فہرست مضامین
- رُکے رُکے سے قدم
- جمع و ترتیب: حسنین حیدر
- عادتاً ہم نے اعتبار کیا
- دن کچھ ایسے گذارتا ہے کوئی
- حواس کا جہان ساتھ لے گیا
- کچھ روز سے وہ سنجیدہ ہے
- ہر ایک غم نچوڑ کے ہر ایک رس جیے
- ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا
- تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے اِدھر آتے ہوئے
- کھلی کتاب کے صفحے اُلٹتے رہتے ہیں
- خوشبو جیسے لوگ ملےافسانے میں
- اوس پڑی تھی رات بہت اور ہلکی تھی گرمائش پر
- ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا
- وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا
- بے سبب مسکرا رہا ہے چاند
- مجھے اندھیرے میں بیشک بٹھا دیا ہوتا
- گلوں کو سننا ذرا تم، صدائیں بھیجی ہیں
- ایک پرواز دکھائی دی ہے
- پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں
- زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
- ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
- جب بھی یہ دِل اُداس ہوتا ہے
- کہیں تو گرد اُڑے یا کہیں غبار دِکھے
- شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
- ذکر جہلم کا ہے ، بات ہے دینے کی
- تنکا تنکا کانٹے توڑے ، ساری رات کٹائی کی
- رُکے رُکے سے قدم رُک کے بار بار چلے
رُکے رُکے سے قدم
گلزار کی غزلیں
جمع و ترتیب: حسنین حیدر
عادتاً تم نے کر دیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
تیری راہوں میں بارہا رک کر
ہم نے اپنا ہی انتظار کیا
اب نہ مانگیں گے زندگی یا رب
یہ گنہ ہم نے ایک بار کیا
٭٭٭
دن کچھ ایسے گذارتا ہے کوئی
جیسے احساں اتارتا ہے کوئی
آئینہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
دل میں کچھ یوں سنبھالتا ہوں غم
جیسے زیور سنبھالتا ہے کوئی
پک گیا ہے شجر پہ پھل شاید
پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی
دیر سے گونجتے ہیں سناٹے
جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی
٭٭٭
حواس کا جہان ساتھ لے گیا
وہ سارے بادبان ساتھ لے گیا
بتائیں کیا، وہ آفتاب تھا کوئی
گیا تو آسمان ساتھ لے گیا
کتاب بند کی اور اُٹھ کے چل دیا
تمام داستان ساتھ لے گیا
وہ بے پناہ پیار کرتا تھا مجھے
گیا تو میری جان ساتھ لے گیا
میں سجدے سے اُٹھا تو کوئی بھی نہ تھا
وہ پاؤں کے نشان ساتھ لے گیا
سِرے اُدھڑ گئے ہیں صبح و شام کے
وہ میرے دو جہان ساتھ لے گیا
٭٭٭
کچھ روز سے وہ سنجیدہ ہے
ہم سے کچھ کچھ رنجیدہ ہے
چل دِل کی راہ سے ہو کے چلیں
دلچسپ ہے اور پیچیدہ ہے
بیدار نہیں ہے کوئی بھی
جو جاگتا ہے خوابیدہ ہے
ہم کس سے اپنی بات کریں
ہر شخص ترا گرویدہ ہے
٭٭٭
ہر ایک غم نچوڑ کے ہر ایک رس جیے
دو دن کی زندگی میں ہزاروں برس جیے
صدیوں پہ اختیار نہیں تھا ہمارا دوست
دو چار لمحے بس میں تھے ، دو چار بس جیے
صحرا کے اس طرف سے گئے سارے کارواں
سن سن کے ہم تو صرف صدائے رس جیئے
ہونٹوں میں لے کے رات کے آنچل کا اِک سرا
آنکھوں پہ رکھ کے چاند کے ہونٹوں کا مَس جیے
محدود ہیں دُعائیں مرے اختیار میں
اِک سانس پُر سکون ہو تو سو برس جیے
٭٭٭
ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا
میری تصویر جو گرتی تو چھناکا ہوتا
یوں بھی اِک بار تو ہوتا کہ سمندر بجتا
کوئی احساس تو دریا کی اَنا کا ہوتا
سانس موسم کی بھی کچھ دیر کو چلنے لگتی
کوئی جھونکا تری پلکوں کی ہَوا کا ہوتا
کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر آتے ہیں
کاش خوشبو کی طرح رنگ حنا کا ہوتا
کیوں مری شکل پہن لیتا ہے چھپنے کیلئے
ایک چہرہ، کوئی اپنا تو خُدا کا ہوتا
٭٭٭
تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے اِدھر آتے ہوئے
کچھ بھنور ڈوب گئے آب میں چکراتے ہوئے
ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے
چھینا جھپٹی میں اُفق کھلتا گیا جاتے ہوئے
جھپ سے پانی میں اُتر جاتی ہے گلنار شفق
سُرخ ہو جاتے ہیں رُخسار بھی، شرماتے ہوئے
میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری
شوخ پتے نے کہا شاخ سے مُرجھاتے ہوئے
حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح
ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے
سِی لئے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سُن کر
میلی ہو جاتی ہے آواز بھی، دُہراتے ہوئے
٭٭٭
کھلی کتاب کے صفحے اُلٹتے رہتے ہیں
ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں
بس ایک وحشتِ منزل ہے اور کچھ بھی نہیں
کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اُترتے رہتے ہیں
مجھے تو روز کسوٹی پہ دَرد کستا ہے
کہ جاں سے جسم کے بخیے اُدھڑتے رہتے ہیں
کبھی رُکا نہیں کوئی مقام صحرا میں
کہ ٹیلے پاؤں تلے سے سرکتے رہتے ہیں
یہ روٹیاں ہیں، یہ سِکّے ہیں اور دائرے ہیں
یہ ایک دُوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں
بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں
اُجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں
٭٭٭
خوشبو جیسے لوگ ملےافسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں
رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دھُوپ اُنڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں
جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دوہرانے میں
دِل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں
ہم اس موڑ سے اُٹھ کر اگلے موڑ چلے
اُن کو شاید عمر لگے گی آنے میں
٭٭٭
اوس پڑی تھی رات بہت اور ہلکی تھی گرمائش پر
سِیلی سی خاموش میں، وہ بولے تو فرمائش پر
فاصلے ہیں بھی اور نہیں، ناپا تولا کچھ بھی نہیں
لوگ بضد رہتے ہیں پھر بھی رشتوں کی پیمائش پر
منہ موڑا اور دیکھا کتنی دُور کھڑے تھے ہم دونوں
آپ لڑے تھے ہم سے بس اِک کروٹ کی گنجائش پر
کاغذ کا اِک چاند لگا کر رات اندھیری کھڑکی میں
دِل میں کتنے خوش تھے اپنی فرقت کی آرائش پر
دِل کا حجرہ کتنی بار اُجڑا بھی اور بسایا بھی
ساری عمر کہاں ٹھہرا ہے کوئی ایک رہائش پر
دھُوپ اور چھاؤں بانٹ کے تم نے آنگن میں دیوار چنی
کیا اتنا آسان ہے زندہ رہنا اس آسائش پر
٭٭٭
ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا
صدر دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا
اب دھوئیں کی طرح تحلیل ہوا جاتا ہے
دِل سے اِک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا
جی کے بہلانے کو آ جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
کتنا آباد ہے گوشہ مرے ویرانے کا
بلبلہ پھر سے چلا پانی میں غوطے کھانے
نہ سمجھنے کا اُسے وقت نہ سمجھانے کا
مَیں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے
ایسا میٹھا ترا انداز تھا فرمانے کا
کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے
نہ تو آنے کی خبر ہے ، نہ پتہ جانے کا
٭٭٭
وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا
ہواؤں کا رُخ دِکھا رہا تھا
بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا
جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا
کہیں مرا ہی خیال ہو گا
جو آنکھ سے گرتا جا رہا تھا
کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں
مَیں اپنا لکھا مٹا رہا تھا
وہ جسم جیسے چراغ کی لَو
مگر دھُواں دِل پہ چھا رہا تھا
منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی
پڑوسیوں کو جگا رہا تھا
اسی کا ایماں بدل گیا ہے
کبھی جو میرا خُدا رہا تھا
وہ ایک دن ایک اجنبی کو
مری کہانی سنا رہا تھا
وہ عمر کم کر رہا تھا میری
مَیں سال اپنا بڑھا رہا تھا
خدا کی شاید رضا ہو اس میں
تمہارا جو فیصلہ رہا تھا
٭٭٭
بے سبب مسکرا رہا ہے چاند
کوئی سازش چھپا رہا ہے چاند
جانے کس کی گلی سے نکلا ہے
جھینپا جھینپا سا آ رہا ہے چاند
کتنا غازہ لگایا ہے منہ پر
دھُول ہی دھُول اُڑا رہا ہے چاند
سُوکھی جامن کے پیڑ کے رستے
چھت ہی چھت پر سے جا رہا ہے چاند
کیسا بیٹھا ہے چھُپ کے پتوں میں
باغباں کو ستا رہا ہے چاند
سیدھا سادا اُفق سے نکلا تھا
سر پہ اب چڑھتا جا رہا ہے چاند
چھو کے دیکھا تو گرم تھا ماتھا
دھُوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند
٭٭٭
مجھے اندھیرے میں بیشک بٹھا دیا ہوتا
مگر چراغ کی صورت جلا دیا ہوتا
نہ روشنی کوئی آتی مرے تعاقب میں
جو اپنے آپ کو مَیں نے بجھا دیا ہوتا
بہت شدید تھے یارب مرے وجود کے زخم
مجھے صلیب پہ دو پل سُلا دیا ہوتا
ہر ایک سمت تشدد ہے ، بربریت ہے
کبھی تو اس پہ بھی پردہ گرا دیا ہوتا
یہ شکر ہے کہ مرے پاس تیرا غم تو رہا
وگر نہ زندگی بھر کو رُلا دیا ہوتا
٭٭٭
گلوں کو سننا ذرا تم، صدائیں بھیجی ہیں
گلوں کے ہاتھ بہت سی، دُعائیں بھیجی ہیں
جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں
وہ دِل ہے میرا، اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں
تمہاری خشک سی آنکھیں، بھلی نہیں لگتیں
وہ ساری یادیں جو تم کو رُلائیں، بھیجی ہیں
سیاہ رنگ، چمکتی ہوئی کناری ہے
پہن لو اچھی لگیں گی گھٹائیں بھیجی ہیں
تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں
سزائیں بھیج دو، ہم نے خطائیں بھیجی ہیں
اکیلا پتہ ہوا میں بہت بلند اُڑا
زمیں سے پاؤں اُٹھا ؤ، ہوائیں بھیجی ہیں
٭٭٭
ایک پرواز دکھائی دی ہے
تیری آواز سنائی دی ہے
صرف اِک صفحہ پلٹ کر اس نے
ساری باتوں کی صفائی دی ہے
پھر وہیں لوٹ کے جانا ہوگا
یار نے کیسی رہائی دی ہے
جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں
اس نے صدیوں کی جُدائی دی ہے
زِندگی پر بھی کوئی زور نہیں
دِل نے ہر چیز پرائی دی ہے
آگ میں رات جلا ہے کیا کیا
کتنی خوش رنگ دکھائی دی ہے
٭٭٭
پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں
شام سے تیز ہوا چلنے کے آثار سے ہیں
ناخدا دیکھ رہا ہے کہ مَیں گرداب میں ہوں
اور جو پُل پہ کھڑے لوگ ہیں ، اخبار سے ہیں
چڑھتے سیلاب میں سیلاب نے تو منہ ڈھانپ لیا
لوگ پانی کا کفن لینے کو تیار سے ہیں
کل تواریخ میں دفنائے گئے تھے جو لوگ
اُن کے سائے بھی دَروازوں پہ بیدار سے ہیں
وقت کے تیر تو سینے پہ سنبھالے ہم نے
اور جو نیل پڑے ہیں ، تری گفتار سے ہیں
رُوح سے چھیلے ہوئے جسم جہاں بکتے ہیں
ہم کو بھی بیچ دے، ہم بھی اُسی بازار سے ہیں
جب سے وہ اہلِ سیاست میں ہوئے ہیں شامل
کچھ عدُو کے ہیں تو کچھ میرے طرف دار سے ہیں
٭٭٭
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
رات بھر بولتے ہیں سناٹے
رات کاٹے کو ئی کدھر تنہا
ڈُوبنے والے پار جا اُترے
نقشِ پا اپنے چھوڑ کر تنہا
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر، تنہا
٭٭٭
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے
لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اُسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے
جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے
شہد جینے کا مِلا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کیلئے دِل نہیں تھوڑا کرتے
جمع ہم ہوتے ہیں ، تقسیم بھی ہو جاتے ہیں
ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جوڑا کرتے
جا کے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو
خستہ دِیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے
٭٭٭
جب بھی یہ دِل اُداس ہوتا ہے
جانے کون آس پاس ہوتا ہے
گو برستی نہیں سدا آنکھیں!
اَبر تو بارہ ماس ہوتا ہے
چھال پیڑوں کی سخت ہے لیکن
نیچے ناخن کے ماس ہوتا ہے
آنکھیں پہچانتی ہیں آنکھوں کو
دَرد چہرہ شناس ہوتا ہے
زخم، کہتے ہیں دِل کا گہنا ہے
دَرد دِل کا لباس ہوتا ہے
ڈس ہی لیتا ہے سب کو عشق کبھی
سانپ موقع شناس ہوتا ہے
صرف اتنا کرم کیا کیجئے
آپ کو جتنا راس ہوتا ہے
٭٭٭
کہیں تو گرد اُڑے یا کہیں غبار دِکھے
کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دِکھے
رَواں ہیں پھر بھی رُکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے
بڑے اُداس لگے جب بھی آبشار دِکھے
کبھی تو چونک کے دیکھے کو ئی ہماری طرف
کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دِکھے
خفا تھی شاخ سے شاید ، کہ جب ، ہَوا گزری
زمیں پہ گرتے ہوئے پھول بے شمار دِکھے
کو ئی طلسمی صفت تھی جو اُس ہجوم میں وہ
ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دِکھے
٭٭٭
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
دفن کر دو ہمیں کہ سانس آئے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے
کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
عادت اس کی بھی آدمی سی ہے
آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے
٭٭٭
ذکر جہلم کا ہے ، بات ہے دینے کی
چاند پکھراج کا ، رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی اُدھڑی ہو ئی چاندی
رات کوشش میں ہے چاند کو سینے کی
کوئی ایسا گرا ہے نظر سے کہ بس
ہم نے صورت نہ دیکھی پھر آئینے کی
دَرد میں جاودانی کا احساس تھا
ہم نے لاڈوں سے پالی خلش سینے کی
موت آتی ہے ہر روز ہی رُو برو
زندگی نے قسم دی ہے کل، جینے کی
٭٭٭
تنکا تنکا کانٹے توڑے ، ساری رات کٹائی کی
کیوں اتنی لمبی ہو تی ہے، چاندنی رات جُدائی کی
نیند میں کوئی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے
کال کنویں میں گونجتی ہے، آواز کسی سودائی کی
سینے میں دِل کی آہٹ، جیسے کوئی جاسوس چلے
ہر سائے کا پیچھا کرنا، عادت ہے ہر جائی کی
آنکھوں اور کانوں میں سناٹے سے بھر جاتے ہیں
کیا تم نے اُڑتی دیکھی ہے، ریت کبھی تنہا ئی کی
تاروں کی روشن فصلیں اور چاند کی ایک درانتی تھی
ساہو نے گروی رکھ لی تھی میری رات کٹائی کی
٭٭٭
رُکے رُکے سے قدم رُک کے بار بار چلے
قرار دے کے ترے دَر سے بے قرار چلے
اُٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر
چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اُتار چلے
نہ جانے کون سے مٹی وطن کی مٹی تھی
نظر میں ، دھُول، جگر میں لئے غبار چلے
سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے
سو رات رات کی یہ زندگی گزار چلے
ملی ہے شمع سے یہ رسمِ عاشقی ہم کو
گناہ ہاتھ پہ لے کر گناہ گار چلے
٭٭٭
ماخذ:
http://raikhtablog.blogspot.com/2015/03/blog-post_41.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید