FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سلسلۂ روز و شب

ڈاکٹر سلیم خان

حصہ اول

حصہ دوم

حصہ سوم

 

انتساب

میرے محسن و کرم فرما

عالم نقوی صاحب

کے نام

عصرِ حاضر میں ان کو دیکھنے پر قرآن مجید کی یہ آیت یاد آتی ہے :

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَن یَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِینِهِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّـهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ

 أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِینَ یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّـهِ وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ

ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ یُؤْتِیهِ مَن یَشَاء ُ ۚ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ﴿٥٤﴾

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے ) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہو گا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ (المائدہ ۵۴)

 

خراج عقیدت: مولانا محمود عالم

روتا چھوڑ کے ہنستا کھیلتا جانے والا ایک مسافر

 مولانا محمود عالم جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے۔ شہر ریاض سے کئی دوستوں نے یکے بعد دیگرے ۲۴مارچ  ۲۰۰۷ء کو فون پر موصوف کی موت کی اطلاع دی۔ ایک نے پوچھا ’سلیم! تم ریاض کب آؤ گے ؟‘ میں نے کہا ’اب میں ریاض نہیں آؤں گا۔ ‘ اب کیوں آیا جائے۔ جس سے ملنے کا اشتیاق ریاض لاتا تھا وہ وہاں سے کوچ کر گیا اور اُس مقام محمود پر فائز ہو گیا جو خالقِ کائنات نے اپنے خاص بندوں کے لئے مختص کر کے رکھا ہوا ہے۔ مولانا محمود عالم سے پہلے بھی میرے کچھ دوستوں کو وادیٔ اجل سے بلاوہ آیا لیکن اُس وقت اکثر لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ بے وقت کی موت ہے۔ حالانکہ ایسا کہنا احکم الحاکمین کے فیصلے میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اِس بار ایسا کم لوگوں نے کہا۔ گویا مولانا جاتے جاتے یہ احساس دلا گئے کہ میاں اب اس دارِ فانی میں بچھڑنے اور بسنے کی مدت ختم ہوا چاہتی ہے۔ اب چل چلاؤ کا وقت ہے۔ تیاری کرو، دفتر باندھو اور انتظار شروع کرو۔ اپنے محبوبِ حقیقی سے ملاقات کا انتظار۔ رفیقِ اعلی کی رفاقت کیسی ہوتی ہے ؟ انتظارِ وصل کسے کہتے ہیں ؟ اس کا درس مولانا محمود عالم جاتے جاتے دے گئے۔ وطن واپسی کا اشتیاق کیسا ہوتا ہے یہ ہم جیسے پردیسیوں سے زیادہ کون جانتا ہے۔ جب دیس بلاتا ہے تو انسان پر لگا کر ہوا کے دوش پر سوار ہو جاتا ہے۔ پردیس کی ہر شئے اجنبی ہو جاتی ہے۔ بلکہ وہ خود ان سب سے بیگانہ ہو جاتا ہے اور دیوانہ وار نکل پڑتا ہے۔ مولانا محمود عالم صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو شعوری طور پر واپسی کا ٹکٹ ہمیشہ ہی اپنی جیب میں رکھتے تھے۔ دمِ واپسی سے ایک دن قبل انہوں نے میرے اور اپنے ایک مشترکہ دوست نذیر رومانے کو بتلا دیا تھا کہ ’میں نے بورڈنگ کارڈ لے لیا ہے، کلمہ پڑھ لیا ہے۔ بچے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ اب کسی معالج کی حاجت نہیں کہ موت کسی بیماری کا نام ہے۔ کسی دوست کو نہ بتاؤ کہ مجھے اُس دوست نے بلایا ہے جس نے بھیجا تھا اور جس کی دید کو آنکھیں تڑپتی ہیں۔ یہ کائنات اللہ رب العزّت نے فرشتوں اور جنوں کے لئے بنائی اور اس کے نظام اور انصرام پر انہیں مامور فرمایا۔ لیکن جنت انسانوں کے لئے اور انسان کو جنت میں رہنے و بسنے کے لئے، اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے، اس دنیا میں بھیجنے سے قبل وہاں رکھا۔ جس طرح دنیا صدیوں کی رہائش بے وطن کو مواطن نہیں بناتی اسی طرح لمحوں کی دنیاوی زندگی، سانسوں کا یہ بندھن، دل کی یہ دھڑکن کسی کو ثبات نہیں اور اس بے ثباتی کا خاتمہ دراصل اختتام نہیں بلکہ افتتاحِ دل پذیر ہے۔ ‘بقول اقبالؔ؎

کشادِ  درِ    دل    سمجھتے    ہیں    اس    کو

ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں

مولانا محمود عالم ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر اس شعر میں ہے۔ اِن پر اسرار بندوں میں سے جنہیں معرفتِ حق کا شرف حاصل ہوتا ہے، جو جان لیتے ہیں کہ زندگی ایک تسلسل کا نام ہے، موت محض ایک پردہ ہے، اس دنیا میں زندگی سے تو ہر کس و ناکس آنکھیں چار کرتا ہے لیکن دور رس نگاہیں پسِ چلمن مناظر دیکھتی ہیں۔ موت سے آنکھیں ملا کر آگے نکل جاتی ہیں اور مالک  کے پوشیدہ منصوبے سے واقفیت حاصل کر لیتی ہیں گویا حق آشنا ہو جاتی ہیں۔ یہی معرفت انہیں دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ بقول اقبالؔ؎

دو عالم سے کرتی ہے بے گانا دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

دلِ آشنا کو دستِ حق پرست سے وہ استغناء عطا ہوتا ہے جو اس جہان فانی کو متاعِ غرور بنادیتا ہے۔ اس بے وقعت شئے کے چھوٹ جانے کا اسے قطعی ملال نہیں ہوتا اس لئے اس کی نظر پیچھے رہ جانے والے راستے پر نہیں بلکہ آگے آنے والی منزل پر ہوتی ہے۔ اس کی قوتِ سماعت ان استقبالیہ کلمات سے لطف اندوز ہونے لگتی ہے جس کے بارے میں فرمایا ’’اے نفسِ مطمئنہ! چل اپنے رب کی جانب، اس حال میں تُو اس سے راضی اور وہ تجھ سے رضامند۔ شامل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا جنت میں۔ ‘‘ اپنی تخلیق کے لحاظ سے تو ہر کوئی ایک ہی ذاتِ بے ہمتا کا بندہ اور غلام ہے لیکن ہر کسی کو اس کا بندہ کہلانے کا شرفِ عظیم حاصل نہیں ہوتا۔ جو نفس کا بندہ بن جائے، مال و زر کی بندگی کرنے لگے یا بندوں کی بندگی اختیار کر لے اسے اسفل السافلین کے درجے میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن وہ سعید روحیں جو رب سے ملاقات کا یقین رکھتی ہیں، شرفِ ملاقات کی کی متمنّی ہوتی ہیں، پل پل اس کا انتظار کرتی ہیں، ان کی بات کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ مولانا محمود عالم صاحب انتظار کی ان حسین گھڑیوں کو معالجین کے کڑوے کسیلے نسخوں اور دوست و احباب کے اندیشوں اور مشوروں کی نذر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان بے فائدہ چیزوں کے احتیاج سے وہ بے نیاز ہو چکے تھے۔ اسی لئے انہوں نے نذیر صاحب کو منع کر دیا کہ وہ اس بات کا ذکر کسی سے نہ کریں۔ انہوں نے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ انہیں لذتِ نظارہ سے محروم کرے۔

یوسف رحیم نے فون کیا اور بس روتے رہے دیر تک، پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر آنسوؤں کی طرح گرتے اور ہوا میں تحلیل ہو جاتے۔ میں نے فون بند کر دیا اور اداسی میں ڈوب گیا۔ سارا عالم سوگوار تھا لیکن محمود عالم نہیں۔ وہ سوگوار نہ تھے۔ ہم اس لئے رو رہے تھے کہ ہم نے انہیں کھو دیا تھا اور سارے ہاتھ خالی تھے۔ انسان اگر کسی چیز کو کھو دے تو وہ غمگین ہو جاتا ہے یہ فطری عمل ہے۔ لیکن محمود عالم نے جو کھویا تھا اس سے بڑھ کر بدلہ پا لیا تھا۔ ’داخل ہو جا میری جنت میں۔ ‘ جن کانوں سے یہ اعلان ٹکرائے اسے رشتہ و پیوند کے بکھرنے کا غم کیونکر ہو۔ بقول اقبالؔ؎

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند

بتانِ    وہم   و    گماں    لا    الہ    الا   اللہ

محمود عالم صاحب وہم و گمان سے نکل کر خراماں خراماں، ایمان و یقین کی منزل میں داخل ہو گئے۔ وادی ٔ اجل کے اس مسافر نے ابدی لباس زیب تن کیا اور کاغذی پیرہن کو نکال پھینکا۔ اس نقش فریادی کوہم نے مٹی تلے دفن کر دیا کہ اس کا یہ حق تھا۔ مٹی کو مٹی میں ملنا تھا، سو جاملی اور وہ روح جو رب نے پھونکی تھی وہ اس کے پاس پہنچ گئی۔ ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ہمارے ہاتھ مٹی بھی نہ آئی۔ آنسوؤں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اسے بھی وقت کی تپش نے ختم کر دیا۔

قرآن مجید میں حیات و ممات کی تخلیق کا ذکر کیا گیا تو ترتیب میں پہلے موت اور پھر حیات کو رکھا گیا اس لئے کہ حیات جاودانی موت کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔ وہ زندگی ہی کیا جس پر موت غالب ہو جائے۔ اس دنیا کی فانی زندگی تو ابدی حیات کا معمولی سا مظہر ہے جس میں انسان کو خوشی و غم کا مزہ چکھایا جاتا ہے۔ بتلایا جاتا کہ یہ دیکھو جب دوزخ میں ٹیس اٹھے گی تو کیسا لگے گا۔ جب جنت میں عیش ملے گا تو کیا محسوس ہو گا۔ اس مدت قلیل کو حکماء اذان و نمازکے درمیان کے وقفے سے تعبیر کرتے ہیں کہ اذان بھی دوسرے دیتے ہیں اور نماز بھی دوسرے ہی پڑھتے ہیں۔ درمیان کی مہلتِ عمل نہ جانے کب شروع ہوتی ہے اور کیسے ختم ہو جاتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ اس دنیا میں جینا اور اس دنیا سے جانا ان دونوں میں صرف’ الف ‘اور ’ی ‘کا فرق ہے۔ دنیوی زندگی کی ابتداء اور انتہا ہے لیکن اس کے بعد آنے والی زندگی بے انتہا ہے۔ وہاں موت نہیں، موت کو موت ہے۔ زندگی موت پر غالب ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اس مختصر سے مہلتِ عمل کو ابدی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ میرا دل کہتا ہے مولانا محمود عالم ان لوگوں میں سے ایک تھے۔ دنیا کا معاملہ تو یوں ہے کہ جیسے ایک ماں اپنے بچے کو بہلانے اور ٹہلانے کی خاطر باغ میں اٹھا کر لائے اور وہاں پہنچتے ہی بچہ اپنی ماں کی گود سے نکل کر اِدھر اُدھربھاگنے دوڑنے، دوسرے بچوں سے ملنے جلنے لگے، ان کے ساتھ کھیلنے کودنے لگے اور ہارنے جیتنے لگے، ہنسنے رونے لگے۔ ایسا کرتے ہوئے اکثر بچے اپنی ماں کی ہدایات تو بھول جاتے ہیں اور کئی اسے بھی یاد رکھتے ہیں، ان کا پاس لحاظ بھی کرتے ہیں لیکن کھیل کا وقفہ لامتناہی نہیں ہوتا۔ سورج ڈھلنے لگتا ہے، شام کے سائے طویل سے طویل تر ہو جاتے ہیں۔ اب ہر بچے کواپنی ماں کا خیال آتا ہے۔ باغ کے ساتھی، کھیل کود سب کچھ بیکار لگنے لگتا ہے۔ ایسے میں نافرمان بچہ نظریں جھکائے احساسِ ندامت لئے بوجھل قدموں کے ساتھ اپنی ماں کی جانب بڑھنے لگتا ہے کہ وہ مجبور ہے۔ لیکن فرمانبردار اور اطاعت گذار شوقِ ملاقات میں دوڑتا ہوا آتا ہے اور اپنی ماں سے چمٹ جاتا ہے۔ ماں اسے سینے سے لگا لیتی ہے، تھکا ماندہ ہے، اپنے زانوں پر سلادیتی ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔

حدیث میں نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ میر تقی میر کہتے ہیں ؎

سرہانے  میرؔ  کے   آہستہ    بولو

ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

جس طرح اس دنیا میں ہنسنا رونا ہر بشر کا مقدر ہے اسی طرح جاگنا سونا بھی مقدر ہے۔ مولانا محمود عالم صاحب اپنے وقت پر سوگئے اور ہم میں سے ہر شخص، چاہے یا نہ چاہے، اپنی گھڑی کا منتظر ہے۔ ہماری آنکھوں کے بند ہونے کے اوقات مختلف ضرور ہیں لیکن روزِ  محشربیدار ہونے کا وقت یکساں ہے۔ صورِ اسرافیل سب کے لئے ایک ہی وقت پھونکا جائے گا اور ہم سب اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس روز تم نے جس سے محبت کی ہو گی، تم اس کے ساتھ ہو گے۔ حضور پاک ﷺ کی اس بشارت میں ہم جیسے گناہگار بندوں کے لئے خاص بڑی خوش خبری ہے۔ اللہ رب العزّت ہمارے دلوں کو اپنے رسول ؐ کی اور اپنے خاص بندوں کی محبت سے بھردے اور ہم سب کو حوضِ  کوثر پر ایک دوسرے سے ملائے کہ ہم ایسی محبتوں سے سیراب ہوں جو کبھی ختم نہ ہوں۔ ہمیں اس طرح ملائے کہ پھر جدائی حائل نہ ہو۔ اس وقت تک اللہ رب العزّت مولانا محمود عالم کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

٭٭٭

 

سلسلۂ روز و شب نقش گرِ کائنات

لیل و نہار کا سلسلہ گردشِ  شمس و قمر کی مرہونِ منت ہے۔ سورج اور چاند کا نہ محور بدلتا ہے اور نہ رفتار ہی بدلتی ہے اس کے باوجود ان کی گردش سے عالمِ وجود میں آنے والا ہر دن اپنے گذشتہ اور پیوستہ سے کمیت اور کیفیت دونوں میں مختلف ہوتا ہے۔ ہر نیا روز اپنا جداگانہ وجود رکھتا ہے۔ اس کا دورانیہ اور موسم دونوں منفرد و مختلف ہوتے ہیں۔ مزید طرہّ یہ کہ چاند سورج اور زمین کی گردش سارے عالم پر یکساں اثرات مرتب نہیں کرتی۔ کسی کے لئے سورج طلوع ہو رہا ہوتا ہے تو کسی کا سورج روبہ زوال ہوتا ہے۔ اگر کہیں اندھیرا پھیل رہا ہوتا ہے تو کہیں پر روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی ہوتی ہیں۔ کسی علاقے میں گرمی کی تمازت لوگوں کو جھلسا رہی ہوتی ہے تو کہیں برف باری عذابِ جان بن جاتی ہے اور تو اور کسی کے لئے موسمِ گر ما نعمت بن کر آتا ہے تو کسی کے لئے زحمت۔ کوئی موسمِ سرما کے آنے کا انتظار کرتا ہے تو کوئی اس کے جانے کا، حالانکہ موسم کی یہ تبدیلی بھی اسی سورج اور زمین کی گردش کے سبب سے ہے جو سب کے لئے مشترک ہے۔ کائنات کے اس الٹ پھیر میں عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں ارشادِ ربانی ہے ؎

بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران ۱۹۰)

اللہ بزرگ و برتر نے کائناتِ ہستی میں حضرتِ انسان کی تخلیق احسن تقویم پر کی اوردیگر مخلوقات کواس کے آگے مسخّر کر دیا۔ گویا نباتات و جمادات سے لیکر چرند و پرند بلکہ ستارے اورسیارے، سورج و چاند سبھی کو انسانوں کی خدمت پر معمور فرما دیا اور انسانوں کو ایک قلیل متاع حیات دے کر اس دنیا میں مختصر سی مدت کے لئے بھیج دیا نیزاس کے لئے مختلف حالات مقدر کر دئیے۔ روز و شب کا نہایت انوکھا نظام تشکیل فرما کراس کے بطن سے نت نئے حادثات رونما کرنے کا انتظام کیا جن سے انسان آئے دن دوچار ہوتا رہتا ہے۔ بقول اقبال ؒ ؎

سلسلۂ  روز  و  شب ،  نقش   گرِ  حادثات

سلسلۂ روز و شب، اصلِ  حیات و ممات

انسانی زندگی کے اس سہانے سفر کو دلچسپ بنانے کی خاطر خالق کون و مکاں نے پیش آنے والے سارے مراحل کو طے فرما کر ان پر غیب کا پر جائے گا دہ ڈال دیا اور خود بھی عالمِ غیب چھپ گیا اور اپنی نشانیاں جا بجا بکھیر دیں جن کی مدد سے انسان از خود اپنے مالک و آقا کی معرفت حاصل کرسکتا تھا لیکن اس مہم میں آسانی کے لئے رحمٰن و رحیم نے انسانی نفس کو ہموار فرمایا اس کا تقویٰ اور فجور اس کے اندر الہام فرما دیا۔ اس کو علم و عرفان کی نعمت سے سرفرازکیا اور اپنے بر گزیدہ پیغمبروں کا سلسلہ جاری فرما کر اپنے احسانات کا اتمام فرما دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا کھیل کیوں رچایا گیا؟اقبال اس کی دو وجوہات بیان فرماتے ہیں ؎

سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ

جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں

جس سے دکھاتی  ہے ذات  زیر و بم   ممکنات

اولاً دن اور رات کے ان سیاہ و سفید دھاگوں سے انسان اپنی صفات کا لباس بنتا ہے۔ اُسے آزادی ہے جیسا چاہے لباس زیب تن کر لے جو صفات چاہے اختیار کر لے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس روز و شب کی کشمکش انسانوں کو اس کے اندر پوشیدہ قوت عمل سے بھی آگاہ کرتی ہے جن کی مدد سے انسان نا ممکن کو ممکن کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور ثقافتی و سائنسی ارتقاء پر واں دواں ہے۔ اس مرحلہ میں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ارتقاء کی غرض و غایت کیا ہے ؟

تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ

سلسلۂ  روز     و     شب     ،     صیرفی     کائنات

تو ہو اگر کم عیار، میں   ہوں  اگر   کم     عیار

موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات

اللہ رب العزت کا فرمان ہے ’ہم نے موت و حیات کو اس لئے تخلیق کیا تاکہ یہ دیکھیں تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے ـ ‘آزمائش کی خاطر یہ سب کیا گیا۔ انسانوں کو پرکھا جا رہا تاکہ خود اسے اس بات کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جا سکے کہ وہ اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنانا چاہتا ہے یا جہنم رسید کرنا چاہتا ہے۔ ہادیٔ برحق رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے، ہر روزسارے نفوس اپنے آپ کو اللہ کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں اور پھر اس سودے کے عوض کوئی اپنے آپ کو جہنم کی آ گ سے بچا لیتا ہے تو کوئی اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا دیتا ہے۔ گویا انسان اپنے نفس کو بیچ کر جو مہلتِ عمل حاصل کرتا وہی اس کی متاع حیات ہے۔ اس بیش بہا خزانے کی اگر وہ ناقدری کرتا ہے اور اسے ضائع کر دیتا ہے تو گویا اپنے آپ کو مٹا دیتا ہے اور اگر اس کا بیجا استعمال کرتا ہے تب تو گویا وہ اپنے آپ کو غضب کا مستحق بنا لیتا ہے۔ انسانی زندگی کو دینار و درہم میں نہیں ناپا جاتا اس کا سکہ رائج الوقت کچھ اور نہیں وقت ہے اسی اکائی میں اس کا حساب رکھا جاتا ہے اور اسی کسوٹی پر اسے پرکھا جاتا ہے کہ اس نے اپنے وقت کا استعمال کیسے کیا۔ اس صیرفیِ کائنات پر اس کے فلاح و خسران کا دارومدار ہے۔

اور وہی خدا ہے جو تمہیں رات میں گویا کہ ایک طرح کی موت دے دیتا ہے اور دن میں تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور پھر دن میں تمہیں اُٹھا دیتا ہے تاکہ مقررہ مدت حیات پوری کی جا سکے -اس کے بعد تم سب کی حاضری اسی کی بارگاہ میں ہے اور پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا۔ (انعام ۶۰)

انسانی زندگی کو عام طور پر ماضی، حال اور مستقبل کے خانوں میں تقسیم کر کے دیکھا جاتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ان تینوں کی سرحدیں ایک دوسرے کے اندر اس طرح پیوست ہیں کہ ان کو جدا کرنا ایک امرِ محال ہے۔ انسان دو پہیوں کی سواری ہے اس کا اٹھنے والا قدم جب زندگی کے ایک پرانے لمحے کو ماضی کے نہاں خانے میں پھینک رہا ہوتا ہے اسی وقت دوسرا قدم مستقبل کے خزانے سے ایک نیا لمحہ اچک رہا ہوتا ہے۔ گویا انسان بیک وقت ماضی اور مستقبل سے نبرد آزما ہوتا ہے اور اس کے درمیان اس کا حال نہ جانے کہاں غائب ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ایک وقت خاص تک جاری رہتا ہے اور اسے اچانک پتہ چلتا ہے کہ اس کے مستقبل کا خزانہ خالی ہو چکا ہے اور ماضی کا گوشوارہ بند کیا جا چکا ہے۔

وہ خدا وہ ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر ایک مدت کا فیصلہ کیا ہے اور ایک مقررہ مدت اس کے پاس اور بھی ہے لیکن اس کے بعد بھی تم شک کرتے ہو۔ (انعام۲)

اس آیت میں دو عدد مقررہ مدت کا ذکر کیا گیا ہے جب پہلی گھڑی آن کھڑی ہوتی ہے تو انسانی زندگی کی بساط وقتی طور پر لپیٹ دی جاتی ہے ایسے میں اس کے احباب و اقارب با دلِ ناخواستہ اسے کفن میں لپیٹ کر بڑے احترام کے ساتھ قبر کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس دارِ فانی میں آخری گھر کا دروازہ ایک اور وقتِ مقررہ کے لئے بند کر دیا جاتا ہے اس پر تختی تو لگتی ہے لیکن قفل نہیں لگایا جاتا اس لئے کہ نہ لوٹنے کا امکان ہوتا ہے اور نہ لٹنے کا اندیشہ۔ اس کے شب و روز بے حقیقت قرار پاتے ہیں اور اس کے کارہائے نمایاں دارِ فانی میں بے معنیٰ ہو جاتے ہیں ؎

تیرے شب و روز کی  اور حقیقت ہے کیا

ایک زمانے کی رَو جس میں نہ دن ہے نہ رات

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر

کارِ جہاں بے ثبات، کارِ جہاں  بے   ثبات!

گردش لیل و نہار ہی کی مانند زمانے کی رفتار بھی ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی۔ اکثر و بیشتر وقت کا پہیہ اس قدر سست رفتار ہوتا ہے کہ لوگوں کو گمان ہونے لگتا ہے گویا سب کچھ ٹھہرا ہوا ہے۔ لیکن پھر یہ کال چکر اچانک تیزی سے گھومنے لگتا ہے۔ اس دور کی نسلوں کو بہت کم وقت میں بہت کچھ دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ مثلاً ٹوینٹی۔ ٹوینٹی کرکٹ کے زمانے میں ہوش سنبھالنے والے بچوں کا مشاہدہ ان بزرگوں سے خاصہ مختلف ہے جبکہ وہ صبر و سکون کے ساتھ پانچ دنوں کا ٹسٹ میچ دیکھتے تھے اور جو اکثر بلا نتیجہ برابری پر چھوٹ جاتا تھا۔

ہماری نسل جب ہوشمند ہوئی تو دیکھا عالم انسانیت دائیں اور بائیں بازو والوں میں منقسم ہے۔ ان کے علاوہ درمیان میں کئی بے دست و پا حکمراں، بادشاہ اور فوجی آمر ہیں جن کی تمام طمطراق بے سودہے۔ حقیر فقیر اسرائیل، فلسطین کی آڑ میں پوری ملت اسلامیہ کو آنکھیں دکھلاتا ہے۔ لیکن پھر حالات نے ایک کروٹ بدلی اور اسرائیل و امریکہ کے سب سے بڑے ہمنوا شاہِ ایران کا تختِ طاؤس اہل ایمان نے الٹ دیا اور ساری دنیا ہکا بکا رہ گئی۔ اس نو زائیدہ چراغِ  نور کو پھونکوں سے بجھانے کی خاطر عالمی اتحاد وجود میں آیا سرخ و سفید کی تفریق کو مٹا دیا گیا لیکن اس کی روشنی قائم و دائم ہی رہی پھراس کے بعد چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ افغانستان سے روسی بھالو اپنے زخموں کو چاٹتا ہوا دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوا اور جلد ہی سوویت یونین نامی استعمار نے دم توڑ دیا۔ ناٹو کی عظیم فوجی طاقت جس کا بال بیکا نہ کر سکی مجاہدینِ  اسلام نے اس کا جنازہ اٹھا دیا۔ اشتراکیت کو ماسکو کے اسٹالن چوک پر دفن کر دیا گیا۔

انور سادات اور صدام حسین جیسے دائیں بازو والوں کو بائیں جانب کا سایۂ عافیت بھی کوئی فائدہ نہ پہونچا سکا اور دونوں عبرت کا سامان بنا دئے گئے۔ اس کے بر عکس نہتے فلسطینیوں نے انتفادہ کے نام پر مزاحمت کی ایسی تاریخ رقم کی کہ ان کے آگے یہودی بھیڑئیے بے دست و پا ہو گئے۔ لبنان میں حزب اللہ کے شیروں نے اسرائیلی درندوں کے دانت کھٹے کر دئیے۔ عراق میں امریکی غاصبانہ فوج کے خلاف ایسی مزاحمت سامنے آئی کہ جارج بش کو جوتا کھا کر رسوا ہونا پڑا اور امریکی فوج بے آبرو ہو کر وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دی گئی۔ افغانستان میں ماضی کے دوستوں نے جب اپنے عہدو پیمان کو پامال کر کے آنکھیں دکھانے کی کو شش کی تو ان کی آنکھ پھوڑ دی گئی۔ فی الحال سرما یہ دارنہ گدھ اپنے بین الاقوامی غلبہ کی آخری فیصلہ کن جنگ افغانستان کی سرزمین پر لڑ رہا ہے۔ زندہ یا مردہ گرفتار کرنے والے خود زندگی اور موت کے درمیان سسک رہے ہیں۔ دس سال بعد بھی ناکامیوں کے علاوہ کوئی اور شئے ان کے ہاتھ نہیں آ سکی ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ اپنی خورد و نوش کے لئے جو رقم جزیہ کے طور پر ناٹو کی افواج ادا کرتی ہیں اسی سے ان کو قلع قمع کرنے کے لئے مجاہدین اسلحہ خریدتے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب کابل کی کمین گاہوں سے یہ لوگ اپنے پٹھو کرزئی کے ساتھ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح نابود ہو جائیں گے اور پھر دوبارہ اہل ایمان کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کریں گے۔

سرمایہ داری کا حریص گدھ اس صدی کے ابتداء میں ساری دنیا کے وسائل کو نگل جانے کا خواب دیکھ رہا تھا لیکن اب عالمی کساد بازاری کا ایک ایسا اژدہا نمودار ہوا جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا اور یہ دیوہیکل بھسما سر انکل سام کی معیشت کو دیکھتے دیکھتے سالم نگل گیا۔ یوروپ کے ممالک یکے بعد دیگرے دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ برطانیہ قلاش ہو چکا ہے۔ امریکہ فاقہ کشی کا شکار ہے۔ فرانس نے عالمِ بیزاری میں اپنے چہرے سے اخلاق و رواداری کی نقاب کو اتار کر پھینک دیا ہے۔ جبکہ ترکی میں اسلام کی نشاۃ الثانیہ ہو رہی ہے۔ اسلام پسندوں نے نہایت مہذب انداز میں پہلے عوام کا اعتماد حاصل کر کے سیاسی اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی اور اولاً عدلیہ کا کوڑا کرکٹ صاف کیا وہاں سے الحاد و بے دینی کا خاتمہ کیا اور بالآخر استصواب کے ذریعہ فوجی دستور کو کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اسلام پسندوں کے لئے ترکی میں تین خطرات تھے ایک عوام کا عدم اعتماد دوسرے عدالتوں کی دین بیزاری اور تیسرے فوج کو حاصل دستوری تحفظ۔ ان تینوں محاذ پر جس انداز میں اہلِ  ایمان نے فتح کا پرچم لہرایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ گویا ایک جانب جہاں کتابِ ملت کی پھر ایک بار شیرازہ بندی ہو رہی ہے وہیں دوسری جانب ‘انا ربکم الاعلیٰ’ کا مصنوعی نعرہ لگانے والوں کا قافلہ پھر ایک بار موجِ ہستی میں غرقابی کی کگار پر ڈوبنے کا انتظار کر رہا ہے۔ افسوس کہ لوگ ہیں اب بھی عبرت نہیں پکڑتے۔ انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں کانوں میں انگلیاں ٹھوس لی ہیں اور اس ڈوبتے جہاز کو تنکے کا سہاراسمجھ کر اس پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس شکستہ سفینے کو اب اپنے سارے حواریوں سمیت ڈوبنے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ یہ مشیت کا فیصلہ ہے جوا ٹل ہے۔

ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرّر ہے جب وہ وقت آ جائے گا تو ایک گھڑی کے لئے نہ پیچھے ٹل سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ (اعراف ۳۴)

افراد کی طرح اقوام کی مدت عمل بھی مقرر ہوتی ہے ان کو عطا ہونے والا غلبہ اور اقتدار بھی محدود مدّت کے لئے ہوتا ہے اور جب اس کے اختتام کا وقت آ دھمکتا ہے اس میں ذرہ برابر تعجیل و تاخیر نہیں ہوتی اور دیکھتے دیکھتے اچھے اچھوں کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اور وہ بے یارو مددگار بنا دئیے جاتے ہیں۔ گزشتہ قوموں کے کھنڈرات کو نشانِ عبرت بنا کر پاک پروردگار نے بعد والوں کے لئے محفوظ کر دیا ہے تاکہ لوگ ہوشیار ہو جائیں اور اپنی باغیانہ روش کی اصلاح کریں۔ لیکن ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب اس قصہ کو تمام کر دیا جائے گا اور سارے نشان مٹا دئیے جائیں گے ؎

کیا انہوں نے اپنے مَن میں کبھی غور نہیں کیا کہ اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے پیدا نہیں فرمایا مگر (نظامِ) حق اور مقرّرہ مدت (کے دورانیے ) کے ساتھ، اور بیشک بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے مُنکِر ہیں، کیا ان لوگوں نے زمین میں سَیر و سیاحت نہیں کی تاکہ وہ دیکھ لیتے کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے تھے، وہ لوگ اِن سے زیادہ طاقتور تھے، اور انہوں نے زمین میں زراعت کی تھی اور اسے  آباد کیا تھا، اس سے کہیں بڑھ کر جس قدر اِنہوں نے زمین کو  آباد کیا ہے، پھر ان کے پاس ان کے پیغمبر واضح نشانیاں لے کر آئے تھے، سو اﷲ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا، لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔ (روم ۸، ۹)

یقیناً وہ دن آ کر رہے گا جب اس جہانِ فانی کو تہس نہس کر دیا جائے گا تو کیا اس روز سب کچھ ختم ہو جائے گا ؟ جی ہاں ساری چیزیں مٹا دی جائیں گی سوائے ایک  کے باقی رہ جائے گی۔ انسان کا وہ عمل جو اس نے آگے بھیجا ہو گا۔ اور اس کے بعد قائم ہونے والے دائمی جہان میں عملِ  خیر ہی انسان کا واحد سرمایہ ہو گا وہی اس کے نجات کی واحد سبیل ہو گی بقول اقبال ؎

اول   و   آخر   فنا  ،    باطن     و   ظاہر      فنا

نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزلِ  آخر  فنا

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام

جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

علامہ اقبال کے یہ بصیرت افروز اشعار ان کی دینی بصارت کا راز کھولتے ہیں حالانکہ انہیں کسی روایتی درسگاہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اس کے باوجود عالم الغیب و الشہادہ نے جہانِ ہستی کے سر بستہ راز ان پر آشکار کر دئیے۔ اس لئے انہوں نے زندگی کا سفر کچھ اس طرح کیا کہ ان کے داہنے ہاتھ میں ماضی کا چراغ تو تھا بائیں ہاتھ میں مستقبل کی امید۔ لیکن قدم زمانۂ حال میں جمے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ میں ایک طرف برہانِ حق پایا جاتا تھا تو دوسری جانب ان کی نظر باطل کی فتنہ سامانیوں پر ہوتی تھی۔ وہ ایک کان سے الہامِ خوش بیان سے استفادہ کرتے تھے اور دوسرا کان مغرب کے فلسفہ پر دھرتے تھے۔ ان کا ذہن انسانیت کے دکھ درد کا مداوا تلاش کرنے میں مصروفِ  عمل ہوتا تھا اور معرفتِ خداوندی سے معمور قلب دیدارِ الٰہی کے لئے بے قرار رہتا تھا۔ اقبال کے آہنگ و بیان میں پائی جانے والی آفاقیت کی وجہ یہی فطری توازن تھا۔ وہ کبھی اپنے آپ سے خود کلام ہوتے تو کبھی اپنے رب سے ہم کلام دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی امت کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں مصروف ہوتے تو کبھی عالمِ  انسانیت کو انجامِ بدسے خبردار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دور حاضر کے حالات کو سمجھنے اور بدلنے کے لئے اسی نورِ  بصیرت کی ضرورت ہے ایسے میں حکیم الامت کی دعا بے ساختہ زبان پر آ جاتی ہے ؎

خدایا     آرزو    میری یہی     ہے

مرا نورِ بصیرت عام کر دے

٭٭٭

 

ہندوستانی سیاست

 

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

اردو زبان کا حال بھی عجیب ہے کہ پیدا تو دہلی میں ہوئی لیکن دہلی کے اجڑتے ہی یتیم سی ہو گئی۔ لڑکپن مشرق کی جانب کوچ کر کے لکھنؤ میں گذارا اور جوان ہوئی تو جنوب میں حیدر آباد اور مغرب میں لاہور کا رخ کیا۔ اس وقت کسے پتہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ زبان مہاراشٹر جیسی سنگلاخ زمین میں پھولے پھلے گی، بہار میں اس پر پھر سے بہار کا موسم چھائے گا اور بنگال کے مختلف ضلعوں میں اسے دوسری ریاستی زبان کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عالمِ غیب کا حال عالم الغیب کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔ مستقبل کے بارے میں انسانی قیاس آرائیاں ہمیشہ ہی غلط ثابت ہوتی رہی ہیں۔ گردش زمانہ کی زنبیل میں وہ کچھ موجود ہوتا ہے جس کا اندازہ لگانا حضرتِ انسان کے تخیل پرواز سے پرے ہے ورنہ کس کے خواب و خیال میں یہ بات تھی کہ جن مدرسوں کو کبھی آئی ایس آئی کے اڈے اور دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دیا جا رہا تھا ان کی اس طرح پذیرائی ہو گی کہ انہیں نہ صرف حکومت تسلیم کر ے گی بلکہ ان کی سر پرستی بھی کرے گی اور ایسا کرنے والی سرکاروں میں فسطائی جماعت بی جے پی کا بھی شمار ہو گا۔ ان مدرسوں سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو طلباء و طالبات بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر نکلیں گے۔ ایک ایسے سنگین دور میں جبکہ خوشحال مسلمان خود اپنے بچوں کو کانونٹ اسکولوں میں روانہ کر کے اردو کا چراغ اپنے ہی گھروں میں گل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان مدرسوں سے نکلنے والے مسلم و غیر مسلم نوجوان اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے آگے آئیں گے۔ ہم لوگ خالق کائنات کی اس یقین دہانی سے مایوس ہو رہے تھے کہ ’’بے شک ہر مشکل کے ساتھ اک آسانی بھی ہے۔ ‘‘ (سورۃ الانشراح  اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ ۶)ایسے میں چرخِ نیلی فام کا پھر رنگ بدلا اور ایسا لگنے لگا گویا ؎

ہے   عیاں یورشِ   تاتار کے  افسانے   سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

انتخابی سیاست میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے بعد رہنماؤں کو اپنے وعدے یاد رہتے ہوں لیکن کم از کم ممتا بنرجی کو ابھی تک اپنے وعدے یاد ہیں اور وہ انہیں نبھانے کی اپنی سی کو شش کر رہی ہیں۔ انہوں نے مدرسہ عالیہ کا اصلی نام بحال کر دیا ہے اس مدرسے کے نام سے لفظ عالیہ کویونیورسٹی کا درجہ عطا کرنے سے قبل حذف کر دیا گیا تھا اور یہ گھناؤنی کارروائی اپنے آپ کو سیکولرزم کا سرخیل قرار دینے والی کمیونسٹ پارٹی نے کیا تھا۔ اردو زبان میں ترقی پسندی کی تحریک جس نظریہ کے حامیوں نے چلائی تھی اسی اشتراکیت کی علمبردار حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک حیرت انگیز تھا۔ اس کے علاوہ ممتا بنرجی نے ۶ ضلعوں میں اعلیٰ تعلیم کے مدرسے قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ ریاست بھر کے ۱۰۵۰۰ مدرسوں کو سرکاری منظوری دینے کے بعد ان کو مرکزی حکومت کی امداد کا مستحق بنانے کے قابل بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور جن ضلعوں میں اردوداں افراد کی تعداد۱۰ فی صد یا اس سے زیادہ ہے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ یاد رہے مغربی بنگال میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی آباد ی کا تناسب ۲۷ فی صد ہے اور فی الحال ریاستی حکومت کے تعاون سے چلنے والے مدرسوں کی تعداد ۵۲۸ ہے۔

ممتا بنرجی کے ان فیصلوں کی مخالفت نہ تو کانگریس کے بس میں ہے اور نہ کمیونسٹ ایسا کرسکتے ہیں اس لئے بی جے پی حسبِ توقع خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑی۔ بھاجپا کے ریاستی صدر راہل سنہا نے ان فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی خفیہ ایجنسی کے مطابق بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ پائے جانے والے مدرسے ہند مخالف ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ممتا بنرجی قومی مفاد سے کھلواڑ کر رہی ہیں۔

راہل سنہا کے مطابق مرکزی وزیر داخلہ نے اپنے حالیہ بیان میں الزام لگایا ہے کہ بنگلہ دیش سرحد سے متصل مدرسے حرکت المجاہدین کے ذریعہ چلائے جا رہے ہیں اور ان میں سے اکثر قوم دشمن ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک طرف تو کانگریس کی ہر بات پر شک ہوتا ہے اور دوسری جانب وہ کانگریس ہی کی ہر ایسی بات پر یقین کر لیتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ؟وزیر داخلہ نے اگر یہ بات کہی ہے تو ان سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ انہیں ان مدرسوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کیا چیز مانع ہے ؟ ویسے اگر بی جے پی کو مدرسوں کی سیاست سے پریشانی لاحق ہوئی ہے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی اپنی پارٹی کے چشم و چراغ نریندر مودی نے دیوبند کے مہتمم مولانا وستانوی کو محض گجرات کے فسادات کو بھول جانے کا مشورہ دینے کے عوض یوم جمہوریہ کی سرکاری تقریب میں شرکت کی دعوت دے ڈالی تھی لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی مولانا کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اس لئے انہوں نے مودی کی دعوت کو قبول کرنے کی جرأت نہیں کی۔

ہندوستان کی سب سے بڑی حزبِ  اختلاف بی جے پی کا حال فی الحال بہت خراب ہے ایک تو وہ لوگ کچھ بولتے نہیں اور اگر کچھ بولتے بھی ہیں تو اس قدر اوٹ پٹانگ کہ کوئی اس پر کان نہیں دھرتا۔ میڈیا ان کی سن کر بھی ان سنی کر دیتا ہے اور نشر و اشاعت کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ ایسا ہی کچھ ہوا جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے ممتا کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے مدرسوں سے متعلق فیصلے پر برس پڑے حالانکہ وہ اس حقیقت کو بھول گئے کہ مغربی بنگال سے زیادہ مدرسوں کی پذیرائی بہار میں کی جاتی ہے اور بہار کی ریاستی حکومت میں بی جے پی برابر کی شریک ہے۔ بہار میں تسلیم شدہ مدرسوں کی تعداد ۴۰۰۰ ہزار ہے جن میں سے ۱۱۱۸ کو ریاستی حکومت چلاتی ہے گویا یہ تعداد مغربی بنگال کے سرکاری مدرسوں سے دوگنی ہے۔ اس معاملے میں ایک دلچسپ اعداد و شمار یہ بھی ہے کہ خواتین میں تعلیم کو عام کرنے کا دم بھرنے والی سرکار صرف ۳۲ طالبات کے مدرسوں کا تعاون کرتی ہے جبکہ ملت اپنے تئیں ۵۷۶ طالبات کے مدرسوں کا(سرکاری امداد کے بغیر)اہتمام کرتی ہے۔ ویسے ایک حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا ہمدرد سمجھے جانے والے لالو یادو کو ان مدرسوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کا خیال نہیں آیا بلکہ بی جے پی کی مدد سے لالو کو ہرانے والے نتیش نے اس کارِ خیر کا آغاز کیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے شدت پسند حامیوں کو تو مسلمانوں کے مخالف بیان سے خوش کر دیا مگر ان احمقوں کو کون بتلائے کہ جن مدرسوں کی ان کے رہنما مخالفت کر رہے ہیں ان میں القاعدہ کا تو کہیں نام و نشان نہیں ہے ہاں مسلمانوں کے ہمراہ ہندو بچے ضرور تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بنگال میں اوسطاًمدرسوں کے اندر ۲۰ فی صد طلباء غیر مسلم ہیں لیکن چند ایک ایسے مدارس بھی موجود ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت غیر مسلم ہے مثلاً اوروگرام  گاؤں کا چاتوسلیی مدرسہ جہاں تعلیم حاصل کرنے والے ایک ہزار طلبہ میں سے ۶۴ فی صد غیر مسلم ہیں اور جملہ اساتذہ کی تعداد ۱۲ہے جن میں سے ۴ ہندو ہیں۔ غیر مسلمین کے اندر مدرسے کی مقبولیت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے صدر مدرس انور حسین فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی وہی مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو دوسرے اسکولوں میں ہوتے ہیں۔ عربی اور اسلامیات کے علاوہ سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے اسی کے ساتھ ہم تمام مذاہب کے طلباء کا یکساں خیال رکھتے ہیں۔ یہاں سے تعلیم ختم کرنے کے بعد طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا سرکاری و نجی ملازمت حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی اس لحاظ سے دوسرے اسکولوں اور ہمارے مدرسے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انور حسین کے دعویٰ کی تائید یہاں پڑھنے والی ۱۲ سالہ شنجنی خاتون نے بھی کی جو ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اور اسے یقین ہے کہ مدرسے کا معیارِ تعلیم اسے داخلے کے امتحان میں کامیابی سے ہمکنار کر دے گا۔

 کولکتہ(جو شہرۂ آفاق کلکتہ کا نیا نام ہے ) میں زیرِ ملازمت ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ انہوں ابتدائی تعلیم مدرسے میں حاصل کی پھر ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا اور اب بچوں کے امراض کے ماہر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اوروگرام مدرسے کے ایک استاد نظام الدین احمد فنی و مادی فائدوں کے علاوہ سماجی و معاشرتی افادیت کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مدرسوں میں ہندو مسلم طلبا کا ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنا فرقہ وارانہ امن و خیر سگالی کے لئے بھی معاون ثابت ہوتا ہے اور آپسی غلط فہمیوں اور عدم اعتماد کے ازالہ کا سبب بنتا ہے۔ ۱۶ سالہ تانو شری بسواس اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ان کے خیالات میں مدرسے کی تعلیم کے دوران زبردست فرق واقع ہوا۔ مغربی بنگال کے اندر ابھی حال میں انگریزی میڈیم کے مدرسوں کا رجحان بھی پرو ان چڑھ رہا ہے۔

بہار کے مدرسے نہ صرف دسویں جسے فوقانیہ کہا جاتا ہے بلکہ بارہویں یعنی مولوی کے درجے تک کی تعلیم فراہم کرتے ہیں اس سال بغیر کسی نقل کے مدرسوں کے نتائج ۹۰ فی صد رہے۔ وہاں امتحان کے نتائج کا اعلان ہندوؤں اور مسلمانوں کے لئے جدا جدا زمروں میں ہوتا ہے۔ اس سال فوقانیہ کے امتحان میں انجلی ۸۰۵ نمبر حاصل کر کے ہندو طالب علموں میں اول نمبر پر آئی جبکہ اس کے مقابلے ناصرہ خاتون کو اول آنے کے لئے ۸۹۶ نمبر حاصل کرنے پڑے۔ اسی طرح مولوی کے امتحان میں جہاں محمد ملک ۹۶۳نمبر حاصل کر کے اول آیا وہیں سنجے نے ۸۹۳ اور بالاکرشنن نے ۸۸۴ نمبرات حاصل کئے۔ سنجے کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے غیر مسلمین کو مدرسے میں آنے کی ترغیب دے گا اس لئے کہ یہاں تعلیم نہ صرف مفت ہے بلکہ معیار ی ہے۔ غیر مسلمین اپنے بچوں کو عربی، فارسی اور اسلامی تہذیب سے اس لئے مانوس کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ خلیج کے ممالک میں موجود مواقع سے استفادہ کر سکیں اور مسلم ممالک کے سفارتخانوں میں ملازمت حاصل کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسوں کی جانب نہ صرف پسماندہ بلکہ خوشحال ہندوؤں کا بھی رجحان بڑھ رہا ہے۔ تیس غیر مسلم طلبا نے فوقانیہ میں ٹاپ کیا ہے جبکہ ۱۶ مولوی کے کورس میں اول پوزیشن پر آئے ہیں اور ان سب نے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ حقیقت بھی چونکانے والی ہے کہ سب سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والے ۱۲ غیر مسلم طالب علموں میں سے ۱۰ طالبات ہیں۔

 ایک دلت طالبہ صنم کماری جس نے مولوی کے امتحان میں تیسرا نمبر حاصل کیا اردو ٹیچر بننا چاہتی ہے۔ حکومت کی تعلیم کے فروغ کی خاطر چلائی جانے والی مہم میں ہر ۴۰ طلبا پر ایک استاد اور ہر دس طالب علم پر ایک اردو ٹیچر کا اہتمام ہے جس کے باعث بہت ساری اسامیاں اساتذہ کی خاطر معرضِ وجود میں آئی ہیں ان میں سے ۱۰ فی صد اردو والوں کے لئے مختص ہے۔ گذشتہ دوسالوں کے اندر نتیش سرکار نے دو لاکھ اساتذہ کا تقرر کیا جس میں سے اچھی خاصی تعداد اردو اساتذہ کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب بی جے پی کی شریک کار حکومت کی جانب سے کیا جا رہا ہے جس کے بنیادی عقائد میں سے ایک مسلمانوں کو دہشت گرد اور غدار وطن سمجھنا ہے اور جن کا واحد ہدف اسلام اور مسلمانوں کی ایذا رسانی ہے۔

دہشت گردی کی بابت تو یوں ہوا کہ اس کو امریکہ اور اس کے حواریوں نے جن میں ہندوستان بھی پیش پیش ہے اس قدر پھُلایا کہ وہ اپنے دباؤسے آپ ہی پھٹ گیا اور اس کی ساری ہوا نکل گئی اب سرکار کی سرپرستی میں آئے دن برپا ہونے والی دہشت گردی عوام کے معمولات زندگی میں شامل ہو گئی ہے اور اس پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی بلکہ جو حیرت کا اظہار کرتا ہے اسے لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں۔ ہندوستان میں مدرسوں کے خلاف رہے گا بڑے پیمانے پر محاذ آرائی کا آغاز اس وقت ہوا جب بھارتیہ جنتا پارٹی کو مرکز میں اقتدار حاصل ہوا تھا۔ اتفاق سے وہ ۱۱ ستمبر کے بعد کا زمانہ تھا اور عالمی سطح پر امریکہ کی سربراہی میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز ہو چکا تھا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ معاملہ محض بی جے پی تک محدود رہا بلکہ اس حمام میں کانگریس، کمیونسٹ اور ملائم سنگھ یادو تک بھی برہنہ پائے گئے اور ان سب کے زیر نگرانی میں چلنے والی ریاستی حکومتوں کی پولس نے مدرسوں پر چھاپہ بلکہ شب خون مارنے کی گھناؤنی کارروائی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

ممبئی میں مدرسہ دارالعلوم امدادیہ پر تیاگی کی قیادت میں پولس نے ۱۹۹۳ء کے فسادات کے دوران ہلہ ّ بول کر۸ معصوم طلبا کو شہید کر دیا۔ اس وقت مرکز اور ریاست دونوں مقامات پر کانگریس کی حکومتیں تھیں اس کے باوجود آر ڈی تیاگی کی ترقی ہوتی رہی اور بالآخر اسے پولس کمشنر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ حکومت اس کی اور دیگر مجرم پولس اہلکاروں کی پشت پناہی کرتی رہی ان کے کے خلاف مقدمات کو ہر عدالت میں کمزور کیا جاتا رہا یہاں تک کہ ۱۸ سال بعد وہ لوگ سپریم کورٹ سے بھی بری ہو گئے اور یہ سب کانگریس کے آشیرواد سے ہوا۔ آندھرا پردیش میں مولانا عاقل حسامی کے زیر اہتمام چلائے جانے والے دارالعلوم پر حیدر آباد میں پولس نے آدھی رات میں چھاپہ مارا۔ مسلمانوں کے زبردست احتجاج کے باوجود پولس نے اگلے ہی دن نہ صرف کشن باغ میں واقع دارالعلوم انوار الہدیٰ کو نشانہ بنایا بلکہ مصری گنج کے جامعہ عائشہ صدیقہ برائے طالبات پر بھی دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا اور یہ ساری کارروائی مسلم دوست سمجھے جانے والے کانگریسی وزیر اعلیٰ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے دورِ اقتدار میں ہوئی۔

مغربی بنگال جہاں مدرسوں کی تاریخ بہت قدیم ہے اور ان کا جال پھیلا ہوا ہے امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد خود وزیر اعلیٰ بدھو دیو بھٹا چاریہ نے نہ صرف کلکتہ کے مدرسے پر چھاپہ مروایا بلکہ سنگھ پریوار کے لہجے میں مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا۔ اس سلسلے کا سب سے حیرت انگیز چھاپہ پھلت ضلع مظفر نگر میں واقع جامعہ رحمانیہ پر اس وقت پڑا جب ملا ّملائم کہلانے والے ملائم سنگھ اترپر دیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مقام پیدائش پر ان کے نام سے چلایا جانے والا یہ مدرسہ ہمیشہ ہی حکومت کا وفادار رہا اس کے باوجود اپنے آپ کو سرکاری عتاب سے نہیں بچا سکا۔ اس طرح کے مظالم کا آغاز اترپردیش میں ویسے تو بی جے پی کی زیر سر پرستی ہوا جب ندوۃ العلوم کے چند طلبا۱۹۹۴ ء میں رات گئے گرفتار کئے گئے۔ اس کے بعد دارالعلوم دیو بند کے ساتھ قائم ہونے والے سہارنپور کے مظاہر العلوم کے ایک استاذ مولانا اسرار کو دہلی میں گرفتار کرنے کے بعد مدرسے پر چھاپہ مارا گیا۔

سرزمینِ  ہند کے مسلمانوں نے ایک ایسا پر آشوب دور بھی دیکھا کہ جب سنگھ پریوار والے چندرا چندرا کر یہ کہتے پھرتے تھے کہ’’ ہر مسلمان دہشت گرد تو نہیں مگر ہر دہشت گرد مسلمان ضرور ہے۔ ‘‘لیکن آج حالت یہ ہے کہ آر ایس ایس کے بارے میں یار دوست کہنے لگے ہیں کہ ’’ہر ہندو سنگھی تو نہیں مگر ہر سنگھی(کسی نہ کسی درجے میں ) دہشت گرد ضرور ہے۔ ‘‘اس زمانے میں مندروں اور بازاروں میں تو کجا مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں میں ہونے والے دھماکوں کی بھی ذمہ داری بھی بلا چون و چرا مسلمان معصوم نوجوانوں کے سر منڈھ دی جاتی تھی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب ممبئی دھماکے میں گرفتار کئے جانے والے سبھی مسلمان ملزم با عزت بری کر دئیے گئے سوائے اجمل قصاب کے جس کا تعلق پاکستان سے بتلایا جاتا ہے ویسے اس کا حقیقی تعلق کس سے ہے یہ پتہ لگانا ایک ایسی تحقیق کا موضوع ہے جس کی فرصت یا ضرورت کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی کسی میں اس کی جسارت ہے کہ وہ امریکی ایجنٹ ریچرڈ ہیڈلی کے دست راست کی تفصیل میں جائے۔ اس لئے کہ بقول غالب ؎

داورِ حشر  !   میرا   نامۂ اعمال  نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

٭٭٭

 

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

 بابری مسجد کے نام نہاد عدالتی فیصلے پر عام مسلمانوں کے رد عمل کی نمائندگی کا حق اسلم بھورے نے ادا کیا۔ یہ وہی اسلم بھورے ہے جس نے ۱۹۹۱ ء میں مسلمانوں کی جانب سے آواز بلند کرتے ہوئے بابری مسجد کی اراضی محکمہ سیاحت کو دیئے جانے کے خلاف عرضداشت داخل کی تھی اور عدالت نے اس کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلے پر روک لگائی تھی۔ اس نے ۲۰۰۲ ء میں وی ایچ پی کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا آغاز رکوانے کے لئے سپریم کورٹ میں گہار لگائی تھی اور اس کو عدالت کی جانب سے مثبت جواب ملا تھا یہ اور بات ہے کہ سنگھ پریوار وقتاً فوقتاً بد عہدی کرتے ہوئے قانون کو پامال کرتا رہا نیز کانگریس پارٹی خاموش تماشائی بنی رہی۔ اسلم بھورے کا سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد تو برسوں قبل ختم ہو گیا تھا لیکن عدلیہ پر ہنوز باقی تھا۔ اپنے جرأت مندانہ اقدامات وہ کسی اور کے کہنے پر یا کسی مفاد کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر کرتا تھا۔ اتفاق سے اسلم نہ تو کوئی عالم دین تھا اور نہ دانشور۔ وہ نہ ہی سیاسی سربراہ تھا اور نہ ہی سماجی رہنما۔ وہ ایک عام مسلمان تھا جسے اپنے دین اور شعائرِ دین سے محبت تھی۔ وہ ان کی حفاظت کے لئے عملی جد و جہد کا قائل تھا چونکہ اسے ملک کے عدالتی نظام پر مکمل اعتماد تھا۔ اس اسلم بھورے نے بابری مسجد کے فیصلے سے پہلے یا بعد کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن فیصلے کے بعد عام مسلمانوں کی طرح وہ بھی غمگین ہو گیا۔ صدمہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی زبان گنگ ہو گئی لیکن آنکھوں کی نیند اڑ گئی۔ دو دنوں تک وہ سب سے کٹ کر جاگتا رہا۔ خلاؤں میں جھانکتا رہا اور جب دور تک اسے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آئی تو مایوسی کی کالی چادر تان کر ابدی نیند سو گیا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسلم بھورے کی قبر کو اپنے نور سے منور کر دے۔ اس کی مغفرت فرمائے۔ اس کے درجات کو بلند فرمائے۔ قوم کا عام آدمی بجا طور پراسلم بھورے کے جذبات و احساسات کی قدر کرتا ہے اوراس کے اقدامات و خدمات کو سلام کرتا ہے لیکن خاص لوگوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ قوم کے کئی دانشور صلح صفائی پر آمادہ ہیں اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے کی جانب دیکھنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ جو اقوام اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو بھلا دیتی ہیں تو وہ گویا پھر ایک بار اپنے آپ کو ظلم کا شکار بنانے کے لئے پیش کر دیتی ہیں۔ ظالم کا حوصلہ بڑھاتی ہیں اور انہیں زبانِ حال سے یہ کہتی ہیں کہ ہم تمہارے لئے تر نوالہ ہیں جب موڈ بنے ہم پر ہاتھ صاف کر لو ہم زبان سے اُف نہ کہیں گے بلکہ بے غیرتی کے ساتھ ہنستے مسکراتے ہوئے سر جھکا کر شکریہ ادا کرنے میں اپنے لئے عافیت جانیں گے اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا دیں گے اور عفو درگذر کا معاملہ کریں گے۔

کسی زیادتی کے جواب میں ایک انتہا پسندی یہ ہے کہ تلخی کا اظہار کیا جائے اوردوسرے اس سے بدتر انتہا یہ ہے کہ ظلم کویکسر بھلا دیا جائے۔ اہل ایمان ان دونوں رویوں کو ترک کر کے درمیان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ مسلمان مکی دور میں مظالم کو برداشت کرتے رہے لیکن انہیں بھولے نہیں۔ وہ مناسب موقع کا نہ صرف انتظار کرتے رہے بلکہ اس کی تیاری میں بھی لگے رہے۔ انہوں نے نہ جلد بازی دکھلائی اور نہ تساہلی کا مظاہرہ کیا۔ جب بدر کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ بپا ہوا تو دو نو جوانوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے پوچھا چچا جان ابوجہل کون ہے ذرا ہمیں بتا دیجئے۔ انہوں نے پوچھا تم اس کو پہچان کر کیا کرو گے ؟ جواب ملا ہم نے سنا ہے کہ وہ نبیٔ کریم ؐ کو گالیاں دیتا ہے۔ خدا کی قسم اگر وہ نظر آ جائے میں اس سے جدا نہیں ہوؤں گا یہاں تک کہ اس کو موت آ جائے یا ہماری جان چلی جائے۔ ان دونوں نوجوانوں کا نام اتفاق سے معاذؓ  تھا۔ یہ مکہ کے مظالم کا شکار نہیں ہوئے تھے انہوں نے ظلم سہا نہ تھا بلکہ سنا تھا وہ ابوجہل کو پہچانتے تک نہ تھے لیکن اس کی حرکات کو جانتے تھے۔ اگر ان کے والدین اپنے ماضی کو بھلا دیتے اور ابوجہل کے مظالم سے اپنی اولاد کو واقف نہیں کرواتے تو اس فرعونِ وقت کو کیفرِ کردار تک پہونچانے کی سعادت ان نوجوانوں کو حاصل نہیں ہوتی اور وہ فرقانِ عظیم ظاہر نہیں ہوتی جس نے انسانی تاریخ کا دھارا موڈ دیا۔

بابری مسجد مقدمہ کے ایک جج ایس یو خان نے اپنے فیصلے میں مسلمانوں کی توجہ صلح حدیبیہ کی جانب مبذول کروانے کے بعد فتح مکہ کی عظیم نعمت کا حوالہ دیا لیکن وہ اس بات کو بھول گئے کہ آخر کفارِ مکہ صلح کے لئے راضی کیوں ہوئے ؟ایسا نہیں ہوا کہ جس طرح انہوں نے ہندوؤں کو تیاگ یعنی قربانی دینے کا مشورہ دیا اس طرح کی کوئی تلقین کسی قاضیِ وقت نے مشرکینِ مکہ کوکی تھی اور وہ صلح حدیبیہ کے لئے تیار ہو گئے تھے بلکہ جنگِ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی اور غزوۂ احد میں ناکامی کے باوجود مسلمانوں کی پے  در پے مہمات ایک سال بعد وعدے کے مطابق بدر کے میدان میں پہونچ جانا۔ مشرکین مکہ اور یہودیوں کا متحد ہو کر غزوۂ احزاب میں مسلمانوں پر ہلہ ّ بول دینے کے باوجود ناکام و نامراد ہو کر لوٹنے مجبور ہو جانا وہ وجوہات تھیں جن کے باعث مشرکینِ مکہ اس نتیجہ پر پہونچے تھے کہ پھونکوں سے اس چراغ کو بجھایا نہیں جا سکتا اس لئے بھلائی اس میں ہے کہ ان سے مصالحت کر لی جائے۔ با وقار مصالحت اپنے سے کمتر کے ساتھ نہیں بلکہ برابر کے فریق سے کی جاتی ہے۔ اس لئے مسلمان اگر ہندوؤں کے ساتھ صلح صفائی بھی کرنا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے انہیں اپنی پوزیشن کو بہتر بنا کر ان کی صف میں لانا ہو گا۔ لیکن اگر ہندوستان کے مسلمان ان تمام مراحل سے گذرے بغیر اس بات کی توقع کر رہے ہیں کہ صلح حدیبیہ ہو جائے گی اور پھر فتح مکہ بھی نصیب ہو جائے گی تو اس عافیت پسندانہ خود فریبی کا کوئی علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے۔

عفو و  درگذر ایک عظیم انفرادی و اجتماعی صفت ہے۔ اس کا مظاہرہ انفرادی سطح پر مکی زندگی میں اور اجتماعی طور پر فتح مکہ کے موقع پر کیا گیا۔ لیکن جس طرح فتح مکہ کے بعد لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اس طرح کا معاملہ مکی زندگی میں دیکھنے کو نہیں آیا اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر معاف کرنا انسان کی مجبوری ہو تو اس کے اثرات محدود ہوتے ہیں لیکن اختیاری ہو تو اس کا تاثر لامحدود ہوتا ہے۔ ابتداء میں مکہ کے لوگ یہ سمجھتے رہے مسلمان چونکہ بدلہ نہیں لے سکتے اس لئے صبر کرنا ان کی مجبوری ہے۔ اس لئے ظالموں کے حوصلے میں اضافہ ہی ہوتا رہا یہاں تک مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا لیکن فتح مکہ کے بعد بدلہ لینا نہ صرف ان کے اختیار میں تھا بلکہ انہیں اس کا حق بھی حاصل تھا اس کے باوجود عفو و درگذر کے مظاہرے نے مخاطبین کے دلوں کو مسخر کیا۔ اس لئے ضروری یہ ہے کہ مسلمان پہلے فتح کی پوزیشن میں آئیں اور پھر درگذر کریں تاکہ عفو اپنا رنگ دکھلائے اسی کے ساتھ ساتھ عام معافی کے حدود کا تعین بھی ضروری ہے۔ مسلمان اپنے خلاف ہونے والی انفرادی زیادتیوں کو معاف کر سکتے ہیں بلکہ یہ پسندیدہ ہے اسی لئے سیدالشہداء حضرت حمزہؓ  کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کی جان بخشی بھی ہو گئی لیکن مشرکینِ مکہ کا دل جیتنے کی خاطر حرمِ پاک کا کوئی گوشہ ان کو ہبہ کر کے وہاں وہ لات و منات کی عبادت جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ بہت ہی سہل اصول ہے کہ انسان اپنے حق سے دستبردار ہو سکتا ہے لیکن کسی اور کے حق کو معاف نہیں کر سکتا۔ ہر شخص کو خود اپنا ذاتی مکان صدقہ کر نے کی اجازت ہے لیکن وہ کسی اور کی امانت کو خیرات نہیں کر سکتا۔ بابری مسجد نہ تو سنی وقف بورڈ کی ذاتی ملکیت ہے اور نہ ان نام نہاد رہنماؤں کی جو بلا واسطہ اسے خیرات کر دینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ امانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ حفاظت کی ہر ممکن کو شش کی جائے۔ اپنی تمام تر مخلصانہ جدوجہد کے باوجود اگر ہم ناکام ہو جاتے ہیں تو ممکن ہے اللہ رب العزّت ہماری مجبوریوں کا خیال کر کے ہمارے ساتھ عفو درگذر کا معاملہ فرمائے لیکن اگر ہم نے بہ رضا و رغبت اسے طلائی طشتری پر سجا کر اللہ کے دشمنوں کو حوالے کر دیا تو یقیناً اس کی بارگاہ میں جوابدہی سے نہیں بچ پائیں گے۔ ہمارے لئے بابری مسجد تو درکنار اسلم بھورے کو بھلانا بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اسلم کا خونِ ناحق معاف کر دیں لیکن یہ ممکن نہیں بابری مسجد کا خراج وصول نہ کریں۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر آدمی کی طرح اسلم بھورے کو بھی صدمہ ہوا لیکن اس کے جو اثرات اسلم پر پڑے وہ عام لوگوں سے مختلف کیوں تھے ؟ دراصل اس کی وجہ اسلم کا ہندوستان کے عدالتی نظام پر زبردست اعتماد اور اس سے بیجا توقعات تھیں۔ باطل نظام کے تحت چلنے والے سارے شعبہ جات بشمول عدلیہ مکڑی کے جال کی مانند ہیں۔ جو ان سے کام چلاؤ تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ اگر دھوکہ اور فریب بھی ہو جائے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ اسے پتہ ہوتا ہے جب ہوا کا تیز جھونکا آئے گا تو یہ تار تار ہو جائے گا۔ لیکن جو لوگ اس پر مکمل اعتماد کر لیتے ہیں اور اس کمزور بنیاد پر مضبوط قلعہ تعمیر کرتے ہیں ان کے ہاتھ آنے والی مایوسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ ہمارے دانشوروں کا یہی حال ہے انہیں اپنی نحیف ذات پراور اس ناقص نظام پر مکمل اعتماد ہے لیکن خدا کی ذات پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اس لئے ہائی کورٹ کے فریب سے ان کا نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ عدالتِ عالیہ پر سے اعتماد بھی ختم ہو گیا ہے۔ وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ کامیابی کا تعلق بالکلیہ طاقت پر نہیں ہوتا حضور اکرم ؐ نے مکہ کی عظیم فتح کو خدائے بزرگ و برتر سے منسوب کر کے فرمایا تھا تمام تعریف اس اللہ رب العزت کے لئے ہے جو خود اکیلا ہی کافی ہو گیا۔ گویا یہ ساری کامیابی محض اسی کی مرہونِ منت ہے اور پھر ان الفاظ کی عملی تفسیر غزوۂ حنین میں سامنے آئی جہاں مسلمانوں کو اپنی تعداد کا ناز تھا لیکن اللہ رب ّالعزت نے پہلے ان کی ہوا اکھاڑ دی اور پھر فتح سے ہمکنار کر کے بتلا دیا کہ کامیابی و ناکامی ہماری جانب سے آتی ہے۔ ہم اگر مکہ میں تمہیں کامیاب کر سکتے ہیں تو حنین میں شکست سے بھی دوچار کرسکتے ہیں اور پھر اسی شکست کو فتح میں بھی بدلنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا فرضِ منصبی تو یہ ہے کہ اللہ پربھروسہ کر کے جدوجہد کرتے رہیں، نہ تو کامیابی پر فخر جتائیں اور نہ ناکامی پر مایوس ہوں۔

بابری مسجد کی بازیابی کے لئے ان تمام وسائل کو استعمال کرنا جو موجود ہیں اور بات ہے لیکن اللہ کی ذات کے بجائے ان وسائل و ذرائع پر تکیہ کر لینا اور بات ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اتر پردیش اور مرکز ہر دو جگہ بی جے پی کی حکومت تھی اس وقت اس طرح کا کوئی فیصلہ کروا لینا اور اس کو بزورِ قوت نافذ کر دینا نہایت آسان تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر ہو جاتا تومسلمان سوچتے کہ یہ ہماری غلطی ہے جو ہم نے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے سنگھ پریوار اقتدار میں آگیا اس لئے آئندہ اس طرح کی صورتحال سے بچنے کی واحد شکل یہ ہے کہ سیکولر جماعتوں کے ذریعہ بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے۔ لیکن اللہ رب العزّت نے یہ تمام فیصلے ایسے وقت میں کروائے جب نہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت ہے اور نہ مرکز میں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس نام نہاد سیکولر جماعتوں کے تارِ عنکبوت کو بھی نیست و نابود کر دیا اور ہماری آنکھیں کھول دیں کہ ہم ان سے بے جا توقعات وابستہ کرنے کے بجائے دین حنیف کی جانب یکسو ہو کر پلٹیں اور اورسیاسی جوڑ توڑ کے بجائے بے کم و کاست اس نظامِ عدل کو قا ئم کرنے کی جدوجہد میں لگ جائیں جو نہ صرف ہمارے بلکہ ساری انسانیت کے درد کا درماں ہے۔

اسلام ایک نہایت ہی فطری دین ہے۔ اس میں فتح و شکست کو حقائقِ زندگی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی لئے قرآنِ مجید میں جہاں جنگِ بدر کی کامیابی کا ذکر ہے وہیں غزوۂ احد کی ناکامی کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ کسی بھی معرکہ میں ہاتھ آنے والی شکست کا لازمی نتیجہ مایوسی ہوتا ہے۔ مستقبل کا کوئی مؤثر منصوبہ مایوسی کی حالت میں نہیں بنایا جا سکتا اس لئے اہلِ ایمان کے اندر پیدا ہونے والے حزن و ملال کو دور کرنے کی خاطر اللہ رب العزت دشمنوں کی مثال دے کراہل ایمان کی ترغیب کا سامان فرماتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے ؎

دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اِ س وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں تم پر یہ وقت ا س لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے ) گواہ ہوں کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔ (آل عمران ۱۳۹۔ ۱۴۰)

گویا اگراس بارہمیں شکست ہوئی تو اس سے پہلے ہمارے دشمن بھی تو شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ یہ ایامِ رنج وملال لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں تاکہ آزمائش کا سامان ہو۔ یہاں اس بات کی جانب بھی اشارہ ہے کہ مشرکینِ مکہ اپنی گزشتہ ناکامی کہ بعد مایوس نہیں ہوئے بلکہ دوبارہ اپنے آپ کو مجتمع کر کے حملہ آور ہوئے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ تم تھک ہار کر بیٹھ جاو۔ ہندوستان میں سنگھ پریوار کا حال دیکھئے کہ عدالتی شواہد، اقتدارِ وقت، ذرائع ابلاغ اور ہندو دانشوروں کے ایک بڑے گروہ کی مخالفت کے باوجود انہوں نے برسوں تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھا اور طویل لڑائی لڑتے رہے اور بالآ خر انہیں کلی نہ صحیح تو جزوی کامیابی حاصل ہو گئی۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ تو محض ایک معرکہ ہے جنگ ابھی جاری ہے اور اس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ اگر خدانا خواستہ عدالت عالیہ کا فیصلہ ہمارے خلاف چلا جاتا ہے تواس صورت میں ہمارا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ اس متبادل منصوبے کو بنانے کا مناسب وقت فیصلے سے قبل ہے اس لئے کہ ناحق فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی مایوسی مناسب تر فیصلہ کرنے میں مانع ہو گی۔ اُس وقت کے حالات کا اندازہ قائم کر کے ابھی سے مناسب منصوبہ تیار کر کے رکھنا چاہئے۔

حضورِ اکرم ﷺ نے غزوہ احد کی شکست کے بعد واپس جانے والی مکی فوج کو اپنے اور مسلمانوں کے لئے عافیت نہیں جانا بلکہ اس بات کا اندازہ قائم کیا کہ مشرکین جا تو رہے ہیں لیکن راستہ سے اپنا ارادہ بدل کر واپس آ سکتے ہیں اور اس وقت غافل اور منتشر فوج کو مجتمع کرنا مشکل ہو جائے گا اس لئے بہتر یہ کہ ابھی اسی حال میں دشمن کا پیچھا کیا جائے۔ آگے چل کر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا لیکن جب مشرکین اپنا ارادہ بدل رہے تھے تو انہیں پتہ چلا کہ مسلمان اس شکست کے باوجود شکست خوردگی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ہمارا تعاقب کر رہے ہیں وہ لڑنے کا عزم و حوصلہ اپنے اندر ہنوز رکھتے ہیں اس لئے ان پر فی الحال ہاتھ ڈالنے کے بجائے آئندہ سال کے لئے اپنے ارادے کو مؤخر کرنا چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ کی اس حکمتِ عملی میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ مصالحت کا موقع شکست کے بعد نہیں بلکہ فتح حاصل کر کے اپنی حیثیت منوانے کے بعد آتا ہے۔ کسی ایک مرحلہ میں شکست سے دوچار ہو جانے کے بعد مایوس ہو کر سپر ڈال دینا مومن کو زیب نہیں دیتا۔ وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے دشمن سے دوستی کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ہر حال میں اپنا حوصلہ بلند رکھتا ہے اللہ پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھتا ہے۔ اہل ایمان کا یہی رویہ آگے چل کر انہیں غیب سے حاصل ہونے والی نصرتِ خداوندی کا مستحق بناتا ہے اور با مراد کرتا ہے ؎

آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے ) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں ) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں ) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔ (مجادلہ ۲۲)

بابری مسجد کے پسِ پردہ سیاسی بازی گری میں بد قسمتی سے مسلمان اصل فریق نہیں ہیں۔ ہندوستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں فی الحال ہندو سماج کو خوش کرنے کی فکر میں لگی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ قضیہ سیاسی اکھاڑے میں ہندو ووٹ بنک پر زیادہ سے زیادہ قبضہ جمانے کا ذریعہ بن گیا۔ شمالی ہندوستان کے ہندو عوام بہرحال رام سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کا جذباتی استحصال کر نے کی خاطر کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی رام مندر کا کریڈٹ لینا چاہتی ہیں تاکہ اقتدار حاصل ہو سکے یا مضبوط ہوسکے۔ مسلمان اس معاملہ میں حاشیہ پر ہیں اور رہیں گے اس لئے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر کے اقتدار پر اثر انداز ہوسکتے ہیں وہ دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ہاں اگر ہندو عوام کو یہ باور کرا دیا جائے کہ تمہارے بنیادی مسائل کو حل کرنے بجائے یہ سیاسی جماعتیں تمہیں رام کے نام پر بے وقوف بنا رہی ہیں اور ان کی نظروں میں رام مندر کا مسئلہ غیر اہم ہو جائے بلکہ وہ اس کے نام سے چڑنے لگیں تبھی یہ سیاسی جماعتیں اس سے دستبردار ہوں گی اور انصاف کا ا مکان پیدا ہو گا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ جمہوریت میں ہمیشہ ہی رائے عامہ کو عدل و انصاف پر فوقیت حاصل رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں انصاف کے بجائے رائے عامہ کی بنیاد پر اپنا رویہ طہ کرتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس فاسدنظام کو بدلنے کی سنجیدہ تگ و دو کی جائے۔ اور جب تک کہ یہ کارِ خیر اپنے انجام کو نہیں پہونچتا اس وقت تک اصحابِ  اقتدار کو عدل و انصاف کی ضرورت و اہمیت سمجھانے کے بجائے رائے عامہ کی مدد سے ان پر دباؤ بنانے کی کوشش کی جائے۔ سنگھ پریوار کی کامیابی کا راز عدالت میں نہیں عوامی تحریک کے ذریعہ ہندو عوام کے جذبات کو رام مندر سے جوڑ دینے میں پنہاں ہے۔ اگر سنگھ پریوار صرف قانونی چارہ جوئی پر انحصار کرتا تو اسے یہ کامیابی حاصل نہیں ہوپاتی اس لئے مسلمانوں کو بھی محض عدالت پر تکیہ کرنے کے بجائے رائے عامہ کو اس مسئلے کے خلاف کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت کا مزاج اور عدالت کے فیصلے خود اپنے آپ بدل جائیں گے۔

بابری مسجد کے اس ناعاقبت فیصلے پر جہاں بہت سارے مسلم دانشوروں کی جانب سے مایوسی کا اظہار ہوا ہے وہیں بہت سارے غیر مسلم صحا فیوں نے بھی اس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس میں پائی جانے والی قانونی پیچیدگیوں اور تضادات کی نشاندہی کی۔ اسی کے ساتھ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے نہایت ظریفانہ انداز میں اس فیصلے کے فکری و سماجی اثرات پر تبصرہ کیا مثلاً انترہ دیو سین کا مضمون ہے جو ایشین ایج میں شائع ہوا۔ اُس میں فاضل صحافی نے الہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے کو رام کی توہین قرار دیا۔ سین کے مطابق اس فیصلے نے شری رام کی آفاقیت کو ختم کر کے انہیں اتر پردیش کا عام شہری بنا دیا گویا بھگوان کو ان کے بھکتوں نے انسان بنا دیا۔ رام للّا کے صدیوں سے طفولیت کے عالم رہنے پر حیرت جتانے کے بعد سیتا کی رسوئی کا حوالہ دے کر بیک وقت رام کے بچہ اور جوان ہونے کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ انترہ کے مطابق اب چونکہ رام جی کی جائے پیدائش کا سرٹیفکٹ عدالت نے فراہم کر دیا ہے اور ان کا پتہ بھی موجود ہے اس لئے نہ صرف ان کا شناختی کارڈ بنایا جا سکتا ہے بلکہ رائے دہندگان کی فہرست میں بھی انہیں شامل کیا جا سکتا ہے اور اگر اس بات کو آگے بڑھایا جائے تو یہ بھی ہوسکتا ہے ان کا کوئی سرپرست کل کو انتخاب میں ان کی جانب سے کاغذات نامزدگی داخل کر دے۔ ایسے میں کون مریادہ پرشوتم رام کے خلاف انتخاب لڑ نے کی جرأت کرے گا اور کیا عدالت  میں اس انتخاب کو کالعدم قرار دیا جا سکے گا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اگر کوئی رام بھکت رام کے نام حکومت کی تشکیل کا دعویٰ پیش کر دے اور یہ اعلان کرے کہ وہ بھرت کی طرح رام کے کھڑاؤں گدی پر رکھ کر حکومت کرنا چاہتا ہے تو کیا حالات رونما ہوں گے ؟ اس کے علاوہ کاؤنٹر کرنٹ نامی سائٹ پر ایم کارتک کا ایک دلچسپ مضمون بھی شائع ہوا، جس میں وشنو کے اوتار وامنا کے خلاف کیرالہ کے دلت راجہ مہابلی کی اولاد کے ذریعہ مقدمہ دائر کرنے کو موضوع بنایا گیا ہے تاکہ وامنا کی جانب سے کی جانے والی صدیوں قدیم زیادتی کا حساب چکایا جا سکے اور ان تمام مندروں کو جنھیں مسمار کر کے براہمنوں نے اپنی عبادت گاہوں میں تبدیل کر دیا دوبارہ بحال کیا جا سکے نیز کیرالہ کو تقسیم کر کے نصف دلتوں کو دے دیا جائے۔ گویا اس فیصلے کے بعد رزمیہ کہانیوں کے خیالی کرداروں کے اوصاف عوامی بحث کا موضوع بننے لگے اور ان کے ذریعہ ماضی میں کئے جانے والے مظالم کا پردہ فاش ہونے لگا۔ اس بحث کو اگر حکمت کے ساتھ آگے بڑھایا جائے تو شرک کی نفی اور توحید کی دعوت کو عام کرنے کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں اور اس کے دوررس نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔ اس گفتگو کے ذریعہ مخاطب کے جذبات کو ٹھیس پہونچائے بغیر باطل عقائد کی بیخ کنی اور رائے عامہ کی ہمواری کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہندو سماج میں پائے جانے والے اسلم بھورے جسے د سیدھے سادے لوگ جب مکڑی کے اس جال کی حقیقت سے واقف ہو جائیں گے اور کلمۂ خبیثہ کے اس شجر کو اکھاڑ پھینکنے میں مسلمانو ں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں گے تو ملک کا نقشہ بدل جائے گا۔ بظاہر یہ مشکل اور ناممکن نظر آتا ہے۔ لیکن فتح مکہ جس کا حوالہ جسٹس ایس یو خان نے اپنے فیصلے میں کیا ہے عرصہ دراز تک ناممکن دکھائی دیتی تھی۔ انسانی عقل و نظر محدود ہے لیکن قدرت کے فیصلے کسی حدود و قیود کے پابند نہیں ہیں، ہجرت نبوی ؐ مشکل ترین حالات میں اٹھایا ہوا بظاہر ایک مدافعانہ اقدام تھا اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے بطن سے برپا ہونے والے عظیم انقلاب کا ثانی پیش کرنا تاریخِ  انسانی کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ لیکن چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ مغلوبیت کی گھٹا ٹوپ رات کے بطن سے عظمت و سربلندی والا دن نمودار ہوتا ہے :

کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (۲۶) رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے۔ (آل عمران۔ ۲۷)

معجزات کا ظہور ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔  اہلِ ایمان کی ذمہ داری اللہ کے بھروسے حکمت اور مؤعظت کے ساتھ اپنے فرضِ  منصبی کو ادا کرنا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ بابری مسجد کی بازیابی کے لئے کی جانے والی جدوجہد کے نتیجہ میں باطل عقائد پوری طرح بے نقاب ہو جائیں اور وطنِ عزیز توحید کی کرنوں سے جگمگا اُٹھے۔ بقول حکیم الامت علامہ اقبال ؎

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشیدسے

یہ   چمن   معمور   ہو گا   نغمۂ   توحید  سے

٭٭٭

 

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

 بابری مسجد کے قضیہ میں الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ سن کر بے ساختہ گاندھی جی کے تین بندر یاد آ گئے جو کبھی بھی ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایک کا ہاتھ منہ پر ہوتا ہے تو دوسرے کا کانوں پر اور تیسرا بیچارہ آنکھیں موند کر بیٹھا رہتا ہے۔ ہائی کورٹ کے جس فیصلے پر تین جج حضرات آپس میں اتفاق نہ کر سکے اس سے بھلا ہندو اورمسلم عوام کے درمیان اتحاد و اتفاق کیوں کر بحال ہوسکتا ہے ؟لیکن اس کے باوجود سیاستداں اس کی تلقین کر رہے ہیں میڈیا اسے نہ صرف دوہرا رہا ہے بلکہ توقع بھی کر رہا ہے کہ ایسا ہو گا۔ اگر سیاست سے عدل کا خاتمہ ہو جائے اور عدالت گھٹیا سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے اگر کوئی جاننا چاہتا ہو تو بابری مسجد کی سیاست اور عدالت کے فیصلوں کو دیکھ لے۔ حالیہ فیصلے نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں کو بھی چونکا دیا ہے۔ مسجد گرا کر مندر بنانے والے جو عدالت میں پیش ہونے والے دلائل اور ثبوت سے گھبرا کر یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اپنے خلاف ہونے والے کسی فیصلے کو تسلیم نہ کریں گے۔ اگر عدالت مندر کے حق میں فیصلہ نہیں کرتی تو دستوری ترمیم کی مدد سے اس کی راہ ہموار کی جائے گی۔ جو خوف کے مارے فیصلے کو ٹالنے کی گہار لگا رہے تھے اور عدالت کے باہر سمجھوتے کی تجویز رکھ رہے تھے وہ سب اس فیصلے سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ اور عدلیہ پر مکمل اعتماد کا اظہار کرنے والے مغموم و مایوس ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کواس عدالتی قلابازی کی توقع نہیں تھی سب جانتے تھے کہ اگر فیصلہ ثبوت و برہان کی بنیاد پر ہوا تو یقیناً اس سے مختلف ہو گا۔ مسلمان بیچارے بہت خوش تھے کہ اس بار اتر پردیش میں ان کی بہن مایا وتی کا راج ہے۔ مرکز میں سیکولرزم کی سرغنہ کانگریس کی حکومت ہے جسے بڑے ارمانوں کے ساتھ وہ اقتدار میں لائے ہیں۔ ملک کے ہندو عوام کی دلچسپی رام مندر میں ختم ہو چکی ہے اور ماحول سنگھ پریوار کے خلاف ہو گیا ہے۔ آئے دن دہشت گردی کے معاملات میں سنگھی رہنماؤں کا ملوث ہونا منظر عام پر آ رہا ہے جس سے ان کے حوصلے پست ہوتے جا رہے ہیں۔ وشو ہندو پریشد کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ برسوں سے ان لوگوں نے دھرم سنسد کا ڈرامہ تک نہیں کیا ہے۔ بی جے پی شدید قحط الرجال کا شکار ہے پرانے رہنماؤں کی ہوا اکھڑ چکی ہے نئے لوگوں میں دم خم نظر نہیں آتا۔ پارٹی کے اندر اختلاف کا بول بالہ ہے۔ بی جے پی کو اس بات کا خوف بھی لاحق ہے کہ کہیں خود کانگریسی ایسی ریاستوں میں جہاں ان کی حکومت ہے فرقہ وارانہ فساد کروا کر حفظ و امان کا مسئلہ نہ پیدا کر دیں اور مرکز کو ۱۹۹۲ء کی طرح ان کی حکومت برخواست کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے۔ اس لئے بی جے پی والے بھی فساد کے بجائے امن کی بولی بولنے لگے ہیں۔ بابری مسجد کا قضیہ عدل و انصاف کے ساتھ چکانے کے لئے اس سے زیادہ سازگار ماحول پھر کبھی میسر آ جاتا یہ شاید ہی ممکن تھا اس لئے اس بار انصاف کی توقع میں قدرے اضافہ ہو گیا تھا۔ لیکن جو لوگ کانگریس کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کانگریس کے لئے عدل و انصاف کی کوئی اہمیت و وقعت کبھی بھی نہیں رہی ہے۔ عدل کو قائم کرنے کے لئے جو ہمت و حوصلہ درکار ہوتا ہے اس جماعت کے اندر اس کا ہمیشہ ہی فقدان رہا۔ کانگریس کی تمام تر دلچسپیاں اقتدار کے دائرے میں محصور ہوتی ہیں۔ اس کے دور میں تمام فیصلے سیاسی مفاد کے پیشِ نظر کئے جاتے ہیں اور کانگریس اس بات سے واقف ہے کہ جمہوری نظامِ حکومت میں انصاف کرنے سے زیادہ اہمیت اکثریتی فرقہ کی خوشنودی حاصل کرنے کو حاصل ہے اس لئے اس نے ماضی میں بھی انصاف کو اپنے قدموں تلے روندا اور اس بار بھی یہی کیا۔ یہ عدالت کا نہیں بلکہ سیاست کا فیصلہ ہے۔ سونیا گاندھی کو ایسا لگ رہا ہے کہ اس سے راہل گاندھی کے وزیرِ اعظم بننے کا راستہ صاف ہو گیا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ راجیو گاندھی کے اقتدار سے محرومی کا ایک سبب بابری مسجدکاتالہ کھلوانا بھی تھا۔

کانگریس پارٹی کے پرچم کے تین رنگ ہیں اسی طرح اس مقدمہ کے تین قاضی تھے۔ شرما جی نے زعفرانی دھوتی باندھ رکھی تھی اور اگروال صاحب نے سفیدی مائل کرتا پہن رکھا تھا۔ خان صاحب نے ہرے رنگ کی ٹوپی اپنے سر پر سجا رکھی تھی اس ڈرامے میں ان تینوں کو مختلف کردار نبھانا تھا اس حساب سے انہیں مختلف ملبوسات میں نوازا گیا تھا اور فیصلہ دیکھنے کے بعد اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس ہوتی کہ ان تینوں حضرات نے مقدمہ کے ساتھ تو نہیں لیکن اپنے اپنے کردار کے ساتھ ضرور انصاف کیا۔ ان لوگوں نے مشترک فیصلہ سنانے کے بجائے منفرد فیصلے سنائے تاکہ اپنی انفرادیت کو باقی رکھا جا سکے اور عوام کو اس حوالے سے کوئی غلط فہمی نہ ہو کہ کون سی رائے کس شخص کی ہے۔ یہ منظر نامہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ ہندو معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہے ایک سیکولر یعنی بے دین اور دوسرا دیندار یعنی سنگھ پریوار۔ اور ان تینوں کو ہندوستانی سیاست میں یکساں اہمیت حاصل ہے۔ لیکن اس بندر بانٹ کا فائدہ بالآخر ہندوؤں کو ہی ہوتا ہے اس لئے کہ اگر تقسیم برابر بھی ہو جائے تب بھی دو تہائی ان کے حصہ میں چلا جاتا ہے اور مسلمانوں کے حصہ میں ایک تہائی آتا ہے۔ اس پر جمہوری نظام کی قہر سامانی اپنی جگہ ہے، جو۵۱ فی صد کو صد فی صد اقتدارسے نوازتا ہے اور ۴۹ فی صد کو پوری طرح بے اختیار کر دیتا ہے۔

کانگریس کی پرمپرا کا جنہیں علم ہے وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر کانگریس چاہتی تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ انگریزی سامراج کے دوران ایک ہندو اور دو انگریز جج جو نا انصافی نہ کر سکے اور ہندوؤں کی عرضداشت کو تین مرتبہ خارج کر دیا وہ کام کانگریسیوں نے مسلسل کیا۔ مورتیوں کو جب رکھا گیا اس وقت مرکز میں اور ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی۔ سنگھ پریوار نہایت کمزور اور لاغر تھا اگر پنڈت نہرو ,گووند  ولبھ پنت کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مورتیاں ہٹا دیتے تو معاملہ بڑی آسانی سے رفع دفع ہو جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ مورتیوں کو ہٹانے کے بجائے مسلمانوں کو عبادت سے روک دیا گیا۔ اس کے بعد غیر قانونی مندر کا تالہ راجیو گاندھی نے اپنے وزیرِ اعلیٰ این ڈی تیواری کے زمانے میں کھلوایا اورشیلانیاس کروا کر اعلان کیا مندر وہ(مراد بی جے پی)نہیں بلکہ ہم بنائیں گے۔ بلکہ رام راجیہ کے قیام کا اعلان بھی کر گذرے۔ ان کے بعد جب نرسمہاراؤ برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے جان بوجھ کر بی جے پی کومسجد شہید کرنے کا موقع دیا تاکہ اس سلگتے ہوئے مسئلہ کو ٹھنڈا کر دیا جائے جس کی مدد سے بی جے پی اقتدار میں آنا چاہتی ہے۔ اورمسجد کی شہادت کے دوران گم سم مونی بابا بنے رہے۔ جب مسجد ڈھیر ہو گئی تو غیر قانونی طور پر بنائے گئے کارگذار مندر کو ہٹانے کے بجائے جس کا مشورہ جیوتی باسو نے انہیں دیا تھا نیز اپنے تعاون کا یقین بھی دلایا تھا، بی جے پی کی چار ریاستی حکومتوں کو برخواست کر کے اپنی سیاسی ابن الوقتی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے لال قلعہ سے مسجد کی تعمیر کا وعدہ کیا بعد میں جب ان سے پوچھا گیا مندر کا کیا ہو گا ؟تو وہ بولے مندر بھی رہے گا۔ اس کے بعد جب پوچھا گیا پھر مسجد کیسے بنے گی ؟تو بولے میں نے یہ کب کہا مسجد وہیں بنے گی۔ ان کے بعد آنے والے سونیا کے کٹھ پتلی منموہن سنگھ نے وہی کیا جو راؤ نے کہا تھا۔ بابری مسجد کی زمین کو عدالت کے ذریعہ تقسیم کروا کر بالآخر وہاں مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیا۔ وقت کے ساتھ افراد و کردار بدلتے رہے لیکن افکار و طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اس لئے کہ اغراض و مقاصد ہمیشہ ہی اقتدار کو حاصل کرنا اور اسے باقی رکھنا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کی حالت پر فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎

بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

کانگریس کی یہ روایت بہت پرانی ہے۔ آزادی سے قبل بھی اس کے پاس گاندھی جی کے تین بندروں کی مانند تین رہنما تھے جن کی مدد سے سیاست کھیلی جاتی تھی۔ جج اگروال سے مشابہت رکھنے والے پنڈت نہرو۔ شرماجی کی طرح دکھائی دینے والے سردار پٹیل اور خان صاحب کی جگہ مولانا آزاد براجمان تھے اور ان تینوں کی مدد سے ملک کو اسی طرح تقسیم کیا گیا تھا جیسے آج بابری مسجد کی زمین کو تقسیم کر دیا گیا۔ اس وقت بھی مسلمانوں کے حصہ میں تقریباً ایک تہائی اور ہندوؤں کودو تہائی حصہ ملا تھا۔ وجوہات پر غور کیا جائے تو زبر دست مشابہت دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قائدِ اعظم کا اپنا وقار تھا اسی کے ساتھ وہ پکے ّ کانگریسی بھی تھے لیکن ایک خاص مرحلے میں انہوں نے باد لِ ناخواستہ کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کی اس کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ناگپور میں منعقد ہونے والے کانگریس کے ایک اجلاس میں انہوں نے گاندھی جی کو مہاتما گاندھی کہنے کے بجائے مسٹر گاندھی کہہ کر مخاطب کیا۔ اس پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا لوگ ان سے مہاتما کا استعمال کرنے پر اصرار کرنے لگے۔ ایسا کرنے والوں کے پاس گاندھی جی کے مہا آتما ہونے کی کوئی دلیل اور ثبوت نہیں تھا۔ یہ آستھا کا پرشن(سوال) تھا۔ اب یہ تو ہو سکتا تھا کہ جو گاندھی جی کو مہاتما سمجھتا ہے وہ انہیں مہاتما کہہ کر پکارے اور جو نہیں سمجھتا اس کے مسٹر کہہ کر پکارنے کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ لیکن اس رواداری کا مظاہرہ نہیں ہوا خود گاندھی جی نے بھی ان ہنگامہ کرنے والوں کی نرسمہاراؤ کی مانند خاموش تائید کر دی۔ جناح سمجھ گئے کہ اگر یہ لوگ مجھے برداشت نہیں کر سکتے جبکہ میں ان کی اپنی پارٹی کا ایک معمر رہنما ہوں تو عام مسلمان آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔ یہ واقعہ آنے والے دور کی نشاندہی کر رہا تھا۔ اس کے بعد پارٹی اور پھر ملک تقسیم ہو گیا۔ کانگریس نے اس کے لئے راہیں ہموار کیں اور اب آستھا کی بنیاد پر بغیر ثبوت اور دلیل کے بابری مسجد کی زمین تقسیم ہو گئی ا س میں بھی کانگریس نے اہم کردار ادا کیا۔

 تین جج حضرات کی بنچ کے فیصلوں کا گاندھی جی کے تین بندروں کے رویہ سے موازنہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ خان صاحب نے برائی کو دیکھا اور سنا لیکن بولنے سے کسی قدر گریز کیا اور برا مت بولو کی نصیحت پر عمل کیا۔ یہ تو کہا کہ بابری مسجد کو بنا نے کے لئے کسی مندر کو توڑا نہیں گیا۔ وہاں پر اس وقت کوئی مندر نہیں تھا۔ یہ بھی کہہ گئے کہ۲۲دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات میں وہاں مورتیاں لا کر رکھی گئیں۔ لیکن یہ نہ کہہ سکے کہ مورتیوں کو وہاں لا کر نصب کرنا اولین غلطی تھی اور دوسری غلطی ۱۹۸۹ء میں اس وقت ہوئی جب عدالت کی مدد سے مسجد کا تالہ کھلوا کر وہاں پوجا کی اجازت دی گئی اور تیسری غلطی کے طورپرسپریم کورٹ میں کی گئی یقین دہانی کو بالائے طاق رکھ کر ۶دسمبر ۱۹۹۲ء کے منحوس دن بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا اور وہاں رام جی کا غیر قانونی مندر بنا دیا گیا۔ اب چوتھی غلطی خود انہوں نے کی اور اپنے فیصلے میں یہ لکھ دیا کہ متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے جس میں سے ایک حصہ مسلمانوں کو دے دیا جائے اسی کے ساتھ مورتیوں کو اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔ یہ مورتیاں دوسرے دو ججوں کے لئے آستھا کا معاملہ تھیں لیکن خان صاحب کے لئے محض ملازمت کا سوال کا تھا اور وہ اسے قربان نہیں کرسکے۔ ان کے منہ پر ترنگی سیاست کا تالہ پڑا ہوا تھا۔ شریمان اگروال نے برا مت دیکھو پر عمل کرتے ہوئے برائی کی جانب سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں صرف برا بھلا سنا اور اور وہی کچھ بول گئے۔ انہوں نے کہا کہ رام کی جائے پیدائش وہی ہے جہاں مورتیاں نصب کی گئی ہیں اس لئے کہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ و ایمان ہے۔ دراصل اگروال صاحب یہ بھول گئے کہ ان سے یہ بات پوچھی ہی نہیں گئی تھی کہ ہندوؤں کا عقیدہ کیا ہے ؟ اور اگر کسی کا عقیدہ یہ ہو کہ الہ  آباد کی عدالت لکھنؤ کے بجائے نیویارک میں بیٹھ کر فیصلہ سنا رہی ہے تواس سے لکھنؤ ,نیویارک نہیں بن جاتا۔ آستھا کی بنیاد پر زمین کا مالکانہ حق طے نہیں ہوتا۔ اس لئے انہوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے بجائے دودھ میں اس قدر پانی ملا دیا کہ انصاف کی دیوی شرم سے پانی پانی ہو گئی۔ انہوں نے چونکہ حقائق سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اس لئے یہ بول گئے کہ متنازعہ عمارت (مراد بابری مسجد) کے اندر دونوں مذاہب کے ماننے والے عبادت کیا کرتے تھے لیکن باہر کے حصہ کو جسے صرف ہندو استعمال کرتے تھے نرموہی اکھاڑے کو وردان کر دیا جائے۔ اگروال صاحب کا یہ قیاس سراسرزمینی حقائق سے ٹکراتا ہے۔ اگر وہ عدالت کے گز شتہ مقدمات کو بھی دیکھ لیتے تو ان پر یہ حقیقت عیاں ہو جاتی کہ مسجد کے اندر ۱۹۴۹ء تک صرف اور صرف مسلمان عبادت کرتے رہے۔ اس کے بعد عدالت نے رام کی مورتی کو بھوگ لگانے کا حکم دیا اس سے قبل وہاں کبھی بھی ہندوؤں نے عبادت نہیں کی۔ لیکن عدالت کے فیصلوں کو بھلا وہ شخص کیسے پڑھ سکتا ہے جس کے آنکھ پر سفید پٹی بندھی ہو۔ شرما جی کے کانوں میں کانگریس نے سیسا گھول کر پلا دیا تھا اس لئے ان کو کوئی گواہی سنائی نہیں دیتی تھی ان کی آنکھوں پر اس قدر گہری زعفرانی عینک چڑھی ہوئی تھی کہ ان کو ہر شئے میں زعفرانی رنگ نظر آتا تھا اور ان کے ہر لفظ سے گیروا کذب ٹپکتا تھا۔ شرما جی نے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ دیا کہ بابر نے رام مندر کو توڑ کر وہاں مسجد بنائی تھی اس لئے اسلامی شریعت کے مطابق وہاں مسجد کی تعمیر ہی غلط تھی گویا مسلم پرسنل لا بورڈ سے بہتر اسلام کی ترجمانی کرنے کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری انہوں نے اپنے سر لے لی۔ ان کی اندھی عقیدت کا یہ مظہر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایک طرف تو یہ مانا ۱۹۴۹ء میں رام کی مورتی کو مسجد میں رکھا گیا لیکن یہ بھی کہا کہ رام کی پوتر آتما اس جگہ ہمیشہ ہی موجود تھی ہے۔ اس لئے شرما جی نے اس پورے خطہ اراضی کو بلا شرکت غیرے رام مندر کی تعمیر کے لئے وقف کر تے ہوئے سنی وقف بورڈ کا دعویٰ سرے سے خارج ہی کر دیا۔ وہ شرما جی کی ملازمت کا آخری دن تھا اس لئے انہوں نے حکومت کی مرضی سے انحراف کرنے کی جرأت رندانہ کر ڈالی۔ حکومت نے اسے برداشت کر لیا اس لئے کہ اس سے کوئی فرق نہیں واقع ہوتا تھا یا ممکن ہے ان کے لئے حکومت نے اسی طرح کی کردار نگاری کی ہو۔ گویا کہ تینوں ججوں کا صرف ایک بات پر اتفاق تھا کہ رام کی مورتی کو اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے اس طرح گاندھی جی کے ان تینوں بندروں نے اپنے اپنے طریقہ سے متفقہ طور پر انصاف کی دیوی کو آستھا کی سولی پر لٹکا دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ الہ باد بنچ کا یہ فیصلہ عدالتی نہیں بلکہ سیاسی تھا اور اس سے انہیں لو گوں کو مایوسی ہوئی جو کانگریس پارٹی کی تاریخ کو بھلا کر اس سے غلط توقعات باندھے ہوئے تھے۔ اس فیصلے سے جو پیغام جاتا ہے وہ اس طرح ہے کہ جمہوری ہندوستان میں آپ کسی کی عبادت گاہ میں منہ اندھیرے مورتیاں ڈال دیں پھر عدالت میں جا کر اس کو قفل لگوا دیں اور پھر تالہ کھلوانے کے لئے تحریک چلائیں۔ اس کے بعد رتھ یاترا نکال کر اس عمارت کو مسمار کر دیں۔ فسادات کروا کر لوگوں کو دہشت کر دیں۔ حکومت مجرمین کو سزا دینے کے بجائے مخالفین کی حکومت برخواست کر کے اپنا سیاسی مقصد حاصل کر لے گی۔ حقائق کی تفتیش کے لئے جسے ساری دنیا نے ٹیلی ویژن پر دیکھا ہو کمیشن قائم کر دیا جائے گا اور برسوں کی تحقیقات کے بعد کوئی وظیفہ یافتہ جج مجرمین کی نشاندہی کرے گا سرکار ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گی بلکہ اس کی آنچ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکے گی اور جب مناسب سمجھے گی انصاف کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کی لاش کو تقسیم کر دیا جائے گا۔

گاندھی یونیورسٹی کا کوئی ریسرچ اس کالر اگر گاندھی جی کے تین بندروں پر اپنی تحقیق کا موضوع بنائے تو نہایت دلچسپ حقائق اس کے سامنے آئیں گے۔ خود ڈارون بھی ان انکشافات سے حیران رہ جائے گا۔ اس کے مفروضے کی زنجیر کا غائب چھلہ اس تحقیق کے نتیجے میں اس کو حاصل ہو جائے گا۔ مثلاً اس تحقیق کا پہلا سوال یہ ہو گا کہ آخر گاندھی جی کو ان تین کاموں کے لئے تین بندروں کی ضرورت کیوں پڑی ؟ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ کوئی ایک ہی بندر یہ تینوں کام کر دیتا؟ اور پھر اس کو کرنا تو کچھ تھا نہیں۔ گاندھی جی نے انہیں یہ تو نہیں کہا تھا کہ اچھا بولو یا اچھا سنو اور اچھا دیکھو بلکہ تین بری باتوں سے رکنے کا اپدیش دیا تھا بس۔ سو کیا ملک کی اس عظیم آباد ی میں انہیں کوئی ایک بندر بھی ایسا میسر نہ آیا جو ان تینوں برائیوں سے اپنے آپ کو روک پاتا ؟تاکہ وہ اسے علامت کے طور پر پیش کرسکتے ؟وہ محقق  اگر اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی خاطر کانگریس پارٹی دانشوروں سے رابطہ قائم کرے تو اسے بتلایا جائے گا کہ مہاتما جی نہایت حقیقت پسند آدمی تھے انہوں نے یہ نصیحت کانگریس پارٹی کے کارکنان کو کی تھی اور وہ جانتے تھے کہ اس کل یگ کے سیاستداں سر سے پیر تک برائیوں میں لت پت ہیں اگرایسے میں وہ ان کی کوششوں سے کسی ایک آسان سی برائی سے بھی بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تویہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ گاندھی جی جیسے بھی تھے لیکن تھے نہایت دور اندیش آدمی۔ آزادی سے قبل انہوں نے جمہوری نظام کے اثرات کا اندازہ لگا لیا تھا۔ آج اگر وہ اپنی پیشین گوئی کو الہ  آباد عدالت کے اندر حقیقت میں بدلتے دیکھتے تو یقیناً ان کی آتما کو بڑی شانتی ملتی۔ گاندھی جی شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ انسان کے پاس آنکھ کان اور زبان کے علاوہ ہاتھ، پیر اور سر بھی ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ سے بھی لوگ برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور پھر دل ,دماغ اور دیگر اعضائے رئیسہ ان کا کیا کہنا وہ تو بڑی بڑی برائیوں کی آماجگاہ ہوتے ہیں لیکن کانگریس کی شریعت میں ان عظیم برائیوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ کانگریس کی پراچین سنسکرتی کو جب جمہوری لباس میسر آ جاتا ہے اس کے مضرات میں سیکڑوں گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ بھی گاندھی جی کے تین بندروں کی طرح اپنا اپنا کردار نبھانے لگتے ہیں۔ ان میں سے عدلیہ کی آنکھ پر پٹی بندھی ہوتی ہے وہ برائی کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا لیکن جھوٹے گواہوں کی باتوں کو سن کر غلط سلط فیصلے سنانے سے گریز نہیں کرتا۔ انتظامیہ کا حال یہ ہوتا ہے کہ برائی کو دیکھتا ضرور ہے اور بری باتیں سنتا بھی ہے لیکن اپنی زبان کو اس کے خلاف کوئی جنبش نہیں دیتا اس کے منہ پر تالہ پڑا ہوتا ہے۔ اور مقننہ کی دنیا ہی نرالی ہوتی ہے وہ کسی کی ایک نہیں سنتا اس کے کانوں میں روئی پھنسی ہوتی ہے وہ برائیوں کو چشم زدن سے دیکھتا ہے اور بے تکان اول فول بکتا رہتا ہے۔ اس نظامِ  حکومت میں کسی کو بھی گاندھی جی کے بندروں کی طرح برائی کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہر کوئی برائیوں کا استحصال کرنے میں جٹا رہتا ہے اورحسبِ ضرورت انہیں فروغ دینے سے بھی نہیں کتراتا۔ اس باب میں ایک اہم اضافہ اس وقت ہوا جب گرو گولوالکر کے شاگردوں نے وقتی طور پر گاندھیائی سوشلزم کا چولہ پہنا۔ انہوں نے یہ کیا کہ ایک ہی بندر کے لئے تین مکھوٹے بنا دئے جو وقتِ ضرورت انہیں اپنے چہرے پر چڑھا لیتا تھا اس لئے کبھی تو ایسا دکھائی دیتا تھا اس کا ہاتھ منہ پر رکھا ہوا ہے اور کبھی لگتا تھا وہ کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے اور کبھی کبھار اس کے ہاتھ آنکھوں پر بھی نظر آ جاتے تھے حالانکہ ان کے حواسِ خمسہ ہمیشہ ہی اقتدار کی جانب متوجہ رہتے۔ اس معاملے میں ساری سیاسی جماعتیں یکساں ہیں کسی کو کسی پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے اسی لئے بابری مسجد کے فیصلے پر تمام لوگوں کا رد عمل تقریباً یکساں ہے۔ مسئلہ افراد یا جماعتوں کا نہیں نظام کا ہے۔ اس نمک کی کان میں جو بھی جاتا ہے نمک بن جاتا ہے۔ اور اسی لئے شہید گنج گردوارے کی طرح کا دو ٹوک فیصلہ پاکستان جیسے مذہبی ملک میں تو ہو جاتا ہے۔ مسجد کو عدالت چند ماہ کے اندردلائل کی بنیاد پر سکھوں کے حوالے کر دیتی ہے اس پر نہ سیاست ہوتی ہے اور نہ فساد رونما ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں آزادی، جمہوریت، مذہبی رواداری اور سیکولرزم کے بلند بانگ دعووں کے باوجود ایسا نہیں ہو پاتا۔ جمہوری نظام کے اندر سیاسی رہنماؤں کی جو مجبوری ہوتی ہے وہ چار سو سال قبل پرانے شاہی نظام میں نہیں تھی اس کے باوجود بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی تھی کہ ہندو عوام کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا لیکن عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد کیا آج کا بابر بھی اپنے بیٹے کو وہی تلقین کر سکے گا۔ وہ تمام لوگ جن میں ڈاکٹر موہن بھاگوت سے لیکر شاعر جاوید اختر شامل ہیں اور جو ماضی کو بھلا کر مستقبل کی طرف دیکھنے کی بات کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ چار سو سال پرانے بابر نے تو کسی مندر کو توڑ کر وہاں مسجدتعمیر نہیں کی تھی لیکن کیا چار سو سال بعد آنے والا بابر اس مسجد کو بھول جائے گا جسے توڑ کراس کی جگہ مندر کی تعمیر کی گئی ہو؟یہ سوال کسی تحقیق کا محتاج نہیں ہے۔ اس کا جواب سب جانتے ہیں۔ سنی وقف بورڈ نے مجبوراًسپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ممکن ہے ہندو فریق بھی وہاں پہونچ جائے اور پھر ایک بار نئی مہا بھارت چھڑ جائے لیکن سپریم کورٹ کے بعد اس دنیا کے تمام عدالتی دروازے بند ہو جائیں گے لیکن مسجد کی بازیابی کی تحریک ختم نہ ہو گی وہ تحریک مسجد کی تعمیر نو تک جاری رہے گی لیکن سپریم کورٹ کے ناموافق فیصلے کے بعد کا مرحلہ خاصہ تلخ ہو گا بقول شاعر ؎

یہ   شاخِ   نور   جسے   ظلمتوں   نے سینچا  ہے

اگر   پھلی  تو    شراروں   کے   پھول لائے  گی

نہ پھل سکی تو نئی فصلِ گُل کے آنے تک

ضمیرِ ارض میں اک زہر گھول جائے گی

‎‎٭٭٭

 

روحِ امم کی ممات کشمکشِ انتخاب

ہندوستان میں منعقد ہونے والے حالیہ ریاستی و ضمنی انتخابات میں ہرسیاسی گروہ کے لئے کوئی نہ کوئی اطمینان کا پہلو موجود ہے اور وہ اس پر شادمان ہے۔ گویا کہ ایک ’’فیل گڈ‘‘ کی سی صورتحال ہے۔ اس لئے کہ انتخابی سیاست میں لوگ نہ صرف اپنی فتح سے خوش ہوتے ہیں بلکہ اپنے دشمن کی ناکامی پر بھی بغلیں بجاتے ہیں اس سے قطع نظر کہ اسے شکست سے کس نے دوچار کیا ہے۔ ان انتخابات میں چونکہ سب کچھ توقع کے مطابق ہو گیا اس لئے مبصرین کے لئے بھی کچھ زیادہ سمجھنے سمجھانے کا موقع نہیں رہا۔ بظاہر کانگریس پارٹی کو پانچ میں سے دو ریاستوں میں راست کامیابی ہوئی اور ایک میں اس کی حلیف ترنمول جیت گئی اس طرح کل ملا کر تین کامیابیاں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس پانچوں ریاستوں میں کامیاب ہو گئی ہے۔ پڈوچیری کے رنگا سوامی فروری تک کانگریس میں تھے اوراس سے قبل کانگریس کی بدولت کئی مرتبہ مختلف وزارتیں بشمول وزارت اعلیٰ پر براجمان رہ چکے ہیں دو سال قبل ان کو کانگریس نے ہٹایا اور دو ماہ قبل انہوں نے بغاوت کر کے اپنی علیٰحدہ پارٹی بنائی تاکہ کانگریس کو سبق سکھلایا جا سکے۔ کانگریس کو انہوں نے دھول چٹا دی اور انتقام لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اب کانگریس والے ان سے پھر پینگیں بڑھائیں گے اور جلد ہی وہ سسرال سے میکے لوٹ آئیں گے۔ جئے للیتا کے معاملے میں بھی یہی ہو گا۔ سب سے پہلے کانگریس پارٹی ڈی ایم کے سے خلع حاصل کرے گی اور پھر اے آئی ڈی ایم کے سے بیاہ رچا لے گی۔ یہ شادی خانہ آباد ی دونوں کے لئے فائدے کا سودہ ہے۔ تمل ناڈو میں کانگریس کا اپنا تو یہ حال ہے کہ فلمی اداکار وجئے کانتا کی نو زائیدہ ڈی ایم ڈی کے نے بھی اس سے پانچ گنا زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں ایسے میں کرونا ندھی کے خزاں رسیدہ درخت سے امر بیل کی مانند لپٹے رہنے بہتر ہے کہ اماّ ں کی چھتر چھایا میں پناہ لی جائے۔ ویسے ملک کے وزیر داخلہ چدمبرم کی اپنی ریاست میں ان کی پارٹی کا یہ حال بر سرِ اقتدار جماعت کے لئے شرمناک ہے۔ لیکن سیاست کے گلشن میں شرم نام کی چڑیا پر نہیں مارتی۔

آئی پی ایل کرکٹ سرکس اور ہندوستانی سیاست میں بڑی زبردست مشابہت ہے۔ کرکٹ کے موسم کا آغاز کھلاڑیوں کی نیلامی سے ہوتا ہے۔ بولیاں لگتی ہیں اور اونچی اونچی قیمت پر اپنے آپ کو فروخت کر کے نامور کھلاڑی مختلف ٹیموں سے جڑ جاتے ہیں اور پھر ان ٹیموں کے درمیان جیت ہار کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں انتخاب سے قبل بولیاں لگتی ہیں، ایمان بکتے ہیں اور مادی مفاد کی بنیاد پر نت نئے رشتے بنتے اور بگڑتے ہیں۔ سیاسی اکھاڑے میں بھانت بھانت کی ٹیمیں خم ٹھونک کر اتر جاتی ہیں اور موسمی مینڈک کی مانند ٹرانے لگتی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں سرِ فہرست قدیم ترین فرقہ پرست کانگریس اور پھر دوسرے نمبر پرفسطائیت نواز بی جے پی۔ ان دونوں کا دعویٰ تو یہ ہے کہ یہ قومی جماعتیں ہیں لیکن اصل میں ان کی حیثیت بھی علاقائی ہو گئی ہے فرق صرف یہ ہے کہ دیگر علاقائی جماعتوں کے بالمقابل جن کا وجود کسی ایک ریاست تک محدود ہو یہ ایک سے زائد ریاستوں کی علاقائی جماعتیں ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی بھی کئی ریاستیں ہیں جن میں ان کی حیثیت علاقائی جماعت کے بغل بچہ کی سی ہے مثلاً تمل ناڈو، بہار یا بنگال۔ نظریاتی سطح پر ان دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہاں طریقۂ  کار کچھ تھوڑا سا مختلف ہے۔ ایک اقلیتوں کے خلاف علیٰ الاعلان تشدد کو بھڑکاتی ہے اور دوسری پس پردہ اس کو ہوا دیتی ہے گویا ایک گرم شعلوں سے جلاتی ہے اور دوسری ٹھنڈی آنچ سے جھلساتی ہے۔ احساس کا فرق ضرور ہے لیکن نتائج یکساں برآمد ہوتے ہیں۔ بابری مسجد ہو مسلم نوجوانوں کا انکاؤنٹر ہر دو صورت میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ایک ممبئی کے فسادات سے متعلق شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو ڈنکے کی چوٹ پر کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے اور دوسری عدالت عالیہ میں اس کی خاطر خواہ پیروی سے صرفِ نظر کر کے اس پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیدا کر دیتی ہے نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ نہ تو بابری مسجد کی اراضی مسلمانوں کو ملتی ہے اور نہ ہی ممبئی میں فساد برپا کرنے والے ہندوؤں کو سزا ہی ملتی ہے۔ ہاں ممبئی بم بلاسٹ میں معصوموں کو برسوں تک جیل میں رکھنے پر دونوں کا اتفاق ہے اور اس معاملے میں وہ ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کرتی ہیں۔

ان دو جماعتوں کے علاوہ مختلف علاقائی موقع پرست جماعتیں ہیں جن کا نظریہ حیات ہے ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘۔  ان کا کام کسی نہ کسی طرح اقتدار حاصل کرنا یا اس میں حصہ دار بن کر رہنا ہے۔ اس لئے یہ کبھی بی جے پی تو کبھی کانگریس کے ساتھ ہو لیتی ہیں۔ اب اس امر کی پیشن گوئی کرنے کے لئے کسی نجومی کی ضرورت نہیں کہ آئندہ قومی انتخابات میں جے للیتا کانگریس اور کروناندھی بی جے پی کے ساتھ ہوں گے اور اگر کانگریس الکشن ہار جاتی ہے تو اماّں پھر پینترا بدل کر بی جے پی کی ہمنوا بن جائینگی بلکہ بنگال کی دیدی بھی ایسا کرنے سے گریز نہیں کرینگی۔ اشتراکیت پسند بظاہر اپنے آپ کو علاقائی جماعتوں سے مختلف گروہ قرار دیتے ہیں لیکن سوویت یونین کے خاتمہ اور چین کی سرمایہ داری نے ان بیچاروں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں ہیں نیز بدھ دیو بھٹا چاریہ نے اس دعویٰ کی بھی نفی کر دی کہ ’ہم ان سے مختلف ہیں ‘اس لئے اب اس کا شمار بھی علاقائی جماعت میں ہونا چاہئے جس کا اثر کیرالا، بنگال اور تریپورہ پر محیط ہے۔ ان کے علاوہ مسلم جماعتیں بھی ہیں مثلاً مسلم لیگ، اتحاد ملت، یونائیٹڈ فرنٹ اور ایم ایم کے وغیرہ جو فسطائیت کے خلاف فرقہ پرستوں اور موقع پرستوں کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ تو گویا ان چاروں اقسام کی جماعتوں کے لئے ان انتخابات کے نتائج میں مسرت کا کوئی نہ کوئی پیغام ضرور ہے۔

کانگریس کو سب سے بڑی خوشی اس بات کی ہے کہ وہ آسام میں تیسری مرتبہ اپنا اقتدار قائم رکھنے میں کامیاب ہو گئی لیکن آسام گن پریشد اور اس کی حلیف بی جے پی کی خستہ حالی کے پیش نظر توقع بھی یہی تھی۔ اے جی پی فی الحال پوری طرح کوما میں ہے اس کا نام انتخابات کے علاوہ کبھی بھی سننے میں نہیں آتا اور بی جے پی اس کی بیساکھیوں پر سوار ہو کر انتخاب لڑنے کی کوشش کر تی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا اجمل کی یونائیٹد فرنٹ اور بوڈو لینڈ پارٹی نے بھی اے جی پی سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔ ویسے یونائیٹڈ فرنٹ کو بیک وقت خوشی اور غم سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ تو ضرور ہوا کہ پہلی مرتبہ اسے ریاست میں حزب اختلاف کی رہنمائی کا موقع ہاتھ آیا لیکن اے جی پی اور بی جے پی کی مایوس کن کار کردگی پر اسے افسوس ضرور ہوا ہو گا۔ اگر اس بار وہ دونوں مزید بیس نشستوں پر کامیاب ہو جاتے تو کانگریس کو اکثریت حاصل کرنے کے لئے یونائیٹڈ فرنٹ کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا اور اس صورت میں بھی حکومت تو بہر حال کانگریس ہی کی بنتی لیکن فرنٹ کے کچھ ممبرانِ اسمبلی کو وزیر بننے کا موقع بھی مل جاتا یہ سوئے اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے دشمنوں کی ناکامی نے ایک مسلم سیاسی جماعت کو اقتدار میں حصہ داری سے محروم کر دیا۔ اب عقل عام کیا کہتی ہے یونائیٹڈ فرنٹ کوبی جے پی کی کمزوری کی دعا کرنی چاہئے یا اسے تقویت دینے کی کوشش کرنی چاہئے ؟ ویسے کسی مسلم جماعت کے اپوزیشن کی سب پارٹی بن جانے کو بھی بھولا بھالا عام مسلمان اپنے لئے باعثِ سعادت ہی سمجھتا ہے۔

آسام کی محرومی کا ازالہ بڑی حد تک کیرالہ میں ہو گیا۔ وہاں مسلم لیگ متحدہ محاذ میں دوسرے نمبر کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اب اگر کانگریس کے ۳۷ ممبرانِ  اسمبلی ہیں تو مسلم لیگ کے نصف سے زیادہ یعنی ۲۰ ہیں اس طرح صرف چار کے فرق سے اقتدار سنبھالنے والا متحدہ محاذ اگر مسلم لیگ کو نائب وزارت اعلیٰ کی کرسی نہ دے تو یہ یقیناً حیرت کی بات ہو گی۔ اس طرح کی صورتحال میں بے چارہ عام مسلمان جو انتخابی سیاست کے پیچ و خم سے واقف نہیں ہوتا یہ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے کہ دو قطبی ماحول میں مسلم جماعتیں متحد ہو کر کسی ایک کا ساتھ دینے کے بجائے مخالف خیموں میں ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہو جاتی ہیں۔ اس غریب کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ انتخابی سیاست بھی تجارت کی مانند ہے جہاں ایک کمپنی بیک وقت دو حریف دوکانداروں کو اپنا ایجنٹ نہیں بنا سکتی اس لئے دونوں حریف ایجنٹوں کو حریف سرمایہ داروں کی ایجنسی لینی پڑتی ہے۔ اب اگر مسلم لیگ کانگریس کے ساتھ ہے تو بھلا کسی اور مسلم سیاسی جماعت کو وہ کیوں منہ لگائے گی اورایسے میں اس جماعت کے لئے کانگریس کے حریف خیمے میں جانے کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار کیونکر ہو گا اب اس مجبوری کے پیش نظر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی بدعنوان سے ہاتھ ملانا پڑے یا نظریاتی دشمن کی تائید کرنی پڑے اسی کو انتخابی مجبوری کہتے ہیں جسے لوگ از خود اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں۔ اس مجبوری کے تحت اکثر ملی اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے لیکن انتخابی سیاست میں اپنی جماعت کا فائدہ قومی و ملی مفاد سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔

اشتراکیوں کو اس بار دوہرا زخم لگا لیکن یہ بھی توقع کے مطابق ہی تھا۔ کیرالہ میں ہر پانچ سال کے بعد اقتدار سے بے دخل ہونے کی روایت اس طرح قائم ہوئی ہے کہ اگر اس میں انحراف ہوتا تو وہ حیرت کی بات ہوتی۔ ویسے کمیونسٹوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ اچھوت آنند انہیں جیت کا آنند نہیں دلا سکتے اس لئے انہیں انتخاب سے پہلے ہی اچھوت بنا کر دور کر دیا گیا لیکن وہ پینترہ بھی کام نہ آیا اور کیرالہ کی روایت برقرار رہی۔ مغربی بنگال میں گذشتہ پارلیمانی انتخاب کے دوران ہی اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ سرخ سورج رو بہ زوال ہے۔ دراصل بنگال کی ناکامی کو لوگ بدھا دیو کے سرمنڈھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے گوربا چیف کی طرح اشتراکی نظریات سے انحراف کیا اور اس کی سزاخود بھی پائی اور پارٹی کو بھی شکست سے دوچار کیا حالانکہ بدھا دیو نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو اشتراکی روایات کے خلاف ہو ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جلد بازی کی۔ اشتراکی طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے مزدوروں کو متحد کر کے ان کی طاقت کے بل بوتے پر انقلاب لاؤ اور پھر اپنے مخالفین کو انقلاب کا دشمن قرار دے کر ان کا قلع قمع کر دو۔ اس کے بعد سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر انہیں محنت کشوں کا استحصال کرو۔ یہی کچھ ان لوگوں نے سابقہ سوویت یونین میں اور پھر چین میں کیا۔ بدھا دیو نے یہ کام انقلاب سے قبل شروع کر دیا اور نندی گرام میں اپنے چہرے پر پڑی خوشنما نقاب خود اپنے ہاتھوں سے نوچ کر پھینک دی۔  نتیجہ یہ ہوا کہ خود اپنی سیٹ بھی نہیں بچا پائے۔ اشتراکیوں نے دیہی علاقوں میں ایک زبردست مافیا قائم کر رکھا تھا جس کی کمر توڑنے کا عظیم کارنامہ ممتا بنرجی نے انجام دیا اس کے لئے وہ یقیناً مبارکباد کی مستحق ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اشتراکیوں کے چالیس فی صد ووٹ محفوظ ہیں اور وہ پر امید ہیں اگلی مرتبہ جب لوگ ممتا سے مایوس ہوں گے تو پھر ان کے بھاگ کھلیں گے اور کیرالہ میں وہ ریاستی روایات کے چلتے پھر ایک بار اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔  ویسے بھی عوام کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے وگرنہ وہ دوبارہ جئے للیتا کو بدعنوانی کے مدعے پر اقتدار نہیں سونپتے۔ ممتا بنرجی نے جس طرح دل کھول کر مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا اسے دیکھ کر نہ صرف بنگال بلکہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کا سینہ فخر سے پھول گیا۔ مسلمان اس بات سے بھی بہت خوش ہیں کہ اس بار بنگال اسمبلی میں مسلم ممبران کی تعداد ۲۰ فی صد سے زیادہ ہو گی لیکن اس سے پہلے بھی یہ تعداد کم نہیں ہوتی تھی ۴۵ سے زیادہ وہ پہلے بھی تھے اورریاست میں ایک نام نہاد مسلم نواز پارٹی نے ۳۴ سال حکومت کی اس کے باوجود سچر کمیشن نے یہ انکشاف کیا کہ مغربی بنگال کی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب مودی کے گجرات سے کم ہے اس لئے اگر مسلمان اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ان کے ممبران کی تعداد میں اضافہ یا ان کی نام نہاد ہمدرد حکومت سے ملت کا کوئی بھلا ہو جاتا ہے تو انہیں اپنی طرزِ فکر کی اصلاح کر لینی چاہئے۔

اس بار اتفاق سے جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے ان میں ایسی ایک بھی ریاست نہیں تھی جہاں بی جے پی مضبوط ہو۔ اس لئے وہ حاشیے پر رہی لیکن کرناٹک جہاں بی جے پی کی ریاستی حکومت کو اندر سے بغاوت کا سامنا ہے۔ اس کے ۱۱ ممبران اسمبلی کے پارٹی سے استعفیٰ دینے سے حکومت اقلیت میں آ گئی ہے اس کے باوجود ضمنی انتخاب میں تینوں نشستوں پر اپنی زبردست کامیابی درج کروا کر بی جے پی نے ثابت کر دیا کہ اس کے اپنے گڑھ میں وہ اب بھی مضبوط ہے اور وزیر خارجہ کرشنن ملک سے باہر جو کچھ بھی کر لیں لیکن اپنی ریاست میں بری طرح ناکام و نامراد ہیں۔ اس بار پڈوچیری کی طرح آندھرا پر دیش میں وائی ایس آر کے بیٹے جگن موہن ریڈی نے کڑپا پارلیمانی حلقے سے کانگریس اور ٹی ڈی پی دونوں کے امیدواروں کی ضمانت ضبط کروا کر کانگریسی رہنماؤں کی نیند اڑا دی ہے۔ جگن موہن نے اپنے باپ کی موت کے بعد وزارت اعلیٰ کی کرسی پر اپنی دعویداری پیش کی تھی جسے کانگریسی اعلیٰ کمان نے ٹھکرا دیا لیکن اب پانچ لاکھ چالیس ہزار ووٹوں سے اپنی کامیابی درج کروا کر اس نے یہ ثابت کر دیا کہ کانگریس کو یہ سودہ مہنگا پڑسکتا ہے۔

ٹی وی کے پردے پر جب مختلف جماعتوں کے کارکنان کو ناچتے گاتے دکھلایا جا رہا تھا اس وقت مرکز کے کانگریسی رہنما سرمایہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر ملک کے عوام کا اپنے خاص انداز میں شکریہ ادا کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ جب لوگوں پر سے کامیابی کا خمار اترا تو انہیں پتہ چلا کہ پٹرول کی قیمت میں پانچ روپئے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ اضافہ اب اس قدر جلدی جلدی ہونے لگا ہے کہ عام آدمی کے لئے گذشتہ ایک سال کے اندر ایندھن کے اخراجات دو گنا ہو چکے ہیں اور عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ  اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں پر بھی اس کا اثر  یقیناً پڑے گا۔ ویسے اب بیچاری کانگریس بھی کرے تو کیا کرے ؟ اسے ان سرمایہ داروں کو اپنا روپیہ وصول کرنے کا موقع تو دینا ہی ہے جنھوں نے پچھلے انتخابات میں چندہ دیا تھا بلکہ اگلے انتخابات تک کمانے کا موقع بھی دینا ہے تاکہ پھر دوبارہ چندہ لیا جا سکے۔ کانگریسی رہنما جگدمبیکا پال کے مطابق بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمت میں اضافے کے سبب صارفین پر یہ بوجھ ڈالنا پڑا لیکن بین الاقوامی بازار میں جب تیل کی قیمت کم ہوتی ہے تو اس وقت حکومت کو  عوام کا خیال نہیں آتا۔ ان کو راحت پہونچانے کے بجائے جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے تیل کی قیمت میں کمی کو اپنے لئے رحمت جان بنا کر اس منافع کو اپنے سوئیس بنک کھاتوں میں جمع کر دیتے ہیں تا کہ ان کی پشت در پشت اس پر عیش کر سکے۔ انتخابات کے بعد عوام الناس کا استحصال یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ گذشتہ ۶۱ سالوں سے یہ عمل بدستورجاری ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس جنجال سے نکلنے کے بجائے اس میں پھنستے بلکہ دھنستے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے تو کہا تھا’جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی‘ لیکن ہمارے آج کل کے دانشوروں نے انقلاب کو انتخاب سے بدل دیا ہے حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح ’روح امم کی حیات کشمکشِ انقلاب ‘ہے اسی طرح ’روح امم کی ممات کشمکشِ انتخاب ‘ہے۔

٭٭٭

 

صبا نے پھر درِ زنداں پہ آ کے دی دستک

ڈاکٹر بنایک سین کو بالآخر رہائی نصیب ہو گئی۔ اس موقع پر ان کی ۸۴ سالہ ماں انوسویا نے کہا ’’آج میں بہت خوش ہوں، میں چاہتی ہوں کہ اس دنیا کے ہر انسان کو اس طرح کی خوشی نصیب ہو جیسی کہ آج مجھے ملی ہے۔ ‘‘انوسویا تو خیر ماں ہے لیکن اس خبر پرہر کوئی فرط مسرت سے جھوم اٹھا تھا۔ وکیل رام جیٹھ ملانی بولے ’’مجھے اس بات کا اعتراف کرنا ہی چاہئے کہ اس مقدمہ میں عدالت عالیہ کے اندر جو کچھ ہوا، اس پر ذاتی طورسے میں بہت خوش ہوں۔ اس کے ذریعہ جمہوریت کا وہ اصول قائم ہو گیا جس کی رو ٗسے ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ ‘‘جیٹھ ملانی کی بات اس ترمیم کے ساتھ تسلیم کرنی پڑے گی کہ آزادی حاصل تو ضرور ہے لیکن اگر اس کا استعمال بلا خوف و خطر کیا جائے تو عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے ضمانت حاصل کرنے کے لئے خطیر وسائل اور جیٹھ ملانی جیسے گراں بار وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ ڈاکٹر سین کی مانند مقبول و معروف بھی ہونا پڑتا ہے تاکہ رہائی کے لئے نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح سے دباؤ بنایا جا سکے۔ لیکن کیا یہ ساری سہولیات ملک کے ہر شہری کو مہیا ہیں ؟ اس سوال کا جواب ملک کا ہر باشندہ جانتا ہے۔ بقول رام جیٹھ ملانی ان کا مؤکل’’ نہ تو خود تشدد میں ملوث ہیں اور نہ ہی انہوں نے تشدد کو پناہ دے رکھی ہے۔ لٹریچر تو خیر ہر کسی کے گھر پر ہوتا ہے۔ خود میرے گھر پر اس سے زیادہ خطرناک لٹریچر موجود ہے۔ ‘‘ وکیل صاحب نے بجا فرمایا اصل معاملہ لٹریچر کے الماری میں رکھنے یا وقت ضرورت اس کا استعمال کر کے دنیا کمانے کا نہیں ہے بلکہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے میدان عمل میں آنے کا ہے۔ مذکورہ مقدمہ کے وکیل اور مؤکل کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے۔

رام جیٹھ ملانی کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کو مندرجہ بالا بات سمجھنی چاہئے لیکن افسوس کہ وہ اسے نہیں سمجھتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ بالکل ہی نہیں سمجھتے۔ سین کو عمر قید دینے کا فیصلہ تو عدالت نے کیا لیکن چونکہ وکیل صاحب جج صاحبان کو ناراض کرنا نہیں چاہتے اس لئے خود سیاست کھیل گئے۔ سیاستدان موقع کا فائدہ اٹھانے کے معاملے میں وکیل صاحبان سے پیچھے نہیں ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم اور سلمان خورشید تک نے عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان دونوں حضرات کا تعلق وکالت کے پیشے سے ہے۔ چندمبرم کے مطابق نچلی عدالت کے فیصلے سے اگر کوئی مطمئن نہ ہو تو اس کے پاس اونچی عدالت میں جانے کے سوا کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے۔ لیکن پھر وہی سوال کہ کیا ہر کس و ناکس کے لئے یہ ممکن ہے۔ عدالت عالیہ تو درکنار کئی لوگ نچلی عدالت میں بھی اپنی پیروی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ غالباً بہار کا واقعہ ہے کہ ایک شخص کو۲۰ سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا اور ۴۰ سال بعد یعنی جب وہ ساٹھ سال کا ہوا تب اسے بے قصور جان کر بری کر دیا گیا۔ قومی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ جن لوگوں نے اس کی عمر عزیز کے چالیس قیمتی سال چھین کر ان میں قید و  بند کی صعوبتیں بھر دیں ان کا بال بیکا نہیں ہوا گویا جمہوریت کے جن ثمرات کا ذکر رام جیٹھ ملانی کر رہے تھے ان میں سے میٹھے اور رس دار پھل تو سزا دینے والے خاص لوگ نوش فرما تے ہیں اور عام آدمی کواس کے کڑوے کسیلے، سڑے گلے پھلوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ نظامِ جمہوریت کے بے حس ترازو میں پھلوں کو تولا بھی جاتا ہے اور چکھا بھی جاتا ہے تاکہ اسے چن چن کر ہوشیاری کے ساتھ تقسیم کیا جا سکے۔ یکساں تقسیم کا ڈھنڈورا پیٹنے والا خوشحال طبقہ میٹھے پھل کھاتا ہے اور جمہوریت کے گن گاتا ہے۔ کڑوے پھل کھانے والوں کی آواز کو ذرائع ابلاغ کے ہنگامے میں دبا دیا جاتا ہے۔ میڈیا کے اس شور میں ڈاکٹر سین جیسے لوگوں سے زنداں کے اندر رہائی کی شب چاند یوں ہم کلام ہوتا ہے ؎

رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آ کر

چاند نے مجھ سے کہا۔ ۔ ۔ ’’جاگ سحر آئی ہے ‘‘

تو وہ جواب دیتے ہیں ؎

ہاں تلخی ٔ ایام ابھی اور بڑھے گی

ہاں اہلِ ستم، مشقِ ستم کرتے رہیں گے

ڈاکٹر بنایک سین کے طرز فکر کا ثبوت ان کا وہ طرز عمل ہے جو انہوں نے رہائی کے بعد اختیار کیا۔ انہوں نے چکنی چپڑی باتیں کرنے کے بجائے کہا ’’میں غدار نہیں ہوں اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میں نے اپنے ملک سے کبھی بھی دغا بازی نہیں کی۔ میں اس ملک میں حقوق انسانی کی تحفظ کا کام جا ری رکھوں گا۔ ‘‘ایک سوال کے جواب میں وہ بولے ’’ یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں نکسلیوں کو اسلحہ رکھنے کے لئے کہوں۔ اس کے لئے حکو مت کو پہل کرنی ہو گی میں تو صرف اپنے علاقے میں امن و امان کی کوشش کرتا رہوں گا۔ ‘‘انہوں نے علاقے میں قیامِ امن کی خاطر حکومت سے مطالبہ کیا کہ نکسل تحریک کے خلاف حکومت کی پشت پنا ہی میں چلائی جانے والی نام نہاد عوامی تحریک سلوا جوڈم کو فوراً بند کر دیا جائے۔ ڈاکٹر سین نے اس طرح کی تحریک کے خلاف اپنی مہم جاری رکھنے کا عزم دوہرایا بقول فیض ؎

منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا

دم ہے تو  مداوائے  الم  کرتے رہیں گے

وزیر قانون ویرپا موئلی کے بیان کا ڈاکٹر سین نے خیر مقدم کیا جس میں انہوں نے بغاوت کے قانون پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا تھا اور کہا کہ انگریزوں کے زمانے میں وضع کئے گئے اس بغاوت کے قانون کو ختم کرنے کی خاطر عوام کو متحد ہونا چاہئے اس لئے کہ اس کی منسوخی کے بغیر ہم اپنے آپ کو آزاد قوم کا فرد نہیں سمجھ سکتے۔ ویرپا موئلی تو چھتیس گڑھ میں اپنی مخالف جماعت بی جے پی کی حکومت کے ساتھ براہ راست سیاست بازی پر اتر آئے تھے اسی لئے انہوں مزید کہا کہ یہ فیصلہ ریاستی حکومت کے لئے چشم کشا ہے۔ چھتیس گڑھ حکومت کو چاہئے کہ وہ بلا امتیاز معروضی طرز فکر اختیار کرے اور جب مقدمہ عدالت عالیہ میں ہو تو مزید احتیاط برتے۔ اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے ریاستی وزیر اعلی رمن سنگھ بولے ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یاد دلایا کہ دہلی میں تو صرف ضمانت ہوئی ہے باقاعدہ مقدمہ تو بلاس پور کے ہائی کورٹ میں چلے گا اور ہم اس کے فیصلے کو بھی تسلیم کریں گے۔ قربان جائیے اس خوداعتمادی پر جس نے رمن سنگھ سے یہ کہلوایا گویا انہیں یقین ہو کہ بلاس پور کے اندر ہونے والا عدالتی فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے ڈاکٹرسنگھ کا اس وقت تک کا وزیر اعلی کی کرسی پر براجمان ہونا شرط ہے۔ ہندوستان کی سیاست پر جو لوگ گہری نظر رکھتے ہیں وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ڈاکٹر سین جیسے با ضمیر لوگوں کے لئے اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ کون وزیر اعلی ہے اور کس پارٹی کی حکومت ہے ؟ اس لئے کہ ظلم و استحصال کے حمام میں ہر پارٹی کی برہنگی کم و بیش یکساں ہے۔

وزیر اعلی اور وزیر قانون کی اس سیاسی جگل بندی میں وزیر اعلیٰ کا پلڑا بھاری دکھلائی دیتا ہے اس لئے کہ مقدمے میں بری ہونے اور ضمانت پر رہا ہونے کے فرق سے وہ واقف ہیں انہیں پتہ ہے کہ ضمانت کا فیصلہ اگر چہ دہلی میں ہوا لیکن حقیقت میں کاغذات ضمانت بلاس پور میں داخل کئے گئے ہیں۔ ضمانت کی شرائط بھی نہایت دلچسپ ہیں مثلاً ان کو ۵۰ ہزار کے ذاتی مچلکہ اور اضافی ۵۰ہزار کی ضمانت جمع کروانے کے لئے کہا گیا۔ پاسپورٹ ضبط کر کے عدالت میں رکھ لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں بلکہ ہر پیشی میں بذات خود حاضر ہوں۔ اس طرح کی شرائط و ضوابط کے ساتھ عطا ہونے والی ضمانت کو با عزت ضمانت کون کہے گا؟سچ تو یہ ہے کہ با عزت طریقے سے تو ملزم صرف بری ہی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سین کو اس کے لئے نہ جانے کب تک انتظار کرنا ہو گا؟

اس مقدمہ کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل کی پیروی اور دلائل ہندوستانی عدلیہ کے طرز فکر کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ سرکاری وکیل للت کی اولین دلیل یہ تھی کہ ڈاکٹر سین نکسلیوں کے ہمدرد ہیں گویا باغیوں سے ہمدردی بغاوت کے ہم پلہ ہے۔ جسٹس بیدی اور پرساد کی بنچ نے کہا کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے یہاں کسی باغی سے ہمدردی رکھنا بغاوت کا ارتکاب کرنے کے مترادف نہیں ہے اس کے بعد جسٹس بیدی نے عمر قید کی سزا کا جواز دریافت کیا تو للت نے بتلایا کہ ملزم کے گھر پر ایسے پمفلٹ پائے گئے جن میں بغاوت کی بو آتی ہے اور ایسی صورتحال میں یہ ثابت کرنا ضروری نہیں ہے کہ ڈاکٹر سین اس کے مصنف ہیں بلکہ اس طرح کے لٹریچر کی اشاعت و تقسیم بھی بغاوت میں شمار ہوتا ہے۔ بیدی صاحب نے اس دلیل کو نہایت کمزور جواز قرار دیا اور کہا اس طرح کا لٹریچر ہر طرف پھیلا ہوا ہے اگر کسی کے گھر میں گاندھی جی کی سوانح پائی جائے تو وہ گاندھیائی افکار کا حامل نہیں ہو جاتا۔ سرکاری وکیل للت نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ڈاکٹر سین نے ۳۰ مرتبہ نکسلی رہنما نارائن سانیال سے ملاقات کی ہے۔ جسٹس بیدی نے پوچھا کیا ملاقات جیلر کی موجودگی میں ہوئی؟ تو جیٹھ ملانی نے بتلایا کہ جیلر ہر ملاقات کے وقت موجود ہونے کا اعتراف کر چکا ہے۔ جسٹس بیدی نے کہا ڈاکٹر سین کن لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اس بنیاد پر ضمانت کی درخواست کو رد کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ گویا عدالت کی نظر میں کسی باغی سے ربط ضبط رکھنا بھی بغاوت نہیں ہے۔ وکیل للت کے اعترافِ جرم کی دلیل کو بھی عدالت نے تسلیم نہیں کیا۔ اس طرح سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کونہ صرف ضمانت کا حکم دیا بلکہ ڈاکٹر سین کی اپیل کا فیصلہ ہونے تک ان کی تا حیات قید کی سزا کو معطل کر دیا گویا ایک طرح سے ان پر لگائے گئے آئی پی سی کی دفع ۱۲۴ (الف) کے تحت بغاوت کے الزام پر ہی سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا۔ ضمانت کی شرائط طے کرنے کی ذمہ داری ہائی کورٹ کو سونپ دی گئی۔

ڈاکٹر سین کا اصل قصور وہ نہیں ہے جس پر عدالت میں بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔ مئی ۲۰۰۷ء میں ڈاکٹر سین کو پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا ان پر ایک تاجر پیوش گوہا اور ماؤ نواز مفکر نارائن سانیال کے درمیان پیغام رسانی کا الزام تھا۔ چھتیس گڑھ حکو مت نے عدالت میں انہیں ریاست کے تحفظ کی خاطر خطرہ بتلایا نتیجہ یہ ہوا کہ ماہ مئی میں ان کی درخواستِ ضمانت سیشن کورٹ نے رد کی اور دسمبر کے مہینے میں سپریم کورٹ نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ ملک بھر کی حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے ڈاکٹرسین کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ دسمبر کے اواخر میں انہیں ہندوستان کی سماجیاتی اکادمی کی جانب سے آرآرکھیتان کے طلائی تمغہ سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انہیں ماحول، انسان اور سماج کے ارتقاء اور چھتیس گڑھ کے مظلوم اور پسماندہ عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے دیا گیا تھا یہی گویا ڈاکٹر سین کا جرم عظیم تھاجس کے لئے ۱۵ مارچ سے ۱۱اپریل ۲۰۰۸ ء کے دوران انہیں قیدِ تنہائی کی سزا دی گئی اس بار جیل خانے والوں کی دلیل تھی کہ ان کی اپنی ذات کو خطرہ ہے۔

دسمبر ۲۰۰۸ء ہی میں عالمی صحت کونسل نے ڈاکٹر سین کو عالمی صحت اور انسانی حقوق کے میدان میں غیر معمولی خدمات انجام دینے کے لئے جوناتھن مان نامی ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے بعد ان کی ضمانت کی دو درخواستیں نچلی عدالت میں رد ہوئیں۔ مئی ۲۰۰۹ء میں سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیئے لیکن مقدمہ بدستور جاری رہا گزشتہ سال دسمبر میں سیشن کورٹ نے سین، سانیال اور گوہا ان تینوں کو ملک سے بغاوت کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی۔ فروری میں اس فیصلے کے خلاف سنوائی کے دوران ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست منسوخ کر دی اور بالآخر پھر ایک بار عدالت عالیہ کو مداخلت کر کے ضمانت بحال کروانی پڑی۔ ڈاکٹر سین کو جب چار ما ہ قبل سزا سنائی گئی تھی اس وقت ماہرین قانون کا رد عمل اس پورے معاملے کی پول کھول دیتا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور پی یو سی ایل کے رکن راجندر سچر کے مطابق ڈاکٹر سین کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ملک کے مفاد کے خلاف کام کر رہے تھے شرمناک الزام ہے بلکہ انہوں نے آگے بڑھ کر کہا ’’غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ ‘‘ بجائے خود غیر دستوری قانون ہے گویا ایک ایسے قانون کی بنیاد پر جو دستور کے خلاف ہو عوام کو عمر قید کی سزا سنائی جائے اس سے زیادہ افسوس ناک بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟

معروف مصنف اور حقوق انسانی کی سرگرم کارکن ارون دھتی رائے جنہوں نے ڈاکٹر سین کی ضمانت کو امید کی کرن قرار دیا لیکن عمر قید کی سزا پر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھایونین کاربائیڈ کا سربراہ دوسال کی سزا پاتا ہے اور ڈاکٹر سین کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے ؟اپنے ایک حالیہ انٹر ویو میں وہ بولیں ’’غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ‘‘ کا بیجا استعمال نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ قانون جن مقاصد کی خاطر وضع کیا گیا تھا اسے پورا کر رہا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے ماہر ڈاکٹر اجے ساہنی کے مطابق جرم و جواز دونوں موجود نہیں ہیں۔ سین کے لئے عمر قید کی سزا در اصل پولس کی نا اہلی اور تفتیشی عمل کی ناکامی کا مظہر ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر سین کو سزا دینایہ ثابت کرتا ہے کہ عدلیہ کا ایک حصہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کا وسیلہ بن گیا ہے۔ اس کے باعث عوام کا نچلی عدالتوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

ماہرین قانون اور انسانی حقوق کے خیالات کی روشنی میں مندرجہ ذیل سولات پیدا ہوتے ہیں۔

•          حکومت غیر دستوری قانون کیوں بناتی ہے ؟ اور ان قوانین سے کن مقاصد کو حاصل کیا جاتا ہے ؟

•          انتظامیہ کی جانب سے تفتیش کے دوران نا اہلی کیوں دکھلائی جاتی ہے ؟

•          عدلیہ کوسیاست کی بساط کا مہرہ بننے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟

•          ڈاکٹر سین جیسے لوگوں کو کیوں ہراساں کیوں کیا جاتا ہے ؟

ہندوستان کے قبائلی علاقوں کے پس منظر میں جہاں نکسلی تحریک چل رہی ہے اگر ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو حیرت انگیز جواب ملتا ہے۔ یہ الزام اپنی جگہ صحیح ہے کہ ڈاکٹر سین نکسلیوں کے حامی ہیں اور نکسلیوں نے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا ہے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اور عوام حکومت کے بجائے ان کے ساتھ کیوں ہیں ؟بات دراصل یہ ہے کہ جن علاقوں میں یہ قبائلی لوگ  آباد ہیں اتفاق سے وہ علاقہ معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ وہاں پر کان کنی کی خاطر ان ادیباسیوں کا وہاں سے اخراج ضروری ہے چونکہ ادیباسیوں کی ساری معیشت اور معاشرت ان جنگلوں سے وابستہ ہے وہ وہاں سے نکلنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ عالمی سرمایہ کار انہیں وہاں سے نکالنے کے لئے پولس کی مدد لیتے ہیں اور ڈراتے دھمکاتے ہیں نیزسیاستدانوں کی مدد سے نت نئے قوانین بنواتے ہیں۔ اب اگر کوئی نکسلی ان محتاج و مظلوم غریبوں کی مدد کے لئے آگے آتا ہے تو وہ باغی کہلاتا ہے۔ کوئی ان کے حقوق کی پامالی پر اعتراض کرتا ہے تو اس پر بھی بغاوت کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سین ۱۹۸۱ ء سے ان غریبوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ نہ صرف صحت بلکہ سماجی و سیاسی مسائل میں بھی ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں ڈاکٹر سین نے حکومت کی زیادتیوں اور مظالم کو مرتب کیا۔ سلوا جودم نام کی سرکاری دہشت گردی کا پردہ فاش کیا اور معدنیات کی بڑی کمپنیوں سے اس کا رشتہ بے نقاب کیا اور یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۷ ء سے انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کا دوا خانہ بند ہو چکا ہے اور ان کو سامان عبرت بنا کر مستضعفین کے درمیان کام کرنے والے افراد کو خوفزدہ کرنے کی مذموم کو شش کی جا رہی ہے لیکن اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے نہ ہی ماضی میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ مستقبل میں بار آور ہوں گے۔ اسی امید پر ڈاکٹر بنایک سین جیسے لوگ دل برداشتہ ہوئے بغیر کشمکش کئے جا رہے ہیں ؎

صبا نے پھر  درِ زنداں  پہ آ کے  دی  دستک

سحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے

٭٭٭

 

رام لیلا میدان پر بابا رام دیو کی رام کتھا

بوفورس توپ کی بد عنوانی نے مسٹر کلین کہلانے والے راجیو گاندھی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا جن کے حامی ممبران ایوان کی تعداد ان کی ماں اور نانا سے زیادہ تھی لیکن پھر اس کے بعد ایسا لگنے لگا گویا ہندوستان کی سیاست میں بدعنوانی کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ عوام نے نہ صرف چارہ کھانے والے کو بلکہ کھاد نگل جانے والوں کو بھی کامیاب کیا۔ کمل کو ٹی وی کے پردے پر رشوت لیتے ہوئے دیکھا اور ہاتھی کو دولت کا انبار نگلتے ہوئے پایا اس کے باوجود دونوں کو اقتدار سے نوازا لیکن بابا رام دیو نے یہ ثابت کر دیا کہ بد عنوانی کا مسئلہ ابھی بھی زندہ ہے بشرطیکہ اسے اٹھانے والا بدعنوان نہ ہو۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک بدعنوان سیاسی جماعت دوسرے کی بد عنوانی کو اچھالتی تھی عوام جانتے تھے کہ اس معاملے میں مدعی اور مدعا الیہ دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اس لئے وہ کسی کی بات پر کان نہ دھرتے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس بار بدعنوانی کے خلاف دھرم یدھ چھیڑنے والا شخص نہ تو خود بدعنوان ہے اور نہ ہی اپنے کسی سیاسی مفاد کے پیش نظر اس معاملے کو اچھال رہا ہے تو اس کی پذیرائی مختلف انداز میں ہوئی اور سرکار کی چولیں ہل گئیں نیز حکومت کا اصلی گھناؤنا چہرہ ساری دنیا کے سامنے آ گیا۔

زر خرید ذرائع ابلاغ اور اس سے متاثر مخلص افراد بابا رام دیو پر مندرجہ ذیل الزامات لگا رہے ہیں :

•          رام دیو کو اسی وقت یہ معاملہ اٹھانے کی کیوں سوجھی؟

•          ان کی پشت پر سنگھ پریوار ہے

•          وہ بی جے پی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے

•          ان کے پاس دولت کا انبار کیوں ہے ؟

بابا رام دیو نے یہ مسئلہ پہلی بار نہیں اٹھایا بلکہ وہ برسوں سے اس معاملے کو اٹھا رہے ہیں۔ وہ اپنے مختلف بیانات اور انٹر ویو میں اس جانب توجہ مبذول کروا چکے ہیں لیکن ایک فرق ضرور واقع ہوا ہے۔ اس سے پہلے بات زبانی جمع خرچ تک محدود تھی اب انہوں نے عملاً تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ تحریک چلانے کا فیصلہ ابھی کیوں کیا ؟پہلے کیوں نہیں کیا؟ تو یہ ایک مہمل سوال ہے اس لئے کہ وہ جب بھی اس طرح کا فیصلہ کرتے یہ سوال رونما ہو جاتا اس لئے یہ سوال سرے سے کسی اہمیت کا حامل ہی نہیں ہے کہ یہ فیصلہ کب کیا گیا بلکہ سوال یہ ہونا چاہئے کہ آیا یہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط؟ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ملک کی ہزاروں کروڑ کی دولت کو سوئیس بنکوں سے واپس ملک میں لایا جانا چاہئے تو اس کا یہ مطالبہ جائز ہے یا نہیں ؟

یہ ایک نہایت شرمناک حقیقت ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں اناج کے گودام بھرے پڑے ہیں اس کے باوجود ۱۵۰ ضلع کے عوام ہر سال بھکمری و فاقہ کشی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بیان کسی حزب اختلاف یا رام دیو کا نہیں بلکہ عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ کا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج نے پچھلے دنوں حکومت سے زائد اناج مہیا کرنے کا تقاضہ کرتے ہوئے حکومت کی غربت کو ناپنے کی پیمائش کو بھی چیلنج کیا۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت بھارت میں شہری علاقوں میں غریب وہ ہے جس کی آمدنی یومیہ ۲۰ روپئے ہے یا جو ۱۷ روپئے ہر روز خرچ کرتا ہے یا دیہات میں جس کی آمدو خرچ ۱۲ روپئے یومیہ ہے۔ آج کل کی مہنگائی کے پیش نظر یہ معیار ویسے ہی بہت پست ہے اس کے باوجود اس ملک میں ۳۶فیصد عوام غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جسٹس بھنڈاری اور ورما کے مطابق یہ رقم کم از کم دوگنی ہونی چاہئے اگر ایسا کر دیا جاتا ہے تو غربت کی شرح میں کس قدر اضافہ ہو جائے گا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس کے باوجود سوئیس بنکوں میں ہندوستان کا کالا دھن سب سے زیادہ ہے اور اپنے قریب ترین حریف روس سے چار گنا ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۹ء میں یہ دولت ۲۱ لاکھ کروڑ تھی اور ہر سال اس میں ایک لاکھ کروڑ کا اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ۲۰۰۸ء میں اسے لا کر ملک کے ۴۵کروڑ عوام میں تقسیم کر دیا جاتا تو ہر ایک کے حصے میں ایک لاکھ روپئے اور غریبی کا خاتمہ ہو جاتا لیکن اگر حکومت یہ اقدام کر دیتی تو ان ۲۵ ہزار لوگوں کا کیا ہوتا جو سال بھر میں کئی بار سوئزرلینڈ اپنی دولت کی دیکھ بھال کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں۔ سرکار کے لئے وہ ان ۲۵ ہزار لوگوں کی اہمیت ۴۰کروڑ رائے دہندگان سے زیادہ ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اس لوٹ کے مال کو واپس ہندوستان کے خزانے میں لا کر غریبوں کی فلاح و بہبود کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس میں کیا غلط ہے ؟

یہ بات بابا رام دیو نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اس سال جنوری میں سپریم کورٹ کے جج نے کہی جبکہ جرمنی کے لیشٹن سین بنک میں کثیر دولت کے جمع کرنے کا معاملہ سامنے آیا اور حکومت نے ۲۶ لٹیروں کا نام بند لفافے عدالت کو دیتے ہوئے کہا کہ ہم اسے ظاہر نہیں کر سکتے۔ عدالت نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آخر اس میں کیا مشکل ہے۔ جسٹس سدرشن اور نجار نے کہا یہ تو سیدھا اور صاف قومی دولت کی چوری کا معاملہ ہے ایسے میں حکومت مجرمین کی اس قدر پردہ داری کیوں کر رہی ہے۔ جن لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ حکومت نے رام دیو کے خلاف یہ احمقانہ اقدام کیوں کیا انہیں سپریم کورٹ کے بیان کو سامنے رکھنا چاہئے اس لئے کہ جو حکومت بدعنوانوں کی محافظ ہے وہ ان کے خلاف کام کرنے والوں پر اگر ظلم نہیں کرتی تو اور کر بھی کیا سکتی ہے۔ پہلے تو حکومت کو اندازہ تھا کہ یہ بھی ایک ڈرامہ ہو گا اور وہ بابا کو کچھ مراعات وغیرہ دے کر منا لیں گے اس لئے اس نے سودے بازی کی کوشش کی لیکن جب دیکھا کہ یہ شخص تو سنجیدہ معلوم ہوتا ہے تو وہ خود ڈر گئی اورسرکاری دہشت گردی پر اتر آئی۔

 رام دیو پر سنگھ پریوار کی پشت پناہی کا الزام اس لئے لگایا جاتا ہے ان کے اسٹیج پر اچانک سادھوی رتھمبرا نمودار ہو گئی لیکن کسی فسطائی خاتون کی حمایت کے نتیجے میں اس تحریک کو فسطائی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر رام دیو خود وشوا ہندو پریشد کے اسٹیج پر پہنچ جاتے یا سادھوی رتھمبرا کے پروچن میں جا دھمکتے تو بے شک یہ الزام حق بجانب ہوتا لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوا بلکہ اس پورے عرصے میں ان سے کوئی بھی فسطائی تو کجا فرقہ وارانہ بیان بھی منسوب نہیں کیا جا سکا۔ بی جے پی کی حمایت کو بھی مختلف معنی ٰپہنائے جا رہے ہیں حالانکہ یہ تو بی جے پی کی موقع پرستی ہے جو وہ اس تحریک کی آنچ میں اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کر رہی ہے اگر اس وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہوتی تو کانگریس بھی بعینہ وہی سب کر رہی ہوتی جو اب بی جے پی والے کر رہے ہیں، ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی جماعتوں کا یہی معمول ہے اور بابا رام دیو کی حمایت تو نہ صرف بی جے پی نے بلکہ کمیونسٹ، سماجوادی اور بہو جن سماج پارٹی نے بھی کی ہے بلکہ کئی غیر سیاسی تنظیموں اور رہنماؤں نے ان کے خلاف کی جانے والی سرکاری کارروائی کی مذمت کی ہے اور اب توسپریم کورٹ نے اس کے خلاف نوٹس جاری کر دئیے ہیں اس لئے بی جے پی کے ذریعہ کی جانے والی حمایت کے باعث کسی کو فسطائی کٹھ پتلی قرار دے دینا زیادتی معلوم ہوتا ہے۔ دگ وجئے اور آزاد جو بڑھ چڑ ھ کر بابا رام دیو کو سنگھی مکھوٹا قرار دے رہے ہیں اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ کانگریس کے چار چار وزراء ان کا استقبال کرنے ہوائی اڈے پر کیوں گئے تھے اور پھر ہوٹل میں بیٹھ کر اس سنگھی مکھوٹے سے کون سی راز و  نیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔

حکومت نے اس بہیمانہ کارروائی کے لئے جس وقت کا انتخاب کیا وہ نہایت دلچسپ ہے۔ رات کے ایک بجے نہتے عورتوں اور بچوں سمیت مظاہرین پر تشدد کا جواز کس قدر بھیانک ہے جو لوگ اس کارروائی کو جائز قرار دے رہے ہیں وہ دو منٹ کے لئے تصور کریں کہ اگر ان کے اہل خانہ کسی مظاہرے میں شریک ہوتے جس کو اس رویہ کا شکار ہونا پڑتا تو انہیں کیسا لگتا؟ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا احمقانہ جواز بھی نہایت دلچسپ ہے مثلاً:

•          بابا رام دیو کو یوگا کی اجازت دی گئی تھی۔

•          رام دیو نے یوگا کو سیاسی رنگ دے دیا۔

•          پانچ ہزار افراد کو جمع کرنے کی اجازت تھی۔

•          بابا اپنے وعدے سے مکر گئے۔

•          امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔

بابا رام دیو عرصۂ دراز سے دنیا بھر میں یوگا کے کیمپ لگاتے رہے ہیں لیکن اس مر تبہ ان کا ارادہ یوگا سکھلانے کا نہیں تھا بلکہ بدعنوانی کے خلاف مظاہرہ کرنے کا تھا اس حقیقت سے ملک کا بچہ بچہ واقف تھا اس کے باوجود انہیں صرف یوگا کرنے کی اجازت کیوں دی گئی یہ ایک بنیادی سوال ہے ؟ بابا رام دیو کا استقبال کرنے کے لئے جو وزراء کرام ہوائی اڈے پہونچے اور پھر انہیں اپنے ساتھ ہوٹل لے گئے تو کیا وہ وہاں یوگا کی تعلیم حاصل کر رہے تھے یا اس مظاہرے کے سلسلے میں گفت و شنید کر رہے تھے ؟ یوگا کو اگر کسی نیک مقصد کی خاطر سیاسی رنگ دیا جاتا ہے تو اس میں حرج کیا ہے ؟ مظاہرین کی تعداد طے کرنے کا اختیارکسے ہے ؟ اجازت دینے والوں کو یا مظاہرہ کرنے والوں کو؟ وعدے سے مکرنے والی بات کم از کم کسی سیاسی جماعت کوتو زیب نہیں دیتی جن کو نہ تو اپنے وعدہ کا کوئی پاس و لحاظ ہوتا ہے اور نہ عوام جن کے عہد کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ کانگریس نے دو سال قبل اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ ۱۰۰ دنوں کے اندر ملک کی ساری دولت جو بیرونی ممالک میں پوشیدہ رکھی گئی ہے اسے واپس لائے گی لیکن ۷۰۰ سے زیادہ دن گزر چکے ہیں اگر کانگریس والے اپنے عہد کو پورا کر دیتے تو آج اس تحریک کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ حکومت سے جو مطالبہ کیا گیا تھا اس کو پورا کرنے کے بجائے حکومت نے اول تو اس مظاہرے سے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی اور بدعنوانی ختم کرنے کے بجائے مظاہرے کے خاتمے کی شرائط طے کرنے لگی۔ اگر حکومت کی جانب سے اس معاملے میں لیپا پوتی کے بجائے ٹھوس اقدام کئے جاتے تو مظاہرہ اپنے آپ ختم ہو جاتا۔ جہاں تک امن و سلامتی کو لاحق ہونے والے خطرے کا سوال ہے تو جس کانگریس پارٹی کی آستین سے اب بھی سکھوں کے قتل عام کی بو آتی ہے اس کو یہ الزام زیب نہیں دیتا۔ جو لوگ جامعہ ملیہ میں اپنے شکاری کتوں کو بھیج کر دن دہاڑے معصوم نوجوانوں کو شہید کر دیتے ہیں ان کا امن و سلامتی کے بہانے رام لیلا میدان میں بیٹھنے والے نہتے مظاہرین پر تشدد کرنا عین توقع کے مطابق ہے۔

بابا رام دیو پر بے شمار دولت جمع کرنے کا الزام بھی ہے اور ان کی املاک کو بڑے زورو شور کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں اچھالا جا رہا ہے۔ کیا دستور کی رو سے کسی سادھو سنیاسی کو دولت جمع کرنے پر کوئی روک ٹوک ہے۔ کیا دولت صرف سیاسی رہنما جمع کر سکتے ہیں اور بے حیائی کے ساتھ اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اس کا اظہار کر سکتے ہیں جبکہ ان میں سے اکثر کا کوئی جائز ذریعۂ آمدنی نہیں ہوتا۔ بابا رام دیو اپنے ذاتی جہاز سے دہلی آئے تھے اس کے باوجود مرکزی وزراء ان سے ملنے کی خاطر ہوائی اڈے پر تشریف لے گئے حالانکہ غیر قانونی دولت جمع کرنے کے الزام میں انہیں جیل لے جانا چاہئے تھا۔ اس تحریک کے آغاز سے قبل حکومت کو سوامی رام دیو کی املاک پر دھاوا بولنے کا مکمل اختیار حاصل تھا۔ حکومت نے اس قدر طویل انتظار کیوں کیا؟ اور اب بھی اس دولت میں سے کیا کچھ جائز اور کتنا ناجائز ہے یہ بتانے کے بجائے دولت کس قدر ہے اور ایک سنیاسی کو اس کی کیا ضرورت ہے اس طرح کے بے جا سوالات کے ذریعہ شکوک و شبہات کیوں پیدا کئے جا رہے ہیں ؟

اس بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کالے دھن کا واپس ملک میں آنا تو نا ممکن ہے ہاں اس کوشش میں سرکار گر سکتی ہے ؟ جمہوریت کے اندر حکومت کا بننا بگڑنا ایک معمول کی بات ہے بغیر کسی معقول وجہ کے لوگ اقتدار سے محروم کر دئیے جاتے ہیں اس لئے کسی اہم اور ضروری مقصد کے حصول کی خاطر اگر حکومت گر جاتی ہے تو گرے اپنی بلا سے حکومت کو گرنے سے بچانا عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اہمیت کا حامل کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ کسی مقصد کا حصول ممکن بھی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ان لوگوں کو نہیں کرنا چاہئے جو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں بلکہ ان پر چھوڑ دینا چاہئے جو اس تحریک کو چلا رہے ہیں اور اس کے لئے مختلف قسم کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ ویسے کسی تحریک کو چلانے کے لئے اس کی کامیابی کے امکانات کا یقینی ہونا شرط ہر گز نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ بیشتر اوقات جو چیز ناممکن نظر آتی ہے وہ آگے چل کر ممکن ہو جاتی ہے بشرطیکہ اس کے لئے عزم و حوصلہ کے ساتھ جدوجہد کی جائے۔ انسانی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے۔ آج سے چند ماہ قبل کون سوچ سکتا تھا کہ مصر میں ایسا بڑا عوامی انقلاب برپا ہو جائے گا لیکن جو بات لوگوں کے خواب و خیال میں نہیں تھی دیکھتے دیکھتے سچ ہو گئی اسی لئے انقلابی تحریکیں انتخابی جماعتوں کی طرح بہت زیادہ حساب کتاب نہیں کرتیں۔ بابا رام دیو کی بد عنوٍانی کے خلاف تحریک سے بالآخر کیا حاصل ہو گا یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا مگر ابھی تک یہ اس کے نتیجے میں دو بڑی غلط فہمیاں دور ہو چکی ہیں۔

پہلی تو یہ کہ موجودہ جمہوری نظام کے اندر ایک عظیم عوامی تحریک برپا کرنے کے لئے انتخاب میں حصہ لینا ناگزیر ہے۔ بابا رام دیو کبھی بھی انتخاب کے بکھیڑے میں نہیں پڑے اس کے باوجود وہ ایک ایسی تحریک برپا کرنے میں کامیاب ہو گئے جس سے سرکار کی نیند اڑ گئی اور اسے آدھی رات میں تشدد پر اترنا پڑا۔ دوم یہ کہ موجودہ حالات میں سیاست کو برائیوں سے پاک کرنے کے لئے پارلیمان کی دہلیز پر قدم رکھنا لازمی ہے۔ حقیقت اس کے بر عکس ہے وہ جماعتیں جو اس انتخابی کھیل میں شامل ہیں بد عنوانی کو دور کرنے کے بجائے اس میں ملوث ہو گئی ہیں حالانکہ ان سب کو برپا کرنے والے لوگ نہایت اصول پسند اور انقلابی نظریات کے حامل رہے ہیں۔

گاندھی جی کانگریس کے روح رواں تھے اور رام منوہر لوہیا جنتا پریوار کے۔ پیریار نے ڈی کے تحریک کی بنیاد ڈالی جس کے بطن سے ڈی ایم کے نکلی اور کانشی رام نے بہو جن سماج کی ان میں سے کوئی بھی بدعنوان نہیں تھا بلکہ آرایس ایس کے ہیڈگیوار پر بھی بدعنوانی کا کوئی الزام کبھی نہیں لگا لیکن ان کے شاگردوں کو جو ایوان کی رونق بنے ہوئے ہیں دیکھا جائے تو ہر ایک کا دامن داغدار نظر آتا ہے۔ ایسے میں ایک ایسا شخص جو کبھی بھی اقتدار کے گلیارے میں داخل نہیں ہوا بدعنوانی جیسی بڑی برائی کے خلاف ایک شمشیر بے نیام بن گیا اور عوام نے بھی کاروباری سیاستدانوں کے بجائے ایک یوگا گرو کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھا یہ حیرت انگیز حقیقت ہے۔

ہندوستان کے سارے بدعنوانوں کی آماجگاہ شہر دہلی ہے جہاں سے وہ ملک کی دولت لوٹ کر غیر ملکی بنکوں میں لے جاتے ہیں۔ دل والوں کی دلی ان کا دل کھول کر خیر مقدم کرتی ہے لیکن اگر کوئی اس لوٹ کھسوٹ کے خلاف مہم چلانا چاہتا ہے تو اسے دہلی شہر میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ رام دیو اور ان کے ہمنواؤں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر وزیر اعظم کو افسوس ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ مایا وتی بھی مرکزی حکومت کی بد سلوکی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں لیکن دونوں بابا رام دیوکو دہلی آنے کا راستہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کیا آزادی کے بلند بانگ دعوی کرنے والے ہندوستان کی پیشانی پر یہ ایک کلنک نہیں ہے ؟

٭٭٭

 

دھماکوں کی سیاست اور معیشت کے دھماکے

ممبئی شہر ایک مرتبہ پھر ۳۱ ماہ کے بعد بم دھماکوں سے دہل گیا لیکن اس بار حکومت نے اپنی گوں نا گوں سیاسی مجبوریوں کے سبب بلا کے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ انتظامیہ نے ماضی کی روایات کے برخلاف جلد بازی اور بے احتیاطی سے گریز کیا اور ذرائع ابلاغ کو تلقین کر دی گئی ہے کہ اس معاملے کو بیجا طول دینے کے بجائے ایک بھیانک خواب سمجھ کر جلد از جلد بھلا دیا جائے۔ حکومت کی مجبوری اتر پردیش کے انتخابات ہیں جس میں کانگریس کی توجہ خاص طور پر مسلمانوں کی جانب ہے۔ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہتی جس سے مسلمانوں پر بے سروپا الزام تراشی کر کے انہیں ناراض کیا جائے۔ اتر پر دیش کے انتخابات کانگریس کے لئے اس زاویے سے بھی اہم ہیں کہ اس میں حاصل ہونے والی کامیابی کا سہرہ راہل گاندھی کے سر باندھ کر ان کے لئے وزارت عظمیٰ کا راستہ ہموار کرنا مقصود ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جب بھی اتر پر دیش میں کانگریس کمزور ہوئی ہے گاندھی۔ نہرو خاندان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا ہے گویا اس خاندان کے اقتدار کا راستہ رائے بریلی۔ امیٹھی اور الہ باد سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم کے نہایت سلجھے ہوئے بیان کی کوئی اور وجہ بظاہر نظر نہیں آتی۔

یہ دھماکے کس نے کئے اس کے بارے میں سوائے کرنے اور کروانے والے کے کوئی بھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی بنیاد یا تو قیاس آرائی ہے یا سیاسی ابن الوقتی اور اس کا مظاہرہ سب سے زیادہ مقامی سطح پر ہو رہا ہے مثلاً شیوسینا کاراہل گاند ھی کے بیان پر پیچ و تاب کھاناجس میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دھماکے افغانستان، عراق اور امریکہ میں ہوتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ راہل گاندھی کا یہ بیان ہنوز سیاست کے میدان میں ان کے طفل مکتب ہونے کا ثبوت ہے اگر یہ بات حقیقت بھی ہو تب بھی اس موقع پر اس کا اظہار غیر مناسب ہے۔ راج ٹھاکرے نے اپنی سیاسی روٹی سینکتے ہوئے دیگر ریاستوں سے آنے والے شہریوں کو بلا جواز موردِ الزام ٹھہرا دیا اس کے جواب میں بی ایس پی نے خود راج کو دہشت گرد قرار دے کر اپنی دوکان چمکانے کی کوشش کی۔ سب سے زیادہ غیر ذمہ داری کا ثبوت وزیر اعلیٰ چوہان نے اپنے اس نا عاقبت اندیش بیان سے دیا کہ این سی پی کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان دینا ایک غلط فیصلہ تھا جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ چوہان صاحب شاید یہ بھول گئے کہ سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے باعث وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کی اصل حقدار این سی پی ہے۔ اگر وہ خود اسے این سی پی کے لئے خالی کر دیں تو راشٹر وادی بخوشی انہیں وزارتِ داخلہ کے قلمدان سے نواز دیں گے تاکہ ان کا دم خم دیکھ سکیں۔ جو وزیر اعلیٰ دھماکوں کے بعد ۱۵ منٹ تک اپنے پولس کمشنر سے رابطہ تک نہ قائم کر سکا ہو اسے اس طرح کی ابن الوقتی زیب نہیں دیتی وہ بھی کیا کرے یہی کانگریس کا کلچر ہے۔

ان دھماکوں کے حوالے سے مقامی سیاست کے علاوہ ایک معاشی پہلو بھی روشنی میں آیا ہے۔ ممبئی میں اوپیرا ہاؤس اور دادر کے علاوہ تیسرا دھماکہ زویری بازار میں ہوا جہاں ہیروں کے تقریباً۵۰۰۰ تا ۶۰۰۰ دوکانیں اور کارخانے ہیں۔ حکومت نے ان کے لئے باندرا کر لا کامپلکس میں بھارت ڈائمنڈ بورس تعمیر کیا ہے لیکن ابھی تک صرف ۵۔ ۶ لوگوں نے ہی اس نئی سہولت کا رخ کیا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کے دھماکوں سے بیوپاریوں میں خوف و دہشت پیدا کر کے انہیں قلبِ شہر سے نکال کر مضافات میں بھیجنا مقصود ہو اس لئے کہ زویری بازار کی زمین فی الحال بلڈر لابی کے لئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی بن گئی ہے اور قانوناً وہاں پر بسنے والوں کا انخلا ممکن نہیں ہے ویسے مقامی بیوپاری اب بھی وہاں سے نکلنے کے بجائے پولس چوکی کا قیام اور غیر قانونی پارکنگ کی ممانعت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

۱۳ جولائی کے دن جبکہ یہ دھماکے رونما ہوئے پڑوس کی ریاست گجرات میں فسادات کے حوالے سے ایک اہم ترین فیصلہ عدالت میں سنایا گیا۔ ویرمگام میں عمران بھٹی، جمعہ بھٹی اور حیدر بھٹی کو ۲۸ فروری۲۰۰۲ء کے دن فسادات کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔ نوسال بعد اس مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے احمد آباد کے ٹرائیل کورٹ نے ۶ ملزمین کو سزا سنائی اور ۴ کو رہا کر دیا۔ ان میں سے دو بھوپا بھارواڈ اور باچوجی رنچھوڑ جی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ وٹھل عرف کچھو کو ۱۰ سال قید اوروہالا گھیلا و مولا گھیلا کو پانچ سال کی سزاسنائی گئی۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے قبل گودھرا ٹرین حادثے میں ۳۶ لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا چکا ہے اوردس کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ ٹرین حادثے میں صرف ۵۹ کارسیوک مارے گئے تھے جبکہ اس کے بعد ہونے والے فسادات میں تقریباً ۲۰۰۰ معصوموں نے اپنی جان گنوائی تھی لیکن کسی مجرم کو ابھی تک کوئی سزا نہیں ہوئی تھی اور اس کی واحد وجہ نریندر مودی حکومت کا عدلیہ پر دباؤ رہا ہے۔ مودی کے اس رویہ پر سپریم کورٹ پھٹکار سنا چکا ہے۔  بیسٹ بیکری کا معاملہ گجرات سے ممبئی کی عدالت میں منتقل کیا جا چکا ہے۔

مودی کی دہشت اس قدر ہے کہ اوڈے گاؤں مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی جج محترمہ تریویدی استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئیں۔ گزشتہ سال اسی مقدمے کے سرکاری وکیل سی ایچ دیسائی کو بھی بھگایا گیا۔ اوڈے گاؤں میں یکم مارچ ۲۰۰۲ء کو ۲۳ بدقسمت مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ گجرات فسادات کی پیروی کرنے والے چار سرکاری وکلاء کو اب تک سبکدوش ہونے پر مجبور کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے ۷۲ سالہ معمر وکیل پی آر اگروال نے اپنے استعفیٰ میں الزام لگایا کہ جج سری واستو ان کے دلائل کو سنتے ہی نہیں ہیں اس لئے وہ اپنی ذمہ داری سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔ اگروال صاحب کو مقدمے کے آخری مراحل میں یہ اقدام کرنا پڑا جبکہ ۲۰۰ گواہ ۸۵ ملزمین جن میں سابق بی جے پی ایم ایل اے پرہلاد گوسا بھی شامل ہیں کے خلاف پیش ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل گلبرگ سوسائٹی اور نروڈا پاٹیہ مقدمات کے سرکاری وکلاء آرکے شاہ اور نگم شکلا کو بھی مودی کے دباؤ نے چلتا کر دیا۔ ہر کوئی اس قدر دہشت زدہ کر دیا جاتا ہے کہ ذاتی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ گجرات میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ خصوصی عدالت میں ۸ مقدمات زیرِ سماعت ہیں جس نے سنگھ پریوار کے ۳۳۰ ملزمین کی نیند اڑا رکھی ہے ایسے میں ویرم گام کے مقدمے کا فیصلہ یقیناً ذرائع ابلاغ پر چھا جاتا اور مودی کی دہشت گردی کو بے نقاب کر دیتا مجرمین اور مہلوکین کے افراد خانہ کو ٹیلی ویژن کے پردے پر دیکھ کر فسادات کی یاد تازہ ہو جاتی مگراسی دن ہونے والے یہ دھماکے مقدمے کی خبر پر گہن بن کر چھا گئے۔ اور دھماکوں کے شور میں اس مقدمہ کی آواز گھٹ کر مر گئی۔ نریندر مودی اپنی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر اس طرح کے دھماکے کروانے میں ماہر ہے۔

قومی سطح پر اس کی وجوہات اور اثرات کو جاننے کے لئے وزیر داخلہ کا بیان نہایت معاون و  مددگار ہے۔ پی چدمبرم نے ممبئی حملے پر اظہارِ تاسف کے ساتھ یہ بھی کہا کہ دھماکہ ہندوستان کی معاشی راجدھانی پر حملہ نہیں ہے شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ اس کا کوئی خاص اثر معیشت پر نہیں پڑے گا۔ ان کے مطابق یہ کسی چھوٹے گروہ کا کام ہو سکتا ہے لیکن وہ کوئی قیاس آرائی کرنا نہیں چاہتے انہوں نے پولس کو کسی روایتی مفروضہ کی بنیاد پر تحقیق کرنے کے بجائے ان تمام امکانی گروہوں کی چھان بین کا حکم دیا جو اس طرح کی کارروائی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے جہاں اس بات کا اعتراف کیا کہ انڈین مجاہدین کے دو افراد کو پچھلے دنوں گرفتار کیا گیا وہیں یہ اعلان بھی کیا کہ ابھی حال میں نکسل وادیوں کو بھی ممبئی اور پونا سے گرفتار کیا جاچکا ہے گویا شک کی سوئی کسی ایک فرقہ یا گروہ کی جانب مرکوز کر دینا درست نہیں اس کے باوجود میڈیا میں انڈین مجاہدین کی دھوم ہے لوگ اس طرح سے بیان کر رہے ہیں کہ چدمبرم نے انڈین مجاہدین کا تک نام نہیں لیا اور پھر یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے اس سے پہلے کئے جانے والے سارے حملے ۱۳ یا ۲۶ تاریخوں کو ہوئے اور ان سب میں انڈین مجاہدین ملوث رہے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انڈین مجاہدین صرف اور صرف ممبئی پولس کے ذہن کی افترا پردازی ہے جسے ان لوگوں نے اے ٹی ایس مہاراشٹر کی حریفائی میں ایجاد کیا تھا۔

ان دونوں اداروں کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت اظہر من الشمس ہے۔ دہلی پولس جب جامع مسجد کے معاملے میں انڈین مجاہدین کی تحقیق کرنے کی غرض سے ممبئی آئی تو کرائم برانچ نے ساری تفصیلات ذرائع ابلاغ میں لیک کر کے اسے رسوا کیا۔ ۲۰۰۸ ء کے دھماکوں میں اے ٹی ایس سے پہلے افضل عثمانی کو گرفتار کر کے اے ٹی ایس پر اپنی بر تری ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ ۲۶ نومبر حملے کی تحقیقات کا اصل حقدار اے ٹی ایس تھی لیکن ریاستی حکومت نے یہ ذمہ داری بلاوجہ ممبئی پولس کو سونپی اس سے پہلے ۲۰۰۶ء کے لوکل ٹرین دھماکوں میں انڈین مجاہدین کے ملوث ہونے کا اعلان کر کے ممبئی پولس نے اے ٹی ایس کی جانب سے گرفتار کئے جانے والے لوگوں کو غیر متعلق ثابت کر دیا۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کس قدر بے ربطی پائی جاتی ہے اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جبکہ وجہہ القمر خان کو سی بی آئی نے ۵۰ خطرناک ترین مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کر کے اس کے خلاف انٹر پول سے ریڈ کارنر وارنٹ جاری کروا دیا جبکہ بعد میں پتہ چلا کہ اسے اے ٹی ایس اور پھر ممبئی کرائم برانچ پہلے ہی گرفتار کر چکے ہیں اور وہ حراست میں ہے لیکن ان دونوں اداروں نے سی بی آئی کو اطلاع فراہم کرنے کی زحمت نہیں کی۔

ممبئی بم دھماکوں کے بین الاقوامی محرکات کو جاننے کے لئے مستقبلِ قریب میں ہونے والی ہند پاک بات چیت اور امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے دورۂ ہند کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے پاکستان کے صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی دونوں نے (جنہیں آئے دن کراچی میں ہونے والی اموات پر کوئی غم و افسوس نہیں ہے ) ممبئی بم بلاسٹ کی پر زور مذمت کی گویا بلاواسطہ یہ کہہ رہے ہوں کہ ہم گناہ گاروں کا اس حملے سے کوئی واسطہ نہیں ہے اس کے جواب میں ہندوستان کے خارجہ سکریٹری آر کے سنگھ نے کہا ان دھماکوں سے ہند پاک بات چیت متاثر نہیں ہو گی گویا ہندوستان نے بھی بلاواسطہ یہ تسلیم کر لیا کہ ہم آپ کو اس کے لئے ذمہ دار نہیں سمجھتے ورنہ یہ گفتگو اگر منسوخ نہیں تو کم از کم معطل تو ضرور ہی ہو جاتی۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری کو اگر امریکہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پیش رفت اس کے لئے مفید نہیں بلکہ مضر ہے۔ ان دونوں ہم سایوں کے درمیان اپنا سائبان ڈال کر امریکہ بہادر جو سیاسی و معاشی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے ان پر ہند و پاک کے بہتر تعلقات سے اسی طرح پانی پھر جاتا ہے جس طرح بارش نے ممبئی دھماکوں کے شواہد کو ملیا میٹ کر دیا۔ اگر یہ دونوں از خود دوست بن جائیں تو ہیلری کلنٹن کو آخر ثالث کون بنائے گا ؟اس لئے ہند پاک تعلقات اور امریکی خارجہ سکریٹری کے دورے سے قبل دھماکوں کی اپنی اہمیت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بار ہیلری کلنٹن کی آمد کی خبر کو ذرائع ابلاغ نے اہمیت ہی دھماکوں کے بعد دی ورنہ کون جانتا تھا کہ موصوفہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم رنجا فرمانے والی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اسامہ اور ریمنڈ ڈیوس کے واقعات کے بعد خاصے بگڑ چکے ہیں امریکہ نے اپنی ۳۰ ملین ڈالر کی مجوزہ مدد کو بند کر کے اسے اپنے گرگوں کے ویزا سے مشروط کر دیا ہے اور پاکستانی حکمرانوں نے اس کے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا ہے ایسے میں پاکستان کو گھیرنے اور اس پر بلاواسطہ دباؤ ڈالنے کے لئے اس طرح کے دھماکے نہایت مفید حربہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

اگر ممبئی میں یہ دھماکے نہ ہوئے ہوتے تو بھلا اوبامہ کو ہندوستان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ کہنے کا موقع کیسے ملتا کہ امریکی عوام ہر مشکل کی گھڑی میں ہندوستان کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دلوانے میں ہندوستان کا تعاون کریں گے جیسا کہ ۲۰۰۸ ء میں کر چکے ہیں۔  بظا ہر یہ بیان کافی خوشنما معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سزا دلوانا تو درکنار ممبئی بلاسٹ کے ملزم ڈیوڈ ہیڈلی سے ہندوستانی افسران کو ملاقات کرنے کا موقع بھی امریکی انتظامیہ نے نہیں دیا۔ مسز ہیلری کلنٹن نے اپنے بیان میں کہا کہ میں منصوبے کے مطابق آئندہ ہفتہ اپنا دورہ کروں گی۔ میرا ایمان ہے کہ اس وقت ہندوستان کا ساتھ دینا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ ہم ہندوستان کے ہمراہ دہشت گردی کے خلاف اپنی مشترکہ جدوجہد کا عزم کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ اگر ان بیانات کے پس منظر سے دھماکوں کو ہٹا دیا جائے تو یہ سب کس قدر بے محل معلوم ہوتے ہیں ؟

ہیلری کلنٹن کے دورے کا مقصد نائب سکریٹری رابرٹ لیک نے ایک ویب کانفرنس میں یوں واضح کیا:صدر اوبامہ اور سکریٹری کلنٹن دونوں ممالک کے عوام اوراکیسویں صدی میں عالمی تحفظ اور خوشحالی کے پیش نظر ہند امریکی تعلقات کو وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ اس جملے میں ایک پوشیدہ اشارہ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات پر لگام لگانے کی جانب ہے جو ہندوستان اور امریکہ کا مشترکہ رقیب ہے۔ اس مقصد کے لئے سب سے پہلے تو ہندوستان پر اسلحہ سے متعلق لگائی گئی پابندیوں کو امریکہ نے ختم کر دیا ہے اور پھر جوہری تکنیک کی فراہمی کا دروازہ کھولا گیا۔ رابرٹ بلیک کے مطابق۲۰۱۰ ء میں امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تجارت میں پچھلے سال کی بنسبت ۳۰ فی صد اضافہ ہوا ہے اور فوجی لین دین دوگنا ہو گیا ہے۔ اب توانائی کے علاوہ داخلی تحفظ، دفاعی و دیگر امور پر گفتگو ہو گی۔ ایسے میں اگر پاکستان سے ہندوستان کے تعلقات استوار ہو جائیں اور دھماکے نہ ہوں تو داخلی تحفظ اور دفاعی امور کی ہوا اپنے آپ نکل جاتی ہے۔

بلیک کے مطابق ہند امریکی تعلقات میں سب سے اہم مدعا دہشت گردی کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں اشتراکِ عمل ہے اس کے لئے امریکی داخلی تحفظ کی سکریٹری جانیٹ ناپولیٹانو مئی میں دہلی کا نہایت کامیاب دورہ کر کے وزیر داخلہ چدمبرم سے ملاقات کر چکی ہیں اور اب ہم ہندوستان سے افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک میں تعاون پر گفتگو کرنے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو امریکہ خود افغانستان سے بے آبرو ہو کر بھاگ رہا ہے اور جاتے جاتے اپنی بلا ہندوستان کے گلے میں ڈال کر جانا چاہتا ہے۔ امر اجالا کے صحافی سنجے ابھیگیان نے اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا چونکہ ہندوستان کو اپنے غیرجانبدار ہونے پر فخر ہے اس لئے کیا وہ کبھی امریکہ کا دوست بمعنیٰ حلیف ہوسکتا ہے اس کا چونکا دینے والا جواب بلیک کی جانب سے سامنے آیا اس نے کہا ہم ہندوستان کو غیرجانبدار ملک نہیں سمجھتے۔ ۱۱ستمبر کے بعد ہندوستان نے واقعی یہ محسوس کیا کہ ہند اور امریکہ کے درمیان بہت سارے مشترکہ مفادات اور اقدار ہیں۔ رابرٹ بلیک نے بڑی صفائی سے اعتراف کیا کہ آئندہ چند سالوں میں ہندوستان اپنے دفاعی بجٹ پر ۳۰ بلین ڈالر صرف کرنے والا ہے اس لئے امریکہ کے لئے وہ کافی اہمیت کا حامل(گاہک) ہے۔ فی الحال امریکہ کی معیشت جس طرح چرمرا رہی ہے ایسے میں ہندوستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی اس کے لئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہو گی لیکن اس سے ہندوستان کے عوام کو کیا ملے گا ؟دھماکے، قتل و غارتگری اور گرفتاریاں نیز رہنماؤ ں کو حاصل ہوں گے ووٹ، اقتدار اور بے شمار بدعنوانی کی دولت جس کے بوجھ سے سوئزرلینڈ کے بنک بوجھل ہوئے جا رہے ہیں اورجس کے خلاف ہزارے و رام دیو جیسے لوگ چلا رہے ہیں لیکن دھماکوں کے اس شور شرابے میں ان کی سننے والا کون ہے ؟

٭٭٭

 

ممبئی بم دھماکہ:کہیں بھی حادثہ گزرے وہ مجھ سے جوڑ دیتا ہے

فیض عثمانی بم دھماکوں کی زد میں آنے سے بچ گیا تو اسے دہشت گرد ی کے نام پر ممبئی پولس نے ہلاک کر دیا۔ ممبئی بم دھماکے کا ذمہ دار کون ہے اس کے سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن فیض عثمانی کا قاتل کون ہے اس بارے میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پولس ایک صحتمند آدمی کو جس کا بے گناہ بھائی تین سال سے احمد  آباد میں قید و  بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے تفتیش کی غرض سے اپنے ساتھ تھانے لے گئی اور ایک گھنٹہ بعد اسے ہسپتال میں بھرتی کر دیا گیا۔ اس کے دماغ کی رگیں پھٹ گئی تھیں اس کے باوجود نہ ہی اسے آئی سی یو کی سہولت فراہم کی گئی اور نہ ہی دوسرے دوا خانے میں منتقل کیا گیا یہاں تک کہ وہ مظلوم اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ پولس کا دعوی ہے کہ اسے کوئی جسمانی اذیت نہیں دی گئی ڈاکٹر لہانے کہتے ہیں کہ اس کے بدن پر کوئی زخم نہیں پایا گیا۔ اس کے باوجود ڈی جی پی اجیت پرسنس نے مسلمانوں پریہ احسان کیا کہ موت کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لئے سی آئی ڈی جانچ کا اعلان کر دیا گویا چوروں کا پتہ لگانے کی ذمہ داری ڈاکوؤں کو سونپ دی گئی۔ کیا پولس کے محکمہ سے کوئی مجنون شخص بھی یہ توقع کرسکتا ہے کہ یہ لوگ خود اپنے ہی لوگوں کے آستین پر لگے خون کے دھبے دیکھیں گے اور انہیں عیاں کرنے کی جرأت کریں گے ؟ ان احمقوں کو کون سمجھائے کہ دماغ کی رگیں جسمانی تکلیف سے نہیں بلکہ ذہنی اذیت رسانی سے پھٹتی ہیں اوراسی جرم کا ارتکاب ممبئی پولس نے کیا ہے۔ زبیدہ نام کی ایک بے کس خاتون کو بیوہ اور اس کے چھے معصوم بچوں کو یتیم کرنے کا گناہِ عظیم ان ظالموں کے سرپر ہے جس کی سزا ان کو مل کر رہے گی۔

دھماکوں کے جال میں مسلم عوام کو کس طرح پھنسایا جاتا ہے اس کی ایک زندہ مثال بذاتِ خود فیض عثمانی کا بھائی افضل ہے۔ افضل عثمانی کو احمد آباد کے دھماکوں کا ذمہ دار قرار دے کر گرفتار کیا گیا لیکن جب اس کی فردِ جرم داخل کی گئی تو اس میں کئی قسم کے تضادات اور خامیاں سامنے آئیں دراصل جھوٹ خود اپنے خلاف گواہی دیتا ہے۔ افضل پر سو ل ہسپتال اور ایل جی ہسپتال کے قریب ہونے والے دھماکوں کا الزام ہے۔ سول ہسپتال والی چارج شیٹ ایک جگہ کہتی ہے کہ افضل نے دو عدد ویگن آر کار کی مدد سے دھماکے کئے دوسری جگہ اسی میں درج ہے کہ ایک گاڑی تو ویگن آر تھی مگر دوسری کار ماروتی ۸۰۰ تھی۔ اس کے برعکس ایل جی ہسپتال والی چارج شیٹ کے مطابق دو ویگن آر اور ایک ماروتی کا استعمال دھماکوں کی خاطر کیا گیا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں مقامات پر ایک ہی شخص بیک وقت کیونکر موجود تھا جبکہ دونوں دھماکے ایک ساتھ ہوئے ؟اور اگراس کام کو ایک سے زیادہ لوگوں نے کیا تو ان میں افضل کہاں تھا اور تھا بھی کہ نہیں تھا؟ان دھماکوں میں استعمال ہونے والے اشتعال انگیز مادے کے بارے میں بھی تضاد بیانی پائی جاتی ہے۔

احمد  آباد اور سورت میں ہونے والے دھماکوں کی بنیادی وجہ کیا تھی ؟اس سوال کا اطمینان بخش جواب دینے میں فردِ  جرم بری طرح ناکام ہے۔ اس چارج شیٹ میں ویسے تو انڈین مجاہدین کی جانب سے ایک ای میل کے ذریعہ دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا ذکر ہے جس میں کہا گیا تھا کہ دھماکے گجرات فسادات کا بدلہ لینے کے لئے کروائے گئے لیکن چارج شیٹ کا دعویٰ اس سے مختلف یہ ہے کہ اسلامی حکومت کو قائم کرنے کے لئے یہ دھماکے برپا کئے گئے۔ بم دھماکوں کی وجہ بدلے کی کارروائی تو کسی حد تک قرین قیاس ہے لیکن نظام حکومت کے قیام کی بات جس پر فردِ جرم میں اصرار کیا گیا ہے مسلمانوں تو کجا ہندو دانشوروں کے گلے سے بھی نہیں اتری۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس فردِ  جرم میں اصل وجوہات پر روشنی ڈالنے کے بجائے اشتعال انگیز تقاریر کرنا اور سی ڈی تقسیم کرنا جیسے الزامات کو بلاوجہ بار بار دوہرایا گیا ہے۔

جولائی۲۰۰۸ء میں احمد آباد بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کو سرکاری گواہ بنا لینے کا دعویٰ گجرات پولس نے بڑے طمطراق سے کیا تو تہلکہ جریدے کی رعنا ایوب نے کالج کے اس نوجوان طالبِ علم سے ملاقات کی اور اس گفتگو میں چند ناقابل یقین حقائق سامنے آئے جسے ہر کوئی تہلکہ کی ویب سائٹ پر پڑھ سکتا ہے۔ اس گواہ نے اعتراف کیا کہ وہ بم دھماکوں کی سازش اور تیاری میں شریک تھا۔ اسے فسادات کی کیسٹ دکھلا کر اس کام کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ دھماکوں میں ان کے گروہ کاسرغنہ عالم زیب تھا جو ایک بیرونی خفیہ گروہ (جس کا احمد آباد سے کوئی واسطہ نہ تھا) کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ اس گروہ کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ لوگ جدید طرز کا لباس پہنتے تھے اور خوب سگریٹ پیتے تھے۔ عالم زیب نے اپنے تمام ساتھیوں کو سیمی سے خاص طور پر دور رہنے کی تاکید کر رکھی تھی اور اس گواہ کے مطابق اگر وہ سیمی کے سابقہ ارکان سے ملتے تو وہ انہیں اس کارروائی میں ملوث ہونے سے منع کرتے۔

ابتدا میں ان سے کہا گیا تھا کہ سنگھ پریوار کے دفاتر اور فسادات کے مجرمین مثلاً بجرنگی وغیرہ کو نشانہ بنایا جائے گا لیکن آخری دن اہداف کو تبدیل کر دیا گیا اور بموں کو عام مقامات پر نصب کرنے کا حکم دیا گیا جس سے بد ظن ہو کر اس گواہ نے اپنے آپ کو اس کارروائی سے الگ کر لیا اس کے باوجود پولس نے اسے گرفتار کر کے بری طرح زد و کوب کیا اور جب وہ ٹوٹ گیا تو اسے سیمی کے سابق ممبران کی فہرست پکڑا دی گئی جن کو موردِ الزام ٹھہرا کر اس نے اپنی گردن چھڑائی۔ اس نوجوان نے صاف کہا کہ انڈین مجاہدین جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ وہ کون لوگ تھے جن کے اشارے پر دھماکے کئے گئے اور جن کا بال بیکا نہیں ہوا۔ پولس اور انتظامیہ نے ان کی جانب سے پوری طرح صرفِ نظر کرتے ہوئے ان مجرمین کے بجائے کبھی انڈین مجاہدین تو کبھی حزب المجاہدین کے نام کا شور مچایا اور افضل و شہزاد جیسے لوگوں کو بلی کا بکرا بنا کر گرفتار کر لیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ درمیان میں شہزاد کہاں سے آگیا؟

شہزاد گجرات پولس کا ایک تازہ شکار ہے جسے حال میں نہایت مضحکہ خیز انداز میں گرفتار کیا گیا۔ ممبئی کے حالیہ بم دھماکوں کے دو دن بعد احمد آباد پولس نے شہزاد رنگریز کو احمد آباد میں ڈانی لمڈا نامی مقام سے دس بموں کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا پولس کے مطابق اس نے یہ بم رتھ یاترا کے وقت دھماکہ کرنے کی غرض سے بنائے تھے لیکن سخت انتظامات کے باعث وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ممبئی کے بم دھماکوں نے اس کے حوصلوں کو بلند کر دیا تھا۔ اس بار پھر دھماکوں کی کوئی معقول وجہ ندارد ہے۔ نہ تو ممبئی پولس اور نہ ہی گجرات اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب دے پارہی ہے۔ اس کے باوجود ذرائع ابلاغ ان بے سر پیر کی خبروں کو زور شور سے اچھالنے میں لگا ہوا ہے۔

شہزاد کی گرفتاری کی کہانی بھی نہایت دلچسپ ہے۔ ہوا یوں کہ شہزاد اپنی دوسری بیوی ریشماں کے پاس رات شراب پی کر آیا تو میاں بیوی کے درمیان لڑائی ہو گئی ریشماں اپنے شوہر کی شکایت لے کر پولس تھانے پہونچی تو پولس نے شہزاد کو سبق سکھلانے کے عوض ریشماں کو شہ دی کہ وہ شہزاد پر بم بنانے کا الزام تھوپ دے۔ اپنے خصم سے ناراض ریشماں پولس کے جھانسے میں آ گئی اور رپورٹ درج کرائی کہ شہزاد نے اسے بم سے اڑا دینے کی دھمکی دی اور اس طرح اسے پتہ چلا کہ شہزاد کے پاس بم ہے۔ پولس نے چھاپہ مارکر ایک بم اسی کمرے سے بر آمد کر لیا جس میں ریشماں رہتی ہے لیکن اسے اس بم کے بارے میں لڑائی سے پہلے پتہ نہ تھا۔ یہ ایک ایسی احمقانہ بات ہے کہ بالی ووڈ والے بھی اسے بتلانے کی جرأت نہیں کر سکتے لیکن ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں سب کچھ کھپ جاتا ہے۔ پولس شہزاد نامی شرابی کو انڈین مجاہد قرار دے دیتی ہے اور اخبارات میں اس کی تصاویر چھپ جاتی ہیں۔ پولس کے مطابق اس کے گھر پر ایک اور چنڈولہ جھیل کے کنارے سات بم و دیگر سازوسامان پکڑا گیا جن کی مددسے شہزاد بم بناتا تھا۔ دو دن بعد پولس نے یونس نامی ایک شخص کو گرفتار کیا اس پر الزام ہے کہ اس نے یہ بم شہزاد کو دئیے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بم کس نے بنائے یونس نے یا شہزاد نے ؟ پولس نے ریشماں کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیا اس نے چار سال قبل بھی ایک بنگلہ دیشی کی مدد سے شہزاد کے بم بنانے کی اطلاع پولس کو دی تھی اگر یہ صحیح ہے تو پولس نے شہزاد کی نگرانی کیوں نہیں کی اور اس کو دوبارہ بم بنانے سے قبل گرفتار کیوں نہیں کیا؟

دنیا بھر میں تو یہ ہوتا ہے کہ کئی دھماکوں کو ذمہ داری کسی ایک تنظیم کے سر تھوپ دی جاتی ہے ویسے اس صورتحال کو بالکل بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتاکہ کوئی ایک تنظیم مختلف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہو مثلاً سی آئی اے یا موساد جن کی دہشت گردی کا شمار مشکل ہے لیکن ہندوستان کو اس کے بر عکس یہ سعادت حاصل ہے کہ یہاں ایک ہی دھماکے کی ذمہ داری مختلف لوگوں کے سر تھوپ دی جاتی ہے اور ان حیرت انگیز واقعات پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔ اس طرح کے واقعات کی ایک مشہور مثال تو ۲۰۰۶ء میں ہونے والا وارانسی کا دھماکہ ہے جس کے الزام میں انتظامیہ نے پھولپور اعظم گڑھ کے ولی اللہ کو سرغنہ قرار دے کر اپریل۲۰۰۶ء میں گرفتار کر لیا۔ اس واقعہ کے ایک ماہ بعد باغپت کے رہنے والے ابو زبیر کو  کپوارہ میں ہلاک کر کے یہ دعویٰ کر دیا گیا کہ وارانسی بم دھماکے کا اصل مجرم وہی تھا اور وہ فرار ہو کر پاکستان جا رہا تھا کہ پولس مڈ بھیڑ میں مارا گیا۔ ان دونوں متضاد خبروں کو ذرائع ابلاغ بے دھڑک شائع کرتا رہا کسی نے رک کر پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ آخر سچ کیا ہے ؟

ولی اللہ کے اہل خانہ ان کے معصوم ہونے کی دہائی دیتے رہے اور وکلاء نے ان کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی۔ عدالتی دہشت گردی کا یہ عالم تھا کہ کسی وکیل کو ان کی پیروی کی اجازت نہیں تھی جو کوئی آگے آتا تو اسے دھمکی دی جاتی بلکہ ایک مرتبہ عدالت کے احاطے میں وکلاء نے ملزم پر حملہ بھی کر دیا۔ دوسری جانب فاسٹ ٹریک عدالت میں پولس انسپکٹر ترپاٹھی مسلسل آٹھ پیشیوں میں حاضر نہیں ہوئے یہاں تک کہ جج نے ولی اللہ کو رہا کرنے کی دھمکی دے دی تب جا کر مقدمہ آگے بڑھا ۲۰۰۸ء میں ولی اللہ کو ملک سے بغاوت جیسے سنگین الزامات سے بری کر دیا گیا مگر غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور سازش کرنے کا الزام لگا کر دس سال کی سزا پھر بھی سنائی گئی۔ اس مقدمے کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے مسلمانوں کے ساتھ پولس اور انتظامیہ کس طرح کا معاملہ کرتا ہے۔ جن الزامات کا اعتراف اسیمانند کر چکا ہے آج بھی ان کے کے لئے انڈین مجاہدین اور حرکت الجہاد کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ کے خلاف اس قدر شواہد کے موجود ہونے کے باوجود بے گناہ مسلم نوجوان ہنوز رہائی سے محروم ہیں۔ بقول شاعر ؎

مجھے بے دست وپا کر کے بھی خوف اس کا نہیں جاتا

کہیں  بھی  حادثہ  گزرے  وہ  مجھ  سے  جوڑ  دیتا  ہے

سیاسی جماعتیں اور انتظامیہ اپنی گوناگوں مفادات کے پیش نظر دھڑلے کے ساتھ اس طرح کا ظلم و زیادتی کرتے رہتے ہیں اس لئے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ عوام کی یادداشت پوری طرح غارت ہو چکی ہے انہیں ماضی کی کوئی بات یاد نہیں رہتی اور وہ ہر قسم کی کذب بیانی پر ایمان لانے کے لئے ہر دم تیار بیٹھے ہیں ورنہ یہ نہ ہوتا کہ جس روز فیض عثمانی کا بہیمانہ قتل ہوا اس روز ممبئی کے سب سے بڑے اور معتبر سمجھے جانے والے اخبار ٹائمز کے ٹیلی ویژن چینل سے حرکت الجہاد کے جنوبی ہند کے نام نہاد کماندار محمد یوسف کا اقبالیہ بیان نشر ہو رہا ہوتا۔ اس شخص کو ڈیڑھ سال قبل گرفتار کیا گیا اور ۲۰ جنوری۲۰۱۰ء کو یہ فلم ٹائمز ناؤ سے نشر ہو چکی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اقبالیہ بیان کی فلم ٹائمز کو ملی کیسے ؟ پولس نے اسے کیوں ذرائع ابلاغ کے حوالے کیا؟ اور اس فلم میں جس شخص کو دکھلایا گیا وہ کون ہے ؟ اور گزشتہ ڈیڑھ سالوں کے درمیان اس کا مقدمہ کہاں تک پہنچا ؟ یہ سب بتلانے کے بجائے اسے اس طرح نشر کیا جا رہا تھا گویا موجودہ دھماکوں میں اس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اچانک اس طویل عرصے کے بعد ٹائمز کو اس فلم کو نشر کرنے کا خیال اس موقع پر کیوں آیا نیز اس عرصے میں سنگھ پریوار کے جن دہشت گردوں نے جھوٹ پکڑنے والی مشین کے آگے بیانات دئیے ہیں پولس انہیں ذرائع ابلاغ کے حوالے کیوں نہیں کرتی اور ٹائمز والے ایسے مواقع پر سوامی اسیمانند کے اقبالیہ بیان کو کیونکر پوری طرح بھلا دیتے ہیں۔ اسے بھی نشر کر کے اپنے غیر جانبدار ہونے کا ثبوت کیوں پیش نہیں کیا جاتا ؟ یہ تمام سوالات اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ نام نہاد آزاد میڈیا دولت کی غلامی میں اندھا ہو چکا ہے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ بقول شاعر ؎

حادثہ شہر میں کل تو کوئی ایسا نہ ہوا

یہ  تو اخبار  کے  دفتر  کی  خبر  لگتی   ہے

ٹائمز ناؤ کی ایک صحافی اس روز بہار کے کشن گنج ضلع میں پاؤ کھالی نام کے گاؤں میں بھی پہنچ گئی جہاں ریاض السرکار نامی بنگلہ دیشی کو بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے شبہ میں پولس نے گرفتار کر لیا اس صحافی ریاض کے مکان مالک مہتاب عالم کا انٹرویو نشر کیا۔ ریاض السرکار کے بارے میں بتلایا گیا کہ وہ حرکت الجہادسے تعلق رکھتا ہے اور پولس اس کے انڈین مجاہدین اور سیمی سے تعلقات کا پتہ لگا رہی ہے۔ ویسے ریاض اپنے آپ کو ہندوستانی بتلاتا ہے۔ اسے ہندی اور انگریزی کے علاوہ کنڑ زبان پر بھی ملکہ حاصل ہے اورپولس کے مطابق اس کی ڈائری میں مراٹھی زبان کے اندراجات بھی پائے گئے ہیں۔ یہ کیسا بنگلہ دیشی ہے جو بنگلور اور ممبئی جیسے شہروں میں رہنے کے بعد کشن گنج میں جا بسا ہے ؟ جبکہ اس کے نشانے پر یہی بڑے شہر ہیں۔

رات گئے تک ٹائمز ناؤ کی یہ او ٹ پٹانگ خبریں دیکھتے دیکھتے میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں ۲۶ نومبر کو ممبئی شہر پر ہونے والے حملے کی فلم چل پڑی میں نے دیکھا لیوپولڈ کیفے سے دہشت گرد بیئر کی کئی بوتلیں چڑھا کر باہر نکلے اور سی ایس ٹی ریلوے اسٹیشن پر آ کر اندھا دھند گولیاں برسانے لگے اس کے بعد وہ باہر آ کر ٹائمز کی عمارت میں گھس گئے اور ٹائمز ناؤ کے دفتر کو تہس نہس کر ڈالا۔ میں خواب میں ٹیلی ویژن کا چینل بدل کر آج تک پرجا پہونچا جہاں شوخ اور چنچل انامیکا ٹائمز کی تباہی پر افسوس کا اظہار کر رہی تھی۔ ٹائمز والوں نے اس حملے کے بعد اپنی نشریات ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس خبر کو سناتے وقت انامیکا کا چہرہ خوشی سے تازہ گلاب کی مانند کھل گیا تھا۔ اس خبر پر تبصرے کی خاطر انامیکا نے فون سے آندھرا کے جنگلوں میں بیٹھے نکسلی رہنما تنگا راؤ سے رابطہ قائم کیا جن کی کردار کشی حال ہی میں ٹائمز ناؤ چینل نے کی تھی۔ جب ان سے ٹائمز کے بند ہو جانے پر اپنی رائے کا اظہار دینے کے لئے کہا گیا تو تنگا راؤ بولے ’’ یہ تو گینگ وار ہے۔ کرائے کے صحافی جو مائک ہاتھ میں لے کر ہر روز عوام کو اپنی دہشت گردی کا شکار کرتے ہیں۔ بالآخر وہ کرائے کے دہشت گردوں کے ہاتھ مارے گئے۔ معمولی سے توقف کے بعد تنگا راؤ نے آگے کہا بھئی میں تو پیپلس وار کا آدمی ہوں مجھے اس گینگ وار میں نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا افسوس ہے۔ ‘‘اچانک میری آنکھ کھلی تومیں نے اپنے آپ کو ٹٹولا مجھے بھی کوئی افسوس نہیں تھا اور مجھے یقین ہے کہ جب عوام کی آنکھ کھلے گی تو اسے بھی کوئی افسوس نہیں ہو گا۔

 ٭٭٭

 

دہلی دھماکہ:تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے

دنیا بھر کے لوگوں نے ۱۱ ستمبر کو دس سال قبل ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حملے کو یاد کیا اوراس کے سوگ میں ہم ہندوستانیوں نے پانچ روز قبل دہلی ہائی کورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے کو فراموش کر دیا۔ ہندوستان کے لوگوں کی جس صفت کا اعتراف ساری دنیا کرتی ہے وہ ہمارا صبر و تحمل ہے جو اپنی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس معاملے میں استثناء اس وقت ہوتا ہے جب کسی کمزور کے خلاف ہمیں سرکاری تحفظ حاصل ہو جائے جیسا کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد خود دہلی میں ہوا تھا یا  گودھرا ٹرین حادثے بعد گجرات میں ہوا۔ ہمارے عفو و درگذر کا راز ہماری مجبوری میں پنہاں ہے جس کا جی بھر کے فائدہ ہماری حکومت اٹھاتی ہے اور یہی کچھ دہلی ہائی کورٹ کے دھماکے کے بعد بھی ہوا۔ ہم نے اس واقعہ کو اس قدرآسانی سے کیونکر بھلا دیا؟ اس سوال کا نہایت دلچسپ جائزہ مختلف ماہرین نفسیات نے پیش کیا ہے۔

معروف ماہر نفسیات اودھیش شرما کے مطابق اس طرح کے حملوں کے بار بار ہونے نے ہمیں ان کا عادی بنا دیا ہے۔ ہمارا ذہن ان حادثات کو درج تو کرتا ہے لیکن ہم میں سے اکثر لوگوں کے اندر اس سے متعلقہ احساسات و جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ ایک بہیمانہ قتلِ عام ہمارے لئے ایک خبر بن کر رہ جاتا ہے اور اموات کو ہم تعداد میں شمار کرتے ہیں۔ تحت الشعور میں ہم اس واقعہ کا موازنہ کسی فلمی منظر سے کرنے لگتے ہیں۔ جب کوئی سیاستداں اسے بزدلانہ حملہ قرار دیتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کوئی پرانی ریل دوہرائی جا رہی ہے۔ ٹی وی کے پردے پر نظر آنے والے مناظر میں بھی بلا کی یکسانیت دکھائی دیتی ہے بہ الفاظِ دگر ضمیر کی موت نے احسا س کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ اس لئے کہ ہم سب جانتے ہیں جن سراغوں کا ابتدا میں بڑے طمطراق کے ساتھ دعوی کیا جاتا ہے وہ آگے چل کر ایک اندھی گلی میں دم توڑ دیتے ہیں۔ اس لئے معروف ماہرنفسیات ایرا تریویدی یوں رقمطراز ہیں کہ یکے بعد دیگرے حادثات کے باعث ہماری بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جب کسی حادثے کی خبر ہمیں ملتی ہے توسب سے پہلے ہم اپنے اعزہ و اقارب کی خیریت معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب پتہ چلتا ہے کہ وہ سارے محفوظ و مامون ہیں تو پھر اپنے کام میں کولہو کے بیل کی مانند جٹ جاتے ہیں۔ شرما کا کہنا ہے کہ آج کل ہمارے آس پاس اس قدر منفی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ ہم ان حادثات کی جانب بالکل توجہ نہیں کرتے جو ہم پر براہ راست اثرانداز نہیں ہوتے۔ اسی لئے ٹیلی ویژن کے پردے پر بکھری ہوئی لاشوں کے مناظر کو دیکھتے ہوئے ہم لوگ کھاتے پیتے اور ہنستے بولتے رہتے ہیں۔ مرکزی وزیر برائے سیاحت سبودھ کانت سہائے نے جو ممبئی بم دھماکے کے وقت فیشن شو سے محظوظ ہو رہے تھے دہلی دھماکے کے بعد اعلان کیا کہ دھماکے کہاں نہیں ہوتے ؟دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں اور ہم نے تو دھماکوں کے بیچ جینا سیکھ لیا ہے۔ ان سے ہمارے معمولات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کی کارروائی دھماکے کے باوجود جاری رہی۔ اس افسوس ناک صورتحال میں عوام کی حالتِ  زار پر ساحرؔ لدھیانوی کے یہ اشعار صادق آتے ہیں ؎

تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں ‌بے دلی سے ہم

لو آج  ہم نے   توڑ   دیا    رشتۂ    امید

لو اب  کبھی  گلہ   نہ   کریں   گے کسی   سے ہم

شاعر کی طرح ماہرین نفسیات کی رائے بھی یقیناً مبنی بر حقیقت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ حملے بار بار ہوتے کیوں ہیں ؟جب تک اس سوال کا جوا ب ہم حاصل نہیں کرتے اس وقت تک ان حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور قوم کے چند افراد اس میں اپنی جانِ عزیز گنوائیں گے مگر من حیث القوم ہم ایک زندہ لاش میں تبدیل ہو جائیں گے۔

دہلی ہائی کورٹ کے دھماکے پر تبصرہ کرتے ہوئے تمام ذرائع ابلاغ نے اس بات پر ا شارہ کیا کہ یہ اسی سال ۲۵ مئی کو ہونے والے حملے کا اعادہ ہے۔ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ وہ ریہرسل تھا اور یہ اصل ہے لیکن یہ سراسر حماقت کی بات ہے۔ دہشت گردانہ حملوں کا ریہرسل نہیں کیا جاتا۔ اس حقیقت کے باوجود اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حملوں کے اندر گہرا تعلق ہے چونکہ دونوں کا مقصد یکساں ہے اس لئے یقیناً دونوں کے حملہ آور کا ایک ہی ہونا فطری امر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حملہ آور کون ہے ؟ اس کا پتہ لگانے کے لئے یہ دیکھنا ہو گا کہ دونوں ہی مرتبہ ان دھماکوں نے کس کا بھلا کیا؟اس سوال کا جواب جاننے کے لئے مئی کے آخری ہفتہ میں وقوع پذیر ہوئے سیاسی حالات اور ماہِ ستمبر کے پہلے ہفتہ میں رونما ہونے والے واقعات کا موازنہ ضروری ہے۔ ۲۰ مئی کے دن ۲۔ جی بدعنوانی کے معاملے میں سی بی آئی کی رپورٹ شائع ہوئی اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور وہی زمانہ تھا جبکہ دولتِ مشترکہ کے کھیلوں میں ہونے والی بدعنوانی منظرِ عام آئی اور سریش کلماڑی سمیت کئی افراد گرفتار ہوئے۔ ستمبر کے آغاز میں نوٹ کے بدلے ووٹ کی کہانی بے نقاب ہوئی اور امر سنگھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑی لیکن یہ تو ایک واقعہ تھا اس کے علاوہ آڈیٹر اور کمپٹرولر کی رپورٹ پارلیمان میں پیش ہوئی جس میں ائیر انڈیا کے ذریعہ جہازوں کی خریداری پر بے شمار سوالات اٹھائے گئے ریلائنس کے کرشنا گوداوری ٹھیکے کی بدعنوانیاں نمایاں کی گئیں۔ یہی وہ وقت تھا جب آدرش گھوٹالہ میں دو مرکزی وزراء ولاس راؤ دیشمکھ اور سشیل کمار شندے سے سی بی آئی نے پوچھ تا چھ  کا آغاز کیا۔ اس پس منظر میں مندرجہ ذیل سوالات پر غور کیا جائے تو عقدہ اپنے آپ کھل جاتا ہے :

•          ذرائع ابلاغ میں مندرجہ بالا خبروں پر پردہ ڈالنے کی ضرورت کسے تھی ؟

•          ان موضوعات پر اخبارات و ٹیلی ویژن پر بحث و مباحثے میں کس کا نقصان تھا ؟

•          بدھ کے دن اگر دہلی ہائی کورٹ کا دھماکہ نہیں ہوتا تو کیا اس دن امرسنگھ کی ضمانت کے رد ہو جانے کے باعث کانگریس کے ساتھ ان کے امر پریم کی کہانی پردہ سیمیں پر زیرِ  بحث نہیں آتی ؟اگر ایسا ہوتا تو اس کہانی کے ہیرو منموہن اپنے آپ کو کیسے بچاتے ؟

•          جمعرات کو جب ریلائنس اور ائیر انڈیا کے گھپلے سامنے آتے تو کیا امبانی اور پٹیل کو منہ چھپانے کی کوئی جگہ میسر آتی؟

•          انا ہزارے کی بھوک ہڑتال ختم کروانے والے ولاس راؤ جب سی بی آئی کے دفتر سے اپنی آدرش صفائی پیش کر کے لوٹتے تو کیا ٹی وی والے انہیں بخش دیتے ؟

دہلی ہائی کورٹ کے دھماکے نے ان تمام سوالات کو معصوم عوام کے خون کی چادر سے ڈھانپ دیا گیا بقول قتیل شفائی ؎

کبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیں

تو    روشنی    کے   واسطے    جلا    لیا     گیا    مجھے

آج کل ہمارے ملک میں بدعنوانیاں اس قدر عام ہو گئی ہیں کہ ان کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لئے بم دھماکے کروانا بظاہر غیر منطقی معلوم ہوتا ہے لیکن اگر کوئی ان گھپلوں کی نوعیت اور کمیت پر غور کرے اور ہمارے سیاستدانوں کی خصلت و جرأت کو نظر میں رکھے تو اسے یہ حرکت نہایت معمولی دکھائی دے گی۔ دولتِ مشترکہ کے کھیلوں کی انتظامیہ کمیٹی کے سابق صدر سریش کلماڑی پرانے کانگریسی ہیں۔ کانگریس پارٹی میں ان کی پذیرائی محض اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ شرد پوار کے ازلی دشمن ہیں اور اسی لئے انہیں کھانے کمانے کا موقع دینے کے لئے اس کمیٹی کی صدارت سے نوازا گیا۔ انہوں نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوتے ہوئے تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر ایک سوئس کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا جس سے سرکاری خزانے کا ۹۵ کروڑ روپئے کا نقصان ہوا۔ ایسا کرنے کے لئے انہوں نے اپنے افسران تک کو کنارے لگا دیا۔ ان کے ایک دستِ راست سرجیت نے دعویٰ کیا تھا کہ وزارتِ کھیل نے سوئس ٹائمنگ کمپنی کو ایک ٹنڈر کی بنیاد پر ٹھیکہ دینے کی توثیق کی تھی جو سراسر بے بنیاد پایا گیا۔ ۲۵ مئی کے ملک بھر کے اخبارات میں کلماڑی کے خلاف داخل ہونے والی چارج شیٹ سب سے بڑی خبر تھی۔ دوسری بڑی خبر ۲۔ جی گھپلے میں سی بی آئی کی جانب سے داخل کی جانے والی سابق وزیر مواصلات و اطلاعات کے خلاف پیش ہونے والی چارج شیٹ کا ذکر تھا۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں ۳۰۰۰۰ہزار کروڑ کے گھپلے کا الزام لگا یا تھا اور خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس میں سے کچھ بھی سرکار کو واپس نہیں ملے گا۔ ان معاملات پر پردہ ڈالنے کے لئے دہلی ہائی کورٹ میں ایک ایسا دھماکہ کر دینا جس میں کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہو کوئی مہنگا سودہ ہر گز نہیں تھا۔

اے راجہ کا قصور تو بس اتنا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو عوام کی دولت لوٹ کر اسم بامسمہ بنانے کی کوشش کی تھی اس کی جانب سب سے پہلے انگشت نمائی سی اے جی کی رپورٹ میں کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ 1.76 لاکھ کروڑ کی خرد برد ہوئی ہے۔ سی بی آئی نے اسے ہلکا بھی کیا تو بات ۳۰ ہزار کروڑ سے کم نہ ہوسکی۔ اس میں دو سو کروڑ تو ڈی ایم کے پارٹی کے ٹی وی چینل کو دئیے گئے اور اس الزام میں کروناندھی کی بیٹی کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ اس کے علاوہ راجہ کے پاس بیرونی زر مبادلہ کی جو غیر قانونی رقم پائی گئی وہ ہزار کروڑ ہے۔ راجہ نے اپنی دولت کو اس ہوشیاری سے مختلف افراد اور نجی ٹرسٹوں میں پھیلا دیا ہے کہ سی بی آئی کے لئے جانتے بوجھتے ہوئے بھی اسے ثابت کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ راجہ کے اس کالے دھندے میں اس کا مکھوٹا صادق باشا ہوا کرتا تھا۔ جب سی بی آئی نے اس کے اطراف شکنجہ تنگ کیا اور وہ تعاون کے لئے تیار ہو گیا تو اسے قتل کروا دیا گیا۔ جو لوگ اپنے بہی خواہوں کو بلی کا بکرا بنانے میں پس و پیش نہیں کرتے ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اجنبی معصوموں کا خونِ  ناحق بہانے سے گریز کریں گے خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے ؟ مواصلات کے شعبے میں ہونے والی اس زبردست بدعنوانی کا حزبِ اختلاف بی جے پی کوئی فائدہ نہیں اٹھا پا رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس نے بڑی عیاری کے ساتھ سی بی آئی کی تفتیش کا دائرہ کار وسیع کر دیا ہے اور اس میں این ڈی اے کے وزراء پرمود مہاجن، رام ولاس پاسوان اور ارون شوری کو بھی شامل کر لیا ہے۔ ان لوگوں نے سابقہ وزیرِ خزانہ جسونت سنگھ سے بھی پوچھ تاچھ شروع کر کے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے اس لئے یہ بیچارے انا ہزارے کی حمایت پر قناعت کر کے بیٹھے ر ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس دھماکے کے بعد اڈوانی نے دہشت گردی کے بجائے بدعنوانی کے خلاف رتھ یاترا کا اعلان کر دیا۔ اس سے پہلے جو نوجوان قیادت اڈوانی کی رتھ میں پیش پیش ہوتی تھی اب وہ سرد مہری دکھلا رہی ہے اس لئے کہ انہیں اس کے پہئے تلے اپنے خواب کچلتے ہوئے دکھلائی دیتے ہیں۔

ستمبرکے حالات مئی سے زیادہ سنگین تھے امرسنگھ کے علاوہ دو مرکزی وزراء دیشمکھ اور شندے پر آدرش گھوٹالے کے الزامات نیز ائیر انڈیا اور ریلائینس پر سی اے جی کی رپورٹ یہ ایک بڑے دھماکے کا تقاضہ کرتی تھی۔ سرکار جانتی تھی کہ امر سنگھ منگل کو گرفتار ہوں گے ان کی درخواستِ ضمانت بدھ کو نامنظور ہو گی اور جمعرات کو سی اے جی کی رپورٹ پارلیمان میں پیش ہو گی۔ حکومت کو یہ بھی پتہ تھا کہ اس رپورٹ میں کس قدر دھماکہ خیز  انکشافات ہوں گے اس لئے بدھ کا دن دہلی ہائی کورٹ کے دھماکے کے لئے مختص کیا گیا اور سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا۔ پر فل پٹیل نے تو خیر ٹی وی پر اپنی صفائی پیش کر دی لیکن ریلائنس کے دفترسے تو ذرائع ابلاغ والے رپورٹ یا انٹرویو لانے کے بجائے صرف تحفے تحائف لے کر لوٹ آئے اور انہیں عوام کی نظروں سے چھپا دیا۔ پرفل پٹیل نے بجائے ۱۱۱ جہاز خریدنے کا جواز پیش کرنے کے سی اے جی رپورٹ میں تضادات نکالنے شروع کر دیا۔ ائیر انڈیا نے ایک ایسے وقت میں جبکہ اس کا جہاز ڈوب رہا ہے ۴۰۰۰۰ کروڑ کا سودہ بغیر بازار کی جانچ پڑتال کے کر دیا۔ ایسا کرنے کے لئے پہلے انڈین ائیرلائنز کو اس میں ضم کیا گیا اس فیصلے پر بھی سی اے جی نے اعتراض کیا اور پھر بڑی جلد بازی میں ایک ایسی ضرورت پیش کی گئی جو نامعقول ہے فی الحال اس دم توڑتی کمپنی کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے مالی وسائل نہیں ہیں اس لئے کہ یہ ۳۸۰۰۰ ہزارا کروڑخسارے میں ہے۔ اگر یہ احمقانہ سودہ نہیں کیا گیا ہوتا تو ایئر انڈیا خسارے کے بجائے منافع میں ہوتی۔ یہ سرکاری کمپنی ایک جانب جہاز خرید رہی ہے اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کو ہندوستانی ہوائی اڈوں تک رسائی دی جا رہی ہے اس خود کش حکمتِ عملی پر بھی سی اے جی نے اعتراض کیا ہے۔

کرشنا گوداوری کے ڈیلٹا میں ریلاینس کی جانب سے تیل کے ذخائر کا انکشاف اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز خبر تھی اس لئے کہ یہ نوزائیدہ نجی کمپنی مغربی ہندوستان میں کام کرتی تھی اورسرکاری ادارہ او این جی سی برسوں سے معدنی تیل کی تحقیق و تفتیش میں لگا ہوا تھا اس لئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ او این جی سی کو اس کا پتہ چلتا خیر لکشمی دیوی کی کرپا سے وہ چمتکار ہو گیا۔ اس کے بعد ریلائنس نے حکومت سے معاہدہ کر کے وہ علاقہ اپنے قبضے میں کیا لیکن ٹھیکے میں اراضی کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی نہیں کی۔ اس لئے ایک کے بعد ایک دس اضافی ٹھیکے دئیے گئے اور یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔ سی اے جی کے مطابق ڈائرکٹر جنرل ہائیڈرو کاربن کو چاہئے تھا کہ وہ ریلائنس کو دوسرے مرحلے سے روک دیتے اس لئے ا ب ٹھیکے کے دس مرحلوں پر نظر ثانی ہونی چاہئے اور ایسا کرنے کے لئے ڈائرکٹر صاحب اہل نہیں ہیں۔ ریلائنس نے ۲۵ فی صد تیل سے مالامال علاقہ حکومت کو واپس کرنے کی شرط سے بھی روگردانی کی ہے۔ ریلائنس کی دھاندلی کی فہرست کافی طویل ہے ایک طرف اس نے پیداوار کی تقسیم میں چوری کی اور دوسری جانب جن کنوؤں سے تیل نکالا جا چکا ہے انہیں قاعدے سے بند کرنے کی ماحولیاتی ذمہ داری بھی ادا نہیں کی۔ چند سال قبل ہندوستان جیسے غریب ملک کے سرمایہ دار مکیش امبانی کو جب دنیا کے سب سے امیر آدمی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تو سب لوگ حیرت زدہ تھے لیکن اگر حکومتِ وقت اپنا قومی سرمایہ نجی لوگوں کو کوڑیوں کے بھاو بیچنے لگے تو یہی ہو گا کہ عوام غریب سے غریب تر اور سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے چلے جائیں گے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے زیر سایہ ہندوستان میں یہی ہو رہا ہے۔ منموہن جی نے جس وقت اقتدار سنبھالا تھا اس وقت لوگ انہیں نہایت صاف ستھرے کردار کا حامل سیاستداں سمجھتے تھے لیکن اب حال یہ ہے کہ ان کی حکومت کو ہندوستانی تاریخ کی سب سے زیادہ بد عنوان حکومت ہونے کا شرف حاصل ہو چکا ہے یہ اور بات ہے  کہ کانگریسی حضرات تو کجا بدعنوانی کے خلاف لڑنے والے دورِ حاضر کے عظیم سورما انا ہزارے بھی ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہیں گویا ایک طرف ملک دھماکوں کی زد میں اور دوسری جانب انشا جی کے نام کو منموہن سے بدل کر ان کے شعر کو یوں پڑھا جا رہا ہے ؎

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں

تم   منموہن   کا   نام  نہ  لو، کیا منموہن  سودائی   ہیں

٭٭٭

 

میرا کا درد

محترمہ میرا شنکر کوامریکہ میں ہندوستان کی اولین خاتون سفیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس سے پہلے وہ جرمنی میں اسی عہدے پر فائز تھیں۔ ویسے ۱۹۹۰ء میں جبکہ سدھارتھ شنکر رائے سفیر ہوا کرتے تھے وہ امریکی سفارت خانے کے اقتصادی شعبہ میں کام کر چکی ہیں۔ سفارتی حلقوں میں میرا شنکر نہایت قابل اور پر وقار خاتون کے طور پر معروف ہیں جس کی تصدیق خود صدر اوبامہ بھی کر چکے ہیں۔ انہیں ایک ایسے وقت میں امریکہ میں سفارتکاری کاسنہرہ موقع ملا جب کہ ہند امریکی تعلقات عنفوانِ شباب پر ہیں۔ میرا شنکر نے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کے امریکی دورے سے قبل اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم امید اور مواقع کے ایک پر عزم دور میں ہیں۔ وزیر اعظم سنگھ اور صدر اوبامہ ہمارے آپسی تعلقات کی بہتری کو عظیم بلندیوں پر لے جائیں گے اور باہم اعتماد و تعاون کا نقشہ کار مرتب کریں گے۔ ‘‘ اس بیان کے ایک سال بعد صدر اوبامہ کے ہندوستانی دورے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میرا نے کہاہندوستان کی غیر معمولی معاشی ترقی نے ہند امریکی تعلقات کی بہتری میں موثر کردار ادا کیا ہے۔ براک اوبامہ کے ہندوستانی دورے میں دونوں ممالک کے رہنماؤں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ہند امریکی اشتراک نہ صرف ان دو ممالک بلکہ عالمی استحکام اور خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے۔ امریکہ پر اپنے ملک کے احسانات گناتے ہوئے وہ بولیں کے اوبامہ کے مذکورہ دورے میں امریکی تاجروں نے ایک ہزار کروڑ ڈالر کی برآمد کے معاہدے کئے ہیں جن سے امریکہ کے اندر پچاس ہزار لوگوں کو ملازمت ملے گی گویا یہ دوستی دونوں ممالک کے لئے نفع بخش ہے۔

 ایک طرف میرا شنکر کی یہ خوش فہمیاں اور دوسری جانب خود ان کے ساتھ امریکی حفاظتی دستوں کی جانب سے روا رکھا جانے والا سلوک، ان دونوں کے درمیان کو ئی مطابقت نظر نہیں آتی۔ تین ماہ قبل ماہِ ستمبر میں انہیں مسافروں کی قطار سے الگ کر کے ان کی خاص جامہ تلاشی لی جاتی ہے جس پر وہ خاموشی اختیار کر لیتی ہیں اور کوئی خبر نہیں بنتی لیکن پھر گزشتہ ہفتے بدسلوکی کو دہرایا جاتا ہے۔ میٹل ڈٹیکٹر سے گزرنے کے باوجود انہیں دیگر مسافروں سے الگ کر لیا جاتا ہے تاکہ ان کی مخصوص جامہ تلاشی لی جا سکے۔ وہ اپنے سفارتی کاغذات دکھلاتی ہیں اور سمجھاتی ہیں کہ بین الاقوامی ویانا کنونشن کے تحت سفارتکاروں کو تفتیش سے رعایت دی گئی ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وجہ دریافت کرنے پر بتلایا جاتا ہے چونکہ انہوں نے ساڑی پہن رکھی ہے اس لئے یہ امتیازی سلوک ان سے کیا جا رہا ہے۔ معروف سابق سفارتکار بھدرا کمار نے اس اہانت آمیز رویہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لکھا کہ اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ ہندوستانی سفارتکاروں کو امریکہ میں ڈیزائنر انڈروئیر (جانگیہ)پہن کر فیشن پریڈ کے لئے اپنے آپ کو تیا ر کر لینا چاہئے بشرطیکہ اس ابھرتی ہو عالمی طاقت کا عزت و وقار اس کی اجازت مرحمت فرما دے۔

پندرہویں صدی کے اواخر میں راجستھان کے اندر میرا بائی نام کی ایک شاعرہ پیدا ہوئی وہ کرشن کی بھکت تھی اسے لوگ رادھا کا پونر جنم بھی کہتے ہیں جو کرشن کی معشوقہ تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ میرا بائی کرشن کے بھجن گاتی اور مندر میں رقص کرتی تو اس کے سسرال والے اسے معتوب کرتے اور کرشن کنھیا اس کی مدد کرتے بالآخر وہ تلسی داس کے کہنے پر اپنا گھر سنسار تیاگ کر کرشن جنم استھان متھرا چلی آئی اور بعد میں کرشن کی جائے وفات دوارکا سفر کیا اور وہاں فوت ہوئی۔ یہ مغلیہ دور کی میرا کا حال تھا لیکن یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جمہوری دور کی میرا شنکر بھی بھارت ماتا کی بھکتی میں امریکہ کے اندر عتاب کا شکار ہے اور اسے بھی مدد کے لئے وزیرِ خارجہ کرشنا سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ کرشنا یقیناً مدد کے لئے آگے آئے اور اپنے دفتر کے ذریعہ جواب طلب کیا جواب میں ہوم لینڈ سکریٹری جانیٹ ناپولیٹانو نے کہا انہوں اس معاملہ کو دیکھا اور اس میں کو ئی نئی بات نہیں پائی۔ انہوں نے کہا امریکہ میں سفیروں کو بھی انہیں بنیادی حفاظتی طریقہ کار سے گزرنا ہوتا ہو جو دیگر مسافروں کے لئے ہیں۔ جامہ تلاشی بھی ہماری حکمتِ عملی کا حصہ ہے جو ان حالات میں ناگزیر ہے۔ جانیٹ کے خیال میں محافظ افسر نے جو کچھ کیا وہ قاعدے کے مطابق تھا۔ اس طرح امریکہ کی وزارتِ داخلہ نے ہند امریکی دوستی اور اعتماد کو جس پر میرا شنکر کو بڑا ناز تھا چار چاند لگا دیئے۔ اس رویہ پر حزب اختلاف نے شور مچایا اور اسے حکومت کی نا اہلی قرار دیا تو خود وزیرِ خارجہ طیش میں آ گئے اور انہوں نے کہا اس ناروا سلوک کو برداشت نہیں کیا جائے گا وہ اپنے ہم منصب سے مناسب موقع پر اس بارے میں استفسار کریں گے۔ ان کی ہم منصب ہیلری کلنٹن نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گی۔ جس کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف دیکھیں گی کچھ کریں گی نہیں۔ اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ میرا کے ساتھ کئے گئے اہانت آمیز سلوک کا چرچہ ابھی سرد نہیں ہوا تھا کہ امریکیوں نے اقوامِ متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے ہردیپ پوری کی پگڑی اچھال دی۔ ہردیپ کو جب تلاشی کے لئے پگڑی اتارنے کا حکم دیا گیا تو اس بیچارے نے بھی اپنے سفارتی کاغذات دکھلائے لیکن امریکیوں کے نزدیک وہ ٹائلیٹ پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اس لئے انہیں نصف گھنٹہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر تلاشی کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر میرا بائی کا شعر یاد آتا ہے۔

آؤ  سہیلیاں   رلی   کراں   ہے، پر   گھر   گاؤں   نواری

جھوٹا مانک موتیا، ری۔ جھوٹی جگ مگ جیوتی

ہندوستان اور امریکہ کے درمیان بہترین تعلقات کے باوجود باربارایسا کیوں ہوتا ہے ؟کیا امریکہ کو ہندوستان سے دوستی مطلوب نہیں ہے ؟ کیا وہ اس کی اہمیت و افادیت نہیں سمجھتا ؟ جی نہیں ایسا نہیں ہے۔ امریکہ ہندوستانیوں کے مزاج سے واقف ہے اُسے پتہ ہے کہ ہمارے رہنما زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ وہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ ان سے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہے اس لئے کہ باوجود تمام تر قومی ذہانت اور زورِ بازو کے دولت کے حریص ان بدعنوان رہنماؤں کے پاس ریڑھ کی ہڈی نہیں ہے۔ یہ امریکہ کے آگے سینہ تان کرسیدھے کھڑے نہیں ہو سکتے۔ یہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے جیسا کہ چین و ایران کے رہنما کرتے ہیں۔ یہ قنوطیت نہیں بلکہ حقیقت ہے ۲۰۰۲ء اور۲۰۰۳ء دو مرتبہ ایسا ہوا کہ ملک کے وزیر دفاع اور قومی جمہوری محاذ کے صدر جارج فرنانڈیس کی امریکی ہوائی اڈوں پر جامہ تلاشی لی گئی جس کا اعتراف خود انہوں نے کیا۔ اسی طرح موجودہ وزیر دفاع پرنب مکرجی کو بھی واپسی میں ماسکو ہوائی اڈے پر تفتیش کی ہزیمت اٹھانی پڑی، اس دورے کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ ان کے ہم منصب نے ملاقات کا وقت دے کر اسے منسوخ کر دیا تھا اور صدر پوتین نے وقت دینے سے معذرت کر دی تھی وجہ بھی دلچسپ تھی ایک امریکی خارجہ سکریٹری کونڈی کے استقبال کی تیاری میں مصروف تھا تو دوسرا ایران کا دورہ کرنے کے لئے پر تول رہا تھا۔ اور تو اور خود سر زمین ہند پر شہر دہلی میں کونٹی نینٹل ایر لائنز کے محافظوں نے سابق صدر عبدالکلام کو روک کر ان کے جوتے ا تروا لئے تاکہ تلاشی لی جا سکے۔ صدر کے ساتھ موجود سی آئی ایس ایف کے جوان نے انہیں مطلع کیا کہ ہندوستان کے قانون کے مطابق سابق صدر مملکت کو تلاشی سے مبرا کیا گیا ہے لیکن ائیر لائنز والوں نے ہماری سرزمین پر بھی اپنے ملک کا قانون چلایا۔ بعد میں اس پر خوب ہنگامہ ہوا، ہوا بازی کے وزیر پرفل پٹیل نے ایف آئی آربھی لکھوائی لیکن’’ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ یہ کہہ کر خود عبدالکلام نے معاملہ ٹائیں ٹائیں فش کر دیا۔ ہم بھولے بھالے ہندوستانی تو اسے بھول بھال گئے لیکن امریکی نہیں بھولے ان لوگوں نے خود پرفل پٹیل کو امریکی ہوائی اڈے پر یہ کہہ کر بٹھا لیا کہ ان کا نام اور تاریخ پیدائش ایک ایسے شخص سے مشابہ ہے جو انہیں مطلوب ہے۔ اس پر بھی ہماری جانب سے کوئی خاطر خواہ رد عمل سامنے نہیں آیا۔ سابق سفیر رونن سین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی بدسلوکی امریکہ میں عام سی بات ہے ان کے ساتھ ایسا کئی بار ہو چکا ہے بلکہ ایک مرتبہ تو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے افسر کی موجودگی میں بھی ان کی تلاشی لی گئی تھی۔ رونن کے مطابق اس کا علاج یہی ہے کہ امریکی عہدیداروں کو بھی ہندوستان میں تلاشی کے عمل سے گزارا جائے۔ کمیونسٹ پارٹی نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے مگر دہلی نہ سہی تو کم از کم کولکتہ کے ہوائی اڈے پر بھی کیا اس پر عمل در آمد ہو گا؟شاید نہیں اس لئے کہ جہاں سفید جلد کی غلامی کے اثرات ابھی  باقی ہیں وہاں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

امریکہ کے اندر تفتیش کو محض سفارتی یا سیاسی زاویہ سے دیکھنے کے بجائے انسانی اور معاشی زاویہ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد دہشت گردی امریکہ میں ایک بہت بڑی صنعت اور کاروبار بن گئی ہے۔ لوگوں کو ڈرانے کے لئے آئے دن نت نئی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں اورسخت سے سخت قوانین وضع کر دیئے جاتے ہیں تاکہ شہریوں کی انفرادی آزادی پر شب خون مارا جائے یا جدید ترین مشینوں کا اقتصادی بوجھ سرکاری خزانے پر ڈالا جائے۔ مثلاً چند سال قبل رابرٹ ریڈ نامی ایک شخص نے جوتے میں بم لے جانے کی کوشش کی اس کے بعد سے جوتے اتروائے جانے لگے۔ اس کے بعد مائع بم کی کہانی سامنے آئی دوائیاں اور دیگر مائع مصنوعات پر روک لگا دی گئی اس کے بعد کسی مسخرے نے انڈرویر میں دھماکہ خیز اشیا لے جانے کی کوشش کی تو سارے جسم کی اسکیننگ کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ اس سال کے اواخر تک ۵۰۰ ہوائی اڈوں پر باڈی اسکیننگ مشین لگوانے کا منصوبہ زیر عمل ہے۔ اس پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوں گے اور اس کی رشوت سیاستدانوں کی جیب میں چلی جائے گی۔ ایسے میں جبکہ امریکہ اپنی تاریخ کے سب سے بھیانک معاشی بحران کا شکار ہے عوام بیروزگار ہو رہے ہیں سیاستدانوں کی یہ لوٹ پاٹ قابل شرم ہے لیکن جن لوگوں کا لاج شرم سے کوئی واسطہ ہوتا ہے وہ بھلا امریکی سیاست میں آتے کب ہیں ؟ تحفظ تو درکنار یہ مشینیں بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ بن رہی ہیں جن میں مسافر کے عریاں خطوط سامنے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کسی کے کپڑوں میں جھانک کر دیکھنے کا اختیار پہلی مرتبہ قانون کی مدد سے حاصل کر لیا گیا ہے۔ ان مشینوں میں سے گزرنے کے لئے حکم دینے کا اختیار ڈیوٹی پر موجود افسرکے پاس ہوتا ہے۔ ویسے مسافر انکار کر سکتے ہیں لیکن پھر اسے خصوصی جامہ تلاشی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہوتا ہے اور جس طرح کے کرب سے اسے گزرنا پڑتا ہے اس کی دو مثالیں حاضر خدمت ہیں۔

پلے بوائے نامی فحش جریدے کی ماڈل اور بے واچ ٹی وی سیرئیل کی اداکارہ ڈونا ڈی ایریکو کو لاس اینجلس ایرپورٹ پر مسافروں کی قطار سے الگ کر کے اسکیننگ مشین سے گزرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے دوسروں کو چھوڑ کر اسے منتخب کرنے کی وجہ دریافت کی جواب میں محافظ افسر بولا تم میری آنکھوں کو بھا گئیں دوسرے نہیں۔ اس طنزیہ جملے سے اندازہ لگا جا سکتا ہے کہ خواتین کے ساتھ کیسا اہانت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے، خیال رہے ڈونا اپنے ۱۷ سالہ بیٹے کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ دوسری مثال سان ڈیاگو ہوائی اڈے سے سفر کرنے والے جان ٹائنر کی ہے جس نے اسکینر میں جانے سے انکار کیا تو اسے مخصوص جامہ تلاشی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا پڑا، اس میں افسران شرم گاہ کو بھی ٹٹول سکتے ہیں۔ جان ٹائنر نے افسر سے کہا کہ اگر اس نے پوشیدہ اعضا کو چھوا تو وہ اسے گرفتار کروا دے گا۔ لیکن چونکہ یہ ضروری تھا جان نے سفر کا ارادہ منسوخ کر دیا۔ جان ٹائنر جب لوٹ رہا تھا۔ تو حفاظتی عملہ نے اسے آگاہ کیا کہ تفتیش سے انکار کے باعث اس پر ۱۱ہزار ڈالر یعنی ساڑھے پانچ لاکھ روپئے جرمانہ لگ سکتا ہے۔ جان اس کی پرواہ کئے بغیر گھر لوٹ آیا۔ جان اور اس جیسے کئی مسافروں کا خیال ہے کہ حفاظتی عملے کا یہ طریقہ کار سراسرجنسی استحصال ہے۔ اور اس استحصال کا شکار غیر ملکیوں سے زیادہ خود امریکی ہوتے ہیں۔ زوگبی نام کے ایک ادارے نے گزشتہ دنوں اس مسئلہ پر سروے کر کے رائے عامہ معلوم کرنے کی کو شش کی تو پتہ چلا ۶۱ فی صد عوام فل باڈی اسکیننگ کے خلاف ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مشینوں کے لگنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے اس لئے کہ جمہوریت میں انتخاب سے قبل تو رائے عامہ کی اہمیت ہوتی ہے بعد میں عوام کو کون پوچھتا ہے۔

جس طرح آپ لوگ بھول گئے کہ بات میرا شنکر سے شروع ہوئی تھی اسی طرح ذرائع ابلاغ بھی اس مسئلے کو بھول چکا ہے دگ وجئے سنگھ نے اسے ہیمنت کرکرے کے فون میں الجھا دیا حزب اختلاف بھی میرا اور ہردیپ کو بھول کر دگ وجئے کے پیچھے پڑ گیا، بی جے پی والوں نے اسے پاکستان اور قصاب کی بلاواسطہ مدد قرار دیا جبکہ راج ناتھ سنگھ تو بالواسطہ سادھوی پرگیا کی حمایت کر چکے ہیں اسے قانونی و اخلاقی امداد فراہم کر رہے ہیں اڈوانی جی کو سادھوی کی سفارش کے لئے وزیر اعظم کے پاس بھیجتے ہیں اور خود اس دہشت گرد سے ملنے جیل پہنچ جاتے ہیں حالانکہ بی جے پی کے مطابق دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ شیوسینا جو میرا شنکر کے معاملے میں تقریباً خاموش رہی اب دگوجئے کے بیان کو ہیمنت کرکرے کی اہانت قرار دے رہی ہے جبکہ دھمکی دینے والوں کی حامی و مددگار بنی ہوئی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف نے میرا اور امریکہ کو بھلا دیا اس لئے کہ ہمیں بہر صورت اقوام متحدہ کا مستقل ممبر بننا ہے صدر اوبامہ نے ہندوستانی پارلیمان میں ہمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا گاجر دکھلا کر ہماری مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ آئندہ دوسالوں کے اندر جس بلیک میلنگ سے ہمیں گزرنا ہے اس کی جانب جنوبی اور وسطی ایشیا کے لئے نامزد امریکی نائب سکریٹری رابرٹ او بلیک نے گزشتہ دنوں واشنگٹن میں اشارہ کیا۔ انہوں نے فرمایا آئندہ جنوری سے ہندوستان کی سلامتی کونسل میں عارضی ممبر کی حیثیت سے کارکردگی یہ طے کرے گی  کہ مستقل رکنیت کے لئے اس کی حمایت کی جائے یا نہیں ؟ انہوں نے یاد دلایا کہ اس سے پہلے ہندوستان نے محض ۱۰ فی صد مواقع پر امریکہ کی حمایت کی ہے اور امید ظاہر کی آئندہ اس رویہ میں مثبت تبدیلی آئے گی اور اس تبدیلی کی اولین ضرورت یہ ہے کہ عوام کو گھریلو سیاست کے بکھیڑوں میں الجھائے رکھا جائے۔ ہندی سیاستدانوں پر فی الحال معمولی سی ترمیم (کرشنا کے بجائے امریکہ) کے ساتھ میرا بائی کا بھجن صادق آتا ہے۔

جو   تم  چھوڑو    پیا ،   میں    نہیں   چھوڑوں    رے

تو سے پریت جوڑی امریکہ، کون سنگ جوڑوں رے

٭٭٭

 

زعفرانی سیاست

 

شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے

نتیش کمار ۲۰۰۵ء میں جب پہلی بار بی جے پی کی مدد سے وزیر اعلی بنے تو اس وقت مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب سید شہاب الدین نے انہیں مبارکباد کے پیغام میں اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے بہار کو ترقی کی راہ پر لے جائیں گے۔ انتخابی نتائج اس بات کے غماز ہیں کہ عوام تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ عوام نے ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف اور سیکولرزم کے حق میں ووٹ دیا ہے جو ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ سیدشہاب الدین کے اس بیان کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو بہار میں ترقی، سماجی انصاف، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سیکولرزم کے حوالے سے جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ چونکا دینے والی ہیں۔ پہلی تبدیلی اور ترقی تو یہ ہوئی کہ شہاب الدین صاحب کی دختر نیک اختر محترمہ پروین امان اللہ وزیر سماجی فلاح و بہبود بن گئیں۔ یہ غیر معمولی تبدیلی اس معنی میں بھی ہے کہ سید شہاب الدین نے بی جے پی کے خلاف بابری مسجد تحریک کی قیادت کی تھی اور بی جے پی نتیش کمار کی حکومت میں حصہ دار ہے اور تو اور پروین کے خاوند افضل امان اللہ نے ہوم سکریٹری کی حیثیت سے ایل کے اڈوانی کی گرفتاری کے سارے انتظامات کئے تھے اور انہوں نے ہی گورنر کے سکریٹری کی حیثیت سے اپنی اہلیہ کو حلف برداری کے لئے اسٹیج پر بلانے کی ذمہ داری بھی ادا کی۔

پروین امان اللہ کی وزارت نے نہ صرف سماجی فلاح و بہبود کو یقینی بنا دیا بلکہ سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایت کو بھی زندہ کر دیا اس کے علاوہ کئی اور مظاہر بھی سامنے آئے۔ گزشتہ سال جب دوسری مرتبہ نتیش کمار کامیاب ہوئے تو مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد ۱۵ سے بڑھ کر ۱۹ ہو گئی۔ پہلی بار بی جے پی کے ٹکٹ پر ایک مسلمان کامیاب ہو گیا پچیس سالوں سے اسمبلی مسلم خاتون کی موجودگی سے محروم تھی۔ اس مرتبہ پہلی بار دو مسلم خواتین پہنچ گئیں اور کانگریس کے چار میں سے تین امیدوار اور ایل جی پی کے تین میں سے دو ممبران اسمبلی مسلمان تھے۔ گویا دو سیاسی جماعتوں کی باگ ڈورمسلمانوں کے ہاتھ میں آ گئی ایسے میں نتیش کمار نے مسلمانوں پر ایک اوراحسان کر ڈالا جو عامر سبحانی کو پرنسپل سکریٹری (ہوم) نامزد کر دیا۔ اب جبکہ مسلمانوں کی ساری مرادیں اس جمہوری نظام نے پوری کر دیں تو اچانک فوربس گنج کی گولی باری کا واقعہ رونما ہو گیا جس نے اس مصنوعی لیپا پوتی کی قلعی کھول کر رکھ دی اور تلخ حقائق جنہیں خوبصورت شال میں لپیٹ کر خوشنما بنا دیا گیا تھا بے نقاب ہو کر سامنے آ گئے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو گیا۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ فوربس گنج کے واقعہ سے تین دن قبل گوپال گنج میں ایک اور واردات رونما ہو گئی جس نے مسلمانوں کے تئیں حکومت کے امتیازی سلوک کو اور زیادہ واضح کر دیا۔ رنجن یادو نام کا ایک قیدی مختلف سنگین الزامات کے تحت گوپال گنج کی جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے اس نے ڈاکٹر بھودیو سنگھ سے اپنی سنٹرل جیل میں منتقلی کی خاطر جعلی بیماری کا سرٹیفکٹ مانگا جسے انہوں نے دینے سے انکار کر دیا تو اس نے بیماری کے بہانے سے انہیں اپنے پاس بلایا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ حملہ کر کے زخمی کر دیا بعد میں پٹنہ کے ہسپتال لے جاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس واقعہ پر قومی انسانی حقوق کے کمیشن نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری سے دو ہفتہ کے اندر جواب طلب کیا لیکن فوربس گنج میں مارے جانے والے ۶ لو گوں کے حوالے سے حقوق انسانی کمیشن کے کان پر ابھی تک جوں نہیں رینگی۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھو دیو کے قتل پرسخت کارروائی کرتے ہوئے جو ڈیشیل انکوائری کا اعلان کیا اور سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کر ڈالا لیکن فوربس گنج کے معاملے میں صرف عدالتی تفتیش کی خاطر عدالت سے جج نامزد کرنے کی گذارش کر کے خاموش ہو گئے۔ ان مظلوموں کی مزاج پرسی کے لئے متاثرہ علاقے کا دورہ تو درکنار ہمدردی کے دو بول ان کے منہ سے نہیں پھوٹے۔ گوپال گنج کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پنکج کمار پال اور اور انسپکٹر جنرل (جیل)رمیش لال کا تبادلہ کر دیا گیا اور سپرینٹنڈنٹ پولس کو نوٹس دیا گیا حالانکہ ان سب کا براہ راست قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے بر خلاف فوربس گنج میں جن پولس افسران کے احکامات سے ان کی موجودگی میں گولی باری ہوئی ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا بلکہ ہوم گارڈ کے ایک سپاہی کو معطل کیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ حقائق کا پتہ لگانے کے بعد کارروائی ہو گی جبکہ مقامی ٹی وی چینلس پر پولس کے مظالم کی فلم بھی دکھلائی جاچکی ہے اور سارے ثبوت پیش کئے جا چکے ہیں گویا بقول شاعر ؎

شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے

اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

ڈاکٹر بھودیو کے سات قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر تو داخل ہو گئی لیکن فوربس گنج قاتلوں کو سزا دینے کا کوئی اہتمام سرکار کی جانب سے نہیں کیا گیا بلکہ اراریہ کی ایس پی گریما ملک نے نہایت بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مجرمانہ کارروائی کو جائز قرار دیتے ہوئے مظاہرین پر اسلحہ کے ذریعہ پولس پر حملہ کرنے کا جھوٹا الزام جڑ دیا اس کے باوجود کسی نے ان کی سرزنش نہیں کی یہ نہایت افسوسناک ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا انہیں اس ظلم و زیادتی کے لئے ذمہ دار قرار دے کر معطل کر دیا جاتا۔ اس کے باوجود سابقہ مرکزی وزیر تسلیم الدین جو اب یو ٹرن لے کر جنتا دل (یو) میں آ گئے ہیں فرماتے ہیں کہ نتیش کمار اچھا آدمی ہے یہ فرقہ پرستوں کی سازش ہے حالانکہ یہ پولس کی سفاکیت ہے جس کی بلاواسطہ ذمہ داری وزیر اعلیٰ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ فرقہ پرستوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے ڈاکٹر بھو دیو کے لواحقین کی خاطر دس لاکھ روپئے کی امداد اور ان کے ریٹائر منٹ کی مدت تک ان کی بیوہ کو پوری تنخواہ جاری رکھنے کی ہدایات جاری کیں نیز گھر کے ایک فرد کو ملازمت کی بھی یقین دہانی کروائی لیکن فوربس گنج کے معاوضے کے بارے میں پہلے تو یہ کہا گیا کہ ان کے لئے سرکاری امداد کا فیصلہ تحقیقات کے بعد ہو گا اور پھر مرنے والے ایک بچے کے والدین کو صرف تین لاکھ روپئے تھما دیئے گئے بقیہ لوگوں کو حکومت اور میڈیا شر پسند قرار دے کر ان کی امداد سے آنا کانی کر رہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جونہی انہیں مظلوم تسلیم کر لیا جائے گا پولس اپنے آپ ظالم قرار پائے گی اور اس پولس فورس کی دل آزاری سیاستداں کیسے کرسکتے ہیں جس کے بل بوتے وہ اس ظالمانہ نظام کو چلا رہے ہیں۔

اراریہ کا رکن پارلیمان بی جے پی سے تعلق رکھتا ہے اس پارلیمانی حلقے میں ۶ ممبران اسمبلی ہیں جن میں سے چار کا تعلق بی جے پی سے ہے اور باقی دو مسلمان ہیں جو جنتا دل (یو) اور ایل جے پی کے ممبر ہیں ان میں سے ایک ذاکر انور نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا پتہ لگایا جانا چاہئے کہ آخر گاؤں والوں کو مظاہرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ان کا مسئلہ پہلے حل کیوں نہیں کیا گیا؟پولس نے براہ راست گولی باری کیوں کی؟ اور ان لوگوں نے عورتوں اور بچوں تک پر رحم نہیں کیا بلکہ ایک زخمی نوجوان کو سڑک پر پیٹ پیٹ کر کیوں ہلاک کر دیا؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام کا یہ نمائندہ ان سوالات کو کرنے کے بجائے ان کے جواب دیتا اور اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتا لیکن انتخاب جیتنے کے بعد انہیں اپنے ذاتی مسائل حل کرنے سے فرصت ملے تو یہ عوام کی جانب توجہ دیں۔ ویسے ان سوالات کے جوابات سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے اس لئے تحقیق و تفتیش میں اسے الجھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ فوربس گنج کے گاؤں بھجن پور اور رانی گنج کی ۹۰فی صد آباد ی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پھر ان کی اکثریت غریب مزدور ہے۔  یہ دو وجوہات ہی ان پر ہر طرح کا ظلم و زیادتی روا رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ ایسے میں اگر وہ احتجاج کرنے کی جرأت کر ڈالیں اس لئے کہ فیکٹری کی اس دیوار سے ان کا بازار، ہسپتال اور قریب کے بڑے گاؤں میں جانے کا راستہ بند ہو جاتا ہے تب تو وہ گناہ کبیرہ ہے نیز یہ احتجاج بھی حکمراں جماعت بی جے پی کے ایم ایل سی کی فیکٹری کے خلاف ہو تب تو وہ کسی رحم کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔ اور یہی ہوا۔ بہار کی سرکار نے ۲۸ ایکڑ زمین کا ایک قطعہ جو کبھی مسلمانوں کی ملکیت تھی لیکن ان لوگوں نے بھودان تحریک کے دوران سرکار کو خیرات کر دیا تھا سوربھ اگروال کو جو ایم ایل سی اشوک کمار اگروال کے بیٹے ہیں کو اسٹارچ کا کارخانہ قائم کرنے کے لئے دان کر دیا۔ اس کارخانے کے باعث آنے جانے کا راستہ بند ہو گیا تو گاؤں والوں نے احتجاج کیا۔

 اس مسئلے کو نمٹانے اور ان پر دباؤ ڈالنے کی خاطر خود نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی نے زحمت کی اور یہ طے ہو گیا متبادل راستہ مہیا کیا جائے گا لیکن اگروال صاحبان اس راستے کی فراہمی تک صبر نہ کر سکے اور راتوں رات دیوار تعمیر کر کے راستے کو بند کر دیا جس سے فطری طور پر عوام کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور ان لو گوں نے دیوار کے ایک حصے کو توڑ کر اپنا راستہ صاف کر لیا پولس نے ڈرانے دھمکانے کی کو شش کی تو اس کی گاڑی جلا دی پھر کیا تھا سیاستدانوں اور پولس والوں نے مل کر غریب عوام پر قہر برسانا شروع کر دیا ان پر نہایت قریب سے کمر کے اوپر گولی باری کی گئی اور زخمی ہو کر گرنے والے مصطفی اور شازمین کو ہسپتال لے جانے کے بجائے ان کے سینے پر چڑھ کر ان کی موت کو یقینی بنایا گیا یہ سب ویڈیو میں موجود ہے اس بہیمت کا نشانہ نہ صرف ایک حاملہ عورت بلکہ ایک معصوم بچہ بھی بنا۔ اس طرح گویا بہار کی صنعتی ترقی کا راستہ ہموار کیا گیا۔

ایک طرف غریب عوام کا سڑکوں پر خون بہایا جا رہا ہے دوسری طرف ریاست کی جدید صنعتی پالیسی کا اعلان ہوتا ہے۔ ریاستی صنعتی ترقی کے افسران کو خون ناحق کے بجائے اس بات کی فکر ستائے جا رہی ہے اس طرح کے واقعات سے ریاست میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری پر برا اثر پڑے گا۔ عامر سبحانی صاحب نے انتباہ کیا کہ ہر قیمت امن و قانون کو برقرار رکھا جائے گا اور مجرمین کو ریاست کی صنعتی ترقی کے ماحول کو برقرار رکھنے کے پیش نظر بخشا نہ جائے گا۔ ہوم سکریٹری کے اس بیان میں مجرم کون ہے ؟ یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں مسلمانوں کے سرکاری اعلی عہدوں پر فائز ہو جانے سے ان کے مسائل حل ہو جائیں گے ان کے لئے سبحانی صاحب کی دھمکی تازیانہ عبرت ہے۔ ایسوں کے ہوتے امت کی تباہی کے لئے سنگھ پریوار کو کسی محنت و مشقت کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس نے اس واقعہ کے لئے وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا لیکن نتیش کمار اس کی پرواہ کئے بغیر چین سے صنعتی ترقی کے مزید سبق  (اسباق)سیکھنے کے لئے غیر ملکی دورے پر روانہ ہو گئے۔ چین میں انہیں کچھ اور ملے یا نہ ملے مگر عوام کے احتجاج کو کچلنے اور ان کا ستحصال کر کے معاشی ترقی کرنے کا بہت سارا درس ضرور مل جائے گا۔

 اس واقعہ پر جہاں کانگریس پارٹی نے بیس لاکھ معاوضہ کا مطالبہ کیا وہیں آر جے ڈی کے ریاستی صدر رام چندر نے کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت کا پولس فورس پر کوئی اختیارباقی نہیں رہا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ پولس فورس نے یہ سارا کھیل حکومت کے اشارے پر اس کی خوشنودی کی خاطر کھیلا ہے اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ ۶ ماہ قبل ۲۲ دسمبر کوبی ایس ایف کے جوانوں نے یہاں سے ۱۷ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بتراہا گاؤں کی خاتون کے ساتھ بد سلوکی کی جس کی شکایت کرنے کے لئے گاؤں والے ان کے کیمپ میں جا پہنچے وہ بیچارے اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ وہ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں لیکن فورس کے جوانوں نے ان پر فائرنگ کر کے چار لوگوں کو ہلاک کر دیا جو سب کے سب مسلمان تھے اور ان احتجاج کرنے والوں کی یہ غلط فہمی دور کر دی کہ وہ بھی اس ملک کے آزاد شہری ہیں۔ پولس والوں نے ان غریبوں کو اسمگلر قرار دے دیا حالانکہ اسمگلر شکایت و احتجاج کرنے کے لئے نہیں آتے اور جب سودے بازی کے لئے وہ سرحدی حفاظتی دستے کے پاس آتے ہیں تو ان پر پھولوں کی بارش کی جاتی ہے ان پر گولیاں نہیں برسائی جاتیں اسی بات کو انہاد کی شبنم ہاشمی نے بھی کہا جو اقلیتی کمیشن کی ممبر بھی ہیں کہ اگر یہ احتجاجی مسلمان نہ ہو تے تو پولس اس طرح کے انتہائی اقدام سے گریز کرتی اس سے آگے بڑھ کر مہیش بھٹ نے یہ سوال کر دیا کہ کیا وزیر اعلیٰ بہار کو دوسرا گجرات بنانا چاہتے ہیں ؟نتیش کمار ہمیشہ انتخاب سے قبل نریندر مودی کو اپنی مہم سے دور رکھ کر مسلمانوں کو رجھاتے ہیں لیکن انتخاب کے بعد سشیل مودی کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیتے ہیں اور مودی تو مودی ہوتا ہے اس کے نریندر یا سشیل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مسلمانوں پر ہونے والے اس بہیمانہ ظلم کے خلاف مختلف ملی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنا احتجاج درج کیا لیکن جماعت اسلامی کے ایک وفد نے جائے حادثہ کا دورہ بھی کیا اتفاق سے جماعت اسلامی کی بہار شاخ کے امیر جناب نعیم الزماں اراریہ کے رہنے والے ہیں۔ نعیم الزماں صاحب نے انتظامیہ کے اس الزام کو بالکل بے بنیاد قرار دیا کہ مظاہرین اسلحہ سے لیس تھے اور کہا کہ یہ غریبوں اور مزدوروں کی بستی ہے وہ لوگ اسلحہ نہیں خرید سکتے اسی کے ساتھ انہوں نے کہا اگر حکومت مسلمانوں کے مطالبات کو قبول نہیں کرتی اور ظالموں کو سزا دینے میں ٹال مٹول کرتی ہے تو جماعت کی جانب سے اراریہ کے ہر بلاک میں دھرنا دیا جائے گا اور چکا جام کر دیا جائے گا یہ ایک نہایت خوش آئند اعلان ہے اس لئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان بیان بازی سے آگے بڑھ کر سڑکوں پر اتریں لیکن ایسا لگتا ہے یہ معاملہ صرف اراریہ ضلع تک محدود نہیں رہے گا۔ اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں ۱۴ سالہ نابالغ صنم کا پولس کے ذریعہ اغواء ، عصمت دری، قتل اور پھر اس کے بعد پولس اسٹیشن کے احاطے میں اس کی لاش کو پھانسی پر لٹکا دیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انتظامیہ کی درندگی نے سارے حدود وقیودکو پھلانگ دیا ہے اور یہ واقعہ ایک ایسی ریاست میں رونما ہوا ہے جہاں فی الحال بی جے پی چوتھے نمبر پر ہے اس لئے محض فرقہ پرستی اور فسطائیت کا نام لیکر اس سے دامن جھٹکنا بھی ممکن نہیں ہے۔

چوکیدار انتظار علی کی بیٹی صنم جمعہ کے دن مویشی چرانے کے لئے باہر گئی تو واپس نہیں آئی۔ اس کی ماں نے اپنی بیٹی کو تلاش کیا تو دوسرے دن اس کی لاش پولس تھانے کے احاطے میں پیڑ سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔ پولس کا کہنا تھا کہ اس نے خودکشی کر لی ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف قتل کے سارے ثبوت مٹا دیئے بلکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی اپنے حق میں حاصل کر لی جس کے مطابق موت پھانسی کے لگنے سے ہوئی تھی لیکن لڑکی کے والدین اس کا انکار کرتے رہے یہاں تک کہ فورنسک لیباریٹری کی رپورٹ نے یہ راز افشا کر دیا کہ موت گلا گھونٹنے کے سبب ہوئی تھی۔ مایا وتی نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے پولس تھانے کے ۱۱ اہلکاروں کو معطل کر دیا لیکن کیا ان مجرمین کو قرار واقعی سزا ہو گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہاں سے زیادہ نہیں میں ہے اس لئے کہ جب کسی سرکاری مجرم کو سزا دینے کی نوبت آتی ہے تو انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ یہ تینوں شیر اشوک چکر کے نشان کی مانند ایک جان ایک قالب ہو جاتے ہیں اور انصاف کا خون کر دیتے ہیں۔ اس طرح کا ظلم تو اسی وقت رک سکتا جب اس کے مجرم پولس افسران کو سر عام اسی پیڑ سے پھانسی پر لٹکا دیا جائے اور دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینل سے یہ منظر براہ راست نشر کیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو نام نہاد مہذب دنیا کے لوگ اسے وحشیانہ اقدام قرار دیں گے لیکن کوئی معصوم صنم کی ماں ترنم بیگم سے پوچھے تو وہ کہے گی کہ یہ سزا بہت کم ہے۔ ایسا لگتا ہے فیض نے یہ اشعار پھول سی معصوم صنم کی مظلومیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کہے تھے۔

جہاں میں آ کے ابھی جس نے کچھ نہ دیکھا ہو

نہ قحط عیش و مسرت، نہ غم کی ارزانی

کنارِ رحمتِ حق میں اسے سلاتی ہے

سکوتِ شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی

طواف کرنے کو صبح بہار آتی ہے

صبا چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے

٭٭٭

 

ببول کی شاخ پر گلاب کا پھول

(قسط اول)

سوامی اسیمانند کا اصلی نام نابا کمار ہے۔ یہ شخص مغربی بنگال کے کامارپکا ر نامی گاؤں میں پیدا ہوا اور طالب علمی ہی کے زمانے میں آر ایس ایس کی پکار پر لبیک کہہ کر اس میں شامل ہو گیا۔ کالج کے زمانے میں جب نابا ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر بردمان آیا تو سنگھ کے حوالے اس کی دلچسپیوں میں خاصہ اضافہ ہو چکا تھا۔  ۱۹۷۷ء کے آتے آ تے نابا کمار آرایس ایس کا ہمہ وقتی کارکن بن چکا تھا اور ضلع پرولیا کے قبائلی علاقوں میں سنگھ پریوار کی ایک ذیلی تنظیم وسنواسی کلیان آشرم کے لئے کام کرنے لگا تھا۔ ۱۹۸۸ ء سے ۱۹۹۳ ء تک نابا کمار انڈمان نکوبار میں ونواسی آشرم کی خدمت میں لگا رہا۔ اس کے بعد سارے ملک کا دورہ کر کے ادیواسیوں کے درمیان ہندو دھرم کا پرچار کرتا ہوا گجرات کے ڈانگ ضلع میں پہونچا اور شبری آشرم قائم کر کے وہیں بس گیا۔ سنگھ پریوار کے ساتھ اس کے سفر میں ایک سہانا موڑ اس وقت آیا جب اس کے گرو پرم آنند نے اسے اسیم آنند کے خطاب سے نوازا۔ پرم آنند کے معنیٰ اولین مسرت کے ہوتے ہیں اور اسیم آنند بے انتہا سرور کو کہتے ہیں۔ یقیناً عرصۂ دراز تک نابا کمار نے سنگھ پریوار کو بے شمار خوشیوں سے نوازا لیکن فی الحال یہ ان کے لئے وبالِ جان بنا ہوا ہے اور مسلمانوں کو خوش کر رہا ہے۔ دہلی کی تیس ہزاری کورٹ میں اس کے اقبالیہ بیان سے اس نے زبردست تہلکہ مچا رکھا ہے۔ اسیم آنند نے مالیگاؤں، حیدر آباد اور اجمیر سمیت سمجھوتا ایکسپریس کے دھماکے میں اپنے ملوث ہونے کو تسلیم کر کے سنگھ پریوار کی نیند حرام کر دی ہے۔

سنگھ پریوار فی الحال اس قدر حواس باختہ ہے کہ طرح طرح کے متضاد بیانات دینے لگا ہے۔ سنگھل کے مطابق اسیم آنند نے سرے سے کوئی بیان ہی نہیں دیا یہ سب ذرائع ابلاغ کی جانب سے اڑائی جانے والی افواہیں ہیں۔ اس طرح کا بچکانہ بیان دینے کی جرأت اشوک سنگھل کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے ؟ سنگھل جی جانتے ہیں کہ ان کے حاری حواریوں کی عقل ماؤف ہو چکی ہے اس لئے وہ ان کی ہر بے سر پیر کی منطق کو بلا چوں چرا قبول کر لیں گے۔ بی جے پی کا ترجمان کبھی تو کہتا ہے کہ کانگریس حکومت سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکے کا الزام ہندوستانیوں کے سر ڈ ال کر پاکستان کی مدد کر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم کو کمزور کر رہی ہے گویا کہ اصل دہشت گردوں کو چھپانا اور بچانا نیز معصوم لوگوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس کر پاکستان کے نام کی مالا جپتے رہنے سے دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی مہم تیز ہوتی ہے۔ اور کبھی روی شنکر پرساد فرماتے ہیں کہ یہ بدعنوانیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے جس میں سنگھ کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کے ترجمان رام مادھو کے مطابق یہ بیان سی بی آئی نے زبردستی لکھوایا ہے۔ سنگھ رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ اسیم آنند کا سنگھ سے کو ئی تعلق نہیں تھا حالانکہ سنگھ کے سر سنگھ چالک سے لیکر بی جے پی کے سارے بڑے رہنما اس کے آشرم پر حاضری لگا چکے ہیں۔ کل کو آر ایس ایس والے یہ بھی کہہ دیں گے ونواسی آشرم کا سنگھ سے کو ئی تعلق نہیں ہے اور اس جھوٹ کو دنیا کی ہر عدالت میں سچ ثابت کر دیا جائے گا۔

 اسیمانند کے مطابق اس نے چنچلگڈا جیل میں عبد الکلیم نامی نوجوان کے اخلاق سے متاثر ہو کر کفارہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات صحیح ہو سکتی ہے لیکن جو شخص اتنے سارے معصوموں کی ہلاکتوں سے متاثر نہیں ہوا۔ سادھوی پرگیہ کی گرفتاری کے بعد عرصۂ دراز تک روپوش رہا لیکن گرفتار ہونے کے بعد قلیل عرصہ میں اچانک معجزاتی طور پر اس کا قلب منقلب ہو گیا یہ تسلیم کر لینا مشکل لگتا ہے۔ ممکن ہے اسیمانندوعدہ معاف گواہ بن گیا ہو اور کانگریس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہو۔ اس نے اپنی ساری کہانی کا مرکزی کردار جس سنیل جوشی کو بنایا اسے ہلاک کیا جا چکا ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اسے خود پریوار نے پرلوک سِدھار (روانہ کر)دیا۔ اسیم آنند کے مطابق اس کا کام سرمایہ مہیا کرنا تھا اور بم بنانے والے اور پھوڑنے والے اور لوگ تھے نیز ہر دھماکے کی اطلاع بعد میں دی گئی۔ اس سے اسیمانند کا بلاواسطہ ملوث ہونا تو ثابت ہوتا ہے بلواسطہ نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں ہندو دہشت گردوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ ان کے مقدمے کو خود انتظامیہ اس قدر کمزور کر دیتا ہے کہ عدالت کے لئے کوئی سزا تجویز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ عدالت کو بھی اس طرح کے مقدمات میں کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔ بابری مسجد کے فیصلے ہندوستانی عدالتوں کی غیرجانبداری کی منہ بولتی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اسیما نند اس بات سے بھی واقف ہیں کہ وطنِ عزیز کا سیاسی نظام جن چار پیروں پر کھڑا ہوا ہے یعنی مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور جمہوریہ (عوام) ان سب کو ہندو دہشت گردوں کے خلاف اقدام کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے وگرنہ اس ملک میں ا ٓڈوانی اور مودی جیسے لوگوں کا نام وزیر اعظم کے طور پر نہ اچھالا جاتا اور انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بدعنوانی کے الزامات سے پریشان منموہن سرکار کو اس معاملے سے خاصی راحت ملی ہے۔ ذرائع ابلاغ اسے خوب اچھال رہا ہے جس سے عوام کی توجہات بی جے پی اور سنگھ پریوار کی جانب مرکوز ہو رہی ہیں۔ گوہاٹی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی اجلاس میں کانگریس پر شدید تنقید کا امکان تھا لیکن اس کے عین ایک دن پہلے اس راز کا فاش ہو جانا یقیناً کسی کے پردۂ زنگاری میں چھپے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے خیر وجہ جو بھی ہو اس سے قطع نظر اگر ان دونوں شیطانوں کی آپسی سر پھٹول سے حقائق باہر آ جاتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی افواہوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو یقیناً یہ نہایت خوش آئند بات ہو گی۔ لیکن ساری اٹھا پٹخ کا ٹھوس فائدہ اسی وقت ہو گا جب ان دھماکوں کے جھوٹے الزامات میں گرفتار مسلم نوجوان رہا کر دیئے جائیں۔ جن پولس افسران نے انہیں گرفتار کیا انہیں اپنے کئے کی قرار واقعی سزا دی جائے نیز جن سیاستدانوں نے نام نہاد مسلم دہشت گردی کی آگ پر سیاسی روٹیاں سینکیں ان کا سیاسی مستقبل اسی تنور میں جھونک دیا جائے۔ جمہوری ہندوستان میں یہ معقول توقعات بھی نہ جانے کیوں خام خیالی محسوس ہوتی ہیں۔

ہیمنت کرکرے کی تفتیش سے لے کر اسیمانند کے اعتراف تک کے سفر کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہندوستان کا ہر مسلمان دہشت گرد نہ سہی ہر دہشت گرد مسلمان ضرور ہے۔ اب یہ بات جگ ظاہر ہو گئی ہے کہ ہندوستانی دہشت گردی میں پیش پیش مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں۔ وطنِ  عزیز میں دہشت گردی کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک سرکاری اور دوسرے عوامی۔ سرکار کی باگ ڈور گذشتہ چند صدیوں سے مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے اس لئے سرکاری دہشت گردی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ آزادی کے بعد سے تمام تر سرکاری دہشت گردی کا سہرہ ہندوؤں کے سر بندھتا ہے اس لئے کہ وہی حکومت کا کام کاج چلا رہے ہیں۔ سرکاری دہشت گردی کی ابتدا حیدر آباد کے خلاف پولس ایکشن سے ہوئی۔ ہندوستان میں برپا ہونے والے اکثر و بیشتر فرقہ وارانہ فسادات یا تو حکومت کی سر پرستی میں کرائے گئے یا کم از کم حکومت نے فسادیوں کو تحفظ فراہم کیا اس کی سب سے بڑی مثال دہلی میں سکھوں کا قتلِ عام اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔ زمانے کے ساتھ حکومت نے ببانگِ  دہل انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے نام سے ایک سرکاری مافیا کو بھی جنم دیا جنھیں قانون کو ہاتھ میں لے کر معصوم عوام کا خون بہانے کی اجازت دے دی گئی۔ انسل پلازہ کا واقعہ جس کا پردہ ایک ہندو وکیل نے فاش کیا اس کی ایک مثال تھا۔ جامعہ ملیہ میں معصوم طلبا کی شہادت کا خون ابھی خشک نہیں ہوا ہے۔ گجرات میں اے ٹی ایس کمشنر ونجارہ حوالات میں بند ہے اور ہیمنت کر کرے کے قتل پر شکوک و شبہات کی دبیز چادر اسی ایک کڑی کے بکھرے ہوئے دانے ہیں۔ حکومت کی جانب سے عوامی احتجاج کو دبانے کی خاطر لال گڑھ میں جو کیا گیا وہ جگ ظاہر ہے۔ چھتیس گڑھ میں غریب عوام اپنے گھروں سے بزورِ قوت بے خانماں کیا گیا اور انہیں سرکاری کیمپوں میں رکھ کر نہ صرف عسکری تربیت دی گئی بلکہ اسلحہ سے لیس کر کے نکسلیوں کے خلاف سلوا جو دم کا نام دے کر اتارا گیا۔ ان حقائق کا راز فاش کرنے والے بین الاقوامی انعام یافتہ سماجی کارکن ڈاکٹر بنائک سین کو عمر قید کی سزا سے نواز دیا گیا یہ سب سرکاری دہشت گردی کا ایک حصہ ہے۔ مسلم نوجوانوں کے ساتھ کانگریس سے لے کر کمیونسٹوں تک نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔

عوامی دہشت گردی یا عسکریت پسندی کی چار شاخیں ہیں۔ علیٰحدگی پسند تحریکیں ان میں کشمیر کے علاوہ سب کی سب ہندو عوام کی جانب سے چلا ئی جا رہی ہیں۔ سکھوں کو بھی چونکہ سنگھ پریوار ہندو شمار کرتا ہے اس لئے یہ کہنا پڑے گا کہ پنجاب سے لے کر آسام تک اس طرح کی ساری علیٰحدگی پسند جماعتیں ہندو مذہب کے ماننے والے چلا رہے ہیں۔ قسم دوم نکسل وادی عسکریت پسندی ہے اس کو بھی چلانے والے مسلمان نہیں بلکہ ہندوہی ہیں اس کے حامیوں میں بھی سرِ فہرست ارون دھتی رائے اور ڈاکٹر سین جیسے ہندوؤں کا نام آتا ہے۔ اس کے بعد فسطائی دہشت گردی ہے تو اس کی ابتداء آزادی سے قبل نواکھالی کے فسادات سے ہو گئی تھی اور اس کا سب سے عظیم مظہر مہاتما گاندھی کا قتل تھا۔ ناتھو رام گووڈسے نام نہاد اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والا براہمن ہندو تھا۔ اس کا تعلق نہ صرف ہندو مہا سبھا سے تھا بلکہ وہ آر ایس ایس کا بھی ممبر رہ چکا تھا۔ دہلی جانے سے قبل وہ بنفسِ نفیس دامودر ساورکر کی خدمت میں آشیرواد لینے کی خاطر حاضر ہو ا تھا اور ساورکر نے اسے ’’یشسوی بھوو‘‘(کامیاب ہو کر لوٹو) کے دعائیہ کلمات کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ اندرا گاندھی کو قتل کرنے والا محافظ مسلمان نہیں تھا اور راجیو گاندھی کو بھی مارنے والی دھانو بھی ہندو ہی تھی اسے اس مہم پر روانہ کرنے والا پربھا کرن بھی مسلمان نہیں تھا۔ اسیمانند نے اگر کچھ ہندوؤں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی خبر دے دی تو یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔

مسلمانوں کا نام اس دہشت گردی میں پہلی بار ۱۹۹۲ ء میں آیا یہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کی بات ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سورت میں نہ صرف فسادات ہوئے اور مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی اور اس کی فلمبندی کر کے اسے پھیلایا گیا۔ اس ویڈیو کا رد عمل ممبئی میں ما تھاڈی کامگاروں کے قتل کی صورت میں رونما ہوا جو یقیناً قابلِ مذمت حرکت تھی۔ مسلم قوم اور اس کے رہنما وں نے اس کی بھر پور مذمت کی اس کے باوجود مسلمانوں کو سبق سکھانے کی خاطر مرکزی وزیرِ دفاع شرد پوار، وزیرِ اعلیٰ سدھاکرنائک اور بال ٹھاکرے متحد ہو گئے اور سرکاری سرپرستی میں فسادات کرائے گئے جس میں تقریباً ایک ہزار افراد جان بحق ہوئے جن میں بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس کے بعد ماہِ مارچ میں مسلمانوں کا رد عمل سامنے آیا اور ممبئی میں پے در پے دھماکے ہوئے جس میں تقریباً ساڑھے تین سوافراد ہلاک ہوئے۔ اس دھماکے کو کرنے والے اصل مجرم پولس کے ہتھے آج تک نہیں چڑھے لیکن حکومت معصوم لوگوں کو برسوں سے قیدو بند میں رکھے ہوئے ہے۔ اس واقعہ کے بعد تقریباً دس سال امن رہا اس لئے کہ سارے لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ ظلم کے ببول پر امن کا پھول نہیں کھلتا۔

 ۲۰۰۱ء میں مرکزی حکومت کی باگ ڈور بی جے پی کے ہاتھ میں تھی اور ہندوستان کے تعلقات امریکہ سے بہتری کی جانب مائل تھے کہ ۱۱ستمبر کا حملہ ہو گیا اور اس کے بعد امریکہ بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بی جے پی نے اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کر دی۔ ۲۰۰۲ء میں دوبارہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے نریندر مودی نے فروری کے اندرگجرات فساد کروائے اور ستمبر میں اکشر دھام مندر پر حملہ کروا کر ہندو رائے دہندگان کو مزید خوفزدہ کر دیا۔ اکشر دھام حملے کے لئے کشمیری مجاہدین کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کیشو بھائی کی ناراضگی اور واگھیلا کی بغاوت بھی بی جے پی کا کچھ بگاڑ نہ سکی دسمبر کے مہینے میں مودی نے غیر معمولی انتخابی کامیابی درج کروائی اور اس کے بعد دھماکوں کے لامتناہی سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ ہر دو سال بعد جب ایس آئی ایم پر سے پابندی ختم ہونے کا وقت آتا دھماکے رونما ہو جاتے اور ایس آئی ایم کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا۔ اکشر دھام کے دھماکوں کے بعد ۲۰۰۴ء میں ممبئی میں گیٹ آف انڈیا کے دھماکے  اسی لئے ہوئے اور ۲۰۰۶ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں کے بعد انڈین مجاہدین کی کہانی اسی لئے گھڑی گئی۔ ۲۰۰۸ء کا ممبئی حملہ تاخیر سے ہوا تو اس بیچ ٹریبونل نے پابندی منسوخ کر دی جسے حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کر کے پھر لگوا دیا۔ وارانسی میں ہونے والے حالیہ دھماکے بھی اسی کی کڑی ہیں۔ گویا بی جے پی کی پرمپرا کو کانگریس حکومت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

 کارگل کی جنگ اور پارلیمنٹ پر حملہ بی جے پی کی سیاسی ضرورت تھی اور اس لئے اس نے خود اس کا اہتمام کیا یہی وجہ ہے کہ پارلیمان پر حملہ گھنٹوں ٹی وی پر نشر ہوتا رہا لیکن کسی سیاستدان کا بال بیکا نہیں ہوا۔ ۲۰۰۴ء میں بی جے پی حکومت سے بے دخل ہو گئی اور ۲۰۰۵ء میں بم دھماکوں کا رخ ایودھیا، یوپی اور دہلی کی جانب پلٹا ۲۰۰۶ء میں پھرایک بار ممبئی نشانہ بنا۔ ان میں سے اکثر حملوں کے بعد جس تضاد بیانی کا مظاہرہ انتظامیہ کی جانب سے ہوا ہے اس سے شک کی سوئی اپنے آپ خود انہیں کی جانب گھوم جاتی ہے۔

            اسیمانند کے مطابق ۲۰۰۲ء میں اکشر دھام حملے کے بعد ہندوؤں کے اندر دہشت گردی کے جراثیم پروان چڑھنے لگے اور ۲۰۰۶ء کے بعد ان لوگوں نے مالیگاؤں حملے سے اپنی کارروائی کا آغاز کر دیا یہ بات پورا سچ نہیں ہے۔ ۲۰۰۳ء میں پربھنی کی دو مساجد پر حملے ہوئے اور۲۰۰۴ء میں جالنہ اور پورنا میں مساجد پر حملے کئے گئے۔ ۲۰۰۶ء کے اندر جالنہ ہی میں آر ایس ایس کا کارکن بم بناتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ یہ گویا ابتدا تھی اس کے بعد مالیگاؤں، حیدر آباد اور اجمیر شریف سمیت سمجھوتا ایکسپریس کا اعتراف تو اسیمانند نے کر ہی لیا ہے اور نہ جانے کتنے ایسے حملے ہوں گے جو ہنوز صیغۂ راز میں ہیں جنھیں اسیما نند چھپا رہا ہے یا جو خود اس سے بھی چھپے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود جتنا کچھ باہر آ چکا ہے وہ مسلمانوں کے سر سے اس جھوٹے کلنک کو مٹانے کے لئے کافی ہے جو سیاستدانوں نے انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کی مدد سے مسلمانوں کے سر پر لگا دیا تھا۔ الحمد اللہ

٭٭٭

 

سیمی سے سوامی تک کانگریس کا ہاتھ

(قسط دوم )

مالیگاؤں ۲۰۰۶ء سے لیکر مالیگاؤں ۲۰۰۸ء کے درمیان ہندوستانی دہشت گردی کی تاریخ میں ایک عظیم تبدیلی واقع ہوئی۔ بم دھماکوں کی ذمہ داری پاکستان اورسیمی سے ہٹ کر سنگھ اور سوامی کی جانب منسوب ہو گئی۔ ماہِ اکتوبر کے اندر اجمیر شریف کی چارج شیٹ میں جو الزامات راجستھان اے ٹی ایس نے سنگھ پریوار پر لگائے دسمبر میں سوامی اسیمانند نے انہیں اپنے اقبالیہ بیان میں تسلیم کر کے ان پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی گویا دو سال دھوم دھڑاکا دوسال تحقیقات اور دو ماہ میں تصدیق۔ انتظامیہ نے اپنے سیاسی آقاؤں کے لئے ایک منظر نامہ لکھا اس پر اپنے دشمنوں سے عمل در آمد کروایا انہیں کھلنے اور کھیلنے کے بھرپور مواقع فراہم کیا۔ بلاواسطہ ان کاہر طرح سے تعاون کیا اور وقت آنے پر اس سارے کھیل کو سمیٹ دیا۔ جو لوگ دہشت گردی کے اسرارورموز تک رسائی چاہتے ہیں ان کے لئے ان واقعات میں بڑی نشانی ہے بشرطیکہ وہ عقل سے کام لیں۔

ملک و ملت میں کچھ سادہ لوح ایسے بھی ہیں جو ان واقعات کو محض اتفاق سمجھتے ہیں۔ کچھ نیک دل لوگوں کے خیال میں ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا بنیادی سبب لاعلمی تھا اب چونکہ حقائق سامنے آ گئے ہیں اصلاح ہو رہی ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کے خیال میں ملک کا سارا انتظامیہ سنگھ پریوار کے زیرِ اثر ہے اور سیاسی اقتدار کسی بھی جماعت کے ہاتھ میں ہواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہوتا وہی ہے جو صیہونی طاقتیں چاہتی ہیں گویا بیچاری کانگریس پارٹی اگر معصوم نہیں تو مجبور ضرور ہے۔ اگر یہ سب سچ ہوتا تو سادھوی پرگیہ کبھی بھی گرفتار نہ ہوتی، سوامی اسیمانند کو اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اس لئے کہ اسے گرفتار کر کے چنچلگڈا جیل تک لے جانے والا انتظامیہ کانگریس کے اشارے پر کام کر رہا تھا۔ اگر وہ سوامی جی گرفتار کر کے آندھرا نہیں لے جاتا تو نہ ان کی ملاقات عبدالکلیم سے ہوتی اور نہ کفارہ ادا کرنے کا خیال ان کے دل میں آتا۔ اگر انتظامیہ سنگھ پریوار کی گرفت میں ہوتا توراجستھان اے ٹی ایس کی چارج شیٹ میں وہ سارے الزامات موجود ہی نہ ہوتے جن کا اعتراف اسیمانند نے کیا ہے۔ ایسے میں کیا اب بھی یہ سوچنا دانشمندی کی علامت ہے کہ کانگریس کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں واقعی اندھیرے میں تھیں اور اپنی لاعلمی کے سبب معصوم مسلم نو جوانوں کو گرفتار کر رہی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاراشٹر، آندھرا اور ہریانہ (جہاں سمجھوتا ایکسپریس کا دھماکہ ہوا )ان تینوں ریاستوں میں کانگریس کے نہایت سیکولر قسم کے وزیر اعلیٰ حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔ ولاس راؤ کو وسنت دادا پاٹل کی طرح فرقہ پرست کبھی بھی نہیں سمجھا گیا اور نہ وائی ایس آر پر نرسمھا راؤ کی مانند ہندو نواز ہونے کا الزام لگایا گیا بلکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندو نہیں بلکہ عیسائی تھے۔ ایک راجستھان میں بی جے پی کی حکومت تھی جو۲۰۰۸ء میں ختم ہو گئی۔ سیاسی رموز و نکات سے واقفیت رکھنے والے تو کبھی بھی یہ نہیں مان سکتے کہ یہ سب لاعلمی کے باعث ہوا اور جہاں تک اتفاقات کا سوال ہے وہ خوابوں او ر خیالوں میں ہمیشہ ہی ہوتے ہیں، حقیقت میں کبھی کبھار ہی ان کا ظہور ہوتا ہے لیکن سیاست میں کبھی نہیں ہوتے یہاں تو سب کچھ منصوبہ بند طریقہ پر ہوتا ہے۔ منصوبوں کا ناکام ہو جانا دیگر بات ہے لیکن اتفاق سے الل ٹپ یہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کانگریس والوں نے جانتے بوجھتے اس ببول کے پودے کو پنپنے ہی کیوں دیا ؟ اس گلستان کے باغبانوں پر وہ پھولوں کی بارش کیوں کرتے رہے ؟ اس کے کانٹوں میں معصوم مسلم نوجوانوں کو الجھا کر زخمی کیوں کیا گیا؟ ان دکھیاروں کے زخموں پر ببول کا کڑوا رس کیوں چھڑکا جاتا رہا؟ اور ایک وقتِ  خاص میں اس پیڑ کو جس کی دیکھ ریکھ بڑے جتن سے کی گئی تھی اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟

ان سارے سوالات کا واحد جواب ہے سیاسی مفاد!اپنی سیاسی ضرورت کے پیشِ نظر ہندو دہشت گردی کی آگ کو ہوا دی گئی اوراس کی نشوونما کی گئی اور اسی سیاسی فائدے کی خاطراس کا قلع قمع بھی کیا جا رہا ہے۔ سنگھ پریوار اپنے نظریات و خیالات کی حد تک اول روز سے انتہا پسند رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر ہی اس کی ساری سیاست کا دارومدار رہا ہے۔ مسلم پر سنل لا، گائے کشی، کشمیر اور بابری مسجد کے سہارے یہ لوگ اپنی سیاسی دوکان چمکاتے رہے ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ پیدا کرنا اور اس کا فائدہ اٹھا کر فسادات برپا کر دینا یہ اس کا طریقہ کار رہا ہے۔ کانگریس کی حکومتوں نے ہمیشہ ہی اس طرح کی صورتحال میں سنگھ کو تحفظ فراہم کیا ہے اس لئے کہ فرقہ وارانہ فسادات اکثر بیشتر کانگریس کے لئے مفید ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ان کے ذریعہ اس نے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر کے خود کو مسیحا کی حیثیت سے پیش کیا اور ان کے ووٹ بنک پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ ہندو رائے دہندگان کی ناراضگی کا اندیشہ کانگریسیوں کوسنگھ پریوار پر ہاتھ ڈالنے سے روکتا رہا لیکن اس کے باوجود یہ دونوں ایک دوسرے کے سیاسی حریف تو رہے ہی ہیں۔ سنگھ نے ہمیشہ ہی بی جے پی کی ہمنوائی کی جو فطری امر ہے سوائے ایک مرتبہ جموں کشمیر کے انتخاب کے جو استثنائی صورتحال تھی جس میں آر ایس ایس نے بی جے پی کے خلاف کانگریس کا ساتھ دیا اور اس کی بہت بڑی قیمت بی جے پی کو چکانا پڑی۔ اس لئے کانگریس کی ہمیشہ یہ کو شش رہی ہے کہ آرایس ایس موجود تو رہے تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے لیکن اس کے اثرات کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہ دیا جائے۔ آر ایس ایس کے کارکنان کے اندر پائے جانے والے دہشت گردی کے رجحان کا بم دھماکوں کی صورت میں اظہارمسلمانوں کے لئے یقیناً نقصان دہ تھا لیکن کانگریس کے لئے فائدہ بخش تھا۔ اس کے ذریعہ سے ایک طرف اس کی تباہ کاریوں کو بے نقاب کر کے بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف عوام میں غم و غصہ پیدا کرنا مقصود تھا اور دوسری جانب ان لوگوں کو بلیک میل کر کے اپنے سیاسی مفادات کا حصول سہل بنانا تھا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ پچھلے دنوں سہراب الدین کیس سے مودی کو بری کر کے کانگریس نے نیوکلیائی بل پر بی جے پی کی حمایت حاصل کی تھی اس طرح کی سیاسی سودے بازی میں کانگریس کو مہارت حاصل ہے۔ اسی لئے کانگریس والے جان بوجھ کر سنگھ کے ذریعہ ہونے والی دہشت گردی سے نہ صرف چشم پوشی کرتے رہے بلکہ اس کی پشت پناہی کرتے رہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان کی جانب سے صرفِ نظر کیا جائے دوسرے اپنے آدمی ان کی تنظیم میں گھسادیئے جائیں یا ان کے چند لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا جائے اور اپنے ایجنٹوں کے توسط سے ان کو ضروری اسلحہ و تربیت وغیرہ فراہم کیا جائے۔ انتظامیہ کی جانب سے نرمی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کی پذیرائی اس حکمتِ عملی کا ایک حصہ ہے۔ لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب رسی کو کھینچ لیا جاتا ہے تو اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ونجارہ نے ساری قتل و غارت گری نریندر مودی کے ایماء پر کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی کے اقتدار کے باوجود وہ جیل میں چکی پیس رہا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ مودی کے اشارے پر کھیلتا رہا اور مودی نے اسی کو بلی چڑھا کر اپنے آپ کو بچا لیا۔

مہاراشٹر کو ہندو نظریات کے حوالے سے گنگوتری کا مقام حاصل ہے اس لئے کہ ہندوتوا کے سارے چشمے یہیں سے پھوٹتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لاٹھی اور نیکر سے آگے بڑھ کر بندوق لیس فوجی یونیفارم میں ملبوس دہشت گردی کی ابتدا کے لئے بھی یہی سر زمین سب سے زیادہ موضوع تھی سو یہی ہوا۔ مراٹھواڑہ کے پربھنی، جالنہ اور ناندیڑ سے اس کی ابتدا ہوئی۔ وزیر اعلیٰ ولاس راؤ اسی علاقے کے رہنے والے تھے تو کیا ان کے مخبروں نے انہیں نہیں بتلایا ہو گا کہ یہ سب کس کا کیا دھرا ہے ؟ ناندیڑ کا دھماکہ تو آر ایس ایس کے کارکن لکشمن راجکونڈوار کے گھر میں ہوا اور اس میں بم بناتے ہوئے اس کا بیٹا نریش اور ہمانشو پانسے نامی وی ایچ پی کارکن ہلاک ہوئے۔ یہ معاملہ اپریل کے مہینے میں ہوا اس کے باوجود پولس نے ان سارے حقائق سے آنکھیں موند لیں اور چند ماہ بعد جب مالیگاؤں دھماکہ ہوا تو انتظامیہ کوسیمی کے علاوہ کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ آگے چل کرناندیڑ دھماکے میں ملوث ایک ملزم نے نارکو ٹسٹ میں ہمانشو کے جالنہ، پورنا اور پربھنی کے دھماکوں کا سوتر دھار قرار دیا اس کے باوجود مالیگاؤں سے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کی رہائی عمل میں نہیں آئی یہاں تک کے وعدہ معاف گواہ ابرار احمد نے اپنا بیان بدل دیا اور اے ٹی ایس نے عدالت سے کہہ دیا کہ ان نوجوانوں کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے پھر بھی وہ معصوم ہنوز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی ہیں۔ کانگریس کی اس چال نے سنگھ پریوار کے اندر دہشت گردی کا رجحان رکھنے والے عنا صر کا حوصلہ بلند کر دیا۔ وہ اس خوش فہمی کا شکار ہو گئے کہ انہوں نے انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں زبردست کامیابی حاصل کر لی ہے حالانکہ صورتحال اس کے بر عکس تھی حکومت ان احمقوں کو بے وقوف بنا رہی تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ مالیگاؤں کے معاملے میں کانگریس کی سنگھ کے خلاف رچی جانے والی سازش میں مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ اب ان دہشت گردوں نے یکے بعد دیگرے بڑھ چڑھ کر حملے شروع کر دیئے، مکہ مسجد، اجمیر شریف اور سمجھوتا ایکسپریس وغیرہ وغیرہ۔ حکومت ہر حملے کے لئے مسلمانو ں کو، انڈین مجاہدین کو، لشکر طیبہ کو اور آئی ایس آئی کو موردِ الزام ٹھہراتی رہی یہاں تک کہ مالیگاؤں کا دوسرا دھماکہ ہوا جس میں صرف پانچ لوگ جان بحق ہوئے اس پر خود سادھوی پرگیہ نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے راموجی کالسنگرے سے فون پر پوچھا صرف تین لوگ؟ کیا موٹر سائیکل بھیڑ میں نہیں کھڑی کی گئی تھی ؟جواب تھا ایسا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سادھوی نہیں جانتی تھی کہ اس کا فون ٹیپ ہو رہا ہے اور اسے ثبوت کے طور پر پیش کیا جانے والا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں سی بی آئی نے سادھوی پرگیہ کا فون ریکارڈ کیا؟ اور یہی فون کیوں ریکارڈ کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سی بی آئی سادھوی کی تمام حرکات سے واقف تھی اور اس کا ہر فون ریکارڈ ہو رہا تھا لیکن حکومت زیادہ سے زیادہ شواہد جمع کرنے کے لئے اسے موقع دے رہی تھی۔ دھماکے ہو تے رہے، مسلم نوجوان گرفتار بھی کئے جا تے رہے، ہندو دہشت گرد خوشی مناتے رہے کہ انہیں کامیابی پر کامیابی حاصل ہو تی جا رہی ہے اور کانگریس پارٹی اپنے پاس زیادہ سے زیادہ شواہد جمع کرتی رہی تاکہ وقتِ ضرورت ان کا استعمال کیا جائے۔ ۲۰۰۹ء کے انتخابات سے ایک سال قبل کانگریس نے محسوس کیا کہ شکنجہ کسنے کامناسب وقت آگیا ہے اب ہلکی آنچ پر اس کھچڑی کو چولہے پر چڑھا دینا چاہیے اس طرح مالیگاؤں کے دوسرے دھماکے نے ہوا کے رخ کو موڑ دیا۔

سادھوی پرگیہ، کرنل پروہت اور شنکر اچاریہ دیانند پانڈے گرفتار کر لئے گئے۔ ابتدا میں گرفتار ہونے والے تین افراد میں سے سادھوی کا تعلق یقیناً سنگھ سے رہا ہے اور اس کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔ اڈوانی سے لیکر راج ناتھ سنگھ سب اس کی حمایت کر چکے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی پروہت اور پانڈے کے بارے میں ایک حرف بھی اپنی زبان پر نہیں لاتا۔ آرایس ایس سے ان کے تعلق کو ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ کرنل پروہت نے اپنے چند بیانات میں آرایس ایس کو ہندو راشٹر کے راستے کی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے مر کزی رہنما اندریش کمار پر آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کا الزام اور تین کروڑ لینے کا انکشاف اسی شخص کا ہے۔ دیا نند پانڈے اس لحاظ سے نہایت پر اسرار ہے کہ یہ شخص دہشت گردی کی ساری معلومات (تصویر اور آواز کے ساتھ) اپنے کمپیوٹر میں ریکارڈ کرتا رہا۔ یہ اس قدر عظیم حماقت ہے جس کا ارتکاب ایک اسکول کا طالبِ علم بھی نہیں کر سکتا اور پھر طرہ یہ کہ اس کمپیوٹر کو بڑی آسانی سے پولس کے حوالے کر دیا گیا۔ خیر ان دونوں سے قطع نظر اب اجمیر۔ حیدر  آباد اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تانے بانے اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ اس نے آر ایس ایس کے اچھے خاصے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جن کا تعلق چھتیس گڈھ، مدھیہ پردیش، گجرات راجستھان اور مہاراشٹر سے ہے۔ فی الحال سیدھے نشانے پر سنگھ کے اعلیٰ رہنما اندریش کمار اور سر سنگھ چالک موہن بھاگوت ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اندریش کمارکو جس پر آئی ایس آئی سے روپئے لینے کا الزام ہے سنیل جوشی کے قتل میں پھنسادیا جائے اور ممکن ہے اس کے ملوث ہونے کا ثبوت بھی پولس کے ہتھے چڑھ گیا ہو اس لئے کہ پچھلے دنوں ہرشدسولنکی نامی نوجوان کو جوشی کے قتل کے الزام میں گرفتار کرنے کا دعویٰ پولس کر چکی ہے۔ کل کو اگر سولنکی یہ کہہ دے کہ اس کام کے لئے اسے اندریش نے تیار کیا تھا توسنگھ پریوار کی عزت و ناموس ہندو سماج کے اندرکس بھاؤ میں نیلام ہو گی اس کا اندازہ کرنے کے لئے کسی ماہر جیوتش کی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس ایسا کرے گی یا نہیں اس کا فیصلہ اس کی سیاسی ضرورتوں پر منحصر ہے۔

اس پس منظر میں یہ فرض کر لیا جائے کہ اگر ناندیڑ دھماکے کے بعد کانگریس کی ریاستی حکومت نے اس زہریلے ناگ کا سر کچل دیا ہوتا تو کیا ہوتا؟یقینی بات ہے کہ یہ بزدل دہشت گرد دُم دبا کر بیٹھ جاتے۔ مسلم عوام ان دھماکوں کی ہلاکت بچ جاتی اور معصوم نوجوان جیل کی صعوبتوں کا شکار نہ ہوتے لیکن کانگریس کا کیا فائدہ ہوتا؟ سچ تو یہ ہے کہ آج ان معصوموں کے خون سے کانگریس پارٹی اپنی مسلم نوازی اور سنگھ پریوار کی ملک دشمنی رقم کر رہی ہے۔ سمجھوتہ کے معاملے میں پاکستان کے ذریعہ آنے والی رسوائی کے لئے سنگھ پریوار کو قصوروار ٹھہرایا جائے گا اور بی جے پی اس کا ا نکار نہ کر سکے گی۔ آگے چل کر وہ ان سارے شواہد کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا جائے گاجو دیا نند پانڈے کے کمپیوٹر میں بند ہیں۔ کانگریس ان کے ذریعہ سنگھ پریوار کو بلیک میل کر کے اسے اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرے گی اور عوام میں اپنی نیک نامی کا ڈنکا بجائے گی۔ ۲۰۰۶ء میں شروع ہونے والا ڈرامہ ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا ہے بلکہ کھیل جاری ہے۔ اس کی الماری سے بہت سارے ڈھانچوں کو باہر آنا باقی ہے جنھیں وقتاً فوقتاً  حسبِ ضرورت باہر لایا جاتا رہے گا تاکہ اس سے سیاسی حریفوں کو مدافعت پر مجبور کر کے خود کو اقدامی پوزیشن میں رکھا جا سکے۔ انتخابی سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کا یہ سب سے کامیاب و مجرد نسخہ ہے۔

جمہوریت کی گاڑی ایک پہیہ پر نہیں چلتی اس کے لئے کم از کم دو پہیوں کا ہونا ضروری ہے اسی لئے وی پی سنگھ نے کہا تھا کہ ہم کانگریس کو پوری طرح ختم کرنا نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام کے سامنے کم از کم دو سیکولر متبادل موجود رہیں۔ اگر کانگریس ختم ہو جائے تو دوسرا متبادل بی جے پی ہو گی اوراس کے اقتدار میں آنے کے امکانات موجود رہیں گے۔ لیکن کانگریس پارٹی کی سوچ اس سے مختلف رہی ہے۔ وہ یا تو اپنے سیکولر متبادل کو نگل جانے کی کوشش کرتی ہے یا اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہے۔ کانگریس پارٹی کی تاریخ اس حقیقت کی غماز ہے اس لئے کہ کانگریس کو بی جے پی کی بنسبت دوسری سیکولر جماعتوں سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ بی جے پی کو شکست دینا آسان تر سمجھتی ہے اسی لئے وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتی کہ صیہونی فکر کا خاتمہ ہو جائے وہ اسے کمزور حالت میں باقی رکھنا چاہتی ہے۔ اسی حکمتِ عملی کے پیشِ نظر اس نے بڑی خوبی کے ساتھ سنگھ پریوار کو دہشت گردی کے مایا جال میں پھنسا لیا ہے تاکہ اقتدار پر اپنی گرفت کو قائم و دائم رکھا جا سکے۔ وکی لیکس میں راہل گاندھی کا بیان اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

حصہ دوم

حصہ سوم