FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سورہ والضحیٰ کی شان نزول

               خالد علیم

 

بزرگ و برتر خدا نے جب

سرورؐ دو عالم محمد مصطفی ؐ کو پیغمبری کے انعام سے نوازا

تو شہر مکہ کی ہر گلی سے یہ شور اٹھا

اگرچہ یہ صادقؐ اور امیںؐ ہے

مگر ہم ایسے رسول ؐ کو مانتے نہیں ہیں

جو مال و دولت میں ہم سے کم ہے

نہ صاحب سیف ہے نہ یہ وارث قلم ہے

نہ سلطنت اس کے پاس کوئی، نہ کوئی لشکر

نہ مرتبے میں عظیم ہے یہ

اگر ہے کچھ تو یتیم ؐ ہے یہ

چلو یہ سب کچھ اگر نہیں ہے

نشست و برخاست اس کی،

 اس کا یہ رہنا سہنا

یہ کھانا پینا ،

یہ چلنا پھرنا

یہ سب کچھ اس کا ہمارے جیسا ہے

اور اس کی یہ ساری صفتیں تو ہیں حقیقت میں

اپنے قدموں پہ چلنے والے بشر کی صفتیں

یہ اپنے قدموں پہ چلنے والا

اندھیری راتوں میں چھوڑ کر شہر،

 دامن کوہسار کو یہ نکلنے والا

بجائے گھر کے، حرا میں جا کر یہ سونے والا

یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے کپڑوں کو دھونے والا

یہ اپنی تنہائیوں میں آنسو بہانے والا

نہیں ہے کوئی بھی کام جس کا زمانے والا

یہ کہہ رہا ہے کہ میں نبیؐ ہوں

یہ اک بشر ہے

بشر بھی ایسا، جو ہے تہی دست اور مفلس

اگر بشر پر کتاب اترتی

تو شہر طائف کے رہنے والے پہ یا وہ مکہ کے ہی کسی ایک

معتبر شخص پر اترتی

وہ معتبر شخص جس کی قوت کا سارا عالم گواہ ٹھہرے

وہ جس کے آگے نہ کوئی بھی کج کلاہ ٹھہرے

زمیں سے اٹھے تو آسمانوں پہ جا کر اس کی نگاہ ٹھہرے

جو شان و شوکت میں ہو رفیع و عظیم، دولت میں سب سے بڑھ کر

***

یہ ساری باتیں جو کر رہے تھے

یہ نوفل و ہاشم و اسد اور سہم و مخزوم کے قبیلوں کے

معتبر لوگ کر رہے تھے

کوئی تھا ان میں ولید ابن مغیرہ یعنی قریش کا وہ رئیس اعظم

کوئی تھا عثمان ابن طلحہ

کلید بردار اور مجاور تھا وہ حرم کا

)کہ تین سو ساٹھ دیوتاؤں کا تھا پجاری(

تو کوئی تھا عاص ابن وائل

کوئی ابوجہل جو کہ خود کو ابو حکم جانتا تھا

ان میں کوئی تھا لات و منات اور بعل کا پجاری

ابولہب بھی تھا ان میں شامل

یہ شہر مکہ کے سب اکابر

صنم پرستی کے ترکشوں سے مخالفت کے تمام تیر آزما رہے تھے

***

خدا کے سچے رسولؐ اور اس کے برگزیدہ نبیؐ نے

سب کی یہ تلخ باتیں سنیں مگر

چاند سے بھی بڑھ کر حسین و روشن جبیں پہ کوئی شکن نہ آئی

یہ ساری باتیں

مخالفت کے یہ سارے پتھر

بلند و بالا پہاڑ سے ولولے کو ہرگز نہ توڑ پائے

قریش کی اس مخالفت کا یہ تند سیلاب

اس کے کہسار جیسے عزم اور حوصلے کو نہ روک پایا

***

حضورؐ عالی مقام ہر چند رب عالم کے اور اس کے رسولؐ کے

دشمنوں سے خائف نہیں ہوئے تھے

مگر یہی تھا ملال دل میں

بہت دنوں سے اُدھر سے وحی خدائے برتر رکی ہوئی تھی

مخالفوں کے ہجوم میں جو خدائے قدوس کا سہارا تھا

وہ بھی اب ٹوٹتا سا محسوس ہو رہا تھا

مخالفوں کو مناقشت کے لیے نئی بات مل گئی تھی

کوئی یہ کہتا تھا

"اب محمدؐ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے”

جو چند فقرے تھے جوڑ رکھے ،سنا چکا ہے

جنوں تھا جو اس کا چند روزہ ، اتر گیا ہے

یہ ذکر کرتا تھا جس خدا کا

ہمیں بھی جس کے عذاب سے یہ ڈرا رہا تھا

وہ خود اب اس کو بھلا چکا ہے

کوئی یہ کہتا تھا

"اب نبوت کا بھوت سر سے اتر گیا ہے’ (نعوذبااللہ)

یہ رسولؐ خدا کے بارے میں اہل مکہ کا طرز گفتار تھا کچھ ایسا کہ آسماں پر فرشتگانِ خدا بھی سنتے تو کانپ اٹھتے

مگر مشیت کا فیصلہ کوئی اور ہی تھا

***

حضورؐ افسردہ و پریشاں جو گھر سے نکلے

گلی میں دیکھا

وہ زوجہ بولہب ، وہ ام جمیل، حمالۃ الحطب

اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑی تھی

گلی کی کچھ عورتوں کو اپنی جلی کٹی سب سنا رہی تھی

حضور عالی مقامؐ پر جب نظر پڑی تو

گلی کی ان عورتوں سے بولی :

’’ہمارے اس لاڈلے بھتیجے کا حال دیکھو!

یہ جس خدا کے عذاب سے ہم کو۔۔ اور تم کو ڈرا رہا تھا

وہ اب اسے چھوڑ کر کہیں دور جا چکا ہے

کہ اس سے ناراض ہو گیا ہے’’

پھر آپؐ کی سمت اپنا رخ پھیر کر وہ بولی

’’مجھے یہ لگتا ہے، تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ ہی دیا ہے!’’

***

حضور عالی مقامؐ

پیغمبرؐ خدائے رحیم، سرخیلؐ مرسلاں

وہ رسولؐ رحمت

یہ زہر آلود طنز اور ملحدانہ فقروں کو سن کے خاموش ہی رہے

اور زبان اقدس پہ آپؐ کی کوئی بھی نہ حرف ملال آیا

مگر یہ دل میں خیال آیا

خدائے برتر کہ جس کی خاطر تمام لوگوں سے دشمنی لی

خبر نہیں ہے کہ میری کس لغزش اور خطا پر

وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے

نہ اب وہ راز و نیاز ہے اور نہ کوئی پیغام آ رہا ہے

اس انقطاعِ نزول وحی مبیں کے سب سوگوار لمحے

یہ عالم اضطراب کے بے قرار لمحے

یہ وحی کے انتظار میں دلفگار لمحے

حضور عالی مقامؐ کو کس قدر پریشان کر رہے تھے

***

یہ کرب تنہائی اور یہ انتظار وحی مبیں کی کیفیت مسلسل

نبی مرسلؐ کی ذات عالی مقام کے حزن و غم کا محور بنی ہوئی تھی

یہی شب و روز تھے

انہی مشکلات کا عالم گراں بار تھا

کہ اک روز سورہ والضحیٰ کے پیرایۂ حسیں میں

جناب جبریل لے کر آئے پیام الفت

نبی ؐ رحمت کے واسطے تھا یہ

نفرتوں کے مہیب جنگل میں جام الفت

حضور عالی مقامؐ اپنی زبان اقدس سے

کس مسرت سے پڑھ رہے تھے کلام الفت

’’چمکتے دن کی قسم ہے

اور رات کی کہ جب وہ قرار پکڑے

کہ تیرے رب نے نہ تجھ کو چھوڑا، نہ تجھ سے بیزار ہی ہوا ہے

اور آخرت ہے ترے لیے اس جہاں سے بہتر

کہ تیرا پروردگار تجھ کو ضرور اتنا عطا کرے گا

ہو جس سے تجھ کو خوشی میسر

کہ ہم نے تجھ کو یتیم پا کر پناہ دی

اور بے خبر پا کے راستے کا پتہ بتایا

تجھے کثیر العیال اور تنگ دست پایا

تو ( اپنے فضل و کرم سے)تجھ کو غنی بنایا

سو، تو بھی (ہرگز) یتیم کے ساتھ (اب) نہ سختی سے پیش آنا(کسی) سوالی کو مت جھڑکنا

اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بھی ذکر کرتے رہنا’’

***

رسول رحمتؐ

نبی امیؐ

جو خارزار حیات میں پیار کے مہکتے گلاب لایا

جو زندگی کے جھلستے صحرا میں رحمتوں کے سحاب لایا

حرا سے اترا تو درس اقراء کا باب لایا

جو سورہ والضحیٰ کی روشن دلیل لایا

نوید رب جلیل لایا

خدائے قدوس نے عطا کر کے جس کو کوثر

بنا دیا ابن وائل اور بولہب کو ابتر

وہ سیدؐ کاروان بطحا

وہ زینتؐ سرزمین طیبہ

وہ عظمتؐ آسمان بطحا

خدا کا پیغام لے کے صحن حرم میں آیا

اکابر شہر کو پکارا

اکابر شہر مکہ صحن حرم میں آئے

تو آپ نے رب وحدہٗ لاشریک کے اسم پاک سے

والضحیٰ کی آیات کی تلاوت کی ابتدا کی

***

اکابر شہر، شہر اعظم کے وہ امیرانِ کفر

بیت الحرم کے صحن عظیم میں اپنے تین سو ساٹھ

دیوتاؤں کے روبرو سر جھکائے،

رب عظیم کی عظمتوں سے غافل کھڑے تھے لیکن

جب آسمانی صحیفۂ آخریں کا ایک ایک حرف ان کی سماعتوں میں

ہدایتوں کا پیام بن کر اتر رہا تھا

تو ہر طرف اک خموش اور بے صدا فضا کا تقدس

ان کے دلوں میں ایمان کی حرارت جگا رہا تھا

نبیؐ اعظم کی صدق گفتار، حق بیاں، خوش نوا زباں سے

نکلنے والا ہر ایک لفظ ان کے ذہن و دل کو نئے زمانوں میں

کھلنے والی حقیقتوں کا نیا ہی مژدہ سنا رہا تھا

حریم اقدس کے صحن کا وہ ہجوم خاموش تھا

سوائے خدا کے پیارے رسولؐ کی دلنشیں صدا کے،

کوئی صدا صحن بیت اعلیٰ میں اٹھ نہ پائی

کہ سب کے ہونٹوں پہ جیسے اک مہر خامشی تھی

کہ سب وہاں گوش بر صدا تھے

نبیؐ معبود سورہ والضحیٰ کی روشن صفات چند آیتوں کو پڑھ کر

اس آیت دلنشیں پہ پہنچے کہ:

’’ ہم نے تجھ کو یتیم پا کر پناہ دی

اور بے خبر پا کے راستے کا پتہ بتایا’’

ہجوم میں ایک شخص کے ہونٹ تھرتھرائے

مگر رسول عظیمؐ کے دلنشیں لبوں پر

اس اگلی آیت کا ورد اترا :

’’تجھے کثیر العیال اور تنگ دست پایا تو (ہم نے)تجھ کو غنی بنایا’’

ہجوم میں سے اچانک اس شخص نے پکارا:

’’اے ابن عبداللہ! دیکھ تیرا خدا بھی کتنا عجیب ہے

وہ خدا کہ جس کی صفات تیری زباں سے اکثر سنیں

کہ وہ سب خداؤں کا بھی خدا ہے، سب سے بڑا ہے،

اس سا کوئی نہیں ہے، وہ اک خدا ہے، عظیم ہے،

کائنات اس نے بنائی ہے،

سب کو اس نے پیدا کیا ہے،

سب کا وہ رب ہے، خالق ہے اور

احسان میں بھی سب سے عظیم تر ہے

وہی خدا اَب تجھی پہ احساں جتا رہا ہے

ذرا بتاؤ تو ، ابن عبداللہ !

کوئی صاحب صفات یا کوئی عام انساں

کسی پہ احسان کر کے جتلائے گا؟

کہ تیرا خدا، جو تیرے بقول سب سے عظیم ہے، بے نیاز ہے،

اس نے مال و زر سے تجھے نوازا ہے،

گو ہمیں یہ خبر ہے، بس تیرے پاس اک بوریا ہے،

مٹی کا اک پیالہ ہے،

اس سے بڑھ کر اگر ترے پاس کچھ ہے

جو تیرے رب نے تجھ کو دیا ہے

وہ بار بار تجھ کو جتا رہا ہے؟

عجیب تیرا خدا ہے، احسان کر کے تجھ پر، جتانے والا‘‘

یہ سن کے سب کو زباں درازی کا حوصلہ مل گیا،

سبھی یک زباں پکارے :

’’بتاؤ قاسم کے باپ! تیرا خدا یہی ہے؟

تری حقیقت، تری تہی دامنی کا احساس دینے والا خدا وہ تیرا

عظیم بھی، تنگ چشم بھی ہے‘‘

یہ لہجہ زہریلا اور چبھتا ہوا یہ طنز ایسا تھا

کہ ہر سو بس ایک ہی شور تھا

’’بتاؤ تو ابن عبداللہ، اے ابو قاسم !

اے امین ، اے خدائے واحد کے ماننے والے !

اب کہو، کیا یہی ہے اہل کرم کا شیوہ

کہ وہ کسی کی مدد کریں تو پھر اس پر احسان بھی جتائیں’’

نبیؐ حق نے ان اعتراضات کو سنا

اور اس سے پہلے کہ کوئی ان کو جواب دیں،

اک طرف ہٹے اور صحن کعبہ میں رب کعبہ کی

بارگاہ جلال میں اپنا سر جھکایا

پھر ایک سجدے، طویل سجدے کے بعد جب اپنا سر اٹھایا

تو آپؐ بولے:

تمہارے اس اعتراض پر مجھ پہ رب واحد کا شکر واجب تھا،

شکر ہے، صد ہزار شکر اُس خدا کا جو

میرے اور تمہارے دلوں کا سب حال جانتا ہے

مجھے یہ ہرگز خبر نہیں تھی کہ تم خدائے عظیم کی آیتوں پہ

یوں معترض بھی ہو گے !

سو، اب یہ سن لو !

مرا عظیم و جلیل مولا تمہارے اس اعتراض کو جانتا تھا

اس نے اسی لیے ان عظیم آیات میں

تمھیں یہ جواب پہلے ہی دے دیا ہے

سنو ! خدائے عظیم و جبار کا یہ فرمان بھی سنو، اس نے کیا کہا ہے

کہ ’’ تو بھی (ہرگز) یتیم کے ساتھ (اب) نہ سختی سے پیش آنا

(کسی) سوالی کو مت جھڑکنا

اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بھی ذکر کرتے رہنا’’

***

خدائے برتر کی ان عظیم و جمیل آیات کی تلاوت کو سن کے

سب اہل مکہ خاموش ہو گئے

ایک ایک لفظ، ایک ایک آیت کا سارا مفہوم و مدعا

اُن پہ کھل گیا اور ربِ مناّن کی طرف سے کیے ہوئے

ایک ایک احسان و لطف کا راز منکشف ہو گیا

انھیں یوں لگا کہ جیسے

عظیم فاراں کی چوٹیوں کے تمام پتھر

اب ان کے جسموں پہ گر چکے ہیں

اب ان میں اتنا بھی دم نہیں تھا کہ اپنے قدموں پہ چل کے

صحن حرم سے باہر نکل سکیں وہ

***

خموش و بے حس ہجوم کو کاٹتے ہوئے

جب پیمبرؐ آخرالزماں صحن کعبہ سے باہر آ گئے تو

کسی نے پیچھے سے آپؐ کے شانہ مبارک پہ ہاتھ

رکھتے ہوئے کہا:

’’ سچ ہے، آپ اللہ کے رسولؐ،

اس کے برگزیدہ نبیؐ آخر ہیں،

آپ پر جو کلام نازل ہوا ہے، اللہ نے کیا ہے

قبول مجھ کو خدا کے سچے رسولؐ کا دین اور اس کا پیام آخر’’

حضورؐ نے اس کی سمت دیکھا تو یہ وہی تھا

خموش و بے حس ہجوم میں اعتراض کا پہلا لفظ

جس کی زباں سے نکلا تو

سورہ والضحیٰ کا مفہوم و مدعا سب پہ کھل گیا تھا

٭٭٭

ماخذ: کتاب محامدِ محمدؐ

ای بک: اعجاز عبید