فہرست مضامین
- ریت آئینہ ہے
- دو لفظ
- شہر میں
- سو ائے دو پانیوں کے درمیاں
- آسماں خاکداں
- خرابی ہے محبت میں
- ہندوستان میں تین نظمیں
- یہ کیسے لوگ ہیں
- یخ زدہ انگلیاں
- بند گھر کا راز
- دریائے چارلس کے کنارے ایک نظم
- یہ شہر تمام اندوہ میں ہے
- بہت شور ہے
- اس سے کہہ دو
- جوتشی دن مہینوں کا قصہ سنو
- THE GIFT OF MAGI
- مانسٹر
- یہ اک دوہری اذیت ہے
- فنا کے لیے ایک نظم
- اور پانی ٹھہر گیا
- اسیری
- ریت آئینہ ہے
- بات نہیں ہو سکتی
- ابن زیاد کا فرمان
- سمندر کی مہربانی
- یہ گھر جل کر گرے گا
- برف باری میں
- اپنے نام ایک نظم
- وہ اپنے ہاتھ میں دنیا کی تہذیبیں اٹھائے آئے گی
- بے ارادہ زیست کیجے
- زباں پر ذائقہ دو پانیوں کا ہے
- جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا
- جی ڈرتا ہے
- وہ آنکھیں کنول بنیں
- اور پھر چاند نکلتا ہے
- ہونا سب سے بڑا الجھاوا ہے
- ایک اتفاقی موت کی روداد
- اگر تم دو قدم اوپر گئے
- ساعتِ آغاز کی بے معنویت
- مسلسل چلتے رہنے کی خوشی میں
- صلیب گر پڑی
- ہجوم
- زندگی
- یہ آنکھیں
- یہ اچھے لوگ ہیں
- محبت آگ ہے
- آلودگی
- مہم جو لوگ اکثر ایسے ہوتے ہیں
- سفر ایسا بھی ہوتا ہے
- نیر آپا کے نام
- زینی!
- بہار آئی تو انجم شناس کہنے لگے
- خراب ہو گئیں آنکھیں
- میں حاضر ہوں میرے رب میں حاضر ہوں
- رات ڈھلنے لگی ہے
- اب ایسے بھی کوئی دن اور جی لیں گے
- میں نے فرمان کے حاشیے پر لکھا
- اس نے تو کچھ کہا بھی نہیں
- آوارگی کے بڑے راستے ہیں
- چلو یہ نظمیں تو تمام ہوئیں
ریت آئینہ ہے
محمد انور خالد
پیشکش: تصنیف حیدر
دو لفظ
محمد انور خالد کی نظمیں آج ادبی دنیا پر اپلوڈ کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ابھی کچھ وقت پہلے تک میں خود اس قدر عمدہ شاعر سے واقف نہیں تھا۔ انہیں زندگی مختصر ملی، مگر ان کی یہ شاندار نظمیں اردو ادب میں اب یونہی دائم و قائم رہیں گی اور اپنے حسن اور اپنی ہنر مندیوں سے بہت سے پڑھنے والوں کو اپنا گرویدہ کرتی رہیں گی۔ ان کا یہ مجموعہ ‘ریت آئینہ ہے ‘ جو کہ ذیل میں اپلوڈ کیا جا رہا ہے۔ پہلی بار ‘آج کی کتابیں ‘کے زیر اہتمام 1993-94میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں اس کی دوسری اشاعت اسی اشاعت گھر سے 2015 سے کچھ اضافتوں کے ساتھ منظر عام پر آئی۔ محمد انور خالد کی نظمیں خود اپنا بہترین تعارف ہیں۔ اور یہ پوسٹ اجمل کمال کی بدولت ادبی دنیا پر لگائی جا سکی ہے، اس لیے ہم ان کے بے حد شکرگزار ہیں۔ محمد انور خالد کی نظموں کو آڈیو کی صورت میں ہم پہلے ایک دفعہ اجمل کمال کی آواز میں یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کر چکے ہیں اور اب بہت جلد ان کی مزید نظمیں بھی دو چار روز میں آپ اس چینل کے ذریعے سن سکیں گے۔ شکریہ
(تصنیف حیدر)
شہر میں
بانس کی کونپلوں کی طرح رات کی رات بڑھتی ہوئی لڑکیو
آئنے کے ہر اک زاویے سے الجھتی ہوئی لڑکیو
طشتِ سیماب جھلکاتی جھکتی ہوئی لڑکیو
نت نئے موسموں کی طرح مجھ پہ بیتی ہوئی لڑکیو
میرے ہونے کو تسلیم کر لو تو آگے بڑھیں
خواب در خواب بس ایک ہی خواب ہے
میرے ہونے کا خواب
بھاگتے راستوں میں کوئی سنگ، رفتار پیما بتا دے
کہ میں چل رہا تھا
بھیڑ میں چلتے چلتے اچانک کوئی مجھ کو کہنی سے آگے بڑھا دے
کہ میں رہنما تھا
کوئی فن کی دیوی
ثریا سے اترے
مجھے اپنے اندر سمو لے
کوئی میری آنکھوں میں چبھتے ہوئے ذرۂ ریگ کے واسطے
اپنے آنچل کا کونا بھگو لے
مجھے رشتۂ جسم و جاں میں پرو لے
کوئی بس گھڑی دو گھڑی ساتھ ہو لے
یا مجھے قلزمِ خود فراموشیِ ماورا میں ڈبو لے
خواب در خواب بس ایک ہی خواب ہے
میرے ہونے کا خواب
سانولی لڑکیو! چمپئی لڑکیو! نت نئی لڑکیو!
میرے ہونے کو تسلیم کر لو تو آگے بڑھیں
کون جانے درختوں کے پیچھے نئی خوشبوئیں
راستے بھر ہمارا سواگت کریں
کون جانے کہ آہٹ سے ڈرتی ہوئی پھڑپھڑاتی ہوئی فاختائیں
ہمارے سروں پر سپر تان دیں
اور ہم سرسراتے ہوئے آنچلوں کی ہوا اوڑھ کرسو رہیں
یا مری جانِ جاں
کون جانے کہ آتے دنوں میں کسی روز اندھی سڑک پر
کسی چیختے بھونکتے کالے کتے سے ڈرتے ہوئے
ہم اچانک کہیں آ ملیں
اجنبی راستوں کی طرف چل پڑیں
ذہن میں خواب کا سلسلہ پھیلتا ہو
آنکھ میں نیند کا ذائقہ تیرتا ہو
بہرطور آسودگی ہے
اور کہرے کی چادر
اور سلیٹی پرندوں کی مانند ساحل کو تاریک کرتی ہوئی شام ہے
اور یخ بستہ گہری دراڑیں
اور مرمر کے بھاری ستونوں سے لپٹی ہوئی لڑکیاں ہیں
اور فصیلوں کے اس پار تاتار و تیمور کا خوف ہے
اور اس پار تلوار و خنجر اٹھائے ہوئے اہلکارانِ افواج بیدار ہیں
پالکی نالکی
اور کہاروں کی آواز: ’’بی بی ہٹو‘‘
اب کے بارش نے مہندی کے پیڑوں کی ساری حنا چھین لی ہے
میں کہ بے چہرہ
جسموں کے جنگل میں ہونے کا اک خواب لے کر چلا تھا
سو اب سربزانو پڑا ہوں
سانولی لڑکیو! چمپئی لڑکیو! نت نئی لڑکیو!
اس گداگر کے کشکول کی سنسناہٹ سنو
میرے ہونے کا ماتم کرو
اپنے ہونے کا ماتم کرو
اور ہر آتے جاتے مسافر سے رو کر کہو
شہر میں خیریت کے سوا کچھ نہیں ہے
٭٭٭
سو ائے دو پانیوں کے درمیاں
سو اے دو پانیوں کے درمیاں کلکارتی ریڈ انڈین لڑکی
میں اپنی ہجرتوں کے سائباں سے تم کو کیا لکّھوں
گھروں کی اور سے چپ چاپ جاتی ملگجی سنیاسنیں سب جانتی ہیں
گھروں کی اور سے چپ چاپ جاتی ملگجی سنیاسنیں سب — جانتی ہیں
محبت جبر ہے
محبت جبر ہے ان بے صدا راتوں کا
جن کی سلوٹیں ڈسنے لگی ہوں
محبت جبر ہے ان گوش بر آواز لمحوں کا
جو جی اٹھنے کی خاطر مر گئے ہیں
محبت جبر ہے پچھلے پہر کستی ہوئی آنکھوں کا، جن کو خواب پیارے ہیں
یہ آنکھیں جن کی دہلیزوں پہ نیند آتی نہیں اور لوٹ جاتی ہے
یہ آسیبی مکانوں کی طرح وحشت زدہ آنکھیں
یہ آنکھیں جن کا گھر پہلی دفعہ خالی ہوا تھا اور یہ روئی تھیں
یہ آنکھیں، نیم وا، ٹھہری ہوئی آنکھیں
یہ آنکھیں بولتی تھیں، دیکھتی تھیں، سوچتی تھیں
سو اک دن بے گھری آئی
سو اک دن میں ان آنکھوں سے گیا
اور اب
گھروں کی اور سے چپ چاپ جاتی ملگجی سنیاسنیں سب جانتی ہیں
میں اپنی وحشتوں سے بھی گیا
حیرانیوں سے بھی
صدا دیتی ہوئی سنّاہٹوں سے بھی
سحردم نیند کی روٹھی ہوئی جھلّاہٹوں سے بھی
محبت میں تیرے سرداب خانے میں اب اس کے بعد کیا رکّھوں
کہ گھر خالی ہوا ہے اور پوری شام باقی ہے
محبت آ میں تیری ہجرتوں کی مانگ میں سیندور بھر دوں
محبت آ مرے کاندھے سے لگ جا
کہ تو بھی بے گھری کا جبر بن کر رہ گئی ہے
کہ مجھ کو بھی گناہوں میں مزہ آنے لگا ہے
سو اے گھر دیر سے جاتی ہوئی بے آسرا لڑکی
ہم اپنی نیند میں بھی جاگتے ہیں
ہم اپنے جاگتے رہنے میں بھی خوابیدہ رہتے ہیں
ابد نا آشنا لمحے مری دہلیز پر اپنا مقدر رولتے ہیں
سو میں کیسے تمھیں اپنی گزرتی رات کی تنہائیوں کی باگ دے دوں
سو میں کیسے تمھارے بھاگ کھولوں
سو اے دکھ بالکوں کے پالنے میں جھولتی کم آشنا لڑکی
محبت ان اپاہج لڑکیوں کی خواہشِ آسودگی ہے
ضیافت کی بڑی میزوں سے ہٹ کر جو مجھے اک ٹک سے دیکھے جا رہی ہیں
کہ نیلے پانیوں پر تیرتی آنکھیں کہیں تو جا لگیں گی
’’میں جب گھر سے چلی تھی۔ ..
ہوائیں میرے آنچل سے لپٹ کر روئی تھیں اور میں بہت خوش تھی
اور اس دن کاہنوں نے آگ کے چاروں طرف پھر کر مجھے رخصت کیا تھا
اور ان کی پتلیاں الٹی ہوئی تھیں
میں اس دن سے پچھل پائی ہوئی ہوں
میں اس دن سے
گھروں کی اور سے
چپ چاپ جاتی ملگجی سنیاسنوں کو دیکھتی ہوں
اور ان کی بے تحاشا جھرّیوں والی ڈراتی صورتوں کو
اور اپنی نفرتوں کو
اور اپنی اجرتوں کو
اور اپنی محوِ حیرت ساعتوں کو
سو اب تو میرے آنچل کی گرہ بھی نم نہیں ہے ‘‘
میں اپنے بچپنے کی کیاریوں کی گھاس چنتا ہوں
ہوائیں خوشبوؤں کا ہار لے کر میری جانب آ رہی ہیں
سو اے برسات کی بھیگی ہوئی مٹی
مجھے اپنے بدن کا بوجھ دے دے
کہ میں بھی گھر گرھستن عورتوں کی طرح اپنے تنگ کمرے لیپ ڈالوں
کہ میں بھی آنگنوں کے مہندیوں کے مٹّیوں کے خواب دیکھوں
مگر یہ بانس کی شاخوں سے لپٹی سبز سانپوں کی طرح ڈستی ہوئی آنکھیں
مگر اے صبح کی بیزاریوں میں دستکیں دیتی ہوئی لڑکی!
قسم ہے تم کو دیواروں میں در آتی ہوئی بیلوں کی
مجھ کو یاد رکھنا
قسم ہے ساحلوں پر سیپیاں چنتے ہوئے آوارہ لڑکوں کی
گھروں کو لوٹنے والے پرندوں کی
اندھیرے اوڑھ کر سوتے ہوئے بے خواب چہروں کی
گھروں کو دیر سے جاتے ہوئے اوباش لوگوں کی
فصیلِ خیر و شر کے درمیاں بستے ہوئے معصوم بچوں کی
مرے جیسے کئی الجھے ہوئے سادہ مزاجوں کی
قسم ہے تم کو ہر اس چیز کی جو تم کو پیاری ہو
مجھے تم یاد رکھنا
مجھے تم یاد رکھنا، بھول جانا
اور اپنی چاہتوں سے جا کے کہہ دینا
میں اپنی شامِ غم کی پاسبانی جانتا ہوں
میں اپنی سلطنت پر حکمرانی جانتا ہوں
سو اے زرتشت کی بیٹی
سب اچھی لڑکیوں کی طرح تم بھی مجھ سے مت ملنا
میں اگنی دیوتاؤں کی کتھا لکھنے چلا ہوں
سمندر کی طرف جاتی ہوئی سب بچیوں نے بانسری کے راز جانے ہیں
سمندر بے ریا، مکار، وحشی
دیوزادوں کی جٹائیں
آنگنوں میں لوبیے کی بیل
پھلتی پھولتی چکراتی بڑھتی کتنے دروازوں کے آگے جھولتی ہے
سمندر آنگنوں کی آخری حد ہے
سمندر بے نہایت ہے
سمندر بے گھری ہے، آخری گھر ہے
منڈیریں پھاند کر جاتی ہوئی
ساری پتی ورتا، ستی ساوتری، اجلی اور گلابی عورتیں سب
بانسری کے راز جانے ہیں
سمندر شام کی آزردگی ہے
رات کا غم ہے
سحر کی الکساہٹ ہے
سمندر بے نہایت ہے
سو اب جو ہے سمندر سے روایت ہے
سو اب یہ ہے کہ سارے جانے والے ایک اک کر کے گئے
اور تند لہروں کی طرف کھلتی ہوئی کھڑکی ہوا میں جھولتی ہے
سمندر میرے دروازے پہ میرا منتظر ہے
سمندر آخری گھر ہے
سو اس سے تو یہ اچھا تھا
کہ ہم سب اپنی مٹی کے ابھرتے دائروں میں دفن ہو جاتے
میں سوتی لڑکیوں کی ادھ کھلی آنکھوں میں زندہ تھا
اور اب میں ہوں
بھنور کی دائرہ در دائرہ تحریر ہے
اور بادباں کے بازوؤں میں جھولتی جاتی ہوا کا مرثیہ ہے
سمندر میرے ہونے کا پتا ہے
کہ آنکھیں کوڑیوں کے مول بیچی جا رہی ہیں
سو اے ساگر اترتی مرگ نینی لڑکیو
مجھ کو عذابوں کی بشارت دو
مجھے میرے سمندر کی نیابت دو
سمندر میری سانسیں گن رہا ہے
مجھ کو مٹی کی خلافت دو
٭٭٭
آسماں خاکداں
راکھ اڑاتی ہوئی
اور بن خاکداں کوئی جلتا نہیں
اس ستارے کے اس پار بھی کوئی جلتا تو ہو گا کسی آسماں کے تلے
خواب نے راستوں پر دیے رکھ دیے
میں نے ہر شام دیکھا
کہ تم آئے تھے
اور مل کر گئے
اور ہر شام اک تارِ کفش و کلہ جل گیا
ایک جلتا ہوا سلسلہ جل گیا
ہاں مگر اک دیا سا اٹھائے رکھو
تارِ کفش و کلہ کے قریں
اک دیا سا جلائے رکھو
آسماں خاکداں
٭٭٭
خرابی ہے محبت میں
خرابی ہے محبت میں
محبت میں خرابی ہے
یہ قبریں پانیوں میں گھل رہی ہیں
سو ان کے استخواں دیکھو!
میں مجنوں کو لڑکپن میں بہت رویا
بہت رویا میں مجنوں کو لڑکپن میں
کہ پانی مٹیوں سے پھوٹتا تھا اور مٹی گھل رہی تھی پانیوں میں
سو اس کے استخواں دیکھو!
محبت رات مجھ سے کہہ رہی تھی، اس کے گھر جانا
کہ آنکھیں دھل گئی ہیں اور چہرہ دھوپ دیتا ہے
گہن کی مار ہو اس آنکھ پر جو اس گھٹا میں دھوپ دیکھے
محبت رات مجھ سے کہہ رہی تھی
اس کے گھر جانا
محبت کی خرابی ہے
یہ قبریں پانیوں میں گھل رہی ہیں
٭٭٭
ہندوستان میں تین نظمیں
مرے پاؤں کے نیچے خاک نہیں
مرے پاؤں کے نیچے خاک نہیں کسی اور کے پاؤں کی مٹی ہے
دروازہ کھلا
اور ماہِ زوال در آیا
بند مکاں کے روزنِ در سے
آگے ’’سات دلہن کی قبر‘‘ ہے
نیچے کوزہ گروں کی بستی ہے
کوزہ گروں کی بستی میں مرے پاؤں کے نیچے خاک نہیں
بڑے قصے ہیں
بڑے قصے ہیں دل صبر و سوال کے سننے کے
بڑی باتیں سیف و کتاب پہ لکھنے کی
بڑے خواب ہیں اوڑھ کے سونے کو
کبھی خواب لکھے نہیں جاتے
کبھی باتیں سنی نہیں جاتیں
کبھی قصے کہے نہیں جاتے
کوزہ گروں کی بستی میں بڑے قصے ہیں اور خاک نہیں
مرے پاؤں کے نیچے خاک نہیں
اور ماہِ زوال در آیا
بند مکاں کے روزنِ در سے
آگے ’’سات دلہن کی قبر‘‘ ہے
نیچے کو زہ گروں کی بستی ہے
کوزہ گروں کی بستی میں
مرے پاؤں کے نیچے خاک نہیں کسی اور کی پاؤں کی مٹی ہے
٭٭٭
اس چھالیہ کے پیڑ کے نیچے
اس چھالیہ کے پیڑ کے نیچے خدا گواہ
مجھ پر نزولِ رحمت و اجلالِ حق ہوا
اور یوں ہوا کہ مجھ پہ زمیں کھول دی گئی
اور آسمان سر پہ مسلط نہیں رہا
اور یہ کہا گیا کہ جو گھر لوٹیے تو پھر
ہاتھوں میں دھوپ لے کے منڈیروں پہ ڈالیے
مٹی اگائیے کہ زمیں شورہ پشت ہے
اور یہ کہ میش و ابلق و اشتر کے واسطے
دو چھالیہ کے پیڑ، مزاروں کے تین پھول
اور ایک آنکھ جس پہ جہانِ عبث کھلے
ویسے تو گھر تک آ گئی ساعت زوال کی
٭٭٭
خانہ بدوشوں کا گیت
اب کس لیے جہانِ خرابی میں گھومنا
وہ سو گئی تو اس نے نہ دیکھا کہ اس کے بعد
کتنی بڑی قطار کھلے زاویوں کی تھی
وقت آ گیا تھا وصل و مکافاتِ وصل کا
اونچی زمیں پہ ریل کی کھڑکی کے ساتھ ساتھ
غاروں میں، بستروں میں، زمیں پر، رضائی میں
اب کس لیے جہانِ خرابی میں لوٹنا
سو آشیاں کو مثلِ کبوتر اڑائیے
اور دن گزر چلے تو یہ بازو سمیٹ کر
انگشتری کو آئنے پر مار سوئیے
وقت آ گیا ہے وصل و مکافاتِ وصل کا
٭٭٭
یہ کیسے لوگ ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں جو سنگ بستہ جالیوں کی طرح آنکھیں بند رکھتے ہیں
سرھانے لڑکیوں کے رات کی بکھری کتابیں ہیں
اور ان کے خواب اندھیروں کے درکتے روزنوں سے
دھڑ دھڑاتی بلیوں کی طرح گھر گھر پھیل جاتے ہیں
میں ساری رات آوازوں کا مبہم شور سنتا ہوں
اور آنکھیں بند رکھتا ہوں
اور ان کے ساتھ ہو لیتا ہوں جن کا راستہ میرا مقدر ہے
سو اب میری گواہی کون دے گا
کہ میں اپنی گواہی کے لیے زندہ نہیں ہوں
وہ ایسے لوگ تھے جو
دشتِ بے دیوار میں اپنے سفر کا نیند سے آغاز کرتے تھے
اور ان کی انگلیاں صحرائی سانپوں کی طرح ان کے بدن پر رینگتی تھیں
اور ان کی گردنیں ٹوٹی کمانوں کی طرح ان کے بدن پر جھولتی تھیں
وہ اپنی پٹ کھلی آنکھوں سے سوتے تھے
وہ چلتے تھے تو ان کی آستینیں پاؤں میں آتی تھیں
اور وہ رک کے چلتے تھے
درختوں میں کہیں بیٹھا روپہلی رت کا کارندہ
سمندر سمت کا قطبی ستارہ ہے
سمندر میری آنکھوں کا اشارہ ہے
اسے کہنا وہ میری میز پر اپنی ہتھیلی یوں جمائے مجھ کو مت دیکھے
اسے کہنا ستاروں اور ان کی چال میں کچھ فرق ہوتا ہے
اسے کہنا وہ اپنی گردنِ بے ساختہ کے آئنے میں مجھ کو مت دیکھے
اسے کہنا وہ اپنی بلیوں کی گردنوں پر ہاتھ رکھ کر مجھ کو مت دیکھے
اسے کہنا محبت اک اکیلی ناؤ ہے
اور آسماں آئینہ برادری کا مجرم ہے
٭٭٭
یخ زدہ انگلیاں
یخ زدہ انگلیاں
تہہ بہ تہہ برف کی چادروں سے ابھرتی ہوئی
برف اس سال اتنی پڑی ہے
کہ رستے کے سب پیچ و خم چھپ گئے ہیں
اور لڑکیاں
دور پُرنور لانبے دریچوں سے جب برف میں یخ زدہ انگلیاں
دیکھتی ہیں تو یہ پوچھتی ہیں
کہ اس برف سے پھول کیسے کھلا
کونپلیں کیسے پھوٹیں
زمیں بانجھ تھی کس طرح یک بیک حاملہ ہو گئی
٭٭٭
بند گھر کا راز
تم نے آنکھوں کو بوسہ دیا اور انھیں بند کر کے گئے
اب یہ تم سے بھی کھل کر نہیں پوچھتیں
تم نے آنکھوں کو بوسہ دیا اور انھیں بند کر کے گئے ؟
ایک ہی راز رہتا ہے ہر بند گھر میں
کہ گھر بند رہتا نہیں
٭٭٭
دریائے چارلس کے کنارے ایک نظم
یہ گرجا ہے کہ مجھ پر آسماں کی مہربانی ہے
صلیبی جنگ میں سارے سپاہی کام آئے
اب کسے پانی پلاؤ گی تم اپنے دامنِ تر سے
اٹھاؤ گی کسے پھیلے ہوئے بازو پہ، نیلے ناخنوں پر روک لو گی
آنکھ چہرہ
جب زمیں پر راکھ ہو گی اور مٹی پھیل جائے گی
طنابیں راکھ ہو جائیں تو مٹی پھیل جاتی ہے
زمینوں آسمانوں پر
سو گرجا مجھ پہ نیلے آسماں کی مہربانی ہے
یہ دریا ہے کہ مجھ پر آسماں کی مہربانی ہے
زمیں جب راکھ ہو جائے تو دریا پھیل جاتا ہے
اور اس کو روک لیتی ہو تم اپنی خشک آنکھوں میں
بدن کی آڑ دے کر
جب سپاہی راستے میں بیٹھ جاتے ہیں
بچھا دیتے ہیں سایہ پتیوں پھولوں کناروں کا
تمھارے دامنِ تر کا
اتر جاتے ہیں گیلی جھاڑیوں میں آگ لے کر
آسماں دیکھا نہیں جاتا
تو بھیگی ریت کو سوکھی ہوا میں چھانتے ہیں
اور مٹی پھیل جاتی ہے
یہ مٹی مجھ کو کل تک آسمانوں میں اڑاتی تھی
یہ دریا مجھ کو کل تک کھینچ لاتا تھا زمینوں پر
یہ مٹی پھیلتی جاتی ہے
دریا سوکھتا جاتا ہے
مجھ پر آسماں کی مہربانی ہے
٭٭٭
یہ شہر تمام اندوہ میں ہے
یہ شہر تمام اندوہ میں ہے
اس رات سپاہی گشت پر آیا نہیں
تم گھر جا سکتی ہو
اور شہر کے باہر جتنے شہر ہیں سب کے سب اندوہ میں ہیں
کل ہفتے کی تعطیل کا پہلا دن ہو گا
وہ لڑکی گھاس پہ بیٹھ کے لکھتی ہے اور ہنستی ہے
اک تیز ہنسی جو سات گھروں کو چیر گئی
وہ لڑکی گھاس پہ بیٹھ کے لکھتی ہے اور ہنستی ہے
ان لفظوں پر جو اس نے لکھے
ان لفظوں پر جو اس سے پہلے آنے والے سب نے لکھے
ان لفظوں پر جو اس کے بعد کے آنے والے شاید اس پر لکھیں گے
وہ ہنستی ہے اور لکھتی ہے اور ہنستی ہے
اور شہر تمام اندوہ میں ہے
کوئی پتھر آن ہٹائے گا
اس گھر کے باہر اک گھر ہے
تم گھر میں جا کر سو رہتے
اور خواب اکے لیے دم کا ہے کو آنے ہیں
خواب تو رتھ پر آتے ہیں
اور تم نے رتھ دیوتا کو خواب میں ڈال دیا
اب شہر اور خواب اور آنکھ کا رشتہ ٹوٹ گیا
اب دریا پھیلتا جاتا ہے
اور کوئی کنارا پاس نہیں
اور دریا پھیلتا جاتا ہے
اور دریا پھیلتا جاتا ہے
اور دریا پھیلتا جاتا ہے
٭٭٭
بہت شور ہے
بہت شور ہے
ماتحت لڑکیاں میرے زانو پہ سجدہ کریں
خوفِ آلودگی شور و شر کی پذیرائی میں رو پڑے
یہ زمینیں سیہ نسل گھوڑوں کی آواز سے جاگتی ہیں
چشمِ شب کور ہرچاندنی رات میں ایک جلسہ کرے گی
زمیں فیلِ بے زور کی طرح پٹتی رہی ہے
انہی ساعتوں میں بشرطِ سکندر کوئی آئنے کے برابر ملے گا
وہ ہنستی ہے اور سایۂ عافیت کے تصور کو مجروح کرتی ہے
اسے فیلِ بے زور کے سامنے ڈال دو
اس کے چہرے کو ٹوٹے ہوئے آئنے سے مسخر کرو
وہ ہنستی ہے اور گریۂ نیم شب کے سمندر پہ اپنا علَم کھولتی ہے
ہاتھ جل مکڑیوں سے کریدے ہوئے
پاؤں میں گھاس لپٹی ہوئی
عافیت ہے سمندر کی بہتی ہوئی گھاس میں
عافیت ہے سمندر کی آواز میں
شور ہے
شور میں عافیت
ماتحت لڑکیو، میرے زانو پہ سجدہ کرو
یہ زمینیں سیہ نسل گھوڑوں کی آواز سے جاگتی ہیں
٭٭٭
اس سے کہہ دو
اس سے کہہ دو کہ وہ اپنے دُکھتے ہوئے بازوؤں کو یونہی تہہ رکھے
راہداری کے پرلے سرے پر وہ کس سے ملے گی
کوئی خواب، راتوں کی بوجھل ہوا میں کسی پر سمیٹے پرندے کا خواب
کوئی خواب، بیمار بستر پہ بجھتے سمے
رات کے نرم پاؤں گزرنے کا خواب
بند کمرے میں دوپہر بھر صرف اک زیرجامے میں سونے کا خواب
یا کوئی آنگنوں میں اترتی ہوئی، آنکھ کی کونپلوں سے الجھتی ہوئی دھوپ
بھک سے اڑ جانے والی سرنگوں کی مانند بچھتی ہوئی دھوپ
منھ اندھیرے یہ دانتوں تلے کرکراتی ہوئی دھوپ
اس سے کہہ دو، کہیں بھی کوئی خواب ہو، دھوپ ہو
نصف شب اپنے شوہر کے پہلو سے اٹھتی ہوئی
نیم تاریک زینے سے تھم تھم اترتی ہوئی
ایک بے انت
لمبی مسافت پہ پھیلی ہوئی راہداری کے پرلے سرے پر وہ کس سے ملے گی
اس سے کہہ دو دریچے کے پردے گرا دے
کہ کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی گرد ہی گرد ہے
مگر طاق بھی اپنی نم خوردگی میں بڑا زہر ہے
اس سے کہہ دو کہ وہ اپنے دُکھتے ہوئے بازوؤں کو یونہی تہہ رکھے
٭٭٭
جوتشی دن مہینوں کا قصہ سنو
جوتشی دن مہینوں کا قصہ سنو
جب گھروں سے نکلتی ہوئی لڑکیاں اپنے گھر جائیں گی
اپنے رستے کی ہو جائیں گی
اور تہمینۂ بے خبر ہر گلی کی خبر
ہر گلی اک نئے گھر پہ جا کر اچٹ جائے گی
اے میری روح کے بادباں
دکھ کھلے پانیوں کا سفر، عمر بھر
جوتشی دن مہینوں کا قصہ سنو
جوتشی روز ہر روز سورج کھلے پانیوں سے نکالا گیا
روز سورج کھلے پانیوں میں اتارا گیا
جوتشی دن مہینوں کی وحشت سے آگاہ مَیں
جوتشی اس اذیت سے آگاہ مَیں
جوتشی میرے ہونے کا قصہ سنو
جوتشی سانپ آنکھوں نے دیکھا تو میں سو گیا
مور پاؤں نے دیکھا تو میں سو گیا
جوتشی میرے سونے کا قصہ سنو
جوتشی میری آنکھوں میں تہمینۂ بے خبر کے لیے ان گنت خواب ہیں
خواب وحشت کے آداب ہیں
صبح سورج کا فرمان ہے
اور سورج کھلے پانیوں میں اتارا گیا
٭٭٭
THE GIFT OF MAGI
میں نے اپنے لمبے بال تمھاری خاطر بیچ دیے ہیں
اور اب گھر گھر جانے والے
میرے گھر بھی آئیں گے
اور میں تیری خاطر
اجلے دن کی خاطر
رکھے جانے والے تحفے
کس کس کو تقسیم کروں گی
اور تم کس کے واسطے صندل صندل گھومو گے
تم بھی شاید اپنی آخری خواہش بیچ چکے ہو
ورنہ گھر مت آنا
٭٭٭
مانسٹر
دریچہ کھلا چھوڑ کر یوں نہ جانا
کہ رستہ گزرتی کوئی اور لڑکی
مجھے خواب بنتا ہوا دیکھ لے گی
ٹھٹک جائے گی
اور مجھ سے مرے خواب کا راستہ پوچھنے کی حماقت کرے گی
٭٭٭
یہ اک دوہری اذیت ہے
یہ اک دوہری اذیت ہے
اذیت بے سبب ہنسنے کی
بے آرام راتوں کی کہانی
شب زدوں کے سامنے
ہنس ہنس کے کہنے کی
’’خداوندِ خدا کی مہربانی ہے
دعائیں آپ کی ہیں
’’آپ کی سرکارمیں زندہ ہوں، خوش ہوں ‘‘
بطورِ ناصحاں ملتا ہے کوئی
برنگِ مہرباں ملتا ہے کوئی
بہ سعیِ رائے گاں ملتا ہے کوئی
وہ کم آگاہ، کم احساس، کم آواز لڑکی ہے
وہ لڑکی مجھ سے ملتی ہے
مگر اندر اتر جائے تو چبھتی ہے
وہ اپنی کم سوادی جانتی ہے اور سسکتی ہے
عجب صورت ہے وہ جب بھی کہیں جائے تو آ جائے
کہیں رستہ کنارے مجھ سے ٹکرائے تو آ جائے
کبھی بھی اپنی کج فہمی پہ رو جائے تو آ جائے
ہوائے شام کی آواز سن پائے تو آ جائے
ہوائے شام، یہ کیسی محبت ہے
وہ لڑکی مجھ سے ملتی ہے
مگر اندر اتر جائے تو چبھتی ہے
وہ اپنی کم سوادی جانتی ہے اور سسکتی ہے
میں اپنی کم سوادی جانتا ہوں اور ہنستا ہوں
یہ اک دوہری اذیت ہے
٭٭٭
فنا کے لیے ایک نظم
مہربانی رات کا پہلا پہر ہے
صبح زنداں کی ہلاکت
شام وحشت گر کی موت
واجب التعظیم ہے وہ شخص جو پہلے مرا
خشت سے کوزہ غنیمت
کوزۂ وحشت سے وحشت گر کی خاک
خاک سے آبِ نمک
بارشوں میں میں نمک کا گھر بناؤں
برف باری میں پرانے بانس کا
طشت میں سیندور، چھدے سکے سجا کر بیچ رستے پر رکھوں
رات کے کہرے میں کھڑکی کھول کر دیکھوں اسے
صبح تک مردہ پرندے
دوپہر تک اس کے ہونے کا گماں
شام پھر کہرا، کھلی کھڑکی، پرندے
اس کے آنگن کی وہی ہمسایگی
وہ نہیں مرتا جو پچھلی رات تک جاگا کیا
مہربانی رات کا پہلا پہر ہے
لڑکیوں نے گھاس پر نظمیں لکھیں
پاسی کے مٹکے توڑ ڈالے
آنگنوں میں گیت گائے، گھر گئیں
باشوں میں دھوپ سی اس آنکھ نے دیکھا مجھے
کس کو جنگل چاہیے کس کو سمندر چاہیے
یہ حیا آلود شام
کھڑکیوں سے کھڑکیوں تک جھلملاتی جا رہی ہے
قصہ گر زنداں سے چل کر آئے ہیں
آنگنوں کو صاف کر لو
لڑکیوں کو شام کا کھانا کھلا دو
شام سے پہلے سلا دو
وحشتوں کی نیند کچی آنکھ کو زیبا نہیں
شام خوابِ قصہ گر ہے قصۂ زندانِ شام
مہربانی رات کا پہلا پہر ہے
٭٭٭
اور پانی ٹھہر گیا
اور پانی ٹھہر گیا آنکھوں میں چہرہ سیاہ ہوا
اور آنکھیں پھیل گئیں
اور آنکھیں پھیل گئیں آنکھوں میں ہونا گناہ ہوا
اس دن سارے لکھنے والے گھر آئے اور لوٹ گئے
اور سب کی آنکھیں ٹھہر گئیں اور سب کا چہرہ پھیل گیا
ماہی گیروں نے اس دن بے اندازہ جال بنے
اور بچے بھوکے ہی سوئے
اور مائیں بستر بان کسے چپ لیٹ گئیں
اور جب ماہی گیروں کی بستی میں رات آئی
سب جال سمیٹے گھر آئے اور لوٹ گئے
اور سب کی آنکھیں ٹھہر گئیں اور سب کا چہرہ پھیل گیا
یہ رات سمندر پار سے ہو کر آئی تھی
سو بیچ سمندر ٹھہر گئی
اس رات کی جس نے بات لکھی وہ گھر نہ گیا
وہ بیچ سمندر ٹھہر گیا
وہ مٹی کی زنجیروں سے آزاد ہوا
سو آنے والا کل، جو نہیں ہے، اس کا ہے
جب برف سروں پر آئے گی تم جاگو گے
اور پچھلے اونی موزے کام نہ دیں گے
اور شالیں سرسر کھلتی جائیں گی
اور بیویاں ڈر کر اٹھیں گی
اے پچھلی رت کے چلنے والے لوٹ چلو
مردے مردوں کو خود دفن کریں گے
جب بچے شاخوں پر پلتے ہوں، بارش کا کیا خوف
ہاں بارش ساگر کا پہلا ہرکارہ ہے
اور کیلوں کی یہ جوڑی، لڑکے، کل تک ساتھ نہ دے گی
وہ آنکھیں میچے ہنستی ہے اور سوتی ہے
لڑکے، جلدی گھر آ جانا
پانی ٹھہر گیا ہے
اور لڑکا گھر نہ گیا
وہ لڑکا گھر نہ گیا
اور دیکھنے والوں نے دیکھا
وہ برف کے تودے کھینچتا تھا اور روتا تھا
اور گھر پانی کے بیچ جھکولے کھاتا تھا
پانی جو ٹھہر گیا
٭٭٭
اسیری
دن بادل ہے، اپنی رو میں چلتا ہے
رات آنگن ہے، اپنے اندر کھلتی ہے
جس آن تم اس مٹی پر، یا مٹی میں آئے تھے
وہ دن تھا، رات تھی
یا دن رات سے ملنے کی ایک ازلی ابدی کوشش تھی
یا سورج چاند گہن تھا
یا پکی پوری بارش تھی
دن، بادل، بارش، رات، گہن
اک گھر اور ایک اسیر
اب رات کے خواب سے مت ڈرنا
اور دن کے غم میں مت سونا
اب ہنسنا، اور ہنستے میں مر جانا
جیسے اکثر مرنے والے سوتے میں مر جاتے ہیں
اب ہنسنا اور ہنستے میں مر جانے سے مت ڈرنا
اس آن سے کیا، ہر آن یہی
دن، بادل، بارش، رات، گہن
اک گھر اور ایک اسیر
٭٭٭
ریت آئینہ ہے
قیس آسودۂ نقشِ رقصِ رواں
حیرتِ چشمِ پارینہ ہے
ریت آئینہ ہے
اور زنگارِ آئینہ ہر عالمِ چوب و ابر یشم و خاکداں
ریت آئینہ ہے
جب مناروں میں گھنٹی بجی
وہ اچانک مڑی، کل یہاں کوئی تھا
وہ گجر دم اٹھی
اس نے انگڑائی لی، کل یہاں کوئی تھا
سانپ لہراتی سڑکوں پہ چلتے ہوئے وہ رکی
کل یہاں کوئی تھا
کل یہاں کون تھا
قیس آسودۂ نقشِ رقصِ رواں
کون سورج کو انگار زادوں کے گھر لے گیا
کل یہاں بن مرادوں کی بارش کا پہلا پھوارا پڑا
قیس آگاہِ داد و رسد
قیس بے کین و کد
ریت آئینہ ہے اور زنگارِ آئینہ ہر عالمِ چوب و ابریشم و خاکداں
خوف اک سایۂ سائباں
سارے گھر بند ہیں
سارے گھر بند ہیں اور دریچوں پہ بیٹھی ہوئی لڑکیاں مجھ پہ ہنسنے لگیں
نیند اک چاندنی
نیند پتھر پہ پھیلی ہوئی چاندنی
کون پتھر پہ چلتا رہے اور سنبھلتا رہے
کون سوتا رہے
ریت آئینہ ہے
قیس آسودۂ نقشِ رقصِ رواں
حیرتِ چشمِ پارینہ ہے
ریت آئینہ ہے
٭٭٭
بات نہیں ہو سکتی
وہ جو کہتے ہیں، کسی ٹیڑھ بنا کوئی بات نہیں ہو سکتی
سو آن کی آن میں ڈور پلٹ کر ماہی گیر پہ آن پڑی
انہی موسم میں کوئی تم سا دریا پار سے آیا تھا
اور ساری بستی روئی تھی
اس دن بستی میں رونے والوں کا دن تھا، اور تم نے کہا تھا
یہ لوگ سمندر متھ کر پیتے تھے، اب روتے ہیں
اور تم نے کہا تھا
ان لوگوں سے تو ساحل پر کھو جانے والے بچے اچھے ہیں
جو ریت پہ کھیلتے کھیل کو پانی کر دیتے ہیں
سو ٹیڑھ میں تم نے بات کہی
ان لوگوں سے تو ساحل پر کھو جانے والے بچے اچھے ہیں
وہ جو کہتے ہیں، ہر بات میں کوئی ٹیڑھ سی ہو تو بہترہے
ان لوگوں سے سرِشام ملو تو بات نہیں ہو سکتی
اور دن میں ان کے ساتھ کئی دورا ہے چلتے ہیں
اور رات میں ان کے گھر بس نیند کا سودا ہو سکتا ہے
اور نیند کدو کی بیل ہے، سوکھ گئی تو ساحل پر پیغمبر بچہ رہ جاتا ہے
سو ٹیڑھ میں تم نے بات کہی
اب پیغمبر سے بات نہیں ہو سکتی
وہ جو کہتے ہیں، کسی ٹیڑھ بنا کوئی بات نہیں ہو سکتی
سو آن کی آن میں ڈور پلٹ کر ماہی گیر پر آن پڑی
٭٭٭
ابن زیاد کا فرمان
تمھاری ہڈیاں مڑتی نہیں ہیں
رحمِ مادر سے نکلنے کے لیے بیتاب ہو
سوتے رہو، یہ گھر گرھستی کا زمانہ ہے
مویشی اصطبل میں جائیں گے اور اونٹ خیمے میں
فرس ابنِ زیادہ کے لیے عضوِ زیادہ ہے
سواری واسطے مشکی ہرن زنجیر کرتے ہیں
زمینِ شور سے شوریدہ سر، عفریت سے بونے
سمندر سے گلابی مچھلیاں
مٹی سے سورج مکھ کا جنگل
چاردیواری سے اٹھ کر دیکھتا ہے
آنگنوں میں ہل نہیں چلتے
ابوسفیان سے میں نے سنا تھا
ابوسفیان سے میں نے سنا تھا
آنگنوں کا حال، خیموں کی خبر، گھوڑوں کے جل جانے کا قصہ
جب بدک کر بھاگ اٹھے تھے مویشی، اونٹ، سورج مکھ سپہ زاد ے،
ابوسفیان کے بیٹے
ابوسفیان سے میں نے سنا تھا
ابوسفیان سے میں نے سنا ہے
آنگنوں کی خیر لکھی ہے زیاد ابنِ زیادہ نے
نئی بیلیں چڑھائی ہیں پرانی کرسیوں پر
میز پر خرگوش پالا ہے
گھڑوں میں ناریل کی کاشت کی ہے
بیچ انگنائی میں لکھا ہے
تمھاری ہڈیاں مڑتی نہیں ہیں
رحمِ مادر سے نکلنے کے لیے بیتاب ہو
یہ گھر گرھستی کا زمانہ ہے
مویشی اصطبل میں جائیں گے اور اونٹ خیمے میں
٭٭٭
سمندر کی مہربانی
یہ سمندر کی مہربانی تھی
تم نے ساحل کو چھو کے دیکھ لیا
اب ہوا تم سے کچھ نہیں کہتی
موج در موج لوٹتے ہو تم
دھوپ میں اختلاط کرتے ہو
اور ہوا تم سے کچھ نہیں کہتی
کوئی بھی تم سے کچھ نہیں کہتا
سب سمندر کی مہربانی ہے
جاؤ بارش کا اہتمام کرو
ابرِ آوارہ سے پتنگ بناؤ
اب تمھارے ہیں خیمہ و خرگاہ
دور دو بادباں چمکتے ہیں
کشتیوں میں دیے جلے ہوں گے
کوئی ساحل پہ آئے گا اس بار
تم نے سوتے میں پھر سوال کیا
کون ساحل پہ آئے گا اس بار
آؤ دریا نشین ہو جائیں
ہم نے ساحل کو چھو کے دیکھ لیا
٭٭٭
یہ گھر جل کر گرے گا
یہ گھر جل کر گرے گا
تم نے لو دھیمی نہیں کی
ہجرتی، گھر چھوڑنے کے بھی کوئی آداب ہوتے ہیں
چلو دو چار دن رہ لو
کسی کے آنے جانے تک
جہاں تک معصیت ہے، ارتقا کا در کھلا ہے
یہ گھر جل کر گرے گا
ان پرندوں سے کہودہلیز سے آگے نکل جائیں
خداے خشک و تر کی سلطنت اک گھر نہیں ہے
اور موسم ہیں حوادث کے
ابھی بارش بھی ہو گی
ابھی بارش بھی ہو گی
خیمہ دوزوں سے کہو اک بادباں سی لیں
کسی کی بازیابی تک یہ سارا شہر
جلنے کے لیے باقی رہے گا
تم دیے کی لو مگر آہستہ رکھنا
اور موسم ہیں حوادث کے
جہاں تک معصیت ہے، ارتقا کا در کھلا ہے
٭٭٭
برف باری میں
جہاں لکڑی کی میزوں اور ننگی کرسیوں میں
شہ بلوطی گردنوں کا خم نظر آئے
وہاں جھکنا عبادت ہے
میں ننگے پاؤں باہر آ گیا تھا برف باری میں
مری کھڑکی کے نیچے چاندنی سے بھی زیادہ چاندنی تھی
جب ہوا پاگل ہوئی
اور تم نے چہرہ موڑ کر سونے کی کوشش کی
ہوا سنتی نہیں ہے
ہوا جب بھی چلے گی، کھڑکیوں پر ضرب آئے گی
کوئی آواز بھی ہو گی
چلو ایسا کرو، سو لو
تم اپنی نیند دو دن کے لیے محفوظ کر لو
برف باری میں رفاقت کی ہر اک صورت عبادت ہے
٭٭٭
اپنے نام ایک نظم
اسے دکھ کے ساتھ بیاہا گیا
کہ جب آنکھ کھلی تو سر پرسورج، جلتی ناند میں دھول
اسے دھوپ کے ساتھ بیاہا گیا
کہ جو شام پڑے سے دن گزرے تک سوتی تھی
اسے نیند کے ساتھ بیاہا گیا
کہ جو آج کے خواب سے کل کے خواب کا سودا کرتی تھی
اسے بیاہ کے ساتھ بیاہا گیا
کہ جو کشٹ اٹھاتی، دھوپ میں بیٹھی، سائے سے باتیں کرتی تھی
اسے سائے کے ساتھ بیاہا گیا
ملاحوں نے اس کی آنکھوں کی تعریف نہیں کی
بچے اس کو دیکھ کے رکے نہیں
لڑکیاں اس کے لباس پہ چونکیں نہیں
اسے یوں دفنایا جیسے مچھلیاں جال سے جال میں ڈالتے ہیں
اسے یوں نہلایا جیسے بارش آبی پودوں کو نہلا کر خوش ہوتی ہے
اسے شام کے ساتھ وداع کیا
جب چاند گھنے بادل میں چھپتا پھرتا تھا
اور آنکھیں چننے والی مچھلیاں چنی گئی تھیں
اور ناؤ نے ناؤ کے ساتھ گناہ کیا تھا
مٹی پانی کے بیٹے یہ سب کچھ دیکھ چکے ہوتے تو دہشت سے پہلے مر جاتے
یہ دریا دن سے دروازے پر رکا ہوا ہے
دن جو آگاہی ہے
صبح کو بستر تہہ کرنے
دھوپ میں توشک پھیلانے
کپڑے، بستربند سکھانے
رات کی بتی گل کرنے
زنجیر ہلا کر دیکھنے کی آگاہی
یہ دریا دن سے دروازے پر رکا ہوا ہے
یہ دریا رات کو اندر در آئے گا
رات عجب پچھتاوا ہے
اپنے دوسرے کی پہچان کا
دن کو گھر آنے
اک نسل کا قرض اتارنے
کانٹے چبھ کر مر جانے کا پچھتاوا
یہ رات یہ دن کیا تابڑ توڑ گزرتے ہیں
جب اوپر پانی چلتا ہے
اور نیچے مٹی سوتی ہے
اور کوئی من میں پکارتا ہے
مولا مجھ کو بادل کر دے
اور اک پچھلی رات اچانک چیخ کسی کو آ لیتی ہے
اور گھر کا گھر اٹھ جاتا ہے
اور دن کے بہلاوے میں رات بتائی جاتی ہے
اس موسم پانی آگے آئے گا، تم گھر میں مت سونا
جب چھت کی کھپچی جھک جائے
اور پانی چھل چھل دکھتا ہو
تب باہر سونا اچھا رہتا ہے
پھر موسم اپنے موسم ہو جاتے ہیں
اور رت کنیا پازیب اتار کے پھینکتی ہے
پھر کوئی کسی سے یہ نہیں کہتا
مولا مجھ کو بادل کر دے
یا سوتی مٹی
یا چلتا پانی
پھر کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا
پھر سب اپنی سنتے ہیں
پھر بادل بارش رات زمیں سب اک چادر میں سوتے ہیں
اور اک چادر میں چلتے ہیں
اور ہوتے ہیں اور نہیں ہوتے ہیں
اور لفظ کا واحد سرمایہ خاموشی ہے
اور جو لفظ نہیں سنتے ہیں، خاموشی بھی نہیں سنتے ہیں
جب پہلو دار ستون سے ٹیک لگائے لڑکی سوتی ہے
اور حوض کے پاس کھڑے شہزادے
اور ان کی باندیاں
اور سارا شہر
اس آن کہیں چپکے سے ان میں ہو جانا
اور نہیں کہنا، میں آیا ہوں
اچھا ہے
آگاہی اور پچھتاوے اور ایسی موت سے جو یکسر نامعلوم میں ہے
٭٭٭
وہ اپنے ہاتھ میں دنیا کی تہذیبیں اٹھائے آئے گی
وہ اپنے ہاتھ میں دنیا کی تہذیبیں اٹھائے آئے گی اور گر پڑے گی
میں نقشے کی مدد سے اس کے گرنے کی خبر دوں گا
سمندر بے بضاعت ہے، اگل دیتا ہے نیلی کشتیوں کو
آسماں کھڑکی سے باہر پھینک دیتا ہے جہازوں کو
ستارے دیکھ کر چلتے نہیں، مٹی اڑا لے جائے گی ان کو
سو یہ وہ ساعتیں ہیں جب نہیں چلتے ستارے
اور مٹی پھیل جاتی ہے
وہ اپنی آستینیں دھو کے گھر آئے گی اور ان کو اجالے میں سکھائے گی
محبت ایک ڈھیلا لفظ ہے اس کے سمٹنے کا
سو وہ تو کشتنی ہے جو نہیں نکلا سفر پر اور نقشے کی مدد سے اپنے گھر پہنچا
میں آنکھیں بند کر لوں گا
وہ لمبی راہداری کے سرے پر آئے گی اور گر پڑے گی
میں نقشے کی مدد سے اس کے گرنے کی خبر دوں گا
٭٭٭
بے ارادہ زیست کیجے
اکیلا پن پرندے کا
پرندے کا اکیلاپن
سماعت گاہِ ویرانی میں بلبل بولتی ہے
اکیلا پن گڈریے کا
کسی سادہ گڈریے کا اکیلا پن
وہ اس شب بھیڑیوں کے درمیاں تنہا نہیں ہو گا
اکیلا پن مسافر کا
کسی بھولے مسافر کا اکیلا پن
مسافر قوتِ پرواز سے مجبور ہے
آگے نکل جاتا ہے
ساحل پر پرندے گھاس پر ٹوٹے ہوئے پر دیکھتے ہیں
مسافرچونٹیوں کے درمیاں تنہا نہیں ہو گا
اکیلا پن ستارے کا
ستارے کا اکیلا پن
ستارہ ٹوٹتا ہے، راکھ ہو جاتا ہے
مٹی سب چھپا لیتی ہے
مٹی میں کوئی تنہا نہیں ہوتا
فنا تعمیلِ درسِ بے خودی ہے
بے ارادہ زیست کیجے
بے تقاضا پائیے
کوچۂ بنتِ سراے دہر میں چلیے کبھی، سر سلامت آئیے
اور اک رقصِ فنا تعمیلِ درسِ بے خودی
چونٹیوں کے درمیاں، بھیڑیوں کے درمیاں
مٹیوں کے سلسلوں کے درمیاں رقصِ فنا
بے ارادہ زیست کیجے
٭٭٭
زباں پر ذائقہ دو پانیوں کا ہے
زباں پر ذائقہ دو پانیوں کا ہے
سمندر درمیاں ہوتا تو اس سے پوچھتے
کس سمت جائے گا مسافر کل
خنک پانی کے بجرے پر، نمک کی گرم لہروں میں
اکیلا جانے والا جس طرف بھی جائے گا تنہا نہیں ہو گا
محبت پانیوں پر کھیلتی ہو گی
سو یہ جل مکڑیوں کی جعل سازی تھی
کہ ساحل سے الجھ کر لوگ لہروں میں اترتے
اور ان کو خوف ہوتا آنسوؤں کے پانیوں میں خشک ہونے کا
میں ان کو پانیوں کی نذر کرتا ہوں
سو اے آدھے بدن کی مہرباں مچھلی!
تم اپنے آنسوؤں کو خشک مت کرنا
محبت پانیوں پر کھیلتی ہو گی
اور اس کا ذائقہ کھل جائے گا
جس وقت جائے گا مسافر کل
خنک پانی کے بجرے پر نمک کی گرم لہروں میں
٭٭٭
جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا
یہ مصدر اسمِ ماضی کا نہیں ہے
آپ کہیے تو بتا دیتے ہیں ہونے کو
جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا
’’نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا‘‘
وہ تم سے ابنِ ملجم کا پتا پوچھیں تو کہنا
چار ہفتوں سے بہت مصروف ہے
روٹی نہیں کھائی
سروں کی فصل بارِ خشک سالی سے گراں ہے
لوگ مسجد بھی نہیں جاتے
میں اس کو مسجدِ ضرار کے باہر ملوں گا
وہ گھوڑوں کی طرح تھے
فربہ اندامی پہ مائل
ساتھ والی کھڑکیوں پر ہنہناتے تھے
اب ان کے نعل ٹھونکی جا رہی ہے
میرا گھر جانا ضروری ہے
کہ ایسے میں ہمیشہ چھٹیوں کا کال ہوتا ہے
چلو گھر کی طرف چلتے ہیں
باہر برف باری ہے
میں تم پر نظم لکھوں گا
محبت لڑکیوں کو اصطبل میں چھوڑ آتی ہے
میں تم کو بیچ کھڑکی میں بٹھا کر نظم لکھوں گا
تمھیں آتا تو ہو گا درمیاں سے لوٹنا
میں لوٹنے پر نظم لکھوں گا
یہ مصدر اسمِ ماضی کا نہیں ہے
تم جو کہہ دو تو بلا لیتے ہیں گھر سے ابنِ ملجم کو
مجھے اپنی زمینِ اصطبل کی قسط دینی ہے
اسے بھی کوئی صورت چاہیے گھر سے نکلنے کی
٭٭٭
جی ڈرتا ہے
جی ڈرتا ہے بے غرض محبت کرنے والے
اچھی نسل کے دوستوں سے
انھیں دریا بیچ جواب ملا
یہ کشتی چھ شہتیروں اور دس کیلوں سے
یہیں دریا بیچ بنائی تھی
سواس میں آگ لگی
جی ڈرتا ہے
تمھیں لوٹ کے آنا اچھا لگا
مجھے چھت کی بیلیں ہری ملیں
انھیں دھوپ نہ دینا جاڑوں میں
یہ بستر میرے گھر کے نہیں
تمھیں فکر ہوئی، مجھے خوف آیا
سب جاننا اچھا ہوتا ہے مگر اکثر فرق نہیں پڑتا سب جاننے سے
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے
میں جانتا ہوں
مجھے تیرنا آنا چاہیے تھا
بے غرض محبت کرنے والے اچھی نسل کے دوستوں کی ہمراہی میں
مجھے ان سے الگ
کچھ اپنے لیے بھی سوچنا چاہیے تھا
میں جانتا ہوں
یہ آگ اضافی کوشش تھی
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تب کشتی ڈوبنے لگتی ہے
اب لوٹ آئے تو فکر کرو
یہ کشتی ڈوب بھی سکتی تھی
یہ بستر بھیگ بھی سکتے تھے
یہ دریا لوٹ بھی سکتا تھا
بے غرض محبت کرنے والے اچھی نسل کے دوستوں کی ہمراہی میں
ہر کام الٹ ہو سکتا تھا
٭٭٭
وہ آنکھیں کنول بنیں
وہ آنکھیں کنول بنیں اور خشک ہوئیں
اور کنول بنیں اور خشک ہوئیں
کوئی دیکھنے آیا؟
آنکھیں آن کی آن میں کنول بنیں اور خشک ہوئیں
اور دلدل پھیلا سمٹ گیا
اور رات کی چادر پھیل گئی
کوئی دیکھنے آیا؟
آن کی آن میں دلدل پھیلا سمٹ گیا
اب ہاتھی دانت کے رسیا آئیں تو آئیں
تم گھر کی میلی چادر لے کر آئے تھے
اور جھاڑی میں چڑیوں کے انڈے ڈھونڈتے تھے
اور خوش تھے
اور انڈے ہاتھ ہی ہاتھ میں ٹوٹ گئے
تم روئے تھے
اور رونے والے گھر جا کر بھی روتے ہیں
وہ آنکھیں کنول بنیں اور خشک ہوئیں
اور کنول بنیں اور خشک ہوئیں
کل بارش کیسی تیز ہوئی
نت بادل پھیلے دیے جلے
میں چادر اوڑھ کے بیٹھ گیا
جو چادر اوڑھ کے بیٹھ گیا سو چادر اوڑھ کے بیٹھ گیا
پھر پتھر جیسا دن نکلا
وہ آنکھیں کنول بنیں اور خشک ہوئیں اور کنول بنیں اور خشک ہوئیں
تم جنگل جا کر دیکھو گے
جب پتے مٹی میں دب جاتے ہیں
مٹی کے ہو جاتے ہیں
اب پتوں کا کیا رونا
اور آنکھوں کا کیا رونا
اور دلدل کا کیا رونا
وہ ہاتھی دانت کے رسیا تو آئیں گے
میں کندھا دینے چلا کسی کو
اور کہیں کو چل نکلا
اب جو گی بنوں یا شعر کہوں
اب آنکھیں کنول بنیں یا بجھ جائیں
اب دلدل پھیلے یا سمٹے
اب دلدل کا کیا رونا
اب آنکھوں کا کیا رونا
اب رونے والوں پر رونے والوں کا کیا رونا
٭٭٭
اور پھر چاند نکلتا ہے
اور پھر چاند نکلتا ہے
اور پھر سارا شہر سمٹ کر تیرے گھر کا آنگن بن جاتا ہے
اور شام سے پہلے سو جانے والے بچے جاگ اٹھتے ہیں
اور میں تیرے ساتھ نہ جانے کس کس گھر میں جاتا ہوں
کن کن لوگوں سے ملتا ہوں
اور تو ساتھ نہیں ہوتا ہے
اور میں تنہا ہی رہتا ہوں
اور یوں پچھلی رات کا پیلا چاند مری دہلیز پہ کچا سونا بکھراتا ہے
بھولے بسرے چہرے آنکھیں ملتے اٹھتے ہیں
اور میں ٹھنڈے دروازے سے لگ کر سو جاتا ہوں
اگلے دن میں کھو جاتا ہوں
اور پھر چاند نکلتا ہے
اور پھر سارا شہر سمٹ کر تیرے گھر کا آنگن بن جاتا ہے
اور پھر میں سو جاتا ہوں
٭٭٭
ہونا سب سے بڑا الجھاوا ہے
ہونا سب سے بڑا الجھاوا ہے
شاخِ صنوبر چاند کی آس میں جاگتی ہے
اور دن بھر سونے والے گھر کی دہلیزوں پر آ کر بیٹھتے ہیں
اور خواہش و خواب کے اندیشوں میں رات
سمٹتے پیراہن کی لذت بن کر روزنِ در سے جھانکتی ہے
بچے ماؤں کی گردن میں بانہیں ڈالے سوتے ہیں
خواب ہماری مائیں ہیں
خواب ہماری مائیں ہیں
اور راہ کنارے بیٹھے لڑکے گھر کو جانے والا سب سے لمبا رستہ چنتے ہیں
شادابی اس شہر میں اک دن آئی تھی
شادابی ہر شہر میں اک دن آتی ہے
اور ہر شہر کے اک گوشے میں سناٹے کی چادر تانے
ایک اکیلا گھر سوتا ہے
باری باری ایک اک آنے والا
ایک نہ اک دن اس گھر میں آتا ہے
شادابی اس شہر میں اک دن آئی تھی
اس دن شہر پناہ میں سب سے پہلا آنے والا میں تھا
اور چاند سمان جھلاجھل چہرے فانوسوں کا سوت بنے تھے
چاند اکیلا گھر
سو اک دن ہر جانے والا اس گھر میں جاتا ہے
مائیں اپنے بچوں کو اس گھر میں جا کر جنتی ہیں
بہنیں ڈھول سہاگ الاپ کے روتی ہیں
اور بیٹے
ساز سجائے میدانوں میں گھوڑے دوڑاتے ہیں
خیموں میں ہر رات الاؤ جلائے جاتے ہیں
اور زخمی جسم کو داغا جاتا ہے
اور مرنے والوں کی فہرست بنائی جاتی ہے
خواہش خواب اندیشے خوف
کبھی نہ تھکنے والے پیادے
ہم میدانی لوگ
سو اک دن ہر جانے والا اس گھر میں جاتا ہے
اس کے بعد جو ہے وہ شہر پناہ میں آنے کا پچھتاوا ہے
ہونا سب سے بڑا الجھاوا ہے
٭٭٭
ایک اتفاقی موت کی روداد
سراسر اتفاقی موت تھی
اس نے کہا تھا، مجھ کو جانا ہے
سو وہ ایسے گیا جیسے زمیں سے گھاس جاتی ہے
سراسر اتفاقاً
پاؤں چلنے کے لیے ہوتے ہیں
اتنا توسبھی تسلیم کرتے ہیں
تو ایسے میں اگر مٹی کی عریانی شکایت گر بھی ہو جائے
تو اس پر اور مٹی ڈال دیتے ہیں
سو ہم نے ڈال دی مٹی پہ مٹی
اتفاقاً
یہ تو ہوتا ہے
سراسر اتفاقی حادثہ تھا
اس نے خود لکھا تھا
دنیا بیچ آنا اتفاقی امر ہے
جانا سراسر حادثاتی
تو اس پر تو عدالت نے بھی کچھ حجت نہیں کی
اس نے خود لکھا تھا
’’حجت نفسیاتی عارضہ ہے ‘‘
سو عدالت نے بلا تفتیش اسے جانے دیا
جیسے زمیں سے گھاس جاتی ہے
سراسر اتفاقاً
بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے
ہمیشہ اتفاقاً
٭٭٭
اگر تم دو قدم اوپر گئے
اگر تم دو قدم اوپر گئے بادل کو چھو لو گے
کہیں بارش میں برسو گے
کسی پتھر پہ روندے جاؤ گے
چھت سے گرو گے
چھتریوں پر سوکھ جاؤ گے
نکالیں گی تمھیں گھر والیاں گھر سے
اٹھا کر ڈال دیں گی دھوپ میں
ان گدڑیوں کے ساتھ
جن کو چھوڑ کر تم دو قدم اوپر گئے تھے ایک دن
جب حبس تھا اور لوگ باہر سو رہے تھے
٭٭٭
ساعتِ آغاز کی بے معنویت
ساری بے معنویت ساعتِ آغاز میں تھی
جب ہوا گرم ہوئی
سائبانی کے لیے دھوپ میں ایک پتھر تھا
سفر آغاز کیا
رات اعصاب شکن لائی تھی بستر پہ اسے
وہ بھی دیوار بنا جس پہ گری تھی دیوار
کوئی دم بیٹھ لیے
پھر سفر آغاز کیا
دل نے چاہا تھا کہ رو لیں مگر اب کیا رونا
دوڑ کی آخری حد پر بھی کوئی روتا ہے ؟
ہاں مگر وہ جو ابھی ساعتِ آغاز میں ہے
دوڑ کی آخری حد جس کے لیے راز میں ہے
٭٭٭
مسلسل چلتے رہنے کی خوشی میں
یہاں سے دو کنیزیں جا رہی تھیں
راستے میں خود سے آسودہ ہوئیں
اور سو گئیں
ساون کے میلے میں
مسلسل چلتے رہنے کی خوشی آسودہ کرتی ہے
مسلسل چلتے رہنے کی خوشی میں لیٹ جاتی ہے محبت گھاس میں،
پتھر کی سل پر، یادگاری سیڑھیوں کے بیچ
گیلے موسموں میں پاؤں میں آتی ہوئی ان سیڑھیوں کے ساتھ
جن پر لوگ چلتے ہیں
اور اک دم ہنسنے لگتے ہیں
مسلسل چلتے رہنے کی خوشی میں
اب ان کے پاؤں پر شبنم گرے گی
آؤ چل دیں، باندھ لیں جوتوں کے تسمے
آؤ چل دیں ان کنیزوں کے تعاقب میں
جو آسودہ ہوئیں
اور سو گئیں پتھر کی سل پر
یادگاری سیڑھیوں کے بیچ
گیلے موسموں میں
اب ان کے پاؤں پر شبنم گرے گی
٭٭٭
صلیب گر پڑی
صلیب گر پڑی
مہندسوں نے درمیانِ شہر بر نشیب
جو بنائی تھی
صلیب
گر پڑی
ہجوم منتظر تھا شام سے
کہ ایک سیاہ فام سے
جوانِ ناتمام سے خبر ملی
تمام رات کی تھکی ہوئی
بدن کے بوجھ سے جھکی ہوئی
نشیب سے اڑی ہوئی کھڑی تھی جو غریب
گر پڑی
ہجوم منتظر تھا شام سے
نشیب پر کسی طرح قدم جمائے اک ہجوم منتظر تھا شام سے
کہ پھر صلیب گر پڑی
صلیب گر پڑی
٭٭٭
ہجوم
یہ ہجوم صورتِ آسمانِ سیاہ میرے عقب میں ہے
میں بڑے بلند شجر کا پھل، بڑے فاصلے کا شکار
غمزۂ راز دار
کہا گیا کہ زمین اک کفِ جو، پہاڑ موجِ نسیمِ گیسوے خلوتی
سو زمین سایۂ تیرگی کی مثال میرے عقب میں ہے
مجھے نیند سے جو اٹھا کے جرعۂ آب دے
جو پسِ غبار چہار سمت سے آ کے میرا ہلاک ہو
جو دمِ شگفتِ گلِ شفق میری کہنیوں سے قریب ہو
وہ ہجومِ خلوتیانِ خاص میرے عقب میں ہے
میں سماعتوں کا شکار تھا
تو سماعتوں کا سحاب صورتِ آب میرے عقب میں ہے
کوئی راستے میں نہیں ملا
کوئی برگ و بار و گل و شجر
کوئی نان و لحمِ گزشتگاں
کوئی آنکھ، نیند، خیال، خواب ابر شتاب نہیں ملا
کوئی خواب زادہ نہیں ملا
سرِخود نہادہ نہیں ملا
سرِ خود نہادہ بکف یہ مَیں کہ زمین اک کفِ جو
پہاڑ موجِ نسیمِ گیسوے خلوتی
سرِ خود نہادہ بکف یہ میں کہ ہجومِ مارِ سیاہ میرے عقب میں ہے
میں بڑے بلند شجر کا پھل
بڑے فاصلے کا شکار، غمزۂ راز دار
٭٭٭
زندگی
اور طوفان کے بعد
اکھڑے گرے پیڑوں، بھیگے تنوں
صبح کی مرگھلی دھوپ میں سوکھتے سبز پتوں کی بو میں
میں تنہا چلا جا رہا ہوں
میرے چاروں طرف
ٹن کی اونچی چھتیں ہیں پتنگوں کی مانند بکھری ہوئی
اور لکڑی کی شہتیریں جیسے پتنگوں کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ
اور بجلی کی تاریں کہ جیسے پتنگوں کی الجھی ہوئی ڈور
ہوا نم ہے
اور شہر کے چوک پر گدھ اتر آئے ہیں
اور اکھڑی جڑوں کے کناروں کی گیلی زمیں پر
پھٹے بھیگے کپڑوں میں بچے
گھروندے بناتے ہیں، بلّور کی گولیاں کھیلتے ہیں
٭٭٭
یہ آنکھیں
یہ آنکھیں ہر در و دیوار میں آنکھیں
یہ آنکھیں ریستورانوں میں ایوانوں میں کلبوں میں
ترے گھر کی اندھیری کوٹھری میں
جسم میں روحوں میں سانسوں میں
کلیسا کے دھواں دیتے ہوئے ہر طاق میں آنکھیں
یہ آنکھیں منبر و محراب میں آنکھیں
یہ آنکھیں جاگتے میں خواب میں آنکھیں
یہ آنکھیں غول کی صورت جھپٹتی ہیں
کہ جیسے شہر میں خونی پرندے آ گئے ہیں
رفیقِ جاں، اندھیری سیڑھیوں میں یوں اکیلی مت کھڑی ہونا
یہ آنکھیں !
٭٭٭
یہ اچھے لوگ ہیں
یہ اچھے لوگ ہیں ان سے نہ ملنا
اور ملنا بھی تو ان کی آستینیں دیکھ لینا
یہ اچھے لوگ ہیں اور بے شکن شائستگی ان کا مقدر ہے
یہ اچھے لوگ ہیں اور بے صدا شوریدگی ان کا مقدر ہے
لپکتے پانیوں کی آخری آسودگی ان کا مقدر ہے
یہ اچھے لوگ ہیں جب شام ہوتی ہے
تو بے آواز گلیوں کے سہارے
کنجِ گویائی میں اپنی آگ لینے جاتے ہیں
اور راستے بھر خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں
یہ اچھے لوگ ہیں اور آگ ان کا مسئلہ ہے
یہ اچھے لوگ ہیں صدیوں سے ان کی مائیں کہتی آ رہی ہیں
پڑوسن آگ دینا
دھواں دیتے ہوئے چولھے کی صبحیں
آنگنوں میں پھیلتے سائے
کرنجی دھوپ، بھوری آنکھ والی لڑکیوں جیسی
وفا نا آشنا شامیں
توے کو سینکتے ٹھٹھرے ہوئے ہاتھ
اور راتوں کی الجھتی سلوٹیں
جسموں کی آسودہ صلیبیں
اسپتالوں میں جنم دیتی ہوئی مرتی ہوئی مائیں
یہ شمشانوں کی بیوائیں
کئی صدیوں سے دہرائیں
’’پڑوسن آگ دینا‘‘
پڑوسن، آگ، خمیازہ
انہی رستوں کا آوازہ
انہی رستوں پہ چلنا اور یہی کہنا
یہ اچھے لوگ ہیں ان سے نہ ملنا
اور ملنا بھی تو ان کی آستینیں دیکھ لینا
٭٭٭
محبت آگ ہے
یہ کیسی آگ تھی جو سربزانو لڑکیوں کے گرد ہلکورے بناتی
اٹھتی گرتی، دائروں میں رقص کرتی
پا برہنہ گھومتی تھی
محبت کرنے والوں کے لیے کم وقت تھا اس آگ میں
جو لوٹتی ہے گھاس پر
اور راکھ ہو جاتے ہیں پتے، پھول، جنگل، بوٹیاں، ریشم کے کیڑے
جب محبت کرنے والے تن برہنہ بیٹھتے ہیں
بند کمروں میں
اور ان کے درمیاں یہ آگ ہوتی ہے
مسلسل گھومتی ہے
زندگی انبار کرتی ہے
برابر تہہ بہ تہہ اک دوسرے پر ٹھیک سے رکھی ہوئی وہ زندگی
جس کے لیے کم وقت ملتا ہے محبت کرنے والوں کو محبت میں
پھر اس کے بعد دریا کا سفر اور مشتِ خاک اپنی
اور اک عالم کا اٹھ کر دیکھنا
کیسا سمندر آدمی تھا
٭٭٭
آلودگی
جو کہو سچ کہو
اس لیے کہ جو کہہ دو گے سب کچھ فضا میں، سمندر میں، تحلیل ہو جائے گا
اور فضا کو، سمندر کو، آلودہ کرنے کا تم کو کوئی حق نہیں
٭٭٭
مہم جو لوگ اکثر ایسے ہوتے ہیں
مہم جو لوگ اکثر ایسے ہوتے ہیں
کہ ان نے کشتیاں کاندھوں پہ ڈالیں اور ساحل پر گئے
دریا بلا کا کینہ پرور تھا
سو اکثر پھیل جاتا تھا پرانی بستیوں میں
کشتیاں نیچے اتر آتی تھیں
اتھلے پانیوں سے نیم گہرے پانیوں میں
اور دریا لوٹ جاتا تھا
پھر ان کی حیثیت ویسی نہیں رہتی تھی جیسی وہ سمجھتے تھے
مہم جو لوگ اکثر ایسے ہوتے ہیں
کہ ان نے کشتیاں کاندھوں پر ڈالیں
اور دریا پر گئے
سو ان کو لے گیا بہتے بہاتے ان نکے لیے پتھروں کے درمیاں
جن میں کہیں پانی نہیں تھا
سو ان نے کشتیاں کاندھوں پہ ڈالیں
اور ساحل پر گئے
پھر کشتیاں کاندھوں پہ ڈالیں اور ساحل پر گئے
دریا بلا کا کینہ پرور تھا
اب ان سے کوئی پوچھے
کشتیاں کیسی سواری ہیں
سمندر کَے برس دن کی مسافت کا ہے
دریا کتنا زیادہ کینہ پرور ہے
اب ان سے کوئی پوچھے
کیا مہم جو لوگ سارے ایسے ہوتے ہیں
٭٭٭
سفر ایسا بھی ہوتا ہے
وہ اپنے خیمۂ صحرائی میں ہے
سب زمینوں سے الگ
سورج کے بالکل ٹھیک نیچے
رات کی پھیلی ہوئی شبنم اسے پہچانتی ہے
جس نے دیکھا بھی نہیں اس کو
جو اپنے خیمۂ صحرائی میں ہے
بارشوں میں کھیتیاں چاول کی کیسے جھولتی ہیں
جب ہوا چلتی ہے ان سے پوچھتی جاتی ہوئی
سب ٹھیک ہے ؟
سب ٹھیک ہی ہوتا ہے اکثر
بارشوں کے درمیاں، سورج تلے
یا ان زمینوں پر جہاں کچھ بھی نہیں ہوتا
مگر آنکھیں
مسلسل دیکھتی رہتی ہیں جو کچھ دیکھتی رہتی ہیں آنکھیں
اور اپنے خیمۂ صحرائی سے باہر نہیں آتیں
سفر ایسا بھی ہوتا ہے
سفر ایسا بھی ہوتا ہے چراغوں کا
جو دریا پر مخالف سمت رکھے جا رہے ہوں بے دھیانی میں
سفر ایسا بھی ہوتا ہے
سپرانداز بوڑھے قیدیوں نے جس طرح سَو ناریل پانی میں ڈالے
اور سَو واپس چلے آئے
سفر ایسا بھی ہوتا ہے
سفر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب زادِ سفر اپنی جگہ رہتا ہے
دروازے نہیں کھلتے
اور اس اثنا میں سارا شہر خالی ہونے لگتا ہے
مگر آنکھیں
نئے کپڑوں پرانے برتنوں کے درمیان الجھی ہوئی آنکھیں
مسلسل دیکھتی ہیں اور اپنے خیمۂ صحرائی سے آگے نہیں جاتیں
سفر ایسا بھی ہوتا ہے
٭٭٭
نیر آپا کے نام
اس حد پہ کہ صحرا میں اکے لیے نکل آئے
دو حرف لکھو اور سلامت بھی رہو تم
ویسے تو پس در خنک آثار ہوا ہے
٭٭٭
زینی!
زینی! دروازے پر پہریدار کھڑے ہیں
گھر جانا ٹھیک نہیں ہے، سوتے ہیں
دیواروں نے دیواروں پر مہر لگائی، آنکھیں سیل گئیں
دل درویش قلندر تجھ سے مل کر جتنا غنی ہوا
سب ہار گیا
میں جھانجھر بیچنے والی عورت سے تجھے مانگ لیا اور بری ہوا
ہم دن بھر شہر میں گھومے، تنگ ہوئے اور بیٹھ لیے
دو جھانجھر ایک صراحی پر ہم غنی ہوئے
سو رقص کرو اور آبِ نجات پیو اور سو جاؤ
گھر جانا ٹھیک نہیں ہے زینی
دروازے پر پہریدار کھڑے ہیں
٭٭٭
بہار آئی تو انجم شناس کہنے لگے
بہار آئی تو انجم شناس کہنے لگے
پتنگ ساز پہ اک نظم لکھی جائے گی
پتنگ ساز پہ اک نظم لکھی جائے گی
کہ آسماں کو تماشا بنا دیا اس نے
کہ اس کے ہاتھ میں ہے شہرِ بے مہار کی ڈور
وہ ساربان ہے اور منزلِ زفاف میں ہے
سو اس کا نام جو آئے مہِ زوال کے ساتھ
اسے سلام کرو اور اپنے گھر میں رہو
گہن کا وقت ہے، جائے نماز تہہ نہ کرو
دعا درود کی حاجت ہے شاہزادے کو
جو بے چراغ ہے اور منزلِ رفاف میں ہے
سو اس سے پہلے کہ آنگن میں چاندنی بچھ جائے
دعائیں یاد کرو وہ جو بھولنے کی ہیں
اور اپنے گھر میں رہو
کل اس پہ نظم سرِ بزم لکھی جائے گی
بہار آئی تو انجم شناس کہنے لگے
٭٭٭
خراب ہو گئیں آنکھیں
خراب ہو گئیں آنکھیں، نگاہ بازوں نے
قمار خانۂ آسودگی میں دیکھا کیا
’’نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے ‘‘
کسے خبر ہے کہاں کون کس کو ہار گیا
خیال روز یہی راگنی الاپتا ہے
جو چلنے والے ہیں چلتے رہیں گے پھر بھی کبھی
جو گر گئے تو اٹھا لو، جو اٹھ گئے تو الگ
ہر آنکھ اپنی جگہ ٹھیک ٹھیک دیکھتی ہے
سو آنکھ دیکھ رہی تھی کہ ساری خلقت میں
کسی نے کچھ نہ کہا اور فصیل آن گری
پھر اس کے بعد جو ملبہ ہٹا تو شہر کا شہر
یہ کہہ رہا تھا کہ آنکھیں خراب تھیں ان کی
قمار خانۂ آسودگی میں تھے سب لوگ
کسے خبر تھی کہاں کون کس کو ہار گیا
٭٭٭
میں حاضر ہوں میرے رب میں حاضر ہوں
میں حاضر ہوں اے فلک الافلاک کے خالق اے روح الارواح
اے وہ جس کے لاتعداد مظاہر جس کی ایک اکیلی ذات
اے وہ جو میرے اندر ہے اور میں جس سے الجھتا رہتا ہوں
اے وہ جو میرے اندر اک گہرے دکھ کی صورت رہتا ہے
اور میں جس سے سکھ کے رستے پوچھتا ہوں
اور شام سے پہلے گھر واپس آ جاتا ہوں
اے وہ جس کا ہونا میرے ہونے کی پہلی آگاہی ہے
اے وہ جو ایک دن میری سانسوں کی گرہیں کھولے گا
اور مجھ کو مٹی کی زنجیروں سے آزاد کرے گا
اور میں کہتا جاؤں گا
میں حاضر ہوں میرے رب میں حاضر ہوں
میں حاضر ہوں اے فلک الافلاک کے خالق اے روح الارواح
٭٭٭
رات ڈھلنے لگی ہے
رات ڈھلنے لگی ہے
مری جاں ہو تم
چاند کو الوداع کہنے کھڑکی پہ جانا
تو میرے دریچے کی جانب ذرا دیکھ لینا
جہاں میز پر روشنی ایک ساعت بھی بجھتی نہیں ہے
٭٭٭
اب ایسے بھی کوئی دن اور جی لیں گے
اب ایسے بھی کوئی دن اور جی لیں گے
منڈیروں پر جو سوتے ہوں انھیں کروٹ بدلنا کیا ضروری ہے
ہم ایسے بھی کوئی دن اور جی لیں گے
پرانی گٹھریوں کے بیچ اُکڑوں بیٹھ کر
جب آخری تحریر لکّھی جا رہی ہو
آخری لشکر گزر کر جا چکا ہو
آخری دن کی گواہی کے لیے رکنا ضروری ہو
ہم اپنی سخت جانی میں کوئی دن اور جی لیں گے
گھڑی اونچی جگہ آویزاں رکھو
پپوٹے بند کر دو ساری آنکھوں کے
کھلی آنکھیں گواہی کی ضمانت تو نہیں ہیں
ہم یہیں ہوں گے
یہ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ یونہی تاعمر رہ جائے
سو ہم بھی جیسے جتنا ہو سکے گا خود ہی جی لیں گے
ہمیں فرصت نہیں ہے خیر و شر کے درمیاں تفریق کرنے کی
ہم ایسے بھی کوئی دن اور جی لیں گے
منڈیروں پر جو سوتے ہوں انھیں کروٹ بدلنا کیا ضروری ہے
٭٭٭
میں نے فرمان کے حاشیے پر لکھا
میں نے فرمان کے حاشیے پر لکھا ’’مسترد‘‘
جھوٹ بازار تک ٹھیک ہے
جھوٹ بازار تک ٹھیک ہے
یا سپاہی کی رفتار تک
جس کا دشمن
کسی اور ہی شہر میں اور ہی دشمنوں کے تعاقب میں مصروف ہے
جھوٹ بازار تک ٹھیک ہے
جھوٹ بازار تک ٹھیک ہے
یا سپاہی کی تلوار تک
جس کا دشمن اِسی شہر میں اُس کے گھر خوانِ نعمت پہ موجود ہے
جھوٹ تلوار تک ٹھیک ہے
جھوٹ تلوار تک ٹھیک ہے
یا معلم کی دستار تک
جس کی مُشکیں کسی جا چکی ہیں مگر سر پہ دستار کارِ فضیلت پہ مامور ہے
جھوٹ دستار تک ٹھیک ہے
جھوٹ دستار تک ٹھیک ہے
یا دبستاں کی دیوار تک
جس کی گرتی ہوئی اینٹ کو
روک لیتی ہے ویسی ہی اک اینٹ کہتے ہوئے
جھوٹ اِس بار تک ٹھیک ہے
جھوٹ اِس بار تک ٹھیک ہے
ایک گرتی ہوئی اینٹ کہتی ہے دیوار سے
اور بچا لیتی ہے ہم سے کتنے ہی اہلِ قلم کو
جو ہر صبح لکھتے ہیں دیوار پر
میں نے فرمان کے حاشیے پر لکھا ’’مسترد‘‘
اور ہر صبح اک اینٹ کہتی ہے گرتے ہوئے
جھوٹ اِس بار تک ٹھیک ہے
٭٭٭
اس نے تو کچھ کہا بھی نہیں
(انفعالی مزاحمت پر ایک نظم)
آموختہ فساد کا مجنوں سنائے گا
اس کو خبر ہے کوچۂ لیلیٰ میں کیا ہوا
پتھر کی چوٹ سر پہ زیادہ کہ پیٹھ پر
تکلیف دہ ہے پاس کا پتھر کہ دور کا
کتنا بلند ہاتھ ہو پتھر کے واسطے
اک ساتھ کتنے لوگ بڑھیں سنگ کے لیے
اس بات نے فساد اٹھایا ہجوم میں
اُس نے تو کچھ کہا بھی نہیں اور پڑ گیا
اس بات پر غبار اٹھایا ہجوم نے
اُس نے تو پاؤں بھی نہ ہٹائے زمین سے
اس بات نے کمال دِکھایا ہجوم میں
وہ مطمئن ہوئے کہ سزا کام کر گئی
پھر دیر تک حساب رہا سنگ و دست کا
جو سنگ بچ گئے تھے وہ منہا کیے گئے
جو ہاتھ رہ گئے تھے علیحدہ کیے گئے
یوں دیر تک حساب رہا سنگ و دست کا
پھر اس نے ایک آخری کروٹ زمیں پہ لی
پھر اس نے دیر تک یہی دیکھا کہ دیکھنا
بے سود تو نہیں تھا
کہ اس دیکھنے کے ساتھ
سب دیکھنے لگے کہ کہاں کس کی بات پر
کس بات نے قتال مچایا ہجوم میں
پھر وہ ہوا کہ جس کی خبر بس اُسی کو ہے
آموزگارِ شہر کو بس انتظار ہے
آموختہ فساد کا مجنوں سنائے گا
٭٭٭
آوارگی کے بڑے راستے ہیں
قسم تاج کے گنبدوں کی
شوالے کے نیچے سے بہتے ہوئے پانیوں کی
یہ ساحل کی مٹی سے گوندھی ہوئی لڑکیوں کی قسم
میں ہر شام ہفتے کی ڈھلتی ہوئی شام کا ذائقہ چاہتا ہوں
زمیں خود سپردن کے عالم میں لیٹی ہوئی ایک لڑکی کی مانند ہے
اور میں چھاجوں برستے ہوئے پانیوں میں
خود اپنے پروں میں چھپا جا رہا ہوں
اور اب جب مرے گھر کے آنگن میں
موسم کا پہلا شگوفہ کھلا ہے
تو میں اس کا کیسے سواگت کروں
کہ اب بھی حویلی کے پیچھے
درختوں میں آوارگی کے بڑے راستے ہیں
٭٭٭
چلو یہ نظمیں تو تمام ہوئیں
چلو یہ نظمیں تو تمام ہوئیں
تم ماہ و نجوم کے بے آباد جزیروں سے اس شہر کے پرنالے تک
جتنے عالم تھے سب دیکھ آئے
مجھے چھت کی مکڑیاں گھورتی ہیں
اس کمرے میں مضبوط سا اک دروازہ ہونا چاہیے تھا
اک کھڑکی موٹی چادر کی
اک قفل جسے تم بند کرو، میں کھول سکوں
اک بستر جس کا تہہ کرنا تمھیں یاد رہے
اک روشنی جس کے بجھنے سے تمھیں نیند آئے
اک تاریکی جو میری بھی ہو تمھاری بھی
تمھیں شاد کرے
اور ماہ و نجوم کے بے آباد جزیروں سے اس شہر کے پرنالے تک
جتنے عالم ہیں سب کو آباد کرے
ان نظموں سے جو میری بھی ہوں تمھاری بھی
چلو یہ نظمیں تو تمام ہوئیں
اب کمرے میں مضبوط سا اک دروازہ لگا کر سو جاؤ
اس قفل سے جس کو میں کھولوں، تم بند کرو
یہیں بیٹھے بیٹھے بستر سے جسے تہہ کرنا
تمھیں یاد رہے
٭٭٭
ماخذ
http://www.adbiduniya.com/2016/06/ret-aaina-hai-by-muhammad-anwar-khalid.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید