FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

دو ون ایکٹ پلے

 

 

 

 

 

 

               ساگر سرحدی

 

مشمولہ انتخابات مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

مرزا صاحباں

 

 

کردار

 

کردار۔اداکاروں کے نام

ملک رحمت خاں۔رام سروپ

صاحبان۔کماری سادھنا

مرزا اعظم خاں۔شبیر خاں

رام۔ایم کے شرما

ڈائریکشن۔۔۔ رمیش تلوار

 

 

 

 

مرزا صاحباں

 

 

 منظر        :(ملک رحمت خاں کے ٹوٹے ہوئے مکان کا آنگن۔۔۔ گولے باری اور بمبارڈمنٹ کی آوازیں۔۔۔ سامنے دیوار کا دروازہ مویشی گھر میں کھلتا ہے۔۔۔ آنگن میں صاحباں بیٹھ کر دعا پڑھ رہی ہے۔۔۔ ملک سامنے والے دروازے سے اندر آتا ہے۔)

 

ملک                  :صاحباں۔

صاحباں             :جی ابا۔

ملک                  :ابھی وقت ہے میری بات مان لو۔

صاحباں             :کہیے؟

ملک                  :تم یہ گاؤں چھوڑ دو۔ میں مرزا سے کہہ کر تمہارے جانے کا بندوبست کرا دیتا ہوں۔

صاحباں             :اور آپ؟

ملک                  :میں اس عمر میں اب کہاں جاؤں گا۔ پرانے درخت کو اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا دیا جائے تو وہ دو دن نہیں ٹکے گا۔ لڑھک جائے گا۔

صاحبان:میرے  لیے تو ابا اسی پیڑ کی چھاؤں ہے۔ میں کہاں جاؤں گی؟

ملک                  :جانے تم نے یہ تکرار کرنا کہاں سے سیکھا ہے۔

(وہ پرات لے کر مویشی گھر میں جاتا ہے۔ صاحباں چارے کا سامان کنارے رکھتی ہے۔ ملک داخل ہوتا ہے۔)

ملک                  :ابھی تو صبح کا چارا پڑا ہے۔ پر لالی نے سونگھا تک نہیں۔

(صاحباں اس کے ہاتھ دھلاتی ہے۔)

صاحباں             :اس کو چچا کے ساتھ بھیج دیتے تو اچھا تھا۔

ملک                  :میں نے تو بھیج دیا تھا، رسی تڑا کر بھاگ آئی۔

صاحباں             : آپ ہی نے تو اسے اتنا بگاڑا ہے۔

ملک                  :ہاں۔۔۔ سچ کہتی ہے تو۔

صاحباں             :میرا تو روز اس سے جھگڑا ہوتا ہے۔

ملک                  :لالی تجھ سے جلتی ہے اور تو لالی سے۔

صاحباں             :میں کیوں جلوں گی بھلا۔۔۔ وہ جلتی ہے۔ گائے نہیں ہے۔ چڑیل ہے چڑیل۔ اس کے سامنے کبھی تم مجھ سے پیار کرتے ہو، مارنے کو دوڑتی ہے۔

ملک                  :میری دوہی تو اولاد ہیں۔ تم اور لالی۔

صاحباں             :میرا اس کے ساتھ مقابلہ کرتے ہونا ابا، تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔

ملک                  :وہ بے زبان ہے بیٹی۔ جانور ہے۔ پھر آج کل اتنی سہمی رہتی ہے۔ جانور کی حس بڑی تیز ہوتی ہے۔ خطرے کو پہلے ہی پہچان لیتی ہے۔

(وہ کھاٹ پر بیٹھتا ہے۔ کوئی مرزا گاتا ہوا نکلتا ہے۔ صاحباں اس کی کشش سے آواز کے پیچھے پیچھے جاتی ہے۔)

صاحباں             :ابا جب کوئی مرزا گاتا ہے نا، لگتا ہے میں گا رہی ہوں۔

ملک                  :ایک دن تو پاگل ہو جائے گی۔

صاحباں             :مجھے اب ایسا لگتا ہے جیسے میری روح اب مجھے چھوڑ کر جا رہی ہے۔ وہ ’’مرزا‘ ‘گاتے ہوئے آگے چل رہی ہے۔ کھیتوں کھلیانوں سے، ندی نالوں کو پار کرتی ہوئی، پہاڑوں سے اور میں اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔

ملک                  :صاحباں، ایسی باتیں نہیں کرتے بیٹی۔

صاحباں             اچھا ابا یہ بتائیے، صاحباں کو غدار کہتے ہیں نا لوگ؟

ملک                  :ہاں۔ قصے کہانیوں میں یہی لکھا ہے۔

صاحباں             :کیوں؟

ملک                  :اس لیے کہ اس نے اپنے بھائیوں کی جان بچا کر اپنے عاشق کو مروا ڈالا تھا۔

صاحباں             :کیسے؟

ملک                  :مرزا صاحباں بھاگ کر جنگل کی طرف نکل گئے تھے تو راستے میں رات ہو گئی تھی۔ مرزا نے کہا صاحباں تو سو جا۔ میں پہرہ دیتا ہوں۔ صاحباں نے سوچا اگر میں سو گئی اور میرے  بھائی مجھے تلاش کرتے ہوئے یہاں آ گئے تو تیر انداز مرزا میرے  بھائیوں کو مار دے گا۔ ا س نے کہا۔ نہیں مرزا تو سو جا۔ مرزا سو گیا۔ صاحباں نے اس کا تیر کمان پیڑ پر ٹانگ دیا۔ صاحباں کے بھائی صاحباں کو تلاش کرتے ہوئے ادھر نکل آئے۔ انھیں موقع کی تلاش تھی، انھوں نے مرزا کو مار ڈالا۔ اس کے بعد صاحباں نے بھی جان دے دی۔ وہ پاک روح تھی۔ وہ مرزا کے بغیر کیسے رہ سکتی تھی۔

صاحباں             :لیکن ابا کون بہن ایسی ہو گی جو اپنے بھائی کو اپنے سامنے مرتا دیکھ سکے گی؟

ملک                  :زمانہ بدل گیا ہے بیٹی۔ آج کل بیٹی خاندان کو چھوڑ کر عاشق کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔

صاحباں             :میں اپنے ویر کے لیے ایک جان تو کیا دس جانیں قربان کر دوں۔ ابا میرا بھائی کہاں ہے؟

ملک                  :ہندوستان چلا گیا ہے۔

صاحباں             :کب آئے گا؟

ملک                  :حالات جانتی ہو تم۔ ہندوستان، پاکستان کی لڑائی چھڑی ہوئی ہے۔

صاحباں             :کیا نام ہے میرے  بھائی کا؟

ملک                  :رام۔

صاحباں             :رام؟

ملک                  :ہاں۔

صاحباں             :وہ چٹھی کیوں نہیں لکھتا؟

ملک                  :لکھتا رہا بیٹی، ۱۶۔۱۷سال ہو گئے۔ ہر خط میں تمہیں پیار لکھتا رہا۔

صاحباں             :اور کیا لکھتا تھا؟

ملک                  :لکھتا تھا، تیوہار آتے ہیں تو مجھے بہن یاد آتی ہے۔ میرا دنیا میں کوئی نہیں۔ ایک آپ ہیں اور ایک میری ننھی سی بہن۔

صاحباں             :میں ننھی تھوڑی ہوں۔

ملک                  :اس وقت تو ننھی سی تھی۔ ماں تیری پیدائش کے بعد ہی مر گئی تھی۔ رام رات رات بھر جاگ کر تمہیں سلاتا تھا۔ کٹوری سے، چمچ سے تمہیں دودھ پلایا کرتا۔ میں دن بھر کھیتوں میں رہتا اور وہ تجھے گود میں لیے پھرتا۔

صاحباں             :ابا آپ نے جانے کیوں دیا انھیں؟

ملک                  :میں جانے نہ دیتا بیٹی۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں۔ میرا اپنا بیٹا بھی شاید اتنی خدمت نہ کرتا۔ اتنا اپنا نہ ہوتا۔ ہر بات کو اشارے سے سمجھ جاتا تھا۔

صاحباں             :پھر کیسے چلے گئے وہ؟

ملک                  :سارے گاؤں کے لوگ جرگہ لے کر میرے  گھر میں آئے۔ یہیں انھوں نے کہا۔ میں نے ایک کافر کے بچے کو پناہ دی ہے۔ ان دنوں خون سوار تھا سب پر۔ رام کے ماں باپ کو قتل کر دیا گیا تھا۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ میں رام کا نام بدل دوں۔ اس کا مذہب بدل دوں۔ رام نہ رکھ کر رسول رکھ دوں۔

صاحباں             : آپ نے کیا کہا؟

ملک                  :میں نے کہا۔ رام کی پیدائش سے پہلے اس کاکوئی مذہب نہ تھا۔ کوئی ملک نہ تھا، کوئی رنگ نہ تھا۔

صاحباں             :انھوں نے کیا کہا؟

ملک                  :انھوں نے جواب دیا:’’اس کی پیدائش کے بعد اس کامذہب مقرر ہو گیا تھا۔ اس کاملک بھی قراردے دیا گیا ہے اور رنگ بھی۔‘‘

صاحباں             : آپ نے کیا کہا؟

ملک                  :میں نے کہا:’’رام کانام رسول رکھ دوں توکیارام کارنگ بدل جائے گا؟اس کی شکل بدل جائے گی؟انھوں نے جواب دیا:’’اس کی روح بدل جائے گی۔‘‘

صاحباں             :پھر؟

ملک                  :میں نے کہاروح کس نے دیکھی ہے؟انھوں نے جواب دیا:’’ہندو روح ہوتی ہے۔ مسلمان روح ہوتی ہے۔ جیسے ہندوپانی ہوتا ہے۔ مسلمان پانی ہوتا ہے۔‘‘

صاحباں             :پھر؟

ملک                  :پھرمیں کھڑے ہوکربآواز بلندکہا۔ جوآدمی خداکے نام کوالگ کرتا ہے، جو آدمی کی روح کانام دیتا ہے، رنگ دیتا ہے، جوآدمی پانی کو جو خدا کی بخشش ہے، اس کی رحمت ہے، اس کے نام کو بانٹتا ہے، وہ جھوٹا ہے، مکار ہے، خدا کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ اگر رام میرے  گھر میں رہے گا، اس کا نام رام ہی رہے گا۔۔۔ میرے  بیٹے کی طرح رہے گا۔ میرے  بھتیجے کی طرح رہے گا۔ میرے  عزیز کی طرح رہے گا۔

صاحباں             :مان گئے وہ؟

ملک                  :اس وقت تو وہ کچھ نہ بولے۔ لیکن مجھے پتا چلا کہ وہ لوگ رام کو مار ڈالنے کی فکر میں تھے۔ مذہب بڑا اندھا ہے صاحباں۔ اناج وہی ہے، اسی مٹی سے اگتا ہے۔ لیکن جب ہمارے برتن میں پکتا ہے مسلمان اناج ہو جاتا ہے اور اگر کسی ہندو کے برتن میں پکتا ہے تو ہندو اناج ہو جاتا ہے۔ پانی بھی وہی ہے۔ اسی دریا سے ہم لاتے ہیں تو ہمارے برتن کا پانی مسلمان پانی ہو جاتا ہے اور ہندو کے برتن کا ہندو پانی ہو جاتا ہے۔۔۔ میں نے رام کو ایک اندھیری رات میں پاکستان کی سرحد سے پار کر دیا۔

صاحباں             :میرا بھیا۔

ملک                  :(رندھی ہوئی آواز میں ) بیٹی وہ میرے  قدموں میں اتنا رویا کہ میں بتا نہیں سکتا۔ بولا ’’چچا میرا نام بدل دو، اسلم رکھ دو، فیاض رکھ دو، رسول رکھ دو۔ لیکن مجھے اپنے قدموں سے الگ نہ کرو۔‘‘چھوٹا سا بچہ، معصوم بھولا بھالا۔ بولا ’’میرا کوئی نہیں، میرے  ماں باپ مر چکے ہیں۔ وہ ہندو تھے یا مسلمان۔ مجھے کچھ پتا نہیں۔ چچا تم ہی میرے  سب کچھ ہو۔‘‘ میں نے ڈانٹا تو چیخ کر کہنے لگا۔’’میں اپنی بہن کو ساتھ لے جاؤں گا۔ تم کون ہوتے ہو میری بہن کو رکھنے والے۔ میں نے اسے پالا ہے۔‘‘ (وقفہ) آدھی رات کو میں نے اسے ایک ٹرک میں ڈھکیل دیا۔۔۔

(ملک کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ صاحباں روتی ہے۔)

صاحباں             :میرا ویر، میرا بھیا۔

(وقفہ)

(آہستہ آہستہ بمبارڈمنٹ کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔)

ملک                  :نفرت کاجو بیج ہم نے اس وقت بویا تھا، اس کا پھل آج کاٹ رہے ہیں۔۔۔ اقبال نے کہا تھا:

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

اور ہم مذہب کے نام پر خون کے دریا بہا رہے ہیں۔

(دروازے پر دستک ہوتی ہے۔)

ملک                  :کون؟

آواز                 :مرزا اعظم خان۔

ملک                  :آ جاؤ مرزا، اندر آ جاؤ۔

(صاحباں پردے کی آڑ میں ہو جاتی ہے اور مرزا نہایت غمگین اور سنجیدہ ہے۔)

مرزا                  :آداب عرض ہے چچا جان۔

ملک                  :کہو بھتیجے، دشمنوں کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟

مرزا      :ملک جی، آپ کے یہ زہر کے بجھے ہوئے تیر پھر کسی وقت کام آئیں گے۔اس وقت رہنے دیجئے۔

ملک                  :بیٹے پھر کی بات نہ کرنا، گھڑی بھرکا تو یقین نہیں۔

مرزا                  :مطلب؟

ملک                  :مطلب یہ کہ ہندوستانی فوج آندھی کی طرح بڑھتی آ رہی ہے اور تم روک نہیں پا رہے ہو۔

مرزا      :ملک جی، اس کے بارے میں، میں آپ سے زیادہ ہی جانتا ہوں۔ ہم نے لاشوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ ہمارے ایک ایک شہید نے دس دس کافروں کی جانیں جہنم میں ڈھکیل دی ہیں۔

ملک                  :لگتا ہے مرزا، تم پاکستانی فوج کے میجر ہی نہیں ہو، جنت اور جہنم کا پتا بھی رکھتے ہو۔ وہ کافر جہنم میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کی شاید رسید بھی تمہیں مل گئی ہے۔

مرزا                  :کافروں کی جگہ صرف جہنم ہے رحمت خاں۔

ملک                  :اور مومنوں اور مجاہدوں کی؟

مرزا                  :یہ بتانے کی ضرورت نہیں ملک جی۔

ملک                  :بتا دو مرزا۔ عزیزوں کا پتا تو رکھنا ہی چاہئے۔

مرزا      :ہم جو شہید ہو رہے ہیں، وطن کے لیے قربان ہو رہے ہیں۔ قوم اور ملت کے لیے جانیں دے رہے ہیں۔ ہم جنت میں قدم رکھیں گے۔

ملک                  :لگتا ہے خدا بھی رشوت قبول کرنے لگا ہے۔

مرزا                  :ملک جی۔۔۔

ملک                  :اماں یار گرمی نہ دکھاؤ، تم مر کر شاید جنت میں جاؤ گے۔ میاں ہم تو جنت میں تھے، میاں جنت میں۔ کیا یہ علاقہ کسی جنت سے کم ہے؟ تم نے دھان کے کھیت دیکھے ہیں؟میں کسان ہوں مرزا کسان۔ دھان کی بالیاں لمبی لمبی، لہراتی، بل کھاتی، ناچتی ہوا میں دائرے بناتی ہوئی کسی معشوقہ کی زلفوں سے گھنی گھنی اور جان لیوا ہوتی ہیں۔ بتاؤ مرزا تم میری طرح نہیں بن سکتے ہو؟اماں یار خدا نے یہ برکت ہی تمہیں نہیں دی۔ تم نے اپنے خون کو نفرت سے کالا کر دیا ہے، زہریلا بنا دیا ہے اور تم نے کھیتوں سے کبھی گنا توڑ کر کھایا ہے۔ شہد کی طرح پنجاب کی کسی سوہنی مٹیار کے ہونٹوں کی طرح رس بھرا۔ کون کہتا ہے کہ خدا یہاں جلوہ گر نہیں۔ راوی میں کبھی تیرے ہو؟راوی کا پانی جب جسم کو چھو جاتا ہے، ایک ایک رگ زندہ ہو جاتی ہے۔ ایک ایک پور جاگ اٹھتی ہے۔ خون اور سرخ، دل اور جواں، جسم گاتا ہوا اور مرزا اعظم خاں تم نے اس دھرتی کو دوزخ میں بدل دیا ہے۔ بارود، ہوائی جہاز، ٹینک، توپیں اور زہریلی گیسوں سے میرے  اس پنجاب کو اجاڑ دیا ہے۔

مرزا      :ملک رحمت خاں آپ خودغرض ہیں۔ اپنی اس چپے بھر زمین کے لیے روتے ہیں۔ اپنے دھان اور گنے کے کھیتوں کے لیے روتے ہیں۔ قومیں، کھیتوں، آپ کے گنوں اور راوی کے دریا سے نہیں بنتیں۔ یہ فتح کے جذبے، قربانی کے مادے اور جان دینے کی تمنا سے بنتی ہیں۔۔۔

(وقفہ)

ملک                  :(ملک کی آواز بھاری ہو جاتی ہے )تم سپاہی ہو بیٹے۔ کسان نہیں۔ کسان کے لیے یہ چپہ بھر زمین، زمین نہیں ہوتی، ماں ہوتی ہے، جو اسے پالتی پوستی ہے۔ بہن رہتی ہے جواس کی آن بان اور شان ہوتی ہے۔ جب کسان بیج بوتا ہے تو زمین ایک معشوقہ ہوتی ہے جو اپنی سوندھی سوندھی خوشبو سے اسے پاگل بنا دیتی ہے اور کون اپنی ماں، بہن، معشوقہ کی بے عزتی دیکھ سکتا ہے۔ بدحالی دیکھ سکتا ہے۔ لٹتا دیکھ سکتا ہے۔ بیٹے کوئی قوم نفرت کے جذبے سے نہیں بن سکتی۔ نفرت سے دوسرے آدمی کو نقصان تو پہنچتا ہے آدمی خود بھی جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔

مرزا      :ملک جی آپ نفرت کے جذبے سے آشنا نہیں ہیں۔ اس کی شدت محبت سے بڑھ کر ہے۔ اگر محبت دل کو نرم کرتی ہے تو نفرت فولاد بناتی ہے۔ اگر محبت ذہن کو سلا دیتی ہے تو نفرت ہر لمحہ چوکنا رکھتی ہے۔ اگر محبت بھول جانا سکھاتی ہے تو نفرت کرید کرید کر زخموں کو تازہ کرتی ہے۔

ملک                  :مبارک ہو تمہیں تمہارا یہ جذبہ!

مرزا                  :ہاں مبارک ہو ہمیں ہمارا یہ جذبہ۔ کیونکہ ہم نیک کام کے لیے زہر کے جام پی رہے ہیں۔ ہماری رگ رگ، نس نس میں نیلا زہر بھرا ہوا ہے۔ ہم نے اپنی قوم اور ملت کے لیے اپنی جانوں کو تلوار کی نوک پر رکھا ہے۔ ہمیں چین نہیں ملے گا جب تک کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں گے۔ چاہے ہمیں یہ جنگ ہزار سال تک کیوں نہ لڑنی پڑے۔

ملک                  :یا اللہ! اس قوم نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے؟ کس کس کی سزا دے رہا ہے؟ابھی تو عہد طفلی ہے۔ بولنا بھی نہیں سیکھا ان قوموں نے۔

مرزا                  :ملک جی، آپ بوڑھے ہو چلے ہیں۔

ملک                  :ہاں بیٹے، میں بوڑھا ہو چلا ہوں۔ اپنی زمین کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہو چلا ہوں۔ لیکن بیٹے میری ایک بات کا جواب دو۔۔۔ بیٹھو یہ جرنیلی چھوڑو۔

مرزا                  :لو چچا تمہارے لیے چھوڑ دی یہ جرنیلی۔

ملک                  :یہ بتاؤ۔تاج محل کس نے بنایا تھا؟

مرزا      :مذاق کرتے ہو چچا؟

ملک                  :تمہارے سرکی قسم مذاق نہیں کرتا۔ اللہ رسولؐ کی قسم مذاق نہیں کرتا۔

مرزا                  :تو کیا امتحان لے رہے ہو میرا؟

ملک                  :میں ان پڑھ، گنوار کسان، بھلا کیا امتحان لوں گا۔ بیٹے تو اتنا بڑا جرنیل، میجر، پڑھا لکھا۔

مرزا      :تاج محل کو شاہ جہاں نے بنوایا تھا۔

ملک                  :کون تھا وہ؟

مرزا                  :مسلمان تھا۔

ملک                  :اور لال قلعہ؟

مرزا                  :اسی نے۔

ملک                  ۔:جامع مسجد، فتح پور، اور نگ آباد کا قلعہ؟بتاؤ بیٹے کون لوگ تھے وہ؟

مرزا                  : آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟

ملک                  :میں یہی کہنا چاہتا ہوں بیٹے کہ تہذیب کبھی الگ نہیں کی جاتی۔ یہ ساجھے کا سرمایہ ہوتا ہے۔ تمہارے پاکستان میں کتنے گرو دوارے، کتنے مندر، کتنے متبرک مقام ہوں گے، تیرتھ ہوں گے۔ کیا وہاں کے سپاہی انھیں توڑ دیں گے؟جواب دو بیٹے، سوچو ذرا۔ یہ تہذیب جو صدیوں سے بنتی ہے۔ بڑھتی ہے۔ یہ سب اس کے پھل ہیں۔ کیا مرزا غالب، میر تقی میر صرف مسلمانوں کے شاعر ہیں؟کیا پریم چند صرف ہندوؤں کا ادیب ہے؟کیا تم اپنی نفرت سے تاج محل اور لال قلعہ کو یہاں لا سکتے ہو؟سوچو بیٹے، ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو۔

(ملک مویشی گھر میں جاتا ہے۔ مرزا کھڑا ہو جاتا ہے۔)

صاحباں             :اباکی باتوں کا برا مت مانیے۔

مرزا                  :(چونک کر) نہیں تو۔

صاحباں             :آج کچھ سوچ میں پڑے ہیں آپ؟

مرزا                  :ہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔

صاحباں             :کیا بات ہے؟

مرزا                  :بات؟اچھا سنو۔

صاحباں             :جی۔

مرزا                  :تم روحوں میں یقین رکھتی ہو؟

صاحباں             :یقین کیا۔ کبھی تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں خود ایک روح ہوں۔

مرزا                  :کمال ہے میں خود یہی محسوس کرنے لگا ہوں۔

صاحباں             :اب کیا ہو گا؟

مرزا                  :سوچنے لگتا ہوں تو دماغ بہک جاتا ہے۔ جسم، روح ایک ترنم میں ڈوب جاتے ہیں اور میں دیوانوں کی طرح ہنسنے لگتا ہوں۔

صاحباں             :موت کتنی حسین ہو گی۔

مرزا                  :سنو۔

صاحباں             : آپ بتائیے؟

مرزا                  :مجھے تو یقین آ رہا ہے۔

صاحباں             :میں صاحباں کی روح ہوں۔ میرے  بھیا نے میرا نام صاحباں رکھا۔ آپ مرزا ہو کر میری زندگی میں چلے آئے۔

مرزا                  :خدا بچائے۔

صاحباں             :دعا کیجئے۔

مرزا                  :میں مرنا نہیں چاہتا، تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔

صاحباں             :شاید جھوٹ ہو۔

مرزا                  :جھوٹ؟

صاحباں             :میرے  بھیا تو یہاں نہیں۔ ہماری قسمت کا فیصلہ کیونکر ہو گا۔

مرزا                  :میں خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔

صاحباں             :حکم دیجئے۔

مرزا                  :تم گاؤں چھوڑ دو۔

صاحباں             :ابھی تھوڑی دیر پہلے کوئی مرزا گا رہا تھا۔ مجھے یوں لگا کہ آپ مجھے بلا رہے ہیں۔

مرزا                  :ہمارا بڑا سا آنگن ہے۔ میرے  ابا ہیں۔ امی ہیں۔ وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔

صاحباں             :وہ پہچان لیں گے مجھے؟

مرزا                  :وہ تمہاری آنکھوں میں دیکھیں گے تو میری تصویر نظر آئے گی۔ تمہیں بولتے ہوئے سنیں گے تو میری آواز محسوس ہو گی۔

صاحباں             :ہم قسمت سے بھاگ رہے ہیں نا؟

مرزا                  : میری جان کا تو کوئی بھروسا نہیں۔ میں نہیں چاہتا تھا تمہاری زندگی کو آنچ آئے۔

صاحباں             :یہاں حالات بہت خراب ہیں؟

مرزا                  :جنگ ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تم جلدی سے کپڑے لتے باندھ لو۔ میں ٹرک کا بندوبست کرتا ہوں۔ تم ضد نہ کرتیں تو میں تمہیں کب کا روانہ کر چکا ہوتا۔

(وہ جانے کے لیے مڑتا ہے۔)

صاحباں             :ایک بات بتائیے۔

مرزا                  :ہوں۔

صاحباں             :میں آپ کے بغیر جی سکوں گی؟

مرزا                  :اس لڑائی کے بعد میں جلد ہی چھٹی لے کر تمہارے پاس چلا آؤں گا۔ تم جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ ہو سکے تو ملک جی کو بھی ساتھ لے لو۔

(وہ نکل جاتا ہے۔ صاحباں ایک نظر اس کی طرف دیکھتی ہے۔ پھر دروازہ بند کر دیتی ہے۔ گولہ باری کی آوازیں آتی ہیں۔)

صاحباں             :ابا۔

(ملک داخل ہوتا ہے۔)

صاحباں             :وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں یہ جگہ چھوڑ دینی چاہئے۔

(ملک خاموش ہے۔)

صاحباں             : آپ نے کہا تھا نا کہ ہندوستانی فوج کسی وقت بھی یہاں پہنچ سکتی ہے۔

(ملک کوئی جواب نہیں دیتا۔)

صاحباں             :پھر یہاں سپاہیوں کا راج ہو گا؟

(وقفہ)

ملک                  :تم کہاں جانا چاہتی ہو؟

صاحباں             :میں۔۔۔ مطلب، آپ نہیں چلیں گے؟

ملک                  :میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں بیٹی۔ اب کچھ دن رہ گئے ہیں۔ یہاں اس جگہ، اپنے کھیتوں، اپنے گھر، اپنی پرانی یادوں کے سہارے کاٹ لوں گا۔ یہاں تمہاری ماں کی قبر بھی ہے۔ جینے کے کئی بہانے ہیں۔

صاحباں             :میں آپ کے بغیر کہیں نہیں جاؤں گی۔

ملک                  :ضد نہیں کرتے بیٹی۔ لڑکی ماں باپ کی آبرو ہوتی ہے۔ میرے  جیتے جی تمہیں کچھ ہو گیا تو میرے  یہ آخری دن بھی خوار ہو جائیں گے۔

صاحباں             :ابا۔

(وہ اس کے گلے سے لگ جاتی ہے۔)

ملک                  :جاؤ اور کپڑے لتے باندھ لو۔ تیار ہو جاؤ۔

(وہ اندر جاتی ہے۔)

صاحباں             :(اندر سے )ابا۔

ملک                  :جی بیٹی۔

صاحباں             :یہ سونے کا ہار اور کنگن کس کے ہیں؟

ملک                  :یہ امانت ہے تمہارے بھائی کی۔ اسے رہنے دو۔ جانے کب آ نکلے۔

صاحباں             :میں کبھی ان سے نہ مل سکوں گی؟

ملک                  :خدا کو یہی منظور ہو گا۔

صاحباں             :ابا۔ آپ کی یہ گرم وا سکٹ الماری میں ہے۔

ملک                  :اچھا۔

صاحباں             :اسے دھوپ دکھانا نہ بھولیے۔ نہیں تو پھٹ جائے گی۔

ملک                  :(آہستہ سے ) دھوپ نکلے گی اب کہیں۔

صاحباں             :یہ اماں کے کپڑے ہیں نا ابا؟

ملک                  :ہاں بیٹی۔

صاحباں             :کسی کو دے دیجئے، پڑے پڑے سکڑ جائیں گے اور پھٹ جائیں گے۔

ملک                  :ہاں کوئی فائدہ نہیں۔ میں دے دوں گا کسی حاجت مند کو۔

(وہ لوہے کا ایک ٹرنک لیے داخل ہوتی ہے۔)

ملک                  :جا رہی ہو صاحباں؟

صاحباں             :جی۔

ملک                  :بیٹی۔۔۔؟

صاحباں             :جی ابا۔۔۔

ملک                  :جہاں رہنا اپنے گھرکی عزت کا خیال رکھنا۔

صاحباں             : آپ تو جانتے ہیں ابا، صاحباں نے بھائیوں کے لیے جان دے دی تھی۔

ملک                  :اس کہانی کو بھول جا۔

صاحباں             :جو بات آدمی بھولنے کی کوشش کرتا ہے وہ روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔

ملک                  :اس قصے کو یاد رکھو گی تو پریشان رہو گی۔

(صاحباں خاموش ہے۔)

ملک                  :اور اپنی خیریت کی خبر بھیجتی رہنا۔

صاحباں             : آپ مجھے گھر سے نکال رہے ہیں نا؟

ملک                  :بیٹی۔

صاحباں             :اور کیا بیٹی کی یہی قسمت ہے نا۔ بڑی ہوئی تو غیر ہو گئی۔

ملک                  :ایسا نہیں کہتے بیٹی۔ تم دوسرے کے گھر جاؤ گی تو اپنے اس بوڑھے باپ کو بھول جاؤ گی؟

(صاحباں رونے لگتی ہے۔)

ملک                  :نا بیٹی۔ رویا نہیں کرتے۔ بیٹی یہاں بیٹھو۔ مجھے تو افسوس ہے تمہیں اس طرح رخصت کر رہا ہوں۔ کہاں بینڈ باجے اور کہاں یہ گولہ بارود۔اللہ

(صاحباں ٹرنک پر بیٹھتی ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔)

ملک                  :کون؟

آواز                 :چاچا۔۔۔

ملک                  :(صاحباں سے )یہ مرزا کی آواز تو نہیں۔ کون ہو بھائی؟

آواز     :میں غیر نہیں ہوں چاچا۔ دروازہ تو کھولو۔

(صاحباں خودبخود مسکرانے لگتی ہے۔ ملک دروازہ کھولتا ہے۔رام داخل ہوتا ہے۔ وہ فوجی لباس میں ہے۔)

رام       :السلام علیکم چاچا۔

ملک                  :وعلیکم السلام۔۔۔ لیکن۔۔۔

رام                   :میرا نام ’’لیکن‘‘ نہیں چاچا، رام ہے رام۔

ملک                  :رام۔

رام                   :ہاں رام۔ تمہارا اکلوتا بیٹا۔

(ملک اسے غور سے دیکھتا ہے اور پھر گلے سے لگا لیتا ہے۔)

ملک                  :میرے  بیٹے، تم اس وقت۔ معاف کرنا بوڑھا ہو گیا ہوں۔ ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ تم بیٹے کیسے آئے؟

رام                   :بس ایسے کیسے، جیسے تیسے چلے آئے۔

(وہ گھرکی طرف دیکھتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے روشنی بڑھتی ہے۔)

رام                   :چاچا اس گھر کو کیا ہو گیا ہے۔ اتنا اجڑ گیا ہے۔

ملک                  :ہاں بیٹا۔

رام                   :اور یہ۔۔۔ یہ صاحباں۔۔۔ میری بہن۔۔۔

صاحباں             :(آہستہ سے ) بھائی جان۔

رام                   :ارے چاچا۔

ملک                  :ہاں بیٹا۔

رام                   :یہ صاحباں ہے نا، روتی صورت، ضدی؟

ملک                  :ہاں بیٹا۔

رام                   :ارے رے رے رے۔۔۔ میں تو۔۔۔

(زور زور سے ہنستا ہے۔)

ملک                  :کیا ہوا بیٹا؟

رام                   :چاچا میں بھی نرا جاہل ہوں۔ ایک دم بوڑم۔

ملک                  :ہوا کیا؟

(رام تھیلے سے کتابیں اور کھلونے نکلتا ہے۔)

رام                   :میں نے سوچا وہ اتی سی ہو گی۔ میں پریوں کی کہانیاں لایا ہوں۔ یہ کھلونے۔

ملک                  :بیٹا تمہیں یہاں سے گئے اٹھارہ سال ہو گئے ہیں۔ تم بھی تو خیر سے جوان ہو گئے ہو۔

رام                   :میں تو خیر چاچا، لیکن یہ کیوں جوان ہو گئی ہے۔

(وہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ اس کے سرپر ہاتھ پھیرتا ہے۔)

رام                   :میری بہن، ننھی سی بہن(بھرائی ہوئی آواز میں ) نظر نہ لگے مجھ بدبخت کی۔۔۔ صاحباں۔۔۔

صاحباں             :جی بھائی جان۔

رام                   :اپنے بھیا کو پہچانتی ہے؟

صاحباں             :ہوں۔

رام                   :جھوٹی۔

صاحباں             : آپ کی قسم۔ آپ مجھے پچاس آدمیوں میں دکھائی پڑتے تو میں انگلی اٹھا کر کہتی۔۔۔ یہ ہیں میرے  بھائی جان۔

رام                   :دیکھ چاچا رشتہ، رشتہ ہوتا ہے۔ میں اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ میری بہن مجھے یاد کرتی ہو گی، وہ ہنس پڑتے تھے اور مجھے ان پر ترس آتا تھا۔۔۔ آہا۔۔۔ قسم سے چاچا روح کو قرار آ گیا ہے اپنے گھر میں آ کر۔

ملک                  :تم آئے کیسے۔

رام                   :بعد میں بتاؤں گا۔ مجھے اس سے باتیں کرنے دو۔ ارے چڑیل ادھر آ۔۔۔ (وہ اس کے پاس جاتی ہے )یہ لے کتابیں اور کھلونے۔۔۔ انگریزی آتی ہے؟

صاحباں             :نا۔

رام                   :رہی نا جاہل کی جاہل۔

صاحباں             : آپ پڑھائیں گے تو میں سیکھ جاؤں گی۔

رام                   :وقت اتنی مہلت دے گا ہمیں۔

صاحباں             :ہم وقت سے مہلت مانگ لیں گے۔

رام                   :جیسے ساری کائنات آپ کے اشارے پر چلتی ہے۔

صاحباں             :دیکھ لیجئے ہمیں وقت جتنی مہلت دے گا اس سے زیادہ کر کے دکھائیں گے۔

رام                   :مجھے تو لگتا ہے، تو نہیں بول رہی، خود وقت بول رہا ہے۔

ملک                  :صاحباں تو چائے کا پانی چڑھا۔ رام تھکا ہوا ہو گا۔ مجھے کٹورا دے۔ میں لالی کی منتیں کرتا ہوں۔ شاید تھوڑا دودھ بخش دے۔

(وہ کٹورا لا کر دیتی ہے۔ ملک مویشی گھر میں جاتا ہے۔ وہ چائے کا پانی رکھتی ہے۔ پھر پرات لاتی ہے۔ رام کے منہ ہاتھ دھلاتی ہے۔)

صاحباں             :یہ وردی کیوں پہن رکھی ہے بھائی جان، آپ بھی فوج میں نوکری کرتے ہیں؟

رام                   :نوکری؟ میجر ہوں میجر!

صاحباں             :میجر کیا ہوتا ہے؟

رام                   :میجر کیا ہوتا ہے؟رہی نا جاہل کی جاہل۔ میجر بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔

صاحباں             : آپ تو بڑے لگتے نہیں۔

رام                   :ہوں۔ تو کیا بڑے آدمیوں کے سینگ ہوتے ہیں۔

صاحباں             :سینگ ہی ہوتے ہوں گے تبھی تو لوگ ان سے ڈرتے ہیں۔

رام                   :اب تمہیں ڈرانے کے لیے سینگ اگانے پڑیں گے۔

صاحباں             :گھر میں آپ کی فوج داری نہیں چلے گی۔ اتار دیجئے یہ ٹوپا۔

رام                   :ٹوپا۔۔۔ یہ ٹوپا ہے؟

صاحباں             :مجھ کو ٹوپا ہی لگتا ہے۔

رام                   :لو بھئی رکھ دیا یہ ٹوپا۔

صاحباں             :اور یہ بندوق بھی اتار دیجئے۔

رام                   :بندوق۔۔۔ کون سی بندوق؟

صاحباں             :یہ جو کمر میں باندھ رکھی ہے آپ نے۔

رام                   :یہ بندوق ہے؟ارے بدھو یہ ریوالور ہے۔

صاحباں             :ہو گا کوئی دلاور کا بھائی۔

رام                   :تم میرا جلوس نکال رہی ہونا؟مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں آتا ہی نا۔

صاحباں             :او۔۔۔ او۔۔۔ میرے  بھیا۔

رام                   :(نقل کرتے ہوئے ) میرے  بھیا۔ یہ لو بندوق بھی گئی۔

(ریوالور رکھ دیتا ہے۔)

صاحباں             :لائیے میں آپ کے جوتے بھی کھول دوں (کھولتی ہے ) بھائی جان۔۔۔

رام                   :کہیے بھائی کی جان۔

صاحباں             : آپ ہندوستانی فوج کے افسر ہیں۔۔۔ ہیں نا؟

رام                   :ہاں۔

(وقفہ)

صاحباں             : آپ فوج کے ساتھ آئے ہیں نا؟

(وقفہ)

رام                   :ہاں۔۔۔

صاحباں             :اور پاکستانی فوج؟

رام                   :پیچھے ہٹ رہی ہے۔

(وقفہ)

صاحباں             :کافی مار کاٹ ہوئی ہو گی؟

رام                   :ہاں۔ لیکن اس گاؤں میں ابھی کافی سپاہی چھپے ہیں۔ ہم شام تک ان کا صفایا کر دیں گے۔ تم کس لیے پوچھتی ہو؟

(صاحباں خاموش ہے۔)

رام                   :چھوڑو یہ قصے۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ چائے کا کپ لاؤ۔ مجھے ذرا دیر میں لوٹ جانا ہے۔

صاحباں             :اب آپ آ گئے ہیں، لوٹ کے جانا آپ کے بس میں نہیں۔

رام       :مجھے باندھ کر رکھو گی؟

صاحباں             : آپ نے کہا کہ میں وقت کی آواز ہوں۔ وقت آپ کو باندھ کر رکھے گا کس کر!

رام                   :ارے تو تو مجھے پاگل لگتی ہے صاحباں۔

صاحباں             :لیکن میں چائے بہت اچھی بناتی ہوں۔

(ملک آتا ہے۔)

ملک                  :دیکھو تو بیٹا کیا کٹورا بھرکر دودھ دیا ہے لالی نے۔

رام                   :چاچا کیسے دودھ نا دیتی، اسے معلوم ہے گھر کا مالک آ گیا ہے۔

ملک                  :لو بیٹی جلدی سے چائے دے دو۔ میں بھی ایک پیالی پیوں گا۔

رام                   :کس کو معلوم تھا کہ میں اپنا گھر دیکھ سکوں گا اور ان حالات میں۔

ملک                  :بیٹا تمہارے آنے سے یہ گھر جیسے آباد ہو گیا ہے۔

رام                   :چاچا، مجھے گھر آ کر جو سکون ملا ہے میں بیان نہیں کر سکتا۔ شاید اس جوش میں کہ میرا گھر قریب آ رہا ہے میں نے اپنے ساتھیوں کو آرام کا سانس نہیں لینے دیا۔ میرے  جوان کہتے تھے کہ میجر صاحب ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو۔

ملک                  :ہم بھی تو روز تمہیں یاد کرتے تھے۔ صاحباں کھاتے پیتے روز تمہارے بارے میں پوچھا کرتی تھی۔

رام                   :میرا تو کوئی اور ہے ہی نہیں۔ چاچا سچ پوچھو تو میں ہندوستان میں بھی اجنبی رہا۔ میرا گھر تو یہاں ہے۔ اسی گاؤں میں پیدا ہوا۔ تم نے میری جان بچائی۔ مجھے پالا پوسا بڑا کیا۔ باپ اور ماں کا پیار یکسر تم نے دیا۔

ملک                  :اللہ اللہ۔ کیا زبان سیکھ آیا ہے تو رام۔ خدایا کوئی اپنے بچوں کو کیسے پالتا ہے رے۔ اچھا اچھا تو ہندوستانی فوج کے ساتھ آیا ہے۔ فتح کر لی ہے ہماری زمین۔

رام                   :کیسی فتح، کہاں کی فتح۔

ملک                  :بیٹے مجھے تو اتنا پتا ہے کہ تو کسان کا بیٹا ہے۔ تو نے میرے  ساتھ ہل جوتا ہے۔ آب پاشی کی ہے۔ بیج بویا ہے۔ اب انھیں کھیتوں میں بارود بھرنے آیا ہے بیٹے۔

رام                   :چاچا خدا واسطے کی بات کرنا۔

(صاحباں چائے لاتی ہے۔)

صاحباں             :لیجئے بھائی جان۔

(ملک کو بھی دیتی ہے۔)

رام                   :تو اندر جا صاحباں۔

صاحباں             :نہیں جاتی۔

رام                   :مار کھائے گی۔

صاحباں             :اوں۔ بڑے آئے لاٹ صاحب۔ میں یہاں بیٹھوں گی۔ آپ کی باتیں سنوں گی۔

رام                   :بھائی کو بہت چاہتی ہے نا؟

صاحباں             :کون بہن، بھائی کو نہیں چاہتی۔

رام                   :چاچا میں تو رو پڑوں گا(وہ کپ رکھ دیتا ہے ) میں ترستا رہا ہوں پیار کے لیے۔ اپنی بہن کے ہوتے ہوئے میں ترستا رہا۔ یہ کس نے دلوں کے بٹوارے کیے؟یہ چائے۔ اس ننھی بہن کے ہاتھوں کی چائے۔

(وہ اس کے ہاتھ تھامتا ہے۔ چومتا ہے۔ رو پڑتا ہے۔ صاحباں بھی دھیرے دھیرے رونے لگتی ہے۔)

ملک                  :رام بیٹا چائے پی۔ مرد ہو کر روتا ہے تو۔۔۔ دیکھ اسے بھی رلائے گا۔

(رام چائے لیتا ہے۔ صاحباں خالی کب لے کر اندر جاتی ہے۔)

رام                   :چاچا تمہاری سوگندھ میں آج بھی کسان ہوں۔ لیکن اگر کسان کے کھیتوں پر کوئی قبضہ کرنا چاہے تو کیا کرتا ہے کسان؟چاچا ہمارے اس گاؤں میں ہی چپے چپے زمین کے لیے کتنے خون خرابے ہوئے ہیں۔ وہ چپہ بھر زمین کی بات نہیں تھی، عزت آبرو کی بات تھی۔ زمین ماں بھی ہے اور بہن کی آبرو بھی ہے۔ کون لٹتا دیکھ سکتا ہے۔

ملک                  :تو میرے  ہی الفاظ دہرا رہا ہے۔

رام                   :چاچا ہم کشمیر کیوں دے دیں؟اس لیے کہ وہاں مسلمان رہتے ہیں؟ کیا ہندوستان کے دوسرے حصوں میں مسلمان نہیں رہتے؟کیا مذہب کی بنا پر حکومتیں ہوتی ہیں؟

ملک                  :بیٹا میں تو کہہ رہا ہوں کہ جنگ اچھی نہیں ہے۔ یہ ہندو مسلمان کا تصور ہی خطرناک ہے۔ ہم آنے والی نسلوں میں بھی نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔

رام                   :تم ٹھیک کہتے ہو چاچا۔ حرف بہ حرف ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن چاچا تمہیں یاد ہو گا۔ ۱۹۴۷ء؁ میں کشمیر پر حملہ ہوا تھا اور کشمیر کا بہت سا حصہ پاکستان کے قبضے میں ہے اور ہم آج تک اپنے آپ کو روکے ہوئے ہیں۔ حالانکہ پوری قوم بے چین تھی۔ بدلہ لینے کے لیے تڑپ رہی تھی۔ کوئی قوم مرنا نہیں چاہتی۔ کوئی قوم دباؤ نہیں چاہتی۔ کوئی قوم بے عزتی برداشت نہیں کرتی لیکن یہاں کی تانا شاہی یہ سمجھی کہ ہندوستان کمزور ہے وہ امن کے پجاری ہیں۔ وہ لڑنا کیا جانیں۔ پاکستان کو اپنی مانگی ہوئی طاقت پر غرور تھا۔۔۔ یہ سیبرجیٹ، یہ پیٹن ٹینک اور شرمن ٹینک۔ انھیں اس بات کا بھی غرور تھا کہ برطانیہ اور امریکہ ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور ہمیں حکم ملا ہے کہ غرور کا سرنیچا کرو۔ داغ دو ان جیٹ ہوائی جہازوں کو۔ اڑا دو ان ٹینک توپوں کو، گھر تک پہنچا آؤ حملہ آوروں کو اور کچل دو اس جھوٹی طاقت کو۔ ہماری دشمنی چاچا جنتا کے ساتھ نہیں یہاں کی تانا شاہ حکومت سے ہے۔ اس ڈکٹیٹر شپ سے ہے۔ چاچا، ذہن شاعر کا ہو اور دل شیر کا تو بڑی سے بڑی طاقت بھی ہیچ ہو جاتی ہے۔

ملک                  :تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ جیٹ اور ٹینک دوبارہ نہیں آئیں گے۔ گولے بارود کی کمی ہو گی؟ بیٹا آگ میں تیل ڈالتے ہو اور کہتے ہو کہ آگ بجھ جائے۔

رام                   :پھر کیا کریں چاچا؟ ہار مان لیں؟گھٹنے ٹیک دیں؟

ملک                  :میں کیا جانوں بیٹا تم کیا کرو۔ میں تمہاری اس سیاست کو بالکل نہیں سمجھتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ لڑتی ہیں حکومتیں اور بھگتنا پڑتا ہے عام آدمیوں کو۔

(وہ مویشی گھرکی طرف جانے کے لیے مڑتا ہے۔)

رام                   :تمہاری باتیں اتنی اچھی ہیں چاچا کہ ان پر یقین نہیں آتا۔ اچھا چاچا ہم تو چلے۔ بہت آرام کر لیا۔

(ملک جا چکا ہے۔)

صاحباں             :ابھی تو آئے آپ بھائی جان، ابھی چلے؟

رام                   :پگلی تمہیں پتا ہے وہاں کیا ہو رہا ہو گا؟سچ مگاؤں تو میں نے یہاں آ کر نوکری سے زیادتی کی ہے۔

صاحباں             :کیوں؟

رام                   :تو نہیں سمجھے گی۔ لیکن میں کیا کروں؟یہاں پہنچتے ہی میرا دل گھر کے لیے تڑپنے لگا اور پھر ہم لوگ تو موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں۔ کبھی موت ہم سے آنکھ ملاتے کتراتی ہے اور کبھی ہم جان چھڑا لیتے ہیں۔

صاحباں             :یہ نوکری چھوڑ دو بھیا۔

رام                   :یہ کام پورا ہو جائے گا نا تو چھوڑ دوں گا۔ یہیں آ رہوں گا۔ زمین جوتوں گا۔ تیرا یہ ویر تیرا بیاہ رچائے گا۔

صاحباں             :ہوں۔

رام                   :میں چلوں؟

صاحباں             :مجھے بھی لے لو اپنے ساتھ۔

رام                   :(زور سے ہنستا ہے )سنا چاچا، صاحباں میرے  ساتھ چلے گی میدان جنگ میں۔

(پھر زور سے ہنستا ہے۔ نگاہ دروازے پر ڈالتا ہے تو اعظم خاں دروازے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ اس کے کپڑے تار تا رہیں اور اسٹین گن ہاتھ میں ہے۔ اس کا چہرہ مٹی سے سنا ہے۔ ملک بھی داخل ہوتا ہے۔)

مرزا                  :میں جانتا تھا کہ تم لوگ غدار ہو (صاحباں مرزا کو دیکھتی ہے تو رام کے قریب ہو جاتی ہے ) چلو مرنے سے پہلے ایک کافر تو ہاتھ لگا۔ اب موت کتنی آسان ہو گئی۔

ملک                  :مرزا ہوش کی دوا کرو۔ یہ رام ہے۔ میرا اپنا بیٹا ہے۔

مرزا                  :(ہنستا ہے ) رام اور ملک رحمت خاں کا بیٹا۔ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا؟

(صاحباں رام کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔)

صاحباں             : آپ میرے  بھائی پر گولی نہیں چلائیں گے۔

مرزا                  :صاحباں یہ کافر ہے تمہارا بھائی نہیں ہو سکتا۔

صاحباں             :بھائی جان ہیں میرے ۔

مرزا                  :یہ دشمن ہے ہمارا۔ قوم اور ملت کا۔

صاحباں             :نہیں نہیں۔ صرف بھیا ہے میرا۔ میرا ویر ہے۔

مرزا                  :صاحباں مجھ پر جنون سوا رہے۔

صاحباں             : آپ کو میری لاش پرسے گزرنا ہو گا۔ بھیا بہن کے گھر پہلی بار آیا ہے۔ اس کی اتنی بڑی سزا نہیں ہو سکتی۔

مرزا                  :صاحباں ہٹ جا۔۔۔

رام                   :صاحباں تو ہٹ جا۔ تو مجھے بزدل بناتی ہے۔

(وہ اسے ہٹاتا ہے۔ مرزا گولی چلاتا ہے۔ صاحباں رام کے پاس ا چک جاتی ہے اور  اپنے سینے پر گولی کھاتی ہے۔)

رام                   :صاحباں میری بہن۔

(وہ اسے اٹھاتا ہے۔)

مرزا                  :غدار ہے تو صاحباں، ہمیشہ سے غدا رہے۔

صاحباں             :(ہچکی لیتے ہوئے ) صاحباں تو غدار مشہور ہے۔ اپنے بھائیوں کی جان بچاتی تھی اور خود جان دے دی تھی۔میرا بھیا۔۔۔ میرا بھیا۔۔۔ سو برس جیے۔۔۔

(رام غصے سے کپکپا رہا ہے۔ وہ اپنا ریوالور لیتا ہے اور مرزا کو چھلتی کر دیتا ہے۔)

مرزا                  :چلو قصہ ختم ہوا۔ ہم جیتے بھی تو کیسے جیتے۔ محبت کے بغیر کیسے جیتے، صاحباں کے بغیر کیسے جیتے۔

(رام بہن کی لاش کے پاس بیٹھا رو رہا ہے۔)

رام                   :میں نے اپنی بہن کو مروا ڈالا۔ میں نے اپنی بہن کو مروا ڈالا۔

ملک                  :یا اللہ۔ ان قوموں پر رحم کر۔ عقل دے ان پچھڑی ہوئی، ان غریب، مفلس قوموں کو عقل دے۔

(رام رو رہا ہے۔ کوئی مرزا گاتے ہوئے نکل جاتا ہے۔ سورج ڈوب رہا ہے۔ رام اور ملک آواز کی طرف دیکھتے ہیں۔ رام آواز کی طرف مڑتا ہے، جیسے مرزا۔ صاحباں کی روح جا رہی ہو۔)

۔۔۔ پردہ۔۔۔

٭٭٭

ماخذ: ’’خیال کی دستک‘‘، نئی آواز، جامعہ نگر، نئی دہلی

مشمولہ اردو ڈرامے،  مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

 

 

مسیحا

 

 

کردار

 

کردار  :           اداکاروں کے نام

ہربنس:(ایک ہندوستانی سپاہی)۔۔ کلدیپ سنگھ

افضل:(ایک پاکستانی سپاہی) ۔۔این سبھاش

سنت رام:(ایک رفیوجی)۔۔رمیش تلوار

کیپٹن:(ہندوستانی کیپٹن)۔۔ایم کے شرما

سیتا:(سنت رام کی بہن)۔۔منجو  بھاٹیہ

گم نامی آدمی:امر کسکر لو

ڈائریکشن:رمیش تلوار

(یہ ڈراما پہلی بار ’’دی کرٹین‘‘ کی طرف سے پاٹکر ہال بمبئی میں، ۲۹/ جون ۱۹۶۵ء کو کھیلا گیا۔ )

 

 

کشمیر کی سرحد

 

          سورج ابھی نہیں نکلا۔ ۔ ۔ سامنے کانٹے دار تا رہیں۔ ۔ ۔( Barbed Wires)۔ ۔ ۔ دائیں طرف فٹ لائٹس کے پاس ہندوستانی فوج کی چوکی ہے  اور  Rear Stage   میں پیچھے پاکستانی فوج کی چوکی ہے  اور  آگے فٹ لائٹس کے پاس ہی بائیں طرف ایک جھونپڑی سی بنی ہے۔ جھونپڑی بھی کیا، ایک دو پرانے فوجی کمبل ٹینٹ کی طرح باندھ دیئے گئے ہیں۔ ۔ ۔ Barbed Wires   کا واحد سہارا ایک کھمبا نظر آ رہا ہے جو کراس نما ہے۔ یہ اسٹیج کی دائیں طرف ہے  اور  ٹینٹ کو Balance  کرتا ہے۔ ۔ ۔ ابھی بھی دھند صاف نہیں ہوئی۔

          پردہ اٹھنے سے پہلے ہربنس کے گانے کی آواز آ رہی ہے۔

          جنڈری دابھا کوئی نا

          اک ویری مل وے خیال

          جندڑی داوسا کوئی نا

          (گانے کے ساتھ ساتھ ہی پردہ کھلتا ہے۔ )

 

افضل  :اے ہے ہربنس۔

ہربنس  :اوئے فضلو۔

افضل  :یار سویرے سویرے درد ورد کی بات کرتے ہو۔ مروا دو گے کیا؟

ہربنس  :پیارے دھند دیکھ، اپنا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا۔ جب کچھ نہیں دکھائی دیتا نا،  دل کی یاد آتی ہے  اور  ایسے میں جو میں تیرا نشانہ باندھ دوں توکل صبح خبر دوڑ جائے گی ایک پاکستانی سپاہی ہلاک۔

افضل  :اوئے بنسے دے پتر۔

ہربنس  :اچروی۔

افضل  : اور  میرا نشانہ بھول گیا۔ بچپن میں غلیل سے بیرا گر یا کرتا تھا۔

ہربنس  :اسی دن سے تو یہ حسرت ہے کہ تیری اسی آنکھ کا نشانہ کروں۔

افضل  :بچو ادھر بھی امریکی اسلحہ ہے۔

ہربنس  :یار  فضلو۔

افضل  :بول ماں دیا یارا۔

ہربنس  :دیکھ تیرے پاس بھی امریکی اسلحہ ہے نا؟

افضل  :ہاں۔

ہربنس  :میرے پاس بھی امریکی۔

افضل  :پھر؟

ہربنس  :یار؟

افضل  :بول جان یار۔

ہربنس  :امریکی کیا مدد کر رہے ہیں۔ سب کو اسلحہ دیتے ہیں۔ لڑو۔ خوب لڑو۔ بڑھیا سے بڑھیا، اسلحہ لو اور  ایک دوسرے کو بھون کر رکھ دو، نفرت کو دھرم سمجھو اور   اپنے  اور  پرائے، دوستوں  اور  غیروں کو قتل کر دو۔

افضل  :اوئے بھیم پلاسی دا پترا۔

ہربنس  :ہاں۔

افضل  :لیکچر دے لیتے ہو یار۔

ہربنس  :کبھی کبھی میں سوچتا ہوں۔

افضل  :اوئے سوچا نہ کر۔ دیکھ تو دھوپ نکل آئی ہے۔ اوئے، اوئے کتنی مزیدار ہے۔

ہربنس  :فضلو۔

افضل  :ہاں۔

ہربنس  :تمہاری ایک بہن بھی تھی نا؟

افضل  :ہاں۔

ہربنس  :کیا نام ہے اس کا؟

افضل  :مراداں۔

ہربنس  :اب تو جوان ہو گئی ہو گی؟

افضل  :بنسیا۔

ہربنس  :ہاں۔

افضل  :وہ تمہاری بھی بہن لگتی ہے۔

ہربنس  :ہاں یار۔ یہ تومیں بھول ہی گیا تھا۔ او دیکھ اوئے استاد جی اٹھ گئے نا۔

افضل  :استاد جی، السلام علیکم استاد جی۔

(ہربنس  اور  افضل دونوں ہنستے ہیں۔ )

ہربنس  :بچارے بہن کا انتظار کر رہے ہیں۔

افضل  :یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرف کوئی مرد نہیں رہا۔

(پھر دونوں ہنستے ہیں۔ )

(سنت رام کی عمر چالیس کے قریب ہے، بال کھچڑی ہو گئے ہیں۔ چہرے سے پریشانی ظاہر ہوتی ہے نسیں تنی رہتی ہیں۔ بولتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ نہایت تکلیف سہہ رہا ہو۔ وہ عاجزی کے ساتھ ہندوستانی سپاہی کے پاس جاتا ہے۔ )

سنت رام       :بھائی صاحب آج دن کیا ہے ؟

ہربنس  :اوئے فضلو۔ استاد جی دن پوچھ رہے ہیں۔

افضل  :بول مرنے کا دن ہے۔

ہربنس  :استاد کس پھیر میں ہو۔ بادشاہو، نکل آؤ دنوں  اور  تاریخوں کے جھمیلے سے۔ آپ کا ا سکول نہیں ہے۔ فرنٹ ہے۔ بورڈر۔ سامنے فضلو ہے۔ میرا جگری یار، لیکن معلوم نہیں کب میرے سینے میں گولی داغ دے گا۔ یا اس کے پہلے ہی اس کے پٹھے میں میں یہ امریکی عرف ہندوستانی گولی پارکر دوں۔

سنت رام       :وہ آپ کا جگری یار ہے ؟

ہربنس  :ہاں، بچپن میں ایک ساتھ گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے  اور  ایک دوسرے کی ماں بہن کو یاد کیا کرتے تھے۔

سنت رام       :تو آپ اسے گولی مار دیں گے ؟

ہربنس  :گولی مارنا تو ہمارے لیے آنکھ مارنے کے برابر ہے۔

سنت رام       :کیوں ؟

ہربنس  :اوئے فضلو، استاد پوچھتے ہیں ہم لوگ گولی کیوں چلاتے ہیں ؟

افضل  :بول یار، مجبوری میں۔

ہربنس  :سنا استاد جی، مجبوری میں۔

سنت رام       :کا ہے کی مجبوری؟

ہربنس  :استاد جی پوچھتے ہیں کا ہے کی مجبوری؟

افضل  :استاد جی ہمارے لیڈر منہ چلاتے ہیں  اور  ہمیں گولیاں چلانی پڑتی ہیں۔ جب فصلیں خراب ہوتی ہیں، اکال پڑتے ہیں، آدمی بھوکے ننگے مرنے لگتے ہیں تو لیڈر لڑائی شروع کر دیتے ہیں  اور  ہم لوگوں کو فرنٹ پر بھیج دیا جاتا ہے۔

ہربنس  :فضلو بڑے پتے کی بات بول دی یار۔

افضل  :بس  اور  سوال نہ کرنا، ایسی غلطی کبھی کبھی کرتا ہوں۔

ہربنس  :استاد جی۔

سنت رام       :کہو بھائی۔

ہربنس  :ایک بات عرض کروں ؟

سنت رام       :جی۔

ہربنس  :کا ہے کو یہاں پڑے ہو۔ خواہ مخواہ گولی و ولی لگ جائے گی۔

سنت رام       :برخوردار میں استاد ہوں، ساری عمر ا سکول میں کاٹی ہے۔ بھیا ہم تو ہمیشہ پڑھایا کرتے تھے۔ آدرش کے لیے جان دے دو۔ آج کل استاد کو لوگ پرانا آدمی سمجھتے ہیں۔ یہ پروفیشن گھٹیا  اور  نیچے درجے کا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میں تو پرانی صدی کا آدمی ہوں۔

ہربنس  :لیکن یہاں کیوں پڑے ہیں۔ ہندوستان میں جائیے، کوئی کام دھام مل جائے گا۔ بچوں کو پڑھاؤ۔

سنت رام       :بھائی آدرش، میرا آدرش  اور  میری بہن۔

ہربنس  :بہن آ جائے گی آپ کی۔

سنت رام       :روز سنتا ہوں۔ روز سنتا ہوں۔ لیکن کہاں ہے میری بہن۔ میں نے اسے بچی کی طرح پالا تھا۔ وہ میری بہن، وہ میری لاڈلی۔ شادی کرانے کا ارمان تھا۔ میرے سپنے میں دیکھو لوریاں سوئی ہوئی ہیں، دعائیں سوئی ہوئی ہیں۔ میں کس پر قربان کروں۔ میں کس پر قربان کروں اپنی یہ مٹی سی جان۔ ۔ ۔

(وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتا ہے۔ )

ہربنس  :استاد جی، یہ کیا، دھیرج رکھیے۔ اس عمر میں بھی آپ روتے ہیں!

سنت رام       :میرا دل روتا ہے بھائی، میری آتما روتی ہے۔ جگر لہو ہو رہا ہے۔ ہائے کہاں لے گئے اسے، کوئی چنگیز ہے۔ کون کافر ہے ؟ہائے منی میری چھوٹی سی لاڈلی۔

(وہ واپس پتھر پر بیٹھ جاتا ہے۔ کیپٹین مگ میں چائے لے آتا ہے۔ سپاہی سلام کرتا ہے  اور  اٹینشن کی حالت میں کھڑا رہتا ہے۔ )

کیپٹین:لیجئے استاد جی چائے پی لیجئے۔

سنت رام       :کیوں تکلیف کرتے ہو تم روز؟

کیپٹین:استاد کی خدمت کرنا آپ ہی نے پڑھایا تھا۔

سنت رام       :پرانی باتیں ہیں لڑکے بہت پرانی باتیں ہیں۔

کیپٹین:استاد جی اچھی باتیں کبھی پرانی ہوتی ہیں ؟

سنت رام       :سب جھوٹی ثابت ہو رہی ہیں۔ میں پڑھایا کرتا تھا اپنے وطن سے پیار کرو۔ اپنی مٹی کو چومو اور   جہاں پیدا ہوئے ہو اس جگہ کے گیت گاؤ۔ کہاں ہے وہ وطن۔ کس کا وہ وطن۔ آج پاکستان، کل ہندوستان ہے۔ آج امریکہ ہے، کل جارج ٹاؤن ہے۔ آج جرمنی ہے، کل پولینڈ ہے۔

کیپٹین:آپ  کو سوچنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔

سنت رام       :ہاں بھیا سوچنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔

کیپٹین:چائے دو گھونٹ پی لیجئے۔

(سنت رام چائے پیتا ہے۔ کیپٹین ٹہلتا ہے۔ سنت رام چائے کا مگ رکھتا ہے۔ )

کیپٹین:آپ کو یاد ہے استاد جی؟

سنت رام       :کیا؟

کیپٹین:بچپن۔ میرا بچپن۔

سنت رام       :مجھے اپنے ایک ایک طالب علم کا بچپن یاد ہے۔

کیپٹین:آپ سنیچر کی شام کو گھر چلے جایا کرتے تھے۔ نو میل پہاڑی سفر طے کر کے،  اور  سوموار پھر نو میل طے کر کے ٹھیک ساڑھے دس بجے ا سکول پہنچ جاتے تھے۔

سنت رام       :وہ دن۔ ہاں ان دنوں میں، میں جوان تھا۔

کیپٹین:آپ کو ہم دیکھتے تھے تو کھلکھلا کر ہنس پڑتے تھے۔

(سنت رام اٹھ جاتا ہے۔ وہ جیسے خواب دیکھ رہا ہو۔ )

سنت رام       :جب میں گھر نکلا کرتا تھا تو اندھیرا ہوتا تھا۔ ہوا ٹھنڈی، گدگدانے والی، شریر، تنگ کرنے والی ہوا۔ آپ بے شک رونی صورت بنا رہے ہوں، وہ ہوا میرے وطن کی وہ ہوا آپ کو ہنسا دے گی۔ پھر میں اس پہاڑی دریا میں نہایا کرتا تھا۔ میرے جسم کا خون میری رگ رگ میں دوڑ کر اور  سرخ ہو جایا کرتا تھا  اور راستے سے شیو جی کے مندر سے ہو کر گھاٹی اترتا تھا، تو سورج کی کرنیں، پہلی پہلی، ہلکی ہلکی، معصوم کرنیں میرے ماتھے کو چوم لیتی تھیں۔ ہائے میرا وطن۔ جہاں نظر بھاگتی تھی سبزہ بھاگتا تھا۔ جہاں نظر ٹھہرتی تھی پھول اگتے تھے۔ جہاں دل سنبھلتا تھا، گھاٹیاں لہراتی تھیں۔ جہاں دل مچلتا تھا دریا لپکتا تھا۔

کیپٹین:آپ کو کیسے یاد ہے سب کچھ۔ مجھے تو اتنا یاد نہیں۔ ہم تو سب کچھ بھول گئے۔ وطن بھول گئے، نام بھول گئے، ذکر ایسے آتا ہے جیسے پریوں کی کہانی ہو۔

سنت رام       :برخوردار میں استاد تھا۔ آدرش ہمارا جیون تھا  اور  جب کوئی گاؤں شروع ہوتا تھا تو چاروں طرف سے آوازیں آتی تھیں استاد جی سلام، دور سے، ٹیلوں سے، مکانوں کی چھتوں سے لوگ پکارتے استاد جی ناشتہ کرتے جائیے۔ استاد جی دودھ پیتے جائیے  اور  میری جہاں طبیعت چاہتی تھی، ناشتہ کرتا، دودھ پیتا۔ میں ہندو تھا  اور  میرے تقریباً سارے طالب علم مسلمان تھے۔ جان چھڑکتے تھے۔ آنکھ کے اشارے پر جان دیتے تھے۔

کیپٹین:مجھے یاد ہے ا سکول میں پہنچتے ہی ہم سب لڑکے آپ کے پاؤں دابتے تھے۔ سرفراز، غنی، عبدالسلام، انور خاں، فولاد خاں  اور   میں۔ ہندوؤں میں میری صحت ہی اچھی تھی۔ ان کی جوڑی کا میں ہی تھا  اور  آپ ہم لوگوں کو لطیفے سنایا کرتے تھے۔ ہماری کلاس سب سے اچھی کلاس تھی۔ سب سے زیادہ نمبر ہمیں ملتے تھے آپ کی بدولت!ہمارا سارا گاؤں آپ کو پوجتا تھا۔

سنت رام       :اب ہم رفیوجی ہو گئے ہیں۔

کیپٹین:جی۔

سنت رام       :برخوردار۔

کیپٹین:جی۔

سنت رام       :میں نے جو کچھ بھی پڑھا ہے میری سمجھ نہیں آتا کہ ہم رفیوجی کیوں بنے ہیں۔

کیپٹین:پتا نہیں استاد جی۔ شاید سیاست۔

سنت رام       :یہ لفظ رفیوجی اتنا گھٹیا، قابل رحم  اور  قابل نفرت۔ ۔ ۔

کیپٹین:جی ہاں۔

سنت رام       :میں انکار کرتا ہوں کہ میں رفیوجی ہوں۔ مجھ پر رحم کیوں کرتے ہو؟ میں نے تو سہارا نہیں مانگا تھا!

کیپٹین:لیکن آپ رفیوجی ہیں۔

سنت رام       :یہی تومیں پوچھتا تھا۔ میرے گھر پر تھانیدار صاحب آئے۔ بولے استاد جی گاؤں چھوڑ دیجئے۔ یہاں سے چلے جائیے۔ نہیں توہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکیں گے۔

کیپٹین:جی ہاں۔ تقریباً سب لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ کچھ لوگ تو گھر لٹا آئے ہیں  اور  کئی لوگوں کے ماں بہن بھائی سب قتل ہو گئے ہیں۔

سنت رام       : اور  ہماری یہاں حفاظت ہو گی؟

کیپٹین:جی۔

سنت رام       :کس چیز کی حفاظت؟

کیپٹین:آپ کی۔

سنت رام       :برخوردار میں کیا ہوں، رفیوجی کی حفاظت، میرے پاس میری روح ہی نہیں، آتما ہی نہیں، کیا کرو گے مجھے بچا کر،  رفیوجی بنا کر ہمارا کیا کرو گے۔

کیپٹین:جی۔

سنت رام       :میری زبان کوئی بولتا ہے ؟میری زبان کا کوئی گیت گاتا ہے۔ میرے دریا کا ترنم کس دریا میں ہے ؟میرے سبزوں کی شادابی کس سبزے میں ہے ؟ میرے آسمان کا رنگ کس آسمان میں ہے  اور  میرے پہاڑوں کی اونچائیاں  اور رعنائیاں کن پہاڑوں میں ہیں۔ ان کے بغیر میں کیا ہوں۔ کس کی حفاظت کرو گے۔ پہلے اجاڑتے ہو۔ پھر بساتے ہو۔ اجاڑتے وقت نہیں دیکھتے کیا اجڑتا ہے  اور  بساتے وقت تو دیکھ لو کیا بسے گا۔

کیپٹین:بھول جائیے سب۔ خواہ مخواہ یاد کر کے اپنی جان کو  تکلیف دیتے ہیں۔ اذیت دیتے ہیں۔

سنت رام       :خوب سیاست ہے آج کل۔ دنیا بھرمیں رفیوجی۔ برما، سیلون، جرمنی، امریکہ  اور  افریقہ۔ ۔ ۔ رفیوجی، رفیوجی۔ ہندوستان، پاکستان۔ ۔ ۔ رفیوجی نہیں چاہتا کہ اس کے ماتھے پر لیبل لگا دو۔

کیپٹین:ایک بات مانیں گے آپ۔

سنت رام       :ہاں۔ کہو برخوردار۔

کیپٹین:آپ کا مجھ پر وشواس ہے ؟

سنت رام       :تم میرے عزیز ہو، میرے طالب علم  اور  میرے بھائی کی طرح۔

کیپٹین:یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔

سنت رام       :تو۔ ۔ ۔ ؟

کیپٹین:میرے یہاں ہوتے ہوئے آپ کو کچھ ہو گیا تو میں زندگی بھر اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکوں گا۔

سنت رام       :اس مٹی کولے کر کہاں جاؤں گا؟

کیپٹین:پاس کے گاؤں میں چلے جائیے۔ میں رہنے کا بندوبست کروا دوں گا۔

سنت رام       :عزیزم ابھی نہیں۔

کیپٹین:مان لیجئے۔

سنت رام       :نہیں ابھی نہیں۔ جب تک میں سرحد پر ہوں، میں رفیوجی نہیں ہوں۔ جس دن میں نے یہاں سے ایک قدم بڑھایا تو میرے ماتھے پر رفیوجی کا لیبل لگ جائے گا۔ ابھی میری روح بے قرار ہے ابھی وہ مری نہیں۔ جس دن روح نہ رہی، جہاں مرضی ہو مجھے لے جانا، پھر سارے ملک، ساری فضائیں میرے لیے برابر ہیں۔

کیپٹین:اتنی ہٹ تو کوئی پاگل آدمی بھی نہیں کرتا۔

سنت رام       :تم بھیا، بس اتنی مہربانی کرو۔

کیپٹین:کہیے۔

سنت رام       :میری بہن آ جائے تو فوراً مجھے خبر کر دو۔

کیپٹین:اس کی چنتا آپ نہ کریں۔ کچھ رفیوجی آ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ کی بہن بھی آ جائے گی۔

سنت رام       :بس اس کے بغیر من نہیں لگتا۔ دل بیٹھا رہتا ہے۔ ہر وقت اس کا خیال رہتا ہے۔ کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوئی  اور  میرا اتنا خیال رکھتی تھی۔ چھوٹی سی عمر میں گھر کا سارا بوجھ۔ ۔ ۔

(آواز بھر آتی ہے۔ )

کیپٹین:اس طرح سوچنا چھوڑ دیجئے۔ بیٹھ جائیے۔ آرام کیجئے۔ میں جا کر تفتیش کرتا ہوں۔ اس کے آتے ہی یہاں لے آؤں گا۔

(کیپٹین مگ لے کر چلا جاتا ہے۔ افضل گاتا ہے۔ )

کوٹھے اتے کاں بولے

چٹھی میرے ویرے دی

وچ میر ا وی ناں بولے

وئے چٹھی میرے ویرے دی

(دھوپ آہستہ آہستہ بڑھ جاتی ہے۔ گمنام آدمی داخل ہوتا ہے۔ وہ ایک پرانا فوجی کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھوپ کے ہٹ جانے سے سردی بڑھ گئی ہے۔ گمنام آدمی نے بے حد پی رکھی ہے۔ ایک تھیلے میں ڈھیر ساری خالی بوتلیں ہیں۔ )

گمنام آدمی      :ماسٹر جی۔

سنت رام       :آؤ بھائی۔

گمنام آدمی      :آپ مرے نہیں ابھی تک؟

سنت رام       :بدقسمت ہوں۔ بچا ہوں۔

گمنام آدمی      :بڑے افسوس کی بات ہے۔

سنت رام       :میرے مرنے سے تمہیں کیا سکھ ملے گا؟

گمنام آدمی      :مجھے، مجھے ملا کیا ہے جو ملے گا۔ میں نے مکتی پراپت کر لی ہے۔ نروان  اور   نجات۔

سنت رام       :شراب پی کر۔

گمنام آدمی      :شراب پی کر نہیں، شراب پی پی کر۔

سنت رام       :بڑی جلدی مکتی پراپت کر لی ہے۔

گمنام آدمی      :اس کے لیے من کا مارنا پڑتا ہے۔ سنیاسی لوگ جو مندروں میں کیرتن کرتے ہیں  اور  جنگلوں میں بھٹکتے ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں  اور  من کو نہیں مار سکتے ہیں۔

سنت رام       :تو پھر تم شراب کس لیے پیتے ہو؟

گمنام آدمی      :شراب تو اس لیے پیتا ہوں کیوں کہ مل جاتی ہے۔

سنت رام       :تمہارے نروان کا جواب نہیں!

گمنام آدمی      :آپ کو یقین نہیں ہے ؟

سنت رام       :ہیں ؟

گمنام آدمی      :اس ’’ہیں ‘‘ سے ظاہر ہے نہیں۔ آپ مجھے گالی دیجئے۔

سنت رام       :کیوں ؟

گمنام آدمی      :ویسے ہی۔

سنت رام       :نہیں۔

گمنام آدمی      :آپ کسی کام کے نہیں۔ دیکھئے میں خود اپنے آپ کو گالی دیتا ہوں۔ غور سے سنیے :’’میں الو کا پٹھا ہوں ‘‘ اب دیکھئے مجھ پر کوئی اثر نہیں۔ ۔ ۔  اس کو نروان کہتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے ابھی نروان اتر رہا ہے۔

(وہ نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ تھیلے سے شراب کی خالی بوتلیں ایک ایک کر کے نکالتا ہے۔ سب خالی ہیں۔ پھر وہ ایک ایک گھونٹ دو تین بوتلوں سے نچوڑتا ہے۔ )

سنت رام       :اب کیا کرو گے ؟

گمنام آدمی      :نروان پراپت کرنے کا ایک  اور  طریقہ بھی ہے۔

سنت رام       :وہ کیا؟

گمنام آدمی      :اپنے آپ کو گولی ماردو۔

سنت رام       :دیر کس بات کی ہے ؟

گمنام آدمی      :مجھے بندوق چلانی نہیں آتی۔

سنت رام       :کسی سپاہی سے کہو تو تمہاری مدد کرے۔

گمنام آدمی      :میں نے ایک سپاہی سے بنتی کی تھی، کہتا تھا سگریٹ کون لائے گا۔ اب دیکھئے کتنی خود غرضی ہے۔ اپنے سگریٹ کے لیے مجھے نروان پراپت کرنے نہیں دیتا۔

سنت رام       :افسوس کی بات ہے۔

گمنام آدمی      :آپ کو بندوق چلانی آتی ہے ؟

سنت رام       :بندوق ہے تمہارے پاس؟

گمنام آدمی      :میں چوری کر لوں گا۔

سنت رام       :نروان کے لیے ؟

گمنام آدمی      :آدرش کے لیے چوری بھی کرنی چاہئے۔

سنت رام       :مجھے تو بھائی بندوق تو کیا، غلیل چلانی بھی نہیں آتی  اور  اگر آتی بھی ہو تو، میں ہتیا نہیں کر سکتا۔

گمنام آدمی      :آپ تو میرا کوئی کام نہیں کرتے۔

سنت رام       :لیکن میرے پاس ایک طریقہ ہے۔

گمنام آدمی      :جلدی بتاؤ۔

سنت رام       :وہ پاکستانی سپاہی ہے نا، اس سے کہو۔

گمنام آدمی      :اس سے بھی کہہ چکا ہوں۔ میں نے اس سے کہا پاکستانی سپاہی بہت بہادر ہوتے ہیں تو وہ ہنسنے لگا۔

سنت رام       :کیوں ؟

گمنام آدمی      :کہنے لگا کوئی سپاہی بہادر نہیں ہوتا۔

سنت رام       :فلاسفر ہے!

گمنام آدمی      :فلاسفر نہیں، شاعر ہے۔ کہا تھا ہر سپاہی خوف زدہ ہوتا ہے  اور  اس لیے گولی چلاتا ہے کہ خود نہ مارا جائے۔

سنت رام       :پھر؟

گمنام آدمی      :میں نے ایک پتھر اٹھایا، میں نے کہا خوف زدہ ہو جاؤ اور  اپنی جان بچانے کے لیے مجھے گولی مارو۔

سنت رام       :اچھا؟

گمنام آدمی      :وہ پھر ہنسنے لگا۔ بس ہنسے جا رہا تھا۔ میں بھی پتھر اٹھائے تھک چکا تھا۔ میں نے پتھر پھینک دیا۔ پھر اس نے مجھے رم پلائی۔

سنت رام       :تم کھانا وانا نہیں کھاتے، بس پیتے رہتے ہو۔

گمنام آدمی      :کھانا تو سنیاسی کھاتے ہیں، تبھی تو انھیں نروان نہیں ملتا۔

(وہ اٹھتا ہے۔ )

گمنام آدمی      :اب میں کیا کروں، مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ میں ڈرتا ہوں، میری یادوں کے بھوت میرا پیچھا نہ کریں۔

سنت رام       :تمہیں کچھ کھانا چاہئے۔

گمنام آدمی      :۔ ۔ ۔ میں رو پڑوں گا۔

(وہ کوٹ اتار کر پھینک دیتا ہے۔ ایک پھٹی ہوئی تار تار قمیص، ایک پھٹا ہوا تار تار پایجامہ پہنے ہوئے ہے۔ )

سنت رام       :کیا کر رہے ہو، ٹھنڈ لگ جائے گی۔

گمنام آدمی      :ٹھنڈ وہیں ہے ماسٹر جی جہاں میں نے کوٹ پھینک دیا ہے۔ اب میں کیا کروں، مجھے ہوش آ رہا ہے۔

(وہ بوتلوں کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ کانپ رہا ہے۔ ایک ایک بوتل دیکھتا ہے  اور  پھینکتا ہے۔ )

گمنام آدمی      :مجھے ہوش آ رہا ہے۔ اب میں کیا کروں۔ میری یادوں کے بھوت مجھے دبوچ رہے ہیں۔ دیکھو چیلیں  اور   گدھ، کتے  اور   ہڈیاں، پنجر، لاشیں، کیڑے۔ ۔ ۔ سب کے سب مجھے کھا رہے ہیں۔

سنت رام       : (اس کی طرف بڑھتا ہے) کیا ہو رہا ہے تمہیں۔ کیا تکلیف ہے ؟

گمنام آدمی      :مجھے ہاتھ نہ لگائیے گا۔ میرے سارے جسم پر چھالے ہیں، پھپھولے ہیں۔

سنت رام       :تمہیں ہسپتال جانا چاہئے۔ چلو میں کیپٹین کے پاس لے چلوں۔ وہ میرا شاگرد تھا۔ تمہیں دوا دلوائے گا۔

گمنام آدمی      : (روکر)میں ہوش بیچ دینا چاہتا ہوں۔ میں ہوش کھو دینا چاہتا ہوں دیکھو دیکھو بٹوارے کے دن!کشتی۔ ۔ ۔ میرا بچہ، میری بیوی، میری بوڑھی ماں۔ ۔ ۔  اور  کئی بچے، بیویاں، کئی مائیں۔ ۔ ۔  اور  کنارے سے لوگ پتھر مار رہے ہیں۔ میرے بچے کا سر پھٹ گیا،  میری بیوی کا جبڑا ٹوٹ گیا۔ میری ماں مر گئی ہے  اور  وہ کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی ہے۔ پتھروں کی بوچھاریں ہیں، پتھروں کی بارش ہے  اور  ادھر دریا میں ہماری کشتی ہے۔ کوئی ڈر کے مارے دریا میں چھلانگ لگا رہا ہے  اور   ڈوب رہا ہے۔ ۔ ۔  کوئی راستہ نہیں۔ کوئی راستہ نہیں  اور  کشتی ڈوب رہی ہے، کشتی ڈوب گئی ہے۔ (وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا ہے۔ ) سب مر گئے۔ سب ڈوب گئے  اور  میں بچ گیا۔ ۔ ۔  اپنی یادوں کے بھوت لیے۔ ۔ ۔ آپ ایک بہن کے لیے روتے ہیں۔ میں کئی بہنوں، کئی ماؤں، کئی بچوں کے لیے روتا ہوں۔ ۔ ۔ میں چاہتا ہوں ہوش بیچ دوں۔ میں چاہتا ہوں میں سب کچھ بھلا دوں۔ اتنی بربرتا، اتنی حیوانیت کہاں، کس دور میں تھی۔ ۔ ۔ کہیں نہ تھی۔ ۔ ۔ کہیں نہ تھی۔

(روتے روتے باہر نکل جاتا ہے۔ ذرا سی تاریکی  اور  بڑھ جاتی ہے۔ درختوں کا سایہ ہے۔ سنت رام ادھر ادھر  ٹہل رہا ہے۔ ہربنس گاتا ہے۔ )

آج آکھاں وارث شاہ نوں

قبراں وچوں بول

تے آج کتاب عشق داکوئی اگل اور  قاکھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی

تولکھ لکھ مارے بین

اج لکھادھیاں روئیاں

تینوں وارث شاہ نوں کہیں

(اتنے میں سیتا کے ہنسنے کی آواز آتی ہے۔ سیتا  اور   کیپٹین داخل ہوتے ہیں۔ سیتا باقاعدہ ہنس رہی ہے۔ )

سیتا     :بھائی، کتنی دیر کا بھائی  اور  تھوڑی دیر میں میرا مرد۔ (ہنستی ہے) سب ایک جیسے ہیں۔ کوئی بھائی کہتا ہے کوئی رشتہ دار اور  کوئی باپ۔ کوئی فرق نہیں۔

کیپٹین:ماسٹر جی صبر سے کام لیجئے۔ اس کے دماغ پر شاید گہری چوٹ آئی ہے۔ نہایت نرمی  اور  پیار سے یاد دلائیے،  اور  اگر میری ضرورت ہو تو فوراً بلا لیجئے۔

(کیپٹین چلا جاتا ہے۔ سنت رام سیتا کی طرف دیکھتا ہے۔ )

سیتا     :کہاں جانا ہو گا؟تمہارا گھر نزدیک ہے نا۔ دیکھو میں بہت دور نہیں جا سکوں گی۔ چلتے چلتے میں تھک چکی ہوں  اور   تھوڑی دیر مجھے سو جانے دینا۔ کتنے دن، کتنی راتیں ہو گئی ہیں کہ میں سو نہ سکی۔

سنت رام       :سیتا!

سیتا     :سیتا۔ کس کا نام سیتا۔ ہاں میری ایک سہیلی تھی۔ اس کا ایک بھائی بھی تھا۔ چاند سا بھائی۔ وہ اپنے بھائی کی لاڈلی تھی۔ لیکن بچاری کا پتا نہیں۔

سنت رام       :سیتا!

سیتا     :کمال ہے۔ پاگل تو نہیں ہو کیا۔

سنت رام       :مجھے نہیں پہچانتی؟

سیتا     :یہ لو، ابھی تو ملے ہو ابھی کیسے پہچان لوں۔

سنت رام       :سیتا میری بہن۔

سیتا     :نہ جان نہ پہچان۔ بھئی میرا نام سیتا نہیں ہے۔ میرا کیا نام ہے۔ ٹھہرو بتاتی ہوں۔ کمال ہے مجھے اپنا نام یاد نہیں۔ تمہیں کوئی ایسا پاگل آدمی ملا ہے جسے اپنا نام یاد نہ ہو۔

سنت رام       :تمہارا نام سیتا ہے۔

سیتا     :نہیں۔

سنت رام       :میں سچ کہہ رہا ہوں۔ دیکھو ہمارا خون سانجھا ہے۔ ذرا غور سے دیکھو۔

سیتا     :دیکھو سیتا میری سہیلی کا نام تھا۔ وہ میری بڑی اچھی سکھی تھی۔ اس کی یاد نہ دلاؤ مجھے میں رو پڑوں گی۔ اچھا میں تمہیں اپنا نام بتاتی ہوں۔ شاداں، مرداں، شبنم، نزہت، رخسانہ۔ کمال ہے کتنے نام ہیں میرے۔ ایسا کوئی آدمی ملا ہے تمہیں جس کے بہت نام ہوں۔

(وہ زور زور سے ہنستی ہے۔ )

سنت رام       :سیتا، تم میری بہن ہو۔ ذرا غور سے سنو۔ بہن لفظ کتنا پوتر ہے، گنگا کے پانی کی طرح۔ میری طرف دیکھو۔

سیتا     :میں بہت تھک گئی ہوں۔

سنت رام       :یہاں بیٹھو۔

(وہ بیٹھ جاتی ہے۔ اس کی طرف حیرانی سے دیکھتی ہے۔ )

سیتا     :تم کون ہو؟

سنت رام       :میں تمہارا بھائی ہوں۔ ابھاگا بھائی۔ جس سے تو بچھڑ گئی تھی۔

سیتا     :میرا بھی ایک بھائی تھا۔

سنت رام       :کہاں ہے وہ؟

سیتا     :پتا نہیں۔

سنت رام       :یاد کرو۔

سیتا     :مجھے چھوڑ گیا۔ نہیں مجھ سے چھین لیا گیا۔ میں نے بہت ڈھونڈا اسے۔

سنت رام       :تم اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھیں۔

سیتا     :تم بھی کیسے ہو۔ کون بہن، اپنے بھائی سے پیار نہیں کرتی۔

سنت رام       :کیسا تھا وہ؟

سیتا     :چاند سا۔

سنت رام       :نام کیا تھا؟

سیتا     :نام۔ ۔ ۔ نام یاد نہیں۔ یہ لو۔ ایسا آدمی آپ کو ملے  گا جسے اپنے بھائی کا نام یاد نہ ہو۔

سنت رام       :یاد کرو۔

سیتا     :یاد کروں۔ اچھا۔

سنت رام       :بتاؤ؟

سیتا     :بھول رہی ہوں۔

سنت رام       :کوشش کرو۔

سیتا     :دیکھو مجھے یہاں درد ہو رہا ہے۔ ۔ ۔

(ماتھے پر ہاتھ پھیرتی ہے۔ )

سنت رام       :میں داب دوں۔

سیتا     :نا، تم کیوں ہاتھ لگاؤ جی  اور  آنکھوں کے سامنے مکڑی کے جالے ہیں۔

سنت رام       :ادھر دیکھو۔

سیتا     :ہاں۔

سنت رام       :میرا نام یاد ہے ؟

سیتا     :تمہارا نام۔ ہاں۔ فیروز، عثمان، دل اور ، عباس، کمال ہے کتنے نام ہیں تمہارے۔

(سنت رام اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نہایت اذیت میں ہے۔ )

سنت رام       :کیا بنا دیا ہے تمہیں۔ تم اپنے جسم پر لوگوں کے گناہوں کی کہانیاں لیے گھومتی ہو۔ گنگا جل میں میل آ گیا کیا۔ گدلا ہو گیا ہے گنگا جمنا کا پانی۔

(سیتا اس کے پاس آتی ہے۔ )

سیتا     :تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں کیا؟

سنت رام       :ہاں وہی روگ مجھے ہے جو تمہیں ہے۔

سیتا     :اب کیا کرو گے ؟

سنت رام       :تم اپنے بھائی کا نام پکارو تو میں جان تک دے سکتا ہوں۔

سیتا     :یاد کرتی ہوں  اور  بھول جاتی ہوں۔

سنت رام       : اور  اگر تم پہچان نہ سکیں تومر جاؤں گا۔ یہ گناہ جو لوگوں نے تمہاری جھولی میں ڈالے ہیں ان کا کفارہ میں بھگتوں گا۔ اپنے جسم میں زخم بھر دوں گا، پیپ  اور  خون کی دھاریں بہا دوں گا اور کہوں گا، لوگو دیکھو میں اپنی بہن کے گنا ہوں کا کفارہ بھگت رہا ہوں۔ وہ پوتر ہے۔ وہ گنگا جل ہے۔ میری حالت دیکھو اور   عبرت حاصل کرو۔

سیتا     :ایک بات بتاؤں ؟

سنت رام       :کہو۔

سیتا     :تم جیسا اچھا آدمی مجھے کہیں نہیں ملا۔

سنت رام       :تم جب اس طرح دیکھتی ہو تو سیتا لگتی ہو۔ وہی سیتا جو مجھ سے بچھڑ گئی ہے۔

سیتا     :میں بتاؤں سیتا کہاں ہے۔

سنت رام       :ضرور بتاؤ۔

سیتا     :سیتا کا ایک بھائی تھا چاند سا۔ وہ سیتا سے بچھڑ گیا  اور  سیتا اسی دن مر گئی۔

سنت رام       :نہیں نہیں ایسا نہ کہو بھگوان کے لیے ایسا نہ کہو۔

سیتا     :میں نے بری بات کہی کیا۔ اچھا اب کچھ نہیں کہتی۔ کیا بات ہے میں جب کوئی بات کرتی ہوں، تم دکھی ہو جاتے ہو۔

سنت رام       :اے بھگوان۔

سیتا     :روؤ مت۔

سنت رام       :میرا دل پھٹ جائے گا۔

سیتا     :چپ ہو جاؤ۔

سنت رام       :اب میں کیا کروں ؟میرا آدرش بھی نہیں رہا۔ میری بہن بھی نہیں رہی۔

سیتا     :بھگوان کے لیے روؤ مت۔

سنت رام       :کیا بنا دیا ہے انھوں نے، میں کہاں سے لاؤں۔ پہلے میرا جسم رفیوجی تھا۔ اب میری روح۔ ۔ ۔ لاؤ میری روح لاؤ۔ تہذیب  اور   زمانے کے خداؤ میری روح لاؤ۔

(وہ Barbed   والے کراس نما کھمبے پر چڑھ جاتا ہے۔ )

سیتا     :روکو اسے، بھگوان کے لیے روکو اسے۔

ہربنس  :استاد جی نیچے آ جائیے۔ میں کہتا ہوں نیچے آ جائیے نہیں تو گولی ماردو ں گا۔

افضل  :اے پاگل آدمی واپس ہو جاؤ نہیں تو چھلنی کر دوں گا گولیوں سے۔

سنت رام       :سیاست، تہذیب  اور  زمانے کے خداؤ میری روح لاؤ۔ ۔ ۔ میری بہن  اور   میری ماں کی روح، میرے گاؤں  اور  میرے گھرکی روح، رفیوجی بنانے والو جواب دو۔ ۔ ۔ سنتے ہو؟

(ہربنس  اور  افضل دونوں طرف سے گولیوں کی بوچھار کرتے ہیں۔ کیپٹین داخل ہوتا ہے۔ گمنام آدمی بھی داخل ہوتا ہے۔ ۔ ۔  شام ہو چکی ہے۔ ۔ ۔  سورج کی سرخی سے مغرب روشن ہو چکا ہے۔ ۔ ۔  سنت رام Jesus   کی طرح Barbed Wires   کے کھمبے کے ساتھ لٹکا ہے۔ چرچ کا آرگن بجتا ہے۔ ۔ ۔ سیتا رو رہی ہے دھاڑیں مار مار کر۔ ۔ ۔  کیپٹین سلام کرتا ہے۔ )

سیتا     :یہ صرف میرا بھائی ہو سکتا ہے۔ یہ صرف میرا بھائی ہو سکتا ہے۔ میرا ویر۔ میرا۔

(اس کے قدموں میں روتی ہے۔ )

(پردہ گرتا ہے۔ )

***

ماخذ: ’’خیال کی دستک‘‘، نئی آواز، جامعہ نگر،  نئی دہلی

مشمولہ  ‘اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

٭٭٭

فائل کے لئے تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ساحل کمپیوٹرس، ناگپور

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید