FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

دو غُنڈے

 

ماخذ: اسی نام کی کتاب سے

(مظفر حنفی کی افسانوں کی کلیات ’بھولی بسری کہانیاں‘ سے الگ کر کے شائع کیا گیا۔)

 

                مظفر حنفی

 

 

 

(۱)

 

 

آج جب گھر میں میری بیوی اور بچے بھوکے بیٹھے ہیں اور ایک بہت قریبی دوست نے جو گورنمنٹ اسکول میں ماسٹر ہے، بہانہ کر کے مجھے قرض دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ صبح ہی اس نے اپنی تنخواہ وصول کی ہے اور مجھے اس شریف دوست کی کمینگی پر بیحد رنج ہے۔ دل پر احساسات کا ایک بھاری بوجھ لیے بیٹھا سوچتا ہوں کہ کیوں نہ اپنے اس شریف دوست کی کمینگی کو اجاگر کرنے کے لیے ان دو غنڈوں کی کہانی لکھوں جو اب تک بار بار میرے ذہن میں اتھل پتھل مچاتے رہے ہیں کہ میں انھیں اپنی کسی تخلیق کی بنیاد بناؤں اور میں نے ہر بار دل پر جبر کر کے انھیں ذہن سے جھٹک دیا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ان واقعات کو افسانے کی شکل میں پیش کر کے حقیقت کا منہ چڑھاؤں۔ دوسری طرف عریاں حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں میری اپنی شرافت پر دھندلکا چھا جانے کا خدشہ ہے۔ لیکن آج اپنے اس شریف دوست کی ذلیل حرکت سے میرا دل، میرا دماغ، میرے احساسات اور میرا مکمل وجود اس حد تک متاثر ہو چکے ہیں کہ میں ان غنڈوں کی کہانی لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ بلا سے اس ناول کے پڑھنے والے میرے بارے میں کچھ ہی کیوں نہ سوچیں۔

 

 

 

(۲)

 

پہلا غنڈہ میری ماں کی پھوپھی زاد بہن کا بیٹا تھا، جس کی بد عنوانیوں کے بارے میں میں نے طرح طرح کی خبریں اپنے رشتہ داروں کی زبانی سنی تھیں لیکن کبھی اس سے ملاقات کا اتفاق نہ ہوا تھا کیونکہ وہ ان دنوں فرخ آباد میں کوئی جعلی بزنس چلا رہا تھا اور میں بی۔ اے پاس کرنے کے بعد کان پور میں ملازمت کی تلاش کرتے ہوئے ٹیوشن پڑھا کر زندگی کے چھکڑے کو گھسیٹ رہا تھا۔ ان دنوں میرا قیام اپنے ماموں کے یہاں تھا اور طعام کا انتظام ایک گھٹیا ہوٹل میں تھا جس کو میں تیس روپیہ ماہوار ادا کرتا تھا۔

وہ جون کی ایک گرم دوپہر تھی۔ میں ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا چکر لگا کر پسینے میں شرابور گھر واپس آیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ زوّار ماموں ایک نوجوان سے بحث میں الجھے ہوئے ہیں اور وہ نوجوان۔۔ ۔۔

واہ کیا انداز تھے۔ میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ یعنی گرمی تو اس غضب کی پڑ رہی ہے اور حضرت نے کتھئی رنگ کی گرم فل پینٹ اور فلالین بش شرٹ پہن رکھی ہے۔ اور جو کسر باقی تھی اُسے گردن کے گرد ریشمی مفلر لپیٹ کر پورا کیا گیا تھا!

چونکہ زوّار ماموں کو اپنی عزّت آپ کروانے کا بڑا خیال ہے اور مجھے اگر ان کے مکان میں رہنا منظور تھا تو ضروری تھا کہ ان کے احترام میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جائے۔ لہٰذا میں باادب دو زانو ہو کر پلنگ کے ایک کونے میں بیٹھ گیا اور زوّار ماموں اس نوجوان سے الجھتے رہے۔

۔۔ ’’ میں کہتا ہوں میاں ! تم آخر اپنے خاندان کی عزت کو خاک میں ملانے پر کیوں تُل گئے ہو۔ کیا سمجھے۔۔ ؟‘‘

’’ میں کچھ نہیں سمجھا۔۔ ‘‘ وہ نوجوان منہ پچکا کر بولا۔

’’ ایں ۔۔ ‘‘ زوّار ماموں چونک کر بولے۔ ’’پھر سے تو کہنا۔ کیا سمجھے یعنی برخوردار تم تھانیدار کے لڑکے ہو۔ مرحوم نے جس شان سے اپنی زندگی گزاری ہے دنیا اس کی شاہد ہے اور تم ہو کہ ان کے نام پر بٹہ لگا رہے ہو۔ کیا سمجھے؟‘‘

’’ بس بس۔ رہنے دیجیے اپنی نصیحتیں۔ ‘‘ اس نے پہلو بدل کر ایک طرف تھوکتے ہوئے کہا۔۔ ’’ اپنے باپ کے بارے میں مجھے آپ سے زیادہ معلوم ہے جس بُری طرح بڑے میاں رشوت وصول کرتے تھے وہ بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ خدا کی قسم پہنچتے ہی جہنم میں جھونک دیے گئے ہوں گے۔ ‘‘

’’ ارے ارے۔ کیا بکتے ہو۔ کیا سمجھے؟‘‘ زوّار ماموں بوکھلا گئے۔

’’ سمجھا یہ کہ آپ مجھے روپے دینا نہیں چاہتے۔۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’ اچھی بات ہے، نہ دیجیے لیکن خدا کی قسم آپ کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو میں اس کے فرشتوں سے بھی وصول کر لیتا۔ اب آپ سے کیا زبردستی کروں۔ اماں کہیں گی یہ کمبخت اب اپنے خاندان والوں پربھی ہاتھ چھوڑنے لگا ہے۔ خیر میں جاتا ہوں لیکن میرے روپے آپ کو آسانی سے ہضم نہ ہوں گے۔ ‘‘

وہ اطمینان سے اٹھا اور جھومتا ہوا زینے سے اترنے لگا۔ کم بخت نے نہ جانے کس قسم کے جوتے پہن رکھے تھے کہ نیچے سڑک پر بڑی دیر تک زور زور سے ان کے چرمرانے کی آواز سنائی دیتی رہی۔ اِدھر زوّار ماموں بڑبڑا رہے تھے۔

’’ دیکھا حرامزادے کو۔ یعنی اب مجھی کو دھمکیاں دینے لگا۔ کیا سمجھے!‘‘

’’ لیکن وہ تھا کون۔۔ ؟‘‘ میں نے ان سے دریافت کیا۔

’’ وہی امراؤ ہے۔ اپنی سلمیٰ آپا کا لڑکا۔ ‘‘

 

 

 

 

(۳)

 

اس دن بلو ویو ہوٹل میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی مقامی شاخ کی نشست تھی۔ ایسے معاملات سے میں بہت کتراتا ہوں۔ لیکن اس دن ایک صاحب زبردستی پکڑ لے گئے۔ ایک مقامی ادیب افسانہ سُنا رہے تھے۔ افسانہ بہت عمدہ تھا لیکن نہ جانے کیوں مجھے رہ رہ کر محسوس ہو رہا تھا کہ میں اسے پہلے کہیں پڑھ یا سن چکا ہوں۔ تھوڑا سا غور کرنے پر اچانک یاد آ گیا کہ یہ تو ہندی کے مشہور ادیب جے شنکر پرساد کی کہانی ’’ سلیم‘‘ کا چربہ ہے جسے تھوڑے سے ہیر پھیر کے بعد کرداروں کے نام تبدیل کر کے اردو میں منتقل کر لیا گیا ہے چنانچہ میں نے اپنا یہ خیال انجمن کے سامنے پیش کر دیا۔ پھر اس کے بعد ان ادیب صاحب کی جو حالت ہوئی ہے اسے تحریر کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ ہاں اتنا یاد ہے کہ جب وہ جلسہ سے باہر نکلے تو چہرے پر بارہ بج رہے تھے۔

اسی شام کو جب میں ٹیوشن پڑھا کر اپنے گھر کی طرف واپس لوٹ رہا تھا وہی حضرت شمشاد سلیم کے ہمراہ ایک چوراہے کے نکڑ پر مجھے مل گئے۔ میں نے سلام کیا تو بڑے اکھڑے ہوئے انداز میں جواب ملا اور جب میں آگے بڑھ رہا تھا تو شمشاد نے مجھے شانہ پکڑ کر پیچھے گھسیٹ لیا، یہ شخص شمشاد اس محلے کا مانا ہوا بد معاش تھا۔ میں نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’ کیوں بھائی کیا بات ہے؟‘‘

’’ کہنے لگا۔ ’’ بات کچھ نہیں لیکن تم میرا نام تو جانتے ہی ہو گے؟‘‘

’’ شاید شمشاد سلیم ہو تم۔ ‘‘

’’ جی ہاں اور مجھ میں ایک خصوصیت بھی ہے۔ ‘‘

اس کے تیور بگڑے ہوئے نظر آتے تھے اور میں بات کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا اس لیے خاموش رہا لیکن وہ مجھے ایک جھٹکا دے کر بولا۔۔

’’ آج میرے اس دوست کی جتنی ذلت کمیونسٹوں کے اس جلسے میں ہوئی اس کے لیے تمھیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ‘‘

’’ لیکن بھائی! میں نے کوئی غلط بات تو نہیں کہی تھی۔ ‘‘

’’ غلط یا صحیح میں نہیں جانتا۔ ‘‘ اس نے دوسرا جھٹکا دیا۔ ’’ لیکن اتنا جان لو کہ میں منظر اور نقوی کے درمیان میں ڈنڈا کر دوں گا۔ اس شہر میں رہنا محال ہو جائے گا حضرت!‘‘

مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے خون کی ساری سرخی سمٹ کر اس کی آنکھوں میں پہنچ گئی ہے دوسرے ہی لمحے اپنے سر پر اس کا دو ہتّڑ پڑنے کی پوری توقع تھی لیکن دیکھتا کیا ہوں کہ ایک قریبی ہوٹل سے نکل کر امراؤ لپکا ہوا چلا آ رہا ہے!

پھر ایک سکنڈ بعد شمشاد زمین پر بیٹھا خون تھوک رہا تھا اور امراؤ ان ادیب صاحب کی طرف بڑھنے کو تیار تھا جو شیروانی پھڑکاتے تیز تیز قدموں سے ایک طرف کھسکے جا رہے تھے۔

’’ ٹھہر سالے! جاتا کہاں ہے!‘‘ امراؤ ان کی طرف بڑھا لیکن میں نے ہاتھ پکڑ لیا۔

’’ امراؤ بھائی!‘‘

’’ کیا ہے چھوڑ دو مجھے۔۔ ‘‘ اس نے غرّا کر ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن پھر یکلخت نرم پڑ گیا۔ میں نے کہا۔

’’ جانے دو ان کو۔ چوراہا ہے۔ دیکھنے والے لوگ کیا کہتے ہوں گے؟‘‘

’’ مجھے کسی سالے کی پرواہ نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا پھر شمشاد سے مخاطب ہو کر بولا۔

۔۔ ’’ جاؤ بیٹا! لیکن یاد رکھنا اب ان کے ساتھ کسی قسم کی بد تمیزی نہ ہو۔ یہ میرے بھائی ہیں۔ ‘‘

’’ دادا!‘‘ شمشاد نے کراہ کر اٹھتے ہوئے کہا۔۔ ’’قسم قرآن کی مجھے قطعی معلوم نہ تھا کہ ان سے بھی تمھارا کچھ تعلق ہے۔ ‘‘

’’ خیر اب تم یہاں سے پھوٹ جاؤ۔ ‘‘

چنانچہ شمشاد وہاں سے پھوٹ گیا۔

 

 

 

 

(۴)

 

اور پھر چند دن بعد زوّار ماموں مجھ سے الجھ رہے تھے۔

’’ کیا سمجھے منظر؟ اب تک تو تم صرف افسانہ نگاری اور شاعری ہی کے چکر میں تھے جسے میں شریفوں کا کام نہیں سمجھتا۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ تم اکثر امراؤ کے ساتھ دیکھے جاتے ہو۔ کیا سمجھے۔۔ ؟‘‘

’’لیکن ماموں جان! میں کسی بُرے کام میں تو اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ ‘‘

’’ مجھ سے بحث نہ کرو۔ کیا سمجھے؟ اور ہاں ! اب تم امراؤ کے ساتھ نہیں رہو گے کیا سمجھے؟‘‘

لیکن میں اس مسئلے پر کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ مگر اس دن میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں امراؤ کے ساتھ ’’نشاط ٹاکیز‘‘ سے پکچر دیکھ کر واپس آ رہا تھا کہ اچانک اس نے کوتوالی کے پاس رکتے ہوئے کہا۔۔

’’منظر بھائی! تم آگے چلے جاؤ۔ میں کچھ دیر بعد آ جاؤں گا۔ ‘‘

’’ ارے چلو جی!‘‘ میں نے ہاتھ پکڑ کر کھینچا لیکن اس نے جھٹکا دے کر ہاتھ چھڑا لیا۔

’’ تو پھر اِدھر پریڈ کی طرف سے چلو۔ ‘‘

’’ نہیں۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔۔ ’’ مجھے مول گنج ٹیوشن پرجانا ہے۔ ‘‘

’’ تو پھر تم اکیلے ہی جاؤ۔ ‘‘

’’ کیوں ۔۔ ؟ ‘‘ میں نے دریافت کیا۔۔ ’’ کیا اِدھر کسی سے جھگڑا چل رہا ہے تمہارا۔ ؟‘‘

’’ ہاں۔ یہاں ایک صاحب اپنے آپ کو بڑا طرّم خاں سمجھتے ہیں۔ ‘‘ پھر وہ اچانک رک کر بولا ’’ کیوں کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اسی ڈر سے اُدھر نہیں جانا چاہتا۔ ‘‘

’’ تو پھر کیا بات ہے؟‘‘

’’ کچھ نہیں مجھے آج اسی سے نمٹنا ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’ لیکن پہلے تم چلے جاؤ ورنہ جن بچوں کو تم ٹیوشن پڑھاتے ہو ان کے والدین مجھے تمھارے ساتھ دیکھ کر خوا مخواہ تم پر بھی غنڈہ ہونے کا شک کریں گے۔ ‘‘

’’ ارے چلو بھی میں ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔۔ ‘‘ میں نے اصرار کیا۔

’’ نہیں ۔۔ ‘‘ وہ تن کر کھڑا ہو گیا۔۔ ’’ مجھے تو ایسی باتوں کی بہت پرواہ ہے منظر بھائی تم جاؤ۔ روپیہ حاصل کرنے کے لیے اور جینے کے لیے بعض اوقات دل پر جبر بھی کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘

مجبوراً مجھے اکیلے ہی جانا پڑا۔

 

 

 

 

(۵)

 

پھر ایک دن امراؤ مجھے پارک میں ملا تو اس کے ساتھ سانولے رنگ اور قدرے پستہ قد کا ایک اور نوجوان بھی تھا۔ گھنگھریالے بال اور جاذب نظر چہرہ۔

’’ ان سے ملو۔ فصیح احمد نام ہے اور خود کو اختر کہتے ہیں۔ ‘‘

’’ اور مجھے منظر نقوی۔ ‘‘ میں نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

’’ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔ ‘‘ فصیح نے کہا۔ ’’ میں نے شمع وغیرہ میں آپ کے افسانے پڑھے ہیں۔ ‘‘

’’ ابے فصیح کے بچّے! ‘‘ امراؤ غرا کر بولا۔ ’’ میرے سامنے رسمی اور ادبی باتیں نہیں ہوں گی۔ سمجھا۔ ؟‘‘

’’ سمجھ گیا دادا۔ ‘‘ فصیح نے مسکرا کر جواب دیا۔ اس دن بہت دیر تک وہ لوگ مجھے ساتھ لیے لیے پھرے۔ امراؤ اور فصیح کے لیے بش شرٹ اور فل پینٹ کا ریشمی کپڑا خریدا گیا۔ شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں کھانا کھایا گیا۔ بلیرڈ میکرو پولو، کے دو ٹِن لیے گئے اور ’’ ریگل‘‘ کے باکس میں ایک انگریزی فلم کا مٹنی شو دیکھا گیا جو میں خود ہی ٹھیک طرح نہ سمجھ سکا ان دونوں کو کیا سمجھاتا۔

اور پھر جب شام ہو گئی تو امراؤ نے اچانک مجھ سے بے رُخی سے کہا۔ ’’منظر بھائی اب تم جاؤ۔ ‘‘

’’ نہیں دادا۔۔ ! ’’ فصیح نے اسے ٹوک کر کہا۔۔ ’’ ان کو بھی ساتھ لے چلو۔ ‘‘

’’ چپ بے!‘‘ امراؤ نے اسے ڈانٹا۔۔ ’’ ہاں منظر بھائی! اب تم پھوٹ لو۔ ‘‘

’’ آخر بات کیا ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔

’’ کچھ نہیں ! ہم لوگ ذرا مول گنج کے بالا خانوں کی سیر کریں گے۔ ‘‘

مجھ جیسے بزدل کے لیے پھوٹ لینے کو اتنا ہی کافی تھا۔ لیکن ایک بات رہ رہ کر کھٹک رہی تھی۔ آخر آج ان لوگوں کے پاس اتنا روپیہ کہاں سے آ گیا جو اِدھر اُدھر پھونکتے پھر رہے ہیں۔ دل کڑا کر کے پوچھ ہی لیا۔

’’ بُرا نہ مانو تو ایک بات پوچھوں امراؤ بھائی۔ ؟‘‘

’’ تو پھر جلدی سے پوچھ ڈالو اور پھوٹ جاؤ۔ ‘‘

’’ یہ اتنا روپیہ کہاں سے آ گیا؟ کیا کسی کی جیب صاف کر دی؟‘‘ میں سمجھا تھا شاید وہ بُرا مان جائے گا، لیکن اتنانہیں، مسکرا کر کہنے لگا۔۔

’’ کیا کرو گے پوچھ کر؟‘‘

’’ میں نے کہا۔ ’’ مجھے نیند نہیں آئے گی۔ ‘‘

’’ میں نے آج اپنی بہن کے زیور بیچ ڈالے ہیں چرا کر۔ ‘‘ فصیح نے امراؤ کو ہچکچاتے دیکھ کر کہا۔

مجھ پر جیسے بجلی سی گر پڑی۔ لیکن تب تک وہ دونوں جھومتے ہوئے آگے بڑھ چکے تھے۔

 

 

 

 

(۶)

 

 

اُس رات واقعی مجھے اچھی طرح نیند نہیں آئی۔ رہ رہ کر خود کو لعنت ملامت کرتا تھا کہ مجھے ایسے لوگوں سے یا تو بالکل قطع تعلق کر لینا چاہیے یا پھر راہِ راست پر لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ آخر دوسرے دن انھیں سمجھانے کا تہیہ کر کے سو گیا۔

لیکن دوسرے دن بہت تلاش کرنے پر بھی وہ لوگ نہ ملے۔ تیسرے دن بھی میری جستجو ناکام رہی اور پھر چار دن گزر گئے۔ میں نے یہ سمجھ لیا کہ شاید یہ لوگ کسی دوسرے شہر چلے گئے۔ لیکن رہ رہ کر دل میں کسک سی اٹھتی تھی۔ آخر یہ لوگ کیوں اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ ان کا انجام کیا ہو گا یقیناً یا تو اسپتال میں مریں گے یا جیل میں۔ کیا ان کی بے راہ روی کا ذمہ دار سماج ہے ؟ یا پھر یہ لوگ خود ہی اپنے لیے آپ ذمہ دار ہیں۔ معمہ الجھتا رہا اور اسے پانچویں دن فصیح اختر کی آمد نے اور بھی الجھا دیا۔

میں ایک انگریزی جاسوسی ناول کا اردو ترجمہ کر رہا تھا کہ زینے سے اس کی آواز سُنائی دی۔

’’ نقوی صاحب!‘‘

نیچے اتر کر دیکھا تو فصیح تھا۔ عجیب حلیہ بنا رکھا تھا۔ کپڑے بالکل میلے ہو گئے تھے اور ان پر جگہ بہ جگہ مکڑی کے جالے لپٹے ہوئے تھے۔ ڈاڑھی بڑھ رہی تھی اور بال چکٹے ہو کر آپس میں گتھ گئے تھے۔

’’یہ کیا حالت بنا رکھی ہے فصیح!‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’ اور ہاں اتنے دنوں تک غائب کہاں رہے؟‘‘

اس نے دانت پیس کر کہا۔۔ ’’ یہ سب اس سالے امراؤ کی حرکت ہے نقوی صاحب! بڑا دھوکا کیا اس نے مجھ سے۔ یہاں مجھ سے کہتا تھا کہ کہیں سے ایک پستول کا انتظام کر لو۔ اس رات جب آپ ہم سے رخصت ہو کر چلے آئے تھے وہ خود تو ایک رنڈی کے کوٹھے میں گھس گیا اور میں پستول کی تلاش میں نکلا۔ معلوم ہوا تھا کہ شامو غنڈے کے پاس ایک پستول ہے۔ ٹھیک اس کے گھر پر یعنی موت کے منہ میں گھس کر میں نے وہ پستول پار کیا۔ پھر ہم دونوں رات کی ٹرین سے کھاگا پہنچے، وہاں سے امراؤ کا گاؤں ایرایاں آٹھ میل پر ہے۔ راتوں رات وہ مجھے پیدل اپنے گاؤں لے گیا اور مجھے ایک کھنڈر میں ٹھہرایا۔ وہیں ہم دونوں نے اسکیم بنائی کہ گاؤں کے فلاں امیر آدمی کو لوٹیں گے۔ امراؤ مجھے موقع کی تلاش میں ہونے کا بہانہ کر کے تین راتوں تک ٹالتا رہا۔ مجھے متواتر تین دن اور رات اس کھنڈر کی ننگی زمین پر رہنا پڑا۔ رات کو وہ تھوڑا سا کھانا اپنے گھر سے چرا لاتا تھا۔ لیکن کل رات کو مجھ سے آ کر کہنے لگا۔

’’ تم ابھی پیدل کھاگا جاؤ اور رات ہی کی گاڑی سے کان پور روانہ ہو جاؤ۔ ‘‘

میں نے کہا۔۔ ’’ اور اپنی وہ اسکیم؟‘‘

’’ اسکیم کو مارو گولی۔ ’’ اس نے غرّا کر کہا۔ ’’ وہ اچھا آدمی ہے۔ ‘‘

’’ امراؤ بھائی! تم ہی تو کہتے تھے کہ وہ پکا سود خور ہے۔ ‘‘

’’ہونے دو، ہم کو اس سے کیا مطلب؟ وہ اچھا آدمی ہے۔ ‘‘

’’ ہم کو اچھے بُرے سے کیا مطلب؟ میں تو۔۔ ‘‘

’’۔۔ بس منظر صاحب! میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ دیوانوں کی طرح مجھ پر پل پڑا۔ یہ دیکھیے میرا گال سوجا ہوا ہے۔ پوری طاقت سے ایک گھونسہ یہاں پر مارا اور کہنے لگا کہ ابھی نکل جا یہاں سے ورنہ جان سے مار ڈالوں گا۔ تو اس شخص کو لوٹنا چاہتا ہے جس نے ابھی ایک ہفتہ قبل پچیس روپے دے کر میری ماں اور بہن کو فاقے سے نجات دلائی ہے۔ ‘‘

فصیح کی لمبی تقریر ختم ہوئی تو میں نے کہا۔۔ ’’ سچ ہی تو کہتے تھے امراؤ بھائی۔ تم لوگوں کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہئیں اور پھر جب وہ اچھا آدمی تھا تو۔۔ ‘‘

’’ دھت !میری نگاہ میں یہ سالے روپے والے سب برابر ہیں۔ اچھے اور بُرے کی کوئی پہچان نہیں ہے ان میں۔ خیر اب تو جو کچھ ہوا سو ہوا۔ لیکن منظر صاحب قسم خدا پاک کی۔ اب دیکھنا جیسے ہی سالا امراؤ یہاں آئے گا اسی پستول سے اس کا بھیجا اڑا دوں گا۔ گاؤں میں تو خیر کچھ سوچ کر چپ رہ گیا تھا۔ ‘‘

اس نے اپنے نیفے سے ایک بھدّی ساخت کے پستول کو نکال کر چومااور پھر نیفے ہی میں اڑستا ہوا واپس چلا گیا۔

 

 

 

(۷)

 

دوسرے دن میں شاید ٹھیک وقت پر امراؤ کی قیام گاہ پر پہنچا۔ یہ ایک خالی مکان کا بالائی حصہ تھا جس پر امراؤ نے زبردستی قبضہ کر رکھا تھا اور جب مالک مکان اس سے کرایہ طلب کرنے آتا تھا تو اسے گالیاں دے کر دوڑا لیا جاتا تھا کہ عدالت میں دعویٰ کر کے کرایہ حاصل کرو۔۔ جب میں وہاں پہنچا تو قطعاً خیال نہ تھا کہ امراؤ اپنے گاؤں سے واپس آ گیا ہو گا۔ یہی سوچا تھا کہ فصیح وہاں ہو گا اسے آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن وہاں پہنچا تو رنگ ہی دوسرا نظر آیا۔

زینے پر ہی سے ان دونوں کی زور زور سے ماں اور بہنوں کی گالیاں بکنے کی آواز سنائی دی۔ لپک کر اوپر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ دیسی پستول جو کل فصیح احمد کے پاس تھا، کمرے کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے اور فصیح و امراؤ ایک دوسرے میں گتھے ہوئے فرش پر لڑھک رہے ہیں۔

’’ ارے۔ رے۔ یہ کیا کرتے ہو بھائی؟ ‘‘ میں انھیں چھڑانے کے لیے آگے بڑھا۔

’’ تم ہٹ جاؤ جی!‘‘ امراؤ نے غرا کر کہا۔

’’ ہاں منظر صاحب! آپ یہاں سے چلے جائیے۔ ‘‘ فصیح نے بھی ہانپتے ہوئے دہرایا اور دوسرے لمحے اس کا بھرپور گھونسہ امراؤ کی ٹھوڑی پر پڑا اور وہ کراہ کر ایک طرف لڑھک گیا۔ فصیح نے لپک کر کونے پر رکھا ہوا ڈنڈا اٹھا کر تان لیا اور اگر میں اسی وقت بیچ میں نہ آ جاتا تو امراؤ کی کھوپڑی چور چور ہو گئی ہوتی۔

ڈنڈا میرے سرسے چھچھلتا ہوا زمین پر پڑا اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ہاتھ میں گیلا گیلا اور گرم گرم سا کچھ محسوس ہوا۔ ہٹا کر دیکھا تو معلوم ہوا سر سے خون بہہ رہا ہے۔ پھر امراؤ نے طیش میں آ کر فصیح پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش شروع کر دی۔ لیکن اب تالی صرف ایک ہاتھ سے بج رہی تھی کیونکہ فصیح بالکل ساکت و صامت کھڑا تھا حتیٰ کہ اس نے امراؤ کی مار سے بچنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ تھوڑی دیر بعد اس کی رندھی ہوئی آواز سنائی دی۔

’’ دادا! مجھے بعد میں مار لینا پہلے منظر صاحب کی خبر لو۔ ‘‘

امراؤ کا ہاتھ رک گیا۔ اس نے ایک بار میری طرف مُڑ کر دیکھا اور فصیح سے کہنے لگا۔

’’ جا کر جلدی سے ٹنکچر آئیوڈین کی شیشی لاؤ۔ ‘‘

وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح سر جھکائے ہوئے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں میرے سر پر پٹی باندھ کر ایک دوسرے کے زخموں پر ٹنکچر لگانے لگے۔

 

 

 

(۸ّ)

 

 

چند دن اسی طرح گزرے، پھر امراؤ نے مجھے بتلا یا کہ اس نے اپنے بیوی اور بچے کو بھی گاؤں سے بلوا لیا ہے۔ اسی دن شام کو وہ مجھے اپنے ساتھ گھسیٹ لے گیا اور اپنی بیوی سے ملوایا۔ بیچاری بہت کم سن اور بھولی بھالی تھی اور امراؤ کے اشاروں پر ناچتی تھی۔ یہ تو کہنا ہی فضول ہے کہ وہ حسین بھی تھی۔ کیوں کہ اس کے حسین یا بد صورت ہونے سے اس داستان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بچہ پانچ سال کا تھا۔ بہت ہی شوخ اور شریر۔ میرے پیروں سے اس طرح جھول گیا جیسے برسوں کی جان پہچان ہو۔ پھر امراؤ نے بیوی کے پاس بیٹھ کر میرے متعلق لن ترانیاں شروع کر دیں۔

’’منظر بھائی تو ہند و پاک کے بہت بڑے افسانہ نگار ہیں اور ان کے اشعار پڑھ کر تو گھوڑے تک ہنسنے لگتے ہیں اوریہ اور وہ۔۔ ‘‘

اور میں سوچ رہا تھا کہ اس معصوم الھڑ لڑکی کا کیا انجام ہو گا جو امراؤ کے پلّے باندھ دی گئی ہے اور اس بچے کا مستقبل کیا ہے جو شکل و صورت سے تو کافی ذہین معلوم ہوتا ہے لیکن جسے امراؤ جیسا باپ ملا ہے۔ میں بڑی دیر تک اسی قسم کے خیالات میں غوطہ زن رہا اور یہ محویت اس وقت ٹوٹی جب امراؤ نے مجھے ٹہوکا مار کر کہا۔

’’کہاں کھو گئے منظر بھائی؟ میں کیا پوچھ رہا ہوں۔ ؟’’ تمہارے پاس کیمرہ ہے نا۔ ؟‘‘

’’ ہاں۔ ہے تو۔۔ ‘‘

’’ اچھا تو ذرا لپک کر سائیکل سے جاؤ اور کیمرہ لے آؤ۔ اور ہاں یہ لو۔۔ ‘‘ اس نے جیب سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر دیتے ہوئے کہا۔۔ ’’ اُدھر ہی سے فلم بھی ڈالتے لانا۔ ‘‘

میں اپنی بڑھی ہوئی مصروفیت کا حوالہ دے کر ٹالتے ٹالتے رہ گیا کیونکہ امراؤ کی بیوی اس بات سے کافی بشاش نظر آنے لگی تھی۔

ایک گھنٹے بعد کیمرے میں فلم ڈلوا کر واپس مکان پر پہنچا تو وہ دونوں تیار بیٹھے تھے۔ فصیح بھی اس وقت تک آ گیا تھا۔ پہلے تو فصیح نے امراؤ کے بچے کو گود میں لے کر اپنی تصویر کھنچوائی پھر امراؤ اور فصیح ایک دوسرے سے گھونسہ بازی کرنے لگے اور مجھے حکم ملا کہ اس منظر کو فلم پر اتار لوں۔ اس سے فارغ ہر کر امراؤ نے فصیح سے کہا کہ وہ بچے کو لے کر باہر پھوٹ جائے۔ اس نے حکم کی تعمیل کی۔ زینے کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ پھر اس کے بعد وہ کچھ ہوا جس کی امید مجھے قطعاً نہ تھی۔ امراؤ اپنی بیوی کو پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گیا۔ چند منٹ تو ان میں کانا پھوسی ہوتی رہی، پھر اس کے بعد وہ کچھ ہوا جس کی اُمید مجھے قطعاً نہ تھی۔ اچانک امراؤ دہاڑنے لگا۔

’’ ارے! میں کہتا ہوں اتارو کپڑے۔ ‘‘

’’ پاگل ہوئے ہو کیا۔ ؟ مجھے شرم آتی ہے۔ ‘‘

’’ شرم کی ماں کا۔۔ ‘‘ امراؤ نے ایک گندی سی گالی دی۔ ‘‘ اتار کپڑے۔ ‘‘ پھر عورت کی سسکیوں کی آواز مجھے سنائی دی اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ باہری کمرے میں بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور لنگوٹ پہنے ہوئے امراؤ باہر نکلا، پھر سکڑتی سمٹتی اس کی بیوی بھی باہر آ گئی۔ اب اس کے جسم پر کپڑے کے نام سے صرف ایک پھنسی پھنسی سی چولی اور ایک تنگ چڈی تھی۔ میں نے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ خیال تھا اس کی آنکھوں میں آنسو ہوں گے لیکن وہ کمبخت اب مسکرا رہی تھی۔ اسی حلیہ میں میں نے ان دونوں کے کئی پوز لیے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ جب امراؤ اشارہ کرتا تھا۔ میں آنکھ بند کر کے کیمرے کا ’شٹر‘ دبا دیتا تھا۔

فلم ختم ہو گئی تو امراؤ مجھے ساتھ لے کر ایک لیڈی فوٹو گرافر کے یہاں پہنچا اور فلموں کو اچھی طرح دھونے اور صفائی سے پرنٹ کرنے کی سیکڑوں ہدایات دینے کے بعد چلتے چلتے بولا۔

’’ اور سنو جی! اگر مجھے ذرا سی بھی بھنک لگ گئی کہ تم نے کسی فلم کی کاپی رکھ لی ہے تو یاد رکھو تمھاری یہ دوکان جلتی ہوئی نظر آئے گی۔ ہاں میرا نام امراؤ ہے!‘‘

 

 

 

(۹)

 

اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ فصیح اور امراؤ نے مل کر مچھلیوں کا کارو بار شروع کر دیا مجھے یہ بات دوسرے دن معلوم ہو گئی کیونکہ امراؤ نے آ کر مجھ سے کہا۔

’’ منظر بھائی! ذرا اپنا کیمرہ میرے ہی پاس رہنے دو۔ ہم لوگوں نے مچھلیوں کا کام شروع کر دیا ہے۔ ‘‘

’’ مچھلی کا کام!‘‘ میں نے کہا۔ ’’ لیکن مچھلی کے کام اور کیمرے سے کیا تعلق؟‘‘

’’ بھئی ! اب میں اور فصیح وہیں گنگا کے کنارے ملاحوں کے ساتھ رہ کر شکار کروائیں گے اور مال کلکتہ بُک کریں گے۔ بازار بہت تیز چل رہا ہے نا۔۔ ‘‘

’’ پھر بھی کیمرہ۔۔ !‘‘

’’ ہاں ! وہ میں ساتھ لیے جا رہا ہوں۔ ‘‘ اس نے بے تکلفی سے کہا۔ ’’ وہاں بڑے اچھے اچھے سین ہوں گے۔ ‘‘

’’ خیر لے جاؤ۔ ‘‘ میں نے دل پر جبر کر کے کیمرہ اسے دیتے ہوئے کہا۔ ’’ لیکن اس کاروبار کے لیے روپیہ کہاں سے آیا؟‘‘

’’ میں نے اپنی بیوی کا تمام زیور فروخت کر دیا ہے اور فصیح بھی کہیں سے تین سو روپے مار لایا ہے۔ ‘‘

’’ تم نے اپنی بیوی کا زیور بیچ دیا۔ ‘‘

’’ ہاں ! کیوں اس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘

’’ امراؤ بھائی! تم آدمی کب بنو گے؟‘‘

امراؤ نے چونک کر مجھے غور سے دیکھا پھر دھیرے دھیرے کہنے لگا۔

’’سنو منظر بھائی! مجھے معلوم ہے اب تم بڑی لمبی چوڑی دلیلیں پیش کرو گے جن کی میں تردید نہیں کر سکتا۔ پھر تم نصیحتیں کرنے بیٹھ جاؤ گے۔ لیکن میں پہلے ہی کہے دیتا ہوں کہ کبھی بھولے سے بھی مجھے کوئی نصیحت نہ کرنا ورنہ میری تمھاری نہیں نبھے گی۔ ‘‘

جی چاہا کہہ دوں۔ تم مجھے دے ہی کیا دیتے ہو جو نہ نبھے گی تو مجھے افسوس ہو گا۔ لیکن کہہ نہ سکا۔ جانتا تھا کہ امراؤ کو یہ بات سن کر بہت افسوس ہو گا اور کیا معلوم کہ مجھے خود بھی افسوس ہوتا۔

’’ کب جا رہے ہو؟‘‘

’’ آج ہی۔ !‘‘

’’ اور بھابھی کا کیا انتظام کیا۔ ‘‘

’’ ایک مہینے کا راشن خرید کررکھ دیا ہے اس کے لیے۔ ہاں۔ تم تیسرے چوتھے دن اس کی خبر لیتے رہنا۔ ‘‘

’’ اچھی بات ہے۔ ‘‘

’’ وہ چلنے لگا پھر تھوڑی دور جا کر لوٹ آیا اور بڑی بے باکی سے میرا پارکر قلم جیب سے نکال کر اپنی جیب میں لگاتا ہوا بولا۔

’’ یہ بھی میں لیے جا رہا ہوں۔ وہاں لکھنے پڑھنے کا کام پڑے گا۔ ‘‘

’’ لیکن سنو تو امراؤ بھائی۔ دوسرا قلم لیتے جاؤ۔ ـ‘‘

’’ کیوں یہی کیوں نہیں ۔۔ ؟‘‘

میں نے کہا۔۔ ’’ یہ ’ پارکر‘ ہے اس قلم سے میں افسانے لکھتا ہوں۔ سستا والا قلم لیتے جاؤ۔ ‘‘

نہیں ۔۔ ‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔ ’’ اس سستے والے قلم سے تم کہانیاں لکھا کرنا میں ’ پارکر‘ سے مچھلیوں کا بل بناؤں گا۔ ‘‘

 

 

 

(۱۰)

 

 

تین دن گزرنے پر میں امراؤ کے گھر پہنچا کہ دیکھوں اس کی بیوی اور بچہ کس حال میں ہیں۔ بچہ بُری طرح رو رہا تھا اور اس کی بیوی اُداس صورت لیے بیٹھی تھی۔ میں نے کہا۔

’’ کیوں بھابی؟ اس طرح اُداس کیوں بیٹھی ہو؟‘‘

وہ شاید بھری ہوئی بیٹھی تھی۔ پھپک پھپک کر رونے لگی۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کس طرح چپ کراؤں۔

’’ بھئی روتی کیوں ہو؟ کچھ بتاؤ بھی تو۔۔ ؟‘‘

’’ کچھ نہیں۔ ‘‘ اس نے سسکی لے کر کہا۔

’’ کیا اپنے ان زیوروں کا غم ہے جو امراؤ بھائی نے بیچ ڈالے ہیں ؟‘‘

اس نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ ڈالے

’’ یہ کیا کہہ دیا آپ نے ؟ کیا مجھے زیور ان سے زیادہ پیارے ہیں ؟‘‘

’’میرا تو یہی خیال ہے کہ عورت کو دنیا میں زیور سب سے پیارے ہوتے ہیں ۔۔ ‘‘

’’ توپھر؟‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔ ’’ یہ خیال شادی کے بعد تبدیل ہو جائے گا اور پھر مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آج ان سے کسی چیز کے لیے کہہ دوں تو جان پر کھیل کر میری خواہش پوری کریں گے۔ ‘‘

’’ تو پھر اس اداسی کا سبب کیا ہے؟‘‘

’’ منّا بھوکا ہے۔ ‘‘

’’ارے۔ !‘‘ میں نے بُری طرح چونک کر کہا۔ ’’کیا راشن ختم ہو گیا؟‘‘

’’ نہیں تو۔۔ راشن تو وہ کافی رکھ گئے ہیں۔ ‘‘ وہ بولی۔

’’ پھر۔۔ ؟‘‘

’’ پانی ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے کھانا نہیں پکایا۔ ‘‘

’’ اوہ! اتنی سی بات ہے میں ابھی بھرکر لاتا ہوں۔ ‘‘

میں اٹھ کر پانی بھر لایا۔ لیکن بعد میں سوچنے پر معلوم ہوا کہ بات اتنی سی نہیں، بہت بڑی ہے۔ ٹیوشن پڑھاتے ہوئے۔ تقریح کرتے ہوئے یا ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے چکر لگاتے ہوئے، حتیٰ کہ افسانے لکھتے وقت بھی یہی فکر سوار رہتی تھی کہ کہیں وہاں پانی نہ ختم ہو گیا ہو۔ کہیں مناّ اور اس کی ماں بھوکے نہ بیٹھے ہوں۔

نتیجہ ہاتھوں میں چھالوں کی صورت میں سامنے آیا۔ جو بعد میں گھٹّے بن گئے۔

 

 

 

 

(۱۱)

 

 

دیر ہو گئی تھی۔ لپکا ہوا پڑھنے جا رہا تھا کہ اچانک امراؤ مل گیا اور قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ پوچھوں، کہنے لگا۔

’’ منظر بھائی ذرا ایک اچھی سی ہزل تو لکھ دو۔ ‘‘

’’ ہزل!‘‘

’’ ہاں ہاں، وہی جس میں کسی کی بُرائی کی جاتی ہے؟‘‘

’’ شاید ہجو لکھوانا چاہتے ہو۔۔ نابابا۔ میں کسی سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا۔ ‘‘

’’ دیکھو منظر بھائی!‘‘ وہ باقاعدہ مجھ سے لپٹ گیا۔ ’’ میں نے آج تک تم سے کسی بات کے لیے نہیں کہا۔ یہ ہجو تو لکھنی ہی پڑے گی۔ ‘‘

’’ کیوں بات کیا ہے؟ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ تم نے مچھلیوں کا دھندا شروع کیا تھا، ہزل اور ہجو کے چکر میں کیسے پھنس گئے؟‘‘

کہنے لگا۔ ’’ یہ اس مچھلی والے بزنس کے سلسلے کی کڑی ہے۔ سالا وہ رشید ہے نا۔ اس نے سارا گُڑ گوبر کر دیا۔ ملاحوں کو میں نے پیشگی روپیہ دے کر شکار کا انتظام کیا اور وہاں جتنی مچھلیاں نکلتی ہیں وہ سب رشید زیادہ دام دے کر خرید لے جاتا ہے۔ میرا تو سارا روپیہ ڈوب گیا۔۔ اسی رشید کے بارے میں ہجو لکھ دو۔ ‘‘

’’ اور جو وہ مجھ سے جواب طلب کرے تو۔۔ ؟‘‘

’’ پہلے تو کسی کو معلوم ہی نہ ہو گا کہ تم نے لکھی ہے۔ دوسرے کس ماں کے لال کی مجال ہے امراؤ کے ہوتے ہوئے منظر بھائی کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر دیکھ سکے۔ ‘‘

مجھے ہجو لکھنی پڑی اور اسی شام کو فصیح نے بڑی شان سے سینہ تان کر مجھے بتلایا کہ کس طرح رشید ٹھیکیدار کی دوکان پر جا کر امراؤ نے سب کے سامنے وہ ہجو سنائی اور کیسے اس کا چہرہ ست کر بندر جیسا بن گیا۔

’’ بسنقوی صاحب!‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے کہا’’ سارا نقصان ادا ہو گیا۔ ‘‘

میں نے کہا۔ ’’ یار تم لوگ تو نفع نقصان کے چکر میں تھے اور یہاں میرا کباڑا ہو گیا۔ ‘‘

’’ کیوں کیا ہوا؟‘‘

’’ یہ امراؤ اپنی بیوی اور بچے کو کس بھروسے پر چھوڑ گئے تھے؟‘‘

’’ کیوں ؟آپ جو تھے۔ ‘‘

’’ میں ۔۔ تو کیا میاں اس لیے تھا کہ روزانہ ان کے گھر جا کر پانی بھروں۔ ‘‘

’’ میں نے اسے اپنے ہاتھوں کے گھٹے دکھلائے تو بڑی زور سے ہنسا۔

’’ واہ واہ! اب معلوم ہوا ہو گا منظر صاحب آپ کو قلم پکڑنے اور پانی کھینچنے میں کتنا فرق ہے۔ ‘‘

 

 

 

(۱۲)

 

 

مجھے خرچ کی کافی تنگی تھی۔ کیونکہ ٹیوشن کے روپے وصول نہ ہوئے اور ہوٹل والے کا ایک ماہ کا بل ادا نہیں کر سکا تھا۔ اسی لیے ایک انگریزی ناول کا ترجمہ مکمل کرنے میں پوری تندہی سے جٹ گیا۔ اس مصروفیت میں کئی دن تک امراؤ سے نہیں مل سکا۔ ترجمہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد ایک دن باہر نکلا تو امراؤ کے خالو مل گئے۔ رئیس احمد صاحب۔ پولیس کانسٹبل تھے۔

’’ کہو صاحبزادے کہاں جا رہے ہو۔۔ ؟‘‘

’’ ذرا امراؤ بھائی کی طرف جاؤں گا۔ ‘‘

’’ کیوں کیا تمھاری بھی کوئی چیز مار لے گیا۔ ؟‘‘

’’ جی۔۔ ؟‘‘

’’ ہاں بھئی۔ ‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’ آج کل امراؤ نے یہی وتیرہ اختیار کر رکھا ہے میری عدم موجودگی میں گھر سے سائیکل اٹھا لے گئے۔ چھوٹے لڑکے نے منع کیا تو اُسے دو چار ہاتھ جڑ دیے۔ اُدھر یٰسین بھائی کہہ رہے تھے کہ ان کا ریڈیو بھی امراؤ نے بیچ دیا ہے اور کچھ اسی پر منحصر نہیں، نہ جانے کس کس کا سامان خرد برد کر دیا انھوں نے۔ خوب نام روشن کیا ہے اعجاز بھائی کا اس لڑکے نے۔ ‘‘

وہ بڑبڑا تے ہوئے آگے نکل گئے۔

کچھ اور آگے بڑھا تو راستے میں فصیح مل گیا۔

’’ سنا نقوی صاحب آپ نے؟ امراؤ بھائی جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’ کہاں ۔۔ ؟‘‘

’’ نیپال کی طرف۔۔ ‘‘

’’کیوں ۔۔ ؟‘‘

’’ ان کا ارادہ ہے کہ وہاں سے گانجے کی ناجائز تجارت کریں گے۔ ‘‘

’’ ارے۔۔ ‘‘

’’ ہاں صاحب اس دھندے میں کافی آمدنی ہے۔ ‘‘

’’اور تم۔۔ ؟‘‘

’’ میں۔ ؟‘‘ اس نے چونک کر کہا۔۔ ’’ کیا آپ مجھے امراؤ بھائی سے الگ سمجھتے ہیں ؟‘‘

’’ کیا مطلب؟‘‘

میں اسے ساتھ لیے ہوٹل میں چلا گیا۔ بیرا کھانا لے کر آیا تو میں نے اس سے کہا۔

’’ لو شروع کرو۔۔ ‘‘

’’ نہیں ۔۔ آپ کھائیے۔ ‘‘

’’ ارے اب مجھ سے بھی تکلف کرنے لگے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ نہیں نہیں۔ یہ بات نہیں منظر بھائی۔ خدا کی قسم میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ ‘‘

میں کھانا کھا کر ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ پان کی دوکان پر رک کر دو پان لیے تو اس نے پھر انکار کر دیا۔

’’ نہیں ایک ہی پان لیجیے گا۔ ‘‘

میں نے غصے سے اس کی طرف گھور کر کہا۔

’’ یہ آج کیسی اکھڑی اکھڑی باتیں کر رہے ہو جی۔۔ ؟‘‘

کہنے لگا۔ ’’ معاف کرنا نقوی صاحب! لیکن یہ میرا اصول ہے۔ جب جیب خالی ہو تو مجھے دوسروں کے پیسے پر عیش کرتے ہوئے بڑی گھن آتی ہے۔ ‘‘

’’ تو ااس کا یہ مطلب ہوا کہ تم نے کھانا بھی اسی لیے نہیں کھایا۔ ‘‘

’’ ہاں اب آپ سے جھوٹ کیا بولوں۔ میں نے کل صبح سے کھانا نہیں کھایا۔ ‘‘

’’ ارے!‘‘ میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ جیب ٹٹولی تو اس میں صرف گیارہ آنے تھے۔ نکال کر اسے دینے چاہے تو بُری طرح اڑ گیا۔

’’ نہیں نقوی صاحب ! میں ہرگز نہیں لوں گا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرے گا۔ ‘‘

’’ اچھا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ تم مجھے غیر سمجھتے ہو ایں ؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ ٹھہرو میں امراؤ بھائی سے کہوں گا۔ ‘‘

’’ اچھا لائیے۔ ‘‘ اس نے مری ہوئی آواز میں کہا اور جب میں نے پیسے اس کے ہاتھ میں رکھے تو دیکھا وہ جلدی جلدی پلکیں جھپکا کر آنکھوں میں امڈ آنے والے اشکوں کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔

 

 

 

 

(۱۳)

 

دوسرے دن صبح ہی صبح زوّار ماموں نے امراؤ کا تذکرہ چھیڑ کر مجھے خوب لتاڑا۔

’’ کیا سمجھے؟ ایسے اوباش شخص کے ساتھ رہتے ہو جس کی سب ہی بُرائی کرتے ہیں۔ کیا سمجھے؟ دولھا بھائی کی سائیکل لے گیا۔ یٰسین صاحب کا ریڈیو غائب کر دیا۔ اپنے بہنوئی کے گھر سے سامان اُٹھا لایا۔ کیا سمجھے؟ کل رات ہی کو شاہد کہہ رہا تھا کہ امراؤ نے یہ تمام چیزیں اونے پونے داموں ایک دوکاندار کے ہاتھ فروخت کر دی ہیں، کیا سمجھے؟‘‘

اِدھر میں بھی دل میں سوچ رہا تھا کہ واقعی میں گدھا ہوں۔ ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے میں اپنی کوئی عزت نہ باقی رکھی اور کیمرہ اور پارکر قلم تو خیر کسی کباڑیے کے یہاں پہنچ ہی چکے ہوں گے۔ اسی وقت نیچے سے آواز آئی۔

’’ منظر بھائی۔ ‘‘

’’ جاؤ ‘‘ زوّار ماموں طنزیہ انداز میں بولے۔ ’’ آ گئے تمھارے ہمزاد۔ آج نیپال کی طرف جا رہے ہیں۔ شاید کچھ روپے وغیرہ مانگنے آئے ہوں گے۔ کیا سمجھے؟‘‘

طبیعت کچھ پہلے ہی مکدّر تھی اس پر زوّار ماموں کا طنزیہ اندازِ گفتگو۔ میں نے چارپائی پر نیم دراز ہوتے ہوئے زوار ماموں کے چھوٹے لڑکے ساجد کو بلا کر کہا۔

’’ نیچے امراؤ بھائی آواز دے رہے ہیں۔ ان سے جا کر کہہ دو منظر گھر میں نہیں ہے۔ ‘‘

وہ دوڑتا ہوا نیچے چلا گیا۔ میں نے حیدر جعفری سے ایملی زولا کا ناول مستعار مانگ رکھا تھا۔ اسے اٹھا کر دیکھنے لگا کہ ترجمے سے کتنے پیسے مل سکیں گے۔ کافی دلچسپ ناول تھا چند منٹ بعد خیال ہی نہ رہا کہ امراؤ ملنے آیا تھا۔ وہ تو شام کو ٹیوشن سے واپس لوٹا تو اچانک ساجد نے ایک پرچہ دیتے ہوئے کہا۔

’’ اچھے بھائی۔ یہ پرچہ امراؤ بھائی نے دیا تھا صبح۔ میں دینا بھول گیا تھا۔ ‘‘ کھول کر دیکھا تو جگت ٹاکیز میں انار کلی چل رہا ہے کا اشتہار تھا، کونے پر پنسل سے چند سطریں گھسیٹ دی گئی تھیں۔

’’ ساجد کہتے ہیں منظر بھائی نے کہلایا ہے کہ امراؤ بھائی سے کہہ دو منظر گھر میں نہیں ہے۔ یار تم شریف لوگ معمولی سی چار سو بیس بھی سلیقے سے نہیں کر سکتے۔ خیر میں نے تمہیں معاف کر دیا لیکن ایک جرمانے کے ساتھ میں آج نیپال جا رہا ہوں تمھارا کیمرہ اور پارکر قلم واپس کرنے آیا تھا اب واپس نہیں کروں گا۔ تم اپنے طور پر سمجھنا کہ غلطی کا خمیازہ بھگتا اور میرے پاس تمھاری یادگار رہ جائے گی۔    تمھارا۔ امراؤ بھائی۔ ‘‘

’’ ہونہہ! غنڈوں کی دوستی میں اور کیا ہاتھ لگنے والا تھا۔ چلو خس کم جہاں پاک، زوّار ماموں ٹھیک ہی تو کہتے تھے۔

 

 

 

(۱۴)

 

 

پھر خبریں ملیں کہ امراؤ اور فصیح نیپال چلے گئے اور جاتے ہوئے امراؤ بیوی سے کہہ گیا کہ تم اپنے میکے چلی جانا اور کس طرح وہ غریب تین دن بھوکی پیاسی بلکتے ہوئے بچے کے ساتھ اس ویران مکان میں لا وارثوں کی طرح پڑی رہی حتیٰ کہ اس کے چھوٹے بھائی کو خبر لگی اور وہ آ کر اسے اپنے ہمراہ فیروز آباد لے گیا جہاں وہ کسی کارخانے میں چوڑیاں رنگنے کا کام کرتا تھا اور پھر اور پھر۔

چنانچہ یہ ہوتا ہے جناب کسی کام کو بغیر سوچے سمجھے شروع کر دینے کا انجام غریب بچہ ماں کی سوکھی چھاتی سے لپٹا ہوا ہے جو ادھ کھلی آنکھوں سے چھت کو تاکتی ہوئی پڑی ہے پتہ نہیں بیچاری سو گئی یا جاگتی ہوئی کچھ سوچ رہی ہے۔ یہ میری بیوی ہے اور وہ میرا بچہّ ایک غریب ادیب کی قناعت پسند بیوی اور ایک قلاش فنکار کا معصوم بچہ۔ کیا فرق ہے ان میں اور امراؤ کے بیوی اور بچوں میں۔ ان کی حالت ان سے کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ میں جو بزعم خود شریف ہوں اور ایمان دار ہوں کیا اس معاملے میں اس غنڈے امراؤ سے کسی صورت بہتر ثابت ہوا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں غریب ہوں اور خود اپنا خرچ بمشکل چلاپاتا ہوں ایسی صورت میں مجھے شادی ہرگز نہیں کرنی چاہیے تھی کیوں مفت میں اس غریب کی مٹی خراب کی اور مزید حماقت اس بچے کی شکل میں میرے سامنے ہے جو ماں کے سینے سے لگا ہونے کے باوجود بھوکا سویا ہوا ہے۔

اور میں عجیب شش و پنج میں پڑ گیا ہوں۔ اپنے ماسٹر دوست کی بے رخی سے دل پر احساسات کا بھاری بوجھ لے کر کل رات یہ روداد لکھنے کے لیے بیٹھا تھا جو اب اس نقطے پر آ کر کسی اڑیل گھوڑے کی طرح بدک گئی ہے سامنے تخیل کی جولانگاہ ہے باگ جدھر چاہیے موڑدیجیے۔ شہوارِ قلم رفاقت سے منہ نہ موڑے گا لیکن میں تو اب تک صرف حقائق کی منظر کشی کرتا رہا ہوں۔ امراؤ اور فصیح کے ہمراہ رہ کر جو واقعات رونما ہوئے تھے وہی لکھتا رہا ہوں اور پھر یوں ہوا کہ وہ لوگ نیپال چلے گئے اور امراؤ کی بیوی اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ فیروز آباد کو سدھار گئی اور پھر میں نے زوّار ماموں کے چکر میں اس معصوم لڑکی سے شادی کر لی جو آج سامنے پلنگ پر بھوکی لیٹی ہے۔ میں اٹھتّر روپے ماہوار پر ملازم ہو کر لاڑکوئی جیسے اس دور دراز مقام پر پرائمری اسکول کا اسسٹنٹ ٹیچر ہو کر آ گیا تھا اور حالات کے چکر میں پڑ کر سال بھر کی ملازمت کے بعد ہی معطل کر دیا گیا ہوں اور اب میرے خلاف محکمہ جاتی تحقیقات ہو رہی ہے کہ میں نے کن کن لڑکوں کو جعلی سرٹیفیکٹ جاری کیے اور چونکہ ایسا کوئی جعلی سرٹیفیکٹ حقیقتاً جاری نہیں کیا گیا اس لیے تفتیش ایک مقام پر آ کر ٹھپ ہو گئی ہے اور افسران بالا دست حیران ہیں کہ کیس کو کس طرح سلجھائیں اور میں پریشان ہوں کہ اکسٹھ روپے آٹھ آنے میں، جو مجھے ہر ماہ سسپنشن الاؤنس کی شکل میں ملتے ہیں، کس طرح بیوی اور بچے کے ہمراہ مہینہ اس طور پر گزارا کروں کہ مہینے کے آخری دو تین دنوں میں میرے کنبے کو بھوکا نہ سونا پڑے اور مجھ پر اس قسم کی حماقتوں کا دورہ نہ پڑا کرے جیسا کہ موجودہ حماقت کی شکل میں سامنے ہے۔

اور نہیں تو، یہ حماقت نہیں تو کیا ہے؟ ایک ناول یا ناول تو بڑی بات ہے افسانہ لکھنے سے قبل ذہن میں باقاعدہ واقعات کا تانا بانا تیار کرنا ہوتا ہے۔ بنیادی نکتے کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے جس پر تخلیق کی عمارت کھڑی کی جا سکے۔ نقطۂ عروج کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر قاری کی سانس رکی کی رکی رہ جائے کہ اب کیا ہو گا اور اختتام کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے جو پڑھنے والوں پر ایک گہرا اثر چھوڑ جائے۔ یوں تو نہیں ہوتا کہ کسی دوست کے پاس قرض مانگنے کے لیے پہنچے، اس نے مجبوریوں کا اظہار کرتے ہوئے انکار کر دیا، دل پر احساسات کا ایک بھاری بوجھ لے کر لوٹے، بیوی بچے کو بھوکا سو جانے کی ہدایت کی اور قلم لے کر بیٹھ گئے کہ عریاں حقیقت لوگوں کے سامنے پیش کریں اور پھر یہ ہوا کہ کسی اڑیل گھوڑے کی طرح دو غنڈوں کی یہ روداد ایک خاص مقام پر آ کر غنڈہ گردی پر آمادہ ہو گئی۔

کاش کسی طور معلوم ہو سکتا ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۸ء تک کے اس پانچ سالہ وقفے میں ان دو غنڈوں پر کیا بیتی۔ وہ جیتے بھی ہیں یا مر کھپ گئے۔ میں ماضی کے دبیز پردے سرکاتا ہوں۔ پیچھے تاریکی ہی تاریکی ہے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ بیکراں سناٹا ہے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ لیکن سننا۔ یہ میں کیا سن رہا ہوں ۔۔ ؟ کوئی بہت نحیف سی آواز میں رو رہا ہے۔ آواز کافی جانی پہچانی سی معلوم ہوتی ہے۔ شاید۔۔ شاید کیوں یقیناً یہ امراؤ کے بچے کی آواز ہے اور بتدریج آواز تیز ہو رہی ہے اتنی تیز کہ کان میں خراش سی پیدا ہونے لگی ہے۔ کیا بات ہے؟ ضرور کوئی خاص واقعہ امراؤ یا فصیح یا کم از کم امراؤ کی بیوی کے ساتھ پیش آیا ہے ورنہ پانچ سال بعد کان پور اور فیروز آباد اور نیپال سے سیکڑوں میل دور منظر نقوی کے کانوں میں امراؤ کے بچے کے رونے کی آواز کیوں آ رہی ہے۔ کیا اسی آواز کی ڈور تھام کر تخیل کے ہاتھ میں دے دوں اور وہ یہ ناول مکمل کر دے۔ ؟

اچانک میری بیوی جھنجھوڑ ڈالتی ہے مجھے۔

’’ توبہ ایسی بھی کیا محویت! بھوکا بچہ کب سے بلک بلک کر جان ہلکان کر رہا ہے اور آپ کا قلم رکنے کو نہیں آتا۔ ‘‘

وہ بچے کو سینے سے چمٹائے برآمدے میں چلی جاتی ہے اور اب میرے کانوں میں رونے کی دو آوازیں آ رہی ہیں۔ امراؤ کی بیوی اور بچے کی نہیں یہ میری اپنی بیوی ہے جو رو رہی ہے، وہ میرا اپنا بچہ ہے جو بلک رہا ہے۔

 

 

 

(۱۵)

 

سو فیصدی حقائق پر مبنی اس افسانے کو تخیل کی گود میں ہی پناہ مل سکے گی میں سوچتا ہوں۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ مجھے کہیں سے کچھ روپیوں کا انتظام کرنا چاہے اور اس سلسلے میں صد ہا اسکیمیں بناتا ہوں جو ہر حالت میں ادھوری رہ جاتی ہیں لہٰذا میں آخری بار سوچتا ہوں کہ جب اور کچھ نہیں ہو سکتا تو دو غنڈوں کی یہ ادھوری داستان ہی کیوں نہ مکمل کی جائے چنانچہ میں تصور کو باور کراتا ہوں کہ یہ میری بیوی اور میرے بچے کے رونے کی آوازیں نہیں ہیں۔ یہ تو امراؤ کی بیوی ہے جو رو رہی ہے اور امراؤ کا بچہ ہے جو بلک رہا ہے۔ میں ہر دو آوازوں کی ڈور تھام کر تخیل کے حوالے کر دیتا ہوں اور اچانک مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں جو کان پور کی انجمن ترقی پسند مصنفین میں فن برائے فن کی حمایت میں دھواں دھار مقالے پڑھا کرتا تھا وہ محض ثقیل مطالعے کی کھٹی ڈکاریں تھیں۔ صرف ایک ادبی فیشن تھا اور اس کا صحیح احساس تو مجھے آج ہوا ہے کہ فن برائے فن، صرف کچھ آسودہ دماغوں کی تفریح ہے اور در اصل فن کا روٹی کے ساتھ بہت گہرا نا قابلِ بیان گہرا تعلق ہے کیوں کہ آج میرا بھوکا تخیل بھی فرطِ نقاہت سے لنگڑانے لگا ہے۔ وہ آوازوں کی ڈور پکڑ کر گھسٹتا ہوا چند قدم چلتا ہے۔ امراؤ اور فصیح کی ایک دھندلی سی جھلک ذہن میں کوندے کی طرح لپکتی ہے اور پھر وہ لوگ ایک دشوار گزار پہاڑی خطے کو عبور کرتے ہوئے اچانک ایک گہرے کھڈ میں گر کر عدم آباد کی راہ لیتے ہیں اور نامعلوم ذرائع سے خبر امراؤ کی بیوی اور بچے تک پہنچتی ہے اور وہ رونا شروع کر دیتے ہیں اور تخیل دم توڑ دیتا ہے۔ یا اللہ یہ ناول میں کس طرح مکمل کروں۔

میری بیوی اپنی گریہ و زاری کو بے اثر جاتے دیکھ کر جھنجھلا جاتی ہے اور بچے کو گود میں لیے ہوئے کمرے میں آ کر میرے سامنے سے کاغذات سمیٹ کر ایک کونے میں پھینک دیتی ہے۔

’’ رحم نہیں آتا آپ کو اس ننھی سی جان پر!‘‘ وہ رندھی ہوئی آواز میں کہتی ہے۔

’’ آتا تو ہے۔ ‘‘ میں جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہوں۔ ’’ لیکن کیا کروں تم ہی بتاؤ کچھ۔ ‘‘

’’اس طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے کیا ہو جائے گا۔ ‘‘ وہ پلکیں جھپکا کر آنسوؤں کی بڑھتی ہوئی موجوں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔ ’’ میری بالیاں جو آپ پچھلے ماہ گروی رکھ آئے تھے، انھیں چھڑا کر بیچ دیجیے۔ کچھ تو مل ہی جائے گا۔ ‘‘

’’ پگلی۔ !‘‘ میں تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہوں۔ ’’ انھیں چھڑانے کے لیے پیسے چاہئیں۔ ‘‘

’’ کچھ تو سمجھ سے کام لیجیے۔ اسی مہاجن سے، جس نے بالیاں گروی رکھی ہیں، جا کر کہیے کہ آپ انھیں چھڑانا نہیں چاہتے، حساب کر کے جو روپیہ ہمارا نکلتا ہو ادا کر دے۔ ‘‘

مجھے تعجب ہو رہا ہے اس کے بھوکے ذہن نے اتنی کام کی بات کیسے سوچ نکالی۔ میں لپکتا ہوا مہاجن کی دکان پر پہنچتا ہوں اور طوطے کی طرح اپنی بیوی کے بول دہراتا ہوں۔

’’ ماسٹر صاحب! ہم خرید و فروخت کا کام نہیں کرتے صرف سو د بیاج کا کام کرتے ہیں۔ ‘‘ مہاجن جواب دیتا ہے۔ ’’ آپ چالیس روپے اور اس کا بیاج جو یہی کوئی تین چار روپے بنے گا، جمع کر کے بالیاں لے جائیے اور صرافے میں بیچ دیجیے۔ ‘‘

’’ لیکن سیٹھ صاحب میرے پاس تو ایک پائی بھی نہیں ہے۔ ‘‘ میں ڈھلکنے ہی والے آنسوؤں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں پی کر کہتا ہوں۔ ’’میرے گھر میں ۔۔ میرے گھر میں ۔۔ ‘‘میری آواز رندھ جاتی ہے۔

’’ اوہ۔ !‘‘ مہاجن کی آواز نرم پڑ جاتی ہے۔ ’’مجھے معلوم نہیں تھا آپ کی یہ حالت ہے۔ آپ یہ پانچ روپے یوں ہی لے جائیے۔ ‘‘

میرا ضمیر پھن کاڑھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور میری آنکھوں سے شعلے سے نکلنے لگتے ہیں۔ یہ دو ٹکے کا بنیا ہندوستان کے ایک مشہور ادیب کو خیرات دینے چلا ہے۔ ہونہہ۔ میں پیر پھٹپھٹاتے ہوئے گھر کی طرف لوٹ پڑتا ہوں۔

’’ ماسٹر صاحب ذرا سنیے!‘‘

’’ کیوں پریشان کرتے ہو بھائی کیا بات ہے۔ ‘‘میں رُک جاتا ہوں۔ میرا خیال تھا کہ احمد علی قمرؔ اپنی کوئی بے تکی سی غزل برائے اصلاح سنانا چاہتا ہو گا۔ لیکن وہ احمد علی نہیں پوسٹ مین تھا۔

’’ جی اس میں پریشان کرنے کی کیا بات ہے؟‘‘ وہ کچھ حیرانی کے ساتھ کہتا ہے ’’میں تو آپ کے نام ایک رجسٹری لے کر حاضر ہوا تھا۔ ‘‘

موذًن مرحبا بر وقت بولا۔ میں رجسٹری وصول کر کے جلدی سے کھول ڈالتا ہوں۔ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولس نے مجھے بے قصور قرار دیتے ہوئے ملازمت پر بحال کر دیا تھا۔ دل پر تسکین کی پھواریں سی پڑتی ہیں۔ میں صدیقی صاحب کے مکان کی طرف جانے کی سوچ رہا ہوں وہ اس آرڈر کو دیکھنے کے بعد یقینا کچھ اور روپے قرض دینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ پوسٹ مین پیچھے سے شانے پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔

’’کیا بات ہے، ماسٹر صاحب! اتنی جلدی کیوں ہے آج آپ کو؟‘‘

’’ بھئی مجھے کچھ روپے لینے ہیں صدیقی صاحب سے، جلدی نہ کی تووہ دفتر چلے جائیں گے۔ ‘‘

’’ روپے!‘‘ پوسٹ مین بڑی معنی خیز ہنسی ہنستا ہے۔ ’’ یہ اپنا منی آرڈر وصول کر لیجیے۔ ‘‘

بجلی سی چمک جاتی ہے نگاہوں کے سامنے۔ منی آرڈر، کس کا ہے، کیوں بھیجا ہے، ہاتھ غیر ارادی طور پر منی آرڈر فارم پر دستخط کرتے ہیں۔ تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں سے سو سو کے پانچ نوٹ گنتا ہوں اور دھندلی دھندلی آنکھوں سے رسید پر لکھی ہوئی تحریر کی طرف نظر ڈالتا ہوں، جانی پہچانی تحریر میں لکھا ہوا ہے۔

’’منظر بھائی کل ہی کان پور آیا ہوں۔ زوار صاحب کے یہاں آپ سے ملنے گیا تو معلوم ہوا کہ آپ لاڑکوئی میں ملازم ہیں اور آج کل معطل ہیں برسرِ تذکرہ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ آپ کافی پریشان ہیں اور آپ نے ان سے کچھ روپے قرض مانگے تھے جو انھوں نے نہیں بھیجے۔ پانچ سو روپیہ بذریعہ منی آرڈر بھیج رہا ہوں ادیبانہ شان کے ساتھ واپس نہ کر دینا۔ آپ کا آٹو میٹک کیمرہ جس کی قیمت چار سو روپیہ ہے اور ’پارکر‘ قلم جو آج کل بلیک مارکیٹ میں دو سو کا آتا ہے میرے پاس رہن میں پانچ سو مع سود وصول کر لوں گا اور یہ چیزیں پھر بھی آپ کو نہ دوں گانیپال میں فصیح آپ کو ہر قدم پر یاد کرتا ہے۔ امراؤ‘‘

میری بیوی دو دو اتنی عظیم خوشخبریاں سن کر بوکھلا سی جاتی ہے۔ میں کمرے کے کونے میں پڑے ہوئے کاغذات کو اٹھاتا ہوں۔ وہ مُڑ تُڑ گئے ہیں۔ شروع سے آخر تک پڑھتا ہوں واہ یہ تو میرا شاہ کار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ناول یقیناًً مکمل ہو گا۔ اس کے مرکزی کردار ابھی اپنی تمام تر انفرادیت کے ساتھ زندہ ہیں۔

میں کاغذات کو سنبھال کر ایک فائل میں رکھ دیتا ہوں اور امراؤکو طول طویل خط لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ میرے ذہن میں بجلیاں سی کوند رہی ہیں۔ مجھے اپنے گم کردہ کرداروں کو پا کر از حد خوشی ہو رہی ہے۔ میں اپنا ناول ضرور مکمل کروں گا۔

(۱۹۵۶ء)

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید