فہرست مضامین [show]
سلسلے تکلم کے
حصہ سوم۔ ’سلسلے تکلم کے‘ کا باقی
ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب، تینوں حصے
فکر و نظر
فرمان فتح پوری … نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
ابو الخیر کشفی … نمودِ نور
فتح محمد ملک … ایک ہمہ جہت شخصیت
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
٭ وہ کیا وجوہات تھیں کہ جن کے باعث دلدار علی نے اپنے اندر کے شاعر کو نظرانداز کر کے ایک محقق، دانشور، نقاد فرمان فتح پوری کو زندگی دی۔ کیا کبھی خیال آتا ہے کہ شاعر بھی اگر زندہ رہتا تو کیا مضائقہ تھا؟
٭٭ یہ جس عمر کی بات ہے، جذباتی عمر تھی۔ میں بنیادی پیدائشی اور فطری طور پر شاعر ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میری طبیعت میں جو تازگی اور شگفتگی ہے وہ اچھے اشعار کی وجہ سے آئی ہے۔ نثر کے خوبصورت ٹکڑے بھی فکر و نظر پر اثر انداز ہوتے ہیں مگر ان کا اثر دائمی نہیں، وقتی ہوتا ہے۔ شاعر بن جانے یا ہو جانے یا شاعری کی طرف راغب ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ جب میں مصرعے جوڑنے لگا تو میری عمر پندرہ سولہ سال رہی ہو گی۔ اس زمانے میں، میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھ اور میرے چچازاد بھائی میرے ہم درس تھے۔ ان کا نام تھا فرمان علی۔ ہم دونوں ہم عمر تھے۔ قریبی عزیز تھے۔ ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے۔ نتیجتاً گہری دوستی تھی۔ اتنی گہری کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے معاملات میں ہر وقت جذباتی رہتے تھے۔ حادثہ یہ ہوا کہ فرمان علی، اچانک دو دن کے بخار کے بہانے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ میں تلملاتا رہا، روتا رہا اور چیختا پکارتا رہا، مگر کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ نہ جانے کیسے اس آہ و بکا نے اشعار کی صورت اختیار کر لی اور اس طرح میں اپنے اصل نام دلدار علی کے بجائے خود کو فرمان علی لکھنے لگ گیا۔ یہی فرمان بالآخر اصل نام کی جگہ حاکم بن گیا اور میں فرمان کی محبت میں اور شاعری کے شوق میں فرمان فتح پوری بن گیا۔
٭ آپ کے بچپن، لڑکپن اور جوانی کھیل کود، بیت بازی، مباحثہ، مشاعرہ، اکھاڑا، پنجہ آزمائی اور غلیل بازی، میلوں ٹھیلوں، پیادہ پائی و سائیکل سواری میں گزرا۔ دوسری جانب آپ میٹرک کے حساب کے پرچے میں لکھ آتے تھے کہ کوئی سے پانچ جوابات دیکھ لیجیے اور استاد کی عدم موجودگی میں ہم جماعتوں کو ان سے بہتر پڑھا بھی دیا کرتے تھے۔ ان سب کے جواب میں اپنی محنت کا شمار کرنا چاہیں گے یا اللہ کی عنایتوں کا۔ پھر آپ وقت کی تقسیم کیسے کیا کرتے تھے؟
٭٭ میں اسے اللہ کی غیر معمولی توفیق کہتا ہوں کہ مجھے ریاضی کے موضوع سے طبعی دلچسپی تھی۔ میرا خاندان یعنی میرے بھائی بہن، خالہ زاد، ماموں زاد اور چچا زاد سب کے سب ریاضی کے مضمون میں کم و بیش دلچسپی رکھتے تھے۔ میں خود حیران رہتا ہوں کہ مجھ میں ریاضی کا شعور کیسے ہوا کہ میں ریاضی کو سب سے زیادہ پسند کرنے لگا اور آخری امتحانوں تک یعنی مڈل سکول، ہائی سکول اور انٹرمیڈیٹ تک ہر امتحان میں، میں نے حساب کو فوقیت دی اور حساب کی بدولت ہی میں نے ہر سال کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کھیل کود تماشا سے بھی دلچسپی رہی، لیکن ریاضی نے مجھے ایسا پکڑا کہ میں اسی کا ہو کر رہ گیا۔
٭ کم عمری ہی سے ریاضی اور شاعری سے دلچسپی دو متضاد کیفیات معلوم ہوتی ہیں، ریاضی اعداد کا، شاعری وزن کا کھیل ہے۔ اس عہد کی کوئی غزل جو آپ کے حافظے میں محفوظ ہو…
٭٭
چاہت کے پرندے دِلِ ویران میں آئے
صیاد کسی صید کے ارمان میں آئے
وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہو نا
اترے کبھی مرے گھر میں کبھی دالان میں آئے
سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج
پگھلائے مجھے برف کی دکان میں آئے
سایہ ہے تو گزرے کسی دیوار کو چھو کر
ہے دھوپ تو اونچان سے ڈھلوان میں آئے
ہے جسم تو بن جائے مری رُوح کا مسکن
ہے جان تو پھر سے تنِ بے جان میں آئے
ساحل ہے تو نظارہ کی دعوت بھی نظر کو
ہے موجِ بلا خیز تو طوفان میں آئے
شعلہ ہے تو پگھلائے میرے شیشۂ جاں کو
ہے بادۂ خوں ناب تو مژگان میں آئے
امرت ہے تو چمکے لب لعلین سے کسی کے
ہے زہر تو بازار سے سامان میں آئے
ہے درد تو سیلاب بنے پار لگائے
درماں ہے تو بن کر دوا فنجان میں آئے
غنچہ ہے تو کھل جائے مرے دل کی صدا پر
خوشبو ہے تو زخموں کے گلستان میں آئے
فرمان وہ جس آن میں جس رنگ میں چاہے
آئے مگر اتنا ہو کہ پہچان میں آئے
٭ آپ کی بدیہہ گوئی کی تعریف آپ کے اکثر قدیم رفقا کرتے ہیں۔ بدیہہ گوئی کا کوئی ایسا واقعہ جس سے خود آپ نے بھی لطف اٹھایا ہو۔
٭٭ میں کہہ چکا ہوں کہ شاعری سے مجھے جذباتی و فطری لگاؤ تھا۔ سچ بات یہ ہے کہ میں اشعار، شعور و غور کے بعد نہیں کہتا اور نہ مجھ میں اس وقت اس کا سلیقہ تھا۔ عام طور پر احساس کی شدت ایسی ہوتی تھی کہ الفاظ خود بخود شعر کا جامہ پہن لیتے تھے۔ ایک دفعہ کا واقعہ مجھے یاد ہے اور بہت کم عمری کی بات ہے کہ ہمارے علاقے میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے انتخابات ہو رہے تھے۔ ایک دوسرے کے مقابل دو وکیل انتخاب لڑ رہے تھے۔ ایک وکیل بہت مالدار تھے اور سیاسی جلسوں میں زرق برق لباس میں آتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جوتے تک چاندی کے پہنتے ہیں۔ میں نے سنا تو برجستہ میری زبان پر یہ شعر آ گیا۔
ووٹ چاندی کے جوتے سے ملتا نہیں
ہے جدھر قابلیت ادھر جائیں گے
پھر یہ ہوا کہ یہ شعر سیاسی جلسے میں ایسامقبول ہوا کہ ہر ایک کی زبان پر رواں ہو گیا، میں اس وقت کے سیاسی حالات میں، مسلم لیگ کے جلسوں میں نظم کہہ کر پڑھتا رہا۔ بزرگ بہت پسند کرتے اور بار بار پڑھواتے، اس طرح شاعری کے شوق میں دوسرے شوق دب کر رہ گئے اور میں شعر و ادب کا ادنیٰ طالب علم بن کر رہ گیا۔
٭ آپ کے زیر نگرانی ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کا کوئی حدو حساب کوئی شمار ہے؟
٭٭ مجھے بالکل یاد نہیں، مگر میرا ایک شوق، ایک لگن تھی، جو شخص بھی ایم اے کر رہا ہے وہ پڑھتا چلا جائے … پی ایچ ڈی کرے۔ اس اعتبار سے سب سے پہلے شاہدہ بیگم پی ایچ ڈی کی طالبہ تھیں۔ انہیں پی ایچ ڈی کی سند ملی… اس کے بعد اچھے طالب علم مجھ سے دور بھاگنے لگے کہ پی ایچ ڈی میں لگا دیں گے، کیونکہ طالب علموں سے میرا پہلا سوال یہی ہوتا تھا کہ کیا پڑھ رہے ہو… کیا کر رہے ہو… پی ایچ ڈی کیوں نہیں کر لیتے … انہیں پتا تھا کہ ان سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے، وہ دور بھاگنے لگے۔ خود بھی پی ایچ ڈی کیا۔ ڈی لٹ کیا… ایک بات یاد رکھو۔ ڈی لٹ آسان ہے بے شک بڑی ڈگری ہے۔ پی ایچ ڈی مشکل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کرتے ہوئے انسان اتنی کٹھنائیوں سے، اتنی مشکلوں سے گزرتا ہے کہ اس کے لیے پھر کچھ مشکل نہیں رہ جاتا۔ پی ایچ ڈی کے تین ممتحن ہوتے ہیں۔ دو کی رائے مثبت ہوئی تو ڈگری مل جاتی تھی، لیکن ڈی لٹ کے لیے پانچ ممتحنوں کی شرط ہوتی تھی اور پھر یہ بھی کہ پانچوں کی رائے کا ایک ہونا، مثبت ہونا بھی ضروری تھا۔ ڈی لٹ میں گائیڈ نہیں ہوتا۔ میرے ممتحنوں میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر سید عبداللہ، اٹلی کے الیگزنڈر بوسانی، جرمنی کی این میری شمل اور لندن کے پروفیسر رالف رسل۔ یہ ممتحن تھے۔ ان میں این میری شمل نے، میں تو یہی کہوں گا کہ از راہ انکسار ممتحن کے طور پر کام کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ لکھی کہ یہ مقالہ ایسے مشکل موضوعات پر مشتمل ہے۔ میں خود جس پر دسترس نہیں رکھتی۔ ’’اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ یہ موضوع میری دسترس سے باہر ہے اس لیے مجھے ممتحن بننے کا کوئی حق نہیں۔
٭ مشاہیر کے خطوط آپ کے نام… نصف الملاقات… کچھ احوال اس کا بتائیے؟
٭٭ مکتوب نگاری میں، خط و کتابت میں، اُردو فارسی میں یہی مروج رہا ہے کہ خط آدھی ملاقات ہے۔ اسی نسبت سے میں نے اس کا نام نصف الملاقات رکھا۔ یہ بڑے آدمیوں کے خطوط ہیں جو میرے نام لکھے گئے، مجھے وصول ہوئے اور اب میری کتاب میں شامل ہیں۔ ان میں تمام خطوط شامل نہیں ہیں بلکہ بہت معتبر و ممتاز ادیبوں کے خطوط ہیں۔ مثلاً مولانا ابو الکلام آزاد، حامد حسن قادری، پروفیسرمسعود حسین رضوی وغیرہ وغیرہ۔
٭ ادب میں متنازع شخصیت ہونا قد آور ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی ہر دل عزیزی نے آپ کو اس اعزاز سے محروم رکھا ہے۔ کیا کبھی ادبی سطح پر کسی سے شدید اختلافات ہوئے؟
٭٭ بہت بڑے بڑے اختلافات … ابتدائی تنقیدی کام… اُردو، رباعی کے وزن کے بارے میں اختلاف رائے … عندلیب شادانی کو مجھ سے شدید اختلاف تھا۔ وہ عمر میں، مرتبے میں، علم میں مجھ سے بہت بڑے تھے۔ بہت بڑے شاعر تھے، نقاد تھے، لیکن چونکہ ان کا بیان درست نہ تھا۔ میں نے پر زور مضمون لکھا جو سید عابد علی عابد کے ’’صحیفہ‘‘ لاہور میں شائع ہوا۔ میرے دلائل بہت مضبوط تھے، اُردو فارسی کے بڑے بڑے ادیبوں نے میری تائید کی۔ علامہ نیاز فتح پوری، عشرت رحمانی، مولانا حامد حسن قادری اور مجنوں گورکھپوری نے میری تائید کی اور اس طرح میں ایک مباحثے یا مکالمے کے ذریعے ادیب یا نقاد بن گیا۔
٭ ساختیات، پس ساختیات، مابعد ساختیات، رد ساختیات… میری سمجھ میں نہیں آئے …؟
٭٭ یہ میری سمجھ میں بھی نہیں آئے۔ وزیر آغا اور سلیم اختر نے یہ سوال اٹھائے … خود ہی اس پر بحث کرتے رہے۔ میرے نقطۂ نظر سے، خود بخود بے نتیجہ یہ بحث، اپنی منزل کو پہنچ گئی۔ جیسا سوال آپ نے کیا۔ اسی طرح کبھی اپنے آپ سے، کبھی دوستوں سے کرتا رہتا ہوں۔ یقین جانیے کسی کا ذہن صاف نہیں، صاف کہاں سے ہو۔ بات جب ذہن سے دل میں اتر جاتی ہے، تب کہنے والے کے لفظوں میں اثر پذیری پیدا ہوتی ہے … پس ساختیات، ردساختیات، مابعد ساختیات یہ چیزیں نظری بحث تک تو کچھ دیر تک چلتی رہیں، مگر یہ ذہن و نظر سے آگے بڑھ کر لوگوں کے دلوں میں نہ اترسکیں۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ وہ قبول عام کی منزل تک نہ پہنچ سکیں۔
٭ ’’میں ہر تحریر کا پہلے نقاد خود ادیب اور شاعر کو مانتا ہوں۔ ‘‘ ہمارے کتنے دانشور تحریر کرنے کے بعد اپنی تخلیق کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں؟ ایک سوال یہ بھی کیا تنقید اور تحقیق لازم و ملزوم ہیں۔
٭٭ تحقیق کے معنی حق تک پہنچنا، سچائی تک پہنچنا ہیں۔ پہلے آدمی کو یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ سچ کیا ہے۔ مثال سے سمجھاتا ہوں۔ یہ آپ کے سامنے پھلوں کا شاپر پڑا ہے۔ اس پر تنقید کرنے سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ انار، موسمی، سیب، کون سا پھل ہے۔ دورسے ہی دیکھ کر تنقید شروع کر دی کہ یہ کھٹا ہے، میٹھا ہے، چھوٹا ہے، بڑا ہے … یہ سب باتیں خیال و خواب کی باتیں ہیں۔ جب تک آپ تحقیق نہیں کریں گے آپ حقیقت تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ایک اور مثال دیتا ہوں یہ ہنڈولا (فانوس) لٹک رہا ہے۔ آپ پوچھیں یہ کیا ہے … یہ تحقیقی سوال ہے۔ جواب یہی ہے کہ روشنی کا آلہ ہے۔ اس میں بلب لگتے ہیں … تنقید یہ ہے کہ سوال یہ اٹھایا جائے کہ یہ کیسا ہے۔ آپ جتنی مرتبہ سوچیں گی۔ اسے ہر زاویے سے دیکھیں گی۔ روشنی کے انعکاس کا ہر پہلو سے جائزہ لیں گی۔ ہر رنگ، برنگ دگر نظر آئے گا۔ میر ہوں یا غالب… آپ ان کے اشعار پڑھیے، ہر مرتبہ نیا ذائقہ، نیا خیال سوجھتا ہے۔ اس لیے تحقیق و تنقید لازم و ملزوم ہیں۔ مخلوق کے بعد خالق کی طرف توجہ ضروری ہے۔ شعر پسند آیا… ذہن نشین ہو گیا۔ خالق کون ہے … یہ علم بھی ضروری ہے … تجسس چین سے رہنے نہ دے گا، تحقیق پر آمادہ کرے گا۔
رہا یہ سوال کہ ہمارے کتنے دانشور تحریر کے بعد اپنی تخلیق کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں … مصروفیت کا دور ہے … اس لیے اس سوال کا جواب معلوم…
٭ مجنوں صاحب کا کہنا ہے کہ اُردو میں تنقید فرانس اور برطانیہ سے زیادہ لکھی گئی کہ ان ممالک میں تنقید بہت دیر میں ترقی پذیر ہوئی۔ کیا یہ رائے درست ہے؟
٭٭ مجنوں صاحب کی رائے سے اتفاق یا اختلاف کا سوال الگ رکھیے۔ تنقید کے کم یا زیادہ لکھے جانے کا مسئلہ نہیں۔ اصل تک پہنچنے کی بات ہے۔ تنقید کا موضوع کیا ہے۔ اندر جا کر، داخل ہو کر دیکھنا چاہیے۔ آدمی دیوان کے دیوان لکھ جاتا ہے گھر کا بھی کوئی بندہ پوچھتا تک نہیں، لیکن پھر ایک شعر ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ اس ایک شعر سے زندہ رہ جاتا ہے۔ قبولیت عامہ کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ لوگ متوجہ اور متجسس ہوتے ہیں۔ تلاش کرتے ہیں، کس کا ہے۔
کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھہری
کتنا مشہور جاندار مصرع ہے۔ آپ بھی نہیں جانتیں۔ یہ نسیم امروہوی کے مرثیے کا مصرع ہے۔ کوئی سوچ نہیں سکتا… عبدالرحمن بجنوری ایک جملے سے زندہ جاوید ہو گئے۔ ’’ہندوستان کی دو الہامی کتابیں ہیں … وید مقدس اور دیوانِ غالب…‘‘ تو بات کم زیادہ کی نہیں۔ ایک مقدمہ شعر و شاعری لکھا جائے تو کافی ہے۔
٭ اُردو ادب میں معاصرانہ چشمک اتنی ہی قدیم ہے جتنی اُردو ادب کی تاریخ، کیا عصر موجود میں اس کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ معاصرانہ چشمک ادب کے فروغ میں کوئی کردار ادا کرتی ہے یا صورت حال اس کے برعکس ہے؟
٭٭ معاصرانہ چشمک قدیم ادب میں یقیناً زیادہ ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرانی تنقید کا انحصار عموماً فن کی ظاہری صورتوں پر ہوتا تھا۔ غزل کا شعر ہے تو غزل کا مطلع قاعدے کے مطابق ہے یا نہیں۔ ردیف قافیے میں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی۔ زیر، زبر کے حساب سے غلط تلفظ تو کہیں نہیں استعمال ہو گیا۔ ’’مشاطۂ سخن‘‘ میں معاصرانہ چشمک کی بحثیں ہیں۔ یہ سودا کے بعد کی کتاب ہے۔ جس میں مختلف شعرا کے اشعار کی سیکڑوں مثالیں دی ہیں اور اغلاط پر گرفت کی ہے۔ میرانیس جیسا بڑا شاعر، اس نے تعریف کرتے کرتے یہ مصرع کہہ دیا:
گنجِ نبی کے گوہر یکتا حسین ہیں
جتنے دبیریے بیٹھے تھے … انہوں نے ہنگامہ مچا دیا۔ توبہ توبہ… استغفار… یہ کیا کہہ دیا۔
انیس نے فوراً مصرع بدلا
بحرِ نبی کے گوہر یکتا حسین ہیں
اب وہ شور اٹھا کہ الحفیظ والا مان … گنجے کے بعد بہرے … توبہ توبہ۔ انیس تو دوزخی ہو گئے … یہ کیا کہہ دیا۔
میرانیس نے فوراً پینترا بدلا اور مصرع یوں دہرایا
کانِ نبی کے گوہر یکتا حسین ہیں
اب تو دبیریوں نے چیخ پکار شروع کر دی۔ اب کانے بھی کہہ دیا۔ انیس تو لعنتی، دوزخی ہو گئے ہیں۔
انیس نے پھر مصرع پڑھا
کنزِ نبی کے گہر یکتا حسین ہیں
ایسی بحثیں چلتی رہتی تھی۔ بہت کچھ سیکھتے بھی تھے۔
رہی آج کی معاصرانہ چشمک کی داستان… اس بات پر پردہ ہی پڑا رہنے دیں۔
٭ ڈاکٹر رشید حسن خان نے فیض کی شاعری کا جو تجزیہ کیا ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
٭٭ متفق و نامتفق ہونا دوسری بات ہے۔ فیض کے ہاں الفاظ کی کثرت ہے۔ کثرت ناگوار گزرتی ہے۔ بعض جگہ رشید حسن خان نے ناگواری محسوس کی۔ فیض نے زیادہ الفاظ استعمال کیے۔ خوبصورت استعمال بھی نظر آتا ہے۔ اس لیے رشید حسن خان سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔
٭ کافی کافی سال پہلے کی بات ہے آج ہی کی طرح میں اور شاہد اُردو ڈکشنری بورڈ میں آپ کے پاس موجود تھے۔ ایک فون آیا، دوسری طرف موجود صاحب بہت معترض تھے کہ اُردو ڈکشنری بورڈ کتنا مہمل لگتا ہے۔ اُردو لغت پر کام ہو رہا ہے تو اُردو لغت بورڈ ہونا چاہیے۔ آپ نے جواب دیا کہ بھائی بورڈ بھی تو انگریزی کا لفظ ہے اس کا بھی ترجمہ کر دو۔۔ تو وہ صاحب لاجواب ہو گئے۔ آپ کہتے ہیں کہ غیر زبان کا جو لفظ اُردو نے اپنا لیا جس انداز میں، جس استعمال میں، وہی درست ہے۔
٭٭ جی ہاں ! بالکل اُردو میں رقیب کے معنی دوسرے ہیں، عربی میں دوسرے، اسی طرح عزیز عربی میں اُردو سے مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے جس طرح اپنا لیا، وہ اُردو کا ہو گیا۔ اس کا اسی طرح استعمال صحیح ہے جس طرح وہ مروّج ہو گیا۔
٭ اُردو ڈکشنری بورڈ کی مختصر تاریخ اور تعریف …؟
٭٭ اُردو لغت کا یہ عظیم منصوبہ ترقی اُردو بورڈ کراچی کے زیر اہتمام تاریخی اصولوں پر مدون کیا گیا۔ بورڈ کے پہلے صدر محمد ہادی حسین تھے۔ لغت کے پہلے مدیر مولوی عبدالحق تھے۔ ان کے بعد ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے یہ ذمہ داری سنبھالی، پھر ڈاکٹر شوکت سبزواری ان کے بعد مولانا نسیم امروہوی، جوش ملیح آبادی اور شان الحق حقی بھی اس کی تدوین و ترتیب میں ہمہ تن و ہمہ وقت مصروف رہے۔ میں بھی اپنی تصنیفی و تالیفی زندگی میں اس کام کو بہت اہم جانتا ہوں۔
٭ اُردو رسم الخط میں حروف تہجی کی تعداد طلبا ہی نہیں اساتذہ کے لیے بھی تذبذب کا باعث ہے۔ اس کی وضاحت کر دیجیے؟
٭٭ اُردو حرفِ تہجی کی تعداد پچاس ہے۔ انگریزی حروفِ تہجی چھبیس، عربی انتیس، فارسی میں تینتیس ہے۔ یہ حروف ان زبانوں میں استعمال ہونے والی اصوات کی تعداد کا تعین کرتے ہیں، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُردو زبان میں سب سے زیادہ صوتی سرمایہ ہے۔ اس نے عربی، فارسی، ہندی، آریائی اور سامی زبانوں سے اپنا دامن وسیع کیا ہے، یوں انگریزی اور علاقائی سبھی زبانیں اس میں یکجا ہو گئی ہیں اور اُردو، دنیا کی تقریباً ہر زبان کی آواز کا مجموعہ بن کر سامنے آئی ہے۔ ہر اردو بولنے والا عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں کو ان کے صحیح لفظ کے ساتھ بول سکتا ہے۔
٭ اُردو کے لیے رومن رسم الخط کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ نئی نسل ایس ایم ایس اور ای میل وغیرہ میں بھی اسی زبان کو استعمال کرتی ہے۔ کیا موجودہ رسم الخط کی جگہ رومن رسم الخط کا خطرہ موجود ہے۔
٭٭ رومن رسم الخط کی تائید میں برسوں سے باتیں کی جاتی رہی ہیں کہ اگر اسے اُردو زبان والے اپنا لیتے ہیں تو اُردو آسان ہو جائے گی۔ بین الاقوامی اتحاد میں اضافہ ہو گا۔ علمی و ادبی ذخیرے میں اضافہ ہو گا۔ اُردو جلد ترقی کرے گی۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رمن رسم الخط میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ اس میں اُردو کی ساری آوازیں ادا کی جا سکیں، پھر تلفظ اور ہجے کی جو مشکلات رومن میں ہیں، وہ اُردو کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہو گا۔ رومن رسم الخط، اُردو رسم الخط کے مقابلے میں بہت جگہ گھیرتا ہے۔ پھر اُردو رسم الخط کا فارسی اور عربی سے جو مضبوط اور گہرا رشتہ ہے، وہ ختم ہو جائے گا اور اُردو کے عظیم سرمائے کا بھی وہی حشر ہو گا جو ترکی کا رومن رسم الخط اپنانے سے ہوا۔ ہم اپنے اسلاف کے تحریری کارناموں سے اپنا سلسلہ منقطع کر لیں گے۔ جڑوں سے کٹ کر کب تک زندہ رہا جا سکتا ہے۔
٭ بولی صرف بول چال تک محدود ہوتی ہے۔ رسم الخط کا ہونا، قواعد و ضوابط کا مرتب ہونا پھر علمی و ادبی سرمائے کی موجودگی زبان کی اساسی ضرورت ہے۔ اُردو کو بولی سے زبان بننے میں کتنا عرصہ لگا؟
٭٭ اُردو کو بولی سے زبان بننے میں بہت کم وقت لگا۔ اگر اُردو شاعری کی تاریخ گو امیر خسرو کے زمانے تک لے جائیں اس کی مشہور غزل
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
بڑی مرصع منظم اور صناعانہ، فنکارانہ غزل ہے۔ یہ اعتراض ہوتے رہے، سوال اٹھتے رہے کہ یہ غزل امیر خسرو سے منسوب ہے، لیکن امیر خسرو کی نہیں ہے … امیر خسرو کی نہیں ہے تو پھر کس کی ہے۔ ان کی نہ سہی ان کے عہد ہی کے کسی شاعر کی ہے نا۔ ۷۲۵ھ میں خسرو کا انتقال ہوا۔ اس وقت سے لے کر اب تک سیکڑوں سال سے ان سے منسوب چلی آ رہی ہے۔ تمام نقادوں اور محققوں نے یہی لکھا ہے۔ اگر کوئی اس بات سے انکار کرتا ہے تو یہ اس کا فریضہ ہے کہ پھر ثابت کرے کہ کس کی ہے۔
٭ یہ ستم نہیں (چند ایک مستنثیات سے قطع نظر) کہ پاکستان میں زندہ شخصیت پر پی ایچ ڈی نہیں کی جا سکتی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کسی بھی شخصیت یا موضوع کا مکمل احاطہ کرنے کے بعد ہی یہ ڈگری دی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں آپ جیسی شخصیت اس سے مستثنیٰ ہونی چاہیے کیونکہ بہت سے حقائق اور نکات کی وضاحت آپ خود زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔
٭٭ یہ احمقانہ بات ہے۔ اسے اس لیے مشکل سمجھا جاتا ہے کہ شخصیت زندہ ہو تو جانبداری سے کام نہیں کیا جا سکتا۔ خود شخصیت اور اس کے عزیز و اقارب کی دل آزاری کا خیال بہت سے امور سے پردہ اٹھانے سے باز رکھتا ہے۔ یہ لحاظ بعض محققوں پر حاوی ہوتا ہے۔ حقائق کو نظرانداز یاسرسری انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔ یہ غلط ہے زندہ شخصیت پر اعلیٰ درجے کی تحقیق ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو۔
٭ فن تاریخ گوئی اور اس کی روایت کے سلسلے کی ایک اہم کڑی حفیظ ہوشیارپوری تھے۔ کیا ان کے بعد اس پائے کا کوئی تاریخ گو موجود ہے اور اس فن کا مستقبل کیا ہے؟
٭٭ رسول محشر نگری نے طویل مسدس کہا۔۔ شہرت مسدس حالی کو زیادہ حاصل ہوئی۔ اس مثال کے حوالے سے تاریخ گوئی کی بات بھی کی جا سکتی ہے۔ میں خود تاریخ کہہ سکتا ہوں۔ اگر منظوم تاریخ کہہ رہے ہیں تو نثر سے بہتر ہونی چاہیے۔ لوگ سیکڑوں اشعار کا قطعہ/قصیدہ کہہ کر آخری مصرعے میں تاریخ نکال دیتے ہیں۔ بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔
’’قومی زبان‘‘ میں وفات پا جانے والے مشاہیر کے تاریخی قطعات شائع ہوتے ہیں۔ بے شمار شائع ہوتے ہیں، لیکن زندہ رہنے والے، یاد رہ جانے والے نہیں۔
٭ کیا آپ نئے قارئین سے قمر زمانی بیگم کا تعارف کرانا چاہیں گے۔ کیا طاہرہ دیوی شیرازی اور قمر زمانی بیگم میں مماثلت تلاش کی جا سکتی ہے؟
٭٭ مماثلت … نہیں … حیرت اور تعجب اس امر پر ہے کہ دونوں کا عمل ایک جیسا ہے۔ طاہرہ دیوی شیرازی نے جو خطوط لکھے وہ نیاز کے انداز میں ہیں۔ اس لیے کہا گیا کہ طاہرہ دیوی شیرازی کے پردے میں نیاز ہیں۔
٭ جبکہ اس پردے میں فضل حق قریشی تھے۔
٭٭ ہاں، دونوں میں فرق ہے۔ قمر زمانی بیگم کے خطوط غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ وہ نیاز کے اپنے ہاتھ سے، الٹے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں۔ فضل حق ان کے شیدا تھے۔ فضل حق نے طاہرہ دیوی کا روپ دھارا۔ نیاز بننے کی کوشش کی۔ لوگ دھوکا کھا گئے۔ بہت بحث ہوتی رہی۔ قمر زمانی بیگم کے خطوط واقعی نیاز کے لکھے ہوئے تھے۔ بحیثیت نثرنگار نیاز کی شخصیت کی مرنے والے نہیں۔ قمر کے خطوط اصل خطوط ہیں۔ طاہرہ کے خطوط میں مماثلت تو تلاش کی جا سکتی ہے لیکن وہ اصلاً نیاز کے نہیں ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ نقل تو نہیں، پیروی میں لکھے گئے۔ علامہ لطف الدین احمد نے ان پر بہت اچھا مضمون لکھا۔ فضل حق نے کہیں لکھا کہ نیاز سے ان کی دیرینہ شناسائی تھی۔ وہ ان کے ہاں ٹھہرتے تھے … یہ درست نہیں ہے۔
٭ کیا آج کے عہد میں مولانا حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر کے پائے کا کوئی رہنما موجود ہے؟
٭٭ نہیں کوئی نہیں … بہت دیر تک… بہت دور تک کوئی نہیں … خدا کرے کہ آپ لوگوں کو ایسا وقت نصیب ہو جائے … ایسے لمحات جن میں جوہر و حسرت جیسا کوئی آدمی منظر عام پر آ جائے۔
حسرت موہانی کی شخصیت و کردار کی مثال ملنی ممکن نہیں۔ اتنا بڑا عالم … آپ جو اب تذکرہ نگاری کا اتنا ذکر سنتی رہتی ہیں۔ قدیم شاعروں کے تذکرے حسرت نے ’’اُردوئے معلیٰ ‘‘ میں شائع کیے۔ کتنا علمی کام کیا۔ معائب و محاسنِ شعری کے نام سے دو بڑی کتابیں لکھیں۔ ان کے علمی کارنامے الگ، شاعرانہ مہارت الگ، مذہبی رنگ الگ … سیاسی انگ الگ… بیوی کا برابر کا حصہ …
سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ان کی تہجد کی نماز بھی کبھی قضا نہیں ہوئی… اس آدمی نے تیرہ حج کیے۔ میں نے حسرت کو دیکھا ہے۔ سنا ہے۔ بہت تیز نماز پڑھتے تھے اور جانتے تھے اور مانتے تھے کہ ہاں میں تیز نماز پڑھتا ہوں۔
اور اس کی مثال دیتے تھے کہ تم لوگ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کے بجائے ۷۸۶لکھ دیتے ہو۔ اسم محمدﷺ لکھنے کے بجائے اس کے عدد لکھ سکتے ہو تو میں سورتوں کے اعداد کیوں نہیں پڑھ سکتا… خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے۔ ان کی مذہبی شیفتگی سے کسی کو انکار نہیں۔
٭ آخری سوال…
٭٭ یہ تمھارا دسواں آخری سوال ہے۔ تم جانتی ہو کہ مجھے میٹنگ میں پہنچنا ہے۔ حکومت نے تا حیات پروفیسر مقرر کر دیا ہے۔ پھر تقریباً ہر اعلیٰ سطحی تعلیمی میٹنگ میں موجودگی ضروری ہے، جو فرض سونپا گیا ہے، اسے پورا کرنا لازمی ہے۔
٭ مصروفیت اللہ کی بڑی نعمت ہے۔
٭٭ بے شک۔
٭٭٭
ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی
٭ آپ نے نظم و نثر کی تقریباً تمام اصناف پر کام کیا ہے۔ بیس سے زائد کتابیں اور سیکڑوں مضامین تحریر کیے ہیں۔ کیا کوئی موضوع ایسا ہے جو ابھی تشنۂ تحریر ہے؟
٭٭ خاصا لکھا ہے اور اب بھی لکھ رہا ہوں۔ کئی موضوعات ہیں جن پر نہیں لکھ سکا۔ مثلاً لسانیات پر لکھنا چاہتا ہوں۔ محض تکنیکی مضامین نہیں بلکہ ادب، معاشرے اور زبان کے تعلق پر۔ صرف ایک مضمون اب تک لکھ پایا ہوں جو آپ نے بھی شائع کیا تھا۔ (زندگی زبان اور اظہار۔ المشکوٰۃ کالج مجلہ۔ ایف جی کالج ایف ۲/۷ اسلام آباد، ۲۰۰۳ء)
یہ موضوع کشادہ قلبی پیدا کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ دیکھیے یہ کام ہو پائے گا یا نہیں۔ توفیق اللہ کی طرف سے ہے۔ اِسی طرح اسلام کے نظریۂ ادب پر لکھنا چاہتا ہوں۔ اس موضوع پر اپنے مضامین میں اشارے کیے ہیں مگر تفصیلی اظہار کا موقع نہیں مل سکا۔
٭ کانپور، ایک اہم علمی و ادبی ماحول سے آراستہ شہر، جو اپنے صنعتی و تجارتی مراکز کی بنا پر بھی اہم تھا۔ مخصوص معاشرتی، تہذیبی و سماجی پس منظر رکھتا تھا۔ کراچی اس کے متضاد معلوم ہوا یا ہم پلہ….
٭٭ کانپور میرا محلہ ہے۔ مگر میں کراچی کو اپنا شہر جانتا ہوں، کیونکہ سولہ سترہ سال کی عمر میں یہاں آ گیا۔ یہیں تعلیم حاصل کی۔ یہیں اچھے دوست ملے۔ بیشتر دوستوں اور معرکوں کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ اِن آنکھوں نے اِس شہر میں ادبی بساط کو بچھتے دیکھا ہے۔ ہجرت اور نئے شہر کے ہزاروں مسائل کے باوجود لوگ رام سوامی اور رنچھوڑ لائنز کے مکانوں میں یا مکانوں کی چھتوں پر ادبی جلسے یا مشاعرے کرتے اور غم روزگار کی تلافی کرتے۔ ان مشاعروں میں آرزو لکھنوی، سیماب اکبر آبادی جیسے سربر آوردہ اور ذوالفقار علی بخاری جیسے بزم آرا شرکت کرتے۔ انجمن ترقیِ اُردو کی ایک شاخ آرام باغ کے علاقے میں قیام پاکستان سے پہلے سے قائم تھی۔ وہاں ہر ہفتے ادبی اجلاس ہوتا۔ یہی دن تھے کہ صدر کے ریستوران اور چائے خانوں میں سرِ شام شاعر لکھنوی، محشر بدایونی، عابد حشری، سید فیضی، قمر ہاشمی وغیرہ سے ملاقات ہوتی۔ ان کی آوازیں اب تک کانوں میں گونجتی ہیں۔ بقول عابد جعفری:
زندگی بھول گئی، ہم سے بہت کچھ کہہ کے
کانپور کی علمی و ادبی روایت میں مولانا آزاد سبحانی، مولانا حسرت موہانی، دیا نرائن نگم جیسے نام شامل ہیں۔ مگر کراچی کی ادبی تاریخ صحیح معنی میں قیام پاکستان سے شروع ہوتی ہے اور اس میں شرکت کا فخر بھی مجھے حاصل ہے، اگرچہ اُس وقت میں کچھ بھی نہ تھا۔
٭ پروفیسر ڈاکٹر محمد مظہر بقا کہتے ہیں کہ اگر وہ (کشفی صاحب) کہیں خرابی دیکھتے ہیں تو اس پر فوری اور برملا تنقید میں کسی مصلحت اندیش سے کام نہیں لیتے۔ وہ سچائی کے اظہار میں شکر چڑھائے بغیر ایلوا منہ میں رکھ دیتے ہیں۔ ایسے شخص کو عام محاورے میں منہ پھٹ کہتے ہیں۔ یہ انداز عمومی زندگی میں، ادبی معاملات و تعلقات میں تکلیف دہ رہا یا قلبی اطمینان کا باعث؟
٭٭ مولانا مظہر الدین بقا کی یہ بات مجموعی طور پر درست ہے کہ میرے اظہار میں سچائی کا عنصر کبھی کبھی بڑی تلخی کے ساتھ اُبھرتا ہے لیکن عام زندگی میں اپنے ملاقاتیوں کے ساتھ میرا روّیہ کافی معتدل ہے۔ اِس کا ایک سبب تو عمر ہے اور دوسرے نبی اکرمﷺ کے اُسوۂ حسنہ کی معمولی سی جھلک شعوری طور پر اپنے کردارو گفتار میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
٭ عشق رسولﷺ آپ نے ورثے میں پایا۔ ۲۲ سفرِ مدینہ کیے۔ کیا حسرتؔ والا جواب ہی آپ کا ہو گا کہ ہاں ! حج تو زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ میں تو اپنے جد کو سلام پیش کرنے جاتا ہوں۔ راستے میں مکہ بھی آ جاتا ہے تو حج بھی کر لیتا ہوں۔
سیکھی یہیں مرے دلِ کافر نے بندگی….. ربِ کریم ہے تو تری رہ گزر میں ہے (فیض)
٭٭ یہ درست ہے کہ حج صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے مگر اس دل کی بے قراری کا کیا علاج؟ اور پھر ایک صورت میں اُدھر کا اشارہ بھی میسر آ جائے، یہ صحیح ہے کہ میرا دل مدینہ طیبہ میں زیادہ لگتا ہے۔ اپنی اس کیفیت سے میں خود بھی بہت پریشان تھا۔ مگر مدینے میں ایک دن نعیم حامد علی صاحب نے کہا کہ پریشانی کی بات نہیں، آدمی کا دل آدمی سے ہی لگتا ہے۔
٭ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ لیکن ہم اِس بات کو کیوں مدِ نظر نہیں رکھتے کہ آنحضورؐ نے فرمایا: ’’حج اور عمرے پے در پے کرتے رہو۔ کیونکہ حج اور عمرہ دونوں ہی فقر و احتیاج اور گناہوں کو اس طرح دُور کر دیتے ہیں، جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو صاف کر کے دُور کر دیتی ہے ‘‘ ۔ ’’ وطن سے وطن تک‘‘ جذبِ دل کی کہانی ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ کے چاہنے والے، ہر سفرِ عقیدت کے بعد ایسی ہی تحریر کے منتظر رہتے ہیں؟
٭٭ حج ایک ہی مرتبہ فرض ہے لیکن احادیث و آثار میں یہ بھی مذکور ہے کہ حج و عمرہ دل کو صیقل کرنے کے طریقے ہیں، صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا ہے اور ہمیں بھی میسر ہو جائے تو کیا کہنا۔ اس سرزمین کی دید ہی ہمارے جذبات کو ایسا رنگ بخشتی ہے کہ ہماری تحریریں دوسروں کے جذبات کی ترجمانی بن جاتی ہیں۔ بیٹی! تمہارے سفرنامہ حج (دسترس میں آسمان) میں بھی یہی بات ہے۔ میں ’’وطن سے وطن تک‘‘ میں اور اضافہ کر رہا ہوں اور دوسرے اسفارِ ارضِ مقدس کی کیفیات بھی قلم بند کر رہا ہوں۔
٭ ہمارے عہد کی ایک اہم شخصیت کا خیال ہے کہ آپ کوسیرت طیبہ، حضور اکرمﷺ کی حیات، قرآنی احکامات و حوالوں کے ساتھ‘‘ اور اُردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر ۱۷۰۷ء تا ۱۸۵۷ء ‘‘ ان دو تصانیف کی بنا پر ’’شبلیِ عصر‘‘ کہنا مبالغہ نہ ہو گا۔ ۱۹۷۵ء میں علمی و ادبی کارناموں پر داؤد ادبی ایوارڈ، ۱۹۹۱ء میں حیاتِ محمدیؐ قرآن حکیم کے آئینے میں، پر صدر پاکستان کی جانب سے قومی سیرت ایوارڈ دیا گیا۔ تخلیق کار کو اپنی ہر تخلیق عزیز ہوتی ہے۔ خود آپ اپنی کسی کتاب کو بہترین تصور کرتے ہیں اور کیا اسے وہ پذیرائی حاصل ہوئی، جس کی توقع تھی؟
٭٭ ادب کا احترام اپنی جگہ، لیکن ہمارا اصل افتخار سرکاردوعالمﷺ سے نسبت ہے۔ مجھے اپنی کتابوں میں ’’حیاتِ محمدیؐ قرآن کے آئینے میں ‘‘ زیادہ پسند ہے۔ اَب اِس کا دوسرا حصہ ’’مقامِ محمدؐ قرآن کے آئینے میں ‘‘ شائع ہونے والا ہے اور انشاء اللہ تیسرے حصے ’’اخلاقِ محمدؐ قرآن کے آئینے میں ‘‘ پر کام شروع کرنے والا ہوں۔ اِس میں میرے خطبات اور تقریریں بھی شامل ہیں۔ یہ مضامین بھی مجھے عزیز ہیں کیونکہ میرے ہم عصر پاکستانی ادیبوں نے ادب کو پاکستان اور اسلام کے حوالے سے کم دیکھا ہے۔
٭ نعت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی اُردو شاعری کی تاریخ۔ نعت تقریباً ہر شاعر نے باعثِ حصولِ ثواب و برکت کہی ہے۔ موجود دور میں نعت گوئی کی طرف توجہ زیادہ ہے۔ کیا اس کا سبب کائنات کی دگرگوں، خوفناک صورتِ حال ہے جس کے باعث سبھی مذہب کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں؟
٭٭ نعت گوئی کی طرف لوگوں کی توجہ کا سبب تو وہی ہے جو آپ نے فرمایا کہ عالمی خطرناک صورت حال کے پیشِ نظر سب لوگ مذہب کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں، لیکن نعت سے اس دلچسپی کا آغاز مرحوم ضیاء الحق کے دور میں ہوا۔ جب نشریاتی ذرائع ابلاغ عامہ پر حمد و نعت کو مستقل جگہ دی گئی اور ہر جلسے میں نعت خوانی لازم قرار ٹھہری۔ مرحوم حفیظ تائب، مظفر وارثی، حافظ لدھیانوی اور ایسے ہی بعض شعرا تو نعت کو اپنا چکے تھے، لیکن بہت سارے شاعر اپنے مفادات کی وجہ سے نعت گوئی کی طرف مائل ہوئے۔ اب میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔
٭ آپ کا ایک اہم کام غزل کے اشعار میں نعت کی جلوہ گری کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے۔ کیا آپ کی یہ کاوش، غزل گو شعرا اور غزل کے ناقدین اور قارئین میں، نعت سے دلچسپی و تجسس بڑھانے میں معاون ثابت ہوئی؟
٭٭ غزل میں نعت کی جلوہ گری کی نشان دہی کا خاصا اثر مرتب ہوا۔ بہتوں نے میری تاویلوں سے اتفاق کیا اور کچھ حضرات نے اختلاف۔ بہرحال اتفاق ہو یا اختلاف۔ اس سے بحث کے بہت سے گوشے منور ہوتے ہیں۔
٭ ’’جدید ادب کے دو تنقیدی جائزے ‘‘ ، ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ ’’کے نام‘‘ کیا آج بھی کوئی افسانہ ایسا لکھا گیا جس نے آپ کو اِس درجہ متاثر کیا؟
٭٭ اِن دنوں اچھے افسانے تو بہت لکھے جا رہے ہیں۔ لیکن عظیم افسانہ، شاید ماضی کی بات ہے اشفاق احمد کا ’’گڈریا‘‘ اور قرۃ العین حیدر کا ’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ یہ عظیم افسانے ہیں۔ اَب ایسے افسانے نہیں لکھے جا رہے۔
٭ اُردو ادب کے دس سال، میں تنقید کے ضمن میں آپ لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر سید عبداللہ اس وقت قلم اٹھاتے ہیں، جب انہیں کوئی نئی بات کہنا ہوتی ہے۔ آج کے دور میں کیا صورتِ حال اِس کے برعکس نہیں؟
٭٭ آج کل تنقید گروہ بندی کی نذر ہو چکی ہے۔ ہر آدمی اپنے اپنے گروہ کے ادیبوں پر لکھتا ہے۔
٭ ۱۹۶۳ء میں نئی دنیا کو سلام، علی سردار جعفری نے اس عہد کی سب سے بڑی تمثیلی نظم لکھی۔ آج کی طویل نظم کی صورتِ حال کیا اطمینان بخش ہے؟
٭٭ علی سردار جعفری کی نظم طویل نظم ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ کے بعد ابن انشا، جعفر طاہر اور صہبا اختر نے طویل اور تمثیلی نظموں کی طرف توجہ کی اور عبدالعزیز خالد نے ’’فارقلیط ‘‘ کے عنوان سے طویل تر نعتیہ نظم لکھی۔ حمایت علی شاعر نے اپنی منظوم سوانح لکھی، لیکن ان دنوں طویل نظموں کا سلسلہ نظر نہیں آتا۔
٭ ڈاکٹر اسلم فرخی کہتے ہیں، جوانی میں تحقیق و تنقید کی وادی میں چکر لگانے اور سرگرداں پھرنے کے بعد اب کشفی اپنے صحیح مقام پر آ پہنچے ہیں۔ آپ خود کہتے ہیں۔ دین کی طرف راغب کرنے میں بلقیس کا ہاتھ ہے۔ زندگی کی پُر پیچ راہگزر میں آپ نے کس مقام پر آسودگی محسوس کی؟
٭٭ مذہب سے رغبت اور دلچسپی کے بہت سے اسباب ہیں۔ اسلم فرخی کا کہنا کسی حد تک درست ہے کہ جوانی کی تحقیق و تنقید کی وادی میں سرگرداں ہونے میں گزری اور یہ بھی صحیح ہے کہ دین کی طرف راغب کرنے میں بلقیس کا ہاتھ ہے، مگر مجموعی صداقت یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے کسی دور میں مذہب سے دور نہیں رہا۔ اس میں میری خاندانی روایات اور ابتدائی تعلیم کا بڑا حصہ ہے۔ پھر آج کے دور میں ہیجانی رجحانات سے صرف دین ہی آسودگی عطا کر سکتا ہے۔
٭ حسرت موہانی، پسندیدہ شخصیت، کسی نہ کسی حوالے سے اکثر و بیشتر اِن کا ذکر آپ کی تحریر میں آ جاتا ہے۔ باطنی شخصیت اوصاف سے مالامال، ظاہری شخصیت غیر متاثر کن کیا ہمارے عہد میں ایسی کوئی شخصیت موجود ہے؟
٭٭ مولانا حسرت موہانی کا ذکر میری تحریروں میں کسی نہ کسی حوالے سے آ جاتا ہے۔ مولانا جیسی کوئی شخصیت ہمارے عہد میں نہیں ہے، لیکن بعض بھدے اور بدنما چہروں میں میں نے شخصیت کا حسن دیکھا ہے، جیسے جگر مراد آبادی میں یا مرحوم سجاد باقر رضوی۔
٭ آپ کا ایک مبسوط مقالہ ’’جنگ آزادی کا اثر اردو شاعری پر‘‘ ہے۔ آج کے سیاسی حالات ایک بڑی عالمگیر جنگ کا نقشہ تیار کر رہے ہیں۔ زبردست، زیردستوں کو نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کیا اس کے اثرات ہمارے شعر و ادب پر اتنے ہی گہرے انداز میں مثبت ہو رہے ہیں۔ جتنے آج سے کئی دہائیاں قبل، جنگ عظیم کے موقع پر ہوئے تھے؟
٭٭ دوسری جنگ عظیم کے علاوہ خود قیام پاکستان کیا بڑا واقعہ تھا، پھر ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ، عراق پر امریکہ کی ننگی جارحیت، فلسطین کی بپتا، ہمارے شعر و ادب میں اُن کا ذکر تو آیا ہے مگر ان کا حق ادا نہیں ہوا اور جو کچھ لکھا گیا ہے اُس کا بھی کسی نے محنت اور ایمانداری کے ساتھ جائزہ نہیں لیا۔ فلسطین سے متعلق اُردو ادب کا ایک جائزہ میں نے اور سید ابو احمد عاکف نے اپنے ایک انگریزی مقالے میں لیا ہے جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے جریدے ’’اسلامک اسٹڈیز کے فلسطینی نمبر‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ یہ انگریزی میں ہے۔
٭ قومی تعمیر کے سلسلے میں ادیب کے کردار سے کیا آپ مطمئن ہیں؟
٭٭ خود ہمارے ادیبوں کے ذہن میں قومی تعمیر کے سلسلے میں ادب کے کردار کا واضح تصور نہیں ہے۔ بے توجہی ایک عام مرض ہے۔ اِس سلسلے میں زیادہ تفصیل بہتوں کو بری لگے گی۔
٭ بابائے اُردو کا خیال تھا کہ اُردو زبان پر ابن صفی کا بہت بڑا احسان ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اُردو پڑھتے ہیں۔ نوجوان نسل لکھے ہوئے لفظ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ کتاب سے دلچسپی، مطالعے کی عادت کی طرف واپسی، کیا ممکن ہے؟
٭٭ ایک وہ بھی دور تھا کہ جب لوگ شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی اور ابن صفی سے دلچسپی کی بنا پر ان کی کتابیں خریدتے اور پڑھتے تھے۔ اَب کتاب کا سکہ ہماری ثقافت کے بازار میں نہیں چلتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ لوگوں میں مطالعے کی عادت پھر پیدا ہو سکتی ہے۔ ہاں مذہبی ادب اور شاعری سے لوگوں کو اَب بھی دلچسپی ہے۔ پاکستان میں جتنے مذہبی رسالے نکل رہے ہیں۔ ان کی تعداد دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے۔
٭ اُردو زبان کے حروف تہجی کو فروغ دے کر ہم بزعم خود اُردو زبان کو ترقی یافتہ زبان کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا حروفِ تہجی کی زیادتی تین چار سال کے بچے کے لیے مشکلات کا سبب نہیں بنے گی۔ آخر پہلے بھی تو ۳۸ حروفِ تہجی سے کام لیا جا رہا تھا۔ اب ۵۸ حروف جن میں امدادی حروف اور مرکب حروف بھ۔ پھ۔ تھ۔ وغیرہ شامل کر لیے گئے ہیں۔ کیا یہ روش درست ہے؟
٭٭ اُردو کے حروفِ تہجی اٹھاون ہی ہیں۔ بھ۔ پھ۔ تھ۔۔ ۔ وغیرہ کو مرکب حروف نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ یہ صوت واحد کا درجہ رکھتے ہیں پہاڑ اور پھاڑ کی مثال سے بات واضح ہو جائے گی۔ پہاڑ میں دو آوازیں ہیں اور پھاڑ میں مفرد آواز ہے۔
٭ دیوانِ غالب کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ایک صدی پرانی ہونے کے باوجود نئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہی بات پنج آہنگ اور غالب کے اُردو خطوط کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ’’ہندوستان کے مسلمانوں کی سب سے بڑی، تہذیبی شخصیتیں دو ہیں، امیر خسرو اور غالب۔ کیا ہم اپنی نئی نسل کو پاکستان کی کسی ایک تہذیبی شخصیت کے بارے میں بتا پائیں گے؟
٭ دیوانِ غالب کی طرح خطوط غالب کا نیا پن بھی برقرار ہے مگر نثر اور شاعری کا فرق واضح ہے۔ خطوط غالب اس طرح زندگی کا حوالہ نہیں بن سکتے جس طرح اشعار غالب۔
اب رہی بات تہذیبی شخصیت کی، تو پاکستان میں کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کا ذکر خسرو اور غالب کے بعد کیا جائے اور اس فہرست میں صرف اقبال کے نام کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں تہذیبی شخصیت کہا جا سکے۔ مگر فہرست سازی کا یہ موقع نہیں ہے۔
٭ غزل صرف ایک تہذیبی صنفِ سخن ہی نہیں جو تمدن کی اعلیٰ سطح کو پیش کرتی ہے۔ بلکہ تہذیبی اقدار کی تخلیقی بازیافت کا وسیلہ بھی ہے۔ شکست و ریخت سے دو چار اس معاشرے میں کیا غزل تہذیبی اقدار اور روایات سے رشتہ برقرار رکھ پائے گی؟
٭٭ غزل بھی بظاہر شکست و ریخت سے دوچار ہے۔ مثلاً آزاد غزل، بے ردیف غزل، مگر مجموعی طور پر غزل نے روایات اور تہذیبی اقدار سے بھی رشتے کو برقرار رکھا ہے۔ حفیظ ہوشیارپوری، فیض، ناصر کاظمی اور عزیز حامد مدنی کے نام مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ جدید تر نسل میں افتخار عارف اور سلیم کوثر کو شامل کر لیجیے۔
٭ آج کے طالب علم کے لیے کتاب کی ہم نشینی اہم ہے یا عالم کی؟
٭٭ آج کا طالب علم ادیب کے بجائے ادب سے رشتہ استوار رکھے تو مناسب ہے۔ ہمارے بیشتر ادیب کو تاہ قامت ہیں۔
کہتے ہیں یہ بھی قربِ قیامت کا ہے نشاں
بے قامتی پہ جبہ و دستار دیکھنا
٭ پاکستان میں تنقید کی صورتِ حال کیسی ہے۔ برآمد شدہ نظریات ادب کی ترویج و فروغ میں کہاں تک معاونت کرتے ہیں۔ ساختیات، پسِ ساختیات اور ردِ ساختیات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
٭٭ آپ کا یہ خیال درست ہے کہ پاکستان کی تنقید میں برآمد شدہ نظریات کا چلن ہے۔ ان کی روشنی میں ہمیں اپنا ادب اور ادبی قدریں بیگانہ معلوم ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں در اصل جدید دور کبھی شروع نہیں ہوا۔ پھر مابعد ال جدیدیت کا کیا سوال۔ ساختیات، پس ساختیات یہ سب مانگے کا اجالا ہے۔ یہ خیال کہ اظہار کے بعد مصنف مر جاتا ہے اور اُس کی تحریر کو ہم نئے سیاق سو سباق میں نئے معنی دیتے ہیں۔ در اصل مذہب کے خلاف ایک سازش ہے۔ ایسے لوگ کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید اور الہامی ادب کو بھی ہم اپنی مرضی کے معنی دے دیں مگر اُن میں یہ کہنے کی جرأت نہیں ہے۔
٭ آپ بحیثیت استاد کے، کل کے طالب علم اور معلم اور آج کے شاگرد اور استاد میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟
٭٭ زندگی بدل گئی۔ زندگی کی اقدار بدل گئیں، پھر طالب علم اور استاد کا رشتہ کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟ ہمارے اساتذہ بے غرض لوگ تھے۔ اُن کی ایک ہی غرض تھی اور وہ تھی علم کا فروغ۔ آج تعلیم ان تجارتوں میں سے ہے جن میں مالی خسارے کا سوال نہیں ہے۔ استاد اور طالب علم کے تعلقات ہی غرض کی بنیاد واحد نہ سہی، غالب بنیاد ہے۔
٭ کیا پاکستان کے لیے مثالی نظامِ تعلیم باہر سے منگوانا ضروری ہے اور یہی نظام تعلیم ملک و قوم کی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے؟
٭٭ پاکستان میں کون سا نظام تعلیم رائج ہے؟ مجھے علم نہیں۔
دینی مدرسے، سرکاری سکول جو ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ گلی کوچوں میں قائم انگلش میڈیم سکول، جن میں استاد مل جاتے ہیں لیکن چپڑاسی نہیں ملتے۔ کیونکہ استانیاں پانچ چھ سو روپے پر مل جاتی ہیں لیکن چپڑاسی تین ہزار سے کم پر نہیں ملتا اور بڑے بڑے انگلش میڈیم اسکولوں کے حال….. اسکول بھی اب میٹرک کو چھوڑ کر صرف اے لیول اور او لیول کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ان حالات میں ملک و قوم کی ترقی کا کیا سوال۔
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
ہر قوم کو اپنا نظام تعلیم خود وضع کرنا پڑتا ہے اور سرسید سے اختلاف کے باوجود سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے لیے جس نظام تعلیم کی بات کی تھی، اس پر اضافہ ممکن نہیں کہ تمہارے ایک ہاتھ میں علوم دنیا ہوں اور دوسرے ہاتھ میں علوم دینی اور سر پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج جگمگا رہا ہو، لیکن افسوس کہ سرسید کا قائم کردہ ادارہ بھی اس معیار پر پورا نہیں اتر سکا۔ علی گڑھ نے دینی غیرت تو دی لیکن ہمہ گیر دینی بصیرت نہیں دی۔ اگر ایک طرف ہمارے دینی مدرسے کا طالب علم زمین کی حرکت کے بارے میں تشکیک و شبہ رکھتا ہے تو مغربی اداروں کا طالب علم اپنے باپ کی نماز جنازہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔
٭ علامہ اقبال کا شاہین کے متعلق آج کہا جا رہا ہے کہ شاہین کے خلاف بہت کچھ کہا جا چکا۔ لکھا جا چکا۔ اِس تصور کو اَب ختم کر دینا چاہیے کہ اَب ترجیحات کچھ اور نہیں۔ کیا مردِ مومن کی صفات بھی تغیر و تبدل سے گزر رہی ہیں؟
٭٭ علامہ اقبال کے شاہین کی معنویت کو پوری طرح سمجھا ہی نہیں جا سکا۔ اس سے سچ مچ چیر پھاڑ کرنے والا پرندہ سمجھا گیا حالانکہ اقبال نے آلِ احمد سرور کے نام ایک خط میں شاہین کے اشارے اور استعارے کی وضاحت کی تھی۔ شاہین خود دار، بلند پرواز ہے، دوسرے کا شکار نہیں کھاتا، کار آشیاں بندی نہیں کرتا۔ تیز نگاہ، چست، تیز رفتار، قوت سے بھرپور، وقت اور زمانے کی قید سے آزاد، اقبال مسلمان کی زندگی میں یہی خصوصیات دیکھنا چاہتے تھے۔ اب تو اقبال کو ہی فرسودہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسلام کے ساتھ بھی روشن خیال، لبرل کے سابقے لاحقے لائے جا رہے ہیں۔
٭٭٭
پروفیسر فتح محمد ملک
٭ آپ وسیع المطالعہ نقاد ہیں۔ آپ کا انداز تحریر اور انداز تخاطب منکسرالمزاجی اور شائستگی سے تشکیل پاتا ہے اور فی زمانہ وہ جارحانہ انداز جو مخاطب کے پرخچے اڑا دے، مفقود ہے۔ آپ اپنے انداز زیست اور طریق ادب سے مطمئن ہیں۔
٭٭ مطمئن ہوں۔ جہاں تک طرز زیست کا تعلق ہے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے کبھی زندگی سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کیں، اس کے باوجود یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ مجھے زندگی میں ہر لمحے اپنی صلاحیتوں سے بڑ ھ کر ملا، اب بھی میں دنیاوی طور پر جن نعمتوں سے فیض یاب ہو رہا ہوں، وہ میرا حق نہیں ہے، وہ اللہ کی طرف سے انعام ہے میں ہر لمحے اللہ کے احسانات کا شکر ادا کرتا ہوں۔
٭ اردو کے اولین نقاد نے کہا تھا
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاکساری اپنی کام آ ئی بہت
کیا آج کے زمانے میں خاکساری کی کوئی گنجائش ہے؟خاکساری کو آپ اپنی خوبی سمجھتے ہیں یا خامی؟
٭٭ خامی یا خوبی سے قطع نظر میں مولانا حالی کے کردار اور عمل کا بہت بڑا مداح ہوں۔ حالی نے اکثر اوقات اپنی طبیعت پر جبر کر کے ان کاموں کا بیڑا اٹھایا، جن کی قوم و ملت کو ضرورت تھی۔ انھوں نے اپنے شوق پر ملی و قومی تقاضوں کو ترجیح دی، میری کوشش بھی یہی ہے کہ کوئی مجھے نقاد مانے نہ مانے، میں ان نظریات، شخصیات اور رجحانات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کروں جو ہماری قومی و ملی ضرورتوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر نے مجھے تھک کر بیٹھنے یا ایک ہی شعبۂ علم و ادب کا اسیر ہو کر رہ جانے سے بچایا میں اپنے آپ کو اتنی اہمیت نہیں دیتا، جتنا قومی و ملی ضرورتوں کو اہم جانتا ہوں۔ اب تک برا بھلا جو کچھ بھی لکھا ہے اس کا محرک یہی جذبہ ہے۔
٭ میر کی صدی، غالب کی صدی، اقبال کی صدی، آئندہ صدی کے لیے کوئی نام نظر نہیں آ تا ! وجہ؟
٭ ٭ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے میں اسے ایک صدی کا شاعر نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے بعد آنے والی ہر صدی کا بڑا شاعر اور مفکر ہے، اکیسوی صدی روا ں دواں ہے، آج اس وقت دنیا جن سوالوں پر غور کر رہی ہے، ان پر علامہ اقبال نے غور کر رکھا ہے ؛ اقبال کا غور و فکر ہمارے آج کے سوالوں کے حل میں مشعل راہ ہے، آج مشرق وسطی میں جو کچھ ہو رہا ہے اور ہمارے بھائی جن مصائب سے دو چار ہیں، ان پر اقبال نے اب سے پون صدی پہلے شاعری کے علاوہ اپنے سیاسی بیانات میں سب کچھ کہہ رکھا ہے۔ انھیں پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آج کے مصائب سے نجات کی راہ اقبال کے طرز فکر کو اپنانے میں پوشیدہ ہے۔
٭ کہا جاتا ہے کہ فتح محمد ملک کی تنقید کا محور، اقبال کی فکر اور ہماری جدید ادبی تحریکات کے درمیان تعلق ہے، آپ اس رائے کا تجزیہ کرنا چاہیں گے۔
٭ ٭ یہ درست ہے۔ اس کا مختصر تجزیہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ اقبال ایک انقلابی شاعر، مفکر اور سیاسی رہنما ہیں۔ ان کے خیالات کا سرچشمہ قرآن حکیم ہے، ان کی زندگی کے آخری دور میں ہمارے ادبی افق پر جو نئی تحریکیں نمودار ہوئیں وہ انقلابی یا جدید ہونے کے لیے سیکولر ہونا لازم قرار دیتی تھیں، اس لیے انھوں نے اقبال کی ذات اور اقبال کے افکار میں وہ تضادات ڈھونڈے جو فی الواقع ان میں موجود نہیں ہیں ، چنانچہ انھوں نے اقبال کے خلاف ایک طرح کے ادبی رد عمل کا اظہار کیا اور اقبال کی فکر کو اسلامی انقلابی فکر قرار دیتے ہوئے قدامت پسند کہا۔ رفتہ رفتہ اس میں سے چند ایک خلاق دانشوروں نے اپنے تجربے سے یہ جانا کہ انقلابی ہونے کے لیے سیکولر ہونا لازمی نہیں ہے اور ان کے ہاں آہستہ آہستہ وہ انداز نظر نمودار ہوا جو فیض کی نظم ’’سر وادیِ سینا ‘‘ سے لے کر ان کی آخری شعری تخلیق نعت پر تمام ہوتا ہے۔ میں نے قلم سنبھا لتے ہی نئی ادبی تحریکوں اور اقبال کی انقلابی ادبی تحریک کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑ نے کا کام شروع کیا۔ شروع شروع میں بہت سے بزرگوں نے میری تنقید کو کسی مروجہ تنقیدی مسلک سے وا ابستہ نہ پا کر خفگی کا اظہار کیا میرے تنقیدی مقالات کے پہلے مجموعہ تعصبات کی اشاعت پر مجنوں گورکھپوری کے سے بزرگوں نے یہ سوالا ٹھا نا ضروری سمجھا کہ یہ کتاب ادبی ہے یا مذہبی۔ رفتہ رفتہ ترقی پسندی اور جدے دیت، کمیونزم کے زوال اور جدے دیت کی نارسائیوں پر غور کرتے کرتے فیض کی نظم ’’سر وادی ء سینا‘‘ تک آ پہنچی ہے ؛ جس میں قرآن کریم سے مستعار روحانی استعاروں میں عرب اسرائیل جنگ کو پیش کیا گیا ہے۔ یہاں پہنچ کر مجنوں گورکھپوری کا اٹھایا ہو اسوال خود بخود حل ہو گیا۔
٭ اقبال صرف اردو اور فارسی زبان و ادب کے ہی اہم شاعر نہیں بلکہ ان کی آفاقی حیثیت کو سبھی تسلیم کرتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ان کو نو بیل انعام نہیں دیا گیا؟ کیا اس کا سبب یہ تو نہیں کہ ان کی شاعری کا محور اور مرکز قرآن و اسلام ہے؟
٭٭ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہا قبال مغربی سامراج کے بہت بڑے دشمن تھے اور یہ انعام آغاز کار ہی سے سیاسی مصلحتوں کو بھی پیش نظر رکھتا ہے، یہ سوال ہمارے ہاں اس لیے بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ہم مغرب سے آئی ہوئی سند کو اب بھی وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سچی بات تو یہ کہ اقبال کو نو بیل انعام اس لیے نہیں ملا کہ اقبال اس انعام کے لیے مطلوبہ عظمت سے کہیں زیادہ عظیم ہیں۔
٭ عمو می تصور یہی ہے کہ آدم کا خلد سے بڑے بے آبرو ہو کر نکلنا، سزا کے طور پر تھا لیکن اقبال کے ہاں ’’ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے ‘‘ میں آدم کو بڑے تفاخر کے ساتھ نئی دنیاؤں کی تسخیر کے عزم کے ساتھز مین پر اتارا گیا،ز مین نے اس کے استقبال کے لیے تمام پوشیدہ خزانوں کی طرف اشارہ کر دیا۔ کیا یہ رجائی نقطۂ نظر اردو شاعری نے برقرار رکھا؟
٭٭ نہیں، ایسا نہیں ہوا، اس لیے کہ اقبال کی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں نمودار ہونے والے ادیبوں کی نئی نسلیں اقبال کے خلاف رد عمل کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ انھوں نے اقبال کو اس انداز سے پڑھا ہی نہیں، جس انداز سے انھیں پڑھنا چاہیے تھا۔ اقبال کی جس نظم کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اقبال کی فلسفیانہ تحریریں اور خصوصیت کے ساتھReconstruction of Religious Thought on Islam” ‘‘ کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال کے بعد ادیبوں نے اسے بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے، اسے بہت کم سمجھا ہے۔
٭ کہا جاتا ہے کہ دیگر مغربی ممالک کے علاوہ روس میں بھی علامہ اقبال کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کے کلام کا ترجمہ نہ صرف روسی زبان بلکہ روس میں مروجہ تمام زبانوں میں کر دیا گیا ہے، ماس کو کی اوریئنٹل لینگویجز اکیڈمی میں اقبال چیئر بھی قائم ہے۔ کیا پاکستان میں بھی اردو دنیا اور علاقائی زبانوں میں اقبال کو وہ اہمیت دی جا رہی ہے جس کی متقاضی ان کی ذات ہے؟
٭٭ نہیں اور جب میں اس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہوں تو میرے ذہن میں حکومت کی طرف سے کیے گئے بے شمار اقدامات ہوتے ہیں، پاکستان میں حکومت کی سطح پر اقبال کے نام کی عزت و تکریم ہوتی چلی آئی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اقبال اکادمی کو کھلے دل سے مالی امداد دی جاتی ہے، اقبال کی تصویر ڈاک کے ٹکٹوں پر دکھائی دیتی ہے … مگر اقبال کے پیغام کو عملی زندگی کے قلب میں ڈھالنے سے گریز کیا جا تا ہے۔
٭ اقبال کہتے ہیں کہ میری ذات میں دو شخصیتیں جمع ہیں، ظاہری شخصیت عملی اور کاروباری ہے اور باطنی شخصیت ایک فلسفی، صوفی اور خواب دیکھنے والے کی ہے۔ اقبال خود صوفی تھے، صوفیہ کو پسند کرتے تھے ان کے محبوب صوفیہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت فضیل بن عیاض، حضرت با یزید بسطامی، حضرت جنید بغدادی، حضرت حسین بن منصور بن حلاج، حضرت داتا گنج بخش، حضرت اویس قرنی، حکیم سنائی، شیخ فرید الدین عطار، خواجہ معین الدین اجمیری، شمس تبریز، مولانا جلال الدین رومی، شیخ فخر الدین عراقی، شیخ بو علی قلندر، نظام الدین اولیا،ا میرخسرو، مولانا جامی، شیخ عبد القدوس گنگوہی، مجدد الف ثانی، حضرت، میاں میر کے علاوہ مہاتما بدھ اور کا نٹ بھی شامل ہیں۔ آپ کے خیال میں اقبال کس صوفی سے، سب سے زیادہ متاثر ہوئے؟
٭ اس سلسلے میں دو نام بہت اہمیت رکھتے ہیں، مولانا جلال الد ین رومی کو مرشد رومی کہتے ہیں، مرشد معنوی تسلیم کرتے ہیں۔
بیا کہ منز خُم پیر روم آور دم
مئے سخن کہ جوان ترزبادۂ عنبیا ست
نہ اٹھا پھر کو ئی رومی عجم کے لا لہ زاروں سے
وہی آب وگل ایراں، وہی تبریر ہے ساقی
علامہ اقبال نے مرشد رومی کی رہنمائی میں عالم افلاک کی سیر کی ہے اور ان پر زندگی کے مختلف اسرار و رموز کی عقدہ کشائی کی ہے۔ اقبال منصور حلاج کو مرد حق کہتے ہیں اور ان کا شمار ارواح جلیلہ میں کرتے ہیں۔
نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
٭ جنگ طرابلس و بلقان نے اقبال کو شدید صدمے سے دو چار کیا مغربی تہذیب اور یورپی سامراج سے نفرت کی ایک بڑی وجہ یہی جنگ تھی اس دور کی شاعری میں واضح طور پرا س المیے کی گونج سنائی دیتی ہے اور مسلم حکمرانوں کے رویے پر افسوس کا اظہار بھی۔ آج صرف تاریخ بدل گئی ہے لیکن تاریخ وہی ہے۔ مقام بدل گیا ہے لیکن کام وہی ہے، کیا آج کی صورت حال پر کسی تخلیق کار کا قلم بلاد اسلامیہ، ہلال عید، فاطمہ بنت عبداللہ اور تہذیب حاضر جیسی نظمیں لکھ سکے گا؟
٭٭ نہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلی ایک صدی کے دوران میں رفتہ رفتہ ہم اپنے حقیقی، تہذیبی اور روحانی سرچشموں سے دور ہوتے چلے گئے۔ آج بھی اس لمحے مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں پر مصائب کے جو پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں ہمارا تخلیق کار ان سے بڑی حد تک غافل ہے، مسلمان کوا نسان سے کم تر کوئی شے سمجھتا ہے اور غیر شعوری طور پر مسلمانوں کی تباہی کے بعد سیکولر دنیا کے طلوع ہونے کا منتظر ہے۔
٭ پاکستان کی نئی نسل اقبال کے شاہین کی صفات سے محروم ہے، اس سلسلے میں تدریسی سطح پر کوئی کوشش کی جا رہی ہے؟
٭٭ نہیں، کو ئی کوشش نہیں کی گئی۔ اگر ہم اقبال کی وہ نظمیں ذہن میں لائیں، جن میں انھوں نے اپنے زمانے کے نظام تعلیم پر سخت تنقید کی ہے اور بار بار اس خطرے کا احساس دلایا ہے کہ ’’ خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ‘‘ ہم نے اس خطرے کا احساس اب تک نہیں کیا ہمارا مروجہ نظام تعلیم شاہین بچوں میں چمگادڑ کی نگاہیں پیدا کرنے میں مصروف ہے۔
٭ کیا آج کا نوجوان اقبال کے تصور خودی سے آگاہ ہے اور اس پر عمل پیرا بھی؟
٭٭ نہ آگاہ ہے نہ عمل پیرا، وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو بھی تو مجھ سے ہی سیکھنا ہے۔ جب ہم بزرگ نسل کے لوگ ہی ان تصورات سے نا آشنا ہیں تو نوجوان تصور خودی کہاں سے لائے، تعمیر خودی کیسے کرے۔
٭ اقبال کی مجلس شوریٰ اور ابلیس کا فرمان پنے سیاسی فرزندوں کے نام میں فرزندان ابلیس اپنے آقا کا حکم بے چون و چرا مان لینے کے باعث کامیاب ہیں آج بھی مسلمان ایسی ہی صورت حال سے دوچار اور شیطانی و طاغوتی قوتوں کے ہاتھوں بری طرح تباہ و بر باد ہو رہے ہیں۔ دینی افکار و فلسفہ سے دوری کہیں اسے سرزمین حجاز و یمن سے بھی بے دخل نہ کر دے؟ اقبال کے خدشے آج بھی برقرار ہیں۔
٭٭ اقبال کی شاعری ہر لمحۂ رواں کی شاعری ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں پہلی یہ کہ اقبال بہت بڑے شاعر اور مفکر ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہا سلا می مشرق کی زندگی ابھی تک مغربی استعمار کے چنگل میں پڑی سسکتی ہے۔ اقبال کے زمانے میں ہم براہ راست غلامی میں مبتلا تھے آج بالواسطہ غلامی میں مبتلا ہیں اور جب کبھی مسلمان ملکوں کی قیادت بالواسطہ غلامی سے انکار کرتی ہے تو اس کا حشر وہ ہوتا ہے جو عراق کا ہو رہا ہے اقبال مغربی استعمار کی رگ رگ سے واقف تھے، مغربی استعمار کے مزاج،ا س کی افتاد اور اس کے اہداف سے اقبال کی زبر دست آگہی نے اقبال کے کلام میں پیش بینی کی وہ خصوصیت پیدا کر دی کہ وہ آنے والے زمانوں کے راز بھی ہم پر منکشف کرتی چلی آ رہی ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اقبال کی تعلیمات کو اپنی انفرادی و عملی زندگی میں اپنائیں۔ اب تک اقبال کی تعلیمات کو اپنایا نہیں گیا نتیجہ یہ ہے کہ براہ راست یا با لواسطہ غلامی و ناکامی ہمارا مقدر بنتی جا رہی ہے، اب بھی اگر ہوش سے کام لیا جائے تو بازی جیتی جا سکتی ہے۔
٭ قومی زبان، مادری زبان، مذہبی زبان، علاقائی زبان اور پھر غیر ملکی زبان کیا کسی اور ملک کا طالب علم بھی ان زنجیروں میں جکڑ ہوا ہے؟
٭٭ یہ جتنے نام آپ نے گنوائے ہیں، یہ در اصل ایک ہی نام ہے، زبان ایک سطح پر مقامی زبان، اس سے اوپر علاقائی زبان اور اس سے اوپر قومی زبان بن جاتی ہے، ایک ہی زبان سارے مقصد پورے کرتی ہے، ایک سے زیادہ زبانیں ہوں تو وہ بھی اپنے اپنے دائرۂ عمل میں فرائض سر انجام دیتی رہتی ہیں، جنھیں قومی فرائض کہہ سکتے ہیں۔ جہاں تک غیر ملکی زبان کا تعلق ہے، وہ ایک سامراجی ورثہ ہے، جس سے نجات پانا حقیقی آزادی کی جانب سفر کی حیثیت رکھتا ہے۔
٭ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بو لی اور لکھی جانے وا لی اردو میں کیا فرق ہے؟
٭٭ وہ لوگ جو ملک سے باہر بیٹھے ہیں، وہ اردو کو زیادہ سے زیادہ معیاری انداز میں لکھناپسند کرتے ہیں، ملک کے اندر رہتے ہوئے ہم لوگ ہمیشہ معیار کا خیال نہیں رکھتے۔
٭ پنجابی زبان و ادب میں سرائیکی ادب، ہندکو ادب اور پوٹھوہاری ادب وغیرہ شامل کیے جا سکتے ہیں یا ان کی الگ شناخت قائم ہونی چاہیے؟
٭٭ یہ ایک ہی زبان کے مختلف علاقائی روپ ہیں۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی علاقے کے لوگ الگ علاقائی شناخت پر زور دیتے ہیں تو اس میں خرابی کوئی نہیں۔ یہ ان کا حق ہے۔ اس الگ شناخت سے بنیادی طور پر زبان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس کی طاقت میں اضافہ ہو گا۔
٭ کیا مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہا ہے؟
٭٭ مقتدرہ ایک تحقیقی اور علمی ادارہ ہے، اس ادارے کا کام علمی اور تحقیقی اصولوں کے مطابق کتابیں تیار کرنا اور شائع کرنا ہے، یہ کام میرے پیش رو صدر نشینوں کے مختلف ادوار میں بہ حسن و خوبی سر انجام پاتا رہا ہے اور میں بھی انھیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے برا بھلا کام کرتا رہا ہوں، جاننا چاہیے کہ اردو زبان کا نفاذ سیاسی عزم و عمل کی بات ہے۔ علمی جستجوا پنی جگہ اور سیاسی عمل اپنی جگہ… میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی حکومت اردو کو سرکاری، دفتری اور تدریسی شعبوں میں نافذ کر دے تو مقتدرہ قومی زبان تیار ہے۔ یہ تیاری ہی مقتدرہ کے قیام کا مقصد ہے اور اس مقصد میں مقتدرہ کامیاب ہے۔
٭ ڈاکٹر رضوان علی ندوی نیشنل لینگویج اتھارٹی کے ترجمے مقتدرہ قومی زبان کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہیں گے؟
٭٭ انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ یہ ترجمہ مقتدرہ کے پہلے صدر نشیں کے زمانے میں اپنایا گیا۔ ا ب یہ مقتدرہ کا نام ہو کر رہ گیا ہے اور ناموں کا ترجمہ کرنا مزاحیہ بات ہے۔
٭ ’’ ادب میں انقلاب ہر بیس پچیس برس بعد ناگزیر ہے ‘‘ ۱۹۶۰ ء میں فضا بدلی، پھر ۱۹۸۰ء کے بعد علائم و اسعارتی فضا کی دھند چھٹی۔ اب آپ کے خیال میں شعر و ادب میں کون سے تبدیلیاں آ رہی ہیں یا آ سکتی ہیں۔
٭٭ میرا خیال ہے کہ اب اور مستقبل قریب میں ہمارے ادب میں امتزاجی کیفیت پیدا ہو گی۔ گذشتہ پچاس برس کے دوران میں جو ادبی تجربات کیے گئے ہیں اب وہ آہستہ آہستہ ہمارے ادیبوں کی تخلیقی شخصیت میں جذب ہوں گے اور نیا رنگ اختیار کریں گے۔
٭ کسی باغیانہ نظریے کو روایت کا حصہ بننے میں کتنا عرصہ لگتا ہے۔
٭٭ اتنا عرصہ جتنے عرصے میں وہ بغاوت اپنا کام سر انجام دے کر زندگی کے منظر سے غائب ہو جا تی ہے۔
٭ آپ کہتے ہیں کہ آج سہ حرفی، کافی اور وائی اسی اہتمام کے ساتھ رواج پا رہی ہیں، جس اہتمام سے کسی زمانے میں سانیٹ، نظم معریٰ اور نظم آزاد متعارف ہوئی تھیں۔ یہ بات بھی پندرہ بیس برس پرانی ہوئی آج ان کی جگہ کن منظومات نے لے لی ہے؟
٭٭ دو چیزوں کا چرچا ا س کے بعد ہوا ہے۔ پنجابی صنف ماہیا اور جاپانی صنف ہائیکو پذیرائی حاصل کر رہی ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ دونوں زیادہ دیر تک الگ الگ اصناف کے طور پر باقی نہ رہیں گی اور نئے تجربات میں ہمارے ادب کا دامن وسیع کر کے منظر سے ہٹ جائیں گی۔
٭ کہا جاتا ہے کہ میرا جی کو ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وزیر آغا کو ڈاکٹر انور سدید، مجید امجد کو ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور قرۃالعین حیدر کو سمجھنے سمجھانے بلکہ ان کا دفاع کرنے میں فتح محمد ملک نے بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ کیا کسی نابغۂ روزگار کو ان سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے؟
٭٭ ہر گز نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کی تحریروں نے متعلقہ فنکاروں کو کما حقہ متعارف ہی نہیں کرایا بس اپنی سی کوشش کی ہے جس جس کو جو جو فنکار جتنا سمجھ میں آیا اتنا اس نے لکھ دیا ہے۔ ہم نقاد لوگ ان تخلیقی فنکاروں کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں، نہ کہ وہ ہماری وجہ سے۔
٭ کیا اردو ادب میں خواتین کا کردار فعال رہا ہے اور وہ معیاری ادب کی تخلیق میں معاون ہیں؟ کیا ڈاکٹر سلیم اختر کی اس رائے سے اتفاق کیا جا سکتا ہے ’’ جس ادب کو آپ نے خواتین کا ادب قرار دیا ہے، میں اسے غیر تخلیقی سمجھتا ہوں اور ان کی تحریروں کا ادب میں کوئی مقام نہیں بنتا ۔ ‘‘؟
٭ ٭ یہ سراسر نا انصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرۃالعین حیدر ہوں، ادا جعفری ہوں، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید ہوں یا پروین شاکر، ان کا ادب نسوانی ادب نہیں بلکہ انسانی ادب ہے مثلاً مجھے مرد لکھنے والوں میں بھی قرۃالعین حیدر سے بڑا ناول نگار اور افسانہ نگار کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ عورت ادیب نہیں بلکہ اردو کی ایک عظیم ادیب ہیں، جن کے فن پر مرد ادیبوں کو بھی رشک آتا ہے۔ خواتین ادیبوں اور شاعروں نے ہمیں سوچنے کا نیا اور شائستہ تر انداز سکھایا اور محسو سات کی ایک ایسی دنیا کی سیر کرائی ہے کہ جو ایک بالکل نئی دنیا ہوتے ہوئے بھی خالص انسانی دنیا ہے۔
٭ چار خوبصورت شعری مجموعوں کی خالق جواں مرگ شاعرہ فروغ فرخ زاد، کیا اردو ادب میں اس پائے کی شاعرات موجود ہیں؟
٭ نہیں ہیں۔ اس پائے کے شاعر بھی موجود نہیں اور اس کی بڑی وجہ فروغ فرخ زاد کے تجربات اور ان تجربات پر گہرا تخلیقی غور و فکر اور جرات اظہار ہے۔
٭ نثری نظم کے فروغ میں چند ایک رسائل شد و مد سے کام کر رہے ہیں۔ آپ کے نزدیک نثری نظم کا مستقبل کیا ہے؟
٭٭ میں ذاتی طور پر کسی بھی صنف ادب کے فروغ کی خاطر اس طرح کی کوششوں کو اس صنف کی ترویج و ترقی کے لیے ساز گار نہیں سمجھتا۔ رسائل کے خاص نمبر یا اس کے دفاع کے لیے لکھے گئے مضامین یا کتابیں اس صنف کی زندگی یا توانائی کا ثبوت نہیں ہیں، جب کوئی خضر راہ یا مسجد قرطبہ جیسی نظم، نثری نظم کے پیرائے میں لکھی جائے گی تو وکیلوں اور دلیلوں کے بغیر اپنا آپ منوا لے گی۔
٭ ہائیکو کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟
٭ ٭ جاپان نے اپنے تعلقات عامہ کے سلسلے میں ایک مہم چلا رکھی ہے، میں اسے کوئی ادبی کوشش نہیں سمجھتا اور نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے بارے میں سوال اٹھانے چاہییں کہ اس کا مستقبل کیسا ہے، سفارت کار بے ضرر سی کوششیں کر رہے ہیں اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے، جن شاعروں کے پاس زیادہ وقت ہے وہ اس میں اپنے کمال دکھا رہے ہیں، ان کے مشاعروں میں بھی شریک ہوتے ہیں جاپانیوں کی ہائیکو کے فروغ کے لیے کوشش کوئی غلط نہیں۔
٭ تنقید و تحقیق میں کہا جاتا ہے کہ بھارت ہم سے آگے ہے۔ آپ کیا تصور کرتے ہیں؟
٭ ٭ بھارت کے رسائل و جرائد اور کتابیں بہت کم پہنچتی ہیں، میں اس قابل نہیں کہ کچھ کہہ سکوں، سرسری طور پر کوئی رسالہ ہاتھ آ گیا تو دیکھ لیا ایسے میں، میں کوئی رائے جو انصاف پر مبنی ہو نہیں دے سکتا، دونوں ملکوں میں کتابوں اور رسالوں کا آزادانہ تبادلہ نہیں ہوتا، اور ہمارے درمیان کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو رابطہ قائم کرنے یا برقرار رکھنے میں مدد گار ہو، اس صورت میں میں صرف پاکستان کے بارے میں کہہ سکتا ہوں۔ پاکستان کے مجموعی تہذیبی منظر نامے پر نگاہ کی جائے تو تنقید و تحقیق کسی دوسری صنف سے پیچھے نہیں، لسانیات، ادبیات اور تاریخ ادب پر اچھی کتابیں آ رہی ہیں، حال ہی میں تبسم کاشمیری کی کتاب تاریخ ادب اردو کی جلد اول آئی ہے جو بہترین کتابوں میں سے ایک ہے، تبسم کاشمیری اولاَ ایک شاعر پھر نقاد اور اب ایک محقق کے طور پر سامنے آئے ہیں، اس کتاب سے پہلے بھی ان کی تحقیق اپنا آپ منواتی رہی ہے۔ لوگ اب اس طرف زیادہ متوجہ ہو رہے ہیں تخلیق کار بھی اب تنقید اور تحقیق کو اہمیت دے رہے ہیں۔ یہ عمل تحقیق اور تنقید کے میدان کو وسیع کر رہا ہے۔
٭ آپ نے تردید وتحسین کی بات کی ہے، لیکن آج تنقید تضحیک کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، اگر مخاطب اپنی لابی کا نہ ہو تو … اپنا آدمی ہو تو صورت حال اس کے برعکس ہو گی، کیا یہ روش تنقیدی ادب کے لیے مضر نہیں؟
٭ ٭ جس طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ کتابوں کی تقریب رونمائی اس کی صورت حال یہ ہے کہ انھیں کوئی سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتا۔ رونمائی کی تقریبات ادبی و تہذیبی سے زیادہ ذاتی نوعیت کی ہوتی ہیں جیسے شادی ہوتی ہے دلہن زیادہ خوبصورت نہ بھی ہو تو بھی لوگ کہتے ہیں کہ بہت اچھی لگ رہی ہے کوئی بھی نہیں کہتا کہ ناک موٹی ہے یا آنکھ ٹیڑھی ہے۔ اس طرح کی تقریبات کو سنجیدہ علمی کاوشوں میں شمار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک سماجی عمل ہے جو معاشرتی زوال کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے اور جہاں تک گروہ بندی کا تعلق ہے، یہ ایک نا پسندیدہ عمل ہے۔
٭ ڈاکٹر جاوید اقبال کی ’’ اپنا گریباں چاک ‘‘ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
٭ ٭ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی کتاب ہے، اس میں ایک شخص کی ذاتی سرگذشت نہیں بلکہ اس میں ہماری قوم کے نمایاں سنگ میل بھی نظر آتے ہیں۔ لوگوں نے اسے ذاتی احوال یا اقبال کے حوالے سے دیکھا ہے جبکہ یہ ایک تاریخی دستاویز ہے، عدالتوں کے زوال اور سیاسی بربادی کی کہانی ہے، جاوید اقبال کہیں تو خود ان سب شعبوں میں موجود ہیں اور کہیں ان کا باریک بیں مشاہدہ ہے، جو اندر کی کہانی بیان کرتا ہے اس معاشرے اوراس حکومت کی۔ میں اسے بڑی کتابوں میں شمار کرتا ہوں۔
٭ پاکستان کی کس صنف کو کالمی ادب کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے؟
٭ ٭ شاعری اور فکشن دونوں کو میں سمجھتا ہوں کہ عصری عالمی ادب کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں تو فخر کا احساس ہوتا ہے۔
٭ کیاپاکستان کے مختلف صوبوں میں اور پاکستان سے باہر بو لی اور لکھی جانے والی اردو زبان، زبان کے فروغ میں معاون ہے؟
٭ ٭ ہر جگہ اردو اپنے مقامی سیاق و سباق میں لکھی جا رہی ہے، یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، بنیادی طور پر تو ایک ہی زبان ہے، ذخیرۂ زبان کا تنوع اسے وسعت دے رہا ہے، جو لوگ پاکستان کے مختلف علاقوں میں پلے بڑھے، مقامی بود و باش رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں مقامی علاقائی اصناف، الفاظ، تراکیب، تاریخی واقعات کا عمل دخل دکھائی دے گا، یوں اردو کا ذخیرۂ الفاظ اور بڑھے گا، اسی طرح پاکستان سے باہر رہنے والوں کی لغت اپنے ماحول و معاشرت سے تشکیل پائے گی اور اردو زبان میں اضافہ کا موجب ہو گی۔ لب و لہجہ کے تنوعات جنم لے رہے ہیں جو یکسانیت سے گریز ہے اور اردو کے حق میں نیک فال۔ بنیادی طور پر اردو ایک ہی زبان ہے علاقائی رنگ روپ بھی رکھتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اپنا تشخص بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
٭ اکادمی ادبیات کا ادب کی ترویج و ترقی میں کیا کردار ہے، کیا اہل ادب کانفرنس اور دیگر ادبی نشستوں کا انعقاد ہی اس کے قیام کا بنیادی مقصد ہے؟
٭٭ اکادمی ادبیات ایک اچھا ادارہ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد پاکستان میں قومی یکجہتی کا فروغ ہے، اس سلسلے میں اس نے کافی کام کیا ہے اور اسے اور زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ کوئی ادارہ چھوٹی سی عمر میں بیک وقت کئی کار ہائے نمایاں انجام نہیں دے سکتا، یہ ادارہ مرکزی وزارت تعلیم کی سر پرستی میں فرائض انجام دے رہا ہے، وہ جب کہتے ہیں کہ اہل قلم کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہیے تاکہ ملک کے تمام حصوں کے اہل قلم آپس میں مل بیٹھیں تو وہ اس کا انتظام کر دیتا ہے۔ یہ اس کا بنیادی فرض نہیں ہے۔ صرف ایک پراجیکٹ ہے۔
٭ آپ نے خود نوشت لکھنے کی طرف کیوں توجہ نہ کی؟
٭ ٭ شاید اس لیے کہ میرے پاس کرنے کے لیے بہت کام ہیں، لکھنے کے بہت منصوبے میرے پیش نظر ہیں، لمحۂ فراغت نصیب نہیں، مسلسل کوئی نہ کوئی موضوع میرے لیے زیادہ کشش رکھتا ہے، بہ نسبتاَ اس کے کہ میں اپنی ذاتی زندگی کے مشاہدات قلمبند کروں۔ اپنے تجربات اور سرگذشت میں دوسروں کو شامل کرنا مبارک کام ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم کام دوسرے ہیں جو میرے پیش نظر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شاید وقت مل جائے اگر لکھنے پڑھنے کے دیگر کاموں سے فرصت ملی۔
٭ فتح محمد ملک، ندیم کا بھی اتنا ہی مداح ہے جتنا فیض احمد فیض کا، ترقی پسندی اور پاکستانی قوم پرستی، دونوں اس کے مزاج میں دخیل ہیں، کیا آپ صفدر میر کے اس تجزیے سے متفق ہیں؟
٭٭ جی ہاں متفق ہوں اور اکثر اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ لوگ ندیم اور فیض کو ایک دوسرے کا حریف کیوں سمجھتے ہیں، دونوں ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھتے ہیں، انجمن ترقی پسند مصنفین پر یقین رکھتے ہیں لوگوں نے ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پر ان اختلافات کو ہوا دی اور اس میں اضافہ اس وقت ہوا جب نظریاتی طور پر ترقی پسند تحریک کا انتظامی شیرازہ بکھر چکا تھا۔ ترقی پسندی اور پاکستانیت میں کوئی تصادم نہیں ہے کہ خود پاکستان کا تصور اسلام کے ابدی تصور سے پھوٹا ہے۔ یہ تصورات انتہائی ترقی پسند بلکہ انقلابی ہیں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ترقی پسند لکھنے یا سوچنے والے کا کسی طرح کا کوئی نظریاتی یا فکری تصادم نہیں ہو سکتا۔ یہ اختلافات ان لکھنے والوں یا سیاسی نقطہ نظر رکھنے والوں کے درمیان پیدا ہوئے ہیں جو انتہائی حدود تک مارکسی نقطۂ نظر کے حامی ہیں، تو وہ اشتراکیت یا مارکسیت کے پھیلاؤ میں اسلام کو رکاوٹ سمجھتے ہیں، لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اشتراکیت، سرمایہ داری کے رد عمل کے طور پر وجود میں آئی اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے تو ایسا نہیں ہے، اسلام اس سے کہیں زیادہ ترقی پسند ہے اور مکمل ضابطۂ حیات بھی۔
٭٭٭
اک مسافر کہ جسے تری طلب ہے
مستنصر حسین تارڑ … ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
مستنصر حسین تارڑ
٭ چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ سفر نامہ نگار، ناول و افسانہ میں بھی سفر کے چٹخارے لیے بغیر نہیں رہتا، کیا یہ عمل غیر شعوری ہے۔ ؟
٭٭ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ میں اب گھر سے بہت دور نہیں جاتا۔ خواہ آپ اسے عمر کا تقاضا کہہ لیں۔ شادی شدہ زندگی کے مسائل اور محدود وسائل کا نام دے لیں یا افسانہ و ناول کی طرف میرا رجحان کہہ لیں۔ سفر میں اب بھی کرتا ہوں خواہ کسی میٹنگ کے بہانے، کسی سیمینار کے نام پر یا ذوقِ آوارہ گردی کی تسکین کے لیے پھر یہ کہ میں اپنی تحریر سے خود کو کیسے الگ کر سکتا ہوں چاہے میں سفر نامہ لکھ رہا ہوں یا ناول یا افسانہ۔
٭ ’’پیار کا پہلا شہر ‘‘ کی معذور پا سکل اور فاختہ کی نابینا لڑکی، سفر میں حادثاتی طور پر ملنے والی لڑکیاں کیا ان دونوں ناولوں کی تخلیق کا محرک جذبۂ ہمدردی تھا؟ اسی سلسلے کا دوسرا سوال یہ کہ ’’ نکلے تری تلاش میں ‘‘ کا ایک باب ’’ اپاہج وینس ‘‘ کے نام سے صفحہ ۴۲۸ سے ۴۸۱ تک ہے۔ آپ کے ناول ’’ پیار کا پہلا شہر‘‘ (صفحات ۲۶۲) میں صیغۂ واحد متکلم کی جگہ سنان کے کردار نے لے لی ہے، اگر آپ صیغہ واحد متکلم ہی رہنے دیتے تو کیا فرق پڑتا کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ سنان کے پردے میں مستنصر موجود ہے۔
٭٭ ’’نکلے تری تلاش میں ‘‘ کے پچاس صفحات پیار کا پہلا شہر کی بنیاد ہیں۔ پا سکل کا کردار حقیقی ہے، وہ نیم اپاہج ہے مکمل اپاہج نہیں ہے۔ دوسرا کردار فافتہ کی نابینا لڑکی کا ہے۔ وہ اصل کردار نہیں ہے وہ فکشنائز کیا گیا ہے اس کا نابینا ہونا کردار کی ضرورت تھی۔ اب رہی یہ بات کہ پیار کا پہلا شہر، صیغہ واحد متکلم ہی میں لکھا جاتا تو ایسا ممکن نہ تھا۔ ۱۹۷۵ء میں مجھے جانا تھا سیر کے لیے، میں دنیا دیکھنا چاہتا تھا۔ وہاں سے آ کر میں نے ’’خانہ بدوش‘‘ لکھا۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ ’’ دھنک ‘‘ رسالے کے ایڈیٹر سرور سکھیرا کو ’’ نکلے تری تلاش میں ‘‘ بہت پسند تھا، خاص طور پر ’’ اپاہج وینس‘‘ نے انھیں بہت متاثر کیا تھا۔ یہ باب ویسے بھی مشہور یوں ہوا کہ ماس کو یونیورسٹی کے نصاب میں شامل تھا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں باہر جانا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے میں پیسے دینے کے لیے تیار ہوں، لیکن ایک شرط ہے۔ میں نے پوچھا کون سی شرط۔ کہنے لگے آپ اپاہج وینس کا ناول بنا دیں میں اسے قسط وار بھی چھاپوں گا اور الگ سے کتابی صورت میں بھی مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا میں نے ایسا ہی کیا۔ اپاہج وینس سامنے رکھ کر پندرہ دن میں ناول مکمل کر کے ان کے حوالے کیا اس کا محرک تخلیقی اضطراب نہیں، مالی ضرورت تھی۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ اس کا کیا کرتے ہیں۔ میں نے پیسے لیے اور روانہ ہو گیا۔ سرور سکھیرا نے اسے چھاپا۔ وہ ایڈیٹر تو تھا، تقسیم کار نہ تھا مجھے نہیں معلوم کتنی تعداد میں چھپا اور کتنی تعداد میں بکا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناول ڈمپ ہو گیا۔ کسی گودام میں پڑا رہا، بس وہ ناول ضائع ہو گیا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہ تھی، مجھے پیسے مل چکے تھے اور میں اس بات کو بھول گیا۔ سنگِ میل پبلی کیشنز سے میری طویل شراکت ہے۔ میری شہرت میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔ بیس سال پہلے کی بات ہے، انھوں نے مجھے کہا کہ آپ کی کوئی کتاب اگر تیار ہے تو ہم چھاپیں گے۔ مجھے یاد آیا شوکت پرنٹنگ پریس میں ’’ پیار کا پہلا شہر‘‘ کا کتابت شدہ مسودہ موجود ہے۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے مسودہ دے دیں اور حساب کتاب کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں کوئی رقم واجب الادا نہیں ہے۔ مسودہ مصنف کی ملکیت ہوتا ہے یہ آپ کی امانت ہے، آپ لے لیں۔ میں نے مسودہ وہاں سے لے کر سنگِ میل کے حوالے کر دیا۔ انھوں نے ایک ہفتے میں کتاب چھاپی اور دو ہفتے میں اس کا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ انھوں نے پھر چھاپی اب تک کے اس کے پینتالیس یا چھیالیس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
٭ انسان اس دنیا میں کہیں بھی ہو، اپنی اصل، اپنی مٹی کو فراموش نہیں کر سکتا۔ ’’کچھ لوگ مقبرے کے محافظ سے، چوری چھپے صندوق کو جلدی سے چھو لیتے۔ جیسے ہمارے ہاں قوال لہک لہک کر ؎ تیری خیر ہووے پہرہ دارا۔ روزے دی جالی چم لین دے ‘‘ الاپتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، اسی طرح روس میں بھی لینن کا صندوق چھو لینے کی خواہش کا اظہار لوگ گیتوں میں کرتے ہوں (فاختہ۔ صفحہ۔ ۴۶) ’’ماس کو کی خنک شب میں، لاہور کی تپتی دوپہر میں، چھوٹنے والے پسینے کی نمی شامل ہو گئی‘‘ (صفحہ۔ ۵۵) ’’جشن کی رات تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے ‘‘ عقاب نے چونچ کھولی ’’مادھو لال حسین کے میلے میں تو ایسا نہیں ہوتا‘‘ میں نے تنک کر کہا (صفحہ ۵۹) ’’فاختہ‘‘ میں جگہ جگہ تقابلی جائزے نظر آتے ہیں۔ روس کے نقاب پوش میلے اور مادھو لال حسین کے میلہ چراغاں میں کیا فرق محسوس کیا؟
٭٭ فاختہ، یہ مختصر کہانی تھی۔ ’’جشن کی رات‘‘ کے نام سے اوراق میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے کہا کہ اس میں ناول کی تمام تر خصوصیات ہیں۔ تمہیں اسے مختصر کہانی کے بجائے ناول کی شکل میں لکھنا چاہیے تھا۔ ان کے کہنے پر میں نے اسے ازسرِ نو لکھنا شروع کیا، ناول کی شکل میں کچھ صفحات لکھے۔ پھر رک گیا۔ چلا نہیں کئی ماہ گزر گئے۔ اسی اثنا میں مادھو لال کا میلہ چراغاں آ گیا۔ میں نے وہ اٹینڈ کیا تو غیر شعوری طور پر تقابل شروع ہو گیا۔ روس کا ہتھوڑا، امریکہ کا عقاب، چین کا اژدھا۔ اس اژدھے کے دانت نہیں اگر دانت ہو جائیں تو وہ تیسری دنیا کو کاٹ کھائے۔ شاہ حسین کے ہاں تیسری دنیا کے حوالے بہت ملتے ہیں۔ تیسری دنیا کی تمام تر خصوصیات ان کی شاعری میں اپنا آپ دکھلا جاتی ہیں۔ ’’ٹکر منگ منگ کھاؤ نا‘‘ تو فاختہ کا خرگوش بھی مانگ مانگ کے کھاتا ہے۔ سانوں مرشد نال پیار۔ وہاں میلے میں شاہ حسین کی شاعری اور ایک مخصوص ماحول دیکھنے کے بعد، میں جو اتنے عرصے سے رکا ہوا تھا۔ مجھے رابطہ مل گیا۔ میرا قلم چل پڑا۔ اب یہ بات کہ وطن کیوں آ جاتا ہے۔ میں نے مغربی ادب پڑھا۔ بہت پڑھا، لیکن میرا رویہ دیہاتی ہے۔ علم بھی ہے میرے اندر، اپنی مٹی کے متعلق۔ اس مٹی کے لیے جو کشش ہے۔ میں کہیں بھی موجود ہوں۔ گھوم پھر کر، میری تحریروں میں حوالہ میری مٹی کا ہی ہو گا۔ لینڈ سکیپ بہت ہے۔
حفیظ الرحمن نے لکھا۔ اُردو ناول میں سوائے کرداروں کے کانفلیکٹ کے، کوئی لینڈ سکیپ پر توجہ نہیں دیتا۔ راکھ ایک مکمل ناول ہے کہ اس میں سوات، لاہور، اسلام آباد، سادھو کی سب شہر اپنی تمام تر خصوصیات سمیت آ گئے ہیں۔ ہمارے ناول نگاروں کے کردار اشخاص ہوتے ہیں، مقامات نہیں، جبکہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ’’قربتِ مرگ میں محبت‘‘ میں دریائے سندھ اور بھارہ کہو مرکزی کردار ہے۔ کردار اپنے پس منظر کے بغیر سینس لیس ہے۔ ایک ذات ایک کمرے میں بند ہے۔ اس کی آسودگیاں، محبتیں نفرتیں، ان سب کا بیان بے معنی ہے۔ جب تک اس کی مٹی کا، خوراک کا، پھول پتوں کا، ایک پورے پس منظر کا تذکرہ نہ ہو، سب بے کار ہے۔ سفرنامہ، ناول، ڈرامہ میں کچھ بھی لکھ رہا ہوں اس سرزمین کا حوالہ کسی نہ کسی روپ میں آئے گا۔ عبداللہ حسین نے ’بہاؤ‘ کے متعلق لکھا کہ ’’تارڑ اس دھرتی کا بائیو گرافر ہے ‘‘ میں اس سرزمین کا کہانی کار ہوں۔ باہر کے ریفرنس بھی بہا نہ ہیں اس سرزمین کی کہانی لکھنے کا۔
٭ آپ نے دنیا پہلے دیکھی، اپنا وطن بعد میں سفر کی یہ ترتیب کیسے لگی؟
٭٭ اس میں میرا عمل دخل نہ تھا۔ زندگی نے جس طرح رواں رکھا میں چلتا رہا۔ بیشتر ادیبوں نے اپنا وطن پہلے دیکھا بلکہ دیکھا ہی کہاں پھر باہر گئے۔ آج کل جو ادیب باہر جا رہے ہیں۔ وہ فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ خواہشات کی تکمیل پیشِ نظر ہے۔ وہ باہر سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہ چیز ان کی تحریر کے لیے مضر ثابت ہوتی ہے۔ میں نے باہر کی دنیا پہلے دیکھی پھر اپنا وطن دیکھا۔ اگر ترتیب الٹ جاتی تو شاید میں نقصان میں رہتا۔ میرا خیال ہے کہ بغیر منصوبے کے جو کچھ ہوا وہ میری تخلیقی اپج کے لیے بہتر رہا۔
٭ ’’ میں یک لخت خاموش ہو گیا میں فاختہ کو نہیں بتانا چاہتا تھا کہ وطن سے دور اس بوڑھے کے سینے سے لگ کر میں نے اپنے باپ کی شفقت کی حرارت محسوس کر لی تھی اور پھر بلک بلک کر رونے لگا تھا‘‘ ۔ کیا ’’ فاختہ‘‘ کی یہ سطریں احمد ندیم قاسمی کے افسانے مامتا کی یاد نہیں دلاتیں۔
٭٭ ہر سیاح ان محسوسات سے گزرتا ہے۔ وطن اور رشتے اسے ہر قدم پر یاد آتے ہیں۔ میں اپنی بات سناتا ہوں میرا خالہ زاد بھائی… ایئر کریش میں اس کی موت کی خبر ملی۔ میں اکیلا اجنبی شہر میں۔ مجھے محسوس ہوا کہ غم کے اظہار کے لیے بھی لوگ چاہئیں۔ میں دو دن تک سناٹے کے عالم میں گھومتا رہا۔ برن سوئٹرز لینڈ کی ایک سڑک پر جا رہا تھا۔ ایک دم میرا جی بھر آیا۔ صبر و ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ قریب ہی ایک درخت تھا۔ میں اس سے لپٹ کر کوئی پون گھنٹہ روتا رہا۔ مجھے کچھ احساس نہ تھا کہ مجھے کوئی دیکھ کر کیا سوچے گا۔ تو ایسا ہو جاتا ہے۔ جب کوئی انسان نہ ملے تو درخت کے ساتھ بھی دکھ شیئر کیے جا سکتے ہیں۔ امام غزالی نے کہا تھا کہ درویش جب جنگل میں جاتا ہے تو پودے شجر پتھر سبھی اس سے کلام کرتے ہیں۔ یہ بھی زندہ چیزیں ہیں اور احساسات رکھتے ہیں۔
٭ آپ کی تحریروں میں جھوٹ اور سچ کا تناسب کیا ہے؟
٭٭ نکلے تیری تلاش میں جب شائع ہوئی تولو گوں نے پہلی دفعہ میرا نام سنا تھا۔ کافی ہاؤس، ادبی پرچے۔ میرا گزر کہیں نہ تھا۔ میں نے بیجوں کی دکان پر بیٹھ کر یہ سفر نامہ لکھا۔ اس کا اپنا سحر تھا۔ سفر نامہ سامنے آیا تو لوگوں نے کہا کہ پتا کرنا چاہیے یہ کون ہے۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ ہمارے نقاد یک لخت میرے ہمعصر بن گئے۔ ایک تاثر قائم کر دیا گیا تھا کہ اس میں لڑکیوں کا بڑا ذکر ہے۔ میری کتنی ہی کتابیں شمال کے بارے میں آئی ہیں۔ پتھروں ویرانوں اور پہاڑوں کے ذکر سے بھری ہوئی ان میں تو کوئی لڑکی نہیں۔ وہ کیوں مشہور ہوئیں۔ جھوٹ کہیں نہیں ہوتا۔ یہ انحصار کرتا ہے میری کیفیت کیا تھی۔ کیفیت میں مبالغہ آ گیا ہے احساسات میں مبالغہ آ گیا ہے، شدت آ گئی ہے جھوٹ کہیں نہیں ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کہیں دور دیس میں ‘میں کسی ایسے منظر کا اسیر ہو کر رہ گیا کہ مجھے خیال آیا کہ میں جب اس کے متعلق لکھنے بیٹھوں گا تو دس صفحے لکھ جاؤں گا لیکن اکثر ایسا ہوا کہ دس سطروں سے آگے نہ بڑھ سکا اور کبھی یوں بھی ہوا کہ سر سری نگاہ سے دیکھے ہوئے منظر نے مجھے اپنی گرفت میں لکھتے ہوئے یوں لیا کہ میں اس پر دس صفحے لکھ گیا۔ در اصل تحریر کے وقت میں دوبارہ زندہ ہوتا ہوں۔ لکھتے ہوئے میں پورے سفر کو ری لائیو کر رہا ہوتا ہوں۔ بعض مرتبہ یوں بھی ہوا کہ کوئی سخت مقام آ گیا۔ میں دوچار صفحے لکھ کر ہی جذباتی، بدنی اور ذہنی طور پر اتنا تھک چکا ہوتا ہوں کہ پھر کچھ اور نہیں لکھ پاتا، تو یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی منظر عام سا منظر ہے۔ اتنا خوبصورت نہیں لیکن وہ جو میرے ذہن پر ابھر آیا‘ جسے میں نے ایسے محسوس کیا تو میں نے اسے اسی طرح پینٹ کر دیا شاید آپ اسے جھوٹ کہتے ہیں۔
امام غزالی کی یہ بات درست ہے کہ جب ایک فرد کسی درویش یا سیاح کی طرح دنیاوی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اپنے آرام و سکون کو چھوڑ کر گھر سے کنارہ کر کے جنگلوں کا، فطرت کا رخ کرتا ہے حتیٰ کہ وہ یہ سوچ بھی گھر چھوڑ آتا ہے کہ میں کچھ اور کرتا تو کتنا کچھ کما سکتا تھا، بہتر زندگی گزار سکتا تھا وہ سب کچھ ترک کے جنگل میں چلا جاتا ہے ویرانوں میں گھومتا رہتا ہے کیونکہ وہ درویش ہے۔ یہ عمل اس کے لیے باعث اذیت نہیں، وجہ تسکین ہے تو ایسے ہی راہ میں ملنے والے پتھر، پہاڑ، شجر، دریا وہ سب اس کے سنگی ساتھی ہو جاتے ہیں ہمارے ہاں افسوس ہے کہ ان کی وضاحت کے لیے ذخیرۂ الفاظ کی بے حد کمی ہے۔
٭ ہنزہ داستان کا بابا آپ سے کہتا ہے ’’یہاں تو کتابوں کی کوئی دکان نہیں۔ اخبار بھی کم آتا ہے۔ ٹیلی وژن بھی نہیں … اور کیا کرتے ہو؟ ’’واقعی آپ‘‘ اور کیا کرتے ہیں اور کیا کچھ اور کرنے کے لیے آپ کے پاس وقت ہے؟
٭٭ میڈیا اور لکھنے کے لیے تو وقت نکالنا ہی پڑتا ہے کہ میرا رزق اس سے وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ آوارہ گردی اور مطالعہ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ سال میں دو تین چار اچھی کتابیں تو ضرور پڑھ لوں۔ بعض دفعہ مہینے بھر میں دو ایک اچھی کتابیں پڑھی جاتی ہیں، پھر مجھے گندھارا آرٹ سے دلچسپی ہے۔ پینٹنگ کرتا نہیں لیکن تصویری نمائش میں ضرور جاتا ہوں، پھر میرے ذاتی دوست، بیوی بچے گھر، یہی مصروفیت ہے۔
٭ عطا الحق قاسمی کی یہ بات کہ دورانِ سفر ’’ کسی‘‘ کا سرکندھے پر آ لگے تو یہ کہنا کہ معاف کرنا میں مستنصر نہیں ہوں۔ کیسا لگتا ہے؟
٭٭ وہ خاتون غالباً نابینا خاتون تھیں۔ ورنہ شکلوں میں تو خاصا فرق ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ قاسمی صاحب کو زحمت ہوئی۔
٭ انیس ناگی نے ایک انٹرویو (گفت و شنید، حسن رضوی صفحہ ۱۳۹) میں کہا ہے ’’ میں نے تارڑ کا ایک سفرنامہ پڑھا تھا وہ تو بالکل چالو قسم کا تھا، جو انگلستان اور یورپ کے بارے میں تھا۔ میں فرانس میں رہا ہوں۔ انہوں نے بہت سی گلیوں کے نام ہی غلط لکھے ہیں۔ پیرس کی تفصیلات بھی غلط ہیں۔ مجھے یہ گمان گزرا کہ ہو سکتا ہے کہ تارڑ صاحب نے ان علاقوں کا دورہ ہی نہ کیا ہو، لیکن زیبِ داستاں کے طور پر ان علاقوں کو حوالہ بنایا؟‘‘ آپ کیا کہتے ہیں؟
٭ یہ ممکن ہے۔ نام میں نے انگریزی میں پڑھے اور ان کا فرانسیسی تلفظ میرے علم میں نہ ہو۔ آپ مال روڈ پر جا رہے ہوں۔ چمبر لین روڈ آ جائے تو اس کا تلفظ کوئی غیر ملکی کچھ اور لکھ جائے یہ ممکن ہے۔ پھر میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ انیس ناگی کے بیانات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ وہ یہاں صرف یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں بھی فرانس گیا ہوں۔ پھر اعتراضات کا کیا ہے۔ راکھ پر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ مستنصر تو کبھی لکشمی منشن لاہور میں رہا ہی نہیں۔ اس کا بچپن، لڑکپن تو گجرات میں گزرا ہے۔ اب میں اس اعتراض کا کیا جواب دوں۔
٭ ’’مستنصر حسین جس حیرت کو جگاتا تھا۔ اب وہ حیرت ختم ہو گئی ہے اور وہ سیاح کے بجائے افسانہ نگار نظر آنے لگے ہیں۔ ہنزہ داستان اور خانہ بدوش پڑھ کر مجھے ایسا ہی محسوس ہوا۔ ‘‘ (انورسدید۔ گفت و شنید صفحہ۔ ۲۵۶)
٭٭ ہر ایک کا اپنا نقطۂ نظر ہے۔ بنیادی تحریروں میں کچا پن تھا۔ اب بہتری آ گئی ہے۔ ’’بہاؤ‘‘ ناول تو اپنی جگہ ہے۔ لیکن وہ حیرت ہی حیرت ہے، تمام کا تمام۔ میرا پورا روّیہ ہی حیرت کا ہے۔ میں اگر سیاح ہوں تو اس کی بنیاددس بارہ کتابوں کی حیرت ہی ہے۔ میں افسانہ نگار ہوتا تو کمرے سے باہر نہ نکلتا۔ ہر ایک کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ وہ درست بھی ہو سکتے ہیں۔
٭ ’’مستنصر روس میں سب سے مشہور پاکستانی نثر نگار ہے، اردو ادب کا چیخوف ہے ‘‘ ۔ بعض لوگ اس رائے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ وجہ؟
٭٭ یہ منصور قیصر نے لکھا تھا روس میں اردو پڑھنے والے طبقے کے متعلق انھوں نے لکھا تھا۔ کافی پہلے کی بات ہے شاید ۱۹۸۰ء کی دہائی کی میں اسلام آباد میں تھا۔ ایک روز اعجاز راہی نے فون کیا کہ یہاں ایک میاں بیوی مرینا اورالیکساندر غالباً نمل میں پڑھا رہے ہیں۔ ان کے سامنے آپ کا ذکر ہوا تو وہ بہت ایکسائیٹڈ ہوئے کہ یہاں وہ شخص رہتا ہے جسے ہم اپنی طالب علمی کے زمانے میں بہت محبت کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔ ہم اس سے ضرور ملنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں میاں بیوی نے سوائے اس باب کے جوان کے نصاب میں شامل تھا، میری کوئی اور تحریر نہ پڑھی تھی، اب وہ مجھے اسی حوالے سے ملنا چاہتے تھے۔ روس کے عروج کا دور تھا۔ ان کو ملنا خطر ناک تھا لیکن انھوں نے مجھے اور میرے بیوی بچوں کو اتنے خلوص سے بلایا کہ میں انکار نہ کر سکا۔ بڑی دیر ان سے باتیں ہوتی رہیں اٹھتے ہوئے انھوں نے ایک ناول فیودر دستوویفسکی کا ’’ایڈیٹ ‘‘ مجھے عنایت کیا اور اس پر کچھ تحریر بھی کیا۔ میں نے کہا کہ جو کچھ آپ لکھ رہے ہیں وہ روسی زبان میں ہے جسے نہ تو میں سمجھ سکوں گا اور نہ میرے دوست۔ تو پھر انھوں نے اسی صفحے پر اسے اردو میں بھی لکھ دیا۔ ۸۹ کی بات ہے۔
’’سویت یونین میں سب سے مشہور ادیب مستنصر حسین تارڑ کو سویت دوستوں مارینا اور الیکساندر کی طرف سے ‘‘
٭ ایک رائے کے مطابق ’’ بیسٹ سیلر ادب کبھی ( بھی)اچھا ادب نہیں ہوتا‘‘ آپ کیا کہیں گے؟
٭٭ اس حوالے میں بھی جو ہے وہ اضافی ہے۔ بیسٹ سیلر کبھی اچھا ادب ہوتا ہے اور کبھی اچھا ادب نہیں ہوتا۔ شروع میں ایسا ہوتا تھا کہ
جب لوگ تعریف کرتے تھے یا کسی بھی لہجے میں مجھے آ کر کہتے تھے کہ آپ تو بڑے مشہور اور بیسٹ سیلر ہیں، تو میں شرمندہ ہو جاتا تھا۔ اب میں نے کسرِ نفسی چھوڑ دی ہے۔ میں ہوں، میں تسلیم کرتا ہوں۔ ۱۵ سال ہو گئے ہیں میرے لیے یہ شرمندگی کی نہیں فخر کی بات ہے۔ بیسٹ سیلنگ ادب ضروری نہیں کہ اچھا ادب ہو۔ بیسٹ سیلنگ ضروری نہیں کہ وہ اچھا نہ ہو۔ آپ مارکیٹ جائیں اس وقت منٹو، بیدی، کرشن چندر، کرنل محمد خان، قرۃ العین حیدر، شفیق الرحمن سب بیسٹ سیلر ہیں۔ انتظار حسین کے ’’ چراغوں کا دھواں ‘‘ کا چوتھا ایڈیشن بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس لیے اس رائے پر میں کیا تبصرہ کروں۔
٭ آپ کو اپنی تخلیقات میں، جو مختلف اصنافِ ادب سے تعلق رکھتی ہیں کون سی کتاب زیادہ عزیز ہے۔ کس کتاب نے زیادہ محنت طلب کی۔ کس کتاب کو لکھتے ہوئے مزا آیا۔ کس کتاب نے آپ کو سب سے زیادہ مالی فائدہ پہنچایا۔ کس کتاب کے سب سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوئے۔ کس کتاب سے نظریں چرانے کو جی چاہتا ہے؟
٭٭ سب کتابیں عزیز ہیں۔ بہاؤ۔ کوئی کتاب ایسی نہیں جسے لکھتے ہوئے مجھے لطف نہ آیا ہو لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ میں نے کوئی کتاب شروع کی ہو چند یا کافی صفحات لکھ لیے ہوں پھر بات نہیں بنی۔ لطف نہ آیا لکھتے ہوئے، تو چھوڑ دی۔ میں تخلیقی کام فریضے کے طور پر نہیں کرتا میں کچھ بھی لکھ رہا ہوتا ہوں تو مجھے دن بھر بے چینی رہتی ہے کہ کب سات بجیں گے؟کب میں لکھنے بیٹھوں گا اور دیکھوں گا کہ کردار کیا رخ ادا کرتے ہیں؟ میری مرضی کے مطابق چلتے ہیں یا من مانی کرنے لگیں گے۔ یہ ایکسائٹ منٹ عشق میں بھی ہے اور کتاب لکھتے ہوئے بھی میں اسی کیفیت سے گزرتا ہوں۔ پیار کا پہلا شہر۔ نکلے تیری تلاش میں مجھے بزرگ ہونے کی وجہ سے اب تھوڑی سی شرمندگی ہوتی ہے یہ اس سے بہتر انداز میں لکھی جا سکتی تھی۔
٭ آپ کا پہلا سفر کون سا تھا اور آپ کتنے پیسے لے کر چلے تھے؟
٭٭ پہلا سفر کوہ نوردی کا تھا۔ میں ایف اے گورنمنٹ کالج کا طالب علم تھا۔ کالج کے ٹرپ کے ساتھ ہم وادی کشن گنگا گئے تھے۔ ہم مسلمان تاریخ جغرافیے کا لحاظ نہیں کرتے اور نام تبدیل کرنے کے شوقین ہیں۔ وادیِ نیلم کا نام وادیِ کشن گنگا تھا۔ ہم نے اسے مسلمان کر لیا۔ اس سے متعلق بڑی دیومالائی کہانیاں وابستہ ہیں۔ ہم نے رتی گلی کی چوٹی سر کی۔ مجھے کالج کی طرف سے کلر بھی ملا۔ اب میں پینتیس چالیس سال بعد دوبارہ وہاں گیا۔ اپنی حیرتوں اور تجربوں کو جگانے، جس کا احوال ’’رتی گلی‘‘ میں ملے گا۔ اب رہی یہ بات کہ میری جیب میں کتنے پیسے تھے۔ والد صاحب متمول حالت میں تھے۔ پیسے کافی ہوتے تھے۔
٭ سنولیک میں بلند و بالا پُر ہیبت پہاڑوں، سبزہ زاروں، زرد چہروں اور خوش رنگ گلابوں میں دیگر کوہ نوروں کے ہمراہ قرۃ العین طاہرہ موجود رہی۔ اس کی شخصیت سے علامہ اقبال بھی متاثر رہے ہیں اور عزیز احمد، صادق الخیری، سراج نظامی، جمیلہ ہاشمی، صابر آفاقی وغیرہ بھی۔ سنولیک میں قرۃ العین طاہرہ کی شخصیت کا تاثر آپ پر قائم رہا۔ لیکن صرف اس کی ایک مشہور غزل ….. چہرہ بہ چہرہ رُوبرو۔ اور ایک مشہور شعر ’’تو وہ ملک و جاہِ سکندری من و رسم و راہِ قلندری۔ اگر آں نیکو ست تو در خوری دگراں بد ست مرا سزا‘‘ ہی پیشِ نظر رہا۔
٭٭ طاہرہ کے میں نے صرف وہی اشعار درج کیے ہیں جو سفر کی واردات کو بیان کرتے ہیں ….. ورنہ میں طاہرہ کا پورا دیوان نقل کر کے قاری کا بھرکس نکال سکتا تھا۔
٭ ’’سنو لیک‘‘ میں جا بجا کھلے سیاہ گلاب کیسے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں ہوتے ہیں کہ نہیں یہ بھی گلاب و یاسمین سے لبریز شہر ہے۔
٭٭ سیاہ گلاب جھاڑی دار ہوتے ہیں اور عام طور پر آٹھ ہزار سے زائد بلندی پر پائے جاتے ہیں۔ سرخ کہہ لیجیے یا گلابی رنگ کے ہوتے ہیں۔ سیاچن بھی یہی ہے یعنی سیاگلابوں کی سرزمین۔ جس کے بارے میں امیر المومنین نے فرمایا تھا کہ وہاں تو گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں ہوتا۔
٭ پرندے میں پکھیرو اور انسان کا موازنہ کیا گیا ہے پرندے اور انسان دونوں میں ہی دو قسمیں موجود ہیں ظالم اور مظلوم۔
’ ’ وہ ہمیشہ سے ساتھی تھے۔ ان کی ہڈیوں پر مار کرنے والی چونچیں ایک تھیں اور ان کی ہڈ بیتی ایک تھی یہی تووہ الجھاؤ تھا کہ ان میں بندہ کون سا ہے اور پکھیرو کون سا۔ پکھیرو کون سا ہے اور بندہ کون سا ہے ( پکھیرو صفحہ ۵۸) کون زیادہ باعثِ اذیت ہے۔ انسان یا گدھ؟
٭٭ دونوں ہی۔ وہ بندہ پکھیرو بھی ہے اور گدھ بھی یہ الگ الگ شناخت نہیں۔ گدھ کی بات کرتے ہیں تو اس میں انسان بھی شامل ہے۔ منطق الطیر۔ سچ کی تلاش میں سی مرغ کی تلاش میں، ہرانسان نکلتا ہے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق حاصل کر لیتا ہے۔
٭ سچ کے پکھیرو کو قید میں رکھ کر ہی انسان بہتر زندگی گزار سکتا ہے پھر بھی ہم اس پکھیرو کی آزادی کے منتظر ہیں۔ کیا ایساوقت کبھی آئے گا؟
٭٭ نہیں کبھی نہیں آئے گا۔ خواب کبھی پورے ہوئے ہیں؟ سچ کے پکھیرو کی آزادی کی صورت میں عریاں حقیقت اپنی تمام تر تلخی کے ساتھ عیاں ہو گی۔ خواب دم توڑ جائیں گے یا ان کا کچھ حصہ پورا ہو گا۔ مکمل نہیں۔
٭ آپ کے کالموں میں ہمارے گرد و پیش میں بسنے والوں کے منفی روّیے پر آپ کی لطیف اور کاری ضربیں قاری کو مزا بھی دے جاتی ہیں اور ان حالات پر وہ افسردہ بھی ہوتا ہے، لیکن کیا ان تحریروں کا کبھی مذکورہ فرد یا ادارے پر اثر بھی ہوا ہے۔ مسئلے کی بہتری کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے؟
٭٭ نہیں ! کسی کے کالم میں اثر نہیں ہوتا کہ وہ معاشرے کو تبدیل کر سکے۔ یہ کالم نگار کا فرض بھی نہیں ہے۔ وہ صرف جرم کا، غلطی کا احساس بیدار کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ ان کا یہی کام ہے کہ وہ غلطی کی نشاندہی کر دیں۔
٭ آپ کے افسانے بیانیہ بھی ہیں علامتی اور تجریدی بھی، بابا بگلوس، کوٹ مراد، پریم سادہ بیانیہ کہانیاں ہیں۔ بادشاہ اور سیاہ آنکھ میں تصویر میں علامتوں کے سائے بھی نظر آتے ہیں۔ گیس چیمبر اور آکٹوپس میں تجریدیت نمایاں ہے۔ کیا ہر خیال اپنی فارم خود لے کر آتا ہے یا آپ کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ کس بات کو کس انداز میں کہنا ہے؟
٭٭ کبھی تحقیق نہیں کی، جو موضوع ہے وہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کو کس ہئیت میں لکھنا ہے۔ ہمارے ہاں ان مصنفین کی کمی نہیں جو صرف اظہار پر توجہ دیتے ہیں۔ ٹریڈ مارک بنا لیتے ہیں۔ دس چیزیں ان کے ذہن میں ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے سانچے میں صرف دو فٹ آتی ہیں تو وہ باقی آٹھ کو چھوڑ دیں گے۔ یہ سبجیکٹ میٹر پر منحصر ہے کہ وہ کیسے بیان ہو سکتا ہے پھر اسلوب تکنیک خود بخود واضح ہو جاتی ہے۔
٭ انسان کو انسان سے قریب رکھنے والے مقامات تانگہ، حجام کی دکان، ٹی ہاؤس، چوپال، تھڑا، حجرہ، آج کا انسان ان سب سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ ہم خاموش رہ کر اپنے ماڈرن ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ بولنا ہو تو نفسیاتی معالج کو بھاری فیس دے کر کتھارسس کر لیتے ہیں۔ کیا اس کا کوئی اور حل ممکن نہیں؟
٭٭ در اصل اب اس کے لیے وقت نہیں رہا۔ پھر اگر میرا جی چاہا کہ میں تانگے پر بیٹھوں، تو اول تو جس جگہ مجھے جانا ہے، معلوم ہوا کہ تانگا وہاں جاتا ہی نہیں پھر میرے اندر جو عہد ہے، اس کی برق رفتاری مجھے تانگے کی سواری سے لطف اندوز نہیں ہونے دے گی۔ میرا میٹر تیز چل رہا ہو گا اور تانگے کا آہستہ۔ پہلے ایک چینل تھا آرام سے بیٹھے اسے دیکھتے رہتے تھے۔ اب ۸۰ چینل ہیں۔ ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حجام کی دکان پر بیٹھنا، اخبار پڑھنا، حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا یہ نیسٹلجیا تو ہو سکتا ہے لیکن ہماری زندگی کا حصہ نہیں۔ ان چیزوں کے لیے میری پیاس ذوق کوہ نوردی سے سیراب ہو جاتی ہے۔
٭ ’’نکلے تیری تلاش میں ‘‘ آپ تنہا سفر پر نکلتے ہیں۔ ہنزہ داستان میں سلجوق آپ کے ہمراہ ہے۔ چترال داستان میں آپ کا پورا خاندان آپ کے ساتھ ہے۔ ’’غارِ حرا میں ایک رات‘‘ میں آپ کے رفیق سفر نا آشنا، لیکن ایک ہی تڑپ رکھنے والے عقیدت و محبت سے شرابور افراد ہیں۔ منہ ول کعبہ شریف میں آپ کے بیٹے ہمراہ ہیں۔ جذباتی، زمانی و مکانی تبدیلی کا یہ احساس آپ کو کیسا لگا۔ یہ سوال یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے تخلیق کار اپنی عمر کی انتہا تک، ابتدائی عمر کے نوخیز تجربات ہی دہراتے رہتے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں ارتقا کا احساس نہیں ہوتا کیا یہ صورت حال ادب کے لیے مضر نہیں؟
٭٭ میرے سفر ناموں میں سب کو لڑکیاں نظر آتی ہیں۔ میں نے اپنی عمر کے حساب سے لکھا۔ ’’نکلے تیری تلاش میں ‘‘ وہ ایک عہد تھا کہ جس میں صنف نازک میں دلچسپی یقینی ہے ’’خانہ بدوش‘‘ میں لڑکیاں نہیں۔ ہنزہ داستان، سفر شمال کے، چترال داستان اور دوسرے سفر ناموں میں لڑکیاں نہیں ہیں۔ پہاڑ اور پتھر ہیں، پھر بھی پسند کیے گئے۔ رہے وہ شاعر اور ادیب جو خود کو دہراتے رہے ہیں۔ در اصل وہ خود کو بیان نہیں کر رہے ہوتے جو کچھ وہ کہتے ہیں اس میں ان کی ذات شامل نہیں۔ میں جس تجربے سے گزرتا ہوں اس سے الگ ہو کر نہیں بیٹھ سکتا۔ جتنی سیچوئشن متقاضی ہوتی ہے میں اسے چھپاتا نہیں، کھل کر لکھ دیتا ہوں۔ مجھے چہرے، خوبصورت چہرے اچھے لگتے ہیں۔ میں نے لکھ دیا۔ ہنزہ داستان میں سلجوق ہمراہ ہے۔ اب میرا حوالہ کچھ تبدیل ہوا ہو گا۔ پھر بیٹی بڑی ہوئی۔ اس کی شادی کی۔ اس کے حوالے سے میری ذات اور میری تحریر میں تبدیلی نا گزیر تھی۔ میرے پڑھنے والوں نے یہ اعتراض کیا کہ آپ خود کو بوڑھا محسوس کرنے لگے ہیں جبکہ ہم ایسا محسوس نہیں کرتے یا محسوس کرنا نہیں چاہتے۔ میں جو محسوس کرتا ہوں اسی طرح لکھتا جاتا ہوں۔ پھر پڑھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کی تحریروں میں آپ بہت ہوتے ہیں، اس لیے کہ میں ہوں تو تحریر میں بھی نظر آؤں گا۔ میں بڑا خوش قسمت ہوں کہ میں نثرنگاروں میں اپنی ذاتی کیفیت، عمر اور تجربے کے مطابق اظہار کر سکتا ہوں۔ شاعر ہوتا تو بھی آج سے پانچ سات پہلے بھی عشقیہ غزل کبھی نہ لکھ پاتا۔
٭ آپ نے کہا ہے کہ میں بڑا خوش قسمت ہوں کہ نثرنگار ہوں۔ آج کل تو نثر لکھنے والے حسرت سے شاعر حضرات کی جانب نگاہ کرتے ہیں کہ وہ شاعر کیوں نہ ہوئے کہ جنہیں ہاتھوں ہاتھ، امریکہ، کنیڈا، دوبئی، مسقط لیا جا رہا ہے۔ نثر لکھنے والے تو بچارے کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔
٭٭ شاعر اینٹرٹینر ہوتا ہے۔ خصوصاً ً مشاعرہ باز شاعر۔ وہ کسی ادبی ترویج میں حصہ نہیں لے رہا۔ وہ سنجیدہ ادب سے واسطہ نہیں رکھتا۔ مشاعرے میں شاعر محظوظ ہونے کے لیے آتے ہیں۔ مزاحیہ شاعروں کے سامنے، جذباتی و رومانی شاعروں کے سامنے منیر نیاری ہوٹ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ لوگوں کا مذاق ہی نہیں ہے۔ باہر مافیاز بنے ہوئے ہیں۔ باقاعدہ کاروبار ہو رہا ہے، پھر ہمارے ملک میں ان شاعروں کی بھی کمی نہیں کہ جن کے پاس پیسہ آ گیا ہے۔ اب شہرت، مزید شہرت کی طلب چین نہیں لینے دیتی۔ لاکھ دو لاکھ لگائیں گے۔ کتاب شائع ہو گی۔ فنکشن ہو گا۔ ان کی مدد کے لیے مافیاز موجود ہیں جو سب کچھ ارینج کر دیتے ہیں اور پھر باہر مشاعرے ہو رہے ہیں۔ ان کے آرگنائزر با ذوق ہوں یا نہ ہوں۔ کاروباری ذہن ضرور رکھتے ہیں۔ ہمارے عوام جو روٹی روزی کے چکر میں باہر گئے ہیں وہ پڑھے لکھے نہیں۔ مشاعرے کے منتظمین بھی اسی سطح کے لوگ ہیں۔ وہ اپنے ذوق کے مطابق شاعروں کو مدعو کرتے ہیں۔ شاعر بخوبی دعوت قبول کر لیتے ہیں۔ ان حالات میں ایک نثرنگار کو فرسٹریشن ہو سکتی ہے کہ مجھے کیوں موقع نہیں ملتا۔ اب تخلیق کار یا سنجیدہ ادب کے پیچھے جائے یا لفافے کے۔ یہ اس پر منحصر ہے۔
٭ تجربوں اور خواہشوں سے بھرپور زندگی کا مزا چکھنے کے بعد ادیب زیادہ اوریجنل ہوتا ہے کافی ہاؤسوں، مذاکروں، کانفرنسوں میں نشو و نما پانے والا ادیب۔ اس سوال کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ کتاب کا مطالعہ ادیب کے لیے مفید ہے یا زندگی کا؟
٭٭ کتاب اور زندگی، دونوں کا بیلنس ہونا چاہیے۔ میری بیوی کے بڑے بھائی اگر مصنف ہوتے تو بہت بڑے ادیب ہوتے کہ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری ہے بہر حال ادب کی تخلیق کے لیے، اس کی توانائی کے لیے کتاب زیست کا مطالعہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک تحریر کا۔
٭ نیپال نگری میں آپ کی سیاحت کا جغرافیہ کسی اور جانب سفر کر رہا ہے۔ وجہ؟
٭٭ نیپال میں مجھے ایک سیمینار میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ میں گیا لیکن میں نے سیمینار کو یکسر نظر انداز کیا۔ مجھے اس کی تقریروں، قرار دادوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نیپال دیکھنا چاہتا تھا۔ میرے اپنے ساتھی میری اس روش سے اکتا بھی جاتے تھے۔ ان کے نزدیک ماؤنٹ ایورسٹ میں ڈھلتی شام کے منظر سے زیادہ ایک گرم شال کی شاپنگ میں کشش تھی۔ میں ان کے ساتھ ساتھ بھی تھا اور ان سے الگ بھی۔ میرے ساتھی بھی کبھی میرا ساتھ خوشی سے دیتے۔ کبھی تنگ آ جاتے، اب وہ چند روزہ قیام جس کے بارے میں میں ایک سفر نامہ، ایک مکمل کتاب لکھ رہا تھا تو میرے پاس جغرافیے سے متعلق، سیاحت سے متعلق مواد کم تھا۔ نتیجتاً میرا قلم ادھر سے ادھر بھٹکتا رہا اور میں نے اسے روکا نہیں۔ ایسا اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اس کا احساس ممتاز مفتی کو بھی تھا کہتے تھے کہ تُو لکھتے لکھتے کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے۔ سیدھی راہ نہیں چلتا۔ مفتی جی یاد آئے تو ان کی ایک آدھ بات اور یاد آ گئی۔ مفتی جی مجھ سے دس پندرہ برس ناراض رہے۔ ہوا یوں کہ ایک روز موج میں تھے۔ مجھے کہنے لگے۔
’’ مستنصر یار تُو بڑا کہانی کار بن سکتا ہے لیکن تُو میڈیا کی طرف نکل گیا ہے۔ میڈیا تجھے برباد کر دے گا۔ شہرت تجھے فنا کر دے گی تو یہ سب کچھ چھوڑ کر کل وقتی ادب کی طرف توجہ دے تُو کہیں کا کہیں پہنچ جائے گا کیوں اپنے آپ کو ضائع کر رہا ہے ‘‘ ۔ میں نے کہا۔ ’’مفتی صاحب بات یہ ہے کہ میڈیا میری روزی ہے میں شہرت کے شوق کے لیے اس سے وابستہ نہیں ہوا، بلکہ رزق کے چکر نے مجھے اس میں لا ڈالا ہے۔ یہ نہ کروں تو اور کیا کروں۔ ادب ہمیشہ ہی میری پہلی ترجیح رہا ہے۔ میں نے اس طویل وابستگی کے دوران میں ٹی وی کے لیے چار پانچ سیریل لکھے۔ اتنے سیریل تو پیشہ ور لکھنے والے ایک سال میں لکھ لیتے ہیں ‘‘ ۔ مفتی صاحب میرے جوازسے مطمئن نہ ہوئے۔ میں نے ان کی بات نہ مانی۔ وہ مجھ سے دس پندرہ سال ناراض رہے۔ کہیں کسی محفل میں، کسی نشست میں ان سے ملاقات ہو جاتی تو صرف سلام دعا ہی ہو پاتی، وہ مجھ سے رخ پھیرے رہتے۔ میں ان کی ناراضگی سے لطف لیتا رہا۔ اپنی وفات سے کوئی چھ ماہ قبل انھوں نے مجھے خط لکھا۔ بہاؤ پڑھنے کے بعد خط کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ مستنصر میں تم سے معافی چاہتا ہوں۔ میں غلط کہتا تھا کہ میڈیا تمھیں برباد کر کے رکھ دے گا۔ شہرت تمھیں کہیں کا نہ رہنے دے گی۔ مفتی صاحب اکثر باتیں طنزیہ کرتے تھے۔ طنزیہ لکھ جاتے تھے لیکن اس خط میں سنجیدگی تھی۔ انھوں نے لکھا کہ میں نے غلطی کی کہ تم سے ناراض رہا۔ تم ایک بڑے لکھنے والے بن چکے ہو۔ میں تم سے معافی کا خواستگار ہوں۔ میرے لیے ان کا یہ خط کیا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اب یہ بات کہ میں لکھتے لکھتے کہاں سے کہاں نکل جاتا ہوں تو مفتی صاحب نے بھی مجھے یہی کہا۔ بس میری یہی خواہش رہی کہ میں ان جیسا ایک جملہ بول سکوں، لکھ سکوں۔ یہ واقعہ بھی سن لیں ویسے میں اسے نیپال نگری میں لکھ چکا ہوں۔
پروفیسر رفیق اختر میرے قدیمی دوست ہیں۔ گوجر خان سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے ان سے وہ کچھ حاصل کیا جو مجھے کسی اور سے، کہیں اور سے نہیں مل سکتا تھا۔ کاش ان جیسا ایکسپریشن مجھے حاصل ہو جائے۔ انھوں نے دین و مذہب کے بارے میں جس طرح قائل کیا، میرے شکوک کو رفع کیا یہ انھی کا حصہ ہے۔ دین کے بارے میں جتنے واضح وہ تھے کوئی اور نہیں۔ آخر عمر میں مفتی صاحب ان کے مرید ہو گئے تھے۔ مفتی صاحب کے داماد اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ ان کے گھر پروفیسر رفیق اختر کی دعوت تھی۔ پروفیسر صاحب نے مفتی صاحب سے کہا کہ تارڑ کو بھی بلائیے۔ یوں میں بھی چلا گیا۔ لاہور سے بانو اور اشفاق بھی آئے ہوئے تھے۔ پندرہ بیس اور لوگ ہوں گے۔ مفتی صاحب اچانک بول اٹھے۔ ’’تارڑ ایہہ جہیڑا توں لکھدیاں لکھدیاں کسے ہور پاسے نکل جاندا ایں ایہہ توں کھتوں لیا ‘‘ میں نے کہا۔ ’’ مفتی صاحب میں کدھروں نئی لیا ایدیہوں پہلے دی دِل کر داسی کہ صراط مستقیم تے چلدا چلدا بندا بھٹک جاوے کسی ہور پاسے نکل جاوے لیکن اودھوں اینی ہمت نئی سی شاید میں خطرہ مول لینا نہیں چاہندا ساں۔ ہن میں موضوع توں بھٹک کے کسی ہور راہ تک جا کے ویکھنا چاہندا آں کے اوتھے کی اے، ہن تے جاچ آ گئی اے تھوڑی جہی ‘‘ ۔
لیکن مفتی صاحب اسرار جاننے پر تُلے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے ’’ اے توں ایدھے کولوں نئی لیا ‘‘؟انہوں نے پرفیسر رفیق اختر کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ میں نے کہا ’’ نہیں میں ان کی عزت کرتا ہوں یہ میرا سب کچھ ہیں ‘‘ ( وہ مجھے شرمندہ کرنے پر تلے ہوئے تھے ) کہنے لگے ’’ توں ایدھا مرید نئی ‘‘ ۔ ’’نہیں میں ان کی عزت کرتا ہوں ‘‘ ۔
مفتی جی پروفیسر صاحب سے مخاطب ہو کر بولے۔ ’’ یہ آپ کو نہیں مانتا اسے آپ سے عقیدت نہیں ہے ‘‘ ۔ پروفیسر صاحب نے اطمینان سے کش لگایا اور جواب دیا۔ ’’میں تارڑ صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ مجھے نہیں مانتے کیونکہ جہاں سے عقیدت شروع ہوتی ہے، وہیں سے جہالت کا آغاز ہوتا ہے‘‘ ۔
٭ ’’قربتِ مرگ میں محبت‘‘ میں کئی کردار واضح طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی ہمدردی، ان کا حسد سب جانے بوجھے معلوم ہوتے ہیں۔ کیا ناول کے مرکزی کردار خاور، کا کردار بھی حقیقی ہے۔ کیا اس ناول میں موجود تینوں نسوانی کرداروں کا تعلق حقیقت سے ہو سکتا ہے۔ کیا پاکستانی معاشرے میں، اسلامی معاشرے میں ایسا ممکن ہے؟
٭٭ میرا تعلق کم و بیش بتیس سال میڈیا سے رہا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میڈیا کے حوالے سے عوام میں ایک خاص توقیر اور عزت ہوتی ہے۔ ہیرو ورشپ کا ایلیمنٹ شامل ہو جاتا ہے۔ اسے بہت کچھ سمجھا جانے لگتا ہے۔ اس کے ردِ عمل میں کئی قسم کی کہانیاں سامنے آ سکتی ہیں۔ اس وقت آپ پاکستانی ہیں یا آپ کا تعلق مسلم معاشرے سے ہے، یہ سب کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور صرف انسانی ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ ہمارا معاشرہ تین سطحوں میں منقسم ہے۔ دو طبقوں کو تو چھوڑ دیں۔ تیسری کلاس جو ہے وہ ان تمام اصول و عقائد سے مبرا ہے ‘ بلکہ ان کی اپنی اقدار ہیں۔ جیسے کہ ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ طالبان میں برقع پوش خواتین کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے تو یہ ان کا اپنا کلچر ہے۔ اپنا مذہبی رجحان ہے۔ ہم انہیں کیسے غلط کہہ سکتے ہیں ’’قربتِ مرگ میں محبت‘‘ کے تینوں کردار بالکل حقیقی ہیں۔ بلکہ دو سے تو میری بیگم بھی مل چکی ہیں۔ در اصل یہ اتنے نون (معروف) نہیں کہ پہچانے جا سکیں، لیکن یہ موجود ہیں۔
٭ آپ کی تحریروں، ناول /سفرنامہ میں بسا اوقات بے باکی کھلنے لگتی ہے۔ خصوصاً ً اس صورت میں جبکہ ہم اپنے بچوں (ذاتی/ غیر ذاتی) کے پڑھنے کے لیے آپ کے ناول تجویز کرتے ہیں ….. کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔
٭٭ میرے سفر ناموں یا ناولوں میں ’’بے باکی‘‘ نہیں ہے ….. ’’زندگی‘‘ ہے اور آپ جن کو بچہ سمجھ رہی ہیں، وہ ایسے بھی بچے نہیں ہیں اور اگر وہ بہت ہی بچے ہیں تو انہیں کُل اُردو ادب سے گریز کرنا چاہیے۔
٭ ’’راکھ‘‘ پڑھتے ہوئے جی چاہتا تھا کہ ناول ایک طرف رکھیں اور ایف ٹین، اسلام آباد جا کر زاہد کالیا کی جڑواں کوٹھیاں دیکھیں کہ جہاں اس نے نوادرات کے سالم پیس چھپا کر رکھے ہیں۔ ’’قربتِ مرگ میں محبت‘‘ کے مطالعے کے دوران بھی یہی احساس جاگا۔ کیا اس ناول کا لینڈ سکیپ آپ کے تخیل کا کرشمہ ہے؟
٭٭ بھارہ کہو میں سوائے گھر کے باقی تمام مقامات، راستے، پتھر چٹان سبھی کچھ موجود ہے۔ تمام لینڈ سکیپ درست ہے۔ آپ لینڈ سکیپ کو فکشنائز نہیں کر سکتے۔
٭ آپ کے ناول ’’راکھ‘‘ کا ایک کردار زاہد کالیا کہتا ہے میں ان نوادرات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیتا ہوں۔ وہ دنیا کے کسی بھی میوزیم میں نمائش پر ہوں۔ کسی بھی کولیکشن میں ہوں وہ پاکستان کی ہزاروں برس پرانی کارگزاری کی مثالیں ہوں گی۔ ہماری ثقافت وہاں جا کر محفوظ ہو جاتی ہے۔ اگر میں سمگل آؤٹ نہ کرتا تو لوگ انہیں کوٹ کوٹ کر ان کو قلعی بنا کر دیواروں پر سیاسی نعرے لکھتے ‘‘ ۔ کیا ہماری تہذیبیں ہمارا روز گار ہیں، اثاثہ نہیں۔ ہم اپنا تمدن بیچ کر کوٹھیاں کھڑی کر رہے ہیں کیا یہ عمل دل دکھانے والا نہیں؟
٭٭ زاہد مثبت کام کر رہا ہے مثلاً جاپان میں ایک میوزیم ایسا ہے جہاں، یہاں سے نوادرات گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے یہاں یہ سب کچھ رہتا تو کسی نہ کسی طرح ضائع ہو جاتا۔ اس وقت موجود تو ہیں نا پاکستان کے نام سے ہی ان کی پہچان ہے۔ مصر کی چیزیں لندن کے میوزیم میں ہیں تو حوالہ مصر کا ہی محفوظ ہے۔
٭ زاہد کالیا کی کوٹھی کے تہہ خانوں میں قرآن مجید کے نایاب نسخے، خالص سونے کے پانی سے لکھے اوراق، ظروف، شالیں، فرنیچر، منی ایچر تصاویر، غزنی سے نکلے ہوئے کوفی عہد کے نوادرات اور دوسری کوٹھی میں گندھارا، ہڑپہ، مہرگڑھ کے نایاب اور یونیک مجسمے ہیں۔ زاہد کا لیا کہتا ہے؟ ’’جو بہترین ہیں وہ میں نے سنبھال رکھے ہیں۔ اپنی تاریخ کی بقا کے لیے ہم نے شرمندہ تو نہیں ہونا۔ آئندہ نسلوں کے سامنے۔ ‘‘
٭٭ یہ کردار سو فیصد موجود ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ کردار میرا ناول نہ پڑھے۔ بلکہ میں نے اس یقین کے ساتھ لکھا ہے کہ اسے پڑھے گا ہی نہیں اور یہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ وہ مثبت کام کر رہا ہے۔
٭ ’’بہاؤ‘‘ لکھنے کا خیال کیسے آیا؟
٭٭ میرے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ کہانی کبھی پوری کی پوری مجھ پر نہیں اترتی۔ کبھی کوئی فقرہ، کبھی کوئی منظر، کبھی کوئی تاثر مجھے متاثر کرتا ہے، میرے لا شعور میں بس جاتا ہے اور پھر دنوں، ہفتوں، مہینوں اور بسا اوقات سالوں بعد کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو اس فقرے، اس منظر یا اس تاثر کے ساتھ منطبق ہو جاتا ہے اور پھر کہانی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بہاؤ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ آپ دیکھ رہی ہیں، میں اس وقت بھی وقفے وقفے سے ایک سپ لیتا جا رہا ہوں۔ پورا گلاس ایک دم نہیں ختم کرتا۔ مجھے پیاس بہت لگتی ہے۔ بچپن ہی سے میں جب ۱۷ لکشمی مینشن میں رہتا تھا۔ رات کو نیند کھُل کھُل جاتی تھی۔ فلیٹوں میں گرمی بہت ہوتی تھی۔ پانی ہمیشہ سرھانے رکھ کر سوتا تھا۔ رات کو بار بار پانی پیتا تھا۔ ایک مرتبہ پانی پینے کے لیے گلاس اٹھایا۔ گلاس ہاتھ میں پکڑا تو پانی میرے اندازے کے مطابق کم محسوس ہوا۔ میں سوچتا رہا کہ کیا وجہ ہے پانی گلاس میں سے کم کیوں ہو گیا ہے۔ واقعی پانی کم ہوا ہے یا میرا واہمہ ہے یا گرمی کی وجہ سے اُڑ گیا ہے میں اس بارے میں سوچتا رہا۔ خیر وقت گزر گیا۔ پھر اتفاق سے میں نے ان دنوں ایک تحقیقی مقالہ پڑھا اس میں ڈاکٹر مغل کے چولستان کے بارے میں ایک فقرے نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔
Then due to unknown reason river Sarsvati dried out
اب یہ فقرہ میرے گلاس کے ساتھ جڑا کہ میرے گلاس میں بھی پانی کم ہوا اور وجہ نامعلوم اور دریا بھی خشک ہوا لیکن وجوہات کا علم نہیں۔ یہی خیال آیا کہ لکشمی مینشن میں گرمی شدید تھی اور ادھر چولستان بھی صحرائی علاقہ، گرمی کی شدت نے پانی کو خشک کر دیا۔ اب یوں کہیے کہ یہیں سے بہاؤ کی بنیاد پڑی۔ مجھے خیال آ یا کہ جب دریا بہ رہا ہو گا لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوں گے۔ انھی میں ایک کردار ایسا ہو گا کہ جس پر اچانک منکشف ہوا ہو گا کہ دریا سوکھنے کو ہے۔ یہ لمحہ جس میں اس پر منکشف ہو گا۔ اس کے لیے کیسا ہو گا؟اس نے کیا محسوس کیا ہو گا؟ کیا وہ خوفزدہ ہو گیا ہو گا؟ پریشان ہوا ہو گا؟ وہ ایک دم خاموش ہو گیا ہو گا یا اس نے کسی کو بتایا ہو گا؟ بیوی کے ساتھ اس کا کیا روّیہ ہوا ہو گا؟ لوگوں کو اس نے کیسے سمجھانے کی کوشش کی ہو گی۔ دریا سوکھنے کو ہے یعنی تہذیب تباہ ہونے کو ہے۔ اس کا ردِ عمل کیا ہو گا، یہ سوچ کر کہ بستی برباد ہونے کو ہے۔ یہ احساس مجھ میں ابھرا کہ ہمارے ارد گرد جو تہذیب ہے، جو بستی ہے میں پہلا مرد ہوں کہ مجھے احساس ہوا کہ دریا سوکھ رہا ہے، شاید یہ جو ہمارے پورے معاشرے کا سیٹ اپ ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ خیال پیدا ہوا۔ اب میرا فرض ہے کہ مجھے بتانا چاہیے کہ دریا خشک ہو رہا ہے۔ دریا ہماری پوری معاشرتی تہذیب کی علامت ہے اور ہمارے اعمال ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
٭ آپ سفر کرتے ہیں۔ سفر سے واپسی پر تخلیقی اضطراب کے باعث آپ سفرنامہ تحریر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور اپنے تجربے، مشاہدے میں قاری کو شریک کر کے اطمینان اور مسرت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ کیا ناول کی تخلیق کا باعث کوئی خاص واقعہ، خیال، کردار، منظر یا عصری حقائق ہوتے ہیں؟
٭٭ بہاؤ کے سلسلے میں کسی حد تک اس کا جواب دے چکا ہوں۔ در اصل کسی بھی تخلیق کے لیے کوئی لمحہ آپ کو گرفت میں لے سکتا ہے اور بسا اوقات ایک خیال صدیوں آپ کے ذہن میں، دل میں پرورش پاتا رہتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے، کوئی ایسا واقعہ، معمولی سا واقعہ ایسا رونما ہوتا ہے کہ آپ اسے کاغذ پر منتقل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے، اسلام آباد سے ایک بے حد دلکش جوڑا مجھے ملنے آیا۔ انہوں نے میری تمام کتابیں پڑھی ہوئی بلکہ حفظ کی ہوئی تھیں۔ وہ میرے پاس بیٹھے باتیں کرتے رہے بلکہ میں اور وہ صاحب باتیں کرتے رہے۔ خاتون خاموشی سے ہماری باتیں سنتی رہی۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں آپ کے شمالی سفر کے ان دور دراز مقامات کی داستان پڑھ رہی تھی جب میں اس مقام پر پہنچی کہ مصنف کو شمالی برفانی علاقے میں، جہاں تک رسائی ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔ گھوڑے پر سوار ایک ڈاکیا محمد علی ملتا ہے۔ مصنف اس سے پوچھتا ہے کہ میرے نام کا کوئی خط ہے۔ ڈاکیا نفی میں جواب دیتا ہے۔ اگر وہ ڈاکیا کوئی ایک خط اٹھا کر کہتا کہ ہاں آپ کے نام کا ایک خط ہے۔ تو اس ویرانے میں وہ خط کس کا ہوتا۔ اب وہ خاتون کہتی ہیں کہ یہاں پہنچ کر میں نے کتاب بند کر دی۔ میری سوچ یہاں آ کر رُک گئی یا زیادہ بھٹکنے لگی کہ یہ کس کے علم میں ہو گا کہ عین اس وقت ایک سیاح اس دشوار گزار برفانی علاقے سے گزرے گا اور ڈاکیا اس کے نام کا خط اسی وقت اسے دے گا۔ وہ خط لکھنے والا کون ہو گا۔ اس کا اس سے کیا رشتہ ہو گا۔ کیا کسی سے کسی کا روحانی، جذباتی تعلق اتنا مضبوط ہو سکتا ہے۔ وہ خاتون کہتی ہیں کہ میں اس سے آگے پندرہ بیس دن کچھ پڑھ ہی نہیں سکی۔ میں اس کے حصار میں رہی۔ اب وہ خاتون تو یہ بات کہہ کر چلی گئی اور میرے ذہن کے در وا ہونے لگے۔ میں بھی سوچنے لگا کہ وہ خط کس کا ہو گا۔ یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ اس کے بارے میں میں ناول لکھوں گا۔ میں نے ڈیڑھ صفحہ لکھا، پھر اسی کو بڑھا کر پندرہ صفحے تک لے گیا۔ اب اس میں تفصیل آنے لگی۔ پانچ باب لکھے۔ تمام مختلف ہیں کہ شاید اسی کردار نے خط لکھا ہو گا یا شاید اس کردار نے۔ میں دوچار ماہ پہلے ایک مقام پر آ کر رک گیا کہ یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں یہ تو ہزار صفحات تک جا سکتا ہے۔ میں نے آج تک تناسب سے لکھا ہے جو غیر متناسب بھی ہو سکتا ہے۔ اب قلم کاغذ جو فیصلہ کریں۔ یہ ان کا حق ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ ناول میری گرفت سے نکلتا جا رہا ہے۔ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ اسے کون سا موڑ دوں۔ یہ ایک موزیک ناول ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر ایک تصویر بنتی ہے۔ اس سے پتہ نہیں کوئی تصویر بنتی ہے کہ نہیں، چنانچہ میں نے قلم ہاتھ سے رکھ دیا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا لمحہ، کوئی ایسی بات کوئی ایسا واقعہ ہو جائے کہ میرا ذہن، میرا قلم پھر دوڑنے لگے۔ (ڈاکیا اور جولاہا کے نام سے اب یہ ناول شائع ہو چکا ہے۔ ق۔ ط)
اب آج کل میں جس ناول پر کام کر رہا ہوں۔ وہ بڑے نہیں چھوٹے سے Incident سے نکلتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اسی کا پھیلاؤ سامنے آتا ہے۔ جیسے ایک ننھی سی کونپل سے ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ ناول بھی اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔
میں ذاتی طور پر طالبان کے کبھی حق میں نہیں رہا۔ میں افغان جنگ کو دیکھ رہا تھا۔ میرے نزدیک یہ سب کچھ طالبان کی حماقت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ میں امریکی حملے کو قطعی ناپسند کرتا ہوں۔ میری اخلاقیات مجھے امریکی حمایت کی اجازت نہیں دیتی۔ میں افغانستان کئی مرتبہ جا چکا ہوں۔ بہت گھوما پھرا ہوں لیکن مزار شریف میں نے نہیں دیکھا تھا۔ اب اس جنگ کے حوالے سے اس کا بڑا ذکر آیا۔ پھر قلعہ جنگی میں سات آٹھ سو طالبان کو قید کیا گیا۔ خیال تھا کہ قیدیوں سے عالمی قوانین کے مطابق سلوک کیا جائے گا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ وہ قیدی جو ہتھیار ڈال چکے تھے اس قلعے میں محصور تھے۔ امریکی جہازوں نے اندھا دھند بمباری کر کے انہیں شہید کر دیا۔ یہ واقعہ مجھ پر شدت سے اثر انداز ہوا۔ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ شمالی اتحاد، طالبان سے کوئی واسطہ نہیں۔ صرف انسان سے رشتہ ہے۔ انسانیت کے ناتے مجھے اس واقعے سے انتہائی اذیت پہنچی۔ کشمیر، فلسطین، ویتنام، افغانستان، سبھی کو وہاں پر ہونے والے مظالم کا شدید دکھ ہے۔ میں افغانستان کے متعلق بہت کچھ پڑھتا رہا۔ دیکھتا رہا۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، انٹرنیٹ میں سبھی سے منسلک رہا۔ میں خصوصی طور پر قلعہ جنگی کے متعلق ایک ایک بات جاننا چاہتا تھا۔ میں اس کے متعلق معلومات حاصل کرتا رہا۔ قلعہ جنگی میں قتل و غارت گری کے بعد معلوم ہوا کہ قلعے کے تہ خانے میں چھ سات طالبان ہیں، جو ہتھیار نہیں ڈال رہے۔ ان کو ہلاک کرنے کے لیے راکٹ، پانی، پٹرول اور گیس، سب کچھ چھوڑا گیا۔ سارے طریقے آزمائے گئے۔ دو تین دن بعد، اس یقین کے ساتھ کہ اب ان میں کوئی بھی زندہ نہ بچا ہو گا۔ ریڈ کراس کی ٹیم لاشیں اٹھانے کے لیے آئی تو ان پر فائر نگ کی گئی۔ جس سے معلوم ہوا کہ ان میں سے کوئی ایک تو ضرور زندہ ہے۔ مجھے اس واقعہ نے بہت ہانٹ کیا۔ نوجوان نسل کو آئیڈیل کی تلاش ہوتی ہے۔ خواہ وہ کسی مذہب نسل قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ ۱۹۷۵ء میں، میں بیروت میں تھا اور میں وہاں کے حریت پسند نوجوانوں اور قائدین سے بہت متاثر ہوا۔ یہاں تک کہ میں پی ایل او کو جوائن کرنا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے وہ مسلمان تھے اور یہ پلس پوائنٹ تھا۔ وہ حق بجانب تھے اور آزادی کے لیے جد و جہد کر رہے تھے۔ میں ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتا تھا، تو یہاں بھی کچھ ایسے ہی حالات تھے۔ طالبان میں بھی کوئی ایسا ہی طلسم تھا، جس کی وجہ سے ہزاروں نوجوان اس کے سحر میں گرفتار ہوئے اور انہوں نے اپنے پیاروں کو، اپنے گھر بار، آرام و آسائش کو یکسر نظر انداز کر کے طالبان کی مدد کے لیے خود کو آگ اور آزمائش کے کارزار میں لا کھڑا کیا۔ میرا ناول وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں قتل و غارت گری ہو چکی ہے۔ تہ خانے میں چھ سات نوجوان ہیں جو ہتھیار نہیں ڈال رہے۔ یہ ناول انہی چھ سات کرداروں پر مشتمل ہے۔ ہیومن ٹریجڈی اس کا موضوع ہے۔ مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ اس انسانی المیے کا شکار تمام غیر ملکی ہیں۔ ان میں کوئی مقامی طالبان نہیں ہے۔ ان کرداروں میں سب سے بڑا تیس برس کا ہے۔ باقی بیس بائیس چوبیس برس کے نوجوان ہیں۔ جہاں مجھے ان نوجوانوں کے خون کے رائگاں جانے کا افسوس ہے، وہیں میرے دل میں ان مولویوں اور ملاؤں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے جو نوجوان نسل کو وہاں تک لے گئے۔ خود یا تو گئے ہی نہیں یا گئے تو اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانیں بچا کر لے آئے اور ان مظلوموں کو اذیت کے اندھے کنویں میں دھکیل آئے۔ اب آپ کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اس بات کا انتظار ہے کہ حالات کیسے بدلتے ہیں اور یہ ناول کیا رُخ اختیار کرتا ہے اور اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ (قلعہ جنگی کے نام سے اب یہ ناول شائع ہو چکا ہے۔ ق۔ ط)
٭ بہاؤ ایک بہت مشکل موضوع ہے اسے تقریباً ً پونے تین سو صفحات (۲۶۹) تک نبھانا آپ کو مشکل نہیں محسوس ہوا۔ اسے پڑھتے ہوئے قاری کو دانتوں تلے پسینہ آیا۔ آپ نے لکھتے ہوئے کیامحسوس کیا؟
٭٭ مجھے اس کی تحقیق اور تخلیق ہی میں بارہ برس لگ گئے۔ سات آٹھ برس اسے سوچنے، مواد اکٹھا کرنے، غرض تحقیق کی ضرورتیں پوری کرنے میں اور چار پانچ برس لکھنے میں لگے۔ تین مرتبہ Rewrite کیا۔ نارمل ناول پڑھتے ہیں تو نفسیاتی و ذہنی طور پر کردار اور زبان، ماحول اور معاشرت سے آگاہ ہوتے ہیں اس لیے نامانوسیت کا احساس نہیں ہوتا لیکن اگر یہ ساری چیزیں اجنبی ہوں۔ پورا فقرہ نہ پڑھیں تو بات سمجھ میں نہیں آتی جبکہ ایک عام ناول پڑھ رہے ہوں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس فقرہ کی تکمیل کہاں ہو گی لیکن میں ایک ایسے ماحول کے بارے میں لکھ رہا تھا۔ ایک ایسی تہذیب کی کہانی کہہ رہا تھا، جسے فنا ہوئے ہزاروں برس بیت چکے ہیں۔ اس لیے ظاہر ہے قاری کو پڑھنا مشکل لگا ہو گا، مجھے بھی مشکل لگا لیکن چونکہ موضوع سے میری دلچسپی تھی اس لیے مجھے اچھا لگا۔
٭ وقت کا بہاؤ، زندگی کا بہاؤ، ہوا کا بہاؤ، تہذیب کا بہاؤ یا پانی کا بہاؤ، اہمیت کسے زیادہ حاصل ہے؟
٭٭ وقت زندگی، ہوا، تہذیب، پانی ہم کسی کو بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے۔ سب آپس میں ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ہیں کہ ان کا سلسلہ کہیں منقطع ہوتا ہی نہیں ہے۔ یہ سب انٹرلنک ہیں۔ بیک وقت ان کا ظہور ہو رہا ہے۔ یہ الگ الگ ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ لکھنے والے پر منحصر ہے کہ اس لمحے جب وہ لکھ رہا ہے۔ اس کے تجربات کیا ہیں اور اس لمحے کی کیفیت یا تجربے کی روشنی میں ان میں سے کسی ایک بہاؤ کی اہمیت کم یا زیادہ ہو جاتی ہے۔ آپ جس تجربے سے گزر رہے ہیں۔ اگر اس میں حسیت زیادہ ہے تو بہاؤ کا رخ کچھ اور ہو گا اور اگر اس لمحے تخلیق کار اس سوچ میں ہے کہ وہ پہلا شخص ہے جس نے اس کائنات کے بارے میں، اس زمین کے بارے میں، انسان کے بارے میں لکھا ہے، تو وہ تہذیب کی طرف زیادہ مائل ہو گا۔ بہرحال یہ تمام بہاؤ ایک ساتھ بہتے ہیں۔ تخلیق کار کی توجہ ایک لمحے میں کسی ایک بہاؤ کی طرف زیادہ مرتکز ہو سکتی ہے۔
٭ آپ نے پرندے کی پیاس کو اس طرح محسوس کیا ہے، جیسے کہ آپ خود اس مرحلے سے گزرے ہوں۔ کیا مشاہدے کو تجربے کا روپ دینا آسان ہے یا آپ نے اپنی پیاس کو پرندے کی پیاس میں کینوس کیا ہے؟
٭٭ اس سوال کے جواب میں، میں پھر ایک سوال اٹھاتا ہوں جو بظاہر آپ کو غیر متعلق لگے گا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ اردو ادب میں ایک کلیشے بن چکا ہے کہ اُردو میں ناول کم کیوں لکھا جا رہا ہے۔ اب اس کے مختلف جواز پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ افسانہ مغرب سے آیا۔ ہم مغربی ادب سے متاثر تھے۔ ہمیں یہ صنف آسان، عام فہم اور اپنی اپنی سی لگی۔ ہم نے اسے اپنا لیا۔ یا دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے عہد کے لکھنے والے کا تجربہ محدود ہے۔ زندگی محدود ہے۔ پھر کمرشل ازم کی طرف توجہ اتنی ہو چکی ہے کہ انہیں فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ حقیقی کرداروں کو تلاش کریں۔ ان کا گہرا مطالعہ کریں اور پھر اسے پوری زندگی پر پھیلا کر بیان کر دیں۔ ناول لکھنے کے لیے انتہائی گہرے تجربے کی ضرورت ہے۔ ہمارا تجربہ مختصر ہے۔ وہ افسانے میں تو سما سکتا ہے ناول میں نہیں۔ افسانہ لکھ کر آپ کافی ہاؤس میں پڑھیں گے۔ واہ وا ہو گی سب جان جائیں گے کہ آپ نے ایک افسانہ لکھا ہے۔ پھر حلقہ اربابِ ذوق میں پڑھیں گے۔ تعریف و تنقید ہو گی۔ صبح اخبار میں اس کی کوریج آئے گی۔ سبھی دوست احباب کے علم میں آ جائے گا کہ آپ نے ایک نیا افسانہ تخلیق کیا ہے۔ پھر آپ دو تین رسالوں میں وہ افسانہ بھیج دیں گے۔ وہاں آگے پیچھے وہ چھپ جائے گا۔ سبھی لوگ پڑھیں گے۔ آئندہ شماروں میں اس پر تبصرے، تعریف چھپتی رہے گی۔ یعنی اگر آپ نے چھ صفحے کا افسانہ چھ دن میں لکھ لیا ہے تو چھ ماہ تک تو آپ ادب کی دنیا میں لازماً، اس ایک افسانے کی بدولت موضوعِ گفتگو رہ سکتے ہیں۔ لگ بھگ ہر ماہ اگر آپ ایک افسانہ لکھ لیں۔ دو سال میں چوبیس افسانے، آپ کا تو ایک مجموعہ آ جائے گا۔ پھر ناول لکھنے کے لیے آپ اتنا تردّد کیوں کریں۔ کئی سال اسے سوچنے میں، بُننے میں لگا دیں۔ پھر لکھنے میں ایک طویل عرصہ درکار ہو گا اور اس کے بعد جب وہ مارکیٹ میں آئے گا۔ کوئی خریدے گا۔ کوئی نہیں خریدے گا۔ بلکہ کون خریدے گا، قاری نے اگر پڑھ بھی لیا تو بے کار ہے، کہہ کر ایک طرف ڈال دے گا، کیونکہ قاری کا مذاق بھی ہم نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ بات کہ کیا مشاہدے کو تجربے کا روپ دینا آسان ہوتا ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ پارسا اور طوائف کے درمیان جتنی زندگی ہے، وہ تخلیق کار کا تجربہ نہیں ہے۔ تو کیا آپ اسے نہیں لکھ سکتے۔ جسمانی طور پر ضروری نہیں کہ یہ سب تجربے آپ نے کیے ہوں۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ میں زندگی کے اندر جانے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اس میں اخلاقیات کی قید نہیں ہے۔ تبھی اس میں طاقت پیدا ہو گی۔ ایک بات ذہن میں رکھیے۔ تخلیق کار سے آپ شریف آدمی ہونے کی توقع نہ رکھیے۔ کسی بھی تخلیق کار نے نارمل زندگی نہیں گزاری۔ تخلیق کار کبھی نارمل نہیں ہوتا۔ اگر اس کی زندگی نارمل ہو گی تو تجربے نارمل ہوں گے۔ وہ ڈائری ہو سکتی ہے۔ تخلیق نہیں ہو سکتی۔ عالمی ادب کے بڑے بڑے ادیبوں کی طرف دیکھیے۔ دوستو فسکی جواری تھا۔ قید میں رہا، لیکن بہترین ادب تخلیق کیا۔ ہمنگوے کی زندگی تضادات کا شکار رہی۔ لیکن وہ باکسر ہے۔ سپاہی ہے۔ ایمبولینس چلا رہا ہے۔ شکار کر رہا ہے۔ بے شک وہ بڑا ناول نگار نہیں ہے لیکن اس نے زندگی سے حاصل کیے تجربے بیان کیے ہیں۔ گارسیامارکی زہے۔ یہ سب متنوع تجربات رکھتے تھے۔ ہمارا تو پچاس برس کا عہد ہے۔ لوگوں کا تجربہ کم ہے۔ افسانہ شارٹ کٹ تھا۔ شہرت کے لیے آسان تھا۔ ناول کے لیے کشٹ کاٹنا پڑتا ہے۔ بیدی، منٹو، اشفاق احمد، کرشن، بانو، سب نے اچھے ناول لکھے ہیں۔ عبداللہ حسین اور قرۃ العین حیدر کے تجربے ان کی تحریروں میں ڈھلے ہیں۔ وہ صرف مشاہدہ ہی نہیں کرتے، بلکہ اس میں جذب ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ معاشرے کے منصف کی طرح بیٹھ کر لکھتے ہیں کہ زندگی میں کیا اچھا ہے، کیا بُرا ہے۔ کیا نہیں ہونا چاہیے اور فیصلہ صادر کر دیتے ہیں تو فیصلہ کرنے والے ادیب نہیں ہو سکتے۔ ادیب تو اپنا تجربہ یا مشاہدہ پیش کر دیتا ہے۔ فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔ اب آ جاتے ہیں کہ آپ کے اصل سوال کی طرف یعنی پرندے کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو میں نے ساری زندگی آوارگی اور آزادی میں بسر کی۔ کبھی کسی سرکار دربار کی نوکری نہیں کی۔ یس سر کبھی نہیں کہا۔ میرا فری ایکسپریشن رہا۔ میں نے کبھی احتیاط سے یا خوف سے یا مصلحت سے کام نہیں لیا۔ میرا طرزِ زندگی روز اول سے آج تک خانہ بدوش والا ہے۔ میں نے مثبت کام بہت کم کیے۔ جو کچھ بھی کیا سینس لیس کیا۔ یہ تو مجھے علم ہی نہ تھا کہ یہ آوارگی میرے کام آئے گی۔ آوارگی میں منصوبہ بندی کبھی شامل نہیں ہوتی لیکن اس آوارگی کے تجربے میرے بہت کام آئے۔ مشاہدہ کو کس طرح تجربے میں بدلا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ آوارگی نے ہی سکھایا۔ اس آوارہ گرد میں ایک ناولسٹ بھی چھپا ہوا تھا۔ اس ناولسٹ کو ایک کردار تخلیق کرنا ہے۔ گویا وہ کردار، وہ خود ہے، یعنی جب تک وہ اس کردار کی اچھائی سے محبت اور کمزوری سے ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں کرے گا۔ وہ انصاف نہیں کر سکے گا۔ پکھیرو، ایک پرندے کی کہانی، دو گدھ باتیں کر رہے ہیں۔ فاختہ کا کردار بھی سمبالک ہے۔ میں ان سب کی باتیں سمجھتا ہوں۔ یہ کیسے گفتگو کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں امام غزالیؒ نے کہا تھا کہ درویش جنگلوں میں جاتا ہے تو جنگل کے درخت، پتے، پھول، ندی، پرندے سبھی اس سے باتیں کرتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میری آوارگی نے مجھے یہ شعور بخشا اور میں درختوں، پرندوں کی باتیں سمجھ سکتا ہوں۔ بہاؤ میں بھی پرندے کی پیاس میں نے خود پر طاری کی اور پھر لکھا۔ یہ بھی بتا دوں کہ مجھے واقعی پیاس بہت شدت سے لگتی ہے۔
٭ پنجابی الفاظ کا استعمال شعوری کوشش ہے یا یہ ناول کی ضرورت تھی یا غیر محسوس طریقے سے در آئے ہیں یا یہ اس تہذیب کی زبان تھی۔ سات ہزار سال پرانی یعنی تاریخ کے دائرے سے باہر اس تہذیب کی زبان۔ اس کی تلاش میں کن کن مراحل سے گزرنا پڑا؟
٭٭ یہ شعوری کوشش نہ تھی، ناول کی ضرورت تھی۔ بہاؤ لکھتے ہوئے میرے سامنے دو مسائل تھے۔ ایک تو ایکسپریشن کے اظہار کا مسئلہ تھا۔ پریم چند کا ایک کردار اگر یہ کہتا ہے کہ میں تمہیں ناپسند کرتا ہوں۔ عبداللہ حسین کا کر دار بھی یہی کہتا ہے وہ تو کسی اور طرح کہتا ہے۔ ایکسپریشن پچاس سال میں تبدیل ہو چکا ہے تو پانچ سات ہزار سال پہلے کی زبان کیسی ہو گی۔ میں اپنے موجودہ اظہار میں لکھوں گا تو وہ آج کے کردار ہوں گے۔ پرانے نہ ہوں گے۔ اس زبان کی ردھم کیا تھی۔ ظاہر ہے آج سے مختلف ہو گی۔ باغ و بہار کی زبان فرق ہے۔ نادار لوگ کی زبان الگ ہے۔ تو سو ڈیڑھ سو سال میں زبانیں بدل جاتی ہیں طریق اظہار بدل جاتے ہیں۔ میں نے بہت تحقیق کی۔ دراوڑی زبان کا کوئی نہ کوئی انگ بولا جا رہا ہے۔ آج بھی اس کی تحقیق کی تو برصغیر میں برا ہوی اور تامل میں دراوڑی زبان کے اثرات موجود ہیں۔ پنجابی میں بھی ہیں لیکن اس پر ریسرچ نہ ہوئی۔ جناب فرید کوٹی اور جناب علی عباس جلال پوری ماہر لسانیات ہیں۔ میں نے ان سے تفصیلی گفتگو کی۔ ان دونوں نے پنجابی کی ایک خاص لغت بنا کر دی کہ یہ الفاظ بنیادی طور پر دراوڑی زبان کے الفاظ تھے جو آج بھی پنجابی میں مستعمل ہیں۔ میں نے ’’بہاؤ‘‘ میں ان سے مدد لی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور پنجابی کا لفظ بھی اس میں خود بخود آ گیا تو میں نے لکھ دیا۔ بہرحال میں نے شعوری طور پر کہیں کوشش نہ کی کہ میں ایک اور زبان بناؤں۔ بہاؤ کے سلسلے میں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ جب میں اس کے چالیس پچاس صفحات لکھ چکا تھا۔ ایک روز میں عارف وقار سے ملنے گیا۔ میں نے اس کی میز پر ایک کتاب دیکھی Incient Tamal Poetry تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ میں اس سے یہ کتاب لے آیا۔ اس کے کچھ صفحات فوٹو سٹیٹ کروا لیے۔ میں انھیں جتنا پڑھتا جاتا تھا، میرے اور ان کے درمیان ایک تعلق سا پیدا ہوتا جاتا تھا۔ وہاں کردار جس طرح بات سے بات جوڑتے تھے۔ شعری زبان خوبصورت تھی تو ردھم میں نے وہاں سے لیا۔ استعارے اور علامات وہیں سے اخذ کیں۔ ظاہر ہے میں آج کے استعارے اور علامتیں استعمال نہیں کر سکتا تھا پھر اس زمانے میں کون سے پرندے تھے، کون سے جانور تھے۔ یہ تحقیق کا ایک الگ موضوع تھا۔ چنانچہ دریائے سندھ کی تہذیب کے بارے میں، وہاں کے جانوروں کے بارے میں، دو کوہانوں والے بیل تھے، بھینسیں تھیں، دلدل تھی، دلدل میں کون کون سے حشرات تھے۔ نر جانوروں کی تمثیل و علامت استعمال کی۔ غرض پی۔ ایچ۔ ڈی کے اس تھیسس کے مطالعے کے بعد میں نے ان چالیس پچاس صفحات کو دوبارہ لکھا۔
٭ پکھیرو کے بعد کوئی اور پنجابی تخلیق سامنے نہیں آئی، وجہ؟
٭٭ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے بہاؤ اور راکھ پنجابی میں لکھنے چاہیے تھے۔ اُردو میری اپنی زبان نہیں ہے۔ اپنائی ہوئی زبان ہے۔ لیکن بہاؤ اور راکھ میں نے پنجابی میں نہیں اُردو میں لکھے۔ اس کے پیچھے وہ خواہش تھی کہ میں اتنی محنت کر رہا تھا تو میں چاہتا تھا کہ یہ زیادہ لوگوں کے ہاتھوں میں جائے۔ زیادہ ذہنوں تک اس کی رسائی ہو۔ پنجابی میں لکھ کر میں اپنی تخلیق کو محدود نہیں کرنا چاہتا تھا۔ دوسرا میں سمجھتا ہوں کہ پکھیرو پنجابی میں لکھ کر میں نے اپنا حصہ شامل کر لیا ہے۔ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ اب پچھلے چند سالوں سے میں محسوس کر رہا ہوں اور بہت شدت سے محسوس کر رہا ہوں کہ اُردو کا شمار بڑی زبانوں میں نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ہم زیادہ لوگوں تک نہیں پہنچ رہے۔ بڑی زبان میں لکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ زیادہ لوگوں تک زیادہ ملکوں تک اس کا دائرہ پھیلتا جاتا ہے، اور اس کی دور دراز ممالک تک رسائی ہونے لگتی ہے۔ پرشین، عربی، فرانسیسی، جرمن اور انگریزی، ظاہر ہے اُردو ان کے برابر نہیں پہنچ سکتی۔ اسی لیے وہ زیادہ لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہی۔ مجھے اکثر غیر ملکی ادب پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ میں اس ادیب سے تو بہتر لکھ رہا ہوں، لیکن زبان کی محدودیت کی بنا پر پہنچ نہیں پا رہا۔ بی بی سی پر ’’بہاؤ‘‘ سے متعلق گفتگو ہوئی توگارسیامارکیزکے حوالے سے بھی بہاؤ کا جائزہ لیا گیا۔ اب اس شخص کو تو پتہ تھا کہ بہاؤ کیا ہے لیکن عام پڑھنے والے تو نہیں جانتے کہ میں نے کیا لکھا ہے۔ عبداللہ حسین نے اُردو میں اداس نسلیں لکھا، پھر اس نے چائنیز میں ترجمہ شائع کیا۔ فلم بھی بنی۔ پورے انگلستان میں دھوم ہے اس کی۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ پوری دنیا جانتی ہے اس لیے نتیجتاً اب عبداللہ حسین انگریزی میں لکھ رہا ہے، کیونکہ وہ زیادہ لوگوں تک پہنچنا چاہتا ہے۔
٭ پنجابی زبان کو سب سے زیادہ نقصان پنجابیوں ہی نے پہنچایا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
٭٭ پنجابی اظہار کی بے پناہ قوت رکھتی ہے۔ بڑی زبان ہے۔ مشرقی پنجاب میں اس میں پی۔ ایچ۔ ڈی بھی ہو رہی ہے۔ سائنس پڑھائی جا رہی ہے۔ تحریک پاکستان اور پھر قیام پاکستان کے بعد اُردو کو اپنایا گیا کہ یہ قوم کی ضرورت تھی، چنانچہ پنجابیوں نے اپنے ماضی کو، اپنی زبان کو ڈِس اون کیا۔ وطن کی محبت میں، اُردو کی محبت میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے کبھی پنجابی میں بات نہیں کی تھی جبکہ میں ہمیشہ انہیں چڑانے کے لیے ہی شاید ہمیشہ ان سے پنجابی میں بات کرتا تھا۔ مختار مسعود گجرات کے رہنے والے ہیں۔ وہ کبھی پنجابی میں بات نہیں کرتے۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے پوچھا کہ پنجابی کیوں نہیں بولتے۔ کہنے لگے کہ میں جو کام کر رہا ہوں اس کے لیے مجھے پنجابی کو بھولنا لازمی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں پنجابی میں لکھتا تو زیادہ بہتر لکھتا۔ ہمیں پنجابی ہونے میں یہ آسانی تھی کہ ہم اہلِ زبان ہیں۔ میری والدہ بہت خوبصورت اور بر محل محاورے بولا کرتی تھیں، ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔
٭ تشبیہیں، استعارے اور علامات کہانی کو خوبصورت بنانے کے لیے یا اپنی بات کی وضاحت اور شدت ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں؟
٭٭ عبارت کو خوبصورت بنانے کا قائل نہیں ہوں۔ میرے کردار شدت پسند ہیں۔ وہ انکسار رکھنے والے اور دھیمے لوگ نہیں ہیں۔ چنانچہ میری تحریروں میں استعارے اور محاورے کم ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں اردو کا محاورہ متروک ہو چکا ہے۔ آج کے حوالے سے ختم ہو چکا ہے جو اُردو کے محاورے تھے، وہ سب سرحد پار رہ گئے۔ وہ پھل وہ پرندے وہ درخت وہ ماحول سب اُدھر رہ گیا۔ آج اگر میں لکھتا ہوں کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی، تو میں نہیں جانتا کہ رادھا کون تھی۔ یا الٹے بانس بریلی کو تو مجھے نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کیا کہاوت یا رمز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں شعوری طور پر محاورے سے اجتناب برتتا ہوں۔ البتہ مزاح لکھتے ہوئے محاورے استعمال کرتا ہوں اور اس سے نئی نئی شکلیں سامنے آتی ہیں پھر میرا خیال کہ وہ تخلیق کار محاورہ استعمال کرتا ہے جسے اپنی تحریر پر اعتماد نہیں ہوتا۔ وہ محاورے کی مدد سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی، سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
٭ آپ نے ناول بہاؤ کا مرکزی خیال پہلے چار صفحوں میں ایک پرندے کی علامت کے ذریعے بیان کر دیا ہے۔ ’’اس کی خواہش الگ تھی اور اس کی اُڑان کا راستہ اس سے جدا تھا‘‘ (صفحہ ۸) انسان تمام زندگی اسی طور گزارتا ہے۔ جو وہ کرنا چاہتا ہے وہ کبھی نہیں کر پاتا اور جو کچھ وہ تمام زندگی کرتا رہتا ہے، وہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ کیا اشرف المخلوقات کی تقدیر یہی ہے؟
٭٭ میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا کہ تقدیر کیا ہے۔ خواہش الگ ہوتی ہے۔ اختیار الگ۔ وہی بات ہے کہ جو چاہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا۔ پرندہ کہیں اور جانا چاہتا ہے۔ موت اسے کہیں اور لے جاتی ہے۔ بہاؤ اور راکھ کے کردار بہادر ہیں لیکن بے بسی موجود ہے۔ ملاح کی نا اہلی کے باعث جہاز ڈوب رہا ہے اور مسافر بے بس ہیں۔ یہی زندگی ہے۔
٭ قرۃالعین حیدر کے آگ کے دریا اور مستنصر حسین تارڑ کے بہاؤ میں کیا فرق ہے؟
٭٭ آگ کا دریا کلاسیک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ بہاؤ اور آگ کا دریا کا موازنہ نہیں ہو سکتا، ہونا بھی نہیں چاہے۔ بہاؤ کو ابھی صرف چھ برس ہوئے ہیں۔ آگ کا دریا ایک بڑا ناول ہے۔ اس بات کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ بہاؤ کی آج کیا اہمیت ہے اور آئندہ کیا اہمیت ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بعض مرتبہ دس پندرہ بیس برس بعد کسی تخلیق کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور بعض مرتبہ اس کی اہمیت صفر رہ جاتی ہے۔ بہرحال ان دونوں کا موازنہ مشکل ہے۔ بنیادی طور پر جب میں نے بہاؤ لکھنے کا ارادہ کیا تو خیال تھا کہ ایک تہذیب کے خاتمے کے بعد اس کا دوسرا حصہ جو میں شروع کروں گا وہ ۱۹۹۲ء تک آ جائے گا یعنی قدیم اور جدید کے درمیان جو درمیانی عرصہ ہے اسے نہیں چھیڑوں گا۔ پلان میرا یہی تھا لیکن پھر صرف یہ سوچ کر کہ ہمارے ہاں موازنہ کرنے کی ریت موجود ہے۔ اگر میں اپنے پلان کے مطابق ناول کو تشکیل دیتا تو اس کا فوراً آگ کا دریا کے ساتھ موازنہ شروع ہو جاتا کہ وہ بھی عہدِ قدیم سے آج کے عہد تک جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس کا دوسرا حصہ بالکل الگ کر کے ’’راکھ‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ پھر میرے اور قرۃ العین کے درمیان فرق ہے۔ میری اس زمین سے گہری وابستگی ہے۔ میں اپنی مٹی سے مواد اخذ کرتا ہوں ان کی رسائی سمر و قند و بخارا تک ہے۔ میرا ذہنی و قلبی رشتہ صرف اس سر زمین سے ہے۔ ہمارا مقابلہ کسی صورت میں نہیں ہونا چاہیے۔ ہم مختلف راہوں کے مسافر ہیں۔
٭ دیہی زندگی کا مشاہدہ گہرا ہے یا تہذیبی تاریخ کا مطالعہ ڈوب کر کیا ہے۔ جزئیات کے بیان میں اس بات کا احساس ہوتا ہے۔ مثلاً پودوں، جھاڑیوں ہی کا تذکرہ ہو تو اس میں پھوگ، کندن، سرکنڈے، دھامن، کھیل لانا۔ سروٹ، کاہی، سلما چھپری کی بوٹی وغیرہ؟
٭٭ میں محسوس کرتا ہوں کہ اُردو ادب میں قطعی طور پر ہماری فصلیں، پھل، جھاڑیاں، درخت، پھول یا پانی کی جو مختلف شکلیں اور رنگ ہیں انھیں بیان نہیں کیا گیا۔ ہمارا ادیب زراعت سے نابلد ہے۔ زراعتی ملک سے تعلق ہے لیکن نہیں جانتا کہ فصل میں سٹہ کیسے پڑتا ہے۔ کب پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کی اپنی سرزمین سے واقفیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ترکی کا مصنف یا شرکمال اپنی سرزمین پر اتنا گھوما ہے کہ اگر اس کا کردار کبھی جنگل میں کسی ندی نالے سے پانی بھی پیتا ہے تو لمحہ بھر کے اس مشاہدے میں وہ تمام جڑی بوٹیوں، کیڑے مکوڑوں اور جھاڑیوں کو بیان کر جاتا ہے۔ ہمارے ادیبوں کے نزدیک لینڈ سکیپ کی قطعی اہمیت نہیں ہے۔ ہمارے ادیبوں نے اگر کبھی لکھا بھی تو لکھنوی انداز میں، اجنبیت کے ساتھ لکھا ہے۔ جذب ہو کر نہیں لکھا۔ مقامی تہذیب سے اجتناب برتا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے۔ میں کسان ہوں۔ میرے دادا ہل چلاتے تھے۔ میرے والد نے زراعت کے بارے میں ۲۰، ۲۵ کتابیں لکھی ہیں۔ والدہ روز مرہ کی گفتگو میں بے تکلف محاورے کا استعمال کرتی تھیں اور ان تمام محاوروں کا تعلق زمین سے، پرندوں اور درختوں سے ہوتا تھا۔ میرے اندر یہ تمام چیزیں موجود ہیں یہ تو باتیں ہوئیں اپنے تجربے کی… تو بہاؤ کے لیے مجھے جھاڑیوں کے ناموں کے لیے بہت تحقیق کرنا پڑی۔ کون سی جھاڑیاں اس زمانے میں تھیں۔ بہاؤ کی بستی میں نے خود آباد کی تھی۔ وہاں کے جنگل بیلے میں نے تخلیق کیے تھے۔ درخت جانور جھاڑیاں دلدل، دریا سب میری تخلیق تھے اور اس تخلیق میں مجھے تحقیق سے بہت مدد لینی پڑی۔
٭ بہاؤ ایک تحقیقاتی تخلیق ہے، چونکہ یہ ناول ہے اس لیے آپ نے حوالہ جات کی، کتب کی فہرست نہیں دی، لیکن قاری مطالعے کے دوران اس حقیقت سے آشنا ہوتا ہے کہ آپ نے گہرے مطالعے کھوج اور تحقیق کے بعد اسے تخلیق کیا ہے۔ کیا آپ بتانا چاہیں گے کہ آپ کے ماخذ کیا تھے۔ جبکہ یہ بات بھی علم میں ہے کہ ’’بہاؤ‘‘ کا عہد لکھی ہوئی تاریخ سے باہر کا ہے۔ یعنی یہ تاریخ نہیں تخلیق ہے۔ ایسی تخلیق جو تاریخ کا حصہ ہے؟
٭٭ بہاؤ کے علاوہ بھی جو اسی قسم کے ’’تحقیقی ناول ‘‘ لکھے گئے ہیں۔ اس میں ناول نگار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ساری تحقیق ناول میں کھپا دے اور یوں قاری کو متاثر کرنے کے لیے وہ سارے ہی حوالے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز تھی کہ میں اس سے بچنا چاہتا تھا۔ یعنی میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ قاری کو یہ احساس ہو کہ ناول نگار نے بہت زیادہ تحقیق کی ہے۔ بلکہ ہلکا سا احساس ہو، شائبہ ہو، تحقیق تخلیق سے الگ ہو کر اپنا تعارف نہ کروانے لگ جائے۔ وہ ماحول کا جزو بن کر کہانی کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے۔ اب رہی یہ بات کہ اس کے تحقیقی ماخذ کون سے تھے تو ایک تو جناب ابن حنیف، ملتان نے میری بہت رہنمائی کی۔ ویدوں کے انگریزی ترجموں سے، خصوصاً ً دریاؤں کے حوالے سے، اس سے مجھے بہت مدد ملی۔ دریائے سرسوتی ہے یا مختلف دریا اور شہر ہیں جو نابود ہو چکے ہیں۔ ان سے متعلق بہت کچھ پڑھا۔ سندھ کی تہذیب پر جو کتابیں تھیں یا مصری تہذیب کے بارے میں جو تحقیق تھی، پھر یہ تہذیب زمین تک ہی محدود نہ تھی۔ میں نے پرانے مذاہب کا بھی مطالعہ کیا۔ خوابوں کی تعبیریں کیا کی جاتی تھیں۔ سبھی حوالوں سے میں نے پڑھا۔
٭ بہاؤ تاریخ اور تخیل کا کرشمہ ہے۔ گہرا تخیلاتی مشاہدہ اور مطالعہ اس تخلیق کا باعث ہوئے۔ آپ کیا کہتے ہی؟
٭٭ بہاؤ متھ ہے، تاریخ نہیں ہے۔ یہ متھ میں نے خود تخلیق کی ہے اور متھ تبھی تخلیق کی جا سکتی ہے جب حقائق پر بنیاد رکھی جاتی ہے۔ کہیں نہ کہیں حقیقت ہوتی ہے۔ سرسوتی خشک ہو گیا۔ یہ حقیقت تھی اور یہی حقیقت بہاؤ کی بنیاد ہے۔
٭ برتن بنانے کے لیے مٹی کتنے مراحل سے گزرتی ہے۔ اس کا تفصیلی تذکرہ اس ناول (بہاؤ) میں موجود ہے کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ معلومات دینے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ یہ سب تفصیل، واقعات کا حصہ معلوم ہوتی ہے پھر برتنوں کی اقسام کے نام بھی موجود ہیں۔ جزئیات نگاری اس ناول کا وصف قرار پاتا ہے یا اکتاہٹ عطا کرتا ہے۔ اپنے ہی قاری کی حیثیت سے آپ کیا کہیں گے، جب کہ ایک عام قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ آپ خود اس زمانے میں غیر مرئی روپ میں موجود تھے جو دیکھتے تھے لکھتے جاتے تھے۔
٭٭ کسی قدیم تہذیب کا مطالعہ کریں سب سے پہلے جو چیز سامنے آئے گی وہ برتن ہوں گے۔ موہنجو ڈارو اور ہڑپہ سے جیسے برتن ملے ویسے ہی قلعہ دراوڑ سے ٹھیکریاں ملیں۔ دوسری چیز ہے اینٹ۔ ویسی اینٹ آج تک اس فارم میں نہیں بنی۔ برتن بنانے کا ہمارے گاؤں میں آج بھی وہی طریقہ ہے جو صدیوں بلکہ ہزاروں سال پہلے تھا۔ ہڑپہ، موہنجوڈارو چلے جائیں وہی گھڑا جو وہاں دستیاب ہوا تھا آج بھی ہمارے کمہار ویسا ہی گھڑا بنا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اکثر گھڑے پر مچھلی کی تصویر بنا دی جاتی ہے۔ چار ہزار سال پہلے کے گھڑے پر بھی مچھلی کی شبیہ موجود تھی۔ مچھلی سمبل ہے وہ لوگ بھی اس علامت کو سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے مجھے تو ناول لکھتے ہوئے بھی اچھا لگ رہا تھا، پڑھتے ہوئے میں کیوں بے مزا ہوتا۔ رہی یہ بات کہ قاری سمجھتا ہے کہ میں ہزاروں سال پہلے وہاں غیر مرئی روپ میں موجود تھا تو یہ میرا اثبات ہے۔
٭ بہاؤ کے ہر باب کے نمبر دے دیے جاتے یا عنوان قائم کر دیے جاتے تو کیا قاری کے لیے سہولت نہ ہو جاتی۔
٭٭ بہاؤ کا مطلب ہی ختم ہو جاتا۔
٭ قحط کا عذاب کس طرح پودوں، پرندوں، جانوروں اور انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔ کس طرح سب فنا کی وادی میں اتر جاتے ہیں یا نقل مکانی کی کوشش کرتے ہیں اس کی وضاحت اچھے انداز میں کی گئی ہے۔ اس ناول میں ورچن کے زور دینے کے باوجود کہ اب یہاں صرف موت ہے پا روشنی وہی رہی۔ کیا عورت زمین کے ساتھ زیادہ وفادار ہے؟ جبکہ دوسری طرف سمرو بھی اپنے چھپر میں تنہا پڑا تھا۔ تو کیا وفا کا تعلق عورت یا مرد سے نہیں ہوتا بلکہ فرد کی انفرادیت سے ہوتا ہے۔
٭٭ عورت گوڈس ہے۔ دھرتی ماتا ہے۔ وہی فیصلے کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ پا روشنی تو زمین کا سمبل ہے۔ وہ تو کہیں جا ہی نہیں سکتی۔
وہ سوچ ہی نہیں سکتی کہ وہ اس سرزمین کو چھوڑ کر کہیں اور چلی جائے جہاں وہ دھرتی ماتا نہیں ہے۔ جو امید ہے وہ صرف پا روشنی کے پاس ہے۔ سمرو بھی ڈپریشن میں ہے۔ یا روشنی کی مٹھی میں چند دانے موجود ہیں۔ یہی امید ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ ان چند دانوں سے نئی زندگی شروع کی جا سکتی ہے۔ سمرو اور پا روشنی کے تعلق سے نسل آگے چلے گی اور بستی ویران نہیں ہو گی۔
٭ بہاؤ کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر رشید امجد نے تین سوال اٹھائے ہیں:
۱۔ کیا بہاؤ صرف اپنی جڑوں کی تلاش کا ایک تصوراتی تخیلاتی سفر ہے؟
۲۔ ہزاروں سال پہلے دریائے گھاگرا، جسے ویدوں نے سرسوتی بنا دیا تھا، کے کنارے پر آباد بستی کا نوحہ ہے؟
۳۔ تاریخ کے غیر تحریری ریکارڈ کو درست کرنے کی ایک تخلیقی کاوش ہے؟
٭٭ بہاؤ نوحہ نہیں ہے۔ یہ جڑوں کی تلاش بھی نہیں ہے۔ تلاش وہ کرتے ہیں جنھیں معلوم نہ ہو کہ ان کا ماضی کیا تھا۔ ان کے آباء و اجداد کون تھے۔ یہ روسیوں اور امریکیوں نے جڑوں کی تلاش کا رجحان پیدا کیا ہے جنھیں اپنے آبا کی خبر نہیں ہے۔ ہم تو تسلسل میں ہیں۔
اس سلسلے میں کہیں ابہام نہیں ہے کہ ہمارا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا تھا۔ یوں بہاؤ، جڑوں کی تلاش بھی نہیں ہے۔ بہاؤ لکھتے ہوئے میں نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی کہ مجھے کیا ثابت کرنا ہے۔ میں تاریخ اور تحقیق کے حوالے سے صرف اتنی تصحیح کرنا چاہتا تھا کہ ہمارے ہاں سندھ تک محدود کر دیا گیا ہے Indus Valley Civilization کو۔ جان مارشل بھی Indus Valley Civilization نہیں کہتا بلکہ ہڑپہ کہتا ہے۔ انڈس یا مؤہنجو ڈارو نہیں۔ چولستان پنجاب کا حصہ ہے لیکن تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر کے سب کچھ سندھ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ یہ سب لاعلمی کی وجہ سے ہوا۔
٭ ’’راکھ‘‘ پاکستان کی پچاس سالہ تاریخ ہے۔ آپ ان پچاس سالوں میں کس دور کو پاکستان کا سنہری دور کہہ سکتے ہیں۔ کیا اہلِ پاکستان، جشن طلائی منانے میں حق بجانب تھے؟
٭٭ کسی قسم کا جشن منانے میں حق بجانب نہیں ہیں۔ سنہری دور اتنی آسانی سے نہیں آ جاتا۔ سنہری دور کے لیے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ کسی ملک کی اقتصادی، سیاسی یا ثقافتی صورت حال کیا ہے۔ پھر ان میں سے کون سا شعبہ بہتر ہے۔ پاکستان میں تو کسی دور کو بھی کسی شعبے کو بھی بہتر نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے سنہری دور کی اصطلاح ہی بے معنی ہے۔ سنہری دور تو وہ ہوتا ہے کہ جب آپ پوری دنیا کو اقتصادی طور پر، سیاسی طور پر ادبی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ہم تو اپنا نام بھی نہیں دے سکتے۔ ہم تو اپنی شناخت بھی قائم نہیں کر سکتے۔ پھر دوسری بات یہ کہ کیا اس پچاس سالہ تاریخ سے ہم نے مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا ہے۔ اسے ابتدا ہی سے بنگلہ دیش کی حیثیت سے تسلیم کر رہے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ۱۹۷۱ء سے ۱۹۹۸ تک ہماری تاریخ تو چھبیس سال بنتی ہے۔ ہم ۲۶، ۲۷ سال کا جشن تو منا سکتے ہیں، پچاس سال کا نہیں۔
٭ راکھ کا ہیرو مشاہد، کہیں کہیں مستنصر معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً ً بچپن یا لڑکپن میں اور جوانی میں بھی کسی کسی مقام پر، آپ کیا کہیں گے؟
٭٭ مجھے یہ نقصان ہوا کہ بیشتر لوگ جو میرے قاری ہیں۔ میری زندگی سے بہت واقف ہیں۔ میڈیا کا بھی حصہ ہے۔ ادبی صفحات اتنی تفصیل سے ادیبوں شاعروں کے بارے میں کہنے لگے ہیں۔ کیا لکھ رہے ہیں یہ الگ بحث ہے، تو قاری میرے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ پھر سفرنامے اتنے لکھے ہیں جو آپ بیتیاں ہی ہیں تو پھر راکھ لکھتے ہوئے میں کہیں کہیں بھول گیا کہ میں ناول لکھ رہا ہوں، لیکن مشاہد بالکل مختلف شخص ہے مستنصر سے۔ مشاہد ایکٹو نہیں ہے۔ ری ایکٹ کرنا نہیں جانتا، جبکہ میرا کردار اس سے مختلف ہے۔ البتہ میرے بچپن کے تجربے اس میں آ گئے ہیں۔
٭ تارڑ منٹو کے محلے میں رہتا تھا یا منٹو تارڑ کے محلے میں؟
٭٭ تب میں تارڑ تھا ہی نہیں۔ میں تو ایک بچہ تھا۔ میں راکھ جیسے دس ناول اور بھی لکھ دوں تب بھی منٹو تک نہیں پہنچ سکتا۔ میں وہاں رہتا تھا۔ جہاں منٹو رہا کرتا تھا اور آئندہ بھی وہ منٹو کا ہی محلہ رہے گا۔
٭ منٹو اور مشاہد، شیرازی ہوٹل میں، منٹو کا مشاہد کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرنا پیسٹریوں کا لالچ دینا۔ وجہ ’’منٹو صاحب مختلف لوگوں کو دوست بناتے ہیں اور پھر کسی کمزور لمحے میں سنائی ہوئی زندگی کی کہانی کو ایک افسانے میں بدل دیتے ہیں۔ اور وہ افسانہ پچیس روپے میں فروخت ہوتا ہے ‘‘ ۔ انجام کار مشاہد کو منٹو سے بڑی شدید قسم کی نفرت ہو گئی۔ کیا یہ نفرت ہمیشہ قائم رہی، جبکہ منٹو اکثر کہا کرتے تھے: ’’صفیہ یہ مشاہد ہے۔ یہ اچھا بچہ ہے۔ ‘‘
٭٭ وہ نفرت بچے کاری ایکشن ہے۔ بچے کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب اسے اپنی والدہ اور والد سے بھی شدید نفرت ہونے لگتی ہے۔ منٹو کے ساتھ بھی یہی وقتی ری ایکشن ہے۔ وہ تو منٹو سے ہمیشہ سے محبت کرتا رہا ہے بلکہ پہلا انڈی کیشن ملا ہی منٹو سے تخلیق کا۔
٭ ؎ کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے۔ آپ غالب کے اس مصرع کے حصار میں ہیں۔ اس ناول کے علاوہ بھی اس نے آپ کے ذہن و دل کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ وجہ؟
٭٭ راکھ، بہاؤ کا تسلسل ہے۔ راکھ لکشمی مینشن شاہ عالمی کی عمارتوں سے اڑی اور ہمارے چہرے ڈھک گئے۔ ابھی اس کو پونچھ بھی نہ سکے تھے کہ مشرقی پاکستان کی راکھ نے پورے چہرے کو چھپا لیا۔ راکھ سمبل ہے تہذیب کے ختم ہونے کا۔ راکھ میں چنگاری ہوتی ہے۔ یعنی آس اور امید کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ۔ کسی نے کہا کہ یہ بربادی کا پیمبر ہے کہ ایسی پیش گوئی کرتا ہے۔ میں نے تو صرف خیال ظاہر کیا کہ پانی خشک ہو رہا ہے۔ بستی ویران ہو رہی ہے، لیکن امید ختم نہیں ہوئی۔ راکھ میں اظہار اور شوبھا کی شادی ہو جاتی ہے۔ اظہار مغربی پاکستان سے اور شوبھا مشرقی پاکستان کے حوالے سے۔ یعنی ہم تعلق ختم نہیں کر سکتے۔ اگر مشرقی پاکستان کو الگ کر دیں تو باقی کچھ نہیں رہ جاتا۔
٭ لاہور شہر کا مکمل تعارف، اس وقت کے لاہور کے افراد، ان کی پسند، ان کے مسائل، نوجوانوں کا اداکاروں، کھلاڑیوں کے انداز اپنانا، غرض لاہور اور اس کے باسیوں کا مکمل تعارف ہے۔ کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا نہیں ہوا۔
٭٭ ہمارے نثرنگاروں کے پاس تجربہ نہیں ہے۔ وہ زندگی سے اس طرح نہیں گزرے جیسے بیدی، کرشن، منٹو۔ اس لیے ان کی تحریر میں شدت نہیں ہے۔ کہانی بے شک مکمل ہو، لیکن جذبے کی شدت ہی اُسے بڑا بناتی ہے۔ ان کی تحریروں میں چار چفیرہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ شہر کی ڈسکرپشن نہیں ہے۔ ایک شہر ہے، وہ سیالکوٹ بھی ہو سکتا ہے شیخوپورہ بھی اور تربت بھی۔ اس کا کردار مال روڈ پر چلتا ہی نہیں۔ حقیقت پسندانہ کہانی میں بھی ہمارا جغرافیہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ جغرافیہ کے بغیر کہانی یا ناول ادھورا ہے۔ باہر کے ناول نویس ہیں، صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈبلن، ماسکو، لینن گراڈ، قاہرہ، استنبول کس کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔ ہمارا تو کوئی شہر واضح نہیں ہے۔ شہر بھی ایک کردار ہے اور اس کردار کے بغیر دوسرے کردار زندہ نہیں رہ سکتے۔ سیاسی، ثقافتی، سماجی، ادبی زندگی اس کردار سے ہے۔ انار کلی، بھاٹی کی دکانوں کھمبوں، ایک ایک جزئیات کا تذکرہ ہو کہ کردار واضح ہو کر سامنے آئے۔ فرانسیسی ناول ہنچ بیک آف نوٹرڈیم میں پورا پیرس مل جاتا ہے، اگر میرے ناول میں میرے شہر آ گئے ہیں تو یہ کردار کے حوالے سے آئے ہیں۔ شوبھا، کراچی میں نہ رہتی۔ کالیا اسلام آباد میں نہ رہتا۔ مشرقی پاکستان کا نام نہ لیتا تو میں اس کی علیحدگی کو کس طرح بیان کر سکتا ہوں۔ یہ بات کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ لاہور سے محبت کی بات ہی ہو سکتی ہے۔ اب میں نے لکھنؤ نہیں دیکھا تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں تہذیبی طور پر نا پختہ ہوں۔
٭ آپ طویل جملے لکھنے کے عادی ہیں۔ راکھ میں اکثر مقامات پر ایک جملہ، ایک پیراگراف میں سموتا ہے۔ کیا طویل جملے لکھنا اور اسے نبھانا مشکل نہیں ہے؟
٭٭ ہاں ! مجھے بھی اس بات کا احساس ہے۔ شاید سفر ناموں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ میں کسی لینڈ سکیپ کے متعلق لکھ رہا ہوں۔ وہ تصویر کسی ایک جگہ ختم نہیں ہوتی۔ درمیان میں جو چیزیں ہیں ہر ایک کا آپس میں تعلق ہے اور سب کے متعلق میں بتانا چاہتا ہوں۔ مثلاً اگر ہم انسانی احساسات کو بھی فقروں میں بانٹنے لگیں تو تسلسل نہیں رہے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ میری تحریر پڑھتے ہوئے جھٹکا نہ لگے۔ پڑھتے ہوئے ایک بہاؤ کا احساس ہو۔ اب یہ بات کہ طویل جملہ پڑھنا مشکل ہے تو لکھنا بھی مشکل ہے، لیکن اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو آسانی ہو جائے گی۔ یولیسس میں چھ چھ صفحے کا ایک جملہ ہے اُردو میں اس کا تجربہ کم ہوا ہے۔
٭ کہانی ہمیشہ زمانۂ ماضی میں کہی جاتی ہے لیکن آپ کی تحریر میں ماضی، بلکہ ماضی بعید کا شدید احساس ہے۔ بہاؤ کے ہر صفحہ بلکہ ہر سطر پر اس کا گہرا اثر ہے۔ حال میں رہتے ہوئے ماضی میں زیست کرنا ماضی میں زندہ رہنے والوں کے ساتھ سانس لینا ان کے دکھ سکھ میں ان کا ساتھ دینا مشکل نہیں لگا؟
٭٭ میں کچھ بھی تخلیق کر رہا ہوں میں اس ماحول میں رچنے بسنے کی کوشش کرتا ہوں۔ خود کو کردار کی جسمانی و نفسیاتی حالت میں ڈھلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ سفر نامہ ہی لیجیے اگر میں روز چھے گھنٹے لکھنے میں صرف کرتا ہوں۔ ایران کی سیاحت کے باب میں اگلے دن صرف دس منٹ لکھتا ہوں اور وہ باب ختم ہو جاتا ہے۔ اب مجھے ترکی کا سفر نامہ لکھنا شروع کرنا ہے لیکن اس روز میں ترکی کے سفر کے متعلق کچھ نہ لکھ سکوں گا۔ مجھے ایران سے اپنا تعلق توڑنے میں کچھ وقت لگے گا۔ بہاؤ کے لیے مجھے ماضی میں جانا تھا اور میں گیا اور میں اس ماضی سے اس طرح وابستہ ہوا کہ میرا حال سے رشتہ منقطع ہو گیا۔ میرا جدید عہد کے ساتھ رابطہ برائے نام رہ گیا۔ میں نے افسانے، ٹی وی، ڈرامے، سفرنامے کچھ نہیں لکھا۔ بہاؤ لکھنے کے بعد چار چھے ماہ لگے واپس دوبارہ آنے میں کیونکہ میں اس زمانے میں ان کرداروں کے ساتھ زندہ تھا، وہ کردار جو آج کے کرداروں سے مختلف تھے۔ تو مجھے پھر اس زندگی سے ناتا جوڑنے میں کچھ وقت لگا۔ ناول کے جب آخری دس بارہ صفحے لکھنے رہتے تھے، اس وقت میری پلاننگ یہ تھی کہ سو صفحے اور لکھوں گا میرے کردار میری پلاننگ کے مطابق چلتے رہتے تھے لیکن آخر میں وہ اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ میری گرفت سے نکل گئے۔ بعض مرتبہ وہ، وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جو میں کبھی نہ کہہ پاتا تو میری پلاننگ میں تھا کہ میں ابھی سو صفحے اور لکھوں گا لیکن دس بارہ صفحے بعد اچانک مجھے محسوس ہوا کہ ناول کو اب یہیں ختم ہو جانا چاہیے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بسا اوقات ایک بہترین کہانی کے اختتامیہ جملوں کے باعث کہانی کاساراحسن غارت ہو جاتا ہے، چنانچہ میں نے وہیں قلم ہاتھ سے رکھ دیا اب یہ سوال کہ ماضی میں رہنا مشکل نہیں لگا۔ نہیں بالکل نہیں لیکن ماضی سے واپس آنا مشکل لگا۔ اِس عہد کی چیزیں سیکھنے میں پھر وقت لگا۔
٭ راکھ آپ بیتی ہے، جگ بیتی ہے، ناول نہیں ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
٭٭ میں اصناف پر سختی سے کار بند نہیں رہتا۔ میری تحریر حقائق کا ایک سلسلہ ہے۔ میں نے سفر کیے، سفرنامہ لکھا۔ جب آپ پورے ایک عہد کو سمیٹ رہے ہیں تو پھر اس ناول میں آپ بیتی بھی موجود ہو گی اور جگ بیتی بھی۔ دنیا میں جتنے بھی اچھے ناول لکھے گئے ہیں، سبھی سیمی آٹو بائیو گرافکل ہیں۔ وہ ناول جس میں مصنف غائب ہو جس نے زندگی گزاری ہی نہیں ہے اس کا اثر معلوم۔ اگر مصنف نے زندگی گزاری ہے تو پھر وہ اپنے تجربوں کو سامنے رکھ کر لکھے گا۔ لیوٹالسٹائی کی وار اینڈ پیس 99% آپ بیتی ہے۔ دستورِیفسکی کی جواری اس کی آپ بیتی ہے۔ گارسیامارکیز نے اپنے ناول میں اپنے پورے خاندان کی تاریخ بیان کر دی ہے۔ ناول تو ہے ہی تجربوں، آپ بیتیوں اور جگ بیتیوں کا نام۔ کافکا کا ٹرائل یا فلابئیر کے مادام بواری میں مصنف کا پتہ نہیں چلتا لیکن جو ان کا اہم ناول ہو گا وہ سیمی آٹو بائیو گرافی ہی ہو گا۔ سمرسٹ ماہم، ہیمنگوے کے ناول سیمی آٹو بائیو گرافکل ہیں۔ نجیب محفوظ نے اپنی زندگی کے مکمل واقعات تحریر کر دیے۔ وہ تو سڑکوں، قہوے خانوں، کرداروں کے نام تک نہیں بدلتا۔ میرا خیال ہے کہ مصنف اپنے تجربے زیادہ کامیابی سے بیان کر سکتا ہے۔
٭ کچھ عرصہ پہلے تک افراد کے مخصوص نام یا یوں کہیے کہ عرف مشہور ہوا کرتے تھے ان میں مزاح تھا، تلخی نہ تھی۔ چھیڑخانی تھی حقارت نہ تھی۔ مثلاً بطخ، بکرا، لنگڑیاں، ہاتھی دانت وغیرہ کیا یہ بھی تعلق کا ایک انداز نہ تھا جس سے ہم آج محروم ہوتے جا رہے ہیں؟
٭٭ صدر رفیق تارڑ صاحب ہمارے عزیزوں میں سے ہیں۔ ان کے بھائی سلیم تارڑ خوبصورت اور جوان رعنا تھے۔ فنون کے دلدادہ تھے۔ میری پسندیدہ شخصیت تھے۔ میں ان کے ساتھ مغل بچہ کی طرح رہا کرتا تھا۔ وہ اب عمر رسیدہ ہو چکے ہیں۔ ایک دن ان کا فون آیا انھوں نے اس بات کی تعریف کی کہ میں نے اس عہد کو زندہ کیا جو ان کا عہد تھا۔ کہنے لگے تارڑ تُو نے اس عہد کو میرے لیے زندہ کر دیا ہے۔ خالد حسن نے بھی کہا کہ میں شکر گزار ہوں کہ ۵۰ کے عہد کو تم نے کیپچر کیا۔ میں اس عہد کو معصومیت کا عہد کہتا ہوں۔ یہ وہ دور تھا کہ فلمیں معصوم، موسیقی معصوم، حتیٰ کہ گناہ بھی معصوم تھے، جو کہا جاتا تھا معصومیت سے کہا جاتا تھا اب یہی عرفیت کو لے لیجیے۔ ہم نے سب کے نام رکھے ہوئے تھے لیکن براہ راست کبھی اس شخصیت کے سامنے نہ کہتے تھے۔ آپس میں اکٹھے ہوتے تو عرف ہی سے ان کا ذکر کرتے۔ بے عزتی کا تصور بھی نہ تھا۔ سبھی کچھ معصومیت سے ہوتا تھا۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے۔ حلقۂ اربابِ ذوق والے ’’ یوم منٹو ‘‘ منا رہے تھے۔ صفیہ آپا صدارت کر رہی تھیں۔ میں نے ’’ مینشن کا منٹو‘‘ خاکہ پڑھا۔ بچپن کی کچھ باتیں بھی اس میں آ گئی تھیں۔ صفیہ آپا کسی سطر پر ہنستی تھیں کسی پر روتی تھیں۔ انھوں نے مجھے بہت پیار کیا۔ کہنے لگیں، مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ یہ تم لڑکے تھے جو شرارتیں کرتے تھے۔ کبھی گملے اٹھا کر ادھر کر دیے، کبھی ادھر رکھ دیے۔ وہ معصومیت کا دور تھا۔ مذاق کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا۔ ہندو، مسلم، کرسچن، مرزئی، شیعہ، پارسی سبھی وہاں رہتے تھے ہمیں کبھی احساس نہ ہوا تھا کہ ہم میں فرق ہے یا ایک دوسرے سے اجتناب برتنا ہے۔ کرسمس پر والدہ تحائف بھیجتی تھیں۔ نو روز پرپارسیوں کے ہاں تحفے جاتے تھے لیکن افسوس کہ اب ہم سیانے ہو گئے ہیں۔ فراخدلی انسانیت کی دلیل تھی اب ہم جانور ہوتے جا رہے ہیں۔
٭ ایک تاثر یہ قائم تھا کہ آپ کے نزدیک حج فرد کا ذاتی رابطہ ہے جو اس کے اور رب کے درمیان ہے۔ اس میں کسی دوسرے کو شریک کر کے اس معاملے کو سب پر عیاں کرنا مناسب نہیں۔ آپ کے تازہ سفر نامے ’’منہ ول کعبہ شریف ‘‘ اور ’’غارِ حرا میں ایک رات ‘‘ کی تخلیق و اشاعت کے پس منظر میں کون سا جذبہ کار فرما تھا؟
٭٭ بنیادی طور پر میرا اس سفر کو احاطۂ تحریر میں لانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ ایک سبب تو یہ تھا کہ ’’تقدس ‘‘ کے اصل معنی و مفاہیم شاید، کثرتِ استعمال کے باعث اپنی وقعت و اہمیت کھو چکے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مجھ سے وہ کچھ نہ ہوا جو مجھ سے متوقع ہے تو لوگ مجھے پھانسی چڑھا دیں گے اور اگر کچھ نہ ہوا، کوئی روحانی بیداری کی لہر میرے جسم و جاں کو اپنی گرفت میں نہ لے سکی جبکہ اس سفر کا تقاضا تھا کہ ایسا ہو اور حقیقت میں ایسا کچھ ہوا بھی نہیں تو پھر میں اس مذہبی معاملے میں غلط بیانی کیوں کروں۔ دنیاوی فائدے کے سبب یہ مجھ سے نہ ہو گا۔
میرے نظریے کی تبدیلی کا سبب علی شر یعنی کی کتاب ’’حج‘‘ بنی۔ اس کے مطالعے نے میری رہنمائی بھی بہت کی۔ کتاب میں ایک مقام پروہ لکھتے ہیں کہ انسان کا اصل حج تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے قبیلے میں اپنے لوگوں میں واپس آتا ہے۔ وہاں کے ایک ایک لمحے کی تفصیل اس کے لوگ اس سے سننا چاہتے ہیں، ایسے میں وہ جس کیفیت اور احساس سے گزرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا اصل حج تو یہ ہے۔ میں بھی جب سفر نامہ لکھتا ہوں تو پورا سفر Reliveکرتا ہوں۔ وہ ناگا پربت کا کوئی گلیشئر ہو۔ نیپال نگری کا کوئی مندر ہو، پیار کا پہلا شہر کا کوئی سٹیشن ہو۔ کے ٹو کہانی کا ڈاکیا محمد علی ہو۔ غرض کوئی بھی کردار ہو یا منظر، میں اس سے دوبارہ ملتا ہوں۔ میں اس لمحہ میں ایک مرتبہ پھر جیتا ہوں اور جب اس ایک لمحہ کو لکھنے لگتا ہوں تو وہ دو گھنٹے پر محیط ہو جاتا ہے۔ غارِ حرا میں، میں ایک رات رہا لیکن لکھنے میں ایک سال لگا، جو ۲۹۶صفحات پر محیط ہے اور مجھے یہ لگا کہ میں وہاں ایک رات نہیں ایک سال رہا تو یہ میرا اثبات ہے۔
٭ آپ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں شمال کے پتھروں پرسیکڑوں صفحات لکھ سکتا ہوں تو غارِ حرا کے پتھروں اور حجرِ اسود کے بارے میں کیا کچھ نہ لکھ جاؤں گا؟
٭٭ مجھ میں صلاحیت تھی، اس لیے میں نے ایسا کہا۔
٭ کیا آپ نے حج پر جانے سے پہلے حج کے سفر نامے پڑھے؟
٭٭ نہیں !بالکل نہیں، میں اپنا حج کرنا چاہتا تھا۔ اپنے جذبہ واحساس کے ساتھ حج پر جانا چاہتا تھا۔ مجھے دوسروں کی نظر سے ان مقامات کو نہیں دیکھنا تھا۔ دوسروں کے دل سے اسے محسوس نہیں کرنا تھا۔ ہاں سیرۃ النبی سے متعلق کتابیں سال بھر میرے مطالعے میں رہیں۔
٭ ابھی آپ نے علی شریعتی کے سفرنامہ حج کا ذکر کیا ہے؟
٭٭ ہاں !وہ کتاب میں نے پڑھی۔ اس کے مطالعے نے میری ذہنی و قلبی کشادگی میں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سی گرہیں سلجھائیں۔ نومسلم رچرڈ برٹن سراج الدین ابو بکر کا الف لیلہ کے علاوہ ایک اور اہم کارنامہ اس کا سفر نامۂ حج ہے جو اس نے ایک افغان کے روپ میں کیا۔ A pilgrimage to Mecca and Madina اس کا مطالعہ کیجیے تو اندازہ ہو گا کہ اس نے جتنی تفصیل مسجد نبوی کے بارے میں لکھی ہے۔ وہ کسی مسلمان مصنف کے ہاں بھی شاید نہیں ملے گی۔
٭ تخلیقی مصروفیات…؟
٭٭ ایک سفر نامہ ’’ الاسکا ہائی وے ‘‘ اشاعت کے مراحل میں ہے۔ دو ایک کالموں کی کتابیں بھی تیار ہیں۔ ایک ناول پر کام کر رہا ہوں۔
٭ ناول کا نام…؟
٭٭ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتالیکن جس پر دل و دماغ متفق ہو رہے ہیں وہ ’’ جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے …‘‘
مکالمہ خاصا طویل ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کی تصانیف نکلے تیری تلاش میں۔ اندلس میں اجنبی۔ خانہ بدوش۔ ہنزہ داستان۔ ناگا پربت۔ سفر شمال کے۔ کے ٹو کہانی۔ یاک سرائے۔ سنولیک۔ دیوسائی۔ برفیلی بلندیاں۔ چترال داستان۔ رتی گلی۔ بہاؤ۔ راکھ۔ قربت مرگ میں محبت۔ ڈاکیا اور جولاہا۔ قلعہ جنگی۔ پیار کا پہلا شہر۔ جپسی۔ دیس ہوئے پردیس۔ نیپال نگری۔ پرندے۔ پکھیرو۔ کارواں سرائے۔ ہزاروں ہیں شکوے۔ پرواز۔ مورت۔ کیلاش۔ گزارا نہیں ہوتا۔ چِک چُک۔ اُلو ہمارے بھائی ہیں۔ سنہری اُلو کا شہر۔ شہیر ہزاروں راستے۔ سیاہ آنکھ میں تصویر۔ سورج کے ساتھ ساتھ۔ شمشال بے مثال۔ شتر مرغ ریاست۔ پُتلی پیکنگ کی۔ بے عزتی خراب۔ گدھے ہمارے بھائی ہیں۔ برفیلی بلندیاں۔ غارِ حرا میں ایک رات۔ منہ ول کعبہ شریف۔ خس و خاشاک زمانے …………جو سفر ناموں، ناول، افسانے، ڈرامے، کالم اور فکاہی ادب پر مشتمل ہیں، بیشتر پر بات نہ ہو سکی۔
٭٭٭
گلوں میں رنگ بھرے
مشتاق حمد یوسفی … جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
مشتاق احمد یوسفی
آب گم ۱۹۹۳ میں پڑھی۔ پڑھی نہ گئی۔ مشکل لگی۔ بور تھی یا کیا وجہ تھی یاد نہیں۔ بس پڑھی نہیں گئی۔ اب سوچتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے میں مشغول تھی اور خود پر یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ اس کام کے دوران میں نہ تو غیر متعلق کچھ پڑھوں گی نہ لکھوں گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنے پسندیدہ مصنف کی کتاب لے تو آئی لیکن جب پڑھانا چاہا تو ذہن پر چونکہ تھیسس سوار تھا اس لیے پڑھا نہ گیا۔ مقالہ مکمل ہوا۔ وائیوا ہوا، ڈگری مل گئی اور ایک دن اچانک آب گم میرے ہاتھ لگی۔ اب اسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں اکیلے ہی بیٹھے بیٹھے زور زور سے ہنسنے لگتی ہوں اور کبھی یوں لگتا کہ شدت غم سے میری آنکھیں نم ہی نہیں ہو رہیں بلکہ آنسو میرے چہرے کو بھگو رہے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن کسی بھی صاحب ذوق سے بلکہ تھوڑی سی بھی ادب سے دلچسپی رکھنے والی شخصیت سے بات ہوتی ہے تو بن مانگے ہی مشورہ دے دیتی ہوں ’’آب گم‘‘ پڑھو، یہ کتاب تو ہر گھر میں ہونی چاہے۔ ہر ایک کو پڑھنا چاہے۔
غالباً۲۰۰۴ء میں فیڈرل ڈائریکٹورٹ آف ایجوکیشن اسلام آباد کی جانب سے لیکچر کی اسامی پر تقرری کے لیے انٹرویوز ہو رہے تھے۔ میں سبجیکٹ اسپیشلسٹ کے طور پر موجود تھی۔ سیکریٹری ایجوکیشن۔ فیڈرل ڈائریکٹورٹ کے ڈی جی۔ اور ایک اور اہم سرکاری عہدے دار انٹرویو بورڈ کے پینل میں شامل تھے۔ ایف ڈی ای کے ڈائریکٹر جنرل ہر آنے والے اردو لکچرار امیدوار سے دریائے سندھ کہاں سے نکلتا ہے؟ دنیا میں ممالک کی تعداد کتنی ہے؟اور آبِ گم ناول کس نے لکھا، سوال ضرور پوچھتے تھے۔ کوئی جواب دے دیتا۔ بیشتر خاموش ہو جاتے جب امیدوار سے سوال کرنے کی میری باری آئی۔ میں نے پوچھا آبِ گم رپورتاژ کس نے لکھا ہے یا اِس کا موضوع کیا ہے۔ شکر ہے اُنہیں جلد ہی اِحساس ہو گیا۔ اب ہر آنے والے سے سوال یوں کیا جاتا۔ آب گم مشہور رپورتاژ ہے آپ اس کے مصنف کا نام بتائیں۔ اس دوران کہیں میرے منہ سے نکل گیا کہ آبِ گم بہت زبردست کتاب ہے۔ میں اپنے تمام طالبِ علموں سے کہتی ہوں کہ اس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ ہر ایک کو کرنا چاہیے اور بار بار کرنا چاہیے۔ یہ لائبریری سے لے کر پڑھنے والی کتاب نہیں ہے اسے ہر گھر میں ہونا چاہیے۔ سیکریٹری صاحب نے میری بات سنی جواب میں کچھ نہ کہا بلکہ کال بیل دبا دی۔ آنے والے صاحب کو ایک چٹ پکڑا دی۔ دس منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ وہ صاحب آبِ گم لیے داخل ہوے۔ اب باقی ماندہ اُمید واروں سے ہم نبٹ رہے ہیں اور سکریٹری صاحب اس کے مطالعے میں دنیا و ما فیہا سے بے خبرگم ہیں۔ کبھی مسکراہٹ، کبھی ہنسی، کبھی چہرہ ایسا کہ جیسے شکستوں سے چُور۔ ہم سب نے اُنہیں اُن کی دُنیا میں محو رہنے دیا۔ صرف اس وقت اُنہیں اطلاع دینا ضروری تھا کہ انٹرویو ختم ہو گئے ہیں، اس لیے اب محفل برخاست کی جاتی ہے۔
میں نے مکالموں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ رشید امجد، منشا یاد، احمد ندیم قاسمی، محسن بھوپالی، عذرا صغر، نیلوفر اقبال، خالدہ حسین، رشید نثار، فتح محمد ملک، احمد فراز، مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر انوار زاہدی وغیرہ وغیرہ۔ خواہش تھی کہ اس فہرست میں مشتاق احمد یوسفی بھی شامل ہو جائیں تو مکالموں پر مشتمل اس کتاب کی توقیر میں اضافہ ہو جائے۔ فون پران سے سرسری سی اجازت لے کر میں نے سوالنامہ تیار کیا، جس میں مجھے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے کہ مجھے کچھ بھی لکھنے کے لیے بہت پڑھنا پڑتا ہے۔
سوال نامہ تیار ہوا۔ کراچی گئی۔ انھیں فون کیا۔ ملاقات کے لیے کہا۔ انھوں نے کہا پیر کو پانچ بجے آ جائیے۔ میری بیوقوفی دیکھیے کہہ بیٹھی۔ مکالمے کے لیے سوالنامہ بھی لیتی آؤں گی تو کہنے لگے۔ انٹرویو تو میں دیتا نہیں۔ اُنیس سال ہو گئے میرا انٹرویو کیا آپ نے کہیں دیکھا۔ جو باتیں کہنی تھیں وہ میں آصف فرخی اور شفیع عقیل کو کہہ چکا۔ اب کچھ باقی نہیں رہا۔ آپ ملاقات کے لیے ضرور تشریف لائیے۔ مکالمہ نہیں ہو گا۔
میری مزید بیوقوفی کہ میں پیر کو گئی ہی نہیں۔ فون کر دیا کہ آنہ سکوں گی۔ اسلام آ باد آ کر پچھتاوا ہوا کہ مکالمہ نہ سہی، ملاقات کے لیے مجھے جانا چاہیے تھا۔
۲۰۰۸ء میں حفیظ ہو شیار پوری پر میرا پی۔ ایچ۔ ڈی کا تھیسس ’’بے زبانی زباں نہ ہو جائے ‘‘ کے عنوان سے اُردو اکیڈمی سندھ سے شائع ہوا صہیب حفیظ کی اور میری بھی خواہش تھی کہ یوسفی صاحب کو بھی کتاب بھجوا دی جائے۔ اُردو اکیڈمی کے عزیز خالد صاحب سے کہا کہ اُنھیں کتاب بھجوا دیں، پھر بھی یہی احتمال رہا کہ کتاب اُنھوں نے بھجوائی یا نہیں، میں نے بھی رجسٹرڈ پوسٹ کر دی۔
۲۰۰۸ میں کراچی جانا ہوا۔ یوسفی صاحب سے بات ہوئی۔ ملاقات کے لیے وقت دیا۔ میں جاوید بھائی اور ثروت باجی پہنچے۔ کتاب ’’دسترس میں آسمان‘‘ ، ’’سفر نامہ حج‘‘ پیش کی۔ حفیظ سے متعلق کتاب کی بات کی۔ اُنھوں نے کہا کہ آپ والی کتاب مجھے ملی نہ عزیز خالد والی کتاب دیکھی۔ میں نے کہا کہ میں ایک اور آپ کو دے دیتی ہوں۔ کہنے لگے نہیں رہنے دیں۔ دو طالبات آئیں تھیں۔ وہ کچھ کام کر رہی ہیں ہم پر۔ اُنھوں نے بکھری ہوئی کتابوں کو ڈبوں میں بند کر دیا ہے۔ آپ کی کتابیں بھی یقیناً گھر میں موجود ہوں گی۔ میں دیکھ لوں گا۔
میں نے اُنھیں یاد دلایا کہ آپ نے پچھلی مرتبہ سوالنامہ لانے سے منع کیا تھا۔ اب میں خالی ہاتھ آ گئی ہوں۔ کہنے لگے انٹرویو میں کیا ہوتا ہے۔ کیا پسند ہے۔ تو اب میں اُنھیں کیا بتاؤں کہ کھانے میں کیا پسند کرتا ہوں اور پہننے میں کیا…میں نے کہا کہ آپ نے میرا سوالنامہ نہیں دیکھا۔ اگر آپ کو ایسے سوالات نظر آئیں تو آپ بے شک جواب نہ دیں۔ مجھے اب محسوس ہوا کہ وہ کچھ کچھ رضامند ہیں۔ کشفی صاحب کا ذکر ہوا تو کہنے لگے وہ ہمارا آدمی نہ تھا وہ ادب سے ہٹ کر مذہب کی طرف نکل گیا۔ اس کی ساری تصانیف دیکھیے مذہب کے دائرے کے گرد گھومتی ہیں۔ وہ ایک اچھا اُستاد، ایک اچھا محقق تھا، تخلیق کار تھا لیکن اُس نے اپنا میدان بدل لیا۔ ملک کی دگر گوں صورتِ حال پر گفتگو ہوتی رہی۔ وہ بہت فکر مند تھے۔ اِسلام آباد آ کر میں نے اِن سے سوالنامہ ارسال کرنے کی اجازت چاہی۔ نیم رضا مندی محسوس کر کے میں نے اِسلام آباد سے اُنھیں سوالنامہ بھیج دیا۔ کچھ دنوں بعد فون کیا کہنے لگے میں بیمار ہوں۔ میرے لیے اُن کے سوالوں کا جواب لکھنا مشکل ہو گا۔ میں نے کہا، کشفی صاحب نے بھی اپنے شاگرد عزیز الرحمن کو جوابات املا کرا دیے تھے، آپ بھی کسی کو بولتے جائیں۔ وہ لکھتا جائے گا۔ کہنے لگے کشفی صاحب استاد آدمی ہیں میرا تو کسی گنتی میں شمار نہیں۔ میرے لیے کون لکھنے آئے گا۔ میں نے کہا، پھر میں ہی لکھتی جاؤں گی۔ آپ بتائیں کس دن فون کروں۔ کہنے لگے ابھی تو طبعیت ٹھیک نہیں رہتی۔ تین چار دن بعد۔ دو ایک مرتبہ فون کیا، بات اگلی دفعہ پر اُٹھا رکھی۔ پھر رابطہ کیا، خیریت پوچھی، کہنے لگے، تین ہفتوں کے بعد اب بہتر ہوں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ مکالمے کی بات کی جو وہ بھول چکے تھے۔ کہنے لگے میں تو انٹرویو دیتا ہی نہیں۔ جو باتیں کہنا چاہتا تھا کہہ چکا ہوں۔ انہیں میں کیا دہراؤں۔ پھر اللہ نے ہر سانحے حادثے سے محفوظ رکھا۔ کسی کے گرد ہنگامہ ہاؤ ہو، ہو تو اس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اب کچھ نہیں ہے۔ ہمیں جو کچھ کہنا تھا زرگزشت میں لکھ چکا ہوں۔ اب وہی سوالوں کے کیا جواب دہراؤں۔
میں نے کہا کہ شاید آپ نے میرا سوالنامہ نہیں دیکھا۔ کہنے لگے۔ پڑھا تھا۔ وہ تو بہت ہی پروفیسرانہ قسم کا سوالنامہ تھا…کیا ہے؟ تو بھئی ایسے سوالوں کے جواب ہمیں نہیں آتے …میں نے کہا ضروری تو نہیں کہا آپ ہر سوال کا جواب دیں۔ دوسرے کا دے لیتے۔ کہنے لگے۔ دوسرا بھی ایسا ہی تھا۔
میں نے کہا کہ آپ نے اُمید بندھائی تھی۔ یہاں میں نے، ہر چند کہ میں مکمل خاموشی سے کام کرتی ہوں۔ دو ایک اہم مقامات پر یہ بات کہہ دی کہ یوسفی صاحب سے مکالمہ کی اُمید ہے۔ سبھی یہ سن کر خوش ہوئے اور منتظر بھی۔ اب میں اُنھیں کیسے مُنہ دکھاؤں گی۔ کہنے لگے۔ مُنہ چھپائے تو ہم بیٹھے ہیں سالوں سے۔ ہم نے تو اتنے عرصے سے کچھ لکھا بھی نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ درست کہتے ہیں۔ یہاں لکھنے والے ایسے بھی ہیں کہ جن کے شعری مجموعے ایک سال میں ہی دس پندرہ آ جاتے ہیں۔ اتنی رفتار سے تو کمپیوٹر بھی کام نہیں کرتا…بہرحال میں نے اُنہیں کہا کہ آپ نے مجھے مایوس تو کیا ہے لیکن میں کبھی نا امید نہیں ہوتی۔ مجھے یہ اُمید بھی ہے کہ اپنے ڈبوں میں بند میری کتاب ’’ بے زبانی زباں نہ ہو جائے، حفیظ ہوشیار پوری‘‘ ضرور کھولیں گے۔ میں اس کتاب کی سی ڈی پنجاب یونیورسٹی کے لیے تیار کر رہی ہوں۔ بس چاہتی ہوں کہ فٹا فٹ یہ کام ہو جائے لیکن کام تو اپنی مدت لیتا ہے فٹا فٹ نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگے ہمارا سسٹم جس سپیڈ میں کام کر رہا ہے اُسے کرنے دیا جاتا۔ سسٹم خود اپنی رفتار متعین کر لیتا ہے۔ اس کا غم نہیں کرنا چاہیے کہ کام کی رفتار کم ہے۔ جتنا ہو اچھا ہو۔ موضوع کے مطابق ہو۔ یہی بہتر ہے۔
میں نے کہا حفیظ سے آپ کی دوستی تھی۔ اُن کے بارے میں فی البدیہہ تاریخ گوئی کے بارے میں کچھ یاد ہو تو لکھیے۔ کہنے لگے۔ حافظہ اچھا نہیں ہے۔ کام کی باتیں یاد نہیں رہتیں۔ میرے ابن حسن برنی سے مراسم تھے۔ ان کے گھر دو چار ملاقاتیں ہوئیں۔ اس وقت وہ بیمار تھے … بہرحال کوشش کروں گا، کچھ یاد کرنے کی اور اگر کچھ لکھا گیا تو آپ کو ضرور بھجوا دوں گا۔
یوسفی صاحب حفیظ کے بارے میں کچھ بھیجیں یا نہ بھیجیں، میرے لیے یہ اعزاز بھی کم نہیں کہ میں بھی عہد یوسفی میں زندہ ہوں۔
آخری کوشش، لیکن کسی حد تک کامیاب، میرے لیے یہ تھوڑی سی کامیابی بھی بہت معنی رکھتی ہے، نو دو گیارہ، یعنی نو فروری ۲۰۱۱ء شام سات بجے اللہ نے ایک موقع فراہم کر ہی دیا اور کراچی کاسفر جس نیت سے کیا تھا، اس کی لاج رکھ لی۔ حال احوال دریافت کیا فرمایا اس بڑھاپے میں اس کا جواب سوائے الحمد اللہ کے کیا ہو سکتا ہے، سو وہی جواب پیش کر سکتا ہوں۔ انعامات و اعزازات کی مبارک باد پیش کی جواب میں میرا انٹرویو لینا شروع ہو گئے … آپ یہ بتائیے کہ آپ کب آئیں اور کب جا رہی ہیں، بتایا کہ دو چار روز ہوئے، آئے ہوئے اور اتنے ہی روز ہو گئے آپ سے بات کرنے کی ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہ اس مرتبہ تاب انکار سہنے کا یارا نہیں … پندرہ کو واپس جا رہی ہوں۔ کہنے لگے، ’’اللہ کے ہاں آپ کی دعا مستجاب ہوئی۔ بارہ کو لاہور جا رہا ہوں، چودہ کو اسلام آباد اور پندرہ کو واپسی …آپ آج کل کیا لکھ پڑھ رہی ہیں، میری کم مائگی میں آنکھیں بھی شامل ہیں، تین مرتبہ اس سلسلے میں لندن بھی جا چکا ہوں اگست میں بھی گیا تھا، تب سے لکھنا پڑھنا مزید موقوف ہو گیا ہے کچھ پتا نہیں ادب کا منظر نامہ کیا رخ دکھا رہا ہے۔ ‘‘
میں خوش تھی کہ چلیں مکالمے کا سلسلہ شروع تو ہوا، میں نہ سہی وہی مجھ سے بات چیت کر تو رہے ہیں۔ کچھ ادھر ادھر کے کاموں کی مختصر ’’تفصیل‘‘ سنائی… اور یوں مکالمے کا آغاز ہوا۔
٭ آپ کہتے ہیں کہ مجھے قومی زبان سیکھنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑی یہ صرف شوق ہی تھا کہ جس نے آپ کو اردو اور کلاسیکی اور جدید ادب سے یوں روشناس کرایا کہ آپ کی تحریر کے مطالعے کا صحیح حظ اٹھانے کے لیے قاری کا وسیع المطالعہ اور فارسی اور اردو ادب سے کماحقہ واقف ہونا ضروری ہے …کچھ روداد اس دور کی کہیے کہ جب اردو کی محبت نے پہلے پہل آپ کے دل میں جنم لیا۔
٭٭ پہلے فارسی کی روداد سن لیجیے ! چوتھی جماعت میں فارسی کا انتخاب کیا۔ پہلے ہی ہفتے بھاگ کھڑا ہوا اور ڈرائنگ میں پناہ لی لیکن وہ بھی اتنی ہی خراب تھی جتنی کہ فارسی ہوتی، لیکن میں محسوس کرنے لگا کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر فارسی کے الفاظ میری تحریروں میں آنے لگے، شاید اپنی کم علمی چھپانے کے لیے۔ میری مادری زبان مارواڑی ہے۔ اردو اور مارواڑی کے تال میل سے جس زبان نے جنم لیا وہ ہماری زبان تھی ۔ اردو کے استاد ہماری اس زبان سے بہت آزردہ خاطر رہا کرتے، ان کی پریشانی دیکھ کر دل میں ٹھان لی کہ ہم اردو زبان میں کچھ کر کے دکھائیں گے، چند ایک مضامین اور افسانے لکھے جو چھپ گئے، مزاحیہ ادب سے خصوصی دلچسپی تھی، شفیق الرحمن کو پڑھا تو خیال آیا کہ اس پائے کا لکھنا اپنے بس کی بات نہیں، چنانچہ مزاح کو بھاری پتھر سمجھ کر کچھ عرصے تک اس سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔
پانچ سات سال ایسے ہی گزر گئے پھر سوچا کہ شفیق الرحمان کی طرح نہ سہی، اپنی طرح تو میں لکھ سکتا ہوں، یوں ہم نے لکھنا شروع کر دیا، چھپنے لگے، کچھ پہچان بھی بن گئی۔
٭ شفیق الرحمن کے علاوہ کوئی اور اعلیٰ پائے کا مزاح نگار؟
٭٭ پطرس بخاری، وہ اردو کے پہلے اور آخری مزاح نگار ہیں۔ جدید مزاح کا آغاز اور اختتام انہی کے ساتھ ہوا۔
٭ عصرِ حاضر کے کسی نامور تخلیق کار سے آج کے ادب کے اہم نام پوچھیں تووہ قاسمی صاحب کا نام لے گا یا یوسفی کا۔ اس مقام تک پہنچنے کی داستان دل خوش کن ہے یا دل گداز۔ تقدیر کا دخل زیادہ ہے یا تدبیر کا؟
٭٭ میں نے مقام کے بارے میں کبھی سوچا نہ تردد کیا اصل چیز یہ ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ محنت کے ساتھ پیش کرے، صلہ و ستائش بے معنی باتیں ہیں، میں نے اکتالیس سال اس پیشے میں گزار دیے جس سے مزاج کی مناسبت ہی نہ تھی اور انتہائی کامیابی سے گزارے، جہاں تک لکھنے لکھانے کا تعلق ہے وہ تو عشق و عاشقی کا معاملہ ہے، اگر ادب میں کوئی مقام بنتا ہے تو میری خوش نصیبی اور صورت حال بر عکس ہے تو گلے کا حق نہیں۔ جو کچھ لکھا، محنت سے لکھا، جینیئس ہونے کا قائل نہیں، اگر آپ میں کوئی جوہر ہے تو خدا داد ہے، اس میں آپ کا کیا کمال، ادب اور پیشے میں کامیابی کا سارا کریڈٹ محنت کو دیتا ہوں، یہی حقیقت ہے۔
٭ محمد خالد اختر کے ناول ’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘ اور آپ کے رپورتاژ ’’آبِ گم ‘‘ میں کئی مقامات پر مماثلت نظر آتی ہے، بات ایبی سینیا لائن کی ہو یا لالوکھیت کی… غریبوں کے دکھ سکھ بلکہ دکھ ہی دکھ ایک سے ہوتے ہیں؟
٭٭ میں محمد خالد اختر سے متاثر نہیں ہوں، ان کا دوسرا لب و لہجہ ہے۔ چاکیواڑہ میں وصال کی فیض نے بہت تعریف کی ہے لیکن میں اس سے متاثر نہیں ہوں۔ اگر اس کی تعریف کرتا بھی ہوں تو اس لیے کہ اس نے انگلش ایکسنٹ کو ڈھالا ہے۔ میں نے یہ کتاب پوری نہیں پڑھی۔ ان کا قائل ہوں شفیق الرحمان کے بعد ان کا ہی نام آتا ہے۔
٭ مزاح آنسوؤں کی پیدا وار ہے یا قہقہوں کی؟
٭٭ وہی پروفیسروں والا سوال…
٭ مزاح کے مقابلے میں طنزیہ ادب کم لکھا جا رہا ہے یا آپ کی رائے اس کے برعکس ہے؟
٭٭ میں سمجھتا ہوں کہ مزاح کم لکھا جا رہا ہے، طنز زیادہ سامنے آ رہا ہے۔ مزاح طنز سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ انگریزی میں satire اورhumour الگ الگ اصناف ہیں، اردو میں انھیں ایک ہی صنف سمجھا جاتا ہے، کسی اور زبان میں ایسا نہیں ہے۔
٭ کیا دھیرج گنج کے مشاعرے کی ڈرامائی تشکیل کی اجازت …آپ ٹی وی والوں کو دینا چاہیں گے یا آپ کے خیال میں وہ اس کے اہل نہیں، جو حشر انھوں نے شفیق الرحمن کی تحریروں یا محمد خالد اختر کے چچا عبدالباقی کے ساتھ کیا ہے، وہی حال اس کا کریں گے؟
٭٭ کچھ چیزیں پڑھنے کے لیے لکھی جاتی ہیں آپ اسے ویژیو لائز نہیں کر سکتے۔ یہ ٹی وی کی چیز نہیں ہے اگر اسے عکس بند کیا جاتا ہے تو وہ کوئی مختلف چیز ہو گی، ہماری کوئی بھی تحریر اس لائق نہیں کہ اسے ٹی وی پر پیش کیا جا سکے، اسے تو پڑھ کر ہی مزا لیا جا سکتا ہے اور یہی بہت ہے۔
٭ زر گذشت میں آپ تحریر کرتے ہیں کہ یہ سرگذشت عام آدمی کی کہانی ہے جس پر الحمد اللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں۔ ایک ایسے آدمی کے شب و روز کا احوال جو ہیرو تو کجا اینٹی ہیرو ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا … یا آپ کے پیش نظر یہ احتمال رہا کہ آدمی اپنی بڑائی خود کرے تو خود ستائی کہلائے گی اور از راہِ کسر نفسی اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو لوگ جھٹ یقین کر لیں گے۔
٭٭ یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرٹ کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا اگر کسی میں کوئی صلاحیت ہے تو اس کا اعتراف ضرور کیا جائے گا، ہاں اس میں دیر ہو سکتی ہے، لیکن اگر کسی میں جوہر ہی نہیں، لیاقت ہی نہیں تو حصولِ شہرت کے وہ جتنے طریقے چاہے آزما لے، نتیجہ معلوم۔ جائز شہرت بسا اوقات مرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے، یہ زیادتی ہے۔
٭ مشتاق احمد یوسفی نہ ہوتے تو بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنف بٹ صاحب کا وجود بھی نہ ہوتا۔ آپ کی رائے؟
٭٭ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت ذہین آدمی ہیں، بڑا اچھا فقرہ تراشتے ہیں۔ انھیں اتنا لکھنا پڑتا ہے کہ دوسروں سے کچھ مدد لینی پڑ جاتی ہے، وہ لا پروا انسان نہیں ہیں، اگر یہ کوئی مسئلہ ہے تو ان کا ہے، ہمارا نہیں ہے۔
٭ لکھنے کے لیے آپ کو کیسا ماحول درکار ہوتا ہے؟
٭٭ بے حد خاموشی، پرسکون فضا، صاف ستھرا ماحول، میز کرسی، ضرورت کی ہر چیز مہیا ہو… بھئی ایسے ماحول میں ہم ایک جملہ نہیں لکھ سکتے، ارد گرد بچوں کا شور، بیوی کے مسئلے، فون کی گھنٹیاں، پھر اردو لکھیں گے تو فرش پر بیٹھ کر، میز کرسی پر بیٹھ کر اردو ہم سے کبھی لکھی نہیں گئی۔
٭ میں اس بات سے بہت خوش ہوں کہ آپ کے عہد میں زندہ ہوں، آپ سے بات کر رہی ہوں …
٭٭ کسی کے جانے سے کوئی خلا پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا بھی ہے تو دو گز زمین میں ہوتا ہے اور پر ہو جاتا ہے۔ لوگ آتے رہیں گے جاتے رہیں گے۔ زندگی یونہی چلتی رہے گی۔ ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا۔
٭٭٭
حسرتوں کا مری شمار نہیں
سہیل احمد خان … وہ جلدی میں تھا
وزیر آغا … زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں
ڈاکٹر سہیل احمد خان
ڈاکٹر سہیل احمد خان سے میری پہلی ملاقات … جون۱۹۹۱ء کی تپتی دوپہر… یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (موجودہ، ہائر ایجوکیشن کمیشن) کے شاہد محمود، قاضی ریاض اور ڈاکٹر فضل ماجد… ہم ان کے کمرے میں پہنچے تو ایک نہایت بردبار، متین اور نفیس شخصیت نے استقبال کیا۔ دوستوں کی گفتگو تھمی تو میں نے پی ایچ ڈی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ کہا کہ یونیورسٹی کے قواعد کے مطابق کم از کم پانچ تحقیقی اور تنقیدی مضامین کی اشاعت لازم ہے۔ میرے پاس اپنے مطبوعہ مضامین کی فہرست موجود تھی۔ اس میں پچھتر مضامین کا اندراج تھا۔ دیکھ کر کہنے لگے کہ ہمیں پی ایچ ڈی کرنے والے بعض طالب علموں کو ایک ایک جملہ لکھنا سکھانا پڑتا ہے۔ آپ کے ساتھ یہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔
فہرست مضامین ملاحظہ کی اس کے اولین مضامین میں ہی حفیظ ہوشیار پوری کی غزل پر ایک تحریر موجود تھی۔ دیکھ کر کہنے لگے، آپ اس موضوع پر کام کیوں نہیں کر لیتیں۔ میں جو موضوع سوچ کر گئی تھی اسے خود تک ہی محدود رکھا اور انہیں اثبات میں جواب دیا… یوں لمحہ بھر میں موضوع کا انتخاب ہو گیا۔ انہوں نے خاکہ اور کتابیات بنانے کے لیے کہا۔ ان کا اصرار اسی بات پر رہا کہ آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاک کے ذریعے رابطہ کر سکتی ہیں۔
کتابیات اور خاکہ نگاری میں چند ایک ماہ لگ گئے۔ انہیں ارسال کیا اور ان کی ہدایات کے مطابق کام شروع کر دیا۔ فروری۱۹۹۷ء میں ان کا ایک خط آیا کہ آپ نے ’’حفیظ ہوشیارپوری بیسویں صدی کی اُردو غزل کے تناظر میں ‘‘ کے موضوع پر کام شروع کیا تھا۔ ہمیں ہر دو سال بعد رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے کہ طالب علم کا کام کس نہج پر جاری ہے۔ آپ کی جانب سے عرصے سے کوئی اطلاع ہی نہیں ہے۔ میں نے انہیں لکھا کتاب کمپوزنگ کے مراحل میں ہے۔ جلد ہی مسودہ ارسال کر دوں گی… پھرمیں نے انہیں مسودہ بھیجا۔ ان کی رائے میرے لیے باعث اعزاز ہے۔
’’آپ کے مقالے کے ابو اب مجھے مل گئے ہیں۔ آپ مقالہ بہت محنت سے لکھ رہی ہیں اور ان ابو اب کے مطالعے سے میں خوش ہوا ہوں۔ عام طور پر پی ایچ ڈی کا کام کرنے والوں کا تنقیدی شعور پختہ نہیں ہوتا۔ آپ نے تنقیدی مواد اچھے طریقے سے استعمال کیا ہے۔ ‘‘ (۱)
ڈاکٹر سہیل احمد خان کی نگرانی میں کام کر کے مجھے بہت اچھا لگا۔ دو طالب علم پر اپنا علمی تسلط، رعب و دبدبہ قائم کر کے اسے کم تر ہونے کا احساس نہیں دلاتے، بلکہ اسے تخلیق و تحقیق کے لیے آزاد فضا فراہم کرتے ہیں۔ ایک مکمل استاد میں جو صفات ہونی چاہیں ڈاکٹر سہیل احمد میں وہ بدرجہ اتم موجود تھیں۔ امجد اسلام امجد اپنے تعزیتی تاثرات میں ڈاکٹر سہیل کے بارے میں بجا طور پر لکھتے ہیں۔
’’سہیل احمد خان کا ذوق اور حافظہ دونوں بہت اچھے تھے اور اس کا ذہن ان ابتدائی دنوں میں بھی بہت مربوط اور منضبط انداز میں سوچتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اظہار اور بیان پر بھی غیر معمولی دسترس حاصل تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ آگے چل کر ایک بہت لائق اور محبوب استاد ثابت ہوا۔ وہ اپنے چند قریبی دوستوں کو چھوڑ کر سب ملنے والوں سے ایک مخصوص انداز کا فاصلہ رکھ کر ملتا تھا، لیکن اس کے اس انداز میں تکبر کا شائبہ تک نہ تھا۔ ‘‘ (۲)
تہذیب و شائستگی، نفاست و لطافت ان کے کلام میں بھی موجود ہے اور ان کے کام میں بھی، شخصیت میں بھی اور مزاج میں بھی… ان کے بہت سے خطوط میرے پاس موجود ہیں۔ ٹائپ شدہ بھی اور ہاتھ سے لکھے ہوئے بھی۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان جیسے نفیس شخص کا خط واقعی خوبصورت ہونا چاہیے۔ وہ اپنے طالب علموں کو سہولیات فراہم کرنے میں بہت فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ ان کے کتنے ہی خطوں میں یہ بات تحریر ہے کہ آپ کو لاہور آنے کی ضرورت نہیں، خط کے ذریعے کوئی مسئلہ ہو تو معلوم کر لیا کیجیے۔
’’ہائر سٹڈیز کو لکھا گیا خط‘ مجھے بھی بھجوایا گیا جو میری طویل محنت کا ثمر ہے۔
’’مجھے قرۃ العین طاہرہ کے مقالے برائے پی ایچ ڈی بعنوان ’’حفیظ ہوشیارپوری‘‘ کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ مکمل ہو چکا ہے۔ قرۃ العین طاہرہ کا کام ہر لحاظ سے تسلی بخش ہے۔ انہوں نے تحقیقی اور تنقیدی اصولوں کو پوری طرح پیش نظر رکھا ہے۔ میری رائے میں مقالہ جمع ہونا چاہیے اور محققین کی تقرری کے بارے میں فوری کار روائی کی جانی چاہیے۔ ‘‘ (۳)
وائیوا کا لمحہ آن پہنچا۔ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ صرف ایک جملہ لکھنا چاہوں گی کہ شریک ممتحن نے میرے مقالے پر واحد اعتراض کیا۔ ’’آپ کی مرتب کردہ کتابیات میں میری فلاں کتاب کا حوالہ نہ تھا۔ ‘‘
غیر ملکی ممتحنوں میں ہندوستان سے ڈاکٹر محمد علی اثر اور ہائڈل برگ یونی ورسٹی، جرمنی سے ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ تھیں۔ مقالے کے بارے میں ان کی آرا ء میری زندگی کا حاصل ہیں۔
۶؍اپریل۲۰۰۰ء کانووکیشن تھا۔ ۵؍اپریل کو ریہرسل کے لیے پہنچی۔ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے آپ کی قسمت بہت اچھی ہے۔ ۱۹۹۹ء میں آپ کو پی ایچ ڈی ہو جانے کا نوٹی فکیشن ملا اور اپریل ۲۰۰۰ء میں کانووکیشن ہو رہا ہے۔ ورنہ یہاں تو سات سات آٹھ آٹھ سال بھی گزر جاتے ہیں، اسی انتظار میں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو ڈگری لیتے دیکھ نہ سکوں گا۔ میری آج شام ہی کی جاپان کے لیے فلائٹ ہے۔
ڈاکٹر فضلِ ماجد البتہ کانووکیشن میں موجود تھے۔ جن کے ہمراہ ڈاکٹر سہیل سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ موجود تو چانسلر، وائس چانسلر کے علاوہ صدر پاکستان پرویز مشرف بھی تھے۔ یہ وہی دن تھا جس روز نواز شریف کے مقدمے کا فیصلہ ہوا تھا اور انہیں سزا سنائی گئی تھی۔
ڈاکٹر سہیل احمد خان جاپان، ٹوکیو چلے گئے۔ ان طلبہ کی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے جنہوں نے ڈاکٹر سہیل احمد خان کی تدریس سے فیض حاصل کیا۔ واپس آ کر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں وہ صدرِ شعبۂ اُردو کے ساتھ ساتھ ڈین فیکلٹی آف آرٹس کی ذمہ داریاں بھی بہت خوش اسلوبی اور تندہی سے انجام دیتے رہے۔
مختلف افسانہ نگاروں، شاعروں اور دانشوروں سے میرے مکالموں کا ایک سلسلہ چل رہا تھا۔ میں نے ڈاکٹر سہیل احمد سے مکالمہ کرنے کی اجازت چاہی، ساتھ ہی کتب کی فراہمی کی درخواست بھی کہ اسلام آباد میں مطلوبہ کتب کبھی دستیاب نہیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ کتابیں تو ان کے پاس بھی موجود نہیں، ہاں سرسید کالج کے لیکچرر محمد بلال ان کے شاگرد ہیں ان کے پاس کتب موجود ہیں۔ ان سے رابطہ کیا۔ بلال صاحب خود کتابیں پہچانے تشریف لائے۔ ان کی کتب کے عنوانات معمولی نہ تھے۔ ہمارے تخلیق کار کلام غالب سے اپنے شعری و نثری سرمائے کے سرنامے منتخب کرنے کے عادی ہیں، لیکن۱۹۸۲ء میں شائع ہونے والے ان کے مضامین کے مجموعے کا نام ’’طرزیں ‘‘ میر کے اس شعر سے مستعار ہے:
نئی طرزوں سے مے خانے میں رنگ مے جھلکتا تھا
گلابی روتی تھی واں، جام ہنس ہنس کر چھلکتا تھا
اُردو ادب کے تیکھے نقاد مظفر علی سید کے نام کتاب کا انتساب، اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ڈاکٹر سہیل احمد خان ادب کے پارکھوں کو کتنا اہم جانتے ہیں۔ قوسین، مولچند سٹریٹ، انار کلی، لاہور سے اشاعت پذیر اس کتاب میں مغربی ادب سے رابن واریو، انتو نیو مچادو، خوان رامون خمینز، رفائیل البرتی، جاگ تراکل، سینٹ جان پرس، ایذ راپاؤنڈ، کافکا، ٹومس مان پر ان کی تحریریں صرف تعارف کے ذلیل میں نہیں آتیں بلکہ ان کی شاعری کا اسلوبیاتی و موضوعاتی تجزیہ، گہرائی و گیرائی سے پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ ’’طرزیں ‘‘ کا دوسرا حصہ ’’ورثہ‘‘ کے عنوان کے تحت درج ہے جس میں ’’بانسری کی داستان‘‘ رقم ہے۔ وہ جدید اُردو ادب کا جائزہ لیتے ہوئے ناصر کاظمی اور منیر نیازی کی شاعری میں باطنی لہر کا پتا لگاتے ہیں۔ عزیز احمد کے ناول، اُردو ادب میں ناول نگاری کی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ اپنے ہم عصر افسانہ نگار، ناول نگار انتظار حسین سے مکالمہ بھی کرتے ہیں، مکالمے کا عنوان منتخب کرتے ہیں۔ ’’گم شدہ پرندوں کی آوازیں ‘‘ اس مکالمے کے لیے اس سے بہتر عنوان کا انتخاب ممکن نہیں۔
ان کا اگلا موضوع نظریاتی مباحث ہیں۔ کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں جن پر بحث و مباحثہ کیا گیا۔ پریوں کی کہانیوں سے خوف کیوں؟ غزل کی تدریس کے اصول و ضوابط کیا ہونے چاہیں، کیا طریقہ کار ہونا چاہیے۔ اسی طرح ادبی ترجمے کے مسائل اور دقتیں کیا کیا ہیں۔ رفتگاں میں سیلابی پرندوں کا نغمہ (امانت علی خان) درخت کی حقیقت (شاکر علی) شامل ہیں۔
ڈاکٹر سہل احمد خان کی دوسری کتاب ’’طرفیں ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۸۸ء میں سنگ میل کی جانب سے منظر عام پر آئی۔ انتساب احمد مشتاق کے نام ہے۔ موضوعات کا تنوع ڈاکٹر سہیل احمد خان کی ادب پردسترس اور ان کے وسیع مطالعے اور مشاہدے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کتاب میں فنون لطیفہ اور انسانی تقدیر، رباعی، سائنٹ اور چینی تہذیب، غالب کا ابتدائی کلام، مطالعہ خطوط غالب، اختر الایمان، سرسوں کے پھول کا ہم عصر، ناصر کاظمی کی یادیں، کھلے منظروں کی دنیا، کلیات منیر، کوئے ملامت، خالی آسمان، نیا پرانا فاروق حسن، صدیوں کے آر پار، اپنے سائے سے ملاقات، مصائب و آفات کو آلام کیا۔ فکشن، فن فلسفہ ہر من ہیس کے سدھار تھ کا اُردو ترجمہ (آصف فرخی) انتظار حسین تنقید کے آئینے میں، انور سجاد کے مضامین، منٹو پر ایک نئی کتاب، انیس ناگی، ریاض احمد کی ریاضتیں، مارکسی تنقید دورا ہے پر، سلیم احمد کی ادبی تنقید شامل ہیں۔
’’طرفیں ‘‘ رکھے ہے ایک سخن چار چار میر
کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
ڈاکٹر سہیل احمد خان کے ان مضامین کا مطالعہ کیجیے۔ ان کی تنقیدی بصیرت اور ژرف نگاہی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ کسی بھی تخلیق کار کی تخلیقات کا جائزہ خارجی سطح پر ہی نہیں لیتے بلکہ وہ اس امر سے آشنا ہیں کہ میر کے پیروکاروں کے ایک ایک سخن چار چار طرز یں رکھتے ہیں۔ وہ جتنا گہرائی میں جاتے ہیں، شعر کی اتنی ہی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ ایسے ایس مفاہیم منکشف ہوتے ہیں کہ خود تخلیق کار حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اس کے لاشعوری میں کیا کیا کچھ خوابیدہ ہے۔
ڈاکٹر سہیل احمد خان نے جس سنجیدگی سے علامت نگاری پر تحقیقی، تنقیدی و تجزیاتی کام کیا ہے اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔
ڈاکٹر سہیل احمد خان سے میری ملاقاتیں بہت کم اور بہت مختصر رہیں لیکن ہر ملاقات گزشتہ تجربے ؍ مشاہدے کی توثیق کرتی تھی۔
’’ایک مکمل استاد کے لیے جن صفات کی ضرورت ہے، وہ ڈاکٹر سہیل احمد خان میں موجود ہیں۔ ‘‘
ایک مختصر سی ملاقات ایک لیکچر کے بعد ہوئی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے ’’تدریس غزل‘‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔ مجھے پہلی مرتبہ ڈاکٹر سہیل احمد کے لیکچر سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ لیکچر کیا تھا اُردو کی کلاسیکی و جدید شاعری پر یکساں قدرت، اشعار کا برمحل و برجستہ استعمال، لہجہ تلفظ، ادائیگی، وسعت مطالعہ و وسعت نظر سبھی کچھ عیاں تھا۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان کے لیکچر کے کچھ نکات میرے ذہن میں محفوظ رہ گئے ہیں، اگر ہم تدریس غزل کے موقع پر انہیں پیش نظر رکھیں تو طالب علموں کے لیے ہی نہیں خود استاد کے لیے بھی کئی دشوار راہیں آسان ہو جائیں۔ انہوں نے اپنے موضوع کا آغاز ہی اس حقیقت سے کیا تھا کہ ذوقِ ادب نہیں تو سب کچھ بیکار ہے۔ تغزل کے بارے میں جانتے ہوں لیکن اسے آپ نے اپنے اندر نہیں اتارا تو آپ اس کیفیت کو نہیں پا سکیں گے، جس سے شاعر شعر کہتے ہوئے گزرا ہے۔
ڈاکٹر سہیل کہنے لگے کہ میں ۳۴برس سے ایم اے کے طالب علموں کو ادب پڑھا رہا ہوں۔ غیر ملکی طلبہ ادب پڑھتے رہے ہیں۔ جاپان گیا تو وہاں بھی یہی تجربہ ہوا کہ ان کے لیے غزل کو سمجھنا سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ وہ ہماری تہذیب کے رازوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ معاشرے کی خفیہ زبان کی طرح ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہماری تہذیب، ثقافت اور سماج سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ صرف لغت کافی نہیں ہے۔ اسی تہذیب و ثقافت سے علامت اور امیج جنم لیتے ہیں۔ گل رعنا، پھول ہے، غالب کا مجموعۂ کلام جس میں اُردو اور فارسی کلام شامل ہے۔ گل رعنا ایسا پھول، جس میں دو رنگ ہوتے ہیں۔ حلقہ دوسرے رنگ کا، پتیاں دوسرے رنگ کی، غالب نے اپنے اُردو فارسی مجموعہ کا نام یہی سوچ کر منتخب کیا۔
’’سبدچین‘‘ ۱۸۶۷ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ جب بہار کا موسم گزر جاتا ہے، خزاں کا موسم آنے لگتا ہے۔ کچھ ثمر شاخوں پر باقی رہ جاتے ہیں۔ باغبان یا دیگر لوگ ان بچے کھچے پھلوں کو ٹوکری میں اکٹھا کر لیتے ہیں تو سبد چین کا مطلب ہوا، ٹوکری بھر میوہ، ٹوکریاں بھرنے کی گنجائش نہیں، صرف ایک ٹوکری۔
غالب کے آخری دور کا فارسی کلام ’’سبدِچین‘‘ میں ہے۔
غزل کا مزاج سمجھنے کے لیے ذہنی تربیت کی ضرورت ہے۔ کلاسیکی شاعری کا وسیع مطالعہ ہونا چاہیے۔ غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا گیا ہے۔ فراق نے بالکل درست جواب دیا کہ اگر نیم وحشت ختم ہو جائے تو ادب ہی تخلیق نہ ہو سکے۔
اگر ہم اپنی مٹی، اپنی جڑوں، اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوتے جائیں گے تو ہماری حیثیت بھی غیر ملکی طالب علم کی طرح ہو جائے گی۔ کچھ چیزیں لہو میں شامل ہوتی ہیں۔ کچھ کا اکتساب کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً ً اس دور میں جبکہ ہماری تہذیب شکست و ریخت سے دوچار ہے۔ ہم متعلقات تغزل اس لیے جانتے ہیں کہ ہم اس مٹی میں پیدا ہوئے ہیں، لیکن ہم بہت سی چیزیں بھولتے جا رہے ہیں۔ ہمیں طالب علموں میں ہی نہیں اساتذہ میں بھی ذوق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کمرۂ جماعت ایک تھیٹر کی مانند ہے جس میں استاد کو اداکار کا بہروپ بھرنا پڑتا ہے۔ پطرس، شیکسپیئر کا ڈراما اس آواز میں پڑھتے تھے کہ حق اد ہو جاتا تھا۔ اب دوران لیکچر طالب علم نے کہا سر آپ نے کوئی شعر نہیں لکھوایا تو کہنے لگے ’’میں تیس شعر لکھوا چکا ہوں۔ ‘‘ جب نثر اور شعر پڑھنے میں استاد ہی تمیز نہ کر سکے گا تو شاگرد کو کیاسمجھاپائے گا۔
ڈاکٹر سہیل احمد خان کے لیکچر کا ایک ایک جملہ اساتذہ کے لیے مشعل راہ ہے۔ مکالمے کے لیے سوالنامہ ترتیب دینے کے نقطۂ نظر سے میں نے ان کی تخلیقات کا جن میں ان کی نثر بھی شامل تھی اور نظمیں بھی، کا مطالعہ کیا۔ سوالنامہ ترتیب دیا۔ انہیں ارسال کیا جواب آیا۔
’’ میری شاعری کے بارے میں جو سوال آپ نے کیے ہیں وہ تو اپنی جگہ اچھا تبصرہ ہیں۔ بہتر تو یہ ہو گا کہ آپ ان کو مربوط کر کے تبصرے یا مختصر مضمون کی شکل دیں۔ ‘‘
چنانچہ میں نے ڈاکٹر سہیل احمد خان کی نظمیں کے عنوان سے ایک مضمون لکھنے کی سعی کی۔ بعد میں یہ مضمون ماہنامہ ’’کتاب‘‘ (اسلام آباد) اور ’’قرطاس‘‘ ( گوجرانوالہ) میں چھپا۔ مضمون کچھ یوں تھا:
ڈاکٹر سہیل احمد خان کی نظمیں
نئی نظم کا منظرنامہ ہمارے کئی بنیادی نظم گو شعرا نے کچھ یوں تشکیل دیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے زندگی لایعنیت کے سوا کچھ نہیں۔ ڈر، وحشت، دہشت، خوف، اجنبیت، اداسی، تنہائی، زندگی انہی جذبوں سے عبارت ہے۔ بے معنی صدائیں، بے مقصد راہیں، سپاٹ چہرے، بے روح جسم، بے بسی و بے چارگی کا مجموعہ انسان، خون آشام چڑیلوں، بھوتوں اور آسیبوں کا مسکن یہ جہان، جہاں رنگ، خوشبو، محبت، خواب، آدرش، یگانگت، ستاروں کی جھلملاہٹ، پرندوں کی چہکار، کلیوں کی چٹک، بچوں کی مسکراہٹ۔ کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ کیا اس کا یہ سبب تو نہیں کہ آج کی نظم کی تخلیق میں دل نہیں ذہن، مصروف عمل رہا ہے۔ ذہن و دل جب دو الگ الگ راہوں کے مسافر ہوں تو تذبذب، تشکیل، وہم ایسے ہی خیالات اور احساسات کو جنم دیتے ہیں جہاں خیر کے بجائے شر اور مثبت کے بجائے منفی خصوصیات حاوی ہو جاتی ہیں۔
انتہائی برق رفتار اور سائنسی ترقی کے زینے طے کرتی اس کائنات کو جدید دنیا نے گلوبل ولیج کا نام دیا ہے۔ گلوبل سٹی کیوں نہیں کہا؟ صرف اس لیے کہ علوم و فنون کی بلند ترین انتہاؤں کو چھوتا انسان فطرت کی طرف مراجعت کی شعوری و لاشعوری طلب سے کبھی گریز نہیں کر سکا ہے۔ صنعتی، دھواں زدہ بے مہر شہر فطرت کی نمائندگی نہیں کرتا۔ دیہات اور گاؤں کی کھلی فضا، نکھری دھوپ، کھیتوں کھلیانوں کی سبز لہلہاہٹ، کھلتے پھول اور محبت کے جوش سے تمتماتے چہرے، بدلتے موسم، مہکتی رتیں، چاندنی راتیں، ڈھلتی شامیں، ابھرتیں صبحیں، غرض ہر منظر، ہر جذبہ صداقت کا امین ہے اور فطرت کا مظہر بھی اور یہی فطرت جب شعر میں ظہور کرتی ہے تو ہوائیں، بارشیں، آندھیاں، گلاب کا پھول، بادلوں بھری شام کی فصیل پر ستارہ، دریا، ہمزاد ستارے سے گفتگو سمندری گھونگھے کی آوازیں، سمندر کے پیچھے سمندر جیسی جلال و جمال سے متصف نظموں کا ایک سلسلہ سامنے آتا ہے۔ جہاں عصری زندگی اپنی مکمل معنویت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
سہیل احمد خان کی نظمیں کائنات کو دیکھنے کا عمل ہیں۔ مظاہر قدرت اور مناظر فطرت جو وسیع و عریض جنگلات، سرسبزو شاداب باغات، بلند و بالا پہاڑوں، ٹھاٹھیں مارتے سمندروں، ان گنت لہریں لیتے دریاؤں، امڈتے چشموں، بہتے آبشاروں، گزرے زمانوں کی مہک لیے گنگناتی بارشوں، مہکتے بادلوں، قدیم قرنوں کی داستانیں، سنسناتی ہواؤں، فلک پر چمکتے دمکتے ستاروں، خاک کو مسلسل مضطرب رکھتی آندھیوں اور سرخ و سفید مہکتے گلابوں کے دیکھے مناظر، یہ اندازِ دیگر دیکھے گئے ہیں اور کہیں آنے والے زمانوں کے نادیدہ منظر بھی پیش نظر ہیں۔ سمندر ان کی نظموں کا کلیدی استعارہ ہے۔ چنانچہ پانی، سمندری پرندے، سبز ساحل، کشتیوں کے لرزتے بادبان، سمندر کی جادو بھری جھاگ، ساحل سے اٹھائی گئی سیپی، گہرے سمندر کی صدا، نیلے سمندر میں چلتے جہاز جل پریوں کے ترانے، لمحوں کے سمندر، سمندری گھونگھوں کی آوازیں، سمندر کے پرندوں کی اڑانیں، سمندر ماضی اور مستقبل کے درمیان رابطے کی ایک اہم کڑی۔
سمندر کی ساری کہانی
وہی اک تسلسل کا دھارا
وہی جھاگ، آبی پرندے، ہواؤں کے طوفاں
وہی درد کا اک سفر ہے
کہیں آنے والے زمانوں کے نادیدہ منظر
کہیں پر لکھے پانیوں کی مسافت میں قزاق صدیوں کا ڈر ہے۔ ‘‘
(سمندر کے پیچھے سمندر)
موجود سے نا موجود، معلوم سے نامعلوم اور محسوس سے نامحسوس کی طرف سفر، اس تحقیق و تجسس کا آئینہ دار ہے جو انسان ازل سے اپنے ساتھ لایا ہے۔ سمندر کی کشتی اسے اپنی جانب کھینچتی ہے لیکن یہ وہ سمندر تو نہیں جو شاعر کے تخئیل میں لہریں لیتا رہا ہے۔ یہ وہ سمندر ہے کہ جہاں کوئی ایسی رمز کھلتی ہی نہیں جو جہت وقت کا آئینہ ہو نہ کوئی ایسی لہر اٹھتی ہے جس کی گہرائیوں میں زمانے کے اسرار آنکھ کھولیں۔
سمندر کہاں ہے سمندر
یہ قوموں کے ٹوٹے ہوئے پیماں ہیں
جن پہ دوری سے ہم کو سمندر کی جادو بھری جھاگ کا شائبہ ہے
(کہاں ہے سمندر)
آگ، پانی، ہوا اور مٹی، انسان کا خمیر انہی متضاد اور متصادم اجزا سے اٹھایا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی خارجی و باطنی، معلوم و نامعلوم، دیکھی ان دیکھی قوت سے نبرد آزما رہتا ہے۔ سہیل احمد خان کے تلازماتِ شعری میں ان اجزا کا ظہور مختلف علائم و تماثیل کی صورت میں ہوا ہے۔ آگ حرارت کی، زندگی کی علامت ہے تو یہی خاکستری کا سبب بھی۔
آگ میں مل کے آگ بن نہ سکے
آگ سے دور بھی رہا نہ گیا
اپنے شعلوں کے دائروں میں رہے
(آگ کے پاس)
سہیل احمد خان کی مکالماتی نظم ’’کیمیا گر‘‘ اپنے تمثیلی اندار میں ایک نئے آہنگ کے ساتھ معنوی جہت لیے سفر کرتی ہے۔ کیمیا گر اپنی شدید محنت اور تمام تر توانائیوں کے باوجود کبھی کامیاب نہیں ہو پاتا ایک آنچ کی کسر ہمیشہ رہ جاتی ہے اور وہ ایک مرتبہ پھر سعی لاحاصل کے دائرہ در دائرہ سفر میں محو ہو جاتا ہے۔
لو آگ جلائی ہے میں نے
تم اس میں جلو، یہ تم نے کہا
جو تم نے کہا، وہ میں نے سنا
اس آگ میں تنہا اتر گیا
یہاں اپنے معنوی اختلاف کے باوجود خالدہ حسین کی کہانی ’’الاؤ‘‘ ذہن میں آتی ہے کہ کہاں مصنفہ ذات کے آتش فشاں میں اتر جاتی ہے۔ بغیر کسی خوف یا جھجک کے کہ یہ اس کا مقدر ہے۔
…… پھر وہ جلتے رنگوں کا آتشیں دائرہ نمو دار ہوا۔ بڑھتا، پھیلتا، سنسناتا، شعلے اڑاتا، تب میں ایک پتنگا بنی اور اس کے گرد گھومنے لگی۔ اس آتش فشاں کے گرد گھومتی جاتی تھی کہ اب میں اپنے مدار میں داخل ہو چکی تھی‘‘
خاکی انسان، نورو نار، خیر و شر کا مجموعہ لیکن اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز اور اس کا سبب یہی کہ تمام نیکی و بدی کی صفات اس میں مجتمع کر دی گئیں اور فہم و شعور، ادراک و دانش سے سرفراز کیا گیا کہ اپنے لیے جو چاہے پسند کر لے …..
نوری مخلوق، فرشتے، ذہن انسانی میں یہ ان دیکھی مخلوق ایک مخصوص تصور رکھتی ہے۔ طاقت پرواز رکھنے والی سفید لبادوں میں ملبوس یہ مخلوق زندگی اور قوتِ گویائی سے بہرہ ور ہے۔ نفسیاتی خواہشات اور غصے سے پاک، اطاعتِ خداوندی جس کا وصف بھی اور فرض بھی۔ ذاتی اختیار کوئی نہیں۔ لامحدود ذمہ داریاں، لامحدود تعداد….. ذہن انسانی چند ایک سے آگاہ۔ جبرائیل ؑ، اسرافیلؑ، میکائیلؑ، عزرائیلؑ …. منکر نکیر…. کراماً کاتبین ….. رضوان، مالک…..
صرف دین اسلام میں ہی نہیں۔ پارسی، ہندو، عیسائی یہودی، کسی نہ کسی انداز میں ان کے مذاہب میں بھی ان کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مغربی شاعری میں بھی حیات انسانی کے ساتھ فرشتوں کا تعلق زیر بحث رہا اور اس کی کئی جہات سامنے آئیں۔ رلکے نے فرشتوں کی پاک اور عظیم ہستی کے سامنے انسان کو کم تر مخلوق تصور کیا ہے۔ ابیرتی کی نظموں کے عنوانات گرامر سکول کے فرشتے، اعداد کا فرشتہ، مردہ فرشتہ، بدقسمت فرشتہ انسانی وجود میں موجود خیر و شر کی خصوصیات کے حوالے سے سامنے آتے ہیں۔
فرانسیسی شاعر بودلیئر کے شعری مجموعے ’’بدی کے پھول‘‘ میں یہ مخلوق مختلف انداز سے، فرد کے مزاج کے بدلتے موسموں کی مناسبت سے بہ انداز دگر سامنے آئی ہے۔
اس فرشتے کی طرح، جس کی ہوں دیو پیکر آنکھیں
تمہارے پہلو میں پہنچوں گا(آسیب)
تو سب فرشتوں میں برتر حسین و فریس
مقدر کا مارا، ملمع کاری کے لبادوں سے بنتا خدا، ثناؤں سے محروم
اے شیطان تو میری سخت بدنصیبی پر ترس کھا (شیطان کے لیے ایک اجتماعی دعا)
بودلیر کی نظم ’’دوزخ‘‘ میں اشرف المخلوقات کی بے بسی، بے چارگی، کنکر، پشیمانی، پریشانی، بیماری، نفرت، انتقام، بڑھاپے کی اذیت، موت کی دہشت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یقیناً یہ نظم بودلیر کی بہترین نظموں میں سے ایک کہی جا سکتی ہے۔
حسن بانٹے والے فرشتہ، کیا تجھے معلوم ہے وہ جھریاں بدن کی؟
بوڑھے ہونے کا خوف، وہ اذیتوں کی اذیت
وہ خوفناک منظر جب عشق مجاز سے حقیقت میں بدل جائے
ان آنکھوں میں جن کی پرستش کی سال ہا سال تک
حسن بانٹے والے فرشتہ، کیا تجھے معلوم ہے وہ جھریاں بدن کی؟ (دوزخ)
اُردو شعری روایت میں بھی فرشتے مختلف شعرا کے منظر نامے، شاعر کی انفرادی سوچ اور زاویۂ نگاہ لیے سامنے آتے ہیں۔
سہیل احمد خان کی شعری کائنات میں فرشتے ایک اہم نوری مخلوق جو گمان و یقین کی سرحدوں پر موجود ہے۔ ان کی نظم ’’فرشتے ‘‘ میں اللہ کی مقرب یہ مخلوق احساسِ زمان سے بے خبر محو پرواز ہے۔ بارشوں میں ان کی صداؤں کا احساس رچا بسا ہے۔ بجلی کے کوندنے میں ان کے دودھیا پر اپنی جھلک دکھا جاتے ہیں۔ سمندروں کی ساحلی اجاڑ چپ میں، خالی گھروں میں ان کے ہونے کا احساس جاگزیں ہے اور کبھی یوں بھی لگتا ہے کہ یہ بچھڑے ہوئے لوگوں کی روحیں ہیں جو فلک سے زمین کی جانب لوٹتی ہیں ….. اور پھر نظم ایک نئی کروٹ لیتی اپنے بنیادی تصور کی طرف بڑھتی ہے اور انسان کو اس نوری مخلوق سے برتر ہونے کا پر تفاخر احساس عطا کرتی ہے۔
کبھی یہ خود کو یقین دلاتا ہوں، لڑکیوں کی چمکتی آنکھوں کا تیز جادو، ہمکتے بچوں کی ہر ہنسی کا لہکتا نغمہ یا پھر بزرگوں کی شفقتوں کا طلسم دائم بھلا فرشتوں کو کب ملے ہیں۔ (فرشتے )
سہیل احمد کی نظمیں ایک مختلف پہچان اور نئے امکانات کے در وا کرتی ہیں اور یوں اُردو شعری تسلسل میں ایک الگ تعارف رکھتی ہیں۔ اس کا اہم سبب وسعت مطالعہ اور کشادہ نگاہی ہے۔ حکایات، ایسپ، جاتک، پنچ منتر قصے جنہیں فیبل ستھ لیجنڈ کا نام دیا گیا۔
اساطیری، دیومالائی اور داستانی ادب کے غائر مطالعے نے نظم کی بنت میں استعاراتی، تلمیحاتی و علامتی رنگ شامل کیا یہ رنگ شوخ اور واضح نہیں بلکہ پس منظر میں اپنی موجودگی کا احساس دلا جاتے ہیں، پھر مغربی شعر و ادب خصوصاً ً تنقید کے مطالعے نے ذہن و فکر کی بالیدگی میں اہم کردار ادا کیا۔ انگریزی کے وسیلے سے اطالوی، جرمن اور خصوصاً ً ہسپانوی شعر و ادب کے مطالعے نے انسان اور فطرت کے تعلق کی تفہیم میں معاونت کی یوں مشرقی اور مغربی ادب کے تال میل سے تخلیق کی گئی ان نظموں کی ہمہ گیری، ندرتِ خیال، تازگی و شگفتگی اور جاذبیت سے انکار نہیں وہ کفایت لفظی کے قائل ہیں۔ مختصر لفظوں میں بڑی بات کہہ دینے کا فن جانتے ہیں۔ مختصر نظمیں کہتے ہیں۔ تین مصرعی، نظم بھی موجود ہے اور دس بیس مصرعوں پر مشتمل نظم بھی، جن میں ذات و کائنات کا آہنگ اپنی پوری معنویت کے ساتھ عیاں ہے۔ شعری لہجہ درد مندی اور خلوص سے تشکیل پاتا ہے۔ نظموں میں تہذیبی و سماجی ماحول کی کشمکش و آویزش بھی عیاں ہے اور خیر و شر کے تاریخی عمل میں انفرادی و اجتماعی سطح پر ہونے والے تجربوں اور مشاہدوں کا عکس بھی۔ خلیجی جنگ کے دنوں میں کہی گئی نظمیں اُس کڑواہٹ کو ظاہر کرتی ہیں جو بے بس اور لاچار فرد ہو یا قوم، اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ آنے والے دن، دنیا کو مزید سائنسی ترقی اور مزید تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ فن شعر ہو یا تصویر کشی کا فن، لینڈ سکیپ، اس میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ جب دنیا تباہ حال اور زندگی دگرگوں ہو تو شاعر و مصور سے کسی شاہکار کی توقع رکھیں، نامیدی کے ساتھ امید ہو، یاسیت کے ساتھ رجائیت بھی ہو تو ہی بات بنتی ہے۔ مشہور مقولے، تم مجھے اپنے دوستوں کے بارے میں بتاؤ، میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کون ہو، کو ہسپانوی فلسفی خوزے اور تیگا ای گاسیت نے یوں تبدیل کیا ہے۔ ’’تم مجھے اس لینڈ سکیپ کے بارے میں بتاؤ جس میں تم رہتے ہو، میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کون ہو‘‘ ۔ فرانسیسی شاعر سینٹ جان پرس کی نظموں میں وہی زندگی اپنا روپ دکھاتی ہے جو اس نے بسر کی۔ وہی مناظر ظہور کرتے ہیں جو اس نے دیکھے۔ ایک ایسے جزیرے میں پیدائش جہاں گھنے درختوں، ساحلی علاقوں، طوفانوں، آتش فشاں پہاڑیوں اور زندگی سے بھرپورحسن نے اس کے ذہن پر کائنات کا نقشہ ثبت کیا۔ خود رو پودے، جنگلی جھاڑیاں، ساحلی پھول آبی پرندے، کیڑے اور جانور، کشتیاں چلانے والے، سمندر کا سینہ چیرنے والے، جو جہد مسلسل اور متحرک زندگی کا ا ستعارہ ہیں۔ سینٹ جان پرس کی مشہور نظم ’’ہوائیں ‘‘ اور ’’پرندے ‘‘ ہیں، ’’پرندے جتنی زیادہ پرواز کرتے ہیں، اتنا ہی اپنے وجود کی مسرت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ‘‘ سہیل احمد کی نظموں کی فضا بندی میں ’’ہوائیں ‘‘ اور ’’پرندے ‘‘ بنیادی تلازمات میں سے ہیں۔ پرندوں کی بولی۔ پرندے ہنس نامہ، راج ہنس، پت جھڑ کے مہاجر، ایک موسم کے دوستوں کے لیے نظم، ایک پرندے کی موت، تیس پرندے، نیل کنٹھ، ہدہد، تالاب سے مڑتے پنچھی، بے وطن پرندہ، پرندے کی آنکھ سے، پرندے کا پر، جاپان میں مہاجر پرندوں سے ملاقات وہی کہانی، پرندے زندگی کی تحرک کی اور امن کی علامت ہیں۔
غرض پرندوں کے کردار کو تمثیلی و بیانیہ ہر دو سطح پر کامیابی سے برتا ہے۔ سینٹ جان پرس کی نظمیں اپنی طوالت کے سبب موضوعاتی وسعت اور اس کی جزئیات کو پیش کرتی ہیں، جبکہ سہیل احمد کی نظمیں مختصر ہیں، لیکن بھرپور، نئے استعارے، نئے تلازمے نئے علائم اور اظہار میں تازہ کاری نے عہد موجود میں کہی جانے والی نظموں میں انہیں ایک الگ شناخت قائم کرنے میں مدد دی ہے۔ سینٹ جان پرس کی نظم
’’خزاں کی اک شام ہم پلٹ کر آئیں گے ‘‘
’’راہ کی نشانیاں ‘‘ کی آخری نظم ’’واپسی کا گیت‘‘ کہ جب ٹوکیو سے وطن کی جانب لوٹتے ہیں تو ماضی کی خوبصورت یادیں بھی ہیں اور مستقبل کے گہرے اندیشے بھی، خوف کے سائے بھی ہیں اور تشکیل و تذبذب کے بھنور بھی۔
سفر، مسلسل
نجانے ہم دائروں کی گردش ہیں
یا کسی سیدھ کا ادھورا سا مرحلہ ہے
یہی خبر ہے
بس اک سفر ہے
ہمارے چھوڑے گھروں کی یادیں
دنوں سے برسوں میں
اور صدیوں میں
پھیلتی ہیں (واپسی کا گیت)
سہیل احمد خاں کی نظموں کو انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، اطالوی یا جاپانی شاعری کے پس منظر میں دیکھنا اور انہیں اپنی مٹی، اپنی زمین، اپنی روایات، اپنے تہذیبی و سماجی ماحول سے دور خیال کرنا، مناسب نہیں ان کی نظموں میں اپنے گرد و پیش کی زندگی، فکرو شعور اور تخیل و احساس کے ہمراہ موجود ہے اور اس طرح سے کہ اس کا اپنے کلاسیکی و روایتی اسلوب و فکر سے رشتہ منقطع بھی نہیں ہوتا…..
کبھی جو ذرا سی خبر ملی
مری غفلتوں میں بکھر گئی
مرے ساتھ بے خبری رہی
مجھے ایسا رنگ جنوں ملا
مرے سامنے وہ مری رہی
وہ بہارِ عشق تھی جاوداں
مرے زخم زخم پہ پھول تھے
مرے دل کی شاخ ہری رہی
(ہری شاخ)
قدیم کلاسیکی شاعر سراج اورنگ آبادی کی طویل بحر کی شہرہ آفاق غزل ذہن و دل کو اپنے معیار میں لیے ہوئے ہے۔
کبھی اے تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پر رہی
نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
’’ایک موسم کے پرندے ‘‘ کی آخری مختصر نظم ’’دروازے ‘‘ میں دروازے کا کھلنا سوچ کے کئی دریچے وا کر رہا ہے۔ دروازے کیوں کھل رہے ہیں کس لیے اور کس کے لیے کھل رہے ہیں۔ ذہن سوالات کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ جواب کا متلاشی ہے متوقع جواب کئی ہیں، لیکن حقیقت کھل کر سامنے نہیں آئی۔
دروازے کھل رہے ہیں
زنداں سے شاید کوئی آزاد ہو رہا ہے
فانی کے اس استفہامیہ شعر کے بھی دو متوقع جواب ہیں
فصلِ گل آئی یا اجل آئی، کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
سہیل احمد محاکات نگاری اور تمثال آفرینی سے کام لیتے ہوئے نظم کے مجموعی تاثر میں اضافے کرتے ہیں۔ مصوری کے ساتھ ساتھ موسیقی کے سروں سے بھی آگاہ ہیں کہ جانتے ہیں کہ شعر کا تعلق قلم کاغذ کے بجائے آواز سے، سرتال سے، بانسری سے ہوتا ہے، ترنم، اصوات کی دل آویزی کا نام ہے۔ شعر میں آہنگ اور لے، لفظوں میں نغمگی ہو تبھی وہ دل کو چھوتے ہیں۔ موسیقی و مصوری کو شعر کی آنکھیں قرار دیا گیا ہے اور سہیل احمد کی نظم میں موسیقی کے سر بھی ہیں اور مصوری کی قوسِ قزح بھی……
میری آخری بات، ڈاکٹر سہیل سے مکالمے کے سلسلے میں ہی فون پر ہوئی کہنے لگے … ہاں اس میں بہت دیر ہوتی جا رہی ہے، اب کے میں اسلام آباد آؤں گا تو یہ کام ضرور کر لیں گے اور میں ان کے اسلام آباد آنے کا انتظار کرتی رہی۔ میری جو ضد تھی کہ آپ کے مکالمے کے بغیر مکالموں کی کتاب شائع نہ ہو گی اکا رت گئی۔ پبلشر کے کتنے ہی فون آتے رہے کہ آپ نے جو مسودہ بھیجا ہے فہرست میں ڈاکٹر سہیل احمد خان کا نام تو دیا ہے، مکالمہ موجود نہیں اور میں انہیں ہر مرتبہ یہی کہتی رہی کہ آئندہ چند روز میں مکالمہ بھی پہنچ جائے گا… اب میں انہیں کیا کہوں …
حوالے
۱۔ سہیل احمد خان، ڈاکٹر، خط بنام راقم، مورخہ۲۹مئی۱۹۹۷ء
۲۔ امجد اسلام امجد، کالم۔ ’’چشم تماشا‘‘ روزنامہ ایکسپریس لاہور ۱۵مارچ۲۰۰۹ء
۳۔ سہیل احمد خان، ڈاکٹر مورخہ۲۴دسمبر۱۹۹۷ء
۴۔ سہیل احمد خان، ڈاکٹر، خط بنام راقم، مورخہ ۲۸جون۲۰۰۶ء
٭٭٭
وزیر آغا
۱۹۸۰ء کی بات ہے، واپڈا ہاوس لاہور کے سامنے سے گزرتے ہوئے میں نے شاہد سے کہا کہ یہاں کشور ناہید کا دفتر ہے۔ وہ سمجھ گئے اور ذرا ہی دیر میں ہم ان کے کمرہ میں موجود تھے۔ مل کر بہت خوش ہوئیں۔ میرے چند ایک مضامین ماہ نو میں شائع ہو چکے تھے۔ اس سلسلے میں ان سے خط و کتابت ہوتی رہتی تھے۔ کہنے لگیں آج شام میرے ہاں ایک ادبی نشست ہے۔ ضرور آؤ۔ لاہور کے ادیبوں سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ ہر چند کہ میں کسی بھی ادبی محفلوں میں جانے سے گریز کرتی ہوں۔ شاہد سے کہہ بیٹھی کہ کیا خیال ہے آج شام کشور ناہید کے نہ ہو آئیں۔ شام ہوئی میں اور شاید کشور ناہید کے ہاں پہنچے۔ یوسف کامران نے استقبال کیا۔ شاہد نے کہا میں ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد آ کر لے جاؤں گا۔ میرے لیے یہ حیران کن لمحہ تھا کہ ایسا تو کچھ طے نہ ہوا تھا، لیکن اب میں کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی۔ بعد میں شاہد نے یہی کہا کہ تم ادبی لوگوں کی محفل میں میرا کیا کام۔ بہرحال اندر آئی تو کشور ناہید نے خاموشی سے بیٹھ جانے کو کہا۔ جاوید شاہین، سجاد باقر رضوی، جیلانی کامران، مستنصر حسین تارڑ، وزیر آغا کو میں پہچانتی تھی۔ چند اصحاب و خواتین اور بھی موجود تھے۔ وزیر آغا کی نئی نظم ’’آدھی صدی ‘‘ پر بحث و مباحثے کی ریکارڈنگ جاری تھی۔ کچھ ہی دیر میں یہ سلسلہ تھما تو سبھی کشور ناہید کے لان میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور تواضع کا سلسلہ شروع ہوا۔ رخصت ہونے والوں میں پہل وزیر آغا نے کی۔ کشور ناہید انھیں گیٹ تک چھوڑ نے گئیں۔ رخصتی کلمات کچھ طویل ہوئے۔ واپس آ کر کشور ناہید اور دیگر ادبی اکابرین کے درمیان آج کی نشست پر جو گفتگو ہوئی وہ آف دی ریکارڈ ہے۔ صرف میرے ذہن میں ایک تاثر ابھرا کہ میں جو ادبی نشستوں سے مکمل گریز اختیار کیے ہوئے ہوں، یہ کتنا صحیح فیصلہ ہے۔ بہر حال یہ تفصیل تھی، میری وزیر آغا سے پہلی ملاقات کی، جس میں گفتگو کا یک جملہ بھی شامل نہ تھا۔ اس ایک ڈیڑھ گھنٹے میں مستنصر حسین تارڑ اور سجاد باقر رضوی سے چند ایک جملوں کا تبادلہ البتہ ہوا۔
وزیر آغا سے دوسری ملاقات، ۳۱ نومبر ۱۹۹۹ء صبح ساڑے دس بجے، اورنٹئل کالج لاہور، ڈاکٹر سہیل احمد خان، میرے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’حفیظ ہوشیار پوری، بیسویں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں ‘‘ کے نگران تھے، وائیوا کے لیے مجھے صرف ایک روز پہلے خط ملا۔ اسی روز لاہور روانہ ہوئی اور چھوٹے بھائی سہیل کے گھر ٹھہری۔ رات میں بھی مطالعے کا موقع نہ ملا۔ صبح دس بجے اورنٹئل کالج پہنچی۔ وائیوا کا وقت گیارہ بجے تھا۔ ساڑھے دس بجے وزیر آغا کا فون آ گیا۔ ڈاکٹر سہیل نے کہا کہ قرۃ العین آئی ہوئی ہیں۔ آپ آ جائیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ بھی آ گئے۔ مجھے وائیوا کے لیے بلایا گیا۔ دیگر ممبران میں، میں کسی سے شناسانہ تھی۔ بہرحال فضا کے جمود یا ماحول کو معمول پر لانے کے لیے ڈاکٹر سہیل احمد نے کہا کہ وائیوا کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کے نگران آپ کو مشورہ دے سکیں کہ پی ایچ ڈی کے اس مقالے کو جب آپ اشاعت کے لیے دیں گی تو ظاہر ہے اتنے طویل مقالے کی مکمل شکل میں تو نہیں دیں گی کچھ قطع و برید کرنی ہو گی۔ تو اس سلسلے میں مشاورت کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغایک دم بول اٹھے …نہیں وائیوا کا یہ مقصد نہیں ہوتا۔ وائیوا میں یہ ہمیں یہ جانچنا ہوتا ہے کہ مصنف نے کتنا کام خود کیا ہے اور کتنا کروایا ہے یا سارا ہی کیا کرایا حاصل کیا ہے۔ میں نے فوراً کہا… آپ باقی مقالوں کو چھوڑیں اس کے بارے میں مجھے بتائیں یہ مقالہ لکھا گیا ہے یا لکھوایا گیا ہے … وزیر آغا کہنے لگے نہیں آپ کی بات دوسری ہے آپ کو ہم پندرہ بیس سالوں سے پڑھ رہے ہیں پھر مقالے پر بات چیت ہوتی رہی۔ موجودہ ادبی صورت حال اور ادبی اداروں خصوصاً َ اکادمی ادبیات کے کردار پر گفتگو رہی۔ میرے مقالے پر وزیر آغا کی طرف سے واحد اعتراض، آپ کی کتابیات میں میری کتاب ’’تخلیقی عمل ‘‘ کا حوالہ نہیں تھا۔ وہ آپ کو ضرور پڑھنی چاہے تھی۔ بہرحال وائیوا ختم ہوا میں بے حد مطمئن واپس آئی۔ وزیر آغا کی طرف سے ایک مثبت نقش لیے کہ ان کی ٹانگ میں فریکچر تھا۔ وہ سٹک کا سہارا لے کر چل رہے تھے اور وقت سے پہلے موجود تھے۔
مکالموں کے ایک سلسلے کا آغاز، شاید افسانہ نگاروں کے اس گِلے کے پیش نظر کیا گیا کہ آپ کی ساری توجہ شاعروں کی طرف ہے۔ ان دنوں ایک جریدے میں ’’ ستر کی دہائی کے بعد، نمایاں ہونے والے شاعر ‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ جاری تھا…صنفِ افسانہ کی طرف عدم توجہی تو نہیں لیکن کسی قدر کم تھی چنانچہ خالدہ حسین، منشا یاد، رشید امجد، نیلو فر اقبال، رشید نثار، عذرا صغر، مستنصر حسین تارڑ سے کیے گئے مکالمے توقع سے زیادہ مقبول اور پسندیدہ ٹھہرے …مکالمہ کس کس سے ہونا چاہے … میری فہرست بڑھتی جا رہی تھی۔ اس میں شاعر، دانشور اور تنقید نگار بھی شامل ہوتے جا رہے تھے، مکالمہ کرنے سے پہلے مجھے منتخب ادیب کی تخلیقات کے مطالعہ کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی پھر سوالنامہ تشکیل پاتا اور جب ادیب کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو اسے خوشی ہوتی کہ اس کی تحریر کو اتنی توجہ سے پڑھا گیا ہے۔
وزیر آغا متنازع شخصیت ہونے کے باوجود اردو ادب کے لیے اپنی ہمہ جہت شخصیت کی بنا پر ایک معتبر مقام رکھتے ہیں۔ مکالمے کے سلسلے میں انھیں نظر انداز کرنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ مجھے احساس تھا کہ ان سے مکالمہ آسان نہیں۔ ان کی مختلف تخلیقی جہات، شاعر، انشائیہ نگار پھر تنقید میں جدید تصورات، صحافت، تحقیق، تاریخ، تہذیب، ثقافت، ارضی تصور غرض وزیر آغا نے جتنا کام کیا اس کا تصور کسی ایک ادارے سے بھی محال ہے۔ میں نے وزیر آغا سے مکالمے کا ارادہ کیا۔ مطالعہ شروع کیا اور ساتھ ہی انھیں اوائل جون ۱۹۹۹ء میں ایک خط تحریر کیا۔ جس میں ان کا مکالمہ کرنے کی اجازت چاہی۔ جواب میں لکھتے ہیں۔
’’ آپ کا خط ملا۔ شکریہ۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ کو میری مصروفیات کا احساس ہے۔ مصروفیات کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کی نظر پورے ادب پر ہے اس لیے آپ جو سوالات مرتب کر کے مجھے بھیجیں گی وہ عام قسم کے انٹرویوز میں پوچھے جانے والے سوالات سے یقیناً مختلف ہوں گے۔ لہٰذا فرصت نہ بھی ہو تو ایسے سوالات کے ضمن میں اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنے کے لیے فرصت نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ ویسے آج کل میرا مسئلہ فرصت کا نہیں۔ آپ کو شاید علم ہو گا کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے میری ٹا نگ کا فریکچر ہو گیا تھا۔ آپریشن کرانا پڑا اور اب تک صاحب فراش ہوں اور سارا وقت اپنی دیکھ بھال میں صرف کرتا ہوں اور اسے مصروفیت نہیں کہنا چاہے۔ ‘‘
ان کی طرف سے اجازت ملنے پر میں نے ایک طویل سوالنامہ ان کی خدمت میں پیش کیا۔ ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو لکھے گئے خط میں وہ سوالنامہ موصول ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ آپ کا خط ملا اور انٹرویو کے سوالات بھی۔ یہ سوالات عام قسم کے سٹاک سوالات سے قطعاً مختلف ہیں۔ آپ نے میری کتابوں کا غائر نظر سے مطالعہ کر کے یہ سوال مرتب کیے ہیں۔ سوالات کی تعداد کافی ہے اور میں بیمار ہوں، اس لیے آہستہ آہستہ ان کے جواب تحریر کروں گا اور مختصر لکھوں گا تاکہ انٹرویو زیادہ طویل نہ ہو جائے۔ ‘‘
مکالمے کے جواب کے طویل انتظار کے بعد میں نے انھیں یاد دہانی کا خط لکھا۔ ۴ فروری۲۰۰۱ ء کو لکھے گئے خط میں تحریر کرتے ہیں۔
’’ معذرت خواہ ہوں کہ ابھی تک آپ کے سوالنامے کے جوابات نہ دے سکا۔ وجہ میری بیگم کی طویل علالت ہے، ان کے تین آپریشن ہو چکے ہیں … ان حالات میں خود کو کسی کام پر مرتکز کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ مگر جیسے ہی حالات ٹھیک ہوئے، سب سے پہلا کام یہی کروں گا۔ انشا اللہ۔ ‘‘
مجھے احساس ہوا کہ چھیاسٹھ سوالات پر مشتمل اس سوالنامے کا جواب دینا واقعی بے حد مشکل ہے۔ میں اس سوالنامے کو بہت مختصر کر دیتی ہوں۔ میں نے بہت اہم سوالات ازسر نو مرتب کیے اور انھیں ارسال کر دیے۔
۱۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے خط میں تحریر کرتے ہیں۔
’’معذرت خواہ ہوں کہ آپ کے سوالنامے کے حوالے سے کچھ نہ کر سکا۔ اب تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ سوالنامہ کہاں ہے۔ پچھلے دو تین برس مجھ پر بہت بھاری گزرے ہیں۔ پہلے فریکچر کے باعث معمولات متاثر ہوئے۔ پھر بیگم کی شدید علالت کے باعث اوراق تک جاری نہ رہ سکا۔ آپ مجھے دس بارہ سوالات لکھ بھجیں۔ ان کے جواب لکھنے شروع کروں گا۔ ‘‘
اب کے پھر مجھے سوالوں کو ترتیب دینا تھا۔ میں بھی ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھی۔ سوالنامہ بھیجا، یکم نومبر ۲۰۰۲ء کو جواب میں تحریر کرتے ہیں۔
’’ آپ کا خط ملا اور ساتھ میں سوالنامہ بھی… یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے میری متعدد کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد سوالنامہ مرتب کیا ہے۔ ورنہ اکثر لوگ تو محض چند روایتی اور پٹے ہوئے سوالات ہی کرتے ہیں۔ میں آہستہ آہستہ آپ کے ان سوالات کے سلسلے میں اپنے تاثرات لکھوں گا۔ اس کے لیے مجھے کچھ وقت درکار ہو گا، کیونکہ بہت سا وقت تو بیگم کے علاج میں صرف ہو جاتا ہے۔ ‘‘
مجھے یاد ہے کہ ایک خط مجھے اور لکھنا پڑا، جس میں سوالنامے، مکالمے کا کچھ تذکرہ نہ تھا۔ ۱۰ جون ۲۰۰۴ء کو تحریر کیے جانے والے میرے اس خط کی عبارت کچھ یوں تھی۔
’’ وہ جن کے ساتھ ماہ وسال یوں بیتے ہوں کہ کبھی سارا منظر لمحہ بھر کا اور کبھی صدیوں کا معلوم ہونے لگے۔ ان کا بچھڑ جانا ایک ایسے صدمے کا باعث بنتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا اور پھر وہی خالق و مالک صبر و رضا کی دولت یوں لٹاتا ہے کہ انسان کو کہتے ہی بن پڑتی ہے کہ جس کی امانت تھی۔ اس نے لے لی۔ شکوہ کیسا …‘‘
خط ملتے ہی وزیر آغا کا فون آیا… شاید وہ پہلا اور آخری فون تھا۔
میرے مکالموں کا سلسلہ بھی کچھ عجیب سا ہے۔ سوالنامہ سبھی پسند کرتے ہیں۔ جواب بھی دینا چاہتے ہیں، لیکن مصروفیت آڑے آ جاتی ہے … اور پھر وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔
ایک اور مکالمہ جس کے نہ ہونے کا عمر بھر افسوس رہے گا۔ ڈاکٹر سہیل احمد ۲۸ جون ۲۰۰۶ء کو رقم کیے گئے خط میں لکھتے ہیں۔
آپ کا سوالنامہ مل گیا ہے۔ ان میں جن سوالات کے لیے خود کو کسی حد تک اہل سمجھتا ہوں۔ وہ کچھ روز کے بعد تحریر کر کے ارسال کر دوں گا۔ میری شاعری کے بارے میں جو سوال آپ نے کیے ہیں۔ وہ تو اپنی جگہ اچھا تبصرہ ہیں۔ بہتر یہ ہو گا کہ آپ ان کو مربوط کر کے تبصرے یا مختصر مضمون کی شکل دیں اور ماہ نو یا کسی دوسرے پرچے میں شائع کرائیں۔ ‘‘
یہاں ڈاکٹر سہیل احمد خان کے خط کا اقتباس درج کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چھیاسٹھ سوالات پر مشتمل وزیر آغا سے کیے جانے وا لا سوال نامہ میرے سامنے ہے اور میں ارادہ باندھ رہی ہوں کہ انھی سوالات کو جن میں بعض طویل سوالات بھی شامل ہیں … ایک مضمون کی شکل دے دوں …
٭٭٭
رائے
تین نشستوں میں لیا گیا احمد فراز کا انٹرویو خاصے کی چیز ہے۔ یہ انٹرویو ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ اور سرمد محمود نے کیا۔ یہ انٹرویو احمد فراز کے ادبی سماجی، قومی اور ذاتی خیالات کا مرقع بن کر قاری کے سامنے آتا ہے۔ انٹرویوز کا یہ سلسلہ بہت مفید اور معلوماتی ہے۔ اس میں ہم ادیبوں کے نقطۂ نظر کو ان کی زبان سے سنتے ہیں۔ انٹرویو کی کامیابی اور ناکامی میں سوالات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ قابل تحسین قرار پاتی ہیں۔ ان کے سوالات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ انٹرویو کا آغاز ہی دلچسپی لیے ہوئے۔ سوال کی نوعیت ادبی ہے۔ بات سے بات نکالنے اور سوال کرنے کا ڈھنگ قرۃ العین طاہرہ کو بخوبی آتا ہے۔ اس انٹرویو میں احمد فراز کی نرم و گداز باتیں بھی ہیں اور حقائق کے طنز و نشتر بھی۔
’’ہماری لیڈرشپ جاہلوں کی لیڈرشپ ہے۔ جو آتا ہے قبضہ کر کے آتا ہے۔ اور خود سے جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ‘‘
اپنے لوگوں سے جڑے رہنے کی خواہش، فیض اور ندیم قاسمی سے متاثر ہونے کے باوجود اپنی انفرادیت قائم رکھنا، مشاعرے کے لیے سچ بولنے کی صفت کا لازم ہونا، اقبال کے تصور شاہین پر جدید دور میں تنقید اور اساتذہ اور نصاب تعلیم، سبھی موضوعات پر احمد فراز نے تفصیل سے بات کی ہے۔ یوں ہم شاعر احمد فراز کے علاوہ ایک نئے احمد فراز سے متعارف ہوتے ہیں جو ایک حساس پاکستانی اور مسلمان ہے جو پاکستان اور مسلم امہ کی موجودہ صورت پر کڑھتا ہے۔ اس صورت حال کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے قلم کی طاقت کو استعمال کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ ‘‘
(پروفیسر عظمت ربات۔ لاہور۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ قرطاس گوجرانوالہ اپریل/جون ص 354-355۔ 2008)
ڈاکٹر قرۃ العین کا ’’احمد فراز سے ایک مکالمہ‘‘ بھی خاصے کی چیز ہے
جو عمدہ سوالات اور عمدہ جوابات پر منحصر ہے ‘‘
(بشکریہ لطیف مصور’ پندرہ روزہ سائبان، لاہور یکم تا پندرہ اپریل2008) (سہ ماہی قرطاس، گوجرانوالہ۔ صفحہ 338)
انٹرویو ایک ایسا لفظ ہے جو اپنی معنوی تفہیم ہر دور کے لیے (یعنی لینے والے اور دینے والے کی) صفحہ قرطاس پر بکھر کر بعض اوقات شخصیات کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے۔ یہاں میں محترمہ قرۃ العین طاہرہ کی ذہانت اور صلاحیت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جنہوں نے مشہور شاعر احمد فراز کے اندر چھپے ہوئے تکبر اور تعصب کو اہل ادب کے سامنے جوں کا توں پیش کر کے تاریخ میں محفوظ کر دیا۔ ‘‘
(غالب عرفان کراچی ص 359۔۔ ۔۔ قرطاس۔ اپریل مئی جون2008)
محترم احمد فراز کا انٹرویو بہت متاثر کن ہے۔ اس میں دعوت فکر کا بہت سامان ہے یہ اس قابل ہے کہ اسے توجہ سے بار بار پڑھا جائے۔ البتہ میری عاجزانہ رائے میں بعض کیفیات و تجربات ہوتے تو صحیح ہیں مگر خود ان کا ذکر نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس وقت میرا اشارہ ایک بزرگ سے ان کی ملاقات کے ذکر کی طرف ہے۔ ‘‘
(حفیظ صدیقی لاہور۔ قرطاس اپریل مئی جون 2008۔ ص 358)
’’رشید امجد سے گفتگو ایک مکالمہ ہوتے ہوئے بھی رشید امجد کی شخصیت اور فن پر پوری روشنی ڈالتا ہے۔ قرۃ العین طاہرہ کی یہ قابل تحسین کاوش ہے۔ ‘‘
(ہیرا نند سوز۔ فرید آباد، بھارت تسطیر اپریل ستمبر 1998۔ صفحہ 243)
دوسرا دلچسپ مضمون ’’رشید امجد سے گفتگو‘‘ ہے۔ اس میں نظام تعلیم کے بارے میں رشید امجد کی رائے بہت صائب اور سلجھی ہوئی ہے اور اس سے اختلاف بہت مشکل ہے۔ (قیصر نمکین۔ برطانیہ)
’’رشید امجد سے لیا گیا انٹرویو ان کی شخصیت اور فن پر سیر حاصل روشنی ڈالتا ہے۔ رشید امجد نے بڑے موثر انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس نوعیت کے انٹرویوز کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنا چاہیے۔
(سلیم آغا قزلباش۔ سرگودھا)
’’رشید امجد سے گفتگو بہت معلوماتی رہی اور مجھے بین السطور ان کے حوالے سے بہت ساری باتیں معلوم ہوئیں۔ ‘‘ (غالب عرفان کراچی۔ تسطیر مارچ 1999)
’’مکالمہ کے تحت ہم پہلے رشید امجد پر قرۃ العین طاہرہ کی بات چیت پڑھ چکے ہیں۔ اب کی بار منشا یاد سے بھی ان کا ڈائیلاگ اچھا رہا۔ یہ ایک اچھا سلسلہ ہے۔ اس کو جاری رہنا چاہیے۔ ‘‘
’’یہ جو منشا یاد ہیں یہ بڑے بھیدوں بھرے انسان ہیں۔ گو قرۃ العین طاہرہ نے ان کی ذات کی کھڑکی کے دونوں پٹ وا کیے لیکن اصل منشا یاد کہیں اپنی کہانیوں میں اپنے ناول میں چھپا پڑا ہے۔ وہاں سے کھینچ کر لانا پڑتا ہے ہر بار انہیں۔ ‘‘
(زاہدہ حسن لاہور۔۔ تسطیر مارچ 1999)
’’منشا یاد کے ساتھ قرۃ العین طاہرہ کی گفتگو بہت اچھی رہی۔ منشا یاد کی باتیں، ان کی کہانیوں اور ان کی اپنی شخصیت کی طرح بہت کھری اور ٹو دی پوائنٹ تھیں۔ ‘‘
(عرفان احمد عرفی۔ اسلام آباد تسطیر مارچ 1999)
’’خالدہ حسین سے گفتگو نے تقدیر کے متعلق ان کے خیالات سے آگاہ کیا۔ ان کے خیالات اسلام کے بنیادی ضابطے کی روح ہیں۔ ‘‘
(غالب عرفان۔ کراچی۔ تسطیر ستمبر 1992صفحہ 232)
’’خالدہ حسین سے گفتگو اچھی لگی۔ ‘‘
(آصف فرخی۔ کراچی )
’’خالدہ حسین نے مکالمہ توجہ طلب رہا اور پڑھنے میں لطف آیا۔ ‘‘
(ڈاکٹر انور زاہدی تسطیر)
’’قرۃ العین طاہر کی مستنصر حسین تارڑ سے گفتگو دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ ‘‘
(حامدی کاشمیری۔ سری نگر، کشمیر)
’’قرۃ العین طاہرہ نے مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’بہاؤ‘‘ سے متعلق خاصے ذہنی کمال کے ساتھ سوالات کیے ہیں۔ مستنصر نے ان سوالت کے جوابات بھی بہت ذہنی کشادگی اور دلداری کے ساتھ دیئے ہیں۔ قاری سوالات کی رو میں بہہ بھی جاتا ہے اور رہ بھی۔ ‘‘
(ناصر شہزاد۔ اوکاڑہ۔ تسطیر مارچ 2000صفحہ 393)
’’قرۃ العین طاہرہ صاحب کی ناول نگار مستنصر حسین تارڑ صاحب سے گفتگو بہت اچھی لگی۔ اس گفتگو سے مستنصر صاحب کی شخصیت کے بہت سے پہلو سامنے آئے۔ ‘‘
(سلیم فگار۔۔ جہلم)
’’مستنصر حسین تارڑ کا انٹرویو بہت اچھا ہے یقیناً اس سے قاری کو ناول سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ‘‘
(ڈاکٹر فوزیہ چودھری۔ فور عباس)
’’ناول نگار، سفر نامہ نگار، ٹی وی کمپیئر اور ایک مختلف الجہات شخصیت مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ قرۃ العین طاہرہ کی گفتگو بہت اچھی لگی۔ اس کے ذریعے کم از کم مجھے تو مصنف کی سائیکی کو بہتر طور پر سمجھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ‘‘
(غالب عرفان۔ کراچی مارچ 2001)
’’ملاقات بہت اثر انگیز رہی۔ اُردو میں کتنے نقاد ہیں جو نثر کو پڑھتے ہیں اور ایک مصنف کو مکمل پڑھتے ہیں اور پھر بات کرتے ہیں۔ مصنف کو ایسے لوگوں سے مل کر احساس ہو رہا ہے کہ زندگی رائگاں نہیں گئی۔
(مستنصر حسین تارڑ (راقمہ کے نام ایک خط سے اقتباس)
’’تسطیر‘‘ میں جو ردِ عمل ہوا ہے اسے پڑھ کر میں قدرے حیران ہوا کہ یہ انٹرویو شمارے کا حاصل تھا وغیرہ وغیرہ۔ خاص طور پر اسے ہندوستان کے ادیبوں نے بہت پسند کیا۔ شکریہ!
(مستنصر حسین تارڑ)
’’سوالنامہ موصول ہوا۔ شکریہ! آپ نے یقیناً مجھے خوش کر دیا ہے کسی بھی لکھنے والے کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی اور کیا ہو گی کہ اس کی تحریروں کو تفصیل سے پڑھ کر ان کے بارے میں مناسب سوالات کیئے جائیں۔ مجھے کسی بھی سوال پر اعتراض نہیں ‘ بلکہ آپ بے شک کچھ تنقید بھی اس میں شامل کر سکتی ہیں۔ البتہ قاسمی (عطا الحق قاسمی) والے سوال کے بارے میں اگرچہ نہایت عمدہ جواب موجود ہے لیکن یہ ذرا اس سنجیدہ مکالمے میں غیر ضروری سا لگے گا۔ آپ نے خالدہ (حسین) کے ساتھ جو گفتگو کی تھی وہ بھی نہایت اعلیٰ تھی۔ اس میں شاید کوئی سوال سفر ناموں کے بارے میں بھی تھا۔۔ ۔ مجھ سے بھی وہی سوال پوچھا جا سکتا ہے۔
(مستنصر حسین تارڑ۔۔ (راقمہ کے نام ایک خط سے اقتباس)
’’مستنصر حسین تارڑ سے گفتگو زیادہ تر بہاؤ کے متعلق ہوئی ہے۔ میں نے ان کا ناول راکھ سریندر پرکاش سے لے کر پڑھا تھا۔ وہ ہمارے ادب کے اہم لکھنے والوں میں ہیں۔ ’’بہاؤ ‘‘ ہندوستان میں چھپتا تو یقیناً ہم بھی اس سے لطف اندوز ہوتے۔ قرۃ العین طاہرہ کے انٹرویو نے اس ناول کو پڑھنے کا اشتیاق اور بڑھا دیا۔ ‘‘ (انور خان۔ ممبئی۔ بھارت)
٭٭٭
تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب، تینوں حصے