روشنی
صبا اکبر آبادی
اک شمع ضیا بار ہے یا آج قلم ہے
قرطاس، تہ دامنِ قندیلِ حرم ہے
اب جتنا اُجالا ہو سر بزم وہ کم ہے
تفسیرِ تجلی مرا انداز رقم ہے
نور احدیت کا بیاں ہے سرِ مجلس
جو لفظ ہے انوارِ فشاں، رہے سرِ مجلس
ہر گوشہ تاریک ضیا بار ہوا ہے
جو نقطہ ہے وہ مطلع انوار ہوا ہے
ہر دائرہ مہتاب شب تار ہوا ہے
الفاظ سے خورشید نمودار ہوا ہے
جو لفظ ہے وہ شعلہ بداماں ہے روش میں
کرنوں کے سے انداز ہیں حرفوں کی کشش میں
ہر شعر میں بجلی سی چمک جاتی ہے اکثر
انوار کی اک قوس جھلک جاتی ہے اکثر
ہیرے کی طرح بیت دمک جاتی ہے اکثر
پڑھتے ہوئے خود آنکھ چمک جاتی ہے اکثر
جھٹکا جو قلم کو تو شرارے نکل آئے
کاغذ کو جو دیکھا تو ستارے نکل آئے
دن ڈھلنے لگے جب تو فضا اور ہو پُر نُور
افکار کی منزل بھی چراغوں سے ہو معمور
تاریکی شب ، صبحِ معانی سے رہے دُور
تابانی اشعار سے ظلمات ہو کافور
روشن ہو ابھی عالم اسباب کی صورت
ہر شب نظر آئے شبِ مہتاب کی صورت
کیا چیز ہے یہ روشنی، کیا اس کے ہیں حالات
بے وزن ہے ،بے جسم ہے، بے جان ہے بالذات
یہ آئے تو دن آئے، چلی جائے تو ہو رات
ہے تیرہ دلوں کے لئے یہ قبلہ حاجات
جو راہ سے بھٹکے اُسے یہ راہ دکھا دے
ہو دن میں اندھیرا تو شب ماہ بنا دے
یہ روشنی رکھتی ہے زمانے میں کئی رنگ
رہتی ہے اندھیروں سے یہ آمادہ پئے جنگ
محتاج اسی کے ہیں یہاں افسر و اَورنگ
دامانِ نظر اس کے احاطے کے لئے تنگ
پردے بھی پڑیں اس پہ تو پنہاں نہیں رہتی
بن کر یہ چراغِ تہ داماں نہیں رہتی
یہ روشنی اس دہر میں ہے صبح ازل سے
مٹتی ہے قضا سے نہ کبھی دستِ اجل سے
ہوتی ہے نمایاں کبھی پانی میں کنول سے
اشعار میں ڈھل جاتی ہے شاعر کی غزل سے
مطرب کے ترنم میں، مصّور کے قلم میں
نغمات میں شادی کے یہ ہنگامہ غم میں
ہر سمت زمانے میں اسی سے ہے اُجالا
کر دیتی ہے ظلمات کا عالم تہ و بالا
سب اس کے ہیں انداز وہ نرگس ہو کہ لالہ
ہر پھُول میں ہر برگ میں اک رنگ نکالا
پھیلے تو یہ ہو چادرِ کمخواب کی صورت
سمٹے تو بنے کرمکِ شب تاب کی صورت
پردے یہ نگاہوں سے ہٹا دیتی ہے آ کر
خلوت میں بھی جلوت سی بنا دیتی ہے آ کر
سوتی ہوئی دنیا کو جگا دیتی ہے آ کر
بند آنکھوں کو بھی سیر کرا دیتی ہے آ کر
تنہائی میں بھی محفل احباب دکھا دے
سو جائیں اندھیرے میں تو یہ خواب دکھا دے
یہ روشنی ہے ذاتِ الٰہی کا اُجالا
یہ نُور ہے ترتیب جہاں بخشنے والا
یہ روزِ ازل سے تھی سرِ عالمِ بالا
اس نُور نے اس منزلِ کونین کو ڈھالا
آنکھیں ہیں تو دیکھو سرِ افلاک یہی ہے
کچھ غور سے جانچو تو تہِ خاک یہی ہے
شاہد ہیں اسی نُور کے ذرّے ہوں کہ تارے
اجرامِ سماوی میں اِسی کے ہیں اشارے
اِس نُور نے کونین میں سب رنگ نکھارے
ہیں اِس کے مظاہر وہ ہوں شعلے کہ شرارے
یوں غُلغلہ برقِ سرِطور نہ ہوتا
کچھ بھی نہیں ہوتا جو یہ اِک نُور نہ ہوتا
تھا صبح ازل میں بھی یہی نور نمایاں
اس نُور سے ہستی کا ہوا ہے سر و ساماں
صحراؤں میں اس نور کے جلوے ہیں درخشاں
اس نور سے صد رنگ ہوا دامنِ بُستاں
صحراؤں کے پُر خار ببولوں میں یہی ہے
گلزار کے ہنستے ہوئے پھولوں میں یہی ہے
کہتے ہیں کہ ہے مُہر مُبیں نور کا مخزن
آئینہ مہتاب اسی سے ہوا روشن
بھر دیتا ہے یہ عالم اسباب کا دامن
محتاج ہے سورج کا وہ صحرا ہو کہ گلشن
آئینہ ہستی کو جلا اس سے ملی ہے
دنیا کے چراغوں کو جلا اس سے ملی ہے
لیکن کبھی اربابِ نظر نے کیا یہ غور؟
کیوں ذہن میں یہ مسئلہ آتا نہیں فی الفور
ظاہر میں تو یہ نور کا مخزن ہے بہرطور
دراصل اُسے روشنی دیتا ہے کوئی اور
یہ مہر بھی اِک پردہ ہے گر غور سے دیکھو
خود روشنی پاتا ہے کہیں اور سے دیکھو
وہ کون ہے، کیا ہے، یہ سمجھ جاؤ تو اچھا
اس بھید کو تم دل سے اگر پاؤ تو اچھا
وسواس جو اس دل میں ہیں وہ ٹھکراؤ تو اچھا
دامانِ تفکر کو جو پھیلاؤ تو اچھا
ہے برق کا خالق وہی جو طور کا خالق
جو مہر کا خالق ہے وہی نور کا خالق
ہر بزم میں ملتی ہے اُسی نور کی رونق
یہ پاس کا جلوہ ہے کبھی دُور کی رونق
کعبے کی ضیا، اوجِ سرِ طور کی رونق
ہے شکل عرق، چہرہ مزدور کی رونق
چمکاتا ہے ہر چیز کو منعم کی نظر میں
کرتا ہے اُجالا یہی مزدور کے گھر میں
یہ نور جو ہے وحدتِ باری کا تجمل
کونین میں ہے اس کے مناظر کا تسلسل
زہرہ ہو کہ مریخ ہو، وہ جزو ہو یا کُل
سوزِ دلِ بُلبل ہو کہ تابِ زرِ گُل
رونق دہ کونین ادائیں ہیں اُسی کی
گلزارِ جہاں میں یہ ضیائیں ہیں اُسی کی
مسجودِ ملائک تھا ازل میں بھی یہی نور
اس نور کے افسانے ہیں کونین میں مشہور
منکر جو تھا سجدے سے تو ابلیس ہے مقہور
ملعونِ جہاں ہو گیا وہ ظالم و مغرور
پیشانی آدم میں اسی نور کی ضو تھی
اس خاک کے پتلے میں اسی نور کی لَو تھی
آدم سے چلا سلسلہ نور جہاں میں
ہوتا رہا ضو بار بہار اور خزاں میں
یہ عزمِ خلیلی میں تھا، موسٰی کی زباں میں
ظاہر ہوا اعجازِ مسیحائی زماں میں
ہر ایک پیمبر کا تھا پیغام یہی نور
ہر صبر و رضا کا ہوا انعام یہی نور
طے کرتا رہا نور یونہی اپنی منازل
چھٹتی رہی ہر راہ میں تاریکی باطل
خطّہ عربستان کا صدیوں سے تھا غافل
الحاد عقائد میں جو ہوتا رہا شامل
تاریکی نے یوں رنگ جمایا تھا نظر میں
بُت خانہ بنا بیٹھے تھے اللہ کے گھر میں
اللہ کا گھر ذوقِ عبادت کا خزینہ
یا خاتمِ انگشتِ شہادت کا نگینہ
بندوں کو جہاں آتا ہے سجدوں کا قرینہ
خود خاک کے اس فرش سے ہے عرش کا زینہ
گنجینہ ہے اسرارِ الٰہی کا یہی گھر
فانوس ہے انوارِ الٰہی کا یہی گھر
جاری ہوئی ایمان کی تعلیم یہیں سے
پھیلے تھے سب انوارِ براہیم یہیں سے
سب کو مئے عرفاں ہوئی تقسیم یہیں سے
آتی ہے نظر منزلِ تسلیم یہیں سے
ہر ایک دوائے دلِ رنجور یہیں ہے
تاریکی عالم کے لئے نور یہیں ہے
یہ ارضِ مقدس، حرم خالقِ اکبر
ذرّے بھی یہاں کے ہیں مثالِ مہ و اختر
کنکر جو یہاں کا ہے وہ ہیرے کے برابر
ہے ربِّ سماوات کا گھر اس کی زمیں پر
یہ مرکزِ انوار ہے اور نافِ زمیں ہے
جو نور یہاں ہے وہ کہیں اور نہیں ہے
اس ارضِ گرامی کو ہے کونین پہ اعزاز
گونجی تھی یہیں شوقِ براہیم کی آواز
قربانی فرزند کے منصب سے سرافراز
راضی بہ رخا ہو کے ہوئے صاحبِ اعجاز
فانوس کوئی شمع سے خالی نہیں ملتا
بے نور یقیں منصبِ عالی نہیں ملتا
تھا نسلِ براہیم میں یہ منصبِ عالی
اِس نور نے ہر تیرگی دہر اُجالی
انداز تھا اس شمع تمنّا کا مثالی
اس نور سے تھی چہرہ ایماں پہ سجالی
سوئی ہوئی دنیا میں یہ ضو جاگ رہی تھی
خوابیدہ تھے سب، شمع کی لو جاگ رہی تھی
صدیوں سے اسی خواب میں تھا سارا زمانہ
تاریکی میں بس نور کا باقی تھا فسانہ
مدفون تھا ایمان کا سینوں میں خزانہ
تھا شور میں الحاد کے وحدت کا ترانہ
پھر روشنی کا دور بہ شکلِ سحر آیا
خود آمنہ کی گود میں سورج اُتر آیا
ماتھے پہ چمکتا ہوا وہ داغِ یتیمی
وہ شرک کی ظلمت سے بری عالمِ طفلی
خوں ریز فضاؤں میں وہ اصلاح پسندی
وہ کوٹھری کاجل کی وہ بے داغ جوانی
ہونٹوں پہ لیے امن کا پیغام محمد
محمودِ خداوند مگر نام محمد
پیغمبرِ آخر کی یتیمی کے وہ ایّام
وہ محنتِ ہر روزہ وہ رنجِ سحر و شام
دن میں کہیں آرام نہ شب کو کہیں آرام
اللہ کا گھر بھی تھا تہ قبضہ اصنام
تاریکی سے خائف دلِ رنجور نہیں تھا
جُز قلبِ نبی اور کہیں نور نہیں تھا
تھا آئینہ وحدت کا کہ سب زنگ اتاریں
ہمراہ ہوئیں اس کے، رواں نور کی دھاریں
صحرا وہ نہیں تھا کہ جہاں آتیں بہاریں
اپنی ہی صدا آئے جہاں جا کے پکاریں
بُت خانوں میں توحیدِ خداوند نہاں تھی
سینے تھے مگر روشنی قلب کہاں تھی
وہ فخرِ عرب، نازِ جہاں، زینتِ افلاک
وہ پاک سیر، پاک زباں تھا ہمہ تن پاک
اللہ نے بخشا تھا اسے جوہرِ ادراک
قندیلِ سرِ عرشِ معلّیٰ تھا سرِ خاک
یہ روشنی ظاہرہ خیرات ہے اس کی
تخلیقِ دو عالم کا سبب ذات ہے اُس کی
وہ سرورِ کونین بھی ، سردارِ جہاں بھی
وہ حاصلِ تخلیق بھی خلقت کا نشاں بھی
وہ عالمِ اسرار بھی خود سرِّ نہاں بھی
وہ امن کا عنوان امانت کی اماں بھی
وہ گلشنِ انوار کا مہکا ہوا گل تھا
بعثت سے بہت قبل ہی وہ مصلح کُل تھا
دامن میں لیے اپنے محبت کی ضیائیں
اخلاق کی ضو ریزی امانت کی ضیائیں
بے مائیگی میں جود و سخاوت کی ضیائیں
ظلمت کدہ کفر میں وحدت کی ضیائیں
والشمس اُسی کے رُخ زیبا کا قصیدہ
والفجر اُسی طلعتِ رعنا کا قصیدہ
الفاظ میں پوشیدہ فصاحت کے خزانے
خاموش نگاہوں میں بلاغت کے خزانے
انداز میں بے داغ شرافت کے خزانے
دامن میں لیے دولتِ وحدت کے خزانے
پانی جو اُسے چشمہ وحدت سے ملا تھا
صحرائے عرب میں گُلِ توحید کھلا تھا
نظارہ عالم میں کبھی وقت گزارا
گہ کسبِ معیشت کو تجارت کا سہارا
گرویدہ اخلاق زمانہ ہوا سارا
رکھتا تھا وہ ہنگامہ بے جا سے کنارا
اب بہر تفکر ہوئی فرصت کی ضرورت
تھی میرِ جہاں تاب کو خلوت کی ضرورت
تھا غارِ حرا س کے تفکر کا جو مامن
پاتا تھا سکوں جا کے اُسی میں دل روشن
آلائش دُنیا سے بری اُس کا تھا دامن
اس جوہر نوری کے لئے غار تھا معدن
وہ روشنی پہنچی نہیں اربابِ ہوس تک
خورشید رہا سامنے چالیس برس تک
دیکھا کیا اطوارِ جہاں دیکھنے والا
تھا قوم کا انداز ہی دنیا سے نرالا
کم زور ہر اِک پست، جو بالا تھا وہ بالا
ظلمت سے بہت دور تھا وحدت کا اُجالا
انسانوں کے قابو میں رہا کرتے تھے انسان
یا آگ میں دولت کی جلا کرتے تھے انسان
ہاتھوں سے تراشے ہوئے بُت بنتے تھے معبود
جو خاک کے تودے تھے وہی بن گئے مسجود
معذور تھے اذہان تو افکار تھے محدود
دوزخ کو بنائے ہوئے سب منزلِ مقصود
جو لعل گرانمایا تھا وہ سنگ و خذف تھا
ہر ایک کا رُخ صرف جہنم کی طرف تھا
آلودہ نہ تھے جہل میں اربابِ عرب ہی
ہر ملک میں تھا شہرہ اصنام پرستی
یونان میں اوہام تھے ایراں میں مجوسی
معبود کہیں تھے فقط اجرام سماوی
تھیں تیرگی جہل میں اقوام جہاں کی
حاجت تھی زمانے کو مہِ نور فشاں کی
تھے غارِ حرا میں ابھی مصروف محمد
پتھر کا جو تکیہ تھا تو تھی خاک کی مسند
سمجھاتے تھے دنیا کو کہ کیا نیک ہے کیا بد
تمجید کے اسرار میں تھا محو ابھی امجد
اللہ کی مخصوص امانت لئے آئے
جبریلِ امیں تاجِ رسالت لئے آئے
کی عرض کہ اے نسلِ براہیم کے والی
اللہ نے بخشا ہے تمہیں منصبِ عالی
اب نذر ہے فردوس کے پھولوں کی یہ ڈالی
تم آج سے ہو گلشن ایمان کے والی
اسلام کا یہ خلعتِ زیبا ہو مبارک
اُمّی تمہیں یہ تمغہ اقرا ہو مبارک
اب اور نبی کوئی نہ آئے گا جہاں میں
قرآن بھی اترے گا تمہاری ہی زباں میں
چاہو گے جسے تم وہی جائے گا جناں میں
توحید کی دولت ہے تمہاری ہی اماں میں
سر، شرک اٹھائے تو وہیں اُس کو کچل دو
تاریکی الحاد اُجالے سے بدل دو
وہ نورِ حرا سے جو چلا نورِ خُدا تھا
جب غار سے نکلا تو سرِ کوہِ صفا تھا
تاریکی عالم میں اجالا ہی نیا تھا
ظلمت کدہ کفر میں طوفان بپا تھا
پڑنے لگیں خورشید ِ نبوّت کی شعاعیں
دنیا کو نظر آ گئیں وحدت کی شعاعیں
مکّے میں پیمبر نے گزارے جو مہ و سال
اربابِ نظر سے نہیں پوشیدہ وہ احوال
کیا کیا نہ سہے جور و ستم کیا نہ ہوا حال
کانٹے جو بچھے راہ میں وہ ہو گئے پامال
منظور حفاظت جو تھی نُورِ ازلی کی
فانوس خُدا نے دیا صورت میں علی کی
فانوسِ چراغِ نبوی ذاتِ علی ہے
ایمان کا عنوان ِ جلی ذاتِ علی ہے
ہاں واقفِ اسرارِ خفی ذاتِ علی ہے
جو نازِ رسالت ہے وہی ذاتِ علی ہے
آغوش پیمبر میں پلا ہے وہ علی ہے
جو نُور کے پیکر میں ڈھلا ہے وہ علی ہے
ہر سلسلہ جذب و ولایت ہے علی سے
ہر مرحلہ دورِ طریقت ہے علی سے
تا حدِّ اَبد بزمِ سیادت ہے علی سے
سجادہ علی سے ہے ، امامت ہے علی سے
ہے مثلِ علی کوئی زمانے میں بشر بھی
تلوار بھی اسلام کی ایماں کی سپر بھی
اللہ کا گھر ان کی ولادت کے لیے تھا
تحفہ یہی آغوشِ رسالت کے لیے تھا
کعبہ انھی آنکھوں کی زیارت کے لیے تھا
گھر ان کا ہی قرآں کی حفاظت کے لیے تھا
ان کے لیے نزدیک تھا ہر دُور کا جلوہ
ہر ذرّے میں تھا برقِ سرِ طور کا جلوہ
تکمیل محمد پہ ہوئی نعمت دیں کی
توقیر بڑھی قبلہ ایمان و یقیں کی
افلاک سے اب لڑنے لگی آنکھ زمیں کی
ہر ذرّے پہ اِک چھوٹ پڑی نورِ مبیں کی
فردوس کے جو پھُول تھے سارے اُتر آئے
کیا خاک تھی گردوں کے ستارے اُتر آئے
آغوش میں زہرا کی پلے شبّر و شبیر
یوں سورہ کوثر کی نمایاں ہوئی تفسیر
ایوانِ رسالت کی بڑھی اور بھی تنویر
باطل کے جو دل میں تھی وہ ابتر ہوئی تدبیر
پھُولا پھلا ایسے چمن اولادِ نبی کا
دنیا سے اثر دور ہوا تیرہ شبی کا
ہر سمت ہوا وحدتِ باری کا اُجالا
پروانہ صفت ہو گیا ہر چاہنے والا
کعبے سے پیمبر نے بتوں کو جو نکالا
تھا دوشِ محمد پہ علی کا قد بالا
تاریکیاں سب رہ گئیں گوشوں میں سمٹ کر
پھر نورِ ازل آ گیا دنیا میں پلٹ کر
اس نورِ ازل سے جو اندھیروں کو تھا کینہ
وہ کینہ اترتا ہی رہا سینہ بہ سینہ
ڈھونڈا کیے سب اس کو مٹانے کا قرینہ
ہیرے کو بتانے لگا شیشے کا نگینہ
پیہم تھی لگن دشمنی آلِ نبی کی
اک آگ سُلگتی ہی رہی بو لہبی کی
دشمن جو نبی کے تھے ، ہوئے آل کے دشمن
خصلت کے برے ، صحتِ اعمال کے دشمن
نکبت زدہ تھے عزت و اقبال کے دشمن
ماضی کے جو دشمن تھے ہوئے حال کے دشمن
تھیں نیّتیں تاریک جو اربابِ ستم کی
مقصد تھا کہ روشن نہ رہے شمع حرم کی
تھے گلشنِ فردوس میں حیدر بھی نبی بھی
شبّر نے زہراب سے پھر پیاس بجھائی
باقی تھی مدینے میں جو اولاد نبی کی
تاریکی اذہان میں بس اُن کی خلش تھی
تھا قبرِ محمد کا چراغ آج بھی روشن
شبّیر سے ہوتے تھے دماغ آج بھی روشن
ناگاہ سوئے شام سے اک ابر سا اٹھا
چھانے لگا انوارِ شریعت پہ اندھیرا
طوفانِ ستم چاروں طرف ہو گیا برپا
اک مرکزِ انوار تھا دم ابنِ علی کا
تھے جتنے سیہ قلب وہ آمادہ شر تھے
شبّیر تھے طوفان میں جو سینہ سپر تھے
شبّیر تھے قرآن و شریعت کے نگہباں
شبّیر سے تھی رونق و رنگینی ایماں
شبّیر کی نظروں میں تھا بے وقر یہ طوفاں
شبّیر بچائے تھے چراغِ تہِ داماں
جتنی بھی ہوا تیز چلی جور و ستم کی
لَو اور بڑھاتے رہے یہ شمع حرم کی
ہر جور گوارا کیا ، ہر ظلم سہارا
تھا آسرا ایمان کا قرآں کا سہارا
لیکن کیا نہ طاعتِ باطل کو گوارا
امداد کو پہنچے جہاں امت نے پکارا
گھر اور وطن چھوڑ دیا راہِ خُدا میں
یہ چاند مدینے سے گیا کرب و بلا میں
وہ کرب و بلا، دشتِ ستم، عرصہ آفات
غربت کا وہ دن اور مصائب سے بھری رات
انصارِ گرامی کی محبّت کے کمالات
ہر ایک کی جاں عظمتِ شبّیر کی خیرات
وہ شام کی افواجِ سیہ کار کا عالم
وہ ابنِ ید اللہ کے انوار کا عالم
وہ اکبر و عباس کے انوارِ جلالت
وہ قاسمِ نوخیز، وہ شبّر کی امانت
مسلم کے وہ بھائی پئے امداد و اطاعت
ہر ایک کے سینے میں بھڑکتی ہوئی حدّت
باطل کے عدو، صدق و صداقت کے فدائی
زینب کے پسر شمع امامت کے فدائی
ہر ایک کا دل الفتِ شبّیر سے سرشار
ہر ایک کی نظروں میں جوانمردی کے آثار
ہر ایک کی خواہش کہ کھلے خلد کا گلزار
سو جان سے ہر ایک فدائے شہ ِ ابرار
آنچ آئے نہ سبطِ شہِ کونین کے دم پر
سر کاٹ کے خود ڈال دیں حضرت کے قدم پر
کوفے میں تھے مامور شقی اور ستمگار
حضرت کو مدینے سے بلایا تھا بہ اصرار
یثرب میں تو شبیر کے لاکھوں تھے مددگار
نرغے میں سیہ کاروں کے اب تھے شہ ابرار
اشرار کا رُخ کعبے کی جانب سے پھرا تھا
مہتاب سیادت کا بلاؤں میں گھرا تھا
آئی تھی نئے رُخ پہ شقاوت کی کہانی
اولادِ محمد کو نہ دانہ تھا ، نہ پانی
خواہش تھی کہ مٹ جائے پیمبر کی نشانی
حیرت سے رُکی جاتی تھی دریا کی روانی
افواجِ سیہ کیش کے آنے لگے بادل
کالے جو علم کھُل گئے چھانے لگے بادل
اُس سمت سے اصرار تھا بیعت طلبی کا
اِس سَمت تھا وہ عزم و یقیں سبطِ نبی کا
اُس سَمت اندھیرا ہی رہا تیرہ شبی کا
تھا نور اِدھر سبطِ رسولِ عربی کا
اُس سَمت بجھے جاتے تھے دل اہلِ جفا کے
اِس سمت بَہتّر تھے چراغ اہلِ وفا کے
طالع ہوئی میداں میں جو صبح شب عاشور
سامانِ جدل کرنے لگے ظالم و مغرور
ظُلمت کی تھی یلغار اُدھر اور اِدھر نور
آئینے میں منہ دیکھ رہی تھی شبِ دیجور
آندھی سی سیاہی کی اٹھی شام کے بن میں
خورشید امامت کا اب آیا تھا گہن میں
تھی روشنی ایمان کی طینت میں جو شامل
حُر ، حق کی طرف آ گیا خود چھوڑ کے باطل
شبّیر کے قدموں پہ گرا، مل گئی منزل
اب تک جو نہ پایا تھا وہ رُتبہ ہوا حاصل
تارے سے چٹکنے لگے بزمِ دل و جاں میں
پروانہ بنا شمع امامت کا جہاں میں
بارش ہوئی تیروں کی جو افواجِ ستم سے
انصارِ حسین ابنِ علی سینہ سپر تھے
تیر آئے اُدھر سے تو اِدھر سینوں پہ روکے
تکلیف کوئی شاہِ زمانہ کو نہ پہنچے
روشن ہوئے ایمان محبت کے چلن سے
زخموں سے لہو نکلا کہ لَو شمع بدن سے
جب چند جری ہو گئے قربان شہِ دیں
انصار کی لاشوں پہ گئے خود شہِ غمگیں
فرمایا، شہیدو! تمہیں جانبازی پہ تحسین
دنیا نے کہیں ایسی مثالیں نہیں دیکھیں
اس سوز پہ دل ہم سے سنبھالا نہیں جاتا
بُجھ کر بھی چراغوں کا اُجالا نہیں جاتا
فی الجملہ یونہی ختم ہوا شاہ کا لشکر
قاسم بھی گئے سوئے جناں فوج سے لڑ کر
اک قلب تھا شبیر کا اور داغ بَہتّر
بس خیمے میں خود شاہ تھے ، عباس نہ اکبر
جو کچھ تھا لٹا بیٹھے وہ مولا رہِ دیں میں
اصغر سا ستارہ بھی دبا آئے زمیں میں
تھے لشکرِ اعدا میں خدنگ اور کمانیں
پہچانیں پیمبر کو نہ اللہ کو مانیں
سوکھی ہوئی تھیں پیاس سے بچّوں کی زبانیں
ہونٹوں پہ چلی آئی تھیں کِھچ کے سبھی جانیں
اطفال تھے سکتے میں کہیں اور کہیں غش میں
تھے ڈوبنے کو تارے یہ دریائے عطش میں
ناگاہ پکارا کوئی، شبّیر کہاں ہیں
ہیں کیسے جواں مرد کہ خیمے میں نہاں ہیں
میان میں آئیں اگر آسودہ جاں ہیں
پانی پئیں شمشیر کا گر تشنہ دہاں ہیں
اب روشنی زیست یہاں مل نہیں سکتی
بیعت نہ کریں گے تو اماں مل نہیں سکتی
لٹوا دیئے میدان میں بے فائدہ انصار
ساحل پہ ہے اب لاشہ عباسِ علمدار
اکبر کی جوانی کا بھی کیا غم نہیں زنہار
قاسم سا بھتیجا بھی فدا کر دیا ناچار
تا مرگ نہ دیکھو گے کبھی اپنے پسر کو
دانستہ گنوا بیٹھے ہو تم نورِ نظر کو
یہ ضد ہے کہ بیعت سے ہو بے وجہ گریزاں
خود اپنی تباہی کا کیے جاتے ہو ساماں
سرکش نہیں ہوتا کبھی ایسا کوئی انساں
اس ضد کو بغاوت کا دیا جائے گا عنواں
دیکھو گے پسِ مرگ جو تربت کا اندھیرا
چَھٹ جائے گا آنکھوں سے بغاوت کا اندھیرا
کس راستے پر تم نے اٹھایا ہے قدم کو
کیا سوچ کے میدان میں لائے ہو حرم کو
معلوم نہیں تھا تمہیں جانا ہے عدم کو
رحم اِن کی مصیبت پہ نہیں آئے گا ہم کو
ہاں سامنے اپنے کوئی حیلہ نہ چلے گا
اب تک جو جلا ہے چراغ وہ اب نہ جلے گا
غوغا یہ سیہ کاروں کا سنتے رہے شبّیر
کیا رنگ دکھانے لگا تھا اب فلکِ پیر
خیموں میں تھیں سب بیبیاں سہمی ہوئی دلگیر
ہر ایک کا غم بانٹتی تھیں شاہ کی ہمشیر
کہتی تھیں مجھے دیکھ لو کیا کیا نہیں دیکھا
لیکن مری آنکھوں نے اندھیرا نہیں دیکھا
معلوم تھا نکلی تھی مدینے سے میں جس دم
سہنے ہیں ستم لاکھوں اٹھانے ہیں بہت غم
کس صبر سے سنتے ہیں یہ باتیں شہ عالم
چاہیں تو ابھی نظم زمانہ کریں برہم
اصلاح جو مقصود ہے اب اہل زمیں کی
یہ روشنی لائے ہیں یہاں مشعل دیں کی
جب اور زیادہ ہوا غُل اہلِ ستم کا
پھر نورِ جبیں ، شاہ کا کچھ اور بھی چمکا
اب غیظ بڑھا سبطِ شہنشاہِ اُمم کا
دم سینے میں بل کھانے لگا تیغ دو دم کا
رخصت جو حرم سے ہوئے سلطانِ امامت
طالع ہوا پھر نیّرِ تابانِ امامت
رہوارِ حسینی جو سحر ہی سے تھا تیار
جب اس کی طرف بڑھنے لگے سیّد ابرار
سر اپنا سلامی کو جھکانے لگا رہوار
یوں اپنی وفاداری کا کرنے لگا اظہار
جلوہ کیا خورشید امامت نے جو زیں پر
پھر پاؤں فرس کے نہیں ٹکتے تھے زمیں پر
بجلی کی طرح کوند کے جھپٹا سوئے اشرار
ناری جو کوئی سامنے آیا ہوا فی النار
بے ہوش ہوئے اس کی روش دیکھ کے بدکار
پل بھر میں نکل جاتا تھا اس پار سے اس پار
پھُرتی جو قیامت تھی تو چال اس کی عجب تھی
تاریک دلوں کے لیے اک برق غضب تھی
لاشے جو گرے فوج کے وہ ہو گئے پامال
مٹی میں ملی سب ہوسِ عزت و اقبال
تھا حال بُرا فوج کا افسر ہوئے بے حال
توبہ کی بھی مہلت نہیں پائے تھے بد اعمال
گھوڑا نہیں پھرتا تھا وہ پھیرا تھا اجل کا
اعدا کی نگاہوں میں اندھیرا تھا اجل کا
گھوڑے کی وہ چھل بل وہ ترنگیں وہ طرارے
خود رُک گئی تھی موجِ ہوا شرم کے مارے
ٹاپوں سے اڑاتا ہوا میداں میں شرارے
گَرد اس کی تجلی سے ہوئے چاند ستارے
گرنے میں سر فوجِ عدو عار نہیں ہے
اک برقِ سُبک رو ہے یہ رہوار نہیں ہے
طوفان کی صورت صفِ اعدا میں در آیا
جم گھٹ تھا جدھر اہلِ ستم کا اُدھر آیا
معلوم نہ ہوتا تھا کب آیا کدھر آیا
آنکھوں سے وہ اندھا ہوا جس کو نظر آیا
سمجھے کہ یہاں تھا ابھی دیکھا تو وہاں تھا
رہوارِ حسینی نہیں اک وہمِ رواں تھا
پھر ہاتھ گیا شہ کا سوئے قبضہ شمشیر
لب پر ملک الموت کے تھا نعرہ تکبیر
زندہ ہوئی گویا اسداللہ کی تصویر
چلّائے یہ دشمن کہ دغا دے گئی تقدیر
ہم موم کے پتلوں کو پگھلنا ہی پڑے گا
یہ آگ نہیں بخشے گی جلنا ہی پڑے گا
باہر جو ہوئی نیام سے شمشیر حسینی
خیرہ کُن لشکر ہوئی تنویر حسینی
تھی منزل والسیف کی تفسیر حسینی
مثل خط تنسیخ تھی تحریر حسینی
جو گھاٹیاں تھیں راہ میں سب پاٹ کے رکھ دیں
اک وار میں لاکھوں کی صفیں کاٹ کے رکھ دیں
تلوار تھی یا جلوہ ناراضی معبود
نابود ہوئی سامنے جو فوج تھی موجود
اک راہ اجل کے سوا ہر راہ تھی مسدود
تلوار کا پھل بن گیا تھا شعلہ بے دود
تھا بند جو مدت سے وہ دَر کھول دیا تھا
تلوار نے خود بابِ سقر کھول دیا تھا
تلوار کی تعریف بیاں ہو نہیں سکتی
تیز، اتنی کبھی تابِ زباں ہو نہیں سکتی
یہ برق کی مانند رواں ہو نہیں سکتی
ارزاں کبھی یہ جنسِ گراں ہو نہیں سکتی
محصورِ بیاں شعلہ بےباک کہاں ہے
مثل اس کا زمانے میں تہ خاک کہاں ہے
اب خود و زرہ کام میں آتے تھے نہ ڈھالیں
زچ ہو گئے تھے بند تھیں سب زیست کی چالیں
ہاتھوں کو یہ مہلت نہ تھی تلوار نکالیں
گردن کو بچائیں کہ سر و پا سنبھالیں
ایسی تو روانی کبھی دیکھی ہی نہیں تھی
اک نُور کی تھی دھار کہ رُکتی ہی نہیں تھی
جب فوجِ ستم کو نہ رہا جنگ کا یارا
کرنے لگا ہر ایک لڑائی سے کنارا
بُزدل کوئی اُن میں سے بصد یاس پکارا
اے سبطِ نبی رحم کرو اب تو خدارا
یہ شعلہ شمشیر رہائی نہیں دیتا
آنکھوں میں ہے اندھیرا دکھائی نہیں دیتا
یہ سن کے شہِ دیں نے وہیں روک لی شمشیر
گھوڑے سے اُتر آئے بیک نعرہ تکبیر
کام آ گئی اشرارِ ستم پیشہ کی تدبیر
اک مرتبہ سب ٹوٹ پڑے جانبِ شبیر
یوں کام دَغا سے لیا اربابِ دغا نے
سب مل کے چلے شمع امامت کو بُجھانے
تھا بھوکا پیاسا جو کئی دن کا مسافر
گھر بھر کو لُٹا بیٹھا جو اسلام کی خاطر
خدمت میں محمد کی اُسے ہونا تھا حاضر
شبیر نے مقتل میں کیا سجدہ آخر
سر، بارگہ حق میں جھکائے رہے شبیر
اللہ سے لَو اپنی لگائے رہے شبیر
وہ لوگ ابھی رحم کی جو مانگتے تھے بھیک
تھا جن کی نگاہوں میں زمانہ ابھی تاریک
سجدے میں گئے شہ تو ہوئی ظلم کو تحریک
ہاں رعبِ امامت سے نہ آیا کوئی نزدیک
بس دور کے حملوں سے ہی یہ حال کیا تھا
تیروں سے جسدِ شاہ کا ۔۔۔کیا تھا
تیروں کے کہیں زخم تھے ، تن میں کہیں پیکاں
پیاسے کا لہو خاک پہ مقتل کی تھا ارزاں
اک حشر سا برپا تھا سر عالم امکاں
احمد کا نواسا تھا جگر خستہ و حیراں
زخمی تھا مگر رُوح میں ایماں کی رو تھی
اس بجھتی ہوئی شمع میں اسلام کی ضو تھی
ہیبت ابھی طاری تھی جگر بند علی کی
پاس آئے یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کسی کی
دشمن تھے مگر پھر بھی یہ خواہش تھی سبھی کی
ہم پر نہ پڑے بوند کوئی خون نبی کی
جب شمر نے یہ حوصلہ دیکھا نہ کسی کا
سر کاٹ لیا بڑھ کے حسین ابن علی کا
سر کاٹ کے اک بار پکارا وہ ستمگر
یہ کام بھی اب ختم ہوا دیکھ لے لشکر
ہاں لُوٹ لو خیموں کو غریبوں کے سراسر
اب کوئی مزاحم نہیں کس بات کا ہے ڈر
اس قافلے کے سارے نشانات مٹا دو
جب لُوٹ لو خیموں کو تو پھر آگ لگا دو
اس ظلم کو دیکھا کئے سب اہلِ حرم ہائے
احمد کے گھرانے پہ ہوا کیسا ستم ہائے
روشن نہ رہا کوئی چراغ شب غم ہائے
لفظوں کی جگہ خُوں اُگلتا ہے قلم ہائے
اس طرح سر نوک سناں تھا سر شبیر
سورج کی طرح جلوہ فشاں تھا سر شبیر
احوال مصائب کا صبا لکھ نہیں سکتا
گھر کیسے محمد کا لُٹا لکھ نہیں سکتا
جو دل پہ گزرتی ہے ذرا لکھ نہیں سکتا
غم سے نہیں اب ہوش بجا لکھ نہیں سکتا
یہ کاوشِ یک ہفتہ جو دے رنگ تو اچھا
روشن رہے تحریر کا آہنگ تو اچھا
٭٭٭
ٹائپنگ: سیدہ شگفتہ
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید