FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سنت کی آئینی حیثیت

 

حصہ دوم

 

                   سید ابوالاعلیٰ مودودی

 

ٹائپنگ:     قسیم حیدر، فہد کیہر، خاور بلال، ماوراء، محمد شمشاد خاں، محب علوی

تصحیح:       جویریہ مسعود، اعجاز عبید


 

 

 

 

۱۔ بزم طلوع اسلامسے تعلق؟

 

اعتراض: "آپ نے خط و کتابت کی ابتدا میں مجھے "بزم طلوع اسلام” کانمایاں فرد قرار دیا تھا۔ اس پر میں نے آپ کو لکھا تھا کہ میں بزم طلوع اسلام کااہم فرد تو درکنار اس کا ابتدائی یا معمولی کارکن تک نہیں اور تاکیداً لکھا تھا کہآپ اس وضاحت کو شائع کریں۔ آپ نے اسے شائع نہ کیا بلکہ شائع شدہ خط و کتابت میں اسکا اشارہ تک نہ کیا، حالانکہ دیانت کا تقاضا تھا کہ آپ اپنی غلطی کا اعتراف کرتےاور معذرت چاہتے”۔

 

جواب: ڈاکٹر صاحب کی اس شکایت کا جواب خود طلوع اسلام کےصفحات میں کسی اور کی زبانی نہیں بلکہ پرویز صاحب کی زبان سے سننا زیادہ بہتر ہوگا۔ ۸، ۹، ۱۰ اپریل ۱۹۶۰ کو لاہور میں طلوع اسلام کنونشن کی چوتھی سالانہ کانفرنسہوئی تھی۔ اس میں ڈاکٹر عبدالودود کی تقریر سے پہلے پرویز صاحب نے ان کے تعارفکراتے ہوئے فرمایا:

 

"ڈاکٹر صاحب کی رفاقت ہمارے لیے باعث فخر ہے۔۔۔۔ اور انکا سب سے بڑا احسان ہم پر یہ ہے کہ یہ میرے درس قرآنی اور تاریخی کلاس کے ہر لیکچرکا ایک ایک حرف ضبطِ تحریر میں لے آئے ہیں۔ یہ کام بڑی صبر آزما مشقت کا طالب تھاجسے یہ اس حسنِ مسرت سے سرانجام دے رہے ہیں” (طلوع اسلام، مئی، جون ۱۹۶۰، صفحہ۲۵)

 

اب اگر ڈاکٹر صاحب یہ فرماتے ہیں کہ بزم طلوع اسلام کا ابتدائی رکن بھی نہیںہوں تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گاندھی جی فرماتے تھے کہ میں کانگرس کا ۴ آنے والاممبر بھی نہیں ہوں۔ ہر شخص جو طلوع اسلام کی تبلیغ سے واقف ہے، اس مراسلت کو پڑھ کرخود ہی دیکھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے طلوع اسلام ہی بول رہا ہے یا کوئیاور۔

 

۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟

 

اعتراض: آپ نے یہ مراسلتواقعی "بات سمجھنے کے لیے” کی ہوتی تو سیدھی بات سیدھی طرح آپ کی سمجھ میں آ جاتیلیکن آپ کی تو اسکیم ہی کچھ اور تھی۔ آپ نے اپنے ابتدائی سوالات میرے پاس بھیجنے کےساتھ ساتھ کچھ دوسرے علماء کے پاس بھی اس امید پر بھیجے تھے کہ ان سے مختلف جواباتحاصل ہوں گے اور پھر ان کا ایک مجموعہ شائع کر کے یہ پروپیگنڈا کیا جا سکے گا کہ علماءسنت سنت تو کرتے ہیں مگر دو عالِم بھی سنت کے بارے میں ایک متفقہ رائے نہیں رکھتے”۔(ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۶۰)

 

کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو میری اس”سکیم” کا علم کیسے ہوا؟ کیا آپ کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے کہ میری نیت وہی تھی جسےآپ میری طرف منسوب کر رہے ہیں؟”

 

جواب: آدمی کی نیت کا براہ راست علم تو اللہتعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ البتہ انسان جس چیز سے کسی شخص کی نیت کااندازہ کر سکتے ہیں وہ اس شخص کا عمل اور ان لوگوں کا مجموعی طرز عمل ہے جن کےساتھ مل کر وہ کام کر رہا ہو۔ ڈاکٹر صاحب مخالفین سنت کے جس گروہ سے تعاون کر رہےہیں وہ ایڑی چوٹی کا زور یہ ثابت کرنے کے لیے لگا رہا ہے کہ سنت ایک مشتبہ اورمختلفٌ فیہ چیز ہے۔ اس غرض کے لیے جس طرز کا پروپیگنڈا ان لوگوں کی طرف سے ہو رہا ہےاس پر طلوع اسلام کے صفحات اور اس ادارے کی مطبوعات شاہد ہیں۔ ان کاموں کو دیکھ کریہ رائے مشکل ہی قائم کی جا سکتی ہے کہ اس گروہ کے ایک ممتاز فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب کی طرف سے علماء کرام کے نام جو گشتی سوال نامہ بھیجا گیا تھا، وہ خالصعلمی تحقیق کی خاطر تھا۔

 

۳۔ رسول کی حیثیت و حیثیت نبویؐ

 

اعتراض: "اپنی کتاب”تفہیمات” میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ قرآن میں کہیں خفیف سے خفیف اشارہ بھی ایسانہیں ملتا جس کی بنا پر حضورؐ کی رسالت کی حیثیت اور شخصی حیثیت میں کوئی فرق کیاگیا ہو اور اب آپ فرماتے ہیں کہ جو کچھ حضورؐ نے رسول کی حیثیت سے کیا تھا وہ سنتواجب الاتباع ہے اور جو کچھ آپ نے شخصی حیثیت سےکیا تھا وہ واجب الاتباع سنت نہیںہے۔ اس طرح آپ دو متضاد باتیں کہتے ہیں”۔

 

جواب: اسی مراسلت کے سلسلے میں ڈاکٹرصاحب اس بحث کو پہلے چھیڑ چکے ہیں اور ان کو اس کا جواب دیا جا چکا ہے (ملاحظہ ہو، کتاب ہذا، صفحہ ۵۳۔۵۴)۔ میں نے ان سے عرض کیا تھا کہ اگر وہ اس مسئلے کو سمجھناچاہتے ہیں تو میرا مضمون "رسول کی حیثیت شخصی اور حیثیت دنیوی” مندرجہ ترجمانالقرآن، دسمبر ۱۹۵۹ ملاحظہ فرما لیں، جس میں پوری وضاحت کے ساتھ اس مسئلے کی حقیقتبیان کی گئی ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اسے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیںفرمائی۔ چونکہ یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں منکرین حدیث لوگوںکے ذہن میں طرح طرح کی غلط فہمیاں ڈالتے رہتے ہیں اس لیے یہاں اس مضمون کا خلاصہدرج کیا جاتا ہے۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہعلیہ و سلم کی اطاعت کا جو حکم دیا ہے وہ آپ کے کسی ذاتی استحقاق کی بنا پر نہیں ہےبلکہ اس بنا پر ہے کہ آپؐ کو اس نے اپنا رسول بنایا ہے۔ اس لحاظ سے باعتبار نظریہتو آپ کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت میں یقیناً فرق ہے۔ لیکن عملاً چونکہ ایکہی ذات میں شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت دونوں جمع ہیں اور ہم کو آپ کی اطاعتکا مطلق حکم دیا گیا ہے، اس لیے ہم بطور خود یہ فیصلہ کر لینے کے مجاز نہیں ہیں کہہم حضورؐ کی فلاں بات مانیں گے کیونکہ وہ بحیثیت رسولؐ آپ نے کی یا کہی ہے اور فلاںبات نہ مانیں گے کیونکہ وہ آپؐ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ کام خود حضورؐہی کا تھا کہ شخصی نوعیت کے معاملات میں آپ نہ صرف لوگوں کو آزادی عطا فرماتے تھےبلکہ آزادی برتنے کی تربیت بھی دیتے تھے اور جو معاملات رسالت سے تعلق رکھتے تھے انمیں آپؐ بے چون و چرا اطاعت کراتے تھے۔ اس معاملہ میں ہم کو جو کچھ بھی آزادی حاصلہے، وہ رسول پاکؐ کی دی ہوئی آزادی ہے جس کے اصول اور حدود حضورؐ نے خود بتا دیئےہیں۔ یہ ہماری خود مختارانہ آزادی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں بات کو مزید واضح کرنے کےلیے میں نے عرض کیا تھا:

 

"جو معاملات بظاہر بالکل شخصی معاملات ہیں، مثلاً ایکانسان کا کھانا، پینا، کپڑے پہننا، نکاح کرنا، بیوی بچوں کے ساتھ رہنا، گھر کا کامکرنا، غسل اور طہارت اور رفع حاجت وغیرہ۔ وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتمیں خالص نجی نوعیت کے معاملات نہیں ہیں بلکہ انہی میں شرعی حدود اور طریقوں اورآداب کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ شامل ہے۔ مثلاً حضورؐ کے لباس اور آپ کے کھانے پینے کےمعاملہ کو لیجیے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ آپؐ ایک خاص وضع قطع کا لباس پہنتےتھے جو عرب میں اس وقت پہنا جاتا تھا اور جس کے انتخاب میں آپؐ کے شخصی ذوق کا دخلبھی تھا۔ اسی طرح آپؐ وہی کھانے کھاتے تھے جیسے آپؐ کے عہد میں اہل عرب کے گھروںمیں پکتے تھے اور ان کے انتخاب میں بھی آپؐ کے اپنے ذوق کا دخل تھا۔ دوسرا پہلو یہتھا کہ اسی کھانے اور پہننے میں آپؐ اپنے عمل اور قول سے شریعت کے حدود اور اسلامیآداب کی تعلیم دیتے تھے۔ اب یہ بات خود حضورؐ ہی کے سکھائے ہوئے اصول شریعت سے ہمکو معلوم ہوتی ہے کہ ان میں سے پہلی چیز آپؐ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی تھی اوردوسری چیز حیثیت نبویہ ہے۔ اس لیے کہ شریعت نے، جس کی تعلیم کے لیے آپؐ اللہ تعالیٰکی طرف سے مامور کیے گئے تھے، انسانی زندگی کے اس معاملہ کو اپنے دائرۂ عمل میںنہیں لیا ہے  کہ لوگ اپنے لباس کس تراش خراش اور وضع قطع پر سلوائیں اور اپنے کھانےکس طرح پکائیں۔ البتہ اس نے یہ چیز اپنے دائرۂ عمل میں لی ہے کہ کھانے اور پہننے کےمعاملہ میں حرام اور حلال اور جائز اور ناجائز کے حدود متعین کرے اور لوگوں کو انآداب کی تعلیم دے جو اہل ایمان کے اخلاق و تہذیب سے مناسبت رکھتے ہیں”۔

 

اس مضمونکو ختم کرتے ہوئے آخری بات جو میں نے لکھی تھی، وہ یہ ہے:

 

"حضورؐ کی شخصی اورنبوی حیثیتوں میں حقیقت کے اعتبار سے جو بھی فرق ہے وہ عند اللہ اور عند الرسول ہے اور ہمیں اس سے اس لیے آگاہ کیا گیا ہے کہ ہم کہیں عقیدے کی گمراہی میں مبتلا ہو کرمحمدؐ بن عبد اللہ کو اللہ کے بجائے مطاع حقیقی نہ سمجھ بیٹھیں۔ لیکن امت کے لیے توعملاً آپﷺ کی ایک ہی حیثیت ہے اور وہ ہے رسول ہونے کی حیثیت۔ حتیٰ کہ محمدؐ بن عبداللہ کے مقابلے میں اگر ہم کو آزادی حاصل بھی ہوتی ہے تو وہ محمدؐ رسول اللہ کے عطاکرنے سے ہوتی ہے اور محمدؐ رسول اللہ ہی اس کے حدود متعین کرتے ہیں اور اس آزادی کےاستعمال کی تربیت بھی ہم کو محمدؐ رسول اللہ ہی نے دی ہے”۔

 

ان عبارات کو جو شخصبھی ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر پڑھے گا وہ خود رائے قائم کر لے گا کہ منکرین حدیث جسالجھن میں پڑے ہوئے ہیں، اس کا اصل سرچشمہ میری عبارات میں ہے یا ان کے اپنے ذہنمیں۔

 

۴۔ تعلیمات سنت میں فرق مراتب

 

اعتراض: "جن باتوں کے متعلق آپ تسلیم کرتےہیں کہ حضورؐ نے انہیں بحیثیت رسول ارشاد فرمایا یا کیا تھا، ان کے اتباع میں بھیپہلے آپ نے فرق کیا ہے۔ چنانچہ آپ نے تفہیمات حصہ اول، صفحہ ۲۷۹ پر لکھا ہے:

 

"جوامور براہ راست دین اور شریعت سے تعلق رکھتے ہیں ان میں تو حضورؐ کے ارشادات کیاطاعت اور آپ کے عمل کی پیروی طابق الفعل بالفعل کرنی ضروری ہے۔ مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور طہارت وغیرہ مسائل۔ ان میں سے جو کچھ آپؐ نے حکم دیا ہے اور جس طرحخود عمل کر کے بتایا ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنی لازم ہے۔ رہے وہ امور جو براہراست دین سے تعلق نہیں رکھتے، مثلاً تمدنی، معاشی اور سیاسی معاملات اور معاشرے کےجزئیات تو ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا حضورؐ نے حکم دیا ہے یا جن سے بچنے کیحضورؐ نے تاکید فرمائیہے۔ بعض ایسی باتیں ہیں جن میں حضورؐنے حکمت اور نصیحت کی باتیں ارشاد فرمائی ہیں اور بعض ایسی ہیں جن میں حضورؐ کےطرزِ عمل سے ہمیں مکارم اخلاق اور تقوٰیٰ و پاکیزگی کا سبق ملتا ہے اور ہم آپ کےطریقہ کو دیکھ کر یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ عمل کے مختلف طریقوں میں سے کون سا طریقہروح اسلامی سے مطابقت رکھتا ہے”

 

لیکن اب آپ کا موقف یہ ہے کہ اس طرح کی تفریقصحیح نہیں ہے۔

 

جواب: اس عبارت میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ سنت سے جوتعلیمات ہم کو ملتی ہیں، وہ سب ایک ہی درجے اور مرتبے کی نہیں ہیں بلکہ ان کےدرمیان فرقِ مراتب ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح خود قرآن مجید کی تعلیمات میں بھی فرقمراتب ہے۔ ہدایت کے ان دونوں سرچشموں سے جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ سب ایک ہی درجے میںفرض و واجب نہیں ہے۔ نہ ہر حکم کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کے الفاظ کو جوں کا توں ہرحال میں نافذ کیا جائے۔ مثال کے طور پر خود قرآن میں دیکھیے کہ ایک طرف اقیمواالصلٰوۃ و اٰتوا الزکوٰۃ فرمایا گیا جو یقیناً فرض و واجب ہے۔ لیکن اسی طرح کے صیغۂامر میں فرمایا فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنٰی و ثلث و رباع۔۔۔ اور۔۔۔ و اذا حللتمفاصطادوا۔ یہ دونوں ارشادات صیغۂ امر میں ہونے کے باوجود صرف اباحت کو ظاہر کرتےہیں۔ ڈاکٹر صاحب اگر بحث کی خاطر یہ گفتگو نہ کر رہے ہوتے تو ان کے لیے بات کوسمجھنا اس قدر مشکل نہ تھا۔ "تفہیمات” کے جس مضمون (رسالت اور اس کے احکام) سے یہعبارت انہوں نے نقل کی ہے اس کو نکال کر پڑھیے۔ اس میں عبارت سے متصل ہی یہ فقرےموجود ہیں:

"پس اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ حضورؐ کا اتباع کرنا چاہے اور اسیغرض سے آپؐ کی سنت کا مطالعہ کرے تو اس کے لیے یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہکن امور میں آپ کا اتباع مطابق الفعل بالفعل ہونا چاہیے اور کن امور میں آپ کےارشادات اور اعمال سے اصول اخذ کر کے قوانین وضع کرنے چاہئیں اور کن امور میں آپکی سنت سے اخلاق و حکمت اور خیر و صلاح کے عام اصول مستنبط کرنے چاہئیں”۔

 

میںناظرین سے گزارش کروں گا کہ اگر وہ میری یہ کتاب فراہم کر سکیں تو اس پورے مضمون کوملاحظہ فرمائیں تاکہ منکرین حدیث کے ذہن کی وہ اصل کیفیت ان کے سامنے بے نقاب ہوجائے جس کے زیر اثر انہوں نے ٹھیک اس مضمون میں اپنی الجھن کا سامان تلاش کیا ہے جوان کی بیشتر الجھنوں کو رفع کر سکتا تھا۔ البتہ اس مضمونکو پڑھتے وقت یہ بات ملحوظرکھیں کہ اس میں جن پرویز صاحب کا ذکر ہے وہ ۱۹۳۵ ء کے پرویز صاحب ہیں نہ کہ آجکے۔۔ اس وقت وہ گمراہی کے بالکل ابتدائی سرے پر تھے اور آج معاملہ فی ضلال بعید سےگزر کر ضلالت کی پیشوائی تک پہنچ چکا ہے۔

 

۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالوپن؟

 

اعتراض: "ایک طرف آپ تفہیمات میں فرماتے ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ ایسے امورہیں جن کا تعلق براہ راست دین اور شریعت سے ہے لیکن تمدنی، معاشی اور سیاسی معاملاتکا تعلق براہ راست دین سے نہیں ہے اور دوسری طرف آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ "اقامت دینسے مراد ہی اسلام کے مطابق تمدنی، معاشی، سیاسی نظام قائم کرنا ہے”۔ حیرت ہے کہ اگران امور کا تعلق براہ راست دین سے نہیں تو پھر اقامت دین سے مراد ان امور سے متعلقنظام قائم کرنا کیسے ہو گا۔ اس کے بعد اس حقیقت پر غور کیجیے کہ آئین مملکت میں جنامور سے بحث ہو گی ان کا تعلق ملک کے تمدنی، معاشی، معاشرتی مسائل سے ہو گا۔ اگر انامور کا تعلق براہ راست دین سے نہیں تو پھر آئین مملکت کے دینی یا غیر دینی ہونے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نیز اگر ان امور میں سنت رسول اللہ کا اتباع اس نوعیت کانہیں جس نوعیت کا اتباع ان امور میں ضروری ہے جو (بقول آپ کے، براہ راست دین سےمتعلق ہیں، مثلاً نماز روزہ وغیرہ) تو پھر ان کے متعلق یہ سوال بھی کیا اہمیت رکھےگا کہ یہ سنت کے مطابق ہیں یا نہیں”۔

 

جواب: میری کتاب "تفہیمات” میں بعض امور کےدین سے براہ راست متعلق ہونے، بعض کے براہ راست متعلق نہ ہونے کا جو ذکر آیا ہے اسےپورے مضمون سے الگ نکال کر ڈاکٹر صاحب یہ غلط معنی پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہمیں سیاسی و تمدنی اور معاشی مسائل کو دین سے قطعاً غیر متعلق قرار دے رہا ہوں۔حالانکہ وہاں جن امور کو میں نے دین سے "براہ راست” متعلق قرار دیا ہے ان سے میریمراد وہ عبادات ہیں جنہیں شارع نے "ارکان اسلام” کی حیثیت دی ہے یعنی نماز، روزہاور حج و زکوٰۃ۔ دوسری طرف جن امور کو میں نے کہا ہے کہ وہ دین سے "براہ راست”متعلق نہیں ہیں ان سے مقصود ارکان اسلام کے ماسوا دوسرے امور ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ دین سے بالکل غیر متعلق ہیں۔ اگر وہ واقعی غیر متعلق ہوتے تو ان کےمتعلق قرآن و سنت میں شرعی احکام پائے ہی کیوں جاتے۔

 

ڈاکٹر صاحب میری جس عبارتسے یہ نتائج نکال رہے ہیں، اس کے صرف دو فقروں (دین سے "براہ راست تعلق ہے” اور”براہ راست تعلق نہیں ہے”) کو انہوں نے پکڑ لیا ہے اور انہی پر اپنے تخیلات کی ساریعمارت تعمیر کرنی شروع کر دی ہے۔ حالانکہ خود اس عبارت میں ان کے ان نتائج کی تردیدموجود ہے۔ اس میں صاف صاف یہ بتایا گیا ہے کہ دوسری قسم کے معاملات میں مختلف مدارجکی تعلیمات ہم کو حضورؐ سے ملی ہیں۔ "ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا حضورؐ نے حکمدیا ہے یا جن سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، بعض ایسی ہیں۔۔۔۔ ” کیا ان فقروں سےیہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ جن کاموں کا حضورؐ نے حکم دیا ہے یا جن سے منع فرمایاہے، ان کے بارے میں حضورؐ کے فرمان کی خلاف ورزی کرنا جائز ہے؟ یا حضورؐ کی دوسریہدایات نظر انداز کی جا سکتی ہیں؟

رہے وہ الفاظ جن سے آج ڈاکٹر صاحب ناروا فائدہاٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب سے بہت پہلے میں نے یہمحسوس کر لیا تھا کہ کوئی فتنہ پرداز انہیں غلط معنی پہنا سکتا ہے۔ چنانچہ تفہیماتحصہ اول کے پانچویں ایڈیشن (ستمبر ۱۹۴۹) کو ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں ان کے بجائے یہالفاظ لکھے گئے ہیں: "جو امور فرائض و واجبات اور تقالید شرعیہ کی نوعیت رکھتے ہیں۔۔۔ رہے وہ امور جو اسلامی زندگی کی عام ہدایات سے تعلق رکھتے ہیں”۔ یہ اصلاح میںنے اسی لیے کی تھی کہ تمدنی و معاشی اور سیاسی معاملات کو دین سے غیر متعلق سمجھنے کاخیال، جو میرے سابق الفاظ سے نکالا جا سکتا تھا، رفع ہو جائے۔ مزید برآں ایک مضمونکا پورا مدعا صرف اس کے دو فقروں سے تو اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس پورے مضمون کوکوئی شخص پڑھے تو اس پر واضح ہو جائے کہ اس کا مدعا اس مطلب کے بالکل خلاف ہے جوڈاکٹر صاحب اس کے دو فقروں سے نکال رہے ہیں۔ تحقیق کی خاطر جو شخص بحث کرتا ہے وہآدمی کی پوری بات سن کر اس کے مجموعی مفہوم پر کلام کیا کرتا ہے، کہیں سے ایک دولفظ پکڑ کر ان کو متھنا محض جھگڑالو پن ہے۔

 

۶۔ رسول کی دونوں حیثیتوں میں امتیازکا اصول اور طریقہ

 

اعتراض: اگر حضورؐ کی پیغمبرانہ حیثیت اور شخصی حیثیت میں فرقکیا جائے گا تو لازماً اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں فرق کون کرے گا؟ اگرآئندہ اس کے لیے امت کو اہل علم کی طرف رجوع کرنا ہو گا تو اہل علم میں باہمی سختاختلافات ہیں۔ ان میں سے کس کی تحقیق کو صحیح مانا جائے اور کسے غلط؟ یہ پوزیشن کسقدر کمزور ہے، اس کا خود آپ کو بھی اعتراف ہے۔ چنانچہ آپ نے لکھا ہے:

 

"احادیثچند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیزحاصل ہوتی ہے تو وہ گمان صحت ہے نہ کہ علم یقین اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنےبندوں کو اس خطرے میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کر سکتا کہ جو امور اس کے دین میں اسقدر اہم ہوں کہ ان سے کفر اور ایمان کا فرق واقع ہوتا ہو، انہیں صرف چند انسانوں کیروایت پر منحصر کر دیا جائے۔ ایسے امور کی تو نوعیت ہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اللہتعالیٰ ان کو صاف صاف اپنی کتاب میں بیان فرمائے۔ اللہ کا رسول انہیں اپنےپیغمبرانہ مشن کا اصل کام سمجھتے ہوئے ان کی تبلیغ عام کرے اور وہ بالکل غیر مشتبہطریقے سے ہر مسلمان تک پہنچا دیے گئے ہوں”۔ (رسائل و مسائل، ص ۶۷)

 

جواب: دراصلیہ سوال نا فہمی پر مبنی ہے کہ آنحضورؐ کی حیثیت نبوی اور حیثیت شخصی میں فرق کونکرے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو اصول شریعت ہم کو دیے ہیں ان کی بنا پر یہمعلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ حضورؐ کی حیات طیبہ میں سے کیا چیز حضورؐ کیشخصی حیثیت سے تعلق رکھتی ہے اور کیا چیز آپؐ کی نبوی حیثیت سے متعلق ہے، بشرطیکہ جوشخص اس بارے میں رائے قائم کرنے بیٹھے اس نے قرآن اور سنت اور فقہ اسلامی کے اصول وفروع کا مطالعہ کرنے میں اپنی زندگی کا کوئی حصہ صرف کیا ہو۔ یہ کام بہر حال عامیوںکے کرنے کا نہیں ہے۔ رہے اہل علم کے اختلافات، تو معلوم ہونا چاہیے کہ اہل علم جبکبھی کسی چیز کو سنت قرار دینے یا نہ قرار دینے میں اختلاف کریں گے، لامحالہ ان میںسے ہر ایک اپنی دلیل دے گا۔ یونہی اٹھ کر ایک دعویٰ نہیں کر دے گا۔ اسے یہ بتانا ہوگا کہ اصول شریعت میں سے کس قاعدے یا ضابطے کی بنا پر وہ کسی چیز کو سنت قرار دےرہا ہے یا اس کے سنت ہونے سے انکار کر رہا ہے۔ اس صورت میں جو وزنی بات ہو گی وہیٹھہر سکے گی اور جو بات بھی ٹھہرے گی اس کی متعلق سب اہل علم کو معلوم ہو گا کہ وہکن دلائل کی بنا پر ٹھہری ہے۔ اس نوعیت کے اختلافات اگر باقی بھی رہ جائیں تو وہکوئی گھبرانے کے قابل چیزیں نہیں ہیں۔ انہیں خوامخواہ ایک ہوّا بنانے کی کوشش کیوںکی جاتی ہے۔ رہی میری وہ عبارت جو "رسائل و مسائل” سے نقل کی گئی ہے تو اس کامفہوم اس کے الفاظ ہی سے ظاہر ہے۔ تعجب ہے کہ اسے سمجھنے کی ذرہ برابر کوشش نہیں کیگئی اور غلطِ مبحث کے لیے اسے یہاں نقل کر دیا گیا۔ اس عبارت میں تو بحث اس بات پرکی گئی ہے کہ جن عقائد پر کسی مسلمان کے ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے، ان کے ثبوت کےلیے محض اخبار آحاد کافی نہیں ہیں، ان کے لیے یا تو قرآن سے ثبوت ملنا چاہیے، یامتواتر روایات یا کم از کم ایسی روایات جو متواتر المعنی ہوں، یعنی بکثرت مختلفراویوں کے بیانات متفقہ طور پر یہ بتاتے ہوں کہ حضورؐ فلاں عقیدے کی تعلیم دیا کرتےتھے۔ جزئی و فروعی احکام کے ثبوت کے لیے تو اخبار آحاد بھی کافی ہو سکتے ہیں جبکہوہ صحیح سند سے مروی ہوں لیکن کفر و ایمان کا فیصلہ کرنے والے امور کے لیے بہتزیادہ قوی شہادت کی ضرورت ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قتل کے مقدمے میں ایک شخص کوپھانسی پر چڑھا دینے کے لیے بہت زیادہ مضبوط قرائن و شواہد درکار ہوتے ہیں، بخلافاس کے ایک کم درجے کے معاملے کا فیصلہ کم تر درجے کی شہادتوں پر بھی کیا جا سکتاہے۔

 

۷۔ احادیث قرآن کی طرح لکھوائی کیوں نہ گئیں؟

 

اعتراض: "اگر وحی منزل مناللہ کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وحیِ متلو یا وحیِ جلی اور دوسری وحیِ غیر متلو یا وحیِخفی، تو کیا یہ چیز رسول اللہ کے فریضۂ رسالت میں داخل نہ تھی کہ حضورؐ وحی کے اسدوسرے حصے کو بھی خود مرتب فرما کر محفوظ شکل میں امت کو دے کر جاتے جس طرح حضورؐنے وحی کے پہلے حصے (قرآن) کو امت کو دیا تھا”۔

 

جواب: منکرین حدیث یہ سوالعموماً بڑے زور و شور سے اٹھاتے ہیں اور اپنے خیال میں اسے بڑا لاجواب سمجھتے ہیں۔ان کا تصور یہ ہے کہ قرآن چونکہ لکھوایا گیا تھا اس لیے وہ محفوظ ہے اور حدیثچونکہ حضورؐ نے خود لکھوا کر مرتب نہیں کر دی اس لیے وہ غیر محفوظ ہے۔ لیکن میں انسے پوچھتا ہوں کہ اگر حضورؐ نے قرآن مجید کو محض لکھوا کر چھوڑ دیا ہوتا اور ہزاروںآدمیوں نے اسے یاد کر کے بعد کی نسلوں کو زبانی نہ پہنچایا ہوتا تو کیا محض وہ لکھیہوئی دستاویز بعد کے لوگوں کے لیے اس بات کا قطعی ثبوت ہو سکتی تھی کہ یہ وہی قرآنہے جو حضورؐ نے لکھوایا تھا؟ وہ تو خود محتاجِ ثبوت ہوتی کیونکہ جب تک کچھ لوگ اسبات کی شہادت دینے والے نہ ہوتے کہ یہ کتاب ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نےلکھوائی تھی، اس وقت تک اس لکھی ہوئی کتاب کا معتبر ہونا مشتبہ رہتا۔ اس سے معلومہوا کہ تحریر پر کسی چیز کے معتبر ہونے کا دارومدار نہیں ہے بلکہ وہ اسی وقت معتبرہوتی ہے جبکہ زندہ انسان اس کے شاہد ہوں۔اب فرض کیجیے کہ کسی معاملے کے متعلق تحریرموجود نہیں ہے مگر زندہ انسان اس کے شاہد موجود ہیں، تو کسی قانون دان سے پوچھلیجیے، کیا ان زندہ انسانوں کی شہادت ساقط الاعتبار ہو گی جب تک کہ تائید میں ایکدستاویز نہ پیش کی جائے؟ شاید آپ کو قانون کا علم رکھنے والا ایک شخص بھی ایسا نہملے گا جو اس سوال کا جواب اثبات میں دے۔ آج نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا لکھوایاہوا قرآن مجید دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے مگر اس سے قرآن کے مستند و معتبر ہونےپر ذرہ برابر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ متواتر اور مسلسل زبانی روایات سے اس کامعتبر ہونا ثابت ہے۔ خود یہ بات کہ حضورؐ نے قرآن لکھوایا تھا، روایات ہی کی بنا پرتسلیم کی جا رہی ہے ورنہ اصل دستاویز اس دعوے کے ثبوت میں پیش نہیں کی جا سکتیاور وہ کہیں مل بھی جائے تو یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ وہی صحیفے ہیں جو حضورؐنے لکھوائے تھے۔ لہٰذا تحریر پر جتنا زور یہ حضرات دیتے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ نبیصلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنتوں پر قائم کیا ہوا ایک پورا معاشرہ چھوڑا تھا جسکی زندگی کے ہر پہلو پر آپؐ کی تعلیم و ہدایات کا ٹھپہ لگا ہوا تھا۔ اس معاشرے میںآپؐ کی باتیں سنے ہوئے، آپؐ کے کام دیکھے ہوئے اور آپؐ کے زیر ہدایت تربیت پائےہوئے ہزاروں لوگ موجود تھے۔ اس معاشرے نے بعد کی نسلوں تک وہ سارے نقوش منتقل کیےاور ان سے وہ نسلاً بعد نسل ہم کو پہنچے۔ دنیا کے کسی مسلَّم اصول شہادت کی رو سےبھی یہ شہادت رد نہیں کی جا سکتی۔ پھر یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ یہ نقوش کاغذ پرثبت نہیں کیے گئے۔ انہیں ثبت کرنے کا سلسلہ حضورؐ کے زمانے میں شروع ہو چکا تھا۔پہلی صدی ہجری میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا اور دوسری صدی ہجری کے محدثین زندہشہادتوں اور تحریری شہادتوں، دونوں کی مدد سے اس پورے نقشے کو ضبط تحریر میں لےآئے۔

 

۸۔ دجل و فریب کا ایک اور نمونہ

 

اعتراض: وحی کا دوسرا حصہ، جس کی حفاظتکے متعلق آپ اب فرماتے ہیں کہ اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کارفرما ہےجو قرآن کی حفاظت میں کارفرما رہی ہے اور اس کو جو شخص چیلینج کرتا ہے وہ دراصلقرآن کی صحت کو چیلنج کرنے کا راستہ اسلام کے دشمنوں کو دکھاتا ہے”۔ اس کی کیفیتکیا ہے؟ اس کے متعلق مجھ سے نہیں، خود اپنے ہی الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ آپ نےرسائل و مسائل ۲۷۰ پر لکھا ہے:

 

"قول رسول اور وہ روایات جو حدیث کی کتابوں میںملتی ہیں، لازماً ایک ہی چیز نہیں اور نہ ان روایات کو استناد کے لحاظ سے آیاتقرآنی کہ ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ آیات قرآنی کے منزل من اللہ ہونے میں تو کسیشک کی گنجائش ہی نہیں بخلاف اس کے روایات میں اس شک کی گنجائش موجود ہے کہ جس قولیا فعل کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضورؐ کا ہےیا نہیں”۔

 

جواب: ذرا اس دیانت کو ملاحظہ فرمایا جائے کہ اس کے بعد کے فقرےدانستہ چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ جن اصحاب کے پاس رسائل و مسائل حصۂ اول موجود ہو وہ نکالکر دیکھ لیں، اس فقرے کے بعد متصلاً یہ عبارت موجود ہے۔

"جو سنتیں تواتر کے ساتھنبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم تک منتقل ہوئی ہیں یا جو روایات محدثین کی مسملہشرائطِ تواتر پر پوری اترتی ہیں، وہ یقیناً ناقابل انکار حجت ہیں۔ لیکن غیر متواترروایات سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا بلکہ ظنِّ غالب حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اصول میںیہ بات متفق علیہ ہے کہ غیر متواتر روایات احکام کی مآخذ تو ہو سکتی ہیں۔ لیکنایمانیات (یعنی جن سے کفر و ایمان کا فرق واقع ہوتا ہے) کی مآخذ نہیں ہوسکتیں”۔

 

یہ اخلاقی جسارت واقعی قابل داد ہے کہ مجھے خود میری ہی عبارتوں سےدھوکہ دینے کی کوشش کی جائے۔

 

۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیںہے

 

اعتراض: "قرآن کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے شروع میں ہی یہ کہہ دیا کہ” ذلکالکتٰب لا ریب فیہ” کہ اس کتاب میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور وحی کے دوسرے حصے کیکیفیت یہ ہے کہ اس میں اس شک کی گنجائش موجود ہے کہ جس قول یا فعل کو حضورؐ کی طرفمنسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضورؐ کا ہے یا نہیں؟ کیا خدا کی حفاظت اسی کا نامہے؟

 

جواب: واقعہ یہ ہے کہ منکرین حدیث نے علوم حدیث کا سرسری مطالعہ تک نہیں کیاہے اس لیے وہ بار بار ان مسائل پر الجھتے ہیں جنہیں ایک اوسط درجے کا مطالعہ رکھنےوالا آدمی بھی ہر الجھن کے بغیر صاف صاف سمجھتا ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے، انہیں سمجھانا تو میرے بس میں نہیں ہے، کیونکہ ان میں سمجھنے کی خواہش کا فقدان نظرآتا ہے۔ لیکن عام ناظرین کی تفہیم کے لیے میں عرض کرتا ہوں کہ دو باتوں کو اگر آدمیاچھی طرح جان لے تو اس کے ذہن میں کوئی الجھن پیدا نہیں ہو سکتی:

 

ایک یہ کہ وحیکی دو بڑی قسمیں ہیں: ایک: وہ جو اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں نبی صلی اللہ علیہو سلم کے پاس بھیجی گئی تھی تاکہ آپؐ انہی الفاظ میں اسے خلق تک پہنچا دیں۔ اس کانام وحیِ متلو ہے اور اس نوعیت کی تمام وحیوں کو اس کتاب پا ک میں جمع کر دیا گیاہے جسے قرآن کے نام سے دنیا جانتی ہے۔ دوسری قسم کی وحی وہ ہے جو رسول اللہ صلیاللہ علیہ و سلم کی رہنمائی کے لیے نازل کی جاتی تھی تاکہ اس کی روشنی میں آپؐ خلقکی رہنمائی فرمائیں۔ اسلامی نظریۂ حیات کی تعمیر فرمائیں اور اسلامی تحریک کیقیادت کے فرائض انجام دیں۔ یہ وحی لوگوں کو لفظاً لفظاً پہنچانے کے لیے نہ تھی، بلکہ اس کے اثرات حضورؐ کے اقوال و افعال میں بےشمار مختلف صورتوں سے ظاہر ہوتے تھےاور حضورؐ کی پوری سیرت پاک اس کے نور کا مظہر تھی۔ یہی چیز ہے جسے سنت بھی کہاجاتا ہے اور وحیِٔ غیرمتلو بھی، یعنی "وہ وحی جو تلاوت کے لیے نہیں ہے”۔

 

دوسری باتیہ کہ دین کا علم جن ذرائع سے ہمیں ملا ہے ان کی ترتیب اس طرح ہے سب سے پہلے قرآن! پھر وہ سنتیں جو تواتر عملی کے ساتھ حضورؐ سے منتقل ہوئی ہیں، یعنی جن پر شروع سےآج تک امت میں مسلسل عمل ہوتا رہا ہے۔ پھر آپؐ کے وہ احکام اور آپؐ کی وہ تعلیمات وہدایات جو متواتر یا مشہور روایات کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں۔ پھر وہ اخبارآحاد جن کی سند بھی قابل اعتماد ہے، جو قرآن اور متواترات سے بھی مطابقت رکھتی ہیںاور باہم ایک دوسرے کی تائید و تشریح بھی کرتی ہیں۔ پھر وہ اخبار آحاد جو سند کےاعتبار سے بھی صحیح ہیں اور کسی قابل اعتماد چیز سے متصادم بھی نہیں ہیں۔

 

انذرائع سے جو کچھ بھی ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہنچا ہے وہ شک و شبہسے بالاتر ہے۔ اس کے بعد وہ مرحلہ آتا ہے جہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی قول یافعل جو حضورؐ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضورؐ کا قول و فعل ہے یا نہیں۔ یہسوال دراصل ان روایات کے بارے میں پیدا ہوتا ہے:

 

(۱)جن کی سند تو قوی ہے مگر انکا مضمون کسی زیادہ معتبر چیز سے متصادم نظر آتا ہے۔

 

(۲)جن کی سند قوی ہے مگروہ باہم متصادم ہیں اور ان کا تصادم رفع کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

 

(۳)جن کیسند قوی ہے مگر وہ منفرد روایتیں ہیں اور معنی کے لحاظ سے ان کے اندر کچھ غرابتمحسوس ہوتی ہے۔

(۴)  جن کی سند میں کسی نوعیت کی کمزوری ہے مگر معنی میںکوئی قباحت نظر نہیں آتی۔

 

(۵)  جن کی سند میں بھی کلام کی گنجائش ہے اور معنیمیں بھی۔

 

اب اگر کوئی بحث ان دوسری قسم کی روایات میں پیدا ہو تو اسے یہدعویٰ کرنے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ پہلی قسم کے ذرائع سے جو کچھ ہمیںنبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہنچا ہے وہ بھی مشکوک ہے۔

 

مزید برآں یہ بھی جانلینا چاہیے کہ دین میں جو چیزیں اہمیت رکھتی ہیں وہ سب ہمیں پہلی قسم کے ذرائع سےملی ہیں اور دوسرے ذرائع سے آنے والی روایات اکثر و بیشتر محض جزوی و فروعی معاملاتسے متعلق ہیں جن میں ایک مسلک یا دوسرا مسلک اختیار کر لینے سے درحقیقت کوئی بڑافرق واقع نہیں ہوتا۔ ایک شخص اگر تحقیق کر کے ان میں سے کسی روایت کو سنت کی حیثیتسے تسلیم کرے اور دوسرا تحقیق کر کے اسے سنت نہ مانے تو دونوں ہی رسول اللہ صلیاللہ علیہ و سلم کے پیرو مانے جائیں گے۔ البتہ ان لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و سلمکا پیرو نہیں مانا جا سکتا جو کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا قول و فعلاگر ثابت بھی ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا قول و فعل ہے تب بھی وہ ہمارےلیے آئین و قانون نہیں ہے۔

 

۱۰۔ ایک اور فریب

 

اعتراض : ” احادیث کے ” طریقِ حفاظت ” کی کمزوری کے تو آپ خود بھی قائل ہیں جب آپ لکھتے ہیں:

” بادیالنظر میں یہ بات بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ایسی فعلی اور قولی احادیث کو تواترکا درجہ حاصل ہونا چاہیے جن کے دیکھنے اور سننے والے بکثرت ہوں۔ ان میں اختلاف نہپایا جانا چاہئے۔ لیکن ہر شخص بادنیٰ تامل یہ سمجھ سکتا ہے کہ جس واقعہ کو بکثرتلوگوں نے دیکھا ہو یا جس تقریر کو بکثرت لوگوں نے سنا ہو اس کو نقل کرنے یا اس کےمطابق عمل کرنے میں سب لوگ اس قدر متفق نہیں ہو سکتے کہ ان کے درمیان یک سرمو فرقنہ پایا جائے۔ مثال کے طور پر آج میں ایک تقریر کرتا ہوں اور کئی ہزار آدمی اس کوسنتے ہیں۔ جلسہ ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی (مہینوں اور برسوں بعد نہیں بلکہ چندہی گھنٹوں بعد) لوگوں سے پوچھ لیجیئے کہ مقرر نے کیا کہا؟ آپ دیکھیں گے کہ تقریر کامضمون نقل کرنے میں سب کا بیان یکساں نہ ہو گا۔ کوئی کسی ٹکڑے کو بیان کرے گا، کوئی کسی ٹکڑے کو۔ کوئی کسی جملے کو لفظ بلفظ نقل کرے گا، کوئی اس مفہوم کو جو اسکی سمجھ میں آیا ہے اپنے الفاظ میں بیان کر دے گا۔ کوئی زیادہ فہیم آدمی ہو گا اورتقریر کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس کا صحیح ملخص بیان کرے گا۔ کسی کی سمجھ زیادہ اچھینہ ہو گی اور وہ مطلب کو اپنے الفاظ میں اچھی طرح ادا نہ کر سکے گا۔ کسی کا حافظہاچھا ہو گا اور تقریر کے اکثر حصے لفظ بلفظ نقل کر دے گا۔ کسی کی یاد اچھی نہ ہو گیاور وہ نقل و روایت میں غلطیاں کرے گا۔” (تفہیمات، جلد اول، ص ۳۳۰)

 

جواب: اول تو اس اقتباس کے عین وسط میں لکیر لگا کر ایک فقرہ چھوڑ دیا گیا ہے اور ہر شخصاس کو پڑھ کر خود دیکھ سکتا ہے کہ کتنی نیک نیتی کے ساتھ اسے چھوڑا گیا ہے۔ وہ فقرہیہ ہے:

 

"اس واقعہ یا اس تقریر کے اہم اجزا میں تو سب کے درمیان ضرور اتفاقہو گا مگر فروعی امور میں بہت کچھ اختلاف بھی پایا جائے گا اور یہ اختلاف ہر گز اسبات کی دلیل نہ ہو گا کہ وہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔”

 

پھر اس اقتباسکے بعد کی پوری بحث چونکہ ڈاکٹر صاحب کے شبہات کا جواب تھی اور ان سے الجھن رفع ہوسکتی تھی اس لیے ڈاکٹر صاحب نے اسے چھوڑ دیا، کیونکہ انہیں تو الجھن ہی کی تلاش ہے۔ایک مضمون میں سے جتنے فقرے الجھنے اور الجھانے کے لیے مل سکتے ہیں انہیں لے لیتےہیں اور جہاں سے بات سلجھنے کا خطرہ ہوتا ہے، صاف کترا کر نکل جاتے ہیں اور لطف یہہے کہ یہ دھوکا ایک مصنف کی کتاب سے خود مصنف کو دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میںناظرین سے گزارش کروں گا کہ اگر تفہیمات حصۂ اول انہیں بہم پہنچ جائے تو اس میں ” حدیث کے متعلق چند سوالات ” کے زیر عنوان وہ پورا مضمون نکال کر ملاحظہ فرمائیں جسسے یہ عبارت نقل کی گئی ہے۔ تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عبارت کے فوراً بعد جوفقرے میں نے لکھے تھے وہ یہاں بھی نقل کر دیئے جائیں تاکہ جنہیں اصل کتاب نہ مل سکےوہ بھی ڈاکٹر صاحب کے کرتب کی داد دے سکیں۔ وہ فقرے یہ ہیں:

 

"اب اگر کوئیشخص اس اختلاف کو دیکھ کر یہ کہہ دے کہ میں نے سرے سے کوئی تقریر ہی نہیں کی، یا جوتقریر کی وہ از سرتاپا غلط نقل کی گئی تو یہ صحیح نہ ہو گا بخلاف اس کے اگر تقریرکے متعلق تمام اخبارِ آحاد کو جمع کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس امر میں سب کےدرمیان اتفاق ہے کہ میں نے تقریر کی، فلاں جگہ کی، فلاں وقت کی۔ بہت سے آدمی موجودتھے اور تقریر کا موضوع یہ تھا۔ پھر تقریر کے جن جن حصوں کے متعلق زیادہ سے زیادہاتفاق لفظاً یا معناً پایا جائے گا، وہ زیادہ مستند سمجھے جائیں گے اور ان سب کو ملاکر تقریر کا ایک مستند مجموعہ تیار کر لیا جائے گا اور جن حصوں کے بیان میں ہر راویمنفرد ہو گا وہ نسبتاً کم معتبر ہوں گے مگر ان کو موضوع اور غلط کہنا صحیح نہ ہو گا۔تاوقتیکہ وہ تقریر کی پوری اسپرٹ کے خلاف نہ ہوں، یا کوئی اور بات ان میں ایسی نہہو جس کی وجہ سے ان کی صحت مشتبہ ہو جائے، مثلاً تقریر کے معتبر حصوں سے مختلف ہونا، یا مقرر کے خیالات اور اندازِ بیان اور افتادِ مزاج کے متعلق جو صحیح معلومات لوگوںکے پاس پہلے سے موجود ہیں ان کے خلاف ہونا۔”

 

۱۱۔کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟

 

اعتراض : آپ فرماتے ہیںکہ سنت کے محفوظ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وضو، پنج وقتہ نماز، اذان، عیدین کی نمازیں، نکاح و طلاق و وراثت کے قاعدے وغیرہ مسلم معاشرے میں ٹھیک اسی طرح رائج ہیں جس طرحقرآن کی آیتیں زبانوں پر چڑھی ہوں۔ کیا آپ فرمائیں گے کہ نماز اور اذان، نکاح اورطلاق اور وراثت وغیرہ میں تمام امت ایک ہی طریقے پر عمل کر رہی ہے؟”

 

جواب: نماز اور اذان اور نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ امور کے متعلق جتنی چیزوں پر امتمیں اتفاق ہے ان کو ایک طرف جمع کر لیجیئے اور دوسری طرف وہ چیزیں نوٹ کر لیجئےجن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ اتفاق کس قدر زیادہ ہےاور اختلاف کس قدر کم۔ بنیادی امور قریب قریب سب متفق علیہ ہیں اور اختلاف زیادہ ترجزئیات میں ہے لیکن چونکہ بحث اتفاقی امور میں نہیں بلکہ ہمیشہ اختلافی امور میںہوتی ہے، اس لیے بحثوں نے اختلافات کو نمایاں کر دیا ہے جس کی وجہ سے کم علم لوگوںکو یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے کہ امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے۔ مثال کےطور پر نماز ہی کو لے لیجیئے۔ تمام دنیا کے مسلمان ان امور پر پوری طرح متفق ہیں کہپانچ وقت کی نماز فرض ہے۔ اس کے اوقات یہ ہیں۔ اس کے لیے جسم اور لباس پاک ہوناچاہیے۔ اس کے لیے با وضو ہونا چاہیے۔ اس کو قبلہ رُخ پڑھنا چاہیے۔ اس میں قیام اوررکوع اور سجدہ اور قعود اس ترتیب سے ہونا چاہیے۔ ہر وقت کی اتنی اتنی رکعتیں فرضہیں۔ نماز کی ابتدا  تکبیر تحریمہ سے ہونی چاہیے۔ نماز میں بحالت قیام فلاں چیزیںبحالت رکوع فلاں، بحالت سجود فلاں اور بحالتِ قعود فلاں چیزیں پڑھنی چاہیں۔ غرض یہکہ بحیثیت مجموعی نماز کا پورا بنیادی ڈھانچہ متفق علیہ ہے۔ اختلاف صرف اس طرح کےمعاملات میں ہے کہ ہاتھ باندھا جائے یا چھوڑا جائے، باندھا جائے تو سینے پر یا نافپر، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں، سورۂ فاتحہ کے بعد آمین زور سے کہیجائے یا آہستہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بنیاد بنا کر یہدعویٰ کرنا صحیح ہو گا کہ نماز کے معاملہ میں امت سرے سے کسی متفق علیہ طریقہ پر ہےہی نہیں؟ اذان میں اس کے سوا کوئی اختلاف نہیں کہ شیعہ حی علیٰ خیر العمل کہتے ہیںاور سُنّی نہیں کہتے۔ باقی اذان کے تمام کلمات اور متعلقہ مسائل بالکل متفق علیہہیں۔ کیا اس ذرا سے اختلاف کو اس بات کی دلیل بنایا جاسکتا ہے کہ اذان بجائے خودمختلف فیہ ہے؟

 

۱۲۔ سنت نے اختلافات کم کئے ہیں یا بڑھائےہیں؟

 

اعتراض : ” اگر آپ یہ کہیں کہ حدیث پر مبنی اختلافات جزئیات کے معمولیاختلافات ہیں، ان سے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ جنجزئیات کو (بقول آپ کے) خدا کی وحی نے متعین کیا ہو کیا ان میں ذرا سا اختلاف بھیمعصیت کا موجب نہیں ہو جاتا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مندرج وحی کے ذریعہ حکمدیا کہ وضو میں اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھویا کرو۔ اگر کوئی شخص یا فرقہ اپنے ہاتھ صرفپنجوں تک دھوئے تو کیا آپ کے نزدیک یہ بھی اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل ہو گی جسطرح اس شخص یا فرقہ کا عمل جو کہنیوں تک ہاتھ دھوئے، ارشاد باری تعالیٰ کی تعمیلکہلائے گا؟”

 

جواب : یہ محض ایک سطحی مغالطہ ہے۔ نص کی کھلی کھلی خلاف ورزیکا نام اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ اختلاف اس چیز کا نام ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان یہبات مختلف فیہ ہو کہ حکمِ شرعی کیا ہے۔ اس کی صحیح مثال خود قرآن ہی سے حاضر ہے۔قرآن کی آیتِ تیمم میں یہ فرمایا گیا ہے کہ فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ(المائدہ:۷) ” اس مٹی سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔”

 

اب دیکھئے۔ایک شخص "ہاتھ ” سے مراد پہنچے تک لیتا ہے اور اسی پر مسح کرتا ہے۔ دوسرا کہنی تکلیتا ہے اور وہاں تک ہاتھ پھیرتا ہے اور تیسرا خیال کرتا ہے کہ لفظ ہاتھ کا اطلاقتو شانے تک پورے ہاتھ پر ہوتا ہے اس لیے وہ مسح میں اس بھی شامل کر لیتا ہے۔ بتایئےاس اختلاف کی گنجائش قرآن کے الفاظ میں ہے یا نہیں؟ پھر کیا یہ اختلاف معصیت کاموجب ہو جاتا؟

 

منکرینِ حدیث کچھ عقل سے کام لیتے تو وہ خود دیکھ سکتے تھے کہسنت نے اختلافات کے دائرے کو بہت محدود کر دیا ہے۔ ورنہ اگر سنت نہ ہوتی تو قرآنمجید سے احکام اخذ کرنے میں اتنے اختلافات ہوتے کہ دو مسلمان بھی مل کر کوئیاجتماعی عمل نہ کر سکتے۔ مثلاً قرآن بار بار صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سنت اس کیشکل اور طریقہ مقرر نہ کر دیتی تو لوگ ہر گز یہ طے نہ کر سکتے کہ اس حکم کی تعمیلکیسے کریں۔ قرآن زکوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سنت نے اس کی تشریح نہ کر دی ہوتی توکبھی اس امر میں اتفاق نہ ہو سکتا کہ یہ فریضہ کس طرح بجا لایا جائے۔ ایسا ہیمعاملہ قرآن کی اکثر و بیشتر ہدایات و احکام کا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک با اختیارمعلم (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ان پر عمل درآمد کی شکل بتا کر اور عملاً دکھا کراختلافات کا سد باب کر دیا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی اور امت صرف قرآن کو لے کر لغتکی مدد سے کوئی نظام زندگی بنانا چاہتی تو بنیادی امور میں بھی اس حد تک اتفاق رائےحاصل نہ ہو سکتا کہ کوئی مشترک تمدن بن جاتا۔ یہ سنت ہی کا طفیل ہے کہ تمام امکانیاختلافات سمٹ کر دنیائے اسلام میں آج صرف آٹھ فرقے پائے جاتے ہیں۔ اور ان میں بھیبڑے فرقے صرف پانچ ہیں[1] جن کے اندر کروڑوں مسلمان ایک ایک فقہ پرمجتمع ہو گئے ہیں۔ اسی اجتماع کی بدولت ان کا ایک نظام زندگی بن اور چل رہا ہے لیکنمنکرین حدیث سنت کے خلاف جو کھیل کھیل رہے ہیں اس میں اگر وہ کامیاب ہو جائیں تو اسکا نتیجہ یہ نہیں ہو گا کہ قرآن کی تفسیر و تعبیر پر سب متفق ہو جائیں گے۔ بلکہ یہہو گا کہ جن امور میں آج اتفاق ہے وہ سب بھی اختلافی بن کر رہ جائیں گے۔

 

۱۳۔ منکرین سنت اور منکرین ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ

 

اعتراض : ” آپفرماتے ہیں کہ "اگر سنت کے متن میں اس قدر اختلافات ہیں تو قرآن کی تعبیر میں بھیتو بے شمار اختلافات ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اگر قرآن کی تعبیر میں اختلافات اسےآئین کی بنیاد قرار دینے میں مانع نہیں تو سنت کے متن کا اختلاف اس امر میں کیسےمانع ہو سکتا ہے۔” آپ کی یہ دلیل بعینہ اس طرح کی ہے جس طرح جب مرزائی حضرات سے کہاجائے کہ مرزا صاحب کے کردار میں فلاں نقص پایا جاتا ہے۔ تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ(معاذ اللہ معاذ اللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی فلاں بات بھی ایسی نہیںتھی؟”

 

جواب : یہ تشبیہ بنیادی طور پر غلط ہے اس لیے کہ جھوٹے نبی اور سچےنبی میں در حقیقت کوئی مشابہت نہیں ہے۔ سچے نبی اور اس کی لائی ہوئی کتاب کے درمیانجو ربط و تعلق ہوتا ہے وہ نہ جھوٹے نبی اور سچے نبی کے درمیان ہو سکتا ہے اور نہ اسکے اور کتاب اللہ کے درمیان۔

 

ڈاکٹر صاحب کی یہ تشبیہ در اصل خود ان پر اوران کے گروہ پر صادق آتی ہے جس طرح مرزائی حضرات ایک جعلی نبی کی نبوت ثابت کرنے کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو درمیان میں لاتے ہیں، اسی طرح منکرین حدیثرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور کتاب اللہ کا تعلق کاٹ پھینکنے کے لیےکتاب اللہ کو استعمال کرتے ہیں۔ جس طرح مرزائیوں نے تمام امت کے متفقہ عقیدۂ نبوتکے خلاف ایک نئی نبوت کا فتنہ کھڑا کیا، اسی طرح منکرین حدیث نے سنت کی آئینی حیثیتکو چیلنج کر کے ایک دوسرا فتنہ کھڑا کر دیا۔ حالانکہ خلفائے راشدین کے عہد سے آجتک تمام دنیا کے مسلمان ہر زمانے میں اس بات پر متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد سنتدوسرا مآخذ قانون ہے، حتیٰ کہ غیر مسلم ماہرینِ قانون بھی بالاتفاق اس کو تسلیم کرتےہیں، جس طرح مرزائی ختم نبوت کی غلط تاویل کر کے ایک نیا نبی سامنے لے آتے ہیں، اسیطرح منکرین حدیث اتباعِ سنت کی غلط تعبیر کر کے یہ راستہ نکالتے ہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم کی ساری ہدایات و تعلیمات کا دفتر لپیٹ کر رکھ دیا جائے اور کسی ” مرکز ملت ” کو ہر زمانے میں امت کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہے جو رسول اللہ صلیاللہ علیہ و سلم کو حاصل تھی۔ مرزائی اپنے نبی کی نبوت کا راستہ صاف کرنے کے لیے ذاتِرسول اللہ میں نقص نکالتے ہیں اور منکرین حدیث اپنے مرکز ملت کے لیے راستہ بنانے کیخاطر سنت رسول کی عیب چینی کرتے ہیں۔

 

رہا وہ اعتراض جو میرے استدلال پرڈاکٹر صاحب نے کیا ہے، تو وہ درحقیقت بالکل بے بنیاد ہے۔ میرا استدلال یہ نہیں ہےکہ آپ سنت میں جو عیب نکال رہے ہیں وہ قرآن میں بھی موجود ہے بلکہ اس کے برعکس میرااستدلال یہ ہے کہ تعبیر و تحقیق کے اختلافات کی گنجائش ہونا سرے سے کسی آئین وقانون کے لیے عیب و نقص ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس گنجائش کی بنا پر قرآن کو اساس قانونبنانے سے انکار کیا جا سکتا ہے نہ سنت کو۔

 

۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیزہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟

 

اعتراض : ” متن اور اس کی تعبیرات دو الگالگ چیزیں ہیں۔ قرآن کریم کے متن میں کسی ایک حرف کے متعلق بھی شک و شبہ کی گنجائشنہیں۔ باقی رہیں اس کی تعبیرات، سو وہ انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لیے دین کیسند اور حجت نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس احادیث کی تعبیرات میں نہیں۔ ان کے متن میںہی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی موجودگی میں سنت کو آئین اسلامی کا مآخذ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟”

 

جواب : اصل قابلِ غور سوال تو یہی ہے کہ اگر کتاب کے الفاظ متفقعلیہ ہوں لیکن تعبیرات میں اختلاف ہو تو وہ آئین کی بنیاد کیسے بنے گی؟ ڈاکٹر صاحبخود فرما رہے ہیں کہ "تعبیر ایک انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لیے حجت اور سندنہیں ہو سکتا۔” اس صورت میں تو لامحالہ صرف الفاظ حجت اور سند رہ جاتے ہیں اورمعنی میں اختلاف ہو جانے کے بعد ان کا حجت و سند ہونا لاحاصل ہوتا ہے، کیونکہ عملاًجو چیز نافذ ہوتی ہے وہ کتاب کے الفاظ نہیں بلکہ اس کے وہ معنی ہوتے ہیں جنہیں کسیشخص نے الفاظ سے سمجھا ہو۔ اسی لیے میں نے اپنے دوسرے خط میں ان سے عرض کیا تھا کہپہلے آپ اپنے اس نقطۂ نظر کو بدلیں کہ "آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جسمیں اختلاف نہ ہو سکے۔” اس کے بعد جس طرح یہ بات طے ہو سکتی ہے کہ قرآن مجید بجائےخود اساس آئین ہو اور اس کی مختلف تعبیرات میں سے وہ تعبیر نافذ ہو جو کسی با اختیارادارے کے نزدیک اقرب الی الصواب قرار پائے، اسی طرح یہ بات بھی طے ہو سکتی ہے کہسنت کو بجائے خود اساس آئین مان لیا جائے اور معاملات میں عملاً وہ سنت نافذ ہو جوکسی با اختیار ادارے کی تحقیق میں سنت ثابتہ قرار پائے۔ قرآن کے الفاظ کو اساس آئینماننے کا فائدہ یہ ہو گا کہ تعبیر کے اختلافات کا سارا چکر صرف الفاظ قرآن کے حدودمیں گھوم سکے گا، ان کے دائرے سے باہر نہ جا سکے گا۔ اسی طرح ” سنت ” کو اساس آئینماننے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمیں اپنے عمل کے لیے انہی ہدایات و تعلیمات کی آزادانہقانون سازی اس وقت تک نہ کر سکیں گے جب تک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم نہ ہو جائے گا کہفلاں مسئلے میں کوئی سنت ثابت نہیں ہے۔ یہ سیدھی سی بات سمجھنے میں آخر کیا دقتہے۔

 

۱۵۔ قرآن اور سنت دونوں کے معاملہ میں رفع اختلاف کی صورت ایک ہیہے۔

 

اعتراض : "قرآن کے متن سے احکام اخذ کرنے میں اختلاف اس وقت پیدا ہوا جبدین ایک اجتماعی نظام کی جگہ انفرادی چیز بن گیا۔ جب تک دین کا اجتماعی نظام قائمرہا، اس وقت تک اس باب میں امت میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیںکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانےمیں امت کے افراد قرآن کے کسی حکم پر مختلف طریقوں سے عمل پیرا تھے؟ پھر اس قسم کانظام قائم ہو گا تو پھر تعبیرات کے یہ اختلافات باقی نہیں رہیں گے۔ یہ اسی صورت میںممکن تھا کہ قرآن کے الفاظ محفوظ رہتے، اگر قرآن کے الفاظ محفوظ نہ ہوتے اور مختلففرقوں کے پاس احادیث کی طرح قرآن کے بھی الگ الگ مجموعے ہوتے تو امت میں وحدتِ عملیکا امکان ہی باقی نہ رہتا۔ تاوقتیکہ کوئی دوسرا رسول آ کر وحی کے الفاظ کو محفوظطور پر انسانوں تک پہنچا دیتا۔”

 

جواب : کسی معاملے کو سمجھے بغیر اس پرتقریر جھاڑنے کی یہ دلچسپ مثال ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی لوگ قرآن مجید کی آیات میں غور و خوض کرتےتھے اور ان کے درمیان فہم و تعبیر کا اختلاف ہوتا تھا مگر اس وقت خلیفۂ راشد اورمجلسِ شوریٰ کا با اختیار ادارہ ایسا موجود تھا جسے اقتدار بھی حاصل تھا اور امت کواس کے علم و تقویٰ پر اعتماد بھی تھا۔ اس ادارے میں بحث و تمحیص کے بعد قرآن کے کسیحکم کی جس تعبیر کے حق میں جمہوری طریقے پر فیصلہ ہو جاتا تھا وہی قانون کی حیثیتسے نافذ ہو جاتی تھی۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سنتوں کے بارے میںبھی اس وقت باقاعدہ تحقیق کی جاتی تھی اور جب یہ اطمینان ہو جاتا تھا کہ کسی مسئلےمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فیصلہ دیا تھا یا اس طرح عمل کیا تھا، تو اسی کےمطابق فیصلہ کر دیا جاتا تھا۔ آج بھی اگر ایسا کوئی ادارہ موجود ہو تو وہ جس طرحقرآن کی تعبیرات میں سے وہ تعبیر اختیار کرنے کی کوشش کرے گا جو زیادہ سے زیادہاقرب الی الصواب ہو، اسی طرح وہ احادیث کے مجموعوں میں سے ان سنتوں کو تلاش کر لےگا، جن کا زیادہ سے زیادہ اطمینان بخش ثبوت مل سکے۔

 

۱۶۔  ایک دلچسپمغالطہ

 

اعتراض : "آپ فرماتے ہیں کہ برطانیہ کا آئین تحریری شکل میں موجودنہیں۔ پھر بھی ان کا کام کیسے چل رہا ہے۔ کیا آپ کو اس کا بھی کچھ علم ہے کہبرطانیہ کے آئین میں نت نئے دن کتنی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے ہاں پارلیمانیاکثریت جو تبدیلی چاہے، کر سکتی ہے۔ کیا دین کی بھی آپ کے نزدیک یہی حیثیت ہے؟ اگردین کے آئین کے تحریری نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا تو قرآن کریم کو کیوںتحریر میں لایا گیا اور اس تحریر کی حفاظت کا ذمہ خدا نے کیوں لیا؟”

 

جواب:یہ ایک اور دلچسپ مغالطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا نہ کہ استحریر کی حفاظت کا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے زمانے میں کاتبان وحی سےلکھوائی تھی۔ قرآن تو یقیناً خدا کے وعدے کے مطابق محفوظ ہے مگر کیا وہ اصل تحریربھی محفوظ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے لکھوائی تھی؟ اگر وہ منکرین حدیث کےعلم میں کہیں ہے تو ضرور اس کی نشاندہی فرمائیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ تمام منکرین حدیثبار بار قرآن کے لکھے جانے اور حدیث کے نہ لکھے جانے پر اپنے دلائل کا دارومداررکھتے ہیں، لیکن یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے زمانہ میں کاتبان وحی سےہر نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے اور اس تحریر سے نقل کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہعنہ کے زمانے میں قرآن کو ایک مصحف کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیںحضرت عثمان نے شائع کیں۔ یہ سب کچھ محض حدیث کی روایات ہی سے دنیا کو معلوم ہوا ہے۔قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، نہ حدیث کی روایات کے سوا اس کی کوئی دوسرے شہادتدنیا میں کہیں موجود ہے۔ اب اگر حدیث کی روایات سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں ہیں توپھر کس دلیل سے آپ دنیا کو یہ یقین دلائیں گے کہ فی الواقع قرآن حضور صلی اللہ علیہو سلم ہی کے زمانے میں لکھا گیا تھا؟

 

۱۷۔شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟

 

اعتراض : "آپ فرماتے ہیں کہسنن ثابتہ کے اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے (پاکستان میں صحیح اسلامی آئین کے مطابق)قانون سازی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ:

 

” شخصی قانون (پرسنل لا) کی حد تک ہرایک گروہ کے لیے احکام قرآن کی وہی تعبیر اور سنن ثابتہ کا وہی مجموعہ معتبر ہو، جسے وہ مانتا ہے اور ملکی قانون (پبلک لا) کی تعبیر قرآن اور ان سنن ثابتہ کےمطابق ہو، جس پر اکثریت اتفاق کرے۔”

 

کیا میں یہ پوچھنے کی جرات کر سکتا ہوںکہ شخصی قانون اور ملکی قانون کا یہ فرق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یا حضور صلیاللہ علیہ و سلم کے خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی تھا؟ اور کیا قرآن کریم سے استفریق کی کوئی سند مل سکتی ہے؟

 

جواب : یہ سوالات صرف اس بنا پر پیدا ہوئےہیں کہ ڈاکٹر صاحب نہ تو شخصی قانون اور ملکی قانون کے معنی اور حدود کو سمجھے ہیںاور نہ اس عملی مسئلے پر انہوں نے کچھ غور کیا ہے جو پاکستان میں ہمیں درپیش ہے۔شخصی قانون سے مراد وہ قوانین ہیں جو لوگوں کی خانگی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، جیسےنکاح و طلاق اور وراثت۔ اور ملکی قانون سے مراد وہ قوانین ہیں جو ملک کے عام نظم وضبط کے لیے درکار ہیں، مثلاً فوجداری اور دیوانی قانون۔ پہلی قسم کے بارے میں یہممکن ہے کہ ایک مملکت میں اگر مختلف گروہ موجود ہوں تو ان میں سے ہر ایک کے حق میںاس قانون کو نافذ کیا جائے جس کا وہ خود قائل ہو، تاکہ اسے اپنی خانگی زندگی کےمحفوظ ہونے کا اطمینان حاصل ہو جائے۔ لیکن دوسری قسم کے قوانین میں الگ الگ گروہوںکا لحاظ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لامحالہ سب کے سب یکساں ہی ہونے چاہئیں۔ قرآن مجید کےعہد میں مسلمان تو ایک ہی گروہ تھے لیکن مملکت اسلامیہ میں یہودی، عیسائی اور مجوسیبھی شامل تھے جن کے شخصی قوانین مسلمانوں سے مختلف تھے۔ قرآن نے ان کے لیے جزیہ دےکر مملکتِ اسلامیہ میں رہنے کی جو گنجائش نکالی تھی اس کے معنی یہی تھے کہ ان کےمذہب اور ان کے شخصی قانون میں مداخلت نہ کی جائے، البتہ اسلام کا ملکی قانون ان پربھی اسی طرح نافذ ہو گا جس طرح مسلمانوں پر ہو گا۔ چنانچہ اسی قاعدے پر نبی صلیاللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کی حکومت نے عمل کیا۔

 

اب پاکستان میں ہمجس زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ نزولِ قرآن کا زمانہ نہیں ہے بلکہ اس سے ۱۴ سو سالبعد کا زمانہ ہے۔ ان پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کے اندر متعدد فرقے بن چکے ہیں اوران کو بنے اور جمے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں۔ ان کے درمیان قرآن کی تعبیر میں بھیاختلافات ہیں اور سنتوں کی تحقیق میں بھی۔ اگر ہم ان مختلف فرقوں کو یہ اطمینان دلادیں کہ ان کے مذہبی اور خانگی معاملات انہی کی مسلمہ فقہ پر قائم رہیں گے اور صرفملکی معاملات میں ان کو اکثریت کا فیصلہ ماننا ہو گا تو وہ بے کھٹکے ایک مشترک ملکینظام اسلامی بنانے کے لیے تیار ہو جائیں گے لیکن اگر کوئی ” مرکز ملت ” صاحب قرآنکا نام لے کر ان کے مذہبی عقائد و عبادات اور ان کے خانگی معاملات میں زبردستیمداخلت کرنے پر اتر آئیں اور ان سارے فرقوں کو توڑ ڈالنا چاہیں، تو یہ ایک سختخونریزی کے بغیر ممکن نہ ہو گا۔ بلا شبہ یہ ایک مثالی حالت ہو گی کہ مسلمان پھر ایکہی جماعت کی حیثیت اختیار کر لیں جس میں امت مسلمہ کے لیے تمام قوانین کھلے اورآزادانہ بحث و مباحثے سے طے ہو سکیں۔ لیکن یہ مثالی حالت نہ پہلے ڈنڈے کے زور سےپیدا ہوئی تھی نہ آج اسے ڈنڈے کے زور سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔

 

۱۸۔  حیثیترسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز

 

اعتراض : ” آپ نےترجمان القرآن کے متعدد اوراق اس بحث میں ضائع کر دیے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلمکو اسلامی ریاست کا صدر یا مسلمانوں کا لیڈر یا قاضی اور جج کس نے بنایا تھا۔ خدانے یا مسلمانوں نے انتخاب کے ذریعے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس بحث سے بالآخر آپ کامقصد کیا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق ایکاسلامی مملکت قائم کی۔ ایک بچہ بھی اس بات کو سمجھ لے گا کہ اس مملکت کا اولینسربراہ اور مسلمانوں کا رہنما اور تمام معاملات کے فیصلے کرنے کی آخری اتھارٹی جسکے فیصلوں کی کہیں اپیل نہ ہو سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا اور کون ہوسکتا تھا؟”

 

جواب : جس سوال کو ایک فضول اور لایعنی سوال قرار دے کر اس کاسامنا کرنے سے اس طرح گریز کیا جا رہا ہے وہ دراصل اس بحث کا ایک فیصلہ کن سوال ہے۔اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرمانروا، قاضی اور رہنما تھےتو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے اور آپ کیتعلیمات و ہدایات اور آپ کے احکام من جانب اللہ تھے اور اس بنا پر لازماً وہ اسلاممیں سند و حجت ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ان چیزوںکو سند و حجت نہیں مانتا تو اسے دو باتوں میں سے ایک بات لامحالہ کہنی پڑے گی۔ یاتو وہ یہ کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم خود فرمانروا اور قاضی اور رہنما بن بیٹھےتھے یا پھر یہ کہے کہ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان مناصب کے لیے اپنیمرضی سے منتخب کیا تھا اور وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں آپ صلی اللہعلیہ و سلم کے بجائے کسی اور کو بھی منتخب کر لینے کے مجاز تھے اور ان کو یہ بھی حقتھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معزول کر دیتے۔ منکرینِ حدیث پہلی بات ماننا نہیںچاہتے، کیونکہ اس کو مان لیں تو ان کے مسلک کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ لیکن دوسری دونوںباتوں میں سے کسی بات کو بھی صاف صاف کہہ دینے کی ان میں ہمت نہیں ہے، کیونکہ اس کےبعد اس دام فریب کا تار تار الگ ہو جائے گا جس میں وہ مسلمانوں کو پھانسنا چاہتےہیں۔ اسی لیے یہ حضرات اس سوال سے بچ کر بھاگ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناظرین براہِکرم اس کتاب کے صفحات ۹۵ تا ۹۸ پر "مرکز ملت” کی بحث ملاحظہ فرما لیں اور پھردیکھیں کہ میرے اٹھائے ہوئے سوالات سے بچ کر کس طرح راہ گریز اختیار کی جا رہیہے۔

 

۱۹۔  کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں؟

 

اعتراض: نزول قرآن کے وقت دنیا میں مذہب اور سیاست دو الگ الگ شعبے بن گئے تھے۔ مذہبی امورمیں مذہبی پیشواؤں کی اطاعت ہوتی تھی اور سیاسی یا دنیاوی امور میں حکومت کی۔ قرآننے اس ثنویت کو مٹایا اور مسلمانوں سے کہا کہ رسول اللہ تمہارے مذہبی رہنما ہینہیں، سیاسی اور تمدنی امور میں تمہارے سربراہ بھی ہیں اس لیے ان تمام امور میں آپہی کی اطاعت کی جائے گی۔ رسول اللہ کے بعد یہ تمام مناصب (یعنی خدا سے وحی پانے کےعلاوہ دیگر مناصب) حضورﷺ کے سچے جانشین (خلیفۃ الرسول) کی طرف منتقل ہو گئے اور ابخدا اور رسول کی اطاعت کے معنی اس نظام کی اطاعت ہو گئے جسے عام طور خلافت علیٰمنہاج نبوت کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی کو میں نے ” مرکز ملت ” کی اصطلاحسے تعبیر کیا تھا جس کا آپ مذاق اڑا رہے ہیں۔”

 

جواب : اس دعوے کی دلیل کیاہے کہ حامل وحی ہونے کے سوا باقی جتنی حیثیات بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اسلامینظام میں حاصل تھیں وہ سب آپ کے بعد خلیفہ یا "مرکز ملت” کو منتقل ہو گئیں؟ کیاقرآن میں یہ بات کہی گئی ہے؟ یا رسول اللہ نے اس کی تصریح کی ہے؟ یا خلفائے راشدیننے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم کو یہ حیثیت حاصل ہے؟ یا عہد رسالت سے لے کر آج تکعلمائے امت میں سے کسی قابلِ ذکر آدمی کا مسلک یہ رہا ہے؟ قرآن مجید جو کچھ کہتا ہےوہ اس کتاب کے صفحات ۷۴ تا ۸۳ پر میں پیش کر چکا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کےکسی ارشاد کو یہ لوگ مانتے نہیں[2]، ورنہ میں بکثرت مستند و معتبر احادیث پیش کرتا جنسے اس دعوے کی تردید ہو جاتی ہے۔ خلفائے راشدین کے متعلق منکرین حدیث کا دعویٰ ہےکہ وہ اپنے آپ کو اس حیثیت پر فائز سمجھتے تھے۔ مگر میں نے اسی کتاب کے صفحات ۱۱۳تا ۱۱۸ پر حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے اپنے اقوال لفظ بلفظپیش کر دیئے ہیں جن سے یہ جھوٹا الزام ان پر ثابت نہیں ہوتا۔ اب یہ اصحاب کم از کمیہی بتا دیں کہ پچھلی چودہ صدیوں میں کب کس عالمِ دین نے یہ بات کہی ہے۔

 

۲۰۔  اسلامی نظام کے امیر اور منکرین حدیث کے "مرکز ملت” میں عظیم فرق

 

اعتراض: "یہ جو میں نے کہا ہے کہ "خدا اور رسول” سے مراد اسلامی نظام ہے تو یہ میری اختراعنہیں۔ اس کے مجرم آپ بھی ہیں۔ آپ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں سورۂ مائدہ کی آیتانما جزاؤ الذین یحاربون اللہ (۳۳:۵) کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:

 

"خدا اوررسول صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑنے کا مطلب اس نظامِ صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جواسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائم ہوجاتا ہے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا دراصل خدا اور اس کے رسول کے خلاف جنگ ہے۔”(جلد اول، صفحہ ۳۶۵)۔

 

جواب : یہاں پھر میرے سامنے میری ہی عبارت کو توڑ مروڑکر پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اصل عبارت یہ ہے:

 

” ایسا نظام جب کسیسرزمین میں قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا، قطع نظر اس سے کہ وہچھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اسنظام صالح کو الٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کر دینے کے لیے ہو، دراصلخدا اور رسول کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیرات ہند میں ہر اس شخص کو جوہندوستان کی برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے، بادشاہ کے خلاف لڑائی (Waging War against the King) کا مجرم قرار دیا گیا۔ چاہے اس کی کاروائی ملک کےکسی دور دراز گوشے میں ایک معمولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کیدسترس سے کتنا ہی دور ہو۔”

 

اب ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی خود دیکھسکتا ہے کہ بادشاہ کی نمائندگی کرنے والے سپاہی کے خلاف جنگ کو بادشاہ کے خلاف جنگقرار دینے اور سپاہی کو خود بادشاہ قرار دے دینے میں کتنا بڑا فرق ہے۔ ایسا ہیعظیم فرق ان دو باتوں میں ہے کہ ایک شخص اللہ اور رسول کے نظامِ مطلوب کو چلانے والیحکومت کے خلاف کاروائی کو اللہ اور رسول کے خلاف کاروائی قرار دے اور دوسرا شخصدعویٰ کرے کہ یہ حکومت خود اللہ اور رسول ہے۔

 

اس فرق کی نزاکت پوری طرحسمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک آپ ان دونوں کے نتائج پر تھوڑا سا غور نہ کریں۔ فرضکیجئے کہ اسلامی حکومت کسی وقت ایک غلط حکم دے بیٹھتی ہے جو قرآن اور سنت کے خلافپڑتا ہے۔ اس صورت حال میں میری تعبیر کے مطابق تو عام مسلمانوں کو اٹھ کر یہ کہنےکا حق پہنچتا ہے کہ "آپ اپنا حکم واپس لیجئے کیونکہ آپ نے اللہ اور رسول کے فرمانکی خلاف ورزی کی ہے، اللہ نے قرآن میں یہ فرمایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمکی سنت سے یہ ثابت ہے اور آپ اس سے ہٹ کر یہ حکم دے رہے ہیں، لہٰذا آپ اس معاملےمیں اللہ اور رسول کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے۔” مگر منکرینِ حدیث کی تعبیر کے مطابقاسلامی حکومت خود ہی اللہ اور رسول ہے۔ لہٰذا مسلمان اس کے کسی حکم کے خلاف بھی یہاستدلال لانے کا حق نہیں رکھتے۔ جس وقت وہ یہ استدلال کریں گے اسی وقت حکومت یہ کہہکر ان کا منہ بند کر دے گی کہ اللہ اور رسول تو ہم خود ہیں، جو کچھ ہم کہیں اورکریں، وہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔

 

منکرین حدیث دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میںجہاں جہاں ” اللہ اور رسول ” کا لفظ آیا ہے، وہاں اس سے مراد اسلامی حکومت ہے۔ میںناظرین سے عرض کروں گا کہ ذرا قرآن کھول کر وہ آیتیں نکال لیجئے جن میں اللہ اوررسول کے الفاظ ساتھ ساتھ آئے ہیں اور خود دیکھ لیجیئے کہ یہاں ان سے حکومت مرادلینے کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں:

 

قلاطیعو اللہ والرسول فان تولوا فان اللہ لا یحب الکٰفرین (آل عمران:۳۲)۔

"اے نبیان سے کہو کہ اطاعت کرو اللہ اور رسول کی۔ پھر اگر وہ اس سے منہ موڑیں تو اللہکافروں کو پسند نہیں کرتا”۔

 

یاایھا الذین آمَنوا آمِنوا باللہ و رسولہ (النسا:۱۳۶)

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، (سچے دل سے) ایمان لاؤ اللہ اور رسولپر۔

 

انما المومنون الذین آمنوا باللہ و رسولہ ثم لم یرتابوا[3](الحجرات:۱۵)

مومن تو اصل میں وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر، پھرشک میں نہ پڑے۔

 

ومن لم یومن باللہ و رسولہ فانا اعتدنا للکٰفرین سعیرا(الفتح:۱۳)

اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر، تو ایسے کافروں کے لیےہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔

 

ان اللہ لعن الکفرین واعد لھم سعیراخالدین فیھا ابدا لا یجدون ولیّا ولا نصیرا یوم تقلب وجوھھم فی النار یقولون یالیتنااطعنا اللہ و اطعنا الرسولا (الاحزاب: ۶۴، ۶۵، ۶۶)

یقیناً اللہ نے لعنت کی کافروںپر اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر دی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس روزکوئی حامی و مددگار نہ پائیں گے۔ جب ان کے چہرے آگ پر پلٹائے جائیں گے۔ اس وقت وہکہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔

 

ومامنعھم ان تقبل منھم نفقتھم الا انھم کفروا باللہ وبرسولہ (التوبہ:۵۴)

 

ان کےنفاق کو قبول ہونے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ انہوں نے کفر کیا، اللہ اور اس کے رسول سے۔

 

ان تستغفر لھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لھم ذالکبانھم کفروا باللہ و رسولہ (التوبہ:۸۰)

اے نبی اگر تم ان کے لیے ستر بار مغفرتکی دعا کرو تو اللہ انہیں نہ بخشنے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولسے کفر کیا ہے۔

 

ولا تصل علیٰ احد منھم مات ابدا ولا تقم علیٰ قبرہ انھمکفروا باللہ و رسولہ وما توا وھم فاسقون (التوبہ:۸۴)

اور ان میں سے جو کوئی مرجائے، اس کی نماز جنازہ ہر گز نہ پڑھو اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو۔ انہوں نے اللہاور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور وہ فاسق مرے ہیں۔

 

یا ایھا الذین امنوااطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم (محمد:۳۳)

اے لوگو جو ایمانلائے ہو، اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کر لو۔

 

ومنیعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جھنم خالدین فیھا ابدا (الجن:۲۳)

اور جو کوئی اللہاور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ ایسے لوگ اس میں ہمیشہرہیں گے۔

 

الم یعلموا انہ من یحادد اللہ و رسول فان لھم[4]نار جھنم خالدا فیھا(التوبہ:۶۳)

کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفتکرے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔

 

واللہ و رسولہ احق انیرضوہ ان کانوا مؤمنین (التوبہ:۶۲)

اللہ اور اس کا رسول اس کا زیادہ حق دار ہےکہ وہ اس کو راضی کریں اگر وہ مومن ہیں۔

 

ان آیات کو جو شخص بھی بغور پڑھے گااسے معلوم ہو جائے گا کہ اگر اللہ اور رسول کے معنی کہیں حکومت کے ہو جائیں تو دیناسلام کا حلیہ بگڑ کر رہ جاتا ہے اور ایک ایسی بدترین ڈکٹیٹر شپ قائم ہو جاتی ہے جسکے سامنے فرعون اور چنگیز اور ہٹلر اور مسولینی اور اسٹالین کی آمریتیں ہیچ ہو کررہ جائیں۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ حکومت ہی مسلمانوں کا دین و ایمان ہو۔ اس کوماننے والا مسلمان رہے اور اس سے روگردانی کرنے والا کافر ہو جائے۔ اس کی نافرمانیکرنے والا دنیا ہی میں جیل نہ جائے بلکہ آخرت میں بھی دائمی جہنم کی سزا بھگتے۔ اسسے اختلاف کر کے آدمی ابدی عذاب میں مبتلا ہو۔ اس کو راضی کرنا شرطِ ایمان قرار پائےاور جو شخص اس کی اطاعت سے منہ موڑے، اس کی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور ساری نیکیاںبرباد ہو جائیں بلکہ مسلمانوں کے لیے اس کی نماز جنازہ بھی جائز نہ ہو اور اس کےلیے دعائے مغفرت تک نہ کی جا سکے۔ ایسی حکومت سے آخر دنیا کی کسی آمریت کو کیا نسبتہو سکتی ہے۔

 

پھر ذرا اس پہلو پر غور کیجئے کہ بنی امیہ کے بعد سے آج تکساری دنیائے اسلام کبھی ایک دن کے لیے بھی ایک حکومت میں جمع نہیں ہوئی ہے اور آجبھی مسلم ممالک میں بہت سی حکومتیں قائم ہیں۔ اب کیا انڈونیشیا، ملایا، پاکستان، ایران، ترکی، عرب، مصر، لیبیا، تونس اور مراکش میں سے ہر ایک کے "اللہ اور رسول” الگ الگ ہوں گے؟ یا کسی ایک ملک کے "اللہ اور رسول” زبردستی اپنی آمریت دوسرےملکوں پر مسلط کریں گے؟ یا اسلام میں اس وقت تک پورا کا پورا معطل رہے گا جب تکپوری دنیائے اسلام متفق ہو کر ایک "اللہ اور رسول” کا انتخاب نہ کر لے؟

 

۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟

 

اعتراض : "اگر بحیثیت صدرِ ریاسترسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہر حکم وحی پر مبنی ہوتا تھا تو پھر آپ کو مشورےکا حکم کیوں دیا گیا تھا؟ آپ نے زیر نظر خط و کتابت میں اس سلسلے میں یہ لکھا ہے کہحضورﷺ نے اپنی ۲۳ سالہ نبوت کی زندگی میں جو کچھ کہا، یا کیا وہ سب وحی کی بنا پرتھا اور اب آپ ” تدابیر ” کو اس سے خارج کر رہے ہیں۔”

 

جواب : جن معاملات میںبھی اللہ تعالیٰ وحی متلو یا غیر متلو کے ذریعہ سے حضورﷺ کی رہنمائی نہ کرتا تھا انمیں اللہ تعالیٰ ہی کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق حضورﷺ یہ سمجھتے تھے کہ اسے انسانیرائے پر چھوڑ دیا گیا ہے اور ایسے معاملات میں آپ اپنے اصحاب سے مشورہ کر کے فیصلےفرماتے تھے۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ حضورﷺ کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلامی طریق مشاورتکی تربیت دے دی جائے۔ مسلمانوں کو اس طرح کی تربیت دینا خود فرائض رسالت ہی کا ایکحصہ تھا۔

 

۲۲۔  اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہامسے؟

 

اعتراض : آپ نے لکھا ہے کہ "کیا آپ کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں کہعہد رسالت میں قرآن کے کسی حصے کی تعبیر مشورے سے کی گئی ہو یا کوئی قانون مشورے سےبنایا گیا ہو؟ بہت سی نہیں صرف ایک مثال ہی آپ پیش فرما دیں۔” اس کی ایک مثال توہمیں مشکوٰۃ شریف میں ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے لیے آواز دینے کاحکم دیا۔ لیکن خود اس دعوت کے طریق کو متعین نہیں کیا۔ اس کا تعین حضورﷺ نے صحابہ کےمشورے سے کیا اور اپنی رائے کے خلاف کیا۔ کیونکہ آپﷺ نے پہلے ناقوس بجانے کا حکم دیاتھا۔ فرمائیے اذان دین کے احکام میں داخل ہے یا نہیں؟”

 

جواب : کیا قرآن کیکسی آیت کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس میں نماز کے لیے آواز دینے کا حکم دیا گیا ہو؟قرآن مجید میں تو نماز کی منادی کا ذکر صرف دو آیتوں میں آیا ہے۔ سورۂ مائدہ آیت ۵۸میں فرمایا گیا ہے کہ "جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو یہ اہل کتاب اور کفار اسکا مذاق اڑاتے ہیں۔” اور سورۂ جمہ آیت ۹ میں ارشاد ہوا ہے "جب جمہ کے روز نماز کےلیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔” ان دونوں آیتوں میں نماز کی منادی کاذکر ایک رائج شدہ نظام کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ ہم کو قرآن میں وہ آیت کہیں نہیںملتی جس میں حکم دیا گیا ہو کہ نماز کی منادی کرو۔

 

جہاں تک مشکوٰۃ کے حوالےکا تعلق ہے، معلوم ہوتا ہے وہ مشکوٰۃ پڑھ کر نہیں دیا گیا بلکہ صرف سنی سنائیبات یہاں نقل کر دی گئی ہے۔ مشکوٰۃ کی کتاب الصلوۃ میں باب الاذان نکال کر دیکھئے۔اس میں جو احادیث جمع کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں جب نمازبا جماعت کا باقاعدہ نظام قائم کیا گیا تو اول اول اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایتاس بارے میں نہیں آئی تھی کہ نماز کے لیے لوگوں کو کس طرح جمع کیا جائے۔ حضورﷺ نےصحابہ کرام کو جمع کر کے مشورہ کیا۔ بعض لوگوں نے رائے دی کہ آگ جلائی جائے تا کہاس کا دھواں بلند ہوتے دیکھ کر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز کھڑی ہو رہی ہے۔ بعضدوسرے لوگوں نے ناقوس بجانے کی رائے دی لیکن کچھ اور لوگوں نے کہا کہ پہلا طریقہیہود کا اور دوسرا نصاریٰ کا ہے۔ ابھی اس معاملہ میں کوئی آخری فیصلہ نہ ہوا تھااور اسے سوچا جا رہا تھا کہ حضرت عبداللہ بن زید انصاری نے خواب میں دیکھا کہ ایکشخص ناقوس لیے جا رہا ہے۔ انہوں نے اس سے کہا، اے بندۂ خدا، یہ ناقوس بیچتا ہے؟ اسنے پوچھا اس کا کیا کرو گے؟ انہوں نے کہا نماز کے لیے لوگوں کو بلائیں گے۔ اس نےکہا میں اس سے اچھا طریقہ تمہیں بتاتا ہوں۔ چنانچہ اس نے اذان کے الفاظ انہیںبتائے۔ صبح ہوئی تو حضرت عبداللہ نے آ کر حضورﷺ کو اپنا خواب سنایا۔ حضورﷺ نے فرمایاکہ یہ سچا خواب ہے، اٹھو اور بلال کو ایک ایک لفظ بتاتے جاؤ، یہ بلند آواز سےپکارتے جائیں گے۔ جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو حضرت عمر دوڑتے ہوئے آئے اور عرضکیا کہ خدا کی قسم آج میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا فللہ الحمد۔ یہہے مشکوٰۃ کی احادیث اور بابِ اذان کا خلاصہ۔ اس سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہالہام سے ہوا ہے اور یہ الہام بصورت خواب حضرت عبد اللہ بن زید اور حضرت عمر پرہوا تھا لیکن مشکوٰۃ کے علاوہ دوسرے کتب حدیث میں جو روایات آئی ہیں ان سب کو اگرجمع کیا جائے تو ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جس روز ان صحابیوں کو خواب میں اذان کیہدایت ملی اسی روز خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھی بذریعۂ وحی یہ حکم آ گیاتھا۔ فتح الباری میں علامہ ابن حجر نے ان روایات کو جمع کر دیا ہے۔

 

۲۳۔  حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند و حجت ہیں یا نہیں؟

 

اعتراض : "آپ کے دعوے کےمطابق حضورﷺ کا ہر فیصلہ وحی پر مبنی ہونا چاہیے۔ لیکن آپ کو خود اس کا اعتراف ہے کہآپ کے یہ فیصلے وحی پر مبنی نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ آپ نے تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ ۱۴۸ پر یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:

 

"میں بہرحال ایک انسانہی تو ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم میں سے ایک فریق دوسرےکی نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرےفیصلے کے ذریعے سے حاصل کی تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کرو گے۔”

 

حضورﷺ کے فیصلوں کی یہی امکانی غلطیاں تھیں جن کے متعلق قرآن کریم نے حضورﷺ کی زبان مبارکسے کہلوایا تھا کہ "اگر میں غلطی کرتا ہوں تو وہ میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، اگر میںسیدھے راستے پر ہوں تو وہ وحی کی بنا پر ہوتا ہے۔”

 

جواب : یہ سخن فہمی کےفقدان کی ایک اور دلچسپ مثال ہے۔ جو شخص قانونی مسائل سے سرسری واقفیت ہی رکھتا ہو، وہ بھی اس بات کو جانتا ہے کہ ہر مقدمے کے فیصلے میں دو چیزیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ایک واقعاتِ مقدمہ (Facts of the case) جو شہادتوں اور قرائن سے متحقق ہوتے ہیں۔دوسرے، ان واقعات پر قانون کا انطباق، یعنی یہ طے کرنا کہ جو واقعات رودادِ مقدمہ سےمعلوم ہوئے ہیں، ان کے لحاظ سے اس مقدمے میں قانونی حکم کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہو سلم نے اس حدیث میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ میں قانون کو واقعات مقدمہپر منطبق کرنے میں غلطی کر سکتا ہوں بلکہ آپ کے ارشاد کا صاف مطلب یہ ہے کہ تم غلطروداد پیش کر کے حقیقت کے خلاف واقعات مقدمہ ثابت کر دو گے تو میں انہی پر قانون کومنطبق کر دوں گا اور خدا کے ہاں اس کی ذمہ داری تم پر ہو گی۔ اس لیے کہ جج کا کاماسی روداد پر فیصلہ کرنا ہے جو فریقین کے بیانات اور شہادتوں سے اس کے سامنے آئے۔کسی دوسرے خارجی ذریعہ سے اس کو حقیقت حال معلوم بھی ہو تو وہ اپنی ذاتی معلومات پرفیصلے کی بنا نہیں رکھ سکتا بلکہ اصول انصاف کی رو سے اس کو روداد مقدمہ ہی پرفیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا غلط روداد پر جو فیصلہ ہو گا وہ جج کی غلطی نہیں ہے بلکہاس فریق کی غلطی ہے جس نے خلاف حقیقت واقعات ثابت کر کے اپنے حق میں فیصلہ کرایا۔اس سے اللہ تعالیٰ ہر مقدمے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعۂ وحی واقعات مقدمہبتایا کرتا تھا؟ اصل دعویٰ تو یہ ہے کہ حضورﷺ قانون کی تعبیر اور حقائق پر ان کےانطباق میں غلطی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ آپ مامور مِن اللہ قاضی تھے، اللہ کی دیہوئی روشنی اس کام میں آپ کی رہنمائی کرتی تھی اور اس بنا پر آپ کے فیصلے سند اورحجت ہیں۔ اس دعوے کے خلاف کسی کے پاس کوئی دلیل ہو تو وہ سامنے لائے۔

 

اوپرجس حدیث سے ڈاکٹر صاحب نے استدلال فرمایا ہے اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ "میں فیصلے میں غلطی کر سکتا ہوں۔” علم قانون میں بھی یہ بات پوری طرح مسلم ہے کہاگر عدالت کے سامنے کوئی شخص شہادتوں سے خلافِ واقعہ بات کو واقعی ثابت کر دے اور ججان کو تسلیم کر کے ٹھیک ٹھیک قانون کے مطابق فیصلہ دے دے تو وہ فیصلہ بجائے خود غلطنہیں ہو گا لیکن ڈاکٹر صاحب اسے فیصلے کی غلطی قرار دے رہےہیں۔

 

۲۴۔  کج بحثیکا ایک عجیب نمونہ

 

اعتراض : آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حضورﷺ سے صرف چند لغزشیںہوئی تھیں۔ یعنی آپ کا خیال یہ ہے کہ اگر حضورﷺ سے زیادہ لغزشیں ہوتیں تو یہ باتقابل اعتراض تھی لیکن چند لغزشیں قابل اعتراض نہیں۔

 

جواب : کس قدر نفیسخلاصہ ہے جو میری تحریر سے نکال کر خود میرے ہی سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ جس عبارتکا یہ خلاصہ نکالا گیا ہے وہ لفظ بلفظ یہ ہے:

 

” دوسری آیات جو آپ نے پیشفرمائی ہیں ان سے آپ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فیصلوںمیں بہت سی غلطیاں کی تھیں جن میں سے اللہ میاں نے بطور نمونہ یہ دو چار غلطیاں پکڑکر بتا دیں تاکہ لوگ ہوشیار ہو جائیں۔ حالانکہ دراصل ان سے نتیجہ بالکل برعکس نکلتاہے۔ ان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ سے اپنی پوری پیغمبرانہ زندگی میں بس وہیچند لغزشیں ہوئی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے فوراً اصلاح فرما دی اور اب ہم پورےاطمینان کے ساتھ اس پوری سنت کی پیروی کر سکتے ہیں جو آپ سے ثابت ہے، کیونکہ اگر اسمیں کوئی اور لغزش ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی برقرار نہ رہنے دیتا جس طرح انلغزشوں کو اس نے برقرار نہیں رہنے دیا۔”

 

اس کا خلاصہ یہ نکالا گیا ہے کہ "حضورﷺ سے زیادہ لغزشیں ہوتیں تو یہ بات قابل اعتراض تھی، لیکن چند لغزشیں قابلاعتراض نہیں ہیں۔” یہ طرز بحث جن لوگوں کا ہے ان کے بارے میں کس طرح آدمی یہ حسن ظنرکھ سکتا ہے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ بات سمجھنے کے لیے گفتگو کرتےہیں۔

 

اعتراض : "اگر حضورﷺ کی ہر بات وحی پر مبنی ہوتی تھی تو حضورﷺ کی ایکلغزش بھی دین کے سارے نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس لیے کہ وہ غلطیکسی انسان کی غلطی نہیں تھی بلکہ (معاذ اللہ) وحی کی غلطی تھی۔ خود خدا کی غلطی تھیاور اگر (معاذ اللہ) خدا بھی غلطی کر سکتا ہے تو ایسے خدا پر ایمان کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟”

 

جواب : یہ ایک مغالطے کے سوا اور کیا ہے۔ آخر یہ کس نے کہا کہوحی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے پہلے غلط رہنمائی کی تھی۔ اس بنا پر حضورﷺ سے لغزشہوئی۔ اصل بات جس کو ہٹ دھرمی کے بغیر با آسانی سمجھا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ حضورﷺ کیایک لغزش تھی چونکہ دین کے سارے نظام کو درہم برہم کر دینے کے لیے کافی تھی، اس لیےاللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ذمہ لیا تھا کہ نبوت کے فرائض کی بجا آوری میں وہ خود آپکی رہنمائی و نگرانی کرے گا اور اگر کسی وقت بتقاضائے بشریت آپ سے کوئی لغزش ہوجائے تو فوراً اس کی اصلاح فرما دے گا تاکہ دین کے نظام میں کوئی خامی باقی نہ رہسکے۔

 

۲۵۔  حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیازتھا۔

 

اعتراض : آپ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنی نبوت کی پوری زندگی میں جو کچھکیا یا فرمایا وہ وحی کی بنا پر تھا لیکن دجال سے متعلق احادیث کے سلسلے میں آپ کاارشاد یہ ہے:

 

"ان امور کے متعلق جو مختلف باتیں حضورﷺ سے احادیث میں منقولہیں، وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں جن کے بارے میں آپ خود شک میں تھے۔” (رسائل ومسائل، ص ۵۵)

 

اور اس کے بعد آپ خود ہی اس کا اعتراف کر لیتے ہیں کہ:

 

"حضور کا یہ تردد تو خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں آپ نے علمِ وحی کی بناپر نہیں فرمائی تھیں بلکہ اپنے گمان کی بنا پر فرمائی تھیں۔” (رسائل و مسائل، ص۵۶)

 

جواب : میری جن عبارات کا یہاں سہارا لیا جا رہا ہے ان کو نقل کرنے میںپھر وہی کرتب دکھایا گیا ہے کہ سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک فقرہ کہیں سے اور ایککہیں سے نکال کر اپنا مطلب برآمد کر لیا گیا ہے۔ دراصل جو بات ایک مقام پر میں نےکہی ہے وہ یہ ہے کہ دجال کے متعلق حضورﷺ کو وحی کے ذریعہ سے جو علم دیا گیا تھا وہصرف اس حد تک تھا کہ وہ آئے گا اور ان ان صفات کا حامل ہو گا۔ انہی باتوں کو حضورﷺ نے خبر کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ کب اور کہاں آئے گا تو اسکے متعلق جو کچھ آپ نے بیان فرمایا ہے وہ خبر کے انداز میں نہیں بلکہ قیاس و گمانکے انداز میں فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر ابن صیاد کے متعلق آپ نے شبہ ظاہر فرمایاکہ شاید یہ دجال ہو۔ لیکن جب حضرت عمر نے اسے قتل کرنا چاہا تو حضورﷺ نے فرمایا کہاگر یہ دجال ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو اور اگر یہ دجال نہیں ہے توتمہیں ایک ذمی کو قتل کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ "اگر دجالمیری زندگی میں آ گیا تو میں حجت سے اس کا مقابلہ کروں گا، ورنہ میرے بعد میرا ربتو ہر مومن کا حامی و ناصر ہے ہی۔” اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور وحی کے ذریعہسے ملے ہوئے علم کو ایک انداز میں بیان فرماتے تھے اور جن باتوں کا علم آپ کو وحیکے ذریعہ سے نہیں دیا جاتا تھا ان کا ذکر بالکل مختلف انداز میں کرتے تھے۔ آپ کاطرز بیان ہی اس فرق کو واضح کر دیتا تھا، لیکن جہاں صحابہ کو اس فرق کے سمجھنے میںکوئی مشکل پیش آتی تھی وہاں وہ خود آپ سے پوچھ لیتے تھے کہ یہ بات آپ اپنی رائے سےفرما رہے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے حکم سے۔ اس کی متعدد مثالیں میں نے تفہیمات حصۂ اولکے مضمون ” آزادی کا اسلامی تصور” میں پیش کی ہیں۔

 

۲۶۔  کیا صحابہ اس بات کےقائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟

 

اعتراض : ” میں نے لکھا تھا کہکئی ایسے فیصلے جو رسول اللہ کے زمانے میں ہوئے لیکن حضورﷺ کے بعد جب تغیرات حالاتکا تقاضا ہوا تو خلفائے راشدین نے ان فیصلوں کو بدل دیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ انبزرگوں پر سخت بہتان ہے جس کے ثبوت میں آپ نہ ان کا کوئی قول پیش کر سکتے ہیں، نہعمل۔ آپ یہ معلوم کر کے متعجب ہوں گے کہ اس باب میں خود آپ نے ایک ہی صفحہ آگے چلکر اس امر کا بیّن ثبوت پیش کر دیا ہے کہ صحابۂ کبار حضورﷺ کے فیصلے کو تغیر حالات کےمطابق قابل ترمیم سمجھتے تھے۔ سنئے کہ آپ نے کیا لکھا ہے:

 

"کس کو معلومنہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے حضورﷺ کی وفات کے بعد جیش اسامہ کو بھیجنے پر صرف اسلیے اصرار کیا کہ جس کام کا فیصلہ حضورﷺ اپنی زندگی میں کر چکے تھے، اسے بدل دینے کاوہ اپنے آپ کو مجاز نہ سمجھتے تھے۔ صحابۂ کرام نے جب ان خطرات کی طرف توجہ دلائی جنکا طوفان عرب میں اٹھتا ہوا نظر آ رہا تھا اور اس حالت میں شام کر طرف فوج بھیجدینے کو نامناسب قرار دیا تو حضرت ابوبکر کا جواب یہ تھا کہ اگر کتے اور بھیڑئیےبھی مجھے ا چک لے جائیں تو میں اس فیصلے کو نہ بدلوں گا جو رسول اللہ نے کر دیاتھا۔” (ترجمان، نومبر ۶۰ عیسوی، ص ۱۱۳)

 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرکے سوا باقی تمام صحابہ اس بات کو جائز سمجھتے تھے کہ حالات کے تغیر کے ساتھ، رسولاللہ کے فیصلے کو بدلا جا سکتا ہے۔

 

پھر آپ نے لکھا ہے:

 

"حضرت عمر نےخواہش ظاہر کی کہ کم از کم اسامہ کو ہی اس لشکر کی قیادت سے ہٹا دیں، کیونکہ بڑےبڑے صحابہ اس نوجوان لڑکے کی ماتحتی میں رہنے سے خوش نہیں ہیں تو حضرت ابوبکر نے انکی داڑھی پکڑ کر فرمایا کہ خطاب کے بیٹے! تیری ماں تجھے روئے اور تجھے کھو دے، رسولاللہ نے اس کو مقرر کیا اور تو کہتا ہے کہ میں اسے ہٹا دوں۔” (ایضاً)

 

اس سےبھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر اس کے قائل تھے کہ تغیر حالات سے حضورﷺ کے فیصلے بدلےجا سکتے ہیں بلکہ اس واقعہ میں تغیر حالات کا بھی سوال نہیں تھا۔ آپ کا کیا خیال ہےکہ (ایک حضرت ابوبکر کے سوا) صحابہ میں سے کوئی بھی اس بات کو نہیں سمجھتا تھا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے کسی حالت میں بھی بدلے نہیں جاسکتے؟

 

جواب : یہ ایک اور مثال ہے اس بات کی کہ منکرین حدیث ہر عبارت میں صرفاپنا مطلب تلاش کرتے ہیں۔ اوپر حضرت ابوبکر کے جو دو واقعات نقل کیے گئے ہیں ان کوپھر پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ کیا ان میں یہ بات بھی کہیں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر نے جبرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے کو بدلنے سے انکار کیا تو حضرت عمر نے، یاصحابہ کرام میں سے کسی نے یہ کہا ہو کہ "اے حضور مرکز ملت، آپ از روئے شرع نبی صلیاللہ علیہ و سلم کے فیصلوں کے پابند نہیں ہیں بلکہ انہیں بدل دینے کا پورا اختیاررکھتے ہیں۔ اگر آپ کی اپنی رائے یہی ہے کہ اس وقت جیش اسامہ کو جانا چاہیے اوراسامہ ہی اس کے قائد ہوں تو بات دوسری ہے۔ آپ اس پر عمل فرمائیں کیونکہ آپ "اللہاور رسول” ہیں، لیکن یہ استدلال نہ فرمایئے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کافیصلہ ہے اس لیے اسے نہیں بدلا جا سکتا۔ حضور اپنے زمانے کے مرکز ملت تھے اور آپاپنے زمانے کے مرکز ملت ہیں۔ آج آپ کے اختیارات وہی ہیں جو کل حضور کو حاصل تھے۔” یہ بات اگر حضرت عمر یا دوسرے صحابہ نے کہی ہوتی تو بلاشبہ منکرین حدیث کی بات بنجاتی۔ لیکن اس کے برعکس وہاں معاملہ یہ پیش آیا کہ جس وقت حضرت ابوبکر نے حضورﷺ کےفیصلے کا حوالہ دیا اسی وقت حضرت عمر نے بھی اور صحابہ نے بھی سر اطاعت جھکا دیا۔جیش اسامہ روانہ ہوا، اسامہ ہی اس کے قائد رہے اور بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کیقیادت میں راضی خوشی چلے گئے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہےکہ حضورﷺ کے بعد بعض حضرات کو یہ غلط فہمی لاحق ہوئی تھی کہ آپ کے انتظامی فیصلوںمیں حسب ضرورت رد و بدل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس وقت دین کے فہم میں جو شخص سب سےبڑھا ہوا تھا اس کے متنبہ کرنے پر سب نے اپنی غلطی محسوس کر لی اور سر تسلیم خم کردیا۔ یہ طرز عمل بہت افسوسناک ہے کہ محض اپنی بات بنانے کی خاطر صحابہ کرام کے انتاثرات کا تو سہارا لے لیا جائے جن کا اظہار فقط بحث کے دوران ہوا۔ لیکن اس اجتماعیفیصلے سے آنکھیں بند کر لی جائیں جس پر بحث کے بعد آخر کار سب کا اتفاق ہو گیا ہو۔دنیا بھر کا مسلّم قاعدہ تو یہ ہے کہ ایک بحث کے بعد جو بات متفق علیہ طور پر طے ہو، وہی طے شدہ فیصلہ قابل حجت ہے نہ کہ وہ آراء جو اثنائے بحث سامنے آئی ہوں۔

 

۲۷۔  مسئلۂ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمر کے فیصلے کی اصل نوعیت

 

اعتراض : آپفرماتے ہیں کہ میں کوئی مثال پیش کروں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کےکسی فیصلے کو خلفائے راشدین نے بدلا ہو۔ اس سے تو آپ بھی انکار نہیں کریں گے کہ نبیا کرم کے زمانے میں ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کر کے طلاق رجعیقرار دیا جاتا تھا۔ حضرت عمر نے اپنے زمانے میں اسے تین شمار کر کے طلاق مغلظہ قراردے دیا اور فقہ کی رو سے امت آج تک اسی پر عمل کر رہی ہے۔

 

جواب : اس معاملہمیں پوزیشن یہ ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں بھی تین طلاق تین ہی سمجھی جاتی تھیں اورمتعدد مقامات میں حضورﷺ نے ان کو تین ہی شمار کر کے فیصلہ دیا ہے لیکن جو شخص تینمرتبہ طلاق کا الگ الگ تلفظ کرتا تھا اس کی طرف سے اگر یہ عذر پیش کیا جاتا کہ اسکی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور باقی دو مرتبہ ان نے یہ لفظ محض تاکیداً استعمال کیاتھا۔ اس کے عذر کو حضورﷺ قبول فرما لیتے تھے۔ حضرت عمر نے اپنے عہد میں جو کچھ کیا، وہ صرف یہ ہے کہ جب لوگ کثرت سے تین طلاقیں دے کر ایک طلاق کی نیت کا عذر پیش کرنےلگے تو انہوں نے فرمایا کہ اب یہ طلاق کا معاملہ کھیل بنتا جا رہا ہے اس لیے ہم اسعذر کو قبول نہیں کریں گے اور تین طلاقوں کو تین ہی کی حیثیت سے نافذ کر دیں گے۔ اسکو تمام صحابہ نے بالاتفاق قبول کیا اور بعد میں تابعین و ائمہ مجتہدین بھی اس پرمتفق رہے۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضرت عمر نے عہدِ رسالت کے قانون میںیہ کوئی ترمیم کی ہے۔ اس لیے کہ نیت کے عذر کو قبول کرنا قانون نہیں بلکہ اس کاانحصار قاضی کی اس رائے پر ہے کہ جو شخص اپنی نیت بیان کر رہا ہے، وہ صادق القولہے۔ حضورﷺ کے زمانے میں اس طرح کا عذر مدینہ طیبہ کے اکا دکا جانے پہچانے آدمیوں نےکیا تھا۔ اس لیے حضورﷺ نے ان کو راست باز آدمی سمجھ کر ان کی بات قبول کر لی۔ حضرتعمر کے زمانے میں ایران سے مصر تک اور یمن سے شام تک پھیلی ہوئی سلطنت کے ہر شخص کایہ عذر عدالتوں میں لازماً قابل تسلیم نہیں ہو سکتا تھا، خصوصاً جبکہ بکثرت لوگوں نےتین طلاق دے کر ایک طلاق کی نیت کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہو۔

 

۲۸۔ مولفۃالقلوب کے بارے میں حضرت عمر کے استدلال کی نوعیت

 

اعتراض : "حضورﷺ کے زمانےمیں مولفۃ القلوب کو صدقات کی مد سے امداد دی جاتی تھی۔ حضرت عمر نے اپنے زمانے میںاسے ختم کر دیا۔۔”

 

جواب : اسے اگر کوئی شخص فیصلوں میں رد و بدل کی مثالسمجھتا ہے تو اسے دعویٰ یہ کرنا چاہیے کہ حضورﷺ کے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوںمیں بھی مرکز ملت صاحب رد و بدل کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ صدقات میں مولفۃ القلوب کاحصہ حضورﷺ نے کسی حدیث میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں مقرر فرمایا ہے۔(ملاحظہ ہو سورۂ توبہ آیت : ۶)۔ ڈوبتے وقت تنکے کا سہارا لینے کی کیفیت اگر منکرینحدیث پر طاری نہ ہو اور وہ اس معاملہ کی حقیقت سمجھنا چاہیں تو خود لفظ "مولفۃالقلوب” پر تھوڑا سا غور کر کے اسے خود سمجھ سکتے ہیں۔ یہ لفظ آپ ہی اپنا یہ مفہومظاہر کر رہا ہے کہ صدقات میں سے ان لوگوں کو بھی روپیہ دیا جا سکتا ہے جن کی تالیفقلب مطلوب ہو۔ حضرت عمر کا استدلال یہ تھا کہ حضورﷺ کے زمانے میں اسلامی حکومت کوتالیف قلب کے لیے مال دینے کی ضرورت تھی اس لیے حضورﷺ اس مد سے لوگوں کو دیا کرتےتھے۔ اب ہماری حکومت اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ ہمیں اس غرض کے لیے کسی کو روپیہدینے کی حاجت نہیں ہے لہٰذا ہم اس مد میں کوئی روپیہ صرف نہیں کریں گے۔ کیا اس سےیہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت عمر نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد کا کوئی فیصلہبدل ڈالا؟ کیا واقعی حضورﷺ کا فیصلہ یہی تھا کہ تالیف قلب کی حاجت ہو یا نہ ہو، بہرحال کچھ لوگوں کو ضرور مولفۃ القلوب قرار دیا جائے اور صدقات میں سے ہمیشہہمیشہ ان کا حصہ نکالا جاتا رہے؟ کیا خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بھی یہ لازمقرار دیا ہے کہ صدقات کا ایک حصہ تالیف قلب کی مد پر ہر حال میں ضرور ہی خرچ کیاجائے؟

 

۲۹۔  کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمر کے فیصلہ حکم رسول کےخلاف تھا؟

 

اعتراض : "نبی ا کرمﷺ کے زمانے میں مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیمکر دی گئی تھیں۔ لیکن حضرت عمر نے اپنے عہد میں اس سسٹم کو ختم کردیا۔”

 

جواب : نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فیصلہ کبھی نہیں فرمایا تھاکہ مفتوحہ زمینیں ہمیشہ مجاہدین میں تقسیم کی جاتی رہیں۔ اگر ایسا کوئی حکم حضورﷺ نےدیا ہوتا اور حضرت عمر نے اس کے خلاف عمل کیا ہوتا تو آپ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نےحضورﷺ کا فیصلہ بدل دیا یا پھر یہ دعویٰ اس صورت میں کیا جا سکتا تھا جبکہ حضرت عمرنے انہی زمینوں کو مجاہدین سے واپس لے لیا ہوتا جنہیں حضورﷺ نے اپنے عہد میں تقسیمکیا تھا لیکن ان دونوں میں سے کوئی بات بھی پیش نہیں آئی۔ اصل صورتِ معاملہ یہ ہے کہمفتوحہ زمینوں کو لازماً مجاہدین ہی میں تقسیم کر دینا سرے سے کوئی اسلامی قانون تھاہی نہیں۔ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مفتوحہ اراضی کے معاملے میں حسب موقع وضرورت مختلف مواقع پر مختلف فیصلے فرمائے تھے۔ بنی نضیر، بنی قریظہ، خیبر، فدک، وادیُ القُریٰ، مکہ اور طائف کی مفتوحہ اراضی میں سے ہر ایک کا بندوبست عہد رسالت میںالگ الگ طریقوں سے کیا گیا تھا اور ایسا کوئی ضابطہ نہیں بنایا گیا تھا کہ آئندہایسی اراضی کا بندوبست لازماً فلاں طریقے یا طریقوں ہی پر کیا جائے۔ اس لیے حضرتعمر نے اپنے عہد میں صحابہ کے مشورہ سے اراضیِ مفتوحہ کا جو بندوبست کیا، اسے حضورﷺ کے فیصلوں میں رو و بدل کی مثال نہیں قرار دیا جا سکتا۔

 

۳۰۔  وظائف کی تقسیمکے معاملہ میں حضرت عمر کا فیصلہ

 

اعتراض : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے لوگوں کی وظائف مساوی مقرر فرمائے تھے لیکن حضرت عمر نے انہیں خدمات کی نسبت سےبدل دیا۔ یہ اور اس قسم کی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ رسول ا کرم کےفیصلے تغیر حالات کے مطابق خلافت راشدہ میں بدلے گئے تھے۔”

 

جواب : اس بات کاکیا ثبوت ہے کہ حضورﷺ نے مساوی وظائف مقرر فرمائے تھے؟ تاریخ کی رو سے تو یہ حضرتابوبکر کا فعل تھا۔ اس لیے اسے اگر کسی چیز کی مثال قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ یہہے کہ ایک خلیفہ اپنے سے پہلے خلیفہ کے فیصلوں میں رد و بدل کرنے کا مجازہے۔

 

میں عرض کرتا ہوں کہ تمام منکرین حدیث مل کر اس طرح کی مثالوں کی ایکمکمل فہرست پیش فرما دیں۔ میں انشا اللہ ثابت کر دوں گا کہ ان میں سے ایک بھی اسامر کی مثال نہیں ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں حضورﷺ کے فیصلے بدلے گئےتھے۔

 

۳۱۔  کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟

 

اعتراض:  "آپ نے میری اس بات کا بھی مذاق اڑایا ہے کہ قرآن کے جو احکام بعض شرائط سے مشروطہوں جب وہ شرائط باقی نہ رہیں تو وہ احکام اس وقت تک ملتوی ہو جاتے ہیں جب تک ویسےہی حالات پیدا نہ ہو جائیں۔ انہیں "عبوری دور” کے احکام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صدقاتکی مد سے مولفۃ القلوب کو امداد دینے کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے۔ حضرت عمر اسمد کو یہ کہہ کر ختم کر دیتے ہیں کہ یہ حکم اس عبوری دور تک تھا، جب تک نظام کو اسقسم کی تالیف قلوب کی ضرورت تھی۔ اب وہ ضرورت باقی نہیں رہتی اس لیے اس حکم پر عملکرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ یہی منشا ہوتا ہے ان لوگوں کا جو قرآن کے اس قسم کےاحکام کو "عبوری دور کے احکام” کہتے ہیں۔”

 

جواب :اس سخن سازی سے درحقیقت باتنہیں بنتی۔ منکرین حدیث شخصی ملکیت کے بارے میں پورا پورا کیمونسٹ نقطۂ نظر اختیارکرتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے "قرآنی نظام ربوبیت” رکھا ہے۔ اس کے متعلق جب انسے کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں معاشی نظام کے متعلق جتنے بھی احکام صراحتاً یااشارۃً و کنایۃً آئے ہیں وہ سب شخصی ملکیت کا اثبات کرتے ہیں اور کوئی ایک حکم بھیہمیں ایسا نہیں ملتا جو شخصی ملکیت کی نفی پر مبنی ہو یا اسے ختم کرنے کا منشا ظاہرکرتا ہو، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ سب احکام عبوری دور کے لیے ہیں۔ بالفاظ دیگر جبیہ عبوری دور ختم ہو جائے گا اور ان حضرات کا تصنیف کردہ نظام ربوبیت قائم ہو جائےگا تو یہ سب احکام منسوخ ہو جائیں گے۔ جناب پرویز صاحب صاف الفاظ میں فرماتے ہیں:

 

"(سوال کیا جاتا ہے) کہ اگر قرآن کا نظام معاشی اسی قسم کا ہے تو پھر اسنے صدقہ، خیرات، وراثت وغیرہ سے متعلق احکام کیوں دیئے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہقرآن ان نظام کو یک لخت نہیں لے آنا چاہتا۔ بتدریج قائم کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا صدقہ، خیرات، وراثت وغیرہ کے احکام ان عبوری دور سے متعلق ہیں جس میں ہنوز نظام اپنی آخریشکل میں قائم نہ ہوا۔” (ملاحظہ ہو بین الاقوامی مجلس مذاکرہ میں پیش کردہ مقالہ "اسلامی نظام میں معاشیات۔”)

 

لیکن یہ حضرات قرآن میں کہیں یہ نہیں دکھا سکتےکہ ان کے بیان کردہ نظام ربوبیت کا کوئی نقشہ اللہ تعالیٰ نے پیش کیا ہو اور اس کےمتعلق احکام دیئے ہوں اور یہ ارشاد فرمایا ہو کہ ہمارا اصل مقصد تو یہی نظام ربوبیتقائم کرنا ہے، البتہ صدقہ و خیرات اور وراثت وغیرہ کے احکام ہم اس وقت تک کے لیے دےرہے ہیں، جب تک یہ نظام قائم نہ ہو جائے۔ یہ سب کچھ ان حضرات نے خود گھڑ لیا ہے اوراس کے مقابلے میں قرآن کے واضح اور قطعی احکام کو یہ عبوری دور کے احکام قرار دے کرصاف اڑا دینا چاہتے ہیں۔ اس معاملہ کو آخر کیا نسبت ہے اس بات سے جو حضرت عمر نےمولفۃ القلوب کے بارے میں فرمائی تھی۔ اس کا منشا تو صرف یہ تھا کہ جب تک ہمیںتالیف قلب کے لیے ان لوگوں کو روپیہ دینے کی ضرورت تھی، ہم دیتے تھے، اب اس کی حاجتنہیں ہے، اس لیے اب ہم انہیں نہیں دیں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں فقراءو مساکین کو صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم کے مطابق ہم ایک شخص کو اسی وقتتک زکوٰۃ دیں گے جب تک وہ فقیر و مسکین رہے۔ جب اس کی یہ حالت نہ رہے گی تو ہم اسےدینا بند کر دیں گے۔ اس بات میں اور پرویز صاحب کے نظریہ "عبوری دور” میں کوئی دورکی مناسبت بھی نہیں ہے۔

 

۳۲۔ "عبوری دور” کا غلط مفہوم

 

اعتراض : "اس کے تو آپ خود بھی قائل ہیں کہشریعت کا ایک حتمی فیصلہ بھی حالات کے ساز گار ہونے تک ملتوی رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاًآئین پاکستان کے سلسلے میں آپ نے کہا تھا کہ "ایک اسلامی ریاست کے نظم کو چلانے میںغیر مسلموں کی شرکت شرعاً اور عقلاً دونوں طور پر صحیح نہیں لیکن سردست ایک عارضیبندوبست کی حیثیت سے ہم اس کو جائز اور مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کو ملک کی پارلیمنٹمیں نمائندگی دی جائے۔” (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۵۲، ص ۴۳۰-۴۳۱)

 

جواب : یہمعاملہ بھی منکرین حدیث کے نظریہ سے بالکل مختلف ہے۔ غیر مسلموں کے متعلق تو ہمیںمثبت طور پر معلوم ہے کہ اسلام اپنا نظام حکومت چلانے کی ذمہ داری میں انہیں شریکنہیں کرتا۔ اس لیے ہمارا یہ فرض ہے کہ اس پالیسی کو نافذ کریں اور جب تک ہم اسےنافذ کرنے پر قادر نہیں ہوتے اس وقت تک مجبوراً جو کچھ بھی کریں ایک عارضی انتظام کیحیثیت سے کریں بخلاف اس کے منکرین حدیث ایک نظام ربوبیت خود تصنیف کرتے ہیں جس کےمتعلق قرآن کا کوئی ایک مثبت حکم بھی وہ نہیں دکھا سکتے اور شخصی ملکیت کے اثباتپر جو واضح اور قطعی احکام قرآن میں ہیں ان کو وہ عبوری دور کے احکام قرار دیتےہیں۔ ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے نزدیک "عبوری دور” کی تعریفیہ ہے کہ قرآن کے ایک حکم یا اس کے دیئے ہوئے کسی قاعدے اور اصول پر عمل کرنے میںاگر کچھ موانع موجود ہیں تو ان کو دور کرنے تک عارضی طور پر جو کچھ بھی ہم مجبوراًکریں گے وہ عبوری دور کا انتظام ہو گا۔ اس کے برعکس منکرین حدیث کے نزدیک ان کےاپنے تصنیف کردہ اصولوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے جب تک فضا سازگار نہ ہو، اس وقتتک وہ قرآن کے دیئے ہوئے احکام اور اس کے مقرر کیئے ہوئے اصولوں پر محض ایک عارضیانتظام کی حیثیت سے عمل کریں گے۔

 

۳۳۔  حضورﷺ کیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یاشارع تھی؟

 

اعتراض : "ایک سوال یہ بھی سامنے آیا تھا کہ سنت قرآنی احکام واصول کی تشریح ہے یا وہ قرآنی احکام کی فہرست میں اضافہ بھی کرتی ہے؟ صحیح بات یہہے کہ قرآن نے جن باتوں کو اصولی طور حکم دیا، سنت نے ان کی جزئیات متعین کر دیں۔یہ نہیں کہ کچھ احکام قرآن نے دیئے اور اس فہرست میں سنت نے مزید احکام کا اضافہ کردیا۔ اگر ایسی صورت ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ قرآنی احکام نے جو فہرست دی وہناتمام تھی، سنت نے مزید اضافہ سے اس فہرست کی تکمیل کر دی۔لیکن آپ نے جہاں ایکجگہ پہلی صورت بیان کی ہے دوسرے مقام پر دوسری شکل بھی بیان کر دی ہے حالانکہ یہدونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔

 

آپ تھوڑی سی سوجھ بوجھ رکھنے والےانسان سے بھی پوچھئے کہ (بقول آپ کے) رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد کہ پھوپھی بھتیجیاور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی حرام ہے، قرآن کے حکم (یعنی دو بہنوں کو جمع کرناحرام ہے) کی توضیح و تشریح ہے یا محرمات کی قرآنی فہرست میں اضافہ ہے۔ ہر سمجھ دارشخص (بشرطیکہ وہ آپ کی طرح ضدی نہ ہو یا تجاہل عارفانہ نہ کرتا ہو) یہ کہہ دے گا کہیہ فہرست میں اضافہ ہے۔ اس سے یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاںقرآنی فہرست میں پھوپھیوں، خالاؤں، بھانجیوں، رضاعی ماؤں اور بہنوں، بیویوں کی ماؤںاور بیٹوں کی بیویوں حتیٰ کہ پالی ہوئی لڑکیوں تک کا ذکر کر دیا ہے اور یہ بھی کہہدیا کہ دو بہنوں کو اکٹھا نہیں کرنا چاہیے، وہاں کیا اللہ میاں کو (معاذ اللہ) یہکہنا نہیں آتا تھا کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کو بھی اکٹھا نہیں کیا جاسکتا۔”

 

جواب : اس ساری تقریر کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمشارح قرآن بھی تھے اور خدا کے مقرر کردہ شارع بھی۔ ان کا منصب یہ بھی تھا کہ لتبینللناس ما نزل الیھم (لوگوں کے لیے خدا کے نازل کردہ احکام کی تشریح کریں) اور یہ کہیحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث (پاک چیزیں لوگوں کے لیے حلال کریں اور ناپاکچیزوں کو ان پر حرام کر دیں)۔ اس لیے حضورﷺ جس طرح قرآن کے قانون کی تشریح کے مجازتھے اور آپ کی تشریح سند و حجت تھی، اسی طرح آپ تشریع کے بھی مجاز تھے اور آپ کیتشریع سند و حجت تھی۔ ان دونوں باتوں میں قطعاً کوئی تضاد نہیں ہے۔

 

رہاپھوپھی اور خالہ کا معاملہ، تو منکرین حدیث اگر کج بحثی کی بیماری میں مبتلا نہہوتے تو ان کی سمجھ میں یہ بات آسانی سے آ سکتی تھی کہ قرآن نے جب ایک عورت کو اسکی بہن کے ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا تو اس سے مقصود محبت کے اس تعلق کیحفاظت کرنا تھا جو بہن اور بہن کے درمیان فطرتاً ہوتا ہے اور عملاً ہونا چاہیے۔ نبیصلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ یہی علت باپ کی بہن اور ماں کی بہن کے معاملے میںبھی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا پھوپھی اور بھتیجی کو اور خالہ اور بھانجی کو بھی نکاحمیں جمع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ خواہ تشریح تعبیر ہو، یا استنباط یا تشریع، بہرحال خدا کے رسول کا حکم ہے اور آغاز اسلام سے آج تک تمام امت نے بالاتفاق اسےقانون تسلیم کیا ہے۔ خوارج کے ایک فرقے کے سوا کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا اور اسفرقے کا استدلال بعینہ وہی تھا جو منکرین حدیث کا ہے کہ یہ حکم چونکہ قرآن میں نہیںہے، لہٰذا ہم اسے نہیں مانتے۔

 

دوسرے بحثیں جو ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلے میںاٹھائی ہیں، وہ سب قلتِ علم اور قلتِ فہم کا نتیجہ ہیں۔ شریعت کے اہم اصولوں میں سےایک یہ بھی ہے کہ ایک معاملہ میں جو چیز علت حکم ہو رہی ہو وہی اگر کسی دوسرےمعاملہ میں پائی جائے تو اس پر بھی وہی حکم جاری ہو گا مثلاً قرآن میں صرف شراب(خمر) کو حرام کیا گیا تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس میں علتِ حکم اس کا نشہ آور ہوناہے، اس لیے ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اب صرف ایک کم علم اور نادان آدمی ہی یہ سوالاٹھا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشا اگر یہی تھا تو کیا قرآن میں بھنگ، چرس، تاڑیوغیرہ تمام مسکرات کی فہرست نہیں دی جا سکتی تھی؟

 

۳۴۔  بصیرتِ رسول کے خدادادہونے کا مفہوم

 

اعتراض : "ساری بحث کا مدار اس سوال پر ہے کہ کیا رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ ساری کی ساری قرآن کریم میں درج ہوگئی ہے یا قرآن میں صرف وحی کا ایک حصہ داخل ہوا ہے اور دوسرا حصہ درج نہیں ہوا۔ آپکا جواب یہ ہے کہ وحی کی دو (بلکہ کئی) قسمیں تھیں۔ ان میں سے صرف ایک قسم کی وحیقرآن میں درج ہوئی ہے۔ باقی اقسام کی وحییں قرآن میں درج نہیں ہوئی ہیں۔ میں آپ کویہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ نے تفہیمات جلد اول میں یہ لکھا ہے:

 

"اس میںشک نہیں کہ اصولی قانون قرآن ہی ہے مگر یہ قانون ہمارے پاس بلاواسطہ نہیں بھیجا گیاہے بلکہ رسول خدا کے واسطے سے بھیجا گیا ہے اور رسول کو درمیانی واسطہ اس لیےبنایا گیا ہے کہ وہ اصولی قانون کو اپنی اور اپنی امت کی عملی زندگی میں نافذ کر کےایک نمونہ پیش کر دیں اور اپنی خداداد بصیرت سے ہمارے لیے وہ طریقے متعین کر دیں جنکے مطابق ہمیں اس اصولی قانون کو اپنی اجتماعی زندگی اور انفرادی برتاؤ میں نافذکرنا چاہیے[5]۔” صفحہ ۲۳۷) وحی کی خصوصیت یہ ہے اور اسی خصوصیت کی بنا پر وہ منزل من اللہکہلاتی ہے کہ اس میں اس فرد کی بصیرت کو کوئی دخل نہیں ہوتا جس پر وہ وحی بھیجیجاتی ہے۔ جس "وحی ” کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کے اصولی قانونکی عملی طریقے متعین فرمائے تھے۔ اگر وہ واقعی وحی منزل من اللہ تھی تو اس میں حضورﷺ کی بصیرت کو کوئی دخل نہیں ہو سکتا تھا اور اگر حضورﷺ نے اپنی بصیرت سے تجویز فرمایاتھا تو وہ وحی نہیں تھی۔ رسول کی اپنی بصیرت کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو وہ خدا کی وحینہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے آپ یہ کہہ دیں کہ میں نے "خداداد بصیرت” کہا ہے اور انسانیبصیرت اور خداداد بصیرت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ کا یہ جواب ہے تو میں پوچھناچاہتا ہوں کہ آپ کو جو بصیرت ملی ہے، وہ خداداد ہے یا کسی اور کی عطا کردہ؟ ہرانسانی بصیرت خداداد ہی ہوتی ہے۔

 

جواب : یہاں ڈاکٹر صاحب نے لفظ وحی کے معنیسمجھے میں پھر وہی غلطی کی ہے جس پر میں نے اپنے آخری خط میں ان کو متنبہ کر دیاتھا (ملاحظہ ہو کتابِ ہذا، ص ۴۲-۴۳) یہ منکرین حدیث کے لیے نظیر اوصاف میں سے ایکنمایاں وصف ہے کہ آپ ان کی ایک غلطی کو دس مرتبہ بھی مدلل طریقے سے غلط ثابت کردیں، پھر بھی وہ اپنی بات دہراتے چلے جائیں گے اور آپ کی بات کا قطعاً کوئی نوٹس نہلیں گے۔

 

"خداداد بصیرت” سے میری مراد کوئی پیدائشی وصف نہیں ہے۔ جس طرح ہرشخص کو کوئی نہ کوئی پیدائشی وصف ملا کرتا ہے بلکہ اس سے مراد وہی بصیرت ہے جو نبوتکے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرائض نبوت ادا کرنے کے لیے حضورﷺ کو عطا فرمائی تھی، جس کیبنا پر حضورﷺ قرآن کے مقاصد کی ان گہرائیوں تک پہنچتے تھے جن تک کوئی غیر نبی نہیںپہنچ سکتا، جس کی روشنی میں آپ اسلام کی راہ راست پر خود چلتے تھے اور دوسرں کے لیےنشانات راہ واضح کر دیتے تھے۔ یہ بصیرت لازمۂ نبوت تھی جو کتاب کے ساتھ ساتھ حضورﷺ کو عطا کی گئی تھی تاکہ آپ کتاب کا اصل منشا بھی بتائیں اور معاملات زندگی میںلوگوں کی رہنمائی بھی کریں۔ اس بصیرت سے غیر انبیاء کی بصیرت کو آخر کیا نسبت ہے؟غیر نبی کو جو بصیرت بھی اللہ سے ملتی ہے، خواہ وہ قانونی بصیرت ہو یا طبی بصیرت یاکاریگری و صناعی اور دوسرے علوم و فنون کی بصیرت، وہ اپنی نوعیت میں اس نور علم وحکمت اور اس کمال فہم و ادراک سے بالکل مختلف ہے جو نبی کو کار نبوت انجام دینے کےلیے عطا کیا جاتا ہے۔ پہلی چیز خواہ کتنی ہی اونچے درجے کی ہو، بہرحال کوئی یقینیذریعۂ علم نہیں ہے کیونکہ اس بصیرت کے ذریعہ سے ایک غیر نبی جن نتائج پر بھی پہنچتاہے ان کے متعلق علم نہیں ہے کیونکہ اس بصیرت کے ذریعہ سے ایک غیر نبی جن نتائج پربھی پہنچتا ہے ان کے متعلق وہ قطعاً نہیں جانتا کہ یہ نتائج وہ خدا کی رہنمائی سےاخذ کر رہا ہے یا اپنی ذاتی فکر سے۔ اس کے برعکس دوسری چیز اسی طرح یقینی ذریعۂ علمہے جس طرح نبی پر نازل ہونے والی کتاب یقینی ذریعۂ علم ہے۔ اس لیے کہ نبی کو پورےشعور کے ساتھ یہ علم ہوتا ہے کہ یہ رہنمائی خدا کی طرف سے ہو رہی ہے لیکن منکرینحدیث کو نبی کی ذات سے جو سخت عناد ہے، اس کی وجہ سے نبی کے ہر فضل و شرف کا ذکرانہیں سیخ پا کر دیتا ہے اور وہ یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروعکر دیتے ہیں کہ نبی میں اور عام دانشمند انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسے اگرکوئی امتیاز حاصل ہے تو وہ صرف یہ کہ اللہ میاں نے اپنی ڈاک بندوں تک پہنچانے کےلیے اس کو نامہ بر مقرر کر دیا تھا۔

 

۳۵۔  وحی کی اقسام از روئے قرآن

 

اعتراض : ” آپ نے وحیِ خداوندی کی مختلفاقسام کے ثبوت میں سورۂ الشوریٰ کی آیت ۵۱ پیش فرمائی ہے اس کا ترجمہ آپ نے یہ کیاہے:

 

” کسی بشر کے لیے یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے گفتگو کرے مگر وحی کےطریقے پر یا پردے کے پیچھے سے یا اس طرح کہ ایک پیغام بر بھیجے اور وہ اللہ کے اذنسے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہتا ہو، وہ برتر اور حکیم ہے۔”

 

اول تو آپ نے (میریقرآنی بصیرت کے مطابق) اس آیت کے آخری حصے کے معنی ہی نہیں سمجھے۔ میں اس آیت سے یہسمجھتا ہوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ صرف انبیائے کرام سے ہمکلام ہونے کے طریقوں کےمتعلق بیان نہیں کر رہا بلکہ اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ اس کا ہر بشر کے ساتھ باتکرنے کا طریقہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حضرات انبیائے کراماور دوسرے غیر نبی انسان۔ اس آیت کے پہلے دو حصوں میں حضرات انبیائے کرام سے کلامکرنے کے دو طریقوں کا ذکر ہے۔ ایک طریقے کو وحی سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے مطلب ہےقلب نبوی پر وحی کا نزول جو حضرت جبریل کی وساطت سے ہوتا تھا اور دوسرا طریقہ تھابراہ راست خدا کی آواز جو پردے کے پیچھے سے سنائی دیتی تھی۔ اور اس کا خصوصی ذکرحضرت موسیٰ علیہ السلام کے تذکرہ میں ملتا ہے۔ اس کے متعلق قرآن کریم میں وضاحت سےہے کہ کلم اللہ موسیٰ تکلیما (۱۶۴:۴) اور دوسرے مقام پر ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کیخواہش ظاہر کی کہ جو ذات مجھ سے یوں پسِ پردہ کلام کرتی ہے میں اسے بے نقاب دیکھناچاہتا ہوں۔ اس حصے کا یہ مفہوم لینا کہ انبیائے کرام کو خوابوں کے ذریعے وحیملا کرتی تھی۔ کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ آیت کے تیسرے حصے میں یہ بتایا گیاہے کہ عام انسانوں سے خدا کا بات کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان کی طرف رسول بھیجتاہے۔ اس رسول کی طرف خدا وحی کرتا ہے اور رسول اس وحی کو عام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔بالفاظ دیگر ہم جب قرآن کریم پڑھتے ہیں تو خدا ہم سے باتیں کر رہا ہوتاہے۔”

 

جواب : "قرآنی بصیرت” کا جو نمونہ یہاں پیش فرمایا گیا ہے اس کا طول وعرض معلوم کرنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید میں سورۂ شوریٰ کاپانچواں رکوع نکال کر دیکھ لیجیئے۔ جس آیت کے یہ معنی ڈاکٹر صاحب بیان فرما رہےہیں، ٹھیک اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

و کذالک او حیناالیک روحا من امرنا ماکنت تدری ما الکتب ولا الایمان ولکن جعلنٰہنوراً نھدی بہ مننشآءُ من عبادنا وانک لتھدٰی الیٰ صراط مستقیم (آیت ۵۲)۔

 

اور اس طرح (اے نبی)ہم نے وحی کی تمہاری طرف اپنے فرمان کی روح، تم کو پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہے اورایمان کیا ہے، مگر ہم نے اس کو ایک نور بنا دیا جس کے ذریعہ سے ہم رہنمائی کرتے ہیںجس کی چاہتے ہیں اپنے بندوں سے اور یقیناً تم رہنمائی کرتے ہو راہ راست کیطرف۔”

 

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ آیت کا کوئی حصہ بھی عام انسانوں تکخدا کی باتیں پہنچنے کی صورت بیان نہیں کر رہا ہے بلکہ اس میں صرف وہ طریقے بتائےگئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی تک اپنی بات پہنچاتا ہے۔ فرمان خداوندی پہنچنےکے جن تین طریقوں کا اس میں ذکر کیا گیا ہے انہی کی طرف اس آیت میں وکذالک (اور اسیطرح) کا لفظ اشارہ کر رہا ہے یعنی اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سےفرما رہا ہے کہ انہی تین طریقوں سے ہم نے اپنے فرمان کی روح تمہاری طرف وحی کی ہے۔روحا من امرنا سے مراد جبریل امین نہیں لیے جا سکتے، کیونکہ اگر وہ مراد ہوتے تواوحینا الیک کہنے کے بجائے ارسلنا الیک فرمایا جاتا۔ اس لیے "فرمان کی روح” سے مرادوہ تمام ہدایات ہیں جو مذکورہ تین طریقوں سے حضورﷺ پر وحی کی گئیں۔ پھر آخری دوفقروں میں واقعات کی ترتیب یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایکبندے کی رہنمائی اس نور سے کر دی جو "روح فرمان” کی شکل میں اس کے پاس بھیجا گیا اور اب وہ بندہ صراط مستقیم کی طرف لوگوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ تاہم اگر سیاق وسباق کو نظر انداز کر کے صرف اسی ایک آیت پر نگاہ مرکوز کر لی جائے جس کی تفسیرڈاکٹر صاحب فرما رہے ہیں تب بھی اس کا وہ مطلب نہیں نکلتا جو انہوں نے اس سے نکالنےکی کوشش کی ہے، وہ آیت کے تیسرے حصے کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عامانسانوں کی طرف رسول بھیجتا ہے، رسول کی طرف خدا وحی کرتا ہے اور رسول اس وحی کوعام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں : او یرسل رسولاً فیوحیباذنہٖ ما یشآء (یا بھیجے ایک پیغام بر پھر وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو وہ چاہے)۔ اسفقرے میں اگر "رسول” سے مراد فرشتے کے بجائے بشر رسول لیا جائے تو اس کے معنی یہ بنجائیں گے کہ رسول عام انسانوں پر وحی کرتا ہے۔ کیا واقعی عام انسانوں پر انبیاءعلیہم السلام وحی کیا کرتے تھے؟ وحی کے تو معنی ہی اشارۂ لطیف اور کلامِ خفی کے ہیں۔یہ لفظ نہ تو ازروئے لغت اس تبلیغ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے جو انبیاء علیہم السلامخلق خدا کے درمیان علانیہ کرتے تھے اور نہ قرآن ہی میں کہیں اسے اس معنی میںاستعمال کیا گیا ہے یہاں تو رسول کا لفظ صاف طور پر اس فرشتے کے لیے استعمال ہوا ہےجو انبیاء کے پاس وحی لاتا تھا۔ اسی کی پیغام بری کو وحی کرنے کے الفاظ سے تعبیر کیاگیا ہے اور کیا جا سکتا ہے۔

 

۳۶۔  وحیِ غیر متلو پر ایمان، ایمان بالرسول کاجز ہے۔

 

اعتراض : ” جو وحی انبیائے کرام کو ملتی تھی اس کی مختلف قسموں کاذکر قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ نہ ہی قرآن میں کہیں یہ ذکر آیا ہے کہ قرآن صرف ایکقسم کی وحی کا مجموعہ ہے اور باقی اقسام کی وحییں جو رسول اللہ کو دی گئی تھیں وہکہیں اور درج ہیں۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے خودقرآن کریم میں یہ کہلوایا گیا ہے کہ اوحیَ الیَّ ھذا القرآن (سورۂ انعام:۱۹) "میری طرفیہ قرآن وحی کیا گیا۔” کیا قرآن میں کسی ایک جگہ بھی درج ہے کہ میری طرف قرآن وحیکیا گیا اور اس کے علاوہ اور وحی بھی ملی ہے جو اس میں درج نہیں۔ اصل(بات[6])  یہ ہے کہ آپوحی کی اہمیت کو سمجھے ہی نہیں۔ وحی پر ایمان لانے سے ایک شخص مومن ہو سکتا ہے اوریہ ایمان تمام و کمال وحی پر ایمان لانا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وحی کے ایک حصےپر ایمان لایا جائے اور دوسرے حصے پر ایمان نہ لایا جائے۔”

 

جواب : اس بات کاثبوت اس سے پہلے اسی مراسلت کے سلسلے میں دیا جا چکا ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی حضورﷺ پر وحی کے ذریعہ سے احکام نازل ہوتے تھے (ملاحظہ ہو کتاب ہذا صفحہ ۱۱۸ تا ۱۲۵)۔رہا یہ سوال کہ اس دوسری قسم کی وحی پر ایمان لانے کا حکم کہاں دیا گیا ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا دراصل ایمان بالرسالت کا ایک لازمی جزو ہے۔ اللہتعالیٰ نے اپنی کتاب کے علاوہ اپنے رسول پر ایمان لانے کا جو حکم دیا ہے وہ خود اسبات کا متقٰضی ہے کہ رسول جو ہدایت و تعلیم بھی دیں اس پر ایمان لایا جائے، کیونکہوہ من جانب اللہ ہے۔ ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ (النسا:۸۰) "جس نے رسول کی اطاعتکی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔” وان تطیوہ تھتدوا (النور:۹۴) اگر تم اس کی اطاعت کروگے تو ہدایت پاؤ گے۔” اولٰئِک الذین ھدی اللہ فبھدئھم افتدہ (الانعام:۸۱) ” یہ انبیاوہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے، پس تم ان کی ہدایت کی پیرویکرو۔”

 

شاید ڈاکٹر صاحب کو معلوم نہیں ہے کہ متعدد انبیاء ایسے گزرے ہیں جن پرکوئی کتاب نازل نہیں کی گئی۔ کتاب تو کبھی نبی کے بغیر نہیں آئی ہے لیکن نبی کتابکے بغیر بھی آئے ہیں اور لوگ ان کی تعلیم و ہدایت پر ایمان لانے اور اس کا اتباعکرنے پر اسی طرح مامور تھے جس طرح کتاب اللہ پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے کاانہیں حکم دیا گیا تھا۔ خود کتاب لانے والے انبیاء پر بھی اول روز ہی سے وحی متلونازل ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات کا نزول اس وقت شروعہوا جب وہ فرعون کے غرق ہو جانے کے بعد بنی اسرائیل کو لے کر طور کے دامن میں پہنچے(ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع ۱۶ – ۱۷، سورۂ قصص آیات ۴۰ – ۴۳)۔

 

زمانۂ قیاممصر میں ان پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود فرعون اور مصر کا ہرباشندہ ان باتوں پر ایمان لانے کے لیے مامور تھا جنہیں وہ اللہ کی طرف سے پیش کرتےتھے، حتیٰ کہ انہی پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے وہ اپنے لشکروں سمیت مستحق عذابہوا۔

 

منکرین حدیث کو اگر اس چیز کے ماننے سے انکار ہے تو میں ان سے پوچھتاہوں کہ قرآن کی موجودہ ترتیب کے من جانب اللہ ہونے پر آپ ایمان رکھتے ہیں یا نہیں؟قرآن میں خود اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ یہ کتاب پاک بہ یک وقت ایک مرتب کتاب کیشکل میں نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ اسے مختلف اوقات میں بتدریج تھوڑا تھوڑا کر کے نازلکیا گیا ہے (بنی اسرائیل : ۱۰۶، الفرقان : ۳۲)۔ دوسرے طرف قرآن ہی میں یہ صراحت بھیہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مرتب کر کے پڑھوا دینے کا ذمہ خود لیا تھا۔ انّ علینا جمعہو قراٰنہ فاتبع قراٰنہ (القیامہ: ۱۷، ۱)۔ اس سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہےکہ قرآن کی موجودہ ترتیب براہ راست اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت ہوئی ہے، نبی صلیاللہ علیہ و سلم نے اسے اپنی مرضی سے خود مرتب نہیں کر لیا ہے۔ اب کیا کسی شخص کوقرآن میں کہیں یہ حکم ملتا ہے کہ اس کی سورتوں کو اس ترتیب کے ساتھ پڑھا جائے اوراس کی متفرق آیتوں کو کہاں کس سیاق و سباق میں رکھا جائے؟ اگر قرآن میں اس طرح کیکوئی ہدایت نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو لا محالہ کچھ خارج از قرآن ہدایاتہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ سے ملی ہوں گی جن کے تحت آپ نے یہ کتابپاک اس ترتیب سے خود پڑھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ کو پڑھوائی۔ مزید برآںاسی سورۂ قیامہ میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ ثم انّ علینا بیانہ ” پھر اس کامطلب سمجھانا بھی ہمارے ذمہ ہے” (آیت : ۱۹)۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کےاحکام و تعلیمات کی جو تشریح و تعبیر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے قول و عمل سےکرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے ذہن کی پیداوار نہ تھی بلکہ جو ذات پاکآپ پر قرآن نازل کرتی تھی وہی آپ کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی تھی اور اس کی وضاحتطلب امور کی وضاحت بھی کرتی تھی۔ اسے ماننے سے کوئی ایسا شخص انکار کیسے کر سکتا ہےجو قرآن پر ایمان رکھتا ہو۔

 

۳۷۔  کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتےتھے؟

 

اعتراض : ” آپ نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں صرف وہی وحی درج ہے جو حضرتجبریل کی وساطت سے حضورﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ پہلے تو یہ فرمایئے کہ آپ کو یہ کہاں سےمعلوم ہو گیا کہ رسول اللہ کی طرف کوئی وحی حضرت جبریل کی وساطت کے بغیر بھی آتیتھی؟ دوسرے غالباً آپ کو اس کا علم نہیں کہ جس وحی کو آپ جبریل کی وساطت کے بغیر وحیکہتے ہیں (یعنی حدیث) اس کے متعلق حدیث کو وحی ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اسےبھی جبریل لے کر اسی طرح نازل ہوتے تھے جس طرح قرآن کو لے کر ہوتے تھے (ملاحظہفرمایئے جامع بیان العلم) اس لیے آپ کا یہ بیان خود آپ کے گروہ کے نزدیک بھی قابلقبول نہیں۔ْ”

 

جواب : یہ عجیب مرض ہے کہ جس بات کا مآخذ بار بار بتایا جا چکاہے اسی کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ اس کا مآخذ کیا ہے۔ سورۂ شوریٰ کی آیت ۵۱ جس پرابھی ڈاکٹر صاحب خود بحث کر آئے ہیں اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ انبیاء پر وحیجبریل کی وساطت کے بغیر بھی نازل ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جامعبیان العلم کی شکل بھی نہیں دیکھی ہے اور یونہی کہیں سے اس کا حوالہ نقل کر دیا ہے۔اس کتاب میں تو حسان بن عطیہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ "کان الوحی ینزل علیٰ رسولاللہ صلی اللہ علیہ و سلم و یحضرہ جبریل بالسنہ التی تفسر ذالک”۔ یعنی رسول اللہ صلیاللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تھی اور جبریل آ کر اس کی توضیح کرتے اور اس پرعمل کا طریقہ بتاتے تھے۔ اس سے یہ مطلب کہاں نکلا کہ ہر وحی جبریل ہی لاتے تھے؟ اسسے تو صرف یہ بات نکلتی ہے کہ جبریل قرآن کے سوا دوسری وحیاں بھی لاتے تھے۔ "جبریلبھی لاتے اور جبریل ہی لاتے” کا فرق سمجھنا کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہے۔

 

۳۸۔  کتاب اور حکمت ایک ہی چیز ہیں یا الگالگ

 

اعتراض : ” آپ نے یہ دلیل دی ہے کہ خدا نے ” کتاب و حکمت ” دونوں کومنزل من اللہ کہا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے مراد سنت یا حدیث۔ آپ کی اسقرآن دانی پر جس قدر بھی ماتم کیا جائے، کم ہے۔ بندہ نواز، کتاب و حکمت میں واؤ عطفکی نہیں (جس کے معنی ” اور ” ہوتے ہیں)، یہ واؤ تغیری ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت خود قرآنمیں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو خود حکیم (حکمت والا) کہا ہے۔ یٰس والقرآنالحکیم دوسری جگہ الکتب کی جگہ الحکیم کہا ہے۔ تلک الحکیم (۲:۳۱)۔

 

جواب: منکرین حدیث اس غلط فہمی میں ہیں کہ حرف واؤ کے معنی لینے میں آدمی کو پوری آزادیہے، جہاں چاہے اسے عاطفہ قرار دے لے اور جہاں چاہے تفسیری کہہ دے۔ لیکن انہیں معلومہونا چاہیے کہ عربی زبان ہی میں نہیں، کسی زبان کے ادب میں بھی الفاظ کے معنی متعینکرنے کا معاملہ اس طرح الل ٹپ نہیں ہے۔ واؤ کو تفسیری صرف اسی صورت میں قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ دو لفظ جن کے درمیان یہ حرف آیا ہو، باہم مترادف المعنی ہوں، یا قرینےسے یہ معلوم ہو رہا ہو کہ قائل انہیں مترادف قرار دینا چاہتا ہے۔ یہی اردو زبان میںلفظ ” اور ” کے استعمال کا طریقہ ہے کہ اسے تفسیری صرف اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہےجبکہ وہ ہم معنی الفاظ کے درمیان آئے۔ جیسے کوئی شخص کہے ” یہ جھوٹ اور افترا ہے۔” لیکن جہاں یہ صورت نہ ہو وہاں واؤ کا استعمال یا تو دو الگ الگ چیزوں کا جمع کرنےکے لیے ہو گا، یا عام کو خاص پر، یا خاص کو عام پر عطف کرنے کے لیے ہو گا۔ ایسےمقامات پر واؤ کے تفسیری ہونے کا دعویٰ بالکل مہمل ہے۔

 

اب دیکھئے، جہاں تکعربی زبان کا تعلق ہے اس کی رو سے تو ظاہر ہی ہے کہ کتاب اور حکمت مترادف الفاظنہیں بلکہ دونوں الگ معنوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ رہا قرآن، تو اس کے استعمالاتسے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حکمت کو وہ کتاب کا ہم معنی قرار دیتا ہے۔ سورۂ نحلمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُدعُ الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ ” اپنے رب کے راستے کی طرفحکمت کے ساتھ دعوت دو۔” کیا اس کا مطلب یہ ہے قرآن کے ساتھ دعوت دو؟

 

حضرتعیسیٰ کے متعلق سورۂ زخرف میں فرمایا: قال قد جئتکم بالحکمۃ اس نے کہا میں تمہارےپاس حکمت لے کر آیا ہوں۔” کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب لے کر آیا ہوں؟ سورۂ بقرہمیں ارشاد ہوا ہے:  ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیراً ” جسے حکمت دی گئی اسے بڑیدولت دےدی گئی۔” کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کتاب دی گئی؟ سورۂ لقمان میں حکیملقمان کے متعلق فرمایا: ولقد اتینا لقمن الحکمۃ "ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی۔” کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ کتاب عطا کی تھی؟ دراصل قرآن میں کہیں بھی کتاب بول کرحکمت مراد نہیں لی گئی ہے اور نہ حکمت بول کر کتاب مراد لی گئی ہے۔ کتاب کا لفظجہاں بھی آیا ہے، آیات الٰہی کے مجموعہ کے لیے آیا ہے اور حکمت کا لفظ جہاں بھی آیاہے، اس دانائی کے معنی میں آیا ہے جس سے انسان حقائق کے سمجھنے اور فکر و عمل میںصحیح رویہ اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ چیز کتاب میں بھی ہو سکتی ہے۔ کتاب کےباہر بھی ہو سکتی ہے اور کتاب کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ کتاب کے لیے جہاں "حکیم” کالفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کے معنی تو یہ ضرور ہیں کہ کتاب کے اندر حکمت ہے، مگریہ معنی نہیں ہیں کہ کتاب خود حکمت ہے یا حکمت صرف کتاب میں ہے اور اس کے باہر کوئیحکمت نہیں ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب اور حکمت نازل ہونے کایہ مطلب لینا درست نہیں ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر صرف کتاب نازل کی گئی بلکہ اس کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب کے ساتھ وہدانائی بھی نازل کی گئی جس سے آپ اس کتاب کا منشا ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور انسانیزندگی میں اس کو بہترین طریقے سے نافذ کر کے دکھا دیں۔ اسی طرح: یعلمھم الکتبَوالحکمۃ کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ آپ صرف کتاب کے الفاظ پڑھوا دیں بلکہ اس کےمعنی یہ ہیں کہ آپ لوگوں کو کتاب کا مطلب سمجھائیں اور انہیں اس دانش مندی کی تعلیمو تربیت دیں جس سے لوگ دنیا کے نظام زندگی کو کتاب اللہ کے منشا کے مطابق ڈھالنے کےقابل ہو جائیں۔

 

لفظ "تلاوت ” کے معنی

 

اعتراض : ” قرآن ہی کے حکمتہونے کے تمام دلائل سے بڑھ کر وہ دلیل ہے جو سورۂ احزاب کی اس آیت میں موجود ہے جسےآپ نے خود درج کیا ہے اور جس کے متعلق آپ و سلمنے اتنا بھی نہیں سوچاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیا فرما رہے ہیں۔ وہ آیت ہے: واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکنمن آیات اللہ والحکمۃ (۲۵:۳۳) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسوحی کو جو قرآن میں درج ہے آپ وحیِ متلو اور خارج از قرآن وحی کو وحیِ غیر متلو قراردیا کرتے ہیں۔ اس آیت میں حکمت کو بھی ” ما یتلیٰ ” کہا گیا ہے۔ لہٰذا حکمت سے مرادوحی متلو ہے۔ وحی غیر متلو نہیں۔ دوسرے مقامات میں قرآن کو متلو کہا گیا ہے۔ مثلاًسورۂ کہف میں ہے واتل ما او حی الیک من کتاب ربک (۲۷:۱) دوسری جگہ ہے:  وامرت اِن اَکون۔۔۔۔۔ ان اتلوا القرآن (۲۷:۹۲) علاوہ ازیں قرآن کے متعدد مقاماتمیں یتلو علیھم آیاتہ کے الفاظ آئے ہیں۔ احادیث کی تلاوت کا ذکر کہیں نہیں آیا۔ اسلیے سورۃ احزاب میں جس حکمت کی تلاوت کا ذکر ہی اس سے مراد قرآن ہی ہے۔

 

جواب: یہ استدلال بھی بے علمی اور کم فہمی پر مبنی ہے۔ لفظ تلاوت کو ایک اصطلاح کے طور پر صرف "تلاوت کتاب اللہ” کے معنی میں مخصوص کرنا بعد کے اہلِ علم کا فعل ہے جس کی بنا پر "وحیِ متلو” اور "وحیِ غیر متلو” کی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔ قرآن میں تلاوت کا لفظ مجرد پڑھنے کے معنی میں آیا ہے، اصطلاح کے طور اسے صرف آیات کتاب کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اگر اس میں کچھ شک ہو تو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۲ ملاحظہ فرما لیں۔ واتبعو ما تتلو الشیٰطین علیٰ ملک سلیمن "اور انہوں نے پیروی کی اس چیز کی جسے شیاطین تلاوت کیا کرتے تھے سلیمان کی بادشاہی کے دور میں”

 

۴۰۔  کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب

 

سوال: "آپ فرماتے ہیں:

"پھر قرآن مجید ایک اور چیز کا بھی ذکر کرتا ہے جو اللہ کی کتاب کے ساتھ نازل کی ہے، اور وہ ہے المیزان یعنی رہنمائی کی صلاحیت۔ ظاہر ہے کہ یہ تیسری چیز نہ رسول اللہ کے اقوال میں شامل ہے نہ افعال میں۔ بالفاظ دیگر جس طرح رسول اللہ کے اقوال اور افعال قرآن سے الگ تھے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال اس آسمانی رہنمائی سے بھی الگ تھے جسے المیزان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

 

حیرت ہے کہ آپ نے سورۂ حدید کی آیت ۲۵ کا اتنا ہی حصہ کیوں نقل فرمایا، جس میں کتاب اور میزان کا ذکر ہے اور اس ٹکڑے کا ذکر نہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ و انزلنا الحدید (اور ہم نے لوہا بھی نازل کیا) اس سے تو ظاہر ہے کہ کتاب اور میزان کے ساتھ چوتھی چیز الحدید بھی اسی طرح منزل من اللہ ہے۔

 

جواب: اگر بحث برائے بحث نہ ہوتی تو یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک اور آپ کے اقوال و افعال میں ہر معقول آدمی کو خدا کی عطا کردہ حکمت اور میزانِ عدل کے آثار صاف نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بحث پیدا کرنا کہ جب حکمت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال پر مشتمل تھی تو یہ میزان آپ کے اقوال و افعال سے باہر ہونی چاہیے درحقیقت کج بحثی کی بد ترین مثال ہے۔ ایک شخص کے اقوال و افعال میں بیک وقت دانشمندی بھی پائی جا سکتی ہے اور توازن بھی۔ کیا ان دونوں چیزوں میں کوئی ایسا تضاد ہے کہ ایک چیز موجود ہو تو دوسرے اس کے ساتھ موجود نہ ہو سکے؟ انہی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ منکرینِ حدیث کس درجہ کج فہم اور کج بحث واقع ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ میزان سے میری مراد محض رہنمائی کی عام صلاحیت نہیں، بلکہ وہ صلاحیت ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کتاب اللہ کے منشا کے مطابق افراد اور معاشرے اور ریاست میں نظام عدل قائم کیا۔

رہا الحدید والا اعتراض، تو ناظرین براہ کرم خود سورۂ حدید کی آیت ۲۵ کو پڑھ کر دیکھ لیں۔ اس میں کتاب اور میزان کے متعلق تو فرمایا گیا ہے انزلنا منھم (ہم نے یہ دونوں چیزیں انبیاء کے ساتھ نازل کیں)۔ لیکن حدید کے متعلق صرف یہ فرمایا گیا کہ و انزلنا الحدید (اور ہم نے لوہا اتارا)۔ اس لیے اس کا شمار ان چیزوں میں نہیں کیا جا سکتا جو خصوصیت کے ساتھ انبیاء کو دی گئی ہیں۔ "لوہا” تو عادل اور ظالم سب استعمال کرتے ہیں۔ یہ خصائصِ انبیاء میں سے نہیں ہے۔ البتہ ان کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس طاقت کو کتاب اور میزان کا تابع رکھ کر استعمال کرتے ہیں۔ رہا لوہے کا منزل من اللہ ہونا، تو منکرین حدیث کے لیے یہ بڑی عجیب بات ہے مگر قرآن کے صاف الفاظ یہی ہیں کہ انزلنا الحدید "ہم نے لوہا اتارا”

 

۴۱۔  ایک اور کج بحثی

 

اعتراض: "آگے چل کر آپ فرماتے ہیں "پھر قرآن ایک تیسری چیز کی بھی خبر دیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی” اس کے لیے آپ نے حسب ذیل تین آیات درج فرمائی ہیں

 

۱۔ فامنوا باللہ و رسولہ و النور الذی انزلنا (التغابن۔۸)

پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے۔

۲۔ فالذین اٰمنو بہ و عزروہ و نصروہ و ابتغو النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون (الاعراف: ۱۵۷)

پس جو لوگ ایمان لائیں اس رسول پر اور اس کی تعظیم و تکریم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کے پیچھے چلیں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ وہی فلاح پانے والے ہیں۔

۳۔ قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام (المائدہ: ۱۵-۱۶)

تمہارے پاس آ گیا ہے نور اور کتاب مبین جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جو اس کی مرضی کی پیروی کرنے والا ہے، سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔

 

پہلی آیت میں اللہ اور رسول اور النور پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ کیا آپ کے خیال کے مطابق اللہ اور رسول کے علاوہ ایمان لانے کا حکم نہ کتاب پر ہے نہ حکمت پر، نہ میزان پر بلکہ صرف چوتھی چیز پر ہے جسے آپ کتاب و حکمت و میزان سے الگ قرار دیتے ہیں۔ دوسری آیت میں رسول اللہ پر ایمان لانے کا ذکر ہے اور النور کے اتباع کا حکم یعنی اس میں کتاب اور حکمت کے اتباع کا حکم نہیں۔ یعنی آپ کے اس استدلال کے مطابق اگر کوئی شخص قرآن پر ایمان نہیں لاتا، صرف النور پر ایمان لاتا ہے اور وہ قرآن کا اتباع بھی نہیں کرتا صرف النور کا اتباع کرتا ہے وہ مومنین اور مفلحین کے زمرے میں داخل ہو گا۔ یہ النور کیا ہے؟ اس کی وضاحت میں آپ فرماتے ہیں : "اس سے مراد وہ علم و دانش اور وہ بصیرت و فراست ہی ہو سکتی ہے جو اللہ نے حضور کو عطا فرمائی تھی”۔ چلو قرآن پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے سے تو چھٹی پائی، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال کی اطاعت سے بھی۔ کیونکہ ان آیات میں صرف النور کا ذکر ہے”۔

 

جواب: یہ کج بحثی کی ایک اور دلچسپ مثال ہے۔ منکرین حدیث نے کبھی سوچ سمجھ کر قرآن پڑھا ہوتا تو انہیں اس کتاب کے اندازِ بیان کا پتہ لگا ہوتا۔ قرآن مختلف مقامات پر موقع و محل کی مناسبت سے اپنی تعلیم کے مختلف اجزاء کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ مثلاً کہیں وہ صرف ایمان باللہ کے نتیجے میں جنت کی بشارت دیتا ہے، کہیں صرف آخرت کے اقرار و انکار کو مدارِ فلاح و خسران بتاتا ہے۔ کہیں خدا اور یوم آخر پر ایمان کا ثمرہ یہ بتاتا ہے کہ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون۔ کہیں صرف رسول پر ایمان لانے کو موجب فلاح ٹھیراتا ہے۔ اسی طرح اعمال میں کبھی کسی چیز کو نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہے اور کبھی کسی دوسری چیز کو۔ اب کیا یہ ساری آیات ایک دوسرے سے اسی طرح ٹکرائی جائیں گی اور ان سے یہ نتیجہ برآمد کیا جائے گا کہ ان میں تضاد ہے؟ حالانکہ ذرا سی عقل بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان تمام مقامات پر قرآن نے ایک بڑی حقیقت کے مختلف پہلوؤں کو حسب موقع الگ الگ نمایاں کر کے پیش کیا ہے اور ان پہلوؤں میں سے کوئی کسی دوسرے پہلو کی نفی نہیں کرتا۔ جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے گا اور اس روشنی کے پیچھے چلنا قبول کر لے گا جسے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں وہ آپ سے آپ قرآن کو بھی مانے گا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سکھائی ہوئی حکمت و دانش سے بھی بہرہ مند ہونے کی کوشش کرے گا۔ قرآن کا انکار کرنے والے کے متعلق یہ تصور ہی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ نور رسالت کا متبع ہے۔

 

۴۲۔  تحویل قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟

 

اعتراض: "آپ نے تحویل قبلہ والی آیت اور اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے وما جعلنا القلبۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علیٰ عقبیہ (۱۴۳:۲) "اور ہم نے وہ قبلہ جس پر اب تک تم تھے، اسی لیے مقرر کیا تھا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے”۔

 

اس کے متعلق آپ لکھتے ہیں کہ:

"مسجد حرام کو قبلہ قرار دینے سے پہلے مسلمانوں کا جو قبلہ تھا اسے قبلہ بنانے کا کوئی حکم قرآن میں نہیں آیا۔ اگر آیا ہو تو آپ اس کا حوالہ دے دیں”۔ (ایضاً ص ۴۴۹)

 

اگر اس کے متعلق خدا کی طرف سے کوئی حکم آیا ہوتا تو ضرور قرآن میں ہوتا۔ لیکن جب حکم آیا ہی نہیں تھا تو میں اس کا حوالہ قرآن سے کیسے دوں؟ آپ نے یہ پہلے فرض کر لیا ہے کہ پہلے قبلے کو خدا نے مقرر کیا تھا اور اس کے بعد آپ اس آیت کا ترجمہ اسی مفروضے کے مطابق کرتے ہیں۔ اس آیت میں کنت کے معنی "تو تھا” نہیں۔ اس کے معنی ہیں "تو ہے” یعنی "ہم نے وہ قبلہ جس پر تو ہے اس لیے مقرر کیا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے” ان معانی کی تائید خود قرآن سے ہوتی ہے۔

 

جواب: اس آیت میں کنت کے معنی "تو ہے” صرف اس بنیاد پر کر ڈالے گئے ہیں کہ عربی زبان میں کان کبھی کبھی "تھا” کے بجائے "ہے” کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ لیکن جس شخص نے بھی سورۂ بقرہ کا وہ پورا رکوع کبھی سمجھ کر پڑھا ہو جس میں یہ آیت وارد ہوئی ہے، وہ یہاں کنت کے معنی "تو ہے” ہر گز نہیں لے سکتا، کیونکہ مضمون ما سبق و ما بعد یہ معنی لینے میں مانع ہے۔ رکوع کی ابتدا اس آیت سے ہوتی ہے: سیقول السفھاء من الناس ما ولھم عن قبلتھم التی کانو علیھا "نادان لوگ ضرور کہیں گے کہ کس چیز نے پھیر دیا، ان کو ان کے اس قبلے سے جس پر یہ تھے” یہاں کانوا کا ترجمہ "یہ ہیں” کسی طرح بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ "کس چیز نے پھیر دیا” کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ پہلے مسلمان کسی اور قبلے کی طرح رخ کرتے تھے، اب اسے چھوڑ کر دوسرے قبلے کی طرف رخ پھیرنے والے ہیں اور اسی بنا  مخالفین کی طرف سے اس اعتراض کا موقع پیدا رہا ہے کہ اپنے پہلے قبلے سے کیوں پھر گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ اگر مخالفین یہ اعتراض کریں تو اس کا جواب کیا ہے۔ اس سلسلے میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ فقرہ ارشاد فرمایا جاتا ہے: وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا۔۔۔۔۔۔ "اور ہم نے وہ قبلہ جس پر تم تھے، نہیں مقرر کیا گیا مگر اس لیے کہ۔۔۔۔۔۔۔” یہاں کنت علیھا سے مراد بعینہ وہی چیز ہے جس کے متعلق اوپر کی آیات میں کانوا علیھا فرمایا گیا ہے۔ اس کے معنی "تو ہے” کسی طرح بھی نہیں لیے جا سکتے۔ سابقہ آیت قطعی طور پر اس کے معنی "تو تھا” متعین کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تیسری آیت میں تحویل قبلہ کا حکم اس طرح دیا جاتا ہے: قد نرٰی تقلب و جھک فی السمآء فلنر لینک قبلۃ ترضا فول و جھک شطر المسجد الحرام "ہم دیکھ رہے ہیں تمہارے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا۔ پس ہم پھیرے دیتے ہیں تم کو اس قبلے کی طرف جسے تم چاہتے ہو، اب موڑ دو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف”۔ ان الفاظ سے صاف نقشہ نگاہ کے سامنے یہ آتا ہے کہ پہلے مسجد حرام کے سوا کسی اور قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ چاہتے تھے کہ اب وہ قبلہ بدل دیا جائے۔ اس لیے آپﷺ بار بار آسمان کی طرف منہ اٹھاتے تھے کہ کب تبدیلیِ قبلہ کا حکم آتا ہے۔ اس حالت میں فرمان آ گیا کہ لو اب ہم اس قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم قبلہ بنانا چاہتے ہو۔ پھیر دو اپنا رخ مسجد حرام کی طرف۔ اس سیاق و سباق میں آیت وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الخ۔۔۔۔۔ کو رکھ کر دیکھا جائے تو ان الٹی سیدھی تاویلات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، جو ڈاکٹر صاحب نے یہاں پیش فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ مسجد حرام سے پہلے جو قبلہ تھا، وہ بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا تھا اور ہم نے اسے اس لیے مقرر کیا تھا کہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اس سے رو گردانی کرتا ہے۔

 

۴۳۔  قبلے کے معاملے میں رسول کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟

 

اعتراض: "اگر تسلیم کیا جائے کہ پہلا قبلہ خدا نے مقرر کیا تھا تو اس ٹکڑے کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے کہ "ہم نے یہ اس لیے کیا تھا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے”۔ اس لیے کہ پہلے قبلے کے تعین کے وقت کسی کا الٹے پاؤں پھر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایک قبلے کی طرف رخ کرتے تھے جو شخص حضور کے ساتھ شریک ہوتا تھا وہ بھی اسی طرح رخ کر لیتا تھا۔ "الٹے پاؤں پھرنے” کا سوال اس وقت پیدا ہوا جب اس قبلے میں تبدیلی کی گئی۔ اس وقت اس کے پرکھنے کا موقع آیا کہ کون اسی پہلے قبلے کو زیادہ عزیز رکھتا ہے اور کون رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کو (جس نے بحکم خداوندی یہ تبدیلی کی ہے) نئے قبلے کی طرف رخ کرتا ہے۔

 

جواب: یہ محض قلت فہم اور قلت علم کا کرشمہ ہے۔ منکرین حدیث کو یہ معلوم نہیں ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں کعبہ تمام اہل عرب کے لیے مقدس ترین تیرتھ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسلام میں ابتداءً جب اس کے بجائے بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا تو یہ عربوں کے سخت آزمائش کا موقع تھا۔ ان کے لیے اپنے مرکزی معبد کو چھوڑ کر یہودیوں کے معبد کو قبلہ بنانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اسی کی طرف آیتِ زیرِ بحث کا یہ فقرہ اشارہ کرتا ہے کہ وہ ان کانت لکبیرۃ الا علی الذین ھدی اللہ و ما کان اللہ لیفنیع ایمانکم "اگرچہ وہ قبلہ سخت گراں تھا مگر ان لوگوں پر نہیں، جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی تھی اور اللہ تمہارے اس ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے” ان الفاظ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس قبلے کے معاملے میں الٹ پھر جانے کا سوال کیوں پیدا ہوتا تھا۔ مزید برآں یہی الفاظ اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ جو حکم قرآن میں نہیں آیا تھا بلکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے پہنچایا گیا تھا اسی کے ذریعے لوگوں کے ایمان کی آزمائش کی گئی تھی۔ اس حکم کی پیروی جن لوگوں نے کی انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہم تمہارے اس ایمان کو ضائع کرنے والے نہیں ہیں۔ کیا اب بھی اس امر میں کسی شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ غیر از قرآن بھی رسول کے پاس حکم بذریعۂ وحی آ سکتا ہے اور اس پر بھی ایمان کا مطالبہ ہے؟

 

۴۴۔  نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام

 

اعتراض: "یہ بات کہ اس نئے قبلے کا حکم ہی خدا کی طرف سے آیا تھا، پہلے قبلے کا نہیں، دو ہی آیات بعد، قرآن نے واضح کر دی، جہاں کہا ہے کہ : لئن اتبعت اھواء ھم من بعد ما جاءک من العلم انک اذا لمن الظلمین (۲:۱۴۵) یعنی "اگر تو العلم آ جانے کے بعد ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع کرے گا تو تو اس وقت بے شک ظالموں میں سے ہو جائے گا” اس سے صاف واضح ہے کہ العلم (یعنی وحیِ خداوندی) نئے قبلے کے لیے آئی تھی۔ اگر پہلا قبلہ بھی العلم کے مطابق مقرر ہوتا تو یہاں یہ کبھی نہ کہا جاتا کہ "العلم” کے آنے کے بعد تم پہلے قبلے کی طرف رخ نہ کرنا۔

 

جواب: "مجھے شکایت تھی کہ منکرین حدیث میری عبارتوں کو توڑ مروڑ کر میرے ہی سامنے پیش فرما دیتے ہیں مگر اب کیا اس کی شکایت کی جائے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو توڑ مروڑ کر ان کے من مانے مطلب نکالنے میں اس قدر بے باک ہوں ان کے سامنے ما و شما کی کیا ہستی ہے۔ جس آیت کا آخری ٹکڑا نقل کر کے اس سے یہ مطلب نچوڑا جا رہا ہے، اس پوری آیت اور اس سے پہلے کی آیت کے آخری فقرے کو ملا کر پڑھیے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ منکرین حدیث قرآن مجید کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ بیت المقدس کو چھوڑ کر جب مسجد حرام کو قبلہ بنایا گیا تو یہودیوں کے لیے اسی طرح طعن و تشنیع کا موقع پیدا ہو گیا جس طرح قبلۂ سابق پر اہل عرب کے لیے پیدا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

و ان الذین اوتو الکتب لیعلمون انہ الحق من ربھم و ما اللہ بغافل عما یعملون ولئن اتیت الذین اوتو الکتب بکل آیۃ ما تبعو قبلتک وما انت بتابع قبلتھم وما بعضھم بتابع قبلۃ بعض۔ ولئن اتبعت اھوآ ئھم من بعد ماجآءک من العلم انک اذا لمن الظلمین (البقرہ ۱۴۴-۱۴۵)

اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ یہ (یعنی مسجد حرام کو قبلہ بنانا) حق ہے، ان کے رب کی طرف سے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ تم خواہ کوئی نشانی ان اہل کتاب کے پاس لے آؤ، یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہ کریں گے اور تم ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہو اور نہ ان میں سے کوئی کسی کے قبلے کی پیروی کرنے والا ہے۔ اور اگر تم نے وہ علم آ جانے کے بعد جو تمہارے پاس آیا ہے ان کی خواہشات کا اتباع کیا تو تم ظالموں میں سے ہو گے۔

 

اس سیاق و سباق میں جو بات کہی گئی ہے اس سے یہ مطلب آخر کیسے نکل آیا کہ پہلا قبلہ "العلم” کے مطابق مقرر نہیں کیا گیا تھا اور صرف یہ دوسرا قبلہ ہی اس کے مطابق مقرر کیا گیا ہے۔ اس میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ جب خدا کا حکم بیت المقدس کو چھوڑ کر مسجد حرام کو قبلہ بنانے کے لیے آ گیا ہے تو اب اس العلم کے آ جانے کے بعد محض یہودیوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر سابق قبلے کی طرف رخ کرنا ظلم ہو گا۔ کسی منطق کی رو سے بھی اس کو یہ معنی نہیں پہنائے جا سکتے کہ پہلے جس قبلے کی طرف رخ کیا تھا وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا خود ساختہ تھا۔ خصوصاً جبکہ اس سے پہلے کی آیتوں میں وہ کچھ تصریحات موجود ہوں جو نمبر ۴۲، ۴۳ میں ابھی ابھی نقل کی جا چکی ہیں۔ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام رکھنا ایک بدترین قسم کی جسارت ہے۔

 

۴۵۔  لقد صدق اللہ رسولہ الرویا کا مطلب

 

اعتراض: دوسری آیت آپ نے یہ پیش کی ہے لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق لتدخلن المسجد الحرام ان شآء اللہ اٰمنین محلقین روسئکم و مقصرین لاتخافون فعلم مالم تعلمو فجعل من دون ذالک فتحاً قریباً اور اس کا ترجمہ کیا ہے "اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا۔۔۔۔۔۔۔” (۴۸:۲۷) اول تو فرمائیے کہ آپ نے صدق اللہ رسولہ الرویا کا ترجمہ "اللہ نے سچا خواب دکھایا” کس قاعدے کی رو سے کیا ہے؟ صدق الرویا کے معنی "اس نے سچا خواب دکھایا” ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے معنی ہیں "خواب کو سچا کر دکھایا” جیسے لقد صدق اللہ وعدہ "اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا”۔ آپ نے خود اس کا ترجمہ "پورا کر دیا” کیے ہیں۔ یہ نہیں کیے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا۔

 

جواب: صدق اللہ رسولہ الرویا کے معنی”اللہ نے رسول کا خواب سچا کر دکھایا” کسی طرح بھی نہیں ہو سکتے۔ یہ بات کہنی ہوتی تو صدق اللہ رویا باالرسول کہا جاتا نہ کہ صدق اللہ رسولہ الرویا۔ اس فقرے میں صدق کے دو مفعول ہیں:ایک رسول جسے خواب دکھایا گیا۔ دوسرا خواب جو سچا تھا یا جس میں سچی بات بتائی گئی تھی۔ اس لیے لا محالہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا، یا اس کو خواب میں سچی بات بتائی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے عربی میں کوئی صدقنی الحدیث۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس نے مجھ سے سچی بات کہی، نہ یہ کہ اس نے جو بات مجھ سے کہی اسے سچا کر دکھایا۔

 

مزید برآں اگر اس فقرے کے وہ معنی لے بھی لیے جائیں جو ڈاکٹر صاحب لینا چاہتے ہیں تو اس کے بعد والا فقرہ قطعاً بے معنی ہو جاتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لتدخلن المسجد الحرام "تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے”۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ خواب میں جو بات دکھائی گئی تھی وہ ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، اس کی سچائی ثابت ہونے سے پہلے جن لوگوں کو رسول کے خواب کی صداقت ہے، یہ خواب پورا ہو کر رہے گا۔ اگر ان آیات کے نزول سے پہلے وہ خواب سچا کر دکھایا گیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ تدخلن (تم ضرور داخل ہو گے) کہنے کے بجائے قد دخلتم (تم داخلے ہو چکے ہو) فرماتا۔

 

اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ پوری سورۂ فتح جس کی ایک آیت پر یہاں کلام کیا جا رہا ہے، اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی ہے جبکہ مسلمان عمرے سے روک دیے گئے تھے اور مسجد حرام میں داخل ہونے کا واقعہ ابھی پیش نہیں آیا تھا۔ لہٰذا اس سیاق و سباق میں اس آیت کا یہ مطلب لیا ہی نہیں جا سکتا کہ اس وقت خواب پورا ہو چکا تھا۔

 

۴۶۔کیا وحی خواب کی صورت میں ہوتی ہے؟

 

اعتراض: "آپ نے اپنے ترجمہ کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ خواب بھی از قبیل وحی تھا۔ خواب کو وحی قرار دینا وحی کی حقیقت سے بے خبری کی دلیل ہے۔

 

جواب: سورۂ صافات کی آیت ۱۰۲-۱۰۵ ڈاکٹر صاحب کے اس دعوے کی قطعی تردید کر دیتی ہے۔ حضرت ابراہیم اپنے صاحبزادے سے فرماتے ہیں یا بنیَّ انی ارٰی فی المنام انی اذبحک "بیٹا، میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں”۔ صاحبزادے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ یا ابت افعل ما تومر "ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے کر گزریے” اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ صاحبزادے نے اپنے پیغمبر باپ کے خواب کو محض خواب نہیں سمجھا بلکہ اللہ کا حکم سمجھا جو خواب میں دیا گیا تھا۔ اگر صاحبزادے نے یہ بات غلط سمجھی تھی تو اللہ تعالیٰ اس کی تصریح فرما دیتا کہ ہم پیغمبروں کو خواب میں احکام نہیں دیا کرتے۔ لیکن اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یا ابراھیم قد صدقت الرویا انا کذالک نجزی المحسنین "اے ابراہیم ہم نے خواب سچا کر دکھایا، ہم محسنوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں”۔

 

۴۷۔  بے معنی اعتراضات اور الزامات

 

اعتراض: آپ نے لکھا ہے:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینے میں خواب دیکھتے ہیں کہ آپ مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے۔ آپﷺ اس کی خبر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو دیتے ہیں اور پھر عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ کفار مکہ آپﷺ کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ واقع ہو جاتی ہے۔ بعض صحابہ اس سے خلجان میں پڑ جاتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی ترجمانی کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ کیا آپ نے ہمیں خبر نہ دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے؟ آپﷺ نے فرمایا "کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اس سفر میں ایسا ہو گا؟”

 

آپ کی اس بیان کردہ تشریح پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ (معاذ اللہ) خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی وحی کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی۔

 

جواب: معلوم نہیں یہ اعتراض کس جگہ سے پیدا ہو گیا کہ "خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی”۔ جو عبارت اوپر نقل کی گئی ہے اس سے تو صرف یہ مطلب نکلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا خواب سن کر لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ سفر میں عمرہ ہو گا اور جب وہ نہ ہو سکا تو لوگ خلجان میں پڑ گئے۔

 

اعتراض: "جو واقعہ آپ نے شروع سے آخر تک لکھا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ "رسول اللہ کو شروع ہی سے اللہ کی طرف سے اطلاع مل گئی تھی کہ آپ اس سال روکے جائیں گے اور اگلے سال مکہ میں داخلہ ہو گا۔ (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اطلاع صحابہ میں سے کسی کو نہ دی بلکہ انہیں یہ غلط تاثر دیا کہ مکہ میں داخلہ اسی سفر میں ہو گا، جبھی تو صحابہ خلجان میں پڑ گئے اور حضرت عمر جیسے قریبی صحابی کو یہ کہنا پڑا کہ آپﷺ نے تو ہم سے کہا تھا کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے کیا اس سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ الزام نہیں آتا کہ آپ نے صحابہ کو دھوکا دیا؟”

 

جواب: یہ بات کہاں سے نکل آئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تاثر دیا تھا؟ وہ تو بعض لوگوں نے بطور خود سمجھ لیا تھا کہ عمرہ اسی سال ادا ہو جائے گا۔ اوپر میری جو عبارت ڈاکٹر صاحب نے خود نقل کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا کہ "کیا آپ نے ہمیں خبر نہ دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے” تو حضورﷺ نے ان کو جواب دیا "کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سفر میں ایسا ہو گا”۔ ظاہر ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے واقعی لوگوں کو خود یہ تاثر دیا ہوتا کہ اسی سفر میں عمرہ ہو گا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کے جواب میں یہ بات کیسے فرما سکتے تھے؟

 

اس موقع پر ناظرین اس کتاب کا صفحہ ۱۲۱-۱۲۲ نکال کر پورا واقعہ دیکھ لیں کہ اصل بات کیا تھی اور اسے توڑ مروڑ کر بنایا جا رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خواب میں دیکھتے ہیں کہ آپﷺ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے۔ یہ خواب آپ جوں کا توں صحابہ کو سنا دیتے ہیں اور ان کو ساتھ لے کر عمرہ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر نہ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ تصریح کرتے ہیں کہ عمرہ اسی سال ہو گا اور نہ یہی فرماتے ہیں کہ اس سال نہیں ہو گا۔

 

سوال یہ ہے کہ اس پر "غلط تاثر دینے” یا دھوکا دینے کا الزام کیسے عائد ہو سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک سپہ سالار کو حکومت بالادست ایک مہم پر فوج لے جانے کا حکم دیتی ہے۔ سپہ سالار کو معلوم ہے کہ یہ مہم اس سفر میں نہیں بلکہ اس کے بعد ایک اور سفر میں پوری ہو گی اور یہ مہم اصل مقصد کے لیے راستہ صاف کرنے کی خاطر بھیجی جا رہی ہے۔ لیکن سپہ سالار فوج پر اس کو ظاہر نہیں کرتا اور اسے صرف اتنا بتاتا ہے کہ مجھے یہ مہم انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیا اس کے معنی یہ پہنائے جا سکتے ہیں کہ اس نے فوج کو دھوکا دیا؟ کیا ایک سپہ سالار کے لیے واقعی یہ ضروری ہے کہ حکومت عالیہ کے پیش نظر جو اسکیم ہے وہ پوری کی پوری فوج پر پہلے ہی کھول دے اور اس بات کی کوئی پروا نہ کرے کہ اس کے ظاہر ہو جانے سے فوج کے عزم پر کیا اثر پڑے گا؟ اگر سپہ سالار فوج سے نہ یہ کہے کہ یہ مہم اسی سفر میں پوری ہو جائے گی اور نہ یہی کہے کہ اس سفر میں پوری نہیں کی جائے گی تو اسے آخر کس قانون کی رو سے جھوٹ قرار دیا جائے گا۔

 

اعتراض: "جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ یہ معاملہ آخر تک یوں ہو گا تو پھر صحابہ کے دریافت کرنے پر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنے کی ضرورت کیا پڑی تھی کہ "اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا، تم مسجد حرام میں انشاء اللہ ضرور داخل ہو گے”۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ (معاذ اللہ) خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تردد ہو گیا تھا کہ معلوم نہیں خدا نے مجھے سچا خواب دکھایا تھا یا یونہی کہہ دیا تھا کہ مکے چلے جاؤ، تم مسجد حرام میں داخل ہو جاؤ گے اور اس تردد کو دور کرنے کے لیے خدا کو بار دیگر یہ یقین دلانا پڑا کہ آپ متردد نہ ہو جائے۔ ہم نے سچا خواب دکھایا تھا، آپ ضرور مسجد حرام میں داخل ہوں گے۔

 

جواب: اعتراض کے شوق میں ڈاکٹر صاحب کو یہ ہوش بھی نہ رہا کہ "تم مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے” کا خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ لتدخلن صیغۂ جمع ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جو صحابہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ آئے تھے ان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا، تم لوگ ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے۔

 

اعتراض: "آپ کے بیان سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹ کا جو الزام آتا ہے یہ آپ کے لیے کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ آپ تو اپنے جھوٹوں کے جواز میں یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ایسے مواقع پر (معاذ اللہ، معاذ اللہ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جھوٹ بولنے کی نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اسے واجب قرار دیا تھا”۔

 

جواب: یہ "دروغ گویم بر روئے تو” کا مصداق ہے۔ منکرین حدیث جھوٹے پروپیگنڈے میں اب اس درجہ بے باک ہو چکے ہیں کہ ایک شخص کو مخاطب کر کے اس پر رو در رو جھوٹا الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ کیا یہ لوگ میری کوئی عبارت اس بات کے ثبوت میں پیش کر سکتے ہیں کہ "ایسے مواقع پر خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جھوٹ بولنے کی نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اسے واجب قرار دیا تھا”۔ دراصل میں نے اپنے ایک مضمون میں جو بات کہی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ "ایسے مواقع پر” جھوٹ جائز یا واجب ہے، بلکہ یہ ہے کہ جہاں سچائی کسی بڑے ظلم میں مددگار ہوتی ہو اور اس ظلم کو دفع کرنے کے لیے خلاف واقعہ بات کہنے کے سوا چارہ نہ ہو، وہاں سچ بولنا گناہ ہو جاتا ہے اور ناگزیر ضرورت کی حد تک خلاف واقعہ بات کہنا بعض حالات میں جائز اور بعض حالات میں واجب ہوتا ہے۔ میں نے اس کی ایک مثال بھی اس مضمون میں دی تھی۔ فرض کیجیے کہ اسلامی فوج کی کفار سے جنگ ہو رہی ہے اور آپ دشمن کے ہاتھوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں، اگر دشمن آپ سے معلوم کرنا چاہے کہ آپ کی فوج کہاں کہاں کس کس تعداد میں موجود ہے اور آپ کے میگزین کس کس جگہ واقع ہیں، اور ایسے ہی دوسرے فوجی راز وہ دریافت کرے تو فرمائیے کہ اس وقت آپ سچ بول کر دشمن کو تمام اطلاعات صحیح صحیح پہنچا دیں گے؟ ڈاکٹر صاحب اگر اس پر معترض ہیں تو وہ اب اس سوال کا سامنا کریں اور اس کا صاف صاف جواب عنایت فرما دیں۔

 

اعتراض: آپ نے تو یہاں تک دریدہ دہنی سے کام لیا ہے کہ یہ کہتے ہوئے بھی نہ شرمائے کہ جب تک حکومت حاصل نہ ہوئی تھی اس وقت تک حضورﷺ مساوات انسانی کا سبق دیتے رہے اور جب حکومت حاصل ہو گئی تو اس وعظ و تلقین کو (خاکم بدہن) بالائے طاق رکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حکومت کو اپنے خاندان میں محدود کر لیا”۔

 

جواب: یہ رو در رو بہتان کی ایک اور مثال ہے۔ میرے جس مضمون کا حلیہ بگاڑ کر میرے ہی سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس میں یہ بات کہی گئی تھی کہ اسلام کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے میں اندھا دھند طریقوں سے کام نہیں لیا جا سکتا، بلکہ کسی اصول کو کسی معاملے پر منطبق کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ضرور ہے کہ آیا اس کو نافذ کرنے کے لیے حالات سازگار ہیں یا نہیں۔ اگر حالات سازگار نہ ہوں تو پہلے انہیں سازگار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، پھر اسے نافذ کرنا چاہیے۔ اس کی مثال میں یہ بتایا گیا تھا کہ اگر اسلام کے اصولِ مساوات کا تقاضہ یہ تھا کہ دوسرے تمام مناصب کی طرح خلیفہ کے انتخاب میں بھی صرف اہلیت کو پیش نظر رکھا جاتا اور اس بات کا کوئی لحاظ نہ کیا جاتا کہ اہل آدمی کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دیکھا کہ عرب کے حالات خلافت کے معاملہ میں اس قاعدے کو نافذ کرنے کے لیے اس وقت سازگار نہیں ہیں اور ایک غیر قریشی کو خلیفہ بنا دینے سے آغاز ہی میں اسلامی خلافت کے ناکام ہو جانے کا اندیشہ ہے تو آپﷺ نے ہدایت فرما دی کہ خلیفہ قریش میں سے ہو۔ اس بات کو جو معنی ڈاکٹر صاحب نے پہنائے ہیں، انہیں ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے۔

 

۴۸۔  نبانی العلیم الخبیر کا مطلب

 

اعتراض: سورۂ تحریم کی آیت آپ نے یوں پیش کی ہے:

"نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو راز میں ایک بات بتاتے ہیں۔ وہ اس کا ذکر دوسروں سے کر دیتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس پر باز پرس کرتے ہیں تو وہ پوچھتی ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ میں نے یہ بات دوسروں سے کہہ دی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جواب دیتے ہیں کہ (نبانی العلیم الخبیر) مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے”۔

 

اس کے بعد آپ پوچھتے ہیں:

"فرمائیے کہ قرآن میں وہ آیت کہا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اطلاع دی تھی کہ تمہاری بیوی نے تمہاری راز کی بات دوسروں سے کہہ دی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ثابت ہوا یا نہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کے علاوہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پیغامات بھیجتا تھا”۔

 

پہلے تو یہ فرمائیے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جب کہا کہ مجھے "علیم و خبیر” نے خبر دی ہے تو اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا مجھے خدا نے خبر دی ہے۔ کیا اس سے یہ مفہوم (مراد) نہیں کہ حضورﷺ کو اس نے خبر دی جسے اس راز کی علم و آگہی ہو گئی تھی تاہم میں یہ تسلیم کیے لیتا ہوں کہ العلیم الخبیر سے مراد اللہ تعالیٰ ہی ہیں لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ خدا نے یہ اطلاع بذریعۂ وحی دی تھی؟ جس شخص نے قرآن کریم کو ذرا بھی بنگاہ تتمق پڑھا ہے، اس سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ جب کسی کے علم کو خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے اس سے مراد (بالضرور) وحی کے ذریعے علم دینا نہیں ہوتا۔ مثلاً سورۂ مائدہ میں ہے: وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن علمکم اللہ (۴:۵) اور جو تم شکاری جانوروں کو سکھاتے ہو تو انہیں اس علم کے ذریعے سکھاتے ہو، جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے”۔ فرمائیے کیا یہاں "علمکم اللہ” سے یہ مراد ہے کہ اللہ شکاری جانوروں کو سدھانے والوں کو بذریعۂ وحی سکھاتا ہے کہ تم ان جانوروں کو اس طرح سدھاؤ؟ یا علم الانسان مالم یعلم، علم بالقلم (۹۶:۵، ۴) کے یہ معنی ہیں کہ اللہ ہر انسان کو بذریعۂ وحی یہ کچھ سکھاتا ہے جسے وہ نہیں جانتا اور خود قلم ہاتھ میں لے کر سکھاتا ہے۔

 

جس طرح ان آیات میں اللہ کے علم یا حکم سے مراد علم و حکم بذریعۂ وحی نہیں اسی طرح نبانی العلیم الخبیر[7] میں بذریعۂ وحی اطلاع دینا مراد نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کا علم اس طرح حاصل کیا تھا جس طرح ایسے حالات میں علم حاصل کیا جاتا ہے۔

 

جواب: اس کتاب کا صفحہ ۱۳۲ نکال کے دیکھیے۔ سورۂ تحریم کی جس آیت پر یہ تقریر فرمائی جا رہی ہے، وہاں وہ پوری نقل کر دی گئی ہے۔ اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ اظھرہ اللہ علیہ "اللہ نے نبی کو اس پر مطلع کر دیا”۔ اس لیے نبانی العلیم الخبیر "مجھے علیم و خبیر نے بتایا” سے مراد لامحالہ اللہ تعالیٰ ہی ہو سکتا ہے، کوئی دوسرا مخبر نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں العلیم الخبیر کے الفاظ اللہ کے سوا کسی کے لیے استعمال بھی نہیں ہو سکتے اگر اللہ کے سوا خبر دینے والا کوئی اور ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم فبانی خبیر (ایک باخبر نے مجھے بتایا) فرماتے۔

 

اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عام انسانی ذرائع سے اس بات کی اطلاع ہوئی ہوتی تو محض اتنا سا واقعہ کہ بیوی نے آپﷺ کا راز کسی اور سے کہہ دیا اور کسی مخبر نے آپﷺ کو اس کی اطلاع دے دی، سرے سے قرآن میں قابل ذکر ہی نہ ہوتا، نہ اس بات کو اس طرح بیان کیا جاتا کہ "اللہ نے نبی کو اس پر مطلع کر دیا” اور "مجھے العلیم الخبیر نے بتایا”۔ قرآن مجید میں اس واقعہ کو اس شان سے بیان کرنے کا تو مقصد ہی لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ تمہارا معاملہ کسی عام انسان سے نہیں بلکہ اس رسول سے ہے جس کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت ہے۔

 

۴۹۔  حضرت زینب کا نکاح اللہ کے حکم سے ہوا تھا یا نہیں؟

 

اعتراض: آپ پوچھتے ہیں کہ اللہ نے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم کو جو حکم دیا تھا کہ تم زید کی بیوی سے نکاح کر لو تو وہ قرآن میں کہا ہے؟ پہلے تو یہ دیکھیے کہ آپ نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ نکاح "خدا کے حکم” سے کیا تھا۔ حالانکہ آیت میں فقط یہ ہے کہ زوجنکھا جس کا ترجمہ آپ نے بھی یہ کیا ہے کہ "ہم نے اس خاتون کا نکاح تم سے کر دیا”۔

 

جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم کا انداز یہ ہے کہ جو باتیں خدا کے بتائے ہوئے قاعدے اور قانون کے مطابق کی جائیں انہیں خدا اپنی طرف سے منسوب کرتا ہے، خواہ وہ کسی کے ہاتھوں سرزد ہوں جیسے (مثلاً) سورۂ انفال میں مقتولین جنگ کے متعلق ہے فلم تقتلوھم ولکن اللہ قتلھم (۱۷:۸): "انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے قتل کیا”۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ قتل جماعت مومنین کے ہاتھوں ہی سرزد ہوا تھا۔ یہی مطلب زوجنکھا سے ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ نکاح خدا کے قانون کے مطابق کیا۔ وہ قانون یہ تھا کہ تم پر حرام ہیں۔ حلائل ابناءکم الذین من اصلابکم (۲۳:۴) "تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں” اور چونکہ منہ بولا بیٹا صلبی نہیں ہوتا اس لیےاس کی بیوی سے نکاح حرام نہیں، جائز ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خدا کے اس حکم کے مطابق حضرت زید کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا تھا۔

 

جواب: منکرین حدیث کے پیش نظر تو قرآن سے صرف اپنا مطلب نکالنا ہوتا ہے لیکن اس بحث کو جو لوگ سمجھنا چاہتے ہو ان سے میں عرض کروں گا کہ براہ کرم سورۂ احزاب کی پہلی چار آیتیں بغور پڑھیے، پھر پانچویں رکوع کی وہ آیتیں دیکھیے جن میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح کا ذکر ہے۔ پہلی چار آیتوں میں فرمایا گیا ہے کہ اے نبی کافروں اور منافقوں سے نہ دبو اور اللہ کے بھروسے پر اس وحی کی پیروی کرو جو تم پر کی جا رہی ہے، منہ بولے بیٹے ہر گز اصلی بیٹے نہیں ہیں، یہ صرف ایک قول ہے جو تم لوگ منہ سے نکال دیتے ہو۔ اس ارشاد باری تعالیٰ سے یہ اشارہ تو ملتا ہے کہ جس وحی کا ذکر آیت نمبر ۲ میں کیا گیا ہے وہ منہ بولے بیٹوں کے معاملہ سے تعلق رکھتی تھی لیکن اس میں کوئی صراحت اس امر کی نہیں ہے کہ اس رسم کو توڑنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خود اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیات نمبر ۳۷-۳۹میں یہ فقرے ملاحظہ ہوں:

 

فلما قضٰی زید منھا وطراً زوّجنکھا لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیالھم اذا قضوا منھن و طرا و کان امر اللہ مفعولاً۔ ما کان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل و کان امر اللہ قدراً مقدوراً۔ الذین یبلغون رسلت اللہ ویخشونہ ولا یخشون[8] احداً اللہ و کفٰی باللہ حسیباً

 

"پھر جب زید کا اس سے جی بھر گیا تو ہم نے اس خاتون کا نکاح تم سے کر دیا تاکہ اہل ایمان کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جبکہ وہ ان سے جی بھر چکے ہوں۔ اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی تھا۔ نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے فرض کر دیا ہو۔ اللہ کا یہی طریقہ ان لوگوں کے لیے بھی مقرر ہے جو پہلے گزر چکے ہیں۔ اللہ کا حکم (ان پیغمبروں کے لیے) ایک جچا تلا فیصلہ ہے، جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اوراس کے سوا کسی سے ڈرتے نہیں اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے”۔

 

اس پوری عبارت پر اور خصوصاً خط کشیدہ فقروں پر غور کیجیے۔ کیا یہ مضمون اور انداز بیان یہی بتا رہا ہے کہ ایک کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قانون کے مطابق کیا تھا۔ اس لیے اللہ نے اسے اپنی طرف منسوب کر دیا؟ یا یہ صاف طور پر اس بات کی صراحت کر رہا ہے کہ اس نکاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے بذریعۂ وحی حکم دیا تھا اور اس متعین مقصد کے لیے دیا تھا کہ منہ بولے بیٹوں کی بیویاں حقیقی بہوؤں کی طرح حرام نہ رہیں؟ عام لوگوں کے لیے تو ایسے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں سے نکاح صرف جائز تھا مگر نبی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اس کو فرض کیا گیا تھا اور یہ فرض اس فریضۂ رسالت کا ایک حصہ تھا جسے ادا کرنے کے لیے حضور نبی صلی اللہ علیہ و سلم مامور تھے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کی تقریر ملاحظہ کیجیے اور خود اندازہ کیجیے کہ یہ لوگ واقعی قرآن کے پیرو ہیں یا قرآن کو اپنے نظریات کا پیرو بنانا چاہتے ہیں۔

 

۵۰۔باذن اللہ سے مراد قاعدۂ جاریہ ہے یا حکم الٰہی؟

 

اعتراض: پانچویں آیت آپ نے یہ پیش کی ہے کہ حضور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب بنی نضیر کے خلاف فوج کشی کی تو اس وقت گرد و پیش کے بہت سے درخت کاٹ ڈالے تاکہ حملہ کرنے کے لیے راستہ صاف ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ما قطعتم من لینۃ او ترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ (۵:۵۹) "کھجوروں کے درخت جو تم نے کاٹے اور جو کھڑے رہنے دیے یہ دونوں کام اللہ کی اجازت سے تھے”

 

اس پر آپ  پوچھتے ہیں کہ:

"کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ اجازت قرآن کریم کی کس آیت میں نازل ہوئی تھی؟”

سورۂ حج کی اس آیت میں جس میں کہا گیا ہے کہ اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا (۳۹:۲۳( ان لوگوں کو جن کے خلاف اعلان جنگ کیا جاتا ہے، جنگ کی اجازت دی جاتی ہے، کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے” اس آیت میں جماعت مومنین کو ظالمین کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی اور یہ ظاہر ہے کہ جنگ کی اس اصولی اجازت میں ہر اس بات کی اجازت شامل ہے جو (قاعدے اور قانون کی رو سے) جنگ کے لیے ضروری ہو۔ جو بات خدا کے مقرر کردہ قاعدے کی رو سے اور قانون کے مطابق ہو قرآن اسے بااذن اللہ سے تعبیر کرتا ہے مثلاً وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ (۱۶۵:۳) "اور جو کچھ تمہیں اس دن مصیبت پہنچی جب دو گروہ آمنے سامنے ہوئے تھے تو وہ باذن اللہ تھا” خواہ وہ قانون خارجی کائنات میں ہی کیوں نہ کار فرما ہو۔

 

جواب: یہ ساری بحث یہاں میرے استدلال کا مرکزی نکتہ چھوڑ کر کی گئی ہے۔ میں نے یہ لکھا تھا کہ جب مسلمانوں نے یہ کام کیا تو مخالفین نے شور مچادیا کہ باغوں کو اجاڑ کر اور ہرے بھرے ثمر دار درختوں کو کاٹ کر ان لوگوں نے فساد فی الارض برپا کیا ہے (ملاحظہ ہو کتاب ہذا صفحہ ۱۲۴) یہ میرے استدلال کی اصل بنیاد تھی جسے ڈاکٹر صاحب نے قصداً درمیان سے ہٹا کر اپنی بحث کا راستہ صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا استدلال یہ تھا کہ یہود اور منافقین نے مسلمانوں پر ایک متعین الزام لگایا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ مصلح بن کر اٹھے ہیں اوراس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم فساد فی الارض کو مٹانے والے ہیں، مگر لو دیکھ لو کہ یہ کیسا فساد فی الارض برپا کر رہے ہیں۔  اس کا جواب جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ دیا گیا کہ مسلمانوں نے یہ کام ہماری اجازت سے کیا ہے تو لا محالہ یہ ان کے اعتراض کا جواب اسی صورت میں قرار پا سکتا ہے جبکہ خاص طور پر اسی کام کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہو۔ جنگ کے عام قاعدے جو دنیا میں رائج تھے، وہ بنائے جواب نہیں ہو سکتے، کیونکہ دنیا کے جنگی رواجات تو اس زمانے میں زیادہ تر وحشیانہ و ظالمانہ تھے اور مسلمان خود ان کو فساد فی الارض قرار دیتے تھے۔ متعرضین کے جواب میں ان کا سہارا کیسے لیا جا سکتا ہے۔ رہے قوانین فطرت، تو ان کا حوالہ تو یہاں صریحاً مضحکہ انگیز ہی ہوتا۔ کسی شخص کی عقل ٹھکانے ہو تو وہ کبھی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس موقع پر جب مخالفین نے مسلمانوں کو فساد فی الارض کا مجرم ٹھہرایا ہو گا تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں یہ فرمایا ہو گا کہ میاں قوانین فطرت یہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید سے جو چند مثالیں یہاں پیش کی ہیں، ان سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ منکرین سنت قرآن کے فہم سے بالکل کورے ہیں۔ آیات قرآنی کے موقع و محل اور سیاق و سباق اور پس منظر سے آنکھیں بند کر کے بے تکلف ایک موقع کی آیات کے معنی بالکل مختلف مواقع کی آیات سے متعین کر ڈالتے ہیں۔

 

۵۱۔  ایک اور خانہ ساز تاویل

 

اعتراض: چھٹی آیت آپ نے یہ پیش کی ہے:

و اذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم۔۔۔۔۔۔۔ و یرید اللہ ان یحق الحق بکلمتہ و یقطع دابر الکافرین (۷:۸)

"اور جب کہ اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں (یعنی تجارتی قافلے اور قریش کے لشکر) میں سے ایک تمہارے ہاتھ آئے گا اور تم چاہتے تھے کہ بے زور گروہ (یعنی تجارتی قافلہ) تمہیں ملے حالانکہ اللہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی کمر توڑ دے”

 

اس کے بعد آپ دریافت فرماتے ہیں کہ:

"کیا آپ پورے قرآن میں کسی آیت کی نشان دہی فرما سکتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نازل ہوا ہو کہ اے لوگو جو مدینہ سے بدر کی طرف جا رہے ہو۔ ہم دو گروہوں میں سے ایک پر تمہیں قابو عطا فرمائیں گے؟”

اصولی طور پر یہ وہی کلی وعدہ تھا جس کے مطابق خدا نے جماعت مومنین سے کہہ رکھا تھا کہ انہیں استخلاف فی الارض عطا کرے گا۔ خدا اور رسول کامیاب رہیں گے، غلبہ و تسلط حزب اللہ کا ہو گا، مومن اعلون ہوں گے، خدا کافروں کو مومنوں پر کبھی کامیابی نہیں دے گا۔ مجاہدین مخالفین کے اموال و املاک تک کے مالک ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اور اس خاص واقعے میں یہ "وعدہ” پیش افتادہ حالات (Circumstances) دلا رہے تھے جن کی وضاحت قرآن کریم نے یہ کہہ کر دی ہے کہ و تودون ان غیر الشوکۃ تکون لکم (۷:۸)یعنی ان میں سے ایک گروہ بغیر ہتھیاروں کے تھا اور اس پر غلبہ پا لینا یقینی نظر آتا تھا۔

 

میں یہ پہلے وضاحت سے بتا چکا ہوں کہ جو باتیں طبعی قوانین کے مطابق ہوں، خدا انہیں بھی اپنی طرف منسوب کر سکتاہے۔ یہ "اللہ کا وعدہ” بھی اسی قبیل سے تھا یعنی حالات بتا رہے تھے کہ ان دونوں میں سے ایک گروہ پر قابو پا لینا یقینی ہے۔

 

جواب: یہاں پھر سیاق و سباق اور موقع محل کو نظر انداز کر کے سخن سازی کی کوشش کی گئی ہے۔ ذکر ایک خاص موقع کا ہے ایک طرف مکہ سے کفار کا لشکر بڑے ساز و سامان کے ساتھ آ رہا تھا اور اس کی فوجی طاقت مسلمانوں سے کہیں زیادہ تھی۔ دوسری طرف شام سے قریش کا تجارتی قافلہ آ رہا تھا جس کے ساتھ بہت سا مال تھا اور فوجی طاقت برائے نام تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس موقع پر ہم نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک پر تم کو غلبہ حاصل ہو جائے گا اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ تجارتی قافلے پر ہمیں غلبہ حاصل ہو جائے۔ یہ ایک صاف اور صریح وعدہ تھا جو دو متعین چیزوں میں سے ایک کے بارے میں کیا گیا تھا مگر ڈاکٹر صاحب اس کی دو تاویلیں کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد استخلاف فی الراض تھا اور انتم الاعلون والا وعدۂ عام ہے، حالانکہ اگر وہ مراد ہوتا تو دونوں پر ہی غلبہ کا وعدہ ہونا چاہیے تھا نہ کہ دو میں سے ایک پر۔ دوسری تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس وقت حالات بتا رہے تھے کہ دونوں میں سے ایک گروہ پر قابو پالینا یقینی ہے اور حالات کی اسی نشان دہی کو اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ قرار دیا۔ حالانکہ بدر کی فتح سے پہلے جو حالات تھے وہ یہ بتا رہے تھے کہ تجارتی قافلے پر قابو پا لینا تو یقینی ہے لیکن لشکر قریش پر قابو پانا سخت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی آیت سے پہلے والی آیت میں خود فرما رہا ہے کہ اس لشکر کے مقابلے میں جاتے ہوئے مسلمانوں کی کیفیت یہ ہو رہی تھی کہ کانما یساقون الی الموت و ھم ینظرون (الانفال:۶) "گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں” کیا یہی وہ حالات تھے جو بتا رہے تھے کہ لشکرِ قریش پر بھی قابو پا لینا اسی طرح یقینی ہے جس طرح قافلے پر قابو پانا؟ اسی طرح کی سخن سازیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منکرین حدیث کا یہ گروہ قرآن سے اپنے ہی نظریات نہیں بناتا بلکہ قرآن پر اپنے نظریات ٹھونستا ہے، خواہ اس کے الفاظ کتنا ہی ان کا انکار کر رہے ہوں۔

 

۵۲۔سوال از آسمان و جواب از ریسماں

 

اعتراض: آخر کی آیت آپ نے یہ پیش کی ہے کہ

"اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملئکۃ مردفین (۹:۸) "جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد کے جواب میں فرمایا میں تمہاری مدد کے لیے لگاتار ایک ہزار فرشتے بھیجنے والا ہوں”

 

اس کے بعد آپ پوچھتے ہیں:

"کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی فریاد کا یہ جواب قرآن کی کس آیت میں نازل ہوا تھا؟”

کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ جب اللہ نے کہا کہ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (۲:۱۸۶) "میں ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے” تو خدا کی طرف سے پکارنے والے کی پکار کا جواب کس فرشتے کے ذریعے ملتا ہے؟ جس طریق سے ہر پکارنے والے کو خدا کی طرف سے اس کی پکار کا جواب ملتا ہے اسی طریق سے جماعت مومنین کو ان کی پکار کا جواب ملا تھا۔ لیکن جواب ان لوگوں کو کسی طرح نظر آ جائے جو خدا کی ہر بات کو کاغذ پر تحریر شدہ مانگیں”۔

 

جواب: سوال از آسمان جواب از ریسماں۔ میرا سوال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی فریاد کے جواب میں ایک ہزار فرشتے بھیجنے کے جس صریح اور قطعی وعدے کا ذکر اس آیت میں کیا ہے وہ قرآن کی کس آیت میں نازل ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جس طریقے سے ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب اللہ کے ہاں ملا کرتا ہے اسی طریقے سے جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی پکار کا جواب بھی ملا تھا۔ کیا ہر پکارنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا ہی واضح جواب ملا کرتا ہے کہ تیری مدد کے لیے اتنے ہزار فرشتے بھیجے جا رہے ہیں؟ اور کیا تعداد کے اس قطعی تعین کے ساتھ صاف الفاظ میں اس جواب کا ذکر کتاب اللہ میں بھی لکھا مل جاتا ہے؟

 

یہاں یہ عجیب اور دلچسپ بات بھی لائق ملاحظہ ہے کہ ہم پر "خدا کی ہر بات کو کاغذ پر تحریر شدہ مانگنے” کا الزام وہ لوگ عائد کر رہے ہیں، جنہیں اصرار ہے کہ جو وحی لکھی گئی ہو، ہم صرف اسی کو مانیں گے۔

 

۵۳۔وحی بلا الفاظ کی حقیقت و نوعیت

 

اعتراض: آپ نے آگے چل کر لکھا ہے کہ "وحی لازماً الفاظ کی صورت میں ہی نہیں ہوتی، وہ ایک خیال کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے جو دل میں ڈال دیا جائے” اس کا دعویٰ تو ہمہ دانی کا ہے اور معلوم اتنا بھی نہیں کہ یہ بات ممکنات میں سے نہیں کہ کسی شخص کے دل میں ایک خیال آئے اور اس کے لیے الفاظ نہ ہوں۔ نہ کوئی خیال الفاظ کے بغیر پیدا ہو سکتا ہے اور نہ کوئی لفظ بلا خیال کے وجود میں آ سکتا ہے۔ ارباب علم سے پوچھیے کہ "وحیِ بلا الفاظ” کی "مہمل ترکیب” کا مطلب کیا ہے؟”

 

جواب: منکرین حدیث کو معلوم نہیں ہے کہ خیال اور جامۂ الفاظ دونوں اپنی حقیقت میں بھی مختلف ہیں اور ان کا وقوع بھی ایک ساتھ نہیں ہوتا، چاہے انسانی ذہن کسی خیال کو جامۂ الفاظ پہنانے میں ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ ہی وقت لے لیکن بہرحال خیال کے ذہن میں آنے اور ذہن کے اس کو جامۂ الفاظ پہنانے میں ترتیب زمانی ضروری ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ انسان کے ذہن میں خیال لازماً لفظ ہی کے ساتھ آتا ہے تو وہ اس کی کیا توجیہہ کرے گا کہ ایک ہی خیال انگریز کے ذہن میں انگریزی، عرب کے ذہن میں عربی اور ہمارے ذہن میں اردو الفاظ کے ساتھ کیوں آتا ہے؟ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ انسانی ذہن میں پہلے ایک خیال اپنی مجرد صورت میں آتا ہے، پھر ذہن اس کا ترجمہ اپنی زبان میں کرتا ہے۔ یہ عمل عام طور پر تو بہت تیزی کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کو سوچ کر بولنے یا لکھنے کا کبھی موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ بسا اوقات ذہن میں ایک تخیل گھوم رہا ہوتا ہے اور ذہن کو اس کے لیے جامۂ الفاظ تلاش کرنے میں خاصی کاوش کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے یہ بات صرف ایک اناڑی ہی کہہ سکتا ہے کہ خیال الفاظ ہی کی صورت میں آتا ہے یا خیال اور الفاظ لازماً ایک ساتھ آتے ہیں۔ وحی کی بہت سی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجرد ایک خیال نبی کے دل میں ڈالا جاتا ہے اور نبی خود اس کو اپنے الفاظ کا جامہ پہناتا ہے اس طرح کی وحی کے غیر متلو ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نہ تو الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے القا ہوتے ہیں اور نہ نبی اس بات پر مامور ہوتا ہے کہ خاص الفاظ میں اسے لوگوں تک پہنچائے۔

 

۵۴۔  وحی متلو اور غیر متلو کا فرق

 

اعتراض: آپ کہتے ہیں کہ "عربی زبان میں وحی کے معنی اشارۂ لطیف کے ہیں”۔ سوال "وحی” کے لغوی معنی کے متعلق نہیں، سوال اس اصطلاحی "وحی” کے متعلق ہے جو اللہ کی طرف سے حضرات انبیائے کرام کو ملتی تھی۔ کیا اس وحی کے محض "لطیف اشارات” خدا کی طرف سے ہوتے تھے یا الفاظ بھی منزل من اللہ ہوتے تھے؟ اگر محض لطیف اشارات ہی ہوتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم کے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے تھے”۔

 

جواب: اس کا جواب اس کتاب کے صفحہ ۲۰۸ کی اس عبارت میں موجود ہے جس کے ایک دو فقرے لے کر ڈاکٹر صاحب یہ بحث فرما رہے ہیں۔ قرآن کریم میں معنی اور لفظ دونوں اللہ تعالیٰ کے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اس کو اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ آپ اسے انہی الفاظ میں لوگوں تک پہنچائیں۔ اسی لیے اس کو وحیِ  متلو کہا جاتا ہے۔ وحی کی دوسری قسم یعنی غیر متلو اپنی نوعیت و کیفیت اور مقصد میں اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رہنمائی کے لیے آتی تھی اور لوگوں تک اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات، فیصلوں اور کاموں کی صورت میں پہنچتی تھی۔ اگر ایک شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ نبی کے پاس پہلی قسم کی وحی آ سکتی ہے؟ اگر قرآن کا معجزانہ کلام ہمیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ اللہ ہی کا کلام ہو سکتا ہے تو کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی معجزانہ زندگی اور آپﷺ کے معجزانہ کارنامے ہمیں یہ یقین نہیں دلاتے کہ یہ بھی خدا ہی کی رہنمائی کا نتیجہ ہیں؟

 

۵۵۔  سنت ثابتہ سے انکار اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے انکار ہے

 

اعتراض: "احادیث کے موجودہ مجموعوں سے جن سنتوں کی شہادت ملتی ہے، ان کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک قسم کی سنتیں وہ ہیں جن کے سنت ہونے پر امت شروع سے آج تک متفق رہی ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر وہ متواتر سنتیں ہیں اور امت کا ان پر اجماع ہے۔ ان میں سے کسی کو ماننے سے جو شخص بھی انکار کرے گا وہ اسی طرح دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا جس طرح قرآن کی کسی آیت کا انکار کرنے والا خارج از اسلام ہو گا۔

 

دوسری قسم کی سنتیں وہ ہیں جن کے ثبوت میں اختلاف ہے یا ہو سکتا ہے اس قسم کی سنتوں میں سے کسی کے متعلق اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میری تحقیق کے مطابق فلاں سنت ثابت نہیں ہے، اس لیے میں اسے قبول نہیں کرتا تو اس قول سے اس کے ایمان پر قطعاً کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

 

کیا آپ بتائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے کس مقام پر یہ کہا ہے کہ جو شخص ان متواتر سنتوں کے ماننے سے انکار کرے گا جن پر امت کا اجماع ہے، وہ کافر ہو جائے گا اور جو ایسی سنتوں سے انکار کرے گا جن میں اختلاف ہے، اس کے ایمان پر حرف نہیں آئے گا؟

 

جواب: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی و اطاعت کو مدار کفر و اسلام قرار دیا ہے لہٰذا جہاں یقینی طور پر معلوم ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فلاں چیز کا حکم دیا ہے یا فلاں چیز سے روکا ہے یا فلاں معاملہ میں یہ ہدایت دی ہے وہاں تو اتباع و اطاعت سے انکار لازماً موجب کفر ہو گا لیکن جہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی حکم کا یقینی ثبوت نہ ملتا ہو، وہاں کم تر درجے کی شہادتوں کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی شہادت کو کمزور پا کر یہ کہتا ہے کہ اس حکم کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں ملتا اس لیے میں اس کی پیروی نہیں کرتا تو اس کی یہ رائے بجائے خود غلط ہو یا صحیح، بہرحال یہ موجبِ کفر نہیں ہے۔ بخلاف اس کے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی ہو، تب بھی میرے لیے سند و حجت نہیں۔ اس کے کافر ہونے میں قطعاً شک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک سیدھی اور صاف بات ہے جسے سمجھنے میں کسی معقول آدمی کو الجھن پیش نہیں آ سکتی ہیں۔

٭٭٭

ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

حواشی

 

[1]  اس وقت دنیائے اسلام میں صرف حسبِ ذیل فرقے پائے جاتے ہیں:

حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اہلحدیث، اثنا عشری، زیدی اور خارجیوں کا فرقہاباضیہ – ان میں سے زیدی، اہل حدیث اور اباضیہ بہت کم تعداد میں ہیں۔ لوگوں نے خواہمخواہ ۷۳ فرقوں کا افسانہ مشہور کر رکھا ہے حالانکہ یہ تعداد صرف کتابوں میں پائیجاتی ہے، زمین پر اس کا وجود نہیں ہے۔(مودودی)

[2] اصل متنِ کتاب میں "ہیں” درج ہے۔ جو کتابت (کمپوزنگ)  کی غلطی ہے۔ سیاق و سباق سے "نہیں” ہی درست ہے۔ (جویریہ مسعود)

[3] اصل متن میں غلطی سے "یرقابو” درج ہے۔ اصل آیتِ قرآن میں "یرتابو۱” ہے۔ درستگی کی گئی ہے۔ (جویریہ مسعود)

[4] اصل متن میں غلطی سے "لم” درج ہے۔ اصل آیتِ قرآن میں "لھم” ہے۔ درستگی کی گئی ہے۔ (جویریہ مسعود)

[5] اس کے بعد کا فقرہ جسے ڈاکٹر صاحب نے چھوڑ دیا ہے، یہ ہے:

 

"پسقرآن کی رو سے صحیح ضابطہ یہ ہے کہ پہلے خدا کا بھیجا ہوا  اصولی قانون، پھر خدا کےرسول کا بتایا ہوا طریقہ، پھر ان دونوں کی روشنی میں ہمارے اولی الامر کا اجتہاد” واطیعوا اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم۔۔۔۔(النسا، رکوع (۔

 

[6] اصل متنِ کتاب میں لفظ "بات” نہیں۔ مگر قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غلطی سے رہ گیا ہے۔ میں نے اسے بریکیٹس میں درج کیا ہے۔ (جویریہ مسعود)

[7] اصل متن کتاب میں آیت کا یہ ٹکرا یوں درج ہے: "نبانی فی العلیم الخبیر” جس میں لفظ "فی” زاید ہے۔ درستگی بمطابق قرآن مجید کی گئی ہے (جویریہ مسعود)

[8] اصل کتاب میں ان آیات مبارکہ کو نہایت لا پرواہی سے درج کیا گیا ہے۔ "یخشونہ” کی جگہ "یخشرنہ” اور "یخشون” کی جگہ یخشرن درج ہے۔ ان آیت کو سنت کی آئینی حیثیت مطبوعہ ۱۹۶۳ کے ساتھ دیکھ کر درستگی کی  گئی ہے (جویریہ مسعود)