FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

رُوئے زمیں

 

 

جس میں محبتیں ہوں، وفا ہو، خلوص ہو

روئے زمیں پہ ایسا نگر چاہیے جناب

 

 

 

اطہر شکیلؔ نگینوی

 

 

پھولوں سے ہاتھ خالی ہیں زَر بخش دے

ہر شجر کو خدا یا ثمر بخش دے

 

سوچ سے میری بڑھ کر ہے قدرت تِری

تو جو چاہے تو پتھر کو پَر بخش دے

 

کفر ہے اس سے مایوس ہونا شکیلؔ

کیا خبر کب دعا میں اثر بخش دے

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

ان قارئین کی ذہانتوں کی نذر جو ہنوز طے نہیں ہیں۔ اور وہ بھی اس امید یا خوش فہمی کے ساتھ کہ آج نہیں تو کل کہیں نہ کہیں وہ ذہانتیں شاید بیدار ہوں گی جو میری اس ادنیٰ سی کاوش میں معنی و مفاہیم کے وہ پہلو ڈھونڈ نکالیں گی جن پر آج کے بڑے ادبی حلقے نے نظر نہیں ڈالی اور ڈاکٹر وسیم اقبال صاحب کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے مالکِ ارض و سما اپنی مہربانیِ خاص کے سبب میری اس کوشش کو دنیا کی بڑی کہلائی جانے والی شاعری کے ساتھ جگہ عطا فر مادے گا۔

اطہر شکیلؔ

 

عبدالاحد سازؔ

یہ قصّہ ہے دِل کا

 

ا برادرم اطہر شکیلؔ سے میں ایک عرصۂ دراز سے واقف ہوں اور ان کے پانچ شعری مجموعے بالاستیعاب پڑھ چکا ہوں اور چوتھے مجموعے شہرِ دوستاں کے فلیپ پر اپنے مختصر تاثرات بھی دے چکا ہوں۔ مگر ایک تشنگی رہ گئی تھی کیونکہ اطہر شکیل صاحب کو” شہرِ دوستاں ” کو چھپوانے میں کسی سبب سے عجلت ہوئی اور میری بھی طبیعت ان دنوں ٹھیک نہیں تھی سو میں نے اس وعدے کے ساتھ کہ آنے والی کسی کتاب پر سیر حاصل مضمون انشاء اللہ تحریر کروں گا۔ ان سے اس وقت معذرت کر لی تھی۔ لہٰذا اب جیسے ہی میں نے کچھ فرصت اور سکون محسوس کیا، اطہر شکیلؔ صاحب کی چھٹی کتاب "روئے زمیں "پر اپنے تاثرات قلم بند کر رہا ہوں۔ اب جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میں اطہر شکیل صاحب کے پانچ شعری مجموعے پڑھ چکا ہوں، جس کی بنا پر ان کے شعری ارتقا کے مدارج میری نظر میں ہیں۔ زیر نظر شعری تصنیف "روئے زمیں "ان کا چھٹا پڑاؤ ہے۔ اطہر شکیل صاحب کا کلام پڑھتے ہوئے اکثر مجھے اپنی ہی غزل کا ایک شعر یاد آتا ہے:

شاعری دفترِ بِسیار نویسی ہے مِری

فکر کم یاب بھی لیکن انہی ڈھیروں میں مِلی

۶ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ بسیار نویسی اور زود گوئی کے اس انبار میں فکر کم یاب کے لعل و گہر وافر تعداد میں دستیاب ہیں، اور یہ جواہر پہلے مجموعے "سمندر اور سِلوٹیں ” سے تازہ مجموعے "روئے زمیں "تک موقع بہ موقع بتدریج فراہم ہیں۔

اطہر شکیل کی شاعری کا جو کینوس ہے وہ ایک کولاژ کی صورت میں ہے جو متنوّع میلانات، افکار و احساسات اور مشاہدات و تجربات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے بھی ہے اور بکھیرے ہوئے بھی، اس میں مذہبیت بھی ہے، معاملاتِ حسن و عشق بھی ہیں، قلندرانہ بے نیازی بھی ہے، روحانیت اور تصوّف کے شیڈس بھی ہیں، عصری حسیّت بھی جو معاشرتی وہ سیاسی سیاق رکھتی ہے، جمالیاتی ضابطے بھی ہیں اور کئی مقامات پر یادِ ایام  کی دلکش اور پُر گداز تصویریں و آوازیں بھی ہیں، لیکن یہ تنوّع بجائے خود قاری کے لیے بڑی کشش اور گنجائش رکھتا ہے۔ اپنے اس مفروضے کو قدرے واضح کرنے کے لیے کچھ شعر رقم کرتا ہوں:

اب ہے کوئی حسینؓ نہ لشکر حسینؓ کا

سر کٹ گئے تو ہم نے شہادت سمجھ لیا

حادثے کی وہ کہانی مختصر سی ہے شکیلؔ

بانسری بھی بج رہی تھی، شہر بھی جلتا رہا

مشہور کہانی کے تاریخی کردار بادشاہ نیروؔ کے استعارۃًاستعمال پر غور کیجیے جو بانسری بجانے میں مگن رہا اور دوسری طرف روم جلتا رہا:

دشمنوں کی بستیوں میں خاک کیوں چھانیں شکیلؔ

آزمانے کو یہ شہرِ دوستاں بھی کم نہیں

پانچویں مجموعے "گل فشانی”میں یہ سب سے زیادہ نکھر کر اور پھیل کر سامنے آیا ہے، جس کی مثالیں بھی زیادہ دی جا سکتی ہیں:

ہر مہک یہ کہہ رہی ہے ان سے مِل کر آئی ہے

خوشبوؤں میں مَیں نے اک آواز بھی محسوس کی

یہ تو سچ ہے تیرا سایہ بھی نہیں تھا دُور تک

دھیان نے لیکن تری موجودگی محسوس کی

اب دھُول اُڑ رَہی ہے بیابانِ عشق میں

رونق تھے جو یہاں کی وہ آہُو نہیں رہے

اک شورِ بے کراں ہے تہہِ آسماں ابھی

جانے بھٹک رَہی ہو مِری التجا کہاں

 

خبر نہ تھی کہ اسی کی گلی میں پہنچے گا

کس احتیاط سے بدلا تھا راستہ ہم نے

جو سمجھو گے اس کو تو پچھتاؤ گے

محبت میں مردم شناسی غلط

بچھڑے ہوئے لوگوں کو مِلاؤ تو بنے بات

کر دینا جدا لوگوں کا دشوار نہیں ہے

سِلوٹ بھی بڑی چیز ہے بستر کو خبر کیا

کیوں گھر میں مَیں رہتا نہیں یہ گھر کو خبر کیا

خالقِ بر حق نے بھی شاید کبھی سوچا نہ ہو

آدمی ارضِ خدا پر مسئلہ بن جائے گا

وہ اک شخص جس نے مِٹایا مجھے

مِری زندگی کی ضمانت بھی ہے

ہر دِن نئی تکنیک وہ کر لیتے ہیں ایجاد

پھر اس کی ضرورت بھی خریدار میں لائیں

اطہر شکیلؔ نے طویل غزلیں بھی کہیں ہیں، جس میں ۵۲، ۵۳، ۵۴ اشعار تک بھی ہیں، یوں تو دو غزلہ، سہ غزلہ کی روایت اساتذہ کے یہاں بھی ہے، لیکن ایسی غزلوں میں حشو و زوائد آنا ناگزیر ہے، غزل کا حسن پانچ، سات شعروں تک ہی قائم رہتا ہے، جن میں خیالات یا موضوعات کی علیحدگی کے با وجود اکائی کا احساس ہو، مگر جن شعرا نے اپنی طویل غزلیات میں بھی غزل کے حسن کو بنائے رکھا ہے ان میں ایک نام اطہر شکیل کا بھی ہے، زیر نظر مجموعے "روئے زمیں ” سے مَیں کچھ اشعار یہاں نقل کرنا چاہوں گا:

دھوپ ڈھلتی جا رہی ہے جلد چشمِ تر میں آ

یہ شفق کافی نہیں ہے، شام کے منظر میں آ

دَرد جب سینے میں اٹھتا ہے تو کہتا ہوں شکیلؔ

آنکھ کا آنسو نہ بَن، الفاظ کے پیکر میں آ

 

برسیں طرب کی تم پہ گھٹائیں بہت بہت

دل تم کو دے رہا ہے دعائیں بہت بہت

بچھڑیں تو بھول کر بھی نہ دیں اپنی خیریت

مِل جائیں جب تو پیار جتائیں بہت بہت

 

تہمت کا ڈر نہیں، غمِ زنداں نہیں ہے اب

دِل معصیت کے بعد پشیماں نہیں ہے

آرائشوں کے عہد کی مجبوریاں شکیلؔ

سادہ رَوی کی وضع بھی آساں نہیں ہے اب

نزاکتیں یہ دِل کی ہیں نہ پوچھ مجھ سے کیا ہوا

ہَوا چلی بکھر گیا جو پھول تھا کھِلا ہوا

وہ جا چکا مگر یہ دِل ابھی ہے اس کا منتظر

یہ شامِ غم رُکی رُکی یہ گھر کا دَر کھلا ہوا

نہیں یہ دہر، کوئی دوسرا جہاں دے جا

تو میری نیند کو خوابوں کی کہکشاں دے جا

میں تھک گیا ہوں بہت دوسروں کے گُن گاتے

مِرے دہن کو خدایا مِری زباں دے جا

بانہیں سنسان نہ ویران ہے زانو، اے جاں

وقت آتا ہے تو رُک جاتے ہیں آنسو اے جاں

دل یہ کہتا ہے کہ اظہارِ محبت مَت کر

پھول کھِلتا ہے تو اُڑ جاتی ہے خوشبو اے جاں

تیٖر کی طرح گزرتی ہے مِرے سینے سے

رات اور ہنس کی آواز لبِ جوٗ اے جاں

لفظوں میں جو خلوص تھا جانے کدھر گیا

جذبوں سے شدّتیں تو دعا سے اثر گیا

وحشت میں سرکشی ہے نہ زخموں میں تازگی

اے عشقِ نا مراد ! زمانہ گزر گیا

اتنا ہے اس کے، میرے تعلق کا واقعہ

ٹہنی پہ ایک پھول کھِلا اور بِکھر گیا

کہتا ہے کون اب وہ خزائیں چلی گئیں

برسے بِنا فلک سے گھٹائیں چلی گئیں

کھُل جائے آسمان کا بابِ قبول کاش

چھو’ کر لبوں کو پھر سے دعائیں چلی گئیں

اس عہدِ نا مراد کا یہ جبرِ روزگار

بچّے گھروں میں چھوڑ کے مائیں چلی گئیں

آندھی تھی کس غضب کی یہ حوّا کی بیٹیو!

رُخ سے حیا تو سر سے رِدائیں چلی گئیں

لڑکیوں کا گھر سے باہر گھومنا دُوبھر ہوا

آدمی میں قید تھا جو جانور باہر ہوا

بھول جانے کا تجھے صدمہ تھا کل تک بے حساب

لیکن اب یہ سوچتا ہوں جو ہوا بہتر ہوا

جتنے خوش قامت تھے وہ سب ہو گئے گوشہ نشیں

ایک بونا شہر کے بونوں میں قد آور ہوا

مِلا جو دشتِ اماں تو ٹھِٹک گئے ہیں لوگ

ندی کے پار مگر دُور تک گئے ہیں لوگ

پھٹے لباس میں کیا کچھ کشش بھی ہوتی ہے

مِلی جو کوئی بھکارن چھلک گئے ہیں لوگ

سوچنا کیا رشتوں نا توں کو یہ آخر کیا ہوا

ہاتھ بھی منھ تک نہیں آیا جو بے لقمہ ہوا

آہ اس بچّے کو کیا نسبت خلائی دَور سے

بیل گاڑی میں پَلا جو کھیت میں پیدا ہوا

چل رہی ہیں مخالف ہَوائیں یہاں

اُڑ نہ جائیں سروں سے رِدائیں یہاں

کوئی دنیا میں ابن علیؓ ہی نہیں

لاکھ کوفے یہاں، کربلائیں یہاں

کل کی عینک سے دیکھو نہ تم آج کو

نیکیاں بَن گئیں ہیں خطائیں یہاں

جدا ہوتا میں اُن آنکھوں سے کاجل چھوڑ آیا تھا

خزاں کی رُت میں اس بستی کو جَل تھل چھوڑ آیا تھا

برس کر چند ہی لمحے وہ رخصت ہو گیا ہو گا

بچھڑتے پَل مَیں ان آنکھوں میں بادل چھوڑ یا تھا

نئی لاشیں سجا دینے کی تیاری میں ہیں قاتل

نگر میں کل مَیں اک سنسان مقتل چھوڑ آیا تھا

فرائض کم نہیں ہوتے، ضرورت کم نہیں ہوتی

کسی کے دھیان میں رہنے کی عادت کم نہیں ہوتی

یہ کس منزل پہ لے آیا مجھے وقتِ رواں آخر

ذہانت بڑھتی جاتی ہے، حماقت کم نہیں ہوتی

لباسِ نو میں رہتا ہوں مگر مشرب میں کہنہ ہوں

مِری جدّت پسندی میں قدامت کم نہیں ہوتی

تازگی جس طرح رشتوں کو گِلہ دیتا نہیں

شمع ہی دیتی ہے انگارہ ضیا دیتا نہیں

بھیٖڑ میں گھُس کر نکل سکتے ہو تو آگے بڑھو

ورنہ آسانی سے کوئی راستہ دیتا نہیں

دینے والا فرض مانے، اور دے، اتنا ہے بس

بھیک لے کر اب بھکاری بھی دعا دیتا نہیں

بڑھ نہیں پائے وفاداروں کے دِل کا حوصلہ

وہ بھی اک ہشیار ہے، دادِ وفا دیتا نہیں

تن برہنہ ہو رَہے ہیں بستیوں کے درمیاں

آدمی بے ضابطہ ہے، ضابطوں کے درمیاں

چاند کو چھونے کی خواہش، نور کو چکھنے کا شوق

ہم مِلے ہیں ان سے اِن دو خواہشوں کے درمیاں

زیرِ لب اس شوخ نے مت پوچھیے کیا کہہ دیا

میری پلکیں نم ہوئی ہیں قہقہوں کے درمیاں

وہ بچھڑتے وقت کے دِلدوز لمحے کر نہ یاد

پھول سے چہرے پہ آنسو شوخیوں کے درمیاں

قلب و نگاہ کو نہ یوں ویران چھوڑ جا

آنے کی اپنے کوئی تو پہچان چھوڑ جا

الزام دے تو ساتھ میں اس کے ثبوت دے

اک بے خطا کو یوں نہ پشیمان چھوڑ جا

دوبارہ رابطے کا سبب تو بنا کے رکھ

دانستہ اس کے گھر کوئی سامان چھوڑ جا

وحشی ابھی تو اور بھی آئیں گے دشت میں

دامن کہیں، کہیں پہ گریبان چھوڑ جا

نیند سے جاگا تو دیکھا ہر نشاں بدلا ہوا

یہ زمیں بدلی ہوئی ہے، آسماں بدلا ہوا

اب شرارت میں سلیقہ ہے نہ شغلِ عشق میں

شہر کی سڑکوں پہ اک اک نوجواں بدلا ہوا

عقوبت جھیلنا آسان ہے، عقبیٰ بھی آساں ہے

خداوندا بتا! کیا یہ تری دنیا بھی آساں ہے

صلابت ہو اِرادے میں تو مشکل بھی نہیں مشکل

جسے دیکھا نہیں اب تک وہ اک رستہ بھی آساں ہے

ہم سفر اِک راستے کی بھیٖڑ کا ہوتے ہوئے

کس قدر تنہا تھا میں ان سے جدا ہوتے ہوئے

وہ سکوتِ بے کراں، وہ ہجر کی سنسان شب

میں نے سنّاٹے کو دیکھا ہے صدا ہوتے ہوئے

میرے قبضے میں کہاں تھی، میری اپنی تازگی

مجھ کو باسی کر گیا ہر دن نیا ہوتے ہوئے

یہ تغیّر ہے زمانے کا کہ قدروں کا زوال

دیکھئے ہر نارَوا کو اب رَوا ہوتے ہوئے

قدر اب جس کی نہیں ہر وہ نشانی بھول جا

بیتے قصّے بھول جا، بیتی کہانی بھول جا

ہے ہنر، اظہار کی پیچیدگی اطہر شکیلؔ

کام آتی تھی کبھی سادہ بیانی، بھول جا

ہوش و خرد کو فیصلہ اپنا سُنا دیا

اہلِ جنوں کو وقت نے آگے بڑھا دیا

پیپر کے ویٹ جیسے تھے ہم اس کے ہاتھ میں

جب چاہا اس نے رکھ دیا، چاہا گھما دیا

کچھ دوستوں سے زخم برابر لگے مجھے

با توں کے تیٖر سینے کے اندر لگے مجھے

نشہ ہے خود نمائی کا ایسا چڑھا ہوا

مفلس بھی اس نگر کا تونگر لگے مجھے

اپنا ہی باطن منوّر ہو سکے ایسا کریں

مہرِ تاباں تجھ سے کب تک روشنی مانگا کریں

بیٹھکیں جو شہر میں تھیں بیشتر ویراں ہیں اب

گھر سے ہم نکلیں بھی تو جا کر کہاں بیٹھا کریں

ہستی کا ہر حساب ہے جانچا ہوا بہت

پایا ہوا قلیل ہے، کھویا ہوا بہت

پیغامِ خیر تھا جسے شورش بنا دیا

اک لفظ تھا جہاد کہ ر’سوا ہوا بہت

حقیقت میں آ، داستانوں میں آ

یقیں بن کے میرے گمانوں میں آ

سلَف کی کہانی جہاں دفن ہے

پلٹ کر کبھی ان جہانوں میں آ

اجنبی لوگ ہیں، نگر کیا ہے

کوئی اپنا نہ ہو تو گھر کیا ہے

تیرے چہرے کی چھب نئی ہر دِن

چاند کے پاس تازہ تر کیا ہے

تمہاری مَد بھری آنکھوں کو جادو کون دیتا ہے

ستاروں کو ضیا، پھولوں کو خوشبو کون دیتا ہے

اندھیری شب میں امبر پر کھِلاتا کون ہے تارے

کہو برسات کی را توں کو جگنو کون دیتا ہے

وہ شامِ ہجر اپنی بے کلی کو مان تو لیتے

مگر اپنا کوئی کمزور پہلو کون دیتا ہے

زاویے جو فکر کے تھے کیا سے کیا ہونے لگے

جن کو ہم کہتے تھے بُت وہ بھی خدا ہونے لگے

ہم بھی عریاں ہو گئے ہیں پیرہن کے باوجود

وہ قبا ہوتے ہوئے بھی بے قبا ہونے لگے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج تک بیتی نہیں

وہ گھڑی جس وقت ہم ان سے جدا ہونے لگے

ابھی ہے محفوظ حافظے میں وہ رات میری، مِلن تمہارا

بدن کی حدّت سے تپ رہا تھا سبک سبک پیرہن تمہارا

کہیں مِلے گی نہ ایسی نکہت نہ ایسی رنگت نہ دلکشی ہی

تمہارے چہرے کی تازگی سے مہک رہا تھا چمن تمہارا

موتی سے مسکراکے ہر اک سوٗ بِکھیر دو

کالی اندھیری رات میں جگنو بِکھیر دو

چہرے کے آفتاب میں سمٹی ہوئی ہے کیوں

اس چاندنی کو اب سرِ زانو بِکھیر دو

کل جو میری تھی وہی زیست اب اس کی کیوں ہے

زندگی ایسے وفا داری بدلتی کیوں ہے

کوئی سازش تو نہیں درد سے غیرت کی کہیِں

ورنہ دکھ دے کے مِرے ہونٹ یہ سِلتی کیوں ہے

وہ میرے صبر کا یوں امتحان لیتا ہے

ہر ایک بات پہ الجھے ہے جان لیتا ہے

جو آئے ضد پہ تو ضد بھی ہو شرمسار مگر

کبھی منائے بِنا بھی وہ مان لیتا ہے

 

اطہر شکیلؔ بحور و وزن اور زحاف پر بھی خاصی قدرت رکھتے ہیں، جو کہ ان کی فنّی مشق و مزاولت کی دلیل ہے۔ یہ عبور محنت و ریاضت کے بغیر ممکن ہی نہیں، ہاں اگر کہیں خال خال زبان و بیان کی فروعی سی خامی لگے بھی تو اسے رخِ روشن پر خالِ سیہ ہی گرداننا چاہیے۔ زیر نظر تصنیف "روئے زمیں "گزشتہ مجموعوں کی معیاری شاعری کے مقابل فکری طور پر زیادہ مستحکم و مرصّع ہے، اس لیے اگر یہاں غزلیات سے روشن مثالیں نہ پیش کی جاتیٖں تو یہ تحریر سیر حاصل نہ ہوتی، اب یہی اشعار دیکھ لیں:

کس کو خرد کی راہ سے پانے چلے تھے ہم

دو چار گام چل کے ہوئی آگہی تمام

قیدی ہیں تو کیا ان کا سہارا بھی کوئی ہو

دیوار اگر ہے تو دریچہ بھی کوئی ہو

ہم شہرِ نگاراں سے چلے آئے ہیں جاناں

اب ہجر میں جینے کا قرینہ بھی کوئی ہو

سچ سُن کے سرِ عام تعجب تو کریں لوگ

اس جھوٹ کے بازار میں سچّا بھی کوئی ہو

محبتیں کہاں گئیں، خود آگہی کہاں گئی

معاشرے میں کل جو تھی وہ سادگی کہاں گئی

ہَوا میں سانس لے رہے ہیں یوں تو لوگ آج بھی

نفس نفس میں کل جو تھی وہ زندگی کہاں گئی

میں جو چلتے چلتے ٹھہر گیا

وہ ٹھہر ٹھہر کے گزر گیا

کسی راہ بَر کی تلاش میں

یہ قبیلہ راہ میں مَر گیا

اپنے اس پیش لفظ کو ختم کرتے ہوئے مجھے اپنی اسی غزل کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جس کا ایک شعر میں نے مضمون کے آغاز میں درج کیا ہے:

شعر کہہ لینے کارستہ تو ہوا جلد ہی طے

شعر کہنے کی یہ منزل بڑی دیروں میں مِلی

زباں سے غلط استعارہ نہ کہہ

یہ آنسوہے اس کو ستارا نہ کہہ

کہاں تلخیِ مَے، کہاں زہرِ غم

سبھی تلخیوں کو گوارا نہ کہہ

تجلّی تو ہے، اس میں سوزش نہیں

یہ جگنو ہے اس کو شرارا نہ کہہ

اطہر شکیلؔ تحسین کے مستحق ہیں کہ شعر کہنے کی منزل انھیں بہت جلد اپنی پہلی ہی کتاب "سمندر اور سِلوٹیں ” میں مل گئی تھی اور آج بھی وہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں سرگرداں ہیں، ان کا یہ جذبہ اور لگن قابلِ رشک ہیں، وہ اپنے اس ادبی سفر میں تازہ دم ہیں اور تازہ قلم بھی، تھکان ان کے قریب سے نہیں گزرتی، اسی لیے وہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں:

یہ قصّہ ہے دِل کا نہ ہو گا تمام

ابھی اور کتنا سُنانے کو ہے

عبد الاحد سازؔ، ممبئی

 

 

حقیقت میں آ، داستانوں میں آ

یقیں بَن کے میرے گُمانوں میں آ

 

زمیں سے بندھا تو رہائی نہیں

زمیں سے نکل آسمانوں میں آ

 

یہ اَوج و فلک تیری منزل نہیں

ذرا اور اونچی اڑانوں میں آ

 

فسانوں کو نعمت حقیقت کی دے

حقیقت سے پہلے فسانوں میں آ

 

یہ دنیا بُتوں کی خدا! اے خدا

یقیں بَن کے سب کی زبانوں میں آ

 

سلَف کی کہانی جہاں دفن ہے

پلٹ کر کبھی اُن جہانوں میں آ

 

مِلے گا وہیں تجھ کو اطہر شکیلؔ

کبھی تُو بھی تو خستہ جانوں میں آ

 

 

 

تمہاری مَد بھری آنکھوں کو جادو کون دیتا ہے

ستاروں کو ضیا، پھولوں کو خوشبو کون دیتا ہے

 

خبر کیا، فیصلہ ہوتا ہے کیسے رنج و راحت کا

تمہارے لب کو خندہ، مجھ کو آنسو کون دیتا ہے

 

اندھیری شب میں امبر پر کھِلاتا کون ہے تارے

کہو، برسات کی را توں کو جگنو کون دیتا ہے

 

وہ شامِ ہجر اپنی بے کلی کو مان تو لیتے

مگر اپنا کوئی، کمزور پہلو کون دیتا ہے

 

جواب اس کا کبھی پوچھو، کسی مردِ مجاہد سے

جو کٹ سکتے نہیں وہ دست و بازو کون دیتا ہے

 

گُلِ نرگِس کو بینائی نہیں دیتا ہے اطہرؔ کون

تجھے حیرت، بتا اے چشمِ آہُو! کون دیتا ہے

 

 

ہستی کا ہر حساب ہے جانچا ہُوا بہت

پایا ہُوا قلیل ہے، کھویا ہُوا بہت

 

پیغامِ خیر تھا جسے شورش بنا دیا

اک لفظ تھا جہاد کہ رسوا ہُوا بہت

 

جاتے ہی اُن کے شہر پہ ٹوٹا غضب کا قہر

کل وہ چلے گئے تھے کہ اچھا ہُوا بہت

 

پنہاں تھیں جس کے دِل میں پُرانی محبتیں

اب کے لگا وہ شخص بھی بدلا ہُوا بہت

 

آئی تمہاری یاد تو آنکھیں برس پڑیں

پُروا چلی تو ابر بھی گہرا ہُوا بہت

 

اطہرؔ نہ ٹوٹ جائیں کہیں ضبط کی حدیں

اک عمر تک تو ہجر گوارا ہوا بہت

 

 

 

 

 

دِل نے ہر بار وہی رنج پُرانے پائے

ہم نے کیا پایا، فقط تم سے بہانے پائے

 

پھر تصوّر نے کئی رُوپ دِکھائے تیرے

ہم نے چاہا تھا تری یاد نہ آنے پائے

 

پھر ترے حُسنِ تکلّم نے دِیا ہم کو فریب

پھر حقیقت کی جگہ ہم نے فسانے پائے

 

اب نہ آئے کوئی جذبات میں شعلے بھر نے

اب نہ بستی میں کوئی آگ لگانے پائے

 

جاگ اٹّھے تو اسی طرح تڑپتے گزری

سو گئے ہم تو وہی خواب سُہانے پائے

 

ہو گئے دوست بھی احساس سے عاری اطہرؔ

ہم نے جینے کے لیے کیسے زمانے پائے

 

 

ہاتھوں میں لاکھ غنچۂ تر چاہیے جناب

فولاد سے ڈھلا ہُوا سَر چاہیے جناب

 

اندھے تعلقات کے دِن تو گزر گئے

رشتوں کو دُوربین نظر چاہیے جناب

 

جس میں محبتیں ہوں، وفا ہو، خلوص ہو

رُوئے زمیں پہ ایسا نگر چاہیے جناب

 

راہی کو زندگی میں نہیں فرصتِ قیام

ہر لمحہ رُخ پہ گردِ سفر چاہیے جناب

 

احساس کی تپش جو نہیں ہے تو کچھ نہیں

پتھر کے قلب کو بھی شرر چاہیے جناب

 

گِرداب ہے ندی میں تو کیا سوچنا، یہاں

دَورانِ خون کو بھی بھنور چاہیے جناب

 

 

 

اجنبی لوگ ہیں، نگر کیا ہے

کوئی اپنا نہ ہو تو گھر کیا ہے

 

کوئی پُرسانِ حال تو ہوتا

کارواں کے بِنا سفر کیا ہے

 

تیرے چہرے کی چھب نئی ہر دِن

چاند کے پاس تازہ تر کیا ہے

 

اٹھ رہا ہے دھوئیں کا بادل کیوں

کچھ بتا شہر کی خبر کیا ہے

 

مال و زَر پر ٹِکے ہیں دین بھی اب

تم تو کہتے تھے مال و زَر کیا ہے

 

رُوحِ ایماں نہیں ہے جن میں شکیلؔ

ایسے اعمال کا ثمر کیا ہے

 

 

 

موتی سے مسکرا کے ہر اک سُو بِکھیر دو

کالی اندھیری رات میں جگنو بِکھیر دو

 

کھِلنے کا گر گلاب کے موسم چلا گیا

تم بھی تو ایک پھول ہو خوشبو بِکھیر دو

 

دعوت گھٹا کو دو کہ بہت گرم ہے ہَوا

آنچل ہٹا کے دوش سے گیسو بِکھیر دو

 

اب وہ شفق میں رنگ نہ وہ شام میں کشش

ہونٹوں کی سرخیوں کو لبِ جُو بِکھیر دو

 

چہرے کے ماہتاب میں سمٹی ہوئی ہے کیوں

اس چاندنی کو اب سَرِ زانو بِکھیر دو

 

اب ضبط و احتیاط کا کیا کام ہے شکیلؔ

دامن پہ اس کے آج تو آنسو بِکھیر دو

 

 

اب وہ پہلے کی طرح رشتے نہیں، ناتے نہیں

ہاتھ مِلتے ہیں مگر دِل ہیں کہ مِل پاتے نہیں

 

دو گھڑی جی بھر کے جی لو اور یہ بھی مان لو

لَوٹ آتے ہیں یہ موسم پر یہ دن آتے نہیں

 

ہم نفس تُو وہ کہانی، وہ حکایت اب نہ چھیڑ

بھولے بِسرے واقعے اب دِل کو بہلاتے نہیں

 

اُف یہ شہری زندگی، یہ دُوریاں، مصروفیت

وہ اِدھر آتے نہیں ہیں، ہم اُدھر جاتے نہیں

 

نکہتیں ان میں جو تھیں تم ساتھ اپنے لے گئے

پھول کھِلتے ہیں مگر آنگن کو مہکاتے نہیں

 

ذکر سے اس دوست کے ہم آج بھی اطہر شکیلؔ

دِل کو بہلاتے تو ہیں لیکن سکوں پاتے نہیں

 

 

اپنا ہی باطن منوّر ہو سکے، ایسا کریں

مہرِ تاباں، تجھ سے کب تک روشنی مانگا کریں

 

سادہ لَوحی ٹھیک ہے لیکن ہر اک پر اعتبار

پہلی جیسی اب نہیں دنیا یہ سچ سمجھا کریں

 

کیا خبر ہے جگمگائے چاند سا چہرہ کوئی

رات پھر گہرا گئی ہے، پھر دریچہ وا کریں

 

شہر کی بے فرصتی میں سوچتے ہیں ہم، کبھی

پھر مِلیں فرصت کے لمحے، پھر تجھے سوچا کریں

 

بیٹھکیں جو شہر میں تھیں بے شتر ویراں ہیں اب

گھر سے ہم نکلیں بھی تو جا کر کہاں بیٹھا کریں

 

زیست، مستی اور محبت کے سِوا کیا ہے شکیلؔ

پھر سجائیں جام و مینا، پھر وہی چرچا کریں

 

 

نگر کے شور میں آہنگ اپنا بھول سکتا ہُوں

مگر کیسے ترا ریشم سا لہجہ بھول سکتا ہُوں

 

تری چاہت میں اپنا دھیان بھی رہتا نہیں اکثر

بجز تیرے مِرے ہمدم مَیں کیا کیا بھول سکتا ہُوں

 

ترا پیکر نہیں ہے، یہ تو قدرت کا کرشمہ ہے

مَیں چاہوں بھی تو کیا تیرا سراپا بھول سکتا ہُوں

 

جسے چاہا ہے، پوجا ہے، جسے محبوب جانا ہے

کبھی سپنے میں بھی کیسے وہ چہرہ بھول سکتا ہُوں

 

اگر کچھ ہے تو اک جبرِ مسلسل زندگی میری

نہ دنیا بھول سکتا ہُوں نہ عقبیٰ بھول سکتا ہُوں

 

مجھے لگتا ہے مَیں اس کی محبت میں شکیلؔ آخر

خود اپنی آرزو، اپنی تمنّا بھول سکتا ہُوں

 

 

دو چار دن کا شغل، ہوئی عاشقی تمام

کرتا ہے کون عشق میں اب زندگی تمام

 

کس عہدِ نامراد میں ہم آ گئے ہیں اب

میرا جنوں تمام، تری دلکشی تمام

 

سرد و سیاہ شب میں ترا حُسنِ تابناک

بستر پہ میرے پھیل گئی روشنی تمام

 

انسان کو تھی پہلے ضرورت مشین کی

اب خود ہُوا مشین یہاں آدمی، تمام

 

کس کو خرد کی راہ سے پانے چلے تھے ہم

ہوتی ہے عاشقی میں یہاں آگہی تمام

 

دنیا ہے اس کا نام یہ دریا ہوَس کا ہے

کھیتے رہو گے ناؤ نہ ہو گی ندی تمام

 

اطہرؔ نہ بھول، ہونا ہے سب کچھ فنا یہاں

ہر دوستی تمام ہے، ہر دشمنی تمام

 

 

آشفتہ مزاجی کی روایت کے سِوا بھی

کچھ اور کرو عشق میں وحشت کے سِوا بھی

 

ہر طرح کے آفات کا مرکز ہے یہ دنیا

محشر ہیں کئی اور قیامت کے سِوا بھی

 

موقوف نہیں عالمِ اسباب اسی پر

کچھ کام ضروری ہیں محبت کے سِوا بھی

 

انسان نے سمجھی نہیں اب تک یہ حقیقت

انساں کا ہے مفہوم ضرورت کے سِوا بھی

 

ہر تلخیِ آلام سے واقف ہے مِرا دِل

جھیلے ہیں بہت غم تِری فرقت کے سِوا بھی

 

یہ سجدہ گزاری ہی تو کافی نہیں اطہرؔ

ہیں نیکیاں کچھ اور عبادت کے سِوا بھی

 

 

خود آگاہی بھی تم میں ہے، جہاں دانی بھی تم میں ہے

نہیں جو چشمِ نرگِس میں وہ حیرانی بھی تم میں ہے

 

تمہارے جسم کی خوشبو پہ لاکھوں نکہتیں قرباں

دھنک کے رنگ بھی، تاروں کی تابانی بھی تم میں ہے

 

جفا پر اپنی گوخفّت کبھی ظاہر نہیں کرتے

مگر لگتا ہے احساسِ پشیمانی بھی تم میں ہے

 

تمہارے پُر سکوں چہرے میں پنہاں رونقیں ساری

ہَوا کی ہلچلیں، مَوجوں کی جَولانی بھی تم میں ہے

 

تم اپنے جذبۂ دِل کو عیاں ہونے نہیں دیتے

وفا بھی ہے، محبت کی فراوانی بھی تم میں ہے

 

بھلے لگتے ہیں تم کو سب، سبھی اپنے سے لگتے ہیں

میاں اطہرؔ یہ اک چھوٹی سی نادانی بھی تم میں ہے

 

 

اس شخص نے جب دِل کو دُکھانا نہیں چھوڑا

خوں ہم نے بھی آنکھوں سے بہانا نہیں چھوڑا

 

یادوں نے ابھی یاس کی سرحد نہیں کھینچی

نیندوں نے ابھی خواب دِکھانا نہیں چھوڑا

 

ہر زخم کسک اٹھتا ہے برسات کی رُت میں

پُروا نے اسے یاد دِلانا نہیں چھوڑا

 

ہیں شہر میں ہر شخص کے اطوار نرالے

اک ہم نے ہی انداز پُرانا نہیں چھوڑا

 

خوش فہمیاں ہم نے بھی نہ کیں ترک ابھی تک

تم نے بھی ہمیں خواب دِکھانا نہیں چھوڑا

 

الزام سہے لاکھ مگر ہم نے بھی اطہرؔ

اس کُوئے ملامت کا ٹھکانا نہیں چھوڑا

 

 

زاویے جو فکر کے تھے، کیا سے کیا ہونے لگے

جن کو ہم کہتے تھے بُت وہ بھی خدا ہونے لگے

 

پاسداری عشق کی باقی نہ وہ دِل کی تڑپ

ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی بے وفا ہونے لگے

 

ہم بھی عریاں ہو گئے ہیں پیرہن کے باوجود

وہ قبا ہوتے ہوئے بھی بے قبا ہونے لگے

 

ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج تک بیتی نہیں

وہ گھڑی، جس وقت ہم ان سے جدا ہونے لگے

 

وارداتِ دِل کی ساری لذّتیں جاتی رہیٖں

عاشقی کے سارے قصّے بے مزا ہونے لگے

 

اب کے موسم، کیسی یہ بے گانگی لایا شکیلؔ

آشنا کل تک جو تھے، نا آشنا ہونے لگے

 

 

ہونٹوں پہ طلب، دِل میں تمنّا بھی نہیں اب

آنکھوں میں وہ خوابوں کا اثاثہ بھی نہیں اب

 

رائج ہوئے موضوعِ سخن اور نئے کچھ

مدّت سے ترے نام کا چرچا بھی نہیں اب

 

درپیش ہے پت جھڑ میں سفر دُور کا یارو!

رستے میں کسی پیڑ کا سایہ بھی نہیں اب

 

جو چاہ تھی پہلے وہ دِلوں میں نہیں باقی

افسوس کہ چاہت کا دِکھاوا بھی نہیں اب

 

وِشواس جو ٹوٹا ہے تو سُنسان ہُوا دِل

جو ساتھ تھا کل تک وہ بھروسا بھی نہیں اب

 

رسم و رہِ دنیا پہ وہ قائم تو ہے اطہرؔ

اپنا وہ نہیں ہے تو پرایا بھی نہیں اب

 

 

سائباں پہلے جو تھا اب وہ کہاں باقی رَہا

آسماں غائب ہُوا، سرپر دھُواں باقی رَہا

 

یہ زمانے کا تلوّن، یہ بدلتے رات دِن

موسمِ گُل میں بھی تو خوفِ خزاں باقی رَہا

 

ایک دشتِ بے اماں ہے، ریت ہے اور دھوپ ہے

وہ شجر باقی نہ اب وہ آشیاں باقی رَہا

 

یاد بھی شاید نہ ہو اس کو بچھڑنے کا سماں

مجھ میں لیکن ہر گھڑی رنجِ زیاں باقی رَہا

 

اب کے ساون میں یہ کیسی آگ برسی ہے کہ بس

خشک دریا ہو گئے، ریگِ رواں باقی رَہا

 

رات دن اک ساتھ رہ کر بھی تعجب ہے شکیلؔ

فاصلہ کیوں اس کے میرے درمیاں باقی رَہا

 

 

بات الجھی ہوئی جب تیری زبانی پاؤں

کیسے پھر مَیں تِرے لفظوں میں معانی پاؤں

 

پھر نہ دیکھوں مَیں کبھی لَوٹ کے پیچھے کی طرف

مَیں بھی دریا سے کبھی ایسی روانی پاؤں

 

کیسے جاناں تِری یادوں کا تسلسل ٹُوٹے

گھر کی ہر چیز میں جب تیری نشانی پاؤں

 

ہر کہانی میں مِلے کوئی حقیقت پنہاں

ہر حقیقت میں نہاں کوئی کہانی پاؤں

 

موجِ غم دِل میں نہیں، آنکھ میں آنسو بھی نہیں

اب یہ صحرا جو گزر جائے تو پانی پاؤں

 

مَیں بناتا نہیں اس ڈر سے تعلق اطہرؔ

دوست اک پاؤں تو اک دشمنِ جانی پاؤں

 

 

کچھ دوستوں سے زخم برابر لگے مجھے

با توں کے تیٖر سینے کے اندر لگے مجھے

 

مَیں نے کبھی بھی ان کا تعاقب نہیں کیا

اپنی پہنچ سے خواب جو باہر لگے مجھے

 

یہ بھی تضادِ زیست کا احسان کم نہیں

اُڑنے کا خواب چھوڑا تو شہپر لگے مجھے

 

نشّہ ہے خود نمائی کا ایسا چڑھا ہُوا

مفلس بھی اس نگر کا تونگر لگے مجھے

 

مَیں بندگی سے خوابوں کی آزاد کیا ہُوا

کاندھوں پہ میرے آج مِرا سر لگے مجھے

 

بے وزن ہیں ہم آج کروڑوں کے باوجود

بہتر کروڑہا سے بہتّر لگے مجھے

 

اطہرؔ یہ بے یقینی کی منزل ہے کون سی

اپنوں کے درمیان بھی اب ڈر لگے مجھے

 

 

دنیا کی دَوڑ دھوپ سے مایوس یوں نہ ہو

جب اس نے جس کو چاہا ہے آگے بڑھا دیا

 

خائف تھے ہم بھی تم سے بہت، کہہ کہ حالِ دِل

اچھا کِیا جو تم نے جہاں کو بتا دیا

 

مجبوریاں کھِلونا تھیں اس کے لیے مِری

پَل میں ہنسا دیا مجھے پَل میں رُلا دیا

 

اُمید اس بھنور سے نکلنے کی تھی کہاں

شاید ہے کام آ گیا کوئی لِیا، دیا

 

مامور ہو تم اس پہ، تمہیں روکتا ہے کون

جب چاہا دِل کسی کا بھی تم نے دُکھا دیا

 

لوگوں کے درمیاں وہ کرے مجھ سے یہ سلوک

چاہا بٹھایا پاس نہ چاہا، اُٹھا دیا

 

شہرت کے ساتھ تو نے دی مجھ کو مِری شناخت

مَیں نے ہی کائناتِ ادب تجھ کو کیا دیا

٭٭٭

ہوش و خرد کو فیصلہ اپنا سُنا دیا

اہلِ جنوں کو وقت نے آگے بڑھا دیا

 

احساں یہ رہنماؤں کا ہم پر بھی کم نہیں

افیون بے حسی کی کھِلائی، سُلا دیا

 

اس نے بھی اپنے ساتھ نئے دوست رکھ لیے

مَیں نے بھی اس کے نام کو دِل سے مٹا دیا

 

پیپر کے ویٹ جیسے تھے ہم اس کے ہاتھ میں

جب چاہا اس نے رکھ دیا، چاہا گھما دیا

 

ٹھوکر نے اس کی، شکر ہے، دھوکے کی شکل میں

دے کر بھلائی کا صلہ ہم کو جگا دیا

 

 

خشک آنکھیں بھی ہیں اشکوں کی نشانی اے دِل

یہ حقیقت نہ کسی اور نے سمجھی اے دِل

 

حیثیت دیکھ کے مِلتے ہیں، تڑپ پا کے نہیں

دستِ شفقت ہو کسی کا کہ تسلّی اے دِل

 

تو ہی جب مُردہ ہُوا ہے تو کہاں کیف کے دِن

تیرے دَم سے تھی مِرے جام میں مستی اے دِل

 

تجھ سے ہم رُوٹھ کے جائیں تو کہاں جائیں بتا

ساتھ کٹتی ہے ترے، رات ہماری اے دِل

 

کوئی سیّاح نہیں کھوجنے آتا ہے یہاں

مجھ میں گُم ہے مِری دنیا، مِری ہستی اے دِل

 

میری بانہوں میں کوئی چاند سمٹ آیا تھا

آج اس رات کی مت چھیڑ کہانی اے دِل

 

لَوٹ آیا ہوں اسی شہرِ ستم میں اطہرؔ

راس آئی نہ وفا شہرِ سکوں کی اے دِل

 

 

ہم سفر اک راستے کی بھیٖڑ کا ہوتے ہوئے

کس قدر تنہا تھا مَیں ان سے جدا ہوتے ہوئے

 

میرے قبضے میں کہاں تھی، میری اپنی تازگی

مجھ کو باسی کر گیا ہر دِن نیا ہوتے ہوئے

 

اس کا یہ اخلاق تھا یا تھا دِکھاوا، کیا خبر

تھا گلہ دِل میں بھی ہونٹوں پر دعا ہوتے ہوئے

 

وہ سکوتِ بے کراں وہ ہجر کی سُنسان شب

مَیں نے سنّاٹے کو دیکھا ہے صدا ہوتے ہوئے

 

یہ تغیّر ہے زمانے کا کہ قدروں کا زوال

دیکھئے ہر نا رَوا کو، اب رَوا ہوتے ہوئے

 

اتنی جلدی مت دعاؤں میں اثر چاہو شکیلؔ

مدّتیں لگتی ہیں نالے کو رسا ہوتے ہوئے

 

 

قدر اب جس کی نہیں، ہر وہ نشانی بھول جا

بیتے قصّے بھول جا، بیتی کہانی بھول جا

 

دَرد کے موسم کی شدّت کا تقاضہ ہے کہ اب

رقص و نغمہ بھول بھی جا، گُل فشانی بھول جا

 

آج آنکھیں خشک ہیں تیری تو حیرت کس لیے

دِل کے دریا میں کبھی رہتا تھا پانی بھول جا

 

چند لمحوں کی رفاقت بھی مِلے تو کم نہیں

وہ مروّت بھول جا، وہ مہربانی بھول جا

 

عیش و عشرت کے سبھی معیار ہیں بدلے ہوئے

اب مسرّت بھول جا، وہ شادمانی بھول جا

 

ہے ہنر، اظہار کی پیچیدگی اطہر شکیلؔ

کام آتی تھی کبھی سادہ بیانی بھول جا

 

 

ابھی ہے محفوظ حافظے میں وہ رات میری، مِلن تمہارا

بدن کی حدّت سے تپ رہا تھا، سُبک سُبک پیرہن تمہارا

 

کہیں مِلے گی نہ ایسی نکہت نہ ایسی رنگت نہ دلکشی ہی

تمہارے چہرے کی تازگی میں مہک رہا تھا چمن تمہارا

 

تمہاری دنیا سے دُور بیٹھا ہر ایک رُت میں یہ سوچتا ہُوں

کھِلے تو ہوں گے تمہارے غنچے، سجا تو ہو گا گگن تمہارا

 

میں دیکھتا ہوں کہ رفتہ رفتہ بدل رہے ہیں تمہارے تیور

نہیں رہی وہ روِش تمہاری، نہیں رہا وہ چلن تمہارا

 

ابھی تو تنہائیوں میں اپنی یہ سوچتے ہو، کہو گے سب کچھ

جو ہو گے کل اس کے روبرو تم، کھُلے گا کیسے دہن تمہارا

 

یہ مسئلہ تو شکیلؔ کا ہے کہ کل کی یادوں میں جی رہا ہے

نئے ہوں یا لوگ اجنبی ہوں، بہل ہی جائے گا مَن تمہارا

 

 

عقوبت جھیلنا آسان ہے، عقبیٰ بھی آساں ہے

خداوندا بتا کیا یہ تِری دنیا بھی آساں ہے

 

سبھی کچھ منحصر ہے قوتِ احساس پر اے جاں

بچھڑ کر تجھ سے تنہائی میں جی لینا بھی آساں ہے

 

صلابت ہو ارادے میں تو مشکل بھی نہیں مشکل

جسے دیکھا نہیں اب تک وہ اک رستہ بھی آساں ہے

 

بچھڑ کر پھر مِلیں گے، پھر وہی دِلداریاں ہوں گی

توقع ساتھ ہو تو ہجر کا صدمہ بھی آساں ہے

 

سمجھ لیجے کوئی ایثار یک طرفہ نہیں ہوتا

محبت ہو تو جاں اپنی گنوا دینا بھی آساں ہے

 

کنارے سے اگر وہ حوصلہ دیتے رہیں اطہرؔ

بھنور کے بیچ سے ہو کر گزر جانا بھی آساں ہے

 

 

کیف آگیں ہے تِرے قرب کا لمحہ کیا کیا

اک ترا پیار جو پایا ہے تو پایا کیا کیا

 

مجھ سے از راہِ کرم اب یہ کہانی مت پوچھ

تجھ سے بچھڑا تو مِری ذات پہ بیتا کیا کیا

 

تم ہی اک دن مجھے اظہار کی جرأت دے دو

میرے ہونٹوں پہ مچلتی ہے تمنّا کیا کیا

 

کون سمجھے گا اسے، کون سمجھ پایا ہے

رُوپ ہر لمحہ بدلتی ہے یہ دنیا کیا کیا

 

ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہیں، یگانے ہیں سبھی

لوگ مِلتے ہیں تو کرتے ہیں دِکھاوا کیا کیا

 

آ کے خود دیکھ مِرے دوست یہ اطہر ؔسے نہ پوچھ

گھر میں ہوتا ہے تِرے بعد ادھورا کیا کیا

 

 

تمہی بتاؤ کہ کیا کریں ہم، لبوں پہ شکوہ اگر نہ آئے

گلی سے گزرے ہو تم ہماری، ہمیں یہ دکھ ہے اِدھر نہ آئے

 

اندھیری شب تھی، نہا رہے تھے تم اپنے پیکر کی روشنی میں

مِرے لہو میں بھڑکتے جلتے چراغ تم کو نظر نہ آئے

 

عجب تعطّل کا سلسلہ ہے کہ شہر تو ایک ہی ہے لیکن

تمہیں ہماری خبر نہ پہنچے، ہمیں تمہاری خبر نہ آئے

 

سفر میں مِلتے رہے ہیں یوں تو نئے نئے رہ نورد ہم کو

کبھی جو ہم سے بچھڑ گئے تھے پلٹ کے وہ ہم سفر نہ آئے

 

تمہاری یادوں کو ساتھ لے کر کہاں کہاں گھومتے پھرے ہم

بہت تھے اپنے جو منتظر تھے ہمٖیں پسِ شام گھر نہ آئے

 

محبتوں کو کسی کی اطہرؔ خدا سے مانگا ہے لاکھ ہم نے

کوئی بتائے کہ کیا کریں ہم اگر دعا میں اثر نہ آئے

 

 

نیند سے جاگا تو دیکھا ہر نشاں بدلا ہُوا

یہ زمیں بدلی ہوئی ہے، آسماں بدلا ہُوا

 

چلتے چلتے جانے کس دنیا میں لے آیا ہے دِل

مہرباں بدلا ہُوا، نا مہرباں بدلا ہُوا

 

اب شرارت میں سلیقہ ہے نہ شغلِ عشق میں

شہر کی سڑکوں پہ اک اک نوجواں بدلا ہُوا

 

ہر عقیدت اپنے پہلے کا تیقُّن کھو چکی

معتقد بدلے ہُوئے ہیں، آستاں بدلا ہُوا

 

آزمائش لینے والے بھی تو پہلے سے نہیں

ممتحن بدلے ہوئے ہیں، امتحاں بدلا ہُوا

 

سب پُرانے رابطے غائب ہوئے اطہر شکیلؔ

میرا گھر بدلا ہُوا، اس کا مکاں بدلا ہُوا

 

 

دوست، دشمن، گھر، نگر، اپنا، پرایا چھوڑ دوں

اے دِلِ ناداں بتا کیا ساتھ سب کا چھوڑ دوں

 

دِل کو بہلانے کے ہیں کیا کیا وسیلے سامنے

رات کہتی ہے کہ اس کو یاد کرنا چھوڑ دوں

 

ایک مدّت ہو گئی ہے، سوچتا رہتا ہوں یہ

اپنی اک دنیا بساؤں، اس کی دنیا چھوڑ دوں

 

راس اب آ ہی گئیں تاریک راتیں شہر کو

صبح تک اب شمع کی مانند جَلنا چھوڑ دوں

 

فیصلوں کو چاٹ جاتے ہیں تقاضے وقت کے

دِل یہ کہتا ہے کہ یہ سارا تماشا چھوڑ دوں

 

کاروبارِ منفعت میں کیوں نہ لگ جاؤں شکیلؔ

اس کی چاہت چھوڑ دوں، اپنی تمنّا چھوڑ دوں

 

 

حقیقت کیسی ہوتی ہے، کہانی کیسی ہوتی ہے

تمہیں سُن کر یہ سمجھے حق بیانی کیسی ہوتی ہے

 

یکایک کھِلکھلا کر ہنس پڑو پت جھڑ کے موسم میں

ذرا ہم بھی تو دیکھیں گُلفشانی کیسی ہوتی ہے

 

بہت کچھ کہنے والے بھی جو دِل میں ہو نہیں کہتے

تمہیں معلوم کیا ہے بے زبانی کیسی ہوتی ہے

 

تبسّم اب مِرے ہونٹوں پہ سہواً بھی نہیں آتا

ذرا مجھ کو بتاؤ شادمانی کیسی ہوتی ہے

 

ابھی تک سانس لینے کے گنہگاروں میں ہم بھی تھے

تمہیں دیکھا تو سمجھے زندگانی کیسی ہوتی ہے

 

چلے آتے ہیں اطہرؔ ہار تھک کر شب بسیرے کو

ہمٖیں کچھ جانتے ہیں بے مکانی کیسی ہوتی ہے

 

 

ان کے عجائبات نمایاں ہیں ہر طرف

مٹّی سے، پیکروں کو بنائیں، سنوار دیں

 

خود غرضیاں مِلٖیں نہ کہیں اس طرح کی دوست

چاہت بھی دیں کسی کو یہاں تو ادھار دیں

 

ہر عہد میں رہے جو نمایاں، جدید بھی

بحرِ ادب میں ہم بھی وہ لہجہ ابھار دیں

 

اس عہد میں بھی تم کو مِلیں گے کچھ ایسے لوگ

جو بے غرض ہی سب کو دعائیں ہزار دیں

 

ان بحر و بَر میں یوں تو توازن بھی ہے مگر

بنجر زمیں کو بھی تو کوئی آبشار دیں

 

اطہرؔ یہ دِل سے نکلی تو پہنچے گی دِل تلک

اس سنگ دِل کے دَر پہ صدا بار بار دیں

٭٭٭

 

 

امن و اماں کی جس کو زمانہ کہے نظیر

آؤ شہا! زمیں پہ وہ بستی اتار دیں

 

تم مانگنے چلے ہو گلستاں میں ان سے حق

گلشن تو کیا کسی کو وہ گُل دیں نہ خار دیں

 

محرومیوں کا جیسے نہیں ہے کوئی حساب

خوشیوں کے بھی وہ لمحے ہمیں بے شمار دیں

 

اک وقت ہی میں ان کی ادائیں غضب غضب

بے چینیاں کسی کو، کسی کو قرار دیں

 

مَن چاہے موسموں کی طلب کس طرح سے ہو

ان کو ہے اختیار، خزاں دیں، بہار دیں

 

وہ سہہ نہیں سکیں گے ندامت کو، ہار کی

ہم نے جو اُن سے جیتی ہے بازی وہ ہار دیں

 

نیکی کہیں کہ اس کو دِکھاوا کہیں گے آپ

اہلِ سخی مدد بھی لگا کر قطار دیں

 

جس کی نگاہِ خاص وہ دِل میں اتار دیں

لیں یوں گرفت میں کہ نہ راہِ فرار دیں

 

مِلیے قلندروں سے نہ از راہِ دِل لگی

ظاہر بگاڑ دیں تو یہ باطن سنوار دیں

 

ہم کل کی جستجو میں کریں قتل آج کا؟

کیوں زندگی کو خواہشِ بے جا پہ وار دیں

 

حیرت ہے سخت سنگ تراشوں کے کام پر

بے جان پتھروں کو وہ نقش و نگار دیں

 

شاید ہو اس کے بعد میسّر سکونِ دل

ہم اپنی خواہشاتِ مسلسل کو مار دیں

 

حالات ہیں ہمارے گھروندوں سے ریت کے

جب چاہیں وہ بنائیں، بگاڑیں، سدھار دیں

 

 

یکساں ہیں اس عمل میں ستم گر، کوئی ہو عہد

پکڑا، اسیٖر کر لیا، جو بے گنہ مِلا

 

اک دِل لگی کی ایسی سزا، مدّتوں ہمیں

کوئی خبر مِلی نہ پتا آپ کا مِلا

 

یکتا ہے وہ جہاں میں، یہ کوشش فضول ہے

اس کی ادا سے لاکھ کسی کی ادا مِلا

 

وہ کَشف، وہ کرامتیں مِلتی ہیں یوں کہیں

کتنی قلندروں کی قبا سے قبا مِلا

 

کمزور و نا تواں پہ مظالم، یہ سوچ لو

تب کیا کرو گے، تم کو جو تم سے سِوا مِلا

 

اٹھے تو ہاتھ یاس کے عالم میں بھی شکیلؔ

لیکن لبوں کو اپنے نہ حرفِ دعا مِلا

٭٭٭

سبزے میں، بحر و بَر میں، خلا میں پتہ مِلا

ہر ایک شئے میں ارض و سما کی خدا مِلا

 

میرے ہی کچھ اصول تھے، مَیں جن کا ہو رَہا

یہ سَر کہیں اٹھا تو کہیں پر جھکا مِلا

 

ہوں تو گناہ گار مَیں لیکن رسولؐ کا

سَر کو جھکا دیا ہے جہاں نقشِ پا مِلا

 

ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کر گئے

کچھ لوگ خواہشات سے جن کو سِوا مِلا

 

مظلوم پھر یہ جا کے کہاں پائیں گے اماں

بدلہ بھی ظالموں کو جو روزِ جزا مِلا

 

پھر تجرباتِ زندگی نوحہ کُناں ہُوئے

دِل خوش ہُوا تھا، دِل کو نیا دِلربا مِلا

 

نکلا کسی نظر سے تو پہنچا کہاں پہ تیٖر

تَن بے نشاں ہے پھر بھی یہ دِل میں لگا مِلا

 

اپنا ہی تجربہ تو نہیں، عشق کا مرض

یہ جس جگہ مِلا ہے وہاں لا دوا مِلا

 

پہلے یہ دیکھنا ہے، عمل کس کا کیا ہے دوست

پھر بعد میں یہ دیکھ یہاں کس کو کیا مِلا

 

غیرت نہ ہی اصول، عقیدت نہ بندگی

یہ سَر بھی کوئی سَر ہے جو دَر دَر جھکا مِلا

 

ممکن ہے پھر کہ آہ تری پہنچے عرش تک

اشکوں میں پہلے اپنے تو رنگِ حِنا مِلا

٭٭٭

کہنے کو دوستوں کا ہمیں سلسلہ مِلا

کوئی نہ اس کے بعد مگر ہم نوا مِلا

 

کشتی کنارے لگ ہی گئی اس طرح مِری

مایوس نا خدا سے ہُوا تھا، خدا مِلا

 

دونوں کی سازشوں سے ہُوا پھر تباہ دِل

خواہش کا پھر امید سے اک رابطہ مِلا

 

فیشن ہے آج یہ بھی، گلہ اس کا ہے فضول

اس عہدِ نامُراد میں وہ کس سے جا مِلا

 

سورج سمیٹ لے گیا پھر اپنی روشنی

پھر سے اندھیرا چیٖرتا شب بھر دِیا مِلا

 

لاتی ہے ان کی یاد کو جس طرح ناگہاں

یوں دفعتاً تو ان سے بھی بادِ صبا مِلا

 

ممکن ہے اس کے بعد یہ دنیا کی چیخ ہو

میری نوا کے ساتھ تو اپنی نوا مِلا

 

تنہا نہ کر سکا کوئی کوشش کے باوجود

چھوڑا مجھے کسی نے جہاں، دوسرا مِلا

 

کیسے کٹے گی زیست جو ٹکرائے گی یونہی

یارب کسی اَنا سے نہ میری اَنا مِلا

 

ہے اَوج پر تُو، جلوہ ہے تیرا مگر یہ دیکھ

ہر شام زعمِ شمس یہاں ٹوٹتا مِلا

 

مقتول کی تھی چیخ کہ اطہرؔ کوئی تھی برق

جگ کو سوادِ دہر میں اک راستہ مِلا

٭٭٭

 

اپنی لگی میں ہر کوئی مجھ کو لگا مِلا

پتھر مِلا نہ کوئی یہاں آئینہ مِلا

 

آوارگیِ شوق نہ ٹھہری کسی جگہ

گرچہ خدا مِلا تو کہیں ناخدا مِلا

 

طوفاں کو نامُرادی پہ خفّت ہے اپنی آج

اس مرتبہ چراغ نہ کوئی بجھا مِلا

 

اس تجربے سے آپ کو شاید سبق مِلے

اب شکر اس کا کیجے کوئی دِل جلا مِلا

 

پھر اس نے ہنس کے دیکھ لیا آج میری سمت

دِل کو تصوّرات کا پھر سلسلہ مِلا

 

 

کس طرح وقت یوں لمحوں میں بدل جاتا ہے

حلقۂ دوست بھی دشمن سا نظر آتا ہے

 

یہ تصوّر ہی غلط اب کہ سنبھالے گا کوئی

گِرنے والوں کو یہاں کون اٹھا لاتا ہے

 

پہلے مِلتی تھی مسرّت بھی پذیرائی سے

اب تو دِل اپنی ہی تعریف سے گھبراتا ہے

 

ہر حقیقت ہے گُماں اور گُماں جیسے یقیں

ڈرتا ہے خود سے ہی دِل، خود کو ہی سمجھاتا ہے

 

کوئی بھی بات یہاں اب نہ رہی نا ممکن

جس کو جو کرنا ہے اس عہد میں کر جاتا ہے

 

یوں بھی مشکوک ہے دِل اس کے تعلق سے مِرا

چاہتیں اپنی وہ ہر شخص پہ بکھراتا ہے

 

شہر دَر شہر مکھوٹوں کا چلن ہے اطہرؔ

جس سے مِلیے وہی اپنا سا نظر آتا ہے

 

 

کچھ حرکتیں لگی بندھی، بے رُوح، بے تڑپ

عادت کہیں ہم اس کو یا پھر بندگی کہیں

 

یہ مصلحت بھی وقت کی سفّاک ہے کہ لوگ

اس لہجۂ کرخت کو بھی شبنمی کہیں

 

پہچان جن کو مجھ سے مِلی، ان سے کوئی آج

پوچھے جو میرے بارے تو وہ اجنبی کہیں

 

آ تو گیا وہ شام ڈھلے لَوٹ کر اب آپ

بھولے ہوئے کو صبح کے گھر واپسی کہیں

 

وہ ہے سیاسی آدمی اطہرؔ اب اس کی، ہم

کیا معنیٰ خیز چُپ کو بھی افسردگی کہیں

٭٭٭

 

ہے وقت کا تقاضہ بھی اور مصلحت بھی، ہم

ہشیاری اس کی جان کے بھی سادگی کہیں

 

رسوا ہوئے ہیں دونوں اصولوں کی جنگ میں

اس ہار کو ہم اپنی کہیں یا تِری کہیں

 

وہ جانتے ہیں کس لیے پھرتا ہُوں سُوبہ سُو

اس جستجو کو پھر بھی جو آوارگی کہیں

 

شوخی کہیں اب اس کو کہ نفرت کی انتہا

ان کی بھی ہو خطا تو وہ اس کو مِری کہیں

 

بے لَوث چاہتوں کو بتاتے ہیں لَو جہاد

اور اپنی سازشوں کو وہ گھر واپسی کہیں

 

جمہوریت میں حزبِ مخالف کی کوئی بات

اچھی بھی ہو اگر تو ہم اس کو بُری کہیں

 

یہ فیصلہ بھی وقت ہی کر دے گا ایک دن

وہ صبر کو ہمارے، ابھی بزدِلی کہیں

 

کشکول خواہشات کا بھرتا ہے کیا کبھی

اب تشنگیِ زیست کو ہی زندگی کہیں

 

جس میں نظر نہ آئے بجز اپنے کچھ ہمیں

اُس روشنیِ دہر کو ہم تیٖرگی کہیں

 

ہے اُن کا اک مقام یہاں، ہم بھی اُن سے آج

اک رسم و راہ کو بھی چلو دوستی کہیں

 

کب تک مشاعروں میں سہیں شعبدہ گری

تک بندیوں کو کس طرح ہم شاعری کہیں

 

دیتا ہے زہر ہم کو مِلا کر تو شہد میں

کیسے ہم اس عمل کو ترے دشمنی کہیں

 

جادو سا کر دیا ہے سماعت پہ جس نے آج

ہم شاعری کو آپ کی کیا ساحری کہیں

 

پوچھے جو کوئی حالِ بظاہر کو ہم سے دوست

یادوں سے تیری، زیست کو اپنی سجی کہیں

٭٭٭

کوئی غرض کہیں کہ تری سادگی کہیں

یا روز روز مِلنے کو ہم دوستی کہیں

 

غوغا ہے جھوٹ کا بھی مگر میری کوئی بات

حق ہے اگر تو ساتھ میں میرے سبھی کہیں

 

تاخیرِ عدل بھی تو ستم سے نہیں ہے کم

جو کچھ بھی فیصلہ ہو وہ آج اور ابھی کہیں

 

بینائی تک نہ کھو دیں اندھیرا ہے اس قدر

اُس پر ستم اندھیرے کو ہم روشنی کہیں

 

سفّاک کس قدر ہیں مِرے حکمران بھی

یہ کشت و خوں کو مسٔلۂِ باہمی کہیں

 

 

جب بھی منزل کوئی قدموں سے لپٹ جاتی ہے

زندگی اس گھڑی بے معنیٰ نظر آتی ہے

 

ایک ساحل ہُوں تو کیا میرا کوئی دَرد نہیں

صرف موجوں ہی پہ کیوں سب کی نظر جاتی ہے

 

ذہن کرتا ہے بس اتنی سی شکایت دِل سے

دنیا دونوں کی ہے پھر کیوں تری کہلاتی ہے

 

کیا ہُوا اِن کو خدا خیر، یہ تازہ ہیں مگر

لَو چراغوں کی سرِ شام ہی لہراتی ہے

 

یوں بھی ہوتا ہے نہ آئے تُو اگر خوابوں میں

نیند بھی میرے قریب آنے سے گھبراتی ہے

 

دُور ہو جانے پہ تیرے ہے عجب حال کہ اب

تیری صورت مجھے ہر سمت نظر آتی ہے

 

گِر کے اپنی ہی نگاہوں سے یہ جینے کی سزا

ایسا لگتا ہے کہ ہر شئے مجھے ٹھکراتی ہے

 

کیا ہُوا، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا اطہرؔ

آج بے وجہ طبیعت مِری گھبراتی ہے

دِل کے جذبات کی، احساس کی نعمت بیچی

ہم نے جو وجہِ سکوں تھی وہی راحت بیچی

 

اب یہاں کوئی خریدار نہیں خوابوں کا

بس یہی جان کے اس دِل نے حقیقت بیچی

 

لوگ کچھ پانے کی کوشش میں ہُوئے تھے پاگل

اس نے لوگوں کو سرِ عام قیامت بیچی

 

جیسے ہی لوگوں نے اوتار بنایا اس کو

اس نے گھبرا کے اسی وقت قیادت بیچی

 

خواہشیں قتل ہوئیں پھر سرِ محفل اطہرؔ

پھر حسینوں نے وہ مصنوعی محبت بیچی

 

 

مَیں جواب جس کا نہ لا سکا

وہ سوال ایسا بھی کر گیا

 

کوئی ذکر اس کا کرے تو کیوں

جو نظر سے سب کی اتر گیا

 

تھیں ہزار میری بھی خواہشیں

نہ نکل سکیں تو بکھر گیا

 

مِرا سایہ مجھ سے بڑا ہُوا

تو مَیں اپنے سائے سے ڈر گیا

 

تِرا شہر شہرِ عجیب ہے

یہاں جیتے جی ہی مَیں مَر گیا

 

مِرے خواب میری حیات تھے

جو نہیں رَہے، مَیں بِکھر گیا

٭٭٭

 

 

مَیں جو چلتے چلتے ٹھہر گیا

وہ ٹھہر ٹھہر کے گزر گیا

 

کوئی مدّعا مَیں لیے ہوئے

تِرے پاس شام و سحر گیا

 

کبھی اِس طرف کبھی اُس طرف

مَیں سمٹ گیا کہ بکھر گیا

 

کسی رہ گزر پہ مِلا تھا وہ

وہ جو ذہن و دِل میں اتر گیا

 

کسی راہ بر کی تلاش میں

یہ قبیلہ راہ میں مَر گیا

 

رَہا بولتا تو تھی زیست بھی

جو مَیں چُپ ہُوا تو بکھر گیا

 

 

ہیں نقشِ پا بھی، مہک بھی، چلو منا لائیں

ذرا ہی دُور وہ اس راہ پر گیا ہو گا

 

جو بارشوں میں محبت کی رات بھر بھیگا

طلوعِ صبح وہ یقیناً نکھر گیا ہو گا

 

نہ نکلی آہ بھی ہو کر لہوٗ لہوٗ دِل سے

وہ کس طرح سے مِرا قتل کر گیا ہو گا

 

ہر ایک بات میں تلخی جو ان لبوں پر ہے

وہ تجرباتِ زمانہ سے بھر گیا ہو گا

 

سلگ رہا تھا جو آغوش میں مِرے شب بھر

مَیں اُس میں اور وہ مجھ میں بکھر گیا ہو گا

 

مہکتی ہو گی یقیناً ابھی تو اطہرؔ جی

کسی بھی شئے کو وہ چھُو کر اگر گیا ہو گا

٭٭٭

 

جو اس طرح سے مجھے توڑ کر گیا ہو گا

ضرور ٹوٹ کے خود بھی بِکھر گیا ہو گا

 

وہ اشتہار لگاتا ہے جیت کا اپنی

کسی کے سامنے آنے سے ڈر گیا ہو گا

 

امیرِ شہر حماقت سے جو لگا ہے تِری

اس ایک داغ کا ہر گھر اثر گیا ہو گا

 

نہیں ہے عشق میں اب درد یا وفا باقی

یہ طرزِ نو بھی وہ ایجاد کر گیا ہو گا

 

مہک اٹھا ہے جو گھر پھر اسی کی خوشبو سے

وہ آج شہر سے ہو کر گزر گیا ہو گا

 

اس عہدِ نو کی محبت کی کوئی عمر نہیں

خمار عشق کا ان کے اتر گیا ہو گا

 

 

دِل ہے ویران، لہو سرد، فسردہ چہرہ

کیا کہیں حالتِ جاں اپنی اب ایسی کیوں ہے

 

اور کب تک ہے پرکھنا تجھے اے گردشِ وقت

یوں ترازو پہ سدا مجھ کو تو رکھتی کیوں ہے

 

راستے بند ہیں، منزل ہے نہ رہ بر کوئی

ایک امید سی دِل کو مِرے پھر بھی کیوں ہے

 

کوئی سازش تو نہیں دَرد سے غیرت کی کہیں ؟

ورنہ دکھ دے کے مِرے ہونٹ یہ سِلتی کیوں ہے

 

جاننا چاہتا ہُوں اپنوں کو جب بھی، قسمت

میرے اپنوں کی جگہ غیروں کو رکھتی کیوں ہے

 

ساتھ ہے یاس کے امید بھی مانا اطہرؔ

زیست سائے کی طرح پہلو بدلتی کیوں ہے

٭٭٭

 

کل جو میری تھی وہی زیست اب اس کی کیوں ہے

زندگی ایسے وفاداری بدلتی کیوں ہے

 

کیا تعلق ہے کبھی دُور کبھی پاس ہے وہ

آج بھی اس میں لڑکپن کی سی شوخی کیوں ہے

 

الجھے ریشم سی یہ حالات کی گتھّی آخر

جتنا سلجھاؤں مَیں اتنا ہی اُلجھتی کیوں ہے

 

آرزو جینے کی پائی کبھی مَرنے کا جنوں

اپنی آشفتہ سری رُوپ بدلتی کیوں ہے

 

جن کے حل کرنے کی جرأت نہ سلیقہ مجھ میں

زندگی ایسے مراحل سے گزرتی کیوں ہے

 

 

حوصلوں کو آزمایا جا رہا ہے

اب زبانوں کو بھی کاٹا جا رہا ہے

 

رہ نہ جائے کوئی بھی شفّاف تر اب

اس طرح کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے

 

راہ بر کیا ہیں مداری ہیں نئے یہ

ہر طرف مجمع لگایا جا رہا ہے

 

سُن نہ لے حق بات اب کوئی یہاں پر

ہر کسی کو ورغلایا جا رہا ہے

 

جس کے ہاتھوں میں پڑی تھی ہتھکڑی کل

اب اسے رہ بر بنایا جا رہا ہے

 

بولتا کوئی نہیں ہے ظلم پر بھی

شہر گونگوں سے بسایا جا رہا ہے

 

ہر کوئی بِکنے کو ہے تیّار اطہرؔ

صرف اک موقع تلاشا جا رہا ہے

 

 

دَور ہے کیسا، کوئی رشتے نبھا پاتا نہیں

اب دراروں کے سِوا کچھ بھی نظر آتا نہیں

 

اِن مراسم سے نہ تُو اس عہد میں امیّد رکھ

بوجھ لے کر اب کسی کا کوئی چل پاتا نہیں

 

کس پہ کیا گزری، نہیں اس سے کسی کو کچھ غرض

دوست بھی تو چٹکیاں لینے سے شرماتا نہیں

 

ٹوٹتے رشتوں نے دِل کو اس قدر خائف کیا

اب کسی رشتے کو مَیں دِل کے قریں لاتا نہیں

 

سب کے ہر دُکھ سُکھ میں شامل تھا یہ کل کی بات ہے

وقت بدلا جب سے اس کا وہ کہیں جاتا نہیں

 

بھیٖڑ میں لوگوں کی اطہرؔ ہیں بہت سے آشنا

کون ہے میرا، کوئی یہ مجھ کو سمجھاتا نہیں

 

 

بدلتے زمانے کا یہ بھی اثر ہے

ہر اک گھر میں ٹوٹا ہُوا ایک گھر ہے

 

عجب شہرِ خوش رنگ تیرا المیہ

مکھوٹا لگائے ہوئے ہر بشر ہے

 

محبت، خلوص و وفا کیا ہوئے سب

لگی اس زمانے کو کس کی نظر ہے

 

یہ کس راہ پر آ گئی آدمیّت

مفادات پر اپنے سب کی نظر ہے

 

زباں توتلی اور باتیں بڑوں سی

کہ بچّوں میں بھی بھولاپن اب کدھر ہے

 

طلب اپنی اطہرؔ الگ، جستجو بھی

زمیں پر قدم، آسماں پر نظر ہے

 

 

وہ میرے صبر کا یوں امتحان لیتا ہے

ہر ایک بات پہ الجھے ہے، جان لیتا ہے

 

زمیں کو آسماں، پھر آسمان کو بھی زمیں

وہ کر کے رہتا ہے جو دِل میں ٹھان لیتا ہے

 

غریبِ شہر یہاں اب بھی نیند لینے کو

سڑک کنارے ہی چادر کو تان لیتا ہے

 

بنایا کس نے یہ ماحول، آج بھی بچّہ

کھلونوں میں بھی تو تیٖر و کمان لیتا ہے

 

جو آئے ضِد پہ تو ضِد بھی ہو شرمسار مگر

کبھی منائے بِنا بھی وہ مان لیتا ہے

 

عجب مزاج ہے اس کا، عجب نظریہ بھی

حقیقتوں سے جہاں کی گُمان لیتا ہے

 

 

شعلہ کبھی شبنم تو کبھی موم کبھی سنگ

ٹھہراؤ بھی ہم تھوڑا سا کردار میں لائیں

 

کیوں آپ مَلک بننے کی کوشش میں ہیں دِن رات

انساں ہیں تو لغزش کوئی کردار میں لائیں

 

رہنا ہے دِلوں میں بھی شہا، سب کے تو پھر آپ

کچھ عدلِ جہاں گیری بھی سرکار میں لائیں

 

اے دِل جو کبھی ان کے لیے ہم نے کہے تھے

کیا اپنے وہ اشعار بھی بازار میں لائیں

 

کوئی تو سبب ان سے تعلق کا ہو ظاہر

اقرار بھی تھوڑا سا وہ انکار میں لائیں

 

بس اتنی ہی کوشش ہے مسیحاؤں کی اطہرؔ

کچھ تجربے وہ فائلِ بیمار میں لائیں

٭٭٭

کہتے ہیں شرافت جسے، اطوار میں لائیں

ہم کیسے وفا، اپنے وفادار میں لائیں

 

فیشن کی طرح ہو گئی اس دَور کی چاہت

کچھ شرم و حیا پیار کے اظہار میں لائیں

 

تہذیب تو لائے نئی دنیا کے مفکّر

اخلاص بھی تھوڑا دِلِ زر دار میں لائیں

 

اب صرف مداوائے مرض ہو گا نہ کافی

جینے کی اُمنگیں بھی تو بیمار میں لائیں

 

غزلیں ہی تو سرمایہ ہیں اپنا کہ اسے ہم

ایسی بھی ضرورت نہیں، بازار میں لائیں

 

قلب و نگاہ کو نہ یوں ویران چھوڑ جا

آنے کی اپنے کوئی تو پہچان چھوڑ جا

 

دوبارہ رابطے کا سبب تو بنا کے رکھ

دانستہ اس کے گھر کوئی سامان چھوڑ جا

 

ہے تو وہی ہجوم مگر رونقیں نہیں

اب یوں بھی راستے کو نہ سُنسان چھوڑ جا

 

وحشی ابھی تو اور بھی آئیں گے دشت میں

دامن کہیں، کہیں پہ گریبان چھوڑ جا

 

الزام دے تو ساتھ میں اس کے ثبوت دے

اک بے خطا کو یوں نہ پشیمان چھوڑ جا

 

تحفہ توُ اور دے نہ سکے گا شکیلؔ کو

آنکھوں کو نم تو دِل کو پریشان چھوڑ جا

 

 

پاس سب کے منزلوں کے سلسلے آتے نہیں

خود بخود قدموں میں چل کر راستے آتے نہیں

 

بِن تجسّس کس نے پائی ہے یہاں اپنی مُراد

جستجو ہی گر نہ ہو تو دِن بھلے آتے نہیں

 

کس قدر مخدوش ہوتی جا رہی ہے زندگی

اب مسافر بستیوں میں دِن ڈھلے آتے نہیں

 

جانتا ہوں کتنے شورہ پشت ہیں میرے رقیب

دشمنی کرتے ہیں لیکن سامنے آتے نہیں

 

میری عادت بَن گیا ہے ظلمِ پیہم آپ کا

اب کبھی لب پر مِرے شکوے گلے آتے نہیں

 

عشق کے صحرا میں تم کیسے چلے آئے شکیلؔ

اب یہاں تو بھول کر بھی سَر پھرے آتے نہیں

 

 

خواب جو آنکھوں میں ہیں، نوحہ کُناں رہ جائیں گے

تم ہنسی لے جاؤ گے، آنسو یہاں رہ جائیں گے

 

رابطے کی ڈور ٹوٹے گی مجھے معلوم تھا

چند قصّے، اس کے میرے درمیاں رہ جائیں گے

 

قلبِ سوزاں کی تپِش، جلتی ہوئی سانسیں غضب

لُو کے اس موسم میں آنسو بھی کہاں رہ جائیں گے

 

یہ شکاری ہیں پرندوں کو نہ چھوڑیں گے، یہاں

پیڑ پر کس کے لیے پھر آشیاں رہ جائیں گے

 

لَوٹ ہی جائیں گے ہم سب اپنے مرکز کی طرف

کب عدو رہ جائیں گے، کب مہرباں رہ جائیں گے

 

ہم نے اس آندھی کی گر پروا نہ کی اطہر شکیلؔ

دھوپ ہو گی اور ہم بے سائباں رہ جائیں گے

 

 

تَن برہنہ ہو رہے ہیں بستیوں کے درمیاں

آدمی بے ضابطہ ہے، ضابطوں کے درمیاں

 

ہم ہوئے سیراب لیکن تشنگی باقی رہی

رنگ محرومی کا دیکھا راحتوں کے درمیاں

 

چاند کو چھونے کی خواہش، نور کو چکھنے کا شوق

ہم مِلے ہیں اُن سے اِن دو خواہشوں کے درمیاں

 

زیرِ لب اس شوخ نے مت پوچھیے کیا کہہ دیا

میری پلکیں نم ہوئیں ہیں قہقہوں کے درمیاں

 

وہ بچھڑتے وقت کے دِل دوز لمحے کر نہ یاد

پھول سے چہرے پہ آنسو شوخیوں کے درمیاں

 

اک کنارہ چھُٹ گیا ہے، دوسرا اطہرؔ ہے دُور

ڈولتا ہُوں کب سے مَیں دو ساحلوں کے درمیاں

 

 

عشق کو جیسے جِلا کوئی گِلہ دیتا نہیں

شمع ہی دیتی ہے، انگارا ضیا دیتا نہیں

 

چھانؤ بھی ہے دھوپ جیسی، اُف یہ سورج کی تپِش

اب وہ آ کر اپنے دامن کی ہَوا دیتا نہیں

 

بھیٖڑ میں گھُس کر نکل سکتے ہو تو آگے بڑھو

ورنہ آسانی سے کوئی راستہ دیتا نہیں

 

دینے والا فرض مانے، اور دے، اتنا ہے بس

بھیک لے کر اب بھکاری بھی دعا دیتا نہیں

 

بڑھ نہیں پائے وفا داروں کے دِل کا حوصلہ

وہ بھی اک ہشیار ہے دادِ وفا دیتا نہیں

 

اب وہ بے چینی نہ وہ اختر شماری ہے شکیلؔ

ہجر بھی تو آج پہلا سا مزہ دیتا نہیں

 

 

اپنا بھی کوئی ہو، کوئی دِلدار بھی تو ہو

ہم سر پھروں کا کوئی خریدار بھی تو ہو

 

غنچہ مہک کو دِل میں چھپائے رہے تو کیا

گر عشق ہے تو عشق کا اظہار بھی تو ہو

 

یہ کیا کہ گَو مگَو میں رہے گفتگو تمام

اقرار گر نہیں ہے تو انکار بھی تو ہو

 

چاہت میں خود سپردگی پیہم بھی بوجھ ہے

شکوے گلے بھی ہوں، کبھی تکرار بھی تو ہو

 

کیسے کسی کے عشق میں مَرنے کی ٹھان لیں

دِل نا مُراد زیست سے بے زار بھی تو ہو

 

اطہرؔ مروّتیں وہ کہاں سے خرید لائے

جنسِ وفا کا شہر میں بازار بھی تو ہو

 

 

فرائض کم نہیں ہوتے، ضرورت کم نہیں ہوتی

کسی کے دھیان میں رہنے کی عادت کم نہیں ہوتی

 

بہت مدّت ہوئی بِچھڑے ہوئے ان سے مگر اب تک

محبت کم نہیں ہوتی ہے، رغبت کم نہیں ہوتی

 

کبھی پھولوں کی ڈالی بَن کے لَچکو میری بانہوں میں

میّسر ہو تو اک پَل کی عنایت کم نہیں ہوتی

 

یہ کس منزل میں لے آیا مجھے وقتِ رواں آخر

ذہانت بڑھتی جاتی ہے، حماقت کم نہیں ہوتی

 

لباسِ نو میں رہتا ہُوں مگر مشرب میں کہنہ ہُوں

مِری جدّت پسندی میں قدامت کم نہیں ہوتی

 

بدن کے گھاؤ بھر دیتا ہے اطہرؔ وقت کا مرہم

مگر دِل پر لگے زخموں کی شدّت کم نہیں ہوتی

 

 

جدا ہوتا مَیں اُن آنکھوں سے کاجل چھوڑ آیا تھا

خزاں کی رُت میں اس بستی کو جَل تھل چھوڑ آیا تھا

 

وہ شاید زندگی میں اب کبھی پورا نہیں ہو گا

وہ اک قصّہ جسے مَیں نا مکمل چھوڑ آیا تھا

 

نئی لاشیں سجا دینے کی تیّاری میں ہیں قاتل

نگر میں کل مَیں اک سُنسان مقتل چھوڑ آیا تھا

 

برس کر چند ہی لمحے وہ رخصت ہو گیا ہو گا

بچھڑتے پَل مَیں ان آنکھوں میں بادل چھوڑ آیا تھا

 

سُنا ہے اب حیا داری ہی باقی ہے نہ پردہ ہے

مَیں اس کے لب پہ چُپ اور سَر پہ آنچل چھوڑ آیا تھا

 

خبر کس کو تھی اطہرؔ بے سکونی ساتھ آئے گی

مَیں اپنی ضِد میں اک دِن اس کو بے کَل چھوڑ آیا تھا

 

 

کس کو عشرت چاہیے، کس کو فراغت چاہیے

زندہ رہنے کے لیے دِل کو محبت چاہیے

 

آدمی سُود و زیاں کا گوشوارہ تو نہیں

کچھ تو آنکھوں میں حیا، کچھ تو مروّت چاہیے

 

جانتے سب ہیں مگر ہم غور کیوں کرتے نہیں

قہقہوں کو بزم تو اشکوں کو خلوت چاہیے

 

یہ محبت ہے کہ ہے اک جنسِ نا پُرساں، یہاں

اِس کو ہے درکار دولت، اُس کو شہرت چاہیے

 

دینے والے لاکھ ہیں جھوٹی تسلّی کا فریب

دَرد کو چپ چاپ سہہ لے نے کی عادت چاہیے

 

آ گئی ہے زیست میں سوداگری اتنی شکیلؔ

آدمی کو اب محبت کی بھی قیمت چاہیے

 

 

کچھ گفتگو میں ہنسنے، ہنسانے کا ساتھ دے

روٹھا ہے پھر بھی میرے منانے کا ساتھ دے

 

آئینہ اعتبار کا ٹوٹا ہے بار بار

کیسے یقین تیرے بہانے کا ساتھ دے

 

دنیا میں اور دِل میں عجب ہی تضاد ہے

دِل اپنا ساتھ دے نہ زمانے کا ساتھ دے

 

ان کی بھی سُنتے سُنتے جھپکنے لگی ہے آنکھ

تا صبح کون میرے فسانے کا ساتھ دے

 

وحشت ہے اور اپنا گریباں ہے اپنے ہاتھ

صحرا میں کون مجھ سے دِوانے کا ساتھ دے

 

کتنا عجیب شخص ہے وہ بھی میاں شکیلؔ

وہ غیر کا نہ اپنے بِگانے کا ساتھ دے

 

 

یوں اس کی چاہتوں کا زمانہ چلا گیا

اک خواب تھا جو نیند میں آیا، چلا گیا

 

رخصت اسے میں کر کے جو لَوٹا تو یوں لگا

دِل رہ گیا ہے، دِل کا اجالا چلا گیا

 

کب قمقموں سے قلب کی تاریکیاں مٹیٖں

تم کیوں سمجھ رہے ہو اندھیرا چلا گیا

 

اب ہم سے کچھ نہ پوچھیے مہنگائی کا کمال

حاجت تو کم نہیں ہوئی، پیسا چلا گیا

 

ہر موڑ پر جو مِلتے رہے راہ بر نئے

رہ گیر تھا کہ راہ بدلتا چلا گیا

 

شہرِ ستم میں کون تھا اطہرؔ ترے سِوا

نغمے جو زندگی کے سُناتا چلا گیا

 

 

دوستوں سے ہم نے چاہت کے سِوا

کچھ نہیں چاہا محبت کے سِوا

 

بے ضرورت کچھ نہیں ہے دہر میں

عشق بھی کیا ہے ضرورت کے سِوا

 

معصیت آلود دنیا، یہ بتا

کیا بچا ہے اب قیامت کے سِوا

 

کام سارے کر رہا ہے آدمی

اک فقط رَب کی اطاعت کے سِوا

 

ارضِ خاکی پر ہُوا ہے کامیاب

کون سا قانون طاقت کے سِوا

 

دَرد کا میرے مداوا اے شکیلؔ

کچھ نہیں اس کی عنایت کے سِوا

 

 

یوں تِرے جسم کے کندن سے مِرا گھر چمکا

سارے کمرے میں اجالا ہُوا بسترچمکا

 

کون یہ خواب میں آیا تھا گھڑی بھر کے لیے

جانے یہ چاند سا کیسا مِرے اندر چمکا

 

یوں تو پہلے بھی یہ دِلکش تھے مگر رُوح نہ تھی

پیرہن سے تِرے رنگوں کا مقدّر چمکا

 

تیری یادوں کی ہَوا پھر سے گھٹائیں لائی

میری سُوکھی ہوئی آنکھوں میں سمندر چمکا

 

اس کے جاتے ہی دَر و بام پہ کہرا چھا یا

چاند ہی چمکا نہ پھر مہرِ منوّر چمکا

 

خیر خواہوں پہ کِیا جب بھی بھروسا اطہرؔ

آستینوں میں چھپایا ہُوا خنجر چمکا

 

 

 

آنکھوں میں ترا عکسِ مجسّم ہے ابھی تک

بس تیرا تصوّر مِرے ہمدم ہے ابھی تک

 

تم بہرِ ملاقات یہاں آ تو گئے ہو

باطن میں مگر ہجر کا عالم ہے ابھی تک

 

آتے ہوئے موسم کو گَلے کون لگائے

بیتے ہوئے دِن رات کا ماتم ہے ابھی تک

 

بھُولے سے کبھی لب پہ ترا نام نہ آئے

کوشش تری تاکید پہ پیہم ہے ابھی تک

 

دنیا کی فضا بدلی ہے، گھر کی نہیں بدلی

پہلے جو کبھی تھا وہی عالم ہے ابھی تک

 

اس عہد کی خنجر ہے علامت مگر اطہرؔ

ہاتھوں میں مِرے پیار کا پرچم ہے ابھی تک

 

 

چل رہی ہیں مخالف ہَوائیں یہاں

اُڑ نہ جائیں سروں سے رِدائیں یہاں

 

کوئی دنیا میں ابنِ علی ہی نہیں

لاکھ کوفے یہاں، کربلائیں یہاں

 

آئیے شہرِ خوباں میں، پیسا ہو گر

مول مِلنے لگی ہیں وفائیں یہاں

 

بے عمل لوگ سوچیں نہ سوچیں مگر

کب وظیفوں سے بھاگیٖں بلائیں یہاں

 

کل کی عینک سے دیکھو نہ تم آج کو

نیکیاں بَن گئی ہیں خطائیں یہاں

 

تھا جو پانی، کہیں اور برسا گئیں

بجلیاں لے کے آئیٖں گھٹائیں یہاں

 

امن کے دشمنوں سے یہ پوچھو شکیلؔ

کتنی گھایل ہوئیں فاختائیں یہاں

 

 

سوچنا کیا، رشتے نا توں کو کہ آخر کیا ہُوا

ہاتھ بھی منھ تک نہیں آیا جو بے لقمہ ہُوا

 

جاننا چاہو تو دیکھو اپنی دنیا کا یہ حال

ظلم اب جائز ہُوا ہے، جھوٹ اب سچّا ہُوا

 

آہ، اس بچّے کو کیا نسبت خلائی دَور سے

بَیل گاڑی میں پَلا جو، کھیت میں پیدا ہُوا

 

پھر گھٹائیں گھِر کے آئیٖں تیری یادوں کو لیے

اشک پھر آنکھوں میں آئے، زخم پھر تازہ ہُوا

 

اس کے وعدوں پر بھروسا میری مجبوری جو تھا

اب یہ کیا کہنا کہ میرے ساتھ پھر دھوکا ہُوا

 

وہ سیاسی آدمی ہے، اس سے مت پوچھو شکیلؔ

کس کی سازش تھی کہ پھر بستی میں ہنگامہ ہُوا

 

 

مِلا جو دشتِ اماں تو ٹھٹک گئے ہیں لوگ

ندی کے پار مگر دُور تک گئے ہیں لوگ

 

بِنا تعیّنِ منزل چلاؤ گے کب تک

خبر تو لو کہ مسافت میں تھک گئے ہیں لوگ

 

سڑک پہ لوگ بغل گیٖر ہوکے مِلتے ہیں

کسے خبر کہ گھروں میں سِسک گئے ہیں لوگ

 

پھٹے لباس میں کیا کچھ کشش بھی ہوتی ہے

مِلی جو کوئی بھکارن چھلک گئے ہیں لوگ

 

ذرا سی بات پہ نکلی ہیں برچھیاں اکثر

ذراسی بات پہ اکثر بھڑک گئے ہیں لوگ

 

نہ جانے کس کی قیادت کا یہ نتیجہ ہے

یہ کس کے کہنے سے اطہرؔ بھٹک گئے ہیں لوگ

 

 

محبتیں کہاں گئیں، خود آگہی کہاں گئی

معاشرے میں کل جو تھی وہ سادگی کہاں گئی

 

ہَوا میں سانس لے رہے ہیں یوں تو لوگ آج بھی

نفس نفس میں کل جو تھی وہ زندگی کہاں گئی

 

وہی چمن کے پھول ہیں مگر کوئی بتائے تو

وہ دِلکشی کہاں گئی، وہ تازگی کہاں گئی

 

مِلن کی ایک رات سے بدل گیا ہے عشق بھی

وہ رتجگے کہاں گئے، وہ بے کلی کہاں گئی

 

تم آ گئے ہو سامنے تو مجھ کو یہ خبر بھی دو

ابھی ابھی جو چاند کی تھی چاندنی کہاں گئی

 

اندھیرا کیسے بھر گیا تمہارے دِل میں اے شکیلؔ

ضمیر میں کبھی جو تھی وہ روشنی کہاں گئی

 

 

لڑکیوں کا گھر سے باہر گھومنا دُوبھر ہُوا

آدمی میں قید تھا جو جانور باہر ہُوا

 

سر پہ چھت تو ہے مگر سایہ نہیں وِشواس کا

دشت میں بے گھر تھا مَیں اب شہر میں بے گھر ہُوا

 

روٹھ جانے کا ترے صدمہ تھا کل تک بے حساب

لیکن اب یہ سوچتا ہوں، جو ہُوا، بہتر ہُوا

 

جتنے خوش قامت تھے وہ سب ہو گئے گوشہ نشیں

ایک بونا، شہر کے بونوں میں قد آور ہُوا

 

یوں تو کچھ بدلا نہیں دنیا میں لیکن اس قدر

پھول تھا جس ہاتھ میں، اُس ہاتھ میں خنجر ہُوا

 

دِل میں دردِ عشق تک باقی نہیں اطہر شکیلؔ

ڈھونڈتے ہو جس کو تم وہ آدمی پتھر ہُوا

 

 

بَن کر مِرے خیال کا حاصل نہ آئے گی

یہ رات لے کے کیا مہِ کامل نہ آئے گی

 

ہوتا رہے گا اک نئے دریا کا سامنا

کشتی ہماری کیا سرِ ساحل نہ آئے گی

 

چلتا ہوں تیرے شہر کو لیکن مجھے بتا

دنیا سمٹ کے میرے مقابل نہ آئے گی؟

 

ہے مرحلے کے بعد نیا مرحلہ یہاں

یعنی کوئی سکون کی منزل نہ آئے گی

 

اب خشک آنسوؤں سے گزاروں گا شامِ ہجر

اک بوند بھی تو خون میں شامل نہ آئے گی

 

بیتے گی رتجگوں میں تِری زندگی شکیلؔ

وہ شب جو ہے حیات کا حاصل نہ آئے گی

 

 

کہتا ہے کون اب وہ خزائیں چلی گئیں

برسے بِنا فلک سے گھٹائیں چلی گئیں

 

ہم گھر میں لَوٹ آئے تو آئیٖں ہیں ساتھ ساتھ

کس نے کہا کہ گھر سے بلائیں چلی گئیں

 

کھُل جائے آسمان کا بابِ قبول کاش

چھُو کر لبوں کو پھر سے دعائیں چلی گئیں

 

اک یاد رہ گئی ہے کہ آتے تھے تم کبھی

خوشبو تمہاری لے کے ہَوائیں چلی گئیں

 

اِس عہدِ نامُراد کا یہ جبرِ روز گار

بچّے گھروں میں چھوڑ کے مائیں چلی گئیں

 

آندھی تھی کس غضب کی یہ حوّا کی بیٹیو!

رُخ سے حیا تو سَر سے رِدائیں چلی گئیں

 

سب کچھ گیا، چلا گیا لیکن زِیاں یہ ہے

اطہرؔ طبیعتوں سے وفائیں چلی گئیں

 

 

قیدی ہیں تو کیا، ان کا سہارا بھی کوئی ہو

دیوار اگر ہے تو دریچہ بھی کوئی ہو

 

سچ سُن کے سَرِ عام تعجب تو کریں لوگ

اس جھوٹ کے بازار میں سچا بھی کوئی ہو

 

ہم شہرِ نگاراں سے چلے آئے ہیں جاناں !

اب ہجر میں جینے کا قرینہ بھی کوئی ہو

 

بے نجم فلک پر نہیں سجتا کوئی مہتاب

وہ چاند اگر ہے تو ستارہ بھی کوئی ہو

 

آغوش میں اس کی جو سما جائے مچل کر

ساکت وہ سمندر ہے تو دریا بھی کوئی ہو

 

حسرت سے یہ کہتے ہُوئے رخصت ہُوا اطہرؔ

اے کاش تِرے شہر میں میرا بھی کوئی ہو

 

 

لفظوں میں جو خلوص تھا جانے کدھر گیا

جذبوں سے شدّتیں تو دعا سے اثر گیا

 

وحشت میں سرکشی ہے نہ زخموں میں تازگی

اے عشقِ نامُراد، زمانہ گزر گیا

 

وہ کون تھا جو آ کے چلا تو گیا مگر

پیکر کی چاندنی مِرے آنگن میں بھر گیا

 

اتنا ہے میرے، اس کے تعلق کا واقعہ

ٹہنی پہ ایک پھول کھِلا اور بکھر گیا

 

لگتا ہے سچ تھا جیسے تخیّل کا معجزہ

تم میرے ساتھ ساتھ رہے مَیں جدھر گیا

 

تھا جس کے دِل پہ زخمِ محبت میاں شکیلؔ

وہ آدمی گزر گیا، وہ شخص مَر گیا

 

 

بانہیں سُنسان نہ ویران ہے زانو اے جاں

وقت آتا ہے تو رُک جاتے ہیں آنسو اے جاں

 

دِل یہ کہتا ہے کہ اظہارِ محبت مت کر

پھول کھِلتا ہے تو اُڑ جاتی ہے خوشبو اے جاں

 

مجھ سے مت پوچھ مِری جنسِ وفا کی قیمت

تُو کسوٹی! ہے تِرے پاس ترازو اے جاں

 

اپنی پہلے کی رفاقت کا اجالا ہی جَگا

میری راہوں میں چمکتے نہیں جگنو اے جاں

 

تٖیر کی طرح گزرتی ہے مِرے سینے سے

رات اور ہنس کی آواز لبِ جُو اے جاں

 

پوچھ اطہرؔ سے کہ انجام میں کیا ہے کس کے

عشق کی آگ کہ ہو حُسن کا جادو اے جاں

 

 

نہیں یہ دہر، کوئی دوسرا جہاں دے جا

تو میری نیند کو خوابوں کی کہکشاں دے جا

 

زمیں ہے پاؤں کے نیچے نہ آسماں سَر پر

زمیں کے ساتھ مجھے میرا آسماں دے جا

 

جہاں وفا تھی، بھروسا تھا، آرزوئیں تھیں

وہی حیات مجھے میرے مہرباں دے جا

 

مَیں اپنے حال سے ماضی کا سلسلہ جوڑوں

بِسر گئی جو کبھی کی وہ داستاں دے جا

 

مَیں تھک گیا ہُوں بہت دوسروں کے گُن گاتے

مِرے دہن کو خدارا مِری زباں دے جا

 

وہ دستِ غیب کہاں ہے شکیلؔ جس سے کہے

مجھے یقین کی دولت گُماں گُماں دے جا

 

 

نزاکتیں یہ دِل کی ہیں نہ پوچھ مجھ سے کیا ہُوا

ہَوا چلی بکھر گیا، جو پھول تھا کھِلا ہُوا

 

یہاں کہیں نہیں ہے تو مگر تجھے مِرے حبیب

پُکارتا ہے چاند کیوں منڈیر پر جھکا ہُوا

 

شعور لے گیا مِرا، حواس لے گیا مِرے

خبر نہیں زیادہ کچھ وہ مجھ سے کیوں جدا ہُوا

 

کبھی جو تھیں قیاس میں، کہاں ہیں وہ رفاقتیں

یہ دِل ہے کیوں بجھا بجھا، کسے بتاؤں کیا ہُوا

 

وہ جا چکا مگر یہ دِل ابھی ہے اس کا منتظر

یہ شامِ غمِ رُکی رُکی، یہ گھر کا دَر کھلا ہُوا

 

جسے نہ مَیں بتا سکا، جسے نہ تم سمجھ سکے

وہ ایک حرفِ آرزو شکیلؔ اب دعا ہُوا

 

 

تہمت کا ڈر نہیں، غمِ زنداں نہیں ہے اب

دِل معصیت کے بعد پشیماں نہیں ہے اب

 

عُسرت کی مار، کچھ پہ سیاست کی مار ہے

وہ کون شخص ہے جو پریشاں نہیں ہے اب

 

ہر راستے میں آج ہے سوداگروں کی بھٖیڑ

ان بستیوں میں کُوئے نگاراں نہیں ہے اب

 

اب شہر میں نہیں ہیں وہ اگلی روایتیں

کمرہ ہے، رتجگے ہیں، شبستاں نہیں ہے اب

 

وحشی نئے نئے ہیں، قبائیں نئی نئی

دامن بھی وہ نہیں ہے، گرے باں نہیں ہے اب

 

آرائشوں کے عہد کی مجبوریاں شکیلؔ

سادہ رَوی کی وضع بھی آساں نہیں ہے اب

 

 

یہ لوگ بے خبر ہیں، اِنھیں کیا بتایئے

سورج کی روشنی کو بھی سایہ بتایئے

 

اک شخص بھی نہیں ہو جہاں اپنا آشنا

اس شہر کو بھی فخر سے اپنا بتایئے

 

ہوتا ہے چاندنی میں نظر کو مغالطہ

دِن میں نہ آپ ریت کو دریا بتایئے

 

علم و خبر کی بات تو اب تک بہت سُنی

جینے کا اب جہاں میں طریقہ بتایئے

 

سب اپنے اپنے دَرد میں ہیں مبتلا یہاں

اب کس کو اس ہجوم میں اپنا بتایئے

 

اطہرؔ سبھی ہیں ساتھ مگر قربتیں نہیں

ایسے میں اپنے آپ کو تنہا بتایئے

 

 

برسیں طرب کی تم پہ گھٹائیں بہت بہت

دِل تم کو دے رہا ہے دعائیں بہت بہت

 

بچھڑیں تو بھول کر بھی نہ دیں اپنی خیریت

مِل جائیں جب تو پیار جتائیں بہت بہت

 

سُنسان رات ہجر کی لیکن بہر نفس

کانوں میں گونجتی ہیں صدائیں بہت بہت

 

ڈرتا نہیں ہے دِل مِرا ان آندھیوں سے اب

دیکھیں ہیں مَیں نے تند ہوائیں بہت بہت

 

بس ابتلائے عشق سے زیر و زبر ہوئے

جھیلی ہیں یوں تو ہم نے بلائیں بہت بہت

 

اطہرؔ کو بھی تو اپنے کرم سے معاف کر

کرتا ہے دَر گزر تو خطائیں بہت بہت

 

 

کسی کے گھر کی تابانی میں ڈھل کر دیکھ لیں ہم بھی

چراغوں کی طرح ہر شام جل کر دیکھ لیں ہم بھی

 

اگر امکان اس میں بہتری کا کچھ نظر آئے

نئی رُت ہے، نئے سانچے میں ڈھَل کر دیکھ لیں ہم بھی

 

پُرانے خط کتابوں میں، نشانی مور پنکھوں کی

کبھی کے ان کھلونوں سے بہل کر دیکھ لیں ہم بھی

 

کہاں آ پائے گی اب تازگی پژ مُردہ پھولوں میں

چلو گلدان کا پانی بدل کر دیکھ لیں ہم بھی

 

سُنا ہے اب نہ وہ پہلی سی رونق ہے نہ رنگینی

بہت نزدیک ہے گھر اس کا، چل کر دیکھ لیں ہم بھی

 

جو اک پہچان رکھتا تھا، ہے اطہرؔ بھٖیڑ کا حصّہ

کبھی اے کاش کمرے سے نکل کر دیکھ لیں ہم بھی

 

 

دھوپ ڈھلتی جا رہی ہے، جلد چشمِ تر میں آ

یہ شفق کافی نہیں ہے، شام کے منظر میں آ

 

ختم کب ہو گی بتا، سڑکوں کی یہ آوارگی

رات کا احساس بوجھل ہو چَلا ہے، گھر میں آ

 

کیسا جلنا اور پگھلنا، سنگ آخر سنگ ہے

کون تھا، کس نے کہا تھا، آگ سے پتھر میں آ

 

میں مِلا بھی تو مِلوں گا سر پھرے طوفاں کے ساتھ

مجھ سے مِلنے کی جو خواہش ہے تو آ، ساگر میں آ

 

سَر کو ڈھکتا ہوں تو کھُل جاتی ہیں میری پنڈلیاں

جسم سے کب تک کہوں، چادر میں آ، چادر میں آ

 

دَرد جب سینے میں اٹھتا ہے تو کہتا ہوں شکیلؔ

آنکھ کا آنسو نہ بَن، الفاظ کے پیکر میں آ

 

 

پھولوں سے ہاتھ خالی ہیں زَر بخش دے

ہر شجر کو خدا یا ثمر بخش دے

 

سانس لینا بھی دنیا میں مشکل ہُوا

زندہ رہنے کا مجھ کو ہنر بخش دے

 

کب سے اُمّت پہ طاری ہیں تاریکیاں

اب تو اس شب کو یارب سحر بخش دے

 

بے قفس قید میں ہے الٰہی یہ دِل

اس پرندے کو اب بال و پَر بخش دے

 

لحظہ لحظہ تحفّظ مجھے کر عطا

سوزِ دِل بخش، اپنا خطر بخش دے

 

سوچ سے میری بڑھ کر ہے قدرت تِری

تو جو چاہے تو پتھر کو پَر بخش دے

 

کفر ہے اس سے مایوس ہونا شکیلؔ

کیا خبر کب دعا میں اثر بخش دے

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی، محمد عظیم الدین جنہوں نے ان پیج سے تبدیل کر کے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں