FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

دو ڈرامے

 

 

               ابراہیم یوسف

 

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

مقابلے  اور فیصلے

 

 

               افراد تمثیل

 

نجیب:ایک نوجوان۔

نغمہ:نجیب کی بہن۔

مجیب:نجیب کے والد۔

صوفیہ:نجیب کی خاتون دوست۔

نسیم:صوفیہ کے والد۔

 

منظر

 

مجیب کے دیہاتی مکان کا بالائی کمرہ، کمرہ صاف ستھرا ہے معمولی مگر  نظر آنے والا پرانے فیشن کا فرنیچر ہے۔ دیواروں پر مختلف جانوروں کے سر لگے ہوئے ہیں۔ مغربی جانب ایک کھڑکی ہے جس میں بیٹھنے سے دور تک کا منظر نظر آتا ہے۔ جنگل  اور جنگل کے بعد پہاڑ نظر آتا ہے۔ جنگلوں سے گھرا ہوا پہاڑ عجیب  پر اسرار معلوم ہوتا ہے۔

جس وقت پردہ اٹھتا ہے تو نجیب  اور صوفیہ کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔دونوں خاموش ہیں  اور  کھوئے کھوئے انداز سے  پہاڑ کو دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں نظریں چار ہوتی ہیں تو پھر دونوں جھکا لیتے ہیں۔ جیسے ایک دوسرے سے نظریں ملانا نہیں چاہتے۔ دونوں انتہائی اداس نظر آ رہے ہیں کچھ دیر دونوں یوں ہی خاموش بیٹھے رہتے ہیں پھر صوفیہ کچھ اس انداز سے جیسے وہ اس خاموشی کو توڑنا چاہتی ہو۔

 

صوفیہ:کبھی آپ اس پہاڑ پر چڑھے ہیں؟

نجیب:ہاں کئی بار۔

صوفیہ:(کچھ دیر خاموش رہ کر) یہ پہاڑ کس قدر پر اسرار معلوم ہوتا ہے۔

نجیب:بچپن میں میں اسے بہت ہی پر اسرار سمجھتا تھا۔

صوفیہ:یہاں سے تو کافی دور ہو گا۔

نجیب:کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ جنگلوں سے گزرنے والی پگڈنڈی کا راستہ نزدیک  اور خوبصورت ہے۔

(پھر دونوں خاموش ہو جاتے ہیں  اور خیالات میں کھو جاتے ہیں۔ صوفیہ پہاڑ کو دیکھتی رہتی ہے۔ پھر کچھ دیر بعد۔)

صوفیہ:قدرت کے ان عجائبات میں بھی کیا کیا  اسرار ہوئے ہیں۔

نجیب:جی ہاں بچپن میں میرا تصور تھا کہ ان پہاڑوں پر پریاں رہتی ہیں۔ خواب میں وہ اکثر مجھے گاتی  اور قہقہے لگاتی نظر آتی تھیں۔

(پھر دونوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ صوفیہ کچھ دیر بعد)

صوفیہ:آپ کا یہ گاؤں کس قدر خاموش ہے۔

نجیب:جی ہاں لوگ اکثر اس کی تعریف کرتے ہیں (خاموش ہو جاتا ہے کچھ دیر مکمل خاموشی رہتی ہے دونوں کھوئی کھوئی نظروں سے پہاڑ کو دیکھتے رہتے ہیں کچھ دیر بعد نجیب، صوفیہ کو دیکھ کر)اپنی والدہ سے میرا سلام عرض کر دینا۔

(صوفیہ غور سے نجیب کو دیکھتی ہے پھر آہستہ سے)

صوفیہ:کیا آپ ہمارے یہاں کبھی نہیں آئیں گے۔؟

نجیب:کیوں نہیں۔۔۔ مگر۔۔۔

(خاموش ہو جاتا ہے کچھ دیر بعد نغمہ چائے لے کر آتی ہے۔ اس کے چہرے سے اداسی جھلک رہی ہے۔ خاموشی سے کشتی لا کر میز پر رکھ دیتی ہے۔ نجیب  اور صوفیہ دونوں اس کو کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ کچھ دیر بعد صوفیہ پھیکی مسکراہٹ سے۔)

صوفیہ:آؤ نغمہ۔۔۔  بیٹھو۔۔۔ (نغمہ خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھ جاتی ہے  اور  نظریں جھکا کر چائے بنانے لگتی ہے۔ صوفیہ کچھ دیر خاموش رہ کر) کیا بات ہے؟اس قدر خاموش کیوں ہو۔(نغمہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں) ارے تم تو رونے لگیں۔

نغمہ:(دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھ کر)آپ جا رہی ہیں صوفیہ آپا۔ اس کا مجھے بہت دکھ ہے۔

صوفیہ:تم ہمارے یہاں آنا۔ ہم تمہیں شہر گھمائیں گے۔

نغمہ:آپ نے تو ابھی تک دیہات اچھی طرح دیکھا بھی نہیں ہے۔

صوفیہ:تمہارا گاؤں بہت خوبصورت  اور حسین ہے۔

نغمہ:ابھی تو آپ پہاڑ پربھی نہیں چڑھیں۔ ابھی تو آپ نے وہ جگہ بھی نہیں دیکھی جہاں ندی کئی فٹ گہرے کھڈ میں گر کر غائب ہو جاتی ہے  اور  پھر ایک فرلانگ بعد زمین سے ابل پڑتی ہے۔

صوفیہ:میں نے کئی مرتبہ پہاڑ پر چڑھنے کا سوچا۔ سنا ہے اس پہاڑ پر پریاں رہتی ہیں۔

نغمہ:جی ہاں گاؤں والے ایسا ہی کہتے ہیں  اور اب تو میلہ بھی لگنے والا ہے۔

صوفیہ:میلہ!

نغمہ:جی ہاں۔ آدی باسیوں کا میلہ۔ بڑے اچھے اچھے کھیل کود اور مقابلے ہوتے ہیں  اور پھر آدی باسیوں کے ناچ تو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کچھ دن  اور ٹھہر جائیں تو وہ میلہ دیکھ لیتیں۔

(نغمہ چائے کی پیالی صوفیہ کو دیتی ہے۔ صوفیہ پیالی لیتے ہوئے۔)

صوفیہ:تمہاری محبت  اور خلوص  اور یہ خاطر ہمیشہ یاد رہے گی۔

نغمہ:میں تو کچھ بھی خاطر نہ کر سکی۔ یہ افسوس تو زندگی بھر رہے گا۔

صوفیہ:(مسکرا کر)  اور خاطر کیا ہوتی ہے۔

نغمہ:(کچھ دیر خاموش رہ کر) میلے میں پہاڑ پر چڑھنے کا مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ سب ہی اس میں حصہ لیتے ہیں۔ مردوں  اور عورتوں کے مقابلے الگ الگ ہوتے ہیں۔

نجیب:اس مقابلے کا نام نہ لو نغمہ، مجھے اس سے نفرت ہے۔

نغمہ:مگر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس مرتبہ تومیں اس میں حصہ لوں گی۔

نجیب:مگر مجھے نفرت ہے۔ انتہائی نفرت (نغمہ نجیب کا انداز دیکھ کر سہم سی جاتی ہے)گئے سال میں اس مقابلے میں ہار گیا تھا۔ جب ہی سے مجھے اس سے نفرت ہو گئی ہے۔

نغمہ:آپ نے پہلی بار حصہ لیا تھا۔ لوگ تو سالوں ہارتے ہیں مگر دل چھوٹا نہیں کرتے۔

نجیب: اور ابا جان یہ بات نہیں سوچتے (کچھ دیر خاموش رہ کر ٹھنڈی سانس بھرکر) اب تم بھی مقابلے میں حصہ لو اور ہار جاؤ۔ تا کہ ابا جان روز تمہیں بھی طعنے دیں  اور  پھر تمہارا دل توڑیں۔

(نغمہ خاموش ہو جاتی ہے۔ نجیب پھر کھڑکی میں سے باہر پہاڑ کو دیکھنے لگتا ہے۔ صوفیہ کچھ دیر بعد کھڑی ہو کر نغمہ کی طرف دیکھ کر)

صوفیہ:امی تو اپنے کمرے میں ہوں گی۔میں ان سے مل لوں۔۔۔

نغمہ:جی ہاں۔ اپنے کمرے میں ہیں۔ صبح سے وہ بھی اداس اداس سی ہیں۔ (صوفیہ خاموشی سے کمرے سے چلی جاتی ہے۔ نغمہ خاموش ہو جاتی ہے۔ نجیب پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتا ہے کچھ دیر بعد  نغمہ آہستہ سے) بھائی جان!آپ بھی بہت اداس ہیں۔(نجیب خاموش رہتا ہے۔ نغمہ پھر نجیب کو دیکھ کر) صوفیہ آپا کتنی اچھی ہیں۔ آپ انھیں کچھ دن کے لیے  اور کیوں نہیں روک لیتے۔

نجیب:وہ اب نہیں رکے گی۔

نغمہ:کیوں؟(نجیب خاموش رہتا ہے)میلے کے دنوں میں وہ یہاں رہتیں تو کتنا اچھا معلوم ہوتا(باہر سے آواز نجیب) ابا جان آ گئے۔

(کھڑی ہو کر چائے کے برتن کشتی میں رکھنے لگتی ہے۔ مجیب کمرے میں آتے ہیں۔ انھوں نے شکاری لباس پہن رکھا ہے۔ بڑی بڑی مونچھیں ہیں صحت مند ہیں۔ عمر پچاس سے زیادہ ہے مگر چال  اور جسم کی ساخت سے اتنی عمر کے نہیں معلوم ہوتے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہیں نغمہ سے۔)

مجیب:صوفیہ کہاں ہے؟

نغمہ:امی کے ساتھ ہیں۔

مجیب:اس کے جانے کی تیاری مکمل ہو گئی۔

نغمہ:جی ہاں۔ وہ شاید آپ ہی کا انتظار کر رہی تھیں۔

مجیب:(اک دم جیسے کچھ یاد آ جانے پر نجیب کی طرف دیکھ کر) کل تم نے پھر ایک گولی مس کر دی۔

نجیب:جی ہاں۔ میں نے بھاگتے ہوئے جانور پر گولی چلائی تھی۔

مجیب:جانور کا بھاگنا قدرتی ہے مگر شکاری کو نہیں بھاگنا چاہئے۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اس کے پیچھے دوڑے  اور پھر گولی چلائی۔

نجیب:میں نے صرف چند گز دوڑ کر اسے رینج میں لینے کی کوشش کی تھی۔

مجیب: اور اس بھاگ دوڑ میں تمہاری سانس پھول گئی  اور تم نے گولی مس کر دی۔ جب تک شکاری کو  اپنے جسم پر قابو نہ ہو وہ شکار کو اپنے قابو میں نہیں کر سکتا۔(نغمہ کی طرف دیکھ کر جو  خاموش کھڑی ہے) تم کو کیا ہو گیا ہے جوتم یوں رونی شکل بنائے کھڑی ہو۔

نغمہ:کچھ نہیں ابا جان۔

(مجیب کچھ دیر خاموش رہتا ہے پھر ٹھنڈی سانس بھرکر)

مجیب:میں جانتا ہوں کہ تم کیوں اداس ہو(بندوق کاندھے سے اتار کر دیوار سے ٹکا دیتا ہے  اور کھڑکی سے باہر پہاڑ کو دیکھنے لگتا ہے پھر کچھ دیر بعد) تم صوفیہ کے جانے پر اداس ہو۔

نغمہ:(آنکھوں سے آنسو پونچھ کر) جی ہاں۔ وہ کس قدر اچھی ہیں۔

مجیب:بلاشبہ اچھی ہے۔ اس سے اچھی لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔

نغمہ:تو پھر آپ انھیں روک کیوں نہیں لیتے۔ بھائی جان بھی کس قدر اداس ہیں  اور وہ بھی کچھ کم غمگین نہیں۔

مجیب:(چند سکنڈ رک کر) اسے میں نہیں روک سکتا۔(پھر چند سکنڈ رک کر) اچھا تم اسے ذرا میرے پاس بھیج دو۔(نغمہ چائے کے برتن لے کر کمرے سے چلی جاتی ہے۔ مجیب کھڑکی کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں  اور پہاڑی کو دیکھنے لگتے ہیں۔ کچھ دیر خاموش رہ کر نجیب کی طرف دیکھ کر) تم پہاڑ کی چوٹی پر لہراتے ہوئے اس جھنڈے کو دیکھ رہے ہو۔؟

نجیب:جی ہاں۔

مجیب: اور یہ بھی جانتے ہو گے کہ وہ وہاں کیوں لہرا رہا ہے۔

نجیب :جی ہاں۔

مجیب:ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسے جیتے  اور  وہ ا سکے گھر پر لہرائے۔

نجیب:جی ہاں۔

مجیب۔:میں نے تمہاری صوفیہ سے شادی سے انکار کیا ہے جانتے ہو کیوں۔

نجیب:جی ہاں۔ اس لیے کہ گئے سال میں اس جھنڈے کونہ جیت سکا تھا۔

مجیب:ہاں اسی لئے۔

نجیب:(کسی قدر تند لہجے میں) مگر ہر نوجوان اسے نہیں جیت سکتا  اور جو نہیں جیت سکتا کیا اس کی شادی نہیں ہوتی۔

مجیب:ہوتی ہے۔ مگر انسان کی کچھ تمنائیں  اور خواہشیں ہوتی ہیں  اور میری یہ خواہش تھی کہ وہ جھنڈا میرے گھر پر لہرائے (ٹھنڈی سانس بھرکر) مگر گئے سال تم نے میری تمام تمناؤں پر پانی پھیر دیا۔

نجیب:مگر یہ تو اسپورٹ ہیں ہمیں اپنی ہار کو اسپورٹس مین اسپرٹ میں قبول کر لینا چاہئے۔

(مجیب طنزیہ مسکراتے ہیں  اور آنکھیں بند کر کے سگار کے لمبے لمبے کش لیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد)

مجیب:تم مجھے اسپورٹس مین اسپرٹ کا سبق دے رہے ہو(آنکھیں کھول کر نجیب کو دیکھ کر)میں نے جس اسپورٹس مین اسپرٹ کا ثبوت دیا ہے تم اس کا  تصور بھی نہیں کر سکتے۔ (پھر آنکھیں بند کر کے خاموش ہو جاتے ہیں نجیب خاموش کھڑا رہتا ہے کچھ دیر خاموشی رہتی ہے۔ مجیب پھر آنکھیں کھول کر نجیب کو دیکھ کر) بیٹھ جاؤ(نجیب خاموشی سے بیٹھ جاتا ہے مجیب کچھ دیر خاموش رہ کر) تم صوفیہ سے محبت کرتے ہو۔ (نجیب نظریں جھکا لیتا ہے) میں جب تمہاری عمر کا تھا اس وقت ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا۔

نجیب:(غور سے مجیب کا چہرہ دیکھ کر)آپ!

مجیب:ہاں۔(مسکرا کر) تمہیں حیرت کیوں ہے نوجوانی میں سب ہی ایک نہ ایک سے محبت ضرور کرتے ہیں  اور اسی لیے مجھے تمہاری محبت پربھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔

نجیب:مگر آپ۔۔۔

مجیب:اس پربھی میں تمہیں صوفیہ سے شادی کی اجازت نہیں دے سکتا۔

نجیب:مگر میں بھی صوفیہ کے علاوہ کسی  اور سے شادی نہیں کر سکتا۔

مجیب:اس سے میری نسل ختم ہو جائے گی۔ ہو جائے۔ یہ میرا پکا ارادہ ہے یوں سمجھ لو کہ میری قسم ہے۔

نجیب:مگر ابا جان۔

مجیب:(بات کاٹ کر) گئے سال مجھے تم سے بڑی امیدیں تھیں مگر تم ہار گئے۔ مجھے ہار کا تو اتنا افسوس نہیں ہوا مگر جب اس جھنڈے کو میں کسی  اور  کے مکان پر لہراتا ہوا دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ اس جھنڈے کو گولی مار دوں۔ پچیس تیس سال سے میں اس ذہنی الجھن میں مبتلا ہوں  اور  اندر ہی اندر جلا جا رہا ہوں۔

نجیب:لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ میں اس مقابلے میں حصہ لوں  اور  وہ جھنڈا جیت ہی لوں۔

(مجیب خاموش رہتے ہیں  اور  خاموشی سے پہاڑ پر لہراتے ہوئے جھنڈے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ سگار کا کش لیتے ہیں پھر نجیب کو دیکھ کر جو گردن جھکائے بیٹھا ہے۔)

مجیب:میں آج تم کو وہ راز بتلائے دیتا ہوں جو کسی کو نہیں بتلایا(خاموش ہو جاتے ہیں  اور سگار کا کش لے کر) میرا ایک دوست تھا۔ بہت ہی گہرا دوست(آنکھیں بند کر کے بہت ہی آہستہ سے) ہم دونوں ایک ہی لڑکی سے محبت کرتے تھے۔

نجیب:ایک ہی لڑکی سے !

مجیب:ہاں۔ مسئلہ یہ تھا کہ دونوں میں سے کون اس سے شادی کرے۔ (آنکھیں کھول کر نجیب کو  دیکھ کر) پھر جانتے ہو کیا ہوا۔

نجیب:جی نہیں۔

مجیب:ہم نے طے کیا کہ ہم دونوں اس مقابلے میں حصہ لیں  اور جو جیت جائے وہی اس سے شادی کر لے  اور دونوں ہار جائیں تو دونوں میں سے کوئی بھی اس سے شادی نہ کرے۔

نجیب: اور شاید آپ مقابلے میں ہار گئے۔

مجیب:شاید نہیں یقیناً  ہار گیا۔ یہ سخت مقابلہ تھا۔ ہم نے طے کیا تھا کہ ہم دونوں اپنی اپنی بندوقیں ساتھ لیں گے  اور اگر دونوں میں سے کوئی بھی جیت جائے تو دوسرا اپنی بندوق سے ہوائی فائر کر کے اس کی جیت  اور  اپنی ہار کا اعلان کر دے۔

نجیب:اچھا۔

مجیب:ہاں !مقابلہ شروع ہوا  اور  ہم دونوں نے ایک ہی راستے سے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے جان توڑ کوشش کر رہے تھے۔ کبھی وہ آگے ہوتا  اور  کبھی میں۔ ہم دونوں اس چھوٹے سے مندر کے پاس پہنچ گئے جہاں ندی پہاڑ کی اس گہرائی میں گرتی ہے جہاں کئی سو فٹ گہرا کھڈ ہے کہ اس کا پاؤں پھسل گیا میں نے اس کے گرنے کی آواز سنی  اور پلٹ کر دیکھا اس کا رخ کھڈ کی طرف تھا  اور وہ جان بچانے کے لیے کسی بھی سہارے کی تلاش کر رہا تھا۔

نجیب: اور پھر آپ نے سہارا نہیں دیا۔

مجیب:کیوں نہیں۔ وہ میرا کوئی دشمن تو نہیں تھا آخر دوست تھا۔ ایسے مقابلے تو دوستوں میں اکثر ہوا ہی کرتے ہیں۔

نجیب:پھر۔؟

مجیب:میں پلٹا  اور اسے سہارا دیا وہ مسکرا کر کھڑا ہوا گیا۔ ہم گلے ملے  اور  پھر اپنی اپنی جیت کے لئے جدوجہد کرنے لگے  اور کچھ دیر بعد ہم  پہاڑ کی چوٹی  پر پہنچ گئے۔ وہاں بیس پچیس گز چوڑا میدان ہے کھلے میدان میں ہم دونوں میں دوڑ شروع ہو گئی لیکن اس دوڑ میں اس نے مجھے ہرا دیا۔ اب جھنڈا اس کے ہاتھ میں تھا۔ میں نے بندوق کاندھے سے اتار لی  اور  جانے کیوں اس کی نالی میرے دوست کے سینے کی طرف ہو گئی۔

نجیب:(گھبرا کر) جی۔۔۔

مجیب:یہ سچ ہے مگر وہ مرحوم بچے کی طرح اپنی کامیابی پر غیر معمولی خوشی سے میری طرف دوڑا چلا آ رہا تھا اسے خیال بھی نہیں تھا کہ میری بندوق اس کے سینے کا نشانہ لے چکی ہے۔

نجیب: اور آپ نے گولی چلا دی۔

مجیب:ہاں۔۔۔ (مسکرا کر) مگر اس کے سینے پر نہیں ہوا میں۔ میری گولی اس کے خوشیوں بھرے سینے کونہ چھید سکی۔ وہ مجھ سے معصوم بچوں کی طرح خوشی سے لپٹ گیا۔ اتنے میں وہ آدی باسی نوجوان بھی آ گئے جواس مقابلے میں حصہ لے رہے تھے۔ انھوں نے اپنے وہ مخصوص تیر جو ہوا میں چھوٹتے ہی جل اٹھتے ہیں چھوڑے  اور پہاڑ کے نیچے ڈھول پٹنے لگے جو مقابلہ ختم ہونے کا اعلان تھا۔ ہم بہت دیر تک پہاڑ پر گاتے  اور  ناچتے رہے پھر میں نے اپنے دوست کو اپنے کاندھے پر بٹھلایا  اور  ہم لوگ پہاڑ سے نیچے اتر آئے۔ رات پھر خوب جشن منایا گیا۔ (چند سکنڈ خاموش رہ کر) جانتے ہو وہ میرا دوست کون تھا؟

نجیب:(غور سے مجیب کا چہرہ دیکھ کر) جی نہیں۔۔۔ کون تھا۔

مجیب:(آنکھیں بند کر کے) صوفیہ کا باپ نسیم  اور وہ لڑکی تھی صوفیہ کی ماں سلمیٰ۔

نجیب:(غصہ سے کھڑے ہو کر)  اور آپ اپنی ہار کا بدلہ ان کی اولاد سے لے رہے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔

مجیب:میں بدلہ نہیں لے رہا ہوں ویسا دوست تو مجھے آج تک نصیب ہی نہیں ہوا۔جانتے ہو اس نے جیتے ہوئے جھنڈے کا کیا کیا۔

نجیب:جی نہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپ بھی میری طرح مقابلے میں ہارے ہیں  اور اپنی ہار پر ہماری خوشیاں چھین لینا چاہتے ہیں۔

مجیب:(بہت ہی سخت لہجے میں) نہیں۔(کچھ دیر خاموش رہ کر) وہ جھنڈا نسیم نے کبھی اپنے گھر پر نہیں لگایا۔

نجیب:اپنے گھر پر نہیں لگایا!

مجیب:ہاں صرف میری خاطر۔

نجیب:مگر۔۔۔

مجیب:(بات کاٹ کر) یہ گاؤں کی رسم کے خلاف تھا۔ گاؤں والے اس کو برداشت نہ کر سکے  اور وہ گاؤں چھوڑ کر چلا گیا  اور پھر کبھی اس گاؤں میں نہیں آیا۔

نجیب:وہ جھنڈا اپنے گھر پرکیوں نہیں لگایا۔

مجیب:اس لیے کہ وہ میری ہار کا نشان تھا۔ اسی وقت میں نے عہد کر لیا تھا کہ میری اولاد میں صرف وہی اپنی مرضی کی شادی کرے گا جو اس مقابلے میں جیتے گا۔۔۔ تم یہ مقابلہ ہار چکے ہو۔

نجیب:یہ انصاف نہیں ہے کہ آپ کے فضول سے عہد پر میں اپنی زندگی تباہ کر دوں۔

مجیب:میں بے انصاف سہی مگر اپنے فیصلے پر  اٹل ہوں۔

نجیب:مگر آپ کا فیصلہ۔۔۔

(صوفیہ کمرے میں داخل ہوتی ہے  اور نجیب خاموش ہو جاتا ہے۔ صوفیہ بہت ادب سے جھک کر سلام کرتی ہے۔)

مجیب:جیتی رہو بیٹی!۔۔۔ آؤ۔۔۔ (اپنے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کر کے) بیٹھو۔۔۔ (صوفیہ کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔) تمہارے جانے کی تیاری مکمل ہو گئی؟

صوفیہ:جی ہاں۔۔۔ میں آپ ہی کا انتظار کر رہی تھی۔

مجیب:ادھر کچھ دنوں سے ایک مین ایٹر نے گاؤں والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اسی کی تلاش میں نکل گیا تھا ارادہ تو نجیب کو بھی ساتھ لے جانے کا تھا مگر سوچا کہ آج تم جا رہی ہو اس لیے اس کا یہاں رہنا ضروری ہے۔(نجیب کی طرف دیکھ کر) دیکھو گھوڑے تیار ہو گئے۔ (نجیب جانے کے لئے مڑتا ہے)  اور ہاں جنگل کے راستے سے نہ جانا۔

نجیب:مگر دوسرے راستے سے جانے کے لیے پورے سات میل کا چکر لگانا پڑے گا۔

مجیب:کوئی بات نہیں۔ پتہ چلا ہے کہ وہ مین ایٹر ابھی جنگل ہی میں موجود ہے۔

نجیب:میں بندوق ساتھ لے جاؤں گا  اور پھر کئی آدمی بھی ساتھ میں ہوں گے۔

مجیب:صوفیہ بیٹا کا ساتھ ہو گا کسی بھی قسم کا رسک لینا ٹھیک نہیں ہے قطعی جنگل کے راستے سے جانے کی ضرورت نہیں واپسی میں تم یہ راستہ اختیار کر سکتے ہو۔

نجیب:بہت اچھا۔

(نجیب کمرے سے چلا جاتا ہے۔ کچھ دیر خاموشی رہتی ہے پھر مجیب صوفیہ کو دیکھ کر)

مجیب:بیٹی!تمہیں میرے فیصلے پر دکھ ہو رہا ہے۔

صوفیہ:(نظریں جھکا کر)بزرگوں کے فیصلے پر مجھے دکھی ہونا نہیں سکھایا گیا۔

مجیب:مجھے تمہاری اس سعادت مندی سے خوشی ہوتی ہے مگر میری بھی کوئی مجبوری ہے۔

صوفیہ:میں نے بزرگوں کے فیصلے کو کبھی ان کی مجبوری نہیں سمجھا ہے ایک حکم سمجھا ہے جس کا ماننا ہر حالت میں فرض ہے۔

مجیب:(غور سے صوفیہ کو دیکھ کر) بیٹی!ایسی باتیں نہ کہو جن کے سننے سے مجھے خود سے نفرت ہو جائے۔(صوفیہ کے ہونٹ اس طرح ہلتے ہیں جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر پھر خاموش رہتی ہے)نغمہ کی خواہش ہے کہ تم میلے تک یہاں رک جاتیں۔

صوفیہ:وہ میرے جانے پر بہت دکھی ہے مگر اب پندرہ دن ہو گئے ہیں پاپا  اور  ممی یاد کرتے ہوں گے۔

مجیب:مجھے بھی یہی خیال ہے ورنہ میں تم  کو جانے کی  ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ (کچھ دیر رک کر)تمہارا  اور نجیب کا کتنے سال کالج میں ساتھ رہا ہے۔

صوفیہ:ہم فرسٹ ایر سے ہی ساتھ رہے ہیں۔

(باہر گھوڑا دوڑنے کی آواز)

مجیب:شاید گھوڑے  تیار ہو گئے (کھڑے ہو جاتے ہیں ان کے ساتھ صوفیہ بھی کھڑی ہو جاتی ہے) خدا حافظ  اور دیکھو اپنے پاپا  اور ممی سے میرا سلام کہنا  اور  ہاں۔۔۔ گھر پہنچتے ہی فوراً خط لکھنا۔

صوفیہ:جی۔ بہت اچھا۔

(محبت سے صوفیہ کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ اسی وقت نجیب گھبرایا ہوا سا کمرے میں داخل ہوتا ہے  اور جلدی سے۔)

نجیب:ابا جان۔نسیم صاحب۔

مجیب:نسیم صاحب!

نجیب:جی ہاں صوفیہ کے والد آئے ہیں۔

مجیب:(گھبرا کر) کہاں ہیں؟(تیزی سے بندوق اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھتے ہیں کہ نسیم کمرے میں داخل ہوتے ہیں ان کے کاندھے پر بھی بندوق لٹکی ہوئی ہے بہت وجیہہ با رعب  اور قد آور ہیں چال ڈھال سے فوجی معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ دیر تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں پھر ایک دم دوڑ کر بغل گیر ہوتے ہیں  اور دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ پھر مجیب نسیم کے دونوں بازو پکڑ کر انھیں سر سے پیر تک دیکھ کر) تیری صحت اب پہلی جیسی نہیں رہی۔

نسیم:(اپنا ہاتھ مجیب کی طرف بڑھا کر) آ۔ پنجہ لڑا کر دیکھ لے کس کی صحت اچھی ہے۔(دونوں قہقہہ مار کر ہنستے ہیں) میری بینائی تک میں فرق نہیں آیا ہے۔ ابھی بھی میں سوئی پر نشانہ لگا سکتا ہوں۔

مجیب:یہ بات ہے !ہو جائے مقابلہ۔

نسیم:ہو جائے (دونوں اپنی اپنی   بندوقیں کاندھے پرسے اتار کر کھڑکی کے پاس کھڑے ہو جاتے ہیں)بول کہاں نشانہ لگاؤں۔

مجیب:(چند سکنڈ سوچ کر) وہ میرے باغ کا پھاٹک نظر آ رہا ہے اس پر دو گول گول لکڑی کے لٹو ہیں ایک تو اڑا ایک میں۔ منظور ہے؟

نسیم:منظور ہے۔(نسیم نشانہ باندھ کر گولی چلاتے ہیں  اور پھر مسکرا کر مجیب کو دیکھتے ہیں۔ مجیب مسکرا کران کی پیٹھ تھپ تھپاتے ہیں  اور پھر خود نشانہ باندھ کر گولی چلاتے ہیں  اور مسکرا کر نسیم کو دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ صوفیہ  اور نجیب تالیاں بجانے لگتے ہیں)۔۔۔ تم دونوں یہاں کیوں کھڑے ہو۔

نجیب:ہم دونوں آپ لوگوں کی نشانہ بازی دیکھ رہے تھے۔

نسیم:بھاگ جاؤ شریر  بد معاشو۔

(صوفیہ  اور نجیب مسکراتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں جس پر نسیم  اور  مجیب قہقہہ لگاتے ہیں۔ مجیب نسیم کا ہاتھ پکڑ کر ایک کرسی پر بٹھلاتے ہوئے۔)

مجیب:بھلے آدمی اپنے آنے کی اطلاع تو دی ہوتی۔

نسیم:میں بلا اطلاع ہی آنا چاہتا تھا۔۔۔ گاؤں تواب بالکل بدل گیا ہے۔

مجیب:تم گاؤں شاید تیس سال بعد آئے ہو۔

نسیم:ہاں اتنا ہی زمانہ ہو گیا ہو گا۔۔۔ کیا اب میلہ نہیں لگتا۔

مجیب:کیوں نہیں لگتا۔ ابھی آٹھ دن باقی ہیں۔ تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔

نسیم:میں تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ میلہ لگ چکا ہو گا۔ (کچھ دیر خاموش رہ کر) تمہیں میری لڑکی پسند آئی؟

مجیب:بہت پسند آئی۔ ایسی سعادت مند، خوش سلیقہ  اور سمجھ دار لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ میں تمہیں اس قدر اچھی لڑکی کا باپ ہونے پر مبارک باد دیتا ہوں۔

نسیم:شکریہ!مجھے نجیب بھی اسی قدر پسند ہے جس قدر تمہیں میری لڑکی۔ کس قدر مردانہ وجاہت ہے  اور کھیلوں میں تو وہ اپنے کالج کا  سب سے اچھا کھلاڑی تھا۔

مجیب:یہ بالکل غلط ہے۔ کل جانتے ہو کیا ہوا؟(نسیم سوالیہ نظروں سے مجیب کو دیکھتے ہیں) ایک بارہ سنگھے  پر گولی مس کر دی۔

نسیم:اتفاق رہا ہو گا۔ ویسے دو ایک مرتبہ میرے ساتھ شکار پربھی گیا ہے۔ میں نے اس کو اچوک نشانہ باز پایا ہے۔

مجیب:ممکن ہے تمہارا خیال درست ہو  مگر وہ اچھا شکاری نہیں ہے۔ جانور کے پیچھے دوڑ کراس پر گولی چلانا انتہائی حماقت ہے  اور یہ حماقت کرنے میں وہ نمبر ایک ہے۔

نسیم:خیر۔(کچھ دیر خاموش رہ کر) تم نے دونوں کے بارے میں کیا فیصلہ کیا۔

مجیب:کن دونوں کے بارے میں؟

نسیم:نجیب  اور صوفیہ کے بارے میں۔ (نسیم خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ دیر بعد)میں تمہارا یہی فیصلہ سننے آیا ہوں۔

مجیب:(ٹھنڈی سانس بھرکر)وہ گئے سال پہاڑ پر چڑھنے کے مقابلے میں ہار گیا تھا۔

نسیم:اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

مجیب:میرا یہ عہد ہے کہ میرے خاندان کا وہی مرد اپنی پسند کی شادی کرے گا جو اس مقابلے کو جیتے۔

(نسیم کچھ دیر خاموش رہتے ہیں  اور پہاڑ کو دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر مجیب کی طرف دیکھ کر)

نسیم:دنیا تیس چالیس سال آگے بڑھ گئی ہے بوڑھے کھونسٹ۔ آج کے نوجوان تمہارے ان احمقانہ فیصلوں  اور عہدوں کو ٹھکرا  کر آگے بڑھ جائیں گے۔

مجیب:تومیں صبر کر لوں گا۔ مگر اس کے ساتھ نجیب کو یہ  گھر بھی چھوڑ دینا ہو گا۔

نسیم:میں نے تم سے زیادہ بڑی دنیا دیکھی ہے۔ جنگ کے دوران دوسرے ملکوں کو دیکھا ہے۔ ہر جگہ کے نوجوانوں سے ملا ہوں ان کے خیالات کو سمجھا ہے  اور ان کے جذبات کو پرکھا ہے۔ (کچھ دیر خاموش رہ کر) ورنہ اس قدر احمق نہیں تھا کہ اپنی نوجوان لڑکی کو یوں تمہارے لڑکے کے ساتھ تنہا بھیج دیتا۔

مجیب:کچھ بھی ہو مگر میں اپنے فیصلے پر اٹل ہوں۔

(نسیم کچھ دیر خاموش رہتے ہیں پھر جیسے کچھ یاد آ جانے پر)

نسیم:تو پھر ہو جائے پہاڑ پر چڑھنے کام قابلہ۔ جو جیت جائے۔ فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہو۔ کہو منظورہے۔

مجیب:(چند سکنڈ رک کر) منظور ہے۔

(دونوں مسکرا کر ہاتھ ملاتے ہیں۔)

نسیم:(بلند آواز سے)نجیب!صوفیہ!(خاموش ہو جاتے ہیں۔ مجیب پہاڑ کو دیکھنے لگتے ہیں۔ کچھ دیر بعد نجیب  اور صوفیہ کمرے میں آتے ہیں۔ نسیم دونوں کو مسکرا کر دیکھ کر مجیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کل ہم دونوں میں پہاڑ پر چڑھنے کا مقابلہ ہو گا۔

نجیب:(حیرت سے) جی آپ دونوں میں۔

نسیم:اس بوڑھے کھونسٹ  اور بے وقوف کو سبق پڑھانا ہے۔ ہم دونوں میں سے جو جیت جائے تم دونوں کی شادی کا فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہو گا (اپنی جیب سے ایک بوسیدہ جھنڈا نکال کر نجیب کودے کر) یہ لو اسے اپنے مکان پر چڑھا دو۔

مجیب:یہ جھنڈا!

نسیم:ہاں۔ یہ میرا جیتا ہوا جھنڈا ہے۔

مجیب:مگر گاؤں میں دو جھنڈے ایک ساتھ نہیں لہرائے جا سکتے یہ گاؤں کی رسم کے خلاف ہے۔

نسیم:مگر یہ جھنڈا میں نے جیتا ہے  اور آج تک کبھی اپنے گھر پر نہیں لہرایا۔ مجھے ایک سال تک اسے اپنے گھر پر لہرانے کا حق ہے۔

مجیب:(غصہ سے) یہ نہیں ہو سکتا۔ تمہارا جیتا ہوا جھنڈا میرے گھر پر نہیں لہرا سکتا۔

نسیم:یہ ہو گا۔ میں اپنی بیٹی کو جہیز میں کوئی بھی چیز دے سکتا ہوں۔ جس دن میں نے یہ جھنڈا جیتا  تھا یہ عہد کیا تھا کہ اپنی لڑکی کی شادی تیرے لڑکے کے ساتھ کروں گا  اور  یہ جھنڈا اسے جہیز میں دوں گا۔

مجیب:مگر تم ابھی مقابلہ نہیں جیتے ہو۔ تمہیں فیصلہ کرنے کا ابھی حق نہیں ہے۔

نسیم: اور وہ میں جیت کر رہوں گا۔ میں نے  خدا سے دعا کی کہ میرے یہاں خوبصورت لڑکی پیدا ہو اور خدا نے وہ دعا منظور کی۔ میں نے اس کو اچھی تعلیم دلوائی اچھی تربیت دی کہ تم کوئی عذر نہ کر سکو مگر تم جہالت پر اتر آئے۔(کھڑے ہو کر اپنی بندوق کاندھے پر لاد کر) چلو ابھی مقابلہ ہو جائے۔

مجیب:(چند سکنڈ رک کر) مقابلہ کل ہو گا۔تم ابھی تھکے ہوئے ہو کہو گے تھکے ہوئے کو ہرا دیا۔ کل صبح آٹھ بجے۔ منظور ہے۔؟

نسیم:منظور ہے۔ (دونوں پھر مسکرا کر ہاتھ ملاتے ہیں۔ نسیم نجیب کی طرف دیکھ کر) جاؤ گھر پر یہ جھنڈا لہر ادو۔ جیت میری ہو گی۔

(پہاڑ کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔)

۔۔۔ پردہ۔۔۔

ماخذ:’’طنزیہ ڈرامے ‘‘، نسیم بک ڈپو، ۲۵۔لاٹوش روڈ، لکھنؤ

 

 

 

 

 

 

دم خم

 

 

 

               افراد تمثیل

 

ارشد:ایک مالدار۔

نگار:ارشد کی بیٹی۔

خالدہ:ارشد کی بیوی۔

اسرار:نگار کا منگیتر۔

رحمت بی:ایک بوڑھی عورت۔

 

منظر

 

ایک دیہاتی مکان کا سجا  ہوا کمرہ۔ جب پردہ اٹھتا ہے تو نگار اور   ارشد بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں جو کسی مسئلے پر بہت دیر سے گفتگو کر رہے ہیں۔

 

 

نگار    : مگر پاپا آپ کو اصغر کا قرض معاف کر دینا چاہئے۔

ارشد   :لیکن کیوں ؟

نگار    :اگر آپ نے اس قرض معاف نہیں کیا تو اس کا مکان نیلام ہو جائے گا پھر وہ بے چارہ کہاں مارا مارا پھرے گا۔

ارشد   :ہم نے ٹھیکہ لیا ہے اس کے رہنے سہنے کا؟اس نے قرض لیا ہے تو اسے ادا کرنا چاہئے۔

نگار    :مگر ا س کا ہم پر کس قدر بڑا احسان ہے اگر وہ اس دن اپنی جان خطرے میں نہ ڈالتا تو  کیا میں آج اس دنیا میں موجود ہوتی۔

ارشد   :میں نے اسی وقت اس کو پچیس روپئے انعام دے دیا تھا۔

نگار    :میری جان کی قیمت آپ کے نزدیک صرف پچیس روپئے ہے۔

ارشد   : اور  میں نے تمہارے کہنے سے سارا سود بھی معاف کر دیا ہے۔

نگار    :مگر پاپا یہ بھی تو سوچئے کہ اس کا روپیہ مجھے بچانے ہی میں بہہ گیا۔

ارشد   :یہ سب جھوٹ  اور  بکو اس ہے۔ گڑھی ہوئی کہانی ہے۔ اگر اس کے پاس روپیہ تھا تو اسے ادا کر دینا چاہئے تھا۔

نگار    :پاپا!مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نے تین سال میں پائی پائی کر کے یہ روپیہ جمع کیا تھا کہ آپ کا قرض ادا کر دے اس نے خود کم کھایا اپنے بچوں کو کم کھلایا آپ اس پر ظلم کر رہے ہیں۔

ارشد   :اگر ہم اس طرح ہمدردی کرتے رہے تو ایک دن کوئی ہمارا مکان قرق کرا کر نیلام کرا دے گا۔

نگار    :اچھا ہوتا کہ میں دریا میں بہہ گئی ہوتی مجھے بچانے کے لیے اس بیچارے کا روپیہ تو ضائع نہ ہوتا۔ (ارشد خاموش رہتے ہیں نگار اٹھ کر ٹہلنے لگتی ہے پھر کچھ سوچ کر ارشد کے پاس آ کر) پاپا! آپ میرا ایک سال کا جیب خرچ بند کر کے اس کے حساب میں لکھ لیجئے میں ایک سال تک جیب خرچ نہیں لوں گی۔ اس بے چارے پر رحم کیجئے۔

ارشد   : (غصہ سے) زیادہ بحث نہ کرو، اپنے کمرے میں جاؤ میں اپنا ہی جوتا اپنے ہی سر کرنے کا عادی نہیں ہوں۔

نگار    :جب تک میں اس کا قرض معاف نہیں کرالوں گی ہر گز نہیں جاؤں گی۔

ارشد   : (غصہ سے اٹھ کر دوسرے کمرے کی طرف جاتے ہوئے) تولو۔ میں خود ہی چلا جاتا ہوں۔

(دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ نگار غصہ سے کمرے میں ٹہلنے لگتی ہے۔ کچھ دیر بعد اسرار کمرے میں آ کر)

اسرار  :نصیب دشمنان سنا ہے آپ پانی میں گر گئی تھیں۔

نگار    :جی ہاں۔

اسرار  :مجھے تو آج صبح ہی پتہ چلا فوراً دوڑا دوڑا چلا آ رہا ہوں۔ کیا کوئی بہت ہی سنجیدہ شکل تھی۔

نگار    : (طنزیہ)جی نہیں ویسے ہی تقریباً دو چار غوطے کھا لیے تھے۔ دریا میں طغیانی آئی ہوئی تھی  اور  میں اس کی روانی دیکھنے کے لئے ذرا اس دھار تک چلی گئی تھی۔

اسرار  : (غور سے نگار کا چہرہ دیکھ کر) آپ اس وقت کچھ زیادہ غصہ میں ہیں۔ میں تو آپ کی خیریت پوچھنے پچاس میل سے دوڑا چلا آ رہا ہوں۔

نگار    :جب آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ میں صحیح سلامت ہوں تو آپ نے بلاوجہ تکلیف کی۔

اسرار  :تکلیف!تکلیف کیسی!جونہی میں نے اس حادثہ کے متعلق سنا میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔

نگار    :یا پاپا کے پاتھ آئی ہوئی دولت نکلی جا رہی تھی۔

اسرار  :آج تو آپ جانے کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ (مسکرا کر) اگر میں نہ آتا تو آپ ادھر شکایت کرتیں۔

نگار    :میں کوئی شکایت نہیں کرتی۔ پاپا لائبریری میں ہوں گے۔ آپ ان سے جا کرمل لیجئے انھیں آپ سے مل کر خوشی ہو گی۔

اسرار  :لیکن اس سے پہلے تو آپ بھی خوش ہوا کرتی تھیں۔

نگار    :ہوا کرتی ہوں گی مگر  اب نہیں ہوں گی۔

اسرار  : (ہنس کر) آپ تو جانے کس کا غصہ مجھ پر اتار رہی ہیں (دوسرے کمرے کی طرف جاتے ہوئے) لیجئے میں چلا جاتا ہوں۔

(اسرار دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ نگار پھر کمرے میں ٹہلنے لگتی ہے۔ کچھ دیر بعد خالدہ کمرے میں آ کر)

خالدہ   :اسرار آیا ہے تم اس سے مل لیں۔

نگار    :مل لی۔ کیا اب ان کے ہر راستے پر آنکھیں بچھاتی پھروں۔

خالدہ   : (غصہ سے) تیرا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے۔ وہ شکایت کر رہا ہے کہ تو اس کے ساتھ انتہائی بد اخلاقی سے پیش آئی۔

نگار    :اگر ان کو اس قدر اخلاق کا خیال ہے تو پھر نہ آیا کریں۔ میں ان کی خوشامد کرنے نہیں گئی تھی کہ وہ میری خیریت دریافت کرنے تشریف لائیں۔

خالدہ   :وہ تیرا منگیتر ہے تجھے اس کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا چاہئے۔

نگار    :وہ میرے منگیتر نہیں پاپا کی دولت کے منگیتر ہیں۔

خالدہ   :وہ ایسا ننگا بھوکا نہیں ہے کہ دولت کے لیے تجھے چاہتا ہو۔ خدا کا دیا اس کے یہاں سب کچھ ہے۔

نگار    : اور  وہ اسی خدا کے دئے سب کچھ میں بندوں کا دیا ہوا بھی جوڑ لینا چاہتے ہیں۔ میں ان سے شادی نہیں کروں گی۔

خالدہ   :شادی نہیں کرے گی!

نگار    :ہاں ہ ان سے  اور  نہ کسی  اور  سے (اسرار پھر کمرے میں آتا ہے۔ نگار اس کی آمد پر دھیان نہ دے کر اسی لہجہ میں) میں پاپا کی دولت شادی کے بیجا مصارف سے بچانا چاہتی ہوں۔

اسرار  :اگر آپ کو مجھ سے شادی کرنا نہیں تھا تو یہ محبت کا ناٹک کیوں کھیلا جا رہا تھا۔

نگار    : (اسرار کو غصہ سے دیکھ کر) اس لئے کہ آپ بھی ایسا ہی ڈھونگ رچا رہے تھے۔

اسرار  :میری محبت ڈھونگ رچانا ہے ؟

نگار    :اگر میری محبت ’’محبت کا ناٹک‘‘ ہے تو آپ کی محبت بھی ڈھونگ رچانا ہے۔

اسرار  :اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم میری محبت کو ڈھونگ سمجھتی ہو تو میں کبھی بھی تم سے محبت نہیں کرتا۔

نگار    :اگر میں یہ سمجھتی کہ تم میری محبت کو ناٹک سمجھتے ہو تو میں تمہاری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔

خالدہ   : (اسرار سے) بیٹا!تو اپنے خالو کے پاس جا۔ اس لونڈیا کا تو آج صبح ہی سے دماغ خراب ہو رہا ہے۔

اسرار  :مگر  خالہ جان آپ دیکھ رہی ہیں کہ نگار نے میری کس قدر توہین کی ہے۔

نگار    : اور  آپ نے تو میری وہ عزت فرمائی ہے کہ میری سات پشتیں آپ کے بار احسان سے دبی رہیں گی۔

خالدہ   :اب تو چپ بھی ہو گی یا نہیں۔ (اسرار سے) اپنے خالو جان کے پاس جا اس کی بات کا برا نہ ماننا۔

اسرار  : (کسی قدر نرم لہجے میں)آپ ہی سوچئے خالہ جان اگر مجھے نگار کا خیال نہ ہوتا تو میں یوں پچاس میل سے دوڑا دوڑا کیوں آتا۔ (پھر دوسرے کمرے کی طرف جاتے ہوئے) آپ کی بزرگی  اور  شفقت کا خیال آتا ہے ورنہ۔ ۔ ۔

نگار    :ورنہ آپ میرے لیے توپ لگٍا دیتے۔

خالدہ   :اب تو چپ بھی رہے گی یا میری جان کی خواہاں ہے (اسرار دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ خالدہ نگارکی طرف دیکھ کر) آج کی تیری بدتمیزی نے میری زندگی آدھی کر دی ہے۔

نگار    : (بہت ہی افسردہ لہجہ میں) ممی!اس گھر میں کسی کی جان کی قیمت ہی کیا ہے اس گھر میں تو روپیہ ہی زندگی ہے  اور روپیہ ہی خدا۔ ۔ ۔ یہاں تو پانچ چھ سو روپئے بھی اکلوتی لڑکی کی جان سے زیادہ قیمتی ہیں۔

خالدہ   :لیکن انھوں نے کب تیری کس خواہش کو پورا کرنے سے انکار کیا ہے۔

نگار    :تو کیا وہ میری خاطر اصغر کے قرض کے پانچ سو روپئے معاف نہیں کر سکتے جس نے میری جان بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔

خالدہ   :اس میں سوال پانچ چھ روپئے کا نہیں ہے۔ اصول کا سوال ہے  اور   تو جانتی ہے کہ تیرے پاپا اپنے اصولوں کے کس قدر سختی سے پابند ہیں۔

نگار    : (طنزیہ لہجہ میں) میں خوب جانتی ہوں پاپا کی اصول پرستی۔ ’’ میں کسی کے گھر خوشامد کرنے نہیں جاتا۔ ‘‘ابھی ایک مقدمہ آن پڑا تھا تو سرکاری حکام کے گھروں کے ہزاروں چکر لگائے تھے معمولی معمولی کلرکوں کو بھی جھک جھک کر سات سلام کرتے تھے (ٹھنڈی سانس بھرکر) مجھ سے اصغر کے بیوی بچوں  اور  اس کی بوڑھی ماں کی اداسی نہیں دیکھی جاتی نہ وہ مجھ کو بچانے کے لئے دریا میں کودتا  اور   نہ اس پر مصیبت پڑتی۔

خالدہ   :یہ گڑھی ہوئی کہانی ہے کہ اس کی جیب میں نوٹ تھے جب وہ دریا میں کودا۔ دو دو دن فاقے کرتے ہوئے توہم نے اس کے گھر والوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

نگار    : اور  یونہی فاقے کر کے اس نے پاپا کا قرض چکانے کے لیے روپیہ جمع کیا تھا۔ کاش میں ڈوب کر مر گئی ہوتی۔

خالدہ   :مریں تیرے دشمن۔ ایسی منحوس بات زبان پرنہ لایا کر۔

نگار    :آج مجھے اپنے آپ سے شرم آ رہی ہے۔ امی۔ مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہو گئی ہے کاش کہ میں اس دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوئی ہوتی۔

خالدہ   :اچھا اب  تو جا کر منھ ہاتھ دھو لے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے۔ جا کر کچھ کھا پی لے میں تیرے پاپا سے کہوں گی۔

نگار    : (طنزیہ)تم بھی کہہ کر دیکھ لو۔ میں تو کہہ کر بے عزت ہو گئی اب تم کو شوق ہے تم بھی بے عزت ہولو۔

خالدہ   :اچھا ابھی تو تو جا۔ ۔ ۔ (نگار خاموشی سے کمرے سے چلی جاتی ہے خالدہ کچھ دیر کھڑی سوچتی رہتی ہے پھر دوسرے کمرے کے دروازے کے پاس جا کر) ارے سنتے ہو جی۔ ذرا ادھر آنا۔ (کچھ دیر بعد ارشد آتے ہیں ان کے چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ غصہ میں ہیں۔ خالدہ ان کا چہرہ دیکھ کر) اسرار کہاں ہے ؟

ارشد   :لائبریری میں ہے  اور  شرمندہ ہے کہ وہ اس منحوس مکان میں کیوں آیا۔ آخر یہ صاحبزادی کے دماغ میں کون سا فتور پیدا ہو گیا ہے۔

خالدہ   :بات دراصل یہ ہے کہ۔ ۔ ۔

ارشد   : (بات کاٹ کر)بس رہنے دیجئے اس کی وکالت میں سب کچھ سن چکا ہوں۔

خالدہ   :پانچ چھ روپئے کی بات ہی کیا ہے چھوڑئیے وہ بھی خوش ہو جائے گی۔

ارشد   :میں اس کی خوشی کے لیے اپنا اصول نہیں چھوڑ سکتا۔ جس کو روپیہ دیا ہے اس سے ضرور وصول کروں گا۔

خالدہ   :ابھی آپ نے اس کے بچنے کی خوشی میں جشن کر ڈالا  اور روپیہ پانی کی طرح بہا دیا۔ سمجھ لیجئے گا کہ جہاں اتنا روپیہ خرچ ہوا وہاں پانچ چھ سو  اور   خرچ ہو گیا۔

ارشد   :لین دین میں سمجھ لینا  اور  فرض کر لینا کچھ نہیں ہوتا  اور  اب تو سوال صاحبزادی کی ضد کا ہے  اور  میں ان کی ضد کے آگے جھکنے والا نہیں۔

خالدہ   :ضد وہ نہیں کر رہی ہے آپ کر رہے ہیں۔ وہ حق پر ہے۔

ارشد   : اور  میں ناحق پر ہوں۔ نگار کی ماں !میں جو دل میں ٹھان لیتا ہوں اس کو پورا کر کے رہتا ہوں۔ میں یہ روپیہ ضرور وصول کر کے رہوں گا۔

خالدہ   :چاہے لونڈیا گھٹ گھٹ کر جان دیدے ؟

ارشد   :ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ۔ میں سمجھ لوں گا کہ میرے یہاں کوئی اولاد پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔

خالدہ   : (غصہ سے) تو پھر تم کو اپنی اولاد سے نہیں روپیہ سے زیادہ پیار ہے۔

ارشد   :یونہی سمجھ لو۔  اور  تم جواس کی وکالت کر رہی ہو مجھے یہ بھی پسند نہیں ہے۔

خالدہ   :تمہیں تو کچھ بھی پسند نہیں ہے اپنی اولاد پسند نہیں ہے اپنی بیوی پسند نہیں ہے۔

ارشد   :ہاں اگر تم یونہی اس کی وکالت کرتی رہیں تو تم بھی پسند نہیں ہو۔

خالدہ   :لیکن گاؤں میں تمہارے اس رویے سے بے چینی ہے اصغر سے سب کو ہمدردی ہے۔

ارشد   :تو وہ مجھ سے نفرت کرنے لگیں۔ مجھے اس کی بھی پرواہ نہیں (دوسرے کمرے کی طرف جاتے ہوئے) روپیہ وصول ہو گا  اور   ہو کر رہے گا۔ آپ بھی کان کھول کر سن لیجئے۔

(دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ خالدہ خاموش کھڑی رہتی ہے پھر جانے کے لیے مڑتی ہے کہ اسرار کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ خالدہ اسے دیکھ کر)

خالدہ   :کیوں بیٹا کہاں چل دیئے۔

اسرار  : (غمگین لہجے میں)آپ سے اجازت لینے آیا ہوں۔

خالدہ   :ایسی کیا جلدی ہے کل چلے جانا۔

اسرار  :اس گھرکا جو ماحول ہے اس سے مجھے گھٹن ہونے لگی ہے  اور  نگار کا رویہ میرے لیے ناقابل برداشت رہا ہے۔

خالدہ   :مگر  بیٹا۔

اسرار  :میں خود پر لعنت بھیج رہا ہوں کہ میں اس قدر خلوص سے نگار کے پاس کیوں آیا۔

خالدہ   :غصہ میں اس کی زبان سے کچھ الٹی سیدھی باتیں نکل گئی ہیں غصہ کی بات کا برا نہیں مانتے۔

اسرار  :خالہ جان! قسم ہے پاک پروردگار کی اگر کسی  اور  نے مجھ سے اس قسم کا برتاؤ کیا ہوتا تو اس کی جان لے لیتا اپنی جان دے دیتا۔

خالدہ   :تم تو سمجھ دار ہو پڑھے لکھے ہو۔ تمہارے خالو جان کے برتاؤ سے وہ چڑچڑی سی ہو رہی ہے اسے معاف کر دو۔

اسرار  :میں نے تو اس کا کچھ نہیں بگاڑا تھا  اور  یہ عجیب منطق ہے کہ غصہ تھا کسی  اور  کا  اور  اتارا گیا مجھ پر۔ ۔ ۔ گویا میں صدقہ کا بکرا تھا کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ بس رگید دیا گیا۔ اب تو مجھے اجازت دیجئے۔

خالدہ   :نہیں میں تم کو ہرگز نہیں جانے دوں گی۔ (ایک بوڑھی عورت لکڑی ٹیکتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ خالدہ اسے دیکھ کر)آئیے آئیے رحمت بی(رحمت بی کا ہاتھ پکڑ کر ایک صوفے پر بٹھلاتی ہے  اور   اسرار کی طرف دیکھ کر) بیٹا ماں جی کو سلام کرو ان کی دعاؤں میں بڑی برکت ہے۔ انھوں نے زندگی میں سات حج کئے ہیں۔ گاؤں بھرکی ماں جی ہیں بڑی عزت ہے ان کی گاؤں والوں کی نظر میں۔ سو سال سے زیادہ عمر ہے۔ (اسرار جھک کر رحمت بی کو سلام کرتا ہے۔ رحمت بی چشمے سے اسے غور سے دیکھتی ہے) یہ اپنی نگار کا منگیتر ہے۔ میری بہن کا لڑکا ہے۔

رحمت بی       :جگ جگ جیو۔ (پھر چشمے میں سے اسے غور سے دیکھ کر) اب سوجھائی تو دیتا نہیں۔ (خالدہ اسرار کو اشارہ کرتی ہے کہ وہ رحمت بی کے پاس آ جائے۔ اسرار رحمت بی کے پاس آ جاتا ہے۔ رحمت بی اس کے سرپر ہاتھ پھیر کر) خدا سلامت رکھے۔ (ہاتھ پکڑ اپنے پاس بٹھلاتے ہوئے) جوڑا ہرا بھرا رہے۔

خالدہ   :آج کیسے نکل پڑیں۔ (رحمت بی اس کی طرف ایسے دیکھتی ہیں جیسے سنا نہ ہو خالدہ قریب آ کر زور سے) آج کیسے نکل پڑیں۔ (اسرار کی طرف دیکھ کر) برسوں ہی میں گھر سے نکلتی ہیں۔

رحمت  :اب تو کانوں سے بھی اونچا سننے لگی ہوں۔ ارشد میاں کہاں ہیں ذرا ان سے ملنا تھا۔

خالدہ   :گھر پرہی ہیں۔ (کانوں کے پاس منھ لے جا کر) بلاؤں ان کو۔ (رحمت بی اثبات میں سر ہلاتی ہیں۔ خالدہ دوسرے کمرے کے دروازے کے پاس جا کر)رحمت بی آپ سے ملنے آئی ہیں۔

رحمت بی       : (پھر اسرار کے سرپر ہاتھ پھیر کر) اچھے تو ہو بیٹا۔

اسرار  : (رحمت بی کے کان کے پاس منھ لے جا کر) آپ کی دعا ہے۔

رحمت بی       : (کمرے میں چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے) خالدہ بی بی کہاں چل دیں۔

خالدہ   : (ان کے پاس آ کر) یہ ہوں ماں جی۔

رحمت بی       :بٹیا کہاں ہے۔

خالدہ   :اپنے کمرے میں ہے۔ (رحمت بی پھر اپنا کان اس کی طرف بڑھاتی ہیں۔ خالدہ کان کے پاس منھ لے جا کر)اپنے کمرے میں ہے بلاؤں آپ کے پاس۔

رحمت بی       :کئی سال سے نہیں دیکھا۔ اب تو ماشاء اللہ سیانی ہو گئیں ہو گی۔

(ارشد کمرے میں آتے ہیں ا ور رحمت بی کے پاس جا کر)

ارشد   :رحمت بی آداب۔ (رحمت بی ان کی طرف دیکھتی ہیں  اور  کان بڑھاتی ہیں ارشد بلند آواز سے)میں سلام عرض کر رہا ہوں۔

رحمت بی       :جگ جگ جیو ارشد میاں۔ (اپنا ہاتھ اونچا کرتی ہیں۔ ارشد سر نیچا کر لیتے ہیں۔ ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر) اچھے تو ہو۔

ارشد   :جی ہاں مہربانی ہے آپ کی۔ (سامنے ایک کرسی پر بیٹھ کر) کہئے کیسے تکلیف کی آپ نے۔ مجھے بلا لیا ہوتا اپنے گھر پر۔

رحمت بی       :ایک کام سے آ گئی تھی۔

ارشد   :فرمائیے۔

رحمت بی       :اصغر کو کچھ دن کی مہلت دے دو۔ خدا تمہیں اس کا اجر دے گا۔

ارشد   :میں پانچ سال سے تو برابر مہلت دے رہا ہوں۔

رحمت بی       :کچھ دن  اور  سہی۔ اب تمہیں تو اس کے گھر کا حال معلوم ہے اگر اس کا گھر نیلام پر چڑھ گیا تو بے چارا کہاں مارا مارا پھرے گا۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔

ارشد   :اب آپ ہی سوچئے کہاں تک مہلت دی جائے۔ جب ادا نہیں کر سکتا تھا تو قرض ہی کیوں لیا تھا۔

رحمت بی       :کنواری بہن کو کیسے گھر میں بٹھائے رکھ سکتا تھا۔

ارشد   :اس سے کس نے کہا تھا کہ رئیسوں کی طرح شادی میں ٹھاٹ جمائے۔

رحمت بی       :کہاں کے ٹھاٹ جمائے تھے بے چارے نے۔ فاقے کر کے  اور   ننگے رہ کے کوڑی کوڑی جمع کی تھی کہ تمہارا قرض ادا کر دے گا مگر  خدا کو منظور نہیں تھا۔

ارشد   :ماں جی!آپ بھی اس کی باتوں میں آ گئیں۔ ایک نمبر کا جھوٹا  اور  لفنگا ہے۔

رحمت بی       :اب جھوٹا ہویا لفنگا۔ میاں تم تو اسے کار خیر سمجھو۔

ارشد   :اب کار خیر میں خود تو ننگا ہوتا ہے نہیں۔ آخر میری بھی ضروریات ہیں۔

رحمت بی       :خدا تمہاری ضروریات تو پوری کرتا ہی رہتا ہے۔ تم بندوں پر احسان کرو گے تو خدا تم پر مہربان ہو گا۔

ارشد   :آپ کہتی ہیں کہ یہ روپیہ اس نے سالوں میں کوڑی کوڑی کر کے جمع کیا تھا۔ اب پھر مجھے کئی سال انتظار کرنا پڑے گا کہ وہ پھر کوڑی کوڑی کر کے جمع کر کے۔

رحمت بی       :اللہ واسطے کا سودا ہے۔

ارشد   :جب دیا تھا تو یہی سوچ کر دیا تھا کہ اللہ واسطے کا سودا ہے مگر  یہ کیا معلوم تھا کہ ایک دن یہ اللہ واسطے کا سودا مصیبت بن جائے گا۔

رحمت بی       :کیسی باتیں کرتے ہو ارشد میاں۔ کچھ خدا کا خوف بھی دل میں پیدا کرو۔ ایسی بھی پیسے کی کیا محبت۔

ارشد   :پیسے کی ضرورت سب کوہی ہوتی ہے  اور  پیسے کی محبت بھی۔ اسے پیسے لوٹانا ہی پڑے گا۔

رحمت بی       :وہ پیسے لوٹانے سے کب انکار کر رہا ہے۔ کچھ مہلت ہی تو مانگ رہا ہے۔

ارشد   :مگر  اب میں مہلت نہیں دے سکتا۔ اگر اس نے پیسہ نہیں لوٹایا تو قانونی کاروائی ضرور کی جائے گی۔

رحمت بی       :اس قدر کٹھور دل نہ بنو ارشد میاں۔ غریب کی مجبوری کو دیکھو۔

ارشد   :نہ میں نے اس کو غریب کر دیا ہے  اور  نہ مجبور۔

رحمت بی       :تو تمہارے دل میں ذرا بھی رحم نہیں ہے۔

ارشد   :اگر آپ نے اسی لیے تکلیف کی ہے تومیں مجبور  ہوں۔

رحمت بی       : (غصہ سے کھڑی ہو کر) سارا گاؤں جانتا ہے کہ اس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کر کے تمہاری لڑکی کی جان بچائی۔ سارا گاؤں جانتا ہے کہ اسی میں اس کا روپیہ بہہ گیا۔

ارشد   :تو پھر سارا گاؤں میرا روپیہ ادا کر دے، میں نے تو نہیں کہا تھا اس سے دریا میں کود جانے کو۔

رحمت بی       : (دروازے کی طرف جاتے ہوئے)تمہارا روپیہ رحمت بی ادا کرے گی تین دن میں۔ تین دن میں۔

(لکڑی ٹیکتی ہوئی کمرے سے چلی جاتی ہے۔ )

خالدہ   :آپ نے رحمت بی کو ناراض کر دیا اچھا نہیں کیا۔

ارشد   :ایسی ڈھونگ رچانے والی عورتیں بہت سی دیکھی ہیں۔

(باہر لوگوں کا شور و غل۔ خالدہ کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھتی ہے۔ پھر گھبرا کر)

خالدہ   :باہر سارا گاؤں جمع ہے۔

ارشد   : (کھڑکی میں سے جھانک کر) دیکھئے بڑھیا کے کرتوت سارا گاؤں جمع کر کے لائی ہے میرے اوپر چڑھائی کرنے۔ (لپک کر دوسرے میں جاتے ہیں  اور  بندوق لے کر آتے ہیں)میں لاشوں کے ڈھیر لگا دوں گا۔ ان بدمعاشوں نے سمجھا ہے یوں جمع ہو کر مجھے ڈرا دھمکا لیں گے۔

اسرار  :آپ ٹھہرئیے میں ان سے جا کر ملتا ہوں۔

(نگار کمرے میں آ کر خاموش کھڑی ہو جاتی ہے۔ )

خالدہ   : (اسرار کا ہاتھ پکڑ کر)نہیں بیٹا تم نہ جاؤ۔ خدا جانے وہ لوگ کس ارادے سے آئے ہیں۔

اسرار  :آپ ہاتھ چھوڑئیے خالہ جان۔ آخر معلوم تو ہو وہ کیا چاہتے ہیں۔

ارشد   : (بندوق میں کارتوس رکھتے ہوئے) چاہتے کیا ہیں یہ بڑھیا میرا گھر لٹوانا چاہتی ہے۔ (کھڑکی سے باہر دیکھتے ہیں) میں خوب سمجھتا ہوں اس بڑھیا کو۔

(باہر شور و غل کسی قدر کم ہو جاتا ہے۔ رحمت بی کی آواز آتی ہے۔ )

رحمت بی       :کل سے میں مزدوری کر کے اصغر کا روپیہ ادا کروں گی تین دن میں سارا روپیہ۔ کون کون میرے ساتھ ہے۔

آوازیں         :ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ماں جی۔ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم سب اپنی تین تین دن کی مزدوری اصغر کے قرض میں دیں گے۔

رحمت بی       :خدا تم سب کا بھلا کرے گا۔

(آوازیں آہستہ آہستہ غائب ہو جاتی ہیں۔ ارشد مسکرا کر)

ارشد   :بس اتنا ہی دم خم تھا!

نگار    : (اپنے باپ کو نفرت سے دیکھ کر) دم خم تھا نہیں۔ دم خم ہے۔

۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔

ماخذ: ’’طنزیہ ڈرامے‘‘، نسیم بک ڈپو، ۲۵ لاٹوش روڈ، لکھنؤ

٭٭٭

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

تشکر: مصنف اور ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید