FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

نقل مکانی

 

(دستک)

 

 

               راجندر سنگھ بیدی

ماخوذ: اردو پلے، مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

 

کردار

 

 

نفیس:ایک معمولی آدمی جو محکمۂ نہر میں ملازم ہے۔

عذرا:نفیس کی قبول صورت بیوی۔ ۔ ۔  گانے کا شوق رکھتی ہے

مراتب:کاٹھ بازار کا پنواڑی

سیاں :ایک آوارہ  اور  ذہین طالب علم جس کا اصلنام امجد حسین ہے

بنواری لال:محلہ دار۔

مرزا شوکت :محلہ دار۔

سب انسپکٹر مائکل

دو سپاہی

شیو برت:ایک عیاش رئیس

 

 

      پہلا منظر

 

 (محلہ کاٹھ بازار کا ایک مکان، نفیس  اور  اس کی بیوی عذرا اس مکان میں نئے آئے ہیں۔ ابھی ان کا سامان ادھر ادھر پڑا ہے جسے دونوں میاں بیوی قرینے سے دھرنے میں مصروف ہیں۔ )

 

عذرا    : (آرام کے لیے رکتے ہوئے) توبہ کتنی خاک چھانی  اور  جو ملنے کو آیا مکان تو کیسے جھٹ سے مل گیا۔

نفیس   : (چارپائی پر بیٹھ کر اپنا نیا جوتا اتار دیتا ہے  اور   اپنے پاؤں سہلاتا ہے) ہاں اسی بات پر تومیں حیران ہو رہا ہوں۔ دراصل مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے کہ میں کسی  اور   مکان میں بیٹھا ہوا ہوں۔ ۔ ۔ پاؤں ابھی تک دکھ رہے ہیں۔ ایک سارے دن کی دوڑ دھوپ، دوسرے نیا جوتا۔ ۔ ۔ (پلٹ کر) عذرا تھوڑا پانی تو گرم کر دو بھائی۔

عذرا    :معلوم ہوتا ہے حمام کا پیندا، اس ادلا بدلی میں ٹوٹ گیا ہے۔ لیکن پانی گرم ہو جائے گا۔

نفیس   :جب بوجھے کو سر پر سے پھینک دیا جاتا ہے تو کتنی دیر یوں معلوم ہوتا ہے جانے کوئی اوپر کی طرف اٹھ رہا ہے۔ اتنی تھکن  اور  تکلیف کے ہوتے ہوئے بھی ایک طرح کے سبک اپنے۔ ۔ ۔

عذرا    :چشم بد دور۔ بس ان ہی دو کمروں کی ضرورت تھی  اور  اتنا ہی کرایہ دینے کی توفیق۔ مہنگائی کے ان دنوں میں سولہ روپیہ بھی بھلا کوئی کرایہ ہے ؟

(پھر کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ )

نفیس   :اندازہ کرو، وہ حویلی بکائن والے ان کمروں کے پچاس روپیہ بتاتے تھے۔ شاید انھیں سمجھنے والا نہیں کوئی۔ میں نے تو کہہ دیا تھا کہ تنخواہ قرق کر لیا کرو صاحب۔ سوچو اتنے کمروں کی ہمیں ضرورت بھی کیا تھی؟

عذرا    : اور  جونئی آبادی میں کمرے دیکھے تھے، یاد ہیں ؟سیل کتنی دور چھت کی طرف لپک رہی تھی  اور  پڑوس کی جرانی  بضد تھی کہ ہم اوپلے دیوار پرہی تھاپیں گے۔ ۔ ۔ لے بھئی تواب تھاپ لے اوپلے جی بھرکر(رک کر) لیکن اگر میں وہاں رہ جاتی تو اسے بتا  دیتی ایک بار۔

نفیس   :ہاں وہ تو تمہاری بات ہی ہے۔

عذرا    : اور  وہ کوڑا کرکٹ جلانے والی چمنی بھولی گئے۔ ۔ ۔ اف۔ ۔ ۔ اوف۔ ۔ ۔  کتنی بو آتی تھی۔ ۔ ۔

(ناک پر دوپٹہ رکھ لیتی ہے۔ )

نفیس   :اس پنواڑی نے کس آرام سے چابیاں تھما دیں میرے ہاتھ میں (ایک دم رک کر)مجھے تو کچھ دال میں کالا نظر آتا ہے۔

عذرا    : اور  کہہ رہا تھا مہینے بھر سے خالی پڑا ہے۔ مکان۔ کوئی گاہک نہیں لگا ہو گا۔ اس مہینہ بھرمیں بھلا؟

نفیس   :خدا جانے کیا معاملہ ہے ؟یہ دیواریں کچھ خراب ہیں لیکن۔ ۔ ۔

(دیوار کو چھوتا ہے۔ )

عذرا    :کہاں خراب ہیں دیواریں ؟۔ ۔ ۔ بس ذرا سا شک پڑا دیواریں خراب نظر آنے لگیں۔ چھت بھی گرتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ کواڑ بھی پرانے ہیں۔ تم کہنے لگو گے بالکل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ (پڑھا کے اوپر  اور   نیچے سیاہ نشان دیکھتے ہوئے) شاید شمع دان بنا رکھا تھا ہم سے پہلے ادھر رہنے والوں نے۔ ۔ ۔ میں کہتی ہوں یہاں بجلی نہیں ہے ؟

نفیس   :ہے تو لیکن وہ لوگ شاید استعمال نہ کرتے ہوں۔

عذرا    : (ہنس کر) شاید اندھیرا پسند کرتے ہوں۔

نفیس   :تمہیں اندھیرے کے معجزوں کا کیا پتہ۔ جب اندھیرا ہوتا ہے تو بہت سی خدائی کا ایک طرح سے دن شروع ہوتا ہے۔ (میز کو کونے کی طرف سرکاتے ہوئے، کونے میں پڑے ہوئے گھنگھرو نفیس کے ساتھ ٹکراتے ہیں)۔ ۔ ۔ ارے یہ کہاں سے آئے۔

عذرا    : (میز رکھ کر) دکھاؤ۔

نفیس   :ہم سے پہلے رہنے والے انھیں یہیں بھول گئے۔

عذرا    :ان میں سے کوئی ناچتا ہو گا۔

نفیس   :تمہارے لیے چھوڑ گئے معلوم ہوتے ہیں لیکن انھیں کیا معلوم کہ نئے آنے والوں میں بھی کافی گانے کا شوق رکھتی ہے  اور  گاہے ما ہے۔

عذرا    :گاہے ما ہے کیا؟

نفیس   :تھرک بھی جاتی ہے۔

عذرا    :اوہو، جانتے ہی نہ ہوں بھلا۔

نفیس   :ذرا پاؤں میں باندھو اور ۔ ۔ ۔

عذرا    :ہونہہ اسباب جوں کاتوں بکھرا ہوا ہے  اور  آپ کو اپنی پڑی ہے۔ میں سوچتی ہوں اس شمع دان میں سرسوں کا تیل جلانے والے اتنے با مذاق تھے ؟

نفیس   :تو کیا خوش مذاقی کا امیر لوگوں نے اجارہ لے رکھا ہے۔ (عذرا کے سامنے میز پر بیٹھ جاتا ہے) اپنی طرف دیکھو تم۔ ۔ ۔

عذرا    : (شرما کر) چلو ہٹو۔

نفیس   :بات یہ ہے کہ تم بھی عام آدمیوں کی طرح باہر کی ٹیپ ٹاپ دیکھتی ہو میں اگر اچھی شکل والا ہوتا  اور  اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہوتا تو شاید مکان کے لیے مجھے اتنا پریشان نہ ہونا پڑتا۔ جس کے سامنے جا کر مکان کے لیے سوالی ہوا اس نے پہلے مجھے سر سے پاؤں تک ناپا  اور   پھر جھٹ سے کہہ دیا کون زمانے کی بات کرتے ہو میاں، راستہ پکڑو۔ ۔ ۔  گویا میں اٹھائی گیرا ہوتا ہوں۔ (غصے کے ساتھ میز پر سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ )بعض دفعہ جی چاہتا ہے اٹھائی گیرا ہی تو ہو جائے آدمی۔ ۔ ۔  (عذرا کی طرف دیکھتا ہے تو غصہ اتر جاتا ہے۔ ) دور کیوں جاؤں میں اپنی عذرا کے لیے وامق نہ ہوا۔ ۔ ۔

عذرا    :یہ وامق کون احمق تھا؟۔ ۔ ۔  اور  پھر اس بات کا تقاضا کرنا بھی تو سنک ہے کہ کوئی آدمی کو اندر سے دیکھے  اور  باہر سے نہ دیکھے۔ تمہارا کیا خیال ہے۔ روح جسم کو خوبصورت یا بدصورت نہیں بناتی؟

نفیس   :یہ الگ بحث ہے عذرا۔ ۔ ۔  لاؤ ذرا ہتھوڑی پکڑانا، کھڑکی پر کیل گاڑ دوں۔ (کھڑکی کی طرف بڑھتے ہوئے) میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم کسی کی شکل دیکھ کر اس کی طینت کے متعلق شک کرو تو اس شخص کی بددیانتی پر افسوس نہیں کر سکتیں۔ ۔ ۔

عذرا    :دیکھو، دیکھو، دیکھو۔ ۔ ۔ یہ باہر جو کھڑکی کھلتی ہے، پان کی پیک سے بھری ہوئی ہے۔ ادھر ہاتھ مت بڑھانا۔ میں کہتی ہوں۔ ۔ ۔ یہ پان کی پیک، یہ شمع دان۔ ۔ ۔ میرا ما تھا ٹھنکتا ہے۔ ذرا بلانا تو پٹواری کو۔

نفیس   :مراتب کو؟۔ ۔ ۔ میں بلاتا ہوں۔ تو بھی دیا جلا دے شام ہو رہی ہے۔

عذرا    :دیا تو نہیں ہے لیکن اس کٹوری سے دینے کا کاجل جائے گا۔

نفیس   :ہاں، ہاں اس کٹوری کو شمع دان پر رکھ دو۔

عذرا    :میں تو نہ رکھوں شمع دان پر کٹوری۔ ۔ ۔  تم مراتب کو بلاؤ۔ یا تو اس جگہ چھوت کی بیماری کا کوئی مریض رہا ہے  اور  یا۔ ۔ ۔ یا۔ ۔ ۔

نفیس   :ورنہ آج کل جنگ کے دنوں میں اتنی دیر مکان خالی رہنے کے کیا معنی؟۔ ۔ ۔  (دروازے سے باہر جھانک کر) مراتب۔ ۔ ۔  میاں مراتب۔ ۔ ۔  ذرا ادھر آنا بھائی۔

پنواڑی:آیا صحیب۔

نفیس   : (عذرا سے)جانے کیا ماجرا ہے ؟۔ ۔ ۔ چھوت کی بیماری کے علاوہ کیا اندازہ لگانے لگی تھیں تم؟

عذرا    :اس مکان میں کوئی پیر رہتا ہوتا  اور  یہاں رہنے والے اس کا دیا جلاتے ہونگے  اور   جہاں تک میرا خیال ہے ہفتہ میں ایک دو دن ضرور پیر کا دیا جلانا پڑتا ہو گا، نہیں تو بجلی والے اس مکان میں سرسوں کا تیل جلانا کیا مطلب رکھتا ہے ؟

نفیس   :اب تمہیں بھی اس مکان میں نقص نظر آنے لگے۔ ۔ ۔ ایک برس ہوا ہمیں مکان کی تلاش کرتے ہوئے تب کہیں جا کر یہ دو اچھے کمرے ملے ہیں۔

عذرا    :میں خود اسے پسند کرتی ہوں لیکن۔

نفیس   :میں لیکن ویکن کچھ نہیں جانتا۔ مجھ سے اب مکان تبدیل نہ ہو گا یہ سمجھ رکھو۔ ۔ ۔ چھوت کا مریض رہا ہو گا تو فرش فنائل سے دھولیں گے۔ سفیدی کروا لیں گے۔ دیواریں کھد وا کر نیا پلسٹر کروا لیں گے۔ ۔ ۔  پیر ہوا تو سرسوں کا دیا جلا لیں گے۔

(دروازے میں مراتب نظر آتا ہے۔ )

مراتب:حکم سرکار؟

نفیس   :بڑے میاں، ہمیں ایک بات پوچھنا ہے۔

عذرا    : (ڈرتے ہوئے) ہاں بڑے میاں ٹھیک ٹھیک بتا دو۔ تم نہیں بتاؤ گے تو ایک دن ہمیں اپنے آپ پتہ چل جائے گا۔ کیا یہاں کوئی بیمار رہا ہے ؟ یا کوئی پیر ہے جس کا دیا جلانا پڑتا ہے ؟ یا  اور   کوئی بات ہے۔ دیکھو جھوٹ مت بولنا آخر تم بھی بال بچوں بچے دار ہو۔

پنواڑی:دیکھے سرکار جھوٹ بولنا اپنا اپنا اصول نہیں ہے  اور  پھر یہ مکان کون میرا اپنا ہے جس کی خاطر ایمان گروی رکھوں۔ ۔ ۔ آپ سے پہلے یہاں شادو رہتی تھی۔

نفیس   :شادو رہتی تھی، کون شادو؟

پنواڑی:شادو۔ شمشاد بائی۔(عجیب سی ہنسی ہنستا ہے)آپ اسے نہیں جانتے ؟ واہ اس شہر میں کون بابو لوگ ہے جو شادو کو نہیں جانتا؟

نفیس   : (کچھ برہم ہو کر اپنے ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیتا ہے۔ ) میں جھوٹ تھوڑے ہی کہہ رہا ہوں بڑے میاں۔ ہمیں تمہاری شادو سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔

پنواڑی:اجی بابو صاحب۔ شادو کے قصے اخباروں میں چھپ گئے۔ اس کے نام کے اشتہار بازاروں میں لگ گئے  اور  آپ کہتے ہیں پتہ ہی نہیں۔ ۔ ۔  نہیں نہیں آپ دراصل مجھے بنا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ہیں نا؟شادو یہاں ’’جس طرح مجھ کو لگی ہے میرے اللہ کسو کی‘‘ گایا کرتی تھی  اور   بڑے بڑے لوگ اس کا مجرا کرواتے تھے وہ بڑی امیر تھی لیکن تھی بڑی کنجوس۔ ۔ ۔  آخر اسے سمجھ آ گئی کہ بنا چوک میں جائے دھندہ نہیں ہو گا۔

عذرا    :تو شمشاد بائی کوئی طوائف تھی؟۔ ۔ ۔

پنواڑی:جی ہاں طوائف ہی تو تھی۔ ۔ ۔ اس کے مقدمے کی بابت بھی آپ نے کچھ نہ پڑھا۔ وہ دراصل بہت بڑی رنڈی تھی جو ’’میرے اللہ کسو کی‘‘ گایا کرتی تھی۔ ۔ ۔  شادو!کاٹھ بازار کے بیچ میں سرکار نے بھی پسند نہ کیا  اور   اسے نوٹس دیا۔ پولیس بھی آئی لیکن شادو کو کوئی ہلا نہ سکا۔ پھر وہ اپنی مرضی سے چلی گئی۔ ۔ ۔

نفیس   :تم نے پہلے اس بات کا ذکر نہیں کیا۔

پنواڑی:مجھے اس بات کا خیال ہی نہ آیا  اور  میرا خیال تھا آپ جانتے ہوں گے۔ دراصل آپ نے اتنی جلدی کی۔ چار بجے شام آپ نے چابیاں لیں  اور  چھ بجے یہاں آ دھمکے۔ اب کیا بگڑ گیا ہے مکان پر آپ  کی مہر تو لگ ہی نہیں گئی۔

عذرا    :لیکن اب ہم کہاں جائیں، جو مکان ہم نے خالی کیا اس کے بیسیوں گاہک تھے، ادھر ہم نے سامان نکالا ادھر انھوں نے رکھ لیا۔

نفیس   :یہ بات چابیاں دیتے ہی بتا دیتی تھی مراتب صاحب۔

پنواڑی:میں تو سمجھتا تھا آپ اس قصے کو جانتے ہوں گے۔

نفیس   : (چمک کر) پھروہی بات۔ کیا ہمیں بھی ایرے غیرے سمجھتے ہو؟ جو یہ جانتے ہوئے بھی چلے آئیں۔ ۔ ۔ جاؤ کتھا چونا لگاؤ  اور  شادو کے گیت گاؤ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے تمہیں بھی شریف  اور  بدمعاش میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔

پنواڑی:دیکھئے ذرا سنبھل کر بات کیجئے۔ کسی کے ماتھے پر شریف تھوڑی ہی لکھا ہوتا ہے میں نے جانا جیسے دوسری دنیا ہے ویسے ہی آپ ہوں گے۔

عذرا    :اب زیادہ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں بڑے میاں۔

پنواڑی:میں نے کوئی بری بات نہیں کہی سرکار۔ دوسرے لوگ کہیں جیب کترے نہیں ہیں۔ آپ کی مرضی ہے آپ رہیں، نہیں مرضی نہ رہیں۔ ۔ ۔  چابیاں میرے والے کر دیں،  اور  نیا مکان تلاش کر لیں۔ میں جاتا ہوں۔ شام ہی کا وقت تو ہوتا ہے۔ کمانے کا۔ ۔ ۔

(جاتا ہے۔ )

عذرا    : (مایوسی سے) اب کیا کریں۔

نفیس   : (سرد آہ بھرکر)چلو یہ طلسم بھی ٹوٹ گیا۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ تمام دنیا ایک سی نہیں ہے۔ کم سے کم ایک ایسا آدمی ہے جس نے ہماری شرافت کی قدر کی ہے۔ ۔ ۔ (کھڑکی کی طرف جاتا ہے۔ )پان کی پیک سے بھری ہوئی یہ کھڑکی بتا رہی ہے کہ شادو اس پنواڑی کی آمدنی کا ذریعہ تھی  اور  اس کے چلے جانے کا مراتب کو افسوس ہے۔ ۔ ۔  (سوچتا ہے۔ ) عذرا ان گھنگھروؤں کو وہاں رکھ دو اور  آؤ بیٹھ جاؤ۔

عذرا    : (ادھر ادھر دیکھ کر)خدا جانے یہاں کیا کچھ ہوتا رہا ہے!

(سہم کر نفیس کی بغل میں بیٹھ جاتی ہے۔ )

نفیس   :جانے کون کون جاگیریں اجڑتی رہی ہوں گی  اور  کن کن کے سہاگ کا مذاق اڑایا گیا ہو گا۔

عذرا    :بھانت بھانت کے آدمی آتے ہوں گے یہاں۔ ۔ ۔

نفیس   :یونہی تھوڑے ہمارا سنگ اسود کالا  اور  کثیف ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن دیکھو عذرا اب جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔ طوائفوں کی بستی جب شہر کے بڑھنے سے باہر چلی جاتی ہے تو ان کی جگہ تمہاری ایسی گرہستنیں ہی تو رہتی ہیں۔

عذرا    : (سمٹ کر) یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن مجھے ڈرا سا آتا ہے جیسے میرا دل کسی بات کو مان نہیں رہا۔

نفیس   :مجھے تو اس بوڑھے کی بے وقوفی پر ہنسی آتی ہے۔ (ہنس کر)’’تم شادو کو نہیں جانتے ؟لیکن عذرا جب تک اپنا دل صاف ہے ہمیں کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے دوسروں کے گنا ہوں کا حساب ہمیں تھوڑا دینا ہے۔ ۔ ۔  میں بستر کھولتا ہوں تم دیا سلائی سے بتی ذرا اوپر کر دو۔ ۔ ۔

عذرا    :یاد آیا تم نے گرم پانی کے لیے کہا تھا۔ شاید ٹوکری میں کوئلے ہوں۔ ۔ ۔  مجھے یہ سارا گھر جائے پیاری کے کیڑوں سے پٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ۔ ۔  میں کیا کروں میرا دل یونہی کانپ رہا ہے۔

نفیس   :عذرا۔ ۔ ۔  میری جان!اب ایک نیا مکان تلاش کرنا خالہ جی کا باڑہ تو ہے نہیں۔ یہاں سب طرح کی صفائی ہو جائے گی۔ ۔ ۔  فنائل سفیدی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا  اور  پھر جس جگہ پر بیٹھ کراللہ کا نام لیں گے وہ جگہ پاک  اور  صاف ہو جائیں گی۔ میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔

(دروازے پر دستک سنائی دیتی ہے۔ )

عذرا    :یہ کون ہوا بھلا؟

نفیس   :خدا جانے کون ہے۔ اور  اسے ہمارے یہاں ہونے کا کیسے پتہ چل گیا؟

عذرا    :ذرا دیکھو تو۔ ۔ ۔ کہیں تمہارا بھانجا ہی نہ ہو۔ میں نے کہا تھا ادھر ہم نئے ہیں، ذرا خبر لیتے رہنا  اور  تمہاری بھانجی کی شادی طے ہو گئی ہو گی۔ ۔ ۔  نصیرہ کی۔ ۔ ۔ دیکھو تو۔ ۔ ۔

(نفیس جاتا ہے  اور  دروازہ کھولتا ہے۔ )

نفیس   :آئیے صاحب۔

سیاں   :السلام علیکم۔

نفیس   :وعلیکم السلام۔ ۔ ۔ کہئے کیسے تشریف لائے، آپ کا نام۔

(عذرا اندر چلی جاتی ہے۔ )

سیاں   :میرا نام؟۔ ۔ ۔ میرا اصلی نام امجد حسین ہے۔ میں یہاں طالب علم ہوں۔ ۔ ۔ یہاں کا مطلب یہ مکان نہیں میری مراد اس شہر سے ہے۔ ۔ ۔  لیکن مجھے سب سیاں کے نام سے پکارتے ہیں۔

نفیس   :کہیں آپ اس مکان کے مالک تو نہیں۔

سیاں   :نعوذ باللہ۔ ۔ ۔ نہیں !۔ ۔ ۔ لیکن ایک طرح سے مالک ہی سمجھئے۔

نفیس   :معاف کیجئے میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکا۔ ۔ ۔   اور  نہ آپ کے اس وقت تشریف لانے کا مدعا جان سکا ہوں۔

سیاں   :دیکھئے ایک وقت میں ایک ہی سوال کیجئے تا کہ نہ آپ کو سوال کرتے ہوئے الجھن ہو اور  نہ مجھے جواب دیتے ہوئے کوفت محسوس ہو۔ یہی تو ظلم ہوتا ہے میرے ساتھ کہ ایک سانس میں لوگ مجھ پر بیسیوں سوال کر جاتے ہیں۔ کالج میں، گھر میں، بازار میں ہر جگہ یہی ظلم ہوتا ہے۔ ۔ ۔  تو پہلے آپ میرا نام پوچھ رہے تھے۔

(آگے جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن نفیس اسے اشارے سے وہیں چارپائی پر بٹھا دیتا ہے۔ )

نفیس   :جی ہاں، نام پوچھ رہا تھا۔ ۔ ۔ اگر آپ کو زحمت نہ ہو۔

سیاں   :میں نے عرض کیا نا، میرا اصل نام امجد حسین ہے۔

نفیس   :نہیں صاحب اس سے پہلے نام کے بارے میں قطعاً کوئی بات نہیں ہوئی۔

سیاں   : (پر شکوک  انداز میں) کوئی بات نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ مگر  اس کا مطلب کیا ہے ؟آج نام کیوں پوچھا جا رہا ہے ؟۔ ۔ ۔  خیر میرا نام امجد حسین ہے لیکن مجھے سب سیاں کے نام سے پکارتے ہیں۔

نفیس   :آپ کی ماں بھی آپ کو سیاں کے نام سے پکارتی ہو گی۔

سیاں   :جی ہاں (کچھ سمجھتے ہوئے) لیکن۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ سو آپ سے درویش صورت انسان بھی یہاں۔ ۔ ۔  سچ ہے بابا سب سچ ہے۔ ۔ ۔

(اٹھ کر اندر جانے کی کوشش کرتا ہے۔ )

نفیس   :آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ۔ ۔  دیکھئے آپ زبردستی اندر جا رہے ہیں۔ آپ پئے ہوئے ہیں۔

سیاں   :ش ش خاموش۔ میں سیاں ہی تو ہوں، جاؤ اندر جا کر شادو کو اطلاع کر دو۔

نفیس   :دیکھئے سیاں صاحب، اب آپ کی شادو یہاں نہیں رہی۔ یہ شریف آدمیوں کے رہنے کی جگہ ہے۔

سیاں   :شکل سے تو آپ شریف ہی نظر آتے ہیں اللہ اجی میں ہر روز تھوڑے ہی ادھر آتا ہوں۔ جب ڈپٹی صاحب منی آرڈر بھیجتے ہیں  اور  امتحان کے دن نزدیک آتے ہیں۔ ۔ ۔ اوہ ڈپٹی صاحب کے نام سے ڈر گئے۔ ارے بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا تم یہ بازو راستے سے ہٹا دو۔

نفیس   :دیکھو، دیکھو، صاحبزادے تم کیا کیا کر رہے ہو۔ ؟

(پکڑ کر چار پائی  پر بٹھا دیتا ہے۔ )

سیاں   :سو تم ویرکا کے رئیس ہو، تمہی نے شادو کو گھر میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ناکام رہے۔ تم نے اسی گھرکو اپنا گھر بنانا اچھا سمجھا۔ میں سمجھ گیا۔ میں سب کچھ سمجھ گیا۔

نفیس   :دیکھو، زیادہ باتیں مت بناؤ کہے دیتا ہوں، فوراً یہاں سے نکل جاؤ۔ ورنہ میں شور مچاؤں گا۔

سیاں   :شور مچاؤ گے  اور  لوگوں کا اکٹھا کرو گے ؟اسی بات سے تمہاری شرافت کا پتہ چلتا ہے۔ کیا تم خود بدنام نہ ہو گے۔ لوگ آٹھ مجھے کہیں گے  اور   دس تمہیں سنائیں گے۔ لوگوں کو سچ  اور  جھوٹ کی طرف ہٹ جانے کا ملکہ ہے۔ ارے کبھی شریف لوگ بھی شور مچاتے ہیں، وہ ہر قسم کی ذلت چپکے سے برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ وہ شریف ہیں۔ ۔ ۔ (ایک ہچکی آتی ہے نفیس کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سیاں اسے روک لیتا ہے۔ )۔ ۔ ۔  میرے باپ کی کچہری میں روز عزت کے لیے مقدمے لڑے جاتے ہیں  اور  عزت چاہنے والوں کی خوب بے عزتی ہوتی ہے ان کی ماں  اور   بہن کے متعلق وہ کچھ کہا جاتا ہے کہ سن کر کانوں کے پردے پھٹ جاتے ہیں، اسی لیے شریف آدمی اپنی بیٹی کی بے حرمتی دیکھ کر عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔

نفیس   :میاں صاحبزادے یہ سب درست ہے اسی لیے میں تمہیں منت سے ٹل جانے کے لیے کہتا ہوں۔ ورنہ مجھے شور مچانے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔

(سیاں کو دھکیلتا ہے۔ )

سیاں   :دیکھو مجھے دھکیلو مت، باتیں کرنے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا (قدرے بلند آواز میں) شادو، مجھ سے یہ بدسلوکی دیکھ کر تم چپ بیٹھی ہو(اندر دیکھتے ہوئے)تم اتنی دبلی کیوں ہو شاید میری آنکھوں کا قصور ہے (لرزتی ہوئی آواز میں)مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ۔ ۔  کتابیں لکھنے والوں نے ایک ہی چیز کے بارے میں متضاد باتیں لکھ کر میرے دماغ کو الجھاؤ میں ڈال دیا ہے۔ ۔ ۔  میری آنکھوں میں نقص ہے۔ (ڈر جاتا ہے۔ )وہی چیز جسے میں دیکھنا چاہتا ہوں نظر نہیں آتی۔ ۔ ۔  اردگرد کی سب چیزیں دکھائی دیتی ہیں لیکن وہ چیز جس پر میں نگاہ ڈالتا ہوں، درمیان سے غائب ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔  کیا اس سے بڑی بیماری بھی ہے کہ تم جو چاہو تمہیں دکھائی نہ دے  اور  جو نہ چا ہو نظر آتا رہے۔ دیکھو تم پھر دھکیلنے لگے۔ باتیں سننے میں کیا حرج ہے بھائی؟شادو!تمہیں ویرکا کے اس رئیس نے گھر ڈال لیا ہے (کیا یہ سچ ہے کہ خبیث تمہیں باہر کی روشنی نہیں دکھاتا  اور  اسی لیے تم اتنی مریل ہو گئی ہو۔ لیکن تمہارا رنگ  اور   بھی کھل گیا ہے۔ ۔ ۔ نہیں مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ ۔ ۔ تمہیں ویرکا کے اس رئیس نے نہیں تمہیں اس بڑے ویرکا کے رئیس نے مجھ سے چھین لیا ہے۔ ۔ ۔ خدا نے بے رحم خدا نے۔ ۔ ۔

(رونے لگتا ہے۔ )

نفیس   :خدا جانے میں تمہاری باتیں کیوں سنتا جا رہا ہوں ؟شکل سے شریف خاندان کے لڑکے نظر آتے ہو شاید اس لیے لیکن تم ہو کہ برابر شور مچائے چلے جا رہے۔ لوگ سن کر کیا کہیں گے ؟

سیاں   :لوگ؟لوگ کیا کہیں گے۔ ۔ ۔  دیکھو مجھے گھورو مت ہر جگہ مجھے یہی ’’لوگ‘‘ گھورتے نظر آتے ہیں۔ ان ’’لوگوں ‘‘ نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ انھوں نے میرے ایک دوست کو پاگل کر دیا ہے۔ ذہین تھا۔ بلا کا ذہین۔ ۔ ۔ اسے ’’لوگوں ‘‘ نے بتایا کہ عورت کا ننگا جسم ایک ناپاک شئے ہوتی ہے اسے مت دیکھو۔ اپنی آنکھیں بند کر لو خوبصورت چیز کو دیکھنے کی خواہش کو دبا دو، کچل دو۔ ۔ ۔ انھوں نے کہا پھول کو کپڑے پہنا دو، یہ آرٹ۔ ۔ ۔ میرے دوست نے پانی میں چند کلیوں کو نہاتے دیکھا، اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک درخت کی آڑ میں کھڑے ہو کر اس نے پھر ان کلیوں کو شیتل شبنم میں نہاتے دیکھا، پھر آنکھیں بند کر لیں، دیکھا آنکھیں بند کر لیں۔ ۔ ۔  خواہش نے آنکھیں کھولیں، لوگوں نے بند کیں۔ ۔ ۔ کھولیں بند کیں، کھولیں بند کیں۔ ۔ ۔   اور  آج اس کی آنکھیں پل میں سو بار کھلتی  اور  بند ہوتی ہیں۔ ۔ ۔  وہ ان کا کوئی علاج نہیں کر سکا۔ ۔ ۔  (آناً فاناً)شادو مجھے اس شہدے سے بچاؤ۔ ۔ ۔ مجھے تمہارے پاس نہیں آنے دے رہا ہے۔ پھر تم نہیں گاؤ گی؟

سیاں توری گودی میں گیندا بن جاؤں گی

(نفیس سیاں کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن سیاں برابر اپنی بات کہے جا رہا ہے۔ )

سیاں   :امتحان سے ڈر کر آج میں نے بے انداز پی (لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے)شراب میرا کلیجہ چٹ کر رہی ہے۔ میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ ۔ ۔  تم بھول گئیں۔ ۔ ۔

جو تورے سیاں کو بھوک لگے گی

لڈو، پیڑا، جلیبی بن جاؤں گی

سیاں توری گودی میں

(نفیس سیاں کو دروازے تک دھکیلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، لیکن سیاں مضبوطی سے دروازہ پکڑ لیتا ہے۔ )

سیاں   :میں کرسی  اور  پلنگ کے درمیان دیکھ رہا ہوں۔ ۔ ۔  اور  تمہاری پرچھائیں نظر آتی ہے۔ مجھ سے اندھا اچھا ہے شادو۔ ہائے یہ سب کچھ نظر آ رہا ہے  اور  نہیں بھی آ رہا ہے۔ ۔ ۔ میرے اللہ۔ ۔ ۔

نفیس   : (دروازے کے ایک طرف منھ نکالتے ہوئے) مراتب۔ ۔ ۔ مراتب میاں۔

(دروازے پر عذرا نمودار ہوتی ہے۔ وہ کچھ دیر کے لئے رک جاتی ہے، لیکن پھر ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ )

عذرا    :صاحب آپ کون ہیں۔ ۔ ۔ آپ باہر کیوں نہیں جاتے۔ یہ شریف آدمیوں کا مکان ہے۔ شادو نے یہاں سے مکان تبدیل کر لیا ہے۔ آپ جائیے فوراً یہاں سے۔ ۔ ۔

سیاں   : (پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے) یہ آواز بھی گھر اور  بازار کی آوازوں میں کھو کر رہ گئی۔ یہ شادو کی آواز نہیں، اس سے اچھی ہو گی لیکن یہ شادو کی آواز نہیں۔ یہ شادو کی آواز نہیں۔ ۔ ۔

مراتب:ابے کون ہے ؟۔ ۔ ۔ نکل باہر شہدے کمینے۔ ۔ ۔

نفیس   :گالی مت دوا سے فقط باہر نکال دو۔ ۔ ۔

عذرا    :دیکھو مارو نہیں۔ ۔ ۔ گمراہ طالب علم ہے بے چارہ۔

مراتب:کئی بے چارے گمراہ طالب آتے تھے اسی کے یہاں۔ ۔ ۔ نکل باہر چھوکرے۔ ۔ ۔

(کشمکش، مراتب سے دھکا دے کر باہر گرٍا دیتا ہے۔ لڑکے کے گرنے کی آواز کے ساتھ ہی دروازہ بند ہوتا ہے۔ )

پردہ

 

 

 

دوسرا منظر

 

 

 (اسی مکان کے سونے کا کمرہ۔ رات کا وقت ہے  اور  نفیس باہر سے آ کر کپڑے بدل رہا ہے۔ عذرا اس کا کوٹ اس کے موزے وغیرہ لے کر مناسب جگہوں پر رکھ رہی ہے۔ )

 

عذرا    :بہت تھکے ہوئے نظر آتے ہو۔ آج بہت کام تھا کیا؟

نفیس   :دفتر میں کوئی کام نہیں۔ البتہ دوسری باتیں تھوڑی ہیں پریشانی کے لیے۔

عذرا    :دوسری باتیں کوئی  اور  مکان دیکھا؟

نفیس   :مکان کے لیے بہت کوشش کی لیکن کوئی ہو تو بات بنے۔ یہ غریب ہونا بھی تو ایک لعنت ہے ورنہ ایسے ہی دو کمرے پینتیس روپیہ میں ملتے تھے۔

عذرا    :پینتیس توہم کسی صورت نہیں دے سکتے۔ ۔ ۔ کھانا؟

نفیس   :تمہارا خیال ہے میں ابھی تک بھوکا ہوں گا۔ دفتر کی ٹی شاپ سے بہتر الم غلم  کھا لیا  اور  چائے پی لی۔ اس دفعہ بل بھی بہت بن جائے گا۔ جب کوئی گھبراہٹ ہوتی ہے تومیں کھانے پر زور دیتا ہوں۔

عذرا    : اور  مجھے کھانا پینا سب بھول جاتا ہے (کچھ  یاد کرتے ہوئے) میں نے تو بیس بار کہا ہے پراٹھے ساتھ لے جایا کرو۔

نفیس   :کون مصیبت میں پڑے (چارپائی پر بیٹھتے ہوئے)  اور  پھر دفتر میں لیمو نچوڑ بابو ہے۔

عذرا    :لیموں نچوڑ بابو۔

نفیس   :ہاں، اپنا ایک لیموں کسی کی دال میں نچوڑ کر برابر کا حصہ بن جاتا ہے۔

(دونوں خفیف سی ہنسی ہنستے ہیں۔ )

عذرا    :تو پھر دو باتیں تو ہو نہیں سکتیں کہ بل بھی نہ بنے  اور  بھوک بھی اتر جائے۔

(نفیس اپنا منھ دونوں ہاتھوں میں دے لیتا ہے۔ )

عذرا    :کیوں چپ چاپ بیٹھ گئے ؟

نفیس   :تو اور  کیا شور مچاؤں۔ دیکھو مجھے یوں تنگ نہ کرو عذرا مجھے آرام سے سو جانے دو۔

عذرا    :آئے ہائے۔ ۔ ۔ راستہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں پک جاتی ہیں۔ شادو کے گاہکوں کے ڈر کے مارے دن بھر کواڑ بند کیے پڑی رہتی ہوں  اور   اب۔ ۔ ۔

نفیس   : (چڑ کر) نہ اندر پڑی رہا کرو۔ میں دیکھنے آتا ہوں کیا۔ خوب رنگ رلیاں منایا کرو۔ مجھ سے یہ ناز برداری نہیں ہونے کی۔

عذرا    : (رونکھی ہو کر)تم بھی یوں کہو گے تو زندہ نہ رہوں گی۔

نفیس   : اور  میں کون زندوں میں ہوں۔ مردوں سے بدتر ہوں۔ محلہ والے الگ بدنام کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک شادو گئی  اور  اس کی جگہ دوسری شادو آ گئی۔

عذرا    :محلہ والے جو چاہے کہتے پھریں۔ تمہارے سوا میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں۔ اگر تم بھی ایسی باتیں کرنے لگے تو میرا کون ٹھکانا ہے ؟۔ ۔ ۔  اب جو لوگ آتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ میں تھوڑے کسی کو بلانے جاتی ہوں۔

نفیس   :یہی تمہاری بھول ہے کہ تم میرے آگے جواب دہ ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم خودکشی میں حق بجانب ہیں۔ ہم اپنے کو نہیں مار سکتے اگر چہ یہ جسم ہمارا اپنا ہے، اس کے لیے ہم حکومت کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ۔ ۔  اس جسم کے علاوہ ہمارا ایک اخلاقی جسم بھی ہوتا ہے جسے پامال کرنے کے لیے ہم گلی کوچے کے ہر کتے، بلی، بچے بوڑھے کے حضور جواب دہ ہیں۔ ۔ ۔

عذرا    :لیکن ہم نے کون اخلاقی خودکشی کی ہے۔

نفیس   : اور  تم تو کچھ بھی نہیں جانتیں۔ تم نے سنا ہے خلق کی آواز خدا کا نقارہ ہوتی ہے۔ بس وہ نقارہ بج رہا ہے اگر تمہارے کانوں میں اس کی آواز نہیں گونجتی تو تم بہری ہو۔ اس میں تمہارے کانوں کا قصور ہے۔

عذرا    :اس کا یہ مطلب ہوا کہ چار آدمی تمہیں اٹھ کر برا کہنے لگیں تو تم برے ہو گئے ؟۔ ۔ ۔

نفیس   :برا نہیں ہوا لیکن برائی سے آلودہ ضرور ہو گیا۔ میرا ایمان ہے دس آدمی مل کر تمہیں کہیں تمہارے چہرے پر ناک نہیں ہے تو ضرور سمجھ لو خدا نے تمہارا چہرہ بغیر ناک کے بنایا ہے اگر چہ آئینہ اس کے خلاف ہی گواہی دے۔

عذرا    : (زہر خند سے) اچھی بات ہے۔ ۔ ۔  اگر ان دس آدمیوں نے کسی کو پاگل کر دینے کی سازش کی ہو تو۔

نفیس   :نہیں نہیں، تم اسے مذاق میں ٹالنے کی کوشش نہ کرو۔ جس آدمی کو یہ بات کہنے کے لیے دس آدمی اکٹھے ہوں گے اس آدمی میں ضرور کوئی نہ کوئی نقص ہو گا۔ کم از کم وہ اس قابل  ضرور ہو گا اس کا مذاق اڑایا جائے۔ ۔ ۔   اور  جب یہ ہو جائے تو پاگل پنے  اور   ناک کے نہ ہونے میں صرف عقیدے کا فرق ہے نا۔ ۔ ۔ دیکھو تم پھر ہنس رہی ہو۔ ۔ ۔

عذرا    :اچھا اگر تمہیں میرا ہنسنا ناگوار گزرتا ہے تومیں نہیں ہنستی لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے  اور  اگر میرا قصور ہے تو تم بھی اس قصور میں برابر کے حصہ دار ہو۔

نفیس   :آہ۔ ۔ ۔

(سرد آہ بھرکر لیٹ جاتا ہے۔ )

عذرا    :دیکھو اب جانے دو۔

نفیس   :نہیں نہیں، میں ہنس نہیں سکتا جب کہ میرا دل رو رہا ہے۔ محلہ والوں نے ہمارے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے۔

عذرا    :آج کی سازش ہے وہ۔ دو مہینے ہم کو یہاں ہو گئے۔ ۔ ۔  تب سے یہ باتیں ہو رہی ہیں۔

نفیس   :تمہارے خیال میں تو صرف باتیں ہو رہی ہیں۔

عذرا    : اور  نہیں تو کیا ہو رہا ہے ؟

نفیس   :چہ میگوئیوں کی حدسے گزر کر محلے کے معتبر آدمیوں نے ایک جلسہ کیا ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ ہمیں یہاں سے چلے جانے کا مشورہ دیا جائے۔

عذرا    : (گھبرا کر) سچ۔

نفیس   : اور  تو کیا میں جھوٹ کہہ رہا ہوں۔

عذرا    :نہ جائیں تو وہ کیا کریں گے۔

نفیس   :کوئی ایک طریقہ ہے تنگ کرنے کا۔ وہ کئی طریقوں سے ہمیں پریشان کر سکتے ہیں۔

عذرا    :مثلاً۔

نفیس   :مثلاً۔ ۔ ۔ مثلاً وہ حاکمان شہر سے شکایت کر سکتے ہیں کہ مکان میں در پردہ فحاشی ہوتی ہے جو شادو  کا کوئی گاہک آئے تو وہ پولیس کی معرفت ہمیں پکڑوا سکتے ہیں۔ وہ ہمارا حقہ پانی بند کر سکتے ہیں۔

عذرا    :حقہ پانی کی تومیں پروا نہیں کرتی ہاں دوسری باتیں البتہ۔ ۔ ۔ لیکن تمہیں ان باتوں کے لیے لڑنا چاہئے۔ میں نہیں مان سکتی، قانون ایسا ہی موم کی ناک ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق۔ ۔ ۔

نفیس   :دماغ میرا بھی ان باتوں کو نہیں قبول کرتا۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے غور کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ اگر دفتر والوں تک بھی یہاں کی باتیں پہنچ گئیں تومیں منھ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔ ۔ ۔  کتنے آدمی ہوں گے جو سمجھیں گے کہ یہ شریف انسان ہے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہو گی جو یہی سمجھیں گے کہ اپنی بیوی۔ ۔ ۔

عذرا    :بس چپ رہو۔ ۔ ۔ کسی طرح یہاں سے نکل جاؤ خواہ ہمیں کسی چھپر کھٹ کے نیچے ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔

نفیس   :ہاں میں چلا جاؤں گا۔ میں اپنی عزت کے لیے لڑوں گا نہیں، شور نہیں مچاؤں گا۔ میں شریف انسان ہوں۔ تم جانتی ہو جب ہم نئے نئے اس مکان میں آئے تھے تو اس روز ایک طالب علم۔ ۔ ۔ کیا نام ؟۔ ۔ ۔ نام یاد نہیں رہا۔ بہرحال ایک طالب علم شادو سے ملنے آیا تھا  اور  اس نے کہا تھا کہ شریف آدمی اپنی بیٹی کی بے حرمتی دیکھ کر بھی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔ ۔ ۔ بس اس کے الفاظ میں آدمی کی جگہ خاوند  اور  بیٹی کی جگہ بیوی کر لو۔ ۔ ۔

عذرا    :شرابی چھوکرے کی باتوں پر جاتے ہو؟

نفیس   :باتیں بڑے کام کی کرتا تھا وہ شرابی چھوکرا۔

عذرا    :اپنی عزت بچانے میں دامن پر جو داغ لگ جاتے ہیں وہ مبارک ہیں۔ ۔ ۔  تم زیادہ پرواہ نہ کیا کرو۔ آؤ میں تمہیں کچھ سنا دوں جی بہل جائے گا ذرا۔ ۔ ۔

نفیس   :گویا پڑوسیوں کو اس بات کا ثبوت دیں کہ یہاں یہی دھندہ ہوتا ہے۔

عذرا    :آئے ہائے۔  اور  تو کیا بالکل گھٹ کے مر جائیں۔

(طنبورہ لے آتی ہے  اور  اسے چھیڑتی ہے۔ )

نفیس   :عذرا تم نہیں سوچتیں ہم یہاں پردیسی ہیں۔ کل کلاں کو کوئی بات ہوئی تو ہماری حمایت میں یہاں ایک آدمی بھی کھڑا نہ ہو گا۔

عذرا    :کوئی نہ ہو۔ ۔ ۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔

نفیس   :خدا بہت دور کی بات۔ ۔ ۔ عذرا ٹھیرو۔ ۔ ۔ یہ آواز کدھر سے آ رہی ہے ؟

(کھڑکی سے باہر دو آدمی بات کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی شکلیں بھی دھندلی دھندلی نظر آتی ہیں۔ )

بنواری  :دیکھ لو میں نہ کہتا تھا صاف آواز آ رہی ہے۔ ۔ ۔ اندر کوئی آدمی بھی ہے۔

مرزا شوکت    :ہاں،  اور  کوئی ساز معلوم ہوتا ہے، ستار کے موافق۔

بنواری  :میں نہ کہتا تھا ان کا یہاں ہونا ہماری بہو بیٹیوں کے لیے بہت خراب ہے مشکل سے شادو کو یہاں سے نکالا تھا۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ تواب کیا ارادہ ہے ؟

مرزا شوکت    :میرے خیال میں اندر چل دو۔ ۔ ۔ جو روکا تو محلے کے نام پر شور مچا دیں گے  اور  جو نہ روکا تو ہمارا کام بنا بنایا ہے۔ ۔ ۔  عورت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ تم نے اس دن اسے لفافہ خریدتے ہوئے دیکھا تھا۔

(مل کر ہنستے ہیں۔ )

مرزا شوکت    :اب کرو ذرا ہمت۔ ۔ ۔

(نفیس یہ سن کر کھڑکی کی طرف آتا ہے۔ )

نفیس   :خبردار کسی نے کھڑکی پر آنے کی کوشش کی۔ یہاں اب نہ شادو رہتی ہے  اور   نہ کوئی ایسی عورت۔

بنواری  : (آہستہ سے)صاحب ہمیں شادو سے کوئی خاص وہ نہیں ہے۔

مرزا شوکت    :ہم تو دو گھڑی۔ ۔ ۔

نفیس   :میں کہتا ہوں کہ یہاں سے بھاگ جاؤ۔ ۔ ۔  اب شادو کی جگہ یہاں گرہستی رہتے ہیں  اور  ان کے متعلق آپ کا اندازہ سراسر غلط ہے۔

بنواری  :اماں چلو یار۔ ۔ ۔  چل دو۔ ۔ ۔  جانے کی کیا مصیبت ہے۔

مرزا شوکت    :یوں ہی چل دیں ؟اس محلے میں چراغ تلے اندھیرا ہم نہیں دیکھ سکتے۔ بلکہ ہم کل امام صاحب کو بھی ساتھ لے لیں گے، پھر دیکھیں گے لوگ کس طرح محلے میں بدکاری کر سکتے ہیں۔ (کچھ سوچ کر) لیکن یار تم یونہی ڈر گئے۔ جتنا یہ آدمی، اچھل اچھل کر آتا ہے مجھے اتنا ہی دال میں کالا معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا ڈھنگ ہوتا ہے  اور  میری بات سنو۔

(کانوں میں کچھ کہتا ہے جو نفیس  اور  عذرا کو سنائی نہیں دیتا۔ )

نفیس   :بے ہودہ لوگ ہیں، کب تک ان کی باتیں سنے جائے آدمی؟

عذرا    :میں کہتی ہوں سن کر بھی کچھ نہیں سننا چاہئے۔ کسی کا منھ تھوڑے ہی باندھا جاتا ہے۔ چپکے سے سو جاؤ۔

نفیس   :ہاں سو جاؤ۔

(آہستہ آہستہ دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ )

لیکن یہ ہولے ہولے زنجیر ہلا رہا ہے کوئی

عذرا    :وہی لوگ ہوں گے۔ ۔ ۔   اور  ہوا کریں۔

نفیس   :ہاں سو جاؤ۔

عذرا    :لیکن مجھے نیند نہیں آتی۔

نفیس   :تمہیں فکر کس بات کی ہے ؟گہنا پاترا اپنے پاس نہیں ہے۔ کواڑ بند ہی ہیں کھپ کھپا کر چلے جائیں گے۔

عذرا    :خود مریں کھپیں۔ ہمیں ناحق پریشان کرتے ہیں۔ ۔ ۔ جب تک چلے نہ جائیں مجھے تو نیند آنے کی نہیں۔

نفیس   :جو تمہارا مطلب ہے کہ فساد بپا کیا جائے تومیں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ ۔ ۔ البتہ اسرار کرو گی توسر پھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ ۔ ۔

(اٹھنا چاہتا ہے۔ )

عذرا    :نہیں نہیں۔ پڑے رہئے چپکے سے۔ میں تو یونہی کہہ رہی تھی کہ مجھے نیند نہیں آتی۔ آپ تو سارا دن دفتر میں کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ آپ سو جائیں۔ ۔ ۔ (کچھ دیر بعد ڈر کر) میں کہتی ہوں جی۔ کواڑ ہل رہے ہیں جیسے کھل گئے ہیں۔

نفیس   :ہیں۔ ۔ ۔ سنو!قدموں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ گویا کوئی ڈیوڑھی میں کھڑا ہے، یا۔ ۔ ۔ اندر چلا آ رہا ہے۔ (بلند آواز)۔ ۔ ۔ کون ہے ؟

مرزا شوکت    :ہم ہی ہیں صاحب۔ ۔ ۔  آپ کے محلہ دار بنواری لال  اور  مرزا شوکت۔ ۔ ۔

نفیس   :آپ کیسے اندر چلے آئے۔ ۔ ۔ ؟آپ کو یہاں آنے کی اجازت کس نے دی؟۔ ۔ ۔

بنواری لال     : (گھبرا کے) ہم کیسے اندر چلے آئے ؟۔ ۔ ۔ ہم یونہی اندر چلے آئے۔

(کھسیانی ہنسی ہنستا ہے۔ )

مرزا شوکت    :ہم آپ کے پڑوسی ہیں، ہمیں امام صاحب نے بھیجا ہے۔

نفیس   :لیکن یہ کون سا وقت ہے یہاں آنے کا؟۔ ۔ ۔  اور  میرے خیال میں دروازہ بند تھا جس کا مطلب ہے آپ دروازہ توڑ کر داخل ہوئے ہیں۔

(عذرا سہمی ہوئی نظر آتی ہے۔ )

بنواری  :ہم نے دروازہ توڑا نہیں۔ ۔ ۔  بس دھکیلا تھا کہ وہ باہر آ گیا۔ بات یہ ہے کہ پرانے کواڑ ہیں۔ ۔ ۔

نفیس   :آپ محلے دار ہوتے تو ہر گز ایسا نہ کرتے۔ آپ یقیناً چور ہیں۔ ۔ ۔   اور   مداخلت بے جا کر رہے ہیں۔ آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس وقت کسی شریف آدمی کے مکان پر اجازت کے بغیر چلے آئیں۔ میں نے کھڑکی سے آپ کی گفتگو سن لی تھی۔ ۔ ۔ میں ایک سرکاری ملازم ہوں  اور   اپنی بیوی کے ساتھ یہاں رہ رہا ہوں۔ ۔ ۔ میری بیوی ایک گرہستن ہے کوئی بھگائی ہوئی عورت نہیں، داشتہ نہیں۔ (قریب پڑی ہوئی لاٹھی اٹھا لیتا ہے۔ ) یہاں سے فوراً چلے جائیے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔

بنواری  :دیکھئے صاحب، ہم یوں چلے جائیں گے، لیکن ہم آپ کی دھمکی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔

مرزا شوکت    :بابو صاحب۔ ۔ ۔ ہم سب معاملہ سمجھتے ہیں (ذرا درشت لہجے میں) آپ نے بہو بیٹیوں والے محلے میں یہ اڈا بنا رکھا ہے۔ محلے والے سب آپ کو جانتے ہیں۔ آپ ایسا ہر آدمی یوں اپنے آپ کو گرہستی ہی کہتا ہے۔

عذرا    : (گھبرائے ہوئے) اللہ مارو۔ اللہ کے قہر سے ڈرو۔ ہم گرہستی لوگ ہیں ہمیں یوں تو نہ بدنام کرو۔ ۔ ۔  تم لوگوں کے بھی کوئی ماں ہو گی، بہن ہو گی۔ اندازہ کرو اگر کوئی۔ ۔ ۔

مرزا شوکت    :اجی ہم خوب سمجھتے ہیں یہ باتیں۔

بنواری  :ہم یہاں تھوڑی دیر بیٹھنے کے لئے آئے تھے  اور  ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہ تھی۔

نفیس   :میں کہتا ہوں چلے جاؤ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔

عذرا    : (نفیس کو روکتے ہوئے) خدا کے لیے۔ ۔ ۔ پروردگار لیے۔

بنواری  اور  مرزا شوکت:   پہلے یہ لاٹھی رکھ دیجئے پھر ہم سے بات کیجئے۔

(دروازے سے پولیس انسپکٹر مائیکل  اور  ایک کانسٹبل داخل ہوتے ہیں۔ )

سب انسپکٹر مائیکل:   ٹھہر جاؤ، رک جاؤ تم سب لوگ حراست میں ہو۔

نفیس   : (لاٹھی چھوڑ کر)مدد۔ ۔ ۔ مدد۔ میں کہیں کا نہ رہا انسپکٹر صاحب۔ (تقریباً روتے ہوئے۔ ) میں منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ مجھے  اور   میری بیوی کو حراست میں لے لیجئے ہم دونوں آپ کی حراست میں اس آزادی سے اچھے رہیں گے۔

عذرا    :میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں انسپکٹر صاحب(جھکتی ہے) ہمیں اس مصیبت سے بچائیے۔ ہم بے گناہ ہیں۔

سب انسپکٹر مائیکل: دیکھئے خاموش رہئے۔ میرے پاؤں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کانسٹبل:یہ سب عیاری ہے انسپکٹر صاحب، ا ن سے پوچھئے کہ یہ کون آدمی ہیں۔

سب انسپکٹر مائیکل:پوچھنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو صاف ظاہر ہے آج تک میں نے کسی مجرم۔

نفیس   : (وحشیانہ انداز میں) کون مجرم انسپکٹر صاحب میں مجرم ہوں  اور   میری بیوی۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:نفیس صاحب آپ ہی ہیں۔

مرزا شوکت    :جی ہاں، یہ انہی کی نفاست ہے۔

سب انسپکٹر مائیکل:آپ چپ رہئے۔

نفیس   :نفیس میرا ہی نام ہے۔ ۔ ۔ لیکن میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی رو سے میں مجرم گردانا جاؤں۔ یوں جیسا کہ میں نے غرض کیا آپ کی قید میں آنے کے لیے تیار ہوں۔

بنواری  :جھگڑے کی نوبت یہی ہے جناب کہ بہو بیٹیوں کے اس محلے میں۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:بکو مت!ان لوگوں کو میں تم سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ یہ درست ہے ان لوگوں نے اس مکان کو فحاشی کا اڈہ بنا رکھا ہے۔ لیکن آپ اس وقت یہاں کیسے تشریف لائے ؟کیا آپ دن کے وقت ان لوگوں کو اخلاق کا سبق نہیں پڑھا سکتے تھے ؟

نفیس   :فحاشی کا اڈہ۔ ۔ ۔  یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟

مرزا شوکت    :دن کے وقت؟۔ ۔ ۔ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ہم لوگ دن بھر اپنے کام دھندے میں مشغول رہتے ہیں۔

کانسٹبل:دن کے وقت محلے دار انھیں کس طرح پکڑ سکتے ہیں ؟

سب انسپکٹر مائیکل:اگر اس کمرے میں محلہ داروں کے علاوہ کوئی  اور  شخص ہوتا جس کی بابت ان لوگوں کو تفصیلات نہ پتہ ہوتیں تو یہ لوگ مجرم لیکن اب یہ محلے دار بغیر کسی بین ثبوت کے اندر چلے آئے ہیں  اور  مداخلت بے جا کے مرتکب ہوئے ہیں۔

نفیس   :جناب والا! میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

عذرا    :ہائے میرے اللہ۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل: (نفیس  اور  عذرا سے) میں آپ سے بات کرتا ہوں (بنواری لال سے)آپ کا نام کیا ہے ؟

بنواری لال     : (ادھر ادھر دیکھ کر) میرا نام ہے لیکن میں تو۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:میں آپ کو نگلے نہیں جا رہا ہوں۔ ۔ ۔  میں صرف نام پوچھ رہا ہوں، اتنا گھبرائیے مت۔

بنواری لال     :میرا نام ب۔ ۔ ۔ بنواری لعل ہے۔

سب انسپکٹر مائیکل: (مرزا شوکت سے) آپ کا اسم گرامی؟

مرزا شوکت    :لیکن انسپکٹر صاحب ہمارا گناہ کیا ہے ؟طوائف کے دروازے تو خلق خدا کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ ہم جو اندر چلے آئے تو کیا جرم کیا۔ ۔ ۔ ؟

سب انسپکٹر مائیکل:خوب!۔ ۔ ۔ یہ خلق خدا کے الفاظ کا بھی خوب استعمال ہوا ہے۔ لیکن صاحب آپ تو محلے  دار کی حیثیت سے تشریف لائے تھے تا کہ یہ اڈا اٹھوا کر محلے کے لوگوں کی بہو بیٹیوں کی آبرو بچائی ہے۔

مرزا شوکت    : (گھبرا کر)نہیں میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:آپ اپنا نام بتائیے ؟

بنواری لعل     : (ڈرتے ہوئے) مرزا شوکت ہے۔

(مرزا شوکت غصہ سے بنواری لال کی طرف دیکھتا ہے۔ )

مرزا شوکت    :لکھ لیجئے۔ میں کوئی ڈرتا تھوڑی ہوں۔ ہمیں امام صاحب نے بھیجا ہے تا کہ اس کی تحقیق کی جائے۔

سب انسپکٹر مائیکل:چلئے اس بات کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے (کانسٹبل سے) سردار حسین انھیں باہر لے جاؤ تا کہ دوسرے محلہ داروں کے ساتھ ان کی بھی گواہیاں پیش کی جائیں۔

مرزا شوکت    :لیکن ایک بات کاخ یال رکھئے۔ ہم با عزت شہری ہیں  اور ۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:جی ہاں میں جانتا ہوں آپ تشریف لے جائیے۔

(کانسٹبل مرزا شوکت  اور  بنواری لال کو باہر لے جاتا ہے۔ )

(نفیس سے)۔ ۔ ۔ نفیس صاحب آپ کے آبائی گھر اور  دفتر کا پتہ میرے پاس ہے۔ آپ پہلے جس جیوری ڈکشن میں رہتے تھے، وہاں تفتیش کی جا چکی ہے اس جگہ آپ کب سے رہ رہے ہیں۔

نفیس   :عرصہ دو ماہ سے۔

سب انسپکٹر     :نہیں آپ کو غالباً یہاں آئے دو ماہ  اور  چودہ دن ہوئے ہیں۔

عذرا    :جی ہاں بس اتنے ہی دن ہوئے ہیں۔

سب انسپکٹر مائیکل: (نفیس سے) جب آپ یہاں آئے تھے تو آپ کو پتہ نہیں تھا کہ اس مکان میں شمشاد بائی طوائف رہتی تھی؟

نفیس   :نہیں صاحب میں بنا جانے بوجھے اسباب اٹھوا کر ادھر چلا آیا تب سے ہر روز یہی قصہ ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہی رہتا ہے  اور   محلے والوں کو ہم پر شک کرنے کا موقع دیتا ہے  اور  یہ چپقلش جاری ہے۔

سب انسپکٹر مائیکل:چپقلش سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟

نفیس   :یہی۔ ۔ ۔  نیا مکان تلاش کرنے  اور  نہ ملنے کی مرزا شوکت  اور  بنواری ایسے لوگوں کے ساتھ جھگڑنے کی۔ آج تک میں یہی سمجھتا آیا تھا کہ ہمیں اپنے ہی گنا ہوں کا حساب دینا ہوتا ہے لیکن نقل مکانی کے اس تجربے بے ثبات کر دیا کہ انسان اپنے بچوں، اپنے ماں باپ، اپنے بھائی بہن، بیوی کے کردار کا بھی ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ اپنے پڑوسیوں کے قول و فعل کے لیے بھی گردن زدنی ہے۔

عذرا    :تمام دن ہمارا دروازہ بند رہتا ہے۔ ۔ ۔ ہم ڈر کے مارے کواڑ کھولتے ہی نہیں، آپ کواڑ دیکھ کر پتہ کر لیجئے کہ یہ لوگ دروازہ اکھاڑ کر اندر آئے ہیں یا نہیں۔ ۔ ۔  اور  ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ۔ ۔  جتنا ہم زیادہ بولتے ہیں اتنا ہی گناہگار معلوم ہوتے ہیں۔ ۔ ۔  اگر آپ بھی ہمیں قصوروار سمجھتے ہیں تو جو سلوک آپ چاہیں کریں۔ ۔ ۔

سب انسپکٹر مائیکل:آج کا واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ۔ ۔  میں سب معاملہ کی جانچ پڑتال کر چکا ہوں۔ آپ بے حد شریف ہیں  اور  یہی آپ کا جرم ہے۔ ۔ ۔ (نفیس سے)کل آپ تھانے میں تشریف لائیے نفیس صاحب  اور   نیک چلنی کی ضمانت داخل کیجئے۔ ۔ ۔

نفیس   :نیک چلنی کی ضمانت؟

عذرا    :نیک چلنی کی ضمانت؟۔ ۔ ۔ (روکر) میرے اللہ۔

نفیس   :انسپکٹر صاحب!۔ ۔ ۔ مجھے بد چلن ہی سمجھ لیجئے لیکن میں نیک چلنی کی ضمانت نہیں داخل کر سکوں گا۔ اس سے پہلے رشتہ داروں میں یہ بات نہیں پھیلی پھر ان میں بھی پھیل جائے گی۔ آپ مجھے گرفتار کیوں نہیں کر لیتے ؟میں حاضر ہوں (دونوں ہاتھ بڑھا دیتا ہے) میرے پاس کوئی ضامن نہیں۔ اس محلہ میں میرا کوئی واقف نہیں۔ کوئی ہمدرد نہیں۔

(عذرا بدستور رو رہی ہے۔ )

سب انسپکٹر مائیکل:آپ سمجھتے نہیں ہیں۔ ۔ ۔ صرف ایک کاغذی کاروائی مکمل کرنی ہے اگر کوئی ضامن نہ ملا تو میں آپ کو مہیا کر دوں گا۔ ۔ ۔ آپ محلے والوں سے ڈریں نہیں۔ ۔ ۔ میں آپ کی پوزیشن کو خوب سمجھتا ہوں مجھے آج سے اپنا ہی سمجھئے۔

نفیس   :یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں انسپکٹر صاحب ہم آپ کے قابل نہیں ہیں۔ ۔ ۔  آپ نہیں جانتے ہم آپ کے کتنے ممنون ہیں۔

سب انسپکٹر مائیکل:آپ خوف نہ کھائیے میں ہر طرح سے آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ ۔ ۔ (عذرا سے)میری بیوی بھی آپ کی طرح گانے بجانے کا شوق رکھتی ہے۔ (نفیس سے)کیا آپ دونوں پیر کے روز میرے ساتھ چائے پی سکتے ہیں ؟

عذرا    :ہم آپ کے بہت شکر گزا رہیں۔ آپ ان محلے والوں سے ہماری خلاصی کرا دیجئے۔ آپ کو بڑا ثواب ہو گا۔ ۔ ۔ مجھے خود آپ کی بیگم صاحبہ سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہو گیا ہے، آپ جب چاہیں گے ہم آپ کے گھر پہنچ جائیں گے۔

سب انسپکٹر مائیکل: (قدرے گھبرا کر) چائے گھر پر ممکن نہ ہو سکے گی۔ ۔ ۔  دیکھئے نا ذرا میری بیوی بیمار رہتی ہیں۔ چائے باہر پی سکیں گے کہیں۔ ۔ ۔  پھر سیر تماشا ہو جائے گا، بہرحال میں عرض کروں گا، کل آپ تھانے تشریف لا رہے ہیں ؟میں چلتا ہوں۔ خدا حافظ!

(جاتا ہے۔ )

نفیس   :جی ہاں کل صبح ضرور حاضر ہو جاؤں گا۔ ۔ ۔  خدا حافظ!

(وقفہ)

نیک چلنی کی ضمانت۔ ۔ ۔ چائے کی دعوت۔ ۔ ۔  کہیں اس سے بڑا گڑھا تو نہیں کھودا جا رہا ہے ؟

عذرا    :میں کیا جانوں۔ ۔ ۔ ہائے میرے اللہ!

پردہ

 

 

تیسرا منظر

 

 

 (وہی کمرہ جو پہلے منظر میں نظر آتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب سب چیزیں قرینے سے رکھی ہیں۔ کونے میں طنبورا پڑا ہے۔ تپائی پر ایک نفیس پاندان رکھا ہے جس کے قریب گھنگرو پڑے ہیں۔ عذرا اس وقت کچھ کپڑے صندوق میں ڈال رہی ہے۔ کپڑے ڈالنے کے بعد وہ صندوق کو چارپائی کے نیچے ڈھکیل دیتی ہے تا کہ جگہ  اور   کشادہ ہو جائے نفیس ایک کھڑکی کے پاس بیٹھا ہے۔ کبھی کبھی بازار میں جھانک لیتا ہے۔ گویا کسی کے آنے کا منتظر ہے۔ )

 

عذرا    :اب بالکل سر پر آ گئی تمہاری بھانجی کی شادی۔ ۔ ۔

نفیس   :ارے ہاں۔ ۔ ۔ میں تو بالکل غافل ہی تھا۔ ۔ ۔ کب بیاہی جا رہی ہے نصیرہ؟

عذرا    :ہفتہ  اور  ہفتہ، آٹھ  اور  آٹھ  اور  آٹھ  اور  سولہ  اور  تین دن اوپر۔ ۔ ۔  آج سے بیسویں روز شادی ہے بلاوے پر بلاوا آ رہا ہے  اور  تمہیں کوئی خبر نہیں ہے۔

نفیس   :تم نے یہ جتا کر مجھے پھر فکر میں مبتلا کر دیا۔

عذرا    :تین سے کم جوڑے دو گے تو عزت نہیں رہے گی  اور  ایک سوٹ دولہا کے لئے کہیں گے دس بر سے ماموں کما رہا ہے  اور  اتنا بھی نہ ہوا جو بھانجی کو جوشن ہی بنوا  دیتا۔

نفیس   :دو جوڑے۔ ایک سوٹ  اور  پھر ایک جوشن۔ ۔ ۔  یہ کیا بات کر رہی ہو تم۔ ہم مسلمانوں میں۔ ۔ ۔

عذرا    :میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ ہم ٹھیک مسلمان ہیں۔ لیکن راجپوت ہونے کی وجہ ے ہماری تمام رسمیں تو ہندوانہ ہیں نا۔

نفیس   :میں کوشش کر رہا ہوں عذرا، لیکن دیکھنے والے اندھے ہیں کیا؟ تمہارے اپنے پہننے کو کپڑا نہیں ہے، اوپر سے سردیاں منھ پھاڑے آ رہی ہیں۔ مجھ سے جوہو گا وہ بنوا دوں گا۔

عذرا    :یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس سے کم میں عزت نہ رہے گی۔ کہے دیتی ہوں۔ آپا کہے گی۔ ۔ ۔ بھانجی کا بیاہ کب روز روز ہو گا۔ ۔ ۔  اس سلسلے میں تو ہمیں تھوڑے بہت ادھار سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے۔ ۔ ۔  بہت نہیں تو گزارے موافق ہی سہی۔

(وقفہ)

نفیس   :دیکھو میں کچھ انتظام کرتا ہوں۔ ۔ ۔  دراصل میں تمہارے متعلق ایک عرصے سے سوچ رہا تھا۔

عذرا    :میرے متعلق مت سوچو۔ میرا تو گزارہ ہوہی رہا ہے۔ ۔ ۔  میں کہتی ہوں تم بھی بھلا دفتر کے دوسرے لوگوں کی طرح کیوں نہیں ہو جاتے ؟۔ ۔ ۔  اس تنخواہ میں گزارہ تو ہونے سے رہا۔ کبھی کبھار پیسے لے لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔ یہ غریبی بھی تو سو گنا ہوں ایک گناہ ہے۔

نفیس   :رشوت کے نام پر جسے اسرافیل کا صور سنائی دینے لگے وہ کیا کرے ؟ مر کر ہمیں خدا کو جواب دینا ہے۔

عذرا    :تمہارا کیا خیال ہے باقی خدائی تمہاری طرح ہی ہے ؟وہ لوگ آخر کیا جواب دیں گے۔ جو جواب وہ دیں گے وہ تم بھی دے لینا۔ پھر تم اسے اپنی عادت نہ بناؤ ہو ایک آدھ بار کسی سے کچھ لے لیا۔ جب کام نکل گیا پھر منھ نہ لگایا کسی کو۔

نفیس   :ہاں عذرا میں تم سے پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا بلکہ ٹھیکیدار عرفانی کا گانٹھ لیا تھا اس نے یہاں چھ بجے آنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس وقت ساڑھے چھ بجے ہیں  اور  اس کی شکل تک نظر نہیں آتی۔

عذرا    : (قدرے آسائش کے ساتھ) کتنے پیسوں کی امید ہے۔

نفیس   :یہی سات آٹھ سوکی ارے ایک پل کا ٹھیکہ توہے کہیں بڑے صاحب سے براہ راست نہ لے لے میں نے پہلے نہیں بتایا کہ تم مجھے برا بھلا نہ کہو، بلکہ مجھے یہ فکر دامن گیر تھی کہ تمام بات کھل جانے پر میں کیا منھ دکھاؤں گا۔ ۔ ۔ کچھ تمہیں حیران کر دینے کا ارادہ بھی تھا۔ ۔ ۔  اب تم خود ہی اس کی تعریف کر رہی ہو۔

عذرا    : (کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے) کس قسم کا آدمی ہے ؟ٹھہرو میں دیکھتی ہوں۔

نفیس   :یہی دبلا پتلا سا آدمی ہے۔ ۔ ۔  لوکی سر پر ایک ڈھیلی ڈھالی ڈگمگاتی ہوئی ہیٹ پہنتا ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ پائجامہ کے ساتھ ہیٹ۔

عذرا    : (کھڑکی سے جھانکتے ہوئے) ابھی تک تو دور گلی سے اس سرے پربھی کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔

نفیس   : (سوچتے ہوئے) عذرا تمہاری اس تائید کے بدلے ایک قسم کی تسکین ضرور ہو گئی ہے لیکن مجھے ایک طرح کا رنج بھی ہوا ہے۔

عذرا    : (ہنستے ہوئے) نفیس تم ساری زندگی اس قدر شریف رہے، مجھے بتاؤ تمہیں اس سے کیا حاصل ہوا۔ یہاں محلے میں جوہ ماری بدنامی ہوئی ہے  اور  اب تک رسوائی ہے اس کے لیے ہماری شرافت ہی تو ذمہ دار ہے۔ ۔ ۔  ابھی کل ہی امام باڑے کی ایک عورت سے میری لڑائی ہوئی اس نے جو کچھ کہا۔ ۔ ۔ الٰہی پناہ!اللہ دے  اور  بندہ لے۔ لیکن اب تو یہ باتیں دل پر اثر ہی نہیں کرتیں۔ ۔ ۔  (پان لگاتے ہوئے) یہاں آ کر ہمیں بھی پان کھانے کی عادت ہو گئی ہے۔

نفیس   : (پان لیتے ہوئے) تم نے تو مجھے بتایا ہی نہیں عذرا۔

عذرا    :کیا نہیں بتایا؟

نفیس   :یہی لڑائی کے متعلق۔

عذرا    :تم دفتر سے تھکے ماندے آتے ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ تمہیں اس قسم کی باتیں سنا کر پریشان کیا کروں اور وہ عورت خود محلے بھرمیں مشہور ہے پہلے پہل لوگوں نے اس کے متعلق واویلا کیا لیکن جب اس نے سب کی ماں بہن کو دھر لیا تو سب چپ ہو گئے۔ اب اس سے کوئی الف سے ب تک نہیں کہتا۔ ۔ ۔

نفیس   :یہ ہم ہی ہیں جنھوں نے سب کچھ شرافت سے سن لیا۔ ۔ ۔   اور  اس لیے انھیں ہمارے منھ آنے کا موقع مل گیا۔

عذرا    : (کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے) ٹھہرو گلی میں کوئی آ رہا ہے۔ ۔ ۔  ٹھیکیدار عرفانی۔ ۔ ۔ میں دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔ (کھڑکی کی طرف جاتا ہے۔ ) اوں ہوں۔ یہ تو کوئی کبوتر باز ہے۔ دونوں ہاتھوں میں کبوتر تھامے  اور   گامے شاہی جوتا پہنے جا رہا ہے۔ حمیدو کا پٹھا ہے۔ حمیدو پہلوان کا۔ ۔ ۔  (وقفہ) اب تو کافی دیر ہو گئی۔ عرفانی نے کہا تھا جو میں چھ بجے تک پہنچ گیا تو بہتر ورنہ نہیں آؤں گا(مایوسی سے) شاید بڑے صاحب کومل گیا ہو۔

(مایوسی سے) ہاں شاید بڑے صاحب سے مل گیا ہو گا۔ پیسہ ہماری قسمت میں نہیں ہے۔

نفیس   :تواب کیا ہو گا؟۔ ۔ ۔ نصیرہ کی شادی پر۔ ۔ ۔

عذرا    : (منھ لمبا کرتے ہوئے) تو گویا اب وہ نہیں آئے گا؟

نفیس   :معلوم تو یہی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اچھا اگر کل دفتر میں وہ مجھ سے ملنے آیا تو میں ٹھیکے سے انکار کر دوں گا۔ صاف کہہ دوں گا میں نے ٹھیکہ وکرم سنگھ کو دے دیا ہے۔

عذرا    :یہ وکرم سنگھ کون ہے ؟

نفیس   :یہ دوسرا ٹھیکیدار ہے۔

عذرا    :وہ کچھ نہیں دے گا؟

نفیس   :اگر عرفانی نے کچھ نہ دیا تو پھر میں وکرم سنگھ سے کچھ نہیں لوں گا میں ہر ایک آدمی کو نہیں گانٹھ سکتا۔ اس سے میری نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے  اور  خود بھی میں۔ ۔ ۔

عذرا    :ہاں یہ درست ہے۔

نفیس   :اچھا وہ کون تھی امام باڑے والی عورت؟

عذرا    :اجی وہی قاضی صاحب کی دوسری بیوی تھی۔ گز بھرکی لمبی زبان والی خود گھر گھر جھانکتی پھرے  اور  میرے منھ آئے۔ ۔ ۔  میں کیا پرواہ کرتی ہوں۔

نفیس   :تم نے کچھ سنا دی ہوتیں۔

عذرا    : اور  تو کیا میں کم کرتی ہوں۔ ۔ ۔  اب نہیں میں ڈرتی کسی سے۔

(دروازے پر دستک سنائی دیتی ہے۔ )

لو تمہارے عرفانی آ گئے۔ ٹھہرو کھڑکی سے دیکھتی ہوں۔

نفیس   :نہیں نہیں میں جاتا ہوں۔ ۔ ۔

(جاتا ہے۔ )

عذرا    :یہ تمہارا عرفانی نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ تو کوئی  اور  ہی ہے موٹا سا آدمی سیاہ چشمہ لگائے ہوئے۔

نفیس   : (دروازے میں رک کر) ہیں !۔ ۔ ۔ ٹھہرو میں خود دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔

(جاتا ہے۔ )

عذرا    :جانے یہ کون بلا آ گئی پھر۔ ۔ ۔  ہاں شاید عرفانی نے اپنا کارندہ بھیجا ہو۔ لیکن شکل سے تو کارندہ نہیں دکھائی دیتا۔ ۔ ۔  اوہ یہ چادر کس میلی ہے ؟

(اٹھ کر کمرے کو درست کرنے لگتی ہے۔ جلدی جلدی ایک صاف چادر بچھا  دیتی ہے۔ کچھ دیر بعد نفیس گھبرایا سا داخل ہوتا ہے۔ )

نفیس   :ارے بھئی یہ کوئی  اور  ہی صاحب ہیں۔ سیٹھ شیوبرت نام ہے۔

عذرا    :عرفانی کے کارندے نہیں ؟

نفیس   :نہیں۔ ۔ ۔ کہتے ہیں کہیں ایک برس بعد آتا ہوں۔

عذرا    :اس شہر میں ؟

نفیس   :ہاں۔ ۔ ۔  اور  شادو کے یہاں۔

عذرا    :تو آپ نے انھیں بتا دیا ہوتا۔ ۔ ۔

نفیس   : (وقفہ)۔ ۔ ۔ (کچھ مجرمانہ انداز میں) میں کہتا ہوں۔ ۔ ۔

عذرا    :کہو۔ ۔ ۔

نفیس   :ادھر لے آؤں۔ ۔ ۔ دوسرے کمرے میں بٹھا رکھا ہے انھیں۔

عذرا    :ادھر کس لیے ؟۔ ۔ ۔ خدا کے لیے یہاں سے مکان تبدیل کرو۔ ۔ ۔  پہلے اسے نکال دو۔

نفیس   :اتنا امیر آدمی ہے، میں اسے یوں ہی کیسے نکال دوں۔ ۔ ۔ (ڈرتے ہوئے) سیٹھ کوئی چور تو نہیں ہے۔ اسے کچھ دیر عزت و تکریم سے بٹھاتے ہیں۔ ا س کے بعد خود چلا جائے گا۔

عذرا    :تو بٹھا دو یہاں۔ ۔ ۔ میں دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہوں۔ ۔ ۔  اول تو تمہیں معلوم ہی ہے محلے میں۔ ۔ ۔

نفیس   :تمہیں نے کہا تھا کبھی کبھار رشوت لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔ یہ غریبی بھی تو سو گناہوں کا ایک گناہ ہے۔

عذرا    :اچھا تو یہ بھی ٹھیکیدار قسم کا آدمی ہے  اور  اس سے بھی رشوت ممکن ہے۔

نفیس   :نہیں ایسی رشوت نہیں۔

عذرا    : (گھبرا کر)تو پھر کیا ہے ؟

نفیس   :تمہیں نے کہا تھا۔ ’’تم ساری زندگی اس قدر شریف رہے ہو مجھے بتاؤ تمہیں اس سے کیا حاصل ہوا۔ ‘‘محلے میں جو بد نامی ہوئی اس کے لیے ہماری شرافت ہی تو ذمہ دا رہے۔

عذرا    :تو پھر تمہارا مطلب کیا ہے ؟

نفیس   : (ڈرتے ہوئے)میں کہتا ہوں۔ ۔ ۔ ایک گانا سنا دو۔ سیٹھ صرف گانے کا شوقین ہے، سو ایک روپیہ ہو جائے گا گانا گانے میں کیا حرج ہے ؟

عذرا    :یہ تمہیں کیا ہو گیا؟۔ ۔ ۔ لوگ کیا کہیں گے ؟

نفیس   :لوگ پہلے کیا کچھ نہیں کہتے ؟۔ ۔ ۔ پھر ابھی تم کہہ رہی تھیں میں کسی سے نہیں ڈرتی۔ آہستہ سے کچھ سنادینا۔

عذرا    :نہیں، میں کہتی ہوں تم بھی۔

نفیس   :ارے صرف گانا ہی توہے۔ ۔ ۔ دیکھنا پتہ نہ چلے ذرا اچھی طرح پیش آنا (آواز دیتے ہوئے) سیٹھ جی!

(شیوبرت اندر چلے جاتے ہیں۔ )

شوبرت:آداب عرض کرتا ہوں۔

عذرا    : (سخت گھبراہٹ میں)آداب عرض۔ ۔ ۔ آپ (کچھ سوچ کر تپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ادھر بیٹھ جائیے۔

نفیس   : (پلنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تشریف رکھئے۔

شیوبرت        : (بیٹھتے ہوئے)کہئے مزاج اچھے ہیں ؟۔ ۔ ۔ (بغیر جواب کا انتظار کیے) سال میں ایک بار شمشاد کے یہاں آتا ہوں۔ ۔ ۔ اب کے پتہ چلا اس کی جگہ آپ تشریف رکھتی ہیں۔ ۔ ۔   اور   آپ کے سازندے کہاں ہیں ؟

نفیس   : (مجرمانہ گھبراہٹ کے ساتھ)دراصل ان کی طبیعت اچھی نہ تھی اس لئے سازندوں کو رخصت کر دیا۔ (طنبورہ اٹھا کر عذرا کے ہاتھوں میں تھما دیتا ہے۔ ۔ ۔ عذرا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے طنبورہ لے لیتی ہے۔ ) لیکن آپ جب کہ تشریف لے آئے۔ ۔ ۔

عذرا    : (گھبرا کر) میں نہیں گا سکوں گی۔

نفیس   :ذرا وہ سنا دو۔ ۔ ۔ جلد آ جا کہ جی ترستا ہے

(عذرا بڑی کوشش سے طنبورہ چھیڑتی ہے۔ دروازے میں مراتب نمودار ہوتا ہے۔ )

مراتب: (خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ) پان درکار ہوں گے سرکار کو؟

(پردہ گر جاتا ہے)

***

ماخذ: ’’نئے ڈرامے‘‘، پروفیسر محمد حسن، انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے ان پیج فائل فراہم ہوئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید