فہرست مضامین
- دن اور رات کے اذکار
- دن رات کے اذکار
- دن و رات کے اعمال کے متعلق اذکار کی فضیلت
- صبح و شام کے اذکار
- صبح و شام کے چند اذکار
- (۱۱۴)صبح و شام کے چند اذکار
- (۱۱۵)صبح و شام کے چند اذکار
- (۱۱۶)صبح و شام کے چند اذکار
- (۱۱۷)صبح کے چند اذکار
- (۱۱۸)صبح کے چند اذکار
- (۱۱۹)صبح کے چند اذکار
- (۱۲۰)صبح کے وقت کی فضیلت اور برکت کا بیان
- (۱۲۱) سونے کے وقت اذکار
- (۱۲۲)سوتے وقت کے چند اذکار
- (۱۲۳)سورۃالبقرہ کی آخری دو آیات کو ہر رات پڑھنے کی فضیلت کا بیان
- (۱۲۴)سوتے وقت کے چند اذکار
- (۱۲۵)سوتے وقت کے چند اذکار کا بیان
- سوتے وقت کے چند اذکار
- اللَّھُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ، وَرَبَّ الأَرْضِ، وَرَبَّ العَرْشِ العَظِیمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْءٍ، فَالِقَ الحَبِّ وَالنَّوَى، وَمُنْزِلَ التَّوْرِاۃوَالإِنْجِیلِ وَالفُرْقَانِ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ دَابَّۃأَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا، اللَّھُمَّ أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ البَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْءٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ، وَأَغْنِنَا مِنَ الفَقْر۔
- شرح
- سوتے وقت کے چند اذکار
- نیند سے بیداری کے وقت کے اذکار
- نیند سے بیدار ہوتے وقت کے چند اذکار
- نیند میں ڈر و پریشانی ہو تو کیا کہنا چاہیئے
دن اور رات کے اذکار
(فقہ الأدعیۃوالأذکار کا ایک حصہ)
عبدالرزاق البدر
دن رات کے اذکار
فضل الأذکار المتعلقۃبعمل الیوم واللیلۃ
بلاشبہ ان موضوع جلیلہ سے اور اہم امور میں سے جن (کو بیان کرنے ) کی ہر مسلمان کو ضرورت رہتی ہے، وہ ہے جو اس کے اس عمل سے متعلق ہے جو عمل اس کے دن و رات میں ہوتا ہے۔ اس کے اٹھنے بیٹھنے میں اور حرکت و سکون میں داخل ہونے اور نکلنے میں اور دیگر تمام حالات میں۔ تاکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرے اور ایسے عمل میں لگائے جو رب تعالیٰ کی رضامندی کا باعث ہو۔ اس طرح وہ ان سارے اوقات میں رب ذوالجلال کا ذکر کرنے والا اور اس اکے لیے سے اعانت طلب کرنے والا اور اپنے تمام امور کو اسی کے سپرد کرنے والا بن جائے۔
دن و رات کے اعمال کے متعلق اذکار کی فضیلت
اور صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ:) أن النبی صلی اللہ علیہ و سلم کان یذکر ربَّہ فی کلِّ أحیانہ۔ [1]
"یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر وقت اپنے رب تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر کو ترک نہیں کرتے تھے۔ رات و دن میں، صبح و شام میں، سفرو حضر میں، اٹھنے اور بیٹھنے میں اور اپنے سارے حالات کے اندر اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں چھوڑتے تھے۔ کوئی سا بھی عمل شروع کرتے، سونا، اٹھنا، داخل ہونا، سوار ہونا، اترنا وغیرہ تو ضرور بضرور اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اس سے دعا کے ساتھ شروع کرتے۔
اور جو شخص سنت نبوی اور طریقۂ نبوی کو غور سے دیکھے گا تو اسے پتہ چلے گا کہ صبح و شام اورسونے اور اٹھنے کے اذکار ہیں۔ اور نماز کے اندر اور اس کے بعد کے اذکار ہیں ، کھانے پینے کے اذکار ہیں، جانور پر سوار ہونے اور سفر اختیار کرنے کے اذکار ہیں، تو پریشانی، غم و دکھ کو دور کرنے کے بھی اذکار ہیں اور وہ اذکار بھی ہیں جو مسلمان کو کسی پسندیدہ و ناپسندیدہ چیز کو دیکھ کر کہنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ دیگر اذکار ہیں جو مسلمان کے رات و دن سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور ان عظیم اذکار اور ان کی انواع کے اندر اپنی مناسبت( معنوی) کے حساب سے ایمان کی تجدید، تعلق باللہ کی تقویت، رب تعالیٰ کی برابر و متواتر نعمتوں کا اعتراف، اور اس کی مہربانی، انعام اور جود و احسان کا شکر ہے۔ اور ان اذکار کے اندر فقط اکے لیے اللہ کی طرف لوٹنے کی دعوت ہے اور اس پر اعتماد و بھروسہ کرنے کی بات ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اکے لیے کی پناہ طلب کی جائے شیطان کے طعن وفساد سے، نفس اور شریر مخلوق کے شر اور ہر عذاب، آزمائش اور مصیبت سے۔
اور ان اذکار کے اندر اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار و اثبات ہے۔ اور اس کے ساتھ شرک سے برأت و خلاصی ہے۔
لہٰذا جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت دعاؤں کو پڑھنے اور ادا کرنے کا خاص اہتمام کرتا ہے وہ ہی اس بات کا اعتراف کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے، جو کہ مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے، کھلاتا اور پلاتا ہے، محتاج کرتا ہے اور بے نیاز کرتا ہے، لباس پہناتا ہے اور گمراہ کرتا ہے اور ہدایت سے بہرہ ور فرماتا ہے، اور وہ ہی اکیلا عبادت اور بندگی کا مستحق ہے اور اسی کے لئے جھکا جائے اور فرمان برداری کی جائے اور ہر قسم کی عبادت اسی کے لئے کی جائے۔
بہرحال ذکر الٰہی وہ چیز ہے کہ جس کے بارے میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:” یہ وہ درخت ہے جو معرفتوں اور ان احوال کا پھل دیتا ہے کہ جن کی طرف سالکین یعنی چلنے والے کمر باندھتے ہیں۔ اور ان معارف و احوال کو ذکر الٰہی کے بغیر نہیں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور جب بھی یہ درخت بڑا ہو گا اور اس کی جڑ مضبوط ہو گی تو اس کا پھل مزید بڑھے گا۔ لہٰذا ذکر الٰہی ہر مقام کا ثمرہ دیتا ہے۔ مثلاً توحید کی بیداری جو کہ ہر مقام کی جڑ ہے، اور اس کی بنیاد ہے جس پر وہ مقام کھڑا کیا جاتا ہے۔ جس طرح دیوار اپنی بنیاد پر کھڑی کی جاتی ہے اور چھت دیواروں پر کھڑی کی جاتی ہے۔
اور مزید یہ کہ یہ اذکار بہترین اور درست مطالب اور بلند مقاصد پر مشتمل ہیں، اور ان کے اندر خیر، نفع، برکت اور اچھے فوائد اور عظیم نتائج سموئے ہوئے ہیں کہ نہ تو کسی انسان کے لئے ان کا احاطہ کرنا ممکن ہے اور نہ زبان کے لئے ان کو بیان کرنا ممکن ہے۔
اس لئے مومن کے لئے یہی لائق ہے کہ وہ ان اذکار کی زبردست محافظت کرے، اور دن و رات کے اندر ہر ذکر کو اس کے مناسب وقت میں ادا کرے۔ جس طرح سنت کے اندر وارد ہوا ہے۔ تاکہ اسے وہ عظیم فضائل اور معانی حاصل ہوں، اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہو جن کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر تعریف کی ہے :
ترجمہ:”یعنی وہ لوگ جو اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور جو عورتیں (اللہ کو)یاد کرتی ہیں، ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر کے رکھا ہے "۔ الأحزاب
اس آیت کی تفسیر میں جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:”المراد یذکرون اللہ فی أدبار الصلوات، وغدوا، وعشیا، وفی المضاجع، وکلما استیقظ من نومہ وکلما غدا راح من منزلہ ذکر اللہ تعالیٰ"۔
یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں، اور صبح و شام اور بستروں پر اور جب بھی نیند سے بیدار ہوتے ہیں، اور جب بھی صبح و شام کو اپنے گھر سے نکلتے ہیں۔
اور مجاہد سے مروی ہے کہ: "کوئی بھی شخص اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرنے والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کرتا”۔
شیخ ابو عمرو بن الصلاح رحمہ اللہ سے اس مقدار کے متعلق پوچھا گیا کہ جس سے مسلمان اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرنے والوں میں سے ہو سکتا ہے ؟ تو کہا:” جب وہ صبح و شام کے وقت، اور دن و رات کے دیگر اوقات و احوال کے اندر صحیح ثابت اذکار کو ادا کرنے میں مداومت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرنے والوں میں سے ہو سکتا ہے۔
اس عظیم موضوع کی طرف علماء کرام نے خاص دھیان دیا ہے، اور اس کے بارے میں بہت سی تالیفات لکھی ہیں۔ اور تفصیل کے ساتھ کتابیں لکھی ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہا نفع پہنچایا ہے۔ مثلاً امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی کی کتاب” عمل الیوم والیلۃ” اور اسی نام سے ان کے شاگرد امام ابو بکر احمد بن محمد بن اسحاق المعروف ابن السنی کی کتاب، اور امام بیہقی کی "کتاب الدعاء الکبیر” امام ابو زکریا النووی کی” کتاب الأذکار” اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی” الکلم الطیب” اور ان کے شاگرد امام ابن القیم کی ” الوابل الصیب” اور امام عبدالعزیز بن باز کی” کتاب الاخیار” وغیرہ۔
اور ان کی اس موضوع پر کتابیں باہم متفاوت ہیں ان میں سے کسی نے احادیث کو باسند ذکر کیا ہے، تو کسی نے حذف کیا ہے۔ کسی نے طوالت سے کام لیا ہے، تو کسی نے اختصار یا توسط اور تہذیب سے کام لیا ہے۔
اور یہ بات معلوم ہے کہ مسلمان کے دن و رات کے یہ اذکار کتنے مسلمانوں کے ہاں بڑے اہتمام کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں ؟ لیکن ان میں سے بہت سے لوگ صحیح و ضعیف میں امتیاز نہیں کرتے، اور نہ ان عظیم اذکار کے معانی اور مقاصد جلیلہ کو سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ان کے بڑے نفع اور تاثیر سے محروم رہتے ہیں۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "وأفضل الذکر وأنفعہ ما واطأ القلب اللسان، وکان من الأذکار النبویۃوشہد الذاکر معانیہ ومقاصد ہ"یعنی زیادہ افضل اور نفع والا ذکر وہ ہے جس میں قلب اور لسان کے درمیان موافقت ہو اور وہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہو، اور ذکر کرنے والا اس کے معانی و مقاصد کو سمجھتا ہو۔
میں ابھی ان شاء اللہ ان اذکار میں سے جو کہ مسلمان کے دن و رات کے اعمال کے متعلق ہیں چند بابرکت اذکار ذکر کروں گا۔ اور ساتھ ساتھ ان کے اندر جو عظیم حکمتیں، دلالتیں اور معانی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی مدد، توفیق اور درستی و راستی چاہتے ہوئے بیان کروں گا۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اور آپ کو ہر اس خیر کی توفیق عطا فرمائے جس کو وہ پسند کرتا ہے۔
صبح و شام کے اذکار
بلا شک صبح و شام کے اذکار ان مقرر اذکار و دعاؤں میں سے ہیں ، جن کو شریعت نے دن و رات میں مسلمان پر مقرر کئے ہیں۔ بلکہ صبح و شام کے اذکار مقید اذکار میں سے سب سے زیادہ وسعت و کثرت والے ہیں، اور ان کی قرآن و سنت کے اندر بہت زیادہ ترغیب وارد ہوئی ہے اور ان اذکار کی کئی انواع ذکر ہوئی ہیں۔
فرمان الٰہی ہے : الأحزاب
یہاں "أصیل”سے مراد عصر سے لے کر غروب آفتاب تک کا وقت ہے۔
اور فرمان الٰہی ہے : غافر
یہاں "الإبکار”سے مراد دن کی ابتداء اور "العشی”سے مراد دن کا منتھیٰ اور خاتمہ ہے۔
اور فرمان الٰہی ہے : ق
یعنی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے قبل اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کر۔
اور فرمایا: الروم
یعنی اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو، جب شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو۔
اور ان اذکار کے ادا کرنے کا وقت صبح سویرے فجر نماز کے فوراً بعد سے لے کر طلوع آفتاب تک، اور شام کو عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب سے قبل تک ہے۔ لیکن اس مسئلہ میں کشادگی ہے ( ان شاء اللہ)۔ اور اگر انسان ان اذکار کو اپنے وقت میں ادا کرنا بھول جائے یا کوئی عارضہ لا حق ہو جائے تو کوئی حرج نہیں کہ صبح کے اذکار طلوع آفتاب کے بعد اور شام کے اذکار غروب آفتاب کے بعد ادا کرے۔
اور ان دونوں اوقات کے اندر کہے جانے والے مشروع و ما ثور اذکار و دعائیں بہت ہیں۔ اور ان کی کئی انواع ہیں۔ اور ابھی ان اذکار و ادعیہ سے چند بیان ہوں گی، ان شاء اللہ۔ اور ساتھ ساتھ ان کے عظیم معانی اور صحیح صحیح دلالت بھی بیان کی جائیں گی۔
(۱) ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ نے جناب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” جو بھی شخص روزانہ صبح و شام کو یہ( دعاء) تین مرتبہ پڑھتا ہے :”بِسْمِ اللہِ الَّذِی لاَ یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْءٌ فِی الأَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَاءِ وَہُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، لَمْ یَضُرَّہُ شَیْءٌ"۔ تواسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی”۔ [2]
یہ وہ عظیم ذکر ہے کہ مسلمان کو روزانہ صبح و شام اس پر محافظت کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ اللہ کے اذن سے اس ذکر کی وجہ سے محفوظ رہے ،یعنی اچانک کی ابتلاء و آزمائش یا مصیبت کے ضرر سے یا اسی طرح دوسری اشیاءسے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں :”یہ حدیث صحیح اور سچی ہے، اس کو ہم نے دلیل و تجربہ سے بھی معلوم کیا ہے۔ کیوں کہ جب سے میں نے یہ فرمان نبوی سنا ہے اس پر عمل کیا اور مجھے کسی چیز نے نقصان نہیں دیا۔ یہاں تک کہ(ایک دفعہ) اس کو پڑھنا چھوڑ دیا تو مدینہ منورہ کے اندر رات کو ایک بچھو نے مجھے ڈس لیا۔ پھر میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ میں اس رات کو یہ دعاء پڑھنا بھول گیا تھا۔[3]
اور سنن ترمذی میں ابان بن عفان (جو کہ اس حدیث کو عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ) سے مروی ہے کہ اس کو ایک طرف فالج ہو گیا۔ تو ایک شخص اس کو دیکھنے لگا۔ ابان کہنے لگا، کیا دیکھتے ہو؟ حدیث تو ویسے ہی ہے جیسے میں نے تجھے سنائی ہے (یعنی حق ہے )۔ لیکن میں نے اس دن( جب مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تھا) اس دعاء کو نہیں پڑھا تھا۔ تاکہ رب تعالیٰ میرے اوپر اپنی تقدیر کو جاری کر دے۔
اور اس دعا کو صبح و شام تین مرتبہ کہنا مسنون ہے۔ اور اس دعاء میں بسم اللہ کا معنی ہے "بسم اللہ استعیذ”یعنی اللہ کے نام سے پناہ لیتا ہوں۔ اور جو بھی بسم اللہ کہے گا وہ اپنے حال کی مناسبت سے ایک فعل مقدر کرے گا۔ کھانے والا "آکل”مقدر کرے گا۔ یعنی” اللہ کے نام سے کھاتا ہوں "۔ ذبح کرنے والا”أذبح”مقدر کرے گا، یعنی”اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں "، اور لکھنے والا”أکتب”مقدر کرے گا، یعنی” اللہ کے نام سے لکھتا ہوں "۔
اور فرمان نبوی "الَّذِی لاَ یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْءٌ فِی الأَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَاءِ"کا مطلب ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے نام سے پناہ چاہے گا تو اس کو نہ زمین کی طرف سے مصیبت آئے گی، اور نہ آسمان کی طرف سے۔
اور فرمان نبوی”وَہُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ"کا معنی ہے ” بندوں کی باتیں سننے والا اور ان کے افعال کو جاننے والا ہے، کہ کوئی چیز نہ زمین کے اندر اور نہ آسمان میں اس سے مخفی ہے "۔
(۲) صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ( ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم گذشتہ رات کو مجھے بچھو کے کاٹنے سے بڑی تکلیف ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :اگر تو شام کے وقت”أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"یعنی”میں اللہ تعالیٰ کے ذی کمال کلمات کے واسطے سے ساری مخلوق کے شر سے پناہ چاہتا ہوں ” کہتا تو تجھے بچھو نقصان نہ پہنچاتا۔[4]
اور سنن ترمذی کی روایت میں ہے :” کہ جو شخص شام کو تین مرتبہ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ کہے گا، تو اسے کوئی بھی زہریلی چیز نقصان نہیں دے گی”[5]
امام ترمذی نے اس حدیث کے بعد اس کے ایک راوی سہیل بن ابی صالح سے روایت کیا ہے کہ، ہمارے گھر والوں نے یہ دعاء سیکھ لی تھی۔ پھر ہر رات یہ دعاء پڑھتے تھے، ایک دفعہ ایک باندی کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا، لیکن اسے کوئی دردو تکلیف نہیں ہوئی۔
اس حدیث کے اندر اس دعاء کی فضیلت بیان ہوئی ہے، اور جو شخص بھی یہ دعاء شام کے وقت پڑھے گا، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے سانپ بچھو وغیرہ کے کاٹنے سے محفوظ رہے گا۔ حدیث کے اندر لفظ”أَعُوذُ”کا معنی ہے "میں پناہ چاہتا ہوں "۔ اور استعاذہ پناہ طلب کرنے اور بچاؤ اور سہارا اختیار کرنے کو کہتے ہیں ۔ اس کا حقیقی معنی” ایسی چیز سے جس سے تم ڈرتے ہو، بھاگ کر اس چیز کی طرف جانا ہے، جو تمہیں اس سے بچائے اور اس کے شر و نقصان سے محفوظ رکھے”۔
اور اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہنے والا اس چیز سے بھاگتا ہے جو اسے تکلیف دیتی ہے، یا ہلاک کرتی ہے۔ اور اپنے رب اور مالک کی طرف آتا ہے، اور اس کی طرف بھاگ کر آتا ہے اور خود کو اس کے سامنے پھینک دیتا ہے۔ اور اس سے بچاؤ چاہتا ہے، اور اس سے پناہ چاہتا ہے۔
اور”بِکَلِمَاتِ اللہِ"یعنی”اللہ تعالیٰ کے کلمات” سے کیا مراد ہے ؟، بعض نے کہا یہ قرآن مجید ہے۔ بعض نے کہا اس سے اللہ کے کلمات کونیہ قدریہ مراد ہیں (یعنی وہ کلمہ”کن”جن کے ذریعے وہ کائنات کو پیدا کرتا ہے )۔
اور”التَّامَّاتِ"سے مراد ایسے کامل کلمات ہیں کہ جن کے اندر کوئی بھی نقص و عیب نہ ہو۔ جس طرح انسان کے کلام میں ہوتا ہے۔
اور فرمان نبوی”مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"سے ہر شر مراد ہے۔ جو کسی بھی ایسی مخلوق میں ہو جس کے اندر شر ہوتا ہے۔ حیوان ہو یا کسی اور چیز مثلاً انسان، جن، جانور، آندھی، تیز کڑاکا یا دنیا و آخرت کے عذاب و مصیبت میں سے کوئی بھی چیز۔ [6]
(۳) سنن ابی داؤد و ترمذی میں عبداللہ بن خبیب سے روایت ہے :” کہ ہم لوگ ایک بارش اور شدید اندھیرے والی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تلاش کرنے کو نکلے۔ تاکہ ہمیں نماز پڑھائیں، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا”کہو” لیکن میں نے کچھ نہ کہا۔ پھر فرمایا” کہو” لیکن میں نے کچھ نہ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا "کہو”میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول میں کیا کہوں ؟ فرمایا کہو: اور معوذتین(یعنی سورۃالفلق اور سورۃالناس) تین مرتبہ۔ ہر صبح و شام کو۔ تو یہ سورتیں تیرے لئے ہر چیز کے شر سے کافی ہوں گی۔ [7]
اس حدیث میں ان تینوں سورتوں کو صبح و شام تین مرتبہ پڑھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اور جو بھی شخص ان سورتوں پر محافظت کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مذکورہ سورتیں اس کے لئے ہر چیز سے کافی ہوں گی۔ یعنی اس سے شر اور آفات کو دور کریں گی۔ اور اللہ تعالیٰ اکے لیے سے ہی توفیق ملتی ہے، کہ جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
صبح و شام کے چند اذکار
صبح و شام کے ان عظیم اذکار اور بابرکت دعاؤں میں سے کہ جن کی صبح و شام محافظت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ وہ بھی ہے جو کہ صحیح بخاری کے اندر شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:”سَیِّدُ الاسْتِغَفَارِ” یعنی استغفار کا سردار یہ ہے : اللَّھُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ إِلَہَ إِلآَ أَنْتَ، خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ، وَأَنَا عَلَى عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ، وَأَبُوءُ لَکَ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی، فَإِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلآَ أَنْتَ۔
ترجمہ:”یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا فرمایا، اور میں تیرا ہی بندہ ہوں۔ اور میں حسب طاقت و استطاعت تیرے ساتھ کئے گئے عہدو وعدہ پر قائم ہوں، اپنے اعمال کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، میں تیری ان نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوں جو تو نے میرے اوپر کی ہیں ۔ اور میرے گناہوں کا بھی تیرے سامنے اعتراف کرتا ہوں، سو میرے گناہ بخش دے، بلا شک تیرے سوا گناہ بخشنے والا کوئی بھی نہیں ہے”۔
یہ عظیم دعاء ہے، اور توبہ اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھکنے اور اس کی طرف لوٹنے کے معانی کو جمع کرنے والی ہے۔ اس دعاء کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے استغفار کا سردار گردانا ہے۔ کیوں کہ یہ فضیلت کے اندر استغفار کے تمام الفاظ و صیغوں سے بلند ہے۔ اور رتبہ میں اعلیٰ ہے۔ اور "سَیِّد” وہ شخص ہے جو کہ اچھائی کے اندر اپنی قوم میں بہتر ہو، اور ان کے اندر بلند مقام پر فائز ہو، اور استغفار کے جو صیغے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہیں ، ان سے اس دعاء کے افضل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دعاء کے اندر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء سے ابتداء کی ہے۔ اور پھر اعتراف کیا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ، مربوب(پرورش کردہ) اور مخلوق ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اکیلا معبود حق ہے۔ اور اس کے علاوہ کوئی معبود حق نہیں ہے۔ اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے گئے وعدہ پر قائم ہے، اور اس پر اور اس کی کتابوں اور سارے انبیاء و رسل پر ایمان لانے کے عہد پر بھی اپنی حسب طاقت و استطاعت ثابت ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی ہے اپنے ہر فعل سے۔ یعنی جو انعام الٰہی کا شکر ادا کرنا اور گناہوں سے بچنا واجب ہے اس میں کوتاہی سے، پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی لگاتار نعمتوں اور متواتر احسان کا اقرار فرمایا ہے۔ اور بندہ سے جو گناہ ہوتے ہیں اس کا اعتراف کیا ہے۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ان سارے گناہوں اور کوتاہیوں کی بخشش چاہی ہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اس کے سوا کوئی بھی گناہ بخشنے والا نہیں ہے۔
اور یہ دعاء کا کامل ادب ہے۔ اس لئے ہی یہ استغفار کے عظیم صیغوں میں سے اور افضل ترین اور گناہوں کی مغفرت کو واجب کرنے والی معانی کو سب سے زیادہ جمع کرنے والے صیغوں میں سے ہے۔
اس دعاء کے اندر لفظ”اللَّھم”کا معنی یا اللہ کا ہے۔ اس کی ابتداء میں صرف نداء (یا) حذف کیا گیا ہے، اور اس کے آخر میں میم مشدد لایا گیا ہے۔ اس لئے دونوں کو( یعنی حذف ندا و یا اور میم متشدد کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ عِوَض اور معوض عنہ کو جمع نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ کلمہ طلب و درخواست کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اور” اللہم غفور رحیم”نہیں کہا جا سکتا، بلکہ” اللہم اغفرلی وارحمنی”وغیرہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
اور فرمان نبوی”أَنْتَ رَبِّی لاَ إِلَہَ إِلآَ أَنْتَ، خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ” کے اندر اللہ تعالیٰ کے سامنے تذلل، عاجزی و انکساری کا اظہار ہے۔ اور اس کی ربوبیت و الوہیت کے اندر وحدانیت کا اقرار ہے۔
اور”أَنْتَ رَبِّی"کا معنی ہے ” تو ہی میرا رب ہے ” اور تیرے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے۔ اور رب کا معنی ہے مالک، خالق، رازق اور اپنی مخلوق کے مسائل کی تدبیر کرنے والا۔ اور یہ اس کی ربوبیت کا اقرار ہے۔ اس لئے کہ اس کے بعد” خَلَقْتَنِی”یعنی”تو نے ہی مجھے پیدا فرمایا ہے ” کا لفظ لائے ہیں۔ یعنی تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور تیرے سوا کوئی خالق نہیں ہے۔
اور”لاَ إِلَہَ إِلآَ أَنْتَ” کا معنی ہے ” تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں "ہے۔ اور تو اکیلا عبادت کا مستحق ہے۔ اور یہ توحید الوہیت کا اثبات ہے۔ اسی لئے اس کے بعد”وَأَنَا عَبْدُکَ”کا صیغہ لائے ہیں ۔ یعنی میں تیری ہی عبادت کرنے والا ہوں، میری عبادت کا تو اکیلا ہی مستحق ہے۔ اور تیرے سوا کوئی بھی میری عبادت کا مستحق نہیں ہے۔
اور لفظ”وَأَنَا عَلَى عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ"کا معنی ہے کہ” میں نے جو تیرے ساتھ تیرے اوپر ایمان لانے، تیری اطاعت اور فرماں برداری کا عہدو و عدہ کیا ہے اس پر قائم ہوں "۔
اور”مَا اسْتَطَعْتُ”کا معنی ہے ” بقدر استطاعت ” کیوں کہ رب تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑ کر تکلیف نہیں دیتا۔
اور فرمان نبوی” أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ"کا مطلب ہے ” یا اللہ میں تیرے ہاں پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے ہی بچاؤ چاہتا ہوں "، یعنی اس عمل کے شر سے جو میں نے کیا ہے۔
اس کی بری عاقبت سے، رب تعالیٰ سزا واجب ہونے سے، عدم مغفرت سے، اور دوبارہ ایسے برے اعمال کرنے سے، اور گناہوں اور بری خصلتوں سے۔
اور”أَبُوءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ"کا معنی ہے ” میں تیری بڑی نعمتوں کا اور متواتر فضل و احسان کا اعتراف کرتا ہوں۔ اس کے اندر باری تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اس کی نا شکری سے برأت ظاہر کرنے کی دعوت ہے۔
اور”وَأَبُوءُ لَکَ بِذَنْبِی"کا معنی ہے ” میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں "۔ یعنی واجب کی ادائگی کے اندر کوتاہی، حرام کاری، اور دیگر گناہوں کا، اور گناہوں اور کوتاہیوں کا اعتراف ہی توبہ اور رجوع الی اللہ کا راستہ ہے۔ اور جو شخص اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
"فَاغْفِرْ لِی"یعنی”اے اللہ سارے گناہ بخش دے "۔ کیوں کہ تیری رحمت بہت کشادہ ہے۔ اور تیرا در گذر بڑا عزت رساں ہے۔ اور تیری بخشش کے سامنے کوئی گناہ بڑا نہیں ہے۔ تو بخشش کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اور تیرے سوا کوئی بھی گناہ بخشنے والا نہیں ہے۔ فرمان الٰہی ہے آل عمران: ۱۳۵ یعنی "وہ لوگ جو جب بھی برائی کرتے ہیں یا خود پر ظلم کرتے ہیں تو اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سواکون ہے گناہوں کو بخشنے والا؟”۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر میں اس شخص لئے اجرو ثواب بیان فرمایا ہے جو صبح و شام اس دعاء کو ہمیشگی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ یعنی فرمایا” جو شخص ان کلمات کو صبح کے وقت (ان پر یقین کرتے ہوئے یعنی ان کی تصدیق کرتے ہوئے اور اعتقاد رکھتے ہوئے کہے گا، کیوں کہ یہ کلمات اس ذات کے کلام سے جاری ہوئے ہیں جو کہ محض خواہش سے نہیں بولتا بلکہ اس کی طرف وحی کی جاتی ہے ‘‘صلی اللہ علیہ و سلم ’’)ادا کرے گا۔ اور شام سے قبل فوت ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔ اور اسی طرح جو شخص شام کو یہ دعاء پڑھے اور صبح سے قبل فوت ہو جائے تو جنت میں داخل ہو گا۔
اور اس دعاء کی محافظت کرنے والا وعدہ اور عظیم اجر کو حاصل کرے گا۔ کیوں کہ دن کی ابتداء اور انتہاء رب تعالیٰ کی توحید و ربوبیت و الوہیت سے اور بندگی اور احسان باری تعالیٰ کے اعتراف سے کرتا ہے۔ اور نعمت الٰہی اور خود کے عیوب و تقصیر کے اعتراف سے کرتا ہے۔ اور ابتداء و انتہاء میں غفار سے عفو و مغفرت طلب کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تذلل و عاجزی و انکساری کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اور یہ وہ جلیل القدر معانی اور پیاری صفات ہیں کہ جن سے دن و رات کی ابتداء و انتہاء کی جائے۔
اس لئے اس دعا کو ادا کرنے والا معافی، مغفرت، جہنم سے آزادی اور جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہے۔ رب تعالیٰ سے اس کا فضل چاہتے ہیں۔
(۱۱۴)صبح و شام کے چند اذکار
صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شام کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :”أَمْسَیْنَا وَأَمْسَى المُلْکُ للہِ، وَالحَمْدُ للہِ، لاَ إِلَہَ إِلآَ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، لَہُ المُلْکُ وَلَہُ الحَمْدُ وَہُوَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، رَبِّ أَسْأَلُکَ خَیْرَ مَا فِی ہَذِہِ اللَّیْلَۃوَخَیْرَ مَا بَعْدَہَا، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِی ہَذِہِ اللَّیْلَۃوَشَرِّ مَا بَعْدَہَا، رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنَ الکَسَلِ وَسُوءِ الکِبَرِ، رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ، وَعَذَابٍ فِی القَبْرِ"۔
یعنی: ہم نے اور ساری بادشاہی نے اللہ تعالیٰ کے لئے شام کی، اور ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے وہ اکیلا ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اے میرے رب میں اس رات کی بھلائی اور جو اس کے بعد ہے اس کی بھلائی کا تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ اور جو اس رات کے اندر اور اس کے بعد میں جو شر ہے اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میرے رب میں تجھ سے سستی اور برے بڑھاپے سے پناہ چاہتا ہوں۔ اور صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم "أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ المُلْکُ للہِ"کہتے تھے۔[8]
یہ بڑی نافع دعاء اور عظیم و بابرکت ذکر ہے۔ ہر مسلمان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اس پر ہمیشہ عمل کرنا چاہییے۔
– اس دعاء کی مشکل عبارات کی تشریح پیش نظر ہے۔
"أَمْسَیْنَا وَأَمْسَى المُلْکُ للہ"یعنی "ہم شام میں داخل ہوئے اور بادشاہی بھی شام کے اندر داخل ہوئی۔ اور یہ سب کچھ فقط اللہ تعالیٰ کا ہے "۔ اور یہ قائل کے حال کا بیان ہے۔ یعنی وہ کہتا ہے کہ” ہم نے جان لیا اور اقرار کرتے ہیں کہ(اس کائنات کی) ساری بادشاہی اللہ کیسہے۔ اور ساری تعریف اللہ کے لئے ہے اور کسی کے لئے نہیں ہے۔
اور عبادت اور ثناء و شکر خاص اسی کا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کے بعد فرمایا لاَ إِلَہَ إِلآَ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ یعنی ” اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ اور ہمیں ملاحظہ کرنا چاہیئے کہ کلمۂ توحید لاَ إِلَہَ إِلآَ اللہُ دو ارکان پر مشتمل ہے، اور توحید کے اثبات کے لئے ان دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ دونوں ارکان نفی اور اثبات ہیں۔ جمیع معبودات کی نفی ہے اور لاَ إِلَہَ إِلآَ اللہُ میں بندگی کو محض اللہ کے لئے ثابت کیا گیا ہے۔ اس مسئلہ کی عظمت و جلالت کے پیش نظر اس کی تاکید فرمائی یعنی "وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ”سے "وحدہ”وہ اکیلا ہے۔ اس میں اثبات کی تاکید ہے اور "لاَ شَرِیکَ لَہُ”(اس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے ) میں نفی کی تاکید ہے۔ اور تاکید بعد از تاکید، توحید کے مقام اور علو شان کی وجہ سے لائی گئی ہے۔
اور جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا، تو اس کے بعد اس بات کا بھی اقرار کیا کہ کائنات کی بادشاہی، ہر تعریف اور ہر چیز پر قدرت فقط اللہ کے لئے ہے۔ اور فرمایا: لَہُ المُلْکُ وَلَہُ الحَمْدُ وَہُوَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، یعنی، بادشاہی ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اور اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملک ہے۔ اور حمد فقط اسی کا حق ہے۔ اور وہ پاک ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اور کوئی بھی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔
فرمان الٰہی ہے :
ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ کو نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں کوئی چیز عاجز کر سکتی ہے، بے شک وہ بہت جاننے والا اور بہت قدرت ولا ا ہے۔ فاطر
اور دعاء میں پہلے یہ جملہ لانے کا عظیم فائدہ ہے۔ کیوں کہ یہ دعاء کے اندر مبالغہ اور قبولیت کے لئے زیادہ امید کا باعث ہے۔ اس کے بعد اپنے مسئلہ اور حاجت کا ذکر کیا ہے۔ اور فرمایا رَبِّ أَسْأَلُکَ خَیْرَ مَا فِی ہَذِہِ اللَّیْلَۃوَخَیْرَ مَا بَعْدَہَا۔ یعنی اس خیر کا سوال کرتا ہوں جس کا تو نے صالحین کے لئے اس رات کے اندر ارادہ کیا ہے۔ یعنی ظاہری و باطنی کمالات اور دینی و دنیوی منافع کا سوال۔
اور وَخَیْرَ مَا بَعْدَہَا کا معنی ہے بعد کی راتوں کا خیر۔
اور وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِی ہَذِہِ اللَّیْلَۃوَشَرِّ مَا بَعْدَہَا، یعنی اس رات کے اندر اور اس کے بعد تو نے جو ظاہری و باطنی شر کا ارادہ کیا ہے۔ اس سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔
"رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنَ الکَسَلِ وَسُوءِ الکِبَرِ"، الکَسَلِ سے مراد نفس کا باوجود قدرت کے خیر و نیکی کے لئے تیار نہ ہونا ہے۔ اور ایسا شخص معذور نہیں ہے۔ بخلاف اس شخص کے جو کہ بے بس ہے۔ وہ معذور ہے۔ کیوں کہ عدم قدرت کی وجہ سے معذور ہے۔ اور ” وَسُوءِ الکِبَرِ”سے مراد بڑھاپے کے اندر عقل کا ختم ہونا وغیرہ ہے۔ جس سے انسان کا برا حال ہو جاتا ہے۔
رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ، وَعَذَابٍ فِی القَبْرِ یعنی "اے میرے رب میں جہنم و قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں "۔ قیامت کے عذابوں میں سے ان دو کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا ہے کہ ان کا عذاب بہت ہی شدید و عظیم ہے۔ اور قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ جو اس کے اندر بچ گیا وہ آگے بھی بچ جائے گا، اور جہنم کا درد زبردست ہے، اور عذاب شدید ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اس سے پناہ میں رکھے۔
اور صبح کے وقت”أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ المُلْکُ للہِ"کہے اور باقی آخر تک وہی دعاء ہے۔
(۶) ابن سنی نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” جو شخص روزانہ صبح و شام سات مرتبہ یہ دعاء پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا و آخرت کی پریشانی سے کافی ہو گا: حسبی اللہ لا إلہ إلآَ ہو علیہ توکّلت وہو ربُّ العرش العظیم۔ ترجمہ:”میرے لئے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ اسی پر میں نے توکل کیا ہے۔ اور وہ عرش عظیم کا رب ہے "۔
یہ ذکر مسلمان کے لئے دنیا و آخرت کی ہر پریشانی کو دفع کرنے کا اثر اور عظیم نفع رکھتا ہے۔ اور حسبی اللہ کا معنی ہے اللہ تعالیٰ میرے لئے کافی ہے۔
(۷) صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص صبح شام ایک سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہے گا، تو قیامت کے دن اس سے افضل کوئی بھی شخص نیکی نہیں لائے گا۔ مگر وہ شخص جس نے اس کی طرح یہ ذکر کہا ہو گا یا اس سے مزید کہا ہو گا۔ [9]
اس ذکر عظیم میں تسبیح اور حمد کو جمع کیا گیا ہے۔ تسبیح کا معنی اللہ تعالیٰ کو نقائص اور عیوب سے منزہ اور پاک بیان کرنا ہے۔ اور حمد کے اندر اللہ سبحانہ کے لئے کمال کا اثبات ہے۔ اور ایک سو کی تعیین کے اندر بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کوئی حکمت چاہی ہو گی جس کا ہمیں علم نہیں ہے۔
اور سنت طریقہ یہ ہے کہ یہ تسبیحات ہاتھ پر شمار کرے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا ہے۔ نہ کہ دانے دار تسبیح یا آلہ وغیرہ سے جس طرح آج کل کئی لوگ کرتے ہیں۔
سنن ابی داؤد میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دائیں ہاتھ کے ساتھ تسبیح کرتے ہوئے دیکھا”۔ [10]
اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ بہترین راستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منہج کو لازم کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
صلوٰت اللہ وسلامہ وبرکاتہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ أجمعین۔
(۱۱۵)صبح و شام کے چند اذکار
جن عظیم اذکار اور بابرکت دعاؤں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سیکھنے اور صبح و شام ان پر محافظت کرنے کی ترغیب دیتے تھے، ان میں سے وہ بھی ہے جو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنن ترمذی اور ابو داؤد اور دارمی وغیرہ میں مروی ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کو سکھلاتے تھے، کہ تم میں سے ہر ایک صبح کے وقت یوں کہے : اللَّھُمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا، وَبِکَ أَمْسَیْنَا، وَبِکَ نَحْیَا، وَبِکَ نَمُوتُ، وَإِلَیْکَ النُّشُورُ ترجمہ:” یا اللہ ہم نے تیری نعمت و توفیق سے صبح کی ہے، اور تیری مدد و مہربانی اور مشیت سے شام کریں گے، اور تیری مشیئت و توفیق سے جیتے اور مرتے ہیں اور تیری طرف دوبارہ زندہ ہو کر آنا ہے "۔ اور شام کے وقت کہے : اللَّھُمَّ بِکَ أَمْسَیْنَا، وَبِکَ أَصْبَحْنَا، وَبِکَ نَحْیَا، وَبِکَ نَمُوتُ، وَإِلَیْکَ النشور۔[11]
یہ عظیم دعاء نبوی اور مبارک ذکر ہے۔ مسلمان کو چاہیئے کہ ہر صبح و شام اس کو ادا کرے، اور اس کی معانی جلیلہ اور دلالت عظیمہ کے اندر غور و فکر کرے۔ کیوں کہ یہ دعاء مسلمان کے لئے اللہ کے فضل اوروسیع نعمت و اکرام کی یاد دہانی کرواتی ہے۔ انسان کا سونا، جاگنا، حرکت و سکون، اٹھنا بیٹھنا فقط اللہ تعالیٰ مشیت اور توفیق سے ہی ہے۔ کیوں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے۔ اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ "ولا حول ولا قوۃ الا باللہ”۔
شرح
بِکَ أَصْبَحْنَا کا معنی ہے "تیری نعمت، اعانت اور امداد سے ہم نے صبح کی ہے۔ اور یہی معنی وَبِکَ أَمْسَیْنَا کا ہے۔ اور وَبِکَ نَحْیَا، وَبِکَ نَمُوتُ کا معنی ہے ” اسی طرح ہمارا حال رہتا ہے۔ سارے اوقات و احوال میں ہماری ساری حرکات و افعال میں، بس ہم فقط تیری ہی توفیق سے چل رہے ہیں۔ تو ہی اکیلا مدد گار ہے۔ اور سارے معاملات تیرے ہاتھ میں ہیں۔ اور پلک جھپکنے کے برابر بھی ہم تجھ سے بے پرواہ نہیں ہو سکتے۔
اور اس دعاء کے اندر رب تعالیٰ پر اعتماد، اور اسی کی طرف لوٹنے، اوراس کی نعمتوں، اور احسان کے اعتراف کی بات ہے۔ جو کہ انسان کے ایمان اور یقین کو ثابت اور قوی کرتی ہے۔ اور اس کے رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔
وَإِلَیْکَ النُّشُورُ یعنی قیامت کے دن انسان قبروں سے نکل کر دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کی طرف لوٹیں گے۔
وَإِلَیْکَ المَصِیرُ یعنی تیرے پاس ہی لوٹنے اور واپس آنے کی جگہ ہے۔
جس طرح فرمان الٰہی ہے : ( العلق ) تیرے رب کی طرف لوٹنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی دعاء کے اندر وَإِلَیْکَ النُّشُورُ اور شام کے وقت کی دعاء میں وَإِلَیْکَ المَصِیرُ کسی مناسبت و مشابہت کی رعایت کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ کیوں کہ صبح موت کے بعد دوبارہ اٹھنے سے مشابہ ہے۔ کیوں کہ نیند چھوٹی موت ہے، اور اس سے بیدار ہونا موت کے بعد زندہ ہونے اور اٹھنے سے مشابہ ہے۔
فرمان الٰہی ہے : (الزمر)
یعنی: ” اللہ ہی نفسوں کو موت دیتا ہے، ان کو ان کے مرنے کے وقت میں اور ان کو بھی جو نہیں مرتے، نیند میں۔ پھر جس پر موت کا فیصلہ کرتا ہے، اس کی روح قبض کر لیتا ہے، اور دوسرے کو مقررہ مدت تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ بے شک اس کے اندر ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو کہ غور و فکر کرتے ہیں "۔
اور شام کا ہونا زندگی کے بعد موت سے مشابہ ہے۔ کیوں کہ اس وقت انسان اس نیند کی طرف لوٹتا ہے جو کہ موت اور وفات سے مشابہ ہے۔ اسی طرح ہر ذکر کا خاتمہ اس کے اندر مذکور معنی کے ساتھ غایت کی مشابہت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور اس کی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ دعاء کرتی ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نیند سے بیدار ہوتے وقت کہتے تھے۔ یعنی: "الحمدُ للہ الَّذی أَحْیَانا بعد ما أمَاتَنَا وإلیہ النُّشور"۔ ترجمہ:” ہر تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے "۔
یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نیند کو موت کا نام دیا ہے۔ اور اس سے بیدار ہونے کو مرنے کے بعد زندہ ہونے کا نام دیا ہے۔ اس حدیث پر مزید کلام ” أذکار النوم والإنتباہ منہ”کے باب میں ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
اور صبح و شام کے اذکار میں وہ عظیم اور بہت ہی نافع ذکر اور دعاء بھی ہے، جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سکھلائی تھی، جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے گذارش کی کہ انہیں کوئی ایسی دعاء سکھلائیں جو کہ وہ ہر صبح و شام پڑھیں۔
ترمذی اور ابو داؤد وغیرہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ جناب خلیفۂ راشد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسول مجھے کچھ ایسے کلمات سکھائیں جو کہ میں صبح و شام کو ادا کروں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہو: اللَّھُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الغَیْبِ وَالشَّہَادَۃ، رَبَّ کُلِّ شَیْءٍ وَمَلِیکَہُ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلآَ أَنْتَ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی وَشَرِّ الشَّیْطَانِ وشِرْکِہِ۔ وَفِی رِوَایَۃأُخْرَى: وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِی سُوءاً، أَوْ أَجُرَّہُ إِلَى مُسْلِمٍ۔ قَالَ: قُلْہَا إِذَا أَصْبَحْتَ وَإِذَا أَمْسَیتَ وَإِذَا أَخَذْتَ مَضْجِعَکَ۔
ترجمہ : "یا اللہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے، غیب اور ظاہر کو جاننے والے، ہر چیز کے رب اور مالک، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، میں اپنے نفس کے شر اور شیطان کے شر سے اور اس کے شرک سے تیری پناہ مانگتا ہوں "۔
ایک روایت میں ہے کہ:” اس سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے لئے برائی کماؤں یا اس کو کسی دوسرے مسلمان تک لے جاؤں "۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، یہ کلمات صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت کہا کرو۔[12]
یہ عظیم دعاء ہے جو کہ ہر قسم کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے اور اس کا بچاؤ اختیار کرنے، اور اس سے سہارہ لینے پر مشتمل ہے۔ ان شرور کی مبادی، نتائج اور انتہاء سے بھی۔ اس دعاء میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عظیم توسل سے ابتداء کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم صفات ذکر کی ہیں، جو کہ اس کی عظمت، جلال اور کمال پر دلالت کرتی ہیں۔ اور اس بات سے توسل کیا ہے کہ وہ آسمان اور ایسا ایجاد کرنے والا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور یہ کہ وہ”عالم الغیب والشہادۃ"ہے۔ جس سے کوئی بھی چیز مخفی نہیں ہے۔ اور وہ ہر اس چیز سے واقف ہے جو کہ بندوں سے غائب ہو یا ظاہر ہو۔ اور غائب اس کے نزدیک موجود کی طرح ہے اور مخفی اس کے ہاں ظاہر کی طرح ہے، اور اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ اور اس سے بھی توسل لیا ہے کہ وہ”رب کل شئ و ملیکہ"ہے۔ لہٰذا کوئی بھی چیز اس کی ربوبیت سے خارج نہیں ہے۔ اور وہ ہر چیز کا مالک، اور وہ ساری مخلوق کا مالک ہے۔ اس کے بعد باری تعالیٰ کی توحید کا اعلان کیا، اور اس کی بندگی کا بھی اقرار کیا ہے۔ اور یہ کہ وہی اکیلا معبود بر حق ہے، اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ اور فرمایا”اشہد ان لا الہ الا انت”یہ سارا دعاسے پہلے مقدمہ کے طور پر آیا ہے۔ جس میں بندہ اپنے رب کے سامنے فاقہ و فقر اور محتاجی کا اظہار کرتا ہے۔ اور اس کے جلال و عظمت کا اعتراف کیا ہے، اور اس کی عظیم و کریم صفات کا اثبات بھی کیا ہے۔ اس کے بعد اپنی حاجت اورسوال ذکر کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے "کہ اللہ تعالیٰ اسے سارے شرور سے پناہ میں رکھے۔ فرمایا”أعوذبک من شر نفسی وشر الشیطان وشرکہ وأن اقترف علی نفسی سوء ا اواجرہ الی مسلم” اس کے اندر شر کے اصول( جڑوں ) اور منابع( جمع منبع جہاں سے شر پھوٹ کر نکلے ) اور اس کے انتہاء اور نتائج سے پناہ مانگی گئی ہے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث پر تعلیق میں لکھتے ہیں :” اس حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے شر کے دو مصدر ذکر کئے ہیں۔ اور وہ ہیں نفس اور شیطان، اور پھر ان دونوں کے آنے اور پہنچنے کی جگہ ذکر فرمائی ہے، اور وہ ہے نفس کے شر کا خود نفس کی طرف لوٹنا یا اس کے مسلمان بھائی کی طرف لوٹنا”۔
یہاں حدیث نے شر کے مصادر و موارد کو نہایت ایجاز و اختصار، اور بہت ہی جامع اور واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ [13]
اس حدیث کے اندر چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ جو کہ شر سے تعلق رکھتی ہیں۔
اول: شر النفس، اور نفس کے شر سے برے اعمال، اور گناہ واقع ہوتے ہیں۔
ثانی: شر الشیطان، شیطان کی انسان کے ساتھ دشمنی معلوم ہے۔ کیوں کہ وہ انسان کو معاصی اور گناہوں کے لئے برانگیختہ کرتا ہے۔ اور اس کے نفس اور قلب کے اندر باطل کو جوش میں لاتا ہے۔
اور فرمان نبوی”وشرکہ” کا معنی ہے ” وہ شرک کے کام جن کی طرف بلاتا ہے "۔ اور شین اور لاء کی فتح کے ساتھ بھی مروی ہے۔ (یعنی شَرَکِہ) اس سے شیطان کے جال اور پھندے مراد ہیں۔
ثالث: انسان کا اپنے نفس کے لئے برائی کمانا۔ اور یہ شر کا نتیجہ ہے جو کہ خود انسان کو مل رہا ہے۔
رابع: برائی کو مسلمانوں تک پہچانا اور یہ شر کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جو کہ دوسروں کی طرف لوٹتا ہے۔ اس حدیث نے ہر شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کو جمع کیا ہے۔ کوئی بھی حدیث اتنی جامع نہیں اس مفہوم کو اور نہ زبردست دلالت کرنے والی ہے اس پر نہ ہی اس سے بڑھ کر ہر قسم کے شر سے چھٹکارے کا کامل احاطہ کرنے والی ہے۔
(۱۱۶)صبح و شام کے چند اذکار
ان عظیم دعاؤں میں سے جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر صبح و شام حفاظت کرتے تھے۔ بلکہ کبھی بھی ان کو صبح و شام کے وقت ترک نہیں کرتے تھے۔ وہ دعا ہے جو جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ میں ان سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کلمات کو صبح و شام کو ادا کرنا نہیں بھولتے تھے۔
اللَّھُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ العَافِیَۃفِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃ، اللَّھُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ العَفْوَ وَالعَافِیَۃفِی دِینِی وَدُنْیَایَ وَأَہْلِی وَمَالِی، اللَّھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی، وَآمِنْ رَوْعَاتِی، اللَّھُمَّ احْفَظْنِی مِنْ بَیْنَ یَدَیَّ، وَمِنْ خَلْفِی، وَعَنْ یَمِینِی، وَعَنْ شِمَالِی، وَمِنْ فَوْقِی، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِییعنی "یا اللہ میں تجھ سے اپنے دین، دینا، اہل اور مال میں عفو اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ یا اللہ میرے گناہوں پر پردہ رکھ اور مجھے اپنے غم اور خوف سے امن میں رکھ۔ یا اللہ مجھے اپنے سامنے سے اور پیچھے سے اور دائیں، بائیں اور اوپر سے حفاظت میں رکھ۔ اور میں تیری عظمت کے واسطے سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے مبتلا کیا جاؤں "۔ [14]
اس دعا کے اندر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کے اندر عافیت کے سوال سے ابتداء کی ہے۔ اور عافیت کے برابر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اور جس کو دنیا و آخرت کے اندر عافیت ملی اسے خیر سے مکمل حصہ مل گیا۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن کے اندر جناب عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے کہا:”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم مجھے ایسی چیز سکھلائیں جس کا میں اللہ تعالیٰ سے سوال کروں ؟ فرمایا:اللہ سے عافیت کا سوال کرو، پھر کچھ دن گذرے۔ اور میں آپ صلی اللہ کے پاس آیا اور کہا، اے اللہ کے رسول مجھے ایسی چیز سکھلائیں جس کا میں اللہ تعالیٰ سے سوال کروں ؟ آپ نے فرمایا: اے عباس، اللہ کے رسول کے چچا، اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کے اندر عافیت کا سوال کرو۔[15]
اور مسند احمد اور سنن ترمذی میں جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت مانگو، کیوں کہ کسی بھی شخص کو یقین کے بعد عافیت سے بہتر چیز نہیں ملے گی”۔[16]
شرح
"العَفْوَ ” : گناہوں کو مٹانا اور ان پر پردہ رکھنا۔
"العَافِیَۃ” : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو ہر مصیبت، سزا اور ابتلاء و آزمائش سے امن میں رکھنا۔ اس طرح کہ اس سے برائی کو دور کر دے اور اس کو مصائب اور بیماریوں سے بچائے اور شرور اور گناہوں سے حفاظت میں رکھے۔ اس دعا میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا و آخرت اور دین اور اہل و مال میں عافیت کا سوال کیا ہے۔
دین میں عافیت سے مراد ہر اس چیز سے بچاؤ طلب کرنا ہے، جو انسان کی دینداری کو خراب کرے اور اس میں رکاوٹ بنے۔ اور دنیا کے اندر عافیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس چیز سے بچاؤ طلب کرنا جو کہ بندہ کو اس کی دنیا میں ضرر پہنچائے۔ مثلاً مصیبت، آزمائش اور نقصان وغیرہ۔ اور آخرت میں عافیت سے مراد آخرت کی ہولناکیوں اور شدتوں اور جو اس کے اندر عذاب کی اقسام ہیں ان سے بچاؤ طلب کرنا۔ اور اہل کے اندر عافیت سے مراد یہ ہے کہ انہیں فتن اور آزمائش اور ابتلاء سے پناہ ملے۔ اور مال کے اندر عافیت سے مراد یہ ہے کہ رب تعالیٰ اسے غرق ہونے، جلنے یا چوری وغیرہ سے تلف ہونے سے محفوظ رکھے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سارے موذی عوارض اور خطرات سے حفاظت کا سوال کیا ہے۔
"اللَّھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی” : یعنی میرے عیوب اور نقص پر اور ہر وہ چیز جس کا اظہار مجھے برا ظاہر کر دے، اس پر پردہ رکھ۔ اس کے اندر شرم گاہ کا ڈھانپنا بھی داخل ہے۔ اور مرد کی شرم گاہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ اور عورت کا سارا بدن ڈھانپنے کی چیز ہے۔ اور عورت کے لئے تمام ضروری ہے کہ وہ اس دعا کو ہمیشگی کے ساتھ ادا کرے۔ خاص طور پر اس زمانہ میں جبکہ دنیا کے اندر ہر جگہ عورت کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ اور وہ ستر و حجاب کا کوئی خیال نہیں رکھ رہی ہے۔ کوئی بازو ننگا کر رہی ہے، تو کوئی پنڈلی، کوئی سینہ کھولے ہوئے ہے، تو کوئی گردن۔ اور دوسری عورتیں وہ کچھ کر رہیں جو کہ اس سے بھی بڑھ کر قبیح ہے۔ اس حال میں بھی عفت باز اور آبرو دار مسلمان عورت، اس ساری عریانیوں اور بے حیائیوں سے بچا کرتی ہے، اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہے کہ اسے فتن سے محفوظ رکھے۔ اور اسے اپنی شرم گاہ اور جسم ڈھانپنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
"آمِنْ رَوْعَاتِی” : آمِنْ امن سے ہے۔ جو کہ خوف کا ضد ہے۔ اور روعات، روعۃ کی جمع ہے۔ جس کا معنی خوف اور غم و پریشانی ہے۔ اس دعا کے اندر اللہ تعالیٰ سے سوال کیا گیا ہے کہ اسے ہر اس چیز سے بچائے جو اسے خوف زدہ کرے، یا غمگین اور پریشان کرے۔ اور روعات کے صیغۂ جمع کے اندر اس کی کثرت اور زیادتِ اقسام کی طرف اشارہ ہے۔
"اللھَہُمَّ احْفَظْنِی مِنْ بَیْنَ یَدَیَّ، وَمِنْ خَلْفِی، وَعَنْ یَمِینِی، وَعَنْ شِمَالِی، وَمِنْ فَوْقِی، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی” : یعنی ” اس کے اندر اللہ تعالیٰ سے ہلاکت خیز اشیاء اور ان شرور سے بچاؤ کا سوال کیا گیا ہے، جو کہ انسان کو چھ اطراف سے پیش آتے ہیں۔ کیوں کہ شر اور مصیبت سامنے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے سے آتی ہے۔ اور انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سی جہت سے شر اور بلاء نے اسے آ پکڑا ہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رب تعالیٰ سے سوال کیا ہے کہ اسے ہر طرف سے حفاظت میں رکھے۔ پھر سب سے بڑا شر شیطان کا ہے کہ جس سے حفاظت کی انسان کو اشد ضرورت رہتی ہے۔ کیوں کہ شیطان انسان کے لئے ہر وقت مصائب کے انتظار میں رہتا ہے۔ اور اس کے سامنے، پیچھے، دائیں اور بائیں سے آتا۔ تاکہ اسے مصیبتوں کے اندر پھنسا دے، اور اسے ابتلاء اور ہلاکت کی طرف دھکیل دے۔ اور اسے خیر اور استقامت کے راستے سے دور کرے۔ جس طرح اس نے دعوی کیا ہے
الأعراف: ۱۷ یعنی” پھر میں ضرور ان کے پاس، ان کے سامنے سے، اور ان کے پیچھے سے، اور ان کی دائیں اور بائیں جانب سے آؤں گا۔ اور(یا اللہ)تو ان میں سے اکثر کو شکر گذا ر نہیں پائے گا۔
لہٰذا بندہ اس دشمن سے دفاع کا محتاج ہے، اور اس کا بھی محتاج ہے، جو اسے اس کی سازش اور شر سے بجائے۔ اور اس عظیم دعا کے اندر بندہ کے اس سے دفاع اور بچاؤ حاصل ہو گا کہ ان جھات مذکورہ میں سے کسی بھی جہت سے اس کو شیطان کا شر پہنچے۔ کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نگہبانی کے اندر ہے۔
"وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی اس کے اندر اشارہ ہے کہ انسان کو نیچے سے خطرناک بلاء اور مصیبت پہنچ سکتی ہے۔ مثلاً اسے زمین کے اندر دھنسایا جائے۔ یہ بھی ان سزاؤں میں سے ہے جو کہ اللہ تعالیٰ بعض ان لوگوں کو دیتا ہے، جو کہ زمین پر اس کے خالق اور موجد کی اطاعت کے بغیر چلتے ہیں۔ بلکہ اس کے اوپر گناہ، سرکشی، شر اور نا فرمانی کے ساتھ چلتے ہیں۔ پھر انہیں عذاب آ لیتا ہے، کہ ان کے نیچے سے زلزلہ آتا ہے، یا انہیں زمین کے اندر دھنسا دیا جاتا ہے۔ ان کے گناہوں کی سزا کی وجہ سے۔ فرمان الٰہی ہے:
(العنکبوت: ۴۰ ) یعنی” پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہوں کی وجہ سے پکڑا، پھر ان میں سے کسی پر آندھی بھیجی، اور کسی کو سخت کڑاکے نے آ لیا، اور ان میں سے کسی کو زمین کے اندر دھنسا دیا، اور ان سے کسی کو غرق آب کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔
مسند الامام احمد کے اندر جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک عظیم ذکر مروی ہے۔ جس کی محافظت ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” جو بھی شخص "لا إلہ إلآَ اللہ وحدَہ لا شَریکَ لہ، لہ المُلْکُ ولہ الحمدُ وہو على کلِّ شیء قدیرٌ"صبح کو دس مرتبہ کہے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک سو نیکیاں لکھے گا۔ اور اس کی ایک سو برائیاں مٹائے گا، اور شام تک اللہ تعالیٰ حفاظت میں رہے گا۔ اور جو شخص شام کو یہ دعا پڑھے گا اسے بھی یہی اجر ملے گا۔ [17]
اور صحیحین کے اندر جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” جو شخص ایک دن میں "لا إلہ إلآَ اللہ وحدَہ لا شَریکَ لہ، لہ المُلْکُ ولہ الحمدُ وہو على کلِّ شیء قدیرٌ” ایک سو دفعہ کہے گا۔ اسے دس غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا، اور ایک سو نیکیاں ملیں گی، اور ایک سو گناہ مٹائے جائیں گے، اور اس دن یہ ذکر اس کے لئے شیطان سے بچاؤ اور دفاع بنے گا۔ یہاں تک کہ شام کرے، اور کوئی بھی شخص اس سے افضل عمل نہیں لائے گا، مگر وہ شخص جس نے اس سے زیادہ عمل کیا۔
اور جو شخص”سبحان اللہ و بحمدہ” "اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ”روزانہ ایک سو مرتبہ کہے گا، اس کے سارے گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔ اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔[18]
ان احادیث کے اندر کلمہ توحید”لا الہ إلا اللہ”کی عظمت شان پر دلالت ہے۔ وہ کلمہ جو کہ علی الاطلاق سب سے اجلی کلمہ ہے۔ اور جو انبیاء کرام نے کلمات کہے ہیں ۔ ان میں سے سب سے افضل ترین ہے۔ اور اسی کلمہ(یعنی توحید و اسلام) کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ اور اسی کے لئے مخلوق پیدا کی گئی ہے۔ اور اہل توحید ہی اہل سعادت فلاح ہیں۔ اور انہیں ہی دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہو گی۔ اتنے عظیم الشان کلمہ کا مسلمان کو زبردست خیال کرنا چاہیئے۔
اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی توفیق اور ہدایت ہے۔
(۱۱۷)صبح کے چند اذکار
مسند احمد کے اندر عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ذکر بھی ان عظیم اذکار میں سے ہے ،جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر صبح کو کہتے تھے۔ کہا "نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر صبح کو کہتے تھے :” أَصْبَحْنَا عَلَى فِطْرَۃالإِسْلاَمِ، وَکَلِمَۃالإِخْلاَصِ، وَعَلَى دِینِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صلى اللہ علیہ و سلم، وَعَلَى مِلَّۃأَبِینَا إِبْرَاہِیمَ حَنِیفاً مُسْلِماً وَمَا کَانَ مِنَ المُشْرِکِینَ"یعنی” ہم نے دین اسلام پر صبح کی اور کلمہ توحید پر اور ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسم کے دین اور ابراہیم علیہ السلام کے دین پر۔ جو کہ یک طرفہ مسلمان تھے، اور مشرکین میں سے نہ تھے "۔ [19]
کتنا ہی خوبصورت اور اچھا ہے کہ مسلمان اپنے دن کی ابتداء ان عظیم کلمات سے کرے۔ جو کہ تجدید ایمان، اعلان توحید، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کا التزام کرنے کی تاکید اور ابراہیم خلیل اللہ کے دین کی اتباع( جو کہ یک طرفہ اور معتدل دین تھا)۔ اور ہر قسم کے چھوٹے اور بڑے شرک سے دور رہنے (کی دعوت) پر مشتمل ہیں۔
اور یہ ایمان، توحید، صدق و اخلاص، خضوع اور فرمانبرداری، اتباع و انقیاد کے کلمات ہیں۔ جو بھی شخص ان کلمات پر محافظت کرتا ہے، اسے ان کی عظیم دلالت و معانی جلیلہ پر غور کرنا چاہیے۔
مشکل الفاظ و عبارات کی شرح
أَصْبَحْنَا عَلَى فِطْرَۃالإِسْلاَمِ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی صبح کی نوازش کی ہے کہ ہم دین اسلام پر ہیں۔ اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے اور اس کی محافظت کرنے والے ہیں۔ اس میں کسی قسم کے تغییر و تبدل کرنے والے نہیں ہیں۔
فِطْرَۃالإِسْلاَمِ یعنی دین الٰہی اسلام جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے۔ اور یہ اس طرح ہو گا کہ انسان اپنا رخ دین حنیف کی طرف کرے۔ دل، ارادہ اور بدن کو دین کے ظاہری و باطنی شرائع اعمال کے التزام کے لئے متوجہ کرے۔ فرمان الٰہی ہے:
الروم: ۳۰ ” پس اپنی توجہ یک طرفہ دین کی طرف کر۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت کو لازم کرجس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے۔ ”
ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :”رب تعالیٰ فرماتا ہے :اپنی توجہ سیدھی رکھو، اور اسی دین پر قائم رہو
جو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر فرمایا ہے۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کا۔ وہ یک طرفہ دین جس کی اللہ تعالیٰ نے تجھے ہدایت دی ہے، اور اسے تیرے لئے نہایت مکمل فرمایا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تو اپنی فطرت سلیمہ کو بھی لازم کر۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے، کیوں کہ رب تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی معرفت اور توحید پر پیدا فرمایا ہے، اور اس پر کہ اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ [20]
یہ اصل بنیاد سارے انسانوں میں ہے (یعنی ہر پیدا ہونے والا انسان اسی توحید پر ہوتا ہے )۔ پھر جو اس اصل سے نکل جاتا ہے تو اس کی وجہ کوئی خارجی عارضہ ہوتا ہے۔ جو کہ اس کی فطرت کو فاسد بنا دیتا ہے۔ جس طرح عیامن المجاشعی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رب تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں فرمایا:”میں نے اپنے سارے بندوں کو حنفاء یعنی توحید پر پیدا کیا، پھر ان کے پاس شیطان آئے اور ان کو دین حنیف سے پھیر دیا۔ اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں، وہ حرام کر دیں۔ اور شیطان نے انہیں حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں۔ جس کی میں نے کوئی صحت و دلیل نہیں نازل کی۔[21]
اور صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:”ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں "۔ [22]
اور بلا شک یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندہ پر عظیم نعمت و احسان ہے کہ وہ فطرت سلیمہ پر صبح کرے، اور اسے کوئی شرک و کفر کی گندگی اور تبدیلی اور انحراف نہ پہنچا ہو۔
"کلمۃ الاخلاص"یعنی ہم نے کلمہ اخلاص پر صبح کی ہے۔ اور وہ کلمہ توحید”لا الہ الا اللہ” ہے۔ یہ وہ عظیم اور جلیل کلمہ ہے، تمام کلمات عظیمہ سے افضل، اور مطلقاً اجل ہے۔ بلکہ یہ دین اسلام کا دل و دماغ ہے۔ اسی کے لئے مخلوق پیدا کی گئی ہے، اور پیغمبر ارسال کئے گئے ہیں۔ اور کتابیں نازل کی گئی ہیں۔ اور اسی کلمہ توحید کی بنیاد پر لوگ مومنین اور کفار میں تقسیم ہوتے ہیں، اور یہ کلمہ جمیع رسل کی دعوت اور ان کی رسالت کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ اور یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسی کے متعلق امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :” اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو”لا الہ الا اللہ” کی معرفت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی”۔
اور کلمہ” لا الہ الا اللہ”کلمہ توحید ہے۔ اسی سے شرک کو چھوڑا جاتا ہے، اور شرک اور اہل شرک سے برأت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
الزخرف: ۲۶ یعنی ترجمہ:” جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو کہا کہ تم جس کی عبادت کرتے ہو میں اس سے بری ہوں، مگر وہ ذات جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے، پس وہ مجھے ہدایت دے گا۔ اور اس نے اس کو اپنے پیچھے ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا، تاکہ وہ لوٹ آئیں "۔
لہٰذا بندہ جب اس عظیم کلمہ پر صبح کرتا ہے، اور اس نے ( اپنے دین و اعتقاد میں ) نہ تغیر و تبدل کیا ہے، تو پھر وہ بہترین حال پر صبح کرتا ہے۔ اور دن کی ابتداء اس عظیم کلمہ سے کرنے کی زبردست فضیلت کی وجہ سے، اس کو ہر صبح بکثرت کئی مرتبہ ادا کرنے کی ترغیب آئی ہے۔ جیسا کہ اس کو دس یا ایک سو مرتبہ ادا کرنے کا ذکر گذر چکا ہے۔
"و علی دین نبینا محمد” یعنی ہم نے اس عظیم دین پر صبح کی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے۔ اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جس کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ فرمایا: المائدۃ: ۳
ترجمہ:”آج میں نے مکمل کر دیا تمہارے لئے تمہارے دین کو اور پوری کر دی تمہارے اوپر اپنی نعمت، اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے "۔
اور فرمایا: آل عمران: ۱۹ ” یعنی اللہ کے ہاں (مقبول) دین اسلام ہی ہے۔ ” اور فرمایا آل عمران: ۸۵ "یعنی جو بھی اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گا، تو اس سے وہ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ خسارے والوں میں سے ہو گا۔ ‘
سو یہی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دین۔ اور اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے توحید کے ساتھ جھک پڑنا، اور اطاعت و فرماں برداری کرنا، اور شرک اور مشرکین سے برأت کرنا، اور بندے پر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے کہ وہ اسی عظیم دین، صراط مستقیم اور ان لوگوں کے راستہ پر صبح کرے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا۔ نہ ان لوگوں کے راستہ پر جن پر غضب ہوا، اور نہ گمراہوں کے راستہ پر۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کو اپنی اس نعمت اور احسان کی یاد دہانی کروائی۔ جن کو یہ عظیم نعمت دی ہے۔ فرمایا:
الحجرات: ۷ ترجمہ: "لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنایا اور اس کو تمہارے دلوں کے اندر مزین کر دیا۔ اور کفر اور فسوق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسند بنایا۔ یہی لوگ ہدایت والے ہیں "۔
اور فرمایا: النساء: ۸۳
ترجمہ: "یعنی اگر تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی( کفر و شرک اور عصیان) سے بچ نہیں سکتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بچاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہت سننے اور بہت جاننے والا ہے "۔
اللہ ہی کو ہر تعریف لائق ہے کہ اس نے کتنی بڑی نعمت دی ہے۔
"وعلیٰ ملۃابینا ابراہیم حنیفا مسلما وما کان من المشرکین” یعنی ہم نے اس بابرکت ملت خلیل پر صبح کی ہے۔ اور یہ معتدل و یک طرفہ راستہ ہے۔ اس سے مراد اسلام کو مضبوطی کے ساتھ لازم کرنا اور شرک سے دور ہونا ہے۔ اسی لئے فرمایا:”حنیفا مسلما وما کان من المشرکین” اور یہ وہی ملت مبارکہ ہے کہ اس کو وہی چھوڑ سکتا ہے، جس نے خود پر گمراہی اور بے وقوفی کا حکم ثبت کر دیا ہو۔ فرمایا: البقرۃ: ۱۳۰ یعنی ملت ابراہیم سے وہی شخص بے رخی اختیار کر سکتا ہے جس نے خود کو بے وقوف بنایا ہو۔
اور اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی ملت خلیلی کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی ہدایت بھی دی ہے۔ فرمایا: الأنعام: ۱۶۱
ترجمہ: "کہہ دیجئے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی ہدایت دی جو کہ سیدھا دین، ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے، جو کہ( شرک سے ) یکطرفہ مسلمان تھے، اور مشرکین میں سے نہ تھے "۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس نعمت کو گنواتے ہوئے فرمایا ہے : الحج: ۷۸ ترجمہ:”اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے۔ اسی نے تمہیں چنا ہے، اور تمہارے اوپر دین میں کوئی تنگی نہیں پیدا کی۔ (وہ دین جو کہ) تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے "۔
جب انسان اس مبارک یکطرفہ اور معتدل دین پر صبح کرے تو وہ عظیم خیر اور بڑے فضل پر صبح کرتا ہے۔ لہٰذا کتنا نہ اچھا اور عظیم ہے کہ انسان ان کلمات کے ساتھ اپنے دن کی ابتداء کرے، اور جس دن ایسے عظیم الشان کلمات سے ابتداء کی جائے تو وہ کتنا خیرو بھلائی کا دن ہو گا۔
(۱۱۸)صبح کے چند اذکار
مسند احمد اور سنن ابن ماجہ میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :” نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی نماز سے جب بھی سلام پھیرتے تو کہتے :
"اللَّھُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ عِلْماً نَافِعاً، وَرِزْقاً طَیِّباً، وَعَمَلاً مُتَقَبَّلاً ”
ترجمہ:”یا اللہ میں تجھ سے نفع دینے والے علم، حلال رزق اور قبول ہونے والے عمل کا سوال کرتا ہوں "۔[23]
جو شخص اس عظیم دعا میں غور کرے گا تو اسے پتہ چلے گا کہ اس دعا کو فجر کی نماز کے بعداس وقت ادا کرنے میں انتہاء کی مناسبت ہے۔ اس لئے کہ صبح دن کی ابتداء ہے۔ اور مسلمان کے لئے دن کے اندر ان ہی عظیم اہداف اور جلیل القدر مقاصد کا حصول ہی مطمع نظر ہوتا ہے، جو اس حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ یعنی علم نافع، رزق حلال، عمل مقبول۔ اور مسلمان جب اپنے دن کی ابتداء فقط ان تین امور کے ذکر سے کرتا ہے تو گویا وہ اپنے اہداف اور مقاصد کو محدود کرتا ہے۔ بلا شک یہ بات انسان کی دل جمعی اور اس کے سیرو ملک کے ضبط کا باعث ہے۔ بر خلاف اس شخص کے جو اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں کہ جب کی ادائیگی کے لئے کوشش کرے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ تربیت و تادیب کا کام کرتے ہیں وہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ انسان جو بھی کام کرے اس کے اہداف کی تحدید ضروری ہے۔ تاکہ اس کے اہداف کے حصول میں آسانی ہو۔
اور کوئی شک نہیں کہ جو شخص محدود اہداف اور معین مقاصد کے موافق چلتا ہے وہ زیادہ کامل، اور سلامتی والا ہوتا ہے۔ اس شخص کی نسبت جو کہ بغیر تحدید اہداف اور تعیین مقاصد کے چلتا ہے۔ اور ایک مسلمان کے ایک دن کیا بلکہ ساری زندگی میں مذکورہ تین اہداف کا حصول اور تکمیل مطمع نظر ہوتا ہے۔
اور اسی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ دن کی ابتداء ان تین امور کے ذکر کے ساتھ کرنا نہایت اچھا ہے۔ جو کہ ایک مسلمان کے اہداف کی تحدید کرتے ہیں۔ اور اس کے اغراض و مقاصد کی تعیین کرتے ہیں۔
اور مسلمان دن کی ابتداء میں اس دعا کی ادائیگی سے فقط تحدید مقاصد نہیں چاہتا۔ بلکہ وہ اپنے رب کی طرف تضرع کرتا ہے، اور اپنے مالک کی طرف لوٹتا ہے۔ تاکہ وہ اسے ان عظیم مقاصد اور زبردست اہداف کی تحصیل کی توفیق عطا فرمائے۔ کیوں کہ اس کی توفیق کے بغیر کوئی قوت و حرکت نہیں ہے۔ اور وہ اپنے رب کے حکم کے بغیر نہ کوئی نفع حاصل کر سکتا ہے، اور نہ نقصان سے بچ سکتا ہے۔ اور وہ اسی رب کی طرف لوٹتا ہے۔ اسی کا سہارا لیتا ہے، اسی سے مدد لیتا ہے، اسی پر اعتماد اور توکل کرتا ہے۔
لہٰذا صبح کو اس دعا”اللَّھم إنی أسألک علماً نافعا ورزقاً طیِّباً، وعملاً متقبَّلاً"سے مقصود صبح کے وقت باری تعالیٰ سے اعانت طلب کرتا ہے کہ وہ اس کے لئے ہر مشکل آسان فرمائے۔ اور اس مبارک و محدود اغراض کے حصول کے لئے مدد فرمائے۔
غور کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دعا کی ابتداء کس طرح کی ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ سے علم نافع کا سوال کیا ہے۔ اس کے بعد رزق حلال، اور عمل مقبول۔ اس کے اندر اشارہ ہے کہ علم نافع مقدم ہے۔ فرمان الٰہی ہے : محمد: ۱۹ ترجمہ:”جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کر، اور مومن مرد اور عورتوں کے لئے "۔
اس کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے پہلے علم کا ذکر کیا اس کے بعد قول و عمل کا۔ اور علم نافع کو ابتداء میں ذکر کرنے کے اندر بھی حکمت ظاہر ہے۔ جو کہ غور کرنے والے سے مخفی نہیں ہو گی۔ وہ یہ کہ علم نافع سے انسان عمل صالح و غیر صالح کے درمیان اور رزق حلال و حرام کے درمیان فرق کر سکتا ہے۔ اور جس کو علم نہیں ہو گا، اس پر تمام امور خلط ملط ہو سکتے ہیں، اور وہ عمل غیر صالح کو صالح و نافع سمجھ کر ادا کر سکتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے : الکہف: ۱۰۳
ترجمہ:”کہہ دیجئے کہ میں تمہیں ان لوگوں کی خبر نہ دوں جو کہ اعمال میں بہت زیادہ خسارہ پانے والے ہیں ؟، وہ لوگ جن کی محنت دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی، اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں "۔
اور کبھی رزق و مال کماتا ہے، اور اس کو حلال اور مفید سمجھتا ہے۔ در حقیقت وہ پلید اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کے لئے نافع اور نقصان دہ، پاک اور پلید کے علم کے بغیر تمیز کرنا ممکن نہیں ہے۔
اسی وجہ سے قرآن و حدیث میں بے شمار نصوص و دلائل ہیں جو کہ طلب علم کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اور اس شخص کی فضیلت بیان کرتے ہیں جو کہ طلب علم کا راستہ لیتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
الزمر: ۹ ترجمہ:”کہہ دیجئے کیا برابر ہو سکتے ہیں، وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں ؟ اور جو علم نہیں رکھتے ؟ نصیحت فقط عقلمند ہی لے سکتے ہیں "۔
"علما نافعا” اس کے اندر دلیل ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم نافع اور علم غیر نافع۔ اور سب سے بڑا علم نافع وہ ہے جس سے انسان اپنے رب کا تقرب حاصل کر ے۔ اور اس کے دین کی معرفت اور حق کے راستہ میں بصیرت حاصل کرے۔ اور اسی باب کے متعلق فرمان الٰہی میں غور کریں :
المائدۃ
ترجمہ:”تحقیق تمہارے پاس نور اور واضح بیان کتاب آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس شخص کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے، جو اس کی رضامندی چاہتا ہے۔ اور ان کو اپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے، اور ان کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے "۔
لہٰذا مسلمان کو چاہیئے کہ وہ اپنے دن کے اندر قرآن مجید سے تعلق رکھے۔ یعنی اس کے مدارسہ(ایک دوسرے کو پڑھانے ) اور مذاکرہ(یعنی ایک دوسرے کو یاد کروانے یا نصیحت کرنے ) کا اہتمام کرے، اور اسی طرح سنت نبوی جو کہ قرآن مجید کی وضاحت کرنے والی، اور اس کی دلالت اور مقاصد کی تشریح کرنے والی ہے۔
"و رزقا طیبا” اس کے اندر بھی اشارہ ہے کہ رزق کی بھی دو قسمیں ہیں۔ پاک(حلال) اور پلید( حرام)، اور اللہ تعالیٰ طیب ہے، اور فقط طیب (یعنی حلال)ہی قبول کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی اس بات کا حکم کیا ہے۔ جس کا حکم رسولوں کو دیا ہے۔
فرمایا: المؤمنون: ۵۱ ترجمہ:”اے رسولو ! حلال کھاؤ اور عمل صالح کرو”۔
اور فرمان الٰہی ہے : البقرۃ: ۱۷۲
ترجمہ: ” اے ایمان والو! جو ہم نے آپ کو حلال رزق دیا ہے، اس سے کھاؤ "۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پاک چیز کو حلال کرنے اور خبیث اور ناپسندیدہ چیز کو حرام کرنے کے لئے بھیجا۔ فرمایا: الأعراف: ۱۵۷
ترجمہ: "ان کے لئے اچھی چیزوں کو حلال کرتا ہے، اور بری اور گندی چیزوں کو ان کے لئے حرام کرتا ہے "۔
لہٰذا مسلمان کو چاہیئے کہ طیب اور حلال مال تلاش کرے اور خبیث اور حرام مال سے سختی کے ساتھ بچنے کی کوشش کرے۔
"وعملاً متقبلا” اور ایک روایت میں ” عملاً صالحا"ہے۔ اس کے اندر اشارہ ہے کہ ہر وہ عمل مقبول نہیں ہو سکتا، جو بندہ تقرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے۔ بلکہ عمل وہ قبول ہو گا جو کہ صالح ہو گا۔ اور عمل صالح وہ ہے جو کہ فقط اکے لیے اللہ تعالیٰ کے لئے کیا جائے، اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے اور سنت پر ہو۔ اسی لئے فرمایا :
الملک : ۲
ترجمہ: "اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا فرمایا تاکہ تمہیں آزمائے۔ کہ تم میں سے کون اچھے اعمال والا ہے "۔
فضیل بن عیاض اس آیت کی معنی میں کہتے ہیں :”یعنی تمہیں آزمائے کہ کون تم میں سے زیادہ خالص اور درست عمل والا ہے۔ اور خالص وہ ہے جو کہ فقط اللہ کے لئے ہو، اوردرست وہ ہے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر ہو”۔[24]
سو یہ دعاءزبردست فائدہ اور نفع والی ہے۔ اور مسلمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے، ہر صبح کو پڑھنی چاہیئے۔ اور دعاء کے بعد عمل بھی کرنا چاہیئے۔ اس طرح دعاء اور اسباب کو جمع کرنا چاہیئے تا کہ ان عظیم بھلائیوں اور فضیلتوں کو حاصل کیا جا سکے۔ اور اللہ تعالیٰ اکیلا ہی توفیق دینے والا اور ہر خیر اور نیکی کے لئے مدد کرنے والا ہے۔
(۱۱۹)صبح کے چند اذکار
بے شک ان عظیم اور جامع اذکار میں سے جن کو مسلمان کو ہر صبح کے وقت ہمیشہ ادا کرنا چاہیئے۔ یہ دعاء بھی ہے :
"سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ، وَ رِضَا نَفْسِہِ، وَزِنَۃعَرْشِہِ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ”
ترجمہ:”ہم تسبیح بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی۔ اس کی حمد کے ساتھ، اس کی خلق کی تعداد کے برابر، اس کی رضا، اور اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر”۔
صحیح مسلم میں جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ایک دفعہ سویرے فجر نماز پڑھنے کے بعد اس کے پاس سے گذرے۔ اور وہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاشت کے وقت کے بعد لوٹے اور میں اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا :کیا جب سے میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا، تو اسی حال پر یہیں بیٹھی ہوئی ہو؟ میں نے کہا:ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :”میں نے تیرے (یہاں سے جانے کے بعد) چار کلمات تین مرتبہ کہے ہیں۔ اگر ان کا اس کے ساتھ موازنہ کیا جائے، جو تو نے صبح سے کہا ہے۔ تو اس سے بھی بھاری ہو جائیں گے۔ وہ کلمات یہ ہیں :
سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ، وَ رِضَا نَفْسِہِ، وزِنَۃعَرْشِہِ، وَ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ[25]
لہٰذا یہ عظیم اور بابرکت ذکر ہے۔ جس کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ یہ بڑے اجر کا ذکر ہے۔ جو کہ فقط”سُبْحَانَ اللہِ ” کو کئی مرتبہ ادا کرنے سے بھی فضل و اجر میں زیادہ ہے۔ کیوں کہ جو ذکر ادا کرنے والے کے دل سے اس قدر معرفت الٰہی، تنزیہ باری تعالیٰ، اور تعظیم کے ساتھ ادا ہووہ فقط”سُبْحَانَ اللہِ ” کہنے سے بہت بڑا ذکر ہے۔
اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس قدر اور اتنی تعداد میں تسبیح کا مستحق ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :
"ربّنا ولک اَلْحَمْد، ملء السماوات وملء اَلْأَرْضِ وملء ما شئت من شیء بعد”
ترجمہ:” اے رب ہمارے، تیرے لئے ہی ہر تعریف ہے۔ آسمانوں اور زمین اور جو ان کے درمیان ہے۔ اور اس کے سوا جو تو چاہے۔ اس کو بھرنے کے برابر”۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ بندہ اس قدرتسبیح کرتا ہے۔ کیوں کہ بندے کا فعل محدود ہے۔ بلکہ اسے اس مراد یہ ہے کہ رب تعالیٰ اس قدر تسبیح کا مستحق ہے۔[26]
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں اور جو اس کے اندر لطائف جلیلہ و معارف عظیم ہیں، ان کے بیان میں لکھا ہے :” اس کو ذکر مضاعف(یعنی اجر میں بہت بڑھا ہوا)ذکر کہا جاتا ہے۔ اور یہ الیہ ذکر( یعنی جس کے اندر اس قدر اور اس تعداد میں تسبیح و تنزیہ نہ ہو) اس سے ثناء اور تعریف میں بڑھ کر ہے۔
اور یہ بات اس ذکر کو سمجھنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور”سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ” انشاء اور اخبار (دونوں ) کو متضمن ہے۔ یعنی اس بات سے خبر دینے کو متضمن ہے کہ رب تعالیٰ، ساری مخلوق جو پیدا ہو چکی ہے، اور پیدا ہونے والی ہے۔ جس کی کوئی انتہاء نہیں ۔ اس کی تعداد کے برابر تسبیح کا مستحق ہے۔
اور اسی طرح یہ متضمن ہے رب تعالیٰ کے اس عظیم عدد کے برابر (ہر شرک و عیب سے )منزہ و پاک ہونے کو اور اس کی تعظیم اور ثناء کو، وہ عدد جس کو شمار کرنے والے کبھی بھی شمار نہیں کر سکتے۔
اور اسی طرح یہ ذکر بندہ کی طرف سے ایسی تسبیح کے انشاء ( ادائیگی) کو متضمن ہے، جس کی یہ شان ہے۔ یہ نہیں کہ بندے نے جو تسبیح کی ہے اس کی قدر و عدد اتنی ہے۔ بلکہ وہ بتانا چاہتا ہے کہ جس تسبیح کا رب تعالیٰ مستحق ہے، وہ اس قدر ہے کہ( وجود میں ) اس سے بڑھ کر کوئی عدد ہوتا، تو اسے ضرور ذکر کرتے۔ کیوں کہ ہر نئی پیدا ہونے والی مخلوق بے شمار ہے، اور جو موجود ہے اس کا شمار ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح فرمان نبوی”وَرِضَا نَفْسِہِ” بھی دو عظیم امور کو متضمن ہے۔
(۱) ایک یہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ تسبیح عظمت اور جلالت میں اس کی رضا کے برابر ہے۔ جس طرح اس سے پہلے فرمایا کہ یہ تسبیح اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر ہے۔ کوئی شک نہیں کہ رضاءِ الٰہی ایسا امر ہے کہ جس کی عظمت و توصیف کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ اور تسبیح اللہ تعالیٰ کی ثناء ہے۔ جو کہ تعظیم و تنزیہ کو متضمن ہے۔
(۲) سو جب اوصاف کمال باری تعالیٰ اور اس کی صفات کی کوئی حدو انتہاء نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس سے بھی عظیم اور اجل ہیں۔ تو اس کی ثناء بھی ویسی ہی ہو گی کیوں کہ وہ بھی اسی کے تابع ہے۔ اور یہ معنی پہلے معنی میں انشاء سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس معنی اول ثانی سے منظوم نہیں ہے۔ اور جب اس کا احسان، ثواب، برکت اور خیر غیر متناہی ہے جو کہ اس کی رضا کے موجبات، اور ثمرات سے ہیں ، تو رضا کی کیا صفت ہو سکتی ہے ؟
"وزِنَۃعَرْشِہِ” اس کے اندر عرش کا اثبات ہے، اور اس کی اضافت رب سبحانہ و تعالیٰ کی طرف ہے۔ اور یہ علی الأثقل ترین مخلوق ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی چیز اس سے زیادہ وزنی ہوتی تو ضرور اس کے ساتھ تسبیح کا وزن کیا جاتا۔
پس پہلے جزء کے اندر تضعیف( زیادتی) عدد اور مقدار کے لئے، دوسرے میں صفت اور کیفیت کے لئے، اور تیسرے میں عظمت، ثقل اور عظمت مقدار کے لئے ہے۔
"مِدَادَ کَلِمَاتِہِ"یہ تینوں اقسام کو عام اور شامل ہے۔ کیوں کہ کلمات باری تعالیٰ کی سیاہی کے مقدار صفت اور عدد کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
الکہف: ۱۰۹
ترجمہ:”کہہ دیجئے اگر سمندر میرے رب کے کلمات( کو شمار کرنے کے لئے ) سیاہی بن جائے۔ تو سمندر ختم ہو جائے گا، اس سے قبل کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں۔ اگرچہ ہم مدد کے لئے اتنا ہی اور لائیں "۔
اور فرمایا: لقمان: ۲۷
ترجمہ:” اگر جو بھی زمین میں درخت ہیں، قلم ہوں اور سمندر اس کی مدد ؟؟؟؟، اس کے بعد سات سمندر کریں ( تب بھی) اللہ تعالیٰ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ بلا شک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے "۔
اس کا معنی ہے کہ اگر سمندر کو سیاہی فرض کر لیا جائے اور زمین کے تمام درختوں کو قلم فرض کیا جائے، اور یہ قلم اس سیاہی سے لے کر لکھیں۔ تب بھی سمندر اور قلم ختم ہو جائیں گے۔ جبکہ رب تعالیٰ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔
مقصود یہ ہے کہ زیرِ تشریح تسبیح کے اندر وہ صفاتِ کمال اور نعوتِ جلال ہیں جو کہ اس کو ساری تسبیحات سے افضل ترین واجب کرتی ہیں اور علماء کرام نے ان کلمات کے معانی کو سمجھنے اور اس کے دلالت کا استحضار کرنے اور ذہن میں ڈالنے کی تاکید کی ہے، اور بتایا ہے کہ جس انسان کے قلب کے اندر ان کلمات کے معانی اور اس دلالت کا استحضار ہو گا، وہ اس شخص سے افضل ہو گا جس کو یہ چیز نصیب نہیں ہوئی ہے۔ اور اس ذکر کی اس کے اندر تاثیر دوسروں سے بڑھ کر ہو گی۔ [27]
اور جو شخص اس ذکر کو یا دوسرے اذکار کو معنی اور دلالت کو سمجھے بغیر ادا کرتا ہے۔ اس کے اندر ان اذکار کی تاثیر کمزور ہو گی۔ بہر حال ہر مسلمان کے لئے یہی لائق ہے کہ وہ ہر روز صبح کو اس مبارک ذکر کو ہمیشگی کے ساتھ ادا کرے۔ اور اس کے معنی اور دلالت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اور اللہ اکیلا ہی توفیق دینے والا، مددگار اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔
(۱۲۰)صبح کے وقت کی فضیلت اور برکت کا بیان
امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابو وائل شقیق بن سلمہ الاسدی سے روایت کی ہے کہ:”ہم ایک دن فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ ان کے دروازے پر سلام کہا تو ہمیں (اندر آنے کی) اجازت ملی۔ لیکن ہم تھوڑی دیر کے لئے دروازے پر ہی انتظار کے لئے رک گئے۔ اتنے میں باندی باہر نکلی اور کہا: کیوں نہیں اندر آتے ؟ پھر ہم اندر گئے، اور وہ بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے۔ کہا، آپ کو جب اجازت مل گئی تھی تو اندر آنے سے کس چیز نے روکا؟ ہم نے کہا: نہیں ( ایسی کوئی چیز نہیں تھی)۔ لیکن ہمیں گمان ہوا کہ گھر والوں میں سے کوئی سویا ہوا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا :کیا تم آل ابن ام عبد کے متعلق غفلت اور سستی کا گمان کرتے ہو؟ آل ام عبد سے انہوں اپنی ذات ہی مراد لی ہے۔ کیوں کہ ام عبد ان کی والدہ اور بنو ہذیل قبیلہ سے تھیں۔ اور وہ صحابیہ تھیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اے باندی دیکھ کیا سورج طلوع ہو گیا ہے ؟ باندی نے دیکھا تو ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ ابن مسعود پھر تسبیح پڑھنے لگے، یہاں تک کہ جب اسے یقین ہو گیا کہ اب سورج طلوع ہو چکا ہو گا، تو کہا باندی دیکھ آفتاب نکل چکا ہے ؟ باندی نے دیکھا تو سورج نکل چکا تھا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
"الحمد للہ الذی أقالنا یومنا ہذا، ولم یُہلکنا بذنوبنا”
ترجمہ:”ہر تعریف اللہ کے لئے ہی ہے، کہ جس نے ہمیں آج درگذر کیا اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمیں ہلاک نہیں کیا”۔[28]
یہ اثر (روایت) غور کرنے والے کو سلف صالحین خاص طور پر صحابہ کرام کی سر گرم زندگی، بلند ہمت اور وقت سے فائدہ اٹھانے کی ایک واضح صورت و دلالت دکھاتا ہے۔
اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اوقات اور ان کی اقدار کو سمجھتے تھے۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ فاضل وقت کون سا ہے۔ اسی طرح وہ ہر وقت کو اس کا حق دیتے تھے۔
اور یہ وقت جس میں ابو وائل رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تھے، بڑا برکت والا اور انتہائی قیمتی وقت ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نیکی اور خیر کے لئے محنت اور ہمت دکھانے کا وقت ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو بے فائدہ صرف کر دیتے ہیں، اور اس کے اندر بڑی کوتاہی کرتے ہیں، اور اس کا مقام و قدر نہیں جانتے۔ اس طرح یہ وقت نیند یا سستی اور بے فائدہ امور میں ضائع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ دن کی ابتداء اس کے جوبن کی طرح ہے، اور اس کی انتہاء بڑھاپے کی طرح ہے، اور جو شخص کسی کام کی ابتداء میں جوانی دکھلاتا ہے وہ اس کام کے کرنے میں جوان ہی رہتا ہے۔ اس لئے کہ جو کام انسان سے صبح سویرے ہوتا ہے وہ ہی باقی دن میں اس پر حاوی رہتا ہے۔ چستی تو چستی ہی رہتی ہے، اور اگر سستی تو سستی ہی رہتی ہے۔ اور جو شخص دن کی باگ کو پکڑتا ہے (اور باگ اس کی ابتداء ہے ) تو باقی سارا دن اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سلامتی سے گذرتا ہے، اور اس کو سارا دن نیکی اور خیر کے لئے مدد ہوتی ہے۔ اور برکت حاصل ہوتی ہے۔ [29]
مثال مشہور ہے۔ تیرا دن تیرے اونٹ کے مثل ہے۔ اگر تو اس کے اول حصے کو پکڑے گا تو بقیہ حصہ تیرے پیچھے پیچھے آئے گا۔ اور یہی معنی جناب ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے گذشتہ اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ جب انہوں نے دن کے ابتدائی حصہ کی ذکر الٰہی کے ساتھ حفاظت کر لی تو کہا”الحمد للہ” اللہ نے آج ہماری کوتاہیاں در گذر کر لیں، اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمیں ہلاک نہیں کیا۔
بلکہ اس وقت میں ذکر الٰہی کی محافظت سے انسان کو سارا دن ہمت، قوت اور چستی حاصل ہوتی ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :” میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پاس ایک دفعہ آیا۔ آپ نے فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد نصف النہار تک بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتے رہے۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا:یہ میری صبح کی غذاء ہے۔ اگر میں صبح کو اپنی یہ غذاء استعمال نہ کروں تو میری قوت ختم ہو جائے گی”۔[30]
اور حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کے وقت میں اپنی امت کے لئے اللہ سے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ ابو داؤد، ترمذی اور دارمی وغیرہ نے صخر بن وداعۃالغامدی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا:”اللَّھم بارِک لأمَّتِی فی بکورِہا"، "یا اللہ میری امت کے لئے اس کی صبح کے وقت میں برکت عطا فرما”۔
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی کوئی سریہ(فوجی دستہ)یا لشکر بھیجتے تو انہیں صبح سویرے ارسال فرماتے۔ اور جناب صخر رضی اللہ عنہ تاجر تھے، اور اپنی تجارت (کے قافلے وغیرہ)صبح سویرے بھیجتے تھے۔ اس لئے ان کی تجارت میں بڑی برکت ہوئی، اور مال بڑھ گیا۔ [31]
اس حدیث کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ ان میں علی بن ابی طالب، ابن عباس، ابن مسعود، ابو ہریرہ، انس بن مالک، عبداللہ بن سلام، نواس بن سمعان، عمران بن حصین، جابر بن عبداللہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ صحابی شامل ہیں۔[32]
اور اس وقت کی اہمیت، عظیم برکت اور کثرت خیر کی وجہ سے سلف صالحین اس وقت میں سونے اور اس کو سستی وغیرہ سے ضائع کرنے کو نا پسند کرتے تھے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :” سلف صالحین کے ہاں فجر نماز کے بعد طلوع شمس تک سونا مکروہ تھا۔ کیوں کہ یہ بڑی غنیمت اور فائدہ کا وقت ہے، اور (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے لئے ) چلنے والوں کے ہاں اس وقت میں چلنے میں بڑی بھلائی اور فضیلت ہے۔ اگرچہ وہ ساری رات چلے ہوں تب بھی وہ اس وقت طلوع آفتاب تک سونا پسند نہیں کرتے تھے۔ کیوں کہ یہ دن کی ابتداء اور مفتاح ہے، اور رزق کے نازل ہونے تقسیم (خیرو بھلائی) کے حصول اور برکت عام ہونے کا وقت ہے۔ اور اسی سے دن پیدا ہوتا ہے اور باقی دن کا حکم اس حصہ کے حکم پر انحصار کرتا ہے۔ لہٰذا اس وقت میں اضطراری حالت کے سوا سونا نہیں چاہیئے۔ [33]
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کو صبح کے وقت سوتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:” کھڑا ہو جا، کیا تو اس وقت سوتا ہے جب رزق تقسیم ہو رہا ہے "۔ [34]
اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا :” نیند کی تین اقسام ہیں (یعنی رات کی نیند کے علاوہ):
(۱) نوم الخرق (جاہلوں کی نیند)
(۲) نوم خلق (اہل اخلاق کی نیند)
(۳) نوم حمق (احمقوں والی نیند)”۔ [35]
سو "نوم الخرق” چاشت کے وقت کی نیند ہے۔ جب لوگ اپنے کام کاج کر رہے ہوتے ہیں، اور یہ سو رہا ہوتا ہے۔ اور”نوم الخلق”دوپہر کا قیلولہ ہے، اور” نوم الحمق” نماز کے وقت سونے کا نام ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب”زاد المعاد”میں لکھتے ہیں :” صبح کے وقت سونا رزق سے محروم کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ وہ وقت ہے جب مخلوق اپنا رزق تلاش کرتی ہے۔ اور یہ رزق تقسیم ہونے کا وقت ہے۔ اس لئے اس وقت سونا محرومی کا سبب ہے، اور اس وقت کی نیند بدن کے لئے نہایت ضرر رساں ہے۔ کیوں کہ یہ جسم کو سست اور ڈھیلا کر دیتی ہے، اور ان فضلات کے فساد کا سبب بنتی ہے جن کو ریاضت سے تحلیل کرنا چاہیئے۔ اس طرح یہ جسم کے اندر ٹوٹ پھوٹ، سستی اور کمزوری پیدا کرتی ہے۔ اور پھر اگر صبح کو پاخانے، حرکت اور ریاضت اور معدہ کو کسی چیز سے مشغول کرنے سے قبل نیند کی جائے تو اس سے عضال کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ جس سے کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ [36]
اور یہی بات علامہ ابن مفلح رحمہ اللہ نے کتاب”الآداب الشرعیۃ” میں لکھی ہے۔ [37]
اللہ تعالیٰ سے ہم اپنے لئے ہدایت کا سوال کرتے ہیں ، اور خیر کی توفیق اور منہج سلف کی پیروی عطا فرمائے۔
(۱۲۱) سونے کے وقت اذکار
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو بستر پر سوتے وقت ہمیشہ درج ذیل اذکار پڑھا کرتے تھے۔
صحیحین کے اندر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہر رات کو جب اپنے بستر پر آتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرتے، پھر ان کے اندر سورت قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر پھونکتے۔ پھر جتنا ہو سکتا اپنے بدن پر ہاتھ پھیرتے، اپنے سر اور چہرہ مبارک اور سامنے کے بدن سے ابتداء کرتے آپ اس کو تین مرتبہ دہراتے تھے۔ [38]
یہ عظیم تعوذ انسان کے لئے بچاؤ ہے۔ اوراس کو پڑھنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نیند کے اندر کوئی مکروہ چیز، یا کوئی شر اور ایذاء رسان چیز یا خونخوار حشرات اسے نقصان نہیں دیں گے۔ کیوں کہ نیند کے وقت انسان اس کی طرف آنے والی ہر چیز اور جو کچھ بھی اس سے ہوتا ہے اس سے غافل ہوتا ہے۔ جب انسان سوتے وقت اس عظیم ورد کو ادا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت، کفایت اور بچاؤ ہوتا ہے۔ اور صبح ہونے تک اس کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ مقرر کیا جا تا ہے۔
اور اس سے اس بات کی بڑی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمان روزانہ رات کو بستر پر سوتے وقت اس ذکر کو اداء کرے۔ تاکہ اس حفاظت کو حاصل کر سکے۔ اور اس کی نگہبانی ہو۔
اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس ورد کی نہایت سختی کے ساتھ حفاظ فرماتے تھے۔ اور کبھی بھی رات کو ترک نہیں کرتے تھے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اس کی زبردست محافظت کی دلیل یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ” جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیمار ہو گئے تو مجھے حکم کرتے کہ میں آپ پر یہ دم کروں۔ [39]
اور صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اس بیماری کے دوران جس میں آپ وفات پا گئے، معوذات (یعنی مذکورہ سورتیں ) پڑھ کر خود پر دم کیا کرتے تھے۔ پھر جب آپ کی تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو میں ان معوذات سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر دم کرتی تھی۔ لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں سے ہی۔ ان کی برکت کی وجہ سے آپ پر پھیرتی تھی۔ [40]
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم شدید مرض اور تکلیف کے باوجود ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دم کرواتے تھے۔ "کان إذا آوی الی فراشہ"یعنی جب بستر کی طرف آتے اور اس پر سوتے اور اسی سے "الماوی” ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں انسان لوٹ کر آتا ہے، اور ٹھہرتا ہے۔ "کل لیلۃ”اس میں دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس ورد پر ہمیشگی کرتے تھے، اور ہر رات ادا کرتے تھے۔
"جمع کفیہ"یعنی دونوں ہاتھوں کو ملاتے، اور ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے اور ان کو چہرے کی طرف سے کھلا رکھتے تھے۔ تاکہ سیدھا ان میں دم کر سکیں۔
"ثم نفث فیہما"یعنی دونوں ہاتھوں کے اندر پھونکتے تھے، اور نفث نفخ یعنی پھونک کے معنی میں ہے۔ اور یہ تفل سے کم ہے۔ تفل کہتے ہیں تھوڑی سے ریق کے ساتھ منہ سے ہوا نکالنے کو۔
اور یہ بات خاص طور پر جان لینی چاہیئے کہ چہرے اور بدن پر مسح کرنا اس دعا اوراسی وقت کے ساتھ خاص ہے۔ اور ہر ذکر اور دعا کے بعد جسم اور منہ کا مسح کرنا علی العموم ثابت نہیں ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔
اسی وجہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :” آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرنا فقط ایک یا دو احادیث کے اندر آیا ہے۔ اس لئے ( عموم کے لئے ) کوئی دلیل نہیں ہے "۔[41]
"یبدأ بہما علی رأسہ ووجہہ وما أقبل من جسدہ” اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سنت یہ ہے کہ مسلمان اپنے اوپر کے حصہ سے شروعات کرے۔ اور اپنے سر اور چہرے اور جو اگلا حصہ ہے۔ اس کا مسح کرے، اور پھر پیچھے تک( اور نیچے تک) مسح کرے۔
اور مسنون یہ ہے کہ مسلمان اس کو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے تھے۔ تین مرتبہ دہرائے۔ اور ان تین سورتوں میں سے پہلی سورت”سورۃ اخلاص”اللہ تعالیٰ کی وصف کی بابت ہے۔ بلکہ رب ذوالجلال والاکرام کی صفت کے بیان کے لئے خالص کی گئی ہے۔ اس وجہ سے اس کا نام”سورۃ اخلاص”رکھا گیا ہے۔ اس لئے کہ یہ سورت توحید علمی کو فقط اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرنے پر مشتمل ہے۔ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کون ہے ؟ اور وہ اس کے جواب میں فقط اس سورت کی تلاوت کرتا ہے۔ تب بھی جواب کافی اور وافی ہو گا۔
” الأحد"کمال و جلال سے متفرد ذات سے عبارت ہے۔ جس کے نام بہت اچھے ہیں۔ اور صفات کاملہ اور عالیہ ہیں۔ اور افعال مقدس اور عظیم ہیں کہ جس کی کوئی نظیر اور مثال نہیں ہے۔
"الصمد” وہ ذات ہے جس کا جمیع حاجات میں قصد کیا جاتا ہے۔ اور عالم علوی اور عالم سفلی والے اس کے نہایت ہی محتاج ہیں۔ اسی سے اپنی حاجات کا سواسل کرتے ہیں، اور اپنی ضروریات کے بارے میں اس کی طرف رغبت رکھتے ہیں، اور اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنی تمام اوصاف میں عظیم اور کامل ہے۔
اور اس کے کمال سے یہ بھی ہے کہ ’’نہ اس نے کسی کو جنا ہے، اور نہ اس کو کسی نے جنا ہے۔ کیوں کہ اس کو ذرہ برابر بھی کسی کی پرواہ اور ضرورت و محتاجی نہیں ہے۔ اور اس کے برابر کوئی بھی نہیں ہے۔ نہ اپنے ناموں میں اور نہ اوصاف اور افعال میں تبارک و تعالیٰ۔ ‘‘
اور معوذتان کے اندر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے جمیع شرور اور آفات سے پناہ مانگی گئی ہے۔ اور سورت فلق میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے یعنی”فالق الحب والنوی وفالق الاصباح"دانے اور گٹھلی اور صبح کو پھوڑنے والے کے توسل سے تعوذ کیا گیا ہے۔
یعنی ساری مخلوق جن، انسان، حیوان وغیرہ کے شر سے رب تعالیٰ کی پناہ مانگے۔ اس عموم کے بعد رب تعالیٰ نے خاص ذکر فرمایا اور فرمایا ’’یعنی رات کے اندر جو ہوتا ہے۔ اس کے شر سے، جب انسان سو جاتے ہیں اور اس دوران کئی شریر ارواح اور موذی حیوانات پھیل جاتے ہیں۔ وہ جادو گرنیاں جو اپنے جادو کو چلانے کے لئے گرہوں میں پھونکتی ہیں۔ ‘‘
حاسدحاسد وہ ہے جو جس سے حسد کرتا ہے، اس کی نعمت کے زوال کی تمنا کرتا ہے۔ اور اس کے اندر نظر بد مارنے والے بھی آ جاتے ہیں۔ کیوں کہ نظر کسی حسد کی وجہ سے ہی لگتی ہے۔ لہٰذا یہ سورت سارے شرور سے عموماً و خصوصاً تعوذ چاہنے کو متضمن ہے۔
اور سورت الناس میں لوگوں کے رب، مالک، معبود حقیقی کی ذات سے اس شیطان مردود سے پناہ طلب کی گئی ہے، جو کہ سارے شرور کی جڑ، مادہ اور ہر شر کے ابتدا اور پھیلنے کی اساس ہے۔[42]
اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ وہ روزانہ ہر رات کو ان تینوں سورتوں کو اپنے بستر پر آتے وقت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ کے مطابق پڑھے تاکہ اسے اللہ کی طرف سے حفاظت، رعایت(نگہبان) اور کفایت حاصل ہو۔ اور سکون کی نیند سو جائے۔ اور اللہ ہی سے توفیق ملتی ہے۔
(۱۲۲)سوتے وقت کے چند اذکار
آیت الکرسی ان عظیم اذکار میں سے ہے جن کو روزانہ رات کو سوتے وقت پڑھنا ہر مسلمان کے لئے مستحب ہے۔ آیت الکرسی قرآن شریف کے اندر سب سے عظیم آیت ہے۔ حدیث شریف کے اندر اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اور جو بھی شخص بستر پر آتے وقت اس کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کی صبح تک حفاظت کے لئے (فرشتہ کو) محافظ مقرر فرمائے گا۔ اور شیطان اس کے قریب بھی نہیں آئے گا۔
صحیح بخاری کے اندر جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:”رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے رمضان شریف کی زکاۃ یعنی صدق الفطر) کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا۔ پھر ایک شخص آیا اور طعام ( یعنی کھانے کی اشیاء) سے ہتھیلیاں بھرنے لگا۔ میں نے اس کو پکڑ لیا، اور کہا اللہ کی قسم میں ضرور تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے جاؤں گا۔ اس نے کہا، میں محتاج ہوں اور میرا عیال بھی ہے اور مجھے شدید ضرورت بھی ہے۔ مجھے اس پر رحم آ گیا۔ لہٰذا میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ گذشتہ رات کو تیرے قیدی نے کیا کیا؟”، میں نے کہا:”اللہ کے رسول اس نے سخت محتاجی اور عیال کی شکایت کی، اس لئے مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا "۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” اس نے تیرے ساتھ جھوٹ بولا ہے، اور ابھی پھر آئے گا۔ مجھے یقین ہو گیا اب وہ دوبارہ آئے گا۔ کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی فرمایا تھا۔ میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا۔ وہ پھر آیا اور اناج سے مٹھیاں بھرنے لگا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آگے حدیث بیان کی اور کہا : میں نے اسے تیسری بار پکڑ لیا، اور کہا اللہ کی قسم میں ضرور تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے جاؤں گا۔ یہ تیسری بار ہے کہ تو کہہ رہا ہے کہ دوبارہ نہیں آئے گا۔ اور تو ہر دفعہ پھر آ جاتا ہے۔ اس نے کہا تو مجھے چھوڑ دے، میں تجھے ایسے کلمات سکھلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان سے نفع دے گا۔
میں نے کہا وہ کون سے کلمات ہیں ؟ اس نے کہا تو جب بھی اپنے بستر پر سونے کے لئے آئے تو آیت الکرسی (البقرۃ: ۲۵۵ ) آخر تک پڑھا کر۔ تو تیرے لئے اللہ کی طرف سے محافظ مقرر ہو گا۔ اور صبح تک کوئی بھی شیطان تیرے قریب نہیں آئے گا۔ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے کہا: تیرے قیدی نے رات کو کیا کیا؟ میں نے کہا: اس نے کہا کہ وہ مجھے ایسے کلمات سکھلاتا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے گا۔ اس لئے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا وہ کون سے کلمات ہیں ؟ میں نے کہا، اس نے کہا، تو جب بھی اپنے بستر پر سونے کو آئے تو آیت الکرسی اول سے آخر تک پڑھ۔ اور اس نے مجھے کہا کہ اللہ کی طرف سے مسلسل تجھ پر محافظ مقرر رہے گا۔ اور صبح ہونے تک کوئی بھی شیطان تیرے قریب نہیں آئے گا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خیر اور بھلائی کی بہت ہی زیادہ طمع کرنے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” اس نے سچ کہا ہے، حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔ ابو ہریرہ تجھے معلوم ہے تو تین راتوں سے کس کے ساتھ مخاطب ہو رہا تھا؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا: وہ شیطان تھا۔[43]
اس حدیث سے اس آیت کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ شیطان سے بچنے کے لئے اس کے اندر زبر دست تاثیر ہے۔ اور جو اس کو سوتے وقت پڑھے گا اس کی حفاظت اور کفایت کی جائے گی۔ اور صبح ہونے تک شیطان اس کے قریب نہیں آئے گا۔ یہ اس لئے کہ اس آیت کریمہ میں رب تعالیٰ کی توحید، تمجید اور تعظیم بیان ہوئی ہے اور اس کا کمال و جلال کے ساتھ متفرد ہونا بھی جو کہ اس کو پڑھنے والے کے لئے حفاظت اور کفایت کو واجب کرتا ہے۔ اور اس آیت عظیمہ کے اندر پانچ اسماءحسنیٰ ہیں، اور بیس سے زائد صفات کریمہ۔ اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے ساتھ متفرد ہونے اور اس کے سوا ہر ایک کی الوہیت کے بطلان کے ساتھ ہوئی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی وہ کامل حیات بیان کی گئی ہے کہ جس کو کبھی فناء نہیں آئے گی۔ اور یہ کہ رب تعالیٰ قیوم ہے، یعنی وہ بذات خود قائم ہے اور اپنی مخلوق کے امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ اس کے بعد اس کا صفات النقص والعیوب مثلاً اونگھ اور نیند سے منزہ اور پاک ہونا بیان ہوا ہے۔ اور یہ کہ اس کی بادشاہی وسیع ہے، اور زمین و آسمان کے اندر جتنی مخلوقات ہے وہ سارے اس کے بندے اور غلام ہیں، اور اس کے کنٹرول اور سلطنت میں داخل ہیں۔ اس کے بعد رب تعالیٰ نے اپنی عظمت بیان کی ہے، کہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتا۔ اس کے اندر رب تعالیٰ کی صفت علم بیان ہوئی ہے۔ اور یہ کہ اس کا علم ہر معلوم کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو ہو چکی ہے اور جو نہیں ہوئی۔ کہ اگر ہوتی تو کیسے ہوتی۔ اور اس آیت کے اندر رب تعالی ٰ کی عظمت کا اس کی مخلوق کی عظمت کے ذریعے سے بیان ہوا ہے۔ کیوں کہ کرسی جو اس کی مخلوق ہے اور وہ آسمانوں اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ تو خالق جلیل اور رب عظیم کی کیا شان ہو سکتی ہے۔ اور اس میں رب تعالیٰ کی عظیم قدرت کا بیان ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں ہے۔ اور نہ اس کے لئے مشکل ہے، اور اس کے بعد آیت کا خاتمہ دو عظیم اسماء سے ہوا ہے اور وہ ہے "العلی العظیم” ان اسماءکے اندر رب تعالیٰ کے لئے علو کا اثبات ہے۔ یعنی علو ذاتی، قدری اور قہری عظمت کا اور اس بات کا بھی اثبات ہے کہ عظمت و جلال کے تمام معانی اس کے لئے ہیں۔ اور اس کے سوا کوئی بھی تعظیم، تکبیر اور اجلال کا مستحق نہیں ہے۔
لہٰذا یہ عظیم آیت ہے جس کے اندر معانی جلیلہ، دلالات عمیقہ اور معارف ایمانیہ ہیں۔ جو کہ اس آیت کی عظمت اور جلالت شان پر دلالت کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ یہ آیت قرآن کی سب سے عظیم آیت ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ”نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فرمایا :اے ابو المنذر کون سی آیت سب سے عظیم ہے ؟ کہا، اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار پوچھا؟ پھر ابی نے کہا، یہ آیت الکرسی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :ابو المنذر تیرے لئے علم آسان ہو[44](44)۔
اور بستر پر لیٹے وقت سورت کافرون پڑھنا بھی مستحب ہے۔ اور اس کو آخر میں پڑھنا چاہیئے۔ کیوں کہ اس کے اندر شرک سے برأت کا اظہار ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فروہ بن نوفل الاشجعی کے واسطے سے اس کے والد نوفل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:” نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ام سلمہ کی بیٹی دی، اور فرمایا:تو نے اس کی پرورش کرنی ہے، نوفل نے کہا میں ٹھہر گیا جتنا اللہ نے چاہا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا، تو آپ نے پوچھا اس بچی کا کیا ہوا؟ میں نے کہا، وہ اپنی ماں کے پاس ہے۔ کہا پھر کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا” مجھے ایسی دعا سکھائیں جو میں سوتے وقت پڑھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سوتے وقت سورت الکافرون پڑھا کر اس کے بعد سو جایا کر کیوں کہ اس میں شرک سے برأت ہے۔ [45]
اس حدیث نے اس سورت کی فضیلت، سوتے وقت اس کی قرأت کی فضیلت واضح کی ہے۔ اور اس میں اس سورت کے خاتمہ پر سوجانے کی ترغیب ہے۔ تاکہ سوتے وقت آخر میں توحید کا اعلان اور شرک سے برأت ہو۔ کوئی شک نہیں کہ جو شخص اس کو پڑھتا ہے اور اس کے مدلول و مفہوم کو سمجھتا ہے اور اس کے مقتضیٰ پر عمل کرتا ہے تو وہ ظاہراً و باطناً شرک سے بری ہو جاتا ہے۔
سلف صالحین میں سے بعض اس سورت کو مقشقشہ کا نام دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے قشقش فلان، یعنی فلاں بیماری سے صحت یاب ہو گیا۔ لہٰذا یہ سورت پڑھنے والے کو شرک سے سلامت و صحتیاب کرواتی ہے۔
اور اس سورت اور سورت میں سے ہر ایک کو سورت اخلاص کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ ان دونوں کے اندر توحید کی دونوں اقسام یعنی توحید علمی اور توحید عملی کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا گیا ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں سورتوں کو فجر کی سنتوں میں ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔ اس طرح ان دونوں کی قرأت سے دن کے عمل کا افتتاح کرتے تھے۔ اور اسی طرح مغرب کی سنتوں میں بھی پڑھتے تھے۔ اس طرح ان دونوں سے دن کے عمل کا اختتام کرتے تھے۔ اور وتر میں بھی یہی دونوں سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ اس طرح رات کے عمل کا خاتمہ بھی ان کے ساتھ کرتے تھے۔ پیچھے حدیث گذری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوتے وقت سورت اخلاص پڑھتے تھے، اور نوفل اشجعی کی اس حدیث میں سورت کافرون کو سوتے وقت پڑھنے کی ترغیب ہے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں سورتوں کے خاتمہ پر ہی سوتے تھے۔
(۱۲۳)سورۃالبقرہ کی آخری دو آیات کو ہر رات پڑھنے کی فضیلت کا بیان
سورت البقرہ کی آخری دو آیات کو ہر رات پڑھنے کی ترغیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ صحیحین میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"مَنْ قَرَأَ بِالآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِ سُورَۃالبَقَرَۃفِی لَیْلَۃکَفَتَاہَُ"۔
ترجمہ:” جو بھی شخص سورت البقرہ کی آخری آیات کو رات کے وقت پڑھے گا تو اس کے لئے کافی ہوں گی”۔[46]
اور حدیث نے ان دو آیات کو رات کے وقت پڑھنے کی فضیلت بیان کی ہے البقرۃ: ۲۸۵ – ۲۸۶ یہ دونوں عظیم آیات ہیں۔ پہلی آیت دلالت کرتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمان اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اور ہر اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جن پر ان کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی ان ساری باتوں میں فرماں برداری اور اطاعت کرتے ہیں جن کا وہ ان کو حکم کرتا ہے، اور یہاں رب تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے ملائکہ پر، اور اس کی کتب و رسل پر ایمان لاتے ہیں، اور بات متضمن ہے اس تمام پر ایمان لانے کو جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی بابت خبر دی ہے۔ اور جو اس کی صفاتِ کمال اس کے رسل علیہم السلام نے بتائی ہیں، اور یہ کہ وہ تمثیل و تعطیل اور جمیع صفاتِ نقص سے پاک اور منزہ ہے۔ اور یہ متضمن ہے ملائکہ کرام پر ایمان لانے کو اور اس سب پر ایمان رکھنے کو جو ان کی بابت وحی الٰہی میں ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی ان کے اسماء، اوصاف، اعداد اور وظائف( یعنی ذمہ داریاں )۔ اور سارے پیغمبروں پر اور جو ان پر کتب نازل ہوئی ہیں۔ ان پر ایمان کو متضمن ہے، اور اخبار، اور اوامر و نواہی وغیرہ جن پر وہ کتب مشتمل ہیں ۔ ان پر ایمان لانے کو بھی متضمن ہے، اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسل علیہم الصلاۃوالسلام کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ بلکہ سب پر ایمان لاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یا اللہ جس بات کا تو نے حکم دیا ہے، اور جس سے روکا ہے اس کو ہم نے سنا اور اس میں تیری اطاعت کرتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی بخشش طلب کرتے ہیں، اور یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے، اور وہ ان کی نیکیوں اور برائیوں کا بدلہ دے گا۔ اور یہ پہلی آیت کے مدلول کا خلاصہ ہے۔
اور دوسری آیت میں خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اور سخت مشقت سے ادا ہونے والے فعل کا بھی حکم نہیں دیتا۔ بلکہ ان کو اس کام کی تکلیف دی ہے، جس میں ان کے ارواح کی غذاء اور ان کے بدن کی دواء ہے۔ اور ان کے قلوب کی اصلاح اور ان کے دلوں کا تزکیہ ہے۔
اور اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر انسان نے جو نیکی اور برائی کی ہے اس کا بدلہ ملے گا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنوں کے ایمان کے بارے میں بتایا، اور یہ بھی بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو سنتے اور عمل کرتے ہیں، اور ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا، اور انسان اپنی کوتاہی، خطا اور نسیان کا نشانہ بنتا ہے۔ تو یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اور اہل ایمان کے با رے میں بتایا کہ وہ یہ دعا مانگتے ہیں البقرۃ یعنی ” اے رب ہمارے اگر ہم خطاء کر جائیں یا بھول جائیں تو ہماری پکڑ نہ کرنا”۔ اس کے علاوہ اور بھی دعائیں قرآن مجید کے اندر آئی ہیں۔
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : "نعم” یعنی ہاں میں نے دعا قبول کر لی۔[47]
اسی طرح دونوں آیات کریمہ اس بات کو بھی متضمن ہیں کہ مومنین اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، اور اس کی اطاعت اور بندگی میں داخل ہیں۔ اور اس کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہیں، اور اس کی مغفرت کی طرف اضطرار اور عاجزی و گریہ زاری کرتے ہیں۔ اور اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان سے باری تعالیٰ کے حقوق میں کوتاہی ہوئی ہے، اور یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ وہ ایک دن اس کی طرف لوٹ کر آئیں گے، اور وہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے عفو( معافی) اور مغفرت اور رحمت اور دشمنوں پر مدد کا سوال کرتے ہیں۔ اور بلا شک یہ عظیم صفات ہیں جو کہ ان افراد کے کامل ایمان، اور اللہ تعالیٰ کی سچی فرمانبرداری پر دلالت کرتی ہیں۔
اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے گذشتہ حدیث میں فرمایا کہ جو بھی ان دونوں آیات کو پڑھے، اس کے لئے یہ کافی ہوں گی۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا ہے :” اس کا مطلب ہے کہ یہ دونوں آیات اس کے لئے اس رات کو قیام لیل سے کفایت کریں گی۔ یا اسے قرأت قرآن کی بجائے کافی ہوں گی، یا اعتقاد سے متعلق کفایت کریں گی۔ کیوں کہ یہ دونوں آیات ایمان و اعمال پر اجمالاً مشتمل ہیں۔ یا اسے برائی اور نا پسندیدہ چیز سے بچائیں گی، یا شیاطین کے شر سے یا جن و انس کے شر سے کفایت کریں گی، یا جو اسے دیگر نیکیوں سے ثواب ملتا اس کی بجائے کافی ہوں گی۔
ان سارے امور کو مراد لینے سے کوئی مانع نہیں ہے۔ اور اس بات کی تائید اس سے ہوتی ہے، جو علم المعانی و البیان کے اندر مقرر ہے، کہ متعلق کا حذف عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ گویا کہ فرمایا:” اس کے لئے ہر شر سے اور ہر اس چیز سے کافی ہوں گی جس سے وہ ڈرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا فضل بڑا وسیع ہے "۔[48]
اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ معنی اختیار کیا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ موذی چیز کے شر سے بچنے کے لئے اس
کو کفایت کریں گی۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب” الوابل الصیب” میں لکھتے ہیں :”الصحیح أن معناہا، کفتاہ من شر ما یؤذیہ، وقیل کفتاہ من قیام اللیل، ولیس بشئ” یعنی اس کا صحیح معنی یہ ہے کہ یہ دونوں آیات اس کے لئے ایذاء رساں چیز کے شر سے کافی ہوں گی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیام الیل (تہجد) کی بچائے کافی ہوں گی، لیکن یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے۔
بہرحال ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان دونوں آیات کی قرأت ہر رات کرے تاکہ موذی ( ایذا ءرساں ) چیز کے شر سے پناہ میں رہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ” میں کسی بھی عقلمند کو جس کو اسلام کی دولت نصیب ہوئی ہو، درست نہیں سمجھتا کہ آیت الکرسی اور سورت البقرہ کی آخری دو آیات کو پڑھنے سے پہلے سو جائے کیوں کہ یہ عرش کے تحت خزانہ سے ہیں۔[49]
یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوعاً کئی احادیث میں ثابت ہے کہ سورت البقرہ کی مذکورہ دو آیات عرش کے نیچے خزانہ سے ہیں۔ مسند احمد میں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا”أعطیت خواتیم سورۃالبقرۃمن کنز تحت العرش” یعنی یہ آیات مجھے عرش کے نیچے خزانہ سے ملی ہیں۔[50]
ان آیات کی فضیلت میں صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:” جبریل ایک دفعہ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس) بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اوپر سے چرچراہٹ(چٹخنے )کی آواز سنی تو اوپر سر اٹھایا اور کہا یہ (آسمان کا)دروازہ آج کھلا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا اور یہ کہا : کہ فرشتہ زمین پر اترا ہے، اور آج سے پہلے کبھی بھی زمین پر نہیں اترا۔ اس فرشتہ نے سلام کیا اور ( اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم )تمہیں بشارت ہو دو نور کی جو تمہیں ملے ہیں، اور یہ دونوں آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔ یعنی سورۃ الفاتحہ اور سورت البقرہ کی آخری آیات۔ آپ اس سے جو بھی حرف پڑھو گے تو آپ کو اس کا مطلب دیا جائے گا”۔[51]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا :” جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو سورت البقرہ کی آخری دو آیات عرش کے نیچے خزانے سے دی ہیں۔ جہاں سے اس سے پہلے کسی نبی کو کچھ نہیں ملا۔ جو شخص ان آیات میں تدبر و غور کرے گا اور ان کے اندر جو دین کے حقائق، ایمان کے پانچ بنیادی ارکان اور اہل باطل پر رد ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کرے گا، اور جو ان کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی امت پر نعمت الٰہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ان کے ساتھ محبت ہے، اور جو ان کو دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ اس کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تو اس کے لئے یہ علم مبارک ہو۔[52]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام میں ان دونوں آیات کو حفظ کرنے، قرأت کرنے اور تدبر و تحقیق کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اس عمل کی اور ہر نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(۱۲۴)سوتے وقت کے چند اذکار
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سونے سے پہلے چند عظیم آداب اور اچھے کام بتائے ہیں۔ جن پر ہمیشگی کے ساتھ عمل کرنے سے کئی بہترین آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلاً میٹھی نیند، سکون، شرور اور آفات سے محفوظ رہنا، صبح کے وقت اچھی اور خوش طبیعت، بڑی ہمت اور خیر و نشاط کے ساتھ اٹھنا۔
ان آداب و افعال میں سے چند وہ بھی ہیں جو صحیحین کے اندر براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں بیان ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” تو جب بھی اپنے بستر پر آئے تو پہلے نماز کے وضوء کی طرح وضوء کر، پھر اپنی دائیں کروٹ لیٹ جا پھر یہ دعا پڑھ: اللَّھُمَّ إِنِّی أَسْلَمْتُ نَفْسِی إِلَیْکَ وَوَجَّہتُ وَجْہِی إِلَیْکَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ، وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ، رَغْبَۃوَرَہْبَۃإِلَیْکَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْکَ إِلآَ إِلَیْکَ، آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَیْلَتِکَ مُتَّ وَأَنْتَ عَلَى الفِطْرَۃ، وَاجْعَلْہُنَّ مِنْ آخِرِ کَلاَمِکَ، قال: فَرَدَدْتُہُنَّ لأَسْتَذْکِرَہُنَّ فَقُلْتُ: آمَنْتُ بِرَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ، قَالَ: لاَ، وَبِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ۔
ترجمہ:”یا اللہ میں نے خود کو تیرے حوالے کیا اور اپنی توجہ تیری طرف کی اور اپنے معاملات کو تیرے سپرد کیا اور رغبت و خوف سے تیری طرف پناہ کے لئے مضطر ہوا، اور تیری پکڑسے سے تیرے سوا نہ کوئی پناہ دے سکتا ہے، اور نہ کوئی نجات دے سکتا، میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل فرمائی ہے۔ اوراس نبی پربھی جس کو تو نے ارسال فرمایا ہے "۔ فرمایا پھر اسی رات اگر تجھے موت آ جائے تو تو فطرت پر مرے گا اور اس دعا کو آخر میں پڑھا کر۔ براء بن عازب رضی اللہُ عنہ نے کہا میں اس کو یاد کرنے کے لئے کئی بار دہرانے لگا۔ اس دوران میں نے کہا آمَنْتُ بِرَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں کہو وَبِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ۔[53]
اس عظیم حدیث میں چند آداب ہیں۔ جن کی مسلمان کو سوتے وقت حفاظت کرنی چاہئے۔ آپ نے فرمایا بستر پر آنے سے پہلے وضوء کرے۔ تاکہ وہ سوتے وقت کامل حالت میں ہو۔ یعنی طہارت سے ہو، اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی طہارت کی حالت میں کرے، اور ذکر الٰہی کے لئے وضوء سے ہونا مسلمان کی کامل حالت ہے۔
اس کے بعد فرمایا کہ وہ اپنی دائیں کروٹ پر سوئے اور یہ نیند کے وقت مسلمان کی کامل حالت ہے۔ پھر فرمایا اسی حالت میں اپنے رب کے ساتھ اس دعا کے ساتھ سر گوشی (مناجات) کرے۔
مسلمان کو چاہئے کہ سوتے وقت کی دعاؤں اور اذکار کے معانی پر غور و فکر کرے، اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرے۔ تاکہ اس کا اپنے رب کے ساتھ مناجات کرنا زیادہ کامل اور مفید ہو۔
اور جب ہم اس عظیم دعا پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا جلیل القدر معانی اور عظیم مقاصد پر مشتمل ہے۔ جن کا مسلمان کو سوتے وقت استحضار کرنا (ذہن میں لانا) ضروری ہے۔
اہم عبارات کی شرح
"اللَّھُمَّ إِنِّی أَسْلَمْتُ نَفْسِی إِلَیْکَ ” یعنی یا اللہ میں بہت ہی خوش ہوں کہ میرا نفس تیری مشیئت کے تحت ہے، اور تو جو چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اور جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ یعنی چاہتا ہے تو اس کو قبض کر لیتا ہے اور چاہتا ہے تو اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ تو ہی ہے جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔ اور سارے بندوں کی پیشانیاں تیری قضاء و قدر کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ ان کے بارے میں تو جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ اور تیری قضاء اور حکم کو کوئی ہٹا نہیں سکتا۔
"وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ” یعنی میں نے اپنے تمام کام تیرے سپرد کئے۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور مکمل توکل کا اظہار ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر بندے کے لئے کوئی حرکت و قوت نہیں ہے۔
"وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ” یعنی میں نے اپنی پیٹھ کے لئے تیری حفاظت و رعایت کا سہارہ لیا ہے۔ کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ تیرے سوا کوئی سہارہ نہیں جس سے تقویت حاصل ہو۔ اور کسی کو تیرے سوا کوئی بچا نہیں سکتا۔
اور اس کے اندر اشارہ ہے کہ بندہ اپنے ہر کام میں، نیند میں، جاگنے میں، حرکت و سکون میں، اور اپنی ہر حالت میں، اپنے رب کا محتاج ہے۔
"رَغْبَۃوَرَہْبَۃإِلَیْکَ” یعنی میں نے جو کچھ کہا ہے یہ رغبت اور خوف سے کہا ہے۔ یعنی تیرے وسیع فضل اور عظیم انعام کے لئے رغبت اور شوق رکھتے ہوئے، اور تیری ذات سے اور ہر اس کام سے ڈرتے ہوئے، جو مجھے تیرے غصہ کا شکار بنا دے۔
اور یہی انداز انبیاء کرام اور صالحین بندوں کا ہے کہ وہ دعا کے اندر رغبت و خوف دونوں کو جمع کرتے ہیں۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : الأنبیاء: ۹۰
یعنی”بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے، اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے، اور ہم سے ڈرنے والے تھے۔ "لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْکَ إِلآَ إِلَیْکَ ” یعنی” تیری عقوبت اور پکڑ سے پناہ اور بھاگ جانے کی جگہ اور چھٹکارا نہیں مل سکتا، مگر تیری طرف جلدی سے لوٹ آنے، عاجزی کرنے اور تیرے اوپر ہی بھروسہ کرنے سے پناہ مل سکتی ہے۔
جیسا کہ فرمان الٰہی ہے (الذاریات: ۵۰)یعنی” اللہ کی طرف بھاگو”۔ اور فرمایا القیامۃ”آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ"یعنی میں تیری نازل کردہ کتاب قرآن مجید پر ایمان لایا ہوں، کہ جس کے نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے باطل آ سکتا ہے۔ حکمت والے، حمد کئے ہوئے ( رب العالمین) کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ میں یہ مانتا اور اقرار کرتا ہوں کہ یہ کتاب قرآن مجید تیری وحی ہے۔ اس کو تو نے اپنے بندہ اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمایا ہے۔ اور اسی طرح میں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو مانتا ہوں جس کو تو نے ارسال فرمایا ہے۔ اور وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اور اس کی ساری مخلوق سے افضل ہیں۔ تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کئے گئے ہیں۔ میں ان پر ایمان لایا ہوں اور جو کچھ وہ لائے ہیں اس پر بھی، اور وہ محض خواہش سے نہیں بولتے، یہ فقط وحی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں وہ سچ اور حق ہے۔
"الَّذِی أَرْسَلْتَ"یعنی”جس پیغمبر کو تو نے بھیجا ہے "یعنی ساری مخلوق کی طرف بشیر (خوشخبری دینے والا) نذیر( ڈرانے والا) بنا کر۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیغام رسالت پہنچایا اور امانت ادا کی اور امت کے ساتھ خیر خواہی کی اور وفات تک اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کیا”۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دعا کی فضیلت، عظیم خیر و بھلائی اور اس سے حاصل ہونے
والے فضل کو بیان فرمایا اور کہا۔ (اگر تو اس رات کو فوت ہو گیا تو تیری وفات فطرت یعنی دین اسلام پر ہو گی)۔ کیوں کہ اسلام ہی دین فطرت ہے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے الروم: ۳۰
پس یکسو ہو کر اپنی توجہ کو دین کی طرف کر، اللہ تعالیٰ کی اس فطرت کی طرف جس پر لوگوں کو پیدا فرمایا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے "وان اصبحت اصبت خیرا"یعنی اگر تو اسی رات کو فوت نہیں ہوا تو صبح کے وقت تجھے خیرو بھلائی اور اسی عمل کا اہتمام کرنے کا ثواب ملے گا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس دعا کو آخر میں ادا کرے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابی براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس دعا کو دہراتے ہوئے (نبیک)کی جگہ(برسولک) کہہ بیٹھے تو آپ نے فرمایا”وبنبیک الذی ارسلت"کہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان اذکار کو ان الفاظ کیساتھ ہی ادا کیا جائے۔ جس طرح احادیث صحیحہ میں وارد ہیں۔ کیوں کہ یہی الفاظ اپنی بناء اور معانی کے اعتبار سے کمال کے ہیں۔
لہٰذا یہ عظیم دعا ہے۔ جس کو سوتے وقت ہمیشہ پڑھنا چاہئے۔ اور اس کی دلالت عظیمہ اور معانی جلیلہ میں غور و فکر کرنا چاہئے۔ تاکہ اللہ کا وہ عظیم وعدہ حاصل ہو جو اس نے اس کی محافظت کرنے والے کے ساتھ کیا ہے۔ اور اللہ کریم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو اس دعا کی محافظت اور اہتمام کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیں ہر اس خیر اور نیکی کی توفیق عطا فرمائے جس کو وہ دنیا و آخرت میں پسند کرتا ہے۔ (آمین)
(۱۲۵)سوتے وقت کے چند اذکار کا بیان
صحیح بخاری میں حذیفہ بن یمان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب سونا چاہتے تو کہتے :باسْمک اللَّھم أموتُ وأحیَا۔
ترجمہ:”یا اللہ میں تیرے نام سے مرتا ہوں، اور زندہ ہوتا ہوں "۔
اور جب نیند سے بیدار ہوتے تو کہتے : الحمدُ للہ الذی أحیانَا بعد ما أمَاتَنَا وإلیہ النُّشُور
ترجمہ:”ہر تعریف اللہ کے لئے ہی ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا، اور اسی کی طرف اٹھ کر جا نا ہے "۔[54]
شرح
"باسْمک اللَّھم ” یعنیباسمک یا اللہ، یا اللہ تیرے نام سے، باسمک میں با برائے استعانت ہے۔ اورمعنی ہے میں تیری مدد چاہتے ہوئے تجھ سے حفاظت طلب کرتے ہوئے تجھ سے بچاؤ ، سلامتی اور عافیت کی امید کرتے ہوئے سو تا ہوں۔
"أموتُ وأحیَا"یعنی اسی حال پر، تیرے نام کا ذکر کرتے ہوئے۔ اور تیرے نام کا ذکر کرتے ہوئے ہی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ جب تک میری زندگی ہے اور اس پر ہی مرنا چاہتا ہوں۔ اس کے اندر اشارہ ہے کہ مسلمان کو پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے رب کے ذکر سے غافل نہیں ہونا چاہیئے۔ سوتے وقت، جاگتے وقت اور اپنے تمام کاموں میں وہ اپنے رب کے ذکر سے بے پرواہ نہیں ہو سکتا۔
دیکھیں نیند کے وقت اپنے تمام اعمال کا خاتمہ ذکر الٰہی سے کرتا ہے، اور بیدار ہوتے وقت اس کا سب سے پہلا کلام ذکر الٰہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہر وقت اسے رب تعالیٰ کے ذکر کی محافظت کرنی چاہئے۔ سو اسی طرح وہ ذکر الٰہی پر زندہ رہے، اسی پر اسے موت آئے اور ذکر الٰہی پر ہی اسے قیامت کے روز اٹھایا جائے۔
"باسْمک اللَّھم أموتُ "نیند کے ارادے کے وقت اس طرح کہنے میں دلیل ہے کہ نیند کا نام موت اور وفات بھی ہے۔ اگرچہ اس وقت زندگی موجود رہتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے : الزمر: ۴۲
ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نفسوں کو ان کے موت کے وقت وفات دیتا ہے، اور ان کو بھی نیند کے اندر وفات دیتا ہے جو نہیں مرتے، پھر قبض کر لیتا ہے ان کو جن پر موت کا فیصلہ کرتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو وقت مقرر تک کے لئے "۔
اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیدار ہوتے وقت فرماتے ” الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا ” یہاں اس موت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جس میں انسان نیند کے اندر ہوتا ہے۔ اور سویا ہوا انسان مردہ کے مشابہ ہے۔ کیوں کہ اس کی حرکت ختم ہو جاتی ہے اور عقل و تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے اس پر بیدار ہونے تک تکلیف مرفوع ہوتی ہے ( یعنی اس کا نہ گناہ لکھا جاتا ہے نہ ثواب)۔ اور نیند اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نشانیوں میں سے ہے جو خالق کے کمال عظمت اور اس کی عبادت کے لئے اکے لیے ہی مستحق ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ کیوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے جس کو موت نہ آئے گی، اور نہ اونگھ اور نہ نیند۔ فرمان الٰہی ہے : الروم: ۲۳
ترجمہ:”یعنی اس کی آیات (نشانیوں ) سے ہے تمہارا رات کو اور دن کو سونا اور اس کا فضل( رزق) تلاش کرنا، بے شک اس کے اندر ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو سنتے ہیں "۔
اسی طرح نیند اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر رحمت ہے، کیوں کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آرام اور استراحت کا وقت بنایا ہے۔ فرمان الٰہی ہے : القصص: ۷۳
ترجمہ:” اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن بنائے، تاکہ اس میں تم سکون و آرام حاصل کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ کا رزق تلاش کرو، تاکہ تم شکر ادا کرو”۔
اور نیند کے عظیم فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو اپنی موت کی یاد دلاتی ہے۔ جو کہ ہر انسان کا خاتمہ ہے۔ اور جس سے ہر زندہ چیز کا اس حی (ہمیشہ زندہ رہنے والے ) کی طرف لوٹنا شروع ہوتا ہے، جس کو کبھی موت نہیں آتی۔ اور نیند سے بیدار ہونے میں اللہ تعالیٰ کی مردوں کو زندہ کرنے پر قدرت پر دلالت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: " الحمد للہ الذی احیانا بعدما اماتنا والیہ النشور”
ترجمہ:” تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا، اور بالآخر اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے "۔
اور نشور قیامت کے دن زندہ ہو کر اٹھنے کو کہتے ہیں۔ اس طرح نیند جو کہ ایک طرح سے موت ہے۔ اس سے بیدار ہونے سے قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کا اثبات کیا ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب سونا چاہتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں رخسارکے نیچے رکھتے اور کہتے :” اَللّٰھُمَّ قِنِی عَذَابَکَ یو مَ تَبعَثُ عِبَادَکَ”
ترجمہ:”یا اللہ مجھے اس دن اپنے عذاب سے بچانا جب تو اپنے بندوں کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا”۔[55]
” الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا” اس کے اندر رب تعالیٰ کی اس عظیم نعمت اور احسان (مرنے کے بعد زندہ ہونے ) یعنی نیند سے بیدار ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی گئی ہے۔ کیوں کہ یہ بات معلوم ہے کہ انسان نیند کی حالت میں اس زندگی سے فائدہ اٹھانے اور عبادات کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پھر جب بیدار ہوتا ہے تو اس سے وہ رکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر حمد کرتا ہے اور اس کی اس عطاء اوراکرام پر اس کا شکر ادا کرتا ہے۔
اس معنی کے ساتھ کامل ربط و موافقت وہ حدیث کرتی ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا”جب بھی تم میں سے کوئی اپنے بستر پر آئے تو اس کو اپنے ازار کے اندرونی حصہ سے جھاڑے۔ کیوں کہ اسے پتہ نہیں کہ اس کے بستر پر اس کے بعد کیا چیز آ گئی ہو۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھے : باسمک ربِّی وضعتُ جنبی وبک أرْفعُہ، إنْ أمْسکْتَ نفسی فارْحمْہا، وإنْ أرْسلْتَہا فاحفظہا بما تَحفظُ بہ عبادَک الصالحین ترجمہ:” میرے رب تیرے نام سے اپنا پہلو رکھتا ہوں اور تیری توفیق سے ہی اس کو اٹھاؤں گا۔ پھر اگر تو پکڑے میرے نفس (روح و جان) کو تو اس پر رحم کرنا، اور اگر چھوڑے تو اس کی حفاظت کرنا۔ جس سے تو اپنے صالح بندوں کی حفاظت فرماتا ہے "۔[56]
اور اسی طرح صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس نے کسی شخص کو کہا کہ جب وہ بستر پر سونے لگے تو کہے :اللَّھم خلقتَ نفسی، وأنت توفَّاہا، لک مماتُہا ومحیاہا، إنْ أحییْتہا فاحفظْہا، وإنْ أمتَّہا فاغفر لہا، اللَّھم أسألُک العافیۃ۔
ترجمہ:”یا اللہ تو نے ہی میری جان کو پیدا کیا ہے اور تو ہی اس کو وفات دینے والا ہے۔ تیرے لئے ہی اس کا مرنا اور جینا ہے۔ اگر تو اس کو زندہ رکھے تو اس کی حفاظت فرما اور اگر اس کو موت دے تو اس کی مغفرت کرنا۔ یا اللہ میں تجھ سے عافیت مانگتا ہوں "۔
اس پر ان کو ایک شخص نے کہا، کیا تو نے یہ عمر سے سنا ہے ؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا، میں نے یہ عمر سے بھی افضل اور بھلے انسان سے سنا ہے۔ یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے۔[57]
ان احادیث کے اندر اس بات پر واضح دلالت ہے کہ انسان کی روح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی نے ہی اس کو عدم سے وجود دیا اور اس کو پیدا فرمایا، جبکہ وہ تھی ہی نہیں۔ اور وہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہتا ہے تو نیند کی حالت میں روح قبض کر لیتا ہے۔ اور پھر صبح کو ایسا انسان مردوں کی لسٹ میں شمار ہوتا ہے۔ اور چاہتا ہے تو اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور انسان زندہ ہی رہتا ہے۔
اسی وجہ سے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” لک مما تھا ومحیا ھا"یعنی اس نفس کی موت و زندگی تیرے ہاتھ میں ہے، اور تیرے تصرف اور تدبیر کے تحت ہے۔ اور تیرے سوا کوئی ایک بھی نہ موت دے سکتا ہے اور نہ زندگی۔ تو ہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی اور تو ہر چیز پر بہت قدرت رکھنے والا ہے۔
اسی وجہ سے مسلمان کے لئے اس مقام پر مشروع کیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب تعالیٰ سے حفاظت کا سوال کرے۔ اگر اس کے لئے مزید بقاء و زندگی لکھی گئی ہے۔ اور اگر اس کے لئے موت لکھی گئی ہے تو اس پر رحمت و مغفرت کی جائے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے :إنْ أمسکتَ نفسی فارحمہا، وإنْ أرسلتہا فاحفظہا بما تحفظ بہ عبادک الصالحین۔
ترجمہ:”اگر تو میری روح قبض کر لے تو اس پر رحم فرما۔ اور اگر اس کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کی ویسے حفاظت فرما جس طرح تو اپنے صالح بندوں کی حفاظت فرماتا ہے "۔
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے : إنْ أحییْتہا فاحفظْہا، وإنْ أمتَّہا فاغفر لہا
ترجمہ:” اگر تو اسے زندہ رکھتا ہے تو اس کی حفاظت فرما، اور اگر اسے موت دیتا ہے تو اس کی بخشش فرما”۔
اور جس طرح مسلمان کو سوتے وقت اپنی آخرت کو یاد کرنا چاہیئے۔ اسی طرح اسے چاہیئے کہ وہ اپنی گذشتہ زندگی میں اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرے۔ یعنی کھانا، پینا، رہائش، صحت و عافیت وغیرہ۔ پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور اس کا شکر ادا کرے۔
اس لئے صحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی اپنے بستر پر آتے تو کہتے :الحمدُ للہ الَّذی أَطْعَمَنَا وسَقَانَا، وکفَانَا وآوَانَا، فکَمْ مِمَّنْ لا کَافِیَ لَہُ ولا مُؤْوِی۔
ترجمہ:”ہر تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور کفایت کی، اور ہمیں جائے سکونت دی، کتنے ایسے ہیں کہ ان کی کفایت کے لئے کوئی نہیں ۔ اور نہ کوئی انہیں جائے سکونت دینے والا ہے "[58]
لہٰذا مسلمان کو چاہیئے کہ سوتے وقت دو چیزوں کو یاد رکھے۔ اپنی گذشتہ زندگی کو یاد کرے، اور اس دوران اللہ تعالیٰ نے اسے جو صحت و عافیت، کھانے پینے اور جائے پناہ سے نوازا اس کا شکر ادا کرے۔
دوسرا یہ کہ وہ اپنے مستقبل کے ایام کو یاد کرے۔ مستقبل کے بارے میں وہ دو امور کے درمیان ہے۔ یا تو اس کی روح قبض کر لی جائے۔ لہٰذا اسے اپنے رب تعالیٰ سے مغفرت اور رحمت کا سوال کرنا چاہیئے یا یہ کہ اس کی عمر مزید لمبی ہو۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا چاہیئے کہ وہ اس کی ویسے حفاظت کرے جیسے اپنے صالحین بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔
سوتے وقت کے چند اذکار
ان عظیم دعاؤں میں سے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سوتے وقت دوام کے ساتھ ادا کرنے کی ترغیب دیتے تھے، وہ بھی ہے جس کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں سوتے وقت یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتے تھے :
اللَّھُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ، وَرَبَّ الأَرْضِ، وَرَبَّ العَرْشِ العَظِیمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْءٍ، فَالِقَ الحَبِّ وَالنَّوَى، وَمُنْزِلَ التَّوْرِاۃوَالإِنْجِیلِ وَالفُرْقَانِ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ دَابَّۃأَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا، اللَّھُمَّ أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ البَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْءٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ، وَأَغْنِنَا مِنَ الفَقْر۔
ترجمہ:”یا اللہ آسمانوں اور زمین اور عرش عظیم کے رب، ہمارے اور ہر چیز کے رب، دانے اور گٹھلی کو پھوڑنے والے، تورات، انجیل اور فرقان(یعنی قرآن مجید) کو نازل فرمانے والے۔ میں تجھ سے ہر اس چلنے پھرنے والے کے شر سے پناہ چاہتا ہوں، جس کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ یا اللہ تو اول( سے )ہے، اور تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔ اور تو آخر ہے اور تیرے بعد کوئی چیز نہیں ہے۔ اور تو ظاہر ہے اور تیرے اوپر کوئی چیز نہیں ہے۔ اور تو باطن ہے، اور تجھ سے زیادہ قریب کوئی چیز نہیں ہے۔ ہمارا قرض ادا فرما اور ہمیں تنگ دستی اور محتاجی سے بچانا”۔[59]
یہ عظیم دعا ہے۔ مسلمان کو چاہیئے کہ ہر رات کو بستر پر آتے وقت اس کو ادا کرے۔ اور یہ دعا اللہ تعالیٰ کے لئے کئی عظیم توسلات( وسیلوں ) پر مشتمل ہے۔ یعنی ہر چیز ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں، اور عرش عظیم کے لئے، اس کی ربوبیت، اس کے کلام کو نازل کرنے اور وحی مبین کے توسل سے دعا مانگی گئی ہے کہ وہ انسان ( یعنی دعا مانگنے والے ) کی نگہبانی اور حفاظت و دفاع کرے۔ اور اسے جمیع شرور سے پناہ میں رکھے۔ اور یہ دعا اللہ تعالیٰ کے چند اسماء مبارکہ کے ساتھ توسل پر مشتمل ہے۔ جو کہ اس کے کمال، جلال، عظمت اور ہر چیز کو محیط ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ کہ وہ انسان کو قرض ادا کرے اور اسے تنگ دستی سے بچائے۔
شرح
اللَّھُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ، وَرَبَّ الأَرْضِ، وَرَبَّ العَرْشِ العَظِیمِ یعنی اے اس کائنات کے خالق بے مثال بنانے والے، عدم سے وجود میں لانے والے ان مخلوقات کاخاص ذکر ان کے عظیم اور بڑے ہونے اور ان کے اندر ان کے خالق و موجد کے کمال و عظمت پر روشن اور واضح دلائل و آیات کے بکثرت ہونے کی وجہ سے کیا ہے۔ ورنہ ہر چھوٹی و بڑی مخلوق کے اندر خالق کے کمال پر واضح نشانی اور دلیل موجود ہے۔
وفی کل شئی لہ آیۃ تدل علی انہ الواحد "ہر شئی کے اندر اس کے لئے نشانی ہے جو کہ دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا ہے "۔
اسی وجہ سے اس دعا کے آخر میں فرمایا رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْءٍ"اے ہمارے اور ہر شئی کے رب”۔ یہ تخصیص کے بعد عموم ہے۔ تاکہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ خالق کائنات فقط مذکورہ مخلوق کے رب ہیں۔
وَرَبَّ العَرْشِ العَظِیمِ” اس میں عرش کی عظمت (یعنی بہت بڑے ہونے ) پر دلالت ہے۔ اور وہ ساری مخلوقات سے بڑا ہے۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ:
ما الکرسیُّ فی العرش إلآَ کحلقۃمن حدیدٍ أُلقیت بین ظہری فلاۃمن الأرض۔
ترجمہ:”کرسی عرشی کے اندر اس طرح ہے جیسے لوہے کا ایک حلقہ (کڑا) زمین کے کسی میدان میں پڑا ہو”۔ [60]
غور کریں یہ مخلوق یعنی عرش اتنا بڑا اور کشادہ ہے تو اس کا خالق اور بنانے والا کتنا عظیم ہو سکتا ہے۔
” فالق الحب والنوی” فالق، فلق سے ہے۔ جس کا معنی پھوڑنے اور چیرنے کا ہے۔ یعنی وہ جو کہ اناج وغیرہ کے دانے اور گٹھلی کو پھوڑتا ہے۔ تاکہ ان سے درخت اور فصلیں اگیں۔ کیوں کہ نباتات یا تو ایسے درخت ہیں جن کی اصل گٹھلی ہوتی ہے، یا ایسی فصلیں ہیں جن کی اصل دانا ہے۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی کمال قدرت اور بے مثال خلقت سے اس دانے اور پتھر کی طرح سخت گٹھلی کو جو کہ بڑھتی نہیں ہے۔ اس کو کھولتا ہے اور وہ کھل جاتی ہے تو اس سے عظیم فصلیں اور بڑے درخت پیدا ہوتے ہیں۔ اور اس کے اندر بہت ہی روشن دلیل ہے۔ بغیر مثال سابق کے ایجاد کرنے والے کے کمال اور عظمت خالق پر۔ فرمان الٰہی ہے : الأنعام: ۹۵
ترجمہ:”بلا شک اللہ تعالیٰ دانے اور گٹھلی کو پھوڑنے والا ہے۔ زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، یہی اللہ ہے۔ پھر تم کہاں سے بہکائے جاتے ہو”۔
وَمُنْزِلَ التَّوْرِاۃوَالإِنْجِیلِ وَالفُرْقَانِ"اس کے اندر اللہ تعالیٰ سے اس کی ان عظیم کتب کو نازل کرنے ( کی صفت کے ) توسل سے دعا کی گئی ہے، جو کتب لوگوں کی ہدایت، فلاح اور دنیا و آخرت میں سعادت پر مشتمل ہیں۔ اور یہاں خاص ان تین کتب کا ذکر فرمایا ہے۔ کیوں کہ یہ وہ بڑی کتب ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں۔ اور یہاں ان کو ترتیب زمانی کے حساب سے ذکر کیا ہے۔ پہلے تورات کو ذکر فرمایا جو کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، پھر انجیل جو کہ عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی، اس کے بعد فرقان یعنی قرآن مجید جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی۔
اس میں دلیل ہے کہ یہ کتب کلام الٰہی میں سے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ اور یہ غیر مخلوق ہیں اس لئے اس دعا کے اندر آپ صلی اللہ علیہ و سلم الگ الگ صفات لائے ہیں۔ مخلوقات کے متعلق فرمایا”رب”اور”خالق”اور وحی اور کلام الٰہی کے لئے فرمایا”منزل”۔ اور اسی میں ان اہل بدعت اور نفس پرستوں پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ کلام الٰہی مخلوق ہے :
"تعالیٰ اللہ عما یقولون وسبحان اللہ عما یصفون” ۔”اللہ بہت بلند ہے، اس سے جو وہ کہتے ہیں ، اور پاک ہے اس سے جو وہ اس کے لئے اوصاف بیان کرتے ہیں "۔
أعوذ بک مِن شرِّ کلِّ دابَّۃأنت آخذٌ بناصیتہا۔ یہاں سے ابتداء کی گئی ہے۔ انسان کی حاجت و مطلوب کو باری تعالیٰ کے سامنے بیان کرنے کی۔ اور” اعوذبک” کا معنی ہے ” تجھ سے پناہ چاہتا ہوں ” اور تیرا سہارا لیتا ہوں۔ "الدابۃ” ہر وہ چیز ہے جو زمین پر چلتی پھرتی ہے، اور یہ شامل ہے اس کو جو اپنے پیٹ کے بل چلتی ہے، اور اس کو بھی شامل ہے جو دو یا چار پاؤں پر چلتی ہے۔
النور: ۴۵
ترجمہ:” اور اللہ ہی نے ہر چلنے والا( جاندار) پانی سے پیدا کیا۔ پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے، اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے، اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار( پاؤں ) پر چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ بلا شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر بہت ہی قادر ہے "۔
” انت آخذ بنا صیتھا” اس میں دلالت ہے کہ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کے غلبہ اور کنٹرول میں ہے۔ اور اسی نے ان کی پیشانیاں پکڑ رکھی ہیں۔ ان پر اس کو قدرت ہے، ان کے بارے میں جو چاہتا ہے تصرف کرتا ہے اور جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔
رب تعالیٰ نے ہود علیہ السلام کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے :ہود: ۵۶
ترجمہ:”میں نے اپنے رب اور تمہارے رب اللہ پر بھروسہ کیا ہے۔ اس نے ہر جاندار کی پیشانی کے بالوں کو پکڑ رکھا ہے۔ بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے "۔
"ناصیۃ"سرکے اگلے حصے کو کہتے ہیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے بعض اسماء حسنیٰ اور صفات عظیمہ کے توسل سے باری تعالیٰ سے اس طرح دعا کی ہے :
اللَّھُمَّ أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ، وَأَنْتَ البَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْءٌ۔
اس کے اندر باری تعالیٰ کی اولیت (یعنی ہمیشہ سے ہونے ) اور ابدیت (ہمیشہ باقی رہنے ) اور اپنی مخلوق پر علو، اپنے عرش پر مستوی ہونے اور فوقیت(بلندی) پر دلالت ہے۔ اور یہ کہ وہ ایسا ظاہر ہے کہ اس سے اوپر کوئی چیز نہیں ہے۔ اور اس میں اس کے اپنی مخلوق کے قریب ہونے اور ان کا احاطہ کرنے پر بھی دلالت ہے۔
اور یہ کہ وہ ایسا باطن ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز قریب نہیں ہے ( یعنی اپنی صفات سمع و بصر، علم وغیرہ کے اعتبار سے ) اور رب ذوالجلال والاکرام کے ان چار اسماءکا مدار اس کے احاطہ پر ہے۔ اور اس کا احاطہ دو قسم کا ہے۔ زمانی اور مکانی۔ احاطہ زمانی، اسی پر اس کے اسماء الاول و الآخر دلالت کرتے ہیں۔ اور احاطہ مکانیہ پر اس کا اسم الظاہر اور الباطن دلالت کرتے ہیں۔ اور یہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تفسیر کا مقتضی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تفسیر سے بڑھ کر کوئی بھی تفسیر کامل نہیں ہو سکتی۔
"اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ، وَأَغْنِنَا مِنَ الفَقْرِ” مذکورہ توسل کے بعد رب تعالیٰ سے یہ سوال کیا گیا ہے۔
"اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ” یعنی ہماری طرف سے تمام انواع کے حقوق العباد ادا کر۔ اس میں انسان کی طرف سے حول و قوت سے برأت کا اظہار ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی حرکت و قوت نہیں ہے۔
"وَأَغْنِنَا مِنَ الفَقْرِ "غنی عدم حاجت یعنی بے نیازی کو کہتے ہیں۔ اور فقر ہاتھ میں کچھ نہ ہونے کو کہتے ہیں، اور فقیر وہ ہے جس کے پاس گذارے کے لئے تھوڑا سا ہو یا اصلاً کچھ بھی نہ ہو۔
اور یہ بات معلوم ہے کہ قرض اور تنگ دستی دونوں بہت بڑی پریشانیاں ہیں۔ اور کبھی تو یہ انسان کی نیند اڑا دیتے ہیں۔ اس لئے جب بندہ اللہ کی طرف لوٹتا ہے اور اس سے پناہ لیتا ہے، اور اس سے ان عظیم وسیلوں کے ساتھ مدد طلب کرتا ہے تو اس کا قلب سکون اور اطمینان اور راحت و آرام محسوس کرتا ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنے مسائل اس ذات کے سپرد کر دیئے ہیں جس کے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں۔ اور آسمانوں اور زمین کی چابیاں اسی کے پاس ہیں۔ اور اس ذات کی طرف لوٹنا ہے، جو جب بھی کوئی چیز بنانا یا کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو کہتا ہے "کُنْ”(ہو جا) تو وہ ہو جاتی ہے۔
سوتے وقت کے چند اذکار
صحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے وہ دعا مروی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوتے وقت پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی سونے کے لئے بستر پر آتے تو کہتے :
الحَمْدُ للہِ الَّذِی أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، وَکَفَانَا وَآوَانَا، فَکَمْ مِمَّنْ لاَ کَافِیَ لَہُ وَلاَ مُؤْوِی
ترجمہ:”ہر تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، اور کفایت کی اور ہمیں جائے سکونت عطا فرمائی۔ پس کتنے انسان ہیں جن کو نہ کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ جائے پناہ دینے والا ہے "۔[61]
اس دعا کے اندر مسلمان کے لئے سوتے وقت یاد دہانی کروائی گئی ہے۔ اس کے گذشتہ دنوں کی اور ماضی کے اوقات کی، اور جو اللہ تعالیٰ نے اسے کھانا، پینا، کفایت اور جائے سکونت دی۔ ایسے کتنے لوگوں کی موجودگی میں کہ جن کو اتنا بھی کھانا نہیں ملتا جو ان کا پیٹ بھرے اور ان کے لئے غذا بنے۔ اور نہ پانی وغیرہ کہ ان کی پیاس کو بجھائے اور انہیں سیراب کرے اور نہ لباس کے انہیں ڈھانپے، اور نہ ایسا گھر کہ جس کے اندر وہ سکون و امن سے رہیں۔ بلکہ کتنے ایسے ہیں کہ جن کو ہلاکت خیز بھوک اور دردناک قحط کی حالت میں ہی موت آ جاتی ہے۔ لہٰذا جس کو اللہ تعالیٰ نے کھانے، پینے سے نوازا ہے اور اس پر کفایت اور جائے پناہ کی نوازش کی ہے اس کے لئے واجب ہے کہ خود پر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور احسان کی قدر کرے کہ اس کو غذاء و پانی میسر کیا اور کفایت و جائے پناہ سے نوازا ہے۔
اور نعمت کا شکر ادا کرنے سے وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے، اور بڑھتی بھی ہے۔ فرمان الٰہی ہے : إبراہیم: ۷
ترجمہ:” اور جب تمہارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور بضرور تمہیں بڑھا کر دوں گا، اور اگر تم نا شکری کرو گے تو بلا شک میرا عذاب بہت ہی سخت ہے "۔
لہٰذا شکر سے مزید ملتا ہے، اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ:جب تو اپنے لئے برکت و زیادت نہ دیکھے تو شکر کی طرف متوجہ ہو۔ اور جب تو شکر کی طرف متوجہ ہو گا تو برکت و بڑھوتری تمہارے ساتھ ہو گی۔
شرح :
الحَمْدُ للہِ الَّذِی أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، وَکَفَانَا۔ ..۔ آخر تک، اس میں باری تعالیٰ کی ثناء ہے اور اس کی کشادہ نعمتوں، اور متواتر فضل و عطاء اور بڑی دین اور وسیع احسان اور بہت ہی اچھی نعمتوں پر اس کی حمد کی گئی ہے۔ اور وہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ حمدو ثناء کا اہل ہے۔
"کفانا"یہ کفایت سے ہے۔ یعنی ہم سے ایذاءرساں اشیاء کے شر کو دور کیا، اور ہمیں مصیبتوں اور نقصان سے بچایا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے "ہماری پریشانیوں میں ہماری کفایت کی اور ہماری حاجات کو پورا کیا۔ اور کوئی مانع نہیں کہ دونوں معانی مراد ہوں۔ کیوں کہ دونوں کفایت کے معنی میں داخل ہیں اور اس کے مدلول و مفہوم میں شامل ہیں۔
” آوانا” یعنی ہمارے لئے جائے پناہ تیار کی جہاں ہم سکونت اختیار کرتے ہیں۔ اور ہمیں منزل تک پہنچایا، تاکہ اس میں ہم آرام و استراحت حاصل کریں۔ اور ہمیں جانوروں کی طرح بلا مسکن منتشر نہیں چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اسی نعمت کو گنواتے ہوئے فرمایا ہے : النحل: ۸۰ "اور اللہ نے ہی تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا ہے "۔ یعنی تم ان کے اندر رہتے ہو اور یہ تمہیں گرمی اور سردی سے بچاتے ہیں اور تمہیں نظروں سے بچاتے ہیں ۔ اور پردہ میں رکھتے ہیں۔ اور ان کے اندر تم اور تمہارے عیال جمع ہوتے ہو، اور ان گھروں کے اندر تمہارے لئے اتنے فوائد و منافع ہیں کہ شمار نہیں کئے جا سکتے۔
بس ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ۔ جس نے بہت بڑا احسان کیا ہے، اور بہت ہی زیادہ عطاء فرمایا ہے۔ اسی کے لئے ہر تعریف ہے۔ بہت ہی زیادہ پاک اور بابرکت۔ جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ پسند کرتا ہے۔
سوتے وقت ایک وہ دعا ہے جو جناب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس خادم ( غلام) مانگنے کے لئے آئیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا کہ کیا میں تجھے وہ چیز نہ بتاؤں جو کہ تیرے لئے اس سے بھی زیادہ اچھی ہے ؟
سوتے وقت۳۳مرتبہ سبحان اللہ، اور۳۳مرتبہ الحمد للہ، اور۳۴مرتبہ اللہ اکبر کہا کر۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا” میں نے اس کے بعد کبھی اس کو ترک نہیں کیا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ( جنگ)صفین کی رات کو بھی نہیں ( ترک کیا)؟، کہا: صفین کی رات کو بھی نہیں۔[62]
دیکھیں یہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں ۔ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چکی پیسنے اور کام کی تکلیف کی شکایت کرتی ہیں، اور آپ سے سوال کرتی ہیں کہ اسے خادم( غلام یا باندی) دے دیں ؟( اور عربی لغت میں خادم کا مرد و عورت غلام دونوں پر اطلاق ہوتا ہے ) تاکہ ان کو ان کاموں کی وجہ سے تھکاوٹ اور مشقت کم ہو۔
سنن ابی داؤد میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:” فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں پر اور پانی کے مشکیزے اٹھانے کی وجہ سے گردن پر نشان پڑ گئے تھے۔ اور گھر کو جھاڑو دینے کی وجہ سے کپڑے گرد آلود ہو گئے تھے "۔[63]
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس چیز کا بتایا جو کہ خادم سے بہتر تھی۔ اور کہا:” کیا میں تمہیں خادم سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟”اس انداز کلام کے اندر وہ اچھی خیر خواہی اور زبردست شوق دہانی ہے جو مخفی نہیں ہے۔ پھر جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دل اس چیز کو جاننے کے لئے تیار ہو گیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لئے خادم کی بجائے اختیار کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سوتے وقت۳۳مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳مرتبہ الحمد للہ اور۳۴بار اللہ اکبر کہا کر کل تعداد ایک سو ہو گئی۔
اس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا اس عظیم خبر سے خوش ہو گئیں جس کا انہیں ناصح( خیرخواہ اور نصیحت کرنے والے ) امین نے بتایا تھا۔ صلی اللہ علیہ و سلم۔ اور ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ بھی خوش ہو گئے۔ یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں میں نے اس کو سننے کے بعد کبھی اس کو ترک نہیں کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ میں نے جب سے یہ کلمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنے ہیں ان کو نہیں چھوڑا ہے۔ تو ان سے پوچھا گیا، کیا جنگ صفین کی رات کو بھی؟ تو کہا جنگ صفین کی رات کو بھی۔ صفین کی رات سے اس معروف اور مشہور جنگ کی رات مراد ہے جو کہ نہر فرات کے قریب صفین کے مقام پر ان کے اور شام والوں کے درمیان لگی تھی۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ سخت مصیبت اور تکلیف کے وقت میں انسان بعض ان کاموں سے غافل ہو جاتا ہے جن پر محافظت کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔ اس کے باوجود علی رضی اللہ عنہ نے ان کلمات کو کبھی نہیں ترک کیا۔ اور اس رات کو بھی نہیں چھوڑا۔ اس کے اندر اس ذکر کی سخت محافظت، اہتمام اور بڑے حرص پر دلالت ہے۔
پھر اہل علم نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ذکر کے فوائد و فضائل سے یہ بھی ہے کہ وہ ذکر کرنے والے کو جسم کے اندر قوت دیتا ہے۔ اور اس کو صحت، نشاط اور ہمت دیتا ہے۔ اسی کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں ” ذکر اس کے عامل( ذاکر) کو وہ قوت دیتا ہے کہ وہ ذکر کی وجہ سے وہ کام کرتا ہے جو کہ بغیر ذکر کے نہیں کر سکتا۔ اور میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے چلنے، بات کرنے، کام کرنے، اور لکھنے میں ان کی قوت کا عجیب مشاہدہ کیا۔ ۔ ۔ اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث لائے ہیں اور کہا:” کہا جاتا ہے کہ جو شخص اس ذکر کو ہمیشگی کے ساتھ ادا کرتا رہے گا، اسے بدن کے اندر وہ قوت حاصل ہو گی کہ پھر خادم کی ضرورت نہیں رہے گی”۔[64]
اور انہوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ جو شخص بھی ان کلمات کو ہمیشہ ادا کرتا رہے گا اس کو محنت و مشغولیت وغیرہ کی وجہ سے عاجزی، بے بسی اور تھکاوٹ نہیں آئے گی۔[65]
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ذکر الٰہی اور ہر نیکی اور خیر کی توفیق عطا فرمائے، وہ ہی بہت زیادہ سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے۔
نیند سے بیداری کے وقت کے اذکار
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کئی اذکار ثابت ہے۔ جو مسلمان کے لئے نیند سے بیدار ہوتے وقت پڑھنا مشروع ہیں۔ یہ اذکار فی الجملہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرنے، شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے، اور اللہ تعالیٰ کی حمد پر مشتمل ہیں کہ جس نے اپنے بندے کی حفاظت فرمائی اور اس کی اطاعت اور ذکر کے لئے مدد فرمائی۔
ان احادیث میں سے ایک وہ ہے جو کہ صحیح بخاری میں عبادہ بن صامت سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” جو شخص رات کو نیند سے جاگتا ہے۔ پھر کہتا ہے :
لاَ إِلَہَ إِلآَ اللہ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، لَہُ المُلْکُ وَلَہُ الحَمْدُ، وَہُوَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، الحَمْدُ للہِ، وسُبْحَانَ اللہِ، ولاَ إِلَہَ إِلآَ اللہُ، وَاللہُ أَکْبَرُ، ولاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃإِلآَ بِاللہِ۔
ترجمہ:” اللہ کے سوا کوئی بھی حقیقی معبود(یعنی عبادت کا مستحق ) نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کے لئے ہر تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر بہت قدرت رکھنے والا ہے، ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ، اور وہ پاک ہے، اور اللہ کے سوا کوئی بھی حقیقی معبود نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، اور اللہ کی توفیق کے بغیر کوئی حرکت و قوت نہیں ہے "۔
پھر اگر وہ کہتا ہے :”یا اللہ!مجھے بخش دے یا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ اور اگر وضوء کر کے نماز پڑھے گا تو نماز قبول ہو گی”۔[66]
اس حدیث کے اندر نیند سے بیدار ہوتے وقت ذکر الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کی طرف جلدی کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اور یہ کہ مومن کو بیدار ہوتے وقت پہلے یہی کام کرنا چاہیئے، اور یہ اس کو حاصل ہو سکتا ہے جس کا دل ذکر کے ساتھ لگ جاتا ہے، اور وہ اس کا عادی بن جاتا ہے، اور اس سے مانوس ہو جاتا ہے، اور اس پر غالب ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نیند اور بیداری میں اس کی سوچ بن جاتا ہے۔ لہٰذا جب اس کا حال یہ ہو تو وہ نیند سے بیدار ہوتے وقت ذکر الٰہی اور اس کی بزرگی بیان کرنے اور اس کی حمدو ثناء کرنے کی طرف جلدی کر سکتا ہے۔ ایسی حمدو ثناء جس کا رب ذوالجلال والاکرام اہل ہے۔ اور مذکورہ صفات کا حامل فرد ہی اس لائق ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے، جو سوال کرے گا پورا کیا جائے گا اور دعامانگے گا تو قبول کی جائے گی۔
ابن بطال رحمہ اللہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی یہ وعدہ کیا ہے کہ جو شخص نیند سے بیدار ہوتے وقت اپنے رب کی توحید کا زبانی اعلان کرے گا اور اس کی بادشاہی کا اقرار کرے گا اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی حمدو ثناء کرے گا، اور اس کی ایسی چیز سے تنزیہ(پاکی) بیان کرے گا۔ جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے، اور تکبیر کے ذریعے سے اس کی فرماں برداری اور اس کی مدد کے بغیر کسی بھی قدرت و قوت سے عاجزی کو تسلیم کرے گا۔ تو ایسا شخص جب اس سے دعا مانگے گا تو وہ قبول فرمائے گا۔ اور نماز ادا کرے گا تو قبول کی جائے گی۔ اور جس کو بھی یہ حدیث پہنچے، اس کو چاہیئے کہ اس پر عمل کر کے غنیمت الٰہی حاصل کرے۔ اور رب تعالیٰ کے لئے اپنی نیت کو خالص کرے۔[67]
شرح
"من تعار من اللیل” یعنی رات نیند سے بیدار ہوتا ہے۔
ان کلمات کو” لا الہ الا اللہ”سے شروع کیا ہے۔ اور اس کے معنی اور مدلول کی”وحدہ لا شریک لہ”سے تاکید فرمائی ہے۔ اس لئے کہ” لا الہ الا اللہ”کے اندر دو عظیم رکن ہیں۔ وہ ہیں نفی اور اثبات۔ نفی ” لا الہ”(کوئی بھی معبود نہیں ہے ) کے اندر ہے۔ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز کی بندگی(کے استحقاق) کی نفی ہے۔ اور اثبات”الا اللہ” کے اندر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے عبودیت( بندگی) کا اس کے تمام معانی کے ساتھ اثبات کیا گیا ہے۔
اور ان دونوں باتوں کی”وحدہ لا شریک لہ”کے ساتھ تاکید کی گئی ہے۔ "وحدہ "کے اندر اثبات کی تاکید ہے اور” لا شریک لہ”میں نفی کی تاکید ہے۔
اس دعا کے اندر توحید کی اہمیت اور اس سے ابتداء کرنے اور اس کو مقدم کرنے پر دلالت ہے۔ اور اس کے معنی کو سمجھنے اور اس کے مدلول و مفہوم پر عمل کرنے اور اس کے مقتضی کو نافذ کرنے کی تاکید ہے۔
لَہُ المُلْکُ وَلَہُ الحَمْدُ، وَہُوَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ۔ یہ توحید کے براہین اور دلائل ہیں۔ توحید خالص مالک الملک کے لئے ہی ہے۔ جو کہ اس کا مستحق اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اور جو اس کے سوا ہے وہ عبادت سے کسی چیز کا بھی مستحق نہیں ہے۔
فرمان الٰہی ہے : سبأ: ۲۲
ترجمہ:”کہہ دیجئے !کہ اللہ کے سوا جن جن کا گمان ہے (سب)کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرّہ کا اختیار ہے، نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے، نہ ان میں سے کوئی ان کا مدد گار ہے "۔
پھر کہا الحَمْدُ للہِ، وسُبْحَانَ اللہِ، ولاَ إِلَہَ إِلآَ اللہُ، وَاللہُ أَکْبَرُ۔ چار کلمات ذکر فرمائے ہیں۔ جو کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہیں۔
صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے، کہا رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب چار کلمے ہیں، ان میں جس سے بھی ابتداء کرے گا۔ تجھے کوئی نقصان نہیں دے گا۔ سبحانَ اللہ، والحمدُ للہ، ولا إِلَہ إِلآَ اللہ، واللہ أکبر۔ [68]
ایک اور حدیث میں ہے : لأَنْ أَقُولَ سُبْحَانَ اللہِ، وَالحَمْدُ للہِ، وَلاَ إِلَہَ إِلآَ اللہُ، وَاللہُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ۔
یعنی یہ چار کلمے مجھے محبوب ہیں ہر اس چیزسے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔[69]
اور تسبیح یعنی "سبحان اللہ”میں اللہ تعالیٰ کی ہر اس چیز سے تنزیہ(پاکی) ہے۔ جو اس کے جلال و کمال کے لائق نہیں ہے۔ اور” الحمد للہ” کے اندر اللہ تعالیٰ کے لئے کمال کے تمام انواع کا اثبات ہے۔ اور تہلیل( لا الہ الا اللہ)میں اس کی توحید اور عمل کو اس کے لئے خالص کرنے کا معنی ہے، اور تکبیر(اللہ اکبر) میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے، اور یہ کہ اس سے کوئی بھی چیز بڑی نہیں ہے۔
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ”یہ کلمہ استعانت ہے۔ اور اس کا اس وقت میں ادا کرنا نہایت ہی مناسب ہے۔ اس لئے کہ انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے، تو بہت ہی بڑی ہمت اور نشاط اور کوشش و محنت کا محتاج ہوتا ہے۔ اور اس کے لئے فقط اللہ تعالیٰ اکیلا ہی مدد کرنے والا ہے۔
اور کلمہ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ”میں ہر کام کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کا اظہار ہے۔ اور اس کی توفیق کے بغیر کسی بھی حرکت و قوت سے برأت کا اعلان ہے۔ اور یہ کہ انسان اپنے امور میں کسی چیز کا مالک و مختار نہیں ہے، اور شر کو روکنے اور خیر کو حاصل کرنے میں رب ذوالجلال کی مشیئت کے بغیر اسے کوئی طاقت نہیں ہے۔
"اللھم اغفرلی او استجیب"اسی طرح شک کے ساتھ روایت آئی ہے، اور تنویع (اختیار) کا احتمال بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر مغفرت چاہے گا تو اللہ اسے بخش دے گا، اور دعا مانگے گا تو دعا قبول فرمائے گا۔
پھر فرمایا” فان توضا قبلت صلاتہ"یعنی وضو کر کے نماز پڑھے گا تو نماز قبول ہو گی۔ جس طرح صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے ” فان توضا وصلی قبلت صلاتہ"اس کے اندر نیکی کے لئے محنت کرنے اور عبادت کو کرنے کے لئے چستی دکھانے اور کمزوری اور سستی کو چھوڑنے کی ترغیب ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اپنی صحیح میں ” کتاب التہجد” میں ” باب فضل من تعار من اللیل فصلی”میں لائے ہیں۔ یعنی جو شخص اس وقت نماز پڑھتا ہے اور اس حال میں نماز کی طرف جلدی کرتا ہے۔ تو اس کی نماز قابل قبول ہے۔ اور اس وقت میں نماز کے قبول ہونے کی دوسری اوقات کی بنسبت زیادہ امید ہے۔
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں امام بخاری سے روایت کرنے والے امام ابو عبداللہ الفربری سے اس ذکر کو ادا کرنے کا اہتمام کرنے کے بارے میں ایک عمدہ فائدہ کا ذکر کیا ہے۔ کہتے ہیں ” ایک دفعہ میں نے بیدار ہوتے وقت یہ ذکر زبان سے ادا کیا، پھر سو گیا تو ایک شخص آیا(یعنی خواب میں ) اور یہ آیت پڑھی: الحج: ۲۴۔[70]
نیند سے بیدار ہوتے وقت کے چند اذکار
مسلمان کے لئے جو اذکار نیند سے بیدار ہوتے وقت مشروع کئے گئے ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جو سنن ترمذی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” تم میں سے جب کوئی نیند سے بیدار ہو تو یوں کہے :
الحَمْدُ للہِ الَّذِی عَافَانِی فِی جَسَدِی وَرَدَّ عَلَیَّ رُوحِی، وَأَذِنَ لِی بِذِکْرِہِ۔
ترجمہ:”ہر تعریف اللہ کے لئے ہے، جس نے مجھے اپنے بدن کے اندر عافیت دی، اور میری روح لوٹا دی، اور مجھے اپنے ذکر کی توفیق دی”۔ [71]
اس دعا میں جسم کے اندر عافیت دینے اور امراض سے سلامت رکھنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی گئی ہے۔ اور اسی طرح بندے کے اندر روح لوٹانے پر بھی اس کی حمد کی گئی ہے۔ تاکہ وہ مزید نیکی کر سکے اور عبادت بکثرت ادا کرے، اور ذکر الٰہی کا اہتمام کرے۔
اسی وجہ سے فرمایا”وَأَذِنَ لِی بِذِکْرِہِ"یعنی مجھے اپنے ذکر کی توفیق اور مدد عطا فرمائی۔ یہاں پر”أَذِنَ”سے مراد، اذن کونی قدری ہے، اور کبھی اس سے اذن شرعی دین مراد لیا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے بندوں کو شرعاً اور دیناً اپنے ذکر اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن کوناً و قدراً فقط ان کو توفیق دی ہے۔ جن کو ایمان کی صفت سے نوازا ہے اور ان کو اسلام کی ہدایت دی ہے اور نیکی کے لئے توفیق دی ہے۔
اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے کوناً و قدراً اپنے ذکر کی توفیق عطاء فرمائی۔ اس کی بہت بڑی کرامت و عزت فرمائی۔ اور اپنی توفیق سے ہدایت دی اور اسے نیکی کرنے کی مہربانی کی۔ یہ ان سب سے بڑے اسباب میں سے ہیں جو رب ذوالجلال کے لئے حمد کو واجب کرتے ہیں۔ اس لئے مسلمان کے لئے یہ مشروع کیا گیا ہے کہ وہ اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور اس دَین اور فضل پر اس کا شکر ادا کرے۔
میرے بھائی! غور کریں ذکر کا حکم کرنے والا اور توفیق دینے والا رب تعالیٰ ہے۔ اور اس سے مستفید بندہ ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دینے والا ہے۔ اس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے فضل اور انعام سے خود اپنے بندوں کو نعمتیں عطا فرماتا ہے، اور پھر ان کی وجہ سے انہیں بڑا اجر عطاء فرماتا ہے۔ لہٰذا اس کے شکر کے لئے اس کی حمد کی جائے۔
اور مسلمان کو نیند سے بیدار ہوتے وقت عام طور پر اللہ تعالیٰ کے ذکر اور وضوء اور نماز کی جلدی کرنی چاہیئے۔ تاکہ اس کے لئے دن میں برکت ہو اور وہ دن کے وقت چست، بلند ہمت اور نیکی کے لئے حرص کرنے والا بن جائے۔
اور اس کے ذریعے سے سستی اور بددلی سے بچے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا:” انسان جب سوتا ہے تو شیطان اس کے سر کے اوپر والے حصہ پر تین گرہیں باندھ دیتا ہے۔ اور ہر گرہ پر اس طرح پھونک مارتا ہے ” ابھی رات لمبی ہے، سوجا”۔ پھر اگر بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، اور نماز پڑھتا ہے تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں، اور وہ صبح کو چست اور خوش طبیعت ہوتا ہے۔ ورنہ گراں طبیعت اور سست ہوتا ہے "۔[72]
اور مسند احمد میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:”ہر مردو عورت کو سوتے وقت( شیطان کی طرف سے ) دھاگے کی تین گرہیں باندھی جاتی ہیں۔ پھر اگر بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب اٹھ کر وضوء کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ اور جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں۔[73]
ان دونوں احادیث کے اندر دلیل ہے کہ شیطان انسان کو سوتے وقت اس کے سر کے آخری حصہ پر تین گرہیں باندھتا ہے۔ اور ہر گرہ پر” علیک لیل طویل فارقد"(ابھی رات کافی لمبی ہے، سوجا) پڑھ کر پھونک مارتا ہے۔ تاکہ انسان کو بے ہمت اور سست بنائے اوراس کے عزم و ارادہ کو ختم کرے۔ پھر جب انسان اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ وضوء کرنے سے دوسری اور نماز پڑھنے سے تیسری اور آخری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اور اس کی سستی ختم ہو جاتی ہے۔ اور ہمت بندھ جاتی ہے، اور طبیعت خوش ہو جاتی ہے، اور صبح سے چست، نیکی کی حرص کرنے والا اور نیکی کرنے والا بن جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ شیطانی گرہوں سے آزاد ہو چکا ہوتا ہے۔ اور غفلت و نسیان کے بار اتر چکے ہوتے ہیں ، اور اسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنا آپ نے فرمایا:”میری امت میں سے ایک شخص رات کو اٹھ کر وضوء کرنے کی کوشش کرے گا۔ تو اس سے ایک گرہ کھل جائے گی۔ پھر اپنے ہاتھ دھوئے گا تو گرہ کھل جائے گی۔ اور جب اپنا چہرہ دھوئے گا تب بھی ایک گرہ کھل جائے گی اور جب سر کا مسح کرے گا تو بھی ایک گرہ کھل جائے گی، اور جب اپنے پاؤں دھوئے گا تو بھی ایک گرہ کھل جائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو فرمائے گا جو کہ پردے کے پیچھے ہے :”دیکھو میرے اس بندے کو تکلیف کے ساتھ وضوء کرتا ہے، تاکہ مجھ سے مانگے۔ اس بندے نے جو بھی مجھ سے مانگا وہ اسے ملے گا، اس نے جو بھی مانگا وہ اسے ملے گا”۔[74]
یہ چار گرہیں ہیں جو مسلمان سے وضو کرنے کے ساتھ کھل جاتی ہیں۔ ہاتھ اور چہرہ دھونے سے، اور سر کا مسح کرنے اور پاؤں دھونے سے۔ ایک ایک گرہ کھلتی ہے۔ اور یہ گرہیں حقیقی ہیں۔ جن کو شیطان، انسان کو نیکی اور اطاعت الٰہی سے روکنے کے لئے باندھتا ہے۔ اور صحیح مسلم و بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:”تم میں سے جب کوئی نیند سے اٹھے تو اسے چاہیئے کہ وضوء کرے۔ اور اپنی ناک کو تین مرتبہ جھاڑے کیوں کہ شیطان اس کی ناک کے اندر کی رگوں میں رات گذارتا ہے "۔ [75]
بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جو شخص سوتے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور مسنون اذکار پڑھتا ہے، اور تعوذات کو بھی ادا کرتا ہے۔ تو ایسا شخص ان احادیث ( کے حکم میں ) داخل نہیں ہو گا۔ اور مذکورہ گرہوں سے سلامت رہے گا۔ کیوں کہ سوتے وقت کے کچھ اذکار میں واضح آیا ہے کہ جو بھی یہ اذکار پڑھے گا اس پر مسلسل اللہ تعالیٰ کی طرف سے محافظ مقرر ہو گا اور صبح تک شیطان اس کے قریب نہیں آئے گا۔[76]
پھر وہ شخص جو مسلسل سوتا رہتا ہے اور بڑی سستی سے کام لیتا ہے یہاں تک کہ اس سے صبح کی نماز فوت ہو جاتی ہے تو ایسے شخص کے کان میں شیطان پیشاب کر دیتا ہے۔ کیوں کہ صحیحین میں جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو کہ صبح ہونے تک سویا رہتا ہے۔ آپ نے فرمایا :اس شخص کے کانوں میں یا فرمایا اس کے کان میں شیطان نے پیشاب کر دیا تھا”۔
ایسا شخص صبح کرتا ہے تو ساری گرہیں اسی حال پر ہوتی ہیں۔ مزید براں یہ کہ شیطان اس کے کان میں پیشاب بھی کر دیتا ہے۔ اور ایسے شخص کو رسوا ی، خسارہ اور شر ہی نصیب ہو گا۔ جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہا:” کسی آدمی کی رسوای اور برائی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ صبح تک سوتا رہے، اور شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کر دیا ہو۔ پھر رات کو صبح ہونے تک اللہ کو یاد نہ کرے "۔[77] ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت و سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔
نیند میں ڈر و پریشانی ہو تو کیا کہنا چاہیئے
وہ شخص جو نیند میں ڈرتا ہے یا وحشت اور پریشانی محسوس کرتا ہے یا اسے نیند میں خوف و دہشت پیدا ہوتی ہے۔ تو ایسی صورت میں ایسا شخص یہ دعا پڑھے : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃمِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ، وَشَرِّ عِبَادِہِ، وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ۔
ترجمہ:” میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کے واسطے سے پناہ مانگتا ہوں، اس کے غضب و سزا اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیطانوں کے وسوسوں اور خیالات سے، اور اس سے کہ وہ میرے پاس حاضر ہوں "۔
اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” تم میں سے کوئی نیند کے اندر خوف زدہ ہو تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہیئے۔ یعنی جو اوپر ذکر ہوئی ہے۔ فرمایا یہ دعا پڑھنے سے شیاطین اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے "۔ [78]
ولید بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول میں وحشت محسوس کرتا ہوں۔ فرمایا جب تم اپنے بستر پر آؤ تو یہ دعا پڑھو۔ یعنی جو اوپر ذکر ہوئی ہے۔ فرمایا پھر شیطان تجھے کوئی تکلیف نہیں دے گا۔ اور تیرے قریب نہیں آئے گا۔[79]
امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں یحیی بن سعید سے روایت کیا ہے۔ کہا مجھے خبر ملی ہے کہ خالد بن ولید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم مجھے نیند میں ڈر لگتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی یہی دعا پڑھنے کا حکم دیا۔[80]
اور ابن سنی نے "عمل الیوم واللیلۃ”میں محمد بن منکدر سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور شکایت کی کہ اسے نیند کے اندر ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:جب تو اپنے بستر پر آئے تو یہ دعا پڑھ یعنی اوپر والی دعا۔[81]
لہٰذا یہ عظیم دعا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو جنہیں نیند کے اندر ڈر اور خوف محسوس ہوتا ہے۔ یہ دعا سوتے وقت پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔
یہ ڈر کسی وجہ سے بھی ہو۔ کبھی وہ خواب کے اندر ڈراؤنی چیز میں دیکھتا ہے۔ تو یہ دعا پڑھنے سے اس کی پریشانی اور ڈر ختم ہو جائے گا۔ اور دل مطمئن ہو گا، اور نیند کے اندر سکون اور آرام محسوس کرے گا۔
اس عظیم دعا کے اندر اللہ تعالیٰ کے ہاں پناہ لینے اور اسی سے بچاؤ لینے کا اعلان کرتا ہے۔ اور اس کے غضب اور سزا سے بچنے کے لئے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیطانوں کے وساوس اور خیالات سے پناہ کے لئے اللہ کی طرف بھاگنے کا اعلان کرتا ہے۔ اور اس سے بھی کہ شیاطین نیند یا بیداری، ہر حال میں اس کے ہاں حاضر ہوں۔
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص یہ ذکر ادا کرے گا اس کو شیطان نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہایت سے ہی عافیت و سلامتی میں ہو گا۔
فرمایا”أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃ"یعنی پناہ مانگتا ہوں۔ استعاذہ، اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے اور اس کا سہارا حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے پناہ کا سوال کرنے والا ہر اس چیز سے رب تعالیٰ کی طرف بھاگتا ہے جو اسے نقصان و تکلیف پہنچائے۔
اور”کَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃ"سے مراد ایسے کلمات جن میں نہ کوئی نقص ہو اور نہ عیب۔ جس طرح انسان کے کلام میں ہوتا ہے۔
اور فرمایا”مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ"غضب اللہ تعالیٰ کی فعلی صفت ہے۔ اس نے خود کو اس کے ساتھ اپنی کتاب میں موصوف فرمایا ہے۔ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اپنی سنت کے اندر اس صفت کے ساتھ موصوف کیا ہے۔ اور رب ذوالجلال غضب کرتا ہے اور راضی بھی ہوتا ہے۔ اور محبت بھی کرتا ہے، تو نا پسندبھی کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات بہت ہیں۔ جو کہ قرآن و سنت میں وارد ہوئی ہیں۔ اور اہل سنت کامنہج جو کہ حق ہے اور ہر مسلمان کو اس پر چلنا چاہیئے۔ ان صفات کے متعلق یہ ہے کہ وہ ان صفات کا اللہ تعالیٰ کے لئے اس طرح اثبات کرتے ہیں، جس طرح رب ذوالجلال نے خود اپنے لئے اثبات فرمایا ہے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے لئے ان کا اثبات کیا ہے۔ بغیر اس کے کہ ان صفات میں سے کسی میں بھی تحریف، تعطیل، تکییف یا تمثیل سے کام لیں۔ لہٰذا وہ ایمان لاتے ہیں کہ رب تعالیٰ غضب( غصہ) کرتا ہے، اور( اہل السنہ) رب تعالیٰ کے غضب سے اور ہر اس چیز سے اس کی پناہ چاہتے ہیں جو اس کو ناراض کر دے اور خود کو سختی کے ساتھ ہر اس چیز سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جو اس کو غضبناک کر دے اور اس کے عذاب و سزا کو واجب کر دے۔
اور اللہ تعالیٰ کو غصہ دلانے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ انسان مصیبتوں اور خوف و پریشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف التجاء کرے۔ یعنی ان سے پناہ و سہارا طلب کرے۔ اور ایک کمزور بندہ کو کیسے لائق ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے جیسے کمزور انسان کو پناہ کے لئے پکارے۔ اور مخلوق رب العالمین کو چھوڑ کر اپنے جیسی مخلوق کو پکارے۔
یہاں ہم ان لوگوں کی کم عقلی اور کج فکری سمجھ سکتے ہیں۔ جو اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں میں کاہنوں، عرافین(یعنی گم شدہ اشیاء یا چوری ظاہر کرنے کا دعویٰ کرنے والے یا پیش گوئی کرنے والے وغیرہ) دجالوں، نظر بندی کرنے والے اور جادو گروں اور نجومیوں اور دیگر شیاطین کے برادران کے پاس جاتے ہیں۔ اور ان کو اپنے حال کا شکوہ کرتے ہیں اور اپنی حاجات ان کے دروازوں پر لے جاتے ہیں۔ اور ان کو اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات کی درخواست کرتے ہیں۔ اور اس کے سوا وہ چیزیں طلب کرتے ہیں جو فقط اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئیں۔ اور ان کے بارے میں فقط اللہ اکے لیے کی طرف رجوع کرنا چاہیئے اور اس کو ہی التجاء کرنی چاہیئے۔ فرمان الٰہی ہے :
النمل: ۶۲
ترجمہ:”یا وہ جو بے بس کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے۔ اور تکلیف دور کرتا ہے، اور تمہیں زمین کے جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو”۔
لہٰذا ایسے بے بس کو جس کو دردو تکالیف نے پریشان کر دیا ہو اور اپنے مطلوب (یعنی ضروریات حیات) کا حصول اس کے لئے مشکل ہو گیا، اور اپنے مصائب سے نجات و خلاصی کے لئے بے بس ہو گیا ہو، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں سن سکتا۔ کیا اللہ تعالیٰ اکے لیے کے سوا کوئی اور تکلیف کو دور کر سکتا ہے جو انسان کو پہنچتی ہے ؟ لیکن لوگ اس مسئلہ کے بارے میں بہت کم سوچتے ہیں۔ اور ان کا اس کے متعلق تدبر کمزور ہے۔ ورنہ وہ غیراللہ کے دروازے پر نہ آتے اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی اور کے ہاں التجاء کرتے۔
اور فرمایا”مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ” اس کے اندر صفت اور اس کے اثر کو جمع کیا گیا ہے۔ صفت غضب ہے، اور اس کا اثر عذاب کا واقع ہونا ہے۔ اللہ کی اس سے پناہ مانگتے ہیں۔
اور فرمایا”وَشَرِّ عِبَادِہِ"یعنی تیرے بندوں کے ہر شر سے پناہ مانگتا ہوں۔
یہاں عبودیت سے عام عبودیت مراد ہے (یعنی مومن و کافر سارے بندے مراد ہیں )۔ کیوں کہ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، اس کے لئے (چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے ) جھکے ہوئے، اور سرنڈر کئے ہوئے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے : مریم
ترجمہ:”جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سارے کے سارے رحمن کے پاس بندے ہو کر آئیں گے "۔
"وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ"، ہَمَزَات – ہَمَزَۃ– کی جمع ہے۔ اور”ہَمَزَۃ” اکسانے کو کہتے ہیں۔ اور اس سے شیاطین کی طرف سے ورغلا کر فساد ڈالنا اور ان کے وساوس اور وہ ساری مصیبتیں اور ایذاء مراد ہیں جو ان کی طرف سے انسانوں کو پہنچتے ہیں۔
"وَأَنْ یَحْضُرُونِ"یعنی اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ شیطان ہر حال میں میرے پاس حاضر ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہے شیاطین کے نزغات ووساوس سے اور اس سے کہ وہ کبھی اس کے پاس آئیں اور اس کے ارد گرد منڈلائیں۔ اس طرح یہ آیت اس بات سے استعاذہ کو متضمن ہے کہ اس کو شیاطین مس کریں اور کبھی قریب آئیں۔
کتنی عظیم دعا ہے، کتنا اس کا زبردست اثر ہے، کتنی جامع ہے ہر اس چیز سے تعوذ کو جو کہ انسان کے لئے پریشانی اور دہشت و گھبراہٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق بخشنے والا ہے۔
٭٭٭
تشکر: مرثد ہاشمی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
[1] صحیح مسلم (رقم:373)۔
[2] أبو داود (رقم:5088) والترمذی (رقم:3388)، وصحَّحہ العلآَمۃالألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الجامع (رقم:6426)۔
[3] سنن الترمذی (رقم 3604)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الجامع (رقم:6427)۔
[4] صحیح مسلم (رقم 2709)۔
[5] سنن الترمذي (رقم 3604)، وصحَّحه الألباني ـ رحمه الله ـ في صحيح الجامع (رقم:6427).
[6] انظر: تیسیر العزیز الحمید للشیخ سلیمان بن عبد اللہ (ص:213 – 214)۔
[7] سنن أبی داود (رقم:5082) وسنن الترمذی (رقم:3575)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الترغیب (رقم:649)
[8] صحیح مسلم (رقم:2723)
[9] صحیح مسلم (رقم:2692)
[10] سنن أبی داود (رقم:1502)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح أبی داود (رقم:1330)
[11] سنن الترمذی (رقم:3391) وسنن أبی داود (رقم:5068)، وحسَّنہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الجامع (رقم:353)
[12] سنن الترمذی (رقم:3392) (رقم:3529)، وسنن أبی داود (رقم:5067) (رقم:5083)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الترمذی (رقم:2701)
[13] بدائع الفوائد (2/209)
[14] سنن أبی داود (رقم:5074)، وسنن ابن ماجہ (رقم:3871)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح ابن ماجہ (رقم:3121)
[15] سنن الترمذی (رقم:3514)، و صحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الترمذی (رقم:2790)
[16] مسند أحمد (1/3)، وسنن الترمذی (رقم:3558)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الجامع (رقم:3632)
[17] المسند (2/360)، و صحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی الصحیحۃ(6/1/136، 137)
[18] صحیح البخاری (رقم:3293)، و صحیح مسلم (رقم:2691)
[19] مسند أحمد (3/407)، و صحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الجامع (رقم:4674)
[20] تفسیر ابن کثیر (6/320)
[21] صحیح مسلم (رقم:2865)
[22] صحیح البخاری (رقم:1359)، وصحیح مسلم (رقم:2658)
[23] مسند أحمد (6/322)، وسنن ابن ماجہ (رقم:925)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح ابن ماجہ (رقم:753)
[24] رواہ ابن أبی الدنیا فی کتابہ الإخلاص والنیۃ(ص:50 ـ 51)، وأبو نعیم فی الحلیۃ(8/95)
[25] صحیح مسلم (رقم:2726)
[26] مجموع الفتاوىٰ (33/12)
[27] المنار المنیف (ص:27 ـ 30)
[28] صحیح مسلم (1/564)
[29] مفتاح دار السعادۃلابن القیم (2/216)
[30] الوابل الصیب (ص:85 ـ 86)
[31] سنن أبی داود (رقم:2606)، وسنن الترمذی (رقم:1212)
[32] انظر: صحیح الترغیب والترہیب (2/308)
[33] مدارج السالکین (1/459)۔
[34] أوردہ ابن القیم تی زاد المیعاد (4/241)
[35] رواہ البیہقی فی الشعب (4/182)، وأوردہ ابن مفلح فی الآداب الشرعیۃ(3/162)
[36] زاد المعاد (4/242)
[37] الآداب الشرعیۃ(3/162
[38] صحیح البخاری (رقم:5017) و صحیح مسلم (رقم:2192)
[39] صحیح البخاری (رقم:5747)
[40] صحیح البخاری (رقم:5751)۔
[41] الفتاوىٰ (12/519)
[42] تفسیر السعدی رحمہ اللہ (ص:937 – 938)
[43] صحیح البخاری (رقم:2311)
[44] صحیح مسلم (رقم:
[45] المسند (5/456) وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الترغیب (رقم:604)
[46] صحیح البخاری (رقم:5009)، وصحیح مسلم (رقم:808
[47] صحیح مسلم (رقم:125)
[48] تحفۃالذاکرین (ص:99)
[49] تفسیر ابن کثیر (1/507)، وأوردہ النووی فی الأذکار (ص:89) بلفظ آخر و قال: "إسنادہ صحیح على شرط البخاری ومسلم”
[50] المسند (5/180)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الجامع (رقم:1060)
[51] صحیح مسلم (رقم:806)
[52] مجموع الفتاوى (14/129)
[53] صحیح البخاری (رقم:6311)، وصحیح مسلم (رقم:2710)
[54] صحیح البخاری (رقم:6324)
[55] الأدب المفرد (رقم:1215)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الأدب المفرد (رقم:921)
[56] صحیح البخاری (رقم:6320) وصحیح مسلم (رقم:2714)
[57] صحیح مسلم (رقم:2712)
[58] صحیح مسلم (رقم:2715
[59] صحیح مسلم (رقم:2713)
[60] رواہ أبو نعیم فی الحلیۃ(1/166) وأبو الشیخ فی العظمۃ(2/648 ـ 649) والبیہقی فی الأسماء والصفات (2/300 ـ 301) وغیرہم، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی السلسلۃالصحیحۃ(رقم:109) بمجموع طرقہ
[61] رواہ أبو نعیم فی الحلیۃ(1/166) وأبو الشیخ فی العظمۃ(2/648 ـ 649) والبیہقی فی الأسماء والصفات (2/300 ـ 301) وغیرہم، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی السلسلۃالصحیحۃ(رقم:109) بمجموع طرقہ
[62] صحیح البخاری (رقم:5362) و صحیح مسلم (رقم:2727)
[63] سنن أبی داود (رقم:5063) لکن سندہ ضعیف
[64] الوابل الصیِّب (ص:155 ـ 156)
[65]الوابل الصیِّب (ص:206)
[66] صحیح البخاری (رقم:1154)
[67] فتح الباری لابن حجر (3/41)
[68] صحیح مسلم (رقم:213)
[69] صحیح مسلم (رقم:2695)
[70] فتح الباری (3/41)
[71] سنن الترمذی (رقم:3401)، وحسَّنہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الجامع (رقم:329)
[72] صحیح البخاری (رقم:1142)، وصحیح مسلم (رقم:776)
[73] المسند للإمام أحمد (3/315)، وصحَّحہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الترغیب (رقم:614)
[74] المسند للإمام أحمد (4/201)، وصحیح ابن حبان (رقم:2555)
[75] صحیح البخاری (رقم:3295)، وصحیح مسلم (رقم:238)
[76] انظر: الاستعاذۃلابن مفلح المطبوع بعنوان: مصائب الإنسان من مکائد الشیطان (ص:75)
[77] رواہ محمد بن نصر فی قیام اللیل (ص:103 ـ مختصر المقریزی)، وقال الحافظ ابن حجر فی الفتح (3/29): "وہو موقوف صحیح الإسناد”
[78] سنن أَبی داود (رقم:3893)، والترمذی (رقم:3528)، وحسَّنہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الجامع (رقم:701)
[79] المسند (4/57)، وذکرہ الألبانی ـ رحمہ اللہ ـ فی صحیح الکلم الطیب (ص:41)
[80] الموطأ (رقم:2737)، وقال ابن عبد البر: "وہذا حدیث مشہور مسنداً وغیر مسند”، ثم أسندہ من طریق ابن عیینۃوغیرہ۔ التمہید (21/109)، وانظر: الصحیحۃ(رقم:264)۔
[81] عمل الیوم واللیلۃلابن السنی (رقم:742)، وراجع السلسلۃالصحیحۃ(رقم:264)
دن اور رات کے اذکار، (فقہ الأدعیۃوالأذکار کا ایک حصہ)، عبدالرزاق البدر میں مندرجہ ذیل حوالہ دیا ہے۔
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ( ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم گذشتہ رات کو مجھے بچھو کے کاٹنے سے بڑی تکلیف ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :اگر تو شام کے وقت”أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ”یعنی”میں اللہ تعالیٰ کے ذی کمال کلمات کے واسطے سے ساری مخلوق کے شر سے پناہ چاہتا ہوں ” کہتا تو تجھے بچھو نقصان نہ پہنچاتا۔[4]
اس حدیث کا ریفرنس صحیح مسلم (رقم 2709) دیا گیا ہے۔ جبکہ صحیح مسلم میں یہ حدیث موجود نہیں ہے۔رۃنمائی فرمائے۔