FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سب رنگ

 

 

حصہ دوم

 

مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں

 

 

انتخاب و ترجمہ : عامر صدیقی

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

ہم جماعت

 

ستیہ جت رے

 

بنگالی کہانی

 

 

ابھی صبح کے سوا نو بجے ہیں۔

موہت سرکار نے گلے میں ٹائی کا پھندہ ڈالا ہی تھا کہ اس کی بیوی ارونا کمرے میں آئی اور بولی ’’تمہارا فون۔’’

’’اس وقت کون فون کر سکتا ہے بھلا۔’’

موہت کی ٹھیک ساڑھے نو بجے دفتر جانے کی روٹین رہی ہے۔ اب گھر سے دفتر کے لیے نکلتے وقت ’’تمہارا فون۔’’ سن کر تیار موہت کی تیوری چڑھ گئی۔

ارونا نے بتایا، ’’وہ کبھی تمہارے ساتھ اسکول میں پڑھتا تھا۔’’

’’اسکول میں، اچھا، نام بتایا؟’’

’’اس نے کہا کہ جے نام بتانے پر ہی وہ سمجھ جائے گا۔

موہت سرکار نے کوئی تیس سال پہلے اسکول چھوڑا ہو گا۔ اس کی کلاس میں چالیس لڑکے رہے ہوں گے۔ اگر وہ بڑے دھیان سے بھی سوچے تو بھی زیادہ سے زیادہ بیس ساتھیوں کے نام سوچ سکتا ہے اور اس کے ساتھ اُن کے چہرے بھی۔ خوش قسمتی سے جے یا جے دیو کے نام اور چہرے اب بھی اسے یاد ہے۔ لیکن وہ کلاس کے سب سے اچھے لڑکوں میں سے ایک تھا۔ گورا، خوبصورت سا چہرہ، پڑھنے لکھنے میں ہوشیار، کھیل کود میں بھی آگے، ہائی جمپ میں اول۔ کبھی کبھی وہ تاش کا کھیل بھی دکھایا کرتا اور ہاں کیسا بلانکا کی دہرائی میں اس نے کوئی تمغہ بھی جیتا تھا۔ اسکول سے نکلنے کے بعد موہت نے اس کے بارے میں کبھی کوئی کھوج خبر نہیں لی۔

لیکن آج اتنے سالوں کے بعد اپنی دوستی کے باوجود اور کبھی اپنے ہم جماعت رہے، اس آدمی کے بارے میں کوئی خاص لگاؤ محسوس نہیں کر رہا تھا۔

خیر موہت نے فون کا رسیور پکڑا۔

’’ہیلو۔۔۔’’

’’کون موہت! مجھے پہچان رہے ہو بھائی، میں وہی تمہارا جے۔۔۔ جے دیو بوس۔ بالی گنج میں سکول کا ہم جماعت۔’’

’’بھئی اب آواز سے تو پہچان نہیں رہا، ہاں چہرہ ضرور یاد ہے، بات کیا ہے؟’’

’’تم تو اب بڑے افسر ہو گئے ہو بھئی۔ میرا نام تمہیں اب تک یاد رہا، یہی بہت ہے۔’’

’’ارے یہ سب چھوڑو، بتاؤ بات کیا ہے؟’’

’’بس یوں ہی تھوڑی ضرورت تھی۔ ایک بار ملنا چاہتا ہوں تم سے۔’’

’’کب؟’’

’’تم جب کہو۔ لیکن تھوڑی جلدی ہو تو اچھا۔۔۔’’

’’تو پھر آج ہی ملو۔ میں شام کو چھ بجے گھر آ جاتا ہوں، تم سات بجے آ سکو گے؟’’

’’کیوں نہیں ضرور آؤں گا اچھا تو شکریہ۔ تبھی ساری باتیں ہوں گی۔’’

ابھی حال ہی میں خریدی گئی آسمانی رنگ کی گاڑی میں دفتر جاتے ہوئے موہت سرکار نے اسکول میں پیش آئے کچھ واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ ہیڈماسٹر گریندر سر کی گہری نظر اور بے حد سخت مزاج کے باوجود اسکول کے دن بھی کیسی کیسی خوشیوں سے بھرے دن تھے۔ موہت خود بھی ایک اچھا طالب علم تھا۔ شنکر، موہت اور جے دیو۔ ان تینوں میں ہی مقابلہ چلتا رہتا تھا۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر انہی تینوں کا باری باری قبضہ رہتا۔ چھٹی سے لے کر موہت سرکار اور جے دیو بوس ایک ساتھ ہی پڑھتے رہتے تھے۔ کئی بار ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر پڑھائی کی تھی۔ فٹ بال میں بھی دونوں کا برابری کا مقام تھا۔ موہت رائٹ ان کھلاڑی تھا تو جے دیو رائٹ آؤٹ۔ تب موہت کو احساس پڑتا تھا کہ یہ دوستی آج کی نہیں، زمانے کی ہے۔ لیکن اسکول چھوڑنے کے بعد دونوں کے راستے الگ الگ ہو گئے۔ موہت کے والد ایک رئیس آدمی تھے، کلکتہ کے نامی وکیل۔ اسکول کی پڑھائی ختم کرنے کے بعد، موہت کا داخلہ ایک اچھے سے کالج میں ہو گیا اور یہاں کی پڑھائی ختم ہو جانے کے دو سال بعد ہی اس کی تقرری ایک بڑی کاروباری کمپنی کے افسر کے طور پر ہو گئی۔ جے دیو کسی دوسرے شہر میں کسی کالج میں داخل ہو گیا تھا۔ در اصل اس کے والد کی نوکری تبادلوں والی تھی۔ سب سے حیرت کی بات یہ تھی کہ کالج میں جانے کے بعد موہت نے جے دیو کی کمی کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ اس کی جگہ کالج کے ایک دوسرے دوست نے لے لی۔ بعد میں یہ دوست بھی بدل گیا، جب کالج لائف بھی مکمل ہو جانے کے بعد موہت کی پیشہ وارانہ زندگی شروع ہو گئی۔ موہت اپنے دفتری دنیا میں چار بڑے افسران میں سے ایک ہے اور اس کے بہترین دوستوں میں اس کا ہی ایک ہم مرتبہ ہے۔ اسکول کے ساتھیوں میں ایک پرگیان سین گپت ہے۔ لیکن اسکول کی یادوں میں پرگیان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن جے دیو جس کے ساتھ گزشتہ تیس سالوں سے ملاقات تک نہیں ہوئی ہے۔ اس کی یادوں نے اپنی کافی جگہ بنا رکھی ہے۔ موہت نے ان پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اس بات کی سچائی کو بڑی گہرائی سے محسوس کیا۔

موہت کا دفتر سینٹرل ایونیو میں ہیں۔ چورنگی اور سُریندر بنرجی روڈ کے موڑ پر پہنچتے ہی گاڑیوں کی بھیڑ، بسوں کے ہارن اور دھوئیں سے موہت سرکار کی یادوں کی دنیا منہدم ہو گئی اور وہ سامنے کھڑی حقیقی دنیا کے سامنے تھا۔ اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے ہی وہ سمجھ گیا کہ وہ آج تین منٹ دیر سے دفتر پہنچ رہا ہے۔

دفتر کا کام نمٹا کر، موہت جب لی روڈ پر واقع اپنے گھر پہنچا تو بالی گنج گورنمنٹ اسکول کے بارے میں اس کے دل میں رتی بھر یاد نہیں بچی تھی۔ یہاں تک کہ وہ صبح ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے بارے میں بھی بھول چکا تھا۔ اسے اس بات کی یاد تب آئی، جب اس کا نوکر وپن ڈرائنگ روم میں آیا اور اس نے اس کے ہاتھوں میں ایک کاغذ تھمایا۔ یہ کسی کتاب میں سے پھاڑا گیا صفحہ تھا۔ مڑا ہوا۔ اس پر انگریزی میں لکھا تھا۔ ’’جے دیو بوس ایز پر اپاؤنٹمنٹ‘‘

ریڈیو پر بی بی سی سے آنے والے خبروں کو سننا بند کر کے موہت نے وپن کو کہا، ’’اسے اندر آنے کو کہو۔’’

لیکن اس نے دوسرے ہی لمحے یہ محسوس کیا کہ جے اتنے دنوں بعد مجھ سے ملنے آ رہا ہے، اس کے ناشتے کیلئے کچھ منگوا لینا چاہئے تھا۔ دفتر سے لوٹتے ہوئے پارک اسٹریٹ سے وہ بڑے آرام سے کیک یا پیسٹری وغیرہ کچھ بھی لا ہی سکتا تھا، لیکن اس کو جے کے آنے کی بات یاد ہی نہیں رہی۔ پتہ نہیں، اس کی بیوی نے اس بارے میں کوئی انتظام کر رکھا ہے یا نہیں۔

’’پہچان رہے ہو؟’’

اس سوال کو سن کر اور اسے بولنے والے کی طرف دیکھ کر موہت سرکار کی حالت کچھ ایسی ہو گئی کہ بیٹھک والے کمرے کی سیڑھی پار کرنے کے بعد بھی اس نے نیچے کی طرف ایک قدم اور بڑھا دیا تھا۔ جب کہ وہاں کوئی قدمچہ نہیں تھا۔

کمرے کی چوکھٹ پار کرنے کے بعد، جو آدمی اندر داخل ہوا تھا، اس نے ایک ڈھیلی ڈھالی سوتی پتلون پہن رکھی تھی۔ اس کے اوپر ایک گھٹیا چھپائی والی سوتی قمیض۔ دونوں پر کبھی استری کی گئی ہو، ایسا نہیں لگا۔ قمیض کے کالر سے جو صورت جھانک رہی تھی، اسے دیکھ کر موہت اپنی یادوں میں آباد جے دیو سے کوئی مناسبت نہیں بٹھا سکا۔ آنے والے کا چہرہ خشک، گال پچکے، آنکھیں دھنسی، بدن کا رنگ دھوپ میں تپ تپ کر سیاہ پڑ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر تین چار دنوں کی کچی پکی مونچھیں اگی تھی۔ پیشانی کے اوپر ایک مسّا اور کنپٹیوں پر بے ترتیب ڈھنگ پھیلے سے ڈھیر سارے پکے ہوئے بال۔

اس آدمی نے یہ سوال مصنوعی ہنسی کے ساتھ پوچھا تھا۔ اس کے دانتوں کی قطار بھی موہت کو نظر آئی۔ پان کھا کھا کر سڑ چکے ایسے دانتوں کے ساتھ ہنسنے والے کو سب سے پہلے اپنا منہ ہاتھ سے ڈھانپ لینا چاہئے۔

’’کافی بدل گیا ہوں نا؟’’

’’بیٹھو۔’’

موہت اب تک کھڑا تھا۔ سامنے والے صوفے پر اس کے بیٹھ جانے کے بعد موہت بھی اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ موہت کے زمانہ طالب علمی کی تصویر اس کے البم میں پڑی ہے۔ اس تصویر میں چودہ سال کے موہت کے ساتھ آج کے موہت کو پہچان پانا بہت مشکل نہیں ہے۔ تو پھر سامنے بیٹھے جے کو پہچان پانا اتنا مشکل کیوں ہو رہا ہے؟ صرف تیس سالوں میں کیا چہرے مہرے میں اتنی تبدیلیاں آ جاتی ہیں؟

’’تمہیں پہچان پانے میں کوئی مشکل نہیں ہو رہی ہے۔ راستے میں بھی دیکھ لیتا تو پہچان جاتا۔’’  بھلا انسان آتے ہی شروع ہو گیا تھا، ’’در اصل مجھ پر مصیبتوں کا پہاڑ سا ٹوٹ پڑا ہے۔ کالج میں ہی تھا کہ پتا جی گزر گئے۔ میں پڑھنا لکھنا چھوڑ کر نوکری کی تلاش میں بھٹکتا رہا اور باقی تم کو معلوم ہے ہی۔ خوش قسمتی اور سفارش نہ ہو تو آج کے زمانے میں ہم جیسے لوگوں کے لئے۔۔۔’’

’’چائے تو پیو گے؟’’

’’چائے ہاں لیکن۔’’

موہت نے وپن کو بلا کر چائے لانے کو کہا۔ اس کے ساتھ اسے یہ سوچ کر سکون ملا کہ کیک یا مٹھائی نہ بھی ہو تو کوئی خاص بات نہیں۔ اس کیلئے بسکٹ ہی کافی ہوں گے۔

’’اوہ!’’  اس بھلے انسان نے کہا، ’’آج دن بھر نہ جانے کتنی پرانی باتیں یاد کرتا رہا۔ تمہیں کیا بتاؤں۔۔۔’’

موہت کا بھی کچھ وقت ایسے ہی گزرا ہے۔ لیکن اس نے ایسا کچھ کہا نہیں۔

’’ایل سی ایم اور جی سی ایم کی باتیں یاد ہیں؟’’

موہت کو اس بارے میں یاد نہیں تھا، لیکن ریفرنس دیتے ہی اسے یاد آ گیا،ا یل سی ایم یعنی پی ٹی ماسٹر لال چاند مکھرجی اور جی سی ایم یعنی ریاضی کے ٹیچر گوپندر چندر متر۔

’’اسکول میں ہی پانی کے ٹنکی کے پیچھے ہم دونوں کو زبردستی ایک ساتھ کھڑا کر کے باکس کیمرے سے کسی نے ہماری تصویر کھینچی تھی، یاد ہے؟’’

اپنے ہونٹوں کے کونوں پر ایک میٹھی مسکراہٹ چسپاں کر کے موہت نے یہ جتا دیا کہ اسے اچھی طرح یاد ہے۔ حیرت۔ یہ سب تو سچی باتیں ہیں اور اب بھی اگر یہ جے دیو نہ ہو تو اتنی چیزوں کے بارے میں اسے کیسے پتہ چلا؟

’’اسکول کی زندگی کے وہ پانچوں سال، میری زندگی کے سب سے بہترین سال تھے۔’’  آنے والے نے بتایا اور پھر افسوس جتایا، ’’ویسے دن اب دوبارہ کبھی نہیں آئیں گے بھائی!’’

’’لیکن تم تو تقریباً میری ہی عمر کے ہو۔’’  موہت اس بات کو کہے بغیر رہ نہیں پایا۔

’’میں تم سے کوئی تین چار ماہ چھوٹا ہی ہوں۔’’

’’تو پھر تمہاری یہ حالت کیسے ہوئی؟ تم تو گنجے ہو گئے؟’’

’’پریشانی اور تناؤ کے سوا اور کیا وجہ ہو گی؟’’ اس آنے والے نے بتایا، ’’حالانکہ گنجا پن تو ہمارے خاندان میں پہلے سے ہی رہا ہے۔ میرے باپ اور دادا دونوں ہی گنجے ہو گئے تھے، صرف پینتیس سال کی عمر میں۔ میرے گال دھنس گئے ہیں، ہڈی توڑ محنت کی وجہ سے اور ڈھنگ کا کھانا بھی کہاں نصیب ہوتا ہے؟ اور تم لوگوں کی طرح میز کرسی پر بیٹھ کر تو ہم لوگ کام نہیں کرتے۔ گزشتہ سات سال سے ایک کارخانے میں کام کر رہا ہوں، اس کے بعد میڈیکل سیلزمین شپ کی وجہ سے ادھر ادھر کی بھاگ دوڑ، بیمے کی دلالی، اِس کی دلالی، اُس کی دلالی۔ کسی ایک کام میں ٹھیک سے جٹے لگے رہنا اپنے نصیب میں کہاں۔ اپنے ہی جال میں پھنسی مکڑی کی طرح ادھر ادھر گھومتا رہتا ہوں۔ کہتے ہیں نہ دیہ دھرے کا ڈنڈ۔ دیکھنا ہے یہ جسم بھی کہاں تک ساتھ دیتا ہے۔ تم تو میری حالت دیکھ ہی رہے ہو۔’’

وپن چائے لے آیا تھا۔ چائے کے ساتھ سندیش (ایک بنگالی مٹھائی) اور سموسے بھی۔ غنیمت ہے، بیوی نے اس بات کا خیال رکھا تھا۔ لیکن میرے ہم جماعت کی اس مجروح حالت کو دیکھ کر وہ کیا سوچ رہی ہو گی۔ اس کا اندازہ اسے نہیں ہو پایا۔

’’تم نہیں لو گے؟’’  اس بھلے آدمی نے پوچھا۔

موہت نے سر ہلا کر کہا ’’نہیں، ابھی ابھی پی ہے۔’’

’’سندیش تو لے لو۔’’

’’نہیں تم شروع تو کرو۔’’

بھلے آدمی نے سموسہ اٹھا کر منہ میں رکھا اور اس کا ایک ٹکڑا چباتے ہوئے بولا، ’’بیٹے کا امتحان سر پر ہے اور میری پریشانی یہ ہے موہت بھائی کہ میں اس کیلئے فیس کے روپے کہاں سے جٹاؤں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔’’

اب آگے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ موہت سمجھ گیا۔ اس کے آنے سے پہلے ہی اسے سمجھ لینا چاہئے تھا کہ کیا ماجرا ہے؟ مالی مدد اور اس کیلئے دعا۔ آخر یہ کتنی رقم کی مدد مانگے گا؟ اگر بیس پچیس روپے دے دینے پر بھی پنڈ چھوٹ سکے تو یہ خوش قسمتی ہی ہو گی اور اگر اس کی مدد نہیں کی گئی تو یہ بلا ٹل پائے گی، ایسا نہیں کہا جا سکتا۔

’’پتہ ہے، میرا بیٹا بڑا ہوشیار ہے۔ اگر اسے ابھی یہ امداد نہیں ملی تو اس کی پڑھائی بیچ میں ہی رک جائے گی۔ میں جب جب اس بارے میں سوچتا ہوں تو میری راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔’’

پلیٹ سے دوسرا سموسہ اڑ چکا تھا۔ موہت نے موقع پا کر نو عمر جے دیو کے چہرے سے اس بھلے آدمی کے چہرے کو ملا کر دیکھا اور اب اسے پورا یقین ہو گیا کہ اس لڑکے کے ساتھ اس ادھیڑ آدمی کا کہیں کوئی میل نہیں۔

’’اس لیے کہہ رہا تھا کہ۔’’  چائے کی چسکی بھرتے اس نے مزید کہا، ’’اگر تم سو ڈیڑھ سو روپے اپنے اس پرانے دوست کو دے سکو تو۔۔’’

’’ویری سوری۔’’

’’کیا؟’’

موہت نے دل ہی دل یہ سوچ رکھا تھا کہ اگر بات روپے پیسے پر آئی تو وہ ایک دم ’’نہ‘‘ کر دے گا۔ لیکن اب جا کر اسے لگا کہ اتنی رکھائی سے منع کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ چنانچہ اپنی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے اس نے بڑی نرمی سے کہا، ’’سوری بھائی۔ ابھی میرے پاس کیش روپے نہیں ہیں۔’’

’’میں کل آ سکتا ہوں۔’’

’’میں کلکتہ سے باہر رہوں گا۔ تین دن کے بعد لوٹوں گا۔ تم اتوار کو آ جاؤ۔’’

’’اتوار کو؟’’

وہ تھوڑی دیر تک چپ رہا۔ موہت نے بھی دل ہی دل میں کچھ ٹھان لیا تھا۔ یہ وہی جے دیو ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کلکتہ کے لوگ ایک دوسرے کو ٹھگنے کے ہی ہزار طریقے جان گئے ہیں۔ کسی کے پاس سے تیس سال پہلے کے بالی گنج اسکول کی کچھ واقعات کے بارے میں جان لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ وہی سہی۔

’’میں اتوار کو کتنے بجے آ جاؤں؟’’

’’سویرے سویرے ہی ٹھیک رہے گا۔’’

جمعے کو عید کی چھٹی ہے۔ موہت نے پہلے سے ہی طے کر رکھا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ باروئی پور کے ایک دوست کے یہاں، ان کے باگان باڑی میں جا کر ویک اینڈ منائے گا۔ وہاں دو تین دن تک رک کر اتوار کی رات کو ہی گھر لوٹ پائے گا۔ لہذا وہ بھلا آدمی جب اتوار کی صبح گھر پر آئے گا تو مجھ سے مل نہیں پائے گا۔ اس بہانے کی ضرورت نہیں پڑتی، اگر موہت نے دو ٹوک الفاظ میں اس سے ’’نہ‘‘ کہہ دیا ہوتا۔ لیکن ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو بالکل ایسا نہیں کہہ سکتے۔ موہت ایسے ہی مزاج کا آدمی ہے۔ اتوار کو اس ملاقات کے نہ ہونے کے باوجود وہ کوئی دوسرا طریقہ ڈھونڈ نکالے تو موہت اس سے بھی بچنے کی کوشش کرے گا۔ شاید اس کے بعد کسی دوسری پریشانی کا سامنا کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

مہمان نے آخری بار چائے کی چسکی لی اور کپ نیچے رکھا تھا کہ کمرے میں ایک اور دوست آ گئے۔ یہ موہت کے گہرے دوست تھے، ونی کانت سین۔ دو دیگر دوستوں کے بھی آنے کی بات ہے، اس کے بعد یہیں تاش کا اڈہ جمے گا۔ اس نے اس آدمی کی طرف شک بھری نظروں سے دیکھا۔ موہت اسے بھانپ گیا۔ مہمان کے ساتھ اپنے دوست کا تعارف کرانے کی بات موہت بری طرح ٹال گیا۔

’’اچھا تو پھر ملیں گے، اب چلتا ہوں۔’’  کہہ کر اجنبی مہمان اٹھ کھڑا ہوا۔

’’تو مجھ پر یہ احسان کر دے، میں سچ مچ تیرا شکرگزار رہوں گا۔’’

اس بھلے آدمی کے چلے جانے کے بعد ونی کانت سین نے موہت کی طرف حیرانی سے دیکھا اور پوچھا، ’’یہ آدمی آپ سے ’’تو‘‘ کہہ کر باتیں کر رہا تھا، بات کیا ہے؟’’

’’اتنی دیر تک تو تم ہی کہتا رہا تھا۔ بعد میں تمہیں سنانے کے لیے ہی اچانک تو کہہ گیا۔’’

’’کون ہے یہ آدمی؟’’

موہت کوئی جواب دیے بغیر کتابوں کے شیلف کی طرف بڑھ گیا اور اس پر سے ایک پرانا فوٹو البم نکال لایا۔ پھر اس کا ایک صفحہ الٹ کر ونی کانت سین کے سامنے بڑھا دیا۔

’’یہ تمہارے اسکول کا گروپ ہے شاید؟’’

’’جی ہاں، بوٹونکس میں ہم سب پکنک کے لئے گئے تھے۔’’  موہت نے بتایا۔

’’یہ پانچوں کون کون ہیں؟’’

’’مجھے نہیں پہچان رہے؟’’

’’رکو، ذرا دیکھنے تو دو۔’’

البم کو اپنی آنکھوں کے تھوڑا نزدیک لے جاتے ہی بڑی آسانی سے ونی کانت سین نے اپنے دوست کو پہچان لیا۔

’’اچھا، اب میری بائیں جانب کھڑے اس لڑکے کو اچھی طرح دیکھو۔’’

تصویر کو اپنی آنکھوں کے کچھ اور نزدیک لا کر ونی کانت سین نے کہا، ’’ہاں، دیکھ لیا۔’’

’’ارے یہی تو ہے وہ بھلا آدمی جو ابھی ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا۔’’  موہت نے بتایا۔

’’اسکول سے ہی تو جوئے کی لت نہیں لگی ہے اسے؟’’  البم تیزی سے بند کر اسے صوفے پر پھینکتے ہوئے ونی کانت سین نے پھر کہا، ’’میں نے اس آدمی کو کم از کم تیس بتیس بار ریس کے میدان میں دیکھا ہے۔’’

’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔’’  موہت سرکار نے حامی بھری اور اس کے بعد اس کے ساتھ کیا کیا باتیں ہوئیں، اس بارے میں بتایا۔

’’ارے، تھانے میں خبر کر دو۔’’ ونی کانت سین نے اسے مشورہ دیا، ’’کلکتہ اب ایسے ہی چوروں، ڈاکوؤں اور اچکّوں کا گڑھ ہو گیا ہے۔ اس تصویر والے لڑکے کا ایسا پکا جواری بن جانا نا ممکن ہے نا ممکن۔’’

موہت ہولے سے مسکرایا اور پھر بولا، ’’اتوار کو جب میں اسے گھر پر نہیں ملوں گا تو پتہ چلے گا۔ مجھے لگتا ہے اس کے بعد یہ اس طرح کی حرکتوں سے باز آ جائے گا۔’’

اپنے باروئی پور والے دوست کے یہاں پوکھر کی مچھلی، مرغی کے تازہ انڈے اور درختوں میں لگے آم، امرود، جامن، ناریل اور سینے سے تکیہ لگا تاش کھیل کر، تن من کی ساری تھکان اور تناؤ دور کر کے موہت سرکار، اتوار کی رات گیارہ بجے جب اپنے گھر لوٹا تو اپنے نوکر وپن سے اسے خبر ملی کہ اُس دن شام کو جو شریف آدمی آئے تھے، وہ آج صبح بھی گھر آئے تھے۔

’’کچھ کہہ کر گئے ہیں؟’’

’’جی نہیں۔’’  وپن نے بتایا۔

چلو جان بچی۔ ایک چھوٹی سی جگت سے بڑی بلا ٹلی۔ اب وہ نہیں آئے گا۔ جان چھوٹی۔

لیکن نہیں۔ آفت رات بھر کے لئے ہی ٹلی تھی۔ دوسرے دن صبح یہی کوئی آٹھ بجے، موہت جب اپنی بیٹھک میں اخبار پڑھ رہا تھا، تو وپن نے اس کے سامنے ایک اور تہہ کیا ہوا کاغذ لا کر رکھ دیا۔ موہت نے اسے کھول کر دیکھا۔ وہ تین لائنوں والی ایک خط تھا۔

’’بھائی موہت، میرے دائیں پاؤں میں موچ آ گئی ہے، اس لئے بیٹے کو بھیج رہا ہوں۔ مدد کے طور پر جو تھوڑا بہت بن سکے، اس کے ہاتھ میں دے دینا، بڑی نوازش ہو جائے گی۔ مایوس نہیں کرو گے، اس امید کے ساتھ، فقط۔ تمہارا جے’’

موہت سمجھ گیا اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ جیسے بھی ہو، تھوڑا بہت دے کر جان چھڑانی ہے۔ یہ سوچ کر اس نے نوکر کو بلایا اور کہا، ’’ٹھیک ہے، چھوکرے کو بلاؤ۔’’ تھوڑی دیر بعد ہی، ایک تیرہ چودہ سال کا لڑکا دروازے سے اندر داخل ہوا۔ موہت کے پاس آ کر اس نے اسے پرنام کیا اور پھر کچھ قدم پیچھے ہٹ کر خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔

موہت اس کی طرف کچھ دیر تک بڑے غور سے دیکھتا رہا۔ اس کے بعد کہا، ’’بیٹھ جاؤ۔’’

لڑکے تھوڑی دیر تک کسی ادھیڑ بن میں پڑا رہا، پھر سوفے کے ایک کنارے اپنے دونوں ہاتھوں کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا۔

’’میں ابھی آیا۔’’

موہت نے اوپر جا کر اپنی گھر والی کے آنچل سے چابیوں کا گچھا کھولا۔ اس کے بعد الماری کھول کر پچاس روپے کے چار نوٹ باہر نکالے، انہیں ایک لفافے میں رکھا اور الماری بند کر نیچے بیٹھک میں واپس آیا۔

’’کیا نام ہے تمہارا؟’’

’’جی، سنجے کمار بوس۔’’

’’اس میں روپے ہیں۔ بڑی احتیاط سے لے جانا ہو گا۔’’

لڑکے نے سر ہلا کر حامی بھری۔

’’کہاں رکھو گے؟’’

’’ادھر، اوپر والی جیب میں۔’’

’’ٹرام سے جاؤ گے یا بس سے؟’’

’’جی پیدل۔’’

’’پیدل؟ تمہارا گھر کہاں ہے؟’’

’’مرزا پور اسٹریٹ میں۔’’

’’بھلا اتنی دور پیدل جاؤ گے؟’’

’’پتا جی نے پیدل ہی آنے کو کہا ہے۔’’

’’اچھا تو پھر ایک کام کرو۔ تم ایک گھنٹہ یہیں بیٹھو، ٹھیک ہے۔ ناشتہ کر لو۔ یہاں ڈھیر ساری کتابیں ہیں، انہیں دیکھ سکتے ہو۔ میں نو بجے دفتر نکلوں گا۔ مجھے دفتر چھوڑنے کے بعد میری گاڑی تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دے گی۔ تم ڈرائیور کو اپنے گھر کا راستہ بتا سکو گے نا؟’’  موہت نے پوچھا۔

لڑکے نے سر ہلا کر کہا، ’’ہاں۔’’

موہت نے وپن کو بلایا اور اس لڑکے سنجے بوس کے لئے چائے وغیرہ لانے کا حکم دیا۔ پھر دفتر کے لئے تیار ہونے، اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔

آج وہ اپنے آپ کو بہت ہی ہلکا محسوس کر رہا تھا اور ساتھ ہی بہت خوش بھی۔

جے کو دیکھ کر پہچان نہ پانے کے باوجود، اس کے بیٹے سنجے میں اس نے اپنا تیس سال پرانا ہم جماعت پا لیا تھا۔

***

 

 

 

کل کہاں جاؤ گی

 

پدما سچدیو

 

ڈوگری کہانی

 

 

صبح کی پہلی کرن کی طرح وہ میرے آنگن میں چھن سے اتری تھی۔ اور اترتے ہی ٹوٹ کر بکھر گئی تھی۔ اور اس کے بکھرتے ہی سارے آنگن میں سنہری چمکدار روشنی کونے کونے تک پھیل گئی تھی۔ کھلکھلا کر جب وہ سمٹتی، تو روشنی کا ایک ہالا آنگن کے بیچوں بیچ تھرکنے لگتا اور اس کی بے باک ہنسی سے آنگن میں لگے، جوہی کے پھول کھل کر اپنی خوشبو بکھیرنے لگتے۔ اس کا نام تھا پریت۔ میں اسے فقط پریتو کہتی تھی۔

ہوا یوں کہ میری ایک بڑی پرانی سہیلی اپنے گھر جا رہی تھی۔ میرے شوہر بیرونِ ملک گئے ہوئے تھے۔ گھر ویسے بھی کاٹنے کو دوڑ رہا تھا۔ پس جب میری سہیلی نے یہ تجویز پیش کی کہ پریتو کو کچھ دن میں اپنے گھر میں رکھ لوں، تو میں نے فوراً سے پیشتر ہی ہاں کر دی۔ میری سہیلی کا دایاں ہاتھ تھی پریتو، اتنا تو میں جانتی تھی۔ اُس کے کنڈر گارڈن اسکول کے بچے اس کو تِیتو کہہ کر اسکول میں داخل ہوتے اور پھر بعد میں وہ ان کی پریت آنٹی ہو جاتی۔

پریتو کو پریت کہلوانے کا شوق تھا۔ اسکول سے لے کر کشن غلاف تک کے کام پریتو کے سپرد تھے۔ پر جب چھٹیوں میں میڈم گھر جانے لگی تو پریتو کو ساتھ لے جانا، اس کی بنیا ذہنیت کو ٹھیک نہ لگا۔

میری یہ سہیلی بچپن سے ہی دبنگ تھی۔

ایک بار گول گپے والے سے اس کا جھگڑا ہوا اور میڈم کی چپل کی مار سے وہ بھاگ گیا تھا۔ تب ہم سب گول گپوں کے خوانچے پر ٹوٹ پڑنے ہی والے تھے کہ میڈم خوانچے والے کی جگہ بیٹھ کر پلیٹیں سجا کر سب کو دینے لگی۔

آناً فاناً گول گپے ہوا ہو گئے۔ تب اس نے املی کے پانی کی ترشی سے سی سی کرتے ہوئے بتایا۔

’’موا مجھ اکیلی کو دیکھ کر آنکھ مار رہا تھا۔ میں نے دیسی جوتی سے وہ پٹائی کی کہ وہ بھاگ گیا۔’’  اس کے بعد سے ہم اسے میڈم ہی کہتے تھے۔ اس کا اصلی نام بھول ہی گئے تھے۔ پر میڈم کو کوئی نہ بھلا سکا۔ اس تجویز پر میں تھوڑی ناخوش بھی تھی، پر سوچا پریتو کی رونق رہے گی۔ دو دن پہلے ہی میڈم، پریتو کو لے کر میرے گھر آ گئی تھی۔ اس کو ہرقسم کی قسم کھلانے کے بعد جب میڈم ٹرین پر بیٹھی تو پریتو جو اس کا رائی رتی تک سنبھال کر دیتی رہی تھی، تھک کر چور ہو چکی تھی۔

آتے ہی جب دو سیراڈون کھا کر وہ سو گئی، تو میں نے بھی اس سے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ دوسرے دن ابھی صبح بھی نہیں ہوئی تھی کہ گھر میں چلنے پھرنے کی انجان آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ انہیں تو میں کسی نہ کسی طرح سے برداشت کرتی ہی رہی، مگر جب باتھ روم کا پانی زور و شور سے بہنے کی آواز آئی، تو میری ہمت نے جواب دے دیا۔ لوہے کی بالٹی میں پورے کھلے نل کے گرتے پانی سے زیادہ شور، شاید کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ بستر میں آنکھیں موندے موندے میں زور سے چلائی۔

’’پریتو۔’’

’’جی میڈم۔’’  وہ جیسے سر پر ہی کھڑی تھی۔

’’خبردار جو تم نے مجھے میڈم کہا۔’’  میں جھلا کر اس پر برس پڑی، تو وہ معصومیت سے بولی، ’’تو پھر کیا کہوں میڈم جی۔’’

’’پہلے یہ نل بند کرو اور ہاں تم مجھے دیدی کہہ سکتی ہو۔’’

وہ مجھ سے کب آ کر لپٹ گئی، میں یہ جان ہی نہ پائی۔ دیدی، دیدی کہہ کر اس نے سارا گھر سر پر اٹھا لیا اور اپنی اس سخاوت سے میں فخر سے پھول اٹھی۔ پھر اس کے ماضی کی چند پوٹلیاں، پل بھر میں ہی میرے سامنے بکھری پڑی تھیں۔

پریتو اکلوتی بیٹی تھی۔ تین چار بھائیوں کی اکیلی بہن۔ پر اس کا باپ جو کہ بڑھئی سے زیادہ شرابی تھا، اس نے اس کو ذرا سی بڑی ہوتے ہی نمبردار کے بیٹے سے بیاہ دیا تھا۔ اُسے پرانا دمہ تھا۔ اس نا انصافی کی مخالفت کون کرتا۔ اس کے بھائی شرابی باپ کی مار کھا کھا کر بلوغت کی عمر آتے ہی گھر سے بھاگ گئے تھے۔ اور ماں گھر کی دیواروں جیسی ہی ایک دیوار بھر تھی۔

بھگوان کی کرنی۔ سہاگ رات منائی جاتی اس سے پہلے ہی، پھیروں میں آگ کا دھواں پی پی کر دولہے صاحب کو دمے کا ایسا دورہ پڑا کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔ پلنگ پر بیٹھی بیٹھی پریتو سوتی رہی۔ کسی نے ادھر جھانکا بھی نہیں۔ صبح لوگوں نے کہا، ’’منحوس نے آتے ہی شوہر پر وار کر دیا۔ پتہ نہیں نمبردار کے نام کا کیا ہو گا۔ اس کا پاؤں تو جان لیوا ہے۔’’

تبھی ہماری میڈم وہاں پہنچ گئی اور شوہر کے مرنے سے پہلے ہی اسے گھر لے آئی۔ سارے گاؤں کے مقابلے میں وہ اکیلی ہی ڈٹی تھی۔ پر دبنگ ایسی کہ اسے دیکھتے ہی نمبردار حقہ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہو ا۔ اسی دبنگ پنے کی وجہ سے آج تک اس کی شادی نہیں ہو پائی تھی۔ ایسی شہرت تھی کہ پروہت بھی اس کی جنم پتری لے کر کہیں جانے کو راضی نہ ہوتا۔ سو کنواری ہی رہ گئی۔ پریتو کی آنکھوں میں تیرتے سپنے، میڈم نے بڑی آسانی سے پونچھ ڈالے اور شہر میں آ کر بچوں کا کنڈر گارڈن کھول لیا۔ پریتو کو جو سہارا ملا، تو اس نے اپنا سارا دل بچوں میں ہی لگا لیا۔ میڈم اس سے محبت بھی کرتی ہے، پر مجال ہے جو کبھی پتہ چلنے دے۔

پریتو، جس نے شادی کے منڈپ میں شرما شرما کر پاؤں رکھے تھے۔ آگ کے آگے وعدے کرتے وقت خود کو پگھلتی رہی تھی، وہ پریتو کب تک ضبط کا دامن تھامے رہے گی، اس کا ڈر مجھے برابر لگا رہا تھا۔ میرے گھر میں آتے ہی ذرا سی ملی ہمدردی، اس کی آنکھوں میں پھر سے خوابوں کے سندیشے بنائی لگی تھی۔ وہ سارا کام ہنستے ہنستے نمٹا لیتی اور سارا دن کوئی چھ بار کنگھی کر کے طرح طرح کے ہیئر اسٹائل بناتی رہتی۔ بندیا لگانے کا اسے بڑا ہی شوق تھا۔ میں نے ایک دن کہا۔ ’’پریتو تو بندیا لگا کر مٹا کیوں دیتی ہے؟’’

اداس ہو کر بولی۔ ’’وہ جو مر گیا ہے۔ پر دیدی میرا دل بندیا لگانے کو کرتا ہے۔’’

میں نے کہا، ’’اس سے تیرا کیا واسطہ ہے؟ ۔ یہ کوئی شادی تھوڑی ہی تھی۔’’

وہ حوصلہ پا کر بولی، ’’یہی تو میں کہتی ہوں، پر میڈم ہمیشہ ٹوک دیتی ہے۔ کہتی ہیں، سرخ بندیا صرف سہا گنیں لگا سکتی ہیں۔’’

’’تم کالی بندیا لگایا کرو۔’’

’’ہاں دیدی، کالی بندیا تو لگا ہی سکتی ہوں اور اب اس کو مرے بھی ایک سال تو ہو ہی گیا ہے۔ اب اس کا بھوت مجھے تنگ نہیں کر سکتا۔’’  یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اتنی ہنسی کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔

ناک سکڑتے ہوئے، وہ اپنے آنسوؤں کو پونچھ پونچھ کر کہنے لگی، ’’دیدی، اگر وہ زندہ رہتا تو میں گاؤں کبھی نہ چھوڑتی۔ شادی سے پہلے ایک بار اس نے راستے میں میرا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا کہ قسم کھاؤ پریتو مجھے کبھی چھوڑ کر نہ جاؤ گی۔’’

میں نے اپنے سب سے میٹھے آموں والے درخت کی قسم کھا کر کہا تھا، ’’کبھی نہیں۔’’

تبھی کسی کے قدموں کی آہٹ ہوئی تھی اور اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ اس کے گھر والے کہتے ہیں۔ ہمیں پتہ تھا کہ یہ زیادہ دن نہیں رہے گا۔ ہم نے تو شادی اس لئے کروا دی تھی کہ بھوت بن کر ہمیں تنگ نہ کرے۔ میرا گلا انہوں نے کاٹنا تھا، سو کاٹ دیا۔’’

میں نے کہا، ’’پریتو تُو تو ابھی بیس کی بھی نہیں ہوئی ہے، ایسی باتیں کیوں کرتی ہے؟ ۔ تیرے کسی بھی انداز سے نہیں لگتا کہ تیری شادی ہو چکی ہے۔ یہ جوگ تو تم نے میڈم کی سنگت میں لیا ہے، جان لو اسے چھوڑنا ہی ہو گا۔’’

’’دیدی شوہر کے بارے میں جو سپنے میں بُنا کرتی تھی، اُن کا راجکمار وہ تو نہ تھا۔ وہ سپنے بڑی بے رحمی کے ساتھ میری آنکھوں میں سے پونچھ دیے گئے۔ اب اس نئی سلیٹ پر کوئی نہ کوئی روز آ کر مٹ جاتا ہے۔ کوئی صورت بنتی ہی نہیں۔’’

میں نے اس سے بڑے پیار سے پوچھا، ’’تم کو کوئی اچھا لگتا ہے پریتو۔’’

’’نہیں، پر جی چاہتا ہے کہ میں کسی کو اچھی لگوں۔ ہاتھ پاؤں میں مہندی، مانگ میں سندور، سرخ جوڑا اور سرمئی آنکھیں۔ ان کے ساتھ اگر سہاگ ہوتا ہے تو میرا بھی ہوا تھا۔ پر سہاگ تو شوہر کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ تو میں نے دیکھا نہیں۔’’

’’پریتو، میڈم کا کنڈر گارڈن تُو ہی تو سنبھالتی ہے۔ اگر تجھے کوئی اچھا لگے، تو کیا سب کچھ چھوڑ جائے گی؟’’

’’پتہ نہیں دیدی۔’’

’’پر میڈم کیا یہ بات کبھی سہہ پائے گی؟’’

’’یہی تو بات ہے، میڈم کا مجھ پر پورا بھروسہ ہے۔ اسی سے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی مجھے اچھا نہ لگے۔ میڈم تو میڈم، بچوں کے ماں باپ بھی مجھ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ میڈم کو تو سب کے نام بھی نہیں آتے اور پھر اگر ایک دن اپنے ہاتھ سے بنا کر نہ کھلاؤں، تو میڈم کھاتی ہی نہیں۔ کبھی کبھی میرا دل نہیں کرتا، مگر پھر بھی بناتی ہوں۔ کسی کو بھوکا رکھنا پاپ ہے نا دیدی۔’’

میں نے اس کی طرف دیکھا۔ جی چاہا اسے کہوں، تو بھی تو بھوکی ہے پریتو۔ پر میڈم آ کر میرے دل کے اس خیال کو دبا گئی اور میں خاموش ہو گئی۔

دو ماہ کب چپکے سے نکل گئے، پتہ ہی نہ چلا۔ بس ایک دن میڈم آئی اور پریتو کو لے کر چلی گئی۔ جاتے ہوئے پریتو نے چوری چھپے مجھ سے کہا تھا۔

’’دیدی مجھے بھول نہ جانا۔ میں تو نہیں آ پاؤں گی، پر آپ آنا۔ مجھے بلاؤ گی نا دیدی۔’’  میں نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور اپنے کے آنسو کسی نہ کسی طرح، اس سے چھپا کر اسے حوصلہ دیا۔ پھر گرہستی کے تانے بانے کو سلجھاتی میں پریتو کی الجھنوں کو بھول سی گئی۔

ایک دن بھری دوپہر میں، میں سونے جا رہی تھی کہ میڈم آ دھمکی۔ پہلی ہی سانس میں اس نے پوچھا، ’’یہاں پریتو آئی ہے؟’’

میں جمی کھڑی رہی، کچھ جواب نہ سوجھا۔ جوان جہان لڑکی آخر کہاں گئی۔ مجھے خاموش دیکھ کر میڈم بولی۔

’’اسے آگ لگی ہے، یہ تو میں جان گئی تھی۔ بس غلطی ایک ہی ہوئی کہ اسے میں سبزی لینے اکیلی بھیجتی رہی۔ سبزی کی ٹوکری میں چھپا کر بندیا لے جاتی تھی۔ اسے مرگھٹ کے پاس جا کر لگاتی تھی۔ کیا آگ ہے بندیا لگانے کی۔ جب بھی کلموہی آتی دیر لگا کر آتی۔ پھر کپڑے استری کرتے وقت، سبزی کاٹتے وقت یا چپاتیاں بناتے وقت، کیسے کیسے شرما کر مسکراتی تھی ناہنجار۔ مجھے کیا پتہ تھا اسے کیا موت پڑی ہے۔ نہیں تو اڑنے سے پہلے ہی پر کاٹ کر پھینک نہ دیتی۔ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہیں پاگل نہ ہو جائے۔ نشانیاں تو سب وہی تھیں۔ چند دنوں پہلے ایک بچے کی ماں نے نہ بتایا ہوتا تو مجھے کہاں پتہ چلنا تھا۔ کوئی مُوا درزی ہے۔ سبزی والے کی دکان کے پاس، اسی کے ساتھ بھاگی ہو گی رانڈ۔ اسی کے ساتھ آنکھ مٹکا چل رہا تھا۔ ایک بار ملے تو پولیس میں دے کر چھٹی پاؤں۔ انسپکٹر تِواری کے دونوں بچے میرے ہی اسکول میں ہیں۔’’

میں نے اس کی باتوں کا پرنالا روکتے ہوئے کہا، ’’میڈم تم تو روکھی سوکھی لکڑی ہو۔ اگر وہ امربیل کہیں سہارا ڈھونڈتی ہے، تو جانے دو اسے۔ اس کو خوشیاں ڈھونڈ لینے دو۔’’

یہ سن کر میڈم بپھری اور چلائی، ’’اوہ۔ تو یہ آگ تمہاری لگائی ہوئی ہے۔ مجھے پہلے ہی سمجھ لینا چاہئے تھا کہ میری تربیت میں کہاں غلطی ہوئی ہے۔ نہ تمہارے گھر میں اسے رکھتی، نہ یہ نوبت آتی۔’’

اب مجھے بھی تاؤ آ گیا، میں نے بھی چلا کر کہا، ’’یہ آگ میں نے نہیں لگائی، پر یہ آگ مجھے ہی لگانی چاہیے تھی۔ تم میری دوست ہو۔ تمہارے گناہوں کا کفارہ میں ادا نہیں کروں گی، تو کون کرے گا۔ تم کیا جانو، مرد کی محبت کے بغیر زندگی کیسی صحرا سی ہوتی ہے۔ پھیروں کی ماری کو تم نے اپنے نظم و ضبط کے عصا سے سدھا رکھا ہے۔ توشی، تم جلاد تو ہو سکتی ہو، پر انسان نہیں۔ تم نے محبت کی زندگی نہیں دیکھی۔ کبھی دیکھتیں تو جانتیں کہ تم نے اب تک کیا کھویا ہے۔’’

میڈم جھلا کر بولی، ’’مجھے فریب نہیں کھانا ہے مسز آدتیہ ورما۔ اپنے گھر میں رکھ کر دیکھئے، اگر تمہارے پالتو آدتیہ کو بھی نہ جھٹکا دے دوں، تو میرا نام بھی توشی نہیں۔ دن رات پریتو کی اشارے بازیاں، کیا میری نظر سے نہیں گذرتی تھیں۔ اگر اس اسکول کی مصیبت نہ ہوتی، تو کب کی بھیج دیتی اسی گاؤں میں، جہاں قصائیوں کے ہاتھ سے اسے چھڑا کر لائی تھی۔’’

’’شادی کروا دو اس کی۔’’  میں نے کہا۔

’’ہاں یہی تو کرنا چاہئے تھا۔ اور پھر تو بھی تو کروا سکتی ہے۔’’

میں نے کہا، ’’وہ تمہاری ذمہ داری ہے توشی، میں تو بس شادی میں آ جاؤں گی۔ چلو چائے پیتے ہیں۔ پانی کھول رہا ہو گا۔’’

توشی بولی، ’’تم میرا کلیجہ مزید جلانا چاہتی ہو۔’’

میں نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑا، ’’چلو میڈم، تمہیں روح افزا پلاتی ہوں۔’’  اس کے بعد اس کا جی تھوڑا سا ہلکا ہوا، تو میں نے کہا، ’’میڈم، اس کی شادی کر دو۔ لڑکی نوجوان اور صدموں کی ماری ہوئی ہے۔ ان حالات میں ایک بار اپنے آپ کو کھڑا کر کے دیکھو اور پھر سوچو۔’’

میڈم بولی، ’’میں کوئی اچھا آدمی دیکھ کر کچھ کر پاتی، اس سے پہلے ہی لگتا ہے، وہ بھاگ گئی ہے۔ آج دوسرا دن ہے۔ توبہ۔ توبہ، ابھی تو شام کی کلاسوں کیلئے بڑے بچے آتے ہوں گے۔ لو میں چلی۔’’

میڈم کو گئے کئی دن ہو گئے۔ اس سے پریتو کے بارے میں پوچھنے کا حوصلہ میں نہ جمع کر پائی۔ پھر سب بھول بھلا گئی۔ ایک دن شام کے وقت میں نے دروازہ کھولا تو پریتو سامنے کھڑی تھی۔ اور اس کے پیچھے تھا ایک لمبا تڑنگا خوبصورت سا لڑکا۔ شراب کی کثرت سے بیر بہوٹی بنی اس کی آنکھیں جیسے میرے اندر کچھ دھنس سی گئیں۔ بکھرے بال اور دانوں سے بھرے چہرے پر مسکراہٹ۔ اس سب نے مجموعی طور پر، میرا دل اس کی طرف ذرا سا جھکا دیا۔ پریتو نے کہا، ’’یہی دیدی ہے۔’’

میں پیار سے دونوں کو اندر لے آئی۔ کمرے میں دونوں کو بٹھا کر تھوڑا سا مسکرائی بھی۔ چائے کا پانی چڑھانے جیسے ہی باورچی خانے میں گئی، پریتو پیچھے پیچھے آ گئی۔

ہنس کر بولی، ’’کیسا ہے؟’’

میں نے کہا، ’’اچھا۔’’

وہ ہنسی، پھر بولی، ’’شراب تو رات کو پیتا ہے۔ آنکھیں ہمیشہ سرخ رہتی ہیں۔’’  وہ پھر ہنسنے لگی۔ ہنسی بھری اس کی آنکھوں کو نظر انداز کر کے میں نے کہا، ’’میڈم سے ملی؟’’

پریتو نے نظریں نیچی کر کے کہا، ’’گئی تھی۔ پر اس نے نکال دیا اور کہا دوبارہ یہاں نہ آنا۔ پرکاش، یعنی یہ بڑا ناراض ہوا۔’’  تھوڑا ٹھہر کر پھر بولی، ’’دیدی مجھے اپنی پرانی ساڑیاں دو نا۔ یہ ایک ہی ساڑی ہے۔ یہ بھی میڈم کی ہے۔’’

میں نے اسے ساڑیوں کے ساتھ شگن کے روپے بھی دیے اور محبت سے کہا، ’’پریتو میں ہوں نا، کبھی انیس بیس ہو تو یاد رکھنا۔’’

پریتو میرے سینے سے لگ کر رو پڑی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ غلطی کر چکی ہے۔ یہ شوہر جیسا تو نہیں لگ رہا۔ میں نے اسے بھی جاتے وقت شگن کے روپے دیے۔ پتہ نہیں کیوں، پر اس نے بھی میرے پاؤں چھوئے۔ مجھے لگا بیٹیاں ایسی ہی رخصت ہوتی ہیں۔

پھر کچھ دن بعد، میڈم کا فون آیا۔ بغیر تمہید باندھے اس نے کہا، ’’کیا دوستی نباہ رہی ہو مسز آدتیہ ورما۔ کل تمہاری وہی ساڑی پہنے پریتو ملی تھی، جو ہم نے ایک ساتھ کالج کے میلے سے خریدی تھی۔ بھئی کمال کر دیا تم نے، ساڑی دی تو دھواں تک نہ نکالا کہ وہ آئی تھی۔ دیکھنا کہیں ساڑی سے آدتیہ کبھی دھوکا نہ کھا جائے۔’’  یہ کہہ کر اس نے ٹھک سے فون رکھ دیا۔

آدتیہ۔ میں چونکی۔ یہ میڈم کتنی سنگدل ہے۔ اس کے دوسرے ہی دن پریتو پھر آئی، لیکن اکیلی۔ آتے ہی میرے پیچھے پیچھے باورچی خانے میں آ کر بولی، ’’مجھے بینگن کی پکوڑیاں بنانا سکھادیں گی؟’’  میں نے اسے بھرپور نظروں سے دیکھا۔ وہ شرما گئی اور کہنے لگی۔

’’ابھی تو تین چار مہینے ہوئے ہیں۔ آج وہ ناسک گیا ہے۔ تبھی آ سکی ہوں۔ مجھے کچھ پیسے بھی دیں گی نا۔ وہ تو خالی راشن لا کر رکھ دیتا ہے۔ ایک بھی پیسہ ہاتھ میں نہیں دیتا۔ باہر سے تالا لگا کر دکان پر جاتا ہے۔ کبھی بھنے چنے کھانے کو دل کرتا ہے۔ پیسے رات کو اس کی پینٹ سے گر جاتے ہیں، تو لے لیتی ہوں۔’’  پھر اچانک خوش ہو کر بولی، ’’وہاں ایک کھڑکی ہے، جس سے کود کر میں کبھی کبھی نکل جاتی ہوں۔ پر ایک دن پڑوسن نے اسے بتا دیا تھا۔ اس رات اس نے مجھے بہت مارا۔’’

میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر پوچھا، ’’کوئی شادی کا کاغذ ہے تمہارے پاس؟’’

بولی، ’’نہیں تو۔ شادی تو مندر میں ہوئی تھی۔’’

پیسے لے کر پریتو چلی گئی۔ تین چار برس اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ ایک دن میڈم ہی کہیں سے خبر لائی تھی کہ اس کا شوہر اس کو بہت مارتا ہے۔ ایک دن دیور نے چھڑانے کی کوشش کی تھی، سو اسے بھی مارا اور پریتو کو گھر سے نکال دیا۔ وہ تو پڑوسیوں نے بیچ بچاؤ کر کے، پھر میل ملاپ کرا دیا۔ میں تھوڑی اداس ہوئی، پھر سوچا بچے ہیں، بچوں کے سہارے عورتیں راون کے ساتھ بھی رہ لیتی ہیں۔ کل بڑے ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ پریتو بھی بڑی ہو جائے گی۔

وقت آگے بڑھتا رہا۔ روز صبح بھی ہوتی، شام بھی۔ بچے اسکول جاتے، پھر گھر آتے۔ آدتیہ بھی اور میں بھی اس روٹین کے ایسے عادی ہو چکے تھے کہ اس میں ذرا سابھی خلل پڑتا تو برا لگتا۔ اپنی چھوٹی سی دنیا میں، پوری کائنات دکھائی دیتی۔ نہ وہاں کہیں پریتو ہوتی اور نہ اس کا وہ مردار شوہر۔

اسی روٹین میں ایک شام آئی اور اپنے ساتھ لائی کچھ مہمانوں کو۔ آدتیہ بازار سے کچھ سامان لانے گئے تھے۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو ایک اجنبی عورت اپنے پھول سے دو بچوں کو تھامے کھڑی تھی۔ میں نے سوچا کسی کا پتہ پوچھنا چاہتی ہے۔ میں نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ وہ مسکرائی۔ ہونٹ بھلے مرجھائے ہوئے سے تھے، پھر بھی ان میں موجود مسکراہٹ کو پہچان لینے میں، مجھے زیادہ دیر نہ لگی۔ میں نے کہا، ’’پریتو۔’’

وہ بچوں کی انگلیاں چھڑا کر یوں لپٹی، جیسے اس بھری دنیا میں اسے پہچاننے والی صرف میں ہی ایک اکیلی باقی بچی ہوں۔

میں نے اسے خود سے چھڑاتے ہوئے کہا، ’’پریتو گھر میں کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں۔ آؤ اندر چلتے ہیں۔’’

اسے بٹھا کر میں نے بچوں کو دودھ اور بسکٹ دیے۔ انہیں کھاتا چھوڑ کر، پریتو میرے ساتھ باورچی خانے میں آ گئی۔ بغیر کوئی تمہید باندھے اس نے کہا، ’’دیدی وہ چلا گیا ہے دبئی۔ گھر بھی کسی اور کو دے گیا۔ صرف آج کی رات مجھے یہاں رہ لینے دو۔’’

میں نے کہا، ’’پریتو، یہ مہمان بھی آج ہی آئے ہیں۔ تمہیں کہاں سلا پاؤں گی۔ پھر بچے بھی ساتھ ہیں۔’’

پریتو نے کہا، ’’انہیں لے کر میں برآمدے میں سو جاؤں گی۔ کل صبح یہیں مجھے کسی سے ملنا ہے۔ وہ میرا کوئی انتظام کرنے والے ہیں۔ میڈم مجھے کسی آشرم میں بھیجنا چاہتی ہے۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔’’

میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے کہا، ’’تم میڈم کے گھر کیوں نہیں گئیں؟’’

’’وہ کبھی بھی نہیں رکھے گی دیدی اور پھر میں آشرم بھی نہیں جانا چاہتی۔’’

’’پر کیوں؟’’

’’اگر کبھی ان کا باپ آیا تو؟’’

میں نے کہا، ’’اگر اسے آنا ہوتا تو جاتا ہی کیوں۔’’

اس نے کہا، ’’بس کچھ دن انتظار کروں گی۔ کچھ دنوں کی ہی تو بات ہے۔’’

میری آنکھوں کے آگے آدتیہ کا چہرہ گھوم گیا۔ میڈم کی کہی ہوئی بات بھی یاد آئی۔ جو اس نے کہا تھا، وہ بھی مجھے یاد تھا۔ ایک رات ان کی مرضی کے بغیر بھی رکھ سکتی تھی۔ پر پریتو سے یہ پوچھنے کی ہمت مجھ میں نہ تھی کہ کل کہاں جاؤ گی؟ یہ میں جانتی تھی کہ سوائے میڈم کے اسے کوئی آشرم جانے کو راضی نہیں کر سکے گا۔ یہی ایک لمحہ تھا، اگر میں کمزور پڑ جاتی تو اس کے جانے کا کل نجانے کب آتا۔ میں نے اپنے اندر کے انسان کا گلا دبایا اور کہا۔

’’نہیں پریتو، یہاں رہنا ممکن نہیں ہیں۔ یہ لوگ میرے جیٹھ کی لڑکی کو دیکھنے آئے ہیں۔ لڑکی کل دہلی سے آئے گی۔ ایسے نازک مرحلوں کے دوران میں گھر میں کوئی انہونی نہیں کر سکوں گی۔ تم پیسے لے لو۔ اگر کل سویرے یہاں کسی کو ملنا ہے تو ٹیکسی میں آ جانا۔ اب تم جاؤ۔’’

میں نے اس کے دونوں بچوں کو پکڑا۔ دروازے سے باہر جا کر چوکیدار سے ٹیکسی منگوائی اور بچوں کے ساتھ پریتو کو بٹھایا۔ پھر اس کی پسینے سے تر مٹھی میں کچھ نوٹ ٹھونس دیے۔ اور ٹیکسی کے جانے کا انتظار کئے بغیر، گھر آ کر دروازہ بند کر لیا۔

یہ دروازہ میں نے پریتو کے لئے بند کیا تھا یا اپنے لئے، یہ نہ جان پائی۔ رات بھر مجھے چوراہوں کے خواب آتے رہے۔ پھر کئی دنوں تک دیواروں سے میں پوچھتی رہی کہ ’’کل کہاں جاؤ گی؟’’

***

 

 

 

 

سن سیٹ سرپرائز

 

شوبھا شرما

 

انگریزی کہانی

 

 

ممی نے اسے ہورلیکس کا کپ پکڑایا تو وہ چمچ سے اسے ملاتے ہوئے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھنے لگی۔ اس کی چھبیس سالہ زندگی میں یہ شاید تیسرا یا چوتھا موقعہ تھا کہ وہ طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ پہلی بار اُس دن دیکھا تھا، جب دادی گزر گئی تھیں اور ڈیڈی، ممی ان کی باڈی اسپتال سے لے کر آئے تھے۔ اور اس کے بعد تب دیکھا، جب صبح صبح پونم موسی، کارگل میں موسا جی کی موت کی خبر ملنے پر، روتے بلکتے ان کے گھر آئی تھیں۔ تیسری بار، نیند سے بوجھل آنکھوں سے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو تب دیکھا، جب ان کے پڑوس کے گھر میں چوروں کے ایک گینگ نے نقب لگائی تھی اور ڈبل مرڈر کی تفتیش کے سلسلے میں پولیس نے انہیں جگا دیا تھا۔

طلوع آفتاب جیسا مقدس اور خوبصورت منظر، اس کی زندگی میں بری خبروں کا اشارہ کیسے بن گیا تھا؟

’’شالون، تمہیں کاغذ چاہئے؟’’ جب ماں اسے شالنی کی جگہ شالون کہہ کر بلاتی تھیں، تو وہ سمجھ جاتی تھی کہ ممی اس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اسی لیے اس نے ایک مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر اوڑھ لی تھی، لیکن ممی ڈیڈی میں سے کسی سے بھی وہ اپنی پریشانی چھپا نہیں پائی تھی اور تیار ہونے کے بہانے، اپنے کمرے کی تنہائی میں گم ہو گئی تھی۔

عام طور پر، کام پر جانے کیلئے تیار ہونا، اسے بہت پسند تھا۔ وہ ہمیشہ بہت اہتمام سے تیار ہوتی تھی، لیکن حالیہ چند دنوں میں یہ اہتمام مزید بڑھ گیا تھا۔ وہ اپنے کپڑوں کو بہت احتیاط سے منتخب کرتی اور پھر انہی کے مطابق سجنے سنورنے کی باقی چیزیں استعمال کرتی۔ گزشتہ چھ ماہ سے، آئی این اے مارکیٹ میٹرو اسٹیشن سے کناٹ پیلس تک اس کا روزانہ کا سفر، اس ایک شخص کی وجہ سے کچھ خاص سا بن گیا تھا۔

شالنی کو ابھی تک، اس سے ہوئی، وہ پہلی ملاقات یاد تھی۔

دیوالی کی وجہ سے میٹرو میں ضرورت سے زیادہ بھیڑ تھی اور وہ اپنے پیچھے کھڑے آدمی کی بیہودہ حرکتوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ اسے رونا بھی آ رہا تھا، مگر تبھی یہ دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی کہ ایک نامعلوم شخص نے اس کیلئے اپنی سیٹ چھوڑ دی اور ایک ڈھال کی طرح، اس کے اور اس بیہودہ آدمی کے بیچ کھڑا ہو گیا۔ اطمینان کی سانس لیتے ہوئے، شالنی نے سر جھکا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور باقی کا سفر کن انکھیوں سے اس شخص کو دیکھتے ہوئے گزارا۔ وہ ملز اینڈ بونس کے ہیرو کی طرح تو نہیں تھا، لیکن بغیر داڑھی مونچھوں والا، اس کا نوجوان چہرہ مہرہ اسے زخمی کرنے کیلئے کافی تھا۔ اُس دن سے پہلے شالنی نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی تھی، لیکن دیوالی کے موقع پر ہوئی، اس اچانک ملاقات کے بعد وہ اسے ہر جگہ دکھائی دینے لگا تھا۔

ان کی یہ ملاقاتیں، اگر انہیں ملاقات مان لیا جائے تو، بنا لفظوں کی ہوتی تھیں۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے اور فوراً نظریں ادھر ادھر گھما لیتے۔ وہ شالنی سے پہلے میٹرو پکڑتا تھا اور جس دن بھیڑ زیادہ ہوتی، وہ ہمیشہ اپنی ساتھ والی سیٹ اس کیلئے روک کر رکھتا تھا۔ کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ بھیڑ ہونے کی وجہ سے، جب وہ اس کے کندھے کے پاس چپک کر کھڑی ہوتی، تو اس کا دل کرتا تھا کہ وہ اپنے سر کو اس کے کندھے پر رکھ دے۔ ایسا کرنے سے وہ خود کو بڑی مشکل سے روک پاتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب بڑا ڈرامائی سا تھا، لیکن کیا یہ ڈرامہ ہی محبت کی رومانیت کو کچھ خاص نہیں بنا دیتا۔ کل تک شالنی اس گمنام اجنبی کے ساتھ اپنے خاموش رشتے سے مطمئن تھی۔ لیکن آج اس کے خواب چکنا چور ہو رہے تھے۔ یہ کافی کچھ اس ’’پہلی محبت‘‘ کو کھو دینے جیسا تھا، جو رومانی کہانیوں میں وہ اب تک پڑھتی آئی تھی۔

کل شام ممی نے شالنی کو بتایا تھا کہ مسٹر کپور اور ان کی بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ ’’کے لاؤنج‘‘ میں کافی پر ان سے ملنے آ رہے ہیں۔ یہ کوئی عام ملاقات نہیں تھی، بلکہ اپنی ہونے والی بہو سے ملنے کا ایک مہذب طریقہ تھا۔ اسی رواج کو عام طور پر شمالی ہند میں ’’لڑکی دیکھنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ کئی نسلوں سے ان کے خاندان کی شادیاں اسی طرح سے طے ہوتی آ رہی تھیں۔ پونم موسی کو تو چائے کی ٹرے کے ساتھ اس کمرے میں جانا پڑا تھا، جہاں ان کے ہونے والے ساس سسر مسکراتے ہوئے ان کے والدین کے ساتھ بیٹھے تھے۔ شالنی کو اس مشکل رسم سے تو چھوٹ مل گئی تھی، لیکن پھر بھی ’’دیکھنے پرکھنے’’  کے عمل سے تو اسے گزرنا ہی تھا۔ عام حالات میں اسے ان سب سے کوئی شکایت نہیں ہوتی، بلکہ شاید شادی کے خیال سے وہ خوش ہی ہوتی۔ لیکن کل، اس نے خود کو شکوک کے بادلوں سے گھرا ہوا پایا۔

ماں، ہمیشہ کی طرح، سمجھ گئی کہ کچھ گڑبڑ ہے۔

’’کیا بات ہے شالنی؟ کیا تمہاری زندگی میں کوئی ہے؟ تم جانتی ہو، ہم کبھی تم پر یہ زور نہیں ڈالیں گے کہ تم اپنی مرضی کے خلاف شادی کرو۔ اگر کوئی اور ہے تو مجھے بتاؤ۔ تمہارے ڈیڈی اور میں جا کر اس کے والدین سے مل کر سب ٹھیک کر دیں گے۔’’

شالنی چپ رہی۔ وہ اپنے بارے میں تو جانتی تھی۔ پر اس بارے میں؟ کیا وہ بھی اسے پسند کرتا ہے؟ یا پھر ساتھ سفر کرنے والی ایک مجبور لڑکی کی مدد اس نے محض انسانیت کے ناطے کی تھی۔ یا اس سے بھی بدتر یہ کہ اپنے یکسانیت بھرے سفر کی بوریت کو دور کرنے کیلئے، یہ اس کی صرف ایک سستی تفریح تھی۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے، چپکے سے دیکھنے رہنے اور کبھی کبھار انگلیوں سے چھو لینے بھر کے علاوہ، انہوں نے کبھی ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نہیں بولا تھا۔ اور اگر وہ پہلے سے ہی شادی شدہ ہوا تو؟ ہندوستان کی عورتوں کا سندور اور منگل سوتر تو باقی دنیا کو یہ بتانے کے لئے کافی ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ ہے، لیکن آدمیوں کے معاملے میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہوتا۔

’’نہیں ماں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔’’

ان الفاظ کے ساتھ ہی، شالنی نے اپنے جذبات کو ہمیشہ کے لئے دبا کر، آگے بڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ آج آخری بار وہ ۲۳: ۹ کی میٹرو لے گی۔ اور پھر کل سے وہ ۵۸: ۸ کی میٹرو پکڑا کرے گی اور کام پر کچھ جلدی پہنچ جایا کرے گی۔ ایک بار اس باب کو بند کر دینے کے بعد، اسے دوبارہ شروع کرنے میں کوئی سمجھداری نہیں تھی۔ لیکن صرف آج، آخری بار وہ اس سے ملنا چاہتی تھی۔ شاید بتانا چاہتی تھی کہ وہ کسی اور سے شادی کرنے جا رہی ہے اور اس کے رد عمل سے اس کے جذبات کو پڑھنا چاہتی تھی۔ اس کے دل میں امید کی ایک ہلکی سی کرن اب بھی جل رہی تھی کہ شاید سب ٹھیک ہو جائے۔

وہ فکر بھری نظروں سے اسے کوچ کی بھیڑ میں اسے تلاش کرتی رہی، جس میں وہ ہمیشہ سفر کرتے تھے۔ لیکن وہ نہیں آیا۔ جب آخری روشنی بھی بجھ جاتی ہے، تو پھر کوئی آواز نہیں ہوتی۔ خوابوں کے چکنا چور ہونے اور دل کے ٹوٹنے کی بھی آواز نہیں ہوتی۔ اور اسی لیے، شالنی کی سسکیاں میٹرو کے شور میں گم ہو گئیں۔

۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔

 

اس نے کم سے کم میک اپ اور زیورات کے ساتھ گلابی ریشمی ساڑی پہنی تھی۔ یہ رنگ اس کے سانولے چہرے پر پھب رہا تھا اور اس سے اس بات کا پتہ نہیں چل پا رہا تھا کہ اس کے چہرے کی رنگت عام دنوں کے مقابلے میں پھیکی تھی۔ اس کے چھوٹے ’’پکسی اسٹائل‘‘بال اس کے سر پر چمک دار ٹوپی کی طرح لگ رہے تھے اور اس کے خوبصورت نین نقش کے ساتھ خوب جچ رہے تھے۔ ڈیڈی نے اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور ممی نے بری نظر سے اسے بچانے کیلئے اس کے کان کے پیچھے ایک چھوٹا سا کالا ٹیکہ لگا دیا۔ اسے پتہ تھا کہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود، وہ بہت کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سونا پن تھا اور زندگی کی چمک دمک وہاں سے غائب ہو گئی تھی۔ اس کے ہونٹوں کے کونے جیسے اداسی اور مسترد کئے جانے کے انداز میں جھکے ہوئے تھے۔ اسے کوئی جوش و خروش، کوئی بے چینی محسوس نہیں ہو رہی تھی اور نہ اپنے رنگ روپ کی وجہ سے کوئی فخر ہی محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے اس خاص طریقے سے میک اپ کیا تھا کیونکہ سب اس سے ایسی ہی امید کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ایک مہنگے ’’فرنیچر پیس‘‘ کی طرح اس کی پرکھ کی جانے والی تھی اور یہی سوچ کر اس نے خود کو تیار بھی کیا تھا۔

شام ٹھیک ۱۵: ۶ پر، جب افق پر پیلے رنگ کا سورج نظر آتا تھا، وہ ’’کے لاؤنج‘‘ پہنچے اور دیکھا کہ مسز اور مسٹر کپور پہلے سے ہی وہاں انتظار کر رہے تھے۔

’’سوری آپ کو انتظار کرایا۔’’  ڈیڈی نے مسٹر کپور سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں ایسی بات نہیں، اصل میں ہم ہی پہلے آ گئے تھے۔ پلیز آپ لوگ بیٹھیں۔ روہت بس پانچ منٹ میں آنے والا ہے۔ وہ آفس سے سیدھا یہیں آ رہا ہے۔’’

شالنی نے احتیاط سے کپور فیملی کو دیکھا۔ وہ ایک عام اپر مڈل کلاس جوڑے کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ ’’اُس کے’’  ماں باپ کیسے نظر آتے ہوں گے؟ کیا وہ اس سے ملنے کے لئے کوئی دوسرا طریقہ اپناتے؟

’’لیجئے روہت آ گیا۔’’  مسٹر کپور نے اپنے بیٹے کی طرف ہاتھ ہلایا۔

جیسے ہی شالنی نے اس شخص سے ملنے کے لئے خود کو تیار کیا، جو مستقبل میں اس کا شوہر ہو سکتا تھا، اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور اس ہتھیلیاں پسینے میں تر گئیں۔ گزشتہ چند گھنٹوں سے خود کو ان سب باتوں سے الگ تھلگ رکھنے کے باوجود، اچانک اسے ایک عجیب سا ڈر محسوس ہونے لگا۔ کیا یہ ٹھیک ہو گا کہ وہ شادی کسی اور سے کرے اور اپنے دل میں کسی اور کا خواب دیکھے؟ کیا یہ خیانت نہیں ہو گی؟ اس سے بہتر یہ ہو گا کہ وہ کنواری ہی مر جائے۔ اسے یہاں آنے سے منع کر دینا چاہئے تھا، ممی کو سچ بتانے کی ہمت اس میں ہونی چاہئے تھی اور اس ڈھونگ کا حصہ بننے سے اسے انکار کر دینا چاہئے تھا۔ وہ کسی بھی حالت میں اس شادی کے لئے تیار نہیں ہو سکتی۔ یہ گناہ ہو گا، ان لوگوں کے خلاف ایک جرم ہو گا اور آخر میں سچ سامنے آ ہی جائے گا اور پھر شرمندگی کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ایک دل دہلا دینے والی شرمندگی۔ اس کے قدموں کی آہٹ پاس آ رہی تھی۔ شالنی کے کانوں میں اس کے دل کی دھڑکنوں کی آواز اتنی تیز آنے لگی، گویا اسے بہرہ کر دے گی۔ کچھ لمحوں بعد، دل کی دھڑکنوں کے شور میں، اسے ایک نرم و نازک آواز سنائی دی اور کچھ شرماتے ہوئے اس نے اوپر دیکھا۔

یہ تو وہی تھا۔ وہ بھی اتنی ہی حیرانی کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے ایک ایسی مسکراہٹ کے ساتھ شالنی کو دیکھا۔ جو شروع تو اس کے ہونٹوں سے ہوئی تھی، لیکن جس کی چمک اس کی آنکھوں تک پہنچ گئی۔ اچانک شالنی کی دنیا میں قوس و قزح کے رنگ اور مدھر موسیقی کی لہر گھل گئی اور اس سب کے درمیان، ’’کے لاؤنج‘‘ کی کھڑکی سے نظر آنے والے روشن سورج کے سامنے، روہت اپنی توانا مسکراہٹ کے ساتھ کھڑا تھا۔

شاید سورج بھی مسکرا رہا تھا۔

***

 

 

 

 

پراگی

 

یوسف مکوانا

 

گجراتی کہانی

 

 

ابھی لنچ کر کے لیٹا ہی تھا کہ تبھی فون کی گھنٹی بجی۔ رسیور اٹھا کر کان پر لگاتے ہوئے، میں نے پوچھا، ’’ہیلو۔ کون؟’’

’’ہیلو پاپا۔’’  پراگی کی آواز سنتے ہی میں نے ہنس کر کہا، ’’اوہو۔ پراگی کیسی ہو تم؟’’

’’بس پاپا اویناش اور میں اپنے اپارٹمنٹ کی بالکنی میں بیٹھے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔’’  پراگی نے کہا، ’’یہاں آسٹریلیا میں دوپہر ہے اور آپ کے یہاں صبح۔’’

’’ٹھیک کہا بیٹا۔ بڑی خوش لگ رہی ہے تو۔’’

’’جی پاپا، ماحول ہی بڑا خوشگوار ہے، جیسے سابرمتی دریا، احمد آباد کے بیچ میں بہتا ہے، ویسے ہی ’’یارا دریا’’ یہاں میلبورن کے بیچ میں بہتا ہے۔ یہ بہت ہی خوبصورت لگتا ہے۔’’

پھر اس کی سنجیدہ سی آواز آئی۔ ’’آج آسمان میں بادل۔۔۔ پاپا، انہیں دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔’’

’’وہ کیسے بیٹا؟’’

’’میں اور بھائی منیر، جب ہم چھوٹے تھے، تب اسی طرح آسمان میں بادلوں میں بنتی بدلتی شکلوں کے بارے میں آپ بتلایا کرتے تھے۔’’

’’ہاں ہاں۔۔۔’’  میں بھی جذباتی ہو اٹھا۔

’’بس، ایسے ہی یہاں بھی دیکھ رہی ہوں، بادلوں میں بنی بڑی سی مچھلی دکھائی دیتی ہے، پھر ہاتھی۔۔۔ اور پھر ان میں سے کوئی عجیب سے پرندے جیسا اور ایسے ہی بہت کچھ اور۔۔۔۔’’

میں لمحے بھر کے لئے منیر اور پراگی کے بچپن کی دنیا میں کھو گیا۔

’’پاپا، پاپا۔’’  پراگی کی تیز آواز کو سنتے ہی میں بولا، ’’ہاں ہاں، بیٹی بولو، آسٹریلیا میں دل تو لگ گیا نا۔’’

’’پاپا۔۔۔’’  بول کر وہ تھوڑی دیر رکی، پھر بولی، ’’اب ہم یہاں سیٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے اتوار کو ہم ہومز دیکھنے گئے تھے۔’’  پراگی نے  آہستہ ہوتے ہوئے بتایا، ’’اور اس سے پچھلے اتوار کو سینٹ پیٹرک چرچ دیکھنے گئے تھے۔’’

’’اچھا ہے بیٹا، اسی طرح گھومتے پھرتے رہو۔’’ میں جیسے روا روی میں بول گیا۔

’’منیر تو آفس گیا ہو گا نہ، سلونی بھابھی اور ریا کیا کر رہی ہیں؟’’ پراگی نے پوچھا۔

’’سلونی، ریا کو لے کر اپنی ممی کے گھر گئی ہے کل یا پرسوں آئے گی۔’’  میں بھی کہنے کو کہہ گیا۔ لیکن پراگی کے ذہن میں شک تو آ ہی گیا۔ اس نے پوچھا، ’’پاپا، ایسے کیسے ڈھیلے لہجے میں بول رہے ہو؟ وہ تمہاری دیکھ بھال تو کر رہے ہیں نہ، مناسب طریقے سے؟’’

میں تھوڑا سا اٹکا، پھر فوراً ہی سنبھلتے ہوئے بولا، ’’تُو کیا پوچھ رہی ہے بیٹا۔ تیرا بھائی تو اپنے میں مست ہے اور میں اپنے میں۔ کوئی فکر نہیں۔’’

چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پراگی بولی، ’’پاپا ہم یہاں سیٹ ہو جائیں گے تو اس کے بعد آپ کو یہیں بلا لیں گے، خوب جمے گی یہاں۔’’  اویناش، پراگی کی ان اپنائیت بھری باتوں کو سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

پراگی اور منیر دونوں میری ہی اولادیں ہیں۔ پراگی بڑی اور منیر چھوٹا۔ سُربھی کے گزرنے کے بعد پراگی نے ہی سارا گھر سنبھالا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ گھر کا بھی خیال رکھتی۔ سُربھی کے وقت میں گھر جیسا تھا، اسے ویسا ہی بنائے رکھا، لیکن میری ذمے داری بڑھ گئی، کیونکہ سُربھی ہی گھر کے باہر کے سارے معاملات سنبھالتی تھی، سبھی رشتے ناتے بنائے رکھتی تھی۔ کیا خریدنا ہے؟ کہاں سے خریدنا ہے؟ کب لینا ہے؟ ان سب کی اسے گہری سمجھ تھی۔ اس کی تصویر کو دیکھتا ہوں تو وہ ایک بھید بھری ہنسی ہنستی ہوئی سی لگتی ہے۔ میں دل ہی دل پریشان ہوتا، لیکن کر بھی کیا سکتا تھا لاچاری کے سوا۔

دن گزرتے گئے۔ منیر نے کالج کی پڑھائی پوری کر کے کمپیوٹر کورس کیا۔ پراگی ایم اے پاس کر کے ایک کارپوریٹ کمپنی میں نوکری پر لگ گئی۔ میری پنشن سے ہم تینوں کا گزارا چل جاتا تھا۔ سُربھی کی موت کے بعد پراگی کبھی کبھی رات کو جاگ جاتی تھی۔ بالکنی میں جا کر آسمان کو دیکھتی رہتی۔ اس میں کہاں ہو گی ماں؟ مجھے دیکھتی ہو گی کیا؟ انہی خیالوں میں کھوئی کھوئی وہ رو پڑتی۔ میں اٹھ کر اس کے پاس جاتا اور روتی ہوئی پراگی کو سمجھا بجھا کر خاموش کراتا۔ وہ مجھ سے لپٹتی ہوئی کہتی، ’’پاپا، ماں کی بہت یاد آتی ہے۔’’

’’بیٹا، یاد تو مجھے بھی بہت آتی ہے، لیکن کیا بھی کیا جائے۔’’

’’میں اور بھائی کیا کریں گے؟ ہماری کیا۔۔۔؟’’ میں درمیان میں ہی اس کی بات کاٹتے ہوئے، حالانکہ میں اندر ہی اندر ٹوٹ چکا تھا، پھر بھی کہہ اٹھتا، ’’بیٹا میں ہوں نہ، سب ٹھیک ہو جائے گا۔’’

پراگی آہستہ آہستہ پرسکون ہو جاتی اور لڑکا منیر گہری نیند میں سوتا رہتا۔

سُربھی کے جانے کے بعد ایک دو دوستوں کی طرف سے خاموشی سے کہا بھی گیا، ’’تُو دوسری شادی کر لے، ہماری نگاہ میں ہے ایک۔۔۔’’

میں درمیان میں بات کاٹ کر کہتا کہ ’’نہیں، پراگی اور منیر دونوں بڑے ہو رہے ہیں، انہیں سمجھ ہے، وہ تمیز دار ہیں۔ پراگی شادی کے بعد چلی جائے گی تو۔ میری زندگی منیر کے بیوی بچوں کے ساتھ گزر ہی جائے گی۔’’

پھر جب میں اکیلے ہوتا تو میرا دل ان دونوں کے مستقبل کے بارے میں، ان کی شادی بیاہ کے بارے میں سوچنے لگتا۔

مستقبل کی امید میں ہی دن گزر رہے تھے۔

منیر کے لئے ایک لڑکی دیکھی تھی اور اس کی آنٹی کی مدد سے بات پکی کر دی تھی۔ پراگی بھی بھائی کی شادی کی تیاریاں کروانے میں پیچھے نہیں رہی۔ مجھے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ منیر کی شادی گانے باجے کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے ہو گئی۔ منیر اور سلونی کی جوڑی ایسی تھی کہ انہیں دیکھ کر کسی کو بھی جلن ہو سکتی تھی۔ میری آنکھوں میں خوشی کی چمک دیکھ کر سبھی خوش تھے، پر مجھے ڈر لگتا کہ میرے گھر کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔

نوکری کرتے کرتے پراگی، وہیں کے ایک نوجوان اویناش کے قریب آئی۔ دونوں کے دلوں کا ملنا بالآخر پیار میں تبدیل ہو گیا۔ مجھے لگا کہ چلو، میرے سر کا بوجھ ہلکا ہوا۔ اب منیر کے بچوں کے ساتھ زندگی ہی گزر جائے گی۔

پراگی کے ساتھ شادی کرنے کے دو مہینے بعد ہی، اویناش کو آسٹریلیا میں کمپیوٹر کی ایک کمپنی نے ایک بڑی پر کشش تنخواہ کی پیشکش دے کر بلا لیا۔ پراگی اور وہ تیسرے مہینے ہی آسٹریلیا کے لئے اڑ گئے۔

اب گھر میں، میں، منیر اور سلونی تین ہی لوگ رہ گئے۔ سلونی حاملہ تھی۔ میں دل ہی دل سوچتا رہتا کہ اب سُربھی کے بنا باقی دن منیر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودتے کٹ ہی جائیں گے۔ لیکن اس کے بچوں کے ساتھ کھیلنا کودنا میری قسمت میں نہیں تھا۔ سلونی اپنی بیٹی ریا کو جنم دینے کے بعد، ایک دم ہی بدل گئی۔

سسرال میں آ کر بہوؤں کو، سسرال کے رسوم و رواج کو اپنا کر اسے جنت بنانا ہوتا ہے۔ میکے کو بھول کر اپنی شخصیت کو نکھارنا ہوتا ہے۔ لیکن سلونی نے سسرال سے الگ ہو کر رہنے میں ہی اپنا سکھ دیکھا۔ اس نے منیر سے الگ ہونے کو کہا۔ بے وجہ کے سوال کھڑے کر کے سلونی نے گھر کے ماحول کو دوزخ بنا ڈالا۔ بالآخر وہ دونوں الگ رہنے چلے گئے۔

اس بات کو بتا کر میں، پراگی کو آسٹریلیا میں دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پراگی جب بھی فون پر منیر سلونی کے بارے میں پوچھتی، تو میں ایک ہی جواب دیتا، ’’دونوں باہر گئے ہیں۔’’

ایک بار پراگی کا رات کے نو بجے فون آیا، ’’پاپا۔’’  کہہ کر کھلکھلا کر ہنستی ہوئی بولی، ’’چونک گئے نا؟ بتاؤ، یہاں کتنے بجے ہوں گے؟’’

’’اس وقت یہاں۔۔۔ بتاتا ہوں رکو ایک سیکنڈ۔۔۔’’

یہاں رات کے دو بجے ہیں اور آپ کے یہاں نو۔’’ پراگی نے بتایا۔

’’کیوں بیٹا، آدھی رات تک جاگتی ہو۔’’  میں نے پوچھا۔

’’کمپیوٹر پر تھوڑا سا کام کر رہی تھی کہ آپ کی یاد آ گئی۔’’  پھر تھوڑا سا اٹکتے ہوئے بولی، ’’منیر کو ذرا فون دیجئے، اویناش کو اس سے بات کرنی ہے۔’’

میں نے دھڑکتے دل سے کہا، ’’لیکن بیٹا پراگی، وہ تو باہر گیا ہوا ہے۔’’

’’پاپا میں نے اسے ای میل کی تھی، اس کا بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا، اس لیے۔۔۔’’

میں نے اپنے لہجے میں نرمی لاتے ہوئے کہا، ’’کام میں لگا رہا ہو گا، میں اس سے کہہ دوں گا۔’’

اس طرح وقت گزرتا رہا۔

ایک دن صبح ہی صبح بھٹ صاحب گھر تشریف لائے۔ گھر میں گھستے ہی بولے، ’’کہیں دکھائی نہیں دیتے؟ کیا کرتے رہتے ہو، دن بھر گھر میں پڑے پڑے؟’’

میں نے کہا، ’’بیٹھو بھٹ جی، آج صبح ہی صبح۔۔۔؟’’

’’ہاں یہاں پاس میں ہی آیا تھا، تو سوچا کہ تم سے بھی ملتا چلوں۔’’  بھٹ جی نے کہا۔ پھر پوچھا، ’’پراگی اور جمائی راجا کیا کرتے ہیں آسٹریلیا میں؟’’

’’بس، موج کر رہے ہیں۔ کبھی کبھار فون کر لیتے ہیں۔ تو مجھے بھی چین آ جاتا ہے۔’’

’’منیر اور سلونی تم سے الگ ہو گئے ہیں، یہ بات تم نے بتائی انہیں؟’’

’’نہیں یہ بات جان کر دونوں وہاں دکھی ہوں گے۔ میں تو اپنا وقت کاٹ ہی لوں گا یہاں۔’’

تبھی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون کے رسیور کان پر لگاتے ہوئے کہا، ’’بولو۔۔۔’’

’’پاپا کیا کر رہے ہو؟’’

’’پراگی تُو ۔۔۔ تیری ہی بات چل رہی تھی بیٹا، بھٹ انکل آئے ہوئے ہیں، وہ پوچھ رہے تھے تیرے بارے میں لے، ان سے بات کر۔۔۔’’  یہ کہہ کر میں نے فون ہتھیلی سے ڈھک کر بھٹی جی سے کہا، ’’لو بات کرو، لیکن منیر سلونی کے بارے میں بات نہیں کرنا۔’’

بھٹ جی فون پر پراگی سے بات کرنے لگے۔ ان کی باتیں چل ہی رہی تھیں کہ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ دیکھا تو کان سے موبائل لگائے بات کرتی پراگی اور اویناش ہیں، میں تو دنگ رہ گیا۔ میرے منہ سے نکل پڑا، ’’پراگی اویناش، اس طرح اچانک؟ مجھے خبر تو کی ہوتی۔’’

’’پاپا، ہم کل شام کو ہی آ گئے تھے۔’’

بھٹ جی فوری طور پر بول اٹھے، ’’کل شام کو یہ میرے گھر آ گئے تھے۔’’

پراگی نے مہینے بھر پہلے مجھے فون کیا تھا اور تمہارے بارے میں ساری باتیں مجھ سے پوچھی تھیں۔ میں نے منیر، سلونی اور ریا کو لے کر الگ رہنے لگا ہے۔ یہ بات انہیں بتا دی تھی۔’’

’’لیکن بھٹ جی، میں نے تمہیں۔۔۔’’

’’نہ پاپا۔’’  اویناش نے بیچ میں کہا، ’’ہمیں بھٹ انکل نے صحیح بات بتا دی اور ہم نے جان لی، لہذا ان سے کچھ نہ کہیے۔’’

’’لیکن بھٹ جی کا فون نمبر تمہارے پاس کہاں سے۔۔۔؟’’

’’پاپا، میرے موبائل میں بہت پہلے سے ان کا نمبر سیو تھا۔ میں جب بھی آپ سے پوچھتی تبھی آپ ہکلا جاتے۔ آپکے بولنے کے انداز سے لگ گیا تھا کہ یہاں کچھ نا گفتنی ہو گئی ہے۔’’  کہتے کہتے پراگی تھوڑی دیر رکی پھر بولی، ’’موبائل میں نمبر چیک کرتے کرتے بھٹ انکل کا نمبر مل گیا، ان سے ساری بات پتہ چلی۔’’

تبھی اویناش نے کہا، ’’اور میں نے ہی پراگی سے کہا، چلو اپنے پاپا کو یہاں لے آئیں۔’’

’’لیکن بیٹا۔’’  میری آنکھیں چھلچھلا اٹھیں۔ میں آگے کچھ نہیں بول سکا۔

میرا پاسپورٹ تیار تھا۔ ویزا کے لئے ساری بھاگ دوڑ اویناش نے پہلے ہی کر لی تھی۔ پندرہ دن کے اندر ہی انڈیا چھوڑنے کی تیاری مکمل ہو گئی۔ روانہ ہونے سے ایک دن پہلے منیر سلونی کو میں نے بلایا۔

پراگی بولی، ’’بھائی، سلونی بھابھی پاپا نے وصیت کر دی ہے۔ وہ انکل بھٹ کے پاس ہے۔ اس میں پاپا نے میرے نام جائیداد لکھ دی ہے۔ لیکن مجھے وہ نہیں چاہئے۔ سب کچھ آپ لے لینا۔ یہ بات میں اپنی مرضی سے کہہ رہی ہوں۔ بھٹ انکل، میری یہ بات یاد رکھنا۔’’

پھر تھوڑی رک کر جذباتی ہوتے ہوئے پراگی بولی، ’’پاپا کو ہم اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔ ماں پاپا نے ہمیں غربت میں کس طرح پال پوس کر بڑا کیا ہے، اسے میں جانتی ہوں، اسی لیے ہم انہیں یہاں اکیلے نہیں چھوڑ سکتے، اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔’’

اور اس کے بعد ہی کمرے میں سناٹا چھا گیا۔

***

 

 

 

او رے چِرُنگن میرے

 

مینا کاکوڈکر

 

کونکنی کہانی

 

 

ماں کی موت کو ابھی دو دن گزرے تھے۔ اس کی یاد میں مجھے بار بار رونا آ رہا تھا۔ پتا جی دن رات سر پر ہاتھ رکھے کونے میں بیٹھے رہتے۔ انہیں دیکھ کر تو مجھے ماں کی یاد اور بھی ستاتی تھی۔ ہر رات ماں مجھے گلے لگا کر سوتی تھی۔ ان دو راتوں میں سورنگ مجھے اپنی کٹیا میں لے گئی تھی، اس کی بغل میں، میں کتے کے بچے جیسا سو گیا تھا۔ پر آج پتا جی نے میرا بچھونا اپنی کٹیا میں ہی لگا دیا۔ جب سورنگ مجھے لینے آئی تو انہوں نے کہا، ’’اسے یہیں پر سونے دو۔ مجھ اکیلے کو خالی کٹیا کھانے کو دوڑتی ہے۔’’

سورنگ کے پاس جانے کیلئے میرا جی تڑپ رہا تھا۔ پھر بھی میں چپ رہا۔ رات کو اکیلے ہی بستر پر لیٹا اور مجھے رونا آ گیا۔ اندھیرے میں ہاتھ بڑھا کر کے میں نے یونہی ادھر ادھر ٹٹول کر دیکھا، ماں کہیں نہیں تھی۔ کم از کم پتا جی تو مجھے اپنے پاس سلا لیں، اس امید پر پتا جی کو پکارنے کیلئے میں نے منہ کھولنا چاہا۔ پر مجھے ان ہی کے رونے کی آواز آئی۔ انہیں بھی ماں کی یاد آتی ہو گی، یہ سوچ کر میں ہچکیاں لے کر رونے لگا۔ ماں۔۔۔ چیخ کر، میں دھم سے پتا جی کے بستر پر آ دھمکا۔ انہوں نے مجھے مضبوطی سے اپنے گلے لگا لیا۔ میں نے بھی انہیں اپنی بانہوں میں جکڑا۔ ان کے آنسو میرے گالوں پر ٹپکنے لگے۔ وہ مجھے سہلاتے رہے۔۔ جیسے میری ماں سہلاتی تھی۔

دوسرے دن موسی آئیں۔ اور آتے ہی مجھے گلے لگا کر رونے لگیں۔ ان کی گود میں منہ چھپائے میں بھی رونے لگا۔ موسی کے لباس سے پھولوں کی سی خوشبو آ رہی تھی۔ ماں کے لباس سے تو ہمیشہ دھوئیں کی بو آتی تھی۔ لیکن میرا دل چاہا کہ موسی کے کپڑوں سے دھوئیں کی ہی بو آتی تو کتنا اچھا ہوتا۔

ان کو وقت پر بلاوا نہیں بھیجا، اس لئے موسی، پتا جی پر بہت غصہ کر رہی تھیں۔ ماں کو یاد کر کر کے ان کا منہ بھی سرخ ہو گیا۔ موسی ذرا بھی ماں جیسی نہیں نظر آتیں، میری ماں سانولی تھی، مگر موسی گوری تھیں۔

دوپہر کے وقت موسی نے پتا جی سے کہا، ’’میں رگھو کو اپنے گھر لے جاتی ہوں۔ ادھر اس کی پرورش ٹھیک سے نہیں ہو گی۔’’

پتا جی خاموش رہے۔

’’تمہارے کام پر جانے کے بعد یہ اکیلا رہ جایا کرے گا۔ اس کے کھانے پینے کا کیا ہو گا؟’’

پتا جی نے میری طرف دیکھا۔

’’اگر اس کو بھیجا تو مجھ سے اکیلے میں دن کیسے کاٹا جائے گا؟’’

’’تم مرد ہو۔ کام شروع کرتے ہی سب کچھ بھول جاؤ گے، پریہ بیچارہ مصیبت کا مارا ہو جائے گا۔’’

میں بیٹھ کر دونوں کے منہ تکتا رہا، میں جانا بھی چاہتا تھا اور نہیں بھی۔ آخر پتا جی نے میری دو قمیضیں اور پتلون وغیرہ تھیلے میں رکھ دیئے اور بولے، ’’رگھو تو اپنی موسی کے ساتھ جا۔’’

جب انہوں نے ’’جا‘‘ کہا تب نہ جانے کو میرا جی چاہا۔ پتا جی مجھے بہت زیادہ لاڈ کرتے تھے۔ وہ مجھے ساتھ لے کر کئی بار چھوٹے پل پر ماہی گیری کرنے جایا کرتے تھے۔ تب ہماری لائی ہوئی مچھلی ماں اچھی طرح آگ میں سینکتی تھی۔ ہفتے کے دن چورا ہے پر بڑا بازار لگتا تھا۔ پتا جی ادھر چھوٹی بڑی رسیاں فروخت کرنے بیٹھتے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھتا تھا۔ دھوپ تیز ہونے پر پتا جی چھتری کھولتے تھے اور ہم بڑے اکڑ کے ساتھ اس کے نیچے بیٹھتے تھے، ادھر ہی پتا جی مجھے چنے، مو نگ پھلی وغیرہ خرید دیتے تھے۔

آج بھی ہفتہ تھا۔ مگر پتا جی نہیں گئے۔ ماں کے جانے کے بعد سے پتا جی بالکل ہی بدل چکے ہیں۔ میرا تو دم گھٹتا ہے۔

’’پتا جی، آپ بھی آئیے نا۔’’

’’پگلے، پہلے تُو  جا۔’’

’’آپ کب آئیں گے؟’’

’’آؤں گا۔’’

’’پر کب؟’’

’’آؤں گا ایک دن۔’’

’’جلد آ جائیے۔’’

پتا جی کچھ نہیں بولے۔

’’جلدی آئیں گے نا؟’’ میں نے پھر سے دہرایا۔

انہوں نے سر ہلا دیا۔

موسی کی انگلی پکڑ کر میں کٹیا سے باہر آیا۔ پتا جی دروازے تک آئے۔ جُوانو کی شراب کی دوکان کے پاس پہنچنے تک میں نے بار بار مڑ مڑ کر دیکھا۔ پتا جی وہیں کھڑے تھے۔ اُتّم کی دوکان کے بعد اب کٹیا دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ پتا جی بھی اوجھل ہو گئے۔ موسی کی انگلی چھوڑ کر پتا جی کے پاس دوبارہ جانے کو من چاہا۔ میں نے موسی کی انگلی چھوڑی بھی، پر موسی نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔

’’رگھو، تم سیانے لڑکے ہو، ہے نا؟’’

میں نے گردن ہلائی اور خاموشی ان کے ساتھ چلتا رہا۔

’’ہم بس میں بیٹھ کر جائیں گے۔’’

’’بس میں بیٹھ کر؟’’

’’ہاں۔’’

پتا جی، ماں اور میں ایک بار جب میلے میں گئے تھے، تب بس ہی میں گئے تھے۔ آج پھر سے بس کی نرم سیٹوں پر بیٹھنے کا موقعہ ملے گا۔ یہ سوچ کر میں خوشی سے نہال ہو گیا اور موسی کی انگلی دوبارہ کس کر پکڑ لی۔

موسی کا گھر، ہماری کٹیا سے بڑا تھا۔ سفید چونے سے رنگا ہوا۔ اس رات انتہائی تیز بارش ہوئی۔ پر ذرا بھی کیچڑ پانی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اور نہ گھر ٹپک رہا تھا۔ ہماری کٹیا میں تو جگہ جگہ پانی بھر جاتا تھا۔ ہر ٹپکتی جگہ پر برتن رکھتے رکھتے ماں تھک جاتی تھی۔ اگر زیادہ ہی ٹپکنے لگے تو پتا جی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی مرمت کرنے لگتے اور ماں یا میں دیے کی روشنی دکھا کر ’’ادھر سوراخ ہے ادھر سوراخ ہے’’  ایسا بتاتے جاتے۔

آج اگر چھت ٹپکنے لگے تو پتا جی کو دیا کون دکھائے گا؟ موسی کے پہلو میں سوتے ہوئے یہ خیال میرے دماغ میں آ رہا تھا۔

’’موسی۔’’  میں نے پکارا۔

’’خاموشی سے سو۔’’  موسی نے میری پکڑ اور بھی مضبوط کر لی اور مجھے تھپتھپانے لگیں۔ ان کی ساڑھی کی بو میری ناک میں گھسی۔ ماں کی بغل میں سوتے ہوئے دھوئیں کی اچھی سی بو آتی تھی۔ سورنگ کی ساڑھی سے بھی وہی خوشبو آتی ہے، جیسی کہ ماں کی ساڑھی سے آتی تھی۔ اس خوشبو کو تلاش کرتے ہوئے میں موسی کی بغلوں میں جا گھسا۔

موسی نے مجھے وہیں کے ایک اسکول میں پڑھنے پر لگا دیا۔ میرا پہلے والا اسکول اس سے بہتر تھا۔ اسکول کے سامنے ہی برگد کا درخت تھا۔ اس کی جڑوں کو پکڑ کر ہم ادھر سے ادھر جھولتے تھے۔ ویسے تو اس اسکول کے راستے پر بھی ایک املی کے درخت تھا۔ ڈھیر ساری املیاں ملتی تھیں۔ جیب بھر کر املی لیتے وقت مجھے شری اور بیندت کی یاد آتی تھی۔

ہماری کٹیا کے قریب ایک نالا تھا۔ ہم نے کئی بار نالے پر جاتے تھے۔ ڈبکیاں لگا لگا کر نہاتے تھے۔ موسی کے گھر کے قریب نالا نہیں تھا، کنواں تھا۔ موسی رسی کھینچ کر ڈول سے کنوئیں کا پانی نکال کر میرے سر پر انڈیل دیتیں۔ پورے بدن میں صابن لگاتیں۔ گھر میں میں اکیلا ہی نہا لیتا تھا۔ میں نے ماں کو کبھی خود کو نہلانے نہیں دیا۔ میں کیا اب ننھا سا بچہ تھا؟ پر موسی سنیں تب نا، مجھے غصہ آتا تھا۔

’’آٹھ برس کا گھوڑا، پر کوے جیسا نہاتا ہے۔ گندا کہیں کا۔’’  ایسا کہہ کر موسی مجھ پر صابن رگڑتی تھیں۔ آنکھوں میں جھاگ جانے سے میری آنکھیں بھی جلنے لگتی تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ میں موسی کو بھینچ لوں۔ پر میں کچھ نہیں کرتا تھا۔ بیچاری ماں کو میں نے کئی بار بھینچا تھا۔

پتا جی کے ساتھ کبھی کبھی میں بھی ندی پر جاتا تھا۔۔ پھر ہم دونوں کنکر لے کر ایک دوسرے کی پیٹھ ملتے تھے۔ اس خیال سے پتا جی کے پاس جانے کو میرا دل چاہنے لگا۔ جب موسی میرے گیلے بال پونچھنے لگتیں، تب میں آنکھیں بند کر کے یہی سب سوچتا رہتا۔

موسی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ موسی، موسا اور موسا کی ماں اتنے ہی لوگ وہاں رہتے تھے۔ پڑوس میں بھی میری عمر کا کوئی لڑکا نہیں تھا۔ جو بڑے تھے، وہ مجھے اپنے کھیل میں شامل نہیں ہونے دیتے تھے۔ میں بہت بور ہوتا تھا۔ تب موسی اپنا کام چھوڑ کر میرے ساتھ کھیلتی تھیں۔ موسی کنچوں سے کھیلنا نہیں جانتی تھیں، لیکن پانچ کنکر والا کھیل وہ بہت اچھا کھیلتی تھیں، پٹ پٹ کر کے کنکر پکڑتی تھیں۔ موسی کے ساتھ کھیلنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ میں بے ایمانی کر بھی لوں، پھر بھی موسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ جب پورے کنچے میرے ہو جاتے، تب وہ مجھے گود میں بٹھا کر کہتیں، ’’بڑا ہوشیار ہے میرا بادشاہ بیٹا۔’’  ایسا کہہ کر وہ ہنستی تھیں۔

جب میں اسکول جانے نکلتا تب موسی آنگن میں کھڑی ہو کر مجھے دیکھتی تھیں۔

’’ٹھیک سے جاؤ۔’’

’’ہاں موسی۔’’

املی کی کشش سے میرے قدم جلدی جلدی اٹھتے تھے۔ موسی کے گھر کے سامنے والی سڑک سیدھی جاتی ہے۔ بعد میں موڑ پر ایک آم کا درخت ہے۔ ادھر پہنچنے تک میں روز پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا اور موسی کو ہاتھ ہلا کر جو دوڑ لگاتا تھا، تو ایک دم املی کے درخت کے نیچے۔ میرے ہاتھ ہلانے تک موسی آنگن میں ہی کھڑی رہتی تھیں۔ ایک بار میں ہاتھ ہلانا بھول گیا، تو موسی کو ایک دم برا لگا۔ اسکول سے جب میں لوٹا تو کہنے لگیں۔

’’رگھو، آج تو نے پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں۔’’

’’کب موسی؟’’

’’اسکول جاتے وقت۔’’

’’بھول گیا۔’’

’’ایسے کیسے بھول گیا؟ تجھ میں تو اپنا پن ہی نہیں ہے۔ میں ہی تجھ پر جان دیتی ہوں۔’’  موسی کی آنکھیں بھر آئیں۔ مجھے بہت برا لگا۔ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تو اس میں موسی کو اتنا دکھی ہونے کی کیا بات تھی۔ یہی میں سوچتا رہا۔ اس دن سے آم کے درخت کے قریب پہنچتے ہی میں بغیر بھولے پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔

رات کو موسی مجھے کہانی سناتی تھیں۔ اس رات اس نے مجھے چِرُنگن کی کہانی سنائی۔

’’ایک تھا چِرُنگن۔ ایکدم ننھا سا۔ ایک دن اس کی ماں مر گئی۔ چِرُنگن گھونسلے میں اکیلا رہ گیا۔ چِرُنگن کی ایک موسی تھی۔ اس نے بڑی ممتا سے اسے اپنے پنکھوں تلے سہارا دیا۔ اس کو محبت دی۔ پالا پوسا۔

میں نے موسی سے پوچھا، ’’موسی اس چِرُنگن کی موسی کے اپنے بچے نہیں تھے کیا؟’’

’’نہیں بابا، وہ نصیبوں جلی بڑی بدنصیب تھی۔’’

’’تب۔’’

’’چِرُنگن کی موسی اس کی پرورش کرنے لگی۔ موسی اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ اسے اپنا ہی بچہ سمجھتی تھی۔ موسی نے اسے اڑنا سکھایا۔ بچے نے پر پھیلائے۔۔ وہ غرور سے اڑنے لگا۔ موسی خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ ایک دن چِرُنگن گھونسلے سے باہر نکلا۔ اور اڑ کر دور چلا گیا۔ موسی چِرُنگن کو بھول نہ سکی۔ وہ اس کی راہ دیکھتی رہی۔ کہنے لگی۔

’’اے رے چِرُنگن میرے،

کب آئے گا تُو ؟

پیار کرتی ہوں تم سے میں

پر بھول گیا رے تُو ۔’’

اور اس چِرُنگن کی یاد میں موسی گھونسلے میں روتی رہتی تھی۔’’

کہانی سناتے سناتے موسی خود ہی رونے لگیں۔ اس کا رونا دیکھ کر میں بھی رونے لگا۔ موسی نے مجھے گود میں لٹایا اور تھپتھپاتے ہوئے دھیمے لہجے میں گانے لگیں۔

’’اے رے چِرُنگن میرے۔’’

ہمارا ششماہی امتحان ہو چکا تھا، مگر پتا جی ایک بار بھی موسی کے گھر نہیں آئے۔ مجھے ان کی، اور ماں کی بہت یاد آتی تھی۔ اتوار کے دن کبھی کبھی میں موسا جی کے ساتھ بس اسٹینڈ پر جایا کرتا تھا۔ شاید کسی بس سے پتا جی اتریں گے، اس امید سے میں دیکھتا رہتا۔ پر پتا جی نہیں آئے۔ میں نے ان سے کہا تھا، ’’جلدی آنا۔’’  بہت راہ دیکھی اور ایک دن پتا جی آ دھمکے۔ اسکول کی چھٹیاں تھیں۔ میں اکیلا ہی آنگن میں کنچوں سے کھیل رہا تھا۔ سامنے کوئی کھڑا نظر آیا۔ میں نے اوپر دیکھا تو پتا جی تھے۔ میں نے کنچے وہیں پھینک دئے اور پتا جی کی کمر میں بانہیں ڈال دیں۔

’’موسی پتا جی آ گئے۔’’

پتاجی نے مجھے کس کر پکڑ لیا۔ میرا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔

موسی باہر آئیں۔ چائے پیتے وقت پتا جی نے کہا، ’’رگھو کو لینے آیا ہوں۔’’

موسی کے ہاتھ سے سوپ کا پیالہ زمین پر گرا۔ اس میں سے چاول سب جگہ بکھر گئے۔ موسی بالکل گئی گزری ہیں۔ سوپ کا پیالہ بھی ٹھیک طرح نہیں پکڑنا جانتیں۔

’’تم کام پر نکلو گے۔ رگھو اکیلا رہ جائے گا۔ اس کا کیا ہو گا؟’’

’’وہ اکیلا نہیں ہو گا۔’’

’’نہیں کیوں؟’’

’’میں نے دوسری شادی کر لی ہے۔’’  پتا جی نے آہستہ سے کہا۔

’’کیا؟ موگرو کو ابھی چل بسے چھ مہینے بھی نہیں گزرے اور تم نے۔’’

’’کیا کرتا؟ دنیا میں رہنا تو ہے نا؟ بڑی مصیبت میں تھا۔ آخر رگھو کو بھی کتنے دن یہاں رکھتا؟’’

موسی کا چہرہ تمتما گیا۔

’’رگھو کا نام مت لینا۔ اسے وہاں لے جا کر کیا سوتیلی ماں کے منہ میں دو گے؟ میں اسے کبھی نہیں بھیجنے والی۔’’

موسی غصے سے بولنے لگیں۔ میں دونوں کو تکتا رہا۔ سوتیلی ماں؟ موسی نے مجھے سوتیلی ماں کی بہت سی کہانیاں سنائی تھیں۔ سب سوتیلی مائیں بری ہوتی ہیں، یہ میں جانتا تھا۔ پتا جی میری بھی سوتیلی ماں لائے ہیں۔ سوچ کر مجھے رونا آیا اور ماں کی یاد میں، ہچکیوں کے ساتھ روتا رہا۔

’’رگھو کو سوتیلی ماں سے کچھ تکلیف نہیں ہو گی۔ وہ اس سے محبت ہی کرے گی۔’’

’’یہ تم مجھے نہ بتاؤ۔ تم ابھی سے کیسے جان گئے؟’’

’’وہ پڑوس میں ہی رہتی تھی۔ ہمارے رگھو کو وہ بہت چاہتی ہے۔’’

’’کون ہے وہ؟’’

’’سورنگ۔’’

سورنگ؟ میری آنکھیں چمک اٹھیں۔ ہٹو بھی، سورنگ بھی کبھی سوتیلی ماں ہو سکتی ہے بھلا؟ وہ کتنی اچھی ہے۔ اس کے پاس جب میں سویا تھا، تب مجھے لگا تھا کہ جیسے میں ماں کی گود میں سو گیا ہوں۔

میں ہنسا اور کود کر پتا جی کے پاس پہنچا۔

’’پتا جی میں چلوں گا۔’’

پتا جی ہنسے اور میرے بال سہلانے لگے۔ موسی چپکے سے خالی سوپ کا پیالہ لے کر اندر چلی گئیں۔

’’موسی میری قمیض کدھر ہے؟ پتلون کدھر ہے؟’’ کہہ کر میں ان کے پیچھے دوڑا۔

موسی باورچی خانے میں کھڑی تھیں۔ ان کی ناک لال ہو گئی تھی۔

’’رگھو کیا تو سچ مچ جائے گا؟’’

سچ مچ مطلب؟ پگلی موسی۔ کیا پوچھتی ہیں، جانتی ہی نہیں۔ میں نے سر ہلایا۔

’’یہاں تجھے اچھا نہیں لگتا؟’’

’’یہاں مجھے اچھا لگتا تھا پر پتا جی کے ساتھ اور بھی اچھا لگے گا۔’’  میں نے موسی سے کہا۔

’’میں ہی پگلی تھی۔’’ ایسا کہتے ہوئے موسی نے سوپ میں چاول ڈال دیئے۔

’’موسی، باہر چاول بکھرے ہیں۔ ویسے ہی پڑے ہیں۔’’

’’ہاں جانتی ہوں، چاول بکھرے ہیں۔’’

’’میں سمیٹ کر لاؤں؟’’

’’نہیں رگھو، بکھرے رہنے دو، میں ہی سمیٹ لوں گی۔’’  کہہ کر موسی باہر چلی گئی۔

دوپہر کے کھانے کے بعد موسی نے میرے کپڑے بیگ میں رکھ دیئے۔ میری من پسند پیپر منٹ میری جیب میں بھریں۔ کچھ لڈو باندھ دیے۔

’’آئے گا نہ کبھی کبھار؟’’

میں نے سر ہلایا۔۔ پتا جی کے تیار ہونے سے پہلے ہی میں نے پیروں میں جوتے بھی پہن لیے۔ میں آنگن میں آ پہنچا۔ موسی نے مجھے کس کر گلے لگایا، اور چوم لیا۔ مجھے شرم آئی کہ پتا جی نے دیکھا ہو گا۔ یہ سوچ کر ہی میں لال ہو گیا۔ پتا جی کا ہاتھ پکڑ کر میں چلنے لگا۔

’’پتاجی کیا نالے میں ابھی تک پانی ہے؟’’

’’پتا جی ہم چھوٹے پل پر مچھلیاں پکڑنے جائیں گے نا؟’’

’’سورنگ بھی اب ہمارے ساتھ رہے گی؟’’

میں بہت کچھ جاننا چاہتا تھا۔ پتا جی ہنس ہنس کر مجھے جواب دیتے تھے۔ بیندت اور شری کو بہت ساری خبریں سنانی تھیں۔ جیب میں سے املیاں نکال کر دینی تھیں۔ گھر پہنچنے کے لئے میں بہت جذباتی ہو رہا تھا۔

اسی خوشی میں بس میں سوار ہوئے۔ بس چلنی شروع ہو گئی۔ بولتے بولتے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ موسی کے دیے پیپرمنٹ ہاتھ لگے اور جھٹ سے مجھے یاد آیا۔

آم کے درخت کے قریب پہنچنے پر، پیچھے مڑ کر، موسی کو ہاتھ ہلانا میں بھول گیا تھا۔

بالکل بھول گیا تھا۔

***

 

 

 

 

کچھ نہیں بنے گا

 

ہری کرشن کول

 

کشمیری کہانی

 

 

ہم اسٹیشن پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ پہنچتے ہی ہم نے بکنگ چارٹ پر نظر ڈالی۔ لیکن یہاں بھی بدقسمتی کا ہی دیدار ہوا۔ ویٹنگ لسٹ میں جن خوش نصیبوں کے نام میرے دوست سے پہلے درج تھے، ان کی ریزرویشن ہو چکی تھی۔ لیکن میرے ہی دوست کو نہ جانے کس جرم کی سزا میں لٹکا کر رکھا گیا تھا۔ بدقسمتی نے اسے اور اس کا ساتھی ہونے کی وجہ سے مجھے بھی، ایک طرح کی پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔

پونے سے آنے والی جس گاڑی میں اسے جموں جانا تھا، وہ اڑھائی گھنٹے لیٹ تھی۔ اِس دوسری پریشانی کا اثر اس سے زیادہ مجھ پر پڑا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر گاڑی عادت سے مجبور ہو کر لیٹ ہی آنا چاہے گی، تو بھی نو بجے تک تو آ ہی جائے گی۔ دوست کو رخصت کر کے میں آسانی سے دس بجے والی آخری بس سے اپنے گھر پہنچ سکتا تھا۔ مگر اب وہ بات نہیں رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دوستی اور مروت کا لبادہ اتار کر دوست کو اس کی قسمت کے حوالے کر کے اسٹیشن پر چھوڑ جاؤں اور خود وقت پر اپنے گھر لوٹ جاؤں یا پھر مدت بعد ملے اپنے دوست کے لئے اپنا فرض نبھاتے ہوئے تب تک اسٹیشن پر ہی رکوں، جب تک پونے سے آ کر گاڑی اسے لے کر جموں کے لئے روانہ نہیں ہو جاتی۔ اور اپنے آپ کو اپنی قسمت کے نہیں، بلکہ اپنے پربھو کے حوالے کر دوں۔ اگر اس کی مرضی ہو گی، تو مجھے بحفاظت میرے گھر پہنچا دے گا۔ اگر اس کی مرضی نہ ہو گی تب بھی، میرا سر اس کے آگے ہمیشہ جھکا ہی رہے گا۔

’’اس ملک کا کچھ نہیں ہونے والا۔ نہ ٹرین وقت پر آئے گی، نہ ہوائی جہاز کبھی ٹائم پر ٹیک آف کرے گا۔’’  میرے دوست نے یہ بات تلخ لہجے میں کہی اور بینچ سے اٹھ کر پلیٹ فارم پر مایوسی کے عالم میں گھومنے لگا۔ میں اسٹیشن ماسٹر کے پاس گیا۔ اس نے مجھے تسلی دی کہ زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ گاڑی آتے ہی ہمیں ٹی ٹی سے بات کرنی چاہیے۔ اگر اس کے پاس کوئی برتھ خالی ہو گی، تو وہ برتھ ہمیں ہی ملے گی۔

جس طرح کوئی مرغی اپنی چونچ میں دانا لے کر چوزے کے پاس جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح میں یہ خوشخبری لے کر اپنے دوست کے پاس گیا۔ یہ سن کر اسے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ اس کے چہرے پر اس کی خاص مسکراہٹ، ایک بار پھر میرا مذاق اڑانے لگی، ’’اسکول ماسٹر سے لے کر اسٹیشن ماسٹر تک سب جھوٹی تعلیم اور جھوٹی تسلی دیتے ہیں۔ اس ملک کا کچھ نہیں ہو گا۔’’

میرا یہ دوست کشمیر کا مشہور اور جانا مانا دانشور تھا، جو انسانی اقدار کے بارے میں ہوئی ایک آل انڈیا کانفرنس میں حصہ لینے دہلی آیا تھا۔ دو دن کی یہ کانفرنس کل شام کو ہی ختم ہوئی تھی۔ آج سویرے وہ ہوٹل چھوڑ کر میرے یہاں آیا اور اپناسارا دن مجھے نواز دیا تھا۔ سب سے پہلے ہم انڈین ایئر لائنز کے دفتر گئے تھے۔ وہاں اس نے ریکوئسٹ کر کے ٹکٹ واپس کر کے ’’ریٹرن ایئر ٹکٹ‘‘ کے پیسے اپنی جیب میں ڈالے تھے۔ وہاں سے ہم قرول باغ گئے تھے۔ جہاں سے اس نے بیوی بچوں کے لئے کپڑے اور کچھ دوسرا سامان خریدا تھا۔ قرول باغ سے آ کر اس نے میرے گھر میں میرے ساتھ کشمیری کھانا کھایا تھا اور میری بیوی کے پکانے کی بہت تعریف کی تھی۔ میرے بچوں کے ساتھ بھی وہ خوب کھیلا تھا اور اس بات کے لئے صرف انہیں ہی نہیں، بلکہ میری اور میری بیوی کو بھی خوب شاباشی دی تھی کہ اتنے برس دہلی میں رہنے کے باوجود ہم اور ہمارے بچے کشمیری زبان ہی بولتے ہیں۔ کھانا کھانے اور پھر نمکین گلابی کشمیری چائے پینے کے بعد، ہمارے درمیان بہت سے مسائل پر بحث چھڑی تھی۔ اس کی باتوں سے لگتا تھا کہ اسے ہر شخص اور ہر خیال سے نفرت ہے، مگر ویسی ہی نفرت جیسی ایک باپ کو اپنے پیارے بیٹے سے اس کی بد کرداری دیکھ کر ہوتی ہے، یا پھر کسی فرمانبردار اور وفادار بیٹے کے دل میں اپنے والد کا کوئی نیچ کام دیکھ کر پیدا ہوتی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ بنیادی طور پر آدمی کتے سے زیادہ ذلیل اور ریچھ سے زیادہ وحشی ہے۔ اس کی رائے میں وہ دن کائنات کا سب سے تاریک دن تھا، جس دن چار ٹانگوں والی مخلوق نے دو ٹانگوں پر چلنا سیکھا تھا اور اس طرح فقط اپنی نوع کا بچاؤ کر کے باقی تمام انواع کو ڈبو کر رکھ دیا تھا۔ یہ سب کہنے کے بعد اس نے آہ بھری تھی، ’’اس دنیا کا کچھ نہیں ہو گا۔’’

چار بجے کے آس پاس میری بیوی نے، اس کی فرمائش پر کشمیری قہوہ بنایا تھا۔ قہوہ پی کر ہم نے اور بھی بہت سارے ادبی، علمی، عالمی اور آفاقی مسائل پر گفتگو کی تھی۔ سوا سات بجے وہ اور میں ٹیکسی سے اسٹیشن کی جانب چل پڑے تھے اور اب اس وقت سوا نو بج رہے تھے۔

پلیٹ فارم نمبر دو سے ایک گاڑی جانے کہاں کے لئے نکل پڑی۔ پلیٹ فارم تین پر کوئی گاڑی جانے کدھر سے آئی۔ لیکن خالی پٹری لئے پلیٹ فارم نمبر ایک، پونے سے آنے والی اس گاڑی کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا، جس سے میرے دوست کو جموں جانا تھا۔ میں نے دائیں بائیں دونوں طرف دور تک نظر ڈالی۔ خالی ٹریک پر جلدی گاڑی آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن میرے خالی دماغ میں جلد ہی یہ سوال آیا کہ کیا دوست کو اس کی قسمت کے بھروسے چھوڑنا میرے لئے اور ہماری دوستی کے لئے اچھا رہے گا۔ نہیں، مجھے گاڑی کے آنے اور پھر اس کے چلے جانے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ گاڑی کے آنے اور چلے جانے کے درمیانی وقت میں، دوست کے سونے کے لئے برتھ کا کوئی نہ کوئی انتظام بھی کرنا ہو گا۔ اسے خوشی خوشی رخصت کرنے کے بعد ہی اپنے گھر واپس جانے کی فکر کرنا ہو گی۔

ٹھیک ہے کہ دس بجے کے بعد کوئی بس نہیں ملے گی، پر رکشہ تو مل ہی جائے گا۔ تبھی سچائی سمجھ آنے پر، میرا حوصلہ ایک دم ٹھنڈا پڑ گیا۔ اسٹیشن سے میرے گھر تک رکشے کا کرایہ دس پندرہ روپے سے کیا کم کیا ہو گا، اسپر میری جیب میں پانچ روپے کا ایک اکلوتا نوٹ موجود تھا۔ آدھی رات کو گھر پہنچ کر بیوی کو جگانا اور اس سے رکشے والے کو دینے کے لئے پیسے مانگنا، میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ میں اس نئی مسئلے سے کس طرح نپٹوں۔ جب میری بیوی کی نیند ٹوٹے گی، بلکہ توڑ دی جائے گی، تب وہ میری ہڈی پسلی توڑنے میں کون سی کسر باقی رکھے گی۔ پوچھے گی کہ یہ کون سا چہیتا بھائی بہنوئی آیا تھا کہ جس کے لئے تم نے اپنا پورا دن اور پھر اپنی آدھی رات برباد کی۔ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر روغنِ جوش، مکھنی شامی کباب سے اس کا جہنمی پیٹ بھر دیا اور اس پر رکشے کے کرایہ کے روپ میں جرمانہ بھی ادا کیا۔

میں نے اپنی بیوی کے ناپسندیدہ مہمانوں کی طرف نظر ڈالی۔ اُس نے وقت خرچ کرنے کے لئے ایوننگ نیوز کا پرچہ خریدا تھا۔ اس کے پاس جا کر میں نے بھی اس پر نظر ڈالی۔

’’پانچ کروڑ؟’’ میرے منہ سے چیخ سی نکل پڑی۔ سرخی والی خبر بڑی سنسنی خیز تھی۔ پانچ کروڑ روپے کا ایک بڑا بھاری اسکینڈل بے نقاب ہوا تھا، جس میں بڑے بڑے لوگوں کے ہاتھ ہونے کا امکان تھا۔

’’پانچ کروڑ پڑھ کر تمہاری رال اس طرح کیوں بہنے لگی؟ آج کل کروڑ کوئی بڑی رقم نہیں ہوتی۔’’  اس نے میری حماقت پر مسکراتے ہوئے کہا، ’’کچھ پتہ ہے، آئے دن ہونے والے ان سیمیناروں، کانفرنسوں اور جشنوں پر کتنے کروڑ خرچ ہوتے ہوں گے۔ کتنی دولت ضائع ہوتی ہو گی۔ اس ملک کا کچھ نہیں ہو گا۔’’

’’مطلب جس کانفرنس کے لئے تم یہاں آئے تھے، اس پر خرچ کیا گیا پیسہ بھی اصل میں ضائع ہوا ہے؟’’ میں نے کہا۔

’’بالکل ضائع ہوا ہے۔ اتنے لوگوں کے لئے فرسٹ کلاس یا ہوائی جہاز سے آنے جانے کا انتظام کیا گیا۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ان کے کمرے بک کئے گئے۔ لنچ، ڈنر، پارٹی، پکنک پر ہزاروں نہیں، لاکھوں روپے اڑائے گئے۔ پہلے بے مطلب کی ان مجلسوں کے بارے میں فارسی میں کہا جاتا تھا کہ نشستن، گفتن، برخاستن۔ مطلب بیٹھنا، باتیں کرنا اور اٹھ کر چلے جانا۔ مگر اب ان تین لفظوں کے ساتھ ایک چوتھا لفظ بھی جڑ گیا ہے، خوردن، یعنی کھانا پینا۔’’

’’اس ملک کا کچھ نہیں ہو گا۔’’  جانے کیسے اس بار اس کا تکیہ کلام میرے ہی منہ سے نکل پڑا۔

’’ملک کا کچھ کرنا پڑے گا یا نہیں، مجھے فائدہ ضرور ہوا۔’’

’’کیسا فائدہ؟’’

’’مجھے دس سال بعد اپنے دوست سے ملنے کا موقع حاصل ہوا۔’’

اس نے پہلے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر مجھے گلے سے لگایا۔ پھر میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے ایک اسٹال تک لے گیا اور دوگلاس اورنج جوس کا آرڈر دیا۔ قاعدے اور شرافت سے پیمنٹ مجھے ہی کرنا چاہئے تھی، مگر میرے پاس صرف پانچ روپے کا ایک نوٹ تھا۔ میں نظر بچا کر مائیک پر ہونے والی اناؤنسمنٹ سننے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میرے دوست جب پرس نکال کر پیمنٹ کرنے لگا، تو میں نے فوری طور پر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس نے میرا داہنا ہاتھ پکڑ کر میرے دوسرے ہاتھ میں جوس کا گلاس تھما دیا۔ ٹھنڈا جوس پیتے پیتے شرمندہ چہرے سے پسینے کی سرد بوندیں بہنے لگیں۔ اور دیکھتے دیکھتے اڑھائی گھنٹے گزر گئے۔ پورے ساڑھے دس بجے داہنی طرف کا سگنل نیچے ہوا۔ دور پٹری کے سرے پر سرخ روشنی کی جگہ سبز روشنی جلی اور کچھ دیر بعد ہی پلیٹ فارم کو جھنجھوڑتی، جراسک دور کے ڈائناسور سے بھی زیادہ خوفناک طریقے سے غراتی ریل گاڑی، ہمارے سامنے پہنچ کر رک گئی۔ پلیٹ فارم پر اٹیچی کیس لئے مردوں، بچوں کے ہاتھ تھامی عورتوں اور سر پر سامان لادے قلیوں کی بھاگ دوڑ اور دھکم پیل شروع ہو گئی۔ نہ اترنے والے اندر جانے والوں کو گھسنے دیتے اور نہیں اندر جانے والے اترنے والوں کو باہر آنے دیتے تھے۔ یہ پاگل پن دیکھ کر میرا دوست ہکا بکا رہ گیا تھا۔ اس وقت اس کی منفرد مسکراہٹ جیسے اس کے ہونٹوں سے غائب ہو گئی تھی۔

اچانک سیاہ کوٹ پہنے ٹی ٹی، پلیٹ فارم پر کسی کھمبی کی طرح پھوٹ پڑا اور سامنے والے کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ درجن بھر مسافر اس کے سامنے اکٹھے ہو کر اسے ٹکر ٹکر دیکھنے لگے۔ لیکن اس نے ان پر کوئی رحم دلی نہیں دکھائی اور بے رخی سے اعلان کیا کہ کسی بھی کمپارٹمنٹ میں سونے کے لئے کوئی برتھ خالی نہیں ہے۔ میرے دوست کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ لیکن میں بے شرم بن کر ٹی ٹی کی طرف بے چارگی سے دیکھنے لگا۔ وہ سامنے کھڑے لوگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جانے کس لئے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ لیکن میری طرف ایک دو بار اس نے عجیب نظروں سے ضرور دیکھا تھا۔ یا تو اسے مجھ پر اور مجھ سے زیادہ میرے ساتھ چپکے میرے دوست پر رحم آ یا تھا۔ یا پھر اس نے ہمیں مضبوط آسامی سمجھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس کے سامنے کھڑے لوگ چھٹنے لگے، تو اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مجھ سے بیس روپے مانگے۔ میرے دوست نے فوری طور پر دس دس کے دو نوٹ میرے ہاتھ میں دیے، جو میں نے مسکرا کر ٹی ٹی صاحب کے حوالے کئے۔ ٹی ٹی نے مسکراتے چہرے سے نوٹ جیب میں رکھے۔ میرے دوست کا زرد پڑا چہرہ، دوبارہ کشمیری سیب کی سی لالی لئے چمکنے لگا۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کشمیری زبان میں کہا، ’’اب شیطان کا پیٹ بھر گیا ہے، مجھے برتھ مل گئی اور میرا کام بن گیا، البتہ اس ملک کا کچھ نہیں بنے گا۔’’

ٹی ٹی نے پہلے کی طرح مسکراتے چہرے سے مجھ سے ٹکٹ مانگا۔ میرے دوست نے اپنا ٹکٹ میرے ہاتھ میں رکھا، جو میں نے ٹی ٹی کے حوالے کیا۔ اس نے کمپارٹمنٹ اور برتھ کا نمبر لکھ کر ٹکٹ لوٹایا۔ میرے دوست نے اپنا ٹکٹ میرے ہاتھ سے چھین لیا اور اپنا کمپارٹمنٹ تلاش کرنے بھاگ گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے جانے لگا کہ ٹی ٹی نے آواز دی، ’’دوسرا ٹکٹ کہاں ہیں؟’’

’’ہم میں سے ایک کو ہی جموں جانا ہے۔ جسے جانا ہے وہ اپنا کمپارٹمنٹ ڈھونڈ رہا ہے۔’’  میں نے اس کو اصل بات بتا دی۔

بات سن کر ٹی ٹی کا چہرہ غصے سے تن گیا اور میری طرف دیکھ کر بولا، ’’میں سکینڈ کلاس کی ایک برتھ کے صرف دس روپے لیتا ہوں۔ نہ ایک پیسہ زیادہ، نہ ایک پیسہ کم۔ یہ میرا اصول ہے اور میں اصول چھوڑ کر بے ایمانی نہیں کرتا۔’’

اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور نفرت سے میری طرف دیکھ کر دس کا نوٹ میرے حوالے کر دیا۔ میں نے نوٹ لیا اور اپنے دوست کی طرف نظر ڈالی۔ وہ جہلم ایکسپریس کے کمپارٹمنٹ نمبر پڑھ کر اپنا باکس تلاش کر رہا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر نوٹ چپکے سے اندر کی جیب میں ڈال لیا۔ اب میرے پاس پندرہ روپے تھے۔ ایک تھا پانچ روپے کا نوٹ جو میں گھر سے لایا تھا اور دوسرا یہ دس کا نوٹ۔ جو پربھو کے فضل سے ابھی ابھی مجھے یہیں ملا تھا۔ اب میں بغیر کسی پریشانی کے رکشے میں آرام سے اپنے گھر جا سکتا تھا اور گھر سے دس بیس گز پہلے ہی کرایہ چکا کر رکشے والے کی چھٹی کر سکتا تھا۔ جس سے میری بیوی کو شک کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ میں بس سے نہیں، بلکہ رکشے سے گھر لوٹا ہوں۔ میں نے ایک بار پھر پٹری پر کھڑی ریل گاڑی کی طرف نظر ڈالی۔ میرادوست ابھی تک اپنا باکس تلاش نہیں کر سکا تھا۔ دوستی اور شرافت کا تقاضا پورا کرنے کی نیت سے، اوراس کی مدد کے خیال سے، میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔

***

 

 

 

 

واپسی کا سفر

 

سی پی شری رمن

 

ملیالم کہانی

 

 

اس زمانے میں کسی کو یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ نظام الدین نام کا کوئی اسٹیشن بھی ہوتا ہے۔ تب گھر جانے کے لئے وہاں سے صرف ایک ہی گاڑی چلتی تھی، گرینڈ ٹرنک ایکسپریس۔ گرینڈ ٹرنک کہنے سے کوئی مزہ نہیں آتا۔ جی ٹی ایکسپریس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ رعب سا محسوس ہوتا ہے۔ آج کل دہلی سے روانہ ہونے پر سیدھا گھر کے قریب والے اسٹیشن پر ہی اترتا ہوں، درمیان میں کہیں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ان دنوں مدراس جانے کے لئے مدراس/کوچین ایکسپریس پکڑ کر مدراس جانا پڑتا تھا۔ طلوع آفتاب دیکھ کر سات بجے سے پہلے واپس ہوٹل پہنچتا اور کیرالا بھون میں پسنجر چارج میں ٹھہر کر آٹھ آنے میں ہی، نہانا، پاخانے جانا، دانت صاف کرنا، سب کچھ ہو جاتا تھا۔ بعد میں اسی ہوٹل سے ڈوسا اور انڈے کھاتا۔ پھر کمرے میں لیٹ جاتا، جی ٹی ایکسپریس کا انتظار کرتے ہوئے جس کا وقت ساڑھے دس بجے کا تھا۔

کہیں پر پڑھا تھا کہ یورپ میں سلیپر کلاس ہوتے ہیں۔ جہاں ریزرویشن کرا کے سفر کیا جا سکتا ہے۔ پر انڈیا میں اس وقت اس قسم کی ریزرویشن نہیں ہوتی تھی۔ آج جب انڈیا میں ایسے کلاس ہیں تو بھی ہر ٹرین میں اور ہر سفر میں یہ سہولت مل جائے یہ ضروری نہیں۔ مہینوں پہلے ریزرویشن کرانی ہوتی ہے۔ پھر بھی بغیر ٹکٹ والے مسافروں کا ڈر رہتا ہے۔

انڈیا میں اس ریزرویشن کے طریقہ کار کو لاگو کرنا کافی مشکل ہے کیوں کہ ستر فیصد مسافر بغیر ٹکٹ ہی ہوتے ہیں۔ وہ ایک ٹولی میں آ کر سلیپر پر چڑھتے ہیں اور برتھ پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ آپ ان سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ ہر ڈبے میں ایک ایک مسلح پولیس ہونے پر بھی ان کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔

آج کل نظام الدین سے کونکن سے ہو کر گھر کے قریب پہنچنے والی گاڑی کا نام منگلا ایکسپریس ہے۔ پہلے کبھی امید نہیں تھی کہ کوئی ایسی گاڑی بھی شروع ہو جائے گی۔ حالانکہ نئی دہلی سے روانہ ہونے والی جی ٹی والی شان اس میں نہیں۔ اس میں کیا کسی بھی اور گاڑی میں نہیں۔ جی ٹی میں سفر کرنے والے مسافر بھی مختلف ہوتے تھے۔ دہلی سے دانشور ٹائپ لوگ کے دانشوری بھرے ڈبے کیرالہ یا جنوب کے مختلف شہروں کو جاتے۔ اس وقت نظام الدین اسٹیشن سے چڑھنے والے مسافر اکا دکا ہی ہوتے۔ آپ بات کرنا چاہیں تو پوچھنے پر ہی وہ جواب دیتے تھے ورنہ نہیں۔ ایک بار بات کرتے پھر خاموش ہو جاتے۔ لوگوں میں مشہور تھا کہ وہ سفر پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اپنے ساتھ لائی گئی کتاب کو پڑھنے میں دھیان دیتے ہیں، اپنے ساتھ سفر کرنے والوں پر نہیں۔ سچ مانیں دہلی سے سفر کرنے والے غضب کے تیز دماغ ہوتے ہیں۔ بیشتر انسان کے اندر تک جھانکنے والے۔ کچھ پوچھو تو وہ پہلے لوگوں کو تولتے ہیں۔ جواب دینے سے اگر ان کو کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ جواب نہیں دیتے۔ وہ ایسے بیٹھے رہتے گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ پر وہ وقت اور تھا۔

وہ ڈبے میں چڑھ گیا۔ ایک برتھ پر بیٹھ کر دوسرے مسافروں کے آنے کا انتظار کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھا اور ایک بوڑھیا آئے۔ وہ چونک گیا کیوں کہ بڑھیا دن میں بھی ٹارچ کی مدد سے برتھ کا نمبر ڈھونڈ رہی تھی۔ نمبر پلیٹ کے پاس لا کر ٹارچ سے بوڑھی نے نمبر ڈھونڈا۔

’’نو، دس، یہ دونوں ہیں۔’’  بوڑھے نے برتھ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ بڑھیا برتھ پر لیٹ گئی۔ ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ بیچ بیچ میں ہونٹ اٹھ جاتے۔ وہ انہیں زور سے دبا کر ٹھیک کرتی تھی۔ بیچ بیچ میں کراہ بھی رہی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ پتہ نہیں یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ اسے یہ مسافر پسند نہیں آئے۔ پر اب تو جھیلنا ہی پڑے گا۔ اسی گاڑی میں کتنی ہی بار شرابیوں اور جھگڑالو لوگوں کے ساتھ اس نے سفر کیا ہے۔ کم از کم بوڑھے اور بڑھیا سے وہ اتنا تنگ تو نہیں ہو گا۔

بوڑھا سامنے والی برتھ پر بیٹھ گیا۔ وہ دونوں کھادی کے سفید لباس پہنے تھے۔ ریٹائرڈ ہندی کے ٹیچروں جیسا لباس۔ ریل گاڑی چلنے لگی۔ اسٹیشن پر رخصت کرنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی اور نظام الدین اسٹیشن بھی اتنا لمبا نہیں کہ ہزاروں ہاتھ دیر تک ہلتے نظر آتے رہیں۔ ٹرین، اسٹیشن سے جلد ہی باہر نکل آئی۔ دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں۔ ان گھروں کا پچھواڑا ریل کی پٹریوں کی طرف ہے اور سامنے کا حصہ سڑک کی طرف۔ جلد ہی ٹی ٹی بھی آ گیا۔ وہ سب کے ٹکٹ جانچتے ہوئے ہر کسی کو اس کی برتھ پر بٹھانے لگا۔

’’یورس دی اپر برتھ‘‘ ٹی ٹی نے اس نوجوان سے کہا۔ پھر بھی نوجوان نہیں اٹھا، وہ وہیں بیٹھا رہا۔ شاید اس کو لگا ہو گا کہ اس نیچے والی برتھ کا مسافر بہت دیر بعد ہی چڑ ھے گا۔

پر بوڑھیا ٹی ٹی کے آتے ہی اٹھ گئی۔ بیگ سے چھوٹا سا ریلوے پاس نکال کر دکھایا۔ ٹی ٹی ابھی نوجوان ہی تھا، اس نے بوڑھیا کے پاؤں چھو کر اسے نمسکار کیا۔ وہ پاس فریڈم فائٹرز کو دیا گیا خصوصی ریلوے پاس تھا۔ بوڑھے کے بیگ میں چار جیبیں تھیں۔ اس نے چاروں جیبوں کو ٹٹولا۔ آخر میں پاس اوپر کی جیب سے ملا۔ اس کے پاس بھی جنگِ آزادی کے فریڈم فائٹرز کا ریلوے پاس تھا۔ ٹی ٹی نے بوڑھے کو بھی پاؤں چھو کر نمسکار کیا۔ وہ آزادی کے فریڈم فائٹرز کے لئے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنا چاہتا تھا۔

’’ان دونوں آزادی کے فریڈم فائٹرز سے بات کرتے ہوئے وقت کٹ سکتا ہے۔ گزشتہ زمانے کے بارے میں بالکل صحیح معلومات مل سکتی ہیں۔’’ یہ سوچتے ہوئے اس نے ان فریڈم فائٹرز کو بار بار دیکھا۔

’’سر کیا آپ کیرالہ تک جا رہے ہیں؟’’  میں نے انگریزی میں پوچھا۔

’’نہیں اس بار تو نہیں، پر ہاں ایک وقت تھا، جب میں دو ماہ میں ایک بار وہاں ضرور جاتا تھا۔ اس وقت میرے دوست بیرسٹر پِلّے زندہ تھے۔ کیا آپ مسٹر پِلّے کو جانتے ہیں؟ وہ میرے ساتھ یراودا جیل میں تھے۔’’  انہوں نے انگریزی میں ہی جواب دیا۔

ہماری کچھ اور بات انگریزی میں ہوئی پھر میں نے پوچھا، ’’کیا آپ ہندی بولتے ہیں؟’’

’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ بی اے میں وہ میری سیکنڈ لینگویج تھی۔’’  اور وہ روانی سے ہندی بولنے لگے۔

’’آپ کو کتنے سال جیل میں رہنا پڑا۔’’

’’شمالی ہند کی جیل میں چار سال اور پورٹ بلیئر سیلیولر جیل میں دو سال۔’’

’’سیلیولر جیل، کیا وہ عمر قید تھی؟’’

’’چار سال کی قید کے بعد مجھے رہا کر دیا گیا تھا۔ پھر میں سیدھا پٹھان کوٹ چلا گیا۔ وہاں میں دوبارہ باغیوں کے ساتھ مل گیا اور امرتسر پٹھان کوٹ ایکسپریس کو پٹری سے اتارنے کے لئے فش پلیٹ ہٹانے کے جرم میں پکڑا گیا۔ اس وقت مجھے سیلیولر جیل بھیج دیا گیا۔’’

’’آپ پر الزام کیا لگایا گیا؟’’

’’ہم لوگ پٹیالہ کے راجا کی ہندو قوم تھے۔ میں پٹیالہ کے کنگ مہندر کالج میں ایم اے ان انگلش لٹریچر کے سالِ آخر کا طالب علم تھا۔ اچانک قومی زبان کی محبت مجھ میں جاگی۔ کوٹ، ٹائی، پینٹ، انگریزی کتابیں، سب کچھ کالج کے سامنے جلا ڈالا اور قومی زبان کی کلاس میں داخل ہوا۔ پھر ’’بھارت چھوڑو’’ تحریک میں حصہ لیا۔’’

بڑھیا ابھی تک خاموش تھی۔ اسے لگا کہ وہ ہندی بولنے والوں میں سے نہیں ہے۔ شاید کوئی دوسری زبان بولتی ہو گی، اس نے سوچا۔ پھر بھی بات کرنے کے لئے اس نے بڑھیا سے پوچھا، ’’کیا آپ ہندی بولتی ہیں یا انگریزی؟’’

’’دونوں ہی، میں نے ایم اے ان انگلش لٹریچر کیا تھا اور فرسٹ ڈویژن میں پاس بھی ہوئی تھی۔ پر جنگ آزادی میں حصہ لینے کی وجہ سے انگریزی حکومت نے میری ڈگری ضبط کر لی۔ میں ہندی میں بات کرنا پسند کرتی ہوں۔ ہندی ہماری قومی زبان ہے، ہمیں ہندی بولنا چاہئے۔’’  پھر بڑھیا بھی ہندی میں بات کرنے لگی۔

اس نے پوچھا، ’’میڈم۔’’

’’مجھے میڈم نہ کہو۔ ماں یا ماتا جی کہہ کر پکارو۔’’  بڑھیا نے اپنائیت سے جواب دیا۔

’’ماتا جی آپ کتنے سال جیل میں رہی تھیں؟ اور کون کون سے جیلوں میں؟’’

’’ایک ہی جیل میں۔ انڈمان سیلیولر جیل ’’

’’کس جرم میں؟’’

’’سر فرگوسن میورو، میٹروپولیٹن کمشنر آف پولیس دہلی، کو گولی مارنے کے جرم میں۔ صبح سے میں ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ ان دنوں کناٹ پیلس میں اسپینسرز انڈیا کا ایک ریستوران تھا۔ میں نے کمشنر کو وہاں جاتے دیکھا اور ان کے باہر آنے کا انتظار کیا۔’’

بڑھیا مشکل سے اٹھی۔ اس کے ہاتھ ہی نہیں، جسم بھی کانپ رہا تھا۔ بیچ بیچ میں اس کے ہونٹ سکڑ جا تے تھے۔ وہ ہونٹ رگڑ کر بات کرنے لگی۔

’’میں نے ایک گولی چلائی۔’’

’’سر فرگوسن میورو کا گھوڑا باہر کھڑا تھا۔ میں اس پر چڑھ کر نکل گئی۔’’

’’آپ رائیڈنگ جانتی تھیں؟’’

’’ہماری آزاد فوج میں سب سے پہلے رائیڈنگ ہی سکھائی جاتی تھی۔ ان دنوں برٹش کیولری فورس لاٹھی چارج اور بینیٹ چارج وغیرہ کرتے تھے۔ لہذا آزاد فوج میں رائیڈنگ بھی شامل تھی۔’’

بوڑھی ہونٹوں کو دباتی رہی اور پھر لیٹ گئی۔ اس کی ہچکیاں سنائی دیتی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوا۔ گوتم بدھ انسان کے بڑھاپے سے فکر مند تھے۔

اب بوڑھا بات کرنے لگا۔

’’ماؤنٹ بیٹن مشن کا پہلا حکم، انڈمان کے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ ہم دونوں نے جیل سے چھوٹ کر ایک ہی جہاز میں سفر کیا۔’’

’’شاید آپ دونوں وہیں ملے اور محبت ہوئی۔’’

’’شش شش خاموش، ان دنوں ہمیں محبت کرنے کے لئے وقت ہی نہیں تھا۔ بوڑھے نے بڑھیا سے پوچھا کہ گاؤں جا کر کیا کرنے کا ارادہ ہے۔ اس نے کہا کہ سیاست میں تو اترنا نہیں چاہتی۔ بچوں کو پڑھانا چاہتی ہوں۔ بوڑھے نے بھی کہا کہ میرا بھی سیاست چھوڑنے کا ارادہ ہے۔ اس کی بھی خواہش بچوں کو پڑھا کر، جینے کی تھی۔ اس طرح ٹیوشن کلاس شروع کر دیے۔ ان دنوں دہلی میں میرا ایک گھر تھا۔ میں اور میرا بھائی دونوں اس گھر کے حقدار۔ بھائی رنگون میں بہت بڑا ڈاکٹر تھا۔ وہ کبھی واپس نہیں آیا۔ آج بھی ہم اسی گھر میں رہتے ہیں۔ اور اب بھی ٹیوشن کلاس چلاتے ہیں۔’’

’’آپ لوگوں نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟’’

’’ہم بھوپال جا رہے ہیں۔ ہمارا اکلوتا بیٹا وہاں رہتا ہے۔ وہاں پر ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ چلاتا ہے۔’’

تبھی وہاں ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ آئی۔ وہ کچھ پریشان تھی۔ شاید وہ لوگ غلط کوچ میں آ گئے تھے۔ عورت کے بال لڑکوں کی اسٹائل میں چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے تھے۔ وہ بنیان جیسے کپڑے سے بنی ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہوئی تھی۔ وہ ماڈرن دکھائی دیتی تھی۔ شاید وہ ورکنگ وومن رہی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ کسی اونچے عہدے پر کام کرتی ہو۔ کیوں کہ اس کا چہرہ کافی رعب دار تھا اور کانوں میں جگمگاتے ہوئے ہیرے تھے۔

بڑھیا نے تعارف کروایا، ’’یہ میرے بیٹے کی بیوی اور اس کا بیٹا ہے۔ وہ اب تک برابر والے ڈبے میں تھے۔’’

عورت نے ہونٹوں میں سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگائی تھی۔ اس نے پوچھا، ’’یو مسٹ بی فرام کیرالہ۔’’

’’ہاؤ ڈو یو نو؟’’  میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’آئی ایم ورکنگ ان اے اسکاٹش ایڈورٹائزنگ کمپنی، آف کورس اے ملٹی نیشنل۔ ویئر فرام اسسٹنٹ منیجر ٹو پیون آل آر فرام کیرالا۔’’  اس نے ہونٹ سے کچھ حرکت کی۔ اس طرح اس نے کیرالہ کے لوگوں کے تئیں اپنے خیالات واضح کر دیے۔

بوڑھی نے پوتے کو پاس بلا کر تعارف کروایا، ’’یہ ہے میرا پوتا سنپورنانند۔’’

میں نے بچے سے پوچھا، ’’بیٹا تم کہاں پڑھتے ہو؟’’

’’ہندو ویدک انگلش میڈیم اسکول۔’’

’’کس کلاس میں؟’’

’’تیسری کلاس۔’’

بڑھیا کی ماڈرن بہو نے ہاتھوں سے بچے کا منہ بند کر دیا۔

’’یو آرا سٹڈینگ ان ہندو ویدک انگلش میڈیم اسکول۔ افلیٹیڈ ٹو آکسفورڈ۔ ٹاکنگ ان انگلش۔ میڈ یو۔’’

عورت نے بچے کے منہ سے ہاتھ ہٹا دیا۔

بچے نے کہا، ’’تیسری کلاس میں۔’’

عورت کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے بچے کو مارا اور دھکا بھی دے دیا۔ بچے کے ہونٹ اور پیشانی سے خون نکل آیا اور وہ بھاگ گیا۔ وہ عورت مسلسل چیخے جا رہی تھی۔

’’یو انڈین ڈیول ٹاک ان انگلش۔’’

***

 

 

 

 

سانولی مالکن

 

ہری کمار

 

ملیالم کہانی

 

 

ہر روز جھوپڑی کے چبوترے پر بیٹھی ہوئی سُلُو اپنے باپ کو پگڈنڈی سے اوپر جاتے ہوئے دیکھ کر سوچتی ہے کہ میری ماں کب آئے گی؟

کل رات اس نے خواب میں ماں کو پھر دیکھا۔ ماں نے پاس آ کر سُلُو کو گلے سے لگایا۔ ہر روز وہ یہی خواب دیکھتی ہے۔ ماں آتی ہے، اسے گلے سے لگاتی ہے، گود میں بٹھاتی ہیں اور اس کے بالوں کو سہلاتی ہے۔ وہ روز خواب میں ماں کو دیکھتی تو ہے، پر ماں کا چہرہ اسے یاد نہیں رہتا۔ پھر بھی اسے ملنے کا اطمینان رہتا ہے۔

وہ روز صبح اپنے باپ سے کہتی ہے، ’’بابا میں نے ایک خواب دیکھا۔’’

اُس وقت تامی نہیں پوچھتا کہ چار سال کی سُلُو نے خواب میں کیا دیکھا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ سُلُو کون سا خواب دیکھتی ہے۔ وہ روز ایک ہی خواب تو دیکھتی ہے اور کام پر جاتے وقت اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ ماں کو واپس لانے کی بات کو یاد رکھے۔

ہر روز ایسے ہی صبح ہوتی ہے۔ سُلُو کا سارا دن جھونپڑی کے باہر اس چبوترے پر بیتتا ہے۔ ماں کا انتظار کرتے، اکیلے کھیلتے ہوئے، بھوکے پیٹ، کبھی کبھی کانجی پی کر، دیر شام ڈھلے تک، باپ کے کام سے واپس لوٹنے تک۔

مالک کی حویلی کے سامنے سخت دوپہر میں تپتے ہوئے سورج کے نیچے تامی کھڑا ہے۔ دور کھڑے سایہ دار درخت اسے ہاتھ ہلا کر اپنی طرف بلاتے ہیں، لیکن تامی کو زمیندار کا انتظار ہے۔

وہ بار بار کھڑے ہو کر اوپر دیکھتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے۔ آدھے گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعد زمیندار کا نوکر اسے پیغام دیتا ہے، ’’مالک سے آج ملاقات نہیں ہو سکتی۔’’

پر تامی بغیر ملاقات کئے کس طرح چلا جائے۔

جب تامی کی بیوی زمیندار کے گھر آئی تھی، تو یہ طے ہوا تھا کہ قرض کے پیسے واپس کرتے ہی، وہ بیوی کو گھر واپس لے جائے گا۔ لیکن ایسا ہو ہی نہیں پایا۔ آج بھی تامی کے ہاتھ خالی ہیں۔ دو ہزار روپے کا قرض لیا تھا اس نے۔ دو ہزار روپے وہ کہاں سے لائے؟ اور پھر اس کا سود؟ وہ تو اسے معلوم بھی نہیں کہ کتنا ہو گیا ہو گا۔ پھر بھی وہ زمیں دار سے پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا ایک ہفتے کے لئے وہ اپنی بیوی کو گھر لے جا سکتا ہے؟ وہ اِس طرح کی زندگی سے تنگ آ گیا ہے۔

باہر کھڑا ہوا تامی اندر دیکھ سکتا ہے۔ مرکزی دروازے کے اندر اندھیرا ہے۔ اندھیرے کے اندر سے مالکن نمودار ہوئی اور تامی کو کھڑے دیکھ کر پوچھا۔

’’تامی یہاں کیوں کھڑے ہو؟’’

’’ایسے ہی مالکن۔’’

’’تمہیں گابھن گائے نندنی دی تھی۔ سنا ہے ہفتے بھر پہلے بیائی ہے۔ اس کو واپس کب کر رہے ہو؟’’

’’دو دن بعد۔ وید نے ایک دوا دینے کو کہا ہے۔ اس کے بعد نندنی کو واپس کر دوں گا۔’’  تام نے جواب دیا۔

’’اسے جلدی واپس کر دو۔ ہر کسی کو اس کا دودھ چاہئے۔’’

’’ٹھیک ہے مالکن۔’’

اس کے بعد بھی تامی کھڑا ہی رہا۔

مالکن نے پوچھا۔

’’اب کیا چاہئے؟’’

تامی کچھ نہیں بولا۔ بس سر جھکا کر اسے کھجانے لگا۔

مالکن نے پھر پوچھا، ’’بولو تامی کیا بات ہے؟’’

’’حضور میں نے لکشمی کے بارے میں مالک سے کہا تھا۔’’

یہ سنتے ہی مالکن منہ پھلا کر بغیر کچھ جواب دیئے اندر چلی گئی۔ تامی نے اسے گھر کے اندھیرے میں گم ہوتے ہوئے دیکھا۔ ہر روز وہ تامی اور اس کی بیٹی کے لیے کھانے کا کچھ سامان دیتی ہے۔ لیکن آج اس نے وہ بھی نہیں دیا۔

اب وہ کیا کرے؟

کیا واپس گھر لوٹ جائے؟

سُلُو ماں کے بارے میں پوچھے گی، تو وہ کیا جواب دے گا؟

پھر کسی اور دن کا وعدہ کرنا ہو گا، یہ سوچتے ہوئے تامی بھاری قدموں سے آہستہ آہستہ گھر واپس لوٹ گیا۔

حویلی کی دوسری منزل سے دو آنکھیں، گھنے درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے تامی کا پیچھا کرتی رہیں، جب تک کہ وہ ان آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔ اس کے بعد لکشمی نیچے آ کر دوپہر کے کھانے کے لئے زمیندار کا انتظار کرتی ہے۔ پان میں لونگ، الائچی، کتھا، چونا لگا کر بیڑا بناتی ہے۔ اسے سلیقے کے ساتھ پیتل کی تھالی میں سجا دیتی ہیں۔ بستر کی چادر بدلتی ہے۔ تکیہ کا غلاف بدل کر اسے ٹھیک سے لگاتی ہے۔ کپڑے بدل کر سجتی سنورتی ہے اور گلاب کے عطر سے مہک کر، زمیندار کا انتظار کرتی ہے۔

کبھی وہ کھڑکی پر کھڑی ہوتی ہے، تو کبھی فرش پر بیٹھتی ہے۔ اور کبھی کھیت کی طرف درختوں کو دیکھتی ہے۔ کچھ سوچیں اس کے دل کو مسلنے لگتی ہیں۔ اب تک اس کا شوہر گھر پہنچ گیا ہو گا۔ سُلُو نے اپنی ماں کے بارے میں پوچھا ہو گا۔ تامی نے پھر اگلی بار کا وعدہ کیا ہو گا۔ پھر سُلُو نے کیا کہا ہو گا؟

کھٹ، کھٹ، کھٹ

لکشمی کھڑی ہو جاتی ہے۔ چاپیں نزدیک آتی ہیں۔ دروازہ کھلتا ہے۔ زمیندار اندر آتا ہے اور دروازہ بند کر کے چٹخنی اوپر چڑھا دیتا ہے۔ پھر واسکٹ کو اتار کر کھونٹی پر ٹانگ دیتا ہے اور نہانے چلا جاتا ہے۔

لکشمی پلنگ کے کنارے بیٹھ کر پان بنا رہی ہے۔ زمیں دار آ کر کہتا ہے، ’’تامی آیا تھا۔’’

لکشمی خاموش رہتی ہے۔

’’تم جانتی ہو وہ کس لئے آیا تھا؟’’

’’ہوں۔’’

’’تم سوچتی ہو میں تمہیں بھیج دوں گا؟’’

لکشمی خاموشی سے زمیندار کے سینے پر ہاتھ پھیرتی ہے۔ اس کی سانولی انگلیاں زمیندار کے گورے سینے پر موجود بالوں کو سہلاتی ہیں۔ وہ لکشمی کو گلے سے لگاتا ہوا پاس بیٹھنے کی جگہ بناتا ہے۔ لکشمی کو پان کی مہک پسند ہے۔ پان کے ساتھ ملی جلی زمیندار کے جسم کی بو، لکشمی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ لکشمی کے کومل جسم کو لپٹاتے ہوئے، وہ پان کا رس نگل کر کہتا ہے۔

’’تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تام کو دو ہزار روپے دیئے ہیں۔’’

’’ہوں۔’’

لکشمی صرف اتنا ہی بولتی ہے۔

زمیندار کو یہی پسند ہے۔ ایسا نہ کرنے پر وہ ناراض ہو سکتا ہے۔ پر اس وقت وہ ہنکاری لینا بھول گئی۔ اس کے دماغ میں ایک پرانا منظر گھومنے لگا ہے۔ حویلی کے بیرونی آنگن میں وہ تامی کے پیچھے ڈری ہوئی کھڑی ہے۔ زمیندار دوسری منزل کے جنگلے کو چھوڑ کر نیچے آتا ہے اور لکشمی سے پوچھتا ہے میری بات تم کو یاد ہے۔ لکشمی کہتی ہے، ’’ہوں۔’’

’’جب تم دو ہزار روپے سود کے ساتھ واپس کرو گے۔ اس وقت اسے واپس لے جانا۔’’

تام نے اپنے کندھے پر رو مال ٹھیک کرتے ہوئے اور دھوتی کے پلُو سے منہ کو رگڑتے ہوئے سر جھکا کر کہا تھا، ’’جی حضور۔’’

پھر اس نے لکشمی سے پوچھا تھا ’’تمہارا نام کیا ہے؟’’

’’لکشمی۔’’  اس نے کہا تھا۔

’’ٹھیک ہے، ادھر رسوئی میں جاؤ، وہاں مالکن ہو گی۔’’

لکشمی کے لئے ماحول انجانا نہیں تھا۔ دھان کوٹنا، اُڑانا، بہت نوکر، نوکرانیاں اس کام میں مصروف تھیں۔ لیکن اس وقت اس کی حالت الگ تھی۔ وہ مزدوری کرنے نہیں آئی تھی، وہ قیدی تھی۔ اسے ان کی ہنکاریں۔ ان کے چہرے اور ان کے انداز اچھے نہیں لگے۔ نہ ہی ان لوگوں کو لکشمی کا اس طرح آنا اچھا لگا۔ دوپہر میں وہ دوسری عورتوں کے ساتھ چاول اور کانجی کھانے بیٹھی۔ شام کے وقت سبھی عورتیں آئیں اور اپنی اپنی اجرتیں لے کر چلی گئیں۔ لکشمی اکیلی رہ گئی۔ اسے شوہر اور بیٹی کی یاد آنے لگی۔ اندھیرا آہستہ آہستہ گھنا ہو رہا تھا۔ اس کا دل دکھ سے بھر گیا اور وہ رونے لگی۔

اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس رات میں وہ کیا کرے۔ مالکن کا رویہ سخت تھا۔ جانوروں کی مانند۔ لکشمی نے یہ سب سنا تھا، جب مالکن رسوئی میں نوکرانی سے بات کر رہی تھی۔ لکشمی کو معلوم ہے کہ اس نوکرانی کا نام مادھوی ہے۔ چھوٹی کھڑکی کے پیچھے رات کا کھانا تیار کرتے اور آتے جاتے وہ لوگ لیمپ کی روشنی میں نظر آ رہے تھے۔

اسی وقت ایک لالٹین کی روشنی اس کے پاس آئی۔ اب لالٹین اونچی ہو کر، ٹھیک اس کے چہرے کے سامنے تھی اور زمیندار کے چہرے پر کئی سوالیہ نشان تھے۔ پھر وہ بغیر کچھ بولے آہستہ آہستہ دور چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں مادھوی اور مالکن اس کے پاس آئے۔ نوکرانی کے ہاتھ میں ایک کٹوری میں تیل، خوشبو دار صابن، دھوبی کے دھلے اور استری کئے کپڑوں کا ایک جوڑا تھا۔ لکشمی نوکرانی کے ساتھ تالاب پر چلی گئی۔

نہانے کے بعد وہ نئے کپڑے پہن کر گھر لوٹی تھی۔ رسوئی میں اسے بہترین کھانا دیا گیا تھا۔ اس وقت نوکرانی کا رویہ بہتر تھا۔ اسے یاد آیا کہ دوپہر میں کانجی اور چاول دیتے وقت اس کا برتاؤ کتنا سخت تھا۔ اِس وقت مالکن کا رویہ بھی رحم دلانہ تھا۔

آج اس وقت وہ زمیندار کے کندھے پر لیٹے لیٹے سوچ رہی ہے۔ کس طرح وہ دھان والے کمرے سے رسوئی اور رسوئی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر زمیندار کے کمرے تک پہنچ گئی ہے۔ دن، مہینے، سال دھیرے دھیرے گزرتے گئے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ اس ماحول کی عادی ہو گئی ہے۔ اسے یہ بھی نہیں یاد کہ وہ کون ہے۔ بس کبھی اسے احساس ہوتا ہے کہ میرا شوہر، میری بیٹی، میرا گھر میرا انتظار کر رہے ہیں۔

کیا اس کی زندگی کا کوئی مطلب ہے؟

’’ہوں۔’’  اچانک اس کیفیت سے آ کر وہ جواب دیتی ہے، ’’میں اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتی ہوں۔’’

’’ہوں۔’’  ایک بھاری آواز کے ساتھ زمیندار حامی بھرتا ہے۔

اگلی صبح رسوئی میں لکشمی کو، زمیندار کے لئے چائے بناتے ہوئے مالکن نے بتایا۔ ’’آج تمہاری بیٹی آئے گی۔’’

’’اچھا۔’’  وہ کہتی ہے۔

’’زمیندار نے تمہیں نہیں بتایا؟’’

’’نہیں مالکن۔’’

’’تامی کو کسی کے ذریعے سے پیغام بھیجا تھا۔’’

بیٹی سے ملے ہوئے بہت وقت گزر گیا۔ دو سال یا تین سال۔ وہ سالوں کا حساب بھی بھول گئی ہے۔ میری بیٹی بڑی ہو گئی ہو گی۔

لکشمی چائے لے کر زمیندار کے کمرے میں چلی گئی۔ زمیندار اٹھ کر لکشمی کے انتظار میں بیٹھا تھا، اس نے سرہانے تکیہ لگا کر پیٹھ کو پیچھے ٹکا دیا۔ پیروں کو سیدھا کیا اور سامنے پھیلا دیا۔ لکشمی اس کی پائنتی میں بیٹھ گئی۔

’’میری بیٹی کو بلایا ہے؟’’ لکشمی کے سوال میں تشکر چھپا ہے۔

’’ہوں۔’’  بھاری آواز کے ساتھ زمیندار نے کہا، ’’وہ صبح آئے گی اور دوپہر کے بعد واپس چلی جائے گی۔’’

’’ٹھیک ہے۔’’  لکشمی نے جواب دیا۔

’’تمہاری بیٹی کو دینے کے لئے، میں نے نوکر سے دو فراکیں منگوائی ہیں۔’’

’’اچھا ’’وہ خوشی اور طمانیت سے زمیندار کو دیکھتی ہے۔

’’تم جانتی ہو، یہ سب کام میں کیوں کرتا ہوں؟’’

’’ہوں۔’’

’’کیوں؟’’

’’میں تم سے محبت جو کرتا ہوں۔ یہ تم بھی سمجھتی ہو اور ہر روز میرا خیال رکھتی ہو۔’’

’’ہوں۔’’

لکشمی بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہلتی ہے۔ گلیاروں سے کمرے اور رسوئی سے ہوتے ہوئے اس کی آنکھیں سیدھے دروازے پر آ جاتی ہیں۔ دروازے سے آگے سورج کی روشنی میں کھلے کھیت ہیں۔ وہ دل کی آنکھ سے دیکھتی ہے۔ ایک چھوٹی لڑکی باہر سے اس کی طرف چلی آ رہی ہے۔ اس کا دل کرتا ہے کہ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے جائے اور باہر جا کر انتظار کرے۔ پر وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ زمیندار کا حکم ہے کہ وہ باہر نہ جائے۔ وہ چاردیواری کے اندر بنے تالاب تک جا سکتی ہے، پر اس سے آگے نہیں۔ بیرونی صحن میں بھی جانا منع ہے۔ تامی گھر میں کام کرنے کے لیے وہاں آتا جاتا ہے، اس وقت بھی باہر نکلنا یا اس سے ملنا، لکشمی کیلئے منع ہے۔

جب تامی کھیت میں کام کرتا ہے، تو وہ اندر سے اسے دیکھ سکتی ہے پر تامی اسے نہیں دیکھ سکتا۔

وہ پھاؤڑے سے زمین کھودتا ہے۔ پھر تھک کر پھاوڑے کو زمین پر رکھ کر سستاتا ہوا حویلی کی جانب دیکھتا ہے۔ کہ شاید کسی کھڑکی سے لکشمی نظر آ جائے۔ پر وہ اس وقت فوری طور پر اندر چلی جاتی ہے۔ وہ زمیندار سے ڈرتی ہے۔ زمیندار کے ظلم کی کہانیاں، اس نے لوگوں سے سنی ہیں۔ لیکن لکشمی کے سامنے زمیندار ہمیشہ ہی سیدھا بنا رہتا ہے۔

جب بھی زمیندار پیسے لاتا ہے، وہ اندر ہی اندر ڈرتی ہے۔ کیا اسے یہ سب کچھ چھوڑ کر جانا ہو گا؟ اس وقت وہ شرط اسے یاد آئی۔ شرط کا کیا نتیجہ نکلے گا، یہ اسے ٹھیک سے معلوم نہیں۔ اگر تامی نے پیسے واپس کر دیئے، تو اسے یہ سب کچھ چھوڑ کر جانا ہو گا؟ کیا تامی پیسے واپس کر دے گا؟ کیا تام کے پاس اتنے پیسے ہوں گے؟ اس آرام میں رہتے ہوئے، جب بھی اسے بیٹی کا بھولا چہرہ یاد آتا ہے، اسے یہ سب بے کار لگنے لگتا ہے۔

نوکر نے رسوئی کے دروازے سے لکشمی کو پکارا اور ایک پیکٹ تھمایا۔ لکشمی نے پیکٹ کھولا۔ دو خوبصورت فراکیں۔ ایک چھوٹے چھوٹے سرخ پھولوں والی نیلی فراک اور دوسری پیلی ہری ناشپاتیوں والی۔ ساتھ میں دو چڈیاں۔ اسے خیال میں آیا کہ انہیں پہن کرسُلُو کتنی خوبصورت لگے گی۔ سُلُو نے آج تک اتنی خوبصورت فراکیں کبھی نہیں پہنیں ہوں گی۔

تامی سُلُو کو لے کر رسوئی کی طرف پہنچ گیا ہے۔ مادھوی سُلُو کو لے کر اندر آ رہی ہے۔ لکشمی انہیں دیکھ کر آنسو نہیں روک پاتی۔ کتنا دکھ ہے اسے۔ میں تو اپنی بیٹی کا چہرہ تک بھول گئی ہوں۔

سُلُو حیرت سے انجان لوگوں کو دیکھنے لگی۔ یہ اس کی ماں نہیں ہو سکتی۔ اس کی نظریں ماں کو اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگیں۔ لکشمی نے پکارا ’’بیٹی ادھر آؤ ’’اورسُلُو کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ سُلُو حیرت سے لکشمی کو دیکھنے لگی۔ اور کچھ سوچنے لگی۔ یہ اچھے کپڑے پہننے والی، تیل اور صابن سے مہکنے والی عورت کون ہے؟ اس نے ایسی ٹھاٹھوں و الی عورت پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اسی وقت مالکن نے اندر سے آ کر لکشمی سے پوچھا ’’تمہاری بیٹی آئی؟’’

سُلُو ڈر گئی۔ اس کی ماں کہاں ہے؟ اسے یہ عورت نہیں چاہیے، صرف اپنی ماں چاہیے۔ اسے وہاں کھانے کی اچھی اچھی چیزیں ملیں پر انہیں کھاتے ہوئے بھی وہ یہی سوچتی رہی۔ یہ سب کون ہیں؟ میری ماں کہاں ہے؟ کھانے کے بعد لکشمی نے سُلُو کو تیل لگا کر نہلا دیا اور نئی فراک پہناتے ہوئے بولی، ’’دیکھو سُلُو، ماں تمہارے لئے نئی فراک لائی ہے۔’’

سُلُو یہ سن کر خوش ہو گئی، پر اس کی ماں ہے کہاں ہے؟ نئی فراک پہنے ہوئے بھی اس کی آنکھیں، ماں کو ہی کھوجتی رہیں۔ لیکن پوچھتے ہوئے اسے ڈر لگا۔ وہ پوچھے بھی تو کس سے کہ میری ماں کہاں ہے؟

شام کا سورج ڈھلتے ہی کھیت کے سائے طویل ہونے لگے۔ کھیت کے سامنے پہاڑ ہے۔ اس وقت اس کے درختوں پر چڑیاں واپس آنے لگیں تھیں۔ دھان کوٹنے والی عورتیں بھی گھر لوٹنے لگیں تھیں۔ کھیت کے درمیان بنے، جھونپڑوں میں روشنیاں جل گئی ہیں۔ مزدوروں نے خشک پتیوں کو جمع کر کے آگ لگا دی ہے۔ اندھیرے میں دھوئیں کے ایک طرف کھڑا تامی، سُلُو کا انتظار کر رہا ہے۔

نوکر تامی سے باتیں کرنے لگتا ہے۔

’’زمیندار نے سُلُو کے لئے دو فراکیں منگوائی ہیں۔ تمہاری بیوی قسمت والی ہے۔ وہ یہاں آرام سے ہے۔ اسے واپس مت لے جانا۔ بعد میں تمہاری بیٹی بھی یہیں آ جائے گی۔’’

تامی کوئی جواب نہیں دیتا۔ صرف سوچتا ہے کہ میں کیا کہوں۔ دو ہزار روپے اور اس کا سود میں کس طرح چکا پاؤں گا۔ نہ میں کبھی پیسے چکا پاؤں گا اور نہ کبھی لکشمی واپس لوٹے گی۔

کھیتوں کے درمیان بنی میڑوں پر سے گزرتے نوکر، نوکرانیوں کے درمیان اسے ایک نوکرانی کے ساتھ سُلُو آتی دکھائی دی۔ وہ زور زور سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ دوڑ کر پاس آئی۔ تامی نے اسے گود میں اٹھا لیا۔ نوکرانی نے ایک چھوٹی سی تھیلی میں دو فراکیں تامی کو پکڑا دیں اور بولی، ’’تمہاری بیٹی کے لیے تحفے میں دی ہیں۔’’

تامی نے سُلُو کو چوما اور پوچھا، ’’ماں کو دیکھا؟’’

’’ماں؟’’ سُلُو حیرت سے بولی، ’’میں نے ماں کو نہیں دیکھا۔’’

’’زمیندار کے گھر میں کون تھیں؟’’

’’وہاں؟ ایک گوری مالکن تھی اور ایک سانولی مالکن تھی۔ پھر ذرا سا رک کر بولی، ’’وہ سانولی مالکن بہت اچھی ہے۔ اس نے مجھے یہ فراکیں دیں۔’’

’’وہ تمہاری ماں ہے۔’’

’’نہیں۔ وہ میری ماں نہیں ہے۔ وہ زمیندارن ہے۔ سانولی مالکن۔’’  سُلُو اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی اور کچھ سوچنے لگی۔

تامی دیا جلا رہا ہے۔ چراغ کی روشنی میں سُلُو کا چھوٹا سا چہرہ چمک رہا ہے۔ اس وقت بھی سُلُو کچھ سوچ رہی ہے۔ بہت سی باتیں سُلُو کے چھوٹے سے ذہن میں بار بار آ رہی ہیں۔ وہ سوچ رہی ہے کہ یہ سانولی مالکن کون ہے، وہ مجھ سے پیار کیوں کرتی ہے، وہ میرے لئے فراکیں کیوں خرید کر لائی، ان سوالوں کے جواب سُلُو کو نہیں معلوم۔ وہ دھیرے سے پکارتی ہے، ’’بابا۔’’

’’کیا ہے بیٹی۔’’

’’میری ماں کب آئے گی۔’’

***

 

 

 

 

خلاصہ

 

شوبھانگی بھڑبھڑے

 

مراٹھی کہانی

 

 

شام ڈھل گئی تھی آس پاس کے بنگلوں سے ٹی وی کی آوازیں آنے لگیں۔ رات کے اندھیرے میں اس کے قدم تیزی سے چل رہے تھے، پر ابھی تک ونایک راؤ لوٹے نہیں تھے۔ مالتی بائی کبھی اندر اور کبھی باہر کے چکر لگا لگا کر تھک گئی تھیں۔ ’’گھڑی کی سوئی کی مانند ہمیشہ ٹھیک وقت پر واپس آنے والے ونایک راؤ کیوں نہیں لوٹے ابھی تک بھلا؟’’

فکر سے مالتی بائی کا دل بیٹھنے لگا۔ عجیب و غریب قسم کے خیالات دل میں آنے لگے، ’’آنکھوں میں موتیا بند ہے۔ کہیں ٹھوکر۔۔۔’’

سوچوں کا طوفان کھڑا ہو گیا۔ مالتی بائی فون کے پاس جا کر کھڑی ہو گئیں۔ چار بنگلے چھوڑ کر ہی تو سنیتا کا گھر تھا۔ اب تو سنیتا کے گھر بھی فون لگ گیا تھا۔ کیوں نہ اس کو فون کروں، مالتی بائی نے ہاتھ بڑھایا، پر رسیور اٹھایا نہیں۔

’’نہیں سنیتا کو ہی کیوں ہمیشہ تنگ کروں، اپنے مسئلے اپنے آپ ہی حل کرنے چاہئیں۔ اتنا بھی کیا دوسروں پر انحصار کرنا، آ جائیں گے ونایک راؤ۔ ابھی کون سی آدھی رات ہوئی ہے۔’’  انہوں نے خود کو سمجھایا۔

کچھ دیر پہلے پرکاش آ کر پوچھ گیا تھا، ’’موسی اکیلی ہو کیا، آئے نہیں کاکا؟’’

’’ارے کہاں آئے، ان پنشنروں کی گپیں ختم ہوں تب نا۔’’  مالتی بائی بے فکری دکھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

تبھی پرکاش نے بات کا رخ بدلا، ’’موسی کل کریانہ کا سامان لے آؤں گا، ٹھیک ہے نہ اور دوائیں بھی لانی ہوں گی۔ اس کی بھی فہرست دے دو۔ کل صبح ایک کام سے جلدی جانا ہے۔ کل آنا نہ ہو گا ادھر۔’’

مالتی بائی نے فہرست اور پیسے پکڑا دیے۔ پرکاش ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہے اور اویناش روز ہی ورکشاپ سے فون کرتا ہے، ’’موسی کیا بنایا ہے آج۔ واہ بھئی کریلے کی سبزی، گڑ اور املی والی، موسی میرے لئے رکھنا، تھوڑی نہیں، کٹورا بھر کر، بس، میں بس سیر ہو جاؤں تو سمجھو جنت میں گھر بن گیا تمہارا۔’’

’’شرارتی کہیں کا۔’’  مالتی بائی جواب میں فون پر ہی جھاڑ دیتیں، ’’پیٹو کہیں کا، ورکشاپ میں دھیان ہے یا صرف کھانے میں؟’’

پر فون رکھ کر خوشی خوشی کام میں لگ جاتیں۔ کبھی کبھی آنکھیں بھر آتیں اور ونایک راؤ بھی چوری سے آنکھوں کے کونے پونچھتے ہوئے کمرے سے نکل جاتے۔

’’دو بچوں کا باپ ہے تو، پر ہے اب بھی چھوٹا ہی۔’’ مالتی بائی محبت سے پھٹکارتی۔

رات کو سونے سے پہلے پھر اچانک فون بجتا ہے اور اویناش کی فکر مندانہ آواز پھر دل کو مسرور کر دیتی ہے، ’’موسی ساری بتیاں بجھا دیں نا، پچھلے دروازے کی کنڈی بھی لگا لی نا اور ہاں دوائیں کھا لیں؟ کاکا کے پلنگ کے پاس ہی پانی کا لوٹا رکھ دینا اور نیند نہ آئے تو کمپوز کھا لینا اور اگر کچھ ضرورت پڑے تو فون کر دینا۔’’  اتنی ساری محبت بھری تاکیدیں قریب روز رات کو ہی سننے کو ملتیں۔

مالتی بائی نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی اور خیالات کا تانتا ٹوٹ گیا۔ نو بج گئے تھے۔ ونایک راؤ آئے نہیں تھے۔ گھبراہٹ میں مالتی بائی اٹھیں اور فون کی طرف لپکیں تو پاؤں کا انگوٹھا مڑ گیا۔ درد کی کسک اٹھی اور تیزی سے دماغ کو جھنجھنا گئی۔ نیچے بیٹھ کر انگوٹھے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ تلملا اٹھیں۔ غصہ بھی آیا ونایک راؤ پر۔

’’آخر اتنی تو سمجھ ہونا چاہئے انہیں۔ میں اکیلی بیٹھی یہاں فکر کر رہی ہوں۔ نہ جانے کیا باتیں کرتے رہتے ہیں یہ مرد۔’’

پر لمحے بھر میں غصے کی جگہ فکر نے لے لی، ’’نہ جانے کیا ہوا ہے، سر درد بھی تھا صبح۔ کہیں کچھ۔۔۔’’  سوچوں نے جھنجھوڑ دیا۔

’’کہیں چلے تو نہیں گئے ہوں گے گھر چھوڑ کے، کچھ دنوں سے بڑے اداس تھے۔ کہہ رہے تھے، چلا جاؤں گا، کہیں بھی۔۔ کبھی بھی۔۔۔’’  اور مالتی بائی گھبرا اٹھیں، ’’کہیں چلے گئے ہوں گے تو، کہاں ڈھونڈیں گے اتنی رات گئے؟’’

تبھی چولہے پر رکھی کھچڑی کے جلنے کی بو آئی اور مالتی بائی باورچی خانے میں چلی گئیں۔ دو مٹھی دال چاول کی کھچڑی جل کر سیاہ ہو گئی تھی۔ وہ جھنجھلا گئیں۔ نہ تو اب کچھ پکانے کی خواہش ہے؟ اور نہ ہی ہمت۔ ضرورت بھی نہیں۔ دو بوڑھی جانیں کھائیں گی بھی کتنا، جب بچے تھے تو باورچی خانے کا کتنا کام ہوتا تھا۔ ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔

اتنے میں ونایک راؤ آ گئے۔ مالتی بائی ان کے پاس سوفے پر بیٹھ گئیں، ’’آج کتنی دیر کر دی، کہاں تھے؟’’

’’سونالی بیمار تھی۔ وہیں گیا تھا۔’’

’’سونالی، کون سونالی؟’’

’’وہی دیش پانڈے کی سونالی۔’’ ونایک راؤ، دھن میں بول تو گئے۔ مگر پر یاد آیا کہ انہوں نے بیوی سے کبھی سونالی کا ذکر تو کیا ہی نہیں تھا۔

’’آپ کا اس سے بھلا کیا رشتہ ہے؟’’

’’سمجھو تو بہت گہرا رشتہ ہے اور کہو تو کچھ نہیں۔’’

’’مطلب؟’’

’’مالتی، سونالی میں مجھے اپنی سویٹی نظر آتی ہے۔ بس ایک دن آنند پارک میں بیٹھا تھا۔ بچے چھپن چھپائی کھیل رہے تھے۔ تبھی چھ سات سال کی ایک بچی دوڑتی ہوئی آئی اور بولی، ’’دادا میں آپ کے پیچھے چھپ رہی ہوں، بتانا نہیں۔ اپنا کوٹ میرے اوپر ڈال دو۔’’  بس ایسا لگا کہ ہماری سویٹی مجھے مل گئی۔ میں بچی میں مصروف گیا۔ صبح اپنی سیر کا وقت میں نے اس کے اسکول کے وقت پر کر لیا۔ شام کو پارک میں دو تین گھنٹے کس طرح گزرتے ہیں، پتہ تک نہیں لگتا۔’’

’’آپ نے مجھے نہیں بتایا۔’’ مالتی بائی نے شکایتی لہجے میں کہا۔

ونایک راؤ نے بات بدلی، ’’بڑی بھوک لگی ہے۔ کھچڑی تیار ہے؟’’

’’پہلے بتاؤ، آپ آج وہاں کیوں گئے؟’’

’’سونالی کو بخار تھا۔ پتہ لگا تو چلا گیا۔ وہ بھی ضد کر رہی تھی کہ دادا کو کال کریں۔ مجھ سے رہا نہیں گیا۔’’

’’سو تو ٹھیک ہے پر مجھے بھنک تک نہیں پڑنے دی آپ نے۔ اب ایسا کیوں؟’’

مالتی بائی کی آواز میں دکھ تھا۔ ونایک راؤ نے جواب نہیں دیا، نہ ہی مالتی بائی نے دوبارہ جواب مانگا۔

رات کو ہمیشہ کی طرح اویناش کا فون آیا تو مالتی بائی اداس لہجے میں بولیں، ’’ارے اویناش، سب کچھ پاس رکھ لیا ہے، ٹارچ، پانی، دوائیں سب، پر جب قریب کے لوگ ہی دور ہو جائیں تب دل ٹوٹ جاتا ہے۔ زندگی کا خلاصہ نکل جائے تو ہاتھ میں صفر ہی آتا ہے۔ ہے نہ، تب لگتا ہے، سارا حساب غلط ہو گیا ہے۔ غلطی کس کی تھی، پتہ نہیں، پرواز سکھانے والے کی یا خوابوں کا جادو بکھیرنے والے کی۔’’

’’موسی۔’’  اویناش کی سنجیدہ آواز فون پر گونجی، ’’موسی آپ کی آنکھوں میں آنسو ہیں نہ، پہلے آنکھیں پوچھو، پوچھو پہلے آنکھیں، دیکھو موسی، نہ پرواز بری ہے، نہ خواب برے ہیں۔ تمہیں آج کل سب کچھ محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ تمہاری اپنی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔’’

’’بیٹا، زندگی میں جمع تفریق تو چلتی ہی رہتی ہے، جانتی ہوں، پر دل اسی میں الجھ جاتا ہے اور یادیں ذہن سے چپک جاتی ہیں، بس۔’’

’’چلو، اب مالا اٹھاؤ اور جاپ کرو۔’’  اویناش نے حکم بھرے لہجے میں کہا۔

’’مالا پکڑنے سے یادیں چلی جائیں گی کیا بیٹا، ادھر انگلیاں تو ایک ایک منکا سرکاتی ہیں، زبان بھی ایشور کا نام لیتی ہے۔ پر دل بھٹکتا رہتا ہے۔ ہم عام لوگ دل سے جسم کو الگ نہیں کر پاتے۔’’

’’آج کیا ہو گیا ہے تمہیں موسی۔ کہو تو میں آؤں۔’’  ابھی بھی اویناش کی آواز میں فکر تھی۔

’’نہیں رے، بچے، مزے سے سو جا۔ ہوا کچھ نہیں، بس تمہارے کاکا شام کو دیر سے لوٹے تو موڈ ہی خراب ہو گیا میرا۔ اچھا آج ارملا نظر آئی نہیں۔’’  مالتی بائی نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا۔

’’میکے گئی ہے۔ موسی آپ ایک بار سمجھا تو دو اسے، کہو کہ اویناش کا خیال رکھا کرے وہ۔’’  اویناش نے شکایتی لہجے میں کہا۔

’’اچھا بابا۔ کہہ دوں گی۔ تمہاری ماں ڈانٹتی نہیں اسے؟’’

’’ماں؟ ارے دونوں بہویں ماں کی جان ہیں۔ ہم دونوں بھائیوں کو ڈانٹتی رہتی ہیں، پر بہوؤں کو، نہ بابا نہ۔ اب موسی آپ کے بغیر ہم دو بیچارے بھائیوں کو بچانے والا کون ہے بھلا؟’’

اویناش نے تو مذاقیہ لہجے میں ماحول کو ہلکا کرنے کی کوشش کی پر مالتی بائی کا من بھاری ہو گیا۔ سنیتا کی بہوؤں کو ڈانٹنے کا حق اویناش اور پرکاش آرام سے دے جاتے ہیں۔ پر اپنا ملند، اپنی منیشا؟’’

مالتی بائی کو یاد آیا۔ جب سنیتا کی شادی طے ہوئی تھی تب نوجوان مالتی نے لپک کر کہا تھا، ’’اتنی جلدی شادی، سنیتا تعلیم تو مکمل کر لے۔ پھر شادی بھی اسکول ماسٹر سے، انکار کر دے سنیتا۔’’

’’مالتی جو والد صاحب نے طے کیا ہے وہ قبول کرنا پڑے گا۔ میں انکار نہیں کر سکتی۔ ہم دونوں بچپن کی سہیلیاں ہیں پھر بھی مالتی، تیرے حسین خواب، تیری اونچی اڑان کبھی میں اپنا نہ سکی۔’’  سنیتا نے کہا تھا۔

سنیتا گھر گرہستی میں پھنس گئی۔ مالتی نے ایم ایس سی کی اور لیکچرار لگ گئی۔ وہ ہمیشہ کہتی کہ کھانا پکانا، میز لگانا، برتن بھانڈے مانجھنا یہی تو عورت کی زندگی نہیں ہے۔ ’’مجھے خواب پورے کرنے ہیں۔’’  مالتی کہتی۔ خواب ہوں گے تبھی پورے ہوں گے نہ، پر خوابوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یہ نہیں جانا مالتی نے۔ مالتی کیریئر کے پیچھے بھاگی، سنیتا اس دوڑ میں بچھڑ گ     ئی۔ گھر گرہستی کے چکر بھی عجیب ہوتے ہیں۔ سنیتا نے بھی ایم ایس سی کا فارم بھرا تھا، پر اتنے میں ساسو جی بیمار پڑ گئیں۔ دوسرے سال دیور کی شادی اور تہواروں نے چین نہ لینے دیا۔ تیسرے سال خود حاملہ ہو گئی اور پھر سنیتا نے پڑھائی کا خیال ہی چھوڑ دیا۔

مالتی کے اپنے نظریات تھے، وہ کہتی، ’’سنیتا زندگی میں اپنی راہ خود طے کرنا پڑتی ہے۔ قسمت کو تبدیل کرنے کی طاقت ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ سچی طلب اور مضبوط قوت ارادی ہو تو سب ممکن ہے۔’’

سنیتا اپنی گھر گرہستی میں مگن تھی۔ تین بچے تھے۔ سادہ زندگی تھی۔ تنگی بھی تھی۔ مالتی دیکھتی تو اسے ترس آتا سنیتا پر۔ خود مالتی کو انجینئر شوہر ملا اور وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئی۔ سنیتا کہتی، ’’تو بھاگوان ہے مالتی۔ جو چاہا ملا۔ تیرا خود پر اعتماد دیکھ کر میرا سر فخر سے اونچا ہو اٹھتا ہے۔’’

’’میرے والدین نے میری سنی اور میں یہاں تک پہنچی۔ اب شوہر سنیں گے تو میں مزید آگے بڑھو گی۔’’  مالتی نے کہا۔

’’مرد سب کچھ نہیں سنتے مالتی، وہ بھی بیوی کی، بھول جاؤ۔ گھرگرہستی میں شوہر کا حصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ سننا اور ماننا تو عورت کو پڑتا ہے، مرد کو نہیں۔’’  سنیتا پتے کی بات کہتی، تو مالتی چڑا کر چلی جاتی۔

زندگی اپنے ڈھانچے میں بندھتی چلی گئی۔ ملند آیا۔ پھر منیشا۔ پر مالتی کی سوچیں تو آسمان کو چھونا چاہتی تھیں۔

آج مڑ کر دیکھا تو مالتی بائی کا من بھر آیا، ’’میری آگے بڑھنے کی بیکار سوچوں نے آج یہ دن دکھایا ہے۔ جنم گھٹی کے ساتھ ہی میں نے ملند اورمنیشا کو اڑنے کے خوابد کھائے۔ زمین پر پاؤں ہی رکھنے نہیں دیا۔ آج وہ اڑ گئے تو بھول چوک کس کی ہے؟’’

مالتی بائی کو یاد آیا۔ بنگلے کے باغیچے میں گھاس اگی تھی۔ مالی آیا نہیں تو ونایک راؤ کھرپی لے کر آئے اور بچوں کو پکار کر بولے، ’’چلو ملند، منیشا۔ آج گھاس صاف کر کے پھول اگاتے ہیں۔ مالی نہیں آیا تو کیا۔ ہم خود اپنا آنگن پھولوں سے بھر دیں گے۔ بالکل سنیتا موسی جیسا۔’’

یہ سنا تو مالتی بگڑ پڑی، ’’زندگی میں اپنا وجود بھول کر جینے والے بیکار لوگوں میں سے ایک ہیں آپ۔ سنیتا کے باغیچے کی مثال مجھے مت دو، کس کی تعریف کرنی چاہئے۔ یہ بھی پتہ ہونا چاہئے۔ مٹی میں چار پودے اگانے کیلئے عقل کی ضرورت نہیں۔ میرے بچے مٹی میں ایسا کام نہیں کریں گے۔ کبھی نہیں۔’’

’’مالتی، جس مٹی پر ہم کھڑے رہتے ہیں اسی مٹی کو تم انکار کر رہی ہو۔ اسی مٹی کیلئے لوگ جئے ہیں اور اسی کی خاطر مرے ہیں۔ اسی مٹی پر بڑے بڑے معاشرے کھڑے ہوئے اور بکھرے۔ مٹی مطلب۔۔۔۔’’

’’مٹی مطلب مٹی ہی۔ آسمان نہیں۔’’  مالتی نے ونایک راؤ کی بات کاٹی۔

’’ارے، مٹی سے ہی مہک آتی ہے مالتی۔ آسمان سے نہیں۔’’

مالتی سر کو جھٹکا دے کر چلی گئی۔ ونایک راؤ کے فضول سے فلسفے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ایسی کھٹ پٹ تقریباً روز ہوتی اور فتح مالتی کی ہی ہوتی۔ ملند کو اسکول میں داخلہ کروانا تھا۔ ونایک راؤ اپنی تہذیب سے منسلک کسی اسکول میں ڈالنا چاہتے تھے، تو مالتی انگریزی اسکول میں۔ ’’مجھے تو بھائی اچھا لگتا ہے کہ بچے سنسکرت کے اشلوک بولیں، مراٹھی شاعری پڑھیں۔ آخر اپنی تہذیب و ثقافت کو ہمیں ہی سجانا ہے۔’’  ونایک راؤ بولے۔

مالتی نے پیچ کسا، ’’آپ بھی جانے کس دور میں رہ رہے ہیں۔ آخر جیٹ ایج ہے مسٹر۔’’

’’میں تو صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ نرسری کی بجائے بال مندر میں ڈالتے ہیں ملند کو۔ میں نہیں بنا انجینئر، میں کون سا انگریزی اسکول میں پڑھا ہوں؟’’

’’انجینئر ہی ہیں نہ۔ ایسا کیا کر لیا آپ نے؟’’

ونایک راؤ چپ رہے۔ جانتے تھے کہ مالتی کی ضد کے آگے جرح کرنا بیکار ہے۔ مالتی کو ونایک راؤ کائی لگے، زنگ لگے، پرانے سے لگتے تھے۔ کہیں کوئی تال میل نہیں تھا۔ سر بے سر تھے۔

ادھر مالتی کی پوسٹیں بڑھتی گئیں۔ اسکول کی جونیئر لیکچرر سے کالج لیکچرر بنی، پھر۔ پروفیسر۔ قابلیت تھی، جذبہ تھا اور شخصیت بھی۔ ان سب کے ساتھ ساتھ تڑپ تھی اونچی اڑان کی۔ جذبے آسمانوں کو چھو رہے تھے۔

ادھر ملند نرسری سے کانوینٹ میں گیا۔ ہوسٹل میں رہ کر پڑھا۔ ڈاکٹر بنا اور بیرون ملک جانے کی تیاری میں لگ گیا۔ مالتی کا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا۔ منیشا نے مصوری میں مہارت حاصل کی۔ جے جے اسکول آف آرٹس میں پڑھی۔ کامیاب پینٹر بنی۔

ابھی پڑھ ہی رہی تھی کہ جے جے اسکول میں پڑھنے والے سوئٹزرلینڈ کے اپنے ساتھی کی محبت میں پڑ گئی۔ ونایک راؤ بپھر پڑے، ’’میں محبت کی شادی کے خلاف نہیں ہے۔ پر وہ کس مٹی میں بویا جائے۔ اس کی پہچان، منیشا تمہیں ہونی چاہئے تھی۔’’

’’پر بابا۔ محبت کچھ دیکھ کر تھوڑے ہی ہوتی ہے۔’’

’’ٹھیک ہے بیٹی، پر ڈر ہے۔ اس عمر کی محبت کہیں تمہیں پھنسا نہ دے۔ دو مختلف تہذیبیں، کیا سنبھال سکو گی انہیں۔ تم سوئٹزرلینڈ چلی جاؤ گی تو؟’’

مالتی سن رہی تھی باپ بیٹی کا ڈائیلاگ۔ کڑواہٹ سے بولی، ’’منیشا تمہارے بابا محبت کے خلاف نہیں ہیں۔ پر آدمی ہندوستانی ہونا چاہئے۔’’

’’جو ہندوستانی ہے وہی آدمی ہے تو اور کیا جانور ہیں۔ سنیں آپ کی بیٹی انسان سے محبت کرتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ گئی تو کیا بگڑے گا۔ ہوائی جہاز کا کرایہ خرچ کرے گا تمہارا داماد اور منیشا میں بھی ہمت ہے۔ اپنے کارناموں سے آسمان کا رنگ بدلے گی وہ۔’’

’’آسمان کے رنگ بدلنے والی وہ پینٹر ہے۔ میں جانتا ہوں مالتی۔ پر آسمان تو صرف سچ کا نام ہے، سچ نہیں ہے۔’’

اس دن بات یہیں ختم ہوئی پر ہوا وہی جو مالتی اور منیشا نے چاہا۔

جس دن منیشا شوہر کے ساتھ سوئٹزرلینڈ کے لئے روانہ ہوئی۔ اس دن مالتی کو لگا جیسے اس نے آسمان چھو لیا ہو۔ ونایک راؤ مگر رو پڑے تھے۔

کبھی کبھی ونایک راؤ کو خود پر افسوس ہوتا۔ دفتر میں تیز طرار اور سخت مزاج مگر گھر میں ہتھیار ڈال دیتے تھے۔ کئی بار سوچتے، ’’کیوں جھکا میں مالتی کی ضد کے آگے، کیوں بھرنے دی بچوں کو اونچی اڑان۔’’  ویسے پرواز بھرنا تو برا نہیں ہے پر یہ بھولنا بھی تو سراسر غلط ہے کہ اڑنے پر پاؤں تلے کی زمین چھوٹ جاتی ہے۔

جب ملند کو پنچ گنی ہوسٹل میں بھیجنا تھا، تب بھی انہوں نے مخالفت کی تھی۔

’’اتنے چھوٹے بچے کو ماں باپ سے دور بھیجنا ٹھیک نہیں۔’’  انہوں نے کہا تھا۔

مالتی نے تب بھی طنز کیا تھا، ’’آپ اپنی نوکری کی چکی میں ایسے بندھے ہیں کہ اس وسیع دنیا میں امنگوں کے پر لگا کر اڑنے والے پرندوں کی اڑان، آپ کی سوچ سے باہر ہو گئی ہے۔’’

اور ملند کو پنچ گنی بھیج دیا گیا۔

ونایک راؤ کئی بار سنیتا کے گھر کی رونق دیکھ کر اپنے گھر کی خاموشی سے گھبرا جاتے۔ وہاں بچوں کا جھگڑنا، ماں کے گلے آ کر لپٹنا، اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانا، گنیش پوجا، نوراتری وغیرہ کی دھوم دھام رہتی۔ ونایک راؤ کے دل کو یہ سب بڑا لبھاتا تھا۔

لیکن مالتی کو یہ سب ڈھکوسلا برا لگتا۔ اپنے بچپن کی دوست سخت بیوقوف لگتی۔ اس کے شوہر اور بچے پینڈو لگتے۔ چار مکان چھوڑ کر ہی تھا سنیتا کا گھر، ان کے گھر سے۔ پر مالتی کو بھلا وہاں جانا کہاں من بھاتا تھا۔

سنیتا اور اس کے گھر والے مالتی کے پرستار تھے۔ سیدھے سادے لوگ مالتی کی اونچی پرواز دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے۔ مالتی بھی کبھی کبھار ان کے گھر چلی جاتی، خاص طور پر جب بچوں کو کوئی ایوارڈ ملتا یا اسے کوئی اعزاز ملتا۔

مالتی کی امنگوں اور خواہشات کو دیکھ کر ونایک راؤ کہتے، ’’سچ میں تو ایک عام آدمی ہوں۔ چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہیں میری۔ تمہارے اور تمہارے بچوں کی شاہراہ ہی سہی، پر چھوٹی سی پگڈنڈی پر پرانی یادیں لئے چلنا ہی زندگی ہے۔’’

ملند امریکہ جانے لگا، تب بھی ونایک راؤ نے مخالفت کی۔

’’پانچ سال کا تھا ملند، اس کے بعد سے اس کو باہر بھیجا ہے۔ اب اسے گھر آنے دو مالتی۔ گھر گھر لگنے دو۔ دیکھو مالتی، ایم ایس، یہاں رہ کر بھی ہو سکتا ہے۔ اپنے بنگلے کی بائیں جانب بڑا سارا کلینک کھول دیں گے۔ بہو آئے گی۔ پوتے ہوں گے۔ ہمارے اس بڑے بنگلے میں رونق ہو جائے گی۔’’

پر مالتی نے سنی ان سنی کر دی۔

اسی دن شام وقت اویناش اور پرکاش آئے۔ ان کا چھوٹا بھائی انجینئر بن گیا تھا۔ مٹھائی لے کر آئے تھے۔

’’کیا کرنے کی سوچی ہے ستیش نے؟’’ ونایک راؤ نے پوچھا۔

’’بابا کہتے ہیں کہ تینوں بھائی مل کر ورکشاپ کھولو۔ پہلے گرل ویلڈنگ مشین لیں گے پھر لیتھ اور کٹنگ مشینیں لے کر دھندہ بڑھائیں گے۔’’

مالتی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ دیوان پر گاؤ تکیے سے ٹک کر بیٹھی مالتی کسی مہارانی کی مانند با وقار لگ رہی تھی۔ چہرے پر عقل اور فہم کی چمک تھی۔

’’ارے تم انجینئر ہو۔ ٹرنر، فٹر، ویلڈر وغیرہ گرل کا کام کرتے ہیں۔ تم لوگ اپنی ڈگری بیکار میں گنواؤ گے۔’’

’’کیوں موسی؟’’

’’کیونکہ بزنس کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ مارکیٹ پر گرفت کس طرح مضبوط کرو گے اتنی جلدی؟’’

’’ہم تین ہیں موسی، مل کر کر لیں گے۔’’  اویناش بولا۔

’’پر خاندان کا پیٹ بھرے، اتنا پیسہ تو ملنا چاہئے۔’’

’’فیکٹری ڈالنے کے لئے پیسے چاہئے موسی۔ میں پہلے کسی بڑی کمپنی کا یونٹ مانگوں گا۔’’

’’تو لون لے کر فیکٹری ڈالو۔’’

’’لون کے لئے بھی اپنے پاس ذاتی سرمایہ ہونا چاہئے نہ۔’’

’’تمہارے پاس اتنا بھی نہیں ہے تو تمہارا بزنس کیا چلے گا؟’’ مالتی جرح کرتی بولی۔

’’موسی دل میں جذبہ ہو، بڑوں کی دعائیں ہوں اور محنت کرنے کی ٹھانی ہو تو سب آسان ہو جاتا ہے۔’’

’’ٹھیک ہے بیٹا۔’’ ونایک راؤ بولے، ’’نوکری کرو یا کاروبار، پر ماں باپ کو چھوڑ کر مت جانا۔’’

مالتی کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ کئی بار ونایک راؤ اور مالتی، سنیتا کے گھر جاتے۔ مردوں کی ادھر ادھر کی باتیں چلتیں، تو مالتی اور سنیتا میں بچوں کے متعلق باتیں ہوتیں۔ اکثر مالتی ہی بولتی رہتی تھی، کیونکہ ملند اور منیشا کے کارناموں کی ہر خبر سنیتا کو دے کر اپنے فخر کا اظہار کرنا مالتی کی عادت بن چکا تھا۔ سنیتا بھی اس کی خوشی میں شامل ہوتی تھی۔

اس دن بھی دونوں سنیتا کے گھر بیٹھے تھے کہ اویناش تیز تیز آیا۔ اس نے ان دونوں کو شاید دیکھا ہی نہیں۔ آتے ہی بولا، ’’ماں بابا، جلدی تیار ہو جاؤ۔ ڈرامے کے چار ٹکٹ بڑی مشکل سے ملے ہیں۔ بس پانچ منٹ میں چلنا۔’’

سنیتا تیار ہونے کے لئے اٹھی پر مالتی کی منیشا، ملند کی کہانی ختم ہونے کو نہ آئی۔ ادھر اویناش بے چین ہو گیا تھا۔

لوٹتے وقت مالتی خاموش تھی۔ ونایک راؤ بولے، ’’اویناش کی چلبلاہٹ دیکھ ملند کی یاد آ گئی۔ وہ ہوتا تو۔۔۔ گزشتہ دو سالوں سے ملند سے ملاقات بس تصویروں میں ہی ہوتی ہے۔ پنچ گنی سے ممبئی گیا، پھر امریکہ۔ گن کر دس پانچ ملاقاتیں۔’’

اب کی بار مالتی نے شوہر کی بات نہیں کاٹی۔

رات کو ملند کا فون آیا، ’’ماں میں سیٹل ہو گیا ہوں۔ آپ کی خواہش کے مطابق ہر ماہ تین ہزار بھیجوں گا اور ہاں آپ دونوں اپنی طبیعت کا خیال رکھنا۔ بالکل غفلت نہیں کرنا۔ اور ہاں ایک بات اور۔ ہر مہینے کی تین تاریخ کو میں آپ دونوں کو فون کیا کروں گا۔’’

’’سو تو ٹھیک ہے بیٹا۔ پر سنو اتنے پیسوں کا ہم کیا کریں گے؟’’ مالتی بائی مسرور ہو کر بولیں۔

’’رہنے دو نہ ماں، نہ مت کرو۔’’  اور فون کٹ گیا۔

دوسرے ہی دن مالتی نے سنیتا کو فون پر یہ خوش خبری دی۔

’’تین ہزار بھیجے گا؟’’ وہ فخر سے بولی۔

اویناش اور پرکاش کی شادیاں طے ہوئیں، سنیتا کا گھر مہمانوں سے بھر گیا۔ مالتی کے دل میں بھی ملند کی شادی کو لے کر باتیں اٹھنے لگیں۔ ونایک راؤ سے بولیں، ’’دیکھنا ملند کی شادی کیسے ٹھاٹ باٹ سے ہو گی۔’’

رات دیر گئے شادی سے واپس آئے تو فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ مالتی بائی نے لپک کر رسیور اٹھایا اور ملند کو اویناش اور پرکاش کی شادیاں طے ہونے کی خبر دی۔ پھر بولی، ’’ان کی شادی ہونے میں بڑی دیر لگے گی۔ پیسہ نہیں ہے۔ اور بزنس ابھی سنبھلا نہیں ہے۔ لڑکیاں بھی کون دے گا۔ پر ملند تمہارے لئے تو ابھی سے رشتے آ رہے ہیں۔ تم آ جاؤ تو بات پکی کریں۔ سوچتی ہوں، پردیس میں ساتھ ہو جائے گا بیوی کا۔’’

ادھر سے ملند کے ہنسنے کی آواز آئی تھی اور وہ بولا، ’’میرے خط کا انتظار کرو ماں۔’’

خط آنے میں آٹھ دس دن لگ گئے۔ مالتی بائی کے پاؤں زمین پر ٹک نہیں رہے تھے۔ کیسی ساڑیاں لوں، زیورات کون سے خریدوں، لڑکی کیسی ہو، کتنی پڑھی لکھی ہو، ڈاکٹر ہو یا انجینئر، آخر ملند سرجن تھا، امریکہ میں پڑھا تھا، بیوی تو شاندار ہونی چاہئے۔ مالتی تقریباً روز ہی اس موضوع پر بحث کرتی اور ونایک راؤ بھی خوشی سے بات چیت میں حصہ لیتے تھے۔

سنیتا کی بہویں دیکھنے میں عام سی تھیں۔ پڑھی لکھی بھی زیادہ نہیں تھیں۔ پر تھیں سلیقہ مند اور تمیز دار۔ مالتی اور ونایک راؤ کے چرن چھونے آئیں تو دونوں نثار ہو گئے۔

اس رات اچانک منیشا کا فون آیا۔ وہ اپنے پینٹر شوہر کو طلاق دے کر آزاد ہو گئی ہے۔ ونایک راؤ نے کہا، ’’گھر واپس آؤ بیٹی۔’’  تو بولی، ’’بابا یہاں میری پینٹنگز کی نمائش لگی ہے اور اخبارات نے بھی خوب تعریف کی ہے میرے آرٹ کی۔ میرا نام دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ میں اب لوٹنا نہیں چاہتی اور مجھے اکیلے رہنے میں بھی کوئی پرابلم نہیں ہے۔ پھر شادی کے جھمیلے میں، میں اب پڑنا نہیں چاہتی۔ آزادی سے اڑنے کی عادت ہو گئی ہے نہ۔’’

ونایک راؤ زہر کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد اکیلا پن مزید کاٹنے لگا تھا۔

ایک دن اویناش آیا اور پاؤں چھو کر بولا۔ ’’کاکا ایک درخواست لے کر آیا ہوں۔’’

’’کہو۔’’

’’میری فیکٹری میں اگر ایک گھنٹہ آپ میری رہنمائی کریں، تو میری محنت کامیاب ہو جائے گی۔’’

ونایک راؤ دم مان گئے۔

’’گزشتہ آٹھ دس ماہ سے خالی گھر مجھے کاٹ رہا تھا۔ میں ضرور آؤں گا۔’’

ان کا وقت فیکٹری میں کٹنے لگا اور مالتی بائی کا خط کے انتظار میں۔ ملند کا خط آیا اور مالتی بائی ٹوٹ گئیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا تو مگر ونایک راؤ نے ان کے ٹوٹنے کو محسوس کیا۔ پھر بھی مالتی بائی، روزی اور ملند کی تصویریں لے کر سنیتا کے پاس گئیں۔ اسے تصویریں دکھائیں۔ اس نے تعریف کی تو مالتی بائی کو سکون ملا۔ ونایک راؤ نے تصویر یں دیکھ کر کہا، ’’بھئی ہمیں تو اچھی لگی اپنی بہو۔ آخر میرے بیٹے نے محبت کی ہے۔ دوسرے ملک کی ہی سہی۔ وہ بھی تو انسان ہے۔’’

اور مالتی بائی سنتی رہی۔ انہی کے الفاظ تھے۔

اس رات انہوں نے فون کیا۔ ملند، روزی کو ہندوستان بلایا تو ملند بولا، ’’ممکن نہیں ہے بابا، روزی کی ڈیلیوری ہوئی ہے۔’’

’’تو بتایا نہیں تم نے؟’’

’’ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں، ویسے سویٹی کی تصویر بھیج دی ہے۔’’

’’اپنی ماں کی خواہش تھی۔ گود بھرائی کی رسم کرنے کی۔’’

’’یہ رسمیں وغیرہ کیا کرنی ہیں بابا، یہاں دن اتنا بزی ہوتا ہے کہ آپ کو فون کرنا بھی یاد رکھنا پڑتا ہے۔’’  کہا توایسے ہی ملند نے، پر ونایک راؤ کا چہرہ اتر گیا۔ فون ایک دم سے رکھ دیا۔

ان کے چہرے کے تاثرات پڑھ کر مالتی بائی نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟’’

’’کچھ نہیں، ٹینشن ہو گئی۔’’

’’روزی حاملہ ہے نا، پھر تو جانا چاہئے۔’’  مالتی بائی نے جان بوجھ کر جوش دکھایا۔

’’ارے روزی نے پھول سی سویٹی کو جنم دیا ہے۔’’

مالتی بائی ساکت سی ہو گئی۔ لگا پیروں تلے کی زمین کھسک گئی ہے، اڑتے پرندوں کے پر ہوا میں ہی کٹ گئے ہیں۔ ونایک راؤ کئی بار سوچتے ہیں کہ بتا دوں مالتی کو، ’’مالتی تم نے ہی اسے آسمان کے خواب دیے، اونچی پرواز سکھائی۔ پر تم انہیں محبت نہ سکھا پائیں۔ محبت، پیار صرف خون کے رشتے سے ہی جڑا ہو، ایسا نہیں ہے۔ اس کے لئے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے۔ محبت لین دین ہے۔ تم نے منیشا اور ملند کو اپنے سے دور رکھا، انہیں آزاد اور اونچے آسمان میں اڑنا سکھایا پر انہیں لگاؤ نہیں سکھایا۔ اب کہاں ڈھونڈو گی۔ اپنے پوتے پوتیوں کو، منیشا آزاد خیالی سے اپنی زندگی جی رہی ہے۔ بیٹا اپنے میں مگن ہے۔ میں پارک میں جاتا ہوں، سونالی میں سویٹی کو ڈھونڈتا ہوں۔ کیا پایا ہم نے مالتی؟’’

پر انہیں بیمار، ٹوٹی ہوئی، حیران پریشان مالتی کا دل دُکھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔

پندرہ دن پہلے مالتی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ہسپتال لے گئے تو سنیتا کے گھر سے سب بھاگے ہوئے آئے۔ ڈاکٹر نے کہا تھا، ’’مائلڈ ہے، گھبرانے والی بات نہیں ہے۔’’ پر سنیتا، اس کا شوہر، بیٹے بہویں سب فکر مند تھے۔

ایک رات ملند کو فون کیا تو بولا، ’’ماں اچھے سے اچھا علاج کروانا، پیسے کی فکر مت کرنا۔ میں آ تو جاتا پر روزی پریگنینٹ ہے۔ سویٹی کو تو آیا دیکھتی ہے۔ بے بی سیٹر، روزی کے لئے میرے سوا کون ہے اور ہاں منیشا نے دوسری شادی کر لی ہے۔ فون آیا تھا اس کا۔’’

مالتی بائی نے فون پٹخ دیا۔ دل میں سوچوں کا تلاطم اٹھا، ’’آسمان میں پرواز کرنے کا خواب، میں نے ہمت سے بچوں کو سکھایا، تو کیا یہ غلط تھا؟ منیشا کے وجود کو تسلیم کرایا، سوچنے کی آزادی دی، کیا یہ میری بھول تھی۔ بچے وقت سے آگے دوڑنے لگے تو کیا میں اسے اپنی غلطی مانو؟’’  مالتی بائی نہ بچوں کو دوش دے سکتی ہیں نہ اپنی غلطی قبول کرنے کا ان میں حوصلہ ہے۔

مالتی بائی آنکھیں موندے لیٹی ہیں۔ سوچ رہی ہیں، ’’کیا ہے آخر زندگی کا خلاصہ، یہ غلطیاں، یہ بھول، یہ تنہائی، یہ اکیلا پن، شکست خوردہ ہیں وہ کسی پر کٹے پرندے کی طرح ’’

***

 

 

 

 

یادیں

 

کملا سروپ

 

نیپالی کہانی

 

 

باہر سرد ہوا کے جھونکے چل رہے تھے اور کھڑکی کھولنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ باہر گھنا کہرا چھایا ہوا تھا اور اندھیرا ہونے ہی والا رہا تھا۔ اسی لئے کھڑکی سے دکھنے والی کھلی اور وسیع سڑک بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ پہلے تو شام ہونے پر بھی کافی لوگ چہل قدمی کرتے نظر جاتے تھے۔ پر شاید دسمبر کی شام ہونے سے لوگوں کی چہل قدمی بہت کم ہو گئی تھی۔ لوگ اکا دکا ہی دکھائی دے رہے تھے۔

’’میں جا رہا ہوں۔’’

تمہارے لہجے سے میں چونک گئی۔ ویسے تم جا رہے ہو۔ مسرت اگر دل کی گہرائیوں سے ہو تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ تم بول رہے ہو اور میں یاد کر رہی ہوں، کیسے ہمارے بیتے ہوئے دن اس خالی سڑک جیسے اداس اداس ہیں۔

’’لوگ اپنی اپنی طرز زندگی اپناتے ہیں۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ سبھی لوگوں کی طرزِ زندگی محبت کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔’’  ایک دن اچانک راستے میں ملاقات ہونے پر تم نے یہ باتیں کہی تھیں۔ پاس ہی کی دکان پر چائے پینے کیلئے تم نے چلنے کو کہا تھا۔

’’سمجھیں؟ لوگوں کے رشتے کو اونچے معنوں میں ظاہر کرنا چاہئے، ایسی ماننا ہے میرا۔’’  تمہارے سوال کا جواب تو مجھے نہیں ملا، پر مجھے لگا تم یقینی طور ایک کنارہ پکڑ رہے ہو۔ یہ واقعی اچھی بات تھی، ایسا محسوس کیا میں نے۔

’’زندگی ہماری تعریف کے مطابق تو چلنے سے رہی، آج صاف دکھائی دیتا ہے کہ انسان کی زندگی شدید مشکلات سے گزر رہی ہے۔’’  میں نے چائے کی پہلی چسکی لینے سے بھی پہلے، کہا تھا۔

تم ہنسے تھے۔ مجھے یہ لگ رہا تھا کہ تم مجھ سے متفق نہیں۔ یہ یقیناً میرے لئے خوشی کی بات تو نہیں تھی، پر میں نے تمہارے چہرے پر دکھ کی پرچھائیاں آنے نہیں دیں۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا، تمہارے ساتھ یہ چھوٹی اور اہم ملاقات، ناحق ضائع نہیں کرنی تھی مجھے۔

’’ہر صورت میں خوش ہونے کے لئے، صبر چاہئے۔’’ تم بولے تھے۔

’’ہاں ہر دکھ اور مصیبت میں صبر ہی تو سہارا ہے۔’’  میں نے بھی اپنے جمے ہوئے جذبات انڈیل دیئے۔

’’پر ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہر صورت کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جسے جھیلا نہ جا سکے۔’’  میں بولتی رہی تھی۔ تم نے باتیں جاری رکھنے کے لئے ایک ایک کپ چائے اور پینے کی تجویز پیش کی اور پھر ہم دوسرا چائے کا کپ پینے میں لگ گئے۔

’’سردی میں چائے پینے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ہے نا؟’’ میں ہنس دی تھی تمہارے سوال پر۔

میں نے کہا۔ ’’اب چلیں؟ اندھیرا بڑھنے لگا ہے۔’’

ہم وہاں سے اٹھنے لگے اور تمہارا چلنا میں ساکت ہوئی دیکھتی رہی۔ میرے پاس تمہارے کئی سوالوں کے جوابات نہیں تھے۔

اسی طرح ہماری اگلی ملاقات اچانک ہی ایک مصروف اور گھر سے بہت دور واقع شہر کی سڑک پر ہوئی تھی۔ واقعی مجھے کبھی یقین نہیں تھا کہ ہماری ملاقات اُس شہر میں بھی ہو سکتی ہے۔

’’میں گھومنے کے لیے آیا ہوں۔’’  بن پوچھے ہی تم کہہ گئے تھے۔

’’میں بھی گھومنے ہی آئی ہوں۔’’  میں نے بھی تمہاری ہاں میں ہاں ملائی تھی۔

’’پھر ایک ساتھ باہر گھومنے چلیں؟’’ تمہاری تجویز کو میں نہیں ٹھکرا سکی تھی اور کیسے ہم دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومے تھے۔

میں اب یاد کر رہی ہوں، کیسے شام کو تم میرے لئے گُرانس کے پھولوں کا گلدستہ لے آئے تھے اور ساتھ میں گریٹنگ کارڈ بھی۔ میں ویسے بھی جھوم اٹھی تھی اور سچ کہوں، تمہارا دیا ہوا کارڈ اور سوکھے ہی سہی وہ گُرانس کے پھول، اب بھی کمرے میں سجا کر رکھے ہیں میں نے۔ شاید وہ کارڈ اور پھول ہی آخری تحفہ تھے، میرے لئے تمہاری طرف سے۔

دوسرے دن سویرے ہی ہم ساتھ ساتھ گھومنے نکل گئے تھے۔ شاید وہی آخری صبح تھی تمھارے ساتھ۔ اس کے بعد بہت برسوں تک ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ سویرے اوس، ہاتھ بھر گُرانس کے پھول اور میٹھی سی سرد ہوا کے ساتھ ہم نے کیسے تین گھنٹے لمبا راستہ پار کیا، پتہ ہی نہیں چلا تھا۔

’’میں چاہتا ہوں، اس صبح جیسی تازگی بھری اور ان گُرانس کے پھول جیسی خوبصورت ہو تمہاری زندگی۔’’  تم کسی شاعر کی طرح بولنے لگے تھے اور میں آہستہ آہستہ دھیمی دھیمی ہوا میں چلنے لگی تھی۔

’’اس بڑھتے ہوئے چاند کو دیکھو تو۔’’  ہوٹل کی چھت پر پاؤں رکھتے ہی تم چلا اٹھے تھے۔ میں نے دیکھا آدھی رات کو چاند کیسے روشنی اور خوشی کی علامت بن کر جھلملا رہا تھا۔

’’دیکھو، یہ زندگی تو عارضی ہے۔ مگر یہ چاند ہمارے مر جانے کے بعد بھی اسی طرح چمکتا رہے گا اور انسان کو سکون اور ٹھنڈک پیش کرتا رہے گا۔’’  تم جذباتی ہو گئے تھے اور میں کیسے چمکتے ہوئے چاند کو دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ میری آنکھیں نم ہو چلی تھیں اور تم نے میرے آنسو پونچھ دیئے تھے۔ تب معلوم ہوا کہ میں رو رہی تھی۔ تمہارے ہاتھوں کا لمس، سچ کہوں تو اب بھی محسوس کر رہی ہوں۔

’’اوہو، ایک دن تو ہم سب مر جائیں گے۔’’  میں یوں ہی اداس ہو چلی تھی۔ میری اداسی کو نظر انداز کر کے تم ہنسنے لگے تھے۔

’’سنو میں زیادہ تر گھر کی چھت پر بیٹھ کر چاند پر نظمیں لکھتا رہتا ہوں۔ اس تناؤ بھری زندگی میں چاند کے سکون کی اہمیت ہی کچھ اور ہے۔ کاش! سارے زندہ لوگ محبت بھری زندگی جیتے تو اس دنیا کی بات ہی کچھ اور ہوتی۔ کیوں لوگ اتنے متشدد ہوتے ہیں؟ کیوں ایک دوسرے کا قتل کرتے ہیں، بے رحمی کا طوق کیوں اپنے گلے میں پہنتے ہیں؟ کیوں اتنی سسکتی زندگی جیتے ہیں لوگ؟ میں تو یہی چاہتا ہو، بیکار میں آدمی کو مرنا نہ پڑے اور ہر زندہ آدمی کا جینے کا حق یقینی ملے۔’’

تمہیں دیکھ کر اور تمہاری باتیں سن کر میں ہنس دی تھی۔ زخمی ہنسی ہنسنا کتنا دشوار ہوتا ہے یہ محسوس کیا ہے میں نے۔ تمہارے کئی سوالات کے جوابات میرے پاس نہیں ہیں۔ پھر بھی میں یاد کر رہی ہوں۔ واہ! کیا غضب کا وقت تھا وہ، لگتا تھا وقت کو آرام سے پکڑے رہوں۔ سچی، میں نے اس دن سوچا تھا، یہ رات کبھی نہ گزرے اور صبح کبھی نہ آئے۔

’’چاند جیسی ہی خشک اور خاموش زندگی جی پاتے، کتنا اچھا ہوتا نا؟’’ میں تمہارے اس سوال پر صرف سر ہلا پائی تھی اور لفظ جیسے کھو سے گئے تھے۔ دل جذباتی سا بن گیا تھا، ’’سنا تم نے، چاند ہر آدمی کو ٹھنڈک فراہم کرتا ہے، کیونکہ چاند کا مطلب ہے امن، اور امن سے بڑی چیز اس زمین پر دوسری نہیں ہو سکتی۔’’  باتیں تو ختم نہیں ہو رہی تھیں پر چونکہ رات گہری گئی تھی، تو ہم اپنے اپنے کمرے کی طرف سونے کیلئے چل دیئے تھے۔ مجھے رات بھر نیند نہیں آئی تھی اور کانوں میں تمہارے ہی الفاظ گونجتے رہے تھے۔ کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کمرے کو ٹھنڈا کر رہے تھے۔ میں رات بھر بن سوئے صرف چاند کو دیکھتی رہی تھی۔

’’میں جا رہا ہوں، امید کرتا ہوں، ہماری ملاقات پھر ہو گی، ویسے تو میں اس ملاقات کو زندگی بھر محفوظ کر کے رکھوں گا۔ ہر صبح، تمہیں خوشی اور ابدی مزا دے، یہی خواہش کرتا ہوں۔’’  الوداعی ہاتھ ملاتے تم نے کہا تھا۔ تم سے بچھڑ کر بس میں، دارالحکومت لوٹتے وقت دل رقیق ہو چلا تھا۔

دارالحکومت واپس لوٹنے کے بعد کئی ماہ تک ہماری ملاقات نہیں ہو سکی۔ ہم دونوں مصروف ہو گئے۔ جینے کیلئے جی توڑ محنت کرنے کی ضرورت تھی تمہیں بھی، اور مجھے بھی۔ تعلیم کیلئے بیرون ملک جانے سے پہلے میں تم سے ملنا چاہتی تھی۔ میں سمجھتی تھی ایسی ملاقاتیں ہماری دوستی کی گرہ کو مضبوط کریں گی اور اعتماد بڑھائیں گی۔ بہت طویل وقت کیلئے اپنے وطن اور دوستوں کو چھوڑ کر جانے پر دل میں ٹیس اٹھ رہی تھی اور ذہن خالی ہو رہا تھا۔ ’’آدمی اکیلا پیدا ہے اور اکیلا ہی مرتا ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان باقی دن دوستی کیلئے اہم ہیں۔’’  میری ماں ہمیشہ ہمیں سمجھایا کرتی تھیں۔

تم سے ملنے، میں سویرے ہی عام سے کپڑوں میں تمہارے کرائے کے کمرے کی طرف دوڑ چلی تھی۔ میرے گھر سے تمہارے گھر کا فاصلہ قریب گھنٹے بھر کا تھا اور ایک چوراہا بھی پار کرنا پڑتا تھا، پر دو گھنٹے کی بھاگ دوڑ کرنے اور تلاش کرنے پر بھی نہ تمہارا کمرہ ملا، نہ تم ملے تھے۔ میں اداس اداس لوٹ آئی تھی۔ سڑک کے چاروں طرف تمہارا کمرہ ڈھونڈتے وقت، محلے کی تمام عورتوں نے کھڑکیاں کھول کر مجھے گھورا تھا۔ بعد میں پتہ چلا سب عورتیں میرے خلاف محاذ باندھے کھڑی تھیں۔ میں تم سے ملنا چاہتی تھی اور چھوٹی سی ہی سہی، ایک خوبصورت سی نظم تمہیں تحفے میں دینا چاہتی تھی۔

’’مجھے معلوم پڑا تم کل تعلیم کے لئے بہت دور جا رہی ہو، ہو سکتا ہے ہماری ملاقات نہ ہو۔ چھ سات برس تو لمبا عرصہ ہے، ہو سکتا ہے ایک دوسرے کو بھول جائیں۔’’  تم نے فون کیا تھا۔ لگتا تھات م جلدی میں تھے۔ تم نے زیادہ بولے بغیر ہی رسیور رکھ دیا تھا۔ ’’تم جہاں بھی رہو خوش رہو۔ تمہاری ہر کامیابی کیلئے دعا کرتا ہوں۔ اگر خدا نے چاہا تو ہم پھر ملیں گے۔’’

فون پر تمہارے کہے ہوئے آخری لفظ تھے یہ۔ آج سالوں بعد تم بھی کہیں باہر جا رہے ہو، حیرانی تو نہیں ہوئی پر بیتے ہوئے دن، اس ختم نہ ہوتی سڑک کی طرح یاد آتے رہے۔ آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھنے کی ناکام کوشش کر رہی ہوں۔

***

 

 

 

 

مد مقابل

 

وپن بہاری مشرا

 

اڑیا کہانی

 

 

ماں باپ نے بڑے شوق سے وِگھن راج نام رکھا تھا۔

انہیں معلوم تھا کہ بابو وِگھن راج، تالچھیر ٹرین کی طرح رک رک کر ایک ایک کلاس پار کرے گا۔ میٹرک پاس کرتے کرتے وہ بیس سال کا ہو گیا۔ خودرو گھاس کی طرح چہرے پر داڑھی مونچھیں اُگ آئیں۔ دماغ تتلی کی طرح اُڑنے لگا۔ کالج میں تین سال لگا کر مکمل طور مشہور۔ سبھی اچھی طرح جان گئے بابو وِگھن راج کو۔ امتحان ہال میں قلم کے ساتھ ساتھ چاقو بھی چلایا، پھر بھی فائدہ نہیں ہوا۔

ایک دن اس کے جگری دوست امریش نے آ کر سمجھایا۔

’’بھائی اس تعلیم سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ مان لو، گھسیٹ گھسیٹ کر، کسی طرح ہم لوگوں نے بی پاس کر بھی لیا، تو بھی زیادہ سے زیادہ سب انسپکٹر یا حوالدار ہی تو ہوں گے۔ روز وزیر کو سو سلام ٹھوکنے ہوں گے۔ بات بات پر ڈانٹ پھٹکار اور قدم قدم پر ٹرانسفر کی دھمکی۔

اس غلامی سے تو اچھا ہے کہ چلو سیاست کریں گے۔ وہ کشور ہے نہ ارے وہی، ہمارا دوست، تین بار بی اے میں فیل ہوا۔ آج ایم ایل اے ہے۔ آگے پیچھے گاڑی چکر کاٹتی پھرتی ہے۔ لکشمی رات دن گھر آنگن میں گھنگھرو کھنکھناتی رہتی ہے۔ بڑے بڑے آفیسرز ہر وقت صبح شام خوشامد کرتے رہتے ہیں۔’’

’’لیکن بھائی امرو، سیاست کرنا کیا اتنا آسان ہے۔ آج جو لوگ پیر چھو کر نمسکار کریں گے، وہ ہی لوگ پان سے چونا کھسکتے ہی، جوتوں کے ہار پہنانے کے در پر ہو جائیں گے۔ لوگوں نے انہیں جوتا ہار پہنا کر پورے گاؤں گھمایا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کس طرح سر پنچ کی بولتی بند ہو گئی تھی۔ اسی دن میں نے دل ہی دل قسم میں کھا لی کہ کچھ بھی کر لوں گا، لیکن سیاست نہیں کروں گا۔’’

’’نہیں رے بھائی نہیں، اگر مناسب طریقے سے سیاست کرنے کا ہنر سیکھ لیا، تو جوتوں کا ہار کیوں پہنے گا؟ لوگ پھولوں لے ہار لئے انتظار جو کریں گے۔ بس چار پانچ سال اقتدار میں رہ جانے پر، سنیما ہال سے لے کر پٹرول پمپ تک بنوا لے گا۔ اس کے بعد سات پشتوں تک آرام سے ملائی پوری اڑاتا رہے گا۔ تُو  تیار ہو جا، باقی انتظام میں کروں گا۔ میری بھابھی کے ماموں کے لڑکے کے چھوٹے بھائی کے موسیا سسر کا لڑکا، ارون بھائی پکا سیاست دان ہے۔’’

’’اس سے ایک آدھ سال کی ٹریننگ لینے پر وزیر، ایم ایل اے، خود ہمارے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ ہمارے ہاتھ میں ووٹ ہے اور جب ہم لوگ ووٹ کا جگاڑ کریں گے، تبھی تو وہ لوگ ایم ایل اے، وزیر بنیں گے۔’’

’’نہیں امرو، وزیر کی بات مت کر۔ ایک بار گیا تھا وزیر سے ملنے۔ دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور اس کے بعد سنتری نے آ کر گائے بکری کی طرح ہانک کر نکال دیا۔’’

’’اوہ، تُو  تو ہر جگہ گوبر ہی دیکھتا ہے۔ اگر کسی صحیح آدمی کو لے کر جاتا، تو وہی سنتری تجھے سلام کرتا۔ ارے بھائی، وزیر تو گلاب کی جھاڑی ہے۔ تو اگر پھول توڑنے کے بجائے کانٹوں میں ہاتھ لگائے گا، تو اس میں گلاب کی جھاڑی کا کیا قصور ہے؟’’

امریش کی منطق کے آگے وِگھن راج کا کچھ بس نہیں چلا۔ وہ راضی ہو گیا۔ دونوں ارون بھائی کے دربار میں پہنچے۔ پیکٹ سے تھوڑا سا پان پراگ نکال کر منہ میں ڈالتے ہوئے ارون بھائی نے کہا، ’’وہ سامنے بجلی کا کھمبا کی نظر آ رہا ہے؟ ۔ جانتے ہو ایک چیونٹی کو اس پر چڑھنے میں کتنا وقت لگے گا؟ وہ آسانی سے تو اوپر نہیں پہنچ سکتی۔ کئی بار گرے گی، پھر چڑھے گی، تب کہیں اوپر پہنچ پائے گی۔ سیاست میں بھی اسی طرح اٹھو گے، گرو گے اور پھر چڑھنے کی کوشش کرو گے، تب کہیں جا کر اوپر پہنچ پاؤ گے۔ اس میں کافی وقت لگتا ہے۔ یہاں ایک رات میں داڑھی لمبی نہیں ہو جاتی۔ وقت لگتا ہے۔ سیاست کے تمام داؤ پیچ سیکھنے پڑتے ہیں۔ کامیابی کو حاصل کرنے سے پہلے ہزار بار دھرنوں، ہڑتالوں، جلاؤ گھیراؤ، لاٹھی چارج کے درمیان سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیل جانا پڑتا ہے، کیا تم لوگ اس کے لئے تیار ہو؟’’

وِگھن راج سوچ میں پڑ گیا۔ سب تو برداشت کر لیں گے، لیکن پولیس کے لمبے ڈنڈے کا زبردست وار، نہ رے بابا نہ، مجھے نہیں کرنی ہے سیاست۔ امریش نے وِگھن راج کے چہرے پر ابھرتی ہوئی ہچکچاہٹ بھری لکیروں کو پرکھا۔ پھر جھٹ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کی طرف نکالا اور آگے بڑھ کر بولا، ’’بھائی آپ آگ میں کودنے کے لئے بھی کہیں گے، تو ہم کود جائیں گے۔ بس ہمیں آپ کا آشیرواد چاہئے۔’’

ارون بابو کی ٹیم میں شامل ہوتے ہی، دونوں کو راستہ روکنے کا کام مل گیا۔ سامنت ٹولا کالج کو ملنے والی سرکاری گرانٹ اور بجلی کی غیر منصفانہ فراہمی وغیرہ کے معاملات کو لے کر، کالج کے لڑکوں نے ’’راستہ روکو مہم‘‘ کی منصوبہ بندی کی۔ ارون بابو نے تین سو روپے پکڑاتے ہوئے ان سے کہا، ’’دیکھو راستہ روکو مہم شروع کرنے پر پولیس، مجسٹریٹ وغیرہ آ کر بہت کچھ کہیں گے، ہر طرح سے سمجھائیں گے، دھمکائیں گے، لیکن کچھ نہیں سننا۔ جب تک میں نہ کہوں، راستہ روکے رکھنا۔ صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک بالکل پہیہ جام۔ ایک بھی گاڑی آگے نہیں جانا چاہئے۔ گاڑیاں بند ہونے پر ہی حکومت خوابِ غفلت سے جاگے گی۔ ایک دیگچی میں چیوڑا اور گڑ تیار رکھنا۔ بھوک لگنے پر پہلے خود کھانا اور مانگنے پر دوسرے لڑکوں کو بھی کھلانا، لیکن ایک لمحے کیلئے بھی راستہ چھوڑ کر کہیں مت جانا۔’’

منصوبے کے مطابق تقریباً پچاس لڑکے نیشنل ہا ئی وے کو روک کر بیٹھ گئے۔ سب سے آگے وِگھن راج اور امریش تھے۔ ان لوگوں نے دل ہی دل میں قسم کھائی تھی کہ سر اگرچہ اتر جائے، لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں گاڑیاں ایک کے بعد ایک آ کر کھڑی ہو گئیں۔ پولیس آئی۔ مجسٹریٹ آیا۔ ان لوگوں نے بہت سمجھایا، لیکن لڑکوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ سب اسی طرح ڈٹے رہے۔

ڈرائیوروں کا لیڈر آگے آ کر بولا، ’’سر آپ ہم لوگوں پر چھوڑ دیجئے، ہم لوگ انہیں سمجھ لیں گے۔ تا زندگی یاد رکھیں گے، اس راستہ روکو مہم کو۔’’

’’لیکن کچھ ایساویسا نہیں ہونا چاہئے، برداشت سے کام لینا ہے۔’’  مجسٹریٹ صاحب نے سمجھایا۔

تین چار گھنٹے بعد ارون بابو آئے۔ انہوں نے لڑکوں کو بتایا کہ حکومت نے ہمارے سارے مطالبات پر ہمدردی سے غور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ لڑکوں نے ارون بابو کا اشارہ پاتے ہی راستہ روکو مہم ختم کر دی۔ بند کے ٹوٹتے ہی جیسے پانی کا ریلا ہر ہرا کر آگے کی طرف بھاگتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس ہائی وے پر گاڑیوں کی لمبی قطار آگے بڑھ گئی۔

’’ارے واہ، تم لوگ دن بھر یہاں دھوپ میں اپنا ستیاناس کرتے رہے اور وہاں تمہارے ارون بھائی نے پارٹی والے سے پانچ ہزار روپے اینٹھ لئے۔’’  مخالف پارٹی کے ایک چھوٹے بھیا نے آ کر جب ان لوگوں سے کہا، تو ان لوگوں نے اپنا ما تھا پیٹ لیا۔

مخالف لیڈر کی باتیں سن کر وِگھن راج نے امریش سے کہا، ’’بات سچ لگتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمیں چھ بجے صبح سے شام چھ بجے تک راستہ روکنے کے لئے کہا گیا تھا اور خود تمہارے ارون بھائی نے دس بجے دن میں ہی دھرنا کیوں توڑ دیا؟’’

جب دونوں نے جا کر ارون بابو سے اس کے بارے میں پوچھا، تو ان کے آدمیوں نے انہیں وہاں سے دھکا مار کر باہر کر دیا۔

راستہ روکو مہم کی خبر گاؤں تک پہنچ گئی اور جب وِگھن راج اپنے گاؤں پہنچا، تو باپ نے خوب پٹائی کی۔ وِگھن راج رات کو ہی گاؤں چھوڑ کر امریش کے پاس شہر لوٹ گیا۔

وِگھن راج نے امریش سے کہا، ’’بھائی کوئی اور راستہ نکالو۔ یہ سیاست ویاست مجھ سے نہیں ہو گی۔ ایسا کوئی دھندہ بتاؤ، جس میں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ بس سال دو سال میں کسی طرح ہم لوگ لکھ پتی بن جائیں۔’’

امریش کچھ دیر تک سوچتا رہا۔ پھر اچانک اس کے دماغ میں کچھ کوندسا گیا۔ وہ مسکراتا ہوا بولا، ’’ارے وِگھن، تو نے کبھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے؟ ۔ تجھ جیسے خوبصورت چہرے والے کتنے لوگ ہیں؟ شادی کی خبر ملتے ہی لڑکی والے پیشکشیں لے کر دوڑیں تیرے پاس۔’’

’’مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے۔’’  وِگھن راج نے کہا۔

’’شادی کرنے کے لئے تجھے کون کہتا ہے؟’’

’’تو؟’’

’’ہم لوگ شادی کرنے کا کاروبار کریں گے۔ شادی ہوتے ہی اڑن چھو۔ پھر کون تلاش پائے گا۔’’

’’اگر پکڑے گئے؟’’

’’کلکتہ، بمبئی جیسے بڑے شہروں میں کون کسے پہچانتا ہے۔ ہم لوگ اپنا اپنا نام بدل لیں گے۔’’

دونوں اس نئے دھندے کے لئے متفق ہو گئے۔ باہر جانے کے لئے خرچے کا جگاڑ امریش نے کیا۔ اپنے باپ کو نہ جانے اس نے کیا سبق پڑھایا کہ انہوں نے زمین کا ایک ٹکڑا فروخت کر کے پانچ ہزار روپے کا بندوبست کر دیا۔

دونوں دوست کلکتہ جا پہنچے۔ وہاں شیام بازار میں ایک کرائے کا مکان لیا۔ چھ ماہ کا ایڈوانس دے دیا۔ نام بدل کر رمیش اور مہیش رکھ لیا۔ مہیش نے رمیش کے بیاہ کے لئے ایک تاجر کی بیٹی سے بات چیت چلائی۔ تاجر اپنی بیٹی کی شادی کے لئے بہت فکر مند تھا، کیونکہ اس کی لاڈلی بیٹی دو بار الگ الگ لڑکوں کے ساتھ گھر سے بھاگ کر بدنامی کے بازار میں خوب نام کما چکی تھی۔ رمیش کے لئے شادی کی پیشکش تو کر دی گئی۔ لیکن پہلا سوال یہ اٹھا کہ لڑکے کا باپ کون بنے گا اور باراتی کہاں سے آئیں گے؟

’’ارے بھائی، سب کرائے پر مل جاتے ہیں۔ روز کے بیس روپے اور پیٹ بھر کھانے پر ڈھیر سارے لوگ مل جائیں گے۔ ان میں سے کسی ایک کو باپ اور باقی لوگوں کو باراتی بنا دیں گے۔’’

کرائے کے باپ اور باراتیوں کو لے کر شادی انجام پائی۔ جہیز میں بہت سے اور سامانوں کے ساتھ دس ہزار روپے بھی نقد ملے۔ اسی دن رات کو گھڑی، انگوٹھی، ہار اور دس ہزار نقد لے کر دونوں دوست چمپت ہو گئے۔ کلکتہ سے بنارس، بنارس سے الہ آباد، دہلی، بڑودہ، بمبئی ہوتے ہوئے جب دو سال بعد وہ لوگ دوبارہ کلکتہ واپس آئے، تو ان کے پہننے اوڑھنے اور چہرے مہرے میں کافی تبدیلی آ گئی تھی۔ دونوں لکھ پتی ہو گئے تھے۔ بالکل صاحب لوگوں سا رہن سہن ہو گیا تھا۔ دونوں سوٹ بوٹ ٹائی پہن کر کلب، ہوٹل، سوئمنگ پول کا چکر لگاتے اور کوئی نیا شکار تلاش کرتے رہتے۔

ایک دن اچانک ہوٹل میں ان کی ملاقات ایک سندرحسینہ سے ہو گئی۔ اس کے بڑے بھائی کول صاحب نے اپنی بہن سے ان لوگوں کا تعارف کرایا۔ دونوں بھائی بہن کلکتہ، دارجلنگ، سکم وغیرہ گھومنے آئے تھے۔ ماں باپ نہیں تھے۔ کروڑوں کے کاروبار کے مالک تھے کول صاحب۔ ابھی تک کول صاحب کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ عمر زیادہ نہیں تھی۔ دیکھنے میں کافی پر کشش شخصیت۔ شادی کے لئے ڈھیر سارے رشتے آ رہے تھے، لیکن انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ جب تک ان کی بہن سنیتا کی شادی نہیں ہو گی، وہ شادی نہیں کریں گے۔ کول صاحب چاہتے تھے کہ کوئی خوبصورت اور سچا لڑکا مل جائے، تو سنیتا کی شادی کر دیں۔ سنیتا کے نام سے جتنی پراپرٹی ہے، وہی ان کی مستقبل کی زندگی کو سکھی بنانے کے لئے کافی ہو گی۔

کول صاحب کی باتیں سن کر وِگھن راج نے امریش کی طرف دیکھا۔ امریش نے وِگھن راج کو آنکھ ماری۔ دوسرے دن دونوں بھائی بہن کو ڈنر کے لئے ہوٹل میں مدعو کیا گیا۔ بات چیت کے دوران امریش نے وِگھن راج کی املاک کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا، ’’جانتے ہیں کول صاحب، ہمارا کاروبار ویسے کوئی اتنا بڑا نہیں ہے۔ پارادویپ میں پندرہ ٹرالر، بھونیشور میں تیس ٹرک اور چنگڑی مچھلی کی افزائش کے لئے چلکا میں محض دو سو ایکڑ زمین ہے۔ دو چھوٹی چھوٹی انڈسٹری تھیں۔ دیکھ بھال کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا، اس لئے گزشتہ سال بیچ دیں۔ سوچتے ہیں دہلی یا کلکتے میں کوئی نئی انڈسٹری لگائیں گے۔ ہم لوگ آپ جیسے اتنے بڑے بزنس میں تو نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں اپنی محنت پر یقین ہے اور جو محنت کرتا ہے، اسے بھگوان بھی کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتے۔’’

’’واہ، کتنے اچھے خیالات ہیں۔ اتنا بڑا کاروبار ہونے پر بھی آپ کے دماغ میں تھوڑا سا بھی تکبر نہیں ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم لوگ کشمیر سے بھاگ کر آئے۔ ہم لوگ یعنی ہمارے بابو جی صرف گیارہ روپے لے کر دہلی آئے تھے۔ شروع شروع میں وہ پرانا ڈبا خریدنے اور بیچتے تھے اور اسی سے اپنا گزارا کرتے تھے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ بزنس کرتے ہوئے، ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ سب سے پہلے ماں اور اس کے بعد بابو جی ہمیں چھوڑ کر سورگ سدھار گئے۔ اور ہم لوگ بالکل یتیم ہو گئے۔ سب کچھ ہو کر بھی اگر سر پر ماں باپ کا سایہ نہ رہے تو بڑا اکیلا پن محسوس ہوتا ہے۔’’  اتنا کہتے کہتے کول صاحب کا گلا رندھ گیا۔ انہوں نے رو مال سے آنسو پونچھتے ہوئے دوبارہ کہنا شروع کیا، ’’اتنے بڑے کاروبار کا بوجھ اچانک میرے کندھے پر آ پڑے گا، میں نہیں جانتا تھا۔ میں اکیلا آدمی، کہاں کہاں مارا پھرو، کس کس کو سنبھالوں؟ اسی لیے اس تلاش میں ہوں کہ سنیتا کے لئے کوئی قابل لڑکا مل جائے تو شادی کر کے آدھا کاروبار اس کو سونپ دوں۔ لیکن آج کل اچھے آدمی کہاں ملتے ہیں۔ سب کی نگاہ جہیز کے طور پر ملنے والی نقدی پر لگی رہتی ہے۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا آدمی اپنی محنت پر یقین نہ کرتے ہوئے، دوسرے کی مال دولت کو پھوکٹ میں ہڑپ لینے کی تاک میں رہتا ہیں۔ اچھا، آپ ہی بتائیں اگر ایسا رویہ لے کر ہم چلیں گے، تو ملک کا کیا ہو گا؟ ۔ کیا کبھی ہمارا دیس جاپان اور امریکہ کی طرح ترقی کر پائے گا؟’’

’’آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ اپنے ملک کو ترقی کی چوٹی پر لے جانے کے لئے پہلے ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانا ہو گا۔’’  وِگھن راج اور امریش دونوں نے کول صاحب کے بیان کی تائید کی۔ جب ان لوگوں کی باتیں ہو رہی تھیں، سنیتا خاموشی منہ جھکائے بیٹھی تھی۔ شاید بڑوں کے بیچ بولنا اسے پسند نہیں تھا۔ وہ بڑی شرمیلی لڑکی تھی۔

ہوٹل سے لوٹنے پر وِگھن راج نے امریش سے پوچھا، ’’کیا امرو، یہاں داؤ مارنے پر کیسا رہے گا؟’’

’’ارے پوچھتا کیا ہے۔ یہی ایک ہاتھ مارنے پر تو ہم مالا مال ہو جائیں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں کے مالک بن جائیں گے۔ سنیتا سے شادی کر کے، تو اس کا کاروبار سنبھال لینا اور مجھے اپنا بزنس پارٹنر بنا دینا۔’’

’’شادی کے بعد ہم اپنی املاک کے بارے میں سنیتا کو کیا کہیں گے؟’’  وِگھن راج نے سوال کیا۔

’’ارے شادی ہونے کے بعد اگر انہیں معلوم بھی ہو گیا کہ ہم لوگ پھوکٹ میں رام گردھاری ہیں، تو کیا فرق پڑے گا۔ کیا کر لیں گے وہ لوگ؟’’  امریش نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

’’تب ٹھیک ہے۔ تو جا کر شادی پیشکش دے آ۔’’  وِگھن راج نے کہا۔

دوسرے دن وِگھن راج کی شادی کی پیشکش لے کر امریش، کول صاحب کے پاس پہنچا۔ کول صاحب پہلے تو ہچکچائے، پھر بولے، ’’دیکھئے، ہم لوگ قدامت پسند خاندان کے ہیں۔ اگرچہ وِگھن راج اچھا آدمی ہے۔ پھر بھی ہمیں اس کے ماں باپ سے بات چیت کرنی ہو گی۔ اس کے علاوہ سنیتا سے بھی اس بارے میں پوچھیں گے۔ تو ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔’’

’’ضرور ضرور، میں وِگھن راج کے بابو جی کو بلا لاؤں گا۔ آپ کی طرف سے کون بات چیت کریں گے؟’’ امریش نے پوچھا۔

’’ہمارے ماما۔ میں ان کو خبر کر دوں گا۔’’  کول صاحب نے بھی اپنی رضامندی دی۔

بات چیت کے مطابق تاریخ مقرر کی گئی۔ وِگھن راج کی جانب سے اس کا نقلی باپ آیا۔ کول صاحب کے ماموں بھی وقت پر پہنچ گئے۔ کچھ دیر بات چیت چلنے کے بعد شادی کی تاریخ طے ہوئی۔ اس سے پہلے منگنی کرنے کی تاریخ طے کی گئی۔

ہفتہ بھر بعد امریش کو بلا کر کول صاحب نے کہا، ’’آپ تو جانتے ہیں، تاجر برادری کی سوچ کیسی ہوتی ہے۔ لہذا منگنی کے وقت اگر آپ کی جانب سے اچھے زیورات نہیں دیے گئے، تو اس کو لے کر باتیں شروع ہو جائیں گی۔ اب تو صرف دو دن رہ گئے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ اتنی جلدی اتنے سارے روپوں کا جگاڑ نہیں کر پائیں گے۔ میں تین لاکھ روپے کا چیک کاٹ دیتا ہوں۔ آپ اسی روپے سے سنیتا کو ہیرے کا ایک بہترین ہار دیں۔ تاکہ ہمارے حریفوں کو بولنے کا موقع نہ ملے۔’’

’’واہ کول صاحب واہ، آپ بھی اچھی بات کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم آپ کی طرح بڑے تاجر نہیں ہیں، لیکن کیا تین لاکھ روپیہ بھی جگاڑ نہیں کر سکتے؟’’  اتنا کہتے ہوئے امریش نے کول صاحب کا ہاتھ تھام لیا۔

امریش سے ساری باتیں سن کر وِگھن راج نے کہا، ’’کیوں نہیں لے آیا تین لاکھ کا چیک۔ بیکار میں شیخی بگھار آیا۔’’

’’تجھے عقل کب آئے گی پتہ نہیں۔ اگر میں چیک لے لیتا تو کول صاحب کو ہمارے اوپر شک نہیں ہوتا کیا؟’’ امریش نے وِگھن راج کو سمجھایا۔

’’تو پھر اتنے روپے کہاں سے آئیں گے؟’’

’’بینک میں ڈھائی لاکھ روپے ہیں۔ باقی پیسے تیرے کرائے کے باپ سے سیکڑے پچاس روپے کی شرح سے سود پر لے آئیں گے۔’’

منگنی کے دن بہو کو ہیرے کی ایک قیمتی سیٹ دیا گیا۔ طے کیا گیا کہ شادی دہلی میں کی جائے گی۔ کول صاحب نے ضد کی کہ بارات ہوائی جہاز سے ہی جائے گی۔ جتنے لوگ جائیں گے، فہرست دے دیں۔ تین چار دن میں ٹکٹ ہوٹل میں آ کر ہی دے دیئے جائیں گے۔

تین چار دن گزر گئے۔ کوئی خبر نہیں آئی۔ کول صاحب کہاں گئے کیا پتہ؟ ۔

’’ہو سکتا ہے دونوں بھائی بہن دارجلنگ گھومنے چلے گئے ہوں۔’’  وِگھن راج نے کہا۔

’’ہاں ہو سکتا ہے۔ لیکن خبر تو دینی چاہئے۔’’ امریش بولا۔

کئی دن گزر گئے، لیکن کوئی خبر نہیں ملی۔ دارجلنگ جا کر بھی کچھ پتہ نہیں چلا۔ ان لوگوں نے دہلی کا جو پتہ دیا تھا، اس جگہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایسا کوئی آدمی وہاں کبھی نہیں رہا تھا۔

’’ہم لوگوں نے کہیں غلط پتہ تو نہیں لکھ لیا ہے؟’’  امریش نے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

’’ہو سکتا ہے۔ چلو کلکتہ چل کر دیکھتے ہیں۔ وہیں دونوں کا پتہ لگے گا۔’’  وِگھن راج نے تجویز دی۔

کلکتہ لوٹنے پر انہوں نے دیکھا کہ ڈیرے پر ایک لفافہ آیا ہوا تھا۔ کول صاحب اور سنیتا نے دونوں کے نام سے چٹھی لکھی تھی۔

’’لاؤ لاؤ مجھے دیکھنے دو۔’’  اتنا کہتے ہوئے امریش نے وِگھن راج کے ہاتھ سے چٹھی چھین کر کہا، ’’دیکھیں تو کیا لکھا ہے۔’’

وِگھن راج کا چہرہ اتر گیا۔ وہ ایک ٹک امریش کی طرف دیکھتا رہا۔ چٹھی میں صرف ایک لائن ٹائپ کی گئی تھی، ’’بدھوؤں، اس کاروبار میں ہم لوگ تم سے سینئر ہیں۔’’

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل