ یہاں توازن نہیں بگڑنے دیتی۔ ایک اِٹی دیوار پر چلتے فیوڈلز کے کرتوتوں اور بھیتر فرسودگی کی جھلک دکھاتے ہوئے۔ ’’حویلی مہر داد کی ملکہ‘‘ میں کئی مقام آئے کہانی ہاتھ سے چھوٹ سکتی تھی، سپاٹ ہو سکتی تھی، پر کہانی کار کا سگھڑاپا اس کی خوبصورتی کا پالن کر گیا۔

کچھ لوگوں نے کہا وہ جینڈر سے اوپر ہو، اپنی کہانی کی علامت یا بیانیہ کو لاتی ہے۔ کسی حد یہ بات درست ہے لیکن وہ پُر اعتماد طریق سے اپنی ٹین ایج اور سُگھڑاپے تک کی پوری نسوانیت کے ساتھ کھڑی زندگی کے خیمے کی طنابیں کستی نظر آتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں کہتی ’’مجھے اگلے جنم بِٹیا نہ کیجیو‘‘ اسے اگلے جنم بھی عورت ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں۔ سوانی ہونا اس کا تفاخر ہے، ڈھال ہے۔ وہ تمسخر کرنے والے پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوتی ہے۔ کہیں کہیں اس نے عورت کو عورت کا استحصال کرتے رگیدا ہے۔ وہ بھرپور جمالیات کے ساتھ حیات گزارتی خاتون ہے اور اس میل شاونزم کے شکار معاشرے سے نبرد آزما ہے۔ وہ ہجوم پسند خواب پرور تنہائی سے بر سرِ پیکار ہے یہ باہر بھیتر کی آئیسولیشن اسے ایک انرجی سے بھر دیتی ہے۔

مجھے لگا جیسے اُس کی کہانیاں اتنی پُر اثر اور ڈاؤن ٹُو ارتھ ہیں۔ اُس نے اپنے پرس میں منشی پریم چند صاحب کا انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس کی صدارت کا خُطبہ رکھا ہے۔ گاہے گاہے اُسے دیکھتی رہتی ہے۔ وہ تو رومینس کی بات کرتے بھی آدرش جُڑت سے غافل نہیں۔ اسی کو کومٹمنٹ کہتے ہیں۔ فارحہ کی کہانی اپنی تہداری میں گنجلک نہیں رہتی، اپنا بھید خود کھولتی ہے، پر پھیلاتی چھتری ڈھونڈتی ہے، سیٹیوں پر کبوتر بچھے چلے آتے ہیں، خواب بنتے بستی کے مانسوں کے۔

اس کہانی میں خدا عجیب شکست و ریخت کا شکار رہا اُس کی شکل بنتی بگڑتی رہی کبھی مہربان کبھی نا مہربان۔

’’اُس نے کئی بار مدرسے کے مولوی صاحب کو لڑکوں سے اکثر یہ کہتے سنا تھا کہ ہمیں جو کچھ دیتا ہے ہمارا خدا دیتا ہے۔ تو کیا اس کا خدا اتنا غریب ہے کہ اس کے پاس اسے دینے کے لئے کمبل ہی نہیں؟ اُس نے اداسی سے سوچا۔ پھر تو اس کا خدا بھی یقیناً آسمانوں میں اُس کی طرح کہیں کانپ رہا ہو گا۔ آہ بیچارہ خدا‘‘ ویسے بھی بچے خدا کا عجیب تصور رکھتے ہیں۔ میں نے راہ چلتے ایک بچے کو کہتے سنا کہ خدا اتنا بڑا اور اس کا گھر اتنا چھوٹا سا۔ بے بسی کی تصویر کھینچنی ہو یا اسے مجسم دیکھنا ہو تو یہ کہانی پڑھ لیں مگر یہ مورکھ مورت تڑپا دے گی۔ برفاب۔ abusing۔ ’’ڈھائی گز کمبل کا خدا‘‘۔ بچہ۔ شہر کی پامالی کی اس سے بد تر شکل کیا ہو سکتی ہے۔ ’’اچانک گہری نیند ہی کی حالت میں اسے لگا کمبل والا خدا اُس کی جان لے رہا ہے ۔۔۔ آہ ہ ہ۔ درد کی شدید لہر کے ساتھ کوئی سخت سی چیز اُس کی پُشت میں گھُستی چلی جا رہی تھی۔‘‘

محبت کے رنگ بڑے عجیب و غرب ہوتے ہیں۔ ایک شخص جو مرکز نگاہ ہو، چاہنے والے ایک سے زیادہ ہوں، ہم دوسرے کی اس پر پڑتی نگاہ کو ’سائکو‘ کہنے لگتے ہیں۔ یہاں بھی ایک ٹرائینگل جو پاپا۔ بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ نے بنائی اس قدر خوفناک نکلی کہ جان لیوا ثابت ہوئی۔ یعنی بی بانہ موت کے منہ میں چلی گئی۔ سگی ماں اور بیٹی دُشمن دار ہو گئیں۔ یہ محبت کبھی اتنی ظالم ہو جاتی ہے۔ کہانی ’’بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ‘‘ انجام تک پہنچتے آدمی کا در و بست ہلا کے رکھ دیتی ہے، نیند اُڑا دیتی ہے۔ وَٹ آ بیوٹی فُل شارٹ سٹوری۔

’’توبہ سے ذرا پہلے‘‘ کا موضوع مشکل تھا۔ چھوٹی سی کہانی بڑے وژن کو پالے ہوئے تھی۔ یہ جملہ ذرا کھٹکا ’’غُربت تو اب اک کلیشے بن چکی ہے‘‘ جو نئی پود کی بے سمتی کی طرف اک اشارہ بھی ہے۔ پُرانی تصویریں ہٹنے سے کہانی جس طرح من مانی کرتی ہے اپنی مرضی کے موڑ مُڑتی آئینے توڑتی، انہی کی کرچیوں سے دیواریں میں در بناتی، شگاف کرتی، نتارا کرتی یے۔ نیا منظر نامہ بناتی ہے۔ جاگیر دار۔ بلقیسی۔ جاگیر دار کا بیٹا۔ بلقیسی کی بیٹی۔ نکاح خواں اور ڈرائیور ایک اور نقشہ کھینچتے ٹاٹ میں مخمل کا پیوند دکھاتے ہیں۔ پہلے اس کی فضا دیکھئے:

’’بلقیسی جب بھی اُن کی قبر پر جاتی اسے لگتا بڑے جاگیردار صاحب اسے دیکھ کر جیسے استہزائیہ انداز میں قہقہہ لگا کر کہتے ہوں۔ کیوں بلقیسی کبھی سنا ہے کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا ہو‘‘ رومن سلطنت تک بہن بھائی کی شادی کر دی جاتی تھی۔ یہاں بھی بڑی عمیق دسترس سے مصنفہ نے کوئی وریدوں بھیتر چلتے مرد عورت کے رشتے کو جوڑ دیا یہاں اسی مشاقی کی ضرورت تھی۔

اُس نے فرد کے اکہرے پن اور اکلاپے کو استعارے میں ڈھال کر بھیتر تہہ در تہہ خوابوں کا جمگھٹا لگایا اور ان کا نیندوں سے دور رتجگا بنایا۔ میلان کندیرا نے صحیح کہا ’’فرد کا جوہر استعارے کی روشنی میں آشکار ہوتا ہے‘‘۔ اس کا استعارے کا استعمال اسے جدا اسلوب سے بھرتا ہے وہ ایک مشاق کہانی کار کی طرح اندر سے لبریز کرتی باہر آتی منظر نامے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتی ہے۔ اتنی ہی ملاوٹ کرتی جتنی اس کردار اور موضوع کو فکشن میں درکار ہے۔

’’اُس نے لپک کر دروازے کو پکڑنا چاہا اور ہوا ہی میں لڑکھڑا گیا جہاں دروازہ ہونا چاہیئے تھا، وہاں نہیں تھا اسے یوں محسوس ہوا جیسے دروازے نے اپنی جگہ کسی شرارتی بچے کی طرح بدل لی تھی۔ تاہم اُس کی انگلیوں کی اگلی پوروں نے شاید دروازہ عین وسط سے چھو لیا تھا کہ دونوں پٹ قدرے کھُل گئے تھے، ایک مدھم سی چرچراہٹ کے ساتھ‘‘۔ ’’مجھے دروازے تک پہنچنا ہے‘‘۔ ’’وہ سمت بھول چکا تھا‘‘، ’’تاریکی ظالم ہے جابر ہے‘‘۔ ہیلوسینیشن بھری حقیقت سے اس کردار کے توسط سے اطراف کی تیرہ و تار زمین کی کیفیت کو باندھا گیا ہے۔ ’’تلووں سے چپکا آخری قدم‘‘ ہی تو رخنہ ہے اس سوسائیٹی کا کالی رات نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور وہ کُرلاتا ہے ’’مجھے تو سارے کام آنکھوں کی روشنی سے کرنے والے اتے ہیں‘‘ اور آنکھیں گدھیں اور چیلیں نگل چکی ہیں یہ کہانی اس سیارے کی تیسری دینا کے مانسوں کی ہے کیوں کہ مصنفہ کی کتھا کا کینوس اُفقی سطح پر چلتا فسوں سمیٹتا ہے۔

میں نے دو سال پہلے فارحہ کی پانچ چھ کہانیاں پڑھنے کے بعد کہا کہ وہ بہت نویکلی اور بڑی فکشنسٹ بننے جا رہی ہے۔ سو آج اُس کی افسانوں کی پہلی کتاب ”مونتاژ” زمین کو چھُوتی نقش بر خاک بن چکی ہے۔

مجھے ایسا لگا

میری اُس سے ملاقات ہو چکی ہے

کسی کہانی کے زمستان میں

ٹھٹھرتے

الاؤ کی تلاش میں

کہانی پڑھنے کو بلاتی ہے بیدار کرتی چرکے لگاتی ہے خوں چکاں کرتی بجرے پر بٹھاتی بیچ منجدھار اُچھالتی چلی جاتی ہے۔ پڑھنے والا کہانی ہی میں کہیں بے پناہ ٹھنڈ اور ریچھوں کے مقبوضہ برفاب میں گُم ہوا جاتا ہے پوری بیگانگی اوڑھنے کی کیفیت کے درمیان۔

وہ تپش پھیلاتا کُوکتا ہے

آگے ہو میخانے کے نکلو عہدِ بادہ گُساراں ہے

فارحہ۔ کہانی۔ قاری اور میر کا غم جیسے سانجھ میں آ گیا ہو۔

٭٭

’’ادبِ لطیف‘‘ اکتوبر 2022 میں شائع شدہ

٭٭٭

تبصرہ

پل دو پل کی کہانی (آپ بیتی) ۔۔۔ ڈاکٹر سیّد اسرار الحق سبیلی

تصنیف: ڈاکٹر محمّد اسلم فاروقی

سالِ اشاعت: ۲۰۲۳ء

صفحات: ۱۳۰

قیمت: دو سو روپے

ناشر: تعمیر پبلی کیشنز حیدرآباد

ملنے کے پتے: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی، فون: ۹۲۴۷۱۹۱۵۴۸، ہمالیہ بک ڈپو نام پلّی حیدرآباد، ہدیٰ بک ڈپو پرانی حویلی حیدرآباد

ڈاکٹر محمّد اسلم فاروقی حیدرآباد و ریاست تلنگانہ کے علمی و ادبی حلقوں میں ایک استاد، ادیب، ناقد، مصنّف، مضمون نگار، اردو کمپیوٹر، اردو صحافت، ماس میڈیا اور سوشل میڈیا کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ ادھر انہوں نے طنزیہ و مزاحیہ ادب بھی تحریر کرنا شروع کیا ہے۔ ان تمام خصوصیات کے علاوہ انہوں نے اپنی آپ بیتی بعنوان: ’’پل دو پل کی زندگانی‘‘ کے نام سے شائع کر کے خود نوشت سوانح نگار کی حیثیت سے بھی اپنا نام درج کرایا ہے۔

زیرِ نظر کتاب میں حافظ اسلم فاروقی نے خاندانی حالات، پرائمری اور ہائی اسکول کی یادیں، حفظ اور انٹر کی تعلیم، ڈگری اور جامعات کی اعلیٰ تعلیم، شادی خانہ آبادی، ملازمت، والدین کے سایہ سے دوری، تصنیف و تالیف، ترجمہ نگاری، ٹیکنالوجی کا سفر، اردو زبان و ادب سے وابستگی، مذہبی وابستگی، سفرِ حج اور زندگی کے دیگر رویّے سے متعلّق عام فہم اور سلیس انداز میں اپنی آپ بیتی تحریر کی ہے۔

اس آپ بیتی تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اردو ذریعۂ تعلیم اختیار کرنے والوں کو حوصلہ ملے کہ ان کے لئے بھی ترقّی کے یکساں مواقع ہیں۔ نیز ان کے دوست احباب اور اردو کے شاعر و ادیب کو بھی اپنی آپ بیتی لکھنے کی تحریک و ترغیب ملے۔

’’پل دو پل کی زندگانی‘‘ کی وجہِ تسمیہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ دنیا کی اس لاکھوں سال کی زندگی میں ایک انسان کے پچاس سال صرف ایک یا دو لمحے ہوتے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلہ میں دنیا کی محدود زندگی پل دو پل سے زیادہ نہیں ہے۔

سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ:

’’مجھے آپ بیتی لکھنے کا خیال اس وقت آیا جب جناب مجید عارف صاحب نے اپنی ویب سائٹ مائی نظام آباد

ڈاٹ کام کے لئے مجھ سے نظام آباد کی یادوں پر مشتمل کچھ مضامین لکھوائے تو میں نے اپنے اسکول کی یادوں پر تفصیلی

مضمون لکھا۔ یہ مضمون اہلِ نظام آباد اور میرے بچپن کے ساتھیوں اور اساتذہ نے بہت پسند کیا تھا۔ اس کے بعد والد

صاحب کے انتقال پر جو تاثّراتی مضمون لکھا اس میں بہت سی باتیں کام کی جمع ہو گئیں۔ تیسرا مضمون میں نے ریڈیو کی

دنیا کے تعلّق سے لکھا۔ اس کے بعد دسہرہ کی تعطیلات میں مسلسل مختلف عنوانات پر لکھتا رہا۔ اس طرح میری عملی زندگی کی پچاس سال کی یادیں اس آپ بیتی میں محفوظ ہو گئیں۔‘‘ (ص: ۵)

کتاب کا پیشِ لفظ ڈاکٹر محمد ناظم علی کا تحریر کردہ ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر اسلم فاروقی کو اردو ایک ایسا مجاہد قرار دیا ہے جس نے ناکامی نہیں دیکھی، بلکہ جہدِ مسلسل کے ساتھ زندگی کے میدان میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ بہت عرصہ سے اردو کے کسی ادیب و شاعر نے اپنی آپ بیتی پیش نہیں کی۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر اسلم فاروقی نے اپنی زندگی کی نصف صدی کے تجربات کو آپ بیتی کی شکل میں پیش کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ خوش آئند قدم ہے۔ اس آپ بیتی میں ایک داستاں گو اور قصّہ گو کی کیفیت ہے۔ اسلوبِ بیاں سادہ اور دل چسپ ہے۔ اس آپ بیتی میں شہر نظام آباد اور حیدرآباد کی گزشتہ نصف صدی کی سماجی اور تہذیبی داستاں کی جھلک بھی مل جاتی ہے۔ (ص: ۶۔ ۷)

فاروقی صاحب کے آباء و اجداد کا تعلّق نظام آباد اور بودھن کے درمیان واقع ایک موضع جانکم پیٹ سے تھا۔ بودھن شہر کی وجہِ تسمیہ کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ اورنگ زیبؒ نے جب دکن فتح کرنے کے لئے اس علاقہ میں قیام کیا تو رات میں ان کی تہجّد کی نماز چھوٹ گئی۔ ان کی زندگی میں کبھی تہجد اور فجر کی نماز قضا نہیں ہوئی تھی، تو انہوں نے اس علاقہ کے بارے میں کہا: ’’ایں جائے بودن نیست‘‘ یعنی یہ رہنے کی جگہ نہیں ہے۔

اسلم فاروقی صاحب کے دادا اسمٰعیل فاروقی جانکم پیٹ سے نظام آباد محلہ بھوئی گلی منتقل ہو گئے۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی کا بچپن ۱۹۸۵ء تک نظام آباد کے محلہ پھولانگ کے آبائی مکان یعقوب منزل میں گزرا۔ ان کے پردادا یعقوب کے نام پر اس گھر کا نام یعقوب منزل رکھا گیا تھا۔ اسلم فاروقی کے بقول: ’’یہ مکان آج بھی ہمارے خوابوں میں آیا کرتا ہے، حالاں کہ زندگی میں کئی مکانوں میں رہنے کا اتّفاق ہوا، لیکن وطن کی مٹّی کی ایسی کیا محبّت رہی کہ وہی کویلو والا گھر ہماری یادوں اور خوابوں کا حصّہ رہ گیا۔‘‘ (ص: ۱۰)

اسلم صاحب کے دادا اسمٰعیل فاروقی کروڑ گیری کے بڑے افسر تھے، اور جب نظام حکومت میں دیہاتوں کے معائنے کے لئے جاتے تو ان کی کافی قدر ہوتی تھی۔ اسلم صاحب کے والد محمد ایّوب فاروقی ابھی ساتویں آٹھویں جماعت کے طالبِ علم تھے کہ ان کے دادا کے دادا اسمٰعیل فاروقی کا مختصر علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ ان کی دادی رحمت بی صاحبہ نے بڑے نامساعد حالات میں اپنے بچوں کی پرورش کی، اور سب کو پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنایا۔ ان کے سبھی بیٹوں کو سرکاری ملازمت ملی، اور بیٹیوں کی اچھے گھرانوں میں شادیاں ہوئیں۔

اسلم صاحب کے والد صاحب نے عثمانیہ میڈیکل کالج حیدرآباد میں ایک سال تک ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی، لیکن مالی مجبوریوں کی وجہ سے تعلیم مکمّل نہیں کر سکے۔ پھر انہوں نے ایوننگ کالج سے بی اے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم۔ اے اردو میں داخلہ لیا تھا۔ اس وقت ان کے درسی ساتھیوں میں پروفیسر سیّدہ جعفر اور پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ تھیں اور صدرِ شعبہ پروفیسر مسعود حسین خان تھے۔ لیکن وہ ایم۔ اے مکمّل نہیں کر پائے۔ ان کی خواہش کی تکمیل ان کے بیٹوں کے ذریعہ پوری ہوئی۔ ان کے بڑے فرزند ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نظامیہ طبّیہ کالج چار مینار میں پروفیسر ہیں، اور دوسرے فرزند ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیرآباد میں پرنسپل ہیں۔ پہلے انہوں نے آئی ٹی آئی میں ملازمت اختیار کی، بعد میں محکمہ امپلائمنٹ اینڈ ٹریننگ میں نوکری کی اور ترقّی کرتے ہوئے امپلائمنٹ آفیسر عادل آباد کے عہدہ سے سبک دوش ہوئے۔ اس کے بعد دو سال تک سنچری ہائی اسکول انگلش میڈیم ٹولی چوکی حیدرآباد میں پرنسپل کی خدمت بھی انجام دی۔

ان کے والد محمد ایوب فاروقی صابر (۱۹۳۳۔ ۲۰۱۸ء) ایک اچھے شاعر تھے۔ پاگل عادل آبادی، بیلن نظام آبادی اور تنویر واحدی اکثر اصلاح سخن کے لئے ان سے رجوع ہوتے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’آخر شب کے ہم نشیں‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے چند مزاحیہ مضامین اور کچھ افسانے بھی تحریر کئے ہیں۔ انہوں نے کئی نوجوان شعراء کی سرپرستی کی ہے۔ ان کی ایک نظم: ’’تیری میری آس وہی ہے‘‘ گری راج کالج نظام آباد کے اردو نصاب میں شامل کی گئی ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:

مجھ سے بھی وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ میں کیا ہوں

اب کیسے بتاؤں انہیں آپ اپنی صدا ہوں

اسلم فاروقی صاحب کے چھوٹے چچا محمد انیس فاروقی ایک اچھے افسانہ نگار اور شاعر تھے۔ ان کے افسانوں کے پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اسلم فاروقی کے والد کے ماموں سیّد واحد علی واحد بھی شاعر تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے: ’’متاعِ غم‘‘ اور ’’انبساطِ الم‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ وہ ڈاکٹر حمید اللہؒ کے شاگرد اور بمبئی میں یوسف ناظم کے رفیقِ کار رہے ہیں۔ اسلم صاحب نے اپنے والد اور والد کے ماموں کی زبانی حیدرآباد کی ماضی کی علمی و ادبی محفلوں کا ذکر، ہندوستان کی آزادی، سقوطِ حیدرآباد کے واقعات، پولیس ایکشن اور نظام آباد کے فسادات کی خون ریز داستانیں سنی ہیں۔

اس طرح اسلم فاروقی صاحب کو اپنے آباء و اجداد کی علمی و ادبی وراثت حاصل ہوئی ہے۔ اور وہ اس وراثت کا تحفّظ اور ترقّی کے لئے پوری محنت اور جستجو میں ہمیشہ لگے رہتے ہیں۔ وہ اپنے والد ماجد کا دوسرا مجموعۂ کلام مرتَّب و شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اسلم فاروقی صاحب کا حافظہ بہت قوی معلوم ہوتا ہے۔ ان کے حافظہ میں بچپن اور جوانی کی تمام باتیں، یادیں، واقعات، تمام ساتھیوں اور تمام اساتذہ و متعلّقین کے نام محفوظ ہیں۔ بچپن میں اسکول کی جس ٹیچر نے ان کے بکھرے بالوں میں کنگھا کیا تھا، بچپن کے کھیل، سرگرمیاں، کرکٹ کی کمنٹری اور ریڈیو کے پروگرام انہیں اب بھی یاد ہیں۔ تیلگو استاد عبد الجبّار صاحب انہیں کتابی کیڑا کہتے تھے۔ انگلش میں کمنٹری سننے سے ان کی انگریزی اچھی ہو گئی۔ انہوں نے ملک کے مشہور روزنامہ سیاست میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے انگریزی خبروں خصوصاً کھیل کی خبروں کے ترجمے کئے ہیں۔ ریڈیو، اخبارات اور کتب کے مطالعہ کے شوق سے ان کی معلوماتِ عامّہ میں کافی اضافہ ہوا، اور اس کے نتیجہ میں انہیں مسابقتی امتحانات میں کامیابی حاصل ہوئی۔

ان کا بچپن اور جوانی بڑی معصومیت میں گزری۔ آغا خاں اسکول نظام آباد میں سات سال کے دوران انہوں نے کسی بچی سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ حفظ کے بعد ڈگری میں فیضانِ مکتب کے زیرِ اثر لڑکیوں کے ساتھ درس میں شریک ہونے سے گریزاں رہے۔ شریکِ حیات کے انتخاب کا خیال بھی انہیں نہیں آیا۔ ٹیچر ٹریننگ کے دوران ایک سنجیدہ لڑکی کے بارے میں کچھ ارادہ بھی ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے، گویا عشق کی چنگاری سلگنے سے پہلے ہی بجھ گئی۔

اسلم فاروقی صاحب کا خاندان بھرا پرا خاندان ہے۔ ان کے والد پانچ بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ سب صاحبِ اولاد، تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ ہیں، اور ملک و بیرونِ ملک پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلم صاحب کا سبھوں سے ربط ہے۔ ان کے دوستوں کا حلقہ بھی کافی وسیع ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اس میں اور بھی وسعت آ گئی ہے۔ ان کا شمار سوشل میڈیا، ماس میڈیا، صحافت، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور دیگر جدید ذرائع ابلاغ کے ماہر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ وہ اردو کو جدید ذرائع ابلاغ سے مربوط کرنے کے لئے ہمیشہ سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔

میری اور اسلم فاروقی صاحب کی تعلیم، ملازمت اور وضع قطع میں بہت حد تک یکسانیت ہے، یہاں تک کہ اردو ٹیچر ٹریننگ میں ان کی جو استاد تھیں وہی میری بھی استاد رہیں: محترمہ قمر سلطانہ۔ اس لحاظ سے ان کی آپ بیتی میرے لئے زیادہ باعثِ کشش رہی، اور کہیں کہیں میری آپ بیتی محسوس ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری طرح اردو کے دیگر مسافر، طلبہ، اساتذہ اور اردو سے عشق رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب مفید اور حوصلہ بخش ثابت ہو گی۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل