FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ام الکتاب

 

حصہ اوّل

 

                   مولانا ابو الکلام آزاد

 

ٹائپنگ: اردو محفل کے اراکین۔ شمشاد خان،  نبیل نقوی،  مقدس،  محمد امین،  ذیشان حیدر،  میر انیس،  فرحت کیانی

 

 

 

 

انتساب

 

 

غالباً دسمبر ۱۹۱۸ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا،  عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے،  مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا۔

آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔

کہاں سے ؟

سرحد پار سے۔۔

یہاں کب پہنچے ؟

آج شام کو پہنچا میں بہت غریب آدمی ہوں،  قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا،  وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے،  انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔

افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟

اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا کہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہو گا۔

مجھے اس کا نام یاد نہیں،  مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں،  لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔

۱۲ ستمبر سنہ ۱۹۳۱ء کلکتہ

٭٭٭

 

 

                   سورہ فاتحہ

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ (۱) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ(۲) الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ (۳) مَالِكِ یَوْمِ الدِّینِ (۴) إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَإِیَّاكَ نَسْتَعِینُ (۵) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ (۷) صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلا الضَّالِّینَ (۷)

ہر طرح کی ستائشیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے۔ جو رحمت والا ہے اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالامال کر رہی ہے۔ جو اس دن کا مالک ہے جس دن کاموں کا بدلا لوگوں کے حصے میں آئے گا۔ (خدایا!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے جس سے (اپنی احتیاجوں میں) مدد مانگتے ہیں۔ (خدایا!) ہم پر (سعادت کی) سیدھی راہ کھول دے۔ وہ راہ جو ان لوگوں کی ہوئی جن پر تو نے انعام کیا۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے اور نہ ان کی جو بھٹک گئے۔

 

 

                   تفسیر سورہ فاتحہ

سورت کی اہمیت اور خصوصیات

 

یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے،  اس لیے فاتحۃ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قرآن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی تھی،  اس لیے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قرآن کے پہلے صفحے پر ہی قرار پائی۔ چنانچہ قرآن نے خود اس کا ذکر ایسے لفظوں میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔

ولقد آتینک سبعا من المثانی والقرآن العظیم (۱۵،  ۸۷)

اے پیغمبر یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تمہیں سات دہرائی جانے والی چیزیں عطا فرمائیں اور قرآن عظیم احادیث اور آثار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس آیت میں "سات دہرائی جانے والی چیزوں” سے مقصود یہی سورت ہے کیونکہ یہ سات آیتوں کا مجموعہ ہے اور ہمیشہ نماز میں دہرائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو السبع المثانی بھی کہتے ہیں (۷)۔

احادیث و آثار میں اس کے دوسرے نام بھی آئے ہیں،  جن سے اس کی خصوصیات کا پتہ چلتا ہے،  مثلاً ام القرآن،  الکافیہ،  الکنز،  اساس القرآن (۷)۔

عربی میں "ام” کا اطلاق ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جو ایک طرح کی جامعیت رکھتی ہوں یا بہت سی چیزوں میں مقدم اور نمایاں ہوں۔۔ یا پھر کوئی ایسی اوپر کی چیز ہو جس کے نیچے اس کے بہت سے توابع ہوں۔ چنانچہ سر کے درمیانی حصے کو ام الراس کہتے ہیں،  کیونکہ وہ دماغ کا مرکز ہے۔ فوج کے جھنڈے کو ام کہتے ہیں،  کیونکہ تمام فوج اس کے نیچے جمع ہوتی ہے۔ مکہ کو ام القریٰ کہتے ہیں،  کیونکہ خانہ کعبہ اور حج کی وجہ سے عرب کی تمام آبادیوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی۔ پس اس سورت کو ام القرآن کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایک ایسی سورت ہے جس میں مطالب قرآنی کی جامعیت اور مرکزیت ہے۔۔ یا جو قرآن کی تمام سورتوں میں اپنی نمایاں اور مقدم جگہ رکھتی ہے۔

اساس القرآن کے معنی ہیں قرآن کی بنیاد۔۔ الکافیہ کے معنی ہیں ایسی چیز جو کفایت کرنے والی ہو۔۔ الکنز خزانے کو کہتے ہیں۔

علاوہ بریں ایک سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے یہ اوصاف عہد نبوت میں عام طور پر مشہور تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابی بن کعب کو یہ سورت تلقین کی اور فرمایا "اس کے مثل کوئی سورت نہیں” ایک دوسری روایت (۸) میں اسے "سب سے بڑی سورت” اور "سب سے بہتر سورت” بھی فرمایا ہے۔

 

سورہ فاتحہ میں دین حق کے تمام مقاصد کا خلاصہ موجود ہے

 

چنانچہ اس سورت کے مطالب پر نظر ڈالتے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں اور قرآن کے بقیہ حصے میں اجمال اور تفصیل کا سا تعلق پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بہ تفصیل بیان کیے گئے ہیں،  سورہ فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال موجود ہے۔ اگر ایک شخص قرآن میں سے اور کچھ نہ پڑھ سکے،  صرف اس سورت کے مطالب ذہن نشین کر لے،  جب بھی وہ دین حق اور خدا پرستی کے بنیادی مقاصد معلوم کر لے گا اور یہی قرآن کی تمام تفصیلات کا ماحصل ہے۔

علاوہ بریں جب اس پہلو پر غور کیا جائے کہ سورت کا پیرایہ دعائیہ ہے اور اسے روزانہ عبادت کا ایک لازمی جزء قرار دیا گیا ہے تو اس کی یہ خصوصیت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس اجمال و تفصیل میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی۔ مقصود یہ تھا کہ قرآن کے قرآن کے مفصل بیانات کا ایک مختصر اور سیدھا سادھا خلاصہ بھی ہو جسے ہر انسان بہ آسانی ذہن نشین کر لے اور پھر اپنی دعاؤں اور عبادتوں میں دہراتا رہے۔ یہ اس کی دینی زندگی کا دستور العمل،  خدا پرستی کے عقائد کا خلاصہ اور روحانی تصورات کا نسب العین ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس سورت کا ذکر کرتے ہوئے "سبعاً من المثانی” کہہ کر اس کی خصوصیت کی طرف اشارہ کر دیا،  یعنی ہمیشہ دہرائے جانے اور ورد رکھنے ہی میں اس کے نزول کی حکمت پوشیدہ ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی نادان اور ان پڑھ،  لیکن ان چار سطروں کا یاد کر لینا اور ان کا سیدھا سادہ مطلب لینا اس کے لیے دشوار نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں کچھ نہ پڑھ سکا،  جب بھی اس نے دین حق کا بنیادی سبق حاصل کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے اس سورت کا سیکھنا اور پڑھنا ناگزیر ہوا اور نماز کی دعا اس کے سوا کوئی نہ ہو سکی کہ "لا صلات الا بفاتحتہ الکتاب” (صحیحین) (۹)۔ اور اسی لیے صحابہ کرام اسے "سورت الصلات” کے نام سے پکارتے تھے،  یعنی وہ سورت جس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں سے جس قدر پڑھے اور سیکھے مزید معرفت و بصیرت کا ذریعہ ہو گا،  لیکن اس سے کم کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔

 

دین حق کا ماحصل

 

دین حق کا تمام تر ماحصل کیا ہے ؟ جس قدر غور کیا جائے،  ان چار باتوں سے باہر کوئی بات نہ دکھائی دے گی۔

(۱) خدا کی صفات کا ٹھیک ٹھیک تصور۔ اس لیے کہ انسان کو خدا پرستی کی راہ میں جس قدر ٹھوکریں لگی ہیں،  صفات ہی کے تصور میں لگی ہیں

(۲) قانون مجاوزات کا اعتقاد۔ یعنی جس طرح دنیا میں ہر چیز کا ایک خاصہ اور قدرتی تاثیر ہے،  اسی طرح انسانی اعمال کے بھی معنوی خواص اور نتائج ہیں۔ نیک عمل کا نتیجہ اچھائی ہے،  برے کا برائی۔

(۳) معاد کا یقین۔ یعنی کہ انسان کی زندگی اسی دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی،  اس کے بعد بھی زندگی ہے اور جزاء کا معاملہ پیش آنے والا ہے۔

(۴) فلاح و سعادت کی راہ اور اس کی پہچان

 

سورہ فاتحہ کا اسلوب بیان (۱۱)

 

اب غور کرو ان باتوں کا خلاصہ اس سورت میں کس خوبصورتی کے ساتھ جمع کر دیا گیا ہے ! ایک طرف زیادہ سے زیادہ مختصر حتی کہ گنے ہوئے الفاظ ہیں۔ دوسری طرف ایسے جچے تلے الفاظ کہ ان کے معانی سے پوری وضاحت اور دل نشینی پیدا ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی نہایت سیدھا سادا بیان ہے،  کسی طرح کا پیچ و خم نہیں،  کسی طرح کا الجھاؤ نہیں۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے،  اتنی ہی زیادہ سہل اور دل نشین بھی ہوتی ہے۔ خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہو گی ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دل نشین بھی ہو۔ دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آ جائے تو ذہن کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہ ہو،  وہ اس طرح قبول کر لے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات تھی۔ اردو کے ایک شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

اب غور کرو! اب جہاں تک انسان کی خدا پرستی اور خدا پرستی کے تصورات کا تعلق ہے اس سے زیادہ سیدھی سادی باتیں اور کیا ہو سکتی ہیں جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں،  اور پھر اس سے زیادہ سہل اور دل نشین اسلوب بیان کیا ہو سکتا ہے ؟ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں،  ہر بول چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں،  اور ہر لفظ صاف اور دل نشین معانی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کو مخاطب کر کے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب و روز انسان کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے،  اگرچہ اپنی جہالت اور غفلت سے ان میں غور و تفکر نہیں کرتا۔ پھر اس کی بندگی کا اقرار ہے،  اس کی مددگاریوں کا اعتراف ہے اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ لگ چلنے کی طلب گاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں،  کوئی انوکھی بات نہیں،  کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ اب کہ ہم بار بار سورت پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں،  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے،  لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی،  اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ دنیا میں حقیقت اور سچائی کی ہر بات کا یہی حال ہے۔ جب تک سامنے نہیں آتی،  معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ مشکل بات کوئی نہیں۔ اور جب سامنے آ جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ صاف اور سہل بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟ عرفی نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایے میں بیان کی ہے۔

ہرکس نہ شناسندہ رازست وگرنہ

این ہمہ راز است کہ معلوم عوام ست!

(۱۲)دنیا میں جب کبھی وحی الہی کی ہدایت نمودار ہوئی ہے،  اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ انسان کو نئی نئی باتیں سکھا دی ہوں،  کیونکہ خدا پرستی کے بارے میں کوئی انوکھی بات سکھائی ہی نہیں جا سکتی۔ اس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسان کے وجدانی عقائد کو علم و اعتراف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر بتا دے اور یہی سورہ فاتحہ کی خصوصیت ہے۔ اس سورت نے نوع انسانی کے وجدانی تصورات ایک ایسی تعبیر سے سنوار دیے کہ ہر عقیدہ،  ہر فکر،  ہر جذبہ،  اپنی شکل و نوعیت میں نمودار ہو گیا اور چونکہ یہ تعبیر حقیقت حال کی سچی تعبیر ہے،  اس لئے جب کبھی ایک انسان راست بازی کے ساتھ اس پر غور کرے گا،  بے اختیار پکار اٹھے گا کہ اس کا ہر بول اور ہر لفظ اس کے دل و دماغ کی قدرتی آواز ہے !

 

دین حق کی مہمات

 

پھر دیکھو! اگرچہ اپنی نوعیت میں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک خدا پرست انسان کی سیدھی سادی دعا ہے،  لیکن کس طرح اس کے ہر لفظ اور ہر اسلوب سے دین حق کا کوئی نہ کوئی اہم مقصد واضح ہو گیا ہے اور کس طرح اس کے الفاظ نہایت اہم معانی و دقائق کی نگرانی کر رہے ہیں۔

۱۔خدا کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلطی یہ رہی ہے کہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا تھا۔ سورہ فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کر دیا۔

اس کی ابتدا "حمد” کے اعتراف سے ہوتی ہے۔ "حمد” ثناء جمیل کو کہتے ہیں،  یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو۔ ثناء جمیل اسی کی کی جا سکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ پس "حمد” کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہو سکتا۔ جو ذات محمود ہو گی وہ خوفناک نہیں ہو سکتی۔

پھر "حمد” کے بعد خدا کی عالم گیر ربوبیت،  رحمت اور عدالت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دے دیتی ہے جس کی انسانیت کے نشو و ارتقاء کے لئے ضرورت ہے اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کر دیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آ سکتی ہیں (۱۳)۔

۲۔ رب العلمین میں خدا کی عالمگیر ربوبیت کا اعتراف ہے جو ہر فرد،  ہر جماعت،  ہر قوم،  ہر ملک،  ہر گوشہ و  وجود کے لئے ہے۔ اور اس لیے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا خاتمہ کر دیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہو گئی تھیں اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگ گئی تھی کہ خدا کی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لیے ہیں،  کسی دوسری قوم کا ان میں حصہ نہیں۔

۳۔ ملک یوم الدین میں الدین کا لفظ اجزاء کے قانون کا اعتراف ہے اور جزا کو دین کے لفظ سے تعبیر کر کے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ جزاء انسانی اعمال کے قدرتی نتائج و خواص ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ خدا کا غضب و انتقام بندوں کو عذاب دینا چاہتا ہو،  کیونکہ الدین کے معنی بدلے اور مکافات کے ہیں۔

۴۔ ربوبیت اور رحمت کے بعد ملک یوم الدین کے وصف نے یہ بھی حقیقت آشکارا کر دی کہ اگر کائنات میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے،  بلکہ اس لیے ہے کہ وہ عادل ہے اور اس کی حکمت نے ہر چیز کے لیے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کر دیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں ہے بلکہ عین رحمت ہے۔

۵۔ "عبادت” کے لیے نہیں کہا کہ "نعبدک” بلکہ کہا "ایاک نعبد” یعنی یہ نہیں کہا تھا کہ "تیری عبادت کرتے ہیں” بلکہ حصر کے ساتھ کہا "صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں” اور پھر اس کے ساتھ "ایاک نستعین” کہہ کر "استعانت” کا بھی اسی حصر کے ساتھ ذکر کر دیا۔ اس اسلوب بیان نے توحید کے تمام مقاصد پورے کر دیے اور شرک کی ساری راہیں بند ہو گئیں۔

۷۔ سعادت و فلاح کی راہ کو "الصراط المستقیم” یعنی سیدھی راہ سے تعبیر کیا جس سے زیادہ بہتر اور قدرتی تعبیر نہیں ہو سکتی،  کیونکہ کوئی نہیں جو سیدھی راہ اور ٹیڑھی راہ میں امتیاز نہ رکھتا ہو اور پہلی راہ کا خواہش مند نہ ہو۔

۷۔ پھر اس کے لیے ایک سیدھی سادی اور جانی بوجھی ہوئی شناخت بنا دی جس کا اذعان قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے اور جو محض ایک ذہنی تعریف ہونے کی جگہ ایک موجود و مشہود حقیقت نمایاں کر دیتی ہے،  یعنی وہ راہ جو انعام یافتہ انسانوں کی راہ ہے۔ کوئی ملک،  کوئی قوم،  کوئی زمانہ،  کوئی فرد ہو،  لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دو راہیں یہاں صاف موجود ہیں۔ ایک راہ کامیاب انسانوں کی راہ ہے،  ایک ناکام انسانوں کی۔ پس ایک واضح اور آشکارا بات کے لیے سب سے بہتر علامت یہی ہو سکتی تھی کہ اس کی طرف انگلی اٹھا دی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ایک معلوم بات کو مجہول بنا دینا تھا۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کے لیے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے،  کیونکہ اگر تعلیم و امر کا پیرایہ اختیار کیا جاتا تو اس کی نوعیت کی ساری تاثیر جاتی رہتی۔ دعائیہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ ہر راست باز انسان کی جو خدا پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے،  صدا حال کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہیے ؟ یہ گویا خدا پرستی کے فکر و وجدان کا سر جوش ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بے اختیار ابل پڑتا ہے۔

 

 

                   (۲) الحمدللہ

 

حمد

 

عربی میں "حمد” کے معنی ثنا جمیل کے ہیں،  یعنی اچھی صفتیں بیان کرنے کے۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو یہ "حمد” نہ ہو گی۔ حمد پر الف لام ہے۔ یہ استغراق کے لیے بھی ہو سکتا ہے،  جنس کے لیے بھی۔ پس "الحمد للہ” کے معنی یہ ہوئے کہ حمد و ثناء میں سے جو کچھ اور جیسا کچھ بھی کہا جا سکتا ہے وہ سب کچھ اللہ کے لیے ہے،  کیونکہ خوبیوں اور کمالوں میں سے جو کچھ بھی ہے سب اسی سے ہے اور اسی میں ہے۔ اور اگر حسن موجود ہے تو نگاہ عشق کیوں نہ ہو،  اور اگر محمودیت جلوہ افروز ہے تو زبان حمد و ستائش کیوں خاموش رہے ؟

آئینہ ما روی ترا عکس پذیر است

گر تو نہ نمائی گنہ از جانب ما نیست

"حمد” سے سورت کی ابتدا کیوں کی گئی؟ اس لیے کہ معرفت الہی کی راہ میں انسان کا پہلا تاثر یہی ہے،  یعنی جب کبھی ایک صادق انسان اس راہ میں قدم اٹھائے گا تو سب سے پہلی حالت جو اس کے فکر و وجدان پر طاری ہو گی وہ قدرتی طور پر وہی ہو گی جسے یہاں تحمید و ستائش سے تعبیر کیا گیا ہے۔

انسان کے لیے معرفت حق کی راہ کیا ہے ؟ قرآن کہتا ہے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ کائنات خلقت میں تفکر و تدبر کرے۔ مصنوعات کا مطالعہ اسے صانع تک پہنچا دے گا۔

الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبہم و یتفکرون فی خلق السمٰوٰت (۳،  ۱۹۱)

اب فرض کرو ایک طالب صادق اس راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور کائنات خلقت کے مظاہرو آثار کا مطالعہ کرتا ہے تو سب سے پہلا اثر جو اس کے دل و دماغ پر طاری ہو گا وہ کیا ہو گا؟ وہ دیکھے گا کہ خود اس کا وجود اور اس کے وجود سے باہر کی ہر چیز ایک صانع حکیم اور مدبر قدیر کی کار فرمائیوں کی جلوہ گاہ ہے۔ پس قدرتی طور پر اس کی روح جوش ستائش اور محویت جمال سے معمور ہو جائے گی۔ وہ بے اختیار پکار اٹھے گا کہ الحمدللہ رب العالمین ساری حمد و ستائش اسی کے لئے ہے جو اپنی کار فرمائی کے ہر گوشے میں سرچشمہ رحمت و فیضان اور معنی حسن و کمال ہے !

اس راہ میں فکر انسانی کی سب سے بڑی گمراہی یہ رہی ہے کہ اس کی نظریں مصنوعات کے جلووں میں محو ہو کر رہ جاتیں،  آگے بڑھنے کی جستجو نہ کرتیں،  وہ پردوں کے نقش و نگار کو دیکھ کر بے خود ہو جاتا مگر اس کی جستجو نہ کرتا جس نے اپنے جمال صنعت پر یہ دل آویز پردے ڈال رکھے ہیں۔ دنیا میں مظاہر فطرت کی پرستش کی بنیاد اسی کوتاہ نظری سے پڑی۔ پس الحمدللہ کا اعتراف اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ کائنات ہستی کا تمام فیضان و جمال خواہ کسی گوشے اور کسی شکل میں ہو،  صرف ایک صانع حقیقی کی صفتوں کا ظہور ہے۔ اس لیے حسن و جمال کی جتنی بھی شیفتگی ہو گی،  خوبی و کمال کے لیے جتنی بھی مدحت طرازی ہو گی،  بخشش و فیضان کا جتنا بھی اعتراف ہو گا مصنوع و مخلوق کے لیے نہیں ہو گا،  صانع و خالق کے لیے ہو گا۔

عباراتنا شتی و حسنک واحد۔ وکل الی فاک الجمال یشیر اللہ

 

اللہ

 

نزول قرآن سے پہلے عربی میں "اللہ” کا لفظ خدا کے بطور اسم ذات کے مستعمل تھا،  جیسا کہ شعراء جاہلیت کے کلام سے ظاہر ہے۔ یعنی خدا کی تمام صفتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی تھیں۔ ی کسی خاص صفت کے لیے نہیں بولا جاتا تھا۔ قرآن نے بھی یہی لفظ بطور اسم ذات کے اختیار کیا ہے اور تمام صفتوں کو اس کی طرف نسبت دی۔

وللہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بھا (۷،  ۱۸۰)

اور اللہ کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں (یعنی صفتیں ہیں) پس چاہیے کہ اسے ان صفتوں کے ساتھ پکارا کرو!

قرآن نے یہ لفظ محض اس لیے اختیار کیا کہ لغت کی مطابقت کا مقتضی یہی تھا یا اس سے بھی زیادہ کوئی معنوی موزونیت اس میں پوشیدہ ہے ؟

جب ہم اس لفظ کی معنوی دلالت پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس غرض کے لیے سب سے موزوں لفظ یہی تھا۔

نوع انسانی کے دینی تصورات کا ایک قدیم عہد جو تاریخ کی روشنی میں آیا ہے مظاہر فطرت کی پرستش کا عہد ہے۔ اس پرستش نے بتدریج اصنام پرستی کی صورت اختیار کی۔ اصنام پرستی کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مختلف زبانوں میں بہت سے الفاظ دیوتاؤں کے لیے پیدا ہو گئے اور جوں جوں پرستش کی نوعیت میں وسعت ہوتی گئی،  الفاظ کا تنوع بھی بڑھتا گیا،  لیکن چونکہ یہ بات انسان کی فطرت کے خلاف تھی کہ ایک ایسی ہستی کے تصور سے خالی الذہن رہے جو سب سے اعلی اور سب کی پیدا کرنے والی ہستی ہے،  اس لیے دیوتاؤں کی پرستش کے ساتھ ایک سب سے بڑی اور سب پر حکمران ہستی کا تصور بھی کم و بیش ہمیشہ موجود رہا۔ اس لیے جہاں بے شمار الفاظ دیوتاؤں اور ان کی معبودانہ صفتوں کے لیے پیدا ہو گئے،  وہاں کوئی نہ کوئی لفظ ایسا بھی ضرور مستعمل رہا جس کے ذریعے اس ان دیکھی اور اعلی ترین ہستی کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔

چنانچہ سامی زبانوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف و اصوات کی ایک خاص ترکیب ہے جو معبودیت کے معنی میں مستعمل رہی ہے اور عبرانی،  سریانی،  آرامی،  کلدانی،  اجمیری،  عربی وغیرہ تمام زبانوں میں اس کا یہ لغوی خاصہ پایا جاتا ہے۔ یہ الف،  لام اور ھ کا مادہ ہے اور مختلف شکلوں میں مشتق ہوا ہے۔ کلدانی اور سریانی کا الاھیا عبرانی کا الوہ اور عربی کا الہ اسی سے ہے جو حرف تعریف کے اضافے کے بعد اللہ ہو گیا ہے اور تعریف نے اسے صرف خالق کائنات کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔

لیکن اگر اللہ الہ سے ہے تو الہ کے معنی کیا ہیں؟ علما لغت و اشقاق کے مختلف اقوال ہیں،  مگر سب سے زیادہ قوی قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل "آلہُ” ہے۔ اور "الہ” کے معنی تحیر اور درماندگی کے ہیں۔ بعض لوگوں نے اسے "ولہ” سے ماخوذ بتایا ہے اور اس کے معنی بھی یہی ہیں۔ پس خالق کائنات کے لیے یہ لفظ اس کے لیے اسم قرار پایا کہ اس بارے میں انسان جو کچھ جانتا اور جان سکتا ہے وہ عقل کے تحیر اور ادراک کی درماندگی کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ جس قدر بھی اس ذات مطلق کی ہستی میں غور و خوض کرے گا،  اس کی عقل کی حیرانی اور درماندگی بڑھتی ہی جائے گی،  یہاں تک کہ وہ معلوم کر لے گا کہ اس کی راہ کی ابتداء بھی عجز و حیرت سے ہوتی ہے اور انتہا بھی عجز و حیرت ہی ہے۔

ای برون از وہم و قال و قیل من

خاک بر فرق من و تمثیل من!

اب غور کرو! خدا کی ذات کے لیے انسان کی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں میں اس سے زیادہ موزوں لفظ اور کون سا ہو سکتا ہے ؟ اگر خدا کو اس کی صفتوں سے پکارنا ہے تو بلا شبہ اس کی صفتیں بے شمار ہیں،  لیکن اگر اس کی صفات سے الگ ہو کر اس کی ذات کی طرف اشارہ کرنا ہے تو وہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ ایک متحیر کر دینے والی ذات ہے اور جو کچھ اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے وہ عجز و درماندگی کے اعتراف کے سوا کچھ نہیں ہے۔ فرض کرو نوع انسانی نے اس وقت خدا کی ہستی یا خلقت کائنات کی اصلیت کے بارے میں جو کچھ سوچا اور سمجھا ہے،  وہ سب کچھ سامنے رکھ کر ہم ایک موزوں سے موزوں لفظ تجویز کرنا چاہیں تو وہ کیا ہو گا؟ اس سے زیادہ اور اس سے بہتر کوئی لفظ تجویز کیا جا سکتا ہے ؟

یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اس راہ میں عرفان و بصیرت کی بڑی سے بڑی بات کی گئی وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خود رفتگیوں کا اعتراف کیا گیا اور ادراک کا منتہی مرتبہ یہی قرار پایا کہ ادراک کی نارسائی کا ادراک حاصل ہو جائے۔ عرفاء کے دل و زبان کی صدا ہمیشہ یہی رہی۔ "رب زدنی فیک تحیرا” (۱۴) اور حکماء کی حکمت و دانش کا فیصلہ بھی یہی معلوم ہوا ہے کہ”معلوم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد”

چونکہ یہ اسم خدا کے لیے بطور اسم ذات کے استعمال میں آیا ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر ان تمام صفتوں پر حاوی ہو گیا جن کا خدا کی ذات کے لیے تصور کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم خدا کا تصور اس کی کسی صفت کے ساتھ کریں،  مثلاً "الرب” یا "الرحیم” کہیں تو یہ تصور صرف ایک خاص صفت ہی میں محدود ہو گا،  یعنی ہمارے ذہن میں ایک ایسی ہستی کا تصور پیدا ہو جائے گا جس میں ربوبیت یا رحمت ہے۔ لیکن جب ہم "اللہ” کا لفظ بولتے ہیں تو فوراً ہمارا ذہن ایک ایسی ہستی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو ان تمام صفات حسن و کمال سے متصف ہے جو اس کی نسبت بیان کیے گئے ہیں اور جو اس میں ہونے چاہییں۔

 

 

                   (۳) رب العلمین

 

ربوبیت

 

حمد کے بعد بالترتیب چار صفتیں بیان کی گئی ہیں۔۔

"رب العلمین”،  "الرحمن”،  "الرحیم”،  "ملک یوم الدین”

چونکہ الرحمن اور الرحیم کا تعلق ایک ہی صفت کے دو مختلف پہلوؤں سے ہے،  اس لئے دوسرے لفظوں میں انہیں یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ربوبیت،  رحمت،  عدالت تین صفتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

"الہ” کی طرح "رب” بھی سامی زبانوں کا ایک کثیر الاستعمال مادہ ہے۔ عبرانی،  سریانی اور عربی تینوں زبانوں میں اس کے معنی پالنے والے کے ہیں اور چونکہ پرورش کی ضرورت کا احساس انسانی زندگی کے بنیادی احساسات میں سے ہے،  اس لیے اسے بھی قدیم ترین سامی تعبیرات میں سے سمجھنا چاہیے۔ پھر چونکہ معلم،  استاد اور آقا کسی نہ کسی اعتبار سے پرورش کرنے والے ہی ہوتے ہیں،  اس لیے اس کا اطلاق ان معنوں میں بھی ہونے لگا ہے۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی کا "ربی” اور "رباہ” پرورش کنندہ،  معلم اور آقا تینوں معنی رکھتا تھا اور قدیم مصری اور خالدی زبان کا ایک لفظ "رابو” بھی انہیں معنوں میں مستعمل ہوا ہے اور ان ملکوں ی قدیم ترین سامی وحدت کی خبر دیتا ہے (۱۵)۔

بہرحال عربی میں "ربوبیت” کے معنی پالنے کے ہیں،  لیکن پالنے کو اس کے وسیع اور کامل معنوں میں لینا چاہیے۔ اسی لیے بعض ائمہ لغت نے اس کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے۔

"ھو انشاء الشی ء حالا فحالا الی حد التمام” (۱۷)

یعنی کسی چیز کو یکے بعد دیگرے اس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشوونما دیتے رہنا کہ اپنی حد کمال تک پہنچ جائے

اگر ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا محتاج کو روپیہ دے دے تو یہ اس کا کرم ہو گا،  جود ہو گا،  احسان ہو گا،  لیکن وہ بات نہ ہو گی جسے ربوبیت کہتے ہیں۔ ربوبیت کے لیے ضروری ہے کہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اس کی تکمیل و بلوغ کے لیے وقتاً فوقتاً جیسی کچھ ضرورتیں پیش آتی رہیں،  ان سب کا سر  و سامان ہوتا رہے۔ نیز ضروری ہے کہ یہ سب کچھ محبت و شفقت کے ساتھ ہو۔ کیونکہ جو عمل محبت و شفقت کے عاطفہ سے خالی ہو گا ربوبیت نہیں ہو سکتا۔

ربوبیت کا ایک ناقص نمونہ ہم اس پرورش میں دیکھ سکتے ہیں جس کا جوش ماں کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو محض گوشت پوست کا ایک متحرک لوتھڑا ہوتا ہے اور زندگی اور نمو کی جتنی قوتیں بھی رکھتا ہے سب کی سب پرورش و تربیت کی محتاج ہوتی ہیں۔ یہ پرورش،  محبت و شفقت،  حفاظت و نگہداشت اور بخشش و اعانت کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک بچہ اپنے جسم و ذہن کی حد بلوغ تک نہ پہنچ جائے۔ پھر پرورش کی ضرورتیں ایک دو نہیں،  بے شمار ہیں۔ ان کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ضروری ہے کہ ہر عمر اور ہر حالت کے مطابق محبت کا جوش،  نگرانی کی نگاہ اور زندگی کا سر و سامان ملتا رہے۔ حکمت الہ نے ماں کی محبت میں ربوبیت کے یہ تمام خدوخال پیدا کر دیے ہیں۔ یہ ماں کی ربوبیت ہے جو پیدائش کے دن سے لے کر بلوغ تک بچے کو پالتی،  بچاتی،  سنبھالتی اور ہر وقت اور ہر حالت کے مطابق اس کی ضروریات پرورش کا سر و سامان مہیا کرتی رہتی ہے۔

جب بچے کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذا کا متحمل نہ تھا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا تھا۔ جب دودھ سے زیادہ قوی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی۔ جب اس کے پاؤں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے اٹھائے پھرتی تھی۔ جب کھڑے ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑ لی اور ایک ایک قدم چلانے لگی۔ پس یہ بات کہ ہر حالت اور ضرورت کے مطابق ضروریات مہیا ہوتی رہیں اور نگرانی اور حفاظت کا ایک مستقل اہتمام رہا،  وہ صورتحال ہے جس سے ربوبیت کے مفہوم کا تصور کیا جا سکتا ہے۔

مجازی ربوبیت کی یہ ناقص اور محدود مثال سامنے لاؤ اور ربوبیت الہی کی غیر محدود حقیقت کا تصور کرو۔ اس کے "رب العالمین” ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ جس طرح اس کی خالقیت نے کائنات ہستی اور اس کی ہر چیز پیدا کی ہے،  اسی طرح اس کی ربوبیت نے ہر مخلوق کی پرورش کا سر و سامان بھی کر دیا ہے اور یہ پرورش کا سر و سامان ایک ایسے عجیب و غریب نظام کے ساتھ ہے کہ ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جو کچھ مطلوب تھا،  وہ سب کچھ مل رہا ہے اور اس طرح مل رہا ہے کہ ہر حالت کی رعایت ہے،  ہر ضرورت کا لحاظ ہے،  ہر تبدیلی کی نگرانی ہے اور ہر کمی بیشی ضبط میں آ چکی ہے۔ چیونٹی اپنے بل میں رینگ رہی ہے،  کیڑے مکوڑے کوڑے کرکٹ میں ملے ہوئے ہیں،  مچھلیاں دریا میں تیر رہی ہیں،  پرند ہوا میں اڑ رہے ہیں،  پھول باغ میں کھل رہے ہیں،  ہاتھی جنگل میں دوڑ رہا ہے اور ستارے فضا میں گردش کر رہے ہیں۔ لیکن فطرت کے پاس سب کے لیے یکساں طور پر پرورش کی گود اور نگرانی کی آنکھ ہے اور کوئی نہیں جو فیضان ربوبیت سے محروم ہو۔ اگر مثالوں کی جستجو میں تھوڑی سی کاوش جائز رکھی جائے تو مخلوقات کی بے شمار قسمیں ایسی ملیں گی جو اتنی حقیر اور بے مقدار ہیں کہ غیر مسلح (۱۷) سے ہم انہیں دیکھ بھی نہیں سکتے۔ تاہم ربوبیت الہی نے جس طرح اور جس نظام کے ساتھ ہاتھی جیسی جسیم اور انسان جیسی عقیل مخلوق کے لیے سامان پرورش مہیا کر دیا ہے،  ٹھیک اسی طرح اور ویسے ہی نظام کے ساتھ ان کے لیے بھی زندگی اور بقا کی ہر چیز مہیا کی ہے۔ اور پھر یہ جو کچھ بھی ہے انسان کے وجود سے باہر ہے۔ اگر انسان اپنے وجود کو دیکھے تو خود اس کی زندی اور زندگی کا ہر لمحہ ربوبیت الہی کی کرشمہ سازیوں کی ایک پوری کائنات ہے۔

وفی الارض ایت للمتقین۔وفی انفسکم افلا تبصرون (۵۱،  ۲۰-۲۱)

ان لوگوں کے لیے جو (سچائی پر) یقین رکھنے والے ہیں،  زمین میں (خدا کی کار فرمائیوں کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں۔ اور خود تمہارے وجود میں بھی،  پھر کیا تم دیکھتے نہیں؟

 

نظام ربوبیت

 

لیکن سامان زندگی کی بخشائش میں اور ربوبیت کے عمل میں جو فرق ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دنیا میں ایسے عناصر،  عناصر کی ایسی ترکیب اور اشیاء کی ایسی بناوٹ موجود ہے جو زندگی کی نشو و نما کے لیے سود مند ہے تو محض اس کی موجودگی ربوبیت سے تعبیر نہیں کی جا سکتی۔ ایسا ہونا قدرت الہی کی رحمت ہے،  بخشش ہے،  احسان ہے،  مگر وہ بات نہیں جسے ربوبیت کہتے ہیں۔ ربوبیت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں سود مند اشیاء کی موجودگی کے ساتھ ان کی بخشش و تقسیم کا بھی ایک نظام موجود ہے اور فطرت صرف بخشتی ہی نہیں،  بلکہ جو کچھ بخشتی ہے ایک مقررہ انتظام اور ایک منضبط ترتیب و مناسبت کے ساتھ بخشتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جس جس چیز کی ضرورت تھی اس جس جس وقت اور جیسی جیسی مقدار میں ضرورت تھی،  ٹھیک ٹھیک اسی طرح،  انہی وقتوں میں اور اسی مقدار میں اسے مل رہی ہے اور اس نظم و انضباط سے تمام کارخانہ حیات چل رہا ہے۔

 

پانی کی بخشش و تقسیم کا نظام

 

زندگی کے لیے پانی اور رطوبت کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کے وافر ذخیرے ہر طرف موجود ہیں لیکن صرف اتنا ہی ہوتا تو یہ زندگی کے لیے کافی نہ تھا۔ کیونکہ زندگی کے لیے صرف یہی ضروری نہیں کہ پانی موجود ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خاص انتظام،  ایک خاص ترتیب اور ایک خاص مقررہ مقدار کے ساتھ موجود ہو۔ پس یہ جو دنیا میں پانی کے بننے اور تقسیم ہونے کا ایک خاص نظام پایا جاتا ہے اور فطرت صرف پانی بناتی ہی نہیں،  بلکہ ایک خاص ترتیب و مناسبت کے ساتھ بناتی اور ایک خاص انداز کے ساتھ بانٹتی رہتی ہے۔ تو یہی ربوبیت ہے اور اسی سے ربوبیت کے تمام اعمال کا تصور کرنا چاہیے۔ قرآن کہتا ہے یہ اللہ کی رحمت ہے جس نے پانی جیسا جوہر حیات پیدا کر دیا،  لیکن یہ اس کی ربوبیت ہے جو پانی کو ایک ایک بوند کر کے ٹپکاتی،  زمین کے ایک ایک گوشے تک پہنچاتی،  ایک خاص مقدار اور حالت میں تقسیم کرتی،  ایک خاص موسم اور محل میں برساتی اور پھر زمین کے ایک ایک تشنہ ذرے کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سیراب کر دیتی ہے۔

وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکنہ فی الارض۔ وانا علی ذھاب بہ لقدرون۔ فانشانا لکم بہ جنت من نخیل واعناب لکم فیھا فواکہ کثیرہ و منہا تاکلون۔ (۳۳،  ۱۸-۱۹)

اور (دیکھو!) ہم نے آسمان سے ایک خاص اندازے کے ساتھ پانی برسایا،  پھر اسے زمین میں ٹھہرائے رکھا اور ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ (جس طرح برسایا تھا اس طرح) اسے واپس لے جائیں۔ پھر (دیکھو!) اسی پانی سے ہم نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کر دیے جن میں بے شمار پھل لگتے ہیں اور انہیں سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو۔

 

تقدیر اشیاء

 

یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جا بجا اشیاء کی قدر اور مقدار کا ذکر کیا ہے،  یعنی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فطرت کائنات جو کچھ بخشتی ہے ایک خاص اندازے کے ساتھ بخشتی ہے اور یہ اندازہ ایک خاص قانون کے ماتحت ٹھہرایا ہوا ہے۔

وان من شی ء ال عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقد معلوم (۱۵،  ۲۱)

اور کوئی شے نہیں جس کے ہمارے پاس ذخیرے موجود نہ ہوں (لیکن ہمارا طریق کار یہ ہے کہ) جو کچھ نازل کرتے ہیں،  ایک مقررہ مقدار میں نازل کرتے ہیں

وکل شی ء عندہ بمقدار (۱۳،  ۸)

اور اللہ کے نزدیک ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے

انا کل شی ء خلقنہ بقدر (۵۴،  ۴۹)

ہم نے جتنی چیزیں بھی پیدا کی ہیں ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی ہیں۔

یہ کیا بات ہے کہ دنیا میں صرف یہی نہیں ہے کہ پانی موجود ہے،  بلکہ ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ موجود ہے ؟ یہ کیوں ہے کہ پہلے سورج کی شعاعیں سمندر میں ڈول بھر بھر کے فضا میں پانی کی چادریں بچھا دیں،  پھر ہواؤں کے جھونکے انہیں حرکت میں لائیں اور پانی کی بوندیں بنا کر ایک خاص وقت اور خاص محل میں برسا دیں؟ پھر یہ کیوں ہے کہ جب کبھی پانی برسے تو ایک خاص ترتیب اور مقدار ہی سے برسے،  اور اس طرح برسے کہ زمین کی بالائی سطح پر اس کی خاص مقدار بہنے لگے اور اندرونی حصوں تک ایک خاص مقدار میں نمی پہنچے ؟ کیوں ایسا ہوا کہ پہلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کے تودے جمتے ہیں،  پھر موسم کی تبدیلی سے پگھلنے لگتے ہیں،  پھر ان کے پگھلنے سے پانی کے سر چشمے ابلنے لگتے ہیں،  پھر چشموں سے دریا کی جدولیں بہنے لگتی ہیں،  پھر یہ جدولیں پیچ و خم کھاتی ہوئی دور دور تک دوڑ جاتی ہیں اور سینکڑوں ہزاروں میلوں تک اپنی وادیاں شاداب کر دیتی ہیں؟

کیوں یہ سب کچھ ایسا ہوا ہے ؟ کیوں ایسا نہ ہوا کہ پانی موجود ہوتا مگر اس انتظام اور ترتیب کے ساتھ نہ ہوتا؟

قرآن کہتا ہے،   اس لیے کہ کائنات ہستی میں ربوبیت الہی کارفرما ہے اور ربوبیت کا مقتضی یہی تھا کہ پانی اسی ترتیب سے بنے اور اسی ترتیب و مقدار سے تقسیم ہو۔ یہ رحمت و حکمت تھی جس نے پانی پیدا کیا؟ مگر یہ ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہو گئیں۔

اللہ الذی یرسل الریح فتثر سحابا فیبسطہ فی السماء کیف یشاء و یجعلہ کسفا فتری الودق یخرج من خللہ فاذا اصاب بہ من عبادہ فاذا ھم یستبشرون (۳۰،  ۴۸)

یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ پہلے ہوائیں چلتی ہیں،  پھر ہوائیں بادلوں کو چھیڑ کر حرکت میں لاتی ہیں،  پھر وہ جس طرح چاہتا ہے،  انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں میں سے مینہ نکل رہا ہے۔ پھر جن لوگوں کو بارش کی یہ نعمت ملنی تھی،  مل چکتی ہے تو وہ اچانک خوش وقت ہو جاتے ہیں۔

 

عناصر حیات

 

پھر اس حقیقت پر بھی غور کرو کہ زندگی کے لیے جن چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی،  انہیں کی بخشائش سب سے زیادہ اور عام ہے اور جن کی ضرورت خاص خاص حالتوں اور گوشوں کے لیے تھی،  انہیں میں اختصاص اور مقامیت پائی جاتی ہے۔ ہوا سب سے زیادہ ضروری تھی،  کیونکہ پانی اور غذا کے بغیر کچھ تک زندگی ممکن ہے،  مگر ہوا کے بغیر ممکن نہیں۔ پس اس کا سامان اتنا وافر اور عام ہے کہ کوئی جگہ،  کوئی گوشہ،  کوئی وقت نہیں جو اس سے خالی ہو۔ فضا میں ہوا کا بے حد و کنار سمندر پھیلا ہوا ہے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں سانس لو،  زندگی کا یہ سب سے زیادہ ضروری جوہر تمہارے لیے خود بخود مہیا ہو جائے گا۔ ہوا کے بعد دوسرے درجے پر پانی ہے۔ و جلعنا من الماء کل شی ء خی (۲۱،  ۳۰) اس لیے اس کی بخشائش کی فراوانی و عمومیت ہوا سے کم مگر ہر چیز سے زیادہ ہے۔ زمین کے نیچے آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں۔ زمین کے اوپر بھی ہر طرف دریا رواں ہیں۔ پھر ان دونوں ذخیروں کے علاوہ فضائے آسمانی کا بھی کارخانہ ہے جو شب و روز سرگرم کار رہتا ہے۔ وہ سمندر کا شورابہ کھینچتا ہے،  اسے صاف و شیریں بنا کر جمع کرتا رہتا ہے،  پھر حسب ضرورت زمین کے حوالے کر دیتا ہے۔ پانی کے بعد غذا کی ضرورت تھی۔ غذا ہوا اور پانی سے کم،  مگر اور تمام چیزوں سے زیادہ اس کا دسترخوان کرم بھی خشکی اور تری میں بچھا ہوا ہے۔ اور کوئی مخلوق نہیں جس کے گرد و پیش اس کی غذا کا ذخیرہ موجود نہ ہو۔

 

نظام پرورش

 

پھر سامان پرورش کے اس عالم گیر نظام پر غور کرو جو اپنے ہر گوشہ عمل میں پروردگی کی گود اور بخشش حیات کا سر چشمہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کارخانہ صرف اسی لیے بنا ہے کہ زندگی بخشنے اور زندگی کی ہر استعداد کی رکھوالی کرے۔ سورج اس لیے ہے کہ روشنی کے لیے چراغ کا اور گرمی کے لیے تنور کا کام دے اور اپنی کرنوں کے ڈول بھر بھر کر سمند سے پانی کھینچتا رہے۔ ہوائیں اس لیے ہیں کہ اپنی سردی اور گرمی سے مطلوبہ اثرات پیدا کرتی رہیں اور کبھی پانی کے ذرات جما کر ابر کی چادریں بچھا دیں،  کبھی ابر کو پانی بنا کر بارش بنا دیں۔ زمین اس لیے ہے کہ نشوونما کے خزانوں سے ہمیشہ معمور رہے اور ہر دانے کے لیے اپنی گود میں زندگی اور ہر پودے کے لیے اپنے سینے میں پروردگی رکھے۔ مختصر یہ کہ کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ صرف اسی کام میں لگا ہوا ہے،  ہر قوت استعداد ڈھونڈھ رہی ہے اور ہر تاثیر اثر پذیری کے انتظار میں ہے۔ جونہی کسی وجود میں بڑھنے اور نشوونما پانے کی استعداد پیدا ہوتی ہے،  معاً تمام کارخانہ ہستی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ سورج کی تمام کارفرمائیاں،  فضا کے تمام تغیرات،  زمین کی تمام قوتیں،  عناصر کی تمام سرگرمیاں صرف اسی انتظار میں رہتی ہیں کہ کب چیونٹی کے انڈے سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور کب دہقان کی جھولی سے زمین پر ایک دانہ گرتا ہے۔

و سخر لکم ما فی الارض جمیعا منہ۔ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون (۴۵،  ۱۳)

اور آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے سب کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنےوالے ہیں،  اس بات میں (معرفت حقیقت کی) بڑی نشانیاں ہیں!

 

نظام ربوبیت کی وحدت

 

سب سے زیادہ عجیب مگر سب سے زیادہ نمایاں حقیقت ربوبیت کی یکسانیت اور ہم آہنگی ہے۔ یعنی ہر وجود کی پرورش کا سر و سامان جس طرح اور جس اسلوب پر کیا گیا ہے،  وہ ہر گوشے میں ایک ہی ہے اور ایک ہی اصل و قاعدہ رکھتا ہے۔ پتھر کا ایک ٹکڑا تمہیں گلاب کے شاداب اور عطر بیز پھول سے کتنا ہی مختلف دکھائی دے،  لیکن دونوں کی پرورش کے اصول و احوال پر نظر ڈالو تو صاف نظر آئے گا کہ دونوں کو ایک ہی طریقے سے سامان پرورش ملا ہے اور دونوں ایک ہی طرح سے پالے پوسے جا رہے ہیں۔ انسان کا بچہ اور درخت کا پودا تمہاری نظروں میں کتنی بے جوڑ چیزیں ہیں! لیکن اگر ان کی نشوونما کے طریقوں کا کھوج لگاؤ گے تو دیکھ لو گے کہ قانون پرورش کی یکسانیت نے دونوں کو ایک ہی رشتے میں منسلک کر دیا ہے۔ پتھر کی چٹان ہو یا پھول کی کلی،  انسان کا بچہ ہو یا چیونٹی کا انڈا،  سب کے لیے پیدائش ہے،  اور قبل اس سے کہ پیدائش ظہور میں آئے سامان پرورش مہیا ہو جاتا ہے،  پھر طفولیت کا دور ہے اور اس دور کی ضروریات ہیں۔ انسان کا بچہ بھی اپنی طفولیت رکھتا ہے،  درخت کے مولود نباتی کے لیے بھی طفولیت ہے،  اور تمہاری چشم ظاہر بیں کے لیے کتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو،  لیکن پتھر کی چٹان کا تودہ بھی اپنی اپنی طفولیت رکھتا ہے۔ پھر طفولیت رشد و بلوغ کی طرف بڑھتی ہے اور جوں جوں بڑھتی جاتی ہے،  اس کی روز افزوں حالت کے مطابق یکے بعد دیگرے سامان پرورش میں بھی تبدیلیاں ہوتی جاتی ہیں،  یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال کو پہنچ جاتا ہے اور جب سن کمال تک پہنچ گیا تو از سر نو ضعف و انحطاط کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ پھر اس ضعف و انحطاط کا خاتمہ بھی سب کے لیے ایک ہی طرح ہے۔ کسی دائرے میں اسے مر جانا کہتے ہیں،  کسی میں مرجھا جانا اور کسی میں پامال ہو جانا۔ الفاظ متعدد ہو گئے لیکن حقیقت میں تعدد نہیں ہوا۔

اللہ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا و شیبہ۔ یخلق ما یساء و ہو العلیم القدیر (۳۰،  ۵۴)

یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمہیں اس طرح پیدا کیا کہ پہلے ناتوانی کی حالت ہوتی ہے،  پھر ناتوانی کے بعد قوت آتی ہے،  پھر قوت کے بعد دوبارہ ناتوانی اور بڑھاپا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ علم اور قدرت رکھنے والا ہے۔

الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء فسلکہ ینابیع فی الارض ثم یخرج بہ زرعا مختلفا الوانہ ثم یھیج فترہ مصفرا ثم یجعلہ حطاما۔ ان فی ذلک لذکری الاولی الباب (۳۹،  ۲۱)

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا،  پھر زمین میں اس کے چشمے رواں ہو گئے،  پھر اسی پانی سے رنگ برنگ کی کھیتیاں لہلہا اٹھیں،  پھر ان کی نشوونما میں ترقی ہوئی اور پوری طرح پک کر تیار ہو گئیں۔ پھر (ترقی کے بعد زوال طاری ہوا اور) تم دیکھتے ہو کہ ان پر زردی چھا گئی،  پھر بالآخر خشک ہو کر چورا چورا ہو گئی بلاشبہ دانش مندوں کے لیے اس صورت میں بڑی ہی عبرت ہے!

جہاں تک غذا کا تعلق ہے،  حیوانات میں ایک قسم ان جانوروں کی ہے جن کے بچے دودھ سے پرورش پاتے ہیں اور ایک ان کی ہے جو عام غذا سے پرورش پاتے ہیں۔ غور کرو! نظام ربوبیت نے دونوں کی پرورش کے لیے کیسا عجیب سر و سامان مہیا کر دیا ہے۔دودھ سے پرورش پانے والے حیوانات میں انسان بھی داخل ہے۔ سب سے پہلے انسان اپنی ہی ہستی کا مطالعہ کرے۔ جوں ہی وہ پیدا ہوتا ہے،  اس کی غذا اپنی خاصیتوں،  مناسبتوں اور شرطوں کے ساتھ کے ساتھ خود بخود مہیا ہو جاتی ہے،  اور ایسی جگہ مہیا ہوتی ہے جو حالت طفولیت میں اس کے لیے سب سے قریب تر اور سب سے موزوں جگہ ہے۔ ماں بچے کو جوش محبت میں سینے سے لگا لیتی ہے اور وہیں اس کی غذا کا سر چشمہ بھی موجود ہوتا ہے۔ پھر دیکھو! اس غذا کی نوعیت اور مزاج میں اس کی حالت کا درجہ بدرجہ کس قدر لحاظ رکھا گیا ہے اور کس طرح یکے بعد دیگرے اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے ! ابتدا میں بچے کا معدہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اسے بہت ہی ہلکے قوام کا دودھ ملنا چاہیے۔ چنانچہ نہ صرف انسان میں بلکہ تمام حیوانات میں ماں کا دودھ بہت ہی پتلے قوام کا ہوتا ہے،  لیکن جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور معدہ قوی ہوتا جاتا ہے،  دودھ کا قوام بھی بدلتا جاتا ہے اور مائیت کے مقابلے میں دُہنیت بڑھتی جاتی ہے۔،  یہاں تک کہ بچے کا عہد رضاعت پورا ہو جاتا ہے اور اس کا معدہ عام غذاؤں کے ہضم کرنے کی استعداد پیدا کر لیتا ہے۔ جوں ہی اس کا وقت آتا ہے،  ماں کا دودھ خشک ہو جاتا ہے۔ گویا یہ ربوبیت الہی کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب اس کے لیے دودھ کی ضرورت نہیں رہی،  ہر طرح کی غذائیں استعمال کر سکتا ہے۔

وحملہ و فصلہ ثلثون شھرا (۴۷،  ۱۵)

اور حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت (کم از کم) تیس مہینوں کی ہے۔

پھر ربوبیت الہی کی اس کارسازی پر غور کرو کہ کس طرح ماں کی فطرت میں بچے کی محبت ودیعت کر دی گئی ہے اور کس طرح اس جذبے کو طبیعت بشری کے تمام جذبات میں سب سے زیادہ پر جوش اور سب سے زیادہ ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے ! دنیا کی کونسی قوت ہے جو اس جوش کا مقابلہ کر سکی ہے جسے ماں کی مامتا کہتے ہیں۔ جس بچے کی پیدائش اس کے لیے زندگی کی سب سے بڑی مصیبت تھی۔

حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا (۴۷،  ۱۵)

اس کی ماں نے اسے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا۔

اس کی محبت اس کے اندر زندگی کا سب سے بڑا جذبہ مشتعل کر دیتی ہے۔ جب تک بچہ سن بلوغ کو نہیں پہنچ جاتا،  وہ اپنے لیے نہیں بلکہ بچے کے لیے زندہ رہنا چاہتی ہے۔ زندگی کی کوئی خود فراموشی نہیں جو اس پر طاری نہ ہوتی ہو اور راحت و آسانی کی کوئی قربانی ایسی نہیں ہے جس سے اسے گریز ہو۔ حب ذات جو فطرت انسانی کا سب سے زیادہ طاقتور جذبہ اور جس کے انفعالات کے بغیر کوئی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی،  وہ بھی اس جذبہ خود فراموشی کے مقابلے میں مضمحل ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ بات کہ ایک ماں نے بچے کے مجنونانہ عشق میں اپنی زندگی قربان کر دی،  فطرت مادری کا ایسا معمولی واقعہ ہے جو ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور ہم اس میں کسی طرح کی غرابت محسوس نہیں کرتے۔

لیکن پھر دیکھو! کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی جاتی ہے،  محبت مادری کا یہ شعلہ خود بخود دھیما پڑتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب حیوانات میں تو یہ بالکل بجھ ہی جاتا ہے اور انسان میں بھی اس کی گرم جوشیاں باقی نہیں رہتیں۔ یہ انقلاب کیوں ہوتا ہے ؟ ایسا کیوں ہے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی محبت کا ایک عظیم جذبہ جنبش میں آ جائے اور پھر ایک خاص وقت تک قائم رہ کے خود بخود غائب ہو جائے ؟ اس لیے کہ یہ نظام ربوبیت کی کارفرمائی ہے اور اس کا مقتضی یہی تھا۔ ربوبیت چاہتی ہے کہ بچے کی پرورش ہو،  اس نے پرورش کا ذریعہ ماں کے جذبہ محبت میں رکھ دیا۔ جب بچے کی عمر اس حد تک پہنچ گئی کہ ماں کی پرورش کی احتیاج باقی نہ رہی تو اس ذریعے کی بھی ضرورت باقی نہ رہی۔ اب اس کا باقی رہنا ماں کے لیے بوجھ اور بچے کے لیے رکاوٹ ہوتا۔ پھر جوں جوں بچہ بڑھتا گیا،  احتیاج کم ہوتی گئی،  اس لیے محبت کی گرم جوشیاں بھی گھٹتی گئیں۔ فطرت نے محبت مادری کا دامن بچے کی احتیاج پرورش سے باندھ دیا۔ جب احتیاج زیادہ تھی تو محبت کی سرگرمی بھی زیادہ تھی،  جب احتیاج کم ہو گئی تو محبت بھی تغافل کرنے لگی (۱۸)

جن حیوانات کے بچے انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں،  ان کی جسمانی ساخت اور طبیعت دودھ والے حیوانات سے مختلف ہوتی ہے،  اس لیے وہ اول دن سے ہی معمولی غذائیں کھا سکتے ہیں،  بشرطیکہ کھلانے کے لیے کوئی شفیق نگرانی موجود ہو۔ چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ بچہ انڈے سے نکلتے ہی غذا ڈھونڈنے لگتا ہے اور ماں چن چن کے اس کے سامنے ڈالتی ہے اور منہ میں لے لے کر کھانے کی تلقین کرتی ہے یا ایسا کرتی ہے کہ خود کھا لیتی ہے مگر ہضم نہیں کرتی۔ اپنے اندر نرم اور ہلکا بنا کر محفوظ رکھتی ہے اور جب بچہ غذا کے لیے منہ کھولتا ہے تو اس کے اندر اتار دیتی ہے۔

 

ربوبیت معنوی

 

پھر اس سے بھی عجیب تر نظام ربوبیت کا معنوی پہلو ہے۔ خارج میں زندگی اور پرورش کا کتنا ہی سر و سامان کیا جاتا،  لیکن وہ کچھ مفید نہیں ہو سکتا تھا اگر ہر وجود کے اندر اس سے کام لینے کی ٹھیک ٹھیک استعداد نہ ہوتی اور اس کے ظاہری اور باطنی قوی اس کا ساتھ نہ دیتے۔ پس یہ ربوبیت ہی کا فیضان ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مخلوق کی ظاہری اور باطنی باطنی بناوٹ اس کی طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اس کی ہر وقت اس کے سامان پرورش کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے اور اس کی ہر چیز اس کے زندہ رہنے اور نشوونما پانے میں مدد دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کہ کوئی مخلوق اپنے جسم و قوی کی ایسی نوعیت رکھتی ہو جو اس کے حالات پرورش کے مقتضیات کے خلاف ہو۔ اس سلسلے میں جو حقائق مشاہدہ و تفکر سے نمایاں ہوتے ہیں ان میں دو باتیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں،  اس لیے جا بجا قران حکیم نے ان پر توجہ دلائی ہے۔ ایک کو وہ تقدیر سے تعبیر کرتا ہے،  دوسری کو ہدایت سے۔

 

تقدیر

 

تقدیر کے معنی اندازہ کر دینے کے ہیں،  یعنی کسی چیز کے لیے ایک خاص طرح کی حالت ٹھہرا دینے کے،  خواہ یہ ٹھہراؤ کمیت میں ہو یا کیفیت میں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت نے ہر وجود کی جسمانی ساخت اور معنوی قوی کے لیے ایک خاص طرح کا اندازہ ٹھہرا دیا ہے،  جس سے وہ باہر نہیں جا سکتا اور یہ اندازہ ایسا ہے جو اس کی زندگی اور نشوونما کے تمام احوال و ظروف سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہے۔

و خلق کل شئی فقدرہ تقدیرا (۲،   ۲۵)

اور اس نے تمام چیزیں پیدا کیں،  پھر ہر چیز کے لیے (اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق) ایک خاص اندازہ ٹھہرایا!

یہ کیا چیز ہے کہ ہر گرد و پیش میں اور اس کی پیداوار میں ہمیشہ مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ ایک ایسا قانون خلقت ہے جو کبھی متغیر نہیں ہو سکتا؟ یہ کیوں ہے کہ ہر مخلوق اپنی ظاہری و باطنی بناوٹ میں ویسی ہی ہوتی ہے جیسا اس کا گرد و پیش ہے اور ہر گرد و پیش ویسا ہی ہوتا ہے جیسی اس کی مخلوقات ہوتی ہیں؟ یہ اس حکیم و قدیر کی ٹھہرائی ہوئی تقدیر ہے اور اس نے ہر چیز کی خلقت و زندگی کے لیے ایسا ہی اندازہ مقرر کر دیا ہے۔ اس کا یہ قانون تقدیر صرف حیوانات و نباتات ہی کے لیے نہیں ہے،  بلکہ کائنات ہستی کی ہر چیز کے لیے ہے۔ ستاروں کا یہ پورا نظام گردش بھی اسی تقدیر کی حد بندیوں پر قائم ہے۔

والشمس تجری لمستقر لھا۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم (۳۷،  ۳۸)

اور (دیکھو) سورج کے لیے جو قرار گاہ ٹھہرا دی گئی ہے وہ اسی پر چلتا ہے اور یہ عزیز و علیم خدا کی اس کے لیے تقدیر ہے۔

مخلوقات اور اس کے گرد و پیش کی مطابقت کا یہی قانون ہے جس نے دونوں میں باہم دگر مناسبت پیدا کر دی ہے۔ اور ہر مخلوق اپنے چاروں طرف وہی پاتی ہے جس میں اس کے لیے پرورش اور نشوونما کا سامان ہوتا ہے۔ پرند کا جسم اڑنے والا ہے،   مچھلی کا تیرنے والا،  چار پایوں کا چلنے والا،  حشرات کا رینگنے والا،  اس لیے کہ ان میں ہر نوع کا گرد و پیش ویسے ہی جسم کے لیے موزوں ہے جیسا اسے ملا ہے اور اس لیے کہ ان میں سے ہر نوع کی جسمانی ساخت ویسا ہی گرد و پیش چاہتی ہے،  جیسا گردو پیش اسے حاصل ہے۔ دریا میں پرند پیدا نہیں ہوتا،  اس لیے کہ یہ گرد و پیش اس کے لیے مفید پرورش نہیں۔ خشکی میں مچھلیاں پیدا نہیں ہو سکتیں کیونکہ خشکی ان کے لیے موزوں نہیں۔ اگر فطرت کی اس تقدیر کے خلاف ایک خاص گرد و پیش کی مخلوق دوسرے قسم کے گرد و پیش میں چلی جاتی ہے تو یا وہاں زندہ نہیں رہتی یا رہتی ہے تو پھر بتدریج اس کی جسمانی ساخت اور طبیعت بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسی اس گرد و پیش میں ہونی چاہیے۔

پھر ان میں سے ہر نوع کے لیے مقامی موثرات کے مختلف گرد و  پیش ہیں اور ہر گرد و پیش کا یہی حال ہے۔ سرد آب و ہوا کی پیداوار،  سرد آب و ہوا کے لیے ہی ہے،  گرم کی گرم کے لیے۔ قطب شمالی کے قرب و جوار کا ریچھ خط استواء کے قرب میں نظر نہیں آ سکتا اور منطقہ حارہ کے جانور منطقہ باردہ میں معدوم ہیں۔

 

ہدایت

 

ہدایت کے معنی راہ دکھانے،  راہ پر لگا دینے،  رہنمائی کرنے کے ہیں اور اس کے مختلف مراتب اور اقسام ہیں۔ تفصیل آگے آئے گی۔یہاں صرف اس مرتبہ ہدایت کا ذکر کرنا ہے جو تمام مخلوقات پر ان کی پرورش کی راہیں کھولتا،  انہیں زندگی کی راہ پر لگاتا اور ضروریات زندگی کی طلب و حصول میں رہنمائی کرتا ہے۔ فطرت کی یہ ہدایت ربوبیت کی ہدایت ہے اور اگر ہدایت ربوبیت کی دستگیری نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ کوئی مخلوق بھی دنیا کے سامان حیات و پرورش سے فائدہ اٹھا سکتی اور زندگی کی سرگرمیاں ظہور میں آ سکتیں۔

لیکن ربوبیت الہی کی یہ ہدایت کیا ہے ؟ قرآن کہتا ہے یہ وجدان کا فطری الہام اور حواس و ادراک کی قدرتی استعداد ہے۔ وہ کہتا ہے یہ فطرت کی وہ رہنمائی ہے جو ہر مخلوق کے اندر پہلے وجدان کا الہام بن کر نمودار ہوتی ہے،  پھر حواس و ادراک کا چراغ روش کر دیتی ہے۔ یہ ہدایت کے مختلف مراتب میں سے وجدان اور ادراک کی ہدایت کے مراتب ہیں۔

 

ہدایت وجدان

 

وجدان کی ہدایت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی طبیعت میں کوئی ایسا اندرونی الہام موجود ہے جو اسے زندگی اور پرورش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ باہر کی رہنمائی اور تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ انسان کا بچہ ہو یا حیوان کا،  جونہی شکم مادر سے باہر آتا ہے خود بخود معلوم کر لیتا ہے کہ اس کی غذا ماں کے سینے میں ہے اور جب پستان منہ میں لیتا ہے تو جانتا ہے کہ اسے زور زور سے چوسنا چاہیے۔ بلی کے بچوں کو ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں،  ان کی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں،  لیکن ماں جوش محبت میں انہیں چاٹ رہی ہے،  وہ اس کے سینے پر منہ مار رہے ہیں۔ یہ بچہ جس نے عالم ہستی میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے،  جسے خارج کے مؤثرات نے ابھی چھوا تک نہیں کس طرح معلوم کر لیتا ہے کہ اسے پستان منہ میں لے لینا چاہیے اور اس کی غذا کا سرچشمہ یہیں ہے ؟ وہ کونسا فرشتہ ہے جو اس وقت اس کے کان میں پھونک دیتا ہے کہ اس ظرح اپنی غذا حاصل کر لے ؟ یقیناً وہ وجدانی ہدایت کا فرشتہ ہے اور یہی وجدانی ہدایت ہے جو قبل اس سے کہ حواس و ادراک کی روشنی نمودار ہو،  ہر مخلوق کو اس کی پرورش و زندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے۔

تمہارے گھر میں پلی ہوئی بلی ضرور ہو گی۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ بلی اپنی عمر میں پہلی مرتبہ حاملہ ہوئی ہے۔ اس حالت کا اسے کوئی پچھلا تجربہ حاصل نہیں تاہم اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتا دیتی ہے کہ تیاری و حفاظت کی سرگرمیاں شروع کر دینی چاہییں۔ جونہی وضع حمل کا وقت آتا ہے،  خود بخود اس کی توجہ ہر طرف سے ہٹ جاتی ہے اور کسی محفوظ گوشے کی جستجو شروع ہو جاتی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ مضطرب الحال بلی مکان کا ایک ایک کونا دیکھتی پھرتی ہے،  پھر وہ خود بخود ایک سب سے محفوظ اور علیحدہ گوشہ چھانٹ لیتی ہے اور وہاں بچہ دیتی ہے۔ پھر یکایک اس کے اندر بچے کی حفاظت کی طرف سے ایک مجہول خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یکے بعد دیگرے اپنی جگہ بدلتی رہتی ہے۔ غور کرو! یہ کونسی قوت ہے جو بلی کے اندر یہ خیال پیدا کر دیتی ہے کہ محفوظ جگہ تلاش کرے،  کیونکہ عنقریب ایسی جگہ کی ضرورت ہو گی؟ یہ کونسا الہام ہے جو اسے خبردار کر دیتا ہے کہ بلا بچوں کا دشمن اور ان کی بو سونگھتا پھرتا ہے اس لیے جگہ بدلتے رہنا چاہیے ؟ بلاشبہ یہ ربوبیت الہی کی وجدانی ہدایت ہے جس کا الہام ہر مخلوق کے اندر اپنی نمود رکھتا ہے اور جو ان پر زندگی اور پرورش کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔

 

ہدایت حواس

 

ہدایت کا دوسرا مرتبہ حواس اور مدرکات ذہنی کی ہدایت ہے اور وہ اس درجہ واضح و معلوم ہے کہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اس جوہر دماغ سے محروم ہیں جسے فکر و عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے،  تاہم فطرت نے انہیں احساس و ادراک کی وہ تمام قوتیں دے دی ہیں جن کی زندگی و معیشت کے لیے ضرورت تھی اور ان کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے،  کھانے پینے،  توالد و تناسل اور حفاظت و نگرانی کے تمام وظائف حس و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس و ادراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لیے ایک ہی جیسی نہیں ہے بلکہ ہر وجد کو اتنی ہی اور ویسی ہی استعداد دی گئی ہے جتنی اور جیسی استعداد اس کے احوال و ظروف کے لیے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوت شامہ نہایت دوررس ہوتی ہے،  اس لیے کہ اسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتی ہے۔ چیل اور عقاب کی نگاہ تیز ہوتی ہے کیونکہ اگر ان کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلندی میں اڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ نہ سکیں۔ یہ سوال بالکل غیر ضروری ہے کہ حیوانات کے حواس و ادراک کی یہ حالت اول دن سے تھی یا احوال و ظروف کی ضروریات اور قانون مطابقت کے مؤثرات سے بتدریج ظہور میں آئی۔ اس لیے کہ خواہ کوئی صورت ہو،  بہرحال فطرت کی بخشی ہوئی استعداد ہے اور نشو و ارتقاء کا قانون بھی فطرت ہی کا ٹھہرایا ہوا قانون ہے۔

چنانچہ یہی مرتبہ ہدایت جس کو قرآن نے ربوبیت الہی کی وحی سے تعبیر کیا ہے۔ عربی میں وحی کے معنی مخفی ایماء اور اشارے کے ہیں۔ یہ گویا فطرت کی وہ اندرونی سرگوشی ہے جو ہر مخلوق پر اس کی راہ عمل کھول دیتی ہے۔

واوحی ربک الی النحل ان التخذی من الجبال بیوتا و من الشجر و مما یعرشون  (۱۷،  ۷۸)

اور دیکھو! تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان۔۔ میں جو اس غرض سے بلند کی جاتی ہیں،  اپنے لیے چھتے بنائے۔

اور یہی وہ ربوبیت الہی کی ہدایت ہے جس کی طرف حضرت موسی (علیہ السلام) کی زبانی اشارہ کیا گیا ہے۔ فرعون نے جب پوچھا،

فمن ربکما یموسیٰ؟ تمہارا پروردگار کون ہے ؟

تو حضرت موسیٰ نے کہا،

ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی  (۲۰،  ۵۰)

ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی،  پھر اس پر (زندگی و معیشت کی) راہ کھول دی۔

اور پھر یہی وہ ہدایت ہے جسے دوسری جگہ "راہ عمل آسان کر دینے ” سے بھی تعبیر کیا گیا۔

من ای شئی خلقہ۔ من نطفۃ خلقہ فقدرہ ثم السبیل یسرہ (۸۰،  ۱۸-۲۰)

اس نے انسان کو کس چیز سے پیدا کیا؟ نطفہ سے پیدا کیا۔ پھر (اس کی تمام ظاہری اور باطنی قوتوں) کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا،  پھر اس پر (زندگی و عمل کی) راہ آسان کر دی۔

یہی "ثم السبیل یسرہ” یعنی "راہ عمل آسان کر دینا” وجدان و ادراک کی ہدایت ہے جو تقدیر کے بعد ہے،  کیونکہ اگر فطرت کی یہ رہنمائی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ہم اپنی ضروریات زندگی حاصل کر سکتے۔

آگے چل کر تمہیں معلوم ہو گا کہ قرآن نے تکوین وجود کے چار مرتبے بیان کیے ہیں،  ان میں سے تیسرا اور چوتھا مرتبہ یہی تقدیر اور ہدایت کا مرتبہ ہے۔ تخلیق،  تسویہ،  تقدیر،  ہدایت۔

الذی خلق فسوی۔ والذی قدر فہدی (۸۷،  ۲، ۳)

وہ پروردگار عالم جس نے پیدا کیا پھر اسے ٹھیک ٹھیک درست کر دیا اور جس نے ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا پھر اس پر راہ (عمل) کھول دی۔

 

براہین قرآنیہ کا مبدء استدلال

 

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی ہستی اور اس کی توحید و صفات پر جا بجا نظام ربوبیت ربوبیت سے استدلال کیا ہے اور یہ استدلال اس کے مہمات دلائل میں سے ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ اس کی تشریح کی جائے مناسب ہو گا کہ قرآن کے طریق استدلال کی بعض مبادیات واضح کر دی جائیں کیونکہ مختلف اسباب سے جن ی تشریح کا یہ موقع نہیں،  مطالب قرآنی کا یہ گوشہ سب سے زیادہ مہجور ہو گیا ہے اور ضرورت ہے کہ از سر نو حقیقت گم گشتہ کا سراغ لگایا جائے۔

 

دعوت تعقل

 

قرآن کے طریق استدلال کا اولین مبدء تعقل و تفکر کی دعوت ہے،  یعنی وہ جا بجا اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کے لیے حقیقت شناسی کی راہ یہی ہے کہ خدا کی دی ہوئی عقل و بصیرت سے کام لے اور اپنے وجد کے اندر اور اپنے وجود کے باہر جو کچھ بھی محسوس کر سکتا ہے اس میں تدبر و تفکر کرے۔ چنانچہ قرآن کی کوئی سورت اور سورت کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو تفکر و تعقل کی دعوت سے خالی ہو۔

وفی الارض ایت للموقنین۔ وفی انفسکم۔ افلا تبصرون (۵۱،   ۲۰-۲۱)

اور یقین رکھنے والوں کے لیے زمین میں بھی (معرفت حق کی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی،  پھر کیا تم دیکھتے نہیں۔

وہ کہتا ہے انسان کو عقل و بصیرت دی گئی ہے،  اس لیے وہ اس قوت کے ٹھیک ٹھیک استعمال نہ کرنے کے جوابدہ ہے۔

ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا (۱۷،  ۳۷)

یقیناً (انسان کا) سننا،  دیکھنا،  سوچنا،  سب اپنی اپنی جگہ جواب دہی رکھتے ہیں!

وہ کہتا ہے،   زمین کی ہر چیز میں،  آسمان کے ہر منظر میں،  زندگی کے ہر تغیر میں،  فکر انسانی کے لیے مغفرت حقیقت کی نشانیاں ہیں،  بشرطیکہ وہ غفلت و اغراض میں مبتلا نہ ہو جائے۔

وکاین من آیہ فی السموات والارض یمرون علیھا و ھم عنھا معرضون (۱۲،  ۱۰۵)

اور آسمان و زمین میں (معرفت حق کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں۔لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر!) لوگ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور نظر اٹھا کر دیکھتے تک نہیں!

 

تخلیق بالحق

 

اچھا! اگر انسان عقل و بصیرت سے کام لے اور کائنات خلقت میں تفکر کرے تو اس پر حقیقت شناسی کا کونسا دروازہ کھلے گا؟ وہ کہتا ہے،   سب سے پہلی حقیقت جو اس کے سامنے نمودار ہو گی وہ تخلیق بالحق کا عالم گیر اور بنیادی قانون ہے،  یعنی وہ دیکھے گا کہ کائنات خلقت اور اس کی ہر چیز کی بناوٹ کچھ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ ہر چیز ضبط و ترتیب کے ساتھ ایک خاص نظام و قانون میں منسلک ہے اور کوئی شے نہیں جو حکمت و مصلحت سے خالی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ تخلیق بالباطل ہو،  یعنی بغیر کسی معین اور ٹھہرائے ہوئے مقصد و نظم کے وجود میں آ گیا ہو۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس نظم،  اس یکسانیت،  اس وقت کے ساتھ اس کی ہر بات کسی نہ کسی حکمت و مصلحت کے ساتھ بندھی ہوتی (۱۹)۔

خلق اللہ السموات والارض بالحق۔ ان فی ذلک لایہ للمومنین (۲۹،  ۴۴)

اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے،  اور بلاشبہ اس بات میں ارباب ایمان کے لیے (معرفت حق کی) ایک بڑی ہی نشانی ہے !

"آل عمران” کی مشہور آیت میں ان ارباب دانش کی جو آسمان و زمین کی خلقت میں تفکر کرتے ہیں،  صداء حال یہ بتائی ہے،

ربنا ماخلقت ھذا باطلا (۳،  ۱۹)

اے ہمارے پروردگار! سب کچھ تو نے اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ محض ایک بے کار و عبث سا کام ہو!

دوسری جگہ "تخلیق بالباطل” کو تلعب سے تعبیر کیا ہے (۲۰)۔ "تلعب” یعنی کوئی کام کھیل کود کی طرح بغیر کسی معقول غرض و مدعا کے کرنا۔

وما خلقنا السموات والارض وما بینھما لعبین۔ ما خلقنھما الا بالحق ولکن اکثرھم لا یعلمون (۴۴،  ۳۸-۳۹)

ہم نے آسمانوں کو اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے،  محض کھیل اور تماشہ کرتے ہوئے نہیں پیدا کیا مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ۔ مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔

پھر جا بجا اس "تخلیق بالحق” کی تشریح کی ہے۔ مثلاً ایک مقام پر "تخلیق بالحق” کے اس پہلو پر توجہ دلائی ہے کہ کائنات کی ہر چیز افادہ و فیضان کے لیے ہے اور فطرت چاہتی ہے کہ جو کچھ بنائے،  اس طرح بنائے کہ اس میں وجود اور زندگی کے لیے نفع اور راحت ہو۔

خلق السموات والارض بالحق۔ یکور الیل علی النھار و یکور النھار علی الیل و سخر الشمس و القمر۔ کل یجری لاجل مسمی۔ الاھو العزیز الغفار (۳۹،  ۵)

اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس نے رات اور دن کے اختلاف اور ظہور کا ایسا انتظام کر دیا ہے کہ رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا آتا ہے۔ اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے مسخر کر رکھا ہے۔ سب (اپنی اپنی جگہ) اپنے مقررہ وقت تک کے لیے گردش کر رہے ہیں۔ (سنو! وہ غالب اور بخشنے والا ہے (۲۱)

ایک دوسرے موقع پر خصوصیت کے ساتھ اجرام سماویہ اکے افادہ و فیضان پر توجہ دلائی ہے اور اسے "تخلیق بالحق” سے تعبیر کیا ہے۔،

ہو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نوراً وقدرہ منازل لتعلموا عددالسنین والحساب ما خلق اللہ ذلک الا بالحق۔ یفصل الآیت لقوم یعلمون (۱۰۔۵)

وہ (کار فرمائے قدرت) جس نے سورج کو درخشندہ اور چاند کو روشن بنایا اور پھر چاند کی گردش کے لیے منزلیں ٹھیرا دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (اوقات کا حساب) معلوم کر لو۔ بلا شبہ اللہ نے یہ سب کچھ پیدا نہیں کیا مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ وہ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں،  (علم و معرفت کی) نشانیاں الگ الگ کر کے واضح کر دیتا ہے۔

ایک اور موقع پر فطرت کے جمال و رعنائی کی طرف اشارہ کیا ہے اور ‘تخلیق بالحق’ سے تعبیر کیا ہے،  یعنی فطرت کائنات میں تحسین و آرائش کا قانون کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے جو کچھ بنے،  ایسا بنے کہ اس میں حسن و جمال اور خوبی و کمال ہو:

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَ‌كُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَ‌كُمْ ۖ وَإِلَیْهِ الْمَصِیرُ‌ (۶۴:۳)

اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں تو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ بنائیں۔

اسی طرح وہ قانون مجازات پر (یعنی جزاء و سزا کے قانون پر) بھی اسی ‘تخلیق بالحق’ سے استشہاد کرتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ اور نتیجہ رکھتی ہے اور تمام خواص اور نتائج لازمی اور اٹل ہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال میں اچھے اور برے خواص اور نتائج نہ ہوں اور وہ قطعی اور اٹل نہ ہوں۔ جو قانون فطرت دنیا کی ہر چیز میں اچھے اور برے کا امتیاز رکھتا ہے،  کیا انسان کے اعمال میں اس امتیاز سے غافل ہو جائے گا؟

أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَ‌حُوا السَّیِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا یَحْكُمُونَ (۲۱) وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ (۲۲) (۴۵:۲۱-۲۲)

جو لوگ برائیاں کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں؟ یعنی دونوں برابر ہو جائیں،  زندگی میں بھی اور موت میں بھی؟ (اگر ان لوگوں کے فہم و دانش کا فیصلہ یہی ہے تو) کیا ہی برا ان کا فیصلہ ہے ! اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلا پالے اور اور ایسا نہیں ہو گا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو۔

ایک اور موقع پر فطرت کے جمال و زیبائی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے "تخلیق بالحق” سے تعبیر کیا ہے،  یعنی فطرت کائنات میں تحسین و آرائش کا قانون کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے جو کچھ بنے،  ایسا بنے کہ اس میں حسن و جمال و خوبی اور کمال ہو۔

خلق السموات والارض بالحق و صورکم فاحسن صورکم (۷۴،  ۳)

اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں تو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ بنائیں۔

اسی طرح وہ قانون مجازات پر (یعنی جزاء و سزا کے قانون پر) بھی اسی (تحقیق بالحق) سے استشہاد کرتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ اور نتیجہ رکھتی ہے اور تمام خواص اور نتائج لازمی اور اٹل ہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال میں بھی اچھے اور برے خواص اور نتائج نہ ہوں اور وہ قطعی اور اٹل نہ ہوں۔ جو قانون فطرت دنیا کی ہر چیز میں اچھے برے کا امتیاز رکھتا ہے،  کیا انسان کے اعمال میں اس امتیاز سے غافل ہو جائے گا؟

ام حسب الذین اجترحو السیات ان نجعلہم کالذین آمنو و عملو الصلحت سواء محیاھم و مماتھم۔ ساء ما یحکمون و خلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجزی کل نفس بما کسبت و ھم لایظلمون (۴۵،  ۲۱-۲۲)

جو لوگ برائیاں کرتے ہیں،  کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں،  یعنی دونوں برابر ہو جائیں زندگی میں بھی اور موت میں بھی۔ (اگر ان لوگوں کے فہم و دانش کا فیصلہ یہی ہے تو) کیا ہی برا ان کا فیصلہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلا پالے اور ایسا نہیں ہو گا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو۔

معاد،  یعنی مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اس سے جا بجا استشہاد کیا ہے۔ کائنات میں ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی رکھتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسانی وجود کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی ہو۔ یہی منتہی آخرت کی زندگی ہے،  کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کائنات ارضی کی یہ بہترین مخلوق صرف اس لیے پیدا کی گئی ہو کہ پیدا ہو اور چند دن جی کر فنا ہو جائے۔

اولم یتفکرو فی انفسہم ما خلق اللہ لسموت والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی وان کثیرا من الناس بلقاء ربھم لکفرون (۳۰،  ۸)کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے،  محض بے کار و عبث نہیں بنایا ہے۔ ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کے لیے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔

 

معاد

 

یعنی مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اس سے جا بجا استشہاد کیا ہے۔ کائنات مین ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی رکھتی ہے،  پس ضروری ہے کہ انسانی وجود کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی ہو۔ یہی منتہی آخرت کی زندگی ہے،  کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کائنات ارضی کہ یہ بہترین مخلوق صرف اس لیے پیدا کی گئی ہو کہ پیدا ہو اور چند دن جی کر فنا ہو جائے۔

کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے،  محض بے کار و عبث نہیں بنایا ہے۔ ضروری ہے حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کے لیے ایک مقررہ وقت ٹھیرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔

 

مبدء استدلال

 

غرض کہ قرآن کا مبدء استدلال یہ ہے کہ:

۱) اس کے نزول کے وقت دینداری اور خدا پرستی کے جس قدر عام تصورات موجود تھے وہ نہ صرف عقل کی آمیزش سے خالی تھے،  بلکہ بلکہ ان کی تمام تر بنیاد غیر عقلی عقائد پر آ کر ٹھیر گئی تھی۔ لیکن اس نے خدا پرستی کے لیے عقلی تصور پیدا کیا۔

۲) اس کی دعوت کی تمام بنیاد تعقل و تفکر پر ہے اور خصوصیت کے لے کائنات خلقت کے مطالعے و تفکر کی دعوت دیتا ہے۔

۳) وہ کہتا ہے : کائنات خلقت کے مطالعہ و تفکر سے انسان پر تخلیق بالحق کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے،  یعنی وہ دیکھتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی کوئی چیز نہیں جو کسی ٹھیرائے ہوئے مقصد اور مصلحت سے خالی ہو اور کسی بالاتر قانون خلقت کے ماتحت ظہور میں نہ آئی ہو۔ یاں جو بھی اپنا وجود رکھتی ہے ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ حکمتوں اور مصلحتوں کے عالم گیر سلسلے میں بندھی ہوئی ہے۔

۴) وہ کہتا ہے : جب انسان ان مقاصد و مصالح پر غور کرے گا تو عرفان حقیقت کی راہ خود بخود اس پر کھل جائے گی اور جہل و کوری کی گمراہیوں سے نجات پا جائے گا۔

 

برہان ربوبیت

 

چنانچہ اس سلسلہ میں اس نے مظاہر کائنات کے جن مقاصد و مصالح سے استدلال کیا ہے ان میں سب سے زیادہ عام استدلال "ربوبیت” کا استدلال ہے اور اسی لیے ہم اسے برہان ربوبیت سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے : کائنات کے تمام اعمال و مظاہر کا اس طرح واقع ہونا کہ ہر چیز پرورش کرنے والی اور ہر تاثیر زندگی بخشنے والی ہے اور پھر ایک ایسے نظام ربوبیت کا موجود ہونا جو ہر حالت کی رعایت کرتا اور ہر ہر طرح کی مناسبت ملحوظ رکھتا ہے،  ہر انسان کو وجدانی طور پر یقین دلا دیتا ہے کہ ایک پروردگار عالم ہستی موجود ہے اور ان تمام صفتوں سے متصف ہے جن کے بغیر نظام ربوبیت کا یہ کامل اور بے عیب کارخانہ وجود میں نہیں آ سکتا تھا۔

وہ کہتا ہے : کیا انسان کا وجدان یہ باور کر سکتا ہے کہ نظام ربوبیت کا یہ پورا کارخانہ خود بخود وجود میں آ جائے اور کوئی زندگی،  کوئی ارادہ،  کوئی حکمت اس کے اندر کارفرما نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی ہر چیز میں ایک بولتی ہوئی پروردگاری اور ایک ابھری ہوئی کارسازی موجود ہو،  مگر کوئی پروردگار،  کوئی کارساز موجود نہ ہو؟ پھر کیا یہ محض ایک اندھی بہری فطرت،  بے جان مادہ اور بے حس الیکٹرون (Electron) کے خواص ہیں جن سے پروردگاری و کارسازی کا یہ پورا کارخانہ ظہور میں آ گیا ہے اور عقل اور ارادہ رکھنے والی کوئی ہستی موجود نہیں! رحمت موجود ہے مگر کوئی رحیم نہیں! حکمت موجود ہے،  مگر کوئی حکیم موجود نہیں! سب کچھ موجود ہے،  مگر کوئی موجود نہیں! عمل بغیر کسی عامل ہے،  نظم بغیر کسی ناظم کے،  قیام بغیر کسی قیوم کے،  عمارت بغیر کسی معمار کے،  نقش بغیر کسی نقاش کے،  سب کچھ بغیر کسی موجود کے ! نہیں،  انسان کی فطرت کبھی یہ باور نہیں کر سکتی۔ اس کا وجدان پکارتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس کی فطرت اپنی بناوٹ میں ایک ایسا سانچہ لے کر آئی ہے جس میں یقین و ایمان ہی ڈھل سکتا ہے،  شک اور انکار کی اس میں سمائی نہیں!

قرآن کہتا ہے : یہ بات انسان کے وجدانی اذعان کے خلاف ہے کہ وہ نظام ربوبیت کا مطالعہ کرے اور ایک "رب العالمین” ہستی کا یقین اس کے اندر جاگ نہ اٹھے۔ وہ کہتا ہے : ایک انسان غفلت کی سرشاری اور سرکشی کے ہیجان میں ہر چیز سے انکار کر سکتا ہے،  لیکن اپنی فطرت سے انکار نہیں کر سکتا،  وہ ہر چیز کے خلاف جنگ کر سکتا ہے لیکن اپنی فطرت کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھا سکتا۔ وہ جب اپنے چاروں طرف زندگی اور پروردگاری کا ایک عالمگیر کارخانہ پھیلا ہوا دیکھتا ہے تو اس کی فطرت کی صدا کیا ہوتی ہے ؟اس کے دل کے ایک ایک ریشے میں کون سا اعتقاد سمایا ہوتا ہے ؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ ایک پروردگار ہستی موجود ہے اور یہ سب اسی کی کرشمہ سازیاں ہیں؟

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کا اسلوب بیان یہ نہی’ں ہے کہ نظری مقدمات اور ذہنی مسلمات کی شکلیں ترتیب دے پھر اس پر بحث و تقریر کر کے مخاطب کو رد و تسلیم پر مجبور کرے۔ اس کا تمام تر خطاب انسان کے فطری وجدان و ذوق سے ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے : خدا پرستی کا جذبہ انسانی فطرت کا خمیر ہے۔ اگر ایک انسان اس سے انکار کرنے لگتا ہے تو یہ اس کی غفلت ہے اور ضروری ہے کہ اسے غفلت سے چونکا دینے کے لیے دلیلیں پیش کی جائیں۔ لیکن یہ دلیل ایسی نہیں ہونی چاہیے جو محض ذہن و دماغ میں کاوش پیدا کر دے،  بلکہ ایسی ہونی چاہیے جو اس کے نہاں خانہ دل پر دستک دے دے اور اس کا فطری وجدان بیدار کر دے،  اگر اس کا وجدان بیدار ہو گیا تو پھر اثبات مدعا کے لیے بحث و تقریر کی ضرورت نہ ہو گی،  خود اس کا وجدان ہی اسے مدعا تک پہنچا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خود انسان کی فطرت ہی سے انسان پر حجت لاتا ہے :

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِیرَ‌ةٌ (۱۴) وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِیرَ‌هُ (۱۵)

بلکہ انسان کا وجود خود اس کے خلاف (یعنی اس کی کج اندیشیوں کے خلاف) حجت ہے،  اگرچہ وہ (اپنے وجدان کے خلاف) کتنے ہی عذر بہانے تراش لیا کرے۔

اور اسی لیے وہ جابجا فطرت انسانی کو مخاطب کرتا ہے اور اس کی گہرائیوں سے جواب طلب کرتا ہے :

قُلْ مَن یَرْ‌زُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ أَمَّن یَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَمَن یُخْرِ‌جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِ‌جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَن یُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ ۚ فَسَیَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (۳۱) فَذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَ‌بُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَ‌فُونَ (۳۲)

(اے پیغمبر ان سے ) کہو: وہ کون ہے جو آسمان (میں پھیلے ہوئے کارخانہ حیات) سے اور زمین (کی وسعت مین پیدا ہونے والے سامن رزق) سے تمہیں روزی بخش رہا ہے ؟ وہ کون ہے جس کے قبضہ میں تمہارا سننا اور دیکھنا ہے ؟ وہ کون ہے جو بے جان سے جان دار کو اور جان دار سے بے جان کو نکالتا ہے،  اور پھر وہ کون سی ہستی ہے جو یہ تمام کارخانہ خلقت اس نظم و نگرانی کے ساتھ چلا رہی ہے ؟ (اے پیغمبر!) یقیناً وہ (بے اختیار) بول اٹھیں گے : اللہ ہے،  (اس کے سوا کون ہو سکتا ہے ؟) اچھا تم ان سے کہو،   (جب تمہیں اس بات سے انکار نہیں تو) پھر یہ کیوں ہے کہ غفلت و سرکشی سے نہیں بچتے ؟ ہاں بے شک یہ اللہ ہی ہے جو تمہارا پروردگار  و برحق ہے اور جب حق ہے تو حق کے ظہور کے بعد اسے نہ ماننا گمراہی نہیں تو اور کیا ہے ؟

(افسوس تمہاری سمجھ پر!) تم (حقیقت سے منہ پھرائے ) کہاں جا رہے ہو؟

ایک اور موقعے پر فرمایا:

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَ‌هَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَعْدِلُونَ (۷۰) أَمَّن جَعَلَ الْأَرْ‌ضَ قَرَ‌ارً‌ا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارً‌ا وَجَعَلَ لَهَا رَ‌وَاسِیَ وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَ‌یْنِ حَاجِزًا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُ‌هُمْ لَا یَعْلَمُونَ (۷۱) أَمَّن یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ‌ إِذَا دَعَاهُ وَیَكْشِفُ السُّوءَ وَیَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْ‌ضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِیلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ (۷۲) أَمَّن یَهْدِیكُمْ فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ وَمَن یُرْ‌سِلُ الرِّ‌یَاحَ بُشْرً‌ا بَیْنَ یَدَیْ رَ‌حْمَتِهِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا یُشْرِ‌كُونَ (۷۳) أَمَّن یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ وَمَن یَرْ‌زُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْ‌هَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ (۷۴)

وہ کون ہے ؟ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے آسمانوں سے تمہارے لیے پانی برسایا پھر اس آب پاشی سے خوش نما باغ اگا دیے،  حالانکہ تمہارے بس کی یہ بات نہ تھی کہ ان باغوں کے درخت اگاتے۔ کیا ان کاموں کا کرنے والا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے ؟ (افسوس ان لوگوں کی سمجھ پر! حقیقت حال کتنی ہی ظاہر ہو) مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کا شیوہ ہی کج روی ہے۔ اچھا بتاؤ! اور کون ہے جس نے زمین کو (زندگی اور معیشت کا) ٹھکانا بنا دیا،  اس کے درمیان نہریں جاری کر دیں،  اس (کی درستگی ) کے لیے پہاڑ بلند کر دیے،  دو دریاؤں میں (یعنی دریا اور سمندر میں ایسی) دیوار حائل کر دی (کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محدود رہتے ہیں) کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے ؟ (افسوس! کتنی واضح بات ہے ) مگر ان لوگوں میں سے اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ اچھا بتلاؤ! وہ کون ہے جو بے قرار دلوں کی پکار سنتا ہے جب وہ (ہر طرف سے مایوس ہو کر) اسے پکارنے لگتے ہیں اور ان کا دکھ درد ٹال دیتا ہے،  اور وہ کہ اس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے ؟ (افسوس تمہاری غفلت پر!) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو! (اچھا بتاؤ) وہ کون ہے باران رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے ؟ (ہرگز نہیں) اللہ کی ذات اس ساجھے سے پاک و منزہ ہے جو یہ لوگ اس کی معبودیت میں ٹھیرا رہے ہیں۔ اچھا بتاؤ! وہ کون ہے جو مخلوقات کی پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے۔ اور وہ کون ہے جو آسمان و زمین کے کارخانہائے رزق سے تمہیں روزی دے رہا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے ؟ (اے پیغمبر!) ان سے کہو اگر تم (اپنے رویے میں) سچے ہو (اور انسانی عقل و بصیرت کی اس عالمگیر شہادت کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل ہے ) تو اپنی دلیل پیش کرو۔

ان سوالات میں سے ہر سوال اپنی جگہ ایک مستقل دلیل ہے،  کیونکہ ان میں سے ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب ہو سکتا ہے اور وہ فطرت انسانی کا عالمگیر اور مسلمہ اذعان ہے۔ ہمارے متکلموں کی نظر اس پہلو پر نہ تھی،  اس لیے قرآن کا اسلوب استدلال ان پر واضح نہ ہو سکا اور دور دراز گوشوں میں بھٹک گئے۔

بہرحال قرآن کے وہ بے شمار مقامات جن میں کائنات ہستی کے سر و سامان پرورش اور نظام ربوبیت کی کارسازیوں کا ذکر کیا گیا ہے،  دراصل اسی استدلال پر مبنی ہیں۔

فَلْیَنظُرِ‌ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ (۲۴) أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (۲۵) ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْ‌ضَ شَقًّا (۲۶) فَأَنبَتْنَا فِیهَا حَبًّا (۲۷) وَعِنَبًا وَقَضْبًا (۲۸) وَزَیْتُونًا وَنَخْلًا (۲۹) وَحَدَائِقَ غُلْبًا (۳۰) وَفَاكِهَةً وَأَبًّا (۳۱) مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ (۳۲)

انسان اپنی غذا پر نظر ڈالے (جو شب و روز اس کے استعمال میں آتی رہتی ہے )۔ ہم پہلے زمین پر پانی برساتے ہیں،  پھر اس کی سطح شق کر دیتے ہیں،  پھر اس کی روئیدگی سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کر دیتے ہیں۔ اناج کے دانے،  انگور کی بیلیں،  سبزی،  ترکاری،  زیتون کا تیل،  کھجور کے خوشے،  درختوں کے جھنڈ،  قسم قسم کے میوے،  طرح طرح کا چارہ،  (اور یہ سب کچھ کس کے لیے لیے ؟) تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے !

ان آیات میں "فلینظر الانسان” کے زور پر غور کرو،  انسان کتنا ہی غافل ہو جائے اور کتنا ہی اعراض کرے،  لیکن دلائل حقیقت کی وسعت اور ہمہ گیری کا یہ حال ہے کہ کسی حال میں بھی اس سے اوجھل نہیں ہو سکتیں۔ ایک انسان تمام دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کر لے،  لیکن بہرحال اپنی شب و روز کی غذا کی طرف سے تو آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ جو غذا اس کے سامنے پڑی ہے اسی پر نظر ڈالے۔ یہ کیا ہے ؟ گیہوں کا دانہ ہے۔ اچھا! گیہوں کا ایک دانہ اپنی ہتھیلی پر رکھ لو اور اس کی پیدائش سے لے کر اس کی پختگی اور تکمیل تک تمام احوال و ظروف پر غور کرو۔ کیا یہ حقیر سا ایک دانہ بھی وجود میں آ سکتا تھا اگر تمام کارخانہ ہستی ایک خاص نظام و ترتیب کے ساتھ اس کی بناوٹ میں سرگرم نہ رہتا؟ اور اگر دنیا میں ایک ایسا نظام ربوبیت موجود ہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو؟

سورہ نحل میں یہی استدلال ایک دوسرے پیرائے میں نمودار ہوا ہے :

وَإِنَّ لَكُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَ‌ةً ۖ نُّسْقِیكُم مِّمَّا فِی بُطُونِهِ مِن بَیْنِ فَرْ‌ثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِ‌بِینَ (۷۶) وَمِن ثَمَرَ‌اتِ النَّخِیلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرً‌ا وَرِ‌زْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (۷۷) وَأَوْحَىٰ رَ‌بُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِی مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ‌ وَمِمَّا یَعْرِ‌شُونَ (۷۸) ثُمَّ كُلِی مِن كُلِّ الثَّمَرَ‌اتِ فَاسْلُكِی سُبُلَ رَ‌بِّكِ ذُلُلًا ۚ یَخْرُ‌جُ مِن بُطُونِهَا شَرَ‌ابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِیهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِّقَوْمٍ یَتَفَكَّرُ‌ونَ (۷۹)

اور (دیکھو!) یہ چار پائے (جنہیں تم پالتے ہو) ان میں تمہارے لیے غور کرنے اور نتیجہ نکالنے کی کتنی عبرت ہے ! ان کے جسم سے ہم خون و کثافت کے درمیان دودھ پیدا کر دیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بے غل و غش مشروب ہوتا ہے۔ (اسی طرح) کھجور اور انگور کے پھل ہیں جن سے نشہ کا عرق اور اچھی غذا دونوں طرح کی چیزیں حاصل کرتے ہو۔ بلاشبہ اس بات میں ارباب عقل کے لیے (ربوبیت الٰہی کی) بڑی ہی نشانی ہے ! اور پھر دیکھو ! تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں میں جو اس غرض سے بلند کر دی جاتی ہیں،  اپنے لیے گھر بنائے،  پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے،  پھر اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقوں پر کامل فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہو (چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ) اس کے جسم سے مختلف رنگتوں کا رس نکلتا ہے جس میں انسان کے لیے شفا ہے۔ بلاشبہ اس بات میں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں (ربوبیت الہی کی عجائب آفرینیوں کی) بڑی ہی نشانی ہے !

جس طرح اس نے جا بجا خلقت سے استدلال کیا ہے ؟ یعنی دنیا میں ہر چیز مخلوق ہے،  اس لیے ضروری ہے کہ خالق بھی ہو،  اسی طرح وہ ربوبیت سے بھی استدلال کرتا ہے،  یعنی دنیا میں ہر چیز مربوب ہے،  اس لیے ضروری ہے کہ کوئی رب بھی ہو،  اور دنیا میں ربوبیت کامل اور بے داغ ہے،  اس لیے ضروری ہے کہ وہ رب کامل اور بے عیب ہو۔

زیادہ واضح لفظوں میں اسے یوں ادا کیا جا سکتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں ہر چیز ایسی ہے کہ اسے پرورش کی احتیاج ہے اور اسے پرورش مل رہی ہے،  پس ضروری ہے کہ کوئی پرورش کرنے والا بھی موجود ہو۔ یہ پرورش کرنے والا کون ہے ؟ یقیناً وہ نہیں ہو سکتا جو خود پروردہ اور محتاج پروردگاری ہو۔ قرآن میں جہاں کہیں اس طرح کے مخاطبات ہیں،  جیسا کہ سورہ واقعہ کی مندرجہ ذیل آیت میں ہے،  وہ اسی استدلال پر مبنی ہے :

أَفَرَ‌أَیْتُم مَّا تَحْرُ‌ثُونَ (۷۳) أَأَنتُمْ تَزْرَ‌عُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِ‌عُونَ (۷۴) لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ (۷۵) إِنَّا لَمُغْرَ‌مُونَ (۷۷) بَلْ نَحْنُ مَحْرُ‌ومُونَ (۷۷) أَفَرَ‌أَیْتُمُ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَ‌بُونَ (۷۸) أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ (۷۹) لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُ‌ونَ (۸۰) أَفَرَ‌أَیْتُمُ النَّارَ‌ الَّتِی تُورُ‌ونَ (۸۱) أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَ‌تَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ (۸۲) نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَ‌ةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِینَ (۸۳)

اچھا! تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ جو کچھ تم کاشت کاری کرتے ہو اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کر دیں اور تم صرف یہ کہنے کے لیے رہ جاؤ کہ افسوس! ہمیں تو اس نقصان کا تاوان ہی دینا پڑے گا بلکہ ہم تو اپنی محنت کے سارے فائدوں ہی سے محروم ہو گئے،  اچھا تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ پانی جو تمہارے پینے میں آتا ہے اسے کون برساتا ہے ؟ تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے (سمندر کے پانی کی طرح) کڑوا کر دیں۔ پھر کیا اسی نعمت کے لیے ضروری نہیں کہ تم  شکر گزار ہو؟ اچھا! تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو تو اس کے لیے لکڑی تم نے پیدا کی ہے یا ہم پیدا کر رہے ہیں؟ ہم نے اسے یادگار اور مسافروں کے لیے فائدہ بخش بنایا۔

 

نظامِ ربوبیت سے توحید پر استدلال

 

اسی طرح وہ نظامِ ربوبیت سے توحیدِ الٰہی پر استدلال کرتا ہے۔ جو رب العالمین تمام کائنات کی پرورش کر رہا ہے اور جس کی ربوبیت کا اعتراف تمہارے دل کے ایک ایک ریشے میں موجود ہے،  اس کے سوا کون اس کا مستحق ہو سکتا ہے کہ بندگی و نیاز کا سر اس کے آگے جھکایا جائے ؟

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُمْ وَالَّذِینَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۲۱)الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ(۲۲)(البقرۃ: ۲۱۔۲۲)

اے افرادِ نسلِ انسانی! اپنے پروردگار کی عبادت کرو،  اس پروردگار کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو بھی پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں،  اور اس لیے پیدا کیا تا کہ تم برائیوں سے بچو۔ وہ پروردگارِ عالم جس نے تمہارے لیے زمین فرش کی طرح بچھا دی اور آسمان چھت کی طرح بنایا اور آسمان سے پانی برسایا تاکہ تمہارے لیے رزق کا سامان ہو۔ پس (جب خالقیت اسی کی خالقیت ہے اور ربوبیت اسی کی ربوبیت تو) ایسا نہ کرو کہ کسی دوسری ذات کو اس کا ہم پلہ ٹھہراؤ،  اور تم اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو!

یا مثلاً سورۂ فاطر میں ہے :

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللَّهِ یَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖفَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ  (فاطر: ۳)

اے افرادِ نسلِ انسانی! اللہ نے اپنی جن نعمتوں سے تمہیں فیض یاب کیا ہے ان پر غور کرو! کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی خالق ہے جو تمہیں زمین اور آسمان کی بخشائشوں سے رزق دے رہا ہے ؟ نہیں،  کوئی معبود نہیں ہے،  مگر اسی کی ایک ذات! پھر تم (اس سے روگردانی کر کے ) کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟ (۲۴)

 

نظامِ ربوبیت سے وحی و رسالت کی ضرورت پر استدلال

 

اسی طرح وہ نظامِ ربوبیت کے اعمال سے انسانی سعادت و شقاوت کے معنوی قوانین اور وحی و رسالت کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ جس رب العالمین نے تمہاری پرورش کے لیے ربوبیت کا ایسا نظام قائم کر رکھا ہے،  کیا ممکن ہے کہ اس نے تمہاری روحانی فلاح و سعادت کے لیے کوئی قاعدہ مقرر نہ کیا ہو؟ جس طرح تمہارے جسم کی ضرورتیں ہیں اسی طرح تمہاری روح کی بھی ضرورتیں ہیں،  پھر کیونکر ممکن ہے کہ جسم کی نشوونما کے لیے تو اس کے پاس سب کچھ ہو،  لیکن روح کی نشوونما کے لیے اس کے پاس کوئی پروردگاری نہ ہو؟ اگر وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کے فیضان کا یہ حال ہے کہ ہر ذرہ کے لیے سیرابی اور ہر چیونٹی کے لیے کارسازی رکھتی ہے تو کیونکر باور کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی روحانی سعادت کے لیے اس کے پاس کوئی سرچشمگی نہ ہو؟ اس کی پروردگاری اجسام کی پرورش کے لیے آسمان سے پانی برسائے لیکن ارواح کی پرورش کے لیے ایک قطرۂ  فیض بھی نہ رکھے ؟ تم دیکھتے ہو کہ جب زمین شادابی سے محروم ہو کر مردہ ہو جاتی ہے تو یہ اس کا قانون ہے کہ بارانِ رحمت نمودار ہوتی ہے اور زندگی کی برکتوں سے زمین کے ایک ایک ذرے کو مالامال کر دیتی ہے۔ پھر کیا یہ ضروری نہیں کہ جب عالمِ انسانیت ہدایت و سعادت کی شادابیوں سے محروم ہو جائے تو اس کی بارانِ رحمت نمودار ہو کر ایک ایک روح کو پیامِ زندگی پہنچا دے ؟ روحانی سعادت کی بارش کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : وحیِ الٰہی ہے۔ تم اس منظر پر کبھی متعجب نہیں ہوتے کہ پانی برسا اور مردہ زمین زندہ ہو گئی۔ پھر اس بات پر کیوں چونک اٹھو کہ وحیِ الٰہی ظاہر ہوئی اور مردہ روحوں میں زندگی کی جنبش پیدا ہو گئی؟

حم   تَنزِیلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَكِیمِ    إِنَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِینَ    وَفِی خَلْقِكُمْ وَمَا یَبُثُّ مِن دَابَّةٍ آیَاتٌ لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ   وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْیَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ آیَاتٌ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ   تِلْكَ آیَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآیَاتِهِ یُؤْمِنُونَ  (الجاثیة: ۱-۶)

یہ اللہ کی طرف سے کتاب (ہدایت) نازل کی جاتی ہے جو عزیز اور حکیم ہے۔ بلاشبہ ایمان رکھنے والوں کے لیے آسمانوں اور زمین میں (معرفتِ حق کی) بے شمار نشانیاں ہیں۔ نیز تمہاری پیدائش میں اور ان چار پایوں میں جنہیں اس نے زمین میں پھیلا رکھا ہے،  اربابِ یقین کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے میں اور اس سرمایۂ  رزق میں جسے وہ آسمان سے برساتا ہے اور زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور ہواؤں کے رد و بدل میں،  اربابِ دانش کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ (اے پیغمبر!) یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو فی الحقیقت ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ پھر اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد کون سی بات رہ گئی جسے سن کر یہ لوگ ایمان لائیں گے ؟

سورۂ انعام میں ان لوگوں کا جو وحیِ الٰہی کے نزول پر متعجب ہوتے ہیں،  ان لفظوں میں ذکر کیا ہے :

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَیْءٍ ۗ (الانعام: ۹۱)

اور اللہ کے کاموں کی انہیں جو قدر شناسی کرنی تھی،  یقیناً انہوں نے نہیں کی،  جب انہوں نے یہ بات کہی کہ اللہ نے اپنے بندے پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔

پھر تورات اور قرآن کے نزول کے ذکر کے بعد حسبِ ذیل بیان شروع ہو جاتا ہے :

إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ ..یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ۔۔ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ   فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۔۔ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ وَهُوَ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (۹۷)(الانعام: ۹۵-۹۷)

یقیناً یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ وہ دانے اور گٹھلی کو شق کرتا ہے (اور اس میں سے ہر چیز کا درخت پیدا کر دیتا ہے )۔ وہ زندہ کو مردہ چیز سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ اشیاء سے نکالنے والا ہے۔ ہاں! وہی تمہارا خدا ہے،  پھر تم (اس سے روگردانی کر کے ) کدھر کو بہکے چلے جا رہے ہو؟ ہاں وہی (پردۂ  شب کو چاک کر کے ) صبح کی روشنی نمودار کرنے والا ہے۔ وہی ہے جس نے رات کو راحت و سکون کا ذریعہ بنا دیا اور وہی ہے کہ اس نے سورج اور چاند کی گردش اس درستگی کے ساتھ قائم کر دی کہ حساب کا معیار بن گئی۔ یہ اس عزیز و علیم کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔ اور (پھر دیکھو) وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے پیدا کر دیے تاکہ خشکی و تری کی تاریکیوں میں اس نے رہنمائی پاؤ۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں ہم نے دلیلیں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں!

یعنی جس پروردگارِ عالم کی ربوبیت و رحمت کا یہ تمام فیضان شب و روز دیکھ رہے ہو،  کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تمہاری جسمانی پرورش و ہدایت کے لیے تو یہ سب کچھ کرے،  لیکن تمہاری روحانی پرورش و ہدایت کے لیے اس کے پاس کوئی سر و سامان نہ ہو؟ وہ زمین کی موت کو زندگی سے بدل دیتا ہے۔ پھر کیا تمہاری روح کی موت کو زندگی سے نہیں بدل دے گا؟ وہ ستاروں کی روشن علامتوں سے خشکی و تری کی ظلمتوں میں رہنمائی کرتا ہے،  کیونکر ممکن ہے کہ تمہارے روحانی زندگی کی تاریکیوں میں راہنمائی کی کوئی روشنی نہ ہو؟ تم،  جو کبھی اس پر متعجب نہیں ہوتے کہ زمین پر کھیت لہلہا رہے ہیں اور آسمان میں تارے چمک رہے ہیں کیوں اس بات پر متعجب ہوتے ہو کہ خدا کی وحی نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے نازل ہو رہی ہے ؟ اگر تمہیں تعجب ہوتا ہے تو یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم نے خدا کو اس کی صفتوں میں اس طرح نہیں دیکھا ہے جس طرح دیکھنا چاہیے۔ تمہاری سمجھ میں یہ بات  تو آ  جاتی ہے کہ وہ ایک چیونٹی کی پرورش کے لیے یہ پورا کارخانۂ  حیات سرگرم رکھے،  مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے سلسلۂ  وحی و تنزیل قائم ہو!

 

نظامِ ربوبیت سے وجودِ معاد پر استدلال

 

اسی طرح وہ اعمالِ ربوبیت سے معاد اور آخرت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ جو چیز جتنی زیادہ نگرانی اور اہتمام سے بنائی جاتی ہے،  اتنی ہی زیادہ قیمتی استعمال اور اہم مقصد بھی رکھتی ہے،  اور بہتر صنّاع وہی ہے جو اپنی صنعت گری کا بہتر استعمال اور مقصد رکھتا ہو۔ پس انسان جو کرۂ  ارضی کی بہترین مخلوق اور اس کے تمام سلسلۂ  خلقت کا خلاصہ ہے اور جس کی جسمانی و معنوی نشو و  نما کے لیے فطری کائنات نے اس قدر اہتمام کیا ہے،  کیونکہ ممکن ہے کہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کے لیے ہی بنایا گیا ہو اور کوئی بہتر استعمال اور بلند تر مقصد نہ رکھتا ہو؟ اور پھر اگر خالقِ کائنات "رب” ہے اور کامل درجے کی ربوبیت رکھتا ہے تو کیونکر باور کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بہترین مربوب یعنی پروردہ ہستی کو محض اس لیے بنایا ہو کہ مہمل اور بے نتیجہ چھوڑ دے :

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ     فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِیمِ (المؤمنون:۱۱۵-۱۱۶)

کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بغیر کسی مقصد و نتیجہ کے پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹنے والے نہیں؟ اللہ،  جو اس کائنات ہستی کا حقیقی حکمران ہے،  اس سے بہت بلند ہے کہ ایک بے کار و عبث فعل کرے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ،  جو (جہاں داری کے ) عرش بزرگ کا پروردگار ہے۔

ہم نے یہ مطلب اسی سادہ طریقہ پر بیان کر دیا جو قرآن کے بیان و خطاب کا طریقہ ہے،  لیکن یہی مطلب علمی بحث و تقریر کے پیرائے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ "وجودِ انسانی کرۂ  ارضی کے سلسلۂ  خلقت کی آخری اور اعلیٰ ترین کڑی ہے اور اگر پیدائشِ حیات سے لے کر انسانی وجود کی تکمیل تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایک ناقابلِ شمار مدت کے مسلسل نشو و ارتقاء کی تاریخ ہو گی۔ گویا فطرت نے لاکھوں کروڑوں برس کی کار فرمائی و صناعی سے کرۂ  ارضی پر جو اعلیٰ ترین وجود تیار کیا ہے،  وہ انسان ہے !”

ماضی کے ایک نقطۂ  بعید کا تصور کرو! جب ہمارا یہ کرہ سروج کے ملتہب کرّے سے  الگ ہوا تھا،  نہیں معلوم کتنی مدت اس کے ٹھنڈے اور معتدل ہونے میں گزر گئی اور یہ اس قابل ہوا کہ زندگی کے عناصر اس میں نشو و نما پا سکیں! اس کے بعد وہ وقت آیا جب اس کی سطح پر نشو و نما کی سب سے پہلی داغ بیل پڑی اور پھر نہیں معلوم کتنی مدت بعد  زندگی کا وہ اولین بیج وجود میں آس کا جسے پروٹو پلازم (Protoplasm) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ! پھر حیاتِ عضوی کے نشو و نما کا دور شروع ہوا اور نہیں معلوم کتنی مدت گزر گئی کہ اس دور نے بسیط سے مرکب تک اور ادنیٰ سے اعلیٰ درجے تک ترقی کی منزلیں طے کیں! یہاں تک کہ حیوانات کی ابتدائی کڑیاں ظہور میں آئیں اور پھر لاکھوں برس اس میں نکل گئے کہ یہ سلسلۂ  ارتقاء وجودِ انسانی تک مرتفع ہوا! پھر انسان کے جسمانی ظہور کے بعد اس کی ذہنی ارتقاء کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک طویل مدت اس پر گزر گئی! بالآخر ہزاروں برس کے اجتماعی اور ذہنی ارتقاء کے بعد وہ انسان ظہور پذیر ہو سکا جو کرۂ  ارض کے تاریخی عہد کا متمدن اور عقیل انسان ہے !

گویا زمین کی پیدائش سے لے کر ترویج یافتہ انسان کی تکمیل تک جو کچھ گزر چکا ہے اور جو کچھ بنتا سنورتا رہا ہے،  وہ تمام تر انسان کی پیدائش و تکمیل ہی کی سرگزشت ہے !

سوال یہ ہے کہ جس وجود کی پیدائش کے لیے فطرت نے اس درجہ اہتمام کیا ہے،  کیا یہ سب کچھ صرف اس لیے تھا کہ وہ پیدا ہو،  کھائے پئیے اور مر کر فنا ہو جائے ؟

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِیمِ  (المؤمنون:۱۱۵-۱۱۶)

اللہ،  جو اس کائنات ہستی کا حقیقی حکمران ہے،  اس سے بہت بلند ہے کہ ایک بے کار و عبث فعل کرے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ،  جو (جہاں داری کے ) عرش بزرگ کا پروردگار ہے۔

قدرتی طور پر یہاں ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر وجودِ حیوانی اپنے ماضی میں ہمیشہ یکے بعد دیگرے متغیر ہوتا اور ترقی کرتا رہا ہے تو مستقبل میں بھی یہ تغیر و ارتقاء کیوں جاری نہ رہے ؟ اگر اس بات پر ہمیں بالکل تعجب نہیں ہوتا کہ ماضی میں بے شمار صورتیں مٹیں اور نئی زندگیاں ظہور میں آئیں تو اس بات ہو کیوں تعجب ہو کہ موجودہ زندگی کا مٹنا بھی بالکل مٹ جانا نہیں ہے،  اس کے بعد ایک اعلیٰ صورت اور زندگی ہے ؟

أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن یُتْرَكَ سُدًى        أَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِیٍّ یُمْنَىٰ     ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ (۳۳۸)

کیا انسان خیال کرتا ہے کہ  وہ مہمل چھوڑ دیا جائے گا ( اور اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہو گی؟) کیا اس پر یہ حالت نہیں گزر چکی ہے کہ پیدائش سے پہلے نطفہ تھا،  پھر نطفہ سے علقہ ہوا (یعنی جونک کی سی شکل ہو گئی) پھر وہ علقہ سے (اس کا ڈیل ڈول) پیدا کیا گیا،  پھر ( اس ڈیل ڈول کو) ٹھیک ٹھیک درست کیا گیا!

سورۂ  ذاریات میں تمام تر "دین” یعنی جزا کا بیان ہے :

إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ      وَإِنَّ الدِّینَ لَوَاقِعٌ   (الذاریات: ۵، ۶)

اور پھر اس اعمالِ ربوبیت سے یعنی ہواؤں کے چلنے اور پانی برسنے کے مؤثرات سے استشہاد کیا گیا ہے :

وَالذَّارِیَاتِ ذَرْوًا    فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا     فَالْجَارِیَاتِ یُسْرًا(۳) فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا  (الذاریات: ۱-۴)

پھر آسمان اور زمین کی بخشائشوں پر اور خود وجودِ انسانی کی اندرونی شہادتوں پر توجہ دلائی ہے :

وَفِی الْأَرْضِ آیَاتٌ لِّلْمُوقِنِینَ     وَفِی أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (۲۱) وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ   (الذاریات: ۲۰-۲۲)

اس کے بعد فرمایا:

فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ   (الذاریات:۲۳)

آسمان اور زمین کے رب کی قسم (یعنی آسمان و زمین کے پروردگار کی پروردگاری شہادت دے رہی ہے ) کہ بلاشبہ وہ معاملہ (یعنی جزا و سزا کا معاملہ) حق ہے،  ٹھیک اسی طرح جس طرح یہ بات کہ تم گویائی رکھتے ہو۔

اس آیت میں اثباتِ جزاء کے لیے خدا نے خود اپنے وجود کی قسم کھائی ہے،  لیکن "رب” کے لفظ سے اپنے آپ کو تعبیر کیا ہے۔ عربی میں قسم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بات پر کسی بات سے شہادت لائی جائے۔ یہ شہادت کیا ہے ؟ وہی ربوبیت کی شہادت ہے۔ اگر دنیا میں پرورش موجود ہے اور پروردہ موجود ہے،  اور اس لیے پروردگار بھی موجود تو ممکن نہیں کہ جزا کا معاملہ بھی موجود نہ ہو  اور وہ بغیر کسی نتیجہ کے انسان کو چھوڑ دے۔ چونکہ لوگوں کی نظر اس حقیقت  پر نہ تھی،  اس لیے  اس آیت میں قسم اور مقسم بہ کا ربط صحیح طور متعین نہ کر سکے۔

قرآنِ حکیم کے دلائل و براہین پر غور کرتے ہوئے،  یہ اصل ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اس کے استدلال کا طریقہ منطقی بحث و تقریر کا طریقہ نہیں ہے جس کے لیے چند در چند مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اثباتِ مدعا کی شکلیں ترتیب دینی پڑتی ہیں،  بلکہ وہ ہمیشہ براہِ راست تلقین کا قدرتی اور سیدھا سادا طریقہ اختیار کرتا ہے،  عموماً اس کے دلائل اس کے اسلوبِ بیان و خطاب میں مضمر ہوتے ہیں۔ وہ یا تو کسی مطلب کے لیے اسلوبِ خطاب ایسا اختیار کرتا ہے کہ اسی سے استدلال کی روشنی نمودار ہو جاتی ہے یا پھر کسی مطلب پر زور دیتے ہوئے کوئی ایک لفظ ایسا بول جاتا ہے کہ اس کی تعبیر میں اس کی دلیل بھی موجود پوتی ہے اور خودبخود مخاطب کا ذہن دلیل کی طرف پھر جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایک واضح مثال یہی صفتِ ربوبیت کا جا بجا استعمال ہے۔ جب وہ خدا کی ہستی کا ذکر کرتا ہوا اسے "رب” کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے تو یہ بات کہ وہ "رب” ہے،  جس طرح اس کی ایک صفت ظاہر کرتی ہے،  اسی طرح اس کی دلیل بھی واضح کر دیتی ہے کہ وہ "رب” ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ اس کی ربوبیت تمہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے اور خود تمہارے دل کے اندر گھر بنائے ہوئے ہے،  پھر کیونکر تم جرأت کر سکتے ہو کہ اس کی ہستی سے انکار کرو! وہ رب ہے اور رب کے سوا کون ہو سکتا ہے جو تمہارے بندگی و نیاز کا مستحق ہو؟

چنانچہ قرآن کے وہ تمام مقامات جہاں اس طرح کے مخاطبات ہیں کہ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ،  اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّی وَرَبَّكُمْ،  إِنَّ اللَّهَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ،  إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ،  أَتُحَاجُّونَنَا فِی اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وغیرہ تو انہیں مجرد امر و خطاب نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ خطاب و دلیل دونوں ہیں۔ کیونکہ "رب” کے لفظ نے برہانِ ربوبیت کی طرف خودبخود رہنمائی کر دی ہے۔ افسوس ہے ! ہمارے مفسروں کی نظر  اس حقیقت پر نہ تھی،  کیونکہ منطقی استدلال کے استغراق نے انہیں قرآن کے طریقِ استدلال سے بے پروا کر دیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان مقامات کے ترجمہ و تفسیر میں قرآن کے اسلوبِ بیان کی حقیقی روح واضح نہ ہو سکی اور استدلال کا پہلو طرح طرح کی توجیہات میں گم ہو گیا۔

 

 

 

 

                   اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‫ۙ

 

"الرَّحمٰن” اور "الرَّحیم” دونوں رحم سے ہیں۔ عربی میں "رحمت” عواطف کی ایسی رقت و نرمی کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری ہستی کے لیے احسان و شفقت کا ارادہ جوش میں آ جائے۔ پس رحمت میں محبت،  شفقت،  فضل،  احسان سب کا مفہوم داخل ہے اور مجرد محبت،  لطف اور فضل سے زیادہ وسیع اور حاوی ہے۔

اگرچہ یہ دونوں اسم رحمت سے ہیں،  لیکن رحمت کے لیے دو مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔ عربی میں فعلان کا باب عموماً ایسے صفات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محض صفاتِ عارضہ ہوتے ہیں (۲۵)     جیسے پیاسے کے لیے عطشان،  غضبناک کے لیے غضبان،  سراسیمہ کے لیے حیران،  مست کے لیے سکران۔ لیکن فعیل کے وزن میں صفاتِ قائمہ کا خلاصہ ہے،  یعنی عموماً ایسے صفات کے لیے بولا جاتا ہے جو جذبات و عوارض ہونے کی جگہ صفاتِ قائمہ ہوتے ہیں۔ (۲۶)     مثلاً کریم کرم کرنے والا،  عظیم بڑائی رکھنے والا،  علیم علم رکھنے والا۔ حکم حکمت رکھنے والا،  پس "الرحمٰن” کے معنیٰ یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں رحمت ہے اور "الرحیم” کے معنیٰ یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں نہ صرف رحمت ہے بلکہ جس سے ہمیشہ رحمت کا ظہور ہوتا رہتا ہے اور ہر آن و ہر لمحہ کائنات خلقت اس سے فیض یاب ہو رہی ہے۔

رحمت کو دو الگ الگ اسموں سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ اس لیے کہ قرآن خدا کے تصور کا جو نقشہ ذہن نشین کرنا چاہتا ہے،  اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور چھائی ہوئی صفت رحمت ہی کی صفت ہے،  بلکہ کہنا چاہیے تمام تر رحمت ہی ہے :

وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ ۚ (الأعراف:۱۵۶)

اور میری رحمت دنیا کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔

پس یہ ضروری تھا کہ خصوصیت کے ساتھ اس کی صفتی اور فعلی دونوں حیثیتیں واضح کر دی جائیں،  یعنی اس میں رحمت ہے،  کیونکہ وہ "الرحمٰن” ہے اور صرف اتنا ہی نہیں،  بلکہ ہمیشہ اس سے رحمت کا ظہور بھی ہو رہا ہے کیونکہ "الرحمٰن” کے ساتھ وہ "الرحیم” بھی ہے۔

لیکن اللہ کی رحمت کیا ہے ؟ قرآن کہتا ہے : کائناتِ ہستی میں جو کچھ بھی خوبی و کمال ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمتِ الٰہی کا ظہور ہے۔

جب ہم کائناتِ ہستی کے اعمال و مظاہر پر غور کرتے ہیں تو سب سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہے وہ اس کا نظامِ ربوبیت ہے،  کیونکہ فطرت سے ہماری پہلی شناسائی ربوبیت ہی کے ذریعے ہوتی ہے،  لیکن جب علم و ادراک کی راہ میں چند قدم آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ربوبیت سے بھی ایک زیادہ وسیع اور عام حقیقت یہاں کارفرما ہے،  اور خود ربوبیت بھی اسی کے فیضان کا ایک گوشہ ہے۔

ربوبیت اور اس کا نظام کیا ہے ؟ کائناتِ ہستی کی پرورش ہے۔ لیکن کائناتِ ہستی میں صرف پرورش ہی نہیں ہے،  پرورش سے بھی ایک زیادہ بنانے،  سنوارنے،  اور فائدہ پہنچانے کی حقیقت کام کر رہی ہے۔ ہم سیکھتے ہیں کہ اس کی فطرت میں بناؤ ہے،  اس کے بناؤ میں خوبی ہے،  اس کے مزاج میں اعتدال ہے،  اس کی صداؤں میں نغمہ ہے،  اس کی بو میں عطر بیزی ہے اور ایسی کوئی بات نہیں جو اس کے کارخانے کی تعمیر و درستگی کے لیے مفید نہ ہو۔ پس یہ حقیقت جو اپنے بناؤ اور فیضان میں ربوبیت سے بھی زیادہ وسیع اور عام ہے،  قرآن کہتا ہے کہ رحمت ہے اور خالقِ کائنات کی رحمانیت اور رحیمیت کا ظہور ہے۔

 

تعمیر و تحسینِ کائنات رحمتِ الٰہی کا نتیجہ ہے

 

زندگی اور حرکت کا یہ عالمگیر کارخانہ وجود ہی میں نہ آتا،  اگر اپنے ہر فعل میں بننے بنانے،  سنورنے  سنوارنے اور ہر طرح بہتر و اصلح ہونے کا خاصہ نہ رکھتا۔ فطرتِ کائنات میں یہ خاصہ کیوں ہے ؟ اس لیے کہ بناؤ ہو بگاڑ نہ ہو،  درستگی ہو برہمی نہ ہو،  لیکن کیوں ایسا ہوا کہ فطرت بنائے اور سنوارے،  بگاڑے اور الجھائے نہیں؟ یہ کیا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے،  درست اور بہتر ہی ہوتا ہے،  خراب اور بدتر نہیں ہوتا؟ انسان کے علم و دانش کی کاوشیں آج تک یہ عقدہ حل نہ کر سکیں! فلسفہ و نظر جب بھی اس حد تک پہنچا،  دم بخود ہو کر رہ گیا۔

لیکن قرآن کہتا ہے یہ اس لئے ہے کہ فطرت کائنات میں رحمت ہے اور رحمت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ خوبی اور درستگی ہو،  بگاڑ اور خرابی نہ ہو۔

انسان کے علم و دانش کی کاوشیں بتلاتی ہیں کہ کائنات ہستی کا یہ بناؤ اور سنوار عناصر اولیہ کی ترکیب اور ترکیب کے اعتدال و تسویہ کا نتیجہ ہے۔ مادۂ عالم کی کمیت میں بھی اعتدال ہے،  کیفیت میں بھی اعتدال ہے۔ یہی اعتدال ہے جس سے سب کچھ بنتا ہے اور جو کچھ بنتا ہ،  خوبی اور کمال کے ساتھ بنتا ہے۔ یہی اعتدال و تناسب دنیا کے تمام تعمیری اور ایجابی حقائق کی اصل ہے۔ وجود،  زندگی،  تندرستی،  حس،  خوشبو،  نغمہ۔۔۔ بناؤ اور خوبی کے بہت سے نام ہیں،  مگر حقیقت ایک ہی ہے اور وہ اعتدال ہے۔

لیکن فطرت کائنات میں یہ اعتدال و تناسب کیوں ہے ؟ کیوں ایسا ہے کہ عناصر کے دقائق جب ملیں اعتدال و تناسب کے ساتھ ملیں اور مادہ کا خاصہ یہی ٹھہرا کہ اعتدال و تناسب ہو،  انحراف اور تجاوز نہ ہو؟ انسان کا علم دم بخود اور متحیر ہے،  لیکن قرآن کہتا ہے : یہ اس لئے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اس لیے کہ اس کی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے،  اور جس میں رحمت ہو اور اس کی رحمت طہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہو گا،  اس میں خوبی و بہتری ہی ہو گی،  حسن و جمال ہی ہو گا،  اعتدال و تناسب ہی ہو گا،  اس کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ تعمیر و تحسین فطرت کائنات کا خاصہ ہے۔ خاصۂ تحسین چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے خوبی و کمال کے ساتھ بنے،  اور یہ دونوں خاصے "قانون ضرورت” کا نتیجہ ہیں۔ کائنات ہستی کے ظہور و تکمیل کے لیے ضرورت تھی کہ تعمیر ہو اور ضرورت تھی کہ جو کچھ تعمیر ہو حسن و خوبی کے ساتھ تعمیر ہو۔ یہی "ضرورت” بجائے خود ایک علت ہو گئی اور اس لیے فطرت سے جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن اس تعلیل سے بھی تو یہ عقدہ حل نہیں ہوا،  سوال جس منزل میں تھا اس سے صرف ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ تم کہتے ہو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس لیے ہے کہ "ضرورت” کا قانون موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ "ضرورت” کا قانون کیوں موجود ہے ؟ کیوں یہ ضروری ہوا کہ جو کچھ ظہور میں آئے "ضرورت” کے مطابق ہو اور "ضرورت”  اسی بات کی متقاضی ہوئی کہ خوبی اور درستگی ہو،  بگاڑ اور برہمی نہ ہو؟ انسانی علم کی کاوشیں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ ایک مشہور فلسفی کے لفظوں میں "جس جگہ سے یہ کیوں شروع ہو جائے سمجھ جاؤ کہ فلسفی کے غور و خوض کی سرحد ختم ہو گئی” لیکن قرآن اسی سوال کا جواب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے : یہ "ضرورت” رحمت اور فضل کی "ضرورت” ہے رحمت چاہتی ہے کہ جو کچھ ظہور میں آئے بہتر ہو اور نافع ہو اور اس لیے جو کچھ ظہور میں آتا ہے بہتر ہوتا ہے اور نافع ہوتا ہے !

پھر یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ دنیا میں زندگی اور بقاء کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے،  جمال و زیبائش ان سے ایک زائد تر فیضان ہے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمال و زیبائش بھی یہاں موجود ہے،  پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کچھ قانون ضرورت ہی کا نتیجہ ہے۔ ضرورت،  زندگی اور بقاء کا سر و سامان چاہتی ہے،  لیکن زندہ اور باقی رہنے کے لیے جمال زیبائش کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر جمال و زیبائش بھی یہاں موجود ہے تو یقیناً یہ فطرت کا ایک مزید لطف و احسان ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے فطرت صرف زندگی ہی نہیں بخشتی،  بلکہ زندگی کو حسین و لطیف بھی بنانا چاہتی ہے۔ پس یہ محض زندگی کی ضرورت کا قانون نہیں ہو سکتا۔ یہ اس "ضرورت” سے بھی کوئی بالاتر "ضرورت” ہے جو چاہتی ہے کہ مرحمت اور فیضان ہو۔ قرآن کہتا ہے : یہ رحمت کی "ضرورت” ہے۔ اور رحمت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ وہ سب کچھ ظہور میں آئے جو رحمت سے ظہور میں آنا چاہئیے :

قُل لِّمَن مَّا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ط(۱۲:۷)

(اے پیغمبر! ان لوگوں سے ) پوچھو۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے،  وہ کس کے لیے ہے ؟ (اے پیغمبر!) کہہ دے : اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے لیے ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ رحمت ہو۔

وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ ۚ (۱۵۶:۷)

اور میری رحمت دنیا کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔

 

افادہ و فیضان فطرت

 

اس سلسلہ میں سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہے،  وہ کائنات ہستی اور اس کی تمام اشیاء کا افادہ و فیضان ہے۔ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت کے تمام کاموں میں کامل نظم و یکسانیت کے ساتھ مفید اور بکار آمد ہونے کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ اور اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کار گاہ عالم صرف اسی لیے بنا ہے کہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہماری حاجت روائیوں کو ذریعہ ہو:

وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعاً مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ (۱۳:۴۵)

اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے،  وہ سب اللہ نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے (یعنی ان کی قوتیں اور تاثیریں اس طرح تمہارے تصرف میں دے دی گئی ہیں کہ جس طرح چاہو ان سے کام لے سکتے ہو)

بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں،  اس بات میں (معرفت حق کی) بہترین نشانیاں ہیں۔(۱۸)

ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ہستی میں جو کچھ بھی موجود ہے اور جو کچھ ظہور میں آتا ہے،  اس میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ رکھتی ہے اور ہر حادثہ کی کوئی نہ کوئی تاثیر ہے۔ اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمام خواص مؤثرات کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ ہر خاصہ ہماری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کرتا اور ہر تاثیر ہمارے لیے کوئی نہ کوئی فیضان رکھتی ہے۔ سورج،  چاند،  ستارے،  ہوا،  بارش،  دریا،  سمندر،  پہاڑ۔ سب کے خواص و فوائد ہیں اور سب ہمارے لیے طرح طرح کی روحتوں اور آسائشوں کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں:

اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ  ۔  وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ  ۔ وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ    (۳۲-۳۴: ۱۴)

یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا،  پھر اس کی تاثیر سے طرح طرح کے پھل تمہاری غذا کے لیے پیدا کر دیئے اسی طرح اس نے یہ بات ٹھہرا دی کہ سمندر میں جہاز تمہارے زیر فرمان رہتے ہیں اور حکم الٰہی سے چلتے رہتے ہیں اور اسی طرح دریا بھی تمہاری کار برآریوں کے لیے مسخر کر دیئے گئے۔ اور (پھر اتنا ہی نہیں بلکہ غور کرو تو) سورج اور چاند بھی تمہارے لیے مسخر کر دیئے گئے ہیں کہ ایک خاص ڈھنگ پر گردش میں ہیں اور رات اور دن کا اختلاف بھی (تمہارے فائدہ ہی کے لیے ) مسخر ہے۔ غرض یہ کہ جو کچھ تمہیں مطلوب تھا،  وہ سب کچھ اس نے عطا کر دیا،  اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ ہر گز شمار نہ کر سکو گے۔ بلاشبہ انسان بڑا ہی ناانصاف،  بڑا ہی ناشکرا ہے !

زمین کو دیکھو! اس کی سطح پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی ہے،  تہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں،  گہرائی سے سونا نکل رہا ہے،  وہ اپنی جسامت میں اگرچہ مدور ہے،  لیکن اس کا ہر حصہ اس طرح واقع ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے ایک مسطح فرش بچھا دیا گیا ہے۔

لَّذِی جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً وَجَعَلَ لَكُمْ فِیهَا سُبُلاً لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۱۰) (۱۰:۴۳)

وہ پروردگار جس نے تمہارے لیے زمین اس طرح بنا دی کہ فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے اور اس میں قطع مسافت کی (ہموار) راہیں پیدا کر دیں تا کہ تم راہ پاؤ۔(۲۹)

وَهُوَ الَّذِی مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ وَأَنْهَاراً ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ۖ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ   ۔  وَفِی الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِی الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (۴(۳-۴: ۱۳)

اور یہ اسی پروردگار کی پروردگاری ہے کہ اس نے زمین (تمہاری سکونت کیلئے ) پھیلا دی ہے اور اس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے اور نہریں بہا دیں،  نیز ہر طرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں پیدا کر دیں۔ (اور پھر یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ رات اور دن یکے بعد دیگر آتے رہتے ہیں اور) رات کی تاریکی دن کو ڈھانپ لیتی ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کیلئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اس میں (معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں! اور (پھر دیکھو!) زمین کی سطح اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس میں ایک دوسرے سے قریب (آبادی کے ) قطعات بن گئے اور انگوروں کے باغ،  غلہ کی کھیتیاں،  کھجوروں کے جھنڈ پیدا ہو گئے۔ ان درختوں میں بعض زیادہ ٹہنیوں والے ہیں،  بعض اکہرے۔ اور اگرچہ سب کو ایک ہی طرح کے پانی سے سینچا جاتا ہے،  لیکن پھل ایک طرح کے نہیں،  ہم نے بعض درختوں کو بعض درختوں پر پھلوں کے مزے میں برتری دے دی۔ بلاشبہ ارباب دانش کے لیے اس میں (معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔

وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِی الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیهَا مَعَایِشَ ۗ قَلِیلاً مَّا تَشْكُرُونَ (۱۰) (۱۰:۷)

اور (دیکھو!) ہم نے زمین میں تمہیں طاقت و تصرف کے ساتھ جگہ دی اور زندگی کے تمام سامان پیدا کر دیے (مگر افسوس!) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم (نعمت الٰہی) شکرگزار ہو!

سمندر کی طرف نظر اٹھاؤ! اس کی سطح پر جہاز تیر رہے ہیں،  تہہ میں مچھلیاں اچھل رہی ہیں،  قعر میں مرجان اور موتی نشوونما پا رہے ہیں:

وَهُوَ الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْماً طَرِیّاً وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ   (۱۴:۱۶)

اور (دیکھو!) یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے سمندر تمہارے لیے مسخر کر دیا تاکہ اپنی غذا کے لیے تر و تازہ گوشت حاصل کرو اور زیور کی چیزیں نکالو جنہیں (خوش نمائی کے لیے ) پہنتے ہو۔ نیز تم دیکھتے ہو کہ جہاز سمندر میں موجیں چیرتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ اور سیر و سیاحت کے ذریعہ اللہ کا فضل تلاش کرو تاکہ اس کی نعمت کے شکرگزار ہو!

حیوانات کو دیکھو! زمین کے چارپائے،  فضا کے پرند،  پانی کی مچھلیاں،  سب اسی لیے ہیں کہ اپنے اپنے وجود سے ہمیں فائدہ پہنچائیں،  غذا کے لیے ان کا دودھ اور گوشت،  سواری کے لیے ان کی پیٹھ،  حفاظت کے لیے ان کی پاسبانی،  پہننے کے لیے ان کی کھال اور اون،  برتنے کے لیے ان کے جسم کی ہڈیاں تک مفید ہیں :

خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِیمٌ مُّبِینٌ    ۔  وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِیهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ   ۔ وَلَكُمْ فِیهَا جَمَالٌ حِینَ تُرِ‌یحُونَ وَحِینَ تَسْرَ‌حُونَ   ۔  وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِیهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَ‌بَّكُمْ لَرَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِیمٌ  ۔  وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ‌ لِتَرْ‌كَبُوهَا وَزِینَةً ۚ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ   (سورة النحل، ۱۶: ۵ تا ۸)

"اور چارپائے پیدا کر دیے ہیں جن میں تمہارے لیے جاڑے کا سامان اور طرح طرح کے منافع ہیں،  اور ان سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ جب ان کے غول شام کو چر کر واپس آتے ہیں تو جب چراگاہوں کے لیے نکلتے ہیں تو (دیکھو!) ان کے منظر میں تمہارے لیے خوش نمائی رکھ دی ہے۔ اور انہیں میں وہ جانور بھی ہیں جو تمہارا بوجھ اٹھا کر ان (دور دراز) شہروں تک پہنچا دیتے ہیں جہاں تک تم بغیر سخت مشقت کے نہیں پہنچا سکتے تھے۔ بلاشبہ تمہارا پروردگار بڑا ہی شفقت رکھنے والا اور صاحب رحمت ہے۔ اور (دیکھو!) گھوڑے،  خچر،  گدھے پیدا کیے گئے تاکہ تم ان سے سواری کا کام لو اور خوش نمائی کا بھی موجب ہوں۔ وہ اسی طرح (طرح طرح کی چیزیں) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔”

وَإِنَّ لَكُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسْقِیكُم مِّمَّا فِی بُطُونِهِ مِن بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَناً خَالِصاً سَآئِغاً لِّلشَّارِبِینَ۔ (۶۶:۱۶)

اور چار پایوں کے وجود میں تمہارے لیے (فہم و بصیرت کی) بڑی ہی عبرت ہے۔ انہیں جانوروں کے جسم میں سے ہم خون اور کثافتوں کے درمیان پاک و صاف دودھ پیدا کر دیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بے غل و غش مشروب ہوتا ہے۔

وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُیُوتِكُمْ سَكَناً وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُیُوتاً تَسْتَخِفُّونَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَیَوْمَ إِقَامَتِكُمْ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثاً وَمَتَاعاً إِلَى حِینٍ۔ (۸۰:۱۶)

اور (دیکھو!) اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکونت کی جگہ بنایا،  اور (جو لوگ شہروں میں نہیں بستے،  ان کے لیے ایسا سامان کر دیا کہ) چار پایوں کی کھال کے خیمے بنا دیئے۔ سفر اور اقامت،  دونوں حالتوں میں انہیں ہلکا پاتے ہو۔ اسی طرح جانوروں کی اون،  روؤں اور بالوں سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کر دیں جن سے ایک خاص وقت تک تمہیں فائدہ پہنچتا ہے !

ایک انسان کتنی ہی محدود اور غیر متمدن زندگی رکھتا ہو،  لیکن اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو سکتا کہ اس کا گردو پیش اسے فائدہ پہنچا رہا ہے،  ایک لکڑہارا بھی اپنے جھونپڑے میں بیٹھا ہوا نظر اٹھاتا ہے تو گو اپنے احساس کے لیے بہتر تعبیر نہ پائے لیکن یہ حقیقت ضرور محسوس کر لیتا ہے،  جو جب بیمار ہوتا ہے تو جنگل کی جڑی بوٹیاں کھا لیتا ہے،  دھوپ تیز ہوتی ہے تو درختوں کے سایے میں بیٹھ جاتا ہے،  بیکار ہوتا ہے تو پتوں کی سرسبزی اور پھولوں کی خوش نمائی سے آنکھیں سینکنے لگتا ہے۔ پھر یہی درخت ہیں جو اپنی شادابی میں اسے پھل بخشتے ہیں،  پختگی میں لکڑی کے بخشے بن جاتے ہیں،  کہنگی میں آگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں۔ ایک ہی مخلوق نباتی ہے جو اپنے منظر سے نزہت و سرور بخشتی ہے،  اپنی بو سے ہوا کو معطر کرتی ہے،  اپنے پھل میں طرح کی غذائیں رکھتی ہے،  اپنی لکڑی سے سامان تعمیر مہیا کرتی ہے اور پھر خشک ہو جاتی ہے تو اس کے جلانے سے آگ بھڑکتی،  چولھے گرم کرتی،  موسم کو معتدل بناتی اور اپنی حرارت سے بے شمار اشیاء کے پکنے،  پگھلنے اور تپنے کا ذریعہ بنتی ہے :

الذی جعل لكم من الشجر الاخضر نارا فاذا انتم منه توقدون۔ (۸۰:۳۶)

(اور دیکھو!) وہ کار فرمائے قدرت جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کر دی،  اب تم اسی سے (اپنے چولہوں کی) آگ سلگا لیتے ہو!

اور پھر یہ وہ فوائد ہیں جو تمہیں اپنی جگہ محسوس ہو رہے ہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ فطرت نے یہ تمام چیزیں کن کن کاموں اور کن کن مصلحتوں کے لیے پیدا کی ہیں اور کار فرمائے عالم کار گاہ ہستی کے بنانے اور سنوارنے کے لیے ان سے کیا کیا کام نہیں لے رہا ہے ؟

وما یعلم جنود ربك الا هو (۳۱:۷۴)

اور تمہارا پروردگار )اس کارزار ہستی کی کارفرمائیوں کے لئے ) جو فوجیں رکھتا ہے،  ان کا حال اس کے سوا کون جانتا ہے ؟

کائنات ہستی کے افادہ و فیضان کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ بیک وقت ہر مخلوق کو یکساں طور پر نفع پہنچاتا اور ہر مخلوق کی یکساں طور پر رعایت ملحوظ رکھتا ہے۔ اگر ایک انسان اپنے عالی شان محل میں بیٹھ کر محسوس کرتا ہے کہ تمام کارخانہ ہستی صرف اسی کی کار برآریوں کے لیے ہے تو ٹھیک اسی طرح ایک چیونٹی بھی اپنے بل میں کہہ سکتی ہے کہ فطرت کی ساری کارفرمائیاں صرف اسی کی کار برآریوں کے لیے ہیں اور کون ہے جو اسے جھٹلانے کی جرات کر سکتا ہے ؟ کیا فی الحقیقت سورج اس لیے نہیں ہے کہ اس کے لیے حرارت بہم پہنچائے ؟ کیا بارش اس لیے نہیں ہے کہ اس کے لئے رطوبت مہیا کرے ؟ کیا ہوا اس لیے نہیں ہے کہ اس کی نک تک شکر کی بو پہنچا دے ؟ کیا زمین اس لیے نہیں ہے کہ ہر موسم اور ہر حالت کے مطابق اس کے لیے مقام و منزل بنے ؟ دراصل فطرت کی بخشائیوں کا قانون کچھ ایسا عام اور ہمہ گیر واقع ہوا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی طریقہ سے،  ایک ہی نظام کے ماتحت،  ہر مخلوق کی نگہ داشت کرتا اور ہر مخلوق کو یکساں طور پر فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے،  حتیٰ کہ ہر وجود اپنی جگہ محسوس کر سکتا ہے کہ یہ پورا کارخانہ عالم صرف اسی کی کام جوئیوں اور آسائشوں کے لیے سرگرم کار ہے :

وما من دابة فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه الا امم امثالكم (۳۸:۷)

اور زمین کے تمام جانور اور (پروار) بازوؤں سے اڑنے والے تمام پرند دراصل تمہاری ہی طرح امتیں ہیں۔

کائنات کی تخریب بھی تعمیر کے لیے ہے :

البتہ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا عالم کون و فساد ہے،  یہاں ہر بننے کے ساتھ بگڑنا ہے اور سمٹنے کے ساتھ بکھرنا لیکن جس طرح سنگ تراش کو توڑنا پھوڑنا بھی اس لیے ہوتا ہے کہ خوبی و دل آویزی کی ایک پیکر تیار کر دے،  اسی طرح کائنات عالم کا تمام بگاڑ بھی اس لیے ہے کہ بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے۔ تم ایک عمارت بناتے ہو لیکن اس "بنانے ” کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ بہت سی بنی ہوئی چیزیں بگڑ گئیں؟ چٹانیں اگر نہ کاٹی جاتیں،  بھٹے اگر نہ سلگائے جاتے،  درختوں پر آرہ نہ چلتا تو ظاہر ہے کہ عمارت کا بناؤ بھی ظہور میں نہ آتا۔ پھر یہ راحت و سکون جو تمہیں ایک عمارت کی سکونت سے حاصل ہوتا ہے،  کس صورت حال کا نتیجہ ہے ؟ یقیناً اسی شور و شر اور ہنگامہ تخریب کا جو سر و سامان تعمیر کی جد و جہد نے عرصہ تک جاری رکھا تھا،  اگر تخریب کا یہ شور و شر نہ ہوتا تو عمارت کا عیش و سکون بھی وجود میں نہ آتا۔ پس یہی حال فطرت کی تعمیری سرگرمیوں کا بھی سمجھو۔ وہ عمارت ہستی کا ایک ایک گوشہ تعمیر کرتی رہتی ہے،  وہ اس کارخانہ کا ایک ایک کیل پرزہ ڈھالتی رہتی ہے،  وہ اس کی درستگی و خوبی کی حفاظت کے لیے ہر نقصان کا دفعیہ اور ہر فساد کا ازالہ چاہتی ہے۔ تعمیر و درستگی کی یہی سرگرمیاں ہیں جو تمہیں بعض اوقات تخریب و نقصان کی ہولناکیاں دکھائی دیتی ہیں،  حالانکہ یہاں تخریب کب ہے ؟ جو کچھ ہے تعمیر ہی تعمیر ہے۔ سمندر میں تلاطم،  دریا میں طغیانی،  پہاڑوں میں آتش فشانی،  جاڑوں میں برف باری،  گرمیوں میں سموم،  بارش میں ہنگامہ ابر و باد،  تمہارے لیے خوش آئندہ مناظر نہیں ہوتے۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ ان میں سے ہر حادثہ،  کائنات ہستی کی تعمیر و درستگی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جس قدر دنیا کی کوئی مفید سے مفید چیز تمہاری نگاہ میں ہو سکتی ہے۔ اگر سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کی زندگی و شادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا۔ اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان بھی نہ ہوتا۔ اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹتیں تو امین کے اندر کا کھولتا ہوا مادہ اس کرہ کی تمام سطح پارہ پارہ کر دیتا۔ تم بول اٹھو گے : یہ مادہ پیدا ہی کیوں کیا گیا؟ لیکن تمہیں جاننا چاہیے کہ اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو زمین کی قوت نشو و نما کا ایک ضروری عنصر مفقود ہو جاتا،  یہی حقیقت ہے جس کی طرف قرآن نے جا بجا اشارت کیے ہیں۔ مثلاً سورۃ روم میں ہے :

ومن ایاته یریكم البرق خوفا وطمعا وینزل من السماء ماء فیحیی به الارض بعد موتها ان فی ذلك لایات لقوم یعقلون۔ (۲۴:۳۰)

اور (دیکھو!) اس کی (قدرت و حکمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ بجلی کی چمک اور کڑک نمودار کرتا ہے اور اس سے تم پر خوف اور امید دونوں کی حالتیں طاری ہو جاتی ہیں۔ اور آسمان سے پانی برساتا ہے۔ اور پانی کی تاثیر سے زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے۔ بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے جو عقل و بینش رکھتے ہیں (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں!

 

جمال فطرت

 

لیکن فطرت کے افادہ و فیضان کی سب سے بڑی بخشائش اس کا عالم گیر حسن و جمال ہے۔ فطرت صرف بناتی اور سنوارتی ہی نہیں،  بلکہ اس طرح بناتی اور سنوارتی ہے کہ اس ے ہر بناؤ میں حسن و زیبائی کا جلوہ اور اس کے ہر ظہور میں نظر افروزی کی نمود پیدا ہو گئی ہے۔ کائنات ہستی کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھو یا اس کے ایک ایک گوشہ خلقت پر نظر ڈالو! اس کا کوئی رخ نہیں جس پر حسن و رعنائی نے ایک نقاب زیبائش نہ ڈال دی ہو۔ ستاروں کا نظام اور ان کی سیر و گردش،  سورج کی روشنی اور اس کی بوقلمونی،  چاند کی گردش اور اس کا اتار و چڑھاؤ،  فضاء آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں،  بارش کا سماں اور اس کے تغیرات،  سمندر کا منظر اور دریاؤں کی روانی،  پہاڑوں کی بلندیاں اور وادیوں کا نشیب،  حیوانات کے اجسام اور ان کٍاتنوع،  نباتات کی صورت آرائیاں اور باغ و چمن کی رعنائیاں،  پھولوں کی عطر بیزی اور پرندوں کی نغمہ سنجی،  صبح کا چہرہ خنداں اور شام کا جلوہ محجوب،  غرض یہ کہ تمام تماشا گاہ ہستی حسن کی نمائش اور نظر افروزی کی جلوہ گاہ ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس پردہ ہستی کے پیچھے حسن افروزی و جلوہ آرائی کی کوئی قوت کام کر رہی ہے جو چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی ظہور میں آئے،  حسن و زیبائش کے ساتھ ظہور میں آئے اور کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے بہشتِ راحت و سکون بن جائے !

دراصل کائنات ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے۔ فطرت نے جس طرح اس کے بناؤ کے لیے مادی عناصر پیدا کیے،  اسی طرح اس کی کوب روئی اور رعنائی کے لیے معنوی عناصر کا بھی رنگ و روغن آراستہ کر دیا۔ روشنی،  رنگ،  خوشبو اور نغمہ حسن و رعنائی کے وہ اجزاء ہیں جن سے مشاطۂ فطرت چہرہ وجود کی آرائش کر رہی ہے :

مشاطہ رابگو کہ بر اسباب حسن یار

چیزی فزوں کند کہ تماشا بما رسد

صُنْعَ اللَّهِ الَّذِی أَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ۔ (۸۸:۲۷)

یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز خوبی اور درستگی کے ساتھ بنائی!

ذلك عالم الغیب والشهادة العزیز الرحیم۔ الذی احسن كل شئ خلقه (۳۲: ۶، ۷)

یہ اللہ ہے،  محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا،  طاقت والا،  رحمت والا جس نے جو چیز بنائی،  حسن و خوبی کے ساتھ بنائی!

 

بلبل کی نغمہ سنجی اور زاغ و زغن کا شور و غوغا

 

بلاشبہ کاروبار فطرت کے بعض مظاہر ایسے بھی ہیں جن میں تمہیں حسن و خوبی کی کوئی گیرائی محسوس نہیں ہوتی۔ تم کہتے ہو قمری و بلبل کی نغمہ سنجیوں کے ساتھ زاغ و زغن کا شور و غوغا کیوں ہے ؟ لیکن تم بھول جاتے ہو کہ ارغنون ہستی کا نغمہ کسی ایک آہنگ ہی سے نہیں بنا ہے اور نہ بننا چاہیے تھا۔ جس طرح تمہارے آلات موسیقی کے پردوں میں زیر و بم کے تمام آہنگ موجود ہوتے ہیں،  اسی طرح ساز فطرت کے تاروں میں بھی اتار و چڑھاؤ کے تمام آہنگ موجود ہیں۔ اس میں ہلکے سے ہلکے سُر بھی ہیں جن سے باریک اور سُریلی صدائیں نکلتی ہیں،  موٹے سے موٹے سُر بھی ہیں جو بلند سے بلند اور بھاری سے بھاری صدائیں پیدا کرتے ہیں،  ان تمام سُروں کے ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہی موسیقی کی حلاوت ہے،  کیونکہ دنیا کی تمام چیزوں کی طرح موسیقی کی حقیقت بھی مختلف اجزاء کے امتزاج و تالیف سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک ہی سُر سے نغمے کی حلاوت پیدا ہو جائے،  اگر تم بین یا ستار اٹھا کر صرف اس کے چڑھاؤ کا کوئی ایک پردہ چھیڑ دو گے،  یا پیانو کی بھاری کنجیوں میں سے کوئی ایک کنجی ہی بجانے لگو گے تو یہ نغمہ نہ ہو گا،  بھاں بھاں کی ایک کرخت آواز ہو گی۔ یہی حال موسیقی فطرت کے زیر و بم کا بھی ہے،  تمہیں کوے کی کائیں کائیں اور چیل کی چیخ میں کوئی دل کشی محسوس نہیں ہوتی،  لیکن موسیقی فطرت کی تالیف کے لیے جس طرح قمری و بلبل کا ہلکا سُر ضروری تھا،  اسی طرح زاغ و زغن کا بھاری اور کرخت سُر بھی ناگزیر تھا،  بلبل و قمری کو اس سرگم کا اتار سمجھو اور زاغ و زغن کا بھاری اور کرخت سُر بھی ناگزیر تھا،  بلبل و قمری کو اس سرگم کا اتار سمجھو اور زاغ و زغن کو چڑھاؤ :

بر اہل ذوق در فیض در نمی بندد

نوائے بلبل اگر نیست صوت زاغ شنو!

(با ذوق لوگوں پر فیاض فطرت،  اپنا دروازہ بند نہیں کر دیتی،  اگر بلبل کو نوا نہیں تو زاغ کی آواز ہی سنو۔)

تسبح له السماوات السبع والارض ومن فیهن وان من شئ الا یسبح بحمده ولكن لا تفقهون تسبیحهم انه كان حلیما غفورا۔ (۴۴:۱۷)

ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں ہے،  سب (اپنی بناوٹ کی خوبی اور صنعت کے کمال میں) اللہ کی بڑائی اور پاکی کا (زبان حال سے ) اعتراف کر رہے ہیں۔ اور (اتنا ہی نہیں بلکہ کائنات خلقت میں) کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو (زبان حال سے ) اس کی تسبیح و تمجید نہ کر رہی ہو۔ مگر (افسوس! کہ) تم (اپنے جہل و غفلت سے ) اس ترانہ تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ بلا شبہ وہ بڑا ہی بردبار،  بڑا ہی بخشنے والا ہے۔

 

فطرت کی حسن افروزیاں اور رحمت الٰہی کی بخشش

 

آؤ چند لمحوں کے لیے پھر ان سوالات پر غور کر لیں جو پہلے گزر چکے ہیں! فطرت کائنات کی یہ تمام حسن افروزیاں اور جلوہ آرائیاں کیوں ہیں؟ یہ کیوں ہے کہ فطرت حسین ہے اور جو کچھ اس سے ظہور میں آتا ہے،  وہ حسن و جمال ہی ہوتا ہے ؟ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ کارخانہ ہستی ہوتا،  لیکن رنگ کی نظر افروزیاں،  بو کی عطر بیزیاں،  نغمہ کی جاں نوازیاں نہ ہوتیں؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ سب کچھ ہوتا،  لیکن سبزہ و گل کی رعنائیاں و قمری اور بلبل کی نغمہ سنجیاں نہ ہوتیں؟ یقیناً دنیا اپنے بننے کے لیے اس کی محتاج نہ تھی کہ تتلی کے پروں میں عجیب و غریب نقش و نگار ہوں اور رنگ برنگ کے دل فریب پرند درختوں کی شاخوں پر چہچہا رہے ہوں۔ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ درخت ہوتے مگر قامت کی بلندی،  پھیلاؤ کی موزونیت،  شاخوں کی ترتیب،  پتوں کی سبزی،  پھولوں کی رنگا رنگی نہ ہوتی۔ پھر یہ کیوں ہے کہ تمام حیوانات اپنی اپنی حالت اور گرد و پیش کے مطابق ڈیل ڈول کی موزونیت اور اعضاء کا تناسب ضرور ہی رکھیں اور کوئی وجود ہی نہ ہو جو اپنی شکل و منظر میں ایک خاص طرح کا معتدل پیمانہ نہ رکھتا ہو؟

انسانی علم و نظر کی کاوشیں آج تک یہ عقدہ حل نہ کر سکیں کہ یہاں تعمیر کے ساتھ تحسین کیوں ہے ؟ مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ خالق کائنات "الرحمٰن” اور "الرحیم” ہے،  یعنی اس میں رحمت ہے اور اس کی رحمت اپنا ظہور و فعل بھی رکھتی ہے۔ رحمت کا مقتضیٰ یہی تھا کہ بخشش ہو،  فیضان ہو،  جود و احسان ہو پس اس نے ایک طرف تو ہمیں زندگی کے تمام احساس و عواطف بخش دیئے جو خوش نمائی اور بد نمائی میں امتیاز کرتے اور خوبی و جمال سے کیف و سرور حاصل کرتے ہیں،  دوسری طرف کار گاہ ہستی کو اپنی حسن آرائیوں اور جاں فزائیوں سے اس طرح آراستہ کر دیا کہ اس کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے جنت،  سامعہ کے لیے حلاوت اور روح کے لیے سرمایہ کیف و سرور بن گیا :

فتبارك الله احسن الخالقین۔ (۱۴:۲۳)

پس کیا ہی برکت والی ذات ہے اللہ کی،  بنانے والوں میں سب سے زیادہ حسن و خوبی کے ساتھ بنانے والا!

 

قدرت کا خود رو سامان راحت و سرور اور انسان کی ناشکری

 

ہم زندگی کی بناوٹی اور خود ساختہ آسائشوں میں اس درجہ منہمک ہو گئے ہیں کہ ہمیں قدرتی راحتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور بسا اوقات تو ہم ان کی قدر و قیمت کے اعتراف سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر چند لمحوں کے لئے اپنے آپ کو اس غفلت سے بیدار کر لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ کائنات ہستی کا حسن و جمال فطرت کی ایک عظیم اور بے پایاں بخشش ہے اور اگر یہ نہ ہوتی یا ہم میں اس کا احساس نہ ہوتا تو زندگی زندگی نہ ہوتی،  نہیں معلوم کیا چیز ہو جاتی؟ ممکن ہے موت کی بدحالیوں کا ایک تسلسل ہوتا۔

ایک لمحہ کے لیے تصور کرو کہ دنیا موجود ہے،  مگر حسن و زیبائی کے تمام جلووں اور احساسات سے خالی ہے۔ آسمان ہے مگر فضا کی یہ نگاہ پرور نیلگونی نہیں ہے،  ستارے ہیں مگر ان کی درخشندگی و جہاں تابی کی یہ جلوہ آرائی نہیں ہے،  درخت ہیں مگر بغیر سبزی کے،  پھول ہیں مگر بغیر رنگ و بو کے،  اشیاء کا اعتدال،  اجسام کا تناسب،  صداؤں کا ترنم،  روشنی و رنگت کی بو قلمونی،  ان میں سے کوئی چیز بھی وجود نہیں رکھتی،  یا یوں کہا جائے کہ ہم میں ان کا احساس نہیں ہے۔ غور کرو! ایک ایسی دنیا کے ساتھ زندگی کا تصور کیسا بھیانک اور ہولناک منظر پیش کرتا ہے ؟ ایسی زندگی جس میں نہ تو حسن کا احساس ہو نہ حسن کی جلوہ آرائی،  نہ نگاہ کے لیے سرور ہو نہ سامعہ کے لیے حلاوت،  نہ جذبات کی رقت ہو نہ محسوسات کی لطافت،  یقیناً عذاب و جان کاہی کی ایسی حالت ہوتی جس کا تصور بھی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لیکن جس قدرت نے ہمیں زندگی دی،  اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت،  یعنی حسن و زیبائی کی بخشش سے بھی مالا مال کر دے۔ اس نے ایک ہاتھ سے ہمیں حسن کا احساس دیا،  دوسرے ہاتھ سے تمام دنیا کو جلوہ حسن بنا دیا۔ یہی حقیقت ہے جو ہمیں رحمت کی موجودگی کا یقین دلاتی ہے،  اگر پردہ ہستی کے پیچھے صرف خالقیت ہی ہوتی،  رحمت نہ ہوتی،  یعنی پیدا کرنے یا پیدا ہو جانے کی قوت ہوتی،  مگر افادہ و فیضان کا ارادہ نہ ہوتا تو یقیناً کائنات ہستی میں فطرت کے فضل و احسان کا یہ عالم گیر مظاہرہ بھی نہ ہوتا :

الم تروا ان الله سخر لكم ما فی السماوات وما فی الارض واسبغ علیكم نعمه ظاهرة وباطنة ومن الناس من یجادل فی الله بغیر علم ولا هدی ولا كتاب منیر۔ (۲۰:۳۱)

کیا تم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا؟ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہو،  وہ سب تمہارے لیے خدا نے مسخر کر دیا ہے اور اپنی تمام نعمتیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی پوری کر دی ہیں۔ انسانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے جھگڑتے ہیں،  بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا ہدایت ہو یا کوئی کتاب روشن۔

انسانی طبیعت کی یہ عالم گیر کمزوری ہے کہ جب تک وہ ایک نعمت سے محروم نہیں ہو جاتا،  اس کی قدر و قیمت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں کر سکتا۔ تم گنگا کے کنارے بستے ہو،  اس لیے تمہارے نزدیک زندگی کی سب سے زیادہ بے قدر چیز پانی ہے۔ لیکن اگر یہی پانی چوبیس گھنٹے تک میسر نہ آئے تو تمہیں معلوم ہو جائے اس کی قدر و قیمت کا کیا حال ہے ! یہی حال فطرت کی فیضان جمال کا بھی ہے۔ اس کے عام اور بے پردہ جلوے شب و روز تمہاری نگاہوں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں،  اس لیے تمہیں ان کی قدر و قیمت محسوس نہیں ہوتی۔ صبح اپنی ساری جلوہ آرائیوں کے ساتھ روز آتی ہے،  اس لیے تم بستر سے سر اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،  چاندنی اپنی ساری حسن افروزیوں کے ساتھ ہمیشہ نکھرتی رہتی ہے اس لیے تم کھڑکیاں بند کر کے سو جاتے ہو،  لیکن جب یہی شب و روز کے جلوہ ہائے فطرت تمہاری نظروں سے روپوش ہو جاتے ہیں یا تم میں ان کے نظارہ و سماع کی استعداد باقی نہیں رہتی تو غور کرو اس وقت تمہارے احساسات کا کیا حال ہوتا ہے ؟ کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ ان میں سے ہر چیز زندگی کی ایک بے بہا برکت اور معیشت کی ایک عظیم الشان نعمت تھی؟ سرد ملکوں کے باشندوں سے پوچھو جہاں سال کا بڑا حصہ ابرآلود گزرتا ہے کیا سورج کی کرنوں سے بڑھ کر بھی زندگی کی کوئی مسرت ہو سکتی ہے ؟ ایک بیمار سے پوچھو جو نقل و حرکت سے محروم بستر مرض پر پڑا ہے،  وہ بتائے گا کہ آسمان کی صاف اور نیلگوں فضا کا ایک نظارہ راحت و سکون کی کتنی بڑی دولت ہے ! ایک اندھا جو کہ پیدائشی اندھا نہ تھا،  تمہیں بتا سکتا ہے کہ سورج کی روشنی اور باغ و چمن کی بہار دیکھے بغیر زندگی بسر کرنا کیسی ناقابل برداشت مصیبت ہے ! تم بسا اوقات زندگی کی مصنوعی آسائشوں کے لیے ترستے ہو اور خیال کرتے ہو کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت چاندی سونے کا ڈھیر اور جاہ و حشم کی نمائش ہے،  لیکن تم بھول جاتے ہو کہ زندگی کی حقیقی مسرتوں کا جو خود رو سامان فطرت نے ہر مخلوق کے لیے پیدا کر رکھا،  اس سے بڑھ کر دنیا کی دولت و حشمت کون سا سامان نشاط مہیا کر سکتی ہے ؟ اور اگر انسان کو وہ سب کچھ میسر ہو تو پھر اس کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے ؟ جس دنیا میں سورج ہر روز چمکتا ہو،  جس دنیا میں صبح ہر روز مسکراتی اور شام ہر روز پردہ شب میں چھپ جاتی ہو،  جس کی راتیں آسمان کی قندیلوں سے مزین اور جس کی چاندنی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی،  جس کی بہار سبزہ و گل سے لدی ہوئی اور جس کی فصلیں لہلہاتے ہوئے کھیتوں سے گراں بار ہوں،  جس دنیا میں روشنی اپنی چمک،  رنگ اپنی بوقلمونی،  خوشبو اپنی عطر بیزی اور موسیقی اپنا نغمہ و آہنگ رکھتی ہو،  کیا اس دنیا کا کوئی باشندہ آسائش حیات سے محروم اور نعمت معیشت سے مفلس ہو سکتا ہے ؟ کیا کسی آنکھ کے لیے جو دیکھ سکتی ہو اور کسی دماغ کے لیے جو محسوس کر سکتا ہو،  ایک ایسی دنیا میں نامرادی و بدبختی کا گلہ جائز ہے ؟ قرآن نے جا بجا انسان کی اس کے اسی کفران نعمت پر توجہ دلائی ہے :

واتاكم من كل ما سالتموه وان تعدوا نعمة الله لا تحصوها ان الانسان لظلوم كفار۔ (۳۴:۱۴)

اور اس نے تمہیں وہ تمام چیزیں دے دیں جو تمہیں مطلوب تھیں،  اور اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی شمار نہیں کر سکو گے،  بلا شبہ انسان بڑا ہی ناانصاف،  بڑا ہی ناشکرا ہے !

 

جمال معنوی

 

پھر فطرت کی بخشائش جمال کے اس گوشہ پر بھی نظر ڈالو کہ اس نے جس طرح جسم و صورت کو حسن و زیبائی بخشی،  اسی طرح اس کی معنویت کو بھی جمال معنوی سے آراستہ کر دیا،  جسم و صورت کا جمال یہ ہے کہ ہر وجود کے ڈیل ڈول اور اعضاء و جوارح میں تناسب ہے،  معنویت کا جمال یہ ہے کہ ہر چیز کی کیفیت اور باطنی قویٰ میں اعتدال ہے۔ اسی کیفیت کے اعتدال سے خواص اور فوائد پیدا ہوئے ہیں اور یہی اعتدال ہے جس نے حیوانات میں ادراک و حواس کی قوتیں بیدار کر دیں اور پھر انسان کے درجے میں پہنچ کر جوہر عقل و فکر کا چراغ روشن کر دیا :

والله اخرجكم من بطون امهاتكم لا تعلمون شیئا وجعل لكم السمع والابصار والافئدة لعلكم تشكرون۔ (۷۸:۱۷)

اور (دیکھو!) یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ تم اپنی ماؤں کے شکم سے پیدا ہوتے ہو اور کسی طرح کی سمجھ بوجھ تم میں نہیں ہوتی،  لیکن اس نے تمہارے لیے دیکھنے سننے کے حواس بنا دیے اور سوچنے سمجھنے کے لیے عقل دے دی،  تاکہ اس کی نعمت کے شکر گزار ہو۔

کائنات ہستی کے اسرار و غوامض بے شمار ہیں،  لیکن روح حیوانی کا جو ہر ادراک زندگی کا سب سے زیادہ لاینحل عقدہ ہے،  حیوانات میں کیڑے مکوڑے تک،  ہر طرح کا احساس و ادراک رکھتے ہیں اور انسان دماغ کے نہاں خانہ میں عقل و تفکر کا چراغ روشن ہے۔ یہ قوت احساس،  یہ قوت ادراک،  یہ قوت عقل کیونکر پیدا ہوئی؟ مادی عناصر کی ترکیب و امتزاج سے ایک ماورائے مادہ جوہر کس طرح ظہور میں آ گیا؟ چیونٹی کو دیکھو! اس کے دماغ کا حجم سوئی کی نوک سے شاید ہی کچھ زیادہ ہو گا،  لیکن مادے کے اس حقیر ترین عصبی ذرے میں بھی احساس و ادراک،  محنت و استقلال،  ترتیب و تناسب،  نظم و ضبط اور صنعت و اختراع کی ساری قوتیں مخفی ہوتی ہیں اور وہ اپنے اعمال حیات کی کرشمہ سازیوں سے ہم پر رعب اور حیرت کا عالم طاری کر دیتی ہے۔ شہد کی مکھی کی کارفرمائیاں ہر روز تمہارے نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہ کون ہے جس نے ایک چھوٹی سے مکھی میں تعمیر و تحسین کی ایسی منتظم قوت پیدا کر دی ہے ؟ قرآن کہتا ہے : یہ اس لیے ہے کہ رحمت کا مقتضیٰ جمال تھا اور ضروری تھا کہ جس طرح اس نے جمال صوری سے دنیا آراستہ کر دی ہے،  اسی طرح جمال معنوی کی بخشائشوں سے بھی اسے مالا مال کر دیتی :

ذلك عالم الغیب والشهادة العزیز الرحیم  ۔ الذی احسن كل شئ خلقه وبدا خلق الانسان من طین  ۔ ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهین  ۔ ثم سواه ونفخ فیه من روحه وجعل لكم السمع والابصاروالافئدة قلیلا ما تشكرون (۳۲: ۷-۹)

یہ محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا عزیز و رحیم ہے جس نے جو چیز بھی بنائی حسن و خوبی کے ساتھ بنائی۔ چنانچہ یہ اسی کی قدرت و حکمت ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی،  پھر اس کے تولد و تناسل کا سلسلہ (خون کے ) خلاصے سے جو پانی ایک حقیر سا قطرہ ہوتا ہے،  قائم کر دیا۔ پھر اس کی تمام قوتوں کی درستگی کی اور اپنی روح (میں سے ایک قوت) پھونک دی اور (اس طرح) اس کے لیے سننے دیکھنے اور فکر کرنے کی قوتیں پیدا کر دیں۔ (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر!) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ (اللہ کی رحمت کا) شکر گزار ہو۔

 

بقاء نفع

 

لیکن کائنات ہستی کا یہ بناؤ،  یہ حسن،  یہ ارتقاء قائم نہیں رہ سکتا تھا،  اگر اس میں خوبی کے بقاء اور خرابی کے ازالے کے لیے ایک اٹل قوت سرگرم کار نہ رہتی۔ یہ قوت کیا ہے ؟ فطرت کا انتخاب ہے۔ فطرت ہمیشہ چھانٹتی رہتی ہے،  وہ ہر گوشے میں صرف خوبی اور بہتری ہی باقی رکھتی ہے،  فساد اور نقص محو کر دیتی ہے۔ ہم فطرت کے اس انتخاب سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہم اسے "بقاء اصلح” کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں "اصلح” یعنی Fittest لیکن قرآن "بقاء اصلح” کی جگہ "بقاء انفع” کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے : اس کار گاہ فیضان و جمال میں صرف وہی چیز باقی رکھی جاتی ہے جس میں نفع ہو،  کیونکہ یہاں رحمت کارفرما ہے اور رحمت چاہتی ہے کہ افادہ و فیضان ہو،  نقصان و برہمی گوارا نہیں کر سکتی،  تم سونا کٹھالی میں ڈال کر آگ پر رکھتے ہو،  کھوٹ جل جاتا ہے،  خالص سونا باقی رہ جاتا ہے۔ یہی مثال فطرت کے انتخاب کی ہے۔ کھوٹ میں نفع نہ تھا،  نابود کر دیا گیا،  سونے میں نفع تھا،  باقی رہ گیا :

انزل من السماء ماء فسالت اودیة بقدرها فاحتمل السیل زبدا رابیا ومما یوقدون علیه فی النار ابتغاء حلیة او متاع زبد مثله كذلك یضرب الله الحق والباطل فاما الزبد فیذهب جفاء واما ما ینفع الناس فیمكث فیالارض كذلك یضرب الله الامثال۔ (۱۷:۱۳)

خدا نے آسمان سے پانی برسایا تو ندی نالوں میں جس قدر سمائی تھی اس کے مطابق بہہ نکلے اور جس قدر کوڑا کرکٹ جھاگ بن کر اوپر آ گیا تھا،  اسے سیلاب اٹھا کر بہا لے گیا۔ اسی طرح جب زیور یا اور کسی طرح کا سامان بنانے کے لیے (مختلف قسم کی دھاتیں) آگ میں تپاتے ہیں تو اس میں بھی جھاگ اٹھتا ہے اور میل کچیل کٹ کر نکل جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کر تیا ہے۔ جھاگ رائیگاں جائے گا (کیونکہ اس میں نفع نہ تھا) جس چیز میں انسان کے لیے نفع ہو گا وہ زمین میں باقی رہ جائے گی۔

 

تدریج و امہال

 

پھر اگر وقت نظر سے کام لو تو افادہ و فیضان فطرت کی حقیقت کچھ انہیں مظاہر پر موقوف نہیں ہے،  بلکہ کارخانہ ہستی کے تمام اعمال و قوانین کا یہی حال ہے۔

تم دیکھتے ہو کہ فطرت کے تمام قوانین اپنی نوعیت میں کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ اگر لفظوں میں اسے تعبیر کرنا چاہو تو صرف فطرت کے فضل و رحمت ہی سے تعبیر کر سکتے ہو،  تمہیں اور کوئی تعبیر نہیں ملے گی۔ مثلاً اس کے قوانین کا عمل کبھی فوری اور اچانک نہیں ہوتا۔ وہ جو کچھ کرتی ہے،  آہستہ آہستہ بتدریج کرتی ہے اور تدریجی طرز عمل نے دنیا کے لیے مہلت اور ڈھیل کا فائدہ پیدا کر دیا ہے،  یعنی اس کا ہر قانون فرصتوں پر فرصتیں دیتا ہے۔ اور اس کی ہر فعل عفو و درگذر کا دروازہ آخر تک کھلا رکھتا ہے۔ بلا شبہ اس کے قوانین اپنے نفاذ میں اٹل ہیں،  ان میں رد و بدل کا امکان نہیں:

ما یبدل القول لدی (۲۹:۵۰)

ہمارے یہاں جو بات ایک مرتبہ ٹھہرا دی گئی اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔

اور اس لیے تم خیال کرنے لگتے ہو کہ ان کی قطعیت بے رحمی سے خالی نہیں۔ لیکن تم نہیں سوچتے کہ جو قوانین اپنے نفاذ میں اس درجہ قطعی اور بے پروا ہیں،  وہی اپنی نوعیت میں کس درجہ عفو و درگذر اور مہلت بخشی و اصلاح کوشی کی روح بھی رکھتے ہیں؟ اسی لیے آیت مندرجہ صدر میں "ما یبدل القول” کے بعد ہی فرمایا :

وما انا بظلام للعبید۔ (۲۹:۵۰)

لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ ہم بندوں کے لیے زیادتی کرنے والے ہوں۔

فطرت اگر چاہتی تو ہر حالت،  بیک دفعہ ظہور میں آ جاتی،  یعنی اس کے قوانین کا نفاذ فوری اور ناگہانی ہوتا،  لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر حالت،  ہر تاثیر،  ہر انفعال کے ظہور و بلوغ کے لیے ایک خاص مدت مقرر کر دی گئی ہے اور ضروری ہے کہ بتدریج مختلف منزلیں پیش آئیں۔ پھر ہر منزل اپنے آثار و انداز رکھتی ہے اور آنے والے نتائج سے خبردار کرتی رہتی ہے۔ زندگی اور موت کے قوانین پر غور کرو! کس طرح زندگی بتدریج نشو و نما پاتی اور کس طرح درجہ بدرجہ مختلف منزلوں سے گزرتی ہے اور پھر کس طرح موت،  کمزوری و فساد کا ایک طول طویل سلسلہ ہے جو اپنے ابتدائی نقطوں سے شروع ہوتا اور یکے بعد دیگرے مختلف منزلیں طے کرتا ہوا آخری نقطہ بلوغ تک پہنچا کرتا ہے ! تم بد پرہیزی کرتے ہو تو یہ نہیں ہوتا کہ فوراً ہی ہلاک ہو جاؤ،  بلکہ بتدریج موت کی طرف بڑھنے لگتے ہو اور بالآخر ایک خاص مدت کے اندر جو ہر صورتحال کے لئے یکساں نہیں ہوتیں درجہ بدرجہ اترتے ہوئے موت کی آغوش میں جا گرتے ہو۔ نباتات کو دیکھو! درخت اگر آبیاری سے محروم ہو جاتے ہیں یا نقصان و فساد کا کوئی دوسرا سبب عارض ہو جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ ایک ہی دفعہ مرجھا کر رہ جائیں یا کھڑے کھڑے اچانک گر جائیں،  بلکہ بتدریج،  شادابی کی جگہ پژمردگی کی حالت طاری ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک خاص مدت کے اندر جو مقرر کر دی گئی ہے،  یا تو بالکل مرجھا کر رہ جاتے ہیں یا جڑ کھوکھلی ہو کر گر پڑتے ہیں۔

 

اصطلاح قرآنی میں "اجل”

 

یہی حال کائنات کے تمام تغیرات اور انفعالات کا ہے،  کوئی تغیر ایسا نہیں جو اپنا تدریجی دور نہ رکھتا ہو۔ ہر چیز بتدریج بنتی ہے اور اسی طرح بتدریج بگڑتی ہے۔ بناؤ ہو یا بگاڑ،  ممکن نہیں کہ ایک خاص مدت گزرے بغیر کوئی حالت بھی اپنی کامل صورت میں ظاہر ہو سکے۔ یہ مدت جو ہر حالت کے ظہور کے لیے اس کی "اجل” یعنی مقررہ وقت ہے،  مختلف گوشوں اور مختلف حالتوں میں مختلف مقدار رکھتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کی مقدار اتنی طویل ہوتی ہے کہ ہم اپنے نظام اوقات سے اس کا حساب بھی نہیں لگا سکتے۔ قرآن نے اسے یوں تعبیر کیا ہے کہ جس مدت کو تم اپنے حساب میں ایک دن سمجھتے ہو،  اگر اسے ہزار برس یا پچاس ہزار برس تصور کر لو تو ایسے دنوں سے جو مہینے اور برس بنیں گے ان کی مقدار کتنی ہو گی :

وان یوما عند ربك كالف سنة مما تعدون۔ (۴۷:۲۲)

اور بلاشبہ تمہارے پروردگار کے حساب میں ایک دن ایسا ہے جیسے تمہارے حساب میں ایک ہزار برس!

 

تکویر

 

فطرت کا یہی تدریجی طرز عمل ہے جسے قرآن نے "تکویر” سے بھی تعبیر کیا ہے،  یعنی لپٹنے سے۔ وہ کہتا ہے : بجائے اس کے کہ اچانک دن کی روشنی نکل آتی اور ناگہانی رات کی اندھیری ابل پڑتی،  فطرت نے رات اور دن کے ظہور کو اسطرح تدریجی بنا دیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے رات آہستہ آہستہ دن پر لپٹتی جاتی ہے اور دن درجہ بدرجہ رات پر لپٹتا آتا ہے :

خلق السماوات والارض بالحق یكور اللیل علی النهار ویكور النهار علی اللیل وسخر الشمس والقمر كل یجری لاجل مسمی (۵:۳۹)

اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے،  اس نے رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے کا ایسا انتظام کر دیا ہے کہ رات دن پر لپٹتی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹتا آتا ہے اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے (ایک خاص انتظام کے ماتحت) مسخر کر رکھا ہے۔ سب (اپنی جگہ) اپنے مقررہ وقت تک کے لیے حرکت میں ہیں۔

قرآن اس تدریجی رفتار عمل کو،  فائدہ اٹھانے کا موقع دینے،  ڈھیل دینے،  عفو و درگذر کرنے اور ایک خاص مدت تک فرصت حیات بخشنے سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے : یہ اس لیے ہے کہ کائنات ہستی میں فضل و رحمت کی مشیت کام کر رہی ہے اور وہ چاہتی ہے ہر غلطی کو درستگی کے لیے،  ہر نقصان کو تلافی کے لیے ہر لغزش کو سنبھل جانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مہلت اصلاح ملتی رہے اور اس کا دروازہ کسی پر بند نہ ہو۔

 

تاخیر اجل

 

وہ کہتا ہے : اگر تدریج و امہال کی یہ فرصتیں اور بخششیں نہ ہوتیں تو دنیا میں ایک وجود بھی فرصت حیات سے فائدہ نہ اٹھا سکتا،  ہر غلطی،  ہر کمزوری ہر نقصان،  ہر فساد اچانک،  بیک دفعہ ہلاکت کا باعث ہو جاتا :

ولو یؤاخذ الله الناس بما كسبوا ما ترك علی ظهرها من دابة ولكن یؤخرهم الی اجل مسمی فاذا جاء اجلهم فان الله كان بعباده بصیرا۔ (۴۵:۳۵)

اور انسان جو کچھ اپنے اعمال سے کمائی کرتا ہے،  اگر اللہ اس پر (فوراً) مؤاخذہ کرتا تو یقین کرو زمین کی سطح پر ایک جاندار بھی باقی نہ رہتا،  لیکن (یہ اس کی رحمت ہے کہ) اس نے ایک مقررہ وقت تک فرصت حیات دے رکھی ہے،  البتہ جب وہ مقرر وقت آ جائے ے،  تو پھر (یاد رہے کہ) اللہ اپنے بندوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے،  اس کی آنکھیں ہر وقت اور ہر حال میں سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔

 

تدریج و امہال اچھائی اور برائی دونوں کے لیے ہے

 

قدرتی طور پر یہ ڈھیل اچھائی اور برائی دونوں کے لیے ہے،  اچھائی کے لیے اس لیے،  تاکہ زیادہ نشو و نما پائے،  برائی کے لیے اس لیے،  تاکہ متنبہ اور خبردار ہو کر اصلاح و تلافی کا سامان کر لے :

كلا نمد هؤلاء وهؤلاء من عطاء ربك وما كان عطاء ربك محظورا۔ (۲۰:۱۷)

اور لوگوں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی (یعنی اچھوں کو بھی بروں کو بھی) سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش میں سے حصہ مل رہا ہے اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی پر بند نہیں!

اگر قوانین فطرت کی ان مہلت بخشیوں سے فائدہ اٹھا کر نقصان و فساد کی اصلاح کر لی جائے،  مثلاً تم نے بد پرہیزی کی تھی،  اسے ترک کر دو پھر اسی فطرت کا یہ بھی قانون ہے کہ اصلاح و تلافی کی ہر کوشش قبول کر لیتی ہے اور نقصان و فساد کے جو نتائج نشو و نما پانے لگے تھے،  ان کا مزید نشو و نما فوراً رک جات ہے۔ اتنا ہی نہیں،  بلکہ اگر اصلاح بروقت اور ٹھیک ٹھیک کی گئی ہے تو پچھلے مضر اثرات بھی محو ہو جائیں گے اور اس طرح محو ہو جائیں گے،  گویا کوئی خرابی پیش ہی نہیں آئی تھی،  لیکن فطرت کی تمام مہلت بخشیاں رائیگاں گئیں،  اس کا بار بار اور درجہ بدرجہ انداز بھی کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکا تو پھر بلاشبہ وہ آخری حد نمودار ہو جاتی ہے جہاں پہنچ کر فطرت کا آخری فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اور پھر جب اس کا فیصلہ صادر ہو جائے تو نہ تو اس میں چشم زدن کی تاخیر ہو سکتی ہے نہ کسی حال میں بھی تزلزل اور تبدیلی!!

فاذا جاء اجلهم لا یستاخرون ساعة ولا یستقدمون۔ (۷۱:۱۷)

پھر جب ان کا مقررہ وقت آ گیا تو اس سے نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں (یعنی نہ تو اس کے نفاذ میں تاخیر ہو سکتی ہے نہ تقدیم،  ٹھیک ٹھیک اپنے وقت میں اسے ہو جانا ہے )۔

 

تسکین حیات

 

زندگی کی محنتیں اور کاوشیں

 

یا مثلاً ہم دیکھتے ہیں انسان کی معیشت،  قیام و بقاء کی جد و جہد اور کشاکش کا نام ہے،  اس لیے قدرتی طور پر اس کا ہر گوشہ طرح طرح کی محنتوں اور کاوشوں سے گھرا ہوا ہے اور بہ حیثیت مجموعی،  زندگی کی اضطراری ذمہ داریوں کا بوجھ اور مسلسل مشقتوں کی آزمائش ہے :

لقد خلقنا الانسان فی كبد۔ (۴:۹۰)

بلا شبہ ہم نے انسان کو اس طرح بنایا ہے کہ اس کی زندگی مشقتوں سے گھری ہوئی ہے !

 

مشغولیت اور انہماک

 

لیکن بایں ہمہ فطرت نے کارخانہ معیشت کا ڈھنگ کچھ اس طرح کا بنا دیا ہے اور طبیعتوں میں کچھ اس طرح کی خواہشیں،  ولولے اور انفعالات ودیعت کر دیے ہیں کہ زندگی کے ہر گوشے میں ایک عجیب طرح کی دل بستگی،  مشغولیت،  ہماہمی اور سرگرمی پیدا ہو گئی ہے اور یہی زندگی کا انہماک ہے جس کی وجہ سے ہر ذی حیات نہ صرف زندگی کی مشقتیں برداشت کر رہا ہے،  بلکہ انہیں مشقتوں میں زندگی کی بڑی سے بڑی لذت و راحت محسوس کرتا ہے،  یہ مشقتیں جس قدر زیادہ ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ زندگی کی دلچسپی اور محبوبیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ایک انسان کی زندگی ان مشقتوں سے خالی ہو جائے تو وہ محسوس کرے گا کہ زندگی کی ساری لذتوں سے محروم ہو گیا اور اب زندہ رہنا اس کے لیے ناقابل برداشت بوجھ ہے !

 

حالات متفاوت ہیں لیکن زندگی کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لیے ہے

 

پھر دیکھو! کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ حالات متفاوت ہیں،  طبائع متنوع ہیں،  اشغال مختلف ہیں،  اغراض متضاد ہیں،  لیکن معیشت کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لیے یکساں ہے اور سب ایک ہی طرح اس کی مشغولیتوں کے لیے جوش و طلب رکھتے  ہیں۔ مرد و عورت،  طفل و جواں،  امیر و فقیر،  عالم و جاہل،  قوی و ضعیف،  تندرست و بیمار،  مجرد و متاہل،  حاملہ و مرضعہ سب اپنی اپنی حالتوں میں منہمک ہیں اور کوئی نہیں جس کے لیے زندگی کی کاوشوں میں محویت نہ ہو۔ امیر اپنے محل کے عیش و نشاط میں اور فقیر اپنی بے سر و سامانیوں کی فاقہ مستی میں زندگی بسر کرتا ہے،  لیکن دونوں کے لیے زندگی کی مشغولیتوں میں دل بستگی ہوتی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون زیادہ مشغول ہے۔ ایک تاجر جس انہماک کے ساتھ اپنی لاکھوں روپیہ کی آمدنی کا حساب کرتا ہے،  اسی طرح ایک مزدور بھی دن بھر کی محنت کے چند پیسے گن لیا کرتا ہے اور دونوں کے لیے یکساں طور پر زندگی محبوب ہوتی ہے۔ ایک حکیم کو دیکھو جو اپنے علم و دانش کی کاوشوں میں غرق ہے اور ایک دہقان کو دیکھو جو دوپہر کی دھوپ میں برہنہ سر ہل جوت رہا ہے۔ اور پھر بتاؤ! کس کے لیے زندگی کی مشغولیتوں میں زیادہ دل بستگی ہے ؟

پھر دیکھو! بچے کی پیدائش ماں کے لیے کیسی جان کاہی و مصیبت ہوتی ہے ! اس کی پرورش و نگرانی کس طرح خود فروشانہ مشقتوں کا ایک طول طویل سلسلہ ہے ! تاہم یہ سارا معاملہ کچھ ایسی خواہشوں اور جذبوں کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے کہ ہر عورت میں ماں بننے کی قدرتی طلب ہے اور ہر ماں پرورش اولاد کے لیے مجنونانہ خود فراموشی رکھتی ہے۔ وہ زندگی کا سب سے بڑا دکھ سہے گی اور پھر اسی دکھ میں زندگی کی سب سے بڑی مسرت محسوس کرے گی! وہ جب اپنی معیشت کی ساری راحتیں قربان کر دیتی ہے اور اپنی رگوں کے خون کا ایک ایک قطرہ دودھ بنا کر پلا دیتی ہے تو اس کے دل کا ایک ایک ریشہ زندگی کے سب سے بڑے احساس مسرت سے معمور ہو جاتا ہے !

پھر کاروبار فطرت کے یہ تصرفات دیکھو کہ کس طرح نوع انسانی کے منتشر افراد اجتماعی زندگی کے بندھنوں سے باہم دگر مربوط کر دیے گئے ہیں اور کسطرح صلہ رحمی کے رشتہ نے ہر فرد کو سینکڑوں ہزاروں افراد کے ساتھ جوڑ رکھا ہے !

فرض کرو! زندگی و معیشت ان تمام مؤثرات سے خالی ہوتی! لیکن قرآن کہتا ہے کہ خالی نہیں ہو سکتی تھی،  اس لیے کہ فطرت کائنات میں رحمت کارفرما ہے اور رحمت کا مقتضیٰ یہی تھا کہ معیشت کی مشقتوں کو خوش گوار بنا دے اور زندگی کے لیے تسکین و راحت کا سامان پیدا کر دے۔ یہ رحمت کی کرشمہ سازیاں ہیں جنہوں نے رنج میں راحت،  الم میں لذت اور سختیوں میں دل پذیری کی کیفیت پیدا کر دی ہے !

 

اشیاء و مناظر کا اختلاف و تنوع اور تسکین حیات

 

چنانچہ قرآن نے تسکین حیات کے مختلف پہلوؤں پر جا بجا توجہ دلائی ہے۔ ازاں جملہ کائنات خلقت کے مناظر و اشیاء کا اختلاف و تنوع ہے۔ انسانی طبیعت کا خلاصہ ہے کہ یکسانی سے اکتاتی ہے اور تبدیلی و تنوع میں خوش گواری و کیفیت سرور محسوس کرتی ہے۔ پس اگر کائنات ہستی میں محض یکسانی و یک رنگی ہی ہوتی ہے تو یہ دل چسپی اور خوش گواری پیدا نہ ہو سکتی جو اس کے ہر گوشے میں ہمیں نظر آ رہی ہے۔ اوقات کا اختلاف،  موسموں کا اختلاف،  خشکی و تری کا اختلاف،  مناظر طبیعت اور اشیاء خلقت کا اختلاف جہاں بے شمار مصلحتیں اور فوائد رکھتا ہے،  وہاں ایک بڑی مصلحت دنیا کی زیب و زینت اور معیشت کی تسکین و راحت بھی ہے :

گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوق! اس جہاں میں ہے زیب،  اختلاف سے

 

اختلاف لیل و نہار

 

چنانچہ اسی سلسلہ میں وہ رات اور دن کے اختلاف کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے : اگر غور کرو تو اس اختلاف میں حکمت الٰہی کی کتنی ہی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ یہ بات کہ شب و روز کی آمد و شد کی دو مختلف حالتیں ٹھہرا دی گئی ہیں اور وقت کی نوعیت ہر معین مقدار کے بعد بدلتی رہتی ہے،  زندگی کے لیے بڑی ہی تسکین و دلبستگی کا ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور وقت ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہتا تو دنیا میں زندہ رہنا دشوار ہو جاتا۔ اگر تم قطبین کے اطراف میں جاؤ جہاں شب و روز کا اختلاف اپنی نمود نہیں رکھتا تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ اختلاف گذران حیات کے لیے کیسی عظیم الشان نعمت ہے :

ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنهار لایات لاولی الالباب۔ (۱۹۰:۳)

بلا شبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب دانش کے لیے (حکمت الٰہی) کی بڑی ہی نشانیاں ہیں!

رات اور دن کے اختلاف نے معیشت کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ دن کی روشنی جد و جہد کی سرگرمی پیدا کرتی ہے،  رات کی تاریکی راحت و سکون کا بستر بچھا دیتی ہے،  ہر دن کی محنت کے بعد رات کا سکون ہوتا ہے اور ہر رات کے سکون کے بعد نئے دن کی نئی سرگرمی!

وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِیهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۲۸:۷۳)

اور (دیکھو!) یہ اس کی رحمت کی کارسازی ہے کہ تمہارے لیے رات اور دن (الگ الگ) ٹھہرا دیے گئے تاکہ رات کے وقت راحت پاؤ اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو۔ (یعنی کاروبار معیشت میں سرگرم ہو) تاکہ تم اس کا شکر کرو۔

 

دن کی مختلف حالتیں اور رات کی مختلف منزلیں

 

پھر رات اور دن کا اختلاف صرف تار اور دن ہی کا اختلاف ہی نہیں ہے بلکہ ہر دن،  مختلف حالتوں سے گزرتا اور ہر رات،  مختلف منزلیں طے کرتی ہے اور ہر حالت ایک خاص طرح کی تاثیر رکھتی ہے اور ہر منزل کے لیے ایک خاص طرح کا منظر ہوتا ہے۔ صبح طلوع ہوتی ہے اور اس کی ایک خاص تاثیر ہوتی ہے،  دن ڈھلتا ہے اور اس کا ایک خاص منظر ہوتا ہے۔ اوقات کا یہ روزانہ اختلاف ہمارے احساسات کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے اور یکسانیت کی افسردگی کی جگہ تبدیل و تجدد کی لذت اور سرگرمی پیدا ہوتی رہتی ہے !

فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِینَ تُمْسُونَ وَحِینَ تُصْبِحُونَ (۱۷) وَلَهُ الْحَمْدُ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِیًّا وَحِینَ تُظْهِرُونَ (۱۸) سورۃ ۳۰

پس پاکی ہے اللہ کے لیے اور آسمانوں اور زمین میں اس کے لیے ستائش ہے جب کہ تم پر شام آتی ہے،  اور جب تم پر صبح ہوتی ہے،  اور جب دن کا آخری وقت ہوتا ہے اور جب تم پر دوپہر آتی ہے !

 

حیوانات کا اختلاف

 

اسی طرح انسان خود اپنے وجود کو دیکھے اور تمام حیوانات کو دیکھے،  فطرت نے کس طرح،  طرح طرح کے اختلاف سے اس میں تنوع اور دل پذیری پیدا کر دی ہے !

ومن الناس والدواب والانعام مختلف الوانه۔ (۲۸:۳۵)

اور انسان،  جانور،  چار پایے طرح طرح کی رنگتوں کے !

 

نباتات

 

عالم نباتات کو دیکھو! درختوں کے مختلف ڈیل ڈول ہیں،  مختلف رنگتیں ہیں،  مختلف خوشبوئیں ہیں،  مختلف خواص ہیں اور پھر دانہ اور پھل کھاؤ تو مختلف قسم کے ذائقے ہیں !

اولم یروا الی الارض كم انبتنا فیها من كل زوج كریم۔ (۷:۲۷)

کیا ان لوگوں نے کبھی زمین پر نظر نہیں ڈالی اور غور نہیں کیا کہ ہم نے نباتات کی ہر دو دو بہتر قسموں میں سے کتنے (بے شمار) درخت پیدا کر دیے ہیں؟

وما ذرا لكم فی الارض مختلفا الوانه ان فی ذلك لایة لقوم یذكرون

اور (دیکھو!) اللہ نے جو پیداوار مختلف رنگتوں کی تمہارے لیے زمین میں پھیلا دی ہے،  سو اس میں عبرت پذیر طبیعتوں کے لیے (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانی ہے !

وهو الذی انشا جنات معروشات وغیر معروشات والنخل والزرع مختلفا اكله (۱۴۱:۷)

اور وہ (حکیم و قدیر) جس نے (طرح طرح کے ) باغ پیدا کر دیے،  ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور بغیر چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور (طرح طرح کی کھیتیاں جن کے دانے اور پھل،  کھانے میں مختلف ذائقہ رکھتے ہیں۔

 

جمادات

 

حیوانات اور نباتات پر ہی موقوف نہیں،  جمادات میں بھی یہی قانون فطرت کام کر رہا ہے :

ومن الجبال جدد بیض وحمر مختلف الوانها وغرابیب سود۔ (۲۷:۳۵)

پہاڑوں کو دیکھو! گو نا گوں رنگتوں کے ہیں کچھ سفید کچھ سرخ،  کچھ کالے کلوٹے !

 

ہر چیز کے دو دو ہونے کا قانون

 

اسی قانون اختلاف کا ایک گوشہ وہ بھی ہے کہ جسے قرآن نے تزویج سے تعبیر کیا ہے اور ہم اسے قانون تثنیہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ہر چیز کے دو دو ہونے کے یا متقابل و متماثل ہونے کا قانون۔ کائنات خلقت کا کوئی گوشہ بھی دیکھو! تمہیں کوئی چیز یہاں اکہری اور طاق نظر نہیں آئے گی۔ ہر چیز میں جفت اور دو دو ہونے کی حقیقت کام کر رہی ہے،  یا یوں کہا جائے کہ ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی مثنیٰ بھی ضرور رکھتی ہے۔ رات کے لئے دن ہے،  صبح کے لیے شام ہے،  نر کے لیے مادہ ہے،  مرد کے لئے عورت ہے،  زندگی کے لئے موت ہے دنیوی زندگی کے لیے آخرت کی زندگی ہے۔

وَمِن كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (۴۹:۵۱)

اور ہر چیز میں جوڑے پیدا کر دیئے (یعنی دو دو اور متقابل اشیاء پیدا کیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُونَ (۳۷:۳۷)

پاکی اور بزرگی ہے اس ذات کے لئے جس نے زمین کی پیداوار میں اور انسان میں اور ان تمام مخلوقات میں جن کا انسان کو علم نہیں،  دو دو اور متقابل چیزیں پیدا کیں۔

 

مرد اور عورت

 

یہی قانون فطرت ہے کہ جس نے انسان کو دو مختلف جنسوں یعنی مرد اور عورت میں تقسیم کر دیا اور پھر ان میں فعل و افعال اور جذب و انجذاب کے کچھ ایسے وجدانی احساسات ودیعت کر دیے کہ ہر جنس دوسری جنس سے ملنے کی قدر کی طلب رکھتی ہے اور دونوں کے ملنے سے ازدواجی زندگی کی ایک کامل معیشت پیدا ہو جاتی ہے۔

فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ (۱۱:۴۲)

وہ آسمانوں اور زمین کا بنانے والا۔ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے  جوڑے بنا دیے (یعنی مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد) اسی طرح چار پایوں میں بھی جوڑے پیدا کر دیئے۔

قرآن کہتا ہے : یہ اس لئے ہے تاکہ محبت اور سکون ہو اور دو ہستیوں کی باہمی رفاقت اور اشتراک سے زندگی کی محنتیں اور مشقتیں سہل اور گوارا ہو جائیں۔

وَمِنْ آیَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَیْهَا وَجَعَلَ بَیْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ (۳۰:۲۱)

اور (دیکھو! اس کی (رحمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دیئے (یعنی مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد) تاکہ اس کی وجہ سے تمہیں سکون حاصل ہو اور (پھر اس کی یہ کارفرمائی دیکھو کہ،  تمہارے درمیان (یعنی مرد اور عورت کے درمیان) محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کر دیا۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں،  اس میں (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔

 

نسب اور صہر

 

پھر اسی ازدواجی زندگی سے توالد و تناسل کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہو گیا ہے کہ ہر وجود پیدا ہوتا ہے اور ہر وجود پیدا کرتا ہے ایک طرف وہ نسب کا رشتہ رکھتا ہے جو اسے پچھلوں سے جوڑتا ہے دوسری طرف صہر یعنی دامادی کا رشتہ رکھتا ہے جو اسے آگے آنے والوں سے مربوط کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر وجود کی فردیت ایک وسیع دائرے کی کثرت میں پھیل گئی ہے اور رشتوں قرابتوں کا ایسا وسیع حلقہ پیدا ہو گیا ہے جس کی ہر کڑی دوسری کڑی کے ساتھ مربوط ہے۔

وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ (۲۵:۵۴)

اور وہی (حکیم و قدیر) جس نے پانی سے (یعنی نطفہ سے ) انسان کو پیدا کیا ہے،  پھر (اسی رشتہ پیدائش کے ذریعہ) اسے نسب اور صہر کا رشتہ رکھنے والا بنا دیا۔

 

صلہ رحمی اور خاندانی حلقہ کی تشکیل

 

اور پھر دیکھو! اس نسب اور صہر کے رشتے سے کس طرح خاندان اور قبیلے کا نظام قائم ہو گیا ہے ! اور کس عجیب و غریب طریقے سے صلہ رحمی یعنی قرابت داری کی گیرائیاں ایک وجود کو دوسرے وجود سے جوڑتیں اور معاشرتی زندگی کی باہمی الفتوں اور معاونتوں کے لئے محرک ہوتی ہیں! دراصل انسان کی اجتماعی زندگی کا سارا کارخانہ اسی صلہ رحمی کے سررشتہ نے قائم کر رکھا ہے۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیبًا (۴:۱)

اے افراد نسل انسانی! پروردگار کی نافرمانی سے بچو (اور اس کے ٹھہرائے ہوئے رشتوں سے بے پرواہ نہ ہو جاؤ) وہ پروردگار جس نے تمہیں ایک فرد واحد سے پیدا کیا (یعنی باپ سے ) پیدا کیا ہے اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کر دیا (یعنی جس طرح مرد کی نسل سے لڑکا پیدا ہوا لڑکی بھی پیدا ہوئی) پھر ان کی نسل سے ایک بڑی تعداد مرد اور عورت کی پیدا ہو کر پھیل گئی (اس طرح فرد واحد کے رشتے نے ایک بڑے خاندان اور قبیلے کی صورت پیدا کر لی) پس اللہ کی نافرمانی سے بچو! جس کے نام پر باہم دگر (مہر و شفقت ) سوال کرتے ہو اور صلہ رحمی کے توڑنے سے بھی بچو،  (جس کے نام پر باہم نہ گر ایک دوسرے سے چشم داشت اعانت رکھتے ہو) بلا شبہ اللہ تمہارا نگران حال ہے۔

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِینَ وَحَفَدَةً َ (۱۶:۷۲)

اور (دیکھو!) یہ اللہ ہے جس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑا بنا دیا (یعنی مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد) تمہارے باہمی ازدواج سے بیٹوں اور پوتوں کا سلسلہ قائم کر دیا۔

 

ایام حیات کا تغیر و تنوع

 

هُوَ الَّذِی خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ یُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُیُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن یُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۴۰:۷۷)

اسی طرح ایام حیات کے تغیر و تنوع میں بھی تسکین حیات کی ایک بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہے۔ ہر زندگی طفولیت،  شباب،  جوانی،  کہولت اور بڑھاپے کی مختلف منزلوں سے گزرتی ہے اور ہر منزل اپنے نئے نئے احساسات اور نئی نئی مشغولیتیں اور نئی نئی کاوشیں رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی عالم ہستی کی ایک دل چسپ مسافرت بن گئی۔ ایک منزل کی کیفیتوں سے ابھی جی سیر نہیں ہو چکتا کہ دوسری منزل نمودار ہو جاتی ہے اور اس طرح عرصہ حیات کی طوالت محسوس ہی نہیں ہوتی۔

وہ (پروردگار) جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکلتے ہو۔ پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو،  اس کے بعد تمہارا جینا اس لئے ہوتا ہے تاکہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو۔ پھر تم میں سے کوئی تو ان منزلوں سے پہلے ہی مر جاتا ہے (پھر کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے ) تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کر لے اور تاکہ تم سمجھو۔

 

زینت و تفاخر،  مال و متاع آل و اولاد

 

اسی طرح،  طرح طرح کی خواہشیں اور جذبے،  زینت و تفاخر کے ولولے،  مال و متاع کی محبت آل و اولاد کی دل بستگیاں،  زندگی کی دلچسپی اور انہماک کے لئے پیدا کر دی گئی ہیں :

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ (۳:۱۴)

انسان کے لئے مرد و عورت کے تعلق میں،  اولاد میں،  چاندی سونے کے اندوختوں میں چُنے ہوئے گھوڑوں میں،  مویشیوں میں اور کھیتی باڑی میں دل بستگی پیدا کر دی گئی ہے اور یہ جو کچھ بھی ہے دنیوی زندگی کی پونجی ہے۔ بہت ٹھکانہ تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

 

اختلاف معیشت اور تزاحم حیات

 

اسی طرح معیشت کا اختلاف اور اس کی وجہ سے مختلف درجوں اور حالتوں کا پیدا ہو جانا بھی انہماک حیات کا ایک بہت بڑا محرک ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے زندگی میں مزاحمت اور مسابقت کی حالت پیدا ہو گئی ہے اور اس میں لگے رہنے سے زندگی کی مشقتوں کا جھیلنا آسان ہو گیا ہے بلکہ یہی مشقتیں سر تا سر راحت و سرور کا سامان بن گئی ہیں۔

وَهُوَ الَّذِی جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِی مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ (۶:۱۷۵)

اور یہ اسی (حکیم و تقدیر) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں (پچھلوں ) کا جانشین بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجوں میں فوقیت دے دی،  تاکہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس میں تمہارے عمل کی آزمائش کرے۔ بلاشبہ تمہارا پروردگار (پاداش عمل کی سزا)دینے میں تیز ہے۔ (یعنی اس کا قانون مکافات نتائج عمل میں سست رفتار نہیں ) لیکن ساتھ ہی بخش دینے والا،  رحمت رکھنے والا بھی ہے۔

 

برہان فضل و رحمت

 

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن نے ربوبیت کے اعمال و مظاہر سے استدلال کیا ہے،  اسی طرح وہ رحمت کے آثار و حقائق سے بھی جا بجا استدلال کرتا ہے اور برہان ربوبیت کی طرح فیض و رحمت بھی اس کی دعوت و ارشاد کا ایک عام اسلوب خطاب ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات خلقت کی ہر شے میں ایک مقررہ نظام کے ساتھ رحمت و فضل کے مظاہر کا موجود ہونا قدرتی طور پر انسان کو یقین دلا دیتا ہے کہ ایک رحمت رکھنے والی ہستی کی کارفرمائیاں یہاں کام کر رہی ہیں کیونکہ ممکن نہیں فضل و رحمت کی یہ پوری کائنات موجود ہو اور فضل و رحمت کا کوئی زندہ ارادہ موجود نہ ہو۔ چنانچہ وہ تمام مقامات جن میں کائنات خلقت کے افادہ و فیضان،  زینت و جمال،  موزونیت و اعتدال،  تسویہ و قوام اور تکمیل و اتقان کا ذکر کیا گیا ہے دراصل اسی استدلال پر مبنی ہیں۔

وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِیمُ )۲:۱۷۳) إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْیَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِیهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (۲:۱۷۴)

اور (دیکھو!) تمہارا معبود وہی ایک معبود ہے کوئی معبود نہیں مگر اسی کی ایک ذات۔ رحمت والی اور اپنی رحمت کی بخشائشوں سے ہمیشہ فیض یاب کرنے والی۔ بلا شبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اور کشتی میں جو انسان کی کار برآریوں کے لئے سمندر میں چلتی ہے،  اور بارش میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس (کی آب پاشی) سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین میں پھیلا دیے ہیں نیز ہواؤں کے (مختلف جانب) پھیرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (اپنی مقررہ جگہ کے اندر) بندھے رکے ہیں،  عقل رکھنے والوں کے لئے (اللہ کی ہستی اور اس کے قوانین فضل و رحمت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔

اسی طرح ان مقامات کا مطالعہ کرو جہاں خصوصیت کے ساتھ جمال فطرت سے استدلال کیا ہے :

أَفَلَمْ یَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنَاهَا وَزَیَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ (۵۰:۷) وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَیْنَا فِیهَا رَوَاسِیَ وَأَنبَتْنَا فِیهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِیجٍ )۵۰:۷) تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیبٍ (۵۰:۸)

کیا کبھی ان لوگوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا نہیں کہ کس طرح ہم نے اسے بنایا ہے اور کس طرح اس کے منظر میں خوش نمائی پیدا کر دی ہے ہ؟ اور پھر یہ کہ کہیں بھی اس میں شگاف نہیں۔ اور اسی طرح زمین کو دیکھو! کس طرح ہم نے اسے فرش کی طرح پھیلا دیا اور پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے اور پھر کس طرح قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگا دیں ! ہر اس بندے کے لئے جو حق کی طرف رجوع کرنے والا ہے اس میں غور کرنے کی بات اور نصیحت کی روشنی ہے۔

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَیَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِینَ (۱۵:۱۷)

اور (دیکھو!) ہم نے آسمان میں (ستاروں کی گردش کے لئے ) برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لئے ان میں خوشنمائی پیدا کر دی۔

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ (۶۷:۵)

اور (دیکھو!) ہم نے دنیا کے آسمان (یعنی کرہ ارض کی فضاء) کو ستاروں کی قندیلوں سے خوش منظر بنا دیا۔

وَلَكُمْ فِیهَا جَمَالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَحِینَ تَسْرَحُونَ (۱۶:۷)

اور (دیکھو!) تمہارے لئے چار پایوں کے منظر میں جب شام کے وقت چراگاہ سے واپس لاتے ہو اور جب صبح لے جاتے ہو ایک طرح کا حسن اور نظر افروزی ہے۔

 

موزونیت و تناسب

 

جس چیز کو ہم "جمال” کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ؟ "موزونیت اور تناسب”۔ یہی موزونیت اور تناسب ہے جو بناؤ اور خوبی کے تمام مظاہر کی اصل ہے۔

وَأَنبَتْنَا فِیهَا مِن كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُونٍ (۱۵:۱۹)

اور (دیکھو!) ہم نے زمین میں ہر ایک چیز موزونیت اور تناسب رکھنے والی،  اگائی!

 

تسویہ

 

اسی معنی میں قرآن تسویہ کا لفظ بھی استعمال کرتا ہے۔ "تسویہ” کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس طرح ٹھیک ٹھیک درست کر دینا کہ اس کی ہر بات خوبی و مناسبت کے ساتھ ہو۔

الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّىٰ  ۔ وَالَّذِی قَدَّرَ فَهَدَىٰ (۸۷:۳)

وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی،  پھر ٹھیک ٹھیک خوبی و مناسبت کے ساتھ درست کر دی۔ اور وہ جس نے ہر وجود کے لئے ایک اندازہ ٹھہرا دیا،  پھر اس پر (زندگی و معیشت) کی راہ کھول دی!

الَّذِی خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ   ۔  فِی أَیِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ (۸۲:۸)

وہ پروردگار جس نے تمہیں پیدا کیا،  پھر ٹھیک ٹھیک درست کر دیا،  پھر (تمہارے ظاہری و باطنی قویٰ میں ) اعتدال و تناسب ملحوظ رکھا،  پھر جیسی صورت بنانی چاہی اسی کے مطابق ترکیب دے دی۔

 

اتقان

 

یہی حقیقت ہے جسے قرآن نے "اتقان” کے نام سے بھی تعبیر کیا ہے،  یعنی کائنات ہستی کی ہر چیز کا درستگی و استواری کے ساتھ ہونا کہ کہیں بھی اس میں خلل،  نقصان،  بے ڈھنگا پن،  اونچ نیچ،  ناہمواری نظر نہیں آ سکتی :

صُنْعَ اللَّهِ الَّذِی أَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ ۚ(۲۷:۸۸)

یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز درستگی و استواری کے ساتھ بنائی!

مَّا تَرَىٰ فِی خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ (۶۷:۳) ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنقَلِبْ إِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِیرٌ (۶۷:۴)

تم الرحمٰن کی بناوٹ میں (کیونکہ یہ اس کی رحمت ہی کا ظہور ہے ) کبھی کوئی اونچ نیچ نہیں پاؤ گے۔ (اچھا نظر اٹھاؤ اور اس نمائش گاہ صنعت کا مطالعہ کرو!) ایک بار نہیں بار بار دیکھو! کیا تمھیں کوئی دراڑ دکھائی دیتی ہے ؟ تم اسی طرح یکے بعد دیگرے دیکھتے رہو! تمہاری نگاہ اتھے گی اور عاجز و درماندہ ہو کر واپس آ جائے گی لیکن کوئی نقص نہ نکال سکے گی۔

"فی خلق الرحمن” فرمایا،  یعنی یہ خوبی و اتقان اس لیے ہے کہ رحمت رکھنے والے کی کاریگری ہے رحمت کا مقتضیٰ یہی تھا کہ حسن و خوبی ہو اتقان و کمال ہو،  نقص و ناہمواری نہ ہو!

 

رحمت سے معاد پر استدلال

 

خدا کی ہستی اور اس کی توحید و صفات کی طرح آخرت کی زندگی پر بھی وہ رحمت سے استدلال کرتا ہے۔ اگر رحمت کا مقتضیٰ یہ ہو کہ دنیا میں اس خوبی و کمال کے ساتھ زندگی کا ظہور ہو تو کیونکر یہ بات باور کی جا سکتی ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد اس کا فیضان ختم ہو جائے اور خزانہ رحمت میں انسان کی زندگی اور بناؤ کے لئے کچھ باقی نہ رہے ؟

أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن یَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا (۱۷:۹۹) قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّی إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْإِنفَاقِ ۚ (۱۷:۱۰۰)

کیا ان لوگوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ جس نے آسمان اور زمین پیدا کیئے ہیں،  یقیناً اس بات سے عاجز نہیں ہو سکتا کہ ان جیسے (آدمی دوبارہ) پیدا کر دے،  اور یہ کہ ان کے لیے اس نے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہے جس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ! (افسوس ان کی شقاوت پر!) اس پر بھی ان ظالموں نے اپنے لیے کوئی راہ پسند نہ کی مگر حقیقت سے انکار کرنے کی! (اے پیغمبر! ان سے ) کہہ دو : اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے ہوتے تو اس حالت میں یقیناً تم خرچ ہو جانے کے ڈر سے ہاتھ روکے رکھتے (لیکن یہ اللہ ہے جس کے خزائن رحمت نہ تو کبھی ختم ہو سکتے ہیں نہ اس کی بخشائش رحمت کی کوئی انتہا ہے !)۔

 

رحمت سے وحی و تنزیل کی ضرورت پر استدلال

 

اسی طرح وہ رحمت سے وحی و تنزیل کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جو رحمت کارخانہ ہستی کے ہر گوشے میں افادہ و فیضان کا سرچشمہ ہے،  کیونکر ممکن تھا کہ انسان کی معنوی ہدایت کے لیے اس کے پاس کوئی فیضان نہ ہوتا اور وہ انسان کو نقصان و ہلاکت کے لئے چھوڑ دیتی؟ اگر تم دس گوشوں میں فیضان رحمت محسوس کر رہے ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ گیارہویں گوشے میں اس سے انکار کر دو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جا بجا نزول وحی،  ترسیل کتب اور بعثت انبیاء کو رحمت سے تعبیر کیا ہے :

وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَیْنَا وَكِیلًا (۱۷:۸۷) إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَیْكَ كَبِیرًا (۱۷:۸۷)

اور (اے پیغمبر!) اگر ہم چاہیں تو جو کچھ تم پر وحی کے ذریعے بھیجا گیا ہے اسے اٹھا لے جائیں (یعنی سلسلہ تنزیل وحی باقی نہ رہے ) اور تمہیں کوئی بھی ایسا کارساز نہ ملے جو ہم پر زور ڈال سکے،  لیکن جو سلسلہ وہی جاری ہے تو یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمہارے پروردگار کی رحمت ہے اور یقین کرو! تم پر اس کا بڑا ہی فضل ہے۔

تَنزِیلَ الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ (۳۷:۵) لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ (۳۷:۷)

(یہ قرآن) عزیز و رحیم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے،  تاکہ ان لوگوں کو جن کے آباؤ اجداد (کسی پیغمبر کی زبانی) متنبہ نہیں کیئے گئے ہیں اور اس لیے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں،  تم متنبہ کرو۔

تورات و انجیل اور قرآن کی نسبت جا بجا تصریح کی کہ ان کا نزول "رحمت” ہے :

وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ (۱۱:۱۷)

اور اس سے پہلے (یعنی قرآن سے پہلے ) موسیٰ کی کتاب (امت کے لیے ) پیشوا اور رحمت!

یَا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِینَ )۱۰:۵۷) قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوا هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ (۱۰:۵۸)

اے افراد نسل انسانی! یقیناً یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے موعظت ہے جو،  تمہارے لیے آ گئی ہے،  اور ان تمام بیماریوں کے لیے جو انسان کے دل کی بیماریاں ہیں،  نسخۂ  شفا ہے،  اور رہ نمائی اور رحمت ہے ایمان رکھنے والوں کے لئے۔ (اے پیغمبر! ان لوگوں سے ) کہہ دو (کہ یہ جو کچھ ہے ) اللہ کے فضل اور رحمت سے  ہے۔ بس چاہیے کہ (اپنی فیضیابی پر) خوش ہو۔ یہ (اپنی برکتوں میں ) ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنہیں تم (زندگی کی کامرانیوں کے لئے ) فراہم کرتے ہو۔

هَٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ (۴۵:۲۰)

یہ (قرآن) لوگوں کے لئے واضح دلیلوں کی روشنی ہے اور ہدایت و رحمت ہے یقین رکھنے والوں کے لئے۔

أَوَلَمْ یَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتَابَ یُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (۲۹:۵۱)

کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جو انہیں (برابر) سنائی جا رہی ہے ؟ جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں،  بلا شبہ ان کے لیے اس (نشانی) میں سر تا سر رحمت اور فہم و بصیرت ہے۔

چنانچہ اسی بناء پر اس نے داعی اسلام کے ظہور کو بھی فیضان رحمت سے تعبیر کیا ہے :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ (۲۱:۱۰۷)

(اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں نہیں بھیجا ہے مگر اس لیے کہ تمام جہان کے لیے ہماری رحمت کا ظہور ہے !

 

انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر "رحمت” سے استدلال اور بقاء انفع

 

اسی طرح وہ "رحمت کے مادی مظاہر سے انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جس "رحمت” کا مقتضیٰ یہ ہوا کہ دنیا میں "بقاء انفع” کا قانون نافذ ہے،  یعنی وہی چیز باقی رہتی ہے جو نافع ہوتی ہے،  کیونکر ممکن تھا کہ وہ انسانی اعمال کی طرف سے غافل ہو جاتی اور نافع اور غیر نافع اعمال میں امتیاز نہ کرتی؟ پس مادیات کی طرح معنویات میں بھی یہ قانون نافذ ہے اور ٹھیک ٹھیک اسی طرح ایسے احکام و نتائج رکھتا ہے جس طرح مادیات میں تم دیکھ رہے ہو۔

 

حق و باطل

 

اس سلسلہ میں وہ دو لفظ استعمال کرتا ہے "حق” اور "باطل”۔ سورۃ رعد میں جہاں قانون "بقاء انفع” کا ذکر کیا ہے،  وہاں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس بیان سے مقصود "حق” اور "باطل” کی حقیقت واضح کرنی ہے :

كَذَٰلِكَ یَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ(۱۳:۱۷)

اسی طرح اللہ "حق” اور "باطل” کی ایک مثال بیان کرتا ہے۔

ساتھ ہی مزید تصریح کر دی :

فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ یَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ )۱۳:۱۷) لِلَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِۚ(۱۳:۱۸)

پس (دیکھو!) میل کچیل سے جو جھاگ اٹھتا ہے وہ رائیگاں جاتا ہے،  کیونکہ اس میں انسان کے لیے نفع نہ تھا،  لیکن جس چیز میں انسان کے لیے نفع ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ (اپنے قوانین عمل کی) مثالیں دیتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا،  ان کے لیے خوبی و بہتری ہے اور جن لوگوں نے قبول نہ کیا،  ان کے لیے (اپنے اعمال بد کا) سختی کے ساتھ حساب دینا ہے۔ اور اگر ان لوگوں کے قبضے میں وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتنا ہی اس پر اور بڑھا دین اور بدلے میں دے کر (نتائج عمل سے ) بچنا چاہیں،  (جب بھی نہ بچ سکیں گے )۔

عربی میں "حق” کا خاصہ نبوت اور قیام ہے،  یعنی جو بات ثابت ہو،  اٹل ہو،  امٹ ہو،  اسے حق کہیں گے۔ "باطل” ٹھیک ٹھیک اس کا نقیض ہے۔ ایسی چیز جس میں ثبات و قیام نہ ہو،  ٹل جانے والی،  مٹ جانے والی،  باقی نہ رہنے والی۔ چنانچہ خود قرآن میں جا بجا ہے :

لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ (۸:۸)

 

قانون "قضاء بالحق”

 

وہ کہتا ہے : جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹتی رہتی ہے،  جو چیز نافع ہوتی ہے باقی رکھتی ہے،  جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کر دیتی ہے،  ٹھیک ٹھیک ایسا ہی عمل معنویات میں بھی جاری ہے۔ جو عمل حق ہو گا قائم اور ثابت رہیگا،  جو باطل ہو گا مٹ جائے گا۔ اور جب کبھی حق اور باطل متقابل ہوں گے تو بقاء حق کے لیے ہو گی نہ کہ باطل کے لیے۔ وہ اسے "قضاء بالحق” سے تعبیر کرتا ہے،  یعنی فطرت کا فیصلۂ  حق جو باطل کے لیے نہیں ہو سکتا :

فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ (۷۸:۴۰)

کتاب میں (۲۸:۴۰) لکھا ہوا ہے۔

پھر جب وہ وقت آ گیا کہ حکم الٰہی صادر ہو تو (خدا کا) فیصلۂ  حق نافذ ہو گیا اور اس وقت ان لوگوں کے لیے جو برسر باطل تھے تباہی ہوئی!

اس نے اس حقیقت کی تعبیر کے لئے "حق” اور "باطل” کا لفظ اختیار کر کے مجرد و تعبیر ہی سے حقیقت کی نوعیت واضح کر دی،  کیونکہ حق اسی چیز کو کہتے ہیں جو ثابت و قائم ہو اور باطل کے معنی ہی یہ ہیں کہ مٹ جانا،  قائم و باقی نہ رہنا۔ پس جب وہ کسی بات کے لیے کہتا ہے کہ یہ "حق” ہے تو یہ صرف دعویٰ ہی نہیں ہوتا بلکہ دعوے کے ساتھ اس کے جانچنے کا ایک معیار بھی پیش کر دیتا ہے۔ یہ بات حق ہے،  یعنی نہ ٹلنے والی،  نہ مٹنے والی بات ہے۔ یہ بات باطل ہے،  یعنی نہ ٹک سکنے والی،  مٹ جانے والی بات ہے۔ پس جو بات اٹل ہو گی اس کا اٹل ہونا کسی نگاہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ جو بات مٹ جانے والی ہے اس کا مٹنا ہر آنکھ دیکھ لے گی!

 

اللہ کی صفت بھی "الحق” ہے

 

چنانچہ وہ اللہ کی نسبت بھی "الحق” کی صفت استعمال کرتا ہے،  کیونکہ اس کی ہستی سے بڑھ کر اور کون سے حقیقت ہے جو ثابت اور اٹل ہو سکتی ہے ؟

فَذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّۖ(۱۰:۳۲)

پس یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار "الحق”۔

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ِۖ  ( ۱۱۷:۲۳)

پس کیا ہی بلند درجہ ہے اللہ کا،  الملک (یعنی فرمانروا) الحق (یعنی ثابت)۔

 

وحی و تنزیل بھی "الحق” ہے

 

وحی و تنزیل کو بھی وہ "الحق” کہتا ہے،  کیونکہ وہ دنیا کی ایک قائم و ثابت حقیقت ہے۔ جب قوتوں نے اسے مٹانا چاہا وہ خود مٹ گئیں،  حتیٰ کہ آج ان کا نام و  نشان بھی باقی نہیں،  لیکن وحی و تنزیل کی حقیقت ہمیشہ قائم رہی اور آج تک قائم ہے :

قُلْ یَا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖفَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا یَهْتَدِی لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا ۖوَمَا أَنَا عَلَیْكُم بِوَكِیلٍ   ۔  وَاتَّبِعْ مَا یُوحَىٰ إِلَیْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ یَحْكُمَ اللَّهُ ۚ وَهُوَ خَیْرُ الْحَاكِمِینَ (یونس: ۱۰۸-۱۰۹)

(اے پیغمبر! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اے افرادِ نسلِ انسانی! بلاشبہ تمہارے پروردگار کی طرف سے وہ چیز تمہارے لیے آ گئی جو "حق” ہے۔ پس اب جس کسی نے سیدھی راہ اختیار کی تو یہ راست روی اسی کی بھلائی کے لیے ہے،  اور جس نے گمراہی اختیار کی تو اس کی گمراہی کا نقصان بھی اسی کے لیے ہے۔ اور (میرا کام تو صرف راہِ حق دکھا دینا ہے ) میں تم پر نگہبان مقرر نہیں کیا گیا ہوں ( کہ تم کو پکڑ کر زبردستی راہ پر لگا دوں )۔ اور (اے پیغمبر!) جو کچھ تم پر وحی کی گئی ہے اس کے مطابق چلو اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ(الاسراء:۱۰۵)

اور (اے پیغمبر!) ہماری طرف سے اس کا (یعنی قرآن کا) نازل ہونا حق ہے اور وہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا ہے۔

 

قرآن کی اصطلاح میں "الحق”

 

اسی طرح جب وہ علامتِ تعریف کے ساتھ کسی بات کو "الحق” کہتا ہے تو اس سے بھی مقصود یہی ہوتی ہے اور اسی لیے  وہ اکثر حالتوں میں صرف "الحق” کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ضرور نہیں سمجھتا،  کیونکہ اگر فطرتِ کائنات کا یہ قانون ہے کہ وہ حق و باطل کے نزاع میں "حق” ہی کو باقی رکھتی ہے تو کسی بات کے امرِ حق ہونے کے لیے اتنا ہی کہہ دینا  کافی ہے کہ وہ "حق” ہے۔ یعنی باقی و قائم رہنے والی حقیقت ہے۔ اس کا بقاء و قیام خود ہی اپنی حقیقت کا اعلان کر دے گا۔(۳۷)

 

نزاعِ حق و باطل

 

یہ جو قرآن جا بجا حق اور باطل کے نزاع کا ذکر کرتا ہے اور پھر بطورِ اصل اور قاعدہ کے اس پر زور دیتا ہے کہ کامیابی حق کے لیے ہے اور ہزیمت و خسران باطل کے لیے ہے تو یہ تمام مقامات بھی اسی قانونِ "قضاء بالحق” کی تصریحات ہیں اور اسی حقیقت کی روشنی میں ا ن کا مطالعہ کرنا چاہیے :

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ (الأانبیاء:۱۸)

اور ہمارا قانون یہ ہے کہ حق باطل سے ٹکراتا ہے اور اسے پاش پاش کر دیتا ہے اور اچانک ایسا ہوتا ہے کہ وہ نابود ہو گیا!

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (الاسراء:۱۸)

اور کہہ دو! حق نمودار ہو گیا اور باطل نابود ہوا اور یقیناً باطل نابود ہی ہونے والا تھا۔

 

اللہ کی شہادت

 

اور پھر حق و صداقت کے لیے یہی اللہ کی وہ شہادت ہے وہ اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوتی ہے اور بتا دیتی ہے کہ حق کس کے ساتھ تھا اور باطل کا کون پرستار تھا؟ یعنی "قضاء بالحق” کا قانون حق کو ثابت و قائم رکھ کر اور اس کے حریف کو محو و متلاشی کر کے حقیقتِ حال کا اعلان کر دیتا ہے :

قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ شَهِیدًا ۖ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِینَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (العنکبوت:۵۲)

(ان لوگوں سے ) کہہ دو: اب کسی اور رد و کد کی ضرورت نہیں،  میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۔ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اس کے علم میں ہے۔ پس جو لوگ حق کی جگہ باطل پر ایمان لائے ہیں اور اللہ کی صداقت کے منکر ہیں تو یقیناً وہی ہیں جو تباہ ہونے والے ہیں !

ایک دوسرے موقع پر فیصلۂ  امر کے لیے اسے سب سے بڑی شہادت قرار دیا ہے :

قُلْ أَیُّ شَیْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِیدٌ بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ ۚ (الأنعام:۱۹)

پوچھو! کون سی بات سب سے بڑی گواہی ہے ؟ (اے پیغمبر!) کہہ دو: اللہ کی گواہی۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان (فیصلۂ  امر کے لیے ) گواہی دینے والا ہے !

 

قضاء بالحق مادیات اور معنویات کا عالم گیر قانون ہے

 

وہ کہتا ہے : اس قانون سے تم کیونکر انکار کر سکتے ہو جب کہ زمین و آسمان کا تمام کارخانہ اسی کی کارفرمائیوں پر قائم ہے ! اگر فطرتِ کائنات نقصان اور برائی چھانٹتی یہ رہتی اور بقاء و قیام صرف اچھائی اور خوبی ہی کے لیے نہ ہوتا تو ظاہر ہے تمام کارخانۂ  ہستی درہم برہم ہو جاتا۔ جب تم جسمانیات میں اس قانونِ فطرت کا مشاہدہ کر رہے ہو تو معنویات میں تمہیں کیوں انکار ہو؟

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیهِنَّ ۚ (المؤمنون:۷۱)

اور اگر حق ان کی خواہشوں کی پیروی کرے تو یقین کرو! یہ آسمان و زمین اور جو کوئی اس میں ہے،  سب درہم برہم ہو کر رہ جائے !

 

انتظار اور تربص

 

قرآن میں جہاں کہیں انتظار اور تربص پر زور دیا ہے اور کہا ہے ؒ جلدی نہ کرو،  انتظار کرو،  عنقریب حق و باطل کا فیصلہ ہو جائے گا،  مثلاً

 قُلْ فَانتَظِرُوا إِنِّی مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِینَ  (یونس:۱۰۲)

تو اس سے بھی مقصود یہی حقیقت ہے۔

 

قضاء بالحق اور تدریج  و امہال

 

لیکن کیا "قضاء بالحق” کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر باطل عمل فوراً نابود ہو جائے اور ہر عملِ حق فوراً فتح مند ہو جائے ؟ قرآن کہتا ہے کہ نہیں،  ایسا نہیں ہو سکتا اور "رحمت” کا مقتضیٰ یہی ہے کہ ایسا نہ ہو۔ جس رحمت کا مقتضیٰ یہ ہوا کہ معنویات،  کائناتِ ہستی کے ہر گوشے میں قانونِ فطرت ایک ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ دنیا میں کوئی انسانی جماعت اپنی بد عملیوں کے ساتھ مہلت پا سکتی:

وَلَوْ یُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ إِلَیْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ (یونس:۱۱)

اور جس طرح انسان فائدے کے لیے جلد باز ہو جاتا ہے،  اگر اسی طرح اللہ انسان کو سزا دینے میں جلد باز ہوتا تو (انسان کی لغزشوں،  خطاؤں کا یہ حال ہے کہ) کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا اور ان کا مقررہ وقت فوراً نمودار ہو جاتا۔

 

تاجیل

 

وہ کہتا ہے کہ: جس طرح مادیات میں ہر حالت بتدریج نشوونما پاتی ہے اور ہر نتیجہ کے ظہور کے لیے ایک خاص مقدار،  ایک خاص مدت اور ایک خاص وقت مقرر کر دیا گیا ہے،  ٹھیک اسی طرح اعمال کے نتائج کے لیے بھی خاص مقدار و اوقات کے احکام مقرر ہیں۔ اور ضروری ہے کہ ہر نتیجہ ایک خاص مدت کے بعد اور ایک خاص مقدار کی نشوونما کے بعد ظہور میں آئے۔

مثلاً یہ فطرت کا قانون ہے کہ: اگر پانی آگ پر رکھا جائے تو وہ گرم ہو کر کھولنے لگے گا۔ لیکن پانی کے گرم ہونے اور بالآخر کھولنے کے لیے حرارت کی ایک خاص مقدار ضروری ہے اور اس کے ظہور و تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ایک مقررہ وقت تک انتظار کیا جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم پانی چولہے پر رکھو اور وہ فوراً کھولنے لگے۔ وہ یقیناً کھولنے لگے گا،  لیکن اس وقت،  جب حرارت کی مقررہ مقدار بتدریج تکمیل تک پہنچ جائے گی۔ ٹھیک اسی طرح یہاں انسانی اعمال کے نتائج بھی اپنے مقررہ اوقات ہی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اور ضروری ہے کہ جب تک اعمال کے اثرات ایک خاص مقررہ مقدار تک نہ پہنچ جائیں،  نتائج کے ظہور کا انتظار کیا جائے۔ (۳۸)

اس صورتِ حال سے تدریج و اہمال کی حالت پیدا ہو گئی اور عملِ حق اور عملِ باطل دونوں کے نتائج کے ظہور کے لیے "تاجیل” یعنی ایک معین وقت کا ٹھہراؤ ضروری ہو گیا،  دونوں کے نتائج فوراً ظاہر نہیں ہو جائیں گے۔ اپنی مقررہ "اجل” یعنی مقررہ وقت پر ہی ظاہر ہوں گے،  البتہ حق کے لیے تاجیل اس لیے ہوتی ہے تاکہ اس کی فتح مند وقت نشوونما پائے اور باطل کے لیے اس لیے ہوتی ہے تاکہ اس کی فنا پذیر کمزوری تکمیل تک پہنچ جائے۔ اس تاجیل کے لیے کوئی ایک ہی مقررہ مدت نہیں ہے۔ ہر حالت کا ایک خاصہ ہے اور ہر گرد و پیش اپنا ایک خاص مقتضیٰ رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک خاص حا لت کے لیے مقررہ مدت کی مقدار بہت تھوڑی ہو اور ہو سکتا ہے کہ بہت زیادہ ہو:

فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ أَم بَعِیدٌ مَّا تُوعَدُونَ )۱۰۹) إِنَّهُ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَیَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ )۱۱۰) وَإِنْ أَدْرِی لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِینٍ (الأنبیاء: ۱۰۹-۱۱۱)

پھر اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو ان سے کہہ دو: میں نے تم سب کو یکساں طور پر (حقیقتِ حال کی) خبر دے دی اور میں نہیں جانتا اعمالِ بد کے جس نتیجہ کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے،  اس کا وقت قریب ہے یا ابھی دیر ہے۔ جو کچھ علانیہ زبان سے کہا جاتا ہے اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو،  خدا کو سب معلوم ہے۔ اور مجھے کیا معلوم؟ ہو سکتا ہے یہ تاخیر اس لیے ہو تاکہ تمہاری آزمائش کی جائے یا اس لیے کہ ایک خاص وقت تک تمہیں فائدہ اٹھانے کا (مزید) موقع دیا جائے !

 

قوانینِ فطرت کا معیارِ اوقات

 

قرآن کہتا ہے : تم اپنی اوقات شمار کے پیمانے سے قوانینِ فطرت کی رفتارِ عمل کا اندازہ نہ لگاؤ۔ فطرت کا دائرۂ  عمل تو اتنا وسیع ہے کہ تمہارے معیارِ حساب کی بڑی مدت اس کے لیے ایک دن کی مدت سے زیادہ نہیں :

وَیَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن یُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ یَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ )۴۷) وَكَأَیِّن مِّن قَرْیَةٍ أَمْلَیْتُ لَهَا وَهِیَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَیَّ الْمَصِیرُ  (الحج: ۴۷-۴۸)

یہ لوگ عذاب کے لیے جلد بازی کر رہے ہیں (یعنی انکار و شرارت کی راہ سے کہتے ہیں : اگر سچ مچ کو عذاب آنے والا ہے تو وہ کہاں ہے ؟) سو یقین کرو! خدا اپنے وعدے میں کبھی خلاف کرنے والا نہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ تمہارے پروردگار کا ایک دن ایسا ہوتا ہے جیسا تمہارے حساب کا ہزار برس۔ چنانچہ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں (عرصۂ  دراز تک) ڈھیل دی گئی حالانکہ وہ ظالم تھیں،  پھر (جب ظہورِ نتائج کا وقت آ گیا تو ) ہمارا مؤاخذہ نمودار ہو گیا اور (ظاہر ہے کہ لوٹ کر) ہماری طرف آنا ہے۔

 

استعجال بالعذاب

 

ان آیات میں فکرِ انسانی کی جس گمراہی کو "استعجال بالعذاب” سے تعبیر کیا گیا ہے،  وہ صرف انہیں منکرینِ حق کی گمراہی نہ تھی جو ظہورِ اسلام کے وقت اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے تھے،  بلکہ ہر زمانے میں انسان کی ایک عالمگیر کج اندیشی رہی ہے۔ وہ بسا اوقات فطرت کی اس مہلت بخشی سے فائدہ اٹھانے کی جگہ شر و فساد میں اور زیادہ نڈر اور جری ہو جاتا ہے اور کہتا ہے : اگر فی الحقیقت حق و باطل کے لیے ان کے نتائج و عواقب ہیں تو وہ نتائج کہاں ہیں اور کیوں فوراً ظاہر نہیں ہو جاتے ؟ قرآن جا بجا منکرینِ حق کا خیال نقل کرتا ہے اور کہتا ہے : اگر کائناتِ ہستی میں اس حقیقتِ اعلیٰ کا ظہور نہ ہوتا جسے "رحمت ” کہتے ہیں تو یقیناً یہ نتائج یکایک اور بہ بک دفعہ ظاہر ہو جاتے ہیں اور انسان اپنی بد عملیوں کے ساتھ کبھی زندگی کا سانس نہ لے سکتا۔ لیکن یہاں سارے قانون اور حکموں سے بھی بالاتر "رحمت” کا قانون ہے اور اس کا مقتضیٰ یہی ہے کہ حق کی طرح باطل کو بھی زندگی و معیشت کی پہلتیں دے اور توبہ و رجوع اور عفو و درگزر کا دروازہ ہر حال میں باز رکھے۔ فطرتِ کائنات میں اگر یہ "رحمت” نہ ہوتی تو یقیناً وہ جزاءِ عمل میں جلد باز ہوتی۔ لیکن اس میں رحمت میں،  اس لیے نہ تو اس کی مہلت بخشیوں کی کوئی حد ہے،  نہ اس کے عفو و درگزر کے لیے کوئی کنارا!

وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ  ۔  قُلْ عَسَىٰ أَن یَكُونَ رَدِفَ لَكُم بَعْضُ الَّذِی تَسْتَعْجِلُونَ  ۔  وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُونَ (النمل: ۷۱-۷۳)

اور (اے پیغمبر!( یہ (حقیقت فراموش) کہتے ہیں اگر تم (نتائج و طغیان سے ڈرانے میں ) سچے ہو تو وہ بات کب ہونے والی ہے ( اور کیوں نہیں ہو چکتی؟) ان سے کہہ دو: (گھبراؤ نہیں ) جس بات کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو،  عجب نہیں اس کا ایک حصہ بالکل قریب آ گیا ہو۔ اور (اے پیغمبر!) تمہارا پروردگار انسان کے لیے بڑا ہی فضل رکھنے والا ہے ( کہ ہر حال میں اصلاح و تلافی کی مہلت دیتا ہے ) لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر!) بیش تر ایسے ہیں کہ اس کے فضل و رحمت سے فائدہ اٹھانے کی جگہ اس کی ناشکری کرتے ہیں !

وَیَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَیَأْتِیَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ  (العنکبوت: ۵۳)

اور یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی کرتے ہیں (یعنی انکار و شرارت کی راہ سے کہتے ہیں : اگر واقعی عذاب آنے والا ہے تو کیوں نہیں آ چکتا؟) اور واقعہ یہ ہے کہ اگر ایک خاص وقت نہ ٹھہرا دیا گیا ہوتا تو کب کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اور (یقین رکھو! جب وہ آئے گا تو اس طرح آئے گا کہ ) یکایک ان پر آ گرے گا اور انہیں اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا!

وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ (ہود: ۱۰۴)

اور (یاد رکھو!) اگر ہم اس معاملے میں تاخیر کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ ایک حساب کی ہوئی مدت کے لیے اسے تاخیر میں ڈال دیں۔

 

العاقبۃ للمتقین

 

وہ کہتا ہے : یہاں زندگی و عمل کی مہلتیں سب کے لیے ہیں،  کیونکہ "رحمت” کا مقتضیٰ یہی تھا۔ پس اس بات سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ نتائجِ اعمال کے قوانین موجود نہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ نتیجے کی کامیابی کس کے حصے میں آتی ہے اور آخرِ کار کون آبرو مند ہوتا ہے :

قُلْ یَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّی عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ  (الأنعام: ۱۳۵)

(اے پیغمبر!تم ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ دیکھو! (اب میری اور تمہارے معاملے کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ) تم جو کچھ کر رہے ہو،  اپنی جگہ کیے جاؤ اور میں بھی اپنی جگہ کام میں لگا ہوں۔ عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کون ہے جس کے لیے آخرِ کار (کامیاب) ٹھکانہ ہے۔ بلاشبہ (یہ اس کا قانون ہے کہ) ظلم کرنے والے  کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔

 

قرآن کی وہ تمام آیات جن میں ظلم و کفر کے لیے فلاح و کامیابی کی نفی کی گئی ہے

 

اس موقع پر یہ قاعدہ بھی معلوم کر لینا چاہیے کہ قرآن کے جہاں کہیں ظلم و فساد اور فسق و کفر وغیرہ اعمالِ بد کے لیے کامیابی اور فلاح کی نفی کی ہے اور نیک عملی کے لیے فتح مندی و کامرانی کا اثبات کیا ہے،  ان تمام مقامات میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ  کیا ہے۔ مثلاً

إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (الأنعام: ۱۳۵)   إِنَّهُ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ  (یونس: ۱۷)  نَّهُ لَا یُفْلِحُ الْكَافِرُونَ  (المؤمنون: ۱۱۷)  إِنَّ اللَّهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ  (یونس:۸۱)   وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ  (التوبة:۳۸)   وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ  (آل عمران: ۸۶) وغیرہا۔

اللہ ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں دیتا،  یعنی اس کا قانون ہے کہ ظلم کے لیے کامیابی و فلاح نہیں ہوتی۔ اللہ ظلم کرنے والوں پر راہ نہیں کھولتا،  یعنی اس کا قانون یہی ہے کہ ظلم کرنے والوں پر کامیابی و سعادت کی راہ نہیں کھلتی۔ یہ مطلب نہیں کہ اللہ ارشاد و ہدایت کا دروازہ ان پر بند کر دیتا ہے اور وہ گمراہی و کوری کی زندگی پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ افسوس ہے ! کہ قرآن کے مفسروں نے ان مقامات کا ترجمہ غور و فکر کے ساتھ نہیں کیا اس لیے مطالب اپنی اصل شکل میں واضح نہ ہو سکے۔

 

تمتع

 

اور پھر اصطلاحِ قرآنی میں یہی وہ "تمتع” ہے،  یعنی زندگی سے فائدہ اٹھانے کی مہلت جس کا وہ بار بار ذکر کرتا ہے اور جو یکساں طور پر سب کو دی گئی ہے :

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ ۗ (الأنبیاء: ۴۴)

بلکہ یہ بات ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو اور ان کے آباء و اجداد کو مہلتِ حیات سے بہرہ مند ہونے کے موقع دیے یہاں تک کہ (خوش حالی کی) اس پر بڑی بڑی عمریں گزر گئیں۔

اسی طرح وہ جا بجا  مَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِینٍ (المؤمنون، ۹۸)  وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِینٍ  (یٰس،  ۴۴) فَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (النحل،  ۵۵) وغیرہ تعبیرات سے بھی اسی حقیقت پر زور دیتا ہے۔

 

قضاء بالحق اور اقوام و جماعات

 

اسی طرح وہ قانونِ "قضاء بالحق” کو جماعتوں اور قوموں کے عروج و زوال پر بھی منطبق کرتا ہے اور کہتا ہے : جس طرح فطرت کا قانونِ انتخاب افراد و اجسام میں جاری ہے اسی طرح اقوام و جماعات میں بھی جاری ہے۔ جس طرح فطرت نافع اشیاء کو باقی رکھتی،  غیر نافع کو چھانٹ دیتی ہے،  ٹھیک اسی طرح جماعتوں میں بھیک صرف اسی جماعت کے لیے بقاء ہوتی ہے جس میں دنیا کے لیے نفع ہو،  جو جماعت غیر نافع ہو جاتی ہے چھانٹ دی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے : یہ اس کی "رحمت” ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں انسانی ظلم و طغیان کے لیے کوئی روک تھام نظر نہ آتی:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِینَ  (البقرۃ: ۲۵۱)

اور (دیکھو!) اگر اللہ (نے جماعتوں اور قوموں میں باہم دگر ترحم پیدا نہ کر دیا ہوتا اور وہ) بعض آدمیوں کے ذریعے بعض آدمیوں کو راہ سے ہٹاتا نہ رہتا تو یقیناً زمین میں خرابی پھیل جاتی،  لیکن اللہ کائنات کے لیے فضل و رحمت رکھنے والا ہے۔

ایک دوسرے موقعے پر یہی حقیقت ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے :

 وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْكَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِیرًا ۗ وَلَیَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن یَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ  (الحج:۴۰)

اگر ایسا نہ ہوتا کہ اللہ بعض جماعتوں کے ذریعے بعض کو ہٹاتا  نہ رہتا تو (یقین کرو دنیا میں انسان کے ظلم و فساد کے لیے کوئی روک باقی نہ رہتی اور) یہ تمام خانقاہیں،  گرجے،  عبادت گاہیں،  مسجدیں جن میں اسی کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے،  منہدم ہو کر رہ جاتیں۔ اور (یاد رکھو!) جو کوئی اللہ (کی سچائی ) کی حمایت کرے گا،  ضروری ہے کہ اللہ بھی اس کی مدد فرمائے۔ کچھ شبہ نہیں اللہ قوت رکھنے والا (اور سب پر) غالب ہے۔ (۳۹)

 

قضاء بالحق کے اجتماعی نفاذ میں بھی تدریج و امہال اور تاجیل ہے

 

لیکن وہ کہتا ہے : جس طرح فطرتِ کائنات کے تمام کاموں میں تدریج و امہال کا قانون کام کر رہا ہے،  اسی طرح قوموں اور جماعتوں کے معاملے میں بھی وہ جو کچھ کرتی ہے بتدریج کرتی ہے اور اصلاحِ حال اور رجوع و انابت کا دروازہ آخر وقت تک کھلا رکھتی ہے،  کیونکہ "رحمت” کا مقتضیٰ یہی ہے :

وَقَطَّعْنَاهُمْ فِی الْأَرْضِ أُمَمًا ۖ مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ ۖوَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ  (الأعراف:۱۶۸)

اور ہم نے ایسا کیا کہ ان کے الگ الگ گروہ زمین میں پھیل گئے،  ان میں سے بعض تو نیک عمل تھے،  بعض دوسری طرح کے۔ پھر ہم نے انہیں اچھائیوں اور برائیوں دونوں طرح کی حالتوں سے آزمایا کہ نافرمانی سے باز آ جائیں۔

جس طرح اجسام کے ہر تغیر کے لیے فطرت نے اسباب و علل کی ایک خاص مقدار اور مدت مقرر کر دی ہے،  اسی طرح اقوال کے زوال و ہلاکت کے لیے بھی موجبات کی ایک خاص مقدار مقرر ہے اور یہ ان کی "اجل” ہے۔ جب تک یہ اجل نہیں آ چکتی قانونِ الٰہی یکے بعد دیگرے تنبہ و اعتبار کی مہلتیں دیتا رہتا ہے :

أَوَلَا یَرَوْنَ أَنَّهُمْ یُفْتَنُونَ فِی كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوبُونَ وَلَا هُمْ یَذَّكَّرُونَ  (التوبہ:۱۲۶)

کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ان پر کوئی برس ایسا نہیں گذرتا کہ ہم انہیں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائشوں میں نہ ڈالتے ہوں ( یعنی ان کے اعمالِ بد کے نتائج پیش نہ آتے ہوں )،  پھر بھی نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ حالات سے نصیحت پکڑتے ہیں۔

لیکن اگر تنبہ و اعتبار کی یہ تمام پہلتیں رائیگاں گئیں اور ان سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر فیصلۂ  امر کا آخری وقت نمودار ہو جاتا ہے اور جب وہ وقت آ جائے گا تو پھر یہ فطرت کا آخری،  اٹل اور بے پناہ فیصلہ ہے،  نہ تو اس میں ایک لمحہ کے لیے تاخیر ہو سکتی ہے نہ یہ اپنے مقررہ وقت سے ایک لمحہ پہلے آ سکتا ہے :

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ  (الأعراف:۳۴)

اور (دیکھو!) ہر امت کے لیے ایک مقررہ وقت ہے،  سو جب ان کا مقررہ وقت آ چکتا ہے تو اس سے نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْیَةٍ إِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُومٌ۔ مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ (الحجر:۴-۵)

اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ (ہمارے ٹھہرائے ہوئے قانون کے مطابق) ایک مقررہ میعاد اس کے لیے موجود تھی۔ کوئی امت نہ تو ایک مقررہ وقت سے آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔

اسے طرح "بقاءِ انفع” اور "قضاء بالحق” کا قانون پچھلی قوم کو چھانٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ ایک دوسری قوم لا کھڑی کرتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ "رحمت” کا مقتضیٰ یہی ہے :

ذَٰلِكَ أَن لَّمْ یَكُن رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ۔وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ۔ وَرَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ ۚ إِن یَشَأْ یُذْهِبْكُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا یَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ (الأنعام:۱۳۱-۱۳۳)

یہ تبلیغ و ہدایت کا تمام سلسلہ اس لیے ہی کہ تمہارے پروردگار کا یہ شیوہ نہیں کہ بستیوں کو ظلم و ستم سے ہلاک کر ڈالے اور ان کے بسنے والے حقیقتِ حال سے بے خبر ہوں۔ (اس کا قانون تو یہ ہے کہ) جیسا کچھ جس کا عمل ہے اسی کے مطابق اس کا ایک درجہ ہے (ا ور اسی درجے کے مطابق اچھے برے نتائج ظاہر ہوتے ہیں )،  اور (یاد رکھو!) جیسے کچھ لوگوں کے اعمال ہیں،  تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں ہے۔ تمہارا پروردگار رحمت والا،  بے نیاز ہے۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں راہ سے ہٹا دے اور تمہارے بعد جسے چاہے تمہارا جانشین بنا دے،  اسی طرح ایک دوسری قوم کی نسل سے تمہیں اوروں کا جانشین بنا دیا ہے۔

 

انفرادی زندگی اور مجازاتِ دنیوی

 

اسی طرح وہ کہتا ہے یہ بات کہ انفرادی زندگی کے اعمال کی جزاء دنیوی زندگی سے تعلق نہیں رکھتی،  آخرت پر اٹھا رکھی گئی ہے اور دنیا میں نیک و بد سب کے لیے یکساں طور پر مہلتِ حیات اور فیضانِ معیشت ہے،  اسی حقیقت کا نتیجہ ہے کہ یہاں "رحمت” کی کارفرمائی ہے۔ "رحمت” کا مقتضیٰ یہی تھا کہ اس کے فیضان و بخشش میں کسی طرح کا امتیاز نہ ہو ایک مہلتِ حیات سب کو پوری طرح ملے۔ اس نے انسان کی انفرادی زندگی کے دو حصے کر دیے۔ ایک حصہ دنیوی زندگی کا ہے اور سر تا سر مہلت ہے۔ دوسرا حصہ مرنے کے بعد کا ہے اور جزاء کا معاملہ اسی سے تعلق رکھتا ہے :

وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ۖ لَوْ یُؤَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۚ بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن یَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْئِلًا  (الکہف:۵۸)

اور (اے پیغمبر! یقین کرو) تمہارا پروردگار بڑا بخشنے والا،  صاحبِ رحمت ہے۔ اگر وہ ان لوگوں سے ان کے اعمال کے مطابق مؤاخذہ کرتا تو فوراً عذاب نازل ہو جاتا،  لیکن ان کے لیے ایک میعاد مقرر کر دی گئی ہے اور جب وہ نمودار ہو گی تو اس سے بچنے کے لیے کوئی پناہ کی جگہ انہیں نہیں ملے گی۔

هُوَ الَّذِی خَلَقَكُم مِّن طِینٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ (الأنعام:۲)

وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا،  پھر تمہاری زندگی کے لیے ایک وقت ٹھہرا دیا،  اور اسی طرح اس کے پاس ایک اور بھی ٹھہری ہوئی میعاد ہے (یعنی قیامت کا دن)۔

 

معنوی قوانین کی مہلت بخشی اور توبہ و انابت

 

وہ کہتا ہے : جس طرح عالمِ اجسام میں تم دیکھتے ہو کہ فطرت کے ہر کمزوری و فساد کے لیے ایک لازمی نتیجہ ٹھہرا دیا ہے،  لیکن پھر بھی اصلاحِ حال کا دروازہ بند نہیں کرتی اور مہلتوں پر مہلتیں دیتی رہتی ہے،  نیز اگر بروقت اصلاح ظہور میں آ جائے تو اسے قبول کر لیتی ہے،  ٹھیک اسی طرح یہاں بھی توبہ و انابیت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ کوئی بد عملی،  کوئی گناہ،  کوئی جرم،  کوئی فساد ہو اور نوعیت میں کتنا ہی سخت اور مقدار میں کتنا ہی عظیم ہو،  لیکن جوں ہی توبہ و انابت کا احساس انسان کے اندر جنبش میں آتا ہے،  رحمتِ الٰہی قبولیت کا دروازہ معاً کھول دیتی ہے اور اشکِ ندامت کا ایک قطرہ بد عملیوں،  گناہوں کے بے شمار داغ دھبے اس طرح دھو دیتا ہے گویا اس کے دامنِ عمل پر کوئی دھبہ لگا ہی نہ تھا "التائب من الذنب کمن لاذنب لہ” : (اپنے گناہوں پر پشیمان ہونے والا اور توبہ کے ذریعے معافی مانگنے والا ایسا ہے گویا گناہ سرزد ہی نہیں ہوا۔ مشکوٰۃ)

إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ یُبَدِّلُ اللَّهُ سَیِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا  (الفرقان:۷۰)

ہاں ! مگر جس کسی نے توبہ کی،  ایمان لایا اور آئندہ کے لیے نیک عملی اختیار کی تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ اچھائیوں سے بدل دیتا ہے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے !

 

رحمتِ الٰہی اور مغفرت و بخشش کی وسعت و فراوانی

 

اس بارے میں قرآن نے رحمتِ الٰہی کی وسعت اور اس کی مغفرت کی فراوانی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کی کوئی حد و انتہا نہیں۔ کتنے ہی گناہ ہوں،  کتنے ہی سخت گناہ ہوں۔ کتنی ہی مدت کے گناہ ہوں لیکن ہر انسان کے لیے جو اس کے دروازۂ  رحمت پر دستک دے رحمت و قبولیت کے سوا کوئی صدا نہیں ہو سکتی!

 قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚإِنَّ اللَّهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ   (الزمر:۷۰)

(اے پیغمبر! لوگوں سے ) کہہ دو(۴۰) اے میرے بندوں جنہوں نے بد اعمالیاں کر کے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ! تمہاری بد اعمالیاں کتنی ہی سخت اور کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں مگر اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو! یقیناً اللہ تمہارے تمام گناہ بخش دی گا۔ یقیناً وہ بڑا بخشنے والا،  بڑی ہی رحمت رکھنے والا ہے۔

 

اسلامی عقائد کا دینی تصور اور رحمت

 

اور پھر یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے انسان کے لیے دینی عقائد کا جو تصور قائم کیا ہے اس کی بنیاد بھی تمام تر رحیمیت و محبت پر ہی رکھی ہے۔ کیونکہ وہ انسان کی روحانی زندگی کو کائناتِ فطرت کے عالم گیر کارخانہ سے کوئی الگ اور غیر متعلق چیز قرار نہیں دیتا،  بلکہ اسی کا ایک مربوط گوشہ قرار دیتا ہے اور اس لیے کہتا ہے کہ جس کارساز فطرت نے تمام کارخانۂ  ہستی کی بنیاد "رحمت” کی بنیاد پر رکھی ہے،  ضروری تھا کہ اس گوشے میں بھی اس کے تمام احکام سر تا سر رحمت کی تصویر ہوں۔

 

خدا اور اس کے بندوں کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے

 

چنانچہ قرآن نے جا بجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ خدا اور اس کے بندوں کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے اور سچی عبودیت اسی کی عبودیت ہے جس کے لیے معبود صرف معبود ہی نہ ہو بلکہ محبوب بھی ہو۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا یُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ  (البقرۃ:۱۶۵)

اور (دیکھو!) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے ہیں جو دوسری ہستیوں کو اللہ کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جس طرح اللہ کو چاہنا ہوتا ہے حالانکہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ محبت صرف اللہ کے لیے ہی ہوتی ہے۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَیَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِیمٌ (۳:۳۱)

(اے پیغمبر! ان لوگوں سے ) کہہ دو اگر واقعی تم اللہ سے محبت رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ میری پیروی کرو میں تمہیں محبت الٰہی کی حقیقی راہ دکھا رہا ہوں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو صرف یہی نہیں ہو گا کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہو جاؤ گے بلکہ خود اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَن یَرْ‌تَدَّ مِنكُمْ عَن دِینِهِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ   (۵:۵۴)

وہ جا بجا اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ایمان باللہ کا نتیجہ اللہ کی محبت اور محبوبیت ہے۔

اے پیروان دعوت ایمانی! اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین کی راہ سے پھر جائے گا تو وہ یہ نہ سمجھے کہ دعوت حق کو اس کچھ نقصان پہنچے گا۔ عنقریب ایک ساتھ وہ ایسے لوگوں کو پیدا کر دے گا جنہیں اللہ کی محبت حاصل ہو گی اور وہ اللہ کو محبوب رکھنے والے ہوں گے۔

 

جو خدا سے محبت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اس کے بندوں سے محبت کرے

 

لیکن بندے کے لیے خدا کی محبت کی عملی راہ کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ خدا کی محبت کی راہ اس کے بندوں کی محبت میں سے ہو کر گزرتی ہے۔ جو انسان چاہتا ہے کہ خدا اس سے محبت کرے اسے چاہیے کہ خدا کے بندوں سے محبت کرنا سیکھے۔

وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ( ۲:۱۷۷)

اور جو اپنا مال اللہ کی محبت میں نکالتے اور خرچ کرتے ہیں۔

وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرً‌ا      إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِ‌یدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورً‌ا   (۷۷:۸-۹)

اور اللہ کی محبت میں وہ مسکینوں یتیموں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا کھلانا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ محض اللہ کے لیے ہے،  ہم تم سے نہ تو کوئی بدلا چاہتے ہیں نہ کسی طرح کی شکر گزاری۔

ایک حدیث قدسی میں یہی حقیقت نہایت مؤثر انداز میں واضح کی گئی ہے۔

یا ابن آدم! مرضت مرضت فلم تعدنی۔ قال: کیف اعودک وانت رب العالمین؟ قال: اما علمت ان عبدی فلانا مرض فلم تعدہ؟ اما علمت انک لو عدتہ لو ججتنی عندہ؟ یا بن آدم! اسطعمتک فلم تطعمنی! قال: یا رب کیف اطعمک وانت رب العالمین؟ قال: اما علمت انک لو اطعمتہ لو جدتذلک عندی؟

(قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ خدا ایک انسان سے کہے گا) اے ابن آدم! میں بیمار ہو گیا تھا مگر تو نے میری بیمار پرسی نہ کی! بندہ متعجب ہو کر کہے گا بھلا ایسا کیونکر ہو سکتا ہے اور تو تو رب العالمین ہے ! خدا فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ تیرے قریب بیمار ہو گیا تھا اور تو نے اس کی خبر نہیں لی تھی؟ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اسی طرح خدا فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہیں کھلایا! بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا کہ تجھے کسی بات کی احتیاج ہو؟ خدا فرمائے گا کہ کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بھوکے بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے انکار دیا تھا؟ اگر تو اسے کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔

یا ابن آدم! استقیتک فلم تسقنی۔ قال: کیف استقیک وانت رب العالمین؟ قال: استقاک عبدی فلان فلم تسقہ۔ اما انک لو سقیتۃ لو جدت ذلک عندی۔ (مسلم عن ابی ہریرہ( ۴۱)

ایسے ہی خدا فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تجھے پیاس لگے،  تو تو خود پروردگار ہے ؟ خدا فرمائے گا: میرے فلاں پیاسے بندے نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔

 

اعمال و عبادات اور اخلاق و خصائل

 

اسی طرح قرآن نے اعمال و عبادات کی جو شکل و نوعیت قرار دی ہے،  اخلاق و خصائل میں سے جن جن باتوں پر زور دیا ہے،  اوامر و نواہی میں جو اصول و مبادی ملحوظ رکھے ہیں ان سب میں بھی یہی حقیقت کام کر رہی ہے اور یہ چیز اس درجہ واضح و معلوم کہ بحث و بیان کی ضرورت نہیں۔

 

قرآن سر تا سر رحمت الٰہی کا پیام ہے

 

اور پھر یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی کسی صفت کو بھی اس کثرت سے نہیں دہرایا اور نہ کوئی مطلب اس درجہ اس کے صفحات میں نمایاں ہے،  جس قدر رحمت ہے،  اگر قرآن کے وہ تمام مقامات جمع کیے جائیں جہاں رحمت کا ذکر کیا گیا ہے تو تین سو سے زیادہ مقامات ہوں گے۔ اگر وہ تمام مقامات بھی شامل کر لیے جائیں جہاں اگرچہ لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا ہے لیکن اس کا تعلق رحمت سے ہی ہے مثلاً ربوبیت،  مغفرت،  رافت،  کرم و حلم،  عفو وغیرہ تو پھر یہ تعداد اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اول سے لے کر آخر تک اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا پیغام ہے۔

 

بعض احادیث باب

 

ہم اس موقع پر وہ تمام تصریحات قصداً چھوڑ رہے ہیں جن کا ذکر ذخیرہ احادیث میں موجود ہے،  کیونکہ یہ مقام زیادہ تفصیل و بحث کا متحمل نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول و عمل سے اسلام کی جو حقیقت ہمیں بتائی وہ تمام تر یہی ہے کہ خدا کی موحدانہ پرستش اور اس کے بندوں پر شفقت و رحمت! ایک مشہور حدیث جو ہر مسلمان واعظ کی زبان پر ہے ہمیں بتلاتی ہے کہ "انما یرحم اللہ من عبادہ الرحماء” (۴۲)۔ خدا کی رحمت انہی بندوں کے لیے ہے جو اس کے لیے بندوں کے لیے رحمت رکھتے ہیں۔

 

حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور کلمہ وعظ "زمین پر رحم کرو تاکہ وہ جو آسمان پر ہے تم پر رحم کرے ” پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ و سلم کی زبان پر بھی طاری ہوا۔ الرحمن تبارک و تعالی،  ارحمو من فی الارض یرحمکم من فی السماء (۴۳)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام نے انسانی رحمت و شفقت کی جو ذہنیت پیدا کرنی چاہی ہے وہ اس قدر وسیع ہے کہ بے زبان جانور بھی اس سے باہر نہیں ہیں۔ ایک سے زائد حدیثیں اس مضمون کی موجود ہیں کہ اللہ کی رحمت و کرم کرنے والوں کے لیے ہے۔ اگر یہ رحم ایک چڑیا ہی کے لیے کیوں نہ ہو۔ "من رحم ولو ذبیحۃ عصفور رحمۃ اللہ یوم القیامۃ (۴۴)

 

مقام انسانیت اور صفات الٰہی سے تخلُق و تشبُہ

 

اصل یہ ہے کہ قرآن نے خدا پرستی کی بنیاد ہی اس جذبہ پر رکھی ہے کہ انسان خدا کی صفتوں کا پرتو اپنے اندر پیدا کرے وہ انسانوں کے وجود کو ایسی سرحد قرار دیتا ہے کہ جہاں حیوانیت کا درجہ ختم ہوتا ہے اور مافوق حیوانیت درجہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کا جوہر انسانیت جو اسے حیوانات کی سطح سے بلند ممتاز کرتا ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہ صفات الٰہی سے تخلق و تشبہ پیدا ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جہاں کہیں بھی انسان کی خاص صفات کا ذکر کیا ہے،  انہیں براہ راست خدا کی طرف نسبت دی ہے۔ حتی کہ جوہر انسانیت کو خدا کی روح پھونک دینے سے تعبیر کیا ہے۔

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِیهِ مِن رُّ‌وحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِیلًا مَّا تَشْكُرُ‌ونَ (۹)

یعنی خدا نے آدم میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دیا اور اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے اندر عقل و حواس کا چراغ روشن ہو گیا۔

در اذل پرتو حسنت تجلی دم زد

عشق پیدا شد بہ ہم عالم زد

(ازل میں تیرے حسن کے پرتو نے سانس لیا۔ عشق کا جوہر پیدا ہو گیا اور اس کی آگ نے پورے عالم کو لپیٹ میں لے لیا۔)

پس اگر وہ خدا کی رحمت کا تصور ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی سرتاپا رحمت و محبت ہو جائیں۔ اگر وہ اس کی ربوبیت کا مرقع بار بار ہماری نگاہوں کے سامنے لاتا ہے تو اس لیے ہے کہ وہ چاہتا ہے ہم بھی اپنے چہرہ اخلاق میں ربوبیت سارے خال و خط پیدا کر لیں۔ اگر وہ اس کی رافت و شفقت کا ذکر کرتا ہے اس کے لطف و کرم کا جلوہ دکھاتا ہے،  اس کے جود و احسان کا نقشہ کھینچتا ہے تو اس لیے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم میں بھی ان الٰہی صفتوں کا جلوہ نمودار ہو جائے۔ وہ بار بار ہمیں ستاتا ہے کہ خدا کی بخشش و درگذر کی کوئی انتہا نہیں اور اس طرح ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم میں بھی اس کے بندوں کے لیے بخشش و درگذر کا غیر محدود جوش پیدا ہو جانا چاہیے۔ اگر ہم اس کے بندوں کی خطائیں بخش نہیں سکتے تو کیا ہمیں حق ہے کہ اپنی خطاؤں کے لیے اس کی بخشائشوں کا انتظار کریں ؟

 

احکام و شرائع

 

جہاں تک احکام و شرائع کا تعلق ہے بلاشبہ اس نے یہ نہیں کہا کہ دشمنوں کو پیار کرو کیونکہ ایسا کہنا حقیقت نہ ہوتی مجاز ہوتا۔ لیکن اس نے کہا دشمنوں کو بھی بخش دو اور دشمن کو بخش دینا سیکھ لے گا اس کا دل خود بخود انسانی بغض و نفرت کی آلودگیوں سے پاک ہو جائے گا۔

وَالْكَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ  (۳:۱۳۴)

غصہ ضبط کرنے والے۔ اور انسانوں کے قصور بخش دینے والے۔ اللہ کی محبت انہیں کے لیے ہے جو احسان کرنے والے ہیں۔

وَالَّذِینَ صَبَرُ‌وا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِیَةً وَیَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ‌ (۱۳:۲۲)

اور جن لوگوں نے اللہ کی محبت میں تلخی و ناگواری برداشت کر لی نماز قائم کی،  خدا کی دی ہوئی روزی پوشیدہ و علانیہ (اس کے بندوں کے لیے ) خرچ کی اور برائی کا جواب برائی سے نہیں نیکی سے دیا تو یقین کرو کہ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا بہتر ٹھکانا ہے۔

وَلَمَن صَبَرَ‌ وَغَفَرَ‌ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ (۴۲:۴۳)

اور (دیکھو!) جو کوئی برائی پر صبر کرے اور بخش دے تو یقیناً یہ بڑی ہی اولوالعزمی کی بات ہے۔

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَكَ وَبَیْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ   وَمَا یُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُ‌وا وَمَا یُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (۴۱:۳۴-۳۵)

اور (دیکھو!) نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی برائی کرے تو برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو اچھا طریقہ ہو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم دیکھو گے کہ جس شخص سے تمہاری عداوت تھی یکایک تمہارا دلی دوست ہو گیا ہے۔ البتہ یہ ایسا مقام ہے کہ جو اسی کو مل سکتا ہے جو بدسلوکی سہہ لینے کی برداشت رکھتا ہو اور جسے نیکی و سعادت کا حصہ وافر ملا ہو۔

بلاشبہ اس نے بدلہ لینے سے بالکل روک نہیں دیا۔ اور وہ کیونکر روک سکتا تھا؟ جبکہ طبیعت حیوانی کا یہ فطری خاصہ ہے اور حفاظت نفس اس پر موقوف ہے لیکن جہاں کہیں بھی اس نے اس کی اجازت دی ہے ساتھ ہی عفو و بخشش اور بدی کے بدلے نیکی کرنے کی مؤثر ترغیب دی ہے کہ ممکن نہیں ایک خدا پرست انسان اس سے متاثر نہ ہو۔

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْ‌تُمْ لَهُوَ خَیْرٌ‌ لِّلصَّابِرِ‌ینَ (۱۷:۱۲۷)

اور (دیکھو!) اگر تم بدلہ لو تو چاہے جتنی اور جیسی کچھ برائی تمہارے ساتھ کی گئی ہے اسی کے مطابق ٹھیک ٹھیک بدلہ بھی لیا جائے (یہ نہ ہو کہ زیادتی کر بیٹھو) لیکن اگر تم برداشت کر جاؤ اور بدلا نہ لو تو یاد رکھو برداشت کرنے والوں کے لیے برداشت کر جانے ہی میں بہتری ہے۔

وَجَزَاءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ  (۴:۴۲)

اور برائی کے لیے ویسا ہی اور اتنا ہی بدلا ہے جیسی برائی اور جتنی برائی کی گئی ہے۔ لیکن جس کسی نے درگذر کیا اور معاملے کو بگاڑنے کی جگہ سنوار لیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔

 

انجیل اور قرآن

 

ہم نے قرآن کی آیات عفو و بخش نقل کرتے ہوئے ابھی کہا ہے کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ دشمنوں کو پیار کرو کیونکہ ایسا حقیقت نہ ہوتی مجاز ہوتا،  ضروری ہے کہ اس کی مختصر تشریح کر دی جائے۔

حضرت مسیح علیہ السلام نے یہودیوں کی ظاہر پرستیوں اور اخلاقی محرومیوں کی جگہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی اخلاقی قربانیوں پر زور دیا تھا اور ان کی دعوت کی اصلی روح یہی ہے چنانچہ ہم انجیل کے مواعظات میں جا بجا اس طرح کے خطابات پاتے ہیں تم نے سنا ہو گا کہ اگلوں سے کہا گیا دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ لیکن میں کہتا ہوں کہ "شریر کا مقابلہ نہ کرنا” یا "اپنے ہمسایوں ہی کو نہیں بلکہ دشمن کو بھی پیار کرو” یا مثلاً "اگر تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے چاہیے کہ دوسرا گال بھی آگے کر دو۔” سوال یہ ہے کہ ان خطابات کی نوعیت کیا تھی؟ یہ اخلاقی فضائل و ایثار کا ایک مؤثر پیرایہ بیان تھا یا تشریع یعنی قوانین وضع کرنا تھا؟

 

دعوت مسیح اور دنیا کی حقیقت فراموشی

 

افسوس ہے کہ انجیل کے معتقدوں اور نکتہ چینوں دونوں نے یہاں ٹھوکر کھائی۔ دونوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ یہ تشریع تھی اور اس لیے دونوں کو تسلیم کر لینا پڑا کہ یہ ناقابل عمل احکام ہیں۔ معتقدوں نے خیال کیا کہ اگرچہ ان احکام پر عمل نہیں کیا جا سکتا تاہم مسیحیت کے احکام یہی ہیں اور عملی نقطہ خیال سے اس قدر کافی ہے کہ اوائل عہد میں چند ولیوں اور  شہیدوں نے ان پر عمل کر لیا تھا۔ نکتہ چینوں نے کہا کہ یہ سر تا سر ایک نظری اور ناقابل عمل تعلیم ہے اور کہنے میں کتنی ہی خوش نما ہو لیکن عملی نکتہ خیال سے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ یہ فطرت انسانی کے صریح خلاف ہے۔

فی الحقیقت نوع انسانی کی یہ بڑی ہی درد انگیز ناانصافی ہے جو تاریخ انسانیت کے اس عظیم الشان معلم کے جائز رکھی گئی! جس طرح بے درد نکتہ چینیوں نے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی اسی طرح نادان معتقدوں نے بھی فہم و بصیرت سے انکار کر دیا۔

 

حضرت مسیح کی تعلیم کو فطرت انسانی کے خلاف سمجھنا تفریق بین الرسل ہے

 

لیکن کیا کوئی انسان جو قران کی سچائی کا معترف ہو،  ایسا خیال کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم فطرت انسانی کے خلاف تھی اور اس لیے ناقابل عمل تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ قران کی تصدیق کے ساتھ ایسا منکرانہ خیال جمع نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے بھی اسے تسلیم کر لیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم حضرت مسیح کی تعلیم کی سچائی سے انکار کر دیں کیونکہ جو تعلیم فطرت انسانی کے خلاف ہے وہ انسان کے لیے سچی تعلیم نہیں ہو سکتی۔ لیکن ایسا اعتقاد نہ صرف قران کی تعلیم کے خلاف ہو گا بلک ہ اس کی دعوت کی اصل بنیاد ہی متزلزل ہو جائے گی۔ اس کی دعوت کی بنیادی اصل یہ ہے کہ وہ دنیا کے تمام رہنماؤں کی یکساں طور پر تصدیق کرتا اور سب کو خدا کی ایک ہی سچائی کا پیامبر قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے پیروان مذہب کی سب سے بڑی گمراہی تفریق بین الرسل ہے یعنی ایمان و تصدیق کے لحاظ سے خدا کے رسولوں میں تفریق کرنا۔ کسی ایک کو ماننا اور دوسروں کو جھٹلانا یا سب کو ماننا اور کسی ایک کا انکار کر دینا۔ اسی لیے اس نے جا بجا اسلام کی راہ یہ بتلائی ہے کہ:

لَا نُفَرِّ‌قُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (۳:۸۴)

ہم خدا کے رسولوں میں سے کسی کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کرتے (کہ کسی کو مانیں،  کسی کو نہ مانیں ) ہم تو خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں (اس کی سچائی کہیں بھی آئی ہو اور کسی کی زبانی آئی ہو،  ہمارا اس پر ایمان ہے )۔

علاوہ ازیں خود قران کریم نے حضرت مسیح کی دعوت کا یہی پہلو جا بجا نمایاں کیا ہے کہ وہ رحمت و محبت کے پیامبر تھے اور یہودیوں کی اخلاقی خشونت و قساوت کے مقابلے میں مسیحی اخلاق کی رقت و رافت کی بار بار مدح کی ہے۔

وَلِنَجْعَلَهُ آیَةً لِّلنَّاسِ وَرَ‌حْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرً‌ا مَّقْضِیًّا  (۱۹:۲۱)

اور تاکہ ہم اس کو (یعنی مسیح کے ظہور کو) لوگوں کے لیے ایک الٰہی نشانی اور اپنی رحمت کا فیضان بنائیں اور یہ بات (مشیت الٰہی میں ) طے شدہ تھی۔

وَجَعَلْنَا فِی قُلُوبِ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُ رَ‌أْفَةً وَرَ‌حْمَةً  (۵۷:۲۷)

اور ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے مسیح کی پیروی کی،  ہم نے شفقت اور رحمت ڈال دی۔

اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قران نے جس قدر اوصاف خود اپنی نسبت بیان کیے ہیں پوری فراخ دلی کے ساتھ وہی اوصاف تورات و انجیل کے لیے بھی بیان کیے ہیں۔ مثلاً وہ جس طرح اپنے آپ کو ہدایت کرنے ولا،  روشنی رکھنے والا،  نصیحت کرنے والا،  قوموں کا امام،  متقیوں کا راہنما قرار دینا ہے ٹھیک اسی طرح پچھلے صحیفوں کو بھی ان تمام اوصاف سے متصف قرار دیتا ہے۔ چنانچہ انجیل کی نسبت ہم جا بجا پڑھتے ہیں :

وَآتَیْنَاهُ الْإِنجِیلَ فِیهِ هُدًى وَنُورٌ‌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِینَ  (۵:۴۷)

اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت تھی اور روشنی تھی۔ اور وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توراۃ کی تصدیق کرتی تھی اور وہ خدا سے ڈرنے والوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔

یہ ظاہر ہے کہ جو تعلیم فطرت بشری کے خلاف اور ناقابل عمل ہو وہ کبھی نو ہدایت اور "موعظۃ اللمتقین” نہیں ہو سکتی۔

 

دعوت مسیحی کی حقیقت

 

اصل یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ان تمام تعلیمات کی وہ نوعیت نہ تھی جو غلطی سے سمجھ لی گئی اور دنیا میں ہمیشہ انسان کی سب سے بڑی گمراہی اس کے انکار سے نہیں بلکہ کج اندیشانہ اعتراف ہی سے پیدا ہوئی ہے۔

حضرت مسیح کا ظہور ایک ایسے عہد میں ہوا تھا جب کہ یہودیوں کا اخلاقی تنزل انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا اور دل کی نیکی اور اخلاق کی پاکیزگی کی جگہ محض ظاہری احکام و رسول کی پرستش،  دینداری و خد پرستی سمجھی جاتی تھی۔

یہودیوں کے علاوہ جس قدر متمدن قومیں قرب و جوار میں موجود تھیں مثلاً: رومی،  مصری،  اشوری وہ بھی انسانی رحم و محبت کی روح سے یکسر نا آشنا تھیں۔ لوگوں نے یہ بات تو معلوم کر لی تھی کہ مجرموں کو سزائیں دینی چاہییں لیکن اس حقیقت سے بے بہرہ تھے کہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی چارہ سازیوں سے جرموں اور گناہوں کی پیدائش روک دینی چاہیے۔ انسانی قتل و ہلاکت کا تماشا دیکھنا،  طرح طرح کے ہولناک طریقوں سے مجرموں کو ہلاک کرنا،  زندہ انسانوں کو درندوں کے سامنے ڈال دینا،  آباد شہروں کو بلاوجہ جلا کر خاکستر کر دینا،  اپنی قوم کے علاوہ تمام انسانوں کو غلام سمجھنا اور غلام بنا کر رکھنا،  رحم و محبت اور حلم و شفقت کی جگہ قلبی قساوت و بے رحمی پر فخر کرنا رومی تمدن کا اخلاقی اور مصری اور آشوری دیوتاؤں کا پسندیدہ طریقہ تھا۔

ضرورت تھی کہ نوع انسانی کی ہدایت کے لیے ایک ہستی مبعوث ہو سر تا سر رحمت و محبت کا پیام ہو اور جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے قطع نظر کر کے صرف اس کی قلبی و معنوی حالت کی اصلاح و تزکیہ پر اپنی پیغمبرانہ ہمت مبذول کر دے۔ چنانچہ حضرت مسیح کی شخصیت میں وہ ہستی نمودار ہو گئی۔ اس نے جسم کی جگہ روح پر،  زبان کی جگہ دل پر اور ظاہر کی جگہ باطن پر نوع انسانی کی توجہ دلائی اور انسانیت اعلی کا فراموش شدہ سبق تازہ کر دیا۔

 

مواعظ مسیح کے مجازات کو تشریع و حقیقت سمجھ لینا سخت غلطی ہے

 

معمولی سے معمولی کلام بھی بشرطیکہ بلیغ ہو،  اپنی بلاغت کے مجازات رکھتا ہے۔ قدرتی طور پر اس الہامی بلاغت کے بھی مجازات تھے جو اس کی تاثیر کا زیور اور اس کی دل نشینی کی خوب روئی ہیں،  لیکن افسوس! کہ وہ دنیا جو اقانیم ثلاثہ اور کفارہ جیسے دور از کار عقائد پیدا کر لینے والی تھی،  ان کے مواعظ کا مقصد و محل نہ سمجھ سکی اور مجازات کو حقیقت سمجھ کر غلط فہمیوں کا شکار ہو گئی!

انہوں نے جہاں کہیں یہ کہا ہے کہ ’دشمنوں کو پیار کرو،  تو اس کا یقیناً یہ مطلب نہ تھا کہ ہر انسان کو چاہیے اپنے دشمنوں کا عاشق زار ہو جائے بلکہ سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ تم میں غیظ و غضب اور نفرت و انتقام کی جگہ رحم و محبت کا پر جوش جذبہ ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے کہ دوست تو دوست،  دشمن تک کے ساتھ عفو و درگزر کے ساتھ پیش آؤ۔ اس مطلب کے لیے کہ رحم کرو،  بخش دو،  انتقام کے پیچھے نہ پڑو،  یہ ایک نہایت بلیغ اور مؤثر پیرایہ بیان ہے کہ دُشمنوں تک کو پیار کرو۔

ایک ایسے گرد و پیش میں،  جہاں اپنوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی رحم و محبت کا برتاؤ نہ کیا جاتا ہو یہ کہنا کہ اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کرو،  رحم و محبت کی ضرورت کا ایک اعلی اور کامل ترین تخیل پیدا کرتا تھا۔

شنیدم کہ مردان راہ خدا

دل دشمناں کہ ہم نہ کردند تنگ

ترا کہ میسر شود ایں مقام

کہ با دوستانت خلاف ست و جنگ

(میں نے تو سنا ہے کہ "اللہ کے بندے ” دشمنوں پر بھی اپنے دل تنگ نہیں کرتے۔ تجھے یہ رتبہ کیوں کر مل گیا؟ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی جنگ و جدل جاری ہے !)

یا مثلاً اگر انہوں نے کہا "اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کر دو” تو یقیناً اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ سچ مچ تم اپنا گال آگے کر دیا کرو،  بلکہ صریح مطلب یہ تھا کہ انتقام کی جگہ عفو و درگذر کی راہ اختیار کرو۔ بلاغت کلام کے یہ وہ مجازات ہیں جو ہر زبان میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور یہ ہمیشہ بڑی ہی جہالت کی بات سمجھی جاتی ہے کہ ان کے مقصود و مفہوم کی جگہ سن کے منطوق پر زور دیا جائے۔ اگر ہم اس طرح کے مجازات کو ان کے ظواہر پر محمول کرنے لگیں تو نہ صرف تمام الہامی تعلیمات ہی درہم برہم ہو جائیں گی بلکہ انسان کا وہ تمام کلام جو ادب و بلاغت کے ساتھ دنیا کی تمام زبانوں میں کہا گیا ہے یک قلم مختل ہو جائے گا۔

 

اعمال انسانی میں اصل رحم و محبت ہے نہ کہ تعزیر و انتقام

 

باقی رہی یہ بات کہ حضرت مسیح نے سزا کی جگہ محض رحم و درگذر ہی پر زور دیا تو ان کے مواعظ کی اصلی نوعیت سمجھ لینے کے بعد یہ بات (۴۷) بھی واضح ہو جاتی ہے۔ بلاشبہ شرائع نے تعزیر و عقوبت کا حکم دیا تھا،  لیکن اس لیے نہیں کہ تعزیر و عقوبت فی نفسہ کوئی مستحسن عمل ہے بلکہ اس لیے کہ معیشت انسانی کی بعض ناگزیر حالتوں کے لیے یہ ایک ناگزیر علاج ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک کم درجے کی برائی تھی جو اس لیے گوارا کر لی گئی کہ بڑے درجے کی برائیاں روکی جا سکیں۔ لیکن دنیا نے اسے علاج کی جگہ ایک دل پسند مشغلہ بنا لیا اور رفتہ رفتہ انسان کی تعذیب و ہلاکت کا ایک خوفناک آلہ بن گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی قتل و غارت گری کی کوئی ہولناکی ایسی نہیں ہے جو شریعت و قانون کے نام سے نہ کی گئی ہو اور جو فی الحقیقت اسی بدلا لینے اور سزا دینے کے حکم کا ظالمانہ استعمال نہ ہو۔ اگر تاریخ سے پوچھا جائے کہ انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی قوتیں میدانہائے جنگ سے باہر کون کون سی رہی ہیں ؟ تو یقیناً اس کی انگلیاں ان عدالت گاہوں کی طرف اٹھ جائیں گی جو مذہب اور قانون کے نام پر قائم کی گئیں اور جنہوں نے ہمیشہ ہمیشہ اپنے ہم جنسوں کی تعذیب و ہلاکت کا عمل اس کی ساری وحشت انگیزیوں اور ہولناکیوں کے ساتھ جاری رکھا۔ (۴۷) پس اگر حضرت مسیح علیہ السلام نے تعزیر و عقوبت کی جگہ سر تا سر رحم و درگذر پر زور دیا تو اس لیے نہیں تھا کہ وہ نقش تعزیر و سزا کے خلاف کوئی نئی تشریع کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس ہولناک غلطی سے انسان کو نجات دلائیں جس میں تعزیر و عقوبت کے غلو میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ اعمال انسانی میں اصل عمل رحم و محبت ہے تعزیر و انتقام نہیں ہے۔ اور اگر تعزیر و سیاست جائز رکھی گئی ہے تو صرف اس لیے کہ بطور ایک ناگزیر علاج کے عمل میں لائی جائے،  اس لیے نہیں کہ تمہارے دل رحم و محبت کی جگہ سر تا سر نفرت و انتقام کا آشیانہ بن جائیں۔

 

عمل اور عامل میں امتیاز

 

دراصل اس بارے میں انسان کی بنیادی غلطی یہ رہی ہے کہ وہ عمل میں اور عامل میں امتیاز قائم نہیں رکھتا۔

حالانکہ جہاں تک مذہب کی تعلیم کا تعلق ہے،  اس بات میں کہ "ایک عمل کیسا ہے ” اور "کرنے والا کیسا ہے ” بہت بڑا فرق ہے اور دونوں کا حکم ایک نہیں۔ بلاشبہ تمام مذاہب کا یہ عالم گیر مقصد رہا ہے کہ بد عملی اور گناہ کی طرف سے انسان کے دل میں نفرت پیدا کر دیں لیکن انہوں نے کبھی گوارا نہیں کیا کہ خود انسان کی طرف سے انسان کے اندر نفرت پیدا ہو جائے۔ یقیناً انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گناہ سے نفرت کرو لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ گنہگار سے نفرت کرو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طبیب ہمیشہ لوگوں کو بیماری سے ڈراتا رہتا ہے اور بسا اوقات ان کے مہلک نتائج کا ایسا ہولناک نقشہ کھینچ دیتا ہے کہ دیکھنے والے سہم کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن یہ تو کبھی نہیں کرتا کہ جو لوگ بیمار ہو جائیں ان سے ڈرنے اور نفرت کرنے لگے یا لوگوں سے کہے،   ڈرو اور نفرت کرو! اتنا ہی نہیں،  بلکہ اس کی تو ساری توجہ اور شفقت کا مرکز بیماری کا وجود ہوتا ہے۔ جو انسان جتنا زیادہ بیمار ہو گا اتنا ہی زیادہ اس کی توجہ اور شفقت کا مستحق ہو جائے گا۔

 

مرض اور مریض

 

پس جس طرح جسم کا طبیب بیماریوں کے لیے نفرت،  لیکن بیمار کے لیے شفقت اور ہمدردی کی تلقین کرتا ہے،  ٹھیک اسی طرح روح و دل کے طبیب بیماریوں کے لیے نفرت لیکن گنہگاروں کے لیے سرتاپا رحمت و شفقت کا پیام ہوتے ہیں۔ یقیناً وہ چاہتے ہیں کہ گناہوں سے جو روح و دل کی بیماریاں ہیں،  ہم میں دہشت و نفرت پیدا کریں لیکن گنہگار انسانوں سے نہیں اور یہی وہ نازک مقام ہے جہاں پیروانِ مذہب نے ٹھوکر کھائی ہے۔ مذاہب نے چاہا تھا انہیں برائی سے نفرت کرنا سکھائیں لیکن برائی سے نفرت کرنے کی جگہ انہوں نے ان انسانوں سے نفرت کرنا سیکھ لیا جنہیں وہ اپنے خیال میں برائی کا مجرم تصور کرتے ہیں۔

 

گناہوں سے نفرت کرو گناہ گاروں پر رحم کرو

 

حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم سر تا سر اسی حقیقت کی دعوت تھی۔ گناہوں سے نفرت کرو مگر ان انسانوں سے نفرت نہ کرو جو گناہوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اگر ایک انسان گناہ گار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی روح و دل کی تندرستی باقی نہیں رہی،  لیکن اگر اس نے بدبختانہ اپنی تندرستی ضائع کر دی ہے تو تم اس سے نفرت کیوں کرو؟ وہ تو اپنی تندرستی کھو کر اور زیادہ تمہاری رحمت و شفقت کا مستحق ہو گیا ہے۔ تم اپنے بیمار بھائی کی تیمار داری کرو گے یا اسے جلاد کے تازیانے کے حوالے کر دو گے ؟ وہ موقع یاد کرو جس کی تفصیل ہمیں سینٹ لوقا (Saint Luke) کی زبانی معلوم ہوئی ہے۔ جب ایک گناہ گار عورت حضرت مسیح کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے بالوں کی لٹوں سے ان کے پاؤں پونچھے تو اس پر ریاکار فریسیوں (Pharisee) کو (اور ان کی فریسیت Pharisasism کے معنی ہی ریاکاری کے ہو گئے ہیں ) سخت تعجب ہوا،  لیکن انہوں نے کہا طبیب بیماروں کے لیے ہوتا ہے کہ نا کہ تندرستوں کے لیے۔ پھر خدا اور اس کے گناہگار بندوں کا رشتہ رحمت واضح کرنے کے لیے ایک نہایت مؤثر اور دل نشیں مثال بیان کی: فرض کرو! ایک ساہو کار کے دو قرض دار تھے،  ایک پچاس روپیہ کا،  ایک ہزار روپیہ کا۔ ساہوکار نے دونوں کا قرض معاف کر دیا۔ بتاؤ! کس قرض دار پر اس کا احسان زیادہ ہوا اور کون اس سے زیادہ محبت کرے گا،  وہ جسے پچاس معاف کر دیے گیے یا وہ جسے ہزار۔(۴۸)

نصیب ماست بہشت ای خدا شناس برو

کہ مستحق کرامت گناہ گارانند

(ہمارے نصیب میں بہشت لکھا جا چکا ہے اے خدا شناسو! جاؤ تمہاری محبت کے زیادہ مستحق گناہگار ہیں۔)

یہی حقیقت ہے کہ جس کی طرف بعض ائمہ تابعین نے اشارہ کیا ہے "انکسار العاصین احب الی اللہ من صولۃ المطیعین” خدا کو فرماں بردار بندوں کی تمکنت سے کہیں زیادہ گناہگار بندوں کا عجز و انکسار محبوب ہے۔

گدایاں را ازیں معنی خیز نیست

کہ سلطان جہاں با ما ست امروز

(گداگروں کو یہ خبر ہی نہیں کہ: آج دنیا کا بادشاہ ہمارے ساتھ ہے )

 

قرآن اور گناہ گاروں بندوں کے لیے صدائے تشریف و رحمت

 

اور پھر یہی حقیقت ہے کہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ جہاں کہیں خدا نے گناہ گار انسانوں کو مخاطب کیا ہے یا ان کا ذکر کیا ہے تو عموماً یائے نسبت کے ساتھ کیا ہے جو تشریف و محبت پر دلالت کرتی ہے۔

قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَ‌فُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ (۳۹:۵۳)

أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِی (۲۵:۱۷)

اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک باپ جوش محبت میں اپنے باپ کو پکارتا ہے تو خصوصیت کے ساتھ اپنے رشتہ پدری پر زور دیتا ہے۔ اے میرے بیٹے ! اے میرے فرزند! حضرت امام جعفر صادق نے سورہ زمر کی آیہ رحمت کی تفسیر کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے "جب ہم اپنی اولاد کو اپنی طرف نسبت دے کر مخاطب کرتے ہیں تو وہ بے خوف و خطر ہماری طرف دوڑنے لگتے ہیں،  کیونکہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم ان پر غضب ناک نہیں "،  قران میں خدا نے بیس سے زیادہ بیس سے زیادہ موقعوں پر ہمیں "عبادی” کہہ کر اپنی طرف نسبت دی ہے اور سخت سے سخت گناہ گار انسانوں کو بھی یٰعبادی کہہ کر پکارا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر اس کی رحمت و آمرزش کا کوئی پیام ہو سکتا ہے ؟

صحیح مسلم کی مشہور حدیث کا مطلب کس طرح واضح ہو جاتا ہے جب ہم اس کی روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔

والذی نفسی بیدہ! لو لم تذھبوا لذھب اللہ بکم ولجآ بقوم یذنبون فیستغفرون (مسلم عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ) (۵۰)

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ایسے ہو جاؤ کہ گناہ تم سے سرزد ہی نہ ہو تو خدا تمہیں زمین سے مٹا دے گا اور تمہاری جگہ ایسا دوسرا گروہ پیدا کر دے گا جس کا شیوہ یہ ہو کہ گناہوں میں مبتلا ہو اور پھر خدا سے بخشش و مغفرت کی طلب گاری کرے

فدای شیوہ رحمت کہ در لباس بہار

بعذر خواہی رندا نبادہ نوش آمد

(اس رحیم و کریم کی رحمت پر قربان جاؤں جو لباس بہار میں گنہگار شرابیوں کے پاس عذر خواہی کے لیے آتی ہے !)

 

اصلاً انجیل اور قران کی تعلیم میں کوئی اختلاف نہیں

 

پس فی الحقیقت مسیح علیہ السلام کی تعلیم میں اور قران کی تعلیم میں اصلاً کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا معیار احکام ایک ہی ہے۔ فرق صرف محل بیان اور پیرائی بیان کا ہے۔ حضرت مسیح نے صرف اخلاق اور تزکیہ قلب پر زور دیا ہے کیونکہ شریعت موسوی موجود تھی اور وہ اس کا ایک نقطہ بھی بدلنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن قرآن کو اخلاق اور قانون دونوں کے احکام بیک وقت بیان کرنے تھے اس لیے قدرتی طور پر اس نے پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا جو مجازات اور متشابہات کی جگہ احکام و قوانین کا صاف صاف جچا تلا پیرایہ بیان تھا۔ اس نے سب سے پہلے عفو درگذر پر زور دیا اور اسے نیک و فضیلت کی اصل قرار دیا۔ ساتھ ہی بدلا لینے اور سزا دینے کا دروازہ بھی کھلا رکھا کہ ناگزیر حالتوں میں اس کے بغیر چارہ کار نہیں۔ لیکن نہایت قطعی اور واضح لفظوں میں بار بار کہہ دیا کہ بدلے اور سزا میں کسی طرح کی نا انصافی اور زیادتی نہیں ہونی چاہیے یقیناً دنیا کے تمام نبیوں اور شریعتوں کے احکام کا ماحصل یہی تین اصول رہے ہیں :

وَجَزَاءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ۔ وَلَمَنِ انتَصَرَ‌ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَٰئِكَ مَا عَلَیْهِم مِّن سَبِیلٍ ۔ إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَى الَّذِینَ یَظْلِمُونَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الْأَرْ‌ضِ بِغَیْرِ‌ الْحَقِّ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ  ۔ وَلَمَن صَبَرَ‌ وَغَفَرَ‌ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ (۴۲:۴۰-۴۳)

اور (دیکھو!) برائی کے بدلے ویسی ہی اور اتنی ہی برائی ہے۔ لیکن جو کوئی بخش دے اور بگاڑنے کی جگہ سنوار لے تو (یقین کرو!) اس کا اجرا اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو زیادتی کرنے والے ہیں۔ اور جس کسی پر ظلم کیا گیا ہو اور وہ ظلم کے بعد اس کا بدلا لے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔ الزام ان لوگوں پر جو انسانوں پر ظلم کرتے ہیں اور ناحق ملک میں فساد کا باعث ہوتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن کے لیے عذاب الیم ہے۔ اور جو کوئی بدلہ لینے کی جگہ برائی برداشت کر جائے اور بخش دے تو یقیناً یہ بڑی ہی اولوالعزمی کی بات ہے۔

اسلوب بیان پر غور کرو! اگرچہ ابتدا میں صاف صاف کہہ دیا تھا:

فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّهِ ۚ

بظاہر عفو و درگذر کے لیے اتنا کہہ دینا کافی تھا لیکن آخر میں دوبارہ اس پر زور دیا ” وَلَمَن صَبَرَ‌ وَغَفَرَ‌ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ ” یہ تکرار اس لیے ہے کہ عفو و درگذر کی اہمیت واضح ہو جائے۔ یعنی یہ حقیقت آشکارا ہو جائے کہ اگرچہ بدلے اور سزا کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے لیکن نیکی و فضیلت کی راہ،  عفو و درگذر ہی کی راہ ہے۔

پھر اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ قرآن نے اس سزا کو،  جو برائی کے بدلے میں دی جائے برائی ہی کے لفظ سے تعبیر کیا:

وَجَزَاءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا

یعنی "سئیۃ” کے بدلے میں جو کچھ کیا جائے گا وہ بھی "سئیۃ” ہی ہو گا،  عمل حسن نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا دروازہ اس لیے بظاہر رکھا گیا کہ اگر باز نہ رکھا جائے تو اس سے بھی زیادہ برائیاں ظہور میں آنے لگیں گی۔ پھر اس آدمی کی نسبت جو معاف کر دے "اصلح” کا لفاظ کہا،  یعنی سنورنے والا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بگاڑ ک اصلی سنورنے والے وہی ہوئے جو بدلے کی جگہ عفو و درگذر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔

 

قرآن کے زواجر و قوارع

 

ممکن ہے بعض طبیعتیں یہاں ایک خدشہ محسوس کریں۔ اگر فی الحقیقت قرآن کی تمام تعلیم کا اصل اصول رحمت ہی ہے تو اس نے اپنے مخالفوں کی نسبت زجر و توبیخ کا سخت پیرایہ کیوں اختیار کیا؟

اس کا مفصل جواب تو اپنے محل میں آئے گا،  لیکن تکمیل بحث کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مختصر اشارہ کر دیا جائے۔ بلاشبہ قرآن میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں اس نے مخالفوں کے لیے شدت و غلظت کا اظہار کیا ہے،  لیکن سوال یہ ہے کہ کن مخالفوں کے لیے ؟ ان کے لیے جن کی مخالفت محض اختلاف فکر و اعتقاد کی مخالفت تھی،  یعنی ایسی مخالفت جو معاندانہ اور جارحانہ نوعیت نہیں رکھتی تھی۔ ہمیں اس سے قطعاً انکار ہے۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تمام قرآن میں شدت و غلظت کا ایک لفظ بھی نہیں مل سکتا جو اس طرح کے مخالفوں کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اس نے جہاں کہیں بھی مخالفوں کا ذکر کرتے ہوئے سختی کا اظہار کیا ہے،  اس کا تمام تر تعلق ان مخالفوں سے ہت جن کی مخالفت بغض و عناد اور ظلم و شرارت کی جارحانہ معاندت تھی۔ اور ظاہر ہے کہ اصلاح و ہدایت کی کوئی تعلیم بھی اس صورت حال سے گریز نہیں کر سکتی۔ اگر ایسے مخالفوں کے ساتھ بھی نرمی و شفقت ملحوظ رکھی جائے تو بلاشبہ یہ رحمت کا سلوک تو ہو گا،  مگر انسانیت کے لیے نہیں ہو گا،  ظلم و شرارت کے لیے ہو گا۔ اور یقیناً سچی رحمت کا معیار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ظلم و فساد کی پرورش کرے۔ ابھی چند صفحوں کے بعد تمہیں معلوم ہو گا کہ قرآن نے صفات الٰہی میں رحمت کے ساتھ عدالت کو بھی اس کی جگہ دی ہے۔ اور سورۃ فاتحہ میں ربوبیت اور رحمت کے بعد عدالت ہی کی صفت جلوہ گر ہوئی ہے کہ وہ رحمت سے عدالت کو الگ نہیں کرتا،  بلکہ اسے عین رحمت کا مقتضٰی قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم انسانیت کے ساتھ رحم و محبت کا برتاؤ کر ہی نہیں سکتے،  اگر ظلم و شرارت کے لیے تم میں سختی نہیں ہے۔ انجیل میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی اپنے زمانے کے مفسدوں کو ” سانپ کے بچے ” اور ” ڈاکوؤں کا مجمع” کہنے پر مجبور ہوئے۔

 

کفر محض اور کفر جارحانہ

 

قرآن نے کفر کا لفظ انکار کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ انکار دو طرح کا ہوتا ہے ایک یہ کہ انکار محض ہو ایک یہ کہ جارحانہ ہو۔

انکار محض سے مقصود یہ ہے کہ ایک شخص تمہاری تعلیم قبول نہیں کرتا،  اس لیے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی یا س لیے کہ اس میں طلب صادق نہیں ہے یا اس لیے کہ جو راہ چل رہا ہے اسی پر قانع ہے ! بہرحال کوئی وجہ ہے لیکن وہ تم سے متفق نہیں ہے۔

جارحانی انکار سے مقصود وہ حالت ہے کو صرف اتنے پر ہی قناعت نہیں کرتی بلکہ اس میں تمہارے خلاف ایک طرح کی کد اور ضد پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہ ضد بڑھتے بڑھتے بغض و عناد اور ظلم و شرارت کی سخت سے سخت صورتیں اختیار کر لیتی ہے۔ اس طرح کا مخالف صرف یہی نہیں کرتا کہ تم سے اختلاف رکھتا ہے بلکہ اس کے اندر تمہارے خلاف بغض و عناد کا ایک غیر محدود جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور زندگی کی ساری قوتوں کے ساتھ تمہاری بربادی و ہلاکت کے درپے ہو جائے گا۔ تم کتنی ہی اچھی بات کہو وہ تمہیں جھٹلائے گا تم کتنا ہی اچھا سلوک کرو وہ تمہیں اذیت پہنچائے گا تم کہو: روشنی تاریکی سے بہتر ہے۔ تو وہ کہے گا: "تاریکی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔” تم کہو: کڑواہٹ سے مٹھاس اچھی ہے تو وہ کہے : نہیں،  کڑواہٹ میں ہی دنیا کی سب سے بڑی لذت ہے۔

یہی حالت ہے جسے قرآن انسانی فکر و بصیرت کے تعطل تعبیر کرتا ہے اور اسی نوعیت کے مخالف ہیں جن کے لیے اس کے تمام زواجر و قوارع ظہور میں آئے ہیں

لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا یَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُ‌ونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا یَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ۔( ۱۷۹:۷)

ان کے پاس دل ہیں مگر سوچتے نہیں،  ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ان کے پاس کان ہیں مگر سنتے نہیں۔ وہ ایسے ہو گئے ہیں جیسے چار پائے ! نہیں بلکہ چار پایوں سے بھی کھوئے ہوئے۔ بلاشبہ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں ڈوبے ہیں۔

ہمارے مفسر اسی دوسری حالت کو "کفر حجود” سے تعبیر کرتے ہیں۔

دنیا میں جب کبھی سچائی کی کوئی دعوت ظاہر ہوئی ہے تو کچھ لوگوں نے اسے قبول کر لیا ہے،  کچھ نے انکار کیا ہے۔ لیکن کچھ ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے ان کے خلاف طغیان و حجود اور ظلم و شرارت کی جتھا بندی کر لی ہے۔ قرآن کا جب ظہور ہوا تو اس نے بھی یہ تینوں جماعتیں اپنے سامنے پائیں۔ اس نے پہلی جماعت کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا دوسری کو دعوت و تذکیر کا مخاطب بنایا۔ مگر تیسری کے ظلم و طغیان پر حسب حالت و ضرورت زجر و توبیخ کی،  اگر ایسے گروہ کے لیے بھی اس کے لب و لہجے کی سختی "رحمت” کے خلاف ہے تو بلاشبہ اس معنی میں قرآن رحمت کا معترف نہیں اور یقیناً اس ترازو سے اس کی رحمت تولی نہیں جا سکتی۔

تم بار بار سن چکے ہو کہ وہ دین حق کے معنوی قوانین کو کائنات فطرت کے عام قوانین سے الگ نہیں قرار دیتا،  بلکہ انہیں کا ایک گوشہ قرار دیتا ہے۔ فطرت کائنات کا اپنے فعل و ظہور کے ہر گوشے میں کیا حال ہے ؟ یہ حال ہے کہ وہ اگرچہ سرتا سر رحمت ہے،  لیکن رحمت کے ساتھ عدالت اور بخشش کے ساتھ جزاء کا قانون بھی رکھتی ہے۔ پس قرآن کہتا ہے میں فطرت سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتا تمہاری جس مزعومہ رحمت سے فطرت کا خزانہ خالی ہے یقیناً میرے آستین و دامن میں نہیں مل سکتی!”

فِطْرَ‌تَ اللَّهِ الَّتِی فَطَرَ‌ النَّاسَ عَلَیْهَا ۚ لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (۳۰:۳۰)

اللہ کی فطرت جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی بناوٹ میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی (اللہ کی ٹھہرائی ہوئی فطرت) سچا اور ٹھیک ٹھیک دین ہے۔ لیکن اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔

قرآن کے ان تمام مقامات پر نظر ڈالو جہاں اس نے سختی کے ساتھ منکروں کا ذکر کیا ہے ؟ یہ حقیقت بیک نظر واضح ہو جائے گی۔

 

 

 

                   مٰلک یوم الدین

 

ربوبیت اور رحمت کے بعد جس صفت کا ذکر کیا گیا ہے وہ عدالت ہے اور اس کے لیے ملک یوم الدین کی تعبیر اختیار کی گئی ہے

 

الدین

 

سامی زبانوں کا ایک قدیم مادہ ‘دان’ اور ‘دین’ ہے جو بدلے اور مکافات کے معنوں میں بولا جاتا تھا اور پھر آئین و قانون کے معنوں میں بھی بولا جانے لگا۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی میں اس کے متعدد متقات ملتے ہیں۔ آرامی زبان ہی سے غالباً یہ لفظ قدیم ایران میں بھی جا پہنچا اور پہلوی میں ‘دینیہ’ نے شریعت و قانون کا مفہوم پیدا کر لیا۔ خورد ادستا میں ایک سے زیادہ موقع پر یہ لفظ مستعمل ہوا ہے اور زردشتیوں کی قدیم ادبیات میں انشاء و کتابت کے آئین و قواعد کو بھی دین’بیرہ’ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ علاوہ بریں زردشتیوں کی ایک مذہبی کتاب کا نام ‘دین کا رت’ ہے جو غالباً نویں صدی مسیحی میں عار کے ایک موید نے مرتب کی تھی۔

بہرحال عربی میں ‘الدین’ کے معنی بدلے اور مکافات کے ہیں خواہ اچھائی کا ہو یا برائی کا۔

متعلم لیلی ای دین تعایت

وائ غریم فی التقاضی غریمھا

پس مٰلک یوم الدین کے معنی ہوئے ” وہ جو جزا کے دن کا حکمران ہے ” یعنی روز قیامت کا اس سلسلے میں کئی باتیں قابل غور ہیں۔

 

دین کے لفظ نے جزا کی حقیقت واضح کر دی

 

اولا قرآن نے صرف اس موقع پر بلکہ عام طور پر جزا کے لیے الدین کا لفظ اختیار کیا ہے اور اسی لیے وہ قیامت کو بھی عموماً یوم الدین سے تعبیر کرتا ہے یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ جزا کے بارے میں جو اعتقاد پیدا کرنا چاہتا تھا اس لیے یہی تعبیر سب سے زیادہ موزوں اور واقعی تعبیر تھی۔ وی جزا کو اعمال کا قدرتی نتیجہ اور مکافات قرار دیتا ہے۔

نزول قرآن کے وقت پیروان مذاہب کا عالمگیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا محض خوش نودی اور اس کے قہر و غضب کا نتیجہ ہے،  اعمال کے نتائج کا اس میں دخل نہیں۔ الوہیت اور شاہیت کا تشابہ تمام مذہبی تصورات کی طرح اس معاملے میں بھی گم راہی فکر کا موجب ہوا تھا۔ لوگ دیکھتے تھے کہ مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام و کرام دینے لگتا ہے،  کبھی بگڑ کر سزائیں دینے لگتا ہے اس لیے خیال کرتے تھے کہ خدا کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ وہ کبھی ہم سے خوش ہو جاتا ہے،  کبھی غیظ و غضب میں آ جاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاؤں کی رسم اسی اعتقاد سے پڑی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربان کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے۔

یہودیوں اور عیسائیوں کا عام تصور دیوبانی تصورات سے بلند ہو گیا تھا،  لیکن جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے ان کے تصور نے بھی کوئی وقیع ترقی نہیں کی تھی۔ یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائیل کا ایک خدا مانتے تھے۔ لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شاہی اور مطلق العنانی کا خدا تھا۔ وہ کبھی خوش ہو کر انہیں اپنی چہیتی قوم بنا لیتا کبھی جوش انتقام میں آ کر بربادی و ہلاکت کے حوالے کر دیتا۔ عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہو گئی اور جب تک خدا نے اپنی صفت ابنیت کو بشکل مسیح علیہ السلام قربان نہیں کر دیا،  اس کے نسلی گناہ اور مغضوبیت کا کفارہ نہ ہو سکا۔

 

مجازات عمل کا معاملہ بھی دنیا کے عالمگیر قانون فطرت کا ایک گوشہ ہے۔

 

لیکن قرآن نے جزا و سزا ک اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل نہیں قرار دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین و نظام سے الگ ہو بلکہ اسی کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے : کائنات ہستی کا عالم گیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے ممکن نہیں یہاں کوئی شے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و نتائج کے سلسلے سے باہر ہو،  پس جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھے ہیں اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں۔ اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لیے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں،  معنوی موثرات سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اعمال کے یہی قدرتی خواص و نتائج ہیں جنہیں جزا و سزا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہ ثواب ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برائی ہے اور یہ عذاب ہے۔ ثواب اور عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہو گئی؟ ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کا نقشہ کھینچا ہے اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے ایک دوزخ کا۔ بہشت کے نعائم ان کے لیے ہیں جن کے اعمال بہشتی ہوں گے۔ دوزخ کی عقوبتیں ان کے لیے ہیں جن کے اعمال دوزخی ہوں گے :

لَا یَسْتَوِی أَصْحَابُ النَّارِ‌ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۚ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ

‘اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ (اپنے اعمال و نتائج میں ) یکساں نہیں ہو سکتے۔ کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں۔

جس طرح مادیات میں خواص و نتائج ہیں اسی طرح معنویات میں بھی ہیں۔

وہ کہتا ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ فطرت ہر گوشہ وجود میں اپنا قانون مکافات رکھتی ہے،  ممکن نہیں کہ اس میں تغیر یا تساہل ہو۔ فطرت نے آگ میں خاصہ رکھا ہے کہ جلائے۔ اب سوزش و تپش فطرت کی وہ مکافات ہو گئی جو پر اس انسان کے لیے ہ جو آگ کے شعلوں میں ہاتھ ڈال دے گا،  ممکن نہیں کہ تم آگ میں کودو اور اس فعل کے مکافات سے بچ جاؤ۔ پانی کا خاصہ ٹھنڈک اور رطوبت ہے۔ یعنی ٹھنڈک اور رطوبت وہ مکافات ہے جو فطرت نے پانی میں ودیعت کر دی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ تم دریا میں اترو اور اس مکافات سے بچ جاؤ،  پھر جو فطرت کائنات ہستی کی ہر چیز اور ہر حالت میں مکافات رکھتی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ انسان کے اعمال کے لیے مکافات نہ رکھے ؟ یہی مکافات،  جزا و سزا ہے۔

آگ جلاتی ہے،  پانی ٹھنڈک پیدا کرتا ہے،  سنکھیا کھانے سے موت، دودھ سے طاقت آتی ہے،  کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ جب اشیاء کی ان تمام مکافات پر تمہیں تعجب نہیں ہوتا،  کیونکہ یہ تمہاری زندگی کی یقینیات ہیں تو پھر اعمال کے مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے ؟ افسوس تم پر! تم اپنے فیصلوں میں کتنے ناہموار ہو۔

تم گیہوں بوتے ہو اور تمہارے دل میں کبھی یہ خدشہ نہیں گزرتا کہ گیہوں پیدا نہیں ہو گا۔ اگر کوئی تم سے کہے کہ ممکن ہے گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہو جائے تو تم اسے پاگل سمجھو گے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین تمہاری طبعیت میں راسخ ہو گیا ہے۔ تمہارے وہم و گمان میں بھی یہ خطرہ نہیں گزر سکتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے دی گی۔ اتنا ہی نہیں،  بلکہ تم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھے قسم کا گیہوں لے کر برے قسم کا گیہوں دے گی۔ تم جانتے ہو کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ پھر بتاؤ! جو فطرت گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی ہے کیونکر ممکن ہے کہ اچھے اعمال کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے پر برا نتیجہ نہ رکھتی ہو؟

أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَ‌حُوا السَّیِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا یَحْكُمُونَ )۲۱) وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ (۲۲)

جو لوگ برائیاں کرتے ہیں،  کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انھیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے اعمال اچھے ہیں دونوں برابر ہو جائیں،  زندگی میں بھی اور موت میں بھی (اگر ان لوگوں کی فہم و دانش کا یہی فیصلہ ہے تو) افسوس ان کے فیصلے پر اور اللہ نے آسمان و زمین کو (بے کار اور عبث نہیں بنایا ہے بلکہ) حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہے اور اس لیے بنایا ہے کہ ہر جان کو اس کی کمائی کے مطابق بدلا ملے،  اور یہ بدلا ٹھیک ٹھیک ملے گا،  کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جزا و سزا کے لیے ‘الدین’ کا لفظ اختیار کیا،  کیونکہ مکافات عمل کا مفہوم ادا کرنے کے لیے سب سے موزوں لفظ یہی تھا۔

 

اصلاح قرآنی میں "کسب”

 

اور پھر یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس نے اچھے برے کام کرنے کو جا بجا کسب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ ‘ کسب’ کے معنی عربی میں ٹھیک ٹھیک وہی ہیں جو اردو میں ‘کمائی’ کے ہیں یعنی ایسا کام جس کے نتیجے سے تم کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہو،  اگرچہ فائدے کی جگہ نقصان بھی ہو جائے۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان کے لیے جزا و سزا خود انسان ہی کی کمائی ہے۔ جیسی کسی کی کمائی ہو گی ویسا ہی نتیجہ پیش آئے گا۔ اگر ایک انسان نے اچھے کام کر کے اچھی کمائی کر لی ہے تو اس کے لیے اچھائی ہے۔ اگر کسی نے برائی کر کے برائی کما لی تو اس کے لیے برائی ہے۔

كُلُّ امْرِ‌ئٍ بِمَا كَسَبَ رَ‌هِینٌ (۲۱)

ہر انسان اس نتیجے کے ساتھ جو اس کی کمائی ہے،  بندھا ہوا ہے۔

سورۃ بقرہ میں جزا و سزا کا قاعدہ کلیہ بتا دیا۔

لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ

(ہر انسان کے لیے وہی ہے جیسی کچھ اس کی کمائی ہو گی) جو کچھ اسے پانا ہے وہ بھی اس کی کمائی ہے اور جس کے لیے جواب دہ ہوتا ہے وہ بھی اس کی کمائی ہے۔

اسی طرح قوموں اور جماعتوں کی نسبت ایک عام قاعدہ بتا دیا:

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ (۱۳۴)

یہ ایک امت تھی جو گزر چکی۔ اس کے لیے وہ نتیجہ تھا جو اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ نتیجہ ہے جو تم کماؤ گے۔ تم سے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہو گی کہ ان لوگوں کے اعمال کیسے تھے ؟

علاوہ بریں صاف صاف لفظوں میں جا بجا یہ حقیقت واضح کر دی کہ اگر دین الٰہی نیک عمل کی ترغیب دیتا ہے اور بد عملی سے روکتا ہے تو یہ صرف اس لیے ہے کہ انسان نقصان و ہلاکت سے بچے اور نجات و سعادت حاصل کرے،  یہ بات نہیں ہے کہ خدا کا غضب و قہر سے عذاب دینا چاہتا ہو اور اس سے بچنے کے لیے مذہبی ریاضتوں اور عبادتوں کی ضرورت ہو۔

مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَیْهَا ۗ وَمَا رَ‌بُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ (۴۷)

جس کسی نے نیک کام کیا اپنے لیے کیا اور جس کسی نے برائی کی تو خود اسی کے آگے آئے گی۔ اور ایسا نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار اپنے بندوں کے لیے ظلم کرنے والا ہو۔

ایک مشہور حدیث قدسی میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یا عبادی! لو ان او لکم و آخر کم والسکم و جنکم کانو ا علیٰ اتقی قلب رجل واحد منکم،  ما زادفی ملکی شینا۔ یا عبادی! لو ان اولکم و آخر کم و وانسکم و جنکم کانو اعلی افجر قلب رجل واھد منکم،  مانقص ذالک من ملکی شینا یا عبادی! لو ان اولکم اآکر کم و انسکم وجنکم قامو ا فی صعید و احد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ،  ما نقص ذلک مما عندی الا کما ینقص المخیط اذا ادخل البحر،  یا عبادی! انماھی اعمالکم احسیھالکم ثم اوفیکم ایاھا۔ فمن وجد خیرا فلیحمداللہ،  ومن وجد غیر ذلک فلا یلومن الا نفسہ (مسلم عن ابی)

اے میرے بندو! اگر تم میں سب انسان جو پہل گزر چکے اور وہ سب جو بعد کر پیدا ہوں گے اور تمام انس اور تمام جن اس شخص کی طرح نیک ہو جاتے جو تم میں سے سب سے زیادہ متقی ہے تو یاد رکھو! اس سے میری خداوندی میں کچھ بھی اضافہ نہ ہوتا۔ اے میرے بندو! اگر وہ سب جو پہلے گزر چکے اور وہ سب جو بعد کو پیدا ہوں گے اور تمام انس اور تمام جن اس شخص کی طرح بدکار ہو جاتے جو تم میں سب سے بدکار ہے،  تو اس سے میری خداوندی میں کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ اے میرے بندو! اگر وہ سب جو پہلے گزر چکے اور وہ سب جو بعد کو پیدا ہوں گے ایک مقام پر جمع ہو کر مجھ سے سوال کرتے اور میں ہر انسان کو اس کی منہ مانگی مراد بخش دیتا تو میری رحمت و بخشش کے خزانے میں اس سے زیادہ کمی نہ ہوتی جتنی کہ سوئی کے ناکے جتنا پانی نکل جانے سے سمندر میں ہو سکتی ہے۔ اسے میرے بندو! یاد رکھو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جہنیں میں تمہارے لیے انضباط اور نگرانی میں رکھتا ہوں اور پھر انہیں کے نتائج بغیر کسی کمی بیشی کے تمہیں واپس دیتا ہوں۔پس جو کوئی تم میں اچھائی پائے چاہئیے کہ اللہ کی حمد و ثنا کرے۔اور جس کسی کو برائی پیش آئے تو چاہئیے کہ خود اپنے وجود کے سوا کسی کو ملامت نہ کرے "۔

یہاں یہ خدشہ کسی کے دل میں واقع نہ ہو کہ خود قرآن نے بھی تو جا بجا خدا کی خوش نودی اور رضا مندی کا ذکر کیا ہے۔بلاشبہ کیا ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ انسان کی نیک عملی کا اعلیٰ درجہ یہی قرار دیتا ہے کہ جو کچھ کرے اللہ کہ کوش نودی کے لئے کرے۔لیکن خدا کے جس رضا اور غضب کا وہ اثبات کرتا ہے وہ جزا و سزا کی علت نہیں ہے بلکہ جزا و سزا کا قدرتی نتیجہ ہے یعنی یہ نہیں کہتا کہ جزا و  سزا محض خدا کی خوش نودی اور ناراضی کا کا نتیجہ ہے، نیک و بد اعمال کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ جزا و سزا تمام تر انسان کے اعمالی کا نتیجہ ہے اور خدا نیک عمل سے خوش نود ہوتا ہے بد عملی ناپسند کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ تعلیم قدیمی اعتقاد سے نہ صرف مختصر ہے بلکہ یکسر متضاد ہے۔

بہرحال جزا و سزا کی اس حقیقت کے لئے ‘الدین’ کا لفظ نہایت موزون لفظ ہے اور تمام گمراہوں کی راہ بند کر دیتا ہے جو اس بارے میں پھیلی ہوئی تھیں۔سورہ فاتحہ میں مجرد اس لفظ کے استعمال نے جزا و سزا کی اصلی حقیقت لوگوں پر آشکارا کر دی۔

 

الدین بمعنیٰ قانون و مذہب

 

ثانیاً یہی وجہ ہے کہ مذہب اور قانون کے لئے ‘الدین’کا لفظ استعمال کیا گیا۔ کیونکہ مذہب کا بنیادی اعتقاد

مَا كَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن یَشَاءَ اللّهُ (۱۲:۷۲)

مکافات عمل کا اعتقاد ہے اور قانون کی بنیاد بھی تعزیر و سیاست پر ہے۔سورہ یوسف میں جہاں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس روک لیا تھا وہاں فرمایا:

‘وہ بادشاہ(مصر)کے قانون کی رو سے ایسا نہیں کر سکتا  تھا کہ اپنے بھائی کو روک لے، مگر وہاں اسی صورت میں کہ اللی کو(اس کی راہ نکال دینا) منظور ہوتا’۔

یہاں بادشاہ مصر کے، "دین”سے مقصود اس کا قانون ہے۔

 

ملک یوم الدین میں عدالت الٰہی کا اعلان ہے

 

ثالثاً یہاں ربوبیت اور رحمت کے بعد صفات قہر و جلال میں کسی صفت کا ذکر نہیں کیا  گیا بلکہ”مالک یوم الدین”کی صفات بیان کی گئی جس عدالت الٰہی کا تصور ہمارے ذہن میں پیدا ہو جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن نے خدا کی صفات کا جو تصور قائم کیا ہے اس میں قہر و غضب کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

البتہ عدالت ضرور ہے اور صفات قہر جس قدر بیان کی گئی ہیں دراصل اسی کے مظاہر ہیں (۵۷)۔

فی الحقیقت صفات الٰہی کے تصور کا یہی مقام ہے جہان فکر انسانی نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی۔یہ ظاہر ہے کہ فطرت کائنات ربوبیت و رحمت کے ساتھ اپنے مجاز بھی رکھتی ہے اور اگر ایک طرف اس میں پرورش و بخشش ہے تو دوسری طرف مواخذہ و مکافات بھی ہے۔ فکر انسانی کے لئے فیصلہ طلب سوال یہ تھا کے فطرت کے مجازات اس کے قہر و غضب کا نتیجہ ہیں یا عدل و  فسط کے ؟ اس کا فکر نارسا عدل و  فسط کی حقیقت معلوم نہ کر سکا۔اس نے مجازات کو قہر و غضب پر محمول کر لیا اور یہیں سے خدا کی صفات میں خوف و دہشت کا تصور پیدا ہو گیا۔حالانکہ اگر وہ فطرت کائنات کو زیادہ قریب ہو کر دیکھ سکتا تو معلوم کر لیتا کہ جن مظاہر کو قہرو غضب پر محمول کر رہا ہے وہ قہر و غضب کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ عین مقتضاء رحمت ہیں۔ اگر فطرت کائنات میں مکافات کا مواخذہ نہ ہوتا یا تعمیر کی تحسین و تکمیل کے لئے تخریب نہ ہوتی تو میزان عدل قائم نہ رہتا اور تمام نظام درہم برہم ہو جاتا۔

 

کارخانہ ہستی کے تین معنوی عناصر:ربوبیت، رحمت، عدالت

 

رابعاً جس طرح کارخانہ خلقت اپنے وجود و بقا کے لئے ربوبیت اور رحمت کا محتاج ہے اسی طرح عدالت کا بھی محتاج ہے۔ یہی تین معنوی عناصر ہیں جن سے خلقت و ہستی کا قوام ظہور میں آیا ہے۔ ربوبیت پرورش کرتی ہے رحمت افادہ و فیضان کا سر چشمہ ہے اور عدالت سے بناؤ اور خوبی ظہور میں آتی اور نقصان فساد کا ازالہ ہوتا ہے۔

 

تعمیر و تحسین کے تمام حقائق دراصل عدل و توازن کا نتیجہ ہیں۔

 

تم نے ابھی ربوبیت اور رحمت کے مقامات کا مشاہدہ کیا ہے۔اگر ایک قدم آگے  بڑھو تو اسی عدالت کا مقام نمودار ہو جائے۔ تم دیکھو گے کہ اس کارخانہ ہستی میں بناؤ سلجھاؤ، خوبی اور جمال میں سے جو کچھ بھی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ عدل و توازن کی حقیقت کا ظہور ہے۔ ایجاب و تعمیر کو تم اس کی بے شمار شکلوں میں دیکھتے ہو اور اس لئے، بے شمار ناموں سے پکارتے ہو لیکن اگر حقیقت کا سراغ لگاؤ تو دیکھ لو گے کے ایجابی حقیقت یہاں صرف ایک ہی ہے اور وہ عدل و اعتدال ہے۔

"عدل” کے معنی ہیں برابر ہونا زیادہ نہ ہونا۔ اسی لئے معاملات اور قضایا میں فیصلہ کر دینے کو عدالت کہتے ہیں کہ حاکم دو فریقوں کی باہم دگر زیادتیاں دور کر دیتا ہے۔ترازو کی تول کو بھی معادات کہتے ہیں۔کیونکہ وہ دونوں پلوں کا وزن برابر کر دیتا ہے۔یہی عدالت جب اشیاء میں نمودار ہوتی ہے تو ان کی کمیت اور کیفیت میں تناسب پیدا کر دیتی ہے۔ایک جزو کا دوسرے جزو سے کمیت یا کیفیت میں مناسب و موزوں ہونا عدالت ہے۔

اب غور کرو!کارخانہ ہستی میں بناؤ اور خوبی کے جس قدر مظاہر ہیں کس طرح اسی حقیقت سے ظہور میں آئے ہیں ؟وجود کیا ہے ؟حکیم بتاتا ہے کے عناصر کی ترکیب کا اعتدال ہے۔ اگر اس اعتدالی حالت میں ذرا بھی فتور  واقع آ جائے، وجود کی نمود معدوم ہو جائے !جسم کیا ہے ؟جسمانی مواد کی ایک خاص اعتدالی حالت ہے۔اگر اس کا کوئی ایک جز بھی غیر معتدل ہو جائے، جسم کی حیثیت ترکیبی بگڑ جائے۔صحت و تندرستی کیا ہے ؟اخلاط کا اعتدال ہے۔جہاں اس کا قوام بگڑا صحت میں انحراف ہو گیا۔۔حسن و جمال کیا ہے ؟تناسب و اعتدال کی ایک کیفیت ہے۔اگر انسان میں ہے تو خوب صورت انسان ہے۔نباتات میں ہے پھول ہے۔عمارت میں ہے تو تاج محل ہے۔نغمہ حلاوت کیا ہے ؟سروں کی ترکیب کا تناسب و اعتدال۔اگر ایک سُر بھی بے میل ہوا نغمے کی کیفیت جاتی رہی۔

پھر کچھ اشیاء و اجسام ہی پر موقوف نہیں، کارخانہ ہستی کا تمام نظام ہی عدل و توازن پر قائم ہے۔اگر ایک لمحہ کے لئے یہ حقیقت غیر موجود ہو جائے تو تمام نظام عالم درہم برہم ہو جائے۔یہ کیا بات ہے ؟کہ نظام شمسی کا ہر کرہ اپنی اپنی جگہ پر معلق ہے، اپنے اپنے دائروں میں حرکت کر رہا ہے اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ذرا بھی انحراف و میلان واقع ہو؟یہی عدالت کا قانون ہے جس نے سب کو ایک خاص نظم کے ساتھ جکڑ بند کر رکھا ہے۔تمام کرے اپنی اپنی کشش رکھتے ہیں اور ان کے مجموعی جذب و انجذاب کے توازن سے ایسی حالت پیدا ہو گئی ہے کہ ہر کرہ اپنی جگہ قائم و معلق ہے۔اگر کوئی کرہ اس قانون عدالت سے باہر ہو جائے تو معاً دوسرے کروں سے ٹکرا جائے اور تمام نظام شمسی مختل ہو جائے۔

اعداد کے تناسب کی عظیم الشان صداقت جس پر ریاضی اور حساب کے تمام حقائق کا دارومدار ہے یہی عدل و تعادل کی حقیقت ہے۔جس دن یہ حقیقت ذہن انسانی پر کھلی تھی، علوم و معارف کے تمام دروازے باز ہو گئے تھے۔

 

وضع میزان

 

چنانچہ قرآن نے اس حقیقت کی طرف جا بجا اشارات کئے ہیں :

وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیزَان َ أَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ(۷:۵۵)۔

اور اس نے بلند کر دیا اور (اجرام سماویہ کے قیام کے لئے قانون عدالت کا)

میزان بنا دیا تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو (۵۷)

یہ ‘المیزان’ یعنی ترازو کیا ہے ؟تعادل و توازن کا قانون ہے جو تمام اجرام سماویہ کو ان کی مقررہ جگہ میں تھامے ہوئے ہے۔اور کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس کے توازن کا پلڑا کسی ایک طرف جھک پڑے۔اجرام سماویہ کایہ وہ غیر مرئی ستون ہے جس کی نسبت سورہ رعد میں فرمایا:

اللّهُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا(۲:۱۳)

اللہ جس نے آسمانوں کو(اجرام سماویہ کو)بغیر ستون کے بلند کر دیا ہے اور تم اس کی یہ حکمت دیکھ رہے ہو۔

اور سورہ لقمان میں بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے :

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا(۱۰:۳۱)

اس نے آسمانوں کو (یعنی اجرام سماویہ کو) پیدا کیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون انہیں تھامے ہوئے نہیں ہے۔

یہ کہنا ضروری نہیں کہ عدل و تعادل کی حقیقت سمجھانے کے لئے میزان یعنی ترازو سے  بہتر کوئی عام فہم اور دل نشین تعبیر نہیں ہو سکتی تھی۔

اسی طرح سورۂ آلِ عمران کی مشہور آیت شہادت میں قائمہ بالقسط(۱۸:۳)کہہ کر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی کائنات خلقت میں اس کے تمام کام عدالت کے ساتھ قائم ہیں اور اس نے قیامِ ہستی کے لئے یہی قانون ٹھہرا دیا ہے۔

 

اعمالِ انسانی کا عدل و قسط پر مبنی ہونا قرآن کی اصطلاح میں عملِ صالح ہے

 

قرآن کہتا ہے کہ جب عدالت کا یہ قانون کائنات خلقت کے ہر گوشہ میں نافذ ہے تو کیونکر ممکن ہے کے انسان کے افکار و اعمال کیلئے بے اثر ہو جائے۔

پس اس گوشے میں بھی وہی عمل مقبول ہوتا ہے جو افراط و تفریط اور میل و انحراف کی جگہ فطرت کے عدل و قسط پر مبنی ہوتا ہے۔اگر تعمیر و جمال کے سینکڑوں ناموں سے تمہیں مغالطہ نہیں ہوتا اور یہ بات پا لیتے ہو کہ ان سب میں اصل حقیقت ایک ہی ہے اور وہ عدالت ہے تو اس گوشے میں ایک ایمان و عمل کی اصطلاح سے تمہیں کیوں توحش ہو اور کیوں بے تحاشہ انکار کر بیٹھو؟

کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا دین چھوڑ کر دوسرا دین تلاش کریں ؟حالانکہ آسمان اور زمیں میں جو کوئی بھی ہے سب اس کے حکم کی اطاعت کر رہے ہیں خوشی سے ہو یا ناخوشی سے۔(مگر سب کے لئے چلنا اسی کے ٹھہرائے ہوئے قانون پر ہے )اور بالآخر سب اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

 

بد عملی کے لئے قرآن کے اختیارات لغویہ

 

یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بد عملی اور برائی کے لئے جتنی تعمیرات اختیار کی ہیں سب ایسی ہیں کہ اگر ان کے معانی پر غور کیا جائے تو عدل و توازن کی ضد اور مخالف ثابت ہوں گی۔ گویا قرآن کے نزدیک برائی کی حقیقت اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ حقیقت عدل سے انحراف ہو مثلاً ظلم، طغیان، اسرافِ تبذیر، افساد، اعتداء، عدوان و غیر ذلک ظلم کے معنی وضع الشنی فی غیر مو ضعہ۔ ” یعنی جو بات جس جگہ ہونی چاہیے وہاں نہ ہو بے محل ہو” تو لغت میں اس حالت کو ظلم کہیں گے،  اسی لیے قرآن نے شرک کو ظلم عظیم کہا ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ کوئی بے محل بات نہیں ہو سکتی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ کسی چیز کا اپنی صحیح جگہ میں نہ ہونا،  ایک ایسی حالت ہے جو حقیقت عدل کے عین منافی ہے۔

طغیان کے معنی ہیں کسی چیز کا اپنی حد سے گزر جانا،  دریا کا پانی اپنی حد سے گزر جانا،  دریا کا پانی اپنی حد سے بلند ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں ‘طغی الماء’ ظاہر ہے کہ حد سے تجاوز عین عدالت کی ضد ہے۔

اسراف سرف سے ہے سرف کے معنی یہ ہیں کہ "جو چیز جتنی مقدار میں جہاں خرچ کرنی چاہیے،  اس سے زیادہ خرچ کر دی جائے۔”

تبذیر کے معنی کسی چیز کو ایسی جگہ خرچ کرنا ہے جہاں خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ اسراف اور تبذیر میں مقدار اور محل کا فرق ہوا۔ کھانے میں خرچ کرنا خرچ کا صحیح محل ہے لیکن اگر ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے تو یہ اسراف ہو گا۔ دریا میں روپیہ پھینک دینا روپیہ خرچ کرنے کا صحیح محل نہیں ہے۔ اگر تم روپیہ پانی میں پھینک دو تو یہ فعل تبذیر ہو گا۔ دونوں صورتیں عدالت کے منافی ہیں کیونکہ حقیقت عدل مقدار اور محل دونوں میں تناسب چاہتی ہے۔

فساد کے معنی ہی خروج الشنی عن الاعتدال کے ہیں یعنی کسی چیز کا حالت اعتدال سے باہر ہو جانا۔

"اعتداء اور "عنوان” ایک ہی مادہ سے ہیں اور دونوں کے معنی حد سے گزر جانا ہے۔

 

 

 

                   ایاک نعبد وایاک نستعین

 

قرآن اور صفات الٰہی کا تصور

 

قرآن نے خدا کی صفات کا جو تصور قائم کیا ہے سورۃ فاتحہ اس کی سب سے پہلی رونمائی ہے۔ ہم اس مرقوع میں وہ شبیہ دیکھ سکتے ہیں جو ٖ قرآن نے نوع انسانی کے سامنے پیش کی۔ یہ ربوبیت،  رحمت اور عدالت کی شبیہ ہے۔ انہیں تین صفتوں کے تفکر سے ہم اس کے تصور الٰہی کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔

خدا کا تصور انسان کی روحانی و اخلاقی زندگی کا محور رہا ہے۔ یہ بات کہ مذہب کا معنوی اور نفسیاتی مزاج کیسا ہے ؟ اور وہ اپنے پیرووں کے لیے کس طرح کے اثرات رکھتا ہے ؟ صرف یہ بات دیکھ کر معلوم کر لی جا سکتی ہے کہ اس کے تصور الٰہی کی نوعیت کیا ہے۔(۵۸)

 

انسان کا ابتدائی تصور

 

جب ہم انسان کے تصورات الوہیت کا ان کے مختلف عہدوں میں مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے تغیرات کی رفتار کچھ عجیب طرح کی دکھائی دیتی ہے۔ (۵۹)۔ اور تعطیل و توجیہ کے عام اصول کام نہیں دیتے۔ موجودات خلقت کے ہر گوشے میں تدریجی ارتقاء (Evolution) کا قانون کام کر رہا ہے اور انسان کا جسم و دماغ بھی اس سے باہر نہیں ہے۔ جس طرح انسان کا جسم بتدریج ترقی کرتا ہوا نچلی کڑیوں سے اونچی کڑیوں تک پہنچا اسی طرح اس کے دماغی تصورات بھی نچلے درجوں سے بلند ہوتے ہوئے بتدریج اونچے درجوں تک پہنچے،  لیکن جہاں تک خدا کی ہستی کے تصورات کا تعلق ہے،  معلوم ہوتا ہے کہ صورت حال اس سے بالکل برعکس رہی اور ارتقاء کی جگہ ایک طرح کے تنزل یا ارتجاع کا قانون یہاں کام کرتا رہا۔ ہم جب ابتدائی عہد کے انسانوں کا سراغ لگاتے ہیں تو ہمیں ان کے قدم آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔

انسانی دماغ کا سب سے زیادہ پرانا تصور جو قدامت کی تاریکی میں چمکتا ہے وہ توحید کا تصور ہے یعنی صرف ایک ان دیکھی اور اعلی ہستی کا تصور جس نے انسان کو اور ان تمام چیزوں کو جہنیں وہ اپنے چاروں طرف دیکھ ریا تھا،  پیدا کیا لیکن پھر اس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے،  جیسے اس جگہ سے اس کے قدم بتدریج پیچھے ہٹنے لگے اور توحید کی جگہ کی جگہ آہستہ آہستہ "اشتراک” اور "تعدد الہ” کا تصور پیدا ہونے لگا۔ یعنی اب اس ایک ہستی کے ساتھ جو سب سے بالاتر ہے،  دوسری قوتیں بھی شریک ہونے لگیں اور ایک معبود کی جگہ بہت سے معبودوں کی چوکھٹوں پر انسان کا سر جھک گیا۔

اگر خدا کے تصور میں وحدت کا تصور انسانی دماغ کا بلند تر تصور ہے اور اشراک اور تعدد کے تصورات نچلے درجے کے تصورات ہیں تو ہمیں اس نتیجہ تک پہنچنا پڑتا ہے کہ یہاں ابتدائی کڑی جو نمایاں ہوئی وہ نچلے درجے کی نہ تھی،  اونچے درجے کی تھی اور اس کے بعد جو کڑیاں ابھریں،  انہوں نے بلندی کی جگہ پستی کی طرف رخ کیا۔ گویا ارتقاء کا عام قانون یہاں بے اثر ہو گیا، ترقی کی جگہ رجعت کی اصل کام کرنے لگی۔

 

انیسویں صدی کے نظریے اور ارتقائی مذہب

 

انیسویں صدی کے علماء اجتماعیات کا عام نقطہ خیال یہ تھا کہ انسان کے دینی عقائد کی ابتداء ان اوہامی تصورات سے ہوئی جو اس کے ابتدائی معیشت کے طبعی تقاضوں اور احوال و ظروف کے قدرتی اثرات سے نشو و نما پانے لگے تھے یہ تصورات قانون ارتقاء کے ماتحت درجہ بدرجہ مختلف کڑیوں سے گزرتے رہے اور بالآخر انہوں نے اپنی ترقی یافتہ صورت میں ایک اعلی ہستی اور خالق کل کے عقیدے کی نوعیت پیدا کر لی۔ گویا اس سلسلہ ارتقاء کی ابتدائی کڑی اوہامی تصورات تھے جن سے طرح طرح کی الٰہی قوتوں کا تصور پیدا ہوا اور پھر اسی تصور نے ترقی کرتے ہوئے خدا کے ایک توحیدی اعتقاد کی شکل اختیار کر لی۔ بے جا نہ ہو گا اگر اختصار کے ساتھ یہاں ان تمام نظریوں پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے جو اس سلسلے میں یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئے اور وقت کے علمی حلقوں کو متاثر کیا۔

دینی عقائد اور تصورات کی تاریخ بہ حیثیت ایک مستقل شاخ علم کے انیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب انڈو جرمن (Indo -German) قبائل (یعنی وسط ایشیا کے آریائی قبائل) اور ان کی زبانوں کی تاریخ،  روشنی میں آئی تو ان کے دینی تصورات بھی نمایاں ہوئے اور اس طرح بحث و تنقید کا ایک نیا میدان پیدا ہو گیا۔ یہی میدان تھا جس کے مباحث نے انیسویں صدی کے اوائل میں بحث و نظر کی ایک مستقل شاخ پیدا کر دی یعنی دینی عقائد کی پیدائش اور ان کی نشو و نما کی تاریخ کا علم مدون ہونے لگا۔ اسی دور میں عام خیال یہ تھا کہ خدا پرستی کی ابتداء نیچر متھس (Nature – Myths) کے تصورات سے ہوئی،  یعنی ان خرافاتی اساطیر سے ہوئی جو مظاہر فطرت کے متعلق بننا شروع ہو گئے تھے مثلاً روشنی کی چمک دمک سے ایک مستقل ہستی کا تصور پیدا ہو گیا۔ بارش کی وقت نے ایک دیوتا کی شکل اختیار کر لی۔ قدیم آریائی تصورات سے کو مظاہر فطرت کی پرستش پر مبنی تھے اس خیال کا مواد فراہم ہوا تھا۔

لیکن انیسویں صدی کے نصف ابتدائی دور میں جب افریقہ اور امریکا کے وحشی قبائل کے حالات روشنی میں آئے تو ان کی دینی تصورات کی تحقیقات نے این نئے نظرئیے کا سامان فراہم کر دیا۔ سنہ ۱۷۷۰ء میں ڈی برو سے (De Brosses) نے انہیں وحشی قبائل کے تصورات سے فیٹش ورشپ (Fetish-worship) کا استنباط کیا تھا،  یعنی ایسی اشیاء کی پرستش کا جن سے کسی جنی روح کی وابستگی یقین کی جاتی تھی۔ اب پھر سنہ۱۸۵۱ء میں اے اے کامٹ (A.Comte) نے اسی پرستش سے خدا پرستی کی پیدائش کا نظریہ اختیار کیا اور سرجان لبک (Sir John Lubbock) نے (جو آگے چل کر لارڈ او بیری(Lord Avebury) کے لقب سے مشہور ہوا) اسے مزید بحث و نظر کا جامعہ پہنایا۔ اس نظریے کا اس عہد میں عام طور پر استقبال کیا گیا اور وقت کے علمی حلقوں لی قبولیت اس نے حاصل کر لی تھی۔

تقریباً اسی عہد میں مین ازم (Manism) یعنی اجداد پرستی کے نظرئیے نے سر اٹھایا۔ اس نظرئیے کی بنیاد اس قیاس پر رکھی گئی تھی کہ انسان آباؤ اجداد کی محبت و عظمت نے  پہلے ان کی پرستش کی راہ دکھائی،  پھر اس پرستش نے قانون ارتقاء کے ماتحت ترقی کر کے خدا پرستی کی نوعیت پیدا کر لی۔ صحرا نشین اور چراگاہوں کی جستجو کرنے والے قبیلوں کے ابتدائی تصورات میں اجداد پرستی کا ذہنی مواد موجود تھا۔ چین کی قدیم تاریخ میں بھی اس پرستش کا سراغ بہت دور تک ملنے لگا تھا۔ اس لیے اس نئے نظرئیے کے لیے ضروری مواد فراہم ہو گیا اور سنہ۱۸۷۰ء میں جب ہربرٹ اسپنسر(Herbert Spencer) نے اپنے آسیبی نظریے (Ghost-theory) کی بنیاد اسی تخیل پر استوار کی تو وہ وقت فلسفیوں اور اجتماعیات کے عالموں کے حلقوں میں اس نے فوراً قبولیت پیدا کر لی۔

اسی عہد میں دوسرا نظریہ بھی بروئے کار آیا اور اس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کر لی۔ یہ ای بی ٹیلر(E.B.Tylor) کا اینمزم (Animism) کا نظریہ تھا۔ سنہ۱۸۷۲ء میں اس نے اپنی مشہور کتاب پری می ٹیو کلچر(Primitive Culture) شائع کی اور اس میں دینی عقائد کی کم از کم تعریف اینمزم کے ذریعے کی۔ اینمزم سے مقصود یہ ہے کہ انسان کے تصورات میں اس کی جسمانی زندگی کے علاوہ ایک مستقل "روحانی زندگی” کا تصور بھی پیدا ہو جائے اس مستقل روحانی زندگی کا تصور ٹیلر کے نزدیک خدا پرستی اور دینی عقائد کا بنیادی مادہ تھا۔ اسی مادہ نے نشو و نما پا کر خدا کی ہستی کے عقیدے کی نوعیت پیدا کر لی غالباً دینی عقائد کی پیدائش کے تمام نظریوں میں یہ پہلا نظریہ ہے جو علمی طریقے پر پوری طرح مرتب کیا گیا اور بحث و نظر کے تمام اطراف و جوانب منظم اور آراستہ کیے گئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے تمام علمی حلقوں پر اس نظریے نے ایک خاص اثر ڈالا تھا اور عام طور پر ایک مقررہ اور طے شدہ اصول کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تھا۔ انیسویں صدی کے اختتام تک اس نظریے کا یہ اقتدار بلا استثناء قائم رہا۔

اسی اثناء میں مصر،  بابل اور اشوریا کے قدیم آثار و کتبات کے حل سے تاریخ قدیم کا ایک بالکل نیا میدان روشنی میں آنے لگا تھا اور ان آثار کے مباحث نے مستقل علوم کی حیتےرتقاء کا عماومالسفے کے تنثیت پیدا کر لی تھی۔ اس نئے مواد نے مظاہر فطرت کی پرستش کی اصل کو از سر نو اہمیت دے کر ابھار دیا،  کیونکہ وادی نیل اور وادی دجلہ و فرات کے یہ دونوں قدیم تمدن دینی عقائد کے یہی تصورات نمایاں کرتے تھے۔ چنانچہ اب پھر ایک نیا مذہب (اسکول) پیدا ہو گیا جو خدا پرستی کی پیدائش کی ابتدائی بنیاد،  مظاہر فطرت کے تاثرات کو قرار دیتا تھا اور خصوصیت کے ساتھ اجرام سماوی کے تاثرات پر زور دیتا تھا۔ اس نظریے کے حامیوں نے اینمزم (Animism) کی مخالفت کی اور ایسٹرل اینڈ نیچر میتھالوجسٹس (Astral and nature mythologists) کے نام سے مشہور ہوئے۔

لیکن انیسویں صدی کے نصف آخری حصے میں جب کہ یہ تمام نظریے سر اٹھا رہے تھے۔ دوسری طرف ایک خاص علمی حلقہ ایک دوسرے نظریہ کی بنیاد بھی چن رہا تھا۔ اس نظریے کا مواد قدیم ترین تمدنی عہد کے شکار پیشہ قبائل کے تصورات نے بہم پہنچایا تھا جن کے حالات اب تاریخ کی دسترس سے باہر نہیں رہے تھے۔ یہ نظریہ ٹوٹمزم (Totemism) کے نام سے مشہور ہوا اور بہت جلد اس نے وقت کے علمی حلقوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ ٹوٹمزم سے مقصود مختلف اشیاء اور جانوروں کے وہ انتسابات ہیں جو جمعیت بشری کی ابتسائی قبائلی زندگی میں پیدا ہو گئے تھے اور پھر کچھ عرصے کے بعد ان اشیاء اور جانوروں کا غیرطنے مظاہر فظرےمعمولی احترام کیا جانے لگا اور اس نظریے کی رو سے خیال کیا گیا کہ ہندوستان کی گائے،  مصر کا مگرمچھ اور بیل،  شمالی خطوں کے ریچھ اور صحرا نشین قبائل کا سفید بچھڑا اور اصل ٹوٹمزم ہی کے بقایا ہیں۔ سب سے پہلے ۱۸۸۵ء میں رابرٹس اسمتھ (Robertson Smith) نے اس نظریے کا اعلان کیا تھا پھر وقت کے دوسرے نظار نے بھی اس رخ پر قدم اٹھایا۔

لیکن کچھ عرصے بعد اس نظریے کی مقبولیت مجروح ہونا شروع ہو گئی۔ پروفیسر جے جی فریزر(J.G.Frazer) کا جمع کیا مواد جن منظر عام پر آیا تو معلوم ہوا کہ ٹوٹمزم(Totemism) کے تصورات نہ تو دینی تصورات کی نوعیت رکھتے تھے نہ دینی تصورات کا مبدہ بننے کی صلاحیت تھی۔ ان کی اصل نوعیت زیادہ سے زیادہ ایک اجتماعی نظام کی تھی جس کے ساتھ طرح طرح کے تصورات کا ایک سلسلہ وابستہ ہو گیا تھا۔ اس سے زیادہ انہیں اس سلس قرا ے میں اہمیت نہیں دی جا سکتی۔

مگر اس سلسلے میں معاملہ کا ایک اور گوشہ بھی نمایاں ہوا تھا۔ رفیزر نے ٹوٹمزم نے تصورات میں ایک خاص قسم ایسے بھی پائی تھی جس میں دینی عقائد کا ابتدائی مواد بننے کی زیادہ صلاحیت دکھائی دیتی تھی یعنی وہ قسم جو جادو کے اعتقاد سے تعلق رکھتی تھی،  بحث و نظر کے اس گوشے نے مفکروں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کر لیا اور جادو کا نظریہ علمی حلقوں میں روشناس ہو گیا۔ ۱۸۹۲ء میں ایک امریکی عالم جے کے کنیگ (J.J.Kenneg) اس پہلو پر توجہ دلا چکا تھا۔ اب بیسویں صدی کی ابتدائی برسوں میں بیک وقت جرمنی،  انگلینڈ،  فرانس اور امریکا کے علمی حلقوں سے اس کی بازگشت شروع ہو گئی۔ اور اینمزم کے خلاد) ردفعل کام کرنے لگا۔ اب یہ خیال عام طور پر پھیل گیا کہ اینمزم کے تصورات سے پیش تر بھی انسانی تصورات کا ایک دور رہ چکا ہے۔ اور یہ ماقبل اینمزم(Pre-animism) دور جادو کے تصورات کا دور تھا۔ اسی جادو کے اعمال کے عقیدے نے آگے چل کر روحانی عقائد کی شکل اختیار کر لی اور خدا پرستی اور دینی عقائد کے مبادات پیدا ہو گئے۔

اب جادو کا نظریہ ایک عام مقبول نریہ بن گیا اور پچھلے نظریے اپنی جگہ کھونے لگے نہ ۱۸۹۵ء میں آر آر میرٹ (R.R.Marett) نے سنہ۱۹۰۲ء میں ہیوٹ (Hewitt) نے،  سنہ۱۹۰۴ء میں کے پرییو (K.Preuss) نے سنہ۱۹۰۷ء میں اے فیر کنڈٹ (A.Vier.Kandt) نے اور ۱۹۰۸ء میں ای ایس ہارٹلینڈ (E.S Hartland) نے اسی نظریے پر اپنے بحث و فکر کی تمام دیواریں اٹھائیں اور اسے دور تک پھیلاتے چلے گئے۔ سب سے زیادہ حصہ اس میں فرانس کے علماء اجتماعیات کے اس طبقے نے لیا جو درخیم (Durkheim)کے مسلک نظر سے تعلق رکھتا تھا،  اس طبقے کا زعیم پہلے ایچ ہوبرٹ (H.Hubert) اور ایم ماس (M.Mauss)  تھا, پھر سنہ۱۹۱۲ء میں خود درخیم آگے بڑھا اور اس نظرئیے کا سب سے بڑا علم بردار بن گیا۔ اس گروہ کی رائے میں ٹوٹمزم (Totemism) اور جادو کے تصورات کا مرکب مجموعہ جیسا کہ وسط آسٹریلیا کے قبائل کے اوہام میں پایا جاتا ہے جمعیت بشری کے دینی تصورات کا اصلی مبدا تھا۔ قانون ارتقاء ک انھیں تصورات نے خدا پرستی کے عقائد کی ترقی یافتہ شکل پیدا کر لی۔

اس زمانے کے چند سال بعد بعض پروٹیسٹنٹ (Protestant)علماء نے جو دینی عقائد کے نفسیاتی مطالعے میں مشغول تھے اس مسئلے پر نفسیاتی نقطہ نگاہ سے نظر ڈالی اور اس نظریئے کی حمایت شروع کر دی۔ وہ اس طرف گئے کہ خدا پرستی کے عقیدے کا مبدا ہمیں مذہب اور سحرکاری دونوں کے مرکب تصورات میں ڈھونڈھنا چاہیے۔ اس جماعت کا پیش رو آرچ بشپ سوڈ بلویم (Soderblom) تھا جس کے مباحث ۱۹۱۷ میں شائع ہوئے۔

اس کے بعد کا زمانہ پہلی علم گیر جنگ کا زمانہ تھا جو چوبیسویں صدی کا ایک دور ختم کر کے دوسرے دور کا دروازہ کھول رہی تھی۔ اس نئے دور نے جہاں علم و نظر کے بہت سے گوشوں کو انقلابی تغیرات سے آشنا کیا وہاں علم کی اس شاخ میں بھی ایک نیا انقلابی دور شروع ہو گیا۔

یہ تمام پچھلے نظرئیے مادی مذہب ارتقاء (Materialistic Evolutionism) کی اصل پر مبنی تھے۔ ان سب کے اندر یہ بنیادی اصل کام کر رہی تھی کہ اجسام و مواد کی طرح انسان کا دینی عقیدہ بھی بتدریج نچلی کڑیوں سے ترقی کرتا ہوا اعلیٰ کڑیوں تک پہنچتا ہے اور خدا پرستی کے عقیدے میں توحید (Monotheism) کا تصور ایک طول طویل سلسلۂ ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ انیسویں صدی کا نصف آخر ڈارون ازم کے شیوع وا احاطے کا زمانہ تھا بچنر(Buchner)،  ویلز(Wells)،  اور اسپنسر(Spencer)،  نے اسے اپنے فلسفیانہ مباحث سے انسانی فکر و عمل کے تمام دائروں میں پھیلا دیا تھا،  قدرتی طور پر خدا کے اعتقاد کی پیدائش کا مسئلہ بھی اس سے متاثر ہوا اور نظر و بحث کے جتنے قدم اٹھے وہ اس راہ پر گامزن ہونے لگے۔

 

مذہب ارتقاء کا خاتمہ اور زمانہ حال کی تحقیقات

 

لیکن ابھی بیسویں صدی اپنے انقلاب انگیز انکشافوں میں بہت آگے نہیں بڑھی تھی کہ ان تمام نظریوں کی عمارتیں متزلزل ہونا شروع ہو گئیں اور پہلی عالم گیر جنگ کے بعد نے تو نہیں یک قلم منہدم کر دیا۔ اب تمام اہل نظر بالاتفاق دیکھنے لگے کہ اس راہ میں جتنے قدم اٹھائے گئے تھے وہ سرے سے اپنی بنیاد میں ہی غلط تھے،  کیونکہ ان سب کی بنیاد قانون ارتقاء کی اصل پر رکھی گئی تھی اور ارتقائی اصل کی راہ نمائی یہاں سودمند ہونے کی جگہ کم راہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اب انہیں ٹھوس اور ناقابل انکار تاریخی شواہد کی روشنی میں صاف صاف نظر آ گیا کہ انسان کے دینی عقائد کی جس نوعیت کو انہوں نے اعلیٰ اور ترقی یافتہ قرار دیا تھا وہ بعد کے زمانوں کی پیداوار نہیں ہے،  بلکہ جمعیت بشری کی سب سے پرانی متاع ہے۔ مظاہر فطرت کی پرستش،  حیوانی انتسابات کے تصورات،  اجداد پرستی کی رسوم اور جادو کے توہمات کی اشاعت سے بھی بہت پہلے جو تصور،  انسانی دل و دماغ کے افق پر طلوع ہوا تھا وہ ایک اعلیٰ ترین ہستی کی موجودگی کا بے لاگ تصور تھا یعنی خدا کی ہستی کا توحیدی اعتقاد تھا۔

چنانچہ اب بحث و نظر کے اس گوشے میں ارتقائی مذہب کا یک قلم خاتمہ ہو چکا ہے۔

ڈبلیو شمٹ (W.Schmidt) پروفیسر وائنا یونیورسٹی جنہوں نے اس موضوع پر زمانہ حال کی سب سے بہتر کتاب لکھی ہے لکھتے ہیں :

"علم شعوب و قبائل انسانی کے پورے میدان میں پرانا ارتقائی مذہب یکسر دیوالیہ ثابت ہو چکا ہے۔ نشو و نما کی مرتب کڑیوں کا وہ خوش نما سلسلہ جو اس مذہب نے پوری آمادگی کے ساتھ تیار کر دیا تھا اب ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور نئے تاریخی رجحانوں سے اسے اٹھا کر پھینک دیا ہے”

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں : اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انسان کی ابتدائی عمران و تمدن کے تصور کی اعلی ترین ہستی فی الحقیقت توحیدی اعتقاد کا خدائے واحد تھا اور انسان کا دینی عقیدہ جو اس سے ظہور پذیر ہوا وہ پوری طرح ایک توحیدی دین تھا۔ یہ حقیقت اب اس درجہ نمایاں ہو چکی ہے کہ ایک سرسری تحقیق بھی اس کے لیے کفایت کرے گی۔ نسل انسانی کے قدیم پستہ قد قبائل میں سے اکثروں کی نسبت یہ بات وثوق سے کہہ جا سکتی ہے۔ اس طرح ابتدائی عہد کے جنگلی قبیلوں کے جو حالات روشنی میں آئے ہیں اور کرنائی(Kurnai)،  جولن (Julin) اور جنوب مشرقی آسٹریلیا کے یائن(Yuin) قبیلوں کی نسبت جس قدر تاریخی مواد مہیا ہوا ہے ان سب کی تحقیقات ہیں اس نتیجے تک پہنچاتی ہے۔ آرکٹک (Arctic) تہذیب کے قبیلوں کے روایتی آثار اور شمالی امریکا کے قبائل کے دینی تصورات کی چھان بین نے بھی بالآخر اسی نتیجے کو نمایاں کیا۔”

زمانہ حال کے نظار نے اب اس مسئلے کا موضوعاتی(Pantologic) طریق نظر سے مطالعہ کیا ہے اور قدیم معلومات و مباحث کی تمام شاخیں جمع کر کے مجموعی نتائج نکالے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس سلسلے کی بعض جدید تحقیقات پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے کیونکہ ابھی وہ اس درجہ شائع نہیں ہوئی ہیں کہ عام طور پر نظر و مطالعے میں آ چکی ہوں۔

 

آسٹریلیا اور جزائر کے وحشی قبائل اور مصر کے قدیم ترین آثار کی جدید تحقیقات

 

آسٹریلیا اور جزائر بحر محیط کے وحشی قبائل ایک غیر معین قدامت سے اپنی ابتدائی ذہنی طفولیت کی زندی بسر کرتے رہے۔ زندگی و معیشت کی وہ تمام ترقی یافتہ کڑیاں جو عام طور پر انسانی جماعتوں کے ذہنی ارتقاء کا سلسلہ مربوط کرتی ہیں یہاں کے ک سر مفقودر ہیں۔ ابتدائی عہد کی بشری جمعیت کے تمام جسمانی اور دماغی خصائص ان کی قبائل کی زندگی میں دیکھ لیئے جا سکتے تھے،  ان کے تصور اس درجہ محدود تھے کہ اوہام و خرافات میں بھی کسی طرح کا ارتقائی نظم نہیں پایا جاتا۔ تاہم ان کا ایک اعتقادی تصور بالکل واضح تھا،  ایک بالاتر ہستی ہے جس نے ان کی زمین اور ان کا آسمان پیدا کیا ہے اور ان کا مرنا اور جینا اسی قبضہ و تصرف میں ہے۔ مصر کے قدیم باشندوں کی صدائیں آٹھ ہزار برس پیش تر تک کی ہمارے کانوں سے ٹکرا چکی ہیں۔ قدیم مصری تصورات کا پورا سلسلہ اپنی عہد بعہد کی تبدیلیوں کے ساتھ ہمارے سامنے ابھر آیا ہے۔ ہمیں صاف نظر آ رہا ہے کہ ایک خدا کی پرستش کا تصور اس سلسلے میں بعد کو نہیں ابھرا،  بلکہ سلسلے کئ سب سے زیادہ پرانی کڑی ہے۔ مصر کے وہ تمام معبود جن کے مرقعوں سے اس کے مشہور ہیکلیں اور دیواریں منقش کی گئی ہیں،  اس قدیم ترین عہد میں اپنی کوئی نمود نہیں رکھتے تھے جب صرف ایک اسیریز(Osiris) کی ان دیکھی ہستی کا اعتقاد دریائے نیل کی تمام آباد وادیوں پر چھایا ہوا تھا۔

 

دجلہ و فرات کی وادیوں کی قدیم آبادیاں اور خدا کی ہستی کا توحیدی تصور

 

پہلی عالمگیر جنگ کے برد عراق کے مختلف حصوں کی کھدائی جوں ہی مہمیں شروع کی گئی تھیں اور جو موجودہ جنگ کی وجہ سے ناتمام رہ گئیں اس کے انکشافات نے اس مسئلے کے لیے نئی روشنیاں بہم پہنچائی ہیں۔ اب اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاتا کہ دریائے نیل کی طرح دجلہ اور فرات کی وادیوں میں بھی انسان نے پہلے پہل اپنے خدا کو پکارا تو وہ بہت ہی ہستیوں میں بٹا ہوا نہیں تھا بلکہ ایک ہی ان دیکھی ہستی کی صورت میں نمایاں ہوا تھا۔ کالڈ یا (Chaldea) کے سومیری (Summerian) اور عکادی (Akadian) قبائل جن انسانی نسلوں کے وارث ہوئے تھے وہ شمس یعنی سورج اور نانعار یعنی چاند کی پرستش نہیں  کرتے تھے بلکہ اس ایک ہی لا زوال ہستی کی "جس نے سورج اور چاند اور تمام چمک دار ستاروں کو بنایا ہے۔”

 

موہن جودڑو کا خدائے واحد "اون”

 

ہندوستان میں موہن جودڑو (Mohenjodaro) کے آثار ہمیں آریاؤں کے عہد ورود سے بھی آگے لے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعہ و تحقیق کا کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے تاہم ایک حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے،  اس قدیم ترین انسانی بستی کے باشندوں کا بنیادی تصور توحید الٰہی کا تصور تھا اصنام پرستانہ تصور نہ تھا۔ وہ اپنے یگانہ خدا کو اون(Oun) کے نام سے پکارتے تھے۔ جس کی مشابہت ہمیں سنسکرت کے لفظ اندوان (Undwan) میں مل جاتی ہے،  اس یگانہ ہستی کی حکومت سب پر چھائی ہوئی ہے۔ طاقت کی تمام ستیاں اسی کے ٹھہرائے ہوئے قانون کے ماتحت کام کر رہی ہیں۔ اس کی صفت (Vedukun) ویدوکن ہے یعنی ایسی ہستی جس کی آنکھیں کبھی غافل نہیں ہو سکتیں۔ "لا تاخذہ سنت ولا نوم”۔

 

اللہ کی یگانہ اور ان دیکھی ہستی کا قدیم سامی تصور

 

سامی قبائل کا اصلی سر چشمہ صحرائے عرب کے بعض شاداب علاقے تھے،  جس اس چشمے میں نسل انسانی کا پانی بہت بڑھ جاتا تو اطراف میں پھیلنے لگتا یعنی قبائل کے جتھے عرب سے نکل کر اطراف و جانب کے ملکوں میں منتشر ہونے لگتے اور پھر چند صدیوں کے بعد نیا رنگ و روپ اختیار کر لیتے۔ شاید انسانی قبائل کا انشعاب کرہ ارضی کے دو مختلف حصوں میں بہ یک وقت جاری رہا اور زمانہ ما بعد کی مختلف قوموں اور تمدنوں کا بنیادی مبدء بنا۔ صحرائے گوبی کے سرچشمے سے وہ قبائل نکلے جو ہندی،  یورپی انڈو یورپین (Indo-European) آریاؤں کے نام سے پکارے گئے صحرائے عرب سے وہ قبائل نکلے جن کا پہلا نام سامی پڑا اور پھر یہ نام بے شمار ناموں کے ہجوم میں غم ہو گیا۔ تاریخ کی موجودہ معلومات اس حد تک پہنچ کر رک گئی ہیں اور آگے کی خبر نہیں رکھتیں۔ عرب قبائل کا یہ انشعاب بتدریج مغربی ایشیا اور قریبہ افریقپ کے تمام دور دراز حصوں تک پھیل گیا تھا۔ فلسطین،  شام،  مصر،  نوبیا،  عراق،  اور سواحل خلیج فارس سب ان کے دائرہ انشعاب میں آ گئے تھے۔ عاد،  ثمود،  عمالقہ،  ہکسوس،  موابی،  آشوری،  عکاوی،  سومیری،  عیلامی،  آرامی اور عبرانی و غیر ہم مختلف مقاموں اور مختلف عَہدوں کی قوموں کے نام ہیں مگر دراصل سب ایک ہی قبائلی چشمے سے نکلے ہوئے ہیں یعنی عرب سے۔

اب جدید سامی اثریات کے مطالعہ سے جو ان تمام قوموں سے تعلق رکھتی ہیں ایک حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے یعنی ان تمام قوموں میں ایک ان دیکھے خدا کی ہستی کا اعتقاد موجود تھا اور وہ ‘ال۔الاہ’ یا ‘اللہ’ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہی ‘الاہ’ ہے جس نے کہیں ‘ایل’ کی صورت اختیار کی کہیں ‘الو’ کی اور کہیں ‘الاھیا’ کی۔

سرحد حجاز کی وادی عقبہ اور شمالی راس شمر کے جو آثار گذشتہ جنگ کے بعد منکشف ہوئے ان سے یہ حقیقت اور زیادہ آشکارا ہو گئی ہے مگر یہ موقع تفصیل کا نہیں۔

 

انسان کی پہلی راہ،  ہدایت کی تھی،  گم راہی بعد کو آئی

 

بہرحال بیسویں صدی کی علمی جستجو اب ہمیں جس طرف لے جا رہی ہے وہ انسان کا قدیم ترین توحیدی اور غیر اصنامی اعتقاد ہے۔ اس سے زیادہ اس کے تصورات کی کوئی بات پرانی نہیں۔ اس نے اپنے عہد طفولیت میں ہوش و خرد کی آنکھیں جوں ہی کھولی تھیں ایک یگانہ ہستی کا اعتقاد اپنے اندر موجود پایا تھا پھر آہستہ آہستہ اس کے قدم بھٹکنے لگے اور بیرونی اثرات کی جولانیاں اسے نئی نئی صورتوں اور نئے نئے ڈھنگوں سے آشنا کرنے لگیں۔ اب ایک سے زیادہ مافوق الفطرت طاقتوں کا تصور نشونما پانے لگا اور مظاہر فطرت کے بے شمار جلوے اسے اپنی طرف کھینچنے لگے۔ یہاں تک کہ پرستش کی ایسی چوکھٹیں بننا شروع ہو گئیں کنہیں اس کی جبین نیاز چھو سکتی تھی اور تصورات لی ایسی صورتیں ابھرنے لگیں جو اس کے دیدہ صورت پرست کے سامنے نمایاں ہو سکتی تھیں۔ یہیں اسے ٹھوکر لگی لیکن راہ ایسی تھی کہ ٹھوکر سے بچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ اس راہ میں ٹھوکر بعد کو لگی پہلی حالت ٹھوکر کی نہ تھی۔ راہِ راست پر گام فرسائیوں کی تھی:

من ملک بودم و فردوس بریں جایم بود

آدم آورد درین خانہ خراب آبادم

(ہم تو ملائک تھے اور جنت میں ہمارا اعلیٰ مقام تھا اس دنیا کے ویرانے میں ہمارے دادا آدم ہمیں لائے )

اگر اس صورت حال کو گم راہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ پہلی حالت سے جو انسان کو پیش آئی تھی وہ گمراہی کی نہ تھی،  ہدایت کی تھی۔ اس نے آنکھیں روشنی میں کھولی تھیں،  پھر آہستہ آہستہ تاریکی پھیلنے لگی۔

 

دینی نوشتوں کی شہادت اور قرآن کا اعلان

 

زمانہ حال کی علمی تحقیقات کا یہ نتیجہ ادیان عالم کے مقدس نوشتوں کی تصریحات کے عین مطابق ہے۔ مصر،  یونان،  کالڈیا،  ہندوستان،  چین اور ایران سب کی مذہبی روایتیں ایک ایسے عہد کی خبر دیتی ہیں جب نوع انسانی گمراہی اور غمناکی سے آشنا نہیں ہوئی تھی اور فطری ہدایت کی زندگی بسر کرتی تھی۔ افلاطون نے کریطیاس(Critias) میں آ کر بادی عالم کو جو حکایت درج کی ہے اس میں اس اعتقاد کی پوری جھلک موجود ہے۔ اور طیماؤس (Timaeus)کی حکایت جو ایک مصری پجاری کی زبانی ہے،  مصری روایت کی خبر دیتی ہے۔ تورات کی کتاب پیدائش نے آدم کو قصہ بیان کیا ہے۔ اس قصے میں آدم کی پہلی زندگی مفقود ہو گئی۔ اس قصے میں بھی یہی اصل کام کر رہی ہے کہ یہاں پہلا دور فطری ہدایت کا تھا،  انحراف و گمراہی کی راہیں بعد کو کھلیں۔ قرآن نے تو صاف صاف اعلان کر دیا ہے کہ:

وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ (۱۹:۱۰)

ابتدا میں تمام انسان ایک گروہ تھے (یعنی الگ الگ راہوں میں بھٹکے ہوئے نہ تھے ) پھر اختلافات میں پڑ گئے۔

دوسری جگہ مزید تشریح کی:

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ ۚ (۲۱۳:۲)

ابتداء میں تمام انسانوں کا ایک ہی گروہ تھا(یعنی فطری ہدایت کی ایک ہی راہ پر تھے پھر اس کے بعد اختلافات پیدا ہو گئے )۔ پس اللہ نے ایک کے بعد ایک نبی معبوث کئے وہ نیک عملی کے نتیجوں کی خوش خبری دیتے تھے۔ بدعملی کے نتیجوں سے متنبہ کرتے تھے۔ نیز ان کے ساتھ نوشتے نازل کئے تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے ہیں ان کا فیصلہ کر دیں۔ارتقائی نظریہ خدا کی ہستی کے اعتقاد میں نہیں لیکن اس کے صفات کے تصورات کے مطالعے میں مدد دیتا ہے ۔

پس خدا کی ہستی کے عقیدے کے بارے میں انیسیوی صدی کا ارتقائی نظریہ اب اپنی علمی اہمیت کھو چکا ہے اور بحث و نظر میں بہت کم مدد دے سکتا ہے۔ البتہ جہاں تک انسان کے ان تصوروں کا تعلق ہے جو خدا کی صفات کی نقش آرائیاں کرتے رہے،  ہمیں ارتقائی نقطہ خیال سے ضرور مدد ملتی ہے۔ کیونکہ بلاشبہ یہاں تصورات کے نشو و ارتقاء کا ایک سلسلہ موجود ہے جس کی ارتقائی کڑیاں ایک دوسرے سے الگ کی جا سکتی ہیں اور نچلے درجوں سے اونچے درجوں کی طرف ہم بڑھ سکتے ہیں۔

خدا کی ہستی کا اعتقاد انسان کے ذہن کی پیداوار نہ تھا کہ ذہنی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی بدلتا رہتا۔ اس کی فطرت کا ایک وجدانی احساس تھا اور وجدانی احساسات میں نہ تو ذہن و فکر کے مؤثرات مداخلت کر سکتے ہیں اور نہ باہر کے اثرات سے ان میں تبدیلی ہو سکتی۔

لیکن انسان کی عقل ذات مطلق کے تصور سے عاجز ہے، ۔ وہ جب کسی چیز کا تصور کرنا چاہتی ہے تو گو تصور ذات کا کرنا چاہے،  لیکن تصور صفات و عوارض ہی آتے ہیں اور صفات ہی کے جمع و تفرقہ سے وہ ہر چیز کا تصور آراستہ کرتی ہے۔ پس جب فطرت کے  اندرونی جذبے نے ایک بالا ہستی کے اعتراف کا ولولہ پیدا کیا تو ذہن نے چاہا اس کا تصور آراستہ کرے لیکن جب تصور کیا تو یہ اس کی ذات کا تصور نہ تھا اس کی صفات کا تصور تھا اور صفات میں سے بھی انہیں صفات کا جن کا ذہن انسانی تخیل کر سکا تھا یہیں سے خدا پرستی کے فطری جذبے میں ذہن و فکر کی مداخلت شروع ہو گئی۔

 

عقل انسانی کی درماندگی اور صفات الٰہی کی صورت آرائی

 

عقل انسانی کا ادراک محسوسات کے دائرے میں محدود ہے۔ اس لئے اس کا تصور اس دائرے سے باہر قدم نہیں نکال سکتا وہ جب کسی ان دیکھی اور غیر محسوس چیز کا تصور کرے گی تو ناگزیر ہے کہ تصور میں وہی صفات آئیں جنہیں وہ دیکھتی اور سنتی ہے اور جو اس کے حاسہ ذوق و لمس کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ پھر اس کی ذہن و تفکر کی جتنی بھی رسائی ہے یہ ایک دفعہ ظہور میں نہیں آئی بلکہ ایک طول طویل عرصے کے نشووارتقاء کا نتیجہ ہے۔ ابتدا میں اس ذہن عہد طفولیت میں تھا،  اس لئے اس کے تصورات بھی اسی نوعیت کے ہوتے تھے۔ پھر جوں جوں اس میں اور اس کے ماحول میں ترقی ہو گئی اس کا ذہن بھی ترقی کرتا گہا اور ذہن کی ترقی و تزکئے کے ساتھ اس کے تصورات میں بھی شائستگی اور بلندی آتی گئی۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ تھا کہ جب کبھی ذہن انسانی نے خدا صورت بنانا چاہی تو ہمیشہ ویسی ہی بنائی جیسی صورت خود اس نے اور اس کے احوال و ظروف نے پیدا کر لی تھی۔ جوں جوں  اس کا معیارِ فکر بدلتا گیا وہ اپنے معبود کی شکل و شباہت بھی بدلتا گیا۔ اسے اپنے تفکر میں ایک صورت نظر آتی تھی وہ سمجھتا تھا یہ اس کے معبود کی صورت ہے حالانکہ وہ اس کے معبود کی صورت نہ تھی خود اسی کے ذہن و صفات کا عکس تھا۔

فکر انسانی کی سب سے پہلی درماندگی یہی ہے جو اس راہ میں پیش آئی:

حرم جو یان دری را می پرستند

فقیہان دفتری رامی پرستند

بر افگن پردہ تا معلوم گردد

کہ یا ران دیگری رامی پرستند

یہی درماندگی ہے جس سے نجات دلانے کے لئے وحی الٰہی کی ہدایت ہمیشہ نمودار ہوتی رہی۔

انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کی بنیادی اصل یہ رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ خدا پرستی کی تعلیم اُسی شکل و اسلوب میں دی جیسی شکل و اسلوب کی فہم و تحمل کی استعداد مخاطبوں میں پیدا ہو گئی تھی،  وہ مجمع انسانی کے معلم و مربی تھے اور معلم کا فرض ہے کہ متعلموں میں جس درجے کی استعداد پائی جائے اسی درجے کا سبق بھی دے۔ پس انبیاء کرام نے وقتاً فوقتاً خدا کی صفات کے لئے جو پیرایہ تعلیم اختیار کیا وہ اس سلسلہ ارتقاء سے باہر نہ تھا بلکہ اسی کی مختلف کڑیاں مہیا کرتا ہے۔

 

ارتقائی تصور کے نقاط ثلاثہ

 

اس سلسلے کی تمام کڑیوں پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں اور ان کے فکری عناصر کی تحلیل کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ان کی بے شمار نوعیتیں قرار دی جا سکتی ہیں لیکن ارتقائی نقطے ہمیشہ تین رہے اور انہیں سے اس سلسلے کی ہدایت و نہایت معلوم کی جا سکتی ہے :

۱) تجسم سے تنزہ کی طرف

۲) تعداد و اشراک (Polytheism) سے توحید (Monotheism) کی طرف

۳) صفات قہر و جلال سے صفات رحمت و جمال کی طرف۔

یعنی تجسم اور صفات قہریہ کا تصور اس کا ابتدائی درجہ ہے اور تنزہ اور صفات رحمت و جمال سے اتصاف،  اعلیٰ و کامل درجہ۔ جو تصور جس قدر ابتدائی اور ادنیٰ درجے کا ہے اتنا ہی تجسم اور صفات قہریہ کا عنصر اس میں زیادہ ہے۔ جو تصور جس قدر زیادہ ترقی یافتہ ہے اتنا ہی زیادہ منزہ اور صفات رحمت و جلال سے متصف ہے۔

 

انسان کا تصور صفات قہریہ کے تاثر سے کیوں شروع ہوا؟

 

انسان کا تصور صفات قہریہ کے تخیل سے کیوں شروع ہوا؟ اس کی علت واضح ہے۔ فطرت کائنات کی تعمیر،  تخریب کے نقاب میں پوشیدہ ہے۔ انسانی فکر کی طفولیت تعمیر کا حسن نہ دیکھ سکی،  تخریب کی ہولناکیوں سے سہم گئی۔ تعمیر کا حسن و جمال دیکھنے کے لئے فہم و بصیرت کی دور رس نگاہیں مطلوب تھی اور وہ ابھی اس کی آنکھوں نے پیدا نہیں کی تھی۔

دنیا میں ہر چیز کی مدح ہر فعل کی نوعیت بھی اپنا مزاج رکھتی ہے بناؤ ایک ایسی حالت ہے جس کا مزاج سرتاسر سکون اور خاموشی ہے اور بگاڑ ایک ایسی حالت ہے کہ اس کا مزاج سرتاسرشورش اور ہولناکی ہے۔ بناؤ ایجاب ہے،  نظم ہے،  جمع و ترتیب ہے،  بگاڑ سلب ہے،  برہمی ہے تفرقہ و اختلال ہے۔ جمع و نظم کی حالت ہی سکون کی حالت ہوتی ہے اور تفرقہ و برہمی کی حالت ہی شورش و انفجار کی حالت ہے۔ دیوار جب بنتی ہے تو تمہیں کوئی شورش محسوس نہیں ہوتی،  لیکن گرتی ہے تع دھماکا ہوتا ہے اور تم بے اختیار چونک اٹھتے ہو اس صورت حال کی قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ حیوانی طبیعت سلبی افعال سے فوراً متاثر ہو جاتی ہے کیونکہ ان کی نمود میں شورش اور ہولناکی ہے لیکن ایجابی افعال سے متاثر ہونے میں دیر لگاتی ہے کیونکہ ان کا حسن و جمال یکایک مشاہدے میں نہیں آ جاتا اور ان کا مزاج شورش کی جگہ خاموشی اور سکون ہے۔

فطرت کے سلبی مظاہر کی قہر مانی اور ایجابی مظاہر کا حسن و جمال انسان پر شیفتگی سے پہلے دہشت طاری ہوئی۔

اسی بناء پر عقل انسانی نے جب صفات الٰہی کی صورت آرائی کرنی چاہی تو فطرت کائنات کے سلبی مظاہر کی دہشت سے فوراً متاثر ہو گئی کیونکہ زیادہ نمایاں اور پرشور تھے۔ اور ایجابی و تعمیری حقیقت سے متاثر ہونے میں بہت دیر لگ گئی۔ کیونکہ ان میں شورش اور ہنگامہ نہ تھا۔ بادلوں کی گرج،  بجلی کی کڑک،  آتش فشاں پہاڑوں کا انفجار،  زمین کا زلزلہ آسمان کی ژالہ باری،  دریا کا سیلاب،  سمندر کا تلاطم ان تمام سلبی مظاہر میں اس کے لئے رعب و ہیبت تھی اور اسی ہیبت کے اندر وہ ایک غضب ناک خدا کی ڈراؤنی صورت دیکھنے لگا تھا۔ اسے بجلی کی کڑک میں کوئی حسن محسوس نہیں ہو سکتا تھا وہ بادلوں کی گرج میں کوئی شان محبوبیت نہیں پا سکتا تھا وہ آتش فشاں پہاڑوں کی سنگ باری سے پیار نہیں کر سکتا تھا اور اس کی عقل ابھی خدا کے انہیں کاموں سے آشنا ہوئی تھی۔

خود اس کی ابتدائی معیشت کو نوعیت بھی ایسی ہی تھی کہ انس و محبت کی جگہ خوف و وحشت کے جذبات برانگیخت یہ ہوئے۔ وہ کمزور اور نہتا اور دنیا کی ہر چیز اسے دشمنی اور ہلاکت پر تلی نظر آتی تھی۔ دلدل کے مچھروں کے جھنڈ چاروں طرف منڈلا رہے تھے،  زہریلے جانور ہر طرف رینگ رہے تھے،  درندوں کے حملوں سے ہر وقت مقابل رہنا پڑتا تھا۔ سر پر سورج کی تپش بے پناہ تھی اور چاروں طرف موسم کے اثرات ہولناک تھے۔ غرض کہ اس کی زندگی سر تا سر جنگ اور محنت تھی اور اس ماحول کا قدرتی نتیجہ تھا کہ اس کا ذہن خدا کا تصور کرتے ہوئے خدا کی ہلاکت آفرینیوں کی طرف جاتا،  رحمت و فیضان کا ادراک نہ کر سکتا۔

 

بالآخر صفات رحمت و جمال کا اشتمال

 

لیکن جوں جوں اس میں اور اس کے ماحول میں تبدیلی ہوتی گئی اس کے تصورات میں بھی یاس و دہشت کی جگہ امید و رحمت کا عنصر شامل ہوتا گیا،  یہاں تک کہ معبودیت کے تصور میں صفات رحمت و جمال نے بھی ویسی ہی جگہ پا لی جیسی صفات قہر و جلال کے لئے تھی۔ چنانچہ اگر قدیم اقوام کے اصنام پرستانہ تصورات کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ ان کی ابتدا ہر جگہ صفات قہر و تصور ہی سے ہوئی ہے اور پھر آہستہ آہستہ رحمت و جمال کی طرف قدم اٹھا ہے۔ آخری کڑیاں وہ نظر آئیں گی جن میں قہر و غضب کے ساتھ رحمت و جمال کا تصور بھی مساویانہ حیثیت سے قائم ہو گیا ہے۔ مثلاً : قہر و ہلاکت کے دیوتاؤں اور قوتوں کے ساتھ زندگی،  رزق،  دولت اور حسن و علم کے دیوتاؤں کی بھی پرستش شروع ہو گئی ہے۔ یونان کا علم الاصنام اپنی لطافت تخیل کے لحاظ سے تمام اصنامی تخیلات میں اپنی خاص جگہ رکھتا ہے۔ لیکن اس کی پرستش کے بھی قدیم معبود وہی تھے جو قہر و غضب کی خوف ناک قوتیں سمجھی جاتی تھیں۔ ہندوستان میں اس وقت تک زندگی اور بخشش کے دیوتاؤں سے کہیں زیادہ ہلاکت کے دیوتاؤں کی پرستش ہوتی ہے۔

 

ظہور قرآن کے وقت دنیا کے عام تصورات

 

بہر حال ہمیں غور کرنا چاہیے کہ قرآن کے ظہور کے وقت صفات الٰہی کے عام تصورات کی نوعیت کیا تھی اور قرآن نے جو تصور پیش کیا اس کی حیثیت کیا ہے ؟

ظہور قرآن کے وقت پانچ دینی تصور فکر انسانی پر چھائے ہوئے تھے :

۱) چینی،  ۲) ہندوستانی،  ۳) مجوسی،  ۴) یہودی اور ۵) مسیحی

 

۱) چینی تصور

 

دنیا کی تمام قدیم قوموں میں چینیوں کی یہ خصوصیت تسلیم کرنی پڑی ہے کہ ان کے تصور الوہیت نے ابتدا میں ایک سادہ اور مبہم نوعیت اختیار کر لی تھی وہ بہت حد تک برابر قائم رہی اور زمانہ مابعد کی ذہنی وسعت پذیریاں اس میں زیادہ مداخلت نہ کر سکیں۔ تاہم تصور کا کوئی مرقع بغیر رنگ و روغن کے بن نہیں سکتا،  اس لئے آہستہ آہستہ اس سادہ خاکے میں بھی مختلف رنگتیں نمایاں ہونے لگیں اور بالآخر ایک رنگین تصویر متشکل ہو گئی۔

چین میں قدیم زمانے سے مقامی خداؤں کے ساتھ ایک آسمانی ہستی کا اعتقاد بھی موجود تھا۔ ایک ایسی بلند اور عظیم ہستی جس کے علویت کے تصورات کے لئے ہم آسمان کے سوا اور کسی طرف نظر اٹھا نہیں سکتے۔ آسمان حسن و بخشائش کا بھی مظہر ہے،  قہر و غضب کی بھی ہولناکی ہے۔ اس کا سورج روشنی اور حرارت بخشتا ہے اس کے ستارے اندھیری راتوں میں قندیلیں روشن کر دیتے ہیں۔ اس کی بارش زمین کو طرح طرح کی روئیدگیوں سے معمور کر دیتی ہے۔ لیکن اس کی بجلیاں ہلاکت کا بھی پیام ہیں اور اس کی گرج دلوں کو دہلا بھی دیتی ہے۔ اس لئے آسمانی خدا کے تصور میں بھی دونوں صفتیں نمودار ہوئیں۔ ایک طرف اس کی جود و بخشائش ہے،  دوسری طرف اس کا قہر و غضب ہے۔ چینی شاعری کی قدیم کتاب میں ہم قدیم ترین چینی تصورات کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں جا بجا ہمیں ایسے مخاطبات ملتے ہیں جن میں آسمانی اعمال کی ان متضاد نمودوں پر حیرانی و سرگشتگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ "یہ کیا بات ہے کہ تیرے کاموں میں یکسانی اور ہم آہنگی نہیں ! تو زندگی بھی بخشتا ہے اور تیرے پاس ہلاکت کی بجلیاں بھی ہیں۔”

یہ "آسمان” چینی تصور کا ایک ایسا بنیادی عنصر بن گیا کہ چینی جمعیت "آسمانی جمعیت” اور چینی مملکت "آسمانی مملکت” کے نام سے پکاری جانے لگی۔ رومی جب پہلے پہل چین سے آشنا ہوئے تو انہیں ایک آسمانی مملکت ہی کی خبر ملی تھی۔ اس وقت سے (Coelum) کے مشتقات کا چین کے لئے استعمال ہونے لگا۔ یعنی "آسمان والے ” اور "آسمانی” اب بھی انگریزی میں چین کے باشندوں کے لیے مجازاً "سلے شیل” (Celestial) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی آسمانی ملک کے باشندے۔

اس آسمانی ہستی کے علاوہ گزرے ہوئے انسانوں کی روحیں بھی تھیں جنہیں دوسرے عالم میں پہنچ کر تدبیر و تصرف کی طاقتیں حاصل ہو گئی تھیں اور اس لئے پرستش کی مستحق سمجھی گئی تھیں،  ہر خاندان اپنی معبود روحیں رکھتا تھا اور ہر علاقہ اپنا مقامی خدا۔

 

لاؤتزوا ورکنگ فوزی کی تعلیم

سنہ مسیحی سے پانچ سو برس پہلے لاؤ تزو (Lao-Tzu) اور کنگ فوزی (Kung-Fu-Tse) کا ظہور ہوا۔ کنگ فوزی نے ملک کو عملی زندگی کی سعادتوں کی راہ دکھائی اور معاشرتی حقوق و فرائض کی ادائیگی کا ایک قانون مہیا کر دیا۔ لیکن جہاں تک خدا کی ہستی کا تعلق ہے "آسمان” کا قدیمی تصور بدستور قائم رہا اور اجداد پرستی کے عقائد نے اس کے ساتھ مل کر ایک ایسی نوعیت پیدا کر لی گویا آسمانی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ،  گزری ہوئی روحوں کا وسیلہ اور تشفع ہے۔ روحانی تصورات میں وسیلے کا اعتقاد ہمیشہ عابدانہ پرستش کی نوعیت پیدا کر لیتا ہے چنانچہ یہ توسل بھی عملاً تعبد تھا اور ہر طرح کے دینی اعمال و رسوم کا مرکزی نقطہ بن گیا تھا۔

ہندوستان اور یونان میں دیوتاؤں کے تصور نے نشو و نما پائی تھی جو خدائی کی ایک بالا ہستی کے ساتھ کارخانہ عالم کے تصرفات میں شرکت رکھتے تھے۔ چینی تصور میں یہ خانہ بزرگوں کی روحوں نے بھرا اور اس طرح اشراک اور تعدد کے تصور کی پوری نقش آرائی ہو گئی۔

کنگ فوزی کے ظہور سے پہلے قربانیوں کی رسم عام طور پر رائج تھی۔ کنگ فوزی نے اگرچہ ان پر زور نہیں دیا لیکن ان سے تعرض بھی نہیں کیا۔ چنانچہ وہ چینی مندروں کا تقاضا برابر پورا کرتی رہیں۔ قربانیوں کے عمل کے پیچھے طلب،  بخشش اور جلب تحفظ،  دونوں کے تصور کام کرتے تھے۔ قربانیوں کے ذریعہ ہم اپنے مقاصد بھی حاصل کر سکتے ہیں اور خدا کے قہر و غضب سے محفوظ بھی ہو جا سکتے ہیں۔ پہلی غرض کے لئے وہ نذر ہیں،  دوسری غرض کے لئے فدیہ۔ لاؤ-تزو نے تاؤ یعنی طریقت کے مسلک کی بنیاد ڈالی۔ اسے چین کو تصوف اور ویدانیت سمجھنا چاہیے۔ تاؤ نے چینی زندگی کو روحانی استغراق اور داخلی مراقبے کی راہون سے آشنا کیا اور مذہبی اور اخلاقی تصورات میں ایک طرف گہرائی اور دقت آفرینی پیدا ہوئی دوسری طرف لطافت فکر اور رقت خیال کے نئے نئے دروازے کھلے۔ لیکن تصوف ملک کا عام دینی تصور نہیں بن سکتا تھا۔ اس کی محدود جگہ چین میں بھی وہی رہی جو "ویدانیت” کی،  ہندوؤں میں اور "تصوف” کی مسلمانوں میں رہی ہے۔

 

چین کا شمنی تصور

اس کے بعد وہ زمانہ آیا جب ہندوستان کے شمنی (یعنی بدھ مذہب) کی چین میں اشاعت ہوئی یہ مہایانا بدھ مذہب تھا جو مذہب کی اصلی مبادیات سے بہت دور جا چکا تھا اور جس نے تبدل پذیری کی ایسی بے روک لچک پیدا کر لی تھی کہ جس شکل و قطع کا خانہ ملتا تھا ویسا ہی جسم بنا کر اس میں سما جاتا تھا۔ یہ جب چین،  کوریا،  اور جاپان میں پہنچا تو اسے ہندوستان اور سیلون سے مختلف قسم کی فضا ملی اور اس نے فوراً مقامی وضع و قطع اختیار کر لی۔

بدھ مذہب کی نسبت یقین کیا جاتا ہے کہ خدا کی ہستی کے تصور سے خالی ہے،  لیکن پیروان بدھ نے خود بدھ کو خدا کی جگہ دے دی اور اس کی پرستش کا ایک عالم گیر نظام قائم کر دیا جس کی کوئی دوسری نظیر اصنامی مذاہب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ چین،  کوریا اور جاپان کی عبادت گاہیں بھی اب اس نئے معبود کے بتوں سے معمور ہو گئیں۔

 

۲) ہندوستانی تصور

 

ہندوستان کے تصور الوہیت کی تاریخ متضاد تصوروں کا ایک حیرت انگیز منظر ہے۔ ایک طرف اس کا توحیدی فلسفہ ہے دوسری طرف اس کا عملی مذہب ہے۔ توحیدی فلسفے نے استغراق فکر و عمل کے نہایت گہرے اور دقیق مرحلے طے کیے اور معاملے کو فکری بلندیوں کی ایک ایسی اونچی سطح تک پہنچا دیا جس کی کوئی دوسری مثال ہمیں قدیم قوموں کے مذہبی تصورات میں نہیں ملتیں۔ عملی مذہب نے اشراک اور تعدد کی بے روک راہ اختیار کی اور اصنامی تصوروں کو اتنی دور تک پھیلنے دیا کہ ہر پتھر معبود ہو گیا،  ہر درخت خدائی کرنے لگا اور ہر چوکھٹ سجدہ گاہ بن گئی! وہ بہ یک ہی وقت زیادہ سے زیادہ بلندی کی طرف بھی اڑا اور زیادہ سے زیادہ پستی میں بھی گرا۔ اس کے "خواص” نے اپنے لئے توحید کی جگہ پسند کی اور "عوام” کے لئے اشراک اور اصنام پرستی کی راہ مناسب سمجھی۔

 

اپنشد کا توحیدی اور وحدۃ الوجودی تصور

رگ وید کے زمزموں میں ہمیں ایک طرف مظاہر قدرت کی پرستش کا ابتدائی تصور بتدریج پھیلتا اور متجسم ہوتا دکھائی دیتا ہے،  دوسری طرف ایک بالاتر اور خالق کل ہستی کا توحیدی تصور بھی آہستہ آہستہ ابھرتا نظر آتا ہے۔ خصوصاً دسویں حصے کے زمزموں میں تو اس کی نمود صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ توحیدی تصور کسی بہت پرانے گذشتہ عہد کے بنیادی تصور کا بقیہ تھا یا مظاہر قدرت کی کثرت آرائیوں کا تصور،  اب خود بخود کثرت سے وحدت کی طرف ارتقائی قدم اٹھانے لگا تھا؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے ! لیکن بہرحال ایک ایسے قدیم عہد میں بھی جب کہ رگ وید کے تصوروں نے نظم و سخن کا جامہ پہننا شروع کیا تھا،  توحیدی تصور کی جھلک صاف صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ خداؤں کا وہ ہجوم جس کی تعداد تین سو تینتالیس یا اسی طرح کی ثلاثی کثرت تک پہنچ گئی تھی۔ بالآخر تین دائروں میں سمٹنے لگا یعنی زمین،  فضا اور آسمان میں اور پھر اس نے ایک رب الاربابی (Henotheism)تصور کی نوعیت پیدا کر لی۔ پھر یہ رب الاربابی تصور (Henotheism) اور زیادہ سمٹنے لگتا ہے اور ایک سب سے بڑی اور سب سے چھائی ہوئی ہستی نمایاں ہونے لگتی ہے۔ یہ ہستی کبھی "ورون” میں نظر آتی ہے،  کبھی "اندر” میں اور کبھی "اگنی” میں۔ لیکن بالآخر ایک خالق کل ہستی کا تصور پیدا ہو جاتا ہے جو "یرجاپتی” (پروردگار عالم) اور "وشوا کرمن) (خالق کل) کے نام سے پکاری جانے لگتی ہے اور جو تمام کائنات کی اصل و حقیقیت ہے۔ "وہ ایک ہے مگر علم والے اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں : اگنی،  یم،  ماتری شوان،  وہ ایک نہ تو آسمان ہے نہ زمین ہے نہ سورج کی روشنی ہے نہ ہوا کا طوفان ہے وہ کائنات کی روح ہے،  تمام قوتوں کا سرچشمہ ہمیشگی۔ لازوالی وہ کیا ہے ؟ وہ شاید رت ہے جوہر کے روپ میں ادیتی ہے روحانیت کے بھیس میں۔ وہ بغیر سانس کے سانس لینے والی ہستی (حصہ دہم – ۱۲۱ – ۱) ہم اسے دیکھ نہیں سکتے ہم اسے پوری طرح بتا نہیں سکتے۔ وہ ایکم است ہے یعنی حقیقت یگانہ،  الحق یہی وحدت ہے جو کائنات کی تمام کثرت کے اندر دیکھی جا سکتی ہے۔

یہی مبادیات ہیں جنہوں نے اپنشدروں میں توحید وجودی (Pantheism) کے تصور کی نوعیت پیدا کر لی اور پھر ویدانیت کے مابعدالطبیعات (Metaphysics) نے انہیں بنیادوں پر استغراق فکر و نظر کی بڑی بڑی عمارتیں تیار کر دیں۔

وحدۃ الوجودی اعتقاد ذات مطلق کے کشفی مشاہدات پر مبنی تھا،  نظری عقائد کو اس میں دخل نہ تھا۔ اس لئے اصلاً یہاں صفات آرائیوں کی گجائش ہی نہ تھی اور اگر تھی بھی تو صرف سلبی صفات (Negative Attributes) ہی ابھر سکتی تھیں۔ ایجابی صفات (Positive) کی صورت آرائی نہیں کی جا سکتی تھی یعنی یہ تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ ایسا نہیں ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ ایسا ہے اور ایسا ہے۔ کیونکہ ایجابی صفات کا جو نقشہ بھی بنایا جائے گا وہ ہمارے ذہن و فکر ہی کا بنایا ہوا نقشہ ہو گا اور ہمارا ذہن و فکر امکان و اضافت کی چار دیواری میں اس طرح مقید ہے کہ مطلق اور غیر محدود حقیقت کا تصور کر ہی نہیں سکتا۔ وہ جب تصور کرے گا تو ناگزیر ہے کہ مطلق کو مشخص بنا کر سامنے لائے اور جب تشخص آیا تو اطلاق باقی نہیں رہا۔ بابافنائی نے دو مصرعوں کے اندر معاملے کی پوری تصویر کھینچ دی تھی۔

مشکل حکایتسیست کہ ہر ذرہ تین اوست

اما نمی تو ان کہ اشارت بہ اوکند

یہی وجہ ہے کہ اپنشد نے پہلے ذات مطلق (برہمان) کو ذات مشخص (ایشور) کے مرتبے میں اتارا اور جب اطلاق نے تشخص کا نقاب چہرہ پر ڈال لیا تو پھر اس نقاب پوش چہرے کی صفتوں کی نقش آرائیاں کی گئیں اور اس طرح وحدہ الوجودی عقیدے نے ذات مشخص و متصف (ساگون) کے تصور کا مقام بھی مہیا کر دیا۔

جب ان صفات کا ہم مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ ایک نہایت بلند تصور سامنے آ جاتا ہے جس میں سلبی اور ایجابی دونوں طرح کی صفتیں اپنی پوری نموداریاں رکھتی ہیں۔ اس کی ذات یگانہ ہے۔ اس ایک کے لئے دوسرا نہیں،  وہ بے ہمتا ہے،  بے مثال ہے،  ظرف و مکان اور مکان کے قیود سے بالاتر ازلی و ابدی ناممکن الادارا کل واجب الوجود وہی پیدا کرنے والا ہے وہی حفاظت کرنے والا اور وہی فنا کر دینے والے وہ علقۃ العلل اور علت مطلقہ (اپادتا اور نیمتا کارنا) ہے تمام موجودات اسی سے بنیں اسی سے قائم رہتی ہیں اور پھر اسی کی طرف لوٹنے والی ہیں وہ نور ہے کمال ہے حسن ہے سر تا سر پاکی ہے سب سے زیادہ طاقت ور،  سب سے زیادہ رحم و محبت والا ہے ساری عبادتوں اور عاشقیوں کا مقصود حقیقی۔

لیکن ساتھ ہی دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہمیں صاف صاف دکھائی دیتی ہے کہ توحیدی تصور کی یہ بلندی بھی اشراک اور تعدد کی آمیزش سے خالی نہیں رہی اور توحید فی الذات کے ساتھ توحید فی الصفات کا نے میل عقیدہ جلوہ گر نہ ہو سکا۔ زمانہ حال کے ایک قابل ہندو مصنف کے لفظوں میں "دراصل "اشراکی” اور "تعددی تصور” (Polytheistic) ہندوستانی دل و دماغ میں اس درجہ جڑ پکڑ چکا تھا کہ اب اسے یک قلم اکھاڑ کے پھینک دینا آسان نہ تھا۔ اس لئے ایک یگانہ ہستی کی جلوہ طرازی کے بعد بھی دوسرے خدا نابود نہیں ہو گئے۔ البتہ اس یگانہ ہستی کا قبصہ و اقتدار ان سب پر چھا گیا اور سب اس کی ماتحتی میں آ گئے۔

اب اس طرح کی تصریحات ہمیں ملنے لگتی ہیں کہ بغیر اس بالاتر ہستی (برہمان) کے "اگنی” دیبی کچھ نہیں کر سکتی "یہ اسی "برہمان” کا خوف ہے جو تمام دیوتاؤں سے ان کے فرائض منصبی انجام دلاتا ہے۔ (تیتر یا اپنشد) راجہ اشواپتی نے جب پانچ گھر والوں سے پوچھا "تم اپنے دھیان میں کس کی پرستش کرتے ہو؟” تو ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک دیوتا کا نام لیا۔ اس پر اشواپتی نے کہا : "تم میں سے ہر ایک نے حقیقت کے صرف ایک ہی حصے کی پرستش کی،  حالانکہ وہ سب کے ملنے سے شکل پذیر ہوتی ہے،  "اندر” اس کا سر ہے "سوریہ” (سورج) اس کی آنکھیں ہیں "وایو” سانس ہے،  "آکاش” (ایتھر) جسم ہے،  "دھرتی” (زمین) اس کا پاؤں ہے۔”

لیکن پھر ساتھ ہی یہ ہے کہ جب حقیقت کی قیومیت اور احاطے پر زور دیا جاتا ہے تو تمام موجودات کے ساتھ دیوتاؤں کی ہستی بھی غائب ہو جاتی ہے،  کیونکہ تمام موجودات اسی پر موقوف ہیں وہ کسی پر موقوف نہیں۔ جس طرح رتھ کے پہیے کی تمام شاخیں ایک ہی دائرے کے اندر اپنا وجود رکھتی ہیں اسی طرح تمام چیزیں،  تمام دیوتا،  تمام دنیائیں اور تمام آلات اسی ایک وجود کے اندر ہیں۔” (برھادریناک،  اپ نشد باب ۲ – ۵) "یہاں وہ درخت موجود ہے جس کی جڑ اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور شاخیں نیچے کی طرف پھیلی ہوئی ہیں یہ برھمان ہے لافانی،  تمام کائنات اس میں ہے،  کوئی اس سے باہر نہیں۔ (تیتریا – ۱ – ۱۰)۔

یہاں ہم مصنف موصوف کے الفاظ مستعار لیتے ہیں "یہ دراصل ایک سمجھوتہ تھا جو چند خاص دماغوں کے فلسفیانہ تصور نے انسانی بھیڑ کے وہم پرست ولولوں کے ساتھ کر لیا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواص اور عوام کی فکری موافقت کی ایک آب و ہوا پیدا ہو گئی اور وہ برابر قائم رہی۔”

آگے چل کر ویدانت کے فلسفے نے بڑی وسعتیں اور گہرائیاں پیدا کیں،  لیکن خواص کے توحیدی تصور میں عوام کے اشراکی تصور سے مفاہمت کو جا میلان پیدا ہو گیا تھا وہ متزلزل نہ ہو سکا بلکہ اور زیادہ مضبوط اور وسیع ہوتا گیا یہ بات عام طور پر تسلیم کر لی گئی کہ سالک جب عرفان حقیقت کی منزلیں طے کر لیتا ہے تو پھر ماسویٰ کی تمام ہستیاں معدوم ہو جاتی ہیں اور ماسویٰ میں دیوتاؤں کی ہستیاں بھی داخل ہیں۔ گویا دیوتاؤں کی ہستیاں ظاہر وجود کی ابتدائی تعینات ہوئیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بنیاد بھی برابر قائم رکھی گئی کہ جب تک اس آخری مقام عرفان تک رسائی حاصل نہ ہو جائے دیوتاؤں کی پرستش کے بغیر چارہ نہیں اور ان کی پرستش کا جو نظام قائم ہو گیا ہے اسے چھیڑنا نہیں چاہیے اس طرح گویا ایک طرح کے توحیدی اشراکی تصور (Monotheistic Polytheism) کا مخلوط مزاج پیدا ہو گیا جو بہ یک وقت فکر و نظر کو توحیدی تقاضا بھی پورا کرنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی اصنامی عقائد کا نظام عمل بھی سنبھالے رکھنا چاہتا تھا۔ ویدانت کے بعض مذہبوں میں تو یہ مخلوط نوعیت بنیادی تصوروں تک سرایت کر گئی۔مثلاً انیمبارک اور اس کا شاگرد سری نواس برہم سوتر کی شرح کرتے ہوئے ہمیں بتلاتے ہیں کہ اگرچہ برہمایا کرشن کی طرح کوئی نہیں مگر اس سے ظہور میں آئی ہوئی دوسری قوتیں بھی ہیں جو اس کے ساتھ اپنی نمود رکھتی ہیں اور اسی کی طرح کارفرمائی میں شریک ہیں۔ چنانچہ کرشن کے بائیں طرف رادھا ہے یہ بخشش ونوال کی ہستی ہے تمام نتائج و ثمرات بخشنے والی۔ ہمیں چاہیے کہ برہما کے ساتھ رادھا کی بھی پرستش کریں۔ اس موقع پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فطرت کائنات کے جن قوائے مدبرہ کو سامی تصور نے "ملاک” اور "ملائکہ” سے تعبیر کیا تھا اسی کو آریائی تصور نے دیو” اور "یرتا” سے تعبیر کیا۔ یونانیوں کا "تھیوس” (Theos) رومیوں کا "ڈے یوس” (Deus) پارسیوں کا یزتا (یزدان) سب کے اندر وہی ایک بنیادی مادہ اور وہی ایک بنیادی تصور کام کرتا رہا۔ سنسکرت میں "دیو” ایک لچکدار لفظ ہے متعدد معنوں میں مستعمل ہوا ہے لیکن جب مافوق الفطرت ہستیوں کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ایک ایسی غیرمادی اور روحانی ہستی کے ہو جاتے ہیں۔جو اپنے وجود میں روشن اور درخشاں ہوں۔ سامی ادیان نے ان روحانی ہستیوں کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں دیکھی کہ وہ خدا کی پیدا کی ہوئی کارکن ہستیاں ہیں لیکن آریائی تصور نے ان میں تدبیر اور تصرف کی بالاستقلال طاقتیں دیکھیں اور جب توحیدی تصور کے قیام سے وہ استقلال باقی نہ رہا تو توسل اور تزلف کا درمیانی مقام انہوں نے پیدا کر لیا۔ یعنی اگرچہ وہ خود خدا نہیں ہیں،  لیکن خدا تک پہنچنے کے لئے ان کی پرستش ضروری ہوئی۔ ایک پرستار کی پرستش اگرچہ ہو گی معبود حقیقی کے لئے،  مگر ہو گی انہیں کے آستانوں پر۔ ہم براہ راست خدا کے آستانے تک پہنچ نہین سکتے،  ہمیں پہلے دیوتاؤں کے آستانوں کا وسیلہ پکڑنا چاہیے۔ دراصل یہی توسل و تزلف کا عقیدہ ہے جس نے ہر جگہ توحیدی اعتقاد و عمل کی تکمیل میں خلل ڈالا،  ورنہ ایک خدا کی یگانگی اور بالاتری سے تو کسی کو بھی انکار نہ تھا۔ عرب جاہلیت کے بت پرستوں کا بھی یہی عقیدہ قرآن نے نقل کیا ہے کہ ” مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ  (۳۹:۳)۔

بہرحال شرک فی الصفات اور شرک فی العبادات کا یہی وہ عصری مادہ تھا جس نے ہندوستان کے عملی مذہب کو سر تا سر اشراک اور اصنام پرستی کے عقائد سے معمور کر دیا اور بالآخر یہ صورت حال اس درجہ گہری اور عام ہو گئی کہ جب تک ایک سراغ رساں،  جستجو اور تفحص کی دور دراز مسافتیں طے نہ کر لے گا ہندو عقیدے کے توحیدی تصور کا کوئی نشان نہیں پا سکتا۔ توحیدی تصور نے یہاں ایک ایسے راز کی نوعیت پیدا کر لی جس تک صرف خاص خاص عارفوں ہی کی رسائی ہو سکتی ہے ہم اس کا سراغ پہاڑوں کے غاروں میں پا سکتے ہیں لیکن کوچہ و بازار میں نہیں پا سکتے۔ گیارہویں صدی مسیحی میں جب ابو ریحان البیرونی ہندوستان کے علوم و عقائد کے سراغ میں نکلا تھا تو یہ متضاد و صورت حال دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ سولھویں صدی میں ویسی ہی حیرانی ابو الفضل کو پیش آئی اور پھر اٹھارویں صدی میں سر ولیم جونس (Sir William Jones) کو۔

بہترین معذرت جو اس صورت حال میں کی جا سکتی ہے وہی ہے جس کا اشارہ گیتا کے شہرہ آفاق ترانوں میں ہمیں ملتا ہے اور جس نے البیرونی کے فلسفیانہ دماغ کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ یعنی یہاں پہلے دن سے عقائد و عمل کی مختلف راہیں مصلحتاً کھلی رکھی گئیں تاکہ خواص اور عوام دونوں کی فہم و استعداد کی رعایت ملحوظ رہے۔ توحیدی تصور خواص کے لئے تھا کیونکہ وہی اس بلند مقام کے متحمل ہو سکتے تھے اصنامی تصور عوام کے لئے تھا کیونکہ ان کی طفلانہ عقول کے لئے یہی راہ موزون تھی۔ اور پھر چونکہ خواص بھی جمعیت و معاشرت کے عام ضبط و نظم سے باہر نہیں رہ سکتے اس لئے عملی زندگی میں انہیں بھی اصنام پرستی کے تقاضے پورے ہی کرنے پڑتے تھے اور اسی طرح ہندو زندگی کی بیرونی وضع قطع بلا استثنا اشراک اور اصنام پرستی ہی کی رہتی آئی۔

البیرونی نے حکماء یونان کے اقوال نقل کر کے دکھایا ہے کہ اس بارے میں ہندوستان اور یونان دونوں کا حال ایک ہی طرح کا رہا پھر گیتا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "بہت سے لوگ مجھ تک (یعنی خدا تک) اس طرح پہنچنا چاہتے ہیں کہ میرے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن میں ان کی مرادیں بھی پوری کر دیتا ہوں کیونکہ میں ان سے اور ان کی عبادت سے بے نیاز ہوں۔

بے محل نہ ہو گا کہ اگر اس موقعے پر زمانہ حال کے ایک ہندو مصنف کی رائے پر بھی نظر ڈال لیجائے۔ گوتم بدھ کے ظہور سے پہلے ہندو مذہب کے تصور الوہیت نے جو عام شکل و صورت پیدا کر لی تھی اس پر بحث کرتے ہوئے یہ قابل مصنف لکھتا ہے :

"گوتم بدھ کے عہد میں جو مذہب ملک پر چھایا ہوا تھا اس کے نمایاں خط و خال یہ تھے کہ لین دین کا ایک سودا تھا جو خدا اور انسان کے درمیان ٹھہر گیا تھا۔ جب کہ ایک طرف اپنشد کا برھمان تھا جو ذات الوہیت کا ایک اعلیٰ اور شائستہ تصور پیش کرتا تھا تو دوسری طرف ان گنت خداؤں کا ہجوم تھا جن کے لئے کوئی حد بندی نہیں ٹھہرائی جا سکتی تھی۔ آسمان کے سیارے،  مادے کے عناصر،  زمین کے درخت جنگل کے حیوان،  پہاڑوں کی چٹانیں،  دریاؤں کی جدولیں،  غرضیکہ موجودات خلقت کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو خدائی حکومت میں شریک نہ کر لی گئی ہو۔ گویا ایک بے لگام اور خود رو تخیل کو پروانہ مل گیا تھا کہ دنیا کی جتنی چیزوں کو خدائی مسند پر بٹھا سکتا ہے بے روک ٹوک بٹھاتا رہے۔ پھر جیسے خداؤں کی یہ بے شمار بھیڑیں بھی اس کے ذوق خدا سازی کے لئے کانی نہ ہوئی ہوں طرح طرح کے عفریتوں اور عجیب الخلقت جسموں کی متخیلہ صورتوں کا بھی ان پر اضافہ ہوتا رہا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اپنشدوں نے فکر و نظر کی دنیا میں ان خداؤں کی سلطانی،  درہم برہم کر دی تھی،  لیکن عمل کی زندگی میں انہیں نہیں چھیڑا گیا وہ بدستور اپنی خدائی مسندوں پر جمے رہے۔

 

شمنی مذہب اور اس کے تصورات

قدیم برہمنی مذہب کے بعد شمنی مذہب یعنی بدھ مذہب کا ظہور ہوا۔ اسلام کے ظہور سے پہلے ہندوستان کا عام مذہب یہی تھا۔ شمنی مذہب کی اعتقادی مبادیات کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ انیسویں صدی کے مستشرقوں کے ایک گروہ نے اسے اپنشدوں کی تعلیم ہی کا ایک عملی استغراق قرار دیا تھا اور خیال کیا تھا کہ "نروان” میں جذب و انفصال کی روحانی اصل پوشیدہ ہے۔ یعنی جس سرچشمے سے انسانی ہستی نکلی ہے،  پھر اسی میں واصل ہو جانا "نروان” یعنی نجات کامل ہے۔ لیکن اب عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ شمنی مذہب خدا اور روح کی،  ہستی کا کوئی تصور نہیں رکھتا۔ اس کا دائرہ اعتقاد و عمل صرف زندگی کی سعادت اور نجات کے مسئلے میں محدود ہے۔ وہ صرف پرکرتی ہے یعنی مادہ ازلی کا حوالہ دیتا ہے جسے کائناتی طبیعت حرکت میں لاتی ہے۔ نروان سے مقصور یہ ہے کہ ہستی کی انانیت فنا ہو جائے اور زندگی کے چکر سے نجات مل جائے اس میں شک نہیں کہ جہاں تک مابعد زمانے کے شمنی مفکروں کی تصریحات کا تعلق ہے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے اگر ان کا ایک گروہ لا ادریت (Agnosticism) تک پہنچ کر رک گیا ہے تو دوسرا گروہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے اور مدعیانہ انکار کی راہ اختیار کی ہے۔ موکشا کر گپتا نے "ترک بھاشا” میں ان تمام دلائل کا رد کیا ہے جو نیائے اور ویشک طریق نظر کے نظار خدا کی ہستی کے اثبات میں پیش کرتے تھے۔ تاہم یہ بات بھی قطعی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ خود گوتم بدھ کا سکوت و توقف بھی انکار پر مبنی تھا۔ اس کے سکوتی تحفظات متعدد مسئلوں میں ثابت ہیں اور اس کے متعدد محمل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ اگر ان تمام اقوال پر جو براہ راست اس کی طرف منسوب ہیں،  غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا مسلک نفی ذات کا نہ تھا،  نئی صفات کا تھا۔ اور نفی صفات کا مقام ایسا ہے کہ انسانی فکر و زبان کی تمام تعبیرات معطل ہو جاتی ہیں اور سکوت کے سوا چارہ کار باقی نہیں رہتا۔

علاوہ بریں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس کے ظہور کے وقت اصنامی خدا پرستی کے مفاسد بہت گہرے ہو چکے تھے اور اصنامی خدا پرستی بجائے خود،  راہ حقیقت کی سب سے بڑی روک بن گئی تھی۔ اس نے اس روک سے راستہ صاف کر دینا چاہا اور تمام توجہ زندگی کی عملی سعادت کے مسئلے پر مرکوز کر دی۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ برہمنی خدا پرستی کے عقائد سے انکار کیا جائے اور اس پر زور دیا جائے کہ نجات کی راہ ان معبودوں کی پرستش میں نہیں ہے،  بلکہ علم حق اور عمل حق میں ہے یعنی اشنا ٹگ مارک میں ہے۔ آگے چل کر اس اضافی انکار نے مطلق کی شکل پیدا کر لی اور پھر برہمنی مذہب کی مخالفت کے غلو نے معاملے کو دور تک پہنچا دیا۔

بہر حال خود گوتم بدھ اور اس کی تعلیم کے شارحوں کی تصریحات اس بارے میں کچھ ہی رہی ہوں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس کے پیرووں نے خدا کے تصور کی خالی مسند بہت جلد بھر دی۔ انہوں نے اس مسند کو خالی دیکھا تو خود گوتم بدھ کو وہاں لا کر بٹھا دیا اور پھر اس نئے معبود کی پرستش اس جوش و خروش کے ساتھ شروع کر دی کہ آدھی سے زیادہ دنیا اس کے بتوں سے معمور ہو گئی!

آوارہ غربت نہ تو ان دید صنم را

وقتست دیگر بتکدہ سازند حرم را

(محبوب کی ملاقات،  ہاتھ خالی آدمی کب کر سکتا ہے ! مقدس حرم کو بتکدہ بنانے کا وقت کوئی اور ہے )

گوتم بدھ کی وفات پر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ پیروان بدھ کی اکثریت نے اس کی شخصیت کو عام انسانی سطح سے بالاتر دیکھنا شروع کر دیا تھا اور اس کے آثار و تبرکات کی پرستش کا میلان بڑھنے لگا تھا۔ اس کی وفات کے کچھ عرصے بعد جب مذہب کی پہلی مجلس اعظم راج گیری میں منعقد ہوئی اور اس کے شاگرد خاص آنند نے اس کی آخری وصا یا بیان کیں تو بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی روایت پر مطمئن نہ ہوئے اور اس کے مخلاف ہو گئے۔ کیونکہ اس کی روایتوں میں انہیں وہ ماوراہ انسانیت عظمت نظر نہیں آئی جسے اب ان کی طبیعت ڈھونڈنے لگی تھی۔ تقریباً سو برس بعد جب دوسری مجلس ویشالی (مظفر پور حالی) میں منعقد ہوئی تو اب مذہب کی بنیادی سادگی اپنی جگہ کھو چکی تھی اور اس کی جگہ نئے نئے تصوروں اور مخلوط عقیدوں نے لے لی تھی اب مسیحی مذہب کے اقانیم ثلاثۃ کی طرح جو پانچ سو برس بعد ظہور میں آنے والا تھا،  ایک شمنی اقالیم کا عقیدہ بدھ کی شخصیت کے گرد ھالے کی چمکنے لگا اور عام انسانی سطح سے وہ ماورا تسلیم کر لی گئی۔ یعنی بدھ کی ایک سخصیت کے اندر تین وجودوں کی نمود ہوئی : اس کی تعلیم کی شخصیت،  اس کے دنیاوی وجود کی شخصیت،  اس کے حقیقی وجود کی شخصیت۔ جو لوک (بہشت) میں رہتی ہے۔ دنیا میں جب کبھی بدھ کا ظہور ہوتا ہے تو یہ اس حقیقی وجود کا ایک پرتو ہوتا ہے۔ نجات پانے کے معنی یہ ہوئے کہ آدمی حقیقی بدھ کے اسی ماوراء عالم مسکن میں پہنچ جائے۔

پہلی صدی مسیح میں بعہد کوشان جب چوتھی مجلس برشادر (پشاور حالی) میں منعقد ہوئی تو اب بنیادی مذہب کی جگہ ایک طرح کا کلیسائی مذہب قائم ہو چکا تھا اور بدھ کے اشٹانگ مارگ (طریق ثمانیہ) کی عملی روح طرح طرح کی رسوم پرستیوں اور قواعد آرائیوں میں معدوم ہو چکی تھی۔

بالآخر پیروان بدھ دو بڑے فرقوں میں بٹ گئے۔ ھین یان (Hinayana) اور مہا یان (Mahayana)۔ پہلا فرقہ بدھ کی شخصیت میں ایک رو نما اور معلم کی انسانی شخصیت دیکھنی چاہتا تھا لیکن دوسرے نے اسے پوری طرح ماوراہ انسانیت کی زبانی سطح پر متمکن کر دیا تھا اور پیروان بدھ کی عام راہ وہی ہو گئی تھی۔ افغانستان،  بامیان،  وسط ایشیاء،  چین،  کوریا،  جاپان،  تبت سب میں مہایان مذہب کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ چینی سیاح فاہیان (Fa-Hein) جب چوتھی صدی مسیحی میں ہندوستان آیا تھا تو اس نے یورپ کے ھین یان شمنیوں سے مباحثہ کیا تھا اور مہایان طریقے کی صداقت کے دلائل پیش کیے تھے۔ موجودہ زمانے میں سیلون کے سوا (جہاں ہین یان طریقے کا ایک محرف بقیہ "تھیراداد” کے نام سے پایا جاتا ہے ) تمام پیروان بدھ کا مذہب مہایان ہے۔

موجودہ زمانے کے بعض محققین شمنیہ کا خیال ہے کہ اشوک کے زمانے تک بدھ مذہب میں بت پرستی کا عام رواج نہیں ہوا تھا،  کیونکہ اس عہد تک کے جو بدھ آثار ملتے ہیں یان میں بدھ کی شخصیت کسی بت کے ذریعے نہیں بلکہ صرف ایک کنول کے پھول یا ایک خالی کرسی کی شکل میں دکھائی گئی ہے۔ پھر کنول اور خالی کرسی کی جگہ دو قدم نمودار ہونے لگے اور پھر بتدریج قدموں کی جگہ خود بدھ کا پورا مجسمہ نمودار ہو گیا۔ اگر یہ استنباط صحیح تسلیم کر لیا جائے جب بھی ماننا پڑے گا کہ اشوک کے زمانے کے بعد سے بدھ کے بتوں کی عام پرستش جاری ہو گئی تھی۔ اشوک کا عہد سنہ ۲۵۰ قبل از مسیح تھا۔

 

۳) ایرانی مجوسی تصور

 

زردشت کے ظہور سے پہلے مادا (میڈیا Media) اور پارس میں ایک قدیم ایریانی طریق پرستش رائج تھا۔ ہندوستان کے ویدوں میں دیوتاؤں کی پرستش اور قربانیوں کے اعمال و رسوم جس طرح پائے جاتے ہیں قریب قریب ویسے ہی عقائد و رسوم پارس اور مادا میں بھی پھیلے ہوئے تھے۔ دیوتائی طاقتوں کو ان کے دو بڑے مظہروں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک طاقت روشنی کی ہستیوں کی تھی جو انسان کو زندگی کی تمام خوشیاں بخشتی تھی۔ دوسری برائی کے تاریک عفریتوں کی تھی جو ہر طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں کی سرچشمہ تھی آگ کی پرستش کے لئے قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں اور ان کے پجاریوں کو موگوش کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اوستا کے گاتھا میں انہیں "کارپان” اور "کاری ” کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ آگے چل کر اسی "موگوش” نے آتش پرستی کا مفہوم پیدا کر لیا اور غیر قومیں ایرانیوں کو "مگ” اور "موگوش” کے نام سے پکارنے لگیں۔ عربوں نے اسی "موگوش” کو "مجوس” کر دیا۔

 

مزدیسنا

زردشت کا جب ظہور ہوا تو اس نے ایرانیوں کو ان قدیم عقائد سے نجات دلائی اور "مزدیسنا” کی تعلم دی یعنی دیوتاؤں کی جگہ ایک خدائے واحد "اہورامزدا” کی پرستش کی۔ یہ "اہورامزدا” یگانہ ہے،  بے ہمتا ہے،  بے مثال ہے،  نور ہے،  پاکی ہے،  سر تا سر حکمت اور خیر ہے اور تمام کائنات کا خالق ہے۔ اس نے انسان کے لئے دو عالم بنائے ایک عالم دنیوی زندگی کا ہے دوسرا مرنے کے بعد کی زندگی کا مرنے کے بعد جسم فنا ہو جاتا ہے مگر روح باقی رہتی ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا پاتی ہے۔ دیوتاؤں کی جگہ اس نے "امیش سپند” اور "یزتا” کا تصور پیدا کیا یعنی فرشتوں کا۔ یہ فرشتے "اہورا مزدا” کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں برائی اور تاریکی کی طاقتوں کی جگہ "انگرامے نیوش” (Angrame Niyush) کی ہستی کی خبر دی،  یعنی شیطان کی۔ یہی "انگرامے نیوش” پا زندگی کی زبان میں "اہرمز” ہو گیا۔

زردشت کی تعلیم میں ہندوستانی آریاؤں کے ویدی عقائد کا رد صاف صاف نمایاں ہے۔ ایک ہی نام ایران اور ہندوستان دونوں جگہ ابھرتا ہے اور متضاد معنی پیدا کر لیتا ہے۔ اوستا کا "اہورا” سام اور یجوروید میں "اسورا” ہے اور اگرچہ رگ وید میں اس کا اطلاق اچھے معنوں پر ہوا تھا مگر اب وہ برائی کی شیطانی روح بن گیا ہے ویدوں کا اندرا اوستہ کا "انگرا” ہو گیا۔ ویدوں میں وہ آسمان کا خدا تھا اوستا میں زمین کا شیطان ہے۔ ہندوستان اور یورپ میں دیو (Dev) اور ڈے یوس (Deus) اور تھیوس (Theus) خدا کے لئے بولا گیا لیکن ایران میں دیو کے معنی عفریتوں کے ہو گئے۔ گویا دونوں عقیدے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے ایک کا خدا دوسرے کا شیطان ہو جاتا تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں "یم” موت کی طاقت ہے۔ اوستا کی روایتوں میں "تم” زندگی اور انسانیت کی سب سے بڑی نمود ہوئی اور پھر یہی "یم” جم ہو کر جمشید ہو گیا۔

فسانہا کہ بہ بازیچہ روزگار سرود

کنون بہ مسجد جمشید و تاج کی بستند

لیکن معلوم ہوتا ہے کہ چند صدیوں کے بعد ایران کے قدیم تصورات اور بیرونی اثرات پھر غالب آ گئے اور ساسانی عہد میں جب مزیدیسنا کی تعلیم از سر نو تو تدوین ہوئی تو قدیم مجوسی یونانی اور زردشتی عقائد کا ایک مخلوط مرکب تھا اور اس کا بیرونی رنگ و روغن تو تمام تر مجوسی تصور ہی نے فراہم کیا تھا۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو یہی مخلوط تصور ایران کا قومی مذہبی تصور تھا۔ مغربی ہند کے پارسی مہاجر یہی تصور اپنے ساتھ ہندوستان لائے اور پھر یہاں کے مقامی اثرات کی ایک تہہ اس پر اور چڑھ گئی۔

مجوسی تصور کی بنیاد ثنویت (Dualism) کے عقیدے پر تھی۔ یعنی خیر اور شر کی دو الگ الگ قوتیں ہیں۔ "اھورا مزدا” جو کچھ کرتا ہے خیر اور روشنی ہے۔ "انگرامے نیوش” یعنی اہرمن جو کچھ کرتا ہے شر اور تاریکی ہے۔ عبادت کی بنیاد سورج اور آگ کی پرستش پر رکھی گئی کہ روشنی یزدانی صفات کی سب سے بڑی مظہر ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ مجوسی تصور نے خیر اور شر کی گتھی یوں سلجھانی چاہی کہ کارخانہ ہستی کی سربراہی دو متقابل اور متعارض قوتوں میں تقسیم کر دی۔

 

۴) یہودی تصور

 

یہودی تصور ابتدا میں ایک محدود نسلی تصور تھا۔ یعنی کتاب پیدائش کا "یہودہ” خاندان اسرائیل کے نسلی خدا کی حیثیت سے نمایاں ہوا تھا لیکن پھر یہ تصور بتدریج وسیع ہوتا گیا یہاں تک کہ یشعیا دوم کے صحیفے میں "تمام قوموں کا خدا” اور "تمام قوموں کا ہیکل” نمایاں ہو گیا۔ تاہم اسرائیلی خدا کا نسلی اختصاص کسی نہ کسی شکل میں برابر کام کرتا ہی رہا اور ظہور اسلام کے وقت اس کے نمایاں خال و خط نسل اور جغرافیہ ہی کے خال و خط تھے۔ تجسم اور تنزیہ کے اعتبار سے وہ ایک درمیانی درجہ رکھتا تھا اور اس میں غالب عنصر قہر و غضب اور انتقام و تعذیب کا تھا۔ خدا کا بار بار متشکل ہو کر نمودار ہونا مخاطبات کا تمام تر انسانی اوصاف و جذبات سے آلودہ ہونا،  قہر و انتقام کی شدت اور ابتدائی درجے کی تمثیلی اسلوب تورات کے صحیفوں کا عام تصور ہے۔

خدا کا انسان سے رشتہ اس نوعیت کا رشتہ ہوا جیسے ایک شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے۔ شوہر نہایت غیور ہوتا ہے وہ اپنی بیوی کی ساری خطائیں معاف کر دے گا لیکن یہ جرم معاف نہیں کرے گا کہ اس کی محبت میں کسی دوسرے مرد کو بھی شریک کرے۔ اسی طرح خاندان اسرائیل کا خدا بھی بہت غیور ہے۔ اس نے اسرائیل کے گھرانے کو اپنی چہیتی بیوی بنایا چونکہ چہیتی بیوی بنایا اس لئے خاندان اسرائیل کے بے وفائی اور غیر قوموں سے آشنائی اس پر بہت ہی شاق گزرتی ہے اور ضروری ہے کہ وہ اس جرم کے بدلے سخت سزائیں دے۔ چنانچہ احکام عشرہ (Ten Commandments) میں ایک حکم یہ بھی تھا : "تو کسی چیز کی صورت نہ بنائیو اور اس کے آگے جھکیو،  کیونکہ میں خداوند تیرا خدا رشک کرنے والا ایک بہت ہی غیور خدا ہوں۔ (خروج ۲۰: ۴، ۵)

شوہر کے رشتے کی یہ تمثیل جو مصر سے خروج کے بعد متشکل ہونا شروع ہو گئی تھی،  آخر عہد تک کم و بیش قائم رہی۔ یہودیوں کی ہر گمراہی پر خدا کے غضب کا اظہار ایک غضب ناک شوہر کا پر جوش اظہار ہوتا ہے جو اپنی چہیتی بیوی کو اس کی ایک ایک بے وفائی یاد دلا رہا ہو۔ یہ اسلوب تمثیل بظاہر کتنا ہی مؤثر اور شاعرانہ دکھائی دیتا ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ خدا کے تصور کے لئے ایک ابتدائی درجے کا غیر ترقی یافتہ تصور تھا۔

 

۵

) لہ بازہ یطرح ایک  قانون ) مسیحی تصور

 

لیکن یشعیا دوم کے زمانے سے اس صورت حال میں یہ تبدیلی شروع ہوئی اور یہودی تصور میں بہ یک ایک وقت وسعت اور لطافت دونوں طرح کے عناصر نمایاں ہونے لگے۔ گویا اب ایک نئی تصوری فضاء کے لئے زمانے کا مزاج تیار ہونے لگا تھا۔ چنانچہ مسیحیت آئی تو رحم و محبت اور عفو و بخشش کا ایک نیا تصور لے کر آئی۔ اب خدا کا تصور نہ تو جابر بادشاہ کی طرح قہر آلودہ تھا نہ رشک و غیرت میں ڈوبے ہوئے شوہر کی طرح سخت گیر تھا بلکہ باپ کی محبت و شفقت کی مثال نمایاں کرتا تھا اور اس میں شک نہیں کہ یہودی تصور کی شدت و غلظت نمایاں کرتا تھا۔ اور اس میں شک نہیں کہ یہودی تصور کی شدت و غلظت کے مقابلے میں رحم و محبت کی رقت کا یہ ایک انقلابی تصور تھا۔ انسانی زندگی کے سارے رشتوں میں ماں باپ کا رشتہ سب سے بلند تر رشتہ ہے۔ اس میں شوہر کے رشتے کی طرح جذبوں اور خواہشوں کے غرضوں کو دخل نہیں ہوتا یہ سراسر رحم و شفقت اور پرورش و چارہ سازی ہوتی ہے۔ اولاد بار بار قصور کرے گی لیکن ماں کی محبت پھر بھی گردن نہیں موڑے گی اور باپ کی شفقت پھر بھی معافی سے انکار نہیں کرتے گی۔ پس اگر خدا کے تصور کے لئے انسانی رشتوں  کی مشابہتوں سے کام لیئے بغیر چارہ نہ ہو تو بلا شبہ شوہر کی تمثیل کے مقابلے میں باپ کی تمثیل کہیں زیادہ شائستہ اور ترقی یافتہ تمثیل ہے۔

تجسم اور تنزہ کے لحاظ سے مسیحی تصور کی سطح اصلا وہی تھی۔ جہاں تک یہودی تصور پہنچ چکا تھا۔ مگر جب مسیحی عقائد کا رومی اصنام پرستی کے تصوروں سے امتزاج ہوا تو اقانیم ثلاثہ،  کفارہ اور مسیح پرستی کے تصورات چھا گئے اور اسکندریہ کے فلسفہ آمیز اصنامی تصور سیراپس (Serapis) نے مسیحی اصنامی تصور کی شکل اختیار کر لی۔ اب مسیحیت کو بت پرستوں کی بت پرستی سے تو انکار تھا لیکن خود اپنی بت پرستی پر کوئی اعتراض نہ تھا،  میڈونا (Madonna) کے قدیم بت کی جگہ اب ایک نئی مسیحی میڈونا کا بت تیار ہو گیا۔ یہ خدا کے فرزند کو گود میں لئے ہوئے تھی اور ہر راسخ الاعتقاد مسیحی کی جبین نیاز کا سجدہ طلب کرتی تھی۔

غرضیکہ کہ قرآن کا جب نزول ہوا تو مسیحی تصور رحم و محبت کی پدری تمثیل کے ساتھ اقانیم ثلاثہ،  کفارہ اور تجسم کا ایک مخلوط،  "اشراکی توحید”،  متصور تھا۔

 

فلاسفہ یونان اور اسکندریہ کا تصور

 

ان تصوروں کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان بھی ہے جو اگرچہ مذاہب کے تصوروں کی طرح اقوام عالم کا تصور نہ ہو سکا تاہم انسان کی فکری نشو و نما کی تاریخ میں اس نے بہت بڑا حصہ لیا اور اس لئے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان میں توحید کا تصور نشو و نما پانے لگا تھا۔ اس کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط (Socrates) کی حکمت میں نمایاں ہوئی جسے افلاطون (Plato) نے تدوین و انضباط کے جامے سے آراستہ کیا۔

جس طرح ہندوستان میں رگ وید کی دیوتائی تصورات نے بالآخر ایک "رب الا ربابی” تصور کی نوعیت پیدا کر لی تھی اور پھر اس "رب الا ربابی” تصور نے بتدریج توحیدی تصور کی طرف قدم بڑھایا تھا ٹھیک اسی طرح یونان میں بھی اولمپس (Olympus( کے دیوتاؤں کو بالآخر ایک "رب الا رباب” ہستی کے آگے جھکنا پڑا اور پھر یہ "رب الا ربابی” تصور و بتدریج کثرت سے وحدت کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ یونان کے قدیم ترین تصوروں کے معلوم  کرنے کا تنہا ذریعہ اس کی پرانی شاعری ہے۔ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو عقیدے پراپر پس پر دو کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی اور ایک سب سے بڑی اور سب پر چھائی ہوئی الوہیت!

آئیونی(Ionic) فلسفے نے جو یونانی مذاہب فلسفے میں سب سے سے زیادہ پرانا ہے،  اجرام سماوی کی ان دیکھی روحوں کا اعتراف کیا تھا اور پھر ان روحوں کے اوپر کسی ایسی روح کا سراغ لگانا چاہا تھا جسے اصل کائنات قرار دیا جا سکے۔ پانچویں صدی قبل از مسیح  فیثا غورث (Pythagoras) کا ظہور ہوا اور اس نے نئے نئے فکری عنصروں سے فلسفے کو آشنا کیا،  فیثا غورث کے سفر ہند کی روایت صحیح ہو یا نہ ہو،  لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے فلسفیانہ تصوروں میں ہندوستانی طریق فکر کی ماہئتیں پوری طرح نمایاں ہیں۔ تناسخ کا غیر مشتبہ عقیدہ،  پانچویں آسمانی عنصر (Quintaessentia) کا اعتراف،  نفس انسانی کی انفرادیت کا تصور،  مکاشفاتی کا طریق ادراک کی جو جھلک اور سب سے زیادہ یہ کہ ‘ایک طریق زندگی’ کے ضابطے کا اہتمام ایسے مبادات ہیں جو ہمیں اپنشد کے دائرہ فکر و نظر سے بہت قریب کر دیتے ہیں۔ فیثا غورث کے انکا غورث (Anaxagoras) نے ان مبادیات کو کلیاتی تصورات (Abstracts)کی نوعیت کا جامہ پہنایا اور اس طرح یونانی فلسفے کی وہ بنیاد استوار ہو گئی جس پر آگے چل کر سقراط اور افلاطون اپنی اپنی کلیاتی تصورات کی عمارتیں کھڑی کرنے والے تھے۔

سقراط کی شخصیت میں یونان کے توحیدی اور تنزیہی اعتقاد کی سب سے بڑی نمود ہوئی۔ سقراط سے پہلے جو پہلے فلسفہ گذرے تھے انہوں نے قومی پرستش گاہوں کے دیوتاؤں سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا کیونکہ خود ان کے دل و دماغ بھی ان کے اثرات سے خالی نہیں تھے،  نفوس و فلکی کے تصورات کی اگر اصل حقیقت معلوم کی جائے تو اس سے زیادہ نہیں نکلے گی کہ یونان کے کواکبی دیوتاؤں نے علم و نظر کے حلقوں سے روشناس ہونے کے لیے ایک نیا فلسفیانہ نقاب اپنے چہروں پر ڈال لیا تھا اور اب ان کی ہستی صرف عوام ہی کو نہیں بلکہ فلسفیوں کو بھی تسکین دینے کے قابل بنا دی گئی تھی،  یہ تقریباً سیسی ہی صورت حال تھی جو ابھی تھوڑی دیر ہوئی ہم ہندوستان کی قدیم تاریخ کے صفحوں پر دیکھ رہے تھے۔ لیکن فکری غور و خوض کے نتائج ایک ایسی لچک دار صورت میں ابھرنے لگے کہ ایک طرف فلسفیانہ دماغوں کے تقاضوں کا بھی جواب دیا جا سکے دوسری طرف عوام کے قومی عقائد سے بھی تصادم نہ ہو۔ ہندوستان کی طرح یونان میں بھی خواص و عوام کے فکر و عمل نے باہم دگر سمجھوتا کر لیا تھا یعنی توحیدی اور اصناعی عقیدے ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے۔

لیکن سقراط کا معنوی علو فکر اس عام سطح سے بہت بلند جا چکا تھا وہ وقت کے اصنامی عقائد سے کوئی سمجھوتا نہیں کر سکا اس کا توحیدی تصور تجسم اور تشبہ کی تمام آلودگیوں سے پاک ہو کر ابھرا،  اس کی بے لوث خدا پرستی کا تصور اس درجہ بلند تھا کہ وقت کے عام مذہبی تصورات اسے سر اونچا کر کے بھی دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس کی حقیقت شناس نگاہ میں یونان کی اصنامی خدا پرستی اس سے زیادہ کوئی اخلاقی بنیاد نہیں رکھتی تھی،  ایک طرح کا دکان دار نہ لین دین تھا جو اپنے خود ساختہ معبدوں کے ساتھ چکایا جاتا تھا۔افلاطون یوئی فرا (Euthyphro) کے مکالمے میں ہمیں صاف صاف بتلانا ہے کہ یونان کے دینی تصورات و اعمال کی نسبت،  سقراط کے بے لاگ فیصلے کیا تھے۔ سقراط پر مذہبی بے احترامی کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ پوچھتا ہے کہ ‘مذہبی احترام’ کی حقیقت کیا ہے ؟ پھر جو جواب ملتا ہے وہ اسے اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ مذہبی احترام گویا مانگنے اور دینے کا ایک فن ہوا،  دیوتاؤں سے وہ چیز مانگنی جس کی ہمیں خواہش ہے اور انہیں وہ چیز دے دینی جس کی انہیں احتیاج ہے۔ مختصر یہ ہے کہ تجارتی کاروبار کا ایک خاص ڈھنگ۔

ایسی بے پردہ تعلیم وقت کی داروگیر سے بچ نہیں سکتی تھی اور نہ بچی۔ لیکن سقراط کی اولوالعزم روح وقت کی کوتاہ اندیشیوں سے مغلوب نہیں ہو سکتی تھی۔ اس نے ایک ایسے صبر و استقامت حق کے ساتھ جو صرف نبیوں اور شہیدوں ہی ان کے اندر گھر بنا سکتا ہے زہر کا جام اٹھایا اور بغیر کسی تلخ کلامی کے پی لیا:

تمنت سلیمی ان تموت بحبھا

واھون شئی عندنا ما تمنت

"اس نے مرنے سے پہلے آخری بات جو کہی تھی وہ یہ تھی: وہ ایک کمتر دنیا سے بہتر دنیا کی طرف جا رہا ہے۔” افلاطون نے سقراط کے باحثانہ(Dialectic) افکار کو کو ایک معلم کے درم و املاء کی نوعیت رکھتے تھے ایک مکمل ضابطے کی شکل دے دی اور منطقی تخیل کے ذریعے انہیں کلیات و جوامع کی صورت میں مرتب کیا۔ اس نے اپنے تمام فلسفیانہ بحث و نظر کی بنیاد کلیات(Abstracts) پر رکھی اور حکومت سے لے کر خدا کی ہستی تک سب کو تصوریت (Idealism) کا جامہ پہنا دیا۔ اگر تصوریت محسوسات سے الگ ہستی رکھتی ہے تو ‘ناؤس’ (Nous) یعنی نفس ناطقہ بھی مادے سے الگ اپنی ہستی رکھتا ہے۔ اور اگر نفس،  مادے سے الگ ہستی رکھتا ہے تو خدا کی ہستی بھی مادیات سے الگ اپنی نمود رکھتی ہے۔ اس نے انکسا غورث کے مسلک کے خلاف دو نفسوں میں امتیاز کیا ایک کو ‘فانی’ قرار دیا دوسرے کو ‘لافانی’۔ فانی نفس خواہشیں رکھتا ہے اور وہی مجسم ایغو (Ego) ہے لیکن لافانی نفس کائنات کی اصل عاقلہ ہے اور جسمانی زندگی کی تمام آلائشوں سے ایک قلم منزہ۔ یہی نفس کلی کی وہ الٰہی چنگاری ہے جس نے انسان کے اندر قوت مدرکہ کی روشنی میں چراغ روشن کر دیا ہے۔ یہاں پہنچ کر نفس کلی کا تصور بھی ایک طرح سے وحدۃ الوجودی تصور کی نوعیت پیدا کر لیتا ہے۔ دراصل ہندو فلسفے ‘آتما’ اور یونانی فلسفے کا ‘نفس’ ایک ہی مسمیٰ کے دو نام ہیں یہاں ‘ آتما’ کے بعد ‘پرماتما’ نمودار ہوا تھا وہاں ‘ نفس’ کے بعد ‘نفس کلی’ نمودار ہوا۔

سقراط نے خدا کی ہستی کے لیے ‘اگاتھو’ (Agatho) یعنی الخیر کا تصور قائم کیا تھا۔ وہ سرتا سر اچھائی اور حسن ہے۔ افلاطون وجود کی دنیاؤں سے بھی اوپر اڑا اور اس نے خیر بحث کا سراغ لگانا چاہا،  لیکن سقراط کے صفاتی تصور پر کوئی اضافہ نہ کر سکا۔

ارسطو (Aristotle) جس نے فلسفے کو روحانی تصوروں سے خالص کر کے صرف مشاہدے و احساسات کے دائرے میں دیکھنا چاہا تھا اس سقراطی تصور کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے عقل اول اور عقل فعال کا تصور قائم کیا جو ایک ابدی غیر متجزی اور بسیط بحثِ ہستی ہے۔ پس گویا سقراط اور افلاطون نے جس ذات کی صفت ‘الخیر’ میں دیکھی تھی ارسطو نے اسے ‘العقل’ میں دیکھا اور اس منزل پر پہنچ کر رک گیا۔ اس سے زیادہ جو کچھ مشائی فلسفے (Peripatetic Philosophy)میں ہمیں ملتا ہے وہ خود ارسطو کی تصریحات نہیں ہیں البتہ یونانی اور عرب شارحوں کے اضافے ہیں  ۔ اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ ‘الخیر’ اور ‘العقل’یونانی فلسفے کے تصور الوہیت کا ماحصل ہے۔

سقراط کے صفاتی تصور کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ افلاطون کی جمہوریت (Republic)کا حسب ذیل مکالمہ پیش نظر رکھا جائے۔ اس مکالمے میں اس نے تعلیم کے مسئلے پر بحث کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہئیں۔

اڈمنٹس (Adeimantus) نے سوال کیا کہ شاعروں کو خدا کا ذکر کرتے ہوئے کیا پیرایۂ بیان اختیار کرنا چاہیے ؟

سقراط: ہر حال میں خدا کی توصیف ایسی کرنی چاہیے جیسا کہ وہ اپنی ذات میں ہے،  خواہ رزمی (Epic) شعر ہو خواہ غنائی (Lyric)۔ علاوہ بریں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی ذات صالح ہے۔ پس ضروری ہے اس کی صفات بھی اصلاح پر مبنی ہوں۔

اڈمنٹس: درست ہے۔

سقراط: اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کو وجود صالح ہو گا اس سے کوئی بات مضر صادر نہیں ہو سکتی اور جو ہستی غیر مضر ہو گی وہ کبھی شر کی صانع نہیں ہو سکتی،  اسی طرح یہ بھی بات بھی ظاہر ہے کہ جو ذات صالح ہو گی ضروری ہے کہ نافع بھی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ خدا صرف خیر کی علت ہے شر کی علت نہیں ہو سکتا۔

اڈمنٹس: درست ہے۔

سقراط: اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدا کا تمام حوادث کی علت ہو ناممکن نہیں جیسا کہ عام طور ہر خیال کیا جاتا ہے بلکہ وہ انسانی حالات کے بہت ہی تھوڑے حصے کی علت ہے،  کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہماری برائیاں بھلائیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور برائیوں کی علت خدا کی صالح اور نافع ذات نہیں ہو سکتی پس چاہیے کہ صرف اچھائی ہی کو اس کی طرف نسبت دیں اور برائی کی علت کسی دوسری جگہ ڈھونڈیں۔

اڈمنٹس: میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ بات بالکل واضح ہے۔

سقراط: تو اب ضروری ہوا کہ ہم شاعروں کے ایسے خیالات سے متفق نہ ہوں جیسے ہومر (Homer) کے حسب ذیل شعروں میں ظاہر کیے گئے ہیں : "مشتری (Zeus) (تخت نشین ہستی) کی ڈیوڑھی میں دو پیالے رکھے ہیں،  ایک خیر کا ہے ایک شرکا۔ اور وہی انسان کی بھلائی اور برائی کی تمام تر علت ہیں،  جس انسان کے حصے میں خیر کے پیالے کی شراب آ گئی اس کے لیے تمام تر خیر ہے،  جس کے حصے میں شر کی آئی۔ اس کے لیے تمام تر شر ہے،  اور پھر جس کسی کو دونوں پیالوں کا ملا جلا گھونٹ مل گیا اس کے حصے میں اچھائی بھی آ گئی اور برائی بھی۔”

پھر اس کے بعد تجسم کے عقیدے پر بحث کی ہے اور اس سے انکار کیا ہے کہ خدا ایک بازی گر ہے اور بہروپیے کی طرح کبھی ایک بھیس میں نمودار ہوتا ہے کبھی دوسرے بھیس میں۔

 

اسکندریہ کا مذہب افلاطون جدید

 

تیسری صدی مسیحی میں اسکندریہ کے فلسفہ تصوف نے مذہب افلاطون جدید (Neo-Platonism) کے نام سے ظہور کیا جس کا بانی امونیس سکاس (Ammonius Saccas) تھا،  امونیس کا جانشین فلاطینس (Plotinus) ہوا اور فلاطینس کا شاگرد فورفوریوس (Porphyry) تھا جو اسکندر فرودیسی (Alexander of Aphrodisias) کے بعد ارسطو کا سب سے بڑا شارح تسلیم کیا گیا ہے اور جس نے افلاطونیہ جدیدہ کی مبادیات مشائی فلسفے میں مخلوط کر دیں۔ فلاطینس اور فورفوریوس کی تعلیم سر تا سر اسی اصل پر مبنی تھی جو ہندوستانی میں اپنشد کے مذہب نے اختیار کی ہے یعنی علم حق کا اصلی ذریعہ کشف ہے نہ کہ استدلال اور معرفت کا کمال مرتبہ یہ ہے کہ جذب و فنا کا مقام حاصل ہو جائے۔

خدا کی ہستی کے بارے میں فلاطینس بھی اسی نتیجہ پر پہنچا جس پر اپنشد کے مصنف اس سے بہت پہلے پہنچ چکے تھے یعنی نئی صفات کا مسلک اس نے بھی اختیار کیا۔ذات مطلق ہمارے تصور و ادراک کی تمام تعبیرات سے ماوراء ہے اس لیے ہم اس بارے میں کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ "ذات مطلق ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی نہیں جو اس سے ظہور میں آئیں۔ ہم اس کی نسبت کوئی حکم نہیں لگا سکتے،  ہم نہ تو اسے موجودیت سے تعبیر کر سکتے ہیں نہ جوہر سے نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندگی ہے۔ حقیقت ان تعبیروں سے وراء  الوراء ہے۔

سقراط اور افلاطون نے حقیقت کو الخیر سے تعبیر کیا تھا اس لئے فلاطینس وہاں تک بڑھنے سے انکار نہ کر سکا لیکن اس سے آگے کی تمام راہیں بند کر دیں۔ جب تم نے کہا الخیر تو پس یہ کہہ کر رک جاؤ اور اس پر کچھ بھی نہ بڑھاؤ۔ اگر تم کسی دوسرے خیال کا اضافہ کرو گے تو ہر اضافے کے ساتھ ایک نئے نقص کی اس سے تقریب کرتے جاؤ گے۔ ارسطو نے حقیقت کا سراغ عقول مجردہ کی راہ سے لگایا تھا اور علتہ العلل کو عقل اول سے تعبیر کیا گیا تھا مگر فلاطینس کا مطلق (Absolute)،  اس تعبیر کی گرانی بھی برداشت نہیں کر سکتا: ” یہ بھی مت کہو کہ وہ عقل ہے،  اس طرح اسے منقسم کرنے لگو گے۔

لیکن اگر ہم عقل کا اطلاق اس پر نہیں کر سکتے تو پھر ‘الوجود’ اور ‘الخیر’ کیونکر کہہ سکتے ہیں ؟ اگر پم اپنی متصوری صفتوں میں سے کوئی صفت بھی اس کے لیے نہیں بول سکتے تو پھر وجودیت اور خریت کی صفات بھی کیوں ممنوع نہ ہوں ؟ اس اعتراض کا وہ خود جواب دیتا ہے :

"ہم نے اگر اسے ‘الخیر’ کہا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کوئی باقاعدہ تصدیق کسی خاص وصف کی کرنی چاہتے ہیں جو اس کے اندر موجود ہے۔ ہم اس تعبیر کے ذریعے صرف یہ بات واضح کرنی چاہتے ہیں کہ وہ ایک مقصد اور منتہیٰ ہے جس پر تمام سلسے جا کر ختم ہا جاتے ہیں یہ گویا ایک اصطلاح ہوئی جو ایک خاص غرض کے لیے کام میں لائی گئی ہے۔ اسی طرح اگر ہم اس کی نسبت ‘وجود’ کا حکم لگاتے ہیں تو صرف اس لیے کہ عدم کے دائرے سے اسے باہر رکھیں۔ وہ تو ہر چیز سے ماورا ہے حتیٰ کہ وجود کے اوصاف و خواص سے بھی۔”

اسکندریہ کے کلیمنٹ (Clement)نے اس مسلک کا خلاصہ چند لفظوں میں کہہ دیا:

اس کی شناخت اس سے نہیں کی جا سکتی کہ وہ کیا ہے ؟ صرف اس سے کی جا سکتی ہے کہ وہ کیا کچھ نہیں ہے ؟ یعنی یہاں صرف سلب و نفی کی راہ ملتی ہے ایجاب و اثبات کی راہیں بند ہیں :

سر لسان النطق عنہ اخرد!

(ایک ایسا راز اور چھپی ہوئی حقیقت کہ بیان میں آ نہیں سکتی)

باب صفات میں یہ وہی بات ہوئی جو اپنشد کی "نیتی نیتی” میں ہم سن چکے ہیں اور جس پر شنجر نے اپنے مذہب کی مبادیات کی عمارتیں استوار کی ہیں۔

ازمنہ وسطیٰ کے یہودی فلاسفہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا تھا۔ موسی بن میمون خدا کو الموجود کہنے سے بھی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم جوں ہی موجود کا وصف بولتے ہیں ہمارے تصور پر مخلوق کے اوصاف و خواص کی پرچھائیں پڑنے لگتی ہیں اور خدا ان اوصاف سے منزہ ہے۔ اس نے اس سے بھی انکار کر دیا کہ خدا کو ‘وحدہٗ لاشریک’ کہا جائے کیونکہ’وحدت’ اور ‘عدم شرکت’ کے تصورات بھی اضافی نسبتوں سے خالی نہیں۔ ابن میمون کا یہ مسلک دراصل فلسفہ اسکندریہ ہی کی بازگشت تھی۔

 

قرآنی تصور

 

بہرحال چھٹی صدی مسیح میں دنیا کے خدا پرستانہ زندگی کے تصورات اس حد تک جا پہنچے تھے کہ قرآن کا نزول ہوا۔

اب غور کرو کہ قرآن کے تصور الٰہی کا کیا حال ہے ؟ جب ہم ان تمام تصورات کے مطالعے لے بعد قرآن کے تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آ جاتا ہے کہ تصور الٰہی کی تمام تصویروں میں اس کی تصویر جامع اور بلند تر ہے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل امور قابل غور ہیں۔

 

تنزیہ کی تکمیل

 

اولاً: تجسم اور تنزیہ کے لحاظ سے قرآن کا تصور تنزیہ کی ایسی تکمیل ہے کس کی کوئی نمود اس وقت دنیا میں موجود نہیں تھی۔ قرآن سے پہلے تنزیہ کا بڑے سے بڑا مرتبہ جس کا ذہن انسانی متحمل ہو سکا تھا یہ تھا کہ اصنام پرستی کی جگہ ان دیکھے خدا کی پرستش کی جائے۔ لیکن جہاں تک صفات الٰہی کو تعلق ہے انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت اور جسم و ہئیت کے تمثیل سے کوئی تصور بھی خالی نہ تھا،  ہندوستان اور یونان کا حال ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہودی تصور جس نے اصنام پرستی کی کوئی شکل بھی جائز نہیں رکھی تھی وہ بھی اس طرح کے تشبہ و تمثیل سے یکسر آلودہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا  کو ممرے کے بلوطوں میں دیکھنا، خدا کا حضرت یعقوب علیہ السلام سے کشتی لڑنا،  کوہ طور پر شعلوں کے اندر نمودار ہونا،  خدا کا جوش غضب میں آ کر کوئی کام کر بیٹھنا اور پھر پچھتانا،  بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لینا اور پھر اس کی بد چلنی پر ماتم کرنا،  ہیکل کی تباہی پر اس کا نوحہ،  اس کی انتڑیوں میں درد کا اٹھنا اور کلیجے میں سوراخ پڑ جانا،  تورات کا عام اسلوب بیان ہے۔

اصل یہ ہے کہ قرآن سے پہلے فکر انسانی اس درجہ بلند نہیں ہوا تھا کہ تمثیل کا پردہ ہٹا کر صفات الٰہی کا جلوہ دیکھ لیتا اس لیے ہر تصور کی بنیاد تمام تر تمثیل و تشبہ ہی پر رکھنی پڑی،  مثلاً تورات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف زبور کے ترانوں اور یشنیا کی کتاب میں خدا کے لیے شائستہ صفات کا تخیل موجود ہے لیکن دوسری طرف خدا کا کوئی مخاطبہ ایسا نہیں جو سر تا سر انسانی اوصاف و جذبات کی تشبیہ سے مملو نہ ہو۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب چاہا کہ رحمت الٰہی کا عالمگیر تصور پیدا کریں تو وہ بھی مجبور ہوئے کہ خدا کے لیے باپ کی تشبیہ سے کام لیں۔ اسی تشبیہ سے ظاہر پرستوں نے ٹھوکر کھائی اور ابنیت مسیح کا عقیدہ پیدا کر لیا۔

لیکن ان تمام تصورات کے بعد جب ہم قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اچانک فکر و تصور کی ایک نئی دنیا سامنے آ گئی۔ یہاں تمثیل و تشبیہ کے تمام پردے بیک دفعہ اٹھ جاتے ہیں،  انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت بہت مفقود ہو جاتی ہے،  ہر گوشے میں مجاز کی جگہ حقیقت کا جلوہ نمایاں ہو جاتا ہے اور وہ تجسم کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔

تنزیہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتی ہے :

لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ (۱۱:۴۲)

اس کے مثل کوئی شے نہیں (کسی چیز ست بھی تم اسے مشاہد نہیں ٹھہرا سکتے )

لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ وَهُوَ یُدْرِ‌كُ الْأَبْصَارَ‌ ۖ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ‌ (۱۰۳)

انسان کی نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں لیکن وہ انسان کی نگاہوں کو دیکھ رہا ہے۔ اور وہ بڑا پہ باریک بین (اور) باخبر ہے۔

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (۱) اللَّهُ الصَّمَدُ (۲) لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ (۳) وَلَمْ یَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (۴)

اللہ کی ذات یگانہ ہے،  بے نیاز ہے،  اسے کسی کی احتیاج نہیں نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابری کی ہوئی۔

تورات اور قرآن کے جو مقامات مشترک ہیں وقت نظر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرو،  تورات میں جہاں کہیں خدا کی براہ راست نمود کا ذکر کیا گیا ہے،  قرآن وہاں خدا کی تجلی کا ذکر رکتا ہے۔ تورات میں جہاں یہ پاؤ کہ خدا متشکل ہو کر اترا،  قرآن اس موقع کی یوں تعبیر کرتا ہے  کہ خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر نمودار ہوا۔ بطور مثال کے صرف ایک مقام پر نظر ڈالی جائے۔ تورات میں ہے :

"خداوند نے کہا: اے موسیٰ دیکھ! یہ جگہ میرے پاس ہے تو اس چٹان پر کھڑا رہ اور یوں ہو گا کہ جب میرے جلال کا گزر ہو گا تو میں تجھے اس چٹان کی دراز میں رکھوں گا اور جب تک نہ گزر لوں تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھانپیں رکھوں گا۔ پھر ایسا ہو گا کہ میں ہتھیلی اٹھا لوں گا اور تو میرا پیچھا دیکھ لے گا لیکن تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔ (خروج ۳۳-۲۱-۲۳)

تب خداوند بدلی کے ستون میں ہو کر اترا اور خیمے کے دروازے پر کھڑا رہا اس نے کہا کہ میرا بندہ موسیٰ اپنے خداوند کی شبیہ دیکھے گا۔ (گنتی ۸-۵:۱۲)

اسی معاملے کی تعبیر قرآن نے یوں کی ہے :

قَالَ رَ‌بِّ أَرِ‌نِی أَنظُرْ‌ إِلَیْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَ‌انِی وَلَٰكِنِ انظُرْ‌ إِلَى الْجَبَلِ (۱۴۳:۷)

موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے پروردگار! مجھے اپنا جلو دکھا تا کہ میں تیری نگاہ کر سکوں ! فرمایا نہیں۔ تو کبھی مجھے نہیں دیکھے گا،  لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھ!

 

تنزیہ اور تعطیل کا فرق

 

البتہ یاد رہے کہ تنزیہ اور تعطیل میں فرق ہے۔ تنزیہ سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک عقل بشری کی پہنچ ہے،  صفات الٰہی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک اور بلند رکھا جائے،  تعطیل کے معنی یہ ہیں کہ تنزیہ کے منع و نفی کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ فکر انسانی کے تصور کے لیے کوئی بات باقی نہ رہے۔ قرآن کا تصور تنزیہ کی تکمیل ہے،  تعطیل کی ابتدا نہیں ہے۔

بلاشبہ اپنشد تنزیہ کی ‘نیتی نیتی’ کو بہت دور تک لے گئے،  لیکن عملاً نتیجہ کیا نکلا؟ یہی نکلا کہ ذات مطلق (برھمان) کو ذات مشخص (ایشور) میں اتارے بغیر کام نہ چل سکا:

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

جس طرح اثبات صفات میں غلو،  تشبیہ کی طرف لے جاتا ہے،  اسی طرح نفی صفات میں غلو،  تعطیل تک پہچا دیتا ہے اور دونوں میں تصور انسانی مے لیے ٹھوکر ہوئی۔،  اگر تشبہ اسے حقیقت سے آشنا کر دیتا ہے تو تعطل اسے عقیدے کئ روح سے محروم کر دیتا ہے،  پس یہاں ضروری ہوا کہ افراط اور تفریط دونوں سے قدم روکے جائیں اور تشبہ اور تعطل دونوں کے درمیان راہ نکالی جائے،  چنانچہ قرآن نے جو راہ اختیار کی ہے وہ دونوں راہوں کے درمیان جاتی ہے اور دونوں انتہائی سمتوں کے میلان سے بچتی ہوئی نکل گئی ہے۔ اگر خدا کے تصور کے لیے صفات و افعال کی کوئی صورت ایسی باقی نہ رہے جو فکر انسانی کی پکڑ میں آ سکتی ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہی نکلے گا کہ تنزیہ نے معنی نفی وجود کے ہو جائیں گے،  یعنی اگر کہا جائے "ہم خدا کے لیے کوئی ایجابی صفت قرار نہیں دے سکتے،  کیونکہ جو صفت بھی قرار دیں گے،  اس میں مخلوق کے اوصاف سے مشابہت کی جھلک آ جائے گی۔” تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں فکر انسانی کے لیے کوئی سر رشتہ تصور باقی نہیں رہے گا اور وہ کسی ایسی ذات کا تصور ہی نہیں کر سکے گا۔ اور جب تصور نہیں کر سکے گا تو ایسا عقیدہ اس کے اندر کوئی پکڑ اور لگاؤ بھی پیدا نہیں کر سکے گا،  ایسا تصور اگرچہ اثبات وجود کی کوشش کرے،  لیکن فی الحقیقت وہ نفی وجود کا تصور ہو گا،  کیونکہ صرف سلبی کے ذریعے ہم ہستی کو نیستی سے جدا نہیں کر سکتے۔

خدا کی ہستی کا اعتقاد انسانی فطرت کے اندرونی تقاضوں کا جواب ہے۔ اسے حیواناتی سطح سے بلند ہونے اور انسانیت اعلی کے درجے تک پہنچانے کے لیے بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے۔ اور اس نصب العین کی طلب بغیر کسی ایسے تصور کے پوری نہیں ہو سکتی جو کسی نہ کسی شکل میں اس کے سامنے آئے،  لیکن مشکل یہ ہے کہ مطلق کا تصور سامنے نہیں آ سکتا۔ وہ جبھی آئے گا کہ ایجابی صفتوں کے تشخص کا کوئی نہ کوئی نقاب چہرے پر ڈال لے۔ چنانچہ ہمیشہ اس نقاب ہی کے ذریعے جمال حقیقت کو دیکھنا پڑا،  یہ کبھی بھاری ہوا،  کبھی ہلکا۔ کبھی پر خوف رہا،  کبھی دل آویز،  مگر اترا کبھی نہیں۔

آہ ازان حوصلہ تنگ و ازان حسن بلند

کہ دلم را گلہ از حسرت دیدار تو نیست

جمال حقیقت بے نقاب ہے۔ مگر ہمارے نگاہوں میں یارائے دید نہیں۔ ہم اپنی نگاہوں پر نقاب ڈال کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے چہرے پر نقاب پڑ گیا:

ہرچہ ھست از قامت نا ساز و بی ندام ماست

ورنہ تشریف تو بر لا لای کس دشوار نیست

غیر صفاتی تصور کو انسان پکڑ نہیں سکتا اور طلب اسے ایسے مطلوب کی ہوئی جو اس کی پکڑ میں آ سکے ! وہ ایک ایسا جلوہ محبوبی چاہتا ہت جس کے عشق میں اس کا دل اٹک سکے،  جس کے حسن گریزاں کے پیچھے وہ والہانہ دوڑ سکے،  جس کا دامن کبریائی پکڑنے کے لیے ہمیشہ اپنا دست عجز و نیاز بڑھاتا رہے،  جو اگرچہ زیادہ سے زیادہ بلندی پر ہو،  لیکن پھر بھی اسے ہر دم جھانک لگائے تاک رہا ہو کہ إِنَّ رَ‌بَّكَ لَبِالْمِرْ‌صَادِ (۱۴) ” یقیناً تمہارا پروردگار تمہیں گھات لگائے تاک رہا ہے۔” وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِ‌یبٌ ۖ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ ” اور جب میرا بندہ تجھ سے میری نسبت سوال کرتا ہے تو اس سے کہہ دے کہ میں اس سے دور کب ہوں ؟ میں تو بالکل اس کے پاس ہوں۔ اور جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں۔

درپردہ و برھمہ کس پردہ می دری

باھر کسی وبا تو کسی را وصال نیست

(خود تو پردے میں ہے اور دوسروں پر بھی پردہ ڈالتا ہے تو تو سب کے ساتھ ہے لیکن تیرے ساتھ کس کو وصل نہیں )

غیر صفاتی تصور محض نفہ و سلب ہوتا ہے اور اس سے انسانی طلب کی پیاس نہیں بجھ سکتی۔ ایسا تصور ایک فلسفیانہ تخیل ضرور پیدا کر دے گا،  لیکن دلوں کا زندہ اور سرگرم عقیدہ نہیں بن سکے گا۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جو راہ اختیار کی وہ ایک طرف تو تنزیہ کو اس کے کمال درجے تک پہنچا دیتی ہے،  دوسری طرف تعطیل سے بھی تصور کو بچا لے جاتی ہے۔ وہ فرداً فرداً تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے،  مگر زاتھ ہی مشابہت کی قطعی نفی بھی کرتا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے : "خدا حسن و خوبی کی ان ے مام صفتوں سے جو انسانی فکر میں آ سکتی ہیں متصف ہے۔ وہ زندہ ہے،  قدرت والا ہے،  پالنے والا ہے،  رحمت والا ہے،  دیکھنے والا،  سننے والا،  سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور پھر اتنا ہی نہیں،  بلکہ انسان کی بول چال میں قدرت و اختیار اور ارادہ و فعل کی جتنی شائستہ تعبیرات ہیں،  انہیں بھی بلا تامل استعمال کرتا ہے۔

مثلاً خدا کے ہاتھ تنگ نہیں : بَلْ یَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ(آیت نمبر ۷۴ سورہ نمبر ۵) اس کے تحت حکومت و کبریائی کے احاطے سے کوئی گوشہ نہیں : وَسِعَ كُرْ‌سِیُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ لیکن یہ بھی صاف صاف اور بے لچک لفظوں میں کہہ دیتا ہے کہ اس سے مشابہ کوئی چیز نہیں  جو تمھارے تصور میں آسکتی۔ وہ عدیم المثال ہے : لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ ۖ۔ (سورہ ۴۲: آیت ۱۱) تمہاری نگاہ اسے پا ہی نہیں سکتی: لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ (۱۰۳:۷) تم اس کے لیے اپنے تخیلات سے مثالیں نہ گھڑو: فَلَا تَضْرِ‌بُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ(۱۷:۷۴)

پس ظاہر ہے کہ اس کا زندہ ہونا ہمارے زندہ ہونے کی طرح نہیں ہو سکتا،  اس کی پروردگاری ہماری پروردگاری کی طرح نہیں ہو سکتی،  اس کا دیکھنا،  سننا،  جاننا ویسا نہیں ہو سکتا جس طرح کے دیکھنے،  سننے اور جاننے کا ہم تصور کر سکتے ہیں۔ اس کی قدرت و بخشش کا ہاتھ اور جلال و احاطے کا عرش ضرور ہے،  لیکن یقیناً اس کا مطلب وہ نہیں ہو سکتا جوان الفاظ کے مدلولات سے ہمارے ذہن میں متشکل ہونے لگتا ہے۔

قرآن کے تصور الٰہی کا یہ پہلو فی الحقیقت اس راہ کی تمام در ماندگیوں کا ایک ہی حل ہے اور ساری عمر کی سرگردانیوں کے بعد بالآخر اسی منزل پر پہنچ کر دم لینا پڑتا ہے۔ انسانی فکر جتنی بھی کاوشیں کرے گا،  اس کے سوا اور کوئی حل پیدا نہیں کر سکے گا،  یہاں ایک طرف بام حقیقت کی بلندی اور فکر کوتاہ کی نارسائیاں ہوئیں،  دوسری طرف ہماری فطرت کا اضطراب طلب اور ہمارے دل کا تقاضائے دید ہوا۔ بام اتنا بلند تصور تھک تھک کے رہ جاتی ہے۔ تقاضائے دید اتنا سخت کہ بغیر کسی کا جلوہ سامنے لائے چین نہیں پا سکتا:

نہ بہ اندازہ باز دست کمندم ھیمات

ورنہ با گوشہ بامیم سروکاری ھیست

ایک طرف کی اتنی دشواریاں،  دوسری طرف طلب کی اتنی سہیل اندیشیاں ! ولنعم ما قبل:

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

اگر تنزیہ کی طرف زیادہ جھکتے ہیں تو تعطیل میں جا گرتے ہیں۔ اگر اثبات صفات کی صورت آرائیوں میں دور نکل جاتے ہیں تو تشبہ اور تجسم میں کھوئے جاتے ہیں۔ پس نجات کی راہ صرف یہی ہوئی کہ دونوں کے درمیان قدم سنبھالے رکھیں۔ اثبات کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے،  تنزیہ کی باگ بھی ڈھیلی نہ پڑ پائے،  اثبات اس کی دل آویز صفتوں کا مرقع کھینچے گا،  تنزیہ تشبہ کی پرچھائیں بچھاتی رہے گی۔ ایک کا ہاتھ حسن مطلق کو صورت صفات میں جلوہ آرا کر دے گا،  دوسرے کا ہاتھ اسے اتنی بلندی پر تھامے رہے گا کہ تشبہ کا گرد و غبار اسے چھونے کی جرات نہیں کر سکے گا:

بر چہری حقیقت اگر ماندپدہ

جرم نگاہ دیدی صورت پرست ماست

اپنشد کے مصنفوں کا نفی صفات میں غلو معلوم ہے،  لیکن مسلمانوں میں جب علم کلام کے مختلف مذاہب ا آرا پیدا ہوئے تو ان کی نظری کاوشیں اس میدان میں ان سے بھی آگے نکل گئیں اور صفات باری کا مسئلہ بحث و نظر کا ایک معرکۃ  الآرا مسئلہ بن گیا۔ جمیہ اور باطنیہ قطعی انکار کی طرف گئے،  معتزلہ نے انکار نہیں کیا،  لیکن ان کا رخ رہا اسی طرف۔ امام ابوالحسن اشعری نے گو خود معتدل راہ اختیار کی تھی (جیسا کہ کتاب الابانہ سے ظاہر ہے )،  لیکن ان کے پیروں کی کاوشیں تاویل صفات میں دور تک چلی گئیں اور بحث و نزاع سے غلو کا رنگ پیدا ہو گیا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی معاملے کی گتھی نہ سلجھا سکا۔ اگر گتھی سلجھی تو اس طریقے سے سلجھی جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ امام جوینی یہ اقرار کرتے ہوئے دنیا سے گئے کہ "و ھا انا ذا اموت علی عقیدۃ امی” (میری ماں نے جو عقیدہ سکھلایا تھا اس پر دنیا سے جا رہا ہوں )

اشاعرہ میں امام فخر الدین رازی سب سے زیادہ ان کاوشوں میں سرگرم رہے،  لیکن بالآخر اپنی زندگی کی آخری تصنیف میں انھیں بھی اقرار کرنا پڑا تھا کہ:

لقد تاملت الطرق الکلمیۃ و المناھج الفسلفیۃ فما رایتھا تشفی علیلا ولا تروع غلیلا۔ و رایت اقرب الطرق طریق القرآن۔ اقرا فی الالبات "الرحمن علی العرش استوی” و فی النفی "لیس کمثلہ شئی” ومن جرب مثل تجربتی،  عرف مثل معرفتی۔ (لقلہ ملا علی القاری فی شرح الفقہ الاکبر)

” میں نے علم کلام اور فلسفے کے تمام طریقوں کو خوب دیکھا بھالا،  لیکن بالآخر معلوم ہوا کہ نہ تو ان میں کسی بیمار کے لیے شفا ہے،  نہ کسی پیاسے کے لیے سیرابی! سب سے  بہتر اور حقیقت سے نزدیک تر راہ وہی ہے جو قرآن کی راہ ہے۔ اثبات صفات میں پڑھو ” الرحمن علی العرش استویٰ” اور نفی تشبہ میں پڑھو "لیس کمثلہ شیء” یعنی اثبات اور نفی دونوں کا دامن تھامے رہو۔ اور جس کسی کو میری طرح اس معاملے کا تجربے کا موقع ملا ہو گا اسے میری طرح یہ حقیقت معلوم ہو گئی ہو گئی۔”

یہی وجہ ہے کہ اصحاب حدیث اور سلفیہ نے اس باب میں تفویض کا مسلک ۹۸ اختیار کیا تھا اور تاویل صفات میں کاوشیں کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے جہمیہ کے انکار صفات کو تعطیل سے تعبیر کیا اور معتزلہ واشاعرہ کی تاویلوں میں بھی تعطل کی بو سونگھنے لگے۔ متکلمین نے ان پر تجسم اور تشبہ کا الزام لگایا،  لیکن وہ کہتے تھے کہ تمہارے تعطل سے تو ہمارا نام نہاد تشبہ ہی بہتر ہے،  کیونکہ یہاں عقیدے کے لیے ایک تصور تو باقی رہ جاتا ہے،  تمہارے سلب و نفی کی کاوشوں کے بعد تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ متاخرین اصحاب حدیث میں امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم نے اس مسئلے کی گہرائیوں کو خوب سمجھا اور اسی لیے سلف کے مسلک سے ادھر ادھر ہونا گوارا نہیں کیا۔

 

آرائی اور سامی نقطہ خیال کا اختلاف

 

آریائی اور سامی تعلیموں کے نقطۂ خیال کا اختلاف ہم اس معاملے میں پوری طرح دیکھ سکتے ہیں۔ آریائی حکومت نے فطرت انسانی کی جس صورت پرستی کے تقاضے کا جوان،  مورتی پوجا کا دروازہ کھول کر دیا،  قرآن نے اسے صرف صفات کی صورت آرائی سے پورا کر دیا اور پھر اس سے نیچے اترنے کی تمام راہیں بند کر دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان تمام مفاسد کے کھلنے کے دروازے بند ہو گئے جو بت پرستی کی غیر عقلی زندگی سے پیدا ہو سکتے تھے اور ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

 

محکمات اور متشابہات

 

قرآن نے ایسے مطالب کی دو بنیادی قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک مو”محکمات” سے تعبیر کیا ہت،  دوسری کو "متشابہات” سے۔ "محکمات” سے وہ باتیں مقصود ہیں جو صاف صاف انسان کی سمجھ میں آ جاتی ہیں اور اس کی عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اور اس لیے ایک سے زیادہ معانی کا ان میں احتمال نہیں۔ "متشابہات” وہ ہیں جن کی حقیقت وہ پا نہیں سکتا اور اس کے سوا چارہ نہیں کہ ایک خاص حد تک جا کر رک جائے اور بے نتیجہ باریک بینیاں نہ کرے :

هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آیَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِهِ ۗ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّ‌اسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا ۗ وَمَا یَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (۷)

(اے پیغمبر!) وہی (حی و قیوم ذات) ہے جس نے تم پر "الکتاب” نازل فرمائی ہے۔ اس میں ایک قسم تو محکم آیتوں کئ ہے (یعنی ایسی آیتوں کی جو اپنے ایک ہی معنی میں اٹل اور ظاہر ہیں ) اور وہ کتاب کی اصل بنیاد ہیں،  دوسری قسم متشابہات کی ہے (یعنی جن کا مطلب کھلا اور قطعی نہیں ہے )۔ تو جن لوگوں کے دل میں کجی ہے (اور سیدھے طریقے پر بات نہیں سمجھ سکتے ) وہ (محکم آیتیں چھوڑ کر) ان آیتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو کتاب اللہ میں متشابہ ہیں،  اس غرض سے کہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کر لیں حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا (کیوں کہ ان کا تعلق اس عالم سے ہے جہاں تک انسان کا علم و حواس نہیں پہنچ سکتا) مگر جو لوگ علم کے پکے ہیں وہ (متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے،  وہ) کہتے ہیں "ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں،  کیوں کہ یہ سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے "۔ اور حقیقت یہ ہے کہ (تعلیم حق سے ) دانائی حاصل نہیں کرتے مگر وہی جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں۔

صفات الٰہی کی حقیقت متشابہات میں داخل ہے۔ اس کے لیے قرآن کہتا ہے کہ اس باب میں فکری کاوشیں کچھ سودمند نہیں ہو سکتیں،  بلکہ طرح طرح کی کج اندیشوں کا دروازہ کھول دیتی ہیں۔ یہاں بجز تفویض کے چارہ کار نہیں،  پس وہ تمام فلسفیانہ کاوشیں جو ہمارے متکلموں نے کی ہیں فی الحقیقت قرآن کے معیار تعلیم کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔

 

اپنشد کا مرتبہ اطلاق اور مرتبہ تشخص

 

اس موقعے پر یہ بات بھی صاف ہو جانی چاہیے کہ ویدانیت سوتر اور اس کے سب سے بڑے شارح شنکرا چاریا نے نفی صفات پر جتنا زور دیا ہے،  وہ حقیقت کے اس مرتبہ اطلاق سے تعلق رکھتا ہے جسے وہ "برہمن” سے تعبیر کرتے ہیں،  یعنی ذات مطلق سے۔ لیکن اس سے انہیں بھی انکار نہیں کہ مرتبی اطلاق کے نیچے ایک اور مرتبہ بھی ہے جہاں تمام صفات ایجابی کی نقش آرائی ظہور میں آ جاتی ہے اور انسان کے تمام عابدانی تصورات کا معبود وہی ذات متصف ہوتی ہے۔

اپ نشد کے نزدیک ذات مطلق "نیروپا دھیک ست” اور "نرگن” ہے،  یعنی تمام مظاہرات سے منزہ اور عدیم التوصیف ہے،  اگر کوئی ایجابی صفت اس کی نسبت سے کہی بھی جا سکتی ہے تو وہ اسی سلب کا ایجاب ہے،  یعنی وہ "ترگنونی” ہے،  عدیم الوصفی صفت ست متصف۔ "ہم اس کی نسبت کچھ نہیں کر سکتے،  کیونکہ ہم جو کچھ کہیں گے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لامحدود کو محدود بنا دیں گے۔ اگر محدود لامحدود کا تصور کر سکتا ہے تو پھر یا تو محدود کو لامحدود ماننا پڑے گا،  یا لامحدود کو محدود بن جانا پڑے گا۔” (شنکر بھاشیا،  برہم سوتر باب۳) ہم کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو الفاظ بولتے ہیں وہ یا تو اس چیز کا تعلق کسی خاص نوع سے ظاہر کرتے ہیں،  یا اس کے فعلی خواص بتلاتے ہیں۔ یا اس کی قسم کی خبر دیتے ہیں،  یا کسی اور اضافی نوعیت کی وضاحت کرتے ہیں،  لیکن برہمن کے لیے کوئی نوع نہیں ٹھیرائی جا سکتی،  اس کی کوئی قسم نہیں،  اس کے فعلی خواص بتلائے نہیں جا سکتے،  اس کے لیے کوئی اضافت نہیں،  ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایسا ہے،  یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس طرح کا نہیں ہے،  کیونکہ اس کے لیے کوئی مشابہت نہیں،  اور چونکہ مشابہت نہیں۔ اس لیے اس کی عدم مشابہت اور غیریت بھی انسانی تصور میں نہیں کائی جا سکتی،  مشابہت کی طرح ہماری نفی مشابہت بھی،  اضافی رشتے رکھی ہے، ” (ایضاً باب اول و ثانی)

غرض کہ حقیقت اپنے مرتبہ اطلاق میں ناممکن التعریف ہے اور منطقی ماورائیت سے بھی ماوراء ہے۔ اسی لیے ویدانیت سوتر نے بنیادی طور پر ہستی کے دو دائرے ٹھہرا دیے۔ ایک کو ممکن التصور کہا ہے،  دوسرے کو ناممکن التصور،  ممکن التصور دائرہ پر کرتی،  عناصر،  ذہن،  تعقل اور خودی کا ہے۔ناممکن التصور دائرہ،  برہمن (ذات مطلق) کا۔ یہی مذہب اسکندریہ کے افلاطونیہ جدیدہ کا بھی تھا اور حکماء اسلام اور صوفیاء نے بھی یہی مسلک اختیار کیا،  صوفیاء مرتبہ ‘اطلاق کو مرتبہ’ "احدیت” سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں : "احدیت” ناممکن التصور،  ناممکن التعبیر اور تمام منطقی ماورائیوں سے بھی وراء الوراء ہے :

بنام آن کہ آں نامی نہ دارد

بہ ہر نامی کہ خوانی سربرآرد

لیکن پھر مرتبی اطلاق ایک ایسے مرتبے میں نزول کرتا ہے جس میں تمام ایجابی صفات کی صورت آرائی کا تشخص نمودار ہا جاتا ہے۔ اپ نشد نے اسے "ایشور” سے اور صوفیاء نے "وحدیت” سے تعبیر کیا ہے۔ ویدانت سوتر کے شارحوں میں شنکر نے سب سے زیادہ اپنشد کے نفی صفات کے مسلک کو قائم رکھنا چاہا ہے اور اس باب میں بڑی کاوش کی۔ تاہم اسے بھی "سگن برہمن” یعنی ذات مشخص و متصف کے مرتبے کا اعتراف کرنا پرا۔ نور کو اس مرتبے کے عرفان کو وہ "اپرم” یعنی فروتر، رتبے کا عرفان قرار دیتا ہے،  مگر ساتھ ہی تسلیم کرتا ہے کہ ایک معبود ہستی کا تصور بغیر اس کے ممکن نہیں اور انسانی ذہن و ادراک کے لیے زیادہ سے زیادہ بلند پروازی جو یہاں ہو سکتی ہے وہ یہی ہے۔۹۹

 

۲۔ صفات رحمت و جمال

 

ثانیاً۔ تنزیہ کی طرح صفات رحمت و جمال کے لحاظ ست بھی قرآن کے تصور پر نظر دالی جائے تو اس کی شان تکمیل نمایاں ہے۔ نزول قرآن کے وقت یہودی تصور میں قہر و غضب کا عنصر غالب تھا۔ مجوسی تصور نے نور و ظلمت کی دو مساویانہ قوتیں الگ الگ بنا لی تھیں۔ مسیحی تصور نے رحمت و محبت پر زور دیا تھا،  لیکن جزا کی حقیقت مستور ہو گئی تھی۔ اسی طرح پیروان بدھ نے بھی صرف رحم و محبت پر زور دیا،  عدالت نمایاں نہیں ہوئی۔ گویا جہاں تک رحمت و جمال کا تعلق ہے یا تو قہر و غضب کا عنصر غالب تھا،  یا مساوی تھا،  یا پھر رحمت و محبت آئی تھی تو اس طرح آئی تھی کہ عدالت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی۔

لیکن قرآن نے ایک طرف تو رحمت و جمال کا ایک ایسا کامل تصور پیدا کر دیا کہ قہر و غضب کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی،  دوسری طرف جزاء عمل کا سر رشتہ بھی ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا کیونکہ جزاء کا اعتقاد و قہر غضب کی بناء پر نہیں،  بلکہ عدالت کی بناء پر قائم کر دیا۔ چنانچہ صفات الٰہی کے بارے میں اس کا عام اعلان ہے :

قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّ‌حْمَٰنَ ۖ أَیًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنیَ (۱۱۰:۱۷)

(اے پیغمبر! ان سے ) کہہ دو تم خدا کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو،  جس صفت سے بھی پکارو گے اس کی ساری صفتیں حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔

یعنی وہ خدا کی تمام صفتوں کو "اسماء حسنی” قرار دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی کوئی صفت نہیں جو حسن و خوبی کی صفت نہ ہو۔ یہ صفتیں کیا کیا ہیں ؟ قرآن نے پوری وسعت کے ساتھ انہیں جا بجا بیان کیا ہے۔ ان میں ایسی صفتیں بھی ہیں جو بظاہر قہر و جلال کی صفتیں ہیں،  مثلاً: جبار،  قہار،  لیکن قرآن کہتا ہے وہ بھی "اسماء حسنی” ہیں کیونکہ ان میں قدرت و عدالت کا ظہور ہوا ہے اور قدرت و عدالت حسن و خوبی ہے،  خون خواری و خوف ناکی نہیں ہے۔ چنانچہ سورہ حشر میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر متصلاً ان سب جو "اسماء حسنی” قرار دیا ہے :

هُوَ اللَّهُ الَّذِی لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا یُشْرِكُونَ  ۔ هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ یُسَبِّحُ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ  (۵۹: ۲۳-۲۴)

وہ اللہ ہے،  اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ الملک ہے،  القدوس ہے،  السلام ہے،  المومن ہے،  مہیمن ہے،  العزیز ہے،  الجبار ہے،  المتکبر ہے اور اس ساجھے سے پاک ہے جو لوگوں نے اس کی معبودیت میں بنا رکھے ہیں۔ وہ الخالق ہے،  الباری ہے،  المصور ہے،  (غرض کہ) اس کے لیے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔ آسمان و زمین میں جتنی بھی مخلوقات ہیں سب اس کی پاکی اور عظمت کی شہادتیں سے رہی ہیں اور بلاشبہ وہی ہے جو حکمت کے ساتھ غلبہ و توانائی بھی رکھنے والا ہے !

اسی طرح سورہ اعراف میں ہے :

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُ‌وا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَائِهِ ۚ (۱۸۰:۷)

اور اللہ کے لیے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں،  سو چاہیے کہ ان صفتوں سے اسے پکارو۔ اور جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ اس کی صفتوں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔

چنانچہ اس لیے سورۃ فاتحہ میں صرف تین صفتیں نمایاں ہوئیں : ربوبیت۔ رحمت اور عدالت۔ اور قہر و غضب کی کسی صفت کو یہاں جگہ نہ دی گئی۔

 

۳- اشتراکی تصورات کا کلی انسداد

 

ثالثاً،  جہاں تک توحید و اشراک کا تعلق ہے قرآن کا تصور اس درجہ کامل اور بے لچک ہے کہ اس کی کوئی نظیر پچھلے تصورات میں نہیں مل سکتی۔

اگر خدا اپنی ذات میں یگانہ ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی صفات میں بھی یگانہ ہو،  کیونکہ اس کی یگانگت کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی اگر کوئی دوسری ہستی اس کے صفات میں شریک و سہیم مان لی جائے۔ قرآن سے پہلے توحید کے ایجابی پہلو پر تو تمام مذاہب نے زور دیا تھا،  لیکن سلبی پہلو نمایاں نہیں ہو سکا تھا۔ ایجابی پہلو یہ ہے خدا ایک ہے،  سلبی یہ ہے کہ اس کی طرح کوئی نہیں۔ اور جب اس کی طرح کوئی نہیں تو ضروری ہے کہ جو صفتیں اس کے لیے ٹھہرا دی گئی ہیں ان میں کوئی دوسری ہستی شریک نہ ہو۔ پہلی بات توحید فی الذات سے اور دوسری توحید فی الصفات سے تعبیر کی گئی ہے۔ قرآن سے پہلے اقوام عالم کی استعداد اس درجہ بلند نہیں ہوئی تھی کہ توحید فی الصفات کی نزاکتوں اور بندشوں کی متحمل ہو سکتی،  اس لیے مذاہب نے تمام تر زور توحید فی الذات ہی پر دیا،  توحید فی الصفات اپنی ابتدائی اور سادہ حالت میں چھوڑ دی گئی۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجودیکہ تمام مذاہب میں قبل از قرآن عقیدہ توحید موجود تھا،  لیکن کسی نہ کسی صورت میں شخصیت پرستی،  عظمت پرستی اور اصنام پرستی نمودار ہوتی رہی اور وہ نمایاں مذاہب اس کا دروازہ بند کر سکے۔ ہندوستان میں تو غالباً اول روز ہی سے یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ عوام کی تشفی کے لیے دیوتاؤں اور انسانی عظمت کی پرستاری ناگزیر ہے اور اس لیے توحید کا مقام صرف خواص کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ فلاسفہ یونان کا بھی یہی حال تھا۔ یقیناً وہ اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ کوہ اولمپس کے دیوتاؤں کی کوئی اصلیت نہیں، تاہم سقراط کے علاوہ کسی نے بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ عوام کے اصنامی عقائد میں خلل انداز ہو۔ وہ کہتے تھے : "اگر تم دیوتاؤں کی پرستش کا نظام قائم نہ رہا تو عوام کی مذہبی زندگی درہم برہم ہو جائے گی”۔ فیثا غورث کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ جب اس نے اپنا مشہور حسابی قاعدہ معلوم کیا تھا تو اس کے شکرانے میں سو بچھڑوں کی قربانی دیوتاؤں کی نذر کی تھی۔

اس بارے میں سب سے زیادہ نازل معاملہ معلم و رہنما کی شخصیت کا تھا،  یہ ظاہر ہے کہ کوئی تعلیم عظمت و رفعت حاصل نہیں کر سکتی جب تک معلم کی شخصیت میں بھی عظمت کی شان پیدا نہ ہو۔ لیکن شخصیت کی عظمت و رفعت حاصل نہیں کر سکتی جب تک معلم کی شخصیت میں بھی عظمت کی شان پیدا نہ ہو۔ لیکن شخصیت کی عظمت کے حدود کیا ہیں ؟ یہیں آ کر سب کے قدموں نے ٹھوکر کھائی۔ وہ اس کی ٹھیک ٹھیک حد بندی نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کبھی شخصیت کو خدا کا اوتار بنا دیا،  کبھی ابن اللہ سمجھ لیا،  کبھی شریک و سہیم ٹھہرا دیا۔ اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم اس کی تعظیم میں بندگی و نیاز کی سی شان پیدا کر دی۔یہودیوں نے اپنے ابتدائی عہد کی گمراہیوں کے بعد کبھی ایسا نہیں کیا کہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کی ہو،  لیکن اس بات سے وہ بھی نہ بچ سکے کہ اپنے نبیوں کی قبروں پر ہیکل تعمیر کر کے انہیں عبادت گاہوں کی سی شان و تقدیس دے دیتے تھے۔ گوتم بدھ کی نسبت معلوم ہے کہ اس کی تعلیم میں اصنام پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس کی آخری وصیت جو ہم تک پہنچی ہے یہ ہے "ایسا نہ کرنا کہ میری نعش کی راکھ کی پوجا شروع کر دو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقین کرو! نجات کی راہ تم پر بند ہو جائے گی۔”۔ لیکن اس وصیت پر جیسا کچھ عمل کیا گیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ نہ صرف بدھ کی خاک اور یادگاروں پر معبد تعمیر کیے گئے،  بلکہ مذہب کی اشاعت کا ذریعہ ہی یہ سمجھا گیا کہ اس کے مجسموں سے زمین کا کوئی گوزہ خالی نہ رہے۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں کسی معبود کے بھی اتنے مجسمے نہیں بنائے گئے جتنے گوتم بدھ کے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مسیحیت کی حقیقی تعلیم سر تا سر توحید کی تعلیم تھی،  لیکن ابھی اس کے ظہور پر پورے سو برس بھی نہیں گذرے تھے کہ الوہیت مسیح کا عقیدہ نشو و نما پا چکا تھا۔

 

توحید فی الصفات

 

لیکن قرآن نے توحید فی الصفات کا ایسا کامل نقشہ کھینچ دیا کہ اس طرح کی لغزشوں کے تمام دروازے بند ہو گئے۔اس نے صرف توحید پر ہی زور نہیں دیا،  بلکہ شرک کی راہیں بھی بند کر دیں اور یہی اس باب میں اس کی خصوصیت ہے۔وہ کہتا ہے :”ہر طرح کی عبادت اور نیاز کی مستحق صرف خدا کی ذات ہے۔پس اگر تم نے عابدانہ  عجز و نیاز کے ساتھ دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو توحید کا اعتقاد باقی نہ رہا”۔وہ کہتا ہے "یہ اس کی ذات ہے جو انسانوں کی پکار سنتی ہے اور ان کی دعائیں قبول کرتی ہے۔”پس اگر تم اپنی دعاؤں اور طلب گاریوں میں کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کر لیا تو گویا تم نے اسے خدا کی خدائی میں شریک کر لیا”۔وہ کہتا ہے "دعا استعانت، رکوع، سجود، عجز و نیاز اعتماد توکل اور اس طرح کے تمام  عبادت گزارنا اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کر تے ہیں۔پس اگر ان اعمال میں تم نے کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کر لیا تو خدا کے رشتہَ معبودیت کی یگانگی باقی نہ رہی۔اس طرح عظمتوں، کبریائیوں، کارسازیوں اور بے نیازیوں کا جو اعتماد تمہارے اندر خدا کی ہستی کا تصور پیدا کرتا ہے، وہ صرف خدا ہی کے لئے مخصوص ہونا چاہئے۔اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لئے بھی پیدا کر لیا  تو تم نے اسے بھی خدا کا ’نِدّ‘   یعنی شریک ٹھہرا لیا اور توحید کا اعتقاد درہم برہم ہو گیا”۔

یہی وجہ ہے کہ سورہ فاتحہ میں ایاک نعبدو وایاک نستعین کی تلقین کی گئی۔اس میں اول تو عبادت کے ساتھ استعانت کا بھی ذکر کیا گیا، پھر دونوں جگہ مفعول کو مقدم کیا گیا جو وجہ حصر ہے، یعنی”صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں "اس کے علاوہ تمام قرآن میں اس کثرت کے ساتھ توحید فی الصفات اور رد الشرک پر زور دیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی سورت بلکہ کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔

 

مقامِ نبوت کی حد بندی

 

سب سے زیادہ اہم مسئلہ مقام نبوت کی حد بندی تھا، یعنی معلم کی شخصیت کو اس کی اصل جگہ میں محدود کر دینا، تاکہ شخصیت پرستی کا ہمیشہ کے لئے سد باب ہو جائے۔اس بارے  میں قرآن نے جس طرح صاف اور قطعی لفظوں میں جا بجا پیغمبر اسلام کی بشریت اور بندگی پر زور دیا ہے،  محتاج بیان نہیں۔ہم یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلائیں گے، اسلام نے اپنی تعلیم کا بنیادی کلمہ جو قرار دیا ہے :اشہدان لا الہٰ الاا للہ واشہدان محمد اعبدہ ورسولہ”یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں "۔اس اقرار میں جس طرح خدا کی توحید کا اعتراف کیا گیا ہے۔ٹھیک اسی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا بھی اعتراف ہے۔غور کرنا چاہئے ایسا کیوں کیا گیا؟صرف اس لئے کہ پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اساس اور اصل بن جائے اور اس کا کوئی موقع نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملہ کا تحفظ کیا جا سکتا تھا ؟کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کا بھی اقرار نہ کر لے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و سلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے ِ لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کبھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ ابھی ان کی وفات پر چند گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر اعلان کر دیا تھا:

من کان منکم یعبد محمد افان محممد اقدمات، ومنکان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت(بخاری) (۱۰۲)

جو کوئی تم میں محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کی پرستش کرتا تھا، سوا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ محمد (صلعم) نے وفات پائی،  اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی پرستش کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے، اس کے لئے موت نہیں۔

 

عوام اور خواص دونوں کے لئے ایک تصویر

 

رابعاً،  قرآن سے پہلے علوم و فنون کی طرح مذہبی عقائد میں بھی خاص و عام کا امتیاز برقرار رکھا جاتا تھا کہ خدا کا ایک تصور تو حقیقی ہے اور وہ خواص کے لئے  ہے ایک تصور مجازی ہے اور وہ عوام کے لئے ہے۔چنانچہ ہندوستان میں خدا شناسی کے تین درجے قرار دئے گئے :

عوام کے لئے دیوتاؤں کی پرستش، خواص کے لئے براہ راست خدا کی پرستش، خاص الخواص کے لئے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ۔یہی حال فلسفہ یونان کا تھا۔وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیر مجسم خدا کا تصور صرف اہل علم اور اہل حکمت ہی کر سکتے ہیں۔ عوام کے لئے اسی میں امن ہے کہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔

لیکن قرآن نے حقیقت و مجاز یا خاص و عام کا کوئی امتیاز باقی نہ رکھا۔اس نے سب کو خدا پرستی کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لئے صفات الٰہی کا ایک ہی تصور پیش کر دیا۔وہ حکماء اور عرفاء سے لے کر جہال و عوام تک سب کو حقیقت کا ایک ہی جلوہ دکھاتا ہے اور سب پر اعتقاد و ایمان کا ایک ہی دروازہ کھولتا ہے۔اس کا جس طرح ایک حکیم و عارف کے لئے سرمایہ تفکر ہے اسی طرح ایک چرواہے اور دہقان کے لئے سرمایہ تسکین۔

اس سلسلے مین معاملے کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ہندوستان میں خواص اور عوام کے خدا پرستانہ تصوروں میں جو فرق مراتب ملحوظ رکھا گیا، وہ معاملے کو اس رنگ میں بھی نمایاں کرتا ہے کہ یہاں مذہبی نقطہ خیال، ابتدا سے فکر و عمل کی رواداری پر مبنی رہا ہے۔یعنی کسی دائرہ فکر کو بھی اتنا تنگ و بے لچک نہیں رکھا گیا کہ کسی دائرے کی بھی اس میں گنجائش ہی نہ نکل سکے۔یہاں خواص توحید کی راہ پر گامزن ہوئے۔لیکن عوام کے لئے دیوتاؤں کی پرستش اور مورتیوں کی عبودیت کی راہیں بھی کھلی چھوڑ دیں گئیں۔گویا ہر عقیدے کو جگہ دی گئی۔ہر عمل کے لئے گنجائش نکالی گئی اور ہر طور طریقے کو آزادانہ نشو نما کا موقع مل گیا۔مذہبی اختلاف جو دوسری قوموں میں باہمی جنگ و جدال کا ذریعہ بنا رہا ہے، یہاں آپس کے سمجھوتوں کا ذریعہ بنا اور ہمیشہ متعارض اصول باہم ٹکرانے کی جگہ ایک دوسرے کے لئے جگہیں نکالتے رہے۔تخالف کی حالت میں تفاہم اور تعارض کی حالت میں تطابق، گویا یہاں ذہنی مزاج کی عام خصوصیت تھی۔ایک دیدانتی جانتا ہے کہ اصل حقیقت اشراک اور بت پرستی کے عقائد سے بالاتر ہے، تاہم یہ جاننے پر بھی وہ بت پرستی کا منکرو مخالف نہیں ہو جاتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پسماندگان راہ کے لئے یہ بھی ایک ابتدائی منزل ہوئی اور  راہرو کوئی راہ اختیار کرے، مگر مقصود و اصلی ہر حال میں سب ایک ہی ہے۔

خواہ از طریق میکدہ خواہ از راہ حرم

از ہر جہت کہ شاد سوی فتح باب گیر

(کسی میکدہ کی طرف سے یا حرم پاک کی طرف سے، جس راستے سے تیرا دل چاہے اور تو خوش ہووے تو اسی پر چلا کر۔)

چنانچہ چند سال ہوئے پروفیسر سی۔ای۔ام۔جوڈ (Joad) نے ہندوستان کے تاریخی خصائص پر نظر ڈالتے ہوئے اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں جگہ دی تھی اور اس سے پہلے دوسرے اہل قلم بھی اس پہلو پر زور دے چکے ہیں۔

ہمیں چاہئے معاملے کے اس پہلو پر بھی نظر ڈال لیں۔ہندو رواداری بلاشبہ فکر و عمل کی اس روادارانہ سوچ کا جو ہندوستانی تاریخ میں برابر ابھرتی رہی ہے، ہمیں اعتراف کرنا چاہئے۔لیکن معاملہ صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہو جاتا، زندگی کے حقائق کے تقاضوں کا یہاں کچھ عجب حال ہے، یہاں ہم کسی ایک گوشے ہی کے ہو کر نہیں رہ سکتے، دوسرے گوشوں کی خبر بھی رکھنی پڑتی ہے۔اور فکر و عمل کی ہر راہ اتنی دور چلی گئی ہے کہ کہیں نہ کہیں جا کر حد بندی کی لکیریں کھینچنی پڑتی ہیں۔اگر ایسا نہ کریں تو علم و اخلاق کے تمام احکام متزلزل ہو جائیں اور اخلاقی اقدار کی کوئی مستقل حیثیت باقی نہ رہے۔رواداری یقیناً ایک خوبی کی بات ہے، لیکن ساتھ ہی عقیدے کی مضبوطی، رائے کی پختگی اور فکر کی استقامت کی خوبیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا،  پس یہاں کوئی نہ کوئی حد بندی کا خط ضرور ہونا چاہئے جو تمام خوبیوں کو اپنی جگہ رکھے۔اخلاق کے تمام احکام انہیں حد بندیوں کے خطوط سے بنتے اور ابھرتے ہیں۔جوں ہی یہ ہلنے لگتے ہیں، اخلاق کی پوری دیوار ہل جاتی ہے۔عفو  و درگذر بڑی ہی خوبی کی بات ہے۔ لیکن یہی عفو و در گذر جب اپنی حد بندی کے خط سے آگے بڑھ جاتا ہے تو عفو و درگذر نہیں رہتا، اسے بزدلی اور بے ہمتی کے نام سے پکارے لگتے ہیں، شجاعت انسانی سیرت کا سب سے بڑا وصف ہے۔ لیکن یہی وصف جب اپنی حد سے گذر جائے گا تو نہ صرف اس کا حکم ہی بدل جائے گا، بلکہ صورت بھی بدل جائے گی، اب اسے دیکھئے کہ وہ تو شجاعت نہیں ہے، قہر و غضب اور ظلم و تشدد کا شکار ہو گیا ہے۔

دو حالتیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں ہو سکتا۔ایک حالت یہ ہتے کہ کسی خاص اعتقاد اور عمل کی روشنی ہمارے سامنے آ گئی ہے اور ہم ایک خاص نتیجے پر پہنچ گئے ہیں، اب اس کی نسبت ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہئے، ہم اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں یا متزلزل رہیں ؟دوسری حالت یہ ہے کہ جس طرح ہم کسی خاص نتیجے پر پہنچے ہیں، اسی طرح ایک دوسرا شخص بھی ایک دوسرے نتیجے پر پہنچ گیا ہے، اور یہاں فکر و عمل کی ایک ہی راہ سب پر نہیں کھلتی۔اب ہمارا طرزِ عمل اس شخص کی نسبت کیا ہونا چاہئے ؟ہماری طرح اسے بھی اپنی راہ چلنے کا حق ہے یا نہیں ؟رواداری کا محل دوسری حالت ہے۔پہلی نہیں ہے، اگر پہلی حالت میں وہ آئے گی تو یہ رواداری نہ ہو گی، اعتقاد کی کمزوری اور یقین کا فقدان ہو گا۔

رواداری یہ ہے کہ اپنا حقِ اعتقاد و عمل کے ساتھ دوسرے کے حقِ اعتقاد و عمل کا بھی اعتراف کیجئے۔اور اگر دوسرے کی راہ آپ کو صریح غلط دکھائی دے رہی ہے، جب بھی اس کے حق سے انکار نہ کیجئے کہ وہ اپنی غلط راہ پر چل رہا ہے۔لیکن اگر رواداری کے حقوق یہاں تک بڑھا دئے گئے کہ وہ آپ کے عقیدوں میں بھی مداخلت کر سکتی ہے اور آپ کے فیصلوں کو بھی نرم کر سکتی ہے تا پھر یہ رواداری نہ ہوئی، استقامتِ فکر کی نفی ہو گئی۔

مفاہمت زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے اور ہماری زندگی ہی سر تا سر مفاہمت ہے، لیکن ہر راہ کی طرح یہاں بھی حد بندی کی لکیر کھینچنی پڑے گی، اور اس حد پر بھی جا کر لکیر کھینچی گئی، معاً عقیدہ پیدا ہو گیا۔ اب جب تک عقیدے کی تبدیلی کی کوئی روشنی نظر نہیں آتی، آپ مجبور ہیں کے اس پر جمے رہیں اور اس میں کانٹ چھانٹ نہ کریں۔آپ دوسروں کے عقائد کا احترام ضرور کریں گے۔ لیکن اپنے عقیدے کو بھی کمزوری کے حوالے نہیں ہونے دیں گے۔

کتنی ہی مصیبتیں ہیں جو اعتقاد و عمل کے تمام گوشوں میں اسی دروازے سے آئیں کہ ان دو مختلف حالتوں کا امتیازی خط اپنی جگہ سے ہل گیا، اگر اعتقاد کی مضبوطی آئی تو اتنی دور چلی گئی کہ تمام تقاضے بھلا دئے گئے اور دوسروں کے اعتقاد و  عمل میں  جبراً مداخلت کی جانے لگی۔ اگر رواداری آئی تو اس بے اعتدالی کے ساتھ آئی کہ استقامت فکر و رائے کے لئے کوئی جگہ نہ رہی، ہر عقیدہ لچک گیا، ہر عقیدہ ہلنے لگا۔پہلے بے اعتدالی کی مثالیں ہمیں ان مذہبی تنگ نظریوں اور سخت گیریوں میں ملتی ہیں جن کی خوں چکاں داستانوں سے تاریخ کے اوراق رنگین ہو چکے ہیں۔دوسری بے اعتدالی کی مثالیں ہمیں ہندوستان کی تاریخ مہیا کر دیتی ہے۔یہاں فکر و عقیدے کی کوئی بلندی بھی وہم و جہالت کی گراوٹ سے اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکی اور علم و عقل اور وہم و جہل میں ہمیشہ سمجھوتوں کا سلسلہ جاری رہا، ان سمجھوتوں نے ہندوستانی دماغ کی شکل و صورت بگاڑ دی۔اس کی فکری ترقیوں کا تمام حسن اصنامی عقیدوں اور وہم پرستیوں کے گرد و غبار میں چھپ گیا۔

زمانہ حال کے مورخوں نے اس صورت حال کا اعتراف کیا ہے۔ہمارے زمانے کا ایک قابل ہندو مصنف اس عہد کی فکری حالت پر نظر ڈالتے ہوئے جب آریائی تصورات ہندوستان کے مقامی مذاہب سے مخلوط ہونے لگے تھے، تسلیم کرتا ہے کہ”ہندو مذہب کی مخلوط نوعیت کی توضیح ہمیں اس صورت حال میں مل جاتی ہے۔صحرا نورد قبائل کے وحشیانہ توہمات سے لے کر اونچے سے اونچے درجے کے تہارس غور و خوض تک، ر درجے اور ہر دائرہ فکر کے خیالات یہاں باہم دگر ملتے اور مخلوط ہوتے رہے۔آریائی مذہب اول روز سے کشادہ دل، خوددار اور روادار تھا۔وہ جب کبھی کسی نئے موثر سے دوچار ہوا تو خود سمٹتا گیا اور جگہیں نکالتا رہا۔اس کی اس مزاجی حالت میں ہم ایک سچے انکسار طبع اور ہمدردانہ مفاہمت کا شائستہ رجحان محسوس کرتے ہیں۔ہندو دماغ اس کے لئے تیار نہیں ہوا کہ نچلے درجے کے مذہبوں کو نظر انداز کر دے یا تو لڑ کر ان کی ہستی مٹا دے۔اس کے اندر ایک مذہبی مجنوں کا غرور نہیں تھا کہ صرف اسی کا مذہب سچا مذہب ہے۔اگر انسانوں کے ایک گروہ کو کسی ایک معبود کی پرستش اس کے طور طریقے پر تسکین قلب مہیا کر دیتی ہے تو تسلیم کر لینا چاہئے کہ یہ بھی سچائی کی ایک راہ ہے۔مکمل سچائی پر کوئی بہ یک دفعہ قابض نہیں ہو سکتا۔صرف بتدریج او بہ تفریق ہی حاصل کی جا سکتی ہے اور یہاں ابتدائی اور عارضی درجوں کو بھی ان کی ایک جگہ دینی پڑتی ہے۔ہندو دماغ نے رواداری اور باہمی مفاہمتوں کی یہ راہ اختیار کر لی، لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں جب رواداری کی جگہ نا رواداری ایک فضیلت کا حکم پیدا کر لیتی ہے، اور مذہبی معاملات میں بھی گریشم (۱۰۳ ) کے قانون کی طرح کا ایک  قانون  کام کرتا رہتا ہے۔جب آریائی اور غیر آریائی مذاہب باہم دگر ملے، ایک شائستہ اور دوسرا ناشائستہ، ایک اچھی قسم کا دوسرا نکما۔و غیر شائستہ اور نکمے اجزا میں قدرتی طور پر میلان پیدا ہو گیا کہ شائستہ اور اچھے اجزاء کو  دبا کر معطل کر  دے "(۱۰۴)

بہر حال قرآن کے تصور الٰہی کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے کسی طرح کی اعتقادی مفاہمت اس بارے میں جاتری نہیں رکھی۔وہ اپنے توحیدی اور تنزیہی تصور میں سر تا سر بے میل اور بے لچک رہا۔اس کی یہ مضبوط جگہ کسی طرح بھی ہمیں روادارانہ طرز عمل سے روکنا نہیں چاہتی، البتہ اعتقادی مفاہمتوں کے تمام دروازے بند کر دیتی ہے۔

خامساً،  قرآن نے تصور الٰہی کی بنیاد انسان کے عالم گیر وجدانی احساس پر رکھی ہے۔یہ نہیں کیا ہے کہ اسے نظر و فکر کی کاوشوں کا ایک معمہ بنا دیا ہو جسے کسی خاص طبقے کا ذہن ہی حل کر سکے ہے۔انسان کا عالم گیر وجدانی احساس کیا ہے ؟ یہ کہ کائنات ہستی خود بخود پیدا نہیں ہو گئی،  پیدا کی گئی ہے اور اس کے لیئے ضروری ہے کہ ایک صانع ہستی موجود ہو۔پس قرآن بھی اس بارے میں عام طور پر جو کچھ بتلاتا ہے،  وہ اتنا ہی کاہی ہے۔ اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ مذہبی عقیدے کا معاملہ نہیں ہے۔ انفرادی اور ذاتی تجربے و احوال کا معاملہ ہے۔اس لیے وہ اس کا بوجھ جماعت کے افکار پر نہیں ڈالتا، اسے اصحاب جہد و طلب کے لئے چھوڑ دیتا ہے :

وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ(۷۹:۲۹)

اور جو لوگ ہم تک پہنچنے کے لیے کشش کرینگے تو ہم بھی ضرور ان پر راہ کھول دیں گے۔اور اللہ نیک کرداروں سے الگ کب ہے ؟وہ تو ان کے ساتھ ہے۔

اور ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں، زمین میں کتنی حقیقت کی نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے اندر بھی،  پھر تم دیکھتے نہیں ؟

سادساً، اسی مقام سے وہ فرق مراتب بھی نمایاں ہو جاتا ہے جو اسلام نے بالکل ایک دوسری شکل و نوعیت میں، عوام و خواص کا ملحوظ رکھا ہے۔ہندو مفکروں نے عوام اور خواص میں الگ الگ تصور اور عقیدے تقسیم کیے۔اسلام نے تصور اور عقیدے کے اعتبار سے کوئی امتیاز جائز نہیں رکھا۔وہ حقیقت کا ایک ہی عقیدہ ہر انسان کے دل و دماغ کے آگے پیش کرتا ہے۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ طلب و جہد کے لحاظ سے سب کے مراتب یکساں نہیں ہو سکتے اور یہاں ایک ہی درجے کی پیاس لے کر ہر طالب حقیقت نہیں آتا۔عامۃ الناس بہ حیثیت جماعت کا اپنا ایک خاص مزاج اور اپنی ایک خاص احتیاج رکھتے ہیں۔خاص افراد بہ حیثیت فرد کے اپنی طلب و استعداد کا الگ الگ درج و مقام رکھتے ہیں۔پس اس نے جس امتیاز سے پہلی صورت میں انکار کر دیا تھا، اس سے دوسری صورت میں انکار نہیں کیا اور مختلف مدارج طلب کے لیے عرفان و یقین کی مختلف راہیں کھلی چھوڑ دیں۔

صحیح بخاری اور مسلم کی ایک متفق علیہ روایت میں جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے، نہایت جامع و مانع لفظوں میں فرق مراتب واضع کر دیا گیا ہے۔یہ حدیث تین مرتبوں کا ذکر کرتی ہے :اسلام، ایمان اور احسان۔اسلام یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کا اقرار کرنا اور عمل کے چاروں رکن یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ انجام دینا۔ایمان یہ ہے کہ اقرار کے مرتبے سے آگے بڑھنا اور اسلام کے بنیادی عقائد کے حق الیقین کا مرتبہ حاصل کرنا۔احسان یہ ہے :

ان تعبد اللہ کانک تراہ،  فان لم تکن تراہ فانہ یراک(صحیحین)

"تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے گویا اسے اپنے سامنے دیکھ رہا ہے، اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔”

پس گویا عرفان حقیقت کے لحاظ سے یہاں تین مرتبے ہوئے :

پہلا مرتبہ اسلامی دائرے کے اعتقاد و عمل کا ہے، یہ اسلام ہے، یعنی جس نے اسلامی عقیدے کا اقرار کر لیا اور اس کے اعمال کی زندگی اختیار کر لی،  وہ اس دائرے میں آ گیا۔لیکن دائرے میں داخل ہو جانے سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ علم و یقین کے جو مقامات ہیں وہ بھی ہر وارد و داخل کو حاصل ہو گئے۔پس دوسرا مرتبہ نمایاں ہوا جسے ایمان سے تعبیر کیا ہے۔ اسلام ظاہر کا اقرار و عمل تھا، ایمان دل و دماغ کا یقین و اذان ہے۔ یہ مرتبہ جس نے حاصل کر لیا وہ عوام سے نکل کر خواص کے زمرے میں داخل ہو گیا۔لیکن معاملہ اتنے ہی پر ختم نہیں ہو جاتا، عرفان حقیقت اور عین ان الیقینی ایقان کا ایک اور مرتبہ بھی باقی رہ جاتا ہے، اسے احسان سے تعبیر کیا گیا لیکن یہ مقام محض اعتقاد اور یقین پیدا کر لینے کا نہیں ہے، جو ایک گروہ بہ حیثیت گروہ کے حاصل ہو جا سکتا ہے۔یہ ذاتی تجربے کا مقام ہے۔جو یہاں تک پہنچتا ہے وہ اپنے ذاتی تجربے و کشف سے یہ درجہ حاصل کر لیتا ہے۔تعلیمی اور احکامی عقائد کو اس میں دخل نہیں، بحث و نظر کی اس میں گنجائش نہیں، یہ خود کرنے اور پانے کا معاملہ ہے، وہ اگر کچھ بتلائے گا کہ میری طرح بن جاؤ، پھر جو کچھ دکھائی دیتا ہے دیکھ لو۔

پرسیدپکی کہ عاشق چیست

گفتم کہ چومن شوی بدانی

(ایک شخص نے پوچھا’ عاشق کیا ہے "میں نے کہا کہ کچھ بھی نہیں بس میری طرح بن جاؤ گے تو سب معلوم ہو جائے گا)

اسلام نے اس طرح طلب و جہد کی ہر پیاس کے لیے درجہ بدرجہ سیرابی کا سامان کر دیا۔عوام کے لیے پہلا مرتبہ کافی ہے۔خواص کے لئے دوسرا مرتبہ ضروری ہے اور خاص الخواص کی پیاس بغیر تیسرے جام کی تسکین پانے والی نہیں۔ اس کے تصور الٰہی اور عقیدے کا میخانہ ایک ہے۔ لیکن جام الگ الگ ہے۔ ہر طالب کے حصے میں اس کے ظرف کے مطابق ایک جام آ جاتا ہے اور اس کی سرشاری کی کیفیتیں مہیا کر دیتا ہے۔ واللہ درمن قال:

ساقی بہ ہمہ بادہ زیک خم دھد اما

درجس او مستی ہر کس زشرابی ست

یہاں یہ امر بھی واضع کر دینا بے محل نہ ہو گا کہ قرآن کی متعدد تصریحات ہیں جنہیں اگر وحدۃ الوجود کی طرف لے جایا جائے تو بلا تکلف دور تک جا سکتی ہیں۔مثلاً

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ(۳:۵۷)

فَأَیْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ(۱۱۵:۲)

وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ(۱۷:۵۰)

كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِی شَأْنٍ(۲۹:۵۵)

یا تمام اس طرح کی تصریحات جن میں موجودات کا بالآخر اللہ کی طرف لوٹنا بیان کیا گیا ہے۔توحید وجودی کے قائل ان تمام آیات سے مسئلہ وحدت الوجود پر استدلال کرتے ہیں۔اور شاہ ولی اللہ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ۔”اگر میں مسئلہ وحدۃ الوجود کو ثابت کرنا چاہوں تو قران کے تمام نصوص و ظواہر سے اس کا اثبات کر سکتا ہوں "لیکن صاف بات جو اس بارے میں ظاہر ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ ان تمام تصریحات کو ان کے قریبی محامل سے دور نہیں لے جانا چاہئے اور ان معانی سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے جو صدر اول کے مخاطبوں نے سمجھے تھے، باقی رہا حقیقت کے کشف و عرفان کا و مقام جو عرفاء طریق کو پیش آتا ہے تو وہ کسی بھی طرح قرآن کے تصور الٰہی کے خلاف نہیں اس کا تصور ایک جامع تصور ہے اور ہر توحیدی کی اس میں گنجائش موجود ہے، جو افرادِ خاصہ، مقامِ احسان تک رسائی حاصل کرتے ہیں، وہ حقیقت کو اس کے پس پردہ جلوہ طرازیوں میں بھی دیکھ لیتے ہیں اور عرفاں کا وہ منتہیٰ مرتبہ جو فکر انسانی کے دسترس میں ہے، انہیں حاصل ہو جاتا ہے۔ومن لم یذق لم یدر:

تو نظر بازنہَ ورنہ تغافل نگہ است

تو زبان فہم نہَورنہ خموشی سخن است

سابعاً جس ترتیب کے ساتھ سورۃ فاتحہ میں تینوں صفتیں بیان کی گئی ہیں، دراصل فکر انسانی کی طلب و معرفت کی قدرتی منزلیں ہیں اور اگر غور کیا جائے تو اسی ترتیب سے پیش آتی ہیں۔سب سے پہلے ربوبیت کا ذکر کیا گیا، یوں کہ کائنات ہستی میں سب سے زیادہ ظاہر نمود اسی صفت کی ہے ہر وجود کو سب زیادہ اسی کی احتیاج ہے۔ ربوبیت کے بعد رحمت کا ذکر کیا گیا کیونکہ ا سکی حقیقت بہ مقابلے ربوبیت کے مطالعے و تفکر کی محتاج تھی اور ربوبیت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تب رحمت کا جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ پھر رحمت کے بعد عدالت کی صفت جلوہ افروز ہوئی کیونکہ یہ سفر کی آخری منزل ہے۔رحمت کے مشاہدات سے جب قدم آگے بڑھاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہاں عدالت کی نمود بھی ہر جگہ موجود ہے اور اس لئے موجود ہے کہ ربوبیت اور رحمت کا مقتضیٰ یہی ہے۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید