فہرست مضامین
سنن نسائی
امام ابو نسائی
جلد ششم
زکوٰۃ سے متعلقہ احادیث
فرضیت زکوٰۃ
محمد بن عبداللہ بن عمار، معافی، زکریا بن اسحاق مکی، یحیی بن عبداللہ بن صیفی، ابو معبد، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ملک یمن کی جانب بھیجا تو ان سے ارشاد فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرو گے جو کہ اہل کتاب ہیں (مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف) پھر جس وقت تم ان کے پاس پہنچو گے تو تم بلا کر ان سے کہنا کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے ہیں اور اس کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں اگر وہ تمہارا حکم تسلیم کر لیں پھر تم ان سے کہنا کہ خداوند قدوس نے ان پر پانچ وقت کی نمازیں فرض اور لازم قرار دی ہیں ایک دن اور رات میں اگر وہ اس کو تسلیم کر لیں پھر ان سے کہو کہ خداوند قدوس نے ان پر صدقہ زکوٰۃ کو فرض اور لازم قرار دیا ہے جو کہ مالداروں سے وصول کی جاتی ہے اگر وہ اس کو تسلیم کر لیں تو تم مظلوم کی بد دعا سے محفوظ رہنا
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد ماجد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت نقل کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضری سے قبل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں نہ آنے کی اپنی انگلیوں سے زیادہ تعداد میں قسمیں کھائی تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں میں (کبھی) حاضر نہیں ہوں گا اور نہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مذہب کو تسلیم کروں گا اور میں اس طرح کا انسان تھا کہ عقل و شعور نہ تھا اور یہ کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس نے مجھ کو سکھلایا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خداوند قدوس کی وحی کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہماری جانب کس چیز کے واسطے بھیجا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اسلام کے ساتھ۔ میں نے عرض کیا اسلام کی کونسی نشانیاں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم کہو کہ میں نے اپنا چہرہ خداوند قدوس کی جانب رکھ دیا یعنی اس کا جو بھی حکم ہو گا اس کی تعمیل کروں گا اور اسی کا ہو گیا اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ ادا کرو۔
٭٭ عیسیٰ بن مساور، محمد بن شعیب بن شابو ر، معاویہ بن سلام، عبدالرحمن بن غنم، ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اچھی طرح وضو کا کرنا نصف ایمان ہے اس لئے کہ ایمان سے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور وضو سے چھوٹے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور الحمد کہنا ترازو کو (نامہ اعمال) کو بھر دے گا اور اللہ اکبر بھر دیتے ہیں آسمان اور زمین کو (اپنے اجر و ثواب سے ) اور نماز تو نور ہے (قیامت کے دن) اور زکوٰۃ دلیل اور حجت ہے اور صبر روشنی ہے اور قرآن کریم دلیل ہے تمہارے واسطے (اگر تم حق پر ہو یا وہ تم پر دلیل ہے اگر باطل پر قائم ہو)۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، خالد، ابن ابو ہلال، نعیم مجمر ابو عبد اللہ، صہیب، ابو سعید، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن ہم کو خطبہ سنایا تو ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جھک گئے اور ہر ایک شخص ہمارے میں سے جھک کر رونے لگ گیا لیکن ہم کو علم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس طرح سے قسم کھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ پر خوشی تھی ہم کو یہ بات سرخ رنگ کے اونٹ سے زیادہ عمدہ معلوم ہوئی (واضح رہے کہ عرب میں لال رنگ کے اونٹ زیادہ قیمتی ہوتے ہیں ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ پانچ وقت کی نماز ادا کرنے اور ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھے اور زکوٰۃ نکالے اور سات بڑے بڑے گناہ سے محفوظ رہے تو اس کے واسطے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ جاؤ اندر سلامتی کے ساتھ۔
٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر، وہ اپنے والد سے ، شعیب، زہری، حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے جو کوئی کسی شئی کا ایک جوڑا خرچ کرے راہ خدا میں تو وہ شخص جنت کے دروازوں سے پکارا جائے گا اے خدا کی بندے ! یہ دروازہ بہتر ہے اور جنت کے دروازوں میں جو نمازی ہو گا تو وہ شخص نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور دنیا میں جو شخص صدقہ خیرات کرنے والا ہو گا تو اس کو صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو شخص روزہ رکھنے والا ہو گا تو اس کو باب الریان سے پکارا جائے گا۔ یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! جو شخص ان دروازوں سے بلایا جائے تو اس کو کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ہے لیکن کیا کوئی شخص اس قسم کا بھی ہو گا کہ جس کو تمام دروازوں سے بلایا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اور مجھ کو اس بات کی توقع ہے کہ تم ان ہی میں سے ہوں گے۔
زکوٰۃ ادا نے کرنے کی وعید اور عذاب سے متعلق احادیث
ہناد بن سری، ابو معاویہ، اعمش، معرور بن سوید، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ شریف کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا وہ ہی لوگ نقصان اور ٹوٹے والے ہیں اور خانہ کعبہ کے پروردگار کی قسم میں نے عرض کیا کہ کیا ارشاد ہے ؟ ہو سکتا ہے کہ مجھ سے متعلق کوئی حکم نازل ہوا ہو۔ میں نے دریافت کیا کون حضرات ہیں۔ میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہو جائیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو لوگ بہت دولت جمع رکھتے ہیں لیکن جو اس قسم کے لوگ ہیں اور اس جانب اشارہ کیا یہاں تک کہ سامنے اور دائیں بائیں جانب بھی (مراد یہ ہے کہ ہر جانب سے ضرورت مند لوگوں کا خیال رکھتے ہیں ) پھر ارشاد فرمایا بلکہ اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ جو کوئی اونٹ اور بیل چھوڑ کر فوت ہو جائے کہ جن کی اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو وہ اونٹ اور بیل قیامت کے دن بڑے ہو کر حاضر ہوں گے اور اس زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے شخص کو اپنے قدم سے روند ڈالیں گے اور اپنے سینگوں سے اس کو مار لگائیں گے جس وقت سب سے آخری جانور اس شخص کے ساتھ یہ تکلیف دہ عمل کرے گا تو پھر دوبارہ سے یہی تکلیف دہ کام شروع کریں گے (یعنی دوبارہ مارنا شروع کر دیں گے ) یہاں تک کہ انسانوں میں حکم ہو یعنی لوگوں کے دوزخی اور جنتی ہونے کا۔
٭٭ مجاہد بن موسی, ابن عیینہ، جامع بن ابو راشد، ابو وائل، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مالدار ہو اور وہ شخص مال و دولت کی زکوٰۃ نہ دے تو دولت اس شخص کی گردن کا بار ہو گی ایک گنجا سانپ بن کر۔ وہ اس سے بھاگنے لگے گا اور اس شخص کے ساتھ یہ عمل ہو گا۔ پھر اس کی تصدیق و تائید کے واسطے آپ نے آیت تلاوت فرمائی نہ سمجھو ان لوگوں کو جو کہ کنجوسی کرتے ہیں اس دولت کے ساتھ جو کہ خداوند قدوس نے ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا فرمایا ہے کہ یہ دولت ان لوگوں کے واسطے بہتر ہے بلکہ وہ دولت بری ہے ان کے واسطے جس کے ساتھ وہ لوگ کنجوسی کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان کی گردن کا ہار بنائی جائے گی۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، سعید بن ابو عروبۃ، قتادۃ، ابو عمرو غدانی، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ شخص ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تنگی اور وسعت میں (مطلب یہ ہے کہ جس وقت اونٹ موٹے تازے ہوں اور دولت صحیح حالت میں ہو تو) اس وقت زکوٰۃ ادا نہ کرے اس لئے کہ عمدہ موٹے تازے قسم کے اونٹ صدقہ کرنا زیادہ بھاری گزرتا ہے اور جس وقت وہ اونٹ دبلے پتلے ہو جائیں تو ان کو برا اور خراب خیال کر کے زکوٰۃ خیرات کرے یا جس وقت قحط سالی کا زمانہ ہو تو زکوٰۃ نہ ادا کرے۔ اس پر لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! تنگی اور وسعت سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مشکل اور دشواری کے دور میں تو وہ اونٹ قیامت کے دن خوب موٹے تازے اور فربہ ہو کر آئیں گے اور ان کا مالک ان اونٹوں کے سامنے ایک صاف برابر میدان میں الٹے منہ لٹکایا جائے گا اور وہ اونٹ اس کو روند ڈالیں گے اپنے قدموں سے اور جس وقت آخر کا اونٹ اس کو اپنے قدم سے روند چکے گا تو پھر از سر نو پہلے والے اونٹ کو لایا جائے گا تمام دن اسی طریقہ سے جو پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا یہاں تک کہ فیصلہ ہو لوگوں کے درمیان اور وہ لوگ اپنا راستہ دیکھ لیں یعنی اپنے انجام کو پہنچ جائیں اور جس کے پاس بکریاں ہوں گی اور وہ ان کی زکوٰۃ تنگی اور آسانی کے وقت نہ ادا کرے تو قیامت کے دن وہ بکریاں موٹی اور تیز ہوں گی اور چالاک بن کر آئیں گی پھر اس کے مالک کو الٹے منہ لٹکایا جائے گا ایک ہموار اور کشادہ میدان میں اور ہر ایک قدم والی بکری اس کو اپنے قدم سے روند لے گی اور سینگوں والی اپنے سینگ سے مارے گی اور کوئی ان میں مڑے ہوئے سینگ کی یا ٹوٹے ہوئے سینگ کی نہیں ہو گی بلکہ تمام کے تمام سینگ سیدھے اور طاقتور ہوں گے تاکہ مالک کو زیادہ سے زیادہ اور شدید تکلیف ہو اور جس وقت آخر کی بکری نکل جائے گی تو پھر دوبارہ پہلی والی بکری کو لایا جائے گا تمام دن جو کہ پچاس ہزار سال کا ہو گا یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ ہو اور لوگ اپنے اپنے ٹھکانہ ّیعنی (جنت اور دوزخ) میں پہنچ جائیں۔
جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے اس سے متعلق
قتیبہ، لیث، عقیل، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ بن مسعود، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر فرمائے گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم کس طریقہ سے جہاد کرو گے یعنی ان لوگوں سے کس طرح جہاد کرو گے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے حالانکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو حکم ہوا ہے لوگوں سے جہاد کرنے کا یہاں تک کہ وہ لوگ کہیں کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی سچا پروردگار نہیں ہے تو جس شخص نے اس بات کا اقرار کیا تو اس شخص نے اپنے مال اور جان کو مجھ سے محفوظ کر لیا لیکن کسی کے حق کے عوض (مراد یہ ہے کہ اگر کسی پر زیادتی کی ہو گی تو اس کے ساتھ تو ویسا ہی سلوک ہو گا) یا اگر کسی کی دولت وغیرہ غصب کی ہو گی تو اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو گا) اس کا حساب خداوند قدوس پر ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس شخص سے جنگ کروں گا جو کہ نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کرے گا (یعنی نماز تو پڑھے لیکن زکوٰۃ ادا نہ کرے اس لئے کہ زکوٰۃ دراصل دولت میں ایک حق ہے جس طرح سے نماز خداوند قدوس کی طرف سے ایک حق ہے اور فرض ہے اس طرح سے زکوٰۃ بھی) اور خدا کی قسم اگر ایک بکری کا بچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور مجھ کو نہیں دیں گے تو میں ان لوگوں سے جہاد کروں گا اس کے ادا نے کرنے پر۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا خداوند قدوس کی قسم ہے کچھ نہیں تھا لیکن مجھ کو اس کا علم ہے کہ خداوند قدوس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا ہے جہاد کے واسطے پھر میں نے یہ جان لیا کہ یہی حق ہے۔
جو کوئی زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کی وعید
عمرو بن علی، یحیی، بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اپنے والد سے انہوں نے ان کے دادا سے سنا انہوں نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ ہر ایک چالیس اونٹ میں جو جنگل میں چرائے جاتے ہوں ایک دو سال کی اونٹنی زکوٰۃ میں ادا کرنا ضروری ہے اور اونٹ علیحدہ نہیں کئے جائیں گے اپنے حساب سے (زکوٰۃ سے بچنے کی واسطے ) اور جو شخص زکوٰۃ ثواب کے واسطے دے گا تو اس کو ثواب مل جائے گا اور جو شخص انکار کرے ہم اس سے زکوٰۃ بھی لیں گے۔ اور اس سے آدھے اونٹ اس کے لے لیں گے۔ یہ ایک سزا ہے ہمارے پروردگار کی سزاؤں میں سے۔ اس مال دولت میں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد و اہل و عیال کے واسطے کچھ لینا درست نہیں ہے۔
اونٹوں کی زکوٰۃ سے متعلق
عبید اللہ بن سعید، سفیان، عمرو بن یحیی، محمد بن مثنی و محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان و شعبۃ و مالک، عمرو بن یحیی، وہ اپنے والد سے ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ وسق سے کم غلہ میں (جو کہ زمین سے پیدا ہو) زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ لازم نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے (اور پانچ وسق غلہ سے کم میں زکوٰۃ لازم نہیں ہے )۔
٭٭ عیسیٰ بن حماد، لیث، یحیی بن سعید، عمرو بن یحیی بن عمارۃ، وہ اپنے والد سے ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور پانچ وسق غلہ سے کم میں زکوٰۃ لازم نہیں ہے۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، مظفر بن مدرک ابو کامل، حماد بن سلمہ، ثمامۃ بن عبداللہ بن انس بن مالک، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو تحریر فرمایا یہ زکوٰۃ کے فرائض ہیں جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل اسلام پر خداوند قدوس نے حکم سے لازم قرار دیئے ہیں چنانچہ جس مسلمان سے اس کے موافق طلب کیا جائے تو وہ (اس کے موافق) ادا کرے اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے وہ سے کم اونٹوں میں سے ہر ایک پانچ اونٹ پر ایک بکری زکوٰۃ ہے اور جس وقت ان کی تعداد 25 تک پہنچ جائے تو ایک بنت مخاض ہے (یعنی وہ اونٹنی جو ایک سال مکمل ہو کر دوسرے سال میں لگ گئی ہو) اگر ایک سال کی اونٹنی نہ ہو تو دو سال کا اونٹ لے جس وقت 36 اونٹ ہو جائیں تو ان میں دو سال کی اونٹنی ہے 125 اونٹ تک اور جس وقت 46 اونٹ ہو جائیں تو ان میں تین سال کی اونٹنی ہے (جو کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے قابل ہو مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ چکی ہو) ساٹھ اونٹ تک اور جس وقت 61 اونٹ ہو جائیں تو ان میں چار سال کی اونٹنی ہے جو کہ پانچویں سال میں لگ گئی ہو 75 اونٹ تک اور جس وقت 76 ہو جائیں تو ان میں دو اونٹنی ہیں اور دو سال کی نوے اونٹ تک اور جس وقت91 ہو جائیں تو ان میں دو اونٹنی ہیں تین سال کی کہ جن پر نر کو دے سکے یعنی جن سے مذکر جفتی کر سکے (یعنی پوری طرح سے جوان ہو جائیں ) ایک سو بیس اونٹ تک اور جس وقت ایک سو بیس سے زیادہ اونٹ ہو جائیں تو ہر ایک چالیس اونٹ میں ایک اونٹنی ہے دو سال کی اور ایک سو پچاس میں ایک اونٹنی ہے تین سال کی اگر اونٹوں کے دانتوں میں اختلاف ہو جائے یعنی زکوٰۃ کے لائق اونٹ نہ ہوں اس سے بڑے یا چھوٹے ہوں مثلا جس آدمی پر چار سال کی اونٹنی دینا لازم ہے اور اس کے پاس چار سال کی اونٹنی نہ ہو لیکن تین سال کی اونٹنی ہو تو وہ اس کو دے سکے اور دو بکرے ادا کرے اگر اس کے ہو سکے ورنہ تو بیس درہم ادا کرے اور جس نے تین سال کی اونٹنی دینا ہو اور اس کے پاس چار سال کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی لے لی جائے اور زکوٰۃ وصول کرنے والا شخص (جس کو اصطلاح شریعت میں مصدق کہا جاتا ہے جو کہ امام کی جانب سے مقرر ہوتا ہے زکوٰۃ وصول کرنے کے واسطے ) اس کو بیس درہم واپس کر دے گا یا دو بکری ادا کر دے گا اور جس شخص نے تین سال کی اونٹنی ادا کرنا ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو تو دو سال کی اونٹنی ادا کر دے اور اس کے ساتھ دو بکری دے دے یا بیس درہم ادا کرے اور کسی شخص نے دو سال کی اونٹنی دینا ہوں اور اس کے پاس تین سال کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی ہی وصول کر لیں گے اور زکوٰۃ وصول کرنے والا شخص اس کو بیس درہم یا دو بکری دے دے گا اور جس شخص کو دو سال کی اونٹنی زکوٰۃ میں ادا کرنا ہے اور اس کے پاس وہ نہ ہو لیکن ایک سال کی اونٹنی اس کے پاس موجود ہو اور اس کو آسانی ہو تو اس کے ساتھ دو بکری زکوٰۃ میں ادا کر دے ورنہ بیس درہم ادا کرے اور اگر کسی کے ذمہ ایک سال کی اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس دو سال کا اونٹ ہو تو اس سے وہی وصول کر لیں گے اور اس کو کچھ نہیں دیں گے اور نہ اس سے کچھ لیں گے۔ پھر اگر کسی شخص کے پاس صرف چار اونٹ موجود ہوں تو ان پر کوئی کسی قسم کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے البتہ اگر مالک اپنی مرضی سے کچھ ادا کرنا چاہے تو وہ دوسری بات ہے پھر چرنے والی بکریوں کی تعداد اگر چالیس ہو جائے تو 120 تک ایک بکری 121 سے اوپر تک دو بکری اور 201 سے لے کر تین سو بکریوں تک تین بکریاں اور اس کے بعد ہر ایک سو پر ایک بکری زکوٰۃ ادا کی جائے گی پھر زکوٰۃ میں بوڑھے اور ایک آنکھ والے اور عیب دار یا مذکور جانور نہ قبول کئے جائیں مگر یہ کہ صدقہ قبول کرنے والا شخص چاہے تو وہ لے سکتا ہے اور زکوٰۃ سے بچ جانے کے واسطے دو مال کو جمع نہ کیا جائے اور نہ ہی ایک مال کو الگ کیا جائے پھر اگر کسی دولت میں دو آدمی حصہ دار ہوں تو وہ دونوں باہمی طریقہ سے ایک دوسرے سے برابر برابر حساب کر لیں۔ چالیس سے کم بکریوں پر کسی قسم کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے مگر یہ کہ مالک جو زکوٰۃ ادا کرنا چاہے پھر اگر دو سو درہم چاندی ہو جائے اگر دو سو درہم ہو جائے تو اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کی جائے۔ لیکن اگر 190 درہم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے مگر یہ کہ مالک خوشی سے زکوٰۃ ادا کرنا چاہے۔
اونٹوں کی زکوٰۃ نے دینے والے کے متعلق احادیث
عمران بن بکار، علی بن عیاش، شعیب، ابو زناد، عبدالرحمن اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر اونٹوں کے مالک نے ان کی زکوٰۃ نہ دی ہو گی تو وہ دنیا کے مقابلہ میں اس قسم کی حالت میں فربہ ہو کر اپنے مالک کی جانب دوڑیں گے اور اس کو پاؤں کے نیچے روند ڈالیں گے اس طریقہ سے بکریاں بھی اگر ان کی زکوٰۃ نہیں ادا کی گئی ہو گی تو اپنے مالک کے پاس فربہ ہو کر آئیں گی اور اس کو اپنے قدم کے نیچے روند ڈالیں گے اور اس کو اپنے سینگ سے ماریں گیں۔ ان کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کا دودھ اس وقت نکالا جائے جس وقت کہ ان کو پانی پلانے کے واسطے لایا جائے۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ تمہارے میں سے قیامت کے روز کوئی اپنے اونٹ کو اپنی گردن پر سوار ہو کر حاضر ہو اور چیخ وپکار کرتا ہوا کہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (میرے واسطے شفاعت کریں ) میں کہوں گا کہ میں تمہارے واسطے کچھ نہیں کر سکتا میں نے تو (خداوند قدوس کا پیغام) پہنچا دیا تھا۔ اس طریقہ سے (آگاہ رہو) تمہارے میں سے کوئی آدمی قیامت کے روز اپنی بکری کو اپنی گردن پر سوار کر کے چیختا ہوا نہ آئے اور یہ کہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (مجھ کو اس تکلیف دہ اور سخت ترین عذاب سے نجات دلا دیں ) اور میں اس شخص سے (صاف) کہہ دوں گا کہ میں تمہارے واسطے کچھ نہیں کر سکتا میں نے تو خداوند قدوس کے احکام تم تک پہنچا دیئے تھے۔ پھر تمہارے میں سے کسی کا خزانہ (کہ جس کی وہ شخص زکوٰۃ نہیں دیا کرتا تھا) قیامت کے روز ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا اس کا مالک اس سے (خوف زدہ ہو کر) بھاگ کھڑا ہو گا اور وہ اس کے پیچھے بھاگتا ہوا کہے گا کہ میں تمہارا خزانہ ہوں یہاں تک کہ وہ اپنی انگلی اس (اژدہا) کے منہ میں ڈال دے گا۔
گھریلو استعمال کیلئے رکھے ہوئے اونٹوں پر زکوٰۃ معاف ہے
محمد بن عبدالاعلی، معتمر، بہز بن حکیم، اپنے والد ماجد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت نقل کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر خود چرنے والے (گھاس کھانے والے ) اونٹ ہوں تو ہر ایک میں چالیس اونٹوں پر دو سال کی ایک اونٹنی زکوٰۃ ہے نیز اونٹوں کے درمیان کسی قسم کا فرق نہ کیا جائے اور جو آدمی اجر و ثواب کی نیت سے زکوٰۃ ادا کرے گا تو اس کو اجر و ثواب حاصل ہو گا اور جو کوئی زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کرے گا تو ہم اس سے زکوٰۃ بھی وصول کریں گے اور آدھے اونٹ بھی وصول کریں گے۔ اس لئے کہ یہ ہمارے پروردگار کی جانب سے واجب اور لازم کی ہوئی ایثار میں سے ایک واجب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے اس میں سے کچھ لینا حلال نہیں ہے۔
گائے بیل کی زکوٰۃ سے متعلق
محمد بن رافع، یحیی بن آدم، مفضل، ابن مہلہل، اعمش، شقیق، مسروق، معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ملک یمن روانہ فرمایا تو ان کو حکم فرمایا کہ ہر ایک بالغ شخص سے ایک دینار یا اس کے برابر کپڑا جزیہ (اسلامی ٹیکس) وصول کر لیں اس کے بعد ہر ایک تیس گائے بیلوں پر ایک سال کا بیل یا گائے اور چالیس سال پر دو سال کی گائے زکوٰۃ وصول کریں۔
٭٭ احمد بن سلیمان، یعلی، ابن عبید، اعمش، شقیق، مسروق و اعمش، ابراہیم، معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ملک یمن روانہ فرمایا تو حکم فرمایا کہ اگر چالیس گائے موجود ہوں تو اس سے دو سال کی گائے اور اگر تیس موجود ہوں تو ایک سال کی گائے زکوٰۃ میں وصول کرنا پھر ہر ایک بالغ شخص سے ایک دینار یا اس قیمت کا کپڑا بطور جزیہ وصول کرنا۔
٭٭ احمد بن حرب، ابو معاویہ، الاعمش، ابراہیم ، مسروق، معاذ رضی اللہ عنہ اس کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ محمد بن منصور الطوسی، یعقوب، وہ اپنے والد سے ، ابن اسحاق، سلیمان، اعمش، ابو وائل بن سلمہ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ملک یمن روانہ فرمایا تو حکم فرمایا اگر کسی شخص کے پاس تیس گائے بیل ہوں تو ان سے کچھ وصول نہ کرنا اور اگر تیس ہو جائیں تو گائے کا ایک بچہ جو کہ دودھ پی رہا ہو یا اس سال کا مذکر یا مؤنث بطور زکوٰۃ وصول کرنا یہاں تک کہ وہ چالیس ہو جائیں تو ایک دو سال کی گائے وصول کرنا۔
گائے بیل کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو کیا سزا ہے اس کے متعلق؟
واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، عبدالملک بن ابو سلیمان، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اونٹ یا بیل یا بکریاں رکھتا ہو اور وہ شخص ان کا حق ادا نہ کرے (یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے ) تو قیامت کے دن وہ شخص ایک ہموار صاف چٹیل میدان میں کھڑا کیا جائے گا اور اس کو کھر والے جانور اپنے کھروں سے روند ڈالیں گے اور سینگ والے جانور اس کو سینگوں سے مار ڈالیں گے اور کوئی ان میں سینگ ٹوٹا ہوا نہ ہو گا۔ ہم لوگوں نے اس پر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کا کیا حق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مذکر جانور کو جفتی دینا (اور اس پر عوض نہ وصول کرنا) اور پانی پلانے کا ڈول مانگنے والے شخص کو دینا اور راہ خدا میں (مراد یہ ہے کہ جہاد میں سواری اور وزن) لانے لے جانے کے واسطے (لینا) اور جو مالدار شخص دولت کا حق نہیں ادا کرے گا تو قیامت کے روز وہ دولت اس کے واسطے گنجا اژدہا بن کر آئے گی اور اس دولت کا مالک اس کو دیکھ کر بھاگنے لگے گا اور وہ اژدہا اس کے ساتھ ساتھ (دوڑتا) ہو گا اور وہ اژدہا کہے گا کہ یہ تیرا خزانہ ہے جس پر کہ تو (دنیا میں ) کنجوسی کیا کرتا تھا جس وقت وہ شخص دیکھے گا کہ اب کوئی علاج نہیں رہا (یعنی اس اژدہا سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا) تو وہ مجبور ہو کر وہ شخص اپنا ہاتھ اس اژدہا کے منہ میں ڈال دے گا اور وہ اژدہا اس شخص کے ہاتھ کو اونٹ کی طرح سے چبا لے گا۔
بکریوں کی زکوٰۃ سے متعلق احادیث
عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم نسائی، شریح بن نعمان، حماد بن سلمہ، ثمامۃ بن عبداللہ بن انس بن مالک، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے واسطے یہ تحریر فرمایا یہ زکوٰۃ کے فرائض ہیں جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں پر مقرر فرمائے ہیں کہ جن کا خداوند قدوس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حکم فرمایا۔ آخر حدیث تک بیان فرمایا باقی مضمون وہی ہے جو کہ سابق میں گزر گیا ہے اور اونٹ اور بکریوں کی زکوٰۃ کے متعلق مولف نے اس حدیث شریف کو مکرر بیان فرما دیا۔ اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں کیونکہ کہ سابق میں اس حدیث شریف کا ترجمہ بعینہ گزر چکاہے۔
بکریوں کی زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے بارے میں
محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، اعمش، معرور بن سوید، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اونٹ اور گائے اور بکریاں رکھتا ہو اور وہ شخص اس کا حق زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن وہ جانور خوب موٹے تازے ہو کر آئیں گے اور اپنے سینگوں سے (دولت اور ان کے جانور) مالک کو ماریں گے اور اپنے قدموں سے اس کو روند ڈالیں گے جس وقت آخری جانور نکل جائے گا تو پھر پہلا جانور آئے گا اس طریقہ سے لوگوں کے اپنے اپنے ٹھکانوں کے پہنچ جانے تک۔
مال دولت کو ملانا اور ملے ہوئے مال کو الگ کرنا ممنوع ہے
ہناد بن سری، ہشیم، ہلال بن خباب، میسرۃ ابو صالح، سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زکوٰۃ وصول کرنے والا شخص ہمارے پاس پہنچا۔ میں اس شخص کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ میں نے سنا وہ بیان کرتا تھا کہ ہم لوگوں سے اقرار لیا گیا ہے اور ہمارے واسطے حکم فرمایا گیا ہے کہ ہم لوگ دودھ پلانے والے جانور کو (زکوٰۃ میں ) وصول نہیں کریں گے اور الگ مال کو ایک جگہ وصول نہیں کریں گے اور ملی ہوئی دولت کو علیحدہ نہیں کریں گے اور الگ مال کو ایک جگہ نہیں کریں گے زکوٰۃ میں اضافہ کرنے کے واسطے۔ ایک آدمی ان صاحب کے پاس بلند کوہان والی زبردست قسم کی ایک اونٹنی لے کر پہنچا اور کہنے لگا اس نے انکار کر دیا۔
٭٭ ہارون بن زید بن یزید، ابن ابو زرقاء، وہ اپنے والد سے ، سفیان، عاصم بن کلیب، وہ اپنے والد سے ، وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو زکوٰۃ وصول کرنے بھیجا۔ وہ ایک شخص کے پاس پہنچا۔ اس شخص نے (زکوٰۃ میں ) ایک دبلا پتلا اونٹ کا بچہ دیا یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہم نے خدا اور اس کے رسول کے مصدق (یعنی زکوٰۃ وصول کنندہ کو) فلاں آدمی کے پاس بھیجا لیکن فلاں شخص نے اس کو ایک اونٹ کا دبلا پتلا بچہ دے دیا ہے۔ خداوند قدوس اس کے مال دولت اور اونٹ میں برکت عطا نہ کرے۔ یہ اطلاع اس آدمی تک پہنچ گئی پھر وہ ایک عمدہ قسم کی اونٹنی لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا میں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف توبہ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے اللہ! اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت عطا فرما۔
زکوٰۃ نکالنے والے کے حق میں دعائے خیر سے متعلق
عمرو بن یزید، بہز بن اسد، شعبۃ، عمرو بن مرۃ، عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جس وقت کوئی قوم زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے اے اللہ! فلاں شخص پر رحمت نازل فرما اور فلاں شخص کے اہل و عیال میں خیرو برکت عطا فرما۔ جب میرے والد ماجد زکوٰۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے پروردگار! ابن ابی اوفی کے اہل و عیال میں رحمت نازل فرما۔
جس وقت صدقہ قبول کرنے میں وصول کرنے والا کسی قسم کی زیادتی سے کام لے
محمد بن مثنی و محمد بن بشار، یحیی، محمد بن ابو اسماعیل، عبدالرحمن بن ہلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جرید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرب کے چند حضرات آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے ہم لوگوں کے پاس زکوٰۃ وصول کرنے والے پہنچتے ہیں اور وہ لوگ ہم لوگوں پر زیادتی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو رضامند کر لو لوگوں نے عرض کیا اگرچہ وہ زکوٰۃ وصول کرنے والا ظلم کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے مصدق کو رضامند کر لو پھر لوگوں نے عرض کیا اگر وہ ظلم وزیادتی کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے مصدق کو رضامند کر لو۔ حضرت جرید فرماتے ہیں کہ اس دن سے کوئی زکوٰۃ وصول کرنے والا میرے پاس نہیں گیا رضامند ہوئے بغیر جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مذکورہ ارشاد فرماتے سنا۔
٭٭ زیاد بن ایوب، اسماعیل، ابن علیۃ، داؤد، شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں کے پاس کوئی مصدق پہنچے تو تم اس کو رضامند کر لو اور اس کو رضامند کر کے واپس کرنا چاہیے۔
دولت کا مالک خود ہی زکوٰۃ لگا کر ادا کر سکتا ہے
محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، زکریا بن اسحاق ، عمرو بن ابو سفیان، مسلم بن ثفنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن علقمہ رضی اللہ عنہ نے میرے والد کو اپنی قوم کی عرافت پر مقرر فرمایا اور ان کو صدقہ وصول کرنے کا حکم فرمایا میرے والد صاحب نے مجھ کو ایک جماعت کی جانب روانہ فرمایا چنانچہ میں ان لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے کے واسطے نکلا اور میں ایک بوڑھے آدمی کے پاس پہنچا جس کو سعر کہا جاتا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے والد صاحب نے مجھ کو تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ تم مجھ کو اپنی بکریوں کا صدقہ دو۔ ان بزرگ شخص نے فرمایا کہ تم کس طریقہ سے صدقہ وصول کیا کرتے ہو؟میں نے عرض کیا کہ ہم بکریوں کے تھنوں کو ہاتھ سے تلاش کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عمدہ قسم کا مال تلاش کر لیتے ہیں اس شخص نے کہا اے میرے بھتیجے ! میں تم سے حدیث نقل کرتا ہوں کہ ایک مرتبہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ان ہی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں اپنی بکریاں ساتھ لئے رکھتا تھا کہ اس دوران دو آدمی ایک اونٹ پر سوار ہو کر میرے پاس آئے اور وہ لوگ مجھ سے کہنے لگے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے بھیجے ہوئے ہیں تاکہ تم اپنی بکریوں کی زکوٰۃ ادا کرو میں نے دریافت کیا کہ میرے ذمے ان بکریوں میں کس قدر زکوٰۃ واجب ہے ؟ انہوں نے فرمایا ایک بکری۔ میں نے ارادہ کیا کہ ایک بکری کی جانب جس کے درجہ سے میں واقف تھا وہ بکری دودھ سے بھری ہوئی تھی (مطلب یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ دودھ دینے والی بکری تھی) اور اس میں کافی چربی تھی اور اس کو میں ان کی جانب نکال کر لے آیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ بکری بچہ والی ہے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو بچہ والی بکری کے قبول کرنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے۔ پھر میں نے ارادہ کیا کہ دوسری بکری کے دینے کا۔ جو کہ ایک سال کی تھی جو کہ حاملہ تھی۔ لیکن اس نے کبھی بچہ پیدا نہیں کیا تھا۔ لیکن اب اس کے بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ میں اس کو نکال کر لایا۔ انہوں نے فرمایا ہم کو وہ بکری دے دو چنانچہ میں نے وہ بکری ان کو دے دی۔ انہوں نے وہ بکری اونٹ پر رکھ لی اور روانہ ہو گئے۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، روح، زکریا بن اسحاق، عمرو بن ابو سفیان، مسلم بن ثفنہ، ابن علقمہ رضی اللہ عنہ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ عمران بن بکار، علی بن عیاش، شعیب، ابو زناد، عبدالرحمن اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ کا حکم فرمایا۔
٭٭ احمد بن حقض، ابی، ابراہیم بن طہمان، موسی، ابو زناد، عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ مذکورہ بالا حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ عمرو بن منصور و محمود بن غیلان، ابو نعیم، سفیان، ابراہیم بن میسرۃ، عثمان بن عبداللہ بن اسود، عبداللہ بن ہلال ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ عین ممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد بکری کے ایک بچہ یا بکری کی زکوٰۃ کی وجہ سے میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر یہ زکوٰۃ مہاجرین کے غربا اور فقراء کو نہ دی جاتی تو میں یہ زکوٰۃ وغیرہ وصول نہ کرتا۔
گھوڑوں کی زکوٰۃ سے متعلق
محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، شعبۃ و سفیان، عبداللہ بن دینار، سلیمان بن یسار، عراک بن مالک، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے ذمہ اس کے غلام اور گھوڑے کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
٭٭ محمد بن علی بن حرب المروزی، محرز بن الوضاح، اسماعیل بن امیۃ، مکحول، عراک بن مالک، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے ذمہ اس کے غلام اور گھوڑے کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ایوب بن موسی، مکحول، سلیمان بن یسار، عراک بن مالک، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے ذمہ اس کے غلام اور گھوڑے کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
غلاموں کی زکوٰۃ سے متعلق احادیث
عبید اللہ بن سعید، یحیی، خثیم، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے ذمہ اس کے غلام اور گھوڑے کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گھوڑے اور غلام میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
٭٭ محمد بن سلمۃ، حارث بن مسکین، ابن القاسم، مالک، عبداللہ بن دینار، سلیمان بن یسار، عراک بن مالک، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے ذمہ اس کے غلام اور گھوڑے کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گھوڑے اور غلام میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
٭٭ قتیبہ، حماد، خثیم بن عراک، مالک، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھوڑے اور غلام میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
چاندی کی زکوٰۃ سے متعلق احادیث
یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، یحیی، ابن سعید، عمرو بن یحیی، وہ اپنے والد سے ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمن، ابو صعسصہ مازنی، ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے پانچ سے کم اونٹوں میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، محمد بن عبدالرحمن بن ابی صعصہ۔ یحیی بن عمارہ، عباد بن تمیم، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ نہیں ، پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے پانچ سے کم اونٹوں میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
٭٭ محمد بن منصورطوسی، یعقوب، ابن اسحاق، محمد بن یحیی بن حبان، محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصہ، یحیی بن عمارہ بن ابی حسن، عبادبن تمیم، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ نہیں ، پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے پانچ سے کم اونٹوں میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
رمضان المبارک کی زکوٰۃ یعنی احکام صدقہ فطر
عمران بن موسی، عبدالوارث، ایوب، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ماہ رمضان المبارک کی زکوٰۃ فرض قرار دی آزاد غلام اور مرد اور عورت پر کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع۔ اس کے بعد لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کا مقرر فرمایا (اس لئے کہ وہ قیمت میں جو کے ایک صاع کے برابر ہے )۔
ماہ رمضان المبارک کی زکوٰۃ غلام اور باندی پر لازم ہے
قتیبہ، حماد، ایوب، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف کا ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔
نابالغ پر رمضان کی زکوٰۃ یعنی نا بالغ کا صدقۃ الفطر
قتیبہ، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان المبارک کی زکوٰۃ لازم کی (یعنی صدقہ فطر) ہر ایک چھوٹے اور بڑے اور آزاد اور غلام مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا۔
صدقہ فطر مسلمانوں پر ہے نہ کہ کفار پر
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقۃ الفطر فرض قرار دیا لوگوں پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو۔ ہر ایک آزاد اور غلام مرد اور عورت پر اہل اسلام میں سے۔
٭٭ یحیی بن محمد بن سکن، محمد بن جہم، اسماعیل بن جعفر، عمر بن نافع، وہ اپنے والد سے ، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فطر کی زکوٰۃ مقرر فرمائی۔ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کا آزاد اور غلام مرد عورت پر اور چھوٹے اور بڑے ہراہل اسلام میں سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا اس کو نماز عید الفطر کیلئے جانے سے قبل ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
مقدار صدقۃ الفطر
اسحاق بن ابراہیم ، عیسی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
زکوٰۃ فرض ہونے سے قبل صدقہ فطر لازم تھا
اسماعیل بن مسعو د، یزید بن زریع، شعبۃ، حکم بن عتیبۃ، قاسم بن مخیمر ۃ، عمرو بن شرجیل، قیس بن سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے اور عید الفطر کا صدقہ ادا کرتے تھے یہاں تک کہ ماہ رمضان المبارک کے روزے لازم ہوئے اور زکوٰۃ لازم ہوئی اس دن سے نہ تو ہم کو حکم ہوا عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا اور نہ ہی اس کی ممانعت ہوئی۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، سفیان، سلمہ بن کہیل، قاسم بن مخیمرۃ، ابو عمار ہمدانی، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو حکم فرمایا صدقہ فطر کا زکوٰۃ کے لازم ہونے سے قبل پھر جس وقت زکوٰۃ لازم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو حکم فرمایا اور نہ ہی منع فرمایا اور ہم لوگ اس کو کرتے رہے۔
صدقہ فطر میں کتنی مقدار میں غلہ ادا کیا جائے ؟
محمد بن مثنی، خالد، ابن حارث، حمید، حسن سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جس وقت بصرہ کے حاکم تھے تو انہوں نے رمضان المبارک کے آخر میں فرمایا تم لوگ اپنے روزوں کی زکوٰۃ ادا کرو لوگوں نے یہ سن کر ایک دوسرے کو دیکھنا شروع کر دیا۔ انہوں نے نقل کیا کہ یہاں پر مدینہ کے لوگوں میں سے کون موجود ہے تم لوگ اٹھ جاؤ اور تم لوگ اپنے بھائیوں کو سکھلاؤ وہ لوگ واقف نہیں۔ اس زکوٰۃ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر ایک مرد اور عورت آزاد اور غلام پر لازم فرمایا (جس کی مقدار) ایک صاع جو ایک صاع کھجور آدھا صاع گیہوں ہے پھر وہ لوگ اٹھ گئے (تاکہ ہم لوگ تم کو سمجھا سکیں )۔
٭٭ علی بن میمون، مخلد، ہشام، ابن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے صدقۃ الفطر کے بارے میں نقل فرمایا ایک صاع گیہوں کا یا ایک صاع کھجور کا یا ایک صاع جو کا اور ایک صاع سلت (نامی جو کی قسم) کا۔
٭٭ قتیبہ، حماد، ایوب، ابو رجاء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس سے میں نے سنا وہ خطبہ پڑھتے تھے تمہارے منبر پر یعنی بصرہ کے منبر پر وہ فرماتے تھے کہ صدقہ فطر غلہ کا ایک صاع ہے۔
صدقہ فطر میں کھجور دینے سے متعلق
محمد بن علی بن حرب، محرز بن وضاح، اسماعیل، ابن امیۃ، حارث بن عبدالرحمن بن ابو ذباب، عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ فطر متعین فرمایا ایک صاع جو سے یا ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع پنیر سے۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، سفیان، زید بن اسلم، عیاض بن عبداللہ بن ابو سرح، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ صدقہ فطر نکالتے تھے جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے میں موجود تھے ایک صاع گیہوں کا اور ایک صاع جو کا اور ایک صاع انگور کا اور ایک صاع پنیر کا۔
صدقہ فطر میں انگور دینے سے متعلق
ہناد بن سری، وکیع، داؤد بن قیس، عیاض بن عبد اللہ، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے زکوٰۃ نکالتے تھے ایک صاع گیہوں سے یا ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع پنیر سے اور پھر ہم لوگ ہمیشہ اسی طریقہ سے کیا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ملک شام سے تشریف لائے اور انہوں نے لوگوں کو جو کچھ سکھلایا اس میں یہ بات بھی شامل تھی ملک شام کے گیہوں کا دو مد (یعنی آدھا صاع اس لئے کہ صاع کے چار مد ہوتے ہیں ) جس کو تم لوگ (قیمت میں ) نکالتے ہو اس دن سے لوگوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا اور لوگ گیہوں کا نصف صاع ادا کرنے لگے۔
صدقہ فطر میں آٹا دینا
محمد بن منصور، سفیان، ابن عجلان، عیاض بن عبد اللہ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں صدقہ فطر نہیں نکالتے تھے لیکن ایک صاع کھجور کا یا ایک صاع جو کا یا ایک صاع خشک انگور کا یا ایک صاع آٹے کا یا ایک پنیر کا۔ (یعنی مذکورہ وزن سے ہم لوگ صدقہ فطر میں نکالا کرتے تھے )۔
صدقہ فطر میں گیہوں ادا کرنا
علی بن حجر، یزید بن ہارون، حمید، حسن، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے شہر بصرہ میں خطبہ پڑھا تو بیان کیا کہ تم لوگ اپنے روزوں کے زکوٰۃ (صدقۃ الفطر) ادا کرو۔ لوگ یہ سن کر ایک دوسرے کی جانب (حیرانگی سے ) دیکھنے لگے۔ انہوں نے کہا یہاں پر مدینہ منورہ والوں میں کون کون شخص ہے اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سکھلا وہ نہیں جانتے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرض کیا صدقہ فطر کو چھوٹے اور بڑے اور آزاد اور غلام ہر مرد و عورت پر آدھا صاع گیہوں کا یا ایک صاع کھجور کا یا جو کا۔ حسن نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب خداوند قدوس نے تم کو گنجائش عطا فرمائی تو تم لوگ بھی وسعت اور گنجائش کرو۔ ایک صاع دو گیہوں کا یا اور اشیاء کا اور چیزوں کا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا۔
سلت صدقہ فطر میں دینا
موسیٰ بن عبدالرحمن، حسین، زائدۃ، عبدالعزیز بن ابو رواد، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ صدقہ فطر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں نکالا کرتے تھے ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع خشک انگور۔
صدقہ فطر میں جو ادا کرنا
عمرو بن علی، یحیی، داؤد بن قیس، عیاض، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک صاع جو یا کھجور یا انگور یا پنیر کا نکالا کرتے تھے پھر اسی طریقہ سے کرتے رہے یہاں تک کہ معاویہ کا دور آیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک ملک شام کے دو مد یعنی آدھا صاع جو کے ایک صاع کے برابر ہے۔
صدقہ فطر میں پنیر دینے کے بارے میں
عیسیٰ بن حماد، لیث، یزید، عبید اللہ بن عبداللہ بن عثمان، عیاض بن عبداللہ بن سعد، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں کھجور کا ایک صاع پنیر (صدقۃ الفطر میں ) ان کے علاوہ اور دوسری اشیاء نہیں دیا کرتے تھے۔
صاع کی مقدار
عمرو بن زرارۃ، قاسم، ابن مالک، جعید، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں صاع تم لوگوں کے ایک مد اور ایک تہائی مد کا ہوا کرتا تھا لیکن اب مد میں زیادتی ہو گئی ہے۔
٭٭ ابو عبدالرحمن و حدثنیہ زیاد بن ایوب و احمد بن سلیمان، ابو نعیم، سفیان، حنظلۃ، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ پیمائش مدینہ منورہ کے حضرات کی قابل اعتبار ہے اور وزن مکہ مکرمہ کے حضرات کا معتبر ہے۔
صدقہ فطر کس وقت دینا افضل ہے ؟
محمد بن معدان بن عیسی، حسن، زہیر، موسی، محمد بن عبداللہ بن بزیع، فضیل، موسی، نافع ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ہمیں ) حکم فرمایا صدقہ فطر ادا کرنے کا نماز عید کیلئے جانے سے قبل۔
ایک شہر سے دوسرے شہر زکوٰۃ منتقل کرنے کے بارے میں
محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، زکریا بن اسحاق ، یحیی بن عبداللہ بن صیفی، ابو معبد، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاذ بن جبل کو ملک یمن کی جانب روانہ کیا اور ارشاد فرمایا تم ایک قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں تو تم ان کو بلانا کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کوئی پروردگار برحق نہیں ہے علاوہ خداوند قدوس کے اور میں خداوند تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوں اگر وہ تمہارا حکم مان لیں پھر ان کو بتلاؤ کہ خداوند قدوس نے ان پر پانچ وقت کی نماز فرض قرار دی ہے۔ ہر ایک روز اور ہر ایک رات میں اگر وہ تسلیم کر لیں پھر ان کو بتلاؤ کہ خداوند تعالیٰ نے ان پر صدقہ فرض اور لازم قرار دیا ہے ان لوگوں کے مال دولت میں جو کہ ان کے دولت مند لوگوں سے وصول کیا جائے گا اور ان کے محتاج اور ضرورت مند لوگوں کو دیا جائے گا اور اگر وہ لوگ اس کو تسلیم کر لیں تو تم ان کے بہترین قسم کے مال سے بچو اور تم مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ مظلوم کی دعا اور خداوند قدوس کے درمیان میں کسی قسم کی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہے۔
جس وقت زکوٰۃ دولت مند شخص کو ادا کر دی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ یہ شخص دولت مند ہے
عمران بن بکار، علی بن عیاش، شعیب، ابو زناد، عبدالرحمن، اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا کہ میں صدقہ ادا کروں گا پھر وہ شخص اپنا صدقہ لے کر نکل پڑا اور وہ شخص اپنا صدقہ ایک چور کے ہاتھ میں رکھ آیا تو فجر کی نماز کے وقت لوگ کہنے لگ گئے کہ چور کو صدقہ مل گیا ہے تو اس شخص نے کہا کہ خداوند قدوس تیرا شکر اور احسان ہے چور کے صدقہ پر (مطلب یہ ہے کہ اے خدا! اگرچہ میرا صدقہ چور کو مل گیا ہے لیکن پھر بھی میں اس پر شکر ادا کرتا ہوں مجھ کو خدا نے صدقہ کی توفیق دی) میں اب اور زیادہ صدقہ خیرات کروں گا۔ اس کے بعد وہ شخص اپنا صدقہ کے مال لے کر نکل پڑا اور وہ شخص ایک بدکار عورت کے ہاتھ میں رکھ آیا۔ صبح کو لوگ کہنے لگے گزشتہ رات ایک بدکار عورت کو صدقہ خیرات مل گیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے خدا تیرا شکر ہے کہ میں بدکار عورت کے اوپر مزید صدقہ خیرات کروں گا۔ پھر وہ شخص صدقہ لے کر نکل گیا اور ایک دولت مند شخص کے ہاتھ میں رکھ آیا صبح کے وقت لوگ کہنے لگے کہ ایک دولت مند شخص کو صدقہ مل گیا ہے اس شخص نے کہا کہ اے خدا تیرا شکر احسان ہے کہ میں بدکار چور اور دولت مند شخص کو میں نے صدقہ خیرات دیا ہے پھر (منجانب اللہ) خواب میں اس شخص سے کہا گیا کہ اے بندے ! تیرا صدقہ خیرات مقبول ہو گیا اور بدکار عورت کو دیا گیا صدقہ خیرات اس وجہ سے قبول ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ عورت بدکاری سے بچ جائے اور چور کو دیا گیا صدقہ اس وجہ سے قبول ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ چور چوری سے بچ جائے اور مالدار شخص کو دیا گیا صدقہ اس وجہ سے قبول ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ غور کرے اور اس کو شرم و حیا محسوس ہو اور وہ اس مال میں سے خرچ کرے جو کہ اللہ نے اس کو دیا ہے۔
خیانت کے مال سے صدقہ دینا
حسین بن محمد ذارع، یزید، ابن زریع، شعبۃ، اسماعیل بن مسعود، بشر، ابن مفضل، شعبۃ، لبشر، قتادۃ، ابو ملیح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد صاحب سے سنا انہوں نے نقل فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس نماز قبول نہیں فرماتا بغیر پاکی کی حالت کے اور صدقہ چوری کے مال سے (یعنی ناپاک شخص کی عبادت قبول نہیں اور چوری کے مال سے خیرات قبول نہیں )
٭٭ قتیبہ، لیث، سعید بن ابو سعید، سعید بن یسار، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص حلال مال میں سے صدقہ ادا کرے تو اس کو چاہیے کہ حلال مال میں سے صدقہ ادا کرے اور خداوند قدوس نہیں قبول فرماتا مگر حلال مال کو تو پروردگار اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اگرچہ صرف ایک ہی کھجور کا صدقہ ہو پھر اس میں اضافہ ہوتا ہے اس کی ہتھیلی میں یہاں تک کہ پہاڑ کے برابر وہ صدقہ ہو جاتا ہے جس طریقہ سے کہ تم لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے۔
کم دولت والا شخص کوشش کے بعد خیرات کرے تو اس کا اجر
عبدالوہاب بن عبدالحکم، حجاج، ابن جریج، عثمان بن ابو سلیمان، علی ازدی، عبید بن عمیر، عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ کونسا کام کرنا افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ایمان کہ جس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہ ہو اور جہاد کہ جس میں چوری نہ ہو مال غنیمت میں سے اور حج مبرور یعنی جس میں گناہ شامل نہ ہو۔ پھر دریافت کیا گیا کہ نماز کونسی افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس میں دیر تک قیام ہو۔ پھر دریافت کیا گیا کہ صدقہ خیرات کونسا افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو مال والا (غریب) محنت کر کے ادا کرے پھر دریافت کیا گیا کہ ہجرت کونسی افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو حرام کاموں کو چھوڑ دے۔ پھر دریافت کیا گیا کہ جہاد کونسا افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو آدمی مشرکین سے جہاد کرے اپنے مال اور جان کو خرچ کر کے۔ پھر دریافت کیا گیا کہ قتل ہونا کونسا افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کا خون بہایا گیا اور اس کا گھوڑا قتل کیا گیا۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن عجلان، سعید بن ابو سعید و قعقاع، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک درہم ایک لاکھ درہم سے زیادہ بڑھ گیا۔ لوگوں نے عرض کیا کس طریقہ سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی آدمی کے دو درہم ہوں وہ شخص ایک درہم صدقہ دے (اس کا طریقہ اس سے یہ ایک درہم افضل ہو گا) اور ایک آدمی اپنے مال کی جانب جائے اور ایک لاکھ درہم صدقہ کرے یعنی مالدار آدمی کے ایک لاکھ درہم کے برابر غریب شخص کا ایک درہم ہے۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، صفوان بن عیسی، ابن عجلان، زید بن اسلم، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک درہم ایک لاکھ درہم سے آگے بڑھ گیا اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کس طریقہ سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک آدمی کے پاس دو درہم تھے۔ اس نے ایک درہم صدقہ دے دیا اور ایک آدمی کے پاس بہت مال تھا اس نے اپنے مال میں سے ایک حصہ میں سے لاکھ درہم اٹھائے اور صدقہ دیئے (اس شخص کے لاکھ درہم سے اس کا ایک درہم افضل ہے )۔
٭٭ حسین بن حریث، فضل بن موسی، حسین، منصور، شقیق، ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم فرماتے تھے اور ہم لوگوں کے پاس کچھ موجود نہیں ہوتا تھا جو ہم صدقہ ادا کریں تو ہمارے میں سے کوئی شخص بازار میں جاتا تھا اور وزن برداشت کرتا تھا۔ پھر ایک مد کھانا لاتا (محنت مزدوری کر کے ) اور وہ کھانا خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش کرتا۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ نے فرمایا کہ میں ایک آدمی سے واقف ہوں کہ جس کے پاس اب ایک لاکھ درہم موجود ہیں اور اس وقت اس کے پاس ایک درہم موجود نہ تھا۔
٭٭ بشر بن خالد، غند ر، شعبۃ، سلیمان، ابو وائل، ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت ہم لوگوں کو صدقہ خیرات کرنے کا حکم فرمایا تو ابو عقیل آدھا صاع لے کر حاضر ہوئے اور ایک آدمی زیادہ لے کر حاضر ہوا تو اس پر منافقین نے کہا کہ اس (ابو عقیل) کے صدقہ سے اللہ بے نیاز ہے (یعنی اس قدر معمولی صدقہ خیرات کی اس کو کیا ضرورت ہے ؟) اور دوسرے شخص نے ریاکاری کے واسطے صدقہ خیرات کیا ہے اس پر یہ آیت تلاوت کی۔ یعنی جو لوگ کھلے دل سے صدقہ دینے والے مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں اور ان لوگوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو کہ (صرف) اپنی محنت و مزدوری (سے کما کر) صدقہ خیرات کرتے ہیں پھر ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو خداوند قدوس نے ان سے مذاق کیا اور ان کو عذاب میں مبتلا کیا۔
اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والے ہاتھ کی فضیلت
قتیبہ، سفیان، زہری، سعید و عروۃ، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے دست سوال پھیلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو (کچھ) عطا فرما دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عنایت فرمایا پھر ارشاد فرمایا کہ مال و دولت سر سبز اور شاداب ہے جو کوئی اس کو خوشی سے حاصل کرے گا تو اس کو برکت حاصل ہو گی اور جو شخص لالچ سے حاصل کرے گا (مراد یہ ہے کہ اس کا انتظار کر کے لالچ سے ) تو کسی قسم کی خیر و برکت حاصل نہیں ہو گی وہ اس شخص کی طرح ہو گا کہ جو کھانا کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور (دینے والا صدقہ کرنے والا) اوپر والا ہاتھ نیچے والے (یعنی صدقہ وصول کرنے والے ہاتھ) سے افضل ہے۔
اوپر والا ہاتھ کونسا ہے ؟
یوسف بن عیسی، فضل بن موسی، یزید، ابن زیاد بن ابو جعد، جامع بن شداد، طارق بن محاربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مدینہ منورہ میں پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ (صدقہ) دینے والے کا ہاتھ اوپر ہے اور تم لوگ صدقہ ان لوگوں سے شروع کرو کہ جن کی روٹی تم پر ذمہ داری ہے (یعنی) والد کی بہن بھائی کی (طرف سے ) صدقہ خیرات کرنا شروع کرو۔ پھر اس طریقہ سے دوسرے رشتہ داروں کی طرف سے۔ زیر نظر حدیث ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے۔
نیچے والا (یعنی صدقہ لینے والا) ہاتھ
قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صدقہ خیرات کا تذکرہ فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مانگنے سے بچتے رہنے کا حکم فرماتے اور فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ) نیچے والے ہاتھ سے (یعنی صدقہ لینے والے ہاتھ سے ) افضل ہے اور اوپر والا ہاتھ وہ ہے جو کہ خرچہ کرے اور نیچے والا ہاتھ وہ ہے کہ جو کہ سوال کرے۔
اس طرح کا صدقہ کرنا کہ انسان دولت مند رہے افضل ہے
قتیبہ، بکر، ابن عجلان، وہ اپنے والد سے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا افضل صدقہ وہ ہے جو کہ انسان اس کے دینے کے بعد دولت مند رہے افضل ہے تاکہ خود اس کو سوال کرنا نہ پڑے اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور تم صدقہ اس سے شروع کرو جس کی پرورش تمہارے ذمہ ہے۔
زیر نظر حدیث شریف کی تفسیر
عمرو بن علی و محمد بن مثنی، یحیی، ابن عجلان، سعید، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ صدقہ ادا کرو اس پر ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس ایک اشرفی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے اوپر صدقہ کرو (مراد یہ ہے کہ تم اپنے کام میں خرچ کیا کرو) اس شخص نے عرض کیا ایک اور ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے لڑکے پر (نفلی) صدقہ کرو۔ اس شخص نے عرض کیا ایک اور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے خادم پر صدقہ خیرات کرو۔ اس شخص نے عرض کیا ایک اور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اب تم خود سمجھ لو (یعنی جس شخص کو مستحق صدقہ خیال کرو اس کو دیا کرو)۔
اگر کوئی آدمی صدقہ ادا کرے اور وہ خود محتاج ہو تو اس شخص کا صدقہ واپس کر دیا جائے
عمرو بن علی، یحیی، ابن عجلان، عیاض، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن حاضر ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم دو رکعت پڑھو۔ پھر وہ شخص دوسرے جمعہ میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم دو رکعت پڑھو۔ پھر وہ شخص تیسرے جمعہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ دو رکعت ادا کرو اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو حکم فرمایا کہ وہ صدقہ نکالیں چنانچہ لوگوں نے صدقہ خیرات دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کو دو کپڑے عنایت فرمائے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا۔ تم صدقہ ادا کرو۔ اس آدمی نے ایک کپڑا نکال کر ڈال دیا ان دو کپڑوں میں سے جو کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو عنایت فرمائے تھے تو ارشاد فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ تم لوگ اس آدمی کو نہیں دیکھتے کہ یہ آدمی مسجد میں بوسیدہ لباس میں حاضر ہوا تو میں اس کی ظاہری حالت دیکھ کر سمجھا کہ تم لوگ اس کی حالت دیکھ کر خود ہی سمجھ لو گے اور تم خود ہی اس کو صدقہ خیرات دے دو گے لیکن تم نے صدقہ نہیں دیا تو میں نے کہہ دیا کہ تم صدقہ ادا کرو اور جس وقت تم نے صدقہ کر دیا تو میں نے اس کو دو کپڑے عنایت کئے استعمال کرنے کے واسطے۔ اس کے بعد میں نے اس شخص سے کہا کہ تم صدقہ کرو تو اس شخص نے ایک کپڑا نکال کر ڈال دیا اپنا کپڑا اٹھا کر اور اس کو ڈانٹ دیا۔
غلام کے صدقہ کرنے سے متعلق
قتیبہ، حاتم، یزید بن ابو عبید، عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو کہ ابی لحم کے غلام تھے کہ مجھ کو میرے مالک نے حکم کیا گوشت کے بھوننے کا کہ اس دوران ایک مسکین شخص حاضر ہوا میں نے اس شخص کو تھوڑا سا گوشت کھلا دیا۔ جس وقت میرے مالک کو اس کی خبر اور اطلاع ملی تو اس شخص نے مجھ کو مارا میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے مالک کو طلب فرمایا اور اس شخص سے دریافت کیا تم نے اس کو کس وجہ سے مارا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا یہ غلام دوسرے لوگوں کو کھانا کھلا دیتا ہے اور یہ غلام مجھ سے اس کی اجازت نہیں لیتا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ یعنی جس وقت غلام مالک کے مال سے یا کوئی عورت شوہر کے مال سے صدقہ خیرات کرے تو اس کا ثواب غلام اور مالک کو اور شوہر و بیوی دونوں کو ملے گا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، ابن ابو بردۃ، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک مسلمان کے ذمہ صدقہ ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اگر اس شخص کے پاس کچھ نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کو چاہیے کہ وہ خود ہاتھوں سے محنت کرے پھر وہ خود اپنے کو نفع پہنچائے۔ یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے اپنے نفس پر۔ یہ سن کر لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اگر وہ آدمی اس طرح سے نے کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کو چاہیے کہ وہ کسی محتاج اور پریشان حال شخص کی مد د کرے۔ لوگوں نے عرض کیا اگر وہ شخص اس طریقہ سے نہ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حکم کرے نیک باتوں کا۔ لوگوں نے عرض کیا اگر یہ کام بھی نہ وہ کر سکے تو کیا حکم ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا برے کاموں سے باز رہے۔ یہ بھی ایک صدقہ ہے۔
اگر عورت شوہر کے مال سے خیرات کرے ؟
محمد بن مثنیٰ، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبۃ، عمرو بن مرۃ، ابو وائل، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عورت شوہر کے مال میں سے صدقہ خیرات کرے تو اس کا اجر و ثواب مل جائے گا اور اسی قدر اجر و ثواب اس کے شوہر کو ملے گا اور اسی قدر اجر و ثواب تحویل دار کو ملے گا اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کا اجر و ثواب کم نہیں کرے گا۔ شوہر کے کمانے کی وجہ سے اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے اجر ملے گا۔
عورت شوہر کی بلا اجازت صدقہ نہ کرے
اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، حسین معلم، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ مکرمہ فتح فرمایا تو خطبہ کے واسطے کھڑے ہوئے اور دوران خطبہ ارشاد فرمایا کہ عورت کو شوہر کی بغیر اجازت صدقہ دینا جائز نہیں ہے۔
فضیلت صدقہ
ابو داؤد، یحیی بن حماد، ابو عوانۃ، فراس، عامر، مسروق، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جمع ہو گئیں اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سب سے پہلے کونسی اہلیہ ملاقات کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے جو لمبے ہاتھ والی ہے۔ پھر انہوں نے ایک لکڑی لی اور ہاتھوں کی پیمائش کرنے لگیں تو ازواج مطہرات میں سے سب سے زیادہ جلدی حضرت سودہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملیں (یعنی وہ سب سے زیادہ صدقہ دینے والی تھیں پہلے ان کا انتقال ہوا)۔
سب سے زیادہ افضل کونسا صدقہ ہے ؟
محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، عمارۃ بن قعقاع، ابو زرعۃ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کونسا صدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا صدقہ دینا اس وقت افضل ہے کہ جس وقت کہ تم صحت مند ہو تمہارے اندر دولت کا لالچ موجود ہو تم عیش و عشرت کی تمنا رکھتے ہو اور تم تنگ دستی سے ڈرنے والے ہو۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، عمرو بن عثمان، موسیٰ بن طلحہ، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا افضل صدقہ وہ ہے کہ جس کے بعد انسان دولت مند رہے اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے (دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے ) اور تم صدقہ اس طرف سے یعنی ان رشتہ داروں کی طرف سے دینا شروع کرو کہ تمہارے ذمہ جن کی پرورش کی ذمہ داری ہے۔
٭٭ عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمدہ صدقہ یہ ہے کہ انسان مال دار ہی رہے اور صدقہ خیرات کرنے کا آغاز ان لوگوں سے کرنا چاہیے کہ جن کی ذمہ داری تمہارے اوپر ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، عدی بن ثابت، عبداللہ بن یزید انصاری، ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی آدمی اپنی عورت پر بھی اجر کی نیت سے خرچہ کرے گا تو اس شخص کو بھی صدقہ کرنے کا ثواب دیا جائے گا۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قبیلہ بنو عذرہ کے ایک آدمی نے اپنی وفات کے بعد اپنے غلام کو آزاد کیا جس وقت یہ خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ کچھ اور موجود ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو کوئی آدمی مجھ سے خریدتا ہے۔ اس پر حضرت نعیم بن عبداللہ عدوی نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا اور اس کو ساتھ لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ درہم ان کو عنایت فرما دئیے اور فرمایا تم پہلے اپنی ذات سے اس کا آغاز کرو اور تم اس پر خیرات کرو اگر اس سے کچھ باقی بچ جائے تو بیوی کو دے دو پھر اگر اس سے کچھ باقی بچ جائے تو تم اس کو رشتہ داروں کو دے دو اگر اس کے بعد بھی باقی رہ جائے تو اسی طریقہ سے کرو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سامنے کی جانب اور دائیں بائیں جانب اشارہ کیا۔
کنجوس آدمی کا صدقہ خیرات کرنا
محمد بن منصور، سفیان، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خرچہ کرنے اور خیرات کرنے والے شخص اور کنجوس آدمی کی مثال اس طرح سے ہے کہ دو آدمی جن پر کرتہ یا لوہے کی زرہ ہے جو کہ اس کے سینہ سے لے کر ہنسلی تک ہے جس وقت خرچہ کرنے والا خرچہ کرنا چاہتا ہے تو اس کی زرہ لمبی چوڑی ہو جاتی ہے اور اس کے قدم تک کو وہ ڈھانپ لیتی ہے اور اس کے چلنے کے نشان مٹ جاتے ہیں لیکن جس وقت کوئی کنجوس آدمی خرچہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زرہ سمٹ جاتی ہے اور اس کا سر ایک چھلہ دوسرے چھلہ کو پکڑ لیتا ہے حتی کہ اس کی گردن یا ہنسلی کو پکڑ لیتی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو کشادہ فرماتے اور وہ زرہ کشادہ نہیں ہوتی تھی۔ طاؤس بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ کو دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے اس کو کشادہ فرماتے ہوئے (خود) دیکھا ہے۔ لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی تھی۔
کنجوس آدمی کا صدقہ خیرات کرنا
احمد بن سلیمان، عفان، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کنجوس آدمی کی مثال اور صدقہ خیرات نکالنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جو کہ لوہے کے دو چوغے پہنے ہوئے ہوں ان کے ہاتھ چمٹائے گئے ہوں۔ حلق کی لکڑی سے تو جس وقت صدقہ نکالنے والا شخص ارادہ کرتا ہے صدقہ دینے کا تو وہ چوغہ وسیع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے پاؤں کا نشان مٹا دیتا ہے (وسیع ہونے کی وجہ سے اور زمین پر اس کے لٹک جانے کی وجہ سے ) اور جس وقت کوئی کنجوس شخص خیرات نکالنے کی کوشش کرتا ہے توہر ایک حلقہ اس کا دوسرے سے مل جاتا ہے اور وہ چوغہ اکٹھا ہو جاتا ہے اور دونوں ہاتھ کو ہنسلی پر جوڑ دیتا ہے۔ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے وہ کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کشادہ نہیں ہوتا۔
بے حساب صدقہ خیرات نکالنا
محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، خالد، ابن ابو ہلال، امیۃ بن ہند، ابو امامۃ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور متعدد مہاجر اور انصار تشریف فرما تھے کہ ہم نے ایک آدمی کو بھیجا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس اجازت حاصل کرنے کے واسطے۔ پھر ہم لوگ ان کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ میرے پاس فقیر آیا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما تھے میں نے اس کو کچھ دے دینے کا حکم کیا پھر میں نے اس شئی کو منگا کر دیکھا۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم یہ چاہتی ہو کہ تمہارے مکان میں کوئی چیز نہ آئے اور نہ جائے بغیر تمہارے علم کے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ! تم اس کو چھوڑ دو اور تم اس کو شمار نہ کرو (ورنہ) پھر خداوند قدوس بھی تم کو شمار کر کے (یعنی محدود رزق اور حساب سے ) عنایت فرمائے گا۔
٭٭ محمد بن آدم، عبدۃ، ہشام بن عروۃ، فاطمۃ، اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا تم شمار نہ کرو ورنہ خداوند قدوس بھی تم کو شمار کر کے عنایت فرمائے گا۔
٭٭ حسن بن محمد، حجاج، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ، عباد بن عبداللہ بن الزبیر، حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کر نے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے پاس (صدقہ کیلئے ) کچھ نہیں ہے مگر وہ جو کہ حضرت زبیر مجھے (گھریلو اخرا جات کیلئے ) عنایت فرماتے ہیں۔ اس صورت میں کیا گناہ گار ہوں گی اگر میں اس میں سے فقراء کو کچھ دے دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم (جہاں تک ممکن ہو) صدقہ دیا کرو اور تم روک ٹوک نہ کرو ورنہ خداوند قدوس بھی تم پر روک ٹوک کرے گا (یعنی بے حساب رزق عطا نہ فرمائے گا)۔
قلیل صدقہ سے متعلق
نصر بن علی، خالد، شعبۃ، محل، عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ صدقہ نکال کر دوزخ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو (وہ ہی صدقہ دے دو)
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ، عمرو بن مرۃ، خیثمہ، عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز دوزخ کا تذکرہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے منہ مبارک کو نیچے کی جانب کیا (ہم نے خیال کیا شاید آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوزخ دیکھ رہے ہیں ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوزخ سے پناہ مانگی۔ شعبہ نے فرمایا کہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طریقہ سے کیا پھر فرمایا تم لوگ دوزخ کی آگ سے بچتے رہو اگرچہ یہ کھجور کا ٹکڑا دے کر اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اچھی بات (ہی) کہہ کر۔
فضیلت صدقہ
ازہر بن جمیل، خالد بن حارث، شعبۃ، عون بن ابو جحیفۃ، منذر بن جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک روز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ابھی دن کا آغاز ہی ہوا تھا۔ اس دوران کچھ لوگ ننگے جسم ننگے پاؤں اور تلواروں کو لٹکائے ہوئے آئے قبیلہ مضر میں سے بلکہ تمام کے تمام لوگ قبیلہ مضر کے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ مبارک تبدیل ہو گیا ان کی غربت کی کیفیت دیکھ کر پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اندر تشریف لے گئے اور پھر باہر تشریف لائے اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا اذان پڑھنے کا۔ چنانچہ انہوں نے اذان پڑھی اور نماز تیار ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی پھر خطبہ پڑھا اور ارشاد فرمایا آخر تک۔ اے ایمان والو تم لوگ اپنے پروردگار سے ڈرو کہ جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس میں سے اس کی بیوی پیدا کی پھر ان دونوں سے بہت سے مردوں اور خواتین کو پھیلایا (یعنی لوگ اس سے باہمی ہمدردی اور خیرسگالی سے کام لیں ) اور تم لوگ اس خدا سے ڈرو کہ تم جس کے نام کے ذریعہ سے مانگتے ہو ایک دوسرے سے اور رشتوں کے ذریعہ سے بلاشبہ خداوند قدوس تم کو دیکھ رہا ہے اور تم لوگ خداوند قدوس سے ڈرو اور ہر ایک آدمی دیکھ لے کہ جو اس نے کل کے دن کے واسطے (یعنی قیامت کے دن کے واسطے اس نے سامان کیا ہے ) صدقہ خیرات انسان کا اشرفی سے ہے رقم سے ہے اور کپڑے سے ہے ایک صاع گیہوں سے ہے ایک صاع جو سے ہے یہاں تک کہ ایک کھجور کے ٹکڑے سے پھر ایک انصاری آدمی ایک تھیلی لے کر آیا (جو کہ اشرفی کی تھی) اور (اشرفی وغیرہ) اس میں نہیں سما رہی تھی اس کے بعد لوگوں کو اس طرح سے سلسلہ شروع ہو گیا۔ حتی کہ دو ڈھیر اونچے درجے کے اور اونچے کھانے کپڑے ہو گئے میں نے اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ انور کی زیارت کی کہ وہ چمک دمک رہا تھا جس طرح کہ سونا چمکتا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اسلام میں نیکی اور بھلائی کا راستہ نکالے (جس سے کہ مذہب اسلام میں ترقی حاصل ہو) تو اس شخص کو اس نیک راستہ پر چلنے کا اجر و ثواب ہے اور ان لوگوں کا ثواب بھی اس کو ملے گا جو کہ اس پر عمل کرتے جائیں گے لیکن عمل کرنے والا کا اجر و ثواب کم نہ ہو گا اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ جاری کرے گا (کہ جس کی وجہ سے مذہب اسلام کو نقصان ہوتا ہو یا اسلام کو کمزوری حاصل ہوتی ہو) تو اس پر اس راستہ کے نکالنے کا عذاب ہے اور ان لوگوں کا عذاب بھی اس شخص پر ہے جو کہ اس پر عمل کریں گے لیکن عمل کرنے والوں کے عذاب میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، معبد بن خالد، حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تم لوگ صدقہ دو کیونکہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس وقت انسان اپنا صدقہ ایک آدمی کو دینے جائے گا وہ شخص کہے گا اگر تم گزشتہ کل یہ لے کر آتے تو میں اس کو لے لیتا آج نہ لوں گا کیونکہ میں آج دولت مند ہو گیا ہوں۔
صدقہ خیرات کرنے کی سفارش سے متعلق
محمد بن بشار، یحیی، سفیان، ابو بردۃ بن عبداللہ بن ابو بردۃ، ابو بردۃ، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ سفارش کرو اور سفارش قبول کرو۔ خداوند قدوس اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے جو کچھ چاہے گا حکم کرے گا۔ (خداوند قدوس کو جو منظور ہے وہی حکم ہو گا اس وجہ سے کسی کی (جائز) سفارش میں حرج نہیں ہے )۔
٭٭ ہارون بن سعید، سفیان، عمرو، ابن منبہ، معاویہ بن ابو سفیان سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ سے کوئی آدمی مانگتا ہے میں اس کو نہیں دیتا جس وقت تک کہ تم لوگ اس کی سفارش نہیں کرتے۔ جس وقت تم لوگ سفارش کرتے ہو تو تم کو اجر و ثواب ہوتا ہے تو تم لوگ سفارش کرو اس کا تم کو اجر و ثواب ملے گا۔
صدقہ کرنے میں فخر سے متعلق احادیث
اسحاق بن منصور، محمد بن یوسف، اوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی، ابن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک تو وہ غیرت ہے کہ جس کو خداوند قدوس محبوب رکھتا ہے اور ایک وہ غیرت ہے کہ جس کو خداوند قدوس ناپسندیدہ قرار دیتا ہے۔ اسی طریقہ سے ایک تو وہ فخر ہے کہ جس کو خداوند قدوس پسندیدہ قرار دیتا ہے اور دوسرا وہ فخر ہے کہ جس کو خداوند قدوس ناپسندیدہ قرار دیتا ہے۔ اس طریقہ سے وہ غیرت جو کہ خداوند قدوس کو پسندیدہ ہے یہ ہے کہ انسان تہمت اور الزام تراشی کی جگہ غیرت سے کام لے اور خداوند قدوس کو جو غیرت ناپسندیدہ ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس جگہ غیرت سے کام لے کہ جس جگہ تہمت اور الزام تراشی کا اندیشہ نہیں ہے اور خداوند قدوس کو فخر پسندیدہ ہے وہ یہ ہے کہ انسان جہاد کے موقع پر فخر کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ بہادری سے کام لے سکے اور دوسروں کو بھی جہاد کرنے کی رغبت ہو یا صدقہ خیرات کرتے وقت فخر کرے اور خداوند قدوس کو جو فخر ناپسندیدہ ہے وہ یہ ہے کہ انسان گناہوں کے کاموں میں فخر کرے۔
٭٭ احمد بن سلیمان، یزید، ہمام، قتادۃ، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ کھا اور صدقہ خیرات کرتے رہو اور کپڑا پہنو لیکن فضول خرچی سے بچتے رہو۔
کوئی ملازم یا غلام آقا کی مرضی سے صدقہ خیرات نکالے
عبد اللہ بن ہیثم بن عثمان، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، برید بن ابو بردۃ، جدۃ، ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے واسطے ایک عمارت کے مثل ہے جس طریقہ سے کہ اس میں ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط رکھتی ہے (اسی طریقہ سے دوسرے مومن کو چاہیے دوسرے مومن کو طاقت بخشے اور اس کو سہارا دے ) اور ارشاد فرمایا خزانچی (یعنی امین شخص) جو کہ اپنے مالک کے حکم سے خوش ہو کر دیتا ہے تو وہ شخص (راہ خدا میں ) خیرات نکالنے کے برابر ہے۔
خفیہ طریقہ سے خیرات نکالنے والا
محمد بن سلمہ، ابن وہب، معاویہ بن صالح، بحیر بن سعد، خالد بن معدان، کثیر بن مرۃ، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پکار کر (یعنی بلند آواز سے ) تلاوت قرآن کرنے والا شخص ایسا ہے کہ جس طریقہ سے کہ سامنے صدقہ نکالنے والا یعنی ایسے شخص کا اجر کم ہے اور قرآن کریم ہلکی آواز سے پڑھنے والا شخص ایسا ہے کہ جس طریقہ سے خفیہ طریقہ سے صدقہ خیرات نکالنے والا شخص۔
صدقہ نکال کر احسان جتلانے والے کے متعلق
عمرو بن علی، یزید بن زریع، عمر بن محمد، عبداللہ بن یسار، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں ہوں گے ایک تو نافرمانی کرنے والا شخص یعنی والدین کی نافرمانی کرنے والا شخص اور دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، علی بن مدرک، ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، خرشۃ بن حر، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تین شخصوں سے خداوند قدوس کلام نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی جانب دیکھے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کو تکلیف دے عذاب ہو گا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ لوگ نقصان میں پڑ گئے اور ان کو نقصان پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک جو غرور اور تکبر کی وجہ سے تہبند ٹخنہ سے نیچے لٹکانے والا شخص اور اپنے سامان کو جھوٹی قسم کھا کر فروخت کرنے والا شخص اور تیسرے احسان کر کے احسان جتلانے والا شخص۔
٭٭ بشر بن خالد، غندر، شعبہ، سلیمان، الاعمش، سلیمان بن مسہر، خرشہ بن الحر، ابو ذر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
مانگنے والے شخص کو انکار
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، قتیبہ بن سعید، مالک، زید بن اسلم، ابن مجید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی دادی سے سنا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم مانگنے والے شخص کو کچھ صدقہ دے کر رخصت کرو چاہے جلا ہوا (گھوڑے وغیرہ کا) کھر ہی کیوں نہ ہو۔
جس شخص سے سوال کیا جائے اور وہ صدقہ نہ دے
محمد بن عبدالاعلی، معتمر، بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے اپنے دادا سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے۔ جو شخص اپنے مالک کے پاس پہنچے اور وہ ضرورت سے زائد اور بچی ہوئی چیز مانگے (بیکار چیز کا سوال کرے ) پھر کوئی شخص اس کو نہ دے تو قیامت کے دن ایک گنجا سانپ نمودار ہو گا جو کہ اپنی زبان سے اس چیز کو چباتا ہوا اس کا پیچھا کرے گا۔
جو آدمی خداوند تعالیٰ کے نام سے سوال کرے
قتیبہ، ابو عوانۃ، اعمش، مجاہد، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص پناہ مانگے خداوند قدوس کی تو اس کو پناہ دے دو اور جو شخص تم سے مال مانگے اللہ کے نام نامی پر تو تم اس کو مال (صدقہ) دے دو اور جو شخص اللہ کے نام پر پناہ اور امان چاہے تو تم اس کو امان دے دو اور جو شخص تمہارے ساتھ عمدہ سلوک کرے تو تم اس کا بدلہ دو اگر بدلہ نہ دے سکو تو اس کے واسطے دعا مانگو یہاں تک کہ تم کو احساس ہو جائے کہ تمہارا بدلہ پورا ہو چکا ہے۔
خداوند قدوس کی ذات کا واسطہ دے کر سوال سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، معتمر، بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے اپنے دادا سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ اے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے زیادہ قسمیں کھائی تھیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر نہیں ہوں گا اور نہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دین قبول کروں گا اور میں ایک عقل مند شخص تھا اور میں اب بھی کوئی علم نہیں رکھتا لیکن جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سکھلایا میں خداوند قدوس کے منہ (یعنی ذات باری تعالی) کا واسطہ دے کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرتا ہوں کہ خداوند قدوس نے کیا حکم دے کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اسلام کا۔ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ مذہب اسلام کی کیا کیا نشانیاں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اقرار کرو کہ میں نے اپنا چہرہ خداوند قدوس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ جو کچھ اور جس قسم کا حکم صادر فرمائے گا اس کی تعمیل کروں گا اور میں خالی ہوا خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے خیال سے (یعنی میں ہر قسم کے شرک سے بالکل بے زار اور علیحدہ ہوں ) اور تم نماز ادا کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے اور مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور خداوند قدوس مشرک اور کافر کا کوئی اور کسی قسم کا کوئی عمل قبول نہیں فرمائے گا اگرچہ وہ مسلمان ہو جائے جس وقت تک وہ مشرک کو چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ شامل نہ ہو جائے (مطلب یہ ہے کہ جب تک کہ وہ شخص ہجرت نے کرے گا)۔
جس شخص سے خدا کے نام سے سوال کیا جائے لیکن اس کو صدقہ نہ دیا جائے
محمد بن رافع، ابن ابو فدیک، ابن ابو ذئب، سعید بن خالد القارظی، اسماعیل بن عبدالرحمن، عطاء بن یسار، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تم کو نہ بتلاؤں وہ آدمی جو کہ خداوند قدوس کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اس پر ہم لوگوں نے عرض کیا ضرور۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو آدمی اپنا گھوڑا لے کر راہ خدا میں (جنگ کیلئے ) نکلے یہاں تک کہ وہ شخص فوت ہو جائے (یا جہاد میں شہید ہو جائے ) پھر میں اس کو بتلاؤں جو کہ اس کے نزدیک ہے ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی لوگوں سے علیحدہ ہو کر کسی گھاٹی میں فوت ہو جائے اور نماز ادا کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور لوگوں کے شرک سے محفوظ رہے پھر میں تم کو مطلع کر دوں کہ جو تم سب میں بد ترین انسان ہے ہم نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ آدمی جس سے کہ خداوند قدوس کے نام کا واسطے دے کر سوال کیا جائے اور لیکن پھر بھی وہ نہ دے یعنی صدقہ نہ دے تو ایسا شخص سب سے بد تر آدمی ہے۔
صدقہ دینے والے کا اجر و ثواب
محمد بن مثنی، محمد، شعبۃ، منصور، ربعی، زید بن ظبیان، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین شخصوں کو خداوند قدوس چاہتا ہے (یعنی خداوند تعالیٰ کو تین آدمی پسند ہیں ) اور خداوند قدوس تین آدمیوں سے دشمنی رکھتا ہے اور جن کو خداوند قدوس پسند فرماتا ہے وہ یہ ہیں ایک تو وہ شخص جو کہ لوگوں کے پاس پہنچے اور خداوند قدوس کے نام پر ان سے سوال کرے اور وہ شخص ان لوگوں سے کسی قسم کی رشتہ داری نہیں رکھتا تھا لیکن لوگوں نے اس کو کچھ (صدقہ) نہیں دیا۔ پھر ان لوگوں میں سے ایک آدمی خاموشی سے اٹھا اور لوگوں کو اس نے پیچھے چھوڑ دیا اور خاموشی سے مانگنے والے کو کچھ صدقہ دے آیا۔ جس کا کہ دوسرے کو علم نہ ہو سکا لیکن خداوند قدوس کو اس کا علم تھا یا اس شخص کو اس کا علم تھا کہ جس نے وہ صدقہ دیا تھا۔ چند لوگ پوری رات چلے اور جس وقت ان کو تمام چیزوں سے زیادہ عمدہ چیز نیند ان کو بہتر معلوم ہوئی تو وہ لوگ اس سواری سے اتر کر سو گئے تو ان میں سے ایک آدمی اٹھا اور میرے سامنے وہ آدمی زار و قطار رونے لگا اور آیات قرآنی پڑھنے لگا۔ ایک وہ آدمی جو لشکر کے ایک ٹکڑے میں تھا جس وقت دشمن سے جنگ کی نوبت آئی تو تمام کے تمام لوگ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن وہ شخص سینے سامنے کی جانب کر کے آیا یہاں تک کہ وہ مارا گیا یعنی قتل ہو گیا یا خداوند قدوس نے اس شخص کو فتح نصیب فرمائی۔ وہ تین آدمی کہ جن سے کہ خداوند قدوس کو دشمنی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ایک تو بوڑھا بدکار شخص (یعنی بڑھاپے میں زناکاری میں مبتلا ہونے والا) اور دوسرے تنگ دست تکبر کرنے والا اور تیسرے دولت مند ظلم کرنے والا۔
مسکین کس کو کہا جاتا ہے ؟
علی بن حجر، اسماعیل، شریک، عطاء بن یسار، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسکین وہ شخص نہیں ہے جو کہ ایک لقمہ دو لقمے ایک کھجور یا دو کھجور لوگوں سے مانگے بلکہ (دراصل) مسکین تو وہ ہے جو کہ لوگوں سے بھیک نہیں مانگتا اگر تمہارا دل چاہے تو تم آیت پڑھو یعنی وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ آدمی مسکین نہیں ہے جو کہ دو لقمے ایک دو کھجوریں لوگوں سے سوال کرنے کے واسطے گھومتا پھرتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکین کون شخص ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے پاس اس قدر مال نہیں کہ اس کے واسطے کافی ہو اور نہ ہی لوگوں کو اس کی حالت کا علم ہو کہ لوگ اس کو صدقے خیرات کریں اور نہ وہ خود ہی لوگوں سے سوال کرتا ہو۔
٭٭ نصر بن علی، عبدالاعلی، معمر، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسکین وہ شخص نہیں ہے جو کہ ایک لقمہ دو لقمہ ایک کھجور دو کھجور کے واسطے لوگوں سے سوال کرتا پھرتا ہو۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ مسکین کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے پاس نہ تو مال ہو اور نہ ہی اس کی (مالی) حالت سے لوگ واقف ہوں کہ اس کو صدقہ خیرات دیں۔
٭٭ قتیبہ، لیث، سعید بن ابو سعید، عبدالرحمن بن مجید، ام مجید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی تھی ان سے منقول ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! (کیا ایسا بھی اتفاق ہوتا ہے کہ) کوئی مسکین شخص دروازہ پر کھڑا ہو اور میرے پاس اس کو صدقہ کرنے کے واسطے کچھ موجود نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم کو جلے ہوئے کھر کے علاوہ اس کو دینے کے واسطے کوئی شئی نصیب نہ ہو تو تم اس کو وہی (کوئی معمولی) شئی دے دو۔
متکبر فقیر سے متعلق احادیث
محمد بن مثنی، یحیی، ابن عجلان، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ خداوند قدوس قیامت کے روز ان سے کلام نہ فرمائیں گے (1) بوڑھا زناکار (2) مغرور فقیر (3) جھوٹ بولنے والا بادشاہ (یا حاکم)
٭٭ ابو داؤد، عارم، حماد، عبید اللہ بن عمر، سعید مقبری، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چار آدمی ایسے ہیں کہ جن سے خداوند قدوس نفرت فرماتے ہیں (1) قسم کھا کر سامان و اشیاء بیچنے والا (2) متکبر فقیر (3) بوڑھا بد کار (4) ظلم کرنے والا حاکم و بادشاہ۔
بیوہ خواتین کے واسطے محنت کرنے والے شخص کی فضیلت کے متعلق
عمرو بن منصور، عبداللہ بن مسلمۃ، مالک، ثور بن زید الدیلی، ابو غیث، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیوہ خواتین اور مساکین کے واسطے محنت مشقت کرنے والے شخص کی اور ان کی نگرانی اور حفاظت کرنے والے شخص کی مثال راہ الٰہی میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
جن لوگوں کو تالیف قلب کے واسطے مال دولت دیا جاتا تھا
ہناد بن سری، ابو احوص، سعید بن مسروق، عبدالرحمن بن ابو نعم، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا جو کہ مٹی میں شامل ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو چار آدمیوں کے درمیان تقسیم فرمایا وہ چار آدمی یہ ہیں (1) حضرت اقرع بن حابس (2) عینیہ بن بدر (3) علقمہ بن علاثہ عامری۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ بنی کلاب کے ایک شخص کو دیا پھر حضرت زید طان کو اور پھر قبیلہ بنی نبیان کے آدمی کو اس پر قریش ناراض ہو گئے اور ان کو غصہ آ گیا اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگ نجد کے سرداران کو تو (صدقہ) دیتے ہیں اور ہم لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے اس واسطے ان کو دیا ہے کہ یہ لوگ تازہ تازہ مسلمان ہوئے ہیں اس لئے ان کے قلوب کو اسلام کی جانب متوجہ کرنے کے واسطے میں نے یہ کیا۔ اسی دوران ایک آدمی حاضر ہوا جس کی ڈاڑھی گھنی اور اس کے رخسار ابھرے ہوئے تھے اور اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور اس کی پیشانی بلند اور اس کا سر گھٹا ہوا تھا اور عرض کرنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم خدا سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میں بھی خداوند قدوس کی نافرمانی کرنے لگ جاؤں تو وہ کون شخص ہے جو کہ خداوند قدوس کی فرماں برداری کرے گا اور کیا وہ میرے اوپر امین مقرر کرتا ہے اور تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قابل بھروسہ خیال نہیں کرتے پھر وہ آدمی رخصت ہو گیا اور ایک شخص نے اس کو مار ڈالنے کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت مانگی۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ حضرت خالد بن ولید تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کی نسل سے اس طرح کے لوگ پیدا ہوں گے جو کہ قرآن کریم پڑھیں گے لیکن قرآن کریم ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا (یعنی قرآن کریم کا ان پر ادنی ٰ سا اثر نہ ہو گا) وہ لوگ دین اسلام سے اس طریقہ سے نکل جائیں گے جس طریقہ سے کہ تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ اگر ان کو میں نے پا لیا تو میں ان کو قوم عاد کی طرح سے قتل کر ڈالوں گا۔ (واضح رہے کہ مذکورہ لوگوں سے مراد خارجی لوگ ہیں )
اگر کوئی شخص کسی کے قرض کا ذمہ دار ہو تو اس کے لئے اس قرض کیلئے سوال کرنا درست ہے
یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، ہارون بن رئاب، کنانۃ بن نعیم، علی بن حجر، اسماعیل، ایوب، ہارون، کنانۃ بن نعیم، قبیصۃ بن مخارق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے ذمہ ایک قرض لیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں میں حاضر ہو کر سوال (کچھ مانگا) کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صرف تین شخصوں کے واسطے سوال کرنا (مانگنا) جائز ہے۔ ان میں سے ایک تو وہ شخص ہے جس نے کسی قوم کی ذمہ داری (یعنی قرضہ ادا کرنے کی ضمانت لی) اور اس کو ادا کرنے کے واسطے اس نے لوگوں سے سوال کیا پھر جس وقت قرضہ ادا ہو گیا تو اس نے سوال کرنا بھی چھوڑ دیا۔
٭٭ محمد بن نضر بن مساور، حماد، ہارون بن رئاب، کنانۃ بن نعیم، قبیصۃ بن مخارق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک قرضہ کی ذمہ داری (ضمانت) قبول کی تو میں ایک دن کچھ مانگنے کے واسطے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے قبیصہ! تم ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ ہم لوگوں کے پاس کچھ صدقہ خیرات آ جائے اور ہم وہ تم کو دینے کا حکم دیں۔ پھر فرمایا صدقہ خیرات تین قسم کے لوگوں میں سے ایک قسم کے لوگوں کے واسطے جائز ہے ایک تو اس آدمی کے واسطے صدقہ لینا جائز ہے کہ جس نے کہ قرضہ ادا کرنے کی ذمہ داری لی تو اس آدمی کے واسطے سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ اس کی ضرورت کی تکمیل ہو جائے۔ دوسرے وہ آدمی کہ جس پر کوئی مصیبت آئی اور اس کا مال و اسباب برباد کر دیا گیا تو اس کے واسطے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ اس کی مصیبت دور ہو جائے اور تیسرے وہ آدمی جو کہ فقر و فاقہ میں مبتلا ہو اور اس کے بارے میں تین عقل مند لوگ اس بات کی شہادت دیں کہ یہ شخص فاقہ کشی کا شکار ہو گیا ہے تو اس کے واسطے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ اس آدمی کا گزر اوقات ہو اور اس کی ضرورت کی تکمیل ہو جائے۔ اے قبیصہ! ان تین قسم کے لوگوں کے علاوہ جو کوئی دوسرا آدمی سوال (بھیک مانگتا) ہے تو وہ شخص (دراصل) حرام خوری کرتا ہے۔
یتیم کو صدقہ خیرات دینا
زیاد بن ایوب، اسماعیل ابن علیۃ، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، ہلال، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنے بعد تم لوگوں کے بارے میں دنیا کی عیش و عشرت اور رونق سے ڈرتا ہوں جو کہ تم لوگوں کے واسطے کھول دی جائیں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا اور اس کی زیب و زینت کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ ایک آدمی نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیک عمل برائی کو لے آئے گا۔ یہ سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش ہو گئے اس شخص سے لوگ کہنے لگے کیا وجہ ہے کہ تم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کرتے ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہاری گفتگو کا جواب نہیں دیتے۔ پھر ہم لوگوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل ہوئی جس وقت وحی آنے کا سلسلہ موقوف ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (جسم مبارک) سے پسینہ مبارک خشک فرمایا اور ارشاد فرمایا گیا وہ دریافت کرنے والا شخص موجود ہے یقیناً نیکی سے برائی نہیں آتی۔ لیکن تم لوگ دیکھتے ہو کہ موسم بہار میں جو چیزیں اگتی ہیں وہ قتل بھی کرتی ہیں یا قتل کے قریب قریب کر دیتی ہیں مگر یہ کہ جس وقت تک جانور کھاتا ہے تو وہ اس قدر مقدار میں کھاتا ہے اس کی کوکھ پھول جاتی ہے پھر وہ جانور سورج اور دھوپ کی طرف جاتا ہے اور وہ پیشاب اور گوبر کرتا ہے اور پھر چرنے لگ جاتا ہے یہ مال سر سبز اور شاداب ہے مسلمان کی دولت اس کی بہترین دولت ہے بشرطیکہ وہ اس میں سے یتیم مسکین اور مسافر کو دیتا ہو پھر کوئی اس کو ناحق کرے وہ اس جیسا ہے جو کے کھاتا تو ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور وہ ہی مال و دولت قیامت کے روز اس پر شہادت دیں گے۔
رشتہ داروں کو صدقہ دینا
محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن عون، حفصہ، ام رائح، سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسکین کو صدقہ خیرات دینے پر ایک اجر ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینے پر دو اجر ملتے ہیں ایک تو صدقہ کرنے کا اور دوسرے صلہ رحمی کا۔
٭٭ بشر بن خالد، غندر، شعبۃ، سلیمان، ابو وائل، عمرو بن حارث، زینب، عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ محترمہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواتین سے ارشاد فرمایا تم لوگ صدقہ دیا کرو چاہے اپنے زیور ہی صدقہ دو۔ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں (میرے شوہر) عبداللہ بن مسعود بہت زیادہ غریب آدمی تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کیا یہ بات ممکن ہے کہ میں اپنا صدقہ خیرات آپ کو اور آپ کے یتیم بھتیجوں کو دے دیا کروں ؟ اس پر انہوں نے فرمایا تم یہ مسئلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرو۔ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی تو ایک انصاری خاتون کہ جس کا نام زینب ہی تھا یہی حکم دریافت کرنے کے واسطے دروازہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کھڑی تھی۔ اسی دوران حضرت بلال بھی وہاں پہنچ گئے۔ تو ہم نے ان سے عرض کیا کہ جاؤ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تم یہ مسئلہ دریافت کرو۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ہمارا نام مت ذکر کرنا۔ چنانچہ حضرت بلال خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کون ہے ؟ انہوں نے عرض کیا زینب رضی اللہ عنھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کونسی زینب مسئلہ دریافت کر رہی ہیں ؟ بلال نے عرض کیا ایک تو حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ محترمہ اور دوسری قبیلہ انصار کی ایک دوسری خاتون کہ جن کا نام بھی زینب ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا جی ہاں ان کا (شوہر کو) دے دینا درست ہے بلکہ ان کو صدقہ کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور صلہ رحمی کرنے کا بھی۔
سوال کرنے سے متعلق احادیث
ابو داؤد، یعقوب بن ابراہیم، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، ابو عبید، عبدالرحمن بن ازہر، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم لوگوں میں سے کوئی شخص لکڑی کا ایک گھٹا اپنی پشت پر رکھ کر لائے اور فروخت کرے تو یہ اس کے کسی سے سوال کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے پھر یہ ممکن ہے کہ وہ شخص صدقہ دے یا انکار کر دے۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث بن سعد، عبید اللہ بن ابو جعفر، حمزۃ بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی ہمیشہ سوال کرتا ہے تو وہ شخص قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو گا کہ اس کے چہرہ پر کچھ بھی گوشت نہ ہو گا۔
٭٭ محمد بن عثمان بن ابو صفوان ثقفی، امیۃ بن خالد، شعبۃ، بسطام بن مسلم، عبداللہ بن خلیفۃ، عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے کچھ سوال کیا (یعنی بھیک مانگی) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو کچھ عنایت فرما دیا۔ پھر جس وقت وہ شخص رخصت ہونے لگا اور دروازہ کی چوکھٹ پر اس نے پاؤں رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم لوگ یہ جان لو کہ سوال کرنا کس قدر بری حرکت ہے تو کبھی کوئی شخص کسی سے سوال کرنے کے واسطے نہ جاتا (یعنی کوئی بھیک نہ مانگتا)
نیک لوگوں سے سوال کرنا
قتیبہ، لیث، جعفر بن ربیعۃ، بکر بن سوادۃ، مسلم بن مخشی، ابن فراسی، فراسی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا میں سوال کر لیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں اور اگر بغیر سوال کرے کوئی چارہ کار نہ ہو تو تم نیک لوگوں سے سوال کر لیا کرو۔
بھیک سے بچتے رہنے کا حکم
قتیبہ، مالک، ابن شہاب، عطاء بن یزید، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار میں سے کچھ حضرات نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ہم کو کچھ (بھیک) دے دیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو کچھ عنایت فرما دیا۔ ان لوگوں نے دوسری مرتبہ مانگا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عنایت فرما دیا۔ پھر تیسری مرتبہ ان لوگوں نے مانگا تو جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو عنایت فرما دیا۔ یہاں تک کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ان کو دینے کے واسطے کچھ باقی نہ بچا تو ارشاد فرمایا اگر میرے پاس کوئی چیز موجود ہو تو میں اس کو تم لوگوں سے پوشیدہ کر کے نہیں رکھوں گا۔ لیکن جو آدمی مانگنے سے محفوظ رہے گا تو خداوند قدوس اس کو سوال کرنے سے محفوظ فرمائیں گے اور جو کوئی صبر سے کام لے گا تو خداوند قدوس اس کو صبر عطا فرمائیں گے نیز کسی کو بھی صبر سے عمدہ اور کوئی دوسری شئی نہیں عطا کی گئی۔
٭٭ علی بن شعیب، معن، مالک، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تمہارے میں سے کوئی آدمی اپنی رسی لے کر لکڑیوں کا ایک گھٹا اپنی کمر پر لادے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی کے سامنے دست سوال پھیلائے جس کو خداوند قدوس نے عطا فرمایا ہو پھر وہ اس کو کچھ دے یا نہ دے۔
لوگوں سے سوال نہ کرنے کی فضیلت سے متعلق
عمرو بن علی، یحیی، ابن ابو ذئب، محمد بن قیس، عبدالرحمن بن یزید بن معاویہ، ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی مجھ سے لوگوں سے سوال نے کرنے کی ذمہ داری دیتا ہے میں اس کو جنت کی خوشخبری دیتا ہوں۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحیی، ابن حمزۃ، اوزاعی، ہارون بن رئاب، ابو بکر، قبیصۃ بن مخارق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین آدمیوں کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک تو وہ آدمی کہ جس کے مال و دولت پر کوئی آفت یا مصیبت پڑ گئی ہو اور وہ اس قدر سوال کرے کہ اس کا گزارہ ہو جائے اور وہ شخص پھر سوال کرنا چھوڑ دے۔ دوسرے وہ شخص کہ جس نے کسی دوسرے کے قرض کی ضمانت لے لی ہو اور اس کو ادا کرنے کے واسطے وہ شخص سوال کرے اور جس وقت قرض ادا ہو جائے تو وہ شخص سوال کرنا چھوڑ دے۔ تیسرے ایسا آدمی کہ جس کے بارے میں اس کی قوم کے تین عقل مند لوگ خداوند قدوس کی قسم کھا کر اس بات کی شہادت دیں کہ اس شخص کے واسطے مانگنا جائز ہے۔ یہاں تک کہ اس کا گزارہ ہو جائے اور پھر وہ شخص بھی مانگنا چھوڑ دے۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے کے واسطے مانگنا حرام ہے۔
دولت مند کون ہے ؟
احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، سفیان ثوری، حکیم بن جبیر، محمد بن عبدالرحمن بن یزید، وہ اپنے والد سے ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی اپنے پاس بقدر ضرورت مال و دولت ہونے کے باوجود لوگوں سے مانگتا ہے تو وہ شخص قیامت کے دن ایسی حالت میں حاضر ہو گا کہ اس کا چہرہ نوچ لیا گیا ہو گا (یعنی اس کے چہرہ پر گوشت نہ ہو گا) لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس قدر مال دولت اس کے سوال نہ کرنے کے واسطے کافی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پچاس درہم یا اس کے بقدر سونا۔
لوگوں سے لپٹ کر مانگنا
حسین بن حریث، سفیان، عمرو، وہب بن منبہ، معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گڑگڑا کر لپٹ کر نہ مانگا کرو اس لئے کہ جس وقت کوئی آدمی مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو پسند نہیں کرتا اور اللہ اسی میں برکت عطا فرمائے گا جو میں اس کو دیتا ہوں۔
٭٭ احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، سفیان بن عیینہ، داؤد بن شابو ر، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس چالیس درہم موجود ہوں اور وہ شخص سوال کرتا ہو تو یہ لپٹ کر مانگنے اور سوال کرنے والا ہے۔
٭٭ قتیبہ، ابن ابو رجال، عمارۃ بن غزیۃ، عبدالرحمن بن ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری والدہ محترمہ نے مجھ کو ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کچھ مانگنے کے واسطے بھیجا تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری جانب چہرہ انور کر کے ارشاد فرمایا جو کوئی لوگوں سے بے پرواہ ہو جائے (یعنی لوگوں کے مال دولت کی طرف نظر نہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس کو غنی (مالدار بنا دیتے ہیں ) اور جو شخص لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچ جائے تو خداوند قدوس اس کو بھیک سے محفوظ رکھتے ہیں اور جو کوئی ایک اوقیہ کے برابر مال ہونے کے باوجود مانگتا ہے تو وہ لپٹ کر مانگنے والا ہے (مراد یہ ہے کہ مانگنے والے میں بے جا اصرار کرتا ہے ) میں نے دل میں سوچا کہ میری اونٹنی یا قوۃ ایک اوقیہ سے تو بہتر ہے اس وجہ سے میں واپس آ گیا اور میں نے بھیک نہیں مانگی۔
جس شخص کے پاس دولت نہ ہو لیکن اس قدر مالیت کی اشیاء موجود ہوں
حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو اسد کے ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ میں اور میرے گھر والے بقیع (قبرستان) گئے تو میری اہلیہ نے مجھ سے بیان کیا کہ تم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاؤ اور تم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ کھانے کے واسطے مانگ لاؤ چنانچہ میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا۔ (میں نے دیکھا کہ) وہاں پر ایک دوسرے صاحب بھی موجود تھے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ مانگ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے پاس تم کو دینے کے واسطے کچھ نہیں ہے۔ اس پر وہ آدمی رخ بدل کر جانے لگا اور یہ کہتا ہوا چل دیا کہ اس ذات کی قسم کہ جس نے مجھ کو زندگی بخشی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی کو (صدقہ) دیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ شخص اس بات پر ناراض ہو رہا ہے کہ میرے پاس اس کو دینے کے واسطے کچھ موجود نہیں۔ اگر تمہارے میں سے کوئی آدمی ایک اوقیہ یا اس مالیت کی شئی کا مالک ہونے کے باوجود سوال کرتا ہے تو یہ ناجائز ہے اسدی بیان کرتے ہیں کہ مجھ کو خیال ہوا کہ میرے پاس تو ایک اونٹ موجود ہے جو کہ اوقیہ سے بہتر ہے اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے چنانچہ میں واپس ہو گیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ نہیں مانگا۔ پھر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جو اور خشک انگور پیش کئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے حصہ عنایت فرمایا۔ یہاں تک کہ خداوند قدوس نے ہم کو مستغنی فرما دیا (یعنی مانگنے کی ضرورت نہ رہی)۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو بکر، ابو حصین، سالم، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مالدار صحت مند اور طاقتور آدمی کے واسطے صدقہ لینا جائز نہیں ہے۔
کمانے کی طاقت رکھنے والے شخص کے واسطے سوال کرنا
عمرو بن علی و محمد بن مثنی، یحیی، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عبید اللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ان سے نقل کیا وہ دونوں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں صدقہ سے کچھ مانگنے کے واسطے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان پر نگاہ دوڑائی اور ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم لے لو۔ کہیں مالدار اور کمانے کی طاقت رکھنے والے کا صدقہ میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
حاکم وقت سے سوال کرنا
احمد بن سلیمان، محمد بن بشر، شعبۃ، عبدالملک، زید بن عقبہ، سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بھیک مانگنا زخمی کرنا ہے اس وجہ سے جس شخص کا دل چاہے وہ لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنے چہرہ کو زخمی کر لے اور جس کا دل چاہے نہ کرے ہاں اگر کوئی آدمی بادشاہ سے یا حاکم سے کوئی اس قسم کی چیز مانگ لے کہ جس کے بغیر گزر نہ ہو سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ضروری شے کے واسطے مانگنے کا بیان
محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، عبدالملک، زید بن عقبہ، سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مانگنا (اپنے چہرہ کو) نوچ ڈالنا ہے اور مانگنے والا اپنے چہرہ کو نوچ ڈالتا ہے۔ لیکن بادشاہ سے سوال کرنے والا یا کسی شئی سے متعلق سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٭٭ عبدالجبار بن العلاء بن عبدالجبار، سفیان، زہری، عروۃ، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک مرتبہ سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو کچھ عنایت فرمایا پھر میں نے دوسری مرتبہ سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر عنایت فرمایا۔ پھر تیسری مرتبہ سوال کیا تو جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عنایت کیا اور ارشاد فرمایا حکیم! یہ مال دولت سر سبز اور شیریں ہے جو کوئی اس کو خوشی سے قبول کرے گا تو اس کے واسطے برکت عطا فرما دی جائے گی اور جو شخص لالچ سے کام لے گا تو اس کو خیر و برکت عطا نہیں کی جائے گی اور وہ آدمی اس شخص کی طرح ہو گا جو کہ کھاتا تو ہے لیکن وہ شکم سیر نہیں ہوتا نیز اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہونے سے متعلق
احمدبن سلیمان، مسکین بن بکیر، الاوزاعی، الزہری، سعید بن المسیب، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ زیر نظر حدیث شریف کا مفہوم سابقہ حدیث کے مطابق ہے اس لئے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔
٭٭ ربیع بن سلیمان بن داؤد، اسحاق بن بکر، وہ اپنے والد سے ، عمرو بن حارث، ابن شہاب، عروۃ بن زبیر و سعید بن مسیب، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف کا مضمون بھی سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔ البتہ اس میں یہ اضافہ ہے اس پر حکیم بن حزام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے آج کے بعد سے مرنے تک میں کسی سے کوئی چیز نہ لوں گا (یعنی میں اب کبھی بھی سوال نہیں کروں گا)۔
جس کسی کو خداوند قدوس بغیر مانگے عطا فرمائے
قتیبہ، لیث، بکیر، بسر بن سعید، ابن ساعدی مالکی سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ کو صدقہ وصول کرنے کے واسطے متعین فرمایا تو میں جس وقت فارغ ہوا تو میں نے ان کو صدقہ لے جا کر دے دیا تو میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ خدمت رضائے الٰہی حاصل کرنے کے واسطے انجام دی تھی۔ اس کا اجر بھی وہی عطا فرمائے گا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں جو کچھ دے رہا ہوں تم وہ لے لو کیونکہ میں نے بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک خدمت انجام دی تھی اور یہی بات کہی تھی کہ جو تو نے ابھی ابھی مجھ سے کہی تھی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم بغیر مانگے ہوئے کوئی شئی عنایت کر دی جائے تو تم وہ شئی قبول کر لیا کرو پھر چاہے تم وہ شئی کھالو یا اس کو صدقہ خیرات کر دو۔
٭٭ سعید بن عبدالرحمن، ابو عبید اللہ مخزومی، سفیان، زہری، سائب بن یزید، حویطب بن عبدالعزی، عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ ملک شام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا میں نے سنا ہے کہ تم مسلمانوں کا کوئی کام انجام دیتے ہو اور تم اس کا معاوضہ نہیں لیتے ہو۔ حضرت عبداللہ کہنے لگ گئے کہ میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں خیریت سے ہوں اس وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ میں کچھ خدمت انجام دوں وہ مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔ اس بات پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میری بھی یہی خواہش تھی جو کہ تمہاری خواہش تھی چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو مال دولت عطا فرماتے تو میں کہتا کہ اس میں عنایت فرما دیں جو کہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مال دولت خداوند قدوس بغیر مانگے اور بغیر کسی قسم کی لالچ کے تم کو عنایت فرما دیں تم اس کو قبول کر لیا کرو۔ پھر تم چاہے اس کو پاس رکھو یا صدقہ خیرات کرو لیکن اگر کوئی مال دولت خداوند قدوس تم کو نہ عطا کرے تو تم کو اس کو حاصل کرنے کی جد و جہد نہ کرنی چاہیے (کیونکہ مال نہ دینے کی مصلحت وہی خوب جانتا ہے )
٭٭ کثیر بن عبید، محمد بن حرب، الزبیدی، الزہری، السائب بن یزید، حویطب بن عبد العزی، عبداللہ بن السعدی، یہ حدیث شریف بھی گزشتہ احادیث کی طرح ہے (اس لئے ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے )۔
٭٭ عمرو بن منصور و اسحاق بن منصور، الحکم بن نافع، شعیب، الزہری، السائب بن یزید، حویطب بن عبد العزی، زیر نظر حدیث کا مفہوم بھی گزشتہ حدیث جیسا ہے۔
٭٭ عمرو بن منصور، حکم بن نافع، شعیب، زہری، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر، عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو (مال و دولت) عنایت فرماتے تو میں عرض کرتا کہ جو شخص مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو عطا فرما دیں۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو مال عطا کیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! مال اس کو عنایت فرما دیں جو کہ مجھ سے زیادہ مال دولت کا ضرورت مند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم وہ قبول کرو اور اس کو استعمال میں لے آؤ اور اس کا صدقہ کر دو اور اگر تمہارے بغیر مانگے ہوئے یا لالچ کے تمہارے پاس مال آ جائے تو تم وہ مال قبول کر لیا کرو ورنہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کیا کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل و عیال کو صدقہ لینے کیلئے مقرر کرنے سے متعلق احادیث
عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن حارث بن نوفل ہاشمی، عبدالمطلب بن ربیعۃ بن حارث سے روایت ہے انہوں نے حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم دونوں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں عرض کرو کہ ہم کو صدقہ کی وصولی کے واسطے مقرر کر دیا جائے۔ اس دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی وہاں تشریف لے آئے۔ انہوں نے فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم دونوں میں سے کسی کو صدقات کی وصولی پر مقرر نہیں فرمائیں گے۔ حضرت عبدالمطلب بیان فرماتے ہیں پھر میں اور حضرت فضل خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور اپنی حاضری کا مقصد عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا صدقہ خیرات لوگوں کا میل کچیل ہے جو کہ آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل و عیال کے واسطے جائز نہیں ہے۔
کسی قوم کا بھانجا اسی قوم میں شمار ہونے سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابو ایاس سے دریافت کیا کہ آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث شریف سنی کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی قوم کا بھانجا بھی ان ہی میں سے شمار ہو گا تو انہوں نے (جواب میں ) فرمایا جی ہاں سنی ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، وکیع، شعبۃ، قتادۃ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی قوم کا بھانجا بھی ان ہی میں سے ہے۔
کسی قوم کا آزاد کیا ہوا غلام (یعنی مولی ٰ) بھی ان ہی میں سے ہے
عمرو بن علی، یحیی، شعبۃ، حکم، ابن ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ بنو مخزوم کے ایک آدمی کو صدقہ خیرات وصول کرنے کے واسطے عامل متعین فرمایا اس موقعہ پر ابو رافع نے بھی خواہش ظاہر کی کہ میں بھی ان ہی کے ساتھ چلا جاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہمارے واسطے صدقہ خیرات لینا حلال نہیں ہے اور کسی قوم کا مولی (یعنی آزاد کردہ غلام) بھی ان ہی میں سے ہے (یعنی اس کا شمار بھی اسی قوم میں سے ہو گا)۔
صدقہ خیرات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے حلال نہیں ہے
زیاد بن ایوب، عبدالواحد بن واصل، بہز بن حکیم اپنے والد صاحب اور ان کے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دریافت فرماتے یہ ہدیہ ہے یا صدقہ خیرات ہے ؟ اگر وہ چیز صدقہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ کھاتے اور ہدیہ ہوتا تو کھانے کے واسطے ہاتھ بڑھاتے۔
اگر صدقہ کسی شخص کے پاس ہو کر آئے ؟
عمرو بن یزید، بہز بن اسد، شعبۃ، حکم، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو خرید کر اس کو آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکان نے شرط لگائی کہ ہم اس کا ترکہ لیں گے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتائی تو فرمایا تم اس کو خرید لو اور آزاد کر دو ولاء (مرنے والا جو چھوڑتا ہے وہ تو) اسی کا ہوتا ہے جو کہ آزاد کرتا ہے پھر جس وقت اس کو آزاد کیا گیا تو اختیار دیا گیا کہ دل چاہے تو شوہر کے پاس رہے یا اس کو چھوڑ دے پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں گوشت پیش کیا گیا اور عرض کیا گیا یہ بریرہ کو صدقہ میں ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ اس کے واسطے صدقہ تھا اور ہمارے واسطے تو یہ ہدیہ ہے۔ نیز بریرہ کا خاوند آزاد شخص تھا۔
صدقہ خیرات میں دیا ہوا مال کا دوبارہ خریدنا کیسا ہے ؟
محمد بن سلمہ و الحارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، زید بن اسلم، عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے راہ خدا میں ایک گھوڑا صدقہ کیا تو وہ جس آدمی کو ملا تھا اس نے اس کی اچھی طرح سے دیکھ بھال نہیں کی۔ میں نے خواہش کی کہ اس سے خرید لوں اس لئے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ یہ کم قیمت میں فروخت کروں گا جس وقت میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہ اس کو ایک درہم کے عوض بھی دے تو تم اس کو نہ خریدنا کیونکہ صدقہ کر کے اس کو واپس لینے والا شخص اس کتے کی مانند ہے جو کہ قے کرنے کے بعد اس کو کھانے لگتا ہے۔
٭٭ ہارون بن اسحاق ، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم بن عبد اللہ، وہ اپنے والد سے ، عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک گھوڑا راہ خدا میں دیا۔ پھر میں نے ایک دفعہ اس گھوڑے کو فروخت ہوتا ہوا دیکھا تو میں نے اس کو خریدنے کا ارادہ کیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے صدقہ کی جانب واپس نہ جاؤ۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، حجین، لیث، عقیل، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا راہ خدا میں دیا۔ پھر ایک روز اسی گھوڑے کو فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو میں نے چاہا کہ میں اس کو خرید لوں لیکن جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے مشورہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنا صدقہ واپس لے لو۔
٭٭ عمرو بن علی، بشر و یزید، عبدالرحمن بن اسحاق ، زہری، حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عتاب بن اسید کو انگور کا اندازہ لگانے کا حکم فرمایا تاکہ خشک ہونے کے بعد اس کی زکوٰۃ دے دی جائے جس طریقہ سے کہ کھجوروں کی زکوٰۃ تیار ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔
مناسک حج سے متعلقہ احادیث
فرضیت و وجوب حج
محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، ابو ہشام و مغیرۃ بن سلمہ، ربیع بن مسلم، محمد بن زیاد، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور ارشاد فرمایا خداوند قدوس نے تم پر حج فرض قرار دیا ہے ایک شخص نے عرض کیا کیا ہر سال۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو واجب ہوتا اور اگر واجب ہوتا تو تم نہ کر سکتے۔ اگر میں کچھ بیان نہ کروں تو تم بھی مجھ سے سوال نہ کیا کرو۔ اس لئے کہ اگر کوئی چیز شروع ہو گئی تو میرا تو کام ہی یہی ہے کہ تم لوگوں تک (پیغام) پہنچاؤں کیونکہ تم سے قبل امتیں سوالات کی تشریح اور اپنے پیغمبروں کے بارے میں اختلاف کی وجہ سے ہلاک اور برباد کر دی گئیں۔ اس وجہ سے اگر میں تم کو کسی کام کا حکم دوں تو تم لوگ اپنی قدرت کے مطابق اس پر عمل کیا کرو اور اگر کسی کام سے منع کروں تو تم لوگ اس سے بچا کرو۔
٭٭ محمد بن یحیی بن عبداللہ نیسابو ری، سعید بن ابو مریم، موسیٰ بن سلمہ، عبدالجلیل بن حمید، ابن شہاب، ابو سنان، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور فرمایا خداوند قدوس نے تم پر حج فرض قرار دیا ہے اس پر حضرت اقرع بن حابس نے عرض کیا کیا ہر سال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے اور پھر ارشاد فرمایا اگر میں کہہ دیتا تو حج ہر سال لازم ہو جاتا اور پھر تم لوگ نہ سنتے اور نہ فرما برداری کرتے لیکن حج ایک ہی مرتبہ ادا کرنا لازم ہے۔
عمرہ کے وجوب سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، نعمان بن سالم، عمرو بن اوس، ابو رزین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والد ماجد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں وہ نہ تو حج کر سکتے ہیں نہ عمرہ اور نہ وہ اونٹ پر چڑھ سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کرو۔
حج مبرور کی فضیلت
عبدۃ بن عبداللہ صفار بصری، سوید، ابن عمرو کلبی، زہیر، سہیل، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئی صلہ نہیں ہے اور ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
٭٭ عمروبن منصور، حجاج، شعبہ، اہیل، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
فضیلت حج سے متعلق
محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کون سا عمل سب سے زیادہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس پر ایمان لانا۔ اس نے پھر دریافت کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا راہ خدا میں جہاد کرنا۔ اس نے عرض کیا اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حج مبرور۔
٭٭ عیسیٰ بن ابراہیم، مثرود، ابن وہب، مخرمۃ، وہ اپنے والد سے ، سہیل بن ابو صالح، وہ اپنے والد سے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس کا وفد تین آدمی ہیں۔ غزوہ کرنے والا۔ حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، خالد، ابن ابو ہلال، یزید بن عبد اللہ، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے حج کیا اس گھر کا اور اس نے لغو کلام نہیں کیا اور نہ گناہ کا ارتکاب کیا تو وہ شخص اس طرح سے واپس ہو گا جیسے کہ اس کی ماں نے اس کو آج ہی پیدا کیا (یعنی وہ بالکل گناہ سے پاک و صاف ہو گا)۔
٭٭ ابو عمار حسین بن حریث مروزی، فضیل، ابن عیاض، منصور، ابو حازم، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اس گھر کا حج کیا اور اس دوران نہ تو اس نے فحش کلام کیا اور نہ کوئی گناہ یا نافرمانی کی تو وہ شخص اس طرح سے واپس ہو گا جس طرح سے اس کی ماں نے اس کو آج ہی پیدا کیا ہو۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، حبیب، ابن ابو عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جہاد کرنے کے واسطے نہ نکل جایا کریں۔ کیونکہ میں نے پورے قرآن کریم میں جہاد سے زیادہ افضل عمل نہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ تمہارے واسطے افضل ترین اور سب سے زیادہ بہتر جہاد حج بیت اللہ ہے جو کہ حج مبرور بھی ہے۔
فضیلت عمرہ سے متعلق احادیث
قتیبہ بن سعید، مالک، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ اور حج مبرور کا صلہ جنت ہے۔
حج کے ساتھ عمرہ کرنے سے متعلق
ابو داؤد، ابو عتاب، عزرۃ بن ثابت، عمرو بن دینار، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حج اور عمرہ (دونوں ) ایک کے بعد (ایک یعنی دوسرے کے بعد کیا کرو) اس لئے کہ یہ گناہوں اور غربت کو اس طریقہ سے دور کرتے ہیں جس طریقہ سے کہ آگ کی بھٹی لوہے سے میل کو دور کر دیتی ہے۔
٭٭ محمد بن یحیی بن ایوب، سلیمان بن حبان ابو خالد، عمرو بن قیس، عاصم، شقیق، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ ایک دوسرے کے بعد حج اور عمرہ کیا کرو اس لئے کہ یہ دونوں تنگ دستی اور گناہوں کو اس طریقہ سے دور کرتے ہیں کہ جس طریقہ سے کہ بھٹی لوہے سے سونے اور چاندی سے میل کو دور کر دیتی ہے اور حج مبرور کا اجر و ثواب صرف جنت ہے۔
اس مرنے والے کی طرف سے حج کرنا کہ جس نے حج کی منت مانی ہو
محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک خاتون نے منت مانی کہ وہ حج کرے گی لیکن اس کا انتقال ہو گیا۔ اس خاتون کا بھائی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم غور کرو کہ اگر تمہاری بہن کے ذمہ کسی قسم کا قرض ہوتا تو کیا تم وہ قرضہ ادا کرتے۔ اس نے جواب دیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر خداوند قدوس کا قرض ادا کرنا اس سے زیادہ ادا کرنا ضروری ہے۔
اس مرنے والے کی طرف سے حج کرنا کہ جس نے حج ادا نہ کیا ہو
عمران بن موسی، عبدالوارث، ابو تیاح، موسیٰ بن سلمہ ہذلی، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک خاتون نے سنان بن سلمہ جہنی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرو کہ میری والدہ حج کے بغیر انتقال فرما گئیں کیا میں ان کی جانب سے حج کر سکتی ہوں ؟ تو ایسا کرنا صحیح ہو گا اور ان کی طرف سے حج درست ہو جائے گا؟ انہوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اگر ان کے ذمہ قرضہ ہوتا اور وہ اس کو ادا کرتی تو کیا اس کا قرض ادا نہ ہوتا اس وجہ سے اس کو چاہیے کہ اپنی والدہ کی جانب سے حج ادا کرے۔
٭٭ عثمان بن عبد اللہ، علی بن حکیم الاودی، حمید بن عبدالرحمن رواسی، حماد ابن زید، ایوب سختیانی، زہری، سلیمان بن یسار، ابن عباس فرماتے ہیں ایک خاتون نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے والد ماجد کے بارے میں دریافت کیا کہ ان کا انتقال بغیر حج کئے ہوئے ہو گیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ان کی جانب (اپنے والد کی طرف) سے حج کر لو۔
اگر کوئی آدمی سواری پر سوار نہیں ہو سکتا تو اس کی جانب سے حج کرنا کیسا ہے ؟
قتیبہ، سفیان، زہری، سلیمان بن یسار، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قبیلہ خشعم کی ایک خاتون نے صبح کے وقت مقام مزدلفہ میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! جس وقت خداوند قدوس نے حج فرض قرار دیا تو میرے والد بہت زیادہ بوڑھے ہو گئے تھے اور وہ اونٹ پر بھی نہیں سوار ہو سکتے تھے ؟ کیا میں ان کی جانب سے حج کر سکتی ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔
٭٭ سعید بن عبد الرحمن، ابو عبید اللہ مخزومی، سفیان، ابن طاؤس، ابیہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
جو کوئی عمرہ ادا کر سکے تو اس کی جانب سے عمرہ کرنا کیسا ہے ؟
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، شعبۃ، نعمان بن سالم، عمرو بن اوس، ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والد صاحب بہت بوڑھے ہو گئے ہیں وہ نہ تو حج کر سکتے ہیں نہ عمرہ اور نہ وہ اونٹ پر چڑھ سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے والد کی جانب سے حج اور عمرہ کر لو۔
حج قضا کرنا قرضہ ادا کرنے جیسا ہے
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، مجاہد، یوسف بن زبیر، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قبیلہ خشعم کا ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرے والد بہت زیادہ بوڑھے ہو گئے ہیں اور وہ سوار نہیں ہو سکتے حالانکہ ان کے ذمہ حج کرنا لازم ہے کیا میں ان کی جانب سے حج کروں تو وہ کافی ہو جائے گا یا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تم ان کے سب سے بڑے لڑکے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا اگر تمہارے والد صاحب کے ذمہ کسی قسم کا قرض ہوتا تو کیا تم وہ قرضہ ادا کرتے (یا نہیں )؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم ان کی جانب سے حج بھی کر لو۔
٭٭ ابو عاصم خشیش بن اصرم نسائی، عبدالرزاق، معمر، حکم بن ابان، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم! میرے والد کی وفات ہو گئی ہے وہ حج نہیں کر سکے تھے کیا میں ان کی جانب سے حج ادا کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تمہارے والد صاحب قرض چھوڑتے تو کیا تم ان کا قرض ادا کرتے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر خداوند قدوس کا قرضہ ادا کرنے کا زیادہ حق ہے۔
٭٭ مجاہد بن موسی، ہشیم، یحیی بن ابی اسحاق ، سلیمان بن یسار، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! جس وقت حج فرض قرار دیا گیا تو میرے والد بہت زیادہ بوڑھے ہو گئے تھے (بوجہ کمزوری) اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے تھے اور اگر میں ان کو نہ باندھوں تو مجھ کو اندیشہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کی وفات ہو جائے کیا میں ان کی جانب سے حج کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر ان کے ذمہ قرضہ ہوتا تو تم وہ قرض ادا کرتے یا نہیں اور کیا تمہارے قرض ادا کرنے سے وہ قرض ادا ہوتا؟ اس شخص نے کہا جی ہاں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم اپنے والد صاحب کی جانب سے حج بھی ادا کرو۔
عورت کا مرد کی جانب سے حج ادا کرنا
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، سلیمان بن یسار، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فضل عباس رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سوار تھے کہ قبیلہ خشعم کی خاتون آئی اور اس نے مسئلہ دریافت کیا تو حضرت فضل اس کی جانب دیکھنے لگے اور وہ ان کی جانب دیکھنے لگی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فضل کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔ اس خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! جس وقت خداوند قدوس کی جانب سے بندوں پر حج قرض قرار دیا گیا تو میرے والد صاحب بہت زیادہ بوڑھے ہو گئے تھے اور وہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں حج کر لو راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کاہے۔
٭٭ ابو داؤد، یعقوب بن ابراہیم ، ابی، صالح بن کیسان، ابن شہاب، سلیمان بن یسار، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث جیسا ہے۔
مرد کا عورت کی جانب سے حج کرنے سے متعلق
احمد بن سلیمان، یزید، ابن ہارون، ہشام، محمد، یحیی بن ابو اسحاق ، سلیمان بن یسار، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سوار تھا کہ ایک آدمی حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میری والدہ صاحبہ بہت زیادہ بوڑھی ہو گئی ہیں اگر میں ان کو سوار کرتا ہوں تو وہ بیٹھ بھی نہیں سکتیں اور اگر باندھتا ہوں تو مجھ کو اس کا خوف ہے کہ ان کو قتل نہ کر ڈالوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہاری والدہ پر قرضہ ہے تو کیا تم وہ قرض ادا کرتے۔ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھر تم اپنی والدہ کی جانب سے حج بھی ادا کرو۔
والد کی طرف سے بڑے بیٹے کا حج کرنا مستحب ہے
یعقوب بن ابراہیم الدورقی، عبدالرحمن، سفیان، منصور، مجاہد، یوسف، ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی سے ارشاد فرمایا تم اپنے والد صاحب کے بڑے لڑکے ہو اس وجہ سے تم ان کی جانب سے حج ادا کرو۔
نا بالغ بچہ کو حج کرانے سے متعلق
محمد بن مثنی، یحیی، سفیان، محمد بن عقبہ، کریب، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون نے اپنے بچہ کو اٹھایا اور وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا اس پر بھی حج ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں اور تم کو اجر و ثواب ملے گا۔
٭٭ محمود بن غیلان، بشر بن السری، سفیان، محمد بن عقبہ، کریب، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف کا مضمون سابقہ حدیث جیسا ہے لیکن اس میں اضافہ یہ ہے کہ اس خاتون نے بچہ کو ہودج سے اٹھایا۔
٭٭ عمرو بن منصور، ابو نعیم، سفیان، ابراہیم بن عقبہ، کریب، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون نے اپنے بچہ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کیا اس کے ذمہ بھی حج کرنا ضروری ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں اور تم کو اجر و ثواب ملے گا۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، ابراہیم بن عقبہ، حارث بن مسکین، سفیان، ابراہیم بن عقبہ، کریب، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منو رہ تشریف لے جانے کے لئے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملاقات (مقام) اوقاء پر ایک جماعت سے ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں ؟ انہوں نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کون ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر ایک خاتون نے اپنے بچہ کو ہودج سے نکالا اور دریافت کیا کہ کیا اس بچہ پر حج فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں اور اس کے حج کرنے کا اجر و ثواب تم کو ملے گا۔
٭٭ سلیمان بن داؤد بن حماد بن سعد ابن اخی رشدین بن سعد ابو ربیع و الحارث بن مسکین، ابن وہب، مالک بن انس، ابراہیم بن عقبہ، کریب، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک خاتون کے پاس سے گزرے تو اس کے ہمراہ اس نے گود میں ایک بچہ اٹھایا ہوا تھا۔ اس (خاتون) نے عرض کیا کیا اس بچہ پر حج لازم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ! لیکن اس کے حج کرنے کا اجر و ثواب تم کو ملے گا۔
جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ سے حج کرنے کے واسطے نکلے
ہناد بن سری، ابن ابو زائدۃ، یحیی بن سعید، عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ماہ ذوالقعدہ کے ختم سے پانچ دن قبل حج کی نیت سے نکلے۔ چنانچہ جس وقت ہم لوگ مکہ مکرمہ کے نزدیک پہنچے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ جن کے ہمراہ قربانی کا جانور نہ تھا کہ وہ لوگ طواف کرنے کے بعد احرام کھول ڈالیں۔
میقاتوں سے متعلق احادیث
مدینہ منورہ کے لوگوں کا میقات
قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مدینہ کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ مقام ذدالحلیفہ سے اور ملک شام کے لوگ حجفہ سے اور نجد کے لوگ قرآن المنازل سے احرام باندھا کریں۔ پھر عبداللہ نے کہا مجھ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھ لیا کریں۔
ملک شام کے لوگوں کا میقات
قتیبہ، لیث بن سعد، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو کس جگہ سے احرام کے باندھ لینے کا حکم فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مدینہ منورہ کے لوگ مقام ذدالحلیفہ سے اور ملک شام کے لوگ حجفہ سے اور نجد کے لوگ قرآن سے احرام باندھیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یمن کے باشندوں کو یلملم سے احرام باندھنے کا حکم فرمایا لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ نہیں سنا ہے۔
مصر کے لوگوں کا میقات
عمرو بن منصور، ہشام بن بہرام، معافی، افلح بن حمید، قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ کے لوگوں کے واسطے ذدالحلیفہ اور ملک شام اور مصر والوں کے لئے حجفہ اور عراق کے لوگوں کے واسطے ذات عرق اور یمن کے لوگوں کے واسطے یلملم میقات مقرر فرمایا۔
یمن والوں کے میقات
ربیع بن سلیمان صاحب شافعی، یحیی بن حسان، وہیب و حماد بن زید، عبداللہ بن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ والوں کے واسطے مقام ذدالحلیفہ اور ملک شام والوں کے واسطے حجفہ اور نجد والوں کے واسطے قرآن اور یمن والوں کے واسطے یلملم میقات مقرر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ان لوگوں کے واسطے بھی حج کا میقات مقرر ہے جو کہ یہاں پر رہتے ہیں اور ان لوگوں کے واسطے بھی میقات ہے جو کہ یہاں سے گزریں اور جو اس جگہ کے رہنے والے نہ ہوں ان کے واسطے بھی میقات مقرر ہے۔ پھر جو لوگ ان میقاتوں اور مکہ کے درمیان رہائش رکھتے ہوں ان کا میقات وہی ہے جہاں سے وہ لوگ روانہ ہوں۔ یہاں تک کہ مکہ والوں کا میقات مکہ ہے۔
نجد والوں کے میقات
قتیبہ، سفیان، زہری، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مدینہ منورہ کے لوگ مقام ذدالحلیفہ سے اور ملک شام کے لوگ حجفہ سے اور نجد کے لوگ قرآن سے احرام باندھ لیا کریں۔ پھر مجھ کو بتلایا گیا لیکن میں نے نہیں سنا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل یمن کو یلملم سے احرام باندھنے کا حکم فرمایا۔
اہل عراق کا میقات
محمد بن عبداللہ بن عمار موصلی، ابو ہاشم محمد بن علی، معافی، افلح بن حمید، قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ کے لوگوں کا میقات ذدالحلیفہ مقرر فرمایا پھر اہل مصر کا حجفہ اور اہل عراق کا ذات عرق اور نجد والوں کا قرآن اور یمن کے لوگوں کا میقات یلملم مقرر کیا۔
میقات کے اندر جو لوگ رہتے ہوں ان سے متعلق
یعقوب بن ابراہیم دورقی، محمد بن جعفر، معمر، عبداللہ بن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت حج کے میقات مقرر فرمائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ اور شام کے لوگوں کے واسطے حجفہ اور نجد کے لوگوں کے واسطے قرآن اور یمن کے لوگوں کے واسطے یلملم میقات مقرر فرمایا پھر فرمایا یہ ان لوگوں کے واسطے بھی ہیں جو کہ ان کے پاس سے گزرتے ہیں اور وہ وہاں نہیں رہتے۔ لیکن حج یا عمرے کی نیت سے وہاں پہنچے ہوں پھر جو لوگ ان کے اندر میقات اور مکہ مکرمہ کے درمیان رہتے ہوں ان کا میقات وہ ہی ہے جہاں سے وہ لوگ روانہ ہوں یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کے لوگوں کے واسطے بھی یہی حکم ہے۔
٭٭ قتیبہ، حماد، عمرو، طاؤس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی سند سے گزشتہ حدیث شریف کی طرح یہ حدیث نقل فرمائی گئی ہے۔
مقام ذوالحلیفہ میں رات میں رہنا
عیسیٰ بن ابراہیم بن مثر ود، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام بیداء کے مقام پر ذوالحلیفہ میں رات گزاری اور وہاں کی مسجد میں انہوں نے نماز ادا فرمائی۔
٭٭ عبدۃ بن عبد اللہ، سوید، زہیر، موسیٰ بن عقبہ سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت معرص یعنی ذوالحلیفہ کے نزدیک ٹھہرے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبارک وادی میں ہیں۔
٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام بطحاء میں جو کہ ذوالحلیفہ میں ہے اور اونٹ بٹھلایا اور نماز ادا فرمائی۔
بیداء کے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
اسحاق بن ابراہیم، نضر، ابن شمیل، اشعث، ابن عبدالملک، حسن، انس ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر مقام بیداء پر ادا فرمائی پھر سوار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیداء کے پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے اور حج اور عمرہ کے واسطے نماز ظہر ادا فرمانے کے بعد لبیک کہا۔
احرام باندھنے کے واسطے غسل سے متعلق
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے مقام بیداء پر حضرت محمد بن ابی بکر صاحب زادہ حضرت ابو بکر صدیق کی ولادت ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان سے کہہ دو کہ وہ غسل کر لیں اور لبیک کہیں
٭٭ احمد بن فضالۃبن ابراہیم نسائی، خالد بن مخلد، سلیمان بن ہلال، یحیی، ابن سعید انصاری، قاسم بن محمد، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجۃالوداع کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کرنے کے واسطے نکلے ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس بھی تھیں جس وقت وہ مقام ذوالحلیفہ پہنچ گئے تو اسماء کے پیٹ سے محمد بن ابو بکر کی ولادت ہوئی اس پر ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کو حکم دو کہ غسل کرنے کے بعد احرام باندھ لیں اور حج کی نیت کر لیں پھر حج بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام کام کریں جو کہ دوسرے لوگ کرتے ہیں۔
محرم کے غسل سے متعلق
قتیبہ بن سعید، مالک، زید بن اسلم، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت مسعود بن مخزمہ کے درمیان مقام ابو اء پر اختلاف ہو گیا چنانچہ حضرت ابن عباس فرمانے لگے کہ جو کوئی احرام باندھ چکا ہو تو وہ سر دھو سکتا ہے۔ جب کہ حضرت مسعود کا کہنا تھا کہ وہ سر نہیں دھو سکتا۔ اس بات پر حضرت ابن عباس نے مجھ کو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کے واسطے بھیجا۔ میں ان کے پاس حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان میں ایک کپڑے کی آڑ میں غسل فرما رہے تھے۔ میں نے ان کو السلام علیکم کہا اور بتلایا کہ حضرت ابن عباس نے مجھ کو آپ کی خدمت میں یہ دریافت کرنے کے واسطے بھیجا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر حالت احرام میں ہوتے تو کس طریقہ سے سر مبارک دھویا کرتے تھے۔ انہوں نے کپڑے پر ہاتھ رکھ کر اس کو سر سے نیچاکر دیا۔ یہاں تک کہ ان کا سر مبارک دکھلائی دینے لگا تو پانی ڈالنے والے سے پانی ڈالنے کو کہا پھر اپنا سر دونوں ہاتھوں سے ملا۔ یا پھر دونوں ہاتھ آگے کی جانب لائے پھر پیچھے کی طرف لے گئے اس کے بعد فرمایا میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (واضح رہے کہ سر کے دھونے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک کے بال نہ اکھڑنے پائے بلکہ اسی طرح سے اپنی جگہ قائم رہے
حالت احرام میں زعفران وغیرہ میں رنگا ہوا کپڑا پہننے کی ممانعت کا بیان
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن دینار، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محرم کو زعفران اور ورس (یہ ایک قسم کی رنگین گھاس ہے ) میں رنگ کیا ہوا کپڑا پہن لینے کی ممانعت فرمائی۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، زہری، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ محرم کون سے کپڑے استعمال کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قمیض ٹوپی پائجامہ پگڑی اور زعفران یا ورس میں رنگ دیا ہوا کپڑا نہ پہنے (یہی حکم جراب اور موزوں کا بھی ہے یعنی حالت احرام میں موزہ پہننا بھی ممنوع ہے )۔
حالت احرام میں چوغہ استعمال کرنے سے متعلق
نوح بن حبیب قومسی، یحیی بن سعید، ابن جریج، عطاء، صفوان بن یعلی بن امیۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وحی کے نزول کے وقت دیکھ سکوں۔ چنانچہ ایک دفعہ جس وقت ہم لوگ مقام جعرانہ پر ٹھہر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے قبہ میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل ہونا شروع ہو گئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میری جانب اشارہ فرمایا کہ میں نے اپنا سر قبہ میں داخل کیا تو ایک شخص جبہ میں احرام باندھے ہوئے خوشبو لگا کر آیا اور اس نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اس شخص کے بارہ میں کیا حکم ہے جس نے جبہ پہن لیے بعد احرام باندھ لیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (منہ مبارک سے ) اس قسم کی آواز آ رہی تھی جس طریقہ سے کہ سونے کی حالت میں خراٹے کی آواز آتی ہے جس وقت وحی آنا بند ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت کیا وہ آدمی کہا چلا گیا کہ جس نے ابھی ابھی مجھ سے معلوم کیا تھا۔ چنانچہ لوگ اس کو لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم جبہ اتار دو اور خوشبو دھو ڈالو۔ پھر دوسری مرتبہ احرام باندھو۔ اس جملہ کو راوی حضرت نوح بن حبیب کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے نقل نہیں کیا اور میں اس کو محفوظ نہیں خیال کرتا۔
محرم کے واسطے قمیض پہن لینا ممنوع ہے
قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حالت احرام میں کپڑے پہن لینے سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قمیص پگڑی اور شلوار (پائجامہ) اور ٹوپیاں نہ پہنا کرو اور نہ ہی موزے پہنو۔ لیکن اگر کسی کے پاس جوتے موجود ہوں تو وہ شخص موزے پہن سکتا ہے لیکن ان کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے پھر اس طریقہ سے زعفران یا ورس لگے ہوئے کپڑے بھی حالت احرام میں نہ پہنو۔
حالت احرام میں پائجامہ پہننا منع ہے
عمرو بن علی، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگ حالت احرام میں کون سے کپڑے پہن سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کرتے ، پگڑیاں ، پائجامہ اور موزے نہیں پہنا کرو۔ لیکن اگر تمہارے میں سے کسی شخص کے پاس جوتے موجود نہ ہوں تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن لے۔ پھر جس کپڑے میں زعفران یا ورس لگا ہو تم وہ بھی نہ پہنا کرو۔
اگر تہ بند موجود نہ ہو تو اس کو پائجامہ پہن لینا درست ہے
قتیبہ، حماد، عمرو، جابر بن زید، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے۔ پائجامہ اس محرم کے واسطے ہے کہ جس کے پاس تہبند موجود نہ ہو اور موزے اس کے واسطے ہیں جس کے پاس جوتے موجود نہ ہوں۔
٭٭ ایوب بن محمد وزان، اسماعیل، ایوب، عمرو بن دینار، جابر بن زید، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو تہبند نہ مل سکے تو وہ شخص پائجامہ پہن لے اور جس شخص کو جوتے نہ مل سکیں تو وہ شخص موزے پہن سکتا ہے۔
عورت کے واسطے بحالت احرام (چہرہ پر) نقاب ڈالنا ممنوع ہے
قتیبہ، لیث، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! ہم لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بحالت احرام کون کون سے کپڑے پہن لینے کا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قمیض پائجامہ پگڑیاں ٹوپیاں اور موزے نہ پہنا کرو لیکن اگر کسی کے پاس جوتے موجود نہ ہوں تو اس کو موزے پہن لینے کی اجازت ہے بشرطیکہ ٹخنوں سے نیچے تک ہوں پھر اس طرح کے کپڑے بھی نے پہنا کرو جن میں زعفران یا ورس لگا ہوا ہو اس کے علاوہ یہ کہ خواتین بحالت احرام نہ تو نقاب ڈالیں نہ دستانے پہنیں۔
بحالت احرام ٹوپی پہننے کی ممانعت سے متعلق
قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔ البتہ اس میں فرق صرف یہ ہے کہ زعفران اور ورس (جو کہ عرب کی ایک قسم کی گھاس ہے ) تک پہننے کی ممانعت تک مذکور ہے۔
٭٭ محمد بن اسماعیل و عمرو بن علی، یزید، یحیی، عمر بن نافع، ابیہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف کا مضمون سابقہ حدیث جیسا ہے۔
بحالت احرام پگڑی باندھنا ممنوع ہے
ابو اشعث، یزید بن زریع، ایوب، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ ہم لوگ احرام باندھ لیں تو ہم کیا پہنا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قمیص پگڑی پائجامہ ٹوپی اور موزے نہ پہنا کرو لیکن اگر تم لوگوں کے پاس جوتے موجود نہ ہوں تو ٹخنوں کے نیچے تک موزے پہن لیا کرو (اس کی اجازت ہے )
٭٭ ابو اشعث احمد بن مقدام، یزید بن زریع، ابن عون، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف بھی سابقہ حدیث جیسی ہے۔ البتہ اس میں زعفران یا ورس لگے ہوئے کپڑے پہن لینے کی ممانعت مذکور ہے۔
بحالت احرام موزے پہن لینے کی ممانعت
ہناد بن السری، ابن ابی زائدہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حالت احرام میں قمیص پائجامہ پگڑی ٹوپی اور موزے نہ پہنا کرو۔
(محرم کے پاس) اگر جوتے موجود نہ ہوں تو موزے پہننا درست ہے
اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، ایوب، عمرو، جابر بن زید، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر کسی کو تہبند نہ مل سکے تو پائجامہ پہن لے اور اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ شخص موزے پہن لے لیکن ان کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے۔
موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا
یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، ابن عون، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر محرم شخص کو جوتے نہ مل سکیں تو موزے پہن لے لیکن ان کو ٹخنوں کے نیچے تک سے کاٹ لے۔
عورت کے واسطے بحالت احرام دستانے پہن لینا ممنوع ہے
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو احرام کی حالت میں کون کون سے کپڑے پہن لینے کا حکم فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قمیض پائجامہ (شلوار) اور جراب نہ پہنا کرو لیکن اگر کسی شخص کے پاس جوتے موجود نہ ہوں تو وہ شخص جراب کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن سکتا ہے۔ پھر اس قسم کا کپڑا بھی نہ پہنا کرو کہ جس میں زعفران یا ورس لگا ہو نیز خواتین نہ تو نقاب ڈالیں نہ وہ دستانے (حالت احرام میں ) پہنا کریں۔
بحالت احرام بالوں کو جمانے سے متعلق
عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، عبداللہ بن عمر، اخیہ، حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے احرام کھول دیا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ کرنے کے بعد بھی نہیں کھولا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے بالوں کو جمایا ہے اور قربانی کی تقلید بھی کی ہے اس وجہ سے حج تک احرام نہ کھولوں گا۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح و حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے (ایک دن) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بال جمائے ہوئے تھے اور لبیک فرما رہے تھے۔
بوقت احرام خوشبو لگا نے کی اجازت سے متعلق
قتیبہ، حماد، عمرو، سالم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے دیکھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگائی اسی طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام کھولنے کے وقت بھی اپنے ہاتھوں سے خوشبو لگائی۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام سے قبل اور احرام کھولنے کے وقت طواف سے قبل خوشبو لگائی۔
٭٭ حسین بن منصور بن جعفر نیسابو ری، عبداللہ بن نمیر، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ زضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھنے کے واسطے اور احرام کھولنے کے واسطے اور احرام کھولنے کے بعد خوشبو لگائی۔
٭٭ سعید بن عبدالرحمن ابو عبید اللہ مخزومی، سفیان، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھنے کے وقت اور احرام کھولنے کے وقت خوشبو لگائی اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف سے قبل خوشبو لگائی۔
٭٭ عیسیٰ بن محمد ابو عمیر، ضمرۃ، اوزاعی، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احرام باندھنے کے وقت اور احرام کھولتے کے وقت خوشبو لگائی لیکن وہ تم لوگوں کی خوشبو جیسی نہیں تھی۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، عثمان بن عروۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کس قسم کی خوشبو لگائی تھی؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمدہ قسم کی خوشبو لگائی تھی احرام باندھنے کے وقت بھی اور احرام کھولنے کے وقت بھی۔
٭٭ احمد بن یحیی بن وزیر بن سلیمان، شعیب بن لیث، وہ اپنے والد سے ، ہشام بن عروۃ، عثمان بن عروۃ، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احرام باندھنے کے وقت نہایت عمدہ قسم کی خوشبو لگائی تھی۔
٭٭ احمد بن حرب، ابن ادریس، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احرام باندھنے کے وقت بھی خوشبو لگائی اور احرام کھولنے کے وقت بھی اور طواف سے قبل بھی اپنے پاس جو خوشبو موجود تھیں ان میں سے سب سے عمدہ قسم کی خوشبو لگائی۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، منصور، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احرام سے قبل اور قربانی کے دن طواف بیت اللہ شریف سے قبل ایسی قسم کی خوشبو لگائی کہ جس میں مشک شامل ہوتی ہے۔
٭٭ احمد بن نصر، عبداللہ بن ولید، سفیان، محمد بن عبداللہ بن مبارک، اسحاق ، ازرق، سفیان، حسن بن عبید اللہ، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک سر میں خوشبو کی مہک دیکھ رہی ہوں اور (ایسا لگ رہا ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت احرام میں ہیں اور ایک دوسری روایت ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانگ میں مشک کی مہک محسوس کر رہی ہوں۔
٭٭ محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانگ میں خوشبو کی مہک نظر آتی تھی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت احرام میں ہوتے تھے۔
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
محمد بن قدامہ، جریر عن منصور، ابراہیم ، الاسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس حدیث شریف کا مضمون سابقہ حدیث جیسا ہے۔
٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، منصور، ابراہیم ، الاسود، عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون حدیث جیسا ہے۔
٭٭ حمید بن مسعدہ، بشر، ابن المفضل، شعبہ، الحکم، ابراہیم ، الاسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث جیسا ہے۔
٭٭ بشر بن خالد العسکری، محمد، غندر، شعبہ، سلیمان، ابراہیم ، الاسود، عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث جیسا ہے۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو احوص، ابو اسحاق ، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں گویا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانگ میں میں خوشبو دیکھتی ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لبیک فرما رہے ہیں۔
٭٭ قتیبہ وہناد بن سری، ابو احوص، ابو اسحاق ، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت احرام باندھنے کی نیت فرماتے تو آپ کے پاس خوشبوؤں میں سے سب سے عمدہ قسم کی خوشبو ہوتی یہاں تک کہ اس کا اثر اور اس کی چمک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک اور ڈاڑھی مبارک میں نظر آتی۔
٭٭ عبدۃ بن عبد اللہ، یحیی بن آدم، اسرائیل، ابو اسحاق ، عبدالرحمن بن اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احرام باندھنے سے قبل میرے پاس جو عمدہ قسم کی خوشبو ہوتی ان میں سے سب سے اعلی ٰقسم کی خوشبو لگائی یہاں تک کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ڈاڑھی اور سر مبارک میں اس کی چمک دیکھتی۔
٭٭ عمران بن یزید، علی بن حجر، سفیان، عطاء بن سائب، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانگوں میں تین روز کے بعد بھی خوشبوں کی چمک نظر آتی۔
٭٭ علی بن حجر، شریک، ابو اسحاق، اسود، عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث شریف کا مضمون حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ حمید بن مسعدۃ، بشر، ابن مفضل، شعبۃ، ابراہیم بن محمد بن منتشر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر سے احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بیان فرمایا کہ میرے نزدیک قطران کا تیل ملنا خوشبو لگانے سے کہیں بہتر ہے۔ اس حدیث کے راوی نقل فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بتلائی تو انہوں نے ارشاد فرمایا خدا تعالیٰ ابو عبدالرحمن پر رحم فرمائے میں تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خوشبو لگاتی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور جس وقت صبح ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خوشبو (کی مہک) پھوٹ رہی ہوتی۔
٭٭ ہناد بن السری، وکیع، مشعر، سفیان، ابراہیم بن محمد، منتشر، ابیہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون حدیث 2708 کے مطابق ہے البتہ اس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احرام باندھ لیتے۔
محرم کے واسطے زعفران لگانا
اسحاق بن ابراہیم، اسماعیل، عبدالعزیز، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زعفران لگانے کی ممانعت ارشاد فرمائی۔
٭٭ کثیر بن عبید، بقیۃ، شعبۃ، اسماعیل بن ابراہیم، عبدالعزیز بن صہیب، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زعفران لگانے کی ممانعت ارشاد فرمائی۔
٭٭ قتیبہ، حماد، عبدالعزیز، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زعفران لگانے سے منع فرمایا۔ حدیث شریف کے راوی حضرت حماد فرماتے ہیں ممانعت مذکورہ کا تعلق مردوں سے ہے۔
محرم شخص کے واسطے خلوق کا استعمال
محمد بن منصور، سفیان، عمرو، عطاء، صفوان بن یعلی کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عمرہ کے واسطے احرام باندھا ہوا تھا اور سلے ہوئے کپڑے پہن کر اس نے خوشبو لگا رکھی تھی چنانچہ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں نے عمرہ کی نیت کر رکھی ہے میرے واسطے کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے جس طریقہ سے حج کا فریضہ انجام دیا تھا۔ تم اسی طرح سے کرو اس نے عرض کیا حج کے دوران تو میں اس (خوشبو) سے پرہیز کیا کرتا تھا اور میں حج کے دوران اس کو دھویا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس طریقہ سے حج کے واسطے کرتا تھا اسی طریقہ سے عمرہ کے واسطے بھی کرو۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، وہب بن جریر، وہ اپنے والد سے ، قیس بن سعد ی حدث، عطاء، صفوان بن یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (مقام) جعرانہ پر ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اس نے جبہ پہن رکھا تھا اور اس نے ڈاڑھی اور سر کو زعفران سے زرد رنگ کا بنا رکھا تھا وہ شخص عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے عمرہ کے واسطے احرام باندھا ہے اور میری جو حالت ہے اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ملاحظہ فرما رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم جبہ اتار دو اور زردی دھو ڈالو۔ اور تم جس طریقہ سے حج میں کیا کرتے تھے تم اسی طرح سے کرو۔
محرم کے واسطے سرمہ لگانا
قتیبہ، سفیان، ایوب بن موسی، نبیہ بن وہب، ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر محرم کی آنکھوں یا سر میں تکلیف ہو جائے تو وہ ایلوے کا لیپ کرے۔
محرم کے واسطے رنگین کپڑے استعمال کرنے کی کراہت سے متعلق
محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کے بارے میں ہم نے دریافت کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یعنی مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد جو کچھ مجھ کو اب معلوم ہو گیا اگر مجھے اس سے پہلے معلوم ہوتا تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لے کر آتا اور میں عمرہ کرتا۔ اس وجہ سے جس شخص کے پاس قربانی کا جانور (یعنی ہدی نہ ہو) وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول ڈالے۔ اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ملک یمن سے اور مدینہ منورہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہدی یعنی قربانی کا جانور ساتھ لے کر آئے تھے ان حضرات نے دفعتا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ رنگین لباس زیب تن کئے ہوئے تھیں اور انہوں نے سرمہ بھی لگا رکھا تھا۔ اور میں نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رنگین کپڑے پہن رکھے ہیں اور انہوں نے سرمہ بھی لگا رکھا ہے پھر یہ بات ہے کہ وہ یہ بھی فرما رہی ہیں کہ مجھ کو میرے والد ماجد (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس طرح کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں یہ بات درست ہے وہ سچ کہہ رہی ہیں میں نے ہی اس طرح کا حکم دیا تھا۔
محرم کا سر اور چہرہ ڈھانکنے سے متعلق
محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی اونٹ سے نیچے گر گیا تو اس کی گردن ٹوٹ گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اس کو دو کپڑے ہی غسل دو نیز اس کا چہرہ اور سر ننگے رکھو اس لئے کہ قیامت کے دن یہ اس طریقہ سے لبیک کہتے ہوئے اٹھے گا۔
٭٭ عبدۃ بن عبداللہ صفار، ابو داؤد یعنی حفری، سفیان، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کا انتقال ہوا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اس کے کپڑوں میں اس کو کفن دو پھر اس کا چہرہ اور سر ڈھانک دو اس لیے کہ قیامت کے روز یہ شخص لبیک کہتا ہوا اٹھے گا
حج افراد کا بیان
عبید اللہ بن سعید و اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، مالک، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف حج کے واسطے احرام باندھا۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ابو الاسود، محمد بن عبدالرحمن، عروۃ بن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف حج کے واسطے احرام باندھا (یعنی حج فرد کے لئے )۔
٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، ہشام، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم لوگ ماہ ذوالحجہ سے کچھ دن قبل حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (تم میں سے ) جو کوئی حج کا احرام باندھنا چاہے تو وہ شخص حج کا اور جو شخص عمرہ کا احرام باندھنا چاہے تو وہ شخص عمرہ کا احرام باندھے۔
٭٭ محمد بن اسماعیل طبرانی ابو بکر، احمد بن محمد بن حنبل، یحیی بن سعید، شعبۃ، منصور و سلیمان، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے تو میرے خیال کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف حج ہی کی نیت فرمائی تھی۔
حج قران سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابو وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں الصبی بن معبد کا بیان ہے کہ میں ایک عیسائی اعرابی تھا جس وقت میں نے اسلام قبول کیا تو جہاد کی بڑی خواہش اور تمنا تھی۔ لیکن مجھ کو علم ہوا کہ میرے ذمہ حج اور عمرہ دونوں واجب ہیں تو میں اپنے خاندان کے ایک شخص کے پاس پہنچا۔ اس کا نام ہدیم بن عبداللہ تھا۔ میں نے اس شخص سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ دونوں (حج اور عمرہ) تم ساتھ ساتھ ہی ادا کر لو اور پھر آسانی اور سہولت کے ساتھ جو تم قربانی کر سکو وہ کرو اس بات پر میں نے دونوں (یعنی حج اور عمرہ) کی نیت کر لی۔ بہرحال جس وقت میں (مقام) عذیب پہنچا تو میری ملاقات سلمان بن ربعیہ اور حضرت زید بن صرحان سے ہوئی اس وقت یہ حج اور عمرہ دونوں کے واسطے لبیک کہہ رہا تھا (یعنی حج اور عمرہ میں مشغول تھا) اس بات پر ان سے ایک نے دوسرے سے کہا یہ شخص اپنے اونٹ سے زیادہ عقل و شعور نہیں رکھتا ہے پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا امیرالمومنین! میں نے اسلام قبول کر لیا اور میرے دل میں جہاد کی تمنا ہے چونکہ میرے ذمہ حج اور عمرہ دونوں لازم ہیں اس واسطے میں ہدیم بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دریافت کیا تو وہ فرمانے لگے کہ دونوں ایک ساتھ ہی ادا کر لو اور پھر (اگر قربانی کا جانور مل جائے تو) قربانی کرو۔ بہرحال جس وقت میں مقام عذیب پہنچ گیا تو مجھ سلمان بن ربعیہ اور حضرت زید بن صرحان مل گئے اور دونوں ایک دوسرے سے کہنے لگے یہ شخص تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ عقل و شعور نہیں رکھتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے تم کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت بتلا دی گئی ہے (یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تم کو مطلع کر دیا گیا ہے )
٭٭ اسحاق بن ابراہیم ، مصعب بن مقدام، زاہدہ، منصور، شقیق، صبی اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، ابراہیم بن الحسن، حجاج، ابن جریج، خسن بن مسلم، مجاہد، رجل من العراق،شقیق بن سملمہ، ابو وائل، رجل من بنی تغلب، صبی بن معبد، اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ عمران بن یزید، عیسی، ابن یونس، اشعث، مسلم البطین، علی بن حسین، مروان بن حکم رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں میں ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حج اور عمرہ دونوں کے واسطے لبیک کہتے ہوئے سنا تو بیان کیا کہ کیا تم کو اس کی ممانعت نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں منع تو کیا گیا ہے لیکن میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے کہتے ہوئے سنا ہے اس وجہ سے میں تمہارے کہنے کی وجہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مبارک نہیں چھوڑ سکتا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ابو عامر، شعبۃ، حکم، علی بن حسین، مروان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے متعہ حج اور عمرہ کو اکٹھا کرنے سے (یعنی قرآن) کی ممانعت فرمائی اسی لئے ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو یہ سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اس طرح کہنے کو ممانعت قرار دیا ہے اور تم وہی کام کر رہے ہو۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے میں تو سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کسی کے کہنے کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم ، نضر، شعبہ، اس حدیث شریف کا مضمون سابقہ حدیث کے جیسا ہے۔
٭٭ معاویہ بن صالح، یحیی بن معین، حجاج، یونس، ابو اسحاق ، براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملک یمن کا حاکم مقرر فرمایا تو میں اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا۔ جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرماتے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم نے کونسی شئی کی نیت کی ہے ؟ اس پر میں نے عرض کیا جس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اور عمرہ کی نیت کی ہے میں نے بھی اسی طریقہ سے نیت کی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو قربانی کا جانور ساتھ لے کر آیا ہوں اور قِران کی نیت کی ہے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرات صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا اگر مجھ کو پہلے اس بات کا علم ہو جاتا جو کہ اس وقت حاصل ہوا تو میں بھی اسی طریقہ سے کرتا۔ جس طریقہ سے تم لوگوں نے کیا ہے (یعنی جو عمل تم نے کیا ہے ) لیکن میں تو قربانی اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں اور میں نے قِران کی نیت کی ہے (یعنی حج اور عمرہ دونوں کی نیت کی ہے ) اس وجہ سے میں احرام نہیں کھول سکتا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی صنعانی، خالد، شعبۃ، حمید بن ہلال، مطرف، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اور عمرہ ایک ساتھ فرمایا اور اس سے منع کرنے سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی اور نہ ہی قرآن مجید میں اس کی حرمت سے متعلق کوئی آیت کریمہ نازل ہوئی۔
٭٭ عمرو بن علی، خالد، شعبۃ، قتادۃ، مطرف، عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اور عمرہ ایک ساتھ فرمایا اس کے بعد نہ تو قرآن مجید میں اس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی حکم نازل ہوا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی ممانعت ارشاد فرمائی چنانچہ ان کے بارے میں ایک آدمی نے اپنے خیال کے موافق عمل کیا۔
٭٭ ابو داؤد، مسلم بن ابراہیم، اسماعیل بن مسلم، محمد بن واسع، مطرف بن عبد اللہ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ (حج) تمتع کیا۔
٭٭ مجاہد بن موسی، ہشیم، یحیی و عبدالعزیز بن صہیب و حمید الطویل و یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، عبدالعزیز بن صہیب و حمید و یحیی بن ابو اسحاق، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا (یعنی حج اور عمرہ دونوں کے واسطے لبیک فرماتے )۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو احوص، ابو اسحاق ، ابو اسماء، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دونوں کے واسطے لبیک فرماتے ہوئے سنا۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، حمید طویل، بکربن عبداللہ مزنی، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حج اور عمرہ دونوں کے واسطے لبیک کہتے ہوئے سنا جس وقت میں نے یہ بات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بتلائی تو فرمانے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف حج کے واسطے لبیک فرمایا تھا۔ حضرت بکربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول بتلایا تو فرمانے لگے کیا تم ہم کو بچے خیال کرتے ہو۔ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے کہتے ہوئے سنا ہے
حج تمتع کے متعلق احادیث
محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، حجین بن مثنی، لیث، عقیل، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں تمتع فرمایا۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے عمرہ اور پھر حج ادا فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حج میں قربانی کے واسطے جانور اپنے ہمراہ ذوالحلیفہ لے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے عمرہ کرنے کے واسطے احرام باندھا اور اس کے بعد حج کے لئے احرام باندھا۔ اس طریقہ سے دوسرے لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تمتع کیا۔ اس وجہ سے چند حضرات قربانی کا جانور ساتھ لے کر گئے اور بعض حضرات نے قربانی نہیں کی جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں نے فرمایا تمہارے میں سے جو لوگ قربانی کا جانور ہمراہ لائے ہیں وہ حج سے فارغ ہونے تک احرام نہ کھولیں اور ان کے واسطے جو اشیاء حرام ہو گئیں تھیں وہ حج سے فراغت تک حرام ہی رہیں گی۔ لیکن جو حضرات (ہدی) قربانی کا جانور ہمراہ لے کر نہیں آئے ان کو چاہیے کہ وہ حضرات خانہ کعبہ کا طواف اور سعی صفا و مروہ اور حلق کرانے کے بعد احرام کھول دیں اور اس کے بعد حج کرنے کے واسطے دوسری مرتبہ احرام باندھ لیں اور قربانی کر لیں اور جس کسی کو قربانی کرنے کا موقعہ نہ مل سکے تو اس کو چاہیے کہ وہ تین روز ایام حج میں اور سات روز مکان واپس ہونے کے بعد روزے رکھ لے۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کا طواف فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پہلے حجر اسود کا بوسہ دیا اس کے بعد تین طواف میں تیزی کے ساتھ چلے اور چار طواف میں اپنی عادت مبارکہ کے مطابق چلے۔ پھر جس وقت آپ طواف خانہ کعبہ سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت ادا فرمائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام پھیرنے کے بعد صفا کی جانب روانہ ہو گئے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔ اور سات طواف فرمائے پھر حج ہونے تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت احرام میں ہی رہے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ذوالحجہ کی) دسویں تاریخ کو قربانی فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ واپس تشریف لے گئے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام کھول دیا اس وجہ سے جو حضرات قربانی کے جانور ساتھ لے گئے تھے انہوں نے بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمل مبارک کے مطابق ہی عمل فرمایا۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن حرملۃ، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنھما نے حج کا فریضہ انجام دیا تو راستہ ہی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمتع کرنے کی ممانعت فرمائی۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا جس وقت تم لوگ دیکھو کہ وہ روانہ ہو گئے ہیں تو تم اس وقت روانہ ہو جانا۔ اسی طریقہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء نے عمرہ کی نیت فرمائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو منع نہ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو تمتع کرنے کی ممانعت فرماتے ہیں انہوں نے جواب میں فرمایا جی ہاں۔ پھر انہوں نے فرمایا کیا تم نے یہ بات نہیں سنی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج تمتع کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اس پر فرمایا جی ہاں۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ابن شہاب، محمد بن عبداللہ ابن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کو جس سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج فرمایا تمتع کا ذکر فرماتے ہوئے سنا چنانچہ حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ فرمانے لگے حج تمتع تو وہی شخص کر سکتا ہے جو کہ حکم خداوندی سے جاہل ہو اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے میرے بھائی کے صاحب زادے ! تم نے ایک غلط بات کہہ ڈالی ضحاک نے کہا کہ عمر بھی اس کی ممانعت فرماتے ہیں۔ اس بات پر حضرت سعد نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی تمتع فرمایا اور ہم لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ اسی طریقہ سے کیا ہے۔
٭٭ محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، حکم، عمارۃ بن عمیر، ابراہیم بن ابو موسی، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا تمتع کے جائز ہونے کا فتوی ٰتھا ایک دن ایک آدمی نے ان سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے بعض فتوی ٰاس وقت تک نہ صادر کریں کہ جس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حضرت امیر المومنین سے ملاقات نہ ہو جائے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کا علم نہیں ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا حکم فرمایا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس بات پر میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا مجھ کو اس بات کا علم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے عمل فرمایا ہے لیکن مجھ کو یہ بات پسندیدہ نہیں محسوس ہوئی کہ لوگ اراک کے نزدیک اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کریں اور صبح صبح حج کرنے کے واسطے روانہ ہوں تو ان کے سروں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں۔
٭٭ محمد بن علی بن حسن بن شقیق، وہ اپنے والد سے ، ابو حمزۃ، مطرف، سلمہ بن کہیل، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم میں تم کو حج تمتع کرنے سے منع کرتا ہوں جب کہ اس سے متعلق حکم قرآن مجید میں بھی مذکور ہے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی حج تمتع سے فرمایا ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، ہشام بن حجیر، طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا آپ کو اس بات کا علم ہے کہ میں نے (مقام) مروہ کے نزدیک حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال مبارک کو کترا تھا؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حلق کیا تھا) انہوں نے فرمایا نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ یہ حضرت معاویہ تمتع کی ممانعت بیان فرماتے ہیں حالانکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج تمتع فرمایا تھا۔
٭٭ محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، قیس، ابن مسلم، طارق بن شہاب، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں مقام بطحاء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا تم نے کس شئی کا احرام باندھا ہے۔ میں نے عرض کیا جس شئی کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تم قربانی کا جانور ساتھ لے کر آئے ہو؟ اس پر میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھر بیت اللہ شریف اور کوہ صفا اور مروہ کا طواف کرنے کے بعد احرام کھول دو۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کرنے کے بعد اپنی ایک خاتون کے نزدیک آیا تو اس نے میرے سر میں کنگھا کیا اور سر کو دھویا۔ اس لیے میں ابو بکر صدیق اور عمرفاروق رضی اللہ عنہما کے خلافت کے زمانہ میں اسی بات کا فتوی ٰدیتا رہا حتی کہ ایک حج کے وقت میں کھڑا تھا کہ ایک آدمی آیا اور وہ بیان کرنے لگا کہ آپ کو اس کا علم نہیں حضرت امیرالمومنین نے آپ کے بعد حج کے بارے میں کوئی نیا حکم صادر فرمایا ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا اگر ہم لوگوں کا عمل قرآن مجید پر ہے تو حکم یہی ہے کہ حج اور عمرہ کو رضائے الٰہی کے واسطے انجام دو اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقہ مبارک کے مطابق ہمارا عمل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولا؟
٭٭ ابراہیم بن یعقوب، عثمان بن عمر، اسماعیل بن مسلم، محمد بن واسع، مطرف، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج تمتع فرمایا اور ہم لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تمتع کیا ہے۔ لیکن ایک آدمی نے اس سلسلہ میں (اپنے خیال کے مطابق عمل کیا ہے ) اپنی رائے کے مطابق بیان کیا۔
لبیک کہنے کے وقت حج یا عمرہ کے نام نے لینے کے بارے میں
یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد اپنے والد ماجد سے نقل فرماتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ ایک دن حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ہم نے حج نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متعلق معلوم کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ میں نو حج پورے فرمائے اور اس کے بعد دسویں مرتبہ یہ اعلان کیا گیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال حج بیت اللہ شریف کے واسطے تشریف لے جائیں گے۔ اس بات پر مدینہ منورہ میں کافی لوگ جمع ہو گئے اور ان تمام ہی حضرات کا یہ خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تقلید میں حج کریں اور اس طریقہ سے حج کریں کہ جس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حج کریں۔ اس وجہ سے جس وقت ماہ ذوالقعدہ کے مکمل ہونے میں صرف پانچ روز باقی رہ گئے۔ تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روانہ ہوئے ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہم لوگوں کے درمیان حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی پر نزول قرآن ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن مجید کی تفسیر اور اس کے مفہوم سے بخوبی واقف تھے۔ اس لیے جس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمل فرماتے تھے اسی طریقہ سے ہم لوگ بھی عمل کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جس وقت ہم لوگ روانہ ہوئے تو صرف حج کی نیت سے روانہ ہوئے تھے۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید و حارث بن مسکین، سفیان، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں ہم لوگ صرف حج کرنے کی نیت سے روانہ ہو گئے تھے کہ جس وقت مقام سرف آئے تو مجھ کو (اچانک) حیض آنا شروع ہو گیا۔ اس واسطے جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے تو میں اس وقت رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم کو حیض آنا شروع ہو گیا ہے ؟ اس پر میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ ایک سلسلہ ہے کہ جس کو خداوندتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی لڑکیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے اس وجہ سے تم وہ سب کام انجام دو جو کام بحالت احرام دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں لیکن تم (ایسی حالت میں ) خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا۔
دوسرے کسی شخص کی نیت کے موافق حج کرنے سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں ملک یمن سے واپس آیا تو (دیکھا کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام بطحاء میں اونٹ بٹھلائے ہوئے تھے کہ جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فریضہ حج انجام دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے حج کا ارادہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کس طریقہ سے ؟ میں نے عرض کیا میں نے اس طریقہ سے نیت کی تھی میں بالکل اسی طرح نیت کرتا ہوں کہ جس طریقہ کی نیت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی تھی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم طواف کرو اور کوہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد احرام کھول دو۔ بہرحال میں نے حکم کے مطابق اس طریقہ سے عمل کیا اور پھر ایک خاتون کے پاس پہنچا اس نے میرے سر کی جوئیں نکال دیں پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک اسی طریقہ سے لوگوں کو فتوی ٰدیتا رہا کہ ایک روز ایک آدمی نے کہا اے ابو موسیٰ تم اس طرح فتوی ٰدینا ترک کر دو اس لئے کہ تم کو علم نہیں کہ تمہارے بعد میں حضرت امیر المومنین نے حج کے بارے میں نیا حکم جاری فرمایا ہے۔ یہ سن کر میں نے لوگوں سے کہا کہ میں نے جس کو فتویٰ بتلایا ہو تو وہ شخص اس پر عمل نہ کرے اس لئے کہ حضرت امیر المومنین خود تشریف لانے والے ہیں۔ تم ان ہی کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔ بہرحال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر ہم لوگ قرآن کریم پر عمل کرتے ہیں تو وہ ہم کو (دونوں یعنی حج اور عمرہ کو) پورا کرنے کا حکم فرماتا ہے اور اگر ہم لوگ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولا
٭٭ محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ان کے والد نے بیان کیا کہ ہم لوگ جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا علی رضی اللہ عنہ ملک یمن سے اپنی قربانی کے واسطے جانور (ھدی) لے کر آئے تھے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تم نے کیا نیت کی تھی؟ انہوں نے کہا میں نے اس طریقہ سے کہا کہ اے اللہ! میں بھی اس شئی کی نیت کرتا ہوں کہ جس شئی کی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نیت فرمائی ہے اور میں اپنے ہمراہ قربانی کا جانور بھی لے کر آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں پھر احرام نہیں کھولتا۔
٭٭ عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ملک یمن سے اپنے کام سے فراغت کے بعد واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کس چیز کی نیت کی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا جس شئی کی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نیت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم قربانی کر لو اور تم اسی طریقہ سے حالت احرام میں رہو حضرت جابر رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی قربانی کا جانور ہمراہ لے کر آئے تھے۔
٭٭ احمد بن محمد بن جعفر، یحیی بن معین، حجاج، یونس بن ابو اسحاق، ابو اسحاق ، براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا جس وقت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ملک یمن کا امیر متعین فرمایا میں نے ان کے ساتھ چند اوقیہ کی آمدن کی۔ اس کے بعد جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں واپس تشریف لائے تو فرماتے ہیں میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے پورے مکان میں خوشبو کر رکھی ہے جس وقت میں نے ان سے کہا کہ تم نے غلط بات کی ہے تو انہوں نے جواب دیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام کو احرام کھولنے کا حکم فرمایا ہے تو آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو اسی طرح کی نیت کی ہے جو نیت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا تم نے کس طرح سے نیت کی ہے ؟ میں نے عرض کیا جس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نیت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو ہدی یعنی قربانی کا جانور ساتھ لے کر آیا ہوں اور میں نے قِران کی نیت کی ہے۔
اگر عمرہ کا احرام باندھ لیا ہو تو وہ ساتھ میں حج کر سکتا ہے ؟
قتیبہ، لیث، نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس سال حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر سے لڑائی کرنے کے واسطے پہنچا تو اس سال حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حج کرنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ ان کو بتلایا گیا کہ وہاں تو لڑائی شروع ہونے والی ہے اور مجھ کو خدشہ ہے کہ وہ لوگ آپ کو منع نہ کر دیں وہ لوگ کہنے لگے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تقلید کرنا زیادہ بہتر ہے اس وجہ سے میں وہی کام کروں گا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کرتے تھے (یعنی میں تو پوری طرح سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع کروں گا) اور میں تم کو گواہ مقرر کرتا ہوں کہ میں نے اپنے ذمہ عمرہ کرنا لازم کیا ہے اور پھر وہ وہاں سے نکل گئے اور مقام بیداء پہنچ گئے تو فرمایا حج اور عمرہ دونوں ایک ہی ہیں میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے تو دونوں چیزیں اپنے ذمہ لازم کر لی ہیں اور میں نے ساتھ ہی ساتھ ایک قربانی کا جانور (اپنے ذمہ لازم کر لیا ہے ) منتخب کر لیا ہے اور ساتھ لے کر روانہ ہو گئے۔ جو کہ انہوں نے مقام قدید سے خریدا پھر دونوں کے واسطے لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ گئے پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔ اس سے زیادہ نہیں کیا نہ تو آپ نے قربانی فرمائی اور نہ ہی بال منڈوائے۔ نہ بال کتروائے اور نہ احرام کھولا یہاں تک کہ قربانی کے دن پہلے قربانی کی اور سر کے بال منڈوائے (یعنی حلق کرایا) اور خیال ظاہر فرمایا کہ طواف اول سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف ادا ہو گیا۔ اس کے بعد فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طریقہ سے عمل فرمایا تھا۔
کیفیت تلبیہ سے متعلق احادیث
عیسیٰ بن ابراہیم، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے تلبیہ کہتے ہوئے سنا یعنی اے خداوند قدوس میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں۔ تمام قسم کی تعریف اور تمام قسم کی نعمتیں تیرے ہی واسطے ہیں اور شہنشاہیت بھی تیری ہی قائم ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذوالحلیفہ میں دو رکعت ادا فرمانے کے بعد اپنے اونٹ کو کھڑا کرتے اور ذولحلیفہ کی مسجد کے نزدیک ہی مذکورہ بالا کلمات فرماتے۔
٭٭ احمد بن عبداللہ بن الحکم، محمد بن جعفر، شعبہ، زید، ابو بکر، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف کا مضمون سابقہ روایت کے جیسا ہے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طریقہ سے لبیک پڑھتے تھے آخر تک۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، ابو بشر، عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تلبیہ اس طریقہ سے تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس میں ان الفاظ کا اضافہ فرماتے یعنی میں حاضر ہوں۔ اے اللہ میں حاضر ہوں۔ میری نیک بختی تیری فرمانبرداری میں ہے اور تمام کی تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے رغبت بھی تیری ہی طرف سے ہے اور عمل بھی تیرے ہی واسطے ہے۔
٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، ابان بن تغلب، ابو اسحاق ، عبدالرحمن بن یزید، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طریقہ سے پڑھتے تھے
٭٭ قتیبہ، حمید بن عبدالرحمن، عبدالعزیز بن ابو سلمہ، عبداللہ بن فضل، اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طریقہ سے تلبیہ کہتے تھے امام نسائی فرماتے ہیں کہ مجھ کو اس بات کا عمل نہیں ہے کہ عبدالعزیز کے علاوہ بھی کسی دوسرے راوی نے حضرت عبداللہ بن فضل سے متصل سند کے ساتھ روایت نقل کی ہو۔ اسماعیل بن امیہ نے اس کو ان سے ہی مرسلا نقل اور روایت فرمایا ہے۔
تلبیہ کے وقت آواز بلند کرنا
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، عبداللہ بن ابو بکر، عبدالملک بن ابو بکر، خلاد بن سائب اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک روز حضرت جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام کو حکم فرما دیں کہ وہ حضرات (تلبیہ) لبیک اونچی آواز سے پڑھا کریں۔
وقت تلبیہ
قتیبہ، عبدالسلام، خصیف، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا کرنے کے بعد تلبیہ پڑھا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر، اشعث، حسن، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام بیداء پر نماز ظہر ادا فرمائی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیداء کی پہاڑ پر چڑھنے کے بعد حج اور عمرہ کے واسطے تلبیہ پڑھا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر سے فارغ ہو گئے تھے۔
٭٭ عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، جعفر بن محمد اپنے والد سے اور وہ جابر رضی اللہ عنہ سے حج نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذوالحلیفہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مقام بیداء پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لبیک کہنا شروع کیا۔
٭٭ قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، موسیٰ بن عقبہ، سالم، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا تم لوگوں کا یہی (مقام) بیداء ہے کہ جس کے بارے میں تم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھوٹ باندھتے تھے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب غلط بات منسوب کرتے تھے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام ذوالحلیفہ سے تلبیہ پڑھنے کا آغاز فرمایا تھا۔
٭٭ عیسیٰ بن ابراہیم، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذوالحلیفہ ایک اونٹنی پر سوار ہونے کے بعد جس وقت وہ اونٹنی سیدھی کھڑی ہو جاتی تو لبیک پڑھتے۔
٭٭ عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، صالح بن کیسان، محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، اسحاق ، ابن یوسف، ابن جریج، صالح بن کیسان، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دوران حج حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت تلبیہ پڑھتے یعنی لبیک کہتے کہ جس وقت اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر سیدھی کھڑی ہوتی۔
٭٭ محمد بن العلاء، ابن ادریس، عبید اللہ و ابن جریج و ابن اسحاق و مالک بن انس، مقبری، عبید بن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ اس وقت اور اس کیفیت میں تلبیہ پڑھتے کہ جس وقت آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوتی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی وقت تلبیہ پڑھتے کہ جس وقت اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر کھڑی ہوتی اور روانہ ہوتی۔
جس خاتون کو نفاس جاری ہو وہ کس طریقہ سے لبیک پڑھے ؟
محمد بن عبداللہ بن حکم، شعیب، لیث، ابن ہاد، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نو سال تک حج نہیں فرمایا پھر دسویں سال اعلان کیا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال حج ادا فرمائیں گے۔ اس وجہ سے جس آدمی میں بھی سوار ہونے یا پیدل چلنے کی طاقت تھی وہ شخص لازمی طور پر حاضر ہوا اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جانے کے واسطے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں مشغول ہو گئے جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذوالحلیفہ پہنچ گئے تو اسماء بنت عمیس کے محمد بن ابی بکر کی ولادت مبارکہ ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں عرض کرایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ غسل کرو اور ایک کپڑا رکھ کر لبیک لبیک کہو اس کے بعد انہوں نے اسی طریقہ سے عمل فرمایا (زیر نظر حدیث طویل حدیث کا خلاصہ ہے )۔
٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت اسماء بنت عمیس نے حضرت محمد بن ابی بکر کو جنم دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرایا گیا کہ کیا کیا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو غسل کر کے کپڑے باندھنے اور تلبیہ پڑھنے کا حکم فرمایا۔
اگر کسی خاتون نے عمرہ ادا کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھا اور اس کو حیض کا سلسلہ شروع ہو جائے جس کی وجہ سے حج فوت ہونے کا اندیشہ ہو جائے ؟
قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم لوگ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ صرف فریضہ حج ادا کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھتے ہوئے حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عمرہ کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھتی ہوئی پہنچ رہی تھیں جس وقت ہم لوگ مقام سرف آ گئے تو ان کو حیض کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چنانچہ جس وقت ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور کوہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو حکم فرمایا جو شخص اپنے ہمراہ قربانی کا جانور نہیں لایا تو وہ شخص احرام کھول دے۔ اس پر ہم نے دریافت کیا کہ ہمارے واسطے کون کون سے کام حلال ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر ایک چیز حلال اور جائز ہو جائے گی اس کے بعد ہم لوگوں نے اپنی بیویوں سے ہم بستری بھی کی اور خوشبو کا بھی استعمال کیا اور کپڑے بھی تبدیل کئے جبکہ عرفات کے روز تک صرف چار رات باقی رہی تھیں۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے آٹھویں تاریخ کو احرام باندھ لیا۔ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو اس وقت وہ رو رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کو کیا ہو گیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا مجھ کو حیض آنا شروع ہو گیا ہے اور لوگوں نے تو احرام بھی کھول ڈالا ہے اور میں نہ تو خانہ کعبہ کا طواف کر سکی ہوں اور نہ ہی میں نے احرام کھولا ہے پھر اب اس وقت لوگ حج کرنے کے واسطے پہنچ رہے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ تو (یعنی عورت کے واسطے حیض) ایک ایسی شئی ہے کہ خداوند قدوس نے حضرت آدم علیہ السلام کی لڑکیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے تم لوگ یہ کرو کہ غسل کرنے کے بعد تم حج کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھو۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اسی طریقہ سے کیا اور انہوں نے دوران حج تمام ہی مقامات پر قیام فرمایا۔ پھر وہ جس وقت پاک ہو گئیں (یعنی حیض آنا بند ہو گیا اور غسل بھی فرما لیا) تو انہوں نے خانہ کعبہ کا طواف فرمایا اور صفا اور مروہ (پہاڑوں ) کے درمیان سعی کی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم حج اور عمرہ دونوں سے اب حلال ہو گئی ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے قلب میں یہ خیال آتا ہے کہ میں نے تو حج سے قبل کسی قسم کا طواف نہیں کیا (تو ایسی صورت میں میرا عمرہ کس طریقہ سے ادا ہوا ہو گا ؟) اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر سے فرمایا اے عبدالرحمن تم ان کو لے کر مقام تنعیم چلے جاؤ اور عمرہ کے نیت کرا کے لا۔ یہ واقعہ ایام تشریق کے بعد لیلۃ الحجہ کا واقعہ ہے۔
٭٭ محمد بن سلمہ ، حارث بن مسکین ، ابن قاسم ، مالک ، ابن شہاب ، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں حجۃ الوادع کے موقعہ پر ہم لوگ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ روانہ ہوئے تو ہم نے عمرہ کرنے کی نیت کی۔ پھر آپ نے فرمایا جو شخص قربانی ہمراہ لے کر جا رہا ہے تو وہ شخص عمرہ اور حج کی نیت کرے اور اس شخص کو چاہئے کہ وہ دونوں کام سے فراغت حاصل کرنے کے بعد تک احرام نہ کھولے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں جس وقت مکہ مکرمہ آئی تو مجھ کو حیض آنا شروع ہو گیا جس کی وجہ سے میں خانہ کعبہ شریف کا اور کوہ صفا و مروہ کی کوشش نہ کر سکی۔ اس حیض اور ماہواری کے شروع ہونے کے بارے میں جس وقت میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے عرض کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا تم سر کے بال کھول ڈالو اور تم کنگھا کر لو اور تم حج کی نیت کرو اور عمرہ چھوڑ دو۔ چنانچہ میں نے اسی طریقہ سے کیا چنانچہ میں جس وقت حج سے فارغ ہو چکی تو آنحضرت نے مجھ کو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر کے ہمراہ مقام تنعیم بھیج دیا پھر میں نے عمرہ کیا تو حضرت رسول کریم نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے عمرہ کی جگہ ہے پھر جن لوگوں نے صرف عمرہ کرنے کی نیت کی تھی انہوں نے مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف اور سعی کی اور وہ لوگ حلال ہو گئے اور جس وقت منی سے واپس پہنچی تو ایک اور طواف کیا۔ یعنی ان حضرات نے حج اور عمرہ کی نیت کی تھی انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا۔
حج میں مشروط نیت کر نا
ہارون بن عبد اللہ، ابو داؤد، حبیب، عمرو بن ہرم، سعید بن جبیر و عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت ضباعہ رضی اللہ عنہ نے حج کا ارادہ فرمایا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو مشروط احرام باندھنے کا حکم فرمایا چنانچہ اس نے اس طریقہ سے عمل کیا۔
شرط لگاتے وقت کس طرح کہا جائے ؟
ابراہیم بن یعقوب، ابو نعمان، ثابت بن یزید احول، ہلال بن خباب، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ضباعہ بنت زبیر بنت عبدالمطلب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں حج کرنے کا ارادہ کرنا چاہتی ہوں میں نیت کس طریقہ سے کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس طریقہ سے پڑھو لبیک آخر تک یعنی اے خدا میں حاضر ہوں میرا احرام وہیں تک ہے کہ جس جگہ تو مجھ کو نہ روک دے (یعنی ماہواری وغیرہ آنے کی وجہ سے ) اس وجہ سے کہ جو شئی تم نے مستثنی کی ہے وہ تم لوگوں کے پروردگار کی وجہ سے ہے۔
٭٭ عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، ابو زبیر، طاؤس و عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ضباعہ بنت حضرت زبیر رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک بیمار خاتون ہوں اور میں حج کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم احرام باندھ لو اور تم اس شرط سے ساتھ نیت کر لو کہ میرا احرام اس جگہ تک ہے کہ جس جگہ تک تو مجھ کو منع کرے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ وہشام بن عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ضباعہ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک بیمار خاتون ہوں اور حج کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم حج کرو اور تم اس طریقہ سے حج کرنے کی نیت کر لو کہ میں وہاں پر احرام کھول دوں گی کہ جس جگہ تو نے مجھ کو روک دیا ہے۔
اگر کسی نے بوقت احرام کوئی دوسرے رکن کی شرط نہ رکھی ہو اور اتفاقا حج کرنے سے روک جائے ؟
احمد بن عمرو بن سرح و حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حج میں مشروط نیت کو درست خیال نہیں فرماتے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ کیا تم لوگوں کے لئے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کافی نہیں اگر تمہارے میں سے کسی کو حج سے روک دیا جائے تو طواف اور سعی کرنے کے بعد ہر چیز سے حلال ہو جائے وہ احرام کھول دے اور آئندہ سال حج کی قضا کرے پھر قربانی دے یا اگر میسر نہ ہو تو وہ روزے رکھے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم اپنے والد (ابن عمر) سے نقل فرماتے ہیں وہ حج میں مشروط کو جائز نہیں خیال کرتے تھے ان کا کہنا تھا کیا تمہارے واسطے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کافی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شرط نہیں لگائی تھی چنانچہ اگر کوئی آدمی کسی وجہ سے حج ادا نہ کر سکے تو اس کو چاہیے کہ وہ آنے کے بعد بیت اللہ کا طواف اور سعی کرے اس کے بعد اس کو سر منڈانا (حلق کرانا) چاہیے یا بال کتروائے اور احرام کھول دے اس کے بعد آئندہ سال حج کی قضا کرے۔
قربانی کرنے کے واسطے بھیجے گئے جانوروں کے شعار سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، محمد بن ثور، معمر، زہری، عروۃ، مسور بن مخرمۃ، مروان بن حکم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صلح حدیبیہ کے موقعہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہدی (یعنی قربانی کے جانور) کی تقلید کی (یعنی اس کے گلے میں ہار پہنایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ کے واسطے احرام باندھا)۔
٭٭ عمرو بن علی، وکیع، افلح بن حمید، قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی اونٹنی کا شعار فرمایا۔
کس طرف سے شعار کرنا چاہئے
مجاہد بن موسی، ہشیم، شعبۃ، قتادۃ، ابو حسان اعرج، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی اونٹنی کا شعار دائیں طرف سے فرمایا اور اپنی انگلی سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا خون صاف فرمایا۔
قربانی کے جانور سے خون صاف کرنے کے بارے میں
عمرو بن علی، یحیی، شعبۃ، قتادۃ، ابو حسان اعرج، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذوالحلیفہ میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی قربانی کے جانور کے شعار کا حکم فرمایا۔ چنانچہ اس جانور کے دائیں طرف کے کوہان میں شعار فرمایا گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا خون صاف فرمایا اور اس جانور کے گلے میں دو جوتے لٹکائے پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر مقام بیداء پر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تلبیہ پڑھا۔
(قربانی کا جانور کا) ہار بٹنے سے متعلق احادیث
قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروۃ و عمرۃ بنت عبدالرحمن، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ سے (مکہ مکرمہ) ہدی (یعنی قربانی کا جانور) بھیجتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے جانور کا ہار بٹا کرتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان اشیاء سے پرہیز نہیں فرمایا کرتے تھے کہ جس سے محرم پرہیز کرتا ہے۔
٭٭ حسن بن محمد زعفرانی، یزید، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے واسطے ہار بٹا کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو بھیج دیتے تھے اور اس کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ کام کرتے رہے کہ جو کام ایک غیر محرم کرتا ہے یہاں تک کہ ہدی اپنی جگہ پہنچتی۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، اسماعیل، عامر، مسروق، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے ہار بٹا کرتی تھی اور اس کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احرام نے باندھتے تھے اور مقیم رہتے۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد ضعیف، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے ہار بٹا کرتی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے گلے میں لٹکایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ ہدی روانہ فرماتے لیکن اس کے بعد احرام نہیں باندھتے تھے اور مقیم رہتے۔
٭٭ حسن بن محمد زعفرانی، عبیدۃ، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بکریوں کے واسطے ہار بٹا کرتی تھی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قربانی کے واسطے مکہ بھیجتے تھے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو بھیجنے کے بعد حلال ہی رہتے (اور حالت غیر حرم میں جو افعال ہوتے ہیں وہ کرتے )۔
قربانی کے جانور کے ہار کس چیز سے بانٹے جائیں اس سے متعلق
حسن بن محمد زعفرانی، حسین، ابن حسین، ابن عون، قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے ان ہاروں کو اس اون سے بٹا تھا جو کہ ہمارے پاس تھی۔ پھر صبح ہوئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ تمام افعال انجام دیتے جن کو کہ بغیر احرام کے لوگ انجام دیتے ہیں اسی طریقہ سے وہ افعال بھی کرتے جو کہ مرد اپنی اہلیہ سے کرتا ہے۔ (یعنی ہم بستری وغیرہ)
(قربانی کے جانور) یعنی ہدی کے گلے میں کچھ لٹکانے سے متعلق احادیث
محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کی وجہ کیا ہے کہ لوگوں نے عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تو اپنے بالوں کو جما لیا ہے اور (قربانی کے جانور) ہدی کے گلے میں ہار پہنا دیا ہے اس وجہ سے میں قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولوں گا۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، محمد، معاذ، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، ابو حسان اعرج، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذوالحلیفہ پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہدی کے دائیں طرف کوہان میں اشعار کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے خون صاف فرمایا۔ پھر اس میں دو جوتوں کا ہار ڈالا پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے جس وقت اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر مقام بیداء پر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تلبیہ پڑھی پھر بوقت ظہر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھا اور حج کرنے کی نیت کی۔
اونٹ کے گلے میں ہار ڈالنا
احمد بن حرب، قاسم، ابن یزید، افلح، قاسم بن محمد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قربانی کے واسطے جانوروں ہار اپنے ہاتھوں سے بٹے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ان کے گلے میں ڈالا اور ان ہدی کے جانوروں کا شعار فرمایا (یعنی ان کے جسم پر ہلکا سا نشان زخم کا لگایا تاکہ اس سے یہ واضح ہو جائے کہ یہ قربانی کا جانور ہے ) اور ان جانوروں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کی جانب روانہ فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پر ہی (یعنی مدینہ منورہ) ہی میں تشریف فرما رہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ چیزیں اپنے اوپر حرام نہیں فرمائیں جو کہ احرام باندھنے والوں پر حرام ہوتی ہیں۔
٭٭ قتیبہ، لیث، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے ہار بٹے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے بعد بھی نہ تو احرام باندھے اور نہ ہی سلے ہوئے کپڑے پہننے چھوڑے۔
بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے سے متعلق
اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے واسطے بھیجی جانے والی بکریوں کے ہار بٹا کرتی تھی۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ، سلیمان، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہدی میں بکریاں روانہ فرمایا کرتے تھے۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک دن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بکریاں قربانی کے واسطے مکہ مکرمہ بھیجیں اور ان کے گلے میں ہار لٹکائے۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، اعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قربانی کے واسطے مکہ روانہ کی جانے والی بکریوں کے ہار بٹا کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو روانہ فرمانے کے بعد بھی احرام نہیں باندھا کرتے تھے۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، منصور، ابراہیم ، اسود، عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ حسین بن عیسی، عبدالصمد بن عبدالوارث، وہ اپنے والد سے ، محمد بن جحادۃ، عبدالوارث بن عبدالصمد بن عبدالوارث، محمد بن حجادۃ، حکم، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بکریوں کے گلے میں ہار ڈالتے (یعنی ان کی تقلید کرتے ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو مکہ مکرمہ روانہ فرماتے اور احرام نہیں باندھا کرتے تھے۔
ہدی کے گلے میں دو جوتے لٹکانے سے متعلق احادیث
یعقوب بن ابراہیم، ابن علیۃ، ہشام دستوانی، قتادۃ، ابو حسان اعرج، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مقام ذوالحلیفہ پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کے جانور کے دائیں جانب سے اس کے کوہان میں اشعار فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا خون صاف فرمایا اور اس کے گلے میں دو جوتے لٹکائے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے جس وقت وہ اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر مقام بیداء پر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کرنے کے واسطے لبیک فرمایا نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز کے وقت احرام باندھا۔
اگر قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالے تو کیا اس وقت احرام بھی باندھے ؟
قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہدی بھیجی تو ہم لوگ مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ چنانچہ جس کا دل چاہا اس نے احرام باندھ لیا اور جس کا دل چاہا اس نے نہیں باندھا۔
کیا قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالنے پر احرام باندھنا لازم ہے ؟
اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، مالک، عبداللہ بن ابو بکر، عمر ۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے واسطے میں ہار بٹا کرتی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان ہدی کے جانور میں وہ ہار لٹکا کر میرے والد ماجد (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ روانہ فرماتے اور پروردگار کی حلال کی ہوئی اشیاء میں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوئی شئی نہ چھوڑتے یہاں تک کہ جانور ذبح کر دیئے جاتے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم و قتیبہ، سفیان، زہری، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے (جانور کے ) ہار بٹا کرتی تھی اور ان کو روانہ کرنے کے بعد بھی ان اشیاء میں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پرہیز نہیں فرماتے تھے کہ جن اشیاء سے محرم کے واسطے بچنا لازم ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قربانی کے جانور کے واسطے ہار بٹا کرتی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی شئی سے نہیں بچا کرتے تھے اور ہم لوگ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ حج کرنے والا شخص طواف کے علاوہ کسی اور شئی سے حلال ہوتا ہے۔
٭٭ قتیبہ، ابو احوص، ابو اسحاق، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے واسطے ہار بٹا کرتی تھی اور وہ ہار اس ہدی کے گلے میں ڈال کر اس کو روانہ کر دیا جاتا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقیم رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات سے (ان دنوں ) پرہیز نہیں فرماتے تھے۔
٭٭ محمد بن قدامہ، جریر، منصور، ابراہیم، الاسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے البتہ اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ وہ بکریاں تھیں۔
قربانی کا جانور کو ساتھ لے جانے سے متعلق
عمران بن یزید، شعیب بن اسحاق ، ابن جریج، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حج ادا کرنے کے واسطے قربانی کا جانور ساتھ لے گئے۔
ہدی کے جانور پر سوار ہونا
قتیبہ، مالک، ابو زناد، الاعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن ایک شخص کو ہدی کے اونٹ ہانکتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا تم اس پر سوار ہو جاؤ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ (جانور) تو ہدی کے واسطے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ارشاد فرمایا تم ہلاک ہو جاؤ تم اس پر سوار ہو جاؤ۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدۃ بن سلیمان، سعید، قتادۃ، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو ہدی کا اونٹ ہانکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا تم سوار ہو جاؤ۔ اس شخص نے عرض کیا یہ ہدی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سوار ہو جاؤ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ یہ ہدی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چوتھی مرتبہ ارشاد فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تم اس پر سوار ہو جاؤ۔
جو شخص تھک جائے وہ ہدی کے جانور پر سوار ہو سکتا ہے
محمد بن مثنی، خالد، حمید، ثابت، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو ہدی کا اونٹ ہانکتے ہوئے دیکھا وہ آدمی تھک گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ یہ تو قربانی کرنے کے واسطے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بھی اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس میں قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔
بوقت ضرورت ہدی کے جانور پر سوار ہونے کے بارے میں
عمرو بن علی، یحیی، ابن جریج، ابو زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہدی کے جانور پر سوار ہونے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم مجبور ہو جاؤ تو تم اس پر دستور اور قاعدہ کے موافق سوار ہو سکتے ہو یہاں تک کہ تم کو کوئی دوسری سواری حاصل ہو جائے۔
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ صرف حج کرنے کی نیت و ارادہ سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے جس وقت ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو ہم لوگوں نے طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ جس شخص کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ شخص احرام کھول ڈالے۔ چنانچہ اس حکم پر وہ شخص ہدی کو ساتھ لے کر نہیں آیا تھا وہ حلال ہو گیا۔ اس وقت ازواج مطہرات بھی اپنے اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے کر نہیں آئیں تھیں۔ اس وجہ سے وہ بھی حلال ہو گئیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ چونکہ مجھ کو حیض آ گیا تھا اس وجہ سے میں خانہ کعبہ کا طواف نہ کر سکی تھی۔ اس وجہ سے محصب والی رات میں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! لوگ حج اور عمرہ دونوں سے فراغت کے بعد واپس آئیں گے اور میں صرف حج ہی کر کے واپس ہوں گی؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچے تو تم نے طواف قدوم نہیں کیا تھا؟ اس پر میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم اپنے بھائی کے ہمراہ مقام تنعیم میں پہنچ جاؤ اور تم عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد آنا۔ اس کے بعد تم مجھ سے فلاں جگہ ملاقات کرنا۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، یحیی، عمرو، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صرف حج کرنے کی نیت سے روانہ ہوئے۔ اس وجہ سے جس وقت ہم مکہ مکرمہ کے نزدیک پہنچ گئے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ جو شخص اپنے ساتھ ہدی لے کر نہیں آیا تو وہ شخص حالت احرام ہی میں رہے۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیۃ، ابن جریج، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم لوگوں نے صرف حج احرام باندھا اس کے ساتھ ہم نے کسی دوسری چیز کی نیت نہیں کی تھی چنانچہ جس وقت ہم لوگ چار ذوالحجہ کی صبح کو مکہ مکرمہ پہنچے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے حج کی نیت سے حلال ہو جاؤ اور تم عمرہ کر لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہم لوگوں کی یہ بات پہنچ گئی جس وقت عرفہ کے دن کے (صرف) پانچ دن باقی رہ گئے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو احرام کھول دینے کا حکم فرمایا کہ اس طریقہ سے کہ جس وقت ہم لوگ منی پہنچیں گے تو ہم لوگوں کے عضو تناسل سے منی نکل رہی ہو گی۔ (مذکورہ بالا جملہ سے اپنی اپنی بیویوں سے ہم بستری کرنے کے فوراً بعد بحالت احرام حج کرنے کے واسطے روانہ ہوں گے۔) اس بات پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطاب بھی فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا مجھے علم ہو گیا ہے میں تم لوگوں سے زیادہ نیک عمل اور پرہیزگار ہوں لیکن اگر میرے ہمراہ ہدی نہیں ہوتی تو میں بھی حلال ہوتا اور اگر مجھ کو پہلے ہی اس چیز کا علم ہو جاتا کہ جس چیز کا مجھ کو اب علم ہوا ہے تو میں ساتھ میں ہدی لے کر نہ آتا۔ پھر جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ ملک یمن سے تشریف لائے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے دریافت فرمایا تم نے کس چیز کی نیت کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جس چیز کی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نیت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کے بعد تم لوگ قربانی کا جانور دو اور تم لوگ اس طریقہ سے احرام کی حالت میں رہو پھر سراقہ بن مالک نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہمارا یہ عمرہ صرف اسی سال کے واسطے ہے یا ہمیشہ کے واسطے ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہمیشہ کے واسطے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، عبدالملک، طاؤس، سراقۃ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم نے بھی حج تمتع فرمایا اور ہم لوگوں نے بھی حج تمتع کیا پھر ہم نے عرض کیا کہ یہ خاص طریقہ سے ہمارے واسطے ہے یا ہمیشہ کے واسطے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہمیشہ کے واسطے ہے۔
٭٭ ہناد بن سری، عبدۃ، ابن ابو عروبۃ، مالک بن دینار، عطاء، سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم نے بھی حج تمتع فرمایا اور ہم نے بھی حج تمتع کیا پھر ہم نے عرض کیا کہ یہ صرف اور خاص ہم لوگوں کے واسطے ہے یا ہمیشہ کے لئے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہمیشہ کے واسطے ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالعزیز، دراوردی، ربیعۃ بن ابو عبدالرحمن، حارث بن بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا حج کا توڑ دینا صرف ہم ہی لوگوں کے واسطے ہے یا عام لوگوں کے واسطے بھی یہی حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں بلکہ خاص طریقہ سے ہم لوگوں کے واسطے ہے۔
٭٭ محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، عبدالوارث بن ابو حنیفۃ، ابراہیم تیمی، وہ اپنے والد سے ، ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حج تمتع (خاص طریقہ سے ) تم لوگوں کے واسطے نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی تعلق تم لوگوں سے ہے بلکہ یہ تو ہم صحابہ کرام کے واسطے اجازت کے طریقہ پر تھا۔
٭٭ بشر بن خالد، غندر، شعبۃ، سلیمان، ابراہیم تیمی، وہ اپنے والد سے ، ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حج تمتع صرف ہم لوگوں کے واسطے بطور رخصت تھا۔ (یعنی ہمارے لیے اس کی اجازت تھی)۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، یحیی بن آدم، مفضل بن مہلہل، بیان، عبدالرحمن بن ابو شعثاء فرماتے ہیں ایک دفعہ میں حضرت ابراہیم نخعی اور حضرت ابراہیم تیمی کے ساتھ تھا کہ ان کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس سال حج اور عمرہ ساتھ ہی ساتھ ادا کر لوں اس پر حضرت ابراہیم کہنے لگ گئے اگر تمہارے والد ماجد حیات ہوتے تو وہ اس طریقہ سے نہ سوچتے (یعنی ان کی یہ رائے نہ ہوتی) حضرت ابراہیم نے اپنے والد ماجد کا حوالہ دیتے ہوئے حضرت ابو ذر غفاری کا یہ بیان نقل فرمایا کہ حج تمتع مخصوص طور پر ہم لوگوں کے واسطے تھا۔
٭٭ عبدالاعلی بن واصل بن عبدالاعلی، ابو اسامۃ، وہیب بن خالد، عبداللہ بن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں ہم لوگوں کی یہ رائے تھی کہ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنا سخت مصیبت ہے اور لوگ ماہ محرم کو ماہ صغر کہا کرتے تھے نیز کہتے تھے کہ جس وقت اونٹ کا زخم درست ہو جائے اور اس کے بال میں اضافہ ہو جائے اور ماہ صفر گزر جائے یا اس طرح سے فرمایا کہ ماہ صفر کا آغاز ہو جائے تو عمرہ کرنے والے شخص کے واسطے عمرہ حلال اور درست ہو جاتا ہے لیکن جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار ذوالحجہ کو حج ادا کرے کے لئے لبیک فرماتے ہوئے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو عمرہ میں منتقل فرمانے کا حکم فرمایا یہ بات ان لوگوں کے واسطے گراں گزری تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کس کام سے حلال ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر چیز حلال ہو جائے گی (مطمئن رہو)۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، مسلم، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ کا احرام باندھا اور صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھ لیا اور جس شخص کے پاس ہدی موجود تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو احرام کھول دینے کا حکم فرمایا چنانچہ طلحہ بن عبید اللہ اور ایک دوسرا شخص ان میں ہی شامل ہو گئے تھے جو کہ اپنے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) نہیں لے گئے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے احرام کھول دیا۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، حکم، مجاہد، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ عمرہ ہے جس سے کہ ہم نے نفع حاصل کیا جس شخص کے ساتھ ہدی موجود نہ ہو وہ شخص احرام کھول دے اور اس کے واسطے ہر ایک شئی حلال ہو گئی۔ اس طریقہ سے عمرہ حج میں داخل ہو گیا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید