FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

دھوپ کا صندل

 

 

                راحت اندوری

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

(یہ ای بک برقی کتابوں میں دستیاب ای بک سے ترمیم او اضافہ شدہ ہے )

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے

چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے

 

ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر

یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے

 

لہولہان پڑا تھا زمیں پہ اک سورج

پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے

 

زمیں پہ آ گئے آنکھوں سے ٹوٹ کر آنسو

بری خبر ہے فرشتے خطائیں کرنے لگے

 

جھلس رہے ہیں یہاں چھاؤں بانٹنے والے

وہ دھوپ ہے کہ شجر التجائیں کرنے لگے

 

عجیب رنگ تھا مجلس کا، خوب محفل تھی

سفید پوش اٹھے کائیں کائیں کرنے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

انتظامات نئے سر سے سنبھالے جائیں

جتنے کم ظرف ہیں محفل سے نکالے جائیں

 

میرا گھر آگ کی لپٹوں میں چھپا ہے لیکن،

جب مزا ہے ترے آنگن میں اجالے جائیں

 

غم سلامت ہے تو پیتے ہی رہیں گے لیکن،

پہلے میخانے کے حالات سنبھالے جائیں

 

خالی وقتوں میں کہیں بیٹھ کے رولیں یارو،

فرصتیں ہیں تو سمندر ہی کھنگالے جائیں

 

خاک میں یوں نہ ملا ضبط کی توہین نہ کر،

یہ وہ آنسو ہیں جو دنیا کو بہا لے جائیں

 

ہم بھی پیاسے ہیں یہ احساس تو ہو ساقی کو،

خالی شیشے ہی ہواؤں میں اچھالے جائیں

 

آؤ بستی میں نئے دوست بنائیں راحت

آستینوں میں چلو سانپ ہی پالے جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے

یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے

 

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

 

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن

ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

 

ہمارے منھ سے جو نکلے وہی صداقت ہے

ہمارے منھ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

 

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

 

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں

ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اڑا بھی نہ سکوں

 

پھونک ڈالوں گا کسی روز یہ دل کی دنیا

یہ ترا خط تو نہیں ہے کہ جلا بھی نہ سکوں

 

میری غیرت بھی کوئی شے ہے کہ محفل میں مجھے

اس نے اس طرح بلایا ہے کہ جا بھی نہ سکوں

 

اک نہ اک روز کہیں ڈھونڈھ ہی لوں گا تجھ کو

ٹھوکریں زہر نہیں ہیں کہ میں کھا بھی نہ سکوں

 

پھل تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن

اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتہ دیتے تھے

خاک مٹھی میں اٹھاتے تھے، اڑا دیتے تھے

 

بے ثمر جان کے ہم کاٹ چکے ہیں جن کو

یاد آتے ہیں کہ بیچارے ہوا دیتے تھے

 

اس کی محفل میں وہی سچ تھا وہ جو کچھ بھی کہے

ہم بھی گونگوں کی طرح ہاتھ اٹھا دیتے تھے

 

اب مرے حال پہ شرمندہ ہوئے ہیں وہ بزرگ

جو مجھے پھولنے پھلنے کی دعا دیتے تھے

 

اب سے پہلے کے جو قاتل تھے بہت اچھے تھے

قتل سے پہلے وہ پانی تو پلا دیتے تھے

 

وہ ہمیں کوستا رہتا تھا زمانے بھر میں

اور ہم اپنا کوئی شعر سنا دیتے تھے

 

گھر کی تعمیر میں ہم برسوں رہے ہیں پاگل

روز دیوار اٹھاتے تھے، گرا دیتے تھے

 

ہم بھی اب جھوٹ کی پیشانی کو بوسہ دیں گے

تم بھی سچ بولنے والوں کے سزا دیتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آنکھ پیاسی ہے کوئی منظر دے،

اس جزیرے کو بھی سمندر دے

 

اپنا چہرہ تلاش کرنا ہے،

گر نہیں آئنہ تو پتھر دے

 

بند کلیوں کو چاہئیے شبنم،

ان چراغوں میں روشنی بھر دے

 

پتھروں کے سروں سے قرض اتار،

اس صدی کو کوئی پیمبر دے

 

قہقہوں میں گزر رہی ہے حیات،

اب کسی دن اداس بھی کر دے

 

پھر نہ کہنا کہ خودکشی ہے گناہ،

آج فرصت ہے فیصلہ کر دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب

چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب

 

جس دن سے تم روٹھیں مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں

چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستروستر سب

 

مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے

پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور ویور سب

 

آخر میں کس دن ڈوبوں گا فکریں کرتے ہیں

کشتی وشتی، دریا وریا لنگر ونگر سب

٭٭٭

 

 

 

 

ایک دن دیکھ کر اداس بہت

آ گئے تھے وہ میرے پاس بہت

 

خود سے میں کچھ دنوں سے مل نہ سکا

لوگ رہتے ہیں آس پاس بہت

 

اب گریباں بدست ہو جاؤ

کر چکے ان سے التماس بہت

 

کس نے لکھا تھا شہر کا نوحہ

لوگ پڑھ کر ہوئے اداس بہت

 

اب کہاں ہم سے پینے والے رہے

ایک ٹیبل پہ اک گلاس بہت

 

تیرے اک غم نے ریزا ریزا کیا

ورنہ ہم بھی تھے غم شناس بہت

 

کون چھانے لغٖات کا دریا

آپ کا ایک اقتباس بہت

 

زخم کی اوڑھنی، لہو کی قمیض

تن سلامت رہے لباس بہت

٭٭٭

 

 

 

 

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

تیری ہر بات پہ آمین کہا ہے میں نے

 

تیری دستار پہ تنقید کی ہمت تو نہیں

اپنی پاپوش کو قالین کہا ہے میں نے

 

مصلحت کہیئے اسے یا کہ سیاست کہیئے

چیل کوؤں کو بھی شاہین کہا ہے میں نے

 

ذائقے بارہا آنکھوں میں مزا دیتے ہیں

بعض چہروں کو بھی نمکین کہا ہے میں نے

 

تو نے فن کی نہیں شجرے کی حمایت کی ہے

تیرے ایجاز کو توہین کہا ہے میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

کتنی پی کیسے کٹی رات مجھے ہوش نہیں

رات کے ساتھ گئی بات مجھے ہوش نہیں

 

مجھ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جانا ہے کہاں

تھام لے کوئی میرا ہاتھ مجھے ہوش نہیں

 

آنسؤں اور شرابوں میں گزاری ہے حیات

میں نے کب دیکھی تھی برسات مجھے ہوش نہیں

 

جانے کیا ٹوٹا ہے پیمانہ کہ دل ہے میرا

بکھرے بکھرے ہیں خیالات مجھے ہوش نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کسی آہو کے لئے دور تلک مت جانا

شاہ زادے کہیں جنگل میں بھٹک مت جانا

 

امتحاں لیں گے یہاں صبر کا دنیا والے

میری آنکھو! کہیں ایسے میں چھلک مت جانا

 

زندہ رہنا ہے تو سڑکوں پہ نکلنا ہو گا

گھر کے بوسیدہ کواڑوں سے چپک مت جانا

 

قینچیاں ڈھونڈھتی پھرتی ہیں بدن خوشبو کا

خارِ صحرا کہیں بھولے سے مہک مت جانا

 

اے چراغو تمہیں جلنا ہے سحر ہونے تک

کہیں منہ زور ہواؤں سے چمک مت جانا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تو شبدوں کا داس رے جو گی

تیرا کہاں وشواس رے جو گی

 

اک دن وش کا پیالہ پی جا

پھر نہ لگے گی پیاس رے جو گی

 

یہ سانسوں کا بندی جیون

کس کو آیا راس رے جو گی

 

ودھوا ہو گئی ساری نگری

کون چلا بن باس رے جو گی

 

پور آئی تھی من کی ندیا

بہہ گئے سب احساس رے جو گی

 

اک پل کے سکھ کی کیا قیمت

دکھ ہیں بارہ ماس رے جو گی

 

بستی پیچھا کب چھوڑے گی

لاکھ دھرے سنیاس رے جو گی

٭٭٭

 

 

 

 

گلاب، خواب، دوا، زہر، جام کیا کیا ہے

میں آ گیا ہوں بتا انتظام کیا کیا ہے

 

فقیر، شاہ، قلندر، امام کیا کیا ہے

تجھے پتہ نہیں تیرا غلام کیا کیا ہے

 

امیر شہر کے کچھ کاروبار یاد آئے

میں رات سوچ رہا تھا حرام کیا کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھوٹی بلندیوں کا دھواں پار کر کے آ

قد ناپنا ہے میرا تو چھت سے اتر کے آ

 

اس پار منتظر ہیں تیری خوش نصیبیاں

لیکن یہ شرط ہے کہ ندی پار کر کے آ

 

کچھ دور میں بھی دوشِ ہوا پر سفر کروں

کچھ دور تو بھی خاک کی صورت بکھر کے آ

 

میں دھول میں اٹا ہوں مگر تجھ کو کیا ہوا

آئینہ دیکھ، جا، ذرا گھر جا، سنور کے آ

 

سونے کا رتھ فقیر کے گھر تک نہ آئے گا

کچھ مانگنا ہے ہم سے تو پیدل اتر کے آ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے

 

ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے

وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے

 

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے

چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کر کے

 

میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی

تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو دل جلایا تو انجام کیا ہوا میرا

لکھا ہے تیز ہواؤں نے مرثیہ میرا

 

کہیں شریف نمازی کہیں فریبی پیر

قبیلہ میرا نسب میرا سلسلہ میرا

 

کسی نے زہر کہا ہے کسی نے شہد کہا

کوئی سمجھ نہیں پاتا ہے ذائقہ میرا

 

میں چاہتا تھا غزل آسمان ہو جائے

مگر زمین سے چپکا ہے قافیہ میرا

 

میں پتھروں کی طرح گونگے سامعین میں تھا

مجھے سناتے رہے لوگ واقعہ میرا

 

اسے خبر ہے کہ میں حرف حرف سورج ہوں

وہ شخص پڑھتا رہا ہے لکھا ہوا میرا

 

جہاں پہ کچھ بھی نہیں ہے وہاں بہت کچھ ہے

یہ کائنات تو ہے خالی حاشیہ میرا

 

بلندیوں کے سفر میں یہ دھیان آتا ہے

زمین دیکھ رہی ہو گی راستہ میرا

٭٭٭

 

 

 

 

دھوپ بہت ہے موسم جل تھل بھیجو نا

بابا میرے نام کا بادل بھیجو نا

 

مولسری کی شاخوں پر بھی دئیے جلیں

شاخوں کا کیسریا آنچل بھیجو نا

 

ننھی منی سب چہکاریں کہاں گئیں

موروں کے پیروں کی پائل بھیجو نا

 

بستی بستی دہشت کس نے بو دی ہے

گلیوں بازاروں کی ہلچل بھیجو نا

 

سارے موسم ایک امس کے عادی ہیں

چھاؤں کی خوشبو، دھوپ کا صندل بھیجو نا

 

میں بستی میں آخر کس سے بات کروں

میرے جیسا کوئی پاگل بھیجو نا

٭٭٭

 

 

 

 

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں

سب اپنے چہروں پہ دہری نقاب رکھتے ہیں

 

ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے

ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں

 

بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں

اسی میں خوش ہیں کہ تیری کتاب رکھتے ہیں

 

یہ میکدہ ہے، وہ مسجد ہے، وہ ہے بت خانہ

کہیں بھی جاؤ فرشتے حساب رکھتے ہیں

 

ہمارے شہر کے منظر نہ دیکھ پائیں گے

یہاں کے لوگ تو آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

 

موت کا زہر ہے فضاؤں میں،

اب کہاں جا کے سانس لی جائے

 

بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا،

یہ ندی کیسے پار کی جائے

 

میرے ماضی کے زخم بھرنے لگے،

آج پھر کوئی بھول کی جائے

 

بوتلیں کھول کے تو پیں برسوں،

آج دل کھول کے بھی پی جائے

٭٭٭

 

 

 

 

تیرگی چاند کے زینے سے سحر تک پہنچی

زلف کندھے سے جو سرکی تو کمر تک پہنچی

 

میں نے پوچھا تھا کہ یہ ہاتھ میں پتھر کیوں ہے

بات جب آگے بڑھی تو مرے سر تک پہنچی

 

میں تو سویا تھا مگر بارہا تجھ سے ملنے

جسم سے آنکھ نکل کر ترے گھر تک پہنچی

 

تم تو سورج کے پجاری ہو تمہیں کیا معلوم

رات کس حال میں کٹ کٹ کے سحر تک پہنچی

 

ایک شب ایسی بھی گزری ہے خیالوں میں ترے

آہٹیں جذب کیے رات سحر تک پہنچی

٭٭٭

 

 

 

دھوکہ مجھے دئیے پہ ہوا آفتاب کا

ذکرِ شراب میں بھی ہے نشہ شراب کا

 

جی چاہتا ہے بس اسے پڑھتے ہی جائیے

چہرہ ہے یا ورق ہے خدا کی کتاب کا

 

سورج مکھی کے پھول سے شاید پتہ چلے

منھ جانے کس نے چوم لیا آفتاب کا

 

مٹی تجھے سلام کہ تیرے ہی فیض سے

آنگن میں لہلہاتا ہے پودا گلاب کا

 

اٹھو اے چاند تارو! اے شب کے سپاہیو!

آواز دے رہا ہے لہو آفتاب کا

٭٭٭

 

 

 

 

جو منصبوں کے پجاری پہن کے آتے ہیں

کلاہ طوق سے بھاری پہن کے آتے ہیں

 

امیر شہر تری طرح قیمتی پوشاک

مری گلی میں بھکاری پہن کے آتے ہیں

 

یہی عقیق ہے شاہی کے تاج کی زینت

جو انگلیوں میں مداری پہن کے آتے ہیں

 

عبادتوں کی حفاظت بھی ان کے ذمے ہے

جو مسجدوں میں سفاری پہن کے آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

پرانے شہروں کے منظر نکلنے لگتے ہیں

زمیں جہاں بھی کھلے گھر نکلنے لگتے ہیں

 

میں کھولتا ہوں صدف موتیوں کے چکر میں

مگر یہاں بھی سمندر نکلنے لگتے ہیں

 

حسین لگتے ہیں جاڑوں میں صبح کے منظر

ستارے دھوپ پہن کر نکلنے لگتے ہیں

 

برے دنوں سے بچانا مجھے میرے مولیٰ

قریبی دوست بھی بچ کر نکلنے لگتے ہیں

 

بلندیوں کا تصور بھی خوب ہوتا ہے

کبھی کبھی تو مرے پر نکلنے لگتے ہیں

 

اگر خیال بھی آئے کہ تجھ کو خط لکھوں

تو گھونسلوں سے کبوتر نکلنے لگتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

پیشانیوں پہ لکھے مقدر نہیں ملے

دستار کیا ملیں گے جہاں سر نہیں ملے

 

آوارگی کو ڈوبتے سورج سے ربط ہے،

مغرب کے بعد ہم بھی تو گھر پر نہیں ملے

 

کل آئینوں کا جشن ہوا تھا تمام رات،

اندھے تماش بینوں کو پتھر نہیں ملے

 

میں چاہتا تھا خود سے ملاقات ہو مگر،

آئینے میرے قد کے برابر نہیں ملے

 

پردیس جا رہے ہو تو سب دیکھتے چلو،

ممکن ہے واپس آؤ تو یہ گھر نہیں ملے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئیے

وہ پینا چاہتا ہے پلا دینی چاہئیے

 

اللہ برکتوں سے نوازے گا عشق میں

ہے جتنی پونجی پاس لگا دینی چاہئیے

 

یہ دل کسی فقیر کے حجرے سے کم نہیں

دنیا یہیں پہ لا کے چھپا دینی چاہئیے

 

میں پھول ہوں تو پھول کو گل دان ہو نصیب

میں آگ ہوں تو آگ بجھا دینی چاہئیے

 

میں خواب ہوں تو خواب سے چونکائییے مجھے

میں نیند ہوں تو نیند اڑا دینی چاہئیے

 

میں جبر ہوں تو جبر کی تائید بند ہو

میں صبر ہوں تو مجھ کو دعا دینی چاہئیے

 

میں تاج ہوں تو تاج کو سر پہ سجائیں لوگ

میں خاک ہوں تو خاک اڑا دینی چاہئیے

 

سچ بات کون ہے جو سرِ عام کہہ سکے

میں کہہ رہا ہوں مجھ کو سزا دینی چاہئیے

 

سودا یہیں پہ ہوتا ہے ہندوستان کا

سنسد بھون میں آگ لگا دینی چاہئیے

٭٭٭

 

 

 

 

مسجدوں کے صحن تک جانا بہت دشوار تھا

دیر سے نکلا تو میرے راستے میں دار تھا

 

اپنے ہی پھیلاؤ کے نشے میں کھویا تھا درخت،

اور ہر معصوم ٹہنی پر پھلوں کا بار تھا

 

دیکھتے ہی دیکھتے شہروں کی رونق بن گیا،

کل یہی چہرہ تھا جو ہر آئینے پر بار تھا

 

سب کے دکھ سکھ اس کے چہرے پہ لکھے پائے گئے،

آدمی کیا تھا ہمارے شہر کا اخبار تھا

 

اب محلے بھر کے دروازوں پہ دستک ہے نصیب،

اک زمانہ تھا کہ جب میں بھی بہت خوددار تھا

 

کاغذوں کی سب سیاہی بارشوں میں دھل گئی،

ہم نے جو سوچا ترے بارے میں سب بیکار تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرے کاروبار میں سب نے بڑی امداد کی

داد لوگوں کی، گلا اپنا، غزل استاد کی

 

اپنی سانسیں بیچ کر میں نے جسے آباد کی

وہ گلی جنت تو اب بھی ہے مگر شداد کی

 

عمر بھر چلتے رہے آنکھوں پہ پٹّی باندھ کر

زندگی کو ڈھونڈھنے میں زندگی برباد کی

 

داستانوں کے سبھی کردار گم ہونے لگے

آج کاغذ چنتی پھرتی ہے پری بغداد کی

 

اک سلگتا چیختا ماحول ہے اور کچھ نہیں

بات کرتے ہو یگانہ کس امین آباد کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ زندگی سوال تھی جواب مانگنے لگے

فرشتے آ کے خواب میں حساب مانگنے لگے

 

ادھر کیا کرم کسی پہ اور ادھر جتا دیا

نماز پڑھ کے آئے اور شراب مانگنے لگے

 

سخنوروں نے خود بنا دیا سخن کو ایک مذاق

ذرا سی داد کیا ملی خطاب مانگنے لگے

 

دکھائی جانے کیا دیا ہے جگنوؤں کو خواب میں

کھلی ہے جب سے آنکھ آفتاب مانگنے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ سانحہ تو کسی دن گزر نے والا تھا

میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

 

ترے سلوک تری آگہی کی عمر دراز

مرے عزیز مرا زخم بھرنے والا تھا

 

بلندیوں کا نشہ ٹوٹ کر بکھرنے لگا

مرا جہاز زمیں پر اترنے والا تھا

 

مرا نصیب مرے ہاتھ کاٹ گئے ورنہ

میں تیری مانگ میں سندور بھرنے والا تھا

 

مرے چراغ، مری شب، مری منڈیریں ہیں

میں کب شریر ہواؤں سے ڈرنے والا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں

اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

 

میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے

خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ہیں

 

میں نہ جگنو ہوں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں

روشنی والے میرے نام سے جلتے کیوں ہیں

 

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے

اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں

 

نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے

خواب آ آ کے میری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

 

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لئے

اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہر میں ڈھونڈ رہا ہوں کہ سہارا دے دے

کوئی حاتم جو میرے ہاتھ میں کاسہ دے دے

 

پیڑ سب ننگے فقیروں کی طرح سہمے ہیں،

کس سے امید یہ کی جائے کہ سایہ دے دے

 

وقت کی سنگ زنی نوچ گئی سارے نقش،

اب وہ آئینہ کہاں جو مرا چہرہ دے دے

 

دشمنوں کی بھی کوئی بات تو سچ ہو جائے،

آ میرے دوست کسی دن مجھے دھوکا دے دے

 

میں بہت جلد ہی گھر لوٹ کے آ جاؤں گا،

میری تنہائی یہاں کچھ دنوں پہرا دے دے

 

ڈوب جانا ہی مقدر ہے تو بہتر ورنہ،

تو نے پتوار جو چھینی ہے تو تنکا دے دے

 

جس نے قطروں کا بھی محتاج کیا ہے مجھ کو،

وہ اگر جوش میں آ جائے تو دریا دے دے

 

تم کو راحت کی طبیعت کا نہیں اندازہ،

وہ بھکاری ہے مگر مانگو تو دنیا دے دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہروں شہروں گاؤں کا آنگن یاد آیا

جھوٹے دوست اور سچا دشمن یاد آیا

 

پیلی پیلی فصلیں دیکھ کے کھیتوں میں

اپنے گھر کا خالی برتن یاد آیا

 

گرجا میں اک موم کی مریم رکھی تھی

ماں کی گود میں گذرا بچپن یاد آیا

 

دیکھ کے رنگ محل کی رنگیں دیواریں

مجھ کو اپنا سونا آنگن یاد آیا

 

جنگل سر پہ رکھ کے سارا دن بھٹکے

رات ہوئی تو راج سنگھاسن یاد آیا

٭٭٭

 

 

 

 

سفر کی حد ہے وہاں تک کہ کچھ نشان رہے

چلے چلو کے جہاں تک یہ آسمان رہے

 

یہ کیا اٹھائے قدم اور آ گئی منزل،

مزا تو جب ہے کہ پیروں میں کچھ تھکان رہے

 

وہ شخص مجھ کو کوئی جعلساز لگتا ہے،

تم اس کو دوست سمجھتے ہو پھر بھی دھیان رہے

 

مجھے زمیں کی گہرائیوں نے داب لیا،

میں چاہتا تھا مرے سر پہ آسمان رہے

 

اب اپنے بیچ مراسم نہیں عداوت ہے،

مگر یہ بات ہمارے ہی درمیان رہے

 

مگر ستاروں کی فصلیں اگا سکا نہ کوئی،

مری زمین پہ کتنے ہی آسمان رہے

 

وہ ایک سوال ہے پھر اس کا سامنا ہو گا،

دعا کرو کہ سلامت میری زبان رہے

٭٭٭

 

 

 

سمندروں میں موافق ہوا چلاتا ہے

جہاز خود نہیں چلتے خدا چلاتا ہے

 

یہ جا کے میل کے پتھر پہ کوئی لکھ آئے

وہ ہم نہیں ہیں، جنہیں راستہ چلاتا ہے

 

وہ پانچ وقت نظر آتا ہے نمازوں میں

مگر سنا ہے کہ شب کو جوا چلاتا ہے

 

یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں

ادھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ہے

 

ہم اپنے بوڑھے چراغوں پہ خوب اترائے

اور اس کو بھول گئے جو ہوا چلاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ساری بستی قدموں میں ہے، یہ بھی اک فنکاری ہے

ورنہ بدن کو چھوڑ کے اپنا جو کچھ ہے سرکاری ہے

 

کالج کے سب لڑکے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لئے

چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے

 

پھولوں کی خوشبو لوٗٹی ہے، تتلی کے پر نوچے ہیں

یہ رہزن کا کام نہیں ہے، رہبر کی مکاری ہے

 

ہم نے دو سو سال سے گھر میں طوطے پال کے رکھے ہیں

میر تقی کے شعر سنانا کون بڑی فنکاری ہے

 

اب پھرتے ہیں ہم رشتوں کے رنگ برنگے زخم لئے

سب سے ہنس کر ملنا جلنا بہت بڑی بیماری ہے

 

دولت بازو، حکمت گیسو، شہرت ما تھا۔ غیبت ہونٹ

اس عورت سے بچ کر رہنا، یہ عورت بازاری ہے

 

کشتی پر آنچ آ جائے تو ہاتھ قلم کروا دینا

لاؤ مجھے پتواریں دے دو، میری ذمے داری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر ایک چہرے کو زخموں کا آئینہ نہ کہو

یہ زندگی تو ہے رحمت اسے سزا نہ کہو

 

نہ جانے کون سی مجبوریوں کا قیدی ہو،

وہ ساتھ چھوڑ گیا ہے تو بے وفا نہ کہو

 

تمام شہر نے نیزوں پہ کیوں اچھالا مجھے،

یہ اتفاق تھا تم اس کو حادثہ نہ کہو

 

یہ اور بات کہ دشمن ہوا ہے آج مگر،

وہ میرا دوست تھا کل تک، اسے برا نہ کہو

 

ہمارے عیب ہمیں انگلیوں پہ گنواؤ،

ہماری پیٹھ کے پیچھے ہمیں برا نہ کہو

 

میں واقعات کی زنجیر کا نہیں قائل،

مجھے بھی اپنے گناہوں کا سلسلہ نہ کہو

 

یہ شہر وہ ہے جہاں راکھشس بھی ہیں راحت

ہر اک تراشے ہوئے بت کو دیوتا نہ کہو

٭٭٭

 

 

 

 

اس کی کتّھئی آنکھوں میں ہے جنتر مَنتر سب

چاقو واقو چھُریاں وُریاں خنجر وَنجر سب

 

جس دن سے تم روٹھیں مجھ سے روٹ ہے روٹ ہے ہیں

چادر وادر تکیہ وَکیہ بستر وِستر سب

 

مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلی جیسی ہیں

پھیکے پڑگئے کپڑے وَپڑے زیور وِیور سب

 

عشق وِشق کے سارے نسخے مجھ سے سیکھتے ہیں

حیدر ویدر منظر وَنظر جوہر وَوہر سب

٭٭٭

 

 

 

گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے

اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے

 

جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو

اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے

 

موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار

میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے

 

نشہ ایسا تھا کہ میخانے کو دُنیا سمجھا

ہوش آیا، تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے

 

مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر

میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے

 

آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ

ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے

 

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ

گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے

 

بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے

جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے

 

لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے

جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا

میں، آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا

 

یہ سوچ کر کہ وہ تنہائی ساتھ لائے گا

میں چھت پہ بیٹھے پرندے اڑا کے لوٹ آیا

 

وہ اب بھی ریل میں بیٹھی سسک رہی ہو گی

میں اپنا ہاتھ ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا

 

خبر ملی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں

میں جس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا

 

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا

میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

٭٭٭

 

 

 

 

مرے خلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے

یہ جھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے

 

وہ سب سے ملتے ہوئے ہم سے ملنے آتا ہے

ہم اس طرح کسی ہرجائی سے نہیں ملتے

 

پُرانے زخم ہیں کافی، شمار کرنے کو

سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے

 

ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا

مرے قدم مری پرچھائی سے نہیں ملتے

 

محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دُنیا کو

جو عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے

دُعا، پتوار ہوتی جا رہی ہے

 

دریچے اب کھُلے ملنے لگے ہیں

فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے

 

کئی دن سے مرے اندر کی مسجد

خدا بیزار ہوتی جا رہی ہے

 

مسائل، جنگ، خوشبو، رنگ، موسم

غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے

 

بہت کانٹوں بھری دنیا ہے لیکن

گلے کا ہار ہوتی جا رہی ہے

 

کٹی جاتی ہیں سانسوں کی پتنگیں

ہوا تلوار ہوتی جا رہی ہے

 

کوئی گنبد ہے دروازے کے پیچھے

صدا بیکار ہوتی جا رہی ہے

 

گلے کچھ دوست آ کر مل رہے ہیں

چھُری پر دھار ہوتی جا رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ اک اک بات پہ رونے لگا تھا

سمندر آبرو کھونے لگا تھا

 

لگے رہتے تھے سب دروازے پھر بھی

میں آنکھیں کھول کر سونے لگا تھا

 

چُراتا ہوں اب آنکھیں آئینوں سے

خدا کا سامنا ہونے لگا تھا

 

وہ اب آئینے دھوتا پھر رہا ہے

اُسے چہروں پہ شک ہونے لگا تھا

 

مجھے اب دیکھ کر ہنستی ہے دُنیا

میں سب کے سامنے رونے لگا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں

ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں

 

وہ اور ہوں گے جو خنجر چھُپا کے لائے ہیں

ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں

 

ہماری بات کی گہرائی خاک سمجھیں گے

جو پربتوں کے لیئے خوردبین لائے ہیں

 

ہنسو نہ ہم پہ کہ ہم بد نصیب بنجارے

سروں پہ رکھ کے وطن کی زمین لائے ہیں

 

مرے قبیلے کے بچوں کے کھیل بھی ہیں عجب

کسی سپاہی کی تلوار چھین لائے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا

سنبھل کر چلنا کہ رستہ خراب ہے بیٹا

 

ہمارا نام لکھا ہے پُرانے قلعوں پر

مگر ہمارا مقدر خراب ہے بیٹا

 

گناہ کرنا کسی بے گناہ کی خاطر

مری نگاہ میں کارِ ثواب ہے بیٹا

 

اب اور تاش کے پتوں کی سیڑھیوں پہ نہ چڑھ

کہ اس کے آگے خدا کا عذاب ہے بیٹا

 

ہمارے صحن کی مہندی پہ ہے نظر اس کی

زمیندار کی نیت خراب ہے بیٹا

٭٭٭

 

 

 

 

 

محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے

مرے اندر کا انساں مر رہا ہے

 

جمی ہے سوچ پر قدموں کی چاپیں

نہ جانے کون پیچھا کر رہا ہے

 

میں اکثر بادلوں کو دیکھتا ہوں

کوئی بوڑھا عبادت کر رہا ہے

 

اب اس کی ٹھوکروں میں تاج ہو گا

وہ ساری عمر ننگے سر رہا ہے

 

دل اپنے غم رسیدہ پیراہن میں

امیدوں کا کشیدہ بھر رہا ہے

 

مرے سینے سے گذری ریل گاڑی

جدائی کا عجب منظر رہا ہے

 

بڑا تاجر بنا پھرتا ہے سورج

مرے خوابوں کا سودا کر رہا ہے

 

ہو فرصت تو ہمارے دکھ بھی بانٹے

ذرا دیکھو خدا کیا کر رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جب میں دنیا کے لیئے بیچ کے گھر آیا تھا

اُن دنوں بھی مرے حصے میں صفر آیا تھا

 

کھڑکیاں بند نہ ہوتیں تو جھلس ہی جاتا

آگ اُگلتا ہوا سورج مرے گھر آیا تھا

 

آج سڑکوں پہ تصویر بناتے رہیے

انگلیاں ٹوٹ چکیں جب یہ ہنر آیا تھا

 

جو کبھی ہوتا ہے صدیوں میں منور اک بار

وہ دیا مجھ کو کئی بار نظر آیا تھا

 

لوگ پیپل کے درختوں کو خدا کہنے لگے

میں ذرا دھوپ سے بچنے کو اِدھر آیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب ہنر اپنی بُرائی میں دکھائی دیں گے

عیب تو بس مرے بھائی میں دکھائی دیں گے

 

اس کی آنکھوں میں نظر آئیں گے اتنے سورج

جیسے پیوند رضائی میں دکھائی دیں گے

 

ہم نے اپنی کئی صدیاں یہیں دفنائی ہیں

ہم زمینوں کی کھدائی میں دکھائی دیں گے

 

ذکر رشتوں کے تحفظ کا جو نکلے گا تو ہم

راجپوتوں کی کلائی میں دکھائی دیں گے

 

اور کچھ روز ہے جھیلوں پہ سلگتی ہوئی ریت

سبز منظر بھی جولائی میں دکھائی دیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں

میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں

 

نوجواں بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اُڑے

گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں

 

بُجھ گیا وحشی کبوتر کی ہوس کا گرم خون

نرم بستر پر تڑپتی فاختائیں رہ گئیں

 

ایک اک کر کے ہوئے رخصت مرے کنبے کے لوگ

گھر کے سناٹے سے ٹکراتی ہوائیں رہ گئیں

 

بادہ خانے، شاعری، نغمے، لطیفے، رت جگے

اپنے حصے میں یہی دیسی دوائیں رہ گئیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہاں وہ خواب محل تاج داریوں والے

کہاں یہ بیلچوں والے تگاریوں والے

 

کبھی مچان سے نیچے اُتر کے بات کرو

بہت پرانے ہیں قصے شکاریوں والے

 

مجھے خبر ہے کہ میں سلطنت کا مالک ہوں

مگر بدن پہ ہیں کپڑے بھکاریوں والے

 

غریب قصبوں میں اکثر دکھائی دیتے ہیں

نئے شوالے، پرانے پجاریوں والے

 

ادب کہاں کا کہ ہر رات دیکھتا ہوں میں

مشاعرے میں تماشے مداریوں والے

 

مری بہار مرے گھر کے پھولدان میں ہے

کھلے ہیں پھول ہری پیلی دھاریوں والے

٭٭٭

 

 

 

 

کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں

اور ہم کچھ نہیں کرتے غضب کرتے ہیں

 

ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہے

ہم قلندر ہیں شہنشاہ لقب کرتے ہیں

 

آپ کی نظروں میں سورج کی ہے عظمت

ہم چراغوں کا بھی اُتنا ہی ادب کرتے ہیں

 

دیکھئے جس کو اُسے دھُن ہے مسیحائی کی

آج کل شہروں کے بیمار مطب کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دئے جلائے ! تو انجام کیا ہوا میرا

لکھا ہے ! تیز ہواؤں نے مرثیہ میرا

 

کہیں شریف نمازی! کہیں فریبی پیر

قبیلہ میرا! نسب میرا! سلسلہ میرا

 

میں چاہتا تھا! غزل آسمان ہو جائے

مگر زمین سے ! چپکا ہے قافیہ میرا

 

اسے خبر ہے ! کہ میں حرف حرف سورج ہوں

وہ شخص! پڑھتا رہا ہے لکھا ہوا میرا

 

کسی نے زہر کہا ہے ! کسی نے شہد کہا

کوئی سمجھ نہیں پاتا ہے ! ذائقہ میرا

 

میں پتھروں کی طرح ! گونگے سامعین میں تھا

مجھے سناتے رہے لوگ! واقعہ میرا

 

بلندیوں کی سفر میں ! یہ دھیان آتا ہے

زمین دیکھ رہی ہو گی! راستہ میرا

 

میں جنگ جیت چکا ہوں ! مگر یہ الجھن ہے

اب اپنے آپ سے ہو گا مقابلہ میرا

 

کھنچا کھنچا میں رہا !خود سے جانے کیوں ورنہ

بہت زیادہ نہ تھا! مجھ سے فاصلہ میرا

٭٭٭

 

 

 

 

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے

 

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گذری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

 

رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ

ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے

 

مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید

لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

 

اب کہ مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے

جا ہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے

 

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے

کم سے کم راہ کا پتھر تو ہٹاتے جاتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں

 

بتوں سے مجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے

تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں

 

میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر

یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں

 

ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی

کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں

 

اس آدمی کو بس اک دھن سوار رہتی ہے

بہت حسیں ہے یہ دنیا اسے خراب کروں

 

یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے

کہیں اکے لیے میں مل جائے تو حساب کروں

٭٭٭

 

 

 

اشعار

 

 

پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے

بستیاں چھوڑ کے جانے کو کہا جاتا ہے

 

پتیاں روز گرا جاتی ہے زہریلی ہوا

اور ہمیں پیڑ لگانے کو کہا جاتا ہے

 

٭

نئے سفر کا نیا انتظام کہہ دیں گے

ہوا کو دھوپ چراغوں کو شام کہہ دیں گے

 

کسی سے ہاتھ بھی چھپ کر ملائیے ورنہ

اسے بھی مولوی صاحب حرام کہہ دیں گے

 

٭

سورج ستارے چاند مرے ساتھ میں رہے

جب تک تمہارے ہاتھ مرے ہاتھ میں رہے

 

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم

آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

٭٭٭

ماخذ: کوتا کوش، ہندی

رسم الخط کی تبدیلی بذریعہ

http://uh.learnpunjabi.org/default.aspx

http://raikhtablog.blogspot.com/2015/06/blog-post_90.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید