FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

رت جگوں کا سفر

 

 

 

شبیر ناقدؔ

 

 

 

 

حقیقت کا پرچار کیسے کریں ہم؟

کہ خوش دہر کو شیوۂ آذری ہے

(شبیر ناقِدؔ)

 

ISBN:  978 969 7578 580

 

 

 

 

پتہ: شبیر ناقِدؔ

معرفت پروفیسر ظہور احمد فاتح، نزد تعمیرِ نو اکیڈمی

کالج روڈ، تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان(پنجاب۔  پاکستان)

رابطہ فون:  0333-5066967 0303-9297131 0342-5237636

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

انتساب

 

اپنے اکلوتے اور پیارے بیٹے

محمد کاوش

کے نام!

 

 

 

غزلیں

 

 

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

 

کروں حمد اُس کی یہ کام ہے

کہ عظیم جس کا نظام ہے

 

وہ جو نام سب سے ہے معتبر

مرے دل میں بھی وہی نام ہے

 

جو زمانے بھر سے ہے ماورا

مجھے صرف اسی سے ہی کام ہے

 

نہ تو سیم و زر کا خیال ہے

نہ مذاقِ درہم و دام ہے

 

مجھے اہلِ دنیا سے کیا غرض؟

مرا دل تو رب کا غلام ہے

 

بنو خیر خواہ بشر کے تم

یہی ناقِدؔ اس کا پیام ہے

 

حمد باری تعالیٰ

 

کمال سارے ہیں نام تیرے

نرالے ہیں سارے کام تیرے

فقط ہمارا ہے تو ہی آقا

جہاں میں سب ہیں غلام تیرے

 

جو تو نے لطف و کرم کیا ہے

اسی سے مجھ کو سکوں ملا ہے

 

 

ہے فرض مجھ پر تری اطاعت

تری محبت تری عبادت

فزوں ہے ماں سے بھی پیار تیرا

تری محبت امر محبت

 

ازل سے ہے تیری بادشاہی

ہے تا ابد تیری حکمرانی

 

 

 

 

زیست کے جب اصول سمجھیں گے

پھر نہ جیون فضول سمجھیں گے

 

کہکشاں پر پڑیں گی جب نظریں

تیرے قدموں کی دھول سمجھیں گے

 

ہر قدم پر ملی جو مایوسی

اس کو غم کا نزول سمجھیں گے

 

سنگ برسائے گا جو تو ہم پر

جانِ جاں ان کو پھول سمجھیں گے

 

قرب ان کا ملے گا جب ناقِدؔ

پھر نہ خود کو ملول سمجھیں گے

 

 

 

 

دل دکھیارا ہو جاتا ہے

درد کا مارا ہو جاتا ہے

 

کوئی نہ ہو جب محرم دل کا

صبر کا یارا ہو جاتا ہے

 

تحفے میں جو بخشے ساون

ہم غم پیارا ہو جاتا ہے

 

تھک جاتا ہوں جب جیون سے

تیرا نظارا ہو جاتا ہے

 

جب بے رحم ہو ہر سو خلوت

سب سے کنارا ہو جاتا ہے

 

ناقِدؔ جب آئینہ دیکھوں

عکس تمہارا ہو جاتا ہے

 

 

 

تری یاد آنے لگی ہیں جفائیں

ہوئیں تھیں عطا ہجر میں جو سزائیں

 

جسے دیکھو بیزار سا لگتا ہے یکسر

کسے داستانِ الم ہم سنائیں

 

جہاں آ نہ پائے کبھی جنس نفرت

کوئی ایسی دنیا جہاں میں بسائیں

 

زمانے کو جس سے ہو تسکین حاصل

کوئی ایسا نغمہ رقم کر کے جائیں

 

تری ذات پر خود کو قربان کر دوں

میں لوں تیری ناقِدؔ ہزاروں بلائیں

 

 

 

 

مجھے زندگی نے ستایا بہت ہے

غمِ دوستی نے رلایا بہت ہے

 

کسی میں نہیں جاگا الفت کا جذبہ

محبت کا نغمہ سنایا بہت ہے

 

ستمگر نہیں ہے محبت پہ مائل

یقیں گرچہ اس کو دلایا بہت ہے

 

کسی طور وہ بن نہیں پایا میرا

اسے میں نے اپنا بنایا بہت ہے

 

دیا میری چاہت کا جلنے نہ پایا

بہرکیف میں نے جلایا بہت ہے

 

پڑا ہے مجھے نفرتوں سے ہی پالا

مگر پیار مجھ میں سمایا بہت ہے

 

نہ بیدار ہو پایا میرا مقدر

بصد سعی میں نے جگایا بہت ہے

 

مرا رازِ الفت ہوا فاش ناقِدؔ

اگرچہ جہاں سے چھپایا بہت ہے

 

 

 

 

 

عجب مصائب گزر گئے ہیں

کہ جیتے جی ہم تو مر گئے ہیں

 

میں کیسے پیچھا چھڑاؤں ان سے؟

غم و الم دل میں بھر گئے ہیں

 

مجھے ستم گر ہیں یاد ہر دم

کچھ ایسے احسان کر گئے ہیں

 

نہ ان کی قسمت میں جیت آئی

جو راہِ الفت میں ڈر گئے ہیں

 

ہنسا جو میں تو وہ بولا ناقِدؔ

ترے وہ آنسو کدھر گئے ہیں؟

 

 

 

 

لغزشیں جب اصول بن جائیں

پھر حقائق فضول بن جائیں

 

ان کو ملتی ہے رب کی خوش نودی

جو مطیع رسول بن جائیں

 

جی یہ چاہے کہ پارسا سارے

تیری معصوم بھول بن جائیں

 

آرزو یہ رہی سدا دل میں

تیرے قدموں کی دھول بن جائیں

 

تم بھی آگے بڑھو ذرا ناقِدؔ

کلیاں چٹکیں تو پھول بن جائیں

 

 

 

 

 

کسی سنگ دل پر بھروسہ نہ کرنا

خلوص و وفا کی تمنا نہ کرنا

 

بہت ہے عزیزو قناعت کی دولت

کبھی مال و زر کا تقاضا نہ کرنا

 

زمانے میں بدنام ہو جاؤ گر تم

محبت کا تم راز افشا نہ کرنا

 

نہ ہو جس میں کوئی بھی رودادِ الفت

رقم کوئی ایسا فسانہ نہ کرنا

 

نہ ہو جائے ناقِدؔ کا جیون اجیرن

اسے تم جہاں میں اکیلا نہ کرنا

 

 

 

 

 

مجھے رنج و غم بس نہیں چاہیے

کہ جیون مجھے دل نشیں چاہیے

 

جہاں  ہر قدم پر ملے آشتی

مجھے سکھ بھری وہ زمیں چاہیے

 

نہ امکان ہو نفرتوں کا جہاں

مجھے وہ مکان و مکیں چاہیے

 

سدا پیار اخلاص کا راج ہو

نہ کوئی بھی انساں حزیں چاہیے

 

نہ ناقِدؔ پیوں ساغر مے کبھی

بس تری دید کا انگبیں چاہیے

 

 

 

 

 

سدا تیرے چہرے پہ رقصاں خوشی ہے

مری داستاں تو غموں سے بھری ہے

 

کسی نے بھی مجھ کو محبت نہ بخشی

حقیقت میں میری خطا مفلسی ہے

 

میں پھر بھی نہیں اپنی قسمت سے شاکی

مری اصل دولت مری بے کسی ہے

 

حقیقت کا پرچار کیسے کریں ہم؟

کہ خوش دہر کو شیوۂ آذری ہے

 

گلہ کیوں کریں اپنی تقدیر کا ہم؟

کہ یہ تو ہماری روش سے بنی ہے

 

غموں میں ہے پنہاں ہماری مسرت

مصائب سے ناقِدؔ بڑی دوستی ہے

 

 

 

 

 

حقیقت میں میری خطا عاشقی ہے

بنی میری خاطر سزا عاشقی ہے

 

وہ نادان ہے جانے کیا ایسی باتیں

نہیں اس کو معلوم کیا عاشقی ہے

 

مری ذات سے تم کو شکوہ عبث ہے

کہ جو میں نے کی ہے وفا عاشقی ہے

 

تواریخ نے اس کی تصدیق کی ہے

کہ جو ہو زمانہ روا عاشقی ہے

 

سزا کا سزاوار وہ بھی نہیں ہے

کہ اس کی بھی ناقِدؔ جفا عاشقی ہے

 

 

 

 

 

ہیں قلب و ذہن سوزاں

دن رات غم میں غلطاں

 

مجھ سے بچھڑ کے جاناں

تو بھی رہا پریشاں

 

کیا ہو حیات فرحاں؟

قسمت میں کب ہیں خوشیاں؟

 

ہے آس یاس میری

دل میں فروغِ ارماں

 

ایسا ہو میت ناقِدؔ

رکھے مجھے جو شاداں

 

 

 

 

 

مری زندگی ہے سفر پیار کا

حقیقت میں ہے یہ اثر پیار کا

 

ازل سے یہی میری کوشش رہی

ہو آباد میرا نگر پیار کا

 

زمانے کے اس میں فسانے نہیں

یہ دل ہے مرا صرف گھر پیار کا

 

وہی منزلیں ہیں وہی راستے

فقط ہو جہاں سے گزر پیار کا

 

سدا جس نے ایثار ناقِدؔ کیا

وہی تو ہے نورِ نظر پیار کا

 

 

 

 

 

من میں تیری پیاس

دل میں بھی ہے آس

 

تجھ سے کر کے پیار

میں ہوں سخت اداس

 

روگ یہی ہے مجھ کو

پیت نہ آئی راس

 

بے حد وہ جھگڑالو

جو ہے میری ساس

 

ناقِدؔ ہے وہ دور

کب ہے میرے پاس

 

 

 

 

مژدہ کوئی سنائے

دل بھی سکون پائے

 

میرا خیال رکھے

مجھ کو نہ یوں ستائے

 

اتنی جفا سہی ہے

نینوں سے نیر آئے

 

میں ہوں بہت پریشاں

دلبر کوئی بلائے

 

غمِ ہجر جان لیوا

جو سدا مجھے رلائے

 

اپنا یہی ہے جیون

تیرے ہی گیت گائے

 

قربت کو تیری ترسوں

فرقت جگر کو کھائے

 

نازاں ہوں میرے قاتل

میت پہ میری آئے

 

میں ہوں ازل کا پیاسا

کوئی مجھے پلائے

 

مجھ سے ہے دور بے حد

کچھ تو قریب آئے

 

خوشیاں نہیں ہیں میری

میں نے ہیں غم نبھائے

 

میری یہی ہے خواہش

نغمہ کوئی سنائے

 

سوئی ہوئی ہے قسمت

اس کو کوئی جگائے

 

میرے نہ بن سکے جو

میں نے وہ میت پائے

 

کوئی تو ہو معلم

درسِ وفا پڑھائے

 

جن کو ہے میں نے چاہا

وہ تو ہوئے پرائے

 

میت پہ میری ہرگز

آنسو نہ وہ بہائے

 

اس کو بھلاؤں کیسے؟

ناقِدؔ وہ دل دکھائے

 

 

 

میں تھا بہت سیانا

مجھ کو جہاں نہ مانا

 

تم پاس میرے آنا

بہانہ نہیں بنانا

 

درشن مجھے کرانا

صورت مجھے دکھانا

 

ہر آن پاس رہنا

واپس پلٹ نہ جانا

 

مجھ کو تو یاد رکھنا

ہوں میت میں پرانا

 

مجھ سے بھی شعر سننا

غزلیں مجھے سنانا

 

باتیں مری سمجھنا

آنکھیں نہیں دکھانا

 

تم چاہے بھول جاؤ

ہم نے نہیں بھلانا

 

حسرت یہی ہے میری

دنیا نئی بسانا

 

غیروں سے کیوں ہے ناقِدؔ؟

یوں تیرا آنا جانا

 

 

 

 

 

نیند سے میری ہے ان بن

مجھ کو جگائے فکر و فن

 

پاس ادب کی مایہ ہے

یہ دولت ہے اور یہ دھن

 

میرا حاصل میری پونجی

میرے دیواں اور سخن

 

سادگی ہے بس میرا طور

اور نہیں کوئی بن ٹھن

 

سب کچھ تیرے نام کیا

تیرے نام کیا تن من

 

تو ہے ناقِدؔ میرا میت

پختہ ہے تجھ سے بندھن

 

 

 

 

جسارت میں کم تو نہیں نوجواں یہ

ملیں گے تمہیں لعل و گوہر کہاں یہ؟

 

یہ پھولوں کی خوشبو بہاروں کے منظر

کہاں اپنی قسمت میں ہوں گے سماں یہ؟

 

رہا میں تو سوزاں سدا زندگی میں

مجھے راس آیا نہیں ہے جہاں یہ

 

کسی بھی میں شورش سے گھبراؤں کیسے؟

کرے کیسے خائف خروشِ سگاں یہ؟

 

مری آگہی بھی تھی مستور پہلے

سخن سے مرے ہو گئی ہے عیاں یہ

 

سنی نہ کسی نے مری بات ہرگز

لگے جیسے ہے گنگ میری زباں یہ

 

مرے زخم دل کے ہرے رہ گئے ہیں

ہیں تیری جفاؤں کے ناقِدؔ نشاں یہ

 

 

من کا نگر ہے اجڑا

ہم بھی ہوئے ہیں رسوا

 

افسوس تو یہی ہے

تو نے ہمیں نہ چاہا

 

اپنا سخن یہی ہے

تیرا کیا ہے چرچا

 

ہم بھی ہوئے پریشاں

تم نے نہ حال پوچھا

 

کس سے ہو پیت ناقِدؔ؟

کوئی نہیں ہے متوا

 

 

 

 

تم سے کتنا دور ہوں جاناں؟

میں بے حد مجبور ہوں  جاناں

 

تیرے پیار میں بے کل ہر دم

نشے میں مخمور ہوں جاناں

 

بے چینی کے روپ کئی ہیں

ہر غم میں مذکور ہوں جاناں

 

تیرے ہجر میں دل چھلنی ہے

میں زخموں سے چور ہوں جاناں

 

جو بن جائے مٹ بھی جائے

میں ایسا دستور ہوں جاناں

 

میں ٹھہرا ہوں سب کا ناقِدؔ

تجھ کو نامنظور ہوں جاناں

 

 

 

 

انتہا جب ہوئی غم کی غم نہ رہا

لطف کیا جب صنم ہی صنم نہ رہا

 

سوز کی داستانیں جو لکھتا رہا

ہائے افسوس اب وہ قلم نہ رہا

 

میں دل و جاں کے پیہم تصادم میں ہوں

اب سوا اس کے کوئی الم نہ رہا

 

جس سے ہوئی تھی فرحت ہمیشہ عطا

کیوں روا مجھ پہ تیرا ستم نہ رہا؟

 

تو خوشی بخش دے یا الم بخش دے

وہ جو پہلے تھا ناقِدؔ کرم نہ رہا

 

 

 

 

 

خوشی تم نے پائی تو غم ہم نے پایا

مشیت سے پیہم الم ہم نے پایا

 

تمہیں مل گئی ہے صباحت کی دولت

نصیبوں سے مضطر قلم ہم نے پایا

 

ہمیں خوف تھا جس کی فتنہ گری کا

وہ قسمت میں اکثر ستم ہم نے پایا

 

سدا زندگانی میں مقہور ٹھہرے

بھلا کب ہے تیرا کرم ہم نے چاہا؟

 

ستم گر ہے ناقِدؔ یہ ریکھا ہماری

جفاؤں کا خوگر بلم ہم نے پایا

 

 

 

 

 

جہاں ہے ہوس میں مگر میں نہیں ہوں

یہ دنیا کہاں ہے مگر میں کہیں ہوں

 

مجھے محفلوں سے نہیں کوئی رغبت

ترے بعد میں اب کے خلوت نشیں ہوں

 

بھلا کیا ہے مشکل ملاقات مجھ سے

جہاں تم نے چھوڑا تھا اب تک وہیں ہوں

 

مجھ پیار سے کوئی کیسے نوازے؟

نہ میں ہو پری وِش نہ ہی مہ جبیں ہوں

 

جو ویران برسوں سے ناقِدؔ پڑی ہے

مقدر کی ماری ہوئی وہ زمیں ہوں

 

 

 

 

مری شب کی بیداری اک آہ و زاری

کہ حالت ہوئی ہے بہت اضطراری

 

اگر آج کی شب نہیں آؤ گے

تو کرتا رہوں گا میں اختر شماری

 

یہ ہمدرد میری ہے مونس بھی میری

بڑھاتی ہے دولت مری بے قراری

 

تری یاد میں اپنے دل سے مٹا دوں

یہ پوری نہ ہو گی کبھی ضد تمہاری

 

بھلا کب ملے ہیں مسرت کے لمحے؟

مری آتما تو رہی غم کی ماری

 

چلے آؤ اک بار درشن ہوں ناقِدؔ

کہیں مر نہ جائے تمنا کنواری

 

 

 

مری زندگی اب ہے برزخ کنارے

تری یاد کے جی رہا ہوں سہارے

 

دکھائے جنہوں نے تھے جیون کے سپنے

کہاں کھو گئے میت وہ اب ہمارے؟

 

مری آتما کو ملے چین جس سے

نہیں میری ریکھا میں ایسے نظارے

 

ذرا اپنی دنیا کو آسان کر لو

نہیں بانٹ پاؤں گا میں دکھ تمہارے

 

یہی اپنی ہستی کی بپتا ہے یارو

مقدر جو ہارے سو ہم لوگ ہارے

 

فسانہ الم کا بیاں کیا ہو ناقِدؔ

کہ اظہار ممکن نہیں غم کے مارے

 

 

 

 

جب سے تم پردیس سدھارے

بچے باغی ہو گئے سارے

 

مجھ کو اک پل چین کہاں تھا

تجھ بن جاناں ہجر کے مارے

 

ماتھے پر سندور سجا تو

کھو گئے اپنے مست نظارے

 

شعر میں گر اخلاص نہیں ہے

کیا توڑے آکاش کے تارے

 

ناقِدؔ شہر کی بھیڑ میں کھو کر

بچھڑے کتنے راج دلارے

 

 

 

 

 

بہت پر مشقت ہے جیون

مسلسل اذیت ہے جیون

 

نہیں سیج پھولوں کی یہ تو

مگر اک قیامت ہے جیون

 

کرم اس کا پیہم رہے گر

تو پھر ایک نعمت ہے جیون

 

بغیر اس کے جینا ہے کیسا؟

حقیقت میں الفت ہے جیون

 

ہوں ناقِدؔ قناعت سے عاری

مگر ایک حسرت ہے جیون

 

 

 

 

 

مری زندگانی کٹی ہے سفر میں

رہا ہوں سدا میں تو غربت نگر میں

 

مجھے وحشتوں سے کوئی خوف کیسا؟

کہ وحشت جواں ایک ہے میرے گھر میں

 

غموں کی رفاقت بنی ہے مسافت

الم ہم سفر ہے مرا اس سفر میں

 

ہے جیون کی دولت سے تو نے نوازا

فقط مہربان تو ہے میری نظر میں

 

گلوں تک بھی میری رسائی ہے ناقِدؔ

اگرچہ بہت خار ہیں رہ گزر میں

 

 

 

 

 

ہیں وابستہ تم سے فسانے مرے

تمہارے لیے ہیں ترانے مرے

 

تمہاری طلب میرے گیتوں میں ہے

محبت سے معمور گانے مرے

 

مری ہیں یہ مجبوریاں جانِ من

انہیں تم نہ سمجھو بہانے مرے

 

نظر میں کبھی ہے تو دل میں کبھی

بدلتا ہے کوئی ٹھکانے مرے

 

ہے ناقِدؔ جو زر دار سب اس کے ہیں

میں نادار ہوں کب زمانے مرے؟

 

 

 

 

تجھے ہم سراپا غزل دیکھتے ہیں

بڑے شوق سے آج کل دیکھتے ہیں

 

تمہیں پوجنے سے نہیں باز آتے

جہاں کوئی موقع محل دیکھتے ہیں

 

یہ دنیا کی رونق تو تم دیکھتے ہو

مگر ہم فقط اک اجل دیکھتے ہیں

 

ہے منزل ہماری تو شہرِ خموشاں

تو پھر خواب میں کیوں محل دیکھتے ہیں؟

 

ہوس اک نگاہوں میں ہوتی ہے ناقِدؔ

صباحت کا تازہ کنول دیکھتے ہیں

 

 

 

 

 

پربت کے ہر پیڑ پہ میرا نام رہے گا

قریہ قریہ میرا چرچا عام رہے گا

 

حق بولوں اور حق کی خاطر مر بھی جاؤں

دنیا والوں کی خاطر پیغام رہے گا

 

میت کو چاہا پیت کو پوجا میں نے ہر دم

میں مر جاؤں لیکن یہ الزام رہے گا

 

میں نے دو روزہ جیون میں یہ جانا ہے

ہر مخلص انسان یہاں ناکام رہے گا

 

پیتے پیتے عمر گزاری چین بھی کھویا

پھر بھی میرے ہاتھ میں ناقِدؔ جام رہے گا

 

 

 

 

بڑھاؤ نہ لوگوں سے الفت زیادہ

کہ ہو جائے گی اور قربت زیادہ

 

تسلسل وفاؤں کا ہم نے نہ توڑا

ہوئی اس قدر ان سے چاہت زیادہ

 

کبھی میں نہ کر پایا شکوہ تمہارا

رہی ہے تمہیں کیوں شکایت زیادہ؟

 

مجھے رہنے دیتے نہیں چین سے وہ

رہی مجھ پہ ان کی عنایت زیادہ

 

بہت میں تو حیران اس پر ہوا ہوں

بڑھی کیوں ہے ناقِدؔ رقابت زیادہ؟

 

 

 

 

سوچ سہارے عمر گزاری

ہم تو ہیں بس فکر پجاری

 

کب جانو گے درد ہمارے؟

کب سمجھو گے بات ہماری؟

 

نین لگا کر رستوں پر وہ

نیند گنوائے ہجر کی ماری

 

درد کا دریا پار کیا تھا

تب آئی تھی درشن باری

 

اور نہ کوئی ہم دم ناقِدؔ

میت ہماری پیت تمہاری

 

 

 

 

 

مری زندگی نیکیوں سے تہی ہے

یہی فکر ہر آن مجھ کو رہی ہے

 

مری بات سنتا نہیں کوئی ہرگز

کہی بات میری بھی اب ان کہی ہے

 

سدا صبر میرا ہے بے داد ٹھہرا

تری ناروا بات ہنس کر سہی ہے

 

کرو خیر خواہی زمانے سے ہر دم

یہی ہے عبادت سعادت یہی ہے

 

نہیں پاس کوئی زمانے کی دولت

مرے پاس ناقِدؔ فقط آگہی ہے

 

 

 

 

 

دروں کی دنیا بسانے والے

فقیر مجھ کو بنانے والے

 

بچھے ہیں رستے پہ نین میرے

ہیں آج سرکار آنے والے

 

کسی صدا کا ہوں منتظر میں

بلائیں مجھ کو بلانے والے

 

میں دشت و بن میں بھٹک رہا ہوں

کہاں ہیں رستہ دکھانے والے؟

 

حیات ناقِدؔ کی بھی سنوارو

اے سب کی بگڑی بنانے والے!

 

 

 

 

 

بنے رتجگے فکر کے تازیانے

چلا ایک دنیا خرد کی بسانے

 

سو پہلے سے حالات میرے نہیں ہیں

نہ خوشیاں پرانی نہ غم ہیں پرانے

 

مجھے ان سے کوئی بھی رغبت نہیں ہے

نہیں  زیب دیتے مجھے عاشقانے

 

ودیعت مجھے ایک طرفہ طبیعت

نرالے جہاں سے مرے دوستانے

 

ادب کے لیے یہ تو ممکن نہیں ہے

لگا ہے یہ ناقِدؔ کو اک پل بھلانے

 

 

 

 

 

کوئی روٹھنے کا سبب نہیں

کرو مجھ پہ اتنا غضب نہیں

 

مجھے نفرتوں سے بھی پیار ہے

مجھے الفتوں کی طلب نہیں

 

جو یہاں امین وفا بنے

یہاں کوئی ایسا ادب نہیں

 

مری فکر میرا عیار ہے

مری اصل مال و نسب نہیں

 

کرو جور ناقِدِؔ زار پر

مجھے تم بتاؤ عجب نہیں

 

 

 

 

 

لگی میرے پہلو میں ہر پل کٹاری

رہی میری قسمت مسرت سے عاری

 

بڑھائی ہیں آبادیاں اب کے ایسی

کہ بے صرفہ لگتی ہے مردم شماری

 

ہمارا نہیں زور چلتا کسی پر

نہیں کارگر اب کے مرضی ہماری

 

ہے سنسان صدیوں سے روحوں کی حالت

یہاں سارا عالم ہے تن کا پجاری

 

شرافت سے محروم جیون ہے ناقِدؔ

روا ہم نے رکھی فقط کاروکاری

 

 

 

 

تیرا عشق ہی میری شان ہے

ترے دم سے ہی مری آن ہے

 

مجھے تم بلاؤ تو پیار سے

یہی رابطے کی زبان ہے

 

نہ رکھو کسی سے امید تم

بڑا خود غرض یہ جہان ہے

 

میں مقام سے رہا ماورا

نہ زمین ہے نہ مکان ہے

 

تو کسی کے ہاتھ نہ آ سکے

تیری اونچی اتنی اڑان ہے

 

لگا تیر ناقِدِؔ جاں بہ لب

کہ نہ زخم ہے نہ نشان ہے

 

 

 

روش روش پہ انا رہی ہے

عجیب ہی کچھ جفا رہی ہے

 

جو بیج بویا وہ فصل کاٹی

جسے ستایا، ستا رہی ہے

 

میں کیسے اس کو بھلا سکوں گا

کہ یاد ہر پل وہ آ رہی ہے

 

نہ کوئی سپنا ڈرا سکے گا

کہ ماں مجھ کو سلا رہی ہے

 

جہاں کا سب کچھ بھلایا ناقِدؔ

کہ یاد اس کی ادا رہی ہے

 

 

 

 

ترا ہجر میرے لیے سوزِ جاں ہے

مجھے ایک پل کو بھی راحت کہاں ہے؟

 

سکوں سے بھلا کیسے جیون گزاروں؟

مرے چارسو نفرتوں کا سماں ہے

 

مجھے آہ و زاری سے نفرت رہی ہے

کہاں میرے ہونٹوں پہ حرفِ فغاں ہے؟

 

جوانی نہیں شرط الفت کی جاناں

مرا دل توانا ہے جذبہ جواں ہے

 

رکھوں کیسے لا کر میں دوچار تنکے

کہ بجلی کی زد میں مرا آشیاں  ہے

 

نہیں پاس میرے مسرت کے نغمے

مرے لب پہ تو نالۂ خوں چکاں ہے

 

بڑھے جا رہا ہوں میں منزل کی جانب

تعاقب میں میرے خروشِ سگاں ہے

 

محبت میں ہم نے ہے سب کچھ گنوایا

محبت کے ماروں کی جنت کہاں ہے؟

 

نہیں ہے کسی کام سے مجھ کو رغبت

ترا نام ہی اب کے وردِ زباں ہے

 

محبت نے مجھ کو جلایا ہے ناقِدؔ

یہ الفت ہے یا کوئی آتش فشاں  ہے؟

 

 

 

 

 

میں نے تجھ سے پیار کیا ہے

اپنے دل پر وار کیا ہے

کیسے مانوں پیار ہے تجھ کو؟

تو نے کب اظہار کیا ہے؟

کیوں اتنے بے تاب ہو جاناں؟

میں نے کب انکار کیا ہے؟

کیسا پیار ہے تیرا ساجن؟

کیا قول اقرار کیا ہے؟

میں تائب تھا اس لغزش سے

تو نے پھر دوچار کیا ہے

وصل کی خواہش کی تھی ہم نے

ہجر پہ کیوں اصرار کیا ہے؟

خوشیاں وافر پاس تھیں ناقِدؔ

کیوں غم بیوپار کیا ہے؟

 

 

 

 

 

مرے سوز کی داستاں زندگانی

ہے شعلہ سا ہر دم جواں زندگانی

 

بڑے کرب سے اس نے مجھ کو نوازا

مری بے بسی کا نشاں زندگانی

 

پریشان و مضطر میں ہر پل رہا ہوں

بنی بے کلی کا سماں زندگانی

 

بڑی بے وفا ہے بہت پرجفا ہے

کسی کی نہیں جاوداں زندگانی

 

نہیں اس سے بڑھ کر کوئی اور ناقِدؔ

ہے احساسِ سود و زیاں زندگانی

 

 

 

 

وجود پاش پاش ہے

سکوں کی پھر تلاش ہے

 

نصیب کیا ہوں راحتیں؟

مجھے غمِ معاش ہے

 

ہماری زندگی ہے کیا؟

یہ چلتی پھرتی لاش ہے

 

ہے اس کا رعب دہر میں

یہاں جو بد قماش ہے

 

عجب ہے ناقِدِؔ حزیں

انوکھی بود و باش ہے

 

 

 

 

 

طلب کا سفر دو قدم ہو گیا ہے

کہ اب مجھ کو حکمِ عدم ہو گیا ہے

 

میں دل پہ رکھوں گا بھلا ہاتھ کیسے؟

کہ یہ لکھتے لکھتے قلم ہو گیا ہے

 

ضرورت نہیں ہے کسی کی مجھے اب

مرا ہم سفر اب کے غم ہو گیا ہے

 

مری یہ وفا میری رسوائی ٹھہری

نیا ساتھ میرے ستم ہو گیا ہے

 

نہ کوئی مسیحا نہ مونس نہ ہمدم

مرا غم ہی ناقِدؔ بلم ہو گیا ہے

 

 

 

 

 

خوشی کے نغمے ہی گا رہا ہوں

غموں کو دل سے بھلا رہا ہوں

 

ہے ایک دن تو سبھی نے جانا

چلو مری جاں میں آ رہا ہوں

 

تمام جھگڑے مٹاؤ پل میں

اسی لیے میں بلا رہا ہوں

 

نہ کوئی حسرت نہ کوئی صدمہ

خوشی سے خاطر سجا رہا ہوں

 

ہے ہجر ناقِدؔ مری قیامت

یہ سچ ہے بالکل بتا رہا ہوں

 

 

 

 

سدا ہم سکوں کو ترستے رہے ہیں

اسی کشمکش میں تڑپتے رہے ہیں

 

مرے چارسو گرچہ بربادیاں ہیں

مگر دل میں ارماں پنپتے رہے ہیں

 

ہوئے دان ہرگز نہ قربت کے لمحے

یونہی خلوتوں میں سمٹتے رہے ہیں

 

مناظر جو دیکھے ہیں رسوائیوں  کیے

مرے دل میں  طوفاں مچلتے رہے ہیں

 

ستم ہم پہ ناقِدؔ ہوئے زندگی میں

کہ کھا کھا کے ٹھوکر سنبھلتے رہے ہیں

 

 

 

 

 

کروں کیا جنوں کی رقم داستانیں؟

بنے میری خاطر الم داستانیں

 

نہ نغمے خوشی کے نہ عشرت کے لمحے

مرے پاس تو ہیں ستم داستانیں

 

اذیت مصیبت بلائیں رقم کیں

لکھی میں نے کم ہیں کرم داستانیں

 

مری زندگانی کی تفسیر ہیں یہ

مری پڑھ کے دیکھو بلم داستانیں

 

سدا اپنی ہستی کے نوحے لکھے ہیں

نہ پاؤ گے ناقِدؔ صنم داستانیں

 

 

 

 

 

زمانے بھر کے غم میرے

الم میرے ستم میرے

 

مرے من میں سما جاؤ

مرے دل بر بلم میرے

 

سدا لکھو حقیقت تم

مرے ہمدم قلم میرے

 

انہیں نہ رائیگاں سمجھو

مرے نغمے دھرم میرے

 

تو جاری رکھ ستم بے شک

ستم بھی ہیں کرم میرے

 

سدا ناقِدؔ رہیں اونچے

صداقت کے الم میرے

 

 

 

 

 

قریب یوں تیرے آؤں اک شب

میں حسرتوں کو مٹاؤں اک شب

 

فراق نوحے میں بھول جاؤں

جو گیت قربت کے گاؤں اک شب

 

بنا لوں آنکھوں کا نور تجھ کو

نظر میں ایسا بساؤں اک شب

 

میں شہر کی رونقیں بھلا دوں

بہم جو ہو تیرا گاؤں اک شب

 

قیام کر لو ذرا سا ناقِدؔ

میں دل کی دھرتی سجاؤں اک شب

 

 

 

 

 

جیون ہم کو مار گیا ہے

موت کے گھاٹ اتار گیا ہے

 

جس نے تم سے پیار کیا ہے

تم جیتے وہ ہار گیا ہے

 

جہاں سے لوٹ نہ پایا کوئی

ساجن تو اس پار گیا ہے

 

جب سے اجڑی من کی دھرتی

میرا ہار سنگھار گیا ہے

 

جب سے فکر کا پاس ہوا ہے

ناقِدؔ چین قرار گیا ہے

 

 

 

 

 

مقدر نے ماتھے پہ خفگی سجائی

لبوں پہ نہیں میرے پھر بھی دہائی

 

ہوں جیون سے خائف ہے مرنا بھی مشکل

یہ تقدیر کس موڑ پر لے کے آئی

 

سدا میرا فاقوں سے پالا پڑا ہے

نہیں میری قسمت میں مکھن ملائی

 

مسلسل رہے گا تو سوزاں و بے کل

نصیبوں نے یہ بات مجھ کو سنائی

 

ستم سب کے ہر پل میں سہتا رہا ہوں

نہیں کی کسی سے بھی ناقِدؔ لڑائی

 

 

 

 

 

فراق لمحوں کا بھی تصور مہیب سا ہے

مگر سدا سے بنا یہ اپنا نصیب سا ہے

 

تری نظر میں نہیں ہے وقعت مری وفا کی

ترا تصور محبتوں کا عجیب سا ہے

 

جو پرجفا ہے نہ تیرا مخلص نہ میرا مونس

یہ غم ہمارا اے میرے مخلص رقیب سا ہے

 

ہیں جس کی پونجی ہیں جس کا مایہ یہ ترش نسخے

وہی ستم گر بنا ہمارا طبیب سا ہے

 

ہے مدعا خامشی میں کتنا بلیغ ناقِدؔ؟

وہ ماورا ہے سمجھ سے لیکن خطیب سا ہے

 

 

 

 

وصال رت کی سہاگ یادیں ستا رہی ہیں

یہ سوزِ ہجراں میں مجھ کو پیہم جلا رہی ہیں

 

بچاؤ مجھ کو عقوبتوں سے مصیبتوں سے

کسی کے مرقد سے ایسی آوازیں آ رہی ہیں

 

رواں دواں ہوں محبتوں کے سفر میں پیہم

میں جا رہا ہوں ادائیں اس کی بلا رہیں ہیں

 

گھرا ہوا ہوں میں مہ وشوں کے ہجوم میں اب

میں پی رہا ہوں قدح وہ ساغر پلا رہی ہیں

 

جو آپ آتے ہیں پاس ناقِدؔ ذرا تو بیٹھیں

گزشتہ یادیں نئی امیدیں جگا رہی ہیں

 

 

 

 

 

کدورتوں میں پلا ہوا ہوں

میں جیتے جی بھی مرا ہوا ہوں

 

مری سمجھ میں نہ آ سکا یہ

میں کیسے اب تک بچا ہوا ہوں

 

اگر ہے دشوار زندگانی

نہ جانے کیسے بڑا ہوا ہوں

 

کہا ہے اس نے نہیں ہوں تیرا

میں دشمنوں سے ملا ہوا ہوں

 

ہے زندگی نے یہ روپ بخشا

میں خود سے ناقِدؔ ڈرا ہوا ہوں

 

 

 

 

 

سدا مجھے تیری جستجو ہے

جہاں میں تو سب سے خوب رو ہے

 

تجھے بھلاؤں تو کس طرح میں؟

کہ چرچا تیرا ہی کو بہ کو ہے

 

ہے تیری الفت کی سب نوازش

کہ میری رسوائی چارسو ہے

 

وہ میرے اشعار سن کے بولے

یہ ایک پاگل کی گفتگو ہے

 

بنائے وہ بگڑے کام ناقِدؔ

وہ چارہ گر ہے وہ چارہ جو ہے

 

 

 

 

 

مرے دل میں جب سے بسے جانِ جاناں

گراں میرے لمحے ہوئے جانِ جاناں

 

نہیں دیکھی خوشیوں کی سوغات میں نے

مقدر سے غم ہی ملے جانِ جاناں

 

تمہیں بھول جاؤں یہ ممکن کہاں ہے؟

مجھے یاد ہو تم مرے جانِ جاناں

 

ترا ذکر ہی اک سہارا ہے میرا

ترا نام لے کے جیے جانِ جاناں

 

بیاضِ سخن ہیں ترے گیت ناقِدؔ

جو اب تک ہیں میں نے لکھے جانِ جاناں

 

 

 

 

 

نہیں ہے کسی چیز سے مجھ کو نسبت

فقط آگہی سے ہے جیون عبارت

 

ہے مولا کی مجھ پر کیا کم عنایت؟

مرے پاس وافر ہے اخلاص و الفت

 

غنیمت ہے صدق و صفا کی یہ دولت

نہیں رکھتے دل میں کوئی اور صورت

 

کسی سے نہیں ہے مجھے اب شکایت

بھلا کیوں مجھے ہو کسی سے کدورت

 

مجھے جو میسر ہے تیری رفاقت

مرے پاس ناقِدؔ فزوں تر ہے راحت

 

 

 

 

 

من مندر میں تیری پوجا

ہر دم جاری پیت کی سیوا

 

تم کو کیسے بھول سکوں گا؟

تم تو پل پل یاد ہو متوا

 

اور تو کوئی کام نہیں ہے

کرتا ہوں بس پریم کی رکھشا

 

ساری دنیا بھول گئی ہے

جب سے تم کو میت بنایا

 

تیرا ناقِدؔ ذکر زباں پر

تو ہے میرے گیت کی بھاشا

 

 

 

 

 

جب سے تیرا پیار ملا ہے

مجھ کو اک سنسار ملا ہے

 

تم سے اور تو کچھ نہ پایا

چاہت کا اظہار ملا ہے

 

جی اُٹھی ہیں سب آشائیں

جب سے تو دلدار ملا ہے

 

کب تم نے مانی ہے میری؟

کب تم سے اقرار ملا ہے؟

 

پیار وفا کے بدلے ناقِدؔ

تم سے تو انکار ملا ہے

 

 

 

سر کو کھپا رہا ہوں

اذیت اٹھا رہا ہوں

میرا ہنر یہی ہے

محفل سجا رہا ہوں

میں کھو رہا ہوں سب کو

دانش کو پا رہا ہوں

دل ہے اداس پھر بھی

نغمات گا رہا ہوں

کچھ وقت چل اکیلا

میں پیچھے آ رہا ہوں

تم بھی سنو کہانی

جو میں سنا رہا ہوں

مہکیں گے جو ہمیشہ

وہ گل کھلا رہا ہوں

اب آ بھی جاؤ ناقِدؔ

کب سے بلا رہا ہوں

 

 

 

 

 

ہماری آنکھوں کو خواب دے دو

سکوں کا کوئی نصاب دے دو

 

وہ جس کے پڑھنے سے دور غم ہوں

کوئی خوشی کی کتاب دے دو

 

ملیں  گے کب قربتوں کے لمحے؟

جو ہو سکے تو جواب دے دو

 

وہ جام سوچوں کو جام کر دے

چھلکتا جامِ شراب دے دو

 

نہیں جو قسمت میں پیار ناقِدؔ

تو مجھ کو بے شک عتاب دے دو

 

 

 

 

 

اگر میں ہوں فکر و سخن میں یگانہ

مجھے بوجھ کیوں جانتا ہے زمانہ؟

 

کسی نے بھی اپنا نہیں مجھ کو جانا

اگرچہ مرا طرز ہے عاشقانہ

 

سدا ٹھوکریں میں نے دنیا میں کھائیں

نہ چھوڑا کسی نے ستم کا بہانہ

 

مجھے تو نے رکھا ہے کیوں گردشوں میں؟

رہا منتشر کیوں مرا آب و دانہ؟

 

رہوں کیسے مسرور تیرے چمن میں؟

ہے بجلی کی زد میں مرا آشیانہ

 

کبھی اپنی قربت سے سرشار کر دے

میں ناقِدؔ رہا ہوں برہ کا نشانہ

 

 

 

 

 

مجھے دلربا نے محبت نہ بخشی

کبھی بھول کر اس نے راحت نہ بخشی

 

سدا نین درشن کو ترسے ہیں میرے

تقرب کی مجھ کو سعادت نہ بخشی

 

میں اوروں کی خوشیوں کی خاطر جیا ہوں

کسی کو بھی میں نے اذیت نہ بخشی

 

تجھے سکھ سکوں میں نے بخشا ہے پیہم

مگر تم نے مجھ کو مسرت نہ بخشی

 

تمہیں کیسے ناقِدؔ پریشان کرتا؟

مشیت نے ایسی طبیعت نہ بخشی

 

 

 

 

 

نظر نظر میں سوال دیکھا

دلوں میں طرفہ ملال دیکھا

 

یہ ایک پل کو پنپ نہ پایا

سکوں رہین زوال دیکھا

 

اسی کا ٹھہرا ہوں معترف میں

کسی میں جب بھی کمال دیکھا

 

مجھے تھا مطلوب حسنِ سیرت

اسی نظر سے جمال دیکھا

 

ہوئے ہیں مجبورِ داد ناقِدؔ

ترا جو حسنِ خیال دیکھا

 

 

 

محبتوں کو لہو پلایا

جدائیوں نے ہے دل جلایا

 

نہ ایک پل کو بھی چین پایا

ہے دل میں جب سے تمہیں بسایا

 

زمانہ میرا ہوا ہے دشمن

جو گیت الفت کا میں نے گایا

 

کسی جفا کار ماہ جبیں نے

پلٹ کے رکھ دی ہے میری کایا

 

نہ بھول پائیں گے اہلِ ناقِدؔ

فسانہ ناقِدؔ نے وہ سنایا

 

 

 

 

 

ہے دل میں اُترا خیال اس کا

نکھر گیا ہے جمال اس کا

 

جنوں تو مد ہوش لگ رہا ہے

خرد میں بکھرا سوال اس کا

 

رہا ہے جو مدتوں سے ہمدم

مکین دل ہے ملال اس کا

 

بہت کٹھن ہے حیات اس کی

ہے رزق بے شک حلال اس کا

 

وہ خود بھی ہے بے نظیر ناقِدؔ

ہے درد بھی بے مثال اس کا

 

 

 

 

 

 

 

نہ دن ہیں سکوں کے نہ راحت کی راتیں

نہ گھڑیاں خوشی کی نہ فرحت کی راتیں

 

رہیں گی مجھے یاد وہ زندگی بھر

نہ بھولیں گی مجھ کو ریاضت کی راتیں

 

مری زندگی مثل فردوس ہو گی

اگر لوٹ آئیں وہ قربت کی راتیں

 

کروں تیری فرقت میں اختر شماری

نہیں ہیں مرے پاس فرصت کی راتیں

 

گزاری ہیں جو تیری صحبت میں ناقِدؔ

بڑی دل نشیں تھیں وہ چاہت کی راتیں

 

 

 

 

 

ترو تازہ رکھتے ہیں مجھ کو الم بھی

مجھے ہیں گوارا جہاں کے ستم بھی

 

زباں سے تو کرتے ہیں اقرارِ ایماں

مگر آستیں میں چھپے ہیں صنم بھی

 

مرا عزم ٹھہرا مری کامیابی

اگرچہ نہیں تو مرا ہم قدم بھی

 

نہیں رکھتے ثانی جہانِ ادب میں

کیے میں نے کچھ شعر ایسے رقم بھی

 

مجھے اپنی کٹیا پہ ہے ناز ناقِدؔ

یہی میری خاطر ہے باغِ ارم بھی

 

 

 

 

 

زمیں میں ہے نہ آسمانوں میں ہے

جو جذبہ ودیعت جوانوں میں ہے

 

جھپٹنے پلٹنے میں ہی لطف ہے

سکوں کب بھلا آشیانوں میں ہے

 

مجھے خوئے عشوہ طرازی نہیں

حقیقت سی میرے فسانوں میں ہے

 

میں اک استعارہ ہوں ہر عصر کا

مری داستاں سب زمانوں میں ہے

 

کہیں بھی نہ دل اپنا ناقِدؔ لگے

اذیت سی اک سب جہانوں میں ہے

 

 

 

 

 

تجھ کو میت بنانا مشکل

تیرا ساتھ نبھانا مشکل

 

من کی نیا ہر دم ڈولے

گیت خوشی کے گانا مشکل

 

تو عاری ہے قرب سے میرے

تجھ کو پاس بلانا مشکل

 

دل کی دھرتی دلدل ساری

روٹھا من پرچانا مشکل

 

تو ناقِدؔ ہے سانس کی ڈوری

تیری یاد بھلانا مشکل

 

 

 

 

 

قلب و خرد کی داستاں ہے شاعری

فکر و نظر کا بھی بیاں ہے شاعری

 

ہیں سوز سے جھلسے ہوئے اجسام بھی

ہے آگہی، حسنِ نہاں ہے شاعری

 

ہیں ماورا وجدان سے اس کی حدیں

کہ ایک بحرِ بے کراں ہے شاعری

 

ہیں ہیچ اس کے سامنے افلاک بھی

یوں رفعتوں کا اک نشاں ہے شاعری

 

میں اور ناقِدؔ اس کی بابت کیا کہوں؟

بس اک فغانِ خونچکاں ہے شاعری

 

 

 

 

 

چاہے جتنے غم بھی پاؤ

پھر بھی گیت خوشی کے گاؤ

 

آ پہنچا ہے قرب کا موسم

تم بھی تو ساغر چھلکاؤ

 

پیت ہے روگ کہا تھا ہم نے

اب چپکے سے نیر بہاؤ

 

روک کے رکھو وار زباں کا

نہ مل پائے گا یہ گھاؤ

 

جس کو ناقِدؔ سہہ نہ پاؤں

ایسا کوئی ظلم نہ ڈھاؤ

 

 

 

 

 

سدا میں نے پرسوز سی شاعری کی

نہ کی قدر تم نے مری آگہی کی

 

مصائب ملے ہیں تو دکھ بھی ملے ہیں

عطا ہے یہ اک شخص کی دوستی کی

 

جلے دوزخی جیسے دوزخ میں کوئی

جہاں میں ترے میں نے یوں زندگی کی

 

میں خائف نہیں ہوں کسی بھی ستم سے

عطا مجھ کو تقدیر نے بے کلی کی

 

کوئی غم بھی دم ساز میرا نہیں ہے

عنایت ہے ناقِدؔ یہی مفلسی کی

 

 

 

 

 

خود سے الجھنا چھوڑ دو

رونا بلکنا چھوڑ دو

 

میرا دیا سب موڑ دو

مجھے سے برتنا چھوڑ دو

 

بے سود ہے آہ و فغاں

دل کو سمجھنا چھوڑ دو

 

یہ شاخ ہے اونچی بہت

ناحق اچھلنا چھوڑ دو

 

یہ تشنگی جاتی نہیں

ناقِدؔ برسنا چھوڑ دو

 

 

 

 

 

سوچ سولی جگائے رکھتی ہے

غم کی لوری سنائے رکھتی ہے

 

ہوش کیا آئے؟ روپ کی دیوی

جام ہر دم پلائے رکھتی ہے

 

پاس آتی نہیں کبھی میرے

عذر کوئی بنائے رکھتی ہے

 

کیا توقع سکون کی اس سے؟

ایک محشر اٹھائے رکھتی ہے

 

اس کا طرفہ مزاج ہے ناقِدؔ

غم کو میرا بنائے رکھتی ہے

 

 

 

 

 

مرا فن ہے سچا بہت معتبر ہے

کہ اشعار میں آگہی ہے، اثر ہے

 

مشیت سے اخلاص پایا ہے میں نے

مجھے نفرتوں سے مفر ہے، حذر ہے

 

ستم سہتے سہتے جواں ہو گیا ہوں

مرا حوصلہ ہے یہ میرا جگر ہے

 

مجھے سوز کے تازیانے جو بخشے

وہی شخص تو میرا نورِ نظر ہے

 

نہیں ہے مہک مہر کی جس میں ناقِدؔ

ملا مجھ کو قسمت سے ایسا نگر ہے

 

 

 

غریبی میں نزاکت ہے قیامت

بڑھاپے میں محبت ہے قیامت

 

جلاتا ہے مجھے سوزِ محبت

مری خاطر تو خلوت ہے قیامت

 

خوشی ہی مار ڈالے گی مجھے تو

مری خاطر تو قربت ہے قیامت

 

مجھے ظلمت کا ڈر کیوں ہو ستم گر

مری خاطر صباحت ہے قیامت

 

الم ناقِدؔ سکوں ٹھہرا ہوا ہے

کہ اب تو میری راحت ہے قیامت

 

 

 

 

 

دل دھرتی پہ غم کا راج

سر پر میرے حزن کا تاج

 

یہ دنیا بے درد بڑی ہے

مالک خود ہی رکھنا لاج

 

برسوں سے مہمان ہے غربت

میرا کوئی کام نہ کاج

 

میرا ایک ہے ماویٰ ملجا

جس کا سارا جگ محتاج

 

سنگ صورت ہے دنیا ناقِدؔ

حسن میں جیسے ہے پکھراج

 

 

 

 

 

مرے سوئے عقبیٰ قدم بڑھ چلے

ہوئے ہیں مرے ختم سب فاصلے

 

یہ جیون بھی میرا اجیر ان کیا

مجھے زیست میں یار ایسے ملے

 

جہاں کے ستم کی شکایت نہ کی

رہے ہونٹ اپنے ہمیشہ سلے

 

مہک میری روح میں ہے تیری بسی

تری یاد کے پھول ایسے کھلے

 

مری تم نہ ناقِدؔ شکایت کرو

ترے لب پہ سجتے نہیں ہے گلے

 

 

 

 

 

چار دن کی چاندنی ہے زندگی

پھر کہاں حاصل ہمیں یہ روشنی؟

 

چارہ گر کوئی نہیں ہے اب مرا

ہے مری تقدیر میں ہی بے بسی

 

اور تو کوئی بھی غم اپنا نہیں

کر گئی برباد تیری کج روی

 

اب اندھیروں میں رہوں گا میں سدا

میری قسمت ہو گئی ہے تیرگی

 

اب کوئی بھی غم نہیں ناقِدؔ مجھے

ہاں مگر ظالم ہے ان کی بے رخی

 

 

 

 

 

ہے فکر مجھ کو جگائے رکھتی

مجھے ہے پیہم ستائے رکھتی

 

یادِ جاناں بھی مثل ساقی

ہے جام مجھ کو پلائے رکھتی

 

ہمارے بچے رہیں سلامت

یہ فکر ہم کو ہے کھائے رکھتی

 

مرا جگر بھی ہوا ہے چھلنی

ہے تیری فرقت جلائے رکھتی

 

ہے تیری چاہت بھی ٹھنڈی چھاؤں

ہے مجھ کو ناقِدؔ سلائے رکھتی

 

 

 

روح بے چین برہ کی ماری

فکر سہارے عمر گزاری

 

غم بھی اک نعمت ہے رب کی

کرتے ہو کیوں گریہ زاری؟

 

درشن کی سوغات عطا ہو

ہے اپنی یہ آس کنواری

 

میرا ہر دم رستہ دیکھے

گھر میں میری راج دلاری

 

ناقِدؔ اک پل چین کہاں ہے

سر پر میرے غم ہے بھاری

 

 

 

 

 

تو دل میں جو سما گیا

تو زندگی پہ چھا گیا

 

نہ بھول پایا جس کو میں

وہ کیوں مجھے بھلا گیا؟

 

ہے کیوں مجھے عزیز وہ

مرا جو دل دُکھا گیا

 

مٹا کے قربتیں سبھی

وہ فاصلے بڑھا گیا

 

نہ ناقِدِؔ حزیں ترا

پھر اک فریب کھا گیا

 

 

 

 

 

دلبر جو ہرجائی ہے

یاد اُسی کی آئی ہے

 

آنکھ مری بھر آئی ہے

ساون رُت رنگ لائی ہے

 

مہر و وفا کا پاس مجھے

دل میرا سودائی ہے

 

تم تو چھوڑ گئے رستے میں

میں نے پیت نبھائی ہے

 

نین بنے ہیں نیر کی ندیا

وہ ناقِدؔ قسمت پائی ہے

 

 

 

 

 

مرے رت جگے میری تفسیر ٹھہرے

پریشاں مقدر کی تحریر ٹھہرے

 

ترا نام دل میں سمایا ہے ایسے

کہ جیسے تصور میں تصویر ٹھہرے

 

تفکر بھی ہے اور جذبات بھی ہیں

مری معتبر کاش تقریر ٹھہرے

 

گراں لمحے جیون کے گزریں گے کیسے؟

مرے دل میں کوئی نہ تدبیر ٹھہرے

 

دلوں میں اتر جائیں افکار میرے

مرے ہر سخن میں وہ تاثیر ٹھہرے

 

جنہیں پاس ناقِدؔ ہو اپنی انا کا

وہی کربلا میں بھی شبیر ٹھہرے

 

 

 

 

 

کرو نہ اب اتنا تنگ جاناں

کہیں نہ ہو جائے جنگ جاناں

 

جدا نہ ہم ہوں گے تجھ سے ہرگز

رہیں گے تیرے ہی سنگ جاناں

 

سنے گا پھر کون میرا نغمہ

رباب ہے اب نہ چنگ جاناں

 

ہے میرے جیون کی کیا کہانی

نہ آس ہے نہ امنگ جاناں

 

ہماری ڈوریں تو کٹ چکی ہیں

اُڑاؤ اب تم پتنگ جاناں

 

ستم گزیدہ بہت ہے ناقِدؔ

نہ اس پہ برساؤ سنگ جاناں

 

 

 

 

 

ہیں منسوب حالات سے سب جفائیں

مرے سر پہ نازل ہوئی ہیں بلائیں

 

نہ اک بار بھی یار نے مڑ کے دیکھا

مسلسل میں دیتا رہا ہوں صدائیں

 

بدن بھی مرا گرم لو سے ہے جھلسا

یہاں گرم ایسی چلی ہیں ہوائیں

 

بتا دے ہمیں حال قسمت کا سارا

نجومی کوئی ایسا ہم بھی بلائیں

 

مرا پیار ناقِدؔ پنپنے نہ پایا

ہیں ناساز ایسی یہاں کی فضائیں

 

 

 

 

 

شام کو ڈھلتے سورج نے اک بات کہی تھی

صبح کو لوٹ آؤں گا یہ بات ہوئی تھی

میں کیوں جاتا آخر تنہا چھوڑ کے اس کو

وہ تو ہر دکھ درد میں میرے ساتھ رہی تھی

مل کر مجھ سے اس نے بھی اک بار کہا تھا

وقت کے جبر نے دوری کی یہ رت بخشی تھی

قریہ قریہ اس کا کوئی بھید نہ پایا

دامن پر گو راہ کی تھوڑی گرد جمی تھی

نین شراب کے مست کٹورے ہونٹ سبو تھے

تھوڑی تھوڑی بہکی بہکی وہ لگتی تھی

ہر لمحہ اک کرب کا لمحہ مضطر لمحہ

کیسے بھلاؤں فرقت کی وہ سخت گھڑی تھی

بھوکے پیاسے لوگ تھے دولت کی نگری کے

ان کی ناقِدؔ شاید قسمت ہی ایسی تھی

 

 

 

 

 

سدا زندگی کے الم لکھتے لکھتے

مرا تھک گیا ہے قلم لکھتے لکھتے

 

تراشا ہے میں نے تصور میں تم کو

غزل کی زباں میں صنم لکھتے لکھتے

 

تھا وہ پہلا زینہ مری آگہی کا

اٹھے تھے جو میرے قدم لکھتے لکھتے

 

قلم نے فقط نام تیرا لکھا ہے

تجھے جانِ جاناں بلم لکھتے لکھتے

 

یہی مشغلہ عمر بھر کا ہے ناقِدؔ

نکل جائے گا میرا دم لکھتے لکھتے

 

 

 

 

 

 

نہ غم کبھی کم ہوئے ہمارے

یہ لوگ بھی بے وفا ہیں سارے

وہ میکدوں کے مکین ٹھہرے

جہاں میں جتنے تھے غم کے مارے

ہوں میں مواحد مری یہ دھن ہے

نہ لوں کسی اور کے سہارے

کہا ہے جو بھی وہ سچ کہا ہے

ہمیں ملے غیب سے اشارے

جو قرض تھے ہم پہ قربتوں کے

نہ ہم سے وہ جا سکے اتارے

جو قربتوں میں بہم ہمیں تھے

 

 

 

 

کہاں گئے وہ حسیں نظارے

جو دار پر سر سجے ہمارے

تو میرا ماویٰ تو میرا ملجا

میں جی رہا ہوں  ترے سہارے

لبوں کی زینت ہے ذکر تیرا

ہماری دھڑکن تمہیں پکارے

رہیں گے تاباں سدا ابد تک

جو دل میں روشن ہوئے ستارے

جو میرا دامن جلا گئے ہیں

کہاں سے آئے تھے وہ شرارے

گناہ کر کے بھی معتبر ہو

قصور بھی کب ہوئے تمہارے

یقین جن کا نہیں ہے تم کو

جو مسجدوں کے بنے مُنارے

من تو پہلے ہی مضطرب تھا

رہے ہیں سوزاں بھی تن ہمارے

جہاں میں اپنا قیام ناقِدؔ

یہ چند انفاس ہیں اُدھارے

 

 

 

غزل در غزل ہے فسانہ تمہارا

ہوں میں  بھی تمہارا زمانہ تمہارا

 

مرے پاس آنے میں رسوائی کا ڈر

حسیں کس قدر ہے بہانہ تمہارا؟

 

ترا عشق جاناں مری زندگی ہے

رہے جاوداں عاشقانہ تمہارا

 

مجھے تیری فرقت میں غم ہی ملا ہے

ہے مہنگا پڑا دوستانہ تمہارا

 

نہ میں جانتا تھا تمہیں میرے ناقِدؔ

تعارف ہوا غائبانہ تمہارا

 

 

 

 

 

ظالم تھا تقدیر کا دھارا

میں نے مشکل وقت گزارا

 

تم سے کیا اعراض کروں گا

سوچ ہے میری رنگ تمہارا

 

تجھ سے روشن من دھرتی ہے

تو میرے آکاش کا تارا

 

نینوں کی سوغات ہے درشن

ہو جائے اب دان خدارا

 

دکھ ناقِدؔ ہیں ساتھی میرے

مجھ کو ہے ہر کرب گوارا

 

 

 

 

 

غم کے مارے

سنگ ہمارے

 

ہم بے چارے

ہیں دکھیارے

 

چاند سے نالاں

ہیں سب تارے

 

دل کی دھڑکن

میت پکارے

 

کون ہے رویا؟

دل تڑپا رے

 

 

 

 

 

مصائب نے بخشی مجھے بے کلی ہے

مرے ساتھ پیہم فقط بے خودی ہے

 

رفاقت نہیں ہے کسی اور کی اب

کہ دم ساز اب کے مری بے کسی ہے

 

میں دیوانہ پھرتا ہوں قریہ بہ قریہ

تری عاشقی بھی تو آوارگی ہے

 

پریشان و مضطر رہا ہوں میں ہر دم

مرے دلربا یہ تری بے رخی ہے

 

 

 

 

 

 

مرے آوارہ دل کو بھی قرار آئے

کسی دن تو تمہیں مجھ پہ بھی پیار آئے

 

چلے آؤ مری جانب مرے دلبر

مرے من میں بھی راحت کی بہار آئے

 

نہیں ہے مجھ کو پل بھر بھی سکوں حاصل

کہ رنج و غم قطار اندر قطار آئے

 

بہت سے لوگ بن جاتے ہیں پھر مخلص

اگر انساں کے چہرے پہ نکھار آئے

 

 

 

 

 

ترے قہر کی انتہا ہو گئی ہے

مری زندگی بھی سزا ہو گئی ہے

 

زمانے نے جس کو مری مرگ جانا

وہی موت میری بقا ہو گئی ہے

 

نیا عزم بخشا مجھے زندگی کا

جفا میری خاطر وفا ہو گئی ہے

 

ترا ہر ستم بھی گوارا ہے مجھ کو

تری ہر خطا بھی ادا ہو گئی ہے

 

 

 

 

 

 

حیات میں یوں نکھار لاؤ

اسے امین وفا بناؤ

 

میں تشنہ لب ہوں سدا سے ساقی

سو التجا ہے پیو پلاؤ

 

کلام ہم سے سنو ہمارا

ہمیں بھی اپنی غزل سناؤ

 

جو چاہتوں کی ضیا بکھیریں

جہاں میں ایسے دیے جلاؤ

 

 

 

 

 

 

غموں کی اک صلیب ہے

یہی میرا نصیب ہے

 

ہے ساتھ ساتھ بے بسی

سو بے کلی مہیب ہے

 

نہیں ہے پاس اک خوشی

حیات کچھ عجیب ہے

 

بچھڑ گیا تھا مجھ سے جو

وہ اب مرے قریب ہے

 

ہے موت جس کے ہاتھ میں

وہی مرا طیب ہے

 

 

 

جیتی جاگتی تصویریں کچھ کہتی ہیں

پیشانی کی تحریریں کچھ کہتی ہیں

 

لاکھ جگایا جاگ نہ پائی قسمت بھی

انہونی سی تدبیریں کچھ کہتی ہیں

 

پاپ کیے ہیں خوف بڑا ہے عقبیٰ کا

مجھ سے میری تقصیریں کچھ کہتی ہیں

 

 

 

 

 

دلِ ستم زدہ کو اپنے لے کے جائیں اب کہاں

نصیب میں سکوں نہیں ستم گروں کا ہے جہاں

 

بے بسی کا وقت ہے مہیب اپنا بخت ہے

اگرچہ سوز میں رہا ہوں بے اثر رہی فغاں

 

یوں بے کلی کا راج ہے کہ بے سکوں سماج ہے

فروغ بے حسی ہے یوں کہ سدھ نہیں کوئی یہاں

 

جہان کے الم بھی ہیں جناب کے ستم بھی ہیں

خوشی کہاں کہ قہر پر تلا ہوا ہے آسماں

 

 

 

 

 

نہ تخت ہے نہ تاج ہے

نہ اپنی کوئی لاج ہے

 

سکون ایک پل نہیں

کہ بے کلی کا راج ہے

 

ترا ہی اک خیال ہے

نہ کام ہے نہ کاج ہے

 

میں اک خلوص کیش ہوں

یہ بے وفا سماج ہے

 

ہیں لوگ پر جفا سبھی

ستم یہاں رواج ہے

 

 

 

 

نظمیں و قطعات

 

 

 

 

 

 

ملمع

 

ہیں رشتے سب کے سب جھوٹے

فقط جھوٹے فسانے ہیں

جو الفت کا حوالہ ہیں

سبھی باتیں کتابی ہیں

فقط مطلب کی دنیا ہے

نہیں  چاہت کسی میں بھی

یہاں سب یار جھوٹے ہیں

یہ دعوے دار جھوٹے ہیں

سبھی اظہار جھوٹے ہیں

یہاں مطلب پرستی ہے

یہاں  اک نفسا نفسی ہے

 

 

 

 

جبرِ کار

 

بے حد تھکا ہوا ہوں

کرنا ہے کام پھر بھی

یہ جبر کیا ہے مجھ سے

پیہم کرا رہا ہے

ہر آن ایک محنت

ہر دم نئی ریاضت

جیون ہے اک مشقت

 

 

رکاوٹ

 

وہ بھی چاہت کی متوالی

میں بھی زندہ دل ٹھہرا ہوں

وہ بھی چاہے قرب کی لذت

میں بھی چاہوں وصل کی دولت

اک دیوار ہے بیچ میں حائل

وہ دیوار گرائے کون؟

 

 

 

 

ایمان رُبا

 

قاتل تری ادا ہے

ظالم ہے چال تیری

اک حسن ہے سراپا

اک محشرِ مجسم

دلبر جمال تیرا

دیکھوں جو تجھ کو جاناں

ایماں بھی میرا ڈولے

شیطاں سے کم نہیں ہے

ساجن تیری صباحت

 

 

 

 

بازیِ قسمت

 

کھیل نصیب کے ہیں یہ سارے

کسی نے کتنا نام کمایا؟

سب قصے قسمت کے قصے

کس کے حصے میں کیا آیا؟

 

 

 

 

کیا ہو گا؟

سنتے ہی تو خوف آتا ہے

دیکھیں گے تو پھر کیا ہو گا؟

روتے دیکھ کے غم ہوتا ہے

خود روئیں گے تو کیا ہو گا؟

مرتا دیکھ کے ڈر جاتے ہیں

مر جائیں گے تو کیا ہو گا؟

 

 

 

فکرِ عاقبت

 

جہاں کے جادو میں کھو کے میں عاقبت ہی اپنی بگاڑ بیٹھا

خدا کے احکام بھول کر میں فضول کاموں میں کھو گیا ہوں

ہوا ہوں دن رات غم میں غلطاں سکوں سے بھی میں ہوا ہوں عاری

سو اس لیے ہیں سبھی مصائب مرا مقدر

دعا ہے ربِ کریم سے یہ مجھے وہ شوق و شعور بخشے

وہ زندگی میں نکھار آئے مجھے سکون و قرار آئے

 

 

 

 

عرض داشت

 

مجھے کچھ بخش دے قربت کے لمحے بھی

تری نگری میں واپس پھر نہ آؤں گا

ملن ممکن نہ ہو گا پھر کبھی اپنا

مری خواہش فقط فقط اک وصل تیرا

مرے جیون میں اک ساعت تو ایسی ہو

مری یادوں میں تیرے وصل کا بھی کچھ تو حصہ ہو

مجھے مارو نہ اب اپنی اداؤں سے

کرو اب شادماں اپنی وفاؤں سے

 

 

 

قطعہ

 

تیرے لیے زمانہ

ہم نے بھلا دیا ہے

افسوس تو یہی ہے

تو نے دغا کیا ہے

 

 

 

 

اپنائیت

 

میں نے تجھ کو چاہا پیار کیا ہے

تیری چاہت میں ہی میں نے ساری عمر گزاری

تیرا عشق مرا سرمایہ

تو میرے جیون کا گہنا تو ہی میرا سپنا

میں نے تجھ کو غیر نہ جانا بلکہ سمجھا اپنا

 

 

فضل پروردگار

 

قلم اس نے بخشا ہے احسان رب کا

مری آگہی بھی اسی کی عطا ہے

یہ سب فکر و فن ہے نوازش اسی کی

سبھی رونقوں کو ہے نسبت اسی سے

مرے وصف سارے اسی کی بدولت

رویے

 

میں نے من کی راحت پائی

اپنے تن کا چین گنوایا

ہر لمحے سے کرب ہے پایا

لیکن میں نے دل جیتے ہیں

خود کو کھو کر چاہت پائی

میری روح نے فرحت پائی

میں نے کیسی قسمت پائی

 

 

 

قطعہ

 

ہم بھی صبر کا پھل پائیں گے

آج نہیں تو کل پائیں گے

ظلم کا طوفاں تھم جائے گا

غم کے سائے ڈھل جائیں گے

 

 

 

 

التجائے کرم

 

دعائیں مری بے اثر جا رہی ہیں

کہ بگڑے پڑے ہیں مرے کام سارے

نہیں بہتری کے بھی آثار باقی

نہ مونس ہیں میرے نہ غم خوار باقی

ہے رحمت کا تیری طلب گار باقی

وفاؤں کا خوگر وفادار باقی

ترے اک کرم کی نظر چاہیے اب

دعاؤں کو میری اثر چاہیے اب

 

 

 

 

قطعہ

 

مری بے گناہی سزا بن گئی ہے

وفا میری خاطر جفا بن گئی ہے

سمجھ بیٹھا تھا جس کو اپنی بقا میں

وہی اب کے میری قضا بن گئی ہے

 

 

 

 

عہد

 

سدا تم جفائیں ہی کرتے رہے ہو

کبھی تم نے اطوار بدلے نہ اپنے

نہ پورا ہوا میرا الفت کا سپنا

تری ضد نے اکثر پریشاں کیا ہے

ستم زندگی پر فراواں ہوا ہے

جفاؤں کو ڈھالا ہے تو نے انا میں

مری ذات پیہم رہی ہے سزا میں

تری یہ جفائیں بھی ہیں جان لیوا

کروں گا سدا پھر بھی میں  تیری سیوا

 

 

 

 

مد ہوش

 

فٹ پاتھوں پر

زندہ لاشے

سرگرداں ہیں

ہوش کہاں ہیں

 

 

 

 

رت البیلی

 

دشت و بن میں رنگینی ہے

مست بہاریں جوبن پر ہیں

بلبل گائے گیت سریلے

کوئل کو کو ورد بنائے

پی پی مست پپیہا گائے

تم بھی پیت کے نغمے گاؤ

آ پہنچی ہے رت البیلی

 

سورکھشا

 

 

میرا ہنسنا دیس کی خاطر دیس کی خاطر رونا

میرا مرنا دیس کی خاطر دیس کی خطر جینا

میری آن بھی دیس کی خاطر

میری جان بھی دیس کی خاطر

اپنا سب کچھ دیس ہے یارو

مل کر اس کو خوب سنوارو

 

نا آشنا

 

غمِ ہجر میں اس قدر تم نے تڑپو

یہ تنہائی بھی تو ہے جیون کا حصہ

ذرا دوریاں بھی تو ہوتی ہیں لازم

جدائی بھی ہے باعثِ وصل اکثر

کہ تم تو ہو ناداں اے راحتِ جاں

تمہیں کیا خبر ہے کہ تم بے خبر ہو

 

 

 

فگار لمحے

 

مری عیدیں بھی تنہا ہیں

تری عیدوں میں تنہائی

مری صبحیں بھی مضطر ہیں

تری شامیں بھی بے کل ہیں

نہ تو شاداں نہ میں فرحاں

یہی اپنا مقدر ہے

مقدر ہی ستم گر ہے

 

 

احساسِ فرض

 

گرما میں گرمی سے خائف

سرما میں سردی سے لرزاں

ہر موسم سے جنگ کرتا ہوں

اپنے آپ کو تنگ کرتا ہوں

ہر موسم سے جنگ ہے جاری

کب میں نے یہ جنگ ہے ہاری؟

چین سے مجھ کو رہنے نہ دے

فرض مجھے بے چین کیے ہے

 

 

 

 

احتیاط

 

مجھے غصے سے نفرت ہے مگر غصے بھی ہوتا ہوں

کوئی موقع مجھے مت دو کہ آ جائے مجھے غصہ

نہ ہو افسوس مجھ کو بھی

نہ ہو افسوس تجھ کو بھی

خوشی میں وقت گزرے سب

مسرت میں محبت ہے

 

 

 

 

 

آشوبِ ہستی

 

مری زندگی میں مصائب بڑے ہیں

نہیں ہے مسرت نہیں شادمانی

عطا کی مسائل نے مجھ کو گرانی

میں ہر پل مسرت سے عاری رہا ہوں

گراں ہے مری فکر میرے لیے بھی

مرا مثلِ سکرات جیون ہوا ہے

مرا لمحہ لمحہ اجیرن ہوا ہے

غموں سے عبارت رہی زندگانی

بے چین و بے خود ہے میری کہانی

 

 

 

قطعہ

 

تمہیں صحرا نہیں ملتا

ہمیں دریا نہیں ملتا

یہاں سارے معزز ہیں

کوئی رسوا نہیں ملتا

 

 

 

آدرش

 

سدا بات منوائی ہے تم نے اپنی

کوئی بات بھی ماننے سے ہو عاری

اسی ضد میں جیون بسر ہو گیا ہے

اگر تم بھی مانو گے کچھ عرض میری

تو میں بھی حمایت کروں گا تمہاری

تمہیں کاش ادراک اس بات کا ہو

ہے جیون تعاون برائے تعاون

 

 

 

سرفروش

 

کفن میں مرا سارا گزرا ہے جیون

عدو پاس میرے بھٹکنے نہ پایا

نہیں مرگ کی بھی شناسائی مجھ سے

رواں ہوں سدا اپنی دھن میں ہی میں تو

سفر میرا گرچہ بہت ہی کٹھن ہے

مگر مشکلوں کو میں سر کر چکا ہوں

میں خود کو بھی اب کے امر کر چکا ہوں

 

 

 

ملالِ مایہ

 

جیون میرا سوچ کی سولی

ہر پل میرا کرب میں گزرا

اک لمحے کو چین نہ پایا

بے چینی ہے جیون مایا

میں نے کچھ یوں عمر گزاری

 

 

 

 

دوامِ اضطراب

 

جو الفتوں میں ہوئے ہیں ویراں

نگر دلوں کے

انہیں نہ قسمت نے چین بخشا

رہے ابد تک

سدا پریشان و مضطرب وہ

 

 

 

مشکل موڑ

 

ستم ڈھائے ہیں اہلِ دنیا نے ایسے

کہ آساں نہیں زندگی کا سفر بھی

ہوں میں زندگی کے اس موڑ پر اب

جہاں سانس لینا بھی ہے اک اذیت

 

 

حسنِ زیست

 

جو گزرے تیری قربت میں

وہ جیون خوب صورت ہے

تری بانہوں میں گزریں جو

وہ لمحے خوب صورت ہیں

سدا دیکھیں ترا رستہ

ترا چہرہ

ترا جلوہ

وہ آنکھیں با مقدر ہیں

 

 

 

احساس

 

وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں

جو شام ڈھلے سو جاتے ہیں

میں شب بھر جاگتا رہتا ہوں

اک یاد میں آہیں بھرتا ہوں

نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں

بس پیار کا ہی دم بھرتا ہوں

ہر وقت یہ ذکر زباں پہ ہے

کچھ پیار کا مجھ کو قرب ملے

سکھ چین ملے، نہ کرب ملے

 

 

 

 

توجہ

 

مرے پاس آؤ مرے پاس بیٹھو

مرا دل ہے غمگیں، تمہیں پیار کر لوں

میں چاہت کی باتیں بھی دو چار کر لوں

 

 

 

 

 

احساسِ حریت

 

حیدر کی تلوار بھی ہم ہیں

ٹیپو کی للکار بھی ہم ہیں

کرتے کاری وار بھی ہم ہیں

مرد جواں جی دار بھی ہم ہیں

اک لشکر جرار بھی ہم ہیں

ہم ہیں مسلم اور نمازی

ہم ہیں اپنے عہد کے غازی

 

 

 

 

افتخار

 

وجود میرا ہے کرب کا ایک استعارہ

یہ کرب بھی ہے جہاں  میں اک لازوال دولت

مجھے اسی نے امر کیا ہے

یہی بقا ہے جہاں میں میری، مرے ہنر کی

بنا دیا ہے مجھے جہاں میں اسی نے ناقِدؔ

اسی کے باعث سخن مرا بے نظیر ٹھہرا

 

 

 

غلط فہمی

 

مجھے بے وفائی کا الزام نہ دو

ستم اس سے بڑھ کر نہیں اور کوئی

جو تھوڑا سا اعراض تم سے ہوا ہے

اسے میری مجبوریاں ہی سمجھنا

تقاضے بھی جیون کے ہوتے ہیں کچھ تو

انہیں تم نہ دوری سمجھنا مری جاں

کہ مجبوریوں کو بھی نسبت ہے مجھ سے

ہو مجبوریوں سے بری تم یقیناً

مجھے اس لیے بے وفا کہہ رہی ہو

یہ مجبوریاں مجھ پہ الزام ٹھہریں

کہ میری وفائیں بھی بدنام ٹھہریں

 

 

 

 

 

بیراگ

 

نگر نگر کا ہوں میں مسافر

گلی گلی کی ہے خاک چھانی

مسافتوں کی میں گرد ٹھہرا

ابھی ہے منزل بعید مجھ سے

کٹھن سفر خود ہے میری ہستی

گریز پا میں ہوں زندگی سے

نہ کوئی نسبت مجھے خوشی سے

 

 

 

 

جہانِ اضطراب

 

ہے رتجگوں کا فگار موسم

اداس ہیں لمحے بے کلی کے

فراق رت کی ہیں کرب گھڑیاں

مصیبتوں کا سماں جہاں ہے

سکون اک پل مجھے کہاں ہے

مری اذیت سدا جواں ہے

 

 

تفاوت

 

مجھے جن سے محبت تھی

انہیں بھی مجھ سے الفت تھی

مجھے وہ مل نہیں پائے

انہیں میں مل نہیں پایا

ملے ہیں جو مجھے اب کے

انہیں الفت نہیں مجھ سے، مجھے رغبت نہیں ان سے

وہ خوگر ہیں جفاؤں کے، میں رسیا ہوں وفاؤں کا

تفاوت دور ہو کیسے؟

 

 

 

ضعفِ ہستی

 

مرا جسم ہے میرے اعضا سے بوجھل

گریزاں ہوں میں اس لیے زندگی سے

نہ چلنے کی طاقت نہ رکنا ہے بس میں

مجھے کھینچتی ہے مگر زندگانی

نہ تم پاؤ گے سن مری یہ کہانی

 

 

 

بیادِ ڈاکٹر خیال امروہوی

 

 

تری آفرینش تھی اوروں کی خاطر

ترا جینا مرنا تھا اوروں کی خاطر

نہ تھی کوئی تخصیص تیری نظر میں

کہ تو سب کی خاطر تھا تو سب کا خادم

نہ تھی تیری خاطر تری زندگانی

ادب کی سدا تو نے کی ترجمانی

 

 

خلافِ فطرت

 

میں کچھ اور کرنے تھا آیا جہاں میں

مگر اور ہی کچھ کرایا جہاں نے

سو دونوں مگر کام اب کے ہیں جاری

ہے یہ امر باعث مری بے کلی کا

کوئی کام بھی ڈھب سے کرنے نہ پاؤں

میں جینے نہ پاؤں میں مرنے نہ پاؤں

 

 

الائیڈ بینک تونسہ شریف

 

سب سے اچھا بینک ہمارا

اس کی سروس سب سے اعلیٰ

 

خدمت میں مصروف ہے ہر دم

راہِ ترقی پر ہے پیہم

 

اسٹاف اچھے اخلاص کا حامل

اپنے اپنے کام میں کامل

 

بے حد اچھا اس کا منیجر

اخلاص میں سب سے بہتر برتر

 

کھاتے دار ہیں اس کے شائق

سب کی توجہ کے ہیں لائق

 

آؤ ہم اس کو اپنائیں

اس میں ہی کھاتہ کھلوائیں

 

 

کاوش بیٹا!

 

کاوش مجھ کو پیارا ہے

سب کی آنکھ کا تارا ہے

 

یہ اکلوتا بیٹا ہے

سب کا ایک سہارا ہے

 

ماں کے جگر کا ٹکڑا ہے

باپ کا بھی یہ لاڈلا ہے

 

روز اسکول یہ جاتا ہے

ذمیہ کام بھی کرتا ہے

 

شوق سے لکھتا پڑھتا ہے

علم سے الفت کرتا ہے

 

اسے ڈاکٹر بننا ہے

قوم کی خدمت کرنا ہے

 

 

 

بے وفائی

 

تیری خاطر دنیا چھوڑی

سب اپنے بیگانے چھوڑے

دیوانے فرزانے چھوڑے

سب سے اپنا رشتہ توڑا

اک تجھ سے ہی ناتا جوڑا

لیکن تو نکلا ہرجائی

واہ رے کیسی پیت نبھائی

٭٭٭

تشکر: ناشر ناصر ملک، اردو سخن جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل