FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

سنن نسائی

 

 

               امام ابو نسائی

 

 

جلد دوازدہم

 

 

 

 

جہاد کا بیان

 

قتیبہ، لیث، سعید، عطاء بن مینا، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے کہ جو راہ خدا میں نکلے لیکن ایمان کے خیال سے نکلے اور وہ راہ خدا میں کوشش کرنے کے لیے نکلے (نہ کہ دنیاوی کام کے لیے نکلے ) اللہ اس بات کا ضامن ہے کہ اس کو جنت میں لے جائے گا۔ جس طریقہ سے ہو چاہے وہ شخص قتل کر دیا جائے یا وہ شخص اپنی موت سے مر جائے یا پھر اللہ تعالیٰ اپنے وطن میں لائے گا کہ جہاں سے وہ شخص نکلا تھا ثواب اور مال غنیمت لے کر۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، عمارۃ بن قعقاع، ابو زرعۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کا ضامن ہے جو کہ اس کے راستہ میں نکلے لیکن راہ خدا میں کو شش کرنے کے لیے اور اس پر اور اس کے پیغمبر پر یقین رکھ کر اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا یا اس کے ملک میں اس کو واپس فرمائے گا اجر و ثواب اور مال غنیمت دے کر۔

 

مال غنیمت میں سے خدا کے راستہ میں پانچواں حصہ نکالنا

 

قتیبہ، عباد، ابن عباد، ابو جمرۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ (قبیلہ) عبدالقیس کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ربیعہ کا یہ قبیلہ ہے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک نہیں پہنچ سکتے لیکن حرام مہینوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو حکم فرمائیں کسی بات پر کہ جس پر ہم لوگ علم کریں اور جو لوگ ہمارے پیچھے ہیں ان کو بھی سنا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم کو چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور تم کو چار باتوں سے منع کرتا ہوں (اور جن باتوں کا حکم دیتا ہوں ) وہ یہ ہیں (1) ایمان لانا خداوند قدوس پر پھر اس کی تفسیر بیان فرمائی ایک تو اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی سچا پروردگار نہیں ہے اور میں اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں (2) نماز ادا کرنا (3) زکوٰۃ دینا (4) تم کو جو مال غنیمت ہاتھ آئے اس میں سے پانچواں حصہ نکالنا اور میں تم کو منع کرتا ہوں کدو کے تونبے اور لاکھ کے رتن اور رال لگے ہوئے برتنوں سے کہ جس کو مقیر اور مزفت کہتے ہیں۔

 

جنازہ میں شرکت بھی ایمان میں داخل ہے

 

عبدالرحمن بن محمد بن سلام، اسحاق یعنی ابن یوسف بن الازرق، عوف، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مسلمان کے جنازہ کے پیچھے اجر و ثواب کے واسطے ایمان کے ساتھ چلے پھر اس پر نماز ادا کرے اس کے بعد ٹھہرا رہے جس وقت تک کہ وہ (میت) قبر میں رکھا جائے تو اس کو دو قیراط ثواب کے ملیں گے ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور جو کوئی نماز پڑھ کر واپس آئے (یعنی صرف نماز جنازہ ہی پڑھے ) تو اس کو ثواب کا ایک قیراط ملے گا۔

 

شرم و حیا

 

ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو کہ اپنے بھائی کو نصیحت کر رہا تھا شرم و حیاء کے سلسلہ میں (یعنی شرم و حیاء سے روک رہا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو چھوڑ دو شرم و حیاء تو ایمان میں داخل ہے۔

 

 

دین آسان ہونے سے متعلق

 

ابو بکر بن نافع، عمر بن علی، معن بن محمد، سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو اس پر دین غالب ہو گا تو تم ٹھیک راستے پر چلو یا اگر ٹھیک راستہ پر نہ چل سکو تو اس سے نزدیک رہو اور لوگوں کو خوش رکھو اور ان کو آسانی دو اور صبح و شام خداوند قدوس سے مد د مانگو اور کچھ رات میں چلنے سے۔

 

اللہ کے نزدیک پسندیدہ عبادت

]

شعیب بن یوسف، ابن سعید، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے وہاں پر ایک عورت موجود تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کون ہے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا یہ فلاں عورت ہے جو کہ رات میں نہیں سوتی (اس طرح سے ) اس عورت کی عبادت کی کیفیت بیان کرنے لگیں (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ایسا نہ کرو جس قدر تم میں طاقت ہے تم صرف اسی قدر عبادت کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم اللہ کی! خداوند قدوس اجر و ثواب دینے سے نہیں تھکے گا بلکہ تم لوگ عمل کرتے کرتے تھک جاؤ گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ دین بہت پسند تھا جو کہ ہمیشہ کیا جائے (یعنی ایسی عبادت جو کہ درمیانہ درجہ کی ہو اور جس پر ہمیشہ قائم رہا جا سکے وہ زیادہ افضل اور بہتر ہے )۔

 

 

دین کی حفاظت کی خاطر فتنوں سے فرار اختیار کرنا

 

ہارون بن عبد اللہ، معن و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابو صعصۃ، وہ اپنے والد سے ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (وہ زمانہ) نزدیک ہے کہ جس وقت مسلمان کا عمدہ سرمایہ بکریاں ہوں گی کہ جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں میں چلا جائے گا اور پانی پڑنے کی جگہ رہے گا اور دین کو فتنوں کی وجہ سے لے کر فرار ہو گا۔

 

منافق کی مثال سے متعلق

 

قتیبہ، یعقوب، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا منافق کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بکری دو گلوں کے درمیان آ جائے وہ کبھی تو ایک گلے میں جاتی ہے اور کبھی دوسرے میں اور وہ نہیں جانتی کہ کس کے ساتھ ہوں۔

 

مومن اور منافق کی مثال جو کہ قرآن کریم پڑھتے ہوں

 

عمرو بن علی، یزید بن زریع، سعید، قتادۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس مومن کی مثال جو کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے ایسی ہے جیسے کہ ترنج کہ اس کا ذائقہ بھی بہتر ہے اور اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور اس مومن کی مثال جو کہ قرآن کی تلاوت نہیں کرتا ایسی ہے جیسے کہ کھجور اس کا مزا اور ذائقہ عمدہ ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں اور اس منافق کی مثال جو کہ قرآن کریم پڑھتا ہے کہ جیسے کہ مردہ کہ اس کی خوشبو عمدہ ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوہ ہے اور اس منافق کی مثال جو کہ قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتا جیسے کہ انڈائیں (حنظل) کا ذائقہ بھی کڑوہ ہے اور ان کی خوشبو بھی نہیں ہے۔

 

مومن کی نشانی سے متعلق

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، شعبہ، قتادۃ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جس وقت تک کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے واسطے وہ بات نہ چاہے جو اپنے واسطے چاہتا ہے۔

 

پیدائشی سنتوں سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، وکیع، زکریا بن ابو زائدۃ، مصعب بن شیبہ، طلق بن حبیب، عبداللہ بن زبیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دس باتیں پیدائشی سنتیں ہیں (1) مونچھوں کا کترنا (2) ناخن کاٹنا (3) پوروں اور جوڑوں کا دھونا (4) ڈاڑھی چھوڑنا (5) مسواک کرنا (6) ناک میں پانی ڈالنا (7) بغل کے بال کاٹنا (8) ناف کے نیچے کے بال مونڈنا (9) پیشاب کے بعد استنجاء کرنا۔ حضرت مصعب نے نقل فرمایا کہ میں دسویں بات بھول گیا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، وہ اپنے والد سے ، حضرت سلیمان تیمی سے روایت ہے کہ حضرت طلق دس باتیں نقل فرماتے مسواک کرنا ناخن اتارنا جوڑوں کا دھونا ناف کے نیچے کے بال مونڈنا ناک میں پانی ڈالنا (راوی کہتے ہیں ) مجھ کو شبہ ہے کہ کلی کرنا بھی بیان فرمایا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، ابو بشیر سے روایت ہے کہ (جن کا نام جعفر بن ایاس ہے ) انہوں نے سنا طلق بن جبیب سے وہ کہتے تھے کہ دس باتیں سنت ہیں (1) مسواک کرنا (2) مونچھیں کترنا (3) کلی کرنا (4) ناک میں پانی ڈالنا (5) ڈاڑھی بھر کر چھوڑنا (6) ناخن کترنا (7) بغل کے بال مونڈنا اکھاڑنا (8) ختنہ کرنا (9) ناف کے نیچے کے بال مونڈنا (10) اور پاخانہ کی جگہ دھونا۔ امام نسائی نے فرمایا کہ سلیمان تیمی اور جعفر بن ایاس کی روایت ٹھیک ہے حضرت مصعب بن شیبہ کی روایت سے وہ راوی منکر الحدیث ہیں۔

 

 

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ، بشر، عبدالرحمن بن اسحاق ، سعید مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ سنتیں قدیم ہیں (1) ختنہ کرنا (2) ناف کے نیچے کے بال مونڈنا (3) بغل کے بال اکھیڑنا (4) ناخن کاٹنا (5) مونچھیں کترنا۔ حضرت امام مالک نے زیر نظر حدیث شریف کو موقوفا روایت فرمایا۔

 

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، مقبری، ابو ہریرہ نے بیان فرمایا کہ پانچ باتیں پرانی پیدائشی سنت ہیں ایک تو ناخن کاٹنا۔ دوسرے مونچھیں کترنا تیسرے بغل کے بال اکھیڑنا چوتھے ناف کے نیچے کے بال مونڈنا پانچویں ختنہ کرنا۔

 

مونچھیں کترنے سے متعلق

 

محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، عبدالرحمن بن علقمہ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مونچھوں کو منڈوایا کتروا اور ڈاڑھیوں کو چھوڑ دو (یعنی ڈاڑھی کم نہ کرا اور نہ منڈا)

 

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، عبدالرحمن بن ابو علقمہ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مونچھوں کو منڈوایا کتروا اور چھوڑ دو ڈاڑھیوں کو۔

 

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، یوسف بن صہیب، حبیب بن یسار، زید بن ارقم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو کوئی مونچھیں نہ لے (یعنی مونچھیں نہ کتروائے بلکہ ہونٹوں سے بڑھائے ) وہ ہمارے میں سے نہیں ہے (یعنی ایسا شخص مسلمانوں کے راستہ پر نہیں ہے )

 

سر منڈانے کی اجازت

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ ایک لڑکے کو دیکھا کہ جس کا کچھ سر منڈا ہوا تھا اور کچھ سر منڈا ہوا نہیں تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا تمام سر منڈوا یا تمام سر پر بال رکھو۔

 

عورت کو سر منڈانے کی ممانعت سے متعلق

 

محمد بن موسیٰ حرشی، ابو داؤد، ہمام، قتادۃ، خلاس، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورت کو سر منڈانے سے منع فرمایا۔

 

قزع کی ممانعت سے متعلق

 

عمران بن یزید، عبدالرحمن بن محمد بن ابو رجال، عمر بن نافع، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو خداوند قدوس نے قزع سے منع فرمایا۔

 

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، ابو داؤد، سفیان، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قزع کی ممانعت فرمائی حضرت عبدالرحمن راوی فرماتے ہیں حضرت یحیی بن سعید اور حضرت بشر کی روایت صحیح کے زیادہ قریب ہے۔

 

سر کے بال کترنے سے متعلق

 

محمود بن غیلان، سفیان، اخوقبیصۃ و معاویہ بن ہشام، سفیان، عاصم بن کلیب وہ اپنے والد سے ، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور میرے سر پر بال تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (یہ تو) نحوست ہے۔ اس جملہ سے میں یہ سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے بال بالکل ختم کروا دیئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تم کو یہ نہیں کہا تھا اور یہ (کام) اچھا ہے (یعنی سر کے بال کتروانا)۔

 

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، وہب بن جریر، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال (مبارک) بیچ بیچ کے تھے نہ تو بہت گونگریالے تھے اور نہ بہت سیدھے کانوں اور کانڈھوں کے درمیان۔

 

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، داؤد الاودی، حمید بن عبدالرحمن حمیری سے روایت ہے کہ میری ایک آدمی سے ملاقات ہوئی جو کہ چار سال تک خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں رہا تھا جس طرح کہ حضرت ابو ہریرہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں رہتے تھے اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو روزانہ کنگھی کرنے کی ممانعت فرمائی۔

 

ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنے سے متعلق

 

علی بن حجر، عیسیٰ بن یونس، ہشام بن حسان، حسن، عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ہے کنگھی کرنے سے لیکن ایک دن چھوڑ کر۔ (یعنی روزانہ کنگھی کرنے سے منع کیا۔)

 

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو داؤد، حماد بن سلمہ، قتادۃ، حسن سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کنگھی کرنے سے لیکن ایک دن چھوڑ کر۔

 

 

٭٭ قتیبہ، بشر، یونس، حسن و محمد نے فرمایا کنگھی ایک دن کر کے کرنی چاہیے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، کہمس، عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرات صحابہ کرام میں سے ملک مصر میں حاکم تھا ایک روز اس کا ایک دوست اس کے پاس آیا دیکھا کہ وہ شخص پریشان بال اور پریشان حال ہے اس نے کہا اس کی کیا وجہ ہے کہ تمہارے بال بکھرے ہوئے ہیں اور تم امیر (یعنی حاکم) بھی ہو اس شخص (یعنی ان صحابی اور حاکم) نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو ارفاہ سے منع فرماتے تھے ہم نے کہا ارفاہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا روزانہ کنگھی کرنا۔

 

دائیں جانب سے پہلے کنگھی کرنا

 

محمد بن معمر، ابو عاصم، محمد بن بشر، اشعث بن ابو شعثاء، اسود بن یزید، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں جانب سے آغاز فرمانے کو محبوب رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں جانب سے لیتے تھے اور دائیں جانب سے دیتے تھے اور ہر ایک کام میں دائیں جانب سے شروع فرمانا پسند فرماتے تھے۔

 

سر پر بال رکھنے سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن عمار، معافی، اسرائیل، ابو اسحاق ، براء سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا میں نے کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لال رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال مبارک مونڈھوں تک تھے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، ثابت، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال (مبارک) کانوں کے نصف تک تھے (یعنی کانوں کی لو سے کچھ کم تھے )

 

 

٭٭ عبدالحمید بن محمد، مخلد، یونس بن ابو اسحاق ، وہ اپنے والد سے ، براء سے روایت ہے کہ میں نے کسی شخص کو سرخ جوڑے میں اس قدر خوبصورت (یعنی پرکشش) نہیں دیکھا کہ جس قدر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال مبارک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مونڈھوں کے نزدیک تک تھے۔

 

چوٹی رکھنے کے بارے میں

 

حسن بن اسماعیل بن سلیمان، عبدۃ بن سلیمان، الاعمش، ابو اسحاق ، ہبیرہ بن یریم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا تم قرآن پڑھنے کو مجھ کو کس قرات پر کہتے ہو؟ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ستتر اور چند سورتیں پڑھ چکا تھا جس وقت حضرت زید بن حارثہ کے سر پر دو چوٹیاں تھیں اور وہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔

 

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، سعید بن سلیمان، ابو شہاب، الاعمش، ابو وائل سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ہم کو خطبہ سنایا اور فرمایا تم مجھ کو حکم کرتے ہو حضرت زید بن ثابت کی قرات پر قرآن کریم پڑھنے کے بعد اس بات پر کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منہ سے سن چکا ہوں ستتر پر چند سورتیں اس وقت زید لڑکوں کے ساتھ پھرتے تھے اور ان کے سر پر دو چوٹیاں تھیں۔

 

 

 

٭٭ ابراہیم بن مستمر عروفی، صلت بن محمد، غسان بن الاغر بن حصین نہلشی، زیاد بن حصین سے روایت ہے انہوں نے اپنے والد سے سنا جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حضرت علی مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی میرے پاس آ چنانچہ وہ قریب آ گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے بالوں کی ایک لٹ پر ہاتھ رکھا پھر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا اور ان کے واسطے دعا فرمائی۔

 

بالوں کو لمبا کرنے سے متعلق

 

احمد بن حرب، قاسم، سفیان، عاصم بن کلیب، وہ اپنے والد سے ، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے سر پر لمبے بال تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نحوست ہے۔ میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو فرما رہے ہیں چنانچہ میں گیا اور سر کے بال کتروائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تجھ کو نہیں کہا تھا لیکن تم نے یہ اچھا کیا (یعنی تمہارا یہ اقدام ایک مستحسن قدم ہے )۔

 

داڑھی کو موڑ کر چھوٹا کرنا

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، حیوہ بن شریح، عیاص بن عباس قتبانی، شییم بن بیتان، رویفع بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ میرے بعد اے رویفع ہو سکتا ہے کہ تم زیادہ عرصہ زندہ رہو تم لوگوں سے کہہ دینا کہ جس کسی نے ڈاڑھی میں گرہیں ڈال دیں یا گھوڑے کے گلے میں تانت ڈالا یا جس نے استنجاء کیا جانور کی لید یا ہڈی سے تو محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس سے بری ہے۔

 

سفید بال اکھاڑنا

 

قتیبہ، عبدالعزیز، عمارۃ بن غزیۃ، عمرو بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی سفید بال اکھاڑنے سے۔

 

خضاب کرنے کی اجازت

 

؂عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم، عمی، ابو ، صالح، ابن شہاب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہود اور نصاریٰ خضاب نہیں کرتے تو تم لوگ ان کے خلاف کرو۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عثمان بن عبد اللہ، احمد بن جناب، عیسیٰ بن یونس، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بڑھاپے کا رنگ تبدیل کرو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو۔

 

 

٭٭ حضرت زبیر سے بھی اسی مضمون کی روایت منقول ہے۔

 

 

کالے رنگ کا خضاب ممنوع ہونے سے متعلق

 

عبدالرحمن بن عبید اللہ حلبی، عبید اللہ، ابن عمرو، عبدالکریم، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اخیر دور میں ایک قوم ہو گی جو کہ سیاہ رنگ کا خضاب کرے گی کبوتروں کے پوٹوں کی طرح۔ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گی۔

 

 

٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، ابن جریج، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا تو حضرت ابو قحافہ کو لے کر حاضر ہوئے (یہ حضرت ابو بکر کے والد تھے اور ان کا نام عثمان بن عمار تھا) ان کا سر اور ان کی ڈاڑھی دونوں ثغامہ کی طرح تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس رنگ کو بدل دو کسی دوسرے رنگ سے لیکن سیاہی سے بچو۔

 

مہندی اور وسمہ کا خضاب

 

محمد بن مسلم، یحیی بن یعلی، وہ اپنے والد سے ، غیلان، ابو اسحاق ، ابن ابو لیلی، ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمام چیزوں میں بہتر جن سے بڑھاپے کا رنگ بدلتے ہو مہندی اور وسمہ ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ مضمون سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ مضمون سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ مضمون سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، ایاد بن لقیط، ابو رمثہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ڈاڑھی میں مہندی لگا رکھی تھی۔

 

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، ایاد بن لقیط، ابو رمثۃ سے روایت ہے کہ میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ڈاڑھی میں زردی لگا رکھی تھی۔

 

زرد  رنگ سے خضاب کرنا

یعقوب بن ابراہیم، الدراوردی، زید بن اسلم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو دیکھا وہ اپنی ڈاڑھی رنگتے تھے زرد خلوق سے۔ میں نے عرض کیا اے عبدالرحمن تم اپنی ڈاڑھی زرد کرتے ہو خلوق سے۔ انہوں نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ڈاڑھی اسی سے زرد کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی دوسرا رنگ زیادہ پسندیدہ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے تمام کپڑے اس میں رنگتے تھے یہاں تک کہ عمامہ بھی۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابو داؤد، ہمام، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ قتادہ نے ان سے دریافت کیا کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خضاب کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا ان کو خضاب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

 

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالصمد، مثنی، ابن سعید، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خضاب نہیں کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سفیدی تھوڑی سی نیچے کے ہونٹ کے بالوں میں تھی اور کچھ سفیدی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کنپٹیوں کی طرف اور کچھ سفیدی سر میں ہوتی تھی۔

 

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، قاسم بن حسان، عمہ عبدالرحمن بن حرملۃ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دس باتوں کو برا خیال فرماتے تھے ایک تو خلوق سے زردی لگانے کو دوسرے بڑھاپے کا رنگ بدلنے کو تیسرے ٹخنے کے نیچے تہہ بند لٹکانے کو۔ چوتھے سونے کی انگوٹھی پہننے کو پانچویں شطرنج کھیلنے کو چھٹی بے موقع خوبصورتی کے اظہار کو (یعنی عورت کا غیر محرم کے سامنے اپنے حسن و جمال کے اظہار کو) اور ساتویں منتر پڑھنے کو علاوہ معوذات کے (یعنی قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَق اور قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاس کے علاوہ دم کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برا سمجھتے تھے ) آٹھویں تعویذ لٹکانے کو نویں نطفہ کو بے جگہ بہانے کو (جیسے کہ مشت سے منی نکالنے یا کسی دوسری طرح نطفہ ضائع کرنے کو) دسویں لڑکے کو بگاڑنے کو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان باتوں کو حرام نہیں کرتے تھے۔

 

خواتین کا خضاب کرنا

 

عمرو بن منصور، معلی بن اسد، مطیع بن میمون، صفیہ بنت عصمۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب پھیلایا ایک کتاب لینے کے واسطے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا (مبارک) ہاتھ کھینچ لیا اس خاتون نے عرض کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کتاب دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ کتاب نہ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ کو علم نہیں کہ ہاتھ عورت کاہے یا مرد کا؟ اس عورت نے کہا عورت ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت ہو تو اپنا ہاتھ مہندی سے رنگ لیتی۔ (یعنی ہاتھوں کو مہندی لگاتی)۔

 

مہندی کی بو ناپسند ہونا

 

ابراہیم بن یعقوب، ابو زید سعید بن ربیع، علی بن مبارک، کریبۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے دریافت کیا مہندی کا رنگ کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا اس میں کسی قسم کی برائی نہیں ہے لیکن میں اس کو برا سمجھتی ہوں کیونکہ میرے محبوب (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس سے نفرت فرماتے تھے۔

 

سفید بال اکھاڑنا

 

عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم، ابو و ابو اسود نضر بن عبدالجبار، مفضل بن فضالۃ، عیاش بن عباس قتبانی، ابو الحصین ہیثم بن شفی سے روایت ہے کہ میں اور میرا ایک ساتھی کہ جس کا نام ابو عامر تھا قبیلہ معافر سے بیت المقدس کی جانب نکلے نماز ادا کرنے کے لیے اور ہمارے واعظ قبیلہ ازد کے ایک شخص تھے (واضح رہے کہ ازد ایک قبیلہ کا نام ہے ) جن کا نام ابو ریحانہ تھا اور وہ صحابی تھے تو مجھ سے پہلے میرا ساتھی مسجد میں گیا پھر میں پہنچا اور میں اس کے پاس بیٹھا اس شخص نے کہا کہ تم نے ابو ریحانہ کا وعظ نہیں سنا۔ میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا میں نے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی دس باتوں سے (1) دانتوں کو برابر کرنا (2) گوندنا (3) بال اکھاڑنا (یعنی سفید بال نوچنا) (4) ایک مرد کا دوسرے مرد کے ساتھ برہنہ ہو کر (یا ایک چادر میں سونا) (5) عورت کا عورت کے ساتھ سونا (6) کپڑے کے نیچے کی جانب ریشم لگانا اہل عجم کی طرح (7) مونڈھوں پر اہل عجم کی طرح ریشم لگانا (8) لوٹ مار کرنا اور اچکنا (9) چیتوں کی کھال پر سواری کرنا (10) انگوٹھی پہننا لیکن اگر پہننے والا شخص صاحب حکومت ہو۔

 

بالوں کو جوڑنے سے متعلق

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، ہشام، قتادۃ، سعید بن مسیب، معاویہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بالوں کو جوڑنے کی ممانعت فرمائی (یعنی دوسرے بال لے کر اس کی چوٹی بنا کر اس کو اپنے بالوں میں ملانے کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی)

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، مخرمۃ بن بکیر، وہ اپنے والد سے ، سعید مقبری سے روایت ہے کہ منبر پر میں نے معاویہ بن ابی سفیان کو دیکھا کیونکہ ان کے ہاتھوں میں خواتین کے (بالوں کا) ایک چوٹا (گونسلہ) تھا۔ انہوں نے فرمایا کیا حالت ہے مسلمان خواتین کی کہ وہ اس قسم کا کام کرتی ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو خاتون اپنے سر میں بال زیادہ کرے (ملائے ) تو وہ دھوکہ دیتی ہے۔

 

جو خاتون بالوں میں جوڑ لگائے

 

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، ابو نضر، شعبہ، ہشام بن عروۃ، امراتہ فاطمۃ، اسماء بنت ابو بکر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی بال جوڑنے والی پر اور جن کے بال جوڑے جائیں۔

 

بالوں کو جڑوانا

 

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بشر، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بال جوڑنے والی پر اور جس کے بال جوڑے جائیں اور گوندنے والی پر اور جس کا (سر) گوندا جائے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ حضرت عائشہ صدیقہ سے اسی مضمون کی روایت منقول ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، خلف بن موسی، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، عزرۃ، حسن عرنی، یحیی بن جزار، مسروق سے روایت ہے کہ ایک خاتون حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میرے سر پر بال بہت کم ہیں کیا میں بال جوڑ دوں ؟ انہوں نے فرمایا نہیں۔ اس خاتون نے کہا کیا تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے یا اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے۔ انہوں نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے اور کتاب اللہ میں بھی اسی طریقہ سے پاتا ہوں پھر آخر تک بیان فرمایا۔

 

جو خواتین چہرہ کے بال (یعنی منہ کا) رواں اکھاڑیں

 

عبدالرحمن بن محمد بن سلام، ابو داؤد حفری، سفیان، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی گوندنے والی پر اور جس کا (سر) گوندا جائے اور بال اکھیڑنے والی پر یعنی پیشانی کے یا منہ کے بال اکھاڑنے والی پر اور جو دانتوں کو درمیان سے کھولیں خوبصورتی کے لیے خداوند قدوس کی پیدا کی ہوئی ہئیت کو تبدیل کرنے والیوں پر۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابان بن صمعۃ، امۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی گوندنے سے اور گوندوانے والے سے اور جوڑنے سے اور جڑوانے والے سے اور (بال) اکھیڑنے اور بال اکھڑوانے والے سے۔

 

جسم گدوانے والیوں کا بیان اور راویوں کا اختلاف اور راویوں کے اختلاف کا بیان

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، الاعمش، عبداللہ بن مرۃ، حارث، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا سود کھانے والا اور کھلانے والا اور سود کا حساب لکھنے والا جس وقت وہ واقف ہوں (کہ سود لینا حرام ہے ) اور خوبصورتی (بڑھانے کے لیے ) بال گوندنے اور بال گوندوانے والی پر اور صدقہ خیرات روکنے والے پر جو کہ ہجرت کے بعد اسلام سے منحرف ہو جائے ان تمام لوگوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لعنت ہے تا قیامت۔

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، ہشیم، حصین و مغیرہ و ابن عون، شعبی، حارث، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی سود کھانے اور کھلانے والے پر اور سود کے لکھنے والے پر اور صدقہ کو روکنے والے پر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منع فرماتے تھے چیخ کر رونے سے مرنے والے پر۔

 

 

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ، یزید بن زریع، ابن عون، شعبی، حارث سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر اور کھلانے والے پر اور سود کے گواہ پر اور سود لکھنے والے پر اور گوندنے والی پر اور گدوانے والی پر اور ایک آدمی نے کہا کہ اگر مرض کی وجہ سے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خیر اور حلالہ کرنے والے پر اور جس کے واسطے حلالہ کیا جائے اور صدقہ خیرات روکنے والے پر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منع فرماتے تھے نوحہ سے لیکن لعنت نہیں فرمائی۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے لیکن اس میں حلالہ اور صدقہ کا تذکرہ نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، عمارۃ، ابو زرعۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر کی خدمت میں ایک عورت پیش ہوئی جو کہ (جسم) گودا کرتی تھی۔ انہوں نے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں اللہ کی تم میں سے کسی نے سنا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس سلسلہ میں۔ میں اٹھا اور کہا اے امیر المومنین میں نے سنا ہے انہوں نے فرمایا کیا سنا ہے ؟ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ نہ گودو نہ گدوا۔

 

دانتوں کو کشادہ کرنے والیاں

ابو علی محمد بن یحیی مروزی، عبداللہ بن عثمان، ابو حمزۃ، عبدالملک بن عمیر، عریان بن ہیثم، قبیصۃ بن جابر، ابن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے سنا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لعنت فرماتے تھے بال اکھیڑنے والیوں پر اور جو دانتوں کو (خوبصورتی بڑھانے کے لیے ) کشادہ کرنے والیوں پر اور گودنا گودنے والی عورتوں پر جو کہ خداوند قدوس کی مخلوق کی ہوئی ہئیت کو تبدیل کرتی ہیں۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

دانتوں کو رگڑ کر باریک کرنا حرام ہونے سے متعلق

 

محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، حیوہ بن شریح، عیاش بن عباس قتبانی، ابو حصین حمیری اور ان کے ایک ساتھی ابو ریحانہ کے ساتھ رہتے تھے اور ان سے نیک باتیں سیکھتے تھے ایک دن ابو الحصین نے کہا کہ میرا ساتھی ابو ریحانہ کے پاس تھا اس نے بیان فرمایا ابو ریحانہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حرام فرمایا رگڑ کر دانتوں کو بریک کرنے سے اور بال گوندنے اور بال اکھاڑنے کو۔

 

 

 

٭٭ راوی حضرت ابو ریحانہ ہیں ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

سرمہ کا بیان

 

قتیبہ، داؤد، ابن عبدالرحمن عطار، عبداللہ بن عثمان بن خثیم، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کا بہترین سرمہ اثمہ ہے (اثمہ عرب میں ایک پتھر پایا جاتا ہے ) وہ نگاہ کو روشن کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا اس حدیث شریف کی اسناد میں ابو عبدالرحمن عبداللہ عثمان بن خثیم ہے کہ جس کی حدیث ضعیف ہے۔

 

 

تیل لگانے سے متعلق حدیث

 

محمد بن مثنی، ابو داؤد، شعبہ، سماک، جابر بن سمرۃ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بالوں کی سفیدی سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیل لگاتے تو سفیدی معلوم نہ ہوتی اور جس وقت نہ لگاتے تو (سفیدی) معلوم ہوتی۔

 

زعفران کے رنگ سے متعلق

 

محمد بن علی بن میمون، قعنبی، عبداللہ بن زید، وہ اپنے والد سے ، ابن عمر اپنے کپڑوں کو زعفران میں رنگتے تھے لوگوں نے عرض کیا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رنگا کرتے

 

عنبر لگانے سے متعلق

 

ابو عبیدۃ بن ابو سفر، عبدالصمد بن عبدالوارث، بکر مزلق، عبداللہ بن عطاء ہاشمی، محمد بن علی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوشبو لگاتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! مردانہ خوشبو (یعنی) مشک اور عنبر۔

 

 

مردوں اور خواتین کی خوشبو میں فرق سے متعلق

 

احمد بن سلیمان، ابو داؤد یعنی حفری، سفیان، جریری، ابو نضرۃ، رجل، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مردوں کی خوشبو تو وہ ہے کہ جس کی بو معلوم ہو لیکن اس میں رنگ نہ ہو اور خواتین کی خوشبو وہ ہے کہ جس کا رنگ معلوم ہو لیکن نہ بو پھیلے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن علی بن میمون رقی، محمد بن یوسف فریابی، سفیان، جریری، ابو نضرۃ، طفاوی، ابو ہریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مردوں کی خوشبو وہ ہے کہ جس کی بو معلوم ہو لیکن جس میں رنگ نہ ہو اور خواتین کی خوشبو وہ ہے کہ جس کا رنگ معلوم ہو لیکن اس کی بو نہ پھیلے۔

 

سب سے بہتر خوشبو؟

 

عبدالرحمن بن محمد بن سلام، شبابۃ، شعبہ، خلید بن جعفر، ابو نضرۃ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قوم بنی اسرائیل کی ایک خاتون نے انگوٹھی بنائی اور اس میں مشک بھری آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ سب سے عمدہ خوشبو ہے۔

 

 

زعفران لگانے سے متعلق

 

محمد بن منصور، سفیان، عمران بن ظبیان، حکیم بن سعد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں خوشبو خوب لگائے ہوئے آیا (یعنی وہ شخص خلوق لتھیڑ کر آیا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا اور اس کو دھو ڈالو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا اور اس کو دھو ڈالو پھر وہ شخص حاضر ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا اور اس کو دھو ڈالو۔ پھر نہ لگانا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عطاء بن سائب، ابو حفص بن عمرو، یعلی بن مرۃ سے روایت ہے کہ وہ خلوق (نامی خوشبو) لگائے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہاری بیوی موجود ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو دھو ڈالو اور پھر نہ لگانا۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، عطاء، حفص بن عمرو، یعلی بن مرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو دیکھا خلوق لگائے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا دھو ڈال دھو ڈال اور پھر نہ لگانا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن نضر بن مساور، سفیان، عطاء بن سائب، عبداللہ بن حفص، یعلی بن مرۃ ثقفی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو دیکھا اور (اس وقت) میرے جسم پر خلوق کا دھبہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے یعلی کیا تمہاری عورت ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو دھو ڈالو پھر نہ لگانا اس کو دھو ڈالو پھر نہ لگانا اس کو دھو ڈالو پھر نہ لگانا۔ حضرت یعلی نے کہا کہ میں نے دھو دیا پھر اس کو نہ لگایا پھر اس کو دھو دیا پھر نہ لگایا پھر دھو دیا پھر نہ لگایا۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن یعقوب صبیحی، ابن موسی، محمد، وہ اپنے والد سے ، عطاء بن سائب، عبداللہ بن حفص، یعلی بن مرہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرا اور میں اس وقت خوشبو لگائے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جا! اس کو دھو ڈالو پھر اس کو دھو ڈالو پھر اس کو (دوبارہ) نہ لگانا۔ حضرت یعلی نے کہا میں گیا اور اس کو دھو دیا پھر اس کو دھو لیا پھر (کبھی) نہ لگایا۔

 

خواتین کو کونسی خوشبو لگانا ممنوع ہے ؟

 

اسمعیل بن مسعود، خالد، ثابت، ابن عمارۃ، غنیم بن قیس، الاشعری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو خاتون عطر (یا خوشبو) لگائے اور پھر وہ لوگوں کے پاس جائے اس لیے کہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے (یعنی اس کی اس حرکت کا گناہ گناہ کبیرہ اور زنا کی طرح ہے کیونکہ اس نے غیر مردوں کو اپنی طرف متوجہ کیا)

 

عورت کا غسل کر کے خوشبو دور کرنا

 

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، سلیمان بن داؤد بن علی بن عبداللہ بن عباس ہاشمی، ابراہیم بن سعد، صفوان بن سلیم، رجل، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت عورت مسجد جانے لگے (اور اس نے خوشبو لگا رکھی ہو) تو وہ غسل کرے خوشبو سے (یعنی خوشبو دور کرے ) جس طریقہ سے وہ ناپاکی دور کرتی ہے۔

 

کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو

 

محمد بن ہشام بن عیسی، بغدادی، ابو علقمہ فروی، عبداللہ بن محمد، یزید بن خصیفۃ، بسر بن سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو عورت خوشبو لگائے ہوئے ہو تو وہ ہمارے ساتھ نماز عشاء میں شامل نہ ہو (مراد ہر ایک نماز ہے )

 

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء بن ہلال، معلی بن اسد، وہب، محمد بن عجلان، یعقوب بن عبداللہ بن الاشج، بسر بن سعید، زینب سے روایت ہے جو کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ محترمہ تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے کوئی خاتون نماز عشاء میں شامل ہونا چاہے تو اس کو چاہیے کہ وہ خوشبو نہ لگائے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو داؤد، ابراہیم بن سعد، محمد بن عبداللہ قرشی، بکیر بن الاشج، زینب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا جس وقت نماز عشاء میں حاضر ہوں تو خوشبو نہ لگائیں۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ مضمون سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح ابو طاہر، ابن وہب، مخرمۃ، وہ اپنے والد سے ، نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر جس وقت خوشبو لگاتے تو وہ عود (نامی خوشبو کا) دھواں لیتے (یعنی سونگھتے ) اور اس میں دوسری کوئی اور خوشبو نہ لگاتے اور کبھی کافور عود (نامی خوشبو) میں شامل فرماتے اور پھر فرماتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح بھی خوشبو لگائی ہے۔

 

خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق

 

وہب بن بیان، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابو عشانۃ، معافری، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ممانعت فرماتے تھے یعنی بیویوں کو زیور اور ریشم پہننے سے اور فرماتے تھے اگر تم چاہتی ہو جنت کے زیور اور اس کا ریشم تو تم اس کو دنیا میں نہ پہنو۔

 

 

 

٭٭ علی بن حجر، جریر، منصور، محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، منصور، ربعی، امراتہ، اخت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیا تو فرمایا خواتین! کیا تم چاندی کا زیور نہیں بنا سکتیں دیکھو جو خاتون تمہارے میں سے سونے کا زیور پہن کر دکھلائے (یعنی غیر محرموں کو یا فخر و تکبر سے ) تو اس کو عذاب ہو گا۔

 

 

 

٭٭ اس حدیث کا ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، یحیی بن ابو کثیر، محمود بن عمرو، اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو عورت سونے کا ہار پہنے تو اس کے گلے میں اسی طرح کا آگ کا ہار ڈالا جائے گا اور جو عورت اپنے کان میں سونے کی بالی پہنے تو خداوند قدوس اس کو اسی طرح کی بالی (یعنی بندے ) آگ کے قیامت کے روز پہنائے گا۔

 

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، یحیی بن ابو کثیر، زید، ابو سلام، ابو اسماء رحبی، ثوبان سے روایت ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے فرمایا فاطمہ جو کہ ھبیرہ کی لڑکی تھیں ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں ان کے ہاتھ میں بڑے بڑے موٹے چھلے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ہاتھ پر مارنا شروع کیا۔ وہ حضرت فاطمہ کی خدمت میں پہنچیں جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی تھیں اور انہوں نے ان سے شکوہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا۔ حضرت فاطمہ نے یہ سن کر اپنے گلے کا ہار نکال دیا جو کہ سونے کا تھا اور کہا یہ مجھ کو ابو الحسن نے تحفہ بخشا ہے (ابو الحسن یعنی حضرت علی نے )۔ اس دوران میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور وہ ہار حضرت فاطمہ کے ہاتھ میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! کیا تم پسند کرتی ہو کہ لوگ کہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی کے ہاتھ میں ایک آگ کی زنجیر ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے گئے اور قیام نہیں کیا۔ حضرت فاطمہ نے وہ زنجیر بازار میں بھیج دی اور اس کو فروخت کر کے ایک غلام خریدا پھر اس کو آزاد کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات کی اطلاع ملی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس کا شکر احسان ہے کہ جس نے (حضرت) فاطمہ کو دوزخ کی آگ سے نجات عطاء فرمائی۔

 

 

 

٭٭ سلیمان بن سلم بلخی، نضر بن شمیل، ہشام، یحیی، ابو سلام، ابو اسماء، ثوبان سے روایت ہے کہ حضرت ہبیرہ کی لڑکی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ان کے ہاتھ میں موٹی موٹی انگوٹھیاں تھیں پھر اسی مضمون کو بیان کیا جو کہ اوپر مذکور ہے۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن شاہین واسطی، خالد، مطرف، احمد بن حرب، اسباط، مطرف، ابو جہم، ابو زید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ اس دوران ایک خاتون آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس دو کنگن ہیں سونے کے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو کنگن ہیں آگ کے۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایک ہار ہے سونے کا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آگ کا ہار ہے۔ اس خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ! سونے کی دو بالیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آگ کی دو بالیاں ہیں۔ راوی نے نقل کیا کہ اس خاتون کے پاس سونے کے دو کنگن تھے اس نے وہ اتار کر پھینک دیئے اور اس نے کہا یا رسول اللہ! اگر عورت اپنا بناؤ سنگھار نہ کرے شوہر کے سامنے تو وہ اس پر بھاری ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہارے میں سے کوئی خاتون یہ نہیں کر سکتی کہ وہ چاندی کی دو بالیاں بنائے اور پھر اس کو زعفران یا عبیر سے زرد کرے۔

 

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، اسحاق بن بکر، وہ اپنے والد سے ، عمرو بن حارث، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو سونے کی پازیب پہنے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم کو بتلاتا ہوں اس سے بہتر ہے تم اس کو اتار دو اور تم چاندی کی پازیب بنا لو۔ پھر تم اس کو زعفران سے رنگ لو یہ بہتر ہے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث محفوظ نہیں ہے۔

 

 

مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں

 

قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابو افلح ہمدانی، ابن زریر، علی بن ابو طالب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ریشمی کپڑا لیا اپنے دائیں ہاتھ میں اور سونا بائیں ہاتھ میں لیا پھر فرمایا یہ دونوں حرام ہیں میری امت کے مردوں پر۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ مضمون سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ علی بن حسن درہمی، عبدالاعلی، سعید، ایوب، نافع، سعید بن ابو ہند، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری امت کی خواتین کے لیے سونا اور ریشمی کپڑا حلال ہے اور یہ مردوں کے واسطے حرام ہیں۔

 

 

 

٭٭ حسن بن قزعہ، سفیان بن حبیب، خالد، ابو قلابۃ، معاویہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مردوں کو ریشمی کپڑے پہننے سے اور سونا پہننے سے منع فرمایا مگر (ان کو) ریزہ ریزہ کر کے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالوہاب، خالد، میمون، ابو قلابۃ، معاویہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی سونے کے پہننے کی لیکن اس کو ریزہ ریزہ کر کے اور (ممانعت فرمائی) لال رنگ کے گدوں پر بیٹھنے سے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، سعید قتادۃ، ابو شیخ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ سے سنا ان کے پاس چند حضرات صحابہ کرام تشریف فرما تھے۔ حضرت معاویہ نے فرمایا کیا تم کو علم نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا سونے کے پہننے سے مگر ریزہ ریزہ کر کے۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔

 

 

 

٭٭ احمد بن حرب، اسباط، مغیرہ، مطر، ابو شیخ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک حج میں حضرت معاویہ کے ساتھ تھے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند صحابہ کرام کو جمع کیا اور فرمایا تم اس سے واقف نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کے پہننے سے منع فرمایا لیکن اس کو ریزہ ریزہ کر کے۔ انہوں نے کہا اے اللہ۔

 

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، یحیی بن کثیر، علی بن مبارک، یحیی، ابو شیخ ہنانی، ابو حمان سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ نے جس سال حج ادا کیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جمع فرمایا پھر ان سے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کے پہننے سے منع فرمایا۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت معاویہ نے فرمایا میں بھی اسی بات کا گواہ ہوں۔

 

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالصمد، حرب بن شداد، یحیی، ابو شیخ ہنانی، ابو حمان سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ نے جس سال حج ادا کیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جمع فرمایا پھر ان سے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کے پہننے سے منع فرمایا۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت معاویہ نے فرمایا میں بھی اسی بات کا گواہ ہوں۔

 

 

 

٭٭ شعیب بن شعیب بن اسحاق، عبدالوہاب بن سعید،شعیب، اوزاعی، یحییٰ بن ابو کثیر، ابو شیخ ہنانی، ابو حمان سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ نے جس سال حج ادا کیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جمع فرمایا پھر ان سے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کے پہننے سے منع فرمایا۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت معاویہ نے فرمایا میں بھی اسی بات کا گواہ ہوں۔

 

 

 

٭٭ نصیر بن فرح، عمارہ بن بشر، اوزاعی، یحییٰ بن ابو کثیر، ابو اسحاق، حمان سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ نے جس سال حج ادا کیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جمع فرمایا پھر ان سے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کے پہننے سے منع فرمایا۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت معاویہ نے فرمایا میں بھی اسی بات کا گواہ ہوں۔

 

 

 

٭٭ عباس بن ولید بن مزید، عقبہ، اوزاعی، یحییٰ، ابو اسحاق، ابو حمان سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ نے جس سال حج ادا کیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جمع فرمایا پھر ان سے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کے پہننے سے منع فرمایا۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت معاویہ نے فرمایا میں بھی اسی بات کا گواہ ہوں۔

 

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم برقی، عبداللہ بن یوسف، یحیٰ بن حمزہ، اوزاعی، یحییٰ، ابو حمان سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ نے جس سال حج ادا کیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جمع فرمایا پھر ان سے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کے پہننے سے منع فرمایا۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت معاویہ نے فرمایا میں بھی اسی بات کا گواہ ہوں۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، بے ہمس بن فہدان، ابو شیخ ہنائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت معاویہ سے سنا ان کے چاروں طرف چند افراد بیٹھے تھے جو کہ مہاجرین اور انصار میں سے تھے۔ انہوں نے کہا کیا تم واقف ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ریشمی کپڑا پہننے سے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! اور سونے کے پہننے سے منع فرمایا لیکن اس کو چورا چورا کر کے (پہن لینے کی اجازت دی)۔

 

 

 

٭٭ زیاد بن ایوب، علی بن غراب، بیمس بن فہدان، ابو شیخ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا سونے کے پہننے سے مگر اس کو ریزہ ریزہ کر کے۔

 

جس کی ناک کٹ جائے کیا وہ شخص سونے کی ناک بنا سکتا ہے ؟

 

محمد بن معمر، حبان، سلم بن زریر، عبدالرحمن بن طرفۃ، جدۃ عرفجۃ بن اسعد کی ناک (ایک جنگ میں ) ضائع ہو گئی (یعنی کٹ گئی) کلاب والے دن پس انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی تھی وہ ناک بدبودار ہو گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا سونے کی ناک بنوالی جائے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننے سے متعلق حدیث

 

محمد بن یحیی بن محمد بن کثیر حرانی، سعید بن حفص، موسیٰ بن اعین، عیسیٰ بن یونس، ضحاک بن عبدالرحمن، عطاء خراسانی، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے حضرت صہیب کو سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھتا ہوں ؟ انہوں نے فرمایا اس انگوٹھی کو تو جو تم سے بہتر تھے وہ دیکھ چکے ہیں لیکن انہوں نے اس کو دیکھ کر اس پر عیب نہیں لگایا۔ حضرت عمر نے فرمایا وہ کون تھے ؟ حضرت صہیب نے فرمایا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے۔

 

سونے کی انگوٹھی سے متعلق

 

علی بن حجر، اسماعیل، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی پہنی تمام حضرات نے سونے کی انگوٹھی پہنی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس انگوٹھی کو پہنتا تھا لیکن میں اب اس کو کبھی نہیں پہنوں گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار کر پھینک دیا۔ لوگوں نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں۔

 

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو الاحوص، ابو اسحاق ، ہبیرۃ بن یریم، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا اور ریشمی کپڑے اور لال رنگ کے گدوں پر بیٹھنے سے اور گیہوں اور جو کی شراب پینے سے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن آدم، عبدالرحیم، زکریا، ابو اسحاق ، ہبیرۃ، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا اور ریشمی کپڑا پہننے اور سرخ زین پر چڑھنے کی ممانعت فرمائی (جو ریشم کے بنے ہوں )

 

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، یحیی و ابن آدم، زہیر، ابو اسحاق ، ہبیرۃ، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی سونے کا چھلا پہننے سے اور سرخ زینوں پر چڑھنے سے اور ریشمی کپڑوں کے پہننے سے اور جعہ کے پینے سے اور پھر اس کی تیزی کا حال بیان فرمایا۔

 

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، یحیی بن آدم، عمار بن رزیق، ابو اسحاق ، صعصۃ بن صوحان، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کا چھلا اور ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا اور منع فرمایا لال رنگ کی زین پر چڑھنے اور جعہ (نامی شراب) پینے سے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا پہلی روایت ٹھیک ہے۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، اسماعیل بن سمیع، مالک بن عمیر، صعصۃ بن صوحان سے روایت ہے کہ میں نے علی سے عرض کیا تم ہم کو منع کرو اس چیز سے کہ جس چیز سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا مجھ کو منع کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تانبے اور لاکھ کے برتن سے سونے کے چھلے اور ریشم کے کپڑے پہننے سے اور سرخ رنگ کی زین سے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے لیکن یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور کے برتن میں نبیذ ڈالنے سے اور جو اور گیہوں کی شراب سے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ابو داؤد، ابو علی حنفی و عثمان بن عمر، ابو علی، عثمان، داؤد بن قیس، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو میرے دوست رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین باتوں سے منع فرمایا۔ (اگرچہ) میں یہ نہیں کہتا کہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا۔ (1) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا (2) اور ریشمی کپڑے سے منع فرمایا (3) کسم کے رنگ سے منع فرمایا جو کہ چمک دار سرخ ہو اور رکوع یا سجدہ میں قرآن کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھنے سے۔

 

 

 

٭٭ حسن بن داؤد منکدری، ابن ابو فدیک، ضحاک، ابراہیم بن حنین، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عباس، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو منع فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور ریشمی کپڑے کے پہننے سے اور لال رنگ کے اور کسم کے رنگ کے کپڑے پہننے سے اور رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم برقی، ابو اسود، نافع بن یزید، یونس، ابن شہاب، ابراہیم، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو منع فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے اور سونا اور کسم کا رنگ پہننے سے۔

 

 

 

٭٭ حسن بن قزعہ ، خالد بن حارث ، محمد بن عمرو، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین ، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو منع فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے اور سونا اور کسم کا رنگ پہننے سے۔

 

 

 

٭٭ مفہوم سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں۔

 

 

 

٭٭ مفہوم ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

یحیی بن ابی کثیر کے بارے میں اختلاف

 

ترجمہ سابق کے مطابق ہے اس روایت میں یحیی بن ابی کثیر پر اختلاف مذکور ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ اور مفہوم سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ حضرت عبیدہ سے مروی حدیث۔ ترجمہ سابقہ احادیث کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، یزید، ہشام، محمد، عبیدۃ، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی زینوں سے اور ریشمی کپڑے پہننے سے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق جیسا ہے۔

 

حضرت ابو ہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف

 

احمد بن حفص، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم، حجاج، ابن حجاج، قتادۃ، عبدالملک بن عبید، بشیر بن نہیک، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔

 

 

 

٭٭ یوسف بن حماد معنی بصری، عبدالوارث، ابو تیاح، حفص لیثی، علی عمران سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ریشمی کپڑے پہننے سے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور سبز یا سرخ برتنوں میں پانی پینے سے جو کہ لاکھ کے بنے ہوئے ہوں کیونکہ اس دور میں وہ شراب کے برتن تھے۔

 

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکر بن سوادۃ، ابو نجیب، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ملک نجران کا ایک باشندہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی جانب توجہ نہیں فرمائی اور فرمایا تم میرے پاس آگ کا ایک شعلہ لے کر آئے ہو؟

 

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عبید اللہ، اسرائیل، منصور، سالم، رجل، براء بن عازب سے روایت ہے کہ ایک آدمی ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا وہ شخص سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے (مبارک) ہاتھ میں ایک چھڑی یا ایک شاخ تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے مارا اس کی انگلی پر۔ اس شخص نے کہا میں نے کیا کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو نکال دو اپنی انگلی سے۔ یہ بات سن کر اس آدمی نے انگوٹھی کو نکالا اور پھینک دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آدمی کو دیکھا تو دریافت کیا کہ انگوٹھی کیا ہو گی۔ اس نے کہا میں نے پھینک دی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے یہ نہیں کہا تھا بلکہ میرا مطلب یہ تھا کہ اس کو فروخت کر دو اور اس کی قیمت کو اپنے کام میں خرچ کرو۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ حدیث منکر ہے۔

 

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، عفان، وہب، نعمان بن راشد، زہری، عطاء بن یزید، ابو ثعلبۃ خشنی کے ہاتھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک انگوٹھی سونے کی دیکھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو ایک چھڑی سے مارنے لگے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غافل ہوئے تو حضرت ابو ثعلبہ نے اس کو نکال کر پھینک دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم نے تم کو تکلیف دی اور تمہارا نقصان کیا۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ مفہوم سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ مفہوم سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ ابو بکر احمد بن علی مروزی، ورکانی، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے حضرت امام نسائی نے فرمایا مرسل ٹھیک ہے۔

 

انگوٹھی میں چاندی کی مقدار کا بیان

 

احمد بن سلیمان، زید بن حباب، عبداللہ بن مسلم، ابو طبیۃ، عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور وہ لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ تم اہل جہنم کا زیور پہن رہے ہو (یہ سن کر) اس نے وہ انگوٹھی اتار کر پھینک دی پھر وہ شخص آیا اور وہ پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم سے بتوں کی بدبو محسوس کر رہا ہوں کیونکہ بت پیتل کے تیار ہوتے ہیں اس شخص نے وہ انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر میں انگوٹھی کس چیز کی تیار کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چاندی کی لیکن جس وقت وہ ایک مثقال سے کم ہو جائز ہے۔

 

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی کی کیفیت

 

عباس بن عبدالعظیم عنبری، عثمان بن عمر، یونس، زہری، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چاندی کی انگوٹھی بنائی تھی اس انگوٹھی کا نگینہ (علاقہ) حبش کا تھا اور اس انگوٹھی میں نقش تھا محمد رسول اللہ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)

 

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، عباد بن موسی، طلحہ بن یحیی، یونس بن یزید، ابن شہاب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو دائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے اور اس انگوٹھی کا نگینہ حبشی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا کرتے تھے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن خالد بن خلی حمصی، وہ اپنے والد سے ، سلمہ، ابن عبدالملک عوصی، حسن، ابن صالح بن حی، عاصم، حمید طویل، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔

 

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی ، امیہ بن بسطام ، معتمر ، حمید، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔

 

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان ، موسیٰ بن داؤد ، زہیر بن معاویہ ، حمید، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔

 

 

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ، بشر، ابن مفضل، شعبہ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روم کے بادشاہ کو کچھ لکھنا چاہا لوگوں نے عرض کیا ہم اہل روم اس تحریر کو نہیں پڑھتے کہ جس پر مہر نہ ہو اس پر آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی گویا کہ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں اس میں تحریر تھا محمد رسول اللہ۔

 

 

 

٭٭ احمد بن عثمان ابو جوزاء، ابو داؤد، قرۃ بن خالد، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عشاء میں آدھی رات تک تاخیر فرما دی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے اور نماز عشاء ہم لوگوں کے ساتھ ادا فرمائی گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھی تھی۔

 

 

انگوٹھی کس ہاتھ میں پہنے ؟

 

ربیع بن سلیمان، ابن وہب، سلیمان، ابن بلال، شریک، ابن ابو نمر، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، وہ اپنے والد سے ، علی، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن معمر بحرانی ، حبان بن ہلال ، حماد بن سلمہ ، ابن ابی رافع، عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے ماقبل مذکورہ مضمون جیسی روایت منقول ہے۔

 

جس لو ہے پر چاندی چڑھی ہو اس کی انگوٹھی پہننا

 

عمرو بن علی، ابو عتاب سہل بن حماد، ابو داؤد، ابو عتاب سہل بن حماد، ابو مکین، ایاس بن حارث بن معیقب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی (مبارک) انگوٹھی لوہے کی تھی اور اس پر چاندی لپٹی ہوئی تھی وہ انگوٹھی کبھی میرے ہاتھ میں ہوتی تھی اور حضرت معیقیب اس کی حفاظت کے لیے مقرر تھے (یعنی وہ اس کی حفاظت کرتے تھے )

 

 

کانسی کی انگوٹھی کا بیان

 

علی بن محمد بن علی مصیصی، داؤد بن منصور، لیث بن سعد، عمرو بن حارث، بکر بن سوادۃ، ابو نجیب، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک شخص ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بحرین سے حاضر ہوا اور اس نے سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب نہیں دیا اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی اور وہ شخص ریشم کا ایک چوغہ پہنے ہوئے تھا۔ اس نے وہ دونوں اتار دیئے پھر آیا اور اس نے سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ پھر اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ابھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری طرف نہیں دیکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس وقت تمہارے پاس آگ کا ایک شعلہ تھا اس نے کہا میں تو کافی مقدار میں آگ کے شعلے لے کر آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو تم لے کر آئے ہو وہ حرا (جو کہ مدینہ منورہ کے نزدیک ایک مقام ہے ) کے پتھروں سے زیادہ مفید نہیں ہے یعنی سونے کے ڈھیلے اور زمین کے پتھر دونوں ہی برابر ہیں البتہ یہ دنیا کی پونجی ہے پھر اس نے کہا میں کس شے کی انگوٹھی بناؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوہے کا ایک چھلہ بنا لو یا چاندی یا پیتل کا چھلہ بنا لو۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن عبداللہ انصاری، ہشام بن حسان، عبدالعزیز بن صہیب، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکلے (یعنی روانہ ہو گئے ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چاندی کا چھلا بنوا رکھا تھا۔ ارشاد فرمایا جس شخص کا دل چاہے وہ اس طرح کا چھلہ بنوالے لیکن جو اس پر کندہ ہے وہ کندہ نہ کرائے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد سلیمان بن سیف حرانی، ہارون بن اسماعیل، علی بن مبارک، عبدالعزیزبن صہیب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر (حروف) کندہ کرائے پھر ارشاد فرمایا ہم نے انگوٹھی بنائی ہے اور کندہ کرایا ہے اب کوئی دوسرا شخص اس طرح (کا مضمون) نہ کھدوائے۔ حضرت انس نے فرمایا میں اس کی روشنی گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے (مبارک) ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں۔

 

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ انگوٹھی پر عربی عبارت نہ کھدوا

 

مجاہد بن موسیٰ خوارزمی بغداد، ہشیم، عوام بن حوشب، ازہر بن راشد، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ مشرکین کی آگ سے روشنی نہ کرو اور اپنی انگوٹھیوں پر عربی (عبارت) نہ کھدوا۔

 

کلمہ کی انگلی میں انگوٹھی پہننے کی ممانعت

 

محمد بن منصور، سفیان، عاصم بن کلیب، ابو بردۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم خداوند قدوس سے ہدایت اور سیدھے راستہ کی دعا مانگو اور تم ٹھیک اور درست کام کرو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اس انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کلمہ کی انگلی اور درمیان کی انگلی کی طرف۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق روایت کے مطابق ہے۔

 

بیت الخلاء جاتے وقت انگوٹھی اتارنے سے متعلق

 

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، سعید بن عامر، ہمام، ابن جریج، زہری، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت پائخانہ میں جانے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی انگوٹھی اتار دیتے کیونکہ اس میں لکھا ہوتا تھا محمد رسول اللہ۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معتمر، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا۔ لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں تیار کیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی انگوٹھی اتار کر پھینک دی چنانچہ لوگوں نے بھی (اپنی اپنی) انگوٹھیاں اتار ڈالیں

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اپنی انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور فرمایا میں اب اس کو نہیں پہنوں گا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ایوب بن موسی، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک انگوٹھی سونے کی پہنی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار دیا اور چاندی کی انگوٹھی پہن لی جس میں یہ کندہ تھا محمد رسول اللہ اور فرمایا کسی کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ اپنی انگوٹھی میں یہ کندہ کرائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا۔

 

 

٭٭ محمد بن معمر، ابو عاصم، مغیرہ بن زیاد، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی تین روز تک پہنی جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام نے دیکھا تو (چاروں طرف سے ) سونے کی انگوٹھیاں پھیل گئیں (یعنی تمام ہی لوگ اس کو پہننے لگے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دیکھ کر انگوٹھی پھینک دی نہ معلوم وہ کیا ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور حکم فرمایا اس میں یہ عبارت کندہ کرانے کا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وہ انگوٹھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں رہی۔ یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی پھر حضرت عمر کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی پھر حضرت عثمان کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی چھ سال تک رہی اور ان کے استعمال میں رہی جب کافی تعداد میں خطوط لکھے جانے لگے تو حضرت عثمان نے وہ انگوٹھی ایک انصاری کو عنایت فرما دی اس سے مہر لگائی جاتی رہی ایک روز وہ انصاری صحابی حضرت عثمان کے کنوئیں پر گئے تو وہ انگوٹھی اس میں گر گئی اس کی کافی تلاش کرائی گئی لیکن وہ نہ مل سکی تو حضرت عثمان نے حکم فرمایا اسی قسم کی انگوٹھی بنوائے جانے کا اور انہوں نے اس میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کندہ کرایا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، ابو بشیر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی اور انہوں نے اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھا اور ہتھیلی کی طرف رکھا چنانچہ لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھی بنوالی (لیکن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو پھینک دیا لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک ڈالیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اس سے مہر لگائی جاتی رہی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو نہیں پہنتے تھے۔

 

گھونگرو اور گھنٹہ سے متعلق

 

محمد بن عثمان بن ابو صفوان ثقفی، عثمان بن ابو عاص، ابراہیم بن ابو وزیر، نافع بن عمر جمحی، ابو بکر بن ابو شیخ سے روایت ہے کہ میں حضرت سالم کے پاس بیٹھا تھا کہ اس دوران ان کے ساتھ قبیلہ امالبنین کا ایک قافلہ نکل آیا ان لوگوں کے ساتھ گھنٹیاں تھیں تو حضرت سالم نے حضرت نافع سے حدیث نقل کی میں نے اپنے والد صاحب سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فرشتے ساتھ نہیں جاتے اس قافلہ کے جس میں گھنٹہ ہو ان کے ساتھ تو کس قدر گھنٹے ہوتے ہیں۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن محمد بن سلام طرسوسی، یزید بن ہارون، نافع بن عمر جمحی، ابو بکر بن موسیٰ سے روایت ہے کہ میں حضرت سالم کے ساتھ رہتا تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فرشتے ان لوگوں کے ساتھ نہیں رہتے کہ جن کے ساتھ گھنٹہ ہو۔

 

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

 

٭٭ یوسف بن سعید بن مسلم، حجاج، ابن جریج، سلیمان بن بابیہ، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے کہ جس میں کہ گھونگرو یا گھنٹہ ہو اور فرشتے ان لوگوں کے ساتھ بھی نہیں رہتے کہ جن کے ساتھ گھنٹہ ہو۔

 

 

 

٭٭ ابو کریب محمد بن العلاء، ابو بکر بن عیاش، ابو اسحاق ، ابو الاحوص سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے کپڑے پھٹے ہوئے دیکھے (یعنی مجھ کو خراب لباس میں دیکھا) تو دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس مال دولت ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ! سب کچھ موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر جس وقت خداوند قدوس نے تم کو مال عطاء فرمایا ہے تو تم پر اس کا اثر ظاہر ہونا چاہیے۔

 

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، ابو نعیم، زہیر، ابو اسحاق ، ابو الاحوص سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے خراب کپڑے پہنے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا تمہارے پاس مال موجود ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں میرے پاس مال ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے پاس کس قسم کا مال موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا اونٹ گائے بکریاں گھوڑے غلام اور باندی (سب کچھ) ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب خداوند قدوس نے تم کو مال عطا فرمایا ہے (یعنی تم کو نوازا گیا ہے ) تو تم کو چاہیے کہ اس کا احسان اور فضل ظاہر کرو (یعنی تم زندگی اس طرح سے گزارو کہ لوگ تم کو خوش حال سمجھیں )۔

 

فطرت کا بیان

 

ابن سنی، ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب، محمد بن عبدالاعلی، معتمر، ابن سلیمان، معمر، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ چیزیں فطرتی ہیں (1) مونچھیں کترنا (2) بغل کے بال اکھیڑنا (3) ناخن کاٹنا (4) ناف کے نیچے کے بال مونڈنا (5) ختنہ کرنا۔

 

مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا بیان

 

عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مونچھوں کو کترو اور ڈاڑھیوں کو چھوڑ دو۔

 

بچوں کا سر مونڈنے کا بیان

 

اسحاق بن منصور، وہب بن جریر، وہ اپنے والد سے ، محمد بن ابو یعقوب، عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مہلت عطاء فرمائی حضرت جعفر بن ابی طالب کے رشتہ داروں کو تین دن کی (یعنی تین روز تک ان کی وفات پر غم منانے کی) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تم لوگ اب میرے بھائی پر نہ رو اور فرمایا میرے بھائی کے بچوں کو بلا چنانچہ ہم لوگ چوروں کی طرح لائے گئے (یعنی ہم لوگ چھوٹے چھوٹے بڑے بڑے بال میں لائے گئے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حجام کو بلا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر مونڈنے کا حکم فرمایا۔

 

بچے کا سر کچھ منڈانا اور کچھ چھوڑنا ممنوع ہے

 

احمد بن عبدۃ، حماد، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قزع سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

سر پر بال رکھنے سے متعلق

 

علی بن حسین، امیۃ بن خالد، شعبہ، اسحاق ، براء سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قد مبارک درمیانہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان بہت جگہ تھی اور ڈاڑھی مبارک بہت گھنی تھی اور کچھ سرخی ظاہر تھی اور سر کے بال کانوں کی لو تک تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لال رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ میں نے کسی کو خوبصورت اور سجیلا نہیں دیکھا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم مبارک متناسب سجاوٹ والا تھا)۔

 

 

 

٭٭ حاجب بن سلیمان، وکیع، سفیان، ابو اسحاق ، براء سے روایت ہے کہ میں نے کسی بال والے کو جوڑا پہنے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال مبارک مونڈھوں کے نزدیک تھے۔

 

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، حمید، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال مبارک آدھے کانوں تک تھے۔

 

 

 

٭٭ محمد بن معمر، حبان، ہمام، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال (مبارک) مونڈھوں تک پہنچتے تھے۔

 

بالوں کو برابر کرنے یعنی کنگھی کرنے اور تیل لگانے سے متعلق

 

علی بن خشرم، عیسی، الاوزاعی، حسان بن عطیہ، محمد بن منکدر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے تو آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے سر کے بال پراگندہ (یعنی بکھرے ہوئے ) تھے۔ آپ نے فرمایا کیا اس شخص سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے بال برابر (صحیح) کر لے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عمر بن علی بن مقدم، یحیی بن سعید، محمد بن منکدر، ابو قتادۃ سے روایت ہے کہ ان کے سر پر بالوں کا ہجوم تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کو اچھی طرح سے رکھو اور تم روزانہ کنگھی کرو۔

 

بالوں میں مانگ نکالنا

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بالوں کو چھوڑ دیا کرتے تھے اور مشرکین بالوں میں مانگ نکالا کرتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اہل کتاب کی موافقت کو دوست رکھتے تھے ان باتوں کی کہ جن باتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کچھ حکم نہ ہوتا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مانگ نکالنے لگے۔

 

کنگھی کرنے سے متعلق

 

یعقوب بن ابراہیم، ابن علیۃ، جریری، عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا جس کا نام عبید تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ممانعت فرماتے تھے بہت عیش میں پڑنے سے۔ اسی کی ایک قسم کنگھی کرنا ہے۔

 

کنگھی دائیں جانب سے شروع کرنے سے متعلق

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، اشعث، وہ اپنے والد سے ، مسروق، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پسند فرماتے تھے دائیں جانب سے شروع کرنے کو وضو اور جوتا پہننے اور کنگھی کرنے میں۔

 

خضاب کرنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، ابو سلمہ و سلیمان بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے ابو ہریرہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہود اور نصاریٰ بالوں کو نہیں رنگتے ہیں (لہذا) تم ان کے خلاف کرو۔

 

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن حارث، عزرۃ، ابن ثابت، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حضرت ابو قحافہ (حضرت ابو بکر صدیق کے والد) کو لے کر آئے ان کے سر کے بال اور ڈاڑھی کے بال دونوں کے دونوں ہی ایک طرح کے ہو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کا رنگ تبدیل کر لو اور تم خضاب کر لو۔

 

داڑھی زرد کرنے سے متعلق

 

یحیی بن حکیم، ابو قتیبہ، عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار، زید بن اسلم، عبید سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو دیکھا کہ وہ اپنی ڈاڑھی زرد کیا کرتے تھے میں نے ان سے اس کے متعلق اس سلسلہ میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طرح سے کیا کرتے تھے۔

 

ورس اور زعفران سے داڑھی کو زرد کرنا

 

عبدۃ بن عبدالرحیم، عمرو بن محمد، ابن ابو داؤد ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چمڑے کے جوتے پہنا کرتے تھے اور ڈاڑھی کو زرد کیا کرتے تھے ورس سے (ورس زرد رنگ کی گھاس ہوتی ہے ) اور زعفران سے اور عبداللہ بن عمر بھی اسی طرح سے کرتے تھے۔

 

بالوں میں جوڑ لگانے سے متعلق

 

قتیبہ، سفیان، زہری، حمید بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں نے حضرت معاویہ سے سنا وہ مدینہ منورہ میں منبر پر تھے۔ انہوں نے اپنی آستینوں سے بالوں کا ایک گھچا نکالا اور فرمایا اے اہل مدینہ! تم لوگوں کے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کام کی ممانعت فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کی مستورات تباہ ہو گئیں جبکہ انہوں نے اس طرح کی حرکات کیں۔

 

بالوں میں جوڑ لگانے سے متعلق

 

محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرۃ، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو انہوں نے ہم لوگوں کو خطبہ سنایا اور بالوں کا ایک گچھا لیا اور فرمایا میں نے یہ کام کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے علاوہ یہود کے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا نام زور رکھا ہے۔

 

دھجی سے بال جوڑنے سے متعلق

 

عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب بن موسی، ابن مبارک، یعقوب بن قعقاع، قتادۃ، ابن مسیب، معاویہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا اے لوگو! رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے تم کو زور سے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک سیاہ رنگ کے کپڑے کا ٹکڑا نکالا اور فرمایا یہی زور ہے اور کوئی عورت اس کو اپنے سر میں رکھ کر سر پر اوپر سے دوپٹہ اوڑھ لیتی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم، اسد بن موسی، حماد بن سلمہ، ہشام بن ابو عبد اللہ، قتادۃ، سعید بن مسیب، معاویہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زور سے ممانعت فرمائی اور زور وہ ہے کہ جو اپنے سر پر لپیٹ لے (یعنی دوسرے کو اپنے بال زیادہ دکھلانے کے لیے بال میں جوڑ لگائے )۔

 

جوڑ لگانے والی یعنی بال میں بال ملانے والی پر لعنت سے متعلق

 

عبید اللہ بن سعید، علی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بال میں بال ملانے والی پر لعنت فرمائی۔

 

بال میں بال ملانے والی اور بال ملوانے والی دونوں لعنت کی مستحق ہیں

 

محمد بن مثنی، یحیی، ہشام، فاطمۃ، اسماء سے روایت ہے کہ ایک خاتون خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! ایک لڑکی ہے جو کہ نئی نویلی دلہن ہے وہ بیمار پڑ گئی اور اس کے سر کے بال جھڑ گئے تو کیا مجھ پر کسی قسم کا گناہ ہے اگر میں اس کے سر میں بال ملوا دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے بال میں بال ملوانے والی اور بال ملانے والی پر۔

 

جسم کو گود نے اور گدوانے والی عورتوں پر لعنت

 

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بشر، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی بالوں کو جوڑنے والی اور جڑوانے والی پر جسم گودنے اور جسم گدوانے والی پر۔

 

چہرہ کا رواں اکھاڑنے والی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی پر لعنت

 

محمد بن بشار، محمد، شعبہ، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (خوبصورتی کیلئے ) روئیں اکھاڑنے والی عورتوں دانتوں کو کشادہ کرنے والی عورتوں اور جو خداوند قدوس کی پیدائش کو بدلتی ہیں ان پر لعنت فرمائی۔

 

 

٭٭ احمد بن سعید، وہب بن جریر، وہ اپنے والد سے ، الاعمش، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی (بالوں کو) اکھاڑنے والیوں پر اور چہرہ کا رواں اکھاڑنے والیوں پر جو کہ خداوند قدوس کی پیدائش کو بدلتی ہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن یحیی بن محمد، عمر بن حفص، وہ اپنے والد سے ، الاعمش، ابراہیم، ابو عبید ۃ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ نے لعنت فرمائی چہرہ کے بال اکھاڑنے والیوں پر دانت کشادہ کرنے والیوں پر اور گودنے والیوں پر جو اللہ کی مخلوق کو بدلتی ہیں ایک خاتون (یہ بات سن کر) ان کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ تم ایسا ایسا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا میں یہ بات کس وجہ سے نہ کہوں جیسا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، سلیمان الاعمش، ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی گودنے والی عورتوں پر اور چہرہ کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر آگاہ ہو جاؤ کہ میں لعنت کرتا ہوں جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے

 

زعفران کے رنگ سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، اسماعیل، عبدالعزیز، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی مردوں کے لیے زعفران سے (یعنی عورت کے لیے یہ رنگ حلال ہے )

 

 

 

٭٭ محمد بن عمر بن علی بن مقدم، زکریا بن یحیی بن عمارۃ انصاری، عبدالعزیز بن صہیب، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی مرد کو جسم پر زعفران لگانے سے۔

 

خوشبو کے متعلق احادیث

 

اسحاق ، وکیع، عزرۃ بن ثابت، ثمامۃ بن عبداللہ بن انس، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جس وقت کوئی شخص خوشبو کے کر حاضر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو واپس نہ فرماتے (یعنی خوشبو لے لیا کرتے تھے )۔

 

 

 

٭٭ عبید اللہ بن فصالۃ بن ابراہیم، عبداللہ بن یزید مقبری، سعید، عبید اللہ بن ابو جعفر، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کسی کے سامنے خوشبو پیش کی جائے تو وہ شخص اس کو واپس نے کرے کیونکہ اس کا وزن کم ہے لیکن خوشبو عمدہ ہے۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، ابن عجلان، بکیر، عبید اللہ بن سعید، یحیی، ابن عجلان، بکیر بن عبداللہ بن الاشج، بسر بن سعید، زینب سے روایت ہے کہ جو حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ محترمہ تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی تمہارے میں سے نماز عشاء کے واسطے مسجد میں حاضر ہو یعنی جو خاتون نماز عشاء کے واسطے مسجد میں حاضر ہونا چاہے تو خوشبو نہ لگائے۔

 

 

 

٭٭ احمد بن سعید، یعقوب بن ابراہیم، وہ اپنے والد سے ، صالح، محمد بن عبداللہ بن عمرو بن ہشام، بکیر بن عبداللہ بن الاشج، بسر بن سعید، زینب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم نماز عشاء کے واسطے نکلو تو خوشبو نہ لگاؤ۔

 

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، ابن ابو جعفر، بکیر بن عبداللہ بن الاشج، بسر بن سعید، زینب ثقفیۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم میں سے کوئی شخص مسجد میں جانے لگے تو خوشبو نہ لگائے۔

 

 

کونسی خوشبو عمدہ ہے ؟

 

محمد بن ہشام بن عیسی، ابو علقمہ فروی، عبداللہ بن محمد، یزید بن خصیفۃ، بسر بن سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی عورت (خوشبو کی) دھونی لے تو وہ ہمارے ساتھ نماز عشاء کی جماعت میں شامل نہ ہو۔

 

 

 

٭٭ حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خاتون کا تذکرہ کیا کہ جس نے اپنی انگوٹھی میں مشک بھر لی تھی تو فرمایا یہ سب سے عمدہ قسم کی خوشبو ہے۔

 

سونا پہننے کی ممانعت سے متعلق

 

عمرو بن علی، یحیی و یزید و معتمر و بشر بن مفضل، عبید اللہ، نافع، سعید بن ابو ہند، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ خداوند قدوس نے حلال فرمایا میری امت کی خواتین کے لیے ریشم اور سونے کو اور مردوں کے لیے ان دونوں کو حرام کیا۔

 

 

سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق

 

محمد بن ولید، محمد، شعبہ، ابو بکر بن حفص، عبداللہ بن حنین، ابن عباس نے فرمایا کہ میں لال رنگ کے کپڑے پہننے سے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے منع کیا گیا ہوں۔

 

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ابن عجلان، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو منع فرمایا سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور قرآن کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں پڑھنے سے اور ریشمی کپڑا پہننے سے اور کسم کا رنگ پہننے سے۔

 

انگوٹھی اتارنا اور اس کو نہ پہننا

قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو پہنا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب کیا لوگوں نے بھی اسی طرح کر لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس انگوٹھی کو اتار لیا اور فرمایا میں اس انگوٹھی کو پہنا کرتا تھا اور میں اس کا نگینہ اندر کی جانب رکھا کرتا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار کر پھینک ڈالا اور فرمایا خدا کی قسم اس کو میں اب کبھی نہ پہنوں گا لوگوں نے بھی (آخر کار) اپنی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں۔

 

 

 

٭٭ محمد بن سلیمان، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، انس سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ایک چاندی کی انگوٹھی دیکھی ایک روز لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوائیں اور ان کو پہن لیا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار دیا اور لوگوں نے بھی اس کو اتار دیا۔

 

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، ابو بشر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب فرمایا لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار دیا۔ چنانچہ لوگوں نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیاں اتار دیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مہر لگاتے لیکن اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہیں پہنتے تھے۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بشر، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوائیں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار دیا اور فرمایا میں اب کبھی اس کو نہیں پہنوں گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اس کو اپنے ہاتھ میں رکھا پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھ میں رہی پھر حضرت عثمان کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ وہ ابریس (نامی) کنوئیں میں گر گئی پھر کافی تلاش کے بعد بھی نہ مل سکی اور اس دن سے ہی فتنہ (و فساد) شروع ہو گیا۔

 

کس قسم کے کپڑے پہننا بہتر ہیں اور کس قسم کے کپڑے برے ہیں ؟

 

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن یزید، اسماعیل بن ابو خالد، ابو اسحاق ، ابو الاحوص سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری حالت بری (یعنی خراب) دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ موجود ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ہر طرح کا مال خداوند قدوس نے مجھ کو عطاء فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تمہارے پاس مال موجود ہے تو تم سے وہ مال نظر آنا چاہیے

 

سیرا (لباس) کی ممانعت سے متعلق

 

اسحاق بن منصور، عبداللہ بن نمیر، عبید اللہ، نافع، ابن عمر، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک جوڑا دیکھا سیرا کا جو کہ مسجد کے دروازہ پر فروخت ہو رہا تھا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو لے لیتے جمعہ کے دن استعمال فرمانے کے لیے اور اس دن کے لیے (لے لیتے کہ) جس دن دوسرے ممالک کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات کرنے کے لیے آتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کو وہ شخص پہنے گا کہ جس کا آخرت میں کسی قسم کا حصہ نہیں ہے پھر اسی قسم کے چند جوڑے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش کیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے ایک جوڑا حضرت عمر کو عطا فرمایا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو یہ (جوڑا) پہناتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے قبل کیا ارشاد فرمایا تھا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تم کو اس وجہ سے نہیں دیا کہ تم خود اس کو پہن لو بلکہ تم اس کو کسی دوسرے کو پہنایا تم اس کو فروخت کر دو۔ حضرت عمر نے وہ جوڑا اپنے ایک ماں شریک (اخیافی) بھائی کو دے دیا جو کہ مشرک تھا۔

 

عورتوں کو سیرا (نامی لباس) کی اجازت سے متعلق

 

حسین بن حریث، عیسیٰ بن یونس، معمر، زہری، انس سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زینب کو جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی تھیں ایک کرتہ ریشمی سیرا کا پہنے ہوئے دیکھا۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیہ، زبیدی، زہری، انس بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ام کلثوم کو جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی تھیں ایک سیرا کی چادر پہنے ہوئے دیکھا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر و ابو عامر، شعبہ، ابو عون ثقفی، ابو صالح حنفی، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں ایک جوڑا آیا سیرا کا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا چنانچہ میں نے اس کو پہن کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ پر غصہ آ گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تم کو اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ تم اس کو پہن لو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو حکم فرمایا میں نے اس کو اپنی مستورات میں تقسیم کر دیا۔

 

استبرق پہننے کی ممانعت

 

اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن حارث مخزومی، حنظلۃ بن ابو سفیان، سالم بن عبد اللہ، ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر ایک روز باہر نکلے تو انہوں نے استبرق کا ایک جوڑا بازار میں فروخت ہوتے ہوئے دیکھا۔ چنانچہ وہ جوڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خرید لیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو جمعہ کے دن پہن لیا کریں اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لوگ دوسرے ممالک سے آئیں (اس وقت اس کو پہن لیا کریں ) یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ لباس تو وہ شخص پہنے گا کہ جس کو آخرت میں کچھ نہیں ملے گا پھر اس قسم کے تین جوڑے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جوڑا حضرت عمر کو عنایت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو فروخت کر دو اور تم اپنی ضرورت پوری کرو یا تم اس کے (ٹکڑے ٹکڑے کر کے ) اس کے اپنی مستورات کے دوپٹے بنا دو۔

 

استبرق کی کیفیت سے متعلق

 

عمران بن موسی، عبدالوارث، یحیی ابن ابو اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت سالم نے فرمایا استبرق کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا وہ ایک قسم کا دیبا (یعنی ایک قسم کا ریشم کا کپڑا ہوتا ہے ) حضرت سالم نے کہا میں نے حضرت عبداللہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ حضرت عمر نے ایک جوڑا سندس کا (یہ بھی ریشم کے کپڑے کی ایک قسم ہوتی ہے ) دیکھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو خرید لیں۔ آخر حدیث تک۔

 

دیبا پہننے کی ممانعت سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ابن ابو نجیح، مجاہد، ابن ابو لیلی و یزید بن ابو زیاد، ابن ابو لیلی و ابو فروۃ، عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ نے پانی مانگا تو ایک دیہاتی شخص چاندی کے برتن میں پانی لے کر آیا حضرت حذیفہ نے اس کو پھینک دیا پھر معذرت کر لی اور فرمایا مجھ کو اس کے پہننے کی ممانعت ہے۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے تم لوگ سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیو اور تم لوگ دیبا نہ پہنو اور حریر (یعنی ریشم) نہ پہنو یہ ان کے (یعنی کفار کے لیے ) دنیا میں ہیں اور ہم لوگوں کے واسطے آخرت میں ہیں۔

 

 

دیبا پہننا جو کہ سونے کی تار سے بنا گیا ہو

 

حسن بن قزعۃ، خالد، ابن حارث، محمد بن عمرو، واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ سے روایت ہے کہ میں حضرت انس بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوا جس وقت وہ مدینہ منورہ میں تشریف لائے میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے فرمایا تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا میں واقد ہوں۔ حضرت عمرو کا لڑکا اور حضرت سعد بن معاذ کا پوتا۔ حضرت انس نے یہ بات سن کر کہا حضرت سعد بن معاذ تو بڑے آدمی تھے اور وہ بہت لمبے تھے۔ یہ بات کہہ کر وہ روئے اور بہت روئے پھر فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لشکر بادشاہ اکیدر کے پاس روانہ فرمایا جو کہ رومہ کا سردار تھا۔ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے ایک جبہ دیبا کا بھیجا جو کہ سونے سے بنا ہوا تھا (یعنی وہ چوغہ سونے کی تاروں سے تیار کیا گیا تھا) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو پہنا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر کھڑے ہوئے اور بیٹھ گئے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہوئے ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گفتگو نہیں فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (نیچے ) اتر آئے لوگ اس کو ہاتھ سے چھونے لگ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تعجب فرمانے لگے (یعنی اس کی چمک دمک سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حیران ہو گئے ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ کیا تعجب کر رہے ہو حضرت سعد بن معاذ کے رومال جنت میں اس سے بہتر ہیں (تو ان کے لباس کا کیا حال ہو گا ؟)

 

مذکورہ بالا شے دیبا کے منسوخ ہونے سے متعلق

 

یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیبا کی ایک قباء پہنی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہدیہ میں پہنچی تھی۔ پھر کچھ دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ قباء اتار دی اور حضرت عمر کے پاس روانہ فرما دی لوگوں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو کس وجہ سے اتارا ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ کو حضرت جبرائیل نے اس کے پہننے سے منع فرمایا ہے یہ بات سن کر حضرت عمر روتے ہوئے آئے اور فرمانے لگے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو وہ شے عنایت فرمائی ہے اس وجہ سے میں نے نہیں دی کہ تم اس کو پہنو میں نے تم کو اس وجہ سے دی ہے کہ تم اس کو فروخت کرو۔ چنانچہ حضرت عمر نے اس کو دو ہزار درہم میں فروخت کیا۔

 

ریشم پہننے کی سزا اور وعید اور جو شخص اس کو دنیا میں پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا

 

قتیبہ، حماد، ثابت، عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ وہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ریشمی کپڑا دنیا میں پہنے اس کو آخرت میں نہیں ملے گا۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، نضر بن شمیل، شعبہ، خلیفۃ، عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ (وہ منبر پر) فرما رہے تھے کہ تم لوگ اپنی مستورات کو ریشمی کپڑا نہ پہنا اس لیے کہ میں نے حضرت عمر سے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ریشمی کپڑا دنیا میں پہنے آخرت میں وہ اس کو نہ پہنے گا۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، عبداللہ بن رجاء، حرب، یحیی بن ابو کثیر، عمران بن حطان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے دریافت کہ ریشمی کپڑا پہننا کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا تم حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کرو۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا تم اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت کرو۔ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا مجھ سے حضرت ابو حفص نے نقل کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشمی کپڑا پہنے گا تو اس کا آخرت میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ سلیمان بن سلم، نضر، شعبہ، قتادۃ، بکر بن عبداللہ و بشر بن محتفز، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ریشمی لباس وہ شخص پہنتا ہے کہ جس کا آخرت میں حصہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، ابو نعمان، صعق بن حزن، قتادۃ، علی بارقی سے روایت ہے کہ ایک خاتون میرے پاس آئی وہ مجھ سے مسئلہ دریافت کرنے لگی میں نے کہا یہ حضرت عبداللہ بن عمر ہیں (یعنی تم ان سے دریافت کر لو) چنانچہ وہ خاتون ان کے پیچھے چلی گئی تاکہ مسئلہ دریافت کر سکے۔ میں اس خاتون کے پیچھے سننے کے لیے گیا بیان کرتے ہیں کہ اس خاتون نے عرض کیا مجھ کو ریشمی لباس سے متعلق مسئلہ بتلاؤ۔ انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اس سے منع فرمایا۔

 

ریشمی لباس پہننے کی ممانعت کا بیان،

سلیمان بن منصور، ابو الاحوص، اشعث بن ابو شعثاء، معاویہ بن سوید، براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات باتوں کا حکم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو سات چیزوں سے منع فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی سونے کی انگوٹھیوں سے (1) چاندی کے برتنوں کے استعمال سے (2) ریشمی چار جاموں سے (3) قسی (4) استبرق (5) دیبا (6) حریر سے (یہ تمام کے تمام ریشمی کپڑے ہوتے ہیں )

 

ریشم پہننے کی اجازت سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، سعید، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت فرمائی حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام کو ریشمی لباس پہننے کی ان حضرات کو (جسم میں ) خارش ہو جانے کی وجہ سے۔

 

 

٭٭ نصر بن علی، خالد، سعید، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن عوام کو ریشمی کرتے پہننے کی جسم میں کھجلی ہو جانے کی وجہ سے جو کہ ان کو ہو گئی تھی اجازت فرمائی۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، سلیمان تیمی، ابو عثمان نہدی سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت عتبہ بن فرقد کے ساتھ تھے کہ اس دوران حضرت عمر کا حکم موصول ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ریشم نہیں پہنتا لیکن وہ شخص کہ جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے لیکن اس قدر اشارہ فرمایا حضرت ابو عثمان نے اپنی دونوں انگلیوں سے جو کہ انگوٹھے کے نزدیک ہیں یعنی درمیان کی انگلی ملا کر یہ سمجھتا ہوں کہ جیسے تلیان کی گھنڈیاں پھر میں نے تلیان کو دیکھا کہ وہ تو ایک مشہور لباس ہے کہ جس کو کہ کندھے پر ڈالتے ہیں۔

 

 

 

٭٭ عبدالحمید بن محمد، مخلد، مسعر، وبرۃ، شعبی، سوید بن غفلۃ، احمد بن سلیمان، عبید اللہ، اسرائیل، ابو حصین، ابراہیم، سوید بن غفلۃ، عمر نے دیبا ریشم کی قسم کے پہننے کی اجازت عطا نہیں فرمائی لیکن چار انگل کی۔

 

کپڑوں کے جوڑے پہننا

 

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، شعبہ، ابو اسحاق ، براء سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا لال رنگ کا لباس پہنے ہوئے بالوں میں کنگھی کئے ہوئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل اور نہ بعد۔

 

یمن کی چادر پہننے سے متعلق

 

عبید اللہ بن سعید، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تمام لباس میں یمن کی چادر زیادہ پسندیدہ تھی۔

 

زعفرانی رنگ کی ممانعت سے متعلق

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، ابن حارث، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، محمد بن ابراہیم، خالد بن معدان، جبیر بن نفیر، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا دو کپڑے زعفرانی رنگ کے پہنے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کپڑے کفار کے ہیں تم ان کو نہ پہنو۔

 

 

٭٭ حاجب بن سلیمان، ابن ابو رواد، ابن جریج، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن عمر ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے کسم یعنی زعفرانی رنگ میں رنگے ہوئے دو کپڑے پہن کر (یہ دیکھ کر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غصہ آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ تم ان کو پھینک دو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو میں کس جگہ پھینکوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آگ میں۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن حماد، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، علی نے نقل کیا مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی اور ریشمی لباس اور کسم میں رنگے ہوئے کپڑے سے منع فرمایا اور رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

ہرے رنگ کا لباس پہننا

 

عباس بن محمد، ابو نوح، جریر بن حازم، عبدالملک بن عمیر، ایاد بن لقیط، ابو رمثہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز دوہرے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تشریف لائے۔

 

چادریں پہننے سے متعلق

 

یعقوب بن ابراہیم و محمد بن مثنی، یحیی، اسماعیل، قیس، خباب بن الارت سے روایت ہے کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کفار و مشرکین کی شکایت کی (یعنی ان کی تکالیف کی جو مختلف طریقے سے وہ مسلمانوں کو پہنچاتے تھے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چادر پر تکیہ لگائے تشریف فرما تھے خانہ کعبہ کے سایہ میں ہم نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے واسطے خدا سے مد د نہیں مانگتے اور ہم لوگوں کے واسطے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا نہیں فرماتے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، یعقوب، ابو حازم، سہل بن سعد نے فرمایا ایک خاتون ایک دن چادر لے کر حاضر ہوئی۔ وہ کس قسم کی چادر تھی تم لوگ واقف ہو؟ یعنی اس کے کونے میں شملہ بنا ہوئے تھے۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اس کو اپنے ہاتھ سے بنا ہے میں یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہناؤں گی۔ چنانچہ آپ نے اس کو لے لیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ جس وقت آپ باہر تشریف لاتے تو آپ اسی کا تہہ بند باندھا کرتے تھے۔

 

سفید کپڑے پہننے کے حکم سے متعلق

 

عمرو بن علی، یحیی بن سعید، سعید بن ابو عروبۃ، ایوب، ابو قلابۃ، ابو مہلب، سمرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ سفید کپڑے پہنا کرو اس لیے کہ وہ پاکیزہ اور صاف ہوتے ہیں اور تم لوگ کفن دیا کرو اپنے مردوں کو سفید کپڑوں کا۔

 

 

 

٭٭ قتیبہ، حماد، ایوب، ابو قلابۃ، سمرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ سفید لباس پہنا کرو زندہ لوگ بھی سفید لباس پہنیں اور مردوں کو ان کا کفن دو کیونکہ یہ عمدہ اور بہتر کپڑے ہیں۔

 

قباء پہننے سے متعلق

 

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن ابو ملیکہ، مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبائیں تقسیم فرمائیں لیکن حضرت مخرمہ کو عنایت نہیں فرمائی انہوں نے مجھ سے فرمایا بیٹا تم میرے ساتھ چلو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلا لو چنانچہ میں گیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان ہی قباؤں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ میں نے تمہارے واسطے چھپا رکھی تھی حضرت مخرمہ نے اس کو دیکھا اور پھر اس کو پہن لیا۔

 

 

پائجامہ پہننے سے متعلق

 

محمد بن بشار، محمد، شعبہ، عمرو بن دینار، جابر بن زید، ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے عرفات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو شخص تہہ بند نہ پائے تو وہ پائجامہ پہن لے اور جو شخص جوتے نہ پائے (یعنی جس کے پاس جوتے نہ ہوں ) تو وہ موزے پہن لے۔

 

بہت زیادہ تہہ بند لٹکانے کی ممانعت

 

وہب بن بیان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک شخص اپنی لنگی (تہہ بند) لٹکایا کرتا تھا تکبر کی وجہ سے تو وہ شخص قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔

 

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، لیث، نافع، اسماعیل بن مسعود، بشر، عبید اللہ، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے لٹکائے تو خداوند قدوس قیامت کے دن اس کی جانب نہ دیکھے گا۔

 

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، محارب، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے کپڑے تکبر سے لٹکائے تو خداوند قدوس قیامت کے دن اس کی جانب نہ دیکھے گا۔

 

تہہ بند کس جگہ تک ہونا چاہیے ؟

 

اسحاق بن ابراہیم ومحمد بن قدامۃ، جریر، الاعمش، ابو اسحاق ، مسلم بن نذیر، حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تہہ بند آدھی پنڈلیوں تک ہونا چاہیے کہ جس جگہ تک (پنڈلیوں کا) بہت گوشت ہے اس جگہ تک اگر اس سے زیادہ چاہے تو اور زیادہ نیچا صحیح ہے اگر اس سے زیادہ دل چاہے تو پنڈلیوں کے آخر تک لیکن ٹخنوں کا کوئی حق نہیں ہے تہہ بند میں (مطلب ٹخنے کھلے رہنا ضروری ہیں وہ نہ چھپے )۔

 

ٹخنوں سے نیچے ازار رکھنے کا حکم (وعید)

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، ابن حارث، ہشام، یحیی، محمد بن ابراہیم، ابو یعقوب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹخنوں سے نیچے تہہ بند دوزخ میں داخل ہو گا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

تہہ بند لٹکانے سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن عبید بن عقیل، وہ اپنے دادا سے ، شعبہ، اشعث، سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس تہہ بند لٹکانے والے کی جانب نہیں دیکھے گا۔

 

 

٭٭ بشر بن خالد، غندر، شعبہ، سلیمان بن مہران الاعمش، سلیمان بن مسہر، خرشۃ بن حر، ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن خداوند قدوس تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا اور ان لوگوں کو تکلیف و عذاب ہو گا (ان میں سے ) ایک تو وہ شخص جو کہ کسی کو کچھ دے کر احسان جتلائے دوسرا وہ شخص جو کہ تہہ بند یا پائجامہ وغیرہ لٹکائے اور تیسرا وہ شخص جو کہ جھوٹی قسم کھا کر مال چلائے (فروخت کرے )۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، حسین بن علی، عبدالعزیز بن ابو رواد، سالم، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تہہ بند کرتہ اور پگڑی جو کوئی ان تینوں میں سے کسی کو لٹکائے خداوند قدوس اس کی جانب نہیں دیکھے گا۔

 

سب سے زیادہ عذاب میں مبتلا لوگ

 

قتیبہ، سفیان، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر سے (واپس) تشریف لائے میں نے ایک پردہ لٹکایا تھا روشن دان پر جس پر کہ تصویریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اتار دیا اور فرمایا سب سے زیادہ قیامت کے دن ان لوگوں کو عذاب ہو گا جو کہ خداوند قدوس کی مخلوق کی شکل و صورت بناتے ہیں۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم و قتیبہ بن سعید، سفیان، زہری، قاسم بن محمد، عائشہ صدیقہ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے لیکن اس روایت میں اس قدر اضافہ ہے کہ جس وقت آپ نے پردہ کو دیکھا تو آپ کے چہرہ انور کا رنگ تبدیل ہو گیا (یعنی غصہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اپنے ہاتھ سے چاک کر دیا۔

 

تصویر سازی کرنے والوں کو قیامت کے دن کس طرح کا عذاب ہو گا ؟

 

عمرو بن علی، خالد، ابن حارث، سعید بن ابو عروبۃ، نضر بن انس سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اس دوران عراق کا ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا میں تصویر سازی کا کام کرتا ہوں اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے فرمایا تم میرے پاس آ جا میرے پاس آ جا میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو کوئی دنیا میں کوئی تصویر بنائے گا تو قیامت کے دن اس کو حکم ہو گا اس میں روح ڈالنے کا اور وہ اس میں روح نہ ڈال سکے گا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، حماد، ایوب، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی تصویر بنائے گا تو اس کو عذاب ہو گا یہاں تک کہ وہ اس میں روح ڈالے اور وہ اس میں روح نہ ڈال سکے گا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عفان، ہمام، قتادۃ، عکرمۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی تصویر بنائے گا تو اس کو عذاب ہو گا یہاں تک کہ وہ اس میں روح ڈالے اور وہ شخص اس میں روح نہ ڈال سکے گا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، حماد، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ تصویر سازی کرنے والے لوگ عذاب میں مبتلا ہوں گے اور قیامت کے دن ان سے کہا جائے گا کہ تم اس کو زندہ کرو جن کو تم نے بنایا ہے (یعنی اپنی بنائی ہوئی تصویر میں روح ڈالو)۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، نافع، قاسم، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے جو کہ مندرجہ بالا روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، سماک، قاسم بن محمد، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا قیامت کے دن شدید ترین عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی صورتیں بناتے ہیں (یعنی تصویر سازی کرتے ہیں )

 

کن لوگوں کو شدید ترین عذاب ہو گا ؟

 

احمد بن حرب، ابو معاویہ، الاعمش، مسلم، محمد بن یحیی بن محمد، محمد بن صباح، اسماعیل بن زکریا، حصین بن عبدالرحمن، مسلم بن صبیح، مسروق، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شدید عذاب قیامت کے دن تصویر بنانے والے لوگوں کو ہو گا۔

 

 

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو بکر، ابو اسحاق ، مجاہد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل امین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آ جا۔ انہوں نے فرمایا میں کس طریقہ سے آؤں اس جگہ تو پردہ لٹکا ہوا ہے جس پر کہ تصاویر ہیں تم یا تو ان تصاویر کا سر قلم کر دو یا ان (چادروں ) کو بچھا دو تاکہ وہ تصاویر روندی دی جائیں کیونکہ ہم فرشتے اس جگہ پر نہیں جاتے جہاں پر تصاویر ہوں۔

 

اوڑھنے کی چادر سے متعلق

 

حسن بن قزعۃ، سفیان بن حبیب و معتمر بن سلیمان، اشعث، محمد بن سیرین، عبداللہ بن شقیق، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری اوڑھنے کی چادروں میں نماز نہیں پڑھتے۔

 

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جوتے کیسے تھے ؟

 

محمد بن معمر، حبان، ہمام، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جوتے میں دو تسمے تھے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

ایک جوتہ پہن کر چلنا ممنوع ہونے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن عبید، الاعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم میں سے کسی کے ایک جوتہ کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک جوتے میں نہ چلے جس وقت تک کہ اس کو ٹھیک نہ کر لے۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، الاعمش، ابو رزین سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ کو دیکھا وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے عراق کے رہنے والو! تم لوگ سمجھتے ہو کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھوٹ بول رہا ہوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے جھوٹی بات کی نسبت کر رہا ہوں ) میں شہادت دیتا ہوں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جب تمہارے میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ دوسرا جوتہ پہن کر نہ چلے جب تک اس کو ٹھیک نہ کر لے۔

 

کھالوں پر بیٹھنا اور لیٹنا

 

محمد بن معمر، محمد بن عمر بن ابو وزیر، ابو مطرف، محمد بن موسی، عبداللہ بن ابو طلحہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کھال پر لیٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پسینہ آ گیا تو حضرت ام سلمہ اٹھ گئیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پسینہ کو ایک جگہ کر کے ایک شیشی میں بھرنے لگیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھ کر فرمایا تم یہ کیا کر رہی ہو اے ام سلمہ! اس پر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپکا (مبارک) پسینہ میں اپنی خوشبو میں ملاؤں گی یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنسنے لگے۔

 

خدمت کے لیے ملازم رکھنا اور سواری رکھنے سے متعلق

 

محمد بن قدامہ، جریر، منصور، ابو وائل، سمرۃ بن سہم سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو ہاشم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ دما میں مبتلا تھے کہ اس دوران حضرت معاویہ تشریف لے آئے ان کی عیادت کے لیے۔ حضرت ابو ہاشم رونے لگے۔ حضرت معاویہ نے فرمایا تم کس وجہ سے رو رہے ہو کیا کچھ درد اور تکلیف ہے یا تم دنیا کی وجہ سے رو رہے ہو؟ دنیا تو اچھی گزر گئی۔ (یہ سن کر) انہوں نے کہا یہ کوئی خاص بات نہیں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ایک نصیحت فرمائی تھی میں چاہتا ہوں کہ میں اس کی اتباع کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم ایسے مال دیکھو گے کہ جو لوگوں کو تقسیم کیا جائے گا (یعنی مال غنیمت) لیکن تم کو خدمت کے لیے ایک ملازم اور راہ خدا میں جانے کے لیے ایک سواری کافی ہے لیکن میں نے جس وقت مال پایا تو میں نے اس کو اکھٹا کر لیا۔

 

تلوار کے زیور سے متعلق

 

عمران بن یزید، عیسیٰ بن یونس، عثمان بن حکیم، ابو امامۃ بن سہل سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تلوار کی کٹوری چاندی کی تھی۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، عمرو بن عاصم، ہمام و جریر، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تلوار کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کی کٹوری بھی چاندی کی تھی اور اس کے درمیان میں چاندی کے حلقے تھے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، یزید، ابن زریع، ہشام، قتادۃ، سعید بن ابو حسن سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تلوار کی کٹوری چاندی کی تھی۔

 

لال رنگ کے زین پوش کے استعمال کی ممانعت

 

محمد بن العلاء، ابن ادریس، عاصم بن کلیب، ابو بردۃ، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم اس طریقہ سے کہو کہ یا اللہ! مجھ کو مضبوط اور مستحکم کر دے اور مجھ کو راستہ دکھلا دے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو میاثر نامی کپڑے پر بیٹھنے سے منع فرمایا یہ کپڑا خواتین اپنے شوہروں کے واسطے پالان پڑ ڈالنے کے واسطے بنایا کرتی تھیں۔

 

کرسیوں پر بیٹھنے سے متعلق

 

یعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال سے روایت ہے کہ حضرت ابو رفاعہ نے بیان کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ میں مشغول تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مسافر شخص حاضر ہوا ہے وہ شخص دین سے متعلق دریافت کر رہا ہے اس کو علم نہیں کہ دین کیا ہے ؟ یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ چھوڑ دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے اس وقت ایک کرسی پیش کی گئی میرا خیال ہے کہ اس کرسی کے پاؤں لوہے کے بنے ہوئے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو سکھلانے لگے جو کہ خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سکھلایا تھا۔ پھر آپ واپس ہو گئے اور آپ نے خطبہ مکمل کیا۔

 

لال رنگ کے خیموں کے استعمال سے متعلق

 

عبدالرحمن بن محمد بن سلام، اسحاق الارزق، سفیان، عون بن ابو جحیفۃ، ابو جحیفۃ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ (مقام) بطحا میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کچھ لوگ تھے کہ اس دوران حضرت بلال تشریف لائے اور انہوں نے اذان دی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے منہ کی اتباع فرما رہے تھے۔

 

 

 

 

کتاب آداب القضاۃ

 

عادل حاکم کی تعریف اور مصنف حاکم کی فضیلت

 

قتیبہ بن سعید، سفیان، عمرو، محمد بن آدم بن سلیمان، ابن مبارک، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عمرو بن اوس، عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ انصاف کرتے ہیں وہ خداوند قدوس کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے یعنی خداوند قدوس کے دائیں جانب ہوں گے یعنی جو لوگ اپنے فیصلہ میں لوگوں کے ساتھ اور اپنے گھر والوں (متعلقین اور ماتحت لوگوں ) کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور جن امور میں ان کو اختیار حاصل ہے (اس میں انصاف سے کام لیتے ہیں ) حضرت محمد اس نے روایت سے متعلق فرمایا خداوند قدوس کے دونوں ہاتھ ہیں۔

 

ایک حاکم اپنے برابر والے کا یا اپنے سے زیادہ درجہ والے شخص کا فیصلہ توڑ سکتا ہے اگر اس میں غلطی کا علم ہو

 

روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دو خواتین نکلیں ان کے ساتھ ان کے لڑکے بھی تھے بھیڑیا آ گیا اور وہ ایک (لڑکے ) کو لے گیا۔ وہ دونوں خواتین جھگڑا کرتی ہوئیں حضرت داؤد کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ انہوں نے بڑی خاتون (یعنی ان دونوں میں سے عمر رسیدہ خاتون کو) لڑکا دلوا دیا۔ پھر وہ دونوں خواتین حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ انہوں نے دریافت فرمایا حضرت داؤد نے (اس مقدمہ کا) کیا فیصلہ صادر فرمایا ہے ؟ ان خواتین نے کہا حضرت داؤد نے بڑی خاتون کو وہ لڑکا دلوایا ہے۔ حضرت سلیمان نے فرمایا میں تو اس کو کاٹ کر دو حصہ کرتا ہوں ایک حصہ اس کو اور ایک حصہ اس کو۔ بڑی عورت نے کہا اس لڑکے کو کاٹ دو اور چھوٹی عورت نے کہا اس کو نہ کاٹو وہ تو اس کا لڑکاہے پھر حضرت سلیمان نے وہ لڑکا اس عورت کو دلا دیا۔ جس نے کہ اس لڑکے کو کاٹنے سے منع کیا تھا۔

 

جب کوئی حاکم ناحق فیصلہ کر دے تو اس کو رد کرنا صحیح ہے

 

زکریا بن یحیی، عبدالاعلی بن حماد، بشر بن سری، عبداللہ بن مبارک، معمر، احمد بن علی بن سعید، یحیی بن معین، ہشام بن یوسف و عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت خالد بن ولید کو (قبیلہ) بنی جذیمہ کی خدمت میں بھیجا انہوں نے ان کو اسلام کی جانب بلایا لیکن وہ اچھی طرح سے یہ نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہو گئے اور کہنے لگے ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا۔ حضرت خالد نے ان کو قتل کرنا اور قید کرنا شروع کر دیا پھر ایک شخص کو اس کا قیدی دے دیا گیا۔ جس وقت صبح ہو گئی تو خالد نے ہر ایک شخص کو اپنے قیدی کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا خدا کی قسم میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ کوئی میرے لوگوں میں سے قیدی کو قتل کرے گا۔ تو حضرت خالد کے حکم کو جو کہ ایک ناحق حکم تھا اس کو رد کر دیا جس وقت ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا جو حضرت خالد نے کیا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا یا اللہ! میں علیحدہ ہوں اس کام سے جو حضرت خالد نے کیا دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسری مرتبہ یہی فرمایا۔

 

کون سی باتوں سے (قاضی و) حاکم کو بچنا چاہیے

 

قتیبہ، ابو عوانۃ، عبدالملک بن عمیر، عبدالرحمن بن ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ میرے والد نے عبید اللہ بن ابی بکرہ کو جو کہ سیسان کے قاضی تھے ، کو لکھا جس وقت تم غصہ کی حالت میں ہو تو (اس وقت) دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرو۔ اس لئے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ نہ حکم کرے کوئی آدمی دو اشخاص کے درمیان جب وہ غصہ میں ہو۔

 

جو حاکم ایماندار ہو تو وہ بحالت غصہ فیصلہ کر سکتا ہے

 

یونس بن عبدالاعلی وحارث بن مسکین، ابن وہب، یونس بن یزید ولیث بن سعد، ابن شہاب، عروۃ بن زبیر، عبداللہ بن زبیر، زبیر بن عوام کا ایک انصاری شخص سے جھگڑا ہو گیا پانی کے بہا کے سلسلہ میں حرہ پر (واضح رہے کہ حرہ مدینہ منورہ میں ایک پتھریلی زمین ہے ) دونوں (یعنی حضرت زبیر اور وہ انصاری) اس پانی سے کھجور کے درختوں کو سیراب کرتے تھے انصاری شخص کہتا تھا کہ پانی بہنے دو حضرت زبیر نے اس بات کو تسلیم نہیں فرمایا اور انکار کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے زبیر تم پانی اپنے درختوں کو دے دو پھر چھوڑ دو اپنے پڑوسی کی طرف۔ یہ بات سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (حضرت) زبیر کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پھوپھی کے لڑکے تھے (یعنی اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کی رعایت فرمائی) یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ انور کا (غصہ کی وجہ سے ) رنگ تبدیل ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے زبیر تم درختوں کو پانی پلاؤ اور پھر تم پانی کو روکے ہوئے رکھو یہاں تک کہ وہ پانی درختوں کی مینڈھوں کے برابر چڑھ جائے۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت زبیر کو ان کا پورا حق دلا دیا اور پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو حکم فرمایا تھا اس میں انصاری کا نفع تھا اور حضرت زبیر کا کام بھی چل رہا تھا لیکن جس وقت انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ناراض کر دیا تو آپ نے حضرت زبیر کو واضح حکم جاری فرما کر پورا حق دلوایا۔ حضرت زبیر نے فرمایا میری رائے ہے کہ یہ آیت کریمہ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تیرے پروردگار کی قسم! وہ لوگ کبھی مسلمان نہیں ہوں گے جس وقت تک کہ اپنے جھگڑوں میں تمہاری حکومت قبول نہ کر لیں پھر تم جو حکم دو اس سے دل تنگ نہ ہوں (اور بلا عذر اس کو تسلیم کر لیں ) اس حدیث شریف کے دو راوی ہیں ایک نے دوسرے سے زیادہ واقعہ نقل کیا ہے۔

 

اپنے گھر میں فیصلہ کرنا

 

ابو داؤد، عثمان بن عمر، یونس، زہری، عبداللہ بن کعب نے اپنے قرض کا تقاضا کیا ابن ابی حدرد سے اور ان دونوں کی آوازیں اونچی ہو گئیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکان میں سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دروازہ پر تشریف لائے اور آپ نے پردہ اٹھایا اور آواز دی اے کعب وہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنا آدھا قرض معاف کر دو۔ حضرت کعب نے فرمایا میں نے معاف کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابن ابی حدرد سے کہا اٹھو اور قرض ادا کرو۔

 

مد د چاہنے سے متعلق

 

حسین بن منصور بن جعفر، مبشر بن عبداللہ بن رزین، سفیان بن حسین، ابو بشر جعفر بن ایاس، عباد بن شرجیل سے روایت ہے کہ میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مدینہ منورہ میں حاضر ہوا تو ایک باغ میں داخل ہوا اور وہاں کی ایک پھلی لے کر میں نے مل ڈالی کہ اس دوران باغ والا آیا اور میرا کمبل چھین لیا اور مجھ کو مارا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فریاد کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس باغ والے کو بلا کر بھیجا اور دریافت کیا کہ تم نے کس وجہ سے ایسا کام کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ میرے باغ میں آیا ہے اور ایک پھل کو لے کر مل ڈالا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہ نہیں جانتا تھا تو تم نے اس کو کیوں نہیں سکھلایا اور اگر وہ بھوکا تھا تو تو نے اس کو کیوں نہیں کھلایا جا اس کا کمبل واپس کر دو پھر مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک وسق یا آدھا وسق دینے کا حکم کیا۔

 

خواتین کو عدالت میں حاضر کرنے سے بچانے سے متعلق

 

محمد بن سلمہ، عبدالرحمن بن قاسم، مالک، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ، ابو ہریرہ و زید بن خالد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے دو آدمیوں نے جھگڑا کیا ایک نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے درمیان فیصلہ فرمائیں کتاب اللہ کے مطابق اور دوسرے نے کہا جو کہ زیادہ سمجھ دار تھا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اجازت عطا فرمائی گفتگو کرنے کی۔ میرا لڑکا اس کے گھر ملازم تھا تو اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا لوگوں نے مجھ سے کہا تمہارے لڑکے کو پتھروں سے ہلاک کرنا چاہیے میں نے ایک سو بکریاں اور ایک باندھی دے کر اپنے لڑکے کو چھڑا لیا پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا تمہارے لڑکے پر ایک سو کوڑے پڑنا تھے ایک سال کے لیے ملک سے باہر ہونا تھا اور اس کی بیوی کو پتھروں سے مار ڈالنا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تمہارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے موافق کروں گا تمہاری بکریاں اور باندھی تم کو پھر ملیں گی اور اس کے لڑکے کو ایک سو کوڑے مارے ایک سال کے لیے جلا وطن کیا اور اس کو حکم دیا کہ دوسرے آدمی کی بیوی کے پاس جائے اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اس کو پتھروں سے مار ڈالے اس نے اقرار کر لیا پھر وہ عورت رجم کی گئی یعنی اس پر پتھر برسائے گئے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابو ہریرہ و زید بن خالد، شبل سے روایت ہے انہوں نے کہا ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے تھے کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خداوند قدوس کی قسم دیتا ہوں ہمارا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فیصلہ فرمائیں اللہ کی کتاب کے موافق۔ پھر اس کا مخالف اٹھ کھڑا ہوا وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا اس نے عرض کیا سچ کہتا ہے کتاب اللہ کے موافق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہہ دو۔ اس نے کہا میرا لڑکا اس کے پاس مزدوری کا کام کرتا تھا تو اس کی بیوی سے زنا کر لیا۔ میں نے ایک سو بکریاں اور ایک خادم دے کر اس کو چھڑا لیا۔ کیونکہ مجھ سے لوگوں نے کہا تھا کہ تمہارے لڑکے پر رجم (یعنی پتھروں سے مار ڈالنا ہے ) تو میں نے فدیہ ادا کر دیا پھر میں نے چند جاننے والوں سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا تمہارے لڑکے کو ایک سو کوڑے لگنے چاہئیں تھے اور ایک سال کے واسطے ملک بدر ہوتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے موافق کر دوں گا لیکن ایک سو بکریاں اور خادم تم اپنے لے لو اور تمہارے لڑکے کو ایک سو کوڑے لگیں گے اور صبح کو اس دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جا اگر وہ اقرار زنا کرے تو اس کو پتھروں سے مار ڈال۔ چنانچہ صبح کے وقت انیس اس کے پاس پہنچے اس نے اقرار کر لیا انہوں نے اس کے اوپر پتھر برسائے۔

 

جس نے زنا کیا ہو حاکم کو اس کا طلب کرنا

 

حسن بن احمد کرمانی، ابو ربیع، حماد، یحیی، ابو امامۃ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک عورت کو حاضر کیا گیا کہ جس نے زنا کرایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کس شخص نے اس کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا اس اپاہج شخص نے اس سے زنا کیا ہے جو کہ حضرت سعد کے باغ میں رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بلایا لوگ اس کو اٹھا کر لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھجور کے خوشے منگائے اور اس (زانی کو) اس سے مارا اور اس کے واسطے تخفیف فرمائی۔

 

حاکم کا رعایا کے درمیان صلح کرانے کے لیے خود جانا

 

محمد بن منصور، سفیان، ابو حازم، سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ انصار کے دو قبائل کے درمیان سخت گفتگو ہو گئی یہاں تک کہ ان کے درمیان پتھر چل گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے گئے ان دونوں میں مصالحت کے لیے اس دوران نماز کا وقت آ گیا حضرت بلال نے اذان دی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی جگہ پر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ تکبیر ہو گئی اور حضرت ابو بکر نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور حضرت ابو بکر نماز پڑھا رہے تھے جس وقت لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا تو دستک دی حضرت ابو بکر نماز میں کسی دوسری طرف خیال نہیں فرما رہے تھے لیکن جس وقت دستک کی آواز سنی تو نگاہ پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہیں انہوں نے پیچھے کی طرف ہٹ جانے کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اشارہ فرمایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے کی طرف بڑھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی جس وقت نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت ابو بکر سے فرمایا تم اپنی جگہ پر کس وجہ سے نہیں رہے ؟ انہوں نے فرمایا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خداوند قدوس ابو قحافہ کے لڑکے کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے دیکھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا تمہاری کیا حالت ہے جس وقت نماز میں کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے تو تم لوگ تالیاں بجاتے ہو یہ بات تو خواتین کے لیے ہے جس کسی کو کوئی بات نماز میں پیش آئے تو کہے۔

 

حاکم دونوں فریق میں سے کسی ایک کو مصالحت کے واسطے اشارہ کر سکتا ہے

 

ربیع بن سلیمان، شعیب بن لیث، وہ اپنے والد سے ، جعفر بن ربیعۃ، عبدالرحمن الاعرج، عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری، کعب بن مالک کا قرض حضرت عبداللہ بن ابی حدرد کے ذمہ تھا انہوں نے راستہ میں اس کو دیکھا تو پکڑ لیا اور باتوں (باتوں ) میں آوازیں بلند ہو گئیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا یعنی آدھا لینے کا۔ انہوں نے آدھا لے لیا اور آدھا معاف کر دیا۔

 

حاکم معاف کرنے کے واسطے اشارہ کر سکتا ہے

 

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عوف، حمزۃ ابو عمر عائذی، علقمہ بن وائل، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھا جس وقت مقتول کا وارث قاتل کو ایک رسی میں کھینچتا ہوا لایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقتول کے وارث سے فرمایا تم دیت معاف کرتے ہو یا نہیں ؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم دیت لو گے ؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم بدلہ لو گے۔ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا اس کو لے جا (اور اس کو قتل کرو) جس وقت وہ شخص پشت موڑ کر چلا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بلایا اور فرمایا معاف کرتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا تم دیت لیتے ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم خون کا بدلہ لو گے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو لے جا۔ جس وقت وہ لے کر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب پشت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بلایا اور فرمایا معاف کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر فرمایا تم دیت لینا چاہتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو تم قتل کرو گے ؟ اس پر اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا جاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم اس کو معاف کر دو تو تمہارے اور تمہارے ساتھی کے کہ جس کو اس نے قتل کیا ہے دونوں گناہ سمیٹ لے گا۔ یہ سن کر اس نے معاف کر دیا اور چھوڑ دیا میں نے دیکھا کہ وہ شخص اپنی رسی کھینچ رہا تھا۔

 

 

حاکم پہلے نرمی کرنے کا حکم دے سکتا ہے ؟

 

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروۃ، عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص نے جھگڑا کیا حضرت زبیر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پانی کے بہاؤ کے سلسلہ میں جس سے کہ کھجور کے درختوں کو سینچاکرتے تھے۔ انصاری نے کہا پانی کو چھوڑ دو وہ چلا جائے گا۔ حضرت زبیر نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا آخر کار مقدمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے حکم نرم دیا اور حضرت زبیر کو ان کا پورا حق نہیں دلایا اور فرمایا اے زبیر تم اپنے درختوں کو پانی پلا دے پھر ان کو اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو۔ یہ بات سن کر انصاری شخص ناراض ہو گیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخر حضرت زبیر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پھوپھی کے لڑکے ہیں۔ یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ انور کا رنگ تبدیل ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نرمی سے کام نہیں کیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے زبیر! تم درختوں کو پانی دو پھر تم پانی روکے رکھو یہاں تک کہ پانی نالیوں کی منڈیر تک پہنچ جائے (یعنی خوب پانی پانی ہو جائے ) حضرت زبیر نے فرمایا میری رائے ہے کہ یہ آیت کریمہ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے یعنی آیت کریمہ آخر تک۔

 

مقدمہ کے فیصلہ سے قبل قبل حاکم کے سفارش کرنے سے متعلق

 

محمد بن بشار، عبدالوہاب، خالد، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ کا شوہر غلام تھا ان کا نام مغیث تھا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ میں ان کو دیکھ رہا ہوں وہ ان کے پیچھے پیچھے پھر رہا تھا اور وہ آنسو سے روتا جاتا تھا اور ان کی ڈاڑھی پر آنسو جاری تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عباس سے فرمایا اے عباس تم تعجب نہیں کرتے مغیث کی محبت سے جو کہ حضرت بریرہ کے ساتھ ہے اور حضرت بریرہ کی (شوہر سے ) نفرت کرنے سے جو کہ حضرت مغیث کے ساتھ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بریرہ سے فرمایا اگر تم پھر حضرت مغیث کے پاس چلی جا (تو ٹھیک ہے ) وہ تمہارے بچے کے باپ ہیں۔ اس پر حضرت بریرہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو حکم فرما رہے ہیں تو مجھ کو یہ حکم لازما تسلیم کرنا ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو سفارش کر رہا ہوں۔ حضرت بریرہ نے عرض کیا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔

 

اگر کسی شخص کو مال کی ضرورت ہو اور وہ شخص اپنے مال کو ضائع کر دے تو حاکم روک سکتا ہے

؂

عبدالاعلی بن واصل بن عبدالاعلی، محاضر بن مورع، الاعمش، سلمہ بن کہیل، عطاء، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص نے جو کہ نادار اور محتاج تھے اپنے غلام کو مرنے کے بعد آزاد کر دیا تھا اور وہ شخص مقروض بھی تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس غلام کو آٹھ سو درہم میں فروخت فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم (پہلے ) اپنا قرضہ ادا کرو اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔

 

فیصلہ کرنے میں تھوڑا اور زیادہ مال برابر ہے

 

علی بن حجر، اسماعیل، العلاء، معبد بن کعب، عبداللہ بن کعب، ابو امامۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی کسی مسلمان کا حق قسم کھا کر لے تو خداوند قدوس نے اس کے واسطے دوزخ واجب کر دی اور جنت اس کے واسطے حرام کر دی۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگرچہ معمولی سی چیز ہو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہو۔

 

 

جس وقت حاکم کسی شخص کو پہچان رہا ہو اور وہ شخص موجود نہ ہو تو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا صحیح ہے

 

اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ہندہ ابو سفیان کی اہلیہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابو سفیان ایک کنجوس شخص ہے وہ نہ تو مجھ کو اور نہ میری اولاد کو خرچہ دیتے ہیں کیا میں ان کے مال میں سے بغیر اطلاع کے لے لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس قدر لے لو جس قدر تم اور تمہارے بچے کافی ہو۔

 

ایک حکم میں دو حکم کرنے سے متعلق

 

حسین بن منصور بن جعفر، مبشر بن عبد اللہ، سفیان بن حسین، جعفر بن ایاس، عبدالرحمن بن ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے نہ حکم کرے کوئی شخص ایک مقدمہ میں دو مقدمات کا اور نہ کوئی حکم دے دو آدمیوں کے درمیان جس وقت وہ غصہ میں ہو (یعنی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے )۔

 

فیصلہ کو کیا چیز توڑتی ہے ؟

 

اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، زینب بنت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ میرے پاس جھگڑے (اور مقدمات) لاتے ہو میں تو انسان ہوں تمہارے میں سے کوئی شخص زبان دراز ہوتا ہے پھر میں فیصلہ کروں گا اسی پر جو سنوں گا پھر اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق ناحق دلواؤں تو وہ اس کو جائز نہ ہو گا بلکہ آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں۔

 

فتنہ فساد مچانے والا

 

اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ابن جریج، محمد بن منصور، سفیان، ابن جریج، ابن ابو ملیکہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سب سے برا شخص خداوند قدوس کے نزدیک جھگڑا لو شخص ہے (یعنی جو دوسروں سے فتنہ فساد کرے )۔

 

جہاں پر گواہ نہ ہو تو وہ کس طریقہ سے حکم دے

 

؂عمرو بن علی، عبدالاعلی، سعید، قتادۃ، سعید بن ابو بردۃ، وہ اپنے والد سے ، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک جانور کے سلسلہ میں جھگڑا کیا کسی کے پاس گواہ نہیں تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کو آدھا آدھا دلا دیا۔

 

حاکم کا قسم دلانے کے وقت نصیحت کرنے سے متعلق

 

علی بن سعید بن مسروق، یحیی بن ابو زائدۃ، نافع بن عمر، ابن ابو ملیکۃ سے روایت ہے کہ دو لڑکیاں طائف میں موزے سیا کرتی تھیں ایک نکلی تو اس کے ہاتھ سے خون جاری ہو رہا تھا اس نے کہا میری ساتھی نے مجھ کو مارا اور دوسری نے انکار کیا میں نے حضرت عبداللہ بن عباس کو تحریر کیا انہوں نے جواب میں لکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طریقہ سے فیصلہ کیا ہے کہ قسم مدعی علیہ پر ہے اگر لوگوں کو ان کے دعوے کے مطابق مل جاتا تو لوگ دوسروں کے مالوں اور جانوں کا دعوی کرتے اور اس خاتون کے سامنے پڑھ اس آیت کریمہ کو (آیت کریمہ ہے ) آخر تک یعنی جو لوگ اللہ کے ساتھ عہد اور قسم کے عوض کچھ مالیت خریدتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہے یہاں تک کہ آیت کریمہ کو ختم کیا پھر میں نے اس خاتون کو بلایا اور یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔ اس نے اقرار کیا اپنے جرم کا جس وقت یہ خبر حضرت ابن عباس کو پہنچی تو وہ بھی مسرور ہوئے۔

 

حاکم کس طریقہ سے لے ؟

 

سوار بن عبد اللہ، مرحوم بن عبدالعزیز، ابو نعامۃ، ابو عثمان نہدی، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر نکلے صحابہ کرام کے حلقہ پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا تم کس وجہ سے بیٹھے ہو؟ انہوں نے عرض کیا خداوند قدوس سے دعا کرتے ہوئے بیٹھے ہیں اور اس کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اپنا دین ہم بتلایا اور ہم پر احسان کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیج کر۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں خدا کی قسم تم اس وجہ سے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا خدا کی قسم ہم اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تم کو اس واسطے قسم نہیں دی کہ تم کو جھوٹا سمجھا بلکہ اس لیے کہ جبرائیل میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے بیان کیا کہ خداوند قدوس تم لوگوں سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا تعالیٰ کی قسم صحابہ کرام کو دی اور یہی طریقہ ہے قسم لینے کا خداوند قدوس کے علاوہ اور کسی کی قسم نہیں کھانا چاہیے۔

 

 

٭٭ احمد بن حفص، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم بن طہمان، موسیٰ بن عقبہ، صفوان بن سلیم، عطاء بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عیسیٰ نے ایک شخص کو دیکھا چوری کرتے ہوئے تو اس سے فرمایا تو نے چوری کی؟ اس نے کہا نہیں ! اللہ کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ عیسیٰ نے فرمایا میں نے خداوند قدوس پر یقین کیا اور اپنی آنکھ (یعنی اپنے مشاہدہ کو) جھوٹا سمجھتا ہوں۔

 

پناہ چاہنا

 

عمومی

 

ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب، عمرو بن علی، ابو عاصم، ابن ابو ذنب، اسید بن ابو اسید، معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا کچھ بارش برسی اور اندھیرا چھا گیا تو ہم لوگوں نے نماز پڑھنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار کیا پھر کچھ کہا جس کا یہ مطلب تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے نماز پڑھنے کے واسطے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو تو میں نے کہا کیا کہوں (یعنی کیا پڑھوں ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑھو۔قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ۔ اور معوذتین (یعنی قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَق اور قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاس صبح و شام) یہ سورتیں تم کو ایک برائی سے بچا لیں گی۔

 

 

٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، حفص بن میسرہ، زید بن اسلم، معاذ بن عبداللہ بن خبیب سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا مکہ مکرمہ کے راستہ میں ایک مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تنہا پایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کہو میں نے عرض کیا کیا کہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو۔ میں نے عرض کیا کیا کہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ یہاں تک کہ اس سورت کو ختم کیا (یعنی مکمل سورتیں تلاوت فرمائی) اس کے بعد (سورہ الناس یعنی) قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ کو بھی ختم فرمایا کہ نہیں لیکن لوگوں نے پناہ طلب کی دونوں سے بہتر۔

 

 

٭٭ محمد بن علی، قعنبی، عبدالعزیز، عبداللہ بن سلیمان، معاذ بن عبداللہ بن خبیب، وہ اپنے والد سے ، عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی کو کھینچ رہا تھا ایک جہاد کے سفر میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو اے عقبہ! میں سن کر خاموش ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو اے عقبہ! میں سن کر خاموش رہا۔ پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو (یعنی پڑھو) میں نے عرض کیا کیا کہوں (یعنی کیا پڑھوں ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑھو قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ چنانچہ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھا یہاں تک کہ سورت کو مکمل کیا پھر۔قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ پڑھا میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھا یہاں تک کہ ختم کیا۔ پھر فرمایا ان کی مثل کسی نے پناہ نہیں مانگی (یعنی جیسی پناہ اس سورت میں مانگی گئی ہے کسی سورت میں پناہ نہیں مانگی گئی)

 

 

٭٭ احمد بن عثمان بن حکیم، خالد بن مخلد، عبداللہ بن سلیمان الاسلمی، معاذ بن عبداللہ بن خبیب، عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہو میں نے عرض کیا کیا کہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو۔ قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر ان کی تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا ان سورتوں جیسی پناہ کسی نے نہیں مانگی یا لوگ ان جیسی پناہ نہیں مانگتے (یعنی ان سورتوں میں جیسی جامع اور مؤثر پناہ مانگی گئی ہے کسی سورت میں ایسی پناہ نہیں مانگی گئی)

 

 

٭٭ محمود بن خالد، ولید، ابو عمرو، یحیی، محمد بن ابراہیم بن حارث، ابو عبد اللہ، ابن عابس جہنی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا اے عابس! کیا میں تجھ کو نہ بتلاؤں سب سے بہتر پناہ کہ جس سے پناہ مانگتے ہیں پناہ مانگنے والے۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں بتائیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیہ، بحیر بن سعد، خالد بن معدان، جبیر بن نفیر، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے ایک سفید قسم کے خچر کا تحفہ آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر سوار ہوئے اور حضرت عقبہ اس کو کھینچتے ہوئے چل پڑے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عقبہ سے فرمایا اے عقبہ پڑھو۔ انہوں نے عرض کیا کیا پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑھو۔قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ پھر اس کو دوبارہ پڑھا۔ یہاں تک کہ میں نے اس کو پڑھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہچان لیا کہ میں بہت خوش نہیں ہوا۔ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا لگتا ہے کہ تم نے اس کی قدر نہیں کی مجھ کو اس جیسی کوئی دوسری سورت نہیں ملی۔

 

 

٭٭ موسیٰ بن حزام ترمذی، ابو اسامۃ، سفیان، معاویہ بن صالح، عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر، وہ اپنے والد سے ، عقبہ بن عامر سے روایت ہے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا سورہ معوذتین کے بارے میں (یعنی ان سورتوں کو سیکھنا چاہا) حضرت عقبہ نے کہا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز فجر کی امامت فرمائی اور یہی دونوں سورتیں تلاوت فرمائیں تاکہ تمام لوگ سن کر سیکھ لیں۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، معاویہ، العلاء بن حارث، مکحول، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز فجر میں ان دونوں سورت کی تلاوت فرمائی۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو، ابن وہب، معاویہ بن صالح، ابن حارث، العلاء، قاسم، معاویہ، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری کا جانور کھینچ رہا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے عقبہ! کیا میں تم کو سب سے بہتر سورتیں جو پڑھی گئی ہیں وہ دو سورت سکھلاؤں ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ سکھلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ملاحظہ فرمایا میں زیادہ خوش نہیں ہوا جس وقت صبح کی نماز کے لیے آپ اترے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں یہی سورتیں تلاوت فرمائیں۔ جس وقت نماز سے فراغت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری جانب دیکھا اور فرمایا اے عقبہ تم کیا سمجھے ؟

 

 

٭٭ محمود بن خالد، ولید، ابن جابر، قاسم ابو عبدالرحمن، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری کا جانور کھینچ رہا تھا کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عقبہ کیا تم سوار نہیں ہوتے ؟ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظمت کا خیال کیا اور عرض کیا میں کس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر چڑھ سکتا ہوں۔ کچھ دیر کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم سوار نہیں ہوتے اے عقبہ! میں ڈر گیا کہ ایسا نہ ہو کہ نافرمانی کرنے سے گناہ ہو جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اترے اور میں کچھ دیر کے واسطے سوار ہوا پھر میں اترا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تجھ کو دو بہتر سورت سکھلاؤں ؟ جن کو لوگوں نے پڑھا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے دو سورتیں۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ پڑھائیں کہ اس دوران نماز کی تکبیر ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے بڑھ گئے اور یہی سورتیں تلاوت فرمائیں پھر میرے سامنے سے نکلے اور فرمایا تم کیا سمجھے اے عقبہ! تم ان دونوں سورت کو پڑھو سونے اور اٹھنے کے وقت۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، ابن عجلان، سعید مقبری، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جا رہا تھا کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عقبہ! کہو۔ میں نے عرض کیا کیا کہوں ؟ (یعنی کیا پڑھوں ؟) یا رسول اللہ! آپ خاموش ہو گئے پھر فرمایا اے عقبہ! (عقبہ نے پھر کہا) کیا پڑھوں ؟ یا رسول اللہ! پھر آپ خاموش ہو گئے۔ میں نے کہا خدا کریں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عقبہ کہو یعنی پڑھو۔ میں نے عرض کیا کیا کہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو۔قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ میں نے پڑھا یہاں تک کہ اس کو ختم کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو میں نے عرض کیا کیا کہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو۔ قل اعوذ برب الناس۔ میں نے اس کو پڑھا آخر تک۔ پھر اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی مانگنے والے نے اس کے برابر نہیں مانگا اور نہ کسی پناہ چاہنے والے نے اس کے برابر پناہ چاہی۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابو عمران اسلم، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار تھے میں نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم پر رکھا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے پڑھائیں سورہ ہود اور سورہ یوسف۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہرگز نہیں پڑھو گے خداوند قدوس کے نزدیک بہتر زیادہ سورہ فلق سے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، یحیی، اسماعیل، قیس، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ پر چند آیات نازل ہوئیں جن جیسی دیکھنے میں نہیں آئی۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ آخر تک اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، بدل، شداد بن سعید ابو طلحہ، سعید جریری، ابو نضرۃ، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے جابر!ٰپڑھو۔ میں نے عرض کیا کیا پڑھوں ؟ میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھو۔ میں نے ان دونوں کو پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑھو تم ان جیسی (سورت) ہرگز نہ پڑھو گے۔

 

اس دل سے پناہ کہ جس میں خوف الٰہی نہ ہو

 

یزید بن سنان، عبدالرحمن، سفیان، ابو سنان، عبداللہ بن ابو ہذیل، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار باتوں سے پناہ مانگتے تھے اس علم سے کہ جو نفع نہ بخشے اور اس دل سے جو کہ خوف خدا نہ کرے اور اس دعا سے کہ جس کی قبولیت نہ ہو اور اس نفس سے کہ جو بھرتا ہو (یعنی جس نفس میں خشیت خداوندی نہ ہو)۔

 

 

سینہ کے فتنہ سے پناہ مانگنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبید اللہ، اسرائیل، ابو اسحاق ، عمرو بن میمون، عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نامردی کنجوسی سینہ کے فتنہ اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔

 

کان اور آنکھ کے فتنہ سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

حسین بن اسحاق ، ابو نعیم، سعد بن اوس، بلال بن یحیی، شتیر بن شکل، ابو شکل بن حمید سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے بنی! مجھ کو تعوذ بتلائیں جس سے میں (اللہ سے ) پناہ مانگا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری کان کی برائی سے زبان کی برائی سے دل کی برائی سے اور منی کی برائی سے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہاں تک کہ میں نے دیا کر لیا۔ سعد نے کہا کہ منی سے مراد نطفہ ہے۔

 

بزدلی اور بامردی سے پناہ مانگنا

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، عبدالملک بن عمیر، مصعب بن سعد نے نقل کیا ہمارے والد حضرت سعد بن ابی وقاص ہم کو پانچ باتیں سکھلاتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے ساتھ دعا مانگتے تھے کہ یا اللہ! پناہ مانگتا ہوں تیری نامردی سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری ذلیل عمر ہونے تک (یعنی ایسے بڑھاپے سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس میں انسان خود اپنے سے عاجز ہو جاتا ہے قرآن کریم میں اس کو ارزل عمر فرمایا گیا ہے ) اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری دنیا کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے۔

 

کنجوسی سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

محمد بن عبدالعزیز، فضل بن موسی، زکریا، ابو اسحاق ، عمرو بن میمون، ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے پانچ چیزوں کنجوسی نامردی بڑی عمر سینے کے فتنے اور عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ یحیی بن محمد، حبان بن ہلال، ابو عوانۃ، عبدالملک بن عمیر، عمرو بن میمون الاودی سے روایت ہے کہ حضرت سعد اپنے لڑکوں کو یہ کلمات سکھلاتے تھے جس طریقہ سے استاد بچوں کو سکھلاتا ہے اور بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو پڑھا کرتے تھے اور نماز کے بعد پڑھتے تھے یا اللہ پناہ مانگتا ہوں میں کنجوسی سے اور میں پناہ مانگتا ہوں نا مردی سے اور پناہ مانگتا ہوں میں ذلیل عمر سے اور پناہ مانگتا ہوں میں دنیا کے فتنے سے اور پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے (راوی نے نقل کیا یہ حدیث میں نے حضرت مصعب سے بیان کی انہوں نے کہا سچ ہے )۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری عاجزی اور سستی سے کنجوسی اور بڑھاپے سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے۔

 

 

رنج و غم سے پناہ مانگنا

 

علی بن منذر، ابن فضیل، محمد بن اسحاق ، منہال بن عمرو، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعائیں مقرر تھیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہیں چھوڑتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رنج اور غم سے اور عاجزی اور سستی سے اور نامردی سے اور لوگوں کے غالب آنے سے مجھ پر۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، محمد بن اسحاق ، عمرو بن ابو عمرو، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعائیں مقرر تھیں کہ جن کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہیں چھوڑتے تھے (وہ دعائیں یہ ہیں ) یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رنج اور غم سے اور عاجزی اور سستی اور کنجوسی اور نامردی سے اور لوگوں کے غلبہ سے۔ امام نسائی نے کہا یہ روایت ٹھیک ہے اور پہلی روایت خطاء ہے۔

 

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ، بشر، حمید، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا مانگتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری سستی، بڑھاپے ، نامردی، کنجوسی اور (قیامت کے قبل کے ) دجال کے فتنہ اور عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی صنعانی، معتمر، وہ اپنے والد سے ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیری سستی اور عاجزی اور بوڑھا ہونے ، کنجوسی اور نامردی سے اور پناہ مانگتا ہوں تیرے عذاب قبر اور زندگی اور موت سے

 

 

٭٭ ابو حاتم سجستانی، عبداللہ بن رجاء، سعید بن سلمہ، عمرو بن ابو عمرو، مولی الملطلب، عبداللہ بن لملطلب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری سستی اور کنجوسی اور نامردی اور قرض کے بوجھ اور لوگوں کے فساد سے۔ امام نسائی نے فرمایا اس حدیث کی اسناد میں سعید بن سلم ضعیف ہے اور ہم نے اس روایت کو تحریر کیا کیونکہ اس میں عبارت زائد ہے۔

 

تاوان اور گناہ سے پناہ مانگنے کے بارے میں

 

محمد بن عثمان بن ابو صفوان، سلمہ بن سعید بن عطیہ، معمر، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر پناہ مانگتے تھے قرض داری اور گناہ سے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ قرض داری (یعنی مقروض ہونے سے ) بہت پناہ مانگتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص مقروض ہو گا تو وہ جھوٹی بات کہے گا اور وعدہ خلافی کرے گا۔

 

کان اور آنکھ کی برائی سے پناہ مانگنا

 

حسن بن اسحاق ، ابو نعیم، سعد بن اوس، بلال بن یحیی، شتیر بن شکل، شکل بن حمید سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو کوئی تعوذ بتلائیں کہ جس کو میں پڑھ لیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور پھر فرمایا کہو میں پناہ مانگتا ہوں کان کی برائی اور نطفہ کی برائی سے (یعنی زنا کاری میں مبتلا ہونے سے )۔

 

آنکھ کی برائی سے پناہ مانگنا

 

عبید بن وکیعب جراح، وہ اپنے والد سے ، سعد بن اوس، بلال بن یحیی، شتیر بن شکل بن حمید سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے دعا سکھلائیں کہ اس سے میں نفع حاصل کر سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو یا اللہ! بچا مجھ کو کان اور زبان اور دل کی اور منی کی برائی (یعنی شرم گاہ کی برائی) سے۔

 

سستی سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

محمد بن مثنی، خالد، حمید سے روایت ہے کہ انس بن مالک سے دریافت کیا گیا عذاب قبر اور دجال کے متعلق تو انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں سستی بڑھاپے نامردی کنجوسی اور دجال کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے۔

 

عاجزی سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

احمد بن سلیمان، محاضر، عاصم الاحول، عبداللہ بن حارث، زید بن ارقم سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں تم کو نہیں سکھلاتا مگر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو سکھلاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری عاجزی اور سستی اور کنجوسی سے اور نامردی سے اور بڑھاپے اور عذاب قبر سے یا اللہ! میرے نفس کو تقوی عطا فرما اور اس کو پاک فرما دے تو بہترین پاک کرنے والا ہے اور تو ہی اس کا مالک و مختار ہے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری اس دل سے کہ جس میں درد نہ ہو اور اس نفس سے جو کہ سیر ہو اور اس علم سے جس میں نفع نہ ہو اور اس دعا سے جو کہ قبول نہ ہو۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یا اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیری عاجزی اور سستی اور کنجوسی اور نامردی اور بڑھاپے اور عذاب قبر اور زندگی اور موت کے فتنے سے۔

 

ذلت و رسوائی سے پناہ مانگنا

 

ابو عاصم خشیش بن اصرم، حبان، حماد بن سلمہ، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، سعید بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں فقیری سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری کمی سے اور ذلیل ہونے سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری کسی پر ظلم کرنے سے یا مجھ پر ظلم ہونے سے۔

 

 

٭٭ محمود بن خالد، ولید، ابو عمرو، الاوزاعی، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، جعفر بن عیاض، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ پناہ مانگو اللہ کی فقیری اور کمی اور ذلت سے اور ظلم کرنے سے یا تم پر ظلم ہونے سے۔

 

 

٭٭ احمد بن نصر، عبد الصمد بن عبدالوارث، حماد بن سلمہ، اسحاق ، سعید بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری کمی اور فقیری اور رسوائی سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری ظلم کرنے سے یا مجھ پر ظلم ہونے سے۔

 

(بے برکتی اور) کمی سے پناہ مانگنا

 

محمود بن خالد، عمر یعنی ابن عبدالواحد، الاوزاعی، اسحاق بن عبد اللہ، جعفر بن عیاض، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ پناہ مانگو اللہ کی فقیری اور کمی اور ذلت سے اور ظلم کرنے یا ظلم ہونے سے۔

 

فقیری سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، موسیٰ بن شیبہ ، الاوزاعی، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، جعفر بن عیاض، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پناہ مانگو اللہ کی فقیری اور کمی اور ذلت سے اور ظلم کرنے یا ظلم ہونے سے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، عثمان یعنی شحام، مسلم یعنی ابن ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا وہ نماز کے بعد فرماتے تھے یا اللہ میں پناہ مانگتا ہوں کفر سے فقیری سے اور عذاب قبر سے تو میں بھی یہی دعا مانگنے لگا۔ ان کے والد نے بیان کیا بیٹا تم نے کیسے یہ دعا سیکھی؟ انہوں نے کہا اے میرے والد! میں نے آپ کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہر ایک نماز کے بعد تو میں نے بھی یاد کر لی۔ ان کے والد نے کہا اس دعا کو اپنے ذمہ لازم قرار دے لو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک نماز کے بعد یہ دعا مانگتے۔

 

 

فتنہ قبر سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

محمد بن عبد اللہ، ابو اسامۃ، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر مرتبہ یہ دعا مانگتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری دوزخ کے فتنہ سے اور دوزخ کے عذاب سے اور قبر کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے اور دجال کے فساد سے اور تنگ دستی کے فتنہ اور مال داری کے فتنہ سے اے خدا میری غلطیاں برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کے گناہ کو صاف کر دے جیسے تو نے صاف کیا سفید کپڑے کو تیل سے اور دور کر دے مجھ کو گناہوں سے اس قدر دور کر دے کہ جس قدر مشرق مغرب سے دور ہے اے خدا میں پناہ مانگتا ہوں کاہلی اور بڑھاپے سے اور گناہ اور مقروض ہونے سے۔

 

جو نفس سیر نہ ہو اس سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

قتیبہ، لیث، سعید بن ابو سعید، عباد بن ابو سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے اے خدا میں پناہ مانگتا ہوں تیری چار اشیاء سے (1) اس علم سے کہ جو نفع نہ بخشے اور اس دل سے کہ جس میں خوف خداوندی نہ ہو اور اس نفس سے جو کہ سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو کہ قبول نہ ہو۔

 

بھوک سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

محمد بن العلاء، ابن ادریس، ابن عجلان، مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری بھوک سے اور برے ساتھی سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری خیانت سے اور بری بات سے جو چھپی ہوئی ہو یعنی پوشیدہ ہو۔

 

خیانت سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

محمد بن مثنی، عبداللہ بن ادریس، ابن عجلان، سعید بن ابو سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری بھوک سے وہ میری ساتھی ہے اور خیانت سے وہ ایک بری عادت ہے۔

 

دشمنی نفاق اور برے اخلاق سے پناہ سے متعلق

 

قتیبہ، خلف، حفص، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگتے تھے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو کہ نفع نہ دے اور اس دل سے جس میں کہ خوف نہ ہو اور اس دعا سے جو کہ قبول نہ ہو اور اس نفس سے جو کہ سیر نہ ہو پھر فرماتے تھے کہ یا اللہ! میں ان چاروں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیہ، ضبارۃ، دوید بن نافع، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری دشمنی نفاق اور برے اخلاق و عادات سے۔

 

تاوان سے پناہ

 

اسحاق بن ابراہیم، بقیہ، ابو سلمہ، سلیمان بن سلیم حمصی، زہری، عروۃ، ابن زبیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت پناہ مانگتے تھے گناہ اور قرض داری سے کسی نے دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت انسان مقروض ہوتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے۔

 

 

قرض سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن یزید، وہ اپنے والد سے ، حیوہ، سالم بن غیلان تجیبی، ابو ہیثم، ابو سعید سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کفر سے اور قرض سے۔ ایک آدمی نے عرض کیا کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرض کو کفر کے برابر فرما رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

مقروض ہونے کے غلبہ سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، حیی بن عبد اللہ، ابو عبدالرحمن حبلی، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں قرض سے اور دشمن کے غلبہ سے اور دشمنوں کی ملامت سے۔

 

 

٭٭ احمد بن حرب، قاسم، ابن یزید جرمی، عبدالعزیز، عمرو بن ابو عمرو، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں رنج و غم اور کاہلی اور نامردی اور کنجوسی اور قرض داری کے بوجھ سے اور مردوں کے غلبہ سے (یعنی لوگوں کے فتنہ فساد مچانے سے )

 

مالداری کے فتنہ سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، جریر، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے اور دوزخ کے فتنہ سے دجال کے فتنہ سے یا اللہ! میرے گناہ دھو دے برف اور اولے کے پانی سے اور میرے قلب کو برائیوں سے صاف کر دے جس طریقہ سے کہ تو نے صاف کیا سفید کپڑے کو تیل سے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری کاہلی بڑھاپے اور مقروض ہونے اور گناہ سے۔

 

فتنہ دنیا سے پناہ مانگنا

 

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، عبدالملک بن عمیر، مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت سعدان کو یہ دعا سکھلاتے تھے اور اس کو روایت کرتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے۔ یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کنجوسی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں نامردی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں رسوا کرنے والی عمر تک زندہ رہنے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء، وہ اپنے والد سے ، عبید اللہ، اسرائیل، عبدالملک بن عمیر، مصعب بن سعد و عمرو بن میمون الاودی سے روایت ہے کہ دونوں حضرات نے بیان کیا کہ حضرت سعد اپنے لڑکوں کو یہ دعا سکھلاتے تھے جیسے استاذ بچوں کو سکھلاتا ہے اور بیان کرتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پناہ مانگتے تھے ہر نماز کے بعد یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں کنجوسی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں نامردی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں ذلیل عمر تک زندہ رہنے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنے سے اور عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ احمد بن فضالۃ، عبید اللہ، اسرائیل، ابو اسحاق ، عمرو بن میمون، عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے نامردی اور کنجوسی اور بری عمر اور سینہ کے فتنے اور عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ سلیمان بن سلم بلخی، ابو داؤد مصاحفی، نضر، یونس، ابو اسحاق ، عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانچ اشیاء سے پناہ مانگتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری نامردی اور کنجوسی اور بری عمر اور سینہ کے فتنے اور عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء، حسین، زہیر، ابو اسحاق ، عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام نے نقل فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے کنجوسی اور نامردی اور سینہ کے فتنے اور عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جو اوپر کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن وکیع، وہ اپنے والد سے ، سعد بن ابو اوس، بلال بن یحیی، شتیر بن شکل بن حمید سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! مجھ کو ایسی دعا سکھلائیں کہ جس سے میں نفع حاصل کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو یا اللہ! مجھ کو کان آنکھ اور زبان کی اور دل کی برائی سے بچا۔

 

کفر کے شر سے پناہ

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، سالم بن غیلان، دراج ابو سمح، ابو ہیثم، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری کفر سے اور محتاجی سے اور ایک شخص نے کہا دونوں برابر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔

 

گمراہی سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، شعبی، ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکان کے باہر تشریف لاتے تو فرماتے (روانہ ہوتے وقت) بسم اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیری اے پروردگار پھسل جانے سے (یعنی بلا ارادہ گناہ کرنے سے یا چلنے میں پاؤں کے پھسل جانے سے ) یا راستہ بھول جانے سے یا مجھ پر ظلم ہونے سے یا جہالت کرنے سے یا مجھ پر جہالت ہونے سے۔

 

 

دشمن کے غلبہ سے پناہ مانگنا

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، حیی بن عبد اللہ، ابو عبدالرحمن حبلی، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری قرض کے غلبہ اور دشمن کے غلبہ سے اور دشمن کی ملامت سے۔

 

دشمنوں کی ملامت سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

یہ روایت مندرجہ بالا روایت کے مطابق ہے۔

 

بڑھاپے سے پناہ مانگنا

 

عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، حماد بن مسعدۃ، ہارون بن ابراہیم، محمد، عثمان بن ابو عاص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگتے تھے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کاہلی بڑھاپے اور نامردی اور عاجزی سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، یزید بن ہاد، عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کاہلی بڑھاپے اور مقروض ہونے سے اور گناہ سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری دجال کی برائی سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری قبر کے عذاب سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری دوزخ کے عذاب سے۔

 

بری قضاء سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے تین چیزوں سے بدبختی آنے سے دشمنوں کی ملامت سے بری قضاء سے سخت بلا اور آفت سے۔ حضرت سفیان نے بیان کیا کہ حدیث میں تین اشیاء تھیں لیکن میں نے چار نقل کی کیونکہ مجھ کو یاد نہیں رہا کہ کون سی اس میں نہیں تھی۔

 

بد نصیبی سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

جنون سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

محمد بن مثنی، ابو داؤد، ہمام، قتادۃ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں جنون جذام برص اور دوسری (مہلک) بیماریوں سے۔

 

جنات کے نظر لگانے سے پناہ

 

ہلال بن العلاء، سعید بن سلیمان، عباد، جریری، ابو نضرۃ، ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے جنات کی نظر سے اور انسانوں کی نظر (لگانے ) سے اور پھر جس وقت۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو لے لیا اور تمام کو چھوڑ دیا۔

 

غرور کی برائی سے پناہ

 

موسیٰ بن عبدالرحمن، حسین، زائدۃ، حمید، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے سستی اور بڑھاپے اور نامردی اور کنجوسی اور غرور کی برائی سے اور فتنہ دجال اور عذاب قبر سے۔

 

بری عمر سے پناہ مانگنا

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عبدالملک بن عمیر، مصعب بن سعد نے سنا اپنے والد سے وہ ہم کو سکھلاتے تھے پانچ باتیں جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا مانگتے تھے اور کہتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری کنجوسی اور پناہ مانگتا ہوں تیری نامردی سے اور پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ عمران بن بکار، احمد بن خالد، یونس، ابو اسحاق ، عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر کے ساتھ حج ادا کیا وہ مزدلفہ میں کہتے تھے کہ میں نے خود سنا کہ باخبر ہو جاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے ان پانچ اشیاء سے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری کنجوسی سے اور نامردی سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری بری عمر سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری سینہ کے فتنہ سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے۔

 

نفع کے بعد نقصان سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

ازہر بن جمیل، خالد بن حارث، شعبہ، عاصم، عبداللہ بن سرجس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سفر کرتے تو فرماتے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختی سے اور لوٹنے کے رنج و غم سے اور نفع کے بعد نقصان سے اور مظلوم کی بد دعا سے اور بری بات دیکھنے سے گھر اور دولت میں۔

 

 

٭٭ ازہر بن جمیل، خالد بن حارث، شعبہ، عاصم، عبداللہ بن سرجس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سفر کرتے تو فرماتے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختی سے اور لوٹنے کے رنج و غم سے اور نفع کے بعد نقصان سے اور مظلوم کی بد دعا سے اور بری بات دیکھنے سے گھر اور دولت میں۔

 

مظلوم کی بد دعا سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

یوسف بن حماد، بشر بن منصور، عاصم، عبداللہ بن سرجس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سفر فرماتے تو پناہ مانگتے سفر کی سختی سے آخر تک جس طرح اوپر گزرا۔

 

 

سفر سے واپسی کے وقت رنج و غم سے پناہ

 

محمد بن عمر بن علی بن مقدم، ابن ابو عدی، شعبہ، عبداللہ بن بشر الخثمی، ابو زرعۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سفر فرماتے اور سوار ہوتے اونٹ پر تو اشارہ فرماتے انگلی سے (یہ روایت نقل کرتے وقت شعبہ راوی نے انگلی کو لمبا کیا) پھر فرماتے یا اللہ! تو ہی ساتھی ہے سفر میں اور خلیفہ ہے گھر اور مال میں۔ یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری سفر کی سختی اور سفر سے واپس آنے کی مصیبت سے۔

 

برے پڑوسی سے پناہ مانگنا

 

عمرو بن علی، یحیی، محمد بن عجلان، سعید بن ابو سعید مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ برے پڑوسی سے پناہ مانگو رہائش کی جگہ میں کیونکہ جنگل کا پڑوسی تو ہٹ جاتا ہے (یعنی جنگل کا پڑوس اس قدر مستحکم نہیں ہے کہ جس قدر بستی اور آبادی کا پڑوس ہے کیونکہ وہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے )۔

 

لوگوں کے فساد سے پناہ سے متعلق

 

علی بن حجر، اسماعیل، عمرو بن ابو عمرو، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو طلحہ سے فرمایا تم لوگ اپنے لوگوں میں سے ایک لڑکا میرے واسطے میری خدمت کرنے کے واسطے تلاش کرو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ مجھے لے کر روانہ ہوئے اپنے پیچھے بٹھلائے ہوئے سواری پر اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت کرتا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیچے اترتے تو میں سنتا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر و بیشتر فرماتے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بڑھاپے اور رنج اور عاجزی اور کاہلی اور کنجوسی اور نامردی اور مقروض ہونے کے بوجھ سے اور لوگوں کے فساد سے۔

 

فتنہ دجال سے پناہ سے متعلق

 

قتیبہ، سفیان، یحیی، عمرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے اللہ کی قبر کے عذاب سے اور فتنہ دجال سے اور فرماتے تھے کہ تم کو قبروں میں فتنہ ہو گا (یعنی قبور میں تم لوگ آزمائے جاؤ گے کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح)

 

عذاب دوزخ اور دجال کے شر سے پناہ سے متعلق

 

احمد بن حفص بن عبد اللہ، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم، موسیٰ بن عقبہ، ابو زناد، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کی دوزخ کے عذاب سے اور میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں دجال کی برائی سے اور پناہ مانگتا ہوں اللہ کی زندگی اور موت کے فتنہ سے۔

 

 

٭٭ یحییٰ بن درست، ابو اسماعیل، یحییٰ بن کثیر، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کی دوزخ کے عذاب سے اور میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں دجال کی برائی سے اور پناہ مانگتا ہوں اللہ کی زندگی اور موت کے فتنہ سے۔

 

انسانوں کے شر سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

احمد بن سلیمان، جعفر بن عون، عبدالرحمن بن عبد اللہ، ابو عمر، عبید بن خشخاش، ابو ذر سے روایت ہے کہ میں مسجد میں گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پر تشریف فرما تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو ذر! تم پناہ مانگو اللہ تعالیٰ کی جنات کے شیاطین سے اور انسانوں کے شیاطین سے۔ میں نے عرض کیا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں (بالکل)۔

 

زندگی کے فتنہ سے پناہ مانگنا

 

قتیبہ، سفیان و مالک، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اللہ تعالیٰ کی عذاب قبر سے پناہ مانگو اللہ تعالیٰ سے زندگی اور موت کے فتنہ سے پناہ مانگو اللہ کی فتنہ دجال سے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن محمد، ابو داؤد، شعبہ، یعلی بن عطاء، ابو علقمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے اشیاء سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے پناہ مانگو اللہ کی عذاب سے اور عذاب دوزخ سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے اور دجال کی برائی سے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، یعلی بن عطاء، ابو علقمہ ہاشمی، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جس نے میری فرمانبرداری کی اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے عذاب قبر سے اور عذاب دوزخ سے اور زندوں اور مردوں کے فتنے اور فتنہ دجال سے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، ابو ولید، ابو عوانۃ، یعلی بن عطاء، وہ اپنے والد سے ، ابو علقمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ پناہ مانگو پانچ اشیاء سے (1) عذاب دوزخ سے (2) عذاب قبر سے (3) زندگی اور موت کے فتنے سے (4) فتنہ دجال سے۔

 

 

فتنہ موت سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

قتیبہ، مالک، ابو زبیر، طاؤس، عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو یہ دعا ایسے سکھلاتے تھے جیسے قرآن کریم کی سورت سکھلاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑھو یا اللہ! ہم پناہ مانگتے ہیں تیری عذاب دوزخ سے اور پناہ مانگتے ہیں تیری عذاب قبر سے اور پناہ مانگتے ہیں تیری باب دجال کے فتنہ سے اور پناہ مانگتے ہیں تیری زندگی اور موت کے فتنہ سے۔

 

 

٭٭ محمد بن میمون، سفیان، عمرو، طاؤس، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پناہ مانگو اللہ کی اس کے عذاب سے اور پناہ مانگو اللہ کی زندگی اور موت کے فتنہ اور عذاب قبر اور فتنہ دجال سے۔

 

عذاب قبر سے پناہ مانگنا

 

حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی دعا میں فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری دوزخ کے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری عذاب قبر سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری فتنہ دجال سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری فتنہ زندگی اور فتنہ موت سے

 

 

فتنہ قبر سے پناہ مانگنا

 

ابو عاصم، قاسم بن کثیر مقبری، لیث بن سعد، یزید بن ابو حبیب، سلیمان بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا میں فرماتے یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں فتنہ قبر سے اور فتنہ دجال اور زندگی اور موت کے فتنہ سے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا اس حدیث کی اسناد میں غلطی ہوئی ہے حضرت سلیمان بن یسار کے بجائے سلیمان بن سنان صحیح ہے۔

 

خداوند قدوس کے عذاب سے پناہ مانگنا

 

محمد بن منصور، سفیان، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پناہ مانگو اللہ کی اس کے عذاب سے پناہ مانگو اللہ کی زندگی اور موت کے فتنہ سے پناہ مانگو اللہ کی فتنہ دجال سے۔

 

عذاب دوزخ سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، ابو عامر عقدی، شعبہ، بدیل بن میسرۃ، عبداللہ بن شقیق، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگتے تھے دوزخ کے عذاب سے اور عذاب قبر سے اور فتنہ دجال سے۔

 

 

آگ کے عذاب سے پناہ

 

محمود بن خالد، ولید، ابو عمرو، یحیی، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پناہ مانگو اللہ کی دوزخ کے عذاب سے اور عذاب قبر سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے اور دجال کی برائی سے۔

 

دوزخ کی گرمی سے پناہ مانگنا

 

احمد بن حفص، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم، سفیان بن سعید، ابو حسان، حبسرۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے پروردگار! حضرت جبرائیل میکائیل اور حضرت اسرافیل کے۔ پناہ مانگتا ہوں میں تیری دوزخ کی گرمی اور عذاب قبر سے۔

 

 

٭٭ عمرو بن سواد، ابن وہب، عمرو بن حارث، یزید بن ابو حبیب، سلیمان بن سنان مزنی، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں فرماتے تھے یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں فتنہ قبر اور فتنہ دجال اور زندگی اور موت کے فتنہ اور دوزخ کی گرمی سے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت ٹھیک ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو الاحوص، ابو اسحاق ، برید بن ابو مریم، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے جنت مانگتا ہے تین مرتبہ تو اس سے جنت کہتی ہے یا اللہ! اس کو جنت میں داخل کر اور جو شخص دوزخ سے تین مرتبہ پناہ مانگتا ہے تو دوزخ کہتی ہے یا اللہ! اس کو دوزخ سے محفوظ فرما۔

 

(ہر قسم کے ) کاموں کی برائی سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

عمرو بن علی، یزید، ابن زریع، حسین المعلم، عبداللہ بن بریدہ، بشیر بن کعب، شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سید الاستغفار یہ ہے کہ بندہ کہے یا اللہ! تو میرا پروردگار ہے علاوہ تیرے کوئی اور معبود برحق نہیں ہے تو نے مجھ کو پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور میں تیرے اقرار اور وعدہ پر ہوں جہاں تک کہ مجھ سے ہو سکتا ہے تیری پناہ مانگتا ہوں برائی سے اپنے کاموں میں اور اقرار کرتا ہوں اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہوں تیرے احسان کا مجھ پر۔ بخش دے مجھ کو کوئی نہیں بخشتا گناہوں کو مگر تو پھر اگر یہ دعا صبح کے وقت پڑھے اس پر یقین کر کے اور مر جائے تو جنت میں داخل ہو گا اور شام کے وقت پڑھے اس کو یقین کر کے تو جب بھی جنت میں داخل ہو گا۔

 

اعمال کی برائی سے پناہ مانگنے سے متعلق

 

یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، موسیٰ بن شیبہ، الاوزاعی، عبدۃ بن ابو لبابۃ سے روایت ہے کہ ابن بساف نے ان سے دریافت فرمایا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وفات سے قبل اکثر کیا دعا مانگا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا اپنے عمل کی برائی سے جو میں کر چکا اور جو میں نے ابھی نہیں کیا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، ہلال بن یساف، فروۃ بن نوفل سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رسول کریم کیا دعا مانگا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا مانگتے کہ پناہ مانگتا ہوں میں تیری برائی سے ان کاموں میں جو کہ کر چکا اور جو میں نے ابھی نہیں کیے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

جو اعمال انجام نہیں دیئے ان کے شر سے پناہ

 

ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

زمین میں دھنس جانے سے متعلق

 

عمرو بن منصور، فضل بن دکین، عبادۃ بن مسلم، جبیربن ابو سلیمان بن جبیر بن مطعم، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں تیری برائی کی پناہ مانگتا ہوں (یعنی برے کام سے میں پناہ مانگتا ہوں ) کہ پھنس جاؤں آفت میں نیچے (زمین) کی جانب سے یہ حدیث مختصر ہے حضرت جبیر نے کہا نیچے کی برائی سے مراد زمین دھنس جانا ہے۔ حضرت عبادہ نے کہا میں واقف نہیں کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مبارک ہے یا حضرت جبیر کا؟

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، فضل بن دکین، عبادۃ بن مسلم، جبیربن ابو سلیمان بن جبیر بن مطعم، ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں تیری برائی کی پناہ مانگتا ہوں (یعنی برے کام سے میں پناہ مانگتا ہوں ) کہ پھنس جاؤں آفت میں نیچے (زمین) کی جانب سے یہ حدیث مختصر ہے حضرت جبیر نے کہا نیچے کی برائی سے مراد زمین دھنس جانا ہے۔ حضرت عبادہ نے کہا میں واقف نہیں کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مبارک ہے یا حضرت جبیر کا؟

 

گرنے اور مکان تلے دب جانے سے پناہ

 

محمود بن غیلان، فضل بن موسی، عبداللہ بن سعید، صیفی، ابو ایوب، ابو الیسر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں اوپر سے گرنے سے (جیسے کسی بلندی یا پہاڑ وغیرہ سے گرنے سے ) اور مکان گرنے سے اور اس میں دب جانے سے یا پانی میں غرق ہونے سے اور جل جانے سے اور پناہ مانگتا ہوں میں تیری شیطان کے بہکانے سے موت کے وقت اور پناہ مانگتا ہوں تیری راستہ میں مرنے سے پشت موڑ کر اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری سانپ کے زہر سے مرنے سے (یعنی سانپ کے ڈسنے سے )

 

 

٭٭ ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، عبداللہ بن سعید، صیفی، ابو ایوب انصاری، ابو اسود سلمی سے ایسی ہی روایت منقول ہے جو کہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

اللہ عز و جل کے غصہ سے پناہ مانگنے سے متعلق اس کی رضا کے ساتھ مانگنے کا بیان
ابراہیم بن یعقوب، العلاو بن ہلال، عبید اللہ، زید، عمرو بن مرۃ، قاسم بن عبدالرحمن، مسروق بن الاجدع، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک رات اپنے بستر پر تلاش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہیں پایا۔ میں نے اپنا ہاتھ پھیرا میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں پر لگا اس جگہ پر جو کہ چلتے وقت زمین سے اٹھا رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے تھے (اے اللہ!) پناہ مانگتا ہوں تیری معافی کی تیرے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں میں تیری رضا مندی کی تیرے غصہ سے پناہ مانگتا ہوں تیری تجھ سے۔

 

قیامت کے دن جگہ کی تنگی سے پناہ مانگنے سے متعلق حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

ابراہیم بن یعقوب، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ازہر بن سعید، عاصم بن حمید سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کی نماز کا کس دعا سے آغاز فرماتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا تم نے مجھ سے ایک ایسی بات دریافت کی جو کہ کسی نے نہیں پوچھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر فرماتے تھے دس بار اور پڑھتے تھے دس مرتبہ اور استغفار فرماتے تھے دس مرتبہ اور فرماتے تھے یا اللہ! بخش دے مجھ کو اور ہدایت فرما مجھ کو اور مجھ کو رزق عطا فرما اور مجھ کو تندرست رکھ اور پناہ مانگتے تھے جگہ کی تنگی سے قیامت کے دن۔

 

اس دعا سے پناہ مانگنا جو (اللہ عز و جل کے ہاں ) سنی (ہی) نہ جائے

 

محمد بن آدم، ابو خالد، محمد بن عجلان، سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یا اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع نہ بخشے اور اس دل سے کہ جس میں خوف خداوندی نہ ہو اور اس دل سے جو نہ بھرے اور اس دعا سے جو نہ سنی جائے۔

 

اس دعا سے پناہ مانگنا جو (اللہ عز و جل کے ہاں ) سنی (ہی) نہ جائے

 

عبید اللہ، وہ اپنے چچا سے ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں باقی ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

دو چیزیں ملا کر بھگونے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ایک شے سے دوسری شے کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس طرح نشہ جلدی پیدا ہونے کا امکان ہے۔

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، ہشام بن حسان، ابو ادریس سے روایت ہے کہ انس بن مالک کی خدمت میں گدری کھجور آئی جو کہ ایک جانب سے پکنے لگی تھی وہ اس کو کاٹنے لگے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، سعید بن ابو عروبۃ، قتادۃ نے فرمایا حضرت انس حکم فرماتے تھے ہم کو اس کھجور کے کترنے کا جو کہ ایک جانب سے پک جاتی تھی۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، حمید، انس سے روایت ہے کہ وہ کھجور جس وقت پختہ ہوتی تو اسی قدر کھجور نکال دیتے اس فضیخ (شراب کی ایک قسم) میں سے واضح رہے کہ یہ گدری کھجور کی نبیذ کو بھی کہتے ہیں۔

 

صرف گدری کھجور کو بھگو کر نبیذ بنانے اور پینے کی اجازت جب تک کہ اس فضیخ میں تیزی اور جوش پیدا نہ ہو

 

اسماعیل بن مسعود، خالد یعنی ابن حارث، ہشام، یحیی، عبداللہ بن ابو قتادۃ، ابو قتادۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ بھگو کچی اور تر کھجور کو ایک ساتھ ملا کر اور نہ ہی گدری کھجور اور انگور کو ملا کر اور نہ ہی گدری کھجور اور انگور کو ملا کر لیکن پر ایک کو الگ الگ بھگو۔

 

 

مشکوں میں نبیذ بنانا کہ آگے سے جس کے منہ بندھے ہوئے ہوں

 

یحیی بن درست، ابو اسماعیل، یحیی، عبداللہ بن ابو قتادۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کچی اور خشک کھجور ملا کر بھگونے سے گدری اور خشک کھجور ملا کر بھگونے سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بھگو ان مشکوں میں کہ جن کے منہ باندھ دیئے جائیں تاکہ اس میں کیڑا اور مکھی داخل نہ ہو۔

 

صرف کھجور بھگونے کی اجازت سے متعلق

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، اسماعیل بن مسلم عبدی، ابو متوکل، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی گدری کھجور کو خشک کھجور کے ساتھ ملانے سے یا انگور کو کھجور کے ساتھ ملانے سے اور فرمایا جو شخص ان کو پینا چاہے تو ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ پیے کھجور کو علیحدہ اور انگور کو علیحدہ۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، اسماعیل بن مسلم عبدی، ابو متوکل، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی گدری کھجور کو خشک کھجور کے ساتھ ملانے سے یا انگور کو کھجور کے ساتھ ملانے سے اور فرمایا جو شخص ان کو پینا چاہے تو ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ پیے کھجور کو علیحدہ اور انگور کو علیحدہ۔

 

 

صرف انگور بھگونا

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، عکرمۃ بن عمار، ابو کثیر، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی گدری کھجور اور انگور یا گدری اور خشک کھجور کو ملا کر بھگونے سے اور فرمایا بھگو ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ۔

 

گدری کھجور کو علیحدہ پانی میں بھگونے کی اجازت سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن عمار، معافی یعنی ابن عمران، اسماعیل بن مسلم، ابو متوکل، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کھجور اور انگور کو ملا کر بھگونے سے اور فرمایا انگور کو علیحدہ بھگو اور کھجور کو علیحدہ بھگو اور گدری کھجور کو علیحدہ بھگو۔

 

آیت کریمہ کی تفسیر

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، الاوزاعی، ابو کثیر، حمید بن مسعدۃ، سفیان بن حبیب، الاوزاعی، ابو کثیر، ابو ہریرہ اس آیت کریمہ کی تفسیر یہ ہے تم لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ تم کھجور اور انگور کے پھلوں سے بناتے ہو نشہ اور عمدہ رزق۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، الاوزاعی، ابو کثیر، حمید بن مسعدۃ، سفیان بن حبیب، الاوزاعی، ابو کثیر، ابو ہریرہ اس آیت کریمہ کی تفسیر یہ ہے تم لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ تم کھجور اور انگور کے پھلوں سے بناتے ہو نشہ اور عمدہ رزق۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، الاوزاعی، ابو کثیر، حمید بن مسعدۃ، سفیان بن حبیب، الاوزاعی، ابو کثیر، ابو ہریرہ اس آیت کریمہ کی تفسیر یہ ہے تم لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ تم کھجور اور انگور کے پھلوں سے بناتے ہو نشہ اور عمدہ رزق۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، سفیان، حبیب بن ابی عمرہ، سعید بن جبیر، اس آیت کریمہ کی تفسیر یہ ہے تم لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ تم کھجور اور انگور کے پھلوں سے بناتے ہو نشہ اور عمدہ رزق۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، حبیب، ابن ابو عمرۃ، سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ سکر خمر یعنی شراب ہے۔

 

 

سوید، عبد اللہ، سفیان، ابو حصین، سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا سکر حرام ہے اور اچھی روزی حلال ہے۔

 

 

جس وقت شراب کی حرمت ہوئی تو شراب کون کون سی اشیاء سے تیار کی جاتی تھی؟

 

یعقوب بن ابراہیم، ابن علیۃ، ابو حبان، شعبی، ابن عمر نے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ کے منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا اے لوگو! دیکھو جس روز شراب حرام ہوئی تو پانچ اشیاء سے شراب تیار کی جاتی تھی انگور کھجور شہد گیہوں اور جو اور شراب وہ ہے یعنی خمر جو کہ عقل ڈھانپ لے۔

 

 

٭٭ محمد بن العلاء، ابن ادریس، زکریا و ابو حیان، شعبی، ابن عمر نے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر سے سنا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منبر پر فرماتے تھے کہ حمد و صلوۃ کے بعد معلوم ہو کہ جس وقت شراب کی حرمت ہوئی تو وہ پانچ چیزوں سے تیار کی جاتی تھی انگور گیہوں اور جو سے اور کھجور و شہد سے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عبید اللہ، اسرائیل، ابو حصین، عامر، ابن عمر نے روایت ہے کہ شراب پانچ اشیاء سے بنتی ہے کھجور گیہوں اور جو اور شہد اور انگور سے۔

 

جو شراب غلہ یا پھلوں سے تیار ہو اگرچہ وہ کسی قسم کا ہو اگر اس میں نشہ ہو تو وہ حرام ہے

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، ابن عون، ابن سیرین سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ بن عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہمارے لوگ ہمارے واسطے ایک شراب بھگوتے ہیں شام کو پھر صبح کو ہم لوگ اس کو پیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں تم کو منع کرتا ہوں نشہ لانے والی شے سے (یعنی ہر ایک نشہ آور شے سے روکتا ہوں ) کم ہو یا زیادہ اور میں گواہ بناتا ہوں اللہ کو تجھ پر کہ میں منع کرتا ہوں نشہ لانے سے کم ہو یا زیادہ اور میں گواہ بناتا ہوں اللہ کو تجھ پر کہ خیبر کے لوگ فلاں فلاں اشیاء سے شراب تیار کرتے ہیں اور وہ لوگ اس کا نام یہ اور یہ لکھتے ہیں حالانکہ وہ خمر (شراب) ہے اور فدک کے لوگ فلاں فلاں اشیاء کی شراب تیار کرتے ہیں اور اس کا نام یہ رکھتے ہیں حالانکہ وہ خمر ہے اسی طریقہ سے چار قسم کی شرابو ں کو بیان کیا ان میں ایک شہد کی شراب تھی۔

 

جس شراب میں نشہ ہو وہ خمر ہے اگرچہ وہ انگور سے تیار نہ کی گئی ہو

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، حماد بن زید، ایوب، نافع، ابن عمر نے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک نشہ لانے والی شے حرام ہے اور ہر ایک نشہ لانے والی شے خمر ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے (اس میں یہ اضافہ ہے کہ) حضرت حسین بن منصور نے نقل کیا کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے فرمایا یہ حدیث صحیح ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔ لیکن زیر نظر حدیث شریف میں یہ نہیں ہے کہ ہر ایک نشہ آور شے حرام ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔ لیکن زیر نظر حدیث شریف میں یہ نہیں ہے کہ ہر ایک نشہ آور شے حرام ہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، محمد بن عجلان، نافع، ابن عمر نے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر ایک نشہ آور شراب حرام ہے۔ ہر نشہ لانے والی شراب خمر ہے۔

 

ہر ایک نشہ لانے والی شراب حرام ہے
محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابن عمر نے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک نشہ لانے والی شے حرام ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابن عمر نے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک نشہ لانے والی شے حرام ہے۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، محمد، ابو سلمہ، ابو ہریرہ نے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی تونبی لاکھی اور روغنی باسن میں نبیذ تیار کرنے سے اور ارشاد فرمایا جو شے نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، محمد بن سلیمان، ابن زید، قاسم بن محمد، عائشہ صدیقہ سے اسی مضمون کی روایت منقول ہے لیکن اس میں روغنی برتن کا تذکرہ نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم و قتیبہ، سفیان، زہری، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شراب نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ قتیبہ مالک، سوید بن نصر، عبد اللہ، مالک، ابن شہاب، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شہد کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ سوید، عبداللہ، معمر، زہری، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شہد کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ علی بن میمون، بشر بن سری، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شہد کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ احمد بن عبداللہ بن سوید بن منجوف و عبداللہ بن ہیثم، ابو داؤد، شعبہ، سعید بن ابو بردۃ، وہ اپنے والد سے ، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک نشہ لانے والی شئی حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ احمد بن عبداللہ بن علی، عبدالرحمن، اسرائیل، ابو اسحاق ، ابو بردۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اور حضرت معاذ کو ملک یمن کی جانب بھیجا حضرت معاذ نے فرمایا آپ ہم کو اس ملک میں بھیجتے ہیں کہ جہاں پر لوگ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں آپ نے فرمایا تم بھی پیو لیکن وہ شراب نہ پیو جو کہ نشہ کرے۔

 

 

 

٭٭ یحیی بن موسیٰ بلخی، ابو داؤد، حریش بن سلیم، طلحہ الایامی، ابو بردۃ، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک نشہ لانے والی شے حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، الاسود بن شیبان سدوسی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عطاء سے عرض کیا ہم لوگ سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور ہم لوگ بازاروں میں شراب فروخت ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن ہم لوگوں کو اس کا علم نہیں کہ وہ شراب کن برتنوں میں تیار ہوئی تھی؟ حضرت عطاء نے فرمایا جو شراب نشہ لائے وہ حرام ہے پھر وہ آدمی کچھ فاصلہ پر گیا حضرت عطاء نے فرمایا میں جس طرح کہتا ہوں وہ اسی طرح ہے اور نشہ پیدا کرنے والی ہر شے حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ہارون بن ابراہیم، ابن سیرین نے فرمایا ہر ایک شے نشہ لانے والی شراب حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، عبدالملک بن طفیل جزری نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ہم کو تحریر فرمایا تم لوگ طلاء کو نہ پیو جس وقت تک اس کے دو حصے نہ جل جائیں اور ایک حصہ باقی رہ جائے۔

 

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، صعق بن حزن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت عدی بن ارطات کو تحریر کیا کہ ہر ایک نشہ کرنے والی شے حرام ہے۔

 

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو داؤد، حریش بن سلیم، طلحہ بن مصرف، ابو بردۃ، ابو موسیٰ الاشعری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک نشہ کرنے (لانے ) والی شراب حرام ہے۔

 

بتع اور مزر کون سی شراب کو کہا جاتا ہے ؟

 

سوید، عبد اللہ، الاجلح، ابو بکر بن ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو یمن کی جانب روانہ فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہاں پر شراب ہوتی ہیں تو میں کون سی شراب پیوں اور کونسی شراب نہ پیوں ؟ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہاں پر کونسی شراب ہوتی ہے ؟ میں نے کہا تبع اور مزر۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تبع اور مزر کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا تبع تو شہد سے بنی ہوئی شراب ہے اور مزر جو کی شراب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چیز نشہ پیدا کرے اس کو نہ پیو اس لیے کہ میں ہر ایک نشہ والی شراب کو حرام قرار دے چکا ہوں۔

 

 

٭٭ محمد بن آدم بن سلیمان، ابن فضیل، شیبانی، ابو بردۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ملک یمن کی جانب بھیجا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہاں پر شراب ہوتی ہیں جس کو تبع اور مزر کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تبع کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا ایک شراب شہد سے تیار ہوتی ہے اور مزر نامی شراب جو سے تیار کی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، نصر بن علی، وہ اپنے والد سے ، ابراہیم بن نافع، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیا پھر آیت خمر کو نقل فرمایا ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ! مزر کے متعلق کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا مزر کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا وہ ایک دانہ ہے جو کہ ملک یمن میں تیار کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں نشہ ہوتا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، ابو جویریہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس سے کسی نے دریافت کیا باذق کے متعلق فتوی صادر فرمائیں انہوں نے کہا باذق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وقت میں نہیں تھا جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔

 

جس شراب کے بہت پینے سے نشہ ہو اس کا کچھ حصہ بھی حرام ہے

 

عبید اللہ بن سعید، یحیی یعنی بن سعید، عبید اللہ، عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شراب کا بہت پینا نشہ پیدا کرے اس کا کچھ حصہ بھی پینا حرام ہے۔

 

 

٭٭ حمید بن مخلد، سعید بن حکم، محمد بن جعفر، ضحاک بن عثمان، بکیر بن عبداللہ بن الاشج، عامر بن سعد سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں تم کو منع کرتا ہوں شراب کے کچھ حصہ کے بھی پینے سے جس کا بہت پینا نشہ پیدا کرے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عمار، ولید بن کثیر، ضحاک بن عثمان، بکیر بن عبداللہ بن الاشج، عامر بن سعد سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں تم کو منع کرتا ہوں شراب کے کچھ حصہ کے بھی پینے سے جس کا بہت پینا نشہ پیدا کرے۔

 

 

٭٭ ہشام بن عمار، صدقۃ بن خالد، زید بن واقد، خالد بن عبداللہ بن حسین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ مجھ کو علم تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ رکھتے ہیں چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزہ افطار کرنے کے وقت نبیذ لے کر حاضر ہوا جس کو کہ میں نے کدو کے تونبے میں بنایا تھا۔ جس وقت میں لے کر حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو نزدیک لا میں نزدیک لے گیا اس میں اس وقت جوش آ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا تم اس کو دیوار پر پھینک دو۔ یہ تو وہ شخص پیے گا کہ جس کو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر یقین نہیں۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ دلیل ہے اس بات کی کہ نشہ لانے والی شراب حرام ہے کم ہو یا زیادہ اور ویسا نہیں ہے کہ جیسے حیلہ کرنے والے لوگ اپنے واسطے حیلے پیدا کرتے ہیں کہ آخر گھونٹ کہ جس کے بعد نشہ پیدا ہو حرام ہے اور پہلے گھونٹ تمام حلال ہیں جن سے نشہ نہیں ہوا تھا اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ بالکل نشہ آخری گھونٹ سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے پہلے گھونٹ جو پیے ان سے بھی نشہ ہوتا ہے۔

 

جو کی شراب کی ممانعت سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن مبارک، یحیی بن آدم، عمار بن رزیق، ابو اسحاق ، صعصعۃ بن صوحان، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو منع فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کے چھلے اور ریشمی کپڑا پہننے سے اور سرخ رنگ کے زین پوش پر چڑھنے سے اور جو کی شراب پینے سے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، عبدالواحد، اسماعیل، ابن سمیع، مالک بن عمیر، صعصعۃ، علی بن ابو طالب نے بیان کیا حضرت علی سے کہ اے امیر المومنین! ہم کو ان اشیاء سے منع کرو جن اشیاء سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تم کو منع فرمایا اس پر انہوں نے کہا ہم کو منع فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کدو کے تونبے اور لاکھ کے برتن سے اور جو کی شراب کا تذکرہ نہیں فرمایا۔

 

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے کن برتنوں میں نبیذ تیار کی جاتی تھی؟

 

قتیبہ، ابو عوانۃ، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے نبیذ بھگو یا جاتا تھا پتھر کے کونڈے میں۔

 

کدو کے تونبے اور چوبی برتن اور روغنی برتن اور لاکھی کے برتن کی نبیذ کے ممنوع ہونے سے متعلق

 

زیاد بن ایوب، ابن علیۃ، اسحاق بن سوید، معاذۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ کدو کے تونبے (میں نبیذ بنانے ) سے منع فرمایا گیا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، اسحاق ، ابن سوید، معاذۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی چوبی اور روغنی اور تونبے اور لاکھی کے برتن کی نبیذ سے یہ روایت حضرت ابن علیہ کی ہے حضرت اسحاق راوی نے حضرت ہنیدہ سے کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہ سے مثل حضرت معاذ کے اور دوسرے گھڑوں کا بھی تذکرہ کیا میں نے ہنیدہ سے کہا تو نے حضرت عائشہ صدیقہ سے سنا کہ انہوں نے مٹی کے گھڑوں کا نام لیا؟ اس نے کہا جی ہاں۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، طود بن عبدالملک قیسی بصری، وہ اپنے والد سے ، ہنیدۃ بنت شریک بن ابان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے ملاقات کی خریبہ میں اور میں نے ان سے دریافت کیا شراب کی تلچھٹ سے متعلق تو انہوں نے منع کیا اور فرمایا تم نبیذ کو شام کے وقت بھگو اور تم اس کو صبح کے وقت پی لو اور اس کو تم ڈاٹ لگا دو (یعنی اگر وہ مشک وغیرہ میں ہو) اور مجھ کو منع فرمایا ( کدو کے ) تونبے چوبیں روغنی اور لاکھی برتن سے۔

 

روغنی برتنوں کا بیان

 

زیاد بن ایوب، ابن ادریس، مختار بن فلفل، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روغنی برتنوں سے منع فرمایا۔

 

مذکورہ برتنوں کے استعمال کی ممانعت ضروری تھی نہ کہ بطور ادب کے

 

احمد بن سلیمان، یزید بن ہارون، منصور بن حیان، سعید بن جبیر، ابن عمرو ابن عباس سے روایت ہے کہ ان دونوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر شہادت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ( کدو کے ) تونبے لاکھی روغنی اور چوبی برتن سے پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی تم کو جو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) دیں اس کو لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو (رک جا)۔

 

 

مذکورہ برتنوں کے استعمال کی ممانعت ضروری تھی نہ کہ بطور ادب کے

 

سوید، عبد اللہ، سلیمان تیمی، اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ اس نے اپنے چچا کے لڑکے سے سنا جن کا نام حضرت انس تھا۔ حضرت ابن عباس نے کہا خداوند قدوس نے نہیں فرمایا جو حکم کرے تم کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو مان لو اور جس سے منع کرے اس سے بچو۔ میں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا اللہ عز و جل نے نہیں فرمایا کہ کسی مسلمان مرد یا مسلمان عورت کو جس وقت اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اپنے کاموں میں اختیار نہیں رہتا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے موافق عمل کرنا لازم ہو جاتا ہے میں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ہے چوبی اور روغنی اور ( کدو کے ) تونبے اور لاکھی کے برتن سے۔

 

ان برتنوں کا بیان

 

عمرو بن یزید، بہز بن اسد، شعبہ، عمرو بن مرۃ، زاذان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا کہ مجھ سے تم کچھ نقل کرو جو تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہو برتنوں کے متعلق ان کی تفسیر کے ساتھ۔ اس پر انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حنتم سے منع فرمایا جس کو تم جر کہتے ہو (اس لفظ کی تشریح گزر چکی) جس کو تم قرع کہتے ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا نقیر سے۔

 

 

کن برتنوں میں نبیذ بنانا درست ہے اس سے متعلق احادیث اور مشکوں میں نبیذ بنانے سے متعلق احادیث مبارکہ کا بیان

 

سوار بن عبداللہ بن سوار، عبدالوہاب بن عبدالمجید، ہشام، محمد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ عبدالقیس کے لوگوں کو منع فرمایا جس وقت وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے (کدو کے ) تونبے نقیر اور روغنی برتن (وغیرہ) لے کر اور کہا کہ اپنے مشکیزہ میں نبیذ تیار کرو پھر اس پر تم ڈاٹ لگا لو اور اس کو میٹھی میٹھی پی لو (یعنی خوب ذائقہ لے کر اس کو پی لو) بعض نے کہا یا رسول اللہ! مجھ کو اس کی اجازت عطاء فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم چاہتے ہو کہ اس کو ایسا کر لو پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا بیان کرنے کے لیے اس کی تیزی اور شدت کو۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ابن جریج، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی روغنی برتن اور ( کدو کے ) تونبے اور چوبی برتن کے استعمال اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جس وقت مشکیزہ نہ ہوتا نبیذ بنانے کے لیے تو پتھر کے برتن میں نبیذ تیار کیا جاتا۔

 

 

٭٭ احمد بن خالد، اسحاق ، الازرق، عبدالملک بن ابو سلیمان، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے مشک میں نبیذ تیار کی جاتی پھر اگر مشک نہ ہوتی تو پتھر کے برتن میں ( تیار کرتے ) اور ممانعت فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کدو کے تونبے اور روغنی برتن سے۔

 

 

٭٭ سوار بن عبداللہ بن سوار، خالد بن حارث، عبدالملک، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی ( کدو کے ) تونبے اور چوبی اور لاکھی اور روغنی برتن سے۔

 

مٹی کے برتن کی اجازت

 

ابراہیم بن سعید، سفیان، سلیمان الاحول، مجاہد، ابو عیاض، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت عطاء فرمائی مٹی کے برتن میں نبیذ تیار کرنے کی کہ جس پر لاکھ نہ لگی ہو۔

 

ہر ایک برتن کی اجازت

 

عباس بن عبدالعظیم، الاحوص بن جواب، عمار بن رزیق، ابو اسحاق ، زبیر بن عدی، ابن بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تم کو قربانیوں کے گوشت رکھ چھوڑنے سے منع فرمایا تھا اب تم لوگ کھاؤ اور رکھ چھوڑو اور جو شخص قبروں کی زیارت کرنا چاہے وہ کرے کیونکہ قبروں کی زیارت آخرت کی یاد دلاتی ہے اور تم لوگ ہر ایک (قسم کی) شراب پیو لیکن جو نشہ پیدا کرے اس سے بچو۔

 

 

٭٭ محمد بن آدم بن سلیمان، ابن فضیل، ابو سنان، محارب بن دثار، عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تم کو قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا لیکن اب تم لوگ قبور کی زیارت کرو اور میں نے تم کو منع کیا تھا قربانیوں کے گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنے کے لیے لیکن اب جس وقت تک تمہارا دل چاہے تم اس کو رکھ لو اور میں نے تم لوگوں کو نبیذ بنانے کی ممانعت کی تھی لیکن مشک میں۔ اب تمام برتنوں میں نبیذ بناؤ لیکن اس شراب سے بچو (یعنی بالکل دور رہو) جو نشہ پیدا کرے۔

 

 

٭٭ محمد بن معدان بن عیسیٰ بن معدان حرانی، حسن بن اعین، زہیر، زبید، محارب، ابن بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تم لوگوں کو تین اشیاء سے منع کیا تھا ایک تو زیارت قبور سے لیکن تم لوگ اب زیارت کرو اور تم کو زیارت سے خیر حاصل ہو گی اور میں نے منع کیا تھا تم لوگوں کو تین روز سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے اب جس وقت تک دل چاہے اس میں سے کھاؤ اور منع کیا تھا میں نے برتنوں میں شراب پینے سے اب جس برتن میں چاہو پیو لیکن جو نشہ پیدا کرے اس کو نہ پیو۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، ابراہیم بن حجاج، حماد بن سلمہ، حماد بن ابو سلیمان، عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تم لوگوں کو برتنوں سے منع کیا تھا لیکن اب تم لوگ جس برتن میں چاہو نبیذ تیار کرو اور ہر ایک نشہ آور شے سے بچو۔

 

 

٭٭ ابو علی محمد بن یحیی بن ایوب مروزی، عبداللہ بن عثمان، عیسیٰ بن عبید الکندی خراسانی، عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر میں تھے کہ اس دوران ایک قوم (جماعت کے ) شور و شغب کی آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا یہ کیسی آواز ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ ایک طرح کی شراب پیا کرتے ہیں اس کو پی رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی کو ان کی جانب روانہ کیا اور بلایا پھر فرمایا تم لوگ کن برتنوں میں نبیذ تیار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم نقیر اور دباء میں تیار کرتے ہیں اور ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسرے برتن نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ پیو لیکن اس برتن سے کہ جس میں ڈاٹ لگی ہوئی ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ روز تک ٹھہرے رہے جس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اس طرف پھر آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ لوگ ایک وباء (شدید بیماری) سے پیلے ہو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ کو کیا ہو گیا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ تباہ ہو گئے ہو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کی زمین وبائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں پر ایک شراب کو حرام قرار دے دیا ہے مگر جس شراب پر ہم لوگ ڈاٹ لگا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پیو ہر ایک شراب کو لیکن اس شراب سے بچو جو نشہ پیدا کرے۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد حفری و ابو احمد زبیدی، سفیان، منصور، سالم، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت برتنوں سے ممانعت فرمائی تو قبیلہ انصار کے لوگوں نے شکایت کی اور فرمایا ہم لوگوں کے پاس دوسرے قسم کے برتن نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھیک ہے میں ممانعت بھی نہیں کرتا۔

 

شراب کیسی شے ہے ؟

 

سوید، عبد اللہ، یونس، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شب معراج میں دو پیالے پیش کیے گئے ایک پیالہ میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دودھ کا پیالہ لے لیا اس پر جبرائیل امین نے فرمایا اس خدا کا شکر و احسان ہے کہ جس نے تم لوگوں کو فطرت کے مطابق ہدایت سے نوازا اگر تم شراب کا پیالہ لے لیتے تو تمہاری امت گمراہی میں مبتلا ہو جاتی۔

 

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن حارث، شعبہ، ابو بکر بن حفص، ابن محیریز ایک صحابی کی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ شراب پیا کریں گے لیکن اس کا نام کوئی دوسرا رکھیں گے (تو ان لوگوں کو دوہرا گناہ ہو گا )۔

 

شراب پینے کی مذمت سے متعلق

 

عیسیٰ بن حماد، لیث، عقیل، ابن شہاب، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت زنا کرنے والا شخص زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور جس وقت شراب پینے والا شخص شراب پیتا ہے تو وہ شخص مومن نہیں ہوتا اور جس وقت چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور جس وقت کوئی شخص ایسی شے کو لوٹتا ہے کہ جس کو لوگ آنکھ اٹھا کر دیکھیں تو وہ شخص مومن نہیں رہتا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ولید بن مسلم، الاوزاعی، زہری، سعید بن مسیب و ابو سلمہ بن عبدالرحمن و ابو بکر بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے لیکن اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ کوئی شخص بڑی شے کی لوٹ مار کرتا ہے کہ جس کی جانب مسلمان آنکھ اٹھا کر دیکھیں۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، مغیرہ، عبدالرحمن بن ابو نعم، ابن عمر چند صحابہ کرام اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ تمام حضرات نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص شراب پیے تو اس کو کوڑے مارو پھر اگر وہ شخص (دوبارہ) شراب پیے تو اس کے کوڑے مارو پھر اگر شراب پیے تو پھر کوڑے مارو پھر اگر پیے تو اس کو قتل کر دو۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، شبابۃ، ابن ابو ذئب، خالد الحارث بن عبدالرحمن، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی شخص نشہ میں ہو جائے تو اس کوڑے مارو پھر اگر نشہ کرے تو اس کو کوڑے مارو پھر اگر نشہ کرے تو اس کے کوڑے مارو پھر اگر نشہ کرے تو چوتھی مرتبہ اس کو قتل کر دو۔

 

 

٭٭ واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، وائل بن بکر، ابو بردۃ بن ابو موسیٰ سے روایت ہے انہوں نے نقل کیا میں پرواہ نہیں کرتا کہ شراب پیوں یا خداوند قدوس کے علاوہ اس ستون کی پوجا کروں۔ (مطلب یہ ہے کہ شراب پینا بت پرستی جیسا ہے )

 

شراب پینے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی

 

علی بن حجر، عثمان بن حصن بن علاق دمشقی، عروۃ بن رویم سے روایت ہے کہ ابن دیلمی سوار ہوئے۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص کو تلاش کرنے کے واسطے تو انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کیا تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شراب کے متعلق سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کوئی شخص اگر میری امت میں شراب نوشی کرے گا تو خداوند قدوس اس کی چالیس روز نماز قبول نہیں کرے گا۔

 

 

٭٭ قتیبہ و علی بن حجر، خلف یعنی بن خلیفہ، منصور بن زاذان، حکم بن عتیبۃ، ابو وائل، مسروق نے کہا کہ جس وقت کسی قاضی نے ہدیہ قبول کیا ( اور اس شخص سے جو ہمیشہ ہدیہ نہیں دیا کرتا تھا بلکہ قاضی ہونے کے بعد ہدیہ قاضی کو پیش کرنے لگا) تو اس نے حرام خوری کی اور جس وقت رشوت لی تو وہ کفر کے قریب پہنچ گیا اور مسروق نے کہا جس نے شراب پی وہ شخص کافر ہو گیا اس لیے اس کی نماز درست نہیں ہوتی۔

 

شراب نوشی سے کون کون سے گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے نماز چھوڑ دینا ناحق خون کرنا جس کو خداوند قدوس نے حرام فرمایا ہے

 

سوید، عبد اللہ، معمر، زہری، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث، وہ اپنے والد سے ، عثمان نے فرمایا بچو خمر سے (یعنی شراب سے ) وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے اگلے دور میں ایک شخص تھا جو کہ عبادت میں مشغول رہتا تھا اس کو ایک زنا کار عورت نے پھنسانا چاہا چنانچہ (سازش کر کے ) اس کے پاس ایک باندی کو بھیجا اور اس سے کہلوایا کہ میں تجھ کو گواہی کے واسطے بلا رہی ہوں چنانچہ وہ شخص چل دیا۔ اس باندی نے مکان کے ہر ایک دروازہ کو جس وقت وہ اس کے اندر داخل ہوتا بند کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ (عبادت گزار شخص) ایک عورت کے پاس پہنچا جو کہ حسین و جمیل عورت تھی اور اس کے پاس ایک لڑکا تھا اور ایک شراب کا برتن تھا۔ اس عورت نے کہا خدا کی قسم! میں نے تجھ کو شہادت کے واسطے نہیں بلایا لیکن اس واسطے بلایا ہے کہ تو مجھ سے ہم بستری کرے یا اس شراب کا ایک جام پی لے چنانچہ اس عورت نے اس شخص کو ایک گلاس شراب کا پلا دیا۔ اس شخص نے کہا مجھ کو اور (زیادہ شراب) دے (یہ بات شراب کے مزہ کی وجہ سے اس نے کہی) پھر وہ شخص وہاں سے نہیں ہٹا یہاں تک کہ اس عورت سے صحبت کی اور اس لڑکے کا خون کیا تو تم لوگ شراب سے بچو کیونکہ خدا کی قسم ایمان اور شراب کا ہمیشہ پینا دونوں ساتھ نہیں ہوتے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو نکال دیتا ہے۔ ایمان کے غلبہ کی برکت مطلب یہ ہے کہ اگر ایمان کا غلبہ ہوتا ہے تو شراب نوشی کی عادت چھوٹ جائے گی اور اگر شراب نہ چھوڑی تو ایمان کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبداللہ یعنی ابن مبارک، یونس، زہری، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث، حضرت عثمان نے فرمایا تم لوگ شراب سے بچو (بالکل دور رہو) اس لیے کہ وہ (تمام) برائیوں کی جڑ ہے تم لوگوں سے قبل پہلے زمانہ میں ایک آدمی تھا جو کہ عبادت میں مشغول رہتا تھا پھر وہ ہی واقعہ نقل کیا اور فرمایا تم لوگ شراب سے بچو کیونکہ خدا کی قسم شراب اور ایمان ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے بلکہ ایک دوسرے کو نکال باہر کرے گا۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، شریح بن یونس، یحیی بن عبدالملک، العلاء، ابن مسیب، فضیل، مجاہد، ابن عمر نے فرمایا جس کسی نے شراب پی پھر اس کو نشہ ہوا تو اس کی نماز قبول نہ ہو گی جس وقت تک کہ وہ شراب اس کے پیٹ یا رگوں میں رہی اور اگر وہ شخص اس حال میں مر جائے تو وہ کافر مرے گا اور اگر وہ شخص نشہ میں مست ہو گیا (یعنی شراب کے نشہ میں جھومنے لگا) تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہو گی اور اگر اس حالت میں وہ شخص مرے گا تو وہ شخص کافر مرے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن آدم بن سلیمان، عبدالرحیم، یزید، واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، یزید بن ابو زیاد، مجاہد، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کسی نے شراب پی اور اس کو پیٹ میں اتارا تو اس کی خداوند قدوس سات دن کی نماز قبول نہیں کرے گا اور اگر وہ شخص اس زمانہ میں مر جائے تو وہ شخص کافر مرے گا (یعنی اس کا خاتمہ کفر پر ہو گا)

 

شراب پینے والے کی توبہ

 

قاسم بن زکریا بن دینار، معاویہ بن عمرو، ابو اسحاق ، الاوزاعی، ربیعۃ بن یزید، عمرو بن عثمان بن سعید، بقیہ، ابو عمرو، الاوزاعی، ربیعۃ بن یزید، عبداللہ بن دیلمی سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ اس وقت اپنے باغ میں (علاقہ) طائف میں تھے جس کو وہط کہتے تھے اور قبیلہ قریش کے ایک جوان ان کے ہاتھ پکڑے ہوئے ٹہل رہے تھے کہ جس پر کہ لوگ شراب پینے کا گمان کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو کوئی شراب کا ایک گھونٹ پیے گا تو اس کی چالیس دن تک کی نماز قبول نہ ہو گی پھر اگر وہ شخص توبہ کرے تو اس کو خداوند قدوس معاف فرما دے گا پھر اگر وہ شخص شراب پیے تو اس کی چالیس دن کی توبہ قبول نہ ہو گی پھر اگر وہ شخص توبہ کرے تو خداوند قدوس اس کو معاف فرما دے گا۔ پھر اگر شراب پیے تو چالیس دن تک اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی۔ لیکن اگر اس کے بعد وہ شخص توبہ کرے تو خداوند قدوس اس کو معاف فرما دے گا پھر اگر وہ شخص (دوبارہ) شراب پیے تو خداوند قدوس اس کو لازمی طور سے دوزخیوں کی شراب پلائے گا۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں شراب پیے گا پھر وہ شخص اس سے توبہ نہ کرے گا تو اس کو آخرت میں شراب نہیں ملے گی۔

 

جو لوگ ہمیشہ شراب پیتے ہیں ان کے متعلق

 

محمد بن بشار، محمد شعبہ، منصور، سالم بن ابو جعد، نبیط، جابان، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا احسان کر کے جتلانے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، حماد بن زید، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں شراب پی کر مر جائے اور وہ شخص ہمیشہ شراب پیتا ہو تو اس کو آخرت میں شراب نہیں ملے گی۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، حماد بن زید، ایوب، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں شراب پی کر مر جائے اور وہ شخص ہمیشہ شراب پیتا ہو تو اس کو آخرت میں شراب نہیں ملے گی۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، حسن بن یحیی، ضحاک حضرت ضحاک (تابعی) نے کہا جو شخص ہمیشہ شراب پیتا ہو پھر وہ شخص مر جائے تو دنیا سے رخصت ہونے کے وقت اس کے منہ پر گرم پانی کا چھینٹا ڈالا جائے گا۔

 

شرابی کو جلا وطن کرنے کا بیان

 

زکریا بن یحیی، عبدالاعلی بن حماد، معتمر بن سلیمان، عبدالرزاق، معمر، زہری، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ربیعہ بن امیہ کو شراب پینے کی وجہ سے خیبر کی جانب نکال دیا۔ وہ ( روم) کے بادشاہ ہرقل کے پاس پہنچا اور عیسائی بن گیا۔ حضرت عمر نے فرمایا اب میں کسی مسلمان کو جلا وطن نہیں کروں گا۔

 

ان احادیث کا تذکرہ جن سے لوگوں نے یہ دلیل لی کہ نشہ آور شراب کا کم مقدار میں پینا جائز ہے

 

ہناد بن سری، ابو الاحوص، سماک، قاسم بن عبدالرحمن، وہ اپنے والد سے ، ابو بردۃ بن نیار، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ برتنوں میں پیو اور نشہ میں مست نہ ہو جاؤ۔ امام نسائی نے فرمایا یہ حدیث منکر ہے اور اس حدیث میں راوی ابو الاحوص سلام بن سلیم نے غلطی کی ہے اور کسی دوسرے نے اس کی متابعت نہیں کی۔ سماک کے اصحاب میں سے اور سماک راوی خود قوی نہیں ہیں اور وہ تلقین کو قبول کرتا تھا۔ امام احمد نے فرمایا ابو الاحوص اس حدیث میں غلطی کرتا تھا۔ شریک نے اس حدیث کی اسناد میں مخالفت کی ہے اور الفاظ حدیث میں بھی مخالفت کی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل، یزید، شریک، سماک بن حرب، ابن بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممانعت فرمائی کدو کے تونبے اور روغنی برتن سے لیکن ابو عوانہ نے اس کے خلاف کہا ہے۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، ابراہیم بن حجاج، ابو عوانۃ، سماک، عائشہ صدیقہ نے بیان کیا کہ شراب پیو لیکن شراب کے نشہ میں مست نہ ہو جاؤ۔ امام نسائی نے فرمایا یہ روایت بھی ثابت نہیں ہے۔ قرصافہ نے اس کو سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت کیا اور وہ مجہول ہے اور مشہور روایات عائشہ صدیقہ اس کے خلاف ہیں۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، قدامۃ عامری، عائشہ صدیقہ سے لوگوں نے نبیذ سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا ہم لوگ صبح کے وقت کھجور بھگوتے ہیں اور شام کو اس کو پی لیتے ہیں اور شام کو بھگوتے ہیں اور صبح کو پیتے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ نے فرمایا میں حلال نہیں کہتی کسی نشہ لانے والی شراب کو اگرچہ روٹی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، علی بن مبارک، کریمۃ بنت ہمام، عائشہ صدیقہ نے فرمایا تم کو منع ہے ( کدو کے ) تونبے سے۔ تم کو منع ہے لاکھ کے برتن سے۔ تم کو ممانعت ہے روغنی برتن سے پھر خواتین کی طرف چہرہ کیا (یعنی متوجہ ہوئیں ) اور فرمایا بچو تم لوگ ہرے رنگ کے گھڑے سے اور اگر تمہارے مٹکے کا پانی نشہ کرنے لگ جائے تو تم لوگ اس کو نہ پیو۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، ابان بن صمعۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ کسی نے ان سے شرابو ں سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منع فرماتے تھے ہر نشہ والی چیز سے۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، قواریری، عبدالوارث، ابن شبرمۃ، عبداللہ بن شداد بن ہاد، ابن عباس نے فرمایا خمر تو کم و بیش تمام حرام ہے اور باقی اور قسم کی شراب اس قدر حرام ہے کہ جس سے نشہ ہو۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، سریح بن یونس، ہشیم، ابن شبرمۃ حضرت ابن شبرمہ نے کہا مجھ سے ایک ثقہ نے نقل کیا حضرت عبداللہ بن شداد سے اس نے سنا حضرت ابن عباس سے انہوں نے کہا خمر (شراب) تو بجنسہ حرام ہے۔ باقی اور دوسری قسم کی شراب اس قدر حرام ہے جس سے نشہ ہو۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن علی، سریح بن یونس، ہشیم، ابن شبرمۃ حضرت ابن شبرمہ نے کہا مجھ سے ایک ثقہ نے نقل کیا حضرت عبداللہ بن شداد سے اس نے سنا حضرت ابن عباس سے انہوں نے کہا خمر (شراب) تو بجنسہ حرام ہے۔ باقی اور دوسری قسم کی شراب اس قدر حرام ہے جس سے نشہ ہو۔

 

 

٭٭ حسین بن منصور، احمد بن حنبل، ابراہیم بن ابو عباس، شریک، عباس بن ذریع، ابو عون، عبداللہ بن شداد، ابن عباس حضرت امام نسائی نے فرمایا یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔ حضرت ابن شبرمہ کی روایت سے اور ہشیم بن بشیر تدلیس کرتا تھا اور اس میں تذکرہ بھی نہیں ہے کہ اس نے ابن شبرمہ سے سنا اور روایت ابو عون کے بہت مشابہ ہے ثقات کی روایت کے (یعنی ثقہ راویوں کے ) حضرت ابن عباس سے۔ بہر حال یہ روایت موقوفا صحیح قرار پائی۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، ابو جویریۃ جرمی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے دریافت کیا اور وہ اپنی پشت کعبہ شریف کی جانب کیے ہوئے تھے۔ باذق (شراب) سے۔ انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باذق نکلنے سے قبل گزر گئے جو شراب نشہ لائے وہ حرام ہے۔ انہوں نے کہا سب سے پہلے جس عرب نے باذق سے متعلق دریافت کیا وہ میں تھا۔ باذق کیا ہے ؟ باذق ایک قسم کی شراب کو کہا جاتا ہے جو کہ انگور کے شیرے کو کچھ دیر تک جوش دے کر تیار کی جاتی ہے۔

 

کس قسم کا طلاء پینا درست ہے اور کونسی قسم کا ناجائز؟

 

محمد بن عبدالاعلی، معتمر، منصورا، ابراہیم، نباتۃ، سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے اپنے بعض عاملین کو تحریر کیا۔ مسلمانوں کو وہ طلاء پینے دو جس کے دو حصہ جل گئے ہوں اور ایک حصہ بچ گیا ہو۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، سلیمان تیمی، ابو مجلز، عامر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر کی کتاب (تحریر) پڑھی جو کہ انہوں نے حضرت ابو موسیٰ کو تحریر کی تھی (جس کا مضمون یہ تھا) حمد و صلوۃ کے بعد معلوم ہوا کہ میرے پاس ایک قافلہ ملک شام سے آیا۔ اس کے پاس ایک شراب تھی گاڑھی اور سیاہ رنگ کی۔ اس کا رنگ ایسا تھا جیسے اونٹ کو لگانے کا طلاء ہوتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا تم اس کو کتنا پکاتے ہو؟ انہوں نے کہا دو حصہ تک دونوں ناپاک حصے اس کے جل گئے ایک شرارت کا اور دوسرا بدبو کا تو تم اپنے ملک کے باشندوں کو اس کے پینے کا حکم دو۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ہشام، ابن سیرین، عبداللہ بن یزید خطمی سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے تحریر فرمایا بعد حمد و صلوۃ کے معلوم ہوا کہ شراب کو پکانا اس قدر ہے کہ اس میں سے شیطان کے دو حصے چلے جائیں اس لیے کہ دو حصے اس کے ہیں اور ایک حصہ تمہارا ہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، جریر، مغیرہ، شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علی لوگوں کو طلاء پلایا کرتے تھے اور وہ اس قدر گاڑھی ہوتی تھی کہ حضرت عمر نے کیسی شراب کو حلال کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جو دو حصہ جلائی جائے اور ایک حصہ باقی رہ جائے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، داؤد سے روایت ہے کہ میں نے سعید سے دریافت کیا کہ حضرت عمر نے کیسی شراب کو حلال کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جو دو حصہ جلائی جائے اور ایک حصہ باقی رہ جائے

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، عبدالاعلی، حماد بن سلمہ، داؤد، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت ابو درداء وہ شراب پیا کرتے تھے جس کے دو حصے جل جائیں اور ایک حصہ باقی رہ جائے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ہشیم، اسماعیل بن ابو خالد، قیس بن ابو حازم، ابو موسیٰ الاشعری سے روایت ہے کہ وہ طلاء نامی شراب پیا کرتے تھے کہ جس کے دو حصے جل جاتے تھے اور ایک حصہ (باقی) رہ جاتا۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، سفیان، یعلی بن عطاء، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص نے دریافت کیا کہ جس شراب میں سے آدھا حصہ جل جائے اس کا پینا درست ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی نہیں ! جس وقت تک کہ اس کے دو حصے نہ جل جائیں اور ایک حصہ بچ جائے۔

 

 

٭٭ احمد بن خالد، معن، معاویہ بن صالح، یحیی بن سعید، سعید بن مسیب نے فرمایا جس وقت جل کر تیسرا حصہ باقی وہ جائے تو اس کو پی لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، یزید بن زریع، ابو رجاء نے فرمایا میں نے حسن سے دریافت کیا کہ وہ طلاء پی لیا جائے کہ جس کا نصف حصہ جلا ہوا ہو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ (یعنی حضرت حسن نے طلاء پینے سے منع فرمایا)۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، بشیر بن مہاجر سے روایت ہے۔ میں نے حضرت حسن سے دریافت کیا کیا وہ طلاء پیا جائے کہ جس کا آدھا حصہ جلا ہو؟ انہوں نے کہا نہیں۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، وکیع، سعد بن اوس، انس بن سیرین، انس بن مالک سے روایت ہے کہ نوح اور شیطان کا انگور کے درخت کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ وہ (شیطان) کہنے لگا یہ میرا ہے یہ میرا ہے۔ آخر کار اس بات پر صلح ہوئی کہ شیطان کے دو حصے ہیں اور ایک حصہ نوح کاہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، عبدالملک بن طفیل جزری سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تحریر فرمایا تم لوگ طلاء نہ پیو۔ جس وقت تک کہ اس کے دو حصے نہ جل جائیں اور ایک حصہ باقی رہ جائے اور ہر ایک نشہ پید کرنے والی شے حرام ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معتمر، برد، مکحول نے فرمایا ہر ایک نشہ پیدا کرنے والی شراب حرام ہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ابو یعفور سلمی، ابو ثابت ثعلبی سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران ایک شخص حاضر ہوا اور وہ شخص شیرے سے متعلق دریافت کرنے لگا۔ انہوں نے فرمایا جس وقت تک وہ تازہ ہو تم اس کو پی لو۔ اس پر اس شخص نے کہا میں نے شراب کو پکایا ہے لیکن میرے دل میں اندیشہ ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا تم اس کو پکانے سے قبل پی سکتے تھے۔ اس شخص نے عرض کیا جی نہیں۔ اس پر حضرت عباس نے فرمایا پھر آگ تو اس شے کو حلال نہیں کر سکتی جو شے حرام ہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ابن جریج، عطاء سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے سنا وہ فرماتے تھے اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قسم! آگ کسی شے کو حلال نہیں کر سکتی اور نہ وہ کسی شے کو حرام کر سکتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے حلال نہ کر سکنے کی تشریح بیان فرمائی کہ لوگ کہتے ہیں طلاء حلال ہے حالانکہ وہ حرام تھا اس کو پکانے سے قبل پھر اس کو آگ حلال نہ کر سکے گی۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، حیوہ بن شریح، عقیل، ابن شہاب، سعید بن مسیب نے فرمایا شیرہ پیو جس وقت تک اس میں جھاگ نہ پیدا ہو۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ہشام بن عائذ الاسدی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابراہیم سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا تم اس کو اس وقت تک پی لو جس وقت تک وہ نہ بگڑے (یعنی شدت اور تیزی نہ پیدا ہو)۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، عبدالملک، عطاء نے بیان فرمایا کہ جس وقت تک اس میں جھاگ نہ پیدا ہو جائے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، حماد بن سلمہ، داؤد، شعبی نے فرمایا کہ تم شیرہ تین روز تک پیو لیکن جس وقت اس میں جوش (شدت) آنے لگ جائے تو اس کو نہ پیو۔

 

حلال نبیذ اور حرام نبیذ کا بیان

 

عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر، بقیہ، الاوزاعی، یحیی بن ابو عمرو، عبداللہ بن دیلمی، فیروز سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگ انگور والے ہیں اور خداوند قدوس نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر ہم لوگ کیا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ صبح کے وقت ان کو بھگو اور شام کے وقت اس کو پی لو اور شام کو بھگو تو صبح کو پی لو۔ میں نے عرض کیا کیا ہم لوگ اس کو رہنے نہ دیں یہاں تک کہ تیزی ہو جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو گھڑوں میں نہ رکھو (بلکہ) مشکوں میں رکھو اگر وہ دیر تک رہے گا تو وہ سرکہ ہو جائے گا۔

 

 

٭٭ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد حرانی، یعلی بن عبید، مطیع، ابو عثمان، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے نبیذ بھگویا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو نوش فرماتے۔ دوسرے دن اور تیسرے دن تک پھر تیسرے دن شام کو اگر کچھ بچ جاتا تو اس کو بہا دیتے اور اس کو نہ پیتے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، یحیی بن آدم، شریک، ابو اسحاق ، یحیی بن عبید بہرانی، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے انگور بھگوئے جاتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو اس دن پیتے اور دوسرے اور تیسرے روز تک پیتے رہتے۔

 

 

٭٭ واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، الاعمش، یحیی بن ابو عمر، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے رات میں سوکھے ہوئے انگور بھگوئے جاتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو ایک مشک میں بھرتے اور صبح کے وقت تمام دن نوش فرماتے پھر دوسرے روز پیتے پھر تیسرے روز پیتے۔ جس وقت تیسرا دن ختم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کو پلاتے پھر صبح کو اگر کچھ بچ جاتا تو اس کو (چوتھے روز بہا دیتے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ ان کے واسطے مشک میں صبح کو انگور بھگوئے جاتے۔ وہ رات کے وقت اس کو پی لیتے اور شام کو انگور بھگوئے جاتے وہ صبح کو پیتے اور مشکوں کو دھویا کرتے اور اس میں وہ تلچھٹ نہیں ملاتے تھے۔ حضرت نافع نے بیان فرمایا کہ ہم نے وہ نبیذ پیا ہے وہ نبیذ شہد جیسا ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، بسام سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو جعفر سے دریافت کیا نبیذ کے متعلق تو انہوں نے فرمایا حضرت علی بن حسین کے لیے رات میں نبیذ بھگویا جاتا۔ وہ صبح کو اس کو پیتے اور صبح کو بھگویا جاتا تو شام کو اس کو پی لیتے۔

 

 

٭٭ سوید، عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سفیان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا شام کو (نبیذ) بھگو اور صبح کو پی لو۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، سلیمان تیمی، ابو عثمان سے روایت ہے کہ حضرت ام فضل نے حضرت انس بن مالک سے دریافت کیا گھڑے (میں بنائی گئی نبیذ) کے متعلق تو انہوں نے حدیث بیان فرمائی اپنے لڑکے نضر سے کہ وہ ایک مٹکے میں نبیذ بھگویا کرتے تھے۔ صبح کے وقت اور پھر اس کو شام کے وقت پیا کرتے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، معمر، قتادۃ، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ وہ نبیذ میں تلچھٹ ملانے کو مکروہ خیال کرتے تھے جب کہ تازہ نبیذ میں ملائی جائے اس کو تیز کرنے کے لئے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، سفیان، داؤد بن ابو ہند، سعید بن مسیب نے فرمایا نبیذ میں تلچھٹ ملانے سے وہ خمر (یعنی شراب) بن جاتی ہے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، شعبہ، قتادۃ، سعید بن مسیب نے فرمایا خمر کو اس وجہ سے خمر کہا جاتا ہے کہ وہ چھوڑ دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ صاف صاف تمام ہو جاتا ہے اور نیچے کی تلچھٹ باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہر ایک قسم کی نبیذ کو مکروہ خیال فرماتے جس میں تلچھٹ شامل کی جائے۔

 

نبیذ سے متعلق ابراہیم پر رواۃ کا اختلاف

 

ابو بکر بن علی، قواریری، ابن ابو زائدۃ، حسن بن عمرو، فضیل بن عمرو، ابراہیم نے فرمایا لوگ اس طرح سے خیال کرتے تھے کہ جو شخص کسی قسم کی شراب پیے پھر وہ اس شراب کے نشہ سے جھومنے لگ جائے تو اس کو دوسری مرتبہ نہ پئے۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، سفیان، مغیرہ، ابو معشر، ابراہیم نے فرمایا نبیذ یعنی شیرہ پینے میں کسی قسم کا حرج نہیں۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ابو عوانۃ، ابو مسکین سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابراہیم سے دریافت کیا کہ ہم لوگ شراب یا طلاء کا تلچھٹ پی لیتے ہیں۔ پھر ہم لوگ اس کو صاف کر کے تین دن انگور کو اس میں بھگوئے رکھتے ہیں۔ پھر تین دن کے بعد اس کو صاف کر کے رہنے دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی حد کو پہنچ جائے (یعنی اس میں شدت اور تیزی پیدا ہو جائے )۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا یہ مکروہ ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، ابن شبرمۃ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ابراہیم پر رحم فرمائے۔ لوگ نبیذ کے بارے میں شدت سے کام لیتے تھے اور وہ اجازت دے دیتے تھے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، ابو اسامۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے کسی شخص کو نشہ میں جھوم جانے والی شراب کی اجازت دیتے ہوئے نہیں سنا صحت کے ساتھ لیکن ابراہیم سے سنا۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، ابو اسامۃ نے فرمایا میں نے کسی شخص کو حضرت عبداللہ بن مبارک سے زیادہ علم کا طلب گار نہیں دیکھا۔ ملک شام مصر اور عرب میں۔

 

کون سے مشروبات (پینا) درست ہے ؟

 

ربیع بن سلیمان، اسد بن موسی، حماد بن سلمہ، ثابت، انس سے روایت ہے کہ ام سلیم کے پاس ایک لکڑی کا پیالہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہر ایک قسم کا مشروب پلایا ہے۔ پانی شہد دودھ اور نبیذ۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، سفیان، سلمہ بن کہیل، ذر بن عبد اللہ، سعید بن عبدالرحمن بن ابزی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے نبیذ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا تم پانی پی لو شہد پی لو اور دودھ پی لو جس سے کے تم نے پرورش پائی ہے۔ میں نے ان سے پھر دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا تم شراب چاہتے ہو کہ میں تمہیں اس کی اجازت دے دوں ؟

 

 

٭٭ احمد بن علی بن سعید بن ابراہیم، قواریری، معتمر بن سلیمان، وہ اپنے والد سے ، محمد، عبیدۃ، ابن مسعود سے روایت ہے کہ لوگوں نے شراب نکال لی اور نہ معلوم انہوں نے کیا کیا؟ لیکن میری شراب تو بیس یا چالیس سال سے کچھ نہیں ہے۔ علاوہ پانی اور ستو کے اور انہوں نے (روایت میں ) نبیذ کا تذکرہ نہیں فرمایا۔

 

 

٭٭ سوید، عبد اللہ، ابن عون، محمد بن سیرین، عبیدۃ بن عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ لوگوں نے شراب نکال لی نہ معلوم انہوں نے کیا کیا لیکن میری شراب تو بیس سال سے یہی ہے پانی دودھ اور شہد۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، ابن شبرمۃ سے روایت ہے کہ حضرت طلحہ نے بیان فرمایا کہ اہل کوفہ نبیذ کے سلسلہ میں ایک فتنہ میں مبتلا ہو گئے ہیں جس میں چھوٹا شخص بڑا ہو گیا ہے اور بڑا آدمی اب بوڑھا بن گیا اور حضرت ابن شبرمہ نے فرمایا جس وقت کوئی شادی ہوتی تھی تو حضرت طلحہ اور زبیر لوگوں کو دودھ اور شہد پلایا کرتے تھے۔ کسی نے حضرت طلحہ سے عرض کیا تم لوگوں کو نبیذ کیوں نہیں پلاتے ؟ تو انہوں نے فرمایا مجھ کو برا لگتا ہے کہ میری وجہ سے کسی مسلمان کو نشہ ہو۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر سے روایت ہے کہ حضرت ابن شبرمہ نبیذ نہیں پیتے تھے۔ (تقوی کی وجہ سے ) بلکہ پانی اور شہد کے علاوہ کچھ نہیں پیتے تھے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید