فہرست مضامین
رشتے ناطے
(ناول)
ڈاکٹر سلیم خان
پس جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے
(القرآن)
سامنے رہ کر نہ ہونا مسئلہ میرا بھی ہے
اس کہانی میں اضافی تذکرہ میرا بھی ہے
ایک گم کردہ گلی میں ایک نا موجود گھر
کوچۂ عشاق میں عاصم پتہ میرا بھی ہے
(عاصم واسطی)
انتساب
ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی
کے نام
کہ جب بھی ان سے ملاقات ہو تی ہے
کوئی انوکھا کردار ہاتھ آ جاتا ہے
یا
کوئی نئی کہانی ساتھ آ جاتی ہے
۱
ننھی ایوان کو اس کی نانی اپنی پردادی گولڈا کی کہانی سنا رہی تھی۔ گولڈا نہایت خوبصورت اور خودسر تھی۔ اس کے حسن و شباب پر شہزادہ چارلس کچھ اس طرح فریفتہ ہوا کہ بالآخر شادی ہو کر رہی۔ گولڈا کے والد دقیانوسی خیالات کے حامل یہودی تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی شادی کے بعدعیسائی گھرانے میں جائے مگر چونکہ رشتہ شاہی خاندان سے آیا تھا اس لئے انکار کی جرأت ان کے اندر نہیں تھی۔ انہوں نے رشتے کو قبول تو کیا لیکن شادی کی خاطر اس خیال سے کچھ نامعقول شرائط رکھیں کہ بادشاہ انکار کر دے۔ شہزادہ چارلس کی ضد کے آگے کسی کی ایک نہ چلی۔ اس کے والدین نے اپنے بیٹے کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ منظور کر لیا۔ گولڈا کا باپ بادشاہ کے مصاحبین میں شامل کر لیا گیا۔ وزارتِ خزانہ کا قلمدان اسے سونپ دیا گیا اس کے عوض پرنس چارلس نے دنیا کا سب سے بیش قیمت گنجینۂ حیات اپنے قبضے میں کر لیا۔اس طرح گولڈاہاسبرگ کو پولینڈ کی اولین یہودی النسل شہزادی بن جانے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔
ایوان یہ سن کر تالیاں بجانے لگی۔ اس کی نانی بولی بیٹی کافی رات ہو چکی ہے اب سو جاؤ باقی کہانی کل سناؤں گی۔ ایوان بولی نہیں نانی امیّ میں تو پوری کہانی آج ہی سنوں گی۔ نانی نے کہا ضد نہ کرو ساری کہانی آج سن لو گی تو کل کیا سنو گی؟ کل ! کل پھر یہی کہانی سنوں گی۔ ایوان کی نانی کو ہنسی آ گئی وہ بولی اچھا کل پھر یہی سنو گی ؟ جی ہاں کل پھر سنوں گی اس میں کیا حرج ہے ؟نانی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اس ننھی شیطان کو کیسے سمجھائے وہ بولی بیٹی انسان ایک ہی کہانی ہر روز کیسے سن سکتا ہے ؟ ایوان بولی کیوں نہیں آپ مجھے ہر روز سونے سے قبل ایک جیسا دودھ پلا دیتی ہیں۔اسی طرح ایک جیسی کہانی سنا دیا کیجئے۔
نانی زچ ہو گئی وہ بولی بیٹی رات ختم ہو جائے گی لیکن کہانی پوری نہیں ہو گی اس لئے اب تم سو جاؤ۔ ایوان بولی نانی یہ کیسی کہانی ہے جو رات سے زیادہ طویل ہے ؟ نانی بولی بیٹی یہ زندگی کی کہانی ہے جسے قسطوں میں جیا جاتا ہے۔ زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کی کہانی پھر بھی ادھوری ہی رہ جاتی ہے۔ اب دیکھو تمہیں نیند آ رہی ہے اس لئے تم سو جاؤ۔ جی نہیں مجھے نیند نہیں آ رہی۔ میں کہانی سنوں گی۔ دیکھو بیٹی اگر تمہیں نہیں تو مجھے نیند آ رہی ہے اس لئے میں کہانی نہیں سناتی بلکہ سو جاتی ہوں اس لئے ایسا کرو کہ تم بھی سو جاؤ۔ایوان کی نانی سوگئی تو اس کے سینے پر سر رکھ کر ایوان بھی نیند کی آغوش میں کھو گئی۔
اگلی رات ایوان کی نانی نے دانستہ اپنی پردادی کے بجائے پریوں کی کہانی چھیڑی تو ایوان نے اسے روک دیا وہ بولی نانی امیّ گولڈا نانی کی کہانی میں یہ پریاں کہاں سے آ گئیں۔ نانی بولی یہ دوسری کہانی ہے پریوں کی اور جادوگر کی کہانی۔ ایوان بولی مجھے پریوں اور جادوگر کی کہانی نہیں چاہئے میں تو اپنی گولڈا نانی کہانی سنوں گی۔ نانی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر اس لڑکی کو میری پردادی اس قدر دلچسپی کیوں ہے جبکہ اس کی ماں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی نواسی اپنی پردادی کے بارے میں اپنی ماں سے زیادہ جانتی تھی۔ نانی نے سوچا اس بار کوئی ایسا واقعہ سنایا جائے جس سے اس بچی کی دلچسپی ختم ہو جائے۔ وہ بولی بیٹی ایوان میری پردادی بھی تمہاری طرح بہت ضدی اور غصیل تھی۔
ایوان بولی تب تو بہت اچھا ہے میں بھی ان کی طرح شہزادی بنوں گی۔ نانی نے کہا بیٹی اب نہ بادشاہ ہے اور نہ محل۔اس لئے نہ شہزادہ ہے اور نہ شہزادی۔ اچھا تو وہ سب کہاں چلے گئے۔ ننھی معصوم نے سوال کر کے اپنی نانی کو مشکل میں ڈال دیا۔ نانی بولی کہیں گئے نہیں وہ لوگ اب بھی موجود ہیں لیکن حکومت چلی گئی۔ اب ہمارے ملک میں ہر کوئی بادشاہ ہے اس لئے کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ننھی ایوان نے کہا نانی امیّ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیک وقت ہر کوئی بادشاہ بھی ہو اور کوئی بادشاہ بھی نہیں ہو؟ یہی تو بات ہے بیٹی کہ جب بادشاہت کا تاج ہر کسی کے سرپر ہو تو وہ تاج نہیں ہوتا اور جب کو ئی سرتاج نہیں ہوتا تو سارے بے تاج ہوتے ہیں۔ ایوان بولی نانی امیّ آپ نے پھر کوئی اور ہی قصہ چھیڑ دیا۔ نانی بولی میں معذرت چاہتی ہوں میری ننھی شہزادی اب تم سنو میری پردادی کی کہانی۔ ایوان بولی یہ ٹھیک ہے شکریہ۔ ایوان کی تائید کا انداز بالکل شاہانہ عین اپنی نانی کی پردادی جیسا تھا۔
نانی بولی بیٹی میری پردادی گولڈا جب بھی شاہی سلامی لینے کیلئے جاتی تو کسی فوجی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ اس کی جانب نظر اٹھا کر دیکھے۔ سارے فوجیوں کی نگاہیں سرخ قالین پر گڑی ہوئی ہوتی تھیں وہ صرف اور صرف گولڈا کے سفید موزوں میں لپٹے ہوئے پیر دیکھنے کے مجاز تھے۔ ایک روز گولڈا نے ایک نئے قسم کی عطر کا استعمال کیا جو بہت تیز تھا۔ گولڈا جیسے ہی اپنے گھوڑوں کی بگھی سے اتری ساری فضا معطر ہو گئی۔فوجیوں کے قلب و ذہن دلفریب خوشبو کے حسین جھونکے سے جھوم اٹھے لیکن اس کے باوجود کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ نظر اٹھا کر دیکھے۔ گولڈا کے قدم جس فوجی کے سامنے آتے اس کا ہاتھ سلامی کیلئے اٹھ جاتا اور اس کے آگے بڑھ جانے کے بعد پھر سے گر جاتا۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک زور دار طمانچے کی آواز فضا میں گونجی۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ کیا ہوا مگر سب سمجھ گئے کہ کیا ہوا ؟ ایک گستاخ فوجی کی نگاہ گولڈا کی کمر تک اٹھی اور پھر زمین میں گڑ گئی۔
نانی خاموش ہو گئی۔ ایوان نے پوچھا نانی آپ چپ کیوں ہو گئیں۔ مجھے بتائیے کہ آگے کیا ہوا ؟ آگے ! آگے تو بس یہ ہوا کہ نانی نے سرد آہ بھر کے کہادوسرے دن ایک فوجی کو پھانسی پر لٹکا کر نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ نانی اداس ہو گئی تھی لیکن ننھی ایوان کی حالت یکسر مختلف تھی۔ اس نے خوشی سے کلکاریاں مارتے ہوئے چلاّ کر کہا بہت خوب، بہت خوب یہ بہت اچھا ہوا۔ اس کے بعد ننھی ایوان نے سوال کیا نانی ایک بات پوچھوں ؟ ضرور پوچھو نانی سوچ رہی تھی کہ ایوان سوال کرے گی اس فوجی کو اتنی کڑی سزا کیوں دی گئی۔ وہ من ہی من میں اس سوال کا جواب تلاش کر رہی تھی اور اپنے آپ کوکوس رہی تھی کہ اسے یہ سفاک واقعہ سنانے کی ضرورت کیا تھی لیکن ایوان کا سوال یکسر مختلف تھا اس نے پوچھا نانی امیّ اس گستاخ فوجی کو اگلے دن تک زندہ رہنے کی مہلت کیوں دی گئی؟ نانی لاجواب ہو گئی تھی اس کے پاس اس غیر متوقع سوال کا کوئی جواب نہیں تھا وہ بولی سو جاؤ بیٹی مجھے نیند آ رہی ہے اگر زندگی نے ساتھ دیا تو میں تمہارے سوال کا جواب کل دوں گی۔ نانی کو ایسا لگا کہ ایوان نے اسے سولی چڑھا دیا۔
ایوان نے اپنی نانی سے گولڈا کی کہانی نہ جانے کتنی بار سنی تھی لیکن اس کا دل بھرتا ہی نہیں تھا۔ وہ بار بار اسی کے سنانے کا اصرار کرتی اور نانی مجبور ہو کر اسے دوہرا دیتی لیکن ایوان کی نانی نہیں جانتی تھی کہ نادانستہ طور پر اس نے ایوان کے تحت الشعور پر گولڈا کو سوار کر دیا تھا۔ نانی کا خیال تھا بچپن کی یہ کہانی محض وقت گزاری کا سامان ہے جبکہ ہو یہ رہا تھا کہ اس کہانی کے ذریعہ ایوان کی نفسیات ایک خاص سانچے میں ڈھل رہی تھی۔ اس کی تربیت مخصوص انداز میں ہو رہی تھی۔ اس کے غور و فکر کا انداز متاثر ہو رہا تھا اس کے رہن سہن اور نشست و برخواست پر اس کے اثرات پڑ رہے تھے۔ اس کا میل جول اور رویہ اپنے ہمعصروں میں سب سے جداگانہ ہو گیا تھا۔اس کے نزدیک گولڈا کی ساری مثبت و منفی اقدار قابلِ قدروستائش بن گئی تھیں اور وہ اپنے آپ کو گولڈا کا جانشین سمجھنے لگی تھی اس کی شخصیت گولڈا کا عکس بن چکی تھی۔
ایوان کی عمر کے دیگر بچے سوتے زیادہ تھے ، کھیلتے کم تھے اور سوچتے بالکل نہیں تھے اس کے برعکس ایوان بہت زیادہ سوچتی تھی، کھیلتی کم تھی اور سوتی بہت ہی کم تھی۔ اس کو مصروف رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوا کرتا تھا۔ وہ یا تو کھیل رہی ہوتی یا کچھ پوچھ رہی ہوتی۔اس کے سوالات سے تنگ آ کر لوگ اسے کسی نہ کسی کام میں مصروف کر دیا کرتے تھے۔ گھر کے اندر جب بھی کسی شہ کے ٹوٹنے کی آواز آتی سب سے پہلے لوگوں کو ایوان کا خیال آتا۔جو کچھ اسے اچھا لگتا تھا اس کو انجام کی پرواہ کئے بغیر کر گزرنا اس کا بہترین مشغلہ تھا ایوان اپنی تخریب کاری کیلئے معروف تو ہو گئی تھی لیکن اسے اس کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ایوان کو اپنی بات منوانے کا جنون تھا۔ ایوان کی ماں اس کے اس رویے سے پریشان ہو جاتی تھی اور اس کیلئے اپنی ماں کے لاڈ پیار کو ذمہ دار ٹھہراتی تھی حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ یہ ایک بہت بڑا مشترکہ خاندان تھا جس میں ایوان کی نانی کے تقریباً ۲۵ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں موجود تھے۔ وہ ان سب سے یکساں محبت کرتی تھی لیکن ایوان کی اٹھان ان سب سے نرالی تھی۔
۲
ایوان کے والد سائمن کافی سنجیدہ اور متین طبیعت کے انسان تھے لیکن انہیں ایوان کی تربیت کرنے کا موقع سرے سے ملا ہی نہیں۔ ان کی پیدائش ایک اشتراکی خاندان میں ہوئی تھی جسے اپنے آبائی دین عیسائیت سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ لادینیت کے ماحول میں پرورش پانے والے سائمن نے اول اپنے قصبے کے سرکاری اسکول میں ملازمت حاصل کی اور پھر اپنے خاندان سے بغاوت کر کے سوزان نامی یہودی استانی سے نکاح کر لیا۔ اسے یقین تھا کہ والدین اس حرکت کا خیال نہیں کریں گے لیکن جب اس کے والدین کو پتہ چلا کہ سوزان یہودی ہے تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ سائمن کیلئے یہ سب غیر متوقع تھا۔ اس کیلئے سوزان کو چھوڑنا ممکن نہیں تھا اس لئے کہ وہ اس کے نکاح میں آ چکی تھی با دلِ ناخواستہ سائمن نے اپنے خاندان سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور گھر داماد بن گیا۔
شادی کے بعد سوزان نے بچوں کی خاطر ملازمت ترک کر دی لیکن چند سالوں کے اندر وہ کثیر العیال ہو گئے جس کے سبب سوزان کو دوبارہ ملازمت کرنی پڑی۔ اس بیچ سائمن کے بچوں کی تربیت ایک یہودی خاندان میں اس طرح ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو یہودی سمجھنے لگے۔ سائمن کیلئے دونوں مذاہب افیون کی مانند تھے اس لئے اس کواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اس کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساری دنیا اشتراکی نظرئیے کو اپنا لے گی اور مذہب کا نام و نشان صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا لیکن اس دوران جرمنی میں ہٹلر کی حکومت قائم ہوئی اور اس نے ساری دنیا کو فتح کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر پولینڈ پر حملہ کر دیا۔
ہٹلر کی جنگ قومیت کی بنیاد پر تھی اور اس نے اپنے ہم مذاہب عیسائیوں کو یہودیوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر متحد کیا تھا۔ ہٹلر کی نازی فوجیں جب سائمن کے قصبے میں داخل ہوئیں تو انہوں نے قتل عام شروع کر دیا۔وہ ایک ایک یہودی خاندان کو چن چن کر تہہ تیغ کرنے لگے۔سائمن کی سسرال چونکہ علاقے کا مشہور یہودی گھرانہ تھا اس لئے انہیں راہِ فرار اختیار کرنا پڑا۔ سائمن کو بھی خوف لاحق ہو گیا کہ مبادا اسے بھی یہودی سمجھ کر قتل نہ کر دیا جائے اس لئے وہ بھی اپنی سسرال والوں کے ساتھ سلواکیہ کے علاقے میں پہنچ گیا اور وہاں جانے کے بعد اس نے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو عیسائی شناخت عطا کر دی مجبوراً سارے لوگوں نے با دلِ ناخواستہ اس نئی مذہبی پہچان کو قبول کر لیا۔ ایوان کی ابتدائی تعلیم سلواکیہ میں ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ لوگ پولینڈ کے ایک اور شہر میں واپس آ گئے لیکن ایک عرصے تک اپنے تشخص کو پوشیدہ رکھا۔ اس بیچ ایوان نے اپنی تعلیم مکمل کر لی اور کپڑوں کی ڈیزائنر بن گئی۔ اس کی بوڑھی نانی نے جب دیکھا کہ حالات سازگار ہو گئے ہیں اور اس کی موت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ تو اس نے اپنے آبائی مذہب کی جانب رجعت کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا خاتمہ یہودیت پر ہو اس کی آخری رسومات اپنے آبائی دین کے مطابق ادا کئے جائیں۔اس کام کیلئے سب سے پہلے اس نے اپنی بیٹی سوزان کو اس کیلئے تیار کیا اور اسے سمجھایا کہ وہ ارضِ مقدس اسرائیل میں مرنا چاہتی ہے اس لئے سائمن کو وہ اس بات پر تیار کرے کہ اسرائیل ہجرت کی جائے۔
پولینڈ کی معاشی حالت اچھی نہیں تھی اور اسرائیل کے بارے میں سبز باغ دکھلائے جا رہے تھے اس لئے صہیونی پروپگنڈہ سے متاثر ہو کر سائمن اسرائیل جانے کیلئے تیار ہو گیا لیکن اس موقع پر ایوان نے تنازع کھڑا کر دیا۔ وہ بولی میں کسی اجنبی ملک میں جا کراپنامستقبل داؤں پر لگانا نہیں چاہتی اور میرے لئے عیسائیت یا یہودیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سائمن کا دل اپنی بیٹی کی بات سن کر خوش ہو گیا لیکن اپنی بیوی کے آگے اس کی ایک نہ چلی اور اسے اسرائیل جانے پر مجبور ہونا پڑا لیکن ہجرت سے پہلے سوزان نے ایوان کا نکاح ایک یہودی نوجوان جوناتھن سے کر دیا۔سوزان اور اس کی ماں کو خوف تھا کہ کہیں ایوان جیسی بدعقیدہ لڑکی کسی عیسائی نوجوان سے شادی کر کے اپنے مذہب سے منحرف نہ ہو جائے۔
جوناتھن زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا مگر خاصہ دیندار انسان تھا۔ وہ ہر ہفتے اپنے کنیسہ میں ضرور جاتا اور مذہبی رسوم و رواج کی ادائیگی میں پیش پیش رہتا۔ جوناتھن شہر کے گیرج میں گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتا تھا جس سے اس کا اور اس کے خاندان کا کسی طرح گزر بسر ہو جاتا تھا۔ جب سائمن اور سوزان اپنا گھر بار بیچ کر اسرائیل کی جانب روانہ ہونے لگے تو وراثت تقسیم کر دی گئی۔ سائمن نے اپنا اور اپنی بیٹی ایوان کا حصہ ملا کر شہر کے مضافات میں ایک چھوٹا سا مکان خریدا اور ایوان سے کہا بیٹی اگر میرے بس میں ہوتا تو میں تمہیں چھوڑ کر کبھی بھی پر دیس نہ جاتا لیکن میں مجبور ہوں۔ یہ میرا اور تمہارا مشترکہ گھر ہے اگر زندگی نے موقع دیا تو میں لوٹ کر واپس آؤں گا اور تمہارے ساتھ زندگی کے آخری لمحات گزاروں گا اس لئے کہ میرے نظرئیے اور فکر کا حامل اس خاندان میں تمہارے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ اپنے والد سے یہ الفاظ سن کر ایوان بھی جذباتی ہو گئی۔ وہ اپنے والد سے لپٹ کر بہت روئی اور انہیں الوداع کیا۔
سائمن کے چلے جانے کے بعد ایوان نے جوناتھن سے کہا کہ اب وہ اس کے اہلِ خانہ کے ساتھ نہیں رہ سکتی اس لئے اس کی خاطر علاحدہ رہائش کا انتظام کیا جائے۔ جوناتھن کی محدود آمدنی کے پیشِ نظر یہ ناممکن تھا۔یوں تو ایوان بھی برسرِ ملازمت تھی لیکن ان دونوں کی آمدنی بھی اتنی نہیں تھی کہ وہ اپنا ذاتی مکان خرید سکیں یا کرائے پر لے سکیں۔ جوناتھن پر اپنے والدین کی بھی ذمہ داری تھی۔ والد کی پنشن اس قدر کم تھی کہ ان کا گزارہ نہ ہو سکتا تھا اس لئے سب ایک دوسرے کے تعاون و اشتراک سے دن کاٹ رہے تھے لیکن ایوان کی ضد نے نئے مسائل کھڑے کر دئیے تھے۔ ایوان کی دلیل یہ تھی کہ ان کے نوزائیدہ بچے بنجامن کی اچھی تربیت اس متحدہ خاندان میں نہ ہو سکے گی جبکہ جوناتھن کا کہنا تھا چونکہ وہ دونوں ملازمت کیلئے باہر جاتے ہیں اس لئے سب کے ساتھ رہنا نہ صرف ان دونوں کیلئے بلکہ بنجامن کے حق میں بھی بہتر ہے وہ اپنے دادا، دادی کی نگرانی میں محفوظ و مامون رہے گا۔
ایوان پر جوناتھن کی معقولیت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔اس نے ایک دن جوناتھن کو دھمکی دے دی کہ وہ آئندہ اتوار کو بنجامن کے ساتھ اپنے والد کے خالی مکان میں منتقل ہو رہی ہے۔ اب یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو اس کے ساتھ آئے یا وہیں اپنے والدین کے ساتھ رہ جائے۔ جوناتھن جانتا تھا ایوان کا فیصلہ کسی صورت نہیں بدلے گا اور وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر چلی جائے گی۔ جوناتھن کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ایوان خود کفیل تھی بلکہ معاشی اعتبار سے اے جوناتھن پر فوقیت حاصل تھی اس لئے وہ بے دریغ فیصلے کر ڈالتی تھی اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اگر بنجامن کا بندھن ان دونوں کے درمیان نہ ہوتا تو جوناتھن بھی کوئی کڑا فیصلہ لینے کی جرأت کرسکتا تھا مگر معصوم بچے کے مصائب کا خیال اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا۔ ایوان لاشعوری طور پر بنجامن کے ذریعہ جوناتھن کو بلیک میل کرنے لگی تھی اس کی خیر خواہی نے جوناتھن کو ایوان کے نامعقول مطالبات کے آگے سرِتسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ایوان اپنے باپ کی مانند مادہ پرست اقدار کی حامل تھی لیکن آرزو مند ی اور خودسری کے باب میں وہ اپنے والد سے یکسر مختلف تھی۔ مستقبل کے حوالے سے اس کے لمبے چوڑے منصوبے تھے لیکن وہ چاہتی تھی ان کے فوائد اس کے اپنے شوہر اور بیٹے تک محدود ہوں۔ اسی خود غرضی کے پیشِ نظر اس نے بنجامن کو اپنے سسرال والوں سے دور کرنے کا اقدام کیا تھا۔ ایوان کا ذہن اپنی نانی کی پردادی گولڈا کی مانند تحکمانہ تھا۔ اس کے آگے نہ تو اس کے والدین کی چلتی تھی اور نہ شوہرِ نامدار کی۔ گولڈاہاسبرگ کی حکومت تو ساری ریاست پر تھی لیکن ایوان کا دائرۂ کار گھر اور شوہر تک محدود تھا اس لئے سارا بخار بیچارے جوناتھن پر اترتا تھا۔ اپنے والدین کو چھوڑ کر جو ناتھن ا با دلِ ناخواستہ ایوان کے گھر کیا آیا کہ اس کی رہی سہی خود داری کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اب اس کی حیثیت ایک بندۂ بے دام سے زیادہ نہیں تھی۔ ایوان اپنے شوہر کا تھوڑا بہت خیال بنجامن کے سبب کر لیا کرتی تھی۔
۳
یوروپین یونین کے قیام اور پولینڈ کی اس میں شمولیت نے ایوان کے طرز فکر کو ایک نیا رخ دے دیا اور وہ اس سوال پر غور کرنے لگی کہ ان مواقع سے وہ کس طرح مستفید ہو سکتی ہے ؟ وہ اس بابت معلومات حاصل کرنے میں جٹ گئی اور دلچسپ انکشافات اس کے سامنے آنے لگے۔ایوان کو پتہ چلا کہ اب یوروپین یونین میں شامل ممالک کے باشندوں کی دنیا خاصی وسیع ہو چکی ہے۔ اب ان کیلئے اتحاد میں شامل تمام ہی ممالک میں باآسانی نقل و حرکت کرنے کی اور رہنے بسنے کی سہولیات مہیا ہو گئی ہیں۔ نہ صرف داخلے کی رکاوٹوں کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ ملازمت کی آسانیاں بھی ان کی منتظر ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ دیگر یوروپی ممالک میں طبی، تعلیمی اور روزگار کے حقوق سے بھی سرفراز ہو چکے ہیں۔ اس نئی صورتحال میں ایوان کیلئے پولینڈ جیسے پسماندہ ملک میں ٹکے رہنا بے حد مشکل ہو گیا۔اس نے جوناتھن کو اعتماد میں لئے بغیر یوروپ کی جانب ہجرت کرنے کا ارادہ کر لیا۔
ایوان چونکہ برسرِ روزگار تھی اور اس لئے اس نے رختِ سفر باندھنے سے قبل اس بات کی تفتیش کی کہ کس ملک میں اس ملازمت کے امکانات روشن ہیں۔ کہاں جا کر وہ اپنے فن کے جوہر دکھلا سکتی ہے اور معاشی حیثیت سے بلند مقام حاصل کرسکتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی ایسی صورتحال سے دوچار ہو جائے جو پولینڈسے بھی بدتر ہو اور اس کا فیصلہ نہ صرف اس کی اپنی ذات بلکہ ننھے بنجامن کیلئے وبالِ جان بن جائے۔ بڑے غور و خوض کے بعد ایوان اس نتیجے پر پہنچی کہ اسے برطانیہ کا رخ کرنا چاہئے۔ برطانیہ کے اندر مانچسٹر میں اب بھی کپڑے کی صنعت ترقی پر ہے اس لئے ایوان کو یقین تھا کہ اس جیسی قابل ڈیزائنر کی پذیرائی وہاں ضرور ہو گی۔ ویسے بھی اس نے برطانوی معاشرے سے متعلق بہت ساری اچھی باتیں سن رکھی تھیں۔ خاص طور پر ان کے حسنِ اخلاق اور وہاں قائم فلاحی ریاست کے سارے یوروپ میں بڑے چرچے تھے۔ ایوان کو یہ بھی پتہ چلا تھا کہ یہودیوں کے نسلی عصبیت کے معاملے میں بھی برطانیہ کی صورتحال دیگر یوروپی ممالک سے بہتر ہے۔
ایوان نے اپنے طور سے برطانیہ کے مختلف صنعتی اداروں کے ساتھ رابطے قائم کئے اور اس خط و کتابت کے نتیجے میں اسے چند ایک نے ملازمت کی یقین دہانی بھی کرا دی۔ ساری کارروائی مکمل ہو جانے کے بعد ایوان نے جوناتھن کو اپنے حتمی فیصلے کی اطلاع دی۔ جوناتھن یہ سن کر چکرا گیا اس نے پوچھا اگر وہ برطانیہ چلی جاتی ہے تو بنجامن کا کیا ہو گا ؟ ایوان کا جواب تھا پہلے مرحلے میں وہ تنہا جائے گی اس دوران جوناتھن اپنے بیٹے بنجامن کی دیکھ ریکھ کرے گا اور جب اس کے قدم پردیس میں جم جائیں گے تو وہ ان دونوں کو بھی اپنے پاس بلا لے گی۔ جوناتھن نے بڑی ہمت کر کے ایوان کے احکامات کے آگے سرِتسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ بولا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ اکیلے بنجامن کی پرورش نہیں کرسکتا۔
جوناتھن کا خیال تھا کہ اس طرح ایوان دباؤ میں آ جائے گی اور اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے گی لیکن جوناتھن کا تیر خطا ہو گیا۔جوناتھن کا جواب سن کر ایوان آپے سے باہر ہو گئی اور اس پر برس پڑی خوب سخت سست کہا لیکن اس کا جوناتھن پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔اسے یقین تھا بنجامن کی محبت ایوان کو اپنے سفر کا ارادہ ترک کرنے پر مجبور کر دے گی لیکن وہ اندازہ غلط نکلا۔ ایوان نے جوناتھن کو قائل کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے اور جب وہ سارے ناکام ہو گئے تو اعلان کر دیا کہ ننھے بنجامن کو بھی وہ اپنے ساتھ لے کر جائے گی لیکن رکے گی نہیں۔ جوناتھن اپنی بازی ہار چکا تھا۔ اب اس کے پاس بنجامن کو روکنے کوئی جواز نہیں تھا۔ اس صورتحال میں بنجامن کو اپنے پاس رکھنے کے معنیٰ نہ صرف اعترافِ شکست بلکہ اپنے سارے دلائل کی نفی ہوتا تھا اس لئے جوناتھن دل مسوس کر رہ گیا اور جس طرح سائمن نے اپنی بیٹی ایوان کو الوداع کہا تھا اسی طرح جوناتھن نے اپنے بیٹے بنجامنسے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ایوان نے یکے بعد دیگرے اپنے والدین، اپنے خاوند اور اپنے بیٹے کو ناراض کیا تھا لیکن اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ اس کیلئے اس کی اپنی ذات کل کائنات تھی۔ وہ سارے جہاں کو اپنا تابع و فرمانبردار تو بنانا چاہتی تھی لیکن کسی اطاعت کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ وہ دوسروں سے توقع کرتی تھی کہ وہ مصلحت کوشی سے کام لیں لیکن خود ذرہ برابر مصالحت کیلئے تیار نہیں تھی۔ ایوان کے آمرانہ رویہ نے جوناتھن اور بنجامن دونوں کو غمگین کر دیا تھا وہ دونوں ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے ان کا باہمی رشتہ ایوان کی بہ نسبت گہرا تھا لیکن حالات کے آگے بنجامن مجبور اور ایوان کے سامنے جوناتھن مقہور تھا۔
مانچسٹر میں ایوان کو باآسانی ملازمت مل گئی لیکن یہاں کام کا دباؤ پولینڈ سے مختلف تھا۔ پولینڈ میں وہ کام کے دوران دو بار گھر پر بنجامن سے ملنے چلی جاتی تھی لیکن کوئی پوچھتا نہ تھا۔ یہی حال جوناتھن کا بھی تھا وہ درمیان میں گھر آ جایا کرتا تھا اس طرح اپنی ملازمت کے باوجود وہ بنجامن کا کافی کچھ خیال رکھا کرتے تھے۔اس کے علاوہ پاس پڑوس کے لوگ بھی ہم قوم و ہم زبان تھے۔ بنجامن ان کے بچوں میں اس طرح گھلا ملا رہتا تھا گویا اپنے گھر والوں میں ہے لیکن مانچسٹر ہر دو اعتبار سے مختلف تھا۔ یہاں تنخواہ ضرور زیادہ تھی مگر کام بھی اسی مناسبت سے لیا جاتا تھا۔ ایوان جب دفتر سے فارغ ہوتی تو تھک کر چور ہو چکی ہوتی تھی۔ اس طرح محنت کرنے کی وہ عادی بھی نہیں تھی۔
پولینڈ کے برخلاف یہاں برطانیہ میں اس کے ہمسائے مختلف قوموں کے لوگ تھے جن کی زبان و تہذیب ایوان سے یکسر مختلف تھی۔ ان میں سے کسی کو بنجامن سے نہ تو کوئی ہمدردی تھی اور نہ دلچسپی تھی۔ ایوان کی سمجھ میں یہ بات پہلے دوچار دنوں میں آ گئی کہ بنجامن کیلئے ہمہ وقتی آیا کو رکھے بغیر اس کا ملازمت پر جانا ناممکن ہے۔ جب اس نے اس بابت معلومات حاصل کی تو اس کے ہوش اڑ گئے جس قیمت پر وہ اپنے شہر میں چار ملازم رکھ سکتی تھی اتنے میں یہاں ایک بھی آیا میسر نہیں تھا۔یہ گھریلو ملازمین کام شروع کرنے سے قبل مختلف شرائط بھی پیش کر دیتے تھے جن میں سب سے اہم اور پریشان کن ہفتہ واری چھٹی کا مسئلہ تھا۔ اس طرح کے تقاضوں کا تصور بھی پولینڈ میں محال تھا۔اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ایوان کیلئے ہفتہ واری چھٹی کے دن بھی آرام کر نے کا موقع نہیں تھا۔ ایوان کو ایسا لگنے لگا تھا گویا اس نے اپنے آپ کو کولہو کے بیل کی طرح جوت دیا ہے۔ وہ دن رات ایک دائرے میں گھومنے لگی ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ یکبارگی اسے خیال آیا کیوں نہ پولینڈ لوٹ جایا جائے لیکن اپنی شکست کو تسلیم کر لینا ایوان کے فطرت کے خلاف تھا۔ اس نے حالات کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرنے کا عزم کیا اور بنجامن کیلئے ایک آیا کو ملازمت پر رکھ لیا۔
ایک سال بعد بنجامن کو اسکول میں داخل کرنے کی نوبت آئی تو نت نئے اخراجات کا باب کھل گیا۔ فیس، کتابیں، یونیفارم اور اسکول لانے لے جانے کا خرچ۔ ایوان ویسے ہی اخراجات کے بوجھ تلے مری جا رہی تھی۔ گھر کا کرایہ اس کے توقع سے کئی گنا زیادہ تھا۔ بازار میں ہر شہ پولینڈ کے بہ نسبت مہنگی تھی۔ اس کا دفتر گھر سے دس کلومیٹر کے فاصلے پرتھا اس لئے وہ اپنے دفتر کے چند اور ملازمین کے ساتھ ایک مشترکہ گاڑی میں آتی جاتی تھی اس کا اپنا اضافی خرچ تھا جو سارے لوگ آپس میں تقسیم کر لیا کرتے تھے۔
جس نجی گاڑی میں ایوان اور اس کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین دفتر آتے جاتے تھے اس کا مالک پاکستانی نژاد شہر یار تھا۔ ایوان کا گھر دیگر ملازمین کی بہ نسبت زیادہ فاصلے پر تھا اس لئے دفتر جاتے ہوئے سب سے پہلے وہ گاڑی میں سوار ہوتی اور واپسی میں اسے سب سے آخر میں اترنا پڑتا۔شہر یار لوگوں کو دفتر لانے لے جانے علاوہ دیگر اوقات میں بچوں کو اسکول پہنچانے کا کام بھی کیا کرتا تھا۔ اس طرح ایوان کے ساتھ ساتھ بنجامن کی آمدورفت کا انحصار بھی شہریار پر ہو گیا تھا۔
مہنگائی اور اخراجات سے تنگ آ کر ایوان نے اول تو بنجامن کو واپس پولینڈ بھیجنے کا ارادہ کیا لیکن جوناتھن اس پر راضی نہیں ہوا۔ جونا تھن کا خیال تھا بنجامن کے سبب ایوان واپس لوٹ آئے گی اور اسے نہ صرف اپنا کھویا ہوا بیٹا بلکہ بچھڑی ہوئی بیوی بھی مل جائے گی لیکن پھر ایک بار جوناتھن کے اندازے غلط نکلے۔ ایوان کی سوچ کا دھارا دوسری جانب بہہ نکلا۔ اس نے جوناتھن کو برطانیہ بلا نے کے امکانات پر غور و خوض شروع کر دیا تاکہ جوناتھن کی آمد سے معاشی بوجھ بھی کسی قدر ہلکا ہو جائے بنجامن کی دیکھ ریکھ میں بھی تعاون ملے۔
ایوان نے شہر یار سے اس بابت مشورہ کیا تو شہریار نے بتلایا اگر جوناتھن تجربہ کار میکانک ہے تو اسے یہاں با آسانی ملازمت مل سکتی ہے۔ جوناتھن مزاجاً قناعت پسند تھا۔ اسے اپنے وطن اور اپنے خاندان سے بے حد محبت تھی۔وہ ان کو چھوڑ کر کسی اجنبی ملک میں قسمت آزمائی کیلئے جانے کا قائل نہیں تھا مگر ایوان کا اصرار اور بنجامن کی محبت اپنا کام کر گئی۔ جوناتھن رختِ سفر باندھ کر مانچسٹرتو پہنچ گیا لیکن وہاں پہنچنے کے بعد بھی اس کے ستارے گردش میں ہی رہے۔
شہریار کی ساری یقین دہانیاں اور اندازے اس لئے غلط ثابت ہوئے کہ جوناتھن کو جن گاڑیوں کا تجربہ تھا وہ یہاں برطانیہ نہیں چلتی تھیں۔ پولینڈ میں زیادہ تر روس اور مشرقی یوروپ کی گاڑیوں کا چلن تھا جبکہ برطانیہ میں نہ صرف فرانس جرمنی بلکہ امریکی اور جاپانی گاڑیوں کی بھرمار تھی۔ چونکہ یہ گاڑیاں تکنیکی اعتبار سے بہت پیچیدہ تھیں اس لئے ان کی بابت جوناتھن کی مہارت نہیں کے برابر تھی۔ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود جوناتھن برطانیہ کے اندر ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
پردیس کی سرزمین پر اس ناکامی نے جوناتھن ایک عجیب و غریب احساسِ جرم کا شکار کر دیا۔ برطانیہ کی آب و ہوا اسے راس نہ آئی۔ایوان اس بات سے پریشان تھی کہ اس معاملے میں لینے کے دینے پڑ گئے۔ جوناتھن اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے بجائے خود بوجھ بن گیا۔ ایوان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب اس مصیبت سے کیسے نکلے ؟ جوناتھن سے صاف کہہ دینا کہ وہ واپس چلا جائے ایوان کیلئے آسان نہیں تھا۔ اس ادھیڑ بن میں ایوان کو ایک انوکھا خیال آیا۔ اس نے سوچا جوناتھن اگر کوئی آمدنی نہیں کرپا رہا ہے تو کیوں نہ اس کی مدد سے کچھ اخراجات بچا لئے جائیں۔ ویسے بھی وہ دن بھر خالی پڑا رہتا ہے اس لئے کیوں نہ بنجامن کیلئے رکھی گئی آیا کی چھٹی کر دی جائے۔
اخراجات کی بچت کا یہ پہلا تجربہ کامیاب رہا تو اس ایوان کی ہمت بڑھی اب اس نے ایک گاڑی خریدنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف ایوان بلکہ بنجامن کی آمدورفت کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ جوناتھن نہ صرف بنجامن بلکہ اس کے کچھ ساتھی طلباء کو بھی اپنے ساتھ لانے لے جانے لگا جس سے ایندھن کے اخراجات نکل جاتے تھے اور وقت بھی کٹ جاتا تھا۔
جوناتھن کا معمول یہ تھا کہ علیٰ الصبح تیار ہو کر ایوان کو دفتر چھوڑ نے کیلئے نکل جاتا۔ اس کے بعد واپس آ کر بنجامن کو جگا تا اور اسکول کیلئے تیار کرتا۔ اسے کھلا پلا کر اسکول چھوڑ آتا اور امور خانہ داری میں مصروف ہو جاتا۔ دوپہر کے وقت اسکول سے بنجامن کو گھر لاتا۔ اسے کھلا پلا کر سلادیتا اور پھر ایوان کو دفتر سے لانے کیلئے نکل پڑتا۔ شام میں اس کا کام بنجامن کو سیر کرانا اور ٹیوشن دینا تھا۔جوناتھن دوپہر میں اپنے اور بنجامن کیلئے جو کھانا بناتا تھا اسی کو زہر مار کر کے ایوان سوجاتی تھی۔ اس طرح گویا گھر کے سارے کام جوناتھن نے اپنے سر لے لئے تھے۔ وہ آیا کی طرح ہفتہ واری چھٹی بھی نہیں لیتا تھا جس کے سبب ایوان اتوار کی چھٹی سے لطف اندوز ہونے لگی تھی۔ اپنے آپ مختلف ذمہ داریوں کی تقسیم ایک نئے انداز میں ہو چکی تھی۔
۴
تیز برفباری کے باوجود شہریار نہایت تیزی کے ساتھ اپنی گاڑی دوڑا رہا۔ برطانیہ کے موسم میں اس جنون کی کیفیت کو خودکشی کا مترادف سمجھاجاتا تھا لیکن شہریار کی یہ عادتِ ثانیہ تھی وہ کسی کام کو آہستگی کے ساتھ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کا تو یہ عالم تھا کہ خواب میں بھی دوڑتا پھرتا تھا۔ کسی پل اس کو سکون نصیب نہیں تھا۔ دور سے جب ایوان نے ایک تیز رفتار گاڑی کو اس کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ یہ شہریار ہے اور اس کا مسئلہ حل ہوا چاہتا ہے لیکن شہریار نہیں جان پایا کہ یہ خراب گاڑی کس کی ہے ؟ وہ سوچنے لگا یہ انگریز بھی عجیب و غریب احمق قوم ہے اس قدر دولت کے باوجود پرانی گاڑیوں پر چلتے ہیں جو موسم کا ساتھ نہیں دے پاتیں اور موسم کا رخ بدلتے ہی چیں بول جاتی ہیں۔
انسانی ہمدردی کے ناطے شہر یار اپنی گاڑی روک کر باہر نکلا تو ایوان کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ ایوان کو تعجب کا شائبہ تک نہیں ہوا اس لئے کہ مانچسٹر کی دبلی پتلی سڑکوں پر جہاں شہریار کی برق رفتاری اس کا تشخص تھی وہیں وہ اپنی دردمندی کیلئے بھی جانا پہچانا جاتا تھا۔ ایوان نے ہنس کر کہا شہریار ویسے تو ہماری گاڑی بہت غلط وقت میں خراب ہوئی لیکن خدا کا شکر ہے تم بہت صحیح وقت پر پہنچ گئے۔
شہریار کندھے جھٹک کر بولا ایک ہی لمحہ بیک وقت صحیح اور غلط کیسے ہو سکتا ہے میڈم؟ خیر بتائیے کہ آخر اس بوڑھی گاڑی کو ہوا کیا ہے ؟ ایوان بولی میں نہیں جانتی۔ پہلے تو یہ غرّائی، پھر چھینکنے لگی۔ ہم نے سوچا موسم کا اثر ہے لیکن پھر اس کی سانس تیز ہو گئی، دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور حرکتِ قلب بند ہو گئی۔ شہریار نے شوخی بھرے لہجے میں جواب دیا تو ایسا کرتے ہیں اس کی آخری رسومات ادا کرنے کی خاطر قبرستان لئے چلتے ہیں۔ ایوان کے خاوند جوناتھن کو سردی کے باوجود پسینہ چھوٹ رہا تھا اورشہریارایسے میں ایوان کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہا تھا۔
جوناتھن بولا میرا خیال ہے اسے قبرستان کے بجائے ہسپتال میں لے جانا چاہئے ممکن ہے پھر چل پڑے۔ شہریار نے کہا لیکن سردی کی اس شام میں کوئی گیرج تو کھلا ہو گا نہیں ! اس لئے فی الحال آپ اسے بھول جائیں اور میری گاڑی میں اپنے گھر چلیں اس کے بارے میں آج کے بجائے کل غور و خوض کریں تو یہ بہتر ہو گا۔جوناتھن بولا لیکن ہم تمہیں زحمت دینا نہیں چاہتے۔ شہریار نے کہا آپ تکلف کر رہے ہیں۔ اس میں زحمت کی کوئی بات نہیں وہ ایوان کی جانب دیکھ کر بولا میڈم جانتی ہیں ویسے بھی میں مصیبت زدگان سے کرایہ نہیں لیتا۔
ایوان بولی اگر ایسی بات ہے تو ہم لوگ تمہاری گاڑی میں ہر گز نہیں جائیں گے بلکہ ٹیکسی کا انتظار کریں گے۔ جوناتھن نے کہا ایوی پاگل نہ بنو اس اندھیرے میں ٹیکسی کب آئے گی ہم نہیں جانتے اور رکے بھی یا نہیں اس کا کیا اعتبار؟ شہریار کا اس موقع پر ہماری مدد کیلئے پہنچ جانا ایک نعمتِ خداوندی ہے جس کی ہمیں ناقدری نہیں کرنی چاہئے۔ اسی کے ساتھ جوناتھن اور ایوان اپنا سامان لے کر شہریار کی گاڑی میں آ بیٹھے۔ جوناتھن اپنے گھر کا پتہ بتانے لگا تو ایوان بولی زحمت کی ضرورت نہیں۔ شہریار دوسال تک اپنے بنجامن کو اسکول لاتا لے جاتا رہا ہے۔ جوناتھن بولا بہت خوب یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔
گھر کے سامنے جب جوناتھن گاڑی سے اترنے لگا تو ایوان بولی مجھے بازار سے کچھ سامان خریدنا ہے اس لئے ایسا کرو کہ تم بنجامن کا خیال رکھو میں سودا سلف لے کر آتی ہوں۔ جوناتھن نے سر جھکا کر تائید کی اور گھر میں داخل ہو گیا جہاں دروازے پر بنجامن اس کا منتظر تھا اس نے اپنے باپ کو دیکھا تو بابا، بابا کہتا ہوا اس کے پیروں سے لپٹ گیا۔ جوناتھن نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور دیوان خانے میں لے آیا۔ بنجامن نے تاخیر کی وجہ تو دریافت کی لیکن ایوان کے بارے میں نہیں پوچھا دراصل بنجامن کیلئے جوناتھن نہ صرف اس کا باپ بلکہ ماں بھی تھا۔
شہریار نے ایوان سے پوچھا یہ پرانی گاڑی آپ نے کہاں سے اور کب خرید لی؟ ایوان بولی کیا بتاؤں شہریار یہ جوناتھن جو ہے نا کسی بات کو سمجھتا ہی نہیں۔ اس جیسے لوگوں کے سبب ساری یہودی برادری کو بخیل سمجھا جانے لگا ہے اور آئے دن ہم پر لطیفے بنائے جاتے ہیں۔ لیکن محترمہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ ایوان بولی شہر یار کہاں اور کب سے زیادہ اہمیت کیوں کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے جوابات کے بعد تم یہ سوال ضرور کرتے اس لئے میں نے براہِ راست اس کا جواب دے دیا۔ شہریار بولا ایوان تمہاری ذہانت کا تو میں پہلے بھی قائل تھا لیکن ایک مرتبہ اور تم نے اس کا سکہّ جما دیا لیکن کیا گاڑی خریدنے کا فیصلہ جوناتھن نے یکطرفہ طور پر کر لیا اور تم سے مشورہ تک نہیں کیا ؟
ایوان نے ٹھنڈی آہ بھر کر بولی شہریار کیا بتاؤں شاید میری قسمت ہی کچھ ایسی ہے کہ میرے لئے ہر رحمت از خود زحمت بن جاتی ہے۔ شہریار بولا میں سمجھا نہیں ؟ ایوان نے وضاحت کرتے کہا یہ سمجھ لو کہ میں جب بھی کوئی شہ اپنی خدمت کیلئے لیتی ہوں وہ مجھ سے اپنی خدمت کروانے لگتی ہے۔ شہریار مسکرا کر بولا کہیں تمہارا اشارہ جوناتھن کی جانب تو نہیں ہے ؟ جی ہاں اب دیکھو میں نے اسے پولینڈ سے یہاں بلوایا تاکہ وہ معاشی بوجھ اٹھانے میں میراساجھی دار بنے لیکن تم خود جانتے ہو کہ اس کی مہارت یہاں کسی کام نہیں آئی اور وہ بالآخر خود ایک بوجھ بن گیا۔
شہر یار نے کہا لیکن اس میں بے چارے جوناتھن کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جس طرح مجھے اندازہ نہیں تھا کہ پولینڈ میں کس ساخت کی گاڑیاں چلتی ہیں اسی طرح اس کو بھی پتہ نہ ہو گا کہ یہاں برطانیہ کا کیا حال ہے ؟ ایوان بیزار ہو کر بولی جی ہاں شہریار سارا غلطی میری ہی ہے اس لئے میں نے اس کا کفارہ ادا کرنے کیلئے بنجامن کیلئے رکھی گئی آیا کی چھٹی کر دی تمہارا کام بند کر دیا تاکہ اگر آمدنی نہیں ہوتی تو کم از کم خرچ ہی کچھ کم ہو جائے لیکن اس نے ایسی گاڑی خرید لی جس پر خرچ زیادہ ہوتا ہے اور بچت کم ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ کام بھی بڑھ جاتا ہے۔
ایوان بے تکان بولے جا رہی تھی ایسا لگتا تھا بڑے دنوں بعد اسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے کوئی میسر آ گیا ہے۔ جوناتھن کے آنے سے قبل جب شہریار اسے صبح و شام دفتر لایا اور لے جایا کرتا تھا اس وقت وہی ایک اس کا ہمدردو غم گسار تھا۔ وہ گھر اور دفتر کے درمیان جب بھی موقع ملتا شہریار کو اپنے نجی زندگی کے دکھ سکھ میں شریک کر لیا کرتی تھی۔ایک وقفہ کے بعد یہ سلسلہ پھر چل پڑا تھا۔ایوان بول رہی تھی پہلے سودا سلف آیا لے کر آتی تھی اب یہ کام بھی مجھے کرنا پڑتا ہے۔ شہریار نے طرح دی تو کیا جوناتھن کو بازار جانے پر اعتراض ہے ؟ ایوان نے چڑ کر کہا وہ کون ہوتا ہے اعتراض کرنے والا؟میں نے خود جوناتھن کو اس کام سے منع کر دیا۔
شہریار مسکرا کر بولا تو گویا یہ تمہاری اپنی منہ مانگی مصیبت ہے ؟ ایوان نے کہا جی نہیں یہ مجبوری ہے۔ میں نے جوناتھن کو اس کام میں بھی لگایا لیکن اس نے مجھے بری طرح مایوس کیا وہ بازار سے سستے کے چکر میں ایسا سامان اٹھا لاتا تھا جسے بعد میں مجبوراً پھینکنا پڑتا۔ میں نے سوچا جوناتھن کی فطرت کوتو میں بدل نہیں سکتی اس لئے اس کا کام بدل دوں اور اس طرح یہ ذمہ داری خود میرے سرآن پڑی مگر کیا بتاؤں کہ آج دفتر میں کام کس قدر زیادہ تھا اور پھر گاڑی کی خرابی کے سبب میں کس قدر مضمحل ہو گئی تھی لیکن جوناتھن کو اس کا خیال کب ہے ؟
شہریار کو ایوان کی شکایت پر حیرت ہو رہی تھی وہ بولا لیکن تم نے ہی تو اسے بنجامن کے پاس بھیجا اور خود بازار کی جانب نکل کھڑی ہوئیں۔ جی ہاں لیکن اس کو بھی تو میرا خیال کرنا چاہئے تھا۔ وہ بھی تو کہہ سکتا تھا کہ ایوان آج تم آرام کرو میں بازار چلا جاتا ہوں۔ شہریار بولا لیکن پھر بھی تمہیں آرام کب ملتا، بنجامن کی خدمت کرنی پڑتی اس لئے ایک ہی بات ہے۔ایوان نے تردید کی اور بولی جی نہیں یہ ایک بات نہیں ہے۔ وہ دن بھر گھر میں خالی بیٹھا رہتا ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ بنجامن کو اپنے ساتھ بازار لے جاتا بچے کا دل بھی بہل جاتا اور مجھے آرام بھی مل جاتا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان کو دوسروں کا خیال ہو۔ میں تو سمجھتی ہوں اس کے اندر احسانمندی کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے۔
شہریار نے کہا اس طرح تو تم نے اعتراف کر لیا کہ پہلے یہ احساس اس کے اندر موجود تھا کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اس ملک کی آب و ہوا کا اثر ہو۔ ایوان بولی میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں آب و ہوا کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ تم پر اثر انداز نہیں ہوتی؟ میں نے تو جوناتھن کو ہمیشہ سے احسان فراموش ہی پایا۔ شہریار کو ایسا محسوس ہوا گویا ایوان کے اندر جوناتھن کے خلاف نفرت کا لاوہ کھول رہا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ آتش فشاں پھٹ پڑے اس نے گاڑی روک کر کہا۔میڈم آپ کا پسندیدہ مال مارکس اینڈ اسپانسر آ پ کیلئے چشم براہ ہے۔
ایوان نے اپنے خیالوں کے حصار سے باہر نکل کر دیکھا تووہ مانچسٹر کے سب سے بڑے مارکس اینڈ اسپانسر کے سامنے تھی۔ یہ نیا وسیع و عریض مال شہر سے باہر کافی فاصلے پر تعمیر کیا گیا تھا اور یہاں لوگوں کا آمدورفت بہت کم تھی۔ ایوان کو احساس ہی نہیں ہوا کہ کب شہر یار اس کو اتنی دور لے آیا۔ ایوان نے کہا شہریار میں نے تو تمہیں بتلایا ہی نہیں کہ کس بازار میں جانا ہے لیکن تم از خود مجھے اپنے سب سے پسندیدہ مال میں لے آئے تعجب ہے۔ شہریار کندھے اچکا کر بولا اونچے لوگ اونچی پسند۔ میں تمہاری ہر پسند جانتا ہوں ایوان۔
ایوان نے چہک کر کہا شہر یار میں تمہیں کیا بتاؤں تم جب مجھ سے ملتے ہو اپنی شگفتہ بیانی سے میرا دل خوش کر دیتے ہو اور ایک جوناتھن ہے کہ اتنے برسوں کی رفاقت میں ایک مرتبہ بھی اس کی زبان سے ایک خوش کن جملہ بھی ادا نہیں ہوا۔ کہاں سے سیکھا ہے تم نے یہ فن ؟ شہریار مسکرا کر بولا میڈم یہ تو ایسا ہی سوال ہے کہ جیسے کوئی مچھلی سے پوچھے کہ اس نے تیرنا جیسے سیکھ لیا؟ ہم پٹھانوں کو تلوار چلانا اسی طرح آ جاتا ہے جیسے مچھلی کو تیرنا۔ ایوان بولی جی ہاں اور تمہارے زبان کی کاٹ تو تلوار سے بھی زیادہ تیز ہے اس کا ہر لفظ ایک نیا زخم دے جاتا ہے۔ شہریار جواب دیامیڈم ویسے تو آپ شاعری کرنے لگی ہیں لیکن اس بات پر مجھے کلیم عاجز کا ایک شعر یاد آ گیا
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ایوان مسکرا کر بولی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ اب شہریار کیلئے ایک پولش خاتون کے سامنے جو خود بہت اچھی انگریزی نہیں جانتی تھی اس شعر کا ترجمہ کرنا ایک مشکل کام تھا۔ اس نے بڑی کوشش کی اور جب اپنی لمبی چوڑی تقریر کے بعد خاموش ہوا تو ایوان نے پھر کہا اب بھی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ شہریار بولا چھوڑو ایوان تمہارے لئے اس شعر کا مطلب سمجھنا ضروری نہیں بلکہ اس طرح کی صورتحال میں عاجز نے کیا خوب کہا ہے ؎
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے ، بکے ہے
دیوانہ ہے ، دیوانے سے کیا بات کرو ہو
ایوان بولی اس شعر میں ایک لفظ کا مطلب میں جانتی ہوں اور اس سے اندازہ لگا سکتی ہوں کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ شہریار نے حیرت و استعجاب سے پوچھا کون سالفظ؟ دیوانہ یعنی کریزی میں اُسے اچھی طرح جانتی ہوں۔ شہریار نے کہا اچھا وہ کیسا ہوتا ہے ؟ ایوان بولی تم جیسا بالکل تم جیسا۔ یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ میں دیوانہ ہوں ؟یہ تو جاننا بہت آسان ہے شہریار جو دوسروں کو دیوانہ بنا دے تو وہ کوئی دیوانہ ہی ہو سکتا ہے۔ایوان آج تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ آج تم بہت بدلی ہوئی لگ رہی ہو۔ جی ہاں شہریار یہی سمجھ لو۔ میں خود بھی نہیں جانتی کہ آج مجھے یہ کیا ہو گیا ہے۔ چلو ایسا کرتے ہیں کہ ہم لوگ اوپر کافی ہاؤس میں بیٹھ کر کافی پیتے ہیں۔ کافی ہاؤس میں کافی؟؟؟ شہریار نے حیرت سے پوچھا۔
جی ہاں کافی ہاؤس میں کافی پر تمہیں حیرت کیوں ہے ؟ جی نہیں کافی میرے ساتھ؟ میں اس سے پہلے کئی مرتبہ تمہیں مختلف مقامات پر اپنی ٹیکسی سے لے کر جا چکا ہوں لیکن ۔۔۔۔ جی ہاں شہریار اس سے پہلے جب تم مجھے لے کر جاتے تھے تو میں سواری ہوا کرتی تھی اور تم کرایہ لیا کرتے تھے لیکن آج تو تم کرایہ نہ لینے کی شرط پر میرے ساتھ آئے ہو۔ اچھا تو کرائے کی بھرپائی کافی کے ذریعہ ہو رہی ہے ؟ جی نہیں ایسی بات نہیں آج میرا جی چاہتا ہے کہ تم سے کچھ بات کروں اور کچھ تمہاری سنوں۔ اس کام کیلئے کافی ہاؤس سے اچھی کوئی اور جگہ نہیں ہو سکتی۔اس لئے چلو ہم لوگ کافی ہاؤس میں بیٹھتے ہیں۔ شہریار کسی بندۂ بے دام کی مانند گاڑی سے اتر اور ایوان کے پیچھے چل پڑا۔
۵
کافی ہاؤس کے بڑے سے ہال میں دوچار گاہک اس طرح سے بکھرے ہوئے تھے گویا موجود ہی نہ ہوں۔ شہریار اور ایوان بھی ایک جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے اور باہر ہونے والی برفباری کا نظارہ کرنے لگے۔ شیشہ اس قدر صاف و شفاف تھا کہ اندیشہ ہوتا کہیں برف ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اندر نہ آ جائے۔ کافی ہاؤس کا مصنوعی درجہ حرارت نہایت خوشگوار تھا اس لئے باہر گرنے والی برف کے درجۂ حرارت پر شبہ ہوتا تھا۔ لگتا تھا آج اس برف کی ٹھنڈک کو کچھ ہو گیا ہے۔ اس ٹھنڈ کو کوئی نگل گیا ہے ؟ آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی تھیں جلد اس کی تردید کر رہی تھی۔ دماغ کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ کس کی مانے اور کس کا انکار کرے اور دل پر کسی کا کوئی اختیار ہی کب تھا وہ حواس خمسہ کی بات ماننے کے بجائے اپنی بات منوانے میں یقین رکھتا تھا۔ ایوان کی طرح جو کسی کی نہیں مانتی تھی اس لئے کہ اپنی اطاعت کروانے کا فن جانتی تھی۔
کافی کی چسکی لیتے ہوئے ایوان بولی شہریار میں بہت زیادہ فکر مند ہوں۔ میرا دل ایک بوجھ سے دبا جا رہا ہے لیکن میں اس بوجھ کو کسی کے ساتھ بانٹ نہیں سکتی جوناتھن کے ساتھ بھی نہیں اس لئے کہ ایسا کرنے سے مبادا اس کا احساس جرم اور بڑھ ہو جائے ؟ شہریار کو پھر ایک بار ایوان کچھ بدلی ہوئی سی محسوس ہوئی وہ بولا لیکن ابھی ابھی تو تم جوناتھن کو کوس رہی تھیں۔ ایوان بولی جی ہاں۔ جوناتھن کی اور میری ترجیحاتِ حیات مختلف ہیں۔میری اور اس کی پسند وناپسند میں بھی بڑا فرق ہے۔ اس کے باوجود وہ میرے بیٹے بنجامن کا باپ ہے۔ ہمارے درمیان زن و شو کا مقدس رشتہ ہے اس لئے میں شکوہ شکایت تو کرسکتی ہوں جو کہ ہر رشتے کا جزو لاینفک ہوتا ہے لیکن کم از کم شعوری طور پر اس کی دل آزاری نہیں کرسکتی۔
شہریار کو ایوان کا یہ انداز اچھا لگا وہ بولا خیر یہ بتاؤ کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے ؟ مسئلہ ایک نہیں بلکہ کئی مسائل ہیں۔ میں پولینڈ کی رہنے والی ایک یہودی خاتون ہوں۔ پولینڈ ویسے تو کبھی بھی بہت زیادہ خوشحال ملک نہیں تھا لیکن ایسا بدحال بھی نہیں تھا جیسا کہ اب ہے۔ فی الحال ہمارا ملک دیوالیہ ہو چکا ہے ہم لوگ شدید معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح ۳ فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایسے میں ہمارے لئے امید کی کرن یوروپین یونین کا قیام ہے جس کے سبب میرا یہاں آنا ممکن ہو سکا۔ لیکن سنا ہے برطانیہ یوروپی یونین سے الگ ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہاں غیرملکیوں کو پریشان کرنے کیلئے نت نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں کبھی بھی مجھے مع اہل و عیال واپس جانا پڑسکتا ہے۔ شہریار بولا لیکن یوروپی یونین میں برطانیہ کے علاوہ اور ممالک بھی تو ہیں ؟
جی ہاں ایوان بولی لیکن ان میں سے اکثر معاشی مسائل سے جوجھ رہے ہیں۔ جرمنی اور فرانس کی حالت قدرے بہتر ہے لیکن وہاں یہودیوں کے خلاف عوام کے اندر شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ لوگ تاریخی اسباب سے پولینڈ کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ شہریار کو اس گفتگو سے الجھن ہونے لگی تھی۔ وہ بولا لیکن یوروپ کے علاوہ دنیا اور بھی وسیع ہے۔ جی ہاں لیکن تیل کی بدولت خوشحال مسلم ممالک کے دروازے ہم پر بند ہیں۔ ترقی پذیر ممالک جیسے چین ہندوستان یا کوریا وغیرہ کی اپنی آبادی اس قدر ہے کہ بیرونی ممالک کے لوگوں کی گنجائش نہیں ہے۔ ایسے میں بس امریکہ اور برطانیہ یہ دو ہی ممالک ہمارے لئے رہ جاتے ہیں اور غیر ملکیوں کیلئے دونوں ہی مقامات پر یکساں دشواریاں ہیں۔
شہریار تو یہ سمجھتا تھا کہ دنیا کے سب سے زیادہ ستائے جانے والے لوگ پاکستان کے مسلمان ہیں لیکن ایوان کی بات سن کر اسے ایسا لگا کہ پولینڈ کے یہودی اس سے بھی گئی گزری حالت میں ہیں۔ اس نے درد بھرے لہجے میں پوچھا کہ ایوان لیکن میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں ؟ ایوان بولی میں تم سے یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میری طرح تم بھی برطانیہ کے اندر غیر ملکی ہو اور پاکستان تو یوروپی یونین میں شامل بھی نہیں تو ایسے میں تم اپنے مسائل کو کیسے حل کرو گے ؟ ممکن ہے تمہاری حکمت عملی میں میرے لئے کوئی لائحۂ عمل موجود ہو؟ شہریار بولا لیکن میرا تو سرے سے وہ مسئلہ ہی نہیں ہے جو تمہارا ہے ؟
کیا ؟ میں سمجھی نہیں !ایوان نے چونک کر کہا۔ شہر یار بولا میں تو برطانیہ کا شہری ہوں میرے پاس یہاں کا پاسپورٹ ہے۔ میں یہاں ووٹ دیتا ہوں بلکہ میں تو یہاں انتخاب بھی لڑ سکتا ہوں۔ ایوان نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولی جی ہاں اگر ایسا ہے تو مجھے یقین ہے کہ کم از کم مانچسٹر میں تمہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اچھا وہ کیوں ؟ ایوان بولی ایک تو تمہاری رفتار اور اوپر سے تمہارا اخلاق جو سونے پر سہاگہ ہے۔ اس مانچسٹر میں ایسا کون ہے جو تمہیں نہیں جانتا اور تمہاری ان خوبیوں کا اعتراف نہیں کرتا ہو۔ میں تو کہتی ہوں کے تمہارا مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو جائے گی۔
شہر یار بولا اب بس بھی کرو ایوان آج میری سمجھ میں آ گیا کہ انتخاب میں امیدواروں کی ضمانت کیوں کر ضبط ہوتی ہے ؟ اچھا تو کیا سمجھا تم نے ؟ ایوان نے سوال کیا۔ یہی کہ انہیں تم جیسا کوئی چنے کے پیڑ پر چڑھانے والا مل جاتا ہو گا اور پھر جب انہیں ہوش آتا ہے تو ان کی ضمانت ضبط ہو چکی ہوتی ہے۔ ایوان نے کہا اچھا یہی بتا دو کہ تم نے برطانیہ کہ شہریت کیسے حاصل کر لی کیا تمہارے والد ین میں سے کوئی اس ملک کا شہری تھا ؟ جی نہیں وہ دونوں پاکستان کے شہری ہیں۔ایوان سراپا سوال بن گئی اچھا تو پھر؟؟؟
یہ ایک لمبی داستان ہے بی بی ایوان۔ آج کافی وقت ہو چکا ہے۔ تم اپنی خریداری کر لو۔ میں پھر کبھی فرصت میں اپنی کہانی سناؤں گا۔ ایوان نے گھڑی کو دیکھا تو اسے بھی وقت کا احساس ہو گیا وہ بولی تم صحیح کہتے ہو شہریار۔ بنجامن تو بغیر کھانا کھائے سو چکا ہو گا اور جوناتھن بے صبری سے میرا بلکہ اپنے کھانے کا انتظار کر رہا ہو گا۔ اگر مزید تاخیر ہوئی تو وہ مجھے بھون کر کھا جائے گا۔ شہریار بولا میں یہیں بیٹھا ہوں تم اپناسودا سلف خرید کر یہیں آ جاؤ۔
ایوان کے چلے جانے کے بعد شہریار نے سوچنے لگا۔ وہ نہ جانے کتنی بار اپنی سواریوں کے ساتھ اس مال میں آ چکا ہے لیکن کبھی اندر جھانک کر دیکھنے کی خواہش یا توفیق اسے نہیں ہوئی۔ آج ایوان اسے اپنے خول سے باہر ایک نئی دنیا میں لے آئی تھی۔ آج پہلی مرتبہ وہ اپنی ذات سے نکل کر خارج میں آیا تھا اور اسے محسوس ہوا تھا کہ دور کے ڈھول سہانے محسوس ہی نہیں ہوتے بلکہ ہوتے بھی ہیں۔
اُدھر جوناتھن اپنے اندرون میں جھانک رہا تھا۔ وہ اس ساعت کو کوس رہا تھا جب اس نے برطانیہ آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بدحال تو وہ پولینڈ میں بھی تھا لیکن یہ بیوی کے ٹکڑوں پر پلنے کی ہزیمت سے محفوظ تھا۔ وہ جب نیا نیا اس ملک میں آیا تھا تو ایوان تاخیر ہو جانے پر فون کر کے معذرت چاہتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور ملازمت کا امکان کم ہوتا گیا ایوان کی بے توجہی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پہلے تو اس نے فون کرنا ترک کیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وہ جوناتھن کے فون کرنے پربھی اکھڑ جاتی تھی۔ گزشتہ مرتبہ وہ ایوان اس کے فون کرنے سے اس قدر ناراض ہوئی کہ ا جوناتھن نے فون نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ وہ اندر ہی اندر اپنے آپ پر کڑھتا رہتا تھا لیکن کسی کچھ کہہ نہ سکتا تھا۔ اس غریب الوطنی میں بنجامن کے علاوہ اس کا غمگسار کوئی نہ تھا اور ننھا بنجامن اس المیہ کا ادراک نہیں کر سکتا تھا۔
ان دونوں سے الگ تھلگ ایوان اپنے آپ میں مست تھی۔ وہ بلا دریغ سامان کو اٹھاتی اور اپنی ٹرالی میں ڈال دیتی۔ اس روز ایوان نے نہ ہی کسی سامان کا بھاؤ دیکھا تھا اور نہ اس کا کسی اور سے موازنہ کیا۔ اس نے مختلف اشیاء پر لکھی اس کے خراب ہونے کی تاریخ کی جانب بھی دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ جلد از جلد اس کام سے فارغ ہو جانا چاہتی تھی۔ اس کے دل و دماغ پر شہریار کا بھوت سوار تھا۔ وہ لگاتار اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ادائیگی کے کاؤنٹر پر جس وقت وہ اپنی ٹرالی کو ڈھکیلتی ہوئی پہنچی تو وہاں شہر یار کو کھڑا دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔
ایوان نے جب تک اپنا بل اور کریڈٹ کارڈ واپس لیا شہر یار ٹرالی کو لے کر گاڑی کی جانب چل پڑا تھا۔ اس بار وہ شہر یار کے پیچھے چل رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کاش جوناتھن کے بجائے شہریار بنجامن کا باپ ہوتا۔ ایسے میں نہ تو بنجامن کیلئے کوئی مسئلہ ہوتا اور نہ اس کے اپنے لئے۔ وہ دونوں بڑے آرام سے برطانیہ کی شہریت حاصل کر لیتے۔ شہریار نے ٹرالی کو اپنی گاڑی کے برابر کھڑی کرنے کے بعد اسے ٹرنک میں خالی کیا۔ اس وقت تک ایوان گاڑی کے اندر بیٹھ چکی تھی۔
ایوان کا ابلیسی دماغ اب نئے خطوط پر چلنے لگا تھا وہ مستقبل کے نئے اور انوکھے خواب بننے لگی تھی۔یوں تو اس کا جسمانی وجود گاڑی کے اندر تھا لیکن ذہن کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا۔ شہریار کو ایوان کے اس رویے پر حیرت ہو رہی تھی اس لئے کہ مال میں آتے ہوئے ایوان بولے چلی جاتی تھی رکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ کافی ہاؤس میں اسے یاد دلانا پڑا تھا کہ وقت بہت ہو گیا ہے لیکن اب جیسے اسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ بالکل بے جان لاش کی مانند وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی خلاء میں گھور رہی تھی۔ وہ جو کچھ سوچ رہی تھی اس بابت جلد بازی میں کوئی قدم اٹھا نا نہیں چاہتی تھی۔ اس کیلئے ضروری تھا شہریار کے بارے میں تمام تفصیلات کا اسے علم ہو۔
ایوان کے ارادوں اور منصوبوں سے بے خبر شہریار اپنی گاڑی دوڑائے جا رہا تھا یہاں تک کہ وہ ایوان کے گھر پہنچ گیا۔ جیسے ہی اس نے ہارن بجایا جوناتھن دوڑ کر نیچے آ گیا۔ جب اس نے ایوان کو گاڑی کے اندر گم سم دیکھا تو اس کی حیرت کا بھی ٹھکانہ نہ رہا وہ بولا ایوان۔ سنو ایوان خیریت تو ہے ؟ اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی ایوان بولی جی ہاں شہریار تمہارے ہوتے ہوئے مجھے کیا چنتا ہو سکتی ہے ؟ جونا تھن پر یہ جملہ بجلی بن کر گرا وہ بولا ایوان میں جوناتھن ہوں۔ ایوان چونک کر بولی جوناتھن ؟ کون جوناتھن؟ جوناتھن کیلئے یہ حیرت کا دوسرا جھٹکا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بولے۔
جوناتھن نے چہار جانب دیکھا شہریار گاڑی کے عقب میں سامان اتار رہا تھا۔ جوناتھن ایوان سے قریب آ کر بولا ایوان تم مجھے نہیں جانتیں میں جوناتھن ہوں تمہارا خاوند اور تمہارے بنجامن کا باپ۔ اس بیچ ایوان واپس آ چکی تھی۔ وہ بولی یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے جون۔ تم مجھے اپنا تعارف کیوں کرا رہے ہو؟ جوناتھن بولا میں بھی تم سے یہی سوال کر رہا ہوں ایوان کہ تمہیں یہ کیا ہو گیا ہے ؟ ابھی ابھی تم نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے !!! ایوان مسکرا کر بولی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں نہ پہچانوں اپنے جوناتھن کو نہ پہچانوں ؟ میں اپنے آپ سے غافل ہو سکتی ہوں لیکن تم سے نہیں۔ میں تمہیں کیسے بھول سکتی ہوں جون۔ شہریار نے جوناتھن کے قریب آ کر کہا جناب میں نے سارا سامان نکال کر رکھ دیا ہے۔ اگر اجازت ہو تو؟؟؟
ایوان فوراً گاڑی سے باہر آئی اور بڑے تپاک سے ایوان نے شہریار کا شکریہ ادا کیا۔ جوناتھن بولا شہریار اگر آج تم نہ آتے تو ہم لوگ نہ جانے کب تک اس برفباری میں پھنسے رہتے ؟ شہریار بولا بھئی یہ سب تو اوپر والے کی مرضی سے ہوتا ہے ورنہ ہم کون ہوتے ہیں کسی مدد کرنے والے۔سارا احسان اسی کے اور تمام تعریف بھی اسی کیلئے۔جی ہاں جی ہاں۔ پھر بھی تمہارا بہت شکریہ جوناتھن بولا اور ایوان کے ساتھ سامان سمیٹ کر گھر کے اندر آ گیا۔ ایوان بولی میں تمہارے لئے افغانی کباب لائی ہوں تم ٹیبل پر بیٹھو میں انہیں گرم کر کے لاتی ہوں۔ جوناتھن نے جواب دیا نہیں ایوی اس کی ضرورت نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔ ایوان کیلئے جوناتھن کا جواب غیر متوقع تھا وہ تو سمجھ رہی تھی اس کی اس پیشکش پر جون اچھل پڑے گا لیکن جوناتھن برف کا تودہ بنا ہوا تھا۔ اس کے دماغ میں ایوان کا بے خیالی میں کہا ہوا جملہ گھوم رہا تھا۔ شہریار تمہارے ہوتے ہوئے مجھے کیا چنتا ہو سکتی ہے ؟ اس ایک جملے نے اس کی بھوک کا قلع قمع کر دیا تھا۔
۶
ایوان کے اعصاب پر شہریار سوار ہو چکا تھا۔ وہ دن رات یہ سوچنے لگی تھی کہ کس طرح شہریار کا توسط سے اپنے مسائل حل کئے جائیں لیکن وہ اس بابت کچھ محتاط بھی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی شہریار اس کی مجبوری کا ادراک کر لے اور اس سے کنارہ کش ہو جائے اس لئے وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔ایک ہفتہ غور و فکر کے بعد اس نے شہریار سے ملاقات کا منصوبہ بنایا۔ اس نے جمعہ کی صبح فون کر کے شہریار کو بتلایا کہ آج ان کی گاڑی پھر سے خراب ہو گئی ہے۔اس لئے کیا وہ دفتر میں آ کر اسے گھر پہنچا سکتا ہے ؟شہریار نے کہا وہ آ تو سکتا ہے لیکن کچھ تاخیر سے۔ایوان نے کہا کوئی بات نہیں دفتر میں ویسے بھی بہت کام ہوتا ہے اس لئے وہ انتظار کر لے گی۔
ایوان نے گھر پر فون لگا کر جوناتھن سے رابطہ کیا اور بتایا کہ آج اس کی ایک سہیلی نے اپنے گھر پر دعوت رکھی ہے۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جائے گی اور پارٹی کے بعد گھر پہنچانے کا بندوبست کر دے گی اس لئے اسے دفتر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔جوناتھن نے شکریہ ادا کر کے فون رکھ دیا۔ وہ سوچ رہا تھا یہ کیسی دعوت ہے جس میں ایوان کے اہل خانہ کو مدعو نہیں کیا گیا؟ کیا ہی اچھا تھا جو اسے اور بنجامن کو بھی بلایا جاتا۔ ان دونوں کا دل بھی بہل جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے وہ برطانیہ آیا تھا آج پہلی بار پارٹی کا لفظ اس کے کانوں سے ٹکرایا تھا ورنہ تو وہ سوچنے لگا تھا کہ اس سرزمین پر کسی کو ان خرافات کیلئے فرصت ہی نہیں ہوتی۔ ہر کوئی دن رات کھانے کمانے کے پھیرے میں غلطاں رہتا ہے۔
جوناتھن اپنے دیس پولینڈ کے بارے میں سوچنے لگا جہاں لوگوں کے پاس دولت تو بہت کم تھی مگر اس کے باوجود موج مستی کہیں زیادہ تھی۔ وہاں ہر چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی شاذونادر ہی کوئی اداس و غمگین نظر آتا تھا اور کوئی غم زدہ ہوتا بھی تھا تو اس کے دس ہمدرد و بہی خواہ رونما ہو جاتے تھے۔ راہ چلتے اجنبی رک کر پوچھتے کیوں خیریت تو ہے ؟ آپ پریشان کیوں لگ رہے ہیں ؟ کیا میں آپ کے کسی کام آسکتا ہوں ؟ جبکہ یہاں ہر کوئی پریشان حال تھا ایسے میں کون کس کا دکھ درد بانٹے ؟ عجیب نفسا نفسی کا عالم تھا۔ شاذونادر کوئی خوش و خرم نظر آ جاتا تو لوگ اسے رشک آگیں نگاہوں سے دیکھتے اورحسرت ویاس سے سر جھکا لیتے۔ پولینڈ کے اندراس طرح کی دعوت کا تصور ناممکن تھا جس میں ایک ماں اپنے بچے اور ایک بیوی اپنے شوہر کے بغیر شریک ہوتی ہو۔جوناتھن نے سوچا جب اس دیس کا باوا آدم ہی نرالا ہے تو کیا بعید ہے کہ یہاں یہی کچھ ہوتا ہو؟
جوناتھن کی رائے صد فیصد غلط تھی۔ وہ لوگ جس علاقے میں رہتے وہ پاکستانیوں کی بستی تھی جس میں کچھ ہندوستانی بھی رہتے تھے۔یہاں پر آئے دن مختلف بہانوں سے دعوتیں ہوا کرتی تھیں جس میں لوگ مع اہل و عیال شریک ہوتے تھے اور خوب ہنگامہ ہوا کرتا تھا۔جوناتھن کا مسئلہ یہ تھا اس بیچارے قسمت کے مارے کی دنیا ایوان اور بنجامن تک محدود تھی۔ بنجامن تو خیر بچہ تھا ایوان دن رات پریشان رہتی تھی اس لئے اسے ایسا لگتا تھا کہ ساری دنیا ایسی ہی ہے۔ بیروزگاری کے سبب جوناتھن کا کسی سے میل جول نہیں تھا۔ اس کے اندر جو احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا وہ بھی ایک رکاوٹ تھا اور اوپر سے زبان و تہذیب کا مسئلہ۔ جوناتھن ٹوٹی پھوٹی انگریزی بڑی مشکل سے بول پاتا تھا جس کے سبب اکثر وہ اپنا منہ بند ہی رکھتا تھا۔
جوناتھن کا ایک اور مسئلہ اس کا نظام الاوقات بھی تھا۔ جس وقت وہ فارغ ہوتا آس پاس کے مرد حضرات کام پر مشغول ہوتے اور جب شام میں وہ فارغ ہوتے تو جوناتھن مصروف ہو جاتا۔ جوناتھن شام کو ایوان کے دفتر جاتا۔ اس کو واپس لانے کے بعد بنجامن کو لے کر بیٹھ جاتا۔ اسے اسکول کا سبق یاد کراتا اور پھر تورات کی تعلیم دیتا۔ اسے ڈر تھا کہ اس ماحول میں اپنے عقائد و اقدار سے بے بہرہ اس کا بیٹا پوری طرح عیسائی بن جائے گا۔ عام طور پر بچوں کو مذہب کی معلومات اپنی ماں سے ملتی تھی لیکن ایوان کو خود اپنے دین میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔وہ تو بس بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے فلسفہ پر یقین رکھنے والی ایک دنیا دار عورت تھی اس لئے یہ ذمہ داری بھی جوناتھن کے کندھوں پر آن پڑی تھی۔ جوناتھن کے نزدیک مذہب کے بغیر انسان اور جانور کی زندگی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا تھا اس لئے اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کا بیٹا بھی بڑا ہو کر وحشی درندہ بننے کے بجائے انسانِ ناطق بنے۔
جوناتھن کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ وہ ایوان کے دفتر جانے سے قبل بنجامن کو پاس کے باغ میں ہوا خوری کیلئے لے جاتا۔ اس باغ میں اس وقت بہت سارے بچے کھیلنے کیلئے آتے تھے لیکن وہ سب کے سب اپنی ماؤں کے ساتھ ہوتے۔ باغ کا ماحول کچھ اس طرح کا ہوتا کہ ایک جانب ہند و پاک کی خواتین دائرہ نما بیٹھ کر آپس میں باتیں کر رہی ہوتیں اور بچے اِدھر اُدھر سارے باغیچے میں بھاگ دوڑ رہے ہوتے۔ بنجامن فوراً دوڑ کر دیگر بچوں کے ساتھ کھیل کود میں شامل ہو جاتا لیکن جوناتھن چپ چاپ تنہا ایک بنچ پر بیٹھ کر وقت گزارہ کرتا تھا۔ جب اس کے جانے کا وقت قریب ہوتا وہ بنجامن کو لے کر واپس آتا۔ کبھی اسے کارٹون فلم میں مصروف کر کے ایوان کو لانے نکل جاتا کبھی اپنے ساتھ لے جاتا۔
اس روز خلافِ معمول ایوان کو واپس لانے کی ڈیوٹی ختم ہو گئی اور بنجامن کے کھیل کا وقفہ بڑھ گیا۔ بنجامن اپنے چند دوستوں کے ساتھ باغ کے ایک کنارے فٹ بال کھیل رہا تھا۔ یہ ایک ننھی سی گیند تھی جس سے چھوٹے بچے کھیلا کرتے تھے۔ اتفاق سے وہ لوگ گیند کے پیچھے دوڑتے ہوئے باغ کے پرلے کنارے پہنچ گئے اور جو بنجامن نے کک لگائی تو گیند اڑ کر باغ کے عقب میں واقع تالاب میں جا گری۔ پھر کیا تھا کھیل بند ہو گیا سارے بچے منتشر ہو گئے مگر سرجیت سنگھ رونے لگا اس لئے کہ تالاب میں جا کر گرنے والی گیند اس کی تھی۔ طارق نے آ کر اپنی امی گلناز کو بتلایا کہ سرجیت تالاب کے کنارے کھڑا رو رہا ہے۔ یہ سن کر گلناز اور سرجیت کی ماں ارمندر کور تالاب کی جانب دوڑ پڑیں۔
تالاب کے کنارے سرجیت زار و قطار رو رہا تھا۔ ارمندر نے اسے سمجھایا اب گھر چل میں کل تجھے دوسری گیند دلا دوں گی لیکن اس کا اصرار تھا کہ مجھے یہی چاہئے۔ ارمندر نے سرجیت کو بہلانے کیلئے کہا تیری گیند کس نے تالاب میں پھینکی تو مجھے اس کا نام بتا میں اس کی پٹائی کروں گی۔ اس سے پہلے کہ سرجیت کچھ بولتا طارق بول پڑا آنٹی وہ گورا لڑکا ہے نا بنجامن اسی نے گیند تالاب میں پہنچائی ہے آپ اس کی خوب جم کر پٹائی کریں۔سرجیت بھی اب سر ہلا رہا تھا اس کا رونا بند ہو گیا تھا۔ گلناز نے پوچھا کہاں ہے وہ بدمعاش بنجامن چلو اس کو سبق سکھاتے ہیں۔ طارق بولا وہ اپنے باپ کے پاس ہو گا اس کونے میں بنچ پر اس کا باپ بیٹھا ہوتا ہے۔
باپ کا نام سن کر دونوں عورتوں کے قدموں میں زنجیر پڑ گئی۔ اگر بنجامن کے ساتھ اس کی ماں یا آیا ہوتی تو کام بن جاتا لیکن اب اس کے انگریز باپ سے بھلا کیا بات کی جائے ؟ سرجیت بولی اگر ایسا ہے تو جانے دو میں اسے ایک کے بجائے دو گیندیں دلا دوں گی۔ یہ سنتے ہی سرجیت کا گراموفون پھر سے چل پڑا اور اب وہ دہاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ ممی ! ممی آپ کو بنجامن کی پٹائی کرنی ہی ہو گی۔ مجھے گیند نہیں چاہئے۔ مجھے پٹائی چاہئے۔ بنجامن نے دور سے سرجیت اور طارق اپنی جانب آتا ہوا دیکھا تو یہ سمجھا کہ شاید گیند مل گئی وہ از خود ان کی جانب دوڑ پڑا۔ طارق بولا وہ دیکھو بنجامن آ رہا ہے۔ شام کے سائے لمبے ہو چکے تھے اس لئے بنجامن کے پیچھے جوناتھن بھی تھا۔سرجیت پھر رونے لگا تھا۔ وہ چلائے جا رہا تھا مارو! مارو!! اس کی خوب جم کر پٹائی کرو اسی نے میری گیند کو تالاب میں پھینکا ہے۔ سرجیت اسے ڈانٹ رہی تھی چپ کر بدتمیز ورنہ تیری پٹائی کر دوں گی۔ یہ سن کر سرجیت اور زور سے رونے لگا۔
جوناتھن نے بنجامن سے پوچھا ماجرہ کیا ہے ؟ طارق اور بنجامن نے مل کر اسے ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ جوناتھن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ تیز قدم بڑھاتا ہوا تالاب کے پاس گیا اور اندر اتر گیا۔ کچھ دیر بعد وہ گیند ہاتھوں میں لئے واپس آ رہا تھا۔ اس کے سارے کپڑے گیلے ہو چکے تھے۔ سرجیت نے اس کے ہاتھ میں اپنی گیند کو دیکھا اپنا سارا دکھ درد بھول گیا اور دوڑ کر اس کے پاس پہنچا۔ جوناتھن نے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔پہلے اس کے گالوں پر بوسہ دیا اور پھر گیند اس کو تھما دی۔ تینوں بچے گیند کو لے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہوا کافی سرد تھی۔ تالاب کا پانی اس سے بھی زیادہ سرد تھا ایسے میں جوناتھن کا بلا دریغ پانی میں اتر جانا گلناز اور ارمندر دونوں کیلئے حیرت انگیز تھا۔
ارمندر نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جوناتھن کا شکریہ ادا کیا۔ گلناز نے کہا آپ گھر جا کر فوراً کپڑے تبدیل کر لیں ورنہ بیمار ہو جائیں گے۔ جوناتھن اپنی ناقص انگریزی کی مدد سے مدعا سمجھ گیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔سرجیت اور طارق اپنی ماؤں کے ساتھ گھر جا رہے تھے اور جوناتھن اپنے ساتھ بنجامن کو گھر لے جا رہا تھا۔ گھر پہنچنے تک اس کی حالت خراب ہو چکی تھی۔ اس کا جسم شل ہونے لگا تھا۔ وہ دیر تک حمام میں ٹب کے اندر گرم پانی میں بیٹھا رہا۔ جوناتھن کو اپنی حماقت پر غصہ بھی آ رہا تھا اور ہنسی بھی آ رہی تھی۔ بہت دنوں کے بعد اس نے بنجامن کے علاوہ کسی بچے کو روتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایک عرصے کے بعد کسی اور کے بچے کو اس نے اپنی گود میں اٹھایا تھا اور اس کا بوسہ لیا تھا اور ایک زمانے کے بعد کسی اجنبی کے ساتھ اس کی بات چیت ہوئی تھی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا گویا اس کی زندگی کا ایک خلاء پر ہو گیا ہے۔
اس روز رات میں ارمندر کور نے اپنے شوہر دھرمندر سنگھ کو باغ کا واقعہ سنایا تو وہ بولا اگر کوئی سردار اس طرح کی حرکت کرتا تو کسی کو اس پر تعجب نہ ہوتا زیادہ سے زیادہ ہماری شان میں ایک اور لطیفے کا اضافہ ہو جاتا لیکن چونکہ ایک انگریز نے یہ کر دیا اس لئے تم سب کو حیرت ہے خیر کوئی بات نہیں یہ آدمی دلچسپ لگتا میں کسی دن فرصت میں اس سے ملوں گا۔ اس نے میرے سرجیت کیلئے اپنے آپ کو اس قدر مشقت میں ڈالا اس لئے مجھے اس کا شکریہ ادا کرنا ہی چاہئے۔ ارمندر نے کہا کیا صرف مل کر شکریہ ادا کرو گے میں تو کہتی ہوں ہم لوگوں کو ان کی دعوت کرنا چاہئے۔ ان کی کیا مطلب ؟ اس کے ساتھ بچہ ہے تو بیوی بھی ہو گی ؟ جی ہاں ماں کے بغیر بچہ کیوں کر ہو سکتا ہے ؟لیکن اس کی ماں کبھی نظر نہیں آئی بلکہ سچ تو یہ ہے اس باغ میں آج تک میں نے کسی انگریز عورت کو دیکھا ہی نہیں۔
یہ ہمارا علاقہ ہے دھرمندر بولا اس میں بیچارے انگریزوں کا کیا کام جو بھی بھولا بھٹکا آ جاتا ہے جلد ہی بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں اس سے پہلے کہ یہ لوگ بھی یہاں سے نکل بھاگیں ہمیں ان کی دعوت کرنی ہی چاہئے۔ دھرمندر بولا ارمندر ایک بات بولوں تم جس بات کے پیچھے پڑ جاتی ہونا تو پھر اس کو کر کے ہی رہتی ہو میری تو رائے یہ ہے تم کو جو کرنا ہو کر دیا کرو مجھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ ارمندر بولی اس میں ناراض ہونے کی کیا بات تم خود بھی تو شکریہ ادا کرنے کی بات کہہ رہے تھے۔ جی ہاں میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا اب تمہیں جو کرنا ہے کر گزرو لیکن اس بات کا خیال رکھنا کہ انگریز تمہارے پسندیدہ پکوان نہیں کھاتے اگر تم نے انہیں مرچوں والا سالن کھلا دیا تو ان کو یہ دعوت مہنگی پڑ جائے گی۔
ارمندر بولی دیکھو مترّ کل ہفتہ ہے اور پرسوں اتوار۔ کیوں نہ ہم پرسوں ان لوگوں کو اپنے گھر پر بلائیں ؟ جی ہاں اتوار ہی کے دن تو مجھے چھٹی ہوتی ہے اس لئے یہ اچھی تجویز ہے۔ لیکن اس کیلئے ہمیں آج ہی انہیں دعوت دینی ہو گی ممکن ہے کل وہ کوئی اور پروگرام بنا لیں ؟ یہ بھی ٹھیک ہے تم ایسا کرو کہ ابھی جا کر ان کو دعوت دے آؤ۔ میں کیوں ؟ ارمندر نے کہا۔ اس لئے کہ میں تو اسے جانتا بھی نہیں وہ میری دعوت کیوں کر قبول کرے گا؟ اور پھر تم تو اس کی بیوی کو بھی بلانے والی تھیں ؟ جی ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر اس کی بیوی گھر پر نہ ہوئی تو ؟ تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ اگر موجود ہو تو بلا لینا اور نہ ہوئی تو نہ بلانا اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟
ارمندر نے کہا دیکھو دھرمندر لوگ سرداروں کے بارے میں جو لطیفے گھڑتے ہیں بالکل درست کرتے ہیں لیکن میں سردارنی ہوں۔ اب تم اپنی سستی چھوڑو اور میرے ساتھ چلو ہم تینوں مل کر جاتے ہیں اور ان کو دعوت دے کر آتے ہیں۔ دھرمندر نے جواب دیا تم ایک دن ٹرک چلاؤ گی نا تو تین دن تک بستر پر پڑی رہو گی۔ اس سے پہلے تمہیں معلوم نہ ہو گا کہ آرام کی اہمیت کیا ہے ؟ ٹرک میں کیوں چلاؤں ؟ وہ چلائیں میرے دشمن ؟ اچھا ایک انگریز سے دوستی کیا ہوئی کہ ہم دشمن ہو گئے ؟ دھرمندر نے شوخی کے ساتھ کہا۔ ارمندر بولی اب دل لگی چھوڑو اور میرے ساتھ چلو۔
جوناتھن نے گھنٹی کی آواز سنی تو سوچا ایوان ہے لیکن وہ اتنی جلدی اور پھر اس کے پاس تو چابی ہے وہ گھنٹی بجانے کی زحمت کیوں کرنے لگی؟ جون نے دروازہ کھولا اس کے آگے آگے بنجامن بھی تھا۔ بنجامن نے جیسے ہی دروازے پر اپنے دوست سرجیت کو کھڑا دیکھا تو خوش ہو گیا۔ یہ پہلا مہمان تھا جو اس کے گھر آیا تھا۔ سرجیت اور وہ دوسرے کمرے میں دوڑ گئے۔ جوناتھن نے ارمندر کو پہچان لیا اور سمجھ گیا کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند ہے۔ جوناتھن نے مسکرا کر ان کا استقبال کیا اور انہیں مہمان خانے میں لے گیا۔ ان تینوں کی انگریزی خاصی کمزور تھی اس کے باوجود ان لوگوں سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا وہ لوگ اپنا مدعا بیان کرنے میں کامیاب تھے۔
ارمندر نے بنجامن کی ماں کے بارے میں پوچھا تو جوناتھن بولا ایوان ابھی آئی نہیں ہے کچھ دیر میں آ جائے گی۔ جوناتھن نے ان کو بسکٹ اور ٹھنڈے مشروب پیش کئے۔ دھرمندر نے اسے اتوار کی دوپہر اپنے گھر کھانے کیلئے آنے کی دعوت دی۔ جوناتھن نے اسے بصد شوق قبول کر لیا اور بہت شکریہ ادا کیا۔ ارمندر نے دوسرے دن آ کر ایوان کو دعوت دینے کا وعدہ کیا اور رخصت لی۔ دھرمندر سے مل کر جوناتھن کو بہت خوشی ہوئی تھی۔ اسے ایسا لگنے لگا تھا کہ وہ کسی جنگل میں نہیں بلکہ انسانوں کے درمیان زندگی گزار رہا ہے۔ ایسے انسانوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق وسروکار رکھتے ہیں نیز باہم مل جل کر خوش ہوتے ہیں۔
۷
جمعہ ہونے کے سبب اکثر لوگ وقت سے پہلے ہی دفتر سے رفو چکر ہو چکے تھے لیکن ایوان خلاف توقع دفتر میں ڈٹی ہوئی تھی۔ اسے بڑی بے چینی کے ساتھ شہریار کے فون کا انتظار تھا۔ ویسے تو دفتر میں اس کیلئے خاصہ کام تھا لیکن اس کا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ بار بار اس کا ذہن دفتر سے نکل کر باہر چلا جاتا اور پھر وہ اپنے تصورِ خیال میں اپنے آپ سے بلکہ شہریار سے باتیں کرنے لگتی۔ خود ہی سوال کرتی اور خود ہی جواب دیتی کچھ دیر بعد اس لایعنی ادھیڑ بن سے نکل کر وہ واپس اپنی میز پر آتی اور پھر باہر نکل جاتی۔ اس بیچ فون کی گھنٹی بجی اور اس نے نام دیکھے بغیر لپک کر کہا بولو شہریار تم کہاں ہو؟ ماریہ بولی شہر یار کہاں ہے یہ میں نہیں جانتی میری اچھی سہیلی ایوان؟ بلکہ میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ کون ہے ؟
ایوان نے اپنے آپ کو سنبھال کر کہا ماریہ بات کا بتنگڑ بنانا تو کوئی تم سے سیکھے کہو کیسے یاد کیا؟ ماریہ بولی بس یونہی بیٹھے بیٹھے تمہارا خیال آیا سوچا بہت روز ہو گئے بات کئے ہوئے۔ تم تو ہمیں یاد کرتی نہیں ہو ؟کیوں نہ میں ہی فون کر لوں ؟ جی ہاں میری اچھی سہیلی ماریہ میں آج کل بہت پریشان ہوں اس لئے کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ تم کو فون کروں لیکن پھر سوچا تم پوچھو گی کیسی ہوں ؟ اب اگر میں نے تکلفاً کہہ دیا کہ اچھی ہوں تو وہ جھوٹ ہے اور یہ کہا اچھی نہیں ہوں تو تم وجہ پوچھو گی۔ اس لئے فون نہ کرنے میں عافیت نظر آئی۔ ماریہ بولی ایوان شاید تم نے ہی مجھے بتایا تھا کہ اپنا دکھ درد بانٹ لینے سے ان میں کمی ہو جاتی ہے اور اس کے بعد میں نے اپنا کوئی غم تم سے نہیں چھپایا۔ ایوان بولی جی ہاں ماریہ تمہاری بات بالکل درست ہے لیکن کچھ صدمے ایسے بھی ہوتے جنہیں نہ کہا جاتا ہے اور نہ سہا جاتا ہے۔
ماریہ بولی میں نے پہلے تمہارے گھر فون کیا تھا مجھے جوناتھن نے بتایا کہ تم اپنی کسی سہیلی کے گھر پارٹی میں گئی ہوئی ہے لیکن اب پتہ چلا کہ تم کسی شہریار کا انتظار کر رہی ہو۔ ایوان بولی ماریہ بات وہی صحیح ہے جو جوناتھن نے تمہیں بتائی۔ آج دفتر میں کام بہت زیادہ ہے ، اس لئے سارے لوگ تو دعوت میں چلے گئے ایک میں پیچھے رہ گئی۔اب ہماری جس سہیلی کے یہاں دعوت ہے اس نے اپنے ڈرائیور کے ساتھ گاڑی بھجوائی ہے۔ ایوان نے بات بنانے کی کوشش کی تو ماریہ بولی سمجھ گئی بابا کہ اس ڈرائیور کا نام شہریار ہے جو تمہیں لینے کیلئے آ رہا ہے۔ایوان بولی آ چکا ہے ماریہ مجھے ابھی ایک اور فون آ رہا ہے اس لئے میں تم سے کل فرصت میں بات کروں گی۔ ماریہ قہقہہ لگا کر بولی میں سمجھ گئی تمہارا شہریار آ چکا ہے اب تم ہمیں کیوں گھاس ڈالو گی؟ایوان نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے کہا چپ بدمعاش لڑکی۔ ماریہ بولی میں تو چپ کر رہی لیکن تم سن لو اگر یہ شہریار پاکستانی ہے تو اس سے سنبھال کر رہنا وہ بہت خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔ میری نیک خواہشات اپنی سہیلی کے ساتھ۔
ماریہ کا فون بند ہو گیا لیکن اس سے پہلے شہریار کا فون بھی بند ہو چکا تھا۔ ماریہ جاتے جاتے شک کا ایک زہریلا بیج ایوان کے دل میں ڈال گئی تھی۔ ایوان نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو شہریار کی گاڑی سامنے کھڑی تھی۔ ایوان اپنا پرس سنبھال کر کھڑی ہوئی سامنے لگے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ بالوں کو درست کیا اور ایک شانِ بے نیازی کے ساتھ باہر آ گئی۔ شہریار نے اسے سامنے سے آتے ہوئے دیکھا تو ادب کے ساتھ باہر آیا اور عقبی دروازہ کھول کر احتراماً کھڑا ہو گیا۔ یکبارگی ایوان کو ایسا لگا کہ اس کی پرنانی گولڈا کا استقبال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے پیروں تلے سرخ قالین کے بجائے سبز گھاس تھی۔ سرخ انقلاب کی آہٹ بہت دور سنائی دے رہی تھی۔ ایوان پچھلی نشست کے بجائے اگلی سیٹ جانب بڑھی اور ڈرائیور کے بغل والی نشست پر براجمان ہو گئی۔ اس میں شک نہیں کہ ایوان کے ساتھ شہریار بے تکلف تھا اس کے باوجود اسے ایسی توقع نہیں تھی۔
شہریار دوسری جانب سے گاڑی میں آیا اور چابی گھما دی۔ جیسے ہی گاڑی آگے بڑھی شہریار بولا تاخیر کیلئے میں معافی چاہتا ہوں۔ ایوان اٹھلا کر بولی لیکن میں آج تمہیں معاف نہیں کروں گی۔ شہریار کیلئے یہ حیرت کا دوسرا جھٹکا تھا وہ سوچنے لگا شاید ایوان کو آج پھر کچھ ہو گیا ہے ؟ شہریار نے کہا اگر آپ مجھے سزا دینا چاہتی ہیں تو بندہ حاضر ہے اور فلمی نغمہ گنگناتے ہوئے بولا ’ترے ظلم و ستم سر آنکھوں پر ‘۔ ایوان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا وہ بولی کیا؟؟؟ شہریار پھر انگریزی میں آ گیا اور بولا میرا مطلب ہے آپ کی سزا بھی میرے لئے باعثِ افتخار وسعادت ہو گی۔
شہر یار کا انداز ایسا تھا گویا کسی ڈرامے کے مکالمے چبا چبا کر سنا رہا ہو۔ ایوان کو اس کی باتوں میں حسبِ معمول مزہ آ رہا تھا۔ وہ بولی شہریار تکلف چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ مجھے جانا کہاں ہے ؟آپ کو کہاں جانا ہے یہ میں کیونکر جان سکتا ہوں ؟ اگر تم نہیں جانتے تو مجھے کہاں لئے جا رہے ہو؟ شہریار کیلئے ان بے ربط سوالات سے کوئی معنیٰ نکالنا مشکل کام تھا۔ اسے تو یہی یاد تھا کہ ایوان کو دفتر سے گھر لے کر جانا ہے لیکن یہ بہکی بہکی باتیں اس کے ذہن کو پراگندہ کر رہی تھیں۔
ایوان نے پوچھا شہریار میرے سوال کا تم نے کوئی جواب نہیں دیا کیا یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے جسے تم نظر انداز کر رہے ہو؟ شہریار بولا محترمہ کیا آپ کو اپنے گھر نہیں جانا ہے ؟ گھر ! گھر تو جانا ہی ہے لیکن اس سے پہلے ایوان رک گئی۔ شہریار بولا اس کے پہلے آپ کو بازار جانا ہے ؟ جی ہاں۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں پتہ ہو گا میں کس مال میں جانا چاہتی ہوں۔ جی ہاں مجھے پتہ اب گاڑی مارک اینڈ اسپینسر کی جانب چل پڑی تھی۔ ایوان کے دماغ میں ماریہ کا جملہ گونج رہا تھا وہ سوچ رہی تھی کہ کیا کرے ؟ اپنے منصوبے پر عمل درآمد کرے یا اسے ترک کر دے ؟ راستے بھر خاموشی رہی ایوان خیالوں کی دنیا میں نہ جانے کیا تلاش کرتی رہی اس کے برعکس شہریار حقائق کی سڑک پر گاڑی دوڑاتا رہا۔ مال پر پہنچنے کر جب شہریار نے گاڑی روکی تو ایوان نے پوچھا کیا تم یہیں بیٹھے رہو گے ؟ شہریار سوالیہ نگاہوں سے ایوان کو دیکھ رہا تھا کہ ایوان نے دوسرا سوال جڑ دیا کیوں تمہیں اس روز کافی پسند نہیں آئی تھی؟ شہریار بولا جی نہیں ایسی بات نہیں اس روز کی کافی کا ذائقہ تو اب بھی میری زبان پر ہے۔
مجھے تم سے یہی توقع تھی ایوان خوش ہو کر بولی تو کیا اب پھر ایک بار اس کا مزہ تازہ کرنے کا ارادہ نہیں ہے ؟ کیوں نہیں اگر آپ کا حکم ہو تو میرا سر تسلیمِ خم ہے۔ ٹھیک ہے تو چلو۔ وہ دونوں اسی کافی ہاؤس میں آ کر بیٹھ گئے۔ کافی کا آرڈر دینے کے بعد ایوان بولی شہریاراس روز ہماری گفتگو ادھوری رہ گئی تھی میں اسے آگے بڑھانا چاہتی ہوں ؟ شہریار استفہامیہ انداز میں بولا’’ میں کچھ سمجھا نہیں ؟‘‘ اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ اس روز جب میں نے سوال کیا تھا کہ تمہیں برطانیہ کی شہریت کیسے مل گئی تو تم نے یہ کہہ کر بات ٹال دی تھی کہ یہ کہانی خاصی طویل ہے اور شام ڈھل چکی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ یہ شہریت تمہیں کیسے حاصل ہو گئی اور آگے تمہارا منصوبہ کیا ہے ؟
شہریار نے گھڑی کی جانب دیکھ کر پوچھا کیا آپ کو آج کوئی خریداری نہیں کرنی ہے ؟ ایوان کا جواب نفی میں تھا۔ شہریار نے ایوان کی سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے کہا اس داستانِ غم کی ابتداء میری نہیں بلکہ میرے والد حامد یار خان کی پہلی ہجرت سے ہوتی ہے۔ ایوان بولی اوہو سمجھ گئی اس کا مطلب ہے تمہارے والد صاحب برطانیہ آ گئے تھے اور پھر سارے راستے کھل گئے۔ شہریار بولا جی نہیں یہ اس قدر سہل بھی نہیں ہے۔پہلے آپ کو یہ جاننا ہو گا کہ انہوں نے اپنے وطن عزیز کے بعد وطن چانی کو کیوں خیرباد کہا؟
اس سوال نے ایوان کی دلچسپی میں اضافہ کر دیا وہ بولی جی ہاں یہ بنیادی سوال ہے۔ مجھے بتاؤ کہ یہ سب کیوں ہوا؟ شہریار کسی ماہر قصہ گو کی مانند بول رہا تھا دراصل قیامِ پاکستان کے بعد میرے والد اپنے بڑے بھائی نواب محمود یار خان کے ساتھ ہجرت کر کے اپنے آبائی وطن رامپور سے لاہور آ گئے۔ ان دونوں بھائیوں کا مزاج ایک دوسرے کے متضاد تھا۔ بڑے بھائی کا مزاج جاگیردارانہ تھا تو چھوٹا بھائی اشتراکیت سے متاثر تھا۔ افکارو خیالات کا یہ بُعد ان کے درمیان پائی جانے والی اخوت اور محبت پر غالب آ گیا۔
ایوان بولی یہ اس دور کا عام مسئلہ تھا میرے والد بھی اس کا شکار ہوئے۔ انہوں نے بھی اشتراکی نظریہ کی خاطر سارے خاندان سے لڑائی مول لی۔ شہریار بولا بہت خوب اگر تم خود اس صورتحال سے گزر چکی ہو تو تمہیں اس کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ میرے والد کا مسئلہ صرف نظری نہیں بلکہ عملی بھی تھا۔ ان کی روشن خیالی اور رہنماؤں کی صحبت نے انہیں بلا نوش بنا دیا تھا لیکن اس کے باوجود اپنی قدیم روایات کا اس قدر پاس و لحاظ تھا کہ شراب پی کر اپنے بڑے بھائی کے سامنے آنے کی جرأت ان کے اندر نہیں تھی اس لئے وہ کئی کئی دنوں تک گھر نہ آتے تھے پارٹی کے دفتر میں پڑے رہتے تھے اس لئے کہ علاحدہ گھر لے کر رہنے کی سکت ان کے اندر نہیں تھی۔ اس صورتحال سے نکلنے کیلئے انہوں نے دوسری ہجرت کا فیصلہ کیا اور برطانیہ چلے آئے۔
شہریار کی آپ بیتی میں ایوان کو اپنے والد کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی اور یکے بعد دیگرے مشابہت نظر آ رہی تھی۔ سائمن نہ صرف حامد یار خان کی طرح اشتراکیت نواز تھا بلکہ اس نے بھی اپنی بیوی کے دباؤ میں آ کر ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دونوں اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر ایک نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی نوزائیدہ ریاست کا رخ کیا تھا لیکن سائمن اور حامد میں بنیادی فرق یہ تھا سائمن پہلی ہجرت کر کے وہیں اسرائیل میں ٹکا رہا برطانیہ نہ آسکاجبکہ حامد ایک اور انتقال مکانی کر کے برطانیہ پہنچ گیا۔ ایوان نے پوچھا تو کیا تمہارے والد نے یہاں آ کر بیاہ رچا لیا ؟ شہر یار بولا جی نہیں یہاں آنے سے قبل میرے والد کی نہ صرف شادی ہو چکی تھی بلکہ وہ دو بچوں کے باپ تھے۔
اچھا تو پھر کیا ہوا ایوان نے پوچھا۔ کوئی خاص بات نہیں یہاں آنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے نوابیت کا آبائی قلادہ عملاً اپنے گلے سے نکال پھینکا اور ایک عام آدمی بن گئے۔ اس کے بعد ایک کپڑا مل میں ملازمت کر لی جیساکہ آپ کرتی ہیں۔ ایوان کے تجسس میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا تھا وہ بولی لیکن مجھے تو نہ ہی برطانوی شہریت مل سکی ہے اور نہ اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے اس لئے یہ بتاؤ کہ یہاں آنے کے بعد انہوں نے ایسا کیا کیا جو حکومتِ برطانیہ نے انہیں شہری حقوق سے نواز دیا۔ شہریار بولا محترمہ میں آپ کو بتلا چکا ہوں کہ میرے والدین پاکستانی ہیں اور انہیں یہاں کی شہریت کبھی نہیں ملی۔ایوان کیلئے معمہ پیچیدہ ہو چکا تھا وہ بولی اچھا تو یہ بتاؤ کہ تمہیں کیسے مل گئی ؟
دراصل اس سوال کا جواب تمہارے پچھلے سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔ میرے والد نے یہاں آنے کے بعد اپنی اہلیہ یعنی میری ماں کو بلوا لیا اس طرح افزائش نسل کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یہاں آنے کے بعد انہیں تین بچے تولد ہوئے جن میں سے ایک میں اور دیگر دو بہنیں ہیں۔ برطانوی قانون کے مطابق یہاں کی سرزمین پر پیدا ہونے والا ہر بچہ شہریت کا حقدار ہے اس طرح میں اور میری دونوں بہنیں شہریت کی حامل ہو گئیں۔ ایوان بولی یہ تو بہت ہی آسان طریقۂ کار ہے۔
شہریار ایک زوردار قہقہہ لگا کر بولا جی ہاں لیکن صرف ان لوگوں کیلئے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں گویا آسانی اس کیلئے جو نہ اس کو جانتا ہے اور نہ اسے کچھ کرنا ہے۔جو لوگ کہیں اور پیدا ہو چکے ہیں ان کیلئے یہ کام ایسا آسان بھی نہیں۔ ایوان سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔معاملہ سلجھتے سلجھتے پھر الجھ چکا تھا۔ اب دوبارہ پیدا ہونا ایوان کے قبضۂ قدرت میں نہیں تھا۔ اس معرفت نے اس کی کافی میں نہ جانے کتنے من کڑواہٹ گھول دی تھی۔
ایوان نے گھڑی کی جانب دیکھ کر کہا شہریار کافی وقت ہو چکا ہے چلو واپس چلتے ہیں۔شہریار سر جھکا کر گاڑی میں لوٹ آیا۔ ایوان جب کافی کی قیمت چکا کر باہر نکلی تو دیکھا شہر یار جا چکا ہے۔وہ بھی بوجھل قدموں کے ساتھ گاڑی میں آئی اور پچھلی نشست پر آنکھیں موند کر بیٹھ گئی۔ شہر یار کی گاڑی مانچسٹر کی سڑکوں پر رینگ رہی تھی۔ بنجامن سوچکا تھا مگر جوناتھن کی آنکھوں سے نیند ندارد تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس قدر نفرت کے باوجود وہ ایوان کا انتظار کیوں کرتا ہے ؟ وہ ایوان کے بغیر اپنے آپ کو ادھورا کیوں محسوس کرتا ہے ؟ نیچے گلی میں جب بھی کسی گاڑی کی آہٹ سنائی دیتی ہے وہ کھڑکی سے باہر جھانک کر کیوں دیکھتا ہے ؟ اور ایوان کو وہاں نہ پا کر اداس کیوں ہو جاتا ہے ؟
اس بار جب جوناتھن نے دیکھا تو شہریار کی گاڑی کو دیکھ کر چونک پڑا۔ اس کے دماغ میں پھر ایک بار ایوان کا جملہ کوند گیا ؟ پھر یکایک شکوک و شبہات کے بادل چھا گئے۔ وہ سوچنے لگا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کیوں ہو رہا ہے ؟ اب آگے کیا ہونے والا ہے ؟ ایوان کے گاڑی سے نکل کر گھر کے اندر آنے تک بے شمار سوالات زہریلے سانپوں کی مانند سر ابھار چکے تھے اور ان میں سے کسی کا سر کچلنے کی سکت جوناتھن میں نہیں تھی۔ خلافِ عادت وہ دروازے تک اٹھ کر نہیں آیا بلکہ اپنی جگہ پڑا رہا۔ چابی کے گھومنے کی اور قفل کے کھلنے کی آواز بھی اس نے سنی پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ایوان کیلئے جوناتھن کا رویہ خلافِ توقع تھا۔ وہ خوابگاہ کے اندر آئی بنجامن کی پیشانی پر بوسہ دیا اور مسہری کے بغل میں پڑی کرسی پرسلام کر کے بیٹھ گئی۔
جوناتھن نے پوچھا ایوان خیریت توہے ؟ ایوان بولی جی ہاں لیکن دن بھر دفتر کی تھکن اور بھر یہ دعوت میں تو تھک کے چور ہو گئی۔ جوناتھن بولا کہیں تمہاری سہیلی نے تمہیں پیدل تو روانہ نہیں کر دیا ؟ وہ جاننا چاہتا تھا کہ ایوان شہریار کے معاملے میں کیا مؤقف اختیار کرتی ہے ؟ جوناتھن کے خیال میں اسے چھپانے کی سعی شکوک کو یقین میں بدلنے کیلئے کافی تھی؟ ایوان نے کہا نہیں جون وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی لیکن مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ اس نے وعدہ خلافی کی۔ جوناتھن نے سوال کیا اچھا وہ کیسے ؟ ایوان بولی اس نے کہا تھا وہ خود مجھے چھوڑ کر جائے گی لیکن وہ بہانہ بنا کر گھر بیٹھ رہی۔
جوناتھن نے کریدنے کی غرض سے پوچھا اچھا تو تم کیسے آئیں ؟ ٹیکسی سے ؟ ایوان نے جواب دیاٹیکسی؟؟؟ اس قدر رات میں ٹیکسی کا ملنا مشکل تھا مگر میری سہیلی کے پاس شہریار کا فون نمبر تھا۔ اس نے شہریار کو بلا کر اس کے ساتھ مجھے اپنے گھر روانہ کر دیا۔ یہ جواب جوناتھن کے توقعات کے خلاف تھا۔ ایوان نے صاف ساف بتا دیا تھا اس نے کوئی بات چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ شکوک و شبہات کے بادل چھٹنے لگے تھے۔ جوناتھن بولا آج میرے اور بنجامن کے ساتھ بھی ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا تم کپڑے بدل کر آؤ تو میں تمہیں سناؤں۔ ایوان بولی آج نہیں جون آج میں بہت تھک گئی ہوں میں تمہاری بات کل چھٹی کے دن اس کو تفصیل سے سنوں گی۔ شب بخیر۔ اب تم بھی سوجاؤ۔ ایوان بتی بجھا کر حمام کی جانب چل پڑی۔
دوسرے دن صبح دس بجے ارمندر کور نے سوچا کیوں نہ ایوان سے مل کر اسے دعوت دے دی جائے۔ وہ تیاری سے قبل اس کو یقینی بنا لینا چاہتی تھی اور پھر اپنے کچھ اور دوست و احباب کو دعوت دینا چاہتی تھی۔ ارمندر کو برطانیہ کے اندر رہتے ہوئے تقریباً دس سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا لیکن ابھی تک اس کے گھر میں کوئی سفید فام مہمان نہیں آیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ ایک خاص تقریب تھی اور وہ اس کا حسب حال اہتمام کرنا چاہتی تھی۔ دھرمندر صبح سویرے اپنے کام پر نکل گیا تھا۔ ارمندر نے سرجیت کو تیار کیا اسے اپنے ساتھ لے کر ایوان کے گھر پہنچ گئی۔جس وقت ارمندر وہاں پہنچی ایوان دروازے پر موجود تھی۔
ارمندر نے سلام کر کے اس کی خیریت دریافت کی ایوان نے اپنے طور سے سمجھ لیا یہ عورت کام مانگنے کیلئے آئی۔اس نے فوراً کہا معاف کرنا ہمارے پاس فی الحال کوئی کام نہیں ہے۔ ایوان کے ا س جواب سے ارمندر ہکاّ بکاّ رہ گئی۔ اس کی زبان گنگ ہو گئی ایوان نے بے رخی سے اپنا منہ پھیر لیا۔ ارمندر نے سوچا کہ کچھ بولے لیکن اس کی عزت نفس نے گوارہ نہ کیا۔ اس بیچ سرجیت اندر بنجامن کے پاس جانے کیلئے مچلنے لگا۔ایوان دروازہ بند کر چکی تھی لیکن سرجیت مان نہیں رہا تھا۔ ارمندر نے ایوان کا غصہ سرجیت پر اتارتے ہوئے اسے ایک طمانچہ جڑ دیا۔ اب کیا تھا سرجیت زور زور سے رونے لگا۔
اس چیخ پکار کو سن جوناتھن نے نیچے دیکھا تو ارمندر اسے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جا رہی تھی۔ جوناتھن سمجھ گیا کہ کوئی گڑ بڑ ہو گئی۔ اس نے ایوان سے پوچھا کیا ہوا؟ ایوان بولی کچھ نہیں۔ اس نے پھر سوال کیا وہ بچہ کیوں رو رہا ہے ؟ ایوان نے جواب دیا یہ میں کیسے جان سکتی ہوں ؟ تمہیں اگر اس سے بہت ہمدردی ہے تو جا کر اس کی ماں سے پوچھو۔ جوناتھن ان روکھے جوابات سے پریشان ہو رہا تھا اس نے پھر سوال کیا تم اس لڑکے یا اس کی ماں کو جانتی ہو۔جی نہیں میں نہیں جانتی اور جاننا بھی نہیں چاہتی۔ یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ایوان تم کسی سوال کا سیدھا جواب کیوں نہیں دیتیں ؟ میں تو سیدھا جواب دے رہی ہوں لیکن شاید وہ جواب نہیں دے رہی ہوں جو تم چاہتے ہو۔
جوناتھن کو احساس ہوا کہ وہ درست سوال نہیں کر رہا ہے۔ اس نے سنبھل کر پوچھا کیا اس عورت سے تمہاری بات ہوئی۔ ایوان کو ایک اجنبی ایشیائی عورت میں جونا تھن کا اس قدر دلچسپی لینا کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ بولی ہاں وہ شاید کام مانگنے آئی تھی۔ اب یہاں تو خود ہمارے ہی خرچ کے لالے پڑے ہوئے ہیں ایسے اسے کام کہاں سے دیں ؟ جوناتھن نے پھر پوچھا کیا اس نے تم سے یہ بات کی؟ ایوان بولی کی تو نہیں لیکن میں سمجھ گئی کہ دعا سلام کے بعد وہ کیا کہنے والی ہے اس لئے میں اس کا اور اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے براہِ راست منع کر دیا۔جوناتھن بولا تم نے بہت بڑی غلطی کی ایوان۔تمہیں ایک بڑی بدگمانی ہو گئی جس کے نتیجے میں تم نے سارا کام خراب کر دیا۔
ایوان اب سنجیدہ ہو گئی اس نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو جون۔میں نے کون سا کام خراب کر دیا ایسی کیا بدگمانی ہو گئی مجھے ؟ کیا تم اس عورت کو جانتے ہو؟ جوناتھن بولا جی ہاں میں اسے جانتا ہوں۔ کل رات میں اس کے اور اس کے خاوندو لڑکے کے بارے میں تمہیں بتانے جا رہا تھا لیکن تم نے اس کو صبح پر ٹال دیا اور پھر ہم اپنے کاموں میں لگ کر اس بات کو بھول گئے۔ اب تم یہاں سکون سے بیٹھو تاکہ میں تمہیں کل کی واردات بتا سکوں۔ایوان بیٹھ گئی اور جوناتھن نے گزشتہ دن کی ساری تفصیل اسے بتا دی۔ ایوان نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اس کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا تھا۔ وہ بولی ہائے ہائے اب کیا ہو گا؟
اُدھر ارمندر نے گھر پہنچتے ہی دھرمندر کو فون لگایا اور اس سے کہا کل کی دعوت منسوخ اب یہ دعوت نہیں ہو گی میں اس چڑیل کو اپنے گھر میں قدم نہیں رکھنے دوں گی۔ دھرمندر نے اسے سمجھایا دیکھو ایسی جلدی نہ کرو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی۔ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ میں فون پر جوناتھن سے بات کرتا ہوں۔ یہ سن کر ارمندر کا پارہ چڑھ گیا وہ آپے سے باہر ہو گئی اور بولی چپ کرو میں سب جانتی ہوں تم لوگوں کو جہاں گوری چمڑی والی عورت نظر آئی بس ہو گئے اس کے پیچھے لٹوّ اور لگے ان کی صفائی دینے۔ خوب اچھی طرح سن تم اس جوناتھن سے نہ بات کرو گے اور نہ صلح صفائی کی کوشش کرو گے۔ اگر اس کلموہی نے میرے گھر میں قدم رکھا تو میں اس کا منھ نوچ لوں گی کیا سمجھے ؟ دھرمندر کی سمجھ میں نہیں رہا تھا کہ اس پاگل عورت کو کیسے سمجھائے۔ اس نے سوچا ابھی یہ ارمندر نہیں بلکہ گرم اندر ہے۔جب ٹھنڈی ہو جائے گی تو بات کروں گا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے پھر بات کرتے ہیں اور فون بند کر دیا۔
ایوان کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اس نے پریشان ہو کر پوچھا جون اب کیا کیا جائے اس گناہ کا کفارہ کیوں کر ادا ہو؟ جوناتھن بولا یہ بہت آسان ہے۔ تم جا کر اس سے معافی مانگ لو مجھے یقین ہے وہ مان جائے گی اور اگر نہیں بھی مانتی تو کم از کم تمہاری ذمہ داری تو ادا ہو جائے گی۔ ایوان بولی مجھے اب اس کے سامنے جاتے ہوئے شرم محسوس ہو گی۔ جوناتھن نے کہا دیکھو ایوان ایک بار کی شرمندگی زندگی بھر کی پشیمانی سے بہتر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ موقع تم نے گنوا دیا تو ساری عمر تمہارا ضمیر ملامت کرتا رہے گا۔ ایوان بولی اگر ایسا ہے تو تمہیں میری مدد کرنی ہو گی۔ وہ کیسے ؟ تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ ہو سکتا ہے تمہاری مروّت میں وہ مجھے معاف کر دے۔جوناتھن نے سوچا ایوان بلاوجہ اسے اس بکھیڑے میں گھسیٹ رہی ہے لیکن پھر ارمندر اور دھرمندر کا خیال کر کے وہ تیار ہو گیا۔ اس نے کہا ہم ایسا کرتے ہیں کہ بنجامن کو بھی اپنے ساتھ لئے چلتے ہیں اور ان کیلئے کوئی تحفہ بھی لے لیتے ہیں۔
ارمندر کو رہ رہ کر ایک ایک پر غصہ آ رہا تھا۔ پہلے تو وہ سرجیت سے ناراض ہوئی۔ وہ نہ بنجامن کے ساتھ کھیلتا اور نہ یہ گورکھ دھندہ شروع ہوتا لیکن سرجیت کا کیا قصور وہ تو ایک معصوم بچہ تھا۔اسے کیا پتہ تھا کہ بنجامن کی ماں کیسی چڑیل ہے ؟ اس کے بعد اسے دھرمندر پر غصہ آیا جو اس قدر رسوائی کے بعد بھی صلح صفائی کی بات کر رہا تھا۔ اس نے سوچا انسان کو اس قدر بے غیرت بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن پھر اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا اس لئے کہ دعوت کی تجویز تو اس کی اپنی تھی۔اسے اس قدر اتاولا پن دکھانے کی کیا ضرورت تھی باغ کی بات باغ تک محدود رہ سکتی تھی اسے کھینچ تان کر گھر تک لانا بالکل بھی ضروری نہیں تھا۔ یہ اس کی اپنی حماقت تھی کہ جس نے اس کو خوار کیا تھا۔ اب وہ اپنے آپ کو کوس رہی تھی کہ گھر کی گھنٹی بجی۔ اس نے سوچا یہ صبح صبح کون آن مرا ؟
ارمندر نے باہر آ کر دروازہ کھولاتوسامنے ایوان کو کھڑا پایا۔پشیمان و پریشان ایوان دروازے پر سر جھکائے کھڑی تھی۔ اس کو اس حالت میں دیکھتے ہی ارمندر کا غصہ کافور ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ ایوان کچھ بولتی ارمندر بولی۔ کوئی بات نہیں بہن میں سمجھ گئی۔ تمہیں غلط فہمی ہو گئی اور پھر غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔وہ تو شیطان ہوتا ہے جو اپنی غلطی پر اڑ جاتا ہے۔ انسان کی فضیلت اس میں ہے کہ وہ رجوع کرتا ہے۔ ایوان نے کہا جی ہاں اور معافی مانگتا ہے۔ میں شرمندہ ہو بہن مجھے معاف کر دو۔ ارمندر نے اپنی باہیں کھول دیں اور ایوان اس کے سینے سے لپٹ گئی دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ غم کے آنسو ہیں یا خوشی کے۔ جوناتھن، بنجامن اور سرجیت اس منظر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ارمندر کہہ رہی تھی آپ لوگ باہر کیوں کھڑے ہیں اندر آئیے۔
۸
دھرمندر اور ارمندر نے اپنی دعوت میں کئی دوست و احباب کو دعوت دی تھی جن میں سے ایک طارق کے والد شارق خان اور ان کی اہلیہ گلناز بھی تھی۔وہ دونوں دھرمندر کے بالکل ہی بغل والے مکان میں رہتے تھے۔ شہریار کا ان کے گھر آنا جانا تھا اس لئے وہ سب گوجرانوالا کے رہنے والے تھے اس کے علاوہ شارق اور شہریار ایک دوسرے کے ہم زلف بھی تھے۔ گلناز شہریار کی اہلیہ شہناز کی بڑی بہن تھی۔ ایک زمانے تک شہریار بھی شارق کے ساتھ اس پڑوس والے کمرے میں رہ چکا تھا اس لئے دھرمندر بھی اسے اچھی طرح جانتا تھا اور ارمندر سے بھی اس کی دعا سلام تھی۔ وہ تو جب سے گلناز پاکستان سے یہاں رہنے کیلئے آئی تھی شہریار کو یہاں سے اپنا بوریہ بستر گول کرنا پڑا تھا۔
ایوان اور جوناتھن جب بنجامن کے ساتھ ارمندر کے گھر پہنچے تو زیادہ تر مہمان آ چکے تھے۔ کھانا لگ رہا تھا۔خواتین و مرد اپنے اپنے حلقوں میں محوِ گفتگو تھے۔ شہریار کو اس محفل میں دیکھ کر ایوان کے ساتھ ساتھ جوناتھن بھی حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیسا آسیب اس کے تعاقب میں لگ گیا ہے جو ہر جگہ حاضرو موجود رہتا ہے۔ ایک طرف شہریار کی موجودگی سے جوناتھن پریشان تھا تو دوسری جانب ایوان اسے دیکھ کر خوش ہو گئی تھی۔یہاں آنے سے قبل ایوان پریشان تھی کہ اجنبیوں کے درمیان وہ کس سے بات کرے گی ؟اور اس کا وقت کیسے کٹے گا؟لیکن شہریار کو دیکھنے کے بعد اس کی یہ چنتا دور ہو گئی تھی کوئی اور نہیں تو کم از کم شہریار کے ساتھ وہ بات چیت کر ہی سکتی تھی۔
محفل یوں تو مخلوط تھی لیکن ماحول کچھ اس طرح کا تھا مرد اپنے آپ ایک جانب ہو جاتے تھے اور خواتین دوسری طرف نکل جاتی تھیں اس لئے ایوان اور جوناتھن کے ساتھ بھی یہ ہوا کہ جوناتھن کو شہریار کی جانب آنا پڑا اور ایوان گلناز کی طرف چلی گئی۔ گلناز کے والد سرکاری ملازم تھے اس لئے اس نے لاہور کے کانونٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی تھیاسی سبب سے گلناز برطانیہ میں نووارد ہونے کے باوجود ارمندر سے اچھی انگریزی بول لیتی تھی۔ ایوان اور وہ زبان کی مانوسیت کے سبب سے بہت جلد گھل مل گئے۔جوناتھن کی شہریار کے علاوہ شارق خان سے بھی دوستی ہو گئی۔ اسے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کی شارق موٹر گاڑیوں کے کل پرزوں کی دوکان چلاتا ہے۔ اس طرح پیشہ کے اعتبارسے ایک قدرِ مشترک نے انہیں مزید ایک دوسرے سے قریب کر دیا۔
کاروباری باتوں کے بعد سیاسی اور سماجی موضوعات کا پٹارا کھل گیا۔ شارق نے پوچھا پولینڈ کے کیا حالات ہیں وہ جاننا چاہتا تھا کہ جوناتھن کو کس چیز نے برطانیہ آنے پر مجبور کیا ہے ؟ جوناتھن نے بتایا فی الحال پولینڈ سے زیادہ تر یہودی ہجرت کر کے جا چکے ہیں اور ان کی بہت قلیل تعداد یعنی تقریباً تین ہزار کے آس پاس ہے وہاں باقی رہ گئی ہے۔ شارق کیلئے یہ انوکھا انکشاف تھا اس نے پوچھا میں نے تو سنا ہے یوروپ میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی پولینڈ میں ہوا کرتی تھی۔ جی ہاں تم نے صحیح سنا لیکن یہ دوسری جنگِ عظیم کے پہلے کی بات ہے جب سارے یوروپ میں ہمیں ستایا جاتا تھا تو ہم لوگ پولینڈ میں جا کر پناہ لے لیا کرتے تھے اس لئے ہماری تعداد ۳۳ لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ عیسائیوں کے آپسی جھگڑوں کی سب سے بڑی قیمت ہم لوگوں نے ادا کی ہر بار ہم لوگ ان کے جنگ و جدال میں نرم چارے کے طور پر پستے رہے۔
شارق نے کہا تو تم لوگوں نے روس کا رخ کیوں نہیں کیا وہاں تو ایک یہودی کارل مارکس کے نظرئیے کی بنیاد پر انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ جوناتھن نے سرد آہ بھر کر کہاروسیوں نے کارل مارکس کے نظرئیے کو تو اپنایا لیکن اس کی قوم کو نہیں۔ تم شاید نہیں جانتے کہ ہمارے اوپر سب سے زیادہ مظالم روسیوں ہی نے کئے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد پولینڈ کو جرمنی اور روس نے آپس میں تقسیم کر لیا اور ہم لوگ یکساں طور پر اسٹالن و ہٹلر کے مظالم کا شکار رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف ۱۱ فیصد یہودی وہاں باقی رہ گئے اور پھر پولینڈ سے اشتراکیت کے خاتمے کے بعد غالب اکثریت اسرائیل چلی گئی۔ شارق کیلئے یہ تمام باتیں نئی تھیں اس نے کہا اگر ایسا ہے کہ تم پر عیسائیوں نے مظالم ڈھائے ہیں تو تم لوگ ان کا آلۂ کار بن کر مسلمانوں سے کیوں برسرِ پیکار ہو؟ جوناتھن ہنسا اور بولا یہ ہمارے رہنماؤں کا کارنامہ ہے کہ وہ اپنے مفاد و اقتدار کی خاطر اپنے ازلی دشمن کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ وہ امریکی استعمار کے وفادار اور باجگذار ہیں۔ شارق بولا افسوس کہ ایسا ہی کچھ حال ہمارا بھی ہے۔
کھانے پینے کے بعد زیادہ تر مہمان نکل گئے اور جو چند لوگ باقی رہ گئے ان میں ایک تو شارق کا خاندان تھا اور دوسرے جوناتھن کا۔ دھرمندر اور ارمندر اب ابھی انتظامات کو سمیٹنے میں مصروف تھے شارق اور جوناتھن کی گفتگو کا رخ نجی زندگی کی جانب مڑ چکا تھا شارق جوناتھن کو برطانیہ کی گاڑیوں اور ان کے مسائل کے بارے میں معلومات دے رہا تھا اور جوناتھن بڑی دلچسپی سے اسے سن رہا تھا۔ طارق نے بتایا کہ کسی زمانے میں وہ بھی ایک اچھا مکینک ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں جب اس پر یہ راز کھلا کہ کل پرزوں کے کاروبار میں محنت کم اور آمدنی زیادہ ہے تو اس نے اپنی پیشہ بدل دیا۔ اب مانچسٹر کے علاوہ بریڈ فورڈ میں بھی اس کی ایک بہت بڑی دوکان ہے اور اس کا شمار اشراف میں ہونے لگا ہے۔
ادھر ایوان اور شہریار یکجا ہو گئے تھے۔ ایوان نے اس سے پوچھا شہریار تم بتا رہے تھے کہ تمہاری دو بہنوں کو بھی یہاں کی شہریت حاصل ہے۔ شہریار نے کہا جی ہاں میری دونوں چھوٹی بہنوں کے پاس برٹش پاسپورٹ ہے۔ اچھا تو وہ رہتی کہاں ہیں ؟ یہیں یارک شائر میں یا لندن میں ؟ شہریار ہنسا اور بولا وہ دنوں یہاں برطانیہ میں نہیں بلکہ پاکستان میں رہتی ہیں۔ پاکستان میں ؟؟؟ ایوان نے حیرت سے پوچھا برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ پاکستان میں ؟ شہریار بولا اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ اگر تم پولینڈ کا پاسپورٹ رکھ کر برطانیہ میں رہ سکتی ہو تو وہ برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ پاکستان میں کیوں نہیں رہ سکتیں ؟ ویسے ان کی زبان اور تہذیب تو پاکستانی ہی ہے اس لئے کسی کواحساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے درمیان کوئی غیر ملکی موجود ہے اور نہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ پردیس میں ہیں۔ایوان نے پھر سوال کرنے کی کوشش کی لیکن کیا عجیب و غریب بات نہیں ہے کہ وہ۔۔۔۔۔شہریار نے جملہ کاٹ دیا اور بولا مجھے اپنی بہنوں کا پردیس میں رہنا اس لئے عجیب نہیں لگتا تھا کہ وہ تو حقیقت میں اپنے ہی وطن میں ہیں۔کسی ملک کا پاسپورٹ کے مل جانے یا چھن جانے سے انسان کا مادرِ وطن تو نہیں بدل جاتا؟
ایوان کے گلے سے یہ بات نہیں اتر رہی تھی۔ اس نے پوچھا لیکن وہ دونوں آخر پاکستان گئی ہی کیوں ؟ شہریار بولا ہوا یہ کہ جب بچوں کے تعلیمی اخراجات بڑھنے لگے تو میرے والد نے اپنی اہلیہ سمیت سارے بچوں کو پاکستان بھجوا دیا۔ ایوان نے کہا اچھا تو تم بھی پاکستان چلے گئے تھے ؟ جی ہاں شہریار نے تائید کی اور بولا لیکن ہوش سنبھالنے کے بعد میں روزگار کی تلاش میں واپس آ گیا۔ اور وہ دونوں ؟ ایوان نے سوال کیا۔ ان دونوں کی ہوش سنبھالتے ہی شادی کر دی گئی۔ اور پھر؟؟؟ پھر کیا شہریار بولا وہ وہیں رہ گئیں۔ اچھا تو وہ وہاں کیا کرتی ہیں ؟ کیا کرتی ہیں ؟ شہر یار کے کیلئے یہ عجیب و غریب سوال تھا۔ اس نے کہا کچھ نہیں بس عیش کرتی ہیں ایک کا خاوند فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور دوسرا زمیندار ہے۔ انہیں یہاں برطانیہ میں آ کر محنت مزدوری کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
شہریار کی اس بات سے ایوان پھر اداس ہو گئی اس کے دل میں شہریار کی بہنوں کے تئیں پہلے رشک کے جذبات پیدا ہوئے تھے جو اب حسد میں تبدیل ہو گئے۔ وہ سوچنے لگی اسسے تو اچھی حالت میں شہریار کی گنوار اور جاہل بہنیں ہیں جنہوں نے برطانوی شہریت کو لات ماردی اور وہ ہے کہ اس کیلئے مری جا رہی ہے لیکن پھر اس کی سوچ کا رخ بدل گیا۔اس نے سوچا اگر جوناتھن ایک معمولی میکانک کے بجائے کوئی زمیندار ہوتا تو وہ بھی برطانیہ میں خوار ہونے کیلئے کیوں آتی ؟اب اسے کوسنے کیلئے جوناتھن ہاتھ آ گیا تھا اور اپنی ساری حرص و ہوس نظر انداز کر کے وہ من ہی من میں جوناتھن کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔ اپنے سارے دلدّر کیلئے اسے ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی۔ایوان پر پھر ایک بار جمعہ والی کیفیت سوار ہو گئی تھی اور وہ خاموشی کے غار میں جا چھپی تھی۔ شہریار اس کے مزاج کو سمجھنے لگا تھا اس لئے پرسکون تھا۔
گلناز بظاہر ارمندر کا ہاتھ بٹا رہی تھی لیکن اس کی نظریں شہریار پر جمی ہوئی تھیں۔ ایوان کے ساتھ شہریار کی اس قدر طویل کھسرپسر اسے بے حد کھل رہی تھی اس کا جی چاہ رہا تھا کہ بھری محفل میں ان دونوں کو ڈانٹ دے۔ گوجرانوالا میں تو یہ ممکن تھا مگر برطانیہ میں اس کا ایسا کرنا آداب و اطوار کے خلاف تھا۔ اسے نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی بہن شہناز کا ازدواجی مستقبل خطرے میں ہے۔ ارمندر جب اپنے کاموں سے فارغ ہو کر ایک طرف بیٹھ گئی تو گلناز بھی اپنی کرسی سرکا کر اس کے قریب لے آئی۔ارمندر نے پوچھا کیوں گل کیسی رہی آج کی دعوت؟ گلناز بولی جی ہاں دعوت تو زبردست رہی مگر گلناز کے ہونٹوں پر اچانک تالہ پڑ گیا۔ مگر کیا؟ کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہوئی؟
گلناز بولی کوئی خاص نہیں مگر اس شہریار کو تو دیکھو کہ کس طرح مقناطیس بنا تمہاری سہیلی ایوان سے چپکا ہوا ہے۔ ارمندر ہنسی اور بولی گلناز لگتا ہے تم مردوں کی ذات سے ابھی واقف نہیں ہوئی ہو۔ یہ تو ہوتے ہی ایسے ہیں لیکن سن لو کہ مقناطیس تمہارا دیور شہریار نہیں بلکہ میری سہیلی ایوان ہے۔گلناز جھنجلا کر بولی ایک ہی بات ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ فرق کیوں نہیں پڑتا ارمندر نے جواب دیا ایک میں کشش ہوتی ہے دوسرے میں نہیں۔ ہاں ہاں میں جانتی ہوں مگر اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے ؟ بہت فرق پڑتا ہے۔ اب اگر شہریار نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا مقناطیس کے سبب کسی نہ کسی کو تو ایوان کی طرف کھنچنا ہی تھا۔ گلناز نے کہا تم یہ نہ بھولو کہ شہریار میری بہن شہناز کا خاوند ہے اگر وہ تمہاری بہن کا شوہر ہوتا تو کیا تب بھی تم یہی کہتیں ؟ ارمندر نے قہقہہ لگا کر کہا گلناز میری اچھی سہیلی تم جذبات کی رو میں بہہ کر بہت دور نکل گئیں میں تو کہتی ہوں کہ اگر شہریار کی جگہ دھرمندر ہوتا تب بھی میں یہی کہتی۔
اس بیچ دھرمندر نہ جانے کہاں سے ادھر آ نکلا۔ وہ بولا زہے نصیب ’’ ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے اس محفل میں ہے ‘‘ ارمندر بولی تم چھپ چھپ کر ہم عورتوں کی باتیں سنتے ہو تمہیں شرم آنی چاہئے۔ دھرمندر نے قہقہہ لگا یا اور بولا یہ بات غلط ہے کہ میں نے چھپ کر تمہاری بات سنی لیکن تم کھلے عام ہماری بات کرتی ہو اس کا کیا ؟ ارمندر کو دھرمندر نے اپنی باتوں میں پھنسا لیا تھا اس لئے گلناز اس کی مدد کو آئی بولی بھیا آپ دونوں کی نوک جھونک کے آگے تو سارے ٹی وی سیریل بیکار ہیں۔ ارمندر کو موقع مل گیا وہ بولی تم چپ کرو گلناز۔ یہ سارے مکالمے ان کے اپنے کب ہیں۔ یہ تو ڈراموں سے ڈائیلاگ چرا چرا کر بولتے ہیں اور اپنی شخصیت کا سکہّ جماتے ہیں۔ دھرمندر گلناز کو مخاطب کر کے بولا جی ہاں اور یہ تمہاری سہیلی ایسا ہر گز نہیں کرتی۔ ان لوگوں نے دیکھا شارق اور جوناتھن اپنی گفتگو ختم کر کے کھڑے ہو گئے ہیں۔ایوان اور شہریار خاموش ہیں اس کا مطلب ہے اب رخصتی کا وقت آ گیا ہے۔ سارے لوگ دروازے کی جانب بڑھے مہمانوں نے میزبان کا خوب شکریہ ادا کیا اور جب باہر نکلے تو گلناز نے شہریار سے کہا گھر چلو تم سے بات کرنی ہے۔ ارمندر سمجھ گئی گلناز اسے کیوں بلا رہی ہے ؟
گھر پہنچنے کے بعد شارق اور شہریار تو باہر صحن میں بیٹھ کر دھوپ سینکنے لگے گلناز اندر چائے بنانے چلی گئی اور چند منٹوں میں تین کپ چائے اور کچھ نا شتہ کشتی میں سجا لائی۔ شہریار بولا بھابی کیا اب بھی اس کی گنجائش ہے ؟ شارق بولا چائے تو چلے گی نا؟ ضرور چائے سے کسے انکار ہے مگر میں تو وائے کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ گلناز بولی تو چھوڑ دو یہ دیسی نمکین اور مٹھائی جیسا کہ تم نے میری بہن شہناز کو چھوڑ رکھا ہے اور ایوان جیسی گرما گرم انگریزی چائے پر گزارہ کر رہے ہو۔ گلناز کے طنز سے شہریار نے اندازہ لگا لیا کہ اسے گھر بلانے کی وجہ کیا ہے ؟ اب شہریار اپنے آپ کو ایک نئی یلغار کے لئے تیار کر رہا تھا۔ شارق سمجھ گیا تھا کہ اب محفل کا ماحول بگڑنے والا ہے۔ وہ بولا میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا خیر تم چائے لے آئی ہو اس لئے اسے چند لمحات کیلئے مؤخر کرتا ہوں۔ یہ سن کر گلناز نے اپنی شکایت کے دفتر کو وقتی طور پر مقفل کر دیا۔
شارق کے خوابگاہ میں جانے کے بعد گلناز بیدار ہوئی اور اس نے اپنے ڈرون حملوں کا آغاز کر دیا۔ اس کا سب سے پہلا سوال تھا کیا تم ایوان کو پہلے سے جانتے ہو؟ شہریار نے نہایت سکون سے کہا جی ہاں۔ یہ جواب گلناز کی توقع کے خلاف تھا وہ بولی اچھا تو یہ بات ہے۔ اب مجھے پتہ چلا کہ تم میری بہن شہناز کو بلانے کی سعی کیوں نہیں کرتے ؟ یہ غلط بات ہے میں تو ہر دم اس فکر میں لگا رہتا ہوں کہ کسی طرح ایک گھر کا بندوبست ہو جائے تو اسے یہاں بلا لوں۔ فی الحال میں جس مشترکہ مکان میں رہ رہا ہوں وہاں تو اسے نہیں بلا سکتا۔ شہریار کی منطق نہایت معقول تھی اور اس کا انکار گلناز کیلئے ممکن نہیں تھا۔
گلناز پھر سے اپنے پہلے سوال پر آئی اچھا تو تم ایوان کو کیسے جانتے ہو؟ جیسے میں اپنے بہت سارے گاہکوں کو جانتا ہوں اسی طرح ایوان کو بھی جانتا ہوں ؟ بہت سے گاہک کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ میں ٹیکسی چلاتا ہوں۔ ایک عرصے تک میں ایوان اور اس کے دفتر کے لوگوں کو گھر سے لاتا لے جاتا تھا۔ اس دوران اس کے لڑکے بنجامن کو اسکول پہنچانے اور واپس لانے کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔ گلناز کے نشانے یکے بعد دیگرے خطا ہو رہے تھے۔ اس نے کہا تو اب کیا ہوا؟ اب یہ ہوا کہ ایوان کا شوہر جوناتھن برطانیہ آ گیا۔ان لوگوں نے گاڑی خرید لی اور میرا کام جوناتھن کرنے لگا۔ اچھا تو گویا جوناتھن کے آنے سے قبل اس کا کام تم کرتے تھے ؟ یہ گلناز کا زہر بھرا تیر تھا۔ جی ہاں شہریار بولا اس کا ایک کام یعنی آمدورفت کی سہولت کے فراہم کرنے کا کام میں کرتا تھا اس لئے کہ یہی میرا پیشہ ہے۔
گلناز کو ایسے لگا کہ وہ لق و دق صحرا میں دوڑ رہی ہے اور منزل کا سراغ نظروں سے اوجھل ہے۔ اس نے تھک ہار کر پوچھا اب تو تم نے ان کی نوکری سے سبکدوش ہو چکے ہو اس کے باوجود آج تم دونوں کے درمیان ہونے والی طول طویل گفت و شنید کے کیا معنیٰ لئے جائیں ؟ چونکہ یہ سوال نہایت مہذب انداز میں کیا گیا تھا اس لئے شہر یار نے بھی اس کا سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔ وہ بولا دراصل ایوان کو برطانوی شہریت کے حاصل نہ ہونے کا شدید قلق ہے۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ میری بہنیں برطانوی شہریت کے باوجود یہاں آنا کیوں نہیں چاہتیں ؟ شہریار ساری باتیں سچ سچ بتا رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ گلناز ان باتوں کی تصدیق ایوان سے کرے گی۔ اس لئے وہ کذب بیانی سے خاص طور پر گریز کر رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ گلناز کو اس کے اور شہناز کے درمیان بدگمانی پھیلانے کا کوئی موقع ملے۔
گلناز کو شہریار کی بہنوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ تو اپنی بہن کیلئے پریشان تھی اس نے آخری سوال کیا شہریار ایسا لگتا ہے کہ ایوان تمہارے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے۔ یہ بتاؤ کیا اسے پتہ ہے تم شادی شدہ ہو؟ جی ہاں گلناز اسے اس بات کا علم ہے اور تمہیں پتہ ہونا چاہئے کہ ایوان بھی جوناتھن کی منکوحہ ہے۔گلناز تنک کر بولی تمہاری یاددہانی کا شکریہ شہریار لیکن میں نے یوروپ کو جس قدر سمجھا ہے اس کی روشنی میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ مغربی معاشرے میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ شہریار بولا گلناز تمہارا مشاہدہ درست ہو سکتا ہے لیکن میں تمہیں یاد دلا دوں کہ تمہارا بہنوئی یوروپین یہودی یا عیسائی نہیں بلکہ پاکستانی مسلمان ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے پاس فی الحال برطانوی پاسپورٹ ہے۔
گلناز بولی ہمارے لئے تمہارا مسلمان ہونا کافی ہے ہمیں اس سے غرض نہیں کہ تمہارا پاسپورٹ کون سا ہے۔شہریار کا قلعہ فتح ہو چکا تھا وہ بولا اگر ایسا ہے تو کیا مجھے اب اپنے گھر جا کر شارق کی طرح سستانے کی اجازت ہے ؟ گلناز بولی کیوں نہیں ویسے تم چاہو تو اوپر شارق کے کمرے میں آرام کر لو۔ میرے پاس یہاں بہت سارے کام ہیں۔ رات کا کھانا بنانا وغیرہ وغیرہ۔ شہریار نے شکریہ ادا کیا اور باہر نکل گیا۔ وہ خوش تھا کہ گلناز کے شکوک و شبہات دور ہو گئے ورنہ اچھی خاصی ازدواجی زندگی کو اس طرح کے معمولی شراروں سے خاکستر ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ سچ تو یہ ہے کہ شہریار اپنی شہنازسے بہت محبت کرتا تھا اور کسی صورت اپنے پاس بلانے کی دھن میں لگا رہتا تھا۔
۹
ایوان کے سرپر برطانوی شہریت کا جنون سوار تھا۔ برطانیہ کے اندر دن بدن یوروپی یونین سے نکلنے کا رجحان پختہ تر ہونا اسے بے چین کر رہا تھا ایسے میں وہ چاہتی تھی کہ ایسی کسی واردات سے قبل ہی اس کی جیب میں برطانوی پاسپورٹ آ جائے لیکن اس کے حصول کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی۔ ایوان کا معمول یہ تھا کہ جب بھی پریشان ہوتی اپنی سہیلی ماریہ سے پولینڈ میں بات کرتی یا اسرائیل میں فون کر کے اپنے والد سے مشورہ کرتی۔ پچھلی مرتبہ ماریہ نے اس کے ذہن کو اس قدر پراگندہ کر دیا تھا کہ اب وہ شہریار کی بابت اس سے رجوع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ایوان نے اپنے والد سائمن کو فون لگایا تو اس کی ماں نے فون اٹھایا۔ ایوان نے پوچھا ماں تم کیسی ہو؟ اس کی ماں بولی میں اچھی ہوں کسی طرح گزر رہی ہے۔ تمہارے بھائی محنت مزدوری کر کے جو کچھ لاتے ہیں اس سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہو ہی جاتا ہے۔ ایوان نے اپنی ماں کے لب و لہجے میں بسی مایوسی کو محسوس کر لیا تھا۔ اس نے سوچا کاش وہ اپنے والدین کو یہاں مانچسٹر بلا سکتی لیکن فی الحال یہ ناممکن تھا۔
ایوان کی ماں اس قدر پریشان تھی کہ اسے اپنی بیٹی کی خیریت پوچھنے کا خیال تک نہیں آیا لیکن سائمن کا معاملہ مختلف تھا اس نے فون لے کر سب سے پہلے پوچھا بولو بیٹی تم کیسی ہو؟ بڑے دنوں بعد ہمیں یاد کیا ؟ایوان بولی بابا یاد آپ کو ہمیشہ ہی کرتی ہوں مگر ہاں فون کرنے میں تاخیر ضرور ہوئی اس کیلئے معذرت چاہتی ہوں۔ سائمن بولا جی ہاں بیٹی میں جانتا ہوں مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں نے تو بس یونہی تکلفاً کہہ دیا تھا۔ ہماری تو بس یہی دعا ہے۔ کہ تم جہاں بھی رہو خوش رہو اور بتاؤ ہمارے نواسے بنجامن اور اس کے والد جوناتھن کا کیا حال ہے ؟ ایوان بولی بنجامن مست ہے۔ وہ اپنی عمر کے جس حصے میں ہے اس میں انسان صرف خوش رہنا جانتا ہے۔کھیلتا ہے کودتا ہے اسکول جاتا ہے اور امتیازی نمبروں سے کامیابی درج کراتا ہے۔ جون کا کہنا ہے کہ بالکل آپ پر گیا ہے۔
سائمن یہ سن کر خوش ہو گیا اور بولا کیوں بھئی مجھ پر کیوں ؟ ایوان بولی دراصل آپ نے جون کو اسکول میں پڑھایا تھا نا۔ اس کے خیال میں آپ دنیا کے سب سے ذہین انسان ہیں۔ ایوان اپنے والد سے دل لگی کر رہی تھی مگر سائمن اسے سچ سمجھ رہا تھا۔ وہ خوش ہو کر بولا صرف میں نے نہیں بلکہ تمہاری والدہ بھی اس کی استانی تھی۔ جی ہاں مجھے پتہ ہے لیکن ان کے بارے میں اس کا یہ خیال نہیں ہے۔ اچھا تو اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے میرا داماد ؟ سائمن نے دلچسپی کے ساتھ پوچھا۔ ایوان پھنستی جا رہی تھی وہ بولی ان کے بارے میں اس کے خیالات میں آپ کو بتا دوں تو آپ کی دلآزاری ہو گی اس لئے اسے چھوڑ دیجئے۔ بالکل بالکل اور پھر تمہاری ماں کو مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے ؟ ویسے جون کو ابھی تک ملازمت ملی یا نہیں ؟ یہ مشکل سوال تھا ایوان بولی ملی تو نہیں لیکن مل جائے گی ویسے کیا خیال ہے اگر وہ برطانیہ سے ہجرت کر کے آپ کے پاس تل ابیب آ جائے ؟
ایوان کے اس سوال نے سائمن کو پریشان کر دیا۔ وہ بولا بیٹی تم اسے اس جہنم میں کیوں بھیجنا چاہتی ہو۔ اس ملک کا تمام خیر سرمایہ داروں کیلئے ہے۔ ہم جیسے مفلوک الحال لوگوں کیلئے یہاں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جس خوف کے ماحول میں ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں اس کا اندازہ باہر کا انسان نہیں کرسکتا۔ دن رات ہمارا ضمیر کچوکے دیتا رہتا ہے۔ دوسروں کے منہ سے چھنے ہوئے نوالوں سے پیٹ کی آگ تو بجھ جاتی ہے دل کا سکون نہیں ملتا۔
ایوان بولی لیکن میں نے سنا ہے کہ وہاں رہائش کا انتظام حکومت نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیا یہ درست ہے ؟ سائمن نے کہا جی ہاں لیکن جب دوسروں کو بے خانماں کر کے ان کے مکانوں میں ہماری قوم کے لوگوں وہاں بسایا جاتا ہے تو مجھے نازیوں کے وہ مظالم یاد آتے ہیں جو میں اپنے لڑکپن میں دیکھا کرتا تھا۔ اسی لئے میں نے ابھی تک سرکاری مکان کیلئے درخواست داخل نہیں کی ہے۔ میں سکون کو مسکن پر ترجیح دیتا ہوں۔ میں اس مکان میں کبھی بھی چین سے سو نہ سکوں گا۔ میری تو رائے یہ ہے کہ تم جوناتھن کو سمجھاؤ کہ یہاں آنے کا خیال اپنے دل سے نکال دے۔ یہاں آنے بہتر سے ہے کہ واپس اپنے شہر ورسایا پولینڈ کے کسی اور شہر میں جابسے۔ سائمن کی نصیحت نے ایوان کو مایوس کیا تھا اس نے اپنے والد سے دعا کی درخواست کی اور شکریہ ادا کر کے فون رکھ دیا۔
اپنے والد سے گفتگو کے باوجود ایوان جوناتھن کو اسرائیل روانہ کر کے اس سے پیچھا چھڑا نے کا خیال اپنے ذہن سے نہ نکال سکی ؟سائمن کی رائے ایوان سے مختلف تھی اس لئے کہ وہ جوناتھن کی بھلائی چاہتا تھا جبکہ ایوان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنے سوا کسی کی خیرخواہ نہیں تھی۔ وہ سوچنے لگی اگر جوناتھن کسی طرح تل ابیب جانے کیلئے تیار ہو جائے تو اس کے ساتھ بنجامن کو بھی روانہ کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ اس کے ماں باپ بنجامن کو سنبھالنے کی ذمہ داری بخوشی اپنے سر لے لیں گے۔ ایوان کو اس بات پر افسوس ہو رہا تھا کہ اسے یہ خیال پہلے کیوں نہیں آیا ورنہ وہ جوناتھن کو یہاں بلانے کے بجائے بنجامن کو تل ابیب بھیج کر آزاد ی کے ساتھ اپنی زندگی جدید خطوط پر ڈال سکتی تھی۔ ایوان کو اچھی طرح پتہ تھا کہ اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ جوناتھن اور چھوٹی دشواری بنجامن ہے۔ ایوان اپنے بیٹے بنجامن سے بہت محبت کرتی تھی اور یہی ممتا اس ننھی سی دشواری میں کئی گنا اضافہ کر دیتی تھی۔
جوناتھن کو اسرائیل روانہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ایوان نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر دوہرا وار کیا۔اول تو جوناتھن کو صہیونی لٹریچر پڑھوانے لگی تاکہ اس کے مذہبی جذبات کو غلط رخ پر پروان چڑھایا جائے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل کے متعلق غلط مگر خوش کن خبریں جوناتھن کو فراہم کرنے لگی تاکہ وہ سرزمینِ مقدس جانے کیلئے از خود آمادہ ہو جائے۔ ایوان جانتی تھی کہ اس کام میں وقت لگے گا اور یہ برف دھیرے دھیرے پگھلے گی۔ اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کا اپنا برطانیہ میں رکے رہنا تھا۔ اگر وہ خود تیار ہو جاتی تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ بنجامن اس کے ساتھ اور جوناتھن اس کے پیچھے پیچھے سر جھکائے چلا آتا لیکن خود کو یہاں روکتے ہوئے ان لوگوں کو روانہ کرنا حقیقت میں بہت بڑا چیلنج تھا لیکن ایوان جس کام کی ٹھان لیتی تھی پھر اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی تھی نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اس کا مقابل زِچ ہو کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جا تا تھا۔
جوناتھن ایک عجیب سی بیم و رجا کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ دھرمندر اور شارق جیسے لوگوں کی ملاقات سے اس کی زندگی کسی حد تک خوشگوار ہو گئی تھی۔ وہ ان سے فون پر رابطے میں رہتا بلکہ کبھی کبھار شام میں ملاقات بھی کر لیتا۔ دوست و احباب مل بیٹھ کر تبادلۂ خیال کرتے ایک دوسرے کی خیریت و عافیت معلوم کرتے۔ اسے یہ سب اچھا لگتا تھا لیکن اسی کے ساتھ صبح و شام ایوان کی جلی کٹی باتیں اسے اداس کر دیتی تھیں۔ کبھی کبھار تو اس کا جی چاہتا کہ اس رسوائی سے بچنے کیلئے اپنے آپ کو ہلاک کر لے لیکن وہ زندگی کو خداوند عالم کی ایک بیش قیمت امانت سمجھتا تھا۔ اس سے کسی قسم کے کھلواڑ کو گناہ عظیم جانتا تھا اور یہی عقیدہ اس کا محافظ بنا ہوا تھا۔
بیروزگاری جوناتھن کیلئے عذابِ جان بنی ہوئی تھی۔ اسے لگنے لگا تھا کہ برطانیہ کی سرزمین پر اس کیلئے عزت کا رزق نہیں ہے۔ اس کا مقدر زندگی بھر بیوی کے ٹکڑوں پر پلنا ہے۔ اس کو یہاں نہ تو ملازمت مل سکتی ہے اور نہ کوئی کاروبار شروع کرنے کیلئے اس کے پاس درکار سرمایہ ہے۔ وہ جب بھی ان خطوط پر غور کرتا اسرائیل کی خوشحالی کے سبز باغ اس کی آنکھوں میں گھوم جاتے تھے۔ کبھی کبھار اس کا جی چاہتا کہ اسی وقت پر لگا کر اسرائیل پہنچ جائے مگر پھر بنجامن کا خیال اس کے پیروں کی زنجیر بن جاتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ ایوان اپنے بیٹے بنجامن کو اس کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دے گی اور اگر وہ بنجامن کو یہاں چھوڑ کر چلا گیا تو ننھا بنجامن اپنے دین سے پھر جائے گا۔ وہ نام کا یہودی رہ بھی جائے تو عملاً عیسائی بن جائے گا نیز اگر کسی عیسائی لڑکی سے اس نے نکاح کر لیا تو اس کی آئندہ نسلیں عیسائی بن جائیں گی۔ یہ بات جوناتھن کو کسی صورت گوارہ نہیں تھی اس لئے اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے ؟ یہ مسائل ایسے تھے ان پر ایوان کے علاوہ کسی اور سے گفتگو نہ تو مفید تھی اور نہ مناسب۔ ایوان کے نزدیک دین و ایمان کی کوئی اہمیت نہیں تھی اس لئے جوناتھن کو اس سے اس بابت کسی معقول مشورے کی توقع نہیں تھی۔
اپنی اس پریشانی کا ایک حل جوناتھن نے یہ نکالا کہ جس شراب کو وہ حرام سمجھتا تھا اور جس کو پینے کے سبب اس کی ایوان سے کئی بار لڑائی ہو چکی تھی وہ اسے نوش کرنے لگا۔ ایوان کو یہ لت برطانیہ آنے کے بعد لگی تھی اور وہ اسے معیوب نہیں سمجھتی تھی۔ جب اسے پتہ چلا کہ جوناتھن بھی اس میں دلچسپی لینے لگا ہے تو وہ بہت خوش ہوئی اس لئے کہ اس کے راہ کی ایک بڑی رکاوٹ دور ہو گئی تھی۔ پہلے وہ شراب کی بوتل چھپا کر رکھتی کہ مبادا جوناتھن اسے پھینک نہ دے لیکن اب وہ خوف کافور ہو چکا تھا۔ اب اس شغل کی رکاوٹ بنجامن تھا۔ اس کا خیال انہیں کھلم کھلا مہ نوشی سے روکتا تھا۔ جس روز انہیں پینا ہوتا وہ اسے سمجھا منا کر جلد سلا دیتے اور بڑے آرام سے جام پر جام لنڈھاتے۔
ایک روز اسی طرح پیتے پلاتے جوناتھن نے ایوان سے پوچھا ایوی اگر میں اسرائیل جانے کا ارادہ کروں تو تمہارا کیا رد عمل ہو گا؟ ایوان اس سوال کا نہ جانے کب سے انتظار کر رہی تھی۔ وہ سنبھل کر بیٹھ گئی اس نے شراب کے جام کو میز پر رکھ دیا اس لئے کہ نشے کی حالت میں وہ کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنی قلبی خوشی کو اندر ہی اندر دباتے ہوئے ناراضگی کی اداکاری کرتے ہوئے پوچھا کیوں جون؟کیا تم مجھ سے اس قدر بیزار ہو گئے ہو کہ مجھے چھوڑ کر دور دیس نکل جانا چاہتے ہو؟ جوناتھن بولا اس میں دور جانے کا کیا سوال ہے ہم تینوں لوگ ایک ساتھ بھی تو جا سکتے ہیں ؟ ایوان بولی لگتا ہے تم پر نشہ کچھ زیادہ ہی چڑھ چکا ہے۔ جوناتھن نے پوچھا کیوں ؟ اس لئے کہ اگر گدھا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ میں تمہاری بات کا مطلب نہیں سمجھا ایوی؟ مطلب صاف ہے اگر ہم دونوں بیک وقت بے روزگار ہو جائیں گے تو ہمارا گزر بسر کیسے ہو گا؟
جوناتھن بولا ایوی مجھے یقین ہے کہ تمہیں وہاں بہت جلد ملازمت مل جائے گی۔ ایوان نے کہا جون بیجا توقعات کا ایک نتیجہ ہم لوگ بھگت ہی رہے ہیں۔ مجھے بھی یہ خوش فہمی تھی کہ تمہیں یہاں آتے ہی نوکری مل جائے گی لیکن تم تو جانتے ہو جی ہاں مجھے پتہ ہے ایوی میں اس پر شرمندہ ہوں۔ یہ کہہ کر جوناتھن پورا گلاس نگل گیا اور ایوان نے اسے پھر سے بھر دیا۔ سب کچھ ایوان کی توقعات کے مطابق ہو رہا تھا وہ بولی اس میں تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔یہاں آنے فیصلہ تم نے از خود نہیں کیا بلکہ میں نے زبردستی کر کے تمہیں یہاں بلایا تھا اس لئے یہ میرا قصور اور میری ناکامی ہے۔ جوناتھن کیلئے یہ جواب زخموں پر مرہم کی مانند تھا جو ایک عرصے کے بعد پہلی بار میسر آیا تھا۔ وہ بولا اگر ایسا ہے تو وہاں جانے پر ملازمت کا نہ ملنا میری ناکامی ہو گی اس لئے کہ یہ میری تجویز ہے۔
ایوان بولی دیکھو جون مسئلہ کامیابی اور ناکامی کا نہیں ہے۔ جب میں وارسا سے یہاں آئی تو تمہاری ملازمت سلامت تھی میں بیروزگار تھی اس لئے تم نے گرہستی کا بوجھ سنبھالا۔ جب تم یہاں آئے میں برسرِ روزگار تھی اس لئے کام چل گیا۔ اس لئے دونوں کا بیک وقت بیکار ہو جانا مناسب نہیں ہے۔ اگر تمہیں جانا ہی ہے تو پہلے تم جاؤ اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاؤ۔ اس کے بعد میں تمہارے پاس آ جاؤں گی اور اپنی قسمت آزماؤں گی اس طرح معاشی بحران کا خطرہ کم رہے گا اور ہم لوگ میرے والدین پر بوجھ بھی نہیں بنیں گے۔
جوناتھن کیلئے یہ درمیانی راستہ قابلِ قبول تھا مگر سوال بنجامن کا تھا اس نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا لیکن بنجو کے بارے میں تم کیا سوچتی ہو؟ حالانکہ یہ نہایت نازک سوال تھا لیکن ایوان نے اس کا جواب بھی سوچ رکھا تھا وہ بولی۔ بیٹا اپنے باپ کا ہوتا ہے اس کے بارے میں حتمی فیصلہ وہی کرتا ہے۔تم اسے نہیں سنبھال سکتے یہ تمہارا دعویٰ تھا۔ جوناتھن بولا جی ہاں لیکن اب میرا خیال بدل چکا ہے۔ ایک تو اس دوران اس کی عمرکسی قدر پختہ ہو گئی ہے دوسرے اس کے ساتھ رہتے رہتے مجھ میں اعتماد بھی آ گیا ہے۔ ایوان کو تعجب ہو رہا تھا کہ یہ بیوقوف اس کے والدین کا حوالہ کیوں نہیں دے رہا جو کہ اس کی دیکھ ریکھ کیلئے وہاں موجود ہیں۔ اس نے سوال کیا تو کیا تم وہاں جا کر میرے والدین کے ساتھ نہیں رہو گے ؟
جوناتھن اس سوال پر چونکا اور بولا جی ہاں میں تو بھول ہی گیا کہ وہاں بنجو کا خیال رکھنے کیلئے اس کے نانا، نانی، ماموں اور خالہ سبھی موجود ہیں۔ ایوان کے سارے تیر نشانے پر بیٹھ رہے تھے وہ خوش ہو کر بولی بھئی میں تو پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ اس بابت آخری فیصلہ تم ہی کرو گے۔ جونا تھن نے خوش ہو کر کہا تو کیا میں بنجو کو بھی اپنے ساتھ لے کر جا سکتا ہوں ؟ ایوان کا کام ہو چکا تھا اب اس نے اپنا جام اٹھایا اور ایک ہی سانس میں اسے خالی کر کے بولی جی ہاں کیوں نہیں ؟ تم اس بچے کو اپنے نانا نانی کے پاس ارض مقدس میں لے جا رہے ایسے میں روکنے والی میں کون ہوتی ہوں ؟ اب مجھے یہ بات عبرانی میں تو نہیں کہنی پڑے گی؟
ایوان کا جواب سن کر جوناتھن جھوم اٹھا۔ سرزمینِ برطانیہ پر پہلی بار اس نے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے ایوان کو اپنے سینے سے لگایا اور خوابگاہ میں داخل ہو گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس فیصلے سے جس قدر خوش جوناتھن تھا اس سے کہیں زیادہ مسرت ایوان کو ہوئی تھی اس لئے کہ سارا کچھ عین اس کے منصوبے کے مطابق ہوا تھا۔ خود ایوان کو امید نہیں تھی کہ یہ سب اس قدر آسانی سے ہو جائے گا۔ اب ایوان بڑی بے چینی کے ساتھ کو بنجامن کے تعلیمی سال کے خاتمے کا انتظار کر رہی تھی۔
۱
جوناتھن اپنے دوستوں کو برطانیہ سے واپس جانے کی خبر دینا چاہتا تھا مگر اس کے نصف سے زیادہ تردوست مسلمان تھے اس لئے اسرائیل جانے کا ذکر کرنا اس کیلئے مشکل ہو رہا تھا۔ اس مسئلہ کا نہایت آسان حل ایوان نے ڈھونڈ نکالا اس نے ایک دن باتوں باتوں میں شہریار سے کہہ دیا کہ جوناتھن واپس جا رہا ہے۔ یہ سن کر شہریار نے پوچھا وہ پولینڈ واپس جا کر کیا کرے گا ؟ اس سوال نے سارے مسائل کر دئیے جونا تھن اور ایوان کو جواب مل گیا۔ ان لوگوں نے اعلان کر دیا کہ جوناتھن اور بنجامن لوٹ کر پولینڈ جا رہے ہیں۔ اس خبر نے سرجیت اور طارق سے لے کر دھرمندر و شارق سب کو غمزدہ کر دیا۔ گلناز کو افسوس اس بات کا تھا کہ ایوان اس کے ساتھ کیوں نہیں جا رہی ہے جبکہ ارمندر کیلئے یہی بات باعثِ اطمینان تھی کہ کم از کم ایوان تو نہیں جا رہی۔ اس دوران ارمندر اور ایوان کے درمیان خاصی گہری دوستی ہو چکی تھی۔ ان کا ایک دوسرے کے گھر برابر آنا جانا ہوتا تھا اس کے برخلاف جوناتھن شارق کا دوست ہو گیا تھا اور وہ اکثر ملا کرتے تھے۔
جوناتھن کے واپس جانے کی تاریخ قریب آئی تو شارق نے اپنے گھر پر ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں سارے دوست احباب مع اہل خانہ مدعو تھے۔ اہتمام بڑا ہی زبردست تھا مگر ہر کوئی غمگین تھا۔ وہ ہنسی اور قہقہے جو عام طور پر اس طرح کی محفل میں گونجا کرتے تھے ان کا کوئی نام و نشان نہیں تھا اس لئے کہ موقع ہی کچھ ایسا تھا۔ اس دعوت میں سب سے زیادہ خوش ایوان دکھائی دے رہی تھی۔ اس کا لباس اس کا میک اپ اور خوشبو کا استعمال کچھ ایسا تھا کہ وہ جہاں بھی جاتی پہچان لی جاتی تھی۔ ایسا لگتا تھا گویا کہ وہ کسی شادی کی تقریب میں آئی ہے۔
گلناز نے پوچھا کیوں ایوان آج تو تمہاری شان ہی نرالی ہے کیا یہ جوناتھن سے چھٹکارہ پانے کی بدولت ہے۔ ایوان بولی جی نہیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری یہ آپ لوگوں کے ساتھ آخری دعوت ہے۔ ارمندر بولی وہ کیوں ؟ اس لئے کہ میں ایک عرصے سے اس محلے میں رہ رہی تھی لیکن کسی نے مجھے پوچھ کر نہیں دیا۔ آپ لوگوں سے میل جول کا سلسلہ جوناتھن کی بدولت شروع ہوا۔ اب اس کے چلے جانے کے بعد شاید پھر پہلے کی سی کیفیت لوٹ آئے اور میں تنہا ہو جاؤں اس لئے کہ بنجامن بھی اپنے باپ کے ساتھ جا رہا ہے۔ ارمندر نے کہا نہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ گلناز نے چھینٹا مارا یہ کیسے ہو سکتا ہے تمہارا دوست شہریار تو یہیں رہے گا۔
ایوان کی ساری مشقت تو اسی شہریار کیلئے تھی جو اس محفل میں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھا۔ اس نے کہا تم کس شہریار کی بات کر رہی ہو گلناز اس نے آج بھی آنے زحمت نہیں کی تو آگے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ گلناز نے کہا دراصل آج اسے اچانک اسکاٹ لینڈ کی ایک سواری مل گئی جو چار دنوں کی سیروتفریح پر وہاں گئے ہوئے ہیں۔ بچوں کی تعطیلات ہو چکی ہیں اس لوگ سیر سپاٹے پر جانے لگے یقین جانو ایوان کہ اسے آج یہاں نہ آنے کا بے حد افسوس تھا۔ گلناز کی اس اطلاع نے ایوان کی امیدوں کا ٹمٹماتا چراغ بھی بجھا دیا تھا اس لئے کہ اب تک تواسے یقین تھا شہریار دیرسویر ضرور آئے گا۔
ایوان کا دل اب اس محفل سے اچاٹ ہو گیا تھا وہ جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی اس لئے کہ اس کی ساری محنت پر شہریار نے پانی پھیر دیا تھا۔ ایوان نے جب ارمندر سے کہا کہ وہ واپس جانا چاہتی ہے تو وہ بولی ایوان پاگل نہ بنو آج کی دعوت تم دونوں کیلئے ہے۔ اگر تم جانے کی بات کرو گی تو جوناتھن کو بھی جانا پڑے گا اور ساری محفل اٹھ جائے گی۔ ایوان بولی لیکن میرا دل نہیں لگ رہا ہے میں کیا کروں ؟ ارمندر نے کہا میں جانتی ہو کہ تمہارا دل کیوں نہیں لگ رہا ہے لیکن ان باتوں کا برا نہیں مانتے مردوں کی فطرت میں خود غرضی ہے اب وہ شارق ہویا جوناتھن سب کے سب ایک جیسے ہیں۔ ایوان نے پوچھا اور دھرمندر کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ ! وہ تو ان سب کا سردار ہے۔
ایوان بولی لیکن تمہیں نہیں لگتا کہ اسے چاہئے تھا کہ آج سواری نہ لیتا یا کم از کم فون کر کے معذرت کر لیتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ارمندر بولی حقیقت پسند بنو ایوان یہ دعوت جن لوگوں نے دی تھی ان سے اس نے معذرت کر لی اور جہاں تک سواری کا سوال ہے تم اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تم خود اسے لینے سے انکار کر دیتیں ؟ یہ کہہ کر ارمندر گلناز کے پاس چلی گئی جو اسے کسی مدد کیلئے بلا رہی تھی۔ ایوان نے ارمندر کا سوال اپنے آپ سے دوہرایا تو اسے جواب ملا نہیں وہ کبھی بھی انکار نہیں کرتی۔ اور اگر اس کی جگہ جون ہوتا تو؟ یہ دوسرا سوال تھا جو اس نے اپنے آپ سے کیا تھا۔ جواب آیا وہ ضرور انکار کر دیتا۔ ایوان مسکرائی اور یہ جان کر خوش ہو گئی کہ اس کی اور شہریار کی سوچ میں کس قدریکسانیت ہے۔ اب وہ مطمئن تھی۔
دعوت کے خاتمہ پر سارے مردوں نے جوناتھن کو سینے سے لگا کر الوداع کہا ساری خواتین نے بنجامن کو بوسہ دیا۔ ایوان یہ سارے مناظر ایک جانب کھڑی دیکھتی رہی۔ اکثر لوگوں کی آنکھیں نمناک تھیں وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیسا رشتہ ہے جو ان سب کے درمیان بن گیا ہے ؟ یہ کیسے ناطے ہیں جن کے ٹوٹنے کا انہیں قلق ہے ؟ وہ کون سا خسارہ ہے جس پر یہ لوگ آنسو بہا رہے ہیں ؟ کسی بھی مادہ پرست انسان کیلئے اس کا اندازہ کرنا ناممکن تھا لیکن جوناتھن اس کی آنکھیں اور دل دونوں رو رہے تھے سچ تو یہ ہے کہ اس کا دل یہاں لگ گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کاش کہ اسے ملازمت مل جاتی اور ان لوگوں کو چھوڑ کر جانے کی نوبت نہ آتی۔ آخر میں شارق نے اس کو سینے سے لگا کر کہا دوست اگر تم ہمیں بھول بھی جاؤ تو ہم تمہیں نہیں بھولیں گے۔ میں تمہارے لئے ملازمت کی تلاش میں رہوں گا اور مجھے یقین ہے کہ تم جلد ہی لوٹ کر ہمارے درمیان آؤ گے۔ شارق کے ان الفاظ کو سن کر گلناز بھی رو پڑی لیکن ایوان پتھر بنی رہی اس لئے کہ وہ نہیں چاہتی تھی جوناتھن مستقبلِ قریب میں لوٹ کر واپس برطانیہ آئے۔
جوناتھن کی فلائیٹ لندن سے تھی۔ شارق نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے چھوڑنے کیلئے لندن تک جائے گا۔ جوناتھن کو یقین تھا کہ ایوان بھی چھٹی لے کر لندن تک آئے گی لیکن اس نے ایسا عندیہ ایک دن پہلے تک نہیں دیا تھا۔ جوناتھن چاہتا تو تھا کہ اسے حکم دے کہ وہ لندن تک ساتھ چلے اس کیلئے نہیں تو کم از کم ننھے بنجو کیلئے لیکن پھر اس کی انا آڑے آ گئی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر ایوان نے اس کے حکم کو ٹھوکر ماردی تو وہ اپنی اس ہزیمت کو کبھی نہیں بھلا پائے گا۔ جانے کی تیاری تقریباً مکمل ہو چکی تھی سارا سامان باندھا جا چکا تھا دوسری صبح نکلنا تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی۔ دروازے پر شارق اور گلناز کھڑے تھے۔ ان کے ساتھ طارق بھی تھا اور بہت سارے تحفے تحائف تھے۔
شارق نے جاتے جاتے معذرت کی کہ وہ اس کے ساتھ اگلی صبح کسی مجبوری کے تحت نہیں آسکے گا مگر فکر کرنے کی ضرورت نہیں وہ اپنی بڑی لینڈ کروزر شہریار کے ساتھ بھجوا دے گا جس میں وہ لوگ سامان سمیت بڑے آرام سے لندن جا سکیں گے۔ جوناتھن نے پھر سے شارق کا شکریہ ادا کیا لیکن اس خبر سے ایوان کے کانوں میں نقرئی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ اس کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اس کی قسمت اس طرح اچانک کھل جائے گی۔ اس نے من ہی من میں فوراً لندن جانے کا پروگرام بنا لیا۔ جوناتھن جسے ابھی تک افسوس تھا کہ ایوان اسے الوداع کہنے کیلئے لندن کیوں نہیں آ رہی ہے دل ہی دل میں خوش ہو گیا اور سوچنے لگا جو بھی ہوتا ہے اچھا ہی ہوتا ہے۔
ایوان کیلئے اب مسئلہ یہ تھا وہ اپنے فیصلے سے جوناتھن کو کیسے آگاہ کرے ؟ اسے توقع تھی کہ جوناتھن اس کو کم از کم تکلفاً ساتھ چلنے کیلئے کہے گا اور وہ بصد شوق تیار ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا لیکن جب گاڑی میں سامان رکھا جا چکا تو بنجامن دہاڑیں مار مار کر رونے لگا اور ایوان کو ساتھ چلنے کیلئے کہنے لگا۔ یہ نیا مسئلہ تھا وہ کسی حال میں گاڑی میں نہیں سوار ہو رہا تھا۔ شہریار بولا ایوان کو وقتی طور پر ساتھ لے لو۔ جوناتھن بولا لیکن ہوائی اڈے پر برپا ہونے والے ہنگامے سے کیسے نمٹیں گے ؟ شہریار نے اس مسئلہ کا یہ حل پیش کیا کہ ہم لوگ راستے میں کسی بہانے سے ایوان کو اتار دیں گے۔ اگر ہوئی اڈے پر وہ سامنے نہیں ہو گی تو بنجامن اس قدر نہیں مچلے گا۔ شہریار کی تجویز معقول تھی۔ گاڑی میں پچھلی سیٹ پرجیسے ہی ایوان بیٹھی بنجامن بھی پھدک کر سوار ہو گیا۔ جوناتھن نے اگلی نشست سنبھال لی اور یہ قافلہ تھرو ایئرپورٹ کی جانب چل پڑا۔
ہوائی اڈے سے تقریباً پانچ کلومیٹر قبل وہ لوگ ایک بڑے سے مال میں رکے وہاں کچھ کھانے پینے کے بعد شہریار بنجامن کو اپنے ساتھ کھلونے دلانے لے گیا پلان یہ تھا کہ وہ اسے براہِ راست گاڑی میں لے آئے گا جہاں صرف جوناتھن موجود ہو گا اور ایوان یہیں مال میں رک جائے گی۔ واپسی میں اسی مال سے شہریار ایوان کو واپس لے جائے گا۔ شہریار کے چلے جانے کے بعد جوناتھن نے ایوان سے پوچھا ایوی تمہیں آج کیسا لگ رہا ہے ؟ ایوان اس کے سوال کا مطلب سمجھ نہ سکی وہ بولی جون تم یہ سوال کیوں کر رہے ہو؟ جوناتھن بولا تمہارا سوال میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ میں نے پہلے سوال کیا ہے اس لئے تمہیں میرے سوال کا جواب پہلے دینا ہو گا۔ ایوان کو اس بیچ سوچنے کا موقع مل گیا تھا وہ بولی مجھے اسی طرح کا احساس ہو رہا جیسا کہ اس وقت ہوا تھا جب تم مجھے وارسا کے ہوائی اڈے پر برطانیہ روانہ کرنے کیلئے آئے تھے۔
جوناتھن بولا لیکن مجھے اس وقت یقین تھا کہ ہم لوگ جلد ہی دوبارہ ملیں گے۔ ایوان بولی مجھے بھی ابھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ہم لوگ جلد ہی دوبارہ ملیں گے۔ ایوان جھوٹ بول رہی تھی پھر بھی اس نے پوچھا کیوں جون تمہیں ایسا نہیں لگتا؟ جونا تھن بولا ایوان سچ یہی ہے کہ میرا وجدان کہہ رہا ہے کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ ایوان بولی جون ایسا تمہیں کیوں لگتا ہے ؟ تم اپنے ساتھ میرے وجود کے جزو لاینفک بنجو کو لئے جا رہے حالانکہ جب میں برطانیہ آئی تھی تو وہ میرے ساتھ تھا۔ جی ہاں ایوی ۔۔جوناتھن کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔ اندیشے تو اس وقت ہونے چاہئے تھے کہ تم پہلی مرتبہ مجھے چھوڑ کر دور دیس میں جا رہی تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تو اب کیوں ہو رہا ہے ؟ ایوان نے پوچھا۔ جوناتھن نے فکرمند لہجے میں جواب دیا میں نہیں جانتا ایوی۔ میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟
اس بیچ جوناتھن کا فون بجا یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ شہریار گاڑی میں پہنچ چکا تھا۔ دونوں کھڑے ہو گئے۔ ایوان نے کہا جون اپنا خیال رکھنا ؟ جوناتھن بولا ایوی تم بھی اپنا بہت خیال رکھنا اور اگر ہو سکے تو مہ نوشی کی عادت چھوڑ دینا۔یہ میری التجا ہے۔ اور تم بھی ایسا ہی کرنا ایوان نے کہا۔ جوناتھن بولا یہ میرا وعدہ ہے کہ میں پھر کبھی اس برائی کے قریب نہیں پھٹکوں گا۔ جوناتھن سوچ رہا تھا کہ جواب میں ایوان بھی اس سے وعدہ کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایوان نے کہا اچھا خدا حافظ۔ جوناتھن بولا تم کو بھی خدا اپنی حفظ و امان میں رکھے اور بوجھل قدموں سے گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ جوناتھن کے نکل جانے کے بعد ایوان کچھ دیر فوڈ کورٹ میں بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر معلومات کے کاؤنٹر پر آئی اور پوچھا بار کہاں ہے۔ کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے مسکرا کر کہا دائیں جانب تیسرے نمبر پر شراب خانہ ہے اور اس وقت پچاس فیصد چھوٹ ہے۔
ایوان جب بار میں داخل ہوئی تو وہاں ایک بھی گاہک موجود نہیں تھا۔ ڈسکاؤنٹ کا سبب ایوان کی سمجھ میں آ گیا۔ اس نے بہت سوچ سمجھ کر سرخ شراب کا ڈبل پیگ منگوایا۔ بیرن (ویٹریس) خوشی خوشی اس کا آرڈر لے گئی لیکن اسے واپس آتا ہوا دیکھ کر ایوان کو شہریار کا خیال آ گیا۔ وہ جانتی تھی کہ شہریار کو شراب سے سخت نفرت ہے۔ اس نے ایک بار ایوان سے کہا تھا کہ وہ شرابی سواری کو اپنی گاڑی میں نہیں بٹھاتا اور اگر غلطی سے سوار ہو جائے تو نہ اس سے بات کرتا ہے اور نہ پیسے لیتا ہے۔ ویٹریس شراب کا جام اور برف کا برتن رکھ کر جاچکی تھی۔ ایوان نے اسے آواز دے کر واپس بلایا اور بل لانے کیلئے کہا۔ ویٹریس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ جب بل لے کر آئی تو ایوان نے گلاس کو چھوئے بغیر قیمت ادا کر دی اور باہر نکل آئی۔ وہ کسی صورت شہریار کو ناراض کرنا نہیں چاہتی تھی۔
اب ایوان کے لئے ایک اور مسئلہ وقت گزاری کا تھا۔ اس نے سوچا چلو مال کا چکر لگاتے ہیں۔ گھومتے گھومتے وہ ڈبل بل نامی کپڑوں کی دوکان میں پہنچ گئی۔ اس دوکان میں چاروں طرف بڑے بڑے آئینے لگے ہوئے تھے۔ ایوان نے جب اس میں اپنا حال دیکھا تو اسے شرم آئی۔ وہ صبح جلدی میں اپنے گھر کے اندر پہننے والے کپڑوں کے ساتھ نکل آئی تھی۔ اس نے سوچا شہریار کے ساتھ اس حال میں واپس جانا مناسب نہیں ہے۔ اس لئے کیوں نہ نیا جوڑا خرید لیا جائے۔ اب کیا تھا ایوان نے کئی جوڑوں کو آزمایا اور پھر ایک نہایت قیمتی لباس خرید کر زیب تن کر لیا۔ پرانے کپڑوں کو اپنے ماضی کی مانند اس نے کوڑے دان میں جھونک دیا۔ اس کے بعد وہ پیری کارڈین کے میک اپ کی دوکان میں گئی جہاں نہ صرف سامان بکتا تھا بلکہ اس کو لگانے والی ماہر خواتین بھی موجود ہوتی تھیں۔ایوان نے قیمتی غازہ، لپ اسٹک اور خوشبو کی بوتل خریدی اور سج دھج کر واپس کافی ہاؤس میں چلی آئی تاکہ آگے کے مراحل کیلئے اپنے دماغ کو تر و تازہ کرسکے۔
۱۱
ایوان کو اب بڑی بے چینی کے ساتھ شہر یار کا انتظار تھا۔ اس کے راستے کی دو بڑی رکاوٹیں دور ہو چکی تھیں۔اسے اپنی منزل صاف نظر آ رہی تھی اب بس اس تک پہنچنے کی کسر باقی تھی۔جیسے ہی فون کی گھنٹی بجی اس نے لپک کر کہا شہریار تم کہاں ہو؟سامنے سے جوناتھن کی آواز آئی ایوی میں جون بول رہا ہوں۔ اوہو جون معاف کرنا غلطی ہو گئی یہ بتاؤ سب خیریت تو ہے ؟ جون بولا جی ہاں ہم لوگ ہوا ئی جہاز میں بیٹھ چکے ہیں ائیر ہوسٹس نے فون بند کرنے کیلئے کہا تو میں نے سوچا تمہیں آخری بار الوداع کہہ دوں اس لئے کہ اس فون سے یہ آخری کال ہے۔ جی ہاں جون الوداع۔ اپنا اور بنجو کا خیال رکھنا۔ تل ابیب پہنچتے ہی مجھے اطلاع دینا الوداع۔ الوداع ۔۔۔۔۔ فون بند ہو گیا تھا۔
ایوان کو اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ نہ جانے وہ اس قدر اتاؤلی کیوں ہو جاتی تھی ؟ یہ غلطی اس سے دوسری بار ہوئی تھی۔ اس نے سوچا نہ جانے جوناتھن نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہو گا؟ خیر جو بھی سوچے اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ پانچ منٹ بعد پھر فون کی گھنٹی بجی تواس نے پہلے نام دیکھا شہر یار۔ اس نے شرارتاً کہا ہیلو کون بول رہا ہے ؟ شہریار کو حیرت ہوئی کہ اس ایوان کی بچی کو کیا ہو گیا ؟ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا میں ! میں جوناتھن بول رہا ہوں۔ ایوان جانتی تھی شہریار دل لگی کر رہا ہے پھر بھی اس نے بنتے ہوئے کہا اوہو جون کہیں تمہارا جہاز تو نہیں چھوٹ گیا۔ اس شہر یار کے بچے نے تمہیں لیٹ تو نہیں کر دیا۔
شہریار بولا اس میں شہریار کا کوئی قصور نہیں میں نے خود فلائیٹ چھوڑ دی۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا میری جان میں تم سے دور جاؤں گا تو بے موت مر جاؤں گا۔ ایوان کو شہریار کی زبان سے یہ الفاظ بے حد اچھے لگ رہے تھے۔ وہ چاہتی تھی کہ شہر یار ان الفاظ کو دوہراتا رہے یہاں تک کہ اس کا دم نکل جائے۔ ایوان نے کہا میرا بھی یہی حال ہے میرے جون۔ تم جلدی سے میرے پاس آؤ ورنہ میں مر جاؤں گی۔ اس طرح کے رومانی جملے ایوان نے کبھی بھی جوناتھن سے نہیں کہے تھے یہ شہریار کا نصیب تھا کہ ایوان گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر اس سے اس طرح بات کر رہی تھی۔ شہر یار کو لگا کہ مذاق خطرناک حدود میں داخل ہو گیا ہے اس لئے اس نے بات بڑھانے کے بجائے فون بند کر دیا۔
پانچ منٹ کے بعد اس نے دوبارہ فون لگایا اور چھوٹتے ہی بولا ایوان میں شہریار بول رہا ہوں۔ ایوان نے کہا بولو شہریار تم کہاں ہو؟ شہر یار نے کہا گاڑی نیچے اسی جگہ ہے جہاں میں نے تمہیں اتارا تھا۔ ایوان بولی نمبر بولو مجھے وہ جگہ یاد نہیں ہے اور ویسے بھی پارکنگ میں ساری جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔ شہریار نے آس پاس دیکھا اور بولا بی بی ۲۔ ایوان بولی شہریار تم مذاق تو نہیں کر رہے ہو۔ شہریار بولا جی نہیں میرے پاس کے ستون پر یہی لکھا ہے۔ ٹھیک ہے میں ابھی آئی۔اس بیچ شہر یار اپنی گاڑی کو ہٹا کر بالکل ہی اس ستون کے سامنے لے آیا جس پر بی بی ۲ لکھا تھا تاکہ ایوان جیسے ہی آئے اس کی نظر سیدھے اس پر پڑے۔
ایوان گاڑی میں آ کر آگے والی نشست پر بڑے رعب دار انداز میں براجمان ہو گئی۔ سرتاپا بدلی ہوئی ایوان کو دیکھ کر شہریار سوچ میں پڑ گیا تھا کہ یہ وہی بے ترتیب ایوان ہے جسے وہ چھوڑ کر گیا تھا یا اس کی ہمزاد ہے۔ایوان بولی اس قدر حیرت سے کیا دیکھ رہے ہو کیا کبھی دیکھا نہیں ہے مجھے ؟ شہریار بولا دیکھا تو ہے لیکن ایسا نہیں دیکھا۔ ایوان نے من ہی من میں کہا شہریار ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے۔ ابھی تو تمہیں بہت کچھ دیکھنا ہے۔ ایوان بولی یہ ایسا ویسا کیا ہوتا ہے ؟
شہریار نے جواب دیا مجھے تو ڈر تھا کہ جوناتھن کا فراق تمہیں غمزدہ اور اداس کر دے گا لیکن اس کے برعکس تم تو بہت خوش نظر آ رہی ہو؟ ایوان بولی شہریار انسان کی خوشی اور غم اس کے اندر ون کی کیفیات ہیں جن کا بناؤ سنگھار سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔شہر یار نے تائید کرتے ہوئے کہا خاص نہ سہی تو عام تعلق ضرور ہوتا ہو گا۔ انسان کا ظاہر اس کے باطن کی کسی نہ کسی حد تک عکاسی یقیناً کرتا ہی ہے۔
ایوان نے چڑ کر کہا تو تم چاہتے ہو کہ میں جوناتھن کے چلے جانے کا ماتم کروں ؟ ہندوستانی خواتین کی طرح اپنی چوڑیاں توڑ لوں۔ ویسے بھی جوناتھن تو بس برطانیہ سے گیا ہے اس دنیا سے نہیں۔ شہریار کو ایوان کی یہ بات اچھی نہیں لگی وہ بولا ایوان اس طرح کی منحوس باتیں زبان پر نہیں لاتے۔ دنیا سے جائیں جوناتھن کے دشمن۔ ایوان بولی اگر ایسا ہے تو تم اپنے لئے بددعا کر رہے ہو۔ شہر یار نے کہا لیکن میری اس سے کوئی دشمنی کب ہے بلکہ میں تو اسے اپنا دوست سمجھتا ہوں۔ ایوان بولی تم اسے کیا سمجھتے ہو یہ تو میں نہیں جانتی لیکن وہ تمہیں کیا سمجھتا ہے یہ میں نے تمہیں بتلا دیا۔ شہریار کیلئے ایوان کی یہ بات ناقابلِ فہم تھی وہ بولا کیوں میں نے اس کا کیا برا کیا؟ میں نے اس کے ساتھ بھلائی کی جو برفباری میں گھر تک پہنچایا۔ کل بھی جب شارق معذرت کرنے والا تھا تو میں نے آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں اور شارق سے گزارش کی کہ وہ اپنی بڑی گاڑی دے تاکہ سامان بھی اچھی طرح آ جائے اور سفر بھی آرام دہ رہے۔
ایوان نے حیرت سے پوچھا اچھا تو یہ تمہاری کارستانی تھی ؟ شہریار بولا جی ہاں ایوان کاش کے جوناتھن کو اس بات کا پتہ ہوتا ؟ ایوان بولی جی نہیں شہریار وہ تو اچھا ہی ہوا جو اسے پتہ نہ چلا ورنہ وہ نہ جانے اس کا کیا مطلب نکالتا ؟ شہریار نے پوچھا کیا مطلب میں سمجھا نہیں ؟ ایوان وہی جو تمہاری سالی گلناز نے نکالا تھا۔ ایک دن وہ مجھ سے ملنے آئی تھی اور کرید کرید کر پوچھ رہی تھی۔میں تمہیں کب سے اورکیسے جانتی ہوں ؟ اس روز دعوت میں ہم لوگ کیا باتیں کر رہے تھے ؟ وغیرہ وغیرہ۔
شہریار کو یہ جاننے میں دلچسپی تھی کہ گلناز اور ایوان کے درمیان کیا بات ہوئی اس لئے اس نے سوال کیا اچھا تو تم نے اس کا کیا جواب دیا۔ ایوان بے فکری سے بولی میں نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا اور اس میں چھپانے جیسا ہے بھی کیا؟ شہریار نے پوچھا تو اس کے رد عمل میں وہ کیا بولی ؟ ایوان نے کہا وہ بیچاری کیا بولتی اس کے پاس کہنے کیلئے کچھ تھا ہی نہیں لیکن ایک بات ہے وہ جاتے ہوئے خاصی مطمئن لگ رہی تھی اور کل جب اسے پتہ چلا کہ میں ائیر پورٹ نہیں جا رہی تو مجھ سے کہنے لگی تمہیں اپنے خاوند کو الوداع کرنے کیلئے ضرور ہی جانا چاہئے۔
شہریار نے پھر سوال کیا اچھا تو تم نے کیا کہا۔ ایوان بولی میں نے صاف کہہ دیا کہ میں اس طرح کی بناوٹی تکلفات میں یقین نہیں رکھتی۔ شہریار کیلئے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا وہ بولا اگر ایسا ہے تو آج تم کیوں چلی آئیں ؟تم تو جانتے ہو بنجامن کیلئے۔ شہریار نے معنی خیز انداز میں پوچھا کیا واقعی؟؟؟ایوان بولی تم جانتے بوجھتے مجھ سے جھوٹ کیوں بلواتے ہو؟ اس بے وقوف عورت نے مجھے یہ تک نہ بتایا کہ ہوائی اڈے تک پہنچانے کیلئے تم آ رہے ہو۔ وہ تو جاتے جاتے شارق نے معذرت پیش کرتے ہوئے یہ مژدہ سنایا۔
لندن سے مانچسٹر کا سفر نہایت خوشگوار ماحول میں کٹ رہا تھا دوپہر کے دو بج چکے تھے اور ابھی سو میل کا فاصلہ باقی تھا۔ شہریار نے پوچھا ایوان کھانے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ایوان بولی ویسے تو میں صبح اور شام دو بار کھانا کھاتی ہوں لیکن آج چونکہ ناشتہ ٹھیک سے نہیں ہو سکا اس لئے دوپہر کا کھانا کھایا جا سکتا ہے۔تم کیسا کھانا پسند کرو گی ؟ میرا مطلب پاکستانی، چینی یا انگریزی۔ایوان نے کہا کھانا تو مجھے سب پسند ہے لیکن طعام گاہ قاعدے کی ہونی چاہئے۔ میرا مطلب ہے جہاں بہت زیادہ بھیڑ بھاڑ نہ ہو تاکہ سکون سے کھانا بھی کھایا جائے اور بات چیت بھی ہو جائے۔شہریار چونکہ ان سڑکوں کا بادشاہ تھا اور اس کے گاہک مختلف قسم کی ریسٹورنٹ میں تناول فرماتے تھے اس لئے مختلف مقامات کی کیفیات سے واقف تھا۔اس نے ایک ایسے مطعم پر گاڑی کو روکا جس میں بیرے زیادہ اور گاہک کم تھے۔یہ بہت مہنگا ہوٹل تھا جس میں ہر قسم کا پکوان ملتا ضرور تھا لیکن آتا بہت تاخیر سے تھا۔
شہریار نے ایوان کوفہرست طعام پکڑا کر کہا تم کھانے انتخاب کر کے آرڈر دو تب تک میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔ ایوان بولی کیا نماز کا ابھی پڑھنا ضروری ہے ؟ شہریار بولا جی ہاں پڑھنے والے کے ضروری ہے نا پڑھنے والے کی اپنی مرضی۔شہریار جا چکا تھا ایوان سوچ رہی تھی اس اکھڑ مرد کے ساتھ گزارہ کیسے ہو سکے گا؟ پھر اس نے یہ خیال اپنے دماغ سے نکال دیا اور مینو کارڈ کو غور سے دیکھنے لگی۔ ہر پکوان کے سامنے اس کے اجزائے ترکیبی، آنے میں لگنے والا وقت اور قیمت لکھی ہوئی تھی۔ ایوان نے ایسی چیزیں منگوائیں جن کو سب سے زیادہ وقت درکار تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ اسے کوئی جلدی نہیں ہے۔ بیرہ شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔
شہریار واپس آیا اور اس کے پانچ منٹ بعد بیرہ دو پیالے یخنی( سوپ) لے آیا۔ ایوان بولی میں نے یہ نہیں منگوایا تھا شاید تم غلطی سے کسی اور کا آرڈر لے آئے ہو۔ بیرے نے کہا یہ ہمارے ریسٹورنٹ کی جانب سے تمام ہی گاہکوں کی خدمت میں مفت پیش کیا جاتا ہے۔ شہریار بولا مفت کا مطلب میں خوب جانتا ہوں تم ایسا کرو کہ اسے یہاں رکھ جاؤ۔ بیرے نے کہا شکریہ اور پیالے رکھ کر چلا گیا۔ ایوان بولی عجیب لوگ ہیں جو منگوایا وہ آیا نہیں جو منگوایا نہیں سو آ گیا۔ شہریار نے کہا ایسا ہے کہ یہ تو بنا بنایا تیار رکھا ہے اس لئے بن بلائے چلا آتا ہے۔ آپ نے جس کا آرڈر دیا ہے وہ پہلے تیار کیا جائے گا تب پھر پروسا جائے گا فی الحال اسی سے شغل کرتے ہیں۔
ایوان نے شہریار سے کہا میں ایک بات پوچھوں کیا تم اس کا جواب دے سکو گے ؟ کیوں نہیں کوشش کروں گا۔ اچھا بتاؤ کہ میرا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟برطانوی شہریت۔کیا تمہیں اس جواب پر یقین ہے ؟ جی ہاں۔ تو اسے مقفل کر دیا جائے۔ بے شک۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کون بنے گا کروڑپتی کی مشق ہو رہی ہے۔ایوان نے کہا مبارک ہو تم ایک کرور روپئے جیت گئے۔ شہریار بولا شکریہ۔ اچھا اب یہ بتاؤ کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟ شہریار بولا صبراً جمیلا۔ یہ درمیان میں جمیلہ آپا کہاں سے چلی آئی۔ جمیلہ مطلب تمہاری طرح حسین و جمیل صبر۔ اس حسین و جمیل صبر کی مدت؟ کم از کم دس سال۔ میں اس قدر طویل صبر نہیں کرسکتی۔ تو میں کیا کرسکتا ہوں ؟ کوئی شارٹ کٹ۔میں نہیں جانتا۔لیکن میں جانتی ہوں۔تو پوچھتی کیوں ہو؟ بیرہ کھانا لگانے لگا تھا گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔
دورانِ تناول پھر ایک بار گفتگو شروع ہو گئی۔ایوان بولی میں نے سنا ہے کہ شادی بھی ایک شارٹ کٹ ہے جس کے ذریعہ شہریت بہت آسانی کے ساتھ حاصل ہو جاتی ہے۔ جی ہاں تم نے صحیح سنا شہریت تو آسانی سے مل جاتی ہے لیکن جوڑا مشکل سے ملتا ہے۔ میرے لئے تمہیں اس مشکل کو آسان کرنا ہو گا۔ ٹھیک ہے میں کسی شناسا کو تیار کرنے کی کوشش کروں گا لیکن وعدہ نہیں کرتا۔ تم اپنے آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ شہریار ایوان کے اس راست سوال سے چونک پڑا وہ بولا میں ! میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔ مطلب صاف ہے۔ کسی اور کے بجائے تم خود کو بھی تو تیار کرسکتے ہو ؟ میں ! تم تو جانتی ہو کہ میں شادی شدہ ہوں ؟ جی ہاں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم مسلمان ہو۔ تو کیا تم صرف نماز پڑھنے کی حد تک مسلمان ہو؟ تعدد ازدواج کو تم نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہے ؟
ایوان جس طرح کھل کر بات کر رہی تھی اس کی امید شہریار کو نہیں تھی لیکن اس کے سوالوں کا راست جواب دینے کے سوا کوئی چارۂ کار بھی نہیں تھا۔شہریار نے سنبھل کر کہا ایوان یہ بہت ہی اہم فیصلہ ہے۔ اس کو سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے اس لئے مجھے وقت چاہئے۔ ایوان بولی تمہاری تجویز معقول ہے۔ میں نے اپنا پیغام دے دیا اب اس پر لبیک کہنا یا نہ کہنا تمہاری مرضی پر منحصر ہے اور کان کھول کر سن لو کہ جوناتھن کی پرانی گاڑی ہم لوگوں نے کل فروخت کر دی ہے اب دفتر لانے لے جانے کا کام پھر سے تمہارے ذمہ ہے۔شہر یار بولا ٹھیک ہے۔ شکریہ جو تم نے مجھے اس قابل سمجھا۔ کس قبل؟ یہی لانے لے جانے کے قابل۔ تو کیا تم اسے غیر اہم کام سمجھتے ہو؟ شہریارہنس کر بولا جی نہیں چونکہ تم اہم ہو اس لئے تمہارے ہر کام کو اہم سمجھتا ہوں۔ ایوان بولی بالکل سچ مجھے تم سے یہی امید تھی شہریار اب دیکھنا یہ ہے کہ تم میرے پیغام کو اہم سمجھتے ہو یا غیر اہم ؟
کھانا اور باتیں دونوں ختم ہو چکی تھیں۔ دونوں گاڑی کے اندر آ کر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ سارا راستہ خاموشی کے ساتھ گزر گیا۔ کوئی کچھ نہ بولا۔ دونوں اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے رہے۔ ایک نئے سفر کے نشیب و فراز پر غور کرتے رہے یہاں تک کہ ایوان کی منزل سامنے آ لگی۔شہریار نے گاڑی روک کر اپنے بغل والی نشست پر دیکھا تو ایوان سو رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کے چہرے پر سکون تھا اور اس کے لبوں پر مسکان تھی۔ وہ غالباً کوئی خواب دیکھ رہی تھی۔ کوئی حسین سا خواب بالکل اس کی اپنی طرح حسین و جمیل خواب۔شہریار نے سوچا ایوان کو جگانا اس کے اس خواب کو چکنا چور کرنے کے مترادف ہے۔اس نے سامنے لگے ہوئے آئینے کو اس طرح درست کیا کہ اس میں ایوان کا چہرہ دکھائی دینے لگا۔ وہ خاموش بیٹھا رہا یہاں تک کہ ایوان از خود بیدار ہو گئی۔
ایوان کی نظر سامنے لگے شیشے پر پڑی۔ اس نے دیکھا کہ شہریار اسے دیکھ رہا ہے۔ ایوان نے پوچھا کیا دیکھ رہے ہو شہریار۔ شہریار بولا میں ! میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ تم خواب دیکھ رہے ہو؟ کھلی آنکھوں سے خواب؟ خواب تو میں دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں بند کر کے۔ شہر یار نے ایک نہایت معصومانہ سوال کیا ایوان کیا خواب دیکھنے کیلئے آنکھیں بند کرنا لازمی ہے۔ایوان بولی جی ہاں شہریار خواب اس قدر لطیف ہوتے ہیں کہ اگر آنکھیں کھلی ہوں تو ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اس لئے انہیں آنکھ اور دماغ بند کر کے دیکھا جاتا ہے۔ شہر یار نے سوال کیا اچھا اگر دماغ بھی بند ہو جاتا ہے تو خواب آتے کہاں سے ہیں ؟ ایوان بولی دل سے شہریار دل سے۔ تم اتنا بھی نہیں جانتے کہ خوابوں کا کوئی تعلق دماغ سے نہیں ہوتا وہ تو بس دل سے نکل کر آنکھوں میں سما جاتے ہیں۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم کب سے یہاں کھڑے ہو؟ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں ؟
شہریار بولا ایوان بات دراصل یہ ہے میں تمہیں بیدار کر کے خوابوں کے محل کو مسمار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایوان نے کہاکیسی باتیں کرتے ہو شہریار خواب! خواب تو ٹوٹنے کیلئے ہوتے ہیں۔ ان کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے بیدار ہونا ضروری ہوتا ہے اور یاد رکھو اس زندگی میں خوابوں کی کوئی اہمیت نہیں اگر اہمیت کی حامل کوئی شہ ہے تو وہ تعبیر ہے۔ خواب بادلوں کی مانند ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں اور تعبیر بارش کی طرح زمین پر برستی ہے۔ زمین کی پیاس بادل سے نہیں برسات سے بجھتی ہے۔کھیت پانی سے سیراب ہو کر لہلہاتے ہیں۔کسان بارش کی دعا کرتا ہے۔ شہریار نے کہا ایوان اگر اجازت ہو تو اس بات پر میں ایک شعر سناؤں۔ ایوان خوش ہو کر بولی کیوں نہیں ارشاد ؎
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس چھت کو بھگونا ہے کس چھت پہ برسنا ہے
ایوان بولی شہریار آج پہلی بار تم نے بر موقع شعر سنایا ہے۔ جی نہیں محترمہ میں تو ہمیشہ ہی بر موقع اشعار سناتارہاہوں یہ اور بات ہے کہ پہلے وہ تمہاری سمجھ میں نہ آتے تھے۔کوئی بات نہیں اب سمجھ میں آنے لگیں گے یہ کہہ کر ایوان گاڑی سے اتری اور خدا حافظ کہہ کر اپنے گھر میں چلی گئی۔ اب حالت یہ تھی کہ فضاؤں میں دو آوارہ بادل اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کر رہے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کون سی چھت آنسووں سے بھیگے گی اور کس چھت پر مینہ برسے گا؟
۱۲
ایوان کی تجویز نے شہریار کے قلب و ذہن میں ہلچل مچا دی تھی۔ اس نے باہر سے ہی گلناز کو گاڑی کی چابی لوٹائی اور اپنے ڈیرے کی جانب روانہ ہو گیا لیکن پھر سوچا گھر سے مناسب ندی کا ساحل ہے۔ کمرے میں موجود دوست و احباب، ریڈیو اور ٹیلی ویژن خلل اندازی کریں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ شہریار پر اس روز بلا کی سنجیدگی طاری تھی۔ گلناز نے بھی اس پر تعجب کا اظہار کیا تھا اور وہ خود بھی حیرت زدہ تھا۔ جب سے ایوان نے اپنا مدعا رکھا تھا وہ صرف اور صرف شہناز کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کو اندیشہ لاحق ہو گیا تھا کہ یہ راستہ اسے اپنی شہناز سے دور لے جائے گا لیکن پھر بار بار ایوان کا جملہ یاد آ رہا تھا کیا تمہاری مسلمانی نماز تک محدود ہے ؟ بہت دیر تک سوچ بچار کے بعد بھی جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے سوچا اس بابت کسی سے مشورہ کرنا چاہئے۔ جب اس نے اپنے جاننے والوں کی فہرست کو جانچا تو ایک نام ابھر کر سامنے آیا۔ ارمندر کور یہ بظاہر بے وقوف سی لگنے والی خاتونِ خانہ، بلا کی حقیقت پسندعورت تھی۔
دوسرے دن ایوان کو دفتر میں پہنچانے کے بعد شہریار نے ارمندر کو فون کیا اور کہا کہ وہ ایک نازک مسئلہ میں اس سے گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ ارمندر نے کہا زہے نصیب وہ جب بھی آنا چاہتا ہے فون کر کے آ جائے۔ شہریار نے پوچھا میں اگر ابھی آنا چاہوں میرا مطلب ہے آدھے گھنٹے کے اندر تو؟ تب تو تمہیں میں ایک شرط پر اس کی اجازت دے سکتی ہوں ؟ وہ کیا ؟ تمہیں ناشتہ بھی کرنا پڑے گا اس لئے کہ میں ابھی ناشتہ بنا رہی ہوں اور وہ آدھے گھنٹے میں تیار ہو جائے گا۔ تب تو میں ایک گھنٹے بعد آؤں گا۔ ایسی صورت میں وہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ اب تمہاری مرضی کہ تم گرم ناشتہ کرنا چاہتے ہو یا سرد۔ شہریار مخمصے میں پڑ گیا اور معمولی سے توقف کے بعد بولا اچھا تو میں نصف گھنٹے بعد آتا ہوں۔ بہت خوب تم عقلمند آدمی معلوم ہوتے ہو۔ شہریار بولا شکریہ اور فون بند کر دیا۔
ناشتہ لگاتے ہوئے ارمندر سوچ رہی تھی کہ ایسی کون سا مسئلہ ہو سکتا ہے کہ جس پر شارق اور گلناز کے بجائے شہریار اس سے بات کرنا چاہتا ہے۔ شہریار کی اچھی خاصی دوستی ایوان سے بھی ہے وہ اس سے بھی تو مشورہ کرسکتا ہے۔اس بیچ گھنٹی بجی اور ارمندر سمجھ گئی شہریار آ گیا۔ اس نے دروازہ کھول کر اندر بلایا اور ڈائننگ ٹیبل کی جانب اشارہ کر کے کہا ناشتہ لگا ہوا ہے۔شہریار شکریہ ادا کر کے دیوار سے لگے واش بیسن کی جانب بڑھا اور ہاتھ دھوکر بیٹھ گیا۔ اس کے سامنے مختلف طشتریوں میں پراٹھے رکھے ہوئے تھے۔ اس نے پوچھا ارمندر یہ اتنے سارے پراٹھے ؟ میں سمجھا نہیں ؟ ارمندر بولی یہ تو سادہ پراٹھا ہے جسے تمہاری ایوان پسند کرتی ہے اور وہ تمہاری گلناز کا پسندیدہ آلو کا پراٹھا ہے۔یہ گاجر کے پراٹھے دھرمندر کو پسند ہیں اور وہ کونے میں قیمہ کا پراٹھا ہے جو شارق کھاتا ہے۔ شہریار نے کہا میں تو آج تمہاری پسند کا پراٹھا کھاؤں گا۔ ارمندر نے کہا اگر ایسی بات ہے تو کوئی سا بھی کھالو مجھے تو سبھی پراٹھے پسندہیں۔
ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ارمندر اپنی چائے کی پیالی کے ساتھ صوفے پر جا بیٹھی شہریار سمجھ گیا کہ اشارہ منتقل ہونے کا ہے۔ وہ بھی اپنی چائے کی پیالی کے ساتھ وہیں آ گیا اور بولا جی ہاں یہ مناسب جگہ ہے۔ ارمندر نے کہا بولو شہریار مسئلہ کیا ہے ؟ شہریار نے کہا لیکن آپ کو وعدہ کرنا ہو گا کہ آپ یہ معلومات کسی سے شیئر نہیں کریں گی۔ ارمندر نے کہا اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہے تو تم مجھے کچھ نہ بتاؤ اور بات ختم۔ اوہو آپ تو برا مان گئیں میں تو یونہی کہہ رہا تھا اس لئے کہ آپ کی ایوان سے بھی دوستی ہے اور گلناز بھی آپ کی بہت اچھی سہیلی ہے۔ جی ہاں وہ تو ہے لیکن شہریار میرا بہت اچھا بھائی بھی تو ہے۔ جی ہاں یہ بھی ہے خیر اس کے بعد شہریار نے اپنی ساری داستان ارمندر کو سنا ڈالی۔
ارمندر نے کہا دیکھو ہر معاملے میں جہاں کچھ خطرات ہوتے ہیں وہیں مواقع بھی ہوتے ہیں اس لئے تمہیں ان دونوں پہلوؤں سے اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ بہی کھاتہ جمع و خرچ کے نتیجے کا نام ہے۔ شہریار بولا میں نے ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیا ہے۔ ارمندر بولی تمہاری گفتگو سننے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ تم نے شہناز اور ایوان کا بہی کھاتہ تو دیکھا لیکن خود اپنا نہیں دیکھا۔ میں سمجھا نہیں آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ؟ تم نے مجھے یہ تو بتلا دیا کہ اس تجویز کو قبول کرنے کے نتیجے میں ایوان کا کیا فائدہ ہو گا اور یہ بھی سمجھا دیا کہ شہناز کو کون سا نقصان ہو گا لیکن میں چاہتی ہوں کہ تم اپنے فائدے یا نقصان کے بارے میں سوچ کر فیصلہ کرو۔ کیا یہ خود غرضی نہیں ہے ؟جی نہیں۔ یہ حقیقت پسندی ہے۔ میں تمہیں کسی کی حق تلفی کرنے کیلئے نہیں کہہ رہی ہوں۔ ان دونوں کے فکر و عمل پر تمہارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تم جسے ان کا نقصان سمجھ رہے ہو وہ اسے اپنا فائدہ سمجھیں اور جسے تم ان کا خسارہ سمجھتے ہو وہ اس کو اپنے لئے مفید جانیں۔
ارمندر کے پاس سے واپسی میں شہریار کا دماغ تیسرے رخ پر چل پڑا تھا۔اب وہ اپنے بارے میں سوچ رہا تھا اور خوف و اندیشے کے بجائے امکانات و مواقع پر غور کر رہا تھا تاکہ آگے چل کر ان کا موازنہ کیا جا سکے۔ اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ ایوان کی تجویز میں سبھی کا مشترکہ فائدہ ہے۔ایوان اور شہریار کے باہم یکجا ہو جانے کے نتیجے میں ان کی آمدنی اس قدر بڑھ جائے گی کہ شہناز کا برطانیہ بلانا ممکن ہو جائے گا۔ اگر ایوان صرف گھر کا کرایہ ادا کر دے تو باقی اخراجات وہ خود سنبھال لے گا۔یہ درست ہے کہ شہر یار کے اوقات دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے لیکن اس کے باوجود فی الحال جس قدر وقت وہ شہناز کے لئے نکال پا رہا ہے اس میں قابلِ قدر اضافہ ہو جائے گا۔ اب تو حالت یہ تھی کہ وہ سال میں مشکل سے ایک ماہ پاکستان میں گزار کر لوٹ آتا تھا لیکن اس نئی ترکیب سے سال کے چھے ماہ شہناز کے لئے ہوں گے۔ اگر اس کے سبب ایوان کو شہریت مل جاتی ہے تو اس میں شہریار کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اس تجویز میں ایوان، شہناز اور شہریار تینوں کیلئے خوشیوں کا پیغام ہے بشرطیکہ سارے لوگ ارمندر کی مانند حقیقت پسند ہوں۔ لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ایوان کے پس پردہ عزائم کیا ہیں اور شہناز اسے سن کر کیا ہنگامہ کھڑا کرے گی؟
شہریار نے اس معاملے کی مزید تفصیل معلوم کرنے کی خاطر ایوان سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ اس بابت جلد بازی میں کوئی ایسی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا جس کے نتیجے میں سانپ تو بچ کر نکل جائے اور لاٹھی ٹوٹ کر بکھر جائے۔ اس خطرناک مثلث میں جہاں لاٹھی سے سانپ کو خطرہ تھا وہیں سانپ کے سبب لاٹھی بردار خطرے میں تھا اور لاٹھی بردار سے سانپ اور لاٹھی دونوں کو خطرہ لاحق تھا۔ وہ سانپ کو بھی مارسکتا ہے اور لاٹھی کو بھی توڑ سکتا ہے۔ شہریار کی لاٹھی اس کی اپنی شہناز تھی اور ایوان کی حیثیت ناگن کی سی تھی۔وہ چاہتا تھا کہ اس کھیل کو اس طرح کھیلا جائے کہ جس میں سانپ اور لاٹھی دونوں ایک دوسرے کی ہلاکت کے بجائے حیات کا سامان کریں۔
دفتر سے واپس آتے ہوئے ایک دن شہر یار نے ایوان سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ جب سے جونا تھن واپس گیا ہے تم نے مال جانا بند کر دیا ہے ؟ ایوان بولی نہیں ایسا نہیں ہے ہم لوگ ایک ہفتہ کی خریداری ایک ساتھ کرتے ہیں اور ابھی اس کو گئے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا۔ میرے خیال ہے دو چار دن بعد اس کی ضرورت پیش آئے گی۔ شہریار کو ایوان کی بے نیازی ناگوار گزری۔ وہ بولا کیا یہ ضروری ہے کہ ہم دوچار دن بعد ہی جائیں۔ جی ہاں میں تو یہ کہتی ہوں کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم بازار ہی جائیں۔ ہماری بات چیت کہیں اور بھی تو ہو سکتی ہے ؟ ایوان براہ راست مطلب پر آ گئی۔ جی ہاں یہ بھی درست ہے لیکن میرے گھر پر تو کئی لوگ رہتے ہیں وہاں نہیں ہو سکتی۔ لیکن میرا گھر تو بالکل خالی ہے وہاں کوئی نہیں رہتا۔ شہر یار سوچ میں پڑ گیا۔ کیا ایوان کے گھر میں بیٹھ کر بات کرنا مناسب ہے ؟ کہیں اس سےغلط فہمیاں تو نہیں پیدا ہوں گی؟ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا۔ ایوان اس کے چہرے سے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ کیا سوچ رہا ہے ؟
خاموشی نے راستے سمیت گاڑی اور مسافروں سب کو نگل لیا تھا۔ جب وہ لوگ ایوان کے گھر پہنچے تو شہریار نے کہا خدا حافظ ایوان کل صبح سات بجے میں تمہیں یہیں ملوں گا۔ شب بخیر۔ ایوان نے بے دلی سے کہا شب بخیر شہریار اور اپنے گھر کے اندر چلی گئی۔ اس رات ایوان نے کھانا نہیں کھایا۔ دیر تک شراب پیتی رہی اور نہ جانے کب لڑھک کر سو گئی؟شہر یار کا معمول یہ تھا کہ جب بہت زیادہ پریشان ہوتا تو قرآن کھول کر بیٹھ جاتا۔ اس روز وہ نصف شب تک تلاوت کرتا رہا اور پھر تھک کر سو گیا۔ صبح جب وہ ایوان کو لینے کیلئے اس کے گھر پہنچا تو دونوں کی آنکھیں مختلف وجوہات کی بناء پر سرخ تھیں۔تھکے تھکے سے قدموں کے ساتھ شہریار نے ایوان کو آتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس کی طبیعت نڈھال ہے۔
ایوان کے گاڑی میں بیٹھ جانے کے بعد شہریار نے پوچھا دفتر چلنا ہے یا دوا خانہ؟ ایوان نے چونک کر پوچھا دوا خانہ؟؟؟ شہریار بولا جی ہاں احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ بجائے اس کے کہ دفتر والے تمہیں اسپتال لے کر جائیں میں ہی دوا خانہ لئے چلتا ہوں۔ ایوان بولی اگر ایسا ہے تو مجھے دفتر کے بجائے مارکس اینڈ اسپنسر مال میں لے چلو۔ شہر یار کی من مراد پوری ہو چکی تھی۔ اس نے کہا آج ہم لوگ کافی ہاؤس میں نہیں جائیں گے۔ اچھا تو پھر کہاں جائیں گے ؟ ہم لوگ فوڈ کورٹ میں جا کر کچھ کھائیں گے میں نے بھی ناشتہ نہیں کیا ہے اور شاید ۔۔۔۔ جی ہاں تم تو اندر کی بات بھی جان لیتے ہو۔سچ تو یہ ہے مجھے بہت بھوک لگی ہے ہم لو گ سب وے میں چل کر پہلے سینڈوچ کھاتے ہیں پھر بات کریں گے۔
سینڈوچ کیوں ؟ سادہ پراٹھا کیوں نہیں ؟ اتنی صبح پراٹھے کہاں ملیں گے ؟ پراٹھے تو صبح ہی میں بنتے ہیں اور اسی وقت کھائے جاتے ہیں۔ تم یہ کام مجھ پر چھوڑ دو مانچسٹر کو چھوٹا پاکستان بلا وجہ نہیں کہا جاتا؟ لیکن میں کسی گندے سے پاکستانی ہوٹل میں بیٹھ کر پراٹھے نہیں کھا سکتی کیا سمجھے ؟ کوئی بات نہیں میں لاہوری دھابے سے حلوہ، پراٹھا اور چنے بندھوا لیتا ہوں۔ اچھا تو پھر کھائیں گے کہاں ؟ تمہاری اس میلی کچیلی گاڑی میں بیٹھ کر ؟ ویسے میری گاڑی ایسی میلی بھی نہیں پھر بھی اگر تم چاہو تو تمہارے گھر پر بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔ میرا گھر؟؟؟ ایوان سوچ میں پڑ گئی اور پھر بولی تمہیں کچھ دیر نیچے انتظار کرنا پڑے گا تاکہ میں اسے ٹھیک ٹھاک کر دوں۔ اچھا تو تم مجھے مہمان سمجھتی ہو۔ جی ہاں ابھی تک تو مہمان ہی ہو۔ ایوان کو پریشانی اس بوتل اور گلاس سے تھی جو اب بھی میز پر پڑی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ سب دیکھ کر شہریار کا موڈ نہ خراب ہو جائے۔
شہریار نے ناشتے کے ساتھ ساتھ مٹھائی بھی بندھوا لی اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ آج کچھ ایسا ضرور ہو گا جس سے منہ میٹھا کرنے کی نوبت آئے۔ واپس آنے کے بعد جب شہریار نے گاڑی کو ایوان کے گھر کے سامنے روکا تو وہ بولی مجھے صرف پانچ منٹ دو اور یہیں رکو۔ تم تو جانتے ہو خواتین کو اپنا اور اپنے گھر کے رکھ رکھاؤ کا خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔ شہریار بولا پہلے تو نہیں جانتا تھا لیکن اب جان گیا ہوں۔ ایوان نے اوپر جا کر سب سے پہلے شراب کی بوتل کو دراز کے اندر اور گلاس کو واش بیسن کے نیچے رکھا۔ اس کے بعد کھڑکی کو کھول کر پنکھا تیزی سے چلا دیا تاکہ ساری بدبو ہوا میں تحلیل ہو جائے۔ اس کے بعد چادر کو ٹھیک کیا۔ کپڑوں کو الماری کے اندر پھینکا۔ اسے اپنے گھر کی درگت پر خود حیرت ہو رہی تھی۔
ایوان کو بے اختیاری کے عالم میں جوناتھن یاد آ گیا۔ جب تک وہ اس گھر میں تھا اس گھر کی کیا حالت تھی۔ ہر چیز اپنے مقام پر رکھی رہتی تھی اور اس کے چلے جانے کے بعد سارا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ ایوان نے اپنے ذہن سے جوناتھن کو جھٹک کر کھڑکی سے باہر پھینکا اور وہیں سے شہریار کو اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ شہر یار سوچ رہا تھا عورت پہلے عورت ہوتی ہے اور اس کے بعد مشرقی یا مغربی۔ اگر ایوان کی جگہ شہناز بھی ہوتی تو یہی کرتی لیکن پھر اس کے اندر سے آواز آئی نہیں۔ اس کی شہناز کسی غیر مرد کو تنہائی میں اپنے گھر کے اندر آنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتی۔ سانپ اور لاٹھی میں یہی بنیادی فرق تھا۔وقت نے غیر مرئی انداز میں ایوان، شہریار، جوناتھن اور شہناز کی نظر نہ آنے والی زنجیر میں جکڑ دیا تھا۔
۱۳
ناشتے کے بعد ایوان اور شہریار اپنی اپنی چائے کی پیالیاں لے کر باہر بالکنی میں آ گئے۔ گفتگو کے لئے ماحول صد فیصد سازگار ہو گیا تھا۔ ایوان نے پوچھا شہریار میں نے تمہارے سامنے اپنے تاش کے پتے تو کھول کر رکھ دئیے لیکن تمہاری جانب سے کوئی پانسہ ابھی نہیں پھینکا گیا۔ شہریار بولا جی ہاں اگر یہ صورتحال چند سال قبل پیش آتی جبکہ ہم دونوں کنوارے تھے تو میں بلا پس و پیش حامی بھر دیتا لیکن اب ہم دونوں پر اپنی اپنی ذمہ داریاں ہے اس لئے ہمیں سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ آگے چل کر مسائل نہ پیدا ہوں۔ ایوان بولی جی ہاں میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ ہمارے سبب نہ تو کسی کی دلآزاری ہو اور نہ کسی کو نقصان پہنچے۔ شہریار نے کہا لیکن تم نے جوناتھن یا بنجامن کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟ وہی جو تم شہناز کے بارے میں سوچتے ہو؟
ایوان کا جواب سن کر شہریار چونک پڑا۔ وہ بولا شہناز کا جوناتھن سے کیا موازنہ ؟ وہ تو بدستورمیرے نکاح میں رہے گی۔ اسی طرح میں بھی جوناتھن کے نکاح میں رہوں گی۔ یہ تو نا ممکن ہے ایوان یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کیوں جو معاملہ شہناز کے ساتھ ہو سکتا ہے وہ جوناتھن کے ساتھ کیوں نہیں ہو سکتا؟ شہریار بولا یہ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ شہناز میرے نکاح میں ہے اور مجھے شہناز کے علاوہ مزید تین بیویوں کے رکھنے کی اجازت ہے۔ جس سے تم واقف ہو اور اس کا ذکر بھی کر چکی ہو۔ لیکن جوناتھن تمہارے نکاح میں نہیں بلکہ تم اس کے نکاح میں ہو۔ اس لئے جب تک وہ تمہیں اس سے آزاد نہیں کر دیتا میں تم سے نکاح کرنے کا مجاز نہیں بن سکتا۔ کیا مطلب ؟ ایوان نے چمک کر پوچھا۔ مطلب صاف ہے ایوان جب تک تم اس کے نکاح میں ہو ہماری شادی غیر شرعی اور غیر قانونی ہو گی۔ دنیا کی کوئی عدالت اسے جائز تسلیم نہیں کرے گی۔
ایوان بولی شہریار تم میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ میرا مسئلہ تو تم جانتے ہی ہو۔ ہم ایک قلیل اور طے شدہ مدت کیلئے شادی کریں گے۔ جب مجھے برطانیہ کی شہریت مل جائے گی تو تم مجھے طلاق دے دینا۔ اس کے بعد تم اپنے انداز میں شہناز کے ساتھ زندگی گزارنا اور میں اپنے جوناتھن کے ساتھ گزر بسر کروں گی۔ ایوان کے اس جواب نے شہریار کے چودہ طبق روشن کر دئیے۔ وہ بولا یہ رشتہ داری نہیں بلکہ سودے بازی ہے۔ جی ہاں یہی سمجھ لو لیکن اس سودے میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ تمہیں عارضی طور پر سہی ایک بیوی مل جائے گی اور مجھے شہریت حاصل ہو جائے گی۔ لیکن شہریت تو دائمی ہو گی۔ جی ہاں یہ صحیح ہے کہ شہریت کو دوام حاصل ہو گا لیکن وہ بھی موت تک اس لئے کہ اس دنیا کی ہر شہ کو ایک دن فنا ہونا ہے۔ انسان کو اس دنیا سے دوسری دنیا میں جانے کیلئے کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی جب وہ مر جاتا ہے تو کسی ملک کا شہری نہیں ہوتا۔ شہریار نے کہا ایوان تمہاری اسی منطق کو اگر میں تسلیم کر کے ایک سوال کروں کہ اگر اس طے شدہ قلیل مدت کے درمیان ہم میں سے کسی کو موت آ جائے تو ہمارا کیا ہو گا؟
ایوان نے اپنے طور سے شہریار کی جانب سے ہزاروں سوال وضع کئے تھے اور ان کے جواب اپنے پاس تیار کر رکھے تھے لیکن یہ سوال اس کے وہم و گمان سے پرے تھا۔ شہریار اس سے پوچھ رہا تھا کہ اگر اس طلاق سے قبل اس کو موت آ جائے تو وہ کس کے نکاح میں مرے گی ؟ کس کے دین پر اسے موت آئے گی؟ اس کی آخری رسومات کس کے ایماء پر ادا کی جائیں گی؟ لیکن شہریار کے نزدیک ان سب سے زیادہ اہم سوال یہ تھا کہ بعد از موت وہ اپنے خالق و مالک کے سامنے اپنی اس نافرمانی کی کیا توجیہ پیش کرے گا؟ اس لئے شہریار نے اپنے پتے کھول دئیے تھے۔ اسے اس شرط پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ شہریت کے حاصل کر لینے کے بعد ایوان خُلع لے کر اس سے جدا ہو جائے اور دوبارہ جوناتھن کے ساتھ اپنا گھر بسا لے لیکن جوناتھن سے رشتہ منقطع کئے بغیر وہ کسی صورت اس کو اپنے نکاح میں لینے کیلئے تیار نہیں تھا۔
ایوان پینترا بدل کر بولی اچھا بابا اگر میں جوناتھن سے تعلق توڑ لوں تب تو تمہارے اعتراضات ختم ہو جائیں گے۔ شہریار نے خندہ پیشانی سے کہا جی ہاں لیکن اس مرحلے میں میں مزید ایک وضاحت حاصل کر لینا چاہتا ہوں۔ اچھا ؟ وہ کیا ایوان نے پوچھا ؟ یہی کہ جس دوران تم میرے نکاح میں رہو گی شہناز کے یہاں آنے یا میرے پاکستان جانے پر تمہیں اعتراض تو نہیں ہو گا۔ اب ایوان کو اپنی کشادہ دلی دکھانے کا موقع ہاتھ آیا تھا وہ بولی مجھے کیوں اعتراض ہو سکتا ہے۔ وہ تمہاری قانونی زوجہ ہے تم اس کے پاس جاؤ یا اسے بلاؤ یہ تمہارا حق ہے بلکہ اگر وہ میرے اپنے گھر میں رہنے پر راضی ہو تو میں اپنے خاوند کی بیوی کی حیثیت سے اس کا اس گھر میں استقبال کروں گی۔ ایوان کا جملے میں ’’ اپنے خاوند کی بیوی‘‘ کے ا لفاظ بہت ہی معنیٰ خیز تھے اور اس بات کے غماز تھے کہ اس نے کس طرح کی تیاری کر رکھی ہے۔ اس گفتگو کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا تھا اب ایوان اور شہریار کے درمیان کوئی پوشیدہ ایجنڈا نہیں تھا سارے عزائم اور ارادے طشت از بام ہو چکے تھے۔ ایوان نے بتلا دیا تھا کہ یہ رشتہ عارضی نوعیت کا ہو گا اور شہریار نے واضح کر دیا تھا کہ وہ پہلی فرصت میں شہناز کو برطانیہ بلا لے گا۔
شہر یار کے چلے جانے کے بعد ایوان سوچ میں پڑ گئی تھی۔ اس کیلئے شہر یار کی شرط نہایت نامعقول تھی۔ اس کے خیال میں شہریار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہئے کہ وہ جوناتھن کے نکاح سے باہر آتی ہے یا نہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ شرط لگا سکتا ہے کہ جب تک وہ اس کے نکاح میں رہتی ہے اسے جوناتھن سے تعلق منقطع رکھنا چاہئے اور اس کا بھی اخلاقی حق شہریار کو اسی صورت میں حاصل ہو تا جب وہ خود بھی اپنے آپ کو شہناز سے دور رکھنے کا وعدہ کرے لیکن ایوان اور شہر یار کے ضابطۂ اخلاق میں بنیادی فرق یہ تھا کہ ایک کی جڑیں شریعت اسلامی میں پیوست تھیں اور دوسری مادہ پرستی کے گرداب میں ٹھوکریں کھا رہی تھی۔شہریار نہ صرف اپنے بلکہ اپنی اولاد کے بارے میں سوچتا تھا۔ اگر کل کو ایوان سے شہریار کسی بچے کا باپ بن جاتا تو ایوان بڑی آسانی سے اسے جوناتھن کے گلے میں باندھ کر شہریار کو اپنے بچے سے محروم کرسکتی تھی لیکن ایوان کو نہ آگے پیچھے سے کوئی غرض تھی اور نہ آس پاس کے لوگوں سے کوئی سروکار تھا۔ اس کا مرکز و محور اس کی اپنی ذات تھی اور وہ اپنے بیٹے جوناتھن کو اس قلیل المیعاد نکاح کی بھینٹ چڑھانا نہیں چاہتی تھی۔
ایوان نے یکبارگی سوچا کہ جس طرح وہ قلیل مدت کیلئے نکاح کر رہی ہے اسی طرح کیوں نہ طے شدہ مدت کیلئے جوناتھن سے طلاق حاصل کر لے لیکن یہ خطرے کا سودا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اگر جوناتھن کو اس کے مذموم منصوبے کی بھنک بھی لگ جائے تب بھی وہ اس کو طلاق دے کر دائمی کنارہ کشی اختیار کر لے گا اور کبھی اس کی شکل بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرے گا۔ وہ نہ صرف خود دور ہو جائے گا بلکہ بنجامن کے دماغ میں بھی اپنی ماں کے تئیں نفرت ڈال کر اسے ایوان سے بد ظن کر دے گا۔ایوان نے اس بات پر بھی غور کیا کہ عمر کے اس حصے میں شہریار سے طلاق لینے کے بعد اس کو جوناتھن سے زیادہ اطاعت گزار اور فرمانبردار خاوند نہیں ملے گا۔اس لئے جوناتھن سے تعلق بنائے رکھنا ناگزیر تھا۔
شہریار کی بات مان لینے میں ایوان کا ایک بڑا فائدہ تو یہ تھا اس کو برطانیہ کی شہریت حاصل ہو جاتی لیکن اس کے علاوہ خسارہ ہی خسارہ تھا۔ ویسے اگر شہریار غیر شادی شدہ ہوتا تو ایوان اس کے ساتھ گزارا کرنے کے بارے میں سوچ سکتی تھی لیکن شہریار کی اپنی بیوی تھی۔ ایوان یہ بھی جان چکی تھی کہ شہریار کو کسی صورت شہناز سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس مشکل صورتحال میں ایوان کیلئے امید کی واحد کرن اس کی سہیلی ماریہ تھی جو پہلے ہی اسے پاکستانیوں سے ہوشیار کر چکی تھی۔ ویسے ایوان کو خوف تھا کہ اگر وہ اپنا مسئلہ اسے بتائے گی تو ماریہ کو لعن طعن کا نادر موقع ہاتھ آ جائے گا لیکن ایوان کا ماریہ کے علاوہ کوئی ایساہمدم و دمساز نہیں تھا جس کے سامنے وہ اپنے خطرناک عزائم کا اظہار کرسکتی تھی۔
بڑے سوچ بچار کے بعد ایوان نے ایک ایسے وقت میں ماریہ کو فون کیا جب وہ فرصت میں ہوا کرتی تھی۔ ایوان کا پہلا سوال تھا ماریہ میں تم سے راز داری کی چند باتیں کرنا چاہتی ہوں اس لئے یہ بتاؤ کہ کوئی تمہارے آس پاس تو نہیں ہے ؟ ماریہ بولی جی نہیں میں تنہا ہوں بولو کیا بات ہے۔ ایوان نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنی ساری داستانِ غم سنا ڈالی۔ ماریہ بھی اسے سن کر سنجیدہ ہو گئی۔ وہ چاہتی تو تھی کہ ایوان اس آگ کے کھیل سے باز آ جائے مگر وہ اپنی سہیلی کی ضدی طبیعت سے بھی واقف تھی اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اس طرح کے مشورے سے ایوان کا دل ٹوٹ جائے گا۔ ماریہ کو اپنی سہیلی کی دلآزاری منظور نہیں تھی اس لئے اس نے کہا مجھے وقت دو میں کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتی ہوں۔ جب کوئی حل سجھائی دے گا تواس کے بعد میں از خود فون کروں گی۔ ماریہ کا آخری جملہ اس بات کا اشارہ تھا کہ ایوان اب اسے اس مسئلہ پر فون کرنے کی زحمت نہ کرے۔
ایوان نے اگلے دو تین دن بڑی بے کلی میں کاٹے۔ ماریہ کا فون ندارد تھا۔بالآخر اس نے خود فون کیا اور ماریہ سے ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی ماریہ بھی بے دلی ان کا جواب دیتی رہی وہ جانتی تھی کہ اصل غرض و غایت کیا ہے ؟ فون بند کرنے سے قبل ماریہ نے اسے بتایا کہ میں تمہارے مسئلہ میں کچھ وکلاء سے بات کر رہی ہوں لیکن ان لوگوں کی جانب سے بھی ابھی تک کوئی خاطر خواہ حل سامنے نہیں آیا ہے۔ کچھ لوگوں نے قانونی صورت نکالنے کا وعدہ کیا ہے کوشش جاری ہے۔ ماریہ کی بات سن کر ایوان کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ وہ بولی ماریہ تم اس قدر بے وقوف ہو سکتی ہو یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ تم تو جانتی ہو وارسا میں یہودیوں کی تعداد فی الحال اس قدر کم ہے سبھی ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور پھر جوناتھن کی مذہبی اور سماجی سرگرمیوں کے سبب اس کو جاننے والے ویسے بھی زیادہ ہیں۔اگر ان وکیلوں میں سے کسی نے جون کو بتا دیا تو میرا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔
ایوان کی بات پر ماریہ زور دار قہقہہ لگا کر بولی تمہاری سہیلی بے وقوف ضرور ہے لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں کہ جتنا تم سمجھتی ہو۔ میں نے تمہارا مسئلہ لوگوں سے ضرور پوچھا لیکن نام ظاہر نہیں کیا۔ ایوان بولی نام سے کیا ہوتا ہے ؟اگر تم نے یہ بتا دیا کہ یہ تمہاری سہیلی کا مسئلہ ہے۔ جو برطانیہ میں رہتی ہے۔ اس کا ایک بیٹا ہے۔ جو اپنے باپ کے ساتھ تل ابیب میں قیام پذیر ہے تو ہمارے کسی بھی جاننے والے کو یہ پتہ چل جائے گا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ میرا تو خیال ہے کہ تم نے مجھے بے موت مار دیا ہے۔ میں نے تم پر اعتماد کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
ماریہ بولی دیکھو ایوان پاگل نہ بنو اور شہریار کا غصہ مجھ پر نہ اتاروجس پر تم نے جال ڈالا اور خود اس کے دام میں پھنس گئیں۔ میں نے تو صرف ایک مفروضے کے طور پر یہ جاننے کی کوشش کی اگر کوئی شادی شدہ عورت کسی اور سے نکاح کر لے تو یہودی شریعت کے مطابق اس کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔اس لئے کہ تمہاری شادی یہودی قانون کے مطابق ہوئی ہے۔ اب اس سے بھلا کسی کو کیسے پتہ چلے گا کہ وہ بدمعاش عورت کون ہے ؟ایوان سمجھ گئی اس کے اندیشے بے بنیاد ہیں۔ اسے قدرے اطمینان ہوا مگر وہ بولی تم نے مجھے بدمعاش کہا میں تم سے بات نہیں کرتی۔ فون بند ہو چکا تھا اور دونوں سہیلیاں ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور سر پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھیں۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ہر روز ایوان اور شہریار ایک ساتھ دفتر آتے جاتے۔ اوٹ پٹانگ گفتگو کرتے لیکن اصل بات کو چھیڑنے کی جرأت کسی میں نہیں تھی۔شہریار چاہتا تھا کہ ابتداء ایوان کی جانب سے ہو اور ایوان نے فی الحال اسے ماریہ کے فون تک موقوف کر دیا تھا۔ وہ کسی پائیدار حل کے بغیر آگے بڑھنے سے ڈر رہی تھی۔ بنجامن سے علاحدگی اس کے اوپر بہت گراں تھی۔ جمعہ کے دن دفتر سے واپس ہوتے ہوئے شہریار کو توقع تھی ایوان خریداری کیلئے مال جانے کیلئے کہے گی اور شاید گفتگو کی کوئی سبیل نکل آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شہر یار کو اندیشہ ہونے لگا تھا کہ شاید اس کے بے لچک رویہ نے ایوان کو اپنا ذہن بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایوان کی یہ بے نیازی اسے شہریار کے نزدیک اہم تر بنا رہی تھی۔ اس کو ایسا لگنے لگا تھا شہناز کو برطانیہ بلانے کا اس کا خواب پھر ایک بار چور چور ہو نے جا رہا ہے۔
ایوان کے گھر سے گاڑی کو موڑتے ہی شہریار نے ارمندر کور کو فون کیا اور پوچھا کیوں بھابی کیسی ہو؟ ارمندر بولی میں تو اچھی ہوں تم بتاؤ کہ خیریت تو ہے ؟ میں اچھا ہوں شہریار بولا۔ ارمندر نے پوچھا اور تمہاری ایوان اس کا کیا حال ہے ؟ شہریار بولا آپ بھی میرا مذاق اڑا رہی ہیں۔ ایوان میری کب سے ہو گئی؟ ہوئی نہیں تو ہو جائے گی آج نہیں تو کل یہ ہونا ہے آخر تجویز اسی کی جانب سے آئی ہے۔ جی ہاں تجویز تو اس نے دی تھی لیکن لگتا ہے اس نے رجوع کر لیا ہے۔ ارمندر نے پوچھا کیوں ؟ تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے ؟ شہریار بولا دراصل میں ساری تفصیل آپ کو فون پر نہیں بتا سکتالیکن مختصر یہ کہ اس بابت اس نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ارمندر بولی دیکھو شہریار اگر انکار نہیں ہے تو سمجھ لو کہ اقرار ہے۔
شہریار بولا لیکن یہاں تو نہ اقرار اور نہ انکار بلکہ سکوت ہے۔ ہاں ہاں وہی تو میں کہہ رہی تھی شہریار کہ خواتین کا سکوت اقرار اور مردوں کی خاموشی انکار کی غمازی کرتی ہے۔ شہریار بولا لیکن ایک بات بتاؤں بھابی شاید یہ مفروضہ ایوان پر صادق نہ آئے۔ ارمندر نے پوچھا کیوں ؟ اس لئے کہ وہ جسمانی طور پر عورت ضرور ہے لیکن اس کی نفسیات مردانہ ہے اور شاید قول و قرار کا تعلق جسم کے بجائے نفس سے ہے ؟ ارمندر نے کہا شہریار تم نے ایوان کے بارے میں بہت بڑی بات کہی ہے ایسی دوہری شخصیت کے حامل لوگ شاذو نادر ہی پائے جاتے ہیں اور ان کی اس دوئی کا احساس دوسروں کو تو کجا خود انہیں بھی نہیں ہوتا۔ اگر یہ سچ ہے اور تمہیں اس معرفت حاصل ہو گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تم نے ایوان کو بہت قریب سے جان لیا ہے۔
شہر یار بولا بھابی اگر یہ بات درست بھی ہے تو میرے مسئلہ کا حل نہیں ہے ؟ ارمندر ہنس کر بولی سچ تو یہ ہے شہریار کہ تمہارا تو سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مسئلہ ایوان کا ہے۔ اسے تمہارے توسط سے برطانیہ کی شہریت درکار ہے۔ اگر وہ پیش قدمی نہیں کرتی یا پیچھے ہٹ جاتی ہے تو اپنا نقصان کرے گی۔ شہریار بولا بھابی آپ کیسی بات کرتی ہیں ؟ میرا سب سے بڑا مسئلہ شہناز کو یہاں بلانے کا ہے ؟ ارمندر بولی جی ہاں میں جانتی ہوں اس لئے کہ ایک طویل عرصہ تک میں دھرمندر سے دور پنجاب میں رہ چکی ہوں۔ وہ دور ہم لوگوں نے کیسے گزارہ اس کا مجھے علم ہے لیکن اس مسئلہ کا ایوان سے کیا تعلق ؟ وہ تو ایوان کی تجویز سے پہلے بھی موجود تھا اور اس کے انکار کے باوجود اسی طرح رہے گا اس میں کوئی سنگینی واقع نہیں ہو گی۔
شہر یار بولا جی ہاں لیکن یقین جانیں ایوان کی اس تجویز کے بعد امید کا ایک ننھا سا چراغ روشن ہو گیا تھا جس کی روشنی میں مجھے شہناز کا ہنستا مسکراتا چہرہ دن رات نظر آنے لگا تھا لیکن اب وہ چراغ ٹمٹما نے لگا ہے مجھے خوف ہے کہ وہ کس بھی لمحہ بجھ جائے گا اور میری شہناز پھر ایک بار تنہائی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کھو جائے گی۔ شہر یار کا کرب ارمندر محسوس کر رہی تھی۔ اس نے کہا بھیا شہریار دل چھوٹا نہیں کرتے پر امید رہو۔ اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔اگر اوپر والا ایک دروازہ بند کرتا ہے تو سترّ دروازے کھولتا ہے اس لئے دھیرج رکھو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا بلکہ کل پھر ہفتہ ہے تم ایسا کیوں نہیں کرتے ناشتے کیلئے میرے یہاں آ جاؤ۔ شہریار بولا لیکن آپ بہت زحمت کرتی ہیں۔ آپ بس سادے پراٹھے بنا دیں وہی کافی ہے۔ ارے بھئی مجھے پتہ ہے ایوان کو سادے پراٹھے اچھے لگتے ہیں لیکن میں کل تمہاری شہناز کی پسند گاجر کا حلوہ اور پوری بناؤں گی۔ اچھا یہ آپ کو کیسے پتہ؟ یہ میں تمہیں کل بتاؤں گی۔ ٹھیک تو کل صبح نو بجے ناشتے پر۔ خدا حافظ۔ خدا حافظ۔ فون بند ہو گیا۔
۱۴
ایوان کو ماریہ کے فون کا انتظار تھا۔ اس نے ای میل کے ذریعہ اسے بتایا تھا کہ رات آٹھ بجے فون کرے گی۔ ایوان کو امید تھی ماریہ نے ضرور کوئی حل نکال لیا ہو گا ورنہ وہ فون کرنے پر آمادہ نہ ہوتی۔ ایوان جلدی جلدی کھانے پینے اور دیگر امور خانہ داری سے فارغ ہو کر فون کیلئے تیار ہو گئی۔ اس نے آج پھر شراب کی بوتل نکال لی تھی مگر اس کا ارادہ فون کے بعد شغلِ مہ نوشی کا تھا۔ ٹھیک آٹھ بجے ماریہ کے فون کی گھنٹی بجی اور ایوان کے کمپیوٹر پر ماریہ کی تصویر نمودار ہو گئی۔ ماریہ بھی ایوان کو دیکھ رہی تھی۔ چونکہ اس روز فرصت سے بات کرنے کا ارادہ تھا اس لئے عکسی(ویڈیو) فون کا منصوبہ بنایا گیا۔ رسمی دعا سلام کے بعد ماریہ بولی دیکھو ایوان ہمارے مذہب میں بھی مرد کو تو ایک سے زائد زوجہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن عورت کیلئے بیک وقت ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے شہریار کا مطالبہ نہایت معقول ٹھہرتا ہے۔
میں جانتی ہوں ماریہ ایوان بولی اگر میرا ارادہ صحیح معنوں میں شہریار سے شادی کرنے کا ہوتا تو میں بھی یہی کرتی اس لئے کہ بیک وقت دو مصیبت پالنے سے اچھا ہے کہ ایک سے نجات حاصل کر لی جائے لیکن تم تو جانتی ہو یہ عارضی رشتہ داری ہے۔ ماریہ نے کہا میں جانتی ہوں ایوان لیکن مہذب انسانی سماج عارضی طور پربھی اس حیوانیت کی اجازت نہیں دیتا۔ ایوان چڑ کر بولی تم کس دنیا میں جی رہی ہو ماریہ آج کل کے ترقی یافتہ مغربی معاشرے میں نکاح کو ایک فرسودا رسم قرار دے دیا گیا ہے۔ یہاں برطانیہ میں بغیر شادی کے ساتھ رہنے والے جوڑوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ماریہ بولی اگر ایسا ہے تو تم شادی کے جھمیلے میں کیوں پڑنا چاہتی ہو؟ ایوان چڑ کر بولی تم تو جانتی ہو ماریہ مجھے شہریت چاہئے جو اس کے بغیر نہیں مل سکتی۔ یہی تو میں کہہ رہی ہوں ایوان کہ انسان جیسا چاہے حیوان بن جائے لیکن قانون اس کی حیوانیت کو تسلیم نہیں کرتا اور کسی برطانوی شہری کے ساتھ بغیر نکاح کے رہنے والے جوڑے کو شہریت کا مستحق نہیں ٹھہراتا۔
ایوان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا وہ بولی جی ہاں مجھے پتہ ہے میں اپنا اچھا برا خوب جانتی ہوں اس لئے اب تم اخلاقیات کی نصیحت بند کرو اور یہ بتاؤ کہ میرے مسئلہ کا کوئی حل تمہیں ملا یا نہیں ؟ ماریہ بولی تمہارے معاملے کا کوئی مستقل حل تو نہیں ہے لیکن شہریار کو دھوکہ دینے کیلئے ہم لوگ ایک ڈرامہ ضرور کرسکتے ہیں۔ ایوان کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا وہ بولی تم کس ناٹک کی بات کر رہی ہو مجھے تفصیل سے بتاؤ۔تفصیل کیا؟ میں اگر ایک جعلی طلاق نامہ بنا کر تمہیں بھیج دوں اور تم اسے شہریار کو دکھا دو تو کیا وہ اسے مان لے گا؟ ایوان سوچ میں پڑ گئی۔ یہ خطرناک تجویز تھی جس میں فرد اور دستاویز دونوں ہی نقلی تھے۔جوناتھن کی جانب سے ماریہ کا بنوایا ہوا جعلی طلاق نامہ ؟؟؟ اس میں کئی سوالات تھے۔ایوان نے پوچھا لیکن ماریہ تم اسے حاصل کیسے کرو گی؟ اور اگر جوناتھن کو اس کا علم ہو گیا تو کیا ہو گا؟
ماریہ بولی جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کیلئے ہمیں جعلی خط و کتابت کرنی ہو گی اور دوسرے سوال کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے ہر دھوکہ دھڑی کے معاملے کچھ نہ کچھ خطرات تو ہوتے ہی ہیں۔ ہمیں اس بار بے حد راز داری اور احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ اس سے زیادہ ہم لوگ کچھ نہیں کرسکتے۔ اب یہ کاغذ کی ناؤ ہے چلی چلی نہ چلی۔ ممکن اس کے ذریعہ تمہیں شہریت بھی حاصل ہو جائے اور بنجامن بھی تمہارے ساتھ رہے ؟ ایوان بولی لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہوا کے ایک جھونکے سے یہ کشتی ڈوب جائے اور مجھے شہریت تو حاصل نہ ہو مگر میں اپنے بنجو سے ہاتھ دھو بیٹھوں۔ دراصل بنجو میرے بڑھاپے کی لاٹھی ہے میں اسے کسی صورت گنوانا نہیں چاہتی۔
ماریہ نے کہا ایوان اگر تم ان خطرات سے ڈرتی ہو تو اپنے ارادے سے باز آ جاؤ اور دس بارہ سال انتظار کر لو۔جی نہیں ماریہ ہرگز نہیں ہو گا اس لئے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ دو چار سال کے بعد یہ لوگ شہریت کے قوانین اس قدر سخت کر دیں گے کہ کوئی نووارد یہاں کی شہریت حاصل ہی نہیں کر پائے گا۔ ماریہ بولی اگر ایسا ہے تو تم بھی اسرائیل اپنے جوناتھن کے پاس چلی جانا ویسے بھی تم نے اس کے ساتھ یہی وعدہ کیا ہے۔ تم مجھے اپنے وعدے وعید یاد نہ دلاؤ۔ وہ تو میں نے اس کو بے وقوف بنانے کیلئے کہا تھا۔ میں نے اپنے والد سے جو کچھ سن رکھا ہے اس کے چلتے میں اسرائیل کا رخ بھول کر بھی نہیں کروں گی۔ اچھا تو یہیں پولینڈ چلی آنا اور جوناتھن کو بھی یہیں بلا لینا۔ اس کے والدین اب بھی یہیں رہتے ہیں وہ بصد شوق واپس چلا آئے گا۔
ایوان نے کہا کیسی باتیں کرتی ہو ماریہ؟ بڑی مشکل سے تو میں نے اس کو اپنے خاندان سے دور کیا ہے۔ اب تم چاہتی ہو کہ وہ خود اس میں دوبارہ شامل ہو جائے اور مجھے بھی وہیں بلا لے ؟ ماریہ بولی دیکھو ایوان میں تو بس تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہتی؟ اور جو میں کہہ رہی تھی یہ سب مواقع و امکانات ہیں۔ اب ان میں سے تم کس کا انتخاب کرتی ہو یہ تمہاری اپنی مرضی پر منحصر ہے۔میرا خیال ہے تمہیں فیصلہ کرنے میں کچھ اور وقت چاہئے کہیں شہر یار کی جانب سے جلد فیصلہ کرنے کا دباؤ تو نہیں ہے ؟ جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ایوان نے آگاہ کیا۔ تب ٹھیک ہے ماریہ بولی اطمینان سے اچھی طر ح سوچ لو اور جو بھی فیصلہ ہو مجھے بتاؤ میرا تعاون ہر حالت میں تمہیں حاصل رہے گا۔ماریہ نے نہایت حکمت کے ساتھ اپنی مخلصانہ رائے ایوان کے گوش گذار کر دی تھی گو کہ اسے امید کم تھی کہ ایوان اس کو قبول کرے گی لیکن پھر بھی وہ اپنے تئیں مطمئن ہو گئی تھی گویا ایک ذمہ داری سے وہ سبکدوش ہو گئی ہو۔ ایوان نے جب دیکھا کہ ماریہ کی بوتل سے کوئی جن نہیں نکلا تو وہ خود سرخ شراب کی بوتل میں غرق ہو گئی۔
٭٭
شہریار جیسے ہی گاڑی سے اتر کر باہر آیا گاجر کے حلوے کی بھینی بھینی خوشبو اس کے وجود میں سما گئی۔ اس کو ایسا محسوس ہوا گویا وہ ارمندر کے گھر نہیں بلکہ اپنی شہناز کے پاس جا رہا ہے۔ شہناز کی مٹھاس اور خوشبو نے شہریار کو مست کر دیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کاش کے ایوان اس کی تجویز پر قائم رہے اوراس کے نتیجے میں جلد از جلد شہناز اس کے پاس چلی آئے۔انہی خیالات میں غلطاں شہباز نے گھر کی گھنٹی بجا دی ارمندر دروازے پر کھڑی تھی۔ وہ بولی آؤ وقت کی پابندی تو کوئی تم سے اور دھرمندر سے سیکھے میں تو کہتی ہوں کہ انگریز بھی تم لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
جی ہاں بھابی شہریار بولا لیکن اس کا کریڈٹ بھی انگریزوں ہی کو جاتا ہے۔ اچھا وہ کیسے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم دونوں ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں ہیں۔ میں چھوٹی ٹیکسی چلاتا ہوں تو دھرمندر بڑی لاری چلاتا ہے لیکن ہمارے اکثر و بیشتر گاہک انگریز ہیں جو وقت کے پابند ہیں اب ہمارے لئے کوئی موقع نہیں یا تو وقت کی پابندی کریں یا دھندہ بند کر دیں۔ ارمندر بولی لیکن ابھی تو تم میری دعوت میں آئے ہو۔ شہریار نے کہا جی ہاں وہ ایسا ہے نا کہ جب کوئی شہ عادت ثانیہ بن جائے تو پھر وہ ذاتی اور کاروباری زندگی میں فرق نہیں رہتا۔ ارمندر بولی شہریار میں تمہیں طویل عرصے سے جانتی ہوں لیکن اس طرح سمجھداری کی باتیں تم پہلے نہیں کرتے تھے۔ کیا مطلب؟ شہریار نے پوچھا۔ یہی کہ ایوان کی دوستی نے تم پر بہت سارے مثبت اثرات ڈالے ہیں۔ شہریار بولا آپ ہر بات کو اس سے جوڑ کر میرا مذاق اڑاتی ہیں۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے آؤ ناشتہ کرو۔
ناشتے کے دوران ارمندر نے پوچھا شہریار تمہیں یہ حلوہ بچپن سے پسند ہے۔ شہریار نے جواب دیا بھابی مجھے بچپن میں کوئی میٹھی چیز پسند نہیں تھی۔ میں نمکین بسکٹ کھایا کرتا تھا اور اپنے حصے کی مٹھائی اپنے دوستوں میں تقسیم کر دیا کرتا تھا یہاں تک کہ لسی میں بھی اگر شکر ہوتا تو اس کو ہاتھ نہ لگاتا میری ماں ہمیشہ ہی مجھے نمکین لسی دیا کرتی تھی۔ پھر یہ انقلاب کیسے برپا ہو گیا؟ شہریار جھینپ کر بولا وہ دراصل شہناز ہے نا۔ اس کو صرف میٹھی چیزیں پسند ہیں۔ارمندر بولی ہاں ہاں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ شہریار نے جواب دیا فرق یہ پڑا کہ مجھے بھی میٹھی چیزیں پسند آنے لگیں۔ اور اسے ؟ اسے نمکین چیزیں اچھی لگنے لگیں۔
ارمندر نے سوال کیا اچھا تو یہ بتاؤ کہ کیا یہ سب اپنے آپ ہو گیا یا اس کیلئے تم دنوں نے کوئی شعوری کو شش کی ؟ شہر یار کچھ دیر سوچ کر بولا بھابی یہ سب کیسے ہو گیا ؟ ہم دونوں نہیں جانتے لیکن ہوا یہ کہ اس کی ہر پسند میری پسند بن گئی اور جو کچھ مجھے اچھا لگتا تھا اسے بھی اچھا لگنے لگ گیا۔ ارمندر کو ان کے تعلق پر رشک آ رہا تھا۔ کیسے تھے یہ زوجین کا رشتہ ؟ کیسا انوکھا تھا یہ ساتھ کہ گویا بس ایک دوسرے کیلئے بنے ہوں۔
ناشتے سے فارغ ہو کر پھر وہ دونوں اپنی چائے کے ساتھ صوفے پر آن بیٹھے اور ارمندر نے پوچھا اب یہ بتاؤ کہ تمہاری یہ رائے کیسے بنی کہ ایوان جسمانی اور نفسیاتی طور پر مختلف ہے ؟ اس سوال کے جواب میں شہریار نے ارمندر کے سامنے ایوان کی پچھلی ملاقات کی روداد سنا ڈالی۔ یہ سن کر ارمندر کو ایوان پر بہت غصہ آیا۔ بھولی بھالی نظر آنے والی یہ یوروپین عورت اس قدر کائیاں اور چالاک ہو سکتی ہے یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ارمندر کا جی چاہا کہ شہریار سے کہے اس سے پہلے کہ ایوان اس کو منع کرے خود شہر یار کو اس سے اپنے سارے تعلقات منقطع کر لینے چاہئیں۔ جو عورت اپنے شوہر کی وفادار نہیں ہے وہ کسی اور کی اطاعت گزار کیوں کر ہو سکتی ہے ؟ ارمندر نے سوچا کہ یہ فیصلہ تو شہریار خود بھی کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہ نہیں چاہتا کہ ایوان اپنا فیصلہ بدلے یعنی شہریار کو ایوان پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ فی الحال ایوان کے بارے میں نہیں خود اپنے فائدے کی سوچ رہا ہے اوراس میں شہریار کا کوئی قصور نہیں۔ یہ اس کا اپنا کیا دھرا ہے۔ شہریار کو یہ رویہ اختیار کرنے کا مشورہ خود اسی نے دیا تھا لیکن اگر اسے پتہ ہوتا کہ ایوان اس قدر بدمعاش عورت ہے تو وہ پہلے ہی مرحلے میں شہریار کو خبردار کر دیتی۔
ارمندر اپنے خیالات کے جنگل میں کھوئی ہوئی تھی۔ شہریار اپنی چائے ختم کر چکا تھا۔ اسے ارمندر سے مشورے کی توقع تھی لیکن ارمندر خلاف توقع خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شہریار کو ایوان کے پھندے میں پھنسنے سے کیسے روکے ؟شہر یار نے سوال کیا بھابی آپ کیا سوچ رہی ہیں۔ میں نے آپ کو اس قدر سنجیدہ کبھی نہیں دیکھا۔ ارمندر بولی کچھ نہیں۔ کچھ نہیں شہریار نے ارمندر کا جملہ دوہرانے کے بعد پوچھا تو کیا میں چلا جاؤں ؟ جی نہیں شہریار تم یہاں بیٹھو مجھے ایک اہم فون کرنا ہے میں فون پر بات کر کے آتی ہوں جب تک تم ٹیلی ویژن دیکھو۔ارمندر نے ٹی وی کا بٹن دبانے کے بعد ریموٹ کنٹرول شہریار کو تھمایا اور خود دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ اس کا دما غ کام نہیں کر رہا تھا۔ وہ جلد بازی میں کوئی مشورہ دینا نہیں چاہتی تھی۔ اسے سوچنے کے لئے وقت اور تنہائی درکار تھی اس لئے وہ اندر اپنی خوابگاہ میں آ گئی تھی۔
شہریار مختلف چینلس سے ہوتا ہوا فلمی چینلس پر پہنچ گیا جہاں قدیم یونانی تہذیب پر ایک تاریخی فلم چل رہی تھی۔ کیمرہ قلعہ کی صدر دروازے سے ہوتا ہوا دیوانِ خاص میں پہنچا تو وہاں تخت پر ایک نہایت خوبصورت ملکہ براجمان تھی اور اس کے ہاتھوں میں عدالت کا ایک فیصلہ تھا جس کی اسے توثیق کرنی تھی۔ دستور کے مطابق پھانسی کی سزا کا اطلاق صرف مقتدر اعلیٰ کی توثیق سے ہوا کرتا تھا۔ محل میں موجود سارے وزراء شش و پنج میں مبتلا تھے۔ ان کے لئے اس بات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا ملکہ محترمہ اس فیصلے پر کیا رویہ اختیار کریں گی۔ کچھ لوگ سوچ رہے تھے کہ وہ اسے پھاڑ کر پھینک دیں گی۔اس لئے کہ عدالتی فیصلوں کو منسوخ کرنے کیلئے بادشاہِ سلامت یہی طریقہ اختیار کرتے تھے اور اس روایت پر صدیوں سے عمل درآمد ہوتا رہا تھا۔ ویسے اس کی نوبت شاذونادر ہی آتی تھی۔ اس لئے کہ قاضیِ شہر موت کی سزا دینے سے قبل بادشاہ کا عندیہ بالواسطہ یا بلا واسطہ جان لیا کرتے تھے اور جس مجرم کے بارے میں یہ اندازہ ہو جاتا تھا کہ بادشاہ اسے بچا لیں گے تو اسے خود ہی رہا کر دیا کرتے تھے۔ سزا انہیں لوگوں کو ہوتی جو بادشاہ کی نظر میں مغضوب ہوا کرتے تھے۔
اس معاملے میں فیصلہ بدلنا اس لئے ناممکن تھا کہ قتل کے کئی چشم دید گواہ موجود تھے نیز ملزم نے خود اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا بلکہ اسے افسوس تھا کہ وہ دوسرا قتل کیوں نہیں کرسکا۔ اس کے باوجود لوگ اس لئے ملزم کی رہائی کی توقع کر رہے تھے کہ وہ معزول شدہ ولی عہدِ ریاست اور ملکہ کا شوہر نامدار تھا لیکن وہ احمق لوگ اس حقیقت کو بھول گئے تھے ملزم کے دل میں جس کے قتل کی حسرت رہ گئی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ خودریاست کی ملکہ تھی۔ مقدمہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے تھی کہ اناطولیہ کی ریاست کا بادشاہ قیصر پنجم بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ اس کا بیٹا چارلس اپنی باری کے انتظار میں بوڑھا ہو رہا تھا۔ چارلس کی بیوی ڈائنا کے وزیر اعظم ماریو سے ناجائز تعلقات تھے۔ ایک روز وہ دونوں محل کے ایک محفوظ کمرے میں رنگ رلیاں منا رہے تھے کہ کسی وفادار فوجی نے اس کی خبر ولیعہد چارلس کو دے دی۔
وزیر اعظم کے سخت احکامات تھے کہ کسی کو وہاں تک پہنچنے نہ دیا جائے لیکن چارلس کو روکنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ اس کمرے تک پہنچنے کے بعد چارلس نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ ماریو نے اپنی تلوار سونت کر دروازہ کھولا لیکن پلک جھپکتے ہی چارلس نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ ڈائنا نے یہ منظر دیکھا تو وہ کھڑکی سے باہر کود گئی مگر قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ وہ تالاب کے اندر جا گری اور زخمی حالت میں اسے بچا لیا گیا۔ قیصر کو اس کے وزیر اعظم کے قتل کی اطلاع دی گئی تو اس نے کسی تفصیل کو جانے بغیر قاتل کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ اتفاق سے وہ ملزم کوئی اور نہیں بلکہاس کا بیٹا چارلس تھا جس نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور عدالت سے درخواست کی اسے اپنی بیوی ڈائنا کو قتل کرنے کا موقع دیا جائے اس کے بعد عدالت چاہے تو اسے دس بار پھانسی پر چڑھا دے۔
قیصر کو اندازہ ہو گیا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ کیا ہونے والا ہے۔ اس کی نرینہ اولاد میں چارلس کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا چونکہ چارلس کو بچانے کیلئے انصاف کا خون کرنا لازمی ہو گیا تھا اس لئے بوڑھا قیصر وہ صدمہ برداشت نہ کرسکا اور اس کی حرکتِ قلب بند ہو گئی۔ قیصر کی موت کے بعد دستور کی رُو سے ولیعہد کو اقتدار سنبھالنا تھا لیکن چونکہ وہ جیل میں تھا اس لئے روایت کے مطابق اس کی بیوی یعنی شہزادی ڈائنا کے سر پر اقتدار کا تاج سجا دیا گیا۔ ملکہ ڈائنا یہ جانتی تھی چارلس کا ا قدام حق بجانب ہے۔ اگر چارلس کی جگہ وہ بھی ہوتی وہی کرتی جو اس نے کیا لیکن اس موقع پر چارلس کے ساتھ رحم کا معاملہ کرنا خود اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ چارلس رہا ہوتے ہی تخت و تاج کا مالک بن جاتا اور سب سے پہلے ڈائنا کو موت کے گھاٹ اتار دیتا۔ یونان کے دستور کے مطابق بادشاہِ وقت پر مقدمہ چلانے کا اختیار عدالت کو حاصل نہیں تھا۔ ملکہ ڈائنا نے سرخ قلم سے فیصلے پر اپنے دستخط ثبت کئے اور پرنس چالس کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم دے دیا۔
اس بیچ ارمندر نے کمرے میں آ کر پہلے شہریار اور پھر ٹیلی ویژن کی جانب دیکھا۔ شہریار فلم میں اس قدر منہمک تھا کہ اسے ارمندر کی آمد کا بھی احساس نہیں ہوا۔ وہ خود بھی پیچھے پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ کر چپ چاپ فلم دیکھنے لگی۔ فلم کب اختتام پر پہنچی شہریار کو پتہ ہی نہ چلا ان دونوں نے بس فلم کا پردہ گر تے ہوئے دیکھا۔ شہر یار سوچ رہا تھا یہ کیسا کھیل ہے ؟ جس میں ڈائنا کے علاوہ سارے لوگ خسارے میں ہیں۔کھیل کے خاتمے پراس کا بال بیکا نہ ہوا بلکہ اس کے سر پر تاج سجا دیا گیا جبکہ سارے فتنہ فساد کی جڑ وہی ڈائنا تھی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ ارمندر نے پوچھا کیا ٹھیک نہیں ہوا؟ ارے آپ تو اندر چلی گئی تھیں ؟ جی ہاں وہ ڈیڑھ گھنٹے پہلے کی بات ہے۔اس کے بعد میں واپس آئی تو دیکھا تم نہایت انہماک سے فلم دیکھ رہے ہو۔ میں بھی خلل اندازی کرنے کے بجائے فلم دیکھنے لگی اور پھر وہی ہوا کہ تمہیں وقت کا پتہ چلا نہ مجھے ، واقعی یہ زبردست فلم تھی۔
شہریار بولا لیکن اس کا غمناک اختتام مجھے پسند نہیں آیا۔ ارمندر بولی ہاں اگر یہ ہندی فلم ہوتی تو ڈائنا چارلس کی جان بچا لیتی اور چارلس ڈائنا کو معاف کر دیتا اس طرح ہیرو ہیروئن کا مدھر ملن ہو جاتا۔دراصل ہم لوگ اس طرح کا انجام دیکھنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اس کے سوا ہمیں کچھ اچھا ہی نہیں لگتا۔شہریار نے پوچھا لیکن اگر ایسا ہوتا تب بھی بیچارہ قیصر؟ ارمندر بولی بوڑھا آدمی تھا اسے آج نہیں تو کل مرنا ہی تھا اور ماریو کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟ اس کی موت بھی لازمی تھی اس لئے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔
شہریار اس کہانی میں کھو کر اپنا مسئلہ بھول گیا اور ارمندر سے بولا اچھا بھابی اب میں چلتا ہوں شکریہ۔ ارمندر بھی خاموش رہی سلام دعا کے بعد وہ اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں شہریار نے سوچا کہ وہ ارمندر کے گھر فلم دیکھنے کیلئے تو گیا نہیں تھا۔پھر اس نے یہ کیا کیا۔ اپنا مسئلہ بتلایا اور حل معلوم کئے بغیر لوٹ آیا۔ اس کو واپس جانے میں شرم محسوس ہوئی اس لئے فون لگا کر بولا بھابی آپ نے مجھے فلم میں الجھا کر واپس کر دیا میرے مسئلہ کا کوئی حل نہیں بتایا۔ ارمندر بولی ریموٹ کنٹرول تمہارے اپنے ہاتھ میں تھا اس لئے تم اس کا الزام کسی اور کو نہیں دے سکتے خیر وہ کہانی بھی تو تمہاری اپنی کہانی تھی۔ فرض کرو کہ اس فلم کا مرکزی کردار ڈائنا نہیں بلکہ ایوان ہے۔ چارلس کی جگہ تم ہو اور ماریو کی جگہ جوناتھن۔ اور شہناز؟؟؟ شہریار نے سوال کیا۔ اس کی حالت قیصر کی سی تھی جو بے موت مارا گیا تھا۔ لیکن چارلس اور جوناتھن بھی تو مارے گئے ؟ قیصر نے سوال کیا۔ جی ہاں شہریار اس طرح کی کہانیوں میں یہی ہوتا ہے۔ شہریار بولا میں نہیں سمجھا! ارمندر نے جواب دیا صبر کرو وقت کے ساتھ تمہاری سمجھ میں سب کچھ آ جائے گا۔ آپ نے مجھے پھر فلم میں الجھا دیا اور یہ نہیں بتایا کہ میں کیا کروں ؟ ارمندر بولی کہا نا صبر کرو۔ صبراً جمیلا۔
۱۵
ایک ہفتہ ماریہ کی تجویز پر غور و خوض کرنے کے بعد ایوان اس نتیجہ پر پہنچی کہ تمام تر نقائص کے باوجود اس کے پاس کوئی بہتر متبادل نہیں ہے اس لئے مذکورہ منصوبے پر خاطر خواہ احتیاط کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہئے۔اس کیلئے ان لوگوں نے یہ کیا کہ سب سے پہلے دو نئے ای میل اکاؤنٹ کھولے جائیں ایک جوناتھن کے نام سے جس کے پروفائل میں اس کا برطانوی پتہ اور فون نمبر درج کیا گیا۔ اس اکاؤنٹ کے ساتھ جوناتھن کی تصویر بھی شناخت کے طور پر لگا دی گئی تاکہ کسی کو شک نہ ہونے پائے۔ اسی طرح ایک اور اکاؤنٹ ایوان کے نام سے کھولا گیا جس میں اس کا پولینڈ کا پتہ اور فون نمبر بھی درج کیا گیا۔ ان دونوں اکاؤنٹ کے پاس ورڈ ماریہ اور ایوان کے پاس تھے اور ان لوگوں نے منصوبہ بند طریقہ پر خط و کتابت کا آغاز کیا۔ کچھ انٹر نیٹ گروپس کی ممبرشپ بھی ان لوگوں نے لے لی جس سے اکاؤنٹ کے اندر بنا محنت بہت سارے میل آنے جانے لگے۔
ان فرضی اکاؤنٹس پر نوک جھونک کے چند میل بھی آئے گئے اور پھر ایوان نے پولینڈ میں موجود یہودی پنچایت سے درخواست کی کہ وہ اب دونوں کے درمیان طلاق کروا دے۔ یہودی پنچایت کا ای میل پتہ بھی فرضی تھا اور ماریہ کسی اور نام سے اس کی مہتمم بنی ہوئی تھی۔یہودی پنچایت کی جانب سے جوناتھن کے نام نوٹس بھیجی گئی۔ جوناتھن کے نام سے اس کا جواب دیا گیا۔ الزامات اور وضاحتوں کا فرضی سلسلہ چلایا گیا۔ اس بیچ ایک دن ایوان نے شہریار کو فون کر کے بتایا کہ اس کے گھر کا ای میل خراب ہے اور اس کی مرمت میں تین چار دن لگ سکتے ہیں۔ اس کا ایک ارجنٹ ذاتی نوعیت کا میل آیا ہے جس کا پرنٹ وہ دفتر میں نہیں لے سکتی اس لئے اگر ممکن ہو تو وہ پرنٹ لے کر آئے تاکہ وہ اسے دیکھ کر جواب دے سکے۔ ایوان نے شہریار کو اپنا فرضی اکاؤنٹ نمبر اور پاس ورڈ بتلا دیا۔
شہر یار نے پہلے تو وہ میل دیکھا جس کی پرنٹ نکالنے کیلئے ایوان نے کہا تھا۔ یہ طلاق سے متعلق طلب کردہ چند وضاحتیں تھیں۔ شہریار کو ایوان نے بتایا تھا کہ طلاق کی کارروائی چل رہی ہے لیکن اسے یقین نہیں ہوا تھا۔ اس خط و کتابت نے اس کے یقین میں بے شمار اضافہ کر دیا۔ از راہِ تجسس وہ پچھلے میل بھی دیکھنے لگا۔ ان میں ایک خاص تدریج کے ساتھ معاملہ آگے بڑھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ شہریار کے شکوک و شبہات ایک دم سے کافور بن کر اڑ گئے تھے۔ اس نے ایوان کو ای میل کی نقل تھماتے ہوئے پوچھا ایوان تمہیں کیا لگتا ہے کہ اس میں مزید کتنا وقت لگے گا؟ ایوان بولی کم از کم تین یا زیادہ سے چھے ماہ سمجھ لو۔ شہریار نے کہا تو کیا میں شہناز کو ابھی بلا سکتا ہوں یا نکاح کا انتظار کروں۔
ایوان بولی نیک کام اور پوچھ پوچھ تم چاہو تو کل بلا لو۔ میرے مکان میں تین کمرے اور دو دروازے ہیں۔ ایک کا استعمال میں کروں گی دوسرے کا تم کرنا۔ہم لوگوں کا مہمان خانہ اور باورچی خانہ مشترک ہو گا اور خواب گاہیں مختلف۔ شہریار بولا فی الحال ہمیں مہمان خانے کی ضرورت نہیں وہ تم اپنے پاس ہی رکھو ہم لوگ خواب گاہ سے کام چلا لیں گے دن کے اوقات میں شہناز تمہارے باورچی خانے میں میرے اور اپنے لئے کھانا بنا لیا کرے گی۔ ایوان نے کہا اور میں کیا فاقہ کروں گی؟ معاف کرنا غلطی ہو گئی وہ تمہارا کھانا بھی تیار کر لیا کرے گی۔ ایوان بولی نہیں اس کی ضرورت نہیں میں تو مذاق کر رہی تھی۔
شہریار نے کہا اس میں تکلف کی کیا بات ہے ، دو یا تین لوگوں کے کھانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ شہر یار کے چلے جانے کے بعد ایوان نے سوچا یہ اچھا سودا ہے۔ یہاں برطانیہ میں گھریلو ملازم بھی کافی مہنگے پڑتے ہیں۔ ان کیلئے اچھی خاصی تنخواہ کے علاوہ ہفتہ وار چھٹی اور انشورنس وغیرہ کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ شہناز کھانا بنانے کے علاوہ گھر کی صاف صفائی بھی کر دیا کرے گی اور جوناتھن کی طرح ہفتہ واری چھٹی کے بغیر ہی کام میں لگی رہے گی۔ ایوان کو لگا اس نے بلاوجہ بنجامن کو اپنے باپ کے ساتھ بھیج دیا ورنہاسے مفت میں آیا بھی میسرآ جاتی۔
شہریار کو تو گویا پر لگے ہوئے تھے وہ ایوان کے پاس سے نکل کر سیدھے گلناز کے گھر پہنچا۔ گلناز نے حیرانی سے پوچھا اس وقت ؟ اچانک! بن بتائے ؟ خیریت تو ہے۔ شہر یار کو اتاؤلے پن میں کی جانے والی اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ بولا کیوں اپنوں کے یہاں بھی وقت (اپائنٹمنٹ )لے کر آنا پڑتا ہے ؟نہیں ایسی بات نہیں میں تو یونہی کہہ رہی تھی بیٹھو میں چائے لے کر آتی ہوں۔ گلناز اندر گئی تو شہریار سوچنے لگا کہ اس مصیبت کی پڑیا کو کیسے بتائے ؟ کیا بتائے اور کیا نہ بتائے ؟ اس لئے کہ گلناز کا دماغ اور زبان دونوں تیز تھے۔ وہ بہت جلد بدگمان ہو جاتی تھی اور بڑے تیکھے انداز میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی تھی اس لئے اس سے احتیاط لازم تھا۔ اس نے سوچا کہ جلد بازی میں اس سے غلطی ہو گئی اسے تو چاہئے تھا کہ ارمندر سے مشورہ کرتا وہ سار ا پس منظر جانتی تھی اس لئے مناسب رائے بھی دے سکتی تھی خیر اب جو ہونا تھا سو ہو چکا تھا۔
گلناز چائے کے ساتھ کچھ نمکین بھی لے آئی اور پوچھا کیوں شہریار سب ٹھیک تو ہے میری بہن شہناز کی کیا خبر ہے ؟ شہریار بولا میں کیا بتاؤں اس کی خبر تو تم مجھ سے زیادہ رکھتی ہو؟ کیوں نہیں اپنی چھوٹی بہن کی خبر اگر میں نہ رکھوں تو کون رکھے گا ؟ جی ہاں تم اس کی خود ساختہ سرپرست جوہو۔ گلناز نے پوچھا تم میرا مذاق تو نہیں اڑا رہے ہو؟ شہر یار نے کہا میں بھلا ایسی جرأت کیسے کرسکتا ہوں ؟ میں تو صرف یہ خوشخبری سنانے آیا تھا کہ جلد ہی تمہاری بہن یہاں مانچسٹر میں تمہارے پاس آنے والی ہے۔ کیا ؟ شہریار یہ تو تم نے بہت اچھی خبر سنائی۔ میں کیا بتاؤں مجھے اپنی بہن کا تم سے دور رہنا کس قدر گراں گذرتا ہے۔ میں نے کتنی بار شارق کو سمجھایا کہ ذرا کشادہ گھر لو تاکہ میں اپنی بہن کو بلوا سکوں لیکن ان پر تو بس دوکان پر دوکان کھولنے کا جنون سوار ہے۔ اب سنا ہے تیسری کے چکر میں پریشان ہیں۔ میں پوچھتی ہوں کیا کریں گے اتنی ساری دوکانوں کا؟ بس ایک ہے کافی ہے ہاں گھر ہونا چاہئے بڑا سا جس میں اچھا خاصہ صحن ہو۔ دو چار کمرے ہوں ایک آدھ قاعدے کا مہمان خانہ ہو کہ کوئی آئے تو خوش ہو کر جائے لیکن مرد اپنی بیویوں کی سنتے کب ہیں ؟ بس اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں اور ہمیں اپنے پیروں کی جوتی سمجھتے ہیں۔
گلناز نے شکایتوں کا ایسا دفتر کھولا کہ شہریار کو الجھن ہونے لگی۔ وہ بولا ٹھیک تو ہے آمدنی تو دوکان سے ہو گی تبھی گھر کا کرایہ بھی ادا ہو گا اور اس کی دیکھ ریکھ بھی ہو سکے گی۔ گلناز بولی اب تم ان کی حمایت نہ کرو اور یہ بتاؤ کہ تم نے شہناز کیلئے گھر کا بندوبست کہاں کیا ہے ؟ شہریار بولا وہ جو ایوان کا گھر ہے نا۔۔ شہر یار کے دل کا چور اس کیلئے مسائل کھڑے کر رہا تھا اس کی زبان لڑ کھڑا رہی تھی۔گلناز تو ایوان کے نام سے اکھڑ گئی۔ کون ایوان وہ انگریز عورت جس نے اپنے شوہر کو وطن واپس بھیج دیا۔ کہیں تم اس کے گھر ابھی سے منتقل تو نہیں ہو گئے ہو۔ اگر ایسا ہے تو شہناز کو بلانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ گلناز کا مسئلہ یہ تھا اس کی زبان پر لگام نہیں تھی بولتی تھی بولتی ہی چلی جاتی تھی۔ گلناز کی چھٹی حس اپنی بہن کی ازدواجی زندگی کا خطرہ محسوس کر رہی تھی۔
شہریار نے اونچی آواز میں کہا گلناز تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔ میں بھلا ابھی سے اس کے یہاں کیوں منتقل ہونے لگا۔ جب شہناز آئے گی تو اس کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ گلناز نے پوچھا اچھا کرایہ کیا طے ہوا ہے ؟ اس سوال نے شہریار کیلئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ اس نے سوچا گلناز سے جھوٹ بولنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے اس لئے کہ وہ ایوان سے فوراً تصدیق کرائے گی۔گلناز نے پھر پوچھا تم چپ کیوں ہو؟ بولتے کیوں نہیں ؟کہیں مفت میں تو نہیں بلا لیا اس چنڈال نے تمہیں اپنے گھر ؟ دیکھو شہریار تم ان عورتوں کو نہیں جانتے۔ میں جانتی ہوں۔ یہ سفید فام خواتین بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ یہ کب تمہارے کان کتر جائیں گی تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اس لئے ان ان سے ہوشیار رہنا خاص طور پر اب جبکہ وہ اپنے شوہر کے بغیر تنہا رہ رہی ہے خطرات بہت زیادہ ہیں۔
شہریار بولا خطرہ اگر زیادہ ہے تو حفاظت کا انتظام بھی تو پکاّ ہے۔ تم اپنی بہن شہناز کو کیا کم سمجھتی ہو؟ گلناز بولی نہیں ایسی بات نہیں پھر بھی مجھے تو بھئی ڈر لگتا ہے۔ اگر تم اس کے بجائے کوئی اور گھر ڈھونڈ لو تو بہتر ہے۔ شہر یار بولا ٹھیک ہے میں کوشش کروں گا۔ گلناز بولی میں بھی شارق سے کہوں گی۔ شہریار کو اب ڈر لگ رہا تھا۔ اس نے چائے ختم کی اور اجازت لے کر چل پڑا۔راستے میں رک کر شہریار نے ارمندر سے فون پر رابطہ کیا اور اس کو تمام تفصیل سے آگاہ کیا۔ ارمندر کو بھی لگا کہ جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ کچھ بول نہیں سکی۔ اس نے محسوس کیا کہ شہریار بے حد خوش ہے اور اس موقع پر کسی اندیشے کا اظہار اس کی طبیعت پر گراں گزرے گا اس لئے اس نے شہریار کو مبارکباد دینے پر اکتفا کیا اور سوچا کہ کسی اور موقع پر اسے احتیاط برتنے کی تلقین کرے گی۔
ارمندر محسوس کر رہی تھی کہ شہریار کے معاملے حالات اچانک اس سرعت سے بدل جاتے تھے کہ کچھ سمجھ ہی میں نہ آتا تھا۔ارمندر نے پوچھا تمہارا کیا خیال ہے شہناز کے آنے میں کتنا وقت لگے گا ؟ شہریار بولا زیادہ سے زیادہ دو ہفتہ اس سے زیادہ کیا لگے گا؟ارمندر نے کہا تب تو ٹھیک ہے شہناز کی پہلی دعوت ہمارے یہاں ہو گی۔ شہریار بولا گلناز کے ہوتے ہوئے میں پہلی کا وعدہ تو نہیں کرسکتا لیکن دوسری یقیناً آپ کے یہاں ہو گی۔ ارمندر بولی بھئی گلناز یا ایوان تو گھر کا معاملہ ہے اسے دعوت نہیں کہتے ہاں ہمارے یہاں جب وہ آئے گی تو وہ صحیح معنیٰ میں دعوت ہو گی۔شہریار نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے۔
شہریار نے شہناز کو فون کر کے بتایا کہ وہ ایک گھنٹے بعد اسے کمپیوٹر سے فون کرے گا اس لئے وہ بھی کمپیوٹر پر بات کرے۔ شہناز یہ سن کر خوش ہو گئی اس لئے کہ اس سے پہلے شہناز کا تقاضہ ہوتا تھا کہ کمپیوٹر سے بات ہو تاکہ وہ کیمرے کی مدد سے شہریار کو دیکھ بھی سکے لیکن شہریار ان تکلفات میں پڑنے کے بجائے فون پر مختصر گفتگو کو ترجیح دیتا تھا لیکن اس روز شہریار فون پر خبر دیتے ہوئے شہناز کے چہرے پر تاثرات دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے خوشخبری کو صیغۂ راز میں رکھا تھا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں گلناز اس کو خبر دے کر رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔ راستے میں شہریار نے حجام کے یہاں اپنا چہرہ درست کیا اور پھر گھر آ کر فون لگانے لگا۔ پہلی ہی گھنٹی میں شہناز نے جواب دے دیا اور اس کا خوبصورت چہرہ کمپیوٹر کے پردے پر نمودار ہو گیا۔ شہناز بھی شہریار کو دیکھ رہی تھی۔
شہریار نے پوچھا شہناز میں تمہیں آج ایک خوشخبری دینے والا ہوں۔ بتاؤ وہ کیا ہے ؟ شہناز بولی میں بتاؤں ؟ میں کیسے بتا سکتی ہوں ؟ کیوں نہیں تم کیوں نہیں بتا سکتیں ؟ تم اندازہ تو لگا سکتی ہو؟ جی ہاں اندازہ لگانے کی کوشش کرسکتی ہوں۔ اچھا یہ بتاؤ کہ وہ خوشخبری کتنی بڑی ہے ؟ شہریار بولا کیا مطلب ؟ مطلب یہ کہ معمولی ہے یا اوسط ہے یا بہت بڑی خوشخبری ہے ؟ شہریار بولا میں تو سمجھتا تھا کہ تمہاری بہن گلناز ہی بہت تیز ہے لیکن اب پتہ چلا ہماری شہناز اس سے بھی زیادہ ذہین ہے۔ اپنی تعریف سن کر شہناز کا چہرہ سرخ ٹماٹر ہو گیا۔ وہ بولی آپ جو ہیں نا مذاق بہت اچھا کرتے ہیں۔
میں مذاق نہیں کر رہا ہوں شہناز بلکہ یہ تو حقیقت ہے خیر تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ سب سے بڑی خوشخبری ہے۔ اس سے بڑی خوشخبری میرے پاس تمہارے لئے نہیں ہے۔ اچھا اگر ایسا ہے تب تو میں یقین کے ساتھ بتا سکتی ہوں کہ وہ کیا ہے لیکن میری ایک شرط ہے۔ وہ کیا؟ یہی کہ اگر میں نے صحیح بتا دیا تو مجھے انعام میں کیا ملے گا ؟ شہریار نے جذبات سے مغلوب ہو کر کہا میں انعام میں ملوں گا۔ شہناز بولی جواب تو آپ نے خود دے دیا اب مجھے بتانے کی کیا ضرورت ؟ اور پھر مجھے کوئی اس کے علاوہ کوئی انعام بھی نہیں چاہئے۔ شہناز کی پلکوں پر ستارے جھلملا رہے تھے۔ وہ بولی دیکھو اذان ہو رہی ہے میں نماز پڑھنے کیلئے جاتی ہوں پہلے نفل شکرانہ اور پھر اس کے بعد فرض۔ شہریار بولا اللہ حافظ شہناز کا فون بند ہو چکا تھا کمپیوٹر کا مانیٹر بجھ چکا تھا۔
شہر یار کا معمول یہ تھا کہ وہ ہر روز ایوان کا میل بکس کھولتا اور اس پر دیکھتا کہ طلاق کے معاملے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے اور اگر کوئی خاص بات ہوتی تو ارمندر کو بتاتا۔ اس کے علاوہ دن میں شہناز کے معاملے میں جو کچھ ہوتا اس کی اطلاع ایوان کو دفتر سے گھر لاتے ہوئے دیتا۔ ایوان خود بھی اس میں کافی دلچسپی لے رہی تھی اس لئے شہناز کے آ جانے کے بعد ایوان کا دفتر آنا جانا بھی مفت میں ہو جانا تھا اس لئے کہ ایوان کے گھر میں رہتے ہوئے اس سے کرایہ لینا خاصہ مشکل تھا۔ دس دن کے اندر ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں اور شہریار نے اس کا پاکستان سے ٹکٹ اس طرح بنوایا کہ سنیچرکو دوپہر میں وہ مانچسٹر پہنچ جائے۔ اتفاق سے لاہور سے براہِ راست جہاز مانچسٹر آ رہا تھا اس لئے گلناز، شارق، دھرمندر، ارمندر اور شہریار سب کے سب ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ ویسے تو ایوان نے بھی ائیر پورٹ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر شہریار نے سامان کا بہانہ کر کے منع کر دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پہلے ہی دن گلناز کوئی ہنگامہ کھڑا کر دے۔
شہناز ہوائی اڈے سے سیدھے گلناز کے گھر آئی، وہاں پر سب نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔ اس کے بعد گلناز بھی شہناز کے ساتھ ایوان کے گھر آئی۔شہریار نے ایوان کا تعارف شہناز سے مکان مالکن کے طور پر کرایا جسے دفتر لانے لے جانے کا کام وہ ایک عرصے سے کرتا آ رہا تھا۔ اسی لئے اس نے اپنے مکان کا ایک حصہ اسے رہنے کیلئے دے دیا۔ کرائے کے بارے میں یہ طے ہوا تھا کہ شہریار اس سے دفتر آنے جانے کا کرایہ نہیں لے گا اور اس کے عوض ایوان کمرے کا کرایہ نہیں لے گی۔ شہناز پہلے ہی دن ایوان کے احسان تلے دب چکی تھی۔ گلناز نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ سودا سستا چھوٹا ہے۔ پہلے دن تو گلناز کے گھر سے اس قدر بنا بنایا کھانا آ گیا تھا کہ کچھ بنانے کی نوبت ہی نہ آئی تھی۔ شام تک دونوں بہنوں نے مل کر خوابگاہ کو درست کیا اور پھر ضروری سامان لینے کیلئے شہریار کے ساتھ سپر مارکیٹ میں چلی گئیں۔ جب رات گئے وہ لوگ لوٹے تو سارا گھر سنسار ان کے ساتھ تھا۔ شہناز کا دن پانچ گھنٹے قبل شروع ہوا تھا اور اب رات کے نو بج رہے تھے اس طرح وہ بیس گھنٹوں سے جاگ رہی تھی اور تھک کر چور ہو چکی تھی۔ گلناز کو اس کے گھر چھوڑ کر شہناز اور شہریار اپنے خوابوں کی نئی دنیا میں لوٹ آئے۔
۱۶
شہناز اپنے خوابوں کی دنیا میں کھوئی تھی مگر ایوان کی بے خواب آنکھیں ٹکٹکی لگائے اس کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ ایوان کے سامنے سوالات کا ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ تھا۔ پہلے تو شہناز کے آ جانے سے حاصل ہونے والے فائدوں کے بارے میں سوچتی رہی تھی لیکن اب اس کے ذہن میں اندیشوں اور وسوسوں نے سر ابھارنا شروع کر دیا تھا۔ اس نے سوچا جب شہناز کو پتہ چلے گا کہ شہریار اس سے بیاہ رچانا چاہتا ہے تو اس پر کیا گزرے گی؟ اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ کیا اسے یہ بات بتا دینا مناسب ہو گا کہ یہ قلیل المیعاد نکاح ہے ؟ اگر اس نے اس دھوکہ دھڑی سے حکومت کو آگاہ کر دیا تو اس کیلئے کون سے مسائل کھڑے ہوں گے ؟ یا اگر اس کی محبت میں مغلوب ہو کر شہریار نے شادی کا ارادہ ہی ترک کر دیا تو اسے کیا کرنا ہو گا؟ان سوالات نے ایوان کی نیند اڑا دی تھی۔ اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ نکاح سے قبل شہناز کو بلانے اجازت دینا جلد بازی میں کیا گیا ایک غلط فیصلہ تھا اور اس کی اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑسکتی تھی۔ شہناز کے سبب پیدا ہونے والے خطرات سے نپٹنے کیلئے ایوان کا ذہن جرائم کی دنیا میں داخل ہو گیا اور خطرناک قسم کے منصوبے آپ سے آپ بننے لگے۔رات خاصی طویل ہو چکی تھی سوچتے سوچتے وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
دفتر کے اندر بے شمار مصروفیت کے باوجود ایوان کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے خلاف معمول اخبار اٹھا لیا اور اس کے صفحات الٹنے پلٹنے لگی۔دی سن نام کا اخبار مختلف تصویروں اور دلچسپ خبروں سے اٹا پڑا تھا۔ دی سن چونکہ غیر سنجیدہ قارئین کو مخاطب کرتا تھا اس لئے اس میں واقعات کے بجائے افراد اور ان کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کچھ جھوٹ اور تھوڑا بہت سچ مرچ مصالحہ لگا کر پیش کر دیا جاتا تھا۔ نوجوان طبقہ اس گپ شپ کو بڑی دلچسپی سے پڑھتا تھا۔ فلم اور ٹیلی ویژن کی دنیا، رقص و موسیقی سے متعلق لوگ بلکہ اب تو کھیل کود کے مشہور نام بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ خبروں میں رہیں ان کے بارے میں جو بھی غلط سلط تصویروں سمیت شائع ہو جاتا وہ اسے اپنے لئے سعادت سمجھتے اس لئے کہ ’’بدنام ا گر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا ؟‘‘ کا دور دورہ تھا۔
ایوان عمر کے اس حصہ سے نکل چکی تھی جب ان باتوں میں دلچسپیاں ہوا کرتی ہیں اس لئے اس کو سن میں بھی مزہ نہیں آ رہا تھا لیکن یونہی ورق گردانی کے دوران اس کی نظر ایک خاص فیچر پر جا کر رک گئی۔ یہ ایک انڈر ورلڈ ڈان الیکس ڈگلس کی زندگی کے ارد گرد گھومنے والا مضمون تھا جس میں اس کی شخصیت کو اس قدر خوشنما بنا کر پیش کیا گیا تھا کہ کسی کے بھی دل میں اس جیسا بننے کی خواہش پیدا ہو سکتی تھی۔ اس کا مختلف جرائم میں ملوث ہونا اور قانون کے شکنجے سے صاف بچ نکلنا اس انداز میں بیان کیا گیا تھا کہ جب وہ کسی معاملے سے بری ہو جاتا تھا تو قاری افسوس کرنے کے بجائے خوش ہو جاتا۔ یہ مضمون نگار کا کمال تھا کہ اس نے اپنے زور قلم سے ناخوب کو خوب بنا کر پیش کر دیا تھا۔ ایوان اپنی نظر اس خبر سے ہٹا نہیں پائی اور اس کا ایک ایک حرف اپنی آنکھوں سے نگل گئی۔
مضمون ختم کرنے کے بعد ایوان اپنے آپ پر لعنت ملامت کر رہی تھی۔ ایک الیکس ڈگلس ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود عیش کر رہا ہے۔ نہ صرف عدالت اس کے آگے بے بس ہے بلکہ اخبارات میں اس کی تعریف و توصیف ہو رہی ہے اور ایک وہ ہے کہ اسے کوئی پوچھتا تک نہیں۔ اس کے ہاتھوں کا ڈیزائن جب کپڑے پر بن کر بازار میں آتا ہے تو گرم کیک کی مانند بک جاتا ہے۔اب تو یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی ایوان کے ڈیزائن کی کھپت دوسروں کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی تھی لیکن اس کا فائدہ مل مالک کو اور دوکان داروں کو ہوتا تھا۔ ایوان کی تنخواہ میں ایک پائی کا اضافہ نہ ہوتا تھا۔
ایوان کا مل مالک گو کہ یہودی تھا لیکن اسے پتہ تھا ایوان کیلئے اپنی گوناگوں مجبوریوں کے سبب ملازمت کی تبدیلی مشکل ہے اس لئے وہ اس کا جی بھر کے استحصال کرتا تھا۔ ایوان اپنے مالک کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب سے اس لئے بھی بیزار تھی کہ اس کا مالک مقامی کنیسہ کی انتظامیہ کا سربراہ تھا اور اس کی تعمیر و ترقی میں دل کھول کر حصہ لیتا تھا۔ وہ سوچتی تھی یہ کیسی منافقت ہے کہ ایک طرف اپنے ملازمین کا خون چوسو اور دوسری جانب نیک نامی کماؤ۔ اسی سبب سے وہ ہفتے کے دن گھر پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھتی رہتی تھی لیکن سیناگاگ کے قریب نہ پھٹکتی تھی۔
ایوان اب سوچ رہی تھی کہ الیکس اس کے مالک سے کئی گنا اچھا کہ وہ اس کے چہرے پر منافقت کا کوئی مکھوٹا نہیں ہے۔ وہ جو اندر ہے وہی باہر ہے۔ اسے اپنی نیک نامی کی کوئی پرواہ نہیں۔وہ کسی کو دھوکہ نہیں دیتا ہے اور جو کہتا ہے جان کی بازی لگا کروہ کر گزرتا ہے۔ ایوان نے سوچا کاش کہ وہ ڈیزائنر کے بجائے شارپ شوٹر ہوتی۔ اس کی انگلیاں قلم کے بجائے بندوق کی لبلبی پر چلتیں تو الیکس کے گروہ میں شامل ہو جاتی اور اس کے گروہ میں اپنا نام روشن کرتی۔ اسے کسی شہریار کے نازو نخرے اٹھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس کو دو کوڑی کی شہناز سے نہ کوئی اندیشہ ہوتا اور نہ خطرہ۔
مضمون کے نیچے اس کے مصنف نوعم ریگاگ کا ای میل پتہ لکھا تھا۔ ایوان نے پتہ پر خط لکھ کر اس کی خوب تعریف کی اور تحریر کو سراہا۔ حسبِ توقع ایوان کو شکریہ کا جواب چند منٹوں بعد موصول ہو گیا۔ ایوان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے اس سے دریافت کیا کہ اس کو الیکس ڈگلس تک پہنچنے میں کس قدر پاپڑ بیلنے پڑے ؟ کئی خطوط کے تبادلے کے بعد ایوان نے نوعم سے الیکس کے ساتھ ملاقات کی اپنے اندر دبی خواہش کا اظہار کر دیا اور تعاون کی درخواست کی۔ نوعم ریگاگ نے اسے بتایا کہ ویسے تو آکلینڈ میں بچہ بچہ الیکس کو جانتا ہے لیکن پھر بھی اس تک رسائی خاصی مشکل ہے۔ الیکس کے وہاں کئی بے نامی کاروبار ہیں جن میں سے ایک بلیک اسٹار ٹیکسی کمپنی بھی ہے۔ ان ٹیکسیوں کے سارے ڈرائیور اس کے آدمی ہیں۔ اس لئے ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آکلینڈ جا کر بلیک اسٹار ٹیکسی سروس کرائے پر لے اور اپنی قسمت آزمائے۔
الیکس نے دفتر سے آدھے دن کی چھٹی لی اور بس کے ذریعہ آکلینڈ پہنچ گئی۔وہاں پہنچ کر اس نے بس اڈے سے بلیک اسٹار ٹیکسی لی اور ڈرائیور سے کہا مجھے الیکس سے ملنا ہے۔ ڈرائیور نے سوال کیا کون الیکس مجھے اس کا پتہ بتاؤ؟ ایوان نے کہا اپنے مالک کا پتہ تم مجھ سے پوچھتے ہو؟ یہ سن کر ڈرائیور چونک پڑا۔ اس نے گاڑی ایک سونی سے پارکنگ میں روک کر پوچھا تم کون ہو اور کیا چاہتی ہو؟ ایوان بولی میں کون ہوں اس سے تمہیں کیا غرض؟ اور کیا چاہتی ہوں یہ بتا چکی ہوں۔ ڈرائیور بولا زیادہ زبان نہ چلا بے وقوف لڑکی ورنہ ایک گولی تیری کھوپڑی کے آر پار نکل جائے گی اور تو کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جائے گی ؟کیا سمجھی؟
ایوان ے سکون سے جواب دیا اچھا تو تم لوگوں کو اپنے مالک کے مہمانوں کے ساتھ اس طرح سے پیش آنے کی تربیت دی گئی ہے کیوں ؟ یہ مت بھولو کے میرے پاس بھی بندوق ہے جس کے بہترین استعمال سے میں واقف ہوں۔ ایوان نے رعب جمانے کیلئے جھوٹ کہا لیکن اس کا کام ہو گیا۔ ڈرائیور نرم پڑ گیا۔ اس نے کہا کیا تم نے الیکس سے وقت لے رکھا ہے ؟ ایوان بولی جی نہیں۔ تو کیا اسے تمہاری آمد کی اطلاع ہے ؟ ایوان نے پھر نفی میں سر ہلایا۔ وہ بولا تو کیا میں اس سے پوچھوں ؟ ضرور پوچھو۔ ایوان کی خوداعتمادی نے ڈرائیور کو غلط فہمی کا شکار کر دیا تھا۔ ڈرائیور نے فون ملا کر نہ جانے کیوں ایوان کو تھما دیا۔ ایوان نے اسے گاڑی سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا اور دروازہ بند کر کے بولی آداب جناب میں ایوان بول رہی ہوں۔ سامنے سے نہایت کرخت لہجے میں جواب ملا کون ایوان اور یہ تمہیں نمبر ۱۲۱ کا فون کیسے مل گیا؟ تم اس کی بیوی تو نہیں ہو؟
ایوان بولی جی نہیں جناب میں ایوان سائمن ہوں۔ میں نے آپ کے بارے میں دی سن جریدے میں مضمون پڑھا تو آپ سے ملنے چلی آئی۔ مجھے آپ سے ایک ذاتی کام بھی ہے۔ اگر آپ وقت دیں تو میں آپ سے ملاقات کروں۔ الیکس کو ایوان کی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور اس کی معصومیت پر پیار بھی آ گیا۔ آج تک کسی اجنبی نے اس طرح اس سے ملنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ وہ بولا دیکھو لڑکی کیا نام بتایا تم نے ایوان۔ ایوان بولی جی ہاں جی ہاں۔ میں اس طرح اگر ہر کسی سے ملنے والی اسامی ہوتا تو کب کا جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکا ہوتا اور دی سن میں میرے متعلق مضمون تو کیا خبر بھی نہیں چھپتی۔ اب تمہاری وجہ سے ۱۲۱ تو خیر اس دنیا سے کسی اور دنیا میں پہنچ جائے گا لیکن تم مجھ تک نہیں پہنچ سکو گی۔ ہاں اگر ملنا ہی ہے تو میرے ایک آدمی انٹونیو سے مل لو۔لیکن اس کا پتہ؟ الیکس بولا تم فون ۱۲۱ کو دو وہ مرنے سے قبل آخری کام یہی کرے گا کہ تم کو انٹونیو تک پہنچائے گا اور انٹونیو ہی اسے پرلوک کی سیر کرائے گا۔
الیکس بار بار ڈرائیور کی موت کا جس طرح ذکر کر رہا تھا اس سے ایوان کو خوف محسوس ہونے لگا تھا اور شاید وہ یہی چاہتا تھا کہ ایوان اپنا ارادہ بدل کر جہاں سے بھی آئی ہے واپس چلی جائے لیکن ایوان نے دل کڑا کر کے کہا شکریہ جناب میں فون آپ کے ۱۲۱ کو دیتی ہوں۔ الیکس کا وار خالی گیا تھا۔ اب اس کو ایوان میں دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔ ایوان نے دروازہ کھول کر ڈرائیور کو فون تھما دیا۔ ڈرائیور نے جی ہاں، جی ہاں جناب کہہ کر فون بند کر دیا اور گاڑی لے کر چل پڑا۔ ایوان اندر ہی اندر تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس موت کے کنوئیں میں اترتی چلی جا رہی تھی لیکن چونکہ واپسی کے راستے خود اس نے بند کر دئیے تھے اس لئے آگے بڑھنے کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا۔
گاڑی ایک ویران سے جوئے خانے کے پاس رکی۔ ایوان سمجھ گئی کہ یہ الیکس کا ایک بے نامی اڈہ ہے۔ڈرائیور گاڑی سے اتر کر اندر گیا اور ایک دو اجنبی لوگوں کے ساتھ واپس آیا۔ ان میں سے ایک ایوان کے ساتھ اندر کی جانب بڑھا اور دوسرا وہیں رک گیا۔ ایوان سمجھ گئی کہ یہ دوسرا اب کیا کرنے والا ہے ؟ ایوان نے دل ہی دل ہی میں ۱۲۱ کیلئے دعا کی جو اس کی حماقت کے سبب بے موت مارا جانے والا تھا۔ اندر ایک میز پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس نوجوان نے اشارہ کر کے کہا انٹونیو۔ ایوان شکریہ ادا کر کے اس میز کے قریب گئی سلام کر کے کرسی پر بیٹھ گئی۔ دراصل وہ شخص انٹونیو نہیں بلکہ الیکس خود تھا۔ ایوان کی بہادری سے وہ اس قدر متاثر ہوا تھا کہ اس سے ملنے خواہش میں انٹونیو کے بجائے وہ خود ملنے چلا آیا تھا۔
الیکس نے کہا بولو کیا چاہتی ہو؟ ایوان نے اپنی رام کہانی سنا ڈالی اور اس سے استدعا کی کہ وہ شہناز کا کانٹا نکلوا دے۔ الیکس کیلئے یہ حیرت کا دوسرا جھٹکا تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں ایوان نے بڑی دلیری کے ساتھ کسی کے قتل کا مطالبہ کر دیا تھا۔الیکس نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کرتی ہے۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ اس قتل کی کیا قیمت ادا کر سکتی ہے لیکن اس کو اندازہ ہوا کہ ایوان کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ الیکس کو نہ جانے کیوں ایوان پر رحم آ گیا، ویسے چونکہ مقتولہ کوئی بارسوخ شخصیت نہیں تھی اس لئے اس کیس کے بہت جلد بند ہو جانے امکان تھا۔ اس میں کوئی خاص خطرات بھی نہیں تھے اس لئے الیکس کا جذبۂ احسانمندی جوش میں آ گیا اور اس نے بلا معاوضہ ایوان سے تعاون کا وعدہ کر دیا۔
الیکس کی پچاس سالہ مجرمانہ زندگی کا یہ پہلی مہم تھی جس میں اسے مالی فائدہ تو نہیں تھا مگر قلبی سکون حاصل ہونے والا تھا۔ انسان جب کوئی بے لوث خدمت کرتا ہے تو اسے سکون تو حاصل ہوتا ہی ہے ایسی ہی کیفیت الیکس کی تھی۔ الیکس نے کہا ٹھیک ہے بیٹی ایک ہفتہ میں تمہارا کام ہو جائے گا۔ ایوان بولی شکریہ جناب انٹو نیو۔ آپ عزت مآب الیکس کی خدمت میں میرا سلام عرض فرمائیں۔ اگر آپ اتنے اچھے ہیں تو وہ کس قدر مہربان ہوں گے۔ الیکس مسکرایا۔ اس کی اپنی تعریف اسے پہلی مرتبہ اتنی بھلی معلوم ہوئی تھی۔
ایوان کو یقین تھا جو حشر ڈرائیور کا ہوا ہے ایک ہفتہ کے اندر شہناز بھی اسی انجام سے دوچار ہو جائے گی۔ ایوان کے اندر اس حوالے سے بلا کا تجسس تھا وہ دفتر میں جانے سے قبل اور آنے کے بعد شہناز پر نظر رکھنے لگی تھی۔ اسے یقین تھا کہ یہ کام رات کی تاریکی میں کیا جائے گا۔چار دن کے بعد رات ۸بجے کے آس پاس جب شہریار اپنی کسی سواری کو لانے لے جانے میں مصروف تھا ایوان نے دیکھا کہ دو لوگ عقب کی دیوار پھلانگ کر اس کے گھر میں داخل ہوئے ، اس کی چھٹی حس نے کہا اب کچھ ہونے والا ہے۔ اوور کوٹ میں ملبوس دوسائے شہناز کے کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ان سر پر بڑی سی ہیٹ تھی گلے میں مفلر اس قدر اونچی تھی کہ چہرہ نظر نہ آتا تھا۔ ایوان بھی ان کے تعاقب میں دبے پاؤں چل پڑی۔ ان میں سے ایک نے شہناز کے کمرے کی کھڑکی کو کسی اوزار کی مدد سے کھولا اور دوسرے نے نشانہ باند ھ کر گولی چلا دی۔
یہ کام اس صفائی سے ہوا کہ شہناز آواز نکالے بغیر ہی سرد پڑ گئی مگر ایوان کی چیخ نکل گئی۔ دونوں سائے آواز کی جانب بڑھے اور ایوان اندھیرے میں دیوانہ وار دوڑنے لگی۔ قاتلوں نے جان لیا تھا کہ ان کے جرم کا ایک چشم دید گواہ موجود ہے اور اب اسے موت کے گھاٹ نہ اتارنا اپنے آپ کو پھانسی پر چڑھانے کے مترادف ہے۔ ایوان اور وہ دونوں باہر سڑک پر نکل آئے تھے۔ سڑک سنسان تھی۔ دھند کے سبب کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ بدقسمتی سے ایوان ان لوگوں کی گاڑی کی جانب دوڑ رہی تھی۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر ایک سایہ گاڑی کے اندر داخل ہو گیا اور گاڑی کی بتی چلا دی۔ ایوان گھبرا کر رک گئی۔ دوسرا سایہ اس کے سر پر تھا۔ ایوان نے اسے قریب سے دیکھا اور چیخ کر بولی اوہو نمبر۱۲۱۔ ڈرائیور ایوان کو پہچان نہ سکا تھا۔ اپنا کوڈ نمبراس کے منہ سے سن کر اس کے قدم منجمد ہو گئے۔ ایوان ہذیانی کیفیت میں چلانے لگی۔ تم نے مار ڈالا۔ تم نے میری عزیز سہیلی کو مار ڈالا۔ ایوان دیوانہ وار چلا رہی تھی۔
اتوار یعنی چھٹی کا دن تھا۔صبح کے ۹ بج چکے تھے۔شہناز نے ایوان کی چیخ پکار سنی تو چونک پڑی۔ اس نے شہریار سے کہا یہ کیا ہو رہا ہے ؟ ایوان پر جن بھوت کے دورے تو نہیں پڑتے ؟ شہریار بولا میں نہیں جانتا۔ اس گھر میں میرا یہ دوسرا دن ہے۔ دفتر آتے جاتے ہوئے تو اس کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا؟ شہناز نے پوچھا کیا میں اس کے کمرے میں جا کر دیکھوں ؟ شہریار بولا جی ہاں لیکن احتیاط سے۔ کیا مطلب میں سمجھی نہیں۔ یہی کہ کہیں وہ جن اسے چھوڑ کر تم سے نہ چمٹ جائے۔ شہناز ہنس کر بولی۔چھی گندی بات اور ایوان کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ ایوان پسینے سے لت پت اپنے بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ شہناز کو اس نے دیکھا تو بولی ارے تم؟؟؟ کیوں ! معاف کرنا میں بلا اجازت آ گئی۔ وہ دراصل آپ کی چیخ سن کر میں ڈر گئی تھی۔
ایوان اپنے آپ کو سنبھال چکی تھی۔ وہ بولی بیٹھو شہناز۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں نے ایک بھیانک خواب دیکھا جس میں میری ایک قریبی سہیلی کا قتل ہو گیا۔ سہیلی ؟کون سہیلی؟ ایوان نے بات بناتے ہوئے کہا ماریہ۔ ماریہ میری قریب ترین سہیلی ہے جو پولینڈ میں رہتی ہے۔ شہناز نے پوچھا کیا میں آپ کو پانی دوں ؟ آپ ہانپ رہی ہیں ؟ جی ہاں شکریہ۔ پانی پینے کے بعد ایوان بولی معاف کرنا میرے سبب تمہیں زحمت ہوئی۔ دراصل کل رات بہت دیر گئے میری آنکھ لگی اور پھر یہ خواب۔ شہناز بولی جی نہیں کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔ آپ نہا دھو کر تر و تازہ ہو جائیے میں آپ کیلئے پاکستانی ناشتہ تیار کرتی ہوں۔ ایوان بولی جی نہیں شہناز تم ابھی زحمت نہ کرو۔ میں سینڈوچ وغیرہ کھا لوں گی شکریہ۔ شہناز نے نے کہا آپ تکلف کر رہی ہیں۔ میں ان کے اور اپنے لئے تو ناشتہ بنا ہی رہی تھی آپ کیلئے بھی بن جائے گا کیا مشکل ہے۔ آپ آئیے۔
شہناز دوبارہ اپنے کمرے میں آئی تو شہریار کو بے چین پایا۔ شہناز نے بتایا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں یہ جن بھوت کا معاملہ نہیں بلکہ خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ شہریار نے پوچھا کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ تمہاری ایوان نے کوئی بھیانک خواب دیکھا اور ڈر گئی۔ شہریار نے کہا میری ایوان؟ کیا مطلب؟ اسے ڈر ہوا کہیں گلناز اس کے کان تو نہیں بھر دئیے۔ شہناز بولی اس میں ایسا چونکنے کی کیا بات ہے۔ کیا وہ ہماری مکان مالکن نہیں ہے۔ شہریار بولا جی ہاں وہ ہماری مکان مالکن تو ہے۔ شہناز بولی وہی تو میں کہہ رہی تھی، ہماری کا مطلب تمہاری اور میری۔شہریار بولا لگتا ہے واقعی ایوان کا بھوت اس کو چھوڑ کر تم سے چمٹ گیا ہے۔
شہناز نے بڑی محبت سے ناشتہ بنایا اور بڑے پیار سے ایوان کو کھلا کر اس کا دل جیت لیا۔ ایوان نے سوچا اگر اس کی کوئی بہن ہوتی تو بالکل ایسی ہوتی۔ ایوان اپنے خواب پر بے حد شرمندہ تھی حالانکہ اس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ انسان کا بھلا اپنے خوابوں پر کیا اختیار وہ تو بن بلائے چلے آتے تھے۔ اسی لئے کوئی ان کیلئے مسؤل نہیں ٹھہرتا۔ ہر فردِ بشر کو تو بس اپنے اختیار کردہ عقائد اور انجام شدہ اعمال کا حساب دینا ہے۔
شہریار نے شام کے وقت شہناز کو بتلایا کہ ایوان کی نجی زندگی فی الحال خلفشار کا شکار ہے۔ اس کا شوہر اسے چھوڑ کر جا چکا ہے اور جاتے جاتے وہ ظالم ان کے اکلوتے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ لے آ گیا۔ اس کے علاوہ اس نے طلاق کی کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔ ان تمام وجوہات کی بناء پر ایوان کا نفسیاتی دباؤ میں رہنا ایک فطری امر ہے۔ اس طرح کے بے سروپاخواب کا یہی سبب ہو سکتا ہے۔ شہناز نے جب ایوان کی دکھ بھری کہانی سنی جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ تھا تو بے حد غمزدہ ہو گئی۔ اس کے دل میں ایوان کے تئیں ہمدردی و غمخواری کے جذبات پیدا ہو گئے اور اس نے سوچاکہ اگر وہ اس موقع پر ایوان کا غم ہلکا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس سے بڑی نیکی کا کام کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر ایوان اور شہناز کے درمیان ایک انوکھا اور دلچسپ رشتہ استوار ہو رہا تھا۔
۱۷
شہناز اور ایوان کی دوستی دن بدن پروان چڑھ رہی تھی۔شہناز نے گھر کا کام کاج کچھ اس طرح سے سنبھال لیا تھا کہ شام میں جب ایوان واپس آتی تو اس کے پاس کھانے پینے اور سونے کے علاوہ کوئی مصروفیت ہی نہیں ہوتی۔ان کا معمول یہ تھا کہ شام کے وقت وہ ٹیلی ویژن پر ڈرامے دیکھتے۔ کبھی انگریزی، کبھی پولش تو کبھی ہندی یا پاکستانی۔ شہناز پولش زبان سے ناواقف تھی ایوان اردو سے اس کے باوجود تصویروں کے کھیل سے وہ مفہوم سمجھ جاتیں تھیں اور پھر جو کسر رہ جاتی وہ بعد میں کرداروں اور واقعات پر ہونے والی گفتگو سے پوری ہو جاتی۔ اس گفت و شنید کے ذریعہ سے وہ ایک دوسرے کے مزاج اور نفسیات سے بھی بڑی حد تک واقف ہو گئی تھیں۔
ایک دن مذاق میں شہریار نے شہناز سے کہہ دیا کہ وہ برطانیہ آنے کے بعد موٹی ہونے لگی ہے بس پھر کیا تھا ایوان اور شہناز کی مصروفیت میں ایک خوشگوار اضافہ ہو گیا۔ ان دونوں نے شام میں چہل قدمی کیلئے جانا شروع کر دیا۔ کم از کم تین چار میل ہر روز چلتیں اور واپس آنے بعد نہا دھو کر جب کھانے کی میز پر آتیں تو خوب بھوک لگ چکی ہوتی۔ اس بھوک کے سبب کھانے کا ذائقہ بھی دوبالا ہو جایا کرتا تھا۔ چھٹی کے دن ایوان یوروپی کھانے بناتی اور شہناز اسے غور سے دیکھتی۔ ہفتہ کے دوران شہناز ان کی مشق کرتی۔ کبھی کبھار چھٹی کے دن ایوان شہناز سے پاکستانی پکوان بنانا سیکھتی۔ اسے اب پاکستانی کھانے پسند آنے لگے تھے۔ ایوان جانتی تھی کہ شہناز کا ساتھ عارضی ہے بعد میں تو یہ پکوان اسے خود ہی بنانے پڑیں گے۔ اسے یقین تھا جوناتھن اور بنجامن کو بھی یہ پسند آئیں گے۔
ہفتہ میں دو دن یعنی جمعہ اور منگل کو ان کے چہل قدمی کا معمول بدل جاتا تھا اس لئے کہ ان دنوں میں وہ سوپر مارکیٹ جاتیں۔ جب بھی موقع ہوتا یعنی سواری نہ ہوتی شہریار انہیں شہر سے دور والے بڑے مارک اینڈ اسپینسرس میں چھوڑ کر کام پر چلا جاتا اور کام ختم کر کے واپس لینے کیلئے پہنچ جاتا۔ اس بیچ وہ دونوں بڑے مزے سے خریدار ی کرتیں اور کبھی شہریار کو آنے میں تاخیر ہو جاتی کافی ہاؤس میں بیٹھ کر گپ لگاتی رہتیں۔ان لوگوں نے کبھی بھی شہریار سے تاخیر کی شکایت نہیں کی تھی اس لئے کہ وقت اس تیزی سے گزر جاتا تھا کہ کچھ پتہ ہی نہ چلتا تھا۔
شہناز کی آمد کے بعد شہریار کے اعزہ و اقارب نیز دوست و احباب نے اسے شہناز کے ساتھ اپنے یہاں دعوت پر بلانا شروع کر دیا تھا۔ ہر ہفتہ کے آخر میں ایک نہ ایک دعوت کا اہتمام ہوتا۔ شہناز اصرار کر کے ایوان کو اپنے ساتھ لے جاتی۔ اس طرح شہناز کے ساتھ ساتھ ہندوستانی و پاکستانی حلقہ میں ایوان کا بھی تعارف وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ ان دعوتوں کا اثر ایوان کے رکھ رکھاؤ اور نشست و برخواست پر پڑنے لگا تھا۔ اس نے پاکستانی شلوار قمیض اور غرارے شرارے سلا لئے تھے۔ آداب و تسلیم کے اشارے کنائے سیکھ لئے تھے۔ ان محفلوں میں ایوان کی اجنبی والی کیفیت بھی بدل گئی تھی۔ اب تو ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ کوئی یوروپین ان کے درمیان آ گئی ہے۔ رفتہ رفتہ ایوان گویا شہناز کے افراد خانہ میں شامل ہو گئی تھی۔ شہریار اس پیش رفت سے بے حد خوش تھا۔
عربی طرز کالباس سوائے اس کی لمبائی اور ڈھیلے پن کے یوروپین کپڑوں سے مشابہ تھا اس لئے ایوان کو وہ پاکستانی شلوار قمیض سے بھی زیادہ پسند تھا اور انہیں پہن کر ایوان کبھی کبھار دفتر بھی آ جایا کرتی تھی۔ اسکارف اس لباس کا ایک حصہ ہوتا تھا اس لئے وہ اسے بھی بڑے شوق سے باندھتی تھی۔ ایوان کے اندر آنے والی اس تبدیلی کو اس کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے لوگ محسوس کرنے لگے تھے اور اس کے متعلق طرح طرح کی چہ مہ گوئیاں ہونے لگی تھیں۔
ایک دن ایوان کی کمپنی کے مالک نے اسے اپنے کمرے میں بلا کر پوچھا کیوں ایوان سب خیریت تو ہے ؟ ایوان بولی جی ہاں۔ اس نے پھر سوال کیا جوناتھن کا کیا حال ہے ؟ ایوان کو اس کرم فرمائی پر حیرت تھی۔ اس نے جواب دیا وہ تو ابھی تک لوٹ کر نہیں آیا لیکن یہ سب آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ مالک بولا کیوں خیریت دریافت کرنا کوئی جرم تو نہیں ؟ جی نہیں جناب ایسی بات نہیں۔ مل مالک نے کہا میں تو سمجھا تھا کہ وہ مختصر تعطیل کے لئے گیا لیکن شاید اس کے لوٹنے میں خاصی تاخیر ہو رہی ہے ؟ جی نہیں جناب ایوان بولی اس کو گئے ہوئے کوئی طویل عرصہ تو نہیں گزرا ؟
مل مالک بولا ایوان کیا تم جانتی ہو کہ اس بیچ دفتر میں تمہارے متعلق کیا افواہ گرم ہے ؟ ایوان بولی جی نہیں جناب افواہوں کے بارے نہ جاننے میں ہی بہتری ہے۔ تم نے درست کہا لیکن یہ اصول دوسروں کے متعلق افواہوں پر صادق آتا ہے۔ اپنے بارے میں انسان کو جانکاری رکھنی چاہئے۔ آج کل تمہارے رکھ رکھاؤ اور آرائش و زیبائش میں تبدیلی لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر رہی ہے۔ کبھی تم عربی تو کبھی پاکستانی لبا س زیب تن کر لیتی ہو؟ آج کل تمہارا اٹھنا بیٹھنا کن لوگوں کے ساتھ ہے ؟
ایوان نے کہا جوناتھن اور بنجامن کے چلے جانے کے بعد میں نے اپنے مکان کا فاضل حصہ کرائے پر اٹھا دیا ہے۔ اچھا تو کون ہے تمہارا کرایہ دار؟ وہ ایک پاکستانی خاندان ہے۔ اوہو تو اب میں سمجھا۔ تم ان پر اثر انداز ہونے کے بجائے ان کا اثر قبول کرنے لگی ہو؟ جی نہیں سر ایسی بات نہیں۔ کمپنی کا مالک بولا ایسی ہی بات ہے ایوان لوگوں کا تو خیال ہے تم نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ ایوان یہ سن کر چونک پڑی۔ وہ بولی جی نہیں سر ایسی کوئی بات نہیں لیکن وہ تو میرا نجی معاملہ ہے۔
مل مالک بولا جی ہاں تمہاری بات درست ہے لیکن یہ کافی سنجیدہ معاملہ ہے اس کے نتیجے میں تمہیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ ایوان بگڑ کر بولی لیکن کیا یہ کوئی جرم ہے ؟ مل مالک نے جواب دیا جرم تو نہیں ہے لیکن خیر خواہی کا تقاضہ ہے کہ میں اس کے ممکنہ نتائج سے تمہیں آگاہ کر دوں۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے ساتھ ساتھ اخروی خسارہ بھی ہے۔ ایوان ڈھٹائی کے ساتھ بولی جناب ویسے بھی میں بہت گناہ گار عورت ہوں اس لئے مجھے تو جہنم میں جلنا ہی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں میں نے آج تک یہاں موجودکنیسہ میں قدم نہیں رکھا ایسے میں میرا جنت میں داخلہ کیوں کر ممکن ہے ؟
مالک نے نہایت دلسوزی کے ساتھ کہا دیکھو بیٹی دین یہودیت پر ہمارا پیدا ہونا اپنے آپ میں ایک بہت بڑی سعادت ہے اور اسی پر موت جنت کی بشارت ہے۔ ہم لوگوں کو جہنم کی آگ چھو نہیں سکتی۔ ایوان نے پوچھا اگر ایسا ہے تو انسان نیکی کے کام کیوں کرے ؟ اس کا فائدہ کیا ہے ؟ مل مالک بولا فائدہ کیوں نہیں ہے ؟ یہ تم کیسی باغیانہ باتیں کرنے لگی ہو؟ ایوان بولی جناب میں تو ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہوں۔ میرے والد سائمن مذہب کو افیون کہتے ہیں ان کا شمار دنیا کے بڑے اشتراکی دانشوروں میں ہوتا ہے۔
دیکھو بیٹی اشتراکی بن جانا اور بات ہے۔ ایسا کرنے سے کوئی شخص یہودیت سے خارج نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد بھی یہودی ہی رہتا ہے خود کارل مارکس یہودی پیدا ہوا اور یہودی مرا لیکن مسلمان ہو جانا اس سے مختلف کیفیت کا نام ہے۔ اسلام قبول کر لینا تو یہودیت سے سراسر بغاوت ہے۔ ایوان بولی لیکن آپ نے مجھے اپنی دینداری کا کوئی فائدہ ابھی تک نہیں بتایا مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ دین کی ترویج پر خرچ کئے جانے والے آپ کے ہزاروں پاؤنڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ نہیں بیٹی ایسی بات نہیں وہ سب تو جنت میں بلند درجات حاصل کرنے کیلئے کیا جاتا ہے اسی لئے میرا مشورہ یہ ہے تم اپنے دین پر قائم رہو اور جو چاہے کرو جنت تمہاری ہی میراث ہے۔ ایوان کی سمجھ میں وہ منطق تو نہیں آئی لیکن بات بڑھانے کے بجائے وہ شکریہ ادا کر کے کمرے سے باہر آ گئی۔
شہناز اور ایوان کی دوستی سے ارمندر تو خوش تھی مگر گلناز پریشان تھی۔ اسے ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں ایوان پر بیجا اعتماد کے سبب شہناز غافل نہ ہو جائے اور اسے اس کی بھاری قیمت نہ چکانی پڑے۔ اس نے سوچا دن کا وقت شہناز سے بات کرنے کیلئے زیادہ مناسب ہے اس لئے کہ اس وقت گھر پر نہ شہریار ہوتا ہے اور نہ ایوان۔ گلناز جب شہناز سے ملنے کیلئے اس کے گھر آئی تو وہ باورچی خانے میں دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی لیکن اس کا لبا س دیکھ کر گلناز چونک پڑی۔ اس نے پوچھا یہ کیا؟ شہناز بولی یہ ٹی شرٹ اور ٹریک پتلون ہے۔
گلناز نے کہا میری یوروپی لوگوں سے دوستی نہیں ہے اس کے باوجود مجھے یہ پتہ ہے ؟ شہناز نے معصومانہ سوال کیا پتہ ہے تو کیوں پوچھتی ہو؟ گلناز بولی یہ مغربی لباس ہے مجھے یہاں اتنے سال ہو گئے میں نے نہیں پہنا اور تم چند دنوں کے اندر بدل گئیں۔ شہناز چہک کر بولی جیسا دیس ویسا بھیس بہن۔ ہم نے مغرب کی ہر چیز تو اپنا ہی لی ہے تواب لباس سے کیا بیر۔اور ایک اندر کی بات بتاؤں تمہارے دیور کو بھی یہ بہت پسندہے۔
گلناز بولی یہ مردانہ لباس تو اسے پسند ہی ہو گا لیکن تم تو عورت ہو۔ تمہیں تو زنانہ کپڑے پہننے چاہئیں ؟ بھئی گھر کے اندر کیا زنانہ اور کیا مردانہ ؟ کوئی فرق نہیں پڑتا۔تم بھی پہن کر دیکھو کافی آرام دہ ہے۔ گلناز نے چڑ کر کہا مجھے ترغیب دینے کی ضرورت نہیں مجھے تو لگتا آج یہ گھر کے اندر ہے تو کل باہر بھی آ جائے گا۔ شہناز بولی کیسی باتیں کرتی ہو بہن ہمارے گھر کے اندر کی چیزیں بھی بھلا کبھی باہر آتی ہیں۔ بیٹھو میں تمہارے لئے بادام کا شربت بناتی ہوں تاکہ تمہارا دماغ ٹھنڈا ہو جائے۔ گلناز نے کہا اس کی ضرورت نہیں ایک گلاس پانی پلا دو۔ کھانے کا وقت قریب ہے شربت سے بھوک خراب ہو جائے گی۔ شہناز بولی وہ بھی درست ہے تو کیا صرف پانی پئیں گی؟ میں ہری چائے بنا دیتی ہوں اس سے بھوک ختم تو نہ ہو گی کچھ بڑھ ہی جائے گی۔
ہری چائے کا نام سن کر گلناز پھر چونک پڑی اور بولی ہری چائے تو انگریزوں کی بیماری ہے یہ تمہیں کب سے لگ گئی؟ شہناز ہنس کر بولی بھئی ہرا رنگ تو ہمارا اپنا شعار ہے اب اسے انگریزوں نے اپنا لیا تو ہم کیا کریں ؟ گلناز نے کہا ایوان کی صحبت میں تم باتیں بنانا خوب سیکھ گئی ہو اچھا یہ بتاؤ کہ تم دوپہر کیلئے کھانا کیا بنا رہی تھیں ؟ شہناز نے کہا دراصل یہ جو میں بنا رہی ہوں یہ شام کی تیاری ہے اس لئے اس میں وقت لگے گا؟ گلناز بولی اور دوپہر کو فاقہ کرنے لگی ہو؟ دبلے ہونے کا چکر؟ شہناز نے کہا یہی سمجھ لو اب ایسا ہے کہ دوپہر میں نہ وہ ہوتے ہیں اور نہ ایوان تو میں کیا کرتی ہوں کہ سینڈوچ وغیرہ کھا لیتی ہوں۔ کھانا تو جم کر رات ہی کو کھایا جاتا ہے۔ گلناز نے پوچھا اور صبح؟ شہناز بولی صبح کا ناشتہ بھی ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے اس لئے کہ وہ لوگ اپنے ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔
گلناز نے پوچھا۔اچھا تو تم مجھے کیا کھلاؤ گی صبح کا باسی ناشتہ یا پھر وہ روکھا سوکھا سینڈوچ۔ شہناز بولی صبح کا تو کچھ بچا ہوا ہے نہیں اور رات کا کھانا بننے میں ایک گھنٹہ لگے گا اس لئے اگر بہت بھوک لگی ہو تو ایک سینڈوچ کھالو۔ گلناز بولی نہیں تم میرے لئے وہ تمہاری ہری والی چائے لے آؤ۔ میں اس بیچ ٹیلی ویژن پر اپنا پسندیدہ سیریل دیکھتی ہوں ایک گھنٹہ یونہی گزر جائے گا اور کھانا بھی تیار ہو جائے گا بھوک بھی خوب جم کر لگ جائے گی اور پھر ہم لوگ مل کر کھانا کھائیں گے۔ شہناز بولی یہ بہت ہی اچھی تجویز ہے آپ مہمان خانے میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھیں میں چائے لے کر آئی۔ گلناز ٹی وی لگاتے ہوئے سوچ رہی تھی ایوان میں تو ظاہری تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں لیکن یہ بدمعاش شہناز تو اندر ہی اندر بدل رہی ہے۔اس کا علاج کرنا ہی ہو گا۔
ٹی وی پر چلنے والی ساس بہو کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ شہناز میز پر کھانا پروسنے لگی۔ سارا کمرہ بھینی بھینی خوشبو سے مہک گیا۔ گلناز بولی بھئی شہناز مزہ آ گیا کھانے کی خوشبو سے ہی دل جھوم اٹھا۔ اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈرامہ چھوڑوں جو آخری مراحل میں ہے یا کھانے کو مؤخر کروں ؟ شہناز بولی میں ٹیلی ویژن کا رخ بدل دیتی ہوں آپ کھانا بھی نوش فرمائیں اور ٹی وی بھی دیکھتی جائیں ویسے بھی یہ پانچ منٹ کی بات ہے۔ میں تو سمجھی تھی کہ یہ ساس بہو کی جھک جھک بھک بھک ختم ہو چکی ہو گی۔ گلناز بولی بہن یہ دنیا ختم ہو جائے گی۔ مگر یہ کہانی ختم نہ ہو گی۔شہناز نے کہا درست فرمایا آپ نے میں تو کہتی ہوں کہ یہ تنازع کس قیامت سے کم ہے جس کا خاتمہ قیامت کا انتظار کرواتا ہے ؟ جی ہاں شہناز قیامت برپا ہو جائے گی تو روزِ محشر میں بھی یہ دعویٰ قائم رہے گا۔
کھانے کے بعد گلناز بولی دیکھو شہناز ہم پردیسیوں کو اپنے وطن سے دوری کے سبب بہت کچھ گنوانا پڑتا مگر اسی کے ساتھ بہت سارے جنجال سے بھی نجات مل جاتی ہے مثلاً ساس، دیورانی۔ جیٹھانی وغیرہ وغیرہ۔ شہناز بولی لیکن بہن ان سے پیچھا چھوٹ جانے کے باوجود آپ ٹی وی پر ان کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ جی ہاں شہناز شاید وہ ہماری زندگی کا اہم حصہ ہیں جن کے بغیر ہم لوگ ادھورے ہیں۔ شہناز نے کہا جی ہاں اور ان ڈراموں میں ہمارا میکہ بھی تو ہوتا ہے۔ ہماری ماں، بہنیں، بھائی، اور دیگر بزرگ اعزہ و اقارب۔ ہم ٹیلی ویژن کے پردے پر انہیں دیکھ کر اپنی زندگی کا خلاء پر کرتے ہیں۔
گلناز بولی یہ سب تو ٹھیک ہے مگر آج میں ایک خاص کام سے تمہارے پاس آئی تھی۔ اچھا وہ کیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ تم یہاں نئی نئی آئی ہو اور بھولی بھالی بھی بہت ہو لیکن مجھے یہاں خاصہ عرصہ گزر چکا ہے اس لئے میں یہاں کی عورتوں کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔ شہناز مسکرا کر بولی اچھا آپ کی کتنی سہیلیاں سفید فام ہیں ؟ گلناز اس سوال کیلئے تیار نہیں تھی اس لئے کہ اس سوال کا جواب اس کے پاس ندارد تھا۔ وہ بولی یہی تو!میں خبردار کرنے کے لئے آئی ہوں کہ دیکھو ان لوگوں سے دور ہی رہنا۔ دوستی نہ کرنا جیسا کہ میں نے نہیں کی۔ یہ بڑی خطرناک ہوتی ہیں۔ شہناز بولی بہن تم نے دور سے ان کی خطرناکی کا اندازہ کیسے لگا لیا؟ گلناز چڑ کر بولی بھئی عقلِ عام میرا مطلب ہے کامن سینس بھی تو کوئی چیز ہے اب آگ کا خطرہ جاننے کیلئے اس میں چھلانگ لگانا ضروری تو نہیں ؟ انسان دور ہی سے اندازہ لگا لیتا ہے ؟
شہناز نے کہا لیکن انسان تو انسان ہوتا ہے۔ آخر اس رائے کی کوئی معقول وجہ بھی تو ہونی چاہئے ؟ وجہ بہت صاف ہے۔ تم دیکھو یہاں اکثر ہندوستانی و پاکستانی مردوں کو ان لوگوں نے اپنے دام میں پھنسا رکھا ہے جبکہ انگریزوں کے گھر میں شاذو نادر ہی کوئی ایشیائی عورت دکھائی دیتی ہے اور اگر ہو گی بھی تو جاپانی یا چینی، جنوب ایشیا کو تو یہ پوچھ کر نہیں دیتے۔ شہناز نے کہا بہن تمہاری ناراضگی عورتوں سے ہے یا مردوں سے جو پوچھ کر نہیں دیتے ؟ گلناز بولی تم تو زبان پکڑ لیتی ہو۔ مردوں کا ذکر تو میں نے یونہی کر دیا تھا ورنہ ان بندروں کو بھلا ہم کیوں گھاس ڈالنے لگیں۔ شہناز نے کہا لیکن بہن یہ بھی تو ہو سکتا ہے اس کیلئے ان عورتوں کے بجائے ہمارے مرد قصوروار ہوں اور انہوں نے بھولی بھالی انگریز عورتوں کو اپنے جال میں پھنسا لیا ہو؟
گلناز چڑ کر بولی تم ان کی زیادہ وکالت نہ کرو کیا سمجھیں۔ میں انہیں خوب جانتی ہمارے بے وقوف مرد بھلا ان کو کیسے پھنسا سکتے ہیں ؟ یہ سب انہیں کی پھیلائی ہوئی سازش ہے جس کا ہم لوگ شکار ہوتے رہتے ہیں۔ شہناز نے وضاحت کی ہم لوگ سے مراد ہمارے مرد؟ ہاں ہاں لیکن ان مردوں کا کیا بگڑتا ہے انہیں تو عیش کرنے کیلئے ایک اور چکنی چپڑی بیوی مل جاتی ہے نقصان تو ہماری بہنوں کا ہوتا ہے ؟ شہناز بولی خیر آپ نے یہ تو تسلیم کر ہی لیا کہ ان کی بدولت ہمارے مرد عیش کرتے ہیں۔ گلناز بار بار پھنس جاتی تھی۔ وہ بولی دیکھو شہناز میں تمہاری بہن ہوں اس لئے خیر خواہی کے تحت تمہیں سمجھانے آئی ہوں کہ شہریار پر خاص نگاہ رکھو۔ مجھے تو پہلے ہی اس پر شک تھا۔ اب تمہاری ایوان سے دوستی نے ان دونوں کو نادر موقع عنایت کر دیا ہے اس لئے کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
شہناز نے کہا بہن میں تمہاری ہمدردی کیلئے ممنون و شکر گزار ہوں لیکن یہ سوچو کہ اگر شہریار کی نیت خراب ہوتی تو وہ مجھے بلاتا ہی کیوں ؟ اگر وہ چپ چاپ ایوان سے بیاہ رچا لیتا تو نہ تمہیں پتہ چلتا اور نہ مجھے ؟ اس سوال نے گلناز کو لاجواب کر دیا۔ وہ بولی دیکھو شنو ّمیں تمہارے اور شہریار کے درمیان کوئی دراڑ ڈالنا نہیں چاہتی لیکن چونکہ ایک اندیشہ تھا سو میں نے ظاہر کر دیا۔ اللہ میری بہن کو اسی طرح سدا سہاگن اور خوش و خرم رکھے۔ اب میں چلتی ہوں شارق اور طارق کے آنے کا وقت ہونے لگا ہے مجھے ان کیلئے کچھ تیاری بھی کرنی ہو گی۔ یہ کہہ کر گلناز نے اجازت لی۔ شہناز اسے چھوڑنے کیلئے دروازے تک آئی۔ جاتے جاتے گلناز بولی میری بات کا برا نہ ماننا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس لباس میں تم بہت خوبصورت لگتی ہو۔ شہناز بولی اچھا ورنہ نہیں ؟ جی نہیں ہر لباس میں میری بہنا بہت بہت خوبصورت لگتی ہے۔ اللہ حافظ۔ اللہ حافظ۔
۱۸
ارمندر کور دنیا میں وہ واحد خاتون تھی جس کو ایوان سے متعلق ساری پیش رفت سے شہریار آگاہ کر دیا کرتا تھا۔ ارمندر اس کو کچھ بولتی تو نہ تھی لیکن اس بات کیلئے فکرمند ضرور رہتی تھی کہ کسی طرح وہ اس دلدل سے نکل آئے۔ ارمندر کی تشویش میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا اسے لگنے لگا تھا کہ شہریار اب بہت آگے جا چکا ہے اور اس کا لوٹ کر آنا تقریباً ناممکن سا ہو گیا ہے۔ ارمندر نے اب مستقبل کے امکانات پر غور کرنے لگی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایوان اور شہریار کی شادی تواب ہو کر ر ہے گی لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ ممکن ہے شہناز اسے برداشت کر لے یا ہنگامہ کرے لیکن اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے بعد ایوان کو شہریت مل جائے گی تب جا کر اصل مسئلہ کھڑا ہو گا۔ ایوان تو شہر یار کو چھوڑ دے گی اور ان دونوں کو اپنے گھر سے نکال دے گی۔ اس صورت میں شہریار کا کیا ہو گا ؟ اگر شہناز اسے چھوڑ کر جا چکی ہو گی تو وہ نہ گھر کا رہے گا نہ گھاٹ کا اور اگر اس کے ساتھ موجود ہو گی تب بھی شہناز کو اسے چھوڑ کر پاکستان جانا ہو گا اس لئے کہ ایک معمولی ٹیکسی ڈرائیور کا اپنی اہلیہ کے ساتھ مانچسٹر میں رہنا مشکل ہی ہے۔
اس غور و فکر کے نتیجے میں ارمندر کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ شہریار کا اصل مسئلہ اس کی محدود آمدنی ہے۔ اگر وہ خوشحال ہوتا تو خود اپنے بل بوتے پر شہناز کو بلا لیتا اور ایوان کے مکڑ جال میں نہ پھنستا۔ اس مرحلے میں ارمندر کی سمجھ میں ایک اور بات آئی اس نے سوچا اگرکسی طور سے شہریار کی آمدنی میں اضافہ ہو جائے تو ایوان کا الگ ہو جانا بھی اس پر اثرانداز نہیں ہو سکے گا۔ ارمندر نے اپنے تئیں فیصلہ کیا کہ بلاوجہ کے اندیشوں میں گرفتار ہونے کے بجائے اسے چاہئے کہ شہریار کے معاشی استحکام پر توجہ دی جائے۔ اسی خیال سے اس نے دھرمندر سے صرف اس قدر بات کی کہ اب چونکہ شہریار نے اپنی بیوی کو یہاں بلا لیا ہے اس لئے اس کی آمدنی کے اضافے کی کیا سبیل نکل سکتی ہے ؟ دھرمندر نے اسے بتایا کہ شہریار سست آدمی ہے اگر وہ بڑی گاڑی کا لائسنس نکال لیتا تو میری طرح خوشحال ہو جاتا لیکن نہ جانے کیوں اس ننھی سی ٹیکسی کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ ارمندر بولی دیکھو آپ کسی کا مزاج تو نہیں بدل سکتے اب اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے سوچو۔ دھرمندر نے وعدہ کیا کہ وہ اس بابت جو بھی ممکن ہو گا کرے گا۔
ارمندر باورچی خانے میں کھانا لانے گئی تو دھرمندر شہریار کے بارے میں سوچنے لگا۔ بہت غور کرنے پر اس کے ذہن میں مولچند کا خیال آیا۔ مولچند اس کا دوست تھا جس کا گھر دہلی میں اس کے پڑوس میں تھا لیکن فی الحال مولچند لندن میں رہتا تھا۔ مولچند کا لندن میں بیوٹی پارلر تھا جو زوروشورسے چل رہا تھا اور اس کا اچھا خاصہ نام بھی ہو گیا تھا۔ دھرمندر جب بھی لندن کی جانب ٹرک لے کر جاتا تو اس سے ضرور ملتا۔ مولچند نے کئی بار دھرمندر سے کہا تھا کہ اس طرح دربدر مارے مارے پھرنے سے اچھا ہے مانچسٹر میں اس کے صالون کی ایجنسی کھول لے لیکن دھرمندر نے یہ کہہ کر منع کر دیتا کہ یار میں سکھ آدمی ہوں۔ ہماری شریعت میں بال کاٹنے کی ممانعت ہے اور تو مجھ سے یہی کاروبار کروانا چاہتا ہے۔مولچند کہتا یار میں کب کہتا ہوں کہ تو اپنے بال منوا لے۔ یہ صالون دوسرے گاہکوں کیلئے ہو گا لیکن یہ منطق دھرمندر کے گلے سے نہ اترتی تھی۔ اسے اس پیشے سے نفرت تھی۔ارمندر کی بات سے اسے خیال آیا کیوں نہ شہریار سے اس بابت گفتگو کی جائے ممکن اس کی اور مولچند کی ملاقات دونوں کیلئے خوشحالی کا پیغام لائے۔
طعام سے فارغ ہونے کے بعد دھرمندر نے مولچند کو فون لگایا اور اس سے بولا میں نے تمہارے لئے ایک کام کا آدمی ڈھونڈ نکالا ہے اگر اب بھی تمہاری دلچسپی باقی ہو تو اس سے بات کروں ؟ مولچند نے شہریار کی ساری تفصیل پوچھی۔ اسے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ شہریار برطانوی شہری ہے اس لئے کہ اس سے لائسنس کی بہت ساری سہولیات باآسانی حاصل ہو سکتی تھیں۔ ملاقات کیلئے یہ طے کیا گیا کہ وہ آئندہ اتوار کو شہریار کے ساتھ لندن آئے تاکہ لندن میں اس کے بیوٹی پارلر کو دیکھے اور اسے انداز ہو سکے کہ کاروبار کس سطح پر کیا جانا ہے۔
مولچند کو ارمندربرسوں سے جانتی تھی۔ دھرمندر کے بعد اس نے مولچند سے دعا سلام کرنے کیلئے فون لیا تو مولچند شکایت کرنے لگا۔ وہ بولا کیا بہن تم تو ہمیں بھول ہی گئیں۔ اس دھرم سے کتنی بار کہا کہ تمہیں لے کر آئے لیکن اس کے سر پر اتنی بڑی پگڑی بندھی ہوئی ہے کہ کانوں پر جوں تو کیا سانپ بھی نہیں رینگتا۔ ارمندر بولی تم بھی تو کافی عرصہ ہوا نہیں آئے ایسا کرو کہ اس بار سشیل کو بھی ساتھ لے کر آؤ۔ وہ بھی تمہاری شکایت لگاتی ہے کہ دن رات روپئے کمانے میں لگے رہتے ہو۔ مولچند بولا خیر ہم لوگ تو جب آئیں گے سو آئیں گے تم ایسا کرو کہ اس اتوار کو دھرم کے ساتھ آ جاؤ۔ وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ مجھ سے ملنے آنے والا ہے۔ ارمندر بولی ٹھیک ہے بھائی صاحب کوشش کروں گی۔ کوشش نہیں وعدہ اب تو تمہیں آنا ہی ہو گا میں سشیل کو بتا دیتا ہوں۔ ارمندر بولی ٹھیک ہے۔ ہم لوگ اتوار کو ملتے ہیں۔فون بند ہو گیا۔
دھرمندر بولا کیا ؟ ہم لوگ ملتے ہیں ؟ کون لوگ ملتے ہیں ؟ ارمندر ہنس کر بولی اب جانتے بوجھتے کیوں سوال کرتے ہو؟ اسی لئے لوگ ہم سرداروں کے بارے میں لطائف بناتے ہیں۔ دھرمندر بولا سوال لطیفہ کا نہیں حقیقت کا ہے۔ اتوار کو تمہارے کہنے پر میں نے شہریار کیلئے بات کی ہے اور اگر وہ تیار ہو جاتا ہے تبھی میں جاؤں گا ورنہ نہیں۔ اب بیچ میں تم تیار ہو گئیں۔ تم کیا کرو گی ہم مردوں کی بات میں ؟ ارمندر بولی شہریار کیسے تیار نہ ہو گا ؟ اس کا اچھا تیار ہو جائے گا۔ یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو۔ ممکن ہے اسے مولچند کے کاروبار میں دلچسپی ہی نہ ہو؟
ہو سکتا ہے ارمندر بولی لیکن پھر بھی اسے چلنا ہی ہو گا۔ اچھا وہ کیوں ؟ دھرمندر نے سوال کیا۔ وہ اس لئے کہ اس کی چابی میرے پاس ہے ؟ کیا مطلب ؟ میرا مطلب ہے جیسے گاڑی چابی سے چلتی ہے اسی طرح گھر سنسار کی بھی کنجی ہوتی ہے۔ اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ وہ کون ہوتی ہے ؟ جی ہاں میں سمجھ گیا اب تم شہناز کی چابی بھرو گی اور پھر وہ بیچارہ قسمت کا مارا۔ دھرمندر نے کہا بھئی تم عورتوں کی سامنے تو نارد منی اور چانکیہ دونوں کی سیاست ہیچ ہے۔ ارمندر بولی اب زیادہ لمبی چوڑی مت ہانکو اور شہریار سے بات کرو۔ اگر وہ تیار نہ ہو تو مجھے بتاؤ تاکہ میں اپنا رام بان چلاؤں۔
دھرمندر نے شہریار سے بات کی تو وہ فوراً تیار ہو گیا اور پوچھا کہ کس وقت نکلنا ہو گا؟ اب دھرمندر دھرم سنکٹ میں پڑ گیا۔ اس نے کہا صبح کسی وقت نکلیں گے۔ شہریار بولا یار یہ کسی وقت کیا ہوتا ہے ؟ ایک وقت بتاؤ میں ٹیکسی ڈرائیور ہوں ایک منٹ قبل تمہارے دروازے پر پہنچ جاؤں گا۔ دھرمندر نے قہقہہ لگا کر کہا شہریار تمہیں کوئی غلط فہمی تو نہیں ہو گئی۔ میں تمہارے کام کے لئے جا رہا ہوں کوئی کرایہ ورایہ نہیں ادا کروں گا کیا سمجھے ؟ ارے بھئی نہ ادا کرنا لیکن وقت تو بتا دو۔ دھرمندر بولا بات یہ ہے کہ وقت تو مجھے بھی نہیں پتہ۔ اچھا تو کس کو پتہ ہے ؟ وہ تمہاری بھابی ارمندر کو۔ اوہو تو میں اب سمجھا تب تو مجھے کرایہ لینا ہی پڑے گا۔ شہریار کو پتہ نہیں تھا کہ فون اسپیکر پر ہے اور ارمندر سن رہی ہے۔ اس بات کو سن کر اس سے رہا نہ گیا وہ بولی اچھا تو یہ بات ہے ؟
شہریار بولا ارے اوئے دھرم تو نے کیا کر دیا۔ مجھے تو مروا ہی دیا۔ ارمندر بولی دیکھو میں سب سن رہی ہوں۔ ارے ہاں میں پھر بھول گیا۔ وہ بھابی یہ ہم دوستوں کا مذاق ہے آپ برا نہ مانیں۔ دیکھو شہریار غلطی اگر پکڑی جائے نا تو سزا ہوتی ہی ہے۔ تم اس میں تخفیف کی درخواست تو کرسکتے ہو لیکن تمہیں اس کا خمیازہ تو ادا کرنا ہی ہو گا۔ ٹھیک ہے بندہ حاضر آپ جو بھی حکم دیں گی میں بلا چوں چرا اس پر عمل کروں گا۔ ارمندر بولی ٹھیک ہے تو تم کو کرنا یہ ہے کہ شہناز کو ساتھ چلنے کیلئے تیار کرو اور وقت طے کر کے ان کو بتاؤ کیا سمجھے ؟ ایک اور بات سن لو اس کام کیلئے تمہارے پاس صرف بارہ گھنٹے ہیں۔ ورنہ ؟ شہریار نے پوچھا۔ ارمندر بولی ورنہ لندن جانا منسوخ۔ دھرمندر نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا بھئی مان گئے ہم تو اپنی ارمندر کو مان گئے۔
ارمندر نے شرما کر فون بند کر دیا اور بولی عجیب بیوقوف سردار ہو۔ کسی غیر کے سامنے اس طرح بات کرتے ہو؟ دھرمندر بولا بھئی یہ تو سنگ مرمر کا پتھر والی بات ہو گئی۔ ارمندر نے پوچھا یہ بیچ میں پتھر کہاں سے آ گیا ؟ دھرمندر بولا پتھر نہیں تو پانی سہی۔ ارمندر نے پوچھا پانی کون سا پانی؟ وہی آبِ زم زم کا پانی۔ ارمندر اور پریشان ہو گئی اور بولی کیا بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو تمہارا دماغ تو درست ہے ؟ اچھا دماغ وہ بھی سردارکا؟یہی تو میں تم سے کہنے والا تھا بیوقوف سردار اور پھر وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔ ارمندر کی سمجھ میں پتھر اور پانی کی کہانی آ گئی تھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پتھر سے اپنا سر پھوڑ لے یا چلو بھر پانی میں ڈوب مرے ؟
شہریار بڑا خوش تھا وہ سمجھ گیا اس خیر خواہی کا خیال تو صرف ارمندر کو آسکتا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ارمندر اور گلناز میں کتنا فرق ہے دونوں سہیلیاں ہیں مگر ایک ہمیشہ مثبت انداز میں سوچتی ہے اور دوسری ہمیشہ منفی۔ شاید ان کی دوستی کا یہی راز تھا کہ مثبت اور منفی برقی ذرات آپس میں ایک دوسرے کے تئیں کشش محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اس نے سوچا انسانوں پر یہ اصول صادق نہیں آتا۔ شہناز اور ایوان میں کس قدر مماثلت ہے اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے سے دور نہیں ہوتیں۔ شہناز منٹوں میں لندن چلنے کیلئے تیار ہو گئی۔ دنیا میں ایسا کون تھا جو لندن شہر کی سیر نہ کرنا چاہتا تھا۔
شہناز بولی میں آپ لوگوں کے ساتھ چلوں گی لیکن میری ایک شرط ہے۔ شہریار بولا یہ تم عورتوں کی شرائط بڑے مسائل کھڑے کرتی ہے۔ شہناز بولی مسائل پیدا نہیں ہوتے بلکہ حل ہوتے ہیں۔ اب دیکھو ارمندر دیدی کی شرط نے میرا مسئلہ حل کیا اب میں چاہتی ہوں کہ آپ ایوان کو بھی ہمارے ساتھ لے کر چلیں۔ایوان کا نام سن کر شہریار چونک پڑا۔ وہ بولا لیکن اگر وہ تیار نہ ہوئی تو؟ اس کی ذمہ داری آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ شہریار بولا لیکن اگر ایوان نے گلناز کو ساتھ لے کر چلنے کی شرط لگا دی تو پریشانی ہو جائے گی اس لئے کہ میری ننھی سی گاڑی میں پیچھے صرف تین لوگ آرام سے بیٹھ سکتے ہیں اور لندن کا سفر کافی طویل ہے۔ مجھے سب پتہ ہے شہناز نے اس ادا سے کہا گویا کئی بار لندن آ جا چکی ہو حالانکہ ابھی تک اس نے مانچسٹر بھی ٹھیک سے نہیں دیکھا تھا۔
شہناز نے جب ایوان سے لندن چلنے کیلئے کہا تو اس نے از راہِ تکلف نہ کہہ دیا۔ شہناز نے وجہ دریافت کی تو وہ ہنس کر بولی میں میاں بیوی کے بیچ کباب میں ہڈی بننا نہیں چاہتی۔ شہناز نے کہا تم تو ایک چھوٹی سی ہڈی ہو ہمارے ساتھ دو گوشت کے پہاڑ چل رہے ہیں۔ ایوان بولی گوشت کے پہاڑ میں سمجھی نہیں ؟ ارے بھئی کیا تم دھرمندر اور ارمندر کو نہیں جانتیں۔ اب ان میں سے کون ہمالیہ ہے اور کون کنچن چنگا اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہی ہے۔ ایوان خوب ہنسی اور بولی تب تو ٹھیک ہے میں چلوں گی مگر ایک شرط پر۔ شرط؟ وہ کیا ؟۔ ایوان نے کہا یہی کہ میں ان کو بتاؤں گی شہناز نے تم دونوں کیلئے ایک نیا محاورہ ایجاد کیا ہے۔ شہناز بولی جی نہیں خدا کیلئے تم ان کو اپنی یہ آپس کی بات نہ بتانا ورنہ ان سے زیادہ وہ ناراض ہو جائیں گے۔ ایوان نے چھیڑنے کیلئے کہا وہ کون ؟ وہی تم تو جانتی ہو پھر بھی پوچھتی ہو۔ جی نہیں میں نہیں جانتی ایوان نے کہا۔ اچھا تو نہ جانو اپنی بلا سے۔ یہ بتاؤ کہ کس وقت نکلیں گے ؟ بھئی جلدی کیا ہے صبح نو بجے نکل چلیں گے ٹھیک ہے ؟ جی ہاں شہناز بولی مجھے ناشتہ وغیرہ تیار کرنے کیلئے بھی وقت مل جائے گا۔
۱۹
اتوار کے دن صبح میں ساڑھے آٹھ بجے دھرمندر سنگھ اور ارمندر کور ایوان کے گھر پہنچ گئے۔ گرم گرم ناشتہ ان دونوں کا انتظار کر رہا تھا۔ شہریار اور ایوان نے بھی ناشتہ کیا اور سب لوگ اپنے اپنے چائے کے گلاس لے کر شہریار کی گاڑی کے قریب آ گئے۔ دھرمندر نے پوچھا آپ تینوں تو دبلے پتلے ہو اس لئے اگر چاہو تو اگلی دو نشستیں ہم دونوں کیلئے چھوڑ دو میں گاڑی چلا لوں گا۔ ارمندر تنک کر بولی آپ ہمیشہ میرا مذاق اڑاتے ہیں خود اپنا وزن نہیں دیکھتے ؟ دھرمندر بولا عجب مصیبت ہے ؟ ارے میں خود بھی تو آگے بیٹھنے کے بارے میں کہہ رہا تھا۔لیکن ویسے بھی آپ آگے ہی بیٹھنے والے ہیں چوٹ تو مجھے کی گئی نا کہ میں بھی آگے بیٹھوں۔ہم لوگ پیچھے بیٹھ لیں گے آپ فکر نہ کریں۔ دھرمندر بولا لیکن تکلیف کے ساتھ بیٹھنے میں آخر فائدہ کیا ہے ؟ فائدہ ؟ فائدہ بہت ہے۔ ہم لوگ پیچھے آرام سے باتیں کریں گے۔ آگے میں آپ کے ساتھ کیا بات کروں گی اور شہریار کے ہوتے وہ دونوں کیا بولیں گی؟
دونوں عورتوں نے ایک آواز میں ارمندر کی تائید کی تو شہریار بولا یار دھرم تم ان لوگوں کو نہیں جانتے یہ ٹیڑھی پسلی کی مخلوق ہیں۔ ارمندر بولی جی ہاں ٹیڑھی پسلی آپ لوگوں کی ہے۔ اور ہاں آپ تو بالکل سیدھے سادے ہو جلیبی کی طرح۔ دھرمندر نے جملہ پورا کیا۔ گاڑی چل پڑی۔ اسی کے ساتھ پچھلی نشست پر کھسر پسر کا آغاز ہو گیا۔ دھرمندر بولا یار رات سونے میں کافی تاخیر ہو گئی اور صبح اتنا بڑھیا ناشتہ کر لیا تو اب میں کچھ دیر سو لیتا ہوں۔ ارمندر پیچھے سے بولی ناشتہ بڑھیا تو سب کیلئے تھا لیکن آپ سے اتنا زیادہ کھانے کیلئے کس نے کہا تھا ؟ دھرمندر بولا میں اپنے سارے کام کسی کے کہنے پر نہیں کرتا اور تم اپنا کام کرو ہمارے درمیان دخل اندازی نہ کرو۔ اسی کے ساتھ دھرمندر نے آنکھیں بند کر لیں اور گاڑی میں اس کی ہلکے ہلکے خراٹے گونجنے لگے۔ ایوان کو ارمندر اور دھرمندر کی پنجابی نوک جھونک پوری طرح سمجھ میں تو نہیں آتی تھی مگر اچھی بہت لگتی تھی۔
لندن میں مولچند کے گھر پر اس قافلے میں مزید تین لوگوں کا اضافہ ہو گیا ایک تو خود مولچند، دوسرے اس کی بیوی شیتل اور جواں سال بیٹی سشما۔ اسی کے ساتھ وہ لوگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ایک تجارتی گروہ جس میں سارے مرد شامل تھے اور دوسرا سیاحتی گروہ جو خواتین پر مشتمل تھا اور جس کی سربراہ سشما تھی۔ تینوں مردوں کی پنجابیت نے ان کے اندر یک گونہ یکسانیت پیدا کر دی تھی۔ ویسے ان میں سے ایک دہلی سے۔دوسرا امرتسرسے تو تیسرا لاہور سے برطانیہ آیا تھا لیکن آج کل گوجرانوالا میں رہائش پذیر تھا۔ ان کے مذاہب مختلف تھے ایک سکھ، دوسرا ہندو اور تیسرا مسلمان مگر زبان اور سوچ ایک جیسی تھی۔
خواتین کا معاملہ بے حد منفرد تھا۔ شیتل کے والدین تمل ناڈو کے رہنے والے تھے لیکن اس کی پیدائش سے قبل یوگنڈا ہجرت کر گئے تھے۔ شیتل کا بچپن وہیں گزرا اور پھر ایدی امین کے زمانے میں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ برطانیہ آ گئی۔ارمندر پنجاب میں بھٹنڈا کی رہنے والی تھی لیکن بچپن ہی سے دہلی میں پلی بڑھی تھی۔سشما لندن میں پیدا ہوئی تھی اور اس نے نہ ہندوستان دیکھا تھا اور نہ یوگنڈا۔ ایوان کا بچپن پولینڈ کے شہر وارسا میں گزرا تھا اور شہناز گو کہ آئی توگوجرانوالاسے تھی مگر اس کے والدین ہندوستان کے شہر میرٹھ سے ہجرت کر کے پاکستان جا بسے تھے۔ان کی زبان تہذیب مذہب سب کچھ مختلف تھا۔ایوان دنیا دار قسم کی یہودی تھی جبکہ شیتل نہایت مذہبی ہندو اور سشما اس کی بیٹی ہونے کے باوجود ملحد عقائد کی حامل تھی۔ ارمندر پکی سکھ تھی اور شہناز سچی مسلمان لیکن ان کے اندر نسوانیت کا عنصر مشترک تھا جس نے سب کو ایک ہار میں پرو دیا تھا۔پل بھر میں وہ آپس میں گھل مل کر بالکل شیرو شکر ہو گئی تھیں۔
سیاحتی قافلے کی خود ساختہ سربراہ سشما تھی۔ گاڑی سے قریب آ کر اس نے سوال کیا آپ لوگوں میں سے کوئی پہلی مرتبہ تو لندن نہیں آیا ہے ؟ سارے لوگوں نے شہناز کی جانب اشارہ کیا۔ وہ بولی تو آپ آگے کی نشست پر بیٹھیں۔ اس کا فائدہ ؟ شہناز نے پوچھا۔ اس کے کئی فائدے ہیں اول تو سامنے سے دنیا زیادہ وسیع و عریض نظر آتی ہے۔کھلا آسمان، اونچے پربت، بہتی ندیاں، اڑتے بادل ، خوبصورت عمارتیں، چوڑی سڑکیں وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کا حقیقت سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ مطلع صاف تھا نہ بادل تھے اور نہ کوئی پربت دکھائی پڑ رہا تھا پھر بھی شہناز کو سشما کی باتوں میں مزہ آ رہا تھا۔ وہ بولی یہ تو ایک فائدہ ہوا اس کے علاوہ؟ سشما سوچ میں پڑ گئی۔ پیچھے سے سشیل نے طنزیہ انداز میں کہا اب چپ کیوں ہو گئیں آگے بولو۔
سشما کو موقع مل گیا تھا اس نے بات آگے بڑھائی اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے آگے بیٹھنے سے تمہاری توجہ سیاحت پر مرکوز رہے گی اور تمہیں بے مطلب کی باتوں سے نجات مل جائے گی۔ ارمندر نے کہا اچھا اب تک تو صرف تم ہی بول رہی ہو ہم سب تو چپ چاپ سن رہے ہیں۔ جی ہاں سشما نے تائید کی اور بولی میں تو فضول اور بے مطلب باتوں سے انہیں نجات پانے کی مبارکباد دے رہی تھی۔ جہاں تک میری بات کا سوال ہے اس زیادہ مفید شہ ان کیلئے کوئی اور نہیں ہے۔ ایوان نے کہا جی ہاں یہ بات درست ہے۔ سشما یہ سن کر خوش ہو گئی اور بولی شکریہ آنٹی دیکھا آپ نے میری قدر داں آپ کے بغل میں بیٹھی ہوئی ہیں شکریہ شکریہ۔ سشیل بولی کوئی بات نہیں جلد ہی ان کی غلط فہمی بھی دور ہو جائے گی۔
سشما نے کہا میں نے تو سنا تھا ماں کے اندر ممتا ہوتی ہے لیکن اسے دیکھنے کا موقع مجھے کبھی نہیں ملا آپ ہمیشہ میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں خیر کوئی بات نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی سشما کی تقریر جاری تھی سارے لوگ اس کی جانب متوجہ تھے۔ہاں تو میں کیا کہہ رہی تھی؟ بیٹی جب تمہیں خود ہی نہیں پتہ تو ہمیں کیوں کر پتہ ہو سکتا ہے ؟سشیل نے کہا۔ سشما بولی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا فرض کرو کہ میں کہہ رہی تھی لندن میں دیکھنے کیلئے اتنا بہت کچھ ہے کہ اس کیلئے ایک ہفتہ بھی ناکافی ہے اس لئے آپ لوگ ایسا کریں کہ اپنا شام میں واپسی کا پروگرام بدل دیں اور کم از کم دو چار دن یہاں رک جائیں تاکہ میں سکون سے آپ لوگوں کو لندن کی سیرکرا سکوں۔
ایوان یہ سن کر ڈر گئی وہ بولی مجھے تو کل دفتر جانا ہے اس لئے میں رک نہیں سکتی۔ تو کوئی بات نہیں آپ شہریار کے ساتھ چلی جائیں اور شہناز کو یہاں چھوڑ جائیں۔اس سے پہلے کہ شہناز جواب دیتی ارمندر نے کہا بیٹی شہناز پہلی مرتبہ ضرور آئی ہے لیکن آخری بار نہیں اس لئے ایسا کرو کہ آج جو کچھ ممکن ہو دکھلا دو باقی اگلی مرتبہ دیکھ لیں گے۔ سشما بولی وہ بھی ٹھیک ہے اس کے بعد شہناز کی جانب دیکھ کر بولی لیکن آپ کو وعدہ کرنا ہو گا کہ دوبارہ بہت جلد آئیں گی۔ کیا یہ دعوت صرف شہناز کیلئے ہے یا ہم لوگ بھی اس میں شامل ہیں ؟ ارمندر نے پوچھا۔ ارے بھئی آپ سب لوگوں کو دعوت ہے اور اگر آپ دیگر دوست و احباب کو ساتھ لانا چاہیں تو ان کا بھی استقبال ہے۔ سشما بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ ایوان نے سوال کیا۔ بہت جلد کیوں ؟ اس لئے کہ بہت جلد ہم لوگ اس کی شادی کر کے اس سے پیچھا چھڑانے والے ہیں سشیل نے جواب دیا۔
سشما چمک کر بولی دیکھا آپ نے میں اس ظالم ماں کی ابلہ بیٹی ہوں جو مجھ سے نالاں ہے خیر۔ ان کو میں یہ کئی بار بتا چکی ہوں کہ ان کی مرضی سے میری شادی نہیں ہو گی لیکن یہ باز ہی نہیں آتیں جب بھی کوئی احمق لڑکا نظر آتا یہ اسے اپنا داماد بنانے کی سعی میں لگ جاتی ہیں۔ ارمندر بولی بیٹا تمہاری ماں سے زیادہ تمہیں کون جان سکتا ہے۔ یہ سوچتی ہوں گی کہ بجائے کسی ذہین آدمی کو تمہارے ساتھ باندھ کر بیوقوف بنایا جائے ۔۔۔سشما نے جملہ کاٹ دیا اور بولی آنٹی آپ اپنی سہیلی کی بہت زیادہ حمایت نہ کیا کریں۔ ورنہ کیا کرو گی سشیل نے پوچھا ہم دونوں کو گاڑی سے اتار دو گی، یہی نا۔تمہیں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہم لوگ شکریہ ادا کر کے از خود اتر جائیں گے۔ سشما کی زبان قینچی کی مانند چل رہی تھی اور اسی کے ساتھ راستہ بھی کٹتا جا رہا تھا۔سفر نہایت دلچسپ ہو گیا تھا۔
سشما نے گاڑی کو تھیمز ندی کے کنارے ایک ایسے مقام پر روکا جہاں لوگوں کا اژدہام تھا۔ ارمندر بولی بیٹی تم ہمیں یہ کہاں لے آئیں یہاں تو میلہ لگا ہوا ہے۔سشما نے کہا میں نے سوچا آپ لوگوں کے پاس وقت کم ہے تو کیوں نہ آپ سب کو لندن کی آنکھ میں لے چلوں یہاں آپ لندن کی آنکھ سے بیک وقت سارے شہر کا نظارہ کرسکیں گے۔وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ اتنے سارے لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ ایوان نے پوچھا وہی جو ہم کریں گے۔ سیرسیاحت، کھانا پینا اور موج مستی۔ شہناز نے پوچھا لیکن ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے ؟ ارے بھئی یہی سوال تو یہ ہم سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔ تمام لوگوں کے سوالات کے جواب اکیلی سشما دے رہی تھی۔ یہ لوگ دنیا بھر سے لندن کی سیر کرنے کیلئے آئے ہیں۔ جیسے یوگنڈا سے شریمتی سشیل، امرتسر سے ارمندر جی، لاہور سے شہناز بی بی اوروارسا سے ایوان میڈم۔ ان سب کا آج یہی کام ہے۔
ارمندر نے کہا بیٹی چونکہ میں بہت دور سے آئی ہوں اس لئے مجھے پیاس لگی ہے۔یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم لوگ تھیمز ندی کے ساحل پر ہیں لیکن آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں آپ لوگ یہاں سامنے بنچ پر بیٹھیں میں آپ لوگوں کیلئے مشروبات اور پانی لے کر آتی ہوں۔سشما دوسری جانب نکل گئی اور وہ چاروں خواتین سخت بنچ کے بجائے نرم گھاس پر بیٹھ گئیں۔ شہناز بولی چاچی یہ آپ کی بیٹی بہت تیز ہے اس کیلئے سوچ سمجھ کر لڑکا ڈھونڈنا ورنہ وہ بیچارہ پیچھے رہ جائے گا اور یہ کہاں کی کہاں نکل جائے گی۔ سشیل نے کہا تم نے نہیں سنا یہ ہماری پسند کے لڑکے سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ ایوان نے کہا ممکن ہے اس نے کسی لڑکے کو پسند کر لیا ہو۔ جی ہاں لیکن بتاتی بھی تو نہیں سشیل نے کہا ورنہ ہم آج اس کا بیاہ کر دیں۔ اس کے پاپا بھی اس بات کو لے کر فکر مند رہتے ہیں۔ ہماری صرف ایک بیٹی ہے وہ چاہتے ہیں کہ یہ خوش رہے۔شہناز نے کہا یہ تو ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے۔
اس بیچ سشما تھیلیوں سے لدی پھندی آتی ہوئی دکھائی دی۔ ایوان اور شہناز نے بڑھ کر اس کا بوجھ ہلکا کیا۔ ارمندر بولی اوئے ہوئے یہ کیا کیا اٹھا لائیں بیٹی میں نے تو صرف پانی منگوایا تھا۔ سشما نے کہا آنٹی یہ دن بھر کا راشن ہے۔ میں نے سوچا بار بار زحمت کرنے سے اچھا ہے ایک ہی بار میں نمٹا دیا جائے۔ لیکن اتنا سارا؟ شہناز نے سوال کیا تو سشما بولی ارے ان چپس کی تھیلیوں میں غذا کم اور ہوا زیادہ ہوتی ہے اس لئے پھولی ہوئی لگتی ہیں اور جہاں تک غذائیت کا سوال ہے بالکل نہیں ہوتی۔ سشیل نے کہا ارمندر کی طرح۔ ارمندر بگڑ کر بولی یار مجھ کو کیوں بیچ میں گھسیٹ رہی ہو۔ میرے اندر ہوا بھری ہوئی ہے کیا؟ سشیل نے کہا بھئی انسان کا ہرا بھرا ہونا کافی ہے اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس میں کیا بھرا ہوا ہے۔ سشما بولی آپ لوگ اسے نوش فرمائیے میں ٹکٹ لے کر آتی ہوں۔
شہناز نے پوچھا ٹکٹ ؟ کیسا ٹکٹ ہمیں آج کوئی فلم نہیں دیکھنی۔ ہم تو لندن دیکھنے کیلئے آئے ہیں۔ سشیل بولی بہن تم یہاں نئی آئی ہو نا اس لئے نہیں جانتی یہاں کوئی شہ مفت میں نہیں ملتی لندن دیکھنے کیلئے بھی ٹکٹ لینا ہو گا بلکہ بیت الخلاء بھی اگر استعمال کرنا ہے تو اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ شہناز بولی کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ جی ہاں یہ حقیقت ہے۔ارمندر نے تائید کی مجھے تو ڈر ہے یہ لوگ سانس لینے پر بھی کوئی ٹیکس نہ لگا دیں۔ سشما مختلف قسم کے مشروب لے آئی تھی جس میں پھلوں کے رس سے لے کر گیس والی مشروبات جیسے کوکاکولا، میرانڈا، ہنی ڈیو اور نہ جانے کیا کیا تھا لیکن سب سے زیادہ جس کا استعمال ہوا وہ پانی ہی تھا اس لئے کہ ان خوش رنگ مشروبات میں مزہ تو آتا تھا لیکن پیاس نہ جانے کیوں بے رنگ پانی ہی سے بجھتی تھی۔
سشما نے واپس آ کر پوچھا میرے لئے بھی آپ لوگوں کچھ چھوڑا یا نہیں ؟ سشیل بولی کوڑا کرکٹ کے علاوہ مٹاپا بڑھانے والی پیپسی ہے جتنی چاہو پی لو۔ سشما نے کہا چھوڑو پیپسی اور شہناز تم یہ بتاؤ کہ پہلے زیر زمین لندن دیکھو گی آسمان کی بلندی سے دیکھنا پسند کرو گی؟ شہناز نے پوچھا ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟ سشما بولی پاتال میں تصاویر ہیں اور آسمان سے حقیقت نظر آتی ہے ؟ ایوان نے کہا لیکن اگر ہم حقیقت کو براہِ راست دیکھ سکتے ہیں تو زمین کے نیچے جائیں ہی کیوں ؟ اس لئے کہ آسمان سے ہر شے بہت دور اور مختصر نظر آتی ہے لیکن کیمرہ اس کے قریب جا کر تصویریں نکال لیتا ہے بلکہ کیمرے کی آنکھ سے انسان ان عمارتوں کے اندر جھانک کر دیکھ سکتا ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ شہناز نے چونک کر کہا یہ تانک جھانک تو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
سشما نے کہا دیکھو بہن یہ کیمرہ بنا بتائے کسی عمارت کے اندر نہیں جاتا یہ اجازت لے کر جاتا ہے اور تصویریں نکال کر لے آتا ہے اس لئے کسی کے نجی معاملات میں مداخلت نہیں ہوتی۔ سشیل نے کہا ہاں ایک اور بات بھی ہے تصویروں کے پیچھے جو کامنٹری ہوتی ہے وہ مبنی بر حقیقت ہوتی ہے جبکہ آسمان سے جو کچھ تم دیکھو گی اور اس کے بارے میں سشماجو کچھ یہ بتائے گی اس میں حقیقت کم اور فسانہ زیادہ ہو گا۔ سشما نے کہا دیکھو مما اگر تم یہی کرتی رہو گی تو میں گاڑی لے کر واپس چلی جاؤں گی۔ تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ کیا لندن شہر ٹیکسیوں سے خالی ہو گیا ہے۔ سشیل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ارمندر بولی سشیل احسانمندی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ابھی تک سشما کے مشروبات کی ڈکاریں بھی بند نہیں ہوئیں اور تم اس کو بھگانے پر تیار ہو گئیں۔
سشیل بولی میں کون ہوتی ہوں اس کو بھگانے والی؟ اور یہ میری مانتی کب ہے ؟ میں تو بس اس کی دھمکی کا جواب دے رہی تھی۔ ایوان اور شہناز کو یہ ماں بیٹی کا رشتہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ ان کے درمیان تکلف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ایوان نے کہا آپ دونوں تو مجھے بالکل ایک دوسرے کی سہیلی معلوم ہوتی ہیں ؟ سشیل نے کہا تمہارا مشاہدہ درست ہے۔ اولاد جب تک ہوش نہ سنبھالے اس وقت تک ان کے سرپرستی کرنی چاہئے لیکن جب وہ با شعور ہو جائے تو ان سے دوستی کر لینے میں بھلائی ہے۔ شہناز بولی لیکن آپ جیسی حقیقت پسند مائیں اس دنیا میں کم ہوتی ہیں۔ سشما بولی لیکن میری ماں تو کچھ زیادہ ہی حقیقت پسند ہے۔
شہناز نے کہا چلو مجاز سے حقیقت کی جانب چلنا چاہئے اس لئے پہلے زیر زمین چلتے ہیں اور وہ سب ایک بڑی سی عمارت کی جانب بڑھے جہاں صدر دروازے کے قریب کچھ قدیم و جدید لندن کی تصاویرسجائی گئی تھیں اس کے بعد وہ اندر داخل ہوئے جہاں انہیں تھری ڈائمنشن عینک دی گئی تاکہ وہ آگے کی فلموں کو تینوں سمتوں سے یعنی اوپر نیچے ، دائیں بائیں اور اندر باہر سے دیکھ سکیں۔ یہ زبردست فلمیں تھیں جنہیں مختلف سطح پر روک روک کر دکھلایا جاتا تھا اور اس کے ذریعہ لندن کی تاریخ، جغرافیہ اور تہذیب و تمدن سب سے روشناس کرا دیا جاتا تھا۔ وہاں سے باہر آنے کے بعد اب وہ لوگ ایک آسمانی جھولے کی جانب بڑھ رہے تھے جو سیکڑوں سیاحوں کو اپنے پیٹ میں بٹھا کر ۱۳۵ میٹر کی بلندی تک لے جاتا ہے۔ اس میں ۳۲ ائیر کنڈیشنڈ کوپے لٹکے ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک میں ۲۵ سیاحوں کی لئے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کی گنجائش پیدا کی گئی تھی تاکہ وہ چہار جانب سے لندن کا نظارہ کرسکیں۔
اس آسمانی جھولے نے اپنا ایک چکر تیس منٹ میں پورا کیا اور اس دوران ۳۱ مرتبہ رکا اس لئے ٹھہر ٹھہر کر کیے جانے والے اس چکر میں شہناز اور ایوان نے پہلی بار لندن شہر کو ایک غائر نظر سے اپنی آنکھوں میں بھر لیا۔ ان کوپوں کے اندر ہر طرف دور بین لگی ہوئی تھیں جس سے سیاح دور دراز کی عمارتوں کو قریب دیکھ سکتے تھے۔ اسی کے ساتھ شہناز و ایوان، سشما کی کمنٹری سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ دوسری جانب ارمندر اور سشیل دیگر موضوعات میں الجھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں نے چونکہ کئی بار یہ چکر کاٹے تھے اس لئے ان کے اندر ویسا تجسس نہیں تھا جیسا کہ شہناز، ایوان اور ان کی طرح کے ۳۲ لاکھ سیاحوں میں ہوتا تھا جو ہرسال اس مقام کی سیر کرتے تھے۔ باہر آنے کے بعد ایوان بولی بھئی مزہ آ گیا۔ لندن تو میں پہلے بھی آئی تھی لیکن آج ایسا لگا کہ صحیح معنیٰ میں لندن کو دیکھا ہے۔ شہناز نے تائید کی اور بولی جی ہاں لندن کی سیر تو زبردست رہی۔ارمندر نے کہا چلو اب کسی اچھے سے مطعم میں چل کر کھانا کھاتے ہیں کافی وقت ہو گیا ہے۔ سشما نے ایوان سے سرگوشی کہ اب تو آپ کو ان کی صحت کا راز معلوم ہو گیا ہو گا؟
۲
مولچند نے دھرمندر اور شہریار سے ناشتے کے بارے میں پوچھا۔ ان دونوں نے اس کی ضرورت سے انکار کیا تو وہ بولا ایسا کرتے ہیں ہم لوگ دفتر چلتے ہیں کام کا صحیح ماحول تو وہیں بنتا ہے۔ دونوں نے بیک وقت تائید کی اور وہ لوگ دلکش دلہن (لولی برائیڈ) نامی کمپنی کے صدر دفتر کی جانب روانہ ہو گئے۔ لندن کے بیوٹی پارلرس کا یہ ایک بہت ہی مشہور نام تھا۔ اس کی چار شاخیں شہر کے مختلف علاقوں میں تھیں جن میں سے تین ایسے علاقے تھے جہاں ہند و پاک کے لوگوں کی کثیر آبادی تھی لیکن صدر دفتر لندن کے سب سے مہنگے علاقے آکسفورڈ اسٹریٹ پر تھا جس سے متصل ان کا پانچ ستارہ صالون بھی تھا۔ مولچند بات چیت میں سشما کا باپ تھا ایک بار بولنے پر آتا تو رکنے کا نام نہیں لیتا ایسا لگتا کہ گویا سارے بریک فیل ہو گئے ہیں۔
باتوں باتوں میں مولچند نے شہریار کو اپنی آپ بیتی سنا ڈالی۔ وہ کس طرح دہلی سے لندن آیا۔ کن مصائب کا شکار ہوا اور کس طرح مختلف ناکامیوں سے گزرتا ہوا وہ اس کاروبار میں داخل ہوا۔ اور پھر کہاں کہاں سے ہوتا آج کس مقام پر پہنچ گیا؟ مولچند نہ صرف اس کو اپنی کاروباری زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتا رہا بلکہ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی بتلاتا رہا۔ اس مختصر سے عرصے میں شہر یار کو پتہ چل چکا تھا مولچند کی سشیل سے ملاقات کس طرح ہوئی اور ان دونوں نے کب اور کیسے شادی کے بندھن میں بندھ جانے فیصلہ کیا وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ تھی شہریار برسوں سے دھرمندر کو جانتا تھا لیکن اس سے متعلق اس قدر تفصیلی معلومات اس کے پاس نہیں تھی جتنی کہ مولچند کے بارے میں ہو گئی تھی۔ دھرمندر چونکہ ان واقعات کا چشم دید گواہ تھا اس لئے اس کو یہ سب سننے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔
شہریار نے اس گفتگو سے دوچار سبق سیکھے تھے مثلاً اس پیشے کو حقیر نہ جانا جائے یہ کوئی معمولی کاروبار نہیں ہے۔ اس کام کے مانچسٹر میں بڑھنے چڑھنے کے اچھے خوب مواقع ہیں۔ شادیوں کے ایک ہی موسم کے اندر اس میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے لوٹ آنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ اپنے صدر دفتر میں چائے پانی پینے کے بعد وہ اسے اپنے صالون میں لے گیا جہاں کا بیشتر عملہ اور تقریباً سارے گاہک سفید فام تھے۔ یہاں سے فارغ ہو کر مولچند بولا اب ہم لوگ ایسا کرتے ہیں کہ ساؤتھ ہال کے علاقے میں چلتے ہیں۔ ساؤتھ ہال کا نام سن کر دھرمندر کی باچھیں کھل گئیں وہ جھٹ سے بولا یہ بہت صحیح ہے مولچند مجھے یہ امید نہیں تھی کہ تو لچھمی کے چرنوں سے نکل کر دھرم کرم کی جانب بھی آئے گا۔
مولچند نے کہا بھئی ایسا ہے کہ ہم لوگ تجھے گرودوارہ صاحب سنگھ میں چھوڑ کر دلکش دلہن کی ساؤتھ ہال شاخ میں چلے جائیں گے۔ تو اپنا کام کرنا ہم اپنا کام کریں گے دراصل اس کو ساؤتھ ہال کی شاخ دکھلانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ متوسط درجہ کی آبادی میں واقع ہے اور اس کا ماحول مانچسٹر کے بازار سے مشابہ ہے ورنہ وہ آکسفورڈ جیسا کام اگر اپنے علاقہ میں کرنے کی کوشش کرے گا تو خسارے میں رہے گا۔ میں تو اب بھی سوچتا ہوں کہ انسان کو ابتداء چھوٹے پیمانے پر کرنی چاہئے اور آہستہ آہستہ اوپر جانا چاہئے ورنہ جو شروع میں اونچی اڑان بھر لیتے ہیں وہ بڑی جلدی نیچے آ جاتے ہیں۔ شہریار کا معاملہ یہ تھا وہ زیادہ تر وقت تائید میں سر ہلاتا تھا کبھی کبھار کوئی ضروری سوال کر لیتا تھا۔ مولچند کو ایسے ہی لوگ پسند تھے جو بولیں کم اور اس کی بک بک کو توجہ سے سنیں اور آج بڑے دنوں بعد اسے اس طرح کی اسامی میسر آئی تھی اس لئے وہ اپنے دل کے سارے ارمان نکال رہا تھا۔
گردوارہ پہنچنے کے بعد مولچند نے پوچھا کیوں دھرم تجھے یہاں کتنا وقت لگے گا؟ دھرمندر بولا تم میری چھوڑو اور اپنی بتاؤ میرا تو کیا ہے کہ یوں گیا اور وہ آیا ؟ مولچند نے کہا میرا خیال ہے کہ نصف گھنٹے شہریار کیلئے کافی ہے۔ دھرمندر بولا بہت اچھا میں اپنا ما تھا ٹیکنے کے بعد گرو گرنتھ صاحب لے کر بیٹھ جاؤں گا۔ جب تمہارا فون بجے گا باہر آ جاؤں گا کیوں ٹھیک ہے ؟ ویسے مجھے کوئی جلدی نہیں ہے اس لئے آپ لوگ اپنا وقت لو۔
ساؤتھ ہال کے صالون کا ماحول یکسر مختلف تھا۔ یہاں پر عورتوں اور مردوں کے مختلف ہال تھے۔ انتظار گاہ بلکہ دروازے بھی ایک دوسرے سے الگ تھے۔ شہریار کیلئے یہ انوکھا اختلاف تھا اس لئے کہ آکسفورڈ اسٹریٹ پر ایسی کوئی تفریق نہیں تھی بلکہ کاریگر بھی مخلوط تھے۔ کسی مرد کے بال عورت بنا رہی تھی تو کسی عورت کو مرد خضاب لگا رہا تھا۔ وہ سب دیکھ کر شہریار کو خاصی الجھن ہوئی تھی لیکن یہاں آنے کے بعد اسے قدرے سکون ہوا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اسے صدر دفتر جیسی دوکان کھولنی پڑ جائے تو شہناز کو بھی وہاں اپنے ساتھ لے جانا مشکل ہو جائے گا۔
ساؤتھ ہال کی سب سے خاص بات یہ تھی مردوں کے صالون کا نام منچلا دولہا تھا اور اس میں کافی گہما گہمی تھی۔ ادھر کام کرنے والوں میں کئی پاکستانی حجام تھے۔ مولچند جس وقت حساب کتاب کر رہا تھا اس وقت وہ ان کاریگروں سے کاروباری معلومات حاصل کرنے لگا ان میں سے ایک انور نے بتایا کہ اگر کسی کے پاس سرمایہ کاری کی گنجائش ہو تو یہ بہت اچھا کاروبار ہے۔ ایک مشکل بلدیہ کے سخت قوانین ہیں۔ حفظان صحت کا اگر خیال نہ رکھا جائے تو زبردست جرمانہ لگا دیا جاتا ہے لیکن اگر اس جانب توجہ دی جائے تو گاہک بھی خوب آتے ہیں نام بھی بہت ہوتا ہے۔ انور کے مطابق ان کی دوکان کے گاہکوں میں سے شاید ہی کوئی کسی اور دوکان میں جاتا ہو۔ اس نے بتایا کہ دلکش دلہن کا بھی یہی حال وہاں کے گاہک بھی بہت وفادار ہیں اور آمدنی دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ انور سے بات کرنے کے بعد شہریار کے اندر خاصی خود اعتمادی آ گئی تھی۔
مولچند اپنے کام سے فارغ ہو کر آیا تو شہریار کو انور کے ساتھ بات کرتا ہوا پایا۔ یہ دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئی اس لئے کہ اس کے خیال میں گم صم ایک کونے میں بیٹھے رہنے والے کبھی بھی کامیاب تاجر نہیں بن سکتے تھے۔ تاجر پیشہ آدمی تو دن رات مواقع کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور لوگوں سے نت نئے گر ُسیکھتا رہتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ شہریار نے انور سے صرف اور صرف کاروبار کی بات کی ہو گی اور جو لوگ زمینی سطح پر کام کرتے ہیں ان کی تجربات کو حقیر نہ سمجھنا، ان کی جانب توجہ دینا اور اس سے فائدہ اٹھانا ہی کامیاب تاجر کی اجزائے ترکیبی ہیں۔ وہ دھرمندر کے حسنِ انتخاب سے خوش تھا حالانکہ دھرمندر نے تو صرف ارمندر کے کہنے پر شہریار کو یہاں آنے دعوت دی تھی۔
دوپہر کا وقت گزر چکا تھا شہریار کو بھوک لگ رہی تھی مگر وہ تکلف میں خاموش تھا۔ اپنے صالون سے نکلتے ہوئے مولچند نے دھرمندر کو فون کیا تو وہ بھی بھوک سے پریشان تھا فوراً باہر پارکنگ میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کو گاڑی میں لینے کے بعد مولچند نے چند فرلانگ کے بعد اپنی گاڑی کو روک کر پوچھا دیکھو شہریار وہ سامنے ساؤتھ ہال کا سب سے قدیم پچاس سال پرانا چودھری ہوٹل ہے اور یہ پیچھے نیا پاکستانی ہوٹل مرچ مصالحہ ہے اب مرضی تمہاری؟ آج چونکہ تم ہمارے اہم مہمان ہو اس لئے انتخاب کا حق تم کو ہے۔ شہریار بولا نہیں اس علاقہ کے بارے میں دھرمندر زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ دھرمندر بولا یار جانکاری کو گولی مارو اور جہاں چاہو جلدی چلو ورنہ میں بھوک سے مر جاؤں گا۔ ٹھیک ہے تو چودھری ہوٹل میں چلتے ہیں لیکن یہ اس کے پیچھے مینار کیسا ہے ؟ شہریار نے پوچھا۔ مولچند بولا یہ مسجد ابوبکر ہے۔ اچھا بہت خوب تو میں نماز پڑھ کر ابھی آیا تب تک آپ دھرم بھیا کو کچھ کھلائیں پلائیں۔
شہریار واپس آیا تو وہ دونوں پائے کا شوربہ پی رہے تھے۔ مولچند نے بیرے کو اشارہ کیا تو وہ فوراً شہریار کیلئے بھی لے آیا۔ مولچند بولا اس ہوٹل کا شوربہ ساری دنیا میں مشہور ہے سنا ہے کسی زمانے میں چودھری صاحب خود اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے تھے۔ شوربہ واقعی بہت خوب تھا اس کے بعد سیخ کباب اور مرغ و ماہی سے شغل ہوتا رہا آخر میں بریانی اور لسی پی کر جب وہ لوگ نکلے تو بس نیند کے علاوہ کچھ اور نہ بھاتا تھا۔ ابھی وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ رہے تھے کہ سشیل کا فون آ گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ تمام لوگ ایوسٹن پارک کے صالون میں جا رہے ہیں اور وہاں سے فارغ ہو کر گھر آئیں گے۔ مولچند بولا اس کی ضرورت نہیں ہم لوگ بھی وہیں آ جاتے ہیں پھر اگر وہ واپس جانا چاہیں تو ان کی مرضی اگر گھر آنا چاہیں تو فبہا۔
ایوسٹن پارک بھی ہندی و پاکستانیوں کا علاقہ تھا لیکن یہاں خاصے خوشحال لوگ آباد تھے اس لئے ان کی یہ شاخ کافی منافع میں چلتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں پر کام کرنے والا عملہ بھی ماہر تر تھا۔ ایوسٹن پارک میں صرف خواتین کا معاملہ تھا۔مردوں کے لئے آس پاس موجود کئی صالون کی مسابقت میں اپنی دوکان کھولنا مولچند نے مناسب نہیں سمجھا تھا۔ جب وہ لوگ اوپر کے حصہ میں موجود دفتر میں داخل ہوئے تو سوشیل اور ارمندر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ سشما کو پتہ چل گیا تھا اب اس کی ماں پپا کے ساتھ گھر آئیں گی اس لئے وہ کہیں اور نکل چکی تھی لیکن ایوان اور شہناز ندارد تھیں۔ شہریار نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ارمندر بولی فکر کرنے کی ضرورت نہیں دونوں نوجوان خواتین نیچے اپنے شباب کو نکھار رہی ہیں۔شہریار نے پوچھا شہناز بھی؟ سشیل بولی جی ہاں شاید تمہیں نہیں پتہ کہ اب شہناز لاہور کی الہڑ دوشیزہ نہیں بلکہ لندن کی میم بن چکی ہے۔
اپنی ملاقات کے آخری مرحلے میں مولچند کو شہریار کی باتوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے کاروبار کرنے کا ارادہ کر لیا ہے وہ اس سے کچھ اہم اور ضروری بات کرنا چاہتا تھا لیکن مسئلہ دھرمندر تھا جسے خوب جم کر نیند آ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کا کوئی حل نکالتا دھرمندر بولا یار ایک کام کر تو مجھے اپنی گاڑی کی چابی دے۔ مولچند بولا تو اب کہاں جائے گا ؟ کہیں نہیں تو مجھے چابی تو دے ؟ اچھا اگر کچھ بھول گیا ہے تو میں نوکر سے منگوا دیتا ہوں۔ دھرمندر بولا نا یار ایسی بات نہیں تو مجھے چابی دے میں گاڑی میں بیٹھ کر سو جاؤں گا۔ مولچند نے سوال کیا گاڑی میں بیٹھ کر؟ تجھے نیند آئے گی؟ ارمندر بولی بھائی صاحب آپ چابی دے دیں یہ اپنی زندگی میں جتنا بستر پر سوئے ہیں اس سے زیادہ گاڑی میں سوتے ر ہے ہیں انہیں بڑی اچھی نیند آئے گی۔ دھرمندر چابی لے کر نیچے گیا اور اے سی چلا کر سو گیا۔
مولچند بولا ہاں تو شہریار اب یہ بتاؤ کہ تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ ارادہ تو نیک ہے۔ بہت خوب مجھے تم سے یہی امید تھی۔ لو اب سنو میں تمہیں چند اندر کی باتیں بتاتا ہوں۔ میں ویسے تو بہت بک بک کرنے کیلئے بدنام ہوں لیکن دھندے کے یہ گُر میں نے ابھی تک کسی کو نہیں بتائے اس لئے کہ اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ تمہیں واپس جانے کے بعد سب سے پہلا کام تو یہ کرنا ہو گا کہ اپنی ٹیکسی کو فروخت کر دینا ہو گا۔ شہریار نے چونک کر پوچھا وہ کیوں ؟ مولچند بولا اس لئے کہ کاروبار کے اندر یکسوئی بہت ضروری ہے اور ابتدائی مراحل میں وہی کامیابی کی کنجی ہے ؟ انسان جب تک کہ اپنی پرانی کشتی کو نہ جلائے وہ نئے کاروبار کیلئے یکسو نہیں ہو سکتا میں نے بھی آج سے بیس سال قبل یہی کیا تھا۔ جس دن بزنس کا ارادہ کیاسب سے پہلے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
شہریار بولا ٹھیک ہے چلئے سمجھ لیجئے میں نے وہ کر دیا۔ بہت خوب مولچند خوش ہو کر بولا۔اب دوسرا کام یہ ہے کہ تم موقع کی جگہ تلاش کرو جہاں یہ کاروبار شروع کیا جا سکے۔یاد رکھو اس کام میں جگہ کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ کشادہ، صاف ستھری، پہنچنے کیلئے آسان اور پارکنگ کی سہولت والی ہونی چاہئے۔ شہریار نے تائید کی جی ہاں سمجھ گیا۔ مولچند مرحلہ وار کام سمجھا رہا تھا اس دوران میں اپنے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے کاغذات تیار کروا کر بھیجوں گا تم لائسنس کیلئے اسے جمع کرا دینا۔شہریار نے پھر تائید کی وہ بھی ٹھیک ہے وہسوچ رہا تھا کہ یہ سب تو ہو جائے گا لیکن وہ اس نئے کاروبار کو چلائے گا کیسے ؟ اس سوال کا جواب مولچند نے خود دے دیا۔ وہ بولا اس کے بعد میں تمہیں اپنے ایوسٹن پارک اور ساؤتھ ہال کے صالونوں میں نائب منیجر بنا دوں گا تاکہ تم کام کاج کی باریکیاں جان سکو۔ اب شہریار کی جان میں جان آئی وہ بولا جی ہاں یہ بہت ضروری ہے۔
مولچند نے کہا میں جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ تم بہت جلد سب کو پیچھے چھوڑ دو گے اس لئے کہ میں تمہاری خاص تربیت و نگرانی کروں گا۔ شہریار بولا شکریہ جناب آپ کا بہت شکریہ۔ اس میں شکریہ اور مہربانی کی کوئی بات نہیں یہ میری کاروباری ضرورت ہے جسے میں پورا کروں گا تم پر کوئی احسان نہیں کروں گا کیا سمجھے ؟ شہریار بولا جی ہاں لیکن پھر بھی آپ کی نظر عنایت کا میں ممنون ہوں۔ مولچند بولا ایک زمانے میں مجھے شاعری کا شوق تھا لیکن اب یہ الفاظ میرے لئے بے معنی ہو چکے ہیں۔ سشیل نے بیچ میں کہا چونکہ اب تو یہ گونگے بہرے ہو چکے ہیں انہیں تو بس روپیوں کی جھنکار سنائی دیتی ہے۔ مولچند جھنجھلا کر بولا تم اپنا کام کرو۔ ہر پھٹے میں ٹانگ ڈالنے کی اپنی بری عادت سے باز آ جاؤ۔ ارمندر بولی بھائی میں اس کی طرف سے معافی مانگتی ہوں عورت ذات ہے کچھ نہ کچھ تو بولے گی نا۔ سشیل بولی معذرت کی ضرورت نہیں ارمندر میں تو بولوں گی یہ میرا بنیادی حق ہے اور یہ اس میں دخل اندازی نہیں کرسکتے۔
مولچند نے کہا اب میری آخری نصیحت سنو یہ کاروبار اصل میں خواتین کے سبب چلتا ہے اس لئے تمہیں ایک انگریز خاتون کو منیجر بنانا ہو گا۔ انگریز ؟ اس کی کیا ضرورت مانچسٹر تو ویسے ہی ہندی پاکستانیوں کی بستی ہے وہاں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے میچ میں اتنے لوگ نہیں آتے جتنے انڈیا پاکستان کے میچ میں آتے ہیں۔ جی ہاں مجھے پتہ ہے لیکن خود ہماری عورتیں بھی انگریزوں سے اس قدر مرعوب ہیں کہ جب انہیں پتہ چلتا کہ کام کسی سفید فام کی نگرانی میں کام ہو رہا تو وہ زیادہ قیمت ادا کرنے پر تیار ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے تمہاری تشہیر کا کام بھی بڑی آسانی سے ہو جائے گا۔ وہ ذرائع ابلاغ کے لوگوں سے بات چیت کرے گی۔ اس کی تصاویر اخبارات و اشتہار میں چھپیں گی۔اس کی وجہ سے کچھ مہنگے انگریز گاہک بھی آ جائیں گے۔ اس لئے تمہیں اس کو بھی تلاش کرنا ہو گا، ویسے میں بھی اس کام میں تمہاری مدد کروں گا۔ سشیل پھر بولی جی ہاں اس عمر بھی ان کی گوری خواتین سے بڑی دوستی ہے تمہارا کام ہو جائے گا۔
زینے پر قدموں کی دھمک کو سن کر اندازہ ہو رہا تھا کہ دھرمندر لوٹ کر آ رہا ہے۔ مولچند نے فوراً نوکر بلوا کر چائے بنانے کیلئے کہا دھرمندر بولا یار مولچند تم کمال کے آدمی ہو دوسروں کے دل کی بات جان لیتے ہو۔ مولچند نے ہنس کر کہا نہیں یار ایسی بات نہیں۔ سشیل بیچ میں بول پڑی یہ ان کے اپنے دل کی بات ہے۔ہر روز وہ اس وقت چائے پیتے ہیں آپ پیو نہ پیو۔مولچند بولا ہاں ہاں تو اس میں کیا غلط کرتا ہوں۔ سشیل بولی چائے میں نہیں غلط تو دل میں ہے۔ مولچند نے جواب دیا خیر اب ہم سب لوگ دل نہیں چائے پینے والے ہیں۔
زینے پر پھر سے ہلکی ہلکی دھمک سنائی دے رہی تھی ارمندر سمجھ گئی ایوان اور شہناز بھی فارغ ہو گئیں لیکن جب اس نے ان دونوں کو دیکھا تو ہکا ّبکاّ رہ گئی۔ شہناز نے بالکل انگریزوں کی طرح ہلکا پھلکا میک اپ کر رکھا تھا اور بال بھی ویسے ہی بنا لئے تھے جبکہ ایوان بالکل پاکستانی دیہاتی دوشیزہ کی طرح لال پیلی ہو رہی تھی۔ بال چال ڈھال اور لباس سب کچھ دونوں نے بدل لیا تھا۔ ہر مندر بولی ارے یہ کیا؟اتنی جلدی اتنا بڑا انقلاب؟ ایوان بولی وہ بات یہ ہوئی کہ شہناز میک اپ کیلئے تیار نہیں ہو رہی تھی تو میں نے کہا دیکھو میں اپنی نگرانی میں یہ کام اس طرح کرواؤں گی کہ کسی کو محسوس بھی نہیں ہو گا۔ اس پر شہناز نے کہا اگر ایسا ہے تو میں اپنی مرضی سے تمہارا میک اپ کرواؤں گی۔ اس طرح ہم دونوں تیار ہو گئے۔ جب میک اپ ہو گیا تو ہئیر ڈریسر نے کہا اب آپ لوگ کپڑے تبدیل کر لیں اس لئے کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھجچ نہیں رہا ہے۔ میں تیار ہو گئی تواسے بھی تیار ہونا پڑا۔
دھرمندر بولا یار اگر راستے میں کہیں تفتیش والے آ گئے تو میرا اور ارمندر کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ بغیر پوچھے سمجھ جائیں گے لیکن اگر تمہارے بارے میں پوچھا تو میں بتا دوں گا کہ یہ ایوان اس کی بیوی ہے اور شہناز مکان مالک ہے ٹھیک ہے۔ یہ سن کر ایوان شرم سے پانی پانی ہو گئی اور پیر کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔ شہناز بولی دھرم بھائی کبھی کبھار آپ بہت ہی بھونڈا مذاق کر دیتے ہیں۔ارمندر بولی کبھی کبھار ؟ میں تو کہتی ہوں ان کا مذاق ہمیشہ ہی ان کی طرح نہایت بے ہنگم ہوتا ہے میں تو بھئی تنگ ہوں اس آدمی سے۔ دھرمندر بولا عجیب لوگ ہیں یہ مذاق کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ مذاق تو بس مذاق ہوتا ہے اب اس میں بھونڈا کیا اور بے ہنگم کیا؟
سشیل نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا اب آپ لوگ گھر چلیں کھانا وغیرہ کھائیں۔ جب سے آپ لوگ آئے ہیں میں نے سکون سے بیٹھنے ہی نہیں دیا۔ جی نہیں سشیل آپ لوگوں سے مل کر بہت اچھا لگا ایوان بولی۔ شہناز نے کہا اور وہ آپ کی سشما تو کیا بتاؤں کہ وہ کتنی اچھی لڑکی ہے۔ وہ بولتی ہے تو ایسا لگتا ہے اس کے ہونٹوں سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ مولچند نے کہا بالکل میری طرح آخر بیٹی کس کی ہے ؟ سشیل بولی آپ کی زبان سے پھول کہاں پتھر برستے ہیں اور پتھر بھی ایسے کہ ایک ہی کنکر میں انسان کا کام تمام ہو جائے۔ جی ہاں اسی لئے تمہارا نہ جانے کتنی بار پونر جنم ہو چکا ہے مولچند بولا۔
ایوان نے کہا کل صبح مجھے جلد دفتر جانا ہے اگر آپ لوگ اجازت دیں تو ہم یہیں سے نکل جائیں اس لئے کہ فاصلہ کافی ہے موسم کا کیا اعتبار کب خراب ہو جائے ؟ شہناز نے کہا جی ہاں ابھی تو دوپہر کا کھانا سینے پر ہے اوپر سے اور کھانا مشکل ہی ہے اس لئے اگلی بار انشا ء اللہ۔ شہریار بھی تائید میں تھا۔ دھرمندر بولا لیکن شہریار دو ڈھائی گھنٹے بعد راستے میں کہیں روکو گے تو سہی نا؟ جی ہاں ضرور اور وہ سب چائے سے فارغ ہو کر نیچے آ گئے۔ واپسی کا نہایت خوشگوار سفر کب ختم ہوا پتہ ہی نہ چلا۔
۲۱
شہریار نے اگلے دن ایوان کو دفتر لے جاتے ہوئے پوچھا مولچند کے کاروبار کی بابت تمہارا کیا خیال ہے ؟ ایوان سوچ میں پڑ گئی کہ آخر اس اوٹ پٹانگ سوال کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟کچھ دیر سوچ کر وہ بولی نیک خیال ہے۔ یہ نیک خیال کیا ہوتا ہے ؟ ایوان مسکرا کر بولی نیک خیال نیک ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے ؟ جی ہاں میں جانتا ہوں سوال نیکی یا بدی کا نہیں بلکہ کاروبار کا ہے۔ ایوان بولی اچھا میں تو سمجھ رہی تھی کہ سوال خیال کا ہے۔ شہریار بیزار ہو کر بولا آج تمہیں کیا ہو گیا ہے ایوان تم الفاظ سے کیوں کھیل رہی ہو؟ ایوان بولی بات دراصل یہ ہے کہ اس کاروبار کے بارے چونکہ میری کوئی معلومات نہیں ہے اس لئے کوئی خیال بھی نہیں ہے۔ ہاں ان لوگوں کے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتی ہوں کہ وہ شریف النفس اور مہمان نواز بندے ہیں۔ جی ہاں تمہارا یہ خیال بہت اہم ہے بلکہ کاروبار سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
ایوان کو شہریار کی بے ربط باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں اس نے کہا بھئی ان کا دھندہ ان کے پاس ہماری ملازمت اپنے پاس اب کوئی کسی کے بارے کیا خیال کرے اور کیوں کرے ؟ شہریار بولا تمہاری بات درست ہے ایوان لیکن اگر کسی کو کسی کے ساتھ کوئی کاروبار کرنا ہو تب تو خیال کرنا چاہئے یا نہیں ؟ کیوں نہیں ضرور کرنا چاہئے ایوان بولی۔ تو یہ سمجھ لو کہ میں مولچند کے ساتھ مل کر وہ کام کرنے جا رہا ہوں۔ ایوان یہ سن کر چونک پڑی۔ وہ بولی بہت خوب مبارک ہو۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ اب میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔ جی نہیں ایوان تم بہت کچھ کرسکتی ہو۔ اچھا اگر ایسا ہے تو مجھے کہنا چاہئے میں اس سے زیادہ جو کرسکتی ہوں وہ نہیں جانتی۔ جی ہاں ایوان تم نے بالکل درست کہا۔
ایوان چونکہ پوری طرح تاریکی میں تھی اس لئے وہ قیاس آرائی میں لگ گئی کہ آخر شہریار کی بات کا کیا مطلب ہے ؟ شہریار بولا کیا سوچ رہی ہو ایوان ؟ کچھ نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا، تمہارے چہرے کے تاثرات بتلا رہے ہیں کہ تم کچھ سوچ رہی ہو؟ جی ہاں میں کچھ سوچ تو رہی ہوں لیکن کیا سوچ رہی ہوں یہ واضح نہیں ہے۔ شہریار نے کہا اچھا اب تم میری بات غور سے سنو سب کچھ تمہاری سمجھ میں آ جائے گا۔ اس کے بعد شہریار نے ایوان کے سامنے مولچند سے ہونے والی باتوں کا خلاصہ رکھ دیا۔ ایوان کی رگوں میں یہودی خون دوڑ تا تھا وہ جانتی تھی کہ تجارت کوئی بچوں کا کھیل یا ٹیکسی چلانے جیسا آسان کام نہیں ہے۔
ایوان نے پوچھا شہریار تم جو تجارت کرنے جا رہے ہو کیا اس کے اجزائے ترکیبی سے واقف ہو؟ شہریار بولا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم کو بتا چکا اب تم بتاؤ کہ اس سوال کی وجہ کیا ہے ؟ ایوان بولی مجھے تمہاری گفتگو میں دو بنیادی سوالات کے جواب نہیں ملے اس لئے میں نے یہ سوال کیا ہے۔ اچھا وہ کون سے سوالات ہیں ؟ ممکن ہے ان کا جواب مولچند نے مجھے دیا ہو اور میں تمہیں بتانا بھول گیا ہوں۔ دیکھو شہریار میری معلومات کے مطابق کسی بھی کاروبار کی گاڑی دو پہیوں پر چلتی ہے۔ ایک مہارت اور دوسرے سرمایہ اس بارے میں کیا انتظام ہے ؟
جی ہاں ایوان تم نے نہایت بنیادی باتوں کی جانب توجہ دلائی اور میرے ذہن میں بھی یہی دوسوالات کلبلاتے رہے یہاں تک کہ مولچند نے بغیر پوچھے ان کا جواب دے دیا۔ اچھا وہ کیا؟ مولچند نے کہا کہ وہ چاہتا ہے اس کاروبار میں کم از کم میری پانچ فیصد سرمایہ کاری ہو جو مجھے اس کے تئیں سنجیدہ رکھے۔ میں نے اس کی تائید کی اور اس گاڑی کو فروخت کرنے کے بعد اس سے جو بھی رقم ہاتھ آئے گی میں اس میں جھونک دوں گا۔ ایوان بولی بہت خوب اور باقی سرمایہ مولچند لگائے گا؟
شہریار نے تائید کی اور بولا جی ہاں زمین جائداد جو وہ خریدے گا اس کے اپنے نام پر ہوں گے۔ میرا منافع ۲ فیصد ہو گا اور جب تک کاروبار میں منافع شروع نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ مجھے تنخواہ دے گا۔ ایوان نے سوال کیا منافع کی کوئی شر ح طے ہوئی ہے جس پر تنخواہ بند ہو جائے گی ؟ جی ہاں جب منافع میں میرا حصہ تنخواہ کی رقم سے تجاوز کر جائے گا اسی وقت سے تنخواہ کے بجائے منافع ملنے لگے گا۔ یہ تو نہایت معقول شرائط ہیں ایوان نے کہا۔ شہریار بولا لیکن اس نے ایک نامعقول مطالبہ بھی کر دیا۔ وہ کیا؟اس کے مطابق اس کاروبار کی نوعیت کا تقاضہ ہے کہ اس میں نگراں کے طور پر ایک سفید فام خاتون کا تعین لازمی ہے۔ ابتداء میں ہماری آمدنی اس قدر کم ہو گی کہ انگریز ملازم رکھنا ناممکن ہو گا۔اس وقفہ میں کیا عارضی طور تم اس ذمہ داری کو ادا کرسکو گی؟
ایوان کو شہریار کی حماقت پر ہنسی آ گئی۔ وہ بیوقوف نہیں جانتا تھا کہ وہ کس درجہ کی ڈیزائنر ہے اور اس کی اچھی خاصی ملازمت ہے اب یہ سب چھوڑ چھاڑ کر کسی نئے میدان میں کم تنخواہ پر آنا تو معاشی خودکشی کے مترادف تھا۔ایوان نے سوچا کہ اگر وہ اس طرح کھری کھری سنا دے گی تو شہریار کا دل ٹوٹ جائے گا۔ وہ بولی شہریار یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ میرے کئی مسائل ہیں۔جوناتھن کا معاملہ فیصلہ کن مراحل میں ہے۔ بنجامن کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ شہریت کے اپنی دقتیں ہیں اس لئے مجھے اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کر کوئی اقدام کرنا ہو گا۔ تم مجھے اس کیلئے وقت دو۔ ایوان کا خیال تھا اس طرح وقت کے ساتھ یا تو شہریار کا بخار اتر جائے گا یا اسے کوئی انگریز خاتون اس کام کیلئے مل جائے گی اور اس کے سر سے بلا ٹل جائے گی۔
ایوان اپنے دفتر پہنچ چکی تھی اس کا جواب ہوا میں معلق تھا نہ مثبت تھا نہ منفی لیکن شہریار نے اسے مثبت لیا جبکہ ایوان کے دل میں انکار تھا شہریار نے سوچا آج نہیں تو کل ایوان کی سمجھ میں تجارت کے فائدے آ جائیں گے اور وہ ملازمت کو لات مار دے گی۔ دفتر میں آ کر جب ایوان نے اپنا کمپیوٹر کھولا ماریہ کا میل اس کا منتظر تھا۔ ماریہ نے پولینڈ اور وارسا کے بارے میں بہت ساری باتیں لکھیں تھیں جن میں سب سے اہم معاشی بحران کی تفصیل تھی جو دن بدن خطرے کے نشان سے اونچا ہوتا جا رہا تھا اور کب پورے ملک کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا اس کے بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کا بازار گرم تھا۔ عوام و خواص دونوں میں اس بابت پر بڑی مایوسی پائی جاتی تھی۔
اس خط کو ختم کرنے کے بعد سب سے پہلے تو ایوان نے اپنی پیٹھ تھپتھپائی کہ اس نے حالات کے اس قدر بگڑنے سے قبل ہی کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ جوناتھن کو پولینڈ کے بجائے اسرائیل روانہ کیا اور اب شہریت کا ایسا چکر چلایا کہ اگراس میں کامیابی مل جائے تو کبھی مڑ کر پولینڈ کی جانب نہ دیکھے۔اپنی ذات کے حصار سے نکل کر جب ایوان باہر آئی تو اس نے سوچا کہ آخر ماریہ کو اتنی طول طویل رام کہانی لکھنے ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیا اس کا مقصد ایوان کو اپنی دوراندیشی پر مبارکباد دینا ہے ؟ نہیں ایسا کوئی عندیہ اس برقی خط میں نہیں تھا بلکہ یہ تو ایک درد بھری داستان ہے جس کا دائرۂ کار ذات سے نکل کر کائنات تک پھیل جاتا ہے۔
ایوان کے سامنے خط کا مقصد واضح ہونے لگا تھا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ ماریہ کے داخلی کرب کا اظہار ہے جسے اس نے الفاظ کا ایسا جامہ پہنایا کہ حقیقت پس پردہ چلی گئی۔ ایوان اب اپنی چہیتی سہیلی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ وہ کس طرح اس کی مدد کرسکتی ہے ؟ اتنے میں اس کے منیجر کا فون بجا۔ دس منٹ بعد ایک فوری میٹنگ تھی جس میں اس کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ ایوان نے فوراً اپنا میل بکس بند کیا اور ان کاموں کی فہرست دیکھنے لگی جن کی تکمیل نہیں ہوئی تھی مبادا ان میں سے کسی پر گفتگو نکل جائے۔
یہ نشست ایک نئے پراجکٹ کیلئے بلائی گئی تھی جو خاصہ نفع بخش ہونے کے ساتھ بہت قلیل المدت تھا اس لئے اس کی تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی۔ کاموں کو تقسیم کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ تمام کم اہم کاموں کو کنارے کر کے ساری توجہ اس پر مرکوز کی جائے ساتھ ہی اس کی کامیابی پر خصوصی بونس کا اعلان بھی کیا گیا۔ کمپنی کے سارے ملازم جانتے تھے کہ یہاں بونس کی کوئی شرح ابتداء میں بتلائی نہیں جاتی اور کام نکل جانے پر جو کچھ دیا جاتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ سے زیادہ نہیں ہوتا۔یہاں پر بونس عملہ کی حوصلہ افزائی کے بجائے مایوسی میں اضافہ کا سبب بنتا تھا۔ میٹنگ سے آنے کے بعد کام کا جنون کچھ ایسا سوار ہوا کہ کب دن ڈوبا اور شام ہوئی پتہ ہی نہیں چلا۔
شہریار پر بھی کاروبار کا بھوت سوار تھا۔ گھر واپس ہوتے ہوئے اس نے جیسے ہی اپنا مسئلہ یاد دلایا ایوان کے ذہن میں فوراً ماریہ کا خیال آیا۔ اس نے سوچا ویسے تو یہ دو الگ الگ مسائل ہیں لیکن اگر انہیں یکجا کر دیا جائے تو ممکن ہے یہ دونوں ایک دوسرے کا حل بن جائیں ؟ بس پھر کیا تھا اس نے ماریہ کیلئے سماں بندھنا شروع کر دیا۔وہ بولی دیکھو شہر یار میں تمہیں بتا چکی ہوں فی الحال میرے لئے اس ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرنا ناممکن ہے لیکن اس کا ایک حل میرے پاس ہے۔ میں سمجھ گیا اب تم کیا کہو گی؟ اچھا مجھے تو بھی تو پتہ چلے کہ تمہارا قیاس کس قدر درست ہے ؟ تم کہو گی کہ میں شہناز کو اس کام کیلئے راضی کر لوں گی لیکن وہ بھی ممکن نہیں ہے۔ میں نے شہناز سے بلاواسطہ گفتگو کی کہ مولچند کہہ رہا تھا کہ کیا تم کسی طور پر میرا ہاتھ بنٹا سکتی ہو؟ اچھا تو اس نے کیا کہا۔ اس نے صاف انکار کر دیا وہ بولی میں اپنے گھر میں خوش ہوں اور پھر وہ سفید جلد کا بھی تو مسئلہ ہے۔
شہناز کے جواب سے شہریار تو مایوس ہوا لیکن ایوان خوشی ہو گئی۔ وہ بولی شہریار اگر ایسا ہے تو میں ایک اور حل تجویز کروں ؟ کیوں نہیں۔ میری ایک سہیلی ہے ماریہ۔ اچھا ؟ کیا وہ تمہارے دفتر میں کام کرتی ہے ؟ نہیں ! وہ یہاں پر نہیں بلکہ پولینڈ میں ہے۔ پولینڈ میں !!!تب پھر اس کا کیا فائدہ؟ بھئی میں بھی تو پولینڈ میں تھی؟ شہناز تو اس سے بھی آگے پاکستان میں تھی۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ شہریار سوچنے لگا واقعی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس نے پوچھا وہ کیا کرتی ہے۔ وہ! وہ تجارت کرتی ہے۔ تو کیا وہ اپنی تجارت بند کر کے آ جائے گی؟ ایوان مسکرا کر بولی کیوں نہیں ؟ اگر تم بلاؤ تو میں باغِ بہشت سے لوٹ آؤں۔
شہریار کو ایوان کا اس طرح بات بدل دینا پسند نہیں آیا۔ وہ بولا ایوان مذاق چھوڑو یہ سب کہنے سننے کی باتیں ہیں تم یہ منحوس مانچسٹراسپننگ مل بھی میرے لئے نہیں چھوڑ سکتیں تو کہاں باغِ بہشت اور پھر ہم جیسے گناہ گاروں کو وہاں داخلہ ہی کب ملے گا؟ ایوان نے کہا شہریار لگتا ہے ہم لوگ بہت دور نکل گئے۔ میں ماریہ کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ اگر تم کہو تو میں اس کو راضی کرنے کی کوشش کروں۔لیکن کیا وہ کم تنخواہ میں ۔۔۔ جی ہاں شہریار جو لوگ نئے نئے آتے ہیں وہ اس قدر دباؤ میں ہوتے ہیں کہ کم سے کم معاوضہ پر کام کیلئے تیار ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں ابتداء میں یہ تنخواہ کم نہیں لگتی۔ وہ تو جب اخراجات کا پتہ چلتا ہے تو یہ سکڑ کر مختصر ہو جاتی ہے۔
شہریار نے پوچھا تمہاری بات درست ہے ویسے تمہاری یہ سہیلی کس چیز کا کاروبار کرتی ہے ؟ پالتو چڑیوں اور مچھلیوں کا جنہیں گھر میں آرائش و زیبائش کا سامان بنا کر رکھا جاتا ہے۔لیکن اس کا ۔۔۔ شہریار کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ایوان بولی شہریار تجارت تو آخر تجارت ہے گھر کی آرائش اور چہرے کی زیبائش میں کوئی خاص فرق نہیں ہے دونوں کے پسِ پشت نمائش کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ شہریار نے پوچھا تو کیا میں اس بابت پہلے مولچند سے بات کروں ؟ ایوان بولی دیکھو شہریار اگر تم کامیاب تاجر بننا چاہتے ہو تو میری دو باتیں گرہ میں باندھ کر رکھ لو کام آئیں گی۔
شہریار نے سوال کیا اچھا وہ کیا؟ کسی بھی کامیاب تاجر کیلئے خود اعتمادی سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے اور جو خطرات سے کھیلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے انہیں تجارت نہیں ملازمت کرنی چاہئے۔ شہریار نے کہا شکریہ ایوان لیکن اس کا نفسِ مسئلہ سے کیا تعلق؟ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر تم ہر چھوٹی بڑی بات مولچند سے پوچھتے رہو گے تو اس کے فرمانبردار نائب تو بن جاؤ گے لیکن برابر کا شراکت دار نہیں بن سکتے۔ اس کے علاوہ جب تک تم فیصلے خود نہیں کرو گے ان کو کامیاب کرنے کیلئے جان کی بازی بھی نہیں لگا سکوگے۔ تمہارے پاس الزام دینے کیلئے مولچند موجود رہے گا۔ سوچوگے میں نے تو پوچھا تھا۔ اس نے منع نہیں کیا۔ یہ ہم جیسے ملازمت پیشہ لوگوں کی ذہنیت ہے تاجروں کی نہیں۔
ایوان کی حکمت بھری باتوں نے شہریار کواس کا گرویدہ بنا لیا تھا۔ وہ بولا ایوان میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اس قدر گہری فکر کی حامل ہو میرے خیال میں تو مولچند بھی تمہارے سامنے طفل مکتب ہے۔ نہیں شہریار باتیں بنانا بہت آسان ہے لیکن مولچند تو میدان کا کھلاڑی ہے اور اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑ چکا ہے۔ شہریار بولا لیکن ایوان مجھے یقین ہے کہ جب تم میدان میں اترو گی تو تمہارا عَلم مولچند جیسوں سے بلند ہو گا۔ ایوان بولی یہ چمتکار کب ہو گا کوئی نہیں جانتا لیکن تم نے مبارک قدم آگے بڑھا لیا ہے اس لئے میں یقین کے ساتھ تمہارے بارے میں یہ پیشن گوئی کر سکتی ہوں۔
اس روز رات میں شہریار کے ای میل بکس میں مولچند کی جانب سے بھیجا گیا ایک خط موجود تھا جس میں اس کو نائب منیجر کے عہدے پر فائز کئے جانے کی خوشخبری دی گئی تھی اور لندن میں آ کر اپنا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس خط کو دیکھنے کے بعد اس نے سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس کے بعد مولچند کو فون لگا کر اس کو شکریہ کہا۔ مولچند نے اسے جلد آنے کی تلقین کی اور بتایا کہ اس کی رہائش کا انتظام کیا جا چکا ہے۔ شہریار بولا وہ خود بھی جلد از جلد آنے کا مشتاق ہے مگر چاہتا ہے کہ پہلے گاڑی سے نجات مل جائے اور دوکان کیلئے کسی مناسب مقام کا تعین ہو جائے تاکہ وہ لندن میں یکسو ہو سکے۔ مولچند نے تائید کی اور کہا کہ اپنی پیش رفت سے اسے آگاہ کرتا رہے۔ اب ہر روز کم از کم ایک بار ان کی اس موضوع پر گفتگو ہونی چاہئے۔ شہریار نے اس کا وعدہ کیا اور فون بند ہو گیا۔
مولچند سے گفتگو کرنے کے بعد شہریار کو سب سے پہلے اپنے عزیز دوست اور ہم زلف شارق کا خیال آیا اور وہ اس خبر کو لے کر شارق کے پاس پہنچ گیا۔ شارق یہ سن کر بے حد خوش ہو ا۔ خوب دل کھول کر مبارکباد دی اور کہا شہریار تجارت میں بڑی برکت ہے میں خود چاہتا تھا کہ تم اس جانب توجہ دو لیکن تمہیں تو اپنی گاڑی سے ہی فرصت نہ ملتی تھی خیر اب میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر تم چاہو تو گاڑی مجھے فروخت کر دو۔ ویسے جب تک تم یہاں مانچسٹر میں رہو گے وہ تمہارے پاس امانت کے طور پر رہے گی۔ اگر پانچ فیصد کی سرمایہ کاری میں کوئی کمی بیشی ہو تو مجھے بتانا میں وہ رقم فراہم کر دوں گا۔ تم کما کر سہولت سے لوٹا دینا۔ میری تو رائے ہے کہ تم بغیر وقت ضائع کئے پہلی فرصت میں لندن چلے جاؤ۔
شہریار نے نہایت عاجزی کے ساتھ شارق کا شکریہ ادا کیا اور بولا میں ساری عمر تمہارا احسانمند رہوں گا۔ تم نے نہ صرف میری لسانی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ عملی دستِ تعاون بھی دراز کیا ہے۔ تم میرے سچے رفیق و دمساز ہو۔ گلناز پردے کی اوٹ سے ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی۔ شارق جب بھی اس طرح کی ہمدردی و غمخواری کا مظاہرہ کرتا گلناز کا دل باغ باغ ہو جاتا لیکن اس بار تو معاملہ اس کی اپنی سگی بہن کے ساتھ تھا۔ شارق نے پھر ایک بار گلناز کا دل جیت لیا تھا۔ گلناز کی چائے چولہے پر جل چکی تھی اس نے دوبارہ چائے رکھی اور اپنے ساتھ کچھ نمکین و مٹھائی لے کر مہمان خانے میں آ گئی۔ شارق بولا یہ لو منہ میٹھا کرو تمہاری سالی تو انتر یامی ہے اسے سب کچھ پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ گلناز جھینپ کر بولی آپ تو کسی کے سامنے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں ذرا خیال نہیں کرتے۔ میں ابھی چائے لے کر آتی ہوں۔ شارق بولا ارے بیگم چائے نہیں کھانا لگاؤ مجھے بھی بھوک لگ رہی ہے۔
شہریار نے کہا نہیں چائے ٹھیک ہے میں گھر جا کر کھاؤں گا۔ شارق نے ہنس کر کہا اتنا نہ ڈرو شیر بنو۔ اگر شہناز بہت غراّئے تو کہہ دینا کہ گلناز نے اصرار کیا اس لئے کھانا پڑا۔ شہریار بولا گلناز نے کیوں شارق نے کیوں نہیں ؟ گلناز تو ویسے ہی چائے پلا کر بھیج رہی ہے۔ شارق ہنس کر بولا ارے بھائی شہناز کی بہن گلناز ہے میں نہیں ہوں سمجھا کرو۔ اسی لمحہ گلناز کمرے میں داخل ہوئی اور پوچھا کیوں ہم بہنوں کے خلاف کیا سازش رچی جا رہی ہے ؟ شارق بولا یہ کام ہم لوگوں نے خواتین کیلئے چھوڑ رکھا ہے۔ اچھا ؟؟؟ جی ہاں ٹیلی ویژن پر چلنے والے مشہور سیریل اٹھا کر دیکھ لو ان میں خواتین ہی ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ گلناز نے کہا میں تو کہتی ہوں یہ اپنے آپ میں بہت بڑی سازش ہے۔ شارق بولا وہ کیسے ؟ میں نہیں سمجھا۔ گلناز نے کہا آپ نہیں سمجھیں گے۔ دراصل ان ڈراموں کے لکھنے والے سارے مرد ہیں اور وہ ہمیں بدنام کرنے کیلئے یہی سب لکھا کرتے ہیں۔
شہریار بولا بھئی لکھنے والوں کا کیا قصور ان کو دیکھنے والی تو ساری خواتین ہیں۔ اگر عورتیں انہیں دیکھنا چھوڑ دیں تو اپنے آپ وہ ڈرامے بند ہو جائیں گے اور ظاہر ہے جس طرح کے سیریل دیکھے نہیں جائیں گے اس طرح کے ڈرامے لکھے بھی نہیں جائیں گے۔ گلناز نے شارق کو مخاطب کر کے روہانسی آواز میں کہا دیکھا آپ نے کس طرح ظلم کی حمایت ہو رہی ہے۔ ہم لوگوں پر تو کسی رحم نہیں آتا۔ بہتر یہی ہے کہ یہ اپنے گھر جا کر کھانا کھائیں۔ شارق بولا لو تم نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی شہریار اب کچھ اور نہ بولنا ورنہ مجھے بھی بھوکا سونا پڑے گا۔ شہریار بولا یار میں تو یہی کہوں گا کہ گردن پر کلہاڑی مروانے سے اچھا ہے بندہ خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا دے۔ تو یہ میری چائے ہوئی ختم اور میں چلا۔
گلناز بولی وہ تو ٹھیک ہے لیکن جاتے جاتے میری سونی بہن کیلئے مٹھائی بھی تو لیتے جاؤ۔ شہریار نے دیکھا گلناز نے بڑا سا ٹفن اس کو تھما دیا۔ شہریار بولی اتنی ساری مٹھائی۔ گلناز بولی مٹھائی سے پہلے کھانا بھی تو کھانا پڑے گا۔ اس میں تم تینوں کا کھانا ہے۔ تین ؟؟؟ جی ہاں وہ تمہاری مکان مالکن ایوان۔ شہناز اس کے بغیر تو کھائے گی نہیں مجھے تو شک ہے کہ مجھ سے زیادہ اس کا خیال رکھتی ہے۔ شارق نے شہریار کو الوداع کیا اور گلناز سے پوچھا اب میرا کیا ہو گا؟ وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا۔ آپ یہ کریں کہ شہریار کے نئے کاروبار کی خوشی میں مجھے دعوت دیں اور لاہوری کھابے میں چل کر کھانا کھلائیں۔ شارق بولا یہ بھی خوب ہے مان نہ مان میں تیرا مہمان خیر طارق کو جلدی سے تیار کرو ہم لوگ چلتے ہیں شیرین محل یہ نیا ہوٹل ہے جس کے آج کل بڑے چرچے ہیں۔
۲۲
شہریار نے مولچند کو فون پر بتایا کہ جناب آج میرے پاس آپ کو سنانے کیلئے تین عدد خوشخبریاں ہیں۔ مولچند نے کہا بہت خوب نیک کام میں دیر کیوں جلدی جلدی شروع ہو جاؤ۔ شہریار بولا پہلی اہم خبر تو گاڑی کے بکنے کی ہے اور دوسرے ایک اسٹیٹ ایجنٹ سے مل کر میں نے تین مقامات منتخب کر لئے ہیں اب ان میں سے حتمی فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ مولچند نے کہا مجھے نہیں ہم دونوں کو۔ یہ ہمارا مشترکہ کاروبار ہو گا۔ شہریار بولا ٹھیک اور تیسرے یہ کہ میں نے ایک سفید فام خاتون کا بھی بندوبست کر لیا ہے۔ یہ سن مولچند سکتہ میں آ گیا۔ وہ بولا کیا؟؟؟ تم تو جیٹ سے بھی تیز چل رہے ہو۔ میں اس کیلئے بہت پریشان تھا تمہاری رفتار دیکھ کر مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ جلد ہی تمہارا جہاز مریخ پر اتر جائے گا۔ شہریار نے شکریہ ادا کیا اور فون رکھ دیا۔
شہریار کا اولین ہدف جگہ کا تعین اور دوسرا کام لائسنس کی درخواست کا جمع ہو جانا تھا۔ وہ لندن جانے سے قبل ان دو کاموں سے فراغت حاصل کر لینا چاہتا تھا۔جن تین مقامات کی تفصیل شہریار نے روانہ کی تھی ان پر لندن میں بیٹھ کر کوئی حتمی فیصلہ مولچند کیلئے مشکل ہو رہا تھا اس لئے اس نے مانچسٹر آنے کا فیصلہ کیا۔ مولچند کے آنے کی خبر سے دھرمندر اور ارمندر بے حد خوش ہوئے اور ان لوگوں نے اصرار کیا کہ اپنے ساتھ سشیل اور سشما کو بھی لے کر آئے۔ مولچند مرتا کیا نہ کرتا راضی تو ہو گیا مگر سشما نے بہانہ بنا کر معذرت کر لی اس لئے یہ طے پایا کہ مولچند اور سشیل دوپہر تک مانچسٹر پہنچ جائیں گے۔ سوشیل ارمندر کے پاس رک جائے گی اور شام میں دھرمندر کے یہاں کے دعوت ہو گی۔
شہناز کو جب اس کا پتہ چلا تو وہ ناراض ہو گئی۔ اس نے ارمندر سے احتجاج کیا اور سشیل کو راضی کر لیا کہ دوپہر کا کھانا وہ بے شک ارمندر کے ساتھ کھائے لیکن رات کی دعوت اس کے گھر پر ہو۔ ایوان یہ جان کر بہت خوش ہوئی اور اس نے ایک دن کی چھٹی لے لی۔ دعوت کے پہلے دن شہناز اور ایوان نے خاص طور پر خریداری کی اور یہ طے کیا کہ پاکستانی کے علاوہ پولش پکوان سے بھی مہمانوں کی ضیافت کی جائے۔ شہناز نے ارمندر کے ساتھ بیٹھ کر مدعوئین کی فہرست مرتب کی اور دھرمندر و شہریار کے علاوہ شارق کے بھی منتخب دوستوں کو بلایا گیا۔ دعوت والے دن شہناز کا ہاتھ بٹانے کیلئے گلناز بھی اس کے گھر آ گئی تھی۔ اس طرح گویا شہریار کے نئے کاروبار کے باقاعدہ اعلان اور جشن کی تیاری ہو گئی تھی۔
مولچند کا کہنا تھا اس دعوت میں زیادہ سے لوگوں کو بلایا جائے تا کہ دلکش دلہن ابھی سے چرچے میں آ جائے اور جب اس کا باقاعدہ افتتاح ہو تو کو ئی یہ نہ پوچھے کہ یہ کیا بلا ہے ؟ مولچند نے دبے الفاظ میں پیش کش بھی کر دی تھی کہ اگر زائد مہمانوں کی آمد کے سبب اخراجات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو اسے کمپنی کے تشہیر کے خرچ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ شہریار نے شکریہ ادا کر کے کہ اس سے معذرت کر لی اور بولا اس بار اسے ذاتی رکھا جائے اس لئے کہ شہناز، ایوان اور گلناز کا اس دعوت سے قلبی لگاؤ ہو گیا ہے۔ آئندہ اس طرح کی دعوت کسی ہوٹل میں رکھ کر اسے کمپنی کے کھاتے میں ڈال دیں گے۔ اس دعوت میں کچھ معززین شہر اور سیاسی و سماجی لوگوں کو بھی بلایا جائے گا تاکہ ذرائع ابلاغ کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔
مولچند کی آمد والے دن سارے لوگ مصروف تھے۔ دھرمندر اور شارق یہ کہہ کر اپنے کام پر نکل گئے تھے کہ تھے وہ شام کو جلد لوٹ آئیں گے۔ شہریار اور مولچند نے ایجنٹ کے ساتھ تینوں مقامات کو دیکھا اور ان کا موازنہ کرتے رہے۔ ہر ایک کے اپنے مثبت و منفی پہلو تھے جن کا بھرپور جائزہ لیا گیا اور بالآخر ان لوگوں نے فیصلہ کیا قلبِ شہر میں تعمیر شدہ نئے سرور مال میں ایک دوکان کرائے پر لے لی جائے۔ اس دوکان کا کرایہ نسبتاً زیادہ تھا لیکن کسی اور جگہ کو خریدنے میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے نجات مل جاتی تھی۔ شہریار یہی چاہتا تھا کہ ابتداء میں کم سے کم سرمایہ درکار ہو تاکہ اس کا حصہ اپنے آپ کم ہو جائے۔ وہ شارق کی یقین دہانی کے باوجود اس کے سامنے ہاتھ پسارنے سے گریز کر رہا تھا۔مولچند کا خیال تھا تشہیر اور ترسیل کے لحاظ سے مال کو دوسرے مقامات پر فوقیت حاصل ہے۔ پارکنگ و دیگر سہولیات لوگوں کو بڑی آسانی سے وہاں کھینچ کر لے آئیں گی اور چونکہ پورے مانچسٹر کے اندر کسی مال کے اندر وہ تنہا صالون ہو گا اس لئے گاہک اس کے نرخ کا موازنہ دیگرمسابقین سے نہیں کرے گا۔ یہاں پر زیادہ رقم خرچ کرنا اس کی طبیعت پر عار نہیں ہو گا۔
سرورمال اپنی تعمیر کے آخری مراحل میں تھا اور اس کی زیادہ تر دوکانیں کرائے پر اٹھی نہیں تھیں۔ مال کا مالک ایک سابق رکنِ پارلیمان چودھری ریاست علی سرور کا بیٹا شجاعت علی سرور تھا۔ چودھری ریاست علی اولین پاکستانی اور پہلے مسلمان تھے جنہیں برطانوی پارلیمان کی رکنیت کا اعزاز ملا تھا۔ ان کے بیٹے نے اپنے والد کی سیاسی وراثت پر تجارت کو ترجیح دے کر مانچسٹر میں زبردست مال تعمیر کیا تھا۔ شہریار سے شجاعت اس لئے بھی بڑی خوش خلقی سے ملا کہ وہ پاکستانی تھا نیز دلکش دلہن کے نام سے بھی وہ واقف تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ شمالی برطانیہ کے اندر اس کی اولین شاخ سرور مال میں کھلنے جا رہی ہے تو بہت خوش ہوا اس لئے کہ بعد میں آنے والے گاہکوں کیلئے بھی یہ باعثِ کشش ہو سکتا تھا۔ شہریار اور شجاعت پہلی ہی ملاقات میں ایک دوسرے اس قدر گھل مل گئے کہ اس نے شجاعت کو مع اہل عیال دعوت طعام میں بلا لیا۔ مولچند کو شہریار کے اس اقدام سے خوشی ہوئی اس لئے کہ اسے پتہ تھا ذاتی روابط کاروبار کے لئے بہت مفید ثابت ہوتے ہیں۔
ایوان، گلناز اور شہناز کی محنت رنگ لائی۔ دعوت زبردست رہی۔ سارے مہمانوں نے اس سے بہت لطف لیا۔ ایوان کے پکوان چونکہ اکثر و بیشتر لوگوں کیلئے نئے تھے اس لئے ان کی خوب پذیرائی ہوئی۔ لوگ خاص طور پر اس سے ملاقات کر کے اس کے مشرقی لباس، پولش پکوان اور حسنِ اخلاق کی تعریف کرتے رہے۔ لندن کے سفر نے اس کی شخصیت پر جو اثرات ڈالے تھے اس دن کی دعوت نے انہیں بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ ایوان کو ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا وہ ایک نئے معاشرے کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ اس دعوت میں ایوان کی کئی اجنبی لوگوں سے شناسائی ہو گئی تھی۔
دعوت میں سب حیرت انگیز کردار ایک فوٹوگرافر کا تھا جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے کس نے بلایا ہے ؟لیکن جب دوسرے دن اخبار جنگ کے لندن ایڈیشن میں مقامی خبروں کے صفحہ پر دلکش دلہن کی پارٹی والی خبر نے یہ راز کھول دیا اس لئے کہ اس خبر کے ساتھ سب سے بڑی تصویر مولچند اور شجاعت سرور کی تھی۔ ان کے علاوہ ایوان، شہناز، گلناز، سشیل اور ارمندر کی تصاویر بھی اخبار میں چھپی تھیں۔ ان تمام لوگوں کے ساتھ ایسا پہلی بار ہوا تھا اس لئے یہ پھولے نہیں سمارہے تھے لیکن سب سے زیادہ خوش اگر کوئی تھا تو وہ شہریار تھا۔ اس نے فوراً اخبار کے صفحات کی عکاسی کر کے مولچند کو روانہ کی اور وہ بھی خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔ یہ غیررسمی آغاز تمام توقعاتسے آگے نکل گیا تھا۔ مولچند اپنے چشم تصور میں شہریار کا روشن مستقبل دیکھ رہا تھا۔
ماریہ کی بابت شہریار نے محتاط رویہ اختیار کر رکھا تھا۔وہ ایوان کی توقعات بڑھانے کے بعد اسے مایوس اور اپنے آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا شہر یار کو اندیشہ تھا کہ مولچندمانچسٹر میں اپنے قیام کے دوران ماریہ کے سلسلے میں کھوج بین کرے گا اور ممکن ہے اس کی امیدواری کو اجنبیت کے سبب مسترد کر دے گا۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ مولچند نے کوئی اعتراض نہیں کیا تو اسے اطمینان ہوا۔ ایوان کو شہریار کی خاموشی سے تشویش ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود وہ خاموش تھی بالآخر شہریار نے دفتر جاتے ہوئے اس بات کو چھیڑا اور کہا کہ ماریہ اگر اس کام کیلئے تیار ہے تو اسے برطانیہ آنے کی دعوت دی جائے۔ اگر اسے کام کی تفصیلات درکار ہوں تو وہ شہریار سے رابطہ کرے اور ضروری ہوا تو مولچند سے اس کی گفتگو کرا دی جائے۔
ایوان یہ سن کر بے حد خوش ہوئی شکریہ ادا کیا اور بولی مجھے لگتا ہے اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جی ہاں ایوان میں جانتا ہوں اگر تم کسی کو سمجھانے پر تل جاؤ تو اسے کسی اور کی ضرورت نہیں۔ ایوان نے پھر ایک بار شکریہ ادا کیا۔ایوان نے شام میں ماریہ کو فون لگا کر کہا کہ وہ اپنا کام کاج سمیٹ کر برطانیہ آنے کی تیاری کرے۔ ملازمت اس کا انتظار کر رہی ہے۔ ماریہ نے پوچھا کام کیا ہے ؟ تو ایوان نے بتلایا یہاں ایک بہت بڑے بیوٹی پارلرسلسلے (چین) کی نئی شاخ کھلنے والی ہے جس میں اس کو منیجر کے فرائض انجام دینے ہیں۔ ماریہ نے جب یہ سنا تو اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔وہ بولی ایوان تم مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہی ہو میں تو سمجھ رہی تھی کہ تم سنجیدہ ہو۔ ایوان نے بتایا کہ وہ بالکل سنجیدہ ہے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ویسے بھی تمہیں تجارت کا تجربہ ہے نیز تربیت کا بھی اہتمام ہے۔ اس سلسلے کی چونکہ کئی شاخیں لندن شہر میں کامیابی کے ساتھ کارفرما ہیں اس لئے کوئی مشکل نہیں ہو گی۔
ماریہ مختلف وجوہات کی بناء پر اس قدر بیزار تھی کہ وہ کسی طرح نکل جانا چاہتی تھی۔ اس کیلئے ایوان کی یقین دہانی کافی سے زیادہ تھی اس لئے کہ وہ جانتی تھی ایوان معاشی معاملات میں بے حد سنجیدہ اور ذہین ہے۔اس معاملے میں وہ نہ اپنے آپ کوکسی خطرے میں ڈالے گی اور نہ اپنی پیاری سہیلی ماریہ کو۔ ماریہ کا پہلا مسئلہ اپنی دوکان کو کرائے پر چڑھانے کا تھا لیکن اس میں کوئی دقت اس لئے نہیں تھی کہ وہ چلتا ہوا کاروبار تھا گو کہ آمدنی بہت زیادہ نہیں تھی لیکن ماریہ کو اس سے بہت زیادہ کرایہ حاصل کرنے کی لالچ بھی نہیں تھی۔ وہ تو چاہتی تھی کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اس کی ماں اور چھوٹی بہن کے اخراجات کا بوجھ جزوی طور سے ہلکا ہو جائے اور باقی کمی کو وہ خود پورا کر دے۔
ماریہ کی فطرت ایوان سے متضاد تھی وہ بہت زیادہ آرزومند نہیں بلکہ قناعت پسند واقع ہوئی تھی اسی لئے اپنے مسائل کے سلسلے میں کبھی بھی ہیجانی کیفیت کا شکار نہیں ہوتی تھی۔ ایوان نے ماریہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ دوکان بیچ ڈالے اس لئے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اس سے حاصل ہونے والی رقم کی سرمایہ کاری کسی تعمیراتی منصوبے میں کر دے تاکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ ہو لیکن ماریہ کی سوچ مختلف تھی۔ اس تجارت کا اسے تجربہ تھا گاہکوں کے ساتھ ساتھ مال بیچنے والوں سے بھی اس کا رابطہ ہے۔ ماریہ چاہتی تھی کہ اگر برطانیہ میں کوئی اونچ نیچ ہو جائے اور واپس آنا پڑے تو کم از کم ایک سہارہ ایسا ہو جس پر گذر بسر ہو سکے۔دوکان چلتے رہنے میں اپنے لئے احتیاط کا سامان اور چلانے والے کا دو پیسے کا فائدہ تھا۔
ماریہ کی سب سے چھوٹی بہن کا بیاہ اپنے ایک دور کے رشتہ دار سے طے ہوا تھا جو اس کی دوکان چلانے کیلئے بخوشی راضی ہو گیا۔وہ تو چاہتا تھا کاروبار شراکت داری میں ہو لیکن ماریہ بولی حساب کتاب میں تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ کرایہ اس قدر مناسب طے کیا گیا اس کا ادا ہو جانا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ماریہ چونکہ شادی شدہ نہیں تھی اس لئے اس کے ازدواجی مسائل سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ اپنی بوڑھی ماں کو چھوٹی بہن کے حوالے کر کے ماریہ نے رختِ سفر باندھ لیا لیکن یہ سارے کام ہوتے ہوتے دو ماہ کا عرصہ کیسے بیت گیا پتہ ہی نہ چلا۔
٭٭
شہریار نے جب اپنے لندن منتقل ہونے کا اعلان کیا تو گلناز نے شہناز سے کہا کہ وہ تنہا رہنے کے بجائے اس کے گھر آ جائے۔ شہناز بولی میں اکیلی کب ہوں ؟ میرے ساتھ ایوان ہے اور پھر شہریار زیادہ سے تین ماہ کیلئے لندن جا رہا ہے اس کے بعد لوٹ آئے گا اس لئے اس دوران وہ کہیں اور جانے اور واپس آنے کے بجائے اپنے ہی گھر میں رہنا پسند کرے گی۔ شہریار نے جب یہ بات ایوان کو بتلائی تو وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے کہا ویسے شہناز نے اچھا ہی کیا جو از خود یہ فیصلہ کر دیا ورنہ مجھے زور زبردستی کر کے اسے روکنا پڑتا۔ گلناز اگر اس کی بہن ہے تو میں کب پرائی ہوں ؟ ہم لوگ ایک ماں باپ کی اولاد نہیں لیکن بہن بندی کا رشتہ اس کے بغیر بھی قائم ہو سکتا ہے۔ شہریار نے یہ بات شہناز کو بتلائی تو اس کی پلکیں نم ہو گئیں۔ وہ بولی مجھے ایوان سے یہی توقع تھی۔ میں بھی اسے اپنی بہن سے کم نہیں سمجھتی۔
ماریہ کی آمد سے ایک ماہ قبل شہریار لندن میں منتقل ہو چکا تھا۔ اس کا معمول یہ تھا کہ ہر جمعہ کی شام لندن سے مانچسٹر آ جاتا اور پیر کی علیٰ الصبح لندن کیلئے روانہ ہو جاتا۔ کسی دفتری کام کی صورت میں وہ یا تو جمعرات کو آ جاتا یا پیر و منگل کو رک کر اپنا کام نمٹا کر لندن نکل جاتا۔مانچسٹرمیں قیام کے دوران بھی وہ سنیچر کو دن بھر اپنی دوکان میں گزارتا تھا جہاں بڑھئی نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ شہریار کاروبار کی بابت غیر معمولی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔کبھی کبھار ہفتہ واری تعطیل کے سبب ایوان اور شہناز بھی اس کے ساتھ ہو جاتی تھیں۔
ایک سنیچر کو سرور مال میں دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے ایوان نے شہریار کو بتایا کہ آئندہ ہفتہ منگل کے دن اس کی سہیلی ماریہ لندن آنے والی ہے۔ شہریار نے کہا یہ منگل کے دن کی کیا تُک ہے بہتر تو یہ ہوتا کہ وہ سنیچر کو آتی تم دونوں بھی اس کے استقبال کیلئے پہنچ جاتیں مجھے بھی چھٹی ہو تی ہے۔ ایوان بولی وہ ذرا مذہبی قسم کی مخلوق ہے اور آج بھی یوم السبت کا اہتمام کرتی ہے اس لئے سنیچر کے دن کاروبار یا تجارتی سفر کو مناسب نہیں سمجھتی۔ اتوار عیسائیوں کا مذہبی دن ہے ؟ ارے بھئی جمعہ کو آ جاتی تو میں اسے تمہارے پاس لے آتا۔ جمعہ مسلمانوں کا مقدس دن ہے۔ شہریار بولا چونکہ ہم لوگ تجارت کو بھی عبادت سمجھتے ہیں اس لئے جمعہ کے دن کاروبار بند نہیں کرتے۔ ایوان بولی یہ میں جانتی ہوں ماریہ نہیں جانتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ممکن ہے وہ ابھی تک کسی مسلمان سے ملی بھی نہ ہو۔ شہریار بولا کوئی بات نہیں یہاں آئے گی تو سب جان جائے گی۔ ایوان بولی جی ہاں اور اس کی بہت ساری غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔ شہریار نے کہاجیسے کہ تمہاری دور ہو گئی ہیں۔
شہریار نے مولچند سے کہہ کر ماریہ کے ٹھہرنے کا انتظام کروا دیا اور یہ طے پایا کہ وہ پہلے دو ہفتہ ہیڈ آفس میں کام کر کے تربیت حاصل کرے گی اور اس کے بعد ماریہ کو یکے بعد دیگرے چاروں شاخوں میں بھیج کر تربیت سے گزارہ جائے گا۔ ماریہ کو ہوئی اڈے پر لینے کیلئے شہریار خود موجود تھا۔ ماریہ کی تصویر شہریار کے پاس تھی اس وجہ سے اسے تلاش کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ ماریہ اپنے حلیہ بشرے میں بھی ایوان سے بے حد مختلف تھی۔ نہایت دبلی پتلی اور سرو قد۔ وہ شکل و شباہت سے بے حد سنجیدہ نظر آتی تھی۔ اس کی اونچی ستواں ناک کے اوپر چڑھی ہوئی گول عینک کو دیکھ کر ایسا گمان ہوتا تھا کہ آثار قدیمہ سے نکال کر لائی ہے۔
ماریہ کے ساتھ نہایت قلیل سامان تھا ایسا لگتا تھا کہ کسی قریب کے مقام سے وہ چند گھنٹوں کیلئے یہاں آئی ہے۔ شہریار نے حیرت سے سوال کیا آپ کا سامان ساتھ نہیں آیا تو ماریہ نے اپنے ہاتھ میں لئے صندوق کی جانب اشارہ کر کے بولی نہیں تو ! یہ آپ میرے ہاتھ میں کیا دیکھ رہے ہیں۔ شہریار نے اسے لینے کی کوشش کی تو وہ بولی نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ میں کسی اور پر بوجھ بننا پسند نہیں کرتی۔ شہریار بولا اگر یہ بیگ آپ کے ہاتھ میں رہے گا تو میرے دل پر اس سے دس گنا زیادہ بوجھ رہے گا۔ ماریہ کو یہ جملہ کچھ عجیب سا لگا۔ وہ بولی واقعی؟؟؟ شہریار نے تائید میں سر کو جنبش دی۔
ماریہ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ اسے لے لیں۔ مجھے ایوان نے آپ کے بارے میں بتایا تو تھا لیکن ۔۔۔ شہریار بولا ایوان بیچاری جانتی ہی کیا ہے جو آپ کو بتائے۔ یہ کہہ کر اس نے صندوق لے لیا اور اس ہلکے پھلکے ساز و سامان کے ساتھ گاڑی تک پہنچ گیا۔ ماریہ حسبِ توقع پیچھے کی نشست پر بیٹھی۔ راستے بھر وہ خاموشی سادھے رہی۔ شہریار بھی کچھ نہ بولا۔ بالآخر شہریار نے گاڑی اس مکان کے سامنے روکی جہاں دلکش دلہن کا عملہ رہائش پذیر تھا اور ماریہ سے پوچھا کیا آپ ایوان سے بات کرنا پسند کریں گی۔ ماریہ نے کچھ سوچ کر کہا جی ہاں کیوں نہیں ؟ میں اپنے کمرے میں جا کر سب سے پہلا کام وہی کروں گی۔
شہریار بولا جی ہاں آپ وہ بھی کرسکتی ہیں لیکن اس صورت میں آپ کا فون پہلے وارسا جائے گا اور پھر لوٹ کر آئے گا۔ ایسا کرنے میں اسے خاصی زحمت ہو گی اور آپ کو اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ ماریہ نے کہا جی ہاں مجھے مواصلاتی نظام کی تھوڑی بہت معلومات ہے۔ شہریار نے کہا اگر آپ چاہیں تو یہ سِم کارڈ استعمال کریں۔ یہ مقامی ہے براہِ راست ایوان سے بات کروائے گا۔ ماریہ بولی شکریہ۔ ایک ملازم ماریہ کا سامان اوپر کمرے میں لے جا چکا تھا۔ شہریار نے کہا ویسے اس میں میرا نمبر بھی محفوظ ہے اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو تکلف کی ضرورت نہیں۔ ماریہ نے شکریہ ادا کیا اور خدا حافظ کہہ کر اوپر بالائی منزل پر چلی گئی۔ وہ سوچ رہی تھی واقعی ایوان نہیں جانتی۔ شہریار ویسا نہیں ہے جیسا کہ اس نے سمجھ رکھا ہے۔
ایوان سے گفتگو کے دوران ماریہ نے شہریار کی دل کھول کر تعریف کی۔ایوان نے پوچھا کیوں تمہارا ارادہ تو نیک ہے ؟ ماریہ بولی ایوان تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم ہر کسی کو اپنے جیسا سمجھتی ہو شہریار کو بھی اور مجھے بھی۔ ایوان بولی نہیں ماریہ میں کسی کو اپنے جیسا نہیں سمجھتی نہ تمہیں اور نہ شہریار کو لیکن اس کے باوجود تم دونوں کو ایک دوسرے سے بہت مختلف سمجھتی ہوں۔ ماریہ نے کہا تمہاری اس بات سے میں متفق ہوں، ہم تینوں کی اپنی منفرد شخصیت ہے جو ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہیں۔
ماریہ بولی ایوان فی الحال شہریار تمہارے حواس پر سوار ہے لیکن اب اس کا ذکر چھوڑو اور اپنی سناؤ۔ یہ بتاؤ کہ ہماری ملاقات کب اور کہاں ہو رہی ہے ؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جوناتھن کی کہانی کافی طویل ہو چکی ہے اب اسے سمیٹنے کا وقت آ چکا ہے۔ ایوان بولی جی ہاں مجھے بھی ایسا لگتا ہے اب ہمیں وہ آخری اقدام کر گزرنا ہو گا لیکن میں احتیاط کے سا تھ یہ کرنا چاہتی ہوں۔ یہ اچھا ہوا کہ تم آ گئیں ہم لوگ مل بیٹھ کر اس پر غور کرنے کے بعد وقت کا تعین کر دیں گے۔ ماریہ بولی یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ ہم لوگ کب اور کہاں ملیں گے ؟
ایوان نے جواب دیا دو دن صبر کرو۔ میں جمعہ کی شام تمہارے پاس آؤں گی ہم لوگ ہفتہ اور اتوار ساتھ گزاریں گے۔ اس دوران تفصیل سے بات کر کے آگے کا لائحۂ عمل طے کریں گے۔ جی ہاں ایوان میں تمہارا انتظار کروں گی مجھے کچھ خریداری بھی کرنی ہے۔ ایوان بولی دیکھو ماریہ میری رائے تو یہ ہے کہ کل شام تم خریداری کا کام نمٹا لو۔ ماریہ نے پوچھا کیوں ؟ تم میرے ساتھ خریداری نہیں کرنا چاہتیں۔ ایوان بولی نہیں میری اچھی سہیلی ایسی بات نہیں۔ دراصل میں لندن دوچار مرتبہ آئی گئی ضرور ہوں لیکن اس شہر کے بارے میں میری معلومات بہت کم ہے۔شہریار نہ صرف لندن سے اچھی طرح واقف ہے بلکہ وہ کسی گاڑی کا بھی بندوبست کر دے گا جس سے تمہاری آمدورفت آسان ہو جائے گی۔ ورنہ میں خود نہیں جانتی کہ ہم لوگ بس اور ٹرین سے کہاں مارے مارے پھریں گے۔ اگر تمہیں اس سے کہنے میں تکلف ہو تو میں کہہ دوں گی۔ وہ طے شدہ وقت پر تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔ ماریہ بولی نہیں اس کی ضرورت نہیں میں اپنی سہولت سے اسے بلا لوں گی۔
۲۳
شہریار کا فون بجا۔ اس نے دیکھا ایک نیا نمبر ہے۔ ہیلو کہنے پر سامنے سے ایک نسوانی آواز آئی۔ہیلو۔ شہریار نے سوچا یہ کون ہے ؟ کہیں کوئی گاہک تو نہیں لیکن کسی گاہک کا شام کے وقت اس طرح فون کرنا بھی عجیب بات تھی۔ شہریار نے پوچھا فرمائیے محترمہ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں ؟ سامنے سے جواب آیا شاید آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟ جی ہاں اگر آپ اپنا تعارف کرانے کی زحمت گوارہ کریں تو شاید ۔۔۔ میں ماریہ بول رہی ہوں آپ نے کہا تھا اگر کوئی ضرورت ہو۔ ماریہ! اوہو ماریہ معاف کرنا میں نے تمہیں سمِ کارڈ تو دیا لیکن نمبر فون میں محفوظ نہیں کیا۔میں معذرت چاہتا ہوں فرمائیے۔ ماریہ بولی مجھے کچھ ضروری اشیاء کی خریداری کرنی تھی میں نے سوچا اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرا تعاون کریں ورنہ ایسی کوئی جلدی بھی نہیں یہ کام بعد میں بھی ہو سکتا ہے۔
شہریار بولا جی نہیں میڈم ایسی بات نہیں۔ ماریہ بولی میڈم نہیں ماریہ۔ جی ہاں ! جی ہاں ماریہ بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کی رہائش سے کچھ فاصلے پر ہوں اس لئے مجھے پہنچنے میں تقریباً نصف گھنٹہ لگ جائے گا۔ماریہ بولی کوئی بات نہیں مجھے امید ہے کہ اب آپ میرا نمبر محفوظ کر لیں گے اور یہاں پہنچ کر مجھے فون کریں گے میں فوراً نیچے آ جاؤں گی۔ شہریار نے کہا جی ہاں ! جی ہاں میڈم جی ! جی نہیں ماریہ۔ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی۔فون بند ہو گیا شہریار سمجھ گیا ماریہ اسے اوپر آنے منع کر دیا تھا اور نیچے رک کر انتظار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ شہریار کپڑے بدل کر نکل پڑا اور راستے میں سوچتا رہا ماریہ اور ایوان میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ ایسا کیوں ہے ؟ لیکن اس سوال کا جواب نہ تو ماریہ سے مل سکتا تھا اور نہ اسے ایوان سے پوچھا جا سکتا تھا۔
ماریہ جب گاڑی میں بیٹھ گئی تو شہریار نے پوچھا کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ کو کہاں جانا ہے ؟ ماریہ بولی اگر جانتی ہوتی تو آپ کو زحمت کیوں دیتی؟ شہریار بولا نہیں ایسی بات نہیں میرا مطلب ہے کہ کیا آپ نے کسی کے مشورے سے کسی دوکان کا انتخاب کر لیا ہے یا ۔۔۔ جی نہیں میرا خیال ہے یہ کام آپ بہتر کر سکتے ہیں۔ بہت خوب اگر آپ یہ بتائیں کہ آپ کو کس طرح کی خریداری کرنی ہے تو مجھے آسانی ہو گی۔ مجھے روزمرہ کے استعمال کی چیزیں لینی ہیں۔ بہت خوب۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ آپ کو یہاں کے ایک بڑے مال میں لئے چلتا ہوں جہاں آپ کو اپنی ضرورت کا سارا سامان مل جائے گا۔ ماریہ نے کہا ٹھیک ہے۔
گاڑی میگا مال کی زبردست عمارت کے پارکنگ میں رکی تو ماریہ ڈر گئی۔اسے لگا کہ یہاں تو چیزیں بہت مہنگی ہوں گی۔ وہ اس شہر میں نئی تھی۔ اس کے پاس پاؤنڈ بھی زیادہ نہیں تھے اور یہ احمق اس مال میں لے آیا تھا۔ماریہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ؟ اور کیسے کہے ؟اس نے سوچا چلو ایک آدھ ضروری سامان لے کر لوٹ چلیں گے اور آخرِ ہفتہ میں ایوان کے ساتھ بقیہ خریداری کریں گے۔گاڑی سے اتر کر شہریار مال کی مرکزی لابی میں آیا ماریہ بھی اس کا تعاقب کر رہی تھی۔شہریار نے کہا میں یہاں انتظار کرتا ہوں۔ یہ کریڈٹ کارڈ آپ اپنے ساتھ لے جائیے اور واپسی میں رسید کے ساتھ مجھے واپس کر دیجئے۔ میں اس رسید کو دفتر میں جمع کرا دوں گا اور یہ رقم آپ کی تنخواہ میں سے کٹ جائے گی۔
ماریہ کچھ دیر تک خاموشی سے شہریار کو دیکھتی رہی پھر بولی اس کمپنی میں سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے یا صرف میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ شہریار نے جھوٹ کہا جی ہاں میڈم میرا مطلب ہے ماریہ کمپنی کا یہی طریقۂ کار ہے۔ آئندہ ہفتہ تمہارا اپنا کارڈ آ جائے گا اور اس پر جو بھی تم مہینے بھرمیں خرچ کرو گی وہ تمہاری تنخواہ میں سے منہا کر دیا جائے گا۔ لیکن ۔۔۔ ماریہ کچھ بولتے بولتے رک گئی شہریار سمجھ گیا اور بولا ایسا ہے کہ ہر کارڈ کی حد اس شخص کی تنخواہ کے مطابق ہوتی ہے اس لئے کوئی اپنی تنخواہ سے زیادہ اس پر خرچ نہیں کرسکتا۔ ماریہ بولی ٹھیک ہے ٹھیک ہے میں سمجھ گئی۔ وہ کارڈ لے کر اندر چلی گئی۔
ادائیگی کے حوالے سے ماریہ بے فکر ہو گئی تھی قیمتوں کے بارے میں ہنوز فکر مند تھی۔ ماریہ نے مختلف دوکانوں کا جائزہ لیا تو اس میں کارفور ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا نام بھی نظر آ گیا۔ وارسا میں وہ کبھی کبھار کارفور میں جایا کرتی تھی۔ وہ دوکان تو بڑی ہوتی تھی لیکن اس میں دام نہایت واجبی ہوا کرتے تھے بلکہ کچھ چیزیں تو عام دوکانوں سے بھی سستی مل جاتی تھیں۔ ماریہ کارفور کی جانب چل پڑی لیکن یہاں پہنچ کر اسے اندازہ ہوا کہ جو کارفور اس نے دیکھا تھا اس کے مقابلے یہ تقریباً دس گنا بڑا تھا۔ اس قدر وسیع و عریض دوکان ماریہ نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میگا مال کے اندر واقع کارفور کا شمار دنیا کے سب سے بڑے کارفور اسٹورس میں ہوتا تھا۔
ماریہ اس بات سے بہت خوش تھی کہ دوکان بہت بڑی تھی۔ گاہک بہت زیادہ تھے لیکن قیمتیں حسب توقع مناسب تھیں۔ اس نے سب سے پہلے ٹرالی لی۔اپنی جیب سے فہرست نکالی اور شروع ہو گئی۔ درمیان میں وہ ایسی اشیاء بھی اپنی ہاتھ گاڑی میں ڈالتی جاتی تھی جو اس کی فہرست میں نہیں تھیں۔ جب اپنی خریداری سے فارغ ہو کر وہ ادائیگی کیلئے قطار میں کھڑی تھی تو شہریار کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ یہ نہایت سیدھاسادہ نظر آنے والا شخص کس قدر ذہین اور درد مند تھا۔ اس نے نہ صرف بہترین مقام کا انتخاب کیا تھا بلکہ ا س کی سب سے بڑی مشکل کا بھی خیال کیا تھا۔ ادائیگی کے بعد گاڑی ڈھکیلتے ہوئے ماریہ اسی مقام پر آ گئی جہاں شہریار کو چھوڑ کر گئی تھی۔
شہریار اسے دیکھ کر قریب آیا اور پوچھا ساری خریداری ہو گئی یا ہنوز کچھ باقی ہے۔ ماریہ نے مسکرا کر کہا نہیں آج کیلئے یہ کافی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے بلا ضرورت بھی بہت کچھ خرید لیا۔ شہریار کو پہلی مرتبہ ماریہ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کے بعد پتہ چلا تھا کہ وہ مسکرانا بھی جانتی ہے۔ شہریار نے کہا نہیں ماریہ تم کوئی بلا ضرورت سامان نہیں لے سکتیں۔ کیوں ؟ ماریہ نے پوچھا۔ شہریار بولا جو الفاظ کے استعمال میں اس قدر کفایت شعار ہو وہ بھلا دولت کے معاملے میں فضول خرچ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ ماریہ بولی جی ہاں شہریار لوگ اس کا برا مانتے ہیں لیکن میں کیا کرسکتی ہوں ؟ میں فطرتاً کم گو ہوں۔
شہریار نے کہا مجھے اس بابت کوئی شکایت نہیں ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تم خاصی تھک گئی ہو اگر چاہو تو فوڈ کورٹ میں چل کر کچھ کھا پی لو۔ یہ دعوت میری طرف سے ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں نہیں چلوں گی۔ شہریار نے کہا پھر کیسے چلو گی ؟ اگر تم اس کا بِل بھی دفتر میں جمع کروا کر میری تنخواہ میں سے کٹوا دو تو میں چل سکتی ہوں۔ شہریار بولا ٹھیک ہے مجھے تمہاری شرط منظور ہے چلو چلتے ہیں۔ شہریار نے آگے بڑھ کر ٹرالی اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے ڈھکیلتا ہوا فوڈ کورٹ کی جانب چل پڑا۔ ماریہ اس کے پیچھے چل رہی تھی۔
وہاں پہنچ کر ماریہ نے دیکھا چہار جانب بے شمار طعام گاہیں سجی ہوئی ہیں جن میں بھانت بھانت کے پکوان بک رہے ہیں۔ لوگ اپنی ضرورت بتاتے ہیں قیمت ادا کرتے ہیں اور چند لمحہ انتظار کرنے کے بعد رسید دکھلا کر اپنا کھانا از خود کسی خالی میز پر لے جاتے ہیں۔ کھانے پینے کے بعد کاغذ کی طشتریوں اور گلاسوں کو وہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ماریہ خلافِ عادت کے ایف سی کی جانب بڑھی جو تلی ہوئی مرغیوں کیلئے مشہور تھی۔ نہ جانے کیوں اس کا دل چاہتا تھا کہ کچھ چٹ پٹا کھا یا جائے۔ شہریار نے بھی وہی پسند کیا۔شہریار اور ماریہ کے کھانے میں فرق صرف مرچوں کا تھا۔
کھانے کے دوران شہریار بولا ایک ٹکڑا اس میں سے بھی آزماؤ۔ ماریہ بولی ہم لوگ مرچیں نہیں استعمال کرتے۔ شہریار نے بتایا ایک زمانے تک برطانوی بھی یہی کہتے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ماریہ بولی ٹھیک ہے۔ اس بیچ ایوان نے ماریہ کو فون کر دیا اور پوچھا کیوں بھئی آج کا دن کیسا رہا۔ ماریہ بولی تم تو جانتی میں تجارت کرتی رہی ہوں اس لحاظ سے یہ میری زندگی میں ملازمت کا پہلا دن تھا۔ جی ہاں تو کیسی لگی ملازمت؟ ٹھیک ہی تھی کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ واقعی پھر بھی کچھ تو فرق رہا ہی ہو گا؟ شہریار کو اس جواب میں دلچسپی تھی۔ ماریہ کو اس کے ساتھ کام کرنا تھا اس لئے وہ اس کی نفسیات کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ ماریہ بولی فرق یہ ہے کہ پہلے میں اپنے فائدے کے لئے کام کرتی اب دوسرے کے منافع کیلئے۔لیکن اس میں تمہارا فائدہ بھی تو ہے ایوان نے پوچھا۔
ماریہ بولی ایوان منافع اور فائدے کا فرق تم نہیں جان سکتیں۔ ایوان نے پوچھا کیوں ؟ اس لئے یہ فرق وہی جان سکتا ہے جس نے ملازمت بھی کی ہو اور تجارت بھی۔ ایوان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اس لئے اس نے موضوع بدلتے ہوئے کہا اچھا یہ بتاؤ کیا کھانا کھا لیا؟ جی نہیں کھانا جاری ہے۔ اچھا مجھے بھی تو پتہ چلے کہ میری اچھی سہیلی لندن میں کیا کھا رہی ہے ؟ میں کے ایف سی کی مرغی کھا رہی ہوں۔ اوہو تم تو پہلے ہی دن کے ایف سی پہنچ گئیں بہت خوب، تمہیں وہاں کون لے گیا؟ ماریہ بولی تم تو جانتی ہی ہو کہ اس اجنبی شہر میں میرا صرف ایک شناسائی ہے۔ ایوان کیلئے یہ حیرت کا بہت بڑا جھٹکا تھا۔ اس نے کہا میں خلل اندازی کیلئے معافی چاہتی ہوں بعد میں فون کروں گی خدا حافظ۔ ماریہ نے بھی کہا خدا حافظ اور فون بند ہو گیا۔
ایوان فون بند کر کے سوچ رہی تھی یہ تو غضب ہو گیا شہریار کی اس طویل دوستی میں صرف دو مرتبہ اس نے شہریار کے ساتھ میں اکیلے میں کافی پی تھی۔ وہ بھی بڑی منصوبہ بندی کے بعد جبکہ ماریہ اس قدر کم گو اور گم سم ہونے کے باوجود شہریار کے ساتھ دعوت اڑا رہی تھی۔ ایوان کے لئے اس معمہ کو حل کرنا مشکل تھا۔ اس نے سوچا کہ جمعہ کی رات کو جب وہ ماریہ سے ملے گی تو اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرے گی۔
ایوان نے اپنا لندن جانے کا ارادہ آخری وقت تک شہریارسے پوشیدہ رکھا۔ وہ چاہتی تھی کہ شہریار حسبِ معمول مانچسٹر آ جائے اور ان کی گفتگو میں کوئی خلل اندازی نہ ہو۔ جب جمعہ کو دفتر جاتے ہوئے ایوان نے شہناز کو بتایا کہ وہ لندن جا رہی ہے تو شہناز بھی ساتھ چلنے کیلئے تیار ہو گئی۔وہ بولی نہیں یہ مناسب نہیں ہے۔ شہریار صرف دو دنوں کیلئے یہاں آتا ہے اور یہ اس کا حق ہے کہ تم یہیں رہو۔ شہناز بولی ایوان تم کتنی اچھی ہو۔ ایوان نے کہا شکریہ لیکن میری ایک گزارش ہے تم شہریار کو میرا منصوبہ نہ بتانا۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ اپنے آپ کو کسی زحمت میں ڈالے۔ شہناز بولی ایوان تم میرا اور ان کا کس قدر خیال رکھتی ہو۔ ایوان بولی انسان اپنوں کا خیال نہ رکھے تو کس کا خیال رکھے۔ شہناز جذبۂ احسانمندی سے دبی جا رہی تھی۔
ماریہ جس مکان میں رہتی تھی وہاں اس کے ساتھ دیگر ملازمین بھی رہائش پذیر تھے اس لئے لندن پہنچنے سے قبل ایوان نے ایک سستے سے ہوٹل میں دو دن کیلئے کمرہ مختص کرا لیا تھا۔ وہ جس مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتی تھی اس میں راز داری کوسب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ دونوں سہیلیاں وقت مقررہ پر ملیں اور بہت خوش ہوئیں ایک طویل عرصے کے بعد ان کی ملاقات ہو رہی تھی۔۔ ان کے درمیان صوتی، عکسی اور تحریری رابطہ تو بدستور قائم رہا تھا لیکن بہ نفسِ نفیس ملنے کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ان لوگوں نے رات کا کھانا ماریہ کے مکان پر کھایا اور اپنے ہوٹل چلے گئے۔
۲۴
ماریہ خاصی تھکی ہوئی تھی اس لئے سوناچاہتی تھی مگر ایوان کی آس پاس نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ایوان بولی ماریہ جوناتھن کے معاملے میں تم نے جو ترکیب سجھائی وہ تو واقعی لاجواب نکلی۔ ماریہ نے کہا شکریہ لیکن یہ کوئی نیا آئیڈیا نہیں ہے۔ اس طرح کا کھیل کئی فلموں میں دکھلایا جا چکا ہے۔ ایوان بولی میری نظروں سے کوئی ایسی فلم نہیں گزری حالانکہ میں تم سے زیادہ فلموں کی شوقین ہوں۔ ماریہ بولی جی ہاں ہو بہو ایسا تو میں نے کبھی نہیں دیکھا لیکن خط کے ذریعہ سے غلط فہمی کا پھیل جانا تو عام بات ہے۔ غلط فہمی کے سہواً پھیلنے اور قصداً پھیلانے میں بہت بڑا فرق ہے ماریہ۔ اس طرح کا گورکھ دھندہ کھڑا کر دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے اور ایسا چکر عشق و محبت کیلئے چلایا جاتا ہے تم نے طلاق کی خاطر ایک افسانے کو حقیقت بنا دیا۔
ماریہ بولی ایوان یہ نہ بھولو کہ ابھی تک یہ سب خیالی پلاؤ ہے۔ اس ڈرامہ کا پردہ گرا نہیں ہے اور آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایوان نے کہا جی ہاں ماریہ وہ تو اچھا ہوا کہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے سے قبل تم یہاں چلی آئیں اب یہ بتاؤ کہ ہمارا اگلا قدم کیا ہو؟ ماریہ نے کہا اگلا قدم چونکہ بہت اہم ہے اس لئے یہ بتاؤ کہ کیا تمہارے خیال میں شہریار کو اس ڈرامے پر یقین آ گیا ہے ؟ جی ہاں مجھے تو یہی لگتا ہے۔ جب سے میں نے اسے اپنا پاس ورڈ دیا ہے شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب اس نے میل نہ دیکھا ہو۔ کیا تمہاری اس سلسلے میں اس سے کوئی بات بھی ہوئی ہے ؟ جی نہیں احتیاط کے پیش نظر میں نے گریز کیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری جلد بازی سے اسے شک ہو جائے۔ لیکن وہ بھی تو بات چھیڑ سکتا تھا۔ جی ہاں لیکن چونکہ وہ بلا اجازت میرے میل بکس میں جھانکتا ہے اس لئے ممکن ہے من کا چوراس کے پیروں کی زنجیر بن گیا ہو۔
جی ہاں تمہارا تجزیہ درست ہے ماریہ بولی لیکن آج کل شہریار نئے کاروبار کے سلسلے میں خاصہ سنجیدہ ہے۔ ایسے میں وہ دوسری شادی کے جھمیلے میں پڑنے سے گریز تو نہیں کرے گا؟ ایوان نے کچھ سوچ کر جواب دیا ہو سکتا ہے لیکن دوکان کی آرائش و زیبائش میں اب دو ہفتہ سے زیادہ کا وقت نہیں لگے گا۔ اس کے بعد تو اسے مانچسٹر آنا ہی ہو گا۔ دو ہفتہ تو کوئی زیادہ وقفہ نہیں ہے ماریہ بولی لیکن یہ بتاؤ اس کی بیوی شہناز تو کوئی ہنگامہ نہیں کھڑا کرے گی۔ ایوان نے کہا مجھے امید تو نہیں لیکن پھر بھی آخر وہ ایک عورت ہے اور اس کی بہن گلناز تو زہر کی پڑیا ہے۔ مجھے شہناز سے زیادہ اس سے ڈر لگتا ہے۔ ماریہ بولی نہیں ایوان اگر شہناز سمجھداری کا ثبوت دیتی ہے تو گلناز کچھ نہیں کرسکتی اور اگر وہ خود پاگل پن پر اتر آتی ہے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ شہریار اس نکاح کو صیغۂ راز میں رکھے گا یا شہناز کو بتلائے گا؟
ایوان بولی یقین کے ساتھ تو میں نہیں کہہ سکتی مگر میرا گمان یہ ہے کہ وہ اس کو اعتماد میں لئے بغیر یہ اقدام نہیں کرے گا۔ ماریہ بولی یہ تو خطرناک بات ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اگر وہ اعتماد میں نہیں آئی تو؟ اس کا امکان کم ہے۔ سوال کم یا زیادہ کا نہیں بلکہ ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ بہت ساری چیزوں کی کمیت قلیل ہوتی ہے مگر ان سے خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایوان بولی اب جو بھی ہو ہم اس بابت کیا کرسکتے ہیں جو چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے اس پر صبر کرنے کے علاوہ چارۂ کار کیا ہے ؟ ماریہ نے پوچھا اس بات کا امکان کیا ہے کہ شہریار اپنی زبان سے پھِر جائے اور شادی سے انکار کر دے ؟ ایوان نے جواب دیا میرا خیال ہے شہریار اپنی زبان نہیں بدلے گا وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ اگر ایسا ہے تو کیا تم اس سے یہ گزارش کرسکتی ہو کہ وہ اپنے نکاحِ ثانی کی اطلاع شہناز کو نکاح کے بعد دے۔ ایوان نے پوچھا اس سے کیا فائدہ؟ فائدہ یہ ہے کہ ہنگامہ کم ہو گا۔ شہناز سوچے گی جو ہونا تھا سو ہو چکا اب کیا ہو سکتا ہے۔
ایوان بولی تمہاری تجویز تو معقول ہے لیکن میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتی کہ شہریار اس پر راضی ہو گا بھی یا نہیں ؟ ماریہ بولی کوشش کر کے دیکھو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ایوان نے تائید کی ٹھیک ہے میں اس کو سمجھاؤں گی لیکن ابھی تک ہم نے اپنا اگلا قدم طے نہیں کیا۔ جی ہاں میرا خیال ہے کہ اس ہفتہ میں جوناتھن کے نقلی طلاق نامہ کی نقل تمہارے میل میں ڈال دیتی ہوں اور یہ لکھتی ہوں کہ اس کا اصلی نسخہ ڈاک سے تمہیں مل جائے گا اور وہ کاغذی نسخہ ابھی تمہیں پکڑا دیتی ہوں تم جب چاہو شہریار کو دکھلا دینا۔ اس میں خطرہ ہے ماریہ، بہتر ہے کہ وہ ڈاک سے آئے۔ ماریہ بولی اس کیلئے مجھے واپس وارسا جانا ہو گا یا تم اس کو پسند کرو گی کہ کوئی اور اسے ڈاک کے حوالے کرے۔
ایوان گھبرا گئی اور بولی ماریہ تم کیا غضب کر رہی ہو؟ تم ایسا کرو کہ وارسا سے کچھ دستاویز ڈاک سے منگواؤ اور پھر اسی لفافے میں یہ کاغذ ڈال کر مجھے دے دینا تاکہ دیکھنے والے کو ایسا لگے کہ یہ ابھی حال میں وہاں سے آیا ہے۔ ماریہ بولی بھئی ماننا پڑے گا تمہارے آگے کمپیوٹر بھی فیل ہے۔ نہیں ماریہ ایسی بات نہیں بزرگ کہا کرتے تھے احتیاط علاج سے بہتر ہے اور اس معاملے میں احتیاط ہی علاج ہے۔ اس بات کا علم ہم دونوں کے علاوہ کسی کو نہیں ہونا چاہئے ورنہ بات جوناتھن تک پہنچ ہی جائے گی اور اسے پتہ چل گیا تو قیامت آ جائے گی۔ ماریہ بولی تم جوناتھن سے اس قدر ڈرتی کیوں ہو؟
ایوان بولی ماریہ اس جوناتھن سے میں تو دور میری جوتی بھی نہیں ڈرتی۔ پھر کیا مسئلہ ہے ؟ مسئلہ بنجامن ہے میرا بنجو؟ میں کسی حال میں اس سے الگ نہیں ہو سکتی اور نہ بنجو کو جوناتھن کے حوالے کرسکتی ہوں لیکن اگر یہ راز فاش ہو گیا تو جون میرے بنجو کو ہمیشہ کیلئے مجھ سے چھین لے گا۔ ماریہ میں تمہیں کیا بتاؤں آج بھی بنجامن جب مجھے یاد آتا ہے تو سارا جہان ویران لگنے لگتا ہے۔ اس کے بغیر مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ میرا بنجو میرا مستقبل ہے۔ اس کے بغیرسب کچھ بے سود ہے۔ ماریہ نے پوچھا برطانوی شہریت بھی؟؟؟
ایوان بولی برطانوی شہریت بھی اس کے مستقبل کو یقینی بنانے کی ایک سعی ہے ورنہ وہ بیچارہ اپنے نکھٹو باپ کی طرح وارسا اور تل ابیب میں دھکے ّ کھاتا پھرے گا۔ ماریہ نے پوچھا اچھا یاد آیا یہ بتاؤ کہ جوناتھن کا کیا حال ہے ؟ اسے ملازمت ملی یا نہیں ؟ ایوان نے حقارت سے کہا ارے ماریہ کیا بتاؤں اس جیسے نا اہل انسان کو کہاں کام ملتا ہے۔ وہ وارسا میں تھا تو اس کا یہی حال تھا کہ ملازمت تھی بھی تو نہایت معمولی۔یہاں رہ کر بے نیل و مرام لوٹا اور اب تل ابیب کی خاک چھان رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اسے مستقبلِ قریب میں کوئی معقول ملازمت مل سکے گی۔ کچھ چھوٹے موٹے عارضی کام کرتا رہتا ہے ورنہ اپنے سسرال میں مفت کی روٹی توڑتا ہے۔ یہاں بھی تو یہی کرتا تھا وہ بے غیرت۔
ماریہ کو ایوان کا انداز اچھا نہیں لگا لیکن وہ جانتی تھی ایوان پر تنقید کرنے کے معنیٰ کیا ہوتے ہیں ایک آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے جو بے شمار لاوہ اگلنے کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ دونوں سہیلیوں کی بات چیت رات کے آخری پہر میں داخل ہو چکی تھی۔ ماریہ بولی ایوان میرا خیال ہے اب سونا چاہئے۔ ایوان بولی مجھے تو نیند نہیں آ رہی ہے میں کچھ دیر ٹیلی ویژن دیکھنے بعد سوؤں گی تم چاہو تو سو جاؤ۔ لیکن ٹی وی کا شور مجھے سونے نہیں دے گا۔ میں اس کا گلا دبا دوں گی میری سہیلی۔ ایک زمانے تک لوگ گونگی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ ماریہ بولی گونگی فلم سے بغیر سنے لطف اندوز ہونا آسان ہے اس لئے کہ اس کی تصویر گری کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ناظرین کو کچھ سنائی نہیں دے رہا لیکن بولتی فلموں کی منظر نگاری اس طرح سے نہیں کی جاتی۔
ایوان بولی میں جانتی ہوں لیکن مجبوری میں سب کچھ برداشت کر لیا جاتا ہے جیسے کہ شہریار۔ ماریہ بولی یہ درست ہے کہ شہریار فی الحال تمہاری مجبوری ہے مگر سوچو کہ اگر خدانخواستہ تم اس کی مجبوری بن گئیں تو کیا ہو گا؟ ایوان بولی نہیں ماریہ ایسا کبھی نہیں ہو گا اور اگر ہوا بھی اس زہر کا تریاق میرے پاس موجود ہے۔ اچھا ہمیں بھی تو پتہ چلے ماریہ نے پوچھا۔ اوہو تم نہیں جان سکیں۔ وہ شہناز ہے۔ شہناز کی خوشی کیلئے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یہی تو میں کہہ رہی تھی ماریہ بولی اگر اس نے شہناز کی خاطر تم سے شادی کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تو کیا ہو گا؟ ایوان بولی بار بار اپنی بات نہ دوہراؤ چونکہ شہناز شہریار کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے اسی لئے شہریار بھی شہناز کیلئے سب کچھ کرسکتا ہے اس بات کو سمجھنے کیلئے تم کو ان کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ ماریہ بولی ٹھیک ہے اب مجھے سونے دو۔
شہریار نے جب ایوان کے میل بکس میں جونا تھن کا طلاق نامہ دیکھا تو اس کا دل بلیوں کی طرح اچھلنے لگا۔ اب اسے انتظار تھا کہ ایوان کے فون کا مگر وہ نہ آیا تو نہ آیا۔اسے یقین تھا کہ ماریہ کو اس کا علم ہو گا اس لئے شہریار نے ماریہ سے بھی ایک بلاوجہ کی ملاقات کی لیکن ایسا کوئی اشارہ نہ ملا۔ جمعہ کی رات وہ مانچسٹر آ کر سو گیا۔ دوسرے دن صبح وہ باہر لان میں بیٹھ کر چائے پی رہا تھا اور شہناز اندر ناشتہ بنا رہی تھی کہ ایوان وہاں آ پہونچی۔ ایوان نے کہا شہریار کیسے ہو ؟ بڑے خوش نظر آ رہے ہو کوئی خاص بات ہے کیا؟ شہریار چاہتا تو تھا کہ بہت کچھ کہے مگر ضبط کر گیا اور بولا نہیں بس یونہی۔ ویسے یہی سوال میں تم سے بھی کرسکتا ہوں کہ تم بہت خوش لگ رہی ہو۔ ایوان بولی جی ہاں شہریار لگتا ہے ہمارے ستارے ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔ مجھے تم سے تنہائی میں کچھ خاص بات کرنی ہے۔
شہریار نے کہا اچھا تو کوئی ترکیب کرنی ہو گی۔ ایوان بولی ترکیب تو بہت آسان ہے تم شہناز سے کوئی مشکل پکوان کی فرمائش کر دو وہ گھر پر رہ جائے گی میں تمہاری زیر تعمیر دوکان میں چلی آؤں گی بس بات ختم۔شہریار بولا بہت خوب تو تم شہناز کی توجہ دوسری جانب مبذول کروا کر اپنا کام نکال لینا چاہتی ہو؟ یہ ذو معنیٰ جملہ تھا لیکن ایوان نے بلا جھجک کہا یونہی سمجھ لو۔ ٹھیک ہے تو گیارہ بجے دوکان پر۔ ایوان واپس چلی گئی۔ ناشتے کی میز سے ایوان قصداً غائب تھی۔ وہ پیٹ کی خرابی کا بہانہ بنا کر سینڈوچ اور چائے اپنے کمرے میں لے گئی تھی۔ شہناز نے پوچھا تو آج دوپہر میں کیا کھانا پسند کریں گے میرے سرکار؟ شہریار کی من مراد پوری ہونے جا رہی تھی وہ بولا جو تم کو پسند وہ مجھے پسند۔ تم ایسا کرو کہ اپنی سب پسندیدہ چیز بنا دو۔ شہناز بولی پہلیاں نہ بجھواؤ کہو کیا کھاؤ گے ؟
شہر یار شرارتاً بولا اگر میرے بس میں ہو تو میں تمہیں کھا جاؤں۔ شہناز نے قہقہہ لگا کر کہا یہ انسان ہے یا آدم خور درندہ؟ اب جو بھی سمجھ لو لیکن اتنا یاد رکھو کہ میں جو بھی ہوں تم میری بیگم ہو۔شہناز نے منہ بنا کر کہا ا چھا تو گویا آپ نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اپنی پسند نہیں بتائیں گے ؟ شہریار بولا اگر یہی بات ہے تو آج حلیم بناؤ بہت دن ہوئے تمہارے ہاتھ کا حلیم کھائے ہوئے۔ حلیم کا نام سن کر شہناز چونک پڑی اس لئے کہ وہ جانتی تھی یہ شہریار کو پسند نہیں ہے اور اس کو بنانے میں زحمت بھی بہت ہے۔ شہناز بولی حلیم! یہ تو آپ کو کل بتانا چاہئے تھا تاکہ میں اس کی تیاری کرتی۔ اس کیلئے خاص قسم کا گوشت اور بہت سارے لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہریار بولا گوشت تو میں لے آتا ہوں باقی کام تم کرو۔ ویسے بھی چھٹی کے دن ہم لوگ تین بجے کھانا کھاتے ہیں اس لئے بہت وقت ہے۔
شہناز بولی جی ہاں وقت تو ہے۔ آپ ایسا کریں کہ جلدی سے گوشت لے آئیں اور مناسب ہو تو میں گلناز کو بلا لوں اسے بھی حلیم بے حد پسند ہے دراصل ہمارے گھر میں سبھی حلیم کے دیوانے ہیں۔ شہریار بولا اسی لئے تو میں نے ۔۔۔ اوہو تو میں اب سمجھی۔ شہریار کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ وہ بازار سے گوشت لے کر آیا اور اپنی دوکان کی طرف یہ کہہ کر چلا گیا کہ اب واپسی تین بجے ہو گی۔ ایوان پہلے ہی غائب ہو چکی تھی۔شہناز اس قدر مصروف ہو گئی تھی کہ اسے کسی کی پڑی نہیں تھی۔ ایوان اپنے گھر سے نکل کر ارمندر کے پاس چلی گئی۔ دراصل وقت کے ساتھ وہ ہندی و پاکستانی کھانوں کی عادی ہو گئی تھی اور چھٹی کے دن تو اسے کچھ اور اچھا ہی نہیں لگتا تھا۔ ارمندر نے اسے حلوہ پوری کھلایا اور اس کے بعد وہ لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ شہریار چونکہ ارمندر کو بتلا چکا تھا کہ ایوان کا طلاق نامہ آ چکا ہے اس لئے اس نے سوچا ممکن ہے ایوان اس بابت کوئی گفتگو کرے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ارمندر کے پاس سے اٹھ کر ایوان سرور مال پہنچ گئی جہاں شہریار بے چینی کے ساتھ اس کا انتظار کر رہا تھا۔ ایوان اور وہ اندر کی طرف ایک تیار شدہ کے کمرے میں جا بیٹھے۔ باہر دوسرا کام چل رہا تھا۔ ایوان بولی میں تمہیں ایک خوش خبری سنانے آئی ہوں۔ شہریار جانتا تھا اس کے باوجود انجان بننے کی کوشش کی اور کہا لیکن خوشخبری تو گھر پر بھی سنائی جا سکتی تھی۔ایوان جانتی تھی کہ وہ اداکاری کر رہا پھر بھی اس نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا شہریار ہمارے راستے کی اولین رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔ شہریار بولا کیا کہہ رہی ہو ایوان کیا واقعی جوناتھن نے تمہیں طلاق دے دی شہریار نے بناوٹی لہجے میں کہا۔ ایوان بولی جی ہاں شہریار تمہاری خاطر میں نے اپنی بچے بنجامن کو بھی چھوڑ دیا۔ شہریار بولا میرے یا شہریت کی خاطر؟ ایوان بولی۔ اگر تم اصرار نہ کرتے تو میں ہرگز اپنے بیٹے سے منھ نہ موڑتی۔اور جوناتھن سے ؟ اب وہ میرا خاوند نہیں ہے اس لئے اس کا نام نہ لو۔ اب حالت یہ ہو گئی تھی کہ ایوان خود اپنے جھوٹ کو سچ سمجھنے لگی تھی۔
شہریار بولا یہ بات تو تم گھر پر بھی کہہ سکتی تھیں۔ جی ہاں لیکن مجھے اب آگے کے اقدامات پر گفتگو کرنی ہے۔ آگے کیا دوچار مہینے میں ہم لوگ نکاح کر لیتے ہیں اور اس کے بعد تمہاری شہریت کی درخواست داخل کر دیتے ہیں۔ ایوان نے پوچھا اور اس کے بعد ؟ اس کے بعد بہت جلد تم برطانوی شہری بن جاؤ گی۔ اور اس کے بعد ؟۔ شہریار ایک لمحہ کا توقف کر کے بولا اس کے بعد میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ایوان بولی بہت صحیح میں نے دراصل یہ سوالات یاددہانی کیلئے کئے تھے اس لئے انسان نسیان سے بنا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے اس لئے اسے بار بار یاد دلاتے رہنا پڑتا ہے۔ ایوان کو شہریار کا توقف کرنا اچھا تو لگا مگر اس میں خطرے کی بو بھی شامل تھی۔
شہریار نے تائید کی اور کہا جی ہاں ایوان یاددہانی کا شکریہ۔ایوان بولی ایک بات اور ہے شہریار۔ وہ کیا ؟ تم کیا سوچتے ہو اس پر شہناز کا کیا رد عمل ہو گا؟ شہریار بولا لیکن یہ تو ہمارا آپس کا معاملہ ہے شہناز کا اس سے کیا لینا دینا؟ ایوان نے کہا وہ تمہاری بیوی ہے شہریار شریک حیات ! اور جب تم اپنی حیات میں کسی اور کو شریک کرنے جا رہے ہو تو اسے مطلب کیوں نہ ہو گا؟ اس منطق کو تم نے جوناتھن کے معاملے قبول نہیں کیا اور اب بالکل ہی اس سے مکر گئے۔ شہریار بولا تو کیا تم چاہتی ہو میں بھی اسے طلاق دے دوں۔ جی نہیں میں یہ نہیں چاہتی۔ تو پھر کیا چاہتی ہو ؟
ایوان بولی وہ میری بہن جیسی ہے میں اس کی دل آزاری کرنا نہیں چاہتی۔ تو کیا تم نے شادی کا ارادہ ترک کر دیا ہے ؟ کیسی باتیں کرتے ہو شہریار آج تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ یہی تو میں تم سے پوچھنے والا تھا ایوان کہ آج تم یہ کیا بہکی بہکی باتیں کرنے لگی ہو؟ بہکی باتیں میں کر رہی ہوں یا تم؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ ہم لوگ تو شادی سے قبل ہی میاں بیوی کی طرح لڑنے لگے۔ ایوان نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولی میں معافی چاہتی ہوں شہریار۔ میں بھی معذرت چاہتا ہوں اب صاف بولو کہ تم کہنا کیا چاہتی ہو؟
ایوان بولی دیکھو شہریار عورت آخر عورت ہوتی ہے۔ عورت کیلئے اپنی ازدواجی زندگی میں کسی کو شریک کرنا بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ شہریار بولا جی ہاں لیکن ہم کر کیا سکتے ہیں ؟ میں چاہتی ہوں کہ تم نکاح سے پہلے تک یہ بات اس کو نہ بتاؤ کیا یہ ممکن ہے ؟ شہریار نے کہا ممکن تو یقیناً ہے مگر مناسب نہیں ہے۔ مناسب کیوں نہیں ہے ؟ اس لئے کہ ایسا کرنے سے اس کو محسوس ہو گا کہ گویا اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں وہ اگر کوئی ہنگامہ کھڑا کر دے تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ لیکن ہنگامہ تو پہلی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ ایوان بولی امکان کم ہے۔ شہریار نے پوچھا وجہ؟ اس لئے کہ وہ سوچے گی جو ہونا تھا سو ہو چکا۔
شہریار بولا لیکن میں اسے مجبور کر کے اس کا فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا۔ اس معاملے کو تم مجھ پر چھوڑ دو میں سنبھال لوں گا۔ایوان بولی مجھے شہناز سے زیادہ خوف اس کی بہن گلناز سے ہے۔ مجھے تو ڈر ہے وہ میرا قتل نہ کر دے۔ شہریار نے ہنس کر کہا تم مذاق تو نہیں کر رہی ہو؟ جی ہاں میں نے یہ بات یونہی کہہ دی۔ شہریار بولا ایسا کرتے ہیں کہ اب چل کر باہر کافی پیتے ہیں۔ اس مال میں جو چند دوکانیں کھلی ہیں ان میں سے ایک کاربوائے کافی ہاؤس بھی ہے۔ یہ اچھا ہے ماحول بدلے گا تو دماغ بھی کھلے گا۔ وہ دونوں کافی ہاؤس کے اندر آ گئے۔ شہریار نے لاٹے اور ایوان نے ٹرکش کافی کا آرڈر دیا۔بیرہ مفت کی بسکٹ اور کوکیز رکھ گیا۔ اس زبردست خبر پر ہم لوگوں نے منہ میٹھا نہیں کیا یہ لو بسکٹ کھاؤ۔ ایوان بولی یہ مفت کی خوشی بھی بہت خوب ہے۔
شہریار اٹھ کر کاؤنٹر پر گیا اور بہت قیمتی کیک خرید کر لے آیا۔ یہ لو اب تو خوش ہو۔ایوان بولی ہاں لیکن میں اسے بعد میں کھاؤں گی اس لئے کہ پہلے کھانے سے یہ کافی کا مزہ خراب کرے گی اور کافی اس کا۔ شہریار بولا یہ تو وہی منطق ہوئی کہ ایوان شہناز کا اور شہناز ایوان کا مزہ خراب کرے گی۔ ایوان بولی اگر اسے پہلے کھا لیا جائے تو! اسی لئے تو میں تاخیر کا مشورہ دے رہی تھی لیکن تم ناراض ہو گئے۔شہریار بولا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مٹھائی کے بجائے کافی میں تھوڑی سی تاخیر کر دی جائے جس کے نتیجے میں نہ وہ اس پر اثرانداز ہو اور نہ یہ اس پر۔ ایوان بولی میں سمجھی نہیں ؟
شہریار بولا میں آج رات شہناز کو تمہاری طلاق کی خبر سنا دیتا ہوں۔تم آج سے بہت زیادہ غمزدہ رہنے کی اداکاری کرنے لگو۔ ویسے بھی اتفاق سے تم نے آج ناشتہ ہمارے ساتھ نہیں کیا۔ دوپہر کا کھانا بھی یہیں کھا کر جاؤ منہ لٹکائے بیٹھی رہو اور جوناتھن کو کوستی رہو۔ ممکن ہے ایسا کرنے سے شہناز کے دل میں تمہارے تئیں ہمدردی کا طوفان موجزن ہو جائے اور اس کی لہروں میں ہمارا نکاح آسان ہو جائے ؟ یہ ترکیب بہت خوب ہے ایوان نے کہا۔ اس سے کم از کم یہ ہو گا کہ شہناز کی ہنگامہ آرائی کسی قدر کم ہو جائے گی۔ شہریار بولا میرا تو خیال ہے اگر تمہاری اداکاری مؤثر رہی تو اس پر بند ہی لگ جائے گا۔ ایوان بولی تو ٹھیک ہے تقریباً ایک ماہ بعد کسی مناسب موقع پر ہم لوگ بیاہ رچا لیں گے۔ جی ہاں ممکن ہے اس وقت تک ہماری دوکان کا افتتاح بھی ہو جائے۔
شہریار اور ایوان کے سارے اندیشے غلط ثابت ہوئے۔ شہناز بڑی آسانی سے شہریار کے نکاحِ ثانی پر تیار ہو گئی۔گلناز نے شور شرابے کی بہتیری کوشش کی لیکن اس کو ارمندر نے سمجھا دیا۔ اس نے کہا دیکھو گلناز اگر اس معاملے میں خود شہناز کو اعتراض ہوتا تو تمہارا تعاون اس کے کسی کام آتا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ تمہاری مدد اس کیلئے باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا سبب بنے گی۔ اگر کل کو اس نے سب کے سامنے منع کر دیا تو تمہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شارق نے بھی اس کو یہی کہا کہ یہ شہریار اور شہناز کا آپسی معاملہ ہے۔ وہ مسکرا کر بولا اب تو محاورے کو ترمیم کر کے یوں کہنا پڑے گا کہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گی سالی۔ گلناز بے بس ہو کر خاموش ہو گئی۔
نکاح کی نہایت سادہ اور مختصر تقریب محلے کی مسجدمیں منعقد ہوئی۔ ایوان اور دیگر خواتین ٹرسٹ کے متصل دفتر میں موجود تھے۔ وکالت کی فرائض شارق نے ادا کئے۔شہریار کی جانب سے گواہ شجاعت علی چودھری تھے اور ایوان کی جانب سے گواہی کا کام خود شہناز نے کیا۔ یہ ایک ایسی ناقابلِ یقین واردات تھی جس کا تصور بھی کرنا ماریہ اور ایوان کیلئے محال تھا۔ ماریہ کی ٹریننگ اپنے آخری مراحل میں تھی۔ وہ اس تقریب میں شرکت کی غرض سے پہلی مرتبہ مانچسٹر آئی تھی۔ اس کا قیام ارمندر کے گھر پر تھا۔ اس کی آمد کا ایک مقصد گھر کی تلاش بھی تھا۔ گلناز نے بہرحال احتجاجاً اپنے آپ کو اس سے دور رکھا تھا۔ شہریار کی نئی معاشی اور ازدواجی زندگی کا آغاز نہایت خوشگوار انداز میں ہو گیا۔
۲۵
ماریہ کا لندن میں قیام بہت ہی مفید ثابت ہوا تھا۔ مولچند خود بھی ا س کی کارکردگی سے بہت مطمئن تھا۔ اسے یقین تھا کہ شہریار اور ماریہ کا اشتراکِ عمل اس نئی شاخ کو کامیابیوں کی بلندیوں پر لے جائے گا نیز ان کی مدد سے وہ لوگ مل جل کر شمالی برطانیہ کے مختلف شہروں میں اپنا جال بچھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ برطانیہ کے اس حصہ میں کاروبار کے مواقع اس لئے بھی زیادہ تھے کہ مسابقت کم تھی۔زیادہ سرمایہ کاری بھی درکار نہیں تھی اور جنوب وسط ایشیاء کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آباد تھی۔ مولچند نے تو یہاں تک سوچ لیا تھا کہ وہ بیرونِ لندن کاروبار کو ایک نئی کمپنی کے تحت کر کے اس کے بورڈ آف ڈائرکٹرس میں شہریار اور ماریہ دونوں کو شامل کر لے گا۔ اس طرح ماریہ بھی کمپنی کے مالکین میں شامل ہو جائے گی لیکن وہ اس بارے میں کوئی جلدی کرنے کے بجائے وہ مانچسٹر کی حقیقی کامیابی کو دیکھنا چاہتا تھا اور شہریار کو اعتماد میں لینا چاہتا تھا۔
مانچسٹر شہر میں دلکش دلہن کا افتتاح ایک یادگار تقریب بن گیا۔اس پروگرام کو شارق نے بڑی محنت سے ترتیب دیا۔ تقریب کل ملا کر تین حصوں میں تقسیم کی گئی تھی۔پہلے حصے میں معززینِ شہر یعنی سیاستداں حضرات کے علاوہ سرکاری افسران اور تجارتی دنیا کے لوگوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔ مہمانوں میں شارق اور مولچند کے جاننے والے بہت سارے لوگ تھے لیکن اس میں سب سے اہم کردار شجاعت علی چودھری نے ادا کیا تھا۔ وہ اپنے والد کے توسط سے بہت ساری اہم شخصیات کو بلانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔پہلے سیشنمیں مولچند نے شہریار کی دل کھول کر تعریف کی۔شہریار بھی پہلی مرتبہ مائک پر آیا اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔شہناز اور ایوان یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ نظامت کے فرائض ماریہ کے ذمہ تھے ، جسے اس نے بحسن و خوبی نبھایا۔ اس کے بعد شرکاء لابی سے نکل کر دوکان کی جانب گئے اور شہر کے مئیر نے اپنے دستِ مبارک سے باقاعدہ افتتاح کیا۔ اس روز سرور مال کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔
افتتاح کے بعد محفلِ مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ شارق کو شعرو شاعری کا بہت شوق تھا۔ یارک شائر ادبی فورم کے ذمہ داروں سے اس کے اچھے تعلقات تھے۔ ان کی مدد سے نہایت ہی پر وقار شعری محفل سجائی گئی جس میں شمالی برطانیہ کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی شعرائے کرام نے شرکت کی۔ اتفاق سے پاکستان کے ایک مشہور شاعر ڈاکٹر عاصم واسطی اس دوران اپنے بیٹی کے پاس ذاتی دورے پر آئے ہوئے تھے۔ ان کی شرکت نے تقریب میں چار چاند لگا دئیے اور سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ہی اپنے دلنشین کلام سے مشاعرہ لوٹ لیا۔برطانیہ کے بزرگ و محترم ادبی شخصیت ڈاکٹر مختار الدین احمد اپنے پر مغز کلام اور صدارت سے محفل کو رونق بخشی۔
مشاعرے کے بعد طعام کا اہتمام تھا جس کی ذمہ داری چودھری شجاعت نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ اس سے سیاسی حلقوں میں ان کے سرگرم ہونے کی قیاس آرائیاں بھی کی جانے لگیں حالانکہ شجاعت کیلئے یہ خالص تجارتی سرمایہ کاری تھی۔ وہ اپنے معاشی عزائم کو بروئے کار لانے کیلئے اس کا استعمال کرنا چاہتا تھا۔ آخر میں غزل سرائی کی محفل سجائی گئی۔ برطانیہ کے مشہورو معروف غزل سرا سہیل اخلاق نے موقع کی مناسبت سے محترمہ غزل انصاری کی غزل سے ابتداء کی اور سامعین کو آگاہ کیا کہ آج ان کی سالگرہ ہے۔ سہیل اخلاق نے ساز و آواز کے جادو سے شرکاء کا دل جیت لیا۔
ذرائع ابلاغ میں اس تقریب کے خوب چرچے ہوئے۔ اردو اخبارات اور ٹی وی چینلس کے علاوہ انگریزی اخبارات اور چینلس پر بھی اس کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ پاکستانیوں میں مقبول ’ ہم ‘ریڈیو ایف ایم چینل نے مشاعرے اور محفل غزل کو براہِ راست نشر کر کے ایک نیا قدم اٹھایا اور اس کی گونج ان لوگوں تک بھی پہنچا دی جو محفل میں آنے کے بجائے اپنے گھروں یا گاڑیوں میں ہم ایف ایم کی نشریات سن رہے تھے۔ مجموعی طور پر ایک بہت ہی کامیاب آغاز تھا۔
شہریار اور ماریہ نے پھر اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب ان کو ایک ساتھ کام کرتے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا تھا لیکن ماریہ ہنوز ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔ شہریار ماریہ کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا تاکہ ایوان اور اس کے درمیان کا فرق سمجھ سکے لیکن ذاتی نوعیت کا سوال پوچھنے سے اسے ڈر لگتا تھا مبادا کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے یا ماریہ کو یہ بات ناگوار گزرے۔ ایک دن دفتر میں کام کم تھا تو شہریار نے ہمت کر کے نہایت محتاط انداز میں پوچھا ماریہ اب تو ہمارا کاروبار چل نکلا ہے بلکہ مولچند بریڈ فورڈ میں ایک اور شاخ کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ماریہ بولی یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ شہریار نے کہا لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ وہ تمہاری کارکردگی سے بہت خوش ہے اور تم سے بہت پر امید ہے۔ ماریہ بولی یہ تو ان کا بڑکپن ہے۔ ویسے جو کچھ مجھ سے بن پڑتا ہے میں حتی الوسع اس کو بہترین انداز میں کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
شہریار نے کہا ماریہ کاروبار تو چلتا رہے گا لیکن اگر اجازت ہو تو میں ایک ذاتی قسم کا سوال کروں ؟ ماریہ یہ سن کر سوچ میں پڑ گئی۔ نہ جانے یہ کیا پوچھ بیٹھے اور اس کا جواب دینا مشکل ہو جائے۔ ماریہ کا جی چاہا کہ صاف منع کر دے لیکن پھر اس نے سوچا کیوں نہ سوال سن لیا جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے۔ وہ بولی کیا میرے لئے تمہارے سوال کا جواب دینا لازمی ہو گا؟شہریار بولا میں سمجھا نہیں۔ ماریہ بولی اگر میں اس سوال کا جواب نہ دوں تو آپ برا تو نہیں مانیں گے ؟ شہریار بولا اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے بلکہ اگر آپ سوال پوچھنے کی اجازت نہ دیں تب بھی مجھے کوئی گلہ نہ ہو گا۔تب ٹھیک ہے اگر میں مناسب سمجھوں گی تو جواب دوں گی ورنہ میری خاموشی معذرت کے مترادف ہو گی۔
شہریار بولا جی ٹھیک ہے۔ میں تو صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ تم اپنے اہل خانہ کو کب تک بلانے کا ارادہ رکھتی ہو؟ ماریہ نے ٹکا سا جواب دیا فی الحال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ شہریار نے پوچھا اس کی کوئی خاص وجہ؟ جی نہیں۔ میرے گھر میں ہے ہی کون؟ ایک میری بوڑھی ماں اور چھوٹی بہن۔ ماں یہاں آئے گی نہیں اور جلد ہی چھوٹی بہن کی شادی ہونے والی ہے اس لئے وہ بھی نہیں آئے گی۔ اچھا تو ان دونوں کے علاوہ ۔۔۔شہریار رک گیا۔ ماریہ بولی میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ بھائی کوئی ہے نہیں۔ جن چار چھوٹی بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی ہے میں انہیں اپنے اہل خانہ میں شمار نہیں کرتی۔ ماریہ نہایت صاف گوئی سے اپنے بارے میں دو اور دو چار کی طرح بتا رہی تھی۔
شہریار نے پوچھا لیکن ایوان نے تو بتایا تھا کہ تم اس کی ہم جماعت ہو اور پھر تمہاری چار بہنوں کی بھی شادی ہو چکی ہے ؟ جی ہاں شہریار ان بہنوں کے گھر بس جانے اور میرے نہ بسنے میں ایک گہرا تعلق ہے۔شہریار نے پوچھا میں سمجھا نہیں ؟ وہ بولی اس کے پیچھے ایک طویل داستان ہے۔ شہریار بولا لیکن اس کا خلاصہ تو مختصر ہو گا؟ماریہ بولی جی ہاں۔ اگر اعتراض نہ ہو تو ۔۔۔۔ لیکن ایک شرط ہے۔ وہ کیا؟ ۔۔۔ تم کسی کے سامنے اس راز کو افشاء نہ کرو گے۔ شہریار نے یقین دہانی کی یہ میرا وعدہ ہے۔ ایوان کے سامنے بھی نہیں۔ لیکن وہ تو تمہاری عزیز سہیلی ہے کیا وہ بھی نہیں جانتی۔ ماریہ بولی جانتی تو ہے ۔۔۔ بہت کچھ جانتی ہے ۔۔۔ لیکن اس کے پاس صرف کیا کا جواب ہے ۔۔۔۔ کیوں کا نہیں۔ ٹھیک ہے ماریہ تم مجھے کیا اور کیوں دونوں بتاؤ؟ میں عہد کرتا ہوں کہ یہ راز صرف اور صرف میرے سینے میں دفن رہے گا۔
سب سے الگ تھلگ رہنے والی ماریہ سے ایوان کے علاوہ دیگر لوگ ویسے ہی لئے دئیے رہتے تھے۔ ایوان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ بولتی تو بہت زیادہ تھی لیکن سنتی کم تھی۔ ماریہ جب اس کے ساتھ ایک گھنٹہ بات کرتی تو ۵۵ منٹ اس کی سنتی اور ۵ منٹ اپنی سناتی۔ ان پانچ منٹوں میں بھی سارا قصہ ایوان کے متعلق ہوتا۔ اس کے اپنے بارے میں نہ کبھی پوچھا جاتا اور نہ بتایا جاتا تھا۔کسی نے پہلی مرتبہ اپنے خودساختہ خول میں بند رہنے والی ماریہ کے ماضی کو کریدنے کی کوشش تھی۔ اسے اچھا لگا تھا۔وہ بولی شہریار میری کہانی میرے والد ڈنکن سے شروع ہوتی۔ وہ عجیب قناعت پسند، قلندر صفت انسان تھا۔ بس اپنی من مرضی کی زندگی گزارتا تھا۔ اسے دنیا و مافیہا سے کوئی غرض ہی نہیں تھی۔
اپنی کم از کم ضروریاتِ زندگی کی خاطر میرے والد نے مقامی اسکول میں ڈرائنگ ٹیچر کو نوکری کر رکھی تھی۔ دادا جو کوئلے کی دوکان چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے وہ میرے والد کی بے توجہی کا شکار ہو کر بند ہو گئی۔ وہ اپنے والد اور ان کی دوکان دونوں سے بے نیاز تھے۔ان کی گھریلو زندگی کی ابتداء صبح اٹھ کر اسکول جانے سے ہوتی تھی اور اس کی انتہا مہینے کے آخر میں ملنے والی تنخواہ کو لا کر میری ماں مارکل کی ہتھیلی پر لا کر رکھ دینے سے ہو جاتی تھی۔ میرے والد کے اپنے مشاغل تھے۔ سیر و سیاحت کا انہیں بہت شوق تھا۔موسمی پرندوں کے پیروں پر نشان لگانا اور ہر سال ان کی آمدورفت کا مشاہدہ کرنا انہیں بہت اچھا لگتا تھا۔وہ ان کا انتظار کرتے ان کی تصویریں نکالتے اور لا کر اپنی اہلیہ کو دکھلاتے۔
ایک مرتبہ میری ماں نے کہا مجھے تو ایسا لگتا ہے آپ کو ہم لوگوں سے زیادہ لگاؤ ان پرندوں سے ہے۔انہوں نے کہا نہیں آپ لوگوں سے اور ان لوگوں سے دونوں سے یکساں لگاؤ ہے۔ جیسے میں ان سے ملنے کا انتظار کرتا ہوں اسی طر ح وہ بھی مجھ سے ملنے کا اشتیاق رکھتے ہیں۔ میری ماں نے کہا میں نہیں مانتی آسمان میں اڑنے والے پرندوں کا زمین پر چلنے والے انسانوں سے بھلا کیا رشتہ ہو سکتا ہے ؟ میرے والد بولے اگر تمہیں وہ تعلق دیکھنا ہے تو میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ ماں نے کہا بھئی مجھے تو آپ اس جنون سے دور ہی رکھیں۔ میں یہ گفتگو سن رہی تھی میں نے کہا بابا میں چلوں گی آپ کے ساتھ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ہائی اسکول میں پڑھا کرتی تھی۔ اس طرح میں بھی اپنے والد کے سامان سفر دوربین، کیمرہ، ڈائری اور لاٹھی میں شامل ہو گئی۔
اسکول کی تعلیم سے فراغت حاصل کر کے جب میں کالج میں پہنچی تو میری دلچسپی پرندوں کے بجائے کتابوں میں ہو گئی۔ میرے والد اس سے بہت خوش ہوئے اور میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ جب میری ماں نے مجھے شادی کیلئے کہا تو میں نے انکار کر دیا۔ میں تکمیل تعلیم سے قبل ازدواجی بکھیڑوں میں پڑنا نہیں چاہتی تھی۔ میرے والد میرے پشت پناہ تھے۔ میری والدہ نے تنگ آ کر میری چھوٹی بہن کا نکاح کر دیا۔ اس بیچ میں نے عمرانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی۔اس کے بعد میری ماں نے رشتے کی تلاش شروع کی تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ کم پڑھے لکھے لوگ مجھے پسند نہ آتے تھے اور زیادہ پڑھے لکھے مالدار اور کم پڑھی لکھی لڑکیوں سے شادی کر لیتے تھے۔ میری ماں مجھے ڈانٹتی تو میرے والد میری حمایت کرتے۔ ان کا کہنا تھا نکاح برضا و رغبت ہونا چاہئے۔
تعلیم ختم کر لینے کے بعد میں نے ملازمت کی تلاش کا آغاز کر دیا۔ میں کسی کالج میں پڑھاتے ہوئے تحقیق و تخصص کا کام جاری رکھنا چاہتی تھی لیکن اس سے پہلے کہ مجھے ملازمت ملتی ایک حادثہ رونما ہو گیا جس نے میری زندگی کے رخ کو موڑ دیا۔ شہریار بولا ماریہ ایک منٹ رکو میں پانی لے کر آتا ہوں شاید تمہارا گلا سوکھ رہا ہے۔ ماریہ بولی جی ہاں شکریہ۔ شہریار اٹھ کر گیا ماریہ سوچ رہی تھی شہریار کس قدر دلچسپی کے ساتھ اس کی داستانِ حیات کو سن رہا ہے۔ کیا یہ واقعی اتنی ہی دلچسپ ہے ؟ اس بیچ شہریار اپنے ساتھ پانی و پیپسی دونوں لے آیا۔ ماریہ نے سوچا شہریار کو اس کا کس قدر خیال ہے ؟ ہاں تو تم کہہ رہی تھیں کہ زندگی کا رخ مڑ گیا۔
جی ہاں ایک روز حسبِ معمول میرے والد پرندہ بینی کے مشغلے سے واپس لوٹے تو بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے۔ میری ماں نے انہیں دیکھا تو سمجھ گئی کہ انہیں آج جس طائر کی تلاش تھی وہ نظر نہیں آیا اس لئے کہ جب کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی پرندہ اپنے موسم میں وقت مقررہ پر لوٹ کر نہیں آتا تو وہ غمزدہ ہو جاتے۔میری والدہ نے کہا جو آج نہیں آیا کل آ جائے گا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میرے والد بولے نہیں مجھے ایسا لگتا ہے اب وہ کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ میں اپنے والد کی زبان سے یہ جملہ سن کر چونک پڑی۔ ان کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔ ماں بولی تو کیا آپ اس کی موت کا ماتم کریں گے ؟ میرے والد نے کہا ہمارا رشتہ ہی کچھ ایسا ہے بیگم کہ جب میں ان سے ملنے نہیں جاؤں گا تو وہ بھی میری موت پر غمزدہ ہوں گے۔اس رات میرے والد سوئے تو پھر کبھی نہ جاگے۔ آسمان خالی ہو گیا تھا۔سارے پرندے ان کی موت پر ماتم کناں تھے۔
والد کاسایہ ہمارے سر سے کیا اٹھا کہ ہم لوگ کھلی دھوپ میں آ گئے۔ ماں نے اپنے پر پھیلا کر ہم چار بہنوں پر سایہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نا کافی تھا اور پھر خود ماں بھی تو سورج کی تمازت سے پریشان تھی۔ اسکول کے انتظامیہ نے پوچھا آپ لوگ یکمشت فنڈ کی رقم لینا پسند کریں گے یا ماہانہ پنشن کو ترجیح دیں گے۔ ماں کی رائے پنشن کی تھی لیکن میں نے اختلاف کیا۔ میں بولی یہ رقم اس قدر کم ہے مشکل سے ہمارا گھر چل سکے گا اور پھر بہنوں کی شادی بھی ہونی ہے ؟ ماں بولی لیکن ہم اگر ایک ساتھ رقم لے کر خرچ کر دیتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ میں بولی میں اپنے دادا کی دوکان میں وہ رقم لگاؤں گی اور اس کی آمدنی سے گھر چلاؤں گی۔ ماں نے پوچھا کہ کیا تم پھر سے کوئلے کی دوکان کھولو گی۔ میں بولی نہیں۔ میں پالتو پرندوں اور مچھلیوں کی دوکان کھولوں گی۔ ان کی مجھے معلومات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تجارت کامیاب رہے گی۔
میرا اندازہ درست نکلا ہماری دوکان چل پڑی۔ میری ماں اب مطمئن تھی۔ اس نے میری بہنوں کیلئے رشتوں کی تلاش شروع کر دی اور ان میں سے دو کو ٹھکانے لگا دیا۔ شہریار بولا لیکن ماریہ تم بھی تو ان کی بیٹی تھیں ؟ جی ہاں شہریار لیکن اب میں ان کا بیٹا بن چکی تھی۔ اب وہ شاید مجھے کسی اور گھر نہیں بھیجنا چاہتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ساری بیٹیوں کی شادی ہو جائے تو میری بھی ہو جائے گی۔ میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی اور ہونہار ہوں۔ میں کاروبار میں لگی رہی اس سے جو وقت بچتا پڑھنے لکھنے میں لگاتی۔ مجھے فلسفہ اور منطق دونوں میں بہت دلچسپی ہے۔ ان موضوعات پر بے شمار قدیم و جدید کتابوں کا میں مطالعہ کرتی رہی۔ وقت کا پرندہ بے تکان آسمان کی بلندیوں پر محو پرواز رہا۔
ایک دن ایسا بھی آیا کہ ماں نے میری سب سے چھوٹی بہن کی شادی طے کر دی اور اور مجھ سے بولی بیٹی ماریہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے مشن میں کامیاب ہو چکی ہوں چھے ماہ بعدنینسی کا نکاح ہو جائے گا اور میں اپنی ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاؤں گی۔ اپنی ماں کی زبان سے یہ الفاظ سننے کے بعد مجھے لگا کہ ماں تو کامیاب ہو گئی مگر میں ؟؟؟ اس سوال نے مجھے بے چین کر دیا۔ میں نے ایوان کو لکھا کہ وارسا میں اقتصادی صورتحال ٹھیک نہیں ہے اس لئے میں برطانیہ آنا چاہتی ہوں۔ وہ میرے لئے ملازمت تلاش کرے۔ ایوان نے مجھے تعاون کا یقین دلایا اور چند روز بعد مجھے بلا لیا۔
ماریہ نے پانی کا ایک اور گھونٹ پی کر اپنی بات آگے بڑھائی میں نے آنکھ بند کر کے کسی تفصیل کو جانے بغیر ایوان کی دعوت پر لبیک کہا اور برطانیہ چلی آئی۔ شہریار نے کہا گویا تمہیں معاشی پریشانی یہاں نہیں لائی ؟ جی ہاں شہریار صحیح بات یہی ہے لیکن تم اس کا ذکر ایوان سے نہ کرنا۔ مجھے اپنے آپ سے وحشت ہونے لگی تھی۔میرا دل، میرے اپنے گھر میں، میری اپنی دوکان میں اور میرے اپنے شہر میں گھبرانے لگا تھا۔ مجھے ایسا لگنے لگا تھا کہ اب یہاں کا موسم بدلنے والا ہے۔ اب یہاں شدید برف باری ہونے والی ہے۔ اب یہاں سے اڑ کر موسمی پرندوں کی مانند محفوظ مقامات کی جانب نکل جانا چاہئے۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اگر میں نے اب بھی پرواز میں کوتاہی کی تو ٹھٹھر کر مر جاؤں گی۔
یہ کہہ کر ماریہ سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔ اس کو ایسا لگ رہا تھا ایک بہت بڑا بوجھ اس کے سر سے اتر چکا ہے۔ وہ کس قدر ہلکی ہو گئی۔ کسی اونچی اڑان کیلئے ہلکا پھلکا ہونا ضروری تھا۔ اب وہ اونچی پرواز کے قابل ہو گئی تھی اور پر تول رہی تھی۔ شہریار بولا ماریہ خاصی تاخیر ہو چکی ہے موسم بھی ٹھیک نہیں ہے اس لئے چلو میں تمہیں اپنے گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ماریہ خاموشی کے ساتھ اس کی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی۔ راستے بھر خاموشی چھائی رہی۔ کوئی کچھ نہ بولا۔ گاڑی سے اترنے کے بعد ماریہ نے شہریار کا شکریہ ادا کیا اور خدا حافظ کہہ کر اپنی تنہائی کی دنیا میں کھو گئی رات کی تاریکی نے اسے نگل لیا تھا۔ شہریار گھر واپس ہوتے ہوئے سوچ رہا تھا ایوان اور ماریہ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں ؟ایک کسی محدود سے ٹینک میں تیرنے والی نمائشی مچھلی اور دوسری بے کراں آسمان میں اڑنے والا آزاد پنچھی۔
۲۶
شہریار کی ازدواجی زندگی تین پہیوں والے آٹو رکشا کی مانند چل رہی تھی۔ ہوادار اور خوشگوار سفر جاری تھا۔جس میں جوناتھن کا چوتھا پہیہ پیچھے وقت ضرورت کام آنے کیلئے اس طرح لگا ہوا تھا کہ اس سفر میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا تھا اس لئے سارے لوگ اسے بھولے ہوئے تھے۔ شہناز اور شہریار کا ایسا کرنا فطری تھا اس لئے کہ ان کے خیال میں اسے نکال کر پھینک دیا گیا تھا مگر ایوان کا اس سے غافل ہو جانا حیرت انگیز تھا۔ ایوان کو اس پہیہ سے زیادہ اس موڑ کیلئے فکرمند تھی جس پر اسے رکشا سے الگ ہو جانا تھا۔وہ بڑی بے چینی کے ساتھ اس لمحہ کا انتظار کر رہی تھی۔ شہریار کو اس کا علم تو تھا مگر وہ اس سے پوری طرح غافل ہو چکا تھا اور شہناز بے چاری تو سرے اس کے بارے میں جانتی ہی نہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ صدا بہار سفر دائماً یونہی چلتا رہے گا۔
اس سواری میں اگلی نشست یعنی ڈرائیونگ سیٹ پر ویسے تو شہریار براجمان تھا اور گاڑی کو کھینچ رہا تھا مگراس کی لگام پیچھے بیٹھے ہوئی سواریوں کے ہاتھوں میں تھی۔ وہی طے کرتی تھیں کہ شہریار کو کون سا وقت کس کے ساتھ گزارنا ہے ؟ اس نظام الاوقات میں وقتاً فوقتاً تبدیلی بھی واقع ہوتی رہتی تھی۔ اس بارے میں شہریار کو اعتماد میں لینے کی ضرورت کبھی بھی محسوس نہیں کی گئی تھی۔ اسے تو بس مطلع کر دیا جاتا تھا اور وہ برضا و رغبت اطاعت گذاری کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا تھا۔ بظاہرسب لوگ خوش تھے۔ شہریار کا پیر سے لے کر بدھ تک کا وقت عام طور پر شہناز کیلئے ہوتا تھا اور جمعہ سے اتوار ایوان کیلئے۔ جمعرات کا دن شہریار کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ شہریار کیلئے یہ ایک دن کی آزادی بھی بہت تھی۔
اس دوران یہ بھی ہوتا تھا کہ کبھی کبھار پیر سے بدھ تک ایوان اپنی سہیلی ماریہ کے پاس قیام کرتی اور جمعہ سے اتوار کے دوران شہناز اپنی بہن گلناز کے پاس چلی جاتی لیکن ایسا ضروری نہیں تھا حسب ضرورت ایسا ہوتا بھی تھا اور نہیں بھی۔ اس بیچ ایک دن ایوان نے ماریہ کو بتایا کہ اس کی شہریت کا معاملہ آخری مراحل میں داخل ہو گیا ہے اور ممکن ہے دوچار ہفتے میں اس کو برطانوی پاسپورٹ حاصل ہو جائے۔ ماریہ نے اسے مبارکباد دی اور پوچھا آگے کے بارے میں تم نے کیا سوچا ہے ؟ ایوان بولی سوچنا کیا ہے۔ آگے کی شرائط تو طے شدہ ہیں۔ ماریہ بولی میں جانتی ہوں کہ تمہیں شہریار سے طلاق لے کر الگ ہو جانا ہے لیکن شہناز کا کیا ہو گا؟
شہناز کا ؟ وہ شہریار کی بیوی بنی رہے گی۔ ماریہ بولی بیوی تو بنی رہے گی لیکن رہے گی کہاں ؟ کیا تم اسے طلاق کے بعد بھی اپنے گھر میں کرایہ دار کے طور پر رہنے کی اجازت دو گی؟ کیوں نہیں مجھے تو کرائے سے مطلب ہے ؟ لیکن کیا یہ مناسب ہو گا؟ ایوان چڑ کر بولی ماریہ تم پڑھتی بہت ہو نا یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ میرے پڑھنے لکھنے سے اس کا کیا تعلق؟ یہی کہ مناسب اور نامناسب کے چکر میں بلاوجہ پڑ جاتی ہو۔ ہمارے نکاح سے قبل بھی وہ لوگ میرے کرایہ دار تھے اور طلاق کے بعد بھی رہیں گے۔ ماریہ بولی شہریار کیلئے تو شاید یہ قابلِ قبول ہو لیکن شہناز کیلئے اسے ہضم کرنا مشکل ہو گا۔
ایوان بولی دیکھو اگر شہناز کیلئے مسئلہ ہو گا تو وہ اسے حل کرے۔ سارے جہاں کا ٹھیکہ میں نے تو نہیں لے رکھا ہے ؟ ماریہ بولی اچھا ایک بات بتاؤ کہ اگر شہناز نے تم سے پوچھ لیا کہ تم طلاق کیوں لینا چاہتی ہو تو تمہارا جواب کیا ہو گا؟ ایوان بولی اس طرح کے خیالی سوالات پر غور کرنے کی فرصت میرے پاس نہیں ہے ماریہ۔ لیکن اس کا جواب سوچ لینے میں حرج ہی کیا ہے ؟ لیکن ممکن ہے وہ سوال ہی نہ کرے ؟ ماریہ نے کہا جی ہاں ممکن ہے لیکن اس میں نقصان ہی کیا ہے۔ اگر وہ سوال کر ہی بیٹھے تو اس کا معقول جواب تمہارے پاس ہونا بہتر ہے۔ ایوان نے کہا میں کہہ دوں گی میری مرضی۔ ماریہ بولی لیکن کیا اس کا اچھا اثر پڑے گا؟ مجھے نہیں لگتا۔ ایوان نے بیزاری سے کہا اپنی بلا سے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ماریہ بولی انسان کو اتنا بے مروّت بھی نہیں ہونا چاہئے۔ ایوان نے زچ ہو کر کہا کتنی بار سمجھایا مگر تم باز نہیں آتیں۔ آئندہ مجھے بوڑھی عورتوں کی طرح نصیحت نہ لگانا کیا سمجھیں ؟
ماریہ نے بات آگے بڑھائی اور بولی اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارے ان کرایہ داروں کا اس وقت کیا ہو گا جب جوناتھن واپس آ جائے گا؟ ایوان نے کچھ سوچ کر کہا یہ سوال معقول ہے۔ اس وقت میں ان سے کہوں گی کہ وہ گھر خالی کر دیں اس لئے کہ مجھے ضرورت ہے۔مانچسٹر میں ویسے بھی گھروں کی کوئی کمی نہیں ہے اور شہریار اب پہلے کی طرح بدحال بھی نہیں رہا کہ کوئی گھر کرائے پر نہ لے سکے۔وہ اچھا خاصہ مالدار ہو چکا اس کے بارے میں تم سے زیادہ کون جانتا ہے ؟ ماریہ بولی لیکن اگر کوئی جوناتھن کو تمہارے سا تھ دیکھ کر سوال کر دے کہ یہ پھر سے تمہارا شوہر کیسے بن گیا تو کیا کہو گی ؟ اس سوال کو سن کر ایوان کا پارہ چڑھ گیا وہ بولی میں سائل کی زبان تلوے سے اکھاڑ کر چیل کوّوں کے آگے پھینک دوں گی۔ اور اگر کسی نے جوناتھن کو بتا دیا کہ تم نے اس دوران شہریار سے بیاہ رچا لیا تھا تو تم کیا کرو گی۔ ایوان آگ بگولا ہو کر بولی میں اس کا خون پی جاؤں گی۔ماریہ نے ہنس کر کہا مجھے تم سے اسی جواب کی توقع تھی۔ ایوان نے پوچھا کیوں ؟ اس لئے کہ جب کوئی لاجواب ہو جاتا ہے اسی طرح کی باتیں کرنے لگتا ہے۔
ایوان نے کہا ماریہ بن مطلب کی قیاس آرائیوں سے کیا فائدہ۔ جو ہو گا سو دیکھا جائے گا ممکن ہے ان میں سے کچھ بھی نہ ہو اور کچھ ایسا ہو جائے جو ہمارے وہم و گمان سے پرے ہو؟ میں تو کہتی ہوں چونکہ اب تک سارے معاملات ہمارے منصوبے کے مطابق ہوئے ہیں اس لئے آگے بھی یہی ہو گا۔ ماریہ بولی یہی تو میں کہہ رہی ہوں۔ ایوان بولی نہیں تم مجھے بلاوجہ اندیشوں کا شکار کر رہی ہو۔ ماریہ نے کہا ایسی بات نہیں جیسا کہ تم نے کہا ابھی تک سب کچھ ہمارے منصوبے کے مطابق ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک منصوبہ بنایا گیا اور اس پرسنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کیا گیا۔ اس میں تمام اندیشوں پر غور و خوض کر کے ضروری احتیاط کا پاس و لحاظ کیا گیا۔ لیکن اب تمہاری بے جا خود اعتمادی تمہیں منصوبہ بندی سے روک رہی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ تمہارے لئے مسائل نہ کھڑا کر دے۔
ماریہ کی دلیل اس قدر معقول تھی کہ ایوان اس کو مسترد نہ کرسکی وہ بولی ماریہ میری اچھی سہیلی شاید تم ٹھیک کہتی ہو۔ تمہاری بات درست ہے۔ پہلے میرے سامنے ایک ہدف تھا اوراسے حاصل کرنے کیلئے میں نے منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اب وہ مقصد حاصل ہوا چاہتا ہے۔ اس مرحلے میں کچھ مسائل آسکتے ہیں میرا خیال ہے ہم انہیں آپس کے مشورے سے نمٹ لیں گے۔ ماریہ نے تائید کی اور بولی یہ بھی درست ہے لیکن اگر انسان تھوڑا بہت سوچ بچار کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ؟ تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس مقصد کے حصول کی خاطر تم نے ایک جعلی دستاویز کی مدد لی ہے اور اس راز کا فاش ہو جانا سنگین مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ ایوان اب سنجیدہ ہونے لگی تھی۔ اس نے کہا اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ جوناتھن کو کسی صورت یہاں آنے نہ دیا جائے ؟ ماریہ بولی کہ لیکن یہ ہمارے اختیار سے باہر کی بات ہے۔
ایوان نے کہا ماریہ میں تو تمہارے پاس اپنی خوشی بانٹنے کیلئے آئی تھی لیکن تم نے اس پر غم کی اوس ڈال دی۔ ماریہ بولی میں معذرت چاہتی ہوں۔ میں نے یہ باتیں جذبۂ خیرخواہی کے تحت کی ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ میری سہیلی پریشان ہو۔ جی ہاں ماریہ مجھے پتہ ہے اس دنیا میں میرا حقیقی دمساز و غم گسار تمہارے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ ماریہ بولی نہیں ایوان میرے خیال میں تمہارے اور بھی ہمدردو خیرخواہ ہے لیکن تم ان کو پہچانتی نہیں ہو۔ ایوان نے پوچھا مثلاً ؟ ماریہ بولی مجھے تو لگتا ہے کہ شہناز اور جوناتھن جن کو تم اپنا دشمن سمجھتی ہو تمہارے دوست ہیں۔ ایوان نے کہا اچھا!!!ماریہ بولی رات کافی ہو چکی ہے اس لئے سوجاؤ کل ہفتہ ہے تمہارے لئے چھٹی کا دن ہے لیکن ہمارا کاروبار انہیں دنوں میں زیادہ ہوتا ہے اس لئے میری مصروفیت زیادہ ہو گی۔ ایوان بولی ٹھیک ہے شب بخیر۔ شب بخیر۔
٭٭
دیکھتے دیکھتے وہ دن بھی آ گیا جب ایوان کو برطانیہ کی شہریت مل گئی۔ ایوان اس دن بہت خوش تھی اس نے سب سے پہلے اس کی خبر ماریہ کو دی۔ ماریہ نے فون پر اسے خوب مبارکباد دی اور شام کو اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ ایوان بولی جی ہاں میں ضرور آؤں گی اس موقع پر جشن ہونا ہی چاہئے۔ ایوان نے دوسرا فون شہناز کو ملایا اور اس کو بھی اس بابت بتایا۔ شہناز بھی بہت خوش ہوئی اس نے کہا تب تو اس ہفتے شاندار دعوت ہونی چاہئے میں اتوار کے دن میں اپنے سارے احباب کو بلاتی ہوں تاکہ جشن منایا جائے۔ ایوان نے شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد شہناز نے شہریار کو فون کر کے اس کی اطلاع کی تو شہریار نے کسی گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شہناز کیلئے یہ رد عمل حیرت کا سبب تھا۔ اس نے اتوار کے دن ہونے والی دعوت کے بارے میں بتایا اس پر بھی شہریار نے سرد مہری کا اظہار کیا۔ شہناز کو اس پر بھی تعجب تھا کہ ایوان نے سب سے پہلے یہ اطلاع شہریار کو کیوں نہیں دی؟ لیکن پھر اس نے سوچا کہ اب شاید وہ ایوان سے شہریار کی بہ نسبت زیادہ قریب ہو گئی ہے اور کیوں نہ ہو ایوان بھی اس کو بہن ہی جیسی لگتی ہے۔ شہناز نے بھی تو ایوان کے نئے پاسپورٹ کی خبر شہریار سے پہلے گلناز کو دی تھی۔ شہناز کا معاملہ یہ تھا کہ اب مانچسٹر میں اس کی دو بہنیں تھیں ایک گلناز اور دوسری ایوان۔ وہ دونوں سے یکساں محبت کرتی تھی۔
شہریار کو اس خبر نے پریشان کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اب ایوان کا مطالبہ کیا ہو گا؟ اس دوران وہ ایوان کے ساتھ اس قدر گھل مل گیا تھا کہ اسے اپنا عہد پورا کرنے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی۔اسے افسوس تھا کہ وہ اس چکر میں پڑا ہی کیوں ؟ بلاوجہ شہناز کو جلد بلانے کی لالچ میں اتاؤلا ہو گیا اور ایک مصیبت کو گلے لگا لیا۔ مصیبت بھی ایسی کہ اب اس سے پیچھا چھڑایا نہ جاتا تھا۔ اگر وہ کچھ وقت صبر کر لیتا تو اپنے بل بوتے پر اس قابل ہو جاتا کہ بڑے آرام سے اپنی اہلیہ کو اپنے پاس بلا لیتا۔ اسے اس بات کا بھی خوف تھا کہ اگر شہناز کو پتہ چلے گا کہ یہ شادی نہیں بلکہ ایک ڈرامہ تھا جو حکومت کو دھوکہ دینے کیلئے کھیلا گیا تو وہ ایوان کے ساتھ ساتھ اس سے بھی بد ظن ہو جائے گی ؟ شہریار کو ایسا لگ رہا تھا کہ اس راز کے فاش ہو جانے کے بعد وہ اپنی زوجہ کی نظر سے گر جائے گا۔
آزمائش کی اس نازک گھڑی میں شہریار کو بے ساختہ ارمندر یاد آئی۔ اس نے ارمندر کو فون لگا کر کہا بھابی میں آپ سے ایک اشد ضروری کام سے ملنا چاہتا ہوں۔ ارمندر نے پوچھا کیوں خیریت تو ہے تم کچھ پریشان لگ رہے ہو؟ شہریار بولا بھابی خیریت نہیں ہے۔ جی ہاں مجھے پتہ ہے شہریار جب سب ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے تو ہمیں کون یاد کرتا ہے ؟ نہیں بھابی ایسی بات نہیں۔ ہم لوگ تو ہمیشہ ہی آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں خاص طور شہناز تو آپ کے نام کی مالا جپتی رہتی ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے اس نے آپ کا ذکر کیا۔ اس نے ! کیوں خیریت تو ہے ؟ وہ تو خیریت سے ہے لیکن اس کو نہیں پتہ کہ دنیا کے مسائل کس قدر پیچیدہ ہوتے ہیں ؟ ارمندر بولی شہریار دنیا کو الزام دینے سے کوئی فائدہ نہیں۔ وہ تو انسان ہے جو اپنے لئے مسائل پیدا کرتا ہے اور انہیں الجھاتا چلا جاتا ہے۔ خیر یہ بتاؤ کہ وہ مجھے کیوں یاد کر رہی تھی ؟
شہریار نے کہا وہ آپ کی دعوت کرنا چاہتی ہے۔ یہ تو خوشی کی بات ہے لیکن کس خوشی میں اسے یہ خیال آیا؟ دراصل ایوان کا پاسپورٹ آ گیا ہے۔ اوہو یہ تو بہت ہی پر مسرت خبر سنائی تم نے۔ شہریار بولا ارمندر بھابی وہ احمق تو کچھ نہیں جانتی اس لئے اس کا خوش ہونا سمجھ میں آتا ہے لیکن آپ تو اندر کی ساری بات جانتی ہیں۔ اس کے باوجود آپ یہ کہہ رہی ہیں۔ ارمندر سمجھ گئی مسئلہ ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ وہ بولی شہریار ویسے تو یہ بالکل ہی سیدھا سادہ معاملہ ہے لیکن اگر تمہیں ایسا نہیں لگتا تو یہاں آ کر بات کرو فون پر گفتگو مناسب نہیں ہے۔ جی ہاں اسی لئے میں نے ابتداء ہی ملاقات کی گزارش سے کی تھی لیکن آپ نے بات آگے بڑھا دی۔ ارمندر نے سوچا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور بولی ہاں بابا غلطی ہو گئی اب یہ بتاؤ کہ کب آنا چاہتے ہو؟ اگر اجازت ہو تو ابھی آ جاؤں۔ جی ہاں تم چاہو تو آدھے گھنٹے بعد آسکتے ہو۔ شہریار نے شکریہ ادا کر کے فون رکھ دیا۔
شہریار کے انتظار میں ارمندر ممکنہ منظر نامے پر غور کر رہی تھی۔ شہریار کے پریشان ہونے کی کوئی معقول وجہ ارمندر کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔شہریار کو چائے کا کپ دینے کے بعد ارمندر نے پوچھا بھائی مسئلہ کیا ہے ؟ یہی تو میرا سوال ہے کہ آخر ایوان کو کیا مسئلہ ہے ؟ ارمندر بولی کیا؟ کہیں ایوان نے اپنا طلاق لینے کا ارادہ تو نہیں بدل دیا؟ شہر یار بولا گویا آپ بھی وہی چاہتی ہیں جو ایوان چاہتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے ساری دنیا میری دشمن بن گئی ہے۔ ارمندر کو لگا شہریار ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ وہ بولی شہریار تم مجھ پر کیوں بگڑ رہے ہو۔ میں نے تو بس ایک سوال کیا ہے۔ تم اس کا جواب دینے کے بجائے مجھے کوسنے لگے۔
شہریار بولا معاف کرنا میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا۔ ایوان نے اپنا ارادہ تو نہیں بدلا لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنا ارادہ تبدیل کر دے۔ لیکن تم ایسا کیوں چاہتے ہو؟ اس لئے کہ سب کچھ اچھا چل رہا ہے۔ اب اگر وہ مجھ سے الگ ہو جائے گی تو اس کا کیا ہو گا؟ جوناتھن سے وہ پہلے ہی علاحدہ ہو چکی ہے ایسے میں وہ کہاں جائے گی ؟ کیا کرے گی ؟ ارمندر بولی یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔ آپ کیسی باتیں کرتی ہیں بھابی وہ فی الحال میری بیوی ہے اور اس کا فائدہ نقصان سوچنا میری ذمہ داری ہے۔ ارمندر بولی تمہاری بات درست ہے شہریار لیکن یہ دیگ سے گرم چمچہ والی منطق میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ تم اس پر اپنی مرضی تو تھوپ نہیں سکتے ؟ اور ایسے میں جب کہ اس سے وعدہ کر چکے ہو۔ جی ہاں لیکن اس وقت کی بات اور تھی مگر اب حالات مختلف ہیں۔
ارمندر نے کہا تم کس تبدیلی کی بات کر رہے ہو ؟ مجھے تو کچھ بھی بدلا ہوا نظر نہیں آتا۔ شہریار بولا آپ کیسی بات کر رہی ہیں۔ اگر شہناز نے مجھ سے پوچھ لیا کہ میں نے اسے کیوں طلاق دے دی تو میں کیا جواب دوں گا؟ یہی کہنا کہ وہ میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اس لئے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ لیکن اگر اس نے پوچھ لیا کہ اس کو کیا تکلیف ہے ؟ وہ کیوں رہنا نہیں چاہتی تو میں کیا بولوں گا ؟ تم بولنا کہ اسی سے پوچھ لو۔ یہی تو بات ہے بھابی۔ آپ ایوان کو نہیں جانتیں وہ کوئی اوٹ پٹانگ جواب دے کر شہناز کو بھی مجھ سے بد ظن کر دے گی اور میں نہ گھر کا رہوں گا اور نہ گھاٹ کا۔ ایوان مجھے چھوڑ کر پولینڈ چلی جائے گی اور شہناز پاکستان نکل جائے گی۔
ارمندر بولی تو اس میں کون سا مسئلہ ہے شہریار تم کوئی نئی ایوان پکڑ لینا مثلاً ماریہ تو ہے ہی تمہاری دوست۔ اسے بھی برطانوی شہریت کی ضرورت ہو گی ہی۔ ارمندر کے طنزیہ انداز سے شہریار بگڑ گیا اور بولا آپ نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے۔ میں کوئی ٹیکسی ہوں جو پرانے مسافر کو اس کی منزل پر پہنچا کر نئے مسافر کے تلاش میں لگ جائے۔ میں بھی انسان ہوں بھابی انسان۔ گوشت پوست کا انسان۔ میرے بھی سینے میں دل ہے۔ میرے اپنے جذبات ہیں میں کوئی کھلونا نہیں ہوں جس سے جب تک مرضی ہے کھیلا جائے اور دل بھر جائے توڑ کر پھینک دیا جائے۔ ارمندر سمجھ گئی پانی سر سے اوپر جا چکا ہے۔ شہریار دریائے عشق میں غوطہ زن ہے۔ اس کو شہریار کی حالت پر رحم آ رہا تھا۔
ارمندر بولی عشق پر زور نہیں ہے وہ آتش اشہر۔ شہریار نے کہا یہ اشہر کون ہے ؟ ارمندر بولی جب یار اپنے شہر کی حدود سے نکل جائے تو اشہر ہو جاتا ہے۔شہر یار مسکرا کر بولا میں سمجھ گیا۔ ارمندر نے دیکھا کہ شہریار معمول پر آ رہا ہے اس لئے موقع غنیمت جان کر بولی شہریار میں تمہارے جذبات سمجھتی ہوں اور میری ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں لیکن افسوس کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ شہریار نے کہا اچھا تو یہ بتا دو بھابی کہ میں کیا کروں آج ہی جا کر عدالت میں طلاق کی عرضی داخل کر دوں اور اتوار کو اعلان کر دوں کہ ہماری طلاق ہو چکی ہے۔
ارمندر بولی تم پھر سے جذباتی ہونے لگے۔ میرا سب سے پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھو۔ دوسری رائے یہ کہ جلد بازی نہ دکھاؤ اور آخری صلاح یہ ہے کہ ایوان سے بات کرو۔ شہریار بولا کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایوان کے نزدیک ان جذبات و احساسات کی کوئی اہمیت ہے ؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ میری باتوں کو توجہ کے ساتھ سنے گی؟ اور مجھ سے اتفاق کرے گی ؟ ارمندر نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا مجھے نہیں لگتا۔ میں نے جس قدر ایوان کو سمجھا ہے اس کے نزدیک یہ سب بے معنیٰ چونچلے ہیں۔ وہ نہایت خود پسنداور مادہ پرست قسم کی بھوری آنکھوں والی بلی ہے۔اس کے باوجود شہریار تمہیں وہ سب کرنا چاہئے جو میں نے ابھی کہا۔ شہریار نے چڑ کر پوچھا کیوں ؟ ارمندر نے جواب دیا اس لئے کہ تمہارے پاس کوئی اور متبادل بھی تو نہیں ہے۔ جو کچھ کر سکتے ہو وہ کرو اور باقی معاملات اوپر والے پر چھوڑ دو۔
شہریار بولا لیکن جب میں اس کے سامنے اپنے دل کی بات رکھوں گا تووہ دھتکار کر بھگا دے گی۔اس خواری سے بھلا کیا حاصل ہو گا؟ ارمندر نے کہا ہو سکتا یہی ہو جو تم کہہ رہے ہو لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں زندگی بھر افسوس نہیں رہے گا کہ تم نے اس سے بات کیوں نہیں کی؟ اس کو اپنے دل کی بات کیوں نہیں بتائی؟ وہ آخر تمہاری بیوی تھی؟ ہو سکتا ہے کہ مان جاتی؟ ہو سکتا اس کے دل میں تم سے محبت ہوتی؟ اس طرح کے بے شمار سوالات سے چھٹکارہ پانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ تم اس سے بات کرو لیکن میں پھر ایک بار تمہیں مشورہ دیتی ہوں کہ اس گفتگو سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ کرو۔بلا ضرورت جذبات کی رو میں نہ بہو اس لئے کہ اس سے فائدہ تو کچھ نہیں ہو گا نقصان یقیناً ہو گا۔ ایک بات یاد رکھو جو انسان ساتھ رہنا نہ چاہتا ہو اسے ساتھ رکھنا اس کا ساتھ چھوڑنے سے زیادہ کربناک ہوتا ہے۔ شہریار بے دلی سے اٹھا اور خدا حافظ کہہ کر دفتر لوٹ آیا۔
۲۷
دفتر میں آنے کے بعد جب شہریار نے ارمندر کے ساتھ اپنی گفتگو پر سنجیدگی سے غور کیا تو اسے اپنے آپ پر ہنسی کے ساتھ ساتھغصہ بھی آیا۔ اسے ا خوشی تھی توس بات کی کہ یہ طفلانہ حرکت ایوان یا شہناز کے سامنے سرزد نہیں ہوئی تھی ورنہ بڑی خواری ہوتی۔ شہریار نے اس کا کفارہ ادا کرنے کیلئے سب سے پہلے تو ارمندر کو فون لگا کر اس سے معافی مانگی۔ ارمندر بولی میں تمہارے جذبات کی قدر کرتی ہوں شہریار تم ایک دردمند انسان ہو اور انسان کو ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن افسوس کہ تمہارا پالا جس سے پڑا وہ انسان نہیں مشین ہے۔ احساس و جذبات سے عاری ایک بے جان روبوٹ جو انسانوں جیسے بہت سارے کام کرتا ہے لیکن انسان نہیں ہوتا۔ شہریار نے پھر سے شکریہ ادا کیا۔ ارمندر کی نصیحت کے پیش نظر وہ ایوان سے گفتگو کا لائحہ عمل تیار کر نے لگا تھا۔
شام میں جب وہ دفتر سے نکلنے لگا تو مولچند کا فون آیا۔ اس نے شہریار سے پوچھا کہ اگر اس اتوار کو ایک میٹنگ رکھی جائے تو کیا اس کیلئے لندن آنا ممکن ہو گا؟ شہریار نے بتایا اس اتوار کو شہناز نے احباب کی ایک دعوت رکھی ہے اس لئے اگر لندن آنا لازمی ہو تو اس دعوت کو ملتوی کر دیا جائے ؟ مولچند بولا نہیں اس کی ضرورت نہیں تم ایسا کرو کہ ہفتے کے دن آ جاؤ اور شام میں لوٹ جانا۔ چونکہ بقیہ شرکاء یہیں لندن کے ہیں اس لئے تم سے پہلے پوچھ لیا۔ شہریار بولا شکریہ لیکن اگر نشست بہت صبح ہو تو مجھے رات ہی میں آنا ہو گا اس لئے کہ آج کل کہرا اس قدر دیر تک ہوتا کہ صبح میں گاڑی چلانا مشکل ہے۔
مولچند بولا تو اس میں کون سا مسئلہ ہے۔ میں تمہارے لئے ہوٹل میں کمرہ مختص کروا دیتا ہوں تم اپنے ساتھ جس کو چاہو لے آنا۔ شہریار نے پوچھا جس کو سے کیا مراد ہے ؟مولچند نے زوردار قہقہہ لگا کر جواب دیا میرا مطلب ہے دونوں میں سے جس بیوی کو چاہو لے آنا۔ شہریار نے شکریہ ادا کر کے فون رکھ دیا۔ مشیت اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ اس نے سوچا ایوان کے ساتھ جمعہ کی شام کو نکل لیا جائے۔ تنہائی میں فرصت سے بات بھی ہو جائے گی۔ شہریار نے ایوان کو یہ بتایا کہ جمعہ کو لندن چلنا ہے تو وہ بولی یہ بہت اچھا ہے۔ میں دفتر سے آدھے دن کی چھٹی لے لیتی ہوں۔ ہم لوگ اجالے ہی میں نکل جائیں گے۔ ایوان نے ماریہ سے مشورہ کیا۔ ماریہ نے بھی اسے بہت سراہا۔ وہ خود تفصیل کے ساتھ شہریار سے گفتگو کرنا چاہتی تھی اس لئے کہ ماریہ نے اسے خاصہ ڈرا دیا تھا لیکن وہ ڈرنے والوں میں سے نہیں تھی۔
راستے میں تو خیر وہ لوگ رسمی باتیں کرتے رہے۔ اتوار کو ہونے والی دعوت بھی زیر بحث آئی لیکن لندن پہنچنے کے بعد ان لوگوں نے کھانا کمرے ہی میں منگوایا اور باقاعدہ گفتگو کا آغاز ہوا۔ ابتداء شہریار نے کی اور پوچھا ایوان شہریت کا مسئلہ تو حل ہو گیا اب کیا ارادہ ہے ؟ ایوان بولی کیا مجھے اپنی شرائط یاد دلانی ہوں گی۔ بہتر ہوتا کہ ہم لوگ انہیں لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتے۔ شہریار نے ایوان کے تیور سے اندازہ لگا لیا تھا کہ ہوا کا رخ کس جانب ہے۔ شہریار نے جواب دیا ایوان شاید تم نہیں جانتیں کہ تحریر لکھنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ ایوان بولی خطرہ! کیسا خطرہ؟ شہریار نے کہا اس طرح حکومت کو فریب دینے کیلئے شادی کرنا قانوناً جرم ہے۔ ایوان بولی لیکن جرم تو اس وقت ثابت ہوتا جب ہم میں سے کوئی اس اقرار نامہ کو لے کر عدالت میں جاتا؟ اگر باہم اعتماد ہو تو خطرہ کیسا؟ شہریار نے جواب دیا جی ہاں تم نے میرے الفاظ چھین لئے ایوان اگر باہمی اعتماد پایا جاتا ہو تو تحریری دستاویز کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایوان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ وہ بولی میں معذرت چاہتی ہوں شہریار۔ کوئی بات نہیں شہریار بولا۔
ایوان نے بات آگے بڑھائی اور سوال کیا لیکن کیا میں یہ پوچھ سکتی ہوں کہ تم نے یہ سوال کیوں کیا؟ شہریار بولا ایوان آج سے تقریباً دوسال قبل ہم نے آپس میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس وقت ہمارے درمیان شناسائی تو تھی لیکن کوئی رشتہ نہ تھا۔ ہم ایک دوسرے کو جانتے تو تھے لیکن چاہتے نہیں تھے۔شہریار اپنی گفتگو میں بہت ہی جچے تلے الفاظ استعمال کر رہا تھا۔ ایوان کو لفظ چاہتے کے استعمال نے چونکا دیا تھا۔ اب اسے بھی ہوا کے رخ کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ شہریار نے اپنی بات جاری رکھی اور بولا ایوان وقت اور حالات کے ساتھ انسان کی سوچ بدلتی ہے۔ اس کی رائے بھی تبدیل ہو تی ہے اور ان تبدیلیوں کا اثر عزائم و ارادوں پر بھی پڑتا ہے اس لئے مجھے یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
ایوان بولی تمہیں کیا لگتا ہے کہ میرا ارادہ بدل گیا ہو گا؟ جی ہاں مجھے یہ ایسا لگتا ہے ایوان۔ اس کی وجہ ؟ شہریار بولا وجہ یہ ہے کہ جس وقت تم نے یہ تجویز رکھی تھی تمہارا ارادہ جوناتھن سے کنارہ کش ہونے کا نہیں تھا۔ایوان بولی لیکن تمہارے اصرار پر میں نے وہ بھی کر دیا۔ جی ہاں ایوان وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ پہلے تم اس سے جدا ہو گئیں اب مجھ سے بھی الگ ہونے جا رہی ہو تو اپنی تنہائی کے بارے میں تم نے غور کیا ہے ؟ ایوان سمجھ گئی تھی کہ شہریار کون سا دام ڈال رہا ہے۔ وہ بولی تمہاری ہمدردی کا شکریہ۔ میں اپنا بھلا برا جانتی ہوں۔ تم اگر صحیح معنوں میں میرے خیرخواہ ہو تو اپنے عہد کی پاسداری کرو۔
شہریار بولا دیکھو ایوان میرا بدعہدی کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن میں تم پر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ سچ پوچھو تو مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ سچی محبت۔ جس وقت تم نے میری خاطر اپنے خاوند اور جگر گوشے سے علاحدگی اختیار کرنے کا ارادہ کیا میں اسی دن سے تمہاری محبت میں گرفتار ہو گیا اور تمہارے طلاق نامہ کا شدت کے ساتھ انتظار کرنے لگا۔ ایوان بولی لیکن تم یہ بھی تو کہہ سکتے ہو کہ میں نے یہ قربانی تمہارے لئے نہیں بلکہ برطانوی شہریت کی خاطر دی ہے۔ نہیں ایوان برطانوی شہریت کی خاطر تو تم صرف مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ ان لوگوں سے قطع تعلق تو میرے اصرار کے سبب تھا اور مجھے امید نہیں تھی کہ تم اتنا بڑا اقدام کر گذرو گی اس لئے کہ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے میں جانتا ہوں۔
ایوان بولی اچھا تو تم نے جانتے بوجھتے وہ مطالبہ کیوں کیا؟ شہریار بولا میں تم کو بنجامن سے الگ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن جوناتھن سے علاحدگی لازمی تھی اور اس کے نتیجے میں بنجامن کو بھی جدا ہونا پڑا اس کا مجھے افسوس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر بنجامن تمہارے ساتھ ہوتا تو میں اس کی پرورش اپنی اولاد کی طرح کرتا۔ ایوان نے حیرت سے پوچھا وہ کیوں ؟ شہریار بولا تمہاری خاطر ایوان تمہیں خوش رکھنے کی خاطر اس وقت میں کیا کیا سوچا کرتا تھا یہ میں ہی جانتا ہوں۔ تم نہیں جانتیں کہ وہ زمانہ میں نے کیسے گزارہ لیکن میں نے کسی طرح اپنے آپ کو قابو میں رکھا۔ ایوان کو شہریار کا معصومانہ اعتراف بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ مسکرا کر بولی میں نہیں مانتی۔ تم نے اسی زمانے میں بلا توقف میری سوتن کو پاکستان سے یہاں بلوا لیا اور اس کے ساتھ میرے گھر کے اندر چلے آئے۔
شہریار بولا جی ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے شہناز کو بلانے میں سرعت سے کام لیا لیکن پہلے تم سے اجازت حاصل کی اس کے بعد ہی یہ کیا؟ میں اجازت کی نہیں محبت کی بات کر رہی تھی شہریار۔ جی ہاں شہناز کو بلانا بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کا ایک ذریعہ تھا۔ شہناز نے یہاں آ کر میرے لئے زرہ بکتر کا کام کیا۔ اس نے میری حفاظت کی ورنہ شاید ہمارے نکاح تک مجھے اپنے منہ زور نفس پر قابو رکھنا آسان نہ ہوتا۔ اور میرے گھر میں چلے آنے کو کیا کہو گے ؟ وہ تمہاری قربت کی سبیل تھی بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایوان کو حیرت تھی کہ شہریار کے پاس اس کے ہر سوال کا معقول جواب تیار تھا۔ ایوان نے کہا شہریار تم پچھلے نصف گھنٹے میں کئی مرتبہ اپنی محبت کا ذکر کر چکے ہو کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے ؟
شہریار بولا ایوان کاش محبت کی کوئی طبعی حالت بھی ہوتی تاکہ میں اسے ناپ تول کر بتا سکتا کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے لیکن افسوس کہ ایسا کوئی آلہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا جو اس جذبے کی پیمائش کرسکے۔ ایوان کو اس گفتگو میں لطف آنے لگا تھا اس لئے کہ آج تک اس سے اس قسم کی باتیں کسی نے نہیں کی تھیں۔ جوناتھن یہ کرسکتا تھا لیکن اس کے ساتھ ایوان کا رویہ اس قدر تضحیک آمیز تھا کہ اس کے دل میں ایوان کے تئیں محبت کے بجائے نفرت کے شعلے موجزن ہو گئے۔ وہ بدستور ایوان کے ساتھ اپنے رشتۂ ازدواج پر ماتم کناں رہا۔ ایوان نے چہک کر سوال کیا چلو تمہاری یہ بات تسلیم کئے لیتے ہیں کہ محبت کو ناپا تولا نہیں جا سکتا لیکن اس کا موازنہ تو کیا جا سکتا ہے ؟ شہریار بولا موازنہ ! میں موازنہ بھی نہیں کرسکتا ؟ ایوان نے پوچھا کیوں ؟ اس لئے کہ اس کے مقابلے کوئی اور شہ کسی شمار میں نہیں آتی۔
ایوان نے پوچھا واقعی یا دل لگی کر رہے ہو؟ شہریار غمگین ہو کر بولا میں نے تو اپنا دل نکال کر تمہارے سامنے رکھ دیا مگر تم اسے اب بھی دل لگی سمجھ رہی ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ ایوان بولی اچھا میرے ایک سوال کا جواب دو۔ پوچھو ایوان آج تم اپنے سارے سوالات پوچھ لو میں سب کا جواب دوں گا۔ ایوان بولی شکریہ۔ اچھا اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سچ سچ بتاؤ کہ تمہیں مجھ سے زیادہ محبت ہے یا شہناز سے ؟ ایوان کا خیال تھا اس سوال کے جواب میں شہریار شش و پنج میں گرفتار ہو جائے گا لیکن اسے حیرت کا شدید جھٹکا جب بلا جھجک شہریار نے کہہ دیا میں تم سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔ ایوان ایک زوردار قہقہہ لگا کر بولی کہنے کو تو کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے مثلاً میں بھی کہہ سکتی ہوں کہ ۔۔۔ کہ کیا؟شہریار نے سوال کیا۔ کچھ نہیں ایوان بولی۔ شہریار نے کہا ایک بار یونہی کہہ دو جھوٹا ہی سہی جملہ پورا کر دو حالانکہ وہ بس ایک مثال ہے اک مفروضہ۔
ایوان نے کہا نہیں شہریار ایسی بات نہیں میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ اگر واقعی تم شہناز سے زیادہ محبت مجھ سے کرتے ہو تو کیا میرے لئے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے جس طرح میں نے جوناتھن سے تعلق منقطع کر لیا۔ ایوان جھوٹ بول رہی تھی۔ اس نے جوناتھن سے تعلق توڑا نہیں تھا بلکہ اس کا ناٹک کیا تھا۔ شہریار بولا کیوں نہیں میں تمہاری خاطر ساری دنیا سے تعلق توڑ لوں گا۔ ایوان نے پوچھا لیکن اس دنیا میں شہناز شامل ہو گی یا نہیں ؟ کیوں نہیں بشمول شہناز میں سب کو چھوڑ دوں گا۔ جس طرح تمہارے لئے جوناتھن ہے اسی طرح میرے لئے شہناز ہے اور اگر تم اس سے الگ ہو سکتی ہو تو میں کیوں نہیں ؟
ایوان کا آخری تیر خطا ہو چکا تھا۔ اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا شہریار میرا خیال ہے کہ ہم لوگ بحث و مباحثہ میں بہت دور نکل گئے۔ میں ایسی خود غرض بھی نہیں کہ اپنے لئے کسی اور کا سہاگ چھین لوں۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنا وعدہ پورا کرو تاکہ ہم پھر ایک بار میاں بیوی سے اچھے دوست بن جائیں۔ اچھے دوست؟ جی ہاں جس طرح پہلے کسی زمانے میں ہوا کرتے تھے۔شہریار نے پوچھا کیا وہ زمانہ لوٹ کر واپس آسکتا ہے ؟ ایوان بولی کیوں نہیں ؟ شہریار نے تردید کی مجھے نہیں لگتا۔ ایوان بولی مجھے لگتا ہے۔ اس کے بعد ایوان نے اپنے دل میں کہا اگر نہ بھی آئے تو اپنی بلا سے۔ مجھے اس کی پرواہ کب ہے ؟
شہریار نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھ کر کہا ایوان کیا میں بتا دوں کہ تم کیا سوچ رہی ہو؟ ایوان بولی اچھا تو تم ذہن شناسی کا بھی فن جانتے ہو؟ جانتا تو نہیں ہوں پھر بھی بتا سکتا ہوں۔ ایوان بولی اچھا بتاؤ۔ شہریار بولا’’ اگر نہ بھی آئے تو اپنی بلا سے۔ مجھے اس کی پرواہ کب ہے ؟‘‘ ایوان بولی بڑے بدگمان ہو تم مجھ سے۔ شہریار بولا اگر یہ بدگمانی ہے تو میں اس پر مسرورہوں۔ ایوان بولی اگر یہی بات ہے تو سوجاؤ ورنہ کل میٹنگ میں نیند کے جھونکے لو گے اور مجھے بدنام کرو گے۔ شہریار بولا جی ہاں ایوان اب سوجانا چاہئے۔
دوسرے دن جس وقت شہریار نشست کیلئے روانہ ہوا ایوان سورہی تھی۔ اٹھنے کے بعد وہ دیر تک رات کی باتوں پر غور کرتی رہی اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ شہریار پاگل ہو گیا ہے نیز کسی مجنون کے ساتھ گزارہ کرنا اس کیلئے ممکن نہیں ہے ؟ اس لئے پہلی فرصت میں اس سے چھٹکارہ حاصل کر لینا چاہئے۔ شہریار کو واپسی میں خاصی دیر ہو گئی۔ شام کے سائے طویل ہونے لگے تھے دوسرے دن اگر دعوت نہ ہوتی تو وہ ایک دن اور رک جاتا لیکن واپس آنا لازمی تھا اس لئے اس نے استقبالیہ سے بل بنانے کیلئے کہا اور ایوان کو وہیں بلا لیا۔ ایوان تیار بیٹھی تھی جتنی دیر میں اس نے ادائیگی کی اتنی دیر میں ایوان گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔
گھر کے قریب پہنچ کر شہریار نے پوچھا کیا کارروائی فوراً شروع کر دی جائے ؟ ایوان بولی نہیں وکلاء کا کہنا ہے کہ اگر تین مہینے کے اندر طلاق ہو جائے تو انتظامیہ کو شک ہونے لگتا ہے اور وہ تفتیش کرنے لگتے ہیں اس لئے میرا خیال ہے کچھ تاخیر بہتر ہے۔ شہریار نے سکون کا سانس لیا اور بولا ٹھیک ہے میں تمہاری ہدایت کا منتظر رہوں گا۔ ایوان بولی شکریہ شہریار تم کتنے اچھے ہو۔ شہریار نے شوخی بھرے انداز میں پوچھا کیا یہ کوئی تازہ انکشاف ہے ؟ایوان نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اعتراف کیا جی نہیں۔ میری تو ہمیشہ سے یہی رائے ہے اور رہے گی۔ میں تو بس کل رات ذرا سی ڈر گئی تھی۔
ایوان نے واپس آنے کے بعد ماریہ سے ملاقات کی اور اس کو ساری تفصیل سے آگاہ کر دیا۔ ان باتوں کو سن کر ماریہ کے ہوش اڑ گئے۔ اس کے خیال میں دنیا کی سب سے سفاک مخلوق ایوان تھی لیکن شہریار کی جانب سے ایوان کی خاطر اپنی فرشتہ صفت شریک حیات شہناز کو چھوڑ دینے کی بات ناقابلِ یقین تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ شہریار کو ایوان سے متعلق کوئی غلط فہمی تھی۔ وہ جانتا تھا ایوان کس قدر خود غرض عورت ہے۔ اس نے کس طرح اپنے شوہر اور بچے سے بیوفائی کی ہے۔ شہریت کے حصول کی خاطر کس آسانی سے وہ جوناتھن کے نکاح میں رہتے ہوئے اس سے شادی کرنے کیلئے تیار ہو گئی تھی۔ ان تمام باتوں کا علم رکھنے کے باوجود اگر کوئی اپنی وفا شعار بیوی پر اسے ترجیح دے تو اس سے متعلق ایوان کی رائے کہ وہ دیوانگی کا شکار ہے اس لئے جلد از جلد اس سے پیچھا چھڑا لینے میں بھلائی ہے صد فیصد درست ہے۔
۲۸
شہناز کے گھر دعوت میں سارے لوگ موجود تھے۔ شہناز نے بہت عمدہ پکوان بنوائے تھے۔ انتظام و انصرام میں بھی کمال سلیقہ مندی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے تھے۔ دھرمندر نے شارق سے کو چھیڑا یار تیرا ہم زلف تو خوب عیش کر رہا ہے اور تو ہے کہ ہمت ہی نہیں کرتا؟شارق نے کہا بھائی قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے ہم تو ایک ہی سے پریشان ہیں اور وہ بیچارہ دو پہیوں کے بیچ پس رہا ہے نہ جانے اس کا کیا حال ہو گا؟ اندر جو بھی حال ہو لیکن باہر تو بہت خوش نظر آتا ہے دھرمندر بولا۔ شارق نے کہا بھائی اس کا کاروبار بھی تو بہت زور و شور سے چل پڑا ہے اس لئے اسے خوش ہونا ہی چاہئے۔ دھرمندر بولا جی ہاں اور تو جانتا ہے اس کے گھر میں بھی ایک انگریزی میم ہے اور دفتر میں بھی اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں۔
ارمندر پیچھے بیٹھی ان کی باتوں سن رہی تھی۔ وہ قریب آ کر بولی آپ لوگ اس عمر میں بھی ایسی باتیں کرتے ہیں شرم آنی چاہئے۔ شارق بھائی ان کی بدھی بھرشٹ ہو چکی ہے لیکن آپ تو سمجھدار آدمی ہیں آپ انہیں سمجھانے کے بجائے ان کی باتوں میں آ گئے۔ دھرمندر بولا ایک تو تو چھپ کر ہماری باتیں سنتی ہے اور اوپر سے ہمیں نصیحت لگاتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں تجھے شرم آنی چاہئے جا اور اپنا کام کر۔ ارمندر بولی یہ دیکھو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ دھرمندر بھڑک گیا اوئے جا ادھر سے بہت کوتوال نہ بن میں سب جانتا ہوں کہ چور کون ہے اور کوتوال کون ہے ؟ ارمندر سر جھکا کر دوسری جانب چلی گئی۔
دھرمندر بولا یار شہریار کی چھوڑ اور اپنی بتا کہ تیرا کاروبار کیسے چل رہا ہے ؟ شارق بولا میرا بھی شکر ہے خدا کا میں ایک نئی دوکان ہیلی فیکس میں کھولنے جا رہا ہوں۔ بھئی مبارک ہو تو گویا یہ تیری چوتھی دوکان ہو گئی کیوں ؟ جی ہاں دھرم اوپر والے کا بڑا ا حسان ہے۔دھرمندر نے پوچھا سارا انتظام تو ہو گیا ہے کوئی مشکل تو نہیں ہے۔ نہیں ابھی جگہ دیکھ لی ہے دو مہینے کے اندر ساری تیاری ہو جائے گی آدمی بھی آ جائیں گے بس پھر ہو جائے گی ہماری ایک اور دعوت۔
دھرمندر نے کہا یہ تو بڑی اچھی خبر سنائی تو نے۔شارق بولا دھرم تجھے وہ جوناتھن یاد ہے ؟دھرمندر بولا ارے وہ ایوان کا پرانا خصم۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ شارق نے کہا اس سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر ہو سکا تو تجھے یہاں بلواؤں گا۔وہ بیچ بیچ میں میل کر کے یاد بھی دلاتا رہا۔ میں نے سوچا کہ اس بار اپنا وعدہ نبھا دوں۔دھرمندر خوش ہو کر بولا یہ تو بہت اچھا کیا تو نے بڑا چنگا بندہ تھا اور اس چڑیل نے دیکھو کیا معاملہ کیا اس کے ساتھ۔ شارق بولا دیکھو تم ایوان کو چڑیل بولو گے تو شہناز تمہارا منہ نوچ لے گی۔ دھرمندر بولا ہاں یار ان دونوں کی بھی عجیب دوستی ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔شارق بولا یار جوناتھن والی بات اپنے تک رکھنا ورنہ بلاوجہ شہریار سے میرے تعلقات بگڑ جائیں گے۔
جوناتھن تل ابیب میں چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے دن کاٹ رہا تھا۔ تند و تیز حالات کے تھپیڑے کھاتے کھاتے اب وہ مستقل ملازمت سے پوری طرح مایوس ہو چکا تھا۔ وہ جب بھی اپنی حالتِ زار پر غور کرتا اسے ایوان پر غصہ آتا۔ وہ اچھا بھلا اپنے خاندان والوں کے ساتھ مل جل کر رہ رہا تھا۔ اب بھی اس کے بھائی وارسا میں عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ایوان نے سب سے پہلے تو یہ کیا کہ اس کو اپنی شاخ سے جدا کر دیا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ اس کو برطانیہ بلا کر خوار کیا اور پھر سب سے آخری فیصلہ یہ کیا کہ اسرائیل بھیج کراس کا بیڑہ غرق کر دیا۔ یکے بعد دیگرے اس تیسری شکست سے اس کا حوصلہ اس قدر پست ہو گیا تھا کہ جینے امنگ ہی اس کے اندر سے مٹ گئی تھی۔اب وہ جی نہیں رہا تھا بلکہ موت کی جانب گھسٹ رہا تھا۔ ایسے میں شارق کا میل اس کیلئے بادِ نسیم بن کر آیاجس میں اطلاع دی گئی تھی کہ وہ نئی دوکان کھول رہا ہے اور پوچھا گیا تھا کہ اگر دلچسپی ہو تو بتائے ؟
اس خط کو دیکھ کر جوناتھن خوشی سے جھوم اٹھا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا اور پوچھا کہ کب آنا ہے بتائے ؟ جوناتھن نے تنخواہ تک کے بارے میں جاننے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی اسے یقین تھا شارق اس کا استحصال نہیں کرے گا۔ وہ جن استحصالی شیطانوں کے درمیان گھرا ہوا تھا ان کے مقابلے شارق اسے فرشتہ نظر آ رہا تھا۔ جوناتھن نے اپنے خط کی نقل ایوان کو بھی روانہ کی اور اسے لکھا کہ بہت جلد ہم لوگ ملیں گے۔ جوناتھن نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ دو ماہ کے اندر اگر وہ آتا ہے تو کیا بنجامن کو ساتھ لایا جائے ؟یا اس کو اپنا تعلیمی سال مکمل کرنے دیا جائے ؟اس لئے کہ اس میں چھے ماہ کا طویل عرصہ باقی تھا۔
یہ خط ایوان پر بم بن کر گرا۔ اس موقع پر ایوان کیلئے اس خط سے بری خبر کوئی اور نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس نے خط کو ماریہ کی طرف آگے بڑھایا اور شہناز سے کہہ کر رات گزارنے کیلئے ماریہ کے پاس چلی گئی۔ شہناز بولی کوئی بات نہیں۔ایوان کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ بے چینی سے شام کا انتظار کر رہی تھی۔ جوناتھن کو آنے سے روکنے کی ترکیب سوچ رہی تھی لیکن بات بن نہیں پا رہی تھی۔ ماریہ بھی خط کو دیکھ کر فکر مند ہو گئی تھی وہ جانتی تھی کہ شام میں ایوان کیا ہنگامہ کرنے والی ہے۔ لیکن اس کے پاس بھی اس مسئلہ کو کوئی خاطر خواہ حل نہیں تھا۔ ماریہ کی تو پہلے ہی سے رائے تھی کہ شاخِ نازک پر بننے والا یہ آشیانہ کسی صورت پائیدار نہیں ہو گا۔ آج نہیں تو کل ہوا کے ایک جھونکے سے مکڑی کا یہ جال بکھر جائے گا لیکن وہ طوفانی جھونکا اس قدر تیز اور جلد آ دھمکے گا اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔
ایوان کے پاس ماریہ کے گھر کی ایک فاضل چابی تھی اس لئے وہ ماریہ سے پہلے اس کے گھر میں آ دھمکی اور ٹیلی ویژن سے دل بہلانے کی کوشش کرنے لگی۔ایوان ٹی وی تو کیا دیکھ رہی تھی بس چینل کے بعد چینل بدلتی جاتی تھی۔ کسی مقام پر دو منٹ سے زیادہ رکتی ہی نہیں تھی۔ اس کو کچھ اچھا ہی نہیں لگتا تھا اور لگتا بھی کیسے ؟ جب اندر اس قدر زبردست طوفان برپا ہو تو بھلا باہر سکون کیونکر ہو سکتا ہے ؟ ماریہ چونکہ ایوان کی فطرت سے واقف تھی اس لئے جانتی تھی کہ ایوان اس صورتحال میں اسے نہ کھانا بنانے دے گی اور نہ کھانے دے گی۔خود بھی بھوکی رہے گی اور اس کو بھی فاقہ کرنے پر مجبور کر دے گی اس لئے ماریہ مطعم سے کھانا بندھوا کر اپنے ساتھ لے آئی۔
ماریہ نے گھر پہنچنے کے بعد کہا ایوان پہلے کھانا کھاتے ہیں پھر بات کرتے ہیں۔ ایوان بولی تم نے میرا میل نہیں دیکھا ؟ دیکھا ہے میں اسی پر بات کرنے کے بارے میں کہہ رہی تھی۔ کمال کی کٹھور عورت ہو تم۔ اس میل کو پڑھنے کے باوجود تمہیں کھانے کی سوجھ رہی ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ پہلے بات کرتے ہیں پھر کھانا وانا کھالیں گے۔ ماریہ بولی مجھے ڈر ہے کہ ہماری بات لمبی چلے گی اور کھانے کا کام پانچ منٹ کا ہے اس لئے اسے ٹھنڈا کر کے آدھی رات میں کھانے سے بہتر ہے کہ ابھی زہر مار کر لیں۔ ایوان بولی تم نے یہ اچھا کہا اگر تمہارے پاس تھوڑا سا زہر ہو تو مجھے دے دو اور خود آرام سے کھانا کھاؤ۔ ماریہ ایوان کی دھونس دھمکی میں آنے والوں میں سے نہیں تھی اس نے میز پر کھانا لگایا اور بولی بیچ کا راستہ نہ کھانا پہلے اور نہ بات بلکہ دونوں ساتھ ساتھ۔
ایوان بولی لیکن کھانے کیلئے بھوک بھی تو ضروری ہے۔ ماریہ بولی تم میز پر آ کر بیٹھو تو سہی گرم گرم کھانا دیکھ کر تمہاری بھوک اپنے آپ کھل جائے گی میں آج تمہارے شہریار کے پاکستانی ہوٹل سے تمہاری پسندکی نہاری اور چپلی کباب لائی ہوں۔ ایوان بولی مجھے نہ نہاری چاہئے نہ کباب میرے بس میں ہو تو تمہیں کھا جاؤں۔ وہ بھی اچھا متبادل ہے ماریہ بولی اس طرح میں تو تمہاری بک بک سے بچ جاؤں گی مگر سوچو کہ تمہارا کیا ہو گا ؟میرے بعد کس سے بات کرو گی ؟ جوناتھن کے بعد اب تم نے شہریار سے بھی پنگا لے لیا ہے۔
ایوان صوفے سے اٹھ کر میز پر آئی اور کرسی سنبھال کر بولی میں نے تم جیسا سفاک انسان نہیں دیکھا۔ ماریہ بولی کیوں آئینہ دیکھنا بند کر دیا ہے کیا؟ آئینہ تو بعد میں دیکھوں گی پہلے تمہارے کباب اور نہاری کو تو دیکھوں ماریہ سچ بات تو یہ ہے کہ نہاری چیز ہی کچھ ایسی ہے کہ انسان کا اپنے آپ پر بس ہی نہیں چلتا۔ یقین مانو یہ اس کی خوشبو ہے جو مجھے کھینچ کر یہاں لے آئی۔ ماریہ بولی زہے نصیب اب شروع ہو جاؤ۔ یہ پلاؤ ہے اور یہ تندوری روٹی۔ ویسے ان کو نوش فرمانا ضروری نہیں ہے۔ادھر چکن تکہّ بھی ہے اگر مناسب سمجھو تو ۔۔۔۔ ایوان بولی تم تو مجھے مار ہی ڈالو گی۔ یہ سب کھانے کے بعد تو پھر خوب زور سے نیند آئے گی۔ یہی تو میں چاہتی ہوں ماریہ بولی۔ کیا؟؟؟ جی ہاں میں یہی چاہتی ہوں کہ میری پیاری سہیلی خوب جم کر اپنے من پسند کھانا کھائے اور گہری نیند میں سو جائے۔
ایوان بولی مجھے پہلے کھانے سے فارغ ہو جانے دو پھر بتاتی ہوں کہ سوتا کون ہے اور جاگتا کون ہے ؟ کھانے کے بعد ماریہ گرم گرم چائے بنا کر لے آئی اور بولی اب بولو ایوان کیا کیا جائے ؟ مار دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے ؟تمہارے جوناتھن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ ایوان بولی کاش کہ کوئی اس کو جان سے مار دیتا تاکہ وہ یہاں لوٹ کر نہیں آ پاتا۔ ماریہ بولی اگر اجازت ہو تو میں آئینہ لے آؤں ؟ ایوان بولی ماریہ اب ہنسی مذاق بند۔یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے اس موقع پر جوناتھن کا ادھر آنا میرے سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دے گا۔
میں جانتی ہوں ماریہ بولی مجھے تم سے صد فیصد اتفاق ہے لیکن اس صورتحال سے نکلنے کی سبیل کیا ہے ؟ ایوان بولی میرا خیال ہے کسی طرح کم از کم چھے ماہ کیلئے جوناتھن کو یہاں آنے سے روکنا ضروری ہے۔ اس وقت تک سارا معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ میں اس گھر کو خالی کر کے کسی اور علاقے میں چلی جاؤں گی جہاں کسی کو پتہ نہیں ہو گا کہ میں کون ہوں ؟ جوناتھن کون ہے ؟ شہریار کس کا نام ہے ؟ اور شہناز کیا بلا ہے ؟لیکن اس کیلئے وقت چاہئے۔ ماریہ بولی دیکھو یہ صرف وقت کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ نہ بھولو کہ جوناتھن شارق کے پاس آ رہا ہے اس لئے تمہارا یہ گورکھ دھندہ اس سے چھپانا نہ رہ سکے گا۔
ایوان بولی یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ شارق چھے ماہ انتظار نہیں کرے گا۔ وہ کسی اور کو ملازم رکھ لے گا اوراس صورت میں جوناتھن کسی اور کے پاس آئے گا۔ ماریہ بولی لیکن فی الحال اس کو روکنے کی کوئی معقول وجہ کم از کم میرے پاس تو نہیں ہے۔ وہ بیروزگار ہے اس کے پاس ایک کمپنی کا آفر لیٹر ہے اب بھلا وہ کیوں کر رک سکتا ہے ؟کیا ہم شارق کو منع نہیں کر سکتے کہ وہ جوناتھن کو نہ بلائے ؟ مجھے نہیں لگتا کہ ہم لوگ شارق کو کوئی معقول وجہ بتا سکیں گے بلکہ ہمارا ایسا کرنا شکوک و شبہات کو جنم دے گا۔ایوان بولی تو کیا کیا جائے ؟ کیا میں وارسا واپس چلی جاؤں یا خودکشی کر لوں ؟ کیا کروں اب تم ہی بتاؤ۔
ماریہ بولی دیکھو ایوان جو کچھ ہو چکا ہے اسے چھپایا تو نہیں جا سکتا۔ وہ جب بھی آئے گا اسے پتہ چل جائے گا اس لئے اب لیپا پوتی بے سودہے۔ایوان بولی تو کیا اخبار میں یہ خبر شائع کروا دیں یا ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کر دیں کیا کریں بتاؤ؟ ماریہ بولی شہریار کے ساتھ رہتے رہتے تم بھی جذباتی ہونے لگی ہو اور اتنا یاد رکھو کہ جذبات کی رو میں بہنے والا انسان خود اپنے سوا کسی اور کا نقصان نہیں کرتا۔ماریہ میں تمہارے پاس پند و نصائح سننے کیلئے نہیں آئی ہوں اگر یہی کرنا ہے تو میں ابھی واپس اپنے گھر چلی جاؤں گی۔ ماریہ بولی دیکھو ایوان آج میں دن بھر تمہارے بارے میں سوچتی رہی اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ ۔۔۔۔ بولو بولو رک کیوں گئیں ایوان بولی جو من میں آئے بولو میں تمہارا قتل تھوڑے ہی کروں گی؟
ماریہ نے اطمینان سے کہا دیکھو یہ میری رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے اس لئے اگر تمہاری سمجھ میں نہ آئے تو اسے ٹھکرا دو۔ ایوان بولی مجھے لگتا ہے کہ یقیناً تم کوئی نامعقول مشورہ دینے جا رہی ہو ورنہ اس قدر پیش بندی کی ضرورت نہیں تھی۔ ماریہ نے کہا نہیں ایسی بات نہیں میں سوچتی ہوں کہ اس فسانے کو حقیقت بنا دیا جائے۔ ایوان بولی تمہاری بات نہیں سمجھی۔ ماریہ نے کہا بات صاف ہے تم نے جو جعلی طلاق نامہ جمع کیا ہے اگر جوناتھن اس کا انکار کر دے تو شہریار سے نکاح کالعدم ہو جائے گا اور اس کی بنیاد پر حاصل ہونے والی شہریت بھی چھن جائے گی۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم جوناتھن سے حقیقی طلاق لے لو۔ ایک بار جوناتھن سے تمہارا رشتہ ٹوٹ جائے گا تو تم نے اس کے پیچھے کیا گل کھلائے ہیں اس پر اپنے آپ پردہ پڑ جائے گا اور تمہارے اندر اس کو کوئی دلچسپی نہیں رہے گی۔ وقت کے ساتھ جوناتھن سب بھول بھال جائے گا اور قصہ اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔
ایوان بولی اس سے ملتی جلتی بات تم پہلے بھی کر چکی ہو اور میں تم سے اپنا مسئلہ بھی بتا چکی ہوں جو ایک بار اور دوہرائے دیتی ہوں۔ میرا مسئلہ بنجامن ہے۔ مجھے جوناتھن پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ بنجو کی خاطر خواہ دیکھ بھال کرسکے گا نیز اگر اس نے کسی اور سے شادی کر لی تو اس کی نئی بیوی بنجو کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی یہ بھی میں نہیں جانتی۔ ان مسائل کا کوئی حل نہ تم نے مجھے پہلے بتایا تھا اور نہ اب بتایا ہے۔ماریہ بولی میری ماں میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ اس مسئلہ کا کوئی حل میرے پاس نہیں ہے۔
ایوان نے کہا میں اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوں ماریہ۔ اس درد کو تم محسوس نہیں کر سکتیں۔ اس کیلئے ماں بننا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی اس کا ادراک نہیں کرسکتا۔ ماریہ بولی اس حد تک ہمارے درمیان اتفاق ہے تو اب کیوں نہ ساری توجہ بنجامن پر مرکوز کی جائے اور جیسے ہی اس کا کوئی حل سجھائی دے جوناتھن کا پتہ کاٹ دیا جائے ٹھیک ہے ؟ ایوان بولی جی ہاں یہ ٹھیک ہے۔ تو ایسا کرتے ہیں اب سو جاتے ہیں۔ آج کیلئے مرض کی تشخیص کا فی ہے کل علاج پر گفتگو ہو گی۔ ایوان بولی یہ بھی ٹھیک ہے ممکن ہے صبح تازہ دم دماغ میں کوئی نئی بات آ جائے۔ ماریہ نے تائید کی بستر پر دراز ہو گئی۔
ایوان کی آنکھوں میں نیند کے بجائے بنجامن کا چہرہ گردش کر رہا تھا۔وہ اس کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ سو گئی اور ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔ ایوان نے خواب میں دیکھا کہ جوناتھن سے اس کی طلاق ہو چکی ہے۔ اس کے بعد جوناتھن لندن آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ بنجامن بھی ہے۔ جوناتھن نے ایوان کو یہ بھی لکھا کہ اس نے بنجامن کی خاطر پھر سے شادی کر لی ہے اور وہ اپنی نئی اہلیہ کے ساتھ آ رہا ہے۔ ایوان اس خبر کو سن کر اپنے بیٹے سے ملنے کی خاطر بے چین ہو جاتی ہے اور بنجامن کا استقبال کرنے کیلئے لندن پہنچ جاتی ہے۔ بنجامن جیسے ہی دور سے اپنی امی کو دیکھتا ہے دیوانہ وار دوڑتا ہوا آتا ہے اور اپنی ماں سے لپٹ جاتا ہے۔ دیر تک دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کو گلے لگا کر روتے رہتے ہیں۔ اس بیچ جوناتھن بھی اپنی نئی بیوی کے ساتھ ان کے پاس پہنچ جاتا ہے اور وہ نئی بیوی کوئی اور نہیں ماریہ ہے۔ ماریہ کو دیکھ کر ایوان مطمئن ہو جاتی ہے۔
اسی کے ساتھ ایوان کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اپنے بغل میں سوئی ہوئی فرشتہ صفت ماریہ کو دیکھتی رہی اسے پھر ایک بار اطمینان نصیب ہوا۔ وہ سوچنے لگتی ہے کہ کیا یہ خواب حقیقت نہیں بن سکتا؟ اگر یہ خواب حقیقت بن جاتا ہے تو سارے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہو جائے تو نہ صرف بنجامن کی مناسبپرورش کا بندوبست ہو جائے گا بلکہ جوناتھن پر بھی بلاواسطہ اختیار حاصل ہو جائے گا۔ وہ ماریہ کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر پائے گا اور ماریہ اسے ایوان کو نقصان پہنچانے کی اجازت ہر گز نہیں دے گی لیکن سوال یہ تھا کہ ماریہ کو اس کام پر کیسے آمادہ کیا جائے ؟
۲۹
ایوان کا دفتر صبح جلدی کھلتا تھا اور ماریہ کو دیر میں جانا ہوتا تھا اس لئے ایوان کے دفتر نکل جانے تک ماریہ محو خواب تھی۔ گزشتہ دن کی تھکن اور دیر گئے گفتگو نے اسے اٹھنے ہی نہیں دیا تھا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو ایوان غائب تھی اور سورج حاضر تھا۔ ماریہ نے ایوان کو فون لگا کر معذرت کی تو ایوان بولی کوئی بات نہیں۔ دراصل میں تمہارے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ماریہ نے پوچھا کیوں کوئی خاص بات۔ایوان بولی بات تو خاص ہے لیکن میں ابھی نہیں بلکہ شام میں بتاؤں گے۔ شام میں کیوں ابھی بتا دو شام تک تمہارا پیٹ پھول کر کپا ہو جائے گا۔ایوان نے کہا میں مشکل میں ہوں اور تم میرا مذاق اڑا رہی ہو۔ ماریہ بولی میں تمہاری مشکل سمجھتی ہوں ایوان لیکن چاہتی ہوں کہ تم اس کے اثر سے باہر نکلو۔تاکہ سکون سے فیصلہ کر سکو۔ دباؤ میں کئے جانے والے اکثر فیصلے ناقص ہوتے ہیں۔ ایوان پھر وہی نصیحت والا مرض میں نے کتنی بار کہا ۔۔۔۔ ماریہ نے بات کاٹ دی اچھا بابا غلطی ہو گئی معافی چاہتی ہوں۔ اب کام کرو شام میں بات ہو گی۔
ایوان اور ماریہ اس قدر بے تکلف سہیلیاں تھیں کہ ان کے درمیان کوئی پردہ نہیں تھا۔ وہ جو کرتی تھیں جو سوچتی تھیں سب ایک دوسرے کو بتا دیتی تھیں۔ ماریہ کے اندر تو کسی قدر صبر و ضبط تھا لیکن ایوان کاتو اپنے آپ پر کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔ جو من میں آیا بے دھڑک کہہ دیا لیکن پہلی مرتبہ ایک ایساخواب اس نے دیکھ لیا تھا جس میں اپنی قریب ترین سہیلی کو شریک کرنے سے وہ ہچکچا رہی تھی۔ حالانکہ دلچسپ بات یہ تھی کہ ماریہ اس خواب کا اہم ترین حصہ تھی۔ ماریہ کے بغیر نہ صرف وہ خواب ادھورا تھا بلکہ اس کی تعبیر بھی ممکن نہیں تھی اس کے باوجود ایوان اسے بیان کرنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی۔
ایوان کا مسئلہ یہ تھا کہ ماریہ نے آج تک اس کسی فیصلے سے روگردانی نہیں کی تھی۔ ایوان کی خاطر ماریہ نے بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں لیکن یہ معاملہ الگ نوعیت کا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اس تجویز کے سبب ماریہ یا تو آزمائش میں پڑ جائے گی یا اسے ہنسی مذاق میں اڑا دے گی۔ ایوان نہیں چاہتی تھی کہ ان دونوں میں سے کوئی کیفیت ہو۔ویسے ایوان کے خیال میں اس کی تعبیر کے اندر ماریہ کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ ماریہ شادی کی عمر سے گزر چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ازدواجی زندگی کا خیال اس نے اپنے دل سے نکال دیا ہے جو اپنے آپ میں ایک اچھی بات نہیں تھی۔ ایوان کے خیال تھا کہ اس سے انسان کی زندگی میں ایک خلاء پید ا ہو جاتا ہے جسے وہ آگے چل کر محسوس کرتا ہے۔ اس لئے اسے دیر سے سہی شادی کر لینی چاہئے۔
ایوان یہ بھی جانتی تھی اگر ماریہ نے اس عمر میں شادی کرنے کا ارادہ کیا تو اسے شاید ہی کوئی کنوارہ نوجوان میسر آئے اس لئے کہ تمام تر روشن خیالی کے باوجود کوئی مرد اپنے سے بڑی عمر کی عورت سے نکاح کرنا نہیں چاہتا۔ ہر مرد کی خواہش اپنے سے کم سن اور کنواری لڑکی سے بیاہ رچانے کی ہوتی تھی بھلے سے اس کی اپنی عمر جو بھی ہو اور وہ چاہے جتنی بار شادی کر چکا ہو۔ ایوان چونکہ ان دونوں کے مزاج سے واقف تھی اس لئے اسے ان میں بلا کی یکسانیت نظر آتی تھی لیکن اس کے باوجود اس کے اندر اسے بیان کرنے کی جرأت نہیں تھی۔
بہت سوچ بچار کے بعد ایوان نے ایک درمیان کا راستہ نکالا۔ اس نے سوچا وہ اپنے تمام معقول دلائل کو ایک میل میں لکھ کر ماریہ کو بھیج دے گی تاکہ وہ اسے سکون سے پڑھ سکے۔ اس پر اچھی طرح غور و خوض کر لے اور اپنے فیصلے سے اسے آگاہ کرے۔ ماریہ نے اس تفصیلی خط کی ابتداء خواب سے کی اور اختتام تعبیر پر کی اور آخر میں لکھ دیا کہ اسے اس حل پر اصرار نہیں ہے۔ اگر وہ اسے کلیتاً رد کر دے تب بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اگر جزوی طور پر اسے اختیار کرے تب بھی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ اپنا نام لکھنے کے بعد ایوان نے جلی حرفوں میں ایک نوٹ لکھا تھا کہ اگر اس تجویز سے اس کی دل آزاری ہوئی ہو تووہ معذرت چاہتی ہے۔
ماریہ نے اپنے میل بکس میں جب ایوان کا یہ طول طویل میل دیکھا تو اسے پڑھے بغیر ہی حیرت زدہ رہ گئی۔اس لئے کہ ایوان لکھنے پڑھنے میں بہت ہی اختصار کی قائل تھی۔ اس قدر لمبا میل لکھنا تو درکنار اسے پڑھنا بھی ایوان کیلئے محال تھا۔ ماریہ نے پھر سے میل کو دیکھا یہ اسی کاہے یا ایوان نے کسی اور کا میل برائے مطالعہ آگے بڑھایا ہے لیکن وہ سرتاپا ایوان کا میل تھا آخر میں نام کے بعد معذرت والا جملہ دیکھ کر ماریہ کا سر چکرا گیا۔ اس نے سوچا یہ ایوان کو کیا ہو گیا اس لئے کہ وہ نہ کبھی اپنی کوئی غلطی تسلیم کرتی تھی اور نہ اس پر معافی مانگنے کی قائل تھی۔یہ ایوان کے مزاج سے براہ راست ٹکرانے والی بات تھی۔ ماریہ نے سوچا کہیں شہریار نے تو ایوان کے نام سے یہ میل نہیں لکھ دیا۔لیکن نا۔ یہ جس میل ایڈریس سے آیا تھا اس کا پاس ورڈ تو کجا صارف کے نام سے بھی شہریار واقف نہیں تھا۔ اس پتہ کو ایوان صرف ماریہ سے خط کتابت کیلئے مخصوص کر رکھا تھا۔ کسی اور کیلئے اس کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔
ایوان کی طبیعت میں جو راز داری کا عنصر پایا جاتا تھا اس کے پیشِ نظر اس نے مختلف میل پتوں کے ذریعہ مختلف لوگوں سے رابطہ کر رکھا تھا اور ان میں سے ایک وہ بھی تھا جس کا پاس ورڈ شہریار کو فراہم کر دیا گیا تھا۔ شہریار اس کھڑکی سے جھانک کر اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا تھا کہ ایوان کی زندگی اس کے سامنے کھلی کتاب ہے حالانکہ اس پر اسرار کتاب کے کئی باب ایسے تھے جو ابھی ایوان کے اپنے سامنے بھی نہیں کھلے تھے۔ ماریہ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ یہ کوئی عام سا خط نہیں ہے اور چونکہ خاصہ طویل ہے اس لئے اس نے ارادہ کیا کہ دوپہر کے وقت فرصت میں اسے پڑھا جائے۔ اس کے بعد ماریہ اپنے روزمرہ کے دفتری کاموں میں لگ گئی۔
سہ پہر میں جب ماریہ کو فرصت ملی تو اس نے ایوان کے میل کو کھولا اور اسے پڑھنے لگی یہ نہایت دلچسپ کہانی تھی ماریہ نے پہلی مرتبہ محسوس کیا تھا کہ ایوان کے اندر یہ صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔اس کے اندر جس انداز میں مختلف دلائل کو پیش کیا گیا تھا وہ بے مثال تھے اور اختتام بھی چونکا دینے والا تھا گویا قصہ گوئی کے تمام عناصر اس کے اندر بدرجہ اتم موجود تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ایوان اس کہانی کو حقیقت بنانا چاہتی تھی اور اس کام میں سب اہم اور نازک کردار اس کا اپنا تھا۔ ماریہ دیر تک اس پر غور کرتی رہی اور جواب میں صرف ایک لفظ لکھ کر میل بکس بند کر دیا۔ ماریہ کو یہ خط پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں حیا محسوس ہو رہی تھی۔
ایوان نے دن بھر میں کئی بار ماریہ کا جواب دیکھنے کیلئے اپنا میل بکس کھولا لیکن ہر بار ناکام لوٹی۔ جب دفتر سے نکلتے ہوئے آخری بار وہ اپنے میل بکس میں گئی تو وہاں لکھا تھا ’’خود غرض‘‘۔ ایوان کا خود غرض ہونا اس پر کوئی نیا انکشاف نہیں تھا۔ اسے اپنی خود غرضی پر کوئی ملال بھی نہیں تھا لیکن اس کے سنجیدہ خط کا یہ رد عمل ایوان کی سمجھ سے پرے تھا۔ ایوان نے مختلف زاویوں سے اس تبصرے پر غور کیا لیکن اسے کوئی کامیابی نہیں ملی۔ بالآخر اس نے اپنے ذہن پر قفل ڈال دیا اور سوچا رات میں اس مسئلہ پر بات ہو گی لیکن اس کے باوجود رہ رہ کر ایوان کے دل کے دروازے پر ایک اجنبی سی دستک ہوتی تھی اور جب وہ سوال کرتی کون؟ تو جواب ملتا خودغرض۔ ماریہ نے ایوان کو عجیب و غریب خلجان میں گرفتار کر دیا تھا۔
ایوان دفتر سے ماریہ کے گھر آئی اور سو گئی۔ پچھلی رات کی نیند اور دن بھر کی تھکن کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔ ماریہ نے دفتر سے نکلتے ہوئے پیزا ہٹ کو فون کیا اور ایوان کے پسندیدہ پیپرونی پیزا کا آرڈر دے دیا اس کے ساتھ چکن ونگس اور گارلک بریڈ بھی منگوانا نہیں بھولی اس لئے کہ ان کے بغیر ایوان کو پیز اکا لطف نہ آتا تھا۔ ماریہ گھر پہنچی تو ایوان خلاف معمول سو رہی تھی بلکہ سچ تو یہ کہ وہ رات والے خواب کو دوبارہ سہ بارہ دیکھ رہی تھی۔ماریہ اس کی نیند میں خلل ڈالنے کے بجائے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے میں لگ گئی۔ اس بیچ دروازے کی گھنٹی بجی جس نے ایوان کو جگا دیا۔ جب اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک ڈیلیوری بوائے پیزا لے کر کھڑا تھا۔
ایوان نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لیا اور قیمت کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا ادائیگی ہو چکی ہے۔ ایوان نے اس کے ہاتھ میں دو پاؤنڈ کا نوٹ تھمایا تو وہ خوش ہو گیا۔ سلام کیا اور واپس چلا گیا۔ گرم گرم پیزا سے نکل کر آنے والی بھینی بھینی خوشبو نے ایوان کی بھوک بڑھا دی تھی۔ اسے خیال ہوا کہ آج دوپہر کو بھی اس نے کچھ نہیں کھایا اور اب یہ بے وقوف ماریہ پیزا منگوا کر نہ جانے کہاں مر گئی۔ ایوان کیلئے صبر کرنا مشکل ہو رہا تھا وہ منہ دھونے کیلئے حمام کی جانب بڑھی تو سامنے سے ماریہ کو آتے ہوئے دیکھا۔ ایوان نے کہا اوہو تو عزت مآب ملکہ ماریہ تشریف لا چکی ہیں میں تو سمجھ رہی تھی کہ تم ابھی تک کسی دلہن کو دلکش بنانے میں لگی ہوئی ہو۔ ماریہ بولی ایوان تم سوتے جاگتے صرف دلہن کے بارے میں سوچتی رہتی ہو جلدی آؤ ورنہ تمہارا پیزا سرد ہو جائے گا۔
ایوان نے ماریہ کے لب و لہجے سے اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ ناراض تو نہیں ہے ؟ ایسے کوئی آثار اس کو نظر نہیں آئے اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔ وہ ماریہ کو ویسے بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس موقع پر جبکہ اس کا ایک اہم کام ماریہ کے پاس پھنسا پڑا تھا وہ ہرگز کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی۔ میز پر کھانا لگ گیا تھا۔ ایوان آ کر بیٹھی اور بولی شکریہ ماریہ۔ ماریہ نے حیرت سے پوچھا شکریہ کس بات کا؟ یہ آج صبح سے تم کیا بہکی بہکی باتیں کرنے لگی ہو؟ ایوان نے سوچا خطرہ۔ اس کے باوجود بنتے ہوئے پوچھا تم کن باتوں کی بات کر رہی ہو؟ ماریہ بولی یہی کبھی شکریہ ؟ کبھی معذرت ؟ میں نے اس طرح کے الفاظ تمہاری زبان سے کبھی نہیں سنے۔
ایوان سکون کا سانس لیتے ہوئے بولی بھئی میں بھی انسان ہوں اور انسان کی سوچ و فکر یکساں نہیں رہتی۔ اس میں وقت و حالات کے ساتھ تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ ماریہ بولی ایوان تمہیں تو پتہ ہی ہو گا کہ تم کس کے الفاظ دوہرا رہی ہو؟ ایوان نے کہا جی ہاں مجھے سب پتہ ہے۔ لیکن تم بھی تو بدل گئی ہو۔ ابھی تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مجھے تم کو سمجھنے میں کوئی دشواری ہوئی ہو لیکن آج وہ بھی ہو گیا۔ ماریہ بولی میں سمجھی نہیں ؟ ایوان نے جواب دیا عام طور پرا پنی گفتگو اور خطوط میں تم طول طویل نصیحتیں کرنے کی عادی ہو حالانکہ مجھے اس میں سے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا لیکن آج تم نے صرف ایک لفظ لکھنے پر اکتفا کیا ۔۔۔ ماریہ بولی اوراس کا مطلب تمہاری سمجھ میں آ گیا۔ ایوان بولی نہیں میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ تو اس کا مطلب ہے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ماریہ نے کہا۔ ایوان نے جواب دیا نتیجے کے اعتبار سے تو تبدیلی نہیں ہوئی لیکن طریقۂ کار یقیناً بدلا ہوا تھا۔
اس روز دونوں بے تکلف سہیلیاں خلاف معمول کام کی بات کرنے کے بجائے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہی تھیں۔ وقت گزرتا جا رہا تھا پیزا بھوک کو نگل گیا تھا اور پیپسی کی بوتل ان کی پیاس بجھا رہی تھی۔ ماریہ بولی ایوان آج تمہارا میل پڑھنے کے بعد میری رائے تمہارے بارے میں بدل گئی۔ ایوان نے پوچھا اچھا وہ کیسے ؟ مجھے لگتا ہے کہ تم نے غلط پیشہ اختیار کر لیا ہے۔ کیسی باتیں کرتی ہو ماریہ؟ تم نہیں جانتی ہو کہ ڈیزائنگ کے میدان میں تمہاری یہ سہیلی کس مقام پر فائز ہے ؟ جی ہاں یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ اپنی تمامتر مہارت اور کامیابی کے باوجود لوگ نہیں جانتے کہ تم کون ہو؟ مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں ہے ماریہ۔ ماریہ بولی لیکن مجھے ہے۔ ایوان نے پوچھا کیوں تمہیں اس کا کیا فائدہ؟ یہی کہ جب سب لوگ تم کو جان جائیں گے تو میں ان کہہ سکوں گی تم مجھ کو جانتی ہو۔
ایوان بولی تم بہت اچھا مذاق کر لیتی ہو ماریہ۔دراصل یہ جو تمہاری پڑھنے لکھنے کی بری عادت ہے نا اس کا یہ ایک فائدہ ہے۔ ماریہ بولی اسی بنیاد پرتو میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے۔ میں تمہاری بات سمجھی نہیں ماریہ تم کس پیشے کی بات کر رہی ہو؟ماریہ نے کہا میری رائے یہ ہے کہ تمہیں سب کام کاج چھوڑ کر بلکہ برطانیہ کو خیرباد کہہ کر وارسا لوٹ جانا چاہئے اور وہاں جا کر تمہاری چڑیوں اور مچھلیوں کی دوکان چلانی چاہئے۔ ایوان نے جملہ پورا کیا۔ نہیں ایوان دوکان چلائیں تمہارے دشمن۔ تو پھر کیا کرنا چاہئے ؟ تمہیں جوناتھن اور بنجامن کو بھی تل اببیب سے وہاں بلا لینا چاہئے اور عیش کرنا چاہئے۔ اس سے سارے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔
ایوان بولی ماریہ تم ایک بات بھول گئیں۔ وہ کیا؟ یہی کہ ہوا کھانا چاہئے اور عیش کرنا چاہئے اس لئے کہ فی زمانہ ہوا کے علاوہ کچھ بھی مفت میں دستیاب نہیں ہے۔ جی نہیں ایوان میں یہ نہیں بھولی بلکہ میں نے یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہانیاں لکھنا چاہئے۔ میں یقین کے ساتھ کہتی ہوں کہ تمہاری کتابیں اس قدر بکیں گی تمہیں کچھ اور کرنے مطلق ضرورت نہ ہو گی اور جو ناموری و شہرت حاصل ہو گی اس کے متعلق تو میں پہلے ہی کہہ چکی ہوں۔ اب بس بھی کرو ماریہ اگر تمہیں میری تجویز بری لگی تو اسے میرے منہ پر مار دو۔ میں تمہاری سہیلی ہوں اس کا مطلق برا نہ مانوں گی اور ویسے بھی میں معذرت تو کر ہی چکی ہوں۔
ماریہ بولی لیکن میں نے تمہاری تجویز کو مسترد کرنے کی بات کب کہی؟ ایوان نے کہا بہت ساری باتیں بنا بولے کہہ دی جاتی ہیں۔ میں بھی بے وقوف ہوں مجھے تمہارے جواب سے ہی مطلب سمجھ لینا چاہئے تھا مگر برا ہو میری رجائیت پسندی کا کہ وہ ہمیشہ ہی حقیقت پسندی پر غالب آ جاتی ہے۔ ماریہ بولی اوہو آج تو نہ صرف فلسفیانہ بلکہ صوفیانہ باتیں کرنے لگی ہو لیکن شاید تم میرے جواب کا صحیح مطلب سمجھ نہیں سکیں۔ ایوان یہ سن کر چونک پڑی اور بولی کیا مطلب تم نے میری تجویز کو مسترد نہیں کیا۔ اگر وہ قابل قبول ہے تو تم نے خود غرض کیوں لکھا؟ ماریہ بولی وہ تبصرہ تجویز پر نہیں بلکہ اس کی ٹائمنگ پر تھا۔ ٹائمنگ ؟؟؟ میں سمجھی نہیں ماریہ ؟ تم مجھے کب سے جانتی ہو ایوان۔ ایوان نے کچھ سوچ کر بولی جب سے اپنے آپ کو جانتی ہوں بلکہ شاید اس سے بھی پہلے سے۔ اور جوناتھن کو؟ اس کو جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ ماریہ بولی اگر تم غور کرو تو ممکن ہے تمہیں میرے تبصرے کا مطلب ان سولات کے جواب میں مل جائے۔
ایوان کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر بولی ماریہ تمہاری اعلیٰ و ارفع باتیں مجھ جیسی گھامڑ کندۂ نا تراش کیلئے عنقا ہیں۔ میں ان کو سمجھنے سے قاصر ہوں ایسا کرتے ہیں کہ سو جاتے ہیں۔ تم تو جانتی ہی ہو مجھے صبح جلد دفتر جانا ہوتا ہے۔ ماریہ کیلئے یہ بھی حیرت کی بات تھی ورنہ ہوتا یہ تھا کہ ماریہ سونے کی تلقین کرتی اور ایوان جاگنے پر اصرار کرتی لیکن جب سب کچھ بدل رہا تھا تو یہ بھی سہی۔ایوان صبح سویرے اٹھ گئی مگر دفتر کی تیاری کرنے کے بجائے ماریہ کی گفتگو پر غور کرنے لگی اور پھر کچھ یوں ہوا کہ سورج سر پر آ گیا۔ ماریہ نیند سے بیدار ہو گئی۔ اس نے ایوان کو اپنے پہلو میں دیکھا تو سوال کیا ارے تم دفتر نہیں گئیں ؟ کیوں خیریت تو ہے ؟
ایوان بولی جی ہاں سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ ماریہ نے کہا لیکن کل رات تو تم جلدی سو گئی تھیں ؟ ایوان بولی اور آج صبح جلدی جاگ بھی گئی۔ اچھا اس کے باوجود؟ جی ہاں اس کے باوجود؟ایوان نے پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ تمہیں دفتر کب جانا ہے ؟ مجھے ؟؟؟ کوئی طے نہیں ہے صبح کے اوقات ہمارے یہاں کوئی خاص کام نہیں ہوتا۔ دوپہر کے بعد مصروفیت بڑھنے لگتی ہے اور شام میں ہم لوگ خاصے مشغول ہو جاتے ہیں۔ ایوان نے کہا تو گویا تم دوپہر کا کھانا کھا کر بھی دفتر جا سکتی ہو۔جی ہاں اس میں کوئی دقت نہیں ہے۔ تو پھر ایسا ہی کرنا۔ اور تم ؟ ماریہ نے پوچھا۔ ایوان بولی میں نے ایک دن کی چھٹی لے لی ہے۔ بہت خوب ماریہ بولی۔
ایوان نے کہا میں تو نہانے دھونے سے فارغ ہو چکی ہوں اس لئے ناشتہ بناتی ہوں تم تیار ہو کر آؤ۔ ماریہ حمام میں اور ایوان باورچی خانے میں گھس گئی۔ ماریہ کے آنے تک انڈے اور تلی بھنی ڈبل روٹی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ناشتے کے ساتھ چائے بھی نوش فرمائی جا رہی تھی۔ ایوان نے کہا ماریہ تم نے جو بات رات میں کہی تھی وہ صبح سویرے میری سمجھ میں آ گئی لیکن میں نہیں جانتی کہ میں نے اسے درست سمجھا یا نہیں ؟ تم کس بات کا ذکر کر رہی ہو رات ہم نے کئی باتیں کیں۔ وہ خودغرض والی بات۔ اچھا اگر ایسا ہے تو مجھے بھی پتہ چلے کہ اس کا تم نے کیا مطلب سمجھا ہے ؟
ایوان بولی ماریہ دراصل بات یہ ہے کہ ایک قبر میں ایک وقت میں صرف ایک ہی لاش ہو سکتی ہے۔ اس لئے جب تک میں اس قبر کے اندر تھی مجھے تمہارا خیال نہیں آیا۔ لیکن کل جب میں اس میں سے باہر آ گئی اور وہ قبر خالی ہو گئی تو اس کے بعد مجھے تمہارے خیال آیا۔ ایوان نے بلا کی صاف گوئی سے کام لیا تھا۔ اس کی تمثیل بے مثال تھی۔ ماریہ بولی لیکن فی الحال کیا تم اور شہناز ؟؟؟ ایوان نے کہا جی ہاں لیکن شہناز میں اور مجھ میں بہت فرق ہے میں تسلیم کرتی ہوں کہ اس جیسی وسعتِ قلبی میرے اندر نہیں ہے۔ کیا بس یہی ایک فرق ہے ؟ ماریہ نے سوال کیا۔ جی نہیں ماریہ تم میں اور مجھ میں بھی فرق ہے۔ میں نے جو غاصبانہ در اندازی کی وہ تم نہیں کرسکتیں۔ کبھی نہیں تم عظیم انسان ہو ماریہ اور شہناز وہ بھی لیکن میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ میں تو بہت ہی حقیر ۔۔۔۔ و ۔۔۔ ادنی۔۔۔۔۔
ماریہ نے پہلی مرتبہ ایوان کی پلکوں کو نمناک دیکھا تھا۔ اس کا دل پسیج گیا۔ وہ بولی نہیں میری بہن نہیں۔ حقیر وہ نہیں ہوتے جو اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مغرور لوگ جو اپنے آپ کو اونچا ا ور دوسروں کو نیچا سمجھتے ہیں وہی حقارت کی گہری کھائی میں سانس لے رہے ہوتے ہیں۔ تم نے بالکل صحیح کہا ماریہ میں ایسی ہی تھی۔ ماریہ بولی جی ہاں ایوان مجھے اعتراف ہے لیکن یہ ماضی کی داستان ہے۔ اب تم وہ نہیں ہو۔ اب تم بدل گئی ہو۔ اور تم جانتی ہو تمہاری اس تبدیلی سے سب زیادہ خوش کون ہے ؟ ایوان نے کہا جی ہاں ماریہ میں جانتی ہوں۔ میری اچھی سہیلی ماریہ کے علاوہ کسی کو اس کا ادراک نہیں ہے اس لئے کوئی اور اگر چاہے بھی تو خوش ہو نہیں سکتا۔
ماریہ بولی وقت کافی ہو چکا ہے میں دفتر جاؤں یا چھٹی لے لوں۔ایوان بولی نہیں ماریہ تم دفتر جاؤ ہم لوگ باقی بات شام میں کریں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہیں سوچنے کا کچھ اور وقت ملے۔ ہمیں جلد بازی میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے کہ بعد میں اس پر افسوس کرنے کی نوبت آئے۔ ماریہ بولی میں تم سے اتفاق کرتی ہوں لیکن تم رات تک یہاں گھر میں بیٹھ کر کیا کرو گی ؟ ایوان نے کچھ دیر خلاء میں دیکھا اور بولی میں شہناز کے پاس چلی جاؤں گی۔ دو دن سے اسے نہیں دیکھا۔ اس کے ساتھ کھا پی کر لوٹ آؤں گی اور تمہیں عشائیہ کیلئے زحمت کرنے کی ضرورت نہیں تم تو جانتی ہی ہو کہ شہناز تمہارے لئے کھانا ضرور بھیجے گی۔ مجھے پتہ ہے ایوان ہم لوگ رات آٹھ بجے ملتے ہیں خدا حافظ۔
۳
دوپہر کے وقت ایوان کو کمرے میں آتا ہوا دیکھ کر شہناز چونک پڑی۔ اس نے کہا اوہو ایوان اس وقت خیریت تو ہے۔ ایوان ہنس کر بولی دن میں میرا گھر کے اندر آنا ممنوع تو نہیں ؟ نہیں ایوان ایسی بات نہیں لیکن چونکہ ایسا کبھی ہوا نہیں اس لئے میں نے سوچا تمہاری طبیعت وغیرہ؟ بھئی طبیعت تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہے دو دن سے تمہیں دیکھا نہیں تو سوچا کہ چلو درشن کر لوں۔ شہناز بولی میں نہیں مانتی۔ ایوان نے کہا کیوں تمہارا دل مجھ سے ملنے کو نہیں چاہ رہا تھا؟ بالکل چاہ رہا تھا اور بہت چاہ رہا تھا بلکہ میں تو سوچ رہی تھی کل شام کھانا لے کر ماریہ کے پاس چلی جاؤں اور تمہارے ساتھ کھاؤں لیکن پھر سوچا کہیں میری خلل اندازی تم پر گراں نہ گزرے ؟ خلل کی کیا بات کھانا تو انسان کھاتا ہی ہے اور پھر مل جل کر کھانے مزہ اور ہی ہے۔
شہناز ابھی تک ایوان کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی تھی اس لئے اس نے پوچھا آج دفتر کسی خاص وجہ سے جلد بند ہو گیا کیا ؟ ایوان بولی نہیں تو دفتر میں چھٹی نہیں ہے۔ شہناز نے پھر سوال کیا اور تمہاری طبیعت بھی ٹھیک ہے ۔۔۔۔ ایوان نے کہا شہناز بات دراصل یہ ہے کہ آج میں دفتر گئی ہی نہیں۔جب ماریہ نے کوچ کیا تو میں یہاں چلی آئی۔ بہت خوب تم نے اچھا کیا جو دفتر نہیں گئیں۔ میں تو کہتی ہوں اب تمہیں اس دفتر کو خیرباد کر دینا چاہئے۔ شہریار کا کاروبار ماشاء اللہ جس طرح سے بڑھ رہا ہے تمہیں ملازمت کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر میں دفتر نہیں جاؤں گی تو کیا کروں گی؟ ایوان نے پوچھا۔
شہناز بولی دیکھو ایوان ویسے بھی تم ہفتہ میں دو دن دفتر نہیں جاتیں تو کیا کرتی ہو؟ آرام کرتی ہوں۔ تو بس باقی پانچ دن بھی عیش و آرام کرو میری طرح۔ تمہاری طرح؟ لیکن آرام کرنے کیلئے تھکنا بھی تو ضروری ہے ؟ ہاں ہاں گھر میں انسان کو تھکانے والے بہت سارے کام ہوتے ہیں۔ تم آج آ گئی ہو نا تمہیں پتہ چل جائے گا اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے ہم لوگ مل جل کر کچھ نئی مصروفیات ایجاد کر لیں۔ ایوان بولی میں سمجھی نہیں۔ شہناز نے کہا ہمارے محلے میں کئی فلاح و بہبود کی ادارے کام کرتے ہیں۔ میری بڑی خواہش ہے ان کیلئے وقت نکالوں لیکن فرصت ہی نہیں ملتی۔ تم ساتھ رہو گی تو ہم مل جل کر اپنے گھر کے کام جلد نمٹا لیا کریں گے اور ان کاموں کیلئے بھی وقت نکال سکیں گے۔ ایوان بولی یہ بڑی اچھی تجویز ہے شہناز۔ تم نے مجھ سے اس کا ذکر پہلے کیوں نہیں کیا؟
شہناز بولی شاید وہ میری غلطی تھی۔ دراصل تم کو ہر روز دفتر سے تھکا ماندہ لوٹ کر آتے ہوئے دیکھنے کے بعد مجھے اس قدر ترس آتا ہے کہ پھر کسی کام کا ذکر کرنا مناسب نہیں لگتا۔ہفتہ اور اتوار کے دن شہریار کے ہیں اس لئے ان میں در اندازی مناسب نہیں ہے۔ ویسے میں آخر ہفتہ محلے کے ویک اینڈ اسکول میں پڑھانے کیلئے جاتی ہوں۔ اچھا وہ اسکول کہاں چلایا جاتا ہے ؟ مسجد سے متصل کمروں میں۔اور بچے کہاں سے آتے ہیں ؟ محلے بھر سے۔ اور پڑھایا کیا جاتا ہے ؟ دینیات، شخصیت کا ارتقاء اور اردو زبان وغیرہ۔ ایوان نے سوچا وہ شہناز کو جس قدر سیدھی سادی اور احمق سمجھتی تھی وہ ویسی نہیں ہے۔
اچھا شہنازایسا ہے کہ تم نے تو ناشتے میں خوب جم کر پراٹھے کھائے ہوں گے اس لئے تمہیں تو بھوک لگنے سے رہی لیکن میں نے بہت ہلکا ناشتہ کیا تھا اس لئے ۔۔۔۔۔ جی ہاں سمجھ گئی شہناز بولی۔ اگر سینڈوچ کھانے کی خواہش ہو تو ابھی لے آؤں اگر کچھ اور کھانا ہو تو تھوڑا سا وقت لگے گا۔ ایوان بولی شہناز اب تم بھی اچھی خاصی انگریز بن چکی ہو چلو سینڈوچ ہی کھاتے ہیں کچھ اور شام میں ان شاء اللہ۔ شہناز کو ایوان کی زبان سے ان شاء اللہ بے حد اچھا لگا۔شہناز اٹھ کر باورچی خانے میں گئی اور ایوان نے ٹی وی کا ریموٹ دبا دیا۔ ایکسپریس چینل پر امجد اسلام امجد کا مشہور ڈرامہ وارث نشر ہو رہا تھا۔ شہناز کا یہ پسندیدہ سیرئیل تھا جسے اس نے نہ جانے کتنی بار دیکھا تھا لیکن جب اس نے دیکھا کہ ایوان بھی اسے دیکھ رہی ہے تو اس کی حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا۔ کھانے کے دوران بھی ایوان کی نظریں اس ڈرامے میں لگی رہیں یہاں تک کہ پردہ گر گیا۔
شہناز نے پوچھا کیسا لگا۔ ایوان بولی زبردست بھئی کیا کہانی ہے اور پھر اداکاری تو بس لاجواب ہے۔ شہناز بولی ایوان میں ڈرامے کے بارے میں نہیں بلکہ سینڈوچ کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ ایوان بولی سچ بتاؤں شہناز ان سینڈوچز میں اچھا لگنے جیسا کچھ نہیں ہوتا بس پیٹ بھرنے کیلئے ہم اسے کھا لیتے ہیں۔ جی ہاں شہناز بولی لیکن یہ زود ہضم ہوتا ہے اس میں غذائیت بھی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ایوان کو ماریہ کے پند و نصائح یاد آ گئے وہ بولی تم بھی؟ ۔۔۔ میں سمجھی نہیں۔ میرا مطلب ہے ماریہ کی طرح لکچر دینے لگیں۔ شہناز بولی ساری میں معافی چاہتی ہوں۔ نہیں کوئی بات نہیں میں تو یونہی مذاق کر رہی تھی۔ شہناز بولی مجھے پتہ ہے۔ ایوان بولی لیکن تمہیں یہ نہیں پتہ کہ میں نے ماریہ سے وعدہ کر لیا ہے کہ تمہارے ہاتھ کا بنا کھانا اس کیلئے شام میں لے کر آؤں گی اور یقین جانو یہ سن کر ماریہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔
شہناز بولی زہے نصیب۔ یہ تم نے بہت اچھا کیا۔مطلب آج پھر تمہارا ارادہ ماریہ کے پاس جانے کا ہے ؟ جی ہاں میں ساڑھے سات بجے نکلوں گی اس لئے کہ وہ آٹھ بجے سے پہلے نہیں آتی۔ یہ اچھا ہے ایوان تم ایسا کرو کہ جا کر اپنی خوابگاہ میں آرام کرو میں ماریہ کیلئے یخنی پلاؤ چڑھاتی ہوں مجھے پتہ ہے وہ اسے بہت پسند ہے۔ ایوان بولی اور قورمہ بھی۔ جی ہاں مجھے پتہ ہے۔ لیکن اگر میں آرام نہ کروں تو؟ تو تمہاری مرضی ٹی وی دیکھو۔ اور اگر ٹی وی بھی نہ دیکھوں تو؟ تو ۔۔۔ جو مرضی ہے کرو تمہاری مرضی۔ اگر میں تمہارے ساتھ باورچی خانے میں چل کر ہاتھ بٹاؤں تو؟ شہناز کو ایوان سے اس کی توقع ہر گز نہیں تھی۔ وہ بولی زہے نصیب لیکن تمہیں یہ زحمت کرنے کی ضرورت نہیں میں سب کر لوں گی۔
ایوان بولی میں جانتی ہوں شہناز کہ یہ تمہارے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے مگر میں دیکھنا چاہتی ہوں بلکہ سیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ شہناز نے پوچھا کیا؟ ایوان بولی یہی کہ تمہارے ہاتھ میں کون سا جادو ہے جو تم اتنے اچھے اچھے پکوان اس قدر آسانی کے ساتھ تیار کر لیتی ہو؟شہناز مسکرا کر بولی جادو اگر ہے بھی تو وہ ہاتھ میں نہیں دماغ میں ہے۔ ایوان بولی مجھے پتہ ہے لیکن میری آنکھیں تمہارے ہاتھوں کی حرکت ہی دیکھ سکتی ہیں۔ تمہارے دماغ کی کارستانی نہیں۔ شہناز بولی میں ہار گئی ایوان شہریار صحیح کہتا ہے ایوان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ اچھا اور کیا کہتا ہے شہریار میرے بارے میں ؟ وہ ۔۔۔ وہ نہ جانے کیا کیا کہتا رہتا ہے۔ اکثر تو مجھے اس کی باتیں سمجھ میں بھی نہیں آتیں۔ تو پھر تم کیا کرتی ہو ؟ اس کو پاگل کی بڑ سمجھ کر نظرانداز کر دیتی ہوں۔ اب ہر کسی کی ہر بات کا سمجھ میں آنا ضروری بھی تو نہیں۔
گلناز اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہو رہی تھی اس نے سوچا کیوں نہ شہناز سے مل کر گپ شپ لگائی جائے۔ شہناز کے پاس پہنچی تو اسے باورچی خانے میں مصروف پایا۔ گلناز ٹی وی کھول کر اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھنے لگی۔ اسے ہندوستانی ڈرامے بہت پسند تھے۔ گلناز کو ہمیشہ ہی اس بات کا دکھ تھا کہ ایوان اس کی بہن سے اپنی غلامی کراتی ہے۔ اسے یقین تھا کہ ایوان جو کچھ کماتی اس میں سے ایک نیاپیسہ بھی گھر میں نہیں دیتی ہو گی۔ یہ سفید فام لوگ ہوتے ہی خود غرض ہیں یہ گلناز کی سوچی سمجھی رائے تھی۔ لیکن جب گلناز نے ایوان کو کچن سے باہر آتے ہوئے دیکھا تو بولی۔ اوہو آج تم بھی گھر پر ہو دفتر نہیں گئیں ؟ ایوان بولی جی نہیں آج میں نے چھٹی لے لی ہے۔ چھٹی؟ کوئی خاص وجہ؟ نہیں سوچا کہ شہناز سے کھانا بنانا سیکھا جائے۔ کھانا بنانا؟ گلناز ایک کے بعد ایک حیرت کے جھٹکے محسوس کر رہی تھی۔
گلناز نے کہا یہ کام تو لڑکپن میں سیکھا جاتا ہے۔ ایوان بولی مجھے پتہ ہے۔ میری ماں بھی جب مجھے سکھانے میں ناکام ہو گئی تو اس نے مجھے کوکنگ کلاس میں بھیج دیا۔ اچھا تو پھر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ مجھ سے کچھ جل گیا اور ان لوگوں نے مجھے اسکول سے نکال دیا۔ گلناز بولی بھئی یہ تو بڑا ظلم ہے۔ سیکھنے کے دوران تو اس طرح کے حادثات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس کی اتنی بڑی سزا ؟ جی ہاں یہی تو میں نے انہیں سمجھایا لیکن وہ نہیں مانے۔ تم اپنی ماں کو ساتھ لے جاتیں وہ انہیں منا لیتی۔ جی ہاں میں نے وہ بھی کیا۔ اچھا پھر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ انہوں نے میری ماں سے پوچھا کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی اس بیٹی نے جلایا کیا ہے ؟ ماں بولی نہیں اس نے مجھے یہ نہیں بتایا۔ وہ بولے اسی لئے آپ یہاں آ گئیں اگر یہ بتا دیتی تو آپ یہاں آنے کی غلطی نہ کرتیں۔ ماں نے پوچھا اب آپ بتا دیں تو میری استاد نے کہا تمہاری بیٹی نے ہمارا باورچی خانہ جلا دیا۔ جس کے سبب اسکول ایک ہفتہ بند رہا۔ اب کھلا ہے لیکن دوبارہ ہم وہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
شہناز بھی مہمان خانے میں آ گئی اور گلناز کو مخاطب کر کے بولی آپ ان کی بات پر کان نہ دھریں یہ اس طرح کے لطیفے سناتی رہتی ہیں۔ میں نے اسے اردو ڈائجسٹ میں پڑھا تھا۔ گلناز بولی لیکن اسے اردو کہاں آتی ہے ؟ شہناز نے جواب دیا ارے بہن لطیفوں پر بھلا کسی کی وراثت ہے ؟ اردو دائجسٹ نے اسے کہیں سے چرا لیا ہو گا یا اردو والوں سے کسی اور نے لے لیا ہو گا۔ ایوان بولی ارے شہناز تم نے تو میرا پول کھول دیا چلو باورچی خانے کے اندر چلتے ہیں ورنہ کچھ اور جل جائے گا۔ ایوان اور شہناز دوبارہ اپنے کام میں جٹ گئے اور گلناز نے پھر ایک بار ٹی وی کی آواز اونچی کر دی۔ کھانا بن کر تیار ہوا تو شہناز نے اسے دو ڈبوں میں بند کیا۔ ایک ماریہ کیلئے دوسرا گلناز کیلئے۔ اس کے بعد وہ دونوں بھی مہمان خانے میں آ کر بیٹھ گئیں۔ ٹی وی بند کر دیا۔ خوش گپیاں ہونے لگیں۔ جب گلناز جانے لگی تو شہناز نے اس سے کہا بہن کھانا لیتی جاؤ اب آپ گھر جا کر کیا زحمت کریں گی۔ یہی معاملہ اس نے ایوان کے ساتھ بھی کیا اور گلناز کے بعد وہ بھی نکل گئی۔
شام کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ایوان نے پوچھا ماریہ اب بولو کیا ارادہ ہے ؟ ماریہ بولی میرا کیا ہے ؟ میں تو تعمیل ارشاد کی کوشش کروں گی لیکن اس معاملے کی کنجی جوناتھن کے ہاتھ میں ہے اگر وہ نہ مانا تو کچھ نہیں ہو گا۔ ایوان بولی وہ کیسے نہ مانے گا؟ اس کا اچھا مان جائے گا۔ ماریہ نے کہا ایوان یہ نہ بھولو کہ ایک بار طلاق ہو جانے کے بعد وہ تمہارے احکامات کا تابعداری سے آزاد ہو جائے گا۔ اس کے بعد وہ نکاح ثانی کرے یا نہ کرے ؟ اور اگر کرے تو کس سے کرے یہ اس کا ا پنا اختیار ہو گا جس میں کوئی اور دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ ایوان بولی یہ صحیح ہے ماریہ لیکن اس گدھے کو تم سے اچھی بیوی چراغ ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملے گی۔ یہ تمہارا خیال ہے ماریہ بولی لیکن کوئی ضروری نہیں ہے وہ تم سے اتفاق کرے۔ جی ہاں یہ بھی درست ہے بلکہ میرا تو خیال ہے کہ وہ مجھ سے اس قدر خار کھائے ہوئے ہو گا کہ اگر اسے پتہ چل جائے میں نے تمہاری سفارش کی ہے تو ممکن ہے ضد میں آ کر انکار کر دے۔
ماریہ بولی جی ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے۔ میرا تو خیال ہے یہ مہم گزشتہ سے مشکل تر ہے۔ ایوان نے کہا لیکن مجھے یقین ہے جس طرح تم نے پہلے کامیابی حاصل کی ہے اسی طرح اس بار بھی سرٖخرو ہو جاؤ گی۔ ماریہ بولی شکریہ لیکن پھر اس کیلئے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ ایوان نے تائید کی اچھا تو ابتداء کہاں سے کی جائے ؟ میرا تو خیال ہے وہ فرضی طلاق کی درخواست کو تاریخ بدل کو فوراً روانہ کر دیا جائے۔ لیکن اگر وہ پوچھے کہ اب جبکہ اس کو برطانیہ میں ملازمت مل گئی ہے اس کی کیا تُک ہے ؟
ماریہ بولی تب تو میرا خیال ہے کہ تاریخ کو نہ بدلا جائے۔ اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ یہی کہ تم کہہ سکو گی یہ ارادہ میں نے بہت پہلے کر لیا تھا لیکن اس پر عملدرامد ابھی ہو رہا ہے ؟ لیکن اگر وہ پوچھے کہ پہلے اس پر کارروائی کیوں نہیں کی گئی تو ؟ تو تم کہہ دینا کہ پہلے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اب ضرورت محسوس کی گئی اس لئے کارروائی شروع ہو گئی۔ ایوان نے کہا تب پھر نیک کام میں دیر کس بات کی۔ اس نے اپنا لیپ ٹاپ کمپیوٹر کھولا اور جوناتھن کو میل کر دیا۔ جوناتھن نے کچھ دیر بعد جب یہ سب دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ ایوان اسے فون کر کے مبارکباد دے گی لیکن ایوان نے طلاق کی درخواست بھیج دی۔
۳۱
ایوان کا یہ بھیانک میل دیکھنے کے بعد جوناتھن کی زندگی میں ایک زلزلہ آ گیا وہ سوچنے لگا کہ اس کی زندگی میں بہار کبھی نہیں آئے گی۔ ابھی بیروزگاری کا عذاب ختم نہیں ہوا تھا کہ ایوان نے نیا ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ جوناتھن ایوان سے براہِ راست بات کر کے یہ پتہ لگانے کا فیصلہ کیا کہ آخر وہ چاہتی کیا ہے ؟ کہیں اس کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے ؟ ایوان کا فون بجا تو وہ سمجھ گئی کہ یہ کون ہو سکتا ہے ؟ اس نے فون کو کاٹ دیا یہ جوناتھن کا نمبر تھا۔اس نے ماریہ سے پوچھا کیا کیا جائے ؟ ماریہ بولی اسپیکر پر فون لگاؤ میں بھی اس کا رد عمل دیکھنا بلکہ سننا چاہتی ہوں۔
جوناتھن محسوس کر رہا تھا کہ ایوان کو اسے تڑپانے میں مزہ آتا ہے۔ اسے ہرگز امید نہیں تھی کہ ایوان اسے فون کرے گی لیکن جب فون بجا تو اس نے خوش ہو کر فون لیا اور بولا ایوان مجھے پتہ تھا کہ تم مذاق کر رہی ہو۔ جلدی سے کہو کہ یہ طلاق کی درخواست تم نے بس یونہی دل لگی کیلئے بھیجی تھی اور اب جلدی سے مجھے مبارکباد دو۔ میرے کان کل سے اس کیلئے ترس رہے ہیں۔ ہمارے دن بدل چکے ہیں ایوان۔ اب ہماری زندگی میں بہار آ چکی ہے۔ اب ہم لوگ ساتھ رہیں گے اور کوئی ہمیں جدا نہ کرسکے گا، جوناتھن جوش میں بے تکان بولے جا رہا تھا وہ بولا ایوان تم چپ کیوں ہو۔ تم کچھ بولتی کیوں نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ خوشی سے تمہاری زبان گنگ ہو گئی اور تمہاری آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہیں۔ بولو بولو یہ سچ ہے۔ بالکل سچ۔ میں تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں مجھے تمہاری خاموشی کھل رہی ہے۔
ایوان مسکرائی اور بولی جوناتھن تم تو بس خود ہی بولے جا رہے ہو مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ جی ہاں ایوان میں معذرت چاہتا ہوں میں جذبات کی رو میں بہہ گیا تھا۔ ایوان بولی کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔ جوناتھن بولا جی ہاں جی ہاں تم سمجھ سکتی ہو۔ ایوان نے کہا اچھا سب سے پہلے تو میری جانب سے نئی ملازمت کیلئے مبارکباد قبول کرو۔ جوناتھن بولا شکریہ ایوان بہت شکریہ۔ اور یہ بتاؤ کہ بنجو کیسا ہے ؟ بنجو خوش ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ ہم لوگ تمہاری مما کے پاس جانے والے ہیں اس وقت سے تو ہوا میں اڑ رہا ہے۔ ایوان بولی اس کے بارے میں تو میں نہیں جانتی لیکن تم ضرور۔۔۔ جی ہاں میں بھی اور وہ بھی اگر ہمارے بس میں ہو تو ابھی اڑ کر تم تک پہنچ جائیں مگر وہ جو اس کا اسکول ہے نا۔ اس کا سال ضائع ہو جائے گا۔
ایوان بولی جی ہاں میں سمجھتی ہوں۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے میرا میل دیکھا یا نہیں ؟ میل جی ہاں اسی کے بارے میں تو کہہ رہا تھا کہ میں سمجھ گیا وہ مذاق ہے۔ جی نہیں جون وہ مذاق نہیں ہے میں اس بارے میں بے حد سنجیدہ ہوں۔ کیا بکتی ہو ایوان اب اس کا کیا موقع ہے اگر تمہیں یہی کرنا تھا تو دوسال قبل مجھے طلاق دے کر برطانیہ سے بھگا دیتیں۔ ایوان بولی نہیں جون دراصل مجھے تو چاہئے تھا کہ میں تم سے پیچھا چھڑا کر پولینڈ سے برطانیہ آتی لیکن اس وقت میں پر امید تھی لیکن جب تم برطانیہ سے ناکام واپس لوٹے تو میری ساری امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ ہاں ہاں وہ بھی ٹھیک ہے جوناتھن بولا لیکن تم نے یہ درخواست اب کیوں بھیجی جبکہ مجھے ملازمت مل گئی ہے۔ میں تمہیں شارق کا میل روانہ کر چکا ہوں۔
ایوان بولی جوناتھن تم نے وہ درخواست تو دیکھی مگر اس پر لکھی تاریخ کو نہیں دیکھا۔ یہ اسی زمانے میں تیار کی گئی تھی۔ تو پھر تم نے بھیجی کیوں نہیں ؟ اس لئے کہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ایوان ماریہ کے سجھائے ہوئے جواب دوہرا رہی تھی۔ تو اب اس کی ضرورت کیوں آن پڑی اگر تم اسی وقت اسے بھیج دیتیں تو ابھی تک یہ معاملہ نمٹ چکا ہوتا۔ ایوان بولی جی ہاں وہ میری غلطی تھی میں اس کا اعتراف کرتی ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ شاید وقت کے ساتھ میری رائے بدل جائے گی لیکن اب میرا خیال ہے کہ وہ سوچ غلط تھی۔ میری اب بھی وہی رائے ہے۔ ہم لوگوں کو اب الگ ہو جانا چاہئے۔ لیکن مجھے برطانیہ میں ملازمت مل چکی ہے ایوان۔ اور میں تمہیں اس کی مبارکباد دے چکی ہوں جون لیکن تم ایسا کرو کہ فوراً میری اس نوٹس پر دستخط کر کے مجھے واپس بھیج دو ورنہ میں اس کی نقل عدالت کو روانہ کر دوں گی اور تمہیں وہاں جا کر قاضی کے سامنے دستخط کرنے کی زحمت کرنی ہو گی۔
جوناتھن بولا ایوان کیا تمہارے اس فیصلے پر نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ؟ ایوان نے رکھائی سے جواب دیا نہیں اور میری رائے یہ ہے کہ تم اس پر جتنا کم وقت ضائع کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میری رائے یہ ہے تمہیں اس معاملے کو بند کر کے اپنی نئی ملازمت کی جانب توجہ دینی چاہئے۔ جوناتھن بولا تمہارے مشوروں کا شکریہ۔ فون بند ہو گیا۔ ماریہ بولی ایوان تم نے تو غضب کر دیا۔ اس بیچارے کی ہوا نکال دی۔ ایوان نے کہا شکریہ لیکن جو جوابات میں نے دئیے وہ تو تمہارے سجھائے ہوئے تھے۔ ماریہ بولی اب دیکھنا یہ ہے کہ جوناتھن اس نوٹس پر دستخط کر کے تاریخ لکھتا ہے یا نہیں اگر اس نے تاریخ نہیں لکھی تو تمہارا بہت بڑا کام ہو جائے گا۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ اس پر دستخط ہی نہ کرے۔ ماریہ بولی نہیں ایوان تمہاری عدالت والی دھمکی ضرور رنگ لائے گی لیکن عدالت تو یقیناً اس سے تاریخ لکھوائے گی اور ساتھ ہی گواہوں کی دستخط اور تاریخ بھی ہو گی۔ اس معاملے کا عدالت کے باہر نمٹ جانا بہتر ہے۔
ایوان نے کہا کہ اب وہ کیا کرے گا؟ اب وہ تم سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کرے گا۔ خط کتابت کرے گا لیکن تم اس بات پر اڑ جانا کہ جب تک وہ اس نوٹس کی رسید نہیں بھیجتا اس وقت تک کوئی بات نہیں ہو گی۔ ایک بار وہ اسے وصول کر لے تو پھر تمہارے لئے آسانی ہو جائے گی۔ اگر وہ طلاق نہ دے تو تم عدالت سے رجوع کر کے کہہ دینا کہ اس نے دوسال سے تمہیں لٹکا کر رکھا ہوا اس لئے وہ مداخلت کرے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ تاریخ نہ لکھے۔ مجھے لگتا ہے اس میں اتنی عقل نہیں ہے اور چونکہ وہ گھبرایا ہوا ہے اس لئے ایسی دانشمندی کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ ماریہ بولی مجھے ڈر ہے کہ وہ کسی وکیل کے پاس نہ پہنچ جائے۔ ایوان بولی اس کا امکان کم ہے اس لئے آجکل وکیل پہلے فیس لیتے ہیں پھر کاغذ دیکھتے ہیں اور جوناتھن کا گذارا مشکل سے ہوتا ہے ایسے میں وہ وکیل کی فیس کہاں سے لائے گا؟ماریہ بولی تمہاری بات میں دم ہے۔ لگتا ہے اس بیچارے کے ستارے واقعی گردش میں ہیں۔
جوناتھن نے جب اس طلاق کی دستاویز پر گواہ کی حیثیت سے ماریہ کا نام دیکھا تو اسے حیرت ہوئی۔ ماریہ جیسی سمجھدار عورت یہ حرکت کیسے کرسکتی ہے ؟ پھر اس نے سوچا ممکن ہے ایوان نے اسے زبردستی ورغلا لیا ہو؟ جوناتھن نے سوچا کیوں نہ ماریہ سے رابطہ کر کے اس سے گزارش کی جائے کہ وہ اپنی سہیلی کو سمجھائے۔جوناتھن کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ ماریہ مانچسٹر میں ہے۔ اس نے ماریہ کے پرانے نمبر پر فون کیا تو کوئی جواب نہ ملا۔ جوناتھن نے اسے ایوان کا میل روانہ کر کے درخواست کی کہ وہ اپنا فون نمبر بھیجے اس لئے کہ وہ اہم بات کرنا چاہتا ہے۔
ایوان اور ماریہ اس میل کے بعد پھر ایک بار ملے تاکہ آگے کی حکمتِ عملی مرتب کی جائے۔ ایوان بولی یہ تو بہت اچھی بات ہے شکار خود چل کر دام میں آ رہا ہے اور ماریہ پرندوں کا کھیل تم سے زیادہ کون جانتا ہے ؟ ماریہ بولی یہ موقع تو بہت اچھا لیکن فون پر کیا بات ہو سکے گی؟ ایوان بولی جی ہاں یہ بھی صحیح ہے میرا تو خیال ہے کہ تمہیں تل ابیب چلے جانا چاہئے۔ نہیں ایوان ایسا کرنے سے اسے شک ہو سکتا ہے۔ میرے کچھ رشتے دار یروشلم میں رہتے ہیں۔ میں وہاں چلی جاتی ہوں اور پھر اس کو اپنے پاس بلا کر اس سے بات کر لوں گی۔ ایوان بولی یہ بہتر ہے۔
ماریہ نے دوسرے دن جونا تھن کو ایک ہمدردانہ خط لکھا۔ اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بعد اپنی جانب سے طلاق کے کاغذ پردستخط کرنے کیلئے معذرت پیش کی اور لکھا کہ ایوان نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ صرف تم کو ڈرانے کیلئے یہ نوٹس بنا رہی ہے۔ ماریہ نے لکھا کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ حقیقت میں کبھی اس کو استعمال بھی کرسکتی ہے۔ ماریہ اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس بابت ایوان سے گفتگو کر کے اس کا دماغ درست کرنے کی کوشش کرے گی نیز ایک ہفتے بعد یروشلم اپنے رشتہ داروں کے پاس آنے ہی والی ہے اپنے قیام کے دوران وہ کسی وقت خود اس سے رابطہ کر کے ملاقات کرنے کی کوشش کرے گی۔
جوناتھن کیلئے یہ ماریہ کا خط ایک نعمت غیر مترقبہ کی مانند تھا۔ اس نے ماریہ کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ یروشلم میں آنے کی تفصیل بتائے تاکہ ان کی ملاقات ہو سکے۔ ماریہ کو اب جوناتھن سے ہمدردی ہونے لگی تھی وہ صحیح معنیٰ میں مظلوم تھا۔ دو دن کے بعد ماریہ نے جوناتھن کو ایک ایسے کارڈ سے فون کیا جس پر نمبر نہ آتا تھا تاکہ اسے معلوم نہ ہو سکے یہ فون کس ملک سے آ رہا ہے ؟ ماریہ نے جوناتھن کو بتایا کہ ایوان سے اس کی بات ہو چکی ہے۔ وہ اپنے موقف پر اڑی ہوئی ہے۔ گفتگو کی تفصیل سے وہ یروشلم پہنچنے کے بعد اسے آگاہ کرے گی۔ جوناتھن نے سوال کیا کہ ایوان کی دھمکی کا وہ کیا کرے۔ کیا وہ نوٹس کی رسید روانہ کر دے تاکہ عدالت کی خواری سے بچا جا سکے۔
ماریہ بولی جی ہاں یہی بہتر ہے اور اگر آگے چل کر ایوان کا ذہن بدل جاتا ہے تو اسے پھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ جونا تھن نے کہا جی ہاں وہ میرے سرپر ایک بوجھ بنا ہوا ہے میں کل ہی اسے روانہ کر دوں گا۔ ماریہ تم نے خود فون کیا اس کا بہت شکریہ میں یروشلم میں تم سے ملاقات کا منتظر ہوں۔ ماریہ بولی میں بھی۔ فون بند کرنے کے بعد جوناتھن نے اپنے آپ سے کہا ایک ایوان ہے جو میری بیوی ہو کر میری دشمن بنی ہوئی ہے اور ایک ماریہ ہے کہ اس میں کس قدر ہمدردی و خوش خلقی ہے۔ بیچارہ جوناتھن نہیں جانتا تھا کہ ماریہ اور ایوان کے درمیان میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ اگر اس کو اس کا علم ہوتا تو وہ ماریہ کی جانب بھول کر بھی نہیں دیکھتا۔
ماریہ ایک ہفتے بعد منصوبہ بند طریقے پر یروشلم پہنچ گئی۔ اس کے رشتہ داروں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ان سے ملنے آئے گی۔ ماریہ نے یہ بات صاف کر دی تھی اس کی آمد کے دو مقاصد ہیں ایک تو ان سے ملنا اور دوسرے مذہبی مقامات جیسے ہیکل سلیمانی کی زیارت اور دیوارِ گریہ پر عبادت۔ ماریہ کی آمد کے اصل مقصد تو صرف ایوان جانتی تھی۔ یروشلم پہنچنے کے بعد اس نے سب سے پہلے مقامی سم کارڈ حاصل کیا۔ اس کے بعد فون کر کے اپنا پتہ جوناتھن کو بتا دیا۔ جوناتھن نے دوسرے دن آنے کا وعدہ کیا۔اس کے بعد ماریہ دیوار گریہ پر گئی اور وہاں رو رو کر دعا کی کہ اس مشن میں کامیابی ملے جس سے نہ صرف ایوان کا بلکہ اب اس کا اپنا مستقبل بھی وابستہ ہو گیا تھا۔
دوسرے دن تل ابیب سے نکلتے ہوئے جوناتھن نے ماریہ کو بتلایا کہ وہ نکل چکا ہے اور ایک گھنٹے بعد وہاں پہنچ جائے گا۔ ماریہ اب ایوان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ایوان بہت خوش تھی اس لئے کہ جوناتھن نے طلاق کی درخواست پر بغیر تاریخ لکھے دستخط کر دئیے تھے جس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ یہ خط اسے دوسال قبل حاصل ہوا۔ اس کے بعد وہ جوناتھن کے بارے میں سوچنے لگی جو یکے بعد دیگرے دھوکہ دہی کا شکار ہو رہا تھا پہلے تو اس کے نام سے فریب دیا گیا اور اب اس کو صحیح معنیٰ میں فریب دیا جا رہا تھا۔ بیچارہ جون! لیکن پھراس نے اپنے آپ گریبان میں جھانک کر دیکھا اس لئے کہ اس گورکھ دھندے میں وہ اوّل روز سے شریک تھی بلکہ پیش پیش تھی۔
ماریہ کو اپنے آپ پر غصہ آنے لگا۔ وہ اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی کہ اسے ایوان کا ہمنوا بننے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس نے بلاوجہ اپنے آپ کو اس گناہِ کبیرہ میں شامل کر لیا تھا۔ اس کے اندر ایک احساس ندامت جنم لے رہا تھا وہ غور کر رہی تھی کہ اب جوناتھن سے مزید کتنے جھوٹ بولنے ہیں۔یکبارگی اسے خیال آیا کہ کیوں نہ سب کچھ سچ سچ بول کر اس احساسِ جرم سے نجات حاصل کر لے۔ لیکن اس نے اگر جوناتھن کو ایوان کے سارے کارنامے بتا دئیے تو جوناتھن پر کیا گذرے گی۔ وہ بیچارہ کس قدر دل برداشتہ اور غمزدہ ہو جائے گا؟ اپنی اس خود کلامی کے نتیجے میں ماریہ کو اس نتیجہ پت پہنچی کہ فی الحال اس فریب کاری میں نہ صرف ایوان بلکہ جوناتھن کا بھی بھلا ہے اور وہ جو کچھ کر رہی ہے وہ جوناتھن کیلئے باعثِ خیرو برکت ہے۔ ماریہ کا احساس جرم کافور ہو رہا تھا اور یوں لگنے لگا تھا گویا وہ کسی کارِ ثواب میں شریک ہو گئی ہے اس لئے اس کام کو بحسن و خوبی کرنا چاہئے۔
اس زاویہ سے جب ماریہ نے غور کرنا شروع کیا تو پہلی بار اسے خیال آیا کہ اسے اپنی آرائش و زیبائش کا بھی خیال کرنا چاہئے۔ دلکش دلہن میں کام کرتے ہوئے اسے ایک عرصہ گزر گیا تھا لیکن وہ خود کبھی میک اپ کی کرسی پر نہیں بیٹھی تھی لیکن اس روز ماریہ نے پہلی کسی بیوٹی پارلر میں جانے کا فیصلہ کیا۔ یروشلم کے ایک بڑے بیوٹی پارلر میں جا کر ماریہ نے اپنے آپ کو سجانے اور سنوارنے کے بعد جوناتھن کو فون کر کے بتایا کہ وہ بس اڈے سے قریب ہالی ڈے ان ہوٹل میں اس سے ملاقات کرے گی۔ ہالی ڈے ان کا نام سن کر جوناتھن ڈر گیا۔ وہ بولا ماریہ ہالی ڈے ان تو پانچ ستارہ ہوٹل ہے۔ ماریہ بولی لیکن چھوٹے موٹے ریسٹورنٹ کے شور شرابے میں تو ہم لوگ بات نہیں کرسکتے اور میرے میزبان کا گھر بہت چھوٹا ہے۔ وہاں نجی بات چیت مناسب نہیں ہے۔
جوناتھن نے سوچا اگر ہالی ڈے ان میں اسے چائے بھی پلانی پڑ جائے تو واپس ہونا مشکل ہو جائے گا۔ وہ بولا کیا ہم کسی باغ میں نہیں مل سکتے ؟ ماریہ ہنس کر بولی جوناتھن اب ہماری عمر باغوں اور ساحلوں پر ملنے کی نہیں ہے۔ یہ سن کر جوناتھن شرمندہ ہو گیا اور بولا نہیں ماریہ میرا یہ مطلب نہیں تھا میں تو صرف خرچ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ماریہ بولی تم اس کی فکر نہ کرو آج ظہرانہ میری جانب سے ہے میں تمہاری میزبان ہوں۔ جوناتھن نے سکون کا سانس لیا اور کہا شکریہ اور فون بند کر دیا۔ جونا تھن کو اس بات کا افسوس تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کی سہیلی کو کسی اچھے سے مطعم میں کھانا کھلانے کی حالت میں بھی نہیں ہے۔
ہالی ڈے رفف ان کی لابی میں گھبرایا ہوا سا جوناتھن اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ اسے اپنے عقب سے نہایت سریلی آواز آئی کسے دیکھ رہے ہو جون؟ جوناتھن نے مڑ کر دیکھا ماریہ پوری طرح سے بدلی ہوئی تھی تین سال قبل ایک پروفیسر نمافلسفی نظر آنے والی ماریہ ایسی بھی لگ سکتی ہے یہ اس کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔ جوناتھن بولا ماریہ ۔۔۔ معاف کرنا میں تمہیں پہچان نہ سکا۔ تم کتنی بدل گئی ہو ؟لگتا ہے تمہاری دوکان خوب چل پڑی ہے ؟ ماریہ نے پوچھا کیا معاش کا شخصیت پر اثر ہوتا ہے ؟ جوناتھن بولا کیوں نہیں مجھے دیکھو میں ویسا ہی ہوں جیسا کہ پہلے کبھی تھا نہ میرا حال بدلا اور نہ چال سب کچھ بالکل ویسا ہی ہے۔ماریہ نے پوچھا اور میرا ؟ تمہاری رنگ روپ سب بدل چکا ہے۔ ماریہ نے پوچھا اچھا سچ سچ بتاؤ تم اس تبدیلی سے خوش ہو یا ناراض ؟ جوناتھن بولا میں ۔۔۔ میں اس تبدیلی خوش ہوں ۔۔۔ بہت خوش۔ ماریہ خوش ہو کر بولی میں یہی سننا چاہتی تھی جون۔ دراصل تمہاری خوشی ہی میری خوشی ہے۔ جوناتھن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ اور کیوں ہو رہا ہے لیکن اس کی کیفیت کچھ ایسی تھی کہا ایوان نے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر دی تھی۔اس کے دن رات اپنی قسمت کو کوسنے میں صرف ہوتے تھے۔
۳۲
ماریہ اور جوناتھن ہالی ڈے ان کے ڈیوڈ اسٹار مطعم میں آ کر بیٹھ گئے۔ہال کے اندر مدھم روشنی اور ہلکی موسیقی ایک خاص سرور پیدا کر رہی تھی۔ ماریہ نے ایوان سے جوناتھن کی پسندیدہ کھانوں کے بارے میں معلوم کر لیا تھا۔ایوان نے بتایا تھا کہ جوناتھن ہمور مچھلی کا دیوانہ ہے اور جھنیگا بھی بہت پسند کرتا ہے۔ ماریہ نے جوناتھن سے پوچھا کہ کیا کھانا پسند کرو گے ؟ جوناتھن بولا تم میزبان ہو اس لئے انتخاب کا حق تم کو ہے ؟ ماریہ بولی لیکن دعوت تو مہمان کیلئے ہوتی ہے اس لئے اس کی پسند کا خیال کیا جانا چاہئے۔ جوناتھن نے انکساری دکھاتے ہوئے کہا میری کوئی خاص پسند نہیں یوں سمجھ لو کہ مجھے سب پسند ہے۔ ماریہ بولی لیکن مجھے سب پسند نہیں ہے۔ مجھے تو صرف مچھلی پسند ہے۔ ماریہ کی زبان سے مچھلی سن کر جوناتھن خوش ہو گیا اگر ایسا ہے تو مجھے بھی مچھلی پسند ہے۔ ماریہ بولی اور سمندری غذا میں جھینگا مجھے سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ جوناتھن بولا مجھے بھی جھینگا سب سے زیادہ پسند ہے۔
ماریہ بولی بہت خوب اب میں کھانے کا آرڈر دیتی ہوں۔ ماریہ کی زبان سے جب جوناتھن نے جھینگے کا سالن اور ہمور کے تکوں کا آرڈر سنا تو وہ بے اختیار اپنی تقدیر پر رشک کرنے لگا۔ ماحول نہایت خوشگوار ہو چکا تھا۔ کھانے کے دوران تو رسمی باتیں ہوتی رہیں لیکن کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ماریہ بولی جون تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے مجھے اس کا بے حد افسوس ہے۔ تمہارے میل کے بعد جب میں نے ایوان کے ساتھ تفصیل سے بات کی تو اس نے مجھے اس کا رویہ نہایت حوصلہ شکن معلوم ہوا۔جوناتھن بولا تو تمہارا کیا خیال ہے ایوان بالکل ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ جی ہاں جون وہ تو اپنی بات پرکسی اڑیل ٹٹو کی مانند اڑی ہوئی ہے۔جوناتھن نے کہا لیکن آخر اس انتہائی اقدام کی کوئی معقول وجہ بھی تو ہونی چاہئے۔ پہلے تو یہ تھا کہ میں بیروزگار تھا اب تو مجھے ملازمت بھی مل گئی ہے اور پھر میں نے اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی بھی نہیں کی۔
تمہاری بات درست ہے جون۔اس کو تمہارے رویہ، سلوک اور اخلاق و عادات سے کوئی شکایت نہیں ہے۔جوناتھن نے سوال کیا تو پھر کیا مسئلہ ہے ؟ ماریہ بولی اب وہ اس قدر خوشحال ہو گئی ہے کہ تمہاری ملازمت کی بھی محتاج نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا مسئلہ ہے ؟ ماریہ بولی دراصل اس نے دماغ میں نہ جانے کیا خناس گھس گیا ہے اب وہ تمہاری بیوی بن کر رہنا نہیں چاہتی۔ جوناتھن بولا لیکن اس کی کوئی معقول وجہ بھی تو ہونی چاہئے۔ ماریہ نے سمجھاتے ہوئے کہا جی نہیں جون بہت سارے کام انسان بلا وجہ بھی تو کرتا ہے اور پھر انسان کی چاہت اسباب و علل کی محتاج نہیں ہوتی۔ جوناتھن کیلئے یہ دلائل قابل قبول نہیں تھے اس نے سوال کیا لیکن یہاں سوال چاہنے کا نہیں بلکہ نہ چاہنے کا ہے ؟ جی ہاں اگر محبت کسی وجہ کی محتاج نہیں ہے تو نفرت کیلئے بھی کوئی سبب درکار ہی نہیں ہے۔ جوناتھن نے ہار کر ایک اورسوال ماریہ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ ایوان کا ایسا کرنا درست ہے ؟ ماریہ بولی دیکھو جون تم سے زیادہ ایوان کو کون جان سکتا ہے ؟ تمہارے یا میرے ، درست یا نہ درست، سمجھنے یا نہ سمجھنے سے ایوان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔جوناتھن نے تائید کی اور بولا مجھے پتہ ہے۔ ماریہ بولی اسی لئے میرا موقف یہ ہے کہ کوئی شہ درست ہو یا غیردرست۔ ہم بزور قوت کسی کی مرضی کے خلاف تھوپ نہیں سکتے۔
جون بولا اگر ایسا ہے تو اب میں کیا کروں ؟ ماریہ نے کہا اگر میری مانو ماضی کے حصار سے نکل کر مستقبل کے بارے میں سوچو اس لئے کہ ایوان کے علاوہ بھی یہ دنیا بہت وسیع و عریض ہے ؟ تمہارا مستقبل ایوان کے پاس رہن نہیں ہے۔ لیکن اب اس عمر میں کون میرا ساتھ دے گا؟ دیکھو جون زندگی کے سفر میں ہر موڑ پر ساتھی ملتے بچھڑتے رہتے ہیں۔ یہ سفر کسی کے ملنے یا بچھڑ جانے سے رکتا نہیں ہے۔ انہیں بنتے بگڑتے رشتوں کا نام زندگی ہے۔ اب تم بیروزگار بھی نہیں ہو تمہارے پاس تمہاری اپنی مہارت کی ملازمت ہے اور وہ بھی برطانیہ میں ایسے میں چنتا کی کیا ضرورت؟ تم قدم آگے بڑھاؤ بہاریں تمہاری منتظر ہیں۔
جوناتھن بولا لیکن میرے ساتھ میرا بیٹا بنجامن بھی تو ہے ؟ ماریہ نے جواب دیا تو کون اس کو تم سے جدا کر رہا ہے ؟ جو تمہیں اپنائے گا لازماًاسے بھی اپنا لے گا۔ بلکہ میں تو تم سے پوچھنے ہی والی تھی کہ تم اس کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لائے ؟ کتنا عرصہ ہو گیا ہے اس کو دیکھے۔ کیسا ہے میرا بنجو؟ جون بولا جی ہاں ماریہ مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے اس کو اپنے ساتھ لانا چاہئے تھا۔وہ بھی تم سے مل کر بہت خوش ہوتا۔ اگر ہماری اگلی ملاقات ہوئی تو بنجو کے ساتھ ہو گی۔ جی ہاں میں بھی اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ ننھا سا تھا جب اسے وارسا میں دیکھا تھا لیکن اب تو بڑا ہو گیا ہو گا ؟ بہت بڑا تو نہیں پھر بھی ہوا تو ہے۔ ماریہ بولی میری واپسی کی فلائیٹ تل ابیب سے ہے مجھے لوٹنے سے قبل اس سے ضرور ملانا۔ اچھا اگر ایسا ہے تب تو ہم لوگ پھر ایک بار ضرور ملیں گے۔
تل ابیب کی بس میں بیٹھا جوناتھن ماریہ سے اپنی ملاقات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ تو ماریہ کے پاس اس لئے گیا تھا کہ ایوان سے قربت کی کوئی سبیل نکلے لیکن ماریہ تو اسے ایوان سے بہت دور لے گئی تھی۔ ماریہ نے اس کے سامنے زندگی کے نئے افق روشن کر دئیے تھے جس میں ایوان تو نہیں تھی لیکن اور بہت کچھ تھا۔ سب سے اہم زندہ رہنے کی ایک خواہش تھی۔ ایک حوصلہ تھا۔ایوان کے ساتھ ازدواجی زندگی میں وہ جس نا امیدی کا شکار ہو گیا تھا اسے ماریہ نے ایک ملاقات میں عزم و حوصلہ میں بدل دیا تھا۔ اب وہ زندہ رہنا چاہتا تھا۔ اپنا سمت سفرازخودطے کرنا چاہتا تھا۔ایوان کے بغیر آزادی کے ساتھ۔ ماریہ نے اس کے اندر آزادی کا ایک خوشگوار احسا س جگا دیا تھا جواس ملاقات کا حاصل تھا۔
جوناتھن اب ماریہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ ماریہ جو ساری دنیا سے الگ تھلگ تنہا زندگی گزار رہی تھی لیکن یہ تین سال قبل کی بات تھی۔ممکن ہے اس بیچ اس نے اپنا گھر بسا لیا ہو؟ لیکن ممکن ہے وہ اب بھی تنہا ہو؟جوناتھن کو اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ ماریہ سے اپنے بارے میں، بنجامن کے بارے میں اور ایوان کے بارے باتیں کرتا رہا لیکن اس کے بارے میں ایک بات نہیں پوچھی؟ وہ کیسی ہے ؟ اس کے اہل خانہ کس حال میں ہیں فی الحال کہاں ہے کیا کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ؟ لیکن یہ پوچھنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہ چہرے سے ہی خوشحال اور صحتمند دکھلائی دے رہی تھی لیکن انسان جیسا نظر آتا ویسا نہیں بھی ہوتا ؟جوناتھن نے سوچا کہ اسے چاہئے تھا کہ وہ اس کے اپنے اور اس کی والدہ اور بہنوں کے بارے میں پوچھتا؟ اور یہ بھی پتہ کرتا کہ آیا وہ ہنوز تنہا ہے یا اس نے اپنا گھر آباد کر لیا ہے ؟ لیکن اگر تنہا بھی ہے تو کون سی بڑی بات ہے ؟ وہ خود بھی شادی کے باوجود نہ جانے کب سے تنہائی کی زندگی گزار رہا ہے اور کون جانے کب تک یہی تنہائی اس کا مقدر بنی رہے گی؟
جوناتھن نے ارادہ کیا کہ وہ اگلے دن ماریہ سے بات کر کے معذرت چاہے گا اور اس کے تل ابیب فلائیٹ کی تفصیل بھی معلوم کرے گا۔ ماریہ کو جوناتھن کے فون کا انتظار تھا۔ اسے پتہ تھا کہ وہ کیا کہے گا اور وہ جانتی تھی کہ اسے کیا بولنا ہے۔ جیسے ہی فون کی گھنٹی بجی وہ اپنے منصوبے کے مطابق تیار ہو گئی۔ جوناتھن نے کہا میں جوناتھن بول رہا ہوں۔ ماریہ نے جواب دیا میں جانتی ہوں جون آج کل فون کے ساتھ نام بھی آ جاتا اور تمہاری آواز کو جو ایک بار سن لے تووہ کیسے بھول سکتا ہے ؟جوناتھن بولا شکریہ۔ ماریہ بولی ہاں تو بولو کیسے یاد کیا ؟
جوناتھن نے کہا ماریہ میں دراصل کل کی ملاقات پر نادم ہوں ؟یہ رد عمل ماریہ کی توقع کے خلاف تھا اس نے پوچھا کیوں کل ایسی کون سی بات ہو گئی جو؟ ۔۔۔ یہی کہ میں صرف اپنے بارے بولتا اور پوچھتا رہا لیکن تمہارے بارے میں سرے سے کوئی گفتگو ہی نہیں کی۔ میرے بارے میں ؟ ہم لوگ تو ایک خاص مسئلہ کے لئے ملے تھے اس میں میرا ذکر کیوں کر ہو سکتا تھا؟ نہیں ماریہ ایسی بات نہیں۔ انسانی اخلاقیات کے بھی تو کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ ہم لوگ عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اس کے باوجود میں نے نہ یہ پوچھا کہ تم کیسی ہو؟ تمہارے گھر والوں کا کیا حال ہے ؟ تمہارا کاروبار کیسے چل رہا ہے ؟ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ میں بھی خاصہ خود غرض ہو گیا ہوں ؟
ماریہ نے جانتے بوجھتے سوال کیا میں بھی سے کیا مراد ہے ؟ کیا تم مجھے بھی خودغرض کہہ رہے ہو؟ ماریہ کے انداز میں ایک شرارت کا عنصر شامل تھا۔ جونا تھن بولا نہیں ماریہ جو تمہیں خودغرض سمجھے اس سے بڑا خودغرض دنیا میں کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے۔ تم تو ۔۔۔۔ اب میں کیا کہوں ؟ ماریہ بولی میں تمہاری ایوان کی قریبی سہیلی ہوں اس لئے تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں برا نہیں مانوں گی۔ جوناتھن بولا تمہیں پتہ ہے ماریہ کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں اب میں بار بار اس کے ذکرِ شرسے فضا کو مکدّر کرنا نہیں چاہتا۔ ماریہ کے خیال میں ایوان کو اس طرح سے نظرانداز کر دینا ایک نہایت مثبت پیش رفت تھی۔ اسے امید نہیں تھی کہ جوناتھن کے سر سے ایوان کا بھوت اتنی جلدی اتر جائے گا۔ وہ تو سوچ رہی تھی کہ اس کیلئے اسے بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے اور ماریہ نے اس کی خوب تیاری بھی کر رکھی تھی۔
جوناتھن نے پوچھا خیر تم فون پر ہی بتا دو کہ تمہاری ماں کی صحت کیسی ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جو کبھی بھی ایوان کی زبان پر نہیں آیا تھا۔ ماریہ بولی ماں جی اچھی ہیں۔ ان کو کوئی مرض تو نہیں ہے لیکن ضعف ضرور ہے اس بیچ خاصی کمزور اور نحیف ہو گئی ہیں۔ تمہاری چار بہنیں بھی تھیں۔ جی ہاں اب تو ان سب کی شادی ہو چکی ہے وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوش ہیں۔ بہت خوب جوناتھن بولا اور تمہارے ؟۔۔۔۔۔ جوناتھن کچھ پوچھتے پوچھتے رک گیا۔ ماریہ ہنس کر بولی میرا کیا ؟ نہ کوئی اہل اور نہ عیال۔ میں تو ویسی ہی ہوں جیسی تھی۔
ماریہ کے لہجے میں چھپے کرب کو جوناتھن نے محسوس کر لیا اور موضوع بدلنے کیلئے وہ بولا جی نہیں ماریہ ایسا نہیں ہے۔ تم ویسی نہیں ہو بلکہ خاصی بدل گئی ہو۔لگتا ہے تمہاری دوکان اچھی خاصی چل پڑی ہے ؟ ماریہ نے پوچھا تم کس دوکان کی بات کر رہے ہو جون۔ میں نے وہ دوکان کب کی چھوڑ دی اب میرا بہنوئی اسے چلا رہا ہے۔ اچھا تو تمہاری مصروفیت؟ میں نے ملازمت کر لی ہے ؟ میں بھی تمہاری طرح برطانیہ منتقل ہو گئی ہوں۔ میری طرح نہیں ایوان کی طرح۔میں تو ابھی تک یہیں پڑا ہوا ہوں۔ ماریہ بولی ہوئے نہیں ہو تو کیا ہو جاؤ گے ایوان نے مجھے بتایا کہ تم بہت جلد برطانیہ آنے والے ہو۔ جوناتھن بولا میں برطانیہ جانے والا تھا لیکن ایوان نے سارا پروگرام چوپٹ کر دیا۔ ماریہ کیلئے یہ ایک نہایت غیر متوقع رد عمل تھا۔ وہ بولی تو کیا تم نے اپنا ملازمت کا ارادہ بدل دیا ہے ؟
جوناتھن بولا ابھی بدلا تو نہیں لیکن تذبذب میں ہوں۔ سوچتا ہوں کہ وہاں جا کر کیا کروں گا؟ ایوان۔۔۔ ۔ماریہ بولی پھر وہی ایوان کی داستان۔ایوان کو چھوڑ کر تو تم واپس آ چکے تھے۔ اب تم ایوان سے ملنے کیلئے جا رہے ہو یا ملازمت کرنے کیلئے ؟ ویسے تو ملازمت کیلئے لیکن پھر بھی جی نہیں کرتا۔ اب مجھے اس سرزمین سے نفرت ہو گئی ہے۔جوناتھن پھر پٹری سے اتر رہا تھا۔ ماریہ نے کہا اس سرزمین نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جون ؟ جوناتھن بولا ماریہ انسان اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم نہیں کر سکتا۔ ماریہ نے کہا تمہاری بات درست ہے جون لیکن انسانی زندگی کا ہر خانہ مستقل نہیں ہوتا۔ کچھ بند ہوتے ہیں اور کچھ کھل جاتے ہیں۔ مثلاً پہلے بنجامن کا خانہ تمہاری زندگی میں نہیں تھا اب ہے۔ پہلے وارسا تمہاری زندگی کا اہم جز تھا اب اس کی جگہ تل ابیب نے لے لی ہے۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔
جوناتھن نے کہا ماریہ میں جب بھی تم سے بات کرتا ہوں زندگی کے کچھ نئے اسرار و رموز کھل کر سامنے آ جاتے ہیں ایوان کہتی تھی کہ تم پڑھتی بہت ہو۔ کیا وہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ؟جی ہاں جون کتابیں میری زندگی کا غیر منقسم جز ہیں میں ان سے الگ نہیں ہو سکتی۔ جوناتھن بولا یہی تو میں کہہ رہا تھا ماریہ کہ کچھ چیزیں انسان کی زندگی میں ایسی آ جاتی ہیں کہ ان سے جدا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ماریہ نے سوچا پھر بات بگڑ گئی۔ وہ بولی جون ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا ہاں مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے بنجامن کو یروشلم کے مقدس مقامات کی زیارت کرائی یا نہیں ؟
ماریہ کے اس نادانستہ سوال نے جوناتھن کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ مزاجاً ایک مذہبی انسان تھا اس کے باوجود اس کے دل میں یہ خیال کبھی نہیں آیا تھا۔ جوناتھن بولا ماریہ بنجامن تو دور میں نے بھی ان مقامات کی زیارت نہیں کی۔جب میں پولینڈ میں تھا تو میری بڑی خواہش تھی کہ کم از کم ایک بار یروشلم کی زیارت کروں لیکن جب سے یہاں آیا ہوں روزی روٹی کے چکر میں ایسا پڑا کہ سب کچھ بھول گیا۔ فکرِ معاش نے مجھے خدا، رسول اور آخرت سب سے غافل کر دیا۔تمہیں حیرت ہو گی کہ تم سے ملاقات کیلئے میں نے پہلی مرتبہ یروشلم کا سفر کیا اور اس وقت بھی ۔۔۔۔ افسوس کہ اس وقت بھی ۔۔۔۔ مجھے خیال تک نہیں آیا ۔۔۔۔ میں کتنا بد نصیب انسان ہوں ماریہ ۔۔۔۔ جوناتھن کی آواز رندھ گئی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میں سرے سے انسان ہی نہیں ہوں۔ ماریہ بولی جی نہیں جون۔ یہ تمہارے اندر کی انسانیت بول رہی ہے۔ تمہارے اندر کا سویا ہوا انسان بیدار ہو گیا ہے۔
جوناتھن بولا شاید ۔۔۔۔ شاید کہ وہ جاگ گیا ہو۔ ماریہ بولی یہ ہوتا ہے۔ہم سب کے ساتھ یہ ہوتا ہے۔ اس روز تم سے ملنے کے بعد میں دیوار گریہ گئی۔ وہاں کھڑی ہو کر دیر تک عبادت کرتی رہی دعائیں مانگتی رہی۔روتی رہی۔ توبہ استغفار کرتی رہی۔اور جب واپس لوٹی تو میں بتا نہیں سکتی کہ میری حالت کیا تھی۔ میرے دل کا آئینہ صاف و شفاف ہو چکا تھا۔ اس میں مجھے میرا عکس صاف نظر آ رہا تھا۔ میرے تمام عیوب منہ چڑا رہے تھے۔ ماریہ فون پر رونے لگی۔ جوناتھن بولا اور تمہاری نیکیاں مسکرا رہی تھیں۔ تم نے انہیں نہیں دیکھا ماریہ۔ اگر نہیں دیکھا تو انہیں بھی دیکھو۔ وہی ہمارا سرمایۂ حیات ہے۔ وہی ہمارے ساتھ جائیں گی۔ باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ دھن دولت ہم پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
ماریہ نے کہا جی ہاں جون سارے رشتے سارے بندھن ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ ہم جس طرح تنہا اس دنیا میں آئے ہیں اسی طرح تنہا اس دنیا سے جائیں گے۔ماریہ اور جوناتھن کے پاس جو الفاظ کا خزانہ تھا خالی ہو چکا تھا۔ بات کہیں اور نکل گئی تھی۔ جوناتھن بولا اگر زندگی رہی تومیں اس ہفتے یوم السبت کو بنجامن کے ساتھ یروشلم آؤں گا۔ ماریہ بولی ٹھیک ہے ہماری ملاقات دیوارِ گریہ پر ہو گی۔ جوناتھن بولا نہیں ہم لوگ ہیکلِ سلیمانی میں ملیں گے۔ جوناتھن نے ملاقات کیلئے دیوارِ گریہ کے بجائے ہیکل سلیمانی کا انتخاب کیوں کیا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ شاید وہ بالکل تنہا ہو کر عبادت کرنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جب اس کا اپنے رب سے تعلق قائم ہو تو درمیان میں کوئی اور آ جائے ؟یہی وجہ تھی یا کوئی اور وجہ تھی اس کا علم جوناتھن کو نہیں تھا۔ ماریہ نے سچ کہا تھا کئی کام انسان بلاوجہ کر گذرتا ہے۔ اس کی کسی معقول وجہ اگر ہوتی بھی ہے تو اس کا علم اسے نہیں ہوتا یا شاید کوئی وجہ سرے سے ہوتی بھی نہ ہو۔ جوناتھن سوچ رہا تھا مگر ماریہ ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر چکی تھی۔
۳۳
بنجامن نے پوچھا بابا آج تو چھٹی کا دن ہے آپ ہمیں اتنی صبح کیوں جگا رہے ہیں ؟ بیٹے آج ہم کو بہت دور جانا ہے اس لئے اٹھو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ اچھا تو ہم لوگ کہاں جا رہے ہیں ؟ مما سے ملنے ؟ جی نہیں بیٹے تمہاری مما سے تو نہیں لیکن ان کی ایک سہیلی سے ملنے جا رہے ہیں۔ کون سہیلی؟ وہ تم ان کو نہیں جانتے۔ہم سب کو جانتے ہیں ؟ اور سب لوگ ہم کو جانتے ہیں۔ جی ہاں بیٹے وہ آپ کو جانتی ہیں۔ وہ ہم کو کیسے جانتی ہیں جبکہ ہم ان کو نہیں جانتے ؟ننھا بنجامن پٹر پٹر بول رہا تھا۔ انہوں نے آپ کے بارے میں سناہے بلکہ انہوں نے تو آپ کو دیکھا بھی ہے۔ وہ آپ کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ تب تو ہم نے بھی ان کو دیکھا ہو گا ؟ جی ہاں !لیکن آپ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ تو کیا ہوا؟ان کا نام کیا ہے ؟ ان کا نام ماریہ ہے بیٹے۔ ماریہ آنٹی ہم ان کو جانتے ہیں۔ اچھا آپ ان کو کیسے جانتے ہیں ؟ وہ دراصل فون پر مما سے لمبی لمبی باتیں کیا کرتی تھیں۔ ہم کو سب پتہ ہے اور ہم نے انہیں دیکھا بھی ہے۔ جوناتھن نے حیرت سے پوچھا اچھا آپ نے ان کو کہاں دیکھا ہے ؟ ہم نے مما کے کمپیوٹر پر انہیں دیکھا ہے۔ اور ان سے بات بھی کی ہے۔ جوناتھن بولا تب ٹھیک ہے اب باتیں بند کرو اور بستر سے باہر آ کر چلنے کی تیاری کرو۔
بنجامن چونکہ پہلی مرتبہ کسی طویل بس کے سفر پر نکلا تھا اس لئے پہلے تو بڑے شوق سے باہر کے مناظر دیکھتا رہا لیکن شہر سے باہر کے مناظر میں یکسانیت پیدا ہو گئی تو گہری نیند میں سو گیا۔ جوناتھن اپنے ماضی کی صلیب اٹھائے دیوار گریہ کی جانب رواں دواں تھا اس کی آنکھوں میں کانٹے بسے ہوئے تھے۔ گزرا ہوا ہر منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آتا تھا اور تیزی سے گزر جاتا تھا۔ جب کوئی نازک گھڑی آتی تصور خیال کی رفتار کم تو ہوتی تھی لیکن سفر رکنے کا نام نہ لیتا تھا ایک گھنٹے کے اندر جوناتھن نے اپنا تیس سالوں کا سفر مکمل کر لیا۔ اس دوران جوناتھن نے ماریہ کو فون تک نہیں کیا تھا۔ ماریہ اس کے فون کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ جب جوناتھن تل ابیب سے نکلے گا تو اسے ضرور فون کرے گا۔ بس رک گئی بنجامن جاگ گیا اور دونوں باپ بیٹے دیوارِ گریہ کے پاس پہنچ گئے۔ جوناتھن نے بنجامن کو بہت سارا کھانے پینے کا سامان پکڑایا اور خود تسبیح و مناجات میں مشغول ہو گیا۔ وہ دیر تک روتا رہا اور جب اس کی آنکھوں کے سوتے خشک ہو گئے تو وہ بنجامن کی جانب متوجہ ہوا۔ بنجو اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
جوناتھن دیوار سے قریب ایک چائے کی دوکان پر آ کر بیٹھا اور ماریہ کو فون لگایا۔ ماریہ نے پوچھا اوہو جون کیا بات ہے تم ابھی تک نہیں نکلے ؟ کہیں ارادہ بدل تو نہیں گیا ؟ ماریہ کے سوالات اس کی بے چینی کی چغلی کھا رہے تھے۔ جوناتھن بولا نہیں ماریہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں یہاں دیوار کے پاس ہوں اور نکل کر ہیکل سلیمانی جا رہا ہوں۔ اوہو اچھا تب تو تم دس منٹ میں پہنچ جاؤ گے لیکن مجھے تو کم از کم آدھا گھنٹہ لگے گا۔ کوئی بات نہیں میرے ساتھ بنجامن ہے ہم لوگ اس وقت تک سیر و تفریح کریں گے۔ جی ہاں یہ بہت اچھا ہے۔ کیا تم بنجو کو فون دے سکتے ہو؟ کیوں نہیں یہ لو۔
ماریہ نے کہا بنجو شولوم۔ بنجامن نے کہا شولوم آنٹی۔ ننھے فرشتے کی زبان سے آنٹی سن کر ماریہ کو پیار آ گیا وہ بولی بیٹے آپ مجھے جانتے ہیں۔ جی ہاں آنٹی میں آپ کو جانتا اور پہچانتا بھی ہوں۔ آپ ماریہ آنٹی ہیں۔ بنجامن کی آواز ماریہ کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ ماریہ نے پوچھا تم کیسے ہو بیٹے ؟ میں تو اچھا ہوں لیکن آپ کہاں ہیں ؟ ہم لوگ آپ سے ملنے کیلئے کتنی دور سے آئے اور آپ نہیں ملیں تو پاپا کتنا پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ آپ نے ہمارے پاپا کو بہت رلایا ہے آنٹی آپ اچھی نہیں ہیں۔ جوناتھن نے اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا اور بولا چپ کر، کچھ بھی بکتا رہتا ہے۔ ماریہ دوسری جانب یہ سن رہی تھی۔ بنجامن چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا آپ بھی اچھے نہیں ہیں۔ مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں۔ آنٹی اچھی ہیں۔ انہوں نے آپ کو رلایا اچھا کیا۔ بنجامن رو رو کر کہہ رہا تھا۔
جوناتھن نے فون پر کہا معاف کرنا ماریہ نادان بچہ ہے کچھ بھی کہتا ہے۔ لیکن تم تو بچے نہیں ہو؟ تم نے اسے کیوں ڈانٹ دیا ؟ جوناتھن کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ وہ بولا جی ہاں مجھے یہ نہیں کرنا چاہئے تھا خیر تم آؤ۔ہم لوگ منتظر ہیں۔ ماریہ نے سوچا کہ اسے آج میک اپ کر کے نہیں جانا چاہئے اس لئے کہ بنجامن اسے پہچان نہ سکے گا۔ ایوان نے اپنا روایتی لباس نکالا اور زیب تن کرنے لگی۔ جوناتھن سوچ رہا تھا ماریہ کو بنجامن کا کس قدر خیال ہے۔ بنجو کے رونے پر وہ کیسے تڑپ اٹھی جبکہ اگر اس کی جگہ ایوان ہوتی تو کہتی تم نے اچھا کیا۔ میری جانب سے ایک اور چانٹا رسید کرو۔
بنجامن پھر سے کھیل کود میں لگ کر بھول گیا کہ ابھی ابھی کیا ہوا تھا۔ اب وہ لوگ ہیکل سلیمانی کی جانب رواں دواں تھے۔ بنجامن جس چیز کو بھی دیکھتا ایک سوال کر دیتا اور جوناتھن اس کے سوالات کا بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیتا۔ جوناتھن اپنے مذہبی صحیفوں کے علاوہ یہودی تاریخ کا بھی گہرا علم رکھتا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کی جانب سے پھیلائے جانے والے پروپگنڈہ کا شکار نہیں ہوتا تھا۔ بنجامن کہ زیادہ تر سوالات تو یہ کیا ہے ؟ وہ کیا ہے ؟ ایسے ہوتے تھے۔ لیکن جب وہ کیوں پر آیا تو جوناتھن پریشان ہونے لگا مثلاً اس نے سوال کیا بابا وہ دیوار (دیوارِ گریہ)ٹوٹی ہوئی کیوں ہے ؟ اس کی مرمت کیوں نہیں کی جاتی۔ بیٹے یہ ہمارے بادشاہ ہیروڈ کے ذریعہ تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی کے مسمار ہونے کی یادگار ہے اسے ہم بھول نہیں سکتے۔ اچھا تو کیا اسے فلسطینی دہشت گردوں نے بم سے اڑا دیا تھا۔ یہ بنجامن نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ کے اثرات بول رہے تھے جو ٹی وی کی خبروں سے اس کے معصوم ذہن پر مرتب ہوئے تھے۔
جوناتھن بولا نہیں بیٹے یہ تو صدیوں پرانی بات ہے جب رومیوں نے اسے برباد کر کے ہمارا قتلِ عام کیا تھا۔ بنجامن کیلئے یہ عجیب انکشاف تھا اس نے پوچھا لیکن رومیوں نے تو ہم سے دوستی کر لی۔ ایسا کیوں ہوا؟ جوناتھن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے سوالات کا کیا جواب دے ؟ وہ بولا بیٹے ان لوگوں نے اپنے دشمنوں سے ہمیں لڑا کر خود ان سے دوستی کر لی۔ لیکن ان کا دشمن کون ہے ؟ ان کے دشمن مسلمان ہیں بنجو۔تم ابھی بچے ہو تمہاری سمجھ میں یہ باتیں نہیں آئیں گی۔ جب بڑے ہو جاؤ گے تو سب سمجھ جاؤ گے۔ اچھا کیا سارے بڑے لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں ؟ بنجامن نے ایک اور معصومانہ سوال داغ دیا۔ جوناتھن نے کہا اب بس بھی کرو بیٹے اور وہ دیکھوسامنے سے کون آ رہا ہے ؟
ماریہ نے بنجامن کو دیکھا تو اپنے ہاتھ پھیلا دئیے۔ بنجامن دوڑتا ہوا اس کے پاس گیا اور اس ے لپٹ گیا۔ ماریہ نیچے بیٹھ گئی اس کو گلے سے لگا لیا اور بولی میرا بیٹا بنجو ۔۔۔۔ کیسا ہے میرا بیٹا بنجو؟ میں اچھا ہوں آپ کیسی ہیں ؟ اور ہماری مما کیسی ہیں ؟ اس سوال نے ماریہ کو چونکا دیا وہ بولی آپ کی مما بھی اچھی ہیں اور میں بھی اچھی ہوں۔ بنجامن بولا نہیں آپ تو اچھی ہیں مگر وہ اچھی نہیں ہیں۔ جوناتھن پھر گھبرا گیا نہ جانے اب یہ شیطان کیا بک دے گا؟ ماریہ نے پوچھا کیوں ؟ اس لئے کہ آپ تو ہم سے ملنے کیلئے آ گئیں لیکن وہ نہیں آئیں اور نہ ہمیں بلایا۔ ہم ان سے کٹیّ ہیں۔ ارے بیٹے اپنی مما سے بھی کوئی ناراض ہوتا ہے ؟ کیوں نہیں ہوتا۔ جب تک وہ ہم سے ملیں گی نہیں ہم ان سے ناراض رہیں گے۔ اور جب مل جائیں گی تو؟ تو ۔۔۔۔ تو دوستی کر لیں گے۔ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ اپنی مما سے بھی کوئی ناراض ہوتا ہے۔ ماریہ کا جی چاہا کہ کہے بالکل ایوان پر گیا ہے لیکن پھر سوچا کہ شاید جوناتھن کو ناگوار گذرے اس لئے بولی بالکل پاپا پر گیا ہے۔ جوناتھن بولا نہیں ماریہ یہ تو اپنی ماں کی فوٹو کاپی ہے فوٹو کاپی۔
ہیکل سلیمانی کے آس پاس سیاحوں کا میلہ لگا ہوا تھا۔ یہ چونکہ تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کا مقدس مقام تھا اس لئے یہاں مسلمان، عیسائی اور یہودی تمام طرح کے لوگ موجود تھے۔ دوکانیں اور طعام گاہیں سجی ہوئی تھیں۔ لوگ باگ کھا پی رہے تھے جشن کا سا ماحول تھا۔ بچے کھیل رہے تھے بنجامن ان میں شامل ہو گیا تھا۔ موسم نہایت خوشگوار تھا آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ایسے میں ماریہ اور جوناتھن بھی کھلے آسمان کے نیچے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ گئے۔یہ حسنِ اتفاق تھا کہ اس روز ماریہ نے نہایت معمولی لباس پہنا ہوا تھا اور جوناتھن اہتمام کے ساتھ آیا تھا۔ ماریہ کے بجائے وہ میزبان بنا ہوا تھا۔ مقام اور وقت دونوں کا تعین اس نے خود کیا تھا۔
چائے کی چسکی لیتے ہوئے جونا تھن بولا ماریہ گزشتہ ملاقات میری خاطر تھی لیکن آج کی شام تمہارے نام ہے۔ ماریہ بولی ابھی تو دوپہر ہے جون۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ بتاؤ کہ تم نے برطانیہ جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ وہ کیا چیز تھی جو تمہیں پولینڈ سے برطانیہ اٹھا کر لے گئی؟ ماریہ بولی تم نے نہیں سنا’’سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا‘‘ ہم سب کی ہجرت کا محرک صرف اور صرف شکم کی آگ ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہی وجہ تھی جو تمہیں وارسا سے مانچسٹر لے گئی تھی۔ نہیں ماریہ ایسا نہیں ہے۔ میں تو اپنی آمدنی پر قانع و مطمئن تھا لیکن ماریہ کی حرص و ہوس نے اسے مجبور کیا اور میں اس کا تعاقب کرنے پر مجبور ہو گیا اس لئے کہ وہ میری شریک حیات تھی۔
یہ دوسری مرتبہ جوناتھن نے ایوان کے ساتھ اپنے رشتے کیلئے ماضی کا صیغہ استعمال کیا تھا۔ پہلی مرتبہ تو ماریہ نے اسے زبان کی پھسلن پر محمول کیا مگر جب وہ دوسری بار ادا ہوا تووہ اسے نظر انداز نہ کرسکی۔ ماریہ نے سوال کیا جون کیا میں یہ پوچھنے کی گستاخی کرسکتی ہوں کہ تم ایوان کے ساتھ اپنے رشتے کو’ تھا‘ کیوں کہنے لگے ہو؟ جوناتھن بولا ماریہ تم نے نہیں سنا
تعارف روگ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ماریہ نے پوچھا کہیں تم نے کوئی ایسا ویسا فیصلہ تو نہیں کر لیا۔ جوناتھن بولا ماریہ مجھے افسوس ہے کہ اپنی زندگی کے حوالے سے آج تک کوئی اقدامی فیصلہ میں نے نہیں کیا۔ میری اسکول کے بارے میں سارے فیصلے والد صاحب کرتے رہے۔ مضامین کا انتخاب اساتذہ نے کیا۔ نکاح میری ماں کی تجویز پر ہوا۔ انہوں نے مجھے حکم دیا میں نے سرِ تسلیم خم کر لیا۔ میں نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ ایوان کون ہے ؟کیسی ہے ؟ کیا کرتی ہے ؟ اور کیا نہیں کرتی؟ اور اس کے بعد میں اپنی ماں کی اطاعت گزاری سے نکل کر اپنی بیوی کا تابعدار بن گیا۔ میری زندگی کے سارے اہم اور غیر اہم فیصلے ایوان کرنے لگی۔
جوناتھن بڑے انہماک ماریہ کو اپنی داستانِ غم سنا رہا تھا اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا شادی کے بعد ایوان نے ایک دن اچانک مجھے بتایا کہ ہم لوگ آئندہ ہفتے اس کے خالی مکان میں منتقل ہو رہے ہیں۔ میں انتقال کر گیا۔ اس نے کہا کہ وہ برطانیہ جا رہی ہے میں نے صبر کر لیا۔ اس نے مجھ کو حکم دیا میں بھی لندن پہنچ جاؤں میں نے روانگی ڈال دی۔ اسی نے میرے تل ابیب پہنچنے کے احکامات صادر کئے اور میں تل ابیب وارد ہو گیا۔ اور پھر ۔۔۔۔ اور پھر اس نے کیا کیا تم جانتی ہو۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب میں نے بلا چوں چرا تائید کرنے کی اپنی روایت سے انحراف کیا لیکن اب میں جان چکا ہوں اس ہاری ہوئی جنگ کو جاری رکھنے سے بہتر ہے کہ ہتھیار ڈال دئیے جائیں۔
ماریہ بولی میں تمہاری کہانی کو دوسرے زاویے سے دیکھتی ہوں جون۔ اچھا! ۔۔۔۔ جی ہاں مجھے لگتا ہے کہ تم نہایت شریف اور نیک انسان ہو۔ تم نے اپنے رشتے ناطے نبھانے کی مثال قائم کی۔ انہیں باقی رکھنے کیلئے ہر طرح کی چھوٹی بڑی قربانی بلا دریغ دیتے رہے۔ تم نے نہ کبھی کسی پر احسان جتایا اور نہ شکایت کی۔ تمہاری محبت پاکیزہ تھی اور تمہارا جذبہ بے لوث تھا۔ تم جیسے لوگ جو اپنے لئے نہیں دوسروں کیلئے جیتے ہیں۔ جو اپنے سے زیادہ اوروں کی خوشیوں کا خیال کرتے ہیں۔ جو صبر و ضبط کا دامن ہر حال میں تھامے رہتے ہیں۔ جو رشتوں کو کاٹتے نہیں جوڑتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں خال خال پائے جاتے ہیں۔ تم عظیم انسان ہو۔ مؤرخ ایسوں کو نہیں جانتا۔ ان کی پذیرائی انسان نہیں کرتے لیکن خداوندِ عالم ان کی قدردانی ضرور کرے گا۔
ماریہ کی تقریر سن کر جوناتھن کا دل پسیج گیا۔ وہ بولا دیکھو ماریہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آج کی شام تمہارے نام ہے لیکن پھر سے وہی میری دکھ بھری داستان شروع ہو گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا میں اس کا کیا کروں ؟ میں اس سے جتنا بھی بھاگنے کی کوشش کرتا ہوں یہ اسی قدر مجھ سے چمٹ جاتی ہے۔ میرا سوال ہنوز باقی ہے جس کو تم نے گھما دیا۔ وہ کون سی چیز تھی جو تمہیں اپنوں سے دور غیروں میں لے گئی۔ میں اپنی مجبوری تو بتا چکا ہوں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تمہارے ساتھ ایسا کوئی جبر تھا۔
ماریہ بولی جون تمہاری بات درست ہے۔ لیکن انسانی مجبوریاں صرف خارجی نہیں بلکہ داخلی بھی ہوتی ہیں۔ ان کا نہ صرف طبعی بلکہ نفسیاتی وجود بھی ہوتا ہے۔ جوناتھن نے تائید کی اور بولا جی ہاں ماریہ طبعی وجود کا ادراک نہایت سہل ہے اس لئے وہ موضوعِ بحث بنا رہتا ہے لیکن نفسیاتی معاملات چونکہ نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں اس لئے ان تک نہ رسائی ہوتی ہے اور نہ ان پر گفتگو کی جاتی ہے لیکن میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ۔۔۔۔
ماریہ نے جملہ کاٹ دیا اور بولی لگتا ہے تم باز نہیں آؤ گے۔ میرے ساتھ یہ ہوا کہ جب میری سب سے چھوٹی بہن کی شادی طے ہو گئی اور اس کیلئے ضروری انتظامات بھی ہو گئے تو اچانک مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب میری زندگی بے مقصد ہو گئی ہے۔ اس احساس نے میرا جینا مشکل کر دیا۔ میری دوکان ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی۔ اس سے ہم ماں بیٹی کا گزارہ مشکل نہیں تھا۔ میری معاشی حالت خاصی مستحکم تھی ویسے میری ماں بھی میری طرح قناعت پسندعورت ہے۔ ہماری ضرورتیں مختصر تھیں لیکن میں نے پہلی بار اپنی زندگی میں ایک بہت بڑا خلاء محسوس کیا۔ اور جب میں بہت پریشان ہو گئی تو مجھے اس کا واحد حل مصروفیت سجھائی دیا۔ اپنے آپ کو مصروف کرنے کی خاطر میں نے وارسا سے نکل کر برطانیہ آنے کا ارادہ کیا۔ جوناتھن بولا لیکن ماریہ تم وارسا میں بھی تو اپنی مصروفیات میں اضافہ کرسکتی تھیں۔ ماریہ کو جوناتھن سے اس سوال کی توقع نہیں تھی اس نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا میرے نقل مکانی کا اہم ترین سبب اپنے ماضی سے پیچھا چھڑا نا تھا۔
جوناتھن بولا ماریہ اگر برا نہ مانو تو میں ایک ذاتی نوعیت کا سوال پوچھوں ؟ ماریہ بولی جی ہاں کیوں نہیں ضرور پوچھو۔ جوناتھن نے کہا تم اپنے اس قدر تابناک ماضی سے فرار کیوں حاصل کرنا چاہتی تھیں ؟ جوناتھن نے ماریہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ماریہ کچھ دیر کیلئے رکی اور پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ نتائج سے بے نیاز ہو کر سچ بولے گی۔ ماریہ نے کہا جوناتھن میرے چمکدار ماضی کی تہ میں جو احساسِ محرومی چھپا ہوا ہے اسے میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ بلکہ ایک عرصۂ دراز تک میں خود بھی اس سے واقف نہیں تھی۔ شاید وہی احساس میری پریشانی کا سبب تھا۔ یہ میری خوش فہمی تھی کہ میری مصروفیت احساس زیاں کو نگل جائے گی۔ جوناتھن بولا مگر ایسا ۔۔۔۔ نہ ہو سکا ماریہ نے جوناتھن کا ادھورا جملہ پورا کر دیا۔ اس کے بعد دیر تک خاموشی چھائی رہی۔
بنجامن نے آ کر کہا بابا اور آنٹی آپ لوگ کتنی باتیں کرتے ہیں ؟ میں کھیلتے کھیلتے تھک گیا میرا کھیل ختم ہو گیا لیکن آپ کی باتیں ختم نہیں ہوئیں ؟ جوناتھن بولا بنجو تم جھوٹ بول رہے ہو۔ نہ تو تم تھکے ہو اور نہ تمہارا کھیل ختم ہوا ہے بلکہ تمہارا کھیل تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہے۔ اور آپ لوگوں کا میچ ؟ بنجامن نے سوال کیا۔ ہمارا ہاف ٹائم ہو گیا ہے۔ ماریہ نے جواب دیا۔ ہپی ہرے ّ۔ بنجامن بولا ہاف ٹائم ہو گیا تو پھر کچھ کھانا پینا چاہئے۔ جوناتھن بولا یہی میں کہنے والا تھا کہ تمہیں بھوک لگی ہے اور لگنی بھی چاہئے چلو کچھ کھاتے پیتے ہیں۔
کھانے کی میز پر بنجامن نے سوال کیا آنٹی ہاف ٹائم تو ہو گیا لیکن اسکور کیا ہوا ؟ ماریہ بولی ایک صفر۔ ہاں میں سمجھ گیا پاپا نے ایک گول مار دیا اور آپ ابھی صفر پر ہیں۔ بہت خوب بنجامن تالی بجانے لگا آپ ہار گئیں اور پاپا جیت گئے۔ جوناتھن بولا نہیں ہار جیت کا فیصلہ تو کھیل کے خاتمہ پر ہوتا ہے ابھی تو صرف ہاف ٹائم ہوا ہے اور پھر ریفری نے اس ایک گول کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے اس لئے سمجھ لو کہ اسکور صفر صفر پر ہے۔ بنجامن بولا تب تو یہ میچ ڈرا ہونے والا ہے۔ کیوں ؟ ماریہ نے پوچھا۔ اس لئے کہ اب آپ گول کریں گی تو ریفری اسے بھی کالعدم کر دے گا۔ جوناتھن بولا نہیں بیٹے ایسا نہیں ہو گا۔اس لئے کہ گول کبھی کبھار ہی غلط ہوتا ہے ہر گول مستردنہیں ہوتا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جوناتھن بولا ماریہ شام کے سائے طویل ہو چکے ہیں۔ اب ہم لوگوں کو رختِ سفر ڈال دینا چاہئے۔ اس لئے کہ نہ جانے کب موسم کا مزاج بدلے اور ہماری کشتی پھر سے گرداب میں پھنس جائے۔ ماریہ بولی مجھے تو لگتا ہے کہ تمہاری کشتی بھنور سے نکل کر کنارے کی جانب رواں دواں ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ اس مبارک گھڑی میں تمہیں مبارکباد دوں۔ جوناتھن مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنی کشتی کو صحیح رخ پر ڈال دیا ہے۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ جوناتھن بولا میں سمجھتا ہوں کہ اس نازک موڑ پر صرف نیک خواہشات سے کام نہیں چلے گا بلکہ ۔۔۔۔ ماریہ بولی جون تم رک کیوں گئے۔ جوناتھن بولا ماریہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مشیت نے ہمیں ایک کشتی میں سوار کر کے یہ فیصلہ ہم پر چھوڑ دیا ہے کہ ہم اجنبی بنے رہیں یا ہم سفر بن جائیں۔ ماریہ کی پلکوں پر چمکتے آنسو اس کی رضامندی کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ لوگ بس اڈے پہنچ چکے تھے۔ ماریہ بولی خدا حافظ۔ جوناتھن بولا خداوند عالم تم کو اپنی امان میں رکھے۔
۳۴
ایوان ایک کے بعد ایک آنے والی خوشخبری سے پھولی نہیں سمارہی تھی۔پہلے خوشی تو بغیر تاریخ کے رسید تھی۔ اس کے بعد طلاق کے کاغذات جو جوناتھن نے روانہ کر دئیے تھے۔ ایوان نے سوچا کہ ماریہ کی کوششوں کی بدولت یہ کارنامہ سرانجام دیا گیا لیکن اس نے جب ماریہ سے پوچھا تو اس نے اپنی لاعلمی کا اظہار کر کے خود اپنا پول کھول دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ طلاق کی اطلاع خود ایوان نے ماریہ کو دی تھی اور اس کی سرعت پر ماریہ بھی حیران تھی لیکن اب ایک فیصلہ کن مرحلہ باقی تھا سووہ بھی سر ہو گیا۔ پہلے تو شادی کے طے ہونے کی خبر آئی اور پھر پتہ چلا کہ ماریہ اور جوناتھن وارسا میں ہنی مون منا رہے ہیں۔ اب خبر یہ تھی کہ شارق نے جوناتھن کے سارے کاغذات بھیج دئیے ہیں۔ ماریہ، جوناتھن اور بنجامن برطانیہ آنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ اس خبر نے ایوان کو بے چین کر دیا۔
ایوان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ جوناتھن اور بنجامن کا سا منا کیسے کرے گی؟ ایوان کو اس صورتحال نے اس قدر بے چین کر دیا کہ اس کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ اس کو ایسا لگ رہا تھا گویا وہ جیتی ہوئی بازی ہار گئی ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اس مقابلے میں اس کے علاوہ سارے لوگ کامیاب و کامران ہو گئے ہیں۔ ماریہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیسا انوکھا ٹورنامنٹ تھا۔ عام طور پر تو یہ ہوتا ہے فائنل کے بعد ایک کھلاڑی کے کامیاب ہونے کا اعلان کر دیا جاتا ہے لیکن یہاں تو اس کے بالکل برعکس ہوا تھا۔ اس کھیل میں شامل سارے کھلاڑی اپنی جیت پر بغلیں بجا رہے تھے اور سب سے آگے رہنے والا کھلاڑی ماتم کر رہا تھا۔
اس مقابلے کے اختتام پر سب سے زیادہ خوش تو وہ دونوں تھے جن کو اپنی شکست کا سب سے زیادہ یقین تھا۔ جوناتھن جس نے اپنی ہار باآسانی تسلیم کر لی تھی اور شہریار جو یقینی شکست سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ جوناتھن کو ملازمت کے علاوہ ماریہ جیسی بیوی مل گئی تھی اور شہریار ایک کاروبار اور دو بیویوں کا مالک بنا ہوا تھا۔ شہریار اس بات پر شاداں و فرحاں تھا کہ ایوان نے طلاق کا راگ بند کر دیا ہے۔ ایک دن اس نے اپنا شک رفع کرنے کی خاطر ایوان سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا ایوان تم نے تو مجھے لندن کے سفر میں ڈرا ہی دیا تھا۔ ایوان نے جان بوجھ کر بنتے ہوئے پوچھا کس لندن کے سفر کی بات کر رہے ہو شہریار تمہارے ساتھ اتنی بار لندن آنا جانا ہوا ہے کہ شمار مشکل ہے۔
شہریار بولا ایوان بات دراصل یہ ہے کہ اس ایک سفر کے بعد میں پہلے کے سارے واقعات بھول گیا اور سچ تو یہ ہے کہ اب بھی جب وہ رات یاد آتی ہے تو دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ تم سے بڑ ا اداکار میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ تم گریٹ ہو ایوان گریٹ لیکن میرا ایک مشورہ ہے۔ اچھا وہ کیا ایوان چہک کر بولی اس طرح کی دل لگی سے تمہیں گریز کرنا چاہئے۔ وہ کیوں ؟ مذاق تو مذاق ہوتا ہے۔ نہیں ایوان نہیں تم اس قدر سنجیدگی کے ساتھ مذاق کرتی ہو ہے کہ مخاطب اس کو سچ سمجھ لیتا ہے۔ وہ تو میں تھا جو بچ گیا میری جگہ کوئی کمزور دل کا آدمی ہوتا تو اللہ کو پیارا ہو جاتا۔
ایوان بولی اسی لئے تو میں نے وہ مذاق تم سے کیا تھا۔ مجھے کمزور دل کے لوگ سخت ناپسند ہیں۔ میں ان کی شریک حیات نہیں بن سکتی۔ ایسے آدمی کا زندہ رہنے سے بہتر مر جانا ہے شہریار۔ کیا کہہ رہی ہو ایوان کیا لوگوں کے زندگی اور موت کا فیصلہ تم اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہو؟ نہیں شہریار میں تو بس یہ کہہ رہی تھی کہ بزدل لوگوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ شہریار نے سوال کیا تو کیا تم کسی کا ناحق قتل کر دو گی ؟ ایوان بولی میں کیوں کسی کا ناحق خون بہاؤں۔ میں نے کسی سے زبردستی تو نہیں کی کہ مجھ سے نکاح کرے۔ مجھ جیسی اہلیہ کی قوامیت کا دعویٰ کرنے والے کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل تر ثابت کرے۔ شہریار کو مذاق سوجھا اس نے پوچھا اور اگر کوئی تمہاری قوامیت میں داخل ہونا چاہے تو۔ ایوان بولی میں اسے مسل کر پھینک دیتی ہوں۔ جو مرد اپنے مقام و مرتبہ سے گر جائے اس کا یہی انجام ہونا چاہئے۔ شہریار بولا ایوان تم عورت ہو یا ڈائن ؟ ایوان نے جواب دیا کیا اس کا علم تمہیں لندن کی اس رات کو نہیں ہوا؟
شہریار نے تائید کی اور بولا آج تم نے یہ بے معنیٰ بحث کیوں چھیڑ دی ؟ ایوان نے جواب دیا میرے بھولے بلم شاید تم یہ بھول گئے کہ ابتداء میں نے نہیں تم نے کی تھی۔ شہریار بولا اچھا بابا غلطی ہو گئی اب بولو سزا کیا ہے ؟ ایوان بولی سزا نہیں کفارہ۔ شہر بولا وہ کیوں ؟ ایوان مسکرا کر بولی اس لئے شہریار کہ تمہاری محبت آڑے آ جاتی ہے میں تمہیں سزا نہیں دے سکتی۔شہریار خوشی سے جھوم رہا تھا وہ بولا ٹھیک ہے کفارہ سہی یہ تو بتاؤ کہ مجھے اس گناہ کی پاداش میں کرنا کیا پڑے گا؟ ایوان بولی پہلے وعدہ کرو کہ کہیں انکار تو نہیں کرو گے ؟ شہریار ڈر گیا کہ نہ جانے یہ بے وقوف عورت کیا مطالبہ کر دے ؟ لیکن پھر اسے یاد آیا ایوان کو کمزور دل مرد پسند نہیں ہے۔
شہریار نے اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کیلئے کہا بولو ایوان۔ اگر تم کہو گی تو میں ۔۔۔۔ آسمان چاند تارے توڑ لاؤں گا ایوان قہقہہ لگا کر بولی۔ہندی پاکستانی ڈراموں میں یہ مکالمے سنتے سنتے میرے کان پک گئے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان ٹوٹے ہوئے تاروں کا کیا مصرف ہے ؟شہر یار بولا ایوان وہ تو اچھا ہوا کہ کسی شاعر کا تم سے پالا نہیں پڑا ورنہ تو وہ بے چارہ خودکشی کر کے چاند ستاروں سے آگے نکل جاتا اور لوگ اسے بزدل عاشق کے نام سے یاد کرتے۔ ایوان بولی تو کیا میں کفارے کی بات بھول جاؤں ؟ نہیں نہیں کس نے تم سے کہا کہ بھول جاؤ؟ میں تمہارے حکم کا منتظر ہوں ؟ایوان نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ تم چھٹی کب گئے تھے ؟ شہریار کی سمجھ میں اس سوال کا مطلب نہیں آیا۔ اس نے سوچا اچھا ہے یہ پھر سے بہک رہی ہے۔ وہ بولا میرا خیال ہے کہ چار سال قبل۔ چار سال!!! تمہیں اپنا وطن یاد نہیں آتا ؟ اپنے رشتہ داروں کی یاد نہیں آتی ؟
شہریار بولا کون کہتا ہے نہیں آتی۔ مجھے اپنے رشتے داروں کی بہت یاد آتی ہے۔ اس بیچ شہناز کمرے میں داخل ہو گئی۔ وہ بولی جھوٹ سراسر جھوٹ یہ صرف لفاظی ہے میں اس بات کو کبھی نہیں مان سکتی۔ ایوان نے کہا تو تمہارا اپنے اعزہ و اقارب سے ملنے کا من نہیں کرتا ؟ شہریار بولا بالکل کرتا ہے۔شہناز بولی ایوان تم ان کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آؤ میں ایک سال سے ان سے کہہ رہی ہوں کہ چلو گاؤں چلتے ہیں لیکن ان کے کانوں تلے جوں نہیں رینگتی۔ بس جھوٹ موٹ وعدے کرتے رہتے ہیں اب تو مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ کبھی لوٹ کر نہیں جائیں گے اس لئے میں نے من بنا لیا ہے کہ میں اکیلی جاؤں گی۔
ایوان بولی شہناز تم اکیلی نہیں جاؤ گی۔ تو پھر؟ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی ایوان نے اعلان کر دیا۔ شہناز بولی لو سن لیا تم نے ؟ یہ ہمیشہ سے کہتے تھے کہ ہم چلے جائیں گے تو ایوان کیا کیا ہو گا؟ وہ بیچاری اکیلی پڑ جائے گی ؟ یہ لو سنو۔ اب بولو کیا کہتے ہو؟ شہریار بولا شہناز تم نے ایوان کی بات کا مطلب غلط سمجھا ہے۔ تم جانا چاہتی ہو گوجرانوالا اور ایوان جانا چاہتی ہے وارسا۔ ایک مشرق کی سمت ہے دوسرا جنوب کی طرف؟ایوان بولی یہ تم سے کس نے کہہ دیا شہریار کہ میں وارسا جانا چاہتی ہوں ؟شہریار سٹپٹا گیا اور بولا میرا مطلب تھا تم اپنے وطن جاؤ گی ؟ جی ہاں میں اپنے وطن جاؤں گی لیکن میرا وطن وارسا تھوڑی نا ہے۔ شہریار بولا ایوان تم آج دوپہر سے مذاق کئے جا رہی ہو کیا بات ہے سب خیریت تو ہے نا؟
ایوان نے کہا مسئلہ میرا نہیں تمہارا ہے۔ تم میری ہر بات کو مذاق سمجھ رہے حالانکہ میں سنجیدہ ہوں۔ شہناز کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اس لئے کہ وہ پہلے کی گفتگو سے بے بہرہ تھی۔ شہناز نے کہا ایوان تم خود فیصلہ کر دو کہ انہوں نے تمہاری بات کا صحیح مطلب سمجھا یا میں نے ؟ ایوان بولی یہ سمجھ لو کہ دونوں نے لیکن شہریار نے خود اپنی بات کا غلط مطلب نکالا۔ ایوان کی اس بات پر شہناز اور شہریار دونوں چکرا گئے۔شہناز بولی آج اتوار کا دن ہے اس لئے فاقہ کشی کا ارادہ ہے کیا؟ایوان بولی شہناز تم کیا گڑبڑ کرتی ہو۔ بات تو پوری ہو جائے اس کے بعد کھانا کھائیں گے اور پھر ان سے کفارہ بھی تو ادا کروانا ہے ؟
شہناز پھر کنفیوژ ہو گئی اسے بھوک لگ رہی تھی۔ وہ بولی ایوان تم جلدی سے فیصلہ کرو پھر کھانا کھاتے ہیں۔ایوان بولی انہوں نے کہا کہ میں اپنے وطن جاؤں گی یہ تو صحیح ہے لیکن انہوں نے وطن کا نام غلط بتا دیا۔شہریار بولا اچھا بابا میں نے غلط بتا یا اس لئے کہ میری معلومات درست نہیں ہے اب تم صحیح بتا دو پہیلیاں نہ بھجواؤ۔ ایوان بولی آپ کی معلومات غلط تو نہیں پرانی ہے۔ شہناز بولی ایوان اب اور پریشان نہ کرو تم اپنے وطن کا نام بتا کر ان کی جان چھوڑو۔ ایوان بولی شہناز میں تو تم سے کہہ چکی ہوں کہ تم اکیلی نہیں جاؤ گی میں ساتھ جاؤں گی۔ اب کیا تمہیں بھی نہیں معلوم کہ کہاں جانا ہے ؟ اب شہناز بھی الجھ گئی وہ بولی ایوان تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ وہی جو تم نے سمجھا۔ اب اگر یہ میرے ہیں تو کیا ان کا وطن میرا نہیں ہوا؟ شہناز بولی لو بھئی اب تو سن لیا نا آپ نے ؟ ہم دونوں جا رہے ہیں گوجرانوالا۔ اب آپ فیصلہ کریں ؟ چلنا یا نہ چلنا آپ کی مرضی پر ہے ؟
شہریار بولا شہناز تم جاؤ اور کھانا لگاؤ یہ دوپہر سے بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔ ایوان بولی ٹھیک ہے ایک ہفتے بعد تم یہ باتیں گوجرانوالا سے فون پر سنو گے۔ شہناز بولی بہت خوب اب تو کھانے کا ڈبل مزہ آئے گا۔آئندہ ہفتے ہو گی زبردست دعوت اور پھر ہم لوگ اپنے گاؤں روانہ ہو جائیں گے۔ شہناز کے اندر جانے کے بعد شہریار نے پوچھا کیا تم واقعی؟؟؟ ایوان بولی جی ہاں میں واقعی!!!اور کچھ؟ شہریار نے پھر سوال کیا تو کیا تمہیں دفتر سے چھٹی مل جائے گی؟ ایوان بولی مجھے چھٹی لینے کی ضرورت نہیں ہے شہریار میں اس ضرورت سے بے نیاز ہو گئی ہوں۔شہریار سمجھ گیا کہ یہ اب پھر سے بہک گئی۔
شہریار نے کہا اچھا ؟ کہیں تم نے اس بوڑھے کھوسٹ سے وہ کارخانہ تو نہیں خرید لیا؟ ایوان بولی شہریار تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا؟ میری سات پشتیں بھی اس کو نہیں خرید سکتیں۔ شہریار بولا ابھی پہلی پشت کا تو ٹھکانہ نہیں ہے اور تم نے سات پشتوں کا قصہ چھیڑ دیا۔ ایوان نے ماریہ کے ناصحانہ انداز میں کہا اس طرح مایوسی کی باتیں نہیں کرتے ؟ شہریار بولا مایوسی کی بات تو تم کر رہی ہو کہ کارخانہ سات پشتیں بھی ایوان بولی میں تو پہلی پشت کے بارے میں جو تم نے کہا اس پر تبصرہ کر رہی تھی۔ شہریار بولا ایوان تم اپنی چھٹیوں کے بارے میں بتاتے بتاتے کہیں اور نکل گئیں۔ میں بھٹک گئی؟ ایوان بولی میں نے تو تمہیں بتا دیا کہ میں اس سے بے نیاز ہوں ؟ لیکن کیسے ؟ ایوان بولی اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟ میں نے دو ہفتے قبل استعفیٰ دے دیا ہے اور نوٹس کے وقفہ میں ہوں جو آئندہ ہفتہ ختم ہو جائے گا۔ میں تو چاہتی ہوں جس دن ملازمت ختم ہودوسرے دن ہوائی اڈے سے روانہ۔
ایوان نے کبھی استعفیٰ کا ذکر تک نہیں کیا تھا اس لئے شہریار یہ سن کر چونک گیا اور بولا ایوان اگر ایسا ہے تو مجھے یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان چلنے کے بارے میں تم سنجیدہ ہو مگراس کیلئے تمہارا ویزہ لگانا ہو گا۔ اس میں کوئی مشکل تو نہیں ہے لیکن وقت لگے گا۔ ایک ہفتہ کے اندر یہ کارروائی مکمل نہیں ہو سکتی۔تو ٹھیک ہے دو ہفتہ سہی لیکن کل صبح پہلا کام یہ ہو گا کہ میرا پاسپورٹ ویزہ کی درخواست کے ساتھ پاکستانی سفارتخانے میں جمع ہو جائے اور اس معاملے میں کوئی بہانہ قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ سمجھ گئے ؟ شہریار بولا جی سرکارسب سمجھ گیا۔
ایوان نے کچھ سوچ کر کہا شہریار وہ تمہارا دوست ہے نا شجاعت چودھری وہ کب کام آئے گا ؟ سنا ہے اس کے والدپاکستان میں کسی صوبے کے گورنر ہو گئے ہیں۔ شہریار بولا تم نے خوب یاد دلایا۔ وہ کسی اور صوبے کے نہیں ہمارے اپنے صوبہ کے گورنر ہیں۔ تب پھر کیا مسئلہ ہے ؟ میں تو سمجھتی ہوں ان کے ایک فون سے سفارتی عملہ ہمارے گھر آ کر ویزہ لگا جائے گا۔ شہریار بولا تم خواب بہت اچھے دیکھ لیتی ہو ایوان لیکن ہاں اس سے ہمیں مدد ضرور ملے گی۔ میں درخواست جمع کرنے کے بعد اس سے بھی سفارش کرواتا ہوں۔ ایوان نے کہا شکریہ شہریار تم کتنے اچھے ہو۔
ایوان کے ایک تیر سے دو شکار ہو گئے تھے اس نے ایک فیصلے سے بیک وقت دو لوگوں کا دل جیت لیا تھا۔۔کھانے کے دوران ساری باتیں پاکستان اور گوجرانوالا کے تعلق سے ہوتی رہیں اور ساتھ ہی روانگی سے قبل کی تیاریاں بھی زیر بحث آ گئیں۔ شہناز پہلی بار ملک سے باہر آئی تھی اور اب واپس جا رہی تھی۔ بہت سارے لوگوں کو اس سے ڈھیر ساری توقعات تھیں۔ کئی فرمائشیں موجود تھیں اور کچھ نئی آسکتی تھیں۔ پھر ایسے بھی لوگ تھے جو فرمائش تو نہیں کرسکتے لیکن ان کیلئے بھی تحفہ تحائف لینا ضروری تھا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد شہناز اپنی فہرست مرتب کرنے میں لگ گئی۔ شہریار اندر خوابگاہ میں جا کرسو گیا۔
۳۵
ایوان نے اپنے کمرے میں جا کر ماریہ کو فون ملایا۔ ماریہ نے کہا بولو ایوان کیسی ہو؟ میں اچھی ہوں یہ بتاؤ کہ تمہارا واپس آنے کا کیا منصوبہ ہے کب تک لوٹ رہی ہو؟ ماریہ بولی ہم لوگ سوچ رہے ہیں کہ ایک ہفتے بعد لوٹ چلیں۔ایوان بولی تم ایسا کرو کہ اپنا پروگرام کم از کم ایک ہفتے کیلئے مؤخر کر دو۔ کیوں خیریت ؟ جی ہاں سب خیریت ہے۔ تمہارے آس پاس کوئی ہے تو نہیں۔ ماریہ بولی ہیں۔ تو پھر میں تمہیں اس کی وجہ بعد میں بتاؤں گی۔ ماریہ بولی ٹھیک ہے ہم لوگ اپنا پروگرام آگے بڑھا دیتے ہیں تم شہریار کو بتا دینا۔ ایوان بولی تم اس کی فکر نہ کرو میں مولچند کو بھی بتا دوں گی۔ ماریہ بولی اتنے آگے جانے کی ضرورت نہیں شہریار تک بات پہنچ جائے یہ کافی ہے۔
شہریار اور شہناز کے سارے خاندان میں خوشی کی لہر چل گئی۔ سفر کی تیاری زور شور سے چل رہی تھی۔ مانچسٹر میں دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شجاعت علی سرور اپنے گھر پر دعوت میں شہریار کو بتایا کہ تمہارے لئے خوشخبری ہے۔سفارتخانے سے فون آیا تھا ویزہ لگ چکا ہے۔ تم کل جا کر ایوان کا پاسپورٹ حاصل کرسکتے ہو۔شہریار نے شکریہ ادا کیا اور بولا یار ابھی تو دس دن بھی نہیں ہوئے تم نے کمال کر دیا۔ شجاعت بولا کیسی باتیں کرتے ہو یہ تو دو دن کا کام تھا چونکہ تمہیں جلدی نہیں تھی اس لئے میں نے خاص توجہ نہیں دی۔ شہریار بولا اچھا ہی ہوا مجھے کچھ ضروری کام نمٹانے تھے۔ اگر یہ ویزہ پچھلے ہفتہ لگ جاتا تو ایوان میری جان کے پیچھے پڑ جاتی۔
گھر آتے ہوئے راستے ہی میں شہریار نے یہ خوشخبری سنادی جس سے ایوان اور شہناز بہت خوش ہوئیں۔ شہناز بولی تو پھر چلو کل چلتے ہیں۔ شہریار بولا کل یہ کوئی گوجرانوالا سے لاہور کا سفر ہے کہ جب مرضی ہوئی اٹھے اور چل دئیے۔ ہمیں ہوائی جہاز کا ٹکٹ بنوانا ہو گا اور میرے کچھ دفتری کام بھی ہیں۔ آئندہ ہفتے ماریہ آ جائے گی میں اس کو سارے کام سمجھا دوں گا اس کے بعد ہم نکل چلیں گے۔ یہ سن کر ایوان کے کان کھڑے ہو گئے وہ بولی کیا کہا ماریہ کے آ جانے کے ایک ہفتہ بعد۔ کیسی باتیں کرتے ہو شہریار ؟ کیا ہم نے اسی لئے شجاعت کا احسان اٹھا کر عجلت کروائی ؟ یہ نہیں ہو سکتا ہمیں اس ہفتہ کے آخر تک یقیناً نکل جانا ہے۔ ماریہ کا کیا ہے وہ اگر مزید ایک دو ہفتے اپنا آنا ملتوی کر دے تو کیا ہم اس کے انتظار میں بیٹھے رہیں گے۔
شہریار کی سمجھ میں شہناز کی جلدی تو آتی تھی لیکن ایوان کی نہیں۔ وہ بولا ایوان میرا خیال ہے اس جلدی بازی سے کچھ فائدہ نہیں تم دونوں صبر سے کام لو تو یہ بہتر ہے۔ شہناز بولی مجھے پتہ ہے آپ کو اپنا کاروبار زیادہ عزیز ہے آپ اس سفر کو کسی نہ کسی بہانے سے ٹالتے رہیں گے۔ایوان نے کہا میں تو کہتی ہوں ہمارا ان کے ساتھ جانا کیا ضروری ہے ؟ چلو ہم لوگ چلے چلتے ہیں ان کی جب مرضی ہو آ جائیں بلکہ نہ بھی آئیں تو کیا فرق پڑتا ہے ؟ ہم ان کے محتاج کب ہیں ؟ شہریار بولا تم دونوں مل کر جب ایک ساتھ ہلہ ّ بول دیتی ہو نا تو میرے لئے مشکل ہو جاتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے انگریزو ں سے لڑاؤ اور حکومت کرو کی حکمت عملی سیکھنی ہو گی۔ ایوان بولی عظیم برطانیہ کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ اب اس نے بھی ساری دنیا کو غلام بنانے کا خواب تیاگ دیا ہے اور تم بھی یہی کرو۔ اسی میں بھلائی ہے۔
ایوان نے ماریہ کو فون کر کے بتایا کہ ۱۱ ستمبر کو وہ پاکستان جا رہی ہے اس لئے وہ اس کے بعد کی کسی بھی تاریخ کا ٹکٹ بنا لے۔ ماریہ کو ایوان کی الٹی منطق سمجھ میں نہیں آئی وہ بولی ایوان تم پاکستان کیوں جا رہی ہو؟ ایوان اس سوال کے لئے تیار نہیں تھی وہ بولی بس یونہی۔ ماریہ نے کہا میں اپنی سہیلی ایوان کو اچھی طرح جانتی ہوں وہ کوئی کام بلا وجہ نہیں کرسکتی۔ اب ماریہ کا اصرار ایوان کو ناگوار گزرنے لگا۔ وہ بولی تمہیں تو پتہ ہے کہ میں وہی کرتی ہوں جو میری مرضی ہوتی ہے۔ جی ہاں اور یہ بھی معلوم ہے کہ تم جو بھی کرتی ہو اس کے پیچھے کوئی مطلب۔میرا مطلب ہے مقصد ضرور ہوتا ہے۔ تم کو بلا مقصد کوئی کام کرتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا۔ ایوان بولی تمہارا مشاہدہ درست ہے ماریہ لیکن کیا ہر بات بتانا ضروری ہے ؟
ماریہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولی معاف کرنا مجھے یہ اصرار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تمہارے نجی معاملات میں دخل اندازی کا مجھے کوئی اختیار نہیں ہے۔ ایوان بولی نہیں ماریہ تم کوئی غیر تھوڑے ہی ہو۔ میرا کون سا ذاتی معاملہ میں نے تم سے چھپایا ہے ؟ تم ہی تو جو جس کے سامنے میری زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔ یہ سمجھ لو کہ جو چیز تمہیں یروشلم سے ورسا واپس لے کر گئی وہی مجھے مانچسٹر سے گوجرانوالا لے کر جا رہی ہے۔ یہ دلیل بھی ماریہ کی سمجھ میں نہیں آئی اس لئے کہ یہ سراسر جھوٹ تھا لیکن ماریہ نے ٹالنے کیلئے تائید کی اور بولی لیکن ایوان یہ بھی تو ہو سکتا ہے میں پہلے چلی آؤں یا تم ا استمبر کے بعد جاؤ ؟
جی نہیں ماریہ یہ نہیں ہو سکتا۔ اگر تم جلدی آؤ گی تو مجھے بھی اس سے قبل جانا ہو گا۔ ماریہ بولی کیسی باتیں کر رہی ہو ایوان میرے ساتھ تمہارا بنجامن ہے۔ بنجو ۔۔۔۔ یہ سن کر ایوان پر غم کے بادل چھا گئے وہ ایک لمحہ کیلئے خاموش ہو گئی اور پھر بولی۔ میری بہن ماریہ اس بار تمہارے ساتھ صرف بنجامن نہیں کوئی اور بھی ہے ۔۔۔۔ اور پھر بنجامن ۔۔۔۔ میرا تھا لیکن اب میرا نہیں رہا ۔۔۔۔ اب وہ تمہارا ہو چکا ہے۔ ماریہ نے ایوان کے کرب کو ہزاروں میل کی دور ی پر محسوس کر لیا۔ وہ بولی نہیں ایوان بنجامن تمہارا ہے اور تمہارا ہی رہے گا۔ میں تمہاری اس امانت کی حفاظت کروں گی۔ ماریہ نے کہا شکریہ۔ فون بند ہو گیا۔ ایوان کا دماغ سُن ہو گیا۔اس نے اپنا سب کچھ گنوا دیا تھا۔ شہریت کیلئے شوہر اور شوہر کے لئے اولاد۔اس کے بعد اب وہ شہریت سے بھی دستبردار ہونے جا رہی تھی۔محرومیوں کا ایک عمیق سمندر تھا اور اس میں یکہ و تنہا ایوان غوطہ زن تھی۔
مانچسٹر سے جس روز ایوان، شہناز اور شہریار کے جہاز نے لاہور کیلئے اڑان بھری اسی روز ماریہ جوناتھن اور بنجامن کے ساتھ لندن کیلئے محوِ پرواز ہو گئی۔ زمین سے سیکڑوں میل کی بلندی پر وہ دونوں انجانے میں ایک دوسرے کے سامنے آئے اور مخالف سمتوں میں نکل گئے۔ یہ کس قدر حیرت انگیز سفر تھا جس کے مسافر اپنی مرضی کے خلاف مختلف سمتوں میں ہانکے جا رہے تھے۔ بظاہر ان سب کو یہ خوش فہمی تھی کہ سب کچھ ان کی اپنے منصوبے اور مرضی کے مطابق ہو رہا ہے لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ کسے پتہ تھا کہ شہناز اتنی جلدی اپنی سوتن کے ساتھ اپنے آبائی وطن لوٹے گی؟ کون جانتا تھا کہ شہریار کو ایک یوروپین بیوی میسر آ جائے گی ؟ کسی کے تصورِ خیال میں یہ بات نہیں تھی کہ جوناتھن کا بیاہ ماریہ سے ہو جائے گا ؟ کون سوچ سکتا تھا کہ بنجامن ایوان کے بجائے ماریہ کے ساتھ ہو گا؟ اور ایوان ۔۔۔۔ ایک انجانی منزل کی جانب بے سوچے سمجھے رواں دواں ہو جائے گی۔
دورانِ سفرجب ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا کہ ہمارا جہاز بحر مردار کے اوپر سے گزر رہا ہے تو ایوان کے ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا۔ اس نے فوراً اپنے ماضی کی گٹھری کو بحر مردار کی جانب اچھال دیا اور اس کے بعد اسے محسوس ہوا کہ گویا وہ اب پیدا ہوئی ہے۔ ایوان اب ایک نئے زاویہ سے آفاق و انفس کا مشاہدہ کر رہی تھی۔اس کے آس پاس محوِ خواب شہناز اور شہریار نہیں جانتے تھے کہ ان کے درمیان کون سا طوفان بپا ہے۔ اس جہاز کے ہر مسافر کی بظاہر سمت اور رفتاریکساں تھی مگر کیفیت مختلف تھی۔ شہریار اپنے پیچھے جو کاروبار چھوڑ کر آیا تھا اس کے بارے میں متفکر تھا۔ شہناز اپنے آگے کی منزل میں ملنے والوں کی منتظر اور مسرورتھی۔ایوان کو نہ کسی شہ کے گنوانے کا ملال تھا اور نہ چیز کے حصول کی امید تھی۔درمیان کی نشست پر بیٹھی ایوان درمیانی کیفیت میں مبتلا خلاء میں گھور رہی تھی۔
شہریار کو اندیشہ تھا کہ گوجرانوالا پہنچنے کے بعد ایوان واپس چلنے کیلئے جلدی مچانے لگے گی اور اسے کاروبار کا بہانہ بنا کر جلدی نکلنا پڑے گا لیکن یہاں تو معاملہ برعکس تھا۔ شہریار کے ساتھ ساتھ شہناز بھی اب واپسی کی تیاری کرنے لگی تھی مگر ایوان ان دونوں سے بے نیاز گوجرانوالا کی ہواؤں اور فضاؤں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس کو یہاں کے کھیت کھلیان۔ ندی نالے۔ پربت پہاڑ سب پسند تھے۔ محلے کے مدرسے میں صدرِ مدرس نورجہاں سے ایوان کی دوستی ہو گئی تھی۔ نورجہاں کا بچپن لاہور میں گزرا تھا لیکن شادی کے بعد وہ اس علاقہ کے بڑے زمیندار چودھری شریف شاہ کے گھر آ گئی تھی۔ اپنے خاوند سے کہہ کراس نے محلے کی مسجد سے متصل مدرسہ تعمیر کروایا تھا جہاں بچے چوتھی جماعت تک کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور اس کے بعد دوسرے محلے کی ہائی اسکول میں چلے جاتے تھے۔ ایوان اپنی فرصت کے اوقات زیادہ تر نورجہاں کے ساتھ گزارتی تھی۔
نورجہاں سے ایوان نے اس علاقہ کی تہذیب و تمدن کے علاوہ دین و اخلاق کے بارے میں بھی بہت ساری معلومات حاصل کر لیں تھیں۔ اس کو اسکول میں آنے والے ننھے منے بچے بہت اچھے لگتے تھے۔ اس کا بھی جی چاہتا تھا کہ ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے۔ ایک دن اس نے نورجہاں سے پوچھا نوری آپا کیا میں اس اسکول میں نہیں پڑھا سکتی؟ تم کیوں نہیں۔ یہ تو ہمارے طلباء کی خوش بختی ہو گی کہ انہیں تمہاری طرح کی استانی میسرآ جائے لیکن سنا ہے تم یہاں چند دن کی مہمان ہے۔ایوان بولی نوری آپا یہ زندگی بھی تو چند روزہ ہی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے اور اس کو کسی قابلِ قدر کام میں صرف کرنا چاہئے۔ ایوان کے زبان سے یہ الفاظ سن کر نورجہاں کا دل باغ باغ ہو گیا۔ وہ بولی ایوان تم بہت خوش نصیب ہو۔اللہ تعالیٰ نے تمہیں نے زندگی کا صحیح شعور عطا کر دیا ورنہ تو لوگ اس کے بغیر ہی مر کھپ جاتے ہیں۔
جب واپسی کی تاریخ سرپر آ گئی تو شہریار نے ایوان سے پوچھا تمہارا واپس چلنے کا ارادہ ہے یا نہیں ؟ مجھے تو نہیں لگتا کہ ۔۔۔۔ ایوان نے جملہ کاٹ دیا اور بولی شہریار تم مجھے کتنی اچھی طرح جانتے ہو۔ جو بات میں نے اپنی زبان سے ادا نہیں کی اس کو بھی تم جان گئے۔ تم میرے دل کی بات جانتے ہو۔ شہریار کو ایوان سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔وہ بولا تو کیا واقعی؟؟؟ ایوان نے کہا اس سے پہلے بھی جب میں نے یہاں آنے کیلئے کہا تھا تو تم نے بے یقینی کے ساتھ یہی سوال کیا تھا۔ جی ہاں ایوان میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم کبھی یہاں کا رخ بھی کرو گی۔ پھر کیا ہوا؟ یہی کہ میرا اندازہ غلط نکلا۔ اور اب؟ شاید اب پھر وہی ہو گا۔ شاید نہیں شہریار یقیناً وہی ہو گا۔ شہریار نے حیرت سے پوچھا لیکن ایوان تم یہاں رہ کر کیا کرو گی؟
ایوان بولی وہی جو وہاں چل کر کروں گی۔ کھاؤں گی پیوں گی۔ سوؤں گی جاگوں گی اور اس طرح اپنی مدت عمل تمام کر دوں گی۔ اچھا کیا یہی سب؟ ۔۔۔۔ ہاں اس کے علاوہ اس مکتب میں بچوں کو پڑھاؤں گی۔ میری نوری آپا سے بات ہو گئی ہے۔ وہ خود بھی ایک انگریزی کی استانی تلاش کر رہی تھیں میں اس ضرورت کو رضا کارانہ طور پر پورا کروں گی۔ شہریار کیلئے یہ سب خواب و خیال کی باتیں تھیں۔اگر ایوان کے علاوہ کوئی اور کہہ رہا ہوتا تو وہ ہرگز اس پر کان نہ دھرتا لیکن یہ ایوان کہہ رہی تھی۔ شہریار یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ ایوان کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات پتھر کی لکیر ہوتی ہے۔
شہریار نے شہناز سے مشورہ کیا تو اس نے بھی تائید کی اور بولی ایوان واپس چلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔اس لئے اس پر زور زبردستی کرنے سے کوئی فائدہ نہیں مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم لوگوں نے اسے پریشان کیا تو وہ یہاں سے اٹھ کر وارسا چلی جائے گی لیکن برطانیہ خارج از امکان ہے۔ شہریار نے شہناز کہا خیر جو بھی ہو ایوان چلے یا رہے ہم لوگوں کو اپنے وقت پر نکل چلنا ہے۔ وہاں بہت کام جمع ہے ماریہ اور مولچند باربارجلدواپس آنے کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ شہناز بولی ٹھیک ہے۔ ویسے بھی ایوان ہمارے گھر میں ہے جب چاہے خود آسکتی ہے اور جب مرضی ہو ہم آ کر اس سے مل سکتے ہیں۔
واپسی سے ایک روز قبل شہریار کا دل بھاری ہو گیا۔ ایوان سے جدائی کا غم اسے ستانے لگا۔ وہ ایوان کے ساتھ دور پہاڑوں پر نکل گیا۔ دیر تک اس سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتا رہا۔اس کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ فی الحال برطانیہ چلی چلے۔ خدمتِ خلق کیلئے عمر پڑی ہے۔ اس درمیان جب کبھی دل کرے آئے جائے۔ اب وہ اس مقام پر اجنبی نہیں ہے اس کو یہاں سبھی لوگ جاننے لگے ہیں۔ وہ شہریار کے بغیر شہناز کے ساتھ بلکہ تنہا بھی یہاں آ کر قیام کرسکتی ہے۔ اسے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ایوان بولی اگر ایسی بات ہے شہریار تو سمجھ لو کہ میں تنہا یہاں آ گئی ہوں اور یہاں رہ رہی ہوں۔ بس بات ختم۔ شہریار بولا ایوان میں جانتا ہوں کہ یہ پہاڑ اپنی جگہ بدل سکتا ہے لیکن تم اپنا فیصلہ نہیں ۔۔۔۔ ایوان بولی یوں نہ کہا شہریار کیا تم میرے فیصلے سے ناراض ہو؟ شہریار بولا نہیں میں تم سے ناراض نہیں ہو سکتا۔ میں نے اپنے دل کی بات میں نے تمہارے گوش گذار کر دی فیصلہ تمہارے ہاتھ ہے اور تمہارا ہر فیصلہ میں بصد شوق قبول کر لوں گا۔
ایوان بولی شہریار میں تمہارے جذبات کی قدر کرتی ہوں لیکن اپنے دل کی ایک بات بولوں۔ کیوں نہیں ایوان ایک کیا جتنی باتیں چاہو بولو۔آج میں تمہاری ہر بات سنوں گا اس لئے کل سے میرے کان اس آواز کو ترس جائیں گے۔ ایوان کو شہریار پر پیار آ گیا۔ وہ بولی شہریار تم کتنے اچھے۔ تم مجھ سے کس قدر محبت کرتے ہو لیکن ایک بات اور ہے۔ شہریار ڈر گیا۔ اس نے سوچا یہ ایک اور بات نہ جانے کیا ہے ؟ ایوان نے بات آگے بڑھائی تم بہت خودغرض ہو۔شہریار پر ایوان کا یہ جملہ بم کی طرح گرا۔ وہ بولا کیا میں ۔۔۔۔ خودغرض۔ یہ کیا کہہ رہی ہو میری جان میں خود غرض ہوں۔
جی ہاں شہریار تمہاری محبت نے تمہیں خودغرض بنا دیا ہے۔تم نے مجھے سب کچھ دیا لیکن کبھی اپنا دین قبول کرنے کی دعوت نہیں دی۔ وہ ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ دراصل بات یہ ہے ایوان کہ ۔۔۔۔ الفاظ شہریار کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ایوان بولی میں جانتی ہوں شہریار۔ تمہیں خوف تھا کہ تمہارے ایسا کرنے سے میں ناراض ہو جاؤں گی۔ جی جی ۔۔۔۔ جی ہاں یہی وجہ تھی۔ اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں تھی۔ مجھے پتہ ہے شہریار۔ تمہارا اندازہ درست بھی تھا۔ اگر تم نکاح سے قبل اس کا مطالبہ کرتے تو شاید یہی ہوتا۔لیکن اب ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ لیکن اب کیا ایوان ؟ شہریار نے تجسس کے ساتھ سوال کیا۔
اب اب میں نے خود فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اس دین حنیف میں داخل ہو جاؤں گی۔ اس لئے کہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ صرف یہ اور یہی دین فطرت ہے۔ کیا تم مجھے کلمہ شہادت نہیں پڑھاؤ گے ؟شہریار کی زبان کانپ رہی تھی۔اس کا دل رو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ اس نے آج کلمہ شہادت پڑھا ہے۔ وہ آج پیدا ہوا ہے۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا دن ہے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید