FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سلسلے تکلم کے

 

حصہ دوم۔ وہ باتیں تری، وہ فسانے ترے

 

 

ڈاکٹر  قرۃ العین طاہرہ

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

مکمل کتاب، تینوں حصے

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

وہ باتیں تری، وہ فسانے ترے

 

 

خالدہ حسین … ایک بھید بھری بات

احمد ندیم قاسمی … ترا انتظار اب بھی ہے

رشید امجد … خوابِ دیگر

سلیم اختر … پیاز کے چھلکے

منشا یاد … شہرِ افسانہ کا بانی

رشید نثار … درویشی لحن…

انور زاہدی … شعور زیست اور شعورِ ذات کا متلاشی

نیلو فر اقبال … جلال و جمال کی کہانی

عذرا اصغر … پھولوں بھری چنگیر

 

 

خالدہ حسین

 

٭  لکھنے کی تحریک کیونکر ہوئی؟

٭٭  لکھنے کی تحریک پڑھنے سے ہوئی۔  گھر کا ماحول ادبی تھا۔  زیادہ تر سائنس پڑھتے تھے۔  پھر بھی والد اور بھائی بہنوں میں شعر و ادب کا ذوق موجود تھا۔  والد علامہ اقبال پڑھا کرتے تھے۔  دادا مثنوی معنوی پڑھتے تھے۔  ہمیں کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔  پھر بھی اچھا لگتا تھا۔  سبھی شوق سے سنتے تھے۔  پھر میری بڑی بہن پنجاب پبلک لائبریری کی ممبر تھیں میں ان کے ساتھ جایا کرتی تھی۔  پھر اس شوق کو مہمیز زاہد ڈار کی بہن ریحانہ ڈار نے دی۔  وہ چھٹی جماعت سے میرے ساتھ پڑھا کرتی تھیں۔  ان کا گھر ادبی گہوارہ تھا۔  ادبی لوگوں کی آ ّمد و رفت رہتی تھی۔  اس کے ساتھ مل کر میٹرک سے پہلے ہی تمام ترقی پسند ادیب و شاعر پڑھ ڈالے۔  جاں نثار اختر، سلام مچھلی شہری، ساحر، اختر الایمان، حفیظ ہوشیار پوری سبھی کو پڑھتے تھے۔  ریحانہ بہت کتابیں لا کر دیتی تھی۔  اس نے بہت پڑھوایا۔  روز کا ایک شاعر یا ادیب پڑھ لیتے تھے۔  میٹرک ہوتے ہوتے خاصا جدید ادب پڑھ چکے تھے شاعری سمیت، فیض کو رٹ لیا تھا۔  مشاعرے میں بھی جاتے تھے۔

٭ تخلیق کار عموماً اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر سے کرتا ہے۔  کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا یا آپ براہ راست افسانے کی طرف آئیں۔

٭٭  میں براہِ راست افسانے کی طرف آئی۔  شعر کہنے کو نہ جی چاہا، نہ کہا نہ خیال آیا، لیکن شاعری کے ساتھ ربط بہت رہا۔  خصوصاً ً اقبال کے ساتھ، پھر فراق و فیض پسندیدہ رہے۔

٭  انسانی فطرت ہے کہ اس کی پسند بدلتی رہتی ہے۔  شعر و ادب میں بھی ایسا ہوتا رہتا ہے، آخر کیوں؟

٭٭  ہمارے تجربات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔  جذباتی و نفسیاتی میدان تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔  فیض میٹرک و انٹر تک پسندیدہ رہا، پھر ساتھ نہیں دے پایا۔  یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شاعر پسندیدہ ہوتا ہے، پھر نہیں رہتا، کچھ عرصہ بعد دوبارہ پسند آ جاتا ہے۔  اپنے تجربات کے حوالے سے بھی پسند بدلتی رہتی ہے۔  غالب زیادہ سمجھ میں نہ آتا تھا لیکن جب کلاسیکی شاعری کو پڑھا تو ترقی پسند ادب چھٹ گیا۔  میر و غالب و درد آ گئے ( میر کے ہاں ہر دو سطح کے اشعار ہیں۔  برے اشعار میں زبان کا استعمال منفرد اور خوبصورت ہے یا بعض ایسے الفاظ بھی انھوں نے شعر میں خوبصورتی سے برتے جو خیال تھا کہ شعر میں آ ہی نہیں سکتے۔  )

٭ آپ کس کے لیے لکھتی ہیں؟

٭٭  اپنا آپ ہی سامنے ہوتا ہے۔  ایک مخصوص کیفیت سے چھٹکارا پانے کے لیے لکھتی ہوں۔  بعد میں خیال آتا ہے کہ اسے کون پڑھے گا۔  اس لیے پڑھنے والوں کے نقطۂ نظر سے کبھی نہیں لکھا۔

٭  خالدہ اصغر اور خالدہ حسین کے درمیان تیرہ برسوں کا وقفہ ہے۔  آپ نے خود کو خالدہ حسین بننے کے بعد خالدہ صغر سے کس قدر مختلف پایا؟ کیا خالدہ حسین نے خود کو ادھوری عورت تو نہیں محسوس کیا؟

٭٭  خالدہ حسین بننے کے بعد خالدہ اصغر مجھ سے جدا ہو گئی۔  میرا خیال ہے کہ وہ بہت ہی جینیوئن عورت تھی۔  جس کے اندر کوئی کھوٹ نہیں تھا۔  مصلحت اندیش نہیں تھی۔  کمپرومائز کرنا نہیں جانتی تھی۔  خالص تخلیقی عورت تھی۔  مکمل وجود تھی۔  وہ تخلیقی عورت جو عملی دنیا میں قدم رکھتی ہے تو اسے جنگ لڑنی پڑتی ہے کہ وہ صرف ایک تخلیق کار بنے یا دنیا دار۔  دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔  تخلیق کاری اور دنیاداری دو الگ الگ چیزیں ہیں ہر تخلیق کار نے یہ جنگ لڑی۔  جنھوں نے تخلیق کے حق میں فیصلہ دیا وہ آگے نکل گئے۔  جنھیں دونوں سے نباہ کرنا پڑا وہ پیچھے رہ گئے۔  پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ تخلیق کار یہ بھی جانتا ہے کہ اگر اس نے دنیاوی کردار ادا نہ کیا تو تجربہ ادھورا رہ جائے گا۔  اس تجربے کو مکمل کرنے کے لیے اسے دنیا کے سمندر میں غوطہ لگانا ہی پڑتا ہے لیکن بہت بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اصل اہمیت تخلیق ہی کی تھی۔  اسے ہی زیادہ وقت دینا چاہیے تھا۔  یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ تخلیق کار کبھی نارمل نہیں ہوتا۔

٭ خواتین تخلیق کار کی مشکلات کا اندازہ آپ کو بخوبی ہے۔  کیا ان کا تدارک ہو سکتا ہے؟

٭٭  عورت مرد تخلیق کار میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔  سوشل سیٹ اپ میں معاشرے نے جو رول دیے ہیں اس میں فرق ہے۔  عورت کی معاشرتی ذمہ داری پہلے، تخلیق کی بعد میں ہے۔  اندرونی طور پر جو کچھ بھی ہے معاشرہ توقع کرتا ہے کہ وہ صرف معاشرتی کردار ادا کرے اور پوری تندہی کے ساتھ ادا کرے۔  مرد کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اچھا باپ، بیٹا، شوہر ہو، اسے بھی تخلیق کے سلسلے میں فرسٹریشن ریتی ہے، لیکن عورت کو زیادہ مسائل پیش آتے ہیں۔

٭  عورت چھ سال کی ہو یا چھیاسٹھ سال کی، مرد معاشرہ اسے ایک ہی نگاہ سے دیکھتا ہے۔  عورت ہونے کا فخر چھین کر عورت ہونے کا کرب دیا جاتا ہے۔  آپ کی تحریروں سے یہ بات عیاں ہے۔  اس کا کوئی حل ممکن ہے؟

٭٭  ہاں میرا افسانہ ’’سیٹی‘ ‘ اسی موضوع پر ہے۔  عورت ہمیشہ جانتی ہے کہ اسے ایک شخصیت کے طور پر قبول کیا جائے۔  میری صلاحیتوں پر جنس کو فوقیت نہ دی جائے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

٭  آپ کی تحریروں میں وقت کی گرفت سے آزاد ہونے کی شدید آرزو نظر آتی ہے، جبکہ یہ ممکن نہیں؟

٭٭  در اصل وقت کی گرفت سے نکلنے کی تمنا، حسرت ان معنوں میں شاید استعمال نہیں کی، بلکہ وقت کو سمجھنے کی خواہش ضرور کی ہے۔  وقت لمحات کاتسلسل نہیں بلکہ یہ انسانی روح کا ایک تجربہ ہے۔  اقبال نے بھی وقت کو اپنے باطن میں محسوس کیا ہے۔  وقت کو میں جس شدت سے محسوس کرتی ہوں وہ حقیقت سے قریب جانے کی آرزو ہے، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وقت سے باہر نہ جا سکتی ہوں نہ وقت کو گرفت میں لے سکتی ہوں۔  ’’زمانے کو برا نہ کہو زمانہ خدا ہے ‘‘ برگساں کے سامنے اقبال نے یہ حدیث پڑھی تو وہ اچھل پڑا کہ یہی تو اصل وقت کا تصور اور حقیقت ہے۔  وقت ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔  ماضی کی یاد یا مستقبل کی امید سب اسی سے منسلک ہے۔

٭ آپ کی بھید بھری کہانیوں میں تشکیک، تذبذب، ابہام اور بے یقینی کی فضا ماحول کا حصہ ہے یا آپ کی ذات کا؟

٭٭  میری زندگی کا تجربہ ہے کہ جو کچھ دیکھا جاتا ہے اس کے پیچھے کوئی اور ہے۔  مادی چیزوں کے پیچھے بھی مجھے محسوس ہوتا ہے۔  عام منظر جیسے ہمیں نظر آتے ہیں ان کی حقیقت یہ نہیں ہے۔  اس حقیقت کو جاننے، ان مناظر کو دیکھنے کی خواہش بہت ہے۔  کبھی کچھ نظر آ بھی جاتا ہے۔  ہماری اساس دینی ہے۔  میں نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا کہ میرا دین سے گہرا تعلق ہے۔  روحانیت غالب رہی ہے۔  ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس کے پیچھے کوئی اور ہے جو نظر آتا ہے وہ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔  اصل میں وہ نہیں ہے اور بہت کچھ ہے۔  میرے محسوس کرنے کا انداز یہ ہے کہ عام دیکھی بھالی چیزوں کی کوئی نئی جھلک یا نئی تفصیل منکشف ہو جاتی ہے۔  یہ میرے اپنے بس کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ میری ذات کی بنیادی خصوصیت ہے جو میں نے خود نہیں پیدا کی ہے، پیدائشی ہے۔  عجیب و غریب اور نامانوس چیزیں مانوس اور کبھی اچانک بیٹھے بیٹھے مانوس چہرے، مانوس شکلیں، مانوس چیزیں سبھی کچھ اجنبی اجنبی سا لگتا ہے۔  کھبی یوں ہوا ہے کہ اب کا دیکھا ہوا منظر لگتا ہے کہ پہلے بھی دیکھ چکی ہوں۔

٭ آپ کے بعض افسانوں کی فضا اساطیری ہے۔  آپ نے قدیم دور کے مسائل اور جدید دور کی پیچیدگیوں کو ایک لڑی میں پرو کر پیش کیا ہے۔  کیا وقت بدل جاتا ہے حقیقت نہیں بدلتی؟

٭٭  بات یہ ہے کہ مسائل کی صورتیں بدلتی جاتی ہیں۔  بنیادی مسائل غیر متبدل ہوتے ہیں ان کی اساس ایک ہی ہوتی ہے۔  پرانی کہانیاں بھی ہر دور میں ایک نئی معنویت دیتی ہیں اور بہت دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں، نئی نئی صورتوں میں سامنے آتی ہیں۔

٭ حقیقت پسند، تجریدی، علامتی، اساطیری اور روایتی بیانیہ افسانے میں آپ کامیاب افسانہ کسے سمجھتی ہیں؟

٭٭  تخلیق انسانی تجربوں کا فنی اظہار ہے۔  نوعیت ایک ہی ہوتی ہے تجربے کی اس کے اظہار کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔  کبھی وہ شعر میں کبھی وہ تصویر میں اور کبھی وہ رقص میں اپنا آپ دکھا جاتا ہے۔  پھر کہانی کی بھی کئی صورتیں ہیں، اس میں ہر دور میں ہر طرح کی چیز لکھی جاتی ہے۔  حقیقت نگاری، بیانیہ، علامتی، تجریدی یہ سب کچھ اس سے پہلے بھی لکھا جاتا ہے بلکہ انہی سب کا اشتراک ادب ہے۔  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تجربہ درست نہیں ہے۔  دیکھنا صرف یہ ہے کہ خلوص اورسچائی موجود ہے کہ نہیں، خواہ وہ کسی بھی انداز میں لکھا جا رہا ہو۔  حقیقت نگار کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ علامت کے پیرائے میں اپنا خیال پیش کرے، نہ علامت نگار پر زور دیا جا سکتا ہے کہ وہ بیانیہ افسانہ لکھے۔  لکھنے والے کو آزادی ہونی چاہے کہ وہ جیسے چاہے لکھے، تجربہ کیسا ہے، لکھا کیسا ہے، اگر ان میں سچائی اور خلوص ہے، پڑھنے والے کو اپیل کر رہا ہے تو کامیاب ہے۔  ہر دور میں ہر طرح کے اظہار مل کر ادب کی مکمل تصویر بناتے ہیں۔  میں تجرید کی قائل نہیں ہوں۔  تجرید اور علامت میں فرق ہے۔  علامت میں ابہام بھی پیدا ہو سکتا ہے۔  ابہام خوفزدہ کرنے والی چیز نہیں۔  تمثیلی انداز، استعاری انداز ہو سکتا ہے افسانے میں لیکن تجرید صرف شاعری میں ہونی چاہیے۔

٭ جدید افسانے کے فکری عناصر، اس کی تکنیک اور اسلوب کے باعث پس منظر میں چلے گئے، آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  کہانی یا اسلوب دونوں الگ الگ نہیں۔  ہر مواد اپنا اسلوب اپنے ساتھ لے کرتا ہے۔  وہ کبھی نہیں سوچتا کہ مجھے کیسے لکھنا ہے۔  وہ اکائی کی صورت میں انسان کے وجدان پر طاری ہوتا ہے۔  اسے سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔  اسلوب کو الگ نہیں کر سکتے۔  اگر الگ کر دیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ زائد ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔  کہانی یا مواد کے بغیر اسلوب کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔  آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں اور آپ پھر بھی کہہ رہے ہیں تو پھر صرف خطابت رہ جاتی ہے۔

٭ علامتی افسانے میں قاری کے لیے ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہوا، کیا یہ حقیقی مسئلہ ہے؟

٭٭  ابلاغ کا مسئلہ اگر اسلوب کی وجہ سے پیدا ہوا تو یہ افسانہ نگار کی زیادتی ہے۔  جان بوجھ کر ابہام پیدا کیا گیا ہے تو اس کا پتہ فوراً چل جاتا ہے۔  اگر خالص تجرید ہے تو وہ بھی الجھا کر رکھ دیتی ہے۔  بعض دفعہ ایک ہی افسانے کی بہت سی تہیں ہوتی ہیں۔  اگر قاری کسی ایک تہہ تک بھی پہنچ گیا تو افسانہ، افسانہ نگار اور قاری سبھی کامیاب ہیں پھر ہر پڑھنے والا اپنے مزاج کے مطابق مطلب اخذ کرتا ہے۔  بعض مرتبہ تخلیق کار اپنی علمیت ظاہر کرنے کے لیے یا کبھی محض فیشن کے طور پر ایسا کرتا ہے تو غلط ہے۔

٭ ادب میں خواتین لکھاریوں کو نظر انداز کرنے یا انہیں ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کا رجحان ہے۔  کیا یہ انداز خواتین تخلیق کاروں کے لیے نقصان کا باعث نہیں۔  اگر عورت بہت اچھا لکھتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اور ہے یا اگر خوبصورت ہے تو اسے اس کی تخلیق پر زیادہ نمبر دے دیے جاتے ہیں؟

٭٭  بات در اصل یہ ہے کہ کبھی عورت کی طرف داری کی جاتی ہے۔  غیر ضروری تعریف کی جاتی ہے اس کے بھی دو روّیے ہیں۔  ایک سرپرستی کا انداز۔  دوسرے ہمدردی، بے چارگی اور رحم کے طور پر، جیسے کسی کو حوصلہ افزائی کی جا رہی ہو۔  یہ بددیانتی ہے۔  اس کے باعث تخلیق کا معیار بھی گر جاتا ہے۔  البتہ یہ بھی ہوا ہے کہ مساویانہ سطح پر عورت کے فن کو پرکھا گیا ہے۔  نقاد انصاف سے کام لیتے ہیں۔  کئی نقاد ایسے ہیں جنھوں نے عورت ہونے کا فائدہ دیا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچایا ہے، بلکہ ایمانداری کے ساتھ اس کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہیں۔  عورت ہونے کی وجہ سے توجہ نہیں دی، یہ نہیں ہوا۔  ضرورت سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔  ادب میں اچھے کام کو بھلایا نہیں جا سکتا۔  ہو سکتا ہے کہ دیر ہو جائے، لیکن بالآخر ہر ایک کے فن کا اصل مقام مل جاتا ہے۔  کسی بھی قابل ذکر نقاد نے عورت کی تخلیقات کو جنس کے حوالے سے نہیں پرکھا۔

٭ خواتین لکھاریوں کا رجحان نثر کے بجائے شعر کی طرف زیادہ ہے، اس کا سبب؟

٭٭  نہیں ایسا نہیں ہے۔  خواتین فکشن کی طرف بھی آئیں بلکہ شروع میں تو ناول ہی لکھے گئے۔  بہت سی خواتین نمایاں ہیں اس سلسلے میں جنھوں نے گھریلو خواتین کے لیے لکھا اور جنھیں بہت پسند بھی کیا گیا۔  البتہ یہ خیال کہ نثر کی بجائے شعر کی طرف رجحان زیادہ ہے اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ نوعمری میں جب تخلیقی کام کیا جاتا ہے۔  اس عمر میں رومانی تجربات کا غلبہ ہوتا ہے۔  نزدیک ترین ذریعہ اظہار، شاعری ہی محسوس ہوتی ہے۔  خواتین ہمیشہ عدیم الفرصتی کا شکار رہتی ہیں۔  نثر لکھنے کے لیے وقت چاہیے، تو ایک عورت بیک وقت اتنے مطالبے پورے نہیں کر سکتی اسے یا کم موقع ملتا ہے۔  اس لیے کم لکھتی ہے۔

٭  بہت پہلے میں نے آپ سے ایک سوال کیا تھا کہ آپ ناول لکھنا چاہتی تھیں۔  لکھنا شروع بھی کیا۔  مکمل نہ کرنے کا، عدیم الفرصتی کے علاوہ کوئی اور سبب تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا تھا۔

’’میں اس کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو گئی تھی۔  کہ آیا یہ سب مجھے لکھنا چاہیئے یا نہیں لیکن اب پانچ چھ سال بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے لکھنا چاہیے۔  اس کی روایتی ہیئت نہیں بن رہی تھی۔  وہ نہایت مختلف نظر آ رہا تھا۔  میں نے ہاتھ روک لیا۔  لیکن اب پہلا باب چھپنے کے لیے دے رہی ہوں۔  اس کے بعد مجبور ہو جاؤں گی، لکھنے کے لیے۔  اس میں ایک لکھنے والی لڑکی کے مسائل کا تذکرہ ہے۔  ہاں آپ اسے کسی حد تک سوانحی ناول کہہ سکتے ہیں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لکھنے والے کا پہلا ناول سوانحی ہوتا ہے۔  ‘‘

اب جبکہ آپ کا ناول ’’ کاغذی گھاٹ ‘‘ کے نام سے شائع ہو کر سنجیدہ ادبی حلقوں سے داد بھی پا چکا ہے اور برسوں پہلے کیے گئے سوال کے جواب میں آپ کا یہ کہنا کہ لکھنے والے کا پہلا ناول کس قدر سوانحی ہوتا ہے، تو اس ناول میں آپ کی زندگی کی واضح، غیر واضح جھلک دکھائی دیتی ہے۔  گھر کا ادبی ماحول، دادا ابا کا مثنوی معنوی سے والہانہ لگاؤ، بچوں کو مثنوی معنوی کے اشعار سنا کر ان کی اخلاقی پرداخت کرنا، فارسی زبان و ادب کی طرف توجہ دلانا۔  مجاز و جذبی و اختر الایمان و ساحر تمام اہم شعرا کا کلام آپ اور آپ کی دوستوں نے میٹرک اور ایف اے کے دوران ازبر کر رکھا تھا۔  آپ کے کردار بھی یہی ادبی ذوق رکھتے ہیں۔  بے شمار واقعات آپ کی زندگی سے مماثل ہیں۔  آپ یہ بتائیں کہ ’’ کاغذی گھاٹ ‘‘ کا محرک کیا تھا۔  اس کا عنوان دیکھتے ہی غالب کے دیوان کا پہلا شعر

نقش فریا دی ہے کس کی شوخی تحریر کا

کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا

ذہن میں آتا ہے۔  ’’ کاغذی گھاٹ ‘‘ زندگی کی بے ثباتی اور تقدیر کے جبر کی طرف اشارہ ہے۔  ’’وہ اکثر چلتے چلتے رک جاتی۔  انسان ہر قدم پر انتخاب کرتا ہے۔  مگر وہ انتخاب ہی در اصل پہلے سے طے شدہ ہے ‘‘ ۔

ماضی کی طرف مراجعت آپ کے لاشعور میں موجود ہے۔  مستقبل ایک خلا ہے جس میں واقعات و عمل کی تخلیق جاری ہے، ان واقعات و سانحات کے رونما ہونے میں فرد کی کاوش اور جد و جہد کا کتنا عمل دخل ہے۔  آپ کے نزدیک… صفر…کاغذی گھاٹ انسان کی سعی اور اس کی مجبوری کے سوالوں کے جواب کی تلاش میں مصروف افراد کی کہانی ہے۔  آپ کے نزدیک کاغذی گھاٹ کی تخلیق کا محرک کوئی واقعہ، کردار، جذبہ، ما بعد الطبعیاتی فضا، وجدان، منطق یا موجود و ناموجود کے درمیان کش مکش ہے؟

٭٭  آپ کے اس طویل سوال کے جواب میں مختصراً یہ کہنا چاہوں گی جہاں تک نام ’’ کاغذی گھاٹ ‘‘ کا تعلق ہے خواجہ حسن نظامی کا ’’من کہ مسمی ایک دھوبی‘‘ مجھے شروع ہی سے فیسینسٹ کرتا تھا، یہ وہیں سے آیا۔  اب آپ کے دوسرے سوالات… میں ماضی میں رہنے والی خاتون ہوں، ناستلجیامیں گرفتار۔  پرانی یادیں مجھے بلاتی رہتی ہیں۔  پرانے لوگوں سے پرانی جگہوں سے روحانی تعلق کو میں چاہوں بھی تو ختم نہیں کر سکتی۔  ہاں اس ناول میں بھی سوانحی عنصر غیر شعوری طور پر یا شاید شعوری طور پر در آیا ہے۔  میں نے دیکھا کہ تحریک پاکستان کے حوالے سے ناول لکھے گئے، لیکن وہ ایرا، جب پاکستان بن گیا۔  وہاں کیا مسائل تھے۔  ایک نو عمر لڑکا… لڑکی نئے وطن کو کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔  پر زیادہ بات نہیں کی گئی۔  یہاں اس لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس نے ہجرت کے عذاب نہیں سہے، وہ اسی سر زمین پر پلی بڑھی ہے۔  وہ لاہور ہی کو اپنا سب کچھ جانتی ہے۔  اپنے بزرگوں سے بٹالے کا ذکر جو بہت وارفتگی سے کیا جاتا ہے، اکثر و بیشتر سنتی رہتی۔  قیام پاکستان کے بعد آبادی کا تبادلہ، ہجرت کر کے آنے والے اور ہجرت کر کے جانے والے، اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔  میں نے ان کرداروں کے ذریعے اپنے محسوسات۔  اپنی سوچیں بھی واضح کر دیں۔  نتیجے میں مجھے بہت سے اعتراضات بھی سہنے پڑے۔  بعض لوگوں نے بہت کھل کر اعتراض کیے۔  ایک بڑا اعتراض تو یہ تھا کہ میں نے صدر ایوب کی بہت کر تعریف کی تھی جو لوگوں کو پسند نہ آئی۔  مجھے صدر ایوب اچھے لگتے تھے۔  انھوں نے پاکستان کو ترقی کی جس راہ پر لگایا، ان کے بعد ترقیِ معکوس ہمارا شعار ہو گئی، پھر مجھے صدر ایوب اپنے والد سے ملتے جلتے بھی لگتے تھے۔  مجھے ان کی شخصیت پسند تھی۔  میں نے مصلحت نہیں دیکھی جو میرا جی چاہا، میں نے بے کم و کاست لکھ دیا۔  میں وقت کو، اس ایرا کو محفوظ کرنا چاہتی تھی۔

٭ آپ نے طویل عرصے تک علامتی و تجریدی افسانے لکھے ’’ہیں خواب میں ہنوز‘‘ اور ’’ میں یہاں ہوں ‘‘ بیانیہ ہے۔  جانے بوجھے کردار ہیں۔  عمومی کہانیاں ہیں۔  واقعات کا بیان ہے۔  گرد و پیش کی زندگی۔  لوگوں نے اسے پسند بھی کیا۔  اب ’’کاغذی گھاٹ ‘‘ بھی ’’سواری ‘‘ ، ’’ پہچان ‘‘ ،، ’’دروازہ ‘‘ سے مختلف اسلوب میں لکھی گئی۔  یہ بات آپ بھی تسلیم کرتی ہوں گی کہ بیانیہ انداز میں تحریر کی گئی تخلیق کی زیادہ پذیرائی ہوئی۔  ذاتی طور پر آپ کس انداز کو پسند کرتی ہیں۔

٭٭  میں نے علامتی انداز میں لکھا یا بیانیہ میں، مجھے کبھی یہ پریشانی یا فکر نہیں ہوئی کہ اس کی پذیرائی ہو رہی ہے یا نہیں۔  سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے شعوری طور پر کوئی اسلوب اختیار نہیں کیا۔  شعوری طور پر کوئی علامت تحریر نہیں کی۔  میرے ساتھ کچھ ایسا تھا کہ میں امیجز میں سوچتی تھی، چیزوں کی معنویت نہیں سمجھتی تھی۔  بس میرے ذہن میں مختلف امیجز بنتے جاتے تھے۔  جو افسانے کا روپ دھار لیتے تھے۔  ابھی میں نے کہا کہ میرا ماضی سے رشتہ بہت گہرا ہے۔  میں چاہوں بھی تو اس سے گریز نہیں کر سکتی۔  ’ ’سواری ‘‘ افسانے کی تخلیق میں بھی لاشعور میں چھپا ماضی ہی تھا۔  ’’سواری‘‘ مجھے ساری زندگی ہانٹ کرتی رہی پھر میں نے کہانی تخلیق کی۔  کردار تخلیق کیے یہ سب میرے ماضیِ بعید کا حصہ تھے۔  میرے بچپن میں میری گلیوں سے ’’ گڈے ‘‘ گزرا کرتے تھے، جن میں بیل جتے ہوتے۔  ان گڈوں میں ہڈیاں، بڑے بڑے خوفناک ہڈ، کھالیں، چمڑا وغیرہ ہوتا، جنھیں کپڑے سے ڈھک دیا جاتا لیکن پھر بھی بہت کچھ کھلا دکھائی دیتا اور اس بہت کچھ دکھائی دینے والے منظر نے مجھ میں خوف، دہشت، ہارر اور موت سے ڈر کی فضا تخلیق کی پھر گاڑی بان بکلیں مارے ہوئے۔  ہوتے صرف ان کی آنکھیں نظر آتیں، باقی سب کچھ چھپا ہوتا۔  اب بڑی بڑی ہڈیاں، ڈھانچے، جن پر دہ ڈالا ہوتا … اور انسان جو چادروں میں مستور ہوتے … جب میں بڑی ہوئی لکھنے کی طرف مائل ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ چیز ہر انسان میں موجود ہے۔  وہ بہت کچھ پوشیدہ ہے۔  کچھ کھلا ہوا بھی ہے۔  شاید انسان کا جسم اس کا ظاہر ہے۔  شاید ضمیر، انسان کا باطن، سب سے چھپا ہوا ہے۔  یہی دیکھی ان دیکھی، سنی ان سنی، معلوم نامعلوم، موجود نہ موجود کی کتھا میری بعد کی تخلیقات میں رقم ہوتی رہی۔  مجھے لوگوں نے بتایا کہ یہ علامت ہے۔  شاید میں اس وقت علامت کے معنی نہیں جانتی تھی۔

بس مجھے صرف ایک خوشی ہوتی تھی افسانہ لکھنے کے بعد، میں جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔  میری شروع کی کہانیوں میں علامتی رنگ نمایاں ہے۔  بعد میں خود بخود، غیر محسوس طریقے سے بیانیہ کی طرف آ گئی۔  شاید شادی شدہ زندگی کی مصروفیات اس کا سبب تھیں۔

٭ لیکن آپ کی شادی شدہ زندگی میں بھی، مصروف عورت کی زندگی میں بھی علامات کا عمل دخل نظر آتا ہے۔

٭٭  ہاں ایسا ہے۔  اب بھی کردار یا کہانی سے زیادہ امیجز مجھے ہانٹ کرتے ہیں۔  اب بھی میرے اندر ایک امیج مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔  پتا نہیں میں کب لکھ سکوں گی لیکن اس امیج نے کہانی کی فضا، اس کے کردار اور اس کی پر اسراریت اور طلسماتی جہات تخلیق کر لی ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ عورت کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے۔  جب وہ غائب کر دی جاتی ہے یا ہو جاتی ہے یا اسے ہونا پڑتا ہے …………‘‘

٭ آپ نے جو کہانی کا خاکہ بیان کیا ہے۔  چونکہ ابھی صفحۂ قرطاس پر رقم نہیں ہوئی، میں اسے حذف کرتی ہوں اور ہم سب اس دنیا میں جغرافیائی طور پر موجود اس طلسماتی اور تحیر زا خطے کی پر اسرایت اور اس دنیا میں عورت کے وجود اور دونوں کے درمیان تعلق کی کہانی کے منتظر رہیں گے۔  بس آپ یہ بتائیں کہ اس کہانی میں موجود تین عورتیں، تین مشہور عورتیں حقیقی کردار ہیں یا تخلیقی۔

٭٭  نہیں بالکل حقیقی تو نہیں ہیں، آپ کو اپنے گرد و پیش میں ان کی مماثلت مل جائے تو اس سے انکار نہیں۔  مرد مشہور عورتوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں لیکن خود ان کی بیوی، بیٹی، بہن، ماں شہرت، اچھی شہرت کی مالک ہو۔  اس میں دو رائے ہو سکتی ہیں۔

٭ اتفاقات تقدیر ہیں یا تقدیر اتفاقات۔  یہ سوال آپ کی پیشتر تخلیقات میں سر اٹھاتا ہے۔  آپ کسی نتیجے پر پہنچی یا ابھی سفر میں ہیں۔

٭٭  میں تقدیر کی قائل ہوں۔  سب چیزوں کا پہلے فیصلہ ہو چکا ہے۔  ایک لمحے یا ایک ثانیے میں جو ہمیں کرنا ہے یہ سب طے ہے۔  ہم پر اب کھل رہا ہے۔  جو نقشہ بنا ہوا ہے ہم اسی پر چل رہے ہیں اس سے سر مو انحراف نہیں کر سکتے۔  سب کچھ pre planned ہے۔  منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔  یہ مجبور محض کا تصور نہیں ہے۔  پہلے خاکہ تھا ہم رنگ بھر رہے ہیں، اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتے۔  جو جو کام مقدر ہو چکے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے۔  میرے ایک افسانے میں ایک لڑکی کا کردار ہے۔  اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کر رہی۔  جو کچھ اسے کرنا ہے، پہلے سے مقرر ہو چکا ہے۔  وہ تو دھوکہ اور فریب کے حصار میں ہے۔  وہ لڑکی اس کیفیت سے نجات پانے کے لیے یہ کرتی ہے کہ جو کام کر رہی ہے اس کے الٹ کرنے لگ جاتی ہے۔  جس راہ پر جا رہی ہے ایک دم وہ بدل لیتی ہے۔  آخر میں پتا چلتا ہے کہ اسے تو جانا ہی اس طرف تھا۔  سبھی کچھ پہلے سے رقم تھا۔

٭ پھر دعا کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔

٭٭  دعا تو ضروری ہے۔  اس کے نتیجے میں جو کچھ ہو گا وہی مقدر ہو گا۔  دعا کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آئے گا وہ بھی پہلے سے مقدر کیا جا چکا ہے۔  دعا کرنا بھی مقدر میں ہے۔  تقدیر ہی تدبیر کرواتی ہے۔

٭ آپ کے افسانوں کے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ معلوم سے نامعلوم اور خارج سے باطن کی طرف سفر کرتے ہیں۔  آپ افسانے میں زندگی کی داخلی تصویریں پیش کرتی ہیں۔  ہم خارج اور باطن کی حد بندی کیسے کر سکتے ہیں جبکہ ہر شخص کائنات کا حصہ بھی ہوتا ہے اور اپنی ذات میں خود کائنات بھی؟

٭٭  دردں بینی یا داخلیت کو ہم کوئی الگ چیز قرار نہیں دے سکتے۔  جتنی دنیا رچتی بستی ہے، جتنے میرے افسانوں میں گھروں، شہروں، بستیوں سڑکوں، محلوں کی تفصیل ہے اتنی کسی اور کے ہاں نہیں، جو داخل ہے وہ خارج اور جو خارج ہے وہ داخل، دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔  زندگی کی بنیاد ہی داخلیت پر ہے۔  اس سے ہم کیسے انکار کر سکتے ہیں۔

٭ کیا اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی؟

٭٭  اردو کے علاوہ پنجابی میں لکھنا چاہتی ہوں۔  کچھ کہانیاں ذہن میں ایسی ہیں کہ جنھیں پنجابی ہی میں لکھا جا سکتا ہے۔  کبھی انگریزی میں لکھنے کو جی چاہتا ہے۔  انگریزی میں نظمیں تو لکھیں لیکن فکشن کی طرف نہ آئی۔

٭ آپ کا غیر ملکی ادب کا مطالعہ بھی خاصا وسیع ہے، ایک تخلیق کار کے لیے دیگر زبانوں کے ادب کے مطالعے کی ضرورت و اہمیت کیا ہو سکتی ہے۔  آپ کس زبان کے ادب اور ادیب کو اپنی زبان اور ذات سے زیادہ قریب سمجھتی ہیں۔

٭٭  لکھنے والے کی شخصیت میں ساٹھ ستر فی صد مطالعے کا حصہ ہوتا ہے۔  ملکی ادب کے علاوہ غیر ملکی ادب کا مطالعہ بھی بے حد ضروری ہے، اس سے آفاقیت کا احساس ہوتا ہے کہ کس طرح کسی دوسرے معاشرے میں انسانی صورت حال بالکل ویسے ہی ہے جیسے کہ اپنے یہاں۔  اب یہ سوال کہ مجھے کس زبان کا ادب اور ادیب پسند ہے تو ایشیائی ادب سے قطع نظر پھر عرب، مصر، فلسطین و ایران یہ سبھی تو اپنے ہیں خصوصاً ً مذہب کے حوالے سے کہ ہماری معاشرتی اقتدار بھی مشترک ہیں تو باہر کے ادب میں جو قریب محسوس ہوتے ہیں تو عجیب بات یہ ہے کہ یہودی لکھنے والے آئی وی سنگر، برناڈ میلاڈ، سموئل قریب ہیں۔  اس کی وجہ مذہبی و روحانی بنیاد بھی ہو سکتی ہے۔  ان کی مذہبی روایات موجود ہیں۔  بے شک مسلمانوں سے فرق ہیں۔  شاید اس وجہ سے پھر روسی ادب خود سے قریب محسوس ہوا۔  وہ بھی انقلاب سے پہلے کا۔  دوستووسکی، ترژنیف، ٹالسٹائی نے بہت اپیل کیا۔  بہت سی باتیں مانوس لگتی ہیں۔  اب کچھ عرصے کے بعد دوستووسکی کو دوبارہ پڑھا تو اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ دوستووسکی دنیا کا سب سے بڑا لکھنے والا ہے۔  اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے زندگی کی تلخیوں، بیماریوں، نا انصافیوں، جہالت اور روحانی توڑ پھوڑ کو ایسی ڈی ایٹچ مینٹ کے ساتھ لکھا کہ اس میں جذباتیت ہے نہ جھنجھلاہٹ اور نہ ہی پروپیگینڈا۔  انسان کی باطنی زندگی وضاحت کے ساتھ، کھلی کتاب کی مانند دکھائی دے جاتی ہے۔  اس نے بھر پور زندگی گزاری۔  آفات و تجربات، موت کی سزا اسے ہوئی۔  مرگی کا مریض وہ تھا۔  بہت بڑا گیمبلر تھا۔  اب حالات نے اسے انسانی تجربوں کی غیر معمولی سطح تک پہنچا دیا۔  جرمن ادب میں کافکا، ہرمن ہسے بہت اپیل کرتا ہے۔  کئی چیزیں بہت اچھی ہیں، فرنچ میں کامیو پسند ہے۔

٭ بیسٹ بک سیلر ضروری نہیں کہ بڑا ادیب بھی ہو، آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  بیسٹ سیلر کبھی (بھی )اچھا ادب نہیں ہوتا۔

٭ کتابوں پر جو انعامات رائٹرزگلڈ یا اکیڈمی کی طرف سے دیے جاتے ہیں، کیا ان کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہوتا ہے؟

٭٭  ہاں اس وقت تک، اس عہد میں جیسا بھی ادب لکھا جا رہا ہے۔  اس میں بہترین ہوتا ہے کوشش تو یہی کی جاتی ہے۔  ہر ایک کی پسند کا معیار مختلف ہو سکتا ہے۔  جس کی وجہ سے کبھی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

٭ ادب میں ہونے والی گروپ بندی، ادب کو نقصان پہنچا رہی ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟

٭٭  ادب کو تحریکوں نے فائدہ پہنچایا ہے لیکن گروپ بندی نقصان کا باعث ہے کسی کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا برا شگون ہے۔

٭ کیا آج ادیب کے لیے پی آر ضروری ہے؟

٭٭  پی آر شپ بالکل ضروری نہیں ہے، لیکن یہ رسم بن چکی ہے۔  ادیب کی قدر و قیمت اس کی تحریر سے ہونی چاہیے۔  تعلقات سے نہیں۔  نہ ٹی وی پر آنے سے نہ ادبی محفلوں میں جانے سے۔  اصل بات یہ ہے کہ کیا لکھتا ہے۔  کتنا لکھتا ہے۔  کیسا لکھتا ہے۔  باقی سب باتیں ضمنی ہیں۔  کئی لوگ تنہائی میں رہ کر اچھا ادب تخلیق کرتے ہیں۔  ذاتی طور پر میں اس بات کی قائل ہوں کہ لکھنے والا جب تک ایک حد تک صوفی نہیں ہو گا اچھا نہ لکھ سکے گا۔  گلیمر تخلیقی تحریک کو کم کر دیتا ہے۔  بہرحال قدر و شناسی ضروری ہے ورنہ لکھنے والے کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے سکوت سخن شناس، تحسین ناشناس دونوں کا اپنا کردار ہے۔  جینوئن لوگوں کی قدر ہونی چاہیے، لیکن یہ ہوتا نہیں ہے۔  یہ المیہ ہے۔

٭ آج کل آپ کی تخلیقی مصروفیات کا کیا عالم ہے؟

٭٭  صحیح طرح سے لکھنا پڑھنا نہیں ہو رہا۔  افسانے وغیرہ ہو جاتے ہیں۔  پچھلے کچھ عرصے میں پانچ چھ افسانے لکھے جو مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔

٭ آپ کے قارئین آپ سے بہت سی ادبی فتوحات کی توقع رکھتے ہیں؟

٭٭  کاش میں ان کی توقع پوری کر سکوں جس کی مجھے بھی توقع نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

احمد ندیم قاسمی

 

٭  پیرزادہ احمد شاہ کو احمد ندیم قاسمی نے کھو دیا، لیکن احمد ندیم قاسمی نے اردو ادب کے دامن کو مالا مال کیا، کبھی زندگی کے کسی لمحے یہ احساس تو نہیں ہوا کہ ’’ پیرزادہ احمد شاہ ‘‘ زیادہ بہتر تھا؟

٭٭  پیرزادہ احمد شاہ بھی احمد ندیم قاسمی ہے اور ندیم قاسمی اندر سے پیرزادہ احمد شاہ ہی ہے۔  میں اپنی ’’ اصل ‘‘ کو نظر انداز کرنے کا قائل نہیں ہوں کہ شخصیت کے تناور درخت کی یہی تو جڑ ہے۔

٭ آپ کو کب احساس ہوا کہ آپ پیر نہیں ادیب ہیں؟

٭٭  پیر تو میں کبھی نہیں رہا۔  صرف ایک پیر کی اولاد ہوں اس لیے ابتدا میں میرے نام کے ساتھ ’’پیرزادہ ‘‘ کا سابقہ ’’ لاحق‘‘ رہا۔  مجھے تو پیری مریدی سے باقاعدہ بیر ہے۔  میں نے مریدوں کے ساتھ پیروں کے ایسے ایسے برتاؤ دیکھے ہیں کہ الامان والحفیظ ! ( میرے افسانے ’’ بین ‘‘ اور ’’ چبھن ‘‘ وغیرہ اس کے گواہ ہیں ) میں نے جب مڈل کلاسوں میں اپنے سرپرست چچا کے کتب خانے میں شامل کتابوں اور رسائل (نگار، صوفی، نیرنگ خیال، ہمایوں وغیرہ ) کا مطالعہ شروع کیا تو تب ہی میرے اندر کا ادیب آنکھیں مل کر بیدار ہوا۔  مگر میں نے چودہ سال کی عمر میں آغاز شاعری سے کیا۔  افسانہ نگاری کی طرف تو چار پانچ سال بعد مجھے میرے دوست محمد خالد نے راغب کیا۔

٭  وادی سون سکیسر میں آپ کے آباء و اجداد کا بسایا گیا ’’اسلام آباد ‘‘ آج پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں (مادی ترقی سے قطع نظر ) آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

٭٭  مالی ترقی کے لحاظ سے میرے اجداد کا اسلام آباد، سکیسر کے قدموں میں پھیلی ہوئی وسیع و عریض جھیل کے کنارے ایک ڈھیری پر بکھرا ہوا ملبہ ہے اور پاکستان کا دارالحکومت، گریڈوں میں بٹا ہوا بظاہر نہایت خوب صورت شہر ہے جس کے قبرستان میں بھی ( شنید ہے کہ ) میتوں کو بھی گریڈوں کے مطابق دفن کیا جاتا ہے۔

٭  سرگودھا کے قصبہ ’’ انگہ‘‘ سے لاہور شہر تک کا سفر، کتنے مراحل درمیان میں آئے؟

٭٭  میرا گاؤں ’’ انگہ‘‘  قصبہ نہیں، گاؤں ہے اور اب یہ ضلع سرگودھا میں نہیں ضلع خوشاب میں ہے۔  انگہ سے لاہور تک کے مراحل بے شمار ہیں۔  دہرانے بیٹھوں تو بات طویل ہو جائے گی۔  مختصراً عرض ہے کہ خوشاب، کیمبل پور اور شیخوپورہ سے ہوتا ہوا میں بہاولپور پہنچا اور وہاں کے صادق ایجوٹن کالج سے ۱۹۲۵ء میں گریجویشن کی۔  تین چار سال بیکاری میں گزرے۔  کبھی گاؤں میں اور کبھی لاہور میں۔  یہ نہایت درجہ آزمائش کے دن تھے۔  ۱۹۳۹ء میں ادھر دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی، ادھر محکمہ آبکاری میں بحیثیت سب انسپکٹر میری ملازمت کا آغاز ہوا۔  مگر ڈیڑھ دو برس بعد وہاں سے بھاگا اور لاہور میں اپنے محسن مولانا المجید مالک کے ہاں آ کر دم لیا۔  انھوں نے ہفت روزہ ’’پھول‘‘ اور ہفت روزہ ’’ تہذیب ‘‘ میں میری ادارت کا بندوبست فرما دیا۔  میں نے اس کے ساتھ ہی رسالہ ’’ ادبِ لطیف ‘‘ کی ادارت بھی سنبھالی۔  لاہور میں چار پانچ سال کے قیام کے بعد میں پشاور ریڈیو سے بحیثیت سکرپٹ رائٹر وابستہ ہو گیا۔   پھر میں لاہور آ گیا اور یہاں سے رسالہ ’’ نقوش ‘‘ جاری کیا۔  مجھے انجمن ترقی پسند مصنفین کا جنرل سیکریٹری منتخب کر لیا گیا اور اس کی پاداش میں ۱۹۵۱ء میں چھ ماہ کی نظر بندی بھگتنی پڑی۔  رہائی کے بعد ۱۹۵۳ء سے روزنامہ ’’امروز ‘‘ کی ادارت سنبھالی۔  ۱۹۵۸ء میں ایوب نے پاکستان پر قبضہ کر لیا تو میں پھر جیل میں تھا۔  فروری ۱۹۵۹ء میں رہا ہوا مگر پھر ایوب خان نے اپنے پڑھے لکھے مشیروں کے مشورے سے ’’ امروز ‘‘ ، ’’پاکستان ٹائمز ‘‘ اور ’’ لیل و نہار ‘‘ پر قبضہ کر لیا اور میں نے ’’امروز ‘‘ کی ادارت سے مستعفعی ہونے کے بعد ۱۹۶۳ء میں رسالہ ’’فنون ‘‘ جاری کیا جو ابھی تک چل رہا ہے۔  ۱۹۷۲ء میں مجلس ترقی ادب کی نظامت سنبھالی۔  ہر تین برس کے بعد اس کے کنٹریکٹ میں اضافہ ہوتا رہا چنانچہ اب تک اس ادارے کا ڈائریکٹر ہوں۔

٭  دیہات آپ کے ضمیر میں رچا بسا ہے۔  کسان، زمیندار، کھیت کھلیان، کنویں، چشمہ چوپال، مویشی، گھبرو جوان، الہڑ مٹیار اور ظالم جاگیردار سبھی آپ کی تحریر میں نمایاں ہیں۔  اگر آپ کا تعلق گاؤں سے نہ ہوتا تو کیا وہ سب ہی آپ کو اس طرح متاثر کرتا؟

٭٭  اگر میرا تعلق دیہات سے نہ ہوتا تو یہ میری بڑی بدقسمتی ہوتی۔  اس صورت میں دیہات مجھے کیسے متاثر کرتے کہ تاثر تو قربت اور برتاؤ سے حاصل ہوتا ہے۔  ہمارے کتنے ہی شہری ادیب دیہات کے بارے میں اول تو لکھتے ہی نہیں اور اگر لکھتے ہیں تو اپنے موضوع سے جھگڑ رہے ہیں۔

٭ آپ کو عموماً دیہات کا اہم افسانہ نگار مانا جاتا ہے، جبکہ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔  آپ نے دیگر مسائل یا یوں کہیے شہری مسائل پر بھی نظر ڈالی ہے، کن موضوعات پر لکھتے ہوئے آپ کا قلم رکنے نہیں دیتا؟

٭٭  میں نے دیہات سے متعلق موضوعات پر افسانے لکھے کیونکہ میں گاؤں میں پیدا ہو،ا وہیں پلا بڑھا میری جڑیں وہیں ہیں۔  بعد میں جب میں شہر میں آیا تو ظاہر ہے یہاں کی زندگی کے بعض ایسے گوشے بھی میرے افسانوں کا موضوع بنے جو میرے تجربے اور مشاہدے میں آئے۔  جس مقام سے گزر ہی نہ ہوا ہو اس مقام کے بارے میں افسانہ لکھنا حماقت ہے۔  یہی وجہ ہے کہ میں نے صرف انہی شہری موضوعات کے بارے میں کہانیاں لکھیں، جن کو میں نے دیکھا اور پرکھا اور برتا۔

٭  پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کی تحریروں کو اگر دیہات کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان میں کیا فرق ہے؟

٭٭  میں منشی پریم چند کو افسانہ نگاری میں اپنا استاد مانتا ہوں۔  ان کے افسانوں کا موضوع بھی دیہات ہے۔  میرے اور ان کے موضوعات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کی کہانیاں یوپی کے دیہات سے متعلق ہیں اور میرے افسانے پنجاب کے دیہات سے کسب فیض کرتے ہیں، پھربیسویں صدی کے کے آخری دہے تک آتے آتے ادب کے مواد اور ہیئت میں بے شمار تبدیلیاں آتی ہیں اور میرے افسانوں میں ان کا انعکاس موجود ہے، منشی پریم چند اگر اس دور میں زندہ ہوتے تو ان کے ہاں بھی بدلتی ہوئی انسانے قدروں کا انعکاس یقیناً ہوتا اور مجھ سے بہتر ہوتا۔

٭  شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال ہے کہ ’’ نئے افسانہ نے پریم چندی افسانے کو مسترد کر کے ادب کی ایک اہم خدمت انجام دی ہے ‘‘ ۔  آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  میں شمس الرحمن فاروقی کے خیال سے متفق نہیں ہوں۔  ’’پریم چندی‘‘ افسانہ صرف ایک دہے میں ان نوجوانوں کے ہاں مسترد ہوا جنھوں نے اپنی کہانیوں میں علامت و تجدید کو اپنایا۔  اس ضمن میں اکا دکا عمدہ کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں، مگر حقیقت پسندی سے فرار نے اردو افسانے کو بہت نقصان پہنچایا۔  بہر حال فاروقی صاحب نے دیکھ لیا ہو گا کہ ’’ پریم چند ی‘‘ افسانے کا ہمہ گیر احیا ہوا ہے اور افسانے کا یہی اسلوب دنیا کے بڑے افسانوں میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔  فاروقی صاحب حقیقت پسند ادیب ہیں۔  میرے اندازے کے مطابق اب تک ان کی رائے بدل چکی ہو گی۔

٭  پہلی تخلیق کب اور کہاں شائع ہوئی؟ اس پر فخر ہے یا چھپاتے پھرتے ہیں۔

٭٭  پہلا افسانہ ’’ بد نصیب بت تراش ‘‘ اختر شیرانی کے رسالہ ’’ رومان ‘‘ میں شائع ہوا، سال یاد نہیں۔  ۳۷۔  ۱۹۳۸ء ہو گا۔  نہایت کمزور اور سراسرجذباتی افسانہ ہے۔  کوشش رہی کہ نقاد اس کی طرف متوجہ نہ ہوں۔  مگر ابھی چند برس پہلے ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب نے سبھی معروف افسانہ نگاروں کے اولین افسانے کتابی صورت میں شائع کر دیے اور یوں میری اخفا کی محنت اکارت گئی۔

٭ ایک مذہبی گھرانے سے تعلق اور ترقی پسند ادب کی تحریک، یہ دونوں امر، اس دور میں متضاد تھے۔  آپ نے انھیں کیسے نبھایا؟

٭٭  ایک مذہبی گھرانے سے تعلق اور ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستگی کے درمیان مجھے کوئی تضاد محسوس نہیں ہوا۔  اسلام دنیا کا ’’ ترقی پسند ترین ‘‘ مذہب ہے۔  یہ ملائیت کے مذہب سے الگ، سادہ اور سچا مذہب ہے اور میری ترقی پسندی نے قرآن و حدیث اور حضورﷺ کے اسوہ حسنہ سے انسپیریشن حاصل کیا ہے۔

٭  ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے بیشتر وہ تھے جو با قاعدہ ادیب نہ تھے لیکن اسے سہارا دینے والوں میں بڑے شاعر اور ادیب شامل تھے۔  آپ کے خیال میں کس تخلیق کار کا کردار زیادہ فعال رہا۔

٭٭  ترقی پسند ادب کی تحریک کے بانیوں میں سجاد ظہیر اور پروفیسر احمد علی وغیرہ کے نام نمایاں ہیں اور یہ باقاعدہ ادیب تھے۔  بعد میں علی سردار جعفری اور سبط حسن اس تحریک کا سہارا بنے۔  فیض صاحب ذرا اونچی سوسائٹی کے ترقی پسند تھے اس لیے ان کے کردار کو فعال قرار نہیں دیا جا سکتا۔  ڈاکٹر تاثیر بھی ایک اہم ترقی پسند تھے مگر قیامِ پاکستان کے فوراً بعد وہ اس نظریے سے پروفیسر احمد علی کی طرح ’’ تائب ‘‘ ہو گئے بلکہ انھوں نے ترقی پسند مصنفین کے خلاف باقاعدہ محاذ قائم کر لیا تھا۔

٭ انجمن ترقی پسند مصنفین ادبی تحریک تھی لیکن اسے بین سیاسی جماعت ہونے کی بنا پر کیا گیا۔  کیا اس طرح قدغن لگانے سے کوئی جذبہ مرتا ہے۔  دیکھا تو یہ گیا ہے کہ ایسے میں ردِ عمل زیادہ شدید ہوتا ہے۔  آپ کی نظر میں پابندی کے بعد لکھا گیا ادب زیادہ موقر ہے یا جو ادب پہلے تخلیق ہوا؟

٭٭  لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے دنوں میں انجمن ترقی پسند مصنفین کو سیاسی جماعت قرار دے دیا گیا اور اس کے اراکین پر ریڈیو اور دیگر سرکاری اداروں کے دروازے بند کر دیے گئے۔  اس پابندی کا صرف یہ اثر ہوا کہ انجمن کے جو ممبر سرکاری ملازمتوں سے وابستہ تھے، وہ انجمن کی عملی سرگرمیوں سے دست کش ہو گئے ورنہ پابندی سے پہلے یا بعد کے تخلیق ادب کا معیار یکساں رہا، ترقی پسندوں نے اس پابندی کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔  مرکزی حکومت کے ایک دانش ور نے مجھ سے ملاقات کی اور مجھ پر سے ( صرف مجھ پر سے ) ریڈیو نشریات کی پابندی ہٹانے کی پیش کش کی، جو میں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ میں چند روپوں کے عوض پوری تحریک اور اس کے اراکین کے ساتھ غداری کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور مجھے شدید دکھ ہوا ہے کہ آپ کے سے دانشور نے، جو کئی کتابوں کا مصنف بھی ہے، بالواسطہ انداز میں ’’ رشوت ‘‘ دینے کی کوشش فرمائی۔

٭ قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد کے ابتدائی دور میں ترقی پسندی نے حقیقت کی ترجمانی کو اپنا مطمح نظر بنایا تو ایسا ادب بھی سامنے آیا جس پر مقدمے قائم ہوئے۔  تخلیق اور مدیر دونوں کو پیشیاں بھگتنی پڑیں، جیسا کہ ۱۹۴۴ء سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’ بو‘‘ اور مضمون ’’ جدید ادب ‘‘ شائع کرنے پر حکومت نے ان کے خلاف فحش لٹریچر کی اشاعت کے سلسلے میں مقدمہ دائر کیا جو ایک برس تک چلا اور بھی کئی مثالیں ہیں۔  آج ادب کے موضوعات میں وہ بے باکی موجود ہے جو ہر قسم کی حدود و قیود سے آزاد ہے۔  یہ صورت حال ادب کے لیے خوش آئند ہے یا نقصان دہ؟

٭٭  منٹو پر افسانہ ’’ کالی شلوار ‘‘ اور عصمت کے افسانے ’’ لحاف ‘‘ کے خلاف مقدمات قیام پاکستان سے پہلے قائم ہوئے تھے۔  پھر میں ۱۹۴۴ء میں رسالہ ادب لطیف کا مدیر تھا اور میں نے منٹو کا افسانہ ’’بو‘‘ اور مضمون ’’ جدید ادب ‘‘ شائع کیا تھا چنانچہ منٹو کے علاوہ میں بھی ملزم ٹھہرا۔  دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور انگریز حکمران کچھ زیادہ ہی احساس ہو گیا تھا ورنہ اس سے پہلے وہ اس طرح کے افسانوں اور مضامین کا زیادہ نوٹس نہیں لیتا تھا۔  بہرحال ان مقدمات میں ہم دونوں بری کر دیے گئے تھا۔  قیام پاکستان کے بعد اتنا ہوا کہ حکومت نے بیک جنبش قلم لاہور کے تین اہم ادبی رسائل کی اشاعت چھ چھ ماہ کے لیے بند کر دی۔  ’’ نقوش ‘‘ ، ’’ سویرا ‘‘ اور ’’ ادب لطیف ‘‘ اس حکم نامے کی زد میں آئے۔  میں نقوش کا ایڈیٹر تھا۔  اس واقعہ کا ایک اور نمایاں پہلو یہ تھا کہ اگرچہ محمد حسن عسکری نے ترقی پسند مصنفین کے خلاف تحریک چلا رکھی تھی، مگر حکومت کے اس اقدام کی مخالفت میں ہمارے ساتھ ہو گئے اور مجھے یاد ہے کہ جب منٹو اور میں جاوید اقبال صاحب کے دولت کدے ’’جاوید منزل‘‘ میں ان کے سرپرست چودھری محمد حسن سے ملاقات کرنے گئے جو اس زمانے میں پولیس برانچ کے انچارج تھے تو عسکری ہمارے ہمراہ تھے اور انھوں نے ہمارا کیس اخباروں میں بھی لڑا۔  منٹو کے افسانہ ’’ دھواں ‘‘ پر بھی کیس چلا تھا۔  یہ رسالہ ’’ جاوید ‘‘ میں شائع ہوا تھا۔  آج تو بے حدود اور قیود افسانہ نگاری اور شاعری بہت زوروں سے تخلیق ہو رہی ہے اور یہ صورت حال ادب کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔  بعض صورتوں میں اس طرح کے ادب کے بعض حصے کھلم کھلا فحش ہوتے ہیں کہ شاید یورپ اور امریکہ میں بھی ان کی اشاعت قابل اعتراض ٹھہرے، شعر و ادب کی تخلیق کے لیے آزادی ہونی چاہیے مگر آزادی کے بھی بعض اپنے مطالبات ہوتے ہیں۔  میرا ایک شعر ہے:

عشق جنوں سہی مگر عشق فقط جنوں نہیں

ہوتے ہیں کچھ مطالبے عشق سے آگہی کے بھی

٭ کیا آج اظہار خیال کی آزادی ہے اگر ہے تو کیا آج کا ادیب اس تجربے سے محروم نہیں ہے جو آپ نے سالوں پہلے جیل جانے کا کیا اور سی کلاس یا بی کلاس مقدر ٹھہری کہ آج کا ادیب اس عہد کے تخلیق کار سے زیادہ خوش قسمت ہے؟آپ نومبر ۱۹۴۹ء میں ترقی پسند مصنفین کے سیکرٹری منتخب ہوئے، مئی ۱۹۵۱ء سے نومبر ۱۹۵۱ء تک تقریباً سات ماہ جیل میں گزارے، اکتوبر ۱۹۵۸ء تا فروری ۱۹۵۹ء پھر سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند رہے، غرض ترقی پسند تحریک کے ساتھ آپ کی وابستگی اور خدمات، سبھی کے علم میں ہیں لیکن اس کا اعتراف، جتنا کہ حق تھا اس قدر نہ کیا گیا۔  اس کی وجہ؟

٭٭  تین مارشل لا کو چھوڑ کر باقی ادوار میں ایک حد تک اظہار خیال کی آزادی تو یقیناً حاصل رہی ہے اور میں نے تو مارشل لا کے دنوں میں مارشل لا حکومت کو للکار کر ایک ادبی کانفرس میں ایسی باتیں کہہ دی تھیں جو مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کو ( خدا انہیں بخشے ) سخت تلخ لگیں اور انھوں نے ان باتوں کا جواب دینے کی بے حد کوشش کی۔  فرق صرف ہے کہ جب ترقی پسند مصنفین یہ آزادی برتتے تھے اور جیل میں بند کر دیے جاتے تھے اور عرصے تک سی کلاسوں کی صورت میں ننگے فرش پر بازو کا تکیہ بنا کر سوتے تھے۔  مگر آج خدا کا شکر ہے کہ ہمارے اہل قلم کو آزادیِ گفتاری کی اس طرح سزائیں نہیں ملتیں اور ہمارے مقابلے میں زیادہ خوش نصیب ہیں۔  میری دعا ہے کہ ان کی اس خوش نصیبی کا سلسلہ جاری رہے۔  ۱۹۴۹ء میں کل پاکستان انجمن ترقی پسند مصنفین کی سیکرٹری شپ مجھ پر زبردستی ٹھو نس دی تھی، جب فیض کے سے سینئر شاعر اور ممتاز حسن کے سے سیئنئر نقاد بھی کانفرنس میں موجود تھے۔  میں نے ( اور ابراہیم جلیس نے بھی ) احتجاج کیا کہ یہ جو متعدد اہل قلم کے بائیکاٹ کی قرار داد مرتب کی گئی ہے اس سے ہمارا متفق ہونا مشکل ہے، اکثریت کی رائے ہمارے خلاف تھی۔  اس لیے بائیکاٹ کی نہایت بیہودہ قرار داد منظور کی گئی جس نے ترقی پسند مصنفین کی تنظیم کے قدم اکھیڑ دیے۔  ۱۹۵۱ء کے اواخر میں جیل سے رہائی کے بعد میں نے ۱۹۵۲ ء میں کراچی میں کل پاکستان کانفرنس کا انعقاد کیا۔  تین سیشن تھے جن کی صدارت ڈاکٹر مولوی عبدالحق، مولانا عبدالمجید سالک اور پیر حسام الدین راشدی نے کی۔  اس میں ہم نے انتہا پسندانہ منشور اور ساتھ ہی بائیکاٹ والی قرار داد واپس لے لی، مگر جو کچھ ہونا تھا، ہو چکا تھا۔  اس کانفرنس میں بھی مجھے سیکرٹری منتخب کر لیا گیا جبکہ میں نے ظہیر کاشمیری کا نام تجویز کیا تھا مگر ظہیر بھی میرے حق میں بیٹھ گئے تھے چنانچہ میں نے سنبھالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور ۱۹۵۲ء میں اس اعلان کے ساتھ مستعفی ہو گیا کہ اگر کوئی صاحب انجمن کو انتشار سے بچانے کا ذمہ لیں تو میں ایک رضا کار کی طرح ان کا ساتھ دوں گا۔  مگر افسوس کہ کوئی آگے نہ آیا۔  میں نے ۷۶۔  ۷۷ میں انجمن کے احیا کی کوشش کی اور معروف ترقی پسندوں کی اس بارے میں رائے پوچھی۔  ان سب کے جواب میرے پاس محفوظ ہیں۔  فوراً بعد ضیا الحق نے پاکستان پر قبضہ کر لیا اور میرا پروگرام دھرا رہ گیا۔  رہی یہ بات کہ میری خدمات کا کماحقہ اعتراف نہیں ہوا تو یہ یقیناً درست ہے۔  مجھے اس اعتراف کی ضرورت بھی نہیں ہے۔  میں نے جو کچھ کیا اس سے میرا ضمیر مطمئن ہے اور ضمیر کے اطمینان سے بڑی نعمت شاید ہی کوئی اور ہو۔  آپ قدر دانی کی بات کرتیں ہیں۔  چلیے ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔  ۱۹۵۶ء میں پاکستانی روزناموں کے سولہ ایڈیٹروں نے عوامی چین کا دورہ کیا اور تبت کے سوا چین کے ہر حصے میں گھومے۔  فیض احمد فیض اس وفد کے لیڈر تھے۔  ہم جس شہر میں بھی گئے وفد کے لیڈر نے وہاں ہمارا تعارف کرایا مگر مجال ہے جو فیض صاحب نے ’’ امروز ‘‘ کی ادارت کے سوا کسی بھی مقام پر یہ کہا ہو کہ یہ شخص شاعر بھی ہے اور افسانہ بھی لکھتا ہے۔  آخری دن جب چینیوں کو کسی طرح میری شاعری اور افسانہ نگاری کا علم ہوا تو وہ ہجوم کر کے مجھ پر محبت سے جھپٹے کہ تم نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا۔  میں نے کہا کہ میں خود جگہ جگہ کہتا پھرتا کہ میں ایک روزنامے کے مدیر کے علاوہ شاعر اور کہانی نگار بھی ہوں؟ آپ یہ سوال میرے وفد کے لیڈر صاحب سے پوچھیے۔  اسی طرح ملتان کے ایک بڑے مشاعرہ کا ذکر ہے۔  صدارت اس زمانے میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ایک سپیکر صاحب کر رہے تھے جنھیں شعر و ادب سے شغف تھا۔  حبیب جالب نے وہاں اپنی نظم ’’ دستور ‘‘ پڑھ دی اور صدر کی حالت مارے گھبراہٹ کے غیر ہو گئی میں نے جالب سے صرف اتنا کہا کہ یار، یہ نظم پڑھنے کے لیے بے شمار دوسرے فارم موجود ہیں۔  مشاعرے کا صدر بے چارہ ’’ بی با ‘‘ آدمی ہے۔  تم نے یہ نظم پڑھ کر اسے پریشان کر دیا ہے۔  اسی بات کو حبیب جالب لے اڑا کہ دیکھو یہ ترقی پسند بنا پھرتا ہے اور مجھے میری نظم پڑھنے سے روکتا ہے۔  میں نے زندگی میں جالب کے لیے بہت کچھ کیا جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں مگر اس نے مجھے اس کا جو بدلہ دیا وہ کچھ ایسا عجیب تھا کہ میرے ساتھ میرے ’’ احسان مندوں ‘‘ نے یہی سلوک روا رکھا ہے۔  اس صورت میں میری خدمات کا اعتراف کون کرے !

٭ خود ساختہ جلا وطنی کی اصطلاح ہمارے بعض تخلیق کاروں کے بارے میں مروج ہے آپ کی رائے کیا ہے؟

٭٭  جو جلا وطنی محترم فیض صاحب اور میرے عزیز فراز صاحب نے اختیار کی، اسے ’’ خود ساختہ ‘‘ جلا وطنی تو قطعی نہیں کہوں گا، البتہ یہ خود اختیار کردہ جلاوطنی تھی اور اس کا اظہار دونوں نے کیا۔  یہ تو ان کے عقیدت مندوں کی محبت کا اعجاز تھا کہ انہیں جلا وطن قرار دے کر نظمیں لکھتے رہے ورنہ خود انھوں نے اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔  اس طرح تو کرہ ارض پر پاکستان کے لاکھوں ’’ جلا وطن ‘‘ موجود ہیں۔

٭  علامہ اقبال آفاقی شاعر ہیں۔  آپ بھی ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔  شاعر کی تخلیق کو جتنی مرتبہ پڑھا جائے معنی کے نئے نئے در وا ہوتے ہیں۔  ابتدائی دور میں چند ایک معاملات میں آپ کو اقبال کے نظریات سے اختلاف تھا مثلاً شاہین کا کبوتر پر جھپٹنا، مرد مومن کا تصور پیش کرنے کے باوجود خود اقبال کا اپنی کتابوں کو غازی امان اللہ شاہ افغانستان، نواب آف بھو پال، نادر شاہ افغانستان وغیرہ کے نام معنون کرنا … کیا آپ اس پر اب بھی قائم ہیں۔

٭٭  جی ہاں۔  اقبال کی عظمتوں کا معترف ہونے کے باوجود میں آج بھی ان اعتراضات کو دہرانے کو اس لیے تیار ہوں کہ آج تک ان کے کسی عقیدت مند نے مجھے میرے ان اعتراضات کا تسلی بخش جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔  کبوتر کے سے معصوم پرندے پر شاہین کو چھوڑ دینا، ’’ پیام مشرق‘‘ کو امان اللہ خان والی افغانستان سے منسوب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’ اے امیر، ابن امیر، ابن امیر ‘‘ کچھ ایسی بات ہے جو اقبال کے منہ پر نہیں سجتی کہ امیر، ابن امیر، ابن امیر ہونا ازروئے اسلام بھی کوئی قابل فخر بات نہیں ہے۔  پھر اپنی دوسری کتاب اسی امان اللہ خان کے تخت کو غضب کرنے والے نادر خان کے نام منسوب فرما دینا بھی مجھے بھلا معلوم نہیں ہوا۔  اگر علامہ صاحب اپنی ’’ ضرب کلیم ‘‘ نواب بھوپال کی بجائے اپنے خدمت گزار علی بخش کے نام منسوب کر دیتے تو ان کی عظمتوں میں مزید اضافہ ہو تا۔  اتنی سی بات ہے ورنہ میں علامہ کے کمالات کا بے حد احترام کرتا ہوں۔

٭ کیا آپ کی ملاقات علامہ صاحب سے بھی ہوئی۔  آپ کے ساتھی حفیظ ہوشیار پوری ان لمحات کو ’’ عمر عزیز کے بہترین لمحے ‘‘ کہتے ہیں۔  آپ کی زندگی میں عمر عزیز کے بہترین لمحے کون سے ہیں۔

٭٭  جی ہاں۔  ایک بار علامہ اقبال کے حضور حاضری کا شرف حاصل ہوا تھا۔  مولانا عبدا لمجید سالک اور مولانا چراغ حسن حسرت، حضرت علامہ کے ہاں جا رہے تھے سو وہ مجھے بھی ساتھ لیتے گئے۔  یہ شاید ۱۹۳۸ء کے اواخر کا ذکر ہے۔  مجھے سعادت صرف اس حد تک ہوئی کہ علامہ کو دیکھا۔  وہ جاوید منزل کے سامنے والے لان میں پلنگ پر نیم دراز حقہ پی رہے تھے۔  محترم سالک صاحب نے میرا تعارف کرایا تو انھوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اس کے بعد میں ان کی گفتگو سنتا رہا۔  میں بیس برس کا لڑکا تھا۔  شاعری کا آغاز تھا میں ان کی گفتگو میں کیسے شامل ہو سکتا تھا۔  علامہ اور سالک صاحب کی گفتگو کا موضوع بیشتر مولانا ظفر علی خان رہے۔  اسی ملاقات کے بعد چراغ حسن حسرت صاحب نے ایک کلاسیکل جملہ کہا کہ جب خاصی دیر کے بعد علامہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ مولانا آپ کیا سوچ رہے ہیں، تو چراغ حسن صاحب نے کہا ’’ میں آپ کے حقے کی خودی پر غور کر رہا تھا ‘‘ علامہ یہ سن کر بے حد محظوظ ہوئے حفیظ ہوشیار پوری کو علامہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے زیادہ موقعے ملے۔  وہ عمر میں مجھ سے سیئنیر بھی تھے۔  میری زندگی میں ’’ عمر عزیز کے بہترین لمحے ‘‘ وہ تھے جب مجھے ہر دور میں اتنی بے شمار محبتیں ملیں جو مجھ سے سنبھالے نہیں سنبھلتی تھیں۔

٭ انجمن ترقی اردو، رائٹرز گلڈ اور اکادمی ادبیات کون سا ادارہ اردو کے لیے، کون سا ادارہ ادیبوں کے لیے اور کون سا ادارہ افسروں کے لیے خدمات انجام دے رہا ہے؟

٭٭  متذکرہ، تینوں اداروں میں سے صرف انجمن ترقی اردو ہی اردو کے لیے خدمات انجام دے رہی ہے اور وہ بھی ایک حد تک۔  اکادمی ادبیات سرکاری ادارہ ہے اس نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ محدود اور ایک طرح سے یک طرفہ ہیں۔  رائٹرز گلڈ بھی ایوب خان کے مارشل لا کے دور میں صورت پذیر ہوا مگر اس کا یہ پہلو قابل ذکر ہے کہ اس کے عہدیدار الیکشن کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں حکومت کی طرف سے مقرر نہیں ہوتے۔

٭  کیا آدم جی انعام، داؤد ادبی انعام یا دیگر غیر سرکاری انعامات ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ضروری ہیں۔  آج کل ان کی کیا صورت حال ہے؟

٭٭  آدم جی ادبی انعام، داؤد ادبی انعام یا دیگر غیر سرکاری ادبی انعام کا اہتمام گلڈ کے جنرل سیکرٹری جمیل الدین عالی صاحب نے کیا تھا۔  یہ معمولی رقوم کے انعامات تھے مگر بہرحال ان کے قیام کے آغاز کے بعد یہ اہل ادیبوں میں تقسیم ہو تے رہے مگر بعد میں یہ بھی سفارش بازی کی زد میں آ گئے۔  اس لیے اپنی ادبی افادیت کھو بیٹھے۔  اس وقت ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

٭  اولین افسانہ ’’ بد نصیب بت تراش ‘‘ سے آج تک کا سفر، افسانے نے کئی کروٹیں بدلیں۔  آپ خود اپنی تحریر کے متعلق کیا محسوس کرتے ہیں۔  اس نے اسلوبی و تکنیکی سطح پر کتنے رخ بدلے۔

٭٭  ’’ بد نصیب بت تراش سے لے کر ’’ کوہ پیما ‘‘ تک میرا افسانہ اسلوبی اور تکنیکی لحاظ سے مسلسل تغیر پذیر رہا۔  ابتدا میں میرے افسانوں میں میرا شاعرانہ مزاج غالب تھا، یوں سمجھیے کہ ابتدا کے افسانوں میں تو میں باقاعدہ نثری شاعری کرتا رہا۔  آہستہ آہستہ میرے افسانوں سے شاعرانہ اثر جھڑنے لگا اور میں کھرے حقائق کی دنیا میں داخل ہوا۔  ’’ ہیروشیما سے ہیروشیما کے بعد ‘‘ میری افسانہ نگاری کا ایک اہم موڑ متعین کرتا ہے۔  قیامِ پاکستان کے دنوں میں فرقہ ورانہ فسادات نے میرے تصورات کو مجروح کیا اور میں نے جو افسانے لکھے ان میں میرا یہ دکھ نمایاں ہے۔  پھر یوں ہوا کہ میرے افسانوں میں غیر معمولی اختصار آ گیا۔  اب میں کسی بھی غیر ضروری لفظ سے، کسی بھی غیر ضروری جملے سے افسانے کی فضا کو، اس کی روح کو مجروح کرنے کا روادار نہیں ہوں۔  یہی وجہ ہے کہ میرے افسانوں میں compactness پیدا ہو گئی ہے اور وہ صحیح معنوں میں ’’ مختصر افسانے ‘‘ ہوتے ہیں۔

٭ افسانے میں واقعیت کہاں تک ممکن ہے۔  کیا حقیقت نگاری اور واقعات کا وا شگاف اظہار افسانے کو تلخی عطا نہیں کرتا؟

٭٭  ایک حقیقت ہوتی ہے اور ایک فنی حقیقت ہوتی ہے۔  افسانے میں حقیقت محض کا بیان اسے اخباری خبر بنا سکتا ہے مگر حقیقت جب فن سے آراستہ ہو کر افسانے میں اظہار پاتی ہے تو زیادہ قابل قبول ہو جاتی ہے۔  تلخی تو حقیقت نگاری میں بھی پیدا ہو سکتی ہے اور علامت نگاری اور تجدید نگاری سے بھی اور کہانی میں تلخی کا وجود بعض اوقات اس لیے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ فن کار کا ہدف ہی یہی تلخی ہوتا ہے۔

٭  آپ کے افسانوں کے مطالعے سے پاکستان کی مکمل تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔  تحریک خلافت، قیامِ پاکستان، فسادات و ہجرت کے مصائب، جاگیردار، نمبردار، سامراجی ذہنیت پھر ۱۹۶۵ء کا عہد آفریں تجربہ، ۱۹۷۱ کا سقوط ڈھاکہ، کشمیر کا جذبۂ آزادی۔  غرض ادب اور تاریخ ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔  افسانہ نگاری کی واقعیت براہ راست اسی ماحول سے ہے اس لیے تاثر اور تاثیر بھر پور اور دیر پا ہے۔  کیا آپ سوچتے ہیں کہ دیگر عالمی مسائل کو بھی موضوع بحث بناتے ہوئے اپنے آپ کو آفاقی اور کائناتی حوالوں سے تسلیم کروائیں؟

٭٭  قطعی نہیں۔  کسی صورت میں نہیں۔  اگر مجھ میں پاکستانیت نہیں ہے تو پھر آفاقیت اور کائناتیت باطل ہو گی۔  اگر کوئی عالمی مسئلہ براہ راست میرے ملک و قوم پر منفی طور پر اثر انداز ہو رہا ہے تو ممکن ہے، وہ میرے افسانے کا موضوع بن جائے مگر اولیت بہرحال میرے اپنے ملکی اور ملی مسائل کو حاصل ہے۔  میں انہی مسائل کے بارے میں زیادہ بہتر انداز میں لکھ سکتا ہوں جو میرے تجربے اور مشاہدے سے گزر رہے ہیں۔

٭  جنگ کی ہولناکی، آپ کے کئی افسانوں کا موضوع ہے۔  کیا اس آزار سے رہائی کی کوئی ترکیب موجود نہیں۔

٭٭  اب جبکہ ایٹم بم امریکہ کے علاوہ روس، چین، فرانس، برطانیہ، بھارت اور پاکستان کے پاس بھی ہے، جنگ کا امکان اگر ختم نہیں ہوا تو کم ضرور ہوا ہے۔  جب ایک دوسرے کو چند گھنٹوں کے اندر بھسم کیا جا سکتا ہے تو پھر جنگ صرف اس صورت میں شروع ہو سکتی ہے کہ جب ان ایٹمی طاقتوں میں سے کسی کے حکام ایک دم پاگل ہو جائیں اور پورا کرہ ارض سلگتا انگارہ بن کر رہ جائے۔  لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔  اسی طرح ایٹم بم ہی ایٹم بم کو روکتا ہے۔  اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

٭ مذہبی رہنماؤں یا با الفاظ دیگر مولوی صاحبان کے متعلق عوام کا نظریہ فاتحہ اور حلوے تک محدود ہے۔  آپ نے ان کی زندگیوں کے دکھوں اور مسائل کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔  اس کا خیال آپ کو کیسے آیا؟

٭٭  میں ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جس میں پیری مریدی کے علاوہ مذہبی رہنمائی کی مثالیں بھی موجود ہیں۔  مولانا غلام مرشد مرحوم جو بہت بڑے عالم دین اور شاہی مسجد کے خطیب تھے۔  میرے سگے خالہ زاد بھائی تھے۔  متعدد دیگر رشتہ دار بھی مولوی تھے اور مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔  میں نے ان کی زندگیوں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے چنانچہ میرے بعض افسانوں میں ان کی زندگیوں کے وہ رخ زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں جن کی طرف دوسرے لوگ دیکھ بھی نہیں سکتے۔  بلکہ سوچ بھی نہیں سکتے۔

٭  آپ کے افسانوں میں عورت کپاس چنتی نظر آتی ہے اور فکر معاش کے لیے جد و جہد کرتی بھی۔  کہیں وہ کنول کا پھول ہے کہیں وہ مجبوریوں کے دلدل میں دھنستی اپنے لیے وہ لفظ بھی سننے پر مجبور ہے جو سننا نہیں چاہتی۔  آپ خود عورت کو کس کردار میں، کس مقام پر دیکھتے ہیں؟

٭٭  عورت ہمارے معاشرے کی مظلوم ترین مخلوق ہے اور پورے کرہ ارض پر، نہایت ترقی یافتہ معاشروں میں بھی عورت کے بنیادی انسانی حقوق پر مرد غاصب بن کر سوار ہیں۔  آپ نے دیکھا ہو گا کہ میرے افسانوں میں عورت محنت اور کار کردگی کی ایک مثال ہے، مگر اس کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور معاشرے کے مختلف طبقات کے خلاف علمائے دین نے عورت کی جس طرح ہتک کی ہے اور کر رہے ہیں وہ عورت کی ہر جہتی مظلومیت کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔  البتہ بعض صورتوں میں عورت، عورت کا استحصال کرتی نظر آتی ہے۔  اس کی مثال میرا ایک افسانہ ’’ تماشا‘‘ ہے یہ بھی گذشتہ کئی صدیوں کی ایک غلط روایت ہے اور اس کے پس پردہ بھی مرد کی جارحیت ہی ہو سکتی ہے۔  پھر یہ معاشرہ مرد کا ہے مگر ہم کتنی بے حیائی سے اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی تیرہ کروڑ ہے، جبکہ ان تیرہ کروڑ میں ساڑھے چھ کروڑ عورتیں ہیں، ایک ڈیڑھ کروڑ بچے ہوں گے باقی پانچ کروڑ بچتے ہیں۔  اصل آبادی یہی عورتیں ہیں۔  جن کی حیثیت صفر سے بھی کم ہے۔  ساتھ ہی صدیوں سے عورت کی شہ رگ گرفت میں لے رکھی ہے۔  عورت قدرت کی نہایت درجہ خوب صورت تخلیق ہے، پھر وہ بچے پیدا کرنے کے جس لرزہ خیز عمل سے گزرتی ہے، اس کا مرد تصور بھی نہیں کر سکتے۔  عورت ہماری ماں، بہن، بیٹی، بیوی، محبوبہ غرض ہر کردار میں توازن اور اپنائیت کی تجسم ہوتی ہے۔  اگر کسی عورت میں کوئی خرابی نظر آتی ہے تو وہ اس کی غلط تربیت اور ماحول کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔  بہرحال میں مرد اور عورت کے حقوق کی مساوات کا قائل ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرے افسانوں میں میرا جذبہ فن کے پردے میں بین اسطور پڑھنے والے کو غیر محسوس طور پر متاثر کرتا چلا جائے۔

٭ آپ کے نزدیک خدا، انسان اور کائنات کا آپس میں تعلق مضبوط ہے یا اس رشتے کی کڑیاں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔

٭٭  انسان، خدا اور کائنات کا رشتہ نہ کسی دور میں کمزور ہوا ہے نہ آئندہ ہونے کا احتمال ہے، جو لوگ اس رشتہ کی کڑیاں کمزور کرتے ہیں، وہ در اصل خدا اور انسان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے کتراتے ہیں اور فرار اختیار کرتے ہیں، ورنہ خدا، انسان اور کائنات کے مضبوط رشتے کا اثبات ہمیں ذہنی توانائی بخشتا ہے۔

٭ پنجابیوں نے اپنی زبان کو پس پشت ڈال کر اردو زبان کی خدمت کی ہے۔  اردو سے محبت پنجابی زبان کے لیے نقصان دہ نہیں ہے؟

٭٭  پنجاب کے شاعروں اور ادیبوں میں سے بیشتر نے اردو زبان کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔  در اصل ہم نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان۔  حفیظ جالندھری وغیرہ کا چرچا تھا اور یہ پنجابی ہونے کے باوجود اردو میں لکھتے تھے اور ہم ان کے طرز عمل سے متاثر ہو کر اردو میں لکھنے پڑھنے لگے، ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اس طرح ہم نے اپنی ماں بولی یعنی پنجابی کی شدید حق تلفی کی۔  کم سے کم پنجاب میں تو اردو سے محبت پنجابی ادب کے لیے مضر ثابت ہوا۔  ہمیں دونوں زبانوں کے مساوی حقوق ادا کرنے چاہیے تھے۔  بہرحال اب اردو لکھنے والے پنجابی میں بھی لکھنے لگے ہیں اور یہ بہت خوش آئند رجحان ہے۔

٭ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کو دور کرنے یا ہوا دینے میں ادب کا کردار کیا ہے؟

٭٭  ادیب، سچا ادیب علاقائی اور لسانی عصبیتوں سے بلند ہوتا ہے۔  ہم نے ان عصبیتوں کو ختم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے مگر حتمی طور پر سبھی علاقائی اور لسانی حلقے صرف اس طرح ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں۔  جب بین اللسانی تراجم کا ہمہ گیر سلسلہ شروع ہو۔  تب ہر علاقے کو اور ہر زبان بولنے لکھنے والے کو محسوس ہو گا کہ۔  ارے ! ہم تو ایک ہی طرح سوچتے ہیں اور ایک ہی سے لہجے میں ایک ہی سی بات کرتے ہیں ! اس طرح عصبیتوں کا نشان باقی نہیں رہے گا۔

٭ آپ کے کن افسانوں کا ترجمہ علاقائی یا غیر ملکی زبانوں میں ہو چکا ہے اور کیا تراجم اصل تخلیق کی روح کو برقرار رکھتے ہیں؟

٭٭  افسوس کہ میں اپنے ان افسانوں کی فہرست پیش نہیں کر سکوں گا جن کے ترجمے دوسری زبانوں میں ہو چکے ہیں۔  اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ میرے متعدد افسانوں کے تراجم چینی، جاپانی، روسی، جرمن، اور انگریزی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔  مراٹھی، بنگلہ، پشتو اور پنجابی زبان میں بھی تراجم ہوئے ہیں۔  کسی صاحب نے بتایا تھا کہ فارسی میں بھی ہوئے ہیں۔  افسوس کہ اس سلسلے میں میرے پاس مفصل معلومات موجود نہیں ہے۔  اور چونکہ میں ( انگریزی کے سوا) دوسری زبانوں سے بے خبر ہوں اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ میری تخلیقات ان تراجم میں منتقل ہوئی ہیں یا نہیں۔  انگریزی میں جو تراجم ہیں ان میں میرے افسانوں کی اصل روح بہت حد تک برقرار ہے۔

٭ ہینری جیمس کا خیال ہے کہ ناول نگار در اصل ڈرامہ نگار ہوتا ہے اور جس ڈرامے میں واقعات کا اظہار کردار کے حوالے سے ہوتا ہے۔  اسی طرح ناول میں بھی ہونا چاہیے، آپ کے افسانوں میں کردار کی اہمیت کیا ہے؟

٭٭  افسانے (ا اور ناول) کا کردار ہی تو ساری تخلیق کا مرجع ہوتا ہے کردار سے قطع نظر کر کے افسانے کی صورت میں واقعات بیان کرتے چلے جانے سے فن وفات پا جاتا ہے۔  کردار افسانے کا مرکز ہے اور مرکز سے گریز موت ہے۔

٭  اردو ادب میں بڑے ناول کم لکھے گئے۔  آپ نے بھی ناول کی طرف توجہ نہ دی اس کا سبب؟

٭٭  اردو میں اگر منشی پریم چند مختصر افسانے کے فن کا آغاز نہ کرتے تو افسانے کا فن بھی ناول کی طرح پس ماندہ ہوتا اور ہم اب تک داستانیں لکھ رہے ہو تے۔  در اصل انگریزی کے توسط سے مغرب کے ادب کے مطالعے نے ہمارے جذبہ تخلیق کو مہمیز کیا اور پریم چند کے بعد اردو کے مختصر افسانے نے حیرت انگیز ترقی کی۔  ناول کے لیے وقت اور فرصت درکار ہوتی ہے اور مجھ سمیت بیشتر تخلیق کاروں کے ہاتھ معاش کی زنجیروں نے جکڑ رکھے ہوتے ہیں۔  اس کے باوجود خدیجہ مستور، مستنصر حسین تارڑ، انتظار حسین، عبداللہ حسین، الطاف فاطمہ اور انیس ناگی وغیرہ نے معیاری ناول لکھے۔  ناول نویسی کے فن پر جمی ہوئی برف کی تہیں چٹخا دی ہیں۔

٭ کیا اعلیٰ ادب کی تخلیق کے لیے غربت کی بھٹی میں جلنا ضروری ہے؟

٭٭  قطعاً ضروری نہیں، اعلیٰ ادب کی تخلیق کے لیے اگر غربت و افلاس ضروری ہوتا تو ہم گوئٹے اور ٹالسٹائی وغیرہ کے فن پاروں سے محروم ہوتے۔  ’’ادب کے لیے افلاس ضروری ہے ‘‘ کا مغالطہ سرمایہ داروں نے پھیلایا ہے۔  یہ درست ہے کہ غریب اور مفلس ادیبوں نے بھی اعلیٰ ادب تخلیق کیا ہے۔  مگر میرا ایک شعر ہے:

وہ اور چیز ہے ہوتے ہیں جس سے دل شاداب

تری بہار سے ویرانی خزاں نہ گئی

٭  ادب میں گروہ بندی کبھی پسندیدہ نہیں رہی، لیکن موجود ہر دور میں انشا و مصحفی کے معرکے ہوں یا آتش و ناسخ کی ادبی چپقلش، یہ نوک جھونک تو زندگی کی علامت ہے، لیکن آج کا ادیب جس گروہ بندی کا اظہار کر رہا ہے وہ عام قاری کی ادب سے دلچسپی پیدا کرنے کے بجائے اسے ادب سے متنفر کر رہا ہے۔  آپ بھی لاہور بلکہ پاکستان کے ایک بڑے ادبی گروہ کے سرخیل تصور کیے جاتے ہیں۔  آپ کے ساتھ ایک بڑے انسان کا تصور تو سجتا ہے۔  ادبی گروہ کے لیڈر کا نہیں۔  اس دلدل سے نکلنے کی کوئی سبیل ہے۔  دوسرا سوال یہ ہے کہ نیازمندان لاہور کا حلقہ بھی قیام پاکستان سے پہلے بہت فعال تھا۔  خصوصاً ً پطرس اور تاثیر یو پی کے اہل زبان کو بھر پور جواب دیا کرتے تھے۔  ادبی نوک جھونک دلچسپ تھی، نفرت انگیز نہیں، خصوصاً ً قاری اس سے حظ اٹھاتا تھا۔  کیا اب ایسا نہیں ہو سکتا۔  تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اپنی شناخت کے لیے کسی ادیب کو کسی گروہ سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔

٭٭  آپ بھی دوسرے کئی لوگوں کی طرح اس غلط فہمی میں مبتلا معلوم ہوتیں ہیں کہ میں کسی ادبی گروہ کا ’’ سرخیل‘‘ ہوں۔  میں آپ کو اور پوری ادبی دنیا کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا کوئی گروہ ان معنوں میں نہیں ہے جن معنوں میں آپ نے اسے استعمال کیا ہے۔  معیاری شاعری اور معیاری ادب لکھنے والے تمام لوگ میرا ادبی گروہ ہیں۔  وہ چاہے کسی بھی دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی بھی نقطۂ نظر کے حامی ہوں۔  میرا رسالہ ’’ فنون‘‘ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ میں گھٹیا قسم کی گروہ بندی کی رو سے رسالہ مرتب نہیں کرتا بلکہ اس میں ہر مکتبِ فکر کے تخلیق کار کو شامل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔  میں ترقی پسند ادب کا مرید ہوں مگر جو اہل قلم اس ادب سے متفق نہیں ہیں وہ بھی مجھے عزیز ہیں۔  وہ تخلیق کار ہیں اور تخلیق کاری ایک محترم فعل ہے۔  یوں سمجھیے کہ کسی گروہ کی سرخیلی مجھ پر اتہام ہے۔  بعض اہل قلم میرے قریب ہیں اور میرے دوست ہیں۔  اگر وہ میرے آس پاس موجود ہیں تو وہ میرا گروہ کیسے ثابت ہو سکتے ہیں۔  ایک گروہ پچھلے پچیس تیس سال سے مجھ پر گندگی اچھال رہا ہے، مگر اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ میرا بھی کوئی گروہ ہے۔  میں ایک مثال دوں گا۔  آج کل مسٹر منیر نیازی کہتے ہیں ندیم نہ کبھی شاعر تھا اور نہ آج شاعر ہے۔  مگر یہی منیر نیازی مجھ سے ایک کتاب کا دیباچہ لکھوانے آئے اور میں نے لکھ دیا۔  میں نے ان کی کتابوں کی ایک سے زیادہ تقریبات رونمائی میں شرکت کی، ان کی تحسین کی اور ان پر الزامات کی تردید کی۔  آج وہ ایک سے زیادہ بار مجھ پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہے ہیں مگر جب میں نے ان کی علالت کا سنا کہ وہ شیخ زید اسپتال میں داخل ہیں تو میں اعجاز رضوی صاحب کو ہمراہ لے کر فوراً ہسپتال پہنچا مگر وہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہ گھر تشریف لے گئے ہیں۔  ان کے گھر بار بار فون کیے مگر شاید گھر میں فون پر پابندی تھی اور مجھے بھی بتایا گیا کہ ان سے ملاقات پر بھی پابندی ہے کیونکہ انھیں بولنے کی اجازت نہیں۔  مجھے اس کا دکھ ہے مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ایک دم بیٹھے بٹھائے مجھ پر برسنے کیوں لگتے ہیں جبکہ میں نے انھیں ہر بار معاف کیا ہے۔

آج متعدد حضرات بغیر کسی وجہ کے بغیر مجھے بہتانوں کا ہدف بنا رہے ہیں۔  اگر میرا کوئی گروہ ہوتا تو وہ ان کا ضرورنوٹس لیتا مگر دیکھ لیجیے۔  کسی نے میرے حق میں بولنا مناسب خیال نہیں کیا۔  میں اس صورت میں کسی گروہ کا سرخیل ہو سکتا ہوں۔  میں گروہ بندی کی دلدل کا اسیر نہیں ہوں۔  اس دلدل میں وہی لوگ دھنسے ہوئے ہیں جنوں نے اپنے اپنے گروہ بنا رکھے ہیں۔  ادبی اختلاف کا تو میں کھلے دل سے خیر مقدم کرتا ہوں۔  مگر ادبی حملوں کا جواب دے کر میں اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتا۔

’’ نیاز مندان لاہور ‘‘ کا حلقہ قیام پاکستان سے پہلے و جود میں آیا تھا اور پطرس، سالک اور تاثیر وغیرہ ان نیاز مندوں کے رہنما تھے۔  ان کی نوک جھونک میں تعصب تھا، چنانچہ اہلِ پنجاب اور اہلِ زبان کے درمیان تلخی کا آغاز انہیں ’’ نیاز مندان کی سرگرمیوں سے ہوا۔

اپنی شناخت کے لیے کسی ادیب کا کسی گروہ سے وابستہ ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔  ادیب کی شناخت تو اس ادب سے ہوتی ہے جو وہ تخلیق کرتا ہے، اگر یہ ادب اس کی پہچان نہیں بن سکا تو ہزار گروہ بنائے، اس کی شناخت کا مسئلہ دگرگوں ہی رہے گا۔

٭ شہرت عزت دیتی ہے یا دشمنی؟

٭٭  شہرت عزت بھی دیتی ہے اور دشمنی بھی۔  شہرت ملے تو دونوں رد عمل ہو تخلیق کے سامنے آتے ہیں۔  وہ غالب ہوں یا اقبال ہوں یا جوش ہوں۔

٭ ادب میں صفائی دینے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔  نعت کے حوالے سے پچھلے دنوں خاصی بحث رہی۔  کیا ہم شکوک و شبہات دور کر کے اعتماد کی فضا بحال نہیں کر سکتے؟

٭٭  صفائی دینے کی ضرورت اس وقت لازمی ہو جاتی ہے جب کسی شخص کے آس پاس غلاظت کے انبار لگا دیے گئے ہوں۔  رہا اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے شکوک و شبہات کو دور کرنا، تو شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے بھی تو صفائی دینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

٭ پاکستانی ادب، اسلامی ادب آپ ان اصطلاحات سے کس حد تک متفق ہیں؟

٭٭  میں ’’پاکستانی ادب ‘‘ کی اصطلاح سے تو متفق ہوں جیسے میں روسی ادب، امریکی ادب، فرانسیسی ادب، جرمن ادب وغیرہ سے متفق ہوں۔  مگر اسلامی ادب کی اصلاح سے مجھے اتفاق نہیں ہے تو ’’اسلامی ادب ‘‘ کا نعرہ بلند کر کے آخر ہم دنیا کو کیا تاثر دینا چاہتے ہیں۔

٭  تخلیق کار بہ حیثیت شاعر کامیاب رہتا ہے یا بطور افسانہ نگار۔  آپ خود دونوں حیثیتوں سے معتبر ہیں۔  اس سوال کا جواب بیرون ملک مشاعروں میں شاعروں کو مدعو کرنے کی جو روش ہے، اسے پیش نظر رکھتے ہوئے دیجیے۔

٭٭  تخلیق کار شاعر اور افسانہ نگار دونوں حیثیتوں میں کامیاب رہتا ہے۔  بیرون ملک مشاعروں کو کسوٹی نہیں بنانا چاہیے کہ بیرون ملک تو مزاح نگار بھی آئے دن جاتے رہتے ہیں۔

٭  زندگی میں ادب اور معاشرے میں ادب کی کیا ضرورت و اہمیت ہے یا یوں کہیں کہ ادب کا معاشرے کی تشکیل میں کیا کردار ہے وہ اسے کامیابی سے نبھا رہا ہے؟

٭٭  معاشرے کی صحت مند تشکیل میں ادب کے کردار سے کون انکار کرے گا، شرط یہ ہے کہ ادب معاشرے میں پھیلے۔  ہماری حالت تو یہ ہے کہ تیرہ چودہ کروڑ کے ملک میں اعلیٰ سے اعلیٰ ادب کی کتاب ایک ہزار کی تعداد میں چھپتی ہے اور اگر یہ ادب سنسنی خیز یا جنسیت زدہ نہیں ہے تو یہ ایک ہزار کتابیں ایک سال میں بھی فروخت ہو جائیں تو سبحان اللہ۔  اس صورت میں اردو کا ادب معاشرے کی تشکیل کا دعویٰ کس بوتے پر کر سکتا ہے۔  جب اس کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے والے تیرہ کروڑ میں سے تیرہ سو بھی نہیں ہیں تو وہ معاشرے کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا چنانچہ جب تک ہمارے ہاں خواندگی کا تناسب صد فی صد نہیں ہوتا، ہم لوگ اپنے کیتھارسس کے لیے ادب تخلیق کرتے رہیں گے۔

٭  ڈش وی سی آر متوسط اور نچلے طبقے میں بھی اکثر گھروں میں نظر آ جائیں گے۔  نقوش و فنون نہیں۔  وجہ؟

٭٭  ڈش اور وی سی آر بے شمار گھروں میں موجود ہیں مگر وہاں اردو کے معروف ادبی ارسالوں کا گزر ہی نہیں۔  وجہ اوپر عرض کر دی گئی ہے۔  ساتھ ہی الٹرا ماڈرن گھرانوں میں وہ ادبی رسالے بار پا ہی نہیں سکتے جن کی سطریں دائیں بائیں کو چلتی ہیں کہ یہ قدامت زدگی ہے۔

٭ قیام پاکستان سے اب تک افسانہ مختلف تجربوں سے گزرا۔  استعاراتی علامتی اور تجریدی راستوں سے گزر کر اب پھر بیانیہ کی طرف لوٹ آیا ہے۔  آپ کی نظر میں اردو افسانے کا مستقبل کیا ہے؟

٭٭  اردو افسانے کا مستقبل بہر صورت اور بہر زاویہ، صرف اور صرف وہ بیانیہ افسانہ ہے جو چیخوف اورموپساں اور سمر سٹ ماہم کے بعد منٹو، بیدی، کرشن، عصمت اور غلام عباس وغیرہ نے لکھا ہے اور اب منشا یاد اور نیلو فر اقبال اور فرحت مرتضیٰ لکھ رہے ہیں۔  تجربے ضرور ہونے چاہیں۔  تجربہ ہر صنف ادب کے لیے لازمی ہے مگر تجربے کے بھی آداب ہوتے ہیں۔  علامتی افسانے، یا تجریدی افسانے یا تجریدی افسانے سے مجھے کد نہیں بشرطیکہ ان تجربات کا ابلاغ بھی ہوتا ہو، ابلاغ ہو گا تو یہ تجربات بھی بیانیہ کے خواص پیدا کر لیں گے۔

٭  شعر یا افسانہ، انتخاب کا حق آپ کو دیا جائے تو آپ کسے منتخب کریں گے۔

٭٭  شعر و افسانہ دونوں میں تخلیقی شخصیت منعکس ہوتی ہے چنانچہ مجھے دونوں اصناف عزیز ہیں مگر میں شاعری کو اولیت دوں گا کہ شاعری بزمِ فنون لطیفہ کی صدر نشین ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر رشید امجد

 

٭ لکھنے کی ابتدا کیونکر ہوئی۔  ابتدا میں کن مصنفین سے متاثر ہوئے۔  ادبی ذوق کے نکھار میں کن لوگوں کا حصہ رہا؟

٭٭  یہ ۱۹۶۰ء کے آغاز کی بات ہے۔  میں ۵۰۱ ورکشاپ میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔  مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میرے مطالعے کا موضوع زیادہ تر جاسوسی ناول اور ان کے تراجم تھے۔  دفتر میں حاضری کے فارم مکمل کرنے کے بعد میں فارغ ہو جاتا تھا چنانچہ ایک آدھ کتاب ساتھ لے جاتا تھا اور پڑھتا رہتا تھا۔  اسی سیکشن میں ایک اور نوجوان بھی اسی طرح کتاب پڑھتے دکھائی دیتا تھا اس کا نام اعجاز حسین تھا۔  ہم نے کتابوں کا تبادلہ شروع کر دیا۔  اس نے بتایا کہ وہ اعجاز راہی کے نام سے لکھتا ہے۔  ایک روز اس نے مجھے اپنی ایک کہانی پڑھنے کو دی۔  کہانی پڑھ کر میں نے اسے کہا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔  اس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔  سو دو ایک دنوں بعد میں نے اسے ایک کہانی لکھ کر دکھائی۔  اس نے کہا یہ تو افسانہ ہے اور تم اب باقاعدگی سے لکھا کرو۔  چنانچہ میں نے لکھنا شروع کر دیا اور اختر رشید ناز کے نام سے اس زمانے کے رومانی پرچوں (رومان وغیرہ) میں یہ کہانیاں بھیجنا شروع کر دیں۔  دو تین کہانیاں آگے پیچھے چھپ گئیں۔  مجھے لکھنے کی چاٹ لگ گئی۔  اسی دوران اعجاز راہی ایک شام تین چار دوستوں کو لے کر میرے گھر آن پہنچا اور بتایا کہ یہ سارے راولپنڈی کے نوجوان ادیب ہیں۔  ان میں نثار ناسک اور سلیم الظفر شامل تھے۔  میرے پاس انھیں چائے پلانے کے پیسے نہیں تھے نہ گھر میں کوئی ڈھنگ کی جگہ بیٹھنے کے لیے تھی چنانچہ ہم کشمیری بازار میں واقع پارک میں چلے گئے۔  نثار ناسک ہم میں بڑا تھا۔  اس نے نوجوان ادیبوں کے مسائل پر بڑی مبسوط گفتگو کی۔  تجویز دی کہ ہمیں ہر شام کہیں اکٹھا ہونا چاہیے اور ایک ادبی انجمن بھی بنانا چاہیے۔  چنانچہ بڑی بحث کے بعد ’’بزمِ میر‘‘ کے نام سے ایک انجمن کے قیام کا فیصلہ ہوا۔  مجھے اس کی مجلس عاملہ کارکن بنایا گیا۔  دوسرے دن شام سے ہم نے پنڈی ہوٹل (راجہ بازار) میں اکٹھا ہونا شروع کر دیا۔  یہیں میری ملاقات غلام رسول طارق سے ہوئی۔  ’’بزمِ میر‘‘ کے ہفتہ وار اجلاس بھی شروع ہو گئے۔  یہ اجلاس موچی بازار کے ایک ہوٹل میں ہوتے تھے۔  دوسرے تیسرے جلسے میں میں نے ایک کہانی پڑھی۔  جب جلسہ ختم ہو گیا تو غلام رسول طارق نے مجھے روک لیا اور کہنے لگے۔  یہ کہانی تم نے خود لکھی ہے۔  میں نے کہا، جی میں نے ہی لکھی ہے۔  کہنے لگے، کل دوپہر کو مجھے صدر بوہڑ ہوٹل میں ملنا میں صدر میں ایک پریس میں کام کرتا ہوں اور دوپہر کا کھانا اس ہوٹل میں کھاتا ہوں۔  میں دوسرے دن وہاں پہنچ گیا۔  طارق صاحب بڑی شفقت سے ملے اور کہنے لگے۔  دیکھ بچے تم میں کہانی لکھنے کی بڑی صلاحیت ہے۔  لیکن ایک تو فضول لوگوں سے بچو اور دوسرے کوئی ڈھنگ کا نام رکھو۔  یہ اختر رشید ناز اچھا نام نہیں۔  میں نے کہا تو آپ ہی کوئی نام رکھ دیں۔  تھوڑی سی گفتگو کے بعد طے پایا کہ اب میں رشید امجد ہوں۔  انھوں نے میری گذشتہ دن پڑھی کہانی میں ایک دو زبان کی غلطیوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ اسے کسی اچھے پرچے میں بھیجو۔  میں نے یہ کہانی میرزا ادیب صاحب کو بھیج دی جو ’’ادیب لطیف‘‘ کے مدیر تھے۔  ایک ہفتہ میں ہی میرزا صاحب کا خط آیا جس میں کہانی کی بڑی تعریف کی گئی تھی اور یہ مژدہ تھا کہ کہانی زیر ترتیب شمارے میں آ رہی ہے۔  سو رشید امجد کی پہلی کہانی ’’لیمپ پوسٹ‘‘ کے نام سے ادب لطیف کے ستمبر ۶۰ء کے شمارے میں چھپی۔  یہ کہانی اس وقت کچھ نیم استعاراتی سی تھی۔  مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ کہانی ادب لطیف میں چھپ جائے گی، چنانچہ میں نے اس کے آخر میں لکھا تھا (ایک چینی کہانی سے ماخوذ)۔  اس کے بعد میں نے کئی کہانیاں لکھیں جو سادہ بیانیہ میں تھیں۔  ۱۹۶۵ء میں، میں نے اسی کہانی کو دوبارہ لکھا اور یہی کہانی ’’لیمپ پوسٹ‘‘ ایک نئے علامتی انداز سے اوراق کے چوتھے شمارے (اکتوبر ۱۹۶۶ء) میں چھپی۔  یہ میرے نئے دور کا آغاز تھا۔  ستمبر ۶۰ء میں اختر رشید ناز سے رشید امجد برآمد ہوا تھا اور اکتوبر ۱۹۶۶ء میں اس رشید امجد میں سے ایک نئے رشید امجد نے جنم لیا جس نے علامت کو اپنا پیرایۂ اظہار بنایا۔  اس دوران جن لوگوں کو میں نے پڑھا ان میں منٹو اور بیدی دور تک میرے ساتھ چلے۔  میری ابتدائی کہانیوں پر منٹو کے خاصے اثرات ہیں، خصوصاً ً ً موضوع کے حوالے سے، جنس ایک عمر میں سب سے پسندیدہ موضوع ہوتا ہے۔  میری ابتدائی کہانیوں کا محور بھی جنس ہے۔  ان میں منٹو جیسی نفسیاتی دبازت تو نہیں، لیکن میں نے جنس کو معاشی بدحالی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔  ’’بزم میر‘‘ کے بعد ’’حلقہ ذہن جدید‘‘ وجود میں آیا۔  اس کا سیکرٹری میں تھا۔  اس کے بعد ’’لکھنے والوں کی انجمن‘‘ وجود میں آئی۔  اب پنڈی میں نئے لکھنے والوں کا ایک مضبوط گروپ بن گیا تھا۔  نئی لسانی تشکیلات کی بحثیں زور شور سے جاری تھیں۔  کچھ عرصہ بند رہنے کے بعد حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس بھی شروع ہو چکے تھے لیکن سینئر لکھنے والے ہمیں گھاس نہیں ڈالتے تھے۔  اختر احسن اور مصطفی کمال نے ’’پنڈی کلچرل فورم‘‘ کے نام سے ادبی انجمن بنائی تھی لیکن نئے پن کے تمام تر دعووں کے باوجود یہ لوگ بھی ایک اسٹیٹس سے نیچے نہیں اترے تھے چنانچہ راولپنڈی اسلام آباد کے تمام نئے لکھنے والے منشا یاد، اعجاز راہی، سرور کامران، مظہر الاسلام، نثار ناسک، سلیم الدین سلیم، سلیم الظفر، بشیر مرحوم لکھنے والوں کی انجمن میں اکٹھے ہو گئے۔  کچھ عرصہ بعد ہمارے کچھ سینئر آفتاب اقبال شمیم، ماجد الباقری بھی انجمن کے جلسوں میں آنے لگے اس وقت ’’اوراق‘‘ اور ’’شب خون‘‘ نئے ادب کے ترجمان تھے۔  ڈاکٹر وزیر آغا تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد پنڈی آتے اور انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتے۔  اب ہم لوگوں نے حلقہ میں بھی جانا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ حلقے کے جلسوں میں نئے ادب کی بحثیں شروع ہو گئیں۔  میرے ادبی ذوق کے نکھار میں حلقہ ارباب ذوق، لکھنے والوں کی انجمن اور شخصیات میں سے استاد غلام رسول طارق کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا اور ’’اوراق‘‘ کا بہت بڑا حصہ ہے۔  خصوصاً ً ً جدید فکری رجحانات اور رویوں کو نمایاں کرنے اور مجھے بطور ایک علامت نگار متعارف کروانے میں وزیر آغا اور’ ’اوراق‘‘ کے نام میرے لیے ہمیشہ محترم رہیں گے۔

٭  آپ کے علامتی افسانوں میں تمثیلی انداز نمایاں ہے۔  تمثیل ہماری اساطیری داستانوں میں بھی موجود ہے۔  یوں ایک طرف تو آپ کا شمار جدید علامتی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔  دوسری طرف آپ کا رشتہ قدیم داستانوں سے جا ملتا ہے۔  یہ کوشش شعوری ہے یا بات خود بخود بن جاتی ہے؟

٭٭   میرے افسانوں میں علامت، تجرید اور استعارے کے ساتھ ساتھ تمثیل بھی موجود ہے۔  تمثیلی انداز ہمارے ادب میں نیا نہیں۔  ہماری داستانی روایت کا ایک حصہ ہے، اور اس طرح میرا ایک رشتہ داستانوں سے بھی قائم ہوتا ہے۔  پہلی بار مجھے اس کا احساس قاضی عبدالستار نے کرایا تھا۔  وہ ایک وفد کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔  میری ان سے دو تین ملاقاتیں اکادمی کے جلسوں میں ہوئیں۔  انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کے اسلوب کا مطالعہ رجب علی بیگ سرور کو ذہن میں رکھ کر ہونا چاہیے۔  اس وقت تو میں نے اس پر غور نہیں کیا لیکن بعد مجھے خیال آیا کہ میرا ایک گہرا تعلق اساطیر سے ہے، لیکن میرا انداز اور اسلوب اساطیری یا داستانی نہیں بلکہ میں نے اسے ایک جدید صورت میں استعمال کیا ہے جو اپنے عہد کی مروج زبان، محاورے اور انداز و مزاج کے دائرے میں اپنی ایک الگ شناخت بناتا ہے۔  یہ کوشش اگر شعوری ہو بھی تو اس کے پیچھے ایک لاشعوری روّیہ ضرور موجود ہے جو میرے اسلوب کو روایت سے بھی جوڑتا ہے اور اسے نیا پن بھی عطا کرتا ہے۔

٭  کہا جاتا ہے کہ (چند ایک سے قطع نظر) سب سے زیادہ نقصان، ان افسانہ نگاروں نے جدید افسانے کو پہنچایا ہے جنہوں نے افسانہ نگاری کو شاعری سے قریب تر کرنے کی کوشش کی۔  آپ کے افسانوں میں بھی شعری فضا پائی جاتی ہے۔  آپ اس کی وضاحت کریں گے؟

٭٭  مجھے آپ سے اتفاق نہیں کہ شعری فضا نے افسانے کو نقصان پہنچایا ہے۔  بات یوں ہے کہ علامت، استعارہ اور تشبیہ شعری وسائل ہیں۔  جدید افسانہ نگار نے ان شعری وسائل کو استعمال کر کے اپنی کہانی میں معنوی دبازت پیدا کی ہے اور اسے ہمہ جہت بنایا ہے۔  ان شعری وسائل کا استعمال انور سجاد کے یہاں بھی ہوا ہے لیکن انور سجاد کے یہاں شعری فضا پیدا نہیں ہوتی کیونکہ ان کے اسلوب کی خشکی اور حسابی ترتیب اس میں مزاحم ہے۔  یہ شعری وسائل ہر جدید افسانہ نگار کے یہاں موجود ہیں لیکن میرے یہاں ان کے استعمال کے طریقہ کار نے ایک ملائمت اور معنوی دبازت پیدا کی ہے۔  یہاں یہ بات واضح رہے کہ افسانے کو نظم سے قریب کرنا دیگر رویہ ہے اور شعری وسائل کا استعمال دوسرا روّیہ ہے۔  میرے افسانوں میں یہ فضا اور وسائل Readability پیدا کرتے ہیں اور میرے اسلوب میں ایک ایسی روانی پیدا کرتے ہیں کہ کہیں معنوی ترسیل نہ بھی ہو رہی ہو تو بھی قرات میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔  بعض افسانے (خاص طور پر ساٹھ کی دہائی میں ) تو پڑھتے ہوئے بار بار جھٹکا لگتا ہے۔  میرے اسلوب میں یہ بات نہیں۔  میں نے شعری وسائل کو معنوی دبازت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور انہیں تخلیقی سطح پر اپنے اسلوب کا حصہ بنایا ہے، اس لیے ان کے استعمال میں شعوری کوشش شامل نہیں بلکہ یہ میرے مجموعی تخلیقی عمل کا ایک حصہ ہیں، پھر یہ کہ میرے تہہ دار شعور اور انکشافات ذات کے گہرے مطالعے اور بیان کے لیے ان کا استعمال ضروری تھا۔

٭ بے نام کردار اور بے چہرہ آدمی، آپ کی کہانیوں میں نمایاں ہیں۔  یہ بے نام کردار اور بے چہرہ انسان معاشرے کی بے معنویت کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا ان بے نام کرداروں اور بے چہرہ انسانوں کے ہجوم میں آپ خود اپنے تشخص اور اپنی پہچان کے متلاشی ہیں؟

٭٭  سایہ در اصل جسم ہی کا ایک علامتی اظہار ہے۔  بے نام کردار اور بے چہرہ آدمی بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہیں جو خود بے شناخت ہوا جا رہا ہے۔  ہمارا عہد ایک بڑے زوال کے تسلسل میں ہے اور زوال میں چیزیں بے چہرہ اور بے شناخت ہو ہی جاتی ہیں۔  ساٹھ کی دہائی کا افسانہ (The other) دوسری ذات کی تلاش کا افسانہ ہے۔  یہ زمانہ دروں بینی کا ہے جب افسانہ نگار باہر سے اندر کی طرف جا رہا تھا۔  خارج سے باطن کی طرف اس سفر کے پس منظر میں سیاسی زوال، سماجی زوال، مارشل لاء اور بہت سے دوسرے عوامل شامل ہیں۔  اندر کی شخصیت بے نام اور بے چہرہ ہے اس سارے حوالے سے میرے افسانوں میں شناخت اور تشخص ایک اہم موضوع ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ایک ارتقاء ہوا ہے۔  میرے پہلے مجموعے ’’بے زار آدم کے بیٹے ‘‘ میں حبس اور معاشی فرسٹیشن کا شکار ایک ایسا اینگری ینگ مین ہے جو جنس اور معاش کی کشمکش میں اپنا تشخص ڈھونڈ رہا ہے۔  اس کی بے شناختی بے انفرادی اور ہیجان خیز جذباتیت سے وابستہ ہے، لیکن آگے جا کے شناخت کا یہ مسئلہ طبقاتی کشمکش سے جڑ جاتا ہے۔  تیسرے مجموعے ’’سہ پہر کی خزاں ‘‘ میں میرے کردار سیاسی جبر میں اپنا چہرہ تلاش کر رہے ہیں۔  ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ‘‘ میں شناخت کا یہ مسئلہ کائناتی ہو جاتا ہے جہاں ازل سے ابد تک کے سفر میں شناخت کا معاملہ روحانی ہو جاتا ہے اور اس میں مابعد الطیسعاتی رنگ آ جاتا ہے۔  شناخت کے ان مرحلوں میں میرے اسلوب میں بھی ایک تبدیلی آئی ہے اور شناخت کی ان پرتوں کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شناخت کی صورتیں بدلی ہیں میرے اسلوب و اظہار میں بھی جذباتیت اور غصہ کم ہوتا گیا ہے اور کشفی دبازت اور پہلو داری بڑھتی گئی ہے۔

٭ آپ کے افسانوں میں تشبیہی انداز کے بجائے استعاراتی فضا نمایاں ہے۔  بعض علامتوں یا بیشتر علامتوں سے آپ کے قاری واقف نہیں ہوتے اور یہ عمل ان کے لیے الجھن کا باعث ہے۔  آپ قاری کا امتحان کیوں لینا چاہتے ہیں؟ آپ کے بعض افسانے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ افسانہ لکھتے ہوئے آپ کے پیش نظریہ رائے ہوتی ہے کہ کہانی ایک حل طلب معمہ ہے اور اگر یہ معمہ نہ ہو تو قاری کے لیے اس میں کشش پیدا ہونا نا ممکن ہے؟

٭٭   میرے افسانوں میں صرف علامت کا استعمال نہیں بلکہ میں نے پیکر تراشی، استعارہ اور کہیں تمثیل سے بھی کام لیا ہے۔  بعض افسانے Absurd بھی ہیں۔  تجرید بھی ہے۔  علامت کا تعلق اسلوب سے ہے اور تجرید کا خیال سے۔  میں نے بعض جگہ ان سارے وسائل کو اکٹھا بھی کیا ہے۔  اچھی علامت تو اپنے ماحول سے پیدا ہوتی ہے، یہی صورت دوسرے وسائل کی بھی ہے، لیکن بہرحال علامت استعارہ یا اشارہ نہیں ہوتی اس کے معنوی تہہ تک پہنچنے کے لیے ذہانت کی ضرورت ہے۔  ساٹھ کی دہائی میں ذہین قاری کی اصطلاح بہت عام تھی، میں اس پر اصرار تو نہیں کرتا لیکن یہ بات بہرحال اپنی جگہ ہے کہ لکھا ہوا لفظ سب کے لیے نہیں ہوتا اور وہ لفظ جو کسی فن کے ساتھ جڑ جاتا ہے اس کا ترسیلی دائرہ اور بھی محدود ہو جاتا ہے۔  میرے چند افسانوں کو چھوڑ کر جو ساٹھ کی دہائی سے تعلق رکھتے ہیں، ترسیل یا ابلاغ کا مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہوا۔  میرا اسلوب اتنا رواں ہے کہ افسانہ خود کو پڑھواتا چلا جاتا ہے۔  نئے افسانے میں مجموعی طور پر ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہیں۔  یہ بات چند افسانوں کی وجہ سے ہوئی اور بہت سے نقادوں نے جدید افسانے کو پڑھے بغیر اس کی رٹ لگانا شروع کر دی۔  ترسیل یا ابلاغ کے ضمن میں مجھے میرا جی کا یہ جملہ دوہرانا ہے کہ ’’ابلاغ ایک اضافی قدر ہے ‘‘ ایک وقت میں کسی فن پارے کا عدم ابلاغ دوسرے وقت میں ہو جاتا ہے اور بعض اوقات اس کی خوبی بن جاتا ہے، پھر یہ کہ ابلاغ کی اپنی سطحیں ہیں جو قاری کی ذہنی سطحوں کے مطابق اپنے معنی وا کرتی ہیں۔  دوسرے یہ کہ نیا افسانہ بہرحال پرانے افسانے سے مختلف ہے نہ صرف ہئیت و بنت کاری کے حوالے سے بلکہ زبان و بیان کے حوالے سے بھی، اس لیے وہ قاری جس کے پڑھنے کی ٹریننگ پرانے افسانے کے حوالے سے ہوتی ہے، ابتداء میں نئے افسانے کو سمجھنے میں دقت محسوس کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نیا افسانہ اپنا دائرہ وسیع کرتا گیا۔  تیسرے یہ کہ ابتداء میں خود نئے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی عجز بیاں کی وجہ سے کئی ابلاغی مسائل پیدا ہوئے جو آہستہ آہستہ دور ہوتے گئے۔  اس لیے اب نئے افسانے یا میرے افسانے کے بارے میں عدم ابلاغ کی بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔

٭ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کہانی کار اپنی کہانی کی ابتداء اس کے انجام سے کرتا ہے۔  اس کی تکنیک کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ کہانی کی ابتدا چونکا دینے والی ہو یا نہ ہو لیکن دلچسپ ضرور ہوتا کہ قاری کا تجسس اسے آگے پڑھنے پر مجبور کرے؟

٭٭  ہر کہانی کا اپنا ایک ہیئتی یا تکنیکی ڈھانچہ ہوتا ہے جو ظاہری ڈھانچے کے اندر چھپا ہوتا ہے۔  آپ کے یہ دونوں سوال اس افسانہ نگار سے متعلق ہیں جو کہانی کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک میکانیکی طریقے سے کہانی بناتا ہے۔  نئی کہانی اس طرح نہیں لکھی جاتی۔  میں واقعات کے ٹکڑے نہیں جوڑتا، مجھے پر پوری کہانی ایک اکائی کی صورت وارد ہوتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ لکھتے ہوئے یا بعد میں ایک آدھ جگہ کوئی تبدیلی کر لی جائے۔  میں نے اپنی اکثر کہانیاں ایک نشست میں لکھی ہیں۔  اگر پورا خیال اپنے ابتدائی جملوں کے ساتھ مجھ پر وارد نہ ہو تو میں کہانی نہیں لکھ سکتا۔  پرانا افسانہ نگار واقعات کو جوڑ کر یا کسی کردار کو تلاش کر کے اس کے گرد کہانی بنتا تھا۔  میری اکثر کہانیوں کی بنیاد Idea ہے۔  پوری کہانی ایک خیال کے گرد بنی ہوتی ہے۔  جس کی وجہ سے ٹھوس واقعات کی بجائے بعض اوقات سیال صورت پیدا ہو جاتی ہے۔  بہرحال یہ تو ہے کہ کہانی کا آغاز ہی ٹریپ کرنے والا ہوتا ہے۔  میری اکثر کہانیوں کہ پہلے یا ابتدائی چند جملے ایسے ہیں کہ قاری حیرت اور تجسس کے ساتھ کہانی کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔

٭ کہانی کی تخلیق کا سفر آپ اکیلے طے کرتے ہیں یا قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہیں یا قاری بہت بعد میں شامل ہوتا ہے۔؟

٭٭  زندگی کے معمولی واقعات میں سے غیر معمولی واقعات کا انتخاب کہانی کار کی باریک بینی اور زندگی کے گہرے مشاہدے کے ذریعے ہو سکتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی تب وجود میں آتی ہے جب اس واقعہ کا ذکر کیا جائے جو ابھی پیش آنا ہے۔

٭ کیا آپ کہانی شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کرتے ہیں، کہانی کا موضوع اور خاکہ سوچتے ہیں اور کیا کہانی اس خاکے کے مطابق ہو جاتی ہے جو آپ نے سوچا ہے اور اسی طرح اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہے یا لکھتے ہوئے اصل موضوع سے ہٹ جاتے ہیں؟

٭٭  ان تین سوالوں کو میں اکٹھا کرنا چاہتا ہوں۔  میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ میرے افسانے موضوعاتی نہیں ہیں۔  وہ تو کسی خیال یا Ieadپر لکھے گئے ہیں۔  میرا تخلیقی عمل یوں ہے کہ میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے یا کسی صورتِ حال کو دیکھ کر یا اس سے گزرتے ہوئے ایک Ideaپیدا ہوتا ہے۔  اس پر میرے ذہن میں ایک تخلیقی پروسیس شروع ہو جاتا ہے بعض اوقات فوراً اور بعض اوقات مہینوں یہ خیال اس تخلیقی پروسیس سے گزرتا رہتا ہے۔  میں لکھنے سے پہلے اس کی منطقی یا تکنیکی ترتیب قائم نہیں کرتا۔  یہ خیال اپنے ابتدائی جملوں کے ساتھ میرے ذہن کی سکرین پر واضح ہوتا ہے۔  اگر یہ ابتدائی جملے مناسب نہ ہوں تو میں اسے لکھ نہیں سکتا۔  اگر ایک جملہ لکھتا ہوں یا دو ایک جملے لکھ کر انہیں بار بار کاٹوں تو مجھے خود اس کا احساس جاتا ہے کہ یہ کہانی ابھی اپنے تخلیقی پروسیس سے پوری طرح نہیں گزری۔  میں اسے اسی طرح چھوڑ دیتا ہوں، لیکن اگر میں نے اس کے ابتدائی چند جملے لکھ لیے اور وہ میرے خواہش کے مطابق ہوئے تو کہانی آگے چل پڑتی ہے۔  کہانی شروع کرتے ہوئے میرے ذہن میں اس کا ایک دھندلا سا اختتام ہوتا ہے۔  بعض اوقات کہانی اس سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات آگے نکل جاتی ہے۔  اس اختتام کے بارے میں میری پلاننگ کم ہوتی ہے۔  بس مجھے کوئی چیز احساس کرا دیتی ہے کہ کہانی یہاں ختم ہونی چاہیے۔  کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کہانی مکمل ہونے کے بعد میں جب اسے دوبارہ پڑھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کہانی جہاں ختم کی گئی ہے اس سے کچھ پہلے مکمل ہو گئی ہے، چنانچہ میں بعد کا حصہ کاٹ دیتا ہوں یا کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بات ابھی بنی نہیں سو دو چار جملے یا پیرا گراف اور لکھنا پڑتا ہے۔  یہ کام میرا تخلیقی سیلف نہیں بلکہ میرے اندر کا نقاد کرتا ہے۔  اب یہ بات شاید واضح ہو گئی ہے کہ میں کہانی لکھتے ہوئے کوئی خاکہ نہیں بناتا یا موضوع نہیں سوچتا نہ ہی اس کے آغاز، درمیان اور نقطہ عروج کی کوئی بات میرے ذہن میں ہوتی ہے۔  میری کہانی ایک مکمل اکائی کی شکل میں وارد ہوتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ میری اکثر کہانیوں میں پیچ ورک نہیں ہوتا۔  بہرحال ان کا ایک موضوع ضرور بنتا ہے ایک مرکزی خیال یا مرکزی رو بھی ہوتی ہے۔  میری اکثر کہانیوں کے موضوع ایسے ہیں جو ایک عام افسانہ نگار کے تخلیقی پروسیس کا حصہ نہیں بن سکتے اس لیے میرا تخلیقی عمل اور اس کا طریقہ کار قدرے مختلف ہے۔  یوں کہہ لیجیے کہ مجھے ایک خیال سوجھتا ہے جو کہانی کی صورت اختیار کرتا ہے میں کسی واقعہ میں سے خیال نہیں نکالتا۔  میرے یہاں شعری وسائل کا زیادہ استعمال بھی اسی سبب سے ہے کہ میرے خیال اور موضوع عام یا سیدھے سادے طریقے کے متحمل نہیں۔  میرے اکثر افسانے (ابتدائی افسانوں کو چھوڑ کر) ایک چھوٹی سی بات سے شروع ہوتے ہیں اور ازلی و ابدی صداقتوں کو جا چھوتے ہیں۔  میرے افسانوں کا مرکزی کردار بیک وقت کئی زمانوں میں سانس لے رہا ہے اور وہ حال کے لمحہ پر کھڑا ایک ہی جست میں کبھی ماضی اور کبھی مستقبل میں اتر جاتا ہے، لیکن پڑھنے والے کو زمانی جھٹکا نہیں لگتا۔

٭ کہا جاتا ہے کہ موپساں نے یوں افسانے تخلیق کیے جیسے صفائی سے زندگی کے ٹکڑے کاٹ لیے جائیں۔  کیا آپ کا ایسے افسانے لکھنے کو دل نہیں چاہتا یا آپ کے خیال میں زندگی یا حقیقت جیسی کہ وہ ہے اسے اسی طرح پیش کر دینا افسانہ نگار کی سہل پسندی کو ظاہر کرتا ہے جس میں افسانہ نگار کا اپنا کوئی نظریہ کوئی فلسفہ کسی مخصوص اسلوب میں ظاہر نہ ہو؟ اسی سلسلے کا دوسرا سوال یہ ہے کہ ای ایم فاسٹر نے کہا ہے کہ زندگی فکشن میں دو سطحوں میں پیش ہوتی ہے:

ایک Life in Time، دوسرے Life in Values، آپ کا نظریہ کیا ہے؟

٭٭  یہ دونوں سوال ایک دوسرے کے قریب ہیں۔  نیا افسانہ حقیقت نگاری نہیں بلکہ وہ اس دھند میں سے نکلتا ہے جو ظاہری حقیقت کے پیچھے ہے۔  اس دھند اور اس میں چھپی پر اسرار دنیا تو عام شخص نہیں دیکھ سکتا۔  اصل حقیقتیں یا سچائیاں اس سے مختلف ہیں جو ہمیں بظاہر دکھائی دیتا ہے۔  محض بیانیہ حقیقت نگاری یک سطحی ہوتی ہے۔  اب تو حقیقت نگاری کا رویہ بھی بدل گیا ہے اور وہ لوگ جو خود کو حقیقت نگار کہتے ہیں محض حقیقت بیان نہیں کرتے بلکہ اس سے کچھ آگے جاتے ہیں۔  صفائی سے زندگی کے ٹکڑے کاٹ کر کہانی بنا لینا بڑا فن نہیں۔  ہمارا مشرقی مزاج تو جزو میں کل اور قطرے میں دریا دیکھنے کا ہے۔  انسان وقت اور اقدار دونوں ہی میں زندہ ہے اور دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔  پرانے تنقیدی نظریے، کلیے یا روّیے نئی کہانی کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے۔  آج کی کہانی سماجی سیاسی رویوں سے متعلق ہوتے ہوئے بھی بڑے ازلی و ابدی سوالات سے جڑی ہوتی ہے۔  ایک مکمل فن صرف ناف سے نیچے، یا شکم تک، یا دل تک محدود نہیں، اب اس میں ذہن بھی شامل ہے اور یہ کائنات کی تسخیر اور نت نئے انکشافات کا زمانہ ہے۔  ایک اچھے افسانہ نگار کے یہاں وقت، اقدار، سماج، سیاست حقیقت اور دھند، تجسیم و تجرید سب کچھ موجود ہوتا ہے، کبھی ملی جلی صورت میں، کبھی انفرادی عکس کی شکل میں۔

٭  بانجھ لمحہ میں مہکتی لذت، بند ہوتی آنکھ میں ڈوبتے سورج کا عکس، گم راستوں میں کشف، فاصلے سے بچھڑا غم، منجمد موسم میں ایک کرن، بے راستوں کا ذائقہ، بے ثمر عذاب، بے دروازہ سراب، دھند منظر میں رقص، کھلی آنکھ میں دھند ہوتی تصویر… یہ عنوانات صرف ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ سے منتخب کیے گئے ہیں۔  یہ تمام عنوانات موجود کو غیر موجود، معنویت کو بے معنویت، روشنی کو دھند اور اثبات کو نفی میں تبدیل کرتے نظر آتے ہیں۔  کیا یہ روش انسان کی بے چارگی اور مجبوری کی دلیل نہیں اور اسے مایوسی کی طرف نہیں لے جاتی؟

٭٭  ہمارا یہ موجود اصل حقیقت کا پرتو ہے۔  اعیان نا مشہود تک ہماری رسائی براہ راست ممکن نہیں۔  ہم جسے معنویت سمجھتے ہیں وہ در اصل بے معنویت ہے چنانچہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہم کو ایک بار موجود سے ناموجود کی طرف جانا پڑتا ہے۔  روشنی سے دھند اور اثبات سے نفی کا یہ سفر بہت اہم ہے، اس لیے کہ ایک بار نفی کرنے کے بعد ہی اثبات کا اثبات ہو گا اور بے معنویت کے نقطے سے معنویت کا اشارہ ملے گا۔  صوفیا اپنی نفی کے بعد اثبات کا سفر شروع کرتے تھے۔  موجود صورت میں حقیقت اور معنویت دونوں ہی اضافی چیزیں ہیں۔  کلی حقیقت اور کلی معنویت کا کوئی کلی تصور موجود نہیں۔  موجود سے ناموجود کی طرف جانا اور پھر اس نقطہ سے دوبارہ موجود کی طرف لوٹنا ایک کشفی عمل ہے۔  یہ سارے عنوانات اسی کشفی عمل اور مابعد الطبیعاتی پروسیس کی علامتی صورتیں ہیں اور اپنی اپنی کہانی کی مرکزی واردات کی نوعیت کا انکشاف کرتے ہیں۔  میری کہانیاں صرف زمینی وارداتوں یا حکایات تک محدود نہیں، ان میں اٹھائے گئے سوال بڑے ہیں اور انسان و کائنات کی ازلی و ابدی حقیقتوں اور وارداتوں سے منسلک ہیں۔  اس لیے عنوانات بھی انفرادیت لیے ہوئے ہیں۔  میری کہانیوں میں شناخت اور تشخص کا عمل فرد سے شروع ہو کر اجتماع اور اجتماع سے پھر فرد اور فرد کے حوالے سے کائناتی ہو جاتا ہے۔  انسانی المیہ کئی سطحوں پر موجود ہے۔  طبقاتی معاشرے میں بے چارگی ایک معنی رکھتی ہے۔  پورے گلوب پر اس کے معنی دوسرے ہیں۔  خالصتاً فرد کی سطح پر اس کا احساس اور اظہار دوسرا ہے اور انسان کی تخلیق اور لمحہ ازل میں کل سے اس کی جدائی اور کائنات کے وسیع تر تصور میں اس کی بے چارگی اور تنہائی ایک بالکل ہی الگ چیز ہے۔  یہی صورت تنہائی کی بھی ہے۔  تنہائی کو ہمارے ادب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے، لیکن تنہائی کی کئی سطحیں ہیں۔  فرد کی انفرادی تنہائی، مجمع میں تنہائی اور روحانی و ازلی تنہائی۔  پھر اس کے اسباب بھی مختلف ہیں۔  انفرادی بے چارگی، طبقاتی و معاشی جبر، سماجی و سیاسی جبر اور ان سب سے مختلف ازلی و ابدی روحانی تنہائی ان سب کی کیفیت اور اسباب مختلف ہیں، لیکن ان میں ایک ارتقائی سفر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، میرے فنی سفر میں شاید ارتقاء موجود ہے، چنانچہ یہ روش انسان کی بے چارگی اور مجبوری نہیں بلکہ حقیقت کی تلاش اور اس کو پانے جاننے کی معنویت سے عبارت ہے۔

٭ قبر، موت، جنازہ آپ کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔  کبھی شہر میں جنازہ گم ہو جاتا ہے اور قبر لاش مانگتی ہے۔  کبھی بیوی کو بار بار یقین دلایا جا رہا ہے کہ میں مر چکا ہوں۔  کبھی گھر قبر اور قبر گھر معلوم ہونے لگتے ہیں۔  کبھی ماں کے مرنے کی دعا ہے۔  کبھی زہر پینے کے بعد موت کا انتظار تو کبھی اپنی قبر کھدنے کا انتظار۔  کیا موت آپ کے نزدیک ذریعہ نجات ہے؟

٭٭  قبر، موت اور جنازہ مختلف ادوار میں مختلف معنویت کی علامت ہے۔  ’’بے زار آدم کے بیٹے ‘‘ کی کہانیوں میں قبر اور موت خارج میں موجود ناموافق صورتحال سے پناہ کی جگہ ہیں۔  یہاں آ کر ایک سکون ملتا ہے۔  کچھ دیر کے لیے دشمن فضا سے جان چھوٹ جاتی ہے۔  یہ فرار انفرادی نوعیت کا ہے اور حقیقت سے آنکھ چرانے کے رویے سے عبارت ہے۔  یہاں فرد طبقاتی جبر اور معاشی ناہمواری کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور کسی حد تک، کچھ نہ کر سکنے کے روّیے نے اس کے اندر ایک غصہ پیدا کر دیا ہے۔  یہ غصیلا جو ان اشیاء اور قدروں کو توڑنا پھوڑنا چاہتا ہے۔  ان کے ہونے کا انکار کرتا ہے اور جب ردِ عمل شدید ہوتا ہے تو قبر اور موت اس کی پناہ گاہیں بنتی ہیں۔  یہاں کی دھند اور تاریکی میں اس کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے، لیکن جب مارشل لا کے جبر و تشدد میں شناخت اور پہچان مٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور اسے تلاش کیا جاتا ہے تو قبر، موت اور جنازہ سیاسی علامتیں بن جاتے ہیں ( ’’سہ پہر کی خزاں ‘‘ کے افسانوں میں ) لیکن جب شناخت اور پہچان کا یہ سفر روحانی ہو جاتا ہے اور مابعد الطبیعاتی سچائیوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو قبر اور موت کی علامتیں اپنے معنی بدل لیتی ہیں ( ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ‘‘ کے افسانوں میں ) یوں ان علامتوں میں ایک معنوی اور فکری ارتقا بھی پیدا ہوا ہے جو میرے بنیادی موضوع شناخت اور پہچان کے تصور کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

٭ آپ کے افسانوی مجموعوں ’’کاغذ کی فصیل‘‘ بے زار آدم کے بیٹے ‘‘ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ اور دشت خواب‘‘ ان سب میں اسلوبی سطح پر فرق واضح ہے۔  اس میں قاری کی خواہش کا احترام شامل ہے یا پھر یہ تبدیلی غیر شعوری طور پر بدلتے ماہ و سال کے ساتھ ہوئی ہے؟

٭٭  میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’بے زار آدم کے بیٹے ‘‘ (۱۹۷۴ء) ہے لیکن ترتیب کے اعتبار سے پہلا مجموعہ ’’کاغذ کی فصیل‘‘ ہے جو بہت بعد میں (۱۹۹۳ء) میں چھپا۔  ’’کاغذ کی فصیل‘‘ سے ’’دشت خواب‘‘ تک اور اب تازہ افسانوں میں میرے اسلوب میں ایک تبدیلی آئی ہے، لیکن اس کی وجہ کسی کی خواہش کا احترام نہیں۔  میرے ابتدائی افسانے زیادہ تر جنسی حقیقت نگاری کی ذیل میں آتے ہیں۔  کہانی کی بنت اور موضوع کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں اسی بیانیہ انداز میں لکھا جائے، لیکن یہ بیانیہ بھی بالکل سادہ نہیں بلکہ میرے بعد کے اسلوب کے اشارے اس میں موجود ہیں اور اس سادہ بیانیہ میں بھی استعارہ اور تشبیہ کی جھلکیاں موجود ہیں۔  ’’بے زار آدم کے بیٹے ‘‘ میں ایک غصیلا نوجوان، طبقاتی اور معاشی جبر میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے۔  یہ شناخت ذاتی ہے اور یہاں علامتیں بھی کہیں کہیں پرسنل ہو جاتی ہیں لیکن مجموعی فضا میں ان کے معنی موجود ہیں۔  اسلوب میں استعارہ سازی کا عمل پیکر تراشی سے مل کر ایک نیا انداز پیدا کر رہا ہے۔  ’’ریت پر گرفت‘‘ کے افسانوں میں تجریدیت زیادہ ہے اس لیے اسلوب میں دبازت، شعری و سائل کا استعمال، شعریت اور پیکر تراشی میں باطنی گہرائی نمایاں ہے۔  موضوع کی گنجلک اور دبازت کی وجہ سے اسلوب میں بھی ادقیت ہے۔  اس مجموعہ میں کسی حد تک ترسیل کا مسئلہ بھی موجود ہے۔  یہ افسانے ذہین قاری کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن اسی مجموعہ کا آخری افسانہ ’’ڈوبتی پہچان‘‘ ایک نئے ذائقے اور مزاج کی نشاندہی کرتا ہے اور یہاں سے اسلوب کی ایک نئی پرت شروع ہوتی ہے جس میں جملہ بظاہر سادہ ہے لیکن علامتی دبازت اور معنویت گہری ہے۔  ’’سہ پہر کی خزاں ‘‘ کی کہانیاں مارشل لائی جبر اور تشدد میں گھرے شخص کی کہانیاں ہیں جو اس جبر میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے افسانوں کا اسلوب اپنی ایک الگ علامتی معنویت لیے ہوئے ہے۔  یہاں قبر، موت اور جنازہ اور کہیں قبرستان اور گٹرسیاسی فضا میں سی چنی گئی علامتیں ہیں۔  ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ کی کہانیوں میں شناخت کا عمل ایک وسیع تر سماجی پروسیس میں شروع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسلوب میں بھی ایک تبدیلی ہوتی ہے۔  ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ‘‘ کی شناخت کائنات کے وسیع تر تناظر میں ایک کشفی روحانی عمل کا حصہ ہے، چنانچہ اسلوب میں ایک نئی طرح کی دبازت اور معنویت آ جاتی ہے۔  علامتیں آفاقی ہو جاتی ہیں اور ایک نیا کردار مرشد اپنی پہچان کراتا ہے۔  مرشد کے کردار کی ابتدائی جھلکیاں میرے شروع کے افسانوں میں بھی کہیں کہیں موجود ہیں لیکن اس کی واضح صورت اس مجموعے میں سامنے آئی ہے۔  اسلوب کی ساری صورتیں میرے مجموعی اسلوب کی مختلف پرتیں ہیں اور یہ میرے بنیادی موضوع شناخت اور پہچان کے ارتقائی تصور سے جڑی ہوئی ہیں۔

٭ ایک تخلیق کار کی حیثیت سے آپ کے نزدیک ماضی اہم ہے، حال یا مستقبل۔  آپ کا تصور وقت کیا ہے؟

٭٭  میرے یہاں وقت کا تصور ماضی، حال یا مستقبل کے کسی ایک نقطے تک محدود نہیں۔  میں ماضی کو حال کے لمحہ موجود سے مل کر مستقبل کی طرف سفر کرتے ہوئے وقت کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہوں۔  ’’دریا‘‘ میرے یہاں ایک خاص استعارہ ہے جو بہتے ہوئے وقت کی تصویر بناتا ہے۔  اس میں ماضی و حال اور مستقبل ایک ہو جاتے ہیں۔  میرے پاس وقت کا تصور زمانی تقسیم کے بغیر ہے۔  ماضی حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔  اصل اہمیت وہ جست ہے جو لمحہ موجود کو پھیلا کر وقت کا تسلسل بنا دیتی ہے۔  وہ تسلسل جو وقت کو زمانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔  میرے افسانے ’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘ (بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ) کا کرداریوں کہتا ہے:

’’شیخ کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز پراسرار تبسم ابھرا، بولے ’’وقت ایک دریا کی مانند ہے جس کی لہروں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ دیکھنے میں وہ الگ الگ نظر آتی ہیں۔  ماضی کی گود سے حال، حال کی گود سے مستقبل اور مستقبل کی گود سے پھر ماضی طلوع ہوتا ہے۔  ایک دائرہ جس کا ایک مرکز ہے اور اس مرکز کی کوئی زبان نہیں نہ کوئی اس کا احاطہ کر سکتا ہے۔  ‘‘

ایک ہی لمحہ میں کئی جہانوں میں رہنے کی اذیت و لذت میرے تصور وقت کا ایک اہم پہلو ہے۔  ایک ہی لمحہ میں بیک وقت کئی حقیقتوں کی آگاہی کے نتیجے میں میرے تخلیقی عمل میں تہہ داری پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے میرے اظہار میں بھی تہہ داری آئی ہے۔  ڈاکٹر نوازش علی نے اپنے ایک مضمون میں میرے بارے میں لکھا ہے کہ ’’تہہ دار شعور تضادات اور تقابل کے علاوہ بے یقینی کی صورت میں بھی ظاہر ہوا ہے۔  یہ بے یقینی عمل اور بے عملی کے درمیان لٹکتے رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اس کے علاوہ بیک وقت دو انتہاؤں کی کھینچا تانی بھی تہہ دار شعور کو جنم دیتی ہے۔  ‘‘ لمحہ موجود میں مختلف طرح کے احساسات اور کیفیات کو گرفت میں لینے کی کوشش نے وقت کو ایک گزراں لمحہ بنا دیا ہے یوں وقت زمانے کی قید سے آزاد ہو کر صرف وقت رہ جاتا ہے۔  یہ مختلف احساسات کی درمیان حدوں کو توڑنے، ان میں یکجانی پیدا کرنے اور لمحہ میں ابدیت کا عکس دیکھنے، زمانے کی قید سے آزاد وقت میں زندہ رہنے اور مختلف زمانوں کے واقعات و تجربات کو بیک وقت سوچنے، محسوس کرنے اور اپنے آپ پر طاری کر کے ایک نئی فضا پیدا کرنے کی کوشش ہے۔  چنانچہ میرے پاس وقت کا تصور کسی زمانی قید تک محدود نہیں بلکہ ایک ہی لمحہ میں کئی لمحوں کی بازیافت ہے جہاں وقت زمانے کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔

٭ ٹوٹی ہوئی دیوار (کاغذ کی فصیل) یہ کہانی تیس سال پہلے کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ آج ہی کی معلوم ہوتی ہے۔  یہ کہانی کسی دیہاتی سکول کا منظر ہی پیش نہیں کرتی بلکہ مہذب شہر کے مہنگے سکول کی صورتِ حال بھی ایسی ہے۔  بحیثیت استاد آپ نظام تعلیم کو کہاں تک درست سمجھتے ہیں، کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟

٭٭  یہ کہانی (ٹوٹی ہوئی دیوار) تیس سال پہلے لکھی گئی تھی، آج بھی صورتحال یہی ہے۔  ہمارے تعلیمی نظام کا زوال تو بہت پرانا ہے۔  بلکہ اس کا آغاز تو برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔  ۱۸۵۷ء سے پہلے ہمارے مدرسے کسی بھی طرح کی سیاسی اور حکومتی مداخلت سے آزاد تھے۔  بادشاہ مدرسہ کو ایک بار جو جاگیر دے دیتا تھا، بعد والوں کے لیے ممکن نہ تھا کہ اسے واپس لے لیں۔  ہمارے ان مدرسوں میں دین کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے علوم پر بھی توجہ دی جاتی تھی چنانچہ حدیث، فقہ اور تفسیر کے ساتھ ساتھ منطق، حساب اور فلسفہ بھی نصاب میں شامل تھا۔  انگریزوں نے اس نظام پر ضرب لگائی۔  جاگیریں چھین لیں اور مدرسوں کو زکوٰۃ اور چندے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا انگریزی ٹائپ کے مدرسے قائم ہوئے جن میں سے دین تقریباً خارج ہو گیا۔  ان مدرسوں کا مقصد انگریز حکومت کے لیے وفادار سرکاری ملازم پیدا کرنا تھا۔  مولانا شبلی نے علی گڑھ کے بارے میں کہا تھا ’’یہ ہر میجسٹی کے لیے وفادار ملازم پیدا کرنے کی فیکٹری ہے۔  ‘‘ اکبر الٰہ آبادی کو بھی یہی اختلاف تھا کہ مسلمانوں کو ہنر اور مختلف پیشے سکھانے کی بجائے ان تعلیمی اداروں کے ذریعے سرکاری وفادار ملازم بنایا جا رہا ہے۔  انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کا اولین مقصد آئی سی ایس کرنا ہوتا تھا اور یہ نہ ہو سکے تو پھر کلرک بن جانا۔  یہ رویہ اور مقصد آج بھی موجود ہے۔  ہماری تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا ہے اور سرکاری کی اطاعت کرنا۔  میکالے نے جو تعلیمی پالیسی بنائی تھی اسے جب منظوری کے لیے وائسرائے کے پاس بھیجا تو اس پر جو نوٹ لکھا وہ قابل غور ہے۔  اس نے لکھا، ’’ہم چند ہزار انگریز کروڑوں کی آبادی کے اس ملک پر اس وقت تک دیر تک حکومت نہیں کر سکتے، جب تک یہاں ایک ایسی جماعت وجود میں نہ آ جائے جو نسلاً ہندوستانی ہو اور ذہنی طور پر انگریز، مجھے یقین ہے کہ اس تعلیمی پالیسی پر عمل کر کے چند ہی برسوں میں ایسی جماعت وجود میں آ جائے گی۔  ‘‘ یہ تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ ہے کہ چند ہزار انگریز (جن کی تعداد پچیس تیس ہزار سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی اور کسی وقت تو یہ دس ہزار سے بھی کم رہی) کروڑوں کی آبادی کے اس ملک پر نوے سال حکومت کر گئے اور اس دوران کوئی بڑا واقعہ یا ہنگامہ بھی نہیں ہوا۔  ایک شہر میں انگریز حاکم چار پانچ ہی ہوتے تھے۔  ایک کمشنر، ایک ڈپٹی کمشنر، ایک ایس پی اور ایک افسر مال اور ایک دو اور۔  باقی سارا انتظام یہی نسلاً ہندوستانی ذہنی انگریزی کرتے تھے۔  یہی وہ جماعت تھی جسے میکالے کے نظام تعلیم نے جنم دیا۔  یہی نظام تعلیم تقریباً اسی صورت میں آج بھی رائج ہے اور ہمارے حاکم عوام کو محکوم سمجھتے ہیں۔  ہمارا نظام تعلیم قومی مقاصد سے ہم آہنگ نہیں۔  ہم طالب علم کی ذہانت کا نہیں یادداشت کا امتحان لیتے ہیں۔  ہمارا معیار نمبر ہیں۔  ہم پروفیشنل کالجوں یا دوسرے اداروں میں داخلے کے لیے نمبروں کو معیار سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مقر رہ نمبروں سے ایک نمبر کم والا نا اہل ہو جاتا ہے، لیکن دوسری طرف جہاں داخلہ ٹیسٹ اور امتحان کا نظام ہے وہ بھی ہماری روایتی بددیانتی کی وجہ سے ناکام ہو گیا ہے۔  سیاسی مقاصد اور شہرت کے لیے غیر ضروری نصابی بوجھ بڑھایا گیا ہے۔  اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو انگریزی اور اُردو زبان کے نصاب میں ضم کیا جا سکتا ہے۔  اسی طرح بعض زبانوں کی غیر ضروری لازمی تعلیم بھی ایک بوجھ ہے۔  انگریزوں نے دینی مدارس اور دنیاوی مدارس کو الگ الگ کر کے مسلمان معاشرے میں جس تقسیم کا بیج بویا تھا وہ آج بھی قائم ہے۔  ادھر سے دنیا نکل گئی، ادھر سے دین نکل گیا۔  وہ ایک انتہا اور یہ دوسری انتہا ہو گئی۔  دین و دنیا کے اسی جھگڑے نے ہماری مجموعی دانش، رواداری اور قومی مزاج کو متاثر کیا۔  اب تک ہماری جتنی تعلیمی پالیسیاں بنی ہیں۔  وہ میکالے کے نظام تعلیم کے اصولوں پر ہی قائم ہیں۔  بنیادی تبدیلی نہیں کی گئی صرف انتظامی تبدیلیوں کے پیچھے سیاسی مقاصد اور کچھ لوگوں کو ملازمتیں دینا اور ان کے لیے نئے محکمے کھولنا رہا ہے۔  اگر ہم سنجیدگی سے اپنے تعلیمی نظام کی اصلاح چاہتے ہیں تو سیاسی وابستگیوں اور مفاد سے بالا ہو کر اس پر غور کرنا چاہیے۔  لیکن شاید یہ ممکن نہیں کہ ہم جس مجموعی زوال کے عمل سے گزر رہے ہیں اس میں صورتِ حال یہی رہے گی۔  جب کوئی قوم اپنے زوال پر فخر کرنے لگے اور زوال سے لطف اٹھانا شروع کر دے تو پھر اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔

٭ آج قاری کی جگہ ناظر نے لے لی ہے۔  کیا یہ صورتِ حال ادب کے لیے نقصان دہ نہیں؟

٭٭  یہ تبدیلی تو دنیا بھر میں ہو رہی ہے، لیکن اس سے خوف زدہ ہونے کی بجائے خود کو اس کے مطابق تیار کرنا چاہیے۔  اب تو انٹرنیٹ پر بھی ادب فیڈ ہو رہا ہے۔  بنیادی بات تو اظہار اور قاری یا ناظر تک پہنچنے کی ہے۔  اگر یہ کام کتاب کی بجائے سکرین یا کمپیوٹر کا نیٹ ورک کر رہا ہے تو ٹھیک ہے۔  ہم زمانے کو تو واپس نہیں لے جا سکتے، خود کو اس کے مطابق تیار کر سکتے ہیں اور یہی ہمیں کرنا چاہیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈاکٹر سلیم اختر

 

٭  کتاب اور قلم سے رشتہ کب قائم ہوا؟

٭٭  اگر میں یہ کہوں کہ کتاب اور قلم سے رشتہ میرے جینز اور کر ومو سومز ہی میں تھا تو اسے مبالغہ نہ جانیے، مجھے بچپن میں ہی، کھلونوں سے کھیلنا تو بطور خاص یاد نہیں لیکن لفظ سے دلچسپی کے تاثرات کم عمری ہی سے ذہن نشین رہے۔  دوسری تیسری جماعت تک میں بچوں کی کتابیں پڑھنے کے قابل ہو چکا تھا۔  ابا جی ادیب تو نہ تھے لیکن مطالعے کے بہت شوقین تھے۔  اختر شیرانی (لاہور ) عبد الحمید عدم(پونہ) اور ابن انشا ( انبالہ شہر) ان کے دوستوں میں سے تھے۔  میرا شوق دیکھ کر انھوں نے بچوں کے کئی رسالے میرے نام جاری کرا دیے تھے۔  یوں پڑھتے پڑھتے لکھنے کا بھی شوق پیدا ہو گیا۔  پہلی کہانی پانچویں چھٹی جماعت میں چھپ چکی تھی۔  آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا کہ پہلے دو افسانے لاہور کے ایک فلمی پرچے میں چھپ گئے۔  فرسٹ ائر سے چھوٹے چھوٹے تنقیدی مقالات چھپنے شروع ہو چکے تھے۔

٭  ابتدا میں کن ادیبوں سے ملاقات رہی، کس نے زیادہ متاثر کیا؟

٭٭  اباجی کو ادبی مطالعہ کا ذوق تھا چنانچہ بچپن میں بعض اوقات وہ مجھے اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جاتے، میں کچھ نہ سمجھ پاتا، لیکن شعر خوانی کا ماحول مجھے اچھا لگتا۔  ۴۲۔  ۱۹۴۰ء میں عدم صاحب پونہ میں ہمارے گھر کے سامنے رہائش پذیر تھے، میں انھیں چاچا جی کہتا تھا۔  عدم صاحب سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔  پونہ کے بعد انبالہ شہر میں، اور راولپنڈی میں بھی۔  ابن انشا کو میں نے ۴۷۔  ۱۹۴۶ء میں انبالہ شہر کی ادبی محفلوں میں گفتگو کرتے سنا، لیکن یہ قصہ تب کا ہے جب آتش بچہ تھا۔

جب خود باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا۔  تو متعدد اہل قلم سے تعلقات کی مختلف صورتیں رہیں، لیکن کسی سے اثرات قبول نہ کیے۔  میں کسی کا اثر قبول کر ہی نہیں سکتا۔  یہ میری نفسیات کے خلاف ہے۔  میں اپنی ذات میں جزیرہ ہوں۔  لہٰذا موجوں کے خروش کے باوجود بھی اپنی اپنی تنہائی میں محفوظ رہتا ہوں۔

٭ کبھی طبعیت غزل گوئی کی طرف مائل ہوئی…غزل کہنے کو جی چاہا … انجان کا انجام؟

٭٭  بے چارہ انجان تو ایسا غنچہ تھا جو بن کھلے مرجھا گیا۔  اکثر لوگوں کو علم نہیں کہ میں آٹھویں جماعت سے لے کر ۱۹۵۵ء میں ( گورنمنٹ کالج اصغر مال ) بی۔  اے کرنے تک راولپنڈی میں رہا۔  عدم بھی ان دنوں وہیں تھے اور ایم۔  اے۔  جی۔  آفس میں والد صاحب کے رفیق کار تھے۔

میں دن میں سپنے دیکھنے والا ٹین ایجر تھا اور یہی سپنے شاعری میں ڈھالنے کی ٹھانی۔  میں نے ابا جی سے شاعری کی بات کی، چنانچہ میں چند غزلیں بغرضِ اصلاح عدم صاحب کے پاس لے گیا، انھوں نے میری نثری غزلوں کو باقاعدہ غزلوں کا روپ دیا۔  مجھے آج تک عدم صاحب کی یہ بات یاد ہے جو انھوں نے والد صاحب سے کہی تھی۔

’’ ‘قاضی صاحب آپ کے بیٹے میں بہت سپارک ہے اگر اسے کوئی رہنما مل گیا تو بڑا نام پیدا کرے گا۔  سال دو سال تک بے سر و پا مشاعروں کا سلسلہ جاری رہا، پھر مجھے خود ہی احساس ہو گیا کہ میں شاعری کے لیے موزوں طبع نہیں ہوں۔  لہٰذا خود ہی شاعری کا پنڈ چھوڑ دیا۔  دسویں جماعت ۹۵۱ ۱ ء تک میں بچوں کے ادیب کی حیثیت سے خاصا مشہور ہو چکا تھا اور اس زمانے کے بچوں کے رسالوں میں خاصی تعداد میں میری نظمیں چھپتی رہی تھیں۔  بڑی بات یہ ہے کہ شاعری سے تائب ہونے پر کبھی تاسف نہیں ہوا بلکہ خوش ہوں کہ یوں بھی شاعروں کی سیاست سے دور رہا۔  مشاعروں میں صحیح مقام پر نہ پڑھائے جانے کی اذیت سے محفوظ رہا۔۔

٭  ادبی زندگی کا آغاز تنقید نگاری سے ہوا یا افسانہ نگاری سے۔

٭٭  اپنی زندگی کو اگر ندی سے تشبیہ دوں تو پھر کہہ سکتا ہوں کہ اس کا ایک کنارہ تنقید ہے تو دوسرا افسانہ نگاری۔  یہ دونوں متوازی ہیں۔

٭  ایک تخلیق کار کے لیے خود کو سمجھنے کے لیے، دوسروں کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نفسیات کہاں تک معاون ہے؟

٭٭  یہ جو کچھ آپ پوچھا ہے یہ سب نفسیات کے دائرہ کار میں آتا ہے۔  فرد کی نفسیات، اجتماع کی نفسیات اور تخلیق ( اور ساتھ ہی تخلیق کار بھی ) کی نفسیات۔  ان ہی میں سب کچھ آ جاتا ہے۔  نفسیات فرد کے اعصابی عوارض کا علاج کرتی ہے۔  اجتماعی جنون (MASS PSYCHOSIS ( جس کے ہم سب شکار ہیں، اس کی علامات کی تشخیص کرتی ہے اور تخلیق کار کی شخصیت کی تحلیل و تفہیم سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں تخلیقات کا تجزیاتی مطالعہ کرتی ہے۔  ساری زندگی نفسیات کے زیر اثر ہے۔

٭  نفسیات کی طرف رجحان کس سبب ہوا؟

٭٭  میں کالج میں بنیادی طور پر نفسیات اور فلسفے کا طالب علم تھا بلکہ ایف اے میں تو اردو بھی نہ پڑھی۔  اردو میں نے بی اے میں پڑھی۔  میرا ارادہ بھی فلسفے میں ایم اے کرنے کا تھا۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ زمانۂ طالبِ علمی میں مجھے نفسیات سے زیادہ فلسفے سے لگاؤ تھا۔  فلسفے سے شوق کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتی ہیں کہ تھرڈ ائر میں نطشے اور کانت کا مطالعہ کر رہا تھا جو کہ نصاب میں بھی نہ تھے۔  اسی طرح جمالیات بھی ہمارے نصاب میں شامل نہ تھی لیکن اس کے بارے میں بھی کتابیں پڑھ رہا تھا۔  حسن کے موضوع پر میں نے ایک مضمون اس وقت قلمبند کیا جب میں خود فورتھ ائر میں تھا یہ مضمون کالج میگزین ’’ کہسار‘‘ میں چھپا۔

۱۹۵۵ء میں بی اے کے بعد میں آگے نہ پڑھ سکا اور مختلف ملازمتیں کرتا رہا، ایم اے اردو ۱۹۶۱ء میں کیا عملی زندگی کی خرابیوں کے باوجود مطالعہ جاری رہا۔  ادب و نقد کے ساتھ نفسیات کا بھی۔  فلسفہ سے رغبت ختم ہو گئی اور برس ہا برس تک میں نے صرف نفسیات ہی کا مطالعہ کیا۔  نفسیات کے بارے میں یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ میری تجاوزات میں سے ہے، اس لیے کہ میں اس مضمون میں سند یافتہ نہیں ہوں۔

٭  علم نفسیات کی کئی اصطلاحات اردو ادب میں مستعمل رہی ہیں، شعور و لاشعور، تحت الشعور کی انسانی زندگی اور ادب میں کیا اہمیت رہی ہے؟

٭٭  ان اصطلاحات میں آپ اجتماعی لاشعور، تلازمہ، فینٹسی کا بھی اضافہ کر سکتی ہیں اگرچہ یہ اور اس نوع کی متعدد اصطلاحات کی عمر ایک صدی جتنی ہے، لیکن جہاں تک انسانی شخصیت اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا تعلق ہے تو یہ علم اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسان۔  ارسطو کی ایک کتاب جونسبتاً کم معروف کتاب کا نام ہے (onpsyche ( جسے نفسیات پر پہلی کتاب سمجھا جاتا ہے۔

جہاں تک تخلیقی شخصیات اور تخلیقات کے مطالعے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی نفسیات کارآمد ثابت ہوتی ہے۔  دنیا بھر کی بڑی تخلیقی شخصیات اور ان کی تخلیقات کا نفسیات کے محدب شیشے سے مطالعہ کیا گیا، چنانچہ شیکسپیئر سے لے کر دوستوفسکی تک اہم تخلیق کاروں کا نفسیاتی مطالعہ کیا جا چکا ہے۔

ہربرٹ ریڈ کے بموجب کالرج پہلا نقاد تھا، جس نے اپنی تحریروں میں psychology کا لفظ سب سے پہلے استعمال کیا۔  یہ ڈیڑھ سو برس قبل کی بات ہے۔

٭  نفسیاتی تنقید کے سلسلے میں فرائڈ، ایڈلیر، ژونگ، کالرج، ارنسٹ جونئر، ایرخ فرم، کیرن ہارنی وغیرہ نے فرد کے نفسیاتی مطالعہ کی اہمیت واضح کی۔  اردو ادب میں نفسیاتی تنقید میں کون سے اہم نام ہیں؟

٭٭  میرے ڈاکٹریٹ کے مقالے ’’ نفسیاتی تنقید ‘‘ میں اس ضمن میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔  تاہم کچھ عرض کرتا ہوں۔  ہمارے ہاں نفسیاتی تنقید کا اولین نقاد، میرا جی کو سمجھا جاتا رہا ہے لیکن میں تحقیقات سے امراؤ جان ادا والے مرزا ہادی رسوا تک جا پہنچا، جن کے مقالات ’’ زمانہ ‘‘ کانپور میں شائع ہوئے تھے۔  پاکستان میں حسن عسکری، سلیم احمد، ریاض احمد، ڈاکٹر وحید قریشی کے اسما گنوائے جا سکتے ہیں۔  حسن عسکری ژونگ سے خصوصی طور پر متاثر تھے۔

میں نے فرائڈ اور ژونگ دونوں سے استفادہ کیا اور واحد ایسا نقاد ہوں جو گذشتہ چالیس برس سے نفسیات کے حوالے سے تنقید کر رہا ہوں۔

٭  کیا ہمارے ادب میں ناولوں کے کرداروں کے نفسیاتی تجزیہ کی مضبوط روایت موجود ہے، عصمت، خدیجہ، بانو قدسیہ، عبداللہ حسین اور چند ایک دیگر ناولوں کے کرداروں پر ضمنی بحث تو نظر آتی ہے لیکن بہت سے کردار ایسے ہیں جن پر بات ہونا ضروری ہے۔  آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  اس ضمن میں، میں آپ سے متفق ہوں۔  کسی تخلیق کے نفسیاتی مطالعہ میں تخلیق کار کی تحلیل نفسی، اساسی کردار ادا کرتی ہے۔  لکھنے والے کی شخصیت کی روشنی میں اس کی تخلیق کا مطالعہ ہوتا ہے۔  ہم منافقت اور اخفا پسند معاشرے میں زیست کر رہے ہیں خواتین کی بات تو جانے دیجیے۔  کسی مرد کا نفسیاتی مطالعہ کر کے اس کے نتائج کو خوشدلی سے قبول کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔

میں نے پچیس، تیس برس قبل مقالہ لکھا ’’ اقبال کا نفسیاتی مطالعہ ‘‘ یہ نقوش میں شائع ہوا تو ایک امریکن سلینگ then shit hit the fan والا عالم ہو گیا۔  جماعت اسلامی سے وابستہ اہل قلم نے میرے خلاف وہ انتقامی مہم شروع کی کہ ملازمت جاتے جاتے بچی تو ایسے میں کہاں کی نفسیات اور کہاں کا نفسیاتی تجزیہ ہے۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ قرۃ العین حیدر کے مرد اور انتظار حسین کی عورتیں لا جنس ہیں۔  کیوں؟ اس کے لیے دونوں شخصیتوں کی نہاں پرتیں روشنی میں لانی ہوں گی۔  پتی و رتا بانو قدسیہ کیسے ’’ راجہ گدھ ‘‘ قلم بند کر لیتی ہے؟ جس میں جینز، روحانیت اور تانترک سیکس ساتھ ساتھ ہیں۔  عبداللہ حسین ماں بہن کی گالیاں کیوں قلم بند کرتا ہے؟ ان باتوں کو تخلیق کاروں کی شخصیت سمجھے بغیر نہیں جا نا جا سکتا۔  ’’نانا‘‘ کے خالق فرانسیسی ناول نگار ایملی زولا کا نفسیاتی مطالعہ کرنے کے بعد ماہرین نفسیات نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ اس کی تخلیقات، اس کی ابنارملٹی کا مظہر ہیں اور زولا نے خوش دلی سے اس بات کو قبول کر لیا۔  inflated egoکے شکار لاتعداد اہل قلم سے کسی ایک کی نرگیست کی بات تو کیجیے پھر دیکھیے تماشا … ایک بات اور یاد آ گئی وہ بھی بتاتا چلوں … شبانہ اعظمی کے شوہر جاوید اختر کی والدہ صفیہ اختر نے عصمت چغتائی کی ’’ ٹیڑھی لکیر ‘‘ کی مرکزی کردار ثمن کا نفسیاتی مطالعہ لکھا جو چالیس برس پرانا ہے اور آج بھی بڑی دلچسپی سے پڑھا جا سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بڑے ناولوں کے کردار اب بھی کسی نفسیاتی نقاد کے منتظر ہیں۔

٭  تحلیلِ نفسی میں خواب کس حد تک معاونت کرتے ہیں؟

٭  ٭  تحلیلِ نفسی میں خواب اساسی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ خوابوں اور ان کی علامات کی روشنی میں مریض کا نفسیاتی علاج ہوتا ہے۔  اس ضمن میں فرائڈ کیinterpretation of dream بنیادی حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اس کے بعد آنے والوں نے اس پر مزید تحقیقات کیں۔  فرائڈ کے علاوہ ژونگ اور ایڈلر بھی نفسی علاج میں خوابوں کی اہمیت کے قائل تھے، مگر انھوں نے خوابوں کی علامات کی تشریح میں صرف جنس پر زور دیا۔  ژونگ نے خوابوں کے مطالعے کے سلسلے میں اساطیرپر بھی زور دیا۔

٭  دبستان لکھنو اور ریختی گو شعرا کا مطالعہ نفسیاتی زاویے سے کیا جائے تو کیا نئے در وا نہ ہوں گے؟

٭  ٭  آپ کے سوال سے قبل ہی میں یہ کام کر چکا ہوں۔  میرے ابتدائی دور کا مقالہ ہے ’’ ادب میں زنانہ پن کی مثال، ریختی ‘‘ جو میرے مقالات کے اولین مجموعے ’’ نگاہ اور نقطے ‘‘ میں شامل ہے، پھر اردو ادب کی مختصر سی تاریخ میں ’’ ناز و انداز کا اسلحہ خانہ ’’ ریختی ‘‘ تحریر کیا۔  اسی تاریخ میں دبستان لکھنو کا بھی نفسیات کی روشنی میں مطالعہ کیا گیا۔  گذشتہ لکھنو کی سماجی زندگی اور ادبی تخلیقات۔  ان سب کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے انحطاط کی جمالیات کے لحاظ سے اکثریت اس سے لا علم ہے کہ نصیر الدین حیدر عورتوں کی طرح حاملہ ہوتا … اور اس سلسلے کے تمام مراحل سے گزرتا … یہ شخص ابنارمل سائیکالوجی کی بنی بنائی کیس ہسٹی ہے۔

٭  ناصر کاظمی روز نامچہ لکھنے کے عادی تھے۔  ان کی وفات کے بعد ان کی یادداشتوں پر مشتمل چند پریشان کاغذ طبع ہوئے۔  کسی بھی شخصیت کے مطالعہ میں نجی خطوط، ڈائریاں، خود نوشت، سوانح عمریاں اور یادداشتیں وغیرہ معاون ثابت ہوتی ہیں۔  کیا ان کی مدد سے ناصر کاظمی کو سمجھنے کی کوشش کی گئی؟

٭٭  میں نے ڈاکٹریٹ کے مقالے ’’ نفسیاتی تنقید ‘‘ میں شخص اور شخصیت کی تفہیم میں ان تمام تحریروں کی اہمیت بطور خاص اجاگر کی ہے۔  خود میں نے غالب، اقبال، شاد عارفی، مجید امجد اور جوش جیسے شعرا کے جو نفسیاتی مطالعے کیے وہ ان ہی ذرائع پر استوار تھے۔  ان کی مدد کے بغیر کسی کا نفسیاتی مطالعہ اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہو گا۔  جہاں تک میرے مطالعے کا تعلق ہے۔  ناصر کاظمی کا کسی نے بھی نفسیاتی مطالعہ نہ کیا اور نہ ہی ڈائری کی نفسیاتی اہمیت کا ادراک کیا گیا۔

٭ آج کل جو ادب لکھا جا رہا ہے، کیا آپ اس سے متفق ہیں۔  عصر موجود میں نثری صورت حال بہتر ہے یا شعری…؟

٭٭  ہم دور انحطاط میں زیست کر رہے ہیں۔  جب تمام ادارے رو بہ زوال ہیں تو پھر ادب کیسے تر و تازہ ہو سکتا ہے۔  آپ نصف صدی پیشتر کی قد آور ادبی شخصیات کو ذہن میں لایئے اور آج کی قد آور شخصیات کے متعلق سوچیے۔  میری بات سمجھ میں آ جائے گی۔  جہاں تک شاعری کا تعلق ہے کم از کم دو اڑھائی سو شعری مجموعے ہر برس طبع ہوتے ہیں۔  مگر سال میں ایک بھی زندہ شعر تخلیق نہیں ہوتا نثر کا بھی کچھ ایسا ہی عالم ہے۔  نثر کی بد مزگی کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں نثر نگار ہوں۔

٭  اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ اور ڈاکٹر سلیم اختر لازم و ملزوم ہیں۔  کیا ایسا محسوس نہیں ہوا کہ آپ کے دیگر بہت اہم کام پس منظر میں چلے گئے ہیں۔  ’’ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ‘‘ کی پذیرائی اور اس کے سبب متنازع شخصیت قرار پانا کیسا لگتا ہے؟

٭٭  بجا فرمایا ! مختصر ترین تاریخ اگرچہ میری پہچان بن گئی ہے، مگر اسے تحریر کرتے وقت مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ بہترین فروخت بھی ثابت ہو گی … اس وقت اس کا ستائیسواں ایڈیشن چھپ چکا ہے۔  یہ بھی درست ہے کہ اس کی وجہ سے میری بقیہ تنقید اور فکشن دب گئی ہے، لیکن تنقیدی افراتفری کے عہد میں اگر ایک کتاب بھی زندہ رہ جائے یا زندہ رکھ سکے تو یہ بھی غنیمت ہے۔  رہا اس کی وجہ سے میرا متنازع بن جانا تو اس کا سبب اہل قلم کی خود پسندی اور خود ستائی ہے۔  جس کی تعریف کی، اس لیے ناخوش کہ تعریف میں پورا باب کیوں نہ لکھا۔  جس کا تذکرہ نہ ہوا، وہ سات پشتوں کے لیے دشمن بن گیا۔  کچھ لوگوں پر اسلوب نے قیامت ڈھائی تو کچھ لوگوں پر ضمنی سرخیاں بجلی بن کر گر یں۔  در اصل میں نے شعوری طور پر اسے تاریخ نگاری کے یبوست پر مبنی اسلوب کے برعکس، غیر روایتی اور قدرے افسانوی اسلوب میں قلم بن کیا۔  اس لیے بعض مقامات پر اسلوب خاصا چلبلا ہو گیا، جو بعض حضرات کی ناخوشی کا سبب بن گیا … بہر حال مجھے جو لکھنا تھا، لکھ دیا۔  اب ادیب جانیں کہ انھوں نے انتقام کے لیے کون سا اسلوب اختیار کرنا پسند کریں گے۔  معاصرین پر لکھنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔  آپ کم از کم اس بات کی داد تو دیں کہ میں نے بخوشی، بلا جبر و اکراہ بھڑوں کو کاٹنے کے مواقع فراہم کیے ہیں اور کوئین بی ‘‘ کا تو کہنا ہی کیا۔

٭  دوستی دشمنی کے سفر میں آپ نے کیا کھویا، کیا پایا؟ وہ کیا اسباب تھے کہ جن کی بنا پر آپ کے وزیر آغا سے اختلافات کا آغاز ہوا اور پھر بڑھتے ہی گئے … وزیر آغا بہ حیثیت نظم گو، غزل گو، انشائیہ نگار، تنقید نگار، سوانح نگار… کس صنف میں معتبر ٹھہرتے ہیں؟

٭٭  اب تو مجھے یہ یاد بھی نہیں کہ کس وجہ سے وزیر آغا صاحب نظروں سے گرے۔  میں تو بس وضع داری نبھا رہا ہوں۔  گذشتہ ربع صدی سے ان کے گروپ سے گالیاں کھا رہا ہوں۔  میں جین ڈکسن تو نہیں کہ ادبی موت کی پیش گوئی کر سکوں، لیکن جہاں تک میری ’’تنقیدی پرکھ ‘‘ کا تعلق ہے تو آغا صاحب کی صرف تنقید زندہ رہے گی اور وہ بھی بیس پچیس برس سے زیادہ نہیں۔  ان کے تنقیدی پیمانے زندگی ہی میں متروک ہوتے جا رہے ہیں۔  باقی رہا احباب سے فرمائش مقالات لکھوانا اور چھپوانا… تو ایسے مقالات بقائے دوام کے ضامن نہیں ہوتے۔

٭ جہاں تک کھونے اور پانے کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ بر وقت عقل آ جا نے سے میں چمچہ بننے سے بچ گیا۔  یوں مجھے اپنی شناخت ملی، ورنہ میں بھی کٹلری بکس کا ایک زنگ خوردہ ٹیبل سپون ہوتا، سلیم اختر نہیں۔

٭  پاکستان میں تاریخی تنقید، عمرانی تنقید، رومانی تنقید، جمالیاتی تنقید، تاثراتی تنقید، سائنسی تنقید، مارکسی تنقید، نفسیاتی تنقید، ترقی پسند تنقید، اشتراکی تنقید ساختیاتی تنقید، کس تنقید کا چلن عام ہے۔  کیا ہمارے نقاد ان میں فرق جانتے ہیں۔  کیا کسی نقاد کا کسی ایک دبستان سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔  میرا خیال ہے کہ انہیں الگ خانوں میں منقسم کرنا، دیوار کھینچنا ممکن نہیں ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟

٭  معاصر ناقدین میں سے کوئی بھی دبستان نقد سے منسلک نہیں۔  سب ذاتی تاثرات پر مبنی تشریحی تنقید لکھ رہے ہیں یہ اندازِ نظر اچھا ہے یا برا۔  اس کا انحصار ذاتی پسند و نا پسند پر ہے۔  ماضی میں ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستہ ناقدین نے اشتراکی۔  مارکسی انداز نظر اپنایا۔  فراق گورکھپوری، تاثراتی تنقید کرتے تھے، نیاز فتح پوری، جوش اور عابد علی عابد جمالیاتی روّیوں کے حامل تھے، جبکہ حسن عسکری عمر بھر تنقید کی ایک جامع تھیوری کی تلاش میں رہے۔  اس سفر میں تاثراتی تنقید سے لے کر نفسیات تک سے امداد حاصل کی، بالا آخر مشرق کی روحانیت میں پناہ گزین ہوئے۔

میں واحد نقاد ہوں جس نے گذشتہ چالیس برس سے نفسیات کے محدب شیشے سے تخلیق کاروں اور تخلیقات کا مطالعہ کیا۔  لہٰذا اپنے تجربے کی بنا پر یہ عرض کر سکتا ہوں کہ اگرچہ دبستان کی بدولت نقاد کا زاویہ نگاہ محدود ہو جاتا ہے لیکن فائدہ یہ ہے کہ دبستان کے حوالے سے نقاد ادب پارہ کا نسبتاً زیادہ گہرائی میں جا کر مطالعہ کر سکتا ہے، یقیناً یہ مطالعہ یک رخہ اور یک طرفہ ہو گا لیکن زیادہ گہری بصیرت کا حامل بھی ہو گا۔  اس سلسلے میں متذکرہ دبستان کی حدود وا مکانات کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔  دبستان کو وہ اندھے کی لاٹھی بنا کر، تخلیق کاروں پر لاٹھی چارج نہ کرتا رہے۔

٭ عصر موجود میں ساختیات، پس ساختیات، ردِ ساختیات کا غلبہ بلند ہے۔  لسانیاتی مباحث کے حوالے سے بھی ادب پارے کو سمجھنے کی کوشش میں کیا موضوع پس پشت تو نہ جا پڑے گا؟

٭٭  ہمارے جو ناقدین ان کی جھنڈی اٹھائے خود کو جدید ترین ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، انھوں نے صرف یہ کیا کہ انگریزی کتابوں کی اچھی کتابوں کی تلخیص کرتے ماہرین کی آرا سے مقالات کی تزئین کر دی۔  کسی نے بھی ان نظریات کو اردو ادب کی مختلف اصناف پر منطبق کر کے تخلیقات کے مطالعے کے لیے نیا تناظر فراہم نہ کیا۔  گر یہ نہیں تو با با باقی کہانیاں ہیں۔

٭  کہا جاتا ہے کہ بھارت میں تخلیق اور پاکستان میں تنقید پر توجہ زیادہ ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  کہا کیا جاتا ہے، میں خود بھی ایک مقالہ میں لکھ چکا ہوں۔  بھارت میں ایسے کتب خانوں کی کمی نہیں جن میں مخطوطات، قدیم کتب، نوادر اور اسی نوعیت کا مواد بکثرت دستیاب ہے۔  جو آلاتِ تحقیق کی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں اس نوعیت کے کتب خانے کم یاب ہیں، تحقیق کی بے بضاعتی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج جو نامور محقق نظر آتے ہیں گذشتہ چالیس پچاس برس سے یہی نامور چلے جا رہے ہیں آپ ذرا معاصر ناقدین کے نام گنیے بمشکل دس ایسے ناقدین ملیں گے جو واقعی خالص نقاد ہیں۔

٭ کیا نثری نظم اور ہائیکو … اردو شاعری میں اپنا مقام متعین کر لیں گے؟

٭٭  نثری نظم کو تو اب تسلیم کیا جا چکا ہے۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ نثری نظم کے فروغ میں ناکتخدا دوشیزاؤں نے خاصا اہم کردار ادا کیا ہے اور اسے اپنی فریسٹریشن کے کتھارسس کا ذریعہ بنایا۔  بطور شاعرانہ اظہار مجھے بھی ہائیکو نے متاثر کیا۔  میں جب کسی شاعر کی ہائیکو پڑھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک تنو مند اور قوی الجثہ مرد بچوں کی تین پہیوں والی سائیکل پر سوار ہو کر نہ صرف خوش ہو رہا ہے بلکہ گھڑ دوڑ میں بھی شامل ہے۔  ہائیکو لکھنی آسان ہے اس لیے یار لوگ تین بے معنی مصرعوں پر شاعر بننے کو تلے بیٹھے ہیں اور اب تو نثری ہائیکو بھی لکھے جا رہے ہیں۔  اے لو ! مجھ پر بھی ایک ہائیکو نازل ہو رہا ہے۔  یہ نثری ہائیکو ہے یا شعری … اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔  بہرحال آپ کی خدمت میں ہائیکو پیش ہے۔

سرمئی شام میں افق کے کنارے

چاند کی رو پہلی کشتی

میں اور تم

کیسی کہی ہائیکو

٭ شعرو ادب کی ترویج و ترقی میں تجربات کی کیا اہمیت ہے۔  ہر تجربے کو روایت کا حصہ بننے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔  موجودہ دور میں تجربات مثبت انداز نظر کے حاصل ہیں یا منفی؟

٭٭  زندگی کی مانند ادب میں بھی تجربات کی اہمیت اور ضرورت ہوتی ہے۔  جس طرح فرد اچھے برے تجربات سے زندگی کی بصیرت حاصل کرتا ہے اس طرح ادیب بھی تجربات سے تخلیقی بصیرت حاصل کرتا اور تخلیقی شخصیت سنوارتا ہے۔  یہ تو ہوئی عمومی بات لیکن عمل کی بات اور ہے۔  ہمارے ادب میں چالیس پچاس برس پہلے علامتی افسانہ اور نثری نظم کا تجربہ ہوا۔  ان کے بعد اور کوئی تجربہ نہ ہوا۔  میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو big bang سے ایسا تخلیقی تجربہ کرے، جس کی گونج طویل عرصہ تک سنائی دیتی رہے۔

٭ کیا ادب کے ذریعے معاشی تحفظ کا حصول ممکن ہے۔  ادب کو کمرشلائز کر دینا ادیب کے مسائل کو شاید حل کر پائے لیکن ادب کے معیار پر زد پڑنے کا امکان بھی ہے؟

٭٭  مغرب میں ہر تحریر کا معاوضہ ملتا ہے۔  خواہ وہ جریدے میں طبع ہو یا کتاب کی صورت میں۔  اس لیے وہاں اہل قلم، قلم کے ذریعے سے معاشی تحفظ حاصل کر سکتے ہیں۔  کسی طرح کا سمجھوتہ کیے بغیر ہمارے ہاں صورت حال برعکس ہے، لہٰذا تمام ادیب جزوقتی ادیب ہیں۔  چین گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں پیشہ ور ادیب وہ ہے جسے حکومت ماہانہ تنخواہ دیتی ہے، جو یونیورسٹی پروفیسر کی تنخواہ کے مساوی ہوتی ہے۔  وہ لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا۔  ہمارے ہاں تو شاعر مشاعروں میں پانچ سات آزمودہ غزلیں بھی سنا سنا کر ٹھیک ٹھاک کمائی کر لیتے ہیں۔  مگر نقاد کو سیمینار میں مضمون پڑھنے کا معاوضہ نہیں ملتا۔  ان دنوں ٹیلی ویژن کی وجہ سے کچھ لوگوں کی لاٹری نکل آئی ہے۔  شہرت کے ساتھ ساتھ مال بھی بناتے ہیں۔  سمگلروں اور ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ اب ٹیلی ویژن کے ڈرامہ نگاروں کی بھی پوش ایریا میں کوٹھیاں نظر آ جاتی ہیں۔  سرکاری اداروں کے عہدوں کی صورت میں اب ادیبوں میں بھی مراعات یافتہ اور vip طبقہ پیدا ہو چکا ہے تو ایسے میں ادبی اقدار اور جمالیاتی معیار سے کیا کہنا ہے۔

٭  سالانہ ادبی جائزے میں آپ کن امور کو پیش نظر رکھتے ہیں؟

٭٭  میں نے گذشتہ پانچ برس سے ادبی جائزے لکھنا ترک کر دیا ہے۔  اب قویٰ مضمحل ہو چکے ہیں۔  لہٰذا جائزہ نگاری کی بلکہ مشقت قابل برداشت نہیں رہی۔  جائزہ میں اپنا نام نہ دیکھ کر گالیاں نکالنے والوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ میں کتنی محنت کرتا تھا۔  میں سال بھر کتابوں کی تلاش اور ان کے بارے میں حصول معلومات کے لیے کوشاں رہنا۔  ساتھ میں مرحومین کے بارے میں حصول معلومات… آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ میں خود نہیں لکھتا تھا بلکہ کسی ذہین طالب علم کو ڈکٹیشن دیتا تھا۔  میں ایک دن میں بمشکل تین چار صفحات لکھ پاتا ہوں۔  اس کے بعد اعصابی دبا ؤ کے بحث ہاتھ میں درد شروع ہو جاتا ہے اور انگلیاں اکڑ جاتی ہیں۔  اگر خود لکھتا تو کم از کم دو ماہ میں جائزہ لکھ پاتا۔  لہٰذا تین چار دن کی ڈکٹیشن میں جائزہ قلم بند ہو جاتا۔  میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ دوست دشمن ہر ایک کی کتاب کا تذکرہ ہو جائے، مگر ملک کی تمام مطبوعات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں۔  ادھر جس کی کتاب کا تذکرہ نہ ہوا وہ دشمن جاں بن گیا۔  جونئیرز کو تو چھوڑیے۔  بڑے بڑے قد آور ادیبوں، بزرگوں اور سینئرز نے بھی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا۔  اس جائزہ نگاری کی بدولت کم از کم اس بات کا تو اندازہ ہو گیا کہ ہمارے اہل قلم کس قدر کم ظرف اور خود پسند ہیں۔

٭  کیا پڑھے بغیر کسی کتاب کا تذکرہ یا تبصرہ ممکن ہے؟

٭٭  جی ہاں ! تنقید کے کچھ کلیشے ہیں۔  اگر انھیں بروئے کار لانے کے گرُ سے واقف ہوں اور ڈھنگ سے بات کرنے کا سلیقہ ہو تو بغیر پڑھے بھی ایسا تبصرہ لکھا جا سکتا ہے کہ صاحب کتاب کا دل باغ باغ ہو جائے۔

معروف شعرا جیسے میرا جی، غالب، حالی، اقبال، فیض، ندیم، فراز، پروین شاکر، منیر نیازی وغیرہ کے بارے میں تنقیدی آراء نے فارمولوں کی صورت اختیار کر لی ہے۔  ان فارمولوں کی روشنی میں ریڈی میڈ مقالہ تیا کیا جا سکتا ہے۔  یہ تو ہوئی لکھنے کی بات تقریر اور بھی آسان ہے۔

کلیشے + فارمولے + لطیفے = تقریر دل پذیر !

٭  ادبی پرچوں کی اشاعت میں اضافہ ہوا ہے لیکن وہ ادبی پرچے جو ادب کی آبرو تھے کم سے کم شائع ہو رہے ہیں۔  ان کی بقا کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

٭  ٭  اہلِ قلم ادبی رسالہ کی خرید پر پیسہ خرچ کرنے کو تیار نہیں۔  عام قاری بھی خالص ادبی پرچے نہیں خریدتا۔  ایسے میں صرف اشتہارات ہی ہیں جو ادبی جرائد کے لیے لائف لائن مہیا کرتے ہیں یا پھر حکومت وافر مقدار میں پرچے خرید کر سکولوں اور کالجوں کی لائبریرز کو مہیا کرے، لیکن حکومت کی ترجیحات میں فروغ ادب شامل ہی نہیں۔  اس لیے حکومت سے خستگی کی داد پانے کی توقع ہی بے جا ہے۔

٭ پاکستان میں مدیرانِ رسائل، تخلیق کار کو اعزازیہ دینے کی روایت کب تک قائم کر سکیں گے؟

٭٭  مستقبل قریب کیا۔  مستقبل بعید میں بھی اس کا امکان نہیں۔  یہ حقیقت ہے کہ ادبی پرچے بالعموم خوشحال نہیں ہوتے لیکن جو پرچے ٹھیک ٹھاک کاروبار کر رہے ہیں ان کے مدیر بھی معاوضہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔  در اصل ہمارے ملک میں قلم کی کی محنت کے معاوضے کا دستور ہی نہیں، جو سرکاری جرائد کچھ معاوضہ دیتے ہیں اسے بس ’’ مونگ پھلی ‘‘ ہی سمجھنا چاہیے۔

٭ دبستان لاہور اور دبستان سر گودھا۔  کیا ان کا موازنہ کسی قدیم دبستان سے کیا جا سکتا ہے؟

٭٭  جی نہیں ! سرگودھا میں ہے کیا جسے دبستان قرار دیا جا سکے۔  اس طرح دبستان لاہور کی اصطلاح بھی گمراہ کن ہے۔  لاہور کے گھاٹ پر طرح طرح کے اہل قلم جمع ہیں۔  کسی بھی دبستان کی تشکیل کے لیے من جملہ دیگر امور کے مشترک طرز احساس اساسی شرائط میں سے ہے اور لاہور یہ شرط پوری نہیں کرتا۔

٭  پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ادبی ثقافتی روابط کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟کیا وفود کا تبادلہ بغل میں چھری منہ میں رام رام کے محاورے کو تبدیل کر سکتا ہے اس آنے جانے کا واحد مقصد سیروسیاحت نہیں؟

٭٭  دیکھیں ادیبوں کے ’’ آنے جانے ‘‘ کا دونوں حکومتوں کی ’’ کشمیر پالیسی ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں میں متعدد مرتبہ انڈیا گیا ہوں، مگر یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ ایک ادیب کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار ہو گئے۔  ایسا نہیں ہو سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیمینار اور مشاعرے پاکستانیوں کی پروجیکشن کے ساتھ ساتھ اردو کی کاز کے لیے بھی یقیناً مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔  میں ( طاہرتونسوی اور سلطانہ منور کے ساتھ ) جولائی ۲۰۰۵ء میں حالی سیمینار کے سلسلہ میں چندی گڑھ گیا تو وہاں سب سے زیادہ ہندی اور انگریزی پریس نے ہمارے بارے میں لکھا اور انٹرویوز اور بیانات شائع کیے۔  اس کا مطلب یہ کہ انفرادی طور پر وہاں کا پریس پاکستانی اہل نظر کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔  لہٰذا سرحدوں کے پار ادبی آمدورفت ادب کی حد تک مفید ہے اور یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔

٭  پاکستانی کلچر کیا ہے؟ اس کی نمائندگی وہ دیہاتی عورت کرتی ہے جو دن میں دو تین بار تپتے موسم میں تندور پر لکڑیاں جلا کر روٹی پکاتی ہے اور چنگیر بھرتی ہے۔  یا گلبرگ۱۱۱ کی بیگم صاحبہ کا ڈرائنگ روم کہ جہاں، چنگیر یں، پیڑھیاں اور موڑھے سبھی موجود ہیں؟

٭٭  تھا نہ کلچر، کلاشنکوف کلچر، ڈرگ کلچر، سیاسی کلچر یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے پاکستانی کلچر

پاکستانی کلچر نام کا کوئی کلچر نہیں ہے۔  ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے !

ہم کیونکہ اسلام کی صراط مستقیم پر نہیں چل سکتے، مگر ایسا کرنے کا اظہار کرتے ہیں۔  اس لیے منافقت قومی شعار قرار پائی۔  من حیثیت القوم ہم سب امریکہ کے خلاف اور اس کی مسلم کش پالیسوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن خواب گرین کارڈ کا دیکھتے ہیں۔  تصنع، ملمع، بد دیانتی، رشوت، کرپشن … ہم ان کے اتنے خوگر ہو گئے ہیں کہ اپنی ذات کے حوالے کے لیے ہمیں کبھی اپنے قول و فعل میں تضاد کا احساس نہیں ہوتا۔

رہا یہ معاملہ دو متضاد طبقات سے تعلق رکھنے والی عورتوں کا تو ہو سکتا ہے کہ گاؤں کی محنت کش عورت اپنی محنت سے خوش ہو۔  ڈرائنگ روم کو کرسٹلز سے سجانے والی بیگم ان کلچرڈ، نو دولتیہ طبقہ کی نمائندگی کرتی ہے، جن کا کلچر شو مارنے تک محدود ہے۔

٭  پاکستانی کلچر، عربی، ایرانی، ہندوستانی اور انگریزی تہذیب سے مختلف زمانوں میں مرغوب و متاثر رہا ہے۔  آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہم اپنے کلچر، اپنی شناخت کی بات نہیں کر پاتے۔  کیا اس کا کوئی حل ہے؟ یہ امر بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہم مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔  مذہبی، سیاسی، سماجی، اخلاقی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی۔  ایک طبقے کے لیے ایک کام باعث ندامت ہے تو دوسرے کے لیے باعث اعزاز۔

٭٭  در اصل آپ کے سوال ہی میں بین السطور، جواب موجود ہے۔  ہم عہدِ منافقت میں زیست کرنے پر مجبور ہیں اور منافقت کو ہی پاکستانی کلچر قرار دیا جا سکتا ہے۔  اسلام کی اساس وحدانیت کے تصور پر استوار ہے۔  ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب۔  مگر مذہب کے نام پر بننے والے ملک میں ان سب کے برعکس عمل نظر آتا ہے۔  ایک انتہا پر دینی مدارس تو دوسری پر انگلش میڈیم سکولز اور درمیان میں ہم غریبوں کے بچوں کے لیے اردو میڈیم …یہ تینوں نظامِ تعلیم نہ صرف متحارب ہیں، بلکہ ان کے ثمر بھی کردار کے رس اور اطوار کی مٹھاس سے عاری ہیں۔  ملائیت کی پیدا کردہ مذہبی انتہا پسندی نے چندن کا روپ دھارا تو سجدے ریز نمازیوں کا قتل عام شروع ہوا اور ان سب پر مستزاد طالع آزما سیاستدان اور کرپٹ بیورو کریٹس۔  ہر قوم کی اساس ( مذہب سے تقویت حاصل کرنے والا ) ایک اخلاقی نظام ہوتا ہے۔  جو اقدار و معیار کی تشکیل کا موجب بنتا ہے، مگر یہاں سرے سے اسی کا فقدان ہے۔  اسی لیے نفسا نفسی کے عالم میں ہم سب (mass psychosis) کا شکار ہیں۔  جغرافیائی طور پر ایک الگ ملک ہے اور اس ملک میں چند کروڑ پر نفوس آبادی ہے۔  مگر یہ کون لوگ ہیں۔  مجھے نہیں معلوم۔  شاید اخلاقیات کے کھنڈر کی روحیں، زر کے، ابلیس کے پجاری … جس قریہ میں، میں زندگی بسر کرتا ہوں یہ سب اس قریے کے باسی نہیں ہو سکتے۔  یہ میرے ہم وطن نہیں ہو سکتے۔  میں ان کے لیے اجنبی ہوں۔

٭  آپ نے بابا بلھے شاہ کے کلام کا انتخاب ’’ تیرے عشق نچایا‘‘ کیا۔  کیا آج کا قلمکار، قاری کا تو ذکر رہنے دیجیے۔  وارث شاہ بلھے شاہ، شاہ حسین، سلطان باہو، شاہ عبدالطیف بھٹائی سے واقف ہے۔  ان کو پڑھتا ہے ان سے تخلیقی توانائی حاصل کرتا ہے۔

٭٭  پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’ تیرے عشق نچایا ‘‘ کا مرتب میں نہیں کوئی اور سلیم اختر ہو گا۔  گو لاہوری ہوں مگر اس نوعیت کا کام کرنے والی بات پنجابی زبان پر دسترس حاصل نہیں۔  اس لیے اس لیے پنجابی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا۔  دوسری بات کا جواب بھی نفی میں ہے۔  ہمارے اہل قلم انسپریشن حاصل کرنے کے لیے انگریزی اور دیگر یورپین زبانوں کے اہل قلم سے استفادہ کرتے ہیں۔  آپ نے جن بزرگوں کے نام گنوائے ہیں، ان میں خواجہ فرید، سچل سر مست اور رحمان بابا کے نام بھی شامل کر لیں۔  یہ سب صوفی تھے۔  قیمتی سازوسامان سے آراستہ ڈرائنگ روم کے صوفی نہیں بلکہ عمل کے صوفی تھے۔  مگر آج کا پاکستان اس کے ادیب، شاعر، دانشور اور صوفی اس آئیڈیل سے کئی ہزار لائٹ ائیر دُور ہیں۔  جو یہ ہے

بلھیا ! ہو روی نیواں ہو

٭ آپ نے اقبال کا نفسیاتی مطالعہ، اقبال شعاع صد رنگ، اقبال اور ہمارے فکری روّیے، فکر اقبال کے منور گوشے، اقبال ممدوح عالم، اقبال کا ادبی نصب العین، اقبالیات کے نقوش… غرض اقبال کے حوالے سے آپ نے بھرپور کام کیا ہے۔  کیا کوئی تشنگی باقی ہے؟

٭٭   افکار و تصورات اور جلال و جمال کے حامل اسلوب کے لحاظ سے اقبال اس جزیرہ کی مانند ہے۔  جسے جتنا بھی ایکسپلور کریں فکر و فن کے نئے نئے گوشے اجاگر ہوتے ہی جاتے ہیں۔  میں نے بھی اپنی سی طالب علمانہ کوشش کی۔  اس عظیم ہستی کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے۔  تاہم شعوری طور پر ان موضوعات سے گریز کیا جو اقبالیات میں اب کلیشے بن چکے ہیں۔  فکر اقبال کے نئے پہلوؤں کی تفہیم کی جستجو کی۔

اگرچہ کئی برس سے علامہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ لکھنے کو نئی بات نہیں، لیکن ایک تمنا ہے کہ علامہ اقبال کے خطبات کا مفصل تنقیدی مطالعہ کروں۔  ویسی تلخیص نہیں، جیسی بعض حضرات نے کی، بلکہ صحیح معنوں میں تجزیہ و تحلیل پر مبنی تنقیدی مطالعہ، لیکن اس کام کے لیے جتنی فرصت، یکسوئی کی ضرورت ہے وہ عنقا …

٭ اردو زبان میں انگریزی الفاظ کی بہتات کیا عمومی تقاضا کہلائے گی یا اسے ہم شعوری طور پر اپنی بعض نفسیاتی الجھنوں کے تحت رواج دے رہے ہیں؟

٭٭   ۱۸۵۸ء کے بعد، سر سید احمد خان اور ان کے ساتھیوں نے شعوری طور پر اردو میں انگریزی الفاظ کی پیوند کاری کا آغاز کیا تھا۔  اس وقت اجتماعی احساس کمتری کے تحت ایسا ہوا اور شاید غلط بھی نہ تھا۔  مگر آزادی کے بعد، مغرب سے مرغوبیت میں جو اضافہ ہوا، وہ بلا جواز ہے۔  اردو میں بے شمار زبانوں کے الفاظ شامل ہیں اور انگریزی الفاظ و اصطلاحات کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں کہ یہ اردو کے لسانی مزاج کے مطابق ہے، لیکن اجتماعی احساس کمتری اور اس کے ساتھ طبقاتی شعور بلکہ طبقاتی غرور کے نتیجے میں انگریزی بولنا یا بول چال میں بلا ضرورت انگریزی الفاظ استعمال کرنا، قوم کی مریضانہ نفسیات کی غماز ہیں۔  کبھی آپ نے غور کیا۔  افسر کو ماتحت پر غصہ انگریزی ہی میں کیوں آتا ہے۔

٭  آپ کہتے ہیں کہ جب بھی پاکستانی قوم کے نفسیاتی مزاج کے بارے میں سوچا تو ’’ نرگسیت ‘‘ کی اصطلاح ذہن میں آتی ہے۔  کیا آج بھی آپ قوم کو اسی جذباتیت اور مریضانہ پسندی میں مبتلا دیکھتے ہیں؟

٭٭   غالباً اس خیال کا اظہار تیس چالیس برس قبل کیا تھا اور آج نہ صرف میں اس رائے پر قائم ہوں بلکہ اس کی صداقت کا بھی زیادہ یقین ہو چکا ہے، من حیث القوم ہم کنویں کے مینڈک بن چکے ہیں۔  خود پسندی کے غبارے اڑتے ہوئے آسمان کی سیر کرتے ہیں۔  یہ امر فراموش کر کے کہ صرف ایک معمولی سی پن کی چبھن ہوا سے پھولے غبارے کو محض ایک چیتھڑے میں تبدیل کر دیتی ہے۔  ملک سے باہر bloody paki ہیں، مگر ہم خود کو افضل ترین مخلوق سمجھتے ہیں۔  لہٰذا ہم سے کوئی غلطی اور حماقت سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔  در اصل ساری دنیا بالعموم اور یہود و ہنود بالخصوص ہمارے دشمن ہیں۔  کرکٹ کا دو ٹکے کا میچ ہاریں یا ملک ٹوٹے۔  ایسا ہمیشہ بین الاقوامی سازش کی وجہ سے ہوتا ہے۔

کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔

٭ آپ کے نزدیک بانجھ پن کاکستان کا المیہ ہے۔  جدیدیت یا جدید طرزِ احساس تو دور کی بات۔  یہاں سرے سے احساس ہی نہیں ہے۔  کیا اس کا ایک سبب یہ تو نہیں کہ آج کا تخلیق کار ہمہ وقت تخلیقی عمل میں مصروف ہے۔  مطالعے، مشاہدے، مجاہدے اور غور و فکر کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے؟

٭٭   آج کا تخلیق کار اگر ہمہ وقت تخلیقی عمل ہی میں محو ہے تو کوئی حرج نہیں، کم از کم تخلیق تو معرضِ و جود میں آئے گی، لیکن اہل قلم، اہل ادب، اب مراعات اور زر کے حصول کی ہنڈریڈ میٹر ریس میں شامل ہیں۔  جس کے نتیجے میں بیٹھ کر کام کرنے والے جینوین ادیب اور شاعر احساس محرومی کا شکار رہتے ہیں، کیونکہ تیز، طرار، چالاک، چاپلوس، عیار، سخن ساز اور سازشی آگے، بلکہ بہت ہی آگے نکل جاتے ہیں۔  کیا آپ نے کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ تمام عہدے، مراعات، انعامات اور ایوارڈز وغیرہ ایک محدود اقلیت کے لیے محفوظ و مخصوص ہیں۔  ان حالات میں وہ اہلِ قلم غالباً پاگل ہیں جو محض تخلیق پر قانع ہیں۔  خوب صورت خیال کو اجرِ عظیم جانتے ہیں اور لفظِ تازہ کی جستجو میں شب کو سحر کرتے ہیں۔

٭  پہلا افسانہ کس عمر میں لکھا؟ اپنا آپ تسلیم کرانے میں کتنی جد و جہد کرنا پڑی؟

٭٭  میں نے کم عمری میں ہی مطالعہ شروع کر دیا تھا۔  پانچویں چھٹی جماعت (۴۶۔ ۱۹۴۵) میں تھا کہ بچوں کے رسالے میں پہلی کہانی چھپی۔  ۱۹۴۸ء میں جب میں راولپنڈی میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، دو افسانے ’’ قربانی ‘‘ اور ’’ساحرہ ‘‘ کے نام سے لاہور کے کسی فلمی پرچے میں شائع ہوئے۔  ۱۹۵۱ء میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا تو شمع ( دہلی ) میں دو افسانے ’’ ایک محبوبہ، ایک طوائف‘‘ اور ’’ کٹھ پتلی ‘‘ طبع ہوئے۔  یہ کرسچین کالز گرلز کے بارے میں تھے اور کلب اور بال رومز کا ماحول تھا۔  یہ اور ان کے بعد لکھے گئے کئی افسانے ابتدائی عشق کے کچے پن کی بنا پر کسی بھی افسانوی مجموعے میں شامل نہ کیے۔  جہاں تک خود کو تسلیم کرانے کا تعلق ہے تو میرا معاملہ بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں، کے برعکس ہے۔  پہلے دن ہی سے مجھے مضمون / افسانہ چھپوانے کے لیے رسالے اور کتاب چھپوانے کے لیے ناشر کا مسئلہ کبھی نہیں رہا۔

میں طبعاً سوشل آدمی نہیں ہوں۔  مجمع میں جیسے میرا دم گھٹتا ہے۔  میں پبلک ریلیشنگ کے فن شریف میں کافی نالائق ہوں، اس لیے مجھے سرکار دربار میں کبھی پذیرائی نہیں ملی۔  گھر بیٹھ کر برا بھلا لکھا اور آپ جیسے لوگوں سے داد پائی اور اس میں خوش ہوں۔

٭  افسانہ نگار لفظوں کا بازی گر ہوتا ہے۔  آپ کیا کہتے ہیں؟

٭٭   آپ نے وہ چینی بازی گر تو دیکھے ہوں گے جو بیک وقت درجن بھر پلٹوں کو ہوا میں رقصاں رکھتے ہیں اور نیچے نہیں گرنے دیتے۔  میں افسانے کے اسلوب کو ایسا سمجھتا ہوں۔  بلکہ آپ غور کریں تو تخلیق کی ہر نوع ہی کا اسلوب کی جمالیات سے رنگ چوکھا ہوتا ہے۔

٭  اردو افسانے پر عالمی اثرات کس حد تک، کس انداز میں مرتب ہو رہے ہیں؟

٭٭   اردو افسانہ ہو یا کوئی اور صنف، عالمی اثرات سے بچے رہنا ممکن نہیں۔  ہمارے افسانے میں موپساں، چیخوف، سارتراور کافکا وغیرہ کے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔  اصل بات یہ ہے کہ اثر چاہے جہاں سے بھی لیں۔  مگر افسانہ اپنی دھرتی سے ہی پھوٹنا چاہیے اور اس لحاظ سے اردو افسانہ ’’ کم عیار‘‘ نہیں۔

٭  کیا آپ جو کہنا چاہتے تھے کہہ پائے یا نہیں؟ مصلحت اور مجبوری میں کیا فرق ہے؟

٭٭   میں نے جس موضوع پر افسانے لکھنے چاہے اور جس اسلوب میں لکھنے چاہے۔  بلا جھجک لکھے کچھ افسانے متنازع بنے۔  ایک افسانہ فحاشی کی وجہ سے ضبط بھی ہوا، مگر میں نے پروا نہ کی۔  جہاں تک تنقید کا تعلق ہے۔  بعض اوقات دوستوں کی خاطر ملحوظ رکھنے کی کوشش کی، لیکن یہ صرف دوستی کی وجہ سے تھا۔  مراعات یا مالی فوائد کے لیے ایسا نہ کیا۔  تقریبات میں ۹۹ فیصد پڑھے گئے مضامین شائع نہ کرائے کہ غیر مدلل مداحی تھے۔

میں مذہب کے حوالے سے، ملکی نقطہ نظر سے بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا، مگر ہمت نہ پڑی ایک تو سرکاری ملازمت دوسرے ……آپ سمجھ سکتی ہیں کہ میں کیا نہیں لکھ پایا۔  کتاب ’’ بنیاد پرستی ‘‘ کے اسلوب و انداز میں مزید بھی لکھا جا سکتا تھا، لیکن خوف مانع رہا۔  اس لیے آپ مجبوری اور مصلحت میں امتیاز کر سکتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ دونوں یوں شیر و شکر ہوتی ہیں کہ ایک کو دوسری سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔  بقول اقبال

عصر حاضر ہے تیرا ملک الموت کہ جس نے

قبض کی روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش

٭ ناول کی جانب عدم توجہی کا سبب عدیم الفرصتی یا تارڑ صاحب کا یہ جواب کہ ہمارا تجربہ مختصر ہے۔  وہ افسانے میں تو سما سکتا ہے ناول میں نہیں … کیا آج اردو ادب میں اچھا ناول لکھا جا رہا ہے۔؟

٭٭  تارڑ صاحب کی بات درست ہے۔  اس پر میں مزید اضافہ کروں گا کہ بڑے ناول کے لیے دو بنیادی شرائط ہوتی ہیں۔  اول، بڑی تخلیقی شخصیت اور دوم ایک بڑی قوم کی بڑی تخلیقی روایات اور اعلیٰ جمالیاتی اقدار۔  ان کے مجتمع ہونے سے بڑا ناول جنم لے گا۔  دوستوفسکی پاکستان میں ’’ برادرز کراموز وف‘‘ قلم بند نہ کر سکا تھا۔  اسی طرح ارسٹ ہمینگوے old man and the sea کلفٹن کے ساحل پر بیٹھ کر نہیں لکھ سکتا تھا سارتر اور کامیو کے ناول فرانس کے مخصوص ماحول میں ہی قلم بند ہو سکتے تھے۔  بڑا ناول اپنے کینوس میں سمندر جیسی گہرائی کا حامل ہوتا ہے، جبکہ ہم ان کے مقابلہ میں محض چھپر ہیں۔

میں ناول اس لیے نہیں لکھ پایا کہ وقت نہ نکال سکتا تھا۔  میں سمجھتا ہوں اگر ناول لکھنا ہو تو سال، چھ ماہ کے لیے ایک بوتل میں بند ہو کر بیٹھ جایئے۔  تب ناول لکھیے اور یہی میں نہ کر پایا۔

کئی برس پہلے میں نے اس دور کو موضوع بنا کر ناول لکھنے کا منصوبہ بنایا جب عورت سربراہ تھی اس کے لیے انتھروپولوجی اور اساطیر وغیرہ سے خاص معلومات اخذ کیں لیکن لکھ نہ پایا۔  بی اے کے امتحان کے بعد فراغت تھی، سو ایک ناول لکھ ڈالا، مگر کسی ناشر کو دکھانے کی ہمت نہیں پڑی۔  جب لکھنا شروع کیا اور تھوڑا چرچا ہوا تو میں نے مکتبہ میری لائبریری کے چوہدری بشیر احمد سے اس کا ذکر کیا۔  انھوں نے مسودہ لیا، پڑھا اور اشاعت کے لیے رکھ لیا، مگر جیسا کہ ناشرین کے ساتھ ہوتا ہے۔  اشاعت میں تاخیر ہوتی گئی۔  جب انھوں نے بالآخر اسے شائع کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے انھیں منع کر دیا۔  تب تک نفسیاتی تنقید اور ابنارمل سیکس کے افسانوں کی وجہ سے میرا جو امیج بن چکا تھا، یہ ناول اس کے مطابق نہ تھا، پھر ان کا انتقال ہو گیا، مسودہ نہ جانے ہاں گیا۔  اردو ناول کی ڈیڑھ صدی میں بڑے ناولوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔

٭  جس طرح حسرت موہانی نے اپنی شاعری کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا۔  آپ نے بھی ’’ کڑوے بادام ‘‘ میں اپنے افسانوں کی تخصیص کی۔  آپ اپنے مزاج و ماحول سے کن کہانیوں کو قریب پاتے ہیں۔  کیا اپنی وہ تحریر جسے آپ نے بہت اہم جانا، پسند کیا۔  قاری نے بھی اسے اتنا ہی پسند کیا یا بالکل ہی رد کر دیا۔

٭٭  ۱۹۸۸ء میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ کڑوے بادام شائع ہوا تو تنقید، نفسیات اور اقبالیات پر لکھتے ہوئے پچیس برس بیت چکے تھے۔  ان برسوں میں مختلف اثرات کے تحت متنوع موضوعات پر افسانے سرزد ہوتے رہے۔  لہٰذا موضوعاتی لحاظ سے کتاب چار حصوں میں تقسیم کر دی۔  بعد کے افسانوی مجموعوں کا ٹھ کی عورتیں، چالیس منٹ کی عورت، مٹھی بھر سانپ اور آدھی رات کی تخلیق میں ایسا نہ کیا گیا۔  اب یہ تمام مجموعے افسانوی کلیات ’’ نرگس اور کیکٹس ‘‘ میں شامل ہیں۔

جہاں تک ان افسانوں کے بارے میں قارئین کے رد عمل کا تعلق ہے تو اس ضمن میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔  کسی دوست کی تعریف، کسی کا فون، رسالے میں ایک دو قارئین کے خطوط، کچھ تبصرے …بس !

میں نے افسانہ ’’ پھول ‘‘ کئی ماہ کی محنت کے بعد مکمل کیا۔  ’’نقوش ‘‘ میں طفیل صاحب نے چھاپا مگر اسے کوئی نہ سمجھ پایا، جبکہ ’’چالیس منٹ کی عورت ‘‘ بہت سراہا گیا۔  کئی رسالوں و اخبارات اور افسانوی انتخابات میں شائع ہوا۔  یہ افسانہ سچ مچ کی اس عورت کا ہے جس نے میرے ساتھ دہلی سے لاہور تک کا ہوائی سفر کیا تھا۔  چالیس منٹ کی فلائٹ میں اس کی گفتگو نقل کر دی اور صرف اپنی چند سطروں سے افسانے کا اختتام کر دیا۔

٭  شور غل اور ہنگاموں سے بھر پور زندگی میں خاموشی کی ضرورت، اہمیت اور خواہش شدید ہوتی جاتی ہے، لیکن کیا یہی خاموشی کبھی ڈسنے نہیں لگتی؟

٭٭   میرے لیے سارتر کا یہ قول حرزِ جاں ہے۔

’’hell is other people‘‘ لہٰذا میں نے شعوری کاوش سے خود کو لوگوں سے الگ رکھ کر، باطن میں اپنے لیے، جداگانہ قریہ آباد کر رکھا ہے اور میں اس قریہ میں خوش ہوں۔  مجھے خاموشی سے ڈسے جانے کا کوئی دھڑکا نہیں۔  ہاں لوگوں کے ڈسے جانے سے خوفزدہ ہوں۔  اس رویے نے پہلے آدم بیزار بنایا اور پھر قنوطی اور میں خوش ہوں کہ رجائیت کے نام پر ہر مرتبہ سراب کا دھوکا کھانے سے بچا ہوا ہوں۔

٭  ’’ضبط کی دیوار ‘‘ کا محرک کون سا جذبہ تھا؟

٭٭   آپ کی راولپنڈی میں ہی میں نے آٹھویں جماعت سے لے کر بی اے تک کا زمانہ گزارا۔  بی اے میں نے گورنمنٹ کالج (اصغر مال ) سے کیا تھا۔  ناولٹ میں سب کچھ حقیقی ہے۔  صرف ارشد اور اس کا باپ ساختہ کردار ہیں۔  یہ ناولٹ بہت پسند کیا گیا۔  پاکستان میں چار اور ہندوستان میں ایک ایڈیشن چھپا تھا، بلکہ ہندی میں بھی اس کا ترجمہ ہوا، گذشتہ برس جامعہ الازھر (قاہرہ) کی ایک طالبہ نے مجھ پر تھیسس لکھنے کے سلسلے میں اس کا عربی میں بھی ترجمہ کیا۔  ’’ ضبط کی دیوار ‘‘ میں جو بنیادی نقطہ تھا اسے نہ سمجھا گیا کہ کٹر مذہبی ماحول میں پرورش پانے والے افراد ( ارشد کی مانند ) اور کسی کو اپنی محبت میں شریک نہیں کر سکتے جبکہ طوائف اسے اپنا بیٹا بنانا چاہتی تھی۔  لوگوں نے طوائف والی بات تو سمجھ لی۔  مگر مذہب کی پیدا کردہ سختی کے تحت مسترد کیے جانے والی بات کی طرف کسی کا ذہن نہ گیا۔  حالانکہ اصل مسئلہ یہی تھا۔  مزید تفہیم درکار ہو تو میری آپ بیتی ’’ جگر سوختہ ‘‘ ملاحظہ کیجیے۔

٭  عصرِ موجود میں نثری اصناف میں سفر نامے، محسوس ہو رہا ہے کہ سبقت لے جا رہے ہیں۔ آپ نے گھر بیٹھے دنیا جہاں کی سیر و سیاحت اور پھر سفر ناموں کی تخلیق کے تمام نکات واضح کر دیے ہیں۔  اخبارات، رسائل، ڈاکومنٹری، فیچر فلمیں، ناول، سفری کتابچے کچھ تاریخ و جغرافیہ سے متعلق کتب کا مطالعہ اور سفر نامہ مکمل… آپ نے خود بھی اس کا نمونہ پیش کیا۔  کیا اردو ادب میں ایسے سفر نامہ نگار موجود ہیں جو اسی نسخے سے اپنی کتاب دم پخت کر تے ہیں؟

٭٭  آپ کی بات سوفیصد درست ! مگر اس نسخے سے دم پخت کی گئی تحریر سفر نامہ نگار کی شخصیت کارس اور اس کے اسلوب کی گنگا جمنی ہے جو سفر نامہ میں مزا پیدا کرتی ہے۔  معلومات و کوائف میں کوئی حرج نہیں لیکن انہیں ذاتی مشاہدہ، زاویۂ نگاہ اور تخلیقی بصیرت کے تابع ہونا چاہیے کہ سفر نامے کا جوہر ان میں ہی موجود ہے۔

میرا خیال ہے کہ گھر بیٹھے شاید ہی کسی نے سفر نامہ لکھا ہو، یقیناً باہر جاتے ہیں البتہ لکھنے کا سلیقہ اور پھوہڑپن سے سفر نامہ قابل مطالعہ یا نا پسندیدہ قرار پاتا ہے۔

رہی سفر نامہ کی مقبولیت تو اس کی وجہ یہ ہے !

ہر بوا لہوس نے حسن پرستی شعار کی

اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل سفر ناموں کا اب بھی قحط ہے۔

٭  اردو سفر نامے کے اہم نام… جنھوں نے سفر نامے میں کسی بھی ملک کے تاریخی حالات، جغرافیائی کیفیات، اہم تاریخی مقامات، سیاسی مدو جزر کو سپاٹ انداز میں رقم کرنے کے بجائے اس کے ادبی و تخلیقی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے قاری کو جمالیاتی حظ سے ہمکنار کیا اور اپنے سفر کو ایک تخلیقی تجربے کے طور پر پیش کیا نہ کہ گائیڈ بک کے انداز میں …؟

٭٭   محمود نظامی، بیگم اختر ریاض الدین، ابن انشا، مستنصر حسین تارڑ، عطا الحق قاسمی، علی سفیان آفاقی، جبکہ اشفاق احمد کا سفر در سفر وکھری ٹائپ کا ہے۔  یقیناً یہ فہرست مختصر ہے۔  مزید ناموں کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

٭  آپ کے سفر نامے، سفر نامے کو ایک نئی جہت، ایک نیا انداز دیتے ہیں۔  یہ تخلیقی جہت دیکھے، ان دیکھے مناظر سے دلچسپی بڑھانے کا سبب ہے۔  واقعات، تجربات، مشاہدات اور معمولات کو کہانی پن میں ڈھالنا اور گرد و پیش میں بسنے والے افراد کو کرداروں کی صورت میں پیش کرنا اور ایک اجنبی ماحول سے خود کو وابستہ کرنا اور کبھی اس میں ناکام رہنا … قاری ان تمام جذبات و احسا سات اور حسیات میں اسی طرح آپ کے ساتھ ہے جس طرح وہ مختلف عمارتوں، مقامات اور شہروں کو دیکھتے ہوئے آپ کے ہمراہ ہے۔  آپ اپنے کس سفر نامے کو بہترین تصور کرتے ہیں؟

٭٭   اس من موہنی تعریف کا شکریہ۔  کسی بھی دوست نے اس اسلوب میں میرے سفرناموں کو نہ سراہا۔  میں نے بہت زیادہ تعداد میں سفر نامے نہیں لکھے۔  امریکہ کا سفر نامہ ’’ اک جہاں سب سے الگ ‘‘ اور بھارت سے ماریشس اور ڈنمارک کے سفرناموں پر مشتمل مجموعہ ’’عجب سیر تھی ‘‘ ۔  گذشتہ برس ادیبوں کے سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے چین جانے کا اتفاق ہوا۔  چین کے سفرنامے بعنوان ’’ سیر پانچ درویشوں کی ‘‘ کی پہلی قسط ادبیات ( اسلام آباد شمارہ ۲۸۔  ۲۰۰۵) میں شائع ہوئی ہے۔  ان میں سے کسے پسند کروں مشکل ہے ! تاہم مفصل کتاب ہونے کے لحاظ سے امریکہ کا سفر نامہ ’’ اک جہاں سب سے الگ ‘‘ اس بنا پر زیادہ پسند ہے کہ میں نے امریکہ کی سائیکی کے ساتھ ساتھ وہاں کے کلچر وغیرہ کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

کیا آپ یقین کر یں گی کہ میں نے سفرنامہ لکھنے کے لیے نہ تو کبھی موقع پر نوٹس لیے اور نہ ہی واپس آتے ہی فوراً سفر نامہ لکھنا شروع کر دیا۔  امریکہ کا سفر نامہ واپسی کے دوبرس بعد قلم بند کیا۔

چین میں ایک دن مشتاق احمد یوسفی صاحب نے پو چھا۔  واپسی پر سفر نامہ لکھنے کا ارادہ ہے۔  جب میں نے اثبات میں جواب دیا۔  تو کہنے لگے۔  نوٹس تو لے نہیں رہے۔  میں نے انھیں بتایا کہ میں نوٹس لینے کی بجائے تاثرات جمع کرتا ہوں۔  اس لیے مجھے سفر نامہ میں کبھی نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔  چین کا سفر نامہ واپسی کے چھ ماہ بعد قلم بند ہوا اور اس عالم میں گویا چین میں ہی بیٹھا لکھ رہا ہوں۔

میں سفر نامہ کو آپ بیتی کے متوازی سمجھتا ہوں۔  ہر دو میں دیانت داری لازمی عنصر ہونا چاہیے۔  دوسری اہم خصوصیت لکھنے والے کی اس صلاحیت سے پیدا ہوتی ہے کہ اسے اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ میرے قاری کے لیے کون سی بات دلچسپ ثابت ہو سکتی ہے قطع نظر اس کے کہ خود مصنف کی نگاہوں میں وہ کتنی اہم ہے۔  سو میں نے اس انداز پر سفرنامے لکھنے کی کوشش کی ہے۔  اس ضمن میں بعض اوقات خاصا دلچسپ رد عمل بھی ہوا۔  مثلاً ماریشس کے سفر نامہ کی پہلی قسط ’’ اڑن طشتری ‘‘ ’’تسطیر‘‘ میں چھپی تو نیروبی میں حبشنوں کے ساتھ جس طرح رات گزاری، قارئین نے اسے بہت سراہالیکن اس کی دوسری قسط ’’عجب سیر تھی ‘‘ چھپی تو اس میں ایک لڑکی میرے گال پر پیار کرتی ہے تو اس سے یار لوگ ناراض ہو گئے … کیوں؟ گال ان کا کیوں نہ تھا؟

٭ آپ کو اپنے ملک، اپنے شہر سے قریب تر کون سا ملک، کون سا شہر لگا؟

٭٭   میں نے کوئی بہت زیادہ ممالک نہیں دیکھے، لیکن ان ممالک میں سے اگر مجھے کسی ملک میں رہائش کو کہا جائے تو میں ماریشس کا نام لوں گا۔  یہ چھوٹا سا جزیرہ بے حد خوبصورت ہے اور لوگ بھی خوش خصال ہیں۔  ہندو، مسلمان، عیسائی، چینی اور افریقی سب مل کر پر امن زندگی بسر کر رہے ہیں۔  نہ اخلاقی جرائم، نہ مذہبی تشدد۔

٭  سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں شعر و ادب کی اہمیت؟

٭٭   سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا تجربہ و عمل کی دنیا ہے اور دنیا کو بہتر بنانے اور فطرت کی تسخیر کے لیے کو شاں رہنے کے ساتھ ساتھ اس کی تفہیم کے لیے بھی سعی کناں رہتی ہے، جبکہ شعر و ادب کی اساس تخیل پر استوار ہے اور یہ جذبات و احساسات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔  باطنی کیفیات کا جمالیاتی اسلوب میں بیان کیا جاتا ہے اور انسانی سائیکی کی بھید بھری دنیا سے بصیرت کے موتی حاصل کیے جاتے ہیں۔  ان دونوں دنیاؤں میں تصادم نہ ہونا چاہیے۔  انسان کے لیے دونوں کی اہمیت ہے۔  اسے اس مثال سے سمجھیے کہ تسخیرِ قمر کے بعد بھی چاند کے استعارے زندہ ہیں اور اساطیر میں سیارے اب بھی دیوی دیوتا ہیں۔

٭  ماضی، حال اور مستقبل…کسے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

٭٭   وقت محیط اکائی ہے، جسے ہم نے اپنی سہولت کے لیے تین حصوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔  کائناتی وقت میں صدی پلک جھپکنے کے مترادف ہو گی۔  ہم انسان کائناتی وقت میں رہتے ہوئے بھی کیلنڈر وقت میں زیست کرتے ہیں۔  اسی لیے

موت ہے تیری برات، موت ہے مری برات

یہ تو ہوئی علمی بات، جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں کبھی مستقبل کے بارے میں متردد نہیں ہوا۔  پندرہ بیس برس پہلے کی بات ہے۔  ایک بہت مشہور دست شناس سے تعارف ہوا۔  کہنے لگے۔  آئیے ! میں آپ کا ہاتھ دیکھتا ہوں۔  میں نے جواب دیا۔  مجھے مستقبل کا احوال جاننے کا کوئی شوق نہیں۔  اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ اگر اس دوران مر نہ گیا تو اسی گورنمنٹ کالج میں یہی کلاس پڑھاؤں گا۔  سال بھر بعد انکریمنٹ ملے گی اور ۱۹۹۴ء میں ریٹائر ہو جاؤں گا۔  تو آپ مجھے بھلا نئی بات کیا بتا سکتے ہیں، البتہ ایک بات ہے کہ میری سب سے بڑی بغاوت دوسری شادی ہو سکتی ہے، مگر اس کی مجھ میں جرات نہیں۔  تو جناب یہ رہا میرا مستقبل۔

اور آپ سے بھی یہی کہتا ہوں کہ چند بیماریاں۔  کچھ دوائیں۔  چند مقالات، کوئی افسانہ اور کچھ کتابیں۔  یہ رہا میرا مستقبل۔

٭ ادب کے اخلاقی اور غیر اخلاقی ہونے کا تصور، مشرقی تہذیب میں کیسے آیا؟ ہماری اخلاقی اقدار، مغربی اقدار سے یکسر مختلف ہیں۔  کیا ادب میں بھی ان میں واضح فرق ضروری ہے۔ آپ بے باک قلم کار کار تصور کیے جاتے ہیں۔  اپنی تحریروں کے جواز میں کیا کہنا چاہیں گے؟ سنگ ملامت یا داد وتحسین… کس کے سزاوارٹھہرے؟

٭٭   دنیا کے ہر ملک کے ہر معاشرے میں اخلاق عامہ اور اخلاقی اقدار کے معیارات جداگانہ اور خطے کے جغرافیائی حالات، ماضی کی روایات اور ٹیبوز وغیرہ سے مشروط ہوتی ہیں، لہٰذا یہ اضافی ہیں۔  مزید برآں اخلاقی اقدار انسان کی جبلتوں کو لگام دینے کے لیے وضع کی گئی ہیں، کردار و عمل پر قدغن لگائی جاتی ہے اور یہ مذہب سے تقویت حاصل کرتی ہیں۔  اس کے برعکس، ادب انسان کا ترجمان ہوتا ہے۔  ہیئت اور اسلوب میں تنوع کے باوجود بھی انسان ادب کا بنیادی اور دائمی موضوع قرار پاتا ہے لہٰذا یہ اضافی کے برعکس، مطلق ہے۔  مطلق کو اضافی کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔  ادب اگر ادب ہے تو اسے مذہب، اخلاق، قدغن اور ٹیبو سب سے آزاد ہونا چاہیے۔  اس میں مشرق اور مغرب کی تخصیص نہیں۔  مغرب نے پانچ صدیوں پہلے کلیسا اور پادری سے نجات حاصل کی تو علوم و فنون اور سائنسی ترقی کا در باز ہو گیا، جبکہ ہم ہنوز محو جرس کارواں ہیں۔

میں نہیں جانتا بے باک قلم کار ہوں یا نہیں۔  البتہ خود کو دیانت دار قلم کار سمجھتا ہوں۔  جو دیکھا، جیسا محسوس کیا، لکھ دیا۔  قلم کاری کی نصف صدی میں سنگِ ملامت اور دادِ تحسین دونوں ہی ملیں۔  سنگ ملامت سے منٹو کی مانند لذت سنگ حاصل کی۔  اس ضمن میں، میں نے تحسین سخن ناشناس کو بھی اہمیت نہ دی، لیکن جو میرے سینئرز ہیں، جن کی میں عزت کرتا  ہوں ان کے حرف سپاس نے مزید کام کرنے کا حوصلہ بڑھایا۔  احمد ندیم قاسمی، عبدالعزیز خالد، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مشفق خواجہ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ جیسی شخصیات اگر میری تحریر پڑھنے کے بعد بطور خاص فون کر کے اسے سراہیں تو یہ باعث مسرت ہونا چاہیے۔

ایک ملاقات میں مشتاق احمد یوسفی نے کہا ’’ سلیم صاحب ! آپ کی تحریر میں رس ہے اور یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے۔ ‘‘

آخری بات… میں لکھنے کے کرئیر کے آغاز ہی میں ’’ عورت، جنس اور جذبات‘‘ کے مضامین کی وجہ سے متنازع بن گیا تھا۔  اس لیے منفی آراء میری نیند نہیں اڑاتیں اور عمر کے اس دور میں چکنا گھڑا بن چکا ہوں۔  نہ مدح کی بوند ٹھہرے نہ ہی مذمت کی۔

٭  جنسی نفسیاتی کہانیاں، معاشرتی کہانیاں، استعارتی و علامتی کہانیاں …آپ کن کہانیوں کو کامیاب سمجھتے ہیں، جبکہ آپ کے خیال میں تنقید کے مقابلے میں افسانے کی تخلیق کٹھن بلکہ تکلیف دہ مرحلہ ہے اور افسانہ لکھنے کے بعد بھی اضطراب سکون میں نہیں ڈھلتا۔

٭٭   میں نے افسانہ نگاری میں ان سب کو آزمایا اور ساتھ میں بعض افسانوں ’’بیلنس شیٹ‘‘ ’’خیابان پاک جہان ‘‘ ، ’’درد کا بندھن ‘‘ میں تکنیک کے تجربات بھی کیے۔ ۱۹۶۲ء میں ملتان کے دوران قیام، جنسی نفسیاتی افسانے بھی لکھے۔  ’’ مٹھی بھر سانپ ‘‘ کے تمام افسانے ابنارمل سکیس کے بارے میں ہیں۔  ضیا الحق کے عہد احتساب میں جب بھٹو کی پھانسی، اجتماعی خوف اور اسلامائزیشن جسے موضوعات پر قلم اٹھایا تو علامت اور استعارے کے ساتھ ساتھ مافوق الفطرت اور خون آشام ویمپائرز سے بھی معنویت کی خفیہ جہت پیدا کرنے کی کوشش کی۔  اس ضمن میں ’’ اختتام ‘‘ ، کھجوروں کا موسم، ’’ پکار ‘‘ ، بن آتما ‘‘ ، بستی‘‘ اور ’’نادیدہ‘‘ جیسے افسانوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔

مجھے اساطیر سے بہت دلچسپی ہے۔  چنانچہ ہندو کلچر کے حوالے سے موہنی، گرد دکھشنا جیسے افسانے قلم بند کیے، جبکہ جنم روپ میں نارسس اور نرگس کی متھ کی با انداز نو ترجمانی کرتے ہوئے ’’ نرگسیت ‘‘ کو نیا مفہوم دیا۔

میں اپنے دیگر پاکستانیوں کے حالات، ترقی، خوش بختی و کامرانی وغیرہ دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مقدر میں بارہ برجوں کے علاوہ ایک تیرھواں برج بھی ہے، کچھ لوگ ہمیشہ ہی ہر معاملے میں ناکام، ناشاد اور نامراد رہتے ہیں۔  میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسا اس خفیہ تیرھویں برج کے باعث ہے اور تقدیر کی چال کے مظہر ’’ تیرھویں برج ’’ کو سمجھنے کے لیے میں نے افسانہ تیرھواں برج لکھا جو بظاہر تو خوف کا افسانہ ہے، لیکن در اصل مقدر کی رمز سمجھنے کی کوشش ! افسانہ قفس رنگ میں عورت کا proto type اجاگر کرنے کی کوشش کی جو میرے خیال میں خون آشام ہے۔

جہاں تک افسانہ لکھنے کی بات ہے۔  یہ درست ہے کہ تنقید کے مقابلے میں میرے لیے افسانہ لکھنا مشکل کام ہے۔  ایک موقع پر میں نے افسانہ قلم بند کرنے کے عمل کو مہینوال کی مثال سے سمجھایا تھا جو سوہنی کے لیے ران کا کباب تیار کرتا ہے، اگر سوہنی یہ کہہ کر سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دے کہ ان میں نمک زیادہ ہے۔  تو؟ تعلی میرے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔  اس لیے اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کرتا، لیکن میں ایک افسانہ پر کتنی محنت کرتا ہوں اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔  ایک افسانے کے کئی ڈرافٹ بنتے ہیں۔  کاٹ چھانٹ، ایڈیٹنگ، افسانے کے آغاز، اختتام اور عنوان پر بطورِ خاص محنت کرتا ہوں۔  مختصر ترین مزاج کا آدمی ہوں۔  لکھتا کم اور کاٹتا زیادہ ہوں۔  مہینوں میں ایک افسانہ مکمل ہوتا ہے۔  خارجی محنت کے ساتھ ساتھ اعصابی عمل بھی ہے۔  دو تین صفحات کے بعد انگلیوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔  بعض اوقات کرداروں کے ساتھ ہم آہنگی، حالت اب اضطراب کی سی ہے، جیسا عالم پیدا کر دیتی ہے۔  نصف صدی میں صرف ۱۰۷ افسانے لکھے۔  گذشتہ تین برس سے کوئی افسانہ نہیں لکھا۔  شاید اب لکھ ہی نہ پاؤں۔  میں نے اپنے بعض افسانوں پیر تسمہ پا، حاتم طائی کا زوال میں حاتم کے حوالے سے بڑھاپے کی نا طاقتی اور بے عملی کو واضح کیا ہے سو میں بھی پچھتر برس کی عمر میں تھکا ماندہ حاتم ہوتا جا رہا ہوں، مضمحل ہو گئے قویٰ غالب … نہ جنوں رہا نہ پری رہی … وقت کی دھارا کتاب اور قلم سے دور لیے جا رہی ہے ……

٭٭٭

 

 

 

 

منشا یاد

 

٭ آپ کو اس بات کا احساس کب ہوا کہ آپ میں لکھنے کی صلاحیت موجود ہے؟

٭٭  گیارہ بارہ برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے میں ان گنت اُردو اور پنجابی کی کتابیں پڑھ چکا تھا۔  والدین نے مکتبی تعلیم پائی تھی اور گھر میں منظوم قصے اور داستانوں کی بے شمار کتابیں تھیں اور سردیوں کی راتوں میں کتابیں پڑھنے اور ایک دوسرے کو سنانے کا رواج تھا۔  والد صاحب کو یوسف زلیخا، تایا جی کو ہیر وارث شاہ اور والدہ کو اکرام محمدی اور مجموعہ عبدالستار پسند تھے اور وہ گھر کا کام کرتے، اٹھتے بیٹھتے سہ حرفیوں اور بارہ ماہیوں کے مصرعے گنگناتی رہتی تھیں۔  مجھے بھی کہانیاں سناتی رہتی تھیں۔  انہوں نے ہی میرے اندر کہانی سے دلچسپی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا پھر میں شہر چلا گیا۔  میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا اور سکول کی بزم ادب میں حصہ لیتا تھا اور لفظوں کے فقروں میں بہترین استعمال پر استادوں سے شاباش حاصل کرتا تھا۔  جب میں نے بچوں کے رسالے ’’ہدایت‘‘ لاہور کے ایڈیٹر کے دیے گئے عنوان ’’مجھے بہت افسوس ہوا‘‘ پر کہانی لکھ کے بھیجی۔  یہ کہانی میں نے خود گھڑی تھی لیکن جب یہ چھپ کر آئی تو اسے پڑھ کر میرے دوستوں اور ہم جماعتوں کو بھی بہت افسوس ہوا اور وہ اس من گھڑت واقعہ کو سچ سمجھ کر مجھ سے اظہار افسوس کرتے رہے۔  تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے کہانی گھڑنے کا ہنر آتا ہے آپ اسے تخلیقی صلاحیت بھی کہہ سکتی ہیں۔

٭ تخلیقی تربیت میں آپ کا شوق، ماحول، مشاہدہ یا مطالعہ کون زیادہ اہم رہا؟

٭٭  یوں تو یہ ساری چیزیں ہی مل کر ایک تخلیقی شخصیت کو مکمل کرتی ہیں لیکن میرے خیال میں بنیادی طور پر شوق ہی رہنمائی کرتا ہے۔  وہی مطالعے اور مشاہدے کی طرف لے جاتا ہے۔  روشنی نہ ہو تو چاندنی میں بھی کتابیں پڑھوا لیتا ہے اور ماحول سے مطابقت پیدا کر دیتا ہے۔

٭ آپ اپنی ہر کہانی کو جگ بیتی نہیں بلکہ ہڈبیتی کہتے ہیں۔  منشا یاد ہر کردار میں ڈھل جاتا ہے۔  کبھی ایسا تو نہیں ہوا کہ خود منشا یاد غائب ہو جائے اور آپ اسے تلاش کرتے رہ جائیں۔

٭٭  جی نہیں !وہ وقتی کیفیت ہوتی ہے۔  اپنے ذبیح ہو جانے یا ڈوبنے والے کردار کے ذبح ہونے یا ڈوبنے کی ساری اذیت محسوس کرتا ہوں، لیکن کہانی مکمل ہونے کے بعد میں صحیح سلامت باہر نکل آتا ہوں تاکہ کسی دوسرے اور تیسرے کردار کو پیش آنے والی اذیت، خوشی یا کرب کو محسوس اور بیان کر سکوں۔

٭ آپ کی کہانی تین نسلوں پر محیط ہے۔  باپ، آپ خود اور بیٹا۔  آپ کا کردار مختلف کہانیوں میں مختلف، مثبت یا منفی کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔  کیا ایسا تو نہیں کہ آپ حال اور مستقبل سے زیادہ ماضی کو اہمیت دیتے ہوں؟

٭٭  جی نہیں حال کی سڑک پر مستقبل کی طرف سفر کرتے ہوئے ماضی میرے لیے رئیر ویو مرر(عقب نما آئینہ) کی طرح ہے، جس پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے، مگر اس قدر زیادہ نہیں کہ گاڑی سامنے والی کسی چیز سے ٹکرا جائے، بعض اوقات تو میں ڈرائیونگ کے دوران میں بیک مرر پر ہی پوری طرح انحصار نہیں کرتا کہ فاصلے کا صحیح اندازہ صرف کھلی آنکھوں سے ہو سکتا ہے۔  ماضی سب کی طرح میرے لیے بھی انسپائریشن کا منبع ہے، مگر میں بیک مرر کی طرح اس پر پورا یقین اور انحصار نہیں کرتا۔  میرے ہاں بیٹا مستقبل کی علامت ہے اور زیادہ حقیقت پسند ہے اور نئے نئے اور مشکل سوالات پوچھتا ہے، جس کا نئی اور پرانی نسلوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔

٭ اگر انسان سے خواب چھین لیے جائیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔  آپ کے افسانوں میں خوابوں سے زیادہ ’نائٹ مئیر‘ کا تذکرہ ہے۔  کیا زندگی محبت کرنے والی نہیں، خوفزدہ کر دینے والی چیز ہے۔

٭٭  خوش کن خواب تو ہم جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھ لیتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں اور زندگی سے لطف بھی ہم جاگتے ہی میں اٹھاتے ہیں۔ جاگتی آنکھوں کے خواب ہی ہمارے ارادوں کو مہمیز دیتے ہیں۔ یہ صرف ہماری حسرتیں، نارسائیاں، محرومیاں، خوف اور چھپی ہوئی خواہشات ہی ہوتی ہیں جو رُوح سے چپک جاتی ہیں اور نیند کی بے اختیار کیفیت میں خوابوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ امرتا پریتم کا خیال ہے کہ ’’منشا یاد کی کہانیاں جاگتے ہوئے با شعور ذہن کی کہانیاں ہیں۔  اس لیے ان کہانیوں نے اچیت (سوئے ہوئے، لاشعوری) میں طے شدہ وقت کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔  اور اپنے لیے چڑھتے سورج کی لالی کا وقت مقرر کیا ہے تاکہ انسان کے لیے جو کچھ بھی دن کی روشنی میں ممنوع ہے وہ اس کے چھپے ہوئے اسباب کی جڑیں تلاش کر سکے۔  خواہ وہ ہدایتوں اور روایتوں کی قابل پرستش خبریں ہی کیوں نہ ہوں۔ ‘‘

٭ آپ کو اپنے نام کے غیر شاعرانہ ہونے کا بہت احساس ہے۔  بدل اس لیے نہیں سکتے کہ ماں باپ کا دیا ہوا ہے۔  آج آپ جس مقام پر ہیں۔  یہی نام آپ کے لیے باعث فخر ہے۔  کیا یہ آپ کے لیے برکت کا باعث نہیں ہوا۔

٭٭  جی ہاں ! ماں باپ کا دیا ہوا یہ نام میرے لیے واقعی باعث برکت ثابت ہوا۔  شروع میں مجھے اس کے غیر شاعرانہ ہونے کا احساس تھا اور میں اسے بدلنا یا منشائے محمد یاد میں تبدیل کر کے زیادہ بامعنی بنانا چاہتا تھا۔  جیسے میرے دوست جمیل ہمدم نے بعد میں اپنا نام جمیل یوسف کر لیا لیکن پھر میں نے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کے ناموں پر غور کیا، اسد اللہ غالب، فیض احمد فیض، محمد اقبال تو مجھے اندازہ ہوا کہ نام کی بجائے کام اہم ہو تو نام خود بخود کوالیفائی ہو جاتا ہے۔  پھر جب میں نے منشاء الرحمان خان منشا، مشکور حسین یاد، مستنصر حسین تارڑ اور منیشاکوئرالہ جیسے ناموں کو مقبول ہوتے دیکھا تو مزید مطمئن ہو گیا۔

٭ ایک تخلیق کار کے لیے ماضی اہم ہے، حال یا مستقبل؟

٭٭  ماضی سے پوری طرح آگاہی ضروری ہے کہ حال بھی ہر لمحہ ماضی میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ماضی میں تبدیل ہونے کی گنجائش نہیں۔  اس لیے تخلیق کار کی نظر مستقبل پر ہونی چاہیے۔

٭ افسانے کی تخلیق کا باعث نفسی اور لاشعوری محرکات ہیں یا خارجی حالات؟

٭٭  قلبی وارداتوں اور باطن کیفیات کا تعلق زیادہ تر شاعری سے ہوتا ہے مگر اس کا اظہار بھی خارج سے لی گئی علامتوں، لفظیات تشبیہوں اور استعاروں کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔  شاعر خلا کے سمندر سے خیالوں کی مچھلیاں پکڑتا ہے، مگر افسانہ نگار محض نفسی کیفیات، باطنی و ارادت اور لاشعوری محرکات پر انحصار نہیں سکتا۔  اسے زمین پر چلنا ہے اور سچ مچ کے زندہ انسانوں سے تعلق رکھنا پڑتا ہے اور چیزوں کرداروں اور روّیوں کا کھلی آنکھوں اور جاگتے شعور سے تجزیہ اور اظہار کرنا ہوتا ہے اور زندہ اور سالم انسان محض خارج میں نظر آنے والا پیکر ہی نہیں ہوتا۔  وہ اپنے اصلی روپ میں تو اپنے اندر چھپا ہوتا ہے۔  اس لیے افسانہ نگار کو داخلی اور خارجی احوال سے پوری آگاہی ہونی چاہیے اور خارجی احوال اور محرکات کو داخلی کیفیت اور احساس میں جذب کر کے بیان کرنا چاہیے۔

٭ کیا نفسی کیفیات، تنقیدی ذوق اور تخلیقی شعور کے امتزاج سے بہترین ادب پارہ تخلیق کیا جا سکتا ہے؟

٭٭  جی ہاں !مگر فکشن لکھنے والے کے لیے خارجی حالات سے بھرپور واقفیت بھی ضروری ہے۔

٭ کیا ادب کی ترویج و ترقی میں ادبی تحریکیں، گروہ اور حلقے معاون ثابت ہوتے ہیں؟

٭٭  جی ہاں ! اس سے تنقیدی شعور حاصل ہوتا ہے۔  دوسروں کی پسند، ناپسند اور رائے سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ تخلیقی کام کے لیے تحریک پیدا ہوتی ہے اور مجموعی طور پر ادب کی ترویج و ترقی کی بڑھاوا ملتا ہے۔

٭ کیا ادیب اپنے معاشرتی کردار سے انصاف کر رہا ہے؟

٭٭  یقیناً ادیب معاشرتی معاملات اور مسائل سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ حساس ہونے کی بنا پر اس کی نگاہ وہاں تک بھی جاتی ہے۔  جہاں تک عام آدمی نہیں دیکھ سکتا یا نہیں دیکھتا۔  زندگی کو دکھوں، مصیبتوں، نا انصافیوں اور حق تلفیوں سے پاک دیکھنا ہر فنکار کا خواب ہوتا ہے۔  وہ توازن کا متلاشی ہوتا ہے جو امن، تحفظ، محبت اور معاشرتی انصاف سے حاصل ہوتا ہے، چونکہ سیاست زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوتی ہے اس لیے ادیب سیاسی اثرات سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔  آج کا ادیب نہایت پڑھا لکھا، ذہین اور معاشرتی حالات ہی سے نہیں بین الاقوامی صورت حال سے بھی آگاہ ہے اور اس نے ادبی اور تخلیقی طور پر اس کا بھرپور اظہار کیا ہے اور کر رہا ہے۔

٭ آپ نسبتاً ایک چھوٹے شہر شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔  ایک چھوٹے شہر سے بڑے شہر یا ایک عام فرد سے ایک بڑے افسانہ نگار بننے تک کا سفر آپ نے کیسے طے کیا؟

٭٭   آپ اندھیرے سے نکل کر اچانک روشنی میں آ جائیں تو آنکھیں کچھ دیر کے لیے چندھیا سی جاتی ہیں مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔  میں موجودہ شہر اور پوزیشن میں بہت آہستہ آہستہ، قدم قدم چلتا پہنچا ہوں۔  شیخوپورہ کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔  پرائمری کی تعلیم حاصل کر کے حافظ آباد اپنی خالہ کے پاس پڑھنے کی خاطر چلا گیا۔  وہیں سے میٹرک پاس کیا اور انجینئرنگ سکول ہیڈرسول سے ڈپلوما حاصل کر کے راولپنڈی آ گیا۔ چند ماہ بعد میرا تبادلہ مری ہو گیا۔  سال دو سال وہاں تعینات رہا، پھر جب نیا دارالحکومت بننے کا اعلان ہوا تو میں پی ڈبلیو ڈی کی دو سالہ ملازمت چھوڑ کر دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں ملازم ہو گیا۔  کچھ دنوں بعد ہی ہم آٹھ دس دوست اسلام آباد کے بے آباد کوارٹروں کو آباد کرنے کی خاطر یہاں منتقل ہو گئے اور رفتہ رفتہ اسلام آباد شہر میرے اردگرد بڑھتا پھیلتا گیا۔  یوں کہنا چاہیے کہ میں اسلام آباد نہیں آیا۔  اسلام آباد خود میرے چاروں طرف تعمیر ہو گیا ہے۔  اسی طرح ملازمت میں بھی آہستہ آہستہ ترقی ملی اور مختلف شعبوں میں کام کرنے لگا۔ میں نے زندگی میں بہت جد و جہد اور محنت کی۔  ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی پرائیویٹ طور پر جاری رکھا اور اُردو اور پنجابی میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔  ادبی اعتبار سے بھی مجھے بڑی مخالفتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر میں نے محنت اور لگن سے لکھنا اور کام کرتے رہنا جاری رکھا اور اب ساٹھ برس کی عمر میں ملازمت سے ریٹائر ہو کر یکسوئی سے اپنے ادھورے ادبی کاموں اور منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہچانا چاہتا ہوں۔

٭ کیا کسی شاعر یا ادیب کے لیے مخصوص نقطۂ نظر رکھنا ضروری ہے؟

٭٭  ادیب کو وسیع المشرب ہونا چاہیے۔  اس کی کمٹمنٹ زندگی اور انسان سے ہونی چاہیے۔  مخصوص نقطۂ نظر یا نظریہ اسے محدود کر سکتا ہے۔  تاہم اسے ہر نقطۂ نظر اور نظریے کے بارے میں پوری معلومات ہونا چاہیں اور ان کی ساری اچھی اور مثبت باتیں اور انکار اپنے اندر جذب کر لینا چاہیے۔  ان سب باتوں کے باوجود آپ کا ایک مخصوص نقطۂ نظر یا نظریہ خود بخود بن جاتا ہے، مگر اسے مشتہر نہیں کرنا چاہیے، ورنہ بعض بدقسمت لوگ اصل تحریر کو پڑھنے کی بجائے محض لیبل دیکھ کر فن پارے کے حظ سے محروم رہ جاتے ہیں۔

٭ حقیقت نگاری کی انتہا واقعیت نگاری پر ہوتی ہے تو ایسے میں ادب اور صحافت میں فرق کیسے کیا جائے؟

٭٭  صحافی جس واقعے کی رپورٹنگ کرتا ہے وہ کہیں نہ کہیں وقوع پذیر ہو چکا ہوتا ہے، لیکن ادیب جس واقعے کو پیش کرتا ہے ضروری نہیں کہ وہ کہیں کسی کو پیش آیا ہو، مگر حقیقی زندگی سے مماثلت رکھتا ہو اور کسی دور میں اور کہیں نہ کہیں پیش آ سکتا ہے۔  پھر وہ اس کی رپورٹنگ نہیں کرتا۔  یعنی اسے من و عن بیان نہیں کر دیتا۔  اسے فن کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے توڑتا موڑتا ہے اور زیادہ موثر اور بامعنی بنا کر بیان کرتا ہے اور اسے کسی خاص شخص یا موقع پر پیش آنے والے واقعہ کی بجائے ایسی صورت دے دیتا ہے کہ وہ ہر کسی کے لیے ہر زمانے میں دلچسپی اور معنویت کا حامل ہو لیکن سب سے اہم بات وہ زبان و بیان ہے جو ادب کو صحافت سے مختلف بناتا ہے۔  ادیب اور صحافی کے مقصد، زاویۂ نگاہ اور روّیے میں بھی فرق ہوتا ہے۔  آج کی خبر کل باسی ہو جاتی ہے۔  مگر اچھا ادب کبھی باسی نہیں ہوتا۔  اس کی عمر ہی سے اس کے معیار کا تعین کیا جاتا ہے۔  حقیقت نگاری اور واقعیت نگاری تو ملتی جلتی چیزیں ہیں۔  تمثیل اور علامت کے ذریعے بھی صداقت ہی کا اظہار کیا جاتا ہے۔  اس لیے حقیقت نگاری کی انتہا محض واقعیت نگاری نہیں۔  وہ صداقت ہے جسے ’’پوئٹک ٹرتھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

٭ آپ نے پنجابی زبان میں بھی افسانے لکھے، لیکن بنیادی کام اُردو افسانے ہی میں نظر آتا ہے۔  کیا آپ یہ محسوس کر کے خوش ہولیتے ہیں کہ اُردو کی جتنی خدمت پنجابیوں کی ہے اتنی اہل زبان نے بھی نہ کی۔  لیکن آپ جو پنجابی میں بھی اچھا لکھتے ہیں اپنی مادری زبان کو نظرانداز کر دینے کے مجرم نہیں۔  مستنصر حسین تارڑ نے درست ہی تو کہا ہے ’’پنجابی کی تمام مائیں سوتیلی ہیں، اسے بولنا لکھنا اور اس سے محبت کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘ دوسری طرف شیخ ایاز کہتے ہیں ’’ اپنی زبان میں جس طرح انسان اپنے جذبہ و احساس کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔  غیر مادری زبان میں ممکن نہیں۔ ‘‘ آپ کا کیا خیال ہے۔

٭٭  پنجابی ایک قدیم، بڑی اور موثر زبان ہے، لیکن پنجاب پر مختلف زمانوں میں مختلف اقوام، زبانوں اور تہذیبوں کا تسلط رہا۔  ہر عہد میں حکومت کی زبان عام لوگوں کی زبان سے مختلف رہی۔  فارسی، عربی اور انگریزی کے اثرات پنجابی تہذیب اور زبان پر گہرے ہیں۔  سنسکرت، یونانی، ترکی اور افغانی الفاظ بھی اس میں شامل ہوتے رہے، مگر اسے حکومتی سرپرستی کبھی حاصل نہ ہو سکی اور یہ زبان جو شاعری کے حوالے سے بہت امیر تھی۔  نثری لحاظ سے غریب رہ گئی۔  زبانوں کے ساتھ جب تک روزگار کا سلسلہ جڑا ہوا نہ ہو وہ علمی سطح پر ترقی نہیں کر سکتیں۔  اس طرح پنجابی نثر پیچھے رہ گئی اور اس میں کوئی بڑا علمی، سائنسی اور تحقیقی کام نہ ہو سکا۔  تاہم پنجاب یونیورسٹی نے جب سے ایم۔ اے پنجابی کے امتحانات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔  امتحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر علمی، تنقیدی، تحقیقی اور ادبی کتب لکھی جا رہی ہیں اور بعض اداروں کی طرف سے کتب پر انعامات بھی دیے جاتے ہیں اور پاکستانی پنجابی کی نظم و نثر کی کتابیں مشرقی پنجاب میں بھی مقبول ہیں۔  پنجابی زبان کی ترقی اور ترویج کی رفتار خاص تیز ہے۔  ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے مجھے اپنی مادری زبان میں لکھنے میں زیادہ سہولت اور خوش محسوس ہوتی ہے اور پنجابی کے مصادر کی تعداد بھی اُردو سے زیادہ ہے۔  مگر پڑھنے والے نہیں تھے۔  نہ رسالے نہ اخبار۔  اب کچھ سلسلہ شروع ہوا ہے اور میں نے پنجابی کا قرض ناول لکھ کر چکانے کی کوشش کی ہے۔  ’’ٹانواں ٹانواں تارا‘‘ کے نام سے میرا پنجابی ناول شائع ہو چکا ہے۔  ایک اور بات یہ ہے کہ اُردو اور پنجابی محاورات اور روزمرہ میں بے شک فرق ہے۔  مگر لغت، گرائمر اور رسم الخط میں زیادہ فرق نہیں ہے۔  اس لیے کسی بھی پنجابی کو پاکستانی اُردو میں اپنے جذبہ و احساس کا اظہار کرتے ہوئے مشکل پیش نہیں آتی۔

٭ ترقی پسند افسانہ بھوک، افلاس غربت، مہارت مزدور سرمایہ دار، کسان اور جاگیردار کا مجموعہ تھا۔  آج افسانے کے موضوعات میں وسعت پائی جاتی ہے۔  آپ کے خیال میں آج افسانہ کس موضوع پر سب سے زیادہ لکھا جا رہا ہے؟

٭٭  موجودہ دور میں افسانے کے لیے کوئی ایک یا خاص موضوع مقرر نہیں ہے۔  جدید علامتی، تمثیلی اور استعاراتی افسانے میں، جس کا زمانہ ساٹھ اور ستر کی دہائی ہے۔  زیادہ تر تکنیک اور اسلوب کے تجربے کیے گئے۔  خارج کی بجائے داخلیت کو اہمیت دی گئی۔  باہر کی دنیا سے آنکھ بند کر لینے یا چرا لینے سے کہانی پن کو ٹھیس پہنچی اور افسانہ شاعری اور انشائیے سے آلودہ ہو گیا۔  اس در میں تنہائی، مغائرت یا اجنبیت فرد کے اندر کی شکست و ریخت فلسفہ طرازی، ڈر، خوف، وہم، ذہنی انتشار، احساس محرومی اور ماضی کی بازیافت افسانے کے پسندیدہ موضوعات اور رجحانات تھے۔  سیاسی جبریت، غیر منصفانہ سماجی روّیے اور جنس و محبت بھی نئے اسلوب میں بیان ہوئے۔  اقدار کی پائمالی اور فرد کی رائگانی اور زندگی کی بے معنویت کا تصور ابھرا، لیکن اب افسانے کے فن میں ایک توازن اور وسعت نظر آتی ہے۔  افسانہ محض داخل یا خارج تک محدود نہیں ہے۔  زندگی کے مختلف پہلوؤں، رنگوں اور ذائقوں کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے، پھر ہم عصر افسانے میں کہانی پن کا خیال رکھا جاتا ہے، مگر یہ روایتی افسانے سے مختلف انداز ہے اب واقعات کو مرکزی تصور یا فکر کی معاونت کے لیے برتا جاتا ہے۔  اختصار، ایجاز اور زندگی سے قریب اور سمجھ میں آنے والی علامات کا استعمال ہوتا ہے۔  ہم عصر افسانہ موضوعات کے اعتبار سے بہت متنوع ہے اور جدید زندگی، صنعتی اور سائنسی ترقی، مشینوں کے مقابلے میں انسان کی بے مائے گی، قدروں کی شکست و ریخت، احتجاج اور انحراف کا جذبہ، نفسی کیفیات زندگی کے تضادات، جنسی نا آسودگی اور سیاست کی بے اعتدالیاں اس کے مرغوب موضوعات ہیں اور ان کے اظہار میں پہلے سے زیادہ نفسیات اور تہہ داری سے کام لیا جاتا ہے۔

٭ سمعی و بصری ابلاغ کا ادب کی ترویج میں کیا کردار ہے؟

٭٭  بصری اور سمعی ذرائع ابلاغ نے ادب اور قاری کے درمیان فاصلہ کم کیا ہے۔  ہمارے تعلیمی ادارے اور نصاب تو بہت ہی آؤٹ ڈیٹڈ ہے اور عصری ادب سے کوسوں دور۔  ذرائع ابلاغ نے جس میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخباروں کے ادبی ایڈیشن شامل ہیں بلکہ اب وڈیو اور آڈیوکیسٹ کا رواج بھی ہونے لگا ہے۔  عام قاری کو ادب کی نئی اصناف، شعر و ادب کے نئے معیار اور رفتار سے کسی حد تک آگاہ کیا ہے ورنہ عام لوگ بڑے بڑے ادبی رسائل اور موجودہ دور کے شعرا اور ادبا سے بالکل ناواقف تھے۔  ظاہر ہے کہ ذرائع ابلاغ کا کردار محدود ہے۔  تاہم جو کچھ بھی ہے غنیمت ہے۔  تاہم اگر ادبی گروہوں، مباحث اور شاعروں کو زیادہ وقت دیا جائے اور انہیں ٹھیک طریقے سے ترتیب دیا جائے تو قارئین اور ادیبوں کے درمیان فاصلہ مزید کم ہو سکتا ہے اور عام آدمی ادبی کتابوں اور رسائل کے مطالعے میں دلچسپی لینے لگے گا۔

٭ افسانہ نگار کے لیے کاریگر کا لفظ بہتر ہے یا تخلیق کار کا؟

٭٭  یوں تو لفظ تخلیق کار ہی بہتر ہے مگر دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ لفظ کس مقصد اور معنی میں استعمال ہوا۔  ظاہر ہے جب لفظ کرسی بنانے والے کے بجائے کسی ادیب کے ہنر یا کرافٹ کے بارے میں استعمال ہوا تو اس کے معنی مختلف ہوں گے۔

٭ ایک ہی انسان، ایک سی زندگی پھر اتنے موضوعات کہاں سے مل جاتے ہیں؟

٭٭  ہر روز طلوع ہونے والا سورج ایک نیا دن لے کر آتا ہے اور گزرے ہوئے دن سے کچھ نہ کچھ مختلف ہوتا ہے۔  سورج بھی چند سیکنڈ یا منٹوں کے فرق سے طلوع و غروب ہوتا ہے۔  آپ ہر روز صرف انہی لوگوں سے نہیں ملتے جن سے گذشتہ روز ملاقات ہوئی تھی، اگر ہوئی بھی تھی تو اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔  آپ ہر روز نئی اور تازہ خبریں پڑھتے اور سنتے ہیں اور آنکھیں اور ذہن کھلا ہو تو ہر قدم پر کہانی کا ایک موضوع موجود ہوتا ہے۔  ہر شخص ایک الگ شخصیت اور کردار کا حامل ہوتا ہے اور بے شمار کہانیاں اپنے اندر لیے پھرتا ہے۔  کہانی کار یہ سب کچھ دیکھتا اور اس کا ذہن معمول سے ہٹی ہوئی ہر چیز کو محفوظ کرتا چلا جاتا ہے، پھر کسی وقت کوئی بات اس کے ذہن میں کھٹکنے لگتی ہے۔  اس سے ملتی جلتی مختلف اوقات میں دیکھی سنی اور تجربے سے گزری ہوئی باتیں لوہے چون کے ذروں کی طرح مرکزی خیال کے مقناطیس کے گرد جمع ہونے لگتی ہیں اور اس کا خلاقانہ ذہن اس میں کہانی کا دھندلا سا خاکہ دیکھ لیتا ہے اور اگر اس کے اندر کا نقاد حوصلہ افزائی کرے تو وہ اسے لکھنے بیٹھ جاتا ہے۔  دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی انسان کی خصوصاً ً کام یا ملازمت کرنے والوں کی زندگی ہمیشہ ایک طرح سے نہیں گزرتی۔  اس میں خوشی کے لمحات بھی آتے ہیں، دکھ، جدائی اور بیماری کے بھی۔  خوشحالی اور بدحالی، دوستیاں اور دشمنیاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔  ان سب باتوں کے باوجود یہ کہنا ضروری ہے کہ فکشن لکھنے والوں کویکسانیت ایک جیسی زندگی اور صورت حال میں گھرے نہیں رہنا چاہیے۔  لوگوں سے میل جول اور ہر شعبۂ حیات سے واقفیت ضروری ہے۔  سفر اور نئی جگہوں اور لوگوں سے ملاقات اس کے جنرل نالج اور نقطۂ نظر کو وسیع کرتی ہے، جو لوگ واقعی ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں ان کی کہانیوں میں بھی تنوع کی بجائے یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ شطرنج کے کھیل کی طرح انہی چونسٹھ خانوں میں تھوڑی بہت چالوں کی تبدیلی کے ساتھ ایک سا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔

٭ کہانی کے اجزائے ترکیبی میں سے آپ کے اہمیت دیتے ہیں؟

٭٭  یوں تو افسانے میں پلاٹ، فضا، کردار، اسلوب، ہیئت، تکنیک، اختتام اور عنوان تک سبھی چیزیں اہم ہیں اور ایک دوسری سے جڑی ہوئی ہیں اور ایک مکمل افسانہ اور ایک ادب پارہ انہی اجزا کے باہمی ربط اور توازن سے وجود میں آتا ہے لیکن میں افسانے میں موضوع یا مرکزی خیال (تھیم) کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔  جب ہم کسی افسانے پر بحث کرتے ہیں تو بھی اسی موضوع کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو زیادہ تر غیر محسوس طریقے سے افسانے میں موجود ہوتا ہے، مگر افسانے کی عادت اسی کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔  باقی تمام اجزائے ترکیبی بھی موضوع ہی طرف اشارہ کرتے ہیں۔  وحدت تاثر جو کسی افسانے کے لیے بہت ضروری ہے اس کا تعلق بھی موضوع ہی سے ہوتا ہے اور موضوع و مواد کو افسانے کے سانچے میں ڈھالنا ہی فنکاری اور افسانہ نگاری ہے۔

٭ ایندھن کے لیے کٹ کے جو گرا ہے

چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

درخت آدمی میں کرموں کو درختوں سے بہت پیار تھا۔  کیا آج بھی ہم میں سے ہر شخص کے اندر ایک کرموں زندہ نہیں؟یہ الگ بات کہ مصلحت کی خاطر ہم خود ہی اسے ختم کر دیتے ہیں۔

٭٭  آپ نے درخت آدمی کے موضوع کی اچھی وضاحت کی ہے۔

٭ افسانے کو شاعری سے قریب لانے کی کوشش افسانے کو خوبصورت بناتی ہے یا اسے خامی قرار دیا جانا چاہیے؟

٭٭  افسانے کو شاعری کے قریب لانے کی ایسی کوشش جو اسے خوبصورت بنا دے، اچھی بات ہے، مگر عام طور پر ایسا ہوتا نہیں پھر ہم براہ راست شاعری ہی کیوں نہ کریں یا پڑھیں۔  اصناف کے ڈانڈے باہم کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں لیکن افسانے کو شاعری بنانے سے اس کی فضا افسانوی نہیں رہتی۔  وہ زمین پر چلنے کی بجائے ہوا اور خلا میں اڑنے لگتا ہے۔  اڑان افسانہ بھی بھرتا ہے۔  مگر اس کی نوعیت اور طرح کی ہوتی ہے۔  اس پرندے کی طرح جو ایک جگہ دانا دنکا جگتے جگتے اڑ کر کچھ دور پھر زمین پر لوٹ آتا ہے اور اپنی ضرورت کی خوراک کے ذرے تلاش کرنے لگتا ہے۔  شاعری کے بعض اوزار تشبیہہ، استعارہ، علامت اور تلمیح افسانے کی تعمیر میں استعمال ہو سکتے ہیں مگر اسے بنیادی طور پر نثری تخلیق ہی رہنا چاہیے۔  نثر کا بھی اپنا ایک آہنگ ہوتا ہے جو شاعری کے آہنگ سے بالکل مختلف چیز ہے۔

٭ کیا ادب کو تخلیق انسان کو اپنے آپ کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔

٭٭  جی ہاں ! یہ ایک طرح سے خودشناسی ہے۔  اپنی ذات کا اظہار ہے، لیکن اپنی ذات تک محدود نہیں۔  زندگی کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔

٭ کیا افسانہ نقاد یا قاری کو پیش نظر رکھ کر لکھتا ہے یا وہ لکھتے ہوئے اپنی کہانی میں محو ہوتا ہے۔  صرف اس کے متعلق سوچتا اور اپنے فن کا پہلا نقاد وہ خود ہوتا ہے۔  اس کے بعد قاری، سامع اور پھر نقاد…؟

٭٭  اس میں تو شک نہیں کہ اپنے فن کا پہلا نقاد خود افسانہ نگار ہوتا ہے لیکن افسانہ لکھتے وقت قاری اور نقاد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔  آخر افسانہ لکھنے کا مقصد کیا ہے۔  کوئی بات، کوئی جذبہ، احساس اور کوئی تاثر دوسروں تک پہچانا ہی تو مقصود ہوتا ہے، اسی لیے وہ جس زبان میں لکھ رہا ہے اس کے مزاج، اصول اور اس کے پڑھنے والے اس کے پیش نظر رہتے ہیں۔ وہ ایسے الفاظ اور علامتیں استعمال کرتا ہے جو اس کے متوقع قارئین تک اس کا نقطۂ نظر پہنچاسکیں۔  وہ ایسی باتیں حذف کرتا چلا جاتا ہے جو اس کے خیال میں کسی قاری، نقاد یا ایڈیٹر کو بدمزہ کر سکتی ہوں یا جن پر گرفت ہو سکتی ہو اور میں تو اپنے بچوں اور بھائی بہنوں کو بھی ذہن میں رکھتا ہوں کہ وہ میری تحریر کو پڑھ کر خوشی اور تفاخر کی بجائے شرمندگی محسوس نہ کریں۔  شعر و ادب کی تخلیق کو میں ایک سماجی عمل اور ذمہ داری بھی سمجھتا ہوں اور زندگی میں حسن خیر اور نیکی کا ذریعہ بھی، مگر تخلیقی اور فنکارانہ انداز میں۔

٭ کیا کہانی موجود سے لا موجود کی طرف سفر کرتی ہے جو نہیں ہے، اس کی خواہش اور جو ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینے کا رجحان زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے یا اسے زیادہ دلکشی اور دلچسپی بخشتا ہے؟

٭٭  جو ہے، کہانی اس سے آنکھیں بند نہیں کرتی۔  مگر جیسا ہے اسے جوں کاتوں رہنے دینا انسانی فطرت اور ارتقا کے خلاف ہے۔ جو ہے، وہ اگر اچھا نہیں ہے تو اسے تبدیل ہونا چاہیے اور اگر اچھا ہے تو اسے مزید اچھا ہونا چاہیے، اس لیے کہانی جب موجود سے لا موجود کی طرف سفر کرتی ہے تو وہ بہتری اور اچھائی کی تلاش کر رہی ہوتی ہے۔

٭ انسانی نفسیات، خارجی حالات و واقعات کے تابع ہے۔  ایک شخص دوسرے شخص کی عزت کرتا ہے۔  اس سے محبت کرتا ہے لیکن پھر کچھ ایسے حادثے ہوتے ہیں کہ وہ اس سے سخت نفرت کرنے لگتا ہے۔  اس سے نفرت کے اظہار کا موقع تلاش کرتا رہتا ہے۔  کیا اسے اس اظہار پر قدغن نہیں لگانی چاہیے کہ محبت کا اظہارِ اطمینان اور نفرت کا اظہار تاسف بخشتا ہے۔  جیسا کہ ’’ سزا اور بڑھا دی‘‘ میں۔  دوسری بات یہ کہ اس افسانے کے اختتامی چند جملے زائد معلوم ہوتے ہیں۔  افسانہ وہاں ختم ہو جانا چاہیے تھا جہاں شوہر کا پیغام ختم ہوتا ہے۔  آپ کا کیا خیال ہے؟

٭٭  نفرت ایک منفی جذبہ ہے۔  اس سے بچنا چاہیے، لیکن اگر کسی چیز یا شخص سے آپ ٹھوس بنیادوں پر نفرت کرنے لگیں تو اس کے اظہار پر قدغن لگانے سے منافقت جنم لے گی جو نفرت سے بھی زیادہ قابل نفرت اور خطرناک چیز ہے۔  نفرت کا اظہار بسا اوقات اطمینان بخشتا ہے۔  برائی کو برائی کہہ دینے، بڑے سلوک پر گالی بک دینے یہاں تک کہ گالی کے جواب میں پٹائی کر دینے سے بھی ایک تشفی اور آسودگی حاصل ہوتی ہے اور برائی کا تدارک ہوتا ہے۔  منٹو کے ’’نعرہ‘‘ میں جب سیٹھ مرکزی کردار کو گالی دیتا ہے تو وہ اس وقت تک کھولتا، کڑھتا اور بلبلاتا رہتا ہے جب تک وہ لوگوں کے ہجوم میں نعرہ مار کر اس کا جواب نہیں دے دیتا۔  ’’سزا اور بڑھا دی‘‘ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔  یہاں یک طرفہ محبت ہے، بیوی شوہر سے محبت نہیں کرتی۔  مگر ہر عورت کی طرح قدرت نے اسے بھی لچک عطا کی تھی۔  اس نے سمجھوتہ کر لیا اور زندگی کی آسائشوں، تحفوں اور حسن سلوک سے وہ اسے پسند کرنے لگی، مگر اس کے کہیں اندر ایک خانہ خالی رہا، جسے اس نے شوہر کے دوست کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کی، مگر وہ تو کیا پر ہوتا ازدواجی زندگی میں دراڑ آ گئی۔  مشرقی شوہر اس سے محبت کرنے کے باوجود اس کی یہ غلطی معاف نہ کر سکا اور ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگے اور اپنے اپنے اپنے موقف کا اظہار نہ ہو پانے سے ایک فریق کی عود کر آنے والی نفرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔  یقیناً علی احمد اپنی محبت کا اظہار اور بیوی اپنے تاسف کو کچھ عرصہ پہلے ظاہر کر دیتی تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی، جو اب پیدا ہوئی ہے۔  مگر اظہار ندامت اور درگزر نہ کرنے اور اپنے اندر کے جذبوں کا بروقت اظہار نہ کر سکنے ہی سے تاسف پیدا ہوا۔

جہاں تک افسانے کے آخری چند جملوں کا تعلق ہے۔  ان کے بغیر افسانے کی تکمیل نہ ہوتی اور وہ جو ایک دوسری معنویت پیدا ہو گئی ہے۔  وہ پیدا نہ ہوتی۔  موجودہ صورت میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ علی احمد نے اسے محض سزا دینے کے لیے یہ پیغام محفوظ کیا اور اسے ایک عجیب ذہنی خلفشار میں مبتلا کر کے انتقام لیا اب وہ مر چکا ہے اور اس کے بیان کی تصدیق ممکن نہیں۔ اس طرح بیوی اور قاری کے تاسف میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔  میں نے آخری جملوں میں کہانی کے اختتام کو دونوں طرح کی معنویت اور امکان کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے۔

٭ دیہاتی زندگی کے کردار پینٹ کرنا زیادہ آسان ہے یا شہری زندگی کے؟

٭٭  شہری اور دیہاتی کرداروں کی کچھ تخصیص نہیں ہے۔  اصل بات تو یہ کہ افسانہ نگار اپنی بات کہنے کے لیے موزوں تر کردار اور فضا کا انتخاب کرتا ہے۔  مثلاً’ ’سزا اور بڑھا دی‘‘ کا بنیادی خیال مجھے دیہات کی فضا ہی سے ملا مگر اسے بیان کرنے کے لیے مجھے شہر کی فضا کا انتخاب کرنا پڑا، کیونکہ دیہاتی فضا کے ساتھ مجھے مشکل پیش آ رہی تھی۔  اسی طرح کئی کہانیاں میں نے شہری زندگی سے حاصل کیں لیکن انہیں بیان کرنے کے لیے دیہی ماحول اور فضا اور کردار موزوں تر نظر آئے۔

٭ ایک نقاد کا خیال ہے کہ ’افسانہ چاول پر قل ہو اللہ ‘ لکھنے کا حق ہے جبکہ آپ کی کہانیوں کے مطالعے سے یہ احساس نہیں ہوتا۔  آپ کی کیا رائے ہے۔

٭٭  چاول پر قل ہو اللہ لکھنے کا ثواب کے علاوہ کیا مقصد ہے؟ وہ چاول کا دانہ کھایا جا سکتا ہے نہ سجایا جا سکتا ہے البتہ اس کا تعویذ بنایا جا سکتا ہے۔  جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں کہنا کچھ نہیں ہوتا۔  بس اپنی کاریگری دکھانا ہوتی ہے۔  میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔  اپنی بات دوسروں تک پہچانا چاہتا ہوں۔  ایجاز، اختصار، استعارے اور کنائے سے جہاں کام چل سکتا ہے۔  ضرور لیتا ہوں۔  لیکن افسانے کو مبہم اور معمہ بنانے سے گریز کرتا ہوں۔  قل ہو اللہ کو چاول کے بجائے کاغذ پر اور پڑھے جا سکنے والے، سمجھ میں آنے والے حرفوں میں لکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر رشید نثار

 

٭    خاندانی پس منظر اور ابتدائی حالات زندگی بتائیے؟

٭٭   میں ۱۵؍اگست ۱۹۲۷ء ڈھیری حسن آباد راولپنڈی میں پیدا ہوا۔  والد کا نام ملک امداد علی خان۔  وہ۱۰۶ سال کی عمر تک زندہ رہے۔  انہوں نے ابتدائی تعلیم پنڈی شہر اسلامیہ ہائی سکول لیاقت روڈ میں حاصل کی، پھر وہ اپنی بڑی بہن کے پاس کلکتہ چلے گئے۔  وہاں سے بی۔ ایس۔ سی کیا اور وہیں انہیں ریلوے میں بطور گارڈ ملازمت مل گئی۔ وہ مختلف مراحل میں شملہ، کالکا میں رہے اور ۱۹۱۴ء کوئٹہ کے سٹیشن ماسٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔  اس کے بعد انہیں اٹک آٹل کمپنی مورگاہ میں ملازمت مل گئی۔  وہاں ان کا دل نہ لگا تو بطور ٹور آفیسر راولپنڈی آرمنل میں وہ ملازم ہو گئے۔  اس سلسلے میں ان کا تبادلہ پشاور ہو گیا۔  وہاں سے وہ۱۹۲۶ء میں ریٹائر ہو گئے۔  ان کے پاس اچھا خاصا پیسہ تھا۔  اس لیے انہوں نے ٹھیکیداری شروع کر دی۔  وہ بحیثیت گورنمنٹ کنٹریکٹر کلکتہ چلے گئے۔  مدراس، رانچی، بہار، پٹنہ، حیدر آباد دکن، میسور، بول کیمپ آگرہ اور کراچی میں ٹھیکیداری کرتے رہے۔  ۱۹۴۷ء میں انہوں نے ٹھیکیداری چھوڑ دی اور پنڈی واپس آ گئے۔  ان کی وفات ۱۹۷۹ ء میں ہوئی۔

میں نے سی بی سکول لال کرتی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔  اس کے بعد ڈنیز ہائی سکول، اسلامیہ ہائی سکول راولپنڈی کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول مری سے میٹرک کیا۔  میں نے دہلی میں ایف ایس سی اور بعد میں ایل ایس ایم اف کے لیے امرتسر میڈیکل سکول میں داخلہ لیا وہاں سے K.E Medical Collegeمیں شفٹ ہو گیا اور جب خضر حیات کے خلاف تحریک چل رہی تھی، گرفتار ہوا، جیل گیا، میڈیکل کالج سے نکال دیا گیا۔  اس کے بعد کہیں سکون نہ ملا۔  ایک سینما کی منیجری کی، ایک کینٹین چلائی پھر GHQمیں ملازمت مل گئی۔  اسی ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ گیا۔  وہاں بی۔ اے کیا، ایم۔ اے کیا۔  قرآن حکیم کی تعلیم ترجمے، تشریح اور تفسیر کے ساتھ مدرسہ مسجد کچز مارکیٹ کوئٹہ سے حاصل کی۔  پنڈی عربک کالج سے میں نے اُردو آنرز کیا۔  بلوچستان سے پنجابی آنرز کیا۔  لاہور مرزا ہومیوپیتھک کالج سے ایم ڈی، برلاس کالج سے LHMS۔  نیچرپیتھ کی تعلیم حاصل کی آرکیالوجی اور فقہ میں آنرز بھی بلوچستان سے کیا۔  صحافت آزادانہ طور پر کی۔  روزنامہ بلوچستان، جدید کراچی، روزنامہ حیات کراچی میں سب ایڈیٹر رہا۔  روزنامہ اتحاد کوئٹہ کا جوائنٹ سیکرٹری رہا۔

میرے دادا ملک قاسم علی (آوان) مندرہ کے قریب گاؤں میں بجنال میں پیدا ہوئے۔  ان کے بارے میں مجھے بچپن میں بتایا گیا کہ وہ بہت سخت طبیعت کے انسان تھے۔  وہ اپنے علاقے کے پہلے میٹرک اور پنجاب کے گریجویٹ تھے۔  وہ براہ راست تحصیلدار ہوتے ہوئے اور ترقی کرتے کرتے پنڈی ڈویژن کے ایڈیشنل کمشنر کی حیثیت سے ریٹائرو ہوئے۔  وہ بہت نیک انسان تھے۔  کلیام آوان کے والی میاں فضل ان کے پگڑی بدل بھائی تھے۔  ان کی رشتہ داری پھیلی ہوئی تھی، چنانچہ پنڈی میں (آج کل آبپارا) گاؤں باغ اور شکر پڑیاں کی ترائی میں باغ میں کافی جائداد تھی، رشتہ داری تھی۔  میرے ننھیال ڈھوک باوا میں تھے۔  یہ گاؤں اب بھی ہولی فیملی کے عقب میں واقع ہے۔  یہ سب آوان ہیں۔  میری برادری کے لوگ ہیں۔  ان کی وسیع زمین تھی جو خیابان سرسید اور آئی۔ ٹن میں واقع تھی۔  میری تیسری آماجگاہ ڈھیری حسن آباد میں تھی۔  یہاں میری اپنی زمین، مکان، رشتہ داری، جائداد اب بھی موجود ہے۔  میری شادی میرے والد نے کی ہے۔  میں شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔  میرے والد نے اپنے گھرانے سے ایک بچی حاصل کی۔  اسے میٹرک تک پڑھایا۔  اپنی زیر نگرانی اس کی پرورش کی اور مجھے کہا اس سے شادی کرو۔  میں نے مجبوراً شادی کی۔  میں نے خداوند سے چار لڑکے مانگے۔ وہ خدا نے مجھے عطا کیے۔ لڑکے میں نے اس لیے مانگے کہ میرے گھرانے میں لڑکیاں بہت اور مرد کم ہیں۔

میرا ایک بیٹا یونان میں ہے۔  وہ گریجویٹ ہے۔  دوسرا بھی گریجویٹ ہے، وہ آرمی میں میجر ہے۔  تیسرا گریجویٹ ہے، وہ ٹیکسی چلاتا ہے، چوتھا میری طرح نان میٹرک ہے۔  نہ کام کرتا ہے نہ پڑھتا ہے۔  صرف کرکٹ کھیلتا ہے، کرکٹ کا بہت اچھا کھلاڑی ہے۔

میری بیوی کا نام تاج بیگم ہے، یہ کہوٹ خاندان کی ہے۔  ٹھنڈے مزاج کی عورت ہے۔  صبر و شکر والی، تہجد گزار، نماز روزہ کی سختی سے پابند، مجھے دودھ میں تھوڑا سا پانی ملانے نہیں دیتی۔  بے ایمانی نہیں کرنے دیتی۔  میں جو کچھ کماتا ہوں، اسے دے دیتا ہوں۔  اس نے ایک خاموش خدمت اپنے ذمے لے رکھی ہے۔  وہ ہر سال پیسہ پیسہ جوڑ کر کسی یتیم بچی کو اس کا جہیز بنا کر دیتی ہے۔  خود بھوکی رہتی ہے، مجھے بھی بھوکا رکھتی ہے۔  کسی کو اپنے گھر سے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی۔  میری بیوی بہت خوبصورت ہے۔  میں نے آج تک اسے اوئے اور اُف نہیں کہا۔  ایک خاموش انڈرسٹنڈنگ ہے۔  وہ چل رہی ہے، خدا کرے یہ آئندہ بھی قائم رہے۔

میری شاعری کی ابتدا ۱۹۳۵ء سے ہوئی۔  میرے ہیڈ ماسٹر منشی تلوک چند محروم تھے۔  شاعری کی استعداد خداداد ہے۔  میں نے ۱۹۲۹ء سے لے کر آج تک قلم نہیں چھوڑا۔  (جب سے فالج ہوا ہے۔  طبیعت افسردہ رہتی ہے۔  کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے مگر یک لخت سر میں درد اٹھنے لگتا ہے )

٭    تصوف کیا ہے۔  مضبوط خاندانی تصوف کے ورثے نے آپ کی تعمیر و تشکیل میں کیا کردار ادا کیا ہے؟

٭٭   تصوف ایک یونیورسل میتھڈ ہے۔  میرا تصوف کے ساتھ رشتہ میرے دادا، پھر والد اور اس کے بعد میرا اپنا ہے۔  تصوف نے مجھے فقیری کی طرف راغب کیا۔  دنیاداری سے الگ تھلگ کیا۔  اپنی ذات سے جوڑ دیا۔  فقیر ہمہ وقت خدا کا نام جپتا ہے۔  اس کی عبادت کا کوئی لمحہ ضائع نہیں جاتا۔  نفسیات کی رو سے میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ تصوف ایک قسم کی نفسیاتی تھراپی ہے۔  جس سے ذہن، دل اور خون صاف ہوتا ہے۔  جس طرح پانی کو صاف کرنے کے لیے آپ پلانٹ لگاتے ہیں۔  اسی طرح ’’تصوف‘‘ ایک پلانٹ مہیا کرتا ہے۔  جو آپ کے رزق، ذہن اور خیال کو ہمہ وقت صاف کرتا رہتا ہے۔

٭    بالکے کی تشریح کیجیے۔  آپ کی کہانیاں اس بالکے پر بیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔

٭٭   میرے والد نے اولاد نرینہ کے لیے سائیں منگوری کے آستھان میں چلہ کاٹا تھا۔  ان کی دعا سے میں پیدا ہوا۔  انہی کے حکم سے مجھے بری سرکار کی چوکھٹ کی نذر کیا گیا۔  میری والدہ اس میں پیش پیش تھیں۔  میں عمر کی اس منزل میں بھی بالکا بننے کو درست سمجھتا ہوں۔  یہ روایت اب بھی قائم ہے۔  مگر اب بری کے استھان پر سرکار دربار کا قبضہ ہے۔  لہٰذا بہت حد تک استھان تبدیل ہو گیا ہے۔  تاہم سماج کی تبدیلی میں یہ روایت مس فٹ لگتی ہے۔

٭    اگر آپ سرکار بری کے بالکے نہ ہوتے تو کیا تب بھی تخلیقی صلاحیتیں اتنے زور شور سے اپنا آپ دکھاتیں؟

٭٭   بری سرکار نے مجھے عاجزی بخشی۔  ’’انا‘‘ کے تحفظ کا فقیری شعور ودیعت کیا۔  فقیری شعور ہمارے علمی شعور سے الگ ہے۔  میری تخلیقی کوششوں میں بری کے بالکے نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، لیکن یہ بالکا میرے تحت الشعور میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔

٭    علم کا احاطہ ممکن نہیں۔  آپ ایک وسیع المطالعہ عالم ہیں۔  آپ کو خصوصاً ً کن علوم سے دلچسپی رہی۔

٭٭   بنیادی طور پر میں علم حاصل نہیں کر سکا۔  ایک اکھڑے ہوئے پودے کی طرح میری حیثیت رہی ہے۔  جہاں کسی نے لگانا چاہا۔  وہاں پھل نہیں سکا۔  اگر کہیں زمین نے قبول کر لیا تو کچھ حاصل ہو گیا۔  میں چونکہ اکھڑا ہوا انسان تھا اس لیے آوارہ گردی میرے شعور میں داخل ہوئی اور میں آوارہ گردی کرتے کرتے تعلیم بھی حاصل کرتا رہا۔  تاہم مجھے علمی سطح پر تاریخ ‘ الجبرا ‘ جیومیٹری اور انگریزی سے شغف رہا۔  عربی اُردو اور فارسی سکول کے زمانے سے پروان چڑھتی رہی ہے۔  اُردو کے ساتھ بے پناہ محبت نے مجھے علم کی روشنی بخشی ہے۔

٭    علم نجوم، علم دست شناسی یا علم غیب کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے۔  کس انسان کو یہ صلاحیت حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ کسی کے مستقبل کے بارے میں کچھ بتاسکے اور کیا یہ صلاحیت اسے درجۂ کمال عطا کرتی ہے یا شرک کی منزل پر پہنچا دیتی ہے؟

٭٭   دست شناسی، نجوم یا علم غیب میرے نزدیک سائنسی علوم ہیں۔  انہیں حاصل کرنے کے لیے حساب، احساس اور کشٹ کی ضرورت ہے۔  یہ انسان کو درجۂ کمال تک پہنچاسکتی ہے اور شرک کی طرف بھی لے جا سکتی ہے لیکن صاحب کمال وہی ہوتا ہے جو علم کو خدا کے مدِ مقابل نہ بنائے۔  خدا نے انسان کو بہت سے اوصاف ودیعت کیے ہیں۔

٭    بری امام کے مزار کو آپ فقیر کی نگری کہتے ہیں۔  جہاں انسان دنیا کے شورو شغب سے نجات حاصل کرنے جاتا ہے۔  بری امام کے مزار پر تو اتنا ہجوم اور شور ہنگامہ بپا رہتا ہے کہ انسان چند لمحوں کے لیے بھی اپنی توجہ کسی ایک جانب مرتکز نہیں کر سکتا۔  کشف، گیان، عبادت و ریاضت کے لیے کیا وہ جگہ مناسب ہے؟

٭٭   بری کی نگری دنیا کے لیے ہے۔  لوگ وہاں بھی اپنے وجود کو لے کر جاتے ہیں۔  شور شرابہ اور آلائش وہاں موجود ہیں، مگر سکون اور ارتکاز وہاں اب بھی حاصل ہو جاتا ہے۔  دھیان گیان وہاں لوگ اسی طرح حاصل کرتے ہیں کہ پلوٹھی کے چاند کی پہلی جمعرات کو شام کی اذان کی گونج میں گھر کا گھی چراغوں میں ڈال کر انہیں روشن کیا جاتا ہے ناد بجتی ہے۔  ڈھول کی تھاپ پر دھمال ہوتا ہے اور ساتھ ہی دوسری جانب نماز ہو رہی ہوتی ہے۔  یہ عمل صدیوں سے جاری ہے۔  کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔  چنانچہ بری کی نگری میں اس کی چوکھٹ آپ کو ارتکاز بخشے گی، سکون اور اطمینان کی دولت عطا کرے گی۔  اپنی ذات اور خدا کے ساتھ آپ کا مکالمہ جاری ہو گا۔  خداوند عالم کے ساتھ انسان کا مکالمہ … یہی کشٹ کا جواز اور اطمینان کا باعث ہے۔

٭    بری امام کون ہیں؟ کس عہد میں تھے؟ انسانی علم رکھتے تھے یا وجدانی؟ عبادت و ریاضت کی کیفیت کیا تھی؟ کشف و کرامات ہی ایک انسان کو عام انسانی سطح سے کسی قدر بلند درجہ ’’پیر‘‘ کا منصب عطا کرتے ہیں۔  ان کے کشف و کرامات حقائق پر مبنی ہیں یا عوام کی ضعیف الاعتقادی نے کہانیاں تراشی ہیں؟

٭٭   بری امام شاہ جہاں کے عہد میں تھے۔  ان کے والد سید کسراں یا تحصیل چکوال کے کسی گاؤں سے (باغ) نزد آبپارہ آئے تھے۔  بری امام کے دو بھائی شاہ چن چراغ، شاہ پیارا اور چچا زاد سخی شاہ جہاں (شاہ کی ٹاہلیاں والے ) پورے پنڈی پر قابض تھے۔  اہل پنڈی ان کے باجگزار ہیں۔  بری امام کا اپنا زمانہ اورنگ زیب کا عہد ہے۔  اورنگ زیب نے ان کا تعاقب بذات خود کیا تھا۔  بری امام ایک مدرسہ چلاتے تھے۔  اورنگ زیب نے انہیں آفر دی کہ آپ کو مدرسے کے لیے جاگیر بخشتا ہوں، بری امام نے کہا اے بادشاہ ! میرے رزق کا مالک خدا ہے۔ تو نہیں۔  تو اپنی بخشش اپنے پاس رکھ۔  اورنگ زیب وہاں سے بغیر کچھ حاصل کیے واپس چلا گیا۔  تاہم ان کے پاس اکستابی اور روحانی علوم انتہا درجے کو پہنچے ہوئے تھے۔  ان کے کشف و کرامات کی داستان "Myth”کا درجہ رکھتی ہیں۔  یہاں چونکہ یونانی اثر و رسوخ بہت رہا ہے۔  اسی لیے Mythیہاں عقیدے کا رُوپ اختیار کر گئی۔  شاہ بری امام نے آج سے کوئی اڑھائی سو سال پہلے پیش گوئی کی تھی کہ یہاں ایک شہر آباد ہو گا جو عالم اسلام کے لیے ایک مرکز فراہم کرے گا۔  بری امام کا اورنگ زیب کے ساتھ مکالمہ اور پیشن گوئی دونوں محفوظ ہیں۔

٭    عوام کی دینی و دنیاوی فلاح کے لیے ان کا طریقہ کار کیا تھا؟

٭٭   عوام کی دنیا داری کے لیے انہوں نے علم کے چراغ روشن کیے تھے۔  لوگوں کو جرم و سزا سے باز رکھا تھا لہٰذا موضع ’’چور پور‘‘ ان کی برکتوں کے باعث ’’نور پور‘‘ بن گیا۔

٭    کیا مابعد الطبعیاتی عناصر کا عمل دخل ہمارے گرد و پیش کی زندگی میں ہے۔  کیا انسان حیرت انگیز یا محیرالعقول واقعات کے رونما ہونے کا منتظر رہتا ہے۔

٭٭   انسان ہمیشہ سے کسی انوکھے، کسی انہونے واقع میں دلچسپی رکھتا ہے۔  مابعد الطبیعات ایک نفسیاتی عمل ہے لیکن اب Micro/Macroدونوں ایک ہو گئے ہیں۔  طبیعات اور مابعد الطبیعات ایک سکے کے دو رُخ ہیں۔  اس لیے انسان اچنبھے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔  سائنس اور نفسیات میں تبدیلی واقع ہو گئی ہے۔

٭    تحیر و تجسس کی ادب میں کیا اہمیت ہے؟

٭٭   ادب میں تجسس ایک قدر ہے۔ تحیر، فلسفے کا عنصر۔  دونوں الگ الگ ہیں لیکن کسی بڑے فن پارے کے لیے دونوں عناصر ایک وحدت تخلیق کرتے ہیں۔  ان کے بغیر فن پارے کی حیثیت ثانوی رہتی ہے۔

٭    کیا زندگی فینٹسی کے سہارے گزاری جا سکتی ہے؟ کیا حسن زندگی کی سب سے بڑی قدر ہے؟

٭٭   زندگی Fantasyکے سہارے نہیں گزاری جا سکتی۔  یہ Realityنہیں ہے۔  Realityکا ایک پرتو ہے۔  ہاں اس کے بغیر فن پارہ کی لذت میں کمی آ سکتی ہے۔  چاشنی، رس اور ایک پوٹھوہاری لفظ ’’چس‘‘ کی ترسیل کم رکھتی ہے۔  فینٹسی واہمہ و خیال نہیں لیکن واہمے کو مربوط کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے ’’چس‘‘ سب سے بڑی قدر ہے۔  اس کے بغیر Equilibriumقائم نہیں ہو سکتی۔

٭    آپ کی زندگی میں ’’ میں ‘‘ کا کیا کردار ہے۔  دوسری ذات کون ہے؟

٭٭   میری زندگی میں ’’میں ‘‘ میرے ضمیر، انا اور visionتینوں کا مرکب ہے۔  دوسری ذات بھی میں ہی ہوں۔  پہلی ذات ’’یہ‘‘ ہے۔  دوسری ذات ’’وہ‘‘ ہے۔  بعض لوگ ’’وہ‘‘ کو خدا مانتے ہیں۔  میں اپنی ذات کے وہ کو دوسری ذات مانتا ہوں۔

٭    اذیت پرستی کس طرح ذات کا حصہ بنی؟

٭٭   اذیت پرستی، ابدی لا حاصلی اور constant struggle مجھے عطا کی گئی ہیں۔  میں نے بہت کشٹ کاٹے، بے پناہ مصیبتیں جھیلیں۔ ۱۹۴۷ء میں مجھے جیل میں پاؤں باندھ کر مارا کرتے تھے۔  میرے دونوں پاؤں کے تلوے tissues‘ capillariesپھٹ گئے اب تک ایک ٹانگ پر دو زخم سجا کر زندہ ہوں۔  ٹیس، دُکھ، آنسو، پیپ ساتھ ساتھ ہیں اور رت جگے میری قسمت ہیں۔  اتنے عذاب سہہ کر زندگی بسر کرنا آسان نہیں۔  خدا نے مجھے compensateبھی کیا ہے۔  (خدا آخر خدا ہے ) مجھے سمندر جیسی گہرائی والے، آسمان جیسے بلند اور زمین جیسے مستحکم لوگ ملے۔  مرد بھی، عورتیں بھی۔  ان لوگوں نے بے پناہ محبتوں سے نوازا۔  مجھے زندہ رہنے کا حوصلہ دیا۔  اس لیے میں ہمہ وقت خدا کا ذکر کرتا رہتا ہوں۔  میرا رواں رواں خدا کے نام سے لرز اٹھتا ہے۔  میں دن رات خدا سے رحم کی بھیک مانگتا رہتا ہوں۔ میں نہیں کہہ سکتا مجھے دکھ اور روگ سے کب آزاد کرے گا؟

٭    رخسانہ نازی کہتی ہیں کہ ’’کنول جیسی آنکھیں، گلاب جیسے پاؤں ‘‘ افسانہ شاید ان کے لیے لکھا گیا ہے۔  پروفیسر خالدہ ملک کہتی ہیں کہ میں یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اس کتاب کے بیشتر افسانے میرے لیے لکھے گئے ہیں۔  کیا آپ کی خوش قسمتی نہیں کہ آپ کے گرد و پیش بسنے والے خود کو اس کردار میں دیکھ کر مسرت حاصل کرتے ہیں۔  بصورت دیگر مصنف کو ایسی تحریر پر ناپسندیدہ صورت حال سے بھی دوچار ہونا پڑسکتا تھا۔  کیا اس کی اشاعت ضروری تھی۔  کیا ان احساسات کو ذاتی ڈائری تک محدود نہیں رکھا جا سکتا تھا۔  انہیں منظر عام پر لانے کا مقصد ’’ہم رشتہ‘ ‘ کو اپنے جذبہ واحساس سے آگاہ کرنا تھا؟

٭٭   رخسانہ نازی اور خالدہ ملک کی دریا دلی ہے۔  ورنہ میں ایک فقیر اور بے ریا انسان ان کے معیار تک پہنچنے کے قابل نہیں۔  انہوں نے پتہ نہیں کس اضطراب کے تحت ایسی باتیں لکھ دی ہیں۔  میں بھی کچھ ایسی صورت حال سے دوچار ہوا تھا، لیکن میری بیوی کی سادہ مزاجی، اس کی وسیع النظری اور اعتماد نے میری لاج رکھ لی۔  وہ میری تحریروں کو پڑھ کر دلچسپی لیتی رہی۔  جب کسی نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا۔  مجھے اپنے خاوند پر مکمل بھروسا ہے۔  رہی پیغام کی بات تو میں نے شائع کرنا تھا۔  اسے میں چھپا کر نہیں رکھ سکتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میں راز کو راز نہیں رکھ سکا۔  ہم رشتہ ! تو آگاہ تھی۔  مگر میں نے انسانوں میں وارفتہ جذبے اور electra complexکا تجربہ کیا تھا، اس کا responseمجھے خوشگوار حیرتوں کے ساتھ ملا ہے۔  یہ اطمینان کہ اچھے resultsمجھے ملے۔  ایک افسانہ نگار کے لیے یہی بہت ہے کہ اس کے افسانے فنی ترازو پر کم اور نفسیاتی زاویے میں زیادہ تولے گئے۔

٭    ’’ابد آشنا‘‘ زمان و مکان کا بیان ہے۔  زمانہ شخصیتوں سے، ان کے روّیوں اور اقدار سے تشکیل پاتا ہے اور کائنات پر اپنا گہرا تاثر قائم کرتا ہے۔  اسی کے اثر سے کائنات ایک مجسم صورت میں سامنے آتی ہے۔  شہروں کا دل دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔ وادیاں گاتی گنگناتی سسکیاں بھرتی سنائی دیتی ہیں۔  آپ نے ’’ابد آشنا‘‘ میں کشمیر، مری، فلسطین، بابری مسجد، اسلام آباد، سکر دو، کراچی، کوفہ، مکہ معظمہ پر نظمیں کہیں۔  رجحان ساز شخصیتیں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔  علامہ اقبال، علامہ مشرقی، امام خمینی، انصار برنی، فیض، والد محترم جناب ملک امداد علی خان، حبیب جالب، سبط علی صبا، گبریلا بردم، نیلسن مینڈیلا تخلیقی و عملی سطح پر بے حد متحرک شخصیات ہیں۔  مشرق و مغرب کی تقسیم سے بالا تر ہو کر آپ نے ان شخصیات کی برات و حق گوئی و بے باکی اور عقل و شعور کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔  کیا آج آپ کو اپنے گرد و پیش ایسی شخصیات کے فقدان کا احساس ہوتا ہے یا آپ کا خیال ہے کہ قحط الرجال کا نوحہ یا شکوہ غلط ہے۔  صرف ان شخصیات کی دریافت میں برسوں کا عمل درکار ہے۔

٭٭   ’’ابد آشنا‘‘ کا تجزیہ آپ نے خوش نظری سے کیا ہے۔  ان شخصیات نے مجھے Haunt کیا ہے۔  میرے گرد و پیش جی۔ ایم سید، خان غفار خان، شہید سہروری، خان ولی خان، میر علی تالپور، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، عبدالرب نشتر، حکیم سعید، الحاج ایوب محسن، دادا امیر حیدر، پروفیسر جمیلہ شاہین، حمیدہ جھلا اور اعجاز حضروی تھے۔  میں نے انہیں نثر میں خراج پیش کیا ہے۔  (قائد اعظم سے میری دو مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں۔  لیاقت علی سے ایک مرتبہ۔  مگر مجھے یہ شخصیات Haunt نہیں کرتیں، پتہ نہیں کیوں )

٭    آپ مصنف، وکیل، سیاست دان، تاریخ دان، ماہر آثار، ماہر لسانیات، محقق، شاعر، نقاد، خاکہ نگار اور ڈاکٹر ہیں۔  آپ اپنا تعارف کسی حیثیت سے کروانا پسند کرتے ہیں۔

٭٭   میں مصنف، تاریخ دان، ادیب سبھی کچھ سہی۔  مگر میں صرف ایک غریب انسان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہوں۔  غالب کا انسان ابھی processمیں ہے، میں بھی processمیں رہنا چاہتا ہوں۔

٭    آپ نے شعر و ادب کی بیشتر اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔  پسندیدہ اصناف کون کون سی ہیں۔

٭٭   مجھے اصناف میں آزاد نظم پسند ہے۔  آزاد نظم اپنی تکنیک خود لاتی ہے۔  غزل جبرئیت کے شکنجے میں ابھی تک جکڑی ہوئی ہے۔

٭    وادی پوٹھوہار کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ آپ کی کتاب ’’وادی پوٹھوہار‘‘ میں مختلف محققین نے اس کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پیٹھ یا پیٹھ کی طرح یہ خطہ ابھرا ہوا ہے۔  اس لیے پوٹھوہار کہلایا۔  دوسری تحقیق کے مطابق پوٹ ہار یعنی پھولوں کا ہار، کہ اس وادی میں قدرتی طور پر بے شمار پھول کھلتے تھے۔  اس لیے پوٹھوہار کہنے لگے۔  ایک اور رائے کے مطابق دسویں صدی کا پوٹھی قبیلہ اس نام کا ماخذ ٹھہرا۔  آپ کے نزدیک کون سی رائے معتبر ہے۔

٭٭   وادی پوٹھوہار کی وجہ تسمیہ ’’پھولوں بھری چنگیر‘‘ کا جمالیاتی حوالہ رکھتی ہے۔  بقیہ وجوہات جغرافیائی جہت رکھتی ہیں لیکن یہ وجوہات بھی اپنی اپنی فکر کے مطابق ہیں، چنانچہ پوٹھوہار کو تاریخ اور جغرافیہ نے وجہ تسمیہ بخشی ہے۔  یہ کتنی خوبصورت وجہ تسمیہ ہے کہ پوٹھی قبیلے کا ذکر تو تاریخ میں ہے۔  ان کا سرزمینی کردار کوئی نہیں۔  لہٰذا صرف ملتے جلتے نام سے تاثر قائم نہیں کیا جا سکتا۔

٭    ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کی رائے مطابق اُردو زبان نے پوٹھوہار کے علاقے میں جنم لیا کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

٭٭   ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کی تحقیق درست ہے اس کی بنیادی وجہ پوٹھوہار کے علاقے میں "invision”ہونا، سب کے سب مغرب کی طرف سے آئے۔  لہٰذا مغرب کی تمام زبانوں کا پوٹھوہار میں آ کر ایک وجود حاصل کر لینا اس کی تاریخی سند ہے۔  خاص طور پر ترکی اور فارسی زبانوں نے اس علاقے میں ایک واضح کردار ادا کیا ہے۔

٭    ’’وادی پوٹھوہار ‘‘ جس پر آپ کو خوشحال خاں ادبی ایوارڈ بھی ملا۔  اس کی ترتیب و تدوین سے لے کر اشاعت تک آپ کن مراحل سے گزرے۔  یہ مراحل تقریباً بیس برس کے عرصے پر محیط ہیں۔

٭٭   کتاب کی ترتیب و تدوین میں میرے ساتھ مصلحت آمیزی کی گئی اور یہ کہہ کر تمام کتابت شدہ مواد واپس لے لیا گیا کہ اب یہ کتاب نہیں چھپے گی۔  میں نے یہ کتاب انتہائی مشکل سے شائع کی ہے۔  اس پر جو انعام ملا وہ میری بیوی نے کسی یتیم بچی کے جہیز بنانے میں خرچ کر دیا۔  مجھے کچھ نہیں ملا۔  البتہ لوگ دور دراز سے آتے ہیں۔  انہیں کتاب مفت پیش کر دیتا ہوں۔  کتاب دوستی میں دشمنی نہیں چلتی۔

٭    دنیا کی سب سے پرانی تہذیب کون سی ہے؟

٭٭   دنیا کی سب سے پرانی تہذیب وادی سندھ کی تہذیب ہے۔  پاکستان قدیم تہذیبوں کا گہوارہ ہے، مگر اس میں بسنے والے لوگ نوآبادیاتی ذہن نے انہیں اب تک اپنی تہذیب سے دور رکھا ہے۔  لہٰذا اہلِ پاکستان کوئی بھروسا یا اعتماد قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

٭    کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔  غالباً سرحد کے علاقے کے دو گاؤں ہفتے بھر تک زمین میں دھنستے رہے یہ عمل آہستہ آہستہ ہوا، اس لیے جانی نقصان تو نہ ہوا، لیکن یہ لوگ اپنے گھر اور جائدادیں بچا نہ سکے اور انہیں زمین میں دفن ہوتے دیکھتے رہے، اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

٭٭   برصغیر پاک و ہند کی زمینی پلیٹ مڈغاسکر تک چلی گئی ہے۔  اس کا رقبہ طویل لیکن عمل یکساں ہے اس عمل دخل میں زمین Grooves پیدا کرتی رہتی ہے اور کبھی کبھی یہ سرکتی ہے اور اپنے ساتھ کچھ اور چیزوں کو بھی سرکا دیتی ہے۔  میرا اپنا خیال ہے زمین کی یہ مجوزہ plateپانی میں اپنا مقام پیدا کرنا چاہتی ہے۔  لہٰذا اس کا رجحان جنوبی مشرقی ایشیا کی طرف ہے۔  اس کے علاوہ سارے دریا جنوب مشرق میں گر رہے ہیں۔  ساری مٹی اور زمین وہ لے کر چلے جاتے ہیں۔  آپ کی مٹی بتدریج کم ہو رہی ہے۔

٭    آب حیات کے چشمے کی کیا حقیقت ہے اگر یہ موجود ہے تو کس خطہ میں اس کی موجودگی کا قیاس کیا جا سکتا ہے؟

٭٭   آب حیات بھی آب Mythہے، ورنہ زمین پر اس کا وجود ہونا تو انسان اسے ڈھونڈ نکالتا؟

٭    شنید ہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقے میں کوئی ایسا قبیلہ دریافت ہوا ہے جو آج کی تہذیب سے قطعی طور پر ناواقف ہے۔ چھوٹے قد کے یہ لوگ صدیوں سے ایک دائرے میں زیست کر رہے ہیں۔  کیا آپ اس قبیلے سے آگاہ ہیں؟

٭٭   بلوچستان میں اب تک کوئی گمشدہ قبیلہ دریافت نہیں ہوا، البتہ دشوار گزار راستوں کی بنا پر بے شمار ایسے قبیلے کر تھر کے اونچے پہاڑی سلسلوں میں موجود ہیں۔  مجھے اخباری خبروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ کوئی پرانا قبیلہ بلوچستان میں موجود ہے۔ اس کے برعکس میں رعمیس فرعون کے عہد کے ان بیس لاکھ آریاؤں کی بازیافت میں مصروف ہوں۔  یہ آریائی فرعونوں نے نکالے تھے۔  یہ کہاں گئے۔  میری  مدتوں کی تحقیق نے دو ایک شواہد پیدا کیے ہیں کہ یہ آریائی وادیِ بولان کے راستے سندھ میں داخل ہوئے تھے۔  سندھ اور مصر کے cutsایک جیسے ہیں۔  وادیِ بلوچستان کے شمال میں ایک طویل صحرا اب بھی موجود ہے، جسے دشت کہتے ہیں۔  اس دشت میں دفن بہت سی قبریں ہیں۔  جن سے مصری زیورات برآمد ہوئے ہیں میری اس بات کی تصدیق پی ٹی وی کوئٹہ کے سینئر پروڈیوسر سردار احمد خاں نے کی ہے۔  لہٰذا آپ کا مذکورہ قبیلہ ابھی تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے۔

٭    خطۂ پوٹھوہار میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں بولی کو زبان کے مدارج طے کرنے میں کتنا عرصہ لگتا ہے؟

٭٭   خطۂ پوٹھوہار میں فارسی، پشتو، کشمیری، پنجابی، گوجری، ہندکو بولی جاتی ہیں۔  بولی کو زبان بننے میں قدیم زمانے میں دیر لگتی تھی کیونکہ ان کی لپی یا souptنہیں ہوتا تھا۔  اب پوٹھوہاری کی زبان بنانے میں اس کی گرامر یا لپی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ کام ازسرنو کیا جا رہا ہے لیکن کامیابی مشکل ہے کیونکہ انفرادی کام کوئی resultپیدا نہیں کر سکتا۔

٭    عربی، انگریزی، اُردو زبان سے قطع نظر آپ کو کئی علاقائی زبانوں میں مہارت ہے۔  آپ کون کون سی زبانیں بول سکتے ہیں؟

٭٭   مجھے پشتو مکمل سمجھ میں آ جاتی ہے اور فارسی بھی، فارسی بولنے میں تھوڑی سی دقت ہے۔ البتہ علاقائی زبانوں میں ہندکو، پوٹھوہاری، پہاڑی، کچھ کچھ گجراتی، سندھی، بروہی کچھ کچھ بلوچی میری سمجھ میں آ جاتی ہے۔  سرائیکی پنجابی زبان کا لہجہ ہے۔ لہٰذا اسے آسانی سے گرفت میں کیا جا سکتا ہے۔

٭    علامہ اقبال سے اختلاف کی وجوہ

ان کا سر کا خطاب قبول کرنا۔

ان کے پوتے منیب اقبال کا یہ بیان، میرے دادا کو ساقی ذوق صدائے جنگ درباب مرغوب تھے۔ اس روشنی میں آپ کی یہ رائے کہ علامہ اقبال فلسفی و شاعر تو ہو سکتا ہے، امت مسلمہ کا قائد پاسبان عقل و آشتی ہرگز نہیں۔  پھر یہ کہ آپ کے الفاظ کہ مجھے تو اقبال بحیثیت فلسفی انسان اور شاعر زیادہ پسند ہے۔  میں انہیں ولی، درویش اور قلندر نہیں سمجھتا۔  حالانکہ اکثر مقامات پر بحیثیت انسان اور شاعر بھی، وہ آپ کی پسندیدہ شخصیت معلوم نہیں ہوتے۔  پھر آپ نے انہیں ماضی کا مرثیہ بھی بار بار کہا ہے۔  کیا ماضی کے حوالے کے بغیر ہم مستقبل میں اپنی جگہ بناسکیں گے۔

٭٭   علامہ اقبال میرے نزدیک ایک فلسفی اور شاعر ہیں میں انہیں رحمت اللہ علیہ نہیں سمجھتا اور جس طرح انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب دیا اس کے پیچھے قادیان اور ان کی سامراج دوستی کا بڑا ہاتھ ہے۔  اقبال سامراج کے ساتھ گہرا رشتہ رکھتے تھے۔  مجھے ان کی سامراج دوستی کھلتی ہے۔  البتہ جمالیات کے حوالے سے میں ان کی شاعری اور فلسفے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔  اسباب زوال امت میں نہیں۔  اس ضمن میں آپ کا یہ کہنا کہ اقبال میرے لیے پسندیدہ شخصیت نہیں رہے۔ بالکل درست ہے۔  میں نے چونکہ بہت زیادہ تحقیق کی ہے اس لیے مجھے وہ ’’سامراج دوست‘‘ ہی نظر آئے۔  ان کا احباب میں سر کے خطاب یافتہ اور سرکاری درباری لوگ تھے۔  یہ سرکاری سرسید کے پروردہ اور قادیان کے درباری تھے۔  اس لیے وہ بیج جو محمد علی جوہر، عطا اللہ شاہ غازی، مولانا آزاد، علامہ مشرقی اور عبید اللہ سندھی کے پاس ہے، علامہ اقبال کے پاس نہیں ہے۔  ان کی مرثیہ نگاری ہمارے اس لیے کام نہ آ سکی کہ وہ خود کو compensateکر رہے تھے۔  اس امر کی تحقیق نے بھی بہت سے انکشافات کیے ہیں کیونکہ مولانا جعفر، مولانا فضل حق خیر آبادی، امت کو مرحوم نہیں سمجھتے تھے۔  اس لیے رہبروں کا visionصاف کھرا اور عزائم سے بھرا ہوا تھا جبکہ علامہ اقبال کا visionآنسوؤں، آہوں اور کراہوں سے مرتب ہوتا تھا۔  اس سوال کی آخری سطرکے حوالے سے میں یہ عرض کرنا مناسب سمجھوں گا کہ چودہ سو سال سے ہم سب امام باڑے سجاتے ہیں جلوس نکالتے ہیں ماتم کرتے ہیں مگر حسین پیدا نہیں کر سکے۔  میں ماتم کرتے کرتے اگر یہ اعلان کر دوں کہ میں حسینؓ ہوں۔  یہ ماتمی لوگ مجھے مار دیں گے۔

٭    ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں آپ کہتے ہیں، اس آواز میں صدیوں کی گونج اور مستقبل کے گیت سنائی دے رہے ہیں۔  لہٰذا موجودہ ادبی عہد انہی سے منسوب ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ موجودہ ادبی صدی ڈاکٹر وزیر آغا کی صدی ہے۔ ‘‘ کیا ایسی کوئی رائے دیتے ہوئے احتیاط سے کام نہیں لینا چاہیے؟

٭٭ وزیر آغا کے بارے میں واقعی مجھے احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا، آپ کا مشورہ قبول کرتا ہوں، مگر مجھے اور ان جیسا دکھائی نہیں دے رہا، کیونکہ ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک تحریک پیدا کی ہے۔  ایسی تحریک کی موجودگی میں کچھ نہ کچھ دکھائی دے جاتا ہے۔

٭ آپ لکھتے ہیں ’’ وزیر آغا کے خون میں ایرانی کلچر بدرجۂ اتم موجود ہے چنانچہ انھوں نے پاکستان میں اپنے آباء و اجداد کی تہذیبی وراثت کو قائم رکھتے ہوئے ادب میں شرافت اور زندگی میں تہذیب کو قائم کیا ہے۔ ‘‘

ادب میں شرافت اور زندگی میں تہذیب کیا صرف ایرانی کلچر کا حصہ ہے۔  مجھے تو وہ ہندی فضا، تہذیب اور زبان سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔  ان کے اشعار میں ہندی ماحول، الفاظ تشبیہات، محاورات اور تلمیحات واضح طور پر موجود ہیں، آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

٭٭ میں آپ کی بات کو درست مانتا ہوں کہ اس کلچر کی تعمیر میں ایرانی اور ہندی کلچر نے اہم کردار ادا کیا ہے، ڈاکٹر وزیر آغا کے پاس ایرانی کلچر مادری اور پدری ہے، جبکہ ہندی کلچر اکتسابی ہے، مگر فرق صرف یہ ہے کہ ایرانی کلچر وزیر آغا کے فطری اور نسلی خصائص کا مرتب کنندہ ہے اور ہندی کلچر ان کے ذہن اور فکر رسا کو متاثر کرتا ہے۔

٭ کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد، ملک میں طبقاتی تقسیم کو بڑھانے میں سو فیصد کردار کر رہا ہے۔  پاکستان کا دار الحکومت اگر کراچی رہتا تو کیا آج ملک کی صورت حال مختلف ہوتی؟

٭٭ آپ نے اسلام آباد کا جو حوالہ دیا ہے وہ ہر اچھے انسان کو ستاتا ہے۔  میرے نقطۂ نظر کے مطابق اگر کراچی دار السلطنت رہتا تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا اور اسلام آباد ’’ نو آبادیاتی‘‘ سیٹ اپ میں تعلیم، سیاست یا صنعتی ترقی کے لیے قائم نہیں ہوا۔  اس کے عقب میں کچھ اور مقاصد تھے، وہی پورے ہو رہے ہیں۔  یہ مقاصد پاکستانیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔  میں یہاں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔

اسلام آباد کی زندگی سے وابستگی کتنی ہے؟ اس شہر کے اہم تصورات کیا ہیں؟ اس کا کلچر سے کیا تعلق ہے؟ کیا اس کی نوعیت، جغرافیہ، تاریخ اور رسوم و رواج کے خصائص ہیں؟ کیا اس شہر کے بسنے والے عمل کی گرمی اور عزم کی محکمی رکھتے ہیں کیا اس شہر کے باسی الجھنوں سے مبرا ہیں، کیونکہ اس کے بانی نے کہا تھا کہ ہم ایک نئی تاریخ بنا رہے ہیں۔  کیا سرکار دربار اور غیر ملکی سرمائے سے تاریخ بنائی جا سکتی ہے۔  کیا اسلام آباد میں اسلام موجود ہے، اگر ہے تو وہ پاک اور منزہ ہے اور اگر نہیں تو اس کو اسلام کے ساتھ کیوں منسلک کیا گیا؟

٭ کیا اسلام آباد کا ادیب خود کو دوسرے شہر کے ادیبوں سے مختلف یا خوش قسمت جانتا ہے؟

٭٭ اسلام آباد کے ادیب میں ایک تفاخر پایا جاتا ہے اور گردن میں سریا۔  وہ خود کو دوسرے شہروں کے ادیبوں سے الگ تصور کرتا ہے اس کا یہ تصور اس کی ادبی زندگی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔  اس لیے یہاں ادب انقلابی نہیں اکتسابی ہے۔  یہاں ادیب کم اور منشی زیادہ ہیں۔  لہٰذا ان کی خوش بختی بھی سرکاری درباری ہے۔  فطری یا تخلیقی نہیں۔

٭قومی زبان کسی بھی ملک کی شناخت ہوتی ہے اس کے ساتھ ہمارا روّیہ اہانت آمیز نہیں۔

٭٭   قومی زبان کسی ملک کی عزت ہوتی ہے۔  آپ نے شناخت کہا ہے اس میں عزت بھی شامل کر لیجیے پھر دیکھیے کہ ہماری بے غیرتی کہاں تک پہنچی ہوئی ہے۔  قومی غیرت، قومی زبان سے وجود پاتی ہے۔  ہماری عزت ہے نہ غیرت۔  اسی لیے آپ نے اہانت کا لفظ استعمال کیا ہے۔

٭    کل کا تخلیق کار عمومی طور پر مفلوک الحال تھا۔  آج کیا صورت حال ہے؟

٭٭   ہمارا سچا تخلیق کار اقدار کی حفاظت کرتا تھا۔  آج کل اقدار کا تحفظ بیرونی ایجنسیوں کے پاس ہے۔  ادیب ویسا مفلوک الحال نہیں رہا، مگر ادب مفلوک الحال ہو گیا ہے اور ادیب کی توجہ کا مستحق ہے۔

٭    تخلیق کار اور اہل سیاست کا ٹکراؤ نظریات کے اختلاف کے باعث ہوتا ہے۔  آپ کے ساتھ کیا صورت حال رہی؟

٭٭   میں نے سیاسی اختلافات کو تسلیم کیا ہے لیکن سیاست دان کے کردار کو معاف نہیں کیا۔  سیاسی اختلافات برحق مگر سیاست دان کا رہن شدہ کردار لائق مذمت ہے۔  میں نے بھی مذمتی لہجہ اختیار کیے رکھا ہے اور ثابت قدمی سے اسی پر قائم ہوں۔

٭    آپ کی صاف گوئی اور دو ٹوک بات کہہ دینے کی عادت نے آپ کو کہاں کہاں نقصان پہنچایا۔

٭٭   صاف گوئی نے مجھے بہت نقصان پہنچائے ہیں۔  زندگی، ادب، دفتر، صحافت اور تصوف میں اس لیے میں نے کوئی ترقی نہیں کی۔  جس جگہ تھا وہیں پر رہا۔  افسوس اس لیے نہیں کہ میں ترقی نہیں کر سکا، افسوس اس پر ہے کہ کوئی میرا ساتھ نہیں دے سکا۔  چنانچہ معاشرہ کمزور ہے، انسان ڈرا ہوا ہے، اپنا ماتم کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے

٭    میرا خیال ہے کہ اشفاق احمد کے بعد آپ دوسرے یا شاید آپ پہلے اور اشفاق احمد دوسرے شخص ہیں کہ جن کی باتوں کے درمیان سوالات نہ بھی کیے جائیں، تب بھی ان کی گفتگو میں روانی، لہجے میں حسن و شائستگی اور بات میں وزن برقرار رہتا ہے اور وہ نہایت خوبصورتی سے اپنا مافی الضمیر واضح کرتے چلے جاتے ہیں۔

٭٭   آپ کا آخری سوال اشفاق احمد صاحب کا حوالہ رکھتا ہے۔  میرا ذاتی خیال ہے کہ اشفاق احمد اعلیٰ تعلیم یافتہ، بلند پایہ ادیب، زیرک افسانہ نگار، صاحب نظر سفر نامہ نگار۔  ڈرامے میں انہوں نے اپنا عہد خود پیدا کیا ہے۔  ان کے ڈرامے تصوف میں غایت الغایات کو تلاش کرتے ہیں اور یہ ان کی اپروچ کی بہت بڑی جہت ہے۔  میرے جیسا ٹھگنا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ میں نے انہیں دو موقعوں پر دیکھا۔ ایک قدرت اللہ شہاب اور دوسرے ممتاز مفتی کے انتقال پر۔  قدرت اللہ شہاب کو دفنانے کے بعد، شہاب مرحوم کے گھر پر محفل جمی ہوئی تھی۔  پیالی کی چسکیاں تھیں اور اشفاق احمد کی بے غم گفتگو۔  میں ایک طرف شہاب کے اندوہ میں گرفتار، یہ منظر دیکھ کر سوچتا رہا کہ یہ لوگ گفتگو کے دھنی ہیں، اندوہ کے نہیں۔  اسی طرح اسلام آباد کے درباری قبرستان میں ممتاز مفتی کے مزار پر میں نے اشفاق احمد سے ہاتھ ملایا۔  اس کا ہاتھ ٹھنڈا تھا کسی کے غم سے بے نیاز۔  میرا یہ حال تھا کہ میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔  میں ہاتھ ملا کر لمس کے ذریعے انسانی سائیکی کا اندازہ لگایا کرتا ہوں۔  مجھے اشفاق احمد سے ہاتھ ملا کر افسوس ہوا کہ وہاں برف جمی ہوئی تھی۔  دل کی تاثیر بھی گلیشئر کی ماری ہوئی۔  میں نے اشفاق کے چہرے کو دیکھا، وہاں غم کی کوئی لکیر، کوئی دھبہ کوئی سایا نہ تھا۔ صحت اس کی اچھی، جسم موٹا، میں سمجھ گیا یہ لوگ نام نہاد طلسمات کے ذریعے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔  غم کھا کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا ہنر نہیں جانتے۔  لہٰذا ان کا اخلاص اور ان کی محبت…

٭٭٭

 

نا مکمل

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

مکمل کتاب، تینوں حصے

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل